صفحات

تلاش کریں

شاعری: عشق نرالا مذہب ہے از فرحت عباس شاہ




**********************


بادل جتنا نازک تھا
بارش جیسا کومل تھا


خوشبو جیسی رنگت تھی
گیتوں جیسی آنکھیں تھیں


چہرہ جیسے کرنیں ہوں
رنگوں جیسی خوشبو تھی


رستوں پر شب اتری ہے
آس سیہ کر جائے گی


بادل کی شکلیں کتنی
بارش کے بہروپ بہت


دکھ کی شاخوں کی پریاں
دل سے لپٹی رہتی ہیں


آنے والا موسم بھی
پہلے جیسا ہی ہوگا


فرحت عباس شاہ


**********************


سورج ہے پیشانی میں
چاند مری آنکھوں میں ہے


جنگل میرے ہاتھوں پر
دشت ہے میرے سینے میں


دریا ڈھونڈتےرہتے ہیں
ریگستانوں کے باسی


کیا جانیں ان دونوں میں
زیادہ کون پیاسا ہے


نیل گگن کی مرضی ہے
جو جتنا رنگین کرے


پانی کو نیلاہٹ دے
شاموں کو سنگین کرے


ایک چکوری کہتی ہے
چاند میں اب وہ بات نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


عشق سے دور ہٹاتے ہو
عشق مری بنیاد میں ہے


دیوانہ پن ہی تو ہے
میرے حصے میں آیا


ہم آوارہ لوگوں کا
رستے ساتھ نبھاتے ہیں


دل ہے اور محبت ہے
اک جوگی اک رستہ ہے


شور مچانے والوں پر
خاموشی سے ہنستا ہوں


ہنستے رہنے والوں پر
مجھ کو رونا آتا ہے


ہر پل رونے والوں کو
ہمت کرنا پڑتی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


کوئی بوڑھا ڈر مجھ پر
خواب میں آ کر ہنستا ہے


سپنوں میں موجود نہیں
جس پر میرا وار چلے


آنکھوں کا ویرانہ تھا
ویرانے میں بارش تھی


لکڑی کے شوکیسوں میں
جذبے سجے ہوئے دیکھے


شامیں کان میں کہتی ہیں
تنہا باغ میں مت جانا


ٹوٹے پھوٹے فقروں سے
کیا مفہوم ادا ہو گا


درد زباں سے کہی ہوئی
باتیں کون سمجھتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


دکھ ایسا دریا ہے جو
آنکھ کے رستے بہتا ہے


تنہائی کی بات نہ کر
سارا شہر ہ تنہا ہے


غم میرے دروازے پر
دھرنا مار کے بیٹھا ہے


ہم نے اپنا آپ سدا
اس کے کھوج میں پایا ہے


کالا درد وچھوڑے کا
دور دور تک پھیلا ہے


دل کو دیکھ کے روتا ہوں
کتنا بھولا بھالا ہے


رونے والے بھول گئے
کون کہاں کب کھویا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


آنکھوں کے ویرانوں میں
آس نے ڈیرے ڈالے ہیں


دل خالی کا خالی ہے
نا امید خیالوں سے


بستی والوں میں اکثر
ذکر ہمارا ہوتا ہے


دل کی بیماری میں ہم
حکمت والے ہو بیٹھے


گئے اجالوں والے دن
گئی خیالوں والی رات


دن بھر پیٹ کی خاطر لوگ
اپنے آپ کو ڈھوتے ہیں


جلدی سونے والوں کی
راتیں کھوٹی ہوتی ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


موسم تھا تنہائی کا
حالت بارش جیسی تھی


رنجش بھی کم بخت بھلا
کب پیدا ہو جاتی ہے


تم ہوتے تو ساون بھی
میرے ساتھ پھرا کرتا


شہر کی ساری سڑکیں تو
اپنی دیکھی بھالی ہیں


پل کے نیچے پیپل کا
ایک درخت نشانی تھا


بارش بھی ہوتی ہو گی
پیپل بھی ہوتا ہو گا


ایک اکیلے کمرے میں
نا بارش نا پیپل ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ساون کی اوقات نہیں
مجھ سے میرا دکھ بانٹے


