صفحات

تلاش کریں

شاعری : ابھی خواب ہے از فرحت عباس شاہ




**********************


کوئی ایسا ہول تھی آنکھ کھلنے پہ زندگی
کہ میں چیخ اٹھا ابھی خواب ہے ابھی خواب ہے


وہ تو مامتا کے مزاج کی کوئی رات تھی
مرا درد چوم کے اس نے گود میں بھر لیا


اگر ایک ٹانگ اٹھا بھی لوں میں زمین سے
تو یہ اختیار کے اک فریب کی شکل ہے


مجھے خود ہی دی ہوئی خصلتوں کے طفیل کیوں
وہ سزا کے طور پہ بھیج دے گا قبور میں


فرحت عباس شاہ


**********************


یہ ورود ہے یا خروج ہے یا نزول ہے
یہ عذاب جو بھی ہے، انتہا ہے عذاب کی


اسے سرزنش بھی نہ کر سکا میں کسی طرح
مری دسترس میں نہیں تھی خود مری دسترس


وہ جو رسیوں کو دراز کرتا ہے دور تک
ذرا میری رسی کو نرم کر دے تو سانس لوں


وہ جو تیرا میرا قیام تھا، اسے کیا ہوا
وہ جو تیرا میرا سفر تھا، کیسے پلٹ گیا


مری محنتوں کا زیاں ہوا تو یہ شک ہوا
کوئی پہریدار بٹھا گیا ہے نصیب پر


فرحت عباس شاہ


**********************


کوئی کس لیے ہے یہ کوئی بھی نہیں جانتا
سبھی اپنے ہونے کے شوروغل میں ہیں مبتلا


وہ جو شام آ کے گری تھی درد کی گرد پر
اسے مڑ کے دیکھا تھا جانے والے نے دور سے


ترے ہونٹ مجھ سے چھپا رہے تھے لگی بجھی
تری آنکھ جل کے بدلتی جاتی تھی راکھ میں


بڑا انتظار کیا نگاہوں نے چاند کا
مگر آسمان تہی تھا اور تہی رہا


جہاں تیرے عیب تھے داستان سیاہ تھی
جہاں میرے عیب تھے زرد رنگ تھا چار سو


فرحت عباس شاہ


**********************


مجھے عاشقی نے ادھیڑ ڈالا ہے مانگ تک
کسی چیرہ دستی کا خوف مجھ کو نہیں رہا


کسی اضطراب کے ہاتھ میں ہے مرا لہو
مرا دل سنبھل ہی نہیں رہا ہے دباؤ سے


یہ جو بے پناہ تھکن کی اوٹ میں فرد ہے
اسے کون جا کے کہے کہ راستہ سرد ہے


جہاں عجز ہے وہاں تہ میں کوئی غرور بھی
بڑی خامشی سے دبک کے بیٹھا ہے تخت پر


مجھے موت کر کے تلاش لانی ہے سامنے
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دے مری زندگی


فرحت عباس شاہ


**********************


کوئی ربط ہے کسی درد اور مرے درمیاں
جو مجھے گھسیٹتا پھر رہا ہے زمین پر


میں تو زندگی کی ریاضتوں کا امین ہوں
یہ جو بستیوں کے اصول ہیں مری دھول ہیں


تپش خیال کا جبر ہے مرے ذہن پر
ہیں اسی لیے مری بے قراریاں مستقل


میں نے اک ذرا سا فرار سوچا تو ایک دم
تری آرزو مرے جسم و جاں پہ جھپٹ پڑی


ابھی دل مسلنے سے کیا ہے دل تو اجڑ گیا
کف ہجر ملنے سے کیا ہے وہ تو بچھڑ گیا


فرحت عباس شاہ


**********************


وہ جو جل گیا تھا ہمارا دل تری دھوپ میں
اسے آنسوؤں سے بھگوتا رہتا ہوں رات دن


یہ پہاڑ دل، یہ براق دل، یہ جوان دل
غم بے پناہ کے بوجھ سے نہ نکل سکا


کسی اجتماع کا رعب ہی تھا کہ سادگی
تھی جہاں جہاں پہ پگھل پگھل کے ہوا ہوئی


مرا رخ بدلتا ہے راستے میں یا شہر کا
یہ تو اپنے اپنے مزاج کا ہے مقابلہ


یہ حیات اگر کسی زندہ درد میں ڈھل گئی
تو سمجھ لو آج کے دن سے موت کی موت ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


