صفحات

تلاش کریں

شاعری : جدائی راستہ روکے کھڑی ہے از فرحت عباس شاہ




**********************


نہ پوچھو زندگی کتنی کڑی ہے
کسی کی یاد سینے میں گڑی ہے


چلے آتے تمھارے پاس لیکن
جدائی راستہ روکے کھڑی ہے


لیے آتا ہے دل اپنا جنازہ
نگر والو یہ ماتم کی گھڑی ہے


تمھارے درد کی پرچھائیں اب تک
میرے ویران آنگن میں پڑی ہے


مرے سینے میں صحرا ہے سلگتا
مگر آنکھوں میں ساون کی جھڑی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


یہ دل ملول بھی کم ہے اداس بھی کم ہے
کئی دنوں سے کوئی آس پاس بھی کم ہے


کچھ ان دنوں ترا غم بھی برس نہیں پایا
کچھ ان دنوں مرے صحرا کی پیاس بھی کم ہے


ترے بغیر کسی باغ پر بہار نہیں
گلوں کا رنگ بھی پھیکا ہے باس بھی کم ہے


جو اب کی بار جدائی طویل ہے تو کیا
ہمیں تو ویسے ترا ساتھ راس بھی کم ہے


ہمیں بھی یونہی گذرنا پسند ہے اور پھر
تمھارا شہر مسافر شناس بھی کم ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


میں جان لونگا کہ آنسو مرے قبول ہوئے
مِرا لہو جو مرے آنسوؤں میں آجائے


فرحت عباس شاہ


**********************


تو کیا وہ اتنی سہولت سے مجھ کو بھول گئی
تو کیا وہ ساری ریاضت مری فضول گئی


مجھے بھلا دیا ہوتا فقط تو جائز تھا
وہ میرے ساتھ مگر خود کو بھی تو بھول گئی


لڑکپنے میں بڑھاپے کے آگئے آثار
میں خود کو تھامنے لپکا تو سانس پھول گئی


کبھی کسی نے مجھے آنکھ بھر کے دیکھ لیا
تو تیری یاد اچانک ہوا میں جھُول گئی


وہ شام جب سے ترے غم سے پھیر لیں آنکھیں
وہ شام خود مرے گھر سے بہت ملول گئی


عجب طرح سے ہوئی منقسم مسافت دل
سفر کہیں تو کہیں راستوں کی دھول گئی


فرحت عباس شاہ


**********************


تمہارے کھوج میں اپنا کمال کھو بیٹھے
جواب ڈھونڈ کے لائے، سوال کھو بیٹھے


عجب ہجوم تھا بےچینیوں کا سینے میں
ہم اپنی بھیڑ میں تیرا خیال کھو بیٹھے


جگہ جگہ پہ عجب بےکسی کا منظر ہے
نگر کے لوگ نگر کا جمال کھو بیٹھے


کبھی یہ لگتا ہے مجھ کو میں ایسا تاجر ہوں
جو راستے ہی میں سب اپنا مال کھو بیٹھے


ہمارا وقت ترے وقت سے زیادہ تھا
ترے دنوں میں تو ہم اپنے سال کھو بیٹھے


کوئی نہ کوئی زیاں ساتھ ساتھ تھا اپنے
خوشی کو ڈھونڈ کے لائے، ملال کھو بیٹھے


فرحت عباس شاہ


**********************


بڑھتا ہے تری یاد سے غم اور زیادہ
روتے ہیں کہیں بیٹھ کے ہم اور زیادہ


یوں چھوڑ کے جاتے نہ مجھے بے سرو ساماں
کر لیتے مری جاں یہ ستم اور زیادہ


اس دل پہ ابھی آبلے پڑنے ہیں بہت سے
یہ مٹی ابھی ہونی ہے نم اور زیادہ


بے کار گزر جاتی ہے معمولی سی مہلت
ہم سوچتے رہ جاتے ہیں کم اور زیادہ


اچھا ہے کہ چھپ چھپ کے سسکتے رہو ورنہ
کھل جائے گا لوگوں پہ بھرم اور زیادہ


فرحت عباس شاہ


**********************


نہ جانے کون سا بے چین لمحہ
ہماری دھڑکنوں سے آملا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


اس کو موسم بھی بدلنے کی ادا آتی ہے
زلف لہرائے تو ساون کی گھٹا آتی ہے


شہر جاتی ہے تو ڈرتا ہوں کہ ہر بار ہوا
میرے بارے میں نئی بات اڑا آتی ہے


سانس لیتا ہوں تو روتا ہے کوئی سینے میں
دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے


راستہ دینے لگے بکھرے ہوئے پتے کسے
کس جنازے کو لیے باد صبا آتی ہے


جاگتے رہتے ہیں جب تک تو گھٹن رہتی ہے
لوگ سوتے ہیں تو صحنوں میں ہوا آتی ہے


دل کسی نار کا سینے میں لیے پھرتا ہوں
یار کے ذکر پہ آنکھوں میں حیاء آتی ہے


اس کی پیشانی سے آتے ہیں اجالے مجھ تک
اس کی زلفوں سے مری سمت گھٹا آتی ہے


تیرے مل جانے کی امید تواتر سے مجھے
روز لے جا کے تیری رہ پہ بٹھا آتی ہے


تخت سے تختے پہ لے آؤ تو پھر بھی کیا ہے
ہم کو ہر ڈھنگ میں جینے کی ادا آتی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