دھاگہ بھی تو کچا تھا
آخر اک دن ٹوٹ گیا


دیوانوں کی باتوں کو
دیوانے ہی سمجھیں گے


تنہائی کے راز بھی تو
تنہا دل پر کھلتے ہیں


جس دنیا میں رہتے ہیں
یہ معمولی دنیا ہے


جس دنیا کی خواہش ہے
ملتے ملتے ملتی ہے


ہم نے دل سے کام لیا
اس نے ہم کو تھام لیا


فرحت عباس شاہ


**********************


کچھ نہ کہو اس بچے کو
درد سے کھیل رہا ہے دل


ہم نے کونسا جیون میں
سکھ کا وقت گزارا ہے


سانسیں لیں تو بوجھل تھیں
زخم سہے تو مشکل تھے


پتوں میں آوازیں تھیں
برساتوں کے رونے کی


جنگل ہیں مایوس بہت
نازک نازک پیڑوں سے


ویرانی کے خدشے سے
جنگل رونے لگتے ہیں


صحراؤں کی کیا کہئیے
صحرا ہوئے اداس بہت


فرحت عباس شاہ


**********************


ذات کے کتنے پہلو ہی
ذات سے اوجھل رہتے ہیں


تھکے ہوئے لوگوں کا کیا
رستے سے ہی لوٹ آئیں


گھر میں تنہائی پھیلی
غم منڈیر ہی بیٹھ گیا


وحشت عام طبیعت کا
حصہ بنتی جاتی ہے


کم گوئی کا کیا کیجئے
عادت بنتی جاتی ہے


ہم بے چینی کے ہاتھوں
رسوا ہوتے جاتے ہیں


ہو سکتا ہے جلدی ہی
لوگ کنارا کر جائیں


فرحت عباس شاہ


**********************


وقت گزرتا جاتا ہے
دل میں ٹھہر گیا ہے تو


جیسے صدیا بیت گئیں
بیٹھے ترے خیالوں میں


اپنے آپ میں گم ہو کر
تجھ سے باتیں کرتے ہیں


اس سے ملنا ہو تو پھر
کوئی کام نہیں ہوتا


شہر کے اچھے لوگوں میں
اپنا نام نہیں ہوتا


ہم بھی شہر میں آئے ہیں
وہ بھی کاش یہیں ہوتا


آنکھیں میچی سختی سے
پھر بھی پھوٹ پڑا سوتا


فرحت عباس شاہ


**********************


خواب میں بھی دیوانوں کو
تیرا رہا خیال بہت


تجھ کو واضح کرنے میں
مجھ کو کتنے سال لگے


جنگل میں تھے دور تلک
پانی کے تالاب بہت


پھول کنول کے ہوتے ہیں
پھر بھی تو نایاب بہت


صاف پتہ لگ جاتا ہے
لگے ہوا بھی زخموں کو


زخموں سے مجبور ہوئے
بھولے رسموں کی باتیں


روحوں کے رستوں پر ہم
بھولے جسموں کی باتیں


فرحت عباس شاہ


**********************


جب بھی یاد کی رین پڑے
برس ہمارے نین پڑے


تیرے رستے رستے میں
دیکھ کنوارے نین پڑے


لوگ بھی تیری آس میں ہیں
ہم بھی ہیں بے چین پڑے


اپنی اپنی گلیوں میں
ہم بھی ہیں بے چین کھڑے


کبھی کبھی لگتا ہے بس
ہم ہی ہیں بے چین کھڑے


میرے گھر آؤ تو سہی
تیرے خاطر دار بڑے


جھوٹے موٹے وعدوں سے
ہم بھی ہیں بے زار بڑے


فرحت عباس شاہ


**********************


عشق تو ایک ہی ہوتا ہے
روگ ہزاروں ہوتے ہیں


باتیں کرنے والے تو
لوگ ہزاروں ہوتے ہیں


دنیا داری کرنے کو
سوگ ہزاروں ہوتے ہیں


تیری میری بات الگ
دنیا کی اوقات الگ


ساون کی باتیں کچھ اور
آنکھوں کی برسات الگ


ویرانی کا دن مشکل
تنہائی کی رات الگ


چنگاری رہ جاتی ہے
دل پڑتا ہے اور سلگ


فرحت عباس شاہ


**********************


مجھ کو تکتے رہتے ہو
کیوں اتنی حیرانی سے


سچا ہونا جرم ہے کیا
کیا کچھ جھوٹ ضروری ہے


جتنا آپ سمجھتے ہیں
ہم اتنے ویران نہیں


اس نے دنیا دیکھی ہے
اتنا بھی نادان نہیں


آتے جاتے رہتے ہیں
موسم رونے دھونے کے


ساری دنیا نے دیکھا
تارے توڑ کے لائے ہم


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم بے چین مزاجوں سے
نیندیں کوسوں دور ہوئیں


