**********************
بے چین ہوا ، مت بول پیا کے لہجے میں
میرا دل نہ جلا ، مت بول پیا کے لہجے میں
مِرا دل کٹتا ہے اُس کی صدا کے شک پر بھی
کچھ خوف خدا ، مت بول پیا کے لہجے میں
مجھے اس کی خوشبو ہجر کے زخم پہ لگتی ہے
اے باد صبا ، مت بول پیا کے لہجے میں
میں پہلے ہی برباد ہوں اس دل کے ہاتھوں
مجھے غم نہ لگا، مت بول پیا کے لہجے میں
دکھ بول رہا تھا بالکل اس کے لہجے میں
پھر میں نے کہا، مت بول پیا کے لہجے میں
فرحت عباس شاہ
**********************
مت بول پیا کے لہجے میں
اے شام
مجھے برباد نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے شام
عجیب سی ویرانی
مرے سینے میں آباد نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے شام
کئی سو صدیوں کے
قیدی بیچارے اشکوں کو
مری آنکھوں سے آزاد نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مت بول پیا کے لہجے میں
اے وقت
تو ایسا کام نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے وقت
پرائی دنیا میں
مرے ہر سُو ہجر کی شام نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے وقت
زمانہ ظالم ہے
تو بیچ ہر اک چوراہے کے
مرے پیا کو یوں بدنام نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مت بول پیا کے لہجے میں
اے رات نگر ویران نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے رات
سکوت ہے پہلے ہی
اس دل۔۔۔ زخموں کے دریا میں
اب اور اسے سنسان نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے رات
میں دکھ کا مارا ہوں
کوئی وصل وصال بشارت دے
یہ ہجر مرا ایمان نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
کوئی نور کرن
کوئی دیپ جلا
مجھے پیا کی اپنی رس کی بھری
میٹھی دلدار آواز سنا
مرا یوں تاریک جہان نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مت بول پیا کے لہجے میں
اے بادِ صبا
خاموش گزر جا باغوں سے
مت بول پیا کے لہجے میں
ہمیں خوف آتا ہے داغوں سے
اے نیل گگن
تری وسعت وصف سہی تیرا
میں پنچھی، بادل، سیّارہ، پورن ماشی
میں بچھڑے یار کا متلاشی
اے نیل گگن
ترے قریہ قریہ اڑنا مرا دیوانہ پن
مت بول پیا کے لہجے میں
اے کاہکشاں
تری چمک دمک
مرے پیا کی لانبی پلکوں کی بس ایک جھلک
بس ایک جھلک مرے پیا کے نوری ماتھے کی
مرے دل کو کچھ کچھ ہو جاتا ہے فوراً ہی
مجھے تری صدا ہی کافی ہے
مت بول پیا کے لہجے میں
بے چین ہوا
مت چھُو مجھ کو
مرے زخم نہ کھلنے لگ جائیں
میں جن باتوں کو بھول چکا
اور چھوڑ چکا ہوں مدت سے
آآ کے نہ ملنے لگ جائیں
بے چین ہوا
مت بول پیا کے لہجے میں
مرے کان نہ جلنے لگ جائیں
مرے ہونٹ نہ سلنے لگ جائیں
بے چین ہوا
مت دیکھ مجھے
مت دیکھ مجھے کسی نابینا کی نظروں سے
مرے ہونے پر یوں ظلم نہ ڈھا
بے چین ہوا
بے چین ہوا
اُسے یاد نہ کر
اُسے دھیرے دھیرے یاد نہ کر
وہ یاد آیا
تو آنکھیں اپنی آئی پر آجائیں گی
پھر دریا کے دھاروں کی طرح
جانے کب تک نیر بہائیں گی
بے چین ہوا
نیندیں نہ اُڑا
مرے جیون جوگ کو جوگ سمجھ
بے چین ہوا مرا سوگ منا
مرے دل کے روگ کو روگ سمجھ
میں پہلے ہی بے کل ہوں بہت
پانی سے بھرا بادل ہوں بہت
اور رونے میں جل تھل ہوں بہت
بے چین ہوا
بے چین ہوا
مرے پاس نہ آ
مرا دل نہ جلا
مت بول پیا کے لہجے میں
بے چین ہوا
مت چھیڑ مجھے
مرے ساتھ عجیب فریب نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
میں شہر میں جتنا تنہا ہوں
اتنا ہی رہنے دے مجھ کو
مری غم کے سفر سے جان چھڑا
یہ سفر مری پازیب نہ کر
بے چین ہوا
مجھے چھینٹے مار نہ بارش کے
مجھے اتنا رمز شناس نہ کر
میں ہوں تو مجھ ہی کو رہنے دے
مری آس امید اُداس نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
اے رُت مستانی
ظلم نہ کر
مت بول پیا کے لہجے میں
مری روح کا سارا بنجر پن
مری ویرانی
کہاں انجانی ہے پیا کی ہجر کہانی سے
میں کس کے دوارے جا بیٹھوں
میں کس سے پوچھوں اس کا پتہ
اے رُت مستانی
پیا بنا ہے ساری دنیا بیگانی
مت بول پیا کے لہجے میں
مرے جذبوں کو مہمیز نہ کر
احساس کو اور بھی تیز نہ کر
مرے غم کی فصلوں کے کارن
دِل کی مٹی زرخیز نہ کر
مرے پاس نشانی یہی تو ہے
آواز اُداس ہواؤں کی
مری لُوں لُوں نے ہے پہچانی
مت بول پیا کے لہجے میں
فرحت عباس شاہ
**********************
راکھ سندور
رات رانی کی طرح آتی ہے
تیری یادوں کے پہن کر گجرے
تیرے خوابوں سے سجی۔۔۔
کر کے تری چاہ کا سب ہار سنگھار
بیٹھ کر تخت محبت پہ مرے
رات دلہن کی طرح آتی ہے
وہ جو اک گوشہ ہے محرومی کا جیون میں مرے
تیری خوشبو سے بھرا
تیری پوشیدہ محبت میں مہکتا ہوا گھونگھٹ اوڑھے
رات دلہن کی طرح آتی ہے
میری بے انت تمنا ترے دولہا کی طرح
تھوڑی شرماتی جھجھکتی ذرا سہمی سہمی
تیرے پھولوں سے سجے دل کے حسیں کمرے میں ہو کے داخل
تیرے پیکر میں اتر جاتی ہے
رات سہمی ہوئی برہا کی طرح آتی ہے
رات تاریک، بہت خوفزدہ، بے آواز
رات آتی ہے کسی ٹوٹے ہوئے پل سے ڈرانے کے لئے
رات آتی ہے کسی ہول میں ڈوبے ہوئے مندر کی طرح
رات سہماتی ہے
جب آتی ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
دل بے چین مزاج ہمارا
بھولے نین پیا سنگ لاگے
نیل گگن سے چھُپ کے
نیل گگن تو سب کچھ دیکھے
لاکھ کوئی دھندلائے
دل بے چین مزاج ہمارا
پنچھی کے سنگ اڑنا مانگے
بادل کے سنگ بھاگے
بھولے نین پیا سنگ لاگے
کوئی نہ جانے ان رستوں پر کیا آئے گا
ویرانی سے آگے
جیون اک بے مہر چنریا
سانسیں کچے دھاگے
بھولے نین پیا سنگ لاگے
فرحت عباس شاہ
**********************
گوری گجرے باندھ کے نکلی
پھولوں کے ہاتھوں میں ڈالے
شاخوں جیسے ہاتھ
گوری گجرے باندھ کے نکلی
بادصبا کے ساتھ
شرمائی شرمائی سڑکیں
بل کھاتے فٹ پاتھ
پیڑوں کی خاموشی بولے
قدم قدم پر دھڑکن ڈولے
رستے گائیں گیت
پریم کے اپنے ناز اور نخرے
پریت کی اپنی رِیت
گوری گجرے باندھ کے نکلی
پھولوں کے ہاتھوں میں ڈالے
شاخوں جیسے ہاتھ
فرحت عباس شاہ
**********************
دیوانی متواری نی میں
منت کر کر ہاری نی میں
دیوانی متواری نی میں
بے کل بے کل کس بن جاؤں
خار ہی خار ہیں جس بن جاؤں
تیرے پریم کی ماری نی میں
دیوانی، متواری نی میں
ماتھے پر سو چاند سجایا
پاؤں کی نوک سے جگ ٹھکرایا
رہی کنیز تہاری نی میں
دیوانی، متواری نی میں
من آنگن میں سج بن آئے
پیا تو مورے جج بن آئے
صدقے نی میں واری نی میں
دیوانی، متواری نی میں
شاہ ہنسیں تو گرما جاؤں
پل پل، چھل بل شرما جاؤں
الہڑ نار، کنواری نی میں
دیوانی، متواری نی میں
فرحت عباس شاہ
**********************
مرا خان پنل سلطان پیا
مرا مذہب دین ایمان پیا
کبھی آن بسو مرے آنگن میں
مرا تم بن گھر ویران پیا
مری آنکھیں بسی اُجڑی ہوئی
مرا دل نگری سنسان پیا
کیوں تم بن دنیا بے رونق
کیوں خالی لگے جہان پیا
ہر حال میں زندہ رہ لینا
نہیں اتنا بھی آسان پیا
کچھ آنسو، خاموشی، اور غم
مرا یہی ہے سب سامان پیا
میں نے جیون تیرے نام کیا
مرے ناواقف انجان پیا
کبھی میرے بارے بھی سوچو
کوئی ڈھونڈو قبرستان پیا
روتا ہے خالی کرسی پر
مرا دھوپ بھرا دالان پیا
فرحت عباس شاہ
**********************
آ مل سانول یار وے
کبھی آ مل سانول یار وے
مرے لوں لوں چیخ پکار وے
مرا سانول آس نہ پاس نی
مری ارتھی ہوئی اُداس نی
مجھے ملے نہ چار کہار وے
کبھی آمل سانول یار وے
کوئی بدلی بن بن برس گئیں
مری آنکھیں پیا کو ترس گئیں
دل روئے زار قطار وے
کبھی آمل سانول یار وے
تجھ ہر جائی کی بانہوں میں
اور پیار پریت کی راہوں میں
میں تو سب کچھ بیٹھی ہار وے
کبھی آمل سانول یار وے
مجھے ہجر نہ آیا راس نی
مرا چن چن کھا گیا ماس نی
مجھے گیا وچھوڑا مار وے
کبھی آمل سانول یار وے
مرے لوں لوں چیخ پکار وے
کبھی آمل سانول یار وے
فرحت عباس شاہ
**********************
مرا اصل اصیل اداس پیا
دل جانی رمز شناس پیا
کبھی آمل تنہا لوگوں سے
مرا خاصوں میں بھی خاص پیا
تری دید زیارت آنکھوں کی
تری دُوری دشت کی پیاس پیا
ترا لمس ہوا کی سسکی میں
تری پھولوں میں بھی باس پیا
میں مٹی بارش ترسی ہوئی
تو آوارہ اک بدلی سی
کبھی برس مرے بھی دامن پر
مری جل جائے گی گھاس پیا
اک تیرے گرد ہیں گردش میں
مری سوچ، بچار، قیاس پیا
فرحت عباس شاہ
**********************
یاد پیا کی
ایک عجیب سہانا خواب اور یاد پیا کی
موسم پیلا زرد، خراب اور یاد پیا کی
رات نے ایک عجیب اداسی کے سُر چھیڑے
درد سمندر اور تمہارے ہجر کے بیڑے
لیکر آئے مال عذاب اور یاد پیا کی
ایک عجیب سہانا خواب اور یاد پیا کی
ہم نے دل کے ہاتھوں جتنے زخم اٹھائے
اندر ہی محصور رہے نا باہر آئے
باہر آئے فقط گلاب اور یاد پیا کی
ایک عجیب سہانا خواب اور یاد پیا کی
ہم نے جس کی خاطر آنکھیں گروی رکھیں
روح جلائی اور پھر سوچیں گروی رکھیں
بخش گیا ہے ہمیں سراب اور یاد پیا کی
ایک عجیب سہانا خواب اور یاد پیا کی
فرحت عباس شاہ
**********************
مرے چندا، سورج، پھول پیا
مجھے ایسے تو نا بھول پیا
مرے تجھ بن قول قرار گئے
مرے کھوٹے پڑے اصول پیا
تجھے پلکیں مری ہُلارے دیں
مری پینگوں پر بھی جھول پیا
میں نے جب سے عشق ریاضت کی
مجھے ہر شے لگے فضول پیا
تو کیسا کاروباری تھا
مرا لُوٹ کے لے گیا مُول پیا
ہیں اتنے کہاں نصیب مرے
میں پاؤں تہاری دُھول پیا
فرحت عباس شاہ
**********************
سانول سانول بول جیارا
بس اک تسبیح رول جیارا
من مندر کے شاہ نرالے
جانے کہاں جا ڈیرے ڈالے
آن بسو میرے کول جیارا
سانول سانول بول جیارا
پی بن من سُونا پڑ جائے
آنکھوں میں چُونا پڑ جائے
کانوں میں رس گھول جیارا
سانول سانول بول جیارا
جی بن جگ مٹی کے بھاؤ
من موہن سا مال گنواؤ
پریت سدا انمول جیارا
سانول سانول بول جیارا
فرحت عباس شاہ
**********************
چاند اترا ہے آنکھ کنارے
تو کیوں میرے دل کے سہارے
رونے بیٹھ گیا ہے
چاند اترا ہے آنکھ کنارے
رونے بیٹھ گیا ہے
ایک اک کر کے گرے ستارے
دامن بھیگ گیا ہے
اندر اندر آنسو ٹپکے
اور من بھیگ گیا ہے
دل جانے کس درد کے مارے
رونے بیٹھ گیا ہے
رات ڈھلی تو آخر اک اک
تارا ڈوب گیا ہے
بیچ سمندر ایک عجیب
کنارا ڈوب گیا ہے
ایک پرندہ غم کے دھارے
رونے بیٹھ گیا ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
دیواریں سب جان گئی ہیں
دیواریں سب جان گئی ہیں
موری پریت کا حال
دیواریں جاسوس کہیں کی
اک نمبر کی نٹ کھٹ کھچری
تنہائی میں لپٹ لپٹ پڑتا اک لال گلال
پیا کے ساتھ وصال
کالی شب میں بھی پہچان گئی ہیں سب دیواریں
ہنسی ہنسی میں کھل کھل جاتا
انگ انگ شرماتا جوبن
دور پڑا آنچل اور پگلا من کا مور نرالا
اندر اندر رقص کرے اور چھپ جائے متوالا
سر سنگیت کی کیفیت
اور تھاپ، الاپ، دھمال
اور دور کہیں پر چھپے خیال بھی بوکھ گئی ہیں
کون اب کرے سوال
دیواریں سب جان گئی ہیں موری پریت کا حال
فرحت عباس شاہ
**********************
میں جب سے پیا کی ہوئی ہوں
موری اماں سے آئے موہے لاج
میں جب سے پیا کی ہوئی
مرے سر پر چاہ کا تاج
میں جب سے پیا کی ہوئی
موسے جھاڑو دیا نہ جائے
موسے آنچل سیا نہ جائے
موسے چھنا نہ جائے اناج
میں جب سے پیا کی ہوئی
مجھے کھینچ کے لے جائیں سپنے
جا دور بسے مورے اپنے
موسے راتیں مانگیں خراج
میں جب سے پیا کی ہوئی
موری اماں سے آئے موہے لاج
میں جب سے پیا کی ہوئی
مرے سر پر چاہ کا تاج
میں جب سے پیا کی ہوئی
فرحت عباس شاہ
**********************
خوشبو تری
پھول پھول پھیلی مجھے لیکر
خوشبو تری
جھول جھول جائے میرے من میں
چاہت تری
بارش برسے چاند نگر سے آنگن اور بھی ترسے
بھول بھول جائے مرا رستہ
خواہش تری
آنکھیں روئیں، نیندی روئیں، روئیں خواب سحاب
سول سول جائے موری تتلی
پاگل تری
شہر کنارا ساتھ تمہارا دنیا جل جل جائے
پھول پھول جائے میرا سینہ
سکھ سے ترے
فرحت عباس شاہ
**********************
جن سیدھا سادہ
ابھی سے پوچھ رہا ہے مجھ سے ساجن سیدھا سادہ
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
جھوٹ بھی کہہ دو تب بھی مانوں
میں تو اپنا ہی جانوں
میں تم سے کچھ بھی نہ کہوں گی
کرتی ہوں یہ وعدہ۔۔۔۔
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
پیار کے لاکھوں دیپ جلائیں
اک دوجے کا ساتھ نبھائیں
اک دوجے کا مان رکھیں گے
کر لیں آج ارادہ۔۔۔۔
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
ویرانی کو شہر بنا دیں
چاند کا پہلا پہر بنا دیں
دل میں سب جیون آجائے
اتنا کریں کشادہ۔۔۔۔
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
فرحت عباس شاہ
**********************
کیسے بھلا دوں تیرا پیار
کیسے بھلا دوں تیرا پیار
اور میرے دل کی پکار
آنکھوں میں چہرہ تیرا
سوچوں پہ پہرہ تیرا
سانسوں میں تیری مہکار
کیسے بھلا دوں تیرا پیار
اور میرے دل کی پکار
دل کے دریچے میں سدا
رہتی ہے ساون کی گھٹا
ہوتا ہے تیرا دیدار
کیسے بھلا دوں تیرا پیار
اور میرے دل کی پکار
پھولوں سا نکھر ا بدن
جیسے ہو پہلی کرن
چاند بھی کرے اقرار
کیسے بھلا دوں تیرا پیار
اور میرے دل کی پکار
فرحت عباس شاہ
**********************
پھر تیری یاد
پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
وقت رویا ہوا چاند سابن کے ڈھلنے لگا، رت بدلنے لگی
رات بادل کے پلو میں تیری صدا باندھ کر ہاتھ ملنے لگی
پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
دل کی دھڑکن اُداسی پہن کر لہو میں پگھلنے لگی رُت بدلنے لگی
چپ زدہ ادھ کھلے جنگلوں میں ترے نام کی شمع جلنے لگی
پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
مدتوں سے رکی بے قراری کوئی ساتھ چلنے لگی، رت بدلنے لگی
پھر جدائی پلٹ کر بنا کچھ کہے اور سنے میری سانسیں مسلنے لگی
پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
پھر تیری یاد
راستہ بھول آئی ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
کن سنگ لاگے نین
کن سنگ لاگے نین
رک رک جائے رین
کن سنگ لاگے نین
آدھی رات کے سناٹے اور
دل کی آخری ویرانی میں
جانے کون جدائی ہے جو
کرتی جائے بین
کن سنگ لاگے نین
کون اٹھائے بوجھ سفر کا
بے چینی کی پگڈنڈی پر
جو اکثر ہی زخم اور زخم کے
ہوتا ہے مابین
کن سنگ لاگے نین
فرحت عباس شاہ
**********************
چاند کو چھونے نکلی
چاند کو چھونے نکلی پاگل سرد ہوا
دل سے نکلا خوشبو بن کر ڈھولا پیار ترا
راتوں کے سنگ کھیلی ہے
تیرے بنا میری نظر
روشن ہو جائے یہ دنیا
تو جو مل جائے اگر
تو جو مل جائے اگر مل جائے مجھ کو خدا
دل سے نکلا خوشبو بن کر ڈھولا پیار ترا
جگنو پکڑ کر لائیں گے ہم
چھوڑ ائیں گے غم
جانے محبت ہے کیا شے
صدیاں بھی لگتی ہیں کم
صدیاں بھی لگتی ہیں کم، ملتا نہیں راستہ
دل سے نکلا خوشبو بن کر ڈھولا پیار ترا
چوما ہے کس نے چمن کو
پھیلی ہوئی ہے خوشبو
آنکھیں اٹھاؤں جدھر بھی
آئے نظر تو ہی تو
آئے نظر تو ہی تو، آنکھوں نے کیا ہے کیا
دل سے نکلا خوشبو بن کر ڈھولا پیار ترا
فرحت عباس شاہ
**********************
شام کنارے
صبح سویرے سورج جاگا
گھر کی جانب بھاگا
شام کنارے سورج رویا
رات کی گود میں سویا
کس کی آنکھ نے آنگن دھویا
کس کو ساون لاگا
صبح سویرے سورج جاگا
گھر کی جانب بھاگا
صحراؤں پر سورج چمکا
ویرانوں پر دمکا
کس کے ماتھے جھومر کھنکا
کس نے گایا راگا
صبح سویرے سورج جاگا
گھر کی جانب بھاگا
اندھیروں کو سورج گھیرے
روز لگائے پھیرے
کس نے میرے موتی بکھیرے
کس نے توڑا دھاگا
صبح سویرے سورج جاگا
گھر کی جانب بھاگا
فرحت عباس شاہ
**********************
تو خوشبو پہن
او۔۔۔ تو میرا اپنا ہے
تو میرا اپنا ہے
تو ہو جا خیالوں کے جھرنوں میں گم میں ڈھونڈوں تجھے
تو خوشبو پہن میں دیکھوں تجھے
تو خوشبو پہن میں دیکھوں تجھے
تو رنگوں میں ڈھل میں چوموں تجھے
او۔۔۔۔ تو میری شام ہے
میں تیرے نام ہوں
تو بادل کے جھولے سے نیچے اتر میں تھاموں تجھے
تو خوشبو پہن میں دیکھوں تجھے
او۔۔۔ میں تیری چاہوں میں
پڑا ہوں راہوں میں
تو پھولوں کے جنگل سے باہر نکل میں چھولوں تجھے
تو خوشبو پہن میں دیکھوں تجھے
تو خوشبو پہن میں دیکھوں تجھے
تو رنگوں میں ڈھل میں چوموں تجھے
فرحت عباس شاہ
**********************
پتے
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
یہ پتے خاک کا زیور نہیں تھے
یہ سارے ہی بلندی پر کہیں تھے
جو مارے مارے پھرتے ہیں دوانے
درختوں سے اُتر آئے زمانے
ہیں اپنے درد کے ہمراز پتے
ہر اک موسم سے ہیں ناراض پتے
انہیں اب کون آئے گا منانے
درختوں سے اُتر آئے زمانے
یہ پیلے دل ہوا کے آسرے پر
پڑے ہیں بس خدا کے آسرے پر
کوئی آیا نہیں ان کو اٹھانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
کبھی شاخوں سے تھے پھوٹے پرندے
یہ ہر جائی بڑے جھوٹے پرندے
یہ پتے یہ خزاؤں کے فسانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
فرحت عباس شاہ
**********************
گلاب
(1)
پھولوں کی رُت آئی مہکے سرخ سفید گلاب
نیند کی شاخوں پر اُگ آئے سانوریا کے خواب
بالوں میں دو پھول سجائے
کلیوں کے بندے بنوائے
گیتوں والے گجرے پہنے
نین ہوئے بے تاب
پھولوں کی رُت آئی مہکے سرخ سفید گلاب
خار گلے کا ہار بنائے
زخموں کے گلزار بنائے
دل نے اک اک کر کے سارے
سیکھ لئے آداب
پھولوں کی رُت آئی مہکے سرخ سفید گلاب
کھلے ہوئے پھولوں کی کیاری
ہم کو ساجن جیسی پیاری
ہم کو ساجن جیسا لاگے
ہر گلشن شاداب
پھولوں کی رُت آئی چمکے سُرخ سفید گلاب
نیند کی شاخوں پر اُگ آئے سونوریا کے خواب
فرحت عباس شاہ
**********************
گلاب
(2)
مہکے باغوں کی جھیلوں میں
رخساروں کے عکس گلاب
باد صبا کی لہریں آئیں
کرنے لگے ہیں رقص گلاب
پھولو! میرا دل نا توڑو
ساتھ چلو
کانٹو میرا آنچل چھوڑو
جانے دو
تکتا ہو گا رستے میرے
پیارا سا اک شخص گلاب
۔۔۔کرنے لگے ہیں رقص گلاب
بانہیں میری شاخوں جیسی
لے لو نا
نرم ملائم ہاروں جیسی آؤ نا
ساتھ تمہارا خوشبو جیسا
اور تمہارا لمس گلاب
کرنے لگے ہیں رقص گلاب
فرحت عباس شاہ
**********************
ہو ساجنا
ہو۔۔۔۔ ہو ہو ہو ہو
ہو ہو ساجنا۔۔۔
ہو۔۔۔ساجنا
یہ تم نے باغ کو کیا کر دیا ہے
مری بے چینوں سے بھر دیا ہے
ہو۔۔۔۔ ہو ہو ہو ہو
ہو ہو۔۔۔۔ساجنا
درختوں سے لپٹ جاتا ہے آنچل
تو دل دھڑکن کی لے پر مست ہو کر
خوشی سے جھومتا جاتا ہے پاگل
یہ تم نے باغ کو کیا کر دیا ہے
مری بے چینوں سے بھر دیا ہے
گلے ملنے لگے ہیں پھول سارے
ہوائیں گنگنا کر کہہ رہی ہیں
دوانی درد اپنے بھول سارے
یہ تم نے باغ کو کیا کر دیا ہے
مری بے چینوں سے بھر دیا ہے
اتر آئی ہیں رنگوں کی بہاریں
گلابی کاسنی سرخ اور پیلی
کئی رنگوں کے پھولوں کی قطاریں
یہ تم نے باغ کو کیا کر دیا ہے
مری بے چینوں سے بھر دیا ہے
یہ تم نے باغ کو کیا کر دیا ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
آسماں
آسماں، آسماں، آسماں
نیل گوں بے کراں آسماں
بدلیوں کی اڑن طشتری
دل کا آرام لے آئی ہے
صبح کاذب کی پہلی کرن
تیرا پیغام لے آئی ہے
دیکھا کتنا عجب ہے سماں
آسماں، آسماں، آسماں
لہلہاتی ہوئی جارہی ہیں
ان گنت پنچھیوں کی قطاریں
گنگناتی ہوئی جارہی ہیں
میرے من میں محبت کی ڈاریں
ایک تو ایک میں رازداں
آسماں، آسماں، آسماں
چاند تاروں کی بارات میں
سج گیا رات کی رات میں
جانے کیا ہے تری بات میں
چاندنی آگئی ہاتھ میں
کتنا رنگیں ہے سارا جہاں
آسماں، آسماں، آسماں
فرحت عباس شاہ
**********************
دریا
جانے کہاں کہاں تک جائے مستانہ دریا
من کی پیاس بجھانا پائے بیگانہ دریا
عین کنارے پر ہے پیاسی
قسمت ماری ریت
ہر رت میں امید لگائے
رستہ دیکھیں کھیت
کسی کو خاطر میں نا لائے انجانا دریا
کہیں کہیں چپ سادھے بیٹھا
کہیں مچائے شور
کہیں بہے بن بن کے ناگن
کہیں پھرے بن مور
دیوانہ مستانہ دریا دور تلک دامن پھیلائے
پانی کی چادر کے نیچے
بنجر پن کرلائے
ٓآنکھ کا دریا خشک ہوا پر
پیا ملن نا آئے
دل بسی کے زخم دُکھائے
ویرانہ دریا
فرحت عباس شاہ
**********************
صحرا
صحرا۔۔۔۔
صحرا۔۔۔۔
پھیل گیا ہے ہر سو
جب سے جدا ہوا ہے تو
پھیل گیا ہے ہر سو
صحرا۔۔۔۔
صحرا۔۔۔۔
اونچے نیچے ریت کے ٹیلے
مٹیالے اور پلکے پیلے
تیز ہوا لے آئی کہیں سے
تیرے بدن کی کی خوشبو
جب سے جدا ہوا تو
صحرا۔۔۔۔صحرا۔۔۔۔
پھیل گیا ہے ہر سو
کب سے کھڑی ہوں سراب کنارے
کب آؤ گے خواب کنارے
کب توڑو گے خاموشی کو
کب پگھلاؤ گے یہ ہو
جب سے جدا ہوا تو
چھپ گئے بادل دیکھ کے صحرا
پھیل گئے ہیں لیکھ کے صحرا
تیرے بعد مسلسل اب تو
ویرانہ پن ہے رو بہ رو
جب سے جدا ہوا تو
فرحت عباس شاہ
**********************
شام
جانے کیا کرنے آتی ہے نہر کنارے شام
روز اسے میرے رستے میں پڑ جاتا ہے کام
جانے کیا کرنے آتی ہے
دو رویہ پیڑوں کے جھرمٹ اور تمہاری یاد
پیار محبت کے پنچھی ہیں شاخوں پر آباد
عمر شرارت کر جاتی ہے موسم ہے بدنام
جانے کیا کرنے آتی ہے۔۔۔
ایک سڑک اک پل اک رستہ اور سر سبز کنارا
لہروں کی پریاں دیتی ہیں دل کو بڑا سہارا
تیز ہوا نے لکھ رکھا ہے گھاس پہ تیرا نام
جانے کیا کرنے آتی ہے ۔۔۔
ہم ہارے اور شام سمے کا منظر جیت گیا
یوں لگتا ہے پل دو پل میں جیون بیت گیا
خود کو مجرم ٹھہرائیں یا تم کو دیں الزام
جانے کیا کرنے آتی ہے۔۔۔
نہر کنارے شام۔۔۔
فرحت عباس شاہ
**********************
خزاں
خزاں باہر نکل آئی
درختوں پر اداسی وقت سے پہلے ہی ڈھل آئی
ہوئیں خشک پتوں کو لیے حیران پھرتی ہیں
نگاہیں آنسوؤ ں سے تر بہت ویران پھرتی ہیں
یہ موسم ہے یا کوئی بے کلی چہرہ بدل آئی
خزاں باہر نکل آئی
محبت تو ہمیشہ سبز رکھتی ہے درختوں کو
وصالِ یار مہکائے ہوئے رکھتا ہے باغوں کو
جدائی ہے جو اتنی زردیاں شاخوں پہ مل آئی
خزاں باہر نکل آئی
گلابوں سے تہی شاخوں پہ اب کانٹے ہی کانٹے ہیں
پریشاں راستے ہیں اور سب کانٹے ہی کانٹے ہیں
تمہاری یاد کس برباد جنگل میں نکل آئی
خزاں باہر نکل آئی
درختوں پر اداسی وقت سے پہلے ہی ڈھل آئی
فرحت عباس شاہ
**********************
چودھویں رات کا چاند
بالکنی میں آن اترا ہے
چودھویں رات کا چاند
من ہی من میں شور مچائے
تیری بات کا چاند
کبھی بھی آنکھوں کے آنگن میں دو آنسو آجانے سے
دھندلے ہو جاتے ہیں منظر بینائی دھندلانے سے
اچھا خاصا چاند ہو جاتا ہے برسات کا چاند
بالکنی میں آن اترا ہے
چودھویں رات کا چاند
جب دیوانے پن میں کسی کا تن من دھن لگ جاتا ہے
جب خواہش کو محرومی کا زرد گہن لگ جاتا ہے
تو نے بھی تو دیکھا ہو گا ان حالات کا چاند
فرحت عباس شاہ
**********************
تیرے پیار کے رنگ
انگ انگ سے
پھوٹین بیلیا
تیرے پیار کے رنگ
بانہوں پہ اگ آئی ہے
کھیتوں کی ٹھنڈی ہوا
لہراتا بل کھاتا دل
جیسے کوئی دریا
دریا دریا
بہتی جائے
چنچل سی کوئی ترنگ
جلتی سلگتی ہوئی
راتیں بلائیں تجھے
سنو تو میری خواہشیں
گیت سنائیں تجھے
چندا سے پرے
لے جائیں کہیں
ہمیں تیری امنگ
آنکھوں میں جھک آیا ہے
شام کا پیلا گگن
یونہی تھرکتا پھرے
سانسوں کی لے پر بدن
خوشبو خوشبو
ہم اڑتے پھریں
ترے پیار کے سنگ
فرحت عباس شاہ
**********************
پیپل کا شجر
پیپل کا شجر
ترا میرا نگر
جہاں رات کے پچھلے پہر میں
چاند اترتا ہے
آنکھوں ہی آنکھوں میں
کریں اشارے یہ نظارے
چھپ چھپ کے ملنے کو
چلے ہیں دیکھو دو ستارے
اپنی محبت کے کنارے
دنیا سے چوری چوری
دو دل ہوئے ہیں مگن
دہرا رہی ہے پھر سے
پچھلی کہانی لگن
بھڑکی ہے سینے میں اگن
تیرے خیالوں کی ہوا
آنکھوں میں لاتی ہے گھٹا
دیتی ہے باد صبا
بچھڑے ہوؤ ں کو صدا
رہیں گے ہم باوفا
پیپل کا شجر
تیرا میرا نگر
فرحت عباس شاہ
**********************
چند اوئے تیری چاندنی
چند اوئے تیری چاندنی
چند اوئے تیری چاندنی
بلائے مجھے پیار سے
بڑے ہی اصرار سے
چند اوئے تیری چاندنی
سنہری تیرا رنگ نی
جگاتا ہے اُمنگ نی
چند اوئے تیری چاندنی
نگاہوں کے نقاب میں
تو آئے کبھی خواب میں
چند ائے تیری چاندنی
سہانی تیری چال نی
بڑی ہے بے مثال نی
چند اوئے تیری چاندنی
ادائیں دلدار کی
کہانیاں ہیں پیار کی
چند اوئے تیری چاندنی
تمہارا انتظار ہے
جیارا بے قرار ہے
چند اوئے تیری چاندنی
فرحت عباس شاہ
**********************
رستہ
بے چینی ہی بے چینی ہے
اور اک خالی رستہ
دور دور تک دھول اڑی ہے
دور دور تک خاموشی ہے
اور اک خالی رستہ
جانے ساجن باغ ہمارے کب مہکاؤ گے
جانے ساجن اس رستے پر تم کب آؤ گے
دل سے تیرے دروازے تک
اک ویرانی سی اتری ہے
اور اک خالی رستہ
ہم نے تنہائی کے کھیت میں تیرا ہی غم بویا
خالی رستہ پوچھ رہا ہے کیا پایا کیا کھویا
صحرا میں اک پیڑ اکیلا پیڑ پہ اک کوئل بیٹھی ہے
اور اک خالی رستہ
آنکھوں کی جھیلوں میں کوئی ڈورے ڈال گیا ہے
دل کی زرد فضاؤ ں میں کچھ خواب اچھال گیا ہے
من کے اندر من کے باہر چاروں جانب چپ پھیلی ہے
اور اک خالی رستہ
تیرے میرے پیار پہ ساتھی
دیکھو کیسی رت آئی ہے
دل سے تیرے دروازے تک
اک ویرانی سی اتری ہے
اور اک خالی رستہ
دیواروں پر پھیل گئے ہیں
آنگن میں اک شام پڑی ہے
اور اک خالی رستہ
آنکھوں کی جھیلوں میں کوئی
کیسے خواب اچھال گیا ہے
مجھے تو یہ لگتا ہے جیسے
صدیوں کی ویران پڑی اک
کالی رات اجال گیا ہے
فرحت عباس شاہ
**********************
اک رستہ اک غم
چاروں جانب پھیل گیا ہے
اک رستہ اک غم
جیسے کوئی دھیرے دھیرے
کھینچ رہا ہو دم
چاروں جانب۔۔۔
جہاں بھی جاؤ ں ساتھ میں تیرا رستہ بھی آجائے
جیسے ناری گت لہرائے یا ناگن بل کھائے
یوں بھی نہ کوئی دل والوں کے تن من میں بس جائے
چاروں جانب۔۔۔
دل سے تیرے دروازے تک تیری آس بچھی ہے
جہاں جہاں تک نظریں جائیں پیلی گھاس بچھی ہے
ساتھ میں اک رستہ ہے جس پر تیری باس بچھی ہے
چاروں جانب پھیل گیا ہے۔۔۔
آنکھوں میں کچھ آن بسا ہے مجھ کو ایسا لاگے
یا کوئی خواہش بل کھائے یا کوئی سپنا جاگے
یا تیرا رستہ ہے جاناں دل کے آگے آگے
چاروں جانب پھیل گیا ہے
اک رستہ اک غم
جیسے کوئی دھیرے دھیرے
کھینچ رہا ہو دم
فرحت عباس شاہ
**********************
زندگی
زندگی راستہ ہے ہم راہی
اک خوشی دوسرا ہے غم راہی
پیڑ ہی پیڑ ہیں کناروں پر
ناچتی ہے ہوا اشاروں پر
تیرا احسان ہے بہاروں پر
زندگی راستہ ہے ہم راہی
خواب ہی خواب ہیں نگاہوں میں
حسرتیں تھگ گئی ہیں راہوں میں
ساری دنیا ہے تیری بانہوں میں
زندگی راستی ہے ہم راہی
بادلوں کی قطار میں مجھ کو
یاد تیری غبار میں مجھ کو
لے رہی ہے حصار میں مجھ کو
زندگی راستہ ہے ہم راہی
فرحت عباس شاہ
**********************
لاگے نا لاگے نا جیارا
من میں آ کر بیٹھ گیا ہے
کوئی عجب عجیب۔۔۔
ہلکی ہلکی آگ لگائے
پاس بلائے ہاتھ نہ آئے
کیسے ہوئے نصیب
جب سے کرب قریب ہوا ہے
اپنا آپ صلیب ہوا ہے
اپنا آپ صلیب
لاگے نا لاگے نا جیارا
لاگے نا لاگے نا۔۔
چاروں جانب وحشت کی پھیلی ہے اک دیوار
دل کے اندر اگ آئے ہیں درد بھرے اشجار
لاگے نا لاگے نا جیارا
لاگے نا لاگے نا۔۔
بے چینی نے سانس سانس کو تھکن سے کر دیا چور
کتنی دور بسے ہو جا کر آخر کتنی دور
لاگے نا لاگے نا جیارا
لاگے نا لاگے نا۔۔
فرحت عباس شاہ
**********************
احساس کو حسیں بنایا
خیال کو جب حسیں بنایا مرے خدا نے
اندھیری شب میں دیا جلایا مرے خدا نے
یہ فاصلے سانپ بن کے جیون کو گھیر لیتے
یہ دشت جنگل پہاڑ تن من کو گھیر لیتے
مگر ہمیں راستہ دکھایا مرے خدا نے
ہماری آنکھوں میں آنسوؤ ں کے دیے جلائے
چراغ سے پہلے جگنوؤ ں کے دے جلائے
دلوں میں چاہت شجر اگلایا مرے خدا نے
خلاؤ ں میں قمقموں سے چمکی فضا بکھیری
زمین پر خوشبوؤ ں میں ڈوبی ہوا بکھیری
جہان کو پھول سا کھلایا مرے خدا نے
فرحت عباس شاہ
**********************
اپنا تو یہی ہے سہارا دل
بھولا بھٹکا آوارہ دل
چلتے چلتے روتے روتے
تھک جاتا ہے بے چارہ دل
جانے کس موڑ پہ رک جائے
تیری یادوں کا مارا دل
دنیا سے کیسے جیتے گا
اپنے ہی آپ سے ہارا دل
ایسا تو نہیں تھا سوچا بھی
تم لے جاؤ گے سارا دل
فرحت عباس شاہ
**********************
اختتام
**********************
مت بول پیا کے لہجے میں
**********************
فرحت عباس شاہ
**********************