روز ہر بات پہ دیتا ہے حوالہ دل کا
پھوٹ جائے گا کسی روز یہ چھالا دل کا


باندھ جاتا ہے کوئی پٹی میری آنکھوں پر
کھول جاتا ہے کوئی چپکے سے تالا دل کا


ورنہ دریا بھی بہت چین سے تھا کشتی بھی
لے کے پھر ڈوب گیا ہم کو سنبھالا دل کا


تم سے آ ملتا میری دنیا مگر رستے میں
مل گیا تھا مجھے اک جاننے والا دل کا


رات آتی ہے مگر ہوتی نہیں تاریکی
پھیل جاتا ہے ہر اک سمت اجالا دل کا


فرحت عباس شاہ


**********************


روح کو ہجر کے کانٹوں سے گزارے تو سہی
وہ تو خود چاہتا ہے کوئی پکارے تو سہی


پھر یہ دیکھے کہ بھلا کون ہے کتنا گہرا
دل کوئی گہرے سمندر میں اتارے تو سہی


وہ مری طرح ریاضت تو کرے مرنے کی
وہ مری طرح تمناؤں کو مارے تو سہی


پھر میں اک ہنستی ہوئی صبح اسے لا کر دوں
رات وہ میرے لیے رو کے گزارے تو سہی


زندگی جنگ ہے، اس جنگ میں جیتے تو سہی
زندگی کھیل ہے، اس کھیل میں ہارے تو سہی


فرحت عباس شاہ


**********************


ہجومِ بے کراں ہو گا مگر تم
دلِ بیمار کو پہچان لینا


فرحت عباس شاہ


**********************


تیری خاطر ملال کون کرے
اپنا جینا محال کون کرے


اتنی مصروفیت ہے دنیا کو
تیرا میرا خیال کون کرے


جم گیا ہے رگوں میں سنّاٹا
اب لہو کو بحال کون کرے


آ گئے ہیں کھلی کچہری میں
سوچتے ہیں سوال کون کرے


حد میں آئے تو وصل میں آئے
بے کراں سے وصال کون کرے


کون ہے میرے جیسا دیوانہ
اپنے زخموں کو ڈھال کون کرے


پال تو لوں تمہارا دکھ لیکن
اس کی پھر دیکھ بھال کون کرے


فرحت عباس شاہ


**********************


کبھی سکوتِ سمندر، کبھی بھنور میں رہا
مرا نصیب مسلسل ترے اثر میں رہا


مجھے گماں تھا کہ تُو چھوڑ جائے گا مجھ کو
مگر کہیں کوئی ایمان بھی نظر میں رہا


ترے لیے مجھے پیشانیاں تراشنی ہیں
یہ اک خیال ہمیشہ مرے ہنر میں رہا


ہمارے ساتھ ترا ہجر بھی ٹھہر سا گیا
ہمارے ساتھ ترا درد بھی سفر میں رہا


ترے لیے مجھے آوارگی بھلانا پڑی
میں ایک عمر بہت بے قرار گھر میں رہا


فرحت عباس شاہ


**********************


عشق کے باب ٹھہر جاتے ہیں
خواب در خواب ٹھہر جاتے ہیں


آنکھ بھر جاتی ہے جب اشکوں سے
ہم تہہِ آب ٹھہر جاتے ہیں


اب تو زرخیز زمیں پر اپنی
آ کے سیلاب ٹھہر جاتے ہیں


یاد آتے ہو تو چلتے چلتے
ہم سے بے تاب ٹھہر جاتے ہیں


درد چل پڑتا ہے جب تیری طرف
آنکھ میں خواب ٹھہر جاتے ہیں


یوں تڑپ کر کوئی دل رکتا ہے
جیسے بے تاب ٹھہر جاتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


کسمسائی ہے تیری یاد کہیں
ہجر کی بے کراں خموشی میں


فرحت عباس شاہ


**********************


لشکرِ عشق کے سالاروں پر
تیر برساتے ہو بے چاروں پر


کون رہتا تھا نہ جانے اس جا
خواہشیں نقش ہیں دیواروں پر


یوں ترے چھوڑ کے جانے کا اثر
اتنا اچھا نہیں بیماروں پر


بوجھ پڑتے ہوئے اک ان دیکھا
ہم نے دیکھا ہے گنہگاروں پر


لے گیا خواب چرا کر کوئی
دل کوئی پھینک گیا خاروں پر


ایک دن آئے گا اس پستی میں
عطمتیں روئیں گی میناروں پر


سوگ میں ڈوبے نظر آتے ہیں
جب نظر ڈالی ہے گھر باروں پر


عجز کے خون سے رنگین نہ کر
زخم پڑ جائیں گے تلواروں پر


ہم تجھے روک نہیں پاتے تھے
لوٹ جاتے رہے انگاروں پر


فرحت عباس شاہ


**********************


ایسے میں جب چاند ستارے سو جاتے ہیں
ہم بھی تیری یاد سہارے سوجاتے ہیں


اے دل رات بھی بیت چلی ہے نیند بھی ہے
آ ہم دونوں درد کنارے سوجاتے ہیں


بے چینی گھٹتی ہے اور نہ تم آتے ہو
تھک کے آخر غم کے مارے سوجاتے ہیں


موت بھی کیسی ظالم نیند ہے اور پھر دیکھو
کیسے کیسے جان سے پیارے سوجاتے ہیں


اب تو اک مدت سے یہ معمول ہوا ہے
دشمن جاگتا ہے ہم سارے سوجاتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


