صفحات

تلاش کریں

شاعری : اکیسویں صدی کی پہلی نظم(کیا میں تقدیر کی ہٹ لسٹ پہ ہوں) از فرحت عباس شاہ




**********************


1


رات کی کوکھ میں آوارہ پھرو
خواب گنو
عشق کی چوٹ سے درماندہ تو تھے ہی دل و جاں
ساکھ کی راکھ کے ہاتھوں میں
اداسی کے سوا کچھ بھی نہ تھا
بے سبب آئینہ بردار خیالات سلگ اٹھتے ہیں
شہر میں دور تلک پھیل چکی ہے خوشبو
رات اور رات کے مابین جو اک کشمکشِ ذات کی بے چینی تھی
احتراماً ترے بازار میں لےآیا ہوں
بیچتے رہتے ہو تم تو ہر شے
اپنی خوشیاں تو الم اوروں کے
بانٹتے رہتے ہو غم اوروں کے
ہم نے اک رات کی خواہش میں کئی دن کھوئے
شامِ غم بیت چلی تھی لیکن
ہم نے جانے نہ دیا روک لیا بڑھ کے اسے
ہم تری یاد میں خوش بیٹھے تھے
تھام کر بہتے ہوئے اشکوں کو
آگیا یونہی اچانک کوئی
اپنے دامن میں لیے زرد اداسی کی تھکن
راہ تکتی ہوئی ویرانی بھی رہتی ہے یہیں
میرے اس گھر کے سدھائے ہوئے دروازے میں
یہ جو دروازے ہیں سب جان لیا کرتے ہیں
کون آئے گا یہاں کون نہیں آئے گا
تیرگی کے لیے مشروط نہیں ہے سورج
تیرگی نور میں ہو سکتی ہے
تیرگی آگ میں ہو سکتی ہے
تیرگی بھاگ میں ہو سکتی ہے
رات کے پچھلے پہر آتی ہےسورج کی طرح
تیرے بچھڑے ہوئے لمحوں کی صدا
کوئی روئی ہوئی تنہائی ہے کمرے میں مرے
میرے خوابوںکی نگاہوں میں چبھوتی ہوئی غم
جس طرح ریت سے آلودہ ہوا
اڑ کے آنکھوں میں پڑے اور شکستہ کر جائے


فرحت عباس شاہ


**********************


2


رات اور ریت کی عادت پہیلی تو نہیں
آنکھ میں پڑنے کے انداز جدا ہیں ان کے
رات آنکھوں سے اترتی ہوئی دل تک پہنچے
ریت چپ چاپ بدن چاٹتی ہے
اپنے بیمار سراپا کی قسم
ریت بن بن کے ترا غم مجھے آلگتا ہےدریاؤں کی لہروں کی طرح
رات بن بن کے مری روح میں آ پڑتا ہے
اتنی خاموشی سے بربادی نے گھیرا ہے مجھے
جیسے پانی در و دیوار کو کھا جاتا ہے
جیسے ویرانی دلِ زرد کو ڈس جاتی ہے
جیسے تنہائی کسی شور میں مر جاتی ہے
یوں اچانک ترے لہجے سے مجھے خوف آیا
جیسے خاموشی ہی خاموشی سے ڈر جاتی ہے
جیسے لڑکی کوئی محبوب سے نالاں ہو کر
کس قدر اجڑی ہوئی لوٹ کے گھر جاتی ہے
بادشاہوں کی طرح دل نے اسے پالا تھا
جو گداگر کی طرح بوجھ بنا پھرتا ہے
ہم اسے کچھ بھی نہ کہہ پاتے تو
لوٹ جاتے تھے سدا بے بس و مجبور بہت
بے سبب روتے چلے جانے کا کوئی تو سبب ہو گا ہی
اشک پانی تو نہیں ہے کہ نظر آئے بھٹکتا پھرتا


فرحت عباس شاہ


**********************


3


صبحِ ویراں کی قسم
اتنا اجڑا ہوا دن کس نے سنا ہو گا بھلا
جس قدر روز مجھے دیکھنا پڑتا ہے یہاں
کیا ہم ایسے ہی دنوں کے لیے آئے ہیں یہاں
بے بسی کی بھی کوئی حد ہو گی
بے یقینی اگر آڑے آئے
کتنا کچھ سود و زیاں یاد رہے
ایک خاموش مسیحا ہے جو کچھ کر ہی نہیں پاتا ہماری خاطر
ایک بے چین نتیجہ ہے جسے کیا مانیں
آرزو خواب نہیں
آرزو خواب نہیں ہے کہ تجسس کے بغیر
ہجر کی آنکھ کو دھندلائے بنا لوٹ چلے
آرزو رات ہوا کرتی ہے
جو ہر اک لمحہ تڑپتی ہے سویرے کے لیے
آرزو لمبی مسافت کی طرح
آرزو بھٹکے ہوئے ایک مسافر کی طرح
راستے بیت بھی جائیں تو محبت کی مسافت کی خلش رہتی ہے
خواب کے شہر اجڑ جائیں تو اندازہ ہو
ہم تو تیرے لیے منزل سے پلٹ آئے ہیں
منزلیں تیرے مقابل تو یہی کچھ ہیں مری
ایسا کرتے ہیں کبھی شہر سے ویرانی خرید آتے ہیں
اپنی رونق کی کرنسی دے کر
ایسا کرتے ہیں کہیں سے کوئی
بے وجہ پھیلی ہوئی زرد اداسی ہی چرا لاتے ہیں
ایسا کرتے ہیں اٹھا لاتے ہیں یادیں دو چار
ایسا کرتے ہیں کسی درد سے مل آتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


4


ہم ترے سوگ میں چپ بیٹھے تھے
آنکھ کے پار کسی روئی ہوئی یاد کی خاموش زدہ تصویریں
پھڑ پھڑاتی ہیں بہت بے آواز
شہر سے کٹ کے بھی تنہائی نہیں جاتی تو روپڑتے ہیں
کتنے آزردہ ہیں افسانے مرے
گمشدہ بچوں کی مانند بہت سہمے ہوئے
دل بھی کھویا ہوا اک بچہ ہے
اجنبی لوگوں کے چہروں کی طرف تکتا ہوا
ایک گھبرائی ہوئی حیرت سے
خوف کی ماری ہوئی غیرت سے
صبر کے ساتھ اگر زندہ رہا جا سکتا
کربلا میں نہ کوئی مر جاتا
صبر کے ساتھ اگر زندہ رہا جا سکتا
زہر پینے کی ضرورت ہی نہ رہتی باقی
معجزے ہوتے نہیں
حادثے روز ہی ہو جاتے ہیں
المیے ساتھ لگے رہتے ہیں
بدنصیبی کا کوئی ذکر نہیں
تم ہمیں ملتے تو خوش ہو جاتے
تیرے ایذاؤں کے رسیاؤں کو تسکیں ملتی
موت ہی موت کا پس منظر ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


5


رات کس درد کی آئی تھی خبر
اس قدر شور تھا اجڑی ہوئی بستی میں کہ کچھ یاد نہیں
ناگہانی کوئی باقی ہی نہیں ہے کہ کبھی چونکنا پڑ جائے ہمیں
سانحہ کوئی بھی ہوروز کے معمول میں آجاتا ہے
کل شب وصل کوئی مار گئی
رات معصوم خیالات کہیں قتل ہوئے
آج اک اجڑے ہوئے دل کو کوئی لوٹ گیا
اس کی بستی میں کوئی مرگ ہوئی
میرے ویرانے سے بے چینی اٹھائی نہ گئی
اس کی بستی سے کسی شک کو نکالا نہ گیا
میرے گھر میں نہ کبھی لائی گئی کوئی خوشی
ناگہانی کوئی باقی ہی نہیں
سانحے روز کے معمول میں آجاتے ہیں
رات کس درد کی آئی تھی خبر
یاد نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


6


ہر گھڑی دھڑکا لگا رہتا ہے
دل کی بستی سے کوئی اور جنازہ نہ اُٹھے
شہر کو دکھ کے تسلط میں بہت دیر ہوئی
آسماں اترے، نہ کچھ اور کمک آئی کسی دنیا سے
آسماں ساری جگہ ہے لیکن
خاک کی اپنی ہی رنگینی ہے
خوف سے زرد پڑے، خون سے رنگیں ہو جائے
سبز ہو جائے یا پیلی پڑ جائے
آسماں رحم کرے یا نہ کرے
یا کہ پھر اور بھی سنگیں ہو جائے


