صفحات

تلاش کریں

سفر نامہ - یہ میرا بلتستان (سلمیٰ اعوان)

انتساب

اُن شہیدوں کے نام
جنہوں نے بلتستان کی جنگ آزادی میں حیرت انگیز کارنامے سر انجام دئیے اور شہید ہوئے
اُن غازیوں کے نام
جنہوں نے صرف اور صرف جذبہ ایمانی کے زور پریہ جنگ جیتی، پاکستان میں شامل ہوئے اور آج بھی اس کی محبت سے سرشار ہیں

حرفِ آغاز

یہ سکر دو میں میرے قیام کی آخری شام تھی، اس وقت جب قراقرم اور ہمالیائی سلسلوں کی چوٹیوں کو سورج کی آخری کرنیں بوسے دے رہی تھیں۔ میں وادئ سکر دو کے دانشوروں کے ساتھ محو گفتگو تھی۔ دفعتاً سکر دو ڈگری کالج کے پرنسپل خواجہ مہر داد خان نے مجھ سے کہا۔
’’آپ اگر بلتستان پر ایک دستاویزی کتاب تیار کریں تو ہم اس کی اشاعت کا بندوبست نہ صرف اردو زبان میں کریں گے بلکہ اس کا جرمن زبان میں ترجمے کا اہتمام بھی ہو گا، بون یونیورسٹی کا بلتی ڈیپارٹمنٹ اس ضمن میں آپ کو موزوں رائلٹی دے گا۔‘‘
محفل میں بون یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کلازسیگا سٹر بھی موجود تھے۔ وہ بلتی زبان پر تحقیقی سلسلے میں میرے ساتھ ہی اسلام آباد سے سکر دو پہنچے تھے۔ اس تجویز پر ان کا سِلور گرے بالوں والا سر تیزی سے اثبات میں ہلا تھا۔ میں ہنس پڑی تھی۔
در اصل پیسہ کمانا ہی مقصود ہوتا تو پھر یہاں آنے اور ان وادیوں میں خاک چھاننے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اُلٹے سیدھے ناول لکھنے سے حاصل ہو سکتا تھا۔ خواجہ صاحب میں چاہتی ہوں میرے ملک کے عام لوگ اپنے وطن کے ان دشوار گزار گوشوں کے بارے میں جانیں۔ میں کتاب کو اتنا بوجھل اور ثقیل بنانا نہیں چاہتی ہوں کہ عام قاری اس کے چند اوراق پڑھنے کے بعد اسے پرے پھینکتے ہوئے خود سے کہے۔
’’ہٹاؤ یار کیا بور شے ہے۔‘‘
میری خواہش ہے کہ میں اس کے تاریخی پس منظر میں جھانکتے ہوئے اس کے مسائل، اس کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کو اس انداز میں بیان کروں کہ قاری پڑھتا جائے اور جب وہ اسے پڑھ لے تو یہ جان لے کہ بلتستان کیا ہے؟ تب شاید ایسا ممکن ہو کہ کسی خوبصورت سی محفل میں کوئی پڑھی لکھی عورت سکر دو یا خپلو کے نام پر یہ نہ کہے۔
’’ارے سکر دو۔ مائی گاڈ، وہ کہاں ہے؟ آپ دعا کریں میں اس مقصد میں کامیابی حاصل کروں۔‘‘
اور غلام وزیر مہدی سابق رکن مجلس شوریٰ مسکرائے اور میرے شانے محبت سے تھپتھپاتے ہوئے بولے۔
’’آپ کا جذبہ قابل صد ستائش، ہم آپ کے لئے دعا گو ہیں۔‘‘
میں جناب مہر داد خان کی شکر گزار ہوں جنہوں نے بلتستان میں میرے قیام کو ہر طرح مفید بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ جناب غلام وزیر مہدی کا بہت شکریہ کہ جنہوں نے قدیم تاریخ کے بہت سے باب میرے اوپر کھولے، طاہر، عباس کاظمی، روزی خان اور جناب حاتم خان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔ مجھے جناب محمد یوسف حسین آبادی کا خصوصی شکریہ ادا کرنا ہے۔ سچی بات ہے انہوں نے اس کتاب کے لئے جس طرح میری قلمی معاونت کی۔ میرے شکریے کے چند الفاظ میرے دلی جذبات کی ترجمانی کرنے سے قطعی معذور ہیں۔
ڈاکٹر کریم ڈرافس مین، علی کاظم اور اس پیارے سے شگری لڑکے عمران کی تہہ دل سے مشکور ہوں۔ مجھے پاک فضائیہ لاہور بیس کے ان افسروں کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے جو بیس کے بلتی لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر میرے گھر بھیجتے تھے۔
میں اپنی دوست مریم، اس کے بھائی محمد ارشاد شاہ اور اس کے دوست کے خلوص کی شکرگزار ہوں۔ جنہوں نے وائرلیس کے رابطے کے ذریعے مجھے میرے بچوں کی عافیت سے مطلع رکھا۔
سلمیٰ اعوان

باب نمبر1

سچ تو یہ تھا کہ بن باس لینے والی بات ہو گئی تھی، رام چندر جی کی طرح۔ پر دکن کے ڈونڈوک بن میں نہیں، بلتستان کی حسین اور جنت نظیر وادیوں میں۔ چندر جی کو ایک رانی کیکئی کا سامنا تھا پر یہاں تو بہت سی رانیاں اور راجے تھے۔ جن کی آنکھوں میں وہ ہمہ وقت ایک نوکیلے کانٹے کی طرح چُبھتی تھی۔ یوں اس کے اندر کا دکھ بھی پھنکارے مارتا رہتا تھا۔ اس کی انا بھی من راجہ دسترتھ کو قائل کرتی رہتی تھی کہ گوشت پوست کا اس کا یہ وجود بن باس ہی ہو جائے، تو بہت اچھا ہے۔
اس وقت بھی بات تو چھوٹی سی تھی، پر آناً فاناً بڑی بن گئی تھی۔ وقت کا وہ لمحہ تو ظالم تھا پر پس منظر ظالم ترین تھا۔
اس نے کمرے کی ساری کھڑکیاں کھولی تھیں۔ نیچے لان کی کیاریوں میں اُگی رات کی رانی کی بوجھل اور مسحور کن خوشبو ہوا سے اٹکھیلیاں کرتی اس کے نتھنوں سے آ ٹکرائی۔ جون کی رات کے اِس پہر کی فضا بہت گرم تھی۔ کمرہ دہ میں ائر کنڈ یشنڈ چلتے رہنے کی وجہ سے ابھی تک ٹھنڈا تھا۔
پھر سٹیوری ونڈوزکی دلکش آواز ’’آئی جسٹ کال ٹو سے آئی لو یو۔‘‘ اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے سر دیوار سے ٹیک کر آنکھیں ابھی بند کی ہی تھیں کہ گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز پر فوراً کھول ڈالیں۔ نیچے گاڑی میں اس کا دیور اور دیورانی بیٹھے گیٹ سے نکل رہے تھے۔ اس کے مرحوم شوہر کی گاڑی پر اس کے دیور، جیٹھ کس ڈھٹائی سے قابض ہو گئے تھے۔ وہ تو بس تصویر حیرت بنی یہ سب دیکھتی تھی اور جلتی کڑھتی تھی۔

تبھی وہ دہلیز میں آ کھڑا ہوا تھا۔ پینتالیس انچ چوڑی چھاتی والا اس کا جیٹھ ایک پٹ والے دروازے کے بیچوں بیچ کھڑا یوں جیسے زمین میں بجلی کا کھمبا گڑا ہو۔

بخدا اس نے نہیں دیکھا تھا کہ اس کا گندم کے پکے خوشے جیسا رنگ، دہکتے کوئلوں جیسا ہو رہا تھا۔ اس کی پیشانی کی دو مستقل لکیریں پانچ میں بدلی ہوئی تھیں۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑپھڑا رہے تھے۔ چار سال ایک گھر میں رہنے سے اتنا تو وہ جانتی تھی کہ یہ پھڑپھڑاہٹ ہمیشہ اضطرابی کیفیت کی آئینہ دار ہوتی تھی۔ پر وہ تو اس وقت جلن اور حسد کے کھولتے کڑا ہے میں پاؤں ڈالے بیٹھے تھی۔ ’’آئی جسٹ کال ٹو سے آئی لو یو‘‘ جیسا گیت بھی اپنی رعنائی کھو بیٹھا تھا۔ اب ایسے میں اس کا چہرہ دیکھ کر صورت حال کو جان لینا بہت مشکل کام تھا۔

اور اُس نے کہا۔

’’تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ لان کی غربی دیوار پر کپڑے نہیں پھیلانے اور تم نے پھر پھیلائے۔‘‘

وہ تلملا اُٹھی۔ ’’کمال ہے یہ نادر شاہی حکم صرف میرے لئے کیوں؟ سب وہاں پھیلاتے ہیں۔‘‘

’’میں صرف تمہاری بات کرتا ہوں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ اس کی آنکھیں حیرت سے خوفناک حد تک پھٹ گئی تھیں۔

’’ابا جان کپڑوں کی وجہ سے شام کو وہاں بیٹھ نہیں سکتے۔‘‘

وہ اب غصے کے کھولتے کڑاہے میں پوری طرح گر گئی تھی۔ عین اس کی ناک کی سیدھ میں آ کر کھڑی ہوئی اور بولی۔

’’تمہارا تو وہ حال ہے کہ آٹا گوندھتے میں ہلتی کیوں ہوں۔ بھئی میرا وجود تمہاری برداشت سے باہر ہے۔ سیدھی طرح کہو کہ گھر چھوڑ دو اور کہیں چلی جاؤ۔ اُلٹے سیدھے اعتراضات سے پریشان کرنے کا فائدہ؟ مشترکہ گھر میں بات فرد کی نہیں افراد کی ہوتی ہے۔ حکم اجتماعی طور پر دو، انفرادی حیثیت میں، میں اُس نہیں مانتی۔‘‘

زناٹے کا ایک تھپڑ اس کے گال پر پڑا۔

’’زبیر غریب ٹھیک واویلا کرتا تھا۔ اس کمبخت ایم۔ اے پاس نے ناک میں دم کر دیا تھا۔ ہمہ وقت دلائل، ہمہ وقت تاویلات، تمہاری اس چخ چخ نے اسے قبر میں اُتار دیا ہے۔‘‘

داہنا گال داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کے سائے میں آ گیا تھا۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ اور دید کا یہ انداز اس مجروح شیر کی مانند تھا جو اچانک کسی شکاری کی گولی کا نشانہ بن جائے اور کچھ یوں ناکارہ ہو جائے کہ محض آنکھوں سے ہی غیظ و غضب کے شعلے برسانے پر اکتفا کرے۔

’’زبیر تو قبر میں اُتر گیا ہے۔ پر تم تو سلامت پھرتے ہو۔‘‘

’’ہاں ہاں اب ہم پر تمہاری نظریں ہیں۔ تم خدا سے چاہتی ہو کہ گھر خالی ہو اور تم جائیداد کی مالک بنو۔‘‘

’’لعنت ایسی جائیداد پر جو انسان سے انسانیت چھین لے اور اس کی آنکھوں پر حرص کی پٹیاں باندھ دے۔‘‘

’’بکواس بند کرو۔‘‘ اُس کی آواز میں جنگلی جانور جیسی غراہٹ تھی۔ ’’ابھی جاؤ اور سب کپڑے اُتار کر لاؤ۔‘‘

’’نہیں جاؤں گی۔ سب کو بلاؤ اور سب سے کہو۔‘‘

اور پھر کوروکیشتر کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا۔ اُس نے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی اپنی سعی تو کی پر ناکام رہی۔ پانڈو شہزادے نے اس کی گردن اپنے آ ہنی ہاتھ میں دبوچ کر اسے دھکا دیا اور بولا۔

’’نکل جاؤ ابھی اور اسی وقت۔ ایس اکڑ اور خود سری ہمیں نہیں قبول۔ اس کی زندگی جہنم بن گئی تھی اور اب ہماری بن رہی ہے۔‘‘

وہ ریس میں حصہ لینے والے گھوڑے کی طرح ہانپتی تھی اور اسے خونخوار آنکھوں سے دیکھتی تھی۔ جب وہ پھر گرجا۔

’’تم نے سنا نہیں، گھر خالی کر دو چار سال سے تم جیسی بانجھ عورت کو برداشت کر رہے ہیں۔ مقابلے کرتی ہے دیورانیوں کے جو بعد میں بیاہ کر تین تین بچوں کی مائیں بن گئی ہیں۔‘‘

اس نے بیگ اُٹھایا۔ بغل میں دبایا۔ چادر اوڑھی اور گھر سے نکل آئی۔

اس نے ایک بار پلٹ کر اس گھر کو نہیں دیکھا جس کے چپے چپے کو اس نے جی جان سے سنوارا تھا، سجایا تھا۔ گزشتہ ایک سال سے اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ گھر اس کا عارضی ٹھکانا ہے۔ وہ کسی وقت بھی یہاں سے نکالی جا سکتی ہے۔

زمین کے سینے کو اس کے اشتعال بھرے پاؤں کوٹتے رہے۔ وہ چلتی رہی۔ بلا مقصد گلیوں گے موڑ کاٹی رہی۔ اپنے آپ سے باتیں کرتی رہی۔

پھر جیسے اس کے اندر کا دکھ بے چارگی کی پھوار میں بھیگ گیا۔ وہ نڈھال سی ایک نیم تاریک ویران سی گلی کے ایک ویران سے مکان کے ایک ٹوٹے پھوٹے تھڑے پر بیٹھ گئی۔ آنسو پرنالے کی صورت اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔

بڑی لاڈلی بیٹی تھی اپنی ماں کی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن، پڑھنے لکھنے میں ذہین، شکل و صورت میں حسین۔ ماں نے اونچے گھر میں بیاہا۔ بہت خوبصورت لڑکے کو داماد بنایا۔ لوگوں نے بھی اس جوڑی کو رشک سے دیکھا۔

زبیر کے گھر آ کر اسے احساس ہوا کہ وہ کچھ عجیب سی عادتوں کا مالک ہے۔ ایک تو وہ شکی مزاج تھا دوسرے اپنی بڑی بھاوج کا کہنے کار تھا۔ شادی کے تھوڑے دنوں بعد پہلا نزلہ تو اس کی ملازمت پر گرا۔ اس کی جیٹھانی کو اس کا بن سنور کر کالج جانا سخت ناپسند تھا۔ زبیر نے جب ملازمت چھوڑنے کی بات کی تو وہ بولی۔

’’ارے مفت کا پیسہ آتا کیا برا لگتا ہے۔ دس بجے جاتی ہوں اور ایک بجے واپس آ جاتی ہوں۔‘‘

زبیر نے بالوں میں تیزی سے کنگھا چلاتے ہوئے کہا۔

’’میں مفت خور انہیں۔ گھر بیٹھو اور گھر داری سیکھو۔ تمہیں تو روٹی بنانی نہیں آتی۔‘‘

اس نے حالات کا جائزہ لے کر نوکری چھوڑ دی۔ نہ چھوڑتی تو گھریلو حالات کے بگڑنے کا ڈر تھا۔ پر جب پہلی بار ان کے درمیان کسی چھوٹی سی بات پر تو تکار کی صورت حال پیدا ہوئی تو وہ گنگ سی رہ گئی۔

ایسا پڑھا لکھا وجیہہ ذمہ دار افسر جو بڑا کلچرڈ اور مہذب نظر آتا تھا، فوراً ہی گالی گلوچ پر اُتر آیا اور پھر گھر سے نکل جانے کا بھی کہنے لگا۔

زخمی کوڑیالے ناگ کی مانند وہ تڑپ کر بولی۔

’’کیوں نکل جاؤں۔ کوئی بھاگ کر آئی ہوں۔ ڈیڑھ فٹ اونچے لہراتے شملوں اور پگوں والے لائے تھے مجھے، اکٹھا کرو انہیں پہلے، پھر ایک بار ہی نکلوں گی۔‘‘

اور جب اُس نے اپنی ماں سے اس دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس کے شانے پر محبت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

’’بچی! میاں بیوی کسی غریب کاشتکار کی بیلوں کی اس جوڑی کی طرح ہیں۔ جو اکٹھے زمین کا سینہ چیرتے ہیں۔ اکٹھے سہاگہ اور کراہی کا عمل سرانجام دیتے ہیں۔ لڑتے مرتے بھی ہیں اور پھر ایک ہی کھرلی پر پٹھے (چارہ) کھانا بھی اُن کا مقدر ہے۔‘‘

سو جب لڑنے مرنے کے عمل سے فارغ ہو کر انہوں نے کھرلی میں اکٹھے پٹھے کھانے شروع کئے تو اس نے شاکی لہجے میں کہا۔

’’زبیر کیا تم عورت کو کرائے دار سمجھتے ہو کہ جب چاہا اسے نکال دیا، یا تمہاری نظر میں وہ پاؤں کی جوتی ہے کہ جسے جس وقت چاہا اُتار پھینکا۔ دو برتنوں کا ایک جگہ رہنے سے ٹکراؤ تو ضروری ہے۔ لڑائی کرو، پر یہ کیا کہ گھر سے نکالنے کے درپے ہو۔‘‘

اور اس نے اسے بازوؤں میں سمیٹ کر اس کے گھنے سیاہ بالوں پر پیار کیا اور تاسف بھرے لہجے میں بولا۔

’’یار! معاف کر دو۔ پر خدا کے لئے یہ بھی یاد رکھا کرو کہ میں ہسٹری میں ایم۔ اے پاس سے بیاہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ پر مقدر زور آور تھا۔ مجھے ’’گیلڈ سٹیون‘‘ کی خارجہ پالیسی پر لکچر سننے سے ڈر لگتا تھا اور تم مجھے وہ لکچر پلاتی ہو۔ خدا کے لئے لکچر نہ پلایا کرو۔‘‘

پر دوسری بار جب ایسی ہی صورت حال نے جنم لیا تب بھی بعد میں وہ بہت چیخی۔

’’تم آخر مجھے گھر سے نکل جانے کا کیوں کہتے ہو؟ تمہاری یہ بات مجھے ہوا میں معلق کر دیتی ہے۔‘‘

وہ بولا: ’’ دیکھو مشرق کا مرد کتنا بھی ایڈوانس کیوں نہ ہو، عورت کی زبان درازی برداشت نہیں کر سکتا۔ تم نے میرے غصے کو اپنی زبان سے مشتعل کیا۔‘‘

’’تم شاید مجھے پتھر کی طرح دیکھنا چاہتے ہو، جو ممکن نہیں۔ میں گوشت پوست کا ایک جیتا جاگتا انسان ہوں جسے ناجائز اور غلط بات پر احتجاج کا پورا حق حاصل ہے۔‘‘

گھر کی سیاست سے وہ بہت دیر میں شناسا ہوئی تھی۔ بڑی بھابھی کا ذہن کتنا پراگندہ تھا اس کا اندازہ اسے اب ہوا تھا۔ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر جب زبیر ان کے سکھانے پر بولتا تو گھر کا سکون درہم برہم ہو جاتا۔ وہ اپنی ماں سے جب جلے دل کے پھپھولے پھوڑتی تو وہ متانت سے کہتیں۔

’’صبر میری بچی! اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

صبر کا یہ درس دینے والی اچانک شہر خموشاں کی شہری بن گئی۔ چھ ماہ بعد ابا بھی اُکتا کر ان کے پاس جا سوئے۔ دونوں کے اس جہان سے جانے کی دیر تھی۔ اس کی بڑی بھابھی نے وہ پر پرزے نکالے کہ وہ دنگ رہ گئی۔ اس کی جیٹھانی سے مل کر اس کے بارے میں ایسی خوفناک باتیں کہیں کہ جب اس نے سنیں تو سینہ کوٹ لیا۔

زبیر نے جس سرد مہری اور بے حسی کا مظاہرہ کیا اس نے اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔

اس وقت اس کے بیاہ کو چار سال بیت گئے تھے اور اس کی گودی ہنوز خالی تھی۔

اور پھر زبیر کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

چار سال کے عرصے میں اس نے سبھی مزے چکھ لئے۔ زبیر جیسا بھی تھا، زندگی کا ساتھی تھا۔ پر اس ساتھی نے اس کے پر کاٹ کر پنجرے میں بند کر دیا تھا۔ اس کی انشورنس، پروویڈنٹ فنڈ اور گریجوایٹی سب اس کے والد کے نام تھیں۔ کسی نے اس سے یہ تک پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس کے پاس کچھ ہے یا نہیں۔

اور آج اس کی عدت کو پورا ہوئے صرف دو دن اوپر ہوئے تھے۔

ایسا تو ایک دن ہونا ہی تھا۔ خدا جانے عدت تک کیسے صبر کیا۔

اب وہ اس ویران گلی کے ویران سے تھڑے پر بیٹھی چھم چھم روتی تھی اور اپنے آپ سے پوچھتی تھی کہ کہاں جائے۔

اور یہ ’’کہاں‘‘ ایک ایسا اندھیرا غار تھا جو منہ پھاڑے اس کے سامنے کھڑا تھا۔

بڑا بھائی اپنے بیوی بچوں کا تھا۔ کبھی اس کے گھر جھانکا تک نہیں تھا۔ کبھی پوچھا نہیں تھا کہ وہ کس حال میں ہے۔ چھوٹا دو سال سے کینیڈا میں تھا۔ اسے وہ کیا لکھتی۔ بقیہ رشتہ داروں اور عزیزوں کے اطوار بھی سامنے تھے۔

تب اس نے آنسوؤں کا سارا پانی اپنے حلق میں اُتار لیا تھا۔ وہ کھڑی ہوئی خط مستقیم کی طرح اور اس نے اپنے آپ سے کہا۔

’’دُکھ کی یہ صلیب میں تنہا اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چلوں گی۔ ہونٹوں پر ٹانکے لگا لوں گی اور جی داروں کی طرح جیوں گی۔‘‘

٭٭٭







باب نمبر 2





بس تو یوں لگتا تھا جیسے آفتاب اس کے ماتھے میں سے پھوٹ نکلا ہو۔ چادر سے پھسلی جاتی تھی اور سارے جسم کے مساموں سے ڈھیروں پانی بہتا تھا۔ وہ چلتی جا رہی تھی۔ رات کا کچھ حصہ گاڑی میں گزرا تھا۔ آخری پہر ریلوے اسٹیشن پر صبح کے انتظار میں اور اب پی۔ آئی۔ اے راولپنڈی مال والے دفتر نے اسے ناردرن ایریا کے آفس میں دھکیل دیا تھا۔ ہنس راج کی طرح زمین کے سینے پر یہ دودھیا عمارت تیرتی نظر آتی تھی۔ وہ پہلے گیٹ سے دائیں ہاتھ مڑی اور کشادہ کمرے میں داخل ہوئی۔ کمرہ بلتستان جانے والے مقامی لوگوں اور غیر ملکی سیاحوں سے بھرا پڑا تھا۔ کاؤنٹر پر بیٹھے نو عمر لڑکے سے اس نے سکر دو کے ٹکٹ کے لئے کہا۔ اس نے ہجوم میں گھرے گھرے دفعتاً اس کی آواز پر گردن اُٹھا کر دیکھا اور بولا۔

’’ذرا بیٹھئے! میں فارغ ہو کر آپ کی بات سنتا ہوں۔‘‘

وہ دیوار کے ساتھ ٹکے صوفے پر بیٹھ گئی۔ کاؤنٹر پر سفید براق وردیوں میں دو مرد کھڑے تھے۔ منگولی نقش و نگار والا اور آریائی خد و خال والا۔

وہ سیاہ ریکسین کے صوفے والے بازو پر کہنی ٹکائے اور اس کہنی پر کھڑی ہتھیلی کے پیالے میں داہنا گال جمائے سوچ رہی تھی۔

کہ اے کاش وہ ’’چارلس ڈوج سن‘‘ کی ’’ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ بن سکتی۔ زمین کے کسی گہرے سوراخ میں گر جاتی نیچے بہت نیچے کسی اور دنیا میں چلی جاتی۔

جب وہ ’’کہاں جائے‘‘ جیسی استفہامیہ علامت کو اثبات میں بدلنے کی تگ و دو میں مصروف تھی۔ روح اللہ اسے ایسے ہی یاد آیا تھا جیسے گھپ اندھیرے میں بجلی چمک جائے وہ اس کے بھائی کا دوست تھا۔ انجنیئرنگ کالج میں اس کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پہلی بار جب اس کے ساتھ ان کے گھر آیا تو یہ جاننے پر کہ سکر دو سے ہے، اماں نے اس کا سینہ اور ماتھا چوماتھا۔ اماں کا مرحوم بڑا بھائی دس سال سکر دو میں رہا تھا اور اماں سکر دو کے پھلوں اور سوغاتوں کی نمک خوار تھی۔ روح اللہ نے ایک بار اس سے بھی کہا۔

’’کبھی آئیے نا وہاں۔ بلتستان کی وادیاں فطرت کی شاہکار، اس کے نظارے روح پرور، وہاں کے لوگ محنتی، جفا کش، مخلص اور پاکستان سے ٹوٹ کر پیار کرنے والے اور وہ علاقہ وسیع تہذیبی ورثے کا مالک۔‘‘

اور اس نے مدھم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر کہا۔

’’اپنا وطن ہے کبھی انسان آ ہی جاتا ہے۔‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

’’اپنا وطن ارے! کہاں جانتے ہیں لوگ وطن کے ان حصوں کے بارے میں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے میرے ساتھی لڑکے یورپ کی خوبصورت جگہوں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ میں نے کہا باہر کی بات کرتے ہو۔ اپنی طرف کیوں نہیں دیکھتے۔ خپلو اور شگر خوب صورت ترین وادیاں وادیاں جنہیں بیرونی سیاحوں نے اس دنیا پر جنت کہا ہے۔‘‘

چند ایک بولے۔

’’یہ کہاں ہیں؟‘‘

’’یقیناً آپ کو بھی نہیں پتہ ہو گا۔‘‘

اس نے خجالت تو محسوس کی پر حقیقت کا صاف گوئی سے اعتراف بھی کیا۔

’’واقعی روح اللہ! ہم کیسے پاکستانی ہیں۔ پاکستان کا ہر چوتھا لکھاری انگلینڈ، امریکہ یاترا کی داستانیں قلم بند کرتا ہے، پر یہ کیسا ستم ہے کہ انہیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ملک کے گوشہ ہائے دور دراز کے چہروں پر پڑی نقاب سرکا کر ان کے رُخ روشن بھی عام لوگوں کو دکھا سکیں۔‘‘

اور اب وہ بیٹھی سوچتی تھی کہ وہ کے۔ ٹو، ماشہ بروم، رگشہ بروم اور براڈپیک کی چوٹیوں کو سر کرنے جا رہی ہے یا انہیں زیر کرنا چاہتی ہے۔ جنہوں نے اس کی محبت اور خلوص کو مٹی میں روند دیا ہے۔ بچہ نہیں ہوا، مشیت کی مرضی، اس کا کیا دوش۔

اس وقت دُکھ اور جلن کی ایک ایسی آگ اس کے اندر بھڑکی ہوئی تھی۔ جس نے اسے بے کل کر رکھا تھا۔

اور پھر جب کافی بھیڑ چھٹ چھٹا گئی تب اسے بلایا گیا۔ خصوصی رعایت کرتے ہوئے اسے بلڈنگ کے دوسرے حصے سے اوپن ٹکٹ لانے کو کہا گیا اور جب وہ اس سارے عمل سے فارغ ہوئی، اس کے ہاتھ میں فوکر طیارے کی جو اگلی صبح چھ بج کر پچپن منٹ پر پرواز کر رہا تھا، ٹکٹ تھما دی گئی۔

دوپہر اور شام کا بیشتر حصہ بازار میں کٹا۔ کلائی کی چھ طلائی چوڑیاں بیچیں اور اہم چیزوں کی خریداری کی۔ رات اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر گزاری۔ ائیر پورٹ صبح کے ملگجے اندھیرے میں پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا۔ چیکنگ وغیرہ کے سب مراحل سے فارغ ہو کر وہ اب وسیع و عریض انتظار گاہ میں بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے تین دیو ہیکل جرمن زور شور سے باتیں کر رہے تھے۔ دائیں طرف ایک نیا نویلا جوڑا آ کر بیٹھ گیا۔ لڑکی نے نہایت خوبصورت سرخ جوڑا پہن رکھا تھا۔ کٹے بالوں کے درمیان مُنے مُنے نقوش والا چہرہ چمبیلی کے پھول کی طرح ہنستا تھا۔ سرخ جوڑا اور بازو سے بازو جوڑے بیٹھا ایک دل کش مرد۔ اس نے دانت ہونٹوں میں گاڑ دئیے اور آنکھوں کا رُخ پھیر لیا۔ بائیں طرف ایک عورت ڈیڑھ دو سالہ بچے کو گود میں اُٹھائے دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے دانت ہونٹوں میں مزید گہرے چلے گئے تھے۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھی۔ آنکھوں کے عین سامنے ’’نماز کے لئے جگہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ بیگ کو کندھے سے لٹکایا اور تیز تیز قدم اُٹھانے لگی۔

اور جب اس نے سجدے میں سر جھکایا، اسے احساس ہوا تھا جیسے آنکھوں سے آنسوؤں کا نہیں، خون کا فوارہ اُبل پڑا ہو۔

سکر دو کی پہلی پرواز کی تختی اُبھری اور اناؤنسر نے اعلان کیا۔ لوگ انتظار گاہ کے سامنے کھڑی گاڑی میں سوار ہونے لگے۔

ایک نو عمر، خوش شکل سا لڑکا اپنی ہی عمر کے ایک غیر ملکی لڑکے کے ساتھ ٹہلتا ٹہلتا اس کے سامنے آ کر رک گیا۔

’’دعا کرو فریڈرک آج نارمل روٹ کی پرواز نہ ہو۔ انڈس ویلی کے روٹ کا تھرل۔۔ ۔ مائی گاڈ‘‘ اس نے اپنا ہاتھ فضا میں لہرایا۔

’’دنیا کا خوبصورت اور خطرناک ترین روٹ۔‘‘

آدھ گھنٹے بعد فوکر طیارے کی دوسری پرواز کے لئے وہ بھی باہر آ گئی۔ خوش شکل سٹیورڈ نے بورڈنگ کارڈ پر سے سیٹ نمبر دیکھ کر اسے بٹھایا۔ چھوٹا سا فوکر، بے چارہ بوئنگ جیسی شان و شوکت سے محروم، دروازے بند ہو گئے تھے۔ دو منٹ، تین، چار، پانچ اور پھر دس منٹ تب اعلان ہوا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے پہلا طیارہ ابھی راستے میں ہی ہے۔ بیس منٹ بعد بتایا گیا کہ جہاز فی الحال پرواز سے قاصر ہے۔ مسافر ایک ایک کر کے اُٹھے۔ باہر نکلے اور ایک بار پھر اسی ہال میں آ کر بیٹھ گئے۔ پہلے طیارے کے مسافر بھی ہنستے مسکراتے واپس آ گئے تھے۔ پتہ چلا کہ کاغان ناران تک تو خیریت تھی پر جگلوٹ پر اتنی دھند تھی کہ جہاز کے آگے بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ معاملہ اگلے دن پر ملتوی ہو گیا تھا۔

اب پھر پی۔ آئی۔ اے کے ناردرن ایریا کا دفر تھا۔ وہ تھی اور لوگوں کا جم غفیر، ٹکٹ پر اگلے دن کی تاریخ پڑی اور اس نے پوچھا۔

’’کیا کل بھی ایسا ہی ہو گا؟‘‘

اور وہ منگولی خدو خال والا نوجوان مسکرایا۔

’’گھبرائیے نہیں، کل بوئنگ کی باری ہے۔ وہ زیادہ بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔ کل آپ انشاء اللہ سکر دو کا پانی ضرور پئیں گی۔‘‘

پی۔ آئی۔ اے نے بلتستان کے لوگوں کے لئے ہوٹل والوں سے ٹھیکہ کر رکھا ہے۔ پروازوں کی معطلی کے سلسلے میں انہیں وہاں ٹھہرایا جاتا ہے۔ جب اس نے کاؤنٹر کلرک سے بات کی تو وہ بولا۔

’’یہ رعایت صرف غریب مقامی لوگوں کے لئے ہے۔‘‘

’’میں کیا آپ کو امیر نظر آتی ہوں؟‘‘

اس نے اسے مسکرا کر یوں دیکھا جیسے کہتا ہو۔ میرے خیال میں تو آپ اونچی شے ہیں۔

’’در اصل‘‘ وہ پھر بولا۔

’’ان علاقوں کی ترقی و خوشحالی کے لئے کرائے کی شرح بہت کم رکھی گئی ہے۔ ان کی رہائش کا انتظام پروازوں کی معطلی میں پی۔ آئی۔ اے کی ذمہ داری ہے۔ ایک کمرے میں چار افراد ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اب آپ بتائیے میں آپ کو کہاں ایڈجسٹ کروں۔ ایک کمرہ میں ایک فرد کو الاٹ نہیں کیا جا سکتا؟‘‘

’’کچھ کیجئے۔ رات میں نے ائیر پورٹ پر گزاری ہے۔ ایک پل آنکھ نہیں جھپک سکی۔‘‘

پھر اسے ایک فارم دیا گیا اور بتایا گیا کہ کھانا اسے اپنی گرہ سے کھانا پڑے گا چھ بجے پرواز ہے۔ گاڑی آپ کو وہیں سے پک کر لے گی۔‘‘

اور شمع ہوٹل کے کمرے میں اس نے اپنے آپ کو بیڈ پر گرا کر آنکھیں موند لیں۔ اس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر سُو اندھیرے ہی اندھیرے تھے۔

جہاز نے اونچی اڑان لے لی تھی۔ قد آور درخت بوٹے بن گئے تھے۔ مارگلہ کی پہاڑیاں مٹی کی ڈھیریاں لگ رہی تھیں۔ اسلام آباد کے گھر گڑیوں کے گھروندوں میں منتقل ہوئے۔ کھیت جیومیٹری کے ڈیزائن لگنے لگے۔ ایبٹ آباد کی سر سبز پہاڑیاں اور ان کے دامنوں میں بنے ٹین کی چھتوں والے گھر سورج کی اولین روشنی میں یوں چمکتے تھے جیسے کسی نے سبزے پر جستی چادر کے چھوٹے چھوٹے ڈبے یہاں وہاں لڑھکا دئیے ہوں۔ کہیں کہیں یہ بچوں کی کھلونے گاڑیاں سی دکھائی دیتیں۔ مانسہرہ، کاغان، ناران جھیل، سیف الملوک۔

اس کی ناک شیشے کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ بوئنگ کی پرواز اس درجہ آرام دہ کہ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے انسان فضا میں معلق ہو گیا ہو۔ بادل جیسے کھیتوں کے کھیت اُگے ہوئے، کہیں برف کے گالوں کا روپ دھارا ہوا، کہیں یوں بکھرے ہوئے جیسے کسان نے اپنے کشادہ آنگن میں روئی دھنک کر ڈال دی ہو۔

اب سر سبز و شاداب پہاڑوں کی جگہ سیاہ ننگی چٹانیں اُبھر آئی تھیں۔ دامنوں میں برف کی چاندی سمیٹے کہیں کہیں چاندی ندی نالوں کی صورت میں بہتی نظر آتی تھی۔

معاون پائلٹ نانگا پربت کے بارے میں بتا رہا تھا۔ نانگا پربت کے پہاڑ سر سے پاؤں تک برف کے پیرہن پہنے اس طمطراق سے بیٹھے تھے جیسے جنگل کا بادشاہ اپنے ہالی موالیوں کے سامنے بیٹھا ہو۔ ایک جگہ بادلوں کی صورت گری کچھ ایسی تھی کہ جیسے کوئی محبوبہ دلنواز، عاشق صادق سے کہتی ہو۔

’’کر چھتری دی چھاں میں چھاویں بہنی آں۔‘‘

آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز جاری تھی۔ جب اس نے سنا ہم شگر کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ پروں نے حرکت کی تھی۔ نیچے دریائے سندھ ایک چھوٹی سی ندی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ دائیں بائیں پر ہیبت سیاہ پہاڑ، نیچے دریائے سندھ کی ریت تجریدی آرٹ کے ایسے نادر شاہکار کہ وہ بس دیکھا کئے۔

بس تو جیسے انسان آنکھ جھپک لے۔ سکر دو کے بلند و بالا درخت نمایاں ہو گئے۔

صرف ایک گھنٹہ پانچ منٹ میں وہ ایک ایسی جگہ کھڑی تھی جو ننگے بُچھے پہاڑوں میں گھری ہوئی تھی۔ جہاں سورج کی چڑھتی جوانی دلآویر تھی۔ سرمئی سڑکیں اور لان چمکتے تھے۔ سامنے کریم رنگی چھوٹی سی عمارت خوش آمدید کہنے کو بے تاب تھی۔ بائیں طرف ٹاور کسی حسین البیلی نار کی مانند لشکارے مار رہا تھا۔ ہوا خوشگوار تھی۔ شاہ بلوط جھومتے تھے اور ٹاور سے ذرا پیچھے شنگریلا ریسٹورنٹ چائے کے لئے بلا رہا تھا۔

’’میں نے اب تک کی زندگی میں کیوں، کب، کہاں اور کیسے کی اہمیت کو نہیں سمجھا تھا۔ پر آج سمجھی ہوں اور یہ جان پائی ہوں کہ انسان ان ڈرامائی موڑوں کو جو اچانک سامنے آ جاتے ہیں۔ ان چاروں سوالیہ علامتوں کے ساتھ کیوں نتھی نہیں کر پاتا ہے۔‘‘

پھر جب وہ دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے حسن کو جی بھر کر دیکھ چکی تب وہ کریم رنگی عمارت میں داخل ہوئی اور باہر نکلی۔ یہاں سوزوکیوں اور ویگنوں والے کھڑے تھے۔ جو سکر دو شہر کے لئے سواریاں بٹھا رہے تھے۔

سامنے شنگریلا ریسٹورنٹ کے شیشوں والے دروازے اور کھڑکیاں ایک کپ چائے کے لئے اسے شد و مد سے بلانے لگے تھے۔ اسے کون سی جلدی تھی۔ وقت وافر، جگہ اجنبی اور منزل لا پتہ۔ لہٰذا وہاں بیٹھنے اور ایک کپ چائے پینے میں کیا حرج تھا۔

زہر مہرہ کے کپ میں گھونٹ گھونٹ چائے پی۔ دروازے کھڑکیوں کے شیشوں کو پھاڑتی سورج کی آتشیں کرنیں اب اس کا چہرہ جلانے لگی تھیں۔ اُٹھنے میں عافیت تھی۔

روح اللہ کے بارے میں اس نے سول سکیورٹی کے دو لڑکوں سے پوچھا۔ ان کے چہروں پر لا علمی کے اثرات تھے۔ کسی نے کہا۔

’’بڑے صاحب سے پوچھئے۔‘‘

اور وہ بڑے صاحب کے حضور پہنچ گئی۔ یہ بڑا صاحب حاتم خان تھا۔ سچ مچ کا حاتم خان جس نے اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کی مشکل کو سمجھا اور فی الفور سکر دو میں جگہ جگہ ٹیلی فون کھڑکا دئیے، اور بالآخر جب وہ روح اللہ کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ تب دھیرے سے سر اُٹھایا۔ دھیمی سی مسکراہٹ چہرے پر لایا اور دھیرج سے بولا۔

’’لیجئے آپ کے میزبان پہنچ رہے ہیں۔‘‘

٭٭٭









باب نمب3





جیپ سکر دو ائیر پورٹ روڈ پر تیزی سے بھاگی جاتی تھی۔ روح اللہ کبھی اس کو طرف دیکھتا، مسکراتا اور کہتا۔

’’تو پھر آپ آ ہی گئیں بلتستان۔ پر میں حیران ہوں آپ اکیلی کیسے چلی آئیں؟‘‘

اُس نے چہرہ باہر کیا۔ روح اللہ کو شا ید ابھی تک اس کے وجود کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ ریت کے لمبے چوڑے میدان شروع ہو گئے تھے۔ عناب کے دو رویہ درخت پیچھے رہ گئے تھے۔ اوائل بہار میں یہ درخت بہت محسور کن خوشبو فضا میں بکھیرتے ہیں گمبہ سکر دو اور امام باڑہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ جب اُس نے اپنا رُخ اندر کیا اور بولی۔

’’ارے میرا وطن ہے یہ روح اللہ! مجھے تو یہاں آنا ہی تھا۔ رہی بات تنہا آنے کی۔ بتاؤ تم لوگ نہیں ہو کیا یہاں۔ بھلا شبیر اور تم میں کوئی فرق ہے۔‘‘

وہ ہنسی تھی اور ہنسی میں اُس کی ذات سے متعلق سب کچھ چھپ گیا تھا۔ تبھی روح اللہ کامیاب داستان گو کی طرح شروع ہوا۔

بلتستان کو چینی لوگوں نے بلور، لداخیوں نے اسے بلتی یل یا سری بتان (خوبانیوں کی سر زمین) خلیجی ممالک نے اسے تبت خورد اور یہاں کے باشندوں کو تبتی کہا ہے۔ ایرانی مبلخین کی اس علاقہ میں آمد کے بعد اس کا نام تبتی زبان کے لفظ ’’بلتی‘‘ اور فارسی کے لفظ ’’ستان‘‘ سے بلتستان بنا اور یہی اس کا آج کا نام ہے۔

ریت کا میدان ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ ہوا گرم تھی۔ روح اللہ نے ساری گرم ہوا اپنے چہرے پر لینے کی کوشش کی اور پھر بولا۔

’’گیارہویں صدی عیسوی میں یوں ہوا کہ رینگمو گلیشئر اپنی جگہ سے ذرا سا سرک گیا تھا دریائے شیوق میں زبردست طغیانی آئی۔ اس کی تباہ کاریوں نے اس عظیم سلطنت بلور کو تباہ کر دیا۔ سینکڑوں دیہات نیست و نابود ہو گئے۔ لاکھوں انسان اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس سیلاب نے اپنے راہ میں آنے والی ہر وادی کو کاٹ کر گہری اور رتیلی وادیوں میں بدل دیا۔ اس طوفان کا زیادہ نشانہ بلور کا دارالحکومت جو مقامی روایات کے مطابق ’’ رگیا یل‘‘ (بڑی اور بادشاہ کی جگہ) کہلا تا تھا، برسوں ایک رتیلے اور پتھریلے میدان کی صورت میں پڑا رہا۔ جس کی وجہ سے تبتی لوگوں نے اسے سکرم دو یعنی خشک اور ویران جگہ کا نام دیا۔ سکرم دو بعد میں کثرت استعمال سے سکر دو بن گیا۔‘‘

جیپ کی رفتار بڑی سُست تھی۔ کہیں کہیں ننگے بُچھے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف یوں چمکتی تھی جیسے کسی کالے کلوٹے چہرے پر برص کے دھبے۔

شگری کلاں گزرا۔ جیپ اس نے دائیں جانب موڑ لی۔ نصف کلو میٹر پر شگری بالا تھا۔ پھر جیپ ایک جگہ رُک گئی۔ روح اللہ باہر آ گیا۔ وہ بھی اُتر آئی۔

باہر دھوپ تیز ضرور تھی۔ پر ہوا کی تیزی تپش کو محسوس نہیں ہونے دیتی تھی۔

یہ جگہ شگری بالا تھی۔ سامنے ایک بڑے سے ٹیلے پر زمانہ قدیم کے رہائشی محل کے آثار پائے جاتے تھے۔ روح اللہ نے ایک پتھر کے پاس جا کر کہا۔

’’اسے دیکھئے ہم اسے اپنی بلتی زبان میں بردو سنساس (چکی کے پاٹ کا سرہانہ) کہتے ہیں۔ یہ پتھر آج بھی تاریخ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ایک خوبصورت داستان وابستہ ہے۔‘‘

اب وہ ایک بڑے سے پتھر کی اوٹ میں بیٹھ گیا تھا۔ اس نے عینک اُتار دی تھی اور ابھی یہ الفاظ اسے کے ہونٹوں سے نکلے ہی تھے کہ ’’ ہاں تو جب یہ وادی سکر دو۔‘‘

جب اس نے جو اس سے ذرا فاصلے پر کھڑی تھی، اُس کی بات کاٹ دی۔

’’روح اللہ! میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ تاریخ کا یہ عظیم سرمایہ مجھے اتنی جلدی جلدی نگلوانے کی کوشش مت کرو۔ میں اسے ہضم نہ کر پاؤں گی اور مجھے بد ہضمی ہو جائے گی۔ میں کوئی دنوں کے لئے تھوڑی آئی ہوں۔ مہینوں رہوں گی۔ چپہ چپہ کونا کونا چھانوں گی۔ وادی وادی گھوموں گی۔ چلو اُٹھو مجھے گھر لے چلو۔ بیوی بچوں سے ملاؤ اور جب شام ڈھلے گی تو یہاں آئیں گے اور پھر اسی ٹیلے پر بیٹھ کر میں تم سے یہ تاریخی داستان سنوں گی۔‘‘

روح اللہ شرمندہ سا ہو گیا۔ معذرت کرتے ہوئے بولا۔ ’’در اصل میں بھی عجیب سر پھرا آدمی ہوں۔‘‘

اس کا چہرہ ابھی بھی معصوم تھا۔ اس کا جسم ابھی بھی زمانہ طالب علمی جیسا دبلا پتلا

تھا۔ اس نے عینک آنکھوں پر چڑھائی اور جیپ کی طرف بڑھا۔

اب پھر سکر دو ائیر پورٹ روڈ پہیوں کے نیچے تھی۔ ویران سڑک مقپون پل یعنی ہر گیسہ نالہ آیا اس میں سدپارہ جھیل کا پانی رواں دواں تھا۔

سکر دو ڈگری کالج کے ساتھ ہی سکر دو بازار شروع ہوتا ہے۔ دوکانوں کے اندر بیٹھے باریش مرد۔ دوکانوں سے باہر باتیں کرتے لوگ۔ چلتے پھرتے بچے غیر ملکی سیاحوں کی ٹولیاں بازار میں ایک بھی عورت نظر نہیں پڑتی تھی اور جب جیپ یادگار شہداء کے پاس سے گزرنے لگی اُس نے کہا۔

’’روح اللہ رُکو ذرا۔ میں فاتحہ پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘

وہ اُتری۔ اُن شہداء کی یادگار جنہوں نے بلتستان کو پاکستان میں مدغم کرنے کے لئے آزادی کی جنگ لڑی اور شہید ہوئے۔ اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

پھر چشمہ بازار گزر گیا۔ سکمیدان کی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے وہ اب سٹیلائٹ ٹاؤن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ خوبانی کے درخت پھلوں سے بوجھل تھے۔ پر پھل ابھی کچا تھا۔ توت بھی کہیں کہیں نظر آتا تھا۔ در اصل یہ مئی کے آخری ہفتے کا پھل تھا گھروں میں سیبوں کے درختوں پر پھل ابھی موٹے بیروں جیسا تھا۔ گیلاس اور شوغون پک چکے تھے۔ صرف دو درختوں پر اسے آلو بخارا نظر آیا تھا۔

اور جیپ ایک آہنی گیٹ سے اندر داخل ہو گئی۔ گھر زیر تعمیر لگتا تھا۔ صحن میں بجری اور پتھر پڑے تھے سارا کنبہ بڑے کمرے میں جمع تھا۔ ایک مشترکہ گھر جو وہ پیچھے چھوڑ کر آئی تھی، ایک اور مشترکہ گھر جو اس کا استقبال کر رہا تھا۔ روح اللہ کا بڑا بھائی ایم۔ ڈی خان سکر دو کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کا سربراہ تھا۔ ان کی لاہوری بیوی بہت اُلفت سے ملی۔

پر روح اللہ کی بیوی سیماں! تبریز کی پیداوار، سکر دو کا قیمتی فیروزہ جسے دیکھ کر اس نے سوچا۔

’’تبریز کا سارا حسن سمیٹ لائی ہے اور یقیناً پیچھے ایک قطرہ تک نہیں چھوڑ کر آئی ہو گی۔‘‘

سیماں کے ڈیڑھ سالہ بیٹے کو جب اس نے اپنے سینے سے لگایا۔ تب یوں لگا جیسے ابھی اس کی چیخیں نکل جائیں گی۔ آنسوؤں کی بارش شروع ہو جائے گی۔ پر وہ بڑے مضبوط اعصاب کی مالک تھی۔ آنسوؤں کو پلکوں کی چلمن میں چھپانا جانتی تھی۔ آہوں کا گلا گھونٹنے کا اسے سلیقہ تھا۔

نشست کا سارا انتظام قالین پر تھا جس نے پورے کمرے کو اپنے سرخ رنگ میں سمیٹا ہوا تھا۔ یوں اطراف میں صوفے بھی پڑے تھے۔ پر وہ تو شاید بے کار ہی جگہ گھیرے بیٹھے تھے۔ خاتون خانہ نے دستر خوان بچھایا۔ ملازم آفتابہ لایا۔ خواتین نے داہنے ہاتھوں کے بس چپے دھوئے۔

تبھی ایک بوڑھی عورت مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ سارے میں وادی جواری کا شور مچ گیا۔ آنے والی کا چہرہ چاند کی کرنوں جیسا ٹھنڈا اور ملائم تھا۔ وہ سبزاونی کپڑے کی گن مو (قمیض) پہنے ہوئے تھی۔ سیاہ ٹوپی جو بلتی مردانہ ٹوپی سے ملتی جلتی تھی (جس پر چاندی کے منقش زیورات جنہیں طومار کہتے ہیں سلے ہوئے تھے) سر پر رکھے اور اس پر سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے گلے میں فلا پہنا ہوا تھا۔ (کپڑے کی پٹی پر بڑے بڑے فیروزے چاندی کے فریم میں جڑا کر سی دئیے جائے ہیں ) ہاتھوں میں فیروزے کی انگوٹھیاں اور پاؤں میں ہلم تھا۔ جس پر اتنی نفیس اور حسین و جمیل کڑھائی تھی کہ بہت دیر تک اس کی نظریں جوتی پر مرکوز رہیں۔ سیماں نے اس کی نظریں جوتوں پر گڑی دیکھ کر کہا۔

’’یہ چھور بٹ کی خاص چیز ہے۔ آپ کے لئے منگائیں گے۔‘‘

’’ارے نہیں سیماں۔‘‘ اس نے تکلف کرنا شاید ضروری سمجھا تھا۔

دستر خوان پر اُبلے ہوئے سفید چاول، پالک آلو کی بھجیا، بھنا ہوا گوشت، اچار اور سلاد سج گئے۔ دادی جواری روح اللہ کے منجھلے بھائی سے اپنے اس بیٹے کی باتیں کرتی تھی۔ جو ٹیقشی میں رہتا تھا پر ’’ٹیقشی‘‘ ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ میں تورتوک اور چولونکھا کے ساتھ دشمن کے قبضے میں چلی گئی تھی۔ ٹیقشی جیسی حسین وادی، اس وادی میں رہنے والا پہلوٹھی کا بیٹا، اس بیٹے کے بچے، بیوی ڈھور ڈنگر کھیت کھلیان سبھی دادی جواری کو مضطرب رکھتے تھے۔

اور چاولوں کا نوالہ اس کے حلق میں پھنس گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ مسز گاندھی اپنی وفات سے قبل فاروق عبد اللہ کے ساتھ تورتوک تک آئی تھیں، اور ان وادیوں کے باشندوں کو بے شمار مراعات دے کر گئی تھیں۔ لوگ اپنی موجودہ حالت سے مطمئن ہیں۔

’’صاحب اقتدار نے تاریخ سے سبق حاصل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اپنی چیزیں دوسروں کو دے کر بھلا یوں خاموش بیٹھا جاتا ہے۔‘‘

اس نے بہت لمبی آہ سینے سے نکالی تھی اور پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا یا تھا۔ کھانے کے بعد رکابیوں میں گیلاس اور شوغون آئے۔ اس نے جی بھر کر ان پھلوں کو کھایا پھر وہاں شور مچا۔ وہ لوگ دادی جواری سے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے۔ للی نے ڈوہر محلے فزا اور آسیہ کے گھر فون کیا۔ فزا کا بیٹا اور آسیہ کا بھائی ڈیانگ اور ڈامن بجانے کے ماہر تھے۔ پر فزا اور اس کا بیٹا ’’کھرمنگ‘‘ گئے ہوئے تھے۔

اور پھر اس کمرے میں راگ و رنگ کی محفل جمی۔ دادی جواری بلتستان کی موسیقی پر ایک پورا مکتب تھی۔ روح اللہ کا چھوٹا بھائی ڈاکٹر سیف اللہ کمرے میں آیا اور بولا۔

’’ملکہ بلتستان تشریف لاتی ہیں۔‘‘

اور یہ ملکہ بلتستان آسیہ تھی۔ اتنی خوبصورت اور تیکھی کہ واقعی ملکہ کہلانے کی

حقدار۔

آسیہ کے بھائی نے ’’ڈانگ شنگ‘‘ (بجانے والی چھڑی) کے ساتھا س مہارت سے ڈامن بجایا اور دادی جواری نے حزنیہ لے میں ’’شنگشیرپا‘‘ کا گیت گایا۔

سکر دو کا نوجوان شنگشیرپا جسے گلاب سنگھ والئی جموں نے قیدی بنا لیا تھا۔ اس کی دلاری بیوی کے جذبات واحساسات کا گیت۔

بیوی: جموں کشمیر سے آنے والے پیارے ماموں آپ کو میری جان شنگشیرپا کی خبر ہو تو مجھے بتائیں۔

ماموں: ماموں کی عزیز بھانجی میں نے اسے دیکھا تو نہیں۔ سنا ہے کہ وہ جموں کے قید خانے میں ہے۔

بیوی: ہاں ہاں وہ جو جموں کے قید خانے میں ہے وہی میرے بچپن کا ساتھی ہے۔

یہ خشک بنجر اور سنگلاخ چٹانوں والا علاقہ در حقیقت اتنا دلچسپ رنگین بلند پایہ فنون لطیفہ اور اعلیٰ تہذیبی روایات کا حامل ہو گا، یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

٭٭٭







باب نمبر 4





رگیالمو (شہزادی) شکری کی شادی ایک گمبھیر مسئلہ بن گئی تھی۔ یہ حسن کی مورت دنیا کی دو قدیم ترین تہذیبوں کا سنگم تھی۔ اس کے خد و خال اور صبیح رنگت میں اگر ایک طرف یونان جھلکتا تھا تو دوسری طرف اس کی شخصیت پر تبت کی چھاپ تھی۔

یہ شگری بالا کی شام تھی۔ سورج بس دیو قامت پہاڑوں کے پیچھے ڈبکی لگانے ہی والا تھا۔ اس وقت سطح مرتفع دیوسائی کی طرف سے آنے والی ہوائیں بہت تیز تھیں۔ وہ اس ٹیلے پر بیٹھی تھی۔ جس پر شکری خاندان کے رہائشی محل کے آثار کہیں کہیں نظر آتے تھے۔ روح اللہ سیماں کی طرف محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے تاریخ کا یہ عظیم ورثہ اسے سونپ رہا تھا۔

ہاں تو میں رگیالمو (شہزادی) شکری کے بیاہ کے قضیئے کو ابھی چھوڑ کر پیچھے لوٹتا ہوں اس زمانہ میں جب یہ میرا پیار ابھی سکرم دو تھا۔ اس مہیب طوفان کے بعد آباد ہونا شروع ہوا تھا۔ اسی دوران مغرب کے دردستان کے اطراف سے بہت سے قبائل کے ساتھ ایک ایسا قبیلہ بھی آیا جو یونانیوں کی اولاد تھا اور سکندر اعظم کی طوفانی یلغار کے دوران ہندوکش کے پہاڑوں میں رہ گیا تھا۔ یہ لوگ شگری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ دلیر، جری اور تنومند تھے۔ بہت جلد سارے علاقے پر چھا گئے اور ان کا سردار پورے علاقے کا رگیالفو (بادشاہ) بن گیا۔ مقامی آبادی پر تبتی رنگ غالب تھا۔ حاکم اور محکوم نے ایک دوسرے کے رنگ میں اپنے آپ کو ڈبو دیا۔ اس خاندان کے آخری رگیالفو (بادشاہ) کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ صرف ایک بیٹی رگیالمو شکری تھی۔ وہی تاج شاہی کی وارث تھی۔

وزراء اور امراء جھگڑتے تھے۔ بالتی یل (بلتستان کا قدیمی نام) کے مقامی راجے بھی اس شہزادی کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لئے مرے جاتے تھے۔

تب یہ محل جس کے کھنڈرات پر ہم اس وقت بیٹھے ہیں۔ نہایت عالی شان تھا۔

شاید وہ بھی کوئی ایسی ہی شام ہو گی۔ اس شام بھی دیوسائی سے ہوائیں بہت تیز چلی ہوں گی۔ اپی چوشگری کے محل کی چھت پر شہزادی شکری اپنی سہیلیوں کے ساتھ چہل قدمی کرتی تھی ان کے درمیان چہلوں کا سلسلہ جاری تھا۔ رگیالمو شکری کی بے تکلف دوست کہتی تھی کہ اس کے لئے کوئی شہزادہ ادھر سے آئے گا۔ ادھر کا یہ اشارہ دیوسائی کے پہاڑوں سے تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے اچانک اس کی نگاہ اس سیاہ پتھر پر پڑی۔ روح اللہ نے اپنے داہنے ہاتھ سے ایک پتھر کی طرف اشارہ کیا جو وادی جواری کے قریب ہی پڑا تھا۔

رگیالمو شکری کی چیخ سی نکل گئی۔ ایک جوان رعنا اس پتھر کے سا تھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ وہ ایسا وجیہہ کہ جیسے سورج دیوتا ہو۔ شہزادی پلکیں جھپکنا بھول گئی تھی۔ وہ فقیر سا لگتا تھا۔ پر اس کے ایک ہاتھ میں سونے کی تسبیح اور پاس تھیلا پڑا تھا۔ یہی پتھر بردوسناس (چکی کے پاٹ کا سرہانہ) اس کے سر کے نیچے تھا۔

وہ دیکھتی رہی۔ نوجوان نے مغرب کی سمت دیکھا۔ سورج ڈوب گیا تھا۔ وہ اُٹھا اور نماز پڑھنے لگا۔ بدھ مت کی پیرو شہزادی کے لئے یہ سب بہت عجیب تھا۔ وہ نیچے بھاگتی آئی، اور اس کے پاس پہنچی۔ اس نے سلام پھیرا، السلام علیکم کہا۔ پر وہ تو ٹکر ٹکر اسے دیکھتی تھی۔ زمانہ شاید ساکت ہو گیا تھا۔ بہت دیر بعد اس نے اپنی زبان میں پوچھا۔

’’کون ہو تم اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘

وہ جوان رعنا مقامی زبان نہیں جانتا تھا۔ بس اس سوال کے جواب میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے ہاتھ سے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا۔ یہ اشارہ دیوسائی کی طرف تھا اور اپنا نام ابراہیم بتایا۔

وہ تو اسے کوئی دیوتا سمجھی تھی۔ بھاگم بھاگ باپ کے پاس پہنچی۔ پھولتی سانسوں کے ساتھ اسے بتایا کہ ایک دیوتا ان کے دوارے آیا ہے، رگیالفو (بادشاہ) اپنے مصاحبوں کے سا تھ اس وقت بیٹی کے معاملے پر ہی بات چیت کر رہا تھا۔ جب بیٹی نے دامن کھینچا کہ تم اُٹھو اور چل کر اپنی آنکھوں سے تو دیکھو۔

اور رگیالفو بھی اسے دیکھتے ہی اپنے دل سے ہار گیا۔ اس کی صورت میں کچھ ایسی نرالی کشش کہ اس نے اس کے پاؤں چھوئے اور بصد منت وہاں سے اُٹھا کر مہمان خانے میں لائے۔

اور رگیالمو شکری کے بیاہ کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اسے وہ یوں بھایا تھا کہ لخت جگر کو اس اجنبی انجان اور ناواقف کے حوالے کرنے میں اسے عین راحت محسوس ہوئی۔ بیٹی سے بھی رائے لی گئی اور وہ بھی گھائل ہی نکلی۔

یوں وہ سلطنت بلتی یل کی شہزادی سے شادی کر کے یہاں کا داماد بنا۔ تبتی زبان میں گھر داماد کو مقپا کہتے ہیں۔ وہ ابراہیم مقپا جو بروئے آداب مقپون ہو گیا۔ در حقیقت یہ پہلا مسلمان تھا جو اس علاقے میں پہنچا اور مرتے دم تک اپنے مذہب پر قائم رہا۔

مستند تاریخی روایات کے مطابق یہ نوجوان رعنا مصر کے شاہی خاندان کا مفرور شہزادہ تھا جو پہلے کشمیر آیا تھا۔ وہاں کی خانہ جنگی سے اس نے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مقامی لوگوں نے بغاوت کر دی اور اس کی جان کے درپے ہو گئے۔ وہ کشمیر سے بھاگتا ہوا براستہ دیوسائی سکر دو پہنچا اور اس شہزادی سے ٹکرایا۔ جس کے بیاہ کے مسئلے نے باپ کی نیندیں اُڑا رکھی تھیں۔

اور یوں اس خاندان کی ابتداء ہوئی جس نے بائیس پشتوں تک نہایت کر و فر سے حکومت کی۔ اس خاندان کے بادشاہ بوغا نے موجودہ سکر دو شہر بسایا۔ ناقابل تسخیر قلعہ کھرفوچو بنایا اور یہی وہ زمانہ تھا جب حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ان کے خواہر زادے حضرت سید محمد نور بخش اور دوسرے ایرانی مبلغین یہاں آئے۔ ان کی تبلیغ سے متاثر ہو کر بوغا کا بیٹا شیر شاہ مشرف بہ اسلام ہوا۔

’’ اُف توبہ روح اللہ‘‘ سیماں نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔

’’تمہیں مکینکل انجینئرنگ کی بجائے آثار قدیمہ کی ہسٹری پڑھنی چاہیے تھی۔ بس کرو۔ اب کہف الوریٰ آپا پریشان ہو گئی ہوں گی۔‘‘

’’احمق بلتستان کی تاریخ علی شیر خان انچن (عظیم) کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ نامکمل ہے۔ اس تک پہنچنے کے لئے ماضی کے گڑے مردوں کی اُکھاڑ پچھاڑ تو ضروری ہے۔‘‘

’’ہاں تو وہ اولو العزم فرمانروا جس کی عظیم فتوحات اور اصلاحات نے اسے تاریخ میں انچن (عظیم) بنایا۔ شیر شا کا پڑ پوتا علی شیر خان انچن تھا۔ جس پر بلتستان کی تاریخ نازاں ہے۔‘‘

پہاڑوں کی شام، دل کش شام جہاں ٹھنڈی ہوائیں دامنوں سے چمٹی جاتی تھیں۔ جہاں خاموشی اور سناٹے کا حسن تھا۔ ریت کے ذرے اُڑتے تھے اور دھوپ کی زرگری آنکھوں کو بھاتی تھی۔

ایسے میں گرم چائے کا کپ کیسی بڑی نعمت تھی۔ سیماں پتھروں پر بیٹھی، گھونٹ گھونٹ چائے پیتی کیسی پیاری لگتی تھی۔ دادی جواری بھی اپنے ہلم (جوتے ) اُتارے بیٹھی تھی۔ سیاہ چادر میں لپٹا اس کا سرخ و سفید چہرہ، جوان گنت لکیروں کے جال میں پھنسا ہوا تھا۔ جس کی ہر لکیر ایک دہائی کی داستان سناتی تھی۔ ذرا دور سیاہ پر ہیبت پہاڑوں کے سلسلے پھیلے ہوئے تھے۔

روح اللہ نے بلتی میں شاید جواری دادی سے کچھ کہا تھا۔ ان کی آواز ان ویرانوں میں گونج اُٹھی تھی۔

’’ان ایام میں، ان ایام میں جب میرا یہ مادر وطن سکر دو دودھ کے تالاب کی مانند ہوا کرتا تھا۔ ان ایام میں، جب یہ سیاہ ریگستان سرسبز و شاداب ہوا کرتا تھا۔ میرے علی شیر خان انچن نے دنیا کو زیر کیا۔

ارے!