چھوٹے سے اس جیون میں
ایک جدائی کافی ہے


کس سوراخ سے ڈسے گئے
ہم کو یاد نہیں رہتا


سانپوں کی آبادی میں
رہنا ہے تو ڈر کیسا


بھوک مٹانے کی خاطر
تم نے سپنے بیچ دیے


سورج مکھی بنتا تھا
ایک چراغ نہ سہہ پایا


ایرے غیرے لوگوں سے
کچھ دن تو پرہیز کریں


فرحت عباس شاہ


**********************


آؤ ہم حسبِ معمول
تنہا بیٹھ کے روتے ہیں


اک گونگا ویرانہ ہے
سنتا ہے آواز مری


لوگوں سے بھی پوچھیں گے
خوشیاں کیسی لگتی ہیں


ہنستے ہنستے آنکھوں میں
آنسو بھی آجاتے ہیں


آنسو بھاری ہوتے ہیں
آنکھ سہار نہیں سکتی


ہم نے تو لوگوں کے بھی
ہار کے ہار اٹھائے ہیں


اس دل نے تو چڑھے ہوئے
دریا جھیل کے دیکھے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


چاند ہمیشہ ساتھ مرے
شب بھر بیٹھ کے رویا ہے


آج ہمارے دامن پر
کھل کر بارش برسی ہے


سارا شہر ادھورا ہے
سارا شہر سوالی ہے


ایسے پتھر موسم میں
دل کا بوجھ اٹھائے کون


ہم نے تیرا نام لیا
دل نے درد سنبھالا ہے


دوری تو پھر دوری ہے
پاگل کو سمجھائے کون


اک آوارہ موسم نے
اس سے جا ملوایا تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


خط میں لکھا ہے ہم نے
ساون آنے والا ہے


لوگوں کو بھی ہے معلوم
سندیسہ بھجوانے کا


لوگ ہنسے تھے پہلے بھی
لوگ اب کے بھی ہنستے ہیں


دل کے بیماروں کے ساتھ
ایسا تو پھر ہوتا ہے


ہم تو بھول گئے ہوتے
بارش یاد دلاتی ہے


بارش تو پھر بارش ہے
چاہے برسے نا برسے


خواہش تو پھر خواہش ہے
چاہے پوری ہو نا ہو


فرحت عباس شاہ


**********************


سورج کی بھٹی میں دل
سینے میں انگارہ ہے


راکھ ہوا لے جائے گی
باقی کیا رہ جائے گا


ایک ذرا نیندا آئی تو
سپنوں کی بوچھاڑ ہوئی


ہلکا پھلکا موسم ہے
پھر بھی سانسیں بوجھل ہیں


اس کی میری چاہت کی
بات ہوا نے سن لی تھی


میرا بھی دل کرتا ہے
تم بھی تو ملنے آؤ


اپنی اپنی مرضی ہے
اپنی اپنی خوشیاں ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


شام اداس سہی لیکن
کتنی اچھی لگتی ہے


بارش میں بڑھ جاتی ہے
یادوں کی ویرانی اور


کچھ تو سوچا ہی ہوگا
تم نے میرے بارے میں


کتنے اچھے ہوتے ہیں
عزت کرنے والے لوگ


آؤ اِدھر اُدھر کی ہم
دو باتیں کر لیتے ہیں


میں یہ وعدہ کرتا ہوں
پیار پہ بات نہیں ہو گی


موسم اچھا ہوتا ہے
اچھی باتیں ہونے سے


فرحت عباس شاہ


**********************


یوں لگتا ہے جیسے ہم
ویوانوں میں سوئے ہیں


تیز ہوا کی بات نہ سن
کہتی ہو گی وحشت ہے


صحراؤں کے لوگوں کو
دھوپ سہارنا پڑتی ہے


رنجش تو پھر رنجش ہے
عمروں تک بھی رہتی ہے


نینوں پر الزام لگا
جن سے ہونا ہے آغاز


دکھ پر بات نہیں تو پھر
تو اپنے میں اپنے گھر


ہم تو سچے لوگوں کی
نظر اتارا کرتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


کمرے کی دیواروں پر
تجھ کو تکتا رہتا ہوں


شاید دنیا میں مجھ کو
اک کردار نبھانا ہے


نیا نویلا کوئی نہیں
سارے درد پرانے ہیں


ہم نے دستک دی لیکن
دروازہ خاموش رہا


لگتا تھا آباد ہے گھر
لگتا ہے آباد نہیں


سورج رستہ دے گا تو
ہم تاروں تک جائیں گے


تیرا میرا آپس میں
دکھ کا گہرا رشتہ ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


اندر کا ویرانہ پن
میرے ساتھ بھی رہتا ہے


نگری نگری گھومے گا
چاند سفر پر نکلا ہے


تیری میری رات اداس
کس نے دوری ڈالی ہے


سڑکوں کا پتھریلا پن
روحوں پر بھی اترا ہے


اس کی آنکھوں سے دل کا
ہم نے رستہ دیکھا ہے


عشق میں کیسی ہشیاری
جو ہونا ہو، ہوتا ہے


قدم قدم پر جیون میں
اک دیوار ، اک رستہ ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


بازاروں کی بات نہ کر
گھبرائے گھبرائے ہیں


جنگل بھی ڈر کا مارا
شہر کے پاس نہیں آتا


جنگل بھی اب شہروں سے
خوفزدہ ہو جاتے ہیں


مجبوری ہے گھر سے بھی
روز نکلنا پڑتا ہے


لوٹ کے آئیں کیا معلوم
وہ جو گھر سے نکل پڑے


آج سے یہ اعلان کیا
ہم تقدیر مخالف ہیں


جو کچھ سمجھ سے باہر ہے
خالق پر دھر دیتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


رات نے میرے آنگن میں
جا جا زخم بکھیر دیے


یادیں بھی تو آتی ہیں
پرسہ دینے راتوں کو


میری تنہائی کا غم
تنہائی بھی سہتی ہے


تنہائی کا موسم تھا
بن بادل برسات ہوئی


ہم معمولی لوگوں کی
لغزش بھی معمولی ہے


تیرے دکھ نے چھیڑ دیا
ورنہ ہم تو سکھ میں تھے


مفت میں تیری خاطر دل
بیچارا بیمار ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم نے تو یہ سمجھا تھا
روز منانے آؤ گے


مجھ جیسوں کی لوگوں کو
بات سمجھ کب آتی ہے


تیری بستی سے فرحت
ہم اکثر بیمار گئے


ہم نے پیار میں نام لیا
تم نے سمجھا ہار گئے


سورج کے اندر بھی ہے
سورج کی اک ویرانی


چاند کو بھی ڈستی ہوگی
چاند کی اپنی تنہائی


تارے بھی کچھ خوش تو نہیں
اک دوجے کی قربت سے


فرحت عباس شاہ


**********************


کچھ اوارق ہی لکھے ہیں
ابھی تو درد کہانی کے


گھر میں اکثر شام کے بعد
ویرانہ آجاتا ہے


سنا ہے تیرا حسن بہت
لوگوں پر آ جاتا ہے


بارش کی خیرات ملے
ہم صحراؤں والوں کو


جل پریوں کا دیس ہمیں
بے چہروں کا دیس لگا


چہروں کے پیچھے بھی کچھ
خاص ادائیں ہوتی ہیں


سندر سپنے یاد نہیں
خواہش بھول نہیں پاتے


فرحت عباس شاہ


**********************


تیری میری رونق ہے
تیرے میرے ہی دم سے


ورنہ مر ہی جائیں ہم
دنیا داری کے غم سے


اتنی سیرابی کیونکر
پوچھیں گے چشم نم سے


میں تو ثابت قدم رہا
شاید قسمت ڈول گئی


انشاءاللہ سوچیں گے
ہم کچھ تیرے بارے میں


انشاءاللہ کہہ کر ہم
کتنی باتیں ٹال گئے


اتنے غلط نصیب نہیں
جتنے غلط رویے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم نے تیری باتیں کیں
گیتوں نے محسوس کیا


ہم نے نظمیں بھی لکھیں
لوگ بہت حیران ہوئے


ہم نے تیرے گن گائے
بیچاروں کو جلن ہوئی


ہم نے تیری خاطر کی
خدمت گاروں کی مانند


ہم تو آپ شہنشہ ہیں
ہم تو خود مغرور بھی ہیں


عشق میں مغروری کیسی
عشق میں بس مجبوری ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


کوئل بھی تو ساتھ ہی تھی
تیرے میرے خوابوں میں


اور پپیہا بھی تو تھا
تیرے میرے وعدوں میں


اور اداسی بھی تو تھی
تیری میری چاہت میں


اور شکایت بھی تو تھی
ہم دونوں کو موسم سے


اور تمنا بھی تو تھی
ہم کو ایک تمنا کی


اور مسافت بھی تو تھی
تیرے میرے رستے میں


اور جدائی بھی تو تھی
اور جدائی بھی تو ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


بے حس موسم ساون کا
میں روؤں تو ہنستا ہے


میرے دل کی ویرانی
سارے شہر میں پھیلی ہے


دور تلک آبادی ہے
دور تلک ویرانہ ہے


مر جانے کا خوف بجا
زندہ بھی تو رہنا ہے


آنکھوں میں برسات سہی
سینے میں تو صحرا ہے


ہم نے یادوں میں تیرے
سائے کو بھی چوما ہے


یار کبھی کیا تو نے بھی
میرے بارے سوچا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


رات کا دل بھی دھڑک اٹھا
کون لہو میں جاگا ہے


میں کمتر وہ اعلیٰ ہے
میں جھوٹا وہ سچا ہے


ایسے میں مت چھیڑو، دل
اپنے آپ میں ڈوبا ہے


یارو مشکل وقتوں میں
کون کسی کا ہوتا ہے


تیرے ہجر کا مارا دل
اکثر رو رو پڑتا ہے


درد ستارہ آنکھوں میں
ہر شب آن چمکتا ہے


ہنستے رہنے والوں پر
ایک زمانہ روتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


اڑتے اڑتے آخر چاند
دل کی شاخ سے الجھا ہے


ہم تھک ہار کے سوئے ہیں
درد بھلا کب سویا ہے


سرد مزاجی کا موسم
اک مدت سے ٹھہرا ہے


رستے خالی خالی ہیں
کوئی رونق گزری ہے


ایسا زرد نصیب مرا
جانے کس نے لکھا ہے


تیرا وعدہ ابھی تلک
طاق کے اوپر رکھا ہے


اتنا کڑوا عشق سبھی
لوگوں نے کب چکھا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


آنکھیں سپنے ہار چکیں
جیون سب کچھ بانٹ چکا


آدھے آدھے باقی ہیں
میں اور میری تنہائی


لوگ عجیب مصیبت ہیں
سکھ کی بات نہیں کرتے


ایک اداسی رہتی ہے
گھر کے کونوں کھدروں میں


اکثر تیری خاطر میں
گھر سے باہر آتا ہوں


گھر سے جانے والوں پر
گھر کے رستے بند ہوئے


خاک اڑائے گی اب تو
بستی بستی ویرانی


فرحت عباس شاہ


**********************


نیند ہماری آنکھوں میں
پیاس بجھانے آتی ہے


روتے روتے ہی اکثر
یارو ہم سوجاتے ہین


خوابوں اور تعبیروں میں
پہلے جیسی بات نہیں


اس کی نظروں سے بچنا
جس کی آنکھوں مین تل ہو


رات مسافر ہوتی ہے
دل پر چلتی رہتی ہے


جیون جیسی مشکل پر
بچوں جیسی بات نہ کر


فرحت عباس شاہ


**********************


چپ چپ رہنے سے اکثر
دل پتھر ہو جاتا ہے


میں تو اک آوارہ ہوں
اکثر پھرتے رہنے سے


اندر کی کیا جانیں گے
باہر رہنے والے لوگ


میرے اندر مت جھانکو
بینائی کھو بیٹھو گے


خوشبو سے نیچے اتریں
اس کو چھو کر آئیں گے


دل نے اس کو چاہا تھا
ہم تو اب بھی منکر ہیں


اس دنیا میں تم جیسے
نوے فیصد ہوتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


سورج چاند ستاروں میں
تم کیوں جا کر ملتے ہو


اپنا پیکر بھی دیکھو
اجلا پن محسوس کرو


حسن ہماری نظروں میں
اور بھی کھل کھل جاتا ہے


کون یہ روتا رہتا ہے
اونچے سرد پہاڑوں پر


لمبے لمبے عرصے تک
جھرنے بہتے رہتے ہیں


برف چمکتی رہتی ہے
دریا بہتا رہتا ہے


وصل چہکتے رہتے ہیں
ہجر ٹھٹھرتا رہتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


چاہے سو دریا گزریں
صحرا تو پھر صحرا ہے


تیرے قدموں کے باعث
ریت سے خوشبو آتی ہے


اتنا لمباصحرا تھا
چلتے چلتے عمر ڈھلی


تھک جاؤں تو چپ کر کے
ٹیلے پر سو جاتا ہوں


آگ برستی ہے دن میں
رات خنک ہو جاتی ہے


ریت بگولے نخلستاں
صحرا کی آبادی ہیں


تیرے باعث دل میں بھی
اک صحرا ہے آن بسا


فرحت عباس شاہ


**********************


چبھتی ہے سینے میں شب
اور ستارے آنکھوں میں


پلکوں پر شبنم شبنم
پیڑوں پر بارش کے پھول


جانے کیوں رک جاتا ہے
گاؤں کیوں کی ممٹی پر چاند


تیری یادوں کا موسم
ساون، جھیل، کنارا ہے


سمٹا، شور پرندوں کا
جنگل میں پھیلی ہے شام


دل کا پنچھی جھول گیا
تیز ہوا کی ٹہنی پر


رنگ برنگے پھول کھلے
ایک ہی رنگ کی شاخوں پر


فرحت عباس شاہ


**********************


ویرانوں کے اندر بھی
موسم آیا کرتے ہیں


میرے دل کا ویرانہ
زخموں سے آباد ہوا


اس کے اور مرے مابین
دور تلک خاموشی تھی


کمرے میں اک مدت سے
تنہائی کی رونق ہے


بارش ہونے والی ہے
بادل رونے والا ہے


میرا اپنا بادل ہے
میرے اندر روئے گا


میری اپنی بارش ہے
میرے اندر برسے گی


فرحت عباس شاہ


**********************


سورج نے اعلان کیا
راتیں اندھی ہوتی ہیں


راتوں نے اعلان کیا
سورج اندھا ہوتا ہے


دل نئ کھڑکی کھولی تھی
تیز ہوا کے موسم میں


تنکا تنکا اڑا پھرا
دور دور تک جنگل میں


بستی تک تو آیا تھا
رستہ تیری یادوں کا


شہر میں افراتفری تھی
یادیں رستہ بھول گئیں


تو نے بھی نا سمجھایا
اپنے بھولے بھٹکے کو


فرحت عباس شاہ


**********************


رونے کی آزادی تھی
جی بھر بھر کے رویا ہوں


مجھ جیسوں کو ویسے بھی
ہنسنا مشکل لگتا ہے


جتنا مشکل جینا ہے
اتنا مشکل مرنا ہے


ایسا ایسا منظر ہے
آنکھیں باہر ابل پڑیں


بندہ روتا رہتا ہے
قسمت ہنستی رہتی ہے


جانے کون اٹھائے گا
پابندی تقدیروں سے


جتنا بتلاتا ہے وہ
اتنا بھی نزدیک نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


خواب کی پیشانی پر بھی
شکنیں پڑتی جاتی ہیں


تیز اجالا ہے پھر بھی
وحشت بڑھتی جاتی ہے


پورے کر دکھلائے ہیں
جتنے بھی پیمان کیے


حسرت آخر حسرت ہے
خون جلا کر چھوڑے گی


جیسا آپ سمجھتے ہیں
سب کچھ ویسا کیوں ہو گا


اس نے جانے کیا سمجھا
خوابوں کی آوازوں کو


خواب دعائین ہوتے ہیں
جو خالی رہ جاتی ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


تیری میری آبادی
اک دوجے کے ہاتھوں تھی


تم نے بھی آواز نہ دی
میں بھی تمہیں نہ روک سکا


سپنے کچے پکے تھے
خاک ہوا میں اڑتی ہے


ایک ترے چل پڑنے سے
شہر کا شہر اداس ہوا


چھوٹے چھوٹے شہروں کو
ہجر آباد نہیں کرتا


کیا تم کو اس موسم میں
بارش یاد نہیں آتی


کیا بارش ہو جائے تو
کچھ بھی تمہیں نہیں ہوتا


فرحت عباس شاہ


**********************


خواب دھڑکتے رہتے ہیں
وہموں کی آوازوں پر


اب بھی دل کی گلیوں میں
خواہش پھرتی رہتی ہے


چاند تو خود دیوانہ ہے
چاند ہمیں کیوں مانے گا


شام نے جب انگڑائی لی
بے چینی بیدار ہوئی


تیرے میرے خواب میں دل
مارا مارا پھرتا ہے


یادوں کے میدانوں میں
لمبے لمبے سائے ہیں


بستی کی خاموشی میں
اور کوئی خاموشی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


زخمی زخمی پلکوں پر
زنجیروں کا شک گزرے


سینے میں اک قتل ہوا
آنکھیں خون آلود ہوئیں


سوچوں کی صحراؤں میں
آندھی چلتی رہتی ہے


چھالے پڑتے جاتے ہیں
تنہائی کے پیروں میں


ہو سکتا ہے صحرا بھی
رفتہ رفتہ مر جائیں


میرے خش خاشاک سبھی
موسم کی ملکیت ہیں


بادل کھل کر برسا تو
بستی ملیا میٹ ہوئی


فرحت عباس شاہ


**********************


کون کہاں سے لے آئے
اپنے جیسا دل لوگو


رنج و الم کا عادی ہے
خوشیون سے کب بہلے گا


اس کی آنکھوں سے پہلے
ایک سمندر آتا ہے


میرے دل سے پہلے بھی
کتنے صحرا آتے ہیں


ایک سمندر وہ ہے جو
آسمان پر رہتا ہے


اک صحرا ایسا بھی ہے
جو پانی میں ہوتا ہے


میں وہ بادل ہوں شاید
جو صحرا سے اٹھتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


چاند ، ستاروں میں رہ کر
ہوتا ہے مغرور بہت


چاند شبوں میں مت نکلو
چاند خفا ہو جاتا ہے


حسن کو دیکھ کے جل جانا
حسن کی فطرت ہوتی ہے


رشک بھری نظریں تو بس
دل والوں کی ہوتی ہیں


حسن بھی ہو اور دل بھی ہو
یوں مشکل سے ہوتا ہے


سورج میں بھی حسن سہی
لیکن دور اچھی ہے


آسمان سے گرتے ہیں
کتنے تارے آنکھوں میں


فرحت عباس شاہ


**********************


بجھے ہوئے ہیں دل لیکن
روشن ہیں مینار بہت


آبادی کے ملتے ہیں
جگہ جگہ آثار بہت


بازاروں میں ہوتا ہے
زخموں کا بیوپار بہت


ہم تو ٹھیٹ اناڑی ہیں
ایسے ویسے کاموں میں


ہم نے سدا فوائد کو
گھاٹے کا سودا سمجھا


ہم نے آنکھیں کھولیں تو
عشق ہی عشق نظر آیا


عاشق لوگ ہمیشہ سے
بس ایسے ہی ہوتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


میں اپنی تنہائی سے
تیرا ساتھ نبھاؤں گا


تیرے آنسو چوموں گا
اپنی صحرا آنکھوں سے


اپنی ویراں آنکھوں میں
شبنم لے کر آؤں گا


پیش کروں گا پھولوں کو
اہنی زرد ہتھیلی پر


دل کی اجڑی بستی کی
خاک پہن کر آؤں گا


تیری مانگ سجا دوں گا
اجڑی ہوئی تسلی سے


تیرا درد بٹانے کو
میرے پاس بہت کچھ ہے


راتوں کی ویرانی سے
تیری جھولی بھر دوں گا


فرحت عباس شاہ


**********************


گلیوں کی ویرانی تو
بچوں کی خاموشی ہے


ہم جو موت سے ڈرتے تھے
موت اب ہم سے ڈرتی ہے


نیت کر لی ہے تو پھر
اونچ نیچ سے ڈرنا کیا


ہم پیچھے ہٹ جائیں گے
تیری خام خیالی ہے


مرنے والے مرتے ہیں
ہم نے زندہ رہنا ہے


رونق اب زندہ ہو گی
کھیل کھلونوں کے دم سے


خوشیوں کی آوازوں سے
گلیاں اک دن گونجیں گی


سوکھے سڑے درختوں پر
برگ و بار نہیں آتے


فرحت عباس شاہ


**********************


تیرے آنے سے پہلے
بے چینی آ جاتی ہے


چشم نم آوارہ ہے
ساون ساون پھرتی ہے


جیون اور ہمارے بیچ
ایسی کوئی بار نہیں


ملنا ہو تو بتلانا
شام تجھے لے آئے گی


میں بھی کہہ دوں گا اس کو
شام مری ہمسائی ہے


اس کی میری آپس میں
اچھی خاصی بنتی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


آنکھوں کے پیچھے اک گھر
دریا پار اک کٹیا ہے


کائی اگتی رہتی ہے
جھیلوں کی خاموشی پر


کبھی کبھی تو سبزا بھی
سیاہی مائل لگتا ہے


بینائی کی وقعت کیا
دل کی باتیں دل جانے


مجھ جیسی ہی لگتی ہے
دور اداس اک مرغابی


جانے کون شکاری تھا
ساتھی مار گیا میرا


ساری جھیلیں صحرا ہیں
سارا سبزا پیلا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


تقدیروں کے موسم میں
محنت کتنی کر لو گے


آپ اپنی ذلت سے بچ
آپ اپنی تقدیر بنا


بے دست و پا رہنے سے
ناکامی بھی بہتر ہے


ناکامی بھی اچھی ہے
رستہ دکھلا دیتی ہے


لیکن آںکھوں والوں کو
لیکن چلنے والوں کو


ایک ذرا چلنے تو دو
منزل رستہ پوچھے گی


جس نے بھی پوچھا ہم سے
رستہ ٹھیک ہی بتلایا


فرحت عباس شاہ


**********************


رات کی تنہائی سے پوچھ
ہم تیرے کیا لگتے ہیں


ایک عجیب سے عالم میں
یادیں تیرا ورد کریں


بند پپوٹوں کے پیچھے
آنکھ عبادت کرتی ہے


تیرے ہی بارے میں ہے
ایک دعا جو یاد رہی


روز وضو کر لیتے ہیں
نین ہمارے اشکوں سے


ایک تصور ہوتا ہے
ہر تصویر کا پس منظر


ایک مصور ہوتا ہے
پس منظر کا پس منظر


فرحت عباس شاہ


**********************


آنکھ کی نگرانی میں بھی
دل چوری کر لیتا ہے


غم کی نگرانی میں بھی
دل چوری کر لیتا ہے


رات، محبت، تنہائی
سارے روپ تمہارے ہیں


رنگوں کی برساتوں کا
جادو سا کرجاتے ہو


جادو کرنے والوں کو
نیکی راس نہیں آتی


نیکی کرنے والوں کو
جادو راس نہیں آتا


تم جادو کر جاؤ گے
ہم نیکی کر جائیں گے


فرحت عباس شاہ


**********************


موسم بھی آجاتے ہیں
بے چینی کے زمرے میں


ایسے اچھا لگتا ہے
شام اداس ہی رہنے دو


پیڑوں کی بانہوں میں بھی
موسم کی زنجیریں ہیں


ورنہ ہم تو رو دیتے
وہ تو دریا سوکھے تھے


جنگل جنگل ہوتا ہے
بھول گئے تو بھول گئے


عشق کے جنگل میں فرحت
ہم تو رستہ بھول گئے


تو کیا حاصل کر لے گا
بھولے بھٹکے لوگوں سے


فرحت عباس شاہ


**********************
اختتام
**********************
عشق نرالا مذہب ہے
**********************
فرحت عباس شاہ
**********************