فرحت عباس شاہ


**********************


7


روح سے رات کہیں جاتی نہیں
رات میں راکھ بہت اڑتی ہے
اپنے محسوس کے غمناک گھروندوں میں پڑے روتے رہے
شہر کو کس نے کیا ہے برباد
بستیاں کس نے اجاڑیں توبہ
خون سے کھیل گیا کون مری نگری میں
آگ برساتے ہیں کیوں پھولوں پر
ہم محبت کے گنہگار
زمانوں سے نکلنے کے لیے راضی تھے
ہم زمانے سے نکلنے کے لیے راضی ہیں
کون رونق کی تسلی کی قسم دے ہم کو
کوئی دیتا ہی نہیں دل کی صفائی اپنی
روح خاموش بہت
رات بیابان بہت
راکھ پر شور بہت
روح میں درد کی بے چینی کی خاموشی ہے
جیسے طوفان سے پہلے کوئی موسم تھم جائے
زخم کم ہوں تو بہت چیختے ہیں
اور زیادہ ہوں تو خاموشی سی لگ جاتی ہے
ہم کسی عمر کے بیمار سے زیادہ چپ ہیں
روح سے رات کہیں جاتی نہیں
رات میں راکھ بہت اڑتی ہے
آ بسی کس لیے ویرانی مری بستی میں


فرحت عباس شاہ


**********************


8


بے سبب آرزوئے خاک کی ویرانی سہو
کچھ نہ کہو
اور ہمیشہ اسی بے شکل سی دیوار سے لگ کر
یونہی چپ چاپ رہو
کس طرح کا ہے یہ جیون اپنا؟
آرزوئے خاک بھی کیا صورتِ ناکافی ہے
جیسے بربادی کے انجام کااحساس یا
انجام کی بربادی سے آگاہی کوئی
ہاتھ میں شیشہ لیے پھرتی ہے آئینہ سا
ہم بہت کرب میں رہتے ہیں یہاں
نہ کوئی وعدہ، نہ پیغام کی عزت
نہ تقدس،نہ محبت، نہ وفا
زندگی روز کی مزدوری کی اجرت کی طرح
بے قراری پہ کوئی برف گری
درد اور فکر کی منڈیر سے اک حرف گرا
الف کا حرف گرا جیسے کوئی ظرف گرا
ہم جسے روح کی پلکوں سے سنبھالے ہوئی پھرتے ہیں یہاں
لوگ انبوہ گرا بیٹھے ہیں
پھر بھی اک صدمہ ہمیں خوار کیے پھرتا ہے
یہ جو ہم چلتے ہوئے بیٹھ گئے
یہ جو ہم بیٹھے ہوئے لیٹ گئے
یہ جو ہم لیٹے ہوئے موت کی دہلیزکے سائے کی طرف تکتے ہیں
بے سبب آرزوئے خاک کی ویرانی ہے
کوئی ٹھٹھرائی ہوئی زرد وریدوں کی بیابانی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


9


خواب تو خواب میں تحلیل ہوا
ہجر کی عمر بہت ہوتی ہے
وصل کب خواب کی پابندی سے پابند ہوا
خواب تو پھیلے ہوئے رنگ ہیں کاغذ سے بنی تحتی پر
ہم انہیں ٹھوس میں کیا لے آئیں
ہجر اک لمبی گلی اور ہوائیں چپ چاپ
میں نہ کہتا تھا کہ اک روز بچھڑ جائیں گے
دیکھ لو آج بہت بچھڑے ہوئے ہیں ہم تم
تیرے بارے میں یہ لگتا ہے کہ جیسے دل سے
روز بیگار کوئی لیتا ہے
ناتواں قیدی ہے یہ اور مشقت ہے بہت
ایک گھبرائی ہوئی رت ہے مرے چاروں طرف
خواب ہر روز دکھاتے ہیں مجھے رنگوں بھری تاریکی
اور ڈراتے ہیں مجھے
اور رلاتے ہیں مجھے
ہم ترے عشق میں نکلے ہیں ہواؤں کی طرح
ہجر سے ٹھوکریں کھاتے ہوئے، ٹکراتے ہوئے
اجنبی شہر میں آنکلا کوئی نابینا
ہم کسے جھوٹ کی آنکھوں کا دلاسہ ماریں
ہم کسے نیند کی بے انت مسیحائی کے بارے سمجھائیں
رنگ کے رنگ میں تحلیل ہوئے جانے سے
آنکھ کے آنکھ میں
اور نیند کے نیند میں تحلیل ہوئے جانے سے
خواب تو خواب میں تحلیل ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


10


دل گرفتہ کسی ماحول میں تم یاد آئے
یہ بھی ہو سکتا ہے یاد آنے سے پھیلا ہو ملال
پھر بھی ہم مہر بہ لب۔۔۔۔
صورتِ حال پہ رونے کا ہمیں وقت کہاں
اتنی دقت ہے کہ کچھ بولیں تو الفاظ میں گرہیں پڑ جائیں
اتنے بے ذات ہوئے ہیں کہ کوئی کیڑا ہمیں
ایک لمحے میں بھی کھا سکتا ہے
زرد پتوں کی قسم
یاد سرسبز نہیں ہوتی کہ چاہے تو شجر ہی بن جائے
سبز پیڑوں کو جلانے کے لیے ہوتی ہے
بے سروپا کسی خواہش کے مداوے میں تمہیں یاد کیا
اور ہوئے اور بھی زیادہ مایوس
گھاس میں گھر بھی بنا رکھے ہیں فطرت کے کئی تحفوں نے
جس نے مخلوق کو مخلوق میں دی جائے پناہ
ہم اسی کے لیے رہتے ہیں اداس
ہم شجر زاد نہیں تھے کہ تری راہ میں اگ آتےبڑی سرعت سے
ہم تو ویرانے تھے
اور ہی طرح سے دی آپ خدا نے ہمیں طاقت کہ سدا
دل گرفتہ ہی رہیں اور نہ کچھ منہ سے کہیں
اک طرف ہم ہیں زمیں پر مغرور
اک طرف گھاس کی مخلوق بڑی بے مایہ
پاؤں پر ڈس لے تو انسان گیا
پھر بھی ہم مہر بہ لب
اور کچھ بھی نہ کریں چاہے مگر
ہم تجھے یاد بہت کرتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


11


روز بیماری دل شور مچاتی ہے کہ الزام دھرو
اپنے ہر جرم کا اوروں پہ تم الزام دھرو
چلچلاتے ہوئے مغرور یہ دن
ان کے کندھوں پہ کوئی شام دھرو
وقت سے پہلے کسی کام کا انجام دھرو
ہر وضاحت کی چکا چوند کے سر پر کوئی تاریک سا ابہام دھرو
یہ جو پاکیزہ بنی پھرتی ہیں راتیں خود سے
ان کے کردار پہ میلا سا کوئی نام دھرو
یہ جو بیماری دل ہے
یہ کہیں بیٹھنے دیتی نہیں صدیوں کے گنہگاروں کو
ہم مسلمان نہیں ہیں کہ پلٹ جائیں کسی توبہ کی معصوم پنہ گاہوں میں
ہم تو کافر بھی نہیں ہیں کہ کسی بت کو ہی کچھ مان لیں
سچائی سے
ہم تو کچھ ٹھیک سے منکر بھی نہیں ہیں
کہ کسی کام میں پورے اتریں
ہم تو ایسے بھی نہیں ہیں کہ کہیں جراتِ ناکام دھرو
جس جگہ حیف ہے ویرانی کی ویرانی کا
ہم تو یہ بھی نہیں کہتے کہ در و بام دھرو
وقت سے پہلے جنم
وقت سے پہلے فنا
وقت کے بعد قدم
وقت کے بعد تسلی کا کوئی حرفِ دعا


فرحت عباس شاہ


**********************


12


اس طرح کون بلاتا ہے سرِ بامِ فلک
کون لا رکھتا ہے مہتاب بھلا قدموں میں
جس طرح میں نے ترے دل کی پزیرائی کی
کون یوں سنگ نوازی پہ ہوا ہے مائل
ایک تاریخ بھری ہے اسی محرومی و محرومی سے
موت اور حسرتِ محصور میں کچھ فرق نہیں
شورش ہجر سمٹ جائے اگر قریہ آسائش میں
موت ہی موت ہے پیمانوں کی
اور گھر جائے اگر یاس کسی وقت کے ٹھہراؤ میں
موت ہی موت ہے دیوانوں کی
راکھ کےڈھیر پہ بیٹھے ہوئے جلتے ہوئے ہم
خواب میں خواب کی دہلیز پہ چلتے ہوئے ہم
خود ہی خود پر کفِ افسوس بھی ملتے ہوئے ہم
آفتابوں کی طرح شام کو ڈھلتے ہوئے ہم
برف کی طرح کسی دھوپ کے آنگن میں پگھلتے ہوئے ہم
وقت کے جبر تلے پہلو بدلتے ہوئے ہم
اور سے اور نکھر آتے ہیں ہم صدموں میں
کون لا رکھتا ہے مہتاب بھلا قدموں میں
کون رستوں پہ ترستا ہوا پھرتا ہے کہ مل جائے کبھی ایک جھلک
یوں کہ ہر زخم کی بڑھ جائےذرا اور چمک
اس طرح کون بلاتا ہے سرِ بامِ فلک