میرے علی شیر خان انچن نے دنیا کو زیر کیا۔ دنیا کو زیر کیا۔ دنیا کو زیر کیا۔‘‘

٭٭٭







باب نمبر5





وہ بہت دن چڑھے تک سوتی رہی۔ رات کے پہلے پھر خوابوں میں علی شیر خان انچن کے گھوڑے پہاڑوں پر دوڑتے رہے تھے۔ دوسرے پہر وہ زبیر کے ساتھ اپنے گھر میں تھی، اس سے گلے شکووں میں اُلجھی ہوئی۔ تیسرے پہر ایک ننھا سا بچہ اس کی چھاتی پر لیٹا کلکاریاں مارتا تھا اور جب اس کی آنکھ کھلی، ساری کائنات اُلٹی ہوئی تھی۔

سیماں دروازے میں کھڑی کہتی تھی۔

’’آپ جلدی سے تیار ہو جایئے۔ روح اللہ نے چھٹی لے رکھی ہے۔ سد پارہ جھیل اور دیوسائی چلنا ہے۔‘‘

اور جب وہ دانت صاف کرتی تھی تو اس سے بھی باتیں کئے جاتی تھی۔ جو اس کے دل میں بستا تھا۔

’’پروردگار! اب میں اپنے ہی فیصلوں کی کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتی۔ جانبداری کا دامن ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ پر میں چاہتی ہوں تو بھی میری طرح جانبدار بن جا۔ تو جانتا ہے اچھی طرح جانتا ہے۔ میں اپنے آپ سے مجبور تھی اور مزید سمجھوتا میرے بس کا روگ نہیں تھا۔ بس تجھ سے اتنی سی التجا ہے کہ میرا دل پتھر کا کر دے۔‘‘

وہ باورچی خانے میں ہی آ گئی۔ بڑی بھابھی سارا کچن صاف کئے بیٹھی تھی۔ نوکرانی نے مٹی کے چولہے لیپ دئیے تھے۔ فرش پر جو ملگجی سی دری بچی تھی وہ اس پر ہی بیٹھ گئی۔ للی نے پلیٹ میں گھر کا بنا ہوا کلچہ، جس پر خشخاس لگی ہوئی تھی، رکھ دیا۔ نمکین چائے کا پیالہ بھی آ گیا تھا۔

جب تک بڑی بھابھی آئیں۔ وہ کلچے پر سجے خشخاس کے سارے دانے چڑیا کی طرح ٹھونگ ٹھونگ کر کھا بیٹھی تھی۔

ناشتے سے فارغ ہو کر وہ اخبار لے کر بڑے کمرے میں آ گئی۔ ابھی پہلی خبر پر نظریں جمی ہی تھیں جب باہر سے روح اللہ کی آواز کانوں میں پڑی۔

’’سیماں ڈاکٹر ابراہیم آئے ہیں۔‘‘

سیماں شاید اس کی طرف آ رہی تھی غالباً دہلیز پر کھڑی تھی جب اس کی پر مسرت آواز سماعت سے ٹکرائی۔

’’اللہ کیسا خوبصورت دن کتنا پیارا اور بھاگ بھرا مہمان آیا ہے۔‘‘

’’بھاگ بھرا‘‘۔ اس نے زیر لب کہا اور پھر خود ہی اپنے آپ سے بولی۔

’’ہو گا کوئی بختاور، ہم جیسے نصیبوں جلے۔۔ ۔‘‘

اس کی تلخ سوچوں کا سلسلہ فی الفور ٹوٹ گیا جب چھ فٹی کشیدہ قامت پر متناسب وجود والا ایک مرد متانت سے قدم اُٹھاٹا سیماں کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوا جہاں وہ بیٹھی تھی۔ آنے والے پر سرسری سی ایک نظر ہی یہ بتانے کے لئے کافی تھی کہ چہرے کا ہر نقش اپنی جگہ بلا کی جاذبیت رکھتا ہے اور نکھری ہوئی شفاف آنکھیں اپنے اندر شفقت اور نرمی سموئے ہوئے ہیں۔

غربی دیوار کے ساتھ ایک گز چوڑا اور تقریباً تین گز لمبا پھولدار ریشمی روئی سے بھرا گدیلا جو کشمیری طرز معاشرت کا ایک اہم جز ہے بچھا تھا۔ ڈاکٹر ابراہیم نے اسی پر بیٹھ کر اس کی طرف توجہ کی تھی۔ اس کا تعارف کتنا مختصر تھا۔ پل لگا تھا۔ پر ڈاکٹر ابراہیم سیماں نے اسے آدمی سے انسان اور انسان سے فرشتوں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا اور وہ خجل سے نادم سے ’’سیماں آپ شرمندہ کرتی ہیں‘‘ کہتے کہتے سر جھکائے جاتے تھے۔

’’آپ ہمارے ساتھ دیوسائی چلئے مزہ آئے گا۔‘‘

’’نہیں سیماں بی بی میں سکر دو اسپتال میں کچھ اہم آپریشنز کے سلسلے میں آیا ہوں۔‘‘

اور اس نے سوچا کہ وہ جو زندگی میں کوئی اہم مشن پیش نظر رکھتے ہیں ان کے پاس وقت اور فرصت کہاں۔ گھنٹہ بھر بعد وہ چلے گئے۔

سیماں نے چائے کے برتن سمیٹتے ہوئے دھیرے دھیرے کہنا شروع کیا تھا۔

’’محرومیاں جونکوں کی طرح ساتھ چمٹی ہوئی ہیں۔ ماں باپ تو بچپنے میں ہی چھوڑ گئے تھے۔ کس لگن اور ہمت سے پڑھا۔ شادی ہوئی تو بیوی کا بھی ساتھ نصیب نہ ہوا۔ چھ ماہ بعد فوت ہو گئی۔ اب بلتستان کے دکھوں کو سینے سے لگا لیا ہے۔ اس کے رگ و پے میں چبھے کانٹوں کو نکالنے میں دن رات جتے ہوئے ہیں۔‘‘

’’سیماں جلدی کرو۔‘‘ روح اللہ نے آواز دی۔

’’میری سب تیاری مکمل ہے بس چیزیں رکھنی ہیں۔‘‘

اس نے پراٹھے، کباب، اچار اور چائے کے لئے کپ سب ٹوکری میں ڈال لئے تھے۔ شیبہ گلاب کا پھول بنی جیپ کے گرد منڈلاتی تھی۔ اس نے اسے گود میں اٹھایا اور اندر جا بیٹھی۔ للی بھابھی طاہرہ سب سوار ہو گئے۔ سیماں روح اللہ کے ساتھ آگے جا بیٹھی اور گاڑی سٹیلائیٹ ٹاؤن سے درہ سد پارہ میں داخل ہو گئی۔

دائیں بائیں آگے پیچھے گہرے چاکلیٹی اور سیاہ رنگے خوفناک قسم کے پہاڑ، اوپر تھوڑا سا نیلا آسمان نیچے مٹیالا سندھ، سرمئی سڑک اور اِدھر اُدھر بکھرے پتھر، بس یہی کچھ نظر آتا تھا۔

سد پارہ جھیل سکر دو سے کوئی آٹھ کلو میٹر جنوب میں ہے۔ یہی کوئی آدھ پون گھنٹہ لگا ہو گا جھیل آ گئی تھی۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ اس کے قدموں کے عین نیچے سد پارہ جھیل کا پانی ہواؤں کے جھونکوں سے مچلتا پھرتا تھا۔ بائیں طرف ایک ریسٹ ہاؤس جو ناردرن ایریا ورکس ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام تھا۔ اب محکمہ سیاحت پی۔ ٹی۔ ڈی۔ سی دیکھ بھال کرتا ہے۔ سبز شیشے کی بلوریں، پیالی جیسی صورت والی اس جھیل کے عین درمیان ایک ٹاپو ہے۔ اس پر بھی دو کمروں کا ایک ریسٹ ہاؤس بنا ہوا ہے۔ پر بے چارہ ریسٹ ہاؤس ہانپتا ہوا لگتا تھا۔

جھیل کے سبز پانی میں دخانی کشتیاں چلتی تھیں۔ ایک میں غیر ملکی چھوکرے اور چھوکریاں بیٹھے ہوئے تھے۔ خدا کا شکر تھا ان کے وہ رُک سیک ان کے جسموں سے الگ تھے۔ دوسری کشتی میں چند میدانی علاقوں کے لوگ تھے۔ دو شادی شدہ جوڑے سامنے ٹاپو کے کمروں سے نکل کر اب اِدھر اُدھر گھوم پھر رہے تھے۔

پھر وہ سڑک سے نیچے سیڑھیاں اُترتی گئی۔ بہت نیچے اور پھر عین جھیل کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اور جب وہ بیٹھی پانی سے کھیلتی تھی۔ روح اللہ نے اس کی آنکھوں سے دوربین لگا دی اور ساتھ ہی بولا۔

’’اوپر دیکھئے اوپر۔‘‘

یہی کوئی پانچ سو فٹ اوپر، ادھر سد پر گاؤں کی طرف روح اللہ اس کے عقب میں کھڑا اشارے دیتا تھا اور اب کسی پروفیسر کی طرح لیکچر پر اُتر آیا تھا۔

’’رگیالفو (بادشاہ) علی شیر خان انچن کا سب سے بڑا تعمیری کارنامہ وہ دفاعی دیوار ہے۔‘‘

اُس نے غور سے دیکھا۔ اسے ٹوٹی پھوٹی شکستہ فصیل کے ٹکڑے نظر آئے تھے۔ یہ دفاعی دیوار کر تخشہ اور کرگل کے درمیانی پہاڑ سے لے کراستور تک پہاڑی سلسلے کے اوپر بنائی گئی ٹھی۔ کم و بیش سو میل لمبی اس دیوار میں مناسب جگہوں پر صدر دروازے اور ان دروازوں پر پہرے دار متعین تھے۔ تھورگو پر بھی ایسی ہی فصیل بنوائی گئی۔ تھورگو دروازے سے پہاڑ کے اوپر سدپارہ جھیل تک۔ سدپارہ جھیل پر بند باندھ کر اسے ایک ڈیم کی شکل دی گئی۔ جس سے اب تک سکر دو کی نصف آبادی سیراب ہوتی ہے۔ اسی جھیل میں سے ایک اور چوڑی نہر نکال کر اسے ’’نالہ خوشبو‘‘ میں ڈال دی گئی۔ اس نہر سے مغر بی سکر دو سیراب ہوتا تھا۔

تبھی سیماں چیخی۔ ’’پلیز! روح اللہ ہسٹری چھوڑ دو۔ کشتی خالی ہو گئی ہے۔ ہمیں سیر کراؤ۔‘‘

سدپارہ جھیل ایک کلو میٹر لمبی اور تین بٹا چار کلو میٹر چوڑی ہے۔ اس سیر میں پورا گھنٹہ لگا وہ اور سیماں ٹاپو پر چڑھ گئے۔ وہاں جا کر اسے عجیب سے دکھ نے گھیر لیا۔

فضول ناس مارا ہوا ہے اس اتنی پیاری جگہ کا جگہ جگہ پتھر پڑے تھے۔ جھاڑیاں گھاس پھونس یہاں وہاں اُگا ہوا تھا۔

’’کتنے پھوہڑ ہیں ہم لوگ قیمتی چیزوں کو سنبھالنے کا بھی سلیقہ نہیں۔‘‘

جھیل کے کنارے ’’سدپارہ ان‘‘ میں شادی شدہ جوڑے صوفوں پر بیٹھے۔ شیشوں سے تاکا جھانکی بھی کرتے جاتے اور ساتھ چائے بھی پیتے جاتے۔

’’اس جھیل کے پانی سے سکر دو اور اس کے گرد و نواح میں بجلی کی فراہمی کے لئے دو بجلی گھر چل رہے ہیں اور مزید قائم کرنے کے منصوبے زیر غور ہیں۔‘‘

بڑی بھابھی شاید اُکتا گئی تھیں۔ اونچی آواز میں بولیں۔

’’بس کرو۔ اب آگے بھی چلنا ہے۔‘‘

کھانا دیوسائی میں کھانے کا پروگرام تھا۔

روح اللہ شیشے کے گلاس میں چشمے کا پانی لایا، اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔

’’اسے پئیں۔ یہ سونے کے ذرات والا پانی ہے۔‘‘

وہ ہنسی کہ شاید یہ مذاق کرتا ہے۔ لیکن جب وہ سنجیدگی سے بولا کہ میں حقیقت کہتا ہوں تب اس نے غور سے پانی کو دیکھا اور واقعی اسے دو تین سنہری ذرے نظر آئے تھے اور اس نے گلاس یوں منہ سے لگا لیا جیسے وہ آب حیات ہو۔

اب چڑھائی نہایت عمودی ہو گئی تھی۔ سڑک تنگ اور ٹوٹی پھوٹی تھی۔ گو روح اللہ کی جیپ بالکل نئی تھی مگر ہر چار چھ فرلانگ پر ریڈی ایٹر کا پانی ابل جاتا تھا۔ سیماں کین کا ڈبہ اُٹھائے جب سڑک کے اوپر بہتے کسی چشمے سے اسے بھرنے نکلتی، تب پیچھے بیٹھی للی ہنستی۔

’’ارے شکر ہے سیماں آنٹی کہیں میں آپ کے ساتھ نہیں بیٹھی۔ وگرنہ تو میری آپ نے پریڈ کروا دینی تھی۔‘‘

جیپ ایک جگہ رُک گئی۔ روح اللہ نے اعلان کر دیا۔

’’ہم دیوسائی پہنچ گئے ہیں۔‘‘

بارہ سے چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع سطح مرتفع دیوسائی کا میدان اس کے سامنے تھا۔ روح اللہ نے جیپ جس جگہ روکی تھی وہاں گوجر بکر وال والوں نے اپنے کیمپ لگا رکھے تھے۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چرتے پھرتے تھے۔ درخت نہیں تھے۔ بس کہیں کہیں جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔

سیماں کے بچے بھوک سے بے تاب ہو رہے تھے۔

چٹانوں کے پاس اس نے دستر خوان بچھا کر سب کو آواز دی۔

اور جب وہ کھانا کھاتی تھی، اُس نے کہا۔

’’روح اللہ تمہاری اس دیوسائی نے مجھے ذرا متاثر نہیں کیا۔‘‘

اُس نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائی۔ اُس کی طرح دیکھا اور بولا۔

’’پہلی بات تو یہ ہے کہ دیوسائی جتنی میری ہے، اسی قدر آپ کی بھی ہے۔ رہی بات متاثر ہونے کی تو ابھی آپ نے دیکھا ہی کیا ہے۔ آتے ہی تو کھانے پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ ارے صاحب صبر سے۔‘‘

کھانے سے فارغ ہو کر اُس نے ظہر کی نماز پڑھی۔ سب جیپ میں بیٹھے اور جیپ دیوسائی کے کھلے میدانوں میں بھاگنے لگی۔ سنہری مائل سبز گھاس کے میدان۔ ان میدانوں میں کھِلے پھول دور کناروں پر ایستادہ سرمئی پہاڑ جن کی چوٹیاں برفوں سے ڈھنپی ہوئی تھیں۔ راستہ کیا تھا رنگوں اور نظاروں کی دنیا ساتھ لئے چلتا تھا۔

ہم دیوسائی کی خوبصورت ترین جگہ بڑا پانی پہنچنے والے ہیں۔ روح اللہ کی جیپ چڑھائی چڑھتے چڑھتے اب ایک دم نیچے اُترنے لگی تھی۔ نیچے کا منظر کسی جادو نگری کا تاثر دیتا تھا۔ سرسبز گھاس پھول شفاف نیلے پانیوں والا دریا۔ چوبی پُل۔

اُترائی خوفناک تھی۔ اس سے بھی خوفناک چوبی پُل پر جیپ کا چلنا تھا۔ وہ جیپ سے اُتر گئی تھی۔ چند قدم چلی لیکن ایسے جیسے خواب میں چلتی ہو۔ پھولوں سے لدے پھندے یہ فردوسی ٹکڑے جن کی دید نے اس کی مُومُو کو سجدہ ریز کر دیا تھا۔ اُس کی آنکھوں کو بھگو دیا تھا۔ لگتا تھا اُس کی آنکھیں پھٹ جائیں گی۔ نظروں کی ہر سمت پھولوں کا دریا بہتا تھا۔

’’ پروردگار یہ تیری قدرت کا چھوٹا سا ادنیٰ سا ذرہ ہے مجھے بتا تو خود کیا ہو گا؟‘‘

اُس نے نماز یہیں پڑھی۔

روح اللہ نے برجی لا کی متعلق بتایا۔ برجی لا دیوسائی کی بلند ترین ٹاپ۔ جیپ کا تو راستہ نہیں بس ہائی کنگ ہی وہاں سے جا سکتی ہے۔ کیا بات ہے اس جگہ کی۔

اب وہ جھیل یشو سر پر پہنچے۔ سبز گھاس کے میدانوں اور برف پوش پہاڑوں میں گھری یہ جھیل پر یوں کا مسکن ہی تو معلوم ہوئی تھی۔ یہی وہ جگہ ہے۔ روح اللہ نے فضا پر نظروں کے زاویے دائیں بائیں گھماتے ہوئے کہا۔

’’جسے برطانوی مورخ جی۔ ٹی وین نے Detosoh کہا ہے۔ ہم لوگ ہم لوگ غبیارسہ (گرمیوں میں رہنے کی جگہ ) کہتے ہیں۔ سردیوں میں یہاں گزوں کے حساب سے برف پڑتی ہے۔ مئی میں جب برف پگھلتی ہے تو برف کے نیچے دبے پودے پھوٹ نکلتے ہیں۔ جس شام جب ہم شگری بالا میں بیٹھے باتیں کرتے تھے۔ سیماں نے روح اللہ کی بات اُچک لی تھی اور آپ پوچھتی تھیں اتنی تیز ہوائیں، تو ان ہواؤں کی وجہ بھی یہی دیوسائی ہے۔‘‘

اور اب روح اللہ پھر شروع ہو گیا تھا۔

دن ڈھلنے کے بعد، بستیوں میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ لیکن یہاں موسم خوشگوار رہتا ہے۔ یہاں کی ٹھنڈی ہوائیں تھنگ برگے سد پارہ اور حسین آباد کے نالوں سے وادی کی طرف بڑھتی ہیں، جو اکثر آندھی کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

تبھی وہاں ایک جیپ آ کر رُکی۔ چند غیر ملکی اُترے۔ وہ تو اُترتے ہی تصویر کشی میں مصروف ہو گئے۔ سیماں اور روح اللہ بھی ایک پتھر پر بیٹھ کر تصویریں اُتروانے لگ گئے اور وہ کھڑی تھی۔ بس یوں کہ بس نہ چلتا تھا کہ کیوں کر اس نظارے کو آنکھوں میں جذب کر لے۔ یہیں ڈیرہ ڈال لینا چاہتی تھی۔ پھولوں کی اس سیج پر ہمیشہ کے لئے سوجانا چاہتی تھی۔

غیر ملکیوں کی جیپ کا ڈرائیور اس کی محویت کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے پاس آیا اور وہ ٹوٹی پھوٹی اُردو میں بولا۔

’’دیوسائی پر ہی عاشق ہو گئی ہیں۔ وقت اور حالات نے کبھی اجازت دی تو گلتری جانا۔ اسی سے آگے کا علاقہ ہے۔ علاقائی خاصیت اور ماحول اور موسمی حالات کے لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ سال کے آٹھ مہینے برف باری کی زد میں رہنے والا یہ علاقہ دنیا کی حسین ترین جگہ ہے۔ میں اسی علاقے کا ہوں تم یقین نہیں کرو گی۔ زندگی جتنی کٹھن اور دشوار وہاں ہے شاید دنیا کے کسی خطے میں نہ ہو۔‘‘

وہ سنتی رہی۔ پھولوں کے سمندرمیں آنکھوں کو غوطے دیتی رہی اور پھر اسے خدا حافظ کہہ کر جیپ میں بیٹھ گئی۔ یہ کہتے ہوئے کہ اگر وہاں کا دانہ چگنا ہو گا تو کوئی روک سکے گا۔ یہاں کا کب سوچا تھا؟

٭٭٭







باب نمبر 6





تیاری کے سب مراحل سے فارغ ہو کر جب اس کی مرمریں لا بنی گردن اوپر اُٹھی، اور اُس نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا۔ سیماں پیچھے کھڑی عنابی ہونٹوں کے ساتھ مسکراتی نظر آئی تھی۔ اس نے دو قدم آگے بڑھائے اور عین اس کے بالمقابل آ کر بولی۔

’’آپ میندوق کھر (پھول محل) اور عظیم تاریخی قلعہ کھر پو چو دیکھنے جا رہی ہیں اور میندوق رگیا لمو(پھول شہزادی) کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ بتائیے تو ذرا اگر علی شیر خان انچن کی روح نے آپ کو جپھی ڈال لی تو میں کیا کروں گی۔‘‘

اس نے سیماں کے گال پر پیار کیا اور بولی۔

’’اگر ایسا ہوا تو مجھے وہیں چھوڑ آنا۔ ایسا عظیم فرمانروا مجھ پر فریفتہ ہو جائے، تو بھلا اس سے بڑھ کر خوشی کی اور بات کیا ہو گی۔‘‘

اور دونوں کا قہقہہ کمرے میں گونج اُٹھا۔

وہ اس وقت سبز بلتی گن مو (قمیض) پہنے کھڑی تھی۔ لابنے بالوں کی دو چوٹیاں اس کے سینے پر شیش ناگوں کی طرح پڑی تھیں۔ اس کے سر پر سیندوری ٹوپی تھی۔ جس کی پیشانی پر سجے طومار (چاندی کے منقش زیورات) جھلمل جھلمل کرتے تھے۔ فلو (گنگھرو) اس کے ماتھے پر جھومر کی طرح پڑے تھے۔ سیماں نے اس کے گلے میں اپنا فلا بھی پہنا دیا تھا۔ تنگ مہری کی گھیر دار شلوار کے نیچے اس کے پاؤں میں چھوربٹ کا حسین و جمیل کشیدہ کاری کا ہلم (جوتا) بھی تھا۔ بلتی گن مو، ٹوپی اور ہلم تینوں چیزیں روح اللہ اس کے لئے کل شام لایا تھا۔

اس نے چادر اوڑھی اور بولی۔

’’اب چلنا چاہیے۔‘‘

اور سیماں کمرے سے باہر نکلتے نکلتے کہتی گئی۔

’’میں تو سوچتی ہوں آپ کا یہیں کسی بلتی سے نکاح پڑھوا دیں۔‘‘

اس نے یک دم اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ لیا۔ رُخ پھیر کر آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا اور خود سے کہا۔

’’نکاح تو پڑھا تھا۔ بور کے یہ لڈو کھائے بیٹھی ہوں۔‘‘ پھر جیسے زبیر اندر سے چھلانگ لگا کر اس کے عین سامنے آ کھڑا ہوا اور اُسے اپنی بانہوں میں جکڑتے ہوئے بولا۔

’’تم ایک اور نکاح کرو گی۔ مجھے چھوڑ کر۔‘‘

اور اس کے اندر کا دکھ بلبلا کر چیخا۔

’’مجھ جیسی بانجھ سے کسی کو کیا سروکار؟‘‘

اور اس نے آنسو پلکوں پر جھلملانے نہیں دئیے۔ چادر سنبھالتی باہر بھاگی۔

سیماں نے بچے بڑی بھابھی کے حوالے کئے۔ ٹوکری اُٹھائی۔ اپنے ملازم جذبہ کو ساتھ لیا اور تینوں سٹیلائٹ ٹاؤن کی سڑکوں سے نیچے اُترتی گئیں۔ سکمیدان کی گلیوں سے بازار میں آئیں اور سیماں نے بس ذرا سی آنکھیں ننگی رکھ کر بھاگتے ہوئے بازار پار کیا۔

امام باڑہ کلا میں ترکھان کام کر رہا تھا، وہ ٹھہر گئی۔ چوب کاری میں وہ پنجرے کی کوئی قسم بنا رہا تھا۔ اس کے سراہنے پر سیماں بولی تھی۔

در اصل یہ اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ اجتماعی تعمیرات کے سوا عام آدمی انہیں بنوانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ آگے بڑھنے لگی تھی۔ جب جذبہ نے اس کے بڑھتے قدموں کو روک دیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے کہ بلتستان جب اپنی جنگ آزادی لڑ رہا تھا تو اسی جگہ اور اسی مقام سے قلعہ کھرپوچو تک پہنچنے کے لئے سرنگ کھودی گئی تھی۔

اس نے وہاں ٹھہر کر اک ذرا سی دیر کے لئے ان مناظر کو تصور کی آنکھ سے دیکھنا چاہا پر سیماں تیز رو پر سوار تھی۔ دامن کھینچ کر بولی۔ ’’چلی آؤ یہاں تو ہر تیسرے قدم پر تاریخی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ انہیں سننے لگو تو پہنچ چکیں کھرپوچو۔‘‘

پولو گراؤنڈ کے نزدیک سیزر گر کھور کا علاقہ تھا۔ یہاں وہ سنار رہتے تھے جو کشمیر سے آئے تھے۔ اب وہ چھنیا کھور میں داخل ہو گئی تھیں۔ یہ جگہ ان کا شتکاروں کی ہے جو راجہ کے مزارع تھے۔ راج گیری نظام ختم ہوا تو انہوں نے زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ اب مقدمے درج ہیں۔ حاکم اور محکوم دونوں عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے ہیں۔

سامنے چھومک کا علاقہ نظر آتا تھا اور آگے دریائے سندھ موجیں مارتا پھرتا تھا۔

’’بے چارہ چھومک‘‘ جذبہ نے زبان تالو سے لگا کر زوردار چچ چچ کیا۔ سندھ جب چڑھا، چھومک پھنسا۔

اب انہوں نے میندوق کھر (پھول محل) کے لئے چڑھنا شروع کر دیا تھا۔ چڑھائی میں سانس بہت جلدی پھولتا ہے۔ ایک جگہ وہ رُک گئی۔ اُس نے نیچے دیکھا۔ وادی سکر دو اس البیلی شہزادی کی مانند نظر آئی تھی جو دیو قامت جنوں کی قید میں پڑی ہو۔

میندوق کھر شکستہ دیواروں کی صورت میں کھڑا تھا، اور سیماں بول رہی تھی۔ علی شیر خان انچن کی محبوب ملکہ گل خاتون کا میندوق کھر۔ یہ مغل اور تبتی طرز تعمیر کا ایک خوبصورت مرقع جس کے فرش اور چوکھٹیں سب سنگ مرمر سے بنے ہوئے تھے۔

’’تم لوگ بھی عجیب ہو، اس عظیم تاریخی ورثہ کو بھی نہ سنبھال سکے۔ اب مجھے بتاتی ہو کہ مغل اور تبتی طرز تعمیر کا دل کش مرقع ہے۔‘‘

اور سیماں نے بے چارگی سے کہا۔

’’میری جان ہم تو اپنے آپ کو بھی نہ سنبھال سکے تھے۔‘‘

وہ دونوں پتھروں پر جوتے اُتار کر بیٹھ گئی تھیں۔ اس نے ٹوپی اور چادر اُتار دی سیماں نے اپنے پُونی جیسے انگشت شہادت بلند کرتے ہوئے کہا۔

وہ سیزر گر کھور کا علاقہ ہے جہاں سے ہم آئے ہیں۔ یہیں مقپون بادشاہوں کا ہلال باغ تھا۔ ہلال باغ میں غوڑی ہل چنگڑا کا چبوترہ ابھی تک اسی طرح قائم دائم ہے۔ چھومیک کی طرف رگیہ ژہر کا شاہی باغ تھا جو اب دریا برد ہو چکا ہے۔ ہلال باغ کے قریب شاہی قبرستان ریت کے ٹیلے کی صورت میں موجود ہے۔

سیماں نے نوکر کو چھتری کھول دینے کا کہا تھا اور پانی کا گلاس اس کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا۔

عین سامنے سد پارہ درہ تھا۔ نیچے چھومیک کا علاقہ جہاں عورتیں گھاس کاٹتی تھیں چھتوں پر خوبانیاں اور توت پڑے سوکھتے تھے۔

سکر دو چھاؤنی میں کہیں کہیں ٹین کی چھتیں سورج کی روشنی میں چمکتی نظر آتی تھیں۔ اس نے گردن اُٹھا کر اپنے اوپر پھیلے تین سو فٹ اونچے کھرپوچو کو دیکھاجس کی چوٹی پر انہیں پہنچنا تھا۔ اس کے پاؤں ان راہوں سے نا آشنا کہیں جو ذرا سا پیر پھسلا اور نیچے سنگے چھو (دریائے سندھ کا مقامی نام) کی جولانیاں اپنے آپ میں سمیٹنے کے لئے مشتاق۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اُس نے جھر جھری لی۔

دھیرے دھیرے رک رک کر جگہ جگہ ٹھہرتے ہوئے وہ ڈونگس کھر تک پہنچیں۔ یہ را ستہ جس پر سے ہم چل کر یہاں تک پہنچے ہیں، علی شیر خان انچن کی محبوب ملکہ میندوق رگیالمو (پھول شہزادی) نے ہی بنایا تھا۔

وہ ڈونگس کھر کی شکستہ اور نوکیلی دیواروں کے پاس بیٹھ گئیں۔ اس کی سانس بری طرح پھول رہی تھی اور جذبہ نے روح اللہ کی کرسی سنبھال لی تھی۔

یہاں ایک حفاظتی چوکی بنی ہوئی تھی، جس پر پہرے دار متعین رہتے تھے۔ اسے مزید آگے بڑھنے سے اس نے یہ کہتے ہوئے روک دیا۔

’’خدا کا کچھ خوف کرو، جذبہ پہلے چائے تو پلا دو۔‘‘

اور جب چائے کا مگ اس کے ہاتھ میں آیا، اس نے اوپر نیچے اور اپنے دائیں بائیں دیکھا۔ اس وقت آسمان شفاف اور نیلا تھا۔ کائنات بس ہمالیائی اور قراقرم کی دیواروں میں سمٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔

تازہ دم ہو کر پھر اُٹھے۔

گیٹ امتداد زمانہ کے ہاتھوں رنگ و روپ کھوئے بیٹھا تھا۔

اس قلعہ کے بیرونی دروازے پر شیر کا مجسمہ نصب تھا۔ دروازے کے سامنے ایک بڑا چوپال تھا۔

ڈوگرہ فوج نے آخری مقپون بادشاہ کو گرفتار کر کے اسی چوپال میں لا کر قالین پر بٹھایا تھا۔ شہزادیوں اور بیگمات کو بھی گرفتار کر کے لایا گیا۔ یہ کیسا اندوہناک منظر تھا۔

اور اس نے دکھ اور کرب کے سمندر میں غوطہ مارتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔

’’صرف اندوہناک نہیں، انسان تو جیتے جی قبر میں اُتر جاتے ہیں۔ آن بان شان عزت و جاہ و حشمت سب کچھ منوں مٹی کے نیچے دب جاتا ہے۔ پلٹن میدان ڈھاکہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا۔ سقوط دہلی اور سقوط بغداد تو کتابی المیے تھے۔ سقوط ڈھاکہ تو اس کی روح، اس کے جسم و جان کا المیہ تھا۔

جذبہ نے اونچے اونچے گانا شروع کر دیا۔

میری خچیا اشچونگ دشمنی چدے کھیریدے چو امیر حیدر

فوژے سنگے ژوخ یورپی کھیودپودرنگ بانی فیونی لے چو امیر حیدر

ترجمہ: اے راجہ امیر حیدر! تمہاری عزیز شہزادیوں کو دشمن اسیر کر کے لے جا رہے ہیں اے راجہ تم میں جو شیر کی طاقت ہے، وہ آج دکھاؤ۔

یہ محل کی اس معمر عورت کی فریاد تھی۔ جو یہ ستم برداشت نہ کر سکی اور اس نے اسی قلعہ کھر پوچو میں ہی موت کی نیند سونے والے شہزادے امیر حیدر کو پکارنا شروع کر دیا تھا۔

اس عظیم قلعہ کھر پوچو کو مقپون راجہ بوغا نے تعمیر کروایا تھا اور اس کے پڑ پوتے غازی میر کے بیٹے علی شیر خان انچن نے اسے فوجی نقطہ نظر سے وسعت دی۔

پر وہ تو وہاں کھڑی صرف یہ سوچتی تھی کہ وہ جنہوں نے اسے تعمیر کیا جن تھے یا دیو، منوں وزنی پتھر سینکڑوں فٹ بلندی پر لائے اور اسے یوں بنایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ماورا ہاتھوں کی کاریگری کا گمان پڑتا ہے۔

دائیں ہاتھ آٹھ بڑے مورچے تھے۔ ان مورچوں پر چھت نہیں تھی، اور جب اس نے ان سوراخوں میں جھانکا۔ آدھا سکر دو نظر آتا تھا۔ سارا قلعہ ایک چبوترے پر بنا ہوا ہے۔ فصیل کے ساتھ ساتھ دو منزلہ عمارت اردگرد تعمیر تھی۔ میں گیٹ کے قریب مسجد بنی ہوئی تھی۔ ڈوگرہ وزیر لکھپت رائے نے مسجد کے سوا سب کچھ جلا ڈالا تھا۔ مہتہ سنگھ نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔ قلعے کے بیچ میں چٹان کھود کر ایک حوض بنایا گیا ہے جس کا سائز تقریباً بارہ ضرب بارہ فٹ ہے۔ اس میں پانی جمع رکھا جاتا تھا۔ قلعہ میں پانی لانے کے لئے شمالی جانب سے دریائے سندھ کے کنارے تک زمیں دوز راستہ موجود تھا۔ مسجد کے قریب دیوار میں موجود ایک کالے پتھر پر اشعار کندہ تھے۔ اس کے پوچھنے پر جذبہ نے بتایا کاسنہ ہے۔

مغربی حصے میں ایک اونچی جگہ پر راجہ صاحب کا محل بھی تھا۔ پر اس کا کوئی نام و نشان موجود نہیں تھا۔ ایک گول کمرے کے جھروکوں میں سے تازہ ہوا کے جھونکے اور دریائے سندھ نظر آتا تھا۔

وہ گھومتے رہے، چپ چاپ روحوں کی طرح۔ پھر چلتے چلتے اس دروازے تک آ گئے۔ جو نانگ ژھوق کی طرف تھا اور اپی چوئے سو کے نام سے مشہور تھا۔ دیواریں نیم خستہ تھیں۔ جذبہ بول رہا تھا اور اس کی انگلی بندوق کی نال کی طرح کسی جگہ کا نشانہ لے رہی تھی۔

’’وہ دیکھئے جہاں دریائے شگر دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ وہیں ننگ ژھوق کی بستی ہے۔ جس کے معنی ہیں کانٹوں کا گھر۔ کبھی یہ گاؤں بہت اہمیت کا حامل تھا۔ لیکن دریائے سندھ کے کٹاؤ سے بیشتر حصہ دریا برد ہو گیا۔ دریا جس جگہ بہہ رہا ہے، اس کے عین درمیان راجہ سکر دو کا تفریحی محل بھی تھا۔ یہ جگہ سکر دو اور باہر سے آنے والوں کے لئے ایک پُر لطف سیر گاہ ہے۔ یہاں بڑے بڑے چناروں تلے ایک چشمہ بہتا ہے۔ منچلے چاقو اور چھریوں سے ان تناور چناروں پر اپنے نام کھود کھود کر لکھتے ہیں۔‘‘

’’کہیں بیٹھ جاؤ اب سیماں پلیز! میں تھک گئی ہوں۔ میندوق کھر کی خستہ حال دیواروں کے گلے لگ کر مجھے وہ کہانی سننا قبول نہیں۔ کیونکہ میری ٹانگیں بے جان ہیں۔‘‘

جذبہ نے وہیں صاف سی جگہ پر دستر خوان بچھاتے ہوئے اپنی گلابی اردو میں کہا۔

’’لیجئے ابھی سے ڈھیر ہو گئیں۔ اتنی نازک تو نہیں دکھتیں، جتنا ظاہر کرتی ہیں۔‘‘

’’کمبخت‘‘ وہ غصے سے چلّائی۔

’’تیرا کلیجہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا چوتھے آسمان پر تو تو مجھے لے آیا ہے۔‘‘

اور اس نے پوری بتیسی کھولتے ہوئے کہا۔

’’کھانا کھائیے اب۔‘‘

اور جب وہ آسمان کی وسعتوں اور زمین کی پہنائیوں کو دیکھ رہی تھی۔ سیماں نے تاریخ کے ورق اُلٹ دئیے تھے۔

٭٭٭





باب نمبر 7





اس وقت پولو گراؤنڈ میں ستغرا موسیقی بج رہی تھی۔ اس نے ڈفوق (گول ہونے کے بعد گیند کو پہلی ہٹ مارنا) مارا تھا۔ جو مقدر کا سکندر تھا۔ جس کی فراخ اور پر عزم پیشانی پر اس کے اندر اور باہر کی شجاعت اور دلیری رقم تھی۔ اس کے چہرے کا ایک ایک نقش اور خم اس کی طاقت اور سختی کا نمائندہ تھا۔

اب تاجور دھن بج رہی تھی۔ اس دھن کے ساتھ قرنا (ایک بہت بڑا اور لمبا بِگل) کی آواز نے فضا کو بہت پر ہیبت بنا دیا تھا۔ اس وقت پیڑوں کے سائے لمبے ہو رہے تھے اور بالتی یل کا تاجدار اور عظیم فرمانروا علی شیر خان انچن پولو کھیل رہا تھا۔

پھر وہ رُک گیا۔ اس نے ہاتھ اُٹھا کر موسیقی بند کرنے کا اشارہ کیا۔ فضا کو سونگھا اور گھوڑا دوڑتا ہوا وہاں جا کھڑا ہوا۔ جہاں خدمت گار سرجھکائے مودب ایستادہ تھے۔ اسے خبر ملی تھی کہ دلّی میں اس کی بیٹی شہزادہ سلیم کی پہلی ملکہ سخت بیمار ہے۔

اس نے ماتھے کا پسینہ دائیں ہاتھ کی پہلی پور سے صاف کیا۔ ایک ثانیہ کے لئے اُفق کو دیکھا اور گھوڑے کو سرپٹ بھگا تا محل میں آیا۔

پھر وہ ننگے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا اور پڑاؤ ٹھہراتا دلّی پہنچا۔

اور جب وہ شہ نشینوں اور غلام گردشوں میں سے گزرتا ہوا محل کے اس حصے میں پہنچا۔ جو تبتی شہزادی کے لئے مخصوص تھا اس وقت فانوس جل اُٹھے تھے۔

کنیزیں آداب بجا لائی تھیں۔ اس نے قدم اندر رکھا تھا اور دیکھا تھا کہ بیٹی چھپر کھٹ پر آنکھیں موندے پڑی ہے اور پاس کوئی کھڑا ہے۔ اس کی ایک نظر بیٹی پر اور دوسری بے اختیار ہو کر اس وجود پر پڑی تھی جو ایستادہ تھا۔ نظر کا ٹھہراؤ زیادہ دیر نہیں رہا۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ اُلجھ گیا کہ کوئی جیتا جاگتا انسان دیکھ رہا ہے یا کوئی ماورائی شے ہے۔

بیٹی نے آنکھیں کھولیں۔ ہاتھ بڑھایا۔ باپ نے اُسے تھاما اور بوسہ دیا۔ پھر جھکا اور اس کے قریب بیٹھا۔

وہ چلی گئی تھی اور بالتی یل کے تاجدار کو محسوس ہوا تھا جیسے کمرے میں جلتے سارے فانوس آناً فاناً بُجھ گئے ہوں۔

وہ بیٹی سے باتیں کرتا رہا، بالتی یل (بلتستان) اور خاندان کی۔ اور اس نے نہیں پوچھا کہ وہ کون تھی۔ پھر یہ اسے جلد ہی معلوم ہو گیا۔ وہ اگلی سہ پہر بیٹی کے پاس گیا۔ دونوں کے درمیان ابھی گفتگو کا آغاز ہوا ہی تھا۔ جب وہ آئی اور اس نے کہا۔

’’تم نے سیب کا جوس نہیں پیا۔ کیوں؟ یوں کھانے پینے سے منہ موڑ رہی ہو۔ کمزوری بہت بڑھ جائے گی۔‘‘

تبتی شہزادی نے کہا۔

’’میں نے بہتیرا چاہا، پر میرا اندر اسے قبول کرنے سے انکاری تھا۔‘‘

اُس نے چند لمحے اُسے دیکھتے رہنے کی بعد کہا تھا۔

’’ آؤ بیٹھو۔‘‘

وہ خود بیٹھنا چاہتی تھی، پر رانی ماں سے خوفزدہ تھی۔ رانی ماں کی خادمائیں اسے محل کی رتی رتی خبر پہنچاتی تھیں اور اسے اپنی تکا بوٹی کروانا پسند نہ تھا۔ لیکن مصیبت تو یہ تھی کہ کچھ معاملات اختیار سے باہر ہو جاتے ہیں۔

بیٹی نے تھکان کے باعث آنکھیں موند ھ لی تھیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا تھا یوں گویا جیسے اپنے آپ کو دیکھا ہو اور یہی وہ لمحے تھے کہ بس یوں لگتا تھاجیسے پہچان کا سارا سفر طے ہو گیا ہو۔

اس سہ پہر وہ بہت دیر تک علی شیر خان انچن سے بالتی یل، کشمیر اور لداخ کی باتیں کرتی رہی۔ رانی ماں کا ڈراؤنا بھوت دماغ کے کسی کونے کھدرے میں پڑا رہا اور وہ وجاہت اور شجاعت کے اس پیکر سے ایک نیا رشتہ استوار کرتی رہی۔

اور تب دفعتاً اس نے کہا۔

’’آپ آئیے نا بالتی یل۔‘‘

اس وقت اُس کی آنکھوں میں وارفتگی کا جنون تھا اور وہ دونوں شانے جھکائے پوری طرح اس کی اور متوجہ تھا۔

تب باغ میں تیز ہوائیں چلتی تھیں۔ جامن اور آم کے پیڑ وں کے پتے تالیاں بجاتے تھے اور دل بھی کسی کو پا لینے کی خوشی کی تال پر رقصاں تھا۔

پھر اگلی شب خواجہ سرا آیا۔ اس نے جھک کر تعظیم دی اور کانوں میں سرگوشی کی کہ شہزادی گل خاتون اسے پائیں باغ میں ملنا چاہتی ہے۔

اس نے اس پیغام کو سنا۔ اس وقت کمرہ فانوسوں کی روسنی سے بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ وہ چند لمحوں تک اس روشنی کو غور سے دیکھتا رہا۔ پھر بڑی ٹھوس آواز میں بولا۔

’’کہنا چوروں کی طرح رات کی تنہائی میں ملنا بالتی یل کی تاجدار علی شیر خان انچن کو زیب نہیں دیتا۔ میں اسے دن کے اُجالوں میں لینے آؤں گا اور بالتی یال کی رگیالفو چھمنو (ملکہ خاص) بناؤں گا۔‘‘

اور خواجہ سرا نے کمرے سے باہر نکل کر اپنے آپ سے کہا تھا۔

’’اس آواز اور لہجے کا دبدبہ اور گونج کسی طور بھی ظلِّ سبحانی سے کم نہیں۔‘‘

وہ اس کی بیمار بیٹی کی دنیا میں آخری شب تھی۔ اسے لحد میں اُتار کر وہ واپس آ گیا۔ جہاں اس کے ساتھ ایک دکھ آیا تھا، وہیں ایک جگمگاتی کرن بھی آئی تھی جو اس کی بند آنکھوں میں گھُس گھُس جاتی تھی۔

پھر اُس نے شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر کی خدمت میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا جو اسے بے کل بنائے ہوئی تھی اور شہنشاہ نے کمال شفقت اور محبت سے اس کی خواہش کی تکمیل کی اور یوں وہ جلال الدین اکبر کی چچا زاد بہن گل خاتون کو جاہ و جلال اور شان و شوکت سے بیاہ کر لے گیا اور اسے میندوق رگیا لمو کا خطاب دیا۔

بس وہ ایسے ہی دن تھے جب پہاڑوں پر جمی برف پگھل جاتی ہے اور دریائے سندھ اپنے شباب پر آ جاتا ہے۔ ان دونوں وہ ننگژ ہوق میں اسی جگہ جہاں اب دریائے سندھ بہتا ہے، اپنے تفریحی محل میں آئی ہوئی تھی۔ سنہری شاموں میں اس کے دراز گیسو علی شیر خان انچن کے شانوں پر بکھر جاتے۔ وہ آسمان کی نیلاہٹوں کو دیکھتے دیکھتے کھڑ پوچو پہاڑ پر آ رُکتی، قلعہ دیکھتی اور کہتی۔

’’میں وہاں جانا چاہتی ہوں۔‘‘

اور وہ اس کے بالوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہتا۔

’’میندوق رگیالمو! تمہارے پاؤں پھولوں سے زیادہ نازک ہیں۔ قلعے کا راستہ بہت ٹیڑھا اور اُلجھا ہوا ہے۔ بھلا تم وہاں کیسے جا سکو گی؟‘‘

اور پھر ایک دن اس نے اپنے دل سے کہا۔

’’میں اس پراسرار، اُلجھے ہوئے پیچیدہ اور دشوار گزار راستے کو سیدھا سادا اور سہل بناؤں گی۔‘‘

٭٭٭







باب نمبر 8





’’یقیناً میں جدت کی خواہاں ہوں یا یہ بھی ممکن ہے کہ میں ان محلات کے یکساں طرز تعمیر سے اُکتا گئی ہوں۔ پر یہ بھی حقیقت ہے کہ میں ان فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں اپنے ماضی کی کوئی چیز دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

میندوق رگیالمو (پھول شہزادی) اس وقت محل کی بالکونی میں بیٹھی بہت دور پہاڑوں پر نظریں جمائے، اپنے آپ سے باتیں کرتی تھی۔ پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ فضا بہت خشک تھی۔

ان دونوں وہ تنہا تھی۔ اس کا محبوب علی شیر خان انچن تین ماہ ہوئے گلگت اور چترال کو فتح کرنے گیا ہوا تھا۔

اس صبح جب وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔ چھو غولمنہ کی دھنیں بج رہی تھیں۔ لشکر کوچ کے لئے تیار کھڑا تھا۔ باہر سیاہ ننگے پہاڑوں پر سورج کی کرنوں میں برف کی چاندنی مسکراتی تھی، اور اندر اس کی گھنی سیاہ پلکوں میں اٹکے آنسوؤں کے برف جیسے موتی، اس کے ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹوں کی کرنوں سے ہنستے تھے۔

اس نے اس کی ناکے چہار گل (کوکا) کے قیمتی جھلملاتے پتھر کو اپنی انگلی سے چھوا پھر اس کی پیشانی پر طویل بوسہ دیا اور کہا۔

‘ ’’علی شیر خان انچن ہمیشہ تمہیں خود سے قریب پائے گا۔‘‘

او رجب وہ سرپٹ بھاگتے گھوڑوں کی آوازیں سنتی تھیمقپون ستن لہ شخفہ کی خاص دھن ان آوازوں میں دب سی گئی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے دونوں ہاتھ دعائیہ انداز میں کھول دئیے تھے اور کہا تھا۔

’’اے اللہ! میں اسے غازی کی صورت میں دیکھوں۔‘‘

پھر اس کے شب و روز اس محل کو بنانے کی تگ و دو میں گزرنے لگے جو وہ اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق بنانا چاہتی تھی۔ سارا سکر دو اس نے چھان مارا۔ تب جا کر میندوق کھر کے لئے جگہ منتخب ہوئی۔ کاریگروں اور ماہرین فن کا انتخاب ہوا اور یوں سنگ مرمر سے بنا ہوا یہ محل اور اس سے ملحقہ باغ جب تیار ہوا، علی شیر خان انچن گلگت کو فتح کرتا ہوا چترال کی طرف رواں دواں تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے دو سال بیت گئے تھے۔ وہ خوش تھی کہ اس نے ایک خوبصورت چیز تعمیر کروائی۔ مگر اب اسے ایک نئی فکر لاحق تھی۔ باغ کی شادابی کے لئے پانی درکار تھا اور سکر دو کی کسی عام کوہل سے اس تک پانی پہنچنا مشکل تھا۔ اس کی دل تمنا تھی کہ جب وہ فاتح بن کر لوٹے تو عظیم الشان میندوق کھر دلکش اور خوش نظر باغ، اہل سکر دو کے ساتھ ساتھ اسے خوش آمدید کہے۔ طویل سوچ و بچار کے بعد اس نے دہلی سے گنگو نامی ماہر معمار بلایا۔

ہنر مند کاریگر سکر دو پہنچا اور خدمت عالیہ میں حاضر ہوا۔

میندوق رگیالمو نے کہا۔

’’ میں چاہتی ہوں یہ نہر باغ کو زندگی دینے کے ساتھ ساتھ سکر دو شہر کی زرعی زندگی کی بھی جان بنے۔‘‘

پھر اس معمار نے تفصیلی معائنہ کیا، صورت حال کو دیکھا۔ اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور ملکہ کی خدمت میں عرض کی۔

’’مطمئن رہیے، آپ کی خواہش کے عین مطابق یہ نہر تعمیر ہو گی۔ مگر ایک درخواست کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔‘‘

اور میندوق رگیالمو ہنس پڑی تھیں کہ معمار نے کہا تھا کہ یہ نہر اس کی نام پر ہو گی۔

’’چلو ہمیں تمہاری یہ شرط منظور۔‘‘

اور گنگو پی آداب بجا لاتے ہوئے اُٹھ گیا تھا۔

دفعتاً سیماں ماضی سے چھلانگ مار کر حال میں آواد ہوئی۔ گنگو پی نہر ابھی آپ نے نہیں دیکھی۔ دیکھیں گی تو پتہ چلے گا کہ ایسے وزنی پتھر اس میں استعمال ہوئے ہیں کہ بس یوں لگتا ہے جیسے یہ جنات نے جمع کئے تھے۔ حالانکہ اس نہر کو بنانے میں جن مزدوروں نے کام کیا وہ علی شیر خان انچن کے فوجی معیار کے مطابق نا اہل اور کمزور تھے اور اسی بناء پر وہ انہیں اپنی مہم میں ساتھ لے کر نہیں گیا تھا۔ آپ اب خود سوچ لیں کہ جب کمزور اور نا اہل لوگوں کی جسمانی طاقت کا یہ عالم تھا تو فوجی معیار پر پورے اُترنے والے لوگ کیسے ہوں گے۔

اور پھر وہ گنگو پی نہر بنی۔ سیماں غڑاپ سے پھر ماضی کے دریا میں کود گئی تھی۔

نہر کیا بنی، باغ شاداب ہوا۔ سکر دو کے کھیت شاداب ہوئے پانی کی فراوانی ہوئی۔ غلّہ اور چارے کی بہتات ہوئی اور لوگوں نے بے اختیار کہا۔

’’ملکہ میندوق کھر ہمارے سروں پر سلامت رہے۔‘‘

اور ایک رات جب وہ سونے کے لئے جا رہی تھی۔ اسے دفعتاً یاد آیا کہ اُس نے ابھی ایک اور اہم کام بھی کرنا ہے اور وہ قلعہ کھر پوچو تک پہنچنے کا آسان اور سیدھا راستہ ہے۔

معتمد درباریوں نے اس کا ارادہ جان کر کہا۔

میندوق رگیالمو چھمنو (پھول شہزادی یا پھول ملکہ خاص) یہ خواہش جانے دیجئے۔ رگیالفو انچن اسے پسند نہیں کریں گے۔ قلعے کا راستہ ہمیشہ عام پیروں کی دسترس سے پوشیدہ ہونا چاہیے۔

اور اس نے کسی قدر غصے سے کہا۔

’’یہ صرف میرا اور رگیالفو (بادشاہ) کا معاملہ ہے۔ آپ لوگ حکم کی تعمیل کریں۔‘‘

اور حکم کی تعمیل ہوئی۔ کھرپوچو تک پہنچنے کا وہ راستہ بنا، جس پر ہم ابھی چڑھ کر آئے ہیں۔ ان دنوں وہ مجسم انتظار بنی ہوئی تھی۔ سارے کام ختم ہو گئے تھے۔ وہ تھک چکی تھی۔ تنہائی کا جان لیوا احساس اب اسے تڑپانے لگا تھا۔ میندوق کھر کے جھروکوں سے سندھ کے نظارے اسے بہت بے کل کرتے تھے، اور جب ایک اُداس سی شام وہ دور پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتے سورج کو دیکھتی تھی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔

’’پروردگار! میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔ اسے کے بازوؤں میں سونا چاہتی ہوں۔ میرا اس لا محدود انتظار کو اب ختم کر دے کہ مجھ میں ضبط کا یارا نہیں رہا۔‘‘

اور بس وہ لمحہ قبولیت کا تھا۔

خادماؤں نے اطلاع دی کہ ’’ محاذ سے ایلچی آئے ہیں۔ قدم بوسی کی اجازت چاہتے ہیں۔ چترال کی فتح کی نوید اپنی زبان سے آپ کو سنانا چاہتے ہیں۔‘‘

اور پیغامبر حاضر خدمت ہوئے۔ ملکہ گل خاتون پردوں کے پیچھے ان کی آوازیں سنتی تھی۔ دل کی دھڑکنیں اپنے عروج پر تھیں۔ وہ بتا رہے تھے۔

’’قابل تعظیم رگیالمو! چترال کو زیر کرنا صرف علی شیر خان انچن جیسے دلیر اور جری رگیالفو کے ہاتھوں ہی ممکن تھا۔ ہم ان مناظر کی منظر کشی سے قاصر ہیں جو فتح کی یاد میں وہاں منعقد ہوئے۔

پولو گراؤنڈ میں چھوغو پراسول کی بارہ دھنیں بجیں۔ شہزادے گھوڑوں سے چھلانگیں لگاتے ہوئے گراؤنڈ میں اُترے اور انہوں نے رقص کیا۔ ڈیانگ والے نے ایسا ڈیانگ بجایا کہ مقامی آبادی بھی سردھنتی رہ گئی۔‘‘

اور جب اس نے یہ جانا کہ رگیالفو کا لشکر واپسی کے لئے چل پڑا ہے۔ اس کا دل فضا میں اُڑتے پرندے کی مانند چہچہایا۔

سارا سکر دو استقبال کے لئے دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ میندوق کھر جگمگاتا تھا اور میندوق کھر کی رگیالمو بھی آنکھوں میں شوق اور وارفتگی کے دیئے جلائے، ہونٹوں پر مسکراہٹوں کی کلیاں سجائے مجسم انتظار بنی بیٹھی تھی۔

وہ دوپہر معمول سے زیادہ روشن اور حسین نظر آتی تھی۔ سازندوں نے ’’شادیاں‘‘ دھن بجانی شروع کر دی تھی کہ فاتح اپنے لشکر کے ساتھ شہر میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے گنگو پی شہر کو دیکھا اس نہر سے متاثر شاداب سکر دو پر گہری نظر ڈالی۔ معتمد درباریوں کے ساتھ قلعے کے نئے راستے کا معائنہ کیا، باغ دیکھا اور پھر میندوق کھر داخل ہوا۔

امراء وزراء جرنیل اور درباری بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ مغل اور تبتی طرز تعمیر کے اس محل کو اوپر نیچے دائیں بائیں سے دیکھتا وہ آگے بڑھتا چلا آیا۔ حتیٰ کہ وہاں آ کر رک گیا جہاں میندوق رگیالمو سولہ سنگار کئے اس کے استقبال کے لئے چشم براہ تھی۔ ملکہ کے اونٹوں اور آنکھوں سے چھنتی خوشی کی چاندی اس پر برسنے لگی اور وہ اس میں نہاتا ہوا آگے بڑھا۔ پھر اس کے شانے اس کے فولادی ہاتھوں تلے آ گئے۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکا اور یوں گویا ہوا۔

’’گنگوپی نہر بنانے پر تم انعام کی مستحق ہو۔ میں انعام نہیں دوں گا۔ کھر پو چو قلعے کے لئے جو راستہ بنایا ہے، اس کے لئے سزا کی حق دار ہو۔ پر میں سزا نہیں دوں گا۔‘‘

جیسے فضاؤں میں قلانچیں بھرتی لقی کبوتری کے دل پر کسی شکاری کا کوئی تیر لگ جائے اور پل جھپکتے میں وہ پھڑ پھڑا کر زمیں پر گر جائے۔ بس تو ایسا ہی اس وقت ہوا۔ اور اس نے ان فولادی بانہوں میں بس صرف ایک بار آنکھیں کھولیں اور پھر ہمیشہ کے لئے موند لیں۔

٭٭٭







باب نمبر 9





کوئی دروازے پڑ کھڑا تھا۔ فوجی کٹ بالوں والا نو عمر لڑکا جس کے رخسار صحت کی لالی سے دہکتے تھے اور جس کی آنکھیں ہیروں کی طرح چمکتی تھیں۔ وہ کمرے میں بیٹھی سیماں کی بیٹی شیبہ کا فراک کاڑھ رہی تھی۔

عین اسی وقت سیماں ساتھ والے کمرے سے نکل کر چیخی۔

’’ارے طاہر! تم کب آئے، اور ہاں آگے آؤ نا۔ وہاں کیوں کھڑے ہو؟‘‘

’’یہ طاہر ہے۔‘‘ وہ متعارف کرواتے ہوئے بولی۔

’’ان کی امی بڑے بھیا کی بہن بنی ہوئی ہیں۔ ان کے دادا کشمیر سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔ بلتستان کے تمدن پر ایرانیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کا بھی بہت اثر ہے۔‘‘

طاہر معصومانہ انداز میں مسکراتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔

’’میں آپ کو لینے آیا ہوں۔ ایک تو کل دس اسد ہے۔ دوسرے ہمارے ہاں ایک آسٹریلین جوڑا مسٹر شاور اور مسز کیتھی شاور ٹھہرا ہے۔ وہ دونوں کوہ پیما ہیں اور کے۔ ٹو پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘

وہ ہنس پڑی۔ ’’چلو یہ تم نے اچھا کیا جو مجھے لینے آ گئے۔‘‘

واقعہ کربلا کے موسم کی مناسبت سے بلتستان میں شمسی حساب سے ماہ اسد کا پہلا عشرہ شہدائے کربلا کی یاد میں مجالس عزا کے لئے مخصوص ہے۔ یوں تو یکم اسد سے ہی سارے سکر دو میں، عزاداری اور سوز خوانی کی مجالس جاری تھیں۔

اس نے سیاہ چادر اوڑھی اور طاہر کے ساتھ چل پڑی۔ طاہر کا گھر سکمیدان میں تھا خوبانیاں، توت، اخروٹ، بادام اور سیبوں کے درختوں کے پتوں اور پھلوں کو پہچانتی وہ گلیوں میں چلتی گئی۔ لوگ ماتمی لباس میں گھوم پھر رہے تھے۔ مختلف گھروں سے درُود و صلوات پڑھنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سوز خوانی کی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔

طاہر کا گھر چوب کاری کے کام کا خوبصورت نمونہ تھا۔ کشادہ اور روشن کمروں میں دریاں بچھی تھیں۔ گھر کے پچھلی طرف زمین کا وسیع قطعہ جس میں مختلف پھلدار درخت آن بان سے کھڑے تھے۔ انگوروں کی بیلیں دیواروں تک چڑھی ہوئی تھیں اور ان میں ابھی چنے کے دانے جتنا پھل آیا تھا۔ ایک طرف چارے کا کھیت تھا، اور دوسری طرف سبزیوں کی بیلیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ سارا گل و گلزار طاہر کی حسین والدہ کے خوبصورت ہاتھوں کا مرہون منت تھا۔ گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ ہی پہاڑ عمودی صورت میں کھڑے تھے اور اندر نشست گاہ میں قالین پر پھسکڑا مارے مسز کھیتی شاور اور مسٹر شاور یوں سرنہیوڑائے بیٹھے تھے جیسے چوروں اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں لُٹ لُٹا گئے ہوں یا کسی عزیز کو سپرد خاک کر کے آئے ہوں۔

باہر گلی میں دیگوں، کڑچھوں اور لوگوں کی باتوں کا ٹکراؤ تھا۔

وہ کیتھی کے عین سامنے دو زانو ہو کر یوں بیٹھی کہ کیتھی کی کھڑی ناک اور کانچ کی گولیوں جیسی آنکھیں، اس کی مُنی سی ناک اور بھونرا سی آنکھوں سے ٹکرائیں اور دونوں کے ہونٹ مسکراہٹوں کی بارش میں نہا گئے۔

اور واقعہ یہ تھا کہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر نیوزی لینڈ کے ایک منچلے نے اس جوڑے سے کہیں یہ کہہ دیا۔

’’زمین پر اگر جنت کو دیکھنا چاہتے ہو تو شنگریلا میں ایک دو راتیں ضرور گزار لینا وہ دو راتیں زندگی بھر کی آسائشوں کا نعم البدل ہوں گی۔‘‘

اور کیتھی سکر دو ائیر پورٹ پر ہی مچل گئی کہ وہ شنگریلا ہر قیمت پر جائے گی۔ لیکن وہاں پر ایک رات اور آدھے دن کے قیام کے بعد سامان وہیں چھوڑ کر کسی سستے سے ہوٹل کی تلاش میں نکلے۔ چشمہ بازار میں ماڈرن سٹیشنری مارٹ کی دکان پر طاہر اس کا ماموں عباس کاظمی اور روزی خان باتیں کرتے تھے۔ ظاہر کو بے چاروں پر ترس آ گیا، اور وہ انہیں گھر لے آیا۔ ماں نے کہا بھی۔

’’عجیب ہو تم بھی۔ ایک تو عشرہ اسد کی مذہبی تقریبات اوپر سے تم غیر مسلموں کو ہانکے لئے آتے ہو۔‘‘

اور اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’چھوڑو بھی ماں، خیر صلّا سب چلتا ہے۔‘‘

اب وہ عباس کاظمی کی سوزوکی وین میں شنگریلا سے سامان لانے کے لئے چلے گئے۔ طاہر رات کے خیراتی کھانے کے اہتمام میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ البتہ ان کے ساتھ رہی کہ چلو میں بھی جنت کی سیر کر آتی ہوں۔ اگلے جہان کی جنت تو شاید نصیبوں میں نہ ہو۔‘‘

ڈرائیور چھوکرا بہت تیز گاڑی چلاتا تھا۔ ائیر پورٹ سے آگے سڑک دریائے سندھ کے ساتھ شروع ہو گئی۔ کچورہ سکر دو سے کوئی بتیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ راستے میں گندم پکی کھڑی تھی۔ ابھی کٹائی شروع نہیں ہوئی تھی۔

گلگت سکر دو روڈ پیچھے رہ گئی تھی۔ چند موڑ اور کٹے تھے۔ اب وہ وہاں آ کر رُکے تھے جسے دنیا میں جنت کا نام دیا گیا تھا۔

یہاں جھیل کے کنارے پگوڈا ایسے سرخ چھتوں والے نئے نویلے کاٹیج یوں سجے بنے کھڑے تھے جیسے نوخیز لڑکیوں پر زوردار جوانی آئی ہو۔ جھیل کے سبز پانی میں بجرے اور کشتیاں چلتی تھیں ان کشتیوں میں نئے نویلے جوڑے جن کے قہقہے پل بھر کو روکنے مشکل تھے، سیر کرتے تھے۔ پانی میں ٹراؤٹ مچھلیاں ناچتی پھدکتی پھرتی تھیں۔ اس نے کیتھی اور شاور سے کہا تھا کہ وہ واجبات وغیرہ کی ادائیگی سے فارغ ہو کر سوزوکی کے پاس آ جائیں وہ وہیں ہو گی۔

وہ اس وقت تنہائی چاہتی تھی، کیوں؟ اس کیوں کا جواب اس کے پاس تھا پر وہ یہ جواب اپنے آپ کو بھی نہیں دینا چاہتی تھی۔

پھر جہاں للی کے پھول ہنستے تھے وہیں وہ بیٹھ گئی۔ سارے جوڑے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ بس زبیر اور وہ ہی رہ گئے تھے۔ پر یہ یاد کسیلے تمباکو کے کش جیسی تھی جس نے گلے میں اُچھّو لگا دیا تھا۔

چیری کا پھل سے لدا درخت اس کے سر پر تمکنت سے کھڑا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے، ایک نظر درخت پر ڈالی، دوسری نظر زمین پر اور تیسری نظر سامنے پہاڑوں پر جہاں ابرق چمکتی تھی، اور پھر اُس نے خود سے کہا۔

’’چلو، جو ہوا اچھا ہی ہوا۔ ایک دو سال بعد بھی تو اسی صورت نے جنم لینا تھا جینا ہی ہے نا۔‘‘

پھر وہ اُٹھی۔ پژمردگی اور دل گرفتگی جو ایکا ایکی اس پر سوار ہو گئی تھی، اُس نے یوں جھاڑی جیسے کپڑوں پر پڑی گرد اور مٹی کو جھاڑا جاتا ہے۔

چیری کے سرخ پھل نے قیامت ڈھا رکھی تھی۔ خوبانی، آلوچہ اور آلو بخارا کے درخت پھلوں سے جھکے ہوئے تھے۔ لیکن جا بجاDO NOT TOUCH THE FRUIT کی تختیاں لگا کر انہیں اشجار ممنوعہ بنا دیا گیا تھا۔

سامنے ہی وہ ORIENT SKY LINERکھڑا تھا۔ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مر کر سوا لاکھ والی بات تھی۔ پاک بھارت جنگ کا گرا ہوا یہ جہاز، جس کی اعلیٰ پوشش نے اسے عروسی جوڑوں کے ماہ عسل منانے کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ یہاں ایک وقت میں تین جوڑے رہنے کا لطف اُٹھا سکتے تھے۔ جہاز کی سرخ سیڑھیاں اوپر چڑھنے کی دعوت دیتی تھیں۔ لیکن وہ اسے قبول کرنے سے قاصر تھی۔ سو مجبوریاں تھیں۔ بس وہاں کھڑی خالی نظروں سے کام لیتی رہی۔ سکائی لائز کے پاس ہی رنگ رنگیلی کرسیوں پر ملکی اور غیر ملکی لوگ بیٹھے گپیں لگاتے اور چائے پیتے تھے۔

سیب ابھی بلوغت میں داخل ہو رہے تھے۔ پر اٹھان اس غضب کی تھی کہ اس نے بے اختیار سوچا کہ عالم شباب میں پہنچ کر کیا غضب ڈھائیں گے۔ انگوروں کے گُچھے اور آڑو ابھی پکنے کے مرحلے سے کافی دور لگتے تھے۔ جھیل کے اندر پگوڈار ریسٹورنٹ میں کھانے کا اہتمام ہوتا تھا۔ دروازہ بند تھا اور اس پر لگی پیتل کی تختی پر صبح دوپہر اور شام کے کھانے کے اوقات درج تھے۔ اس نے دو پل وہاں ٹھہر کر تصور میں ان نظاروں سے محظوظ ہوتے ہوئے کھانے کا لطف اُٹھایا اور روک لاؤنج میں داخل ہو گئی۔ یہاں ایک دیو ہیکل پتھر کو شیشے کی دیواروں میں مقید کیا ہوا تھا۔ اس کی چوٹی پر ابرق چمکتی تھی اور چشمے پھوٹتے تھے۔ فرش پر مار خور بکرے کی کھال بچھی ہوئی تھی، اور دیوار پر حنوط شدہ ریچھ کا سر اور دھڑ لٹکا ہوا دعوت خوف دیتا تھا۔

گاڑی میں بیٹھ کر وہ بولی۔

’’اب آئے ہیں، چلو نا کچورہ جھیل بھی دیکھتے چلیں۔‘‘

دونوں نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔

کچورہ جھیل خوب صورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔ یہ سد پارہ جھیل سے چھوٹی اور کم گہری ہے۔ کناروں پر اُگی سبز گھاس میں جھیل کا ہلکورے لیتا سبز پانی کسی نازنین کی آنکھوں میں انگڑائیاں لیتے خوابوں کی مانند تھا۔ جھیل کے کنارے پی۔ ٹی۔ ڈی۔ سی کا بنا ہوا ایک ریسٹ ہاؤس بھی ہے۔

اس وقت شام ہو رہی تھی اور جھیل کے کنارے پر صرف ایک جوڑا بیٹھا تھا۔ لڑکی شکل و صورت اور لباس سے سو فیصد پاکستانی اور لڑکا اسی ڈھب سے سو فیصد غیر ملکی نظر آتا تھا۔ اس نے بہتیرا چاہا کہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے زرّیں اصول پر کاربند رہے۔ پر کبھی کبھی اندر کی کمینگی نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔ تب بھی یہی ہوا۔ قریب جا کر پوچھ ہی بیٹھی اور سرکے عین بیچوں بیچ خالصہ سٹائل والے جوڑے والی نے اسے تیکھی نظروں سے گھور کر کہا۔

’’میں تو پاکستانی ہوں اور یہ آسٹریا سے ہے۔ کلاس فیلو ہیں ہم دونوں۔‘‘

اسے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ کیتھی اور شاور لڑکے سے باتیں کرنے لگے۔ پر ان دونوں کو بھی جلد ہی احساس ہو گیا کہ وہ اپنی تنہائی میں مداخلت کرنے والوں کو کچھ ایسا نہیں سمجھ رہے ہیں۔ تینوں واپسی کے لئے چلے۔ اس کا جی ریسٹ ہاؤس کے کنارے بیٹھ کر چائے کا ایک کپ پینے کو چاہ رہا تھا۔ لیکن اس وقت تو اس کے پاس پائی بھی نہیں تھی۔

اور یہ بھی بس حسن اتفاق ہی تھا کہ جب وہ ابھی ایک ڈیڑھ فرلانگ چلے ہوں گے، اُس نے روح اللہ کی جیپ دیکھی۔ وہ یقیناً اس وقت ڈیوٹی پر کچورہ میں اس پاور ہاؤس کا معائنہ کرنے آیا ہو گا۔ جو کچورہ گاؤں اور شنگریلا ریسٹورنٹ کو بجلی سپلائی کرتا ہے۔

وہ ہنسا اور کھڑکی میں سے سر نکال کر بولا۔

’’تو آپ یہاں پہنچی ہوئی ہیں۔‘‘

وہ بھی ہنسی اور بولی۔

’’تم تو فرشتے کی طرح مدد کے لئے آ گئے ہو۔ مجھے کہیں سے چائے پلاؤ۔ سر پھٹا جا رہا ہے۔‘‘

اور اُس نے بلتی زبان میں ڈرائیور چھوکرے سے کچھ کہا۔

پھر آگے پیچھے دونوں جیپیں پاور ہاؤس پر آ گئیں۔ مشینیں زور شور سے کام میں مصروف تھیں۔ اوپر کوہل سے پانی شراٹے مارتا نیچے آ رہا تھا۔ نیچے کچورہ کا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ ملازم لڑکا چائے بنانے لگا تھا۔

روح اللہ اندر پاور ہاؤس میں چلا گیا۔ کیتھی اور شاور بھی مشینوں کی کار کردگی کا جائزہ لینے لگے۔ بس وہ وہاں بیٹھی پہاڑوں اور کچورہ کے جنگل کو دیکھتی رہی۔ درختوں پر عنبری سیب لٹک رہے تھے۔

’’کچورہ کے عنبری سیب ذائقے، خوشبو، رنگت اور سائز کے اعتبار سے پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔‘‘

روح اللہ اُس کے قریب آ کر بولا۔

’’چھوڑو روح اللہ مت بتاؤ مجھے یہ سب۔ میرے لئے تو ابھی انگور کھٹے ہیں۔‘‘

واپسی پر آتے آتے روح اللہ انہیں فرق ژھو جھیل بھی دکھانے لے گیا۔ یہ بھی کچورہ کے علاقے میں ہی تھی۔ اس کے تین طرف پہاڑ اور ایک طرف قدرتی طور پر بند بندھا ہوا ہے۔ لیکن اس جھیل کے پانی سے علاقے کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ یہ آبادی کی سطح سے کافی نیچے واقع ہے۔ یوں یہ جھیل ایک خوبصورت تفریح گاہ ضرور ہے۔

٭٭٭







باب نمبر 10





لمبے چوڑے غائبانہ تعارف کی تو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بس دو جملے ہی کافی تھے۔ ایک تو یہ گھر والی سے بچہ نہ ہونے کے باوجود پیار نہیں عشق کرتا ہے، اور دوسرا ایسا جیالا ایسا شہ زور اور ایسا دلیر تھا کہ ڈوگرہ راج کے خلاف سرکشی پر اُتر آیا تھا۔ کھلے عام بغاوت کر کے سکر دو بھاگ آیا اور بلتستان کی جنگ آزادی میں جی جان سے لڑا۔

پر سیماں تھی کہ بولے چلی جا رہی تھی۔ سکسہ چھور بٹ میں دادی جواری کا ہمسایہ ہے۔ مگر عزیزوں سے بڑھ کر ہے۔ بچوں سے بہت پیار کرتا ہے۔ لڑ لگنے والی کی گود خالی ہونے کے باوجود دوسرا بیاہ نہیں رچایا۔

’’سیماں میری جان اس سلور گرے بالوں والے معمر مرد کے لئے جو ابھی رات سکسہ سے آیا ہے اور اس وقت تمہاری نشست گاہ میں بیٹھا دادی جواری اور ڈاکٹر سیف اللہ سے باتیں کرتا ہے، اس کے لئے بھلا تم کیوں ہلکان ہوئی جاتی ہو۔ بندہ تو اپنے منہ سے آپ بولتا ہے۔ آؤ چلو! ناشتہ کریں۔ مجھے زور کی بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

اُس نے سیماں کا ہاتھ پکڑ کر اسے کچن کی طرف گھسیٹ لیا تھا، اور جب وہ کھا پی کر فارغ ہو گئی۔ تب اُٹھی اور نشست گاہ میں اس کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئی۔ تعارف شاید دادی جواری پہلے ہی کروا بیٹھی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے محبت بھرا ہاتھ اس کے شانے پر رکھا تھا اور شفقت بھری آواز میں بولا تھا۔

’’میں پنجاب کے مشہور شہر سیالکوٹ میں چار سال رہا ہوں۔ اس وقت جب ابھی پاکستان نہیں بنا تھا۔‘‘

’’کچھ اُس دور کی باتیں سنائیے نا جب بلتستان پر ڈوگرہ راج تھا۔ جب اُس نے اپنی جنگ آزادی لڑی۔‘‘

وہ ہنس پڑا۔ ہنسنے میں اُس کے دانت نمایاں ہوئے تھے جو اِس عمر میں میں بھی موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔

’’میں نہیں جانتا میری بچی! کہ تم اس امر سے آگاہ ہو یا لاعلم کہ بلتستان کے غیور عوام نے بغیر کسی فوجی تربیت کے، بغیر سامان حرب کے اور بغیر کسی بیرونی امداد کے صرف اور صرف اپنے جذبہ ایمانی پر ڈوگرہ فوج سے آزادی حاصل کی۔ ان کے کارنامے ان سینکڑوں محیر العقل شجاعت کے کارناموں سے کسی طرح کم نہیں، جو تم نے تاریخی کتابوں میں پڑھے ہوں گے۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ یہ کارنامے بلند و بالا پہاڑوں کی اوٹ میں انجام دیئے گئے اور انہیں پبلسٹی نہیں ملی۔ میری بچی! شاید تمہیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم لوگوں نے صرف اسلام سے محبت کی بناء پر غیر مشروط طور پر پاکستان کی مملکت میں شمولیت کی۔‘‘

اس نے صوفے کی سیٹ پر پھیلا اس کا بوڑھا ہاتھ جس کی پھولی رگیں گھنے بالوں میں چھپ سی گئی تھیں، اپنے ہاتھوں میں تھاما، اسے چوما اور کہا۔

’’اُن جذبوں کو ہمارا سلام ہے۔‘‘

اور اُس نے محبت و شفقت سے اش کا سر تھپتھپایا اور بولا۔

’’میں گنگوپی محلہ میں راجہ صاحب کے گھر کی طرف جا رہا ہوں۔ تم اگر میرے ساتھ چلو تو میں تمہیں وہ جگہ دکھاؤں گا۔ جہاں سے قلعہ کھر پوچو تک پہنچنے کے لئے سرنگ کھودی گئی تھی۔ وہ فوراً کھڑی ہو گئی۔ اندھے کو کیا چاہیے تھا، دو آنکھیں۔‘‘

جوتے پہن کر غلام حیدر کے ساتھ باہر نکلنے لگی تو سیماں عقب سے چلائی۔

’’کمبخت میں تیرے لئے مرغی روسٹ کرنے والی تھی اور تو بھاگی جا رہی ہے۔ عجیب پھراوندو ہے تو بھی۔‘‘

اور اس نے شوخی سے سیماں کو گھورتے ہوئے رک کر کہا۔

’’میرا حصہ اپنے نئے وارد ہونے والے منے کو کھلانا۔‘‘

گنگوپی نہر کو دیکھ کر اسے سیماں کی بات یاد آئی کہ منوں وزنی پتھر اُٹھانے والے لوگ نکمّے اور نا اہل تھے، تو اہل لوگ کیسے ہوں گے؟

راجہ سکردنو کا پرانا محل گو ابھی کھنڈر نہیں بنا تھا پر پندرہ بیس برسوں میں کھنڈر بننے کی سو فیصد توقع ہے۔ نئی عمارت کے سامنے درخت کی گھنی چھاؤں تلے راجہ سکر دو کھڑا تھا۔ یوں جیسے سورج دیوتا کھڑا ہو۔ اُردو کے شعراء نے انسانی حسن و خوبصورتی سے متعلق ساری تشبیہیں اوراستعارے صرف صنف نازک کے لئے ہی مخصوص کر دئیے ہیں اور صنف طاقت ور کو صرف وجیہہ پر ہی ٹرخایا جاتا ہے۔

پر اس وقت اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ حسن اور جوانی کے اس مجسمے کو کیا نام دے جو درخت کے نیچے کھڑا لشکارے مارتا تھا۔

غلام حیدر نے مصافحہ کیا۔ احوال پرسی کی۔ اس کا تعارف کروایا اور چائے کی پیش کش سے معذرت کرتے ہوئے دائیں طرف مڑ گیا۔ پھر ایک جگہ رکا اور بولا۔

یہ ہے وہ تاریخی جگہ جہاں سے سرنگ کھودی گئی۔

پھر غلام حیدر ایک صاف ستھری جگہ پر اخروٹ کے پھیلے ہوئے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گیا تھا۔ وہ بھی پاس ہی پڑے ایک چھوٹے سے پتھر پر ٹک گئی۔

’’در اصل جب برصغیر میں مسلمان پاکستان کے لئے جد و جہد کر رہے تھے۔ اس وقت جموں میں میجر محمد دین، کیپٹن حسن (مرحوم کرنل مرزا حسن)، میجر احسان علی اور مہاراجہ کی فوج کے بعض مسلمان افسروں نے ایک خفیہ میٹنگ میں طے کیا تھا کہ وہ جہاں جہاں تعینات ہو جائیں وہاں کا مسلح بغاوت کے ذریعے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جائے گا۔

اسی وقت محمد یوسف وہاں سے گزرا، غلام حیدر کو بیٹھے دیکھ کر حیرت زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوسی سے بھی چلایا۔

’’ کمال ہے یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘

’’میرے دوست کا بیٹا ہے اور ان دنوں کی پیداوار ہے جب سکر دو میں مارٹر، مشین گن، برین گن اور رائفلوں کی آوازوں کے سوا کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ یہ ذہین نوجوان اب کتابیں لکھتا ہے۔‘‘

محمد یوسف حمید گڑھ جا رہا تھا۔ وہ انہیں بھی اپنے ساتھ گھسیٹ کر لے گیا۔

ایک بڑی سی عمارت کے پاس پہنچ کر محمد یوسف بولا۔

’’یہاں وزیر وزارت (ڈپٹی کمشنر) لالہ امر ناتھ کو گولی مار کر جہنم رسید کیا گیا تھا۔ بڑی دلچسپ تفصیل ہے۔ اس وقت منصوبے کے مطابق مجاہدین نے چھاؤنی میں فائرنگ شروع کر دی تھی۔ جمعدار رحیم دادا اپنی پلاٹون کے ساتھ حمید گڑھ کی طرف روانہ ہوا کہ خزانے کی کنڈیاں توڑ کر رقوم سکمیدان پہنچائی جائیں۔ خزانے کو توڑ لیا گیا۔ جب دفعتاً وزیر وزارت لالہ امر ناتھ اپنی رہائش گاہ سے خزانے کی طرف آیا۔ اس وقت سپاہی سرفراز خان خزانے کے سامنے دروازے پر پہرہ دیتا تھا۔ امر ناتھ نے پوچھا۔ ’’یہ نیچے چھاؤنی کی طرف سے فائرنگ کی آواز کیسی آ رہی ہے؟‘‘ سرفراز خان نے نہایت ہوشیاری سے فی الفور جواب دیا۔

’’صاحب کل شام جو نئی نفری کرگل سے پہنچی ہے، وہ اپنے ہتھیاروں کی صفائی کے بعد انہیں ٹیسٹ کر رہی ہے۔‘‘

امر ناتھ بحث پر اُتر آیا تھا۔ سرفراز خان جواب پر جواب دئیے جا رہا تھا۔ جب اچانک اُسے شک گزرا۔ اُس نے پستول نکالا۔ فائرنگ کرنے ہی لگا تھا۔ جب سرفراز خان پیچھے کی طرف جھپٹا اور اسے گردن سے دبوچ کر گھسیٹا ہوا سٹرانگ روم میں لے گیا۔ اسی کے پستول سے پل بھر میں اس کا کام تمام کر دیا۔

حمید گڑھ میں محمد یوسف کی بہن کے گھر کھانا کھاتے ہوئے، غلام حیدر نے کہا۔

’’میری بیٹی! میں تمہیں اس بلتستان کی ایک جھلک ضرور دکھاؤں گا، جو ڈوگرہ راج میں تھا۔‘‘

٭٭٭




باب نمبر11





حماقت تھی اس کی جب مر چھا آنا ہی تھا تو زخ (مشکوں اور لکڑی کے ڈنڈوں سے بنی ہوئی کشتی) میں آ جاتا۔ اب ہلچو کزم( توت کے درختوں کی جڑوں کے چھلکے سے بنی ہوئی رسیوں کا پل)کے رسے پر چلتے ہوئے آدمی پریشان کن سوچوں میں گھرا ہو تو نیچے دریائے شیوق کے یخ پانیوں میں گرتے کیا دیر لگتی ہے ان دنوں سلتورہ کی برفانی چوٹیوں سے یخ نالوں میں بہنے لگی تھی اور شیوق کا پاٹ چوڑا ہو رہا تھا۔

وادی سکسہ کا غلام حیدر تین سال قبل کشمیر کے راستے مغربی پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں مزدوری کرنے آیا ہوا تھا۔ گو کہ برصغیر کے حالات مخدوش تھے۔ محنت مزدوری میں پیسہ کم تھا۔ پھر بھی اس نے جی جان سے محنت کی۔ ان دنوں سیالکوٹ کے پاکستان میں شامل ہونے کا بھی شور تھا۔ مسلمان ہونے کے ناطے اس کی ساری ہمدردیاں اس نئے دیس کے ساتھ تھیں۔ جب وہ دن بھر کی کڑی مشقت کے بعد سونے کے لئی لیٹتا تو ایک سوال اپنے آپ سے ضرور کرتا۔

’’کیا میرا بلتستان پاکستان میں شامل ہو سکے گا؟ یا اللہ! میرے بلتستان کو بھی ڈوگرہ غلامی سے نجات دے۔‘‘

یہ دعائیہ جملے کہہ کر وہ فی الفور اپنی آنکھیں بند کر لیتا۔

ان تین چار سالوں میں اسے کل پانچ خط ملے۔ پہلے خط میں اس کی اکلوتی بہن کی بیوگی کی اطلاع تھی۔ اس کے باپ نے لکھا تھا۔ زینب کو ان لوگوں نے میکے بھیج دیا ہے۔ اس کے خاوند نے اس کے لئے کوئی وصیت ہی نہیں لکھی تھی۔

دوسرے سال دوسرے خط میں سلتورہ گلیشیئر کے تودے ٹوٹ کر شیوق میں گرنے سے ان کے کھیت اور وادی کا کچھ حصہ بہہ جانے کی خبر تھی۔ اس نے یہ لکھا تھا۔ میرا خیال تھا میں اس بار کنگنی، ترمبہ اور چینا بوؤں گا۔ زینب نے میرا ارادہ جان کر کہا بھی۔

’’چھوڑو ابا! کنگی اور ترمبہ کو کیا بوتے ہو۔ ایسی بد ذائقہ روٹی ہوتی ہے ان کی۔‘‘

پر میں تو ڈھیر سارا اناج اُگانے کے منصوبوں میں غرق تھا۔ بیج بھی ڈال دیا تھا پر نہیں جانتا تھا کہ یہ پانچ کھیت بہہ جائیں گے۔ پر بچہ یہ نقصان تو ہوا۔ اب تمہیں اس کے متعلق کیا لکھوں کہ اوپر والے وہ چار کھیت جسے تم نے اور میں نے جان مار کر آباد کیا تھا اور ان کے انتقال کے لئے پٹواری کو بھی رپورٹ کر رکھی تھی۔ پر اس کی حرامزدگی تو دیکھو، اس نے اعتراض لگا دیا کہ زمین کو نو توڑ کئے جانے سے پہلے اجازت کیوں نہیں ملی۔ زمینی انتقال کی ساری تاریخ میں ایسے اعتراض کی ایک مثال نہیں ملی۔ پر بچہ انہیں کون کہے۔ ستم یہ کہ نقد مالیہ اور جنس لگان بھی ہمارے ذمہ لگا دی۔

اوپر سے راجہ کے خدمت گار اپنا لگان وصول کرنے آ گئے۔ ابھی ان مصائب سے کمر سیدھی نہ کرنے پایا تھا کہ کنگ سکن (نائب نمبر دار) کا پیغام آیا کہ تحصیلدار (نائب وزیر) لداخ سے آتا ہے۔ ’’پیون‘‘ پڑاؤ پر جانا ہے حکم حاکم مرگ مفاجات والا معاملہ تھا سمجھ نہیں آتی تھی، کہ تھب ستد (باورچی کا نذرانہ) کے لئے کیا پیش کروں گا۔ بچہ ’’ بیگار سسٹم‘‘ بلتی قوم کے نحیف و نزار جسم پر وہ جونک بن کر چمٹ گئی ہے جو اس کا رہا سہا خون پی پی کر کپا ہوئی جاتی ہے۔

ہاں علی حسین کے کھیت بھی بہہ گئے ہیں۔ وہ بھی میری طرح پریشانیوں کی چکی میں پس رہا ہے۔ بلکہ یہ کہوں کہ پچاس کے پچاس کرائے کے ٹٹو ایسی ہی مجبوریوں سے دو چار تھے، غلط نہیں۔ بس تو اس دن میں نے سوچا کہ میں ہل چنگرا (چوپال جا کر کہے دیتا ہوں کہ یا تو مجھے آدھا کھل (۲من ۲۰ سیر یعنی ۱۰ ٹوپے ) دیں کہ میرے تھب ستد (باورچی کا نذرانہ) کا بندوبست ہو سکے یا پھر میرا نام کاٹ دیا جائے۔ جب میں نے ہل چنگرا (چوپال) اس کا اعلان کیا۔ سرپنج مجھے کھانے کو دوڑا۔

میں نے گائے کھونٹے سے باندھی اور پڑاؤ پر پہنچا۔ اس دن شام بہت جلدی ہو گئی تھی۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ گھر میں زینب اس کے بچوں اور تمہاری ماں کے لئے گندم یا چاول یا ترمبہ کا ایک ٹوپہ تک نہ تھا۔ صبح زینب نے بچوں کو خشک خوبانیوں کا رس پلایا۔ تو انہوں نے کہا۔

’’ماں تم اب کتنے دن ہمیں یہی پلاتی رہو گی۔‘‘ اور زینب نے پلّو سے آنکھیں پونچھ کر کہا۔

’’میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ جو نصیب میں ہے بھگتنا ہو گا۔‘‘

بس ایک بکری تھی جو دودھ دیتی تھی چاہے وہ اس کا دودھ پئیں اور چاہے اس کا گوشت کھائیں۔ اب یہ ان کی مرضی تھی۔ مجھے تو چالیس دن پڑاؤ پر رہنا تھا۔

’’یہ گوتب (کاشت کا پہلا وقت) کے دن تھے، اور میں گھر سے غائب ہو رہا تھا۔ تم شاید میرے جذبات کا اندازہ نہ لگا سکو۔ کتنا یاد آئے تھے تم مجھے۔‘‘

میں نے پڑاؤ پر پہنچ کر کنگ سکن (نائب نمبردار) کو بتایا کہ میرے پاس خشک تھب ستد (باورچی خانہ) نہیں ہے۔ اس نے زوردار لات میرے کولہے پر ماری اور ناک چڑھا کر بولا۔

’’نہیں ہے تو میں کیا تیری بوٹیاں انہیں کھلاؤں گا۔‘‘

نوٹ:

بلتستان کے طول و عرض میں ہر پڑاؤ پر اُسی کے گرد و نواح کے دیہاتوں میں سے پچاس قلی اور پانچ گھوڑے ہمہ وقت حاضر رکھے جاتے تھے۔ یہ سرکاری مہمانوں کے لئے تھا۔ کہ ایک پڑاؤ سے انہیں دوسرے پڑاؤ تک پہنچایا جائے۔ ہر گھرانے کو سال میں چالیس روز تک پڑاؤ ’’بیگار‘‘ کی ڈیوٹی دینی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے کھانے پینے کا اہتمام بھی اپنی گرہ سے کرنا پڑتا تھا۔

اور اس نے پھر کارندوں کو حکم دیا کہ میرے گھر جا کر گائے کھول لائیں اور وہ اکلوتی گائے جس میں میری جان پھنسی ہوئی تھی، وہ لوگ لے گئے۔ میری آنکھوں کے سامنے اس کا سودا ہوا اور وہ اونے پونے بکی تحصیل دار کی بارہ من پکے بوجھ والی بیوی، اس کے موٹے موٹے بچے اور دو کتے پالکیوں میں بیٹھے اُٹھائے نہیں جاتے تھے۔ لگتا تھا جیسے پالکیاں ان کے بوجھ سے ٹوٹ جائیں گی۔ غم نے مجھے ادھ موا کر دیا تھا۔ جی چاہتا تھا پالکی کسی کنکر کی مانند ہوا میں اُچھال دوں۔ جو بل کھاتی، ہوا کے دوش پر لہراتی، دریائے شیوق میں گرے اور یہ بھاری بھر کم وجود کہیں کنارے پر بتیسی نکالے پڑا ہو۔

پر بچہ تصورات کا کیا ہے۔ تصورات میں تو میں اپنے بلتستان کو اسی عروج پر دیکھتا ہوں جس پر یہ کبھی تھا۔ اس کا وہ ترقی یافتہ تہذیب و تمدن، جس پر یہ نازاں تھا۔ اس کی فوجیں جو یلغار کرتی ہوئی تبت اصلی سے ہندوکش کے پار تک چلی گئی تھیں۔ یہ میرا بلتستان جس کی عظمت نے مغلیہ شاہوں کو بھی اس کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یوں کہ اکبر اعظم اپنے بیٹے سلیم کے لئے پہلی ملکہ کا انتخاب بلتی شاہی خاندان سے کرتا ہے۔

ارے بیٹے! میرا جی چاہتا ہے میں صور اسرافیل بن جاؤں اور ہر بلتی ماں کے کانوں میں یہ پھونک دوں کہ وہ ایک اور علی شیر خان انچن جن دے۔ صرف ایک اور علی شیر خان انچن جو اس طوق کو ہمارے گلوں سے اُتار پھینکے کہ اس نے سارے سریر میں کوڑھ پھیلا دیا ہے۔

اور جس دن غلام حیدر کو یہ خط ملا تھا وہ تکیے میں منہ دے کر بہت رویا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ صبح کے روشن ستارے کی طرح سکینہ خط میں سے نکل کر اس کے سامنے نہیں بیٹھی تھی۔ وہ روتا رہا۔ پھر اس نے آنسو پونچھے اور اپنے آپ سے کہا۔

مسلمان قوم کبھی غداروں سے پاک نہیں ہو گی۔ بنگال ہو یا غرناطہ، میسور ہو یا بلتستان، اب بھلا مقپون شہزادے محمد خان اور شیر خان باہم مل کر اس قوم کی غیرت کا دیوالیہ نکالنے کے درپے نہ ہوتے تو کئی بلتیوں کو غلامی کی زنجیریں پہنا سکتا تھا۔ ڈوگرہ وزیر زور آور سنگھ چے چے تھنگ آ کر رک گیا تھا۔ دریا پار کرنے کی کوئی سبیل نہیں تھی۔ چے چے تھنگ کے بالمقابل ونگو اور تھمو خان میں بلتی فوج کے مورچے تھے۔ سردی زوروں پر تھی۔ شیر خان غدار نے دریا کے بیچوں بیچ بلیاں پھنسوائیں۔ بہہ کر آنے والے یخ کے ٹکڑے رک گئے اور ڈوگرہ فوج دندناتی سر پر پہنچ گئی۔

بس اس طرح سکر دو کے کھر پوچو قلعے پر قبضہ ہو گیا۔ مقپون خاندان کے آخری بادشاہ، احمد شاہ سے اسی بدبخت شیر خان نے قسم کھا کر کہا۔ زور آور سنگھ کا اس ملک پر قبضہ جمانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ وہ تو تمہارے بیٹے کی تم سے صلح کروانے آیا تھا۔

بس تو اتنی سی بات تھی قسم پر اعتبار کیا اور ملک گنوا بیٹھا۔

اور جب وہ اُٹھا، وہ ایک بار پھر اپنے آپ سے بولا تھا۔

’’ جب حاکم کمزور ہو جائیں تو غدار پیدا ہوتے ہیں اور وہ ملک کی قسمت کو محض اور محض اپنے مفاد کے لئے داؤ پر لگاتے ہیں۔‘‘

چوتھا خط سکینہ کے بارے میں تھا۔ اس کا باپ مر گیا تھا۔

اور جب چار سال پورے ہونے میں کوئی دس دن باقی تھے، وہ دیس آ گیا تھا۔

کل کوئی گیارہ بجے پہنچا تھا۔ ہل چنگرام میں سارا گاؤں اکٹھا ہو گیا تھا۔ اس نے جوش و خروش سے بر صغیر کی صورت حال کے بارے میں بتایا۔

پاکستان بس انشاء اللہ ایک دو ماہ میں وجود میں آنے والا ہے۔ اس کی اس بات پر لوگوں کے چہرے خوشی سے کھل گئے تھے۔

پر اس خوشی کا چہرہ ماند پڑ گیا تھا۔ جب انہوں نے سکھوں اور ہندوؤں کے ہاتھوں نہتے بے گناہ مسلمانوں پر ظلم و ستم سنے۔

خدا انہیں غارت کرے۔ خدا مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

ڈیڑھ بجے ’’مرچھا‘‘ کے لئے چلا۔ اسے سکینہ سے ملنے کی بہت جلدی تھی۔

٭٭٭







باب نمبر 12



پتھروں کے تین پائیدان چڑھ کر وہ انگنائی میں داخل ہوا تھا کچے آنگن کے مشرقی کونے میں بید مجنوں کی ٹہنیوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ انگنائی کے ساتھ ہی دھوئیں کی سیاہی سے لپا پتا باورچی خانہ جس کی غربی دیوار پر منجھے ہوئے سلور کے برتنوں کی چھوٹی سے قطار تھی۔ وہ اب دہلیز پر کھڑا تھا۔ چھوٹے سے کمرے میں بچھی چٹائی پر سکینہ کی ماں ظہر کی نماز پڑھتی تھی۔ اس نے سلام پھیرا اور دروازے میں اسے کھڑے دیکھا۔ وہ آگے بڑھا۔ جھکا دولت بی بی نے اس کا ہاتھ چوما اور اپنے پاس چٹائی پر بٹھا لیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ قریبی پہاڑ پر جا رہا تھا۔ جہاں سکینہ بھیڑ بکریوں کو چرانے گئی ہوئی تھی۔ سکینہ وادی مرچھا میں صبح کے ستارے کی مانند چمکتی تھی۔ غلام حیدر اوپر جا کر بہت دیر تک اِدھر اُدھر دیکھتا رہا یہاں پانی تھا۔ گندم کے بوٹوں نے سرنکال رکھے تھے۔ سبزہ پھوٹا ہوا تھا۔ سارے میں ہریالی کا راج تھا۔

بکریاں کھیتوں کی طرف آ گئی تھیں۔ جنہیں ہٹانے کے لئے سکینہ یک دم بغلی پہاڑ سے برآمد ہوئی اور اسے سامنے کھڑے پا کر مبہوت سی ہو گئی۔ وہ واقعی غلام حیدر ہے یا اس کا کوئی ہیولا۔

اور جب اس کا وہم یقین میں بدلا تب اس کے ہونٹوں پر بڑی دلکش سی ہنسی پیدا ہوئی۔ اس نے سر جھکایا اور انگوٹھے کے ناخنوں سے زمین کھرچتے ہوئے بولی۔

’’ مجھے یقین نہیں آتا یہ حقیقت ہے یا وہ خواب جو میں ہر روز دیکھتی ہوں۔‘‘

آسمان کا سورج عین اس کے ماتھے پر چمک رہا تھا اور زمین کا سورج عین اس کی آنکھوں میں روشنیاں بکھیر رہا تھا۔

زمین کا سورج آگے بڑھا۔ اس کے شانوں پر اس نے اپنے ہاتھ رکھے اور بولا۔

’’ہاں یہ میں ہوں۔ تمہارا غلام حیدر کیا بیٹھنے کے لئے نہیں کہو گی؟‘‘

اور جب وہ دونوں ایک جھاڑی کے پاس بیٹھ گئے تو سکینہ نے پوچھا تھا۔

’’کہو کیسے رہے، نیچے کے لوگوں کا کیا حال تھا؟‘‘

اس نے بالکل اپنے پاس پھیلی چھر چھو (کانٹے دار جھاڑی) کو بغور دیکھا اور بولا۔

’’نیچے حالات خراب ہیں۔ ہندوؤں مسلمانوں اور سکھوں میں دنگا فساد ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے اپنا الگ وطن پاکستان بنا لیا ہے۔‘‘

’’پاکستان‘‘۔ سکینہ نے کہا۔

’’ ہمیں بھی اس کا فائدہ ہو گا۔‘‘

’’فائدہ۔‘‘

غلام حیدر نے اس کی خوبصورت آنکھوں میں یوں جھانکا جیسے کوئی دانا کسی احمق کی آنکھوں میں جھانکتا ہے۔

’’ہم بھی آزاد ہوں گے۔ پاکستان ہمارا بھی وطن ہو گا۔‘‘

’’ہاں تو سکینہ مجھے بتاؤ گی کہ تم نے مجھے کتنا یاد کیا؟‘‘

اور سکینہ کی آنکھوں میں فوراً نمی اُتر آئی۔ اس نے نیلے نکھرے روشن آسمان کو دیکھا۔ چاکلیٹی پہاڑوں پر اس کی نظریں تیرتی پھریں۔ پھر وہ غلام حیدر کی طرف مڑی۔ اس کا شہابی چہرہ اور شہابی ہو گیا تھا۔ جب اس نے کہا۔

’’ یہ بتانا کس قدر مشکل ہے مجھے لکھنا نہیں آتا تھا ورنہ تمہیں ضرور لکھتی مجھے تو گانا آتا ہے اور میں گاتی تھی یہیں اِن جگہوں پر ان ہی پہاڑوں پر میری آواز گونجتی تھی یہی میرا دُکھ درد سنتے تھے۔‘‘

’’سکینہ مجھے وہ گیت نہیں سناؤ گی؟‘‘

چولی چن لہ گوانا منگمو سے سمنے یود

نی رے چی بیور چن مید پنا چولی جیسم شید

تورے خان چو

ترجمہ: میں جب خوبانی کے باغ میں گئی تو (دیکھا) بہت ساری خوبانیاں پکی ہوئی ہیں۔ میرے گھبرو کے نہ ہونے سے یہ خوبانیاں بے ذائقہ لگتی ہیں۔

اے حیدر خان!

میں جب گلاب کے باغ میں گئی تو (دیکھا) بہت سارے گلاب کھلے ہوئے ہیں۔ میرے گھبرو کے نہ ہونے سے یہ گلاب بد رنگ لگتے ہیں۔

اے حیدر خان راجہ۔

سکینہ تم اس راجہ حیدر خان کو جانتی ہو جس کے لئے کوئی یہ گیت گاتا ہے۔

وہ ذرا ہنسی اور بولی۔

’’کوئی ہو گا پر میں تو یہ جانتی ہوں کہ کسی نے شاید یہ گیت میرے لئے اور صرف میرے لئے اور صرف میرے لئے ہی کہا ہے۔‘‘

اور غلام حیدر نے اپنے ہاتھوں کے پیالے میں اس کا سیندوری چہرہ تھاما۔ اس کی آنکھوں میں جھانکا اور بولا۔

’’اے کاش! ایسا کوئی گیت تم میرے لئے بھی کہو اور وہ گیت تمہارے ہونٹوں سے پھسلتا لوگوں کی زبانوں پر آ جائے۔ سکینہ یہ گیت تو اس دل کی پکار تھی۔ جسے حیدر خان اماچہ راجہ شگر سے پیار تھا۔ عشق تھا۔ یہ گیت تو ایک نوحہ ہے جس میں اس کی سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی ہیں۔‘‘

حیدر خان اماچہ بلتستان کا وہ مایہ ناز بیٹا، جس پر بلتی قوم کو فخر ہے۔ اس کا دم گھٹتا تھا۔ جب وہ اپنی قوم کو ڈوگرہ غلامی میں دیکھتا تھا۔ اس کا خون کھولتا تھا کہ ہر سو غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا راج تھا۔ اس کی محبوبہ تمہاری ہی طرح تھی۔ نوخیز کلی جو ابھی پوری طرح کھِلی بھی نہ تھی۔ اسے پیار تھا حیدر خان سے۔ اسے عشق تھا اس کی شہ زوری سے۔ اس کی آنکھوں کے جگنو اسے دیکھ کر ٹمٹماتے تھے۔ اس کے رخسار اسے اپنے سامنے پا کر دہک اُٹھتے تھے۔ پر یہ کیسا پیار تھا؟ جس کی زبان نہیں تھی؟ یہ کیسی آگ تھی جس میں حرارت نہیں تھی؟

حیدر خان تو تن من دھن قوم کے لئے وقت کئے بیٹھا تھا۔ اسے کہاں فرصت تھی کہ وہ دیکھتا کہ کسی کی خاموش آنکھیں اسے کوئی پیغام دیتی ہیں۔ اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں صرف ایک خواب جھلملاتا تھا، جو آزادی کا تھا۔

اس کے شب و روز کاظم بیگ راجہ سکر دو، علی خان راجہ روندو اور خورم خان راجہ کیریس کے ساتھ صلاح مشوروں میں گزرتے۔ وہ آندھی کی طرح محل میں داخل ہوتا اور بگولا بن کر نکل جاتا۔

یہ ۱۸۴۲ء کا آغاز تھا۔ جب اس نے زوردار جنگ لڑی اور غلامی کے اس طوق کو اُتار پھینکا۔ درختوں پر شگوفے مسکرائے ہی تھے۔ پہاڑوں کی برف نے تشکر کے آنسو بہا نے شروع کئے تھے۔ بلتستان کے لوگوں نے سجدہ شکر سے سر ابھی اُٹھایا ہی تھا کہ قیامت پھر ٹوٹ پڑی۔

یہ وہ دن تھے جب پوریگ اور لداخ میں بھی آزادی کی جد و جہد عروج پر تھی۔ اس بار مہاراجہ گلاب سنگھ نے دیوان ہری چند کو تین ہزار فوجیوں کے ساتھ بلتستان بھیجا اور وہ، ننگ دین اور ننگ ملت شیر خان غداری کے لئے پھر تیار تھا اس غدار نے دیوسائی چور دروازوں سے فوج کو سکر دو میں داخل ہونے کو کہا۔ پہرے داروں نے لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے۔ لیکن جب سیندھ لگ جائے تو دیواریں کب مضبوط رہتی ہیں۔ جب گھر کو گھرکے چراغ سے آگ لگے تو تباہی ہی مقدر بنتی ہے۔ حیدر خان قلعہ کھرپوچو میں محصور ہوا۔ ان غداروں نے قلعے کے بڑے محافظ وزیر محمد علی ہلچہ فٹ پاکو لالچ دے کر قلعے کا پھاٹک کھلوا دیا۔

کیسی قیامت تھی۔ ایک ایک کو پکڑ کر قتل کیا۔ بس وہ بھی کہیں بھاگ نکلی۔ ایک معمر عورت نے بارود خانے کو آگ لگا دی تاکہ نوخیز لڑکیاں جل مریں۔ حیدر خان گرفتار ہو کر جموں قید ہوا اور وہیں قید میں ہی فوت ہو گیا۔

اور وہ پاگلوں کا روپ دھارے قریہ قریہ گاؤں گاؤں گھومتی گاتی پھرتی۔ بس تو یہ گیت اسی کے دل کی پکار تھی۔

’سکینہ تم یہ گیت پھر گاؤ۔‘‘

وہ پتھروں پر نیم دراز ہو گیا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ سکینہ کی لوچدار رسلی آواز پہاڑوں سے ٹکر ا کر اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔

دیر بعد جب اس نے آنکھیں کھولیں۔ اُٹھ کر بیٹھا اور بولا۔

’’سکینہ اگر میں بھی بلتستان کو آزاد کرانے کی جد و جہد میں شہید ہو جاؤں، تو تم ایسا ہی گیت میرے لئے گایا کرو گی۔‘‘

’’غلام حیدر! تم شہادت کا ہی کیوں سوچتے ہو؟ کیا غازی بننا تمہارے مقدر میں نہیں۔‘‘

اور اُس نے فی الفور اپنا رُخ اس کی طرف پھیرتے ہوئے اک وارفتگی سے کہا۔

’’میں حیران ہوں تو اتنی خوب صورت سوچ رکھتی ہے۔‘‘

اور پھر دونوں ریوڑ کو لے کر نیچے اُترے۔ اس نے کھانا کھایا اور واپسی کے لئے چلا، اور ابھی وہ دریائے شیوق کے کنارے پر کھڑا تھا۔ جب اس کنگ سکن (نائب نمبردار) کے کارندے نے پیغام دیا کہ اس کے گھر کے ایک آدمی کو پڑاؤ پر جانا ہے۔ شام سے پہلے وہ تھب ستہ (باورچی کا نذرانہ) کے ساتھ پہنچ جائے۔

اور ہلچو کزم کے رسوں پر پاؤں رکھتے ہوئے اس کی سوچیں پریشان کن ہونے کے ساتھ ساتھ باغیانہ بھی تھیں۔

٭٭٭





باب نمبر 13



برف پوش پہاڑوں کی وہ صبح بہت ٹھنڈی تھی۔ ہوائیں رگ رگ کو برچی کی طرح کاٹتی تھیں۔ دراز قامت وجہیہ رعنا جوان وادی روند کا تاجدار اپنے سرکاری امور کی بجا آوری کے لئے ’’گائنیچی‘‘ آیا ہوا تھا۔ اس وقت آگ کی طرح دہکتی بخاری نے پورے کمرے میں حرارت پھیلا رکھی تھی۔ وہ نمکین چائے کا پیالہ لبوں سے لگاتا، گھونٹ بھرتا اور قالین پر رکھی چھوٹی میز پر پڑی فائل پر نظریں جما دیتا۔ اس فائل میں وہ کاغذات تھے جو مہاراجہ کشمیر کی طرف سے موصول ہوئے تھے۔ جن میں راجاؤں کے لئے پرانی مراعات کے علاوہ نئی مزید اور پُر کشش مراعات کا اعلان تھا۔

ملازم کمرے میں داخل ہوا۔ آداب بجا لاتے ہوئے بولا۔

’’جناب: حراموش کا ایک نوجوان آیا ہے۔ بولتا ہے اسے آپ سے بہت ضروری کام ہے۔‘‘

محمد علی خان نے فائل بند کی۔ پیالہ خالی کیا اور بولا۔

’’بھیجو!‘‘

ایک نوجوان اندر آیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ آنے والے کے آنکھوں میں چیتے جیسی چمک تھی۔ اس کا کرخت با رعب چہرہ اس کے فولادی عزم کو ظاہر کرتا تھا۔ مقامی کھڈی کے بنے ہوئے پٹو کی شلوار قمیض، پاؤں میں پھوشو (خاص قسم کے چمڑے کا جوتا) اور ہاتھ میں ۳۰۳ کی رائفل۔

راجہ روندو کی عقابی آنکھوں نے آنے والے نوجوان کو چند لمحے بغور دیکھا۔ نوجوان نے کہا۔

’’اجازت ہو تو آپ کے قریب آ جاؤں۔‘‘

’’آؤ یہاں بیٹھو۔‘‘

وہ بیٹھا اور بولا۔

’’شاید آپ کو معلوم نہ ہو گلگت میں انقلاب آ چکا ہے۔ یکم نومبر کی صبح کو پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میں گورنر ہاؤس پر ڈوگرہ پرچم کی جگہ پاکستان کا ہلالی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ بونجی چھاؤنی۔‘‘

راجہ روندو کے چہرے پر یک لخت حیرت و مسرت کے جذبات نمودار ہوئے۔ انہوں نے بات کاٹ کر پوچھا۔

’’ کس کی کمان میں؟‘‘

’’کیپٹن (اس وقت کیپٹن بعد میں کرنل) مرزا حسن کی زیر قیادت۔‘‘

راجہ روندو مسکرایا۔

یہ آتش بجان جو ان کشمیر ہی سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتا ہوا آیا تھا۔

’’ہاں آگے بولو۔‘‘

’’تین، چار نومبر کو بونجی چھاؤنی کا کامیاب آپریشن ہوا ہے۔ ایک پلاٹون نے رام گھاٹ پل کو مسدود پا کر روندو کے راستے سکر دو کا رخ کیا ہے۔ مجھے مرزا حسن خان نے اسی کی سرکوبی کے لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آپ کے تعاون سے اس پلاٹون کو راستے میں ہی واصلِ جہنم کروں۔‘‘

’’اپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔ ‘ ‘ راجہ محمد علی خان نے استفہامیہ نگاہیں اس کے چہرے پر گاڑ دیں۔

’’میں حراموش کھلتا رو کا بختاور شاہ ہوں۔ میں قاتل ہوں۔ مفرور ہوں۔ حکومت ہند کو مطلوب ہوں۔ جہاد کے لئے بونجی پہنچا تھا۔ وہیں میں نے اپنے آپ کو اس اہم کام کے لئے پیش کر دیا۔

’’ تم باہر انتظار کرو۔‘‘

اور اس کے جانے کے بعد وہ وجیہہ جوان اُٹھا جس کی عمر کا ایک حصہ جاگیرداری روایات میں گزرا تھا۔ اس نے کمرے میں چند چکر لگائے اور تب اپنے آپ سے کہا۔

’’میں کبھی یہ نہیں چاہوں گا کہ مستقبل کا مورخ یہ لکھے کہ راجہ روندو نے اپنے مفادات کی خاطر قوم کے پاؤں میں پڑی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی بجائے ان میں مزید قفل لگا دئیے۔ میری یہ حقیر سی جان اسلام پر قربان۔‘‘

میندی کے پل پر بختاور شاہ کا سامنا بونجی چھاؤنی سے بھاگی ہوئی سکھ پلاٹون سے ہوا۔ جنگی چالوں سے ناواقف ہونے کے باوجود وہ شیر دل ان سب پر حاوی ہوا اور اس نے انہیں شدید نقصان پہنچا کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔

اور وادی روندو کا تاجدار اپنے قریب و جوار میں ڈوگرہ فوج کی موجودگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دیوانہ وار اس جنگ میں کود پڑا۔ تین سو رضاکاروں پر مشتمل ایک رضا کاردستہ مرتب کیا۔ جن کے پاس سکھوں سے حاصل کی ہوئی رائفلوں کے علاوہ پرانی ماشہ دار اور ٹوپی دار بندوقیں تھیں اس دستہ نے بڑی جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے گربی داس تو نگرس اور باغیچہ کے سوا روندو کا باقی سارا علاقہ ڈوگرہ فوج سے آزاد کرا لیا۔

مزید آگے بڑھنے سے قبل انہوں نے مرزا حسن خان کا تعاون مانگا۔

سکر دو میں حالات بہت نازک تھے۔ وادی روندو کے واقعات نے ڈوگروں کے ساتھ بلتیوں کی عدم وفاداری بالکل بے نقاب کر دی۔ لیکن مسلح جد و جہد کے لئے گلگت کی طرح یہاں مقامی سکاؤٹس نہیں تھے۔ چند سابق فوجی اور وہ بھی غیر مسلح۔ ڈوگرہ انتظامیہ نے راجہ روندو کو گرفتار کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ لیکن وہ قابو نہ آئے۔ اس دوران انہوں نے سکر دو کے سر کردہ لوگوں جن میں غلام وزیر مہدی، حکیم محمد لطیف اور راجہ محمد حسین شامل تھے کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ان حالات میں میجر احسان علی آزاد فورس کے ساتھ بلتستان پہنچ گئے۔

انہوں نے فوج کی تنظیم نو کے بعد رنگروٹوں کی تربیت شروع کر دی۔ سکر دو میں ڈوگرہ چھاؤنی تھی۔ سابق سکستھ جموں اینڈ کشمیر انفنٹری بٹالین کو پھر سے منظم کیا جار ہا تھا۔ سری نگر بھی زیادہ دور نہیں تھا۔ جہاں تربیت یافتہ ریاستی فوج تباہ کن ہتھیاروں سے لیس کھڑی تھی۔ اس کی پشت پر انڈین آرمی اور ائیر فورس بھی تھی۔ دشمن کے حملوں کی صورت میں پاکستان سے فوری امداد بھی نا ممکن تھی۔ کیونکہ کوئی آسان زمینی راستہ موجود نہ تھا ہوائی سروس کے لئے پاکستان کے پاس ہوائی جہازوں کی سخت کمی تھی۔ پاکستان اس وقت یوں بھی اپنے مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ ہوائی راستہ خطرناک ترین راستوں میں سے تھا اور سب سے بڑھ کر موسم ناقابل اعتبار تھا۔

ان حالات میں سکر دو چھاؤنی کا پہلا محاصرہ کیا گیا اور وہ ناکام ہوا۔ ڈوگرہ فوج مورچوں سے نکلی اور سارے سکر دو میں قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔

اب لوگوں کے لئے صرف دو صورتیں باقی رہ گئی تھیں کہ یا تو اپنے تئیں ڈوگروں کے حوالے کر دیں یا پھر ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے ان سے آزادی حاصل کر لیں یا پھر شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائیں۔

بس تو دوسرا راستہ اختیار کیا گیا اس میں دینی جذبے کی تسکین کا سامان بھی تھا۔ اب یہی صورت تھی کہ پسپائی اختیار کرنے والی فوج کو واپسی پر مجبور کیا جائے۔ اسے ہر تعاون کا یقین دلایا جائے چنانچہ راجہ سکر دو نے اٹھارہ رکنی وفد اپنے بیٹے کی سر کردگی میں فورس کے تعاقب میں روانہ کیا جو میجر احسان علی سے قمراہ میں ملا۔ میجر احسان اور میجر بابر خان دونوں قمراہ میں آغا سید علی کے گھر میں تھے اور روندو کی جانب واپسی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ان کی فوج دا سوتک تتر بتر ہو چکی تھی۔ میجر احسان علی نے مقامی لوگوں کی عدم شمولیت کا بھی گلہ کیا۔ بڑی بحث تکرار کے بعد میجر احسان واپسی کے لئے رضامند ہوئے۔

۹ فروری کو پرکشاق پر متعین ڈوگرہ فوج سے جھڑپ ہوئی۔ پر کشاق پر متعین میجر کرشن سنگھ میجر احسان علی کا واقف تھا۔ وہ اور اس کے ساتھی کئی دنوں سے کئی فٹ برف میں بھوکے غاروں میں چھپے بیٹھے تھے۔ اس نے بہتیرے طرے مارے کہ اسے زندہ میجر احسان کے سامنے پیش کیا جائے پر بپھری ہوئی فوج نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو چنار پڑی پر گولی سے اڑا دیا۔

بارہ فروری کو شگر میں پاکستان کا پرچم لہرا دیا گیا۔ شگر کے راجہ نے آزاد فورس کی مدد کے لئے رضا کاروں کے دستے بھیجے اور اشیائے خورد و نوش کی فراہمی کا سلسلہ جنگ بندی تک جاری رہا۔ لیفٹنینٹ بابر خان نے وادی روندو کے راجہ محمد علی خان کو لکھا کہ وہ انہیں ہتھیار بند، کلہاڑے اور تلواروں وغیرہ کے ساتھ پانچ سو سرفروشوں پر مشتمل ایک لشکر فوراً بھیجیں۔

سکر دو چھاؤنی کا محاصرہ فروری سے شروع ہوا اور اگست تک جاری رہا۔ اس دوران آزاد فوج پوریگ میں لڑی۔ دراس اور زوجی سر فتح ہوا۔ لیہ اور نوبرہ میں پیش قدمی کی گئی اور جون کے دوسرے ہفتے میں کرنل متاع اُلملک دو سو چترالی رضاکاروں کے ساتھ سکر دو پہنچ گئے۔ ہزارہ اور سوات سے بھی ایک سو رضا کاروں کا ایک لشکر براہ شغر تھنگ سکر دو پہنچ گیا تھا۔ اس لشکر نے زنبیر گڑھ (موجودہ حمید گڑھ) اور پرتاب گڑھ کی طرف مورچے سنبھال لئے۔

مسلسل کئی ماہ سے محصورین کو اشیائے خوردنی کی قلت محسوس ہونے لگی تھی۔ بھارتی طیاروں نے راشن وغیرہ ڈراپ کرنا شروع کیا مگر ان اشیاء کا زیادہ حصہ مجاہدین کے ہاتھ آتا۔

اس وقت سکر دو مجاہدین کی باقاعدہ اور تربیت یافتہ فوج سے یکسر خالی تھا۔ یہ فوج سکر دو سے دور محاذوں پر دشمن سے برسرپیکار تھی۔ پر دشمن کے طیاروں کی سکر دو میں آمدورفت کے ساتھ ہی یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ دشمن سکر دو کے اردگرد میدانوں میں چھاتہ بردار فوج اُتار کر دوبارہ قبضہ نہ کر لے۔ ایسی صورت میں دشمن کا مقابلہ متاع اُلملک اور اس کے مٹھی بھر ساتھیوں کے بس کا روگ نہ تھا۔ چنانچہ چھاؤنی پر فیصلہ کن حملے کے لئے استورسے دو ۱۱۰۷ توپیں لانے کا فیصلہ ہوا۔

۱۲ اگست کی صبح ساڑھے چھ بجے دونوں توپوں نے چھاؤنی، کھرپوچو قلعہ مڈل سکول راجہ کے محل اور پرانے قلعے پر گولہ باری شروع کی جو ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔ ۱۲ اگست کو دشمن کے ٹھکانوں پر شدید گولہ باری ہوئی اور اس کے ساتھ ہی چھاؤنی پر بھرپور حملہ کر دیا گیا۔ ۱۳ اگست کا پورا دن طرفین کے درمیان سخت فائرنگ کا تھا۔ یہ بہت بڑی خوش قسمتی تھی کہ اب تک موسم خراب رہا تھا وگرنہ بمباری سے مجاہدین کے ٹھکانے تباہ کر دئیے جاتے اور محصورین کو رسد کی فراہمی جاری رہتی تو جنگ اور طوالت پکڑ لیتی۔

چودہ اگست ۱۹۴۸ء کی صبح کرنل تھا پا کیپٹن گنگا سنگھ، کیپٹن ہلال سنگھ اور دیگر فوجی افسر وردیوں میں فوجی ڈسپلن کے ساتھ چھاؤنی سے باہر نکل آئے۔ کیپٹن محمد خان نے انہیں کرنل متاع اُلملک کے پاس پہنچایا۔

اس وقت سکر دو چھاؤنی پر پاکستان کا ہلالی پرچم لہرا دیا گیا۔

۲۶ اگست کو سکر دو کے پولو گراؤنڈ میں تقریب آزادی کا جشن منایا گیا۔ فوجی اور سول حکام اور عوام نے شرکت کی۔ یہ کیسا روح پرور نظارہ تھا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد اللہ کے حضور شکرانہ پیش کیا گیا۔ پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد اور آزاد کشمیر زندہ باد کے نعروں میں پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔ سکاؤٹوں اور بلتستان نیشنل گارڈز کے دستوں نے پاکستانی پرچم کو سلامی دی۔

٭٭٭





باب نمبر 14





روح اللہ بس اس کے بھائی شبیر کی طرح مچلے بیٹھا تھا اور اس کی ہر دلیل کو گاجر مولی کی طرح کاٹے جاتا تھا۔ وہ کیتھی اور شاور کے ساتھ شگر جانا چاہتی تھی اور بار بار کہے جاتی تھی۔

’’تم تو سارادن ڈیوٹی کے چکروں میں اُلجھے رہتے ہو۔ بڑے بھائی تعلیمی میدان کے مصروف بندے، سیماں کے بچے چھوٹے۔ ایسے میں تم مجھے کہاں لے جاتے پھرو گے۔ کچھ لوگ جا رہے ہیں، ان کی کمپنی بھی رہے گی۔‘‘

پر اس کی تو ایک ہی رٹ تھی۔ ’’میں آپ کو اچھے اور ذمہ دار ہاتھوں میں سونپنا چاہتا ہوں۔‘‘ زِچ ہو کر اس نے ہتھیار ڈال دئیے۔

’’چلو بابا ٹھیک ہے، جیسا تم چاہتے ہو کر لو۔‘‘

اور اُس نے وہیں کھڑے کھڑے سیماں کو شگر چلنے کا حکم دے دیا۔ سیماں کو سیر سپاٹے اللہ دے۔ اس نے پل بھی نہ لگایا اور بقچی تیار۔ بڑے بھیا اور بھابھی بھی ساتھ ہو لئے کہ چلو ہم بھی تھوڑا سا گھوم پھر آئیں۔

دونوں بھائی آگے بیٹھ گئے۔ شیبہ اس کی گود میں آ گئی۔ جیپ میں لدلدائی ہو گئی۔ سیماں سرخ چینی اوڑھنی جسے وہ ابھی کل خرید کر لائی تھی اوڑھے غضب ڈھا رہی تھی۔

شگر کی پوری وادی قراقرم کے دامن میں ہے۔ اسے بلتستان کی حسین ترین وادی کہا جا سکتا ہے۔ یہ چوڑائی میں کم اور لمبائی میں زیادہ ہے۔ مشہور زمانہ چھوغو بروم، رگاشا بروم بلتورہ اور بیافو گلیشیئر اس وادی کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔

وہ تھور گو پل پر سے گزر رہے تھے کوئی پندرہ کلو میٹر کا فاصلہ طے ہو گیا تھا۔ دریائے سندھ کا مٹیالا پانی زوروں پر تھا۔ جیپ اب سہ تھنگ کے علاقے میں داخل ہو گئی تھی۔ روح اللہ پھر شروع ہونے والا تھا۔ جب بڑی بھابھی نے اس کی بات کاٹ دی۔

’’روح اللہ! تم گاڑی ٹھیک سے چلاؤ اور ہسٹری چھوڑو۔ اب اگر یہاں ہزاروں فٹ نیچے دریا نہیں بہتا۔ تب بھی منوں وزنی پتھر تو ہیں جو تمہارے دائیں بائیں پڑے ہیں۔ پہاڑی درّے بھی شروع ہونے والے ہیں۔ میں چھ بچوں کی ماں ہرگز ہرگز سہ تھنگ کے اس ریتلے میدان میں مرنا نہیں چاہوں گی۔‘‘

بنجر اور خشک پہاڑوں سے سورج کی آتشیں کرنیں ٹکرا ٹکرا کر سارے میں دوزخ کی آگ بکھیر رہی تھیں۔ ان کے سر منہ ریت اور دھول سے اٹ گئے تھے۔

سہ تھنگ اور سرفہ رانگا کے ریتلے میدان کو دریائے سندھ پر پمپ لگا کر لفٹ ٹینکی کے ذریعے آباد کرنے کی سکیم زیر غور ہے۔

کوتھنگ پائین اور کوتھنگ بالا کی وادیاں صحرا میں کسی نخلستان کی طرح نمودار ہوئیں۔ بلند و بالا اور ہریالے درختوں نے جلتی آنکھوں کو طراوت اور ٹھنڈک کا احساس دیا۔ یہ وادی شگر کا پہلا گاؤں تھا۔ اس گاؤں کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ یہاں کے جیالے لوگوں نے راجہ شگر کے ساتھ شرگوٹوق کے مقام پر میٹنگ کی اور سکھوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔

تقریباً تین میل تک دروں کا راستہ تھا۔ بلند و بالا پر ہیبت آگ کی طرح تپتے پہاڑوں کو دیکھ دیکھ کر طبیعت بوجھل ہو گئی تھی۔ مرہ پی کی سرسبز وادی آئی اور پھر شگر کا علاقہ شروع ہو گیا۔

درختوں کے لمبے چوڑے سلسلے نشیب میں پھیلے نظر آتے تھے۔ جیپ دور رویہ درختوں سے گزرتی جا رہی تھی۔ گھنے درختوں میں سے جھانکتی کرنوں کے مختلف عکس زمین پر مختلف صورتوں میں ڈھلے ہوئے تھے۔ دو تین مسجدیں گزریں۔ نمازی کھڑے باتیں کرتے تھے۔ گندم کے کھیت بسنتی لباس پہنے قربان ہونے کے لئے صف بستہ تھے۔ شگر نالہ پر واقع ریسٹ ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں روح اللہ نے جیپ روک دی۔ بڑے بھیا بولے۔

’’تم لوگ جلدی سے منہ ہاتھ دھو لو۔ اسسٹنٹ کمشنر داؤد صاحب کھانے پر انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

ان تینوں نے منہ اور ہاتھوں کی گرد اُتاری۔ کنگھی کی اور جیپ میں بیٹھ مسٹر داؤد کے ہاں جا اُتریں۔ ہرے بھرے کھیتوں میں گھرا ان کا سرکاری بنگلہ اندر سے مکین کی سادہ اور درویشانہ طبیعت کا پتہ دیتا تھا۔ نگر کے داؤد صاحب کی شخصیت متین اور بردبار نظر آتی تھی۔ خوبصورت اور بوٹے سے قد کی ان کی بیگم ان سے بھی زیادہ حلیم تھیں۔

میز پر اُبلے چاول، گوشت اور آلو کا شوربا، پالک کا ساگ، سلاد اور اچار ان کے انتظار میں تھا۔ کھانے سے فارغ ہوئے اور جب وہ قہوہ پی رہے تھے، روح اللہ بولا تھا۔

’’یہ میری بہن ہیں۔ شگر میں کچھ دن رہنا چاہتی ہیں۔‘‘

اور داؤد صاحب ہنستے ہوئے بولے۔

’’میاں اگر یہ آپ کی بہن ہیں تو ہماری بہن بھی ہو سکتی ہیں۔ باقی آپ انہیں یہاں لے آئے ہیں تو بس اطمینان رکھئے۔‘‘

سب کا قہقہہ کمرے میں گونج اُٹھا۔

داؤد صاحب کو کسی ضروری کام سے ایک گھنٹہ کے لئے دفتر جانا پڑا۔ ان کی عدم موجودگی میں شگر کے چند سر کردہ لوگ آئے۔ گفتگو شمالی علاقہ جات، خصوصی طور پر بلتستان کی آئینی حیثیت پر ہونے لگی تھی۔ ایک نامی گرامی ایڈووکیٹ ہنستے ہوئے کہنے لگے۔

’’میں سمجھتا ہوں، حکومت پاکستان کو ۴۸۔ ۱۹۴۷ء میں نظم ونسق سنبھالنے کے ساتھ ہی الحاق کے متعلق وضاحت کر دینی چاہیے تھی۔ مقامی لوگوں کو انتظام حکومت میں شریک کرنا چاہیے تھا پر ۱۹۷۰ء تک یہ علاقے ایک ریزیڈنٹ کے ماتحت رہے جو بیک وقت لوکل گورنمنٹ، مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، انسپکٹر جنرل پولیس اور بلا شرکت غیرے جج ہائی کورٹ ہوتا تھا۔ ۱۹۷۲۔ ۱۹۷۱ء میں وزیر اعظم بھٹو نے پہلی دفعہ یہاں سیشن کورٹ کا اجراء کیا۔ ایف سی آر ختم کیا۔ راج گیری نظام ختم کر کے مالیہ معاف کیا۔ یہ سب تو ہوا پر آئینی حیثیت پھر بھی متعین نہ ہو سکی۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ گلگت و بلتستان میں کوئی دستور پاکستان بھی نافذ نہ ہوا۔ اس سے قبل جتنی بار بھی مارشل لاء لگا، اسے اس علاقے تک نہیں بڑھایا گیا تھا۔ پھر ۱۹۷۷ء کے مارشل لاء میں گلگت بلتستان پاکستان کا پانچواں زون E بنا۔ لوگوں نے سکون کا سانس لیا چونکہ مارشل لاء صرف اندرون ملک لگتا ہے۔ اس لئے ان علاقوں کی اب کوئی متنازعہ حیثیت باقی نہیں ہے۔ ضلع گلگت کی ایک فوجداری لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہوئی تو ایک ڈویژن بنچ نے فیصلہ دیا کہ گلگت بلتستان، پاکستان کے قانونی حصے نہیں۔ اس لئے جس نے بھی یہاں مارشل لاء نافذ کیا وہ علاقے کی آئینی پوزیشن سے نابلد ہو گا۔

شمالی علاقہ جات کے لوگ محب وطن، پر امن اور نیک نیت ہیں۔ اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ ۳۷ سال گزارنے کے بعد بھی کوئی تحریک چلا کر پاکستان کے مسائل میں اضافہ کرنا نہیں چاہتے۔

جنرل محمد ضیاء الحق نے بھی اپنے دورہ گلگت کے دوران غیر مبہم الفاظ میں کہا تھا کہ شمالی علاقہ جات پاکستان کے حصے ہیں، اور انہیں آئندہ اسمبلی میں باقاعدہ نمائندگی دی جائے گی۔

کوئی بھی قوم اتنے طویل عرصے تک بغیر کسی آئین کے اور بغیر بنیادی انسانی حقوق کے نہیں رہ سکتی۔ اگر گلگت دیا مر بلتستان کے چھ لاکھ عوام کو بنیادی حقوق سے نوازا جائے تو یہ ان پر احسان عظیم ہو گا۔ ایک ایسی وفادار قوم کو خواہ مخواہ مایوس، بد دل بے چین اور غیر یقینی حالت، میں رکھنا مفاد عام میں نہیں۔

اور وہ بیٹھی کھلے کھانوں سے یہ سنتے ہوئے باہر دیکھتی اور سوچتی تھی۔

اللہ نے اسے کتنا بے دست و پا بنایا ہے۔ بھلا وہ کہیں صاحب اقتدار ہوتی تو۔۔ ۔

اور اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکی۔ اس کے ہونٹوں پر ہنسی بکھر گئی تھی۔

٭٭٭









باب نمبر 15







وہ جب منہ ہاتھ دھو کر کمرے میں آئی میز پر ایک پلیٹ میں بسکٹ، چینی مگ اور ٹی پوٹ ٹرے میں رکھے ہوئے تھے۔ اس نے چائے پینی شروع کی اور جب وہ خالی مگ میز پر رکھ رہی تھی۔ داؤد صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔

’’مجھے امید ہے کہ آپ کی رات اچھی گزری ہو گی۔‘‘

اور اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

’’رات تو واقعی اچھی گزری، پر صبح کا آغاز اچھا نہیں ہوا۔ اگر آپ یوں مجھے اچھوتوں کی طرح ناشتہ اور کھانا دیں گے تو میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی۔‘‘

اور داؤد صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

’’اگر ایسی بات ہے تو بسم اللہ، میں دفتر جار ہا ہوں۔ آپ بیگم اور بچوں کے ساتھ ناشتہ کریں، اور وہاں آپ کا پروگرام۔‘‘

وہ باہر جاتے جاتے رُکے۔

’’کہیں جانا چاہتی ہیں آج۔‘‘

’’ایک تو میں فونگ کھر (چٹانی محل) دیکھنا چاہتی ہوں۔ دوسرے راجہ فیملی سے بھی ملنے کا ارادہ ہے اور تیسرے میں آپ پر واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میری موجودگی کو اپنے معمولات میں کوئی رکاوٹ نہ سمجھئے۔ سارادن آوارہ گردی کے بعد میں شام کو اپنے ٹھکانے پہنچ جایا کروں گی۔‘‘

داؤد صاحب کا قہقہہ ایک بار پھر فضا میں گونجا۔

’’یہ علاقہ پر امن اور یہاں کے لوگ انسان دوست ہیں۔ آپ کو تنہا گھومتے ہوئے کوئی خوف و خطر نہیں جہاں آپ کو سواری کی ضرورت محسوس ہو بتا دیں، اور ہاں یہ بات میں آب کے گوش گزار کروں گا کہ جب راجہ فیملی سے ملنے جائیں تو انہیں مناسب عزت و تکریم دیں۔ گو راجگی نظام اب ختم ہو چکا ہے اور جاگیر داری روایات دم توڑ رہی ہیں۔ پر ہم لوگ پھر بھی ان روایات کی تھوڑی بہت پاسداری کرتے ہیں۔‘‘

داؤد صاحب کی جیپ سٹارٹ ہو کر گیٹ سے باہر نکل گئی اور وہ کمرے سے نکل کر باورچی خانے کی طرف آ گئی۔

مسز داؤد اُردو نہیں بول سکتی تھیں۔ ان کی مادری زبان بُروششکی تھی لیکن بچے ٹھیک ٹھاک اُردو بول رہے تھے۔ چٹائی پر بیٹھے سب نمکین چائے کے ساتھ چوکور پر اٹھے کھا رہے تھے۔ وہ بھی ان کے ساتھ چوکڑے مار کر بیٹھی اور ہنستے ہوئے اس نے پورا پراٹھا کھایا اور چائے کا پیالہ پیا۔

پھر وہ فونگ کھر دیکھنے نکلی۔ اونچی نیچی راہوں پر پھلدار درختوں کی چھاؤں میں سستائے اور چشموں کا شور سنتے سنتے وہ شگر بازار میں جا پہنچی۔ بمشکل بارہ تیرہ دوکانیں تھیں۔ دو پٹ کے چوڑے دروازوں کے اندر دکاندار بیٹھے مکھیاں مارتے تھے۔ کوئی کوئی گاہک کھڑا کچھ خریدتا تھا۔ اِکا دُکا لوگ آتے جاتے تھے۔ ان لوگوں میں کچھ منگولی خد و خال والے بھی تھے۔

در اصل ابن کٹولہ بکتوریہ خاندان کا آخری شہزادہ پانچویں صدی قبل مسیح میں جب مردان کے شنواریوں اور خیبر کے آفریدیوں سے شکست کھا کر بالائی وادی سندھ میں پناہ لینے پر مجبور ہوا تو اس کا قافلہ جلکوٹ پر پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک وادی شگر میں آیا اور دوسرا گریگرت چلا گیا۔ وادی شگر کے جو لوگ منگولی یا گلگتی لگتے ہیں، بکتوریہ اصل ہیں۔

کھیت کٹائی کے لئے تیار کھڑے تھے۔ کہیں کہیں کوئی عورت کمر پرچورونگ کَسی نظر پڑتی۔ وہ ذرا دم لینے ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ ماحول پر الوہی سکون برستا تھا۔ چشموں کا شور یا پرندوں کی چہچہاہٹ بس اس سناٹے کو توڑتی تھی۔ اللہ وہ اپنے آپ سے بولی تھی۔

’’یہ دنیا اس شور شرابے پکڑ دھکڑ، مار دھاڑ اور ہنگامہ خیز دنیا سے کس قدر مختلف ہے۔ روح اللہ پر اسے شدید غصہ آیا تھا۔ بلا وجہ اس کا ساتھ کیتھی اور شاور سے چھڑوا دیا ان کی کمپنی یقیناً سیاحت کے اس لطف کو دوبالا کرتی۔‘‘

اب وہ پھر چل پڑی تھی۔ گھروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ کم عمر پاؤں سے ننگے، خوب صورت چہروں والے بچے ایک جگہ جگہ (جدید کرکٹ کی ایک قدیمی شکل) کھیل رہے تھے۔ ایک گھر کے سامنے گائے بندھی تھی۔ ایسی خوب صورت کہ بے اختیار اس نے کسی سے اس کی نسل کے بارے میں پوچھا۔

یہ گائے اور یاک کی مشترکہ نسل سے تھی۔ زومو جو بہت زیادہ دودھ دیتی ہے۔ بہت خوب صورت اور بہت شریف ہے۔ کہیں کسان فصل خریف کے لئے کھیت تیار کر رہے تھے۔ زو ہل چلانے میں جتے ہوئے تھے۔ کسان پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ وہ ایک کھیت کی منڈیر پر بیٹھ گئی۔ پالک توڑتی ایک عورت سے اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کھیتوں میں کیا بویا جائے گا۔

لیکن ’’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم‘‘ والا معاملہ تھا۔ دس بارہ سال کا ایک بچہ دور سے بھاگتا ہوا آیا اور ترجمانی کے فرائض انجام دینے لگا۔ اس زمین میں چٹا، کنگنی، ترنبہ اور باجرہ بویا جانے والا ہے۔

فونگ کھر کے لئے اس نے کوئی دس آدمیوں سے پوچھا ہو گا۔ اب وہ منزل پر پہنچ گئی تھی، اور اسے اس راستے پر مڑنا تھا۔ جس پر چند گز چل کر فونگ کھر آتا تھا۔ راستہ تنگ اور خاصہ دشوار تھا۔ صرف ایک آدمی بمشکل چل سکتا تھا۔ نیچے دریائے شگر بے ہنگم شوز مچاتا تھا۔ چار قدم چلی تو داہنے ہاتھ لکڑی کی ایک مسجد نظر آئی۔ سیڑھیاں چڑھتی اندر داخل ہوئی۔ ایک آدمی چادر لپیٹے بیٹھا تھا۔ پتہ چلا کہ نو سو سال پرانی مسجد ہے۔ مسجد کیا تھی، چوب کاری کا ایک شاہکار تھی۔ یہ ہفت در ہے، اسے ہشت در کہتے ہیں، اور یہ موج دریا ہے۔

ادھیڑ عمری کی حدوں کو پاٹتا ہوا مرد اسے انگشت شہادت سے کھڑکیوں، دروازوں اور جھروکوں پر لکڑی کی جوڑ جوڑ کر بنائی گئی فنی کاریگری کو دئیے گئے مختلف ناموں کے بارے میں بتا رہا تھا۔

آدھ گھنٹہ بعد وہ سیڑھیاں اُتر آئی۔ سامنے چنار کا بوڑھا درخت پر پھیلائے کھڑا تھا۔ سائے میں چند مرد اور عورتیں بیٹھی تھیں۔ چنار کے بارے میں اس نے یہاں آ کر سنا تھا کہ پانچ سو سال کی عمر پوری کرنے کے بعد، درخت کو اپنے آپ آگ لگ جاتی ہے۔ حیرت کی بات تھی۔

سامنے دو منزلہ نیا محل نظر آ رہا تھا۔ اس کے پیچھے پرانا محل، فونگ کھر اور داہنے ہاتھ بلند و بالا کھری ڈونگ (پہاڑ کا نام) پر ٹوٹے پھوٹے قلعے کے آثار نظر آتے تھے۔ بارہ دری اور باغ ویران تھے۔

اور جب وہ پرانے محل کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ ایک خوبصورت سا نوجوان سامنے آیا۔ پتہ چلا کہ راجہ شگر مرحوم کا صاحبزادہ اعظم خان ہے۔ اسلامیہ کالج سول لائنز میں بی۔ اے کا طالب علم ہے۔

گائیڈ کے فرائض اس نے سنبھال لئے تھے۔ سارا محل ایک چٹان پر بنا ہوا ہے۔ جس کا ایک کونہ سیڑھیوں کی طرف تھا اور دوسرا دریائے شگر کی طرف نکلا ہوا تھا۔

ٹوٹے پھوٹے شکستہ محل کے کمرے جانوروں کے اصطبل بنے ہوئے تھے۔ جاروق میں پتلی سی چٹائی پر سیندوری رنگ کی خوبانیاں پڑی سوکھتی تھیں۔ دیوان عام اور دیوان خاص انتظار گاہ، راجہ کی نشست گاہ سب ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے دوچار ہو کر ویرانی کی گود میں پڑے تھے۔

اس کے سارے سریر میں دکھ یاس اور بے ثباتی کی ٹھنڈی لہریں اُترنے لگیں۔

اعظم اسے لے کر نئے گھر کی طرف بڑھا۔ ڈرائنگ روم میں جدید وضع کے صوفے رکھے تھے کارنس پر چارسوتی کا انگیٹھی پوش جس پر نیلے پیلے دھاگوں کی بد وضع کڑھائی نظر پر گراں گزرتی تھی۔ دیواروں پر چیتے اور بھیڑئیے کے حنوط شدہ چہرے لٹک رہے تھے۔

اور پھر رانی ماں بیٹے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہ کھڑی ہوئی۔ اس نے دو سلام کئے۔ سلام کے ساتھ ہی قدرے جھک کر دائیں ہاتھ کو پیشانی تک لے گئی۔ یہ یہاں کی قدیم تہذیب تھی۔

پھولدار پاکستانی فلیٹ کے فیروزی سوٹ اور سفید ملگجے چکن کے دو پٹے میں لپٹی دبلی پتلی رانی شگر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ چہرے کی جھریاں ابھی زیادہ گہری نہیں ہوئی تھیں۔ ملائمت اور نقوش کا تیکھا پن آریائی نسل سے تعلق کا پتہ دیتا تھا۔ شگر کا راجہ خاندان اماچہ آریائی نسل سے بتایا جاتا ہے۔

ذرا دوپٹہ سرکا تو ان کے گلے میں اس نے لداخ کے قیمتی فیروزوں کا حلقہ بند دیکھا۔ جو سونے کے پتروں میں جڑا ہوا تھا۔ فیروز اتنا خوبصورت اور قیمتی نظر آتا تھا کہ بے اختیار اس کی نگاہیں اس پر جم گئیں۔

اوپر تلے کی دو بچیاں ننگے پاؤں بھاگتی آئیں اور رانی شگر سے لپٹ گئیں۔ یہ اعظم کی بچیاں تھی، اس کی بیوی چھوٹے بچے کے ساتھ گلگت گئی ہوئی تھی۔

وہ اسے سر تا پا ایک ٹوٹی ہوئی شخصیت نظر آئیں۔ اداسی اور دکھ کی چادر میں لپٹی ہوئی۔ ملازم نے ٹھنڈی رسیلی خوبانیاں اور آلو بخارا کر تپائیوں پر رکھا۔ وہ خوبانیاں کھاتی گئی اور ان کی باتیں سنتی گئی۔ ان وقتوں کی جب رعایا دم بھری تھی۔ نوکروں کی فوج ظفر موج دست بستہ حاضر رہتی تھی۔ ان گزرے دنوں کی باتیں جب یہ محل اتنے ویران نہیں ہوتے تھے۔ جب زندگی حسین اور رعنائیوں سے پر تھی۔

اور اب۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

اس نے چاہا کہ پوچھے پر رک گئی۔ ضرورت ہی کیا تھی؟ سب کچھ تو عیاں تھا۔ خواہ مخواہ کھرنڈ کھرچنے سے فائدہ۔