سب کا سب ہے دلِ تباہ میں گم
ہر گواہی ہوئی گواہ میں گم


سانس کا نم بتا رہا ہے مجھے
کتنے آنسو ہوئے ہیں آہ میں گم


منزلیں بھی عجیب تھیں میری
ہو گئی ہیں تمام راہ میں گم


صبر کی شدتوں سے ظاہر ہے
کس قدر بین ہیں کراہ میں گم


خاک کو خاک چاٹتی ہے سدا
درد ہے درد کی پناہ میں گم


فرحت عباس شاہ


**********************


سفر ہی شرط ہے تو پھر یہ سن لو
ہمیں واپس پلٹنے کو نہ کہنا


فرحت عباس شاہ


**********************


اک صدی بعد دل سنبھلتا ہے
پھر کہیں جا کے غم بدلتا ہے


بجھ گیا ہے تمہاری یاد کا چاند
اک دیا سا کہیں پہ جلتا ہے


ہجر کی دھوپ کے عذاب میں دل
جیسے موتی کوئی پگھلتا ہے


کون ہے اور کیوں نصیب مرے
اپنے پیروں تلے مسلتا ہے


یوں ترا درد میرے سینے میں
جیسے مٹی میں دل مچلتا ہے


درد بھی کیسا ہم سفر ہے مرا
رہگزاروں کے دل میں پلتا ہے


بیٹھتا ہوں تو ساتھ بیٹھتا ہے
اور جو چلتا ہوں ساتھ چلتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ہماری سانس پہ بھی اس کا اختیار چلے
وہ دور ہو تو یہی دل کے آر پار چلے


ترے ملال کے موتی برس پڑے آخر
ترے خیال کے منظر ستارہ وار چلے


ہم اپنا عشق ترے خواب میں بِتا آئے
ہم اپنا آپ ترے ہجر میں گزار چلے


مسل رہا ہے کوئی دل ہمارے پہلو میں
ہوائے غم سے کہو یوں نہ بے قرار چلے


وہ ایک تُو کہ جسے ٹوٹ ٹوٹ کر چاہا
وہ ایک راہ کہ ہم جس پہ بار بار چلے


فرحت عباس شاہ


**********************


شہر کے شہر نکل آئے مرے اندر سے
آ گئی کام مرے زور بیانی میری


فرحت عباس شاہ


**********************


سیاہ ہجر گیا، زرد انتظار گئے
کسی کا درد گیا، درد کے حصار گئے


اداس رات‘ خزاں ہم سفر‘ سفر گمنام
ترے خیال کے موسم ہمیں تو مار گئے


نہ جاں بھڑکتی ہے اپنی نہ راکھ ہوتے ہیں
ہمیں یہ کیسی مصیبت میں تم اتار گئے


عجیب دشمنِ جاں تھا کہ بِن لڑے جیتا
عجیب جنگ تھی ہم جس میں ہار ہار گئے


بہت ہی تھوڑی سی مہلت ملی محبت کی
ہم اپنا آپ مگر جاتے جاتے وار گئے


کسی کے بھیجے ہوئے آ گئے تھے دنیا میں
کسی سے مانگی ہوئی زندگی گزار گئے


نہ چاند اٹکا کسی جا، نہ بدلیاں الجھیں
ہم اس کی رات کے آنگن میں بار بار گئے


فرحت عباس شاہ


**********************


اس کے ملنے کی گھڑی رہتی ہے
ہم کو وحشت ہی پڑی رہتی ہے


دل خیالوں میں گھرا رہتا ہے
آنکھ سوچوں میں پڑی رہتی ہے


رات ہارے ہوئے ساتھی کی طرح
میرے بستر پہ پڑی رہتی ہے


بدنصیبی کی طرح ہجرت بھی
میرے رستے میں کھڑی رہتی ہے


دن تو آ آ کے چلا جاتا ہے
شام رستے میں کھڑی رہتی ہے


یاد اک زرد نگینے کی طرح
دل کے ٹیکے میں جڑی رہتی ہے


میں مجاہد ہوں مگر یوں کہ مری
روح نیزوں میں گڑی رہتی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


وہ تشنگی ہے کہ دل چشم نم پکارتا ہے
پکارتا بھی اگر ہے تو کم پکارتا ہے


یہ کیسا ضعف در آیا ہے جان میں میری
ذرا سا تیز چلا ہوں تو دم پکارتا ہے


اگرچہ آتی ہے ہر سمت سے صدا تیری
مجھے یہ لگتا ہے تو پھر بھی کم پکارتا ہے


جو سانس میں تجھے دیتی ہیں سسکیاں آواز
تو دھڑکنوں میں تجھے زیروبم پکارتا ہے


اگر ذرا بھی کبھی سکھ کا سانس لیتا ہوں
تو ہر طرف سے مجھے تیرا غم پکارتا ہے


یہ کون شخص ہے جس کا یقین قائم ہے
یہ کون ہے جو ابھی تک کرم پکارتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