فرحت عباس شاہ


**********************


13


عشق کے ساتھ جدائی بھی لگی رہتی ہے
چاند کے ساتھ سمندر بھی سفر کرتا ہے
ہم تجھے چاہنے نکلے تو محبت کے سمندر بھی بہت دور تلک ساتھ چلے
کائناتوں کا تعلق ہے بہت آپس میں
خواہشیں خاک پہ کرتی ہیں اثر
اور دعائیں بھی بہت دستکیں دیتی ہیں
ہواؤں کی طرح
ہم ہواؤں میں تجھے چھوتے ہیں
ہم فضاؤں میں تجھے چومتے ہیں
ہم خلاؤں میں تجھے دیکھتے ہیں
ہم تو خود اپنے بھی اندر تجھے کرتے ہیں بہت ہی محسوس
جب سے ہم دکھ کی ریاضت کے خطا وار ہوئے
یہ ریاضت بھی تو دیتی ہے جواب
ایک خلقت کہ ہمیں ڈھونڈتی ہے
ایک اداسی کہ ہمیں پوجتی ہے
اور کوئی سکھ ہمیں چھوتے ہوئے ڈر جاتا ہے
رات کے ساتھ بیابان بھی چل پڑتے ہیں
دشت میں ہجر کے آسیب نکل پڑتے ہیں
وصل سے وصل کی مانند یہاں
ہجر سے ہجر جڑا رہتا ہے
منسلک ہے یہاں ہر شے سے ہر اک دوسری شے
ہم تجھے چاہنے نکلے تو محبت کے سمندر بھی
بہت دور تلک ساتھ چلے


فرحت عباس شاہ


**********************


14


رات ہم دیر تلک ساتھ رہے
وصل کی بانہوں میں بانہیں ڈالے
آبشاروں کے حسیں شانوں سے
ابر بن بن کے ڈھلکتی ہوئی پھواروں میں بھگوتے ہوئے مخمور بدن
درد کو زیب نہیں دیتا کہ ایسے میں ہمیں یاد آتا
ورنہ یہ کون سا مشکل ہے کہ ہنستے ہوئے لوگوں کو رلایا جائے
یاد کی گلیوں میں ہم چلتے ہوئے رکتے تھے
کوئی بے ساختہ حیرت
کوئی خاموش مکاں
کوئی خوشبو، کوئی یکلخت، چھچھلتی ہوئی آواز
کسی ساز کی لے
کسی بیماری کے عالم میں عیادت کی مسیحائی کی رونق میں گھرے
رات ہم دیر تلک ساتھ رہے
ایک دوجے سے چھپاتے ہوئے گمنام رفاقت کا بھرم
ایک دوجے کو بتاتے ہوئے منہ زور جدائی کا ستم
پھول اور بھول کے مابین یہ سب دھول کہاں سے آئی
کسی دھوکے کا کرم
صاف صحراؤں میں پازیب کہاں سے آئی
ہم نے دیکھا نہ کبھی غور کیا
خود فریبی کے سوا کون بدل سکتا ہے
حالات کسی اجڑے ہوئے صحرا کے
رات ہم دیر تلک ساتھ رہے
حافظے اور تمنا میں جہاں فرق نہیں
ایک ایسا بھی جہاں ہے آباد
رات ہم دیر تلک ساتھ رہے
وصل کی بانہوں میں بانہیں ڈالے
ہجر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے


فرحت عباس شاہ


**********************


15


جراتِ غم نے کیا ہے پر جوش
ورنہ ہم بزدلی و خوف سے جاگے کب تھے
ہم تو بے حد و کراں خوف میں یوں سوئے تھے جیسے کبھی جاگیں گے نہیں
رات آئے گی تو پھر نیند نہیں آئے گی
نیند آئے گی تو پھر خوف سے اٹھ بیٹھیں گے
جس طرح جنگ میں ہارے ہوئے اور ٹو ٹے ہوئے شاہسوار
روز مرہ کی شکستوں نے اپاہج ہی کیا ہے سب کو
جیتتے رہتے تو لڑتے رہتے
ہارنے والے مسلسل تو کبھی جنگ کے قابل ہی نہیں رہ جاتے
ہم نے کچھ روز بہت خندقیں کھودیں تھیں محاذوں پہ مگر
مٹیوں سے بھی کوئی زخم نکل آتے ہیں
ٹھیک کہتے ہیں کہ مفتوح زمینوں سے تو فصلوں کی جگہ
ہڈیاں اگ آتی ہیں
غم نہ ہوتا تو کسی اپنی ہی چنوائی ہوئی جیل میں سڑتے رہتے
غم نہ ہوتا تو مزاروں سے نکلتے کیسے
ہم جو خود اپنے ہی زندانوں میں محصور ہوئے
ذات زندان ہے
بکھرے ہوئے انسانوں کی
اپنے ہی آپ سے ڈرتے ہیں زمانے والے
ورنہ اوروں کو ڈراتے کیوں کر
جراتِ غم نے کیا ہے پر جوش
ورنہ ہم اٹھ کے، تڑپ کے کبھی بھاگے کب تھے


فرحت عباس شاہ


**********************


16


بے شمار ایسے مقامات ہیں ویرانوں میں
جن میں گزری ہوئی صدیوں کا سفر رہتا ہے
ہم جہاں پھرتے ہیں مارے مارے
ہم کبھی پھر ہی نہیں سکتے علاوہ اس کے
خاک کے بطن سے نکلے ہوئے خال و خد میں
ان گنت مسلے گئے پھولوں کی رعنائی تو ہے
ٹھیک شناسائی نہیں
ہم نے اندیکھی فضاؤں کو رکھا ہے گروی
جانے کس فکر کے پاس
عالم علم ادھورا ہی رہا کرتا ہے
راستے یاد نہ رہتے ہوں تو بستی میں بھٹکنے کی ضرورت ہی نہیں
مٹیاں شکلیں بناتی ہیں اگر
تب تلک کوئی بھی پہچانی نہیں جا سکتی
جب تلک آنکھ میں تصویر کی تصویر نہ ہو
دل سے ہو ہو کے گزرتا ہے کوئی عکس تو پرچھائیں
کا رہ جاتا ہے بے رنگ نشان
وصل کے خانے بناتے ہوئے آ جاتا ہے ملنے کا ہنر
وقت کے ساتھ مسائل بھی بدل جاتے ہیں
وقت کے ساتھ تو پتھر بھی پگھل جاتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


17


خوب بھڑکیلے لباسوں کے سہاروں میں رہو
حسن کے حسن کی پیمائش پیہم اگر آساں ہوتی
گو مگو کے کسی عالم میں نہ ہوتی آنکھیں
اے کوئی دیدہء حیرانی موضوع جہاں
رنگ کی اپنی چکا چوند کے منظر کا بھی پس منظر ہے
شورش وہم خدو خال میں بینائی بھٹک سکتی ہے
صاف تختی ہی سمجھ میں نہیں آتی تو عبارت کا
گلہ کیا کرنا
روشنی کی بھی مری جاں وہی عادت ہے
جو محبوب کی ہے
دیکھ ہی کوئی نہیں سکتا انہیں جی بھر کے
عجز ہی عجز ہے اپنا تو مقابل اس کے
ہم نے اب تیرہ شبوں کی بھی قسم کھائی ہے
اپنے آلام کی گم گشتہ بصارت ہی اگر لوٹ آئے
التباسو ں سے بھرے جیون میں یہی کافی ہے
لمس کے اپنے خدوخال سماعت کی طرح
خاک کے خواب میں بارش کو بھی چھو جائیں
تو مٹی ہی لگے
زیادہ تر ہم تو وہی سنتے ہیں پہلے سے سنا ہو جس کو
حسن کے حسن کی پیمائش پیہم اگر آساں ہوتی
گو مگو کے کسی عالم میں نہ ہوتی آنکھیں


فرحت عباس شاہ


**********************


18


صورت حال کی گمشدگی پہ چلانے سے کیا حاصل ہے
صورت حال کے مل جانے کا امکان اگر ہو بھی تو چپ بہتر ہے
صورت حال کسی بگڑے ہوئے بچے کی مانند بگڑتی ہی چلی جاتی ہے اک مدت سے
اپنے کھو جانے سے پہلے تری چاہت بھی بہت ضدی تھی
ہم نے ہر سال مسائل میں اضافہ ہی کیا ہے اب تو
ایک دن آئے گا جب سال بھی کھو جائے گا
اور اضافہ بھی کسی بھیڑ میں ہو جائے گا گم
وقت نے جتنے بھی اسرار کیے ہیں افشاء
ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں اخبار میں گم
صورت حال تو سر بستہ نہیں تھی کہ اسے کھولتے ہی رہ جاتے
روز ہر لمحہ بسر ہوتا ہے تفہیم کے ابہام کی عریانی میں
جن سے تہہ داری نہیں ہو پاتی
ان سے گہرائی کی امید کہاں
اس سے وسعت کی توقع ہی نہیں ہو سکتی
جن سے رمزیتِ ایمان کا پیمان مکمل نہیں ہوتا صدیوں
ان کے رشتوں کی طوالت کا یقیں کون کرے
ہو گئے سارے یقیں وقت کی دیوار میں گم
اور دل ہو گیا بازار میں گم
دل کے مل جانے کی امید نہیں
صورت حال کی گمشدگی پہ چلانے سے کیا حاصل ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


