صفحات

تلاش کریں

شاعری: محبت ذات ہوتی ہے از فرحت عباس شاہ






**********************


محبت ذات ہوتی ہے


محبت ذات ہوتی ہے
محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے
کوئی جنگل میں جا ٹھہرے، کسی بستی میں بس جائے
محبت ساتھ ہوتی ہے
محبت خوشبوؤں کی لَے
محبت موسموں کا دَھن
محبت آبشاروں کے نکھرتے پانیوں کا مَن
محبت جنگلوں میں رقص کرتی مورنی کا تَن
محبت برف پڑتی سردیوں میں دھوپ بنتی ہے
محبت چلچلاتے گرم صحراؤں میں ٹھنڈی چھاؤں کی مانند
محبت اجنبی دنیا میں اپنے گاؤں کی مانند
محبت دل
محبت جاں
محبت روح کا درماں
محبت مورتی ہے
اور کبھی جو دل کے مندر میں کہیں پر ٹوٹ جائے تو
محبت کانچ کی گڑیا
فضاؤں میں کسی کے ہاتھ سے گر چھُوٹ جائے تو
محبت آبلہ ہے کرب کا
اور پھُوٹ جائے تو
محبت روگ ہوتی ہے
محبت سوگ ہوتی ہے
محبت شام ہوتی ہے
محبت رات ہوتی ہے
محبت جھلملاتی آنکھ میں برسات ہوتی ہے
محبت نیند کی رُت میں حسیں خوابوں کے رستوں پر
سُلگتے، جاں کو آتے، رتجگوں کی گھات ہوتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے
محبت مات ہوتی ہے
محبت ذات ہوتی ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


تِرے معاملے میں خود مرا دل
مرے مدِ مقابل ڈٹ گیا ہے


کٹ تو جاتی ھے
ہر اک رات مگر
یوں کہ یہ دل
ایک بے جان سے پتھر کی طرح
رات بھر
وقت کی راہوں میں پڑا
آتی جاتی ہوئی یادوں کی ہر اک ٹھوکر سے
کچھ سفر کرتا ہے
کچھ تھک کے ٹھہر جاتا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


اک دنیا


اک دنیا
بھول بھلیاں سی
اک گونگا، بہرا، اندھا دل


فرحت عباس شاہ
**********************


پیار کے سمندر میں
بھید بھید رہتا ہے


پیار کے سمندر میں
ہر اترنے والے کو
کشیاں نہیں ملتیں
دور دور تک جاناں
دھوپ کی مسافت ہے
اور کہیں بھی پل بھر کو
دھوپ کے مسافر پر
سائباں نہیں کھلتے
اس عجب سمندر میں
عمرکی ریاضت کے
بعد ہم نے جانا ہے
جس طرح فضاؤں میں
اڑنے والے پنچھی پر
برس ہا برس میں بھی
آسماں نہیں کھلتے
بحرِ بیکراں میں بھی
بھید بھید رہتا ہے
رازداں نہیں کھلتے
بام و در نہیں ملتے
آستاں نہیں کھلتے
ہر اترنے والے کو
کشتیاں نہیں ملتیں
اور مل بھی جائیں تو
بادباں نہیں کھلتے
پیار کے سمندر میں


فرحت عباس شاہ
**********************


مِرے خواب میری کہانیاں
مِرے بے خبر تجھے کیا پتہ


مرے بے خبر تجھے کیا پتہ
تری آرزوؤں کے دوش پر
تری کیفیات کے جام میں
میں جو کتنی صدیوں سے قید ہوں
ترے نقش میں ترے نام میں
مرے خواب میری کہانیاں
مرے زائچے مرے راستے
مرے لیکھ کی یہ نشانیاں
تری چاہ میں ہیں رکی ہوئی
کبھی آنسوؤں کی قطار میں
کبھی پتھروں کے حصار میں
کبھی دشت ہجر کی رات میں
کبھی بدنصیبی کی گھات میں
کئی رنگ دھوپ سے جل گئے
کئی چاند شاخ سے ڈھل گئے
کئی تن سلگ کے پگھل گئے
تری الفتوں کے قیام میں
ترے درد کے در و بام میں
کوئی کب سے ثبتِ صلیب ہے
تری کائناتوں کی رات میں
ترے اژدھام کی شام میں
تجھے کیا خبر تجھے کیا پتہ


فرحت عباس شاہ
**********************


افراتفری کے موسم میں
کس نے کہا تھا پیار کرو


کس نے کہا تھا
کچی پکی دیواروں پہ ہاتھ رکھو
کس نے کہا تھا
سایوں کے ہمراہ چلو
کس نے کہا تھا
صحراؤ ں میں راہیں ڈالو
بولو!
آخر کس نے کہا تھا
تن تنہا آوارہ بادل کی سیلانی چھاؤں میں
سستانے بیٹھو


فرحت عباس شاہ
**********************


مجھے تم سے محبت اب بھی ہے لیکن
اگر خوشبو بکھر جائے تو خواہش میں نہیں رہتی


میں ایسی ریت ہوں
جس کو کوئی مٹھی میں بھر کے
تیز اور آندھی ہواؤں میں اچھالے
اور چلا جائے


فرحت عباس شاہ
**********************


کاٹتا کتنے ہی لشکر میں اکیلا لیکن
تجھ کو اک لمحہ بھی محصور نہ رہنے دیتا


تجھ کو در پیش ہیں مجبوریاں
تو زخمی ہے
بے بسی ہے ترے چہرے سے عیاں کہ تو نے
کبھی دیکھا ہی نہیں
ان ہوسناک ابلتے ہوئے چہروں کے سوا
ان خطا کار نگاہوں کے سوا
میں بھی مجبور ہوں
مجھ کو بھی میری سسکتی ہوئی مجبور انا
ایک دن تیرے تصور سے جدا کر دے گی
دکھ تو یہ ہے
تری بانہیں کبھی اٹھی ہی نہیں میری طرف
ورنہ اس بے بس و مجبور سے شاعر کا لہو
تیرے ہاتھوں کی حنا دل کا اجالا بنتا
اور میں تیری ہر اک عام سی خواہش کے لیے
روح تک اپنی جلا دیتا مگر
تجھ کو مجبور نہ رہنے دیتا


فرحت عباس شاہ
**********************


میرے بھیگی آنکھوں والے


رونے والے !
اپنے بہنے والے آنسو !
میری آنکھوں میں دفنا دو
اپنی رونے وا لی آ نکھیں
میرے چہرے پر چپکا رو
اپنا چہرا
میرے دل کے اندر رکھ دو
پھر تم دیکھنا
کیسے سارے اک جیسے رنگ
اک جیسے رنگوں سے مل کے
اپنا آپ چھپا لیتے هیں


فرحت عباس شاہ
**********************


اتنی مدت بعد کہاں سے لوٹے ہو؟


بالکل پہلے جیسی ٹیسیں
بالکل پہلے جیسی لرزش
اُسی طرح کا رنج
لہو میں شدت بن کر دوڑ رہا ہے
اُسی طرح کا حبس جگر کو مسل رہا ہے
اُسی طرح کا بوجھ بدن کو روند رہا ہے
بالکل جاناں۔۔!
بالکل اسی طرح کا ساون
پھر آنکھوں میں آن بسا ہے
آخر تم کو کیا سوجھی ہے
اتنی مدت بعد کہاں سے لوٹے ہو؟


فرحت عباس شاہ
**********************


وحشتوں کی اماوس میں محصور اور خوف کی قید میں
ہم محبت کے مارے ہم اجڑے ہوئے اور بیمارِ دل


لکھو
محبت کے مارے بھی کیا ہیں
کبھی بند کمرے کی تنہائیوں میں
کبھی سرد تکیے کی بے مہر اور اجنبی گود میں منہ چھپائے
کبھی چاند راتوں میں
خالی چھتوں اور سنسان راہوں کی خاموشیوں میں بکھرتے
شکستوں، غضب ناک محرومیوں اور پسپائیوں کے صعوبت کدوں کا
عذابِ سفر جھیلتے
شاعری اور فسانوں کے بستر پہ حیراں نگاہیں جمائے
زمانے کی، لمحات کی اور خود اپنی سلگتی ہوئی ذات کی
وحشتوں کی اماوس میں محصور کوئی عجب اور گمنام ڈر جھیلتے ہیں
دلوں میں تمناؤں، خوابوں خیالوں کی قبریں لیے
اور بلکتی ہوئی بے قراری چھپائے
لہو میں مسلسل بسے دکھ سے گھبرا کے اور یاد سے ہار کے
نت نئی دوستی اور جھوٹی محبت کے صحراؤں میں
اور وفاؤں کے روشن چمکتے سرابوں کی دہلیز پر
زندگی ڈھونڈتے ہیں
ہواؤں سے خوشبوؤں کی بستیوں کا پتہ پوچھتے ہیں
لکھو
ہم محبت کے مارے۔۔ خود اپنی نگاہوں میں مجرم
ہم اجڑے ہوئے، منتشر، بے وفا، کھوکھلے اور بیمار دل
ہم نہ تیرے نہ میرے
نہ اس کے نہ اپنے
ہمیشہ ہمیشہ کے تکلیف دہ رتجگوں ک سیہ کھائیوں میں
پڑے اونگھتے ہیں
لکھو۔۔۔۔ ہم محبت کے مارے بھی کیا ہیں
لکھو


فرحت عباس شاہ
**********************


اے محبت اے مری راہِ حیات


اے محبت اے مری راہِ حیات
کھینچ لو واپس مجھے
ان بے حس و پتھر قبیلہ راستوں سے کھینچ لو
اب مرے کانوں میں میرے پیٹ کی بڑھتی ہوئی چیخ و پکار
گونجتی ہے جان لیوا کرب سے
اور ہوس کا شور گوغا پھیلتا جاتا ہے میرے چار سُو
شہر کے پکے مکانوں کی طرح سوش بنتی جارہی ہے بے مروت، بے زباں، بے آسماں
اور ٓہنی لمحات بوجھل کر رہے ہیں نرم خُو احساس کو
اور ارادے ریت بنتے جا رہے ہیں
ریت بے کردار، بے چہرہ، بے دل
ریت نقشِ رائیگاں
موسموں اور بارشوں کی دستکیں
ہو رہی ہیں بے صدا، بے آسرا
اور ہوتا جا رہا ہے زردیوں کا رنگ تیز اک بے سروپا وحشیانہ پن کے ساتھ
اے مری آوارگی اے سرد رات
اے مری بے رنگ ہوتی جاتی ذات
ہو کسی بھی طور اس دکھ سے نجات
جس طرح سے بھی ہو ممکن کھینچ لو
اے محبت اے مری راہِ حیات
اے محبت اے مری راہِ حیات


فرحت عباس شاہ
**********************


عشق کرے بے حال


نا دیکھے دکھ سکھ کے لمحے، نا دیکھےدن رات
نا دیکھے کوئی دھوپ برستی، نا دیکھے برسات
اس کے اپنےطور طریقے، اس کی اپنی چال
عشق کرے بے حال سہیلی، عشق کرے بے حال


صحرا صحرا سفر کرائے، جنگل جنگل روکے
بستی بستی بھیک منگائے، دے دے سو سو دھوکے
قدم قدم پر گورکھ دھندا، قدم قدم پر جال
عشق کرے بے حال سہیلی، عشق کرے بے حال


آپ بھرے رگ رگ کےاندر، ایک دہکتی آگ
آپ کہے پھر کان میں آ کے، بھاگ دِوانے بھاگ
آپ ہی مہلک وار کرے اور آپ بنے پھر ڈھال
عشق کرے بے حال سہیلی، عشق کرے بے حال


فرحت عباس شاہ
**********************


ہم چاہت کے ونجارے پیا


کوئی مفت میں لے یا مول کرے
جو جی میں آئے ڈھول کرے
ہم بانٹیں چاند ستار ے پیا
ہم چاہت کے ونجارے پیا


کوئی بھلے کسی سے پیار کرے
کوئی نفرت کا اظہار کرے
کوئی جیتے یاکوئی ہارے پیا
ہم چاہت کے ونجارے پیا


کوئی خوش ہو کر انکار کرے
کوئی چھینے یا بیوپار کرے
کوئی جھڑ کے یا کوئی مارے پیا
ہم چاہت کے ونجارے پیا


آنکھوں میں عجب سی من مانی
چہرے پہ بلا کی ویرانی
کوئی سمجھے اگر اشارے پیا
ہم چاہت کے ونجارے پیا!


فرحت عباس شاہ
**********************


بول محبت


محبت بول محبت
محبت بول محبت ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تری چپ کا بھید ایمان
کب سمجھ سکا انسان
تری دھیان اور گیان کے نور سے
آ جاتی ہـے پہـچان
تری گہرائی میزان
کبھی کچھ تول محبت
محبت بول محبت
تری چپ کا بھید کمال
کوئی سمجھ سکا نہ حال
تری چپ کے سرد جلال سے
یہاں ہـو گئے سبھی نڈھال
تری گہرائی میں لال
کبھی کوئی رول محبت
محبت بول محبت


تری چپ کا بھید عجب
کوئی سمجھ سکا ہـے کب
تری چپ کے شور کے زور سے
یہـاں گونگے ہـو گئے سب
تری گہرائی میں رب
کبھی لب کھول محبت
محبت بول محبت
محبت بول محبت


فرحت عباس شاہ
**********************


کہیں جذبوں کی یورش ہے


محبت میں نہ جانے فاصلوں کی ریت کیسی ہے
کہیں الفاظ کے انبار ہیں پر لکھ نہیں سکتے
کہیں جذبوں کی یورش ہے
مگر کچھ کہہ نہیں سکتے
کہیں کچھ بھی نہیں ہے
پھر بھی کہنا لکھنا پڑتا ہے
کبھی احساس پوروں کے کناروں پر اگا ہے
پھر بھی اس کو چھو نہیں سکتے
کبھی خود لمس اتنا دور ہے کہ خواب سا محسوس ہوتا ہے
کبھی خوش ہیں
تو پلکوں کی نمی سے پھوٹتی لرزش نہیں جاتی
کبھی دل کرب کی شدت سے جیسے پھٹ رہا ہوتا ہے
لیکن ہنسنا پڑتا ہے
محبت میں نہ جانے فاصلوں کی ریت کیسی ہے
اسے بے چہرگی کا دکھ کہوں یا بے بسی کا دکھ
اسے واپس پلٹنا پڑ گیا ہے
اور مجھے کہنا پڑا ہے
راستے لوٹا نہیں کرتے


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت فاصلہ بردار پنچھی ہے


محبت فاصلہ بردار پنچھی ہے
کبھی اڑتا ہوا دیکھو تو سمجھو
آسمانی دشت اب کے واپسی مسدود کر دیں گے
فضا کی بے کراں وسعت میں اڑتا دوریوں کا پار طے کرتا
کبھی کوئی فسردہ شام ڈھلنے پر
کسی منڈیر پر بیٹھا نظر آتا ہے
اور ہم دامِ رنگا رنگ ہاتھوں میں لیے بڑھتے ہیں
اور بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن فاصلہ گھٹتا نہیں
محبت تشنگی بردار صحرا ہے
سرابوں کے نصابوں سے بھرا
تشنہ لبی کے باب میں ہر پل نیا انداز بدلے
رہروانِ شوق کو بے حال کرتا
اَلعَطَش کہنے نہیں دیتا


محبت زندگی بردار سپنا ہے
جو امیدوں کے کچے ساحلوں پر
منہ لپیٹے رات دن
آتش زدہ ارماں اٹھائے پھر رہا ہے
اور سجائے پھر رہا ہے تازیانے پُشت پر