٭٭٭





باب نمبر 16





خانقاہ معلی کی طرز تعمیر اور کشادگی کا سارا حسن، کشمیری فنکاروں کی دل کش کشیدہ کاری و پچی کاری کا فسوں اس کے چاند کی مانند چمکتے گنبد کی خیرہ کن دمک سب اس محاورے کی نذر ہو گئے تھے۔ جسے نشہ ہرن ہونا کہتے ہیں۔

ان چار ستونوں میں سے ایک کہ جن پر یہ عمارت ایستادہ تھی۔ وہ تیس فٹ اونچے اور کم و بیش چھ فٹ چوڑے ستون کو جپھا مارے یوں کھڑی تھی جیسے پوہ ماگھ کی چاندنی رات ہو۔ اسے دیکھ کر خانقاہ معلی کی ساری تاریخ کہ یہ ساڑھے چار سو سالہ پرانی خانقاہ سید میر یحییٰ نے تعمیر کروائی۔ سید یحییٰ جید کشمیری عالم ابو سعید کا بیٹا اور سید مختار کا بھائی تھا۔ جنہوں نے شگر میں سات خانقاہیں اور چودہ مسجدیں تعمیر کروائیں اوریہ کہ اس خانقاہ میں بیک وقت بارہ سو آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اس کی تعمیر میں سب سے زیادہ مدد وزیر شگر مہا سلطان نے کی۔

یہ سب دماغ کے کسی دور دراز گوشے میں یوں جاگرے جیسے کوئی سلیقہ شعار محتاط عورت زیورات کی پوٹلی جستی پیٹی کے کسی کونے میں پھینک دے۔

وہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھی اور جب ان کی خاموش آنکھوں نے کئی بار ایک دوسرے کو دیکھ لیا تب پوہ ماگھ کی اُداس چاندنی نے فضا کا سکوت توڑا۔

’’تم کون ہو؟‘‘

اور اسے خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ اُردو بول سکتی ہے۔

’’یہی سوال میں تم سے پوچھنا چاہتی تھی۔‘‘

’’ میں تو بدنصیب ہوں۔‘‘ اُس کے اندر کا سارا دکھ آنکھوں کے کونوں میں جمع ہو گیا تھا۔

’’مجھے بھی ایساہی سمجھ لو۔ ان وادیوں میں سکون دل ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔‘‘

دکھ کی سانجھ کا رشتہ بہت نرالا اور بہت انوکھا ہوتا ہے۔ اس خاموش اور پرسکون جگہ میں جیسے پل بھر میں ان کے درمیان ایک رشتہ استوار ہو گیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور چلنے لگیں۔

پاشا یوں تو شگر خاص میں پیدا ہوئی لیکن بعد میں باپ کے ساتھ کافی عرصہ پنجاب میں رہی۔ اس کا باپ فوج میں لانس نائیک تھا۔ مختلف شہروں کے مختلف اسکولوں سے اُس نے مڈل پاس کیا تھا۔ اس کی چال ڈھال میں متانت اور بردباری تھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پہلی ملاقات میں ہی اپنا آپ کھول دیتے ہیں۔ پاشا بھی ایسی ہی تھی۔

’’ہمارے یہاں نئی فصل پکنے کے قریب ’’ستروب لہ‘‘ کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ گندم کی کٹائی کل شروع ہونے والی ہے اور آج گھر میں قریبی عزیز کھانے پر آ رہے ہیں۔

کبھی کبھی ہنگامے بہت تکلیف دہ محسوس ہوتے ہیں۔ غم اور دکھ تازہ ہو جاتے ہیں۔ جی چاہتا تھا بھاگ جاؤں کہیں۔ رو دھو آؤں۔ اپنے آپ کو ہلکا کر آؤں۔‘‘

دونوں کچھ اوپر جا کر ایک ہموار جگہ پر بیٹھ گئیں۔ یہاں سے وادی شگر درختوں میں گھری سرسبز و شاداب نظر آتی تھی۔

’’میرا خیال ہے تم نے ابھی رونا دھونا تھا۔ خانقاہ معلی کے ستونوں سے لپٹ کر گریہ زاری کرنی تھی۔ پر میں کسی بلائے ناگہانی کی طرح وارد ہوئی اور وہ سب جسے تم باہر نکالنا چاہتی تھی۔ تمہارے اندر ہی رہا۔ لو اب مجھے وہ سب سنا دو تاکہ ہلکی تو ہو سکو۔‘‘

جیسے بارش میں دھوپ نکل آئے۔ بس ایسے ہی اس کے ہونٹوں پر ٹوٹی پھوٹی ہنسی اُبھری تھی۔ اس نے کچھ کہے بغیر گیت گانا شروع کر دیا تھا۔ درد بھری اس کی آواز پتہ نہیں پہاڑوں کا جگر چھلنی کر رہی تھی یا نہیں پر اس کا کلیجہ ضرور چھلنی ہو رہا تھا۔

برق مقپون پی ہلال باغنگسو ہالوے میندوق یسے تھویند

ہالوے میندوق منتخ میں سوک دو انچن علی شیر خان ان سوک

ترجمہ: چٹان جیسے (مضبوط) مقپون کے ہلال باغ میں ہلو کا پھول کھلا نظر آتا ہے۔ یہ ہلو کا پھول نہیں، یہ تو علی شیر خان انچن تھا۔

آپ تو ملکہ کو سینکڑوں انسانوں اور گھوڑوں کی معیت میں لائے تھے اور اب واپس بھیجتے وقت ایک آدمی اور ایک گھوڑا بھی اس کے ساتھ نہیں۔

آپ جب ملکہ کو (سکر دو) لائے تو ہر قدم پر اس کے پیروں کے نیچے فیروزہ کی سلیں بچھا دیں اور اب (لداخ) واپس بھیجتے وقت اسے ننگے پاؤں بھیج رہے ہیں۔

یہ گیت میں نے اس وقت سنا تھا جب میری عمر یہی کوئی پانچ چھ سال کی ہو گی۔ بوجھل اور سوگوار سی اس دوپہر کو جب میں اپنے بڑے ماموں کے ساتھ گلاب پور جانے کے لئے مچل رہی تھی۔ ماں مجھے گود میں اُٹھا کر اندر لائی تھی اور اس نے مجھے اپنے سامنے سفید اور سیاہ اون سے بنے چھرے پر بیٹھایا اور یہ گیت گانے لگی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ میری ماں کے اوپر ہلہ ہلنو (ایک بابرکت جنس) کا سایہ ہے۔ وہ گیتوں کی ایسی رسیا تھی کہ میرا خیال ہے جب درد زہ کی تکلیف جھیل کر اس نے مجھے جنا ہو گا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی اس نے گانا شروع کر دیا ہو گا۔ ہمہ وقت گنگنانے کی عادت کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ابھی وہ زیادہ وقت میدانی علاقوں میں گزارتا تھا۔ دو تین بار اس کی ماں سے اس بات پر زور دار جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ اس نے غصے سے چیخ کر کہا تھا۔ میں تمہارے اور اپنے رشتے کو دائمی بنانے کا سوچ رہا ہوں (میری ماں اور باپ کا نکاح ’’ انقطاعی‘‘ تھا) پر تمہاری یہ مراثیوں اور بھانڈوں جیسی حرکتیں مجھے ماتھے سے دکھتی ہیں۔

اور ماں نے دھیرج سے کہا تھا۔

’’اسے کیسے چھوڑ دوں۔ بھلا کوئی جیتے جی کھانا پینا بھی چھوڑ سکتا ہے۔‘‘

اور اس دوپہر جب ماں نے گانا شروع کیا تھا۔ میں نے پوچھا تھا۔

’’ماں علی شیر خان انچن کون تھا؟ ماں ملکہ کے ساتھ گھوڑے اور آدمی کیوں نہیں تھے۔ ماں ملکہ کے قدموں میں فیروزے کیوں بچھائے تھے؟‘‘

ماں نے میرے کسی بے تکے سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔ شاید اس لئے کہ میں اب رونا دھونا بھول چکی تھی۔ ماں کی طرح گیت میری بھی رگ رگ میں سما گئے تھے۔ میری بھوک پیاس، رونا دھونا سب انہیں سنتے ہی ختم ہو جاتے تھے۔

یہ راز میدانی علاقوں میں اُتر کر مجھ پر منکشف ہوا کہ ماں اپنے دل و دماغ میں علی شیر خان انچن جیسے ایک جیالے کو بٹھائے ہوئے تھی۔ جس نے اس کے قدموں تلے فیروزے تو نہیں، پر قیمتی چھرے ضرور بچھائے۔۔ ۔ البیلی شہزادی اور شہزادہ جو بالی عمر یا کے دور میں ہی تھے کہ ایک دوسرے سے بچھڑ بھی گئے۔ ماں کو طلاق ہو گئی تھی۔ ماں کا دوسرا بیاہ بھی دائمی نہیں تھا۔

پھر یہ گیت میں نے بار بار سنا۔ علی شیر خان انچن کا پیکر میرے دل و دماغ میں بس گیا تھا اور پھر جب پڑھنے لکھنے لگی۔ تو اس گیت کے پس منظر میں جھانکنے کے قابل ہوئی۔

اس وقت جب پہاڑوں پر جمی برف پگھل رہی تھی اور وادیوں میں سبزہ پھیل رہا تھا پتھروں کے گھروں میں مقید سکڑی سکڑائی اور ایک طرح سے مفلوج زندگی انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی تھی۔ وادیوں کے کھیتوں میں کاشت کا آغاز تھا۔

ایسے میں بلندیوں پر فلک بوس چوٹیوں کو چھونے والے پر ہیبت قلعے کھرپوچو میں بلتستان کا عظیم شہنشاہ علی شیر خان انچن جھروکے میں کھڑا سنہری دھوپ میں رنگی وادی سکر دو کو دیکھتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں فولادی عزم ہلکورے لے رہا تھا۔ ان میں آگے بڑھنے پھیلنے اور چھا جانے والی خواہشوں کی اُٹھان رقصاں تھی۔

وہ اس وقت تنہا تھا۔ رات جب عالم میں سناٹا تھا۔ تاریکی اور اندھیرا خوفناک تھا۔ اس لمحے چوب چراغوں کی روشنی قلعے کے خاص کمرے میں اس کے معتمد وزراء کا گروپ سامنے دیوار پر ٹنگے لکڑی کے بڑے تختے پر تیز دھار کے چاقو سے کھرچے گئے اس راستے کو دیکھ رہا تھا جو اس کے جنگی ماہرین اور سراغ رساں ٹولے نے دریائے شیوق کے ساتھ ساتھ لداخ تک بنا یا تھا۔ گہری کھدی ہوئی رنگ آمیز موٹی لکیر پر دیودار کی نوکیلی چھڑی سے اس کے کمانڈر انچیف نے راستے کی عمیق تنگ گھاٹیوں عمودی چڑھائیوں خطرناک موڑوں منہ زور آبشاروں بالائی پہاڑوں سے حملے اور سلائیڈز کے امکانات، پڑاؤ کے مقامات لداخیوں کی طرف سے مزاحمت کے کامیاب اور ناکام امکان ان کی فتح اور شکست کے امکانات کا تناسب ایک ایک نقطہ مکمل شب بھر کے طویل صلاح مشورے کے بعد اس کے کمانڈر جنرل شمشیر علی کناپا نے کہا تھا کہ بس اب لداخ فتح ہونا چاہیے اور کوچ کے لئے یہی موسم مناسب ہے۔ تیاریاں شروع کی جائیں یہ عظیم بلتستان اب عظیم تر ہو۔

وہ خوش نصیب تھا۔ کامیابیوں کا ہما اس کے سر پر سایہ فگن تھا۔ جس مہم کا ارادہ کرتا جس علاقے پر اس کی نظریں جمتیں وہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھتا پورے ہوم ورک کے ساتھ گھوڑے کی باگ ادھر موڑ دیتا اور پھر اس کی فتح کے پھریرے اُڑنے لگتے۔ چترال سے کافرستان تک وہ شجاعت کے جھنڈے گاڑ بیٹھا تھا اور اب لداخ اور تبت اس کی نظروں میں آ گئے تھے۔

گزشتہ ایک سال سے اس مہم کے لئے دن رات کام ہو رہا تھا۔ اس کے جاسوس ان علاقوں میں مقیم تھے اور ایک ایک بات کی خبر لائے تھے۔

دفعتاً اس کی نظریں نیچے گریں۔ پھول محل دھوپ میں چمکتا تھا اور ہلال باغ میں خوابیدہ بہاریں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ اس نے دور اُفق کی طرف دیکھا اور محسوس کیا کہ سینے میں کہیں درد اُبھرا ہے۔ اس درد کی نوعیت سے وہ بخوبی آگاہ تھا۔ پر مصیبت تو یہ تھی کہ اسے اپنے آپ کو پل بھر کے لئے بھی کمزور محسوس کرنے سے نفرت تھی۔ شاید اسی لئے وہ برق رفتاری سے مڑا اور دیوان خاص میں داخل ہوا۔ چند لمحے وہاں ٹھہرا۔ دیواروں پر آنکھوں سے نکل کر جو کچھ ابھرا اس میں کرب تھا۔ پھر باہر آ نکلا۔ بالکونی سے نیچے جھانکا۔ چہار باغ میں فوارے چلتے تھے اور سنگ مرمر کی بارہ دریاں ویران تھیں۔ پل بھر میں چھم چھم کرتی پھول شہزادی نے فضا سے اُتر کر بارہ دریوں کی ویرانیوں کو ماند کر دیا۔

اس نے لمبا سانس بھرا اور اپنے آپ سے بولا۔

گل خاتون میں تمہیں بھول جانا چاہتا ہوں پر تم کبھی رینگ کر اور کبھی کدکڑے لگاتی میرے اندر سے باہر کیوں آ جاتی ہو۔ وہ درد جو اس کے سینے میں کہیں اُٹھا تھا۔ اب آنکھوں میں اُترنا چاہ رہا تھا۔ شاید اسی لئے اس نے اپنے گورنر علی عباس گیجاپا کو بلایا اور اس کے ساتھ مصروف ہو گیا۔

اب جب بہاریں اپنے عروج پر تھیں اور فطرت کے حسین مناظر دامن دل کو کھینچتے تھے اس نے لداخ فتح کیا اور لداخ کے مہاراجہ جمیا نگ نگمیل کو گرفتار کیا۔ دار الخلافہ لیہ میں اپنی فوج کا ایک حصہ چھوڑ کر طوفان کی طرح آگے بڑھا اور بُدھا کے سٹوپے اور بڑے بڑے چوٹی مجسمے تہہ تیغ کرتا بہت آگے نکل گیا۔ جھیل مانسرور اور نیپال کے درمیان پورا انگ قصبے تک۔

وہ تبت کو چھونا چاہتا تھا۔ پر اس کی فوج تھک گئی تھی۔ واپس لوٹ جانے کی خواہش ان کے پیشانیوں پر رقم تھی۔ اس نے یہ سب دیکھا محسوس کیا اور لوٹا لداخ کے دار الخلافہ لیہ میں دربار سجا کر اس نے راجہ لداخ کو طلب کیا۔ تبتی اور آریائی حسن کی آمیزش کی حامل شہزادی جس کے انداز میں درُدوں جیسی بے باکی اور دلیری تھی اپنے باپ مہاراجہ جمیانگ نگمیل کا بازو تھامے اس کے حضور حاضر ہوئی تھی۔ اس حسین شاہکار نے گھٹنوں کے بل جھک کر اسے مقامی رواج کے مطابق آداب کیا پھر سیدھی کھڑی ہوئی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔

’’مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ بات غیرت کے منافی ہے۔ مگر مجبور ہوں اور چاہتی ہوں کہ ہم سے حسن سلوک ہو۔‘‘

علی شیر خان انچن کو اس کے لہجے میں کھٹکتی اعتماد اور یقین کی جھنکار پسند آئی تھی۔ اس نے اس بات سے لطف اُٹھایا۔ اس کے چہرے پر پھیلی معصومیت کو شوق و دلچسپی سے دیکھا تھا اور کہا تھا۔

’’اگر میں فیصلہ کا اختیار آپ کو دوں؟‘‘

اس نے فی الفور نفی میں سر ہلایا اور بولی۔

’’یہ حق آپ کا ہے فاتح ہیں آپ۔‘‘

وہ کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا سوچتا رہا اور پھر گویا ہوا۔

’’آپ میری ملکہ بننا پسند کریں گی۔‘‘

شہزادی کے ہونٹوں پر گویا بارش کے بعد نمودار ہونے والی قوس قزح جیسی مسکراہٹ بکھری۔ جھکی اسے تعظیم دی اور بولی۔

’’آپ جیسے جیالے شاہ کی ملکہ بننا میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہو گا۔‘‘

یوں یہ لداخی شہزادی علی شیر خان انچن کی زندگی میں آئی۔ سکر دو کے لئے واپسی ہمیشہ کی طرح بڑے کرّ و فر سے ہوئی۔ اہل سکر دو نے اپنے فاتح بادشاہ اور بہادر افواج کا استقبال بہت گرمجوشی سے کیا۔ شاہی خاندان نے بادشاہ کی ہدایت پر ملکہ کو بہت دل پذیر انداز میں خوش آمدید کہی۔ ہلال باغ سے پھول محل تک اس کی گزرگاہ کے راستے میں فیروزے کی سلیں بچھائیں جس پر دھرے اس کے ہر قدم پر اشرفیاں لٹائی گئیں۔

شب کو چراغاں ہوا۔ محل موسیقی سجی جمالیاتی ذوق رکھنے والی اس شہزادی نے خود سے چند گز کے فاصلے پر نیم دائرے میں بیٹھے اپنے سامنے آلات موسیقی سجائے بے خود فنکاروں کے ٹولے کو بے حد دلنواز اور مدھر دھنیں بجاتے دیکھا تو اسے اپنا سانس رکتا محسوس ہوا۔ وہ تو سوچ بھی نہ سکتی تھی یہ علاقہ تہذیبی اور فنی لحاظ سے اتنے عروج پر ہو گا۔

اس نے اپنے دائیں ہاتھ بیٹھے شجاعت کے اس پیکر کو جو اس وقت شاہانہ لباس میں تمکنت سے بیٹھا ساز اور آواز میں گم تھا دیکھا اس کی آنکھوں میں سوال بھی تھے اور ان کے فن کو خراج عقیدت کا خاموش اظہار بھی تھا۔ شاہ نے آنکھوں کو پڑھا مسکرایا اور اسے پر وقار چہرے پر غرور کا ہلکا سا غبار پھیلا اور اس نے کہا۔

’’یہ دہلی کے درباری موسیقاروں کے تربیت یافتہ ہیں۔ کلاسیکی اور مقامی سازوں کے سنگم سے انہوں نے بہت خوبصورت موسیقی تخلیق کی ہے۔‘‘

’’میرے خوش نصیب ہونے میں کوئی شک ہے۔‘‘ ملکہ نے یہ بات اپنے آپ سے کہی تھی۔

اور جب مہاراجہ لداخ اور علی شیر خان انچن کے درمیان سکر دو میں عہد نامہ طے پا گیا جس کے تحت مفتوح نے فاتح کا باجگذار رہنا منظور کیا۔ لداخ کا کچھ علاقہ بھی فاتح کو دینا قبول کیا، اور اپنی مملکت کی طرف روانہ ہونے سے قبل وہ بیٹی سے ملنے آیا۔ غلام گردشوں میں چلتی ملکہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی جب اس کے روبرو آئی تو مہاراجہ نے دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں حزن کے سائے لرزاں ہیں اور جب وہ بولی تھی اس میں ملال گھلا ہوا تھا۔

’’لداخ کے پہاڑ ان پہاڑوں پر چمکتا سورج دھوپ میں ہلکورے لیتا جھیلوں کا پانی سرو قد پیڑ اور بدھا کے بچے کھچے سٹوپے آپ کو خوش آمدید نہیں کہیں گے کیونکہ آپ نے ان کی آبرو ریزہ ریزہ کر دی۔ بھلا عزتوں کے سودے کرنے والے کے لئے دلوں کے دروازے تھوڑی کھلتے ہیں۔ جائیے اپنے لوگوں کو عزت دیجئے۔‘‘

ملکہ تو بہت ذہین تھی۔ شاہ کی آنکھ کو پڑھنا جانتی تھی۔ اس پر دل و جان سے عاشق بھی تھی۔ پھر کیا ہوا تھا کہ دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔ کچھ نہیں بتاتی ہے۔ شاہ اگر ملکہ کی کسی بات پر ناراض ہوا تو صلح کیوں نہ ہوئی۔ طلاق تک نوبت کیوں پہنچی۔ ملکہ شاہ کے اس فیصلے پر کس قدر دُکھی تھی۔ وہ کیسا قیامت کا سماں تھا جب اسے لداخ بھیجا جا رہا تھا۔ سکر دو سے رخصت ہوتے وقت اس نے ایک نظر ہلال باغ پر ڈالی جہاں اس کا محبوب علی شیر خان انچن اپنے قلعے کھرپوچو سے نکل کر آیا تھا اور ٹہل رہا تھا۔ اس وقت ملکہ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کے اندر کا درد اشعار کی صورت میں زبان سے نکل رہا تھا۔

چٹان جیسے (مضبوط) شاہ کے باغ میں ہلو کا پھول کھلا نظر آتا ہے۔ یہ ہلو کا پھول نہیں۔ یہ تو علی شیر خان اعظم تھا۔ چٹان جیسے (مضبوط) شاہ کے ہلال باغ میں سرخ گلاب کھلا نظر آتا ہے۔ یہ سرخ گلاب کا پھول نہیں تھا یہ تو علی شیر خان انچن تھا۔

آپ جب ملکہ کو سکر دو لائے تو ہر قدم پر اس کے پیروں کے نیچے فیروزے بچھائے اور اب اسے ننگے پاؤں واپس بھیج رہے ہیں۔

میں نے اس وقت یہ کتاب اُٹھا کر فرش پر ماری اور بھاگتی ہوئی جا کر ماں سے چمٹ گئی۔ علی شیر خان انچن کے ترشے پیکر میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔ میں ماں سے یہ جاننا چاہتی تھی کہ اس نے ملکہ کا محبت بھرا دل کیوں توڑا۔ کیا وہ اسے معاف نہیں کر سکتا تھا۔

ماں نے میرا ماتھا چوم کر کہا تھا۔

’’دنیا ہمیشہ سے مرد کی ہے اور میری بچی! یہ ہمیشہ مرد کی ہی رہے گی۔‘‘

اور میں نے کھڑے ہو کر اپنے پاؤں فرش پر مارے اور کہا۔

’’نہیں میں دل کے معاملے میں ایسا ظلم کبھی نہیں ہونے دوں گی۔‘‘

اور پھر علی اصغر میری زندگی میں آیا۔ جیالا، شہ زور، خوبصورت اور امیر باپ کا بیٹا۔ وہ دریائے شگر کے دائیں ہاتھ ایجواڑی کے بڑے کھاتے پیتے زمیندار کا بیٹھا تھا۔ گھوڑے پر سوار وہ ہمارے گھر جس شام اُترا تھا۔ میں باغیچے میں کھڑی سبزیوں کی کانٹ چھانٹ میں لگی ہوئی تھی۔ دو چوٹیاں میرے سینے پر سانپوں کی طرح پھنکارے مارتی تھیں۔ میدانی علاقوں میں رہنے کے باعث میرے اوپر مقامی رنگ کی بجائے جدے دیت کا اثر غالب تھا۔ اس نے باگ کھینچ کر مجھے غور سے دیکھا اور پھر جست لگا کر فرش پر کودا تھا۔

اور مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے کھرپوچو قلعے سے علی شیر خان انچن ہمارے گھر آیا ہو۔ آنکھوں سے دلوں کا فاصلہ طے ہونے میں بہت وقت نہیں لگا تھا۔ جسمانی فاصلے بھی اس کی کاوشوں سے جلد طے ہو گئے۔

شگر کی تاریخ میں میَں وہ پہلی لڑکی تھی جس نے بیاہ کے دن سفید لباس کی بجائے سرخ جوڑا پہنا۔ وہ مجھے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ اپنے گھر لے کر گیا۔ کیونکہ میں نے دو باتوں کا اعلان کر دیا تھا۔

ایک تو میرا نکاح انقطاعی(ایک مخصوص مدت کے لئے) نہیں ہو گا۔ دوسرے میں مقامی رواج کے مطابق خود اس کے گھر نہیں جاؤں گی بلکہ وہ مجھے لینے آئے گا۔

اور میری یہ دونوں شرطیں مانی گئیں۔

دائمی نکاح ہوا اور وہ مجھے خود لینے آیا۔ شاید یہی میری بد قسمتی کی ابتداء ثابت ہوئی۔ کیونکہ رسم و رواج سے ٹکرانا بھی کش مکش کو جنم دیتا ہے۔

آنسو اب اس کی آنکھوں سے یوں بہنے لگے تھے جسے نل سے پانی کی دھار۔

’’بچے کتنے ہیں۔‘‘ اُس نے پوچھا۔

’’تین۔‘‘ جلتی آہ اس کے سینے سے نکلی تھی۔

’’تم تو پھول پھولوں سے لدا پھندا درخت تھیں۔ مجھ جیسے ٹنڈ منڈ درخت سے تو کوئی پیچھا چھڑا سکتا ہے پر تم کیوں ویران ہوئیں۔‘‘

’’مجھے زعم تھا اپنے آپ پر۔ میں اپنے ماحول اور مرد کی فطرت کو بھول بیٹھی تھی۔ مجھے گھمنڈ تھا اپنے سرخ گلاب پر۔‘‘

پھر اس نے اس سرخ گلاب کی ایک ایک پتی کو اپنے قدموں تلے مسل ڈالا۔

’’ہمارے یہاں کثیر الازدواجی رائج ہے۔ پیسے والوں کو نوعمر لڑکیوں کا جنون ہوتا ہے۔ میں تو ڈھل گئی تھی۔ ہمارے یہاں طلاق تو یوں بھی خلع کے بغیر نا ممکن ہوتی ہے۔ ارے عورت یہاں کتنی مظلوم ہے۔ شاید تمہیں اس کا اندازہ نہ ہو۔‘‘

اس نے وادی پر چھائے الوہی سکون کو اپنے رگ و پے میں اتارتے ہوئے کہا۔

’’عورت تو ہر جگہ مظلوم ہے۔ میری جان خواہ پڑھی لکھی ہو یا اَن پڑھ۔ بس روپ ذرا سا بدل جاتا ہے۔‘‘

٭٭٭






باب نمبر 17



چھتستن (باجرے کے ڈنٹھلوں سے بنی ہوئی چٹائی) پر دو رویہ قطاروں میں عورتیں اور مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ عورتوں نے سبز اور سیاہ گن مون (قمیض) پہن رکھی تھیں۔ جن کے گھیرے اور گلے سیاہ فیتوں سے سجے ہوئے تھے۔ سروں پر ٹوپیاں اور ٹوپیوں پر چادریں۔ مردوں نے سفید ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے کلکاریاں مارتے پھرتے تھے۔ عورتوں کی اپنی زبان میں زور و شور سے باتیں اور بچوں کا شور مل جل کر ایک ہنگامے کا پتہ دیتے تھے۔

وہ دونوں جب دو گھنٹوں تک ایک دوسرے کا دکھ سکھ سننے کے بعد اپنی دنیا میں واپس آئیں۔ اس وقت دوپہر ڈھل رہی تھی۔ کہف الوریٰ ابھی اس اُلجھن میں ہی تھی کہ اپنے قدموں کو کس طرف موڑے۔ جب پاشا بیگم نے اس کے دائیں ہاتھ کو پکڑا۔ اس کی انگلیوں کو محبت سے دبایا اور کہا۔

’’تم میرے ساتھ چلو۔ دو تین دن ہمارے ساتھ رہو اور گندم کی کٹائی کی تقریب اپنی آنکھوں سے دیکھو۔‘‘

اس سیلانی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ہاں البتہ اسے مسٹر و مسز داؤد کے تفکر کا احساس ضرور ہوا۔ جو شام تک اس کے گھر نہ پہنچنے کی صورت میں انہیں ہو سکتا تھا اور جب اس نے اس بارے میں اپنے خدشے کا اظہار کیا۔ پاشا فوراً بولی۔

’’تم گھبراتی کیوں ہو؟ ہمارے ہمسایوں کے گھر سے فون پر بات کر لینا۔‘‘

نالہ شگر پل کے ذریعے پار کیا اور ’’ہلپہ پہ‘‘ محلے میں داخل ہو گئیں۔ یہاں ساٹھ ستر گھروں پر مشتمل آبادی تھی۔ بلتستان میں دو منزلہ گھروں کا رواج ہے۔ سردیوں میں گھر کی نچلی منزل استعمال ہوتی ہے اور گرمیوں میں اوپر کے مویشی وغیرہ بھی نچلی منزل میں رکھے جاتے ہیں۔ یہ سارا پتھروں کا بنا ہوا تھا۔ پاشا اسے نشست گاہ میں لے آئی چھرا (بکری کے بالوں سے بنی ہوئی ڈیزائن دار دری) پورے کمرے میں بچھا ہوا تھا۔ سفید گاؤ تکیے دیواروں سے لگے ہوئے تھے۔ نشست گاہ کی سجاوٹ میں پاشا کے ذوق اندازہ ہوتا تھا۔

اس نے گاؤ تکیے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لی تھیں اور صرف یہ سوچے جا رہی تھی کہ گھر کیسی عافیت کی جگہ ہے۔ لیکن اس کا گھر کہاں تھا۔ اس خطہ زمین پر شاید کہیں بھی نہیں۔

کھڑکی کی آئینی سلاخوں کے عقب سے پاشا کا چہرہ ابھرا۔ آؤ ’’مرزن‘‘ پکنے لگا ہے تم بھی دیکھو۔

وہ اُٹھی اور باہر آ گئی۔ باورچی خانے میں زمینی چولہوں پر بڑے سے پتیلے میں پکنے کے لئے سادہ پانی رکھا ہوا تھا۔ پاشا کی بڑی بھاوج گل بانو بڑی سی سلور کی پرات میں بھنے ہوئے جو کا آٹا لئے پانی کے اُبلنے کا انتظار کر رہی تھی جونہی پانی اُبلا اس نے سارا آٹا اس میں ڈال دیا اور چمچے سے اسے ہلانے لگی۔ یہ حلوے کی مانند بنتا جا رہا تھا۔ پر اس میں میٹھا نہیں تھا۔ نمک تھا۔ اب اس نے اسے بڑی سینیوں میں ڈال کر ٹھنڈا ہونے کے لئے رکھ دیا۔ دیسی گھی گرم کیا اور اسے بھی کٹوروں میں ڈال لیا۔

پاشا نے ایک پلیٹ میں مرزن نکالا اور اسے کھانے کی دعوت دی۔ اس نے گھی میں ڈبو ڈبو کر کھا اور لطف اُٹھایا۔

ساری شام ہنگامے کی نظر ہوئی۔ چار چار پانچ پانچ عورتوں نے ایک ایک سینی خالی کر دی۔ ساتھ میں بچے بھی ہاتھ کچولتے رہے۔

اگلی صبح سویرے ہی اُس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ دیر تک لوہے کی سلاخوں والی کھڑکی سے باہر پہاڑوں کو دیکھتی رہی۔ بلتستان کے پہاڑ ننگے بچے روئیدگی کے بغیر بہت پر ہیبت لگتے ہیں۔ سبزہ صرف وادیوں میں یا جہاں پانی ہو ملتا ہے۔ وہ باغیچے میں اُگے سیبوں کے درختوں پر لٹکے سیبوں کو دیکھتی رہی۔ سرخ ٹماٹروں کو پودوں میں سے جھانکتے دیکھ کر مسکراتی رہی۔ صبح کیسی پر نور اور خوشگوار تھی۔ پاشا کے گول مٹول چہروں والے بچے کمبل اوڑھے سوتے تھے۔ تینوں کے سیبوں جیسے رخسار پھٹے ہوئے تھے۔

وہ باہر نکلی بیت الخلا زمینی تھی۔ منہ ہاتھ دھو کر فارغ ہوئی اور باورچی خانے میں جھانک کر دیکھا۔ گل بانو پراٹھے بنا رہی تھی۔ پاشا کی چھوٹی بہن دوغما ( لکڑی کا لمبا سا ڈبہ) میں دہی بلور ہی تھی۔ اس نے بلو نے کی کوشش کی پر ہانپ کر جلد ہی بیٹھ گئی۔ بے چاری کو ڈنڈا اوپر نیچے لے جانے میں پسینہ پسینہ ہونا پڑ رہا تھا۔

’’چائے کا پیالہ پیو۔‘‘ گل بانو نے بالوں کو کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا۔

پاشا نے پیالے میں نمکین چائے ڈالی اور ساتھ ہی تازہ مکھن بھی ڈال دیا۔ پیالہ اس کے ہاتھ میں آیا اور وہ اسے دیکھتے ہی گھبرا کر بولی۔

’’پاشا یہ تم نے کیا کیا؟ میں اِسے نہیں پی پاؤں گی۔‘‘

گل بانو زور سے ہنسی۔ پاشا بھی ہنس پڑی۔

’’ارے تم اِسے پیو تو سہی۔ یہ اتنا لذیذ لگے گا کہ تم ایک اور مانگو گی۔‘‘

واقعی پاشا جو کہہ رہی تھی درست تھا۔ اس نے مزے مزے سے پیا پر دوسرا نہیں مانگا۔ پاشا کے کھیت عطویٰا سے ذرا آگے تھے۔ چنار، بید مجنوں اور چیڑ کے درختوں کی ہریالیوں میں بسنتی بالیوں والے پودے کیسے دلکش لگتے تھے۔ بہت سے مرد عورتیں اور بچے تھے وہاں۔ گل بانو نے بچوں اور بڑوں کو میٹھے پراٹھوں کا چپہ چپہ دیا۔ بچوں نے تالیاں بجائیں۔ بڑی بہو کو مبارکباد دی اور گیت گائے۔

تیرا گھر سدا آباد رہے۔

تیرے کھیت کھلیان سدا پھل دیتے رہیں۔

اور تو سدا میٹھی روٹیاں بانٹتی رہے۔

وہاں موجود معمر مرد نے کٹائی کی ابتداء کی اور اس کے ساتھ ہی کٹائی کا عمل شروع ہو گیا۔ تب پاشا بولی۔

’’آؤ چلیں۔ اسکول کا بھی چکر لگا آتے ہیں اور مسجد امبوڑک اور چھ برونجی بھی دیکھ آتے ہیں۔‘‘

دو میٹھے پراٹھے جو بچ گئے تھے وہ انہوں نے رو مال میں لپیٹے اور چل پڑیں۔ راستے میں اس نے چند ایسے لوگوں کو دیکھا جن کی گردنوں کی ایک طرف پھولی ہوئی تھی۔ یقیناً یہ ’’گلہڑ‘‘ تھا۔ اس کے استفسار پر پاشا نے اس کی تائید کی اور بتایا کہ

’’ شگر کا پانی صحت کے لئے ناموزوں ہے۔ چند علاقے ایسے ہیں جن میں پانی کی اس خرابی کی بناء پر یہ بیماری عام ہے۔ در اصل طبی نقطہ نگاہ سے اس پانی میں آیوڈین کی کمی ہے۔‘‘

اس کے اس سوال پر کہ آیا انتظامی سطح پر اس خرابی کو دور کرنے کے لئے کچھ کاوشیں بھی ہوئی ہیں یا نہیں۔ پاشا فی الفور بولی تھی۔

’’ارے کیوں نہیں، جگہ جگہ ڈسپنریاں اور اسپتال کھولے گئے ہیں۔ اس بیماری کی خصوصی روک تھام کے لئے ایک میڈیکل سنٹر الگ سے قائم کیا گیا ہے۔ آزادی کی فضاء میں سانس لینے والی نوجوان نسل پرانی نسل کی نسبت زیادہ قد آور اور خوبصورت ہے اور اس بیماری سے بھی محفوظ ہے۔

مسجد چھ برونجی میں ایک بار پھر وہ چوب کاری اور پچی کاری اور کشید کاری کے اعلیٰ نمونے دیکھ رہی تھی۔ اس مسجد میں شرقی دروازے سے بسم اللہ شروع کر کے سورہ مزمل جلی حروف میں سفیدی سے تحریر کی گئی ہے۔ یہ مسجد بھی خانقاہ معلی کے ساتھ تعمیر ہوئی تھی۔

یہاں بیٹھ کر انہوں نے وہ دونوں پراٹھے کھائے۔ چشمے کا ٹھنڈا ٹھار پانی پیا چند کچے سیب توڑے اور پھر مسجد امبوڑک کی طرف روانہ ہوئیں۔

یہ مسجد سید امیر کبیر ہمدانی کی یادگار ہے۔ انہوں نے ۷۸۲ء میں اس کی بنیاد رکھی۔ یہی مسجد ان کا مسکن تھی۔ اسی میں رہ کر انہوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی پھیلائی۔ مسجد کا گنبد اب قبلہ کی طرف جھک گیا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل حضرت سید امیر کبیر کا عصائے مبارک اس مسجد میں تھا جو اب لا پتہ ہے لوگوں کو اس مسجد سے والہانہ لگا ؤ ہے۔

یہاں انہوں نے وضو کیا۔ نفل پڑھے اور جب وہ دونوں ہاتھ اُٹھائے دعا مانگتی تھیں پاشا نے بند آنکھیں اچانک کھولتے ہوئے ہنس کر پوچھا۔

’’بھلا بتاؤ تم نے کیا مانگا ہے؟‘‘

وہ بھی ہنستے ہوئے بولی۔

’’پاشا دعائیں خالق اور مخلوق کا ذاتی معاملہ ہوتی ہیں۔ یہ بتائی تو نہیں جاتیں۔‘‘

تین دن وہ پاشا کے گھر رہی۔ گندم کی گہائی دیکھی۔ سانڈ جیسے پلے ہوئے آٹھ زومو (بیلوں کی ایک قسم) کی گردنوں کو رسوں سے باندھ کر رسے کا آخری سرا ذرا فاصلے پر گڑے رنگ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پول میں لگا رنگ گھومتا ہے اور اس کے ساتھ ہی زومو بھی گھومتے ہیں۔

’’یہ زومو بڑا عیار جانور ہے۔ ذرا نگران آدمی سر سے غائب ہوا اور اس نے کام کرنا بند کر دیا۔‘‘

’’ارے انسان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ آخر کو صحبت کا اثر ہونا ضروری ہے۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔

بھوسہ الگ کر کے گندم کو تھیلوں میں ڈالنے کا عمل بھی بڑا پر لطف تھا۔ کام کرنے والوں نے ہونٹوں کو سی لیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا خیال تھا کہ باتیں کرنے سے ان کے درمیان شیطان اور بد روحیں آ جاتی ہیں۔ اناج میں سے برکت اُڑ جاتی ہے۔

اسی شام داؤد صاحب کا ڈرائیور اسے لینے آیا۔ ساتھ چھوٹا سا رقعہ بھی لایا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا۔ آپ کریم صاحب کے ہاں جا کر بیٹھ گئی ہیں۔ گھر آ جائیے سکر دو سے فون پر فون آ رہے ہیں۔ سیماں بات کرنا چاہتی ہے۔

٭٭٭







باب نمبر 18





رات کے دس بجے سیماں فون پر تھی۔ اس کی کھنک دار رسیلی آواز اس کے کانوں میں یوں ٹپ ٹپ گرتی تھی۔ جیسے قطرہ قطرہ شہد حلق میں گرتا ہو۔ وہ کہتی تھی ’’آپ کو تو شگر نے معلوم ہوتا ہے جپھی ڈال لی ہے۔ شیبہ بہت اداس ہو رہی ہے۔ للی اور بڑی بھابھی بھی بہت مس کر رہی ہیں۔ پلیز فوراً سکر دو آ جائے۔‘‘

اور اُس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

’’ارے ابھی آ جاؤں۔ سیماں میری جان ابھی تو میں چھپن کلو میٹر طویل بلتر و گلیشیئر کو دیکھنے جانے والی ہوں۔ وہاں سے واپسی پر وادی شگر کے آخری گاؤں ارندو کے سامنے واقع ہسپر گلیشیئر پر سے وہ راستہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ جس پر سے لوگ گلگت کے علاقہ نگر کو جاتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے میری گردن پر خارش کا دورہ پڑا ہوا ہے۔ موٹے موٹے کھرنڈ بن گئے ہیں۔ میں چشمہ چھوترون کے گرم پانی سے اپنی گردن اور سر کو غسل بھی دینا چاہتی ہوں۔ سننے میں آیا ہے چشمہ چھوترون اور اسے کچھ فاصلے پر چشمہ بلیسل جلدی بیماریوں کے لئے نہایت مفید سمجھے جاتے ہیں۔ میں کے۔ ٹو کی چوٹی کو بھی سر کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں اور ہاں سیماں میری جان! کل مجھے داؤد صاحب کے ساتھ ’’ہشوپی‘‘ میں زراعت کا فارم دیکھنے جانا ہے اور ہاں ابھی میں ابھی قلعہ کھری ڈونگ کے دہشت ناک محل وقوع کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ڈرنا چاہتی ہوں۔ بھلا سیماں میری جان! اتنے اہم اور ضروری کام جب کرنے والے ہوں تو انہیں ادھورا چھوڑ کر سکر دو کیسے آیا جا سکتا ہے۔‘‘

اور اب ریسور روح اللہ نے پکڑ لیا تھا۔ وہ بول رہا تھا۔ ’’میں چاہتا ہوں آپ خپلو کا چکر لگا لیں۔ ڈاکٹر سیف اللہ اور اس کی فیملی چند ماہ کے لئے وہاں جا رہے ہیں۔ رہیں شگر کی باقی جگہیں، تو میرا شگری دوست سکندر جو قصور میں ڈی۔ سی ہے۔ وہ دو ماہ بعد اپنے بھانجے کی شادی میں شرکت کے لئے آنے والا ہے۔ یہ سب جگہیں اس کی رہائش گاہ سے زیادہ دور نہیں۔‘‘

اور اب ’’چلو ٹھیک ہے‘‘ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

وہ کوئی ڈھائی بجے سکر دو پہنچی۔ اس وقت نشست گاہ میں گھر کے سب افراد بیٹھے کھانا شروع کرنے والے تھے۔ جب اس نے السلام علیکم کہا۔ سیماں کا چہرہ اسے دیکھتے ہی قندھار کے چیرے ہوئے انار کی طرح کھل گیا۔ شیبہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ للی نے بازو اس کے گردن میں حمائل کر دئیے۔ کمرے میں تین افراد اور بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر اسماعیل جو خپلو اسپتال میں ڈینٹل سرجن تھے۔ ان کی نوعمر خوب صورت بیوی اپنے دونوں چھوٹے بچوں کے ساتھ، اور خپلو اسپتال کے ایم۔ ایس ڈاکٹر ابراہیم۔

اس گھر کے مکینوں نے جس وارفتگی اور والہانہ پن سے اس کا استقبال کیا تھا۔ اس کے پور پور میں سرشاری کی لہر دوڑ گئی تھی۔ سفر کی ساری تھکاوٹ جو آنکھوں میں اور چہرے پر بکھری ہوئی تھی۔ پل بھر میں اڑنچھو ہو گئی اور جب وہ شیبہ کو سینے سے لگائے قالین پر بیٹھی۔ ڈاکٹر ابراہیم اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔

’’ہم خپلو میں آپ کے منتظر تھے۔‘‘

اس نے ایک نظر اُن پر ڈالی اور سوچا۔

’’یہ کیسا چہرہ ہے نرمی اور متانت کی پھوار میں بھیگا ہوا۔ یہ کیسی آواز ہے حلاوت اور محبت کی خوشبو میں رچی ہوئی آپ کو اپنائیت کا احساس دیتی ہوئی۔

وہ ہلکا سا مسکرائی اور بولی۔

’’وہیں جانے کے لئے تو آئی ہوں۔‘‘

شام کو چائے کے بعد وہ لوگ چلے گئے اور جاتے جاتے اسے خپلو آنے کی پر زور دعوت بھی دیتے گئے۔

رات کو اس نے سیماں کو زہر مہرہ کا خوبصورت ٹی سیٹ دیا جو وہ اس کے لئے شگرسے لائی تھی۔ سیماں نے اس کا گال چومتے ہوئے کہا۔

’’کمال ہے، اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔‘‘

’’لو میری تمنا تھی۔۔ ۔ سچ سیماں زہر مہرہ پتھر کی چیزیں۔ قسم سے میرا دل تو سب کچھ سمیٹ لانے کو چاہتا تھا۔ لوگ بتاتے تھے کہ یہ پتھر زہر کا بہترین توڑ ہے۔‘‘

وہ دن بعد ڈاکٹر سیف اللہ اور اس کی بیوی خپلو کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ شگر سے آئی تو وہ اسی نیت سے تھی پر یہاں سیماں ’’ رپھڑ‘‘ ڈال بیٹھی تھی کہ نہیں ابھی کل آئی ہیں اور آج چلی جائیں، دیکھا جائے گا۔

سیماں کی محبت اس کے پاؤں کی بھی زنجیر بن گئی تھی۔

شام کو طاہر آیا۔ اسے آنگن میں بیٹھے دیکھا تو قریب آ کر اس کی پاس ہی بیٹھے ہوئے بولا۔

’’سنائیے پھر شگر کا دورہ کیسا رہا؟‘‘

’’بس ٹھیک ہی رہا۔ وہ کیتھی اور شاور تو روح اللہ نے یہیں سے جدا کر دئیے تھے۔ میرے خیال میں ان کا ساتھ ہوتا تو زیادہ لطف رہتا۔‘‘

طاہر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

’’ارے شکر کیجئے کہ ساتھ چھٹ گیا۔ ورنہ انہوں نے تو چلا چلا کر آپ کی ٹانگیں تڑوا ڈالنی ہیں اور ’’صرفے‘‘ کر کر کے آپ کو فاقوں مار دینا تھا۔ اول درجے کی نہنگ ملنگ جوڑی تھی وہ۔‘‘

وہ روح اللہ سے کہنے آیا تھا کہ کل سے پولو ٹورنامنٹ شروع ہو رہے ہیں۔ روندو کے کھلاڑی اس بار پھر دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ یہ مقابلے جیتیں گے۔

سیماں بولی۔

’’طاہر تم کسی طرح ہم دونوں کو لے جاؤ۔ کہف الوریٰ دیکھ لیں۔‘‘

کچھ دیر وہ سوچتا رہا پھر بولا ’’اچھا دیکھوں گا۔‘‘

اگلے دن وہ لمبی چوڑی چادروں میں لپٹی ناک منہ ڈھانپے پولو گراؤنڈ میں پہنچ گئیں کیا رونق تھی۔ سارا سکر دو یہاں سمٹا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

پہلے چند نوجوان سفید شلوار قمیض، سفید ٹوپیاں، کمر میں سرخ پٹکے باندھے اور ہاتھوں میں تلواریں پکڑے میدان میں اترے۔ لوک دھں ’’گاشوپہ‘‘ پر انہوں نے تلواروں کے ساتھ ایسا دلفریب رقص کیا کہ مجمع کے ساتھ وہ بھی بے خود سی تالیاں بجانے لگی اور اس وقت رکی جب سیماں نے ٹہو کا دے کر متنبہ کیا۔

پھر پولیو کا کھیل شروع ہوا۔ دونوں اطراف پر پانچ پانچ کھلاڑی تھے۔ کھیل بینڈ کی تیز موسیقی اور مجمع کے ولولہ انگیز نعروں کے ساتھ شروع ہوا۔ گیند کو مخالف ٹیموں کے درمیان پھینکا گیا۔ ایک سڑاکے کی آواز آئی۔ اس کے پیچھے تیزی سے گھوڑے دوڑاتے ہوئے سوار گیند کو گول کی طرف لے جانے لگے۔ کیسا سنسنی خیز کھیل تھا۔ وہ سانس روکے بیٹھی تھی۔ زمین ملیریا کے مریض کی طرح کانپتی تھی۔ بینڈ چیخا۔ ستغرا موسیقی کی گلا وردھن بجی۔ لوگوں کے واہ واہ کے نعروں سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے۔

کھیل خطرناک رفتار سے کھیلا جا رہا تھا۔ اسے خوف محسوس ہو رہا تھا بس یوں لگتا تھا جیسے ابھی کوئی گر جائے گا اور گھوڑوں کے سم اس کا قیمہ کرتے ہوئے گزر جائیں گے۔ طاہر نے اس کی کپکپاہٹ کو محسوس کیا اور بولا۔

’’لیجئے ابھی تو روندو کے کھلاڑیوں نے میدان میں اترنا ہے۔ آپ کہیں ان کا کھیل دیکھ لیں تو غش کھا کر گر جائیں۔

’’باز آئی بابا میں انہیں دیکھنے سے۔‘‘ اس نے سہم کر کہا۔

’’ارے یہ گھوڑا پولو تو بہت آداب و ضوابط کے ساتھ کھیلے جانے والی کھیل ہے۔‘‘

اور جب وہ گھر آ رہے تھے، طاہر بولا۔

’’ہمیں بہت شدت سے احساس ہے بلکہ یہ کہتے ہوئے دکھ بھی ہے کہ قومی مظاہروں میں بلتستان کی مصنوعات، رقص وموسیقی اور کھیل نظر انداز کئے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ یہ خون کھولا دینے والا ولولہ انگیز شمشیر رقص اور سنسنی خیز پولو کا کھیل کیا اس قابل نہیں ہیں، کہ انہیں قومی سطح پر روشناس کروایا جائے۔

اور اسے محسوس ہوا تھا جیسے کوئی اس کا دل مٹھی میں بھینچ رہا ہو۔

٭٭٭







باب نمبر 19





اُس کا حال پنجرے میں بند کبوتر جیسا ہو رہا تھا جو آزاد ہونے کے لئے طیش میں آ کر بار بار اپنی چونچ لوہے کی سلاخوں پر مارتا ہے۔ ان دنوں وہ اور سیماں کبوتر اور پنجرہ بنی ہوئی تھیں۔ وہ اڑان لینا چاہتی تھی اور سیماں اسے مقید کرنے پر بضد تھی۔ اسے شگر سے آئے ہوئے پندرہ دن ہو رہے تھے۔ ان پندرہ دنوں میں اس نے سیماں کے ساتھ مل کر اس کی سردیوں کی ساری تیاری مکمل کروا دی تھی۔

باغ کے سارے ٹماٹر اتار کر چار چار ٹکڑوں کی صورت میں چھت پر ڈال کر سکھائے تھے۔ سیبوں کو دھو کر سٹورمیں بچھی توڑی پر پھیلا دیا تھا۔ دونوں نے سٹور میں ہی وہ جگہ بھی بنا لی تھی جہاں مولیوں اور گاجروں کو دبانا تھا۔ ساگ اور پالک سوکھ گئی تھیں اور انہیں پولیتھین کے لفافوں میں پیک کر لیا تھا۔ سوکھے ٹماٹروں کو بھی ایک دن دونوں نے مل کر پیس لیا۔ یہ سب کام کرتے ہوئے کبھی کبھی اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ اسے اپنا گھر یاد آتا۔ اپنا کچن جس کے لئے وہ مہینے کی اولین تاریخوں میں ایسے ہی چیزوں کو سینتنے میں پوری گرہستن بنی ہوئی ہوتی۔ دل سے اک ہوک سی اٹھتی اپنے گھر کی آرزو تڑپانے لگتی پھر جیسے یکدم وہ اس آرزو کے گلے میں پھندا ڈال کر اس کا گلا گھونٹ دیتی اور اپنے آپ سے کہتی۔

’’بھلا جس راہ نہیں چلنا اس کے کوس کیا گننے۔‘‘

ان دنوں سکر دو کی ہر گھر دار عورت سردیوں کی آمد کے سلسلے میں تیاریوں میں پھنسی ہوئی تھیں۔

ایک شام اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

’’سنو میں کل خپلو جا رہی ہوں۔ نہیں جانے دو گی تو چوری سے نکل جاؤں گی۔‘‘

’’اچھا بابا اچھا میں ہاری تم جیتیں۔‘‘

روح اللہ نے ویگن کی فرنٹ سیٹ اس کے لئے ریزرو کروا دی تھی۔ سیماں نے چھوٹی سی باسکٹ میں تھرموس اور بسکٹوں کا ڈبہ رکھ دئیے۔ اس نے کون سے بل بیل جو تنا تھے۔ چند جوڑی کپڑے شامل اور پل اوور بیگ میں گھسیڑ لئے۔ سیماں نے اپنا کوٹ زبردستی اس کے سامان میں رکھ دیا۔ اس نے بہتیرا نہ نہ کیا پر وہ بولی ’’احمقوں والی باتیں مت کرو بہت سردی ہو گی وہاں۔‘‘

حسین آباد کی پرائمری سکول میں بچوں کو پڑھتے دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آیا۔ بچپن جو پل جھپکتے میں گزر جاتا ہے اور پھر ساری زندگی یادوں کے جھروکوں سے جھانک جھانک کر اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے۔

مردوں سے لدی پھندی ایک گاڑی کھر منگ جار ہی تھی۔ تھور گو پڑی کی خطرناک پہاڑیاں جن کے نیچے دریائے سندھ بہتا تھا۔ کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تھا۔ گھبرا کر اس نے پیچھے دیکھا۔ ایک معمر مرد اس سے مخاطب تھا۔

بیٹی تم نیچے سے آئی ہو اور میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ان سامنے نظر آنے والی تھور گو پڑی کی پہاڑیوں پر بلتستان نے اپنی جنگ آزادی کی فیصلہ کن جنگ لڑی تھی اور اس لڑائی میں میں خود بھی شامل تھا۔

اس نے رخ پھیرا۔ عقیدت و احترام کے گہرے جذبات کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا۔

’’کیا کچھ تفصیل نہیں بتائیں گے؟‘‘

’’بریگیڈئیر فقیر سنگھ عیار دشمن تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کا معتمد خاص اور بہت تجربہ کار فوجی افسروہ خود میجر کو ٹس اور تین سو پچاس فوجیوں اور بے شمار اسلحہ کے ساتھ سکر دو پر فیصلہ کن حملے کے لئے آ رہا تھا۔ یہ کمک اگر سکر دو پہنچ جاتی تو مجاہدین کے لئے مقابلہ بہت مشکل ہو جاتا۔ مقابلے کے لئے یہی جگہ منتخب کی گئی تھی۔ یہاں وادی بہت تنگ ہے۔ وہ دیکھو اس نے انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ اونچے پہاڑ کی کمر سے گزرنے والے راستے پر ایک وقت میں صرف ایک گھوڑا بوجھ اٹھائے گزر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ نر بوچونگ کا گاؤں واقع ہے۔ بیٹی اس وقت مجاہدوں کی کمی نہ تھی۔ پورا بلتستان اپنے آپ کو خاک و خون کرنے پر تلا ہوا تھا۔ پر اسلحہ نہیں تھا۔ کیپٹن عالم اور کیپٹن محمد خان نے عمدہ پلاننگ کی فقیر سنگھ ۱۹ مارچ کو دن کے گیارہ بجے میجر کوٹس کے ہمراہ گھوڑوں پر سوار بمعہ فوج قلی گھوڑے اسلحہ تھورو گوپڑی کے پہلو میں واقع میدان میں آ پہنچے۔ انہوں نے دوربینیں آنکھوں پر چڑھائیں۔ صورت حال کو موافق پا کر اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ دوپہر کے کھانے کے لئے دستر خوان سجایا کھانا کھایا۔ شراب سے شغل کیا۔ پھر ہر اول دستہ آگے اور پیچھے باقی فوج ترتیب میں چلنے لگی۔ جب ساری فوج پڑسی کے پیچ در پیچ راستوں میں آ گئی تو مجاہدین نے ان پر فائرنگ کھول دی۔ پہاڑی کی چوٹیوں سے پتھر برسائے گئے۔ کچھ بھاگے کچھ دریا میں گرے کچھ چوٹیوں سے گر کر ہلاک ہوئے۔ پوری فوج کا صفایا ہوا۔ اسلحہ اور ایمونیشن کا اتنا بڑا ذخیرہ ہاتھ لگا کر مجاہدین کی ساری مشکلات رفع ہو گئیں۔

نر اور غوڑو کے گاؤں جنگ آزادی کی داستان سنتے گزر گئے۔ نر گاؤں میں ذرائع آمدورفت کے لئے اب بھی زخ (مشکوں اور لکڑی کی ڈنڈوں سے بنی ہوئی کشتی) استعمال ہوتی ہیں۔ دریائے سندھ پر گول کا معلق پل نمودار ہوا۔ یہ معلق پل کر پس سے ہوشے تک جانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

گول وادی بہت خوب صورت اور دل کش تھی۔ امام باڑہ ایسی شان والا تھا کہ نظر لگنے کا ڈر محسوس ہوتا تھا۔ دریا کا پاٹ کہیں زیادہ چوڑا اور کہیں کم تھا۔ سڑک بدل گئی تھی۔ روکھے خشک اور بنجر پہاڑوں کے درمیان سے اچانک سبز وادیاں نکل آئیں۔ زندگی اور اس کی رعنائی کا احساس ابھر آیا۔ ستمبر کا دوسرا ہفتہ تھا۔ ہریالی بتدریج کم ہوتی جاتی تھی۔

کریس سے دریائے شیوق شروع ہو جاتا ہے۔ کریس میں پہنچ کر ویگن چائے پانی کے لئے رک گئی۔ اس کے دائیں ہاتھ کریس کی شاداب کشادہ چکنی مٹی والی وادی پھیلی ہوئی تھی۔ فصل ربیع کٹ چکی تھی۔ گندم کے کھیت خالی پڑے تھے۔ دور دو ٹریکٹر نظر آئے تھے۔ وہ ویگن سے اتری اور کھیتوں کے بیچوں بیچ پگڈنڈیوں پر چلتی سادات کا لونی محلہ میرپی پہنچ گئی۔ چھوٹی سی کھال پر ایک عورت کپڑے دھو رہی تھی۔ ذرا آگے کھلا سا میدان تھا۔ نوجوان لڑکے کنگ پولو (موجودہ فٹ بال قدیمی شکل) کھیل رہے تھے۔ سامنے خانقاہ نظر آتی تھی۔ مرادوں کی بارہ آوری کے نمائندہ رنگ برنگے رو مال ہوا سے لہرا رہے تھے۔

وہ ایک دومنزلہ کچے گھر میں جھانکی۔ گھر والی جھاڑو بہارو سے فارغ ہو کر باورچی خانے میں کچھ پکانے میں مشغول تھی۔ دھوپ کریس کی وادی پر خوب چمک رہی تھی۔ پر خفیف سی خنکی کا احساس پھر بھی تھا۔ اسے دروازے میں کھڑے دیکھ کر پل بھر کے لئے اس کے آنکھوں میں اجنبیت کی لہرا بھری۔ پھر اس کے حلیے سے اندازہ لگاتے ہوئے کہ کوئی نیچے سے آئی ہے وہ مسکراد ی۔ وہ بلتی میں بولی تھی۔ آگے آؤ۔

وہ کچھ سمجھی اور چولہے کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ایک بڑی سی طشتری میں اس نے اخروٹ بادام، دھنیا، نمک مرچ وغیرہ کا آمیزہ تیار کر رکھا تھا۔ باجرے کے آٹے کے چھوٹے چھوٹے پیڑے جنہیں تین انگلیوں سے اٹھایا گیا تھا۔ وہ ابالے ہوئے رکھے تھے۔ اب وہ سب کو ملا رہی تھی۔ اس کھانے کو وہ پڑوپو بتاتی تھی۔ دشواری یہ تھی کہ دونوں ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتی تھی۔ گھر کا مرد آیا اور اس نے اس مشکل کو حل کیا۔ ایک گاؤں چھوڑ کر اگلے گاؤں اس کی بھانجی کے یہاں ولادت ہوئی تھی، اسے مبارک باد دینے جانا تھا اور یہ کھانے دستور کے مطابق ساتھ لے کر جانے تھے۔

ایک دوسرے تھال میں میٹھے ارزق (سموسے) رکھے تھے۔

اس نے گھڑی دیکھی اور معذرت کرتے ہوئے بھاگی اور جب وہ سڑک پر پہنچی وہاں کچھ نہ تھا۔ سامنے چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھے دو مردوں نے بتایا کہ ویگن والا لڑکا بولتا تھا۔ پتہ نہیں کہاں جا کر بیٹھ گئی ہیں۔ اب میں کہاں تلاش کرتا پھروں؟

اس کا بیگ اور کوٹ ہوٹل والوں کے پاس تھا۔

’’کمبخت کہیں کا۔ دیکھو تو کیسا ذلیل ہے۔ اب رات کا کیا بنے گا۔ یہاں کون سی گاڑیوں کی ریل پیل ہے کہ ایک چھت گئی تو دوسری مل جائے گی۔‘‘

لیکن اب ’’قہر درویش برجان درویش‘‘ والی بات تھی۔ وہ پلٹی کھیتوں کے عین بیچوں بیچ بیٹھ کر اس نے چائے پی اور بسکٹ کھائے اور اسی گھر کی طرف پھر چلی گھر والے کو اس نے اپنی مشکل بتائی۔ اس نے خلوص بھرے لہجے میں کہا۔

’’آپ پریشان کیوں ہیں؟ ہمارا گھر حاضر ہے۔ آپ کریس میں گھومیے پھرئیے۔ دوپہر کو ہم لوگ کونیس جا رہے ہیں، ہمارے ساتھ چلئے۔‘‘

اور اب اس کے ہونٹوں پر اطمینان بھری مسکراہٹ دوڑی تھی۔

اس نے پڑوپو کھایا۔ ارزق بھی چکھا۔ ارزق کی نسبت اسے پڑوپو زیادہ مزیدار لگا۔ سیب کھائے اور پھر گھومنے پھرنے نکل گئی۔

کریس کے کھیت بہت کشادہ معلوم ہوتے تھے۔ وادی بھی بہت کشادہ نظر آتی تھی۔ چلتے چلتے وہ اس مشہور خانقاہ تک پہنچی۔ جسے کشمیری راہنما سید مختار نے بنایا تھا۔ ٹیڑھے میڑھے درختوں کے سائے میں شکستہ سی خانقاہ اپنی زبوں حالی کی داستان سناتی تھی۔ وہ اندر گئی اور پھر فوراً باہر نکل آئی۔ سامنے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر وہ بہت دیر تک اردگرد کے ماحول کو دیکھتی رہی۔ پہاڑوں پر برف جمی تھی۔ دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔ پتھروں کا ڈھیر سامنے پڑا تھا۔ اور چاروں طرف ویرانی اور اداسی سے بھری ہوائیں چلتی تھیں۔

کریس کی جامع مسجد بھی دیکھی جو سید مختار کے والد ابو سعید نے تعمیر کی تھی۔ ایک گھر کے سامنے ایک بوڑھی عورت کنالی میں خوبانیوں کی پھوٹی ہوئی کڑوی گریاں سوس(پتھر کی زمینی کونڈی) میں کوٹ رہی تھی۔ اس میں سےا سے چولی مار (تیل) نکالنا تھا۔

یہاں لوگوں کی اکثریت نور بخشی مسلک سے منسلک ہے۔

ایک چھوٹے سے گھر میں بہت سے لوگ جمع تھے۔ وہ بھی اندر چلی گئی۔ یہاں مرگ ہو گئی تھی۔ ساتواں دن تھا۔ رشتہ دار اور میل ملاپ والی خواتین گھر کی عورتوں کا سر دھلانے اور ان میں کنگھی کرنے آئی تھیں۔ گھر کے مرد نے داڑھی اور سر کے بال منڈوائے ہوئے تھے۔

مرگ ہو یا ولادت، عزیز و اقارب پکے ہوئے کھانوں کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔ پر جب اس نے میر مختار متوفی کا مقبرہ دیکھا وہ دنگ رہ گئی۔ اس کی چوب کاریاں یقیناً قابل دید تھیں۔

گھومتے گھومتے جب اسے یہ یاد آیا کہ روح اللہ یقیناً شام تک خپلو فون کر کی اس کے پہنچنے کے بارے میں جاننے کی کوشش کرے گا اور یہ معلوم ہونے کے بعد کہ وہ خپلو نہیں پہنچی۔ پریشان ہو گا۔ وہ پبلک کال آفس کی طرف بھاگی۔ آپریٹر نے بہت تعاون کیا اور سیماں سے اس کی بات کروا دی۔

اب وہ پھر اسی گھر میں پہنچ گئی تھی۔

ایک ٹوٹی پھوٹی جیپ گھر کے سامنے کھڑی تھی۔ شاید اس میں ہی انہیں جانا تھا۔

’’میرے خدایا، ایسا پر خطر راستہ۔ بھلا اگر کہیں اس کی بریکیں فیل ہو جائیں تو پھر۔ تب اس نے اپنے آپ سے کہا ’’میری جان زیادہ قیمتی ہے یا ان کی جن کے ساتھ کئی جانیں ہیں۔‘‘

اور اس گھر والی نے جس کے گال سیبوں کی طرح دہکتے تھے، اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ بچے بھی لد گئے۔ گھر والا ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھ گیا اور جیپ اچھل اچھل کر چلنے لگی۔

نیچے دریائے شیوق بہہ رہا تھا۔ اوپر سورج چمک رہا تھا۔ دائیں بائیں ننگے پہاڑ جھانکتے پھرتے تھے اور جیپ کھرڑ کھرڑ کرتی چلی جا رہی تھی۔

آگے گون کا گاؤں آیا۔ گھر والا جو عبد الرحیم تھا، اس نے گاڑی ایک طرف رکوائی بیوی سے بلتی میں کچھ بولا اور ایک طرف چلا گیا۔ اس نے پانچویں جماعت میں پڑھتے ان کے بیٹے ناصر سے پوچھا کہ گاڑی کیوں رکی ہے اور اس کا باپ کہاں گیا ہے؟ بچہ بولا تھا۔ گون کے خربوزے اور تربوز بہت شہرت رکھتے ہیں۔ یہ جولائی کا پھل ہے یہاں ایک دکاندار انہیں دو تین ماہ تک رکھتا ہے ہم اگر ان دنوں اس طرف آئیں تو ابا سے فرمائش کر کے ضرور کھاتے ہیں۔

آدھ گھنٹہ بعد جب وہ آیا اس کے ہاتھ میں خربوزہ تھا۔ خربوزہ کم و بیش تین چار کلو سے کم تو کیا ہی ہو گا۔ اس نے ناصر سے غالباً آ کر یہ کہا تھا کہ تربوز مل نہیں سکا۔ بچے کا منہ اتر گیا تھا۔

عبد الرحیم نے اسے پتھر پر مارا۔ بیچ میں سے توڑا۔ ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا سب کو تھما دیا۔

اس نے چکی کاٹی۔ ایسا ذائقہ دار کہ جنت کے پھل کا گمان گزرا۔ اس میٹھی میٹھی دھوپ میں کھلے آسمان تلے شیوق کے بہتے پانیوں اور پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے یہ سب کھانا اسے بہت اچھا لگا تھا۔

گون کی وادی کے سارے کھیت ایک تناسب کے ساتھ چوکور تھے۔ دریا پر غلبہ کھر کا گاؤں تھا۔ اور تھوڑی دیر میں وہ کونیس پہنچ گئے۔ سڑک سے کوئی بیس گز پر گھر تھے۔ پتھر کی سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے میں آئے۔ گھر میں دو عورتیں تھیں۔ جنہوں نے حیرت سے اسے دیکھا پر جب بلتی کھٹ پٹ ہوئی تو ان کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ نمکین چائے کے ساتھ بسکٹ آئے۔ کھانے پینے سے فراغت پا کر اس نے عبد الرحیم سے بات کی کہ اب اس کے پہنچنے کا کیا بندوبست ہو گا۔ اس نے بتایا کہ کل صبح جو گاڑی سکر دو سے خپلو کے لئے آئے گی اس پر اسے بٹھا دیں گے۔

اب وہ وہاں بیٹھ کر کیا کرتی۔ بچے کو دیکھا چھوٹا سا بچہ جس پر نظر پڑتے ہی اسے اپنا اندر ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔ دس کا ہرا نوٹ اس نے اس کی گردن پر رکھا اور یہ کہتے ہوئے کہ وہ ذرا گھوم پھر آئے، باہر نکل آئی۔ عبد الرحیم کی آواز اسے اپنے تعاقب میں آتی سنائی دی تھی کہ ’’گھر تو یاد رہے گا نا۔‘‘

’’گھر تو یاد رہتا ہے۔ کوئی بھولنے والی شے تھوڑی ہے یہ کیسا بھی کیوں نہ ہو؟‘‘

یہ سب اس نے سیڑھیوں سے نیچے اتر کر گویا اپنے آپ کو سناتے ہوئے کہا۔

سڑک کے عین اوپر ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کے باہر کھلی جگہ پر رکھے تھک شا (کمبل ٹپو بنانے کا ڈھانچہ) پر ایک نورانی صورت والا بوڑھا ٹپو بنا رہا تھا، وہ قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔ دونوں کے ہونٹوں نے دوستانہ مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ یہ محمد رسول تھا۔ گھر والی خدیجہ بی بی اندر تھی۔ اس نے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ کام چھوڑ کر اٹھا اور اس کے ساتھ ہولیا۔ گھر کے ایک طرف چھوٹا سا باڑہ تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر چھوٹا سا صحن آیا۔ دھوئیں سے کالا چھوٹا سا برآمدہ جس کی دیواروں میں گڑے تختوں پر سلور کے برتن دھرے تھے۔ خوبانیوں کا ڈھیر باورچی خانے کے ایک کونے میں پڑا تھا۔ کمرے میں بندھی تار پر گندی مندی رضائیاں لٹک رہی تھیں۔ لکڑی کی چھوٹی سی ڈولی میں چند برتن دھرے تھے کمرہ غربت وافلاس کی دلدل میں سالم دھنسا ہوا تھا۔ گھر والی سیاہ ملگجے کپڑوں میں خستہ حال جائے نماز پر ظہر کی نماز پڑھ رہی تھی۔ محمد رسول نے تھوڑی سی خوبانیاں ڈولی میں سے نکالیں انہیں پلیٹ میں رکھا۔ پھر سلورکا کٹورہ نکالا، اس کے سامنے رکھا۔ خوبانی کے دو ٹکڑے کئے اور ان ٹکڑوں کو جو کے خشک آٹے میں لتھیڑ کر کھانے کا عمل اسے سمجھایا اور مزید کھانے کی دعوت دی اور جب وہ کھاتی تھی وہ سوچے چلی جا رہی تھی۔