19


رات ہم تیرے لیے خواب میں بھی جاگے رہے
ہم سفر میں بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے کہ جہاں پر تم تھے
راستے کتنی ہی شکلوں کے عجائب سے بھرے رہتے ہیں
صاف تختی کا ہوا سے بھی تعلق ہے بہت
ذہن پر نقش اگر پھر بھی نہ اترے تو یہ سمجھو کہ ہوا بند ہے اک مدت سے
راستے ڈالتے ہیں درد کے اثرات مسافر پہ بہت
رات ہم جاگے رہے اور نگر سویا رہا
بے بسی بھاگی پھری غم بھی کہیں کھویا رہا
ہم نے رخسار کو دھویا تھا
تو دھویا ہی رہا
نیند اور راستے سنسان پڑے ہوں
تو نگاہوں میں بھی اگ آتے ہیں آثار بیابانی کے
ہم جو ٹھہراؤ سے ڈرتے ہیں بہت
ہم جو خاموشی سے گھبراتے ہیں
ہم جو خوشیوں سے بھی خوش ہوتے نہیں
اپنے خوابوں میں بھی
اس ڈر سے نہیں سوتے کہ تم آؤ تو سوئے نہ رہیں
ہم جو روئے ہیں تو روئے نہ رہیں
تم کو معلوم ہے
ہم اپنے کیے وعدوں کے بر عکس
مقدر کے بہت کچے ہیں
ادھ کھلے پھولوں کی اموات کے بے رنگ نصیبوں والے
ہم وہی شام غریباں والے
ہم وہی لوگ صلیبوں والے
رات ہم تیرے لیے خواب میں بھی جاگے رہے
یہ نہ ہو جائے تو کہ تُو آئے تو ہم سوئے رہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


20


درد کی کیسی دکاں کھولی ہے کچھ لوگوں نے اس بستی میں
زخم ملتے ہیں مگر سسکیاں لے لیتے ہیں
کوئی فریاد نہ کرنے کی شرائط پہ اگر چاہو تو گھاؤ لے لو
آج ہم روک رہے تھے رونا
ہم نے محسوس کیا آنکھ میں پانی ہے کوئی
اور کناروں پہ نکل آیا ہے
زندگی اور نکھر آئی ہے
زندگی اشکوں سے دھل کر کسی برسات کی بستی کی طرح
اتنی عجلی نظر آئی ہے کہ جیسے کبھی میلی ہی نہ تھی
اپنے سینوں سے لگے سنتے ہیں ہم اپنے دلوں کی دھڑکن
غم کی رقاصہ بڑی دیر سے ناچے ہی چلی جاتی ہے
رکتی ہی نہیں
زندگی اپنے مسافر کو ترستی ہے بڑی شدت سے
جاگتا جیتا مسافر جسے غم آتا ہو
غم کا آنا ہی تو جیون ہے وگرنہ کیا ہے
شہر والوں نے بہت رکھے ہیں لا لا کے الم
تاکہ ہم اپنی محبت کے عوض کرتے رہیں ان کی خرید
اور مزید اور مزید
تا کہ ہم زندہ رہیں زندہ رہیں
اس قدر مردوں میں ہم زندہ رہیں
کوئی بازار ہو، اک غم کی خریداری سے
زندگی اور سنور جاتی ہے
موت کچھ اور بھی مر جاتی ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


21


لوگ کہتے ہیں کہ مایوسی گنہ ہوتی ہے
رزق پتھر سے بھی پھوٹ آتا ہے
آگ سے زندہ رہا جاتا ہے
گھیر لیتی ہے ہمیں گھر میں بھی بیٹھے بیٹھے
روز اک اور نئی مایوسی
دل کے حالات بھی مایوس کیے رکھتے ہیں
اور دنیا بھی نکلنے نہیں دیتی کسی مایوسی کی مایوسی سے
چاند سے کتنا سہارا ہے دلوں کو لیکن
چاند تو روٹھی ہوئی خاک سوا کچھ بھی نہیں
یہ ستارے جو ہمیں تھامے ہوئے رکھتے ہیں
بات تو جرات احساس کی ہے
غم بھی انساں کا سہارا ہے اگر خود کو تسلی دے لیں
جانتے بوجھتے اک جھوٹی تسلی دے لیں
پھوٹ کر روئے تو پھر کیا ہوگا
اور نہ روئے تو یہ گھبرائے ہوئے اشک بھی کیا کر لیں گے
یہ سمندر کہ جو آسان نظر آتا ہے
آسماں سر پہ تنا دھوکہ ہے
اور زمیں لگتی ہے محتاج
کہ آئے کوئی چلنے والا
دل کی کیا بات کریں پھر بھی نہیں ایسے سنبھلنے والا
وقت کا کوہ گراں بھی نہیں ٹلنے والا
اور زمانہ ہے بدلنے والا


فرحت عباس شاہ


**********************


22


ذات بھی کتنی ادھوری ہے کہ ہم
اپنی بے چارگی جاں میں گھرے
کوئی تکمیل نہیں کر پاتے
عمر لگتی ہے ہمیں درد کی عادات کو اپنانے میں
پھر کوئی صدمہ بلک پڑتا ہے
نت نئے درد کے پاتال میں بیٹھے بیٹھے
جڑ گیا ہے مرا بے تاب وجود
جسم کھولوں تو کراہوں کی زباں کھلتی ہے
ہر سفر اگلے سے پہلے ہی بھٹک جاتا ہے
زندگی مخفی ہے اور مخفی ہی رہتی ہے سدا
کون کہتا ہے کہ یہ جوئے رواں کھلتی ہے
ہر نئے موڑ پہ ہے اگلا ستم پوشیدہ
کوئی تکمیل بھی ممکن نہیں معلوم بنا
منزلیں آتی نظر آتی ہیں
راستے جاتے نظر آتے ہیں
غم کا ماحول بدلتا ہی نہیں
اتنے ٹکڑوں میں بٹی رہتی ہے ہستی
کہ بتانا بھی بہت مشکل ہے
ریت کا اپنا ہے کردار کوئی سنگ کی دیواروں میں
وقت کی زود فراموشی بھی شامل ہے گنہگاروں میں


فرحت عباس شاہ


**********************


23


المیہ جاتا نہیں
المیہ جائے کہاں
المیے سے ہی بنا ہوں میں کسی ہجر کے مندر کی طرح
آئے دن دکھ کی سیہ دھوپ مجھے ڈستی ہے
آئے دن خوف کی رسی مرا کمزور بدن
اس قدر زور سے کستی ہے کہ چیخیں ہی نکل جاتی ہیں
ہاتھ ڈالوں کبھی سونے کو تو مٹی بن جائے
ہاتھ ڈالوں کبھی پانی میں تو جل جاتا ہے
میں کبھی دن کو پکاروں تو پلٹ آتی ہے شب
المیہ جائے کہاں
روز ویرانوں سے خط لکھتا ہے
اور خود میری ہی بربادی کے صحرا میں مجھے ڈھونڈتا ہے
خواب دیکھوں تو یہ دھڑکا سا لگا رہتا ہے بٹ جائے نہ بینائی مری
المیہ ہارے ہوئے لوگوں کو چھو جاتا ہے
بے سبب راکھ اڑائیں تو سلگ اٹھتی ہے ویرانی دل
خاک اڑتی ہے سر دشت وفا
بے قراری کوئی اڑتی ہوئی آتش بن کر
آن پڑتی ہے کسی فوج کے لشکر کی طرح
المیہ جاتا نہیں
سکھ کبھی آتا ہی نہیں
المیہ جائے کہاں
بند ہے سارا جہاں


فرحت عباس شاہ


**********************


24


رات جس خواب کے سائے تلے سوئے تھے تمہارا تو نہ تھا
غم کی مہمیز ہمیں خواب کے پندار میں لے جاتی ہوئی کہتی ہے
تھوڑا سستا ہی لیا جائے تو بہتر ہے مسافر کے لیے
خواب بھی دینے لگے ہم کو فریب
دل ہی مضبوط نہ ہو اپنی شکایت میں تو اوروں کا گلہ کیا کرنا
دور بیٹھا ہوا چاہے کوئی بے چین کرے
آرزو اپنا سفر مانگتی ہے
بے ردائی بھی نہیں اچھی کہ سب لوگ کہیں
چھوڑو بے نام و نسب درد کو چھوڑو چھوڑو
ہم تمہیں خواب میں مل آتے تو خوش ہی رہتے
اور یہ نیندیں بھی یوں اپنا اڑاتیں نہ مذاق
سو طرح کے کسی اندوہ سے بچ ہی جاتے
اپنی برباد محبت کو گریبان ہی پہناتے رہیں گے کب تک
اس قدر چاک گریبان اسیری والے
روز دل روزن زندان میں کرلاتا ہے
روز ہم صورت احوال سے ڈر جاتے ہیں
روز گھبرا کے پلٹ آتے ہیں بستی سے خیال
روز ویرانہ تعاقب میں نکل پڑتا ہے
جاگتے جاگتے آجاتی ہے آنکھوں میں خراش
خون رستا نہیں جم جاتا ہے
اور سلگ اٹھتا ہے بینائی میں بے نور چراغ
دل کی بے زاری کا بے نور چراغ
اور شکستہ کیے رکھتا ہے ملال
رات جس خواب کے سائے تلے سوئے تھے تمہارا تو نہ تھا
رات جس خواب میں ہم پھوٹ کے روئے تھے تمہارا تو نہ تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