فرحت عباس شاہ
**********************


عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا


عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ناشناسائی پہ حیراں
بے حسی پر سخت نالاں دہر کی
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
بال بکھرائے
سمیٹے دھجیاں ملبوس کی
پاؤں میں پہنے ہوئے زخموں کی نعلینِ کہن
پتھروں کو کھٹکھٹاتا پھر رہا ہے
ڈالتا پھرتا ہے نظریں قہر کی
اپنے جھولے میں لیے کچھ بت پرانے
اور کچھ گڑیاں کسی بیتے زمانے کی
نہ جانے زیر لب کیا بڑبڑاتا پھر رہا ہے
بے خبر ہے اپنی حالت سے کہ خلقت ہنس رہی ہے ہر گلی کے موڑ پر
اور سن رہا ہے سسکیاں بھی فطرت نمناک کی
پر بیچ رستوں کی لگامیں تھام کر بھی
کائناتوں تجردّ انگلیوں سے باندھ کر بھی
دل میں کوئی غم چھپائے پھر رہا ہے
وقت کی دھڑکن پہ رکھتا اپنے قدموں کے نشاں
چکرا رہا ہے
اڑتے پھرتے کاغذوں، پتوں، پروں کے درمیاں
ہنس رہا ہے
روتے روتے
رو رہا ہے ہنستے ہنستے
پتھروں، پتھر گروں کے درمیاں
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی


فرحت عباس شاہ
**********************


اے تمنا اے مری بادل سوار


اے تمنا اے مری بادل سوا
آ گلے لگ جا مرے اور کھل کے رو
رو سمندر خشک ہیں بھر دے انہیں
رو کہ دریا جل رہے ہیں ریت میں
راکھ ہوتے جا رہے ہیں خیمہ ہائے زندگی
اور ترے چہرے پہ رنگِ آتشِ نمناک ساکت ہو گیا ہے
روک لے اپنا سفر اور مڑ کے دیکھ
اپنے ان قدموں تلے روندے گئے گم سُم نقوشِ پا اٹھا
رکھ بڑے ہی دھیان سے یہ چھوٹی چھوٹی میتیں دل میں کہیں
سردخانوں کی ضرورت ہی نہیں
ہاتھ میں کافی ہے خالی ہاتھ
تیری بے بسی پر بین کرنے کے لیے
چوم آنکھوں سے خراشیں
آئینوں سے چھیل کر
ان کیفیاتِ حاصل و لاحاصلی سے ہاتھ دھو
کچھ تو ہو اس بے کسی میں کچھ تو ہو
اے تمنا اے مری بادل سوار
آ گلے لگ جا مرے اور کھل کے رو


فرحت عباس شاہ
**********************


آخری وقت ابھی دور سہی


شام کا اپنا ہی انداز ہے دکھ دینے کا
ہر نئے روز لہو رنگ شفق
منظرِ خونِ سفر یاد دلا جاتی ہے
نیم تاریکی اترتی ہے رگوں میں اور پھر
ان گنت گمشدہ شہروں میں لیے پھرتی ہے
لوٹنے والے پرندے کسی آبادی سے
بن کہے کچھ بھی گزر جاتے ہیں
ان پرندوں کی خموشی کا بھی اپنا دکھ ہے
ڈھل گئی عمر کی مانند تری چاہ اگر
اور ٹھٹھرتے ہوئے موسم نے سنبھالا نہ لیا
اور اگر بیٹھ گئے سڑکوں پہ آکر فٹ پاتھ
ان پہ سوئے ہوئے پردیسی بھی گر سوئے رہے
جانتے ہو کہ یہاں پچھلا جنم کوئی نہیں
اور نہ کوئی اگلا جنم ہے کہ عقائد کی تسلی میں کہیں دم لے لیں
وقت نازک ہے
مگر پھر بھی ابھی ہاتھ میں ہے
ایک اک لمحہ کسی نالاں و ناراض وفادار کی مانند گزرتے ہوئے
کچھ سوچتا ہے رکتا ہے
تم جو تقسیم پہ خوش ہو تو چلو یونہی سہی
ہم نے زِچ ہو کے
ترا ہجر سجا ڈالا ہے بازاروں میں
تُو نے سمجھا ہی نہیں
کتنا مشکل ہے کہ بیچے کوئی زیور اپنا
آخری سسکی اگر آدھی گلے میں رہ جائے
کاش مل جائے کوئی کرب سمجھنے والا
آخری ہچکی ابھی دور سہی دور سہی
شام کا اپنا ہی انداز ہے دکھ دینے کا


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت میں انا کا کردار


اس سے ملنا نہیں
عمر آنکھوں کے صحراؤں میں آ کے کٹنے لگی ہے
جدائی کسی جانکنی کے تڑپتے پلوں کی طرح
جسم و جاں میں اتر کر لرزنے لگی ہے
ہوا برف بن کے ٹھٹھرتی اداسی کے ہمراہ
سوچوں کے سنسان گھر میں اترنے لگی ہے
مگر
اس سے ملنا نہیں
دل دھڑکتا ہے
لیکن خوشی کا کوئی گیت بجتا نہیں
بارشیں ہو رہی ہوں بدن بیگھتا ہی نہیں
سانس چلتی ہے
احساس ہوتا نہیں
اور اگر چہ شبیں سانپ بن کے
خیالوں کے نازک بدن سے لپٹنے لگی ہیں
رگیں صبر کے جبر سے گویا پھٹنے لگی ہیں
مگر ہم انا کے جزیروں میں
جس جس جگہ جم چکے ہیں
وہاں سے بھی ہلنا نہیں
چاک کچھ اس طرح سے ہوا ہے جنوں میں حسیں پیرہن
اس سے مل کے بھی سلنا نہیں
لاکھ صورت بنے
بے نشاں موسموں میں کوئی پھول کھلنا نہیں
اس سے ملنا نہیں
عمر آنکھوں کے صحراؤں میں آکے کٹنے لگی ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


سنو لیلیٰ!


وہ دن جب میں تمہاری ذات سے بدظن ہوا کرتا تھا لیلیٰ
وہ تمہارے بس میں ہی کب تھے
یہ میں نے آج جانا ہے
تمہارا اپنا دامن ہی تہی تھا
اور تمہارے اپنے موسم ہی سرے سے خشک تھے
تالاب خالی تھے
اور ایسے میں مرے وہم و گماں کاری
مگر آواز نا پختہ تھی
جو بنجر فضا ؤں میں کہیں سفرِ ریاضت کاٹتی تھی
اور خالی لوٹا کرتی تھی
مری جاں تم یقیں جانو
تمہاری بے وفائی سے مجھے شکوہ ہے کوئی اور نہ کوئی دکھ تمہاری اجنبیت کا
مری بے چینیاں بینائی حاصل کر چکی ہیں
اور مری آواز پختہ ہو گئی ہے
اور وہ دن جب میں تمہاری ذات سے بدظن ہوا کرتا تھا
میں نے آج سمجھے ہیں


فرحت عباس شاہ
**********************


بچپن


اور کچھ دیر مرے ساتھ چلو
اور مجھے تھام کے رکھو کچھ دیر
گو کسی طور مجھے عدم تحفظ کا نہیں ہے احساس
پھر بھی اک بچہ جو بیٹھا ہے مری ذات کی پر توں میں کہیں
تیرے پہلو میں سمٹنا چاہے
ہو سکے تو مجھے جھڑکو بھی شرارت پہ مری
گو شرارت مری عادت میں نہیں ہے شامل
پھر بھی کچھ دیر کو معصوم سا بن جانا بھلا لگتا ہے
اور کچھ دیر میرے ساتھ چلو
لے چلو انگلی پکڑ کر میری
اور مجھے چند کھلونے لے دو
گو کھلونوں کی نہیں عمر مری
پھر بھی کیا حرج ہے کچھ دیر بہل جانے میں
اور کچھ دیر میرے ساتھ چلو
اور کچھ دیر میرے ساتھ چلو


فرحت عباس شاہ
**********************


بھٹّی


جانے کیا کچھ
جلتا ہو گا سینے میں
اتنا تلخ دھواں تھا آنکھیں خون ہوئیں


فرحت عباس شاہ
**********************


بے اُصولی


دیارِ رمز و کنایہ میں
اس طرح تو نہ تھا
کہ داستاں کھلے راستوں میں لے کے پھریں
کہیں رکھیں کوئی گم گشتہ یاد بر لبِ جاں
کہیں وقوع
کہیں واقعہ
کہیں واقف


فرحت عباس شاہ
**********************


آداب جنوں


ہوں حرف حرف پہ پردے
تو گفتگو کیسی
ہر ایک خطّے کا اپنا الگ ہے جاہ و جمال
ہے رسمِ دشت نوردی
تو کُو بہ کُو کیسی
سلوکِ قرب ہر اک طرزِ آرزو چاہے
جلا ہوا ہی نہ ہو دل
تو جستجو کیسی


فرحت عباس شاہ
**********************


گرفتِ فنا


دنیائے عشق و مشک میں
جو جو تھا
زیرِ آتش دلدوزلے گی
وحشت
تمام عالم پُر سوز لے گی
بس اِک عجب تصّورِ شوقِ فنا رہا
جو کچھ بھی تھا صحیفہ ِ آموز لے گی


فرحت عباس شاہ
**********************


صحرا


گھٹنے لگی
مسافتِ دم
دشت عشق میں
پھیلا ہوا ہے
دشتِ الم
دشت عشق میں
سیل بلا
ہواؤں کا مرہون کب ہوا
اندر سے پھوٹتا ہے ستمِ دشتِ عشق میں


فرحت عباس شاہ
**********************


بات بھی محبت کی


رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی


بات کا اجالا ہے
بات بھی محبت کی


گھات کی ضرورت ہے
گھات بھی محبت کی


نرم گرم خاموشی
سہج سہج سر گوشی


چور چور دروازے
کون چھپ کے آیا ہے


آرزو نے جنگل میں
راستہ بنایا ہے


جھینپتے ہوئے آنگن
نے درخت سے مل کر


کچھ نہ کچھ چھپایا ہے
آسمان کی کھڑکی میں


سکھ بھری شرارت سے
چاند مسکرایا ہے


چاند مسکرایا ہے
چاندنی نہائی ہے


خوشبوؤں نے موسم میں
آگ سی لگائی ہے


عشق نے محبت کی
آنکھ چومنا چاہی


اور ہوا کے حلقے میں
شوخ سی نزاکت سے


شاخ کسمسائی ہے
رات کا سمندر ہے


رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے


بات بھی بھی محبت کی
بات کے سویرے میں


زندگی کے گھیرے میں
روح ٹمٹمائی ہے


وصل جھلملایا ہے
دل نے بند سینے میں


حشر سا اٹھایا ہے
کون چھپ کے آیا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت چاند کی کرنوں کا ہالہ ہے


محبت کاسنی رنگوں کا جھرمٹ ہے
ذرا گہرا ہوا اور آسمانوں پر اداسی چھا گئی
اک رازداری کا حسیں آہنگ
جیسے گونجتا ہو دور تک ہر ساز میں
آواز پہلے سی نہیں رہتی
مگر آنکھوں کے موسم موسموں کا حُسن جیسے پہن لیتے ہیں
محبت چاند کی کرنوں کا ہالہ ہے
جسے بس چاند کی چاہت میں اس کے گرد رہنا ہے
سوا کرنا ہے اس کے حُسن کو
لیکن ذرا اوروں سے اس کو مختلف کر کے
محبت گیت کا احساس ہے
گر پاس ہے تو نغمگی پھوٹے گی اک اک انگ سے
ہر سنگ سے آواز آئے گی
محبت وقت کا اک کھیل ہے
دل کے کھلونوں سے کبھی کھیل، کبھی توڑے
کبھی محفوط کر کے رکھ دیے
یا پھر
کبھی اکتا کے سب دفنا دیے لمحوں کی قبروں میں


فرحت عباس شاہ
**********************


خواب زادی


خواب زادی
مرے شہرِ ویران سے لوٹ جا
رتجگوں کی قسم
شہرِ ویران کا کوئی بازار، کوئی گلی، کوئی گھر
سبز رنگوں کے موسم سے واقف نہیں
شام کا ماتمی دھندلکا
رات کی نوحہ خواں تیرگی سے بھی زیادہ المناک ہے
پھول کھلنے کی امید میں شاخ مرجھا گئی ہو جہاں
اور جاڑے کے جھوٹے دلاسوں سے بہلی ہوئی سر زمیں
اپنا احساس ہی کھا گئی ہو جہاں
اور برسات بھی راکھ برسا گئی ہو جہاں
کیا ملے گا تجھے
تو مِری مان اور خامشی سے اَٹی
راہِ سنسان سے لوٹ جا
فاصلوں کی قسم
شہرِ ویران میں بس تصور ہی بستا رہا ہے ہمیشہ
کبھی خوشبوؤں کا کبھی خوشبوؤں سے بھری صبحِ بے گرد کا
چاند کا تو کبھی چاند کے درد کا
دوستوں کا کبھی اور کبھی دشمنوں کا
کبھی عام سے فرد کا
وہ تصور کہ جس نے کبھی بھی کہیں جسم پہنا نہیں
وہ تصور کہ جس نے کبھی دل کے زخموں پہ
مرہم تو کیا
پیار سے ہاتھ بھی رکھ کے دیکھا نہیں
چکھ کے دیکھا نہیں ذائقہ جس نے
محرومیوں کے علاوہ کسی روپ کا
ایک ہی وقت دیکھا ہے اس نے مسلسل
کڑی دھوپ کا
جس نے اک لمحے کو بھی تو سوچا نہیں
اس کی پاداش میں ہم پہ بیتا ہے کیا
ہم نے ہارا ہے کیا اس نے جیتا ہے کیا
خواب زادی
یہاں ہر قدم پہ
دعاؤں کے سینوں میں بہری ہواؤں کے نیزے گڑے ہیں
سسکتی وفاؤں کے پتھر پڑے ہیں
اگر اتفاقاً کبھی آ بھی جاؤ
تو دو نیم مُردہ تھکی ہاری آنکھیں
گُلِ اَشک تم پر نچھاور کریں
بے زبانی میں جکڑے ہوئے راستے
وَا کریں اپنی بانہیں
کراہیں تمہارے لیے شادیانے بجائیں
تو کیا اتنے پس ماندگانِ محبت کے حسرت زدہ بین تم سے سنے جائیں گے؟
بُنے جا سکیں گے دوبارہ وہ سپنے؟
جنھیں کوئی بُنتا نہیں
کیا سُنے جا سکیں گے وہ نوحے؟
جنھیں کوئی سُنتا نہیں
خواب زادی!
ابھی وقت ہے
اب بھی دستک نہ دے
اپنی جانب لپکتا الم روک لے
تیری آنکھوں کی معصومیت میں
پرانے دکھوں کی لکیریں تو ہیں
پھر بھی کتنے ہی گوشے
ابھی
جستجو کے مصائب سے خالی
تمناؤں کے کرب سے اتنے واقف نہیں
تیرے چہرے پر کھلتی ہوئی چاندنی بھی ابھی
ہجر کی گرد سے صاف اور پاک ہے
تیری آواز کے سُر
ابھی تک اذیت بھری لرزشوں سے بہت دور ہیں
ترے ہونٹوں کی نرمی
ابھی تک جدائی کی سختی سے محروم ہے
ان کو محروم رہنے دے اور
ان کی شیرینیوں پہ مچلتی جو مسکان ہے
یہ تو انجان ہے
یہ تو کتنی ہی بے چینیوں کا سفر جانتی ہی نہیں
خواب زادی
زمینِ تمنا کی اس بستیِ کرب کے پیچ و خم کی طرف
اپنا بڑھتا ہوا ہر قدم روک لے
خواب زادی
تو کس سوچ میں گم کھڑی ہے مرے دل ک دہلیز کے پاس
بامِ پریشان سے لوٹ جا
لوٹ جا اس دریچہِ ارمان سے لوٹ جا
میں ہنسا اور تو نے یہ جانا کسی اَنگ کی سر خوشی سے ہنسا ہوں
میں بولا تو تُو نے یہ سمجھا کسی سُکھ نے رستہ دیا ہے
میں کچھ گنگنایا تو تُو نے یہ سوچا مری روح میں نغمگی بولتی ہے
تجھے کیا پتہ
لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کو مٹی میں دفنا کے آتے ہیں
اور گنگ ہوتے نہیں
ارتھیاں بھی اٹھاتے ہیں پیاروں کی
اور سانس بھی لے رہے ہوتے ہیں
اور مرتے نہیں
اور پھر کچھ دنوں بعد ہی
مسکراتے بھی ہیں
کھلکھلاتے بھی ہیں
میں بھی سینے میں
آہوں کی ٹھنڈی ہوائیں لیے
آنسوؤں کے سمندر چھپائے
کہیں آس کی دھول اڑتی ہوئی قبر پر
تو کہیں آرزو کی ٹھٹھرتی ہوئی لاش پر
مٹھیاں بھینچتے، دانت ہونٹوں کے زخمی بدن پر جمائے
چلا جا رہا ہوں
مری خواب زادی سنو
میں تو میت زدہ گھر کی چوکھٹ ہوں
جس پہ کوئی ایک بھی رونے والا نہیں
جس کی خاطر ابھی سالہا سال تک
شہر میں کچھ بھی تو ہونے والا نہیں
تُو تو خود ایک دنیا ہے ہنستی ہوئی مسکراتی ہوئی
خوشبوئیں بانٹتی گیت گاتی ہوئی
اپنے منظر مری بدنصیبی کی پہلی نظر سے بچا
لوٹ جا، لوٹ جا
خواب زادی مِری شاہ زادی
ابھی تک جو میرے تمہارے صبح و شام کے درمیاں
جس قدر بھی ہے تھوڑی سی
اس جان پہچان سے لوٹ جا
شان سے لوٹ جا
خواب زادی
مرے شہرِ ویران سے لوٹ جا