’’پروردگار تو نے میرا دل کیسا بنا دیا ہے ایسے اور اس جیسے سینکڑوں خستہ حال گھروں کو دیکھ کر جلتا ہے۔ کڑھتا ہے، لیکن کچھ نہیں کر پاتا۔‘‘

اپنی بے مائے گی کا احساس سانپ کے زہر کی طرح رگ و پے میں اترنے لگتا ہے نس نس جلنے لگتی ہے اور روح تڑپتے تڑپتے نڈھال ہو جاتی ہے۔

اس نے چھ سات خوبانیاں کھائیں اور پھر وضو کے لئے کہا۔ نماز کے لئے جب وہ کھڑی ہوئی۔ تو جانے درد کا ایک ریلا اس کے اندر سے کیوں پھوٹ نکلا۔ ٹپ ٹپ آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ دونوں کے ساتھ باتیں کرنے لگیں۔ محمد رسول کا ایک بیٹا تھا جو لاہور محنت مزدوری کرتا تھا۔ اس ایک بیٹے کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے تھے اور اس کے اس استفسار پر کہ وہ لوگ کہاں ہیں۔ محمد رسول نے بتایا کہ اوپر پہاڑوں پر ہمارے کھیت ہیں۔ گندم کی کٹائی سے فارغ ہو کر اب کھیتوں میں دوسری فصل بوئی گئی۔

اس نے چھوٹی سے کھڑکی سے جھانک کر سامنے سینکڑوں فٹ اونچے پہاڑوں کو دیکھا اور حیرت سے پوچھا بھلا ان پہاڑوں پر۔

’’ہاں ہاں وہاں پانی ہے۔ زمین ہموار ہے۔ کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ میری بچی ہماری آبادی خوش قسمتی سے سردی کے تین مہینوں میں دھوپ سے محروم نہیں ہوتی۔ اکثر جگہوں پر ترچھی دھوپ اور آبادی کے درمیان اونچے پہاڑ حائل ہو جاتے ہیں جس سے زمین کی زرخیزی متاثر ہونے کے علاوہ اکثر کمزور پودے سوکھ جاتے ہیں۔ یہاں زندگی کس قدر کٹھن ہے تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی ہو۔ آب پاشی کا دارو مدار چشموں، قدرتی اور مصنوعی گلیشیئر اور برفانی پانی پر ہے۔ جس کا حصول تیز دھوپ پر ہے۔‘‘

خدیجہ بی بی کہیں جانے کی تیاری میں تھی شاید۔ اس نے پوچھا تو جواب ملا۔ یہ اب اوپر جا رہی ہے۔ بہو نے چارہ کاٹ کر رکھا ہو گا نیچے لانا ہے۔

’’میں بھی ان کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘ وہ کھڑی ہو گئی تھی۔

خدیجہ بی بی نے کمر پر چورونگ (تیلیوں سے بنی ہوئی لمبوتری ٹوکری) کَسی اور ڈاک کے گھوڑے کی مانند تازہ دم نظر آنے لگی۔ وہ بھی اس کے پیچھے چل پڑی۔ پہاڑ کے سینے پر تھوڑا سا چڑھتی اور سانس پھول جاتا خدیجہ بیگم ہنستے ہوئے رک جاتی۔

’’خدایا یہ زندگی کس قدر کٹھن، کیسی پر آشوب اور کتنی تلخ ہے۔ سامنے دریائے شیوق ایک پتلی سی لکیر کی صورت میں بہتا نظر آتا تھا۔

کہیں ڈیڑھ گھنٹے میں جب وہ اوپر پہنچی تو دنگ رہ گئی۔ پہاڑوں کے سینے پر سبزہ وگل کے جنگل اُگے ہوئے تھے۔ آدھا کونیس اوپر تھا۔ گندم کٹ چکی تھی۔ کھیتوں میں باجرہ اور کنگنی کے چھوٹے چھوٹے سبز پودے سر اٹھائے کھڑے تھے۔ جھونپڑیاں جن میں دو چار برتن اور ضرورت کی چند چیزیں دھری تھیں۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کھیتوں سے پرے ان پہاڑوں پر جہاں سبزہ تھا اور جھاڑیاں تھیں، چرتی پھرتی تھیں۔ خدیجہ کی بہو اور پوتے پوتیاں اسے دیکھ کر حیرت زدہ سے تھے۔ خدیجہ بیگم کی بہو پھر سے ماں بننے والی تھی۔

اور جب سورج ڈوب رہا تھا۔ وہ سب قلانچیں بھرتے ہوئے نیچے اتر رہے تھے۔ اس نے سورج کے آتشیں گولے کو دیکھتے ہوئے دو باتیں سوچیں۔ شہر والیوں کے تو کھیر کھاتے پائچے اترتے ہیں اور یہاں اتنے بڑے پیٹ کے ساتھ اتنی چڑھائی اترائی، جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔

اب لاکھ اس عورت کو مادی وسائل حاصل نہیں، پر اولاد جیسا خزانہ تو ہے نہ اس کے پاس۔

٭٭٭







باب نمبر 20





خپلو کے سترونپی بازار سے آگے پاور ہاؤس کے پمپ سے ذرا اوپر ڈاکٹر سیف اللہ کے گھر پر بڑے بڑے سے تالے کو اس کا جی چاہتا تھا، پاس بڑے بڑے سے پتھر سے توڑ ڈالے۔

بھلا آدمی اتنی دور سے تھکا ہارا آئے اور جہاں آئے وہ غائب ہوں تو کتنی کوفت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر سیف اللہ اور اس کی بیوی دونوں کوئی ایک گھنٹہ قبل چھور بٹ گئے تھے۔ دادی جواری شدید بیمار تھیں وہ اس وقت بھوک سے نڈھال تھی۔ اس کے بال اور چہرہ ہلرنگ شور کی ریت اور مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ کھر فق کا معلق پل گزرا۔ دریائے شیوق کے دائیں ہاتھ کھر فق کی وادی گزری۔ اس نے کھڑکی کھول لی اور بس دھول ریت مٹی کے بگولے اڑے اور انہوں نے صورت ہی بگاڑ دی۔

وہاں کھڑے کھڑے دفعتاً اسے ڈاکٹر اسماعیل کا خیال آیا۔ اس نے سوچا چلو وہاں قسمت آزماتی ہوں۔ کسی سے پوچھا۔ اس نے کہا بس یہیں سے اوپر چڑھتی جائیے کبھی دائیں کبھی بائیں۔ کول سے ذرا نیچے ڈاکٹر صاحب کا گھر ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے گھر گویا اللہ میاں کے پڑوس میں بنا رکھا تھا۔ وہ جب چلی تو ڈھیر سارے بچے اس کے ساتھ چلنے لگے تھے۔ اسے کچھ یوں محسوس ہوا جیسے وہ مداری کے تماشے والا بندر ہو، جسے دیکھنے کے لئے بچے بھری دوپہر میں ریوڑوں کی صورت مداری والے کے ساتھ ساتھ اچھلتے کودتے چلتے ہیں۔ اسے عجیب سی کوفت کا احساس ہوا۔ کھڑے ہو کر اس نے انہیں پیار بھری ڈانٹ پلائی اور بھگا دیا۔ جب مجمع چھٹ گیا۔ تب آگے بڑھی۔ دو عورتیں اپنے گھر کے آگے خوبانی کی گریاں توڑتی تھیں۔

وہ گھر میں داخل ہوئی۔ برآمدے سے کمرے میں آئی۔ ڈاکٹر اسماعیل کی خوبصورت بیوی سیب کی باریک قاشوں جیسے ہونٹوں پر لالی جمائے مشین کے آگے بیٹھی جانے کیا سی رہی تھی۔ اسے دیکھ کر اٹھی ہاتھ ملایا۔ اب زبان سمجھنے اور سمجھانے کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔

اس نے پوچھا۔ ’’روٹی ہے؟‘‘

جواب ملا۔ ’’نہیں۔‘‘

وہ پھر بولی۔ ’’تھوڑی بہت دوپہر کی بچی کھچی ہو۔‘‘

اب وہ اسے ہونقوں کی طرح دیکھتی تھی کہ وہ کہتی کیا ہے؟ اس نے مزید گفتگو میں وقت ضائع نہ کیا اور برآمدے میں آ گئی۔ لیکن وہاں پتیلوں پر مکھیاں بھنبھناتی تھیں اور خالی چنگیر اس کا منہ چڑاتی تھی۔

’’میرے خدایا۔‘‘ اس کا بھوک سے برا حال تھا۔

ڈاکٹر صاحب کی بیگم اس کے پاس کھڑی پریشانی سے اسے دیکھتی تھی۔ اس نے تھانے دار کی طرح جرح کی۔

’’دوپہر کو کیا کھایا تھا؟‘‘

وہ سمجھی اور ٹوٹی پھوٹی اردو اور بلتی میں مفہوم واضح کیا کہ وہ لوگ کسی کے ہاں دعوت پر گئے تھے۔ پھر اس نے فی الفور چائے بنائی۔ بسکٹ رکھے۔ اس نے دو کپ چائے پی۔ سارے بسکٹ کھا کر اسے دیکھا اور بولی۔

’’بھابھی کچھ سوچنا مت، مجھے شدید بھوک لگی تھی۔‘‘

اور جب عصر کی نماز سے فارغ ہو کر ان کے گھر کی کھڑکی سے نیچے درختوں کو دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹر اسماعیل چھوٹے بھائی یوسف کے ساتھ اندر آئے۔ سلام و دعا کے بعد احوال پرسی ہوئی۔ خپلو کے لوگ بلتیوں اور شگریوں سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ پنجاب کے علاقے میانوالی کے لوگوں کی طرح قد آور، مضبوط اور سانولے رنگ کے ہیں۔ ان کی آنکھوں کی ساخت انہیں تبت سے جا جوڑتی ہے۔

ڈاکٹر اسماعیل کے گورے چٹے بیٹے قالین پر ماں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ ڈاکٹر اسماعیل اس کے ساتھ باتیں کرتا تھا۔ چھوٹا بیٹا کبھی کبھی ہمک کر باپ کی گود میں آ جا تا تھا۔ ایک مکمل اور پر سکون گھر، پل بھر کے لئے اس کی آنکھیں بند ہو گئیں اور پھر گھبرا کر اس نے اُنہیں کھول دیا۔

رات اضطراب میں کٹی۔ عجیب عجیب سی سوچوں نے بے کل کئے رکھا۔ صبح دیر تک سوتی رہی۔ دن ڈھلے یوسف کے ساتھ سیر کے لئے نکلی۔ اٹھارہ سالہ یوسف جو پنڈی گارڈن کالج سے ایف ایس سی کا امتحان دے کر آیا ہوا تھا، اچھا گائیڈ ثابت ہوا۔

وہ تھوڑا زمبہ سے لائی گئی کول کے ساتھ ساتھ تین فٹ چوڑی پٹڑی پر چلنے لگی۔ خپلو کی وادی یہاں سے ایسی دل کش نظر آتی تھی کہ وہ چلتے چلتے رک رک جاتی۔ وہ چاہتی تھی کہ آنکھوں کے زاویے درست رکھے کہ کہیں اس نظر بازی میں دھڑام سے ہزاروں فٹ نیچے ہی نہ گر جائے۔ پر نظارے یوں لپک لپک کر دامن تھامتے تھے کہ وہ بے بس ہوئی جاتی تھی۔ ان کے سروں پر جو پہاڑ تھے اس پر گنگچھے گلیشیئر ہے۔ اس میں سے ایک نالہ نکلتا ہے جو وادی میں پہنچ کر خپلو شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ خپلو بالا اور خپلو پائین۔

یوسف بہت اچھا گائیڈ تھا۔

سامنے یبگو راجاؤں کا قدیمی محل نظر آتا تھا۔ دریائے شیوق چاندی کی ایک لمبی لکیر کی مانند دکھائی دیتا تھا۔ حضرت سید امیر کبیر ہمدانی کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی تاریخی مسجد چقچن بھی نظروں کے سامنے تھی۔ شاہ بلوط کے پتے ہواؤں کے جھونکوں سے ٹوٹتے تھے۔

نیچے اسے پولو گراؤنڈ نظر آتا تھا۔ محل سے ملحق ڈنس محلے میں چھتوں پر کوئی عورت نظر آتی تھی۔ جب وہ محل کے اندر جانے والی سڑک پر آئی۔ پتھروں کی دیوار پر سے جھانکتے ہوئے کچے پیلے رنگ کے بڑے بڑے پھولوں نے اسے خوش آمدید کہا۔

سورج جلدی جلدی بلند پہاڑوں کے عقب میں روپوش ہو رہا تھا۔ چشمے کا پانی شور مچاتا تھا اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیل ہوئی تھی۔

محل کے اندر جانے سے قبل اس نے ان جگہوں کو دیکھا جو مسلح گارڈوں کے بیٹھنے کے لئے بنائی گئی تھیں۔ تین گز کا فاصلہ طے کرنے کے لئے انسانی قدموں کو چار بار روکا جاتا تھا۔ اس کی چشم تصور نے ان راہوں پر ایک غریب ہاری کی سنے ہوئے افسانوں سے جو گیت بنتے دیکھی۔ وہ اس کے حساس وجود کو جھر جھری دلانے کے لئے کافی تھی۔ سامنے چھوٹا سا باغ تھا جس کے عین درمیان میں روش پر چلتے ہوئے وہ ترک نسل کے یبگورا جاؤں کے اس رہائشی محل کے سامنے کھڑی تھی۔ جہاں وہ انگریز لڑکی مارجوری بلز راجہ افتخار کی دلہن بن کر آئی تھی اور جس نے اسی محل میں ’’ڈولا آئے اور جنازہ اٹھے‘‘ والے محاورے پر اپنی جان نثاری، استقامت اور محبت سے مشرق کی اجارہ داری ختم کر ڈالی تھی۔

رخ پھیر کر چار سیڑھیاں پھر چڑھی اور محل میں داخل ہو گئی۔ یوسف پیچھے تھا۔ اور اسے اُس وقت کی سنی سنائی کہانیاں بتا رہا تھا۔ جب یہاں کوئی پر نہیں مارسکتا تھا۔ محل شکستہ ضرور تھا لیکن اس کی حالت شگر اور سکر دو کے محلوں سے کافی بہتر تھی۔ بیسیؤں کمرے جو کشمیری معماروں اور فن کاروں کے فن کا منہ بولتا ثبوت تھے۔

جاروق (راجہ کے بیٹھنے کی جگہ) ویران تھا۔ دیواروں اور ختم بند (چھت) کا نفیس کام بتاتا تھا کہ یہاں بیٹھنے ولا کیسا ہو گا۔ ان کمروں سے خپلو بالا اور خپلو پائیں سارا نظر آتا تھا۔ محل کے چاروں طرف باغات ہیں۔ یوسف باغ میں بیٹھ گیا تھا اس نے دیکھا تھا ان باغات میں ایسے ایسے پھول تھے جو اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھے تھے یوسف بتا رہا تھا یہ کشمیر کے پودے ہیں۔

پرانے محلے کے سامنے جدید طرز کے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ یہ نیا محل کہلا تا ہے۔ اس محل کا ایک حصہ لاک تھا۔ برآمدے کی دیواروں پر حنوط شدہ مار خور اور ہرنوں کے سر لٹک رہے تھے۔

عقبی کمروں میں جب وہ جھانکی، راجہ فتح علی خان کی بیگم حلیمہ خاتون فرش پر بیٹھی شلجم کے بیج صاف کرتی تہی۔ چھوٹی بیٹی زیب النساء چشمے کے پانی سے کپڑے دھور رہی تھی۔ اور اس سلونی شام کو سارا محل سکون اور سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔

٭٭٭







باب نمبر 21



بس تو من و عن وہی نظارہ تھا۔ شام کے گھنے بادلوں میں جب دفعتاً بجلی چمکتی ہے اور اردگرد کا سارا ماحول روشن ہو جا تا ہے۔ اس وقت جب وہ پرانے محل کی بیرونی سیڑھیوں سے چھلانگیں مارتی ہوئی اس کچی جگہ پر آ کر ٹھہری تھی جس کے مشرقی طرف نیا محل اور اس سے ملحقہ چھوٹا باغیچہ، غربی طرف بڑا باغ اور بیگم فتح علی خان کے کمروں کی طرف جانے کاراستہ۔ عقب میں پرانا محل اور شمال میں مزید سیڑھیاں اور شکستہ کمرے تھے۔ بس عین اسی کچی جگہ پر کڑکتی بجلی لشکارے مارتی تھی۔

بِڑ بِڑ آنکھوں کے پٹ پھاڑے وہ اسے دیکھی تھی۔ جس کے گھٹاؤں جیسے سیاہ بال کانوں کے پاس دو چوٹیوں میں تیز گلابی پشم کے پراندوں میں گندھے کمر پر جھول رہے تھے۔ تائیوان کا چھوٹے چھوٹے پھولوں والا مہندی رنگا سوٹ جس کی شوار کے پائینچوں تلے ایرانی پلاسٹک کا جوتا، نہایت خوبصورت پاؤں مقید کئے کھڑا تھا۔ اس نے ہیرے دیکھے ہوئے تھے۔ پر لعل نہیں۔ اسی لئے وہ آنکھوں سے پھوٹتی شعاعوں کو کوئی نام نہ دے پا رہی تھی۔

’’کون ہیں آپ؟‘‘ شُستہ اُردو میں اسے سے پوچھا گیا۔

’’میں ایک سیاح ہوں، جسے وطن کی یہ دل کش وادیاں اپنے نظاروں سے محفوظ کرنے کے لئے کھینچ لائی ہیں۔‘‘

’’اور آپ؟‘‘ اس نے جواباً استفہامیہ نگاہیں اس پر جما دیں۔

اسے محسوس ہوا تھا کہ اس کی تنی گردن کچھ اور تن گئی تھی جب اس نے یہ جواب دیا تھا۔

’’میں شاہ جہاں اس محل کی بہو رانی۔‘‘

اور اس نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’یوں لگتا ہے، جیسے آپ کا نام بہت عجلت میں رکھا گیا تھا یا پھر اس پر کسی نے غور و خوض کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ در اصل آپ تو نور جہان ہے۔‘‘

اب اس کے ہنسنے کی باری تھی۔ وہ ہنسی اور دوستانہ انداز میں اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔

’’ تو آئیے پھر آپ کو چائے پلائیں اور راجہ فیملی سے ملوائیں۔‘‘

شاہ جہاں نے یوسف سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب جائے اور یہ کہ ان کا نوکر اسے چھوڑ آئے گا۔

سارا خاندان بڑے کمرے میں اکٹھا ہو گیا تھا۔ راجہ کھرمنگ کی والدہ فاطمہ بیگم گزشتہ دنوں محل میں ہونے والی ایک شادی میں شرکت کے لئے کھرمنگ سے آئی ہوئی تھیں۔ بھتیجے بھتیجیوں اور بھاوج نے بصد اصرار انہیں روک لیا تھا۔ عنابی ویلوٹ کے سوٹ میں وہ کس قدر پر تمکنت دکھائی دیتی تھیں۔

حسین ماضی ان آنکھوں سے چھلک چھلک پڑتا تھا۔ اس نے ان میں جھانکا اور پوچھا۔

’’آپ کو حال کتنا تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے؟‘‘

’’اب تو عادی ہو گئے ہیں میرے بچپن اور جوانی کا اوائل سری نگر میں گزرا جہاں ہم لوگ تعلیمی سلسلے میں مقیم تھے۔ شادی کے بعد کھرمنگ میں رہی۔ بس وقت گزر گیا۔

شاہ جہاں پلیٹ میں امبہ خوبانیاں لائی۔ سفید اور قدرے خشک خوبانیاں۔

وہ کھاتی گئی اور مہارانی کھرمنگ کی باتیں سنتی گئی۔ پھر چائے آ گئی۔ نمکین چائے۔

رانی خپلو ایک مورت کی مانند سامنے بیٹھی تھیں۔ ہلکے ہلکے گھونٹ سے چائے پیتے ہوئے اس نے مار جوری بلز کی منجھلی بہو کو دیکھا جو گود میں بچے کو سلاتی تھی۔

باہر شام اتر آئی تھی۔ ستمبر کے دوسرے ہفتے کی ٹھنڈی ہوائیں سارے میں دندناتی پھرتی تھیں۔ شاہ جہاں اور وہ باہر نکل آئی تھیں۔

چیڑ کی لکڑی کے تختوں سے بنی راہداری جس کے چوبی جنگلے پر کہنیاں ٹکائے وہ اپنے سامنے جھاگ اڑاتے شفاف پانی کے چشمے کو شور مچاتے بہتے دیکھ رہی تھی۔ کچے پیلے رنگ کے پھولوں کے بھینی بھینی خوشبو ناک میں گھس کر عجیب سی لطافت پیدا کرتی تھی۔

دفعتاً اس نے شاہ جہاں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

’’اس عروج و زوال کے المیے میں تمہاری سوچیں کیا ہیں؟‘‘

اور اس کی طرف دیکھے بغیر کیف الوریٰ کو محسوس ہو گیا تھا کہ وہ ہنسی ہے اور ہنسی میں دکھ یاس اور پسپائی نمایاں ہے۔ وہ بولی تھی۔

’’میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، خاک اڑاتی ہی دیکھی ہے۔ ہماری ماؤں پھوپھیوں کا زمانہ تھا جب یہاں جاگیرداری عروج پر تھی۔ اب تو بس سننے کو کہانیاں ہیں۔ جنہیں مجھ جیسی کہانیاں سمجھتی ہے اور میری ماں پھوپھیاں اور ساس اپنا قیمتی اثاثہ۔‘‘

پھر جیسے اس کے اندر سے دکھ کا ایک لاوا پھوٹ نکلا۔ وہ اس کی طرف جھکی۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی برف پر سے آتی ہواؤں کی ٹھنڈک کو بازو اور سینہ سکیڑ کر پرے کرتے ہوئے وہ بولی تھی۔

’’ہماری زندگی ایک المیہ ہے شاید تم اسے محسوس نہ کر سکو۔ میرے بھائی کزن اور رشتہ دار لڑکے خوابوں کی اس جنت میں رہتے ہیں جو ان کے آباء و اجداد کی تھی۔ لیکن جس سے وہ نکالے گئے ہیں۔ یہ نوجوان لڑکے بدلتے ہوئے حالات اور حقائق کا سامنا کھلی آنکھوں سے کرنے کی بجائے انہی خوابوں میں گم ہیں۔ یقیناً تمہیں علم نہیں ہو گا کہ میرا شوہر ناصر راجہ فتح علی خان کا بیٹا خپلو میں ایک معمولی اسکول ماسٹر ہے۔ راجہ سکر دو کا چھوٹا بھائی میرا کزن گلگت میں کانسٹیبل ہے۔ جب کہ ہمارے ملازموں اور ان کے بچوں نے ان بدلتے ہوئے حالات کو سمجھ کر ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ بچے آج اونچے اونچے عہدوں پر فائز ہیں۔‘‘

دونوں بہت دیر چپ چاپ اپنی اپنی سوچوں میں ڈوبی رہیں پھر اس نے کہا۔

’’اپنی چچی مارجوری بلز کے متعلق کچھ نہیں بتاؤ گی؟‘‘

’’سامنے دیکھو۔‘‘ اس نے انگشت شہادت سے دور پہاڑوں کی طرف اشارہ کیا۔

’’دیکھ رہی ہوں، بولو۔‘‘

سینکڑوں فٹ اونچے اس پہاڑ پر اس کی نظریں جم گئیں۔

اس پہاڑ پر خپلو کا تاریخی قلعہ اور محل ’’ تھور سے کھر‘‘ تھا۔ قلعہ تو کھنڈر بنا پڑا ہے۔ مگر اس کی مسجد جوں کی توں ہے۔ کسی دن وہاں چلیں گے اور تمہیں مارجوری بلز کی وہ کہانی سناؤں گی جس کے بغیر کوہ قراقرم کی تاریخ نامکمل ہے۔

’’خدایا! یہاں کے لوگ انسان نہیں جن لگتے ہیں۔ عمودی چٹانوں پر جگہ جگہ قلعے اور محل بنا رکھے ہیں۔‘‘

اس نے سہم کر ایک بار پھر اس سینکڑوں فٹ اونچے پہاڑ کو دیکھا جو ایک دیو ہیکل جن کی طرح پر پھیلائے کھڑا تھا اور جس پر ’’تھور سے کھر‘‘ کا شکستہ قلعہ اور محل واقع تھا۔ اور جہاں جا کر وہ بت طناز اسے وہ داستان سنانے کا کہہ رہی تھی۔ جس کے بارے میں تاریخ بھی گواہ ہے۔

’’یہ تم بلتی لڑکیوں کی کیا بری عادت ہے کہ فضا میں معلق ہوئے بغیر تم کوئی قصہ کہانی سنا ہی نہیں سکتی ہو۔‘‘

اسے سیماں یاد آ گئی تھی جو ملکہ میندوق کھر کا قصہ سنانے کے لئے اسے قلعہ کھرپوچو لے کر چلی گئی تھی۔

’’لو سچی اور افسانے سے زیادہ دل کش کہانیوں کی تم اتنی سی قیمت نہیں دے سکتی ہو کہ خود چل کر ان جگہوں کو دیکھو جو اسے بہت محبوب تھیں۔ پہاڑ کے عقب میں ہماری زمینیں ہیں۔ چچی مار جوری ان دنوں اوپر ضرور جاتی تھیں۔

مغرب کی اذان نے گفتگو کا سلسلہ بن کر دیا تھا۔ اس نے چادر اوڑھی اور نماز کے لئے چل دی۔

رات کے کھانے سے فارغ ہو کر جب اس نے کہا۔

’’سنو ڈاکٹر اسماعیل میرا انتظار کرتے ہوں گے مجھے واپس بھجواؤ اب۔‘‘

اور وہ پری جمال ایک اداسے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

’’اس اندھیری رات میں اس وقت تم نے باہر نکل کر کیا اپنی ہڈیاں گوڈے گِٹّے تڑوانے ہیں۔ اور ہاں دیکھو، دوستی کر لی ہے میں نے تم سے۔ بھول جاؤ اب ڈاکٹر اسماعیل کو جتنے دن خپلو رہو گی میرے پاس رہنا ہو گا۔ میرا نوکر ڈاکٹر اسماعیل کو بتا آیا ہے۔‘‘

٭٭٭








باب نمبر 22





دھوپ پہاڑوں کی چوٹیوں سے دھیرے دھیرے نیچے پھسلتی آ رہی تھی۔ شاہ بلوط، چنار اور پھلدار درختوں پر سے ہوتی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں آ کر سیدھی اس کے چہرے سے ٹکراتی تھیں۔ شاہ بلوط کے پتے گاہے بگاہے ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر گرتے تھے۔

وہ اس چوڑی فصیل پر چوکڑی مارے بیٹھی تھی۔ جو محل اور ڈنس محلے کے درمیان حد فاصل تھی۔ دائیں بائیں پرانا اور نیا محل، سامنے پہاڑ اوپر نیلا آسمان اور نیچے خپلو بالا بکھرا پڑا تھا کشادہ راستے پر کبھی کبھی کوئی بوڑھی عورت کمر کَسی چورونگ کے ساتھ نظر آتی۔ شاہ جہاں کی دونوں لڑکیاں چوبی بنگلے کے ساتھ لگی کھڑی تھیں۔ لوگ ان دنوں سرما کے انتظامات میں منہمک تھے۔ ایندھن اور کھانے پینے کی چیزوں کو اکٹھا کیا جا رہا تھا۔

گھروں کی چھتوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ دھواں زندگی کی علامت ہے اور اس کے ساتھ گھر دار عورت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

عین اسی وقت اس نے سامنے سے دو سوٹڈ بوٹڈ مردوں کو آتے دیکھا۔ جب انہوں نے محل کی طرف آنے والے راستے کا موڑ کاٹا تو پہچان کی زد میں آ گئے اس نے جانا تھا، ایک ڈاکٹر اسماعیل اور دوسرا غالباً ڈاکٹر ابراہیم تھا۔

اب دونوں نے اُسے فصیل پر یوں چوکڑی مار کر فراغت سے بیٹھے دیکھا تو ہنس پڑے۔ قریب آنے پر ڈاکٹر اسماعیل نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا اور کہا۔

’’آپ نے اچھی ایکٹیویٹی کی اس دن۔ میں مرغ پلاؤ پکوائے بیٹھا آپ کا انتظار کرتا رہا۔ آپ یہاں دھرنا مار کر بیٹھ گئیں۔‘‘

وہ ہنسی اور بولی۔

’’کمال ہے ڈاکٹر صاحب دوپہر کو آپ نے مجھے ہرژب کھور پر ٹرخا دیا تھا، اب مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ نے مرغی بھینٹ چڑھا دی ہے۔ اچھا تو آپ اوپر آئیے۔‘‘

’’نہیں بھئی اوپر آنے کا اب وقت نہیں آپ سے ملنا تھا۔ ڈاکٹر ابراہیم آپ کو دوپہر کے کھانے کے لئے کہنے آئے ہیں۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب کے گھر میں تو کوئی عورت نہیں ہے۔ کھانا کون بنائے گا؟ اور خوش آمدید کون کہے گا؟‘‘

اب شاید ڈاکٹر ابراہیم کے بولنے کی باری تھی۔ وہ بولے۔

’’آپ کو آم کھانے سے مطلب ہے یا پیڑ گننے سے۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب! میں بڑی بد بخت لڑکی ہوں آم بعد میں کھاتی ہوں، پیڑ پہلے گننا چاہتی ہوں؟‘‘

’’چلئے ہم آپ کو پیڑ بھی گنوا دیں گے۔ تو آپ آ رہی ہیں نا؟‘‘

اور وہ پھر ہنسی۔

’’اتنا بڑا ڈاکٹر دعوت دینے آیا ہے انکار تو کفران نعمت ہے۔‘‘

او رجب وہ دونوں چلے گئے۔ وہ ناشتے کے لئے شاہ جہاں کے کمرے میں آئی جہاں نوکرنے اسے خوبانی کے رس والا گرم گرم پیالہ تھمایا۔ جسے گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے اس نے شاہ جہاں کو دونوں ڈاکٹروں کی آمد اور دوپہر کے کھانے کی بابت بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے۔

’’جان ہماری بات وہ ہے کہ رسی جل گئی ہے پر بل ابھی تک نہیں گئے۔ گو سب کچھ ختم ہو گیا ہے پر ہماری آن بان ابھی باقی ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم جیسا ہمدرد اور نفیس انسان بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں ان کی بہت عزت کرتی ہوں۔‘‘

تھوڑی دیر بعد جب وہ چائے پی رہی تھی، شاہ جہاں نے دفعتاً پوچھا۔

’’تم نے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ تم آخر کس غرض کے لئے ان علاقوں میں گھوم پھر رہی ہو؟‘‘

’’سیاحت میرا شوق ہے۔ میں اپنے وطن کا چپہ چپہ دیکھنے کی متمنی ہوں۔‘‘

اور شاہ جہاں اپنی خوبصورت آنکھوں کو اس پر مرکوز کرتے ہوئے شرارت سے ہنسی۔

’’بس تو خیال رکھنا، ڈاکٹر ابراہیم ایک بہترین انسان بھی ہے اور رنڈوا بھی۔ مجھے بہت خوشی ہو گی اگر تم اک بلتی سے شادی کر لو۔‘‘

’’شاہ جہاں کوئی عقل کی بات کرو۔ آؤٹ کیوں ہو گئی ہو؟‘‘

جب اس نے یہ بات کہی تھی، اس کے لبوں پر ایک ایسی معنی خیز مسکراہٹ پیدا ہوئی تھی جسے یقیناً شاہ جہاں جیسی تیز طرار عورت بھی سمجھ نہیں پائی تھی۔

دوپہر کو ڈاکٹر ابراہیم کا نوکر اسے لینے آیا۔ کٹے بالوں کی سرکش لٹوں کو اس نے پنوں میں جکڑا۔ سیاہ چادر کی بکل ماری اور اس کے پیچھے پیچھے چلتی پولو گراؤنڈ پہنچی۔ وہاں سے ہتچھی محلہ میں داخل ہوئی۔

ڈھلان سے اترتی ہوئی اسپتال آ گئی۔ خپلوکا سول اسپتال درختوں کے جھنڈوں میں گھرا تھا۔ دونوں ڈاکٹر اس کے استقبال کے لئے باہر برآمدے میں تھے۔ جیپ میں بیٹھنے سے قبل وہ بولی۔

’’ڈاکٹر صاحب! اب یہ جیپ لے کر اگر آپ مجھے لینے آ جاتے تو کچھ حرج تھا کہ ڈھائی تین میل کی اترائی نے میری بھوک کو تین گنا کر دیا ہے۔ آپ کے کھانے کی کچھ بچت ہو جاتی۔‘‘

ڈاکٹر ابراہیم عین اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولے۔

’’آپ فکر مند کیوں ہیں۔ کھانا کم پڑا تو میں اپنا حصہ بھی آپ کو کھلا دوں گا۔‘‘

اس بار اس نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دبا لی تھی اور متانت سے کہا تھا۔

’’ڈاکٹر صاحب میں غاصب نہیں ہوں۔‘‘

گھر پر مسٹر اسماعیل، ڈاکٹر ابراہیم کی بڑی بہن اور بھاوج نے اس کا استقبال کیا۔

’’دیکھ لیجئے ہم نے کتنے پیڑوں کا بندوبست کر رکھا ہے۔‘‘

اب ان کا ملا جلا قہقہہ وہاں گونجا۔

کھانے کے بعد قہوے کا دور چلا۔ ڈاکٹر ابراہیم نے اس سے کچھ ذاتی باتیں پوچھیں جن میں سے کچھ کے جواب دئیے اور بقیہ گول کر گئی۔

ڈاکٹر اسماعیل نے اسے اپنے گھر چلنے کو کہا۔ لیکن وہ معذرت کرتے ہوئے بولی۔

ڈاکٹر صاحب شاہ جہاں مجھے اور میں اُسے کمبل کی طرح چمٹ گئے ہیں۔ آپ نے ریچھ اور کمبل کی کہانی تو سنی ہو گی۔ اس کے استفسار پر جب انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تب اس نے کہا۔ جس دن خپلو سے جاؤں گی، اسی دن ساتھ چھٹے گا۔

اور جب وہ واپسی کے لئے جیپ میں بیٹھی ڈاکٹر ابراہیم نے کہا۔

’’کیا خیال ہے آپ کو چقچن اور خانقاہ معلی نہ دکھاتے چلیں۔‘‘

’’نیکی کرنا چاہتے ہیں اور پوچھتے بھی ہیں۔‘‘

جیپ اونچے نیچے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر تیزی سے دوڑتی ہوئی پتھروں کی دیوار کے پاس جا کر رک گئی۔

درخت کے ساتھ چھوٹا سا دروازہ تھا جو غالباً حجرہ لگتا تھا مسجد چقچن زمین کی سطح سے بہت اونچائی پر بنائی گئی ہے۔ درختوں کے پتے ہواؤں سے ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر گرتے تھے۔ ٹنڈ منڈ ہونے میں بس تھوڑے دن باقی تھے۔ راستے کے دائیں بائیں پہلوؤں میں بنی ہوئی بڑے بڑے دروازوں والی چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیاں جن کے سروں پر مسجد چقچن یوں چمکتی تھی۔ جیسے ٹات میں بروکیڈ کا پیوند۔ محرابوں والے دروازے کے اندر داخل ہو کر گویا وہ آرٹ کی دنیا میں داخل ہو گئی تھی۔ آرٹ کے وہ نادر شاہکار جن کے نام موج حیدر، موج اصغر اور موج حسین تھے۔ سب یہاں موجود تھے۔

شہرہ آفاق انگریز مورخ جان ہارلے نے اسی مسجد اور خانقاہ معلی کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اپنی طرز تعمیر کی بنا پر ایشیا کی خوب صورت ترین مسجد ہے۔ دونوں کی تعمیر حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی کے اپنے ہاتھوں سے ہوئی۔

خانقاہ معلی کی چوب کاریاں بھی دیکھنے کے قابل تھیں۔ چھت، یونگ دروں آرٹ کے نمونوں سے سجی کھڑکیاں موج حیدر آرٹ کی عکاس۔۔ ۔

وہ گیند کی طرح برآمدوں اور کمرے میں لڑھکتی پھری۔ اس کی آنکھیں اتنے خوب صورت شاہکار دیکھ دیکھ کر پھٹی جاتی تھیں۔ پھر وہ ایک جگہ رک گئی۔ اس نے بہت سی سورتیں پڑھیں اور دعا مانگی۔ اور جب اس نے آنکھیں کھولیں، ڈاکٹر ابراہیم اس کے پاس کھڑے اسے دیکھتے تھے۔ وہ مبہوت سی ہوئی۔ اس کے کان تانبے کی مانند سرخ ہو گئے اور وہ تیزی سے ایک طرف ہو کر چھت کی حسن کاری کو دیکھنے میں محو ہو گئی۔

اور باہر نکل کر اس نے کہا۔ ’’میرے خیال میں بلتستان کا پرانا آرٹ اب صرف خپلو میں ہی زندہ ہے۔‘‘

اور جب انہوں نے اسے محل کے باہر اتارا۔ ڈاکٹر ابراہیم نے کہا۔ ’’کسی دن اسپتال میں آئیے نا۔‘‘

’’انشاء اللہ‘‘ کہتے ہوئے وہ جلدی سے دیوار کی اوٹ میں ہو گئی۔

شاہ جہاں نے اس پر نظر پڑتے ہی ہنس کر کہا۔

’’خوب ٹھونسا ٹھونسی ہوئی ہو گی۔‘‘

’’وہ تو ظاہر ہے ہونی تھی۔ چلو تمہارے رات کے کھانے کی بچت ہو گئی۔‘‘

جب رات ڈھلی تو نئے محل کے بڑے کمرے میں راگ و رنگ کی محفل سجی۔ مارجوری بلز کی بہو کی آواز ایسی لوچدار کہ وہ کنگ سی ہو گئی۔ محمد حسین ہوشے کو خاص طور پر بلایا گیا تھا۔ اس نے بزمیہ دھن بجائی۔ ساز والے نے بلتی دیوان (نیم کلاسیکل موسیقی) بجایا اور اس کمرے میں وہ گیت گونجا جو شاہ جہاں کے سُسر راجہ فتح علی خان کے چچا دولت علی خان کی بیوی لدّاخی شہزادی گاتی تھی۔

واسکت ہنردلہ سکیسے ناتھو نموخلا پولوینگ تھون

شہر فیپو لوینگ ہلتیکنا اتا منگموے سو مید

اے میرے دولت علی خان، میرے ان عزیزوں کی عمریں بھی تجھے لگ جائیں جو اب مجھ سے بہت دور ہیں۔

میں نے جب مڑ کر دیکھا (ہندر کی طرف) تو وہاں پکے سیب نظر آئے۔

جو سیب میں کھا نہ سکوں وہ اگر سوکھ بھی جائیں تو مجھے کیا۔

میں نے جب مڑ کر دیکھا (ہندر کی طرف) تو وہاں گلاب کھلے نظر آئے۔

جو گلاب میں اپنے بالوں میں سجا نہ سکوں، وہ اگر سوکھ بھی جائیں تو مجھے کیا غم اور جب رات کا دوسرا پہر بیت رہا تھا۔ وہ اس گیت کا پس منظر سن رہی تھی۔

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میرے سُسر راجہ فتح علی خان لداخ کے شاہی خاندان نگمیل کی ایک شادی میں شرکت کے لئے ہندر گئے تھے۔ ہندر شہر دریائے شیوق اور نوبراہ کے سنگم پر واقع ہے۔ شاہی خاندان بدھ مت کا پیرو تھا تقریب کے دوران دولت علی خان نے ایک حسین و جمیل شہزادی دیکھی۔ وہ بس ایسی ہی تھی جسے پتھر کی ایک مورتی۔ دولت علی خان پہلی نظر میں دل ہار گیا۔ خپلو واپس پہنچ کر اس نے باپ سے کہا کہ شادی کروں گا تو نمگیل شہزادی سے وگرنہ جان دے دوں گا۔ باپ نے رشتہ بھیجا جو منظور ہوا۔ وہ شہزادی کو بیاہ کر خپلو لایا۔

خپلو پہنچ کر اس نے اسلام قبول کیا اور نہایت متقی اور پرہیز گار خاتون بنی۔ جب وہ بہت اداس ہوتی تو محل کی بالکونی میں بیٹھ کر اپنا منہ لداخ کی طرف کرتی۔ اپنی سکھیوں اور عزیزوں کو یاد کرتی اور اپنے شوہر دولت علی خان کو دعائیں اور یہی گیت گاتی تھی۔

اور جب رات کا تیسرا پہر بیت رہا تھا۔ باہر تیز ہواؤں کے جھکڑ چلتے تھے۔ اندر اس کے رخساروں پر آنسو بہتے تھے۔ اور وہ اپنے آپ سے پوچھتی تھی۔ کل کے مرد کی محبت لازوال تھی یا عورت ہی ایسی جانثار تھی کہ اپنے پرانے وجود کو ملیامیٹ کر کے نئے ماحول کے مطابق نئے وجود کی بنیاد رکھتی تھی۔ اور آج کی عورت اپنی ذات کا بٹوارہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور پھر اس نے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے دیر بعد سوچ سوچ کر خود کو اس کا جواب دیا۔

’’ارے آج کی عورت بھی کرتی ہے۔ پر جب کوئی محرومی دامن کے ساتھ ہو تو حساس ذہن ٹکڑے ٹکڑے ہونا گوارہ کرتا ہے۔ لیکن سمجھوتا تو بس کی بات نہیں رہتی۔‘‘

٭٭٭









باب نمبر 23





وہ اس وقت بانکپن وجاہت، دلآویزی اور حسن و جمال کے آخری زینے پر کھرا تھا۔ سچی بات ہے راجہ افتخار خپلو کے یبگو خاندان کی انگوٹھی کا وہ بیش قیمت ہیرا تھا۔ جس کے بغیر انگوٹھی دو کوڑی کی رہ جاتی ہے۔ تُرک نسل کی ساری خصوصیات اس کے روپ میں سمٹ آئی تھیں۔ وہ پڑھنے کے لئے ان دنوں سری نگر میں مقیم تھا۔

شاہ جہاں اور وہ دونوں ’’تھور سے کھر‘‘ کی شکستہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ دریائے شیوق کا پانی سورج کی کرنوں نے چاندی بنا دیا تھا جو یوں چمکتا تھا کہ آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ خپلو اور خپلو پائین کے گھر گڑیوں کے گھروندے معلوم ہوتے تھے۔ ہنجور اور کالدق کی سیرگاہیں زمین کے چھوٹے چھوٹے قطعوں کی صورت میں نظر آتی تھیں۔ گنگچھے گلیشئر اور اس میں سے نکلتا نالہ سب یہاں نمایاں تھے۔

صبح فجر کے بعد وہ رضائی میں دبک کر سوگئی تھی۔ رات دونوں کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ صبح ’’ تھورے سے کھر‘‘ پر چلنا ہے۔ لیکن نماز کے بعد اس کی نیت میں فتور آ گیا اور وہ یہ سب کہتے ہوئے سوگئی کہ دفع کر و کل دیکھا جائے گا۔ پر نو بجے کے قریب شاہ جہاں نے اسک سر سے رضائی کھینچ کر کہا۔

’’کچھ خوفِ خدا کرو چلنا نہیں کیا؟ ڈیڑھ گھنٹہ چڑھائی میں لگے گا۔ ادھر گاؤں میں بھی جانا ہے۔‘‘

’’ارے دفع کرو شاہ جہاں کل چلیں گے۔ آج تم مجھے بلے پکا کر کھلاؤ۔‘‘

’’اٹھتی ہو کہ نہیں۔‘‘ اس نے رضائی گھسیٹ کر پرے کر دی۔

شاہ جہاں پن چکی کی طرح دھن کی پکی تھی۔ جو بات ایک بار طے کر لی بس اس میں رد و بدل کا کوئی سوال نہیں۔

اس نے چھوٹی بیٹی کمبل میں لپیٹ کر چورونگ میں لٹائی اور اسے کمر پر لادا۔ چائے کی بوتل پر اٹھے، انڈے، پانی کی بوتل دوسری ٹوکری میں ڈالے اور وہ اس کی کمر پر کسنے لگی۔

’’شاہ جہاں تم نے یہ من پکا وزن مجھ پر لا ددیا ہے۔ اگر کہیں میرا پاؤں رپٹ گیا تو یاد رکھنا خون تیری گردن پر ہو گا۔‘‘

اور اس چُلبلی نار نے تیکھی نظروں سے اُسے گھائل کرتے ہوئے کہا۔

’’ اوکھلی میں سر بھی دیتی ہوا ور موسل سے بھی ڈرتی ہو۔ وطن کے دشوار گزار حصے دیکھنے کا شوق بھی ہے اور راستے کی صعوبتوں سے خوف زدہ بھی ہو۔ چلو سیڈھی طرح۔ تمہارے کون سے مرنے کے دن ہیں۔ دنیا تھوڑی پڑی ہے اس نیک کام کے لئے۔‘‘

فضا میں اچھی خاصی خنکی کے باوجود اس کا جسم پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ پہاڑ ایسا عمودی جب وہ آنکھ کی خفیف سی جھری سے دائیں بائیں دیکھتی تو لمحے بھر کے لئے اس کا خون جیسے رگوں میں منجمد ہو جاتا۔ اسے یوں لگتا جیسے موت اس کے تعاقب میں ہے۔

اور ’’تھورسے کھر‘‘ پر پہنچ کر جب اس نے کمر سیدھی کی اور اردگرد دیکھا تو غصے سے بولی۔

’’تف ہے تم پر۔ تم سیماں سے پاپا سنگ بھی کم نہیں ہو۔ وہ کمبخت مجھے کھرپوچو لے کر پہنچی تھی اور تم یہاں لے آئی ہو۔ ارے یہاں ہے کیا؟ مار دیکھ کر کلیجہ جلتا ہے۔ سارے سریر میں دکھ اوریاس گھلتا ہے۔ زوال کی کہانیاں دل کوڈسنے لگتی ہیں۔ بندہ اسباب و علل کے چکر میں پھنس جاتا ہے۔‘‘

شاہ جہاں مسکرا رہی تھی۔ پھر اس نے اس زمانے میں چھلانگ لگا دی جب اس کا چچا راجہ افتخار علی خان سری نگر کا ہار سنگار تھا۔ کالج ہاسٹل اور پورے سری نگر میں اس کے حسن و جمال کے چرچے تھے۔

یہ ایک رنگین شام تھی۔ چناروں کے پھولوں نے فضاؤں اور دلوں میں آگ سی لگا رکھی تھی۔ بارش ابھی ابھی برسی تھی۔ فضا میں بادلوں کے ٹکڑے یوں تیرتے پھرتے تھے جیسے جھیلوں کے نیلگوں پانیوں میں گلیشیئر کے چھوٹے چھوٹے تودے۔

راجہ افتخار نے اٹیلئین کیفے کا دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا تھا۔ چھ فٹ سے نکلتی قامت پر گہرا نیلا سوٹ، سرخ نکٹائی اور سیاہ چم چم کرتے جوتے۔ دروازہ کھول کر وہ جس انداز میں اندر آیا تھا اور بیروں نے جھک کر جس طرح اسے تعظیم دی تھی، وہ پرنس آف ویلز نظر آتا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ واقعی خپلو کا لا ڈلا شہزادہ تھا۔

مارجوری بلز ابھی کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے سکاٹ لینڈ سے ہندوستان آئی تھی۔ مدراس میں اپنے عزیزوں کے پاس ایک ماہ گزارنے کے بعد ابھی ایک ہفتہ قبل سری نگر اپنی پھوپھی مسز ولیم کے پاس آئی تھی۔ اس وقت وہ کیفے کے ایک کونے میں کافی سے دل بہلاتی تھی اور ہلکی ہلکی موسیقی پر پاؤں کی انگلیاں جوتوں کے تلے سے قالین پر بجاتی تھی۔ جب اس نے افتخار کو آتے اور میز کے گرد بیٹھتے دیکھا۔

افتخار کے ساتھ اس کے جگری یار غلام وزیر مہدی (سابق ممبر مجلس شوریٰ) اورسلطان ڈوپٹہ آف کشمیر تھے۔ مارجوری اپنی سیٹ سے اٹھی۔ اُن کے پاس پہنچی اور افتخار کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

’’آپ عظیم برطانیہ کے کس حصے سے ہیں؟‘‘

افتخار بڑا شوخ و شنگ نوجوان تھا۔ اس نے مسکراہٹ کو جواس سوال پر فی الفور اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی تھی، دبا لیا۔ اور اس کی سبز آنکھوں میں جھانک کر بولا۔

’’بھلا آپ کو کہاں کا لگتا ہوں؟‘‘

مارجوری نے اس کی نیلی آنکھوں کو بغور دیکھا اور بولی۔

’’سکاٹ لینڈ کا۔‘‘

’’کمال ہے محترمہ۔‘‘ سلطان ڈوپتہ آف کشمیر فوراً بولا۔ میں نے برطانیہ کا ایک ایک شہر دیکھا ہے۔ اس جیسا یوسف لاثانی تو وہاں ایک بھی نہیں۔ بھئی یہ ہندوستانی مسلمان ہے۔‘‘

’’اوہو‘‘ کہتے ہوئے مارجوری پیچھے ہٹی۔ پر اوہو کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے ایساحسین مرد آج تک نہیں دیکھا۔

اور غلام وزیر مہدی نے افتخار کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارا اور بولا۔

’’چلو اب لونڈیا عاشق ہوئی۔‘‘

مارجوری اس وقت بالی عمر یا کے دور میں تھی۔ سبز آنکھیں گویا شراب کے چھلکتے پیمانے تھے۔

اگلے دن جب افتخار پھر کیفے گیا۔ مارجوری اپنی پھوپھی مسز ولیم کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ مسز ولیم نے افتخار کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ہونٹوں کو عین گولائی میں لاتے ہوئے بولی۔

’’ہاؤ ڈیشنگ۔ مارجوری نے کل رات اور آج کا سارا دن تمہارا ذکر کر کے میرے شوق اور جذبہ تجسّس کو شدید کر دیا تھا۔ میں سمجھتی ہوں مارجوری تعریف کرنے میں سو فیصد حق بجانب تھی۔‘‘

اب ہوا یہ۔۔ ۔ اور اس سے آگے کہانی کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

شاہ جہاں کی بیٹی جاگ گئی۔ اس نے اسے اٹھا کر گود میں لٹایا اور دودھ پلانا شروع کر دیا۔ اس نے سر پر چمکتے سورج کو دیکھا۔ جب وہ نیچے تھی تو یو دیوتا ’’ تھور سے کھر‘‘ کی چوٹی پر معلق معلوم ہوتا ہے۔ یوں لگتا تھا کہ جونہی وہ چوٹی پر پہنچے گی اسے ہاتھ بڑھا کر دامن میں دبوچ لے گئی۔ لیکن وہ تو اب پھر بھی اتنا ہی اونچا تھا۔

دھوپ میں حرارت ضرور تھی پر ٹھنڈی ہوائیں اس حرارت کو زیادہ موثر نہیں رہنے دیتی تھیں۔ اس نے کپڑا پھیلایا۔ انڈے پراٹھے نکالے اور کھانا شروع کیا۔ اس جگہ کھا نا کھانے کا اپنا ایک لطف تھا۔ شاہ جہاں نے جب چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا تب سلسلہ پھر جڑا۔

اب ایک گمبھیر مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ خپلو کے اس حسین شہزادے کی محبت کے دو دعویدار پیدا ہو گئے۔ بھتیجی کے ساتھ اس کی پھوپھی مسز ولیم جو افتخار کو سالم نگل جانا چاہتی تھی۔ جو اس کے ہاتھوں کو ہاتھوں میں پکڑ کر جھٹکے دیتی اور کہتی۔

’’افتخار تم اب تک کہاں تھے۔ مجھے پہلے کیوں نہیں ملے۔ ہائے افتخار تم نہیں جانتے۔ ہاؤ آئی لو یو۔‘‘

افتخار کے لئے یہ صورت حال انتہائی ناپسندیدہ تھی۔ وہ فلرٹیشن کے سخت خلاف تھا۔

ایک دن جب مسز ولیم کسی اہم کام کے سلسلے میں جموں گئی ہوئی تھی۔ مارجوری افتخار سے ملنے آئی۔ افتخار نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور بولا۔

’’مارجوری تمہیں اس ترقی یافتہ آسائشوں سے پُر ماحول سے بہت دور ایک پسماندہ علاقے میں جہاں زندگی کی بیشتر سہولتیں نہیں رہنا ہو گا کیا تم رہو گی؟‘‘

مارجوری کی آنکھیں شدت احساس سے بھیگ ہی گئیں۔ اُس نے گلو گیر لہجے میں کہا۔

’’میں رہوں گی۔‘‘

افتخار نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھایا، اپنے سینے سے لگا یا اور بولا۔

’’مارجوری! تمہیں اپنا مذہب تبدیل کرنا ہو گا، کیا تم کرو گی؟‘‘

اور اس نے اس کے سینے پر اپنا سر مارتے ہوئے کہا۔

’’کروں گی، افتخار میں کروں گی۔‘‘

تب افتخار جھکا، اُس کی پیشانی پر طویل پیار کیا اور بولا۔

’’مارجوری تمہیں پردہ کرنا ہو گا، کیا کرو گی؟‘‘

’’سب کچھ کروں گی، تم کہو گے تو آگ میں کود جاؤں گی۔‘‘

اور افتخار ہنستے ہوئے بولا۔

’’آگ میں نہیں خپلو کے محل میں کودنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔‘‘

اور اسی شام، افتخار نے اپنے جگری یاروں کی مدد سے مارجوری کو اغواء کیا اور ایک ہاؤس بوٹ میں رکھا۔ غلام وزیر مہدی کی ڈیوٹی لگی کہ وہ اُسے مسلمان کرے اور ارکان اسلام کی بارے میں بتائے۔

پھر نکاح ہوا۔ اس کا اسلای نام فاطمہ صغراء تجویز ہوا۔ گواہوں میں سلطانہ ڈوپٹہ آف کشمیر اور وزیر مہدی تھے۔ ایک دن وزیر مہدی جو اسے قرآن پڑھاتے تھے۔ انہوں نے پڑھاتے پڑھاتے دفعتاً پوچھا۔

’’ تو جب آپ خپلو چلی جائیں گی تو ہم سے کیا پردہ کریں گی۔‘‘

اور اس نے متانت سے کہا۔

’’اس کا انحصار تو افتخار کی مرضی پر ہو گا۔ اب مارجوری بلز تو رہی نہیں، فاطمہ صغراء ہے، جو شوہر کی اجازت کے بغیر قدم نہیں اٹھائے گی۔‘‘

پندرہ دن بعد جب مسز ولیم لوٹ کر آئی اور بھتیجی کو غائب پایا، اس نے آفت مچا دی جیسے اسے پختہ یقین تھا کہ اسے غائب کرنے میں افتخار کا ہاتھ ہے۔ انگریز لڑکی غائب ہو جائے اور طوفان نہ اٹھے۔ طوفان اٹھا، پر اس طوفان کے اٹھنے سے پہلے افتخار اسے سری نگر سے لے بھاگا۔ جس شب انہیں سری نگر سے چلنا تھا، مارجوری کے ہونٹ نیلے پڑے ہوئے تھے اس کی آنکھوں میں دہشت وخوف کے سائے رقصاں تھے۔ کیونکہ اسے پتہ چلا تھا کہ مسز ولیم نے کہا ہے، میں اسے پاتال سے کھینچ لاؤں گی۔ وہ جاتی کہاں ہے؟

پر مسز ولیم اور اس کے حواریوں کی آنکھوں میں اس گھوڑے کے سموں کی گرد اُڑاتی ہوا کا ایک ننھا سا بگولا بھی نہ پہنچا۔ جس کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر وہ کرگل کے راستے کھرمنگ پہنچی تھی۔ ہماری پھوپھی فاطمہ بیگم نے لاڈلے بھائی اور بھاوج کو کھرمنگ بیامہ میں اپنے سہ منزلہ رہائشی محل میں ٹھہرایا۔

’’کیسے دن تھے وہ بھی۔‘‘ شاہ جہاں نے افق پر نظریں جماتے ہوئے سلسلہ جاری رکھا۔

’’میری زیزی (ماں) بتاتی تھیں کہ ہمارے دادا یعنی بڑے راجہ صاحب کو معلوم ہو گیا تھا کہ بیٹا ایک انگریز چھوکری بھگائے لا رہا ہے۔ جوانی کے منہ زور گھوڑے پر وہ پند و نصائح کی کاٹھی ڈالنے کے خلاف تھے۔ اب جب وہ اسے قبول کر بیٹھا تھا تو بلا وجہ ہنگامہ آرائی کا فائدہ؟ اس صبح وہ جاروق میں بیٹھے تھے، انہوں نے اپنے بڑے بیٹے فتح علی خان کو پکارا۔ جب وہ ان کی پکار پر اندر آیا، تب انہوں نے کہا۔

’’اپنی والدہ سے کہو دلہن کے لئے بلتی لباس تیار کروائیں۔‘‘

پھر جب بکسوں کی تہوں میں سرسراتے ریشمی کپڑے نکلے اور ان کی کتر بیونت شروع ہوئی تو سارا محل راگ رنگ میں ڈھل گیا۔ سازندوں نے محل کے سامنے چھوٹے لان میں ’’تھین کار‘‘ کی چھ دھنیں بجائیں، اور دودو آدمیوں نے مل کر رقص کیا۔

کھرمنگ سے وہ پالکی میں بیٹھی اور گنگچھے گلیشیئر کے اوپر سے ہوتی ہوئی خپلو میں اتری۔ سارا خپلو اس وقت پولو گراؤنڈ میں جمع تھا۔ رعایا نے ہاتھوں میں تھالیاں پکڑی ہوئی تھیں جن میں ان کی حیثیت کے مطابق نذرانے تھے۔

اس وقت ’’سنیوپا‘‘ کی دھنیں بجنی شروع ہوئیں اور سات مردوں کا تلوار کے ساتھ رقص کا آغاز ہوا۔ جب کہاروں نے پالکی پولو گراؤنڈ کے سامنے رکھی تھی۔ پالکی کے پردے اٹھائے گئے۔ وہ اندر سے نکلی۔ پولو گراؤنڈ میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس نے رعایا سے تحائف وصول کئے ان کی دعائیں لیں۔

اور جب اس نے محل میں قدم رکھا۔ وہ افتخار کے قدموں میں جھکی تھی۔ اس نے اس کے پاؤں کو چھوا اور بولی۔

’’افتخار، میری زندگی اب تمہارے نام رقم ہوئی۔‘‘

٭٭٭







باب نمبر24



وہ دیوارسے ٹیک لگائے اس سارے عمل کو غایت ودلچسپی سے دیکھتی تھی۔ پرانے محل کے ایک کمرے میں صاف فرش پر ان چار آدمیوں نے جو ’’براہ‘‘ سے آئے تھے، خوبانیوں کی گٹھلیوں کی دونوں بوریوں کو زمین پر پھیلا دیا تھا۔ چاروں نے اپنے منہ پانی سے بھرے اور اُن سے پچکاری کی۔ یوں کہ جیسے پنجاب کی دیہی عورتیں کچے صحنوں میں جھاڑو سے قبل پانی کا چھڑکاؤ کرتی ہیں۔ جب ان کے خیال کے مطابق نمی ان میں سرایت کر گئی۔ تب انہوں نے گول پتھر ہاتھوں میں پکڑے۔ گھٹنے زمین پر لگائی، جھکے اور انہیں توڑنا شروع کر دیا۔ کمرے میں توڑ پھوڑ کی آوازوں میں ایک مربوط ہم آہنگی تھی۔ جلد ہی کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ تبھی ملازم آیا اور بولا۔

’’ نیچے جیپ میں ڈاکٹر ابراہیم آئے ہیں۔ آپ کو بلاتے ہیں۔‘‘

اس نے کمرے سے نکل کر فصیل سے نیچے جھانکا۔ جیپ میں ڈاکٹر ابراہیم کے گھٹنے اورسٹیئرنگ پر رکھے بازو نظر آتے تھے۔ وہ سیڑھیاں اتر کر سامنے آئی۔ ڈاکٹر ابراہیم نے جیپ کی کھڑکی سے چہرہ نکال کر اسے دیکھا۔ اسے محسوس ہوا تھا۔ ان آنکھوں میں محبت اور شفقت کے لطیف سے جذبات گھلے ہوئے ہیں۔

’’آپ ٹھیک ہیں؟ سردی کی شدت سے گھبرا تو نہیں گئیں۔‘‘

اور اس نے قدرے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’ ابھی تک تو نہیں۔ آگے کا کچھ کہہ نہیں سکتی۔‘‘

پتہ نہیں اس کے دل میں اٹھنے والا یہ سوال ’’ کہ آپ کیسے ہیں؟‘‘ اس کی آنکھوں میں فی الفور کیوں عود آیا تھا، اور ڈاکٹر ابراہیم بھی آنکھوں کی زبان پڑھنے میں شاید بڑے ماہر تھے۔ تبھی فوراً بولے۔

’’در اصل میں فارغ تھا اور بور بھی ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا آپ کو کالدق کے سیرگاہ بروک دکھا لاؤں۔‘‘

وہ اس پیش کش کا فوری کوئی جواب نہ دے سکی۔ اس کے چہرے پر تذبذب کے آثار تھے۔ کچھ گومگو کی کیفیت تھی۔

اور ڈاکٹر ابراہیم نے اس کے دل میں جھانک لیا۔

’’آپ کس بات سے ڈرتی ہیں؟‘‘

وہ خجل سی ہوئی اور تیزی سے بولی۔

’’ڈاکٹر صاحب ڈرنا کیسا؟ اچھا میں آتی ہوں۔‘‘

وہ مڑی ضرور، پر اس کا ایک ایک قدم جو اٹھا، وہ سوچ کا غماز تھا۔ سیڑھیوں کا ایک ایک زینہ جس پر اس نے پاؤں رکھا، اندیشوں سے پُر تھا۔ جب وہ کمرے میں آ کر کھڑی ہوئی اس نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔

’’کیا کروں اب؟‘‘

اور جیسے اس کے اندر سے آواز آئی۔

’’کرنا کیا ہے جاؤ۔‘‘

اس نے جرابیں اور بوٹ بدلے، کوٹ پہنا گرم سکارف سر پر باندھا۔ باہر نکلی۔ شاہ جہاں پر لی طرف کمروں میں بخاریاں فٹ کروا رہی تھی۔ وہاں جانے اور اسے بتانے کی بجائے اس نے صرف نوکر کو بتایا۔ اور پھر نصف سیڑھیوں پر پہنچ کر اس نے دفعتاً اپنے آپ سے سوال کیا۔

’’خدایا میں کندن بننے کی خواہش مند ہوں۔ یا راکھ ہو جانا چاہتی ہوں۔‘‘

اور پھر وہ کسی بھی واضح فیصلے پر پہنچے بغیر جیپ تک آ کئی۔ دروازہ کھلا تھا۔ اندر بیٹھنے سے قبل اس نے دیکھا۔ ڈاکٹر ابراہیم اُسے دیکھتے تھے۔ گھبرا کر اس کا ہاتھ سٹیئرنگ پر پڑا۔

جیپ نشیب میں اُترنے لگی تھی۔ راستے میں سیدھے سادے مرد عورتیں بوڑھے بچے ڈاکٹر صاحب کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر سلام کرتے جاتے۔ وہ ایک ہاتھ سے انہیں جواب دیتے جاتے۔ وہ شیشے سے باہر دیکھتی تھی۔ وہی پہاڑ، ٹنڈ منڈ درخت وادی خپلو کا سارا حسن ماند پڑا ہوا تھا۔ شاہ بلوط ننگے ہوئے تھے اور کھیتوں میں سبزہ بہت کم تھا۔

’’ آج آپ کو میں پورے خپلو کا ایک چکر لگواؤں گا۔‘‘

جیپ ایک خانقاہ کے سامنے سے گزری۔ دروازے پر اس نے کراس کا نشان دیکھ کر پوچھا۔

’’یہ نشان میں نے کم و بیش ہر مسجد، خانقاہ اور قدیم محلوں قلعوں ہر جگہ دیکھا ہے۔ کیا اس کی کوئی خصوصی اہمیت ہے؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

ڈاکٹر ابراہیم نے جیپ محلہ کرامنگ میں داخل کرتے ہوئے کہا۔

اس نشان کو بلتی زبان میں یونگ درُونگ کہتے ہیں۔ یہ زمانہ قدیم سے متبرک نشان کے طور پر مستعمل رہا ہے۔ بدھ مت کے دور میں ایک سفید کپڑے پر گندم کے دانوں سے یہ نشان بنا کر دولہا اور دلہن کو اس پر بٹھاتے تھے۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ان دونوں کی مشترکہ زندگی کی ابتداء گندم اور اس نشان کی امن وسلامتی اور بابرکت علامت سے ہو۔

محلہ کرامنگ کے میدان میں شہتوت کے ٹنڈ منڈ درختوں پر ایک نیلا کبوتر بار بار چکر کاٹتا پھرتا تھا۔

اب ڈاکٹر ابراہیم اسے بتا رہے تھے کہ ہتھچی محلہ ہے۔ اس کے عین اوپر ہنجور کی آبادی ہے ہنجور میں بڑے بڑے قطعہ زمین تھے۔ جن پر گندم کی کاشت ہوتی تھی۔

’’مشہور سلترو گلیشیئر اور مشہ بروم کی چوٹیاں بھی اسی علاقے میں ہیں کبھی کسی گلیشیئر کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے؟‘‘ اُنہوں نے پوچھا تھا۔

’’میدانی لوگ ان کوہستانی رعنائیوں سے کہاں واقف ہوتے ہیں۔ گنگچھے گلیشیئر کا تھوڑا سا جلوہ دیکھا ہے وہ بھی دور سے۔ بس برف کا سمندر نظر آیا تھا۔

واپسی پر قریبی گاؤں براہ چلیں گے۔ وہاں ماہی پروری کے محکمہ نے ٹراؤٹ مچھلیوں کی افزائش نسل کے لئے مرکز قائم کیا ہے۔ وہ بھی دیکھنا اور ٹراؤٹ مچھی بھی کھانا۔ دنیا کی کوئی مچھلی ذائقے اور لذت میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‘‘

وہ اب ہنجور کی نہر پر پہنچ گئے تھے۔ کالدق کی سیرگاہ ہنجور کی سیرگاہ کے ساتھ واقع ہے۔ ان سیرگاہوں میں سیرو تفریح کا حقیقی لطف موسم بہار میں آتا ہے۔ جب درخت اور میدان سبزے کا پیرہن پہن لیتے ہیں۔ اس وقت وہاں سناٹے اور ویرانی کا راج تھا۔ ٹھنڈی ٹھار ہوائیں تھیں۔ خشک گھاش اور ٹنڈ منڈ جھاڑیاں، اودے پہاڑ پہلوبہ پہلو لیٹے ہوئے تھے۔ بعض کھیتوں میں کنگنی اور ترنبہ بوئے ہوئے تھے۔ کئی کھیتوں میں باجرہ کی کٹائی کر لی گئی تھی۔ لوگوں نے چارہ محفوظ کر لیا تھا۔

دونوں ایک ابھرے ہوئے بڑے پتھر کی اوٹ میں بیٹھ گئے۔ چائے کی تھرموس میں سے جب ڈاکٹر ابراہیم نے دو کپ بھرے۔ ایک اسے تھمایا اور دوسرا خود لے لیا۔ وہ ہنس کر بولی۔

’’چائے پینے کا صحیح لطف بھی یہیں آتا ہے۔‘‘

اور جب وہ گھونٹ گھونٹ چائے پیتی تھی، سامنے پہاڑوں کو اور اردگرد کی دنیا کو دیکھتی تھی اور اپنے حسابوں شراب دوآتشہ کے مزے اٹھاتی تھی۔ ڈاکٹر ابراہیم نے کہا۔

’’آپ کو اس سیرگاہ کے بارے میں ایک روایت سناتا ہوں جو بہت مشہور ہے۔‘‘

’’کہتے ہیں ایک بوڑھا شخص جس کا نام ینگ چونگ تھا۔ بڑا ہمت والا، نہایت جفاکش اور بہت پر عزم تھا۔ ایک دن یونہی اس کے جی میں آئی کہ کالدق کی اس بنجر اور ویران جگہ کو قابل کاشت بنایا جائے۔ اس نے ہنجور کی نہر سے ایک رابطہ نہر بنائی۔ اس نہر کی تعمیر میں اس نے صرف اپنی لاٹھی اور نوکیلے پتھروں سے کام لیا۔ نہر مکمل ہوئی کالدق کو قابل کاشت بنایا گیا۔ جب یہاں گل وگلزار ہوا تب اس نے راجہ سیر چونگ کو اپنے گھر پر دعوت دی اور پھر اس نے اِس خوبصورت جگہ کے نصف جگہ حصے کو تحفے کے طور راجہ سیر چونگ کو پیش کیا۔‘‘

