صفحات
مرکزی صفحہ
تلاش کریں
شاعری: کلیاتِ فرحت
آ لگا جنگل درودیوارسے
آنکھوں کے پار چاند
ابھی خواب ہے
اُداس شامیں اُجاڑ رستے
اکیسویں صدی کی پہلی نظم
ائے عشق مجھے آزاد کرو
بارشوں کے موسم میں
تاجدارِ حرم
تیرے کچھ خواب
جدائی راستہ روکے کھڑی ہے
چاند پر زور نہیں
دل دے ہتھ مہار
روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل
سوال درد کا ہے
شام کے بعد
عشق نرالا مذہب ہے
کہاں ہو تم
مت بول پیا کے لہجے میں
مرا انتظار قدیم ہے
محبت چپ نہیں رہتی
محبت ذات ہوتی ہے
محبت گمشدہ میری
ملو ہم سے
من پنچھی بے چین
موت زدہ
وہ کہتی ہے
ہجرعبادت بن جاتا ہے
یاد آؤں اگر اُداسی میں
****************************