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت گمشدہ میری


محبت گمشدہ میری
میں کوئی
رندِ آوارہ
بدن پر اپنے خوابوں کے شکستہ چیتھڑے اوڑھے
برہنہ پا، نہتّا، بے سروساماں
شکاری راستوں کے غول میں
سمتوں کی دیواروں پہ اپنا سر پٹکتا
ڈھونڈتا ہوں
بستیوں کو واسطے دیتا
گلی کوچوں کی بے رحمی کے نرغے میں
بمشکل سانس لیتا ہوں
کسی کی آنکھ سے الجھا
کسی کے دامنِ خوش رنگ کے چقماق سے چندھیا گئیں
بینائیوں پر ہاتھ رکھتا
چل رہا ہوں
چل رہا ہوں اور نہ کوئی رُت پتہ دیتی ہے اُس کا
اور نہ کوئی پل رسائی دے رہا ہے
بس کئی بے مہر برسوں سے
سرابِ اعتبارِ دہر کے گھیرے میں
زخموں کے حسیں تمغے سجاتا دل کے شانوں پر
مسلسل جل رہا ہوں
مسلسل جل رہا ہوں میں
محبت گمشدہ میری


فرحت عباس شاہ
**********************


آ گلے مِل


گلے مل
آ گلے مل اے مری بادِ صبا
مندمل ہوں زخم سینے کے
گھٹن آزاد ہو جائے
گھٹن آزاد ہو اور دل کے ویرانے میں کوئی شہر سا آباد ہو جائے
کہیں بے رونقی کوئی کھڑی ہے
تو وہیں برباد ہو جائے
گلے مِل
آ گلے مِل اے مری شبنم
میرے تپتے سُلگتے تن بدن کی
آگ بجھ جائے
جہاں بھی روح میں
جو جو الاؤ سا دہکتا ہے
بس اُس کا بھاگ بجھ جائے
جو دھوکا دے رہا ہے
ہر گھڑی
سطح سمندر پر جزیرے کا
وہ سارا جھاگ بجھ جائے
گلے مِل
آ گلے مل خواب میں
یہ بھی اضافہ ہو کتابِ وصل میں
یہ بھی اضافہ ہو کتابِ وصل میں
احساس کے گرداب میں
مجھ سے گلے مل
اے گلِ لالہ مرے صحراؤں میں کھل
چوم لے تا کہ ترے دل کو مرا بے چین دل


فرحت عباس شاہ
**********************


خطوں میں دفنایا ہوا جیون


نگر شاداب ہے
بازار کے ہر موڑ پر رونق لگی ہے
اور گھروں سے مسکراتی زندگی کی دلنشیں آواز آتی ہے
شجر ٹھنڈی ہواؤں میں گھرے ہنستے ہیں
پتے دیر تک تالی بجاتے ہیں
دریچے آنکھ سے آباد
دہلیزیں سجی ہیں نِت نئے قدموں کی جھالر سے
اُسے رنگوں سے الفت تھی
گھرا ہے آج بھی رنگوں کے مجمعے میں
کہیں دامن پکڑتا
اور کہیں پلّو چھڑاتا کھلکھلاتا ہے
اسے گیتوں سے اتنا پیار تھا
جتنا کسی کوئل کو جنگل سے
وہ اب بھی ادھ کھلے، کچے، رسیلے گیت
سانسوں میں پروئے گنگناتا ہے
سمندر لوٹتا پھرتا ہے خوشیوں کے
مجھے دیوانگی تھی حرف لکھنے کی
جنوں تھا لفظ کہنے کا
ادھورے، مضطرب، بے چین، پژمردہ، حروفِ بے زباں
الفاظِ بے چہرہ
سو لکھتا پھر رہا ہوں درد کے نیلے لفافے پر
بھلا
ایسے شکستہ اور بوسیدہ خطوں کو کون پڑھتا ہے
خطوں میں ہم نے تو دفنا دیا جیون
مگر پھر بھی
نگر شاداب ہے
بازار کے ہر موڑ پر رونق لگی ہے
اور اُسے فرصت نہیں ملتی


فرحت عباس شاہ
**********************


مجھے تم یاد آتے ہو


تم مجھے یاد نہیں آتے
لوگوں سے
اور اپنے آپ سے
میں یہ بات کہہ کہہ کر تھک گیا ہوں
---------------
کسی بچھڑے ہوئے کی چشم پرنم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمھارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی با رونق سڑک پر
اور کسی دریا، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
مجھے تم یاد آتے ہو
میری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے
مِری بے چینیوں میں جب تمھاری تند خو رنجش کھٹکتی ہے
تمھاری بے سبب دوری سلگتی ہے
یا پھر جب بھی مِری آنکھوں کے صحرا میں
تمھاری یاد کی تصویر جلتی ہے، جدائی ہاتھ ملتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مقدر کے ستاروں پر
زمانوں کے اشاروں پر
اداسی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر
مجھے تم یاد آتے ہو
سہانی شام ہو کوئی
کہیں بدنام ہو کوئی
بھلے گل فام ہو کوئی
کسی کے نام ہو کوئی
مجھے تم یاد آتے ہو
کہیں بارش برس جائے
کہیں صحرا ترس جائے
کہیں کالی گھٹا اترے
کہیں باد صبا ٹھہرے
تمھارے اور میرے درمیاں آ کر خدا ٹھہرے
تو میری زندگی کے اوّل و آخر
تم اس لمحے
خدا کے بعد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو


فرحت عباس شاہ
**********************


ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے


آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
عمر گزری تجھے دیکھے ہوئے بہلائے ہوئے
یاد ہے؟
ہم تجھے دل مانتے تھے
اپنے سینے میں مچلتا ہوا ضدی بچہ
تیرے ہر ناز کو انگلی سے پکڑ کر اکثر
نت نئے خواب کے بازار میں لے آتے تھے
تیرے ہر نخرے کی فرمائش پر
ایک جیون کہ تمناؤں کی بینائی سے ہم دیکھتے تھکتے ہی نہ تھے
سوچتے تھے
ایک چھوٹا سا نيا گھر
نيا ماحول
محبت کی فضا
ہم دونوں
اور کسی بات پر تکیوں سے لڑائی اپنی
پھر لڑائی میں کبھی ہنستے ہوئے رو پڑنا
اور کبھی روتے روتے ہنس پڑنا
اور تھک ہار کے گر پڑنے کا مصوم خوش بخش خیال
یاد ہے؟
ہم تجھے سکھ جانتے تھے
رات ہنس پڑتی تھی بےساختہ درشن سے ترے
دن تیری دوری سے رو پڑتا تھا
یاد ہے؟
ہم تجھے جاں کہتے تھے
تیری خاموشی سے ہم مرجاتے
تیری آواز سے جی اٹھتے تھے
تجھ کو چھو لینے سے اک زندگی آ جاتی تھی شریانوں میں
تھام لینے سے کوئی شہر سا بس جاتا تھا ويرانوں میں
یاد ہے؟
ہم تجھے ملنے کے لیے
وقت سے پہلے پہنچ جاتے تھے
اور ملاقات کے بعد
ہم بہت دیر سے گھر آتے تو کہتے کہ ہمیں کچھ نہ کہو
ہم بہت دور سے گھر آئے ہیں
اس قدر دور سے آئے ہیں کہ شاید ہی کوئی آ پائے
یاد ہے؟
ہم تجھے بھگوان سمجھتے تھے مگر کفر سے ڈر جاتے تھے
تیرے چھن جانے کا ڈر ٹھیک سے رکھتا تھا مسلمان ہمیں
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
تیرے بھولے ہوئے رستوں پہ لیے پھرتا ہے ایمان ہمیں
اور کہتا ہے کہ پہچان ہمیں
یاد ہے؟
ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے


فرحت عباس شاہ
**********************


بس تمہیں یاد رکھا ہے دل نے


اس قدر لفظ کسے یاد رہیں
زندگی، زخم، سہارا اورتم
تم،وفا،خواب،پریشانی، فراق
یاد،مجبوری،تمنااورتم
بھوک، فٹ پاتھ،سڑک، کچےرستے
اس قدر لفظ کسے یاد رہیں
بس تمہیں یاد رکھا ہے دل نے
غیر واضح ہے سفر
پھر بھی ضروری ہے رکھے جائیں قدم صاف شفاف
کوئی تو راہ سلامت ہو گی
جو تری یاد سے ہوتی ہوئی آبادی تلک جائے گی
ایسی آبادی تلک جس میں کسی لفظ کا مفہوم کسی خوف، کسی دھوکے، کسی ہجر سے
وابستہ نہیں ہو گا کہیں
ایسی آبادی تلک
حافظہ جس میں کسی لفظ سے کترانا نہیں چاہے گا
حرف، الفاظ، عبارت اور تم
زندگی ، شوق، محبت اور تم
خواب، آسائشِ جاں
حُسن، عبادت اور تم
ایسی آبادی جہاں
جس قدر لفظ ہوں، دہرائے بنا یاد رہیں


فرحت عباس شاہ
**********************


کون ہمیں یاد آیا


مضمحل کیسے ہوئے
کس نے کیا اتنا اداس
چلتے چلتے جو کسی روئی ہوئی یاد سے ٹھوکر کھائی
ہولے ہولے سے سسکتی ہوئی تنہائی میں
لڑکھڑایا جو کسی بیتے ہوئے دن کا خیال
ملگجی روشنیاں رات بڑھا دیتی ہیں
ڈھانپ دیتی ہیں گھٹائیں جو کسی سورج کو
آنکھ بھی ایسے خیالات سے بُجھ جاتی ہے
دل کی ویران سڑک اور خموشی ہر سُو
ایک پتہ بھی کھٹک جائے تو ڈر جاتی ہے
نیم سوئی ہوئی خواہش ترے آجانے کی
نیم بیدار تمنا کی خلش کون سنے
ہاتھ میں تھامے ہوئے اُجڑا ہوا ہجر، ہوا آتی ہے
چھو کے رخسار گزر جاتی ہے
اور کوئی زرد دلاسہ بھی نہیں دیتی ہمیں
خشک آنکھوں میں لگا جاتی ہے ہر بار نئے غم کی خراش
بہنے لگتی ہے خزاں کاجل سے
بھولنا اس سے تو بہتر ہے اگر بس میں ہو
کون ان سنگ زدہ راہوں میں ٹکراتا پھرے
جا بہ جا اُبھرے ہوئے لمحوں سے
پوچھتا کون پھرے کس نے کیا اتنا اداس
مضمحل کیسے ہوئے
کون ہمیں یاد آیا


فرحت عباس شاہ
**********************


بہت مدت بعد


رات! ایسے نہ گزر
رات! ایسے نہ گزر
ٹھیر
ذرا ٹھیر مجھے ملنے دے
اس کی آواز کی پرچھائیں سرِ کوچہِ دل راستہ بھول آئی ہے
اس کے آباد بدن کی رونق
دشتِ احساس میں لہرائی ہے
اس کے ماحول کی بھینی خوشبو
آ کے خاموشی سے مُسکائی ہے
رات! ایسے نہ گزر
اک ذرا ٹھیر
مجھے ملنے دے
میرے اجڑے ہوئے باغیچے میں
کوئی پھول ذرا کھلنے دے
کوئی زخم کبھی سلنے دے
اک ذرا ٹھیر
مجھے ملنے دے
رات! ایسے نہ گزر


فرحت عباس شاہ
**********************


عمر قید


دل کے پاؤں میں درد کی بیڑی
ہاتھ میں خواہشوں کی ہتھکڑیاں
طوق گردن میں عہد و پیماں کا
وحشتِ غم کی چار دیواری
اِک ملاقاتی
وہ بھی بھول گیا
کون تھا قید میں
کہاں پر تھا
اک رہائی تھی
وہ بھی لوٹ گئی
ایک رُوزن تھا
وہ بھی بند ہوا


فرحت عباس شاہ
**********************


واپسی


کوئی رات یاد نہیں رہی
کوئی شام پاس نہیں رہی
کوئی دن اداس نہیں رہا
تیرے عشق میں
میرے دل کی ساری ریاضتیں
کسی گہری دھند میں کھو گئیں
مجھے میرے دکھ میں ڈبو گئیں


فرحت عباس شاہ
**********************


ایک دوجے سے یہی پوچھ رہے ہیں ہم تم


ہم سے کس راہ تک آ پہنچے ہیں
تھوڑا چلتے ہیں تو لوٹ آتی ہے
موڑ مڑتے ہیں تو دیوار نظر آتی ہے
تم مِلے
اور یہاں دیر کے بعد
روح کی اجڑی ہوئی بستی میں دروازہ کھلا
ایک جھونکا بھی۔۔۔ بہت دور سے آتا ہوا محسوس ہوا
ایک پتھر کہ جسے چاند کے پچھتاوے میں
دل نے ہر درد کی پیشانی پہ دھر رکھا تھا
یوں لگا جیسے ذرا کھسکا ہو
یوں لگا، ایسے لگا، ویسے لگا۔۔۔۔
کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، پاگل پن ہے
سب کا سب مسلی ہوئی روح کا پاگل پن ہے
ورنہ سچ اتنا ہے بس
اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے گرتے ہوئے اشکوں کے کناروں پہ کھڑے ہم اور تم۔۔
ہم اور تم
تم مجھے دیکھ کے پوچھو۔۔۔ ہنس دو۔۔۔۔ کوئی ویران ہنسی سی ہنس دو۔۔
میں تجھے دیکھ کے پوچھوں۔۔۔ رو دوں۔۔۔۔ کوئی لاچار سا رونا
رو دوں
تھوڑا چلتی ہے تو لوٹ آتی ہے
موڑ مڑتے ہیں تو دیوار نظر آتی ہے
ہم یہ کس راہ تک آ پہنچے ہیں