اور جب اس نے چائے کا دوسرا کپ بھرا اور اسے ہونٹوں سے لگایا۔ بس تو اس سمے اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ لمحے جن میں مقید وہ وہاں بیٹھی ہے، دائمی ہیں۔ ماضی کہیں نہیں ہے اور مستقبل کا بھی کوئی وجود نہیں لیکن ان احساسات کی عمر کتنی تھی۔ بس چند لمحے۔ تبھی ڈاکٹر ابراہیم نے کہا۔

’’کہف الوریٰ اگر کچھ کہوں تو۔‘‘

اس نے نظریں اوپر اٹھائیں۔ اپنے سامنے بیٹھے اس نرم خو شخص کو دیکھا جو مہربان اور شفیق تھا۔ جس کی آنکھوں میں اس کے لئے پسندیدگی کی گہری جھلک تھی۔ جسے زندگی بھر کے لئے ایک اچھےر فیق کی ضرورت تھی۔

اور جیسے اس کا دل رنج و الم سے بھر گیا اور یہ دکھ اندر سے اس کی آنکھوں کے راستے باہر بھی چھلک پڑا اور جب اس نے یہ کہا۔

’’ڈاکٹر صاحب کچھ مت کہئیے۔ کبھی کبھی خاموشی کے بھرم میں ہی عافیت ہوتی ہے۔‘‘

بس تو ضبط کا بند ٹوٹ گیا تھا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

اور جب ڈاکٹر ابراہیم نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’کہف الوریٰ۔‘‘

اس آواز میںد کھ کی آمیزش تھی جس نے اسے تڑپا دیا دکھ اور غم کے گہرے میں پانیوں میں اُتر کر سب کچھ بھول جاتا ہے کچھ یادنہیں رہتا۔ اسے بھی اگر کچھ یاد تھا تو اپنے دکھ، جنہوں نے اسے زار زار آنسو بہانے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایسے میں اسے وہ آواز بھی سنائی نہیں دی تھی جس نے اسے بار بار کہا تھا۔

’’کہف الوریٰ کچھ تو کہو۔ کہنے سننے سے انسان ہلکا ہو جاتا ہے۔‘‘

اسے تو یہ بھی احساس نہیں ہوا تھا کہ کب وہ ڈاکٹر ابراہیم کے بازوؤں کے حلقے میں آ گئی تھی۔ کب اس کا سران کے شانے پر پڑا گھائل ہوا جاتا تھا اور وہ اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے چلے جاتے تھے۔

’’تم نے اتنی سی عمر میں کون سے دکھ پال رکھے ہیں؟ کچھ تو بتاؤ۔‘‘

ٹھنڈی ہوائیں کالدق میں دندناتی پھرتی تھیں۔ سورج پہاڑوں کے پیچھے چلا گیا تھا اور ڈاکٹر ابراہیم کا شانہ اس کے آنسوؤں کے رواں پانیوں سے بھیگا جاتا تھا۔

٭٭٭







باب نمبر 25





ساری رات وہ بخار میں یوں بھنتی رہی تھی جیسے بھٹی میں دانے۔ سانس لینا نزع کی سنگینی جیسا دشوار تھا۔ واپسی پر ڈاکٹر ابراہیم نے بہتیرا اسے کہا کہ کسی طرح وہ رات کا کھانا اس کے گھر کھا لے۔ پر وہاں ’’ایک چپ سو کو ہرائے‘‘ والی بات تھی۔ سو ہار کر وہ چپ رہے۔ پر جب وہ اتری وہ بھی ساتھ ہی اترے۔ یہ چاندنی رات تھی اور چاند بھی پورا تھا۔ سارا خپلو بالا، محل اور پہاڑ اس چاندنی میں چمکتے تھے۔ ڈاکٹر ابراہیم نے عین اس کے سامنے آ کر کہا۔

’’مجھے دکھ ہے کہ میں اس درد کو نہ جان سکا جو تمہارے سینے میں سرطان کے پھوڑے کی طرح پل رہا ہے۔ کہف الوریٰ ہم ایک دوسرے کے دکھ نہ بانٹ سکیں۔ انہیں ہلکا نہ کر سکیں۔ ان کا حتی الامکان مداوا نہ کر پائیں تو ہم پر انسان ہونے کی تہمت ہے۔‘‘

اس نے بس ایک نظر انہیں دیکھا۔ اتنا بہت سارا رو چکنے کے بعد اب آنکھیں خشک تھیں اور ان میں دکھوں کے جو سائے لرزیدہ تھے، وہ اس چاندنی میں بھی ڈاکٹر ابراہیم کو نظر آتے تھے۔

پھر وہ مڑی اور جب وہ دروازے سے گزر کر سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی، اس نے دیکھا شاہ جہاں کے کمروں میں بتی جلتی تھی۔ لیکن اس وقت وہ کسی سے ہونٹ کھول کر ایک لفظ بات کرنے کی روا دار نہ تھی۔ اس کے زخموں کے بند منہ کھل گئے تھے۔ اور ان میں سے درد کی لہریں نکل رہی تھیں۔

صبح جب وہ نو بجے تک کمرے سے باہر نہ نکلی۔ شاہ جہاں مارے فکر کے بھاگی بھاگی آئی۔ وہ بے سدھ پڑی تھی۔ ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ ہاتھ یوں جلا جیسے دہکتے تنور میں گر پڑا ہو۔ گھبرا کر باہر بھاگی۔ رانی ماں کو خبر سنائی وہ بھی پریشان بھاگتی آئیں نوکر نیچے اسپتال میں دوڑایا۔ ڈاکٹر ابراہیم اور ڈاکٹر سیف اللہ بھاگے آئے معائنہ کیا تو معلوم ہوا ڈبل نمونیے کا حملہ ہوا ہے۔ اسی وقت جیپ میں بٹھا کر اسپتال لے آئے۔

دس دن وہ اسپتال میں داخل رہی اور ڈاکٹر ابراہیم نے دن رات ایک کر دیا۔ سیماں کا کئی بار فون آیا۔ وہ بہت پریشان تھی۔ روح اللہ اسلام آباد گیا ہوا تھا اور وہ خود سفر کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔

اس نے دل کے دروازوں کو دھکے لگا لگا کر کنڈیاں چڑھانے اور انہیں مکمل بند کرنے کی امکانی کوششیں کیں۔ لیکن باہر خلوص اور محبت کی جو آندھیاں ڈاکٹر ابراہیم کے وجود کے ساتھ چل رہی تھیں۔ وہ اس کی سب کاوشوں کو ناکام بنائے جاتی تھیں۔

وہ خپلو سے اب بھاگ جانا چاہتی تھی۔ آنے والے برف باری کے دن دادی جواری اور غلام حیدر کے پاس چھوربٹ میں گزارنا چاہتی تھی۔ اس شام جب شاہ جہاں اس سے ملنے آئی، اس نے اپنا ارادہ اس پر ظاہر کیا۔

’’نہیں۔‘‘ وہ مضبوط آواز میں بولی۔ ’’میں تمہیں اس کی ہرگز اجازت نہیں دوں گی۔‘‘

’’مت دو۔ اجازت میں صرف اپنے آپ سے لوں گی۔‘‘

’’دیکھو کیوں اپنی جان کی دشمن بنتی ہو۔ آخر تم کہتی کیوں نہیں جو تمہارے اندر ہے۔‘‘

اس نے شاہ جہاں کی بات کا جواب دینے کی بجائے کمبل سر تک اوڑھ لیا۔

اسی رات ڈاکٹر ابراہیم جب اس کے پاس آئے۔ کمرے میں بخاری جلتی تھی۔ سردی کا خفیف سا احساس بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹر ابراہیم نے کرسی اس کے بیڈ کے قریب کھینچی۔ شاہ جہاں جاتے ہوئے انہیں اس کے آئندہ پروگرام کے متعلق بتا گئی تھی۔

’’تم کچھ بتاؤ تو سہی۔‘‘

اس نے نگاہیں اٹھائیں۔ انہیں دیکھا۔ لمبی سانس بھری اور بولی۔

’’ڈاکٹر صاحب! میں کل یا پرسوں تک چھور بٹ جانا چاہتی ہوں۔‘‘

’’لیکن کیوں؟‘‘ ان کی آواز میں گھبراہٹ اسے محسوس ہوئی تھی۔

’’سیلانی جو ہوئی۔ خپلو کو جی بھر کر دیکھ چکی ہوں۔‘‘

اس نے ان کے چہرے پر پھیلے اثرات کو پڑھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ آنکھیں اٹھا کر سرسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی وہاں۔ کیونکہ اس وقت وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے میں مصروف تھی۔

’’ بھلا سوچئے تو میں آپ کو یہ کیسے بتاؤں کہ میں گھر سے مفرور ہوں۔ ایک لا وارث بنجر زمین ہوں۔ آپ جیسا کوئی مہربان میری کہانی سن کر اپنی آنکھوں میں میرے لئے رحم بھر کر مجھے دیکھے تو میرا کلیجہ نہ کٹ جائے گا۔ میں اپنے دکھوں کا سارا بوجھ خود اٹھانا چاہتی ہوں کسی کو حصہ دار بنانا مجھے قطعی پسند نہیں۔‘‘

پھر اس نے اٹھ کر ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے، جھکی داہنے ہاتھ پر بوسہ دیا اور جذبات سے عاری آواز میں بولی۔

’’ڈاکٹر صاحب، مجھے معاف کر دیجئے گا۔‘‘

پھر وہ سیدھی کھڑی ہوئی اس کے چہرے پر کچھ ایسی ہی سنجیدگی تھی کہ ڈاکٹر ابراہیم کو حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ مزید اصرار کریں یا اسے روکیں کہ جوان کے پاس کھڑی انہیں کہتی تھی۔

’’چلئے آئیے ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر سیف اللہ کے گھر چلتے ہیں۔ میں وادی جواری کے گھر کا پتہ سمجھ آؤں؟‘‘

سیف اللہ اور اس کی بیوی نے ہر چند کہا کہ وہ رک جائے۔ پر وہ اڑیل ٹٹو کی طرح اکڑی ہوئی تھی۔ سیف اللہ بولا۔

’’ بھابھی سیماں ہمیں بہت برا کہے گی کہ ہم نے آپ کو آگے دھکیل دیا۔‘‘

’’لو یہ کیا بات ہوئی۔ مجھے کوئی میری مرضی کے خلاف دھکا لگا سکتا ہے۔ ارے نہیں سیف اللہ مت گھبراؤ میں آج رات اس سے بات کروں گی۔‘‘

شاہ جہاں سے اجازت لینا اس کے لئے بہت دشوار مرحلہ ثابت ہوا۔ وہ کسی طور اس کی جان بخشی کے لئے تیار نہیں تھی۔ زِچ ہو کر اس نے اس کے دونوں گال باری باری چومے اور بولی۔

’’یہ کیا مصیبت ہے کوئی میں تمہاری زر خرید لونڈی ہوں جو یوں مجھے اپنے لئے محفوظ کرنا چاہتی ہو۔ جانے دو گی تو پھر بھی آؤں گی۔ ورنہ رسی تڑوا کر ایسی بھاگوں گی کہ پلٹنے کا نام نہ لوں گی۔‘‘

٭٭٭







باب نمبر 26





اس کے تو سان و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ وہ جب چھور بٹ کے لئے سترونپی بازار آئے گی وہاں ڈاکٹر ابراہیم اسے الوداع کہنے کو موجود ہوں گے۔ اسپتال میں کل جانے کی اس نے ضرور رَٹ لگائی تھی۔ لیکن شاہ جہاں کے گھر آ کر اسے آمادہ کرنے میں ہی دو دن گزر گئے۔ اپنے اگلے پروگرام کے متعلق اس نے کسی سے کوئی بات نہ کی تھی بس جیپ کا چھوکرا شاہ جہاں کے نوکر کے ساتھ محل آیا تھا یہیں اس سے پیسے طے ہوئے تھے بلکہ شاہ جہاں نے اس کے منع کرنے پر بھی رقم خود ادا کی تھی۔

ڈرائیور نے جیپ خپلو بالا میں لانے کو کہا لیکن وہ بولی۔ ’’نہیں رہنے دو، میں وہیں نیچے آ جاؤں گی۔‘‘

اور جب اس نے بیگ جیپ میں پھینکا۔ سامنے ڈاکٹر ابراہیم کھڑے تھے۔ پہلی بار وہ ساری جان سے لرز گئی تھی۔

اب وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ گندمی چہرے پر دو چمکدار آنکھیں جن میں نرمی اور شفقت گھلی ہوئی تھی اسے دیکھ رہی تھیں۔ پھر وہ اس کے قریب آئے، اور بولے۔

’’معاف کرنا شاید تم نے سمجھا ہو کہ میں نے تمہارے وجود کے ساتھ کوئی توقع وابستہ کی ہے۔ در اصل کہف الوریٰ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں۔ بلا سے ان کی دائمی قربت نصیب ہو یا نہ۔‘‘

اس نے یہ سب سنا۔ اپنے سامنے دیکھا۔ دائیں بائیں چند دکانیں ان پر سایہ فگن چند ٹنڈ منڈ درخت، پرے جھانکتا نیلا آسمان، اِکّا دُکّا راہگیر اور دکانوں پر کھڑے خال خال گاہک۔

اس نے جیپ کا دروازہ کھولا۔ سیٹ پر بیٹھ کر اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا کر دھیرے سے بولی۔

’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے متعلق بھی کوئی دوسرا آدمی یہی سوچ رکھ سکتا ہے۔‘‘

پھر ان کا بالوں سے پُر گندمی ہاتھ اس کے ہاتھ پر آیا۔ اور انہوں نے کہا۔

’’خدا آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔‘‘

جیپ سٹارٹ ہو گئی۔ انہوں نے ڈرائیور لڑکے سے کہا۔

’’احتیاط سے گاڑی چلانا۔‘‘

ان کا ہاتھ فضا میں لہرایا۔ اس نے قصداً رخ پھیر کر پیچھے نہیں دیکھا۔ حالانکہ اس کے کانوں میں خدا حافظ فی امان اللہ کے الفاظ گونجے تھے۔

جیپ دریائے شیوق کے ساتھ ساتھ چلنے لگی تھی۔ اس کا دل یوں لگتا تھا جیسے منوں وزنی پتھر کے نیچے آیا ہوا ہو۔ ساری فضا غم و درد میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔

دفعتاً اس نے لڑکے سے کہا۔

’’میں تھگس میں میر عارف کا آستانہ دیکھنا چاہتی ہوں تم مجھے پار لے چلو۔‘‘

اور وہ بولا۔

’’خپلو سے سرمو کا پل تقریباً پندرہ کلو میٹر ہے۔ وہاں سے ’’غور سے‘‘ کا گاؤں اس سے بھی زیادہ دور ہے اور تھگس اس سے بھی آگے ہے۔ واپسی کا سفر بھی اتنا ہی ہوا۔ آپ بتائیے چھور بٹ کب پہنچیں گے؟‘‘

اس نے کہا۔

’’یہ تو تم بہتر جانتے ہو کہ کب پہنچیں گے۔ رات بھی ہو گئی تو خیر صلا۔ مجھے کون سی وہاں حاضری دینی ہے۔ رہا یہ سفر تو میں تمہیں اس کے پیسے دوں گی۔‘‘

اور لڑکا خوش ہو گیا۔ سرموں کا گاؤں آیا۔ کوئی دس کلو میٹر پر سرموپل سے جیپ مڑی یہ سرموں اور غور سے کے گاؤں کے درمیان رابطہ پل ہے۔ پل پار کیا اور ساتھ ہی ریت کا میدان شروع ہو گیا۔ غور سے تک پہنچتے پہنچتے اچھا بھلا سرمنہ ریت اور مٹی سے اٹ گیا۔ تھگس میں جیپ جب اس پر انی مسجد کے پاس سے گزری جسے ۱۰۱۲ھ۔ ۱۶۰۳ء میں سید علی و سیدنا ناصر طوسی نے تعمیر کیا تھا۔ تو وہ اتری اور اس نے دعا مانگی۔

جب وہ میر عارف کے آستانے پر پہنچی اس وقت گیارہ بج رہے تھے اور بھوک زوروں پر تھی۔ اس نے سوچا پہلے وہ نفل وغیرہ پڑھ لے پھر کھانے پینے کا سلسلہ شروع کرے۔

ہلکے چاکلیٹی پہاڑ آستانے کے پس منظر میں خاموش پاسبانوں کی طرح کھڑے تھے۔ آستانے کی نچلی جالیوں کے پاس دو عورتیں بیٹھی گریہ زاری میں مصروف تھیں۔ پتہ نہیں کیسے دکھ کی آگ ان کے اندر جل رہی تھی۔

ساتھ میراسحاق کا آستانہ بھی تھا۔ میرا سحاق کے آستانے کی برجی اور میر عارف کے آستانے کا نچلا حصہ ایرانی و کشمیری فن نقش کاری کا نادر نمونہ تھے۔ منتوں اور مرادوں کے رو مال ہوا سے پھڑپھڑاتے تھے۔ وہ اندر گئی۔ دیوار کے ساتھ ٹک کر جب وہ فرش پر بیٹھی اس کے دل کی بے کلی آنسوؤں کی صورت میں ظاہر ہونے لگی۔ وہ روتی رہی جب وہ رو رو کر ہلکی ہوئی تب اٹھی دو نفل پڑھے اور باہر آئی۔ خانقاہ دیکھی پتھروں پر بیٹھ کر اک ذرا دھوپ سے جسم کو گرم کیا۔ جیب سے خشک خوبانیاں نکال کر کھائیں اور پھر جیپ میں بیٹھی۔

’’آپ یہاں تک آ گئی ہیں۔ تو اب خانقاہ معلی سینو بھی دیکھتے چلئے۔‘‘

ڈرائیور لڑکا بولا۔

’’تم دکھانا چاہتے ہو اور میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ بھلا اس سے زیادہ مفاہمت اور کیا ہو گی۔‘‘

’’تھگس اور سینو کا درمیانی فاصلہ چھ سات کلو میٹر سے زیادہ نہیں۔‘‘

سینو کی خانقاہ معلی نہایت خوبصورت، بہترین حالت میں اور بہت بڑی خانقاہ تھی اندر جانے کے لئے وہ شعر موزوں بیٹھتا تھا کہ

انہی پتھروں پہ چل کر اگر ہو سکے تو آؤ

میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

سارے راستے میں پتھر بکھرے ہوئے تھے۔ راستے کے عین درمیان میں چوبی پائپ اوپر تک گیا ہوا تھا۔ اگلا حصہ بری طرح پتھروں سے اٹا پڑا تھا۔ وہ داہنی سمت احتیاط سے پاؤں رکھتی ہوئی آگے بڑھی۔

سامنے والا برآمدہ بارہ چوبی ستونوں میں منقسم تھا۔ درمیان میں دو ستونوں کے ساتھ نفیس چوب کاری کی چوکھٹ نصب تھی۔ بائیں سمت سرمئی پہاڑ نیم دراز معلوم ہوتے تھے۔ چھت پر سپیکر نصب تھا۔

خانقاہ کے بارے میں اس نے خپلو میں سنا تھا کہ یہاں ہر دعا قبول ہوتی ہے۔

جب وہ سورۃ فاتحہ پڑھ چکی، تب اس نے اپنے آپ سے کہا۔

’’میں کیا مانگوں؟ اپنا گھر۔ اپنے لئے بچہ، ڈاکٹر ابراہیم یا کچھ اور۔‘‘

پھر عجیب سا ہوا۔ اس کا اندر بوٹیوں میں کٹنے لگا۔ اس نے جھنجھلا کر کہا۔

’’ کچھ نہیں مانگنا میں نے۔ پیدا کرنے والا سبھی کچھ جانتا ہے۔ وہ اگر کھلونا بنا کر کھیل رہا ہے تو میں اسے کھیل سے روکنے والی کون ہوں؟‘‘

شاہ جہاں نے بیگ میں سیب خشک پھل اور پراٹھے ڈال دئیے تھے۔ وہ سب اس نے نکال لئے وہ اور ڈرائیور کھاتے رہے اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتے رہے۔ ڈرائیور بتا رہا تھا۔

’’سینو سے آگے سلتروگلیشیئر ہے اور سلتر و سے اوپر شہرہ آفاق سیاچین گلیشیئر جس کے عین دامن میں چھوربٹ واقع ہے۔‘‘

اب ایک بج رہا تھا اور ڈرائیور کا خیال تھا کہ اب انہیں چھوربٹ کے لئے چلنا چاہیے۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے رات ہو جائے گی۔

’’ارے تو پہلے کیوں نہ بتایا ذرا جلدی کر لیتے۔‘‘

تھگس اور سینو خپلو سے اوپر کی جگہیں ہیں۔ سرمو پل سے آنا پڑتا ہے۔ اس لئے بہت سا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔

اب اس نے سر اور منہ اچھی طرح ڈھانپ لیا تھا۔ جیپ کے شیشے اچھی طرح چڑھا لئے تھے۔

نولکھا، ڈآؤو، کواس اور سنگ کی وادیاں گزر گئیں۔ دریائے شیوق کے پار کے گاؤں عبادان پر توک اور مرچھا بھی اس نے ڈرائیور کے بتانے پر دیکھے۔ بید چنار، شاہ بلوط اور پھلوں کے درخت سب ننگے بچے تھے۔ وادیوں کی ساری دل کشی اور حسن ماند پڑا ہوا تھا۔

پھر پیون آیا۔ پیون چھوربٹ کی ایک اہم وادی جہاں آرمی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ سیاری سیکٹر میں متعین فوج کے لئے رسل ورسائل کے انتظامات یہیں سے کئے جاتے ہیں۔ پیون میں ہی نالہ چھوربٹ دریائے شیوق میں گرتا ہے۔ عصر کی نماز اس نے چھوربٹ نالہ کے پاس پڑھی۔ پرانے وقتوں میں اس نالے کے راستے کشمیر کے لئے آمدورفت ہوئی تھی۔

پیون سے آگے سکسہ تھا۔ اس منزل /سکسہ چھوڑ بٹ کا صدر مقام ہے۔ سردیوں کی یہ شام بہت جلد ڈھل گئی تھی۔ جیپ والا نہایت مستعد ڈرائیور تھا۔ بہت تیزی سے گاڑی چلا کر لا یا تھا۔ جیپ بازار میں سے گزری۔ دس پندرہ دکانیں بازار کی صورت میں دائیں بائیں واقع تھیں۔ پانچ چھ ذرا ہٹ کر ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں۔ جامع مسجد کے پاس گاڑی رک گئی۔ یہ محلہ ینگ چھد تھا مسجد کے ساتھ والا گھر وادی جواری کا تھا۔ جن کے پاس رہنے کے لئے وہ آئی تھی۔

دو منزلہ گھر، پتھروں کی سیڑھیاں، اوپر کی منزل کے لئے نہیں نچلی منزل کے لئے اس نے دھیرے دھیرے پاؤں ان پر جمائے اور بڑے کمرے میں داخل ہوئی۔

یہاں کونے میں چولہا جلتا تھا۔ دادی جواری ہر دوگوژنیو (چنٹ والی شلوار) پر سیاہ خوشنما پپو (دری) بچھا ہوا تھا۔ کونے میں لالٹین جلتی تھی۔ دوسرے کونے میں آڑے رخ بندھی تار پر رضائیاں لٹکتی تھیں۔ چولہے کے پاس دیوار میں پھنسے تختوں پر برتن دھرے تھے۔ ہنڈیا پکتی تھی۔ کمرے میں گوشت کی خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ اور وہ چپ چاپ کھڑی اس سارے ماحول کو دیکھتی تھی اور سوچتی تھی کہ دانہ پانی اسے کہاں کہاں اڑائے لئے پھرتا ہے۔

جب ساتھ والے کمرے سے ایک نوخیز لڑکی نکلی۔ اس نے حیرت سے چند لمحے اسے دیکھا۔ پھر دادی جواری سے کچھ بولی۔ دادی جواری نے اپنی نگاہوں کا رخ پھیر کر جب اُسے دیکھا تو وہ کھِل اٹھیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئیں پر قدم اٹھانے سے قبل ہی وہ ان کے پاس پہنچ گئی اور ان کے پھیلے بازوؤں میں سما گئی۔

اسی وقت چائے بنی میٹھی چائے جس کی سطح مکھن سے بھری ہوئی تھی۔ چینی دادی جواری نے کہہ کر ڈلوائی تھی۔ گھر کا کلچہ۔ وہ کلچہ کھاتی رہی۔ چائے پیتی رہی اور دادی جواری کی آنکھوں سے چھلکتے خوشی کے جذبات پڑھتی رہی۔

اس نے چائے کے دو پیالے پیئے۔ ساتھ والے گھر کی ایک نوجوان لڑکی آئی۔ جس نے بلے غا پا (ایک پاؤ) مکھن ادھار مانگا۔

دادی جواری نے منجھلی بہو کو سترانگ (ترازو) لانے کو کہا۔ یہ عجیب قسم کا ترازو تھا۔ لکڑی کے ایک سرے پر لکڑی کا ہی ایک گولہ دوسرے سرے پر تین مضبوط ڈوریوں سے لٹکا ہوا چمڑے کا پلڑا۔ ڈنڈے پر پیمانے لکیروں کی صورت کندہ تھے۔ پلڑے میں مکھن ڈال کر ان لکڑیوں میں ایک اور ڈور ڈال کر وزن کیا گیا۔

دادی جواری جموں میں بہت عرصہ رہی تھیں۔ اردو نہ صرف سمجھتی تھیں۔ بلکہ صاف ستھرا بول بھی لیتی تھیں۔

مکھن اس کی کٹوری میں رکھ کر ہنستے ہوئے بولیں۔

’’دیکھا تم نے ہمارا ترازو۔‘‘

اور اس نے جواباً ہنس کر کہا۔

’’ واقعی دادی کمال کی چیز ہے۔‘‘

گھر میں بڑی بہو، اس کے تین بچے منجھلی بہو اس کے چار بچے اور چھوٹی بہو اپنے دو بچوں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے۔ بڑے کمرے کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ جن کے فرش پر نرم گھاس پر دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ ان پر گدے اور گدوں پر رضائیاں دھری تھیں۔

توے پر موٹی موٹی روٹیاں پگ گئی تھیں۔ کھانا تیار تھا اور گھر کے ان دو مردوں کا اب انتظار ہو رہا تھا۔ جو دوپہر سے باہر تھے۔ تیسرا بیٹا کیپٹن کاظم ان دنوں سیاچن پر متعین تھا۔

اس نے چاہا کہ وہ غلام حیدر کے ہاں جائے۔ پر دادی جواری بولی۔

’’اس وقت وہ نہیں ملے گا۔ آج کل چھور بٹ میں بہت ہلّہ گلہ ہو رہا ہے۔‘‘

ابھی وہ یہ پوچھنے والی تھی کہ ہلّہ گلہ کس بات کا، کہ دونوں مر دگھر میں داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے فوجی وردی میں کندھے پر تین ستارے سجائے ایک خوبصورت جو ان بھی تھا۔ جس پر نظر پڑتے ہی جہاں دادی جواری خوش سے چلائیں وہیں گھر کی چھوٹی بہو بھی گلاب کی طرح کھِل اٹھی۔ دادی جواری کے گلے لگنے اور ان کے منہ ماتھا چومنے کے انداز نے اسے بتایا کہ وہ گھر کا چھوٹا بیٹا کیپٹن کاظم ہے۔ بڑی بھاوجوں سے ملنے اور بچوں کو پیار کرنے کے بعد وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔ دادی جواری نے بلتی میں اس کے متعلق بتایا۔ مسکرا کر اس نے سلام کیا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ کمرے میں زور و شور سے باتیں ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر تک وہ ہونقوں کی طرح ان کا منہ دیکھتی رہی۔ پھر جب ذرا سی خاموشی ہوئی تو اس نے پوچھا۔ دادی جواری نے بڑے بیٹے سے کہا کہ وہ اسے بتائے۔

دادی جواری کا بڑا بیٹا محمد جعفر اس کی طرف دیکھ کر ذرا سا مسکرایا اور بولا۔

’’اردو تو میں بول لیتا ہوں۔ پر بہت اچھی بولنے سے مجبور ہوں۔ آپ سنیئے گا نہیں؟‘‘

’’ارے نہیں، یہ کم خوشی کی بات ہے کہ آپ بول لیتے ہیں۔ بعض لوگ تو لسانی تعصب میں اُلجھ کر اچھی بھلی زبان جانتے ہوئے بھی لا علمی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘

’’ہماری دادی سکسہ سے اگلا گاؤں سیاری ہے۔ جسے سیاری سیکٹر کہتے ہیں۔ یہاں پاک فوج متعین ہے۔ اس کے عین اوپر فوجی اور سیاسی اہمیت کا حامل سیاچن گلیشیئر ہے۔ ایک عام آدمی یقیناً اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ پاکستانی فوج کن حالات میں آٹھ ہزار آٹھ میٹر بلندی پر ٹنگی بیٹھی، برف کے سمندر میں دھنسی دنیا کی انوکھی لڑائی لڑنے میں مصروف ہے۔

افواج پاکستان رسد و رسائل کی فراہمی اور بار برداری کے لئے مقامی انتظامیہ کے تعاون سے مختلف ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ مقامی انتظامیہ اپنے رشتہ داروں کو یہ ٹھیکے فراہم کرتی ہے اور یہ ٹھیکیدار پولیس کے ساتھ ملا کر عوام سے بیگار کے طور پر زبردستی بار برداری کا کام لیتے ہیں۔

ڈوگرہ دور میں بلتی قوم پر کیا کیا ستم ٹوٹتے تھے۔ کس کس انداز میں ان پر فالج گرتا تھا۔ ’’بیگار سسٹم‘‘ ان کے جسم میں سرطان کے پھوڑے کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ پر تب بات غلامی پر ٹوٹتی تھی۔ ذہن میں محکومی کا احساس تھا۔

پر اب ایسا کیوں ہو۔ بے شمار گھروں کے چشم و چراغ بار برداری کے اسی چکر میں بلندیوں سے گرے اور ختم ہو گئے۔ ان کے لواحقین کو ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔ اس ماہ کی تین تاریخ کو چھور بٹ کے لوگوں نے تنگ آ کر شمالی علاقوں کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو اپنی تکالیف اور مسائل سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ اس علاقے کی عوام سے کسی قسم کا بیگار نہیں لیا جائے گا۔ اور نہ ہی پولیس عوام کو ہراساں کرے گی۔ ٹھیکیدار اپنے معاہدہ کی رو سے خود ہی بار برداری کا ذمہ دار ہو گا۔

لیکن اب انتظامیہ اور پولیس ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے علاقے کے معززین اور سر کردہ لوگوں کو جو غریب عوام کے لئے سینہ سپر ہیں جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات میں ملوث کر کے گرفتار کر رہی ہے۔ سارے علاقے میں شدید بے چینی اور اضطراب کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ ان زیادتیوں سے تنگ آ کر کل عین ۲۲ نومبر کو بچے بوڑھے عورتیں اور مرد اپنے گھر مال مویشی چھوڑ کر اسلام آباد داد رسی کے لئے روانہ ہو گئے۔ سیاری سیکٹر میں جب یہ لوگ تیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کر چکے تو مقامی فوجی حکام کی کوششوں اور علاقے کے معززین کی مدد سے اس شرط پر گھروں میں واپس لوٹنے پر آمادہ ہوئے کہ ان کے دکھوں کی داد رسی کی جائے گی۔ کاظم اسی سلسلے میں فوجی افسروں کے ساتھ آیا ہوا تھا۔

آخر ان ٹھیکیداروں اور بڑے لوگوں کے پیٹ زیادہ بڑھے ہوئے ہیں۔ انہیں روٹی کی زیادہ ضرورت ہے۔ ان کے مسائل ایک عام آدمی سے زیادہ ہیں۔‘‘

اور اب دادی جواری کا دوسرا بیٹا بولا تھا۔

’’مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق سرحدی علاقوں کے عوام کو حکومت سے متنفر کرانے کی سازش کی جا رہی ہے۔‘‘

وہ گم سم بیٹھی اس صورت حال کی تصویر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور سوچتی تھی کہ جبر اور استحصال کے یہ سلسلے کب تک جاری رہیں گے۔ اپنے آپ میں گم اور خود سے باتیں کرتے کرتے وہ اس وقت چونکی جب کاظم وردی بدل کر شلوار قمیض میں ملبوس گود میں چھوٹا بچہ اٹھائے اس کے پاس آ کر بیٹھا۔ اس نے شُستہ اُردو میں اس کے بلتستان آنے اور یہاں مقامی لوگوں کے ساتھ رہنے کے جذبے کو سراہا۔

کاظم کے سرخ و سفید چہرے پر اس نے ایک سرسری سی نظر ڈالی اور کہا۔

’’میں۔۔ ۔‘‘ وہ رکی اور پھر دوبارہ بات جاری رکھتے ہوئے بولی۔

’’میں کیا ملک کے نوے (90) فیصد لوگ سیاچن اُس پر ہونے والی لڑائی اور دیگر واقعات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ کیا آپ مجھے اس سلسلہ میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟‘‘ کاظم ہنسا۔

’’آپ نے نوے (90) فیصد کہہ کر حسن ظن سے لیا۔ یہ کہیے کہ ننانوے فیصد لوگ لا علم ہیں۔‘‘

اب کے اس کے مسکرانے کی باری تھی۔ وہ خفیف سا مسکرائی۔

’’میں مانتی ہوں۔‘‘

کیپٹن کاظم نے قالین پر رکھے اس چائے کے پیالے کو اٹھایا جسے اس کی نازک سی نو عمر بیوی بڑی چاہت سے چھوٹی سی ٹرے میں اس کے سامنے سجا کر گئی تھی۔ اس نے مکھن تیرتی نمکین چائے کا گھونٹ بھرا اور دفعتاً چونک کر بلتی میں اونچے سے بیوی سے کچھ بولا۔

بیوی نے بھی جواباً کچھ کہا تھا۔ کیپٹن کاظم نے پھر اس کی طرف دیکھا اور لفظ چائے کہا۔

’’آپ پئیں میں پی بیٹھی ہوں۔‘‘ وہ اس کا مدعا سمجھ کر فوراً بولی۔

ہماری بلتی زبان میں ’’سیا‘‘ جنگلی گلاب کو کہتے ہیں۔ سفید پیلے اور گلابی رنگ پھولوں والا یہ سخت جان پودا ہی یہاں اگتا ہے۔ ’’چن‘‘ کا مطلب والا سے ہے۔ یعنی جنگلی گلابوں والا ۷۵ کلو میٹر لمبا ۵ سے ۷ کلو میٹر چوڑا اور تقریباً ۲۱ ہزار سے ۲۴ ہزار تک بلند قطبین سے باہر یہ دنیا کا سب سے بڑا گلیشیئر ہے۔ مختلف اوقات میں مختلف غیر ملکی کوہ پیماؤں اور سیاحوں کے ٹیموں نے حکومت پاکستان کی اجازت سے اس کی بعض چوٹیاں اور دروں کو سر کرنے کی کوشش کی تھی۔

کیپٹن کاظم نے چائے کا خالی پیالہ ٹرے میں رکھتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر قبضے کے بعد ہندوستان کا دماغ خراب ہو گیا تھا وہ اپنے آپ کو جنوبی ایشیا کی زبردست طاقت بنانا اور منوانا چاہتا تھا۔ نیفا میں چینیوں کے ہاتھوں شکست کا زخم بھی اس کے سینے پر تھا۔ اسی لئے ۱۹۸۴ء میں اس نے سیالا اور بلا فون دو اہم پاکستانی دروں پر قبضہ کر لیا۔ اس کا ارادہ بیک وقت چین اور پاکستان کو سبق سکھانے کا تھا۔ نتیجتاً سمندر میں ایک نرالی اور عجیب و غریب لڑائی کا آغاز ہو گیا۔ جو جانے کب تک جاری رہے گی۔

پاکستان آرمی کے لئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔ شدید سردی آکسیجن کی کمی زیادہ بلندی پر پیدا ہونے والے عارضے جن میں فراسٹ بائٹ (Frost Bite) سر فہرست ہے۔ راشن ایمونیشن مٹی کے تیل اگلوز اور جدید ہیلی کاپٹروں کی فراہمی ایسے مسائل فوری حل طلب تھے۔

آپ سوچ بھی نہیں سکتی ہیں کہ جہاں اس وقت آپ بیٹھی ہیں۔ کیپٹن کاظم نے گفتگو کا سلسلہ توڑتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’اس کے عین اوپر گرمیوں کے اس موسم میں بھی درجہ حرارت منفی ۱۰ سے ۱۵ سنٹی گریڈ رہتا ہے۔ برف کے اس خوفناک سمندر میں چلتے ہوئے آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ گہری برفانی کھائیاں اور اندھے کنوئیں بھی آپ کے منتظر ہیں۔ اچھے بھلے موسم میں ایکا ایکی خوفناک برفانی ہوائیں اور زبردست برفباری اگلو میں بیٹھے ہوئے بھی آپ کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔ آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا پہاڑوں کی چوٹیوں سے سلائیڈز گر کر پل بھر میں آپ کو دوسری دنیا میں پہنچا دیتی ہیں۔ آپ نہیں مانتے کب اور کس وقت آپ اچانک فراسٹ بائٹ کا شکار ہو جائیں گے۔

یہ سب تکلیفیں یہ سارے عذاب اور یہ ساری صعوبتیں ہمارے جوانوں اور افسروں کے سامنے ہیچ ہیں۔ میں آپ کو قائد او۔ پیے معرکے کی تفصیل سناؤں کہ نائب صوبیدار عطا محمد نے کسی جوانمردی سے دشمن کے تین بڑے حملوں کو پسپا کیا اور شہید ہوا۔ ۱۰ ہزار فٹ کی بلندی پر بلا فون سیکٹر میں معرکہ حق و باطل کیسے ہوا؟ کیپٹن محمد اقبال اور کیپٹن سالک چیمہ نے ثابت کیا کہ مومن کیسے ہوتے ہیں اور ان کے فولادی عزم کے سامنے پہاڑ روئی بن کر کیسے اڑتے ہیں۔ معرکہ چھولک کا ذکر کروں کہ کیپٹن محمد جاوید اور کیپٹن غلام جیلانی نے نا ممکن کو کیسے ممکن بناتے ہوئے شہادت کا جام نوش کیا۔

۲۲ ہزار فٹ کی بلندی پر سلنگ سے اتارے جانے والے جوانوں کا ذکر کروں اور یہ بھی بتاؤں کہ پہلی بار جب ہیلی کاپٹر سے لیفٹینٹ نوید اور نائک یعقوب کو ان کے زبردست اصرار پر سلنگ سے اتارا گیا تو انہوں نے ۷۶ گھنٹے وہاں کیسے گزارے کیپٹن کامران اور میجر بلال نے گنگا بیس کو کیسے تباہ کیا؟

چند ایک نہیں سینکڑوں ایسے کارنامے ہیں جن پر پوری قوم ناز کر سکتی ہے۔ سچی بات ہے مجھے وہ شعر بڑا حسب حال لگتا ہے کہ

کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں

کیپٹن کاظم ہنسا۔ ہنسنے سے اس کے موتیوں جیسے دانت نمایاں ہوئے تھے۔

ایک پہلو اور بھی تخریب میں تعمیر کا۔ ساچن کی لڑائی نے ہمارے بلتستان کے وہ پس ماندہ علاقے بھی ترقی یافتہ کر دئیے ہیں جن کے آئندہ پچاس سالوں میں آگے بڑھنے کے امکانات زیرو فی صد تھے۔ ہمارے انجینئر پہاڑوں اور گلیشیئروں کو کاٹ کاٹ کر سڑکوں کا جال بچھا رہے ہیں۔ بجلی کی فراہمی کو ممکن بنا رہے ہیں۔ لوگوں کو روزگار مل رہا ہے اور ان کی معاشی حالت بدل رہی ہے۔ رہے یہ احتجاج اور مارچ تو یہ بیداری کی علامت ہیں اپنے حق کے لئے آواز نکالنا اور قدم اٹھانا دونوں زندہ قوم کی علامت ہیں۔

٭٭٭







باب نمبر 27







دادی جواری کے گھر کے ساتھ ہی وہ دونوں رہتے تھے۔ غلام حیدر اور ان کی بیوی سکینہ اسے سکینہ سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ اشتیاق کی اس پس منظر میں ایک بہت اہم سوال بھی تھا۔ جو اس وقت سے اُس کے ذہن میں ہل چل مچائے ہوئے تھا۔ جب اس نے یہ جانا تھا کہ سکینہ کے ہاں کوئی بچہ نہیں، وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ ماں نہ بن سکنے کے کرب کو کس قدر محسوس کرتی ہے اور یہ کہ اس کے شوہر کا رد عمل کیسا ہے؟ اس نے کبھی طعن و تشنیع سے کام لیا؟

سکینہ بی بی نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

’’بیٹی میں کیوں زندگی کو روگ بناتی۔ بچہ تو نصیبوں کی بات ہے۔ اوپر والے نے نہیں دیا نہ سہی۔ اس کی مرضی۔ رہا حیدر خان، وہ تو میرے دم کے ساتھ دم بھرتا ہے۔ میں نے تو اسے کہا تھا دوسرا بیاہ کر لو۔ پر اسے تو میرے ساتھ عشق ہے۔‘‘

وہ اس جوڑے کے ساتھ اتنی گھل مل گی تھی کہ اب اس کا زیادہ وقت ان لوگوں کے ساتھ ہی گزرتا۔ وہ دونوں بھی اس کے ساتھ بہت خوش رہتے تھے۔

اس وقت کہنے کو دوپہر تھی۔ پر موسم سرما میں سکسہ سورج کی زد سے کچھ باہر رہتا تھا۔ غلام حیدر اس وقت اس گھاس سے جسے کرسمہ کہتے ہیں۔ برف باری میں پہننے کے لئے اپنے اور سکینہ کے لئے جوتے بنا رہا تھا۔ وہ اس کے پاس بیٹھی اس کے ہاتھوں کی تیز جنبش دیکھ رہی تھی۔

کچھ دیر بعد اس نے کہا۔

’’ میرے لئے بھی ایک ایسا ہی پولا (کرسمہ سے بنے ہوئے جوتے کا نام) بنا دو نا۔ برفباری تو ہونے والی ہی۔ میں کیا پہنوں گی۔‘‘

غلام حیدر رک گیا۔ اس کی طرف دیکھ کر ہنسا اور بولا۔

’’بہت بے صبری ہے تو۔ او سکینہ۔‘‘ اُس نے زوردار آواز لگائی۔

سکینہ ہنستے ہوئے کمرے سے ہلم کا جوڑا نکال لائی۔ پٹو اور چمڑے سے بنے ہوئے اس جوتے پر سکینہ نے خود کشیدہ کاری کی تھی۔ ہلم کا ایک جوڑا اس سے پہلے وہ پہن چکی تھی۔ روح اللہ نے چھور بٹ سے اس کے لئے منگوایا تھا۔ وہ اتنا نفیس تھا۔ وہ پھڑک اٹھی تھی۔

اب سکینہ پھر کوٹھری میں گئی اور اس کے ناپ کا پولا لے آئی۔

’’ یہ میں نے تیرے لئے خود بنائے ہیں۔‘‘

اس نے غلام حیدر کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔ انہیں اپنے ہونٹوں سے لگایا اور بولی۔

’’میں شکر گزار ہوں۔‘‘

سکینہ نے پیار بھری چپت اس کے سر پر لگائی اور بولی۔

’’ میرا کوئی نام نہیں، جس کے دیدے کڑھائی کرتے کرتے دُکھنے لگے ہیں۔‘‘

اس نے اٹھ کر دھان پان سی سکینہ کو اپنے بازوؤں میں دبوچ لیا۔

’’دیکھ تو وقت کیا ہو رہا ہے سکینہ! تو کچھ کھانے کو بھی دے گی یا یونہی فاقوں مارے گی۔‘‘

’’لو دیکھو! یہ ذرا سے فاقے سے مرنے لگا ہے۔ ارے اتنا تو کہا تھا صبح کہ خالی چاء مت پیو۔ کلچہ لے لو۔ پر تیرا تو پیٹ ٹھیک نہیں تھا۔ اب یہ بیٹی ہی روٹی کھلائے گی۔ میں تو کپڑے دھونے جا رہی ہوں۔‘‘

اور جب سکینہ اٹھنے لگی کہف الوریٰ نے اسے بٹھا لیا یہ کہتے ہوئے کہ میں روٹی بناتی ہوں۔ تم کھا کر آرام کرو۔ کپڑے کو ہل سے میں خود دھو لاؤں گی۔

اور وہ اس کی طرف محبت آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔

’’میری بچی عادتیں تو نہ خراب کر ہماری۔‘‘

اس نے رگیم (لکڑی کا بنا ہوا لمبا سا بکس جس میں سردیوں کے لئے آٹا محفوظ کر لیا جاتا ہے ) سے پرات میں آٹا نکالا، گوندھا، روٹی بنائی۔ پیاز اور مرچ کی چٹنی پیسی۔ ان کے گھر اعلیٰ نسل کی یاک گائیں تھیں۔ مئی کے پہلے ہفتے سے ستمبر کے آخر تک تینوں گائیں اور تیس بھیڑیں چھور بٹ نالہ میں رہی تھیں۔ حیدر خان نے اپنی باری کے دنوں میں بہت دھیان اور توجہ سے دودھ اکٹھا کیا تھا۔

سارے بلتستان میں رواج ہے کہ گرمیوں میں پہاڑوں پر چھوٹی چھوٹی وادیاں جو سبز ہو جاتی ہیں۔ مویشیوں کو ادھر منتقل کر کے ہر گھر کا ذمہ دار فرد ان کی دیکھ بھال اپنی اپنی باری پر کرتا ہے اور ان کا دودھ خود لیتا ہے۔ یہ رسم بجون کہلاتی ہے۔

سکینہ نے مکھن اور گھی کے دوبڑے برتن بھر لئے تھے۔ اب ساری سردیاں انہیں گھی مکھن کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔

اس نے گرم روٹیوں پر مکھن لگایا۔ اوپر چٹنی رکھی اور ان کے پاس لے آئی۔ غلام حیدر بولا۔

’’تمہارے آنے اور ہمارے ساتھ رہنے سے مجھے احساس ہوا کہ خدا نے ہمیں بچے نہ دے کر اچھا نہیں کیا۔‘‘

’’میں آپ کی بیٹی ہوں۔ آپ دل برا مت کریں۔‘‘

وہ ہنسا اور بولا۔

’’ایک دن تم چلی جاؤ گی۔‘‘

کھانا کھاتے دفعتاً اس نے سراٹھایا۔ سکینہ کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’کیوں سکینہ آج ہم اس لڑکی کو اپوکھر اور کچھے کھر نہ دکھانے چلیں۔‘‘

کہف الوریٰ نے کھانا ادھورا چھوڑ کر اپنے دونوں ہاتھ ان کی عین ناک کے سامنے جوڑ دئیے۔

’’معاف کریں۔ وہاں اونچے عمودی پہاڑوں کی چوٹیوں پر ٹوٹے پھوٹے قلعے ہوں گے بہت دیکھ چکی ہوں انہیں۔‘‘

’’اچھا چلو تمہیں ڈونگ ڈونگ دکھاتے ہیں۔‘‘

اور وہ جز بز ہوتے ہوئے بولی۔

’’ میں نے کہا نا میں ان شکستہ اور ویران قلعوں سے عاجز آ گئی ہوں۔‘‘

’’لو ارے بیٹی! یہ تو چھوار نالے کی ایک تنگ پہاڑی گزرگاہ ہے جو کم و بیش ایک ہزار فٹ گہرے قدری شگاف میں سے گزرتی ہے۔ انتہائی خوبصورت اور قابل دید شے ہے دیکھو گی تو مبہوت ہو کر رہ جاؤ گی۔ بے اختیار زبان رب جلیل کی ثناء کا وِرد شروع کر دے گی۔‘‘

’’اصولاً زبان کو تو یہاں ہر قدم پر ثناء کا وِرد کرنا چاہیے۔ اب اگر یہ نہ کرے تو اس کی سرکشی ہے۔‘‘

اس نے پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔

’’پھر تمہیں سکساری ژھر (پہاڑی باغ) میں واقع تالاب دکھانے لے چلتے ہیں۔‘‘

وہاں فطرت کے ایسے حسین مناظر ہیں کہ تم اٹھنے کا نام نہیں لو گی۔ میں تمہارے شانے پکڑ پکڑ کر ہلاؤں گا اور تم کہو گی۔ ابھی ٹھہروتیتی آتا۔ میری نظریں پیاسی ہیں۔‘‘

اسی وقت دادی جواری کا بڑا بیٹا محمد جعفر آیا اور اس نے اطلاع دی کہ فرانو کی یونین کونسل کا چیئرمین محمد صادق فرانو کے چند سر کردہ لوگوں کے ساتھ آیا ہے۔

غلام حیدر اٹھتے ہوئے بولا۔

’’سکینہ تم لوگ رات کے کھانے کا بندوبست کرو۔ یہ لوگ اسی سلسلے میں آئے ہیں۔‘‘

’’ محمد جعفر جاتے جاتے اسے بتاتا گیا۔ ان کا خیال ہے کہ صدر مملکت سے اپیل کی جائے کہ وہ ٹھیکے داروں، پولیس اور انتظامیہ کے خلاف ایکشن لیں۔‘‘

اس نے زیر لب دعا کی کہ اے خدا! ظالم اپنے انجام کو پہنچے۔

اس نے چاہا کہ اپ وہ کپڑوں کی پوٹلی کول پر لے جائے اور انہیں دھو لائے۔ پر سکینہ مانی نہیں۔ اس نے کہا۔

’’لو اب تھوڑا سا میرا ہاتھ بٹا دو۔ مغرب سے پہلے کھانا تیار ہو نا چاہیے۔‘‘

اس نے پانی گرم کیا کرمبو (سنگ خارا سے بنی ہوئی ہانڈی) کو جلدی جلدی دھویا اوپر کی منزل پر جا کر لوہے کی سلاخ سے لٹکتے بکرے کی ایک ران کو کاٹا سکینہ کے ساتھ مل کر اس کی بوٹیاں بنائیں اور ہنڈیا پر چڑھا دی۔

اور چراغ جلے وہ سب اندر آئے۔ سات مرد، اونچے صحت مند۔

سکینہ نے بڑی سینی میں گوشت کی بوٹیاں بمعہ شوربے کے ڈالیں اس نے روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ان میں بھگوئے۔ کھانے کے بعد چائے چلی۔

اور پھر غلام حیدر نے اسے بلایا۔ سب کے ساتھ اس کا تعارف ہوا۔

محمد صادق صاف اردو بولتا تھا۔ اس کے سوال پر کہ یہاں رہنا کیسا لگ رہا ہے؟ اس نے کہا تھا۔

’’میری زندگی کا یہ ایک بہت خوشگوار تجربہ ہے۔ میں اپنے ملک کے ان گوشہ ہائے دور دراز، دشوار خطوں کے نہ صرف مسائل سے آگاہ ہو رہی ہوں بلکہ محبتوں کی یافت میں بھی کامیاب ہوئی ہوں سچی بات ہے کہ قلب انسانی کے ان لطیف جذبات سے آشنا ہوئی ہوں جن پر ابھی مادیت نے سائے نہیں ڈالے۔‘‘

ان کے سونے کا انتظام دادی جواری کے ہاں تھا۔ جب وہ لوگ چلے گئے۔ تب اس نے اور سکینہ نے کھانا کھایا اور جب وہ سونے کے لئے لیٹی اس نے کہا۔

’’ میں سوچتی تھی آج میں زرد رنگ خلو کیسر کی کہانی کا دوسرا باب سنوں گی۔ پرتیتی آتا بہت مصروف ہے۔ چلو پھر کبھی سہی۔‘‘

اور اس نے آنکھیں موند لی تھیں۔

٭٭٭







باب نمبر 28





جس کول کے کنارے بیٹھی وہ گرم پانی سے اپنے سکینہ اور غلام حیدر کے کپڑے دھوتی تھی اس کا پانی ریشر Racerسے آتا تھا۔ جہاں وہ چشمہ ہے جس کا پانی سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا ہے۔ سکینہ نے بہتیرا زور مارا کہ وہ کپڑے خود دھوئے گی پر اس نے اس کی ایک نہ چلنے دی۔ بقچی بغل میں داب، ڈنڈا اور صابن ہاتھ میں پکڑ، اس کی گرفت سے نکل، یہ جا وہ جا۔

کپڑے اس نے پتھروں پر سوکھنے کے لئے پھیلا دیئے۔ خود ان کے پاس ہی دھوپ میں بیٹھ گئی۔ اس شدید سردی کی وہ کب عادی تھی۔ دن بھر اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کا جسم سکڑ رہا ہے۔ رات کو دبیز لحاف اور کمرے میں جلتی آگ اس کی کپکپی کو کچھ کم کرتی۔ ہر کام وہ بھاگ بھاگ کر خود کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ ایک تو ان کا بڑھاپا تھا۔ دوسرے اسے دونوں سے بہت پیار ہو گیا تھا۔ انہیں کھانا دیتے ہوئے یا چائے کے پیالے پکڑاتے ہوئے وہ عجیب سی سرشاری میں ڈوبی رہتی۔

اس نے چادر سر سے اتار کر اپنے سامنے رکھ لی۔ اور سارے جسم کو دھوپ میں پگھلنے کی لئے ڈھیلا چھوڑ دیا۔

سورج، پہاڑوں اور ٹنڈ منڈ درختوں کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا۔

’’کبھی سوچا بھی نہیں تھا قسمت کس کس دروازے پر لے آئے گی۔‘‘

شادی سے قبل اس نے زبیر کو نہیں دیکھا تھا۔ جب دیکھا تو بہت پسند آیا۔ بہت وجیہہ جوان تھا۔ پر اس وجیہہ جوان نے اُسے گھائل کر دینے والے زخم دئیے تھے۔ زبیر کے متعلق سوچتے سوچتے وہ بہت دور نکل آئی تھی۔ اس کا دل بہت بوجھل ہو گیا تھا ساری کائنات اسے ویران نظر آنے لگی تھی۔

اسی وقت سکینہ اس کے سر پر آ کھڑی ہوئی وہ کہتی تھی۔

’’میں بھیڑ بکریاں، گھوڑے اور گائیں لے کر قلان جا رہی ہوں۔ چلو میرے ساتھ۔‘‘

قلان چھوربٹ کے صدر مقام سکسہ کی موسم سرکا کی چراگاہ ہے۔ قلان پر سورج کی کرنیں سیدھی پڑتی ہیں۔ برف باری بہت کم ہوتی ہے۔ سکسہ کے لوگ اپنے مال مویشی قلان ہی لے جاتے ہیں۔

’’کمال ہے اب جب آدھا دن گزر گیا ہے آپ کو قلان جانا یاد آیا ہے۔ صبح کوئی ذکر نہیں کیا۔‘‘

’’ارے بیٹی ڈھور ڈنگر کئی دنوں سے ایک طرح اندر بند ہیں۔ میں چاہتی تھی کہ کچھ ان کی ٹانگیں کھلیں۔‘‘

’’کل صبح چلیں گے۔‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

دونوں نے کپڑے اکٹھے کئے گٹھڑی بنائی اور گھر آ گئیں۔

شام ابھی پوری طرح ان کے آنگن میں نہیں اتری تھی۔ جب دادی جواری کی چھوٹی بہو ان کے گھر آئی اور اس نے پیغام دیا کہ

’’ آج شب گھر میں آس پڑوس اور میل ملاقات والوں کا کٹھ ہے۔ مولوی عبد المنان ’’کواس‘‘ سے آئے ہیں۔ جو حملہ حیدری بیان کریں گے۔‘‘

’’کوئی کہانی گیت وغیرہ نہیں ہو گا۔‘‘ اس نے زینب کے پاس آ کر مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔

اور زنیب نے بظاہر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’تمہیں کیا۔ تم نے تو یہاں ڈیرے ڈال لئے ہیں ابھیر ات کا پہلا پہر ہوتا ہے۔ پوچھنے آؤ کہ کف الوریٰ کہاں ہے؟ سکینہ آمو زور سے آواز لگاتی ہے۔ ارے زینب بچی سو گئی ہے تھکی ہوئی تھی نا، بیل گھوڑے جوتتی ہو سارا دن۔‘‘

اور اس نے ہنستے ہوئے اس کی گردن میں بازو ڈال دیئے۔

’’اب تمہیں بتاؤ میں کیا کروں گی وہاں آ کر۔ سارا بیان بلتی زبان میں ہو گا۔ میرے پلے تو ایک لفظ نہیں پڑے گا۔ ہونقوں کی طرح بیٹھی تمہاری صورتیں تکے جاؤں گی۔‘‘

’’تو تم اب بلتی سیکھو نا۔ میں تمہیں سکھاتی ہوں۔‘‘

’’چلو یہ تو بات ہوئی نا۔‘‘

وہ تاکید کرتے ہوئے چلی گئی کہ آنا ضرور، بھولنا نہیں۔

سکینہ کے کہنے پر اس نے مغرب سے ذرا پہلے سارا کام نپٹا لیا۔ دال پکائی۔ بستر بچھائے لالٹین میں تیل ختم تھا۔ اس میں تیل ڈالا۔ اُسے جلا کر کیل سے لٹکایا۔ غلام حیدر کو کھانا دیا۔ خود کھایا اور سکینہ کو بھی دیا۔

دونوں جب دادی جواری کے ہاں گئیں تو انہوں نے اسے بازوؤں میں سمیٹتے ہوئے کہا۔

’’تو نے تین دنوں سے اپنی صورت نہیں دکھائی مجھے۔ سکینہ نے تجھ پر جادو کر دیا ہے۔‘‘

’’ارے نہیں دادی۔ مجھ پر سکینہ نے کیا آپ سب نے جادو کر رکھا ہے۔‘‘

بڑے کمرے میں بخاری چلتی تھی۔ دادی جواری خودرو رنگ کی قار (لوئی) اوڑھے بیٹھی تھیں۔ آنے والے مرد عورتیں دو سلام کرتے۔ ایک میر محفل کے لئے اور دوسرا کمرے میں موجود حاضرین کے لئے۔

دادی کی دونوں بڑی بہوئیں خشک خوبانیاں اور تھوڑی تھوڑی زرشک سب لوگوں میں بانٹتی تھیں آج کمرے میں لالٹین کی بجائے گیس کا لیمپ جلتا تھا۔ اس کی دودھیا روشنی میں سفید چہروں والے مرد اور عورتیں سفید نظر آتے تھے۔

اس کے دائیں ہاتھ بیٹھی تین عورتیں بہت زور و شور سے باتیں کرتی تھیں۔ بلتی میں ہونے والی یہ گفتگو اس کی سمجھ سے بالا تھی۔ لیکن چہروں کے تاثرات اور بقیہ لوگوں کی توجہ ان کی جانب مبذول ہوا اُسے اُکسا رہا تھا کہ وہ جانے معاملہ کیا ہے؟

اور معاملہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک کے گھر پندرہ دن پہلے گھر والی کی بہن ڈاؤ سے آئی۔ وہ غالباً آسیب زدگی کا شکار تھی۔ وہ اسے لے کر بان (نجومیوں کی ایک قسم) کے پاس گئی۔ پتہ نہیں اس نے کیا کیا کہ وہ بے چاری موقعے پر دم توڑ گئی۔

اسی وقت مولوی عبد المنان تشریف لے آئے۔ موٹے تازے سرخ و سفید مولوی عبد المنان ان کی داڑھی کے بال ان کی چشمینے کی سفید چادر پر جھولتے تھے۔ آنے کے فوراً بعد انہوں نے گھن گرج کے ساتھ اپنا وعظ شروع کر دیا۔

وہ بس بیٹھی ایک ایک صورت تنقیدی انداز میں گھورتی رہی۔ آخر میں اس نے فیصلہ دیا کہ سکینہ جیسی ان میں سے ایک بھی نہیں۔

بیان اتنا طویل ہو گیا تھا کہ اب لوگوں کی توجہ اباسیوں کو روکنے کی طرف زیادہ اور سننے طرف کم تھی۔

کوئی ساڑھے گیارہ بجے دادی جواری کے دونوں بیٹوں نے قہوے کے گرم گرم پیالے ہاتھوں میں تھما دیئے۔ قہوے نے اندر جا کر نہ صرف چستی پیدا کی، بلکہ چہروں پر تازگی کی ایک لہر دوڑا دی۔

ایک بجے جب وہ تینوں گھرآئے تو ٹھٹھرتی گٹھڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ ابھی دونوں گھروں میں فاصلہ صرف چند گزوں کا تھا۔ لیکن سردی تو نقطہ انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔

ان کا کمرہ گرم تھا۔ جب سے کہف الوریٰ نے ان کے ہاں رہنا شروع کیا تھا۔ غلام حیدر دوسرے کمرے میں سوتا تھا۔ سکینہ اور وہ پاس پاس لیٹیں، وہ بولی۔

’’تی تی آمو! میں تو بہت تھک گئی ہوں۔‘‘

سکینہ نے اپنی رضائی کا کونہ اٹھایا اور کہا۔ ’’یہاں میرے پاس آ جاؤ۔‘‘

وہ اپنی رضائی سے نکل کر اُس کی رضائی میں آگھسی۔ سکینہ نے جب اسے اپنے ساتھ لپٹایا، اسے ماں یاد آ گئی۔ کبھی کبھی جب وہ بہت لاڈلے انداز میں ہوتی تو اس کے ساتھ بستر میں گھس جاتی تھی۔ دیر تک جب اس کی چہلیں ختم ہونے میں نہ آتیں، تب وہ جھلّا کر کہتیں۔

’’ چل ہٹ اب سونے بھی دے گی مجھے۔‘‘

اس کی آنکھیں گیلی ہو گئیں جب اس نے یہ اپنے آپ سے کہا۔

’’قبر میں سوتی ماں یہ نہیں جانتی کہ بیٹی جلے نصیبوں والی نکلی۔‘‘

سکینہ کے ہاتھوں نے جب اس کے بالوں کو پیار سے سنوارا۔ وہ اس کے گریبان سے چمٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

سکینہ جانتی تھی کہ ماں اور باپ دونوں کو وداع کر بیٹھی ہے۔ اس کے گالوں پر بہتے آنسوؤوں کو اپنے کھُردرے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے بولی۔

’’بس صبر کر میری بچی! سمجھ لے ہم تیرے ماں باپ ہیں۔‘‘

وہ سسکیاں لیتی رہی اور سکینہ اپنی گرفت کا دائرہ اس کے گرد تنگ کرتی رہی۔ پھر جیسے اس کا اپنا اندر بلبلا اٹھا۔

’’لیکن ایک دن تو بھی چلی جائے گی اور ہم دونوں یہاں آگ کے آگے بیٹھے تجھے یاد کیا کریں گے اور پھر یونہی ایک دن قبروں میں اتر جائیں گے۔‘‘

اور وہ تیز آواز میں بولی۔

’’ نہیںتی تی آمو! تمہیں چھوڑ کر اب میں نے کہاں جانا ہے؟‘‘

’’بچی! مجھے بہلاتی ہے۔ پنچھی اور پردیسی کب کسی کے میتِ ہوئے ہیں۔‘‘

٭٭٭





باب نمبر 29



مے فنگ کا تہوار اس کی خاموش بظاہر پر سکون اور ایک کمرے تک محدود زندگی میں ایک لطیف اور پر لطف سا ارتعاش تھا۔

ایک شام جب وہ سفید اور سرخ لوبیا کی پھلیاں پکانے کے لئے چیر رہی تھی۔ سکینہ پیاز کاٹتی تھی اور وہ کہتی تھی۔

’’کمال ہے آمو! یہاں لہسن اور ادرک نہیں ہوتا۔ بھلا لہسن اور ادرک کے بغیر ہنڈیا کا ذائقہ کیا۔ اچھا ابتی تی آتا سکر دو جائیں گے تو میں کہوں گی تھوڑا سا لے آئیں۔ لہسن کی چٹنی کے ساتھ جو کی روٹی دیکھنا کیسی مزے دار لگتی ہے اور ہنڈیا بھی کھانا۔‘‘

تبھی سکینہ بولی۔ ’’لو دیکھو میں تمہیں بتانا ہی بھول گئی کہ مے فنگ کا تہوار آنے والا ہے اس کے لئے کچھ تیاری بھی کرنا ہے۔‘‘

اس تہوار کا پس منظر اسے نہ سکینہ بتا سکی اور نہ ہی غلام حیدر۔

بیس اور اکیس دسمبر کے دن شکپہ (تیزی سے جلنے والی لکڑی) کے ڈنڈے بنانے میں گزرے۔ دادی جواری کے پوتے اور بائیں ہاتھ والے گھر کے لڑکے سابقہ برسوں کی طرح غلام حیدر کے صحن میں جمع تھے۔ ہر لڑکے کی کوشش تھی کہ اس کا شکپہ لمبا اور تراش خراش کے لحاظ سے کچھ دیدہ زیب ہو۔ پولو گراؤنڈ کے پاس ایندھن کا بھی ڈھیر لگ چکا تھا۔ نقطہ انجماد پر پہنچی ہوئی تھی۔ چھوٹے لڑکے اُسے پکارتے تھے۔

اکیس دسمبر کو سکینہ نے اخروٹ، بادام، گری، دھنیا، پودینہ وغیرہ کو صاف کر کے ان کی چٹنی بنائی۔ برو کے آٹے کے پیڑے اٹھائے انہیں اُبالا اور چٹنی میں ملا کر پڑوپو تیار کیا۔ پھر اس کے ساتھ مل کر گھر کی چھوٹی سی بھٹی میں کلچے تیار کئے۔ کمرے میں گرم گرم کلچوں کی میٹھی میٹھی خوشبو پھلی ہوئی تھی۔

وہ چھرُے پر بیٹھی سکینہ سے کہتی تھی کہ اُس نے کلچوں پر خشخاش لگانے میں کنجوسی کی ہے۔ ہنستے ہوئے سکینہ نے بھی جواب میں کہا تھا۔

’’لو تمہارے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے کسی نے تم خود چھڑک لیتیں۔‘‘

جب کوئی دروازے میں آکھڑا ہوا تھا۔تی تی آتا گونج دار آواز میں بولا تھا۔

’’ارے بھئی دیکھو تو کون آیا ہے؟‘‘ اور اس ’’کون ہے؟‘‘ کو دیکھنے کے لئے جب اس نے نگاہیں اٹھائیں وہ ساری جان سے کانپی تھی۔ اس کی آنکھوں میں دہشت اور خوف بھی امنڈا تھا۔

’’آؤ آؤ۔‘‘ سکینہ جلدی سے کھڑی ہو گئی۔

ڈاکٹر ابراہیم اس کے سامنے آ کر بیٹھے گئے۔

وہ سیاہ چادر اور ملگجے سے کپڑوں میں مکمل طور پر اس ماحول کی پروردہ ایک لڑکی نظر آتی تھی۔ اس کے لب ساکت تھے۔ آنکھیں خاموش اور دہشت زدہ جذبات کی عکاس تھیں۔

وہ ہنسے اور انگریزی میں اس سے مخاطب ہوئے۔

’’بولو تمہیں میرے آنے سے خوشی نہیں ہوئی۔‘‘

وہ اب بھی خاموش تھی۔

’’کہف الوریٰ میں تم سے کچھ پوچھا ہے۔‘‘

اس بار جواب نہ دینے میں اسے خود سے زیادہ اُن کی سبکی کا احساس ہوا۔

اس نے ان کی آنکھوں سے چھلکتی محبت کی کرنوں میں نہانے سے گریز کرتے ہوئے کہا۔

’’در اصل مجھے آپ کی آمد کی توقع نہیں تھی۔‘‘

’’تیتی آتا، غلام حیدر نے تمہیں نہیں بتایا کہ میں ہر ڈیڑھ دو ماہ بعد خپلو سے فرانو تک کا چکر لگاتا ہوں۔ مریضوں کو دیکھتا ہوں۔ زیادہ بیمار مریضوں کو خپلو لے جاتا ہوں۔ اب بھی اسی سلسلے میں آیا ہوں۔ سکسہ پہنچ کر سوچا، تمہیں دیکھتا چلوں۔‘‘

وہ جانتی تھی، سکینہ سے ایک دن باتوں کے دوران جب اس نے یہ پوچھا تھا کہ اگر کوئی زیادہ بیمار ہو جائے تو فوری علاج کی صورت میں کیا کیا جاتا ہے۔ اس نے کہا تھا، خداوند ڈاکٹر ابراہیم کو حیات دے۔ مریض اس کے پاس خپلو بھاگتا ہے۔

اس کا دل ڈاکٹر ابراہیم کا نام سننے پر بے طرح دھڑکا تھا۔ اسے مزید دھڑکنے سے بچانے کے لئے فی الفور اٹھی اور پانی لانے کے لئے کول کی طرف نکل گئی۔ سکینہ عقب سے چلاتی رہ گئی۔ ’’کہاں جاتی ہو۔ پانی تو گھر میں بہتیرا ہے۔‘‘

سکینہ چائے پکانے لگی تھی۔ غلام حیدر ان کے پاس بیٹھا تھا اور وہ سرجھکائے بیٹھی ناخنوں کو کھُرچتی تھی۔

