**********************
آہ بھرتے ہوئے خوف آتا ہے
سانس میں موت کی آمیزش ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
نہ پوچھو زندگی کتنی کڑی ہے
سمجھ لو موت سینے میں گڑی ہے
لیے پھرتے ہیں سب اپنے جنازے
سبھی کو اپنی قبروں کی پڑی ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
موت کو کس نے دیکھا ہے
موت بھی رنگوں کی طرح ہوتی ہے
کسی نہ کسی شے کا رنگ
کسی نہ کسی شے کے موت
تمہاری خاموشی میں میری آواز کی موت بھی ہے
ہو سکتا ہے میرے دل کی موت بھی ہو
میرے شور میں اور میری رونقوں میں تمہاری موت کی ویرانیاں بہت بڑھ گئی ہیں
تم نے دیکھا
تمہارے یوں اچانک چلے جانے سے
یوں اچانک چپ سادھ لینے سے
کسی کو کچھ فرق نہیں پڑا
لوگ ، درو دیوار، کھڑکیاں، دروازے اور درخت
اور باقی بہت کچھ بھی
سب ویسے کا ویسا ہے
اچھے کا اچھا
لیکن وہ رات جو میرے اندر کہیں راستے میں ہی آن پڑی ہے
زیادہ گہری ہوتی جا رہی ہے
اور زیادہ ویران بھی
اس کے بھیجے ہوئے ادھورے اور جھوٹے دلاسوں کی طرح
جھوٹا دلاسہ کیا زندگی ہوتا ہے؟
جھوٹا دلاسہ زندگی نہیں ہوتا
چاہے خدا بھی دے
یہ زندگی عارضی ہے
اور موت برحق
میرا ایمان ہے
لیکن فرض کرو
میں ایمان والا نہیں ہوں
پھر موت کتنی برحق ہے
دوسری زندگی ہے
میرا اس پر بھی ایمان ہے
دوسری زندگی ہو گی
ضرور ہو گی
لیکن کس نے دیکھی ہے
خیر، ایمان موت کو ٹال سکتا ہے
عارضی طور پر
مار نہیں سکتا
ایمان موت کو مار نہیں سکتا
چاہے جتنا بھی پختہ ہو
میرے اندر تمہاری چپ، تمہارے ساکت ہونے سے بھی زیادہ ساکت ہے
اور رات ڈھل رہی ہے
ایک ایسی رات ڈھل رہی ہے
جو ڈھل نہیں چکے گی
بس ڈھلتی رہے گی
موت بھی کون سا آخری بار آتی ہے
تمہاری زندگی بھر کی مسافتوں کی قسم
سب کچھ ویسا ہے
میں ویسا نہیں ہوں
موت کو کس نے دیکھا ہے
بس، آدمی اکیلا رہ جاتا ہے
پوری کی پوری کائنات میں
تنہا ہو جاتا ہے
تنہائی بھی ایک چھوٹی سی موت ہی ہوتی ہے
جس میں آدمی اپنا میت خود دفن کر کے
اسے حیرت اور غم سے تکتا رہتا ہے
کبھی صرف تکتا رہتا ہے
اور کبھی دعا پڑھ کے پھول بھی چڑھا آتا ہے
ایک ہجوم اور ایک بھیڑ میں اکیلا ہو نا
جنازے کا وہیں رہ جانا ہے
خالی قبریں
خالی نہیں ہوتیں
ان میں انتظار ہوتا ہے
جیتا اور جاگتا انتظار
اگرچہ انتظار کو بھی کبھی کسی نے نہیں دیکھا
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
دل سے ایما ن کا جھگڑا ہے بموضوع اجل
خوف طاری ہے یقیں کانپتا ہے
سارا کچھ دھوکہ نہیں ہے تو بتا
موت پر کونسا ایمان کہاں سے لائیں
لاشعوری ہے عقیدت مندی
خود سے مشکل ہے فرار
اور خدا غافل ہے
یا تو غافل ہے، یا متوجہ ہے زیادہ کچھ ہی
کچھ زیادہ ہی تو متوجہ ہے
سانس کی ڈور پہ بیٹھا ہے بہت چوکنا
عین شہ رگ کے قریب
ڈر رہا ہے کہ کہیں بھاگ نہ جائے کوئی
موت سے بھاگ نہ جائے کوئی
جانے کیسا ہے یہ خود اپنی ہی تخلیق فنا کر دینا
ہم سے تو شعر کوئی لکھ کے کبھی پھاڑا نہیں جا سکتا
موت ہر چیز پہ دھمکی کی طرح وارد ہے
موت ہر چیز پہ حاکم کی طرح نازل ہے
کوئی بھی حکم جو ٹل سکتا نہیں
حکم حاکم ہی تو ہے
موت کا وقت بھی ٹک سکتا نہیں
وقت کی سیج پہ بیٹھا ہوا جو کوئی بھی ہو
تھوڑا پہلو بھی بدل سکتا نہیں
کوئی جادو بھی تو چل سکتا نہیں
موت میں ڈر ہی سہی میرے لیے
موت میں تو بھی تو پوشیدہ ہے
ایک سہمی ہوئی طاقت کی طرح
ایک چالاک سپاہی کی طرح
ایک محتاط مسیحا کی طرح
ایک مغرور محافظ کی طرح
موت اک خوف ہے جو تجھ میں بھی ہے مجھ میں بھی
مجھ میں مر جانے کا
اور تجھ میں خدا رہنے نہ رہنے کے کسی خدشے کا
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
دل نہیں مان رہا
تیری خاموشی ابھی لگتی نہیں خاموشی
تیری آواز ابھی گونجتی رہتی ہے مرے چاروں طرف
تیری تصویر مری آنکھ سے ادراک کے غم خانوں میں
چلتی پھرتی ہوئی ملتی ہے مجھے ہر لمحہ
یہ الگ بات کہ دنیا کی کوئی کرموں جلی چوم گئی
تیری تصویر، مری آنکھ، فضا بستی کی
جنگ ہوتی تو تری موت سے ہم لڑ پڑتے
یہ تو ہارے ہوئے لوگوں کو عدالت کا ستم نامہ تھا
یہ اٹل ہوتا ہے
قیدیوں کی تو کوئی مرضی نہیں ہو سکتی
یہ اٹل ہوتا ہے
اور پھر یہ بھی الگ بات کہ دل اب بھی نہیں مان رہا
ورم آلود پپوٹوں میں کبھی ٹیس سی اک اٹھتی ہے
سر کسی درد کے نادیدہ شکنجے میں کسا رہتا ہے
سانس سے جیسے بندھا رہتا ہے پتھر کوئی
ہاتھ سن، حافظہ بیمار، تھکن سینے میں
پیر شل، زندگی بے زار، جلن سینے میں
پھر بھی لگتا ہے کہ اک دھوکہ ہے اور آن پڑا ہے دل پر
کوئی غمناک پرندوں سے بھرا برگد ہے
اور ادھر آ کے کھڑا ہے دل پر
رات بھر سایہ کیے رکھتا ہے
خود فریبی بھی عجب رونق ہے
ایسا لگتا ہے کہ یہ پیڑ یہ برگد غم کا
ایک دو پل میں چلا جائے گا
دھوپ نکلے گی
تو سورج کی طرح
تو کسی سمت سے ہنستا ہوا آجائے گا
فرحت عباس شاہ
**********************
ایک طویل رات
اور ایک طویل دکھ
اور ایک طویل خاموشی
اور ایک طویل ویرانی
اور ایک طویل جدائی
ایک ہی بات ہے
ایک طویل موت کی طرح
جو ہم جھیلتے رہتے ہیں، جھیلتے رہتے ہیں
کبھی آنکھوں پر
کبھی دل پر
کبھی اپنی سماعتوں پر
تو کبھی اپنی رونقوں پر
کبھی محبت پر
تو کبھی اپنی روح پر
ویسے تو یہ سب بھی ایک ہی بات ہے
ایسے وعدوں میں گھری ہوئی ہماری زندگیاں
جو ہم نے کیے ہی نہیں
ہم جو کبھی بہت چھپ چھپا کے
گھنٹوں بیٹھ کے روتے ہیں
یہ سب ایسا کچھ بے وعدہ بھی نہیں
یہ جو ہم کبھی کسی کھوئے ہوئے پل کے اچانک مل جانے سے
آپ ہی آپ بے اختیار ہنس دیتے ہیں
یہ بھی وعدہ ہی ہے
جو پتہ نہیں کس نے کس سے کر رکھا ہے
ایک طویل اور نہ ختم ہونے والا وعدہ
جسے شاید ہم چاہیں بھی تو توڑ نہیں سکتے
ایک طویل رات نے
ہمیں اچانک گھیر لیا ہے
ایک طویل دکھ
ہمارے اوپر آن گرا ہے
ایک طویل خاموشی ہمیں کچھ بھی کہنے نہیں دیتی
ایک طویل ویرانی ہمارے اندر پیدا ہوگئی ہے
ایک طویل جدائی ہمارے حصے میں آئی ہے
اور ایک طویل موت
جو ہمیں لاحق ہے
پتہ نہیں یہ سب کس کے وعدے ہیں
کس نے کیے تھے
کس نے نبھائے تھے
لیکن ہم نے تو کبھی گلہ بھی نہیں کیا
اور کس سے کرتے
اور کس کا کرتے
اور شاید اب بھی نہ کریں
ہوا اور خلا
شاید گلہ سنتے ہی نہیں
نا ہی سن سکتے ہیں
باقی رہا خدا
تو اس کو بیچ میں نا ہی لائیں تو بہتر ہے
یہ تو ہمارا اور ہمارا آپس کا معاملہ ہے
اگرچہ وعدے پھر بھی ہمارے نہیں ہیں
بلکہ ہمیں تو بس بھگتنے ہیں
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
موت اور موت کی ویرانی سے
کتنے آزار جنم لیتے ہیں
زندگی ہوتی ہے پر جینا نہیں ہو پاتا
تم پس مرگ کہاں رہتے ہو؟
دیکھتے بھی ہو کہ لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی
سنتے بھی ہو کہ سنائی نہیں دیتا کچھ بھی
پھر بھی چپ چاپ ہو اجڑے ہوئے شہروں کی طرح
مسجدیں بولتی رہتی ہیں مگر تم چپ ہو
درو دیوار کی آواز پہ یوں دیر تلک
زندگی کان دھرے زندہ نہیں رہ سکتی
موت کے بعد اگر آنکھیں کھلی رہ جائیں
کتنی حیرت سے تکے لاش ہمیں
کتنی حیرت سے سنے قبر کی ٹھٹھرائی ہوئی خاموشی
اپنے بچھڑے ہوئے دلدار کے بے دھوپ بدن سے لگ کر
رونے والوں کو بھلا ہوش کہاں رہتی ہے
شبنمیں ریت پہ گرتی ہیں تو جل جاتی ہیں
آنکھ شاموں پہ برستی ہے تو ڈھل جاتی ہے
اور تم کیسے مسیحا ہو کہ لکھ دیتے ہو
ہجر کے درد کی پرچی پہ دوا
اور ریفر بھی نہیں کرتے کہیں
اتنے اوتار اتارے تھے تو جینے بھی دیا ہوتا انہیں
تم نے تو وقتی پناہیں بھی نہیں رہنے دیں
تم پس مرگ کہاں رہتے ہو؟
تم پس مرگ کہاں رہتے ہو؟
موت کے سامنے کیا کیا ہے کبھی آؤ تو محسوس کرو
فرحت عباس شاہ
**********************
میں نے سوچا تھا
ابھی بہت وقت ہے
میں تمہارے خواب رہ جانے والے خوابوں کو
اپنی بینائیوں سے تعبیر کروں گا
تمہاری خواہش رہ جانے والی خواہشوں کو
اپنے لہو سے تعمیر کروں گا
تمہارے خیالوں کے پاؤں چھو چھو کر
تمہاری سوچوں کی آنکھیں چوم چوم کے
تمہاری انگلیوں کی پوریں اپنی پیشانی سے مس کر کر کے
بستیاں بساؤں گا، شہر آباد کروں گا
سلطنتیں قائم کروں گا
ایک دنیا، ایک کائنات تمہارے قدموں میں لا رکھوں گا
میں نے سوچا تھا
کبھی تمہارے گلے لگ کے
خوشی سے چہک اٹھوں گا
کبھی تمہارے کندھے سے لگ کے بہت روؤں گا
تمہاری گود میں سو جاؤں گا
تمہیں مہندی لگاؤں گا
اور تمہاری آنکھوں میں کاجل ڈالوں گا
تمہاری مانگ سجاؤں گا
تمہارے لیے اچھے اچھے کپڑے خرید لاؤں گا
تمہارے لیے ایک تخت بنواؤں گا
اور اپنا تمام بخت تمہارے تخت کے پیروں میں لا رکھوں گا
میں نے سوچا تھا
ابھی بہت وقت ہے
ابھی بہت وقت ہے
وقت کسی آہنی بلا کی طرح
میرے دل سے ٹکراتا ہے
میرے خون کی زنجیر کو پکڑ کر جھٹکے دیتا ہے
میری روح کا گریبان پھاڑتا ہے
میری آنکھوں میں راکھ بھر دیتا ہے
مجھے مارتا ہے
پھر مارتا ہے
پھر مارتا ہے
اور ریت پر بکھیر دیتا ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
آخر شب تو ابھی دور تھی
کیوں ٹوٹ گرا
وہ ستارا کہ جسے سر پہ چمکنا تھا ابھی
کیسے دوپہر پہ ڈھل آئی اچانک کوئی ویران سی شام
ہم تو پہلے ہی بہت زرد تھے دل کے اپنے
کس نے توڑی ہے خزاں سینے میں
ٹوٹ کر پھیلتی جاتی ہے بڑی سرعت سے
آنکھ سے روح کی بینائی تلک
جو نظر آتا ہے پیلا ہے بہت
دل کے سرطان سے کل عالم تنہائی تلک
جو سمجھ آتا ہے نیلا ہے بہت
سوگ کا اپنا اثر ہوتا ہے
روگ کا اپنا اثر ہوتا ہے
سوگ میں لگتا ہے آئے ہی نہیں
روگ سے لگتا ہے نکلے ہی نہیں
اس ستارے کا چمکنا تو فقط خواہش تھی
کون اس خام خیالی کی ہوا میں آتا
درد کی دیدہ دلیری ہے کہ پیشانی پہ آ چمکا ہے
ورنہ بے نور دیاروں میں
چراغوں کا کوئی کام نہیں
فرحت عباس شاہ
**********************
رات ڈھل آئی ہے
سوگوار تاریکی، روئی ہوئی اداسی کی طرح
ہر سو پھیل رہی ہے
آنکھوں میں بکھرے ہوئے بال آہستہ آہستہ اکھٹے ہو رہے ہیں، جھڑی لگتی جا رہی ہے
افسردہ ہوا
پژ مردہ فضا،
مجھے کھُل کے رو کیوں نہیں لینے دیتے
آنسو باہر برسیں تو آنسو
اندر برسیں تو پتھر
جھڑی باہر لگے تو جھڑی، اندر لگے تو چپ
شام باہر ڈھل آئے تو شام
اندر ڈھل آئے تو غم
رات ڈھل آئی ہے
اندر بھی
باہر بھی
رات باہر ڈھل آئے تو رات
اندر ڈھل آئے تو موت
دکھ ہی دکھ
آنسو ہی آنسو
رونا ہی رونا
دوری ہی دوری
بچھڑنا
بچھڑ جانا، ہر شئے سے، اپنے آپ سے بھی
رات ڈھل آئی ہے
روز ہی ڈھل آتی ہے
تم چلے جاتے ہو
ہر روز چلے جاتے
کبھی کسی شہر سے
کبھی کسی بستی سے
ہر روز کوئی نہ کوئی گھر اجاڑ دیتے ہو
مر جاتے ہو
کبھی کسی شکل میں
تو کبھی کسی روپ میں
مر جاتے ہو
اور گھر اجاڑ دیتے ہو
دل کے کس دریچے سے پکاروں
روح کی کونسی کھڑکی سے صدا دوں
گھر کا کونسا دروازہ کھول رکھوں
کونسی دیوار پہ چراغ سجاؤں
مر جانا، چلے جانا نہیں ہوتا
چلے جانے والے کبھی نہ کبھی ضرور لوٹ آتے ہیں
نا بھی آئیں، آس پھر بھی رہتی ہے
مر جانے والے کبھی بھی نہیں لوٹتے
نا ہی کوئی امید، کوئی آس، کوئی چراغ، کوئی لو باقی رہتی ہے
بس رات رہ جاتی ہے
کالی، سیاہ رات
کالے دکھ جیسی
دکھوں کے بھی رنگ ہوتے ہیں
نیلے پیلے سنہرے اور سیاہ
اور بھی بہت سے
نئی نئی محبت کا سہما سہما، دھیما دھیما دکھ
سنہرا ہوتا ہے
جدائی کے دکھ کا رنگ کاسنی ہوتا ہے
بیماری کے دکھ کا پیلا
اور نفرت کے دکھ کا نیلا، ڈسا ہوا، زہر بھرا
موت کا دکھ کالا ہوتا ہے
سیاہ اور تاریک
مر جانے والے کبھی نہیں لوٹتے
اور پیچھے رہ جانے والوں کو روند جاتے ہیں
کالے اور سیاہ رنگت والے دکھ کے پتھروں تلے
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
تیری دلدار اداؤں کی قسم
خواب کا کونسا آنگن ہے کہ ہم نے اسے مہکایا نہیں
تیرے آنے کی خبر پھیلی ہوئی تھی ہر سمت
ہم نے بھی آس لگا لی دل میں
اور سجائے در و دیوار
کہ تو آئے تو اجڑے ہوئے محسوس نہ ہوں
ہم نے جس ہجر کو پایا ہے تجھے کھونے سے
اپنی پلکوں پہ، تمناؤں پہ، آوارگی پر
اپنی بے چینی پہ، اکلاپے کی بیچارگی پر
اس طرح ثبت کیے پھرتے ہیں
جس طرح فاتح کوئی، شہر کی راکھ کے اعزاز کو
شانوں پہ سجائے ہوئے خوش پھرتا ہے
شہر بھی اپنا ہے اور راکھ بھی خود اپنی ہے
بس تری دوری کی مجبوری کو مجبوری نہیں بننے دیا
اپنے سینے سے لگا رکھا ہے
تیری دلدار اداؤں کی قسم
موت کی دوڑ یہیں تک ہے کہ جب بھی آئے
کچھ نہ کچھ چھین کے لے جائے سزاواروں سے
ہم وصالوں کے گنہگار خطاوار ہوئے
اس قدر خوار ہوئے ہیں کہ فقط خوابوں کے محتاج ہوئے
روز ہی نیند کی دہلیز پہ آ بیٹھتے ہیں
برگزیدہ کسی دربار پہ جیسے کوئی دکھیارا، کوئی سائل ہو
اور سجاتے ہیں بڑی چاہ سے گھر کے درودیوار
کہ تو آئے تو اجڑے ہوئے محسوس نہ ہوں
فرحت عباس شاہ
**********************
رات ڈھل آئی ہے
موت کی آمد کا پتہ
موت کا آغاز
ایک وہ موت جو روز آتی ہے
ہر روز رات ڈھل آنے پر
ایک وہ موت جو اکثر آتی رہتی ہے
وقتاً فوقتاً
جس دن مجھے اس سے محبت ہوئی تھی
شاید اس دن میں پہلی دفعہ مر گیا تھا
میرے اندر خود مجھ سے زیادہ وہ زندہ ہو گیا تھا
پھر میں اسے کچھ نہ بتا سکا اور دوسری دفعہ مر گیا
ہم اکثر مر جاتے ہیں
جب کوئی ہماری ’’میں‘‘ کو مارتا ہے
انا کو گرا کے اس کے سینے پہ چڑھ کر کھڑا ہو جاتا ہے
اور سینے پر گہرے گہرے زخم بن جاتے ہیں
اور ہوائیں انہیں چھو کے گزرتی ہیں
کبھی آہستگی سے
اور کبھی تیز رفتاری سے، کاٹتی چیرتی ہوئی تیز رفتاری سے
اور ہم نابینا بیواؤں کی طرح
اپنی ہی سسکیوں سے ٹکراتے پھرتے ہیں
موت قریب ہو
یا آس پاس
تو سسکی بھی ستون بن جاتی ہے
اور آپ ہی آپ آ آ کے ہم سے ٹکراتی ہے
ہم سے
اور ہماری پیشانیوں اور ہمارے ہونٹوں سے
اور ہماری آنکھوں سے
سسکی آنکھوں سے ٹکراتی ہے اور آنکھیں کھل جاتی ہیں
لیکن آنکھیں بہت دیر سے کھلتی ہیں
تب تک ہم مر چکے ہوتے ہیں
دھوکہ بھی موت ہی ہوتا ہے
دھوکہ کھانے والا بھی مر جاتا ہے
میں نے اسے ایک دھوکہ دیا تھا
اس سے اپنی محبت چھپائی تھی
اس نے مجھے بار بار دھوکہ دیا
مجھے بار بار ایسی محبت بتائی جو تھی ہی نہیں
دھوکہ ایک گڑھا ہوتا ہے
جو دھوکہ دینے والے کے راستے میں پڑ جاتا ہے
اس کے راستے میں
خود اس کے اپنے دھوکوں سے کھودے ہوئے بہت سارے گڑھے ہیں، تاریک سیاہ
جن میں سے کچھ میں وہ گر چکا ہے
اور ابھی بہت سارے باقی ہیں
اس کی بھی اب رات ڈھل ہی آئی ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
دکھ کے دیمک کی نظر پار اتر جاتی ہے
زندگی جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بسر ہوتی ہے
ناگہانی کسی بپھرے ہوئے وحشی کی طرح
روح کی دھول اڑا جاتی ہے
سکھ کی بے سود تمناؤں کی پاداش میں یکطرفہ سزا
آن گرتی ہے کسی غیب سے نادیدگئی عدل کے پلڑوں پہ سفر کرتی ہوئی
سو رہے ہوتے ہیں تھک ہار کے پنچھی غم کے
ڈار کے ڈار اڑا جاتی ہے
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
خون میں اتری ہوئی موت سے کیا اوجھل ہے
شاخ سے لپٹے ہوئے سانپ کی مانند بہت دھیرے سے
آشیانے کی طرف بڑھتی ہے
جھرجھری بھی نہیں لینے دیتی
بین عزت ہی سہی میت کی مگر بعد کی باتوں سے کبھی
سائباں جڑتے نہیں ٹوٹے ہوئے
آسماں زندہ نہیں ہو جاتے
آسماں مرتے ہیں اور وقت بگڑ جاتا ہے
آسماں مرتے ہیں اور شہر اجڑ جاتا ہے
کونسی صبح جگائیں گے سر عہد وفا، کونسی رات سلا رکھیں گے
صبر کو کوچہ آزار و بیابان مسافت کی تہی مٹی پر
کب تلک، اور بھلا کس کس سے خفا رکھیں گے
کوئی آواز نہیں لوٹے گی
کوئی محوم دلاسہ بھی نہیں پلٹے گا
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
سوگ کا سوگ منا لینے سے کیا ہوتا ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
چھوٹی چھوٹی قبریں
بڑے بڑے مزاروں سے بہتر ہوتی ہیں
ان پہ کوئی یاد دلانے نہیں آتا
مر گئے تو بس مر گئے
ہر سال میلہ نہیں لگتا
موت اور موت کا جشن
موت تو بھلا دی جانے والی شئے ہے
یہ اور بات ہے کہ آسانی سے بھلائی نہیں جا سکتی
بلکہ شاید سرے سے بھلائی ہی نہیں جاسکتی
میں نے بہت کوشش کی ہے
اپنے سینے میں تمہاری موت کے اگے ہوئے درخت کو اکھاڑ پھینکوں
خاردار اور نوکیلے درخت کو
اور ہمیشہ زیادہ زخمی ہو بیٹھا ہوں
بدن کا بدن تک پرویا جاتا رہا ہے
مجھے اپنی موت کے دکھ سے نکالو
میری روح پر سے اپنا مزار اٹھا لو
کہیں کوئی چھوٹی سی قبر ہی بہت ہے
میری آنکھوں سے خون بہتا ہے تو مجھے چھپانا پڑتا ہے
خود سے بھی اور لوگوں سے بھی
دامن پر لگی سرخی
پھر بھی بہت کچھ بتا دیتی ہے
مجھ سے یہ جشن سہا نہیں جاتا
بارش اور برستے ہوئے آنسوؤں کا رقص
دل کا فرش ادھیڑے دے رہا ہے
آنسوؤں کی آبی ایڑیاں
دل کی زمین میں اتر اتر جاتی ہیں
دھول اڑتی ہے
بہت ہی گہری اور سرخ دھول اڑتی ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
آج ہم موت زدہ
آؤ کرتے ہیں سبھی مل کے خدا سے جھگڑا
اتنا تو حق ہے ہمیں
لڑکھڑاتی ہوئی سانسوں میں ذرا پل دو پل
کوئی ڈوری سی اگر بندھ جائے
اور دو چار پہر تم نہ بچھڑتے ہم سے
کوئی یخ بستگیء آتشِ ایماں کا جواز
کوئی یکطرفہ حوادث کا بھرم
لاش میں بیٹھ کے محسوس کیا ہے ہم نے
ایک سے ایک بھرم موت زدہ
دل کی حالت تو ہے اس سہمے ہوئے دل کی طرح
ناگہاں جس پہ جھپٹ پڑتی ہے سنسانی کوئی
راستے ٹوٹے ہوئے دور تلک
بھٹکا ہوا کرب، قدم موت زدہ
آج ہم موت زدہ
آج فضا موت زدہ
کون آزادی کی آغوش میں سانسیں لیتا
کون خوش ہو کے نکلتا گھر سے
روح میں چھید سے پڑ جاتے رہے ہیں ڈر سے
جانے کب کون سا غم ٹوٹ پڑے
جانے کب کون کنارے لگ جائے
دل اشاروں کی زباں جان لیا کرتے ہیں
پچھلے کچھ روز سے آتا تھا نظر
ڈوبتی شام کا غم موت زدہ
ہم چھپے بیٹھے ہیں خاموشی کے دیوار نما سینے میں
چھو کے جاتی ہے ہمیں سرد ہوا موت زدہ
ہاں یہی سر د ہوا موت زدہ
ہر طرف بپھری ہوئی پھرتی ہے
ہم تجھے کس کے حوالے کرتے
ہم تجھے کس کی پناہوں میں چھپا کر آتے
شہر کا شہر اسی درد کی دہلیز پہ تھا
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ اداس
جانتے ہو کہ عبادت میں اگر خوف نہ ہو
موت ڈر جاتی ہے
آخری وقت بھی گھبرا کے پلٹ سکتا ہے
دکھ ہمیں چھوتے ہوئے ڈرتا ہے
سٹپٹا جاتی ہے تکلیف ہمیں آتے ہوئے
اب نہ تم ہو نہ عبادت نہ کوئی خوف نہ ڈر
اب تو بس شرم کے کندھے سے لگا بیٹھا ہے
وقت کے پار ستم موت زدہ
اب نہ تم ہو نہ عبادت نہ کوئی خوف نہ ڈر
اب نہ خدشہ ہے کہ تم ہم سے بچھڑ جاؤ گے
خوش گمانی بھی نہیں کوئی کہ لوٹ آئیں گے
تیرے بیتے ہوئے دن تیرے گزارے ہوئے سال
ایک بے خوفی نما شئے سی کوئی لپٹی ہے شریانوں میں
بے یقینی کا کفن پہنے ہوئے
بے نصیبی کی قرآں خوانی پر
اور بیٹھا ہے کسی سوچ میں شہ رگ کے قریب
ایک خدا موت زدہ
ایک خدا موت زدہ
اک کرم موت زدہ
آؤ کرتے ہیں خدا سے جھگڑا
گاڑ آتے ہیں عبادات کے سینے میں علم موت زدہ
آج ہم موت زدہ
فرحت عباس شاہ
**********************
بہت اندھیرا تھا
ہر طرف ہر سمت
اندر بھی اور باہر بھی
ہم نے سوچا آنکھیں کھولیں
ہم نے اندھیرے میں سوچا اور بات
اندھیرے سے آگے نہ بڑھ سکی
پھر دھکیل دیا گیا
جبراً
آنکھیں چندھیا گئیں
اور شاید دل بھی چندھیا گیا
تیز روشنی کی طرح
تیز خوشی
تیز غم
اور تیز حیرت بھی
دل کو چندھیا دیتے ہیں
ہم نے اپنے چندھیائے ہوئے دل سے
تیز غم
اور تیز حیرت سے چندھیائے ہوئے دل سے
تمہیں چاہا
تمہیں چاہا اور خود سے محبت کی
یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود کو چاہا اور تم سے محبت کی
اب چھپتے پھر رہے ہیں
تمہاری اور اپنی موت سے
اور بھاگتے پھر رہے ہیں
اور موت ہمارے پیچھے بھاگتی پھر رہی ہے
تمہاری موت بھی
اور ہماری بھی
تمہاری موت جو تمہارے ساتھ ساتھ ہمیں بھی آچکی ہے
شاید تمہیں پتہ ہو ہم تمہارے ساتھ مر چکے ہیں
وہ زندگی جو ہم تمہارے ساتھ بسر کرتے تھے
وہ حیات جس میں ہم تمہارے ساتھ تھے
اور تم ہمارے ساتھ چل رہے تھے
کب کے مر چکے ہیں
لیکن پھر بھی وہ موت ابھی گئی نہیں ہے
ابھی پوری کی پوری گئی نہیں ہے
ادھر ہی کہیں پھرتی ہے
کبھی تمہارے کپڑوں اور تمہاری خوشبو میں
کبھی تمہارے سامان اور تمہارے مزاج میں
کبھی تمہارے تعلق اور تمہارے انداز میں
کبھی ہماری آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں میں
ماری ماری پھرتی ہے
کبھی دکھے ہوئے دل میں اور کبھی رندھے ہوئے گلے میں
اور پھر خود ہماری موت
جسے ہمیں کبھی ڈھونڈنا نہیں پڑے گا
اور جو ہمارے سروں پر مسلط ہے
اور جو ہمارے راستوں میں پڑی ہے
اور جو ہماری مسافتوں میں چلتی ہے
اور جو ہمارے گھروں میں رہتی ہے
ہم پھر بھی اس سے بھاگتے پھرتے ہیں
پتہ نہیں
موت کے ڈر سے
یا خود اپنے ڈر سے
یا اپنے ارد گرد والوں کے ڈر سے
ہم بھاگتے پھرتے ہیں
اپنے جلے ہوئے پیروں کے ساتھ، اور ٹوٹے ہوئے، بکھرے ہوئے قدموں کے ساتھ
اور کچلی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ
اور مفلوج فرار کے ساتھ
ہم بھاگے پھرتے ہیں
اور موت ہنستی پھرتی ہے
ہنستی پھرتی ہے اور بھاگتی پھرتی ہے
خود ہمارے اندر ہی کہیں
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
موت سے کون بھلا بھاگ سکا
یہ تو اندر ہی جنم لیتی ہے
پرورش بھی تو وہیں پاتی ہے
اور سر پر بھی رہا کرتی ہے
سائبانوں کی طرح
آسمانوں کی طرح
موت اک درد نہاں
رب کے بھی دور کہیں سینے میں
اور پھر پاس اگر ہے تو بہت پاس بھی ہے
موت اک سوز عیاں۔۔
کس پہ ظاہر نہیں یہ آتشِ بے باک یہاں
موت سے کوئی بھی محفوظ نہیں
آن لیتی ہے یہ بس پل بھر میں
اور پھر مدتوں منڈلاتی ہے
روح سے روح کے مابین ستم ڈھاتی ہے
دندناتی ہے دلوں کے اوپر
پاؤں رکھتی ہوئی معصوم تمناؤں کے غالیچوں پر
اشک پی پی کے بجھاتی ہے ہوس فطرت کی
اپنی ظلمائی ہوئی فطرت کی
درد کی ٹوٹی ہوئی دہلیزیں
دھڑدھڑاتی ہے مقدر کا حوالہ دے کر
اور ہمیں دیس نکالا دے کر
پر سکوں ہوتی ہے
موت جو کرب و بلا ہوتی ہے
انتہا ہوتی ہے
اس سے بڑھ کر ہمیں کیا لاحق ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
تیرے چھوڑے ہوئے گھر باروں میں
موت کا درد سا آ کر کوئی آباد ہوا
تم نے جانا تھا تو کچھ ہم کو بتا کر جاتے
ہم تری روح، ترے پر، تری پرواز چھپا کر رکھتے
تیرے لہجے کو ہواؤں کی گزرگاہوں میں
شان و شوکت سے سجا کر رکھتے
تیرے بیمار پپوٹوں میں چھپے اشکوں کو
ہم بھی دنیا سے چھپا کر رکھتے
تیرا چھوڑا ہوا گھر، گھر ہی نہیں لگتا ہمیں
کھڑکیاں اور در و دیوار کسی وہم کے بت خانے میں، ہم سے ناراض فرشتوں کی طرح ملتے ہیں
شاخ در شاخ کھلے پھول دل گم سم پر
چہچہاتے ہوئے زخموں کی طرح کھلتے ہیں
موت کی کوکھ سے نکلی ہوئی آزادی ترے چھوڑے ہوئے گھر کی چھتیں نوچتی ہے
صحن میں تانی ہوئی تار پہ دھوئے ہوئے کپڑوں کی جگہ
تجھ سے وابستہ تمناؤں کے بے جان بدن لٹکے ہیں
دھول میں لپٹے ہوئے
دھوپ میں سنولائے ہوئے
رنج سے مرجھائے ہوئے
تو نے جانا تھا تو کچھ ہم کو بتا کر جاتے
ہم نے دروازے پہ تختی ابھی لٹکانا تھی
تیری ٹھکرائی ہوئی محنت کی
چار دیواری کی منڈیر پہ ٹوٹے ہوئے شیشوں کی قطاروں کے جڑے جانے کا
مطلب بھی بتانا تھا نگر والوں کو
تو تو خود تھا ہی
ترے ساتھ فرشتے بھی رہے خوفزدہ
نیک، دلدار فرشتے تیرے
ہم نے چوبارے پہ جھنڈا بھی لگانا تھا ابھی
ناگہاں ٹوٹے ہوئے قہر سفر کے ہاتھوں
تیری ہاری ہوئی سرداری کا
تیری جیتی ہوئی بیماری کا
ہم نے دہلیز پہ بونا تھا ابھی
تجھ جفا کش کے پسینے سے اگے رزق کے
بے جرم بہے خون میں نہلائے ہوئے قدموں کو
تو نے جانا تھا تو کچھ ہم کو بتا کر جاتے
ہم نے گننا تھا ابھی صدموں کو
اب تو یوں ہے کہ جو ہوتا تھا ترے ہونے سے
اور جو بستا تھا ترے بسنے سے
شہر کا شہر ہی برباد ہوا
موت کا درد سا آکر کوئی آباد ہوا
تیرے چھوڑے ہوئے گھر باروں میں
تو نے جانا تھا تو کچھ ہم کو بتا کر جاتے
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
زندگی۔۔۔ جیسے کوئی زرد سفر موت زدہ
سنگ، حیوان، شجر موت زدہ
مسکرائیں تو ہنسے جاتی ہے
زخم کھائی ہوئی تقدیر، ڈگر موت زدہ
اور رونے کے لئے بیٹھیں تو رومالوں پر،
جھرجھراتا ہوا ایمان سلگ اٹھتا ہے
جذب ہونے ہی نہیں دیتا کسی آنسو کو
بھیگ جاتی ہے جبیں صدمے کی
دن چمکتا ہے درِ وہم تمنا اور پھر
دور گرتی ہوئی پیلاہٹ میں
چرمرائی ہوئی اک شام لٹک آتی ہے
رات پڑتی ہے تو کرتے ہیں بسر موت زدہ
اس طرح جیسے صلیبوں سے بندھی بے چینی
موت سے اگلا کوئی خوف بسر کرتی ہے
کس فرشتے کا گریبان پکڑ کر پوچھیں
ہنستے بستے ہوئے بازاروں پر
کس نے ڈالی ہے نظر موت زدہ
دل لب درد
پریشان خیالات کی چوکھٹ سے لگا بیٹھا ہے
جس طرح سے کوئی پس ماندہ عزیز
دم بہ دم ڈوبتی یادوں کی صف ماتم پر
تھام کر بیٹھا ہو سر موت زدہ
زندگی،۔۔۔
زندگی، درد کا گھر موت زدہ
کھڑکیاں سرد
دریچے خاموش
صحن ویران
شجر موت زدہ
روح سنسان
خبر موت زدہ
دل بیابان
اثر موت زدہ
بستیاں، گاؤں، محلے، چوپال
ادھ مری آس بشر موت زدہ
سارے کا سارا نگر موت زدہ
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
موت کی کوکھ سے نکلے ہوئے سناٹے میں
درد کی فاختہ کرلاتی ہے
درد بھی زندہ ہوا کرتا ہے
اس طرف خوب دھڑکتا ہوا سینہ ہو مگر
اس طرف خاک ہو بس
ہار تو ہار ہے انسان کو ویرانہ بنا دیتی ہے
راہگزر راکھ سے اٹ جاتی ہے
درد مر جائے تو انسان بھی مر جاتا ہے
خود خدا تعالیٰ بھی غمگین ہے کچھ باتوں پر
ہم جو روتے ہیں کسی کے دکھ پر
تو پس پردہ خدا روتا ہے
ہم کسی کمتر و کم ذات پہ ہنستے ہیں تو خود ہم پہ خدا ہنستا ہے
موت کی کوکھ میں بکھری ہوئی خاموشی بھی جب
درد میں بولتی ہے
ایک افسانہ جنم لیتا ہے
زندگی اور ریاضت کا کوئی افسانہ
درد کی موت سے دل مرتا ہے
رکھ کے ہر سانس پہ سِل مرتا ہے
تانوں بانوں میں الجھنے میں بھی اک جیون ہے
موت کی کوکھ سے نکلا ہوا سناٹا بھی
تانوں بانوں کی طرح ہوتا ہے
موت سے دوری
کسی درد پہ گرتی ہے تو ڈھا دیتی ہے
راکھ کا راکھ پہاڑ
اور جلا دیتی ہے سناٹوں کو
موت کی کوکھ سے نکلے ہوئے سناٹوں کو
موت برحق ہے مگر موت کا ڈر موت زدہ
زندگی ایک سفر ہے لیکن
زندگی کا یہ سفر موت زدہ
ریت سے گھر جو بنائیں تو بھلا کیا ہو گا
ریت اور ریت کا گھر موت زدہ
کس کنارے پہ کریں بستیاں آباد، اجل پور والے
کون سے بن میں بسائیں نگری
ارتھیاں کندھوں سے زیادہ ہوں تو قبروں کو ترس جاتی ہیں
شہر جن زندہ جنازوں کو لیے بیٹھا ہے
اپنے ایثار کے پیمانوں میں دفنائے ہوئے
اپنے محسوس کے بیوپار میں کفنائے ہوئے
اپنے انجام پہ خود پیٹتے ہیں
بین بھی کرتے ہیں کرلاتے ہیں
آپ ہی اپنی ادا کرتے ہیں رسمیں ساری
اور بخشش بھی منا لیتے ہیں آسانی سے
موت برحق ہے مگر
اس طرح امڈی ہوئی دنیا کی شریانوں میں
جس طرح خامشی ویرانوں میں
کس کو منظور ہے اس عالم انسانی میں
زندگی روز ہی لے جاتی ہے، ایک ویرانی سے اک اور ہی ویرانی میں
خوف اور خوف کی پرچھائیں کا در موت زدہ
اور تو اور سہی قوت پرواز کا پر موت زدہ
موت اور موت کا ڈر موت زدہ
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
تیرے ٹھٹھرائے ہوئے پیکر میں
گرمی خون کی تضحیک پہ شرمندہ ہیں
ہم گنہگار ترے
آرزوؤں کی جواں سالی کی پامالی پر
عمر کے سنگی قدمی پڑتے ہوئے دیکھتے رہتے تھے مگر کیا کرتے
ایک اک کر کے اترتے رہے لمحہ لمحہ
رات دن وقت کے مینار سے غم
اور ہم تکتے رہے تکتے رہے
یونہی چپ چاپ کھڑے تکتے رہے
تیری ہمت تھی کہ ادھڑے ہوئے سینے کو لگا کر سینے
جنگ کے مد مقابل بیٹھے
کشمکش روح جلا دیتی ہے
حیف ہے ہم نے جو دیکھی ہو کبھی دھند تری آنکھوں میں
تیرے ٹھٹھرائے ہوئے پیکر میں
زندگی برف کا بت چھوڑ گئی
موت کے لمس کا پتھریلا پن
نرمی قلب پہ ہنستے ہوئے کچھ کہتا ہے
داستانوں سے گرے لفظ کی تعظیم میں
مٹی نے تجھے گود لیا
خاک ہی خاک کو کھا سکتی ہے
ورنہ رہ جائیں نشاں ہونٹوں پر
تیرے ٹھٹھرائے ہوئے پیکر میں
جاتے جاتے ہوئے موسم کی تھکی ہاری طمانیت ہے
تیرے ٹھٹھرائے ہوئے پیکر میں
میری سنولائی ہوئی روح بھی ہے
تیرے ٹھٹھرائے ہوئے پیکر میں
میرا کجلایا ہوا درد بھی ہے
تیرے ٹھٹھرائے ہوئے پیکر میں
میری مرجھائی ہوئی آس بھی ہے
تیرے ٹھٹھرائے ہوئے پیکر میں
میری گھبرائی ہوئی سانس بھی ہے
تیرے ٹھٹھرائے ہوئے پیکر میں
میرا ٹھٹھرایا ہوا مان بھی ہے
میری ٹھٹھرائی ہوئی جان بھی ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
آؤ آؤ کہ اڑا آئیں قیامت کی ہنسی
موت نے کر دیا ہے جتنا قیامت کے قریب
آؤ چھو آئیں کسی روز ابد کا ماتھا
موت آزاد ہے
برباد کرے یا نہ کرے
کس قیامت سے ڈراتا ہے خدا
وہ جو ہر روز ہمیں آتی ہے
ایک پیارا تھا جسے چھین لیا
اک سہارا تھا جسے چھین لیا
ایک محبوب جسے مل بھی نہ پائے تھے ابھی اچھی طرح
ایک محبوب جسے دیکھا نہ تھا جی بھر کے
موت کے ہاتھ لگا
موت کے ہاتھ لگا اور ہوا قبر نشیں
قبر بھی کوئی تسلی ہے عجب
خاک محفوظ رہے تاکہ ہر اک میت کی
اورہوتا بھی ہے کیا خاک سوا
خاک سے پیار کی منزل بھی تو کچھ دیکھو ذرا
روز سر ٹیک کے روتی ہے ہوا قبروں پر
پھونکتے رہتے ہیں ہم لوگ جو پڑھ پڑھ کے کلام
پھینک آتے ہیں ہری شاخیں کہ آباد رہے
کچھ تو آباد رہے شہر خموشاں آخر
اور کر آتے ہیں سیراب بھی کچھ اشکوں سے
صرف جسمانی اذیت ہی جہنم ہے اگر
پھر تو کچھ بھی نہ ہوئی
روح کے کرب سے بڑھ کر بھی بھلا کرب کوئی کیا ہوگا
اور کیا ہوگی قیامت کوئی
روز چھو آتے ہیں ہم بچھڑے ہوئے تیری سزاؤں کی حدیں
درد قابو سے نکل جائے تو یوں ہوتا ہے
موت کے دکھ کی امامت پہ کھڑے ہنستے ہیں
اس قیامت میں گھرے دل والے
اس قیامت پہ کھڑے ہنستے ہیں
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
گھر میں الماری نہیں
جس میں تری یاد
ترے خط ، تری تصویریں
چھپا کر رکھوں
جتنے صندوق ہیں
فرسودہ خیالوں سے بھرے رہتے ہیں
جس طرح میلے کچیلے کپڑے
گھر میں بس ایک ہی تالہ ہے کہ جو
اپنی آزادی کے کنڈے میں پڑا رہتا ہے
اور کھوئی ہوئی چابی
کہ کسی طور نہیں ملنا جسے
دل کسی کانچ کے ٹوٹے ہوئے برتن میں بھرا رکھا ہے
جانے کس وقت چھلک جائے کسی رخنے سے
ہم نے کچھ روز کتابوں سے اٹے کونے میں
تیری آواز چھپا کر رکھی
جانے کس بگڑے ہوئے کان میں رس جا ٹپکا
لے گیا چور کوئی چوری چھپے آخری سرمایا بھی
میں نے سوچا ہے بہت غصے میں
جو کتابیں تری آواز بھی محفوظ نہیں رکھ سکتیں
جو بچا سکتی نہیں چور سماعت سے تجھے
چھین لے جائے کوئی یہ بھی بہانہ مجھ سے
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
بزدلی موت میں آرام دکھاتی ہے پریشانوں کو
دکھ کی شدت جو نکل جائے تحمل کی حدوں سے آگے
ایک مایوسی جنم لیتی ہے
ایک تاریک، گھٹا ٹوپ، بھنور، مایوسی
ایک مکمل صحرا
حوصلے ٹوٹیں تو بیماری سوا ہوتی ہے
ہمتیں پگھلیں تو لاچاری سوا ہوتی ہے
آنکھ اشکوں میں ہی بہہ جائے تو بینائی کہاں
دل غم و رنج و الم کے مابین
اپنی دھڑکن ہی گنوا آئے اگر
اور پڑا درد سے ٹرپے تو شکیبائی کہاں
زندگی کی کسی وحشت کے ستم کے ہاتھوں
مات کھائے ہوئے کمزوروں کو
موت میں راستہ ملتا ہے تو جیون کا خدا ہی حافظ
درد فاتح ہو تو پھر جی کے بھی کیا کرنا ہے
موت ہی رستی ہو جن زخموں سے
ان کو پھر سی کے بھی کیا کرنا ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
اپنے قدموں پہ کھڑا ہوں لیکن
ایسا لگتا ہے زمیں تیری ہے
خود چنے ہیں درو دیوار مگر
ایسا لگتا ہے مکیں تیرا ہوں
شکر کا ماتھا کبھی ٹیکوں تو
ایسا لگتا ہے جبیں تیری ہے
تو ہی تو بکھرا ہوا ہے مرے کمرے سے مری روح تلک
آنکھ جھپکوں تو سلگ اٹھتا ہے بیمار پلک موت زدہ
مری خوشیوں کی نظر
آرزوؤں کے لبوں کی لالی
مجھ ابھاگن کے لکیروں سے بھرے ماتھے کی
کوئی معدوم تلک موت زدہ
اپنے ہاتھوں سے کمائے ہیں کئی خواب مگر
ایسا لگتا ہے تری آنکھ کی برکت تھی کہ
خوابوں میں سرابوں کی کوئی بستی نہیں
اک ترے درد کی بستی ہے جسے
پوری دنیا پہ فضیلت ہے نگوں ساری کی
جس جگہ سارے جہانوں کی نظر آتی ہے
اک ایک جھلک موت زدہ
اور زمینوں کی طرح
آسمانوں پہ بھی جیسے ہوں سبھی جن و ملک موت زدہ
کہکشاں، شمس و قمر اور فلک موت زدہ
فرحت عباس شاہ
**********************
کیسی سازش ہے
جیون بھی کیسی سازش ہے
جانے کس نے کی ہے ہمارے خلاف
آج پتہ چلا ہے رونا کیا ہے
کسی موت پر رونا کیا ہے
اپنی موت بہت مختلف ہوتی ہے
اور اپنی موت پر رونا بھی
آنسو ہمیں بہاتے ہیں
اور بہائے ہی لیے جاتے ہیں
ایک دریا اور ایک سیلاب کی طرح
اپنے جنازے پہ کھڑے ہو کر ماتم کرنا
آج پتہ چلا ہے کیا ہے
شاید سینہ خود ہتھیلیوں کی طرف بڑھتا ہے
وہ ساری دنیا
وہ عمر دراز
وہ لوگ وہ رشتے ناطے
لڑائی جھگڑے، وہ پیار، وہ سب
ہوک۔۔۔ اور آنسو اور ایک پل، فقط ایک لمحہ
کیا تھا، اب نہیں ہو گا
کبھی نہیں ہو گا
وہ جو اتنا شور تھا
وہ تو خاموشی تھی
گہری اور گھنگھور خاموشی
اور وہ جو چپ تھی
وہ تو شور تھا سارے کا سارا
اور وہ جو رونا تھا اتنا بڑا
وہ تو کچھ اور تھا
اور وہ جو ہنسنا تھا، چہچہانا
وہ تو تھا ہی نہیں
وہ جو تھا
وہ تو تھا ہی نہیں
اور جو جو نہیں تھا
شاید وہی کچھ تھا
سب کا سب
جو ہاتھ نہیں آیا
اور جسے صرف چھوا بھی نہیں جا سکا
وہ اداسی جس میں موت شامل نہیں تھی
اور یہ اداسی جس میں موت شامل ہے
وہ غم
اور یہ غم
وہ سب
اور یہ سب
کیا بس اتنا ہی
ایک ہی بین کے اندر
خود اپنے میت پر کیے گئے آخری بین کے اندر
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
اے دل خوف زدہ
آؤ! آؤ کہ یہاں کوئی نہیں۔۔
جو بیابانوں کو کچھ اور بیاباں کر دے
خوف ہر چیز کو دیوار بنا دیتا ہے
بھاگتی، دوڑتی، لہراتی، لرزتی دیوار
برف کا خوف
جما دیتا ہے شریانوں میں
خون کے ساتھ تمناؤں کے جسم و جاں بھی
خون مغموم تو ہو سکتا ہے
خون مظلوم بھی ہو سکتا ہے
خون معدوم نہیں ہو سکتا
آؤ آؤ کہ تمہیں آگ کے در تک لے جائیں
اے دل وہم زدہ
جس کو ہونا ہو اسے ہونا ہے
وقت سے پہلے تو پتہ بھی نہیں ہل سکتا
وقت کے اپنے مسائل ہیں ہمیں کیا معلوم
کونسا وقت کسے کھینچ کے لے آئے گا میناروں پر
اور لٹکا بھی وہیں دے گا انہیں
اور کسے غاروں میں پھینک آئے گا
کالی، گھنگھور شب تار سی اندھی غاریں
اے دل موت زدہ
آؤ آؤ کہ یہاں کوئی نہیں
کون ہوتا ہے بھلا قبروں میں
بس ابھی تازہ کھدی قبروں میں
ہم نے جو کتبے لکھا رکھے ہیں
اس سے پہلے کہ کہیں کھو جائیں
اس سے پہلے کہ کہیں گم ہو جائیں
اپنی تاریخ، مقامات، کوئی شعر یا آیات
اجاگر کر لیں
موت جو تختی لگا دیتی ہے
بعد میں کوئی ہلاتا بھی نہیں
موت آتی ہے تو پھر مرنا ہے
دور جانا ہے تو پھر جانا ہے
آؤ آؤ کہ یہاں کوئی نہیں
آؤ آؤ کہ کہیں کوئی نہیں
اے دل خوف زدہ
اے دل موت زدہ
فرحت عباس شاہ
**********************
بین
چند لمحوں کی خلش باقی ہے
اور کسی وقت بھی آسکتا ہے
سینہ درد محبت سے کوئی آخری دم موت زدہ
ہم جو خود موت کی دہلیز پہ بیٹھے بیٹھے
تھک گئے ہیں کہ نہ آتا ہے نہ جاتا کوئی
زندگی الجھی ہوئی ڈور ہے خاروخس میں
جس کو سلجھاتے ہوئے پوریں لہو میں ڈوبیں
آخری سانس کے اس پار
کئی درد ابھی باقی ہیں
اس سے کہتے کہ ہمیں تم سے محبت تھی بہت
اس سے کہتے کہ وہ نفرت کہ ضرورت ہی نہیں تھی جس کی
دشمنی جس سے بھی کی عیب ہوا
تم سے ناراضگی رکھی تو کسی سے غفلت
ایک لمحے کی خوشی کی خاطر
بعض اوقات تو حد ہی کردی
ریت پانے کے لیے ہیرے گنوائے ہم نے
خاک پر خواب سے حالات سلائے ہم نے
عرش پر لتھڑے ہوئے لوگ بٹھائے ہم نے
غیر تو کوئی نہ تھا پھر بھی بنائے ہم نے
آج ان باتوں پہ حیران ہیں غم موت زدہ
ہائے اس موڑ پہ ہم موت زدہ موت زدہ
ہائے ہم موت زدہ موت زدہ
ہائے ہم موت زدہ موت زدہ
ہا۔۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔۔۔۔دہ
۔۔۔۔۔۔۔ہ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ ۔ . ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت عباس شاہ
**********************
ماتم
کون اس شہر سے اس شہر تلک ساتھ چلے
کون قبروں میں بلکتی ہوئی ویرانی سنے
یہ بہت ہے کہ مری موت پہ روئے ہیں مرے چاہنے والے کتنے
ورنہ میں موت زدہ آدمی کیا کر لیتا
شکل افسردہ بنائی ہے جو کوشش سے کسی نے تو مہربانی ہے
قبر کھودی ہے کشادہ تو یہ احسان ہے مجھ میت پر
آب چھڑکا ہے، دعا مانگی ہے
اور اگربتیاں سلگائیں ہیں گل پھینکے ہیں
اور پھونکا ہے بہت پڑھ کے کلام
کاش اک بار کوئی مر کے کبھی جی اٹھے
ایک اک ذرے پہ سو بوسے دے
ایک اک ہاتھ پہ بیعت کر لے
آج جن کندھوں پہ اس شہر سے اس شہر تلک آیا ہوں
موت کی ساری جمع پونجی مری ان پہ نثار
موت کی دنیا الگ ہوتی ہے
موت کا شہر الگ ہوتا ہے
موت کا گھر بھی الگ ہوتا ہے
ساتھ مر کر بھی کوئی ساتھ نہیں رہ سکتا
بات اگر ہجر کی ہو
بات اگر ہجر کے درد کی ہو
بات کے ساتھ کہاں رات چلے
کون اس شہر سے اس شہر تلک ساتھ چلے
فرحت عباس شاہ
**********************
ماتم
آرزو موت زدہ
گمشدہ پھرتے ہیں آوارہ مزاج
درد کی دھند میں، ہجرت کی بیابانی میں
دل کے ویرانے میں اک بستی سے اک بستی تلک
کوئی مر جائے اکیلے میں تو کھو جاتے ہیں
خون سے لتھڑے ہوئے بین، صدا ماتم کی
ڈھونڈتا پھرتا ہے اک نعرہ ہُو موت زدہ
آج میں ڈوب گیا نبضوں کی خاموشی کی خاموشی میں
کوئی تاریکی سی تاریکی ہے
چار سو موت زدہ
ایک دریا ہے، کوئی زرد سلگتا دریا
اک کنارہ ہے، بہت سرد سسکتا ہوا لاچاری سے
اس کنارے پہ جدائی کے کئی پیڑ سر شام جنازوں کے لیے
روز کرتے ہیں وضو موت زدہ
گمشدہ پھرتے ہیں آوارہ مزاج
زندگی جیسے کسی ہوش کے مقتل میں بھگا لائی ہو
دور تک پھیل گئی روح میں بُو موت زدہ
دھند ہی دھند ہے شریانوں میں
نشہ درد میں لپٹے ہوئے کرچی کرچی
چبھ رہے ہیں کہیں زخموں کے سبو موت زدہ
آج میں زندہ ہوں
اپنی گمشدگی میں میں زندہ ہوں
اپنے پا لینے میں تُو موت زدہ
آج تُو موت زدہ
آج تو
تُو موت زدہ، موت زدہ
فرحت عباس شاہ
**********************
رہ نوردوں کو کوئی چاٹ گیا
راستہ دور تلک خالی ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
اختتام