فرحت عباس شاہ
**********************




کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو


کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو
خیال رکھنا
ہوائیں، بادل، فضائیں، موسم، خیال
چہرے بدل بدل کر تمہیں ملیں گے
تو لمحہ لمحہ بدلتے رنگوں کے شوخ دھوکےمیں آ نہ جانا
کبھی جو چاروں طرف تمہارے
کرن کرن اپنا خواب آسا بدن نکھارے
زمیں پہ اترے
تو دھندلکوں میں سما نہ جانا
کبھی جو آنکھوں میں چاند ہنس ہنس کے چاندنی کا خمار بھر دے
تو اپنی آنکھیں کہیں خلا میں گنوا نہ آنا
کہ یہ نہ ہو پھر جو خواب ٹوٹے
دھنک دھنک کا سراب ٹوٹے
کہ جسم و جاں پر عذاب ٹوٹے
اور تم بمشکل لرزتے ہاتھوں سے
کرچی کرچی بدن سنبھالے
کہیں بلندی پہ چڑھ کے رستی ہوئی نگاہوں سے
واپسی کے نشان ڈھونڈو
اجڑ گیا جو جہان ڈھونڈو
کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو خیال رکھنا
کہیں سے خالی پلٹ کے آنا بہت کٹھن ہے
بہت کٹھن ہے


فرحت عباس شاہ
**********************




تمہیں واپس بلاتی ہیں


ہم اپنے آپ کو
پتھر انا کے خوف سے
جتنا بظاہر پر سکون رہنے کی عادت ڈال لیں
پر ہجر کی بے چین یخ بستہ ہوا سے
راکھ میں ڈھلتی تمنائیں بھی
آخر کپکپاتی ہیں
صدائیں لڑکھڑاتی ہیں
تمہیں معلوم تو ہو گا
کہ کچی عمر کی چاہت
ہزاروں سال بھی دل کے کسی گہرے سمندر میں رہے پابند
پر
پھر بھی کبھی مرتی نہیں
میں نے بہت عرصہ تمہیں
یادوں ، خیالوں، اور خوابوں کی نگاہوں سے کیا اوجھل
مگر جاناں
میں اپنے آپ سے اب لڑتے لڑتے تھک گیا ہوں
اور
اکیلے پن کے ویراں شہر میں جب شام ڈھلتی ہے
تو مدّت سے تھکی ہاری وفائیں
سوگ میں ڈوبے ہوئے کچھ گیت گاتی ہیں
تمہیں واپس بلاتی ہیں


فرحت عباس شاہ
**********************


پر یہ دل یہ سودائی


منظروں سرابوں کی
شدتوں سے گھبرا کر


راہ تو بدل لی ہے
پر یہ دل یہ سودائی


روک روک لیتا ہے
ڈوب ڈوب جاتا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************




ہزار رستہ بدل کے دیکھا


ہمیں پتہ ہے کہ
ہم نے کتنا سنبھل کے دیکھا
نئی اور انجانی رہگزاروں پہ چل کے دیکھا
ہزار رستہ بدل کے دیکھا
مگر مری جاں!!
ہر ایک رستہ تمہاری جانب پلٹ گیا ہے
تمام نقشہ اُلٹ گیا
اور اس سفر میں
وجود زخموں سے اَٹ گیا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


ون وے


تم جو چاہو
تو ہم
آج بھی اپنی سانسوں کا ہر سُر
تمہیں سونپ دیں
صرف بیتی ہوئی چاہتوں کے عِوض


فرحت عباس شاہ
**********************


تم نے سُن لیا ہوگا


چاہتوں کے موسم میں
زخم جو بھی لگ جائے
عمر بھر نہیں سلتا
تم نے سن لیا ہوگا
شہر کی ہواؤں سے
وہ جو ایک دیوانہ
آتے جاتے راہی کو
راستوں میں ملتا تھا
اب کہیں نہیں ملتا


فرحت عباس شاہ
**********************


جان لیوا شبیں


جان لیوا شبیں
چاہنے والیوں کے لیے
زہر قاتل ہیں جو
اُن کی آنکھوں سے نیندوں کو یوں نوچ کر
پھینک دیتی ہیں جیسے
کوئی راہروِ پیرہن سے اُلجھتی ہوئی شاخ کو
اور تمھیں یہ پتہ ہے
کہ چاہت کی ہر ابتدا شب کی بیداریوں سے ہے
جب تک کوئی آنکھ سیاہی میں لپٹے ہوئے آسمانوں سے
روشن ستارے نہ دل میں اتارے
تو یہ جان لو ایسی صحرا صفت آنکھ میں کوئی چہرہ
بسا ہی نہیں
میں ترے اعترافِ محبت سے ڈرتا نہیں
خوف ہے تو یہی ہے کہ اے جان من
جان لیوا شبیں چاہنے والیوں کے لئے زہرِ قاتل ہیں جو
تیری آنکھوں کے رستوں سے
دل میں اُتر کر
تمھیں عمر بھر
ہر نئی شب نئی زندگی دے کے پھر
ہر نئی شب نئی موت دے جائیں گی
ہر نئی شب نئی موت دے جائیں گی


فرحت عباس شاہ
**********************


کبھی جو کوئی پوچھ لے


سہیلیو !
کبھی جو کوئی
چاہتوں ، محبتوں کے بارے تم سے پوچھ لے
ہر ایک پل گواہ ہے
کہ کس طرح ہمارے اجلے اجلے دل دعاؤں جیسی
چاندنی میں نکھری نکھری چاہتوں کے گیت سے
فرشتوں جیسی پریت سے بھرے رہے
ہر ایک پل گواہ ہے
نگہ اٹھی تو اس قدر حیا کی روشنی لئے
کہ آس پاس داغ داغ آنکھ بھی چمک اٹھی
زباں ہلی تو لفظ اپنی عظمتوں کو دیکھ کر
خود اپنے آپ دل میں سرخرو ہوئے
ہر ایک سوچ آیتوں کا ترجمہ بنی رہی
ہر ایک خواب روح سے نکل کے جیسے روح میں اتر گیا
سہیلیو !
کبھی جو زندگی میں کوئی چاہتوں ، محبتوں کے بارے تم سے پوچھ لے
تو تم ضرور عبادتوں کے بارے اس سے پوچھنا


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت کائناتی وسعتوں سے بھی


میں کیا لکھوں؟
محبت کائناتی وسعتوں سے بھی
کہیں آگے کی لامحدود وسعت ہے
کسی چہرے کو آنکھوں اور خوابوں کی دعا پر نقش کرنا
اس کے بارے سوچنا
اور اپنی ہر خواہش کو بس اُس ذات تک محدود کر لینا
محبت ہے
ٹھٹھرتی آبشاروں میں بُجھی ٹھنڈی ہوا سہنا
شبوں کے گنبدوں میں گونجتی بے چینیوں کے درمیاں رہنا
ہر اک موسم کو اپنے اندرونی موسموں کی زد میں لے آنا
کبھی مِل کے کسی سے
بےخبر، آدھے سمندر تک سفر کرنا
کبھی تنہا کسی ساحل پہ آ کے دیر تک لہروں کو گننا
اور خلا میں دیکھتے رہنا محبت ہے
کبھی کھوئے ہوئے کو غیرارادی طور پر
ہر اجنبی چہرے میں اکثر ڈھونڈتے رہنا
ہمیشہ بےخیالی میں
کتابوں ،چاند تاروں ،بادلوں پر
اس کے بارے میں جھلملاتی بات لکھ دینا
یا پھر لکھ کے مٹا دینا
کبھی رنگوں کی لہروں پر
اُسے بےصوت ہونٹوں سے صدا دینا
صدا کو بازگشت اور گونج میں ڈھل کر
خلاؤں سے تہی دامن پلٹتے دیکھنا
اور پھر صدا دینا
محبت ہے
میں کیا لکھوں ؟
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
بہت ہی روٹھ کر،ناراض ہو کر
ناپسندیدہ خیالوں ،نفرتوں کی اوٹ سے
یا مختلف حیلوں بہانوں سے
کسی کو جھانکتے رہنا
کسی کو سوچتے رہنا
وہ مانے یا نہ مانے بس اُسے لکھنا اُسے کہنا
محبت ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت بھی کچھ ایسی


مجھے خود سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو کسی صحرا کو بارش سے
کہ بارش جس قدر بھی ٹوٹ کر برسے
ذرا پل بھر کو پیاسی ریت کے لب بھیگ جاتے ہیں
مگر بس اک ذرا پل بھر
مجھے خود سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی
جو پرندوں کو فضاؤں سے
گلوں کو خوشبوؤں سے
منظروں کو لہلہاتے موسموں سے
جس میں چھونے، جذب رکھنے اور گلے مل کے ہمیشہ مسکرانے کےلیے
دل چاہتوں اور خواہشوں کی سب حدوں کو پار کر جائے
مجھے خود سے محبت ہے مگر
اتنی نہیں جتنی مرے سودائی کو مجھ سے
وہ اپنے رات اور دن، دھوپ چھاؤں، ساحلوں، دریا کناروں کو
فقط اک میرے نقطے میں سمیٹے
اور میری چاہتوں میں
آنکھ سے دل، روح سے وجدان کی ہر کیفیت میں ڈوبتا، روتا، ابھرتا، مسکراتا
ذات اور معروض کے سارے حوالوں سے کبھی کا کٹ چکا ہے
اور مجھے اس سے محبت ہے
محبت بھی کچھ ایسی۔۔۔۔۔۔ جو کسی صحرا کو بارش سے


فرحت عباس شاہ
**********************


آنکھیں ہنس دیں


اک افسانہ پڑھتے پڑھتے چھوڑ دیا
اور اپنی اک نظم ادھوری رہنے دی
سرد ہوا کے جھونکے نے کھڑکی کھولی تو
چونک گیا
اور پھر کافی رات گئے جب نیند آئی تو
آنکھیں ہنس دیں
پلکیں اپنا آپ جھپکنا بھول گئیں


فرحت عباس شاہ
**********************


شام چرا کے لے جاتا ہے


اے جان!
تمھارا نام
کوئی بھی شام چرا کے لے جاتا ہے
جب جی چاہے
بام گرا جاتا ہے
تیری میری ساری رنجش کی
اک کام ابھی باقی ہے میرے کرنے کا
یہ ٹوٹے دل کا جام ابھی دھونا ہے مجھ کو
اور بسا رکھنا ہے کوئی اور
کوئی پیغام، کوئی ابہام، کوئی انجام
کہ اس کے بعد مری ہر شام
فقط میری ہی ہو
اے جان!
تمھارا نام کوئی بھی شام چرا کے لے جاتا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


پیار بھی عجب شے ہے


پیار بھی عجب شے ہے
اضطرار میں مضمر
انتشار سے آگے
اختیار سے باہر


فرحت عباس شاہ
**********************


آس


جاناں!
میں نے اب کے سال بھی سبز رتوں کا پہلا پھول
اک تیری خاطر شاخِ شجر ے توڑ کے
اپنی زرد کتاب میں لا رکھا ہے
کوئی نہ جانے
کبھی کوئی آوارہ بھولا بھٹکا بادل
عمر کے ترسے پیاسے دشت کی
پل میں پیاس بجھا جاتا ہے
کوئی نہ جانے
بعض اوقات اک بھولی بسری ہوئی دعا بھی
ایسے پوری ہو جاتی ہے
جیسے غیر آباد جزیرے
رستہ بھول کے آنے والے لوگوں سے بس جاتے ہیں
یوں میں نے اب کے سال بھی جاناں
سبز رتوں کا پہلا پھول اک تیری خاطر
شاخ شجر سے توڑ کے اپنی زرد کتاب میں لا رکھا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


یہ عجیب میری محبتیں


کوئی پوچھ لے تو میں کیا کہوں
اُسے کیا بتاؤں
یہ روز و شب تو جنم جنم پہ محیط ہیں
مرے زخم زخم دل و نظر
مجھے اس جنم میں نہیں ملے
میرے رتجگے میرے ہمسفر
میرے ساتھ آج نہیں چلے
یہ مہیب وحشتِ فکر جو
میرے نقش نقش کی روح ہے
کوئی بے ثبات بیاں نہیں
یہ تو آتماؤں کا عکس ہے
یہ تو دیوتاؤں کا دھیان ہے
یہ تو جانے کیسی
صدی صدی کی اذیتوں کا گیان ہے
یہ عجیب میرے غم و الم
یہ نصیب سنگِ سیاہ پر
یہ ورق ورق پہ گڑے قلم
یہ کڑا حصار نیا نہیں
میرا انتظار قدیم ہے
میرا اس سے پیار قدیم ہے
یہ عجیب میری محبتیں


فرحت عباس شاہ
**********************


کنارا


تیز لہروں پہ تیرا زور نہ تھا
بادباں تھے
ہواؤں کے بس میں
میں تجھے مانگتا رہا لیکن
تُو نہیں تھا
دعاؤں کے بس میں
ساحلوں نے تجھے امان نہ دی
اور تُو
موج موج زد میں رہا
تیری چاہت سے تھا پرے شاید
وہ کنارا
جو تیری حد میں رہا
اور پھر بارہا نہیں معلوم دوسری سمت اپنا رُخ کر کے
تُو نے جانے کِسے صدا دی تھی
تُو نے جانے کِسے پکارا تھا
میں نے چُپ چاپ دور سے دیکھا
میں ترا آخری کنارا تھا


فرحت عباس شاہ
**********************


آج سال کی آخری رات ہے


مجھے یاد ہے
پچھلے سال انہی دنوں میں
میں نے تمہیں اپنے اندر
ساتویں بار قتل کر کے وہیں کہیں
کسی ویرانے میں دفن کیا تھا
اور تمہاری قبر
فراموشی کے بھاری پتھروں سے بھر دی تھی
اور اس سے بھی پہلے ایک بار دور دراز سے آنے والے کسی دیوہیکل پرندے کے پیروں سے
تجھے باند کے اسے اڑا دیا تھا
اور پھر اس سے بھی پہلے بالکل انہی دنوں میں
میں نے تجھے مکمل طور پر جلا کے
تمہاری راکھ ایک تیز رفتار دریا میں بہا دی تھی
لیکن اس ساری جاں کاہی کے باوجود
تم آج پھر
ہمیشہ کی طرح
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
اور میرے دل کو اپنی مٹھی میں جکڑے میرے سامنے کھڑے ہو


فرحت عباس شاہ
**********************


میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں


اُس نے جب بھی مجھے یقین دلایا
کہ وہ صرف مجھ سے محبت کرتی ہے
میں نے یقین کر لیا
لیکن میں نے اسے اگر کبھی
دوسرے لوگوں سے رسم و راہ رکھنے سے منع کیا
تو وہ ناراض ہوئی
اور اس نے ہمیشہ یہی کہا
کہ اُس کا کسی سے بھی وہ تعلق نہیں جو میرے ساتھ ہے
اور یہ کہ دوسروں سے تو بس دنیا دای ہے مجبوراً
بہر حال اگر پھر بھی مجھے پسند نہیں تو وہ آئندہ کسی سے نہیں ملے گی
لیکن کچھ ہی دنوں بعد
میں نے اسے پھر کسی کے ساتھ اک تفریحی پارک میں دیکھا
وہ دونوں خوب بنے سنورے
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
ہنستے مسکراتے اردگرد کے ماحول سے تقریباً لا تعلق
چل رہے تھے
مجھے ایک شدید جھٹکا لگا
اور یوں محسوس ہوا جیسے سر میں بھونچال آگیا ہو
پاؤں وزنی ہو گئے اور جسم بے جان
سانس لینا دوبھر ہو گیا
میں نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے
پیشانی پر سے پسینہ اور آنکھوں پر سے اندھیرا صاف کیا
اور کسی شکست خوردہ بادشاہ کی طرح پلٹ پڑا
جس کے پاس کچھ بھی نہ بچا ہو، تن کے کپڑوں کے سوا
اگلے دن ہزار کوشش کے باوجود مجھ سے رہا نہ گیا
اور میں نے پوچھ ہی لیا
پہلے تو اس نے چونک کے اور تھوڑا گھبرا کے مجھے دیکھا
اور پھر ہنستے ہوئے کہا
ارے وہ۔۔۔ وہ تو احمق بُدھو سا میں تو بس بوریت دور کرنے کی خاطر۔۔
تم بھی کتنے پاگل ہو یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی کھلکھلا کے
میں بھی اس کے ساتھ ہی ہنسنے لگا، پتہ نہیں خوشی سے یا دکھ سے یاد نہیں
البتہ اتنا یاد ہے کہ ہنستے ہنستے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں


فرحت عباس شاہ
**********************


تمہاری ہی طرف


میں تم سے جتنا بھی بھاگتا ہوں
آخر کھلتا یہی ہے
کہ خود
تمہاری ہی طرف بھاگ رہا ہوں


فرحت عباس شاہ
**********************


کیا تم اُسے بھول گئے


وہ، جس نے تمہارے خوابوں میں آنکھیں
اور تمہارے راستوں میں پاؤں زخمی کر لئے
ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس
اپنے شانوں پہ لمبے اور سیاہ گھنے بال بکھرائے
معزور اور بے نیاز
جس نے اپنے سارے سپنے تمام تمنائیں
صرف ایک تم تک محدود کر لیں
اور صبح، شام ، دوپہر،
اپنے تمام وقت صرف تمہارے لئے
اپنی پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پہ لئے پھرا
اور اپنی ذات میں
کسی شرمیلی لڑکی کی طرح
تمہیں سب سے چھپاتا پھرا
کیا تم اسے بھول گئے ہو
وہ جس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا
کہ شکست کیا ہے
صرف اور صرف تمہارے لئے
خود اپنے آپ سے ہار گیا


فرحت عباس شاہ
**********************


کسی دن میرے گھر آؤ


کسی دن میرے گھر آؤ
میرے کمرے میں بیٹھو
اور ایک ایک شے کو غور سے دیکھو
بُک شیلف میں پڑی ہوئی کتابیں اور ڈائریاں
میز پر رکھی تصویریں
اور گلدان میں مرجھائے ہوئے پھول
تمہیں بتائیں گے
دراز میں موجود کیسٹیں
دیواروں پہ کھدے ہوئے حروف
اور بستر پر نقش بے قراری
تم پہ عیاں کرے گی
کہ میری آرزوؤں نے کس طرح تمہاری آرزو کی
اور کیسے میرے خوابوں نے تمہارے خواب دیکھے
اگر ہو سکے تو کسی دن میرے گھر آؤ


فرحت عباس شاہ
**********************


نا قابلِ شکست



گہری اور مہربان رات کی قسم
فاصلے تو بس کمزور دل لوگوں کے لئے ہی
خوف اور بے چینی ہوتے ہیں
ورنہ
ایک زمین پر میلوں اور کوسوں کی دوری
محبت کو کبھی شکست نہیں دے سکتی
ہجر جتنا بھی کڑا ہو
اور دوری جیسی بھی دوری ہو
چاہتیں او رسوا ہو جایا کرتی ہیں
گہری اور مہربان رات کی قسم
میں چاہے جہاں بھی ہوں
ایک ایسے کھلے دروازے کی مانند ہوں
جس کی دہلیز پر تمہارے قدم لکھے ہیں
اور تم چاہے جہاں بھی ہو
میرے لئے کسی بھی مشکل گھڑی میں
ایک بھرپور دلاسہ۔۔۔ اور ایک ناقابل شکست اعتماد ہو





فرحت عباس شاہ
**********************


محبت کرنے والی لڑکی


جیسے تپتے صحراؤں میں گم کردہ مسافر
جیسے خالی رستوں پر مدتوں سے اٹکی ہوئی نمناک نگاہ
جیسے ویران ہو جانے والا جزیرہ
جیسے وسیع و عریض فضاؤں میں دُور دُور تک تنہا بدلی
یا
جیسے اجنبی شہر میں اپنوں سے بچھڑ جانے والی بچی


فرحت عباس شاہ
**********************


اُسے مجھ سے محبت نہیں تھی


اُسے مجھ سے محبت نہیں تھی
پھر بھی میں نے تسلیم کیا
کہ میں اس کا آنے والا وقت ہوں
لیکن
اُسے یہ علم نہیں تھا
کہ آنے والا وقت ہمیشہ دور ہی دکھائی دیتا ہے
اور پھر اچانک ہی گزر جاتا ہے
یہ بتائے بغیر
کہ وہ گزر رہا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


ابھی ابھی


ابھی کچھ ہی دیر پہلے
میں نے اپنی انگلیوں سے تمہارے ہونٹوں کو چھوا ہے
تمہارے بال اپنے چہرے پہ بکھرائے
اور تمہاری خوشبو کو اپنے جسم پر محسوس کیا ہے
ابھی کچھ ہی دیر پہلے میں نے
تمہارے سانسوں کی تپش سے حرارت
اور ہونٹوں سے سکون جذب کیا ہے
میری پلکوں نے تمہاری پلکوں کی سرگوشیاں سنی ہیں
اور میں نے تمہاری انگلیوں میں انگلیاں ڈال کے
تمہارے ہاتھ کی پشت پر بوسہ ثبت کیا ہے
ہاں بالکل ابھی ابھی
اپنی پلکوں پہ ستارے جھلملانے
اور روح میں کچھ ٹوٹ کے چبھ جانے سے تھوڑی دیر پہلے


فرحت عباس شاہ
**********************


بولو اے مستقل مزاج


تم جھوٹ بھی بولو
تو میں سب جانتے بوجھتے اُسے سچ سمجھوں
تم کوئی بھی وعدہ ایفا نہ کرو
تو میں کہوں کوئی مجبوری ہوگی
تم جو بھی غلطی کرو
میں اسے بھول چوک اور نادانستگی قرار دے دوں
میں جو صدیوں سے
خود اپنے خلاف تمہاری طرف سے دلیلیں اور تاویلیں
پیش کرتا چلا آ رہا ہوں
آخر کب تک
بولو اےمستقل مزاج
آخر کب تک


فرحت عباس شاہ
**********************


کل اور آج


گو میرا حافظہ اتنا اچھا نہیں
لیکن بچپن اور لڑکپن کی بہت ساری باتیں
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہیں
گھر کی ویرانی اور اپنے اکیلے پن سے گھبرا کر
دروازے میں آ کر بیٹھنا
اور گلی میں آتے جاتے لوگوں کے چہرے تکتے رہنا
بہت سکھ دیتا تھا
آج بھی جب بہت اکیلا ہو جاتا ہوں
تو گھر کے دروازے میں آ بیٹھتا ہوں
آتے جاتے لوگوں کے چہرے بھی تکتا ہوں
لیکن بے چینی اور بڑھ جاتی ہے
یہ تو یاد نہیں
کہ مجھے اُس سے محبت کب ہوئی
البتہ یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں
کہ مجھے محبت کا شعور آنے سے پہلے
محبت ہو چکی تھی
آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے
اپنے اپنے بڑوں کی نظروں سے چھپ کر
سردیوں کی لمبی لمبی راتیں
صحن میں بیٹھے بیٹھے
اور باتیں کرتے گزار دینا
ایک دوسرے کو اپنی اپنی سہیلیوں اور دوستوں کی باتیں
شرارتوں کے قصے سنانا
بہانے بہانے سے ایک دوسرے کے ہاتھوں سے کھیلنا
لڑائی جھگڑا کرنا
اور کسی کے بھی ہار جانے پر
کھلکھلا کر ہنس دینا گویا معمول تھا
یہ معمول ابھی بھی برقرار ہے
لیکن کچھ تبدیلیوں کے ساتھ
اب تو نہ کسی سے چھپنا پڑتا ہے اور نہ ڈرنا
جب بھی سرما کی لمبی راتیں آتی ہیں
صحن میں بیٹھا گھنٹوں
اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہوں
بے اختیاری میں اپنے ہی ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتا کہیں
گم ہو جاتا ہوں
اور پھر چونک اٹھتا ہوں جب آنکھوں میں گرم گرم نمی پھیلتی ہے
اور رخسار بھیگ جاتے ہیں
ایسے میں دانستہ اور زبردستی ہنسنے کی کوشش
کتنی ناکام اور کتنی کھوکھلی ہوتی ہے
میرے علاوہ کسی اور کی سمجھ میں آنا مشکل ہے
ایک ہی شہر میں رہتے تھے
تو ہزار ناراضگی کے باوجود
اکثر سرِ راہ ملاقات ہو جاتی
اور اپنی اپنی اناؤں کی پرواہ کئے بغیر
آپس میں بول پڑتے
لیکن اب تو ایک مدت ہوئی
پہلے اُس نے شہر بدلا
اور پھر میں نے
آج جب کبھی اداسی حد سے بڑھ جاتی ہے
تو دیوانہ وار گھر سے نکل پڑتا ہوں
مگر صبح سے شام تک مصروف اور پھرے پُرے راستوں کی
خاک چھان کے
جب واپس لوٹتا ہوں
تو خالی پن مزید بڑھ جاتا ہے
اور اداسی کچھ اور سوا ہو جاتی ہے
پہلے جس چیز کے لئے بھی دل چاہتا تھا
چاہے جتنی بھی قیمتی یا انمول ہوتی
حاصل کر لیا کرتا تھا
کبھی ضد کر کے اور کبھی کھانا نہ کھانے کی دھمکی دے کر
اور پھر فخر کیا کرتا
مزاج میں ہٹ دھرمی اور ضد تو اب بھی ویسی ہی ہے
لیکن ہٹ دھرمی سہنے اور ضد ماننے والا کوئی نہیں
دھمکی بھی دے سکتا ہوں
لیکن دھمکی میں آنے والا کوئی نہیں
اس کے باوجود
جو کچھ بھی چاہا ہے جیسے تیسے حاصل کیا ہے
اور دنیا کی بے شمار نعمتیں میسر ہیں
مگر
وہ لمحے جو بیت گئے
اور وہ وقت جو گزر گیا
کہاں سے لاؤں اور کس سے مانگوں


فرحت عباس شاہ
**********************


معذرت


سنو!
مجھے یاد نہ آیا کرو
جب میں اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھا بول رہا ہوتا ہوں
کسی امتحان کی تیاری میں مصروف نظر آؤں
یا کسی مصروف سڑک پر ڈرائیو کر رہا ہوں
موسم اچھا ہو اور میں اکیلا
یا خاص طور پر ایسے وقت
جب میں کسی کو خط لکھ رہا ہوں
یا کسی بہت ہی پیارے شخص کی یادوں میں گم دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاؤں
تم مجھے یاد نہ آیا کرو


فرحت عباس شاہ
**********************


جب میرے کھلونے چوری ہو گئے تھے


شاید تم نے ایک بار
مجھے کچھ دیر کے لئے
اپنا چہرہ اور انگلیوں کی پوریں سونپ دی تھیں
اور پھر شاید ایک بار تم نے
مجھے بتایا تھا
کہ میں تمہاری روح چھُو سکتا ہوں
اور تمہارے لفظ
لکھ سکتا ہوں
ہاں شاید صرف ایک بار
اور پھر اس کے بعد
جب میرے تمام کھلونے
اور کہانیوں والی کتابیں چوری ہو گئی تھیں
تو تم نے مجھ سے ذرا بھی افسوس نہیں کیا تھا


فرحت عباس شاہ
**********************


زمین کے آخری کنارے کا المیہ گیت


میں نے بے پناہ محبت کی
پھر نفرت بھی اتنی ہی کی
نیکی کی اور دریا کے دریا بھر دئیے
اور پھر خالی بھی کئے
ایک عمر بتائی کہ خود اپنے سائے پر بھی کبھی پاؤں نہ پڑنے دیا
اور پھر ایک عمر پھولوں اور تصویروں کو روندتے ہوئے بِتا دی
جانے انجانے راستوں پر چلا
بہت زیادہ چلا
اور پھر ہار گیا، ہارتا چلا گیا
یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا
نہ میں نہ کچھ اور
دنیا میں جتنے بھی محبت کرنے والے آئے
اور انتہا کو پہنچے
یا وہ جنہوں نے نفرتوں کی کوئی بھی منزل باقی نہ رہنے دی
سب کیا ہوئے؟ کہاں گئے وہ سب کے سب؟
کتنی اداس شام ہے
بادلوں میں گھری اور خاموشی میں ڈوبی
ہوا بھی بند ہو چکی ہے ۔آؤ
کچھ دُور تک تو میرے ساتھ چلو
پھر بھلے واپس لوٹ آنا
اور میں آگے چلا جاؤں گا
جہاں تک جا سکا
دراصل مجھے زمین کے آخری کنارے پر ایک المیہ گیت لکھنا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


گزارش


تم جب میرے ساتھ ہوتے ہو
تو پلیز
میرے ہی ساتھ رہا کرو


فرحت عباس شاہ
**********************


در اصل


تم بھی سنو
تم شاید سمجھتی ہو
کہ میں تمہارے لفظ صرف پڑھتا ہوں
تمہاری آواز صرف سنتا ہوں
تمہارے نقوش صرف دیکھتا ہوں
اور تمہارا وجود صرف چھوتا ہوں
غلط بالکل غلط
تمہیں کیا پتہ
کہ تمہارے لفظوں کی چیخ
تمہاری آواز کا کرب
تمہارے نقوش کی پکار
اور تمہارے لمس کی روح
میری ذات کی ماورائی تہوں ک
کتنی گہری پرتوں میں اتر کے
تمہیں میرے اندر کس کس طرح
امر کر دیتے ہیں


فرحت عباس شاہ
**********************


میں یہی سمجھوں گا میری محبت جھوٹی تھی


تم اگر کہیں بھی
مجھے نظر انداز کر کے آگے بڑھ سکتے ہو
تو بڑھ جاؤ
مجھے بھلا سکتے ہو تو بھلا دو
یا اگر
راستوں، ویرانوں اور لوگوں کے دلوں میں
یا خود اپنے اندر
کہیں بھی مجھے مار سکتے ہو تو مارو


فرحت عباس شاہ
**********************


دو اور دو چار


جس طرح دن
راتوں کے اندر ہوتے ہیں
اور باتیں
دنوں کے اندر
اسی طرح
اداسیاں
خوشیوں میں
اور ڈر
بہادری میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں
یہ بحث کرنا
کہ میں تم میں ہوں
یا تم مجھ میں
وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


تمہارے بغیر


سیلاب میں ڈوبا ہوا راستہ
بند دروازہ
اور مرا ہوا ٹیلی فون
دل اور دل کے درمیان ٹھہری
شہر کے حالات ٹھی ہوتے
تو میرا خط تمہیں اب تک مل گیا ہوتا
یا تمہارا خط مجھے مل گیا ہوتا
بارش نے آنکھیں بھی واضح نہیں رہنے دیں
کہیں کہیں کوئی نخلستان
اور جیسے
مدتوں کی خاموشی کے عین درمیان
کسی مدھر گیت کی جھنکار
پتیوں پر جھلملاتی شبنم
اور فضاؤں میں لہراتی دھنک کی قسم
تمہارے بغیر میں ایسے ہوں
جیسے کوئی سوکھا ہوا دریا
یا
کوئی گرا ہوا درخت


فرحت عباس شاہ
**********************


اگلے لمحے کے منتظر


ڈھلتے ہوئے دن کا بازو تھامے
خاموش اور سوگوار شام
بپھرے ہوئے اور شوریدہ سر دریا سے لگا
کچا کنارا
اڑتی پھرتی بدلی کے دامن میں
منہ چھپائے سست رو چاند
اور میرے کاندھے پہ سر اٹکائے
ایک محبت کرنے والی لڑکی


فرحت عباس شاہ
**********************


تم تو نہ پوچھا کرو


اب
کم از کم
تم تو نہ پوچھا کرو
کہ میں
اتنا اُداس
گم صُم
اور غمزدہ کیوں رہتا ہوں


فرحت عباس شاہ
**********************


بس ایک رات کی رات


جان سے پیارے
کبھی مجھے
بس ایک رات کی رات
خود سے دور رہنے دو
میں اپنے آپ سے
آخری بار ملنا چاہتا ہوں


فرحت عباس شاہ
**********************


اپنی اپنی ظاہری اناؤں کی خاطر


اکثر سوچتا ہوں
کہ تمہارے پاس جائے بغیر
تم سے مل آؤں
اور منہ سے کچھ بولے بغیر
بہت ساری باتیں کہہ آؤں
شاید
تمہاری سوچ بھی کچھ ایسی ہی ہو
کیوں کہ
یہاں رواج ہے
کہ ہم ہمیشہ
اپنی اپنی ظاہری اناؤں کی خاطر
اپنی اپنی حقیقی اناؤں کو
کچلتے رہتے ہیں


فرحت عباس شاہ
**********************


میں تم سے تب بھی محبت کرتا تھا


میں تم سے اُس وقت بھی
محبت کرتا تھا
جب تنہائی اور محرومی کا احساس
خاردار تاروں کی طرح میری روح کے گرد
سختی سے لپٹا ہوا تھا
اور جب میرے راستے صرف میری دیواروں تک تھے
میں تم سے اس وقت بھی محبت کرتا تھا
جب میری موت مجھے لینے آئی تھی
اور میرے دوستوں نے اُسے
کچھ دنوں تک کے لیے
خالی واپس جانے پر رضا مند کر لیا تھا
میں تم سے اب بھی محبت کرتا ہوں
اور اب بھی جب کہ تنہائی اور محرومی مجھے ڈھونڈتے ہیں
اور میں ان کو تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہوں
اب بھی جب کہ راستے تو راستے رہے
دیواریں بھی میرے لیے بچھ بچھ جاتی ہیں
میں تم سے اب بھی محبت کرتا ہوں
اب بھی حالانکہ مجھے معلوم ہے
کہ اب کی بار جب بھی میری موت
مجھے لینے آئی
تو خالی واپس نہیں جائے گی


فرحت عباس شاہ
**********************


تمہاری محبت کے معاملے میں


میں لاکھوں آدمیوں سے زیادہ
نڈر، دلیر اور باہمت ہوں
اس کے باوجود
تمہاری محبت کے معاملے میں
میرا دل
ایک سہمے ہوئے، کمزور اور غمزدہ بچے کی مانند ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


ریاضت


جانے کتنی صدیوں تک یہ سلسلہ جاری رہا
میرے زخم مجھے تم سے دور لے جاتے
اور میں پھر
تمہاری طرف لوٹ آتا


فرحت عباس شاہ
**********************


گھروندے


لڑکیو!
چلی جاؤ، دور چلی جاؤ، اپنے پاگل پن سمیت
ریت کسی کو کیا دے سکتی ہے
اڑے گی تو بالوں اور آنکھوں میں جا پڑے گی
محبت وراثت نہیں کہ تقسیم ہوتی پھرے
روح جنس نہیں کہ بکتی پھرے
وجود مشین نہیں وجود ہے
اگر سمجھو تو
نہیں تو مشین ہے
وجود بھی، روح بھی
محبت پھر بھی مشین نہیں
چاہے سمجھو چاہے نہ سمجھو
لڑکیو!
پاگلو، نادانو! بدبختو، چلی جاؤ


فرحت عباس شاہ
**********************


یاداشت


تمہیں یاد ہے؟
تم نے مجھے کبھی خط نہیں لکھا
اور نہ کبھی کوئی سندیسہ بھجوایا ہے
تم نے کبھی میرا انتظار نہیں کیا
اور نہ کبھی بلوا بھیجا ہے
تمہیں یاد ہے؟
تم نے کبھی مجھے چھوا نہیں
اور نہ کبھی خواہش کی ہے
تم نے کبھی کسی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا جو میں چاہتا ہوں
نہ تم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں
تم نے کبھی کسی درخت پر میرا نام نہیں لکھا
کسی کاغذ پر بھی نہیں


تمہیں یاد ہے؟
یاد ہے تمہیں؟
نہیں نا؟
مجھے تو سب کا سب
بہت بہت اچھی طرح یاد ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


تلاش


میں تمہارے اندر محبت تلاش کرتا رہا ہوں
اور تم میرے اندر برداشت
میں تمہارے اندر دل تلاش کرتا رہا ہوں
اور تم میرے اندر لفظ
میں تمہارے اندر سمندر تلاش کرتا رہا ہوں
اور تم میرے اندر اَبر
میں تمہارے اندر سورج تلاش کرتا رہا ہوں
اور تم میرے اندر چنگاری
میں تمہارے اندر آسمان تلاش کرتا رہا ہوں
اور تم میرے اندر درخت
میں تمہارے اندر کائنات تلاش کرتا رہا ہوں
اور تم میرے اندر ذرّہ
میں تمہارے اندر وقت تلاش کرتا رہا ہوں
اور تم میرے اندر پَل
اپنی اپنی تلاش ہے شاید جاری نہ رہ سکے


فرحت عباس شاہ
**********************


بے لگام


تمہاری محبت کے دیوانہ وار اور اندھا دھند دوڑتے گھوڑے کی پشت سے بندھا
میں ایک مدت سے گھسٹتا جا رہا ہوں
نہ کوئی سمت ہے نہ منزل
نہ کوئی راستہ ہے نہ دیوار
حیراں ہوں
کیسے لوگ ہوں گے
جو اس منہ زور گھوڑے کو لگامیں ڈالتے ہیں
اور اس پر سواری کرتے ہیں


فرحت عباس شاہ
**********************


مجھے یاد ہیں وہ تمام دن


مجھے یاد ہیں وہ تمام دن
محبت نے مجھے نہایت بہادر بنا دیا تھا
آغاز سے کچھ ہی بعد کے دن
میں نے کہا
انگلی پکڑ کے چلانے والے، سائبان بن جانے والے، پالنے والے
سائیوں جیسے ہو کے رہ گئے ہیں


فرحت عباس شاہ
**********************


گلہ کیسا


گلہ کیسا
تم کوئی گہرا کنواں تو بہر حال نہیں تھے
لیکن وہ تارکی جو دور تک اتر جائے
اور وہ روشنی جو آنکھوں کے بہت نزدیک ہو
زیادہ خطر ناک ثابت ہوتی ہے
میرا دل کبھی تم سے پرے نہیں جھانک سکا
نہ ہی تمہیں اچھی طرح دیکھ سکا ہے
میں کبھی کبھی
ایک گہری کھائی سے آتی ہوئی اپنی آواز سنتا ہوں
جو تمہیں پکارتی ہے، پکارے ہی جاتی ہے
پھر نڈھال ہو کے ڈوب جاتی ہے
کراہوں کا اپنا الگ رنگ ہوتا ہے
مضمحل اور تلخ
آدھا زندہ، آدھا مردہ
گڑھا دکھنا اور گر جانا
آگ محسوس کرتے ہوئے بھی کود پڑنا، جل جانا
سب جانتے بوجھتے ہوئے تباہی کے دہانے میں داخل ہوجانا
اور موت کو کھیلنے کے قابل بھی نہ سمجھنا
یہ تو پھر ہوتا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


حقیقت خواب


کہو! رنگوں کی تہوں میں چھپے ہوئے
اور خود ساختہ تاثرات سے سجے سجائے چہروں کے درمیان کیسے ہو
بینائیاں قابلِ اعتبار ہوتیں تو دھوکا وجود میں ہی کیوں آتا
میں نے تمہیں اپنی بند آنکھوں سے دیکھا ہے
اور دل کی کھلی آنکھوں سے پہچانا ہے
تمہاری سچائی، سادگی اور معصومیت کا حسن چمکتا ہے
اب پتہ نہیں
صرف تمہارا حسن ہے یا میرا
یا ہم دونوں کا
کیا تمہیں علم ہے کہ جسم کتنے بے مایہ ہوتے ہیں
اور روحیں کتنی حقیقی
جس تعلق
جس رشتے کی بنیاد روح ہو
اسے آنکھوں سے کیا دیکھنا
ہاتھ سے کیا چھونا
تمہاری کسی گمشدہ نظر
یا بھولی بسری نگاہ پر
مٹی سے بنی ہوئی کوئی عینک رہ گئی ہے
تو اسے اتار دو
یہ نہ ہو کہ میری روح اوجھل ہو جائے
تمہاری نظروں سے بھی
اور میری نظروں سے بھی
پہلے میں نے سوچا تھا
کبھی تمہیں
اپنی کوئی بہت ہی سوگوار اور اداس شام
یا کوئی بہت ہی ویران اور اجڑی ہوئی رات پوسٹ کروں گا
اب سوچا ہے
پتہ نہیں
اسےتمہارے پوسٹ بکس میں کب تک
ایک نیلے لفافے میں محبوس رہنا پڑے گا
تم آؤ بھی یا کہیں مصروف ہو جاؤ
جلد ناراض ہو جانے والے لوگوں کا کیا اعتبار
کب کسی بات پہ روٹھ کر دور چلے جائیں
مجھ سے بھی اور میری نظموں سے بھی
وہ چلے جائیں اور میں اکیلا رہ جاؤں
اپنی تمام تر تنہائیوں میں
اکیلا، تنہا اور ویران
چنبیلی کی کلیوں اور چاند کی کرنوں میں پھیلی ہوئی تنہائی
کتنا ساتھ دیتی ہے
تمہیں اندازہ تو ہو گا
مجھے سب اندازہ ہوا ہے
سب کچھ وقت ہے
عارضی
اپنی اپنی جدائیوں میں لپٹا ہوا
رات میں نے خواب میں تمہیں دیکھا
اور پھر خود کو
میں ایک لمبی مسافت کے کنارے کھڑا ہوں
اور تم ایک صحرا کے کنارے
حد نگاہ تک پھیلی ہوئی دھند آلود فضاؤں میں صرف
دو پرندے اڑ رہے ہیں
اکیلے اکیلے
اور آسمان بہت ہی چپ چپ دکھائی دے رہا ہے
جیسے اسے کسی سانحے پہ بہت ہی دکھ پہنچا ہو


فرحت عباس شاہ
**********************


تم اور چاند۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اور چکوری


چکوری سب سنتی ہے
جنگل کی بھی سرگوشیاں
اور ہماری پرچھائیوں کی آہٹ
چکوری سب سنتی ہے
میری اور تمہاری سبھی باتیں
اور مسحور ہو جاتی ہے
چاند نے پچھلی بات بھی گلہ کیا تھا
جب تم میرے ساتھ تھیں
جب تم میرے ساتھ ہوتی ہو
چاند ہمیشہ گلہ کرتا ہے
چکوری یہ بھی سنتی ہے
اور حیران ہو کر تمہاری طرف دیکھتی ہے
اور تمہارے گرد اڑنے لگ جاتی ہے
میں اور چکوری سب سنتے ہیں


فرحت عباس شاہ
**********************


آوارگیِ شب و روز


میں نے سوچا تمہیں دل لکھ بھیجوں
کبھی سوچا
بے چینی
تمہیں یاد تو ہو گا میں کتنا ٹھکرایا ہوا ہوں
لیکن پتھر نہیں
بچہ کہہ لو
ٹھکرایا ہوا بچہ
میں نے سوچا تمہیں گڑیا لکھ بھیجوں
میری اپنی گڑیا
کبھی سوچا
گڑیا کے کپڑے
تمہیں یاد تو ہوگا میں کتنا آوارہ تھا
لیکن کوئی بادل یا فرد نہیں
نا ہی پتا
دکھ کہہ لو
ہاں ہاں آوارہ دکھ
جو کہیں تمہارے اندر بھی جا بسا ہو
اسی لیے تو میں نے سوچا
تمہیں دل لکھ بھیجوں


فرحت عباس شاہ
**********************


درد کی چھتری تلے۔۔۔۔
۔۔۔۔ باقی عمر تمام


کون جانے
درد کی کس چھتری تلے دل نے پناہ ڈھونڈی ہے
آنکھیں برسانے سے کیا فائدہ
چھتریاں ہوتی ہی بارشیں ناکام بنانے کے لیے ہیں
اس دن وہ چھتری ان آنسوؤں سے بھیگ گئی تھی
جو میرے اندر گرے تھے
یہ اور بات ہے دل کی جلن نہ بجھا سکے
وہ چھتری جس کے نیچے ہم دونوں نے اپنی اپنی بارش سے بچنا چاہا
اور ناکام رہے
گھر آ کے مجھے یاد آیا
میں اپنے یاتھ تو تمہیں دے آیا ہوں
جن سے تمہارا ہاتھ تھاما تھا
میرے بازوؤں سے جڑا گوشت
لوگوں کو میرے ہاتھ ہی لگا
اور تبدیلی میرے سوا کسی نے محسوس نہ کی
اگلے دن میں اکیلا اس چھتری تلے پھر جا بیٹھا
وہاں میرے ہاتھ نہیں تھے
لیکن ان کی یاد پڑی تھی
اور تمہاری خوشبو
اور تمہارا حساس
اس دن چھتری بہت بھیگی
میرے رخساروں اور میرے دامن کی طرح
واپس لوٹتے ہوئے میں نے سوچا
آنکھیں برسانے سے کیا فائدہ
کون جانے
درد کی کس چھتری تلے دل نے پناہ ڈھونڈی ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


ریاضتیں مسافتیں


تم نے ٹھیک کہا
خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے
لیکن اگر گفتگو کی بھی اپنی خاموشی ہو تو پھر
کبھی کبھی ہم بولتے ہیں
بولتے چلے جاتے ہیں
بات نہیں ہو پاتی
کیا ہم دونوں کسی بے آواز سحر میں گرفتار ہیں
اگر ایسا ہے توتم گھبراؤ نہیں
میں کٹھنائیاں جھیلنے کا عادی ہوں
میں کشٹ کروں گا
بھلے اس کشٹ میں میرا کچھ بھی باقی نہ رہے
میں اتنا کشٹ کروں گا
اتنا کشٹ کروں گا
مجھے شکتی مل جائے گی
پھر میں تمہاری آنکھیں چوموں گا
تمہاری آنکھیں بولنے لگ جائیں گی
میں تمہاری پیشانی چوموں گا
مدتوں کا پتھرایا ہوا سکوت پگھل کے بہہ جائے گا
میں تمہارے لفظ اور تمہاری آواز چوموں گا
تم نے ٹھیک کہا
خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے
ہم اس خاموشی کو بلا لائیں گے
دونوں مل کر
اور اس میں ڈوبتے چلے جائیں گے
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے


فرحت عباس شاہ
**********************


زخمِ عجیب


بوجھ بوجھ ہی ہوتا ہے
چاہے شبنم کا ہی کیوں نہ ہو
میرے دل پر تمہاری محبت کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے
تمہارے بھیجے ہوئے گیتوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ
تم نے جو گیت بھیجے ہیں
بہت خیال رکھنے والے لیکن ناکافی ہیں
ان سے دل بہل تو سکتا ہے
سنبھل نہیں سکتا
میری سانسوں کی ہتھیلیوں پر پڑی ہوئی تمہاری یاد کی شبنم
بڑھتی جار ہی ہے
مجھے تمہاری دھوپ کی ضرورت ہے
ہلکی ہلکی مدھم مدھم
کومل کومل دھوپ
رات میں سوگیا
تو میرے خوابوں پر تمہارے رنگوں کے عکس اترے
جاگا تو دیکھا
میرے جسم پر تمہاری خوشبو پڑی ہے
میں چاہتا تھا
اسے ہتھیلیوں میں بھر کر چہرے پر مل لوں
مجھے لگتا ہے
میرے ہاتھوں پر بھی بوجھ ہے
کسی نادیدہ ناراضگی
اور بے معنی جدائی کا
اور بوجھ تو پھر بوجھ ہی ہوتا ہے
چاہے شبنم کا ہی کیوں نہ ہو


فرحت عباس شاہ
**********************


دروازے کھوکھلے


تم نے پوچھا
میں نے تمہیں کیسے جانا
میں نے کہا
تم نے مجھے کیسے پہچانا
ہم نے تھوڑا سوچا
تھوڑے پریشان ہوئے
ذہن پر زور ڈالا
دل سے رائے لی
پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا
اور ایک دوسرے کو لاعلمی بھیجی
شک میں لپٹی ہوئی لا علمی
ہمارے گھروں کی دیواروں پر بیٹھا وقت کسمسایا
اور ہنس دیا


فرحت عباس شاہ
**********************


رتیں بے اعتبار


تمہارے آنے سے
بارشیں لوٹ آئی
ساون مہربان ہو گیا ہے
لگتا ہے
وہ موسم بہت گیا ہے
جب جسم پر پھوار پڑتی تھی
تو روح اور زیادہ جل اٹھتی تھی
اور ہوا چلتی تھی
تو آنکھیں اور زیادہ سلگنے لگ جاتی تھیں
تمہارے آنے سے
ہوا بھی لوٹ آئی ہے
پیار کرنے والی اور ساتھ نبھانے والی ہوا
میں نے نادانستگی میں
جتنی کڑی رتیں جھیلی ہیں
اب مجھ سے شرمندہ ہیں
دیکھو
ایک تمہارے آنے سے
کیسے کیسے منظر بدل گئے ہیں
تمہارے دوبارہ چلے جانے سے پہلے تک کے لیے


فرحت عباس شاہ
**********************


کہانی کہانی


چاند رات کی کونسی کہانی تھی؟
جس میں ایک شہزادی تھی
جو ہر چودھویں کی رات اپنے محل سے باہر آتی
اور چاند جھجک جاتا تھا
شہزادی اس رات جس بھی سوکھے ہوئے شجر کو چھو لیتی
وہ ہرا ہو جایا کرتا
کیا تم نے کبھی ایسی کوئی کہانی سنی ہے؟
نہیں سنی
میں نے بھی نہیں سنی
لیکن مجھ پر یہ کہانی بیتی ضرور ہے
اس د ن جب تم اپنے محل سرا سے نکلیں
اور میرے خزاں زدہ جنگل کا رخ کیا
میں جو ایک صدیوں پیاسا اجڑا ہوا درخت تھا
تمہارے معجز نما لمس کے باعث سر سبز ہوا
اور مجھے لگا جیسے میری جڑیں پھر سے زندہ ہو گئی ہوں
تمہیں پتہ ہے
اس درخت نے ایک عہد کیا
وہ جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے
کبھی نہ کرے کہ شہزادی کو دھوپ آئے
اور کاش میں اسی آس میں ہی باقی زندگی بتا دوں
شہزادی پر گرم دھوپ کی ہلکی سی آنچ بھی نہ پڑنے دوں
درخت نے سوچا
اور شدت سے خواہش کی
کاش میں چل سکتا
شہزادی کے محل تک جاتا
اور اس کی کسی نہ کسی دیوار پہ سایہ کیے رکھتا
ہو سکتا ہے شہزادی محل کے اندر کی طرف سے
اس دیوار کے پاس سے گزرتی ہو
اس وقت تک سایہ کیے رکھتا
جب تک محل کے باسی مجھے کاٹ نہ دیتے یہ کہہ کر
کہ محل کی خوبصورتی میں بگاڑ کا باعث بن رہا ہے
درخت بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں
اپنی چند سالہ زندگی کے لیے
اوروں کے دست نگر، مجبور اور خود غرض
کبھی کبھی وہ درخت خود غرضی سے سوچتا
کاش شہزادی، شہزادی نہ ہوتی
ایک چھوٹی سی معصوم چڑیا ہوتی
ا س کی شاخوں میں گھونسلا بنا کر رہا کرتی
وہ اپنی تمام شاخیں اور ٹہنیاں اس کے گھونسلے کے گرد مضبوطی سے کسی شکاری
کسی خطرناک پرندے
اور کسی تیز رفتار، جھونکے اور آندھی کو اس کی طرف کبھی بڑھنے نہ دیتا
چڑیا ہر صبح اس کی شاخوں پر بیٹھ کے چہچہاتی
کبھی اس ٹہنی پر اور کبھی اس ٹہنی پر
گیت گاتی، مسکراتی اور اس سے باتیں کرتی
پھر شام ہوتی
وہ اسے خامشی کی نرم اور لطیف لوری سنا کے سلا دیتا
کاش۔۔۔ کاش۔۔۔
پھر وہ درخت چونک پڑتا
اور شرمندہ ہوتا


فرحت عباس شاہ
**********************


کہانی کہانی


کیا تم نے اس ننھی شہزادی کی کہانی سنی ہے
جو ایک دفعہ
چاند سے جنگل والے تالاب میں گر پڑی تھی
اور جل مچھلیوں نے اسے کنارے پر لا رکھا تھا
کنارے سے ایک مہربان ہرنی اسے اپنے گھر لے گئی
ایک دن اس جنگل میں ایک غریب لکڑ ہارا آیا
اپنے ننھے سے بیٹے کے ہمراہ
اور جنگل میں اپنے بیٹے کو گم کر بیٹھا
لکڑ ہارا ننھے بیٹے کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے واپس چلا گیا
ناکام
اور ننھا لکڑ ہارا ادھر ہی رہ گیا
ایک بے اولاد شیرنی نے اسے گود لے لیا
ننھی شہزادی
اور ننھا لکڑ ہارا
دونوں جنگل میں پلتے رہے
ننھی شہزادی
کبھی ہرنی کے ساتھ باہر نکلتی
تو جنگل کے وحشی جانوروں کو دیکھ کے سہم جاتی
عدم تحفّظ کے احساس کا شکار ہو جاتی
اس کے شعور کے اس پار
خواہش منتظر رہنے لگی
کوئی آئے گا
جس کی موجودگی میں اسے کوئی خوف نہیں ہوا کرے گا
جس کے ساتھ
وہ جنگل جنگل صحرا صحرا نگری نگری گھومے گی
کسی کو اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات تک نہیں ہو گی
اور ننھے لکڑ ہارے کو ایسا لگتا
وہ اس دنیا میں آیا ہے
کسی کو اس کے مضبوط بازوؤں
آہنی ارادوں
اور مافوق الفطرت قوتوں کی ضرورت ہے
اس نے جنگل کے تمام بہادر جانوروں سے
جنگل کے تمام بہادر جانوروں سے
ان کی لپک جھپٹ سیکھی
اور بہت ہی توانائیوں سے بھر گیا
تم نے سنی ہے یہ کہانی
نہیں سنی
خیر یہ کوئی نئی کہانی نہیں
مگر ہمیں پتہ نہیں تھا
ہم کبھی اس طرح آپس میں مل جائیں گے
یوں لگتا ہے
جیسے ہم ساری زندگی اپنی اپنی جگہ
ایک دوسرے سے ملنے کی تیاری کرتے رہے ہیں
تم نے ہر وہ کام سیکھا اور کیا
جو مجھے پسند ہے
اور میں نے ہر وہ کام کیا
جس کی تمہیں ضرورت ہے
یہ مت سمجھنا
دو چار یا سو دو سو میل کی دوری الگ الگ کر دیتی ہے
جہاں بھی چلے جاؤ
آسمان آسمان ہی ہوتا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت کی کہانی


میری محبت کی کہانی
انگلیوں سے ٹپکتے ہوئے لہو کی کہانی ہے
جو آنکھوں کے سامنے
قطرہ قطرہ کر کے ٹپکتا ہے
اور دل کے سامنے
سرد مٹی میں جذب ہو جاتا ہے
اور پھر
اپنے نشانات کے سیاہ پڑنے تک
زمین کا زخم بن کر نمایاں رہتا ہے
میری محبت کی کہانی
صحراؤں کی پیاس کی کہانی ہے
جو صدیوں صرف پیاس ہی پیاس ہے
اور صدیوں ہی سے ہر سراب کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہی ہے
میری محبت کی کہانی
رُتوں کی بیوگی کی کہانی ہے
جس کے ہاتھ میں بیتے ہوئے لمحوں کی خشک ٹہنیوں اور جلی ہوئی پتیوں کے سوا
کچھ بھی نہیں
میری محبت کی کہانی
شہروں کی گھٹن اور جنگلوں کے سکوت کی کہانی ہے
جب ایک ایک سانس پہ بھاری زنجیریں پڑ جاتی ہیں
اور بدن کسی اندرونی بدن پر بوجھ لگنے لگتا ہے
میری محبت کی کہانی
خشک دریاؤں کی کہانی ہے
جن کے برہنہ سینے
پگڈنڈیوں اور راہ گزاروں
کی ایڑیوں تلے کچلے جاتے ہیں
میری محبت کی کہانی
جلا وطن دیوانے کی کہانی ہے
دیوانہ جو خود اپنے وطن میں بھی کسی وطن ہی کی مانند ہوتا ہے
میری محبت کی کہانی
ایسی راتوں کی کہانی ہے
جب چاند تو نکلتا ہے لیکن
چاند اور نگاہوں کے درمیان نادیدہ تاریکیاں حائل رہتی ہیں
میں کیا سناؤں
میری محبت کی کہانی ایک ایسی کہانی ہے
جس کا مرکزی کردار
خود اپنی ذات کے ادھورے پن کی کربناک صلیب پر لٹکا
کسی گمشدہ کردار کو صدائیں دے رہا ہے
اور صدیوں کے انتظار میں دفن ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


ملکِ سخن
محبت کا دوسرا عہد


ابھی نظموں نے پچھلے زخم پورے طور پر گنے نہیں
ابھی شعروں نے پرانی جدائیاں مکمل طور پر سمیٹی نہیں
ابھی لفظوں نے پہلے عہد کے دکھ سارے کے سارے
پروئے نہیں
تم کون ہو
کہاں سے آئے ہو
محبت کے دوسرے عہد کا آغاز کرنے
پیلے پھولوں کو سبز رُتوں کے بوسے پہنانے
کہاں سے آ گئے ہو
شاعری کے لبوں پر خوشی مہکانے
اور ملال کے ایک نئے دور سے آشنا کرنے
کہاں سے آ گئے ہو؟


فرحت عباس شاہ
**********************


زمین اور اس کی گولائی


ہونٹوں پر ہجوم باندھا تو تنہائی رو پڑی
کانوں میں شور اتار کے گم کر دیا تو خاموشی نے دل کو چیر کر رکھ دیا
فرار تو شاید اپنے آپ سے ہی ہوتا ہے
فرق صرف اتنا سا ہے
پہلے پانی میں سانس لے رہا تھا اور اب خلا میں
یہ بند دروازے ہی ہیں جنھوں نے کھلی فضاؤں کا روپ دھار رکھا ہے
میں لوٹ آیا ہوں ہر ایک سمت سے
زخموں پر انگلیاں رکھنا تمہیں کتنا اچھا لگتا تھا
اور میرا صبر بھی
تو آؤ
آج پھر خراشیں خراشیں کھیلتے ہیں
میں ویسے ہی چپ بیٹھا رہوں گا
اور تم کھیلتے رہنا
کھیلتے رہنا
دیر تک، دیر گئے تک


فرحت عباس شاہ
**********************


درُونِ ذات الگ جہاں


خیالوں ہی خیالوں میں
سورج بانٹتے ہیں
اس کی گلی میں جلتی روشنی کی
نظر اتارتے ہیں
خیالوں ہی خیالوں میں
چاند پہنا آتے ہیں
اماؤس کو تسلی دینے میں کیا حرج ہے
جگنوؤں کی ہمت بندھ جائے گی
خیالوں ہی خیالوں میں
محل بناتے ہیں
ایک بہت بڑا اور شاندار محل
اور اس کو بلاتے ہیں
اور اس کا استقبال کرتے ہیں
اس کے شایانِ شان
یا
اسے ابھی اسی وقت مل آتے ہیں
یہ سب کچھ کرنے میں
آخر حرج ہی کیا ہے
خیالوں ہی خیالوں میں
کہتے ہیں
خدا نیتیں دیکھتا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


تنہائی آباد


جب میرے کمرے سے سب چلے گئے
میں نے دیکھا
میں اکیلا نہیں ہوں
جب کسی نے مجھے کہیں بھیجا اور کہا
ایک بس تم چلے جاؤ
میں تنہا نہیں گیا
انھوں نے مجھے اپنے گھر بلایا اور کہا
کسی کو ساتھ مت لانا
میں نے کہا
یہ تو ممکن نہیں البتہ میرے ساتھ کوئی دوسرا نہیں ہو گا
میں وہاں پہنچا
انھوں نے کہا تھینکس گاڈ تم اکیلے آئے ہو
میں ہنس دیا
اور اپنے اندر تمہیں پکارا
تمہارے گلے میں بانہیں ڈالیں
تمہیں اپنے قریب کھینچا
اور تمہاری پیشانی چوم لی


فرحت عباس شاہ
**********************


موجود عدم موجود


تم نے تقریباً سبھی کچھ لکھ بھیجا
میں نے اس تقریباً میں تمہارے وہ لمحے بھی شامل کر دیے
جو اوجھل رہے
سوائے ان دو آنکھوں کے
جو کبھی تمہارے کمروں کی دیواروں سے
کبھی دیواروں پہ لٹکے ہوئے پردوں سے
کبھی خود تمہارے گائے ہوئے گیتوں سے
اور کبھی بہت ہی دور سے تمہیں تکتی رہتی ہیں
سوائے ان دو ہاتھوں کے
جو تمہارے گھر کے دروازے پر اُگے ہوئے درختوں کے
پتے توڑتے اور جمع کرتے رہتے ہیں
جو تمہارے لیے پہلی بار دعا مانگنے کو اٹھے تھے
اور اب تک نیچے نہیں گرے
سوائے ان انگلیوں کے
جو کسی اور کے بارے میں بھی لکھیں
تو لکھا تمہارے بارے میں جاتا
سوائے اس روح کے
جو کسی بادل کی طرح
تمہاری یادوں کی نمی سنبھالے
بے چینی سے اِدھر اُدھر بھاگتی پھرتی ہے
تم نے لکھا نہیں
اور میں نے تقریباً میں شامل نہیں کیا
کبھی کبھی کچھ چیزیں وجود ہوئے ہی ایسے ہیں
جنھیں تقریباً میں بھی شامل نہیں کیا جا سکتا


فرحت عباس شاہ
**********************


ہنستا ہوا باغ
روتے ہوئے دل کی صدی


تمہارا ملنا بھی خوب ہے اور نہ ملنا بھی
ایک غم آلود خوشی
اور ہنستا مسکراتا دکھ
جیسے کسی نے راستہ دکھلا کے پاؤں باندھ دیے ہوں
یا جیسے کسی نے پر کاٹ کے پنجرے کا دروازہ کھول دیا ہو
ملتے ہو اور شہر اداس کر جاتے ہو
شہر بھی عجیب ہے
خوشی سے رو دیتا ہے
اور دکھ سے ہنس پڑتا ہے
بالکل میرے دل کے شہر کی طرح
روتا ہے تو گھڑیاں ٹھہر جاتی ہیں
ہنستا ہے تو صدیاں اڑنے لگتی ہیں
تمہارے ملنے اور نہ ملنے کی طرح
میرے رونے اور ہنس پڑنے کی طرح
بے یقینی کے سُکھ اور بے چینی کی حیرت کی طرح


فرحت عباس شاہ
**********************


بستیءِ احساس
لمس کا پہلا لمحہ


جس دن تمہیں چھوا تھا
روح میں سوئی وئی معصومیت کس قدر کسمسائی تھی
کہیں دور سکھ کے احساس کی ہتھیلی پر ایک آنسو گرا تھا
ایک بار معصومیت جاگی تھی
لوگ اسے جان سے مار دینے پر تُل گئے تھے
سہم کے روح میں دُبک گئی
اور دُبک کے سو گئی
سکھ کے احساس کی ہتھیلی پر گرا ہوا آنسو میں نے سنبھال کے
رکھ لیا ہے
کسی دن تمہارا کاجل بھگوؤں گا
اور بہت سارے آنسو جمع کروں گا
اور پھر سوئی ہوئی معصومیت کے چہرے پر چھینٹے ماروں گا
وہ بیدار ہو گی
اسے لے آؤں گا اور لا کر تمہارے
دل کے پنگھوڑے میں لٹا دوں گا
جہاں تمہاری پاکیزگی رہتی ہے
وہاں دونوں اکٹھی رہیں گی


فرحت عباس شاہ
**********************


شہرِ ویران
شب کا دوسرا پہر


تمہاری بھیجی ہوئی گیتوں کی مالا
مجھ سے مل کے رو دی ہے
میں بھی رونا چاہتا تھا
کسی انجانے پن نے آنسو آنکھوں کے اندر ہی دفن کر دیے ہیں
آئینے پر نظر پڑی تو چرانی پڑ گئی
میت دیکھے نہیں گئے
سینے میں بین کرتی ہوئی سانسوں نے ساری بستی اجاڑ دی ہے
بین دھیمے پڑتے ہیں تو ماتم کی صدا بلند ہو جاتی ہے
کہیں دل کے آس پاس سے
اور خون کے چھینٹے خوابوں پہ آ پڑتے ہیں
خالی پن کے لتھڑے ہوئے ہاتھ
اور محرومیوں سے لبالب بھری ہوئی آرزوئیں
پُرسہ دیتی پھرتی ہیں
تمہاری مالا
مجھ سے مل کے رو دی ہے
کہتے ہیں حُسن آنکھ کے اندر ہوتا ہے
پتہ نہیں غم کہاں ہوتا ہے
گیتوں کے آنسوؤں میں
مجھ سے ملنے میں
یا
شب کے دوسرے پہر میں


فرحت عباس شاہ
**********************


باطن
سچ بولنے کا لمحہ


تم کیا جانو میں کیسا ہوں
جب ہم ساتھ ہوتے تھے میں کتنا مختلف تھا
لا اُبالی، بے پروا، شریر اور معصوم
اور تو اور خدا کا بھی احساس نہیں تھا
تمہیں کب آنا ہے
اب میں بالکل بدل گیا ہوں
میں نے جھوٹ بولا ہے
اور بات بات پہ قسمیں اٹھاتا ہوں
میں منافقت کرتا ہوں
اور زیادہ سوشل ہو گیا ہوں
میں نے بہت زیادہ پیسہ جمع کر لیا ہے
اور بزدل ہو گیا ہوں
میں نے بہت گناہ کیے ہیں
مجھے خدا بہت یاد آتا ہے
میرے ضمیر پر بوجھ پڑ گیا ہے
میں نے اپنے پیٹ تک داڑھی بڑھا لی ہے
اور لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتا ہوں
تمہیں کب آنا ہے
تم اب مت آنا


فرحت عباس شاہ
**********************


گمان آباد
آج تک


تم نے لکھا ہے
شاید کوئی کسی کو یاد کرتا ہے
’’شاید‘‘ مجھے اچھا لگا ہے
جیسے ایمان کی کوئی منزل ہو
متزلزل کرتا پھرتا ایمان
میں نے ایک بار سوچا تھا
شاید مجھے تم سے محبت ہے
پھر آج تک اس شاید کی پاداش میں
یقین بانٹتا پھرتا ہوں
روح پر بیتا ہوا یقین
محبت بھی عجیب شے ہے
ایک گمان
ایمان کی آخری منزل
جس سے ایک قدم پیچھے ہے
ایک بے یقینی
تمام تر یقین جس کے سامنے ادھورا ہے
تم نے لکھا ہے
شاید کوئی کسی کو یاد کرتا ہے
’’شاید‘‘ مجھے بہت اچھا لگا ہے


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت، ادھورا خط


بچپن
کتابیں
اور کھلونے
تمہاری دی ہوئی کتابوں
اور تمہارے لیے خریدے ہوئے کھلونوں میں
کیسی کیسی داستانیں بیت گئیں
معصومیت میں بہے ہوئے آنسو
کائنات کی بارشوں اور پانیوں سے زیادہ مقدس ہوتے ہیں
میں نے تمہارے لیے بہائے
تمہاری بے خبری کی ریت پر
تمہیں یاد ہے
ایک بچہ تمہارے لیے ساری رات جاگتا تھا
بھولی اور پاکیزہ بے خوابی
ہزاروں راتیں
اور ہزاروں نیندیں قربان
اور ہزاروں رتجگے
ایک دن وہ بچہ
وہ معصوم اور پاگل بچہ مر گیا
شاید تمہارے ہی ہاتھوں
میں نے اسے اپنے اندر دفا دیا
میرے اندر ایک قبر زندہ ہوگئی
جس کا دروازہ
کبھی کبھی ایک بین کے اندر کھلتا ہے
خون میں سر سراتا ہوا
شریانوں میں گونجتا ہوا بین
آنکھیں جلن سے بھر جاتی ہیں
اور دل ویرانی سے
بچپن
کتابیں
اور کھلونے
قبریں ہیں
میرے اندر زندہ
اور تمہارے اندر مری ہوئی


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت، ادھورا خط


ستارے
چمک دار اور جگمگاتے ہوئے ستارے
ہاتھوں کی لکیروں پر اترے اور بجھ گئے
پرندے آبادیوں میں آئے
اور آدھے واپس گئے
بارش ہوئی اور تم دور تھے
میں نے تمہارے لیے سفر کیا جدھر تم تھے ہی نہیں
ایسے ہی کچھ اور واقعات بھی ہوئے
میں جب بھی گھر لوٹتا ہوں
تالہ میرا منہ چِڑاتا ہے
چابی میرے پاس نہیں ہے
پھر بھی
سب کچھ قابلِ برداشت ہے
دل کو سمجھایا جا سکتا ہے
لیکن
کوئی کوئی معاملہ ایسا بھی ہوتا ہے
جس میں دل کو نہیں سمجھایا جا سکتا
جیسے۔۔۔۔۔۔ جیسے۔۔۔۔ محبت


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت
ادھورا خط


کہو سب اپنی اپنی جگہوں پر کیسے ہیں
کیا تم نے کبھی اپنے گھر کی دیوار کو غور سے دیکھا ہے
میں نے جب کبھی اپنے گھر کی دیواروں پہ نگاہ ڈالی
انہیں اپنی طرف گھومتا ہوا پایا
اپنی تمام تر پتھریلی بے چارگی
اور کنکریٹ رحم اور ہمدردی کے ساتھ
خاص طور پر اپنے کمرے کی دیواروں کو
کیا تم نے کبھی ان کے قریب جا کے
ان کے بہت قریب جا کے
ان کی پیشانی کو چھوا ہے
میں نے اک بار چھوا تھا
میرا ہاتھ ٹھنڈک سے جل گیا
وہ یخ بستہ لمس آج بھی میری ہتھیلی پر موجود ہے
شاید تم نے اپنے پچھلے خط میں
مجھے ایک ڈر بھیجا تھا
اس سے پچھلے میں بھی
وہ ڈر مجھ تک پہنچا
مجھ سے ملا
اور پھر خود ہی ڈر گیا
اسی لمحے
میری تقدیر کے کسی کونے، کسی دور افتادہ کونے میں
کوئی سہما ہوا لمحہ ہنس دیا
میں نے کوشش کی
میری آنکھوں کے بھیگے ہوئے گوشے
کسی کو نظر نہ آ سکیں
مجھے پتہ ہے
ہمارا بچپن، کسی کا بھی بچپن
کسی بھی لمحے
کوئی بھی شرارت اُچھال سکتا ہے
وہ فضاؤں میں چمک کر معدوم ہو جائے
یا کسی کے دل پہ جا پڑے، ہواؤں کی مرضی
میں تو پہلے ہی اپنے بے دیوار و در اور بے سایہ پہلو میں
ایک دکھا ہوا دل لیے پھرتا ہوں
کچے پکے آسروں کی پناہوں میں
چھپاتا پھرتا
کبھی کسی کے ہونٹوں سے نکلے ہوئے
ٹھنڈے اور میٹھے لفظوں کی آڑ میں
اور کبھی، کسی دوست کو لکھے ہوئے خطوں کی اوٹ میں
کیسے دوست ہو
کراہوں کے معیار پہ پرکھنا چاہتے ہو
ان لوگوں کی طرح جو ہر وقت
کمزور پہلوؤں کی تلاش میں رہتے ہیں
ہدف بنانے والے لوگ
چاروں طرف
ہر طرف
پھیلی ہوئی خار دار تاریں
سوچ رہا ہوں
ایک بار
تمام جذبے پھر سے سمیٹ لوں
اسی بے در و دیوار اور بے سایہ پہلو میں
محفوظ نہ سہی اپنا تو ہے
سینے کی گھٹن میں گھبرائی ہوئی
اور زندگی کی سہمی ہوئی دہلیز پہ سر پٹختی ہوئی سانسوں کی قسم
پہلی کے بعد دوسری
اور دوسری کے بعد تیسری بار خالی لوٹنا کتنا تکلیف دہ ہوتا جاتا ہے
لوٹانے والے کیا جانیں
ایسے عالم میں تو دکھ بھی اپنی شدت کی انتہاؤں کو پہنچ جاتا ہے
جب لوٹنے والے نے کسی سے
کچھ مانگا ہی نہ ہو
کیا میں نے تم سے کچھ مانگا ہے؟


فرحت عباس شاہ
**********************


شام ہر روز کیوں آ جاتی ہے


اُداس اور بہت زیادہ اداس لمحے
اتنے بہت زیادہ کیوں ہیں؟
خاموشی اور بہت گہری خاموشی
گہری کیوں رہتی ہے؟
باتوں سے پہلے بھی اور بعد بھی
باتوں کے درمیان بھی
اور کہیں باتوں کے پیچھے بہت اندر بھی
شام ہر روز کیوں آجاتی ہے؟
اداس اور خاموش
اور سوگوار
تم ہر روز کیوں آجاتے ہو
ہر روز اور بہت زیادہ


فرحت عباس شاہ
**********************


اِس راستے میں


اس راستے میں بڑے بڑے سمندر آتے ہیں
چھوٹے چھوٹے کوزوں میں بند ہو کے
بڑے بڑے پہاڑ آتے ہیں
چھوٹے چھوٹے پودوں کے تنوں سے لگے ہوئے
آسمان آتے ہیں، مٹھی میں بند
اور زمینیں آتی ہیں ایڑیوں کے نیچے
میں ایک مسافر ہوں
اور دیوار ہوں
یہ راستہ تمہاری محبت کا راستہ ہے
اس راستے پر تمہارے آنسو بھی آتے ہیں
سمندرو ں اور پہاڑوں سے بڑے ہو ہو کر
زمینوں اور آسمانوں سے زیادہ ہو ہو کر


فرحت عباس شاہ
**********************


وعدہ، کتابیں اور ہم


میں نے ایک نحیف اور کمزور وعدہ
تمہاری کتابوں والی الماری میں پڑا دیکھا تھا
جسے شاید تم نے بھیجا ہی نہیں تھا
تاکہ کہیں تم خود کمزور نہ پڑ جاؤ
تمہاری کتابوں والی الماری
جس میں زیادہ کتابیں میری ہی تھیں
کچھ میری اور کچھ میری بھیجی ہوئی
وعدہ بھیجنا نہیں تھا
تو مار دیا ہوتا
اگر مارنا بھی نہیں تھا
تو میری کتابوں کے عین درمیان میں نہ رکھا ہوتا
سہما ہوا تعلق زیادہ پریشان کرتا ہے
سہمے ہوئے نحیف اور کمزور وعدے کی طرح
میں نے دیکھا تھا
میری کتابیں، تمہاری الماری میں قید
خوش نہیں تھیں
تمہارا وعدہ
میری کتابوں میں قید
سکھی نہیں تھا
تمہارا وعدہ
میری کتابیں
تم اور میں
سب کھل کے سانس لینا چاہتے ہیں
کسی بھی طرح
سب کو کھل کے سانس لینا چاہیے


فرحت عباس شاہ
**********************


محبت اور دریا


محبت میں
ایسی دریا دلی اچھی نہیں
کچھ بھی باقی نہیں رہتا
ہر شے بہہ کے دور چلی جاتی ہے
کبھی کبھی کی پھوار
اور چھوٹی موٹی بارشیں
اور ندیاں
جھرنے اور آبشاریں
زیادہ پناہ ثابت ہوتی ہیں
محبت میں دریا دلی ایسی ہے
جیسے دریا میں
محبت اور دل
محبت میں دریا دلی اچھی نہیں


فرحت عباس شاہ
**********************


تمہارے بغیر


خوبصورت پھولوں
اور رنگ برنگی تتلیوں کی قسم
تم میری روح اور میرے بدن کے درمیان
یوں ہو
جیسے زمین اور آسمان کے درمیان
ٹمٹماتے ہوئے ستارے
جیسے بے کنارا اور وسیع و عریض
ریگستانوں میں
ٹوٹ کے لٹکی ہوئی چھتوں نے
روشن دان پرو ڈالے ہیں
انتظار نوکیلی سلاخ کی طرح
دل میں اترتا جا رہا ہے
اور دل نا امیدی کی گہری اور تاریک کھائیوں میں
کنوئیں میں گرتے ہوئے پتھر کی طرح
سیلاب
تالے
اور پتھر
بہت زیادہ ہیں
اور ان کے مقابلے میں
میں اور تم اور وہ بھی ایک دوسرے کے بغیر
بہت کم
بہت ہی کم


فرحت عباس شاہ
**********************


گیت میں قید


محبت کا ایک اداس اور ویران گیت
ایک اداس اور ویران شہر کی طرح
میرے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے
لفظ اور گلیاں
ایک لمبی سڑک
ایک غمناک آواز
اور آواز سے گری ہوئی
سڑک پر بکھری ہوئی
بہت ساری رنگ برنگی تصویریں
محبت گاتی ہے
اور شہر ویران کر دیتی ہے
اداسی کے سُر
بے چینی کی تال
اور گھٹن کے چوراہے
بے بسی چاروں طرف سے آ آ کے
جہاں رکتی ہے
اور گھر کر جاتی ہے
میں ایسے ہی ایک گھر میں رہتا ہوں
اداسی اور لمبی لمبی سڑکوں کے درمیان
اور گیت کے کنارے پر


فرحت عباس شاہ
**********************


پیپل


تم بھی تو کوئی پپل کے درخت ہو
اور میرے دل کی دیوار میں اُگے ہوئے ہو
کٹی پھٹی دیوار اور وریدیں
اور ان وریدوں میں دور تک اتری ہوئی تمہاری جڑیں
یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے
یہاں سے آگے ٹھیک نہیں ہے
زرد رنگ اور جلا ہوا اور اجڑا ہوا پیپل ٹھیک ہو بھی نہیں سکتا
اور ابھی یہاں سے آگے ایک ڈر بھی ہے
جلی ہوئی شاخوں اور
اجڑی ہوئی ٹہنیوں پر اُگ آنے والے پھولوں کا ڈر
دل کی دیوار میں اگا ہوا پیپل
پیپل کی جلی ہوئی شاخیں
اور شاخوں پہ اُگا ہوا ڈر
کون سی شے اکھاڑ پھینکوں
کون سی بچا لوں
کچھ تو بولو
میرے دل کی دیوار میں اُگے ہوئے پیپل کے درخت
کچھ تو بولو


فرحت عباس شاہ
**********************


مجھے تم یاد آتے ہو


مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سنسان سپنے میں چھپی خواہش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں
یا پھر کسی انجان بیماری کی شدت میں
مجھے تم یاد آتے ہو


فرحت عباس شاہ
**********************
اختتام