مجھے کہہ رہے ہو درندگی پہ بھی چپ رہوں
مجھے اپنے جیسا سمجھ رہے ہو منافقو


تری آنسوؤں میں نہائی آہ نزار سے
مرے دل کے دل میں بھی کھینچ پڑتی ہے زور سے


میں ابھی تمہارے کسی اداس سفر میں ہوں
میں ابھی بہت کہیں گمشدہ ہوں فراق میں


ترے بعد مجھ کو یہ بارشیں بھی عذاب ہیں
یہ ہوائیں بھی کسی تازیانے سے کم نہیں


میں ترے بغیر اڑا نہیں کسی روز بھی
میں ترے لیے شبِ بے قرار میں قید ہوں


فرحت عباس شاہ


**********************


تری عاشقی کے بغیر زندگی مر گئی
ترے غم بغیر یہ دل کہیں کا نہیں رہا


وہ جدائیاں جو برآمدے میں رکھی رہیں
انہیں صحن میں بھی نہ لاسکے تھے کہ مر گئے


دل بے قرار کو انتظار نہ سونپنا
کہیں یہ نہ ہو یہ کھنڈر بھی ہو جائے منہدم


ذرا وقت ملتا تو پوجتے تری خاک کو
دم آخری بھی خلش تھی روح کی روح میں


کبھی خالی ذہن ہے دشت سا کبھی شور ہے
ہمیں اس طرح کی مصیبتوں سے ہے واسطہ


فرحت عباس شاہ


**********************


یہ جو فون بجتا ہے آدھی رات اداس سا
یہ جو بولتا ہی نہیں کبھی کوئی کون ہے


کبھی یہ نہ ہو گا کہ رنج و غم ہمیں چھوڑ دیں
ہمیں اپنے سیاہ نصیب پر بھی یقین ہے


کسی شام دل کو اداسیوں میں لپیٹ کر
میں تمہارے شہر سے لوٹ جاؤں گا خواب میں


انہیں حکم ہے کہ وہ گھوڑے ڈال دیں بحر میں
جنہیں اپنے اپنے گمان پر بھی یقین ہے


ترا اعتبار تو کب کا ہو چکا خار و خس
تجھے پانی پانی بھی دیکھنے کی ہے آرزو


فرحت عباس شاہ


**********************


صبح اضطراب بھی جانے کتنی طویل ہے
کہ ہر اگلے روز پہ پھیل جاتی ہے دیر تک


تجھے جانے کون سی فکر ہے مری جاں مگر
ہمیں بے خیالی کے راستوں کا خیال ہے


تجھے کائنات کے انتقام کی کیا خبر
بڑی بے بسی سے گزارتی ہے خداؤں کو


تجھے پیار دیکھنا ہے اگر تو مری طرح
کسی بے قرار اداس شخص کو ڈھونڈ لا


یہ کسی زمانہ حادثات کی بات ہے
مرا رابطہ ترے واقعات سے کٹ گیا


فرحت عباس شاہ


**********************


یہ جو دن ہے پیڑ کے شاخچے پہ اگا ہوا
اسے شام آ کے اتار جائے گی ریت پر


وہ جو زندگانی کے دن تھے صبح جمال میں
انہیں رائیگانی بتا گئی اسی حال میں


مجھے اس کے بارے میں فکر اس کے سفر کی تھی
اسے میرے بارے میں خوف تھا مری رائے کا


تو کئی لحاظ سے جسم جاں کا اسیر ہے
میں خیال و خواب کی روشنی ہوں جہان میں


مری بے بسی تری بے حسی کا جواب ہے
مری گمرہی ترے پیچ و خم کے سبب سے ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


سر فرط شوق عجیب دھند سے سوچ کی
لب آرزو کئی لال رنگ کے خوف ہیں


وہ جو شور و غل کے سبو پلا کے چلے گئے
مری چپ کے قتل کی سازشوں میں شریک تھے


مجھے اونچا اونچا سنائی دیتا ہے چار سو
کوئی میری روح میں روتا رہتا ہے رات بھر


تو کہاں گئی تری پچھلی ساری بہادری
تجھے آزمانے کا وقت آیا تو ڈر گئے


مری ہاوہو کے شریک کیسے بھلا کبھی
مرے ساتھ رات بسر کریں گے سکوت میں


فرحت عباس شاہ


**********************


جہاں خواہشات کا خون ہوتا ہے رات دن
مجھے ایسی قتل گہوں میں رہنا ہے عمر بھر


ترا حادثات کا کھیل کتنا عجیب ہے
کہ سدا نحیف و نزار سے ہے مقابلہ


کہاں آ گئے ہیں یہ ہم یہاں کہاں آ گئے
یہ تو عدل ہی نہیں ہے نظام کے رام کا


ہمیں رات د ن یہی سوچ ہے کہ نکل پڑیں
کسی بے سبب سے مقام پر ترے نام پر


یا مرا سفر ہی کچھ اس طرح کا سفر ہے یا
کوئی غم عجیب نصیب میں ہے لکھا ہوا


فرحت عباس شاہ


**********************


جنہیں روشنی کی طلب تھی دھوپ میں چل دئیے
جنہیں سیاہ شب میں قرار تھا وہیں رک گئے


تجھے پھر پلٹ کے وفا کے زخموں نے آلیا
دل سوگوار بتا ترے لیے کیا کروں


قفس نفس بڑا تنگ ہے مرے چار سو
تری آرزو کا حصار اس پہ مزید ہے


میں سنبھل ہی جاؤں گا زندگی میں کسی طرح
ترے حسن و عشق کے داؤ پیچ کی خیر ہو


وہی دل کہ جس کو تو چھوڑ آیا ہے گاؤں میں
اسے ایک بار تو لے کے آنا تھا شہر میں


فرحت عباس شاہ


**********************


کوئی پیڑ ہو کوئی جانور ہو یا آدمی
یہ اجل بھی کیا ہے کسی کا ڈر بھی نہیں اسے


مرے بادشاہ کہاں ہو اے مرے بادشہ
تری سر زمین پہ خوف پھرتا ہے ناچتا


کبھی خامشی سے بچا لیا کسی وہم نے
کبھی شور غل سے بچا کے لے گئی آرزو


شبِ رائیگاں کی خلش میں صبحیں بدل گئیں
کہیں خاردار صبا تھی اور کہیں دھول تھی


مجھے آدھے عشق کا درد اٹھتا ہے رات دن
مجھے آدھی روٹی کا ڈر کبھی بھی نہیں رہا


فرحت عباس شاہ


**********************


میں بہت اکیلا کھڑا رہا ترا منتظر
سبھی چھوڑ چھاڑ کے چل دیے ترا راستہ


مجھے آرزوؤں پہ شک گزرتا ہے رات دن
کسی لمحہ ڈس ہی نہ لیں مزاج کی تازگی


مجھے اپنے آپ زمین ہی نہ دبوچ لے
مرے ارد گرد کھڑے رہو نہ مرے لیے


شبِ بے قرار کا خوف تھا کہ میں شام تک
ترے راستے سے پلٹ کے شہر نہ آ سکا


یہ جو آنکھ پر ہے تنا ہوا ترا جال سا
یہ ہٹے تو تیرے علاوہ کوئی دکھائی دے


فرحت عباس شاہ


**********************


سفر خیال کی چال بھی ذرا دیکھئیے
کہ گھما پھرا کے وہیں پہ لایا ہے آرزو


وہ جو آپ لکھتے تھے داستانوں کی داستاں
انہیں جانے کس نے کہانیوں میں جکڑ لیا


میں نے اپنے آپ کو حکم دے کے یہ کہہ دیا
میں ترے لیے شب انتظار کو روک لوں


مجھے اپنے بارے میں معتبر نہ سمجھ، مجھے
تیرے دل کے بارے میں نظریات کا علم ہے


ترا احترام بجا مگر مرے پارسا
ترا سب ثواب تو تیرا اپنا ثواب ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


صلہ فراق بھی کیا عجب ہے کہ زندگی
کسی بے گنہ کی طرح سزاؤں میں کٹ گئی


خلش مراد کے اضطراب نے رات دن
کسی خارزار میں جھونک رکھے ہیں جسم و جاں


ہمیں واپسی کا ذرا سا شک تھا نصیب پر
اسی خوش گمانی میں زندگانی گزار دی


کسی پیچ و تاب کی کیفیت میں پتہ چلا
مری بے بسی کے بھی کیسے کیسے محاذ ہیں


مرے زخم لوری سنا کے مجھ کو سلا تو دیں
کوئی آدھی رات کو جاگ اٹھتا ہے درد میں


فرحت عباس شاہ


**********************


جو نہ جانے روح کی کس منڈیر سے جھانک لے
اسی خاص حسن کی آرزو میں ہے زندگی


ترے دل میں فتح دمک رہی تھی مرے لیے
ترے رخ پہ کوئی عجیب رنگ تھا پیار کا


لب دشت دل بڑی پیاس ہے لب دشت دل
بڑی خشک ہیں تری بارشیں بڑی خشک ہیں


مرے آسماں کوئی بات کر مرے آسماں
ترے اختیار کی چپ میں راز کی موت ہے


تجھے بھید بھولنے ہوں گے اپنے سکوت کے
تجھے آج کہنا پڑے گی نطق کی داستاں


فرحت عباس شاہ


**********************


مرے دل کے خالی مکان کی کسی ناف سے
کوئی بد ہوس نہ نکل پڑے اسے دیکھ کر


کوئی آس پاس چھپا ہوا ہے یہیں کہیں
کسی پچھلے غم کے کھنڈر کے سرد وجود میں


مجھے اس قدر بھی نہ بے قرار رکھو کہ میں
کہیں لوٹ جاؤں نہ اضطراب میں ایک دن


میں ابھی ذرا سا چلا تھا زندگی ڈھونڈنے
تو اجل خموشی سے درمیان میں آ پڑی


کبھی لاکھ صدیوں میں ایک پل نہ بسر ہوا
کبھی ایک پل میں ہزار صدیاں گزر گئیں


فرحت عباس شاہ


**********************


میں نظر نظر پہ ہزار گریہ فدا کروں
مجھے رونے والے نظر تو آئیں کسی جگہ


وہ جو گھیر لیتا ہے دائروں میں وہ کیا ہوا
یہ جو مانگے تانگے کا حسن ہے اسے کیا کروں


یہ سجا سجایا ہجوم اپنی ہی لاش پر
بڑا ہنس رہا ہے لہک لہک کے ملال سے


یہ عجیب صورت حال ہے مرے شہر میں
کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں المیہ


وہ جو رہگزر تھی سفر میں، میں نے لپیٹ لی
جو سفر تھا میں نے بنا لیا اسے راستہ


فرحت عباس شاہ


**********************


جہاں تیرگی سے چراغ جلتے تھے نور کے
اسی خاص سمت میں لے گئی مجھے روشنی


وہ ملا تو ملنے کا علم تک بھی نہ ہو سکا
وہ بچھڑ گیا تو میں گم ہوا اسے ڈھونڈتا


شب انتظار کے طول و عرض کے خوف سے
مجھے شام ہی سے دکھائی دیتے ہیں رتجگے


تجھے کیا خبر مرے اضطراب میں کون ہے
مجھے کس نے میرے ہی واقعات کا غم دیا


مجھے ان ستاروں کی گردشوں کا شعور ہے
جو اداس راتوں میں ڈوب جاتے رہے کہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


ذرا آ کے سوگ کی رونقیں بھی تو دیکھ جا
بڑی چہل پہل ہے موت کی مرے شہر میں


شجر خیال کی شاخ شاخ پہ غم کھلا
تو مجھے لگا کہ جہان اصل میں عشق ہے


ترے خواب چھپنے لگے ہیں جب سے نگاہ سے
اسی دن سے میں تو تفکرات کی زد میں ہوں


وہ قیام گاہ، وہ ارتکاز، وہ خامشی
وہ سفر، بلا کا وہ انتشار، وہ شوروغل


یہ جو اضطراب بسا ہوا ہے خمیر میں
مرے خانہ ذاد کبیر کا کوئی شوق ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


میں سلگ سلگ کے ہوا کے ہاتھ میں راکھ تھا
تری مانگ بھول کے میری راہ میں آگئی


صفِ رہروان طلب میں ہم بھی تھے مضطرب
یہ الگ کہ تیری نگاہ ہم پہ نہیں پڑی


میں جہاں جہاں سے ہوں منتشر کسی ذات کا
ہیں وہیں وہیں مرے انکشاف کے راستے


میں ترے لحاظ سے مطمئن ہوں مگر ذرا
کبھی غور کر مری بے قراری پہ غور کر


ہمیں اس قدر تو وہ یاد آیا نہ تھا کبھی
شب ہجر اتنی اداس پہلے کبھی نہ تھی


فرحت عباس شاہ


**********************


وہی ایک ہی تو بچا کھچا ہے جمال میں
اسے بخش دو جو ترے لیے ہے ملال میں


شب خوف شدت غم بتائیں گے کس طرح
کسی کپکپی میں بھی اب پناہ نہیں رہی


ہمیں چاروں سمت سے بے ثباتی نے آ لیا
کسی زخم خوردہ بہاؤ میں ہے نحیف جاں


اسے کہہ کے آ کہ یہ ساتھ چلنے کا وقت ہے
اسے کہہ کے آ کہ یہ غم منانے کے دن نہیں


وہ ترے مزاج کی دسترس تھی قلوب پر
کہ ہر ایک شخص گریز پا تھا خلوص سے


فرحت عباس شاہ


**********************


تو مرے لیے وہ بساط تک نہ پلٹ سکا
جسے چھوئے جانے میں بھی شکست کا خوف تھا


مجھے جاں کنی کی سرشت کا بڑا علم ہے
میں گزار آیا ہوں نارسائی کی بے بسی


سوئے کار زار فنائے ہستی مضطرب
مجھے لے چلے ہو تو صبر و شکر کا ذکر کیوں


مجھے اپنے آپ میں مل گئی ہیں تسلیاں
میں کچھ اس لیے بھی تو ہنس پڑا ہوں یقین پر


جنہیں ڈر نہیں انہیں موت تک کا بھی ڈر نہیں
جنہیں خوف ہے انہیں زندگی کا بھی خوف ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


کسے بھیج بیٹھا ہوں دے کے خط میں تری طرف
یہ ہوا، یہ وقت بھی کب کسی کے ہوئے بھلا


یونہی بات بات میں ذکر آیا تھا عشق کا
وہ نہ جانے کیسے گھڑی تھی تب سے گئی نہیں


نہ جدا ہوئے ہو کبھی نہ ملتے ہو ٹھیک سے
تمہیں کس نے بخشی ہیں رات دن کی یہ عادتیں


یہ جو آسماں ہے کہیں کہیں سے چٹخ گیا
کسی بدنصیب کی بدعا تو نہیں لگی


تو تو برف جیسا رہا ہمیشہ سلوک میں
یہ ترے تپاک ملن سے پھیلی ہیں حیرتیں


فرحت عباس شاہ


**********************


ہمیں خود نپٹنا معاملات سے چاہئیے
کوئی کون ہوتا ہے تیرے اور مرے درمیاں


کوئی محنتوں کا ثمر ہی دے جو سدا تو کیا
مجھے بن کہے کبھی دے تو سمجھوں کہ مل گیا


تیری روشنی تو تری صفت کا ثبوت ہے
کوئی خیر اس کو کہے تو کس طرح مان لوں


یا ہماری بصری بصیرتیں تھیں یا ہر طرف
ترے خال و خد کی علامتوں کا زوال تھا


کوئی وہم نقطہء بے زباں کا اسیر تھا
جو صدا کے پیکر مرتعش میں نہ آسکا


فرحت عباس شاہ


**********************


سبھی آس پاس کے اضطراب جمع ہوئے
مرے ایک کوچہ کیفیت کے نشیب میں


بڑا ناگہاں تھا ورود دل پہ جنون کا
مرے عرش فرش جگہ جگہ سے چتخ گئے


وہ جو باطنی تھا سوال نامہ کہاں گیا
یہ جو خارجی ہیں جواب کس لیے آگئے


اسی لمحہ قریہ حس کے خانہ سرد میں
ترا ذکر آیا تو جل اٹھے تھے الاؤ سے


ہمیں احتمال و خلش میں چھوڑ کے زندگی
کہاں چل دی نقص کی رائیگانی سمیٹ کر


فرحت عباس شاہ


**********************


وہ شکوک بھی تو عجب تھے لاحق جان و دل
جو خدا کی ہستی و نیستی کا مدار تھے


کہیں بچپنے کے کسی سبق کا قصور تھا
یہ جو آرزو کے حصار میں تھیں شکایتیں


مجھے سب سے زیادہ اسی سے خدشہ ہوا کہ جو
صفِ دشمناں سے الگ تھلگ تھا کھڑا ہوا


ہمیں آج بھی تری بے قراری پہ بحث ہے
وہ مرے لیے تھی یا تجھ کو اپنے ہی آپ تھی


وہ لیے ہوئے ہمیں پھر رہا ہے کہاں کہاں
ہمیں کوش گمانی کے راستوں کی خبر نہ تھی


فرحت عباس شاہ


**********************


تری زندگی بھی عجیب ہے مری زندگی
کہ قدم قدم پہ عجیب مرنا ہے موت کا


ہمیں آرزوؤں پہ شک ہے دل کے نشیب میں
یہ وہی ہیں رخنے بنا بنا کے اترتیاں


کوئی اسم ہو کوئی آزمودہ طلسم ہو
جسے پڑھ کے پھونک دوں دنیا بھر کی مصیبتیں


مری بے قراری عبث ہے صورتحال پر
یہاں روزمرہ ہے حادثات کی ہاوہو


وہ جو رنگ تھے مرے سنگ تھے، وہ جو جنگ تھی
یہ حیا ہے جو، یہ وفا ہے جو، یہ فنا ہے جو


فرحت عباس شاہ


**********************


جہاں تیرے میرے تمدنوں کی جدائی تھی
اسی چوک پر ہے معاشرت کا معانقہ


مجھے آسمانوں پہ وہم ہے ترے سہم کا
مجھے چاند تاروں پہ آنسوؤں کا گمان ہے


وہ جو قافلے نہ جنوں کے تھے نہ خرد کے تھے
انہیں پیس ڈالا ہے راستوں نے لتاڑ کر


مجھے تیری چپ سے ملال رہتا ہے دیر تک
مجھے زندگی کی قطار میں بھی ملا کرو


غم دل نے اپنے لیے الگ ہی جگہ چنی
کہ خیال و خواب کی کونپلوں میں دبک گیا


فرحت عباس شاہ


**********************


ہمیں ایک درد رہے تو پھر بھی کہیں کہ ہاں
یہ جو صبر ہے یہ تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے


اسی عاشقی کی فضائے عجز و غرور میں
اک عجیب ردوقبول تھا میں جہاں گیا


مجھے شہر بھر سے ملے ہیں تنگ سے دائرے
مرا شہر بھر سے معاملہ تھا خیال کا


یہ عروج ہے تو ذرا بتاؤ نہ جان جاں
تجھے آرزوؤں سے کیا گلہ ہے عروج میں


کوئی انتظار تھا زندگانی طویل تر
کوئی مختصر سی خوشی بھی تھی کہیں بیچ میں


فرحت عباس شاہ


**********************


یہاں رائیگانی ہزار ہے مرے روبرو
مجھے اپنے دل پہ غلاف رکھنے ہیں مختلف


جہاں دکھ کی صورتحال میں بھی ہو بزدلی
وہاں سانس لینا بھی اور نہ لینا بھی جرم ہے


کبھی اپنے اپنے ضمیر خاص سے پوچھئیے
وہ جو کونوں کھدروں میں وقت تھا اسے کیا ہوا


ترے آسمانوں کی خیر ہو میرے بے زمیں
مرے سائبانوں کا کھیل کھیل میں کیا کیا


کسی بے خیالی میں ہنسنے والے مسافرو
تمہیں اپنی اپنی اداسیوں کا تو علم تھا


فرحت عباس شاہ


**********************


مجھے اپنے حسن کا خون رکھنا ہے ٹھیک سے
تو میں کس لیے تمہیں لال رنگ کے خواب دوں


سم ہجر دھیرے سے پھیل جاتا ہے روح میں
دبے پاؤں دشمن جان جیسے مچان میں


خط استوا پہ ہی جان اٹکی رہی مری
نہ ادھر سکوں تھا نہ خوش خیالی ادھر ملی


ہمیں اس لیے بھی ترے خیال سے خوف تھا
یہ ہماری اپنی جڑوں میں پاتا ہے پرورش


زر و سیم میں بھی عجب کشش ہے کہ دیکھئیے
چلے آ رہے ہیں لپک لپک کے بڑے بڑے


فرحت عباس شاہ


**********************


جو بتائی ہم نے تمہارے نام پہ زندگی
ملی آ کے وقت کے اختتام پہ زندگی


رہا جو بھی قریہ دل کے تھوڑا ادھر ادھر
تجھے ہنستا بستا ہوا یوں دیکھ کے جل گیا


سہے جس طرح سے دل علیل نے حادثے
کوئی پر شکوہ پہاڑ لگتا ہے صبر کا


رہی آج تک تری اک نشانی وجود میں
دل بے قرار کی رائیگانی وجود میں


مجھے عمر بھر کے سفر نے کچھ بھی نہیں کہا
میں تو اپنے آپ سے تھک گیا ہوں فراق میں


فرحت عباس شاہ


**********************


مجھے لگ رہا ہے میں غم کی کوکھ ہوں آج بھی
مرے جسم و جاں میں کئی ہیولے ہیں راکھ کے


کسی چارہ گر کی تلاش ہوتی تو آپ بھی
مجھے اپنے جیسا سمجھ کے کان میں بولتے


کئی لال رنگ کے خوف تھے مرے صحن میں
مری بے بسی مری بے زبانی میں قید تھی


جو لپٹ لپٹ کے خیال و خواب کی شاخ سے
ہمیں مار جاتے ہیں وہم تیری ہی چپ کے ہیں


کبھی اس کے اور ہمارے ربط عجیب تھے
نہ صدائیں تھیں نہ سکوت تھے کہیں درمیاں


فرحت عباس شاہ


**********************


جو سجھائی دے تو کہیں دکھائی بھی دے ہمیں
وہ عدم، وہ زخم وجود وذات، وہ ماورا


صلح غروب و طلوع کے ہیں معاملے
یہ جو دھوپ چھاؤں کے قافلوں کا پڑاؤ ہے


مجھے معجزات پہ دے رہا ہے یقین تو
مجھے حادثات کے خوف سے بھی نجات دے


دے کوئی نہ کوئی اداس رنگ نصیب کو
یا کسی سفر میں غموں کی دھول میں بھول جا


نہ ابھی تلک کوئی پاس آیا نہ دور ہے
نہ ابھی تلک کوئی وصل ہے نہ فراق ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


ہے عجیب شکل کی کیفیت مرے کیف کی
مجھے بارشوں سی دکھائی دیتی ہیں خوشبوئیں


تجھے کتنی بار کہا ہے یوں نہ پھرا کرو
یہ تو ادھ مری ہوئی خواہشوں کا زمین ہے


میں کسی کے خوف کی زد میں آیا ہوا تو ہوں
مجھے اپنے چہرے پہ اگتی دکھتی ہیں بارشیں


ہمیں انگلیوں سے سجا رہا تھا وہ راستے
اسے اپنے رستوں کے بازوؤں کی خبر نہ تھی


تب و تاب حسن گرفت رکھتی ہے کچھ نہ کچھ
میں تو دل چھڑا ہی نہیں سکا ہوں کسی طرح


فرحت عباس شاہ


**********************


صف دشمناں میں تلاش کرنے کا فائدہ
وہ تو دوستوں میں چھپا ہوا ہے یہیں کہیں


کسی بے قراری سے بل پڑا تھا خیال میں
نہ تو کج ادائی گئی، نہ دل کو سکوں ملا


مجھے آج تک ترا انتقال نہ مل سکا
میں پڑا ہوا ہوں صدی صدی ترے موڑ پر


یہ جو اک خلش ہے زمانے بھر کی خراش میں
یہ خراش موت کی اور خلش ہے نصیب کی


ہمیں اپنی آنکھ پہ شک ہے اس لیے رات دن
تجھے تیری آنکھ سے دیکھنے کی سعی میں ہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


تیرا وصل ٹوٹ کے اتنا دور نکل گیا
کہ اجارہ داری ہجر بھی نہ رہی کہیں


تھے جو جسم و جاں میں مفاہمت کے نقارچی
بڑی بے بسی سے خود اپنے دکھ میں بکھر گئے


ہیں کہیں کہیں ہمیں ماہ و مہر کی بندشیں
تری رہ میں ورنہ ہمارا رکنا محال ہے


تجھے آرزوؤں پہ ناز ہے مجھے درد پر
اگر اپنا اپنا فریب ہے تو یہی سہی


جہاں بے شمار ہوں ضبط غم کی نشانیاں
اسے ضبط غم کی دکان کہنا غلط نہیں


فرحت عباس شاہ


**********************


مرے آس پاس ہیں زندگی کی علامتیں
اجل عجب کا گزر ہے زیادہ اسی لیے


کبھی اضطراب کے رتھ سے اترا نہیں گیا
خضر خیال سے پوچھ بیٹھے تھے راستہ


ہیں جو آسمانوں کی رنجشوں کی صعوبتیں
انہیں گرتے رہنا پسند کیوں ہے زمین پر


اگر اپنے اپنے مقدروں کی رفوگری
ہمیں اپنے ہاتھ سے کرنا ہو تو پتہ چلے


شب احتیاط نے کر دیا ہمیں مضطرب
نہ ہوا چلی نہ کہیں پہ کھٹکا ہوا کوئی


فرحت عباس شاہ


**********************


تھے عجیب بسمل رائیگانی دو جہاں
نہ عقیدہ ہائے دگر میں سکھ تھا نہ عشق میں


ہے اسی لیے ہمیں بے کلی کہ گیا کہاں
یہاں جو بھی خانہ گم تھا ہم نے بھگت لیا


نہیں راس عمر کو ماہ و سال کی تشنگی
یہ لحاظ بھر میں صدی، صدی میں ہے ایک پل


یہ گزر بسر ہے تو لاؤ عرش بریں یہاں
تمہیں اس سے کم پہ دکھائیں اوروں کی بستیاں


کم و بیش تو بھی ہے دشمنوں کے مزاج سا
کم و بیش تیری بھی نیتوں میں فتور ہے


فرحت عباس شاہ


**********************


مجھے آنسوؤں میں کسی کے سکھ کی تلاش ہے
جو مرے غموں کے سمندروں کا غرور ہو


ہے عجیب صرتحال وہم و گمان دل
کبھی دھڑکنوں کے سکوت میں کبھی شور میں


رہے ایروں غیروں کے ہاتھ میں ترے جسم و جاں
یہ جو چاہے جانے کا شوق ہے یہ عجیب ہے


غم دل نے آنکھوں میں جال رکھے ہیں کس لیے
یہاں آنسوؤں کا کوئی پرندہ نہیں رہا


یہ جو ریزہ ریزہ بٹی ہوئی ہیں طبیعتیں
کسی روز ریت میں جھونک دیں گی ہجوم کو


فرحت عباس شاہ


**********************


کسی سرمہ گر کا ظہور تھا کسی طور پر
اگر آپ آتے تو ہم بھی آنے کا سوچتے


کئی ساربانوں کے قافلے تھے گھرے ہوئے
وہاں دشت تھا وہاں بادشاہی تھی ریت کی


رخ ماہتاب پہ بادلوں کا نقاب تھا
ہمیں اس میں بھی تری آب و تاب دکھائی دی


ترا ہجر نیند سے مل کے کرتا ہے سازشیں
یونہی سوتے جاگتے بیت جائے گی زندگی


مرا احترام نہیں تو کس لیے ضبط غم
مجھے بام و در سے لپیٹ جاتا ہے رات دن


اسے جاگتے میں بھی نیند رہتی تھی عمر بھر
کوئی موت اس کو لیے ہوئے تھی لپیٹ میں


نہیں اتنا شور کہ ہم کو کچھ نہ سنائی دے
نہیں اتنی چپ کہ سماعتیں ہی بلک پڑیں


فرحت عباس شاہ


**********************
اختتام
**********************
ابھی خواب ہے
**********************
فرحت عباس شاہ
**********************