اگر وہم و گماں کی حد میں آئے
خدا بھی حادثوں کی زد میں آگئے


فرحت عباس شاہ


**********************


تو کرتی ہے کس بات پہ اصرار خموشی
سب بولنے والے تو ہیں لا چار خموشی


کمرے میں پڑا رہتا ہے غمناک اندھیرا
آنگن میں بچھی رہتی ہے بیمار خموشی


پھر آج تلک روح سے جالے نہیں اترے
بولی تھی مرے کان میں اک بار خموشی


کچھ ڈھونڈتی رہتی ہیں خطا وار پکاریں
کچھ سوچتی رہتی ہے گنہگار خموشی


میں نے تو ہمیشہ تجھے بھیجی ہیں صدائیں
لوٹی ہے تری سمت سے ہر بار خموشی


کچھ باتیں غلط ہو کے بھی ہوتی ہیں ضروری
کچھ باتوں پہ پچھتانا ہے بے کار خموشی


جب ہم ہی یہاں بولنے والے ہیں تو پھر کیوں
ہم کو بھی بلاتی ہے سرِ دار خموشی


فرحت عباس شاہ


**********************


اے مری رات نہ چل
ہجر کے ساتھ نہ چل


چشم نمناک مری
سوئے برسات نہ چل


ٹھہر جا، عشق میں بس
مات ہے مات، نہ چل


آگئی حد ادب
اے مری ذات نہ چل


ٹھہر جا، ٹھہر بھی جا
گھات ہے گھات نہ چل


فرحت عباس شاہ


**********************


اس کے جانے کی گھڑی آن پڑی
اپنی آنکھوں میں جھڑی آن پڑی


رونے والے ترے رخساروں پر
کن جواہر کی لڑی آن پڑی


کچھ تعلق بھی ہے نازک اور کچھ
آزمائش بھی کڑی آن پڑی


اپنے حصے میں تو پیشانی بھی
بد نصیبی سے جڑی آن پڑی


اک جدائی کی مصیبت ہم پر
زندگی سے بھی بڑی آن پڑی


فرحت عباس شاہ


**********************


اگرچہ درد بھی کچھ کم نہیں ہے
ہمارے دل میں لیکن دم نہیں ہے


جسے خود ہی کیا تاراج اس نے
ہمیں اس سلطنت کا غم نہیں ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ورنہ اس شہر میں تھا راج بیابانی کا
ہم نے آغاز کیا درد کی سلطانی کا


شکر ہے دیکھ لیا دل نے نتیجہ ورنہ
زعم رہ جاتا اسے عشق میں من مانی کا


ہو نہ ہو پھر بھی زمانے کو بتانے کے لیے
کچھ سبب ڈھونڈنا پڑتا ہے پریشانی کا


شام ڈھلتی ہے تو اک بوجھ سا آ پڑتا ہے
دل کے کاندھوں پہ کسی شہر کی ویرانی کا


اک بھنور پیروں سے لپٹا ہے سفر کی صورت
اک بھنور روح کے اندر ہے تن آسانی کا


فرحت عباس شاہ


**********************


روز کرتی ہے تری رات سفر
جاگتا ہوں تو مرے ساتھ سفر


نظم لکھی تو سنانا بھی پڑی
کر گئی تم سے ملاقات سفر


شہر میں نکلا تو معلوم ہوا
کس طرح کرتی ہے اک بات سفر


ہم جو روئے تو انہیں کہنا پڑا
اس طرح کرتی ہے برسات سفر


اک ذرا دیر کو چپ بیٹھیں تو
کرنے لگتے ہیں خیالات سفر


فرحت عباس شاہ


**********************


چھپ چھپا کر برے زمانے سے
مل بھی جاؤ کسی بہانے سے


تم مرے پاس تھے تو موسم بھی
ہوگئے تھے بڑے سہانے سے


ایک ہم تھے کہ زندگی ساری
مان جاتے رہے منانے سے


تیری خوشیاں ہمیں عزیز سہی
باز آ جا ہمیں ستانے سے


اپنی اک، ایسی رات ہے جس میں
چاند نکلا نہیں زمانے سے


تیر انداز تو بڑے تھے ہم
تیرا کترا گیا نشانے سے


فرحت عباس شاہ


**********************


کہاں سے ہو کے گزرے ہو مسافر
تمہارا نقش پا دل پر نہیں ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


جنہیں زمانہ نہیں مل رہا، تلاش کریں
جنہیں خدا نہیں ملتا خدا تلاش کریں


عجیب بیتے ہوئے لوگ ہیں نگر والے
سحر کے بعد سحر کی ہوا تلاش کریں


نظر نظر میں بھی بے انت فرق ہوتا ہے
جو اپنے آپ میں گم ہیں وہ کیا تلاش کریں


خموشیوں سے تو لگتا ہے جیسے دیواریں
ہمارے صحنوں میں کوئی صدا تلاش کریں


چلو کہ صبر کی ساری حدوں کو چھو آئیں
چلو کہ دکھ کی کوئی انتہا تلاش کریں


فرحت عباس شاہ


**********************


اپنی قسمت سے ہارا دل
پھرتا ہے مارا مارا دل


چمکے ہر روز ہمارا دل
بن کے آنکھوں کا تارا دل


جانے اب کیوں تیرے غم سے
کر جائے روز کنارا دل


میں نے پوچھا تھا کون ہوں میں
دل اپنے آپ پکارا، دل


ہم کو تو بس اب آن بچا
آخر میں ایک سہارا دل


مل جائے گا ان گلیوں میں
روتا پھرتا بے چارہ دل


تیری امید کی ممٹی سے
ہم نے تھک ہار اتارا دل


جانے تم پر کیسے بیتا
ہم نے غمناک گزارا دل


فرحت عباس شاہ


**********************


بے سبب کر گیا کنارا تو
ہم سمجھتے تھے ہے سہارا تو


ہم سمجھتے ہیں موت کی صورت
کر گیا ہے کوئی اشارا تو


ہم کہاں بندگی کے قابل ہیں
کر رہا ہے مگر گزارا تو


اس نے پوچھا کہ کون منزل ہے
ہم نے دل جان سے پکارا تو


سب جہاں ہیں جہان والوں کے
ایک بس ایک ہے ہمارا تو


فرحت عباس شاہ


**********************


میں تیری خوشبوئیں پہچانتا ہوں
ہوا کے ساتھ میرا رابطہ ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