وہ دو پیالوں میں چائے لائی۔ چائے کی سطح مکھن سے چمکتی تھی۔ ایک پلیٹ میں پڑویو اور دوسری میں کلچے بھی سامنے رکھے گئے۔ غلام حیدر بصد اصرار انہیں کھلانے لگا۔

’’آتا پہلے یہ تو بتاؤ۔‘‘ ڈاکٹر ابراہیم نے چائے کا چھوٹا سا گھونٹ بھرا۔

’’اس لڑکی پر تم لوگوں نے کون سا عمل کیا ہے کہ یہ تمہیں چمٹ گئی ہے۔‘‘

دادی جواری گلہ کرتی تھیں کہ ان کے گھر دنوں نہیں جاتی۔

دونوں میاں بیوی زور سے ہنس پڑے۔

اس وقت صحن میں بچوں کی خوشی سے بھرپور آوازیں گونجیں۔ وہ بچے دندناتے اندر آ گئے تھے۔ جو گزشتہ چند دنوں سے اس کے پاس پڑھنے آنے لگے تھے۔

کم و بیش سبھی بچوں نے ڈاکٹر ابراہیم کو ’’ڈاکٹر صاحب السلام علیکم کہا‘‘۔

بعض بچوں نے ہاتھ بھی ملایا۔

اسے احساس ہوا تھا کہ وہ بوڑھوں اور جوانوں کے ہی دوست نہیں بلکہ بچوں کے بھی ہیں۔

بچے چراغاں کرنے کے لئے جار ہے تھے۔

ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر ابراہیم نے کہا۔

’’آپ نہیں دیکھیں گی یہ سب۔‘‘

کچھ دیر وہ اسے دیکھتے رہے۔ پھر اٹھتے ہوئے بولے۔

’’آئیے میرے ساتھ۔‘‘

وہ نہیں جانا چاہتی تھی۔ لیکن کھڑے ہو کر انہوں نے دعوت یوں دی کہ انکار کی گنجائش ہی نہ رہی۔

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے پولو گراؤنڈ کی طرف بڑھنے لگے۔ اس وقت پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے دھوپ اپنا بوریا بستر سمیٹ چکی تھی۔

ادھر مغرب کی اذان فضا میں گونجی، ادھر ایندھن کے ڈھیر کو آگ لگا دی گئی بچوں نے اپنی اپنی شکپہ جلائی اور اسے فضا میں لہرانے لگے۔ آگ کے آسمان کی بلندیوں کو چھوتے شعلے، لہراتی بل کھاتی شکپائیں، ساری وادی روشن ہو گئی تھی۔

بچوں کی چار ٹولیاں بنیں۔ ایک گیت گانے اور ناچنے میں مصروف ہو گئی۔ دوسری جلتی مشعلیں ہاتھوں میں پکڑے اپنی طرف کے پہاڑوں پر چڑھنے لگی۔ تیسری دریائے شیوق کی طرف بھاگی۔ جہاں دریا پار کے گاؤں مرچھا سے بچوں نے آنا تھا۔ چوتھی گاؤں میں چکر کاٹنے کے لئے دوڑی۔ دور سے جلتی شکپائیں ٹمٹماتے جگنوؤں کی مانند نظر آتی تھیں۔

بہت دیر تک وہ اس تماشے سے محفوظ ہوتی رہی۔ جلتے ایندھن کے ڈھیر نے ان کے قریب کی سردی کو نگل لیا تھا۔

واپسی کے لئے چلنے میں انہوں نے کافی دیر کر دی۔ راستے میں ایک جگہ ٹھہر کر انہوں نے کہا۔

’’تم آخر مجھے اپنا وہ غم کیوں نہیں بتاتی ہو، جس سے فرار حاصل کرنے کے لئے تم جگہ جگہ بھٹکتی پھر رہی ہو۔‘‘

اس نے اس بات پر کچھ غصہ کھایا۔ قدرے بھی بتایا تھا۔ سیاحت میرا شوق ہے۔ دنیا کا ہر انسان اپنے شوق کے ہاتھوں بے بس ہے۔‘‘

’’میری طرف دیکھو۔‘‘

آگ سے کافی دور آ جانے کے باوجود وہ ابھی بھی اس کی روشنی کی زد میں تھے۔

وہ بے نیازی سے کھڑی اپنے سامنے دریائے شیوق کے آر پار جلتی شکپاؤں کو دیکھ رہی تھی۔

انہوں نے چلنے کے لئے قدم اٹھائے۔ جب وہ غلام حیدر کے گھر کے پاس پہنچے، وہ رک گئے۔ اسے نے پوچھا کہ رات ٹھہر نے کا پروگرام کہاں ہے؟

’’دادی جواری کے ہاں۔‘‘

یہاں اندھیرا تھا۔ صورت نظر نہیں آتی تھی۔ بس خدا حافظ کہنے پر اکتفا ہوا۔ لیکن آگے بڑھ کر ڈاکٹر ابراہیم پھر پیچھے کی جانب رخ کرتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئے تھے۔

’’آپ خپلو کب تک آ رہی ہیں؟‘‘

’’جب اللہ کو منظور ہو گا۔‘‘

وہ دروازے میں داخل ہو گئی۔ اور جب وہ کنڈی لگا رہی تھی اسے ایک پل کے لئے خیال آیا کہ سکینہ اور غلام حیدر جانے کیا سوچتے ہوں گے۔ پر اگلے لمحے اس نے سرجھٹک دیا تھا۔

بڑے کمرے میں ڈھیر سارے لوگ تھے۔ سب چائے پیتے اور کلچے کھاتے تھے۔

رات کا پہلا پہر ہنگامے کی نذر ہوا، دوسرا سوچوں میں گزرا اور تیسرا نیند میں۔

٭٭٭





باب نمبر 30





عجیب سی بات تھی۔ برف باری سے متعلق غلام حیدر اور سکینہ کے سبھی قیافے ایک کے بعد ایک غلط ثابت ہوئے تھے۔ ہر صبح وہ ہنستے ہوئے کہتی۔

’’لوتیتی آتا اور آمو! تم لوگوں نے تو بس دھوپ میں بال سفید کر لئے ہیں۔‘‘

اور وہ دونوں ہنستے ہوئے کہتے۔

’’ارے بھئی! تم جو ہر وقت ہمیں ضعیف الاعتقادی کے طعنے دیتی رہتی ہو۔ ہمارے نجوم و جعفر سے وابستگی رکھنے کو تو ہم پرستی قرار دیتی ہو۔ اب ایسے میں قیاس آرائیوں کو تو غلط ہی ہونا ہے۔‘‘

لیکن اس صبح جب اس کی آنکھ کھلی اور اس نے کھٹ پٹ کی آوازیں سنیں۔ غلام حیدر کی یہ آواز بھی اس کے کانوں میں پڑی۔

’’سکینہ اتنا کھڑاک مت کر، لڑکی سوتی ہے۔‘‘

وہ اب بلتی کافی سمجھے لگی تھی۔

وہ رضائی پرے پھینک کر بھاگی۔ دونوں اوپر کی منزل کی چھت پر سے برف نیچے پھینکتے تھے۔

’’اللہ!‘‘ اس نے فضا پر نگاہیں ڈال کر شگفتہ اور مسرور انداز میں کہا۔

کائنات روئی کے گالوں میں لپٹی معلوم ہوئی تھی۔

ساری رات برف باری ہوتی رہی تھی۔ راستے صحن، چھتیں سب اٹے پڑے تھے۔ مرد چھتوں کو جلدی جلدی صاف کرنے میں جتے ہوئے تھے۔ فضا بہت دھندلی تھی۔ غلام حیدر کہتا تھا۔

’’آج دن بھر زور رہے گا۔‘‘

وہ جلدی سے نیچے آئی۔ طاق میں رکھا اس نے اپنا پولا (برف پر چلنے والا جوتا) اٹھایا، پہنا اور تیز تیز چلتی باہر آئی۔ تھوڑی دیر آنگن میں جمی تہہ پر چلی۔ برف ابھی بہت نرم تھی۔ پاؤں اندر دھنس جاتا تھا۔

سکینہ نے اسے یوں تماشے کرتے دیکھا تو چھت پر سے چلائی۔

’’چلو اندر آگ کے پاس بیٹھو۔ ٹھنڈ لگ جائے گی تمہیں۔ تم اس موسم کی عادی نہیں ہو۔‘‘

سارا دن روئی کے گالوں جیسی برف گرتی رہی۔ وہ آگ کے پاس بیٹھی، خوبانیاں کھاتی رہی اور ان سے کہتی رہی۔

’’آمویوں بندھ کر بیٹھنا کس قدر دشوار ہے۔‘‘

ایک دو بار اس نے نکلنے کی کوشش کی کہ وہ دادی جواری کے ہاں چکر لگا لے پر برف باری کی شدت نے اسے اس ادارے سے باز رکھا۔

عصر کے بعد برف باری رک گئی۔ دائیں ہاتھ والا گھر ناصر عباس کا تھا۔ ان کا بیٹا رضا عباس اس کے پاس سائنس پڑھنے آتا تھا۔ مغرب سے ذرا پہلے وہ آیا اور بولا۔

’’آمو کہتی ہیں آپ سکینہ آمو رات کو ہمارے ہاں آئیں۔‘‘‘

سکینہ عشاء کی نماز سے جب فارغ ہوئی تب وہ دونوں رضا عباس کے گھر گئیں۔ محلے کے بیشتر لوگ جمع تھے۔ کہانی سننے کا پروگرام تھا۔ دادی جواری کی منجھلی اور چھوٹی بہو زینب بھی موجود تھیں۔ دونوں اون ساتھ لائی تھیں اور اب کاتنے کا بھی پروگرام تھا لیکن چرخہ دیکھ کر تو وہ حیران رہ گئی۔ ڈیڑھ بالشت لمبا لکڑی کا ایک تراشیدہ ٹکڑا جس کا اوپر کا سرا نوکدار اور لمبا، سینٹر تھوڑا سا موٹا نچلا سرا اوپر کی نسبت ذرا زیادہ موٹا اور کم نوکدار۔

’’ارے وہ حیرت سے بولی۔ چلو ذرا مجھے کات کر دکھاؤ۔‘‘

زینب نے پھولی ہوئی پھونی اٹھائی۔ اس میں سے ایک تار نکالی۔ اسے نوکدار سرے پر لپیٹ کر مہارت سے آناً فاناً باریک اور لمبی تاریں نکالنی شروع کر دیں۔

’’کمال ہے۔‘‘ وہ ہنسی۔ پر جب اس نے خود ایسا کرنا چاہا تو کر نہ پائی۔ ساری عورتیں ہنسنے لگی تھیں۔ رضاعباس کی ماں اس کے آگے پیچھے بچھی جاتی تھی۔

یہاں پھنگ (بلتی چرغہ) کے گھنگرو نہیں تھے کہ زینب جیسی مٹیار جھومتے ہوئے گاتی۔ میرا چرخہ کر داگھوں گھوں گھوں۔۔ ۔

پھر عباس نے کہانی شروع کی۔ وہ یقیناً ایک کامیاب داستان گو تھا۔ کسیر کی کہانی جب دیوتا کسیر کی شادی سوئمبر کے نتیجے میں ہلانو بلو نگمو کے ساتھ طے پا گئی۔ اس وقت دیوتا کسیر ایک نہایت بدصورت اور گندے گونگے کی شکل میں تھا۔ اس لئے نہ تو بلونگمو قانوناً اس کی بیوی قرار پائی تو وہ اسے اپنے گھر لے گیا۔ ہلانو کو اس بات کا شدید صدمہ ہوا اور اس نے اسے بحیثیت خاوند قبول نہ کیا۔ رواج کے تحت وہ اس کے گھر سے کہیں اور جا سکتی تھی۔

ایک دن ایک بڑھیا ہلانو کے بال سنوار رہی تھی۔ ہلانو نے اس سے ذکر کیا کہ اس کی بدنصیبی نے اسے کیسا شوہر دیا ہے۔ بڑھیا نے کہا ’’میں نے سنا ہے کہ یہ گونگا در اصل دیوتا کسیر ہے جو اپنی مصلحت کی خاطر اس گھٹیا روپ میں ہے۔ ہلانو نے جب اس کی بات کی تردید کی تو وہ بولی۔ میں نے سنا ہے کہ ہر جمعرات کو ہلو کے میدان میں تمام دیوتا اور پری زاد اپنے اپنے اصل روپ میں ظاہر ہوتے ہیں اور مختلف کھیل کھیلتے ہیں۔

اب ہلا نو جمعرات کی صبح سویرے سویرے اس میدان میں گئی اور ایک گڑھا کھود کر اس میں بیٹھ گئی۔ اوپر تنکوں اور گھاس سے زمین کو ہموار کر دیا۔ جب سورج کی کرنیں پہاڑوں پر پڑیں تو ہلانو نے دیکھا اس کا گونگا خاوند اس میدان کی طرف آ رہا ہے۔ ہلا نو دھڑکتے دل سے دیکھتی رہی۔ جب گونگا اس میدان کے عین درمیان میں پہنچا تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک نہایت ہی حسین و جمیل اور وجیہہ شکل دیوتا میں بدل گیا اور ایک شاندار گھوڑے پر نظر آیا۔ اس کے اردگرد اور بہت خوبصورت افراد گھوڑوں پر سوار تھے۔

ہلانو کو اب یقین ہو گیا کہ اس کا گونگا شوہر واقعی دیوتا کسیر ہے اور وہ اپنے اصلی روپ میں سامنے کھڑا ہے۔

وہ فرط مسرت سے سرشار ہو گئی اور فوراً ہی گڑھے سے نکل کر اسے پکارنے لگی۔ اس کا پکارنا تھا کہ اس میدان میں ایک جھکڑ چلا اور گرد و غبار چھا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب گرد و غبار ختم ہوا تو دیکھا کہ اس میدان میں کوئی نہیں تھا۔ صرف اس کا گونگا خاوند ہے جو چلا آ رہا ہے۔ ہلانو اب گونگے کی طرف بھاگی۔ اسے گلے سے لگایا، چوما اس کی بلائیں لیں اس کے چہرے سے میل اور گندگی صاف کرنے لگی اور اس کی تعریف میں گانے لگی۔

ہلووی تھنگ پونیگنو سے سونا سے سور گاشا

ر کیا نگبو ہیلپا جونے نی ہلا فور کسیر رگاشا

ہلو والے میدان میں اگر کوئی خوب صورت ہے تو کون ہے

ہیلپا گھوڑے پر سوار میرا دیوتا کسیر خوب صورت ہے

اب گونگا بھی اپنی کی تعریف میں گانے لگتا ہے

ہلو والے میدان میں اگر کوئی حسین ہے تو کون ہے

برفانی پہاڑ پر شفق کی سرخی کی طرح میری دیوی بلونگمو حسین ہے

کہانی کچھ تو اس نے خود سمجھی اور کچھ زینب نے وضاحت کی۔ اس کے اس استفسار پر کہ اس کہانی کا پس منظر کیا ہے۔ زینب بولی تھی۔

’’در اصل بلتستان کے باشندے اس کرہ ارض پر انس وجن کے علاوہ ہلہ ھلنو نامی ایک بابرکت جنس کے وجود کے معتقد ہیں۔ ہلانو بلمونگمو اور ہلانو کسیر اسی جنس کے افراد ہیں۔ در اصل یہ اشاعت اسلام سے قبل کے دیوی دیوتاؤں کے تصورات ہیں جو ابھی تک اذہان سے رفع نہیں ہوئے۔ کسیر کی کہانیاں لداخ کی طرف بودھوں کے پاس مقدس مذہبی مظلوم کتاب کی صورت میں موجود ہیں۔‘‘

ناصر عباس کا کہانی سنانے کا انداز حقیقتاً غضب کا تھا۔ جب ہلا نو بلو نگمو دیوتا کسیر کے ساتھ رکھائی اور نفرت کا برتاؤ کرتی ہے۔ کہانی کے اس ٹکڑے کو اس نے منظوم صورت میں پیش کیا۔ ایک تو اس کی پاٹ دار پرسوز آواز دوسرے خپلو کی میٹھی بلتی زبان دونوں نے مل کر سماں باندھ دیا تھا۔

اور جب وہ سب قہوہ پیتے تھے ناصر عباس اس سے مخاطب ہوا۔

’’آپ کے بھی کچھ پلے پڑا کہ نہیں؟‘‘

اس نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور زینب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔

’’کچھ تو خود پڑا اور کچھ استاد نے ڈالا۔‘‘

یہ رات بہت خوش گوار گزری۔ ایک بجے گھر آ کر وہ جب سونے کے لئے لیٹی تو اسے فوراً نیند آ گئی اور وہ دن چڑھے تک دھَت سوتی رہی۔

چند دنوں بعد ایک دن موسم صاف ہوا۔ اس نے غلام حیدر سے کہا۔

’’آتا چلو نا ہم سکساری ژھر (پہاڑی باغ) دیکھنے چلیں زینب اس سیرگاہ کی بہت تعریف کرتی ہے۔‘‘

غلام حیدر فوراً بولا۔

’’کل پر رکھ لو۔ زینب اور دولت بی بی (رضا عباس کی بہن) کو بھی تیار کر لو۔‘‘

ناصر عباس نے کہیں سے جیپ کا بندوبست کیا۔ زینب سکینہ وہ دولت بی بی اور رضا عباس کے چھوٹے بیٹے بہن بھائی سب اس میں لد گئے۔

راستے میں غلام حیدر نے کہا۔

’’در اصل ان جگہوں پر سیر کا حقیقی لطف گرمیوں میں آتا ہے۔‘‘

چشمے ری ژھر ایک آبشار کی صورت میں بہتا تھا۔ جھاگ اڑاتا، بھاپ کے بگولے چھوڑتا یہ پانی اتنا گرم تھا کہ جب اس نے ہاتھ ڈالا تو فوراً نکالنا پڑا۔ آبشار تقریباً سوفٹ بلندی سے گرتی تھی۔ چشمے کے پانی کے ساتھ ساتھ پن چکیاں لگی ہوئی تھیں۔

نہر پر چل رہی ہے پن چکی

دھن کی پوری ہے کام کی پکی

وہ ہنسی۔ اسے ہنستے دیکھ کر وہ بھی ہنسا اور بولا۔

’’ جب میں سیالکوٹ میں تھا، تو ہمارے مالک مکان کا لڑکا یہ نظم پڑھا کرتا تھا۔ میں جب بھی کوئی پن چکی دیکھتا ہوں، مجھے وہ لڑکا یاد آ جا تا ہے۔‘‘

ری ژھر کے درخت گھاس پھل پھول سب پر ویرانی تھی۔

یہاں دھوپ تھی۔ وہ سب دھوپ میں بیٹھے۔ انہوں نے کھانا کھایا۔ چائے پی اور غلام حیدر نے پھر کہا۔

’’تم نکلی ہوئی تو ہو چلو تمہیں اپوکھر اور کچھے کھر دکھا دیں۔‘‘

پر کھر کا نام سنتے ہی اس کے چہرے پر کوفت اور بیزاری کے عکس جھلملا گئے۔ غلام حیدر ہنس کر بولا۔

’’تم ہمارے کھروں سے اتنی بیزار کیوں ہو؟‘‘

او راس نے جواباً سر کو طنزیہ انداز میں ہلاتے ہوئے کہا۔

’’ٹوٹے پھوٹے کھر لئے بیٹھے ہیں۔ سنبھال کر کوئی رکھا۔‘‘

’’واقعی اچھا چلو تمہیں سکسہ کی بڑی جامع مسجد دکھاتے ہیں۔ وہاں نفل بھی پڑھ لینا اور فن نقش کاری کے نمونے بھی دیکھ لینا۔ اور یہ بھی جان لینا کہ ایسا آرٹ تمہیں کہیں نظر نہیں آئے گا۔‘‘

’’وہ تو میں پہلے ہی جان بیٹھی ہوں۔‘‘

٭٭٭







باب نمبر 31





یہ مختصر سا خط اسے اس وقت ملا تھا جب وہ غلام حیدر اور سکینہ کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی تھی۔ غلام حیدر اس وقت گو تب اور سکل تب (کاشت کا پہلا اور درمیانہ وقت) کا حساب لگاتے ہوئے اسے بتا رہا تھا کہ فصل ربیع کی کاشت انتہائے فروری سے مارچ کے اواخر تک ہوتی ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ مارچ کا پہلا ہفتہ گو تب کے لئے چنتا ہے۔ ان دنوں وہ اپنے گھوڑوں کی بہت سیوا کرتا تھا۔ اس کے لئے یہ بات انتہائی تعجب خیز تھی کہ چھور بٹ میں لوگ کھیتوں میں ہل چلانے اور کھلیانوں میں فصل کی چھانٹی کے لئے گھوڑے استعمال کرتے ہیں۔ غلام حیدر کے گھوڑے سانڈوں کو مات کرتے تھے۔

اور جب غلام حیدر دس جنوری، کو کتے کی گرمی یکم فروری کو گرمی خانہ، بیس فروری کو گرمی زمین کے اپنے بلتی حساب کتاب میں ڈوبا ہوا تھا۔ سکینہ جمادی الثانی کے ان دنوں کے ہیر پھیر میں الجھی ہوئی تھی کہ جو حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور ولادت کے تھے۔

تبھی دادی جواری کا پوتا محمد جعفر کا بیٹا وہ خط لایا تھا اور اس سے بولا تھا۔

’’ چھغو آتا خپلو سے لائے ہیں۔‘‘

پل بھر کے لئے اس کا دل خپلو کے نام پر دھڑکا۔ پر جب اس نے کھول کر پڑھا وہ شاہ جہاں کا تھا۔ جس نے اسے لکھا تھا کہ وہ مارچ کے پہلے ہفتے کھرمنگ جار ہی ہے۔ پھوپھی فاطمہ بیگم کے دو خط آ چکے ہیں۔ انہوں نے تمہارے لئے بھی لکھا ہے۔ نوروز کا تہوار کھرمنگ ہی میں منانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ کتنا اچھا ہو کہ اگر تم اس سفر میں میری ساتھی بنو۔‘‘

شاہ جہاں کی اردو جتنی اچھی بول چال میں تھی، اتنی تحریر میں نہیں تھی۔ لیکن یہ بھی غنیمت تھی۔ سکینہ سوالیہ نگاہیں اٹھائے اس کی طرف دیکھتی تھی۔ وہ بولی۔

’’خپلو کے راجہ فتح علی خان کی بہو کا خط ہے۔ اس نے خپلو آنے اور کھرمنگ چلنے کے لئے لکھا ہے۔‘‘

او راس نے دیکھا سکینہ نے یوں جھٹکا کھایا جیسے کوئی بجلی کی ننگی تاروں سے چھو جائے۔

’’ارے آمو! تم گھبرا گئی ہو۔ میں نے کوئی جانے کا کہا ہے۔‘‘

سکینہ کی آنکھوں میں اس وقت آنسو اتر آئے اور غلام حیدر اٹھ کر باڑے میں مویشیوں کو دیکھنے چلا گیا۔

اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور اس کا گال چومتے ہوئے بولی۔

’’کمال ہے۔‘‘

’’میری بچی، تمہیں آخر کو تو جانا ہے نا تم بھی بس۔ پاگل ہیں تم سے اتنا پیار کر بیٹھے ہیں۔‘‘

اس نے اپنی لا نبی پوروں سے سکینہ کی آنکھوں میں تیرتے پھرتے پانی کو گالوں پر لا کر جذب کیا اور قدرے گلو گیر آواز میں اس سے مخاطب ہوئی۔

’’کوئی ضروری ہے کہ انسان خونی ناتوں کے لئے ہی تڑپتا پھرے۔ کچھ بظاہر گہرے واسطے ایسے بھی ہوتے ہیں جو سالہا سال ساتھ رہنے پر بھی اندر اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر پاتے۔ اور کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اجنبی جگہیں لوگ حوادث اور اپنوں کی عطا کردہ جہنم کی آگ میں جلتے بھنتے لوگوں کو اپنے پیار کی بارش میں یوں نہلا دیتے ہیں کہ وہ ٹھنڈے ٹھار ہو جاتے ہیں۔‘‘

’’آمو تم کیا سمجھتی ہو، میں یہاں سے جا کر پھر نہیں آؤں گی۔ اگر ایسا سوچا ہے تو بہت غلط سوچا ہے۔ مجھے تو یہاں بار بار آنا ہو گا۔ اس لئے کہ میں یہ جان پائی ہوں کہ میرے باوا اور ماں نے غلام حیدر اور سکینہ کے روپ میں سکسہ میں پھر جہنم لے لیا ہے۔‘‘

پھر وہ اٹھی۔ اس نے چائے بنائی اور جب اس نے غلام حیدر کو آواز دی۔

’’آتا آؤ نا چائے کی ایک پیالی پی لو۔‘‘

وہ نیچے باڑے میں سے بولا تھا۔

’’تم پیو، میں یہاں مصروف ہوں۔‘‘

اور اس نے غصے سے زور دار آواز میں کہا تھا۔

’’نہیں آؤ گے تو میں ساری چائے گرا دوں گی۔‘‘

اور وہ فوراً سیڑھیاں پھلانگتا اوپر آ گیا تھا۔

اور چائے پیتے ہوئے سکینہ نے کہا تھا۔

’’ بہرحال میں آل مطہرہ حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کی تقریب سعید سے پہلے تو تمہیں نہیں جانے دوں گی۔‘‘

بیس جمادی الثانی کو سکینہ کے گھر قصیدہ خوانی کی محل منعقد ہوئی ایسی محفلیں مقامی زبان میں عید کہلاتی ہیں۔ اس دن وہ خاصی مصروف رہی۔ سر پر چادر اوڑھے، آنکھوں میں عقیدت کی مشعلیں جلائے اس نے سکینہ کو سب ذمہ داریوں سے فارغ رکھا۔ رات کو سکینہ اس کا ماتھا چوم کر بولی۔

’’ دیکھو ماں کہا ہے تو ماں کی طرح یاد رکھنا ہے۔‘‘

شاہ جہاں کا ایک اور خط آ گیا تھا۔ اس میں غصہ بھی تھا اور تاکید بھی اور فی الفور پہنچنے پر اصرار بھی۔

یہ حقیقت تھی کہ اسے سکسہ سے جانے کا قلبی دکھ تھا۔ یہاں وہ اتنی مصروف ہو گئی تھی کہ اسے بہت کم یہ بات یاد آتی تھی کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے اور کیوں یہاں رہ رہی ہے؟ ڈھیر سارے بچے اس کے پاس پڑھنے آنے لگے تھے۔ دن کا آدھا حصہ انہیں پڑھانے میں گزر جاتا۔ بڑی جماعتوں کے لڑکوں پر وہ حساب اور انگریزی میں بہت توجہ دے رہی تھی۔ یہ وہ اپنے دل میں ٹھان بیٹھی تھی کہ بس زندگی اب یوں انسانوں کی فلاح میں گزار دے گی۔ پڑھنے والے بچے بھی بہت ملول تھے۔ ان کے والدین بھی افسردہ تھے اور وہ ان سب کو دلاسا دیئے جاتی تھی کہ گھبرانا نہیں میں جلد لوٹوں گی اور تمہاری کمی انشاء اللہ دور کروں گی۔

اور جب وہ جیپ میں بیٹھی اس نے پاس کھڑے غلام حیدر اور سکینہ کی طرف قصداً نہیں دیکھا تھا۔ ان دونوں پر کیا اورا س کی تو اپنی آنکھیں بس برس جانے پر تلی بیٹھی تھیں۔ جانے وہ کس ضبط سے ان پر قابو کئے ہوئے تھی۔

اور جب وہ خپلو کی طرف رواں دواں تھی، اس نے اپنے دل میں ایک بار نہیں کئی بار کہا تھا۔

’’پروردگار، میرا سامنا ڈاکٹر ابراہیم سے نہ ہو۔‘‘

٭٭٭







باب نمبر 32







گوشت اگر جل بھی جائے تب بھی چنے کی دال سے نپھٹ (خراب) نہیں ہوتا۔ پنجابی زبان کا یہ محاورہ اپنے گھر میں جانے اس نے کتنی بار سنا تھا اور سن کر ہوا کی طرح سر سے گزارا تھا۔ پر اس کا مطلب اس کا صحیح مفہوم اور اس کی گہرائی اس پر اس وقت آشکار ہوئی تھی جب وہ کھرمنگ جانے کے لئے جیپ میں بیٹھی۔ شاہ جہاں کے ساتھ پورا لشکر کوچ کر رہا تھا۔ اس کا خاص نوکر، نوکرانی، چھوٹا خادم، لڑکا لڑکی، بے شمار سامان۔

’’میرے مولا! تم اپنی پھوپھی کے گھر چند دن گزارنے جا رہی ہوں یا کسی محاذ پر لشکر کشی کا منصوبہ ہے۔ یا خدا اس قدر کھڑک کھڑاک۔ جیپ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں اللہ کی بندی اس قدر تام جھام کی ضرورت ہی کیا تھی۔

’’سنو! اپنی اس بکواس کو بند کر کے کچھ میری بک بک سننے کی تکلیف بھی گوارہ کرو گی۔ دیکھو میں آخر خپلو کے سابق راجہ کی بہو ہوں۔ تم جیسے اٹھائی گیروں کی طرح بیگ کندھے سے لٹکا کر مارچ نہیں کر سکتی۔ وضع داری کا بھرم رکھنا پڑتا ہے۔‘‘

’’جہنم میں گئی تمہاری وضع داری بولو، بتاؤ بیٹھوں کہاں؟ سارے میں رانی جی کی شان و شوکت کے نمائندہ پٹارے دھرے ہیں۔‘‘

اس نے شاہ جہاں کے شانوں پر زبردست قسم کا تھپڑ جما یا تھا۔

در اصل اسے شاہ جہاں کی اس درجہ تیاریوں کا ذرا سا احساس بھی نہیں ہوا تھا۔ ایک دن پورا وہ اس کے گھٹنے سے گھٹنا جوڑے بیٹھی باتیں کرتی رہی۔ دوسرا دن اس کا ڈاکٹر سیف اللہ کے گھر گزرا۔ جہاں اس نے سیماں سے فوں پر لمبی چوڑی باتیں کی تھیں۔ اس کی ناراضگی اور گلے شکوؤں کو دور کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ تیسرا دن ڈاکٹر اسماعیل کی بیوی بچوں کے سر چڑھایا۔ ڈاکٹرابراہیم ذغونی گئے ہوئے تھے۔ وہاں ان کے چچا بیمار تھے۔

اور اس نے ایک بار نہیں، کئی بار خدا کا شکر ادا کیا تھا۔

چوتھے دن وہ صبح سویرے روانگی کے لئے تیار تھیں۔ ڈرائیور کے ساتھ وہ اور شاہ جہاں بیٹھیں بچے نوکروں نے سنبھالے۔

براہ میں انہیں رکنا پڑا۔ شاہ جہاں کے ملازم کی بہن یہاں رہتی تھی۔ وہ اسے ملنا چاہتا تھا۔ یہ مارچ کا پہلا ہفتہ تھا۔ لوگ کھیتوں میں مصروف نظر آتے تھے۔ براہ کی زمین بہت زرخیز اور بہترین ہے۔ براہ کے عام لوگوں کے دروازے اور کھڑکیاں چوب کاری کے بہترین نمونے تھے۔ دور سے دیکھنے پر بھی نہایت دلکش نظر آتے تھے۔

جب وہ سکر دو سے خپلو آئی تھی، تو دریائے شیوق کے پار سڑک پر سفر ہوا تھا۔ اب دریا کی سمت تھی۔ غواڑی میں پہنچ کر شاہ جہاں نے ڈرائیور اور نوکروں سے کہا کہ وہ اس چھوٹے سے ہوٹل سے چائے پی لیں جو مسافروں کے لئے بنا ہوا تھا۔

خود اس نے تھرموس نکال کر چائے کے دو کپ بھرے ایک خود لیا اور دوسرا اسے تھما یا۔ چائے پیتے پیتے وہ بولی۔

’’ یہاں اہل حدیث کا ایک بہت بڑا ادارہ مرکزی دارالعلوم کے نام سے کام کر رہا ہے۔ تم جا کر اسے دیکھ آؤ۔‘‘

بلتستان کا یہ سب سے بڑا ادارہ غواڑی میں سڑک کے کنارے پر واقع ہے۔ وہ جب وہاں پہنچی ادرارے کے سرپرست شیخ عبد الرشید تعمیر کا کام کروا رہے تھے۔ لمبی چوڑی جو منزلہ عمارت جس میں کوئی تین سو کے قریب بچے زیر تعلم تھے۔ حدیث، فقہ، فلسفہ اور تصوف پر تحقیقی کام ہوتا ہے۔ طلبہ فارغ التحصیل ہو کر جب نکلتے ہیں تو ان کی تعلیمی استعداد ایم۔ اے کے برابر ہوتی ہے۔ غواڑی خپلو کی آخری وادی تھی۔ ہمایوں پل پر انہوں نے جیپ روک دی۔ وہ اتر پڑے۔ شاہ جہاں کی بیٹیاں سڑک کو اپنے منے منے پاؤں سے کوٹی پھرتی تھیں۔ وہ سب اس جگہ کی طرف چلے جہاں دریائے شیوق دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ یہ نظارہ بھی کس قدر دل کش تھا۔ مارچ کی خنکی سے لبریز ہوائیں، کوہ کیلاس کی جھیل مانسرور سے نکلے ہوئے دریائے سندھ اور سیاچن گلیشیئر کی جھیل خمدان سے نکلے ہوئے دریائے شیوق کے پانیوں پر سے تیرتی ہوئی ہوا آ کر ان کے چہروں سے ٹکراتی تھیں۔ دھوپ میں پتھروں پر بیٹھ کر سناٹے کے دبیز خلا میں غرق ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ وہ اور شاہ جہاں چپ چاپ مٹیالے سیمنٹ گھلے پانیوں کو دیکھتی رہیں۔ جب ڈرائیور نے کہا۔

’’ آپ اب اٹھئے! ہمیں کھر منگ کے لئے مڑنا ہے۔‘‘

سکر دو جانے والی سڑک کو چھوڑ کر اب وہ کھرمنگ کی طرف رواں دواں تھے۔ شاہ جہاں کی بچیاں ابھی کچھ دیر اور وہاں گزارنا چاہتی تھیں۔ اسی لئے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اور بیٹھ کر بھی شور مچائے جار ہی تھیں۔

شاہ جہاں کی زبردست ڈانٹ پر ان کے شور و غوغا میں کچھ کمی ہوئی۔

اب ان کے ساتھ دریائے سندھ چل پڑا تھا۔ کشادگی کی بجائے تنگی کا احساس ہوتا تھا۔ شاہ جہاں بتاتی تھیں۔

اس وادی کا بالائی حصہ ہمالیہ کے اندر واقع ہے۔ جبکہ پائینی علاقے ہمالیہ اور قراقرم کے درمیان واقع ہیں۔ اس کا پرانا نام کرتخشہ ہے۔ لیکن ماضی میں سکر دو کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ کر رکھنے کے لئے اس علاقے میں متعدد قلعے اور فوجی چوکیاں تعمیر کی گئیں۔ اسی نسبت سے اس علاقے کا نام کھرمنگ یا زیادہ قلعوں والا قرار پایا۔ یہ سرمک سے شروع ہو کر اولڈنگ تک دریائے سندھ کے آر پار آباد ہے۔ اس وادی کے تین گاؤں ہندورموکر کت اور مز بر ۱۹۷۱ء سے ہندوستان کے قبضے میں ہیں۔

’’اس کے قبضے میں کیوں ہیں؟‘‘ وہ جیسے تڑپ کر بولی۔

’’وادی خپلو کے بھی تین گاؤں پر اس کا قبضہ ہے۔‘‘

اور شاہ جہاں نے لمبی سانس بھر کر کہا تھا۔

’’اب بھلا میں کیا بتاؤں کہ کیوں ہیں۔ ۱۹۷۱ء کی جنگ بہت گہرے زخم دے کر گئی ہے۔‘‘

شاہ جہاں کی سوچ میں قومی المیے کا گہرا کرب اس پر آج ظاہر ہوا تھا۔

’’ہم بہت بدنصیب ہیں شاہ جہاں۔ آزادی کے دیئے روشن رکھنے کے لئے ان میں جو تیل ڈالنے کی ضرورت ہے، ہم ان میں وہ ڈالنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ ایسے میں وہ کب تک جلتے رہیں گے۔‘‘

سرمیک کا گاؤں آیا۔ شاہ جہاں نے کہا۔

’’ اگر بھوک محسوس کرتی ہو تو کچھ کھا پی لیتے ہیں۔‘‘

کھرمنگ کی وادی تنگ ہے۔ پہاڑ امنڈے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

پھر مہدی آباد کی وادی آئی۔ دریا پار پنداہ کا گاؤں تھا۔ یہاں انہوں نے ایک کھلی جگہ پر گاڑی روکی۔ نوکروں نے بچوں کو نیچے اتارا۔ وہ دونوں بھی اتر آئیں۔ صاف ستھری سی جگہ کا انتخاب ہوا۔ شاہ جہاں نے کپڑا بچھا دیا۔ کھانا کھولا اور وہ سب دائیں بائیں دیکھتے ہوئے کھانے میں جت گئے۔

کھاتے کھاتے دفعتاً شاہ جہاں نے کہا۔

’’کھرمنگ کا راستہ خاصا خطرناک ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے تم نے کسی خوب اور ڈر کا اظہار نہیں کیا۔‘‘

’’اب کب تک ڈرتی رہوں گی۔ عادی ہو گئی ہوں۔ یوں بھی زندگی سے پیارا گر کم ہو جائے تو خوف یا ڈر خودبخود بھاگ جاتے ہیں۔‘‘

’’خدا کی قسم تم جیسی گھُنی لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ مجال ہے جو کچھ اُگلے۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔

’’بھئی اندر کچھ ہو تو باہر آئے۔ خوامخواہ تجسّس میں مبتلا رہتی ہو۔‘‘

غاسینگ اور ٹنٹھوک کی وادیاں گزر گئیں۔ پار سیندو اور کثر را کے گاؤں بھی اس نے شاہ جہاں کی نشاندہی پر دیکھے۔

پہاڑوں پر جمی برف کا پگھلاؤ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ ٹنڈ منڈ درختوں کی کونپلیں ابھی پھوٹنی شروع ہوئی تھیں۔ لیکن کسان زمین کا پتھریلا سینہ شق کرنے میں پوری ہمت سے جتا ہوا تھا۔

کمنگو میں پہنچ کر شاہ جہاں نے ڈرائیور سے گاؤں میں چلنے کو کہا۔ اس نے جب گاڑی موڑی تو وہ بولی۔

’’ اس گاؤں میں میری انا رہتی ہیں۔ جب بھی کھرمنگ آؤں انہیں ملے بغیر نہیں جاتی ہوں۔‘‘

کمنگو بہت خوب صورت وادی ہے پر ایک بات اس نے محسوس کی کہ بیشتر مکان نو تعمیر شدہ تھے۔ کئی جگہ ٹوٹ پھوٹ تھی اور جب اس نے اس بارے میں استفسار کیا تو شاہ جہاں نے بتایا۔

’’دوسال قبل یہاں زبردست قسم کا سیلاب آیا تھا۔ گلیشیئر کے تودے پہاڑوں سے گرے اور انہوں نے پوری بستی تہس نہس کر دی تھی۔‘‘

’’خدایا۔‘‘ اس نے جھر جھری لی۔

’’میری ہوش میں یہ پہلی ہولناک تباہی تھی۔ حکومت نے فوری اقدامات کئے اور بچے کھچے لوگوں کو دوبارہ آباد کیا۔ دیکھو بچنے والوں میں یہ میری انا اور اس کا پورا خاندان بھی ہے۔‘‘

اس نے ڈرائیور کو گھرمنڈنگ میں گاڑی لے چلنے کو کہا۔

دو منزلہ گھر کی چار سیڑھیاں چڑھ کر وہ گھر میں داخل ہوئے۔ شاہ جہاں کی انا بی اپنے پوپلے منہ کے ساتھ ہنستی مسکراتی فوراً کمرے سے نکل آئی تھی۔ اس نے شاہ جہاں کو چھاتی سے چمٹا کر پیار کیا۔ اس کے بچوں کے ماتھے چومے۔ اس سے ہاتھ ملایا۔

کمنگو سے طولتی دو کلو میٹر آگے ہے۔ طولتی تحصیل ہیڈ کوارٹر کی حیثیت رکھتی ہے۔ سرکاری ملازمین کی رہائش گاہیں، ضلعی دفاتر، اسپتال سکول سب یہیں ہیں۔

طولتی کے بالمقابل پاری کا گاؤں ہے۔ غنڈوس بھی سندھ پار ہے۔ اور جب شام ڈھلے وہ پہاڑی پر ایستادہ راجہ کھرمنگ کے محل میں داخل ہوئی، اس وقت اسے یوں محسوس ہو رہا تھاجیسے کسی نے اس کا جسم گنڈاسے سے چارٹو ٹے کر دیا ہو کہ ہر ٹوٹا اپنے اپنے درد کو اسے بتانے میں پیش پیش تھا۔

٭٭٭







باب نمبر 33





کھرمنگ کا راجہ خاندان اپنے خلوص کی مٹھاس اور اپنائیت کی خوشبو کے لئے بے حد زرخیز اور مردم خیز وادی پاری کے مشہور سیبوں جیسا تھا۔ پورا گھر نہ صرف اردو سمجھتا تھا بلکہ ستھری اردو بولتا بھی تھا۔ مہارانی سے تو خپلو میں بھی مل چکی تھی۔

مسلسل تین دنوں سے فاطمہ بیگم شاہ جہاں سے سمن سیر گاہ میں چلنے کا کہہ رہی تھیں۔ اس کی چھوٹی بیٹی کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ چوتھے دن وہ خود بول پڑی۔

’’تم مجھے محل کی ان دیواروں میں مقید کرنے کے لئے لائی تھیں نکلو باہر گل کو میں خود سنبھال لوں گی۔‘‘

اورسمن جانے کا پروگرام طے پا گیا۔ شام کو شاہ جہاں نے قدیمی قلعہ کھر منگ بھی چلنے کا کہا۔ کھرمنگ کے نام پر اس نے فوراً کہا۔

’’ یہ تم کھروں کو چھوڑو۔ کوئی ڈھنگ کی شے دکھانی ہے تو دکھا دو۔‘‘

شاہ جہاں یقیناً اس کا جواب دیتی، پر اسی وقت نوکر نے اسے آواز دی تھی۔ منجھلی بیٹی نے بے چارے دھان پان سے نوکر کے نتھنوں میں مہار تو عرصے سے ڈالی ہوئی تھی۔ پر کھرمنگ آ کر تو کھینچا تانی یوں شروع کر دی تھی کہ بے چارہ بلبلا اٹھا تھا۔ شاہ جہاں نے اس کی فریاد سن کر کہا۔

’’جاؤ اسے سومہ کھر کے کھنڈروں میں پھینک آؤ۔ جنگلی درندے مزے مزے سے کھائیں گے اِسے۔‘‘

بچی دہل کر مہارانی فاطمہ بیگم کے سینے سے چمٹ گئی۔

تیاری کرنا شاہ جہاں پر ختم تھا۔ صبح کوئی نو بجے چلے۔ جیپ چھوٹی تھی بس شاہ جہاں اس کے بچے وہ اور دو نوکر ہی بیٹھ سکے۔

روصبوخہ گاؤں سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر سمن سیرگاہ واقع ہے۔ روصبوخہ کی وادی میں سے گزرتے ہوئے ایک بار پھر اسے احساس ہوا تھا کہ بہار آ رہی ہے۔ بادام کے درختوں نے سفید پھولوں کے گہنے زیب تن کر لئے ہیں۔ خوبانی اور آڑو گلابی شگوفوں کے بوجھ کو تمکنت سے اٹھائے کھڑے تھے۔ شاہ بلوط کی عریانی اب کچھ کچھ تن ڈھانپنے لگی تھی۔

سمن نہایت پر فضا مقام ہے۔ دور دور تک سبزہ نظر آتا تھا۔ جو زمین میں سے اپنا تھوڑا تھوڑا سر نکال رہا تھا۔ مختلف پھولوں کی مختلف اقسام کے متعلق ڈرائیور نے بتایا تھا کہ جب کھلتے ہیں تو اس جگہ پر جنت کا گمان ہوتا ہے۔

بید کے درختوں کے نیچے ایک ہلچنگر اہ (چوپال) بنا ہوا ہے شاہ جہاں اور وہ دونوں وہاں جا کر بیٹھ گئیں۔ دائیں بائیں کا نظارہ اتنا دلفریب تھا کہ وہ کتنی دیر تک ان میں گم رہی اور چونکی تو اس وقت جب شاہ جہاں نے نوکروں کے ساتھ مل کر اونچے اونچے وہ خاص درود پڑھنا شروع کر دیا تھا جسے کہ برجیب کہتے ہیں۔

وہ حیرت زدہ سی رہ گئی کہ یہ ایکا ایکی اسے ہوا کیا۔ اس وقت سیرگاہ میں کوئی تہیں تھا۔ اس نے شاہ جہاں کی چادر کھینچی اور کہا۔

’’خدا کے لئے ہوش میں رہو۔‘‘

شاہ جہاں نے ایک لمحہ تو قف کرتے ہوئے کہا۔

’’بس دیکھتی جاؤ اور بولو کچھ مت۔‘‘

اب اس کی آواز میں اور تیزی آ گئی۔ نوکروں نے بھی جھوم جھوم کر ساتھ دیا۔ سارے سمن میں ان کی آوازیں گردش کر رہی تھیں۔

پھر یوں ہوا دور پار سے آوازیں آئیں وہ آوازیں جب اور قریب آئیں تو معلوم ہوا کہ مقامی لوگ جوابی درود پڑھ رہے ہیں۔ دو عورتیں اور تین مرد اور کئی بچے دکھائی دیئے۔ عورتوں کے ہاتھوں میں دودھ کے برتن تھے۔

پاس آ کر انہوں نے دودھ کے برتن رکھے۔ بر جیب پھر پڑھا۔ شاہ جہاں سے گلے ملیں۔ وہ اٹھی، اس سے بغل گیر ہوئیں۔ پھر انہیں وہ دودھ پیش کیا گیا جو وہ لائی تھیں۔ شاہ جہاں نے پیا بچوں کو پلایا۔ اس نے بھی پیا۔

وہ حیران بھی تھی اور خوش بھی کیسی دلچسپ اور پیاری رسم ہے۔ اس نے بے اختیار سوچا۔

مرد چلے عورتوں کو اس نے روک لیا۔ ایک جوان تھی اور ایک معمر دونوں کے درمیان رشتے کی نوعیت عجیب سی تھی۔ جوان عورت بوڑھی عورت کی بیٹی کی سوت تھی۔

پاؤں سے ننگی بوسیدہ اور خستہ کپڑوں میں لپٹی وہ نوخیز لڑکی جو ہنستی تھی تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے صبح دم گلاب کا نو شگفتہ پھول اپنے دامن پر شبنم کے موتیوں کے ساتھ مسکرا رہا ہو۔ اس کا جی چاہا اپنی جوتی اس کے پاؤں میں پہنا دے۔ بھلا اتنے خوبصورت اور گداز پاؤں پتھروں پر رگڑیں کھانے کے لئے تھوڑی بنے تھے۔ مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ شاہ جہاں جیسی ڈکٹیٹر سے اسے ڈر لگتا تھا۔ اپنی یہ سوچ اگر وہ اس پر عیاں کر دیتی تو اس نے یقیناً یہی کہنا تھا۔

’’ارے کس کس کو پہنائے گی تو۔ اس سرزمین کے خوبصورت پاؤں کے مقدروں میں پتھروں سے ٹھوکریں کھانا لکھا ہے۔ تو مقدر کے اس لکھے کو کیونکر دھو سکتی ہے۔ بوٹوں کی کمپنیوں کی مالک تھوڑی ہے تو۔‘‘

بات یہ بھی ٹھیک تھی۔ شاہ جہاں گلاب کے اس پھول سے گیت سنانے کو کہہ رہی تھی اور وہ بوڑھی عورت کی طرف انگشت شہادت کرتے ہوئے ہنستی تھی۔

سنتا ہے تو اس سے سنو۔ یہ آواز زمانوں تک اپنی شیرینی سے تمہارے کانوں کو بتاتی رہے گی کہ اس نے کوئی ماروائی گیت سنایا تھا۔

’’اچھا‘‘۔ شاہ جہاں نے آنکھیں پھاڑ یں۔

معمر عورت انکساری سے کام لیتی تھی۔ جب شاہ جہاں نے زیادہ مجبور کیا۔ تب اس نے کہا۔

’’در اصل ڈامن اور ڈیانگ کے بغیر گیت گانے کا صحیح لطف نہیں آتا۔‘‘

’’کمال ہے اب نہ نو من تیل ہو گا اور نہر ادھا ناچے گی والی بات تو نہ کرو۔‘‘

اس نے اب ہتھیار ڈال دئیے تھے۔

میندوق یس پاری یاوے دخلاے میندوق تھورو نالیسیدے نی سروغی تیوتا ستونگ سلا بید۔

جب پھول کھلتے ہیں تو نیچے سے اوپر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ میرے ساتھی میرے ساتھی میں تمہیں سلام کرتی ہوں۔

ہر مرد کا شباب تین ادوار تک ہوتا ہے۔

ہر عورت کا شباب تین بچے جننے تک ہوتا ہے۔

خوب صورت پھول بھی تین صبح تک کھلے رہتے ہیں۔

طاقتور گھوڑے بھی پولو کے تین گیم کھیل سکتے ہیں۔

تند و تیز گھوڑی بھی صرف تین ڈافوق تک دوڑ سکتی ہے۔ (پولو کھیلتے ہوئے کھلاڑی گیند کو سٹک سے شاٹ مارتا ہے وہ ڈفوق کہلا تا ہے)

گھر بار نہ ہونے کا احساس شام کو ہوتا ہے۔

اور اولاد نہ ہونے کا احساس بڑھاپے میں ہوتا ہے۔ میرے ساتھی! میرے تیو میں تجھے سلام کرتی ہوں۔

یقیناً آواز نغمگی اور پختگی کے اعتبار سے بے مثال تھی۔ لیکن گیت کا جب ترجمہ شاہ جہاں نے اسے بتایا تو وہ دنگ رہ گئی۔ اسے حیرت تھی اس جاہل اور ان پڑھ عورت کی قوت مشاہدہ اور احساس آگہی پر کہ زندگی کے مسائل اور اس کے اسرار ورموز پر اس کی سوچ کی گرفت کتنی قوی تھی کہ جو خالق تھی اس گیت کی۔

دادی کھرمنگ کی وہ حسین صورت عقل وہ دانائی کی مورت نیک سیرت اور اس گیت کی خالق اپنے ساتھی سے بہت پیار کرتی تھی۔ دیوانہ وار اسے چاہتی تھی۔ پر اس کا ساتھی یعنی تیو بڑا ہر جائی تھا۔ دوسری عورتوں کے پیچھے بھاگتا تھا۔ دونوں گھر اور اس کی صورت نہیں دیکھتا تھا۔ وہ صبح سویرے دہلیز میں بیٹھ کر اس کی راہ دیکھتی رہتی اور شام کو مایوسیوں میں گھری اپنے کمرے میں آ بیٹھتی اس کا اندر دکھ اور بے چارگی کی آگ میں جلتا رہتا۔ تب ایک دن وہ کرب اس کے ہونٹوں پر اس گیت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جو ہر اس دل کا ترجمان بنا جو کسی نہ کسی واسطے اور وسیلے سے مرد کی بے وفائی کا شکار ہے۔

وہ دونوں دوپہر تک ان کے ساتھ رہیں۔ کھانا کھا کر رخصت ہوئیں۔

شاہ جہاں اور اس نے بھی واپسی کاسوچا۔ مگر گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ڈرائیور سے کھرمنگ خاص چلنے کا کہا۔

پھر اس کی طرف رخ پھیر کر بولی۔

’’ میں تمہیں موئے مبارک دکھانے لے جا رہی ہوں۔ تم وہاں جو دعا مانگو گی اسے قبولیت حاصل ہو گی۔‘‘

’’شاہ جہاں میں نے دعائیں مانگنی چھوڑ دی ہیں۔ میں طلب یا یافت کی کشش ثقل سے کلی طور پر آزاد ہو کر بس خلاؤں میں بھٹکتی پھر رہی ہوں۔‘‘

شاہ جہاں نے شاکی نظروں سے اسے دیکھ کر کہا۔

’’مجھے اس بات کا قلبی دکھ ہے کہ تم نے اپنا آپ میرے اوپر نہیں کھولا۔‘‘

اور اس کے جواب دینے سے پیشتر جیپ نے جھٹکا کھایا۔ قدرے ڈھلان میں اتری اور کھڑی ہو گئی۔

کھرمنگ بیامہ میں دریا کے کنارے ایک اونچی پہاڑی پر ایک دو منزلہ محل موجود ہے۔ یہ بوتی کھر کہلا تا ہے۔ اس محل کے نیچے انٹھوک کھر کے نام سے ایک اور محل تھا۔ یہ ما ضی میں کھرمنگ کی حکمران خاندان کا رہائشی محل تھا۔ انٹھونک کھر اور سومہ کھر کھنڈر ربنے پڑے ہیں۔ بوتی کھر نہایت بوسیدہ حالت میں موجود ہے۔

اب شاہ جہاں بضد تھی کہ چلو بوتی کھر کے ساتھ جو مسجد ہے اس کی زیارت کر لو۔ وہیں موئے مبارک معصومین علیہم السلام میں سے کسی کا ہے۔

اوزززر وہ وہاں کھڑی دریائے سندھ کے پانیوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہتی تھی۔

’’چائے کا ایک کپ پینے کے بعد۔‘‘

اب دونوں نے کمر ہمت باندھی۔ بچے نوکروں کے سپرد کئے۔ چڑھائی اتنی دشوار نہیں تھی یا پھر وہ اب عادی ہو گئی تھی۔ صدیوں پہلے کا تعمیر کردہ بوتی کھر جسے والئی لداخ نے بنایا تھا۔ اب زبان حال سے دنیا کی بے ثباتی کی کہانی سناتا تھا۔ اس قلعے کے دو حصے ہیں۔ اسی پہاڑی پر وہ مسجد بھی ہے جو اب شکستہ اور بوسیدہ ہے۔ کمرے میں داخل ہوئیں تو خوف سا محسوس ہوا۔ یوں لگا جیسے پتھروں اور غاروں کے زمانے میں دھکیل دی گئی ہوں۔

اس نے اوپر سے نیچے دیکھا۔ کھرمنگ خاص کا علاقہ اور دریائے سندھ نیچے بکھرا ہوا تھا۔ ایک کمرے میں لکڑی کا ایک ٹوٹا پھوٹا صندوق تھا۔ اس صندوق میں ایک سر بمہر تھیلے میں چاندی کا ایک چھوٹا سا صندوقچہ ہے۔ تھیلا پھٹا ہوا ہے صندوقچے پر تالا لگا ہوا ہے۔ روایت ہے کہ اسی صندوقچے میں موئے مبارک موجود ہے۔ جسے شیر شاہ کے دور میں کشمیر سے ایک فقیر ساتھ لایا تھا۔ پہلے اسے سومہ کھر کی زیارت گاہ میں رکھا ہوا تھا۔ اس کے انہدام کے بعد اسے مسجد میں رکھ دیا گیا ہے۔

اور جب وہ وہاں بیٹھی تھیلے اور صندوقچے کو دیکھتی تھی اسے کینن ڈائل کی جاسوسی کہانیاں یاد آئی تھیں۔ وہ کہانی بھی دماغ کے کسی کونے کھدرے سے نکل کر سامنے آ گئی تھی۔ جس میں ایسے ہی پراسرار سے صندوق اور تھیلے ہوتے ہیں۔ اس کا جی چاہا کہ وہ تالہ توڑ کر اندر دیکھے۔ موئے مبارک کیسا ہے۔ لیکن وہ ڈرتی تھی۔

شاہ جہاں نے بتایا تھا قلعوں کی ساری نفیس کامدار لکڑی راجہ کے بیٹے اتار کر لے گئے تھے۔ یہ بھی لے جاتے لیکن یہ مشہور ہو گیا تھا کہ جو اس صندوقچے کو اٹھائے گا، وہ اندھا ہو جائے گا۔

وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔ شاہ جہاں ہنستے ہوئے بولی۔

’’ارے تم گھبرا گئی ہو بلا وجہ۔‘‘

’’بس اب چلو۔ زیارت ہو گئی ہے۔‘‘

٭٭٭







باب نمبر 34





اسے آمادہ کرنے کی سلسلے میں شاہ جہاں کی ہر کاوش ناکام ہو گئی تھی۔ سو اصرار اور ایک پکا انکار والا معاملہ تھا۔ شاہ جہاں نے جھنجھلا کر کہا۔

’’قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے اس جوڑے کے لئے آخر تم اتنا کیوں کھلی جاتی ہو؟ تنہائیاں ان کا مقدر ہیں۔ تم کب تک ہنگاموں سے انہیں بہلاؤ گی۔ نوروز میں کتنے دن باقی ہیں۔ صرف پانچ اور تم راہوں میں خجل خوار ہو گی۔‘‘

’’میرے خوار ہونے کو چھوڑو۔ میں یہاں مضطرب رہوں گی۔ بس تو یہ سمجھ لو کہ جیسے تمہیں کبھی اپنی ماں اور باپ کے لئے ہڑک اٹھی ہو، تو اسی کیفیت میں دوچار ہوں۔ آج میں طولتی کے بازار سے کچھ چیزیں خریدنا چاہتی ہون اور کل صبح روانگی کا قصد رکھتی ہوں۔‘‘

طولتی کا بس چھوٹا سا بازار تھا۔ سکینہ اور غلام حیدر کے لئے جب اس نے کپڑے خریدے تو اسے اپنا لاہور اور انارکلی یاد آئے۔ ’’اے کاش میں ان کے لئے یہ چیزیں وہاں سے خریدتی۔ خوبصورت اور بہترین سی۔‘‘ اس نے اپنے جی میں کہا۔ گھریلو استعمال کی کئی چھوٹی موٹی اشیاء کی بھی خریداری ہوئی۔ شام ڈھل گئی تھی جب وہ محل واپس آئیں۔ چھوربٹ کے لئے رات جیپ والے سے بات ہو گئی تھی۔ شاہ جہاں نے کھانے پینے کی سب اشیاء ایک تھیلے میں ڈال دی تھیں۔ چائے کی بوتل بھی بھر دی تھی۔

واپسی کا یہ سفر اسے بہت لمبا اور بوجھل محسوس ہوا۔ بس سکینہ اور غلام حیدر سے ملنے کی امنگ شریانوں میں دوڑتے خون کو بہت تیز کر دیتی۔ وہ چشم تصور سے ان لمحوں کا سوچتے ہوئے خود مسکراتی۔

اس وقت شام ڈھل گئی تھی جب وہ سکسہ کے محلے ینگ چھد کی جامع مسجد کے سامنے اتری۔ ساڑھے چار ماہ پیشتر جب وہ یہاں آئی تھی اس وقت وہ ہواؤں میں اڑے پھرتے تنکے کی مانند تھی۔ لیکن آج وہ جانتی تھی کہ ایک ایسا گھر بھی ہے جہاں وہ دو جانیں اسے یاد کرتی ہوں گی۔ اس کی آمد کی منتظر ہوں گی۔ ایک دوسرے سے کہتی ہوں گی کہ ارے اس سیلانی کا کیا پتہ کھرمنگ سے کہیں آگے نہ نکل جائے۔

یقیناً وہ اپنا سینہ چیر کر انہیں نہیں دکھا سکتی تھی کہ وہ شاہ جہاں جیسی مخلص اور چاہنے والی دوست کے سارے جذبات پیروں تلے بے دردی سے روند کر صرف اس لئے آئی تھی کہ نوروز کے ہنگاموں میں کرنباک خیال کا یہ سنپولیا اسے ڈس کر ادھ موا کر ڈالتا کہ وہ تنہا ہیں۔

جیپ کے رکتے ہی جب بچوں نے اسے اترتے دیکھا تو خوشی سے بھاگے اور اس کے اردگرد آ کھڑے ہوئے بیشتر بچوں کو وہ پہچانتی تھی۔ کچھ اس کے پاس پڑھنے بھی آتے تھے۔ اس نے ان سب کو پیار کیا۔ سامان انہیں پکڑا یا اور گھر کی طرف قدم اٹھائے۔

سکینہ کمرے میں چولہے کے آگے بیٹھی ہنڈیا پکاتی تھی۔

’’تیتی آمو دیکھو میں آ گئی ہوں۔‘‘

سکینہ کا حال کچھ ایسا تھا جیسے اسے اپنی آنکھوں پر اپنی بصارت پر دھوکے کا گمان ہو، لیکن جب وہ اس کے گلے سے، اس کی چھاتی سے چمٹی، تب وہ گلو گیر آواز میں اس کی بلائیں لیتے ہوئے بولی۔

’’مجھے یہ خواب لگتا ہے میری بچی تم واپس آ گئی ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

’’تمہارے بغیر نوروز کے تہوار کا بھلا آمو کیا لطف آتا۔‘‘

غلام حیدر کے جذبات بھی سکینہ سے کچھ مختلف نہ تھے۔ رات کو وہ دونوں کے پاس بیٹھی ہنستی تھی۔

’’اچھا تو، آپ سمجھتے تھے کہ اب میں بس گئی۔‘‘

پھر دفعتاً اس نے سر جھکایا۔ اس کی آنکھوں کے اندر کا درد چھلک پڑا تھا۔ وہ بولی۔

’’آتا اور آمو! میں نے اب کہاں جانا ہے۔ کہیں گئی بھی تو لوٹ آنے کے لئے جاؤں گی کہ یہ میرا گھر ہے اور یہاں میرا باپ اور ماں ہے۔‘‘

وہ دونوں بھی رو دئیے تھے۔ سکینہ اٹھ کر انڈوں کی ٹوکری اٹھا لائی۔ مختلف رنگوں کی پڑیاں ٹوکری میں نکال کر ساے دکھاتے ہوئے بولی۔

’’غلام حیدر ایک ہفتہ ہوا یہ سب لے آیا تھا۔ نوروز آنے والا ہے نا ہم کہتے تھے وہ آئے گی تو انڈوں پر خود ڈیزائن بنائے گی۔‘‘

اس نے وہ سب چیزیں جو وہ ان کے لئے لائی تھی، انہیں دکھائیں وہ خوش بھی ہوئے اور ناراض بھی کہ بلا وجہ اس نے اتنا خرچ کیا۔

دادی جواری کی لئے وہ چادر لا ئی تھی۔ زینب کے لئے چوڑیاں۔

’’اب انہیں تو صبح ہی یہ دینے جاؤں گی۔‘‘

اس نے سوچا اور عشاء کی نماز کے لئے اٹھ گئی۔

ابھی اس کی نماز ادھوری ہی تھی جب بڑے لڑکوں کا ٹولہ جو اس سے پڑھتا تھا اندر آیا۔ یہ لوگ پولو گراؤنڈ میں کنگ پولو کھیلتے تھے۔ جب انہیں خبر ملی کھیل کو یونہی چھوڑ کر بھاگنے لگے جب ایک نے کہا۔

’’ذرا رکو۔ اطمینان سے چلتے ہیں۔‘‘ تب سب اپنے اپنے گھروں میں گئے۔ کھانا وانا کھا کر اب آئے تھے۔

بہت دیر تک وہ ان سب سے باتیں کرتی رہی۔ نوروز کے لئے ان کے پروگرام سنتی رہی پھر سکینہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’اب اسے سونے دو صبح کی تھکی ہوئی ہے کل خدا رکھے پھر آنا۔‘‘

نوروز کی عید ایرانیوں کے نئے سال کے پہلے دن منائی جاتی ہے۔ شمالی علاقوں خصوصی طور پر بلتستان پر ایرانی تہذیب کا گہرا اثر ہے۔

صبح ہوئی اور گھر میں ہنگامے جاگ اٹھے۔ موسم گو ابھی بہی بہت سرد تھا۔ منفی سنٹی گریڈ کے مختلف درجات کا چھوتا نقطہ انجماد پر آ کر اب کچھ رک گیا تھا۔ لیکن جوان خون درجہ حرارت کے اس اتار چڑھاؤ کو ذرا برابر خاطر میں نہ لاتا تھا۔

ابھی وہ بمشکل ناشتے سے فارغ ہوئی تھی جب دادی جواری کے پوتے پوتیاں اپنے نئے کپڑوں کی پوٹلیاں اٹھائے کمرے میں آ موجود ہوئے۔

’’ارے واہ۔‘‘ اس نے ایک ایک کے کپڑے کھولے اور دیکھے۔ با آواز بلند واہ واہ کے نعرے لگائے۔ سرخ پھٹے ہوئے رخساروں والے بچے اس کی واہ واہ پر پھول کی طرح کھلے جاتے تھے۔

جب دھوپ اپنے جوبن پر آئی۔ وہ سب کے ساتھ اس کھلے میدان میں آ گئی۔ جو گھروں کے سامنے تھا۔ مارچ کے تیسرے ہفتے کی نرم گرم میٹھی دھوپ جو سردی کی شدت سے سوئے ہوئے اعضاء کے لئے ٹکور کا کام دیتی تھی۔

زینب اور رضا عباس کی من مو ہنی سی بہن دولت بی بی بھی اپنے انڈوں کی ٹوکریاں اٹھا لائیں۔ تازہ تازہ ابلے انڈوں کو انہوں نے ٹھنڈا ہونے دیا۔ زینب اور دولت نے مختلف پیالوں میں مختلف رنگ گھولے۔ اب ان انڈوں پر پچی کاری کا کام شروع ہوا۔

کہف الوریٰ کو پینٹنگ سے خاص شغف تھا۔ اس نے اپنے انڈوں پر ایسے ایسے دلکش ڈیزائن بنائے کہ سب عش عش کر اٹھیں۔ سب کی خواہش تھی کہ وہ ان کے انڈوں پر بھی کچھ بنائے۔

’’بھئی کیوں؟ یہ سب میں نے تم لوگوں کو عیدی دینے کے لئے تو نہیں بنائے ہیں۔ کوئی انہیں گھر تھوڑی رکھنا ہے۔‘‘

جب دھوپ پہاڑوں کی اوٹ میں چلی گئی اور جسم ٹھنڈک سے کپکپانے لگے، تب سب اٹھیں۔ اپنی اپنی ٹوکریاں اٹھائے گھروں میں لوٹیں۔ سکینہ گھر کی جھاڑو پونچھ میں مصروف تھی۔

اس نے دیکھا تو بولی۔

’’میں نے آپ کو منع بھی کیا تھا کہ اکیلے کوئی کام نہیں کرنا۔ صبح سے ہلکان ہوتی رہی ہیں۔‘‘

اور وہ مسکرائی۔

’’ارے کب میری جان! مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے جسم میں پارہ بھرا ہو۔‘‘

کھانا کھا کر وہ دادی جواری کے ہاں گئی۔ ان کی مشین پر اس نے سکینہ اور غلام حیدر کے کپڑے سیئے۔ رات دیر تک وہ ان کے گھر رہی، کپڑے بھی سیئے، گپیں بھی لگائیں اور یہ بھی اپنے آپ سے کہا۔

’’اپنائیت کا یہ لطف اور سُرور رگ رگ میں اتر کر سرشاری کا کیسا لطیف احساس دیتا ہے۔ کھرمنگ میں یہ مزے کہاں تھے؟‘‘

ساری وادی میں ہنگامے انگڑائی لے کر جاگے تھے۔ وادی کے نوجوان لڑکے پولو اور نشانہ بازی کے مقابلوں کی تیاری کر رہے تھے۔ دریا پار کے گاؤں ’’مرچھا‘‘ کی پارٹی پولو کھیلنے کے لئے نوروز کے دن سکسہ میں آنے والی تھی۔

لڑکیاں اپنی تیاریوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ عورتیں گھروں کی لیپا پوتی اور ان کی سجاوٹ میں جتی تھیں۔ ہر گھر دار خاتون نے کلچے، زرچون اور ازدق (سموسے ) وغیرہ تیار کر رکھ لئے تھے۔ مرد لوگ کھیتی باڑی کے کام میں مصروف ضرور تھے پر تقریباً سبھی ربیع کی اہم فصل جن میں گیہوں، جو، مٹر، مسور اور باقلہ شامل ہیں، کی کاشت سے فارغ ہو چکے تھے۔

بیس مارچ کی شام کو لڑکیوں کا جتھا کمرے میں بیٹھا تھا۔ مہندی گھلی ہوئی تھی اور وہ ان کے ہاتھوں پر میدانی علاقوں کے دل کش ڈیزائن بنا رہی تھی۔ کمرے میں شور تھا۔ زینب نے گیت شروع کر دیا۔ چند اور لڑکیوں نے بھی آواز ساتھ ملائی۔

جب سے اس نے بلتی بولنی شروع کی تھی، مقامی لڑکیوں کی ہچکچاہٹ خاصی کم ہو گئی تھی تکلف بھی ختم ہو گیا تھا۔

چھور بٹ کی وادی چھولونگ کھا کی خوبصورت دلکش لڑکی جس کا نام شرنگ زومبا تھا، یہ اس کے جذبات واحساسات کا نمائندہ گیت تھا۔ چھولونگ کھا سے آگے لداخ کا علاقہ شروع ہوتا ہے لداخ کے گاؤں بلیک کا ایک لڑکا شرا اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ زومبا کے والدین نے بچپن ہی سے اس کی منگنی شرا سے کر رکھی تھی۔

وقت گزرتا گیا۔ زومبا بھرپور جوانی کی حدود میں داخل ہو گئی۔ شر اسے بیاہنے نہیں آیا۔ اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ لڑکی جب دلہن بنتی تو دائیں اور بائیں طرف کے بالوں کو کان کی لوؤں کے برابر تراش دیا جاتا تھا۔ جسے بلتی زبان میں چن چن کہتے ہیں۔ سر کے باقی اور پچھلی طرف کے بالوں کی چٹیا بنا لی جاتی۔ اسے پتہ چلتا تھا کہ لڑکی بیاہی ہوئی ہے۔ زومبا شرا کا انتظار کرتی رہی۔ اس کے بال بڑھتے رہے حتی کہ اس کے گھٹنوں کو چھونے لگے۔ یہ بڑھتے ہوئے بال اسے اپنی بڑھتی ہوئی عمر کا احساس دلانے لگے۔ اس نے اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر وہ گیت گایا جو اس وقت زینب اور لڑکیاں گا رہی تھیں۔

شرابلیک لے یاستر قیبونی لے سترقپا سٹر قفروکھیدے شلما لوق

ناشرنگ زومبانوے ہر کالو بو کھمی رلوق

ترجمہ: بلیک والے شرا! چکور اپنے بچوں کے لئے ترائیوں کی دوسری طرف نکل گئے۔

مجھ زومبا کی زلفیں گھٹنوں سے بھی نیچے پہنچ گئیں۔

میں نہ مرجھاؤں تو اور کون مرجھائے۔

اپنے بچپن کے حسین ساتھی سے ملنے کا دن معلوم نہیں کب آئے گا۔

کب آئے گا، کب آئے گا، کب آئے گا۔

’’کب آئے گا۔‘‘ کی تکرار جب زیادہ بڑھی تو اس نے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔

’’خدا کے لئے ایسی بے صبری کا مظاہرہ مت کرو۔ ملنے کا دن بہت جلد آ جائے گا۔‘‘

ساری لڑکیاں ہنس پڑی تھیں۔ کوئی گیارہ بجے ہنگامہ ختم ہوا۔ لڑکیاں گھروں کو سدھا ریں۔

اکیس مارچ کا دن اپنے جلو میں خوشیاں اور رنگینیاں لے کر طلوع ہوا۔ بچے رنگ برنگے کپڑوں میں پھول کی مانند نظر آتے تھے۔ جو بچہ گھر آیا، اس نے اسے رنگین انڈے کی عیدی دی۔ زینب نے پیغام بھیجا تھا کہہ دو پہر کا کھانا ان کے گھر ہے۔

کھانا کھا کر اور قہوہ پی کر وہ دولت کے ساتھ باہر نکل آئی۔ پولو گراؤنڈ کے پاس لڑکے انڈوں کا کھیل کھیلتے تھے۔ چار لڑکوں کے ہاتھوں میں انڈے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کے سرے ٹکراتے۔ اس میں بڑی مہارت کا مظاہرہ ہوتا۔ بس ذرا سی خراش آئی اور انڈہ دینا پڑا۔

ذرا آگے چند لڑکے اُبلے انڈوں کو ڈھلان سے لڑھکا رہے تھے۔ جس کا انڈہ پہلے نیچے پہنچتا وہ بقیہ سارے انڈے جیت لیتا۔

مرکزی شغرن (پولوگراؤنڈ )مبں بہت رش تھا۔ ساری وادی امنڈی پڑی تھی۔ موسیقی زور و شور سے بجتی تھی اور لوگ پولو کھیلنے کی تیاری میں تھے۔

٭٭٭







باب نمبر35





وہ اس آواز کو ہزار آوازوں میں پہچان سکتی تھی۔ اس نے آنکھیں اوپر اٹھائیں اور کان کھڑے کئے۔ اس سارے عمل میں صرف تیس سیکنڈ صرف ہوئے ہوں گے۔ پھر وہ جست لگا کر باہر کر طرف دوڑی تھی۔ غلام حیدر اور سکینہ دونوں حیرت زدہ سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے کہ ایکا ایکی چائے پیتے پیتے اسے کیا ہوا؟

پتھروں کے پوڈوں کے پاس سیماں کھڑی تھی۔ پیچھے زینب اور اس کا بڑا بیٹا تھے۔ کس والہانہ انداز میں اسے چمٹی تھی۔ کوئی پندرہ منٹ یونہی گزر گئے۔ ہجر کے طویل دنوں کی خشک سالی جب ملاپ کے پانیوں سے کچھ سیراب ہوئی تب سیماں نے اسے شاکی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے گلہ کیا۔

’’خوب وعدہ وفا کیا۔‘‘

اور اس نے ہنستے ہوئے اس کا بازو کھینچا۔

’’بس شکوے شروع ہو گئے۔ آگے آؤ نا۔تی تی غلام حیدر سے نہیں ملنا؟‘‘

سکینہ اور غلام حیدر نے اسے سینے سے لگایا۔ پھر سب وہیں چھرے پر ہی بیٹھ گئے۔

’’سیماں آج ہم نے بلے پکایا ہے۔ کھاؤ گی نا۔‘‘ اس نے پیار بھر یں استفہامیہ انداز میں اس کی طرف اٹھا دیں۔

سیماں کی جوابی مسکراہٹ کچھ یہ کہتی تھی کہ ’’ یہ تم گھر والی کب سے بن گئی ہو؟‘‘

وہ پلیٹ میں بلے لے آئی۔ سیماں نے چمچ کے ساتھ کھانا شروع کیا۔ زینب سے بھی اس نے کہا۔ لیکن اس نے جواب دیا۔

’’میں کھانا کھا کر آئی ہوں۔‘‘

سیماں ان دونوں سے پوچھتی تھی کہ آخر انہوں نے اس پر کیا جادو کر دیا ہے کہ اسے چھوربٹ میں ہی سریش لگ گئی ہے۔

اور جب سیماں بلے کھا کر اور چائے پی کر فارغ ہوئی، اس نے بتایا کہ وہ اس آوارہ گرد کو لینے آئی ہے۔ کیونکہ روح اللہ کے جگری یا رسکندر کے بھانجے ندیم کی شادی ہے اور ان سب نے شگر جانا ہے۔

اور کہف الوریٰ کو محسوس ہوا تھا کہ ان کے چہروں کا خون نچڑ گیا ہے۔ اس نے فوراً سکینہ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھاما اور بولی۔

’’آمو میں شادی میں شرکت کے بعد پھر یہیں آؤں گی۔ آپ میرا کہیں جانے کا سن کر پریشان کیوں ہو جاتے ہیں؟‘‘

’’تیرے دم سے یہ اُجاڑ اور ویران سا گھر بولتا جو ہے۔‘‘

سکینہ کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔

’’آپ مجھے ہنستے مسکراتے بھیجا کریں اور ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مجھے اسی گھر میں لوٹ کر آنا ہے۔‘‘

سیماں خاموش بیٹھی اس کی باتیں سنتی تھی۔ جب دونوں کے درمیان تنہائی ہوئی۔ اس نے پوچھا تھا۔

’’یہ سب کیا چکر ہے۔ تو نے واپس نہیں جانا کیا؟‘‘

اور اس نے چھرے پر سے اون کے ابھرے ہوئے بھروں کو چنتے ہوئے جیسے سیماں سے نہیں اپنے آپ سے کہا۔

’’ شاید کبھی نہ جاؤں۔ میں نے تو ماضی سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ زندگی گزارنا ہے، سو گزر ہی جائے گی۔‘‘

سیماں نے چونک کر اس کی جانب بغور دیکھا تھا۔

’’تم نے کبھی اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ میں بھی یہی سمجھتی تھی کہ تم سیر سپاٹوں کی دلدادہ ہو اور۔۔ ۔‘‘

اس نے سیماں کی بات کاٹتے ہوئی کہا۔

’’تم یہی سمجھتی رہو۔‘‘

’’غربت برتتی ہو۔ اپنا آپ اپنے اندر ہی رکھنا چاہتی ہو۔ چلو ٹھیک ہے۔‘‘

اور اس نے سیماں کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔

’’سیماں میری جان! کسی بھی بد گمانی کو دل میں جگہ نہیں دینا میں سب کچھ تمہیں بتاؤں گی۔ پر اس وقت جب میرا دل چاہے گا۔‘‘

غلام حیدر کے اندر آ جانے سے دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پھر وہ اٹھی اور اس نے کہا۔

’’میں اب چلتی ہوں صبح کا پروگرام ہے۔ بچے اور روح اللہ شگر پہنچ گئے ہوں گے۔ میں صرف تمہیں لینے آئی تھی اور ہاں واپسی پر تمہیں سکر دو جانا ہو گا۔‘‘

چھوربٹ سے شگر کا سفر گو بہت لمبا تھا لیکن ایک تو جیپ نئی تھی اور دوسرے ڈرائیور نہایت مستعد تھا۔ شگر خاص میں وہ کوئی چار بجے پہنچیں۔ سیماں کا خیال سفر جاری رکھنے کا تھا۔ پر اس نے زور دیا کہ نہیں، انہیں رات داؤد صاحب کے ہاں گزار لینی چاہیے۔ گلاب پور تک پہنچتے پہنچتے رات ہو جائے گی۔

در اصل وہ پاشا سے ملنا چاہتی تھی۔ مسٹر ومسز داؤد اور ان کے بچوں کو دیکھنے کی متمنی تھی پر سیماں اس کی بات پر فوراً بولی۔

’’ ارے گلاب پور شگر سے صرف سترہ میل ہے۔ جس دولہا کی شادی میں ہم شرکت کے لئے جا رہے ہیں یہ اکثر و بیشتر اپنے گھر سے پیدل شگر پڑھنے آتا تھا۔ ہم لوگ تو جیپ پر ہیں۔ یوں بھی علی میری راہ دیکھتا ہو گا۔‘‘

اور جب سورج ڈوب رہا تھا، وہ وزیر پور پہنچ گئی تھیں۔ وادی کا پھیلاؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ دریائے شگر کا پاٹ بھی اب خاصا چوڑا ہو گیا تھا۔ بس اگلی وادی گلاب پور تھی۔

وزیر پور سے ایک بڑا نالہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے آتا ہوا انہوں نے دیکھا۔ ابھی اس میں پانی نہیں تھا۔ بس برف کے تودے جمے نظر آتے تھے۔ گلاب پور ابھی کوئی پانچ کوس دور تھا۔ پھلدار درختوں کے سفید گلابی پھول فضا میں حسن بکھیرے ہوئے تھے۔ گلاب پور کے نزدیک نالہ دریائے شگر میں گرتا تھا۔

اور جب جیپ رکی اس نے جانا کہ وہ منزل پر پہنچ چکی ہیں۔ پر اتری تو یوں محسوس ہوا جیسے دل ابھی ہڈیوں کے پنجر کو توڑتا پھوڑتا باہر آ جائے گا۔ روح اللہ اور ڈاکٹر ابراہیم دونوں کھڑے تھے۔ روح اللہ اس کی خیریت دریافت کرنے کے بعد سیماں کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

بہت دیر لگائی تم لوگوں نے۔ ’’صبح جلدی چلنا تھا۔‘‘

’’ارے جلدی تو چلے تھے۔ پر یہ راستے میلوں کو تیزی سے ہضم کرنے الے تھوڑی ہیں۔‘‘

اس ملگجے اندھیرے میں روح اللہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہف الوریٰ کو محسوس ہوا تھا جیسے ڈاکٹر ابراہیم کی نگاہیں اُس پر جمی ہوئی ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک لفظ کا تبادلہ نہیں ہوا تھا۔

اب انہیں ندیم کے گھر ’’کیا ہوں گ‘‘ محلہ جانا تھا۔ چھوٹی چھوٹی پتھریلی گلیاں۔ روح اللہ پیچھے سے ٹارچ کی روشنی پھینکتا تھا خاصا چلنے کے بعد گھر آیا۔ لکڑی کی چھ سیڑھیاں، جنہیں چڑھ کر وہ ایک کشادہ راہداری میں آئیں۔ بجلی نہیں تھی اور گیس کے ہنڈولے جلتے تھے۔

دائیں ہاتھ نشست گاہ تھی۔ دونوں بائیں ہاتھ مڑیں۔ کمرہ کشادہ تھا۔ شیبہ سو رہی تھی۔ گھر کی عورتیں کمرے میں آ گئی تھیں۔ ان سے میل ملاپ ہوا۔ ندیم کی والدہ، سکندر کی بیوی، ماں اور دیگر رشتہ دار خواتین۔ سکندر کی بیوی ایک اور اونچے افسر کی بیگم ہونے کے باوجود نہایت سادہ اور منکسر المزاج خاتون تھیں۔

یہ کھور کق کی شب تھی (عروسی تقریب کی پہلی شب) محلے کی سماجی تنظیم کے ارکان انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے نشست گاہ میں آئے بیٹھے تھے۔ گھر کی عورتیں تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد اٹھ گئی تھیں کیونکہ کیونکہ انہیں کھانا دینا تھا۔

علی بے حدپیارا بچہ تھا۔ للی اس سے کہتی تھی کہ آنٹی آپ نے تو خپلو اور چھور بٹ میں ہی ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ اور وہ جواباً پوچھتی تھی۔

’’ارے بڑی بھابھی کیوں نہیں آئیں۔‘‘

رات کے کھانے سے فارغ ہو کر عورتیں دلہن کے گھر لے جانے کے لئے کولچہ (ایک قسم کا کھانا) پکانے کی تیاریوں میں جت گئیں۔

وہ اور سیماں بہت تھکی ہوئی تھیں بس لیٹنے کی ساتھ فوراً سو گئیں۔

٭٭٭





باب نمبر36







نیلے شفاف اور کھلے آسمان کے نیچے دریائے شگر کے ٹھنڈے ٹھار پانیوں پر زخ (ڈنڈوں اور مشکوں سے بنی کشتی) پر سفر کرنا گویا ایک قدیم، پراسرار اور پر امن دنیا میں سفر کرنے کے مترادف تھا۔ اس وقت جب سورج کی چمک ماند پڑی ہوئی تھی۔ گلاب پور کے پہاڑوں پر شام کے سائے گھنے تھے اور مقابل وادی مرتضی آباد پر جیسے کسی نے سونا بکھیرا ہوا تھا۔ وہ پندرہ لوگ مرتضیٰ آباد کی شہزادی خسنیہ کے لئے مہندی لے کر جا رہے تھے۔ شادی کے کپڑوں (وردان) کی نوک پلک وہ سیماں اور بیگم سکندر سارا دن سنوارتی رہی تھیں۔ رواج کے مطابق پکے ہوئے کھانوں کے تحفوں (کھ می تھل) اٹھارہ کولچے۔ ہر کولچے کا وزن آدھ کے جی کے برابر تھا۔ چار کھب سے، ہر کھب سے کا وزن دو کے جی تھا، کی تیاری اور پیکنگ میں دولہا کی ماں بہنوں اور نانی نے بہت اہتمام سے کام لیا تھا۔

ان پندرہ لوگوں میں ڈاکٹر ابراہیم بھی تھا۔ اس کا علم اسے زخ پر بیٹھ کر ہوا تھا۔ گھر سے نکل کر جب وہ اس جگہ پہنچیں جہاں سے ڈھلانی راستے کے ذریعے اتر کر انہیں کنارے پر بندھی زخ پر بیٹھنا تھا۔ وہ حیران ہوئی تھی زخ کو دیکھ کر۔ پانچ پانچ مشکوں کی پانچ قطاریں افقی سروں پر ایک ایک زخ بان بیٹھا ہوا تھا۔ دو ماہر زخ بان آگے اوردو پیچھے ہاتھوں میں لمبے لمبے ڈنڈوں کے ساتھ ان کے بیٹھنے کے منتظر تھے۔

بیٹھتے سمے اس نے پوری احتیاط کی کہ اس کی نشست کسی طور پر ڈاکٹر صاحب کے پاس نہ آئے۔ تو وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوئی، پر ڈاکٹر ابراہیم نے روح اللہ کے ساتھ جگہ بدل کر اسے ناکام بنا دیا۔ اور جب کشتی چلی، انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’کہف الوریٰ آپ کو یہ سب کیسا لگتا ہے؟‘‘

’’بہت اچھا۔ ایک پر لطف اور دلچسپ تجربہ۔‘‘

شاید وہ جھٹکا کھا کر کنارے پر نہ گرتی اگر زخ کے رکنے پر ڈاکٹر ابراہیم کے یہ الفاظ اس کے کانوں میں نہ پڑتے۔

’’میں آپ کو یاد کرتا تھا۔‘‘

اُسے آج تک یاد کرنے والا تو کوئی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ لڑ لگنے والا مہینوں دورے پر رہنے کے بعد کبھی آ کر یہ نہیں کہتا تھا کہ تم مجھے یاد آتی تھیں یا میں نے تمہیں بہت یاد کیا۔ ان سنگلاخ وادیوں میں اگر کسی نے اسے یہ کہا تھا تو بھلا وہ زخ کے ڈنڈے سے الجھ کر کنارے پر کیسے نہ گرتی۔ جب ذہن میں گڑبڑ ہو جائے تو توازن برقرار رکھنا بہت مشکل ہو جا تا ہے۔

سیماں، روح اللہ، ڈاکٹر ابراہیم، بیگم سکندر سب تیزی سے اس کی طرف لپکے تھے۔ وہ خجل ہوئی۔ فی الفور اٹھتے ہوئے بولی۔

’’ارے بس یونہی ذرا سا پیر پھسل گیا تھا۔‘‘

مرتضیٰ آباد چھوٹا سا گاؤں ہے۔ لڑکی کا گھر گاؤں کے شروع میں تھا۔ عام بلتی گھر عورتوں کو ایک کمرے میں بٹھایا گیا۔ مرد نشست گاہ میں چلے گئے گھر کی مالی حالت اس درجہ مستحکم نظر نہیں آتی تھی جتنی دولہا کے گھر والوں کی تھی۔ لیکن رشتہ ہونے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو پرانی قرابت داری تھی اور دوسرے دلہن بہت حسین ہونے کے علاوہ ندیم کی پسند بھی تھی۔ چائے سے فراغت کی بعد وردان اور کھہ می تھل انہیں دیئے گئے۔

کمرے میں دلہن کے رشتہ دار اکٹھے ہو گئے تھے۔ دلہن کا ماموں آیا جس نے سب کے سامنے انہیں کھولا۔ عروسی جوڑا دیکھنے کے لئے عورتیں ایک دوسری پر گرنے لگیں۔ یہ جوڑا شہر لاہور کی سوغات تھا۔ ندیم نے سارا مال روڈ اور انار کلی اس کے انتخاب کے لئے چھان ماری تھی۔ کوئی پندرہ سال پہلے سفید کپڑوں کا رواج تھا۔ لٹھے کے سفید کپڑے لیکن اب لڑکیاں سرخ جوڑے پہننے لگی تھیں۔ ندیم بہت دل کش رنگ چن کر لا یا تھا۔

اب اس نے کھ می تھل کا ٹوکرا کھولا۔ کولچوں کے ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا سب میں بانٹا۔ جس کو اس کا ٹکڑا ملا، اس کی مسرت دیدنی تھی۔ بیگم سکندر نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے کہ وہ اگلی شام دلہن کے ساتھ بارات میں جائے گا۔

عام شادیوں کے برعکس کھانے کے ابتداء مرزن سے نہیں ہوئی سفید اُبلے ہوئے چاول پالک گوشت، سادہ گوشت، سینیوں میں چار چار پانچ پانچ ڈھیریاں وہ سیماں اور اس کے بچے ایک سینی کے گرد بیٹھ گئے۔ عورتوں نے آفتابوں سے ہاتھ دھلائے۔

کھانے کے بعد قہوہ کا دور چلا۔ اسے دلہن کو دیکھنے کی جلدی تھی۔ وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں آئی۔ واقعی وہ چندے آفتاب اور چندے ماہتاب تھی۔ وہ بیٹھی اس سے باتیں کرتی تھی جب سیماں نے آواز دی کہ چلو دیر ہو رہی ہے۔ سنیئن گو (باراتیوں کے کھانے میں ڈالے جانے والے مکھن کو پگھلانے والے لوگ) جلدی جلدی کا شور مچاتے ہیں۔

اور باہر نکلتے نکلتے اس نے اپنے آپ سے کہا۔

’’ ان میلے کچیلے کپڑوں میں یہ لشکارے مار رہی ہے۔ بن سنور کر کیا ستم ڈھائے گی۔ ندیم بے چارہ تو غش کھا کر گرے گا۔‘‘

گاؤں کی لڑکیاں مہندی گھول رہی تھیں۔ اس کا جی چاہا وہ تھوڑی دیر رک کر اس کے سفید مخروطی ہاتھوں پر کوئی دلکش سا ڈیزائن بنا دے۔ پر سیماں نے شور مچا رکھا تھا۔

گیس کے ہنڈولوں کی روشنی میں راستہ کچھ اتنا دشوار نہیں رہا تھا۔ مگر باہر اس کے مقدر جیسا گھُپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ اس اندھیرے میں آسمان کے ستارے کسی خوش نصیب کے بخت جیس تابناک تھے۔

ڈاکٹر ابراہیم سکندر اور روح اللہ کے ساتھ آگے آگے چلتا تھا اور باتیں کئے جاتا تھا۔ یہ بوجھل سی آواز جیسے بار بار اسے کہتی تھی۔

’’ میں تمہیں بہت یاد کرتا تھا۔‘‘

اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ زخ میں بیٹھنے سے قبل جب سیماں کو روح اللہ پکڑ رہا تھا اور مسز سکندر اپنے میاں کا ہاتھ تھامے ہوئی تھی۔ اس افراتفری میں ڈاکٹر ابراہیم کی بڑھے ہوئے ہاتھ کو وہ جھٹک نہ سکی۔ اسے یہ ہاتھ تھامنا پڑا۔ اسے بیٹھنا بھی ان کے پاس پڑا تھا۔ اور وہ ان ہاتھوں کو بھی نہ جھٹک سکی تھی کہ جب انہوں نے اپنا کوٹ اتار کر اس کے شانوں پر ڈالا تھا۔

رات کے سناٹے میں زخ بانوں کے ڈنڈے پانی میں شٹراپ کی آوازیں پیدا کرتے تھے۔ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ کیونکر اس کوٹ کو اٹھا کر شگر کے پانیوں میں پھینک دے۔ بھلا روح اللہ اور دیگر لوگ کیا سوچیں گے۔ لیکن انہیں تو کچھ سوچنے کی قطعی فرصت نہ تھی کیونکہ وہ ان چاروں آدمیوں سے باتیں کر رہے تھے جو دلہن کے رشتے دار تھے اور ان کے ساتھ جا رہے تھے۔

گھر پہنچ کر انہوں نے اس مکھن کو پگھلوایا جو وہ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے اور جسے دوسری شام براتیوں کے کھانے میں ڈالا جانے والا تھا۔ یہ سرم ماربجوس کہلاتی تھی۔

مہندی تیار تھی۔ سیماں ندیم کو کھینچ لائی۔ ندیم کے چند منچلے دوست بھی اندر آ گئے تھے۔ گورنمنٹ کالج کا ایم۔ اے پاس ندیم مہندی لگوانے سے یکسر منکر تھا۔

’’ارے چلو سیدھی طرح بیٹھو ورنہ ایک دھموکا دوں گی کمر میں۔ کوئی روز روز ہم تھوڑی تیرے مہندی لگانے آئیں گے۔‘‘

کمرے میں گیت شروع ہو گئے تھے۔ دو عورتوں نے رقص شروع کر دیا تھا۔ تالیوں کا شور ندیم کی نانی بل تھود (اونی سہرا) بھی اٹھا لائی تھی۔ جسے وہ آج سارا دن بناتی رہی تھیں۔ یہ بہت خوبصورت سہرا تھا پر ندیم اعلان کئے بیٹھا تھا کہ وہ ہرگز سہرا نہیں باندھے گا۔ ناچ گانے کی آوازیں جب ذرا بلند ہوئیں اور ان کا شور کمرے سے باہر نکلنے لگا۔ تب ندیم کی والدہ نے اندر آ کر کہا۔

’’آوازوں کو ذرا دھیما رکھو۔‘‘

مسز سکندر بتا رہی تھیں کہ ناچ گانا معاشرے میں پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ صبح ہوئی۔ ہنگامے جاگ اٹھے تھے۔ لیکن اس کے لئے یہ بات نہایت تعجب خیز تھی کہ بارات دولہا لے کر نہیں جاتا بلکہ دلہن لے کر آتی ہے۔ ناشتے سے فراغت ہوئی تو ہر تہ سیر کی تیاری شروع ہو گئی۔

باہر سو سوا سو گھوڑے اور ان کے سوار دولہا کو آس پاس کی بستیوں کی سیر کروانے کے لئے آ گئے تھے۔ ندیم دولہا بن کر شہزادہ لگتا تھا اور جب وہ گھوڑ سواروں کے جلو میں روانہ ہوا تو مغل شہزادہ نظر آنے لگا۔

گھر کے داہنی ہاتھ کھلا میدان تھا، جہاں شامیانے تنے ہوئے تھے اور دیگیں چڑھی تھیں۔

کوئی تین بجے کے قریب مسز داؤد اور پاشا اپنے اپنے بچوں سمیت آ گئیں۔ وہ دونوں سے ملی اور خوش بھی ہوئی کہ چلو اس کی دید کی تمنا تو پوری ہوئی۔

شام ہوتے ہوتے گھر عورتوں سے بھر گیا۔ بلتی لباس صرف معمر عورتوں کے بدن پر تھا۔ نوجوان لڑکیاں اور عورتیں خوبصورت جاپانی کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ ان کے گلوں میں فلا چمکتے تھے۔ ناکوں میں چہار گل لشکارے مارتے تھے اور پیشانیوں پر طور مار کے جلوے تھے۔

بیگم سکندر کے کہنے پر سب عورتیں شامیانے میں آ گئیں۔ یہاں قالین بچھے تھے۔ اور قناتوں کے شوخ رنگ قالینوں کے شوخ رنگوں سے مل کر روشنیوں میں زندگی اور اس کی مسرتوں کا بھرپور احساس دلاتے تھے۔

اس کا جی چاہتا تھا وہ مرتضیٰ آباد جائے اور دلہن کی رخصتی کا منظر دیکھے۔ شاید یہ قبولیت کا وقت تھا۔ ندیم کے خالو اور خالہ وہاں جار ہے تھے۔ وہ بھی ان کے ساتھ ہولی جب وہاں پہنچی، اس وقت ’’چلاہو‘‘ کی دردناک دھن بج رہی تھی۔ دلہن اپنے ماموں کی پیٹھ پر سوار ہو گئی تھی۔ تقریباً سو آدمیوں پر مشتمل یہ قافلہ بس روانہ ہونے کو تھا۔ اندر باہر ایک افراتفری مچی ہوئی تھی۔ رونے کا عمل تیزی سے جاری تھا۔

اور جب سورج ڈوب رہا تھا۔ بارا رت رخصت ہوئی۔ تمام لوگ ہفت بند (ایک قصیدہ) پڑھتے ہوئے آگے پیچھے چلنے لگے۔ جب زخ گلاب پور کے کناروں سے ٹکرائی ہفت بند پڑھنے والوں کی آوازیں خاموش فضا کا سینہ بے دردی سے چھلنی کر رہی تھیں۔ ندیم کے ساتھی اور عزیز ہاتھوں میں جلتی شکپائیں لئے کھڑے تھے۔ دلہن ماموں کی کمر پر پھر سوار ہوئی اور ندیم کے گھر پہنچی۔ دہلیز پر ندیم کی ماں سایہ بکرا ہاتھوں میں تھامے کھڑی تھی۔ دلہن نے اسے ہاتھ لگایا اور اس وقت حلال ہوا۔ اس کا خون دہلیز کو نہلاتا ہوا نیچے بہنے لگا۔ اس سرخ ندی کو ٹاپ کر دلہن اندر آ گئی۔ کسی نے اس کا گھونگھٹ نہیں اٹھایا۔ چائے اور کولچہ لا یا گیا۔ اس نے وہ کھایا تب گھونگھٹ اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھا گیا۔

دو گھروں کا مہماں بھوکا والی بات اس کے ساتھ ہوئی تھی۔ جب وہ یہاں سے چلی تھی تب یہاں کھانا ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ اور جب وہاں پہنچی کھانے کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا اور چل چلاؤ کا سمے تھا۔ اب بھوک زوروں پر تھی۔ وہ کمرے سے باہر نکلی اور ندیم کی بہن سے کھانے کے لئے کہا۔

طباق دان میں کھانا آ گیا۔ سفید ابلے ہوئے چاول، پالک، سیخ کباب، یخنی اور بوٹیاں اگلے دن صبح سویرے رشتہ داروں اور میل ملاپ والے لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جو آتا اس کے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ میں مٹھائی یا آزوق ہوتا وہ اسے دلہن اور دولہا کے آگے رکھتے۔ بعض لوگ پکے ہوئے کھانوں کا تحفہ لے کر آئے۔

ندیم ان رسموں سے بہت گھبرایا ہوا تھا۔ پڑھا لکھا نئی روشنی اور نئی تہذیب کا دلدادہ، غریب کا بس نہیں چلتا تھا کہ کیسے اپنی جان چھڑا کر بھاگ جائے۔

’’سنو‘‘۔ اس نے اپنی من مو ہنی دلہن کو مخاطب کیا۔

’’یہ مٹھائی اور چیزیں جو اکٹھی ہوتی ہیں تمہارا جی چاہے تو سب اپنے ساتھ لے جانا۔ کیا بے ہودہ رہے۔ لڑکی والے اپنا لایا ہوا لے جائیں اور لڑکے والے اپنے عزیزوں کے لئے ہوئے تحفے رکھ لیں۔‘‘

سیماں اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

اگلے دن وہ اور سیماں دریائے شگر کی اس جگہ گئیں جہاں سونا پایا جاتا ہے۔ دریا کے کناروں پر ان لوگوں کی جھونپڑیاں تھیں جوسونا نکالنے کا کام کرتے ہیں۔ خانہ بدوش لوگ جو یہ علم رکھتے ہیں کہ وہ کون سی جگہیں ہیں، جہاں سے سونا ملنے کی امید ہے۔ ویسے ان دریاؤں میں سونے کے ٹھیک ماخذ ابھی تک دریافت نہیں ہوئے۔

٭٭٭









باب نمبر 37



اس نے تڑپ کر سیماں کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور گلو گیر لہجے میں بولی۔

’’خدا کے لئے ایسا کبھی مت سوچنا۔‘‘

’’آخر کیوں؟ کیا کنوار کوٹھا چھتو گی۔‘‘

وہ ان دنوں سکر دو آئی ہوئی تھی۔ سیماں نے ڈاکٹر ابراہیم کی شان میں قصیدہ پڑھتے ہوئے کہا تھا۔

’’میں چاہتی ہوں ڈاکٹر ابراہیم سے تیرا دائمی ناطہ جڑ جائے۔‘‘

اور جب سیماں بضد ہوئی تب اس نے پہلی بار اسے کچھ بتایا جو وہ اپنے اندر دبائے بیٹھی تھی۔

سیماں پھر چیخی۔

’’تو اب مسئلہ کیا ہے؟‘‘

’’اتنی ظالم نہ بنو۔ سیماں میرے زخم ابھی کچے ہیں۔ ان پر وہ کھڑنڈ نہیں آئے جو زخموں کی صحت یابی کی علامت ہوتے ہیں۔‘‘

بات للی اور بڑی بھابھی کے کمرے میں آ جانے سے ختم ہو گئی۔

دوپہر کی ڈاک سے غلام حیدر کا خط آیا۔ شگر میں ہی وہ انہیں بذریعہ خط اطلاع دے بیٹھی تھی کہ وہ گھبرائیں مت۔ اس نے چند دن سکر دو سیماں کے پاس ٹھہرنا ہے۔ آج ان کا خط آیا تھا کہ وہ چھور بٹ مت آئے۔ وہ دونوں سکر دو آر ہے ہیں۔ پھر روندو جانا ہے۔ غلام حیدر کی حقیقی چچی وادی روندو کے ایک گاؤں برق میں رہتی تھی اور شدید بیمار تھی۔

’’چلو یہ اچھا ہوا۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا اور سیماں کو بتانے کے لئے کمرے سے نکلی۔

وہ باورچی خانے کے باہر جاپانی گڑیا جیسی شیبہ پر انگریزی میں برس رہی تھی۔ شیبہ کے ہاتھ مٹی میں سنے ہوئے تھے۔

’’خدا کے لئے سیماں! ان بے چاروں کی زندگی کو مختلف زبانوں کے بوجھ سے عذاب تو نہ بناؤ۔ تمہارا جب پیار بھرا موڈ ہو گا تو فارسی میں اس پر ممتا کے خزانے لٹاتی ہو۔ قہر برسانا ہو تو انگریزی کو پکڑ لیتی ہو۔ میاں کے پاس بیٹھ کر ان سے بلتی میں گفت و شنید کرتی ہو۔ میرے جیسی کے سامنے اردو کو اظہار بنا لیتی ہو۔ فار گوڈ سیک سیماں! ان مظلوموں کو ابنی علمیت اور زبان دانی کی چھری سے ذبح مت کرو۔‘‘

شیبہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی تھی۔ مٹی میں لتی پتی شیبہ کو اس نے گود میں اٹھایا اور کمرے کی طرف جاتے ہوئے بولی۔

’’ میرے سامنے اسے مت کچھ کہا کرو۔ تم سے سنبھالی نہیں جاتی تو دے دو مجھے۔‘‘

یہ مدھ بھرے دن تھے۔ ڈال ڈال پات پات مسکراتی تھی۔ درخت پھولوں اور پھلوں کی ڈوڈیوں سے سجے ہوئے تھے۔ توت میں سفیدی آتی جا رہی تھی جو اس بات کا اعلان تھی کہ وہ پکنے میں ایک ماہ سے زیادہ وقت نہیں لیں گے۔

انتظار کے ان دنوں میں ایک دن ڈاکٹر ابراہیم آ گئے۔ وہ سکر دو اسپتال میں چند مریضوں کے اہم آپریشنز کے سلسلے میں آئے تھے۔ انہوں نے سیماں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ اب سیماں اس کے سر پر کھڑی کہتی تھی کہ چلو نشست گاہ میں اور وہ خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہتی تھی۔

’’میں کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔ تمہارے گھر میں بیٹھی ہوں مجبور مت کرو۔‘‘

سیماں نے ان سے جا کر کیا کہا، یہ نہ وہ جانتی تھی اور نہ اس نے جاننے کی ضرورت محسوس کی۔ اس وقت بڑی بھابھی کا چھوٹا بیٹا اپنا معاشرتی علوم کا سبق یاد کرتا ہوا اندر آیا۔ اس کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔

’’سکر دو ارندو پہاڑ پر کچی سڑک سکر دو سے براستہ کچورہ کو اردو اور دریائے شگر کے ساتھ ساتھ ارندو گاؤں تک جاتی ہے۔ اس سڑک کی لمبائی ۱۴۵ کلو میٹر ہے۔‘‘

سڑک کچی ہو یا پکی وہ کہیں نہ کہیں ضرور پہنچتی ہے۔ وہ اب سوچوں میں گھری بیٹھی تھی۔ پر جس کچی پر خطر سڑک پر میں چل رہی ہوں، اس کی کوئی منزل نہیں۔ یہ کہیں نہیں پہنچے گی۔ یوں ہی بھول بھلیوں میں الجھا کر مجھے پریشان کرتی رہے گی۔

اور جب شام گہری ہو رہی تھی، وہ دونوں آ گئے تھے۔ اس نے سکھ کا لمبا سانس بھر کر اپنے آپ سے کہا تھا۔

’’چلوشکر ہے، نئی جگہ نئے حالات اور ان دو محبت کرنے والوں کی موجودگی میں ذہن کو سوچ وبچار میں الجھنے کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘

رات وہ لوگ ٹھہرے۔ صبح جب وہ چلنے کے لئے تیار ہو رہی تھیں، سیماں اس کے پاس آئی تھی۔ وہ کچھ ناراض معلوم ہوتی تھی کچھ تلخی سی جھلکتی تھی اس کی آواز میں وہ کہہ رہی تھی۔

’’بھلا یوں کب تک یہاں وہاں بھٹکتی رہو گی۔ گھر بساؤ ایک جگہ ٹک کر بیٹھو۔‘‘

صبح صبح سیماں کا یہ لیکچر اسے سخت ناگوار گزرا۔

’’گھر کیا بسایا نہیں تھا پر جب اوپر والے کو میرا اس میں ٹِک کر بیٹھنا پسند نہیں تھا تو بھلا میں کیا کرتی۔ بقیہ جہاں جہاں کا آب ودانہ چگنا ہے، وہ انسان اپنی خواہش کے برعکس بھی کھانے پر مجبور ہے۔‘‘

وہ کوئی نو بجے بسوں کے اڈے پر پہنچے۔ نیٹکو والوں کی ایک بس صبح سویرے گلگت کے لئے نکل چکی تھی۔ ماشہ بروم والوں کی بس تیار تھی۔ چند سواریوں کی بس کمی تھی۔ غلام حیدر ماشہ بروم میں سفر کرنا پسند نہیں کرتا تھا، پر اب مجبوری تھی۔

کوئی آدھ گھنٹہ بعد بس چل پڑی۔ ان کا یہ سفر سکر دو گلگت روڈ پر شروع ہوا۔ ۲۲۴ کلو میٹر لمبی اس سڑک کا بیشتر حصہ پختہ بن چکا ہے۔ بقیہ کا پکا کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔

سکر دو کے بالمقابل کو اردو کے پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے غلام حیدر نے کہا۔

’’ان پہاڑوں میں بہترین اور اعلیٰ قسم کے سنگ مر مر کی کانیں ہیں۔ راجگان نے ماضی میں اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔ لیکن اب ان کانوں سے کام نہیں لیا جا رہا ہے۔ یہ کانیں باشہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔‘‘

’’کیوں کام نہیں لیا جا رہا ہے۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔

بس تیزی سے کولتار کی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ اب دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سفر طے ہو رہا تھا۔ غلام حیدر اسے بتا رہا تھا۔

وادی روند کا مقامی اور قدیم نام رونگ یل ہے۔ یہ وادی دریائے سندھ کے دونوں پہلوؤں پر واقع ہے۔ یہ ژھری پڑی سے شروع ہو کر حراموش تک پھیلی ہوئی ہے۔ تحریک آزادی کی پہلی جھڑپ اسی مقام زھری پڑی پر ہوئی تھی۔ پوری وادی قراقرم اور ہمالیہ کے درمیان واقع ہے۔

اس نے اپنا چہرہ کھڑکی کی طرف کر لیا۔ تھوڑا سا شیشہ کھولا۔ ہوا فراٹے بھرتی اندر آنے لگی۔ اس نے شیشہ بند کر کے سر اس سے ٹکا لیا اور آنکھیں موند لیں۔

ڈاکٹر ابراہیم اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ زبیر بھی آ گیا تھا۔ وہ مار گزیدہ تھی۔ تہی دامن تھی۔ اسے اپنے بنجر ہونے کا شدید احساس تھا۔ وہ ایک بار پھر اس دوزخ میں گرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھی جہاں مرد و عورت سے اپنی بقا کا طلب گار ہوتا ہے۔

پیرنگ غلچو کے بالمقابل وادی چھری ہے۔ چھری کے بارے میں غلام حیدر نے بتانا شروع کر دیا تھا۔ لیکن اس وقت وہ کچھ نہیں سن رہی تھی۔ بس ایک سوال اسے بے چین کرنے لگا تھا۔

’’کیا واقعی وہ اتنی بدنصیب ہے کہ سکون جیسی دولت کو ہمیشہ ترستی رہے گی۔‘‘

بشو کی وادی گزر گئی۔ یہاں کے انگوروں کی لذت کے بارے میں اس نے بہت کچھ سنا تھا لیکن انہیں آزمانے کا ابھی تک موقع نہیں ملا تھا۔ بشو سے پل کے ذریعے دریا پار ہوا۔ تو تونگوس اور باغیچہ گزرے۔

طور میک میں پہنچ کر بس رک گئی اور وہ لوگ اتر گئے۔ یہ پہلا ایسا سفر تھا جس میں اس نے سارا راستہ سوچنے اور آنکھیں بند کرنے میں گزار دیا تھا۔

سکینہ نے کوئی دس بار پوچھا ہو گا کہ وہ کیوں آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ کیوں باہر نہیں دیکھتی۔ اس کی طبیعت تو خراب نہیں۔

’’ارے نہیں آمو آپ تو بلا وجہ پریشان ہو رہی ہیں۔‘‘ وادی طورمیک کی ایک جھلک اسے یہ بتانے کو کافی تھی کہ یہ انتہائی خوبصورت، نہایت گنجان آباد اور میووں کی دولت سے مالا مال وادی ہے۔

٭٭٭





باب نمبر38







یہ انکشاف کس قدر تعجب خیز، کتنا انوکھا اور نرالا تھا کہ بھیڑ بکریوں اور گائے بھینسوں کی طرح بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر گلیشیئر بھی باقاعدہ پالے جاتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال پالتو جانوروں کی طرح ہی کی جاتی ہے۔ وہ تو پہاڑوں کی یہ متاع کائنات کے مالک کے ادنیٰ کرشموں میں سے ایک سمجھے بیٹھی تھی۔ پر اب جانا تھا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے تحت انسان فطرت کے ساتھ کیسے جنگ کرتا ہے۔

اس وقت وہ طور میک کے خوبصورت گاؤں بروق میں اس سلو نے بوڑھے آدمی کے گھر بیٹھی تھی جو غلام حیدر کی چچی غلام فاطمہ کی خبر پرسی کے لئے آیا تھا۔ چمکتی سہ پہر کو وہ کوٹھے کی چھت پر پول کا میچ دیکھنے چڑھی تھی۔ غلام فاطمہ کے گھر کے دروازے اس پولو گراؤنڈ کی طرف کھلتے تھے۔ جس میں زمانہ قدیم سے لے کر چند سال پیشتر تک راجہ روندو اپنے درباریوں اور پولو کے کھلاڑیوں کے ساتھ پولو کھیلتا تھا اور بروق کی خوب صورت سیرگاہ میں سیر کرتا تھا۔

آج بھی وہاں پولو کھیلا جا رہا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کھیلنے والے والے عام لوگ تھے۔ دوپہر کا کھانا کھا کر فارغ ہوئی تھی کہ کسی نے کہا۔

’’آج پولو میچ ہو گا۔‘‘ وہ فوراً چھت پر چڑھ گئی۔ رہائشی مکانات کا سلسلہ کچھ اس طرح سے ہے کہ انہوں نے پولو گراؤنڈ کو درمیان میں لے کر اسے جدید زمانے کی اسٹیڈیم کی صورت دے دی ہے۔ کم و بیش سبھی گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں گراؤنڈ کی طرف کھلتے ہیں۔

جب کھیل شروع ہوا تو اردگرد کی چھتوں اور گھروں کے برآمدوں میں لوگ نظر آنے لگے۔ روندو کے کھلاڑی تو یوں بھی بہترین کھیل کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ کھیل ابھی اختتام پر نہیں پہنچا تھا جب غلام حیدر نے اسے آواز دی۔ اس نے چھت پر سے جھانک کر پوچھا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘

اور جواباً وہ بولا۔

’’نیچے آؤ تمہیں ایک دلچسپ اور نادر ہستی سے ملاؤں۔‘‘

وہ کھیل کو ادھورا چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ ایسا سنسنی خیز کہ رگوں میں جما خون تک پگھلا ڈالے۔ گواسے کھیلنے کی قواعد و ضوابط سے ابھی مکمل واقفیت نہیں ہوئی تھی۔

وہ نیچے آئی۔ غلام حیدر کی طرح اس کی چچی غلام فاطمہ بھی بڑی تنہا تھی۔ چار بچوں کی ماں جس کا چھوٹا کنوارہ بیٹا ایران میں محنت مزدوری کرنے گیا ہوا تھا۔ بڑا شادی شدہ اپنے بچوں کے ساتھ کراچی میں، ایک لڑکی پنڈی میں اور دوسری گلگت میں اپنی اپنی گھر داری میں پھنسی تھیں۔

غلام فاطمہ کو دمے کی شکایت تھی۔ موسم جب بدلتا اس پر بیماری کا شدید دورہ پڑتا۔ غلام حیدر اور سکینہ سال میں دو تین بار تو اس کے پاس ضرور چکر لگاتے۔ انہوں نے بہتیرے طرے مارے تھے کہ کسی طرح وہ ان کے ساتھ چھوربٹ چلی جائے۔ پر وہ گھر چھوڑنے پر کسی طرح آمادہ نہیں تھی۔ یوں بھی روندو کی وادی نسبتاً گرم ہونے کے ساتھ ساتھ میوہ جات کا گھر ہے غلام فاطمہ کا باغیچہ انگور، خوبانی، انار، سیب، ناشپاتی، اخروٹ اور شہتوت کے درختوں سے لدا کھڑا تھا۔

نیچے آ کر اس نے دیکھا۔ ایک سانولا سا اونچا اونچا لمبا قدیم دردنسل کے سے نقش وں گار والا بوڑھا بیٹھا باتیں کرتا تھا۔ اس کی بولی گو سمجھ میں آتی تھی پر یہ بلتی زبان کی کمترین شکل تھی۔

غلام حیدر نے اس کا تعارف کرواتے ہوئے جب یہ کہا تھا۔

’’اس نے گلیشیئر پالے ہیں۔‘‘

اس نے بھونچکی سی ہو کر اسے دیکھا اور بولی۔

’’کمال ہے۔ یہ سچ ہے یا مذاق۔ گلیشیئر بھی کوئی کتے بلیاں یا بھیڑ بکریاں ہیں، جنہیں پالا جائے۔‘‘

اور وہ کھلکھلا کر ہنسا اور بولا۔

’’یہ بھی دلچسپ کہانی ہے۔ سنو گی تو لطف اٹھاؤ گی۔‘‘

باہر ہر سیکار کی مختلف دھنیں بج رہی تھیں۔ کھیل ختم ہو گیا تھا اور لوگ اب ناچ گا رہے تھے۔ وہ چھت کی طرف بھاگی یہ کہتے ہوئے کہ

’’ آپ جب اپنے گھر جائیں۔ مجھے ساتھ لیتے جائیں۔ میں آج آپ سے یہ ضرور سنوں گی۔‘‘

اور جب شام ڈھل رہی تھی وہ اس کے ساتھ جس کا نام مراد خان تھا، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھتی بروق کی زمین کو قدموں تلے روندتی اس کے گھر جاتی تھی۔ غلام حیدر اس کے یوں تیار ہو جانے پر بہت ہنسا تھا اور وہ بولا تھا۔

’’تمہاری پنجابی زبان میں ایک محاورہ ہے لو سنو۔‘‘

’’جتھے دیکھاں تواپرات، اوتھے گاواں ساری رات۔‘‘

ترجمہ: یعنی جس جگہ بھی توا اور آٹے کی پرات دیکھ لو، وہاں ساری رات گیت گاؤ۔

اور باہر جب رات کی سیاہیاں اپنے آپ کو مخاطب کرنے میں مصروف تھیں۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے۔ ٹانگوں پر سیرمک کی لوئی ڈالے بغور اسے سنتی تھی۔ جو اپنے پوتے کو گود میں سلائے دھیمے دھیمے بول رہا تھا۔

’’قلان اتنی سر سبز و شاداب وادی اس وقت نہیں تھی جب میں ایک نوخیز سا لڑکا تھا۔ بلتستان چونکہ ہمالیائی سلسلے کی پیٹھ پیچھے واقع ہے۔ اس لئے یہ مون سون کی نعمت سے محروم ہے یہاں پانی کی قلت ہے۔ ہماری دادی بھی پانی کی کمی کے باعث کھیتی باڑی میں کفیل نہ تھی۔ یہ گرمیوں کی ایک دوپہر تھی۔ گاؤں کے نوجوان ری سیر کا پروگرام بنانے میں مصروف تھے۔ ری سیر در اصل نوجوان لڑکوں کا ایک تفریحی شغل ہے کہ جب پہاڑوں پر پھول کھلتے ہیں تو ہر گاؤں کے لڑکے بالے مل کر پکنک منانے کے لئے وہاں جاتے ہیں۔ تین چار دن اوپر رہتے ہیں واپسی پر میندوق کا رکی دھنوں پر تلوا کے ساتھ ناچتے ہوئے آتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ پھولوں کے ہار اور گہنے بھی لاتے ہیں جو اکثر و بیشتر اپنی دل پسند لڑکیوں کو دئیے جاتے ہیں۔

گل بانو سے مجھے پیار ہی نہیں عشق تھا۔ گرمیوں کی اس دوپہر کو جب ہم سب لڑکے پہاڑوں پر جانے اور وہاں سیر و تفریح کے پروگرام ترتیب دے رہے تھے، وہ آئی تھی۔ میں نے دیکھا تھا اس کا برف جیسا سفید چہرہ چنار کے پھولوں جیسا ہو رہا تھا، اس نے بظاہر بقیہ لڑکوں کو حقیقتاً مجھے سناتے ہوئے کہا۔

’’وادی خشک ہے۔ اس کا ایک ایک پودا اور بوٹا پانی مانگتا ہے۔ جو پانی ادھر ادھر سے آتا ہے وہ اس کے لئے ناکافی ہے۔ بوڑھے تو ڈوگروں سے جنگ کرتے کرتے پست ہمت ہو گئے ہیں اور تم نوجوان لوگوں کو سیر سپاٹوں سے فرصت نہیں۔ بتاؤ وادی آب ودانہ میں کیونکر کفیل ہو۔ کیا تم لوگ اپنے آباء و اجداد کی طرح مصنوعی گلیشیئر نہیں پال سکتے؟ پال تو سکتے ہو پر ہڈ حرام ہو گئے ہو۔‘‘

بہ بہت بڑا حملہ تھا جوان نسل کی عزت نفس اور پندار غرور پر۔

بس تو سب اٹھ گئے تھے۔ کہاں کی سیر اور کہاں کے پروگرام سب ختم ہوئے۔ اب ٹولہ اس جگہ کا متلاشی ہوا جہاں گلیشیئر پالا جائے اور اس سے ساری بستی فائدہ اٹھائے جگہ کا انتخاب ہوا۔ قدیم ترین گلیشئیروں کے بارے میں بوڑھوں سے معلومات حاصل کی گئیں۔ انہوں نے دو باتوں کی تاکید کی۔ آج بھی جب یاد کرتا ہوں تو چھغو آتا روزی خان کی باتیں کانوں میں گونجنے لگتی ہیں۔

بچہ نیا خون ہے تمہارا مجھے امید ہے پرانے گلیشیئروں سے منوں وزنی یخ کے ٹکڑے لانے میں تمہیں تھکاوٹ تو محسوس نہیں ہو گی۔ لیکن ہوئی تو سستانا نہیں۔ ایک پل کے لئے کسی جگہ رکنا بھی نہیں بس چلتے رہنا ہے مسلسل۔

’’دوسرے بچہ! ہونٹوں کو بند رکھنا ہے۔ تم لڑکے بالے ہنسی مخول سے نہیں رکتے ہو۔ پر یاد رکھنا یخ لانے کے عمل میں بات چیت منع ہے۔‘‘

میں ذرا منہ پھٹ قسم کا نوجوان تھا۔ بول اٹھا تھا۔ چھغو آتا! بھلا بولنے سے کیا ہو جائے گا؟ اور چھغو آتا روزی خان نے میری بات کابرا مانتے ہوئے کہا تھا۔

بچہ بحث کی کیا بات ہے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ آزمانا چاہتے ہو آزما لو گلیشیئر کبھی پھل پھول گیا تو روزی خان کا نام بدل دینا۔

تیسری تاکید اور احتیاط جو ہوئی وہ یہ تھی کہ یخ کم از کم دو مختلف الجنس یعنی نر و مادہ، گلیشیئروں سے علیحدہ علیحدہ لا نا لازمی ہے۔ انہوں نے نر و مادہ گلیشیئروں کی نشاندہی بھی کر دی تھی۔

چلتے چلتے انہوں نے ہمیں یہ بھی کہا تھا۔ بچو خیال رکھنا یخ کے بوجھ کی تعداد بھی دونوں جنس کے گلیشیئروں سے طاق عدد میں لانا ضروری ہے۔

مجھے کچھ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے گل بانو نے مجھ سے جانے کس جنم کا بدلہ لیا ہے۔ مگر اب تو اوکھلی میں سردے دیا تھا۔

نر اور مادہ گلیشیئروں سے منوں وزنی برف کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر لانے میں کس قدر دشواری ہوئی تھی۔ یہ یقیناً بتانے والی بات نہیں۔ دو ماہ اس کام میں لگ گئے۔ یخ کو دبانے کے لئے جب ہم پہاڑوں پر گڑھے کھودے تھے۔ میرا ساتھی حسین بولا تھا۔

’’اگر ان گڑھوں سے کہیں سونا نکل آئے تو ہم کتنے امیر ہو جائیں۔‘‘

اور علی کاظم نے جواباً حسرت سے کہا تھا۔

’’تو سمجھتا ہے ہم اتنے نصیب والے ہیں۔ ارے ہمارے مقدروں میں مزدوریاں ہیں، مزدوریاں۔‘‘

یخ کو گڑھے میں دبانے کے بعد اس پر منوں کی تعداد میں کوئلہ اور بھوسہ ڈالا تھا۔ اس کے اوپر ایک جھونپڑی بنائی تاکہ دبی ہوئی برف پر ہمہ وقت سا یہ رہے۔ جب تک گرمیاں رہیں ہم مشکیزوں میں پانی بھر بھر کر اس پر یوں رکھتے کہ قطرہ قطرہ نیچے ٹپکتا رہے۔ جب برف باری کا موسم ہوا تو گزوں کے حساب سے کچی برف لا کر اس پر ڈالی۔ چار سال تک میں نے اور میرے ساتھیوں نے اس گلیشیئر کی یوں دیکھ بھال کی جیسے ماں اپنے پہلوٹھی کے بچے کی کرتی ہے۔ ہر چار ماہ بعد ہم یہ جاننے کے لئے مرے جاتے کہ یہ اب جڑیں مضبوط کر بیٹھا ہے اور بڑھنے اور پھیلنے کا عمل شروع ہو گیا ہے یا نہیں۔

پتہ نہیں کہ ہماری حددرجہ مخلصانہ کاوشوں کا نتیجہ تھا یا ہماری دعاؤں کا اثر تھا کہ وہ مصنوعی گلیشیئر اتنا پھیلا کہ قدرتی گلیشیئروں کو مات دے گیا۔

قلان کی سرسبز وادی اس کی مرہون منت ہے۔

گل بانو مسکراتی ہوئی قہوے کی پیالیاں ہاتھوں میں پکڑے آئی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں سنہری بھاپ اڑاتی پیالی تھماتے ہوئے وہ ہنسی تھی۔

اور میں نے چار سال تک اس گیت کے سہارے وقت کاٹا تھا۔ میں گاتی تھی۔

اور میرے خوب صورت مراد خان۔

میں سوچتی ہوں تمہیں وہاں پیاس لگے گی۔

میں پگلی تیرے لئے پینے کا پانی بن جاؤں۔

میرے مراد خان!

میں سوچتی ہوں تم وہاں دھوپ میں جلتے ہو گے۔

میں سوچتی ہوں تم وہاں تھک جاتے ہو گے۔

میں پگلی تیری سواری کے لئے گھوڑا بن جاؤں۔

لیکن میں کیا کروں؟

میں مراد خان سے دور ہوں۔

٭٭٭







باب نمبر 39





اس کے نہ نہ کرنے پر بھی غلام حیدر اور سکینہ اسے رونگ کھر دکھانے کے لئے گھسیٹ کر لے گئے۔ اس نے بہتیرا شور مچایا کہ وہ کھروں کو دیکھنے تو ہرگز نہیں جائے گی۔ لیکن انہوں نے بھی اس کی ایک نہ چلنے دی۔ ساتھ لے کر ہی ٹلے۔

رونگ کھر کشمیری اور بلتی طرز تعمیر کا دل کش مرقع جو مہندی اور دریائے سندھ کے درمیان ایک اونچے مقام پر واقع ہے۔ ٹوٹی پھوٹی صورت میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ غلام حیدر سے جھگڑتی تھی کہ اب یہاں دیکھنے والی کیا شے تھی۔ کرب اندر سے چھلک کر باہر آ جا تا تھا۔

غلام حیدر مردان خانے اور زنان خانے اسے دکھاتے ہوئے کہتا ہے۔

’’ارے بابا آثار قدیمہ میں بھی دلچسپی رکھو۔ یہ بھی تو عبرت کی جگہیں ہیں۔ ان سے بھی کچھ سیکھنے کی کوشش کرو۔ دیکھو غور سے دیکھو یہ دیوان عام اور دیوان خاص ان بالکونیوں اور شہ نشینوں والی غلام گردشوں کو۔ تمہیں شاید تھوڑا سا اندازہ ہو کہ ان میں رہنے والوں پر وہ وقت بھی آیا کہ جب ان کے اپنے اعمال کی بدولت ڈوگرہ فوج غالب ہوئی۔ انہوں نے اس سات منزلہ عالیشان محل میں بسنے والوں کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے مضبوط محلوں اور قلعوں سے نکل نشیبی علاقوں میں رہیں۔ راجہ علی شاہ کو یہ محل چھوڑنا پڑا تھا۔ یوں یہ بیسیوں سالوں تک غیر آباد اور ویران پڑا رہا اور اب زمانے کی گردش کی ہاتھوں بوسیدہ ہو کر کھنڈرات میں بدل گیا ہے۔‘‘

غلام حیدر اس کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

’’میری بیٹی! تو ابھی سے حوصلہ ہارے بیٹھی ہے۔ ارے ابھی تو میں تمہیں ستق لے جانا چاہتا ہوں۔ طور میک سے زیادہ دور نہیں علی شیر خان نے جب گلگت اور چترال کو فتح کیا تو ان علاقوں کی نگرانی کے لئے استک میں نالہ کے کنارے اونچی جگہ پر بہت مضبوط اور مستحکم قلعہ بنوایا۔‘‘

’’ چھوڑو بھیتی تی آتا۔ کوئی پر فضا، پر رونق اور دلفریب جگہ دکھاؤ کیا کھروں اور قلعوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔‘‘

اور جب وہ لوگ واپس آ رہے تھے۔ سکینہ نے کہا۔

’’میرا خیال ہے دو تین دنوں تک ہمیں اپنے گھر چلے جانا چاہیے۔‘‘

غلام حیدر بولا۔

’’چچی چاہتی ہے ہم پندرہ شعبان کا تہوار منا کر جائیں۔ میرے خیال میں تو چودہ شعبان میں چند دن باقی ہیں۔‘‘

سکینہ چپکی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے یہ کہا کہ وہ یہ اہم مذہبی تہوار اپنے گھر جا کر خصوصی اہتمام سے منانے کی متمنی ہے۔ تو غلام حیدر نے غصے سے بھڑک کر یہ ضرور کہنا ہے۔

’’سکینہ یہ بھی تو اپنا گھر ہے۔‘‘

جب وہ لوگ گھر پہنچے غلام فاطمہ کے پاس تر نہ (سیکرٹری تنظیم مذہبی رسومات) بیٹھا ہوا تھا وہ عرس کی شام کو خیراتی کھانے کے لئے چندہ لینے آیا تھا۔ غلام فاطمہ نے اس سے کہا تھا۔

’’میں چاہتی ہوں اس بار یہ کھانا میں دوں اور قصیدہ خوانی کی محفل سب سے پہلے میرے گھر میں منعقد ہو۔ بس یوں لگتا ہے جیسے یہ میری زندگی کا آخری سال ہو۔‘‘

تین شعبان سے قصیدہ خوانی کی محفلوں کا زور و شور شروع ہو گیا۔ نو شعبان کو جناب عارف الحسینی سکر دو سے روندو تشریف لا رہے تھے۔ ایک جید عالم کے استقبال کی تیاریاں اپنے نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی تھیں۔

چودہ شعبان کو غلام فاطمہ کے گھر کی عقبی گراؤنڈ میں بہت بڑا اجتماع ہوا۔ گوشت کی دیگیں پکیں۔ تنور کی روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے میں اس نے بھی زور و شور حصہ لیا۔

بڑی بڑی سینیوں میں شوربہ ڈال کر روٹیوں کے ٹکڑے بھگو دئیے گئے۔ ایک ایک سینی پر پانچ پانچ مرد بیٹے بوٹیاں ان کے ہاتھوں میں دی گئیں۔ یہ سب دیکھ کر اس نے سکینہ سے کہا۔

’’بھلا آمو! بوٹیاں بھی سینی میں رکھ دی جائیں تو کچھ حرج ہے۔‘‘

’’ہاں بیٹی! حرج ہے۔ طاقتور ساری کھا جائے گا اور بے چارہ مسکین منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ ہاتھوں میں دینے سے مساوات کا عمل پورا ہوتا ہے۔‘‘

چودہ شعبان کو تہوار منا کر وہ واپسی کی تیاریوں میں تھے۔ غلام فاطمہ کی طبیعت اب بہتر تھی یوں وہ چاہتی تھی کہ وہ کچھ دن اور رہ جائیں لیکن سکینہ کو اب جلدی تھی۔ گائیں اور بھیڑ بکریاں دادی جواری کے منجھلی بیٹے کے سپرد کی گئی تھیں۔ گائے نئے دودھ ہونے والی تھی۔

توت ابھی زیادہ نہیں پکتے تھے۔ پھر بھی ان میں رس اور مٹھاس کا فی تھی۔ غلام فاطمہ نے ڈھیر سارے تڑوا کر لفافے میں بھر دیئے۔

اور وقت رخصت غلام فاطمہ نے تانبے کا خوبصورت سماوار جس پر نہایت نفیس کندہ کاری کی ہوئی تھی، اسے تحفہ دیا۔ اس کا ماتھا چوما اور پھر آنے کی تاکید کی۔

٭٭٭





باب نمبر 40







بڑی بھابھی اور للی لاہور جا رہی تھیں۔ بڑی بھابھی کا مائیکہ لاہور کی نواحی آبادی شاہدرہ میں تھا۔ وہ لوگ روندو سے کل دوپہر سکر دو پہنچے تھے۔ سکینہ کا خیال اگلے دن چلے جانے کا تھا لیکن اس کی خواہش پر وہ دونوں کے لئے رک گئی۔ صبح سویرے ائیر پورٹ پر جانے کے لئے سیماں نے اس کو بھی گھسیٹ لیا تھا۔ سات بج کر دس منٹ پر جہاز کی آمد تھی اور ٹھیک آٹھ بجے پنڈی کے لئے روانگی۔

روح اللہ کے ساتھ وہ چاروں جب ائیر پورٹ پہنچیں۔ چمکتی دھوپ میں چمکتے ائیر پورٹ کو دیکھ کر اسے وہ وقت یاد آیا جب وہ پہلی بار یہاں آئی تھی۔ اس وقت فضا، لوگ اور ماحول سبھی کچھ اجنبی تھا۔ لیکن آج وہ ان سب کے ساتھ رچی بسی بیٹھی تھی۔ یوں یہ اور بات تھی کہ کہ کبھی کبھی اسے احساس ہوتا جیسے وہ ایک گہرے سمندر میں بندھے ہاتھ پاؤں کے ساتھ پانی کی لہروں پر ڈگمگاتی پھر رہی ہے، اور نہیں جانتی کہ ڈوب جائے گی، یا کسی کنارے پر پہنچ پائے گی۔

اور آسمان کی لامحدود وسعتوں پر جب اس نے نگاہ ڈالی، اسے بہت دو وہ مشینی پرندہ نظر آیا تھا جو اپنے سینے میں سینکڑوں انسانوں کو سموئے ہوئے تھا۔ فضا میں شور اور گڑگڑاہٹ پیدا ہوئی۔ زمین پر ہلچل مچی اور سروں پر منڈلاتا ہوا وہ زمین پر آ گیا۔

کچھ نئے نویلے جوڑے مقامی لوگ پھر دفعتاً اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ چکرا کر زمین پر گرنے والی ہے۔ اس نے سیماں کو پکڑ لیا تھا۔ سیماں نے گھبرا کر اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ سفید پڑا ہوا تھا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ سیماں نے اسے فی الفور اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔

اس نے سر جھٹکا، لمبی سانس لی اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔

’’کچھ نہیں جان، بس ذرا چکر آ گیا تھا۔‘‘

بڑی بھابھی روح اللہ کے ساتھ اندر چلی گئی تھیں۔ سیماں یہ جاننے کے لئے مضطرب تھی کہ آخر اسے ہوا کیا؟ اس نے ایک بار نہیں جب کئی بار اس سے پوچھا۔ تب اس نے کہا۔

’’سیماں میں نے اپنی پھوپھی زاد بہن کو دیکھا ہے۔ ساتھ میں کوئی مرد بھی ہے۔ شاید اس کی شادی ہو گئی ہے۔‘‘

’’کہاں کدھر؟‘‘ وہ بے تابی سے بولی اور پھر اس کا بازو کھینچ کر اسے عمارت کی جانب گھسیٹتے ہوئے بولی۔

’’آؤ نا اس سے ملتے ہیں کچھ معلوم تو ہو تمہارے بعد کیا ہوا؟‘‘

اور ثریا نے اسے اپنے سامنے دیکھ کر عجیب سی بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔ اس کا تو خیال تھا کہ وہ اس کی صورت دیکھتے ہی اس سے لپٹ جائے گی۔ اس کے یوں غائب ہو جانے کا سبب پوچھے گی۔ اس کی آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو ہوں گے۔ جو کہف الوریٰ کو

یقیناً بتائیں گے کہ خونی رشتوں کا تقدس ابھی پامال نہیں ہوا۔

لیکن کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ ثریا کے چہرے کے تاثرات ناقابل فہم سے تھے۔ اس کا ناٹے سے قد کا خاوند البتہ کافی خوش اخلاق اور ملنسار سا نظر آتا تھا۔ وہ شاید ڈاکٹر تھا۔ ثریا نے تعارف کرواتے ہوئے یہی کہا ڈاکٹر ریاض میرے شوہر۔

اور ڈاکٹر ریاض کی آنکھوں سے چھلکتے اس سوال پر کہ وہ کون ہے۔ ثریا ایک لمحہ توقف کئے بغیر بولی تھی۔

’’میری کزن ہے۔ یہاں سروس کرتی ہے۔‘‘

اور ڈاکٹر ریاض نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

’’کمال ہے تم نے ایک بار ذکر نہیں کیا۔ دور پار کی رشتہ داری معلوم ہوتی ہے۔‘‘

’’جی ہاں، جی ہاں۔‘‘ ثریا نے فوراً تائید میں سر ہلا دیا۔

اور اس نے سیماں کا ہاتھ پکڑ کر ڈوبتے ہوئے لہجے میں اس سے کہا۔

’’آؤ چلیں۔‘‘

لیکن سیماں نے اس کی بات اس کا لہجہ نظر انداز کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ وہ کتنے دن کے لئے آئے ہیں اور کہاں ٹھہرنا چاہتے ہیں؟

شنگریلا کا سن کروہ بولی۔

’’ بہرحال اس وقت تو آپ ہمارے مہمان ہیں۔ چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر ہم آپ کو شنگریلا چھوڑ آئیں گے۔‘‘

ثریا جانے کے لئے آمادہ نظر نہیں آئی تھی۔ لیکن ڈاکٹر ریاض فی الفور تیار ہو گیا۔ وہ اس حادثے پر جو اچانک وقوع پذیر ہوا تھا، کافی خوش تھا۔ اس کا خیال تھا کسی بھی نئی جگہ سے لطف اندوز ہونے کے لئے مقامی لوگوں کا تعاون ناگزیر ہے۔

باہر نکلے تو روح اللہ ان کے انتظار میں کھڑا تھا۔ تعارف ہوا۔ جہاز واپسی کے لئے پرواز کرنے والا تھا۔ اس نے حسرت سے اسے دیکھا اور کہا۔

’’میرے پیارے لاہور کو میرا پیار دینا، کہنا وہ مجھے یاد آتا ہے۔‘‘

اور جب بھابھی اور للی سینکڑوں دوسرے مسافروں کے ساتھ فضا میں گم ہو گئیں وہ سب جیپ میں بیٹھے اور گھر آئے۔ اس تمام وقت میں اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ثریا اپنے خاوند سے پردہ داری چاہتی تھی۔ لیکن وہ حیرت زدہ سی تھی کہ کیوں؟

نشست گاہ میں جب روح اللہ اور ڈاکٹر ریاض باتوں میں جت گئے۔ سیماں، ثریا کو دوسرے کمرے میں لے آئی۔

اور وہاں اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کی بڑی بھاوج اور جیٹھ نے مل کر اس کے بارے میں ایسی ایسی باتیں خاندان میں پھیلائیں کہ جنہیں سن کر ہی انسان مارے کراہت کے منہ بگاڑے۔ ثریا نے یہ بھی بتایا کہ رشتہ داروں کو تو یہ تاثر ملا ہوا ہے کہ وہ اپنے یونیورسٹی کے زمانے کے کسی عاشق کے پاس چلی گئی ہے اور شادی کر بیٹھی ہے۔

وہ ٹک ٹک دیدم و دم نہ کشیدم کے مصداق پھٹی پھٹی آنکھوں سے ثریا کو دیکھتی تھی۔ اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ابھی ایک پل میں اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو کر فضا میں بکھرنے والا ہے۔

سیