صفحات

تلاش کریں

شاعری : آ لگا جنگل در و دیوار سے از فرحت عباس شاہ




**********************


لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے


جن کو عادت ہو گئی صحراؤں کی
مطمئن ہوتے نہیں گھر بار سے


یہ تو سارا بازوؤں کا کھیل ہے
شہ رگیں کٹتی نہیں تلوار سے


آ گرے ہیں عین ویرانی کے بیچ
کچھ پرندے کچھ شجر بیمار سے


راستوں پہ گھاس اُگ آئی اگر
کون لوٹے گا سمندر پار سے


پھٹ نہ جائے دل کہیں اصرار سے
اس لیے گزرے نہیں بازار سے


فرحت عباس شاہ


**********************


اگر تُو خدا نہیں


اگر تُو خدا ہے
تو ہمارے اندر دہکتی ہوئی آگ بجھا
ہماری پیاس ختم کر
اور بھوک مٹا دے
اور اگر
تُو خدا نہیں
تو ہمیں ہمارے حال پہ چھوڑ دے
اور ہمارے ارادوں کو توڑنا بند کر دے


فرحت عباس شاہ


**********************


تو پھر کہو کیسا رہے


اے خالق کائنات
اور اے رب ذوالجلال
اے عظیم اور برتر خدا
فرض کرو
اگر میں تمہرای ذات کا منکر ہو جاتا ہوں
اور تمہارے بجائے
تمام مخلوق اور تمام انسانیت کو
اپنا خدا تسلیم کر لیتا ہوں
اور پھر آخری دم تک
صرف اسی کی عبادت اور تابعداری میں گزار دیتا ہوں
تو اے رب رحم
کہو کیسا رہے


فرحت عباس شاہ


**********************


آ لگا جنگل در و دیوار سے


اپنے آپ کو ایک شعلہ بیاں مقرر سے
بمشکل بچاتے ہوئے
لوگوں اور جھانسوں کی بھیڑ سے نکل تو آیا
لیکن باہر آ کر پتہ چلا
کہ میرے پاؤں میری ٹانگوں کے ساتھ نہیں ہیں
میں واپس پلٹا
اور خاصی کوشش کے بعد صرف جوتے تلاش کر سکا
سڑک پار کرتے ہوئے
ایک تیز رفتار گاڑی کی زد میں آیا تو بچ نہ سکا
گاڑی مجھے اچھال کر دور پھینک گئی
اور جاتے جاتے میری ایک ٹانگ اپنے ساتھ لے گئی
میرے جوتے وہیں پڑے رہ گئے
اور مجھے ہسپتال پہنچا دیا گیا
جہاں میری آنکھ
میری بے ہوشی کے عالم میں عطیے کے طور پہ لے لی گئی
کچھ دنوں بعد ہسپتال سے فارغ ہو کر نکلا
تو ایک جیب کترے سے ٹکرا گیا
جو جیب کو بالکل خالی پا کر
میری انگلیاں ہی کاٹ کر لے گیا
میں رپورٹ درج کروانے گیا تو
محافظوں نے کہا
کہ حالات ایسے نہیں کہ کوئی بھی
اتنے صحیح سلامت بازو کھلے عام ساتھ لئے پھرے
اور پھر انہوں نے احتیاطاً میرے بازو جسم سے کاٹ کر اپنے مال خانے میں رکھ لئے
وہاں سے چلا اور بازار میں آیا
تو جگہ جگہ اشتہاروں اور بینروں سے دیواریں بھری نظر آئیں
جن میں ایمان والوں سے
ملک، قوم اور مذہب کے نام پر
سروں اور گردنوں کی قربانی پیش کرنے کی اپیلیں کی گئی تھیں
اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا یا سوچتا
عقیدوں اور نظریات کا ایک اژدہام مجھ پر حملہ آور ہو چکا تھا
جو بالآ خر میرا سر میرے تن سے جدا کر کے لے گیا
میں لڑکھڑایا اور زمین پر آ رہا
دو تین پتھریلی ایڑیاں مجھے کچلتے ہوئے گزر گئیں
ابھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ
دو یخ برفیلے ہاتھوں نے اٹھایا میرا کٹا پھٹا اور ٹوٹا پھوٹا بدن
اور ہاتھ سے دھکیلے جانے والے ایک چھوٹے سے لکڑی کے چھکڑے میں لٹا دیا
چھکڑا ہلا اور ایک سمت دھکیلا جانے لگا
ساتھ ہی ایک آواز میرے کانوں میں پڑی
’’ دے غریب کو اللہ تجھے ساری دنیا کی بادشاہت دے‘‘
دے غریب کو اللہ تجھے زندگی میں کوئی دکھ نہ دے‘‘
کچھ ہی دیر بعد
چھوٹے چھوٹے سِکّے میرے شکستہ جسم پہ گرنے لگے


فرحت عباس شاہ


**********************


گناہ


تم اگر کبھی یونہی سر راہ مجھ سے ملو
تو حیران مت ہونا
میں واقعی اب پہلے سے بہت بدل گیا ہوں
کبھی بارشیں ہوں تو
گھر سے باہر نہیں نکلتا
چاند راتوں کے کسی سوال کا جواب نہیں دیتا
میں نے کتنی ہی مخلص اور محبت کرنے والی لڑکیوں کے دلوں کو توڑ ڈالا ہے
کہیں کوئی گیت سنائی دے
تو اونچی آواز میں اپنے آپ سے بے معنی گفتگو شروع کر دیتا ہوں
کوئی بچہ کہیں ٹھوکر کھا کر گر پڑے تو اسے سہارا نہیں دیتا
کسی نا بینا یا ضعیف کو سڑک کے کنارے محتاجی کے عالم مں
کھڑے دیکھ کر بے اعتنائی سے گزر جاتا ہوں
دیکھو کیسی کیسی تبدیلیاں آگئی ہیں مجھ میں
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں
کہ شاید ایسا کبھی نہ ہوتا
اگر میں اپنے دل میں تمہاری محبت کا دکھ زندہ رہنے دیتا


فرحت عباس شاہ


**********************


آج سال کی آخری رات ہے


مجھے یاد ہے
پچھلے سال انہی دنوں میں
میں نے تمہیں اپنے اندر
ساتویں بار قتل کر کے وہیں کہیں
کسی ویرانے میں دفن کیا تھا
اور تمہاری قبر
فراموشی کے بھاری پتھروں سے بھر دی تھی
اور اس سے بھی پہلے ایک بار دور دراز سے آنے والے کسی دیوہیکل پرندے کے پیروں سے
تجھے باند کے اسے اڑا دیا تھا
اور پھر اس سے بھی پہلے بالکل انہی دنوں میں
میں نے تجھے مکمل طور پر جلا کے
تمہاری راکھ ایک تیز رفتار دریا میں بہا دی تھی
لیکن اس ساری جاں کاہی کے باوجود
تم آج پھر
ہمیشہ کی طرح
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
اور میرے دل کو اپنی مٹھی میں جکڑے میرے سامنے کھڑے ہو


فرحت عباس شاہ


**********************


کبھی یوں کریں


سنو!
کبھی یوں کریں
کہ کہیں مل بیٹھ کے کوئی اداس اور سوگوار شام دہرائیں
اور بیتنے نہ دیں
خود کو بھولی بسری یادوں کے سپرد کر کے واپس لوٹنا بھول جائیں
یا جنگل میں جا کے خود کو پرندوں کی قید میں دے آئیں
کسی تن تنہا بادل کو بلائیں
اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر رکھ لیں
اور گھر کے سارے دریچے سارے راستے بند کر دیں
تا کہ کوئی اسے ملنے نہ آسکے
اپنی اپنی زخمی آرزوؤں کو زخمی ہی رہنے دیں
اور ایک دوسرے کی خواب نگریوں کو روانہ کر کے
راستہ نہ بھولنے کی دعا مانگیں
کسی روز اپنے اپنے پیاروں سے بے سبب ناراض ہو جائیں
اور جہاں جہاں جو جو وعدہ لکھ رکھا ہے مٹا ڈالیں
اور کبھی یوں کریں
کہ اپنے چہروں، اپنی آنکھوں اور ہاتھوں کو خود ہی چھُو کے دیکھیں
اور ان کی اپنی جگہ موجودگی کا یقین کریں
سنو! کیا خیال ہے
کبھی یوں نہ کریں کہ حوصلوں کے سارے بند
اور تحمل کے سارے ستون توڑ ڈالیں اور ہواؤں کے سامنے ان کٹھور
ہواؤں کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔ انہیں روک کے
ان کا گریبان تھامیں
چیخ چیخ کے انہیں برا بھلا کہیں
ان کا دامن تار تار کر ڈالیں
اور ان سے اپنا اپنا جرم پوچھیں


فرحت عباس شاہ


**********************


ناسمجھ


کبھی سنا نہیں
کہ کسی گرم میدانی علاقے کی سڑک پر
کوئی بادل اتر آیا ہو
یا برفانی علاقوں میں
برف باری کے موسم میں گرم اور دہکتی لُو چلی ہو
کتنی سادہ سی بات ہے
کہ علاقوں اور موسموں کے اپنے لگے بندھے مزاج ہوتے ہیں
لیکن افسوس کہ
صحراؤں کی سمجھ میں کبھی نہیں آتی


فرحت عباس شاہ


**********************


یہی تمہارے لئے بہتر ہے


کیا تمہیں یقین ہے؟
کہ جب تم واپس آؤ گے
تو سب کچھ ویسا ہی ہوگا
جیسا چھوڑ کے جا رہے
سنو!
جیسے تمہارا جانا ایک تبدیلی ہے
اور تمہارا کہیں پہنچنا بھی
اور پھر جس طرح تمہاری واپسی بھی ایک تبدیلی ہو گی
بالکل اسی طرح اس متحرک کائنات میں
جانے کتنی تبدیلیاں ہیں جو لمحہ بہ لمحہ ہوتی رہتی ہیں
اسی لئے تمہیں چاہئیے کہ جب واپس آؤ
تو یہاں کا کوئی بھی نقشہ تمہارے ذہن میں ایسا نہیں ہونا چاہئیے
جیسا کہ چھوڑ کے جارہے ہو
کیونکہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے اور تمہارے ساتھ ساتھ
ہر واپس لوٹنے والے کے لئے بھی


فرحت عباس شاہ


**********************


اپنے اپنے بتوں میں قید


ہم سب جو اپنے اپنے بتوں میں قید ہیں
صبح سے لے کر شام تک
چلچلاتی دھوپ اور سنسناتی تھکن میں
اور شام سے لے کر صبح تک سرد یخ بستہ اندھیروں میں
روح اور بدن کی خواہشات کے ہاتھوں
چُر مراتے ہوئے
آرام دہ اور خواب ناک، خواب گاہوں، آراستہ و پیراستہ دفاتر
اور سبک خرام کاروں میں بے چینی اور کشمکش سے کروٹیں بدلتے
بیٹھتے، اٹھتے اور رُک رُک کے چلتے ہوئے
ناکردہ گناہوں کی پاداش میں
قید و بند اور مشقتیں جھیلتے ہوئے
اور نت نئی دہشت کے اسیر
چاہنے اور چاہے جانے کی جبلّتوں کے جرم میں
نیلام ہوتے ہوئے ہم سب
ہم سب جو اپنے اپنے بتوں میں قید ہیں
اور ہم سب جن کے لئے اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں
کہ بس جیسے تیسے زندگی طے کرتے چلے جائیں
شکستہ لبادوں کی سمیٹ کر
اور تمام بے راہروی اور گمراہی
اپنے عقیدوں میں ٹھونس کر
خوف کے پھیلتے اور مسکراتے سایوں کے ہمراہ
جو بھی سائبان نظر آئے پناہ لے لیں
سوچنے اور کچھ نہ سوچنے کی
سفّاکیوں کے درمیان
جو بھی گمان نظر آئے تھام لیں
اور اسے اپنے پاس رکھ لیں
اور پھر اسے اور اپنے آپ کو کبھی غور سے نہ دیکھیں
ہم جو اپنے اپنے بتوں میں قید ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


ظالموں کی سر زمین پر احتجاج


آؤ!
آج ایک کام کریں
سارے قیدی اور سارے مقتول مل کر
اپنی اپنی اپاہج آرزوؤں کو کفن پہنائیں
اور انہیں ان کے آبائی قبرستان میں
دفن کر کے قبروں پر
بے گناہی کے کتنے نصب کریں


فرحت عباس شاہ


**********************


احساس


شکر ہے
کہ سکھ کی ساری دعائیں
قبول نہیں ہو جاتی
ورنہ نہ تو کبھی ہم
اپنے آپ کو دیکھ سکیں
نہ سُن سکیں
اور نہ کبھی چھُو سکیں


فرحت عباس شاہ


**********************


محبت کی ادھوری نظم


اُس نے جب بھی مجھے یقین دلایا
کہ وہ صرف مجھ سے محبت کرتی ہے
میں نے یقین کر لیا
لیکن میں نے اسے اگر کبھی
دوسرے لوگوں سے رسم و راہ رکھنے سے منع کیا
تو وہ ناراض ہوئی
اور اس نے ہمیشہ یہی کہا
کہ اُس کا کسی سے بھی وہ تعلق نہیں جو میرے ساتھ ہے
اور یہ کہ دوسروں سے تو بس دنیا دای ہے مجبوراً
بہر حال اگر پھر بھی مجھے پسند نہیں تو وہ آئندہ کسی سے نہیں ملے گی
لیکن کچھ ہی دنوں بعد
میں نے اسے پھر کسی کے ساتھ اک تفریحی پارک میں دیکھا
وہ دونوں خوب بنے سنورے
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
ہنستے مسکراتے اردگرد کے ماحول سے تقریباً لا تعلق
چل رہے تھے
مجھے ایک شدید جھٹکا لگا
اور یوں محسوس ہوا جیسے سر میں بھونچال آگیا ہو
پاؤں وزنی ہو گئے اور جسم بے جان
سانس لینا دوبھر ہو گیا
میں نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے
پیشانی پر سے پسینہ اور آنکھوں پر سے اندھیرا صاف کیا
اور کسی شکست خوردہ بادشاہ کی طرح پلٹ پڑا
جس کے پاس کچھ بھی نہ بچا ہو، تن کے کپڑوں کے سوا
اگلے دن ہزار کوشش کے باوجود مجھ سے رہا نہ گیا
اور میں نے پوچھ ہی لیا
پہلے تو اس نے چونک کے اور تھوڑا گھبرا کے مجھے دیکھا
اور پھر ہنستے ہوئے کہا
ارے وہ۔۔۔ وہ تو احمق بُدھو سا میں تو بس بوریت دور کرنے کی خاطر۔۔
تم بھی کتنے پاگل ہو یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی کھلکھلا کے
میں بھی اس کے ساتھ ہی ہنسنے لگا، پتہ نہیں خوشی سے یا دکھ سے یاد نہیں
البتہ اتنا یاد ہے کہ ہنستے ہنستے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں


فرحت عباس شاہ


**********************


بہت کچھ سمجھ لینا


ہو سکتا ہے
تمہارے پاس دنیا جہاں کی
دولت طاقت اور اختیارات ہوں
لیکن اگر کبھی اچانک
دل دھک سے رہ جائے
پیروں کے نیچے سے زمین
اور جسم میں سے جان نکل جائے
ہتھیلیوں پر پسینہ آجائے
اور پورے وجود میں کوئی سرد سی لہر دوڑ جائے
تو خود ہی سمجھ لینا، بہت کچھ سمجھ لینا
جو ابھی رہ گیا ہے ہونے سے
اور وہ جو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


کیا تم اسے بھول گئے


وہ، جس نے تمہارے خوابوں میں آنکھیں
اور تمہارے راستوں میں پاؤں زخمی کر لئے
ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس
اپنے شانوں پہ لمبے اور سیاہ گھنے بال بکھرائے
معزور اور بے نیاز
جس نے اپنے سارے سپنے تمام تمنائیں
صرف ایک تم تک محدود کر لیں
اور صبح، شام ، دوپہر،
اپنے تمام وقت صرف تمہارے لئے
اپنی پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پہ لئے پھرا
اور اپنی ذات میں
کسی شرمیلی لڑکی کی طرح
تمہیں سب سے چھپاتا پھرا
کیا تم اسے بھول گئے ہو
وہ جس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا
کہ شکست کیا ہے
صرف اور صرف تمہارے لئے
خود اپنے آپ سے ہار گیا


فرحت عباس شاہ


**********************


ایک دکھ سے دوسرے دکھ تک


پھٹی ہوئی آنکھوں
فالج زدہ زبان
اور مفلوج بازوؤں کا یہ سفر
جو جانے کتنی صدیوں سے مجھے طے کر رہا ہے
آخر میری انتہا تک پہنچ کیوں نہیں جاتا
اور یہ آنسو
یہ سارے کے سارے آنسو
ایک ہی بار ایک ساتھ بہہ کیوں نہیں جاتے
میں نے جب سے اپنی کشتیاں جلا کے
راکھ سمندر میں بہا دی ہے
کوئی لہر کوئی موج
مجھے تسلی دینے کے لئے تیار نہیں
اور نہ ہی کوئی موسم یہ نوید سناتا دکھائی دیتا ہے
کہ میں طے کیا جا چکا ہوں
میں جو بہت تھک گیا ہوں
اور سفر جو کبھی تھکتا نہیں
مجھے طے کرتا چلا جا رہا ہے
ایک صحرا سے دوسرے صحرا تک
اور ایک خواب سے دوسرے خواب تک


فرحت عباس شاہ


**********************


وقتی طور پر


آؤ!
ہم اپنے دلوں کو
اپنی اپنی مٹھیوں میں
اتنی زور سے جکڑ لیں
کہ شریانوں سے پھوٹنے والا کرب
یہیں گم ہو جائے


فرحت عباس شاہ


**********************


کسی دن میرے گھر آؤ


کسی دن میرے گھر آؤ
میرے کمرے میں بیٹھو
اور ایک ایک شے کو غور سے دیکھو
بُک شیلف میں پڑی ہوئی کتابیں اور ڈائریاں
میز پر رکھی تصویریں
اور گلدان میں مرجھائے ہوئے پھول
تمہیں بتائیں گے
دراز میں موجود کیسٹیں
دیواروں پہ کھدے ہوئے حروف
اور بستر پر نقش بے قراری
تم پہ عیاں کرے گی
کہ میری آرزوؤں نے کس طرح تمہاری آرزو کی
اور کیسے میرے خوابوں نے تمہارے خواب دیکھے
اگر ہو سکے تو کسی دن میرے گھر آؤ


فرحت عباس شاہ


**********************


آ اور میرے وجود میں اُتر


اے رات!
آ اور مرے گلے لگ جا
آ میں تمہاری آنکھیں، تمہارے ہونٹ
تمہارے رخسار اور تمہاری پیشانی چوموں
تمہاری ٹھوڑی پہ بوسہ دُوں
تمہیں کاجل لگاؤں
تمہارے بال سنواروں
اور تمہاری مانگ میں ستارے بھر دوں
اور تمہارے شانوں پہ سر رکھ کے
بچھڑے ہوئے لوگوں
اور بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کروں
اور ٹوٹ کے چاروں طرف بکھرے ہوئے آئینوں کی کرچیاں چن چن کے
تمہیں اپنی زخمی پوریں دکھاؤں
اے رات!
آ اور میرے وجود میں اتر
آ اور میری ہتھیلیوں پہ آہستہ آہستہ
اپنا تمام روپ پھیلا دے


فرحت عباس شاہ


**********************


مشکل وقت


جب سمند چنگھاڑتے ہوئے
اور ہوائیں کرلاتی ہوئی ہماری سمت بڑھتی ہیں
بارشیں نوکیلی
اور آندھیاں منہ زور ہو کر
ہم پہ حملہ آور ہوتی ہیں
تب ہم ٹھہر نہیں پاتے
اور گلیوں گلیوں دوڑ پڑتے ہیں
اپنے اپنے اپنوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں
لیکن ایسے میں
کوئی کسی کا بھی اپنی جگہ پر موجود نہیں ملتا


فرحت عباس شاہ


**********************


کھلاڑی


خالی ہاتھوں
اور کھوکھلی باتوں کا کھیل کھیلنے والے
کبھی آؤ!
اور ایک بار پھر کھیل کے دیکھو
حیرت زدہ رہ جانے کے لئے
اور ہمیشہ ہمیشہ کی شکست کو
اپنا نصیب بنانے کے لئے، تمہیں یاد رہ جائے گا
کہ کبھی کبھی ہارنے والا بھی بہت بڑا کھلاڑی بن جاتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


روشنی کی ایک قسم


روشنی کی جستجو میں
پلکیں جلا بیٹھا اور پوریں زخمی کر بیٹھا
تو پتہ چلا
کہ ضروری نہیں جو روشنی آنکھوں کو خیرہ کر دے
وہ سجھائی بھی دے


فرحت عباس شاہ


**********************


نا قابلِ شکست


گہری اور مہربان رات کی قسم
فاصلے تو بس کمزور دل لوگوں کے لئے ہی
خوف اور بے چینی ہوتے ہیں
ورنہ
ایک زمین پر میلوں اور کوسوں کی دوری
محبت کو کبھی شکست نہیں دے سکتی
ہجر جتنا بھی کڑا ہو
اور دوری جیسی بھی دوری ہو
چاہتیں او رسوا ہو جایا کرتی ہیں
گہری اور مہربان رات کی قسم
میں چاہے جہاں بھی ہوں
ایک ایسے کھلے دروازے کی مانند ہوں
جس کی دہلیز پر تمہارے قدم لکھے ہیں
اور تم چاہے جہاں بھی ہو
میرے لئے کسی بھی مشکل گھڑی میں
ایک بھرپور دلاسہ۔۔۔ اور ایک ناقابل شکست اعتماد ہو


فرحت عباس شاہ


**********************


اپنی گمشدگی کے تختے پر سوچ


کیا ہم نے کسی کو اختیار دے رکھا ہے؟
کہ وہ ہمیں ہماری بے خبری میں تھوڑا تھوڑا کر کے بیچتا رہے
یا ہم سے کچھ پوچھے بتائے بغیر
ہمیں سنگی کتبوں کی طرح دنوں اور مہنیوں کی قبروں پر نصب کرتا چلا جائے
اگر وقتاً فوقتاً ایسا کوئی بھی اختیار ہم نے
کسی کو بھی نہیں دیا
تو پھر گردش کرتی ہوئی زمینوں اور آسمانوں کے درمیان
ریزہ ریزہ کر کے ٹوٹتے ہوئے کیوں دھیاں نہیں رہتا
کہ مورتی تب تک مورتی ہوتی ہے
جب تک ٹوٹنے سے بچی رہے
ورنہ پھر صرف ٹوٹی ہوئی مورتی رہ جاتی ہے
یا پھر اڑتی ہوئی ریت
آرزوؤں کے جال
اور خواہشات کے تانے بانے بُنتے ہوئے ہم
کیوں لاعلم رہتے ہیں؟
کہ انہوں نے تو خود ہمیں کب سے بننا شروع کر رکھا ہے
اپنی گمشدگی کے تختے پر لیٹا سوچ رہا ہوں


فرحت عباس شاہ


**********************


بے بسی کی آخری حد


مجھے یرغمال بنا کے
میری آزادی کے بدلے خود مجھے شرائط پیش کی گئیں
تو میں بیچارگی سے ہنس دیا
میں ہنس دیا تو
میری ہنسی میں
کسی بُجھے ہوئے چراغ کی آخری کراہ
اور موت کی سرد کڑ کڑاہٹ تھی
ہر طرف گہرا اور پُرہول سکوت پھیلتا چلا گیا


فرحت عباس شاہ


**********************


پُشت پہ بندھے ہاتھ


ہم اکڑی ہوئی گردنوں
اور تنے ہوئے سینوں والے
کبھی اپنی آنکھوں سے ٹپکتی ہوئی رعونت کم نہیں ہونے دیتے
ہم گونجتی کڑ کڑاتی آوازوں
اور دھمکتے ہوئے قدموں والے
اپنی پیشانیوں سے جابرانہ لکیریں
اور کرخت سلوٹیں
ایک لحظہ کے لئے بھی ہٹانے کو تیار نہیں
حالانکہ
ہم میں سے ہر ایک
ہر لمحہ اپنے اپنے ہاتھ
اپنی اپنی پشت پر بندھے ہوئے
اچھی طرح محسوس کرتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


افسردگی اشتہار نہیں


افسردگی اشتہار نہیں
کہ ٹنگی ہوئی نظر آتی رہے
اور نہ ہی خوشی کوئی میکانکی عمل ہے
جو آلات کی ترتیب سے حاصل ہو جائے
کسی کو گم سم اور سست دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کہ وہ غمگین ہے
یا ہنستا، مسکراتا اور قہقہے لگاتا دیکھ کے
یہ سوچنا کہ بہت خوش ہے درست نہیں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
کہ بہت زیادہ چپ چاپ رہنے والے بہت خوشی محسوس کر رہے ہوتے ہیں
اور رنگا رنگ مسکراہٹوں اور گیتوں کے درمیان
خوب زور و شور سے قہقہے بلند کرنے والے
یہ محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ
جیسے انہیں تمام رونقوں سے الگ کر کے
طویل اور گہری خاموشی پہ نصب کر دیا گیا ہو


فرحت عباس شاہ


**********************


’’ راندے وُو ‘‘


ایک چھوٹے سے سفر کے دوران
یونہی سرِ راہ وہ ملی
اور اس نے بتاہا کہ
’’ راندے وُو‘‘ فرانسیسی لفظ ہے
اور اس کے معنی ہیں ’’ ملنے کی جگہ‘‘
اس کی آنکھوں میں چمک اور دُھند دونوں ہی تھیں
وہ کبھی چمک اٹھتی تھیں
تو اگلے ہی لمحے دھندلی ہو جاتیں
میں نے وہ دُھند اپنے لئے لے لی
تو اس کی آنکھیں اور زیادہ چمکنے لگیں
لیکن میں اپنی لاعلمی کی وجہ سے
اُسے کبھی نہ بتا سکا کہ
فرانسیسی میں ’’جدائی‘‘ کا متبادل لفظ کیا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ٹھوکر


ایک دفعہ سڑک پار کرتے ہوئے
جب میں ٹھوکر کھا کر گرا
تو فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا اندھا بھکاری
میری حالت کا اندازہ کر کے زور زور سے ہنسنے لگا
پھر بولا
شکر کرو تمہارا ہاتھ تمہارے اپنے ہی ہاتھ میں ہے
ورنہ جیسے گرے ہو۔۔ اُف خدایا
وہ بیٹھا بیٹھا لرز گیا
سڑک پر پڑے پڑے میں نے اس کی بات سنی
اور جب سمجھی تو دیر تک زمین سے اُٹھ نہ سکا


فرحت عباس شاہ


**********************


دل کا عالم


خوشی ہوتی ہے
تو صرف خوشی ہی نہیں ہوتی
ساتھ ساتھ خوف بھی آتا ہے
اور خوف آتا ہے
تو دکھی بھی ہو جاتا ہوں
اور اسی طرح ساتھ ساتھ حیرت اور بے بسی بھی
روح کے کسی نہ کسی نیم تاریک گوشے میں جلتے بجھتے رہتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


باقیات


میں نے اب تک جتنی بھی جدائیاں سہی ہیں
اور جتنے بھی دلوں کو روگ لگائے ہیں
شاید میرے ظاہر سے ظاہر نہ ہوں
لیکن اگر کوئی ایسا ہے جو روح میں جھانک سکتا ہو
تو آئے اور دیکھے
کہ میری آنکھوں کے پیچھے کیسی اتھاہ تاریکیاں ہیں
اور میرے لبوں کے پیچھے کتنی گھنگھور خاموشیاں ہیں
اگر کوئی ایسا ہے جو من میں اتر سکتا ہو
تو آئے اور غور کرے
کہ میرے اندر جلی ہوئی بستیوں
اور اجڑے ہوئے شہروں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچا
جہاں جہاں آنکھوں نے آنکھوں سے اقرار کئے
اور جہاں جہاں ہونٹوں نے ہونٹوں کو لمس پہنائے
وہاں وہاں اب صرف ہوا ہو گئی راکھ کے نشانات
اور کبھی نہ مندمل ہونے والے گھاؤ رہ گئے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


آگ


کسی دن
ہاتھوں پر پڑی گانٹھوں
اور آبلوں کے نشانات پر
غور کرنا
تم جان پاؤگے
کہ جسم میں دہکتی آگ
جب کسی بھی عضو بدن سے سفر کر کے
کنپٹیوں کی درمیانی جگہ پہنچتی ہے
تو ہر سامنے کی شے
اوجھل ہو جاتی ہے
درختوں کے تنوں پر کھُرچ کے لکھے گئے نام
خون سے لکھے گئے خطوط
سنبھال سنبھال کے رکھی ہوئی تصویریں
اور مزاروں پر مانی گئی منتیں
سب کچھ دھندلا جاتا ہے
اور اس وقت تک
کچھ بھی واضح نہیں ہوتا
جب تک وہ آگ سرد نہیں ہو جاتی یا پھر جب تک
کسی کو جلا نہیں ڈالتی


فرحت عباس شاہ


**********************


دیواروں کے کان


مندروں، مسجدوں اور کلیساؤں میں بدی کے خلاف وعظ کرنے والو
اسمبلی ہالوں اور جلسے جلوسوں میں جذباتی تقاریر کرنے والو
اپنے اپنے بستروں کی بغلوں میں دبا کر
دنیا کے دور دراز علاقوں تک حق بات پھیلانے کے لئے سفر کرنے والو
اپنے سفید بالوں کے واسطے دے دے کر
نوعمروں کو امن اور نیکی کی تلقین کرنے والو
ٹی وی کیمروں
اور صحافیوں کے پینلز کے سامنے بیٹھ کر
قوموں کے دکھ بیان کرنے والو
ٹی ہاؤسز اور رنگا رنگ تقاریب میں
چائے کے کپوں اور سگریٹ کے دھوئیں کے درمیان
انسانیت کے پیچیدہ مسائل زیر بحت لانے والو
میگزینوں اور کتابوں میں
نفرت سے نفرت اور محبت سے محبت کا پرچار کرنے والو
اگر کوئی تمہارے گھروں کی دیواروں سے
تمہارے بارے میں سچ سچ پوچھ لے تو۔۔۔؟


فرحت عباس شاہ


**********************


اب تک مین جتنی بھی لڑکیوں سے ملا ہوں


رنگ برنگے لباس پہن کر تتلیوں کی طرح گلشن گلشن اڑنے پھرنے والی لڑکیاں
اور چلچلاتی کاروں میں بیٹھ کر بال لہرانے والی لڑکیاں
یا سادہ، سنجیدہ اور صوم و صلوٰۃ کی پابند گھر کے کاموں یا کتابوں میں گم
رہنے والی لڑکیاں
معصوم، بھولی بھالی یا تیز و طرّار اور چالاک لڑکیاں
خوبصورت یا قبول صورت یا دوسری لڑکیاں
ہر پل گیت گانے والی یا بھیگی ہوئی آنکھوں اور
تھکے ہوئے چہروں والی لڑکیاں
میں آج تک جتنی بھی لڑکیوں سے ملا ہوں
اپنی تمام کی تمام انفرادیت کے باوجود
وہ سب کی سب مجھے ایک ہی جیسی
مظلوم، معصوم، بھولی، نادان اور بدنصیب لگی ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


محبت کرنے والی لڑکی


جیسے تپتے صحراؤں میں گم کردہ مسافر
جیسے خالی رستوں پر مدتوں سے اٹکی ہوئی نمناک نگاہ
جیسے ویران ہو جانے والا جزیرہ
جیسے وسیع و عریض فضاؤں میں دُور دُور تک تنہا بدلی
یا
جیسے اجنبی شہر میں اپنوں سے بچھڑ جانے والی بچی


فرحت عباس شاہ


**********************


دلیری


میں نے تمہارے خلاف
تمہاری یاد سے ساز باز کر لی ہے
اور اب
تمہاری بے وفائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
دیر تک زندہ رہ سکتا ہوں


فرحت عباس شاہ


**********************


دکھ


تنہائی کی گود میں چہرہ چھپا کے
اور لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ کر
بہائے ہوئے آنسوؤں کی قسم
دکھوں کا کوئی ایک رنگ
کوئی ایک مخصوص شکل نہیں ہوتی
یہ تند و تیز ہوائیں
اور بلا خیز موجیں
جو ہر شے بہا کے اپنے ساتھ لے جاتی ہیں
اور یہ اکاش بیلیں جو ہر طرف پھیل پھیل کر
سب کچھ اپنے شکنجے میں لے لیتی ہیں
کتنا اچھا وقت تھا اگر ہم صرف درخت ہوتے
اور نہیں تو کم از کم ہماری شاخوں پر
گھونسلے بنا کر رہنے والے پرندے تو آزاد ہوتے
اور وہ چڑیاں اور طوطے اور ہُد ہُد
جو ہمارے تنوں کو کھوکھلا کر کے گھر بناتے
لیکن ہم درخت نہیں ہیں
اور نہ ہی کوئی ایسی جھونپڑی ہیں
جس میں ہر رات کسی نہ کسی کی بے بسی
بجھی ہوئی راکھ پر آنسو بہاتی ہے
تو خلا کا سینہ چیر کے رکھ دیتی ہے
اور جس کی فضا میں ساری ساری رات
کوئی دق زدہ کھانسی گونجتی ہے
تو صدیوں بوڑھا سکوت تلملا اٹھتا ہے
ہم تو خوش قسمت سڑک بھی نہیں
جس پر چیتھڑی ہوئی لاشیں اور بکھرے ہوئے شکستہ اعضاء
ہٹانے میں ذرا دیر نہیں کی جاتی
تنہائی کی گود میں چہرہ چھپا کے بہائے ہوئے آنسوؤں کی قسم
ہم تو بس ایسے ٹوٹے پھوٹے کھلونے ہیں
جن کے ساتھ کوئی ضدی اور تُند مزاج بچہ
غصے اور چڑچڑاہٹ کے عالم میں
اٹھا اٹھا کر پھینکنا کھیلتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


تاکید


اجنبی بستیوں کے سفر پہ جا رہے ہو
تو یاد رکھنا
جہاں بھی رہو
کچی پکی برساتوں میں
دل کا خیال رکھنا
اور منڈیروں سے جھانکتی جدائیوں
اور کمروں میں گھات لگائے بیٹھی تنہائیوں کے موسم میں
کسی بھی حوصلے پر اعتبار مت کرنا
گزرے دنوں کی ہر اداسی اور افسردگی سنبھال رکھنا
اور اگر یادوں کے قافلے
اور وصال گیتوں کی ٹولیاں
کوچ کرنے لگیں
تو اُن کا دامن تھام لینا
اور انہیں کہیں بھی جانے نہ دینا


فرحت عباس شاہ


**********************


شکست


نجانے کب تک
ہم اس کٹھور وقت کے ہاتھوں
شکست کھاتے رہیں گے
اور نہ جانے کب تک
اپنا اپنا سبھی کچھ ہارتے رہیں گے
آخر کیا بھید ہے؟
کہ ہم اپنا آپ ہار کے بھی جسے جتنا چاہ رہے ہوتے ہیں
صرف اور صرف وہی ہار جاتے ہیں
ایک دن مجھے ایک خط آیا
اُس میں لکھا تھا
جان سے پیارے!
کیا دنیا کی ہر چیز کے بدلے محبت دو گے
میں نے جواباً لکھا
بدلے میں کچھ لینے یا دینے کی بات نہیں
بس یہ دیکھ لو
کہ میں وقت سے ہارا ہوا انسان ہوں


فرحت عباس شاہ


**********************


میں نے تو کہا تھا


میں نے تو کہا تھا
کہ ابھی چاند راتیں ہیں
جتنی چاہو
آنکھوں میں چاندنی
اور روح میں ٹھنڈک بھر لو
جب تک موسم راس ہیں
اور منظر ساتھ دیتے ہیں
فصلیں بولو
اور فضاؤں میں تیرتے پھرو
اور میں نے تو یہ بھی کہا تھا
کہ تمہاری تمام تر بے وفائی کے باوجود
میں ٹوٹ ٹوٹ کے مکمل طور پر بکھر جانے کی گھڑی تک
تمہارے گرد حفاظتی حصار کی طرح ہوں
لیکن یہ سب کچھ تم نے سنا ہی کہاں تھا
جو تمہیں یہ پتہ چلتا
کہ ٹوٹ ٹوٹ کے بکھر جانے کی گھڑی کے اتنا جلد
آنے کا نقصان ہمارے دونوں کے لئے
ایک جیسا ہی تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


جب دیواریں پھیلتی ہیں


ان سے کہو
اب بھی وقت ہے
ابھی کچھ بھی ہاتھ سے نہیں نکلا
اپنے آپ کو کنکریٹ میں محصور مت کریں
کیونکہ یہ تو کائناتی سچائی ہے کہ
جب دیواریں پھیلنے لگتی ہیں
تو دل سکڑنا شروع ہو جاتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


تنہا کر دینے والا دکھ


میں ہمیشہ ہواؤں کو اپنی روح سے چھونے کی خواہش کی ہے
پرندوں اور گیتوں سے پیار کیا ہے
پھولوں کو چوم کر آنکھوں سے لگایا ہے
خوبصورت نظموں اور اداس کر دینے والے انسانوں کے سنگ
راتیں بتائی ہیں
اور شعروں کے ہجوم میں رہا ہوں
لیکن اس کے باوجود
میرے اور ان کے درمیان ہمیشہ کوئی نہ کوئی پردہ حائل رہا ہے
اور جہاں بھی یہ پردہ ذرا ہٹا ہے
میں نے شدت سے خود کو تنہا محسوس کیا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


اُسے مجھ سے محبت نہیں تھی


اُسے مجھ سے محبت نہیں تھی
پھر بھی میں نے تسلیم کیا
کہ میں اس کا آنے والا وقت ہوں
لیکن
اُسے یہ علم نہیں تھا
کہ آنے والا وقت ہمیشہ دور ہی دکھائی دیتا ہے
اور پھر اچانک ہی گزر جاتا ہے
یہ بتائے بغیر
کہ وہ گزر رہا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


فرار


میں نے تمہاری یادوں کو
شہر کے گلی کوچوں میں تقسیم کر دیا ہے
تاکہ آنے جانے والے لوگوں کی دھول
انہیں دھندلا کر دے
میں نے تمہاری محبت کو
بہت سارے لوگوں میں بانٹ دیا ہے
تا کہ ریزہ ریزہ ہو کر کمزور پڑ جائے
اور میں خود کو بہت ساری آنکھوں کے لیے
الگ الگ حصوں میں تقسیم کر دیا ہے
تاکہ جدائی کا دُکھ
مجھے تلاش کرتا رہے اور کبھی کامیاب نہ ہو سکے


فرحت عباس شاہ


**********************


سکوت


میں شہر کے ایک ایک در پر گیا
ایک ایک شخص کی منّت کی
اور اسے ہر طرح سے سمجھایا
یہاں تک کہ کتاب کا واسطہ دیا
اور کہا کہ خدا کے لئے بولو
کچھ نہ کچھ تو بولو
ورنہ خاموشی سب کچھ نگل لے گی
جس نے بھی میری بات سنی
تضحیک آمیز انداز میں ہنس دیا
مجھے دکھ تو بہت ہوا
لیکن ساتھ خوشی بھی ہوئی
کہ چلو کسی نہ کسی طرح سکوت تو ٹوٹا


فرحت عباس شاہ


**********************


ہمارے یہاں


ہمارے ہاں
دشمنوں سے انتقام
اور دوستوں سے قربانی لینے کی رسمیں اور طور طریقے
بڑے مختلف ہیں
یہاں اونچی اونچی دیواروں والے زندان
اور مضبوط جیلیں بنانے کی بجائے
کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کو ان کی شرمساری میں قید کر دیا جائے
بینائی اور سماعت چھین لینے ہر
زبان کاٹ دینے کو ترجیح دی جاتی ہے
خون اور سر کی قربانی لینے کی بجائے
ضمیر کی قربانی لی جاتی ہے
اور ہاتھوں کو تراشنے کی بجائے
انہیں مفلوج کر کے کلائیوں سے جڑا رہنے دیا جاتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


شبنم اور پتھر


اُس نے عہد کیا
اور میرے راستوں میں
اک عمر برہنہ پا چلتی رہی
پھر ایک عمر اُس نے
میرے قدموں کے نشانوں پر قدم رکھ رکھ کے سفر کیا
ایک دفعہ میں تند و تیز اور یخ بستہ ہوا میں گھر سے نکلا
تو ہوا اور میرے درمیان
آہنی فصیل کی طرح تن کر کھڑی ہوگئی
اور میں جب تک باہر رہا
اُس نے ہوا کے ہر ریلے کو اپنے کمزور سینے پر جھیلا
پھر اس دن کے بعد
وہ مجھے کبھی نظر نہ آئی
کافی دنوں بعد مجھے اس کی ایک سہیلی ملی
جس نے میرے اُس کے بارے میں استفسار پر بتایا
کہ وہ بہت بیمار ہے
کسی نامعلوم مرض کے باعث اس کی روح میں سوراخ ہو گئے ہیں
اور اب تو یہ عالم ہے کہ جیسے بس چند گھڑیوں کی مہمان ہو
میں نے کسی قدر تعجب سے اُس کی بات سُنی
افسوس سے سر ہلایا اور ’’ بیچاری‘‘ کہہ کر چل پڑا


فرحت عباس شاہ


**********************


ایک اور زندگی کی خواہش


اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا
کہ میری سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟
تو میں اسے بتاؤں گا
کہ میرے سب سے بڑی خواہش یہ ہے
مجھے ایک اور زندگی ملے
ایک طویل زندگی
اور میں آخری دم تک
ایک ایک کے چرنوں میں بیٹھ کر
اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر اُس کی بنتی کروں
سو سو حیلوں بہانوں سے اُس اُس کو مناؤں
اور ایک ایک سانس اُس کی پوجا میں بِتاؤں
جس جس کا میں نے اپنی موجودہ زندگی میں دل توڑا
اور جس جس کی آنکھیں
کبھی لمحہ بھر کو بھی میری وجہ سے نمناک ہوئیں


فرحت عباس شاہ


**********************


ابھی ابھی


ابھی کچھ ہی دیر پہلے
میں نے اپنی انگلیوں سے تمہارے ہونٹوں کو چھوا ہے
تمہارے بال اپنے چہرے پہ بکھرائے
اور تمہاری خوشبو کو اپنے جسم پر محسوس کیا ہے
ابھی کچھ ہی دیر پہلے میں نے
تمہارے سانسوں کی تپش سے حرارت
اور ہونٹوں سے سکون جذب کیا ہے
میری پلکوں نے تمہاری پلکوں کی سرگوشیاں سنی ہیں
اور میں نے تمہاری انگلیوں میں انگلیاں ڈال کے
تمہارے ہاتھ کی پشت پر بوسہ ثبت کیا ہے
ہاں بالکل ابھی ابھی
اپنی پلکوں پہ ستارے جھلملانے
اور روح میں کچھ ٹوٹ کے چبھ جانے سے تھوڑی دیر پہلے


فرحت عباس شاہ


**********************


بولو اے مستقل مزاج


تم جھوٹ بھی بولو
تو میں سب جانتے بوجھتے اُسے سچ سمجھوں
تم کوئی بھی وعدہ ایفا نہ کرو
تو میں کہوں کوئی مجبوری ہوگی
تم جو بھی غلطی کرو
میں اسے بھول چوک اور نادانستگی قرار دے دوں
میں جو صدیوں سے
خود اپنے خلاف تمہاری طرف سے دلیلیں اور تاویلیں
پیش کرتا چلا آ رہا ہوں
آخر کب تک
بولو اےمستقل مزاج
آخر کب تک


فرحت عباس شاہ


**********************


محبت کی کہانی


میری محبت کی کہانی
انگلیوں سے ٹپکتے ہوئے لہو کی کہانی ہے
جو آنکھوں کے سامنے
قطرہ قطرہ کر کے ٹپکتا ہے
اور دل کے سامنے
سرد مٹی میں جذب ہو جاتا ہے
اور پھر
اپنے نشانات کے سیاہ پڑنے تک
زمین کا زخم بن کر نمایاں رہتا ہے
میری محبت کی کہانی
صحراؤں کی پیاس کی کہانی ہے
جو صدیوں سے صرف پیا س ہی پیاس ہے
اور صدیوں ہی سے ہر سراب کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہی ہے
میری محبت کی کہانی
رتوں کی بیوگی کی کہانی ہے
جس کے ہاتھ میں بیتے ہوئے لمحوں کی خشک ٹہنیوں اور جلی ہوئی پتیوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میری محبت کی کہانی
شہروں کی گھٹن اور جنگلوں کے سکوت کی کہانی ہے
جب ایک ایک سانس پہ بھاری زنجیریں پڑ جاتی ہیں
اور بدن کسی اندرونی بدن پر بوجھ لگنے لگتا ہے
میری محبت کی کہانی
خشک دریاؤں کی کہانی ہے
جن کے برہنہ سینے
پگڈنڈیوں اور راہگزاروں
کی ایڑیوں تلے کچلے جاتے ہیں
میری محبت کی کہانی
جلا وطن دیوانے کی کہانی ہے
دیوانہ جو خود اپنے وطن میں بھی کسی جلا وطن کی مانند ہوتا ہے
میری محبت کی کہانی
ایسی راتوں کی کہانی ہے
جب چاند تو نکلتا ہے لیکن
چاند اور نگاہوں کے درمیان نادیدہ تاریکیاں حائل رہتی ہیں
میں کیا سناؤں
میری محبت کی کہانی ایک ایسی کہانی ہے
جس کا مرکزی کردار
خود اپنی ذات کے ادھورے پن کی کربناک صلیب پر لٹکا
کسی گمشدہ کردار کو صدائیں دے رہا ہے
اور صدیوں کے انتظار میں دفن ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


کل اور آج


گو میرا حافظہ اتنا اچھا نہیں
لیکن بچپن اور لڑکپن کی بہت ساری باتیں
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہیں
گھر کی ویرانی اور اپنے اکیلے پن سے گھبرا کر
دروازے میں آ کر بیٹھنا
اور گلی میں آتے جاتے لوگوں کے چہرے تکتے رہنا
بہت سکھ دیتا تھا
آج بھی جب بہت اکیلا ہو جاتا ہوں
تو گھر کے دروازے میں آ بیٹھتا ہوں
آتے جاتے لوگوں کے چہرے بھی تکتا ہوں
لیکن بے چینی اور بڑھ جاتی ہے
یہ تو یاد نہیں
کہ مجھے اُس سے محبت کب ہوئی
البتہ یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں
کہ مجھے محبت کا شعور آنے سے پہلے
محبت ہو چکی تھی
آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے
اپنے اپنے بڑوں کی نظروں سے چھپ کر
سردیوں کی لمبی لمبی راتیں
صحن میں بیٹھے بیٹھے
اور باتیں کرتے گزار دینا
ایک دوسرے کو اپنی اپنی سہیلیوں اور دوستوں کی باتیں
شرارتوں کے قصے سنانا
بہانے بہانے سے ایک دوسرے کے ہاتھوں سے کھیلنا
لڑائی جھگڑا کرنا
اور کسی کے بھی ہار جانے پر
کھلکھلا کر ہنس دینا گویا معمول تھا
یہ معمول ابھی بھی برقرار ہے
لیکن کچھ تبدیلیوں کے ساتھ
اب تو نہ کسی سے چھپنا پڑتا ہے اور نہ ڈرنا
جب بھی سرما کی لمبی راتیں آتی ہیں
صحن میں بیٹھا گھنٹوں
اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہوں
بے اختیاری میں اپنے ہی ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتا کہیں
گم ہو جاتا ہوں
اور پھر چونک اٹھتا ہوں جب آنکھوں میں گرم گرم نمی پھیلتی ہے
اور رخسار بھیگ جاتے ہیں
ایسے میں دانستہ اور زبردستی ہنسنے کی کوشش
کتنی ناکام اور کتنی کھوکھلی ہوتی ہے
میرے علاوہ کسی اور کی سمجھ میں آنا مشکل ہے
ایک ہی شہر میں رہتے تھے
تو ہزار ناراضگی کے باوجود
اکثر سرِ راہ ملاقات ہو جاتی
اور اپنی اپنی اناؤں کی پرواہ کئے بغیر
آپس میں بول پڑتے
لیکن اب تو ایک مدت ہوئی
پہلے اُس نے شہر بدلا
اور پھر میں نے
آج جب کبھی اداسی حد سے بڑھ جاتی ہے
تو دیوانہ وار گھر سے نکل پڑتا ہوں
مگر صبح سے شام تک مصروف اور پھرے پُرے راستوں کی
خاک چھان کے
جب واپس لوٹتا ہوں
تو خالی پن مزید بڑھ جاتا ہے
اور اداسی کچھ اور سوا ہو جاتی ہے
پہلے جس چیز کے لئے بھی دل چاہتا تھا
چاہے جتنی بھی قیمتی یا انمول ہوتی
حاصل کر لیا کرتا تھا
کبھی ضد کر کے اور کبھی کھانا نہ کھانے کی دھمکی دے کر
اور پھر فخر کیا کرتا
مزاج میں ہٹ دھرمی اور ضد تو اب بھی ویسی ہی ہے
لیکن ہٹ دھرمی سہنے اور ضد ماننے والا کوئی نہیں
دھمکی بھی دے سکتا ہوں
لیکن دھمکی میں آنے والا کوئی نہیں
اس کے باوجود
جو کچھ بھی چاہا ہے جیسے تیسے حاصل کیا ہے
اور دنیا کی بے شمار نعمتیں میسر ہیں
مگر
وہ لمحے جو بیت گئے
اور وہ وقت جو گزر گیا
کہاں سے لاؤں اور کس سے مانگوں


فرحت عباس شاہ


**********************


معذرت


سنو!
مجھے یاد نہ آیا کرو
جب میں اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھا بول رہا ہوتا ہوں
کسی امتحان کی تیاری میں مصروف نظر آؤں
یا کسی مصروف سڑک پر ڈرائیو کر رہا ہوں
موسم اچھا ہو اور میں اکیلا
یا خاص طور پر ایسے وقت
جب میں کسی کو خط لکھ رہا ہوں
یا کسی بہت ہی پیارے شخص کی یادوں میں گم دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاؤں
تم مجھے یاد نہ آیا کرو


فرحت عباس شاہ


**********************


جب ایک بلّی کے پاؤں جلنے لگے


جب زمین
ناقابل برداشت حد تک گرم ہو گئی
اور اسے ٹھنڈ ا رکھنا
کسی طور ممکن نہ رہا
تو بچی کھچی تمام توانائیاں
صرف اور صرف
بادشاہ کے پاؤں بچانے کے لئے
استعمال کی جانے لگیں


فرحت عباس شاہ


**********************


بدنصیبی


باوردی محافظ نے
بادشاہ کو آ کر بتایا
کہ شہر بھر میں زہریلا دھواں پھیل رہا ہے
وجہ معلوم نہیں ہو سکی
اور نہ ہی اس کا سد باب ممکن نظر آتا ہے
اگر یہی حالت رہی
تو لوگ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیں گے
بادشاہ یہ سن کر پریشان ہو گیا
چند لمحے بالکل خاموش رہنے کے بعد بولا
عوام کو میری طرف سے
حوصلے سے کام لینے
پُر عزم رہنے
اور اپنی مدد آپ کے تحت پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کا پیغام بھجوا دو اور
محل کی کھڑکیاں اور دروازے اچھی طرح بند کروا کے
گراموفون کی آواز اونچی کر دو


فرحت عباس شاہ


**********************


اندھے لوگ


یہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں
کہ ہمیشہ پہلے والے بادشاہ کا تخت توڑ کے
نیا تخت بناتے ہیں
اور اس پہ ایک نیا بادشاہ لا کر بٹھا دیتے ہیں
ظلم اور مکاری کے خلاف جہاد کرنے والے یہ لوگ
ہر نئے بادشاہ کے معاملے میں دھوکہ کھا جاتے ہیں
اور اس کی اصلیت پہچان نہیں پاتے
اب کے پھر جس بادشاہ کو لائے ہیں
اُس پہ خوش ہیں
کہ چلو ملک سے فریب اور استحصال کا خاتمہ تو ہوا
اور میں حیران ہوں
کہ اتنی بار دھوکہ کھانے کے باوجود
یہ لوگ ابھی تک اس قدر اندھے کیوں ہیں
اور اس نئے بادشاہ کے بھی دماغ میں پھڑپھڑاتا ہوا مچھر
انہیں نظر کیوں نہیں آ رہا
جو اس کے نتھنوں کے راستے اس کی کھوپڑی میں گھس گیا ہے اور رک رک کر پھڑپھڑاتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ننگے


پیاسوں کے گرد سراب
معذوروں کے آگے دیواریں
اور نابیناؤں کے راستوں میں
کیل بونے والے
شاید اپنے اپنے گریبان کہیں گم کر بیٹھے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


رسائی


رات اور سمندر میں
ذات اور سمندر میں
بات اور سمندر میں
فرق کتنا تھوڑا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


مسیحائی


مسیحائی کے فروغ اور ترقی کے لئے
آئے دن منعقد کی جانے والی کانفرنسوں کے پس منظر میں
کراہتے اور بلکتے ہم
ایسے گھائل ہیں
مسیحاؤں کے پاس جن کے ہر دکھ کا علاج
خواب آور گولیوں
اور پین کلرز کے سوا کچھ بھی نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


جب میرے کھلونے چوری ہو گئے تھے


شاید تم نے ایک بار
مجھے کچھ دیر کے لئے
اپنا چہرہ اور انگلیوں کی پوریں سونپ دی تھیں
اور پھر شاید ایک بار تم نے
مجھے بتایا تھا
کہ میں تمہاری روح چھُو سکتا ہوں
اور تمہارے لفظ
لکھ سکتا ہوں
ہاں شاید صرف ایک بار
اور پھر اس کے بعد
جب میرے تمام کھلونے
اور کہانیوں والی کتابیں چوری ہو گئی تھیں
تو تم نے مجھ سے ذرا بھی افسوس نہیں کیا تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


بازگشت


جب کبھی
کوئی یاد
اچانک آنکھیں چبھو جائے
تو میری ہتھیلیوں کے لمس کی بازگشت
ہونٹوں سے لگانا
اسے سانسوں سے گرم کرنا
اور پلکوں کو بند کر کے
آنکھوں سے چوم لینا


فرحت عباس شاہ


**********************


شاید اس طرح تم سمجھ جاؤ


تم نے کہا
بہت سارے ناموں میں لکھا ہوا نام
محبوب نہیں کہلا سکتا
اور بہت ساری تصویروں میں لگی ہوئی تصویر
پسندیدہ ترین
ثابت نہیں ہوتی
جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ
بہت سارے نام نہیں ہوں گے تو ایک نام سر فہرست کس طرح آئے گا
اور سب سے زیادہ اپنا کیسے لگے گا
اور اگر کافی ساری تصویریں نہیں ہوں گی
تو ان میں سے ایک کو
اٹھا کر آنکھوں سے لگا لینے کی لذت
کیسے نصیب ہو سکتی ہے
میں کچھ کہہ نہیں سکتا
کہ میں اپنی بات سمجھانے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں
تم یوں کرو
کہ کسی دن کسی قدِ آدم آئینے کے سامنے
دیر تک خاموش بیٹھے خود کو جھانکتے رہو اور آنکھوں کو مل مل کے بار بار جھانکو
یا کسی گنبد میں
دیر تک اپنا نام لے کر زور زور سے آوازیں دو
اور پھر کبھی بہت سارے لوگوں کے درمیان خود کو دیکھو
اور بہت ساری آوازوں میں
اپنی آواز سنو
شاید اس طرح تم
زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکو
جو میں تمھیں سمجھانا چاہتا ہوں


فرحت عباس شاہ


**********************


کوشش


کبھی اپنی خاموشی کو سنو
کیونکہ کوئی بھی پس منظر آوازوں سے خالی نہیں ہوتا
گو ایسا کرنا بہت مشکل ہے
لیکن پھر بھی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے
ہو سکتا ہے
تم کبھی
اپنی مکمل اور ثابت خاموشی کو
صحیح طور پر سننے میں کامیاب ہو ہی جاؤ
اپنی موت سے پہلے


فرحت عباس شاہ


**********************


اتنے دنوں بعد لوٹے ہو


اتنے دنوں بعد لوٹے ہو
خوش آمدید تمہیں
اور مجھے بھی تمہارا آنا لاکھ مبارک
لیکن
مجھے بہت دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے
کہ بہت پہلے کی طرح
اب میں تمہارے لئے اپنے دل کا دروازہ کھول نہیں سکتا
کیونکہ بہت دیر کے بند دروازے
اگر کھولے جائیں تو مکڑی اور لوہے
کے چرچرانے کی آوازیں
بہت شور پیدا کرتی ہیں
شاید تم نہیں جانتے کہ کوئی ایسا بھی ہے
جو میرے بازو پہ سر رکھ کے
ابھی ابھی سویا ہے
اور اُسے تو یہ تک نہیں پتہ
کہ اُس کے بہت قریب یہیں کوئی دروازہ
بہت مدت سے بند ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


آوارہ مزاج لوگوں کے لئے ایک نظم


نِت نئے راستوں پر قدم آزمانے والو
اور ہر نیا قدم اختیار کرنے والو
راستوں سے خوف کھایا کرو
کہ یہ ملانے والے کم
اور دُور لے جانے والے زیادہ ہوتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


درخت اور زمین


اُس نے کہا
کہ میں درخت ہوں
اور تم زمین
میری جڑیں تمہارے اندر پھیلی ہوئی ہیں
مجھے جدائی کے اگلے موڑ سے ڈرانے والے
کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟
کہ درخت کی زندگی
اور سر بلندی کا انحصار اس کی جڑوں پہ کتنا ہوتا ہے؟
اور کیا تمہیں پتہ نہیں ہے؟
کہ درخت زمین بدلا نہیں کرتے
میں نے اُس پہاڑ جیسی استقامت والے کی طرف دیکھا
اور پھر اپنے آپ کی طرف
میں نے محسوس کیا
کہ واقعی اس کی جڑیں میرے اندر بہت دور تک اتری ہوئی ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


زمین کے آخری کنارے کا المیہ گیت


میں نے بے پناہ محبت کی
پھر نفرت بھی اتنی ہی کی
نیکی کی اور دریا کے دریا بھر دئیے
اور پھر خالی بھی کئے
ایک عمر بتائی کہ خود اپنے سائے پر بھی کبھی پاؤں نہ پڑنے دیا
اور پھر ایک عمر پھولوں اور تصویروں کو روندتے ہوئے بِتا دی
جانے انجانے راستوں پر چلا
بہت زیادہ چلا
اور پھر ہار گیا، ہارتا چلا گیا
یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا
نہ میں نہ کچھ اور
دنیا میں جتنے بھی محبت کرنے والے آئے
اور انتہا کو پہنچے
یا وہ جنہوں نے نفرتوں کی کوئی بھی منزل باقی نہ رہنے دی
سب کیا ہوئے؟ کہاں گئے وہ سب کے سب؟
کتنی اداس شام ہے
بادلوں میں گھری اور خاموشی میں ڈوبی
ہوا بھی بند ہو چکی ہے ۔آؤ
کچھ دُور تک تو میرے ساتھ چلو
پھر بھلے واپس لوٹ آنا
اور میں آگے چلا جاؤں گا
جہاں تک جا سکا
دراصل مجھے زمین کے آخری کنارے پر ایک المیہ گیت لکھنا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


فرض کرو تمہیں مرے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے


فرحت شاہ
کسی دن فرض کرو
کہ تمہیں مرے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے
ایک پل، ایک دن یا ایک مہینہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے لیکن احتیاطاً
ایک سال ہی سہی
فرض کر لو تو کسی عام آدمی کا بھیس بدل کر
اپنے گھر یا اپنے شہر جاؤ
اور لوگوں میں بیٹھ کر اپنا ذکر کرو
اور دیکھو
کہ تم جو ایک مشہور آدمی تھے اور کافی لوگوں میں مقبول بھی
تمہاری موت کے بعد
لوگ جو تمہیں بمشکل یاد رکھے ہوئے ہیں
تمہارے بارے میں گفتگو کرنے میں ذرا بھی دلچسپی محسوس نہیں کرتے
جو جو شخص
تم سے پیار کرتا تھا اتنا
کہ پل بھر کی جدائی بھی اسے عذاب لگتی تھی
اور اس وقت تک کھڑا رہتا تھا
جب تک تم اپنی نشست پر بیٹھ نہیں جاتے تھے
اور کبھی تمہاری آواز سے
اپنی آواز بلند نہیں ہونے دیتا تھا
اب اس کے پاس اتنا وقت نہیں
کہ کہیں بیٹھ کے چند گھڑیاں تمہارے ساتھ بیتے ہوئے لمحات یاد کر سکے
پھر وہاں سے آگے چلو
اور کسی ایسے آدمی کو تلاش کرو
جو تمہاری شاعری پہ دل و جان سے فدا ہو
اور تمہارا اتنا معتقد ہو
کہ ہمہ وقت ہاتھوں میں تمہاری کتابیں اٹھائے
اور ہونٹوں پر تمہارے شعر سجائے پھرتا ہو
لوگوں کو
دن رات تمہاری نظمیں سناتا تھکتا نہ ہو
تم اس سے ملو
اور اس سے گزارش کرو
کہ وہ تمہیں تمہاری نظمیں سنائے
اور تمہارے بارے میں اپنے خیالات اور اپنی معلومات کا اظہار کرے
وہ تمہاری بات سنتے ہی تمہیں اپنے پاس بڑے احترام سے بٹھا لے گا
اور بڑی خوشی اور گہری دلچسپی سے تمہیں تمہاری ساری شاعری سنا ڈالے گا
اور کہے گا
’’فرحت شاہ ایک عظیم شاعر تھا
اس کی شاعری پڑھ کے یوں لگتا ہے
جیسے اس نے لوگوں کے دلوں اور روحوں کے اندر اتر کے شاعری کی ہو
مجھے تو اس کی شاعری سے عشق ہے
یوں لگتا ہے جیسے اس نے سارا کچھ خود میرے متعلق ہی لکھ ڈالا ہے
میرے دل کا عالم اور حالات زندگی
بالکل ایسے ہی ہیں جیسے اس نے لکھا ہے
اس کی ایک ایک سطر پڑھتے ہوئے
مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ بات تو میں خود کہنا چاہتا ہوں‘‘
وہ شخص تمہیں بتاتا جائے گا ایسی ہزاروں باتیں
جن میں تمہارا کم اور اس کا اپنا حوالہ زیادہ ہو گا
ہاں صرف ایک سال بعد
تم جس کسی سے بھی ملو گے
جس سے بھی اپنے بارے پوچھو گے
صورت حال مختلف نہیں ہو گی
گویا تمام باتیں کسی زندہ آدمی کے لیے جاننا تقریباً ناممکن ہے
لیکن پھر بھی
کسی دن تم فرض تو کرو
کہ تمہیں مرے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے
اے میرے گمنام اور اجنبی فرحت شاہ


فرحت عباس شاہ


**********************
اختتام
**********************
آ لگا جنگل در و دیوار سے
**********************
فرحت عباس شاہ
**********************