خاموشی کا ویرانہ رہا، بات کا صحرا
کچھ ایسے بتایا ہے ملاقات کا صحرا


اک شعلہِ جاں جس پہ تری یاد کا خیمہ
اور چاروں طرف پھیلا ہوا رات کا صحرا


اشکوں سے بھلا پیاس کہاں بجھتی ہے دل کی
اک صحن ہے اور صحن میں برسات کا صحرا


پانی نظر آتا ہے نہ چھاؤں ہے کہیں پر
ہر شہر میں در آیا ہے حالات کا صحرا


ممکن ہے کبھی پھر ترے آجاؤں مقابل
سینے میں دہکتا ہے ابھی مات کا صحرا


سوچیں ہیں مگر دکھ کی ریاضت نہیں پیچھے
اذہان کہ لگتے ہیں خیالات کا صحرا


یک طرفہ تمناؤں کے چھالے نہیں جاتے
دل جب سے گزار آیا تری ذات کا صحرا


فرحت عباس شاہ


**********************


ٹھیک ہے تیرے افسانے بھی عام ہوئے
تیری خاطر ہم بھی تو بدنام ہوئے


آؤ نہ آؤ تم مرضی کے مالک ہو
ہم تو ہوئے غلام تمہارے نام ہوئے


دھیرے دھیرے کاٹ رہے ہیں تنہائی
ہم نا ہوئے اداسی کی کوئی شام ہوئے


روئے، تم کو یاد کیا اور شعر لکھے
چپکے چپکے اچھے خاصے کام ہوئے


یہ تو تاجوں تختوں والے ہوتے ہیں
کٹیا والے شاہ بھی کبھی غلام ہوئے


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم بھی کیا کیا کرتے تھے نادانی میں
شہر بسایا کرتے تھے ویرانی میں


رستے جیسے بھوک مٹانے نکلے ہوں
بینائی تک چاٹ گئے سنسانی میں


جب میں اپنا سب کچھ اس سے ہار گیا
موڑ اک ایسا آیا مری کہانی میں


کون آیا ہے رات گئے دروازے پر
کس کو کس سے ملنا ہے ویرانی میں


اس کو دیکھ کے آدھی باتیں یاد رہیں
آدھی باتیں بھول گئے حیرانی میں


آنسو اپنا آپ گنوانے لگتے ہیں
بارش رویا کرتی ہے جب پانی میں


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم خون کے دریا سے تو آئے ہیں گزر کر
پھر آنکھ میں یہ کیا ہے جو رستہ نہیں دیتا


فرحت عباس شاہ


**********************


یادیں ضدی ہوتی ہیں
سوتے سوتے سوتی ہیں


راتوں کو سمجھائے کون
گھنٹوں بیٹھ کے روتی ہیں


تیرا دامن بھر دوں گا
آنسو بھی تو موتی ہیں


آنکھیں دنیا والوں سے
چھپ کے شام بھگوتی ہیں


پیار پریتیں روحوں میں
بیج انوکھے بوتی ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


بازو زندہ ہوں تو پھر پتوارے سو
بندہ کچھ ہمت تو کرے سہارے سو


پار اترنا ہو تو دریا ہی دریا
دور سے دیکھو تو دل ایک کنارے سو


وہ تو اس کی نیت کالی تھی ورنہ
ہم نے اک اک پل میں کیے اشارے سو


سو لوگوں کو دل دینا معمولی سی
ایک ہی شخص سے ہم نے تو دل ہارے سو


کونسے ایسے دور ہیں میرے جذبوں سے
تم بولو تو میری جان ستارے سو


جانے قبر بھی حصے میں آئے نہ آئے
اک چھوٹا سا آنگن ہے بٹوارے سو


فرحت عباس شاہ


**********************


ایسے اپنے پیارے ہیں
جیسے دور کنارے ہیں


کتنے دکھ تھے جو ہم نے
اپنے دل میں مارے ہیں


شہر کے لوگوں کی کیا بات
ایک طرح کے سارے ہیں


اتنے زخم ہیں تیرے بن
جتنے سال گزارے ہیں


اپنا آپ بھی مائل تھا
اس سے بھی کچھ ہارے ہیں


اس نے اپنا آپ مگر
ہم نے درد نکھارے ہیں


کاغذ کی تصویروں کے
دل پر نقش اتارے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


ہمیں بے چین کرتے جا رہے ہیں
پرندے بین کرتے جا رہے ہیں


یہ جادو بھی عجب ہے جو دلوں پر
تمہارے نین کرتے جا رہے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


کس نگری میں آن پڑے ہیں
سارے گھر ویران پڑے ہیں


سڑکیں پڑی ہوئی ہیں گم سم
رستے بھی سنسان پڑے ہیں


دل دل میں پت جھڑ اتری ہے
گُل بوٹے بے جان پڑے ہیں


کونسے دکھ چن لوں دنیا کے
کونسے دکھ آسان پڑے ہیں


قدم قدم پامال ہوئے ہیں
قدم قدم ایمان پڑے ہیں


اک مدت سے میں اور جیون
جنگل میں حیران پڑے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


درد مہکائیے یا کم کیجئے
جس طرح چاہیے کرم کیجئے


اور کس نے ہمیں معاف کیا
شوق سے آپ بھی ستم کیجئے


دل کو سمجھا رکھا ہے ہم نے تو
سکھ ملے بھی تو آپ غم کیجئے


ورنہ کوشش فضول ہے یارو
عشق ہو تو جنم جنم کیجئے


شہر کا شہر ہی ہے ڈوب چلا
مولا مولا کرم کرم کیجئے


ہم سے قربت کی آرزو ہے تو
اپنی پلکیں ذرا سی نم کیجئے


فرحت عباس شاہ


**********************


دل و نظر میں کئی رتجگوں کو تیر کیا
پھر اس کے بعد کہیں جا کے غم اسیر کیا


’’خلا نصیب ‘‘ تھے عمریں گنوا کے لوٹ آئے
جوان لوگ تھے لیکن سفر نے پِیر کیا


وہ عام لڑکی تھی اور جھنگ سے بھی دور رہی
مگر یہ عشق کہ جس نے اُسے بھی ہیر کیا


وگرنہ عالمِ غربت میں عمر کٹ جاتی
کسی کے درد نے آ کر ہمیں امیر کیا


یہ ایک عشق کہ جس نے ہمیں مٹایا بھی
یہ اک گناہ کہ جس نے ہمیں کبیر کیا


فرحت عباس شاہ


**********************


زمانہ جس طرح کا ہے خدایا
مری بے چینیوں کو راز رکھنا


فرحت عباس شاہ


**********************


بن نہ پائے اسے پکارے بنا
درد کھلتا نہیں سنوارے بنا


تو اگر ساتھ ہو تو اچھا ہے
چاند جچتا نہیں ستارے بنا


وہ سمجھتا ہے سب جو دل میں ہے
ہم سمجھتے ہیں سب اشارے بنا


آنسوؤں سے تھی رسم و راہ ہمیں
ہم کنارے لگے کنارے بنا


زندگی زندگی نہیں بنتی
درد کے گھاٹ میں اتارے بنا


وقت بس میں کہاں جدائی کے
دن گزر بھی گئے گزارے بنا


فرحت عباس شاہ


**********************


خواب آنکھوں میں اتارو تو سہی
دل کے حالات سنوارو تو سہی


اس قدر دور نہیں ہے وہ بھی
تم دل و جاں سے پکارو تو سہی


میری ویرانی پہ ہنسنے والو
زندگی مجھ سی گزارو تو سہی


دل کی کشتی کو کبھی شام ڈھلے
غم کے دریا میں اتارو تو سہی


بعد کی باتیں ہیں باقی ساری
درد کو درد سے مارو تو سہی


جیت سے بڑھ کے مزا ہے اس میں
تم کبھی جیت کے ہارو تو سہی


فرحت عباس شاہ


**********************


گھر سے نکلا ہوا جب لوٹ کے گھر جاتا ہے
سو سے بچتا ہے تو سو درد سے بھر جاتا ہے


زندہ ہوتا ہے تو اک تیرا پتہ دیتا ہے
وہ ستارہ جو مری آنکھ میں مر جاتا ہے


دن ترے ہجر کا کھویا ہوا سامان سدا
شام ہوتی ہے تو دہلیز پہ دھر جاتا ہے


یاد نے جب سے مرے شہر میں چپ سادھی ہے
دل خود اپنی ہی بیابانی سے ڈر جاتا ہے


ہنستے گاتے ہوئے لوگوں کی بھری محفل میں
کوئی چپ چاپ ترے غم سے گزر جاتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


سفر سے بدگماں ہونے سے پہلے
یہ منزل بے نشاں ہونے سے پہلے


بدل لیں گے ہم اپنے راستے کو
مسافت رائیگاں ہونے سے پہلے


فرحت عباس شاہ


**********************


ہمارا سر جو کچھ اونچا نہیں تو خَم بھی نہیں
ہم اپنے آپ میں فرحت کسی سے کم بھی نہیں


تمہارے ہوتے ہوئے کونسا ہمیں سکھ تھا
تمہارے بعد ہمیں کوئی خاص غم بھی نہیں


کمال صبر کا دعویٰ نہیں، ہمیں لیکن!
سرِ حصار حوادث لبوں پہ دم بھی نہیں


پسِ غلاف بسر آنسوؤں کے دریا ہیں
یہ اور بات کہ پلکیں ذرا سی نم بھی نہیں


خوشی کسی کی کسی کو بھلا کہاں ہو گی
کسی کو شہر میں شاید کسی کا غم بھی نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


اے رات ! سنبھالو ہمیں اک بار پلٹ کر
ہم گرنے لگے درد کی تلوار سے کٹ کر


یونہی تو نہیں بھیگی ہوئی شام کی پلکیں
رویا ہے کوئی ڈھلتے ہوئے دن سے لپٹ کر


جھنجھلایا ہوا صدیوں کے خاموش خدا سے
لوٹا ہے دعاؤں کو زمینوں پہ الٹ کر


اک دشتِ فنا زار میں گم ہونے سے پہلے
دیکھا تھا تمنا نے کئی بار پلٹ کر


کچھ دیر بھی ہو جائے تو مایوس نہ ہونا
آؤں گا مگر اپنے نصیبوں س نمٹ کر


فرحت عباس شاہ


**********************


گھڑی گھڑی تری خاطر ترس کے دیکھ لیا
ترے خیال کی بستی میں بس کے دیکھ لیا


ذرا سی دیر میں پھر خُشک ہو گیا صحرا
ہماری آنکھوں نے ہر جا برس کے دیکھ لیا


دنوں نے اپنے طریقے بھی آزما دیکھے
شبوں نے اپنا شکنجہ بھی کس کے دیکھ لیا


نہ رنگ نیلا پڑا اور نہ جان مُرجھائی
زمانے تم نے ہمیں بھی تو ڈس کے دیکھ لیا


وہی ہے دشت وہی تشنگی ہے سینے میں
ترے لیے بھی مری جاں ترس کے دیکھ لیا


فرحت عباس شاہ


**********************


آنکھ کی بھول بھلیوں میں کہیں
جس قدر رنگ تھے محصور ہوئے


فرحت عباس شاہ


**********************


اداس رہتے ہو، دکھتے بھی ہو سبب کیا ہے
اسے نکال دیا زندگی سے اب کیا ہے


کبھی جو کھل کے کہو داستاں تو بات بنے
وگرنہ کس کو خبر حرف زیرِ لب کیا ہے


کسی طرح سے الگ ہو سکیں تو پوچھیں بھی
ضمیر خواہشیں تکرار روز و شب کیا ہے


دماغ کہتا ہے کیا اور دل کا ڈھپ کیا ہے
ہمیں سمجھ ہی نہیں آ رہا یہ سب کیا ہے


ابھی بھٹکنا ہے جانے کہاں کہاں ہم کو
ابھی یہ علم نہیں ہو سکا کہ رب کیا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


دلوں کو توڑتے کیوں ہو
مہاریں موڑتے کیوں ہو


تعلق توڑ دینے ہیں
تو پھر یوں جوڑتے کیوں ہو


اگر انگلی پکڑنی ہے
تو آخر پھوڑتے کیوں ہو


دِوانو! پتھروں سے ہی
سروں کا پھوڑتے کیوں ہو


اگر پھر لوٹ آنا ہے
تو نگری چھوڑتے کیوں ہو


فرحت عباس شاہ


**********************


ساری دنیا سے وفا کر لیتے
تیری خاطر یہ دغا کر لیتے


موت آتی نہ اگر اور ابھی
اپنے دکھ ہی سے وفا کر لیتے


ہم کو مہلت ہی نہیں دی تو نے
وقت ملتا تو دعا کر لیتے


حسن ناراض ترا دیکھنے کو
ہم تجھے خود سے خفا کر لیتے


تیرا دروازہ اگر مل جاتا
ہم بھی کچھ دیر صدا کر لیتے


فرحت عباس شاہ


**********************


دکھوں کے ہاتھ میں تم ہاتھ دینا
محبت میں ہمارا ساتھ دینا


فرحت عباس شاہ


**********************


آئینہ رقص میں ہے
عکس در عکس میں ہے


اس قدر حسنِ کلام
ایک ہی شخص میں ہے


قلب کا ہونا صحیح
درد کے نقص میں ہے


غم ابھی جاری ہیں
دل ابھی رقص میں ہے


مجھ میں وہ بات کہاں
جو ترے عکس میں ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ہم سے کرتا ہے گفتگو اب بھی
درد ہے دل کے رُوبرو اب بھی


جانے کن گردشوں میں گرد ہوا
جس کو گردانتا ہے تُو اب بھی


ہم تو تھک ہار بھی چکے لیکن
عشق پھرتا ہے کُو بہ کُو اب بھی


گھیر لیتی ہے مجھ کو شام کے بعد
تیری غم ناک آرزو اب بھی


بین مجھ کو سنائی دیتے ہیں
کوئی روتا ہے چار سُو اب بھی


دل کو کچھ خاص خاص لمحوں میں
ہم نے رکھا ہے تند خو اب بھی


فرحت عباس شاہ


**********************


ان بے جانوں کی بات نہ کر
اب انسانوں کی بات نہ کر


یہ دل کے شہر ہیں ایسے ہی
ان ویرانوں کی بات نہ کر


تو اپنی سنا تو کیسا ہے
ہم دیوانوں کی بات نہ کر


اب تخت جلائے جائیں گے
اب سلطانوں کی بات نہ کر


ہم لے کر پھریں ہتھیلی پر
ہم سے جانوں کی بات نہ کر


یہ دنیا والے ہوتے ہیں
ان بے گانوں کی بات نہ کر


کچھ زخم ابھی بھر پائے نہیں
کچھ احسانوں کی بات نہ کر


فرحت عباس شاہ


**********************


اگرچہ اس کو پایا تھا نہ دیکھا
مگر وہ خواب سے باہر نہیں تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


بات آسان ہو گئی اپنی
ذات آسان ہو گئی اپنی


آ گیا چل کے خود عدو نزدیک
گھات آسان ہو گئی اپنی


اس نے بھی اپنا جرم مان لیا
بات آسان ہو گئی اپنی


آنکھ نے چھو لیا اسے جا کر
رات آسان ہو گئی اپنی


جیتنے والا ظرف والا تھا
مات آسان ہو گئی اپنی


وہ سمجھ آنے لگ گیا کچھ کچھ
ذات آسان ہو گئی اپنی


تیز جھونکے کواڑ کھول گئے
جھات آسان ہو گئی اپنی


فرحت عباس شاہ


**********************


عشق کی کوئی بھی اتھاہ نہیں
درد بھی آخری پناہ نہیں


جن پہ ہم اپنے پاؤں دھرتے ہیں
زخم ہوتے ہیں کوئی راہ نہیں


تخت کیوں بخت کا نصیب بنے
درد جوگی ہے بادشاہ نہیں


آپ بھی عشق میں رکاوٹ ہیں
آپ بھی میرے خیر خواہ نہیں


سرد جنگوں کی رسم ہے سو کہیں
کوئی مخصوص رزم گاہ نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


چلو تمہارے کھوج میں کچھ تو کام ہوا
منزل کھوئی اور سفر گمنام ہوا


ایسے میرے دل میں آن اترتا ہے
جیسے درد نہیں تیرا پیغام ہوا


آس بھی مٹتے مٹتے آخر مٹ ہی گئی
دن بھی ڈھلتے ڈھلتے آخر شام ہوا


تم سے رسم و راہ تھی بدنامی ٹھہری
تم سے ایک تعلق تھا الزام ہوا


میری رسمی، رسم و راہ اٹل نکلی
تیرا پختہ کام ارادہ خام ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


اسے کہنا وہ گزرے یا نہ گزرے
ہم اس کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


دل و نظر کو بہانہ طراز ہونا تھا
اسی طرح سے کوئی کام راز ہونا تھا


غموں کی بات ہے ماہ و برس کی بات نہیں
ہماری عمر کو عمر دراز ہونا تھا


اگرچہ ایسی نہیں تھیں مگر ان آنکھوں کو
ہمارے سامنے کچھ نیم باز ہونا تھا


یہ تھا کہ دھڑکنیں بجنا تھیں نام پر اس کے
یہ تھا کہ دل کو محبت میں ساز ہونا تھا


تمہیں تمہاری بصیرت پہ ہو نہ ہو لیکن
ہمیں تمہاری عقیدت پہ ناز ہونا تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


زندگی میں مرا خدا مجھ کو
ہار دیتا ہے با رہا مجھ کو


ہاتھ اٹھائے تو دل گرا بیٹھے
راس آئی نہیں دعا مجھ کو


ایسے عالم میں لوگ پوچھتے ہیں
یاد کیسے کوئی رہا مجھ کو


میرا ایمان اور پختہ ہو
معجزہ تو کوئی دکھا مجھ کو


سارے سامان خود ہی پیدا کر
اپنے در پر کبھی بلا مجھ کو


آپ سے بس یہی ملا مجھ کو
ڈس رہی ہے مری خطا مجھ کو


میری چپ میرا کوئی وصف نہیں
کوئی دیتا نہیں صدا مجھ کو


آن ملتا میں آپ سے لیکن
آگئی تھی مری قضا مجھ کو


فرحت عباس شاہ


**********************


مشتعل لوگ چاہئیں اس کو
پھر کسی لاش کی نمائش ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


دیکھنے آؤ روانی میری
کوئی دریا ہے جوانی میری


چند قبریں ہیں مرے پہلو میں
ایک صحرا ہے نشانی میری


اپنے حالات پہ اب ڈال نظر
یاد کر بات پرانی میری


کوئی ہنستا ہے کوئی روتا ہے
جو بھی سنتا ہے کہانی میری


ایک پل لگتا ہے مر جانے میں
آرزو کتنی ہے فانی میری


فرحت عباس شاہ


**********************


حسن صرفِ نظر نہیں ہوتا
آئنوں پر اثر نہیں ہوتا


عشق کی بات بھی نرالی ہے
درد ہوتا ہے پر نہیں ہوتا


کوئی آ جائے یاد تو دل سے
ایک پل بھی بسر نہیں ہوتا


جانے کن راستوں میں الجھا ہے
جب بھی جاتے ہیں گھر نہیں ہوتا


جینا چاہیں تو جی نہیں سکتے
مرنا چاہیں تو مر نہیں ہوتا


درد اک ایسی راہ ہے جس پر
کوئی بھی ہم سفر نہیں ہوتا


اس طرف بے امان بستے ہیں
آسماں کا گزر نہیں ہوتا


کیسی نیندوں میں پھنس گئے ہیں ہم
جاگتے ہیں تو سر نہیں ہوتا


ہجر کے دکھ سے جو چنی جائیں
ان فصیلوں میں در نہیں ہوتا


فرحت عباس شاہ


**********************


محبت کھینچتی رہتی ہے دل کو
جدائی راستہ روکے کھڑی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


اپنی ہر بات پرانی لکھتا
یاد رہتی تو کہانی لکھتا


ہاں اگر بس میں یہ ہوتا تو میں
اپنے صحراؤں کو پانی لکھتا


تو سفر میں ہی نہیں تھا ورنہ
تیری ہر نقل مکانی لکھتا


میں سمجھتا تھا ہر اک رُت کو حسیں
میں خزاں کو بھی سہانی لکھتا


اس کو اچھا ہے کہ موقع نہ ملا
ورنہ یوسف کو بھی ثانی لکھتا


فرحت عباس شاہ


**********************


یہ نہ پوچھو کہ ضرورت کیا ہے
تم کو پا لینے کی صورت کیا ہے


وہ مرا دوست ہے اس کو فرحت
آزمانے کی ضرورت کیا ہے


کچھ تو بولو کہ تمہارے اندر
مرے بارے میں کدورت کیا ہے


دکھ جو دیتا ہے تو یہ بھی تو بتا
اس سے بچ جانے کی صورت کیا ہے


جانے اس دل پہ اثر کس کا ہے
جانے ان آنکھوں میں مورت کیا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************
اختتام
**********************
جدائی راستہ روکے کھڑی ہے
**********************
فرحت عباس شاہ
**********************