25


تو نے کس خواب کے تابوت میں ڈالا ہے مجھے
تو کس عالم بے حال میں لا پھینکا ہے
ایسے محبس میں تو بینائی چلی جاتی ہے
خود کے زور اندھیروں کی طرح
دور تک پھیلی ہوئی خاموشی
میری کمزور وریدوں کے بدن چھیلتی ہے
ہم کسی عمل مکافات کے ٹھکرائی ہوئی جاں کی طرح
ہانپتے کانپتے پژمردہ پڑے ہیں گویا
اتنی افسردہ فضا میں کوئی کیا بات کرے
لفظ حلقوم میں کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں
اور اگر بولیں تو آ لگتی ہے اس زور سے
آواز پلٹ کر دل پر
جس طرح تیز ہواؤں کے تھپیڑے کہیں دریاؤں میں
گردش خون ٹھہرتی نظر آتی ہے پریشانوں کو
ہم تو قبروں کی تسلی سے بھی نا واقف ہیں
ورنہ کچھ دیر بہل ہی جاتے
شائیں شائیں کسی احساس کی بے چینی سے مترشح ہے
آنکھ زخمی ہو تو چبھتا ہے اجالا بھی بہت
روح پر بوجھ ہے سانسوں کا تلاطم بھی کہیں
درد نے ڈیرا جمایا ہے درونِ اعصاب
آسمانوں سے اتارا ہے ہمیں
اور یہ کس عیب کے پاتال میں لا پھینکا ہے
نیند کے جال میں لا پھینکا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


26


دل ترے بعد مسلسل کسی وحشت میں رہا
ایسا جھنجھلایا ہوا جیسے کوئی آندھی ہو
راہ میں آئی ہر اک شے کو الٹ مارتا، ٹھکراتا ہوا
کیا خبر تھی کہ طبیعت ہی بدل دیتے ہیں یہ ہجر و فراق
ہم مزاجی میں تضادات کے پہلو نکل آتے ہیں بڑی سرعت سے
وصل بارش ہے تو پھر دھوپ بھی ہے
ہجر صحرا ہے مگر ڈھونڈنے پڑتے ہیں شجر
چاندنی رات کوئی روز نہیں آجاتی
تیرگی جاتی نہیں دن میں بھی
ریت پر پاؤں دھریں دشت اڑاتا ہے مذاق
شام کو ساتھ رکھیں پل میں الجھ پڑتی ہے
اور ہوا طنز میں ڈوبی ہوئی آ لگتی ہے
گیت بے زاری بڑھا دیتے ہیں
رنگ بے کار کیے رکھتے ہیں
بارشیں کچھ بھی نہیں کہتیں تو بڑھ جاتی ہے
کچھ اور بھی ویرانی سی
ساعتیں تازہ خراشوں کی طرح
ذہن کا ننگا بدن تلخ کیے رکھتی ہیں
انگلیاں مڑتی ہیں مفلوج مریضوں کی طرح
درد کو جیسے کسی درد کی دہشت سے رہائی نہ ملے
دل ترے بعد مسلسل کسی وحشت میں رہا


فرحت عباس شاہ


**********************


27


رات شعلوں میں گھرے
تیرا پتہ پوچھتے ہم جلتے رہے
جستجو آگ تھی بھڑکی ہوئی شریانوں میں
اپنے انگاروں پہ ہم چلتے رہے چلتے رہے
جھولنا جھولنے والوں کی طرح
دل میں لہراتا رہا تیرا خیال
زخم احساس کی پینگوں کو جھلاتا ہی رہا
زخم احساس جو گیندوں کی طرح
ٹھوکریں کھاتا ہوا چاروں طرف سے یونہی
بن کہے کچھ کف افسوس ہی ملتا رہا ملتا ہی رہا
طیش میں آئے ہوئے جذبے
بہر طور کسی سمت چھلکنا چاہیں
روزن وہم کبھی ٹوٹ کے دروازہ بنے
اور کسی طور کسی خوف کی کھڑکی ٹوٹے
ہم رکاوٹ سے بہت جوش میں آ جاتے ہیں
ہجر میں بپھرے ہوئے دکھ کی طرح
اشک جب جوش میں آتے ہیں تو رکتے ہیں کہاں
عشق کے قافلے رستے میں ٹھہرتے کب ہیں
رکنا چاہیں بھی اگر
بے قراری نہیں رکنے دیتی
آرزو آگ ہے بھڑکی ہوئی شریانوں میں
اور ہم انگاروں پہ چلتے رہے چلتے ہی رہے


فرحت عباس شاہ


**********************


28


خوف نے خواب میں رکھا جو قدم
کپکپاہٹ سی کہیں سے آئی
اور کسی جال کے مانند بدن سے لپٹی
خون گھبرایا ہوا سانپ بنا دوڑا
اچانک دل بے بس کی طرف
دل نے آنکھوں میں اندھیرا پھینکا
سر سے ٹکراتا ہوا دھم سے گرا ماتھے پہ اک درد مہیب
کھینچ لی جان ہواؤں نے
تو کانوں میں عجب شور ہوا
خامشی چیخ پڑی ہو گویا
بھاگ جانے کو ملی بند گلی
اور تحفظ سے گرے ہاتھ کہ اٹھتے ہی نہ تھے
پیاس بن بن کے پسینے نے برا حال کیا
برف کی موم سی جن آئی لبوں پر اتنی
چھپ گئی سرخی آثار نفس
خوف نے خواب میں رکھا جو قدم
دور کرلایا کوئی سویا ہوا ایک ہجوم
چاند نے سنگ گرایا کوئی پیشانی پر
آسماں نے کوئی چابک مارا
آنکھ میں آنسو نہیں تھے فقط اک صحرا تھا
ریت ہی ریت تھی جو
دیر تلک بہتی رہی


فرحت عباس شاہ


**********************


29


ہم جدائی میں بھی شفاف رہے
صاف شیشے کی طرح
اجلے ضمیروں کی طرح
کالکیں گرتی ہیں ویران مساجد سے گنہگاروں کی
داغ اڑتے ہیں فضاؤں میں نگر والوں کے
لوگ ملتے ہیں گناہوں کے لیے
ہم جدائی میں بھی شفاف رہے
وہ جدائی جو اڑاتی ہے مزاق
وہ جدائی جو ڈراتی ہے
شکستہ بھی کیے جاتی ہے
کھینچ لے جاتی ہے آلودہ بہانوں کی طرف
ہم نے حیلے بھی کیے ہیں تو فقط چاند کے بہلانے کو
رات کچھ دیر کے سو جانے کو
درد کی ایسی فضیلت نہیں مانی
جو ہمیں توڑ کے ہی رکھ دیتی
ہم جدائی میں بھی شفاف رہے
صاف پانی کی طرح
اجلے لباسوں کی طرح
ہم نے ہر رنگ کے داغوں سے کیا ہے پرہیز
ورنہ تم کونسا نزدیک تھے جو
تم کو گلہ کرنے کا موقع ملتا
ساری باتیں تو الگ اتنا مگر یاد ہے
یہ کوئی اتنا بھی آسان نہیں ہے لیکن
ہم جدائی میں بھی شفاف رہے


فرحت عباس شاہ


**********************


30


درد گھبرایا کہ یہ کون ہے ایمان فروش
زندگانی کی مصیبت سے کہیں بھاگا ہوا
اتنا بے دید بھی ہوتا ہے کوئی
آرزوؤں سے بھلا ایسے لڑا جاتا ہے
درد گھبرایا کہ یہ کون ہے ایمان فروش
یہ تو بیماری پہ خوش بیٹھا ہے
ظرف کی لذتیں گم ہوں
تو شکایات کی تقسیم بدل جاتی ہے
ظرف کے اپنے معانی کی طرح
درد کے رزق سے منہ موڑ کے جائے گا کہاں
بے سہاروں کی طرح بھاگے گا
صحرا کے کناروں کی طرح
ریت دریا کی طرح دور سے دیتی ہے فریب
ورنہ تشنہ کسی رہرو کے لیے کم تو نہیں جھومتے دریا کی کشش
دل میں بھی لاکھ بھنور پڑتے ہیں دریا کی طرح
اور ڈبو دیتے ہیں جو ہاتھ لگے
درد کے کتنے ہی انداز ہیں مرہم کے مگر
ہنس کے سینے سے لگانا ہی بہت مشکل ہے
درد کی اپنی مسیحائی ہے فطرت کی طرح
چھوٹے چھوٹے سے ارادوں میں بھی گر طاقت ہو
بے سکونی کا بھی ہے غم میں علاج
زخم تو آگ بجھا دیتے ہیں
زخم تو بھوک مٹا دیتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


31


وقت مہمان ہے انسان تو مہماں بھی نہیں
وقت انسان کا پروردہ نہیں ہے کہ مکافات یقینی ہو جائے
سلسلے اور بھی ہیں وقت کے بے انت تسلسل کی طرح
کائناتوں کی مسافت کی یہ تقسیم بھی ہے کتنی عجب
جس پہ حیرت کے لیے کچھ نہ بچے
غم کے لادائرہء ذات ہوئے
حرفوں کا اثر وقت کا بے انت تسلسل محدود
اور یہ انسان
یہ مخلوق
یہ آبادی سی
انفرادی کسی ہونے میں نہ ہونے کے برابر کوئی ہے بھی تو نہیں
اجتماعی میں بہت ہی کم ہے
آسماں اتنا بڑا ہے ہی نہیں
جتنا ہمیں لگتا ہے
ایک چھوٹی سی ہے دہلیز کوئی
اور یہ سب آگ کے گولے ہر سو
انفرادی کسی ہونے میں تو خود یہ بھی نہ ہونے کے برابر ہی تو ہیں
اجتماعی میں مگر کم سے ذرا سے بڑھ کر
آگ کے گولوں کے سائیوں میں
کہیں جاگتی سوتی مخلوق
اور یہ انسان، یہ مخلوق نئی آبادی
اور یہ انت تسلسل محدود
غم کے لادائرہ ذات کی دہلیز کی دہلیز کوئی


فرحت عباس شاہ


**********************


32


مستقل درد کی نعمت سے بھی محروم رہے
چھوٹی سے چھوٹی خوشی کا دھوکہ
آکے کر جاتا ہے ایمان خراب
بے غرض ہجر کہاں سے لائیں
وصل کا شوق ہی رہ جاتا ہے اک تھوڑی تسلی کے لیے
خود فریبی کے حصاروں سے مسلح ہم لوگ
کب تلک درد کی خندق ہی میں محصور رہیں
اور بھی کتنے ہی زندان ہمیں ڈھونڈتے ہیں
قید اور موت میں معمولی سا اک فرق ہے بس
موت حیران کرے قید پریشان کرے
ہم نے اس شہر میں یکلخت اداسی کی طرح ڈالی ہے
ورنہ ہر شکص سمجھتا تھا اداسی ہے فضول
آج ہم اپنی بقا کی خاطر
سوچتے ہیں ک اگر زندگی کچھ اور ذرا بڑھ جائے
(مستقل درد کی شب اور بھی لمبی ہو جائے)
روشنی اور بھی ہو جائے طویل
سانس کی لے میں تیقن آجائے
مستقل درد کی شب جلدی میں آئی کوئی مہمان سی ہے
ایسا لگتا ہے بہت جلد پلٹ جائے گی
زندگی اور بھی گھٹ جائے گی
آرزو اور سمٹ جائے گی
اور یہی سوچتے مر جائیں گے ہم
مستقل درد کی نعمت سے بھی محروم رہے


فرحت عباس شاہ


**********************


33


رات کی راکھ میں ہم انگلیاں پھیریں تو ستارے مل جائیں
کسی اوقات کے بے پایاں تصرف میں ہے پر نور دیار
اس طرح چاند کی قربانی بھی ناجائز ہے
جیسے تم بات کے رستوں میں بھٹک جاتے ہو
نیند آنکھوں کو تھکا دیتی ہے
زندگی نیند سے تھک ہار کے سو جاتی ہے
زندگی سے تجھے دیکھا ہے اگرچہ ہم نے
پھر بھی کچھ راکھ پڑی رہتی ہے
بے نام مزاروں کی طرح
انگلیاں کب ہیں سلامت کہ ستارے نہ گریں
رات ہر روز قیامت میں دبک جاتی ہے
آڑ لے کر بھی کوئی پیار کیا کرتا ہے؟
یہ تو اک حملے کا انداز ہے محتاط عدو کے مانند
خواب آلود نشانی کی طرح
دل پشیمان ہے، دل ہے ہی نہیں
راکھ میں لتھڑا ہوا پتھر ہے
ہم تجھے اس لیے ویران گزرگاہوں میں لیکر نکلے
بھیڑ کم ہو گی تو جی بھر کے تجھے دیکھیں گے
شور کم ہوگا تو جی بھر کے سنیں گے تجھ کو
شور کم ہو گا تو تم ساتھ زیادہ ہو گے
ہم تجھے کھل کے کریں گے محسوس
وقت کم ہو گا تو ہم ٹوٹ کے چاہیں گے تجھے


فرحت عباس شاہ


**********************


34


ہم کہیں بہتے ہوئے وقت میں زندہ تو نہیں
ہم نے جو وقت گزارا ہے ترے ساتھ
ہمیں ساتھ لیے پھرتا ہے
اس سے لگتا ہے کہ سب وقت تو بس تم ہی ہو
سال بھی تم ہو
مہینہ تم ہو
رات، دن تم ہو
ہر اک لمحہ تم ہو
تم سے احساس بھی باقی ہے کسی وقت کا
ادراک بھی ہے
ورنہ ان زود فراموش جہانوں میں
بھلا کون کسے یاد رہے
تم سے جو ہو کے الگ
وقت گزارا تو گزارا کب ہے
زندگی میں وہ مری عمر نہیں ہے میری
جس میں تم ہو نہ تمہاری کوئی پرچھائیں ہے
دل کی دھڑکن میں دھڑکتے ہوئے لمحوں کی قسم
دھڑکنیں صرف محبت میں دھڑکتی ہیں ترے دکھ کی قسم
ورنہ عادات تو عادات ہی رہ جاتی ہیں
دھڑکنیں دل کی فقط ہیں عادت
تم کو چاہا تو رہے ہیں زندہ
پیار نے وقت کی تخصیص سے تقسیم سے تفہیم تلک
خود کو ہر سانس سے اول رکھا
وقت کچھ ہے تو محبت ہی کے باعث ہے وگرنہ شاید
ہم تو بے وقت ہی مر جاتے بھری دنیا میں


فرحت عباس شاہ


**********************


35


غم کے کچھ اپنے بھی حالات ہوا کرتے ہیں
تیز بارش کی شکایت پہ اگر کان دھروں
عہد و پیماں تو مقدر ہو جائیں
وقفے وقفے سے اتر آتے ہیں بے چین خیالات
دم رخصت بھی
جنگلوں میں بھی تری یاد چلی آئی ہے
غم سے کیا شکوہ کریں
چاہے لحد تک آجائے
سرد مہری کسی میت کی طرح
برف کی برف کا دکھ دیتی ہے
انگلیاں شہر میں اٹھتی ہیں تو یکلخت ہنسی آتی ہے
کوہ ساروں کی بروں بینی سمندر سے بھی گہری ہو مگر
بحر پر نم کی دروں بینی بھی آخر کچھ ہے
رات گہری ہو تو دل اور بھی گہرا ہو جاتا ہے بے نور مقدر کی طرح
ہم نے تقدیر کے ہاتھوں میں دعا دی ہی نہیں
کوئی ویران اگر ہے تو سدا باغ کی حسرت میں رہے
ہم تو آنسو سے کئی کام لیا کرتے ہیں
دل پہ گر کر اسے کچھ حوصلہ ہی دے آئے
دن کو تاریکی بہت تھی مگر اے عالمِ غم
تیرے ہر غم میں ہوئے ہم بھی برابر کے شریک
پھر بھی ہم جانتے ہیں، مانتے ہیں
غم کے کچھ اپنے بھی حالات ہوا کرتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


36


اپنی بوسیدگیِ فکر کی آلائش سے مفر ہم کو نہیں
اس لیے خوف میں پنہاں ہیں وجوہاتِ ستم
صبر کی اتنی شکایات کہاں تک سنتے
درد کی لہر سے بے زار رفیقانِ جہاں
اپنے مردار پہ مٹی ہی نہیں ڈال گئے
اب تو ہم اپنے تعفن کی سزا کاٹیں گے
اک جگہ ٹھہرے خیالات بھی پانی کی طرح ہوتے ہیں
ساکت و جامد و ویران و پشیمان نگر
بے یقینی کے تنفس کی ہی بے ترتیبی
ایک دن شہر کو لے ڈوبے گی
سارے بے نور مقامات اکٹھے ہو کر
اک جگہ ٹھہر گئے ہوں جیسے
ساری بے رنگ تمنائیں علیحدہ ہو کر
جا بجا پھیل گئیں خواب کے ویرانے میں
زندگی اور نگر اور نظر
بیت گئے، مر گئے انجانے میں
سوچ کا ذکر بہت ہے ملتا افسانے میں مگر
ذکر کے ہاتھ بندھے رہتے ہیں
خواب کے پاؤں نہیں ہیں
کہ نظر آئے گا چلتا پھرتا
بے یقنی میں گھری عقل سے بو آتی ہے
صبر ہر چیز کا حل ہوتا تو کیا اچھا تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


37


کیا میں تقدیر کی ہٹ لسٹ پہ ہوں؟
شام کے زرد کنارے کی طرح
دکھ ذرا دور سے کچھ اور نظر آتا ہے
جو اداسی مری دہلیز تک آتے آتے
سینکڑوں روپ بدل لیتی ہے
وہ مجھے تیری طرح لگتی ہے
اور جو بے چینی مجھے
لمحوں میں تبدیل کیے دیتی ہے
وہ مجھے تیری محبت کی طرح لگتی ہے
بے حجابی شبِ ویراں کی کہاں رہتی ہے
آنکھ کی اپنی حیاداری ضروری ہے بہت
آنکھ ہو گی تو سبھی رنگ دکھائی دیں گے
اور پھر قرب کی تفریق کا پیمانہ بھی
بس آنکھ میں ہے
تجھ کو دیکھوں یا ستارہ دیکھوں
اپنے پیمانوں سے پیمائش عالم کا عمل
بے طرح کی کوئی آسائشِ جاں اور خلل
میں ہمہ وقت بدلتی ہوئی تقدیر کی ہٹ لسٹ پہ ہوں
شور برپا ہے زمانے میں کسی اور زمانے کے سفر کرنے کا
بے سبب کچھ بھی نہیں ہے تو محبت کیا ہے
درد کے کتنے ہیں اسباب و علل
خوف بے چینی بڑھا دیتا ہے
عشق کچھ خوف گھٹا دیتا ہے
خوف اور عشق مگر دور سے کچھ اور نظر آتے ہیں
شام کے زرد کناروں کی طرح
چاند ستاروں کی طرح
کیا میں تقدیر کی ہٹ لسٹ پہ ہوں


فرحت عباس شاہ


**********************


38


باغ پھولوں سے بھرے ہی کب ہیں
احتیاطاً جنہیں ہم گنتے یں
اور کہتے ہیں کہ ہیں لاتعداد
خواب کے بوجھ سے ٹوٹی ہوئی شاخوں کے وجود
اپنی آبادی کے دھوکے میں ہنسے جاتے ہیں
بے سہارا ہیں شجر
بے سہارا ہے صبا
بے سہارا ہیں ثمر
بے سہارا ہے ہوا
آخری درد بہت پہلے سے آجاتا ہے
اس تجسس کی طرح سوکھے ہوئے پتے
الجھ پڑتے ہیں جس کی کوئی بنیاد نہ ہو
ہم بہاروں سے ڈسے جائیں گے اس روز کہ جب
ہاتھ پھولوں کے کفن چھو کے پگھل جائیں گے
اور اس روز بہت چہرے بدل جائیں گے
اور اس روز کئی لوگ نکل جائیں گے ویرانوں کو
ہم شہروں سے بہت سیکھا ہے
اب ہمیں صحرا بھلے لگتے ہیں
ہم نے جنگل کو ہرا دیکھا ہے ہر سپنے میں


فرحت عباس شاہ


**********************


39


روز اک موت چلی آتی ہے ملنے کے لیے
روز اک قبر بہت ہنستی ہے ہم لوگوں پر
بین سننے کی عجب عادت ہے
لمحے لمحے کو ترستے ہیں کچھ ایسے در و دیوار کہ بس
موت کے شہر میں رہنے سے تو بہتر ہے ہوا ہو جائیں
اس سے پہلے کہ سبھی اہل قضا ہو جائیں
خواب دیکھیں تو سیاہی سی اتر آتی ہے بینائی میں
خواہشیں چھو لیں تو احساس سلگ اٹھتا ہے
بے حسی جاگی ہوئی ہے کب سے
راکھ سے زلفیں سنواریں ہیں پکاروں نے یہاں
منتخب ہیں کوئی ارواح جنہیں
درد نے بخشی زیارت اکثر
اور جنہیں کرب نے اپنایا ہے
دل شکنجے یں کسا رہتا ہے اور
موت کسے جاتی ہے
رز اک قبر ہنسے جاتی ہے
گونجتا ہے کوئی سناٹا صداؤں میں
تو لگتا ہے اجل بولی ہے
خشک آنکھیں کہ جو رونے کو ترستی ہیں تو حیرت کیسی
بدلیاں روز برستی ہیں تو حیرت کیسی


فرحت عباس شاہ


**********************


40


بے غرض تو در و دیوار بھی رہ سکتے ہیں
ہم ہو سناک زمانوں کی غلامی میں گھرے ہیں کب سے
جب سے ایمان پہ مشکوک خیالات کی بوچھاڑ ہوئی
دل اکھڑتے ہی طنابوں کا بھرم ٹوٹ گیا
کتنے الزام لگا پائیں گے ہم خود ل پر
ایک دن تھک کے پلٹ جائیں گے
بے ضمیری کی علامات ہوئیں گم گشتہ
ایک دن، دن بھی سمٹ جائیں گے راتوں کی طرح
رات تاریک نہ ہوتی تو بھلا کیا ہوتی
زرد راتیں تو پس چشم کہیں ہوتی ہیں
آنسوؤں اور ستاروں کے قریب
دھوپ سو رنگ میں پھیلی ہے بہت تیزی سے
اور بہت تیزی سے پھر سمٹی ہے
روزنی پھیلی نہیں سمٹی نہیں
رات رک رک کے رکی بالاخر
ٹمٹماتے ہوئے دکھ حرف تسلی کی طرح
دل کو دیتے ہیں ہوا دامن کی
دو گھڑی چین میں آتی ہے فضا
کھیل تو ہے ہی فقط لمحون کا
منتخب کر لیے تو کر ہی لیے
اور جو کھوئے تو بس کھوئے گئے
اپنے ہی آپ کو ہم نوچتے ہیں
جب بھی کبھی سوچتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


41


دھول چوباروں تلک آنے لگی
کھڑکیاں گرد سے کھلتی نہیں اک مدت سے
سانس لینے کو ہم آئے تھے چھتوں پر لیکن
خاک ٹھہری ہوئی تھی، اڑنے لگی
گرد کا لاوا امڈ تاہی چلا آتا ہے
یہ زمیں بھی تو اڑاتی ہے ہنسی
اور غصے میں بھی آجاتی ہے
پھٹ بھی پڑتی ہے
کبھی گھوم بھی جاتی ہے بہت
خون آشام درندوں کی طرح
اور اگل دیتی ہے بربادی بھی
کون سے چاند پہ ہم رک جائیں
کہاں جا ٹھہریں
آسماں گرد ہے اک ٹھہری ہوئی
چاند گردش میں ہیں اور سورج بھی
سانس لینا بھی نہیں ہے ممکن


فرحت عباس شاہ


**********************


42


روز ہم زرد بیابانی کے خارج میں پڑے
اپنے باطن کا سفر کرتے ہیں
درد مین صبر کی گنجائش بے پایاں
ریاضت ہے بڑی
سارا ماحول ہو چپ
اور کوئی دل بولے
ساری چلائیں
تو ہم چپ ہی رہیں
روز ہم ہجر کے بے چین مزاروں پہ ملنگوں کی طرح
تسبیاں رولیں ترے آنے کی
راکھ سر ڈھانپ کے رکھتی ہے فقیروں کا
رداؤں کی طرح
روز ہم راکھ سے گھل مل جائیں
روز ہم زخم بنیں، سل جائیں
روز ہم کلیاں بنیں کھل جائیں
ہم جو مرجھائے ہوئے ہوں بھی تو خوش رہتے ہیں
ہم جو کملائے ہوئے ہوں بھی تو خوش رہتے ہیں
ہم جو سنولائے ہوئے ہوں بھی تو خوش رہتے ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


43


اطلاعات زمانہ کے زمانے میں ہم
وجہِ شہرت بھی یہی ہے اپنی
بھیس بدلیں یا چھپا لیں خود کو
لاکھ بھر لیں کوئی بہروپ مگر دکھ ہمیں پہچانتا ہے
زندگی اپنی ہوس ہی سے نہیں ہے فارغ
بے گناہی کا کوئی انت اگر ہو بھی تو بے فائدہ ہے
ہم غلامی کے گنہ گار ہیں کچھ صدیوں سے
ذات کا کرب ندیدوں کی طرح
ہم پہ جھپٹ پڑنے کو بے تاب نظر آتا ہے
صبر بے کار ہے بے مہر تسلی کی طرح
خود کو غرقاب سمجھ لینے کا بھی کوئی نہیں ہے امکاں
آب تو تہہ میں بھی ہے آپ ہر اک دریا کی
ساحلوں کا کوئی دھوکہ بھی نہیں ہے موجود
درد کی بھی کوئی آسائشِ خفتہ ہے تو پھر
بے قراروں کو کسی روز نظر بھی آئے
ہم کسی ہجر کے پروردہ اگر ہیں
تو نتائج میں کہیں وصل بھی ہو
آخر کار اگر تھک ہی گئی جان تو پھر
آخر کار اگر پھٹ ہی گیا دل تو کہو کیا ہو گا
آخر کار اگر آ ہی گیا آخر کار


فرحت عباس شاہ


**********************


44


ایک بجھتا ہوا دل۔۔۔۔
ایک بے نام چراغ اور نحیف
جس قدر ورد کیا تھا اس نے
نور کی موج امڈ آتی تو پھر بھی کم تھی
جانے کس غم سے جگر زخم بنا
زخم نا سور ہوا
موت کی سمت وہ بڑھ جانا بہت تیزی سے
اور ترسنا کہ کہیں کوئی سہارا مل جائے
ڈوبتے وقت کنارا مل جائے
یہ جو سرطان کے دریا ہیں
کنارے نہیں ہوتے ان کے
یہ جو بہتے ہوئے زخموں سے پھسلنا ہے
سہارے نہیں ہوتے ان کے
بے بسی چھین لیا کرتی ہے جب آنسو بھی
تیزگی ماننا پڑ جاتی ہے
ہائے یہ دکھ کی اجارہ داری
کائناتوں کا پلٹ جانا مقدر کی صلیبوں کی طرح
اس قدر خالی گھٹا ٹوپ دکھوں کی رت میں
کون آتا ہے نصیبوں کی طرف
اور پھر یہ بھی کہ ہو منتظرِ دستِ شفا
ایک بے نام چراغ اور نحیف
کون آتا ہے غریبوں کی طرف


فرحت عباس شاہ


**********************


45


کتنے ویران مکاں ہیں مرے چاروں جانب
کتنی تنہائی ہے آبادی میں
لوگ زیادہ ہیں مگر شہر میں رونق ہی نہیں
بھیڑ کافی ہے تعلق کے بغیر
رات بیماری سے
دن وہم کی خواری سے بھرا رہتا ہے
راستے چپ کے تلذذ کی دکاں داری
سے سرشار نظر آتے ہیں
کتنے بے چین نشاں ہیں مرے چاروں جانب
شام، دوپہر، ستارے اور دل
خوف بے رنگ تسلط ہے عجب
خوف بے نام رفاقت ہے عجب
خوف منڈیروں پر آ بیٹھا ہے
گھورتا رہتا ہے گھر والوں کو
کتنی ویرانی ہے گھر کے اندر
کتنی بربادی ہے اس بستی میں


فرحت عباس شاہ


**********************


46


کون بے نام ستاروں سے ہمیں دیکھتا ہے
کون بے نور دیاروں سے ہمیں جھانکتا ہے
کیا یونہی گھومتے مر جائیں گے ہم
کیا تخیل کے پری زاد کو بس چومتے، آنکھوں سے لگاتے ہوئے
گھر جائیں گے ہم
کیا سدا موت سے ڈر جائیں گے ہم
موت مدت سے تعاقب میں چلی آتی ہے
ایک اک کر کے ستارے کہیں جا گرتے ہیں
ٹوٹ کر گرتے ہیں، کمزور کناروں کی طرح
ہم جو سورج کو بھگا لائے ہیں اور سوچتے ہیں
ہم جو سوچوں کو بھگا لائے ہیں اور جلتے ہیں
درد کے جتنے سہارے ہمیں حاصل ہیں
پھر بھی ہم کانپتے جاتے ہیں درختوں کی طرح
ہم لرزتے ہیں مگر ساکت و صامت ہے خلا
بس خلا ٹھہرا ہوا ہے ورنہ
باقی ہر شے کسی حرکت کے تحرک سے بندھی ہے شاید
اور کوئی ڈور ہلاتا ہے کبھی زور سے لیکن کبھی آہستہ سے
اور ہمیں دیکھتا رہتا ہے بہت غور سے
اور جھانکتا ہے


فرحت عباس شاہ


**********************

47


آزمائش کے نہاں خانوں میں
اپنے اعزاز کی تسکین بھی پوشیدہ ہے
فطرت کون و مکاں
سود و زیاں کی پابند
آزمائش کی حدیں ختم کہاں ہوتی ہیں
خود پرستی کی بھی تکمیل نہیں ہے ممکن
زخم پر زخم لگاتے جاؤ
درد پر درد سجاتے جاؤ
خون پر خون بہاتے جاؤ
اپنے اس جرم کا اخفاء بھی
بدل دیتا ہے کردار بظاہر لیکن
وہ جو باطن میں ہے باطن ہی میں ہے
ہم ضرورت سے زیادہ بھی ہوں چالاک تو پھر بھی کم ہیں
ہم فقط باعثِ دلداری ہیں
آزمائش جو ہوئی ہے ایجاد
آزمانے کو بھی کچھ چاہئیے
اس ہستی بے پایاں کو
راکھ میں پاؤں ڈبو لینا کوئی بات نہیں
بات آتش کی ہوا کرتی ہے
دور تک آگ بچھی ہے تو بچھی رہنے دو
پاؤں انگاروں کو سہتے ہیں تو پھر سہنے دو


فرحت عباس شاہ


**********************


48


بے قراری کوئی شیوہ تو نہیں ہے کہ بس اب
عمر بھر کے لیے اپنا ہی لیا جائے اسے
دل گرفتہ کسی لمحے میں جنم لینا اگرچہ کوئی معیوب نہیں
پھر بھی بہت مشکل ہے
دل گرفتہ کسی لمحے سے رہائی کبھی ملتی ہی نہیں
ہم نے بارش سے بیاہی ہیں اگرچہ آنکھیں
پھر بھی صحراؤں کی تاثیر جلاتی ہے انہیں
ہم اگرچہ کسی پیچاک میں الجھے ہوئے لگتے تو نہیں
ہم کسی خاک میں لتھڑے تو نہیں
ہم اگرچہ کسی زرتار کی پوشاک میں جکڑے تو نہیں ہیں لیکن
پھر بھی دنیا کے دکھاوے کے لیے اچھا ہے
ایسی درویشی بھی اچھی نہیں ہوتی کہ یہ دنیا ہمیں کم تر سمجھے
خود سے یا اور کسی سے بھی ہمیں کم سمجھے
بے قراری کوئی شیوہ تو نہیں
جاں لیوا ہے
بے قراری کوئی عادت نہیں
مجبوری ہے
بے قراری کوئی بے وجہ نہیں
دل گرفتہ کسی لمحے میں جنم لینے کی بیماری ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


49


دشمنی دل سے ہوئی وابستہ
اک جہاں بھاگ پڑا دل کی طرف
کون جھپٹے گا بھلا پہلے رگِ نازک پر
کون کس خانے پہ ٹوٹے گا مصیبت بن کر
وار پہلے کوئی کس سمت سے کر جائے گا
اپنی اپنی کسی بے مائیگی ذات کے ہاتھوں میں پلے لوگ کہاں چھوڑتے ہیں
اپنی اپنی کسی محرومی کی محکومی میں آئے ہوئے منحوس غلام
نیتوں ہی کی مریضانہ روش میں جکڑے
بڑھ رہے ہیں مرے چاروں جانب
گھیرتے جاتے ہیں مظلوم دل آزردہ
شہر میں جرم ہے معصومی و پاکیزگی و سادہ دلی
اب تو حکمت کے سوا چارہ نہیں ہے کوئی
یہ ضروری تو نہیں ہے کہ ہمیشہ وہی قربانی دے جو سچا ہو
جھوٹ کو کیوں نہ لتاڑا جائے
کیوں نہ بھالا کوئی شیطان کے سینے میں اتارا جائے
کیوں نہ اس بار کٹیں سر سرِ میدان
یزیدوں کی مہارت کے ساتھ
کیوں نہ اب مشعلیں تاریکی کے سینے میں اتاری جائیں
کیوں نہ فرعون کی گردن میں شکنجہ ہو کسی موسیٰ کا
دشمنی دل سے ہے وابستہ تو پھر بھی کیا ہے
دل تو وابستہ عداوت سے نہیں
دل تو مائل نہیں بے دل کی طرف
وقت کو چاہئیے کچھ دیر کو الٹا بھی چلے
کچھ تو مظلوموں کی تاریخ بھی بدلے آخر
حکمتِ غم کا اجارہ بھی ضروری ہے
حکومت بھی بہت لازم ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


50


آج اک اور صدی ختم ہوئی
آج اک اور خلا شاملِ احوال ہوا
آج اک اور ہوئی ناکامی
آج اک اور پلٹنا گیا بیکار زبوں حالی میں
آج اک اور ترقی نے تنزل دیکھا
آج اک اور ستارے نے کہا تاریکی
آج اور نظارے نے کہا سنسانی
آج اک اور کنارے نے کہا دریا سے
تھک گئے ہو تو ذرا سستا لو
آج اک اور سہارے نے کہا ختم ہوا۔۔۔ ہائے میں ختم ہوا
آج اک اور گرا اسپِ خیال
آج اک اور بہانہ ہوا دل جلنے کا
آج اک اور زمانہ ہوا اک اور زمانے سے جدا
آج اک اور خدا پہلے خداوند سے ناراض ہوا
آج اک اور شجر اپنی جڑوں سے اکھڑا
آج اک اور محل خاک میں خاشاک ہوا
آج اک اور سفر لوٹ گیا
آج اک اور نگر روٹھ گیا
آج اک اور بھنور پیدا ہوا
آج اک اور اداسی نے لیا اگلا جنم
آج اک اور محبت پہ محبت روئی
آج اک اور ہنسی دل پہ ہنسی
آج اک اور صدی ختم ہوئی
آج اک اور صدی ختم ہوئی
آج اک اور نئے وقت کا آغاز ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************
اختتام
**********************
اکیسویں صدی کی پہلی نظم
**********************
فرحت عباس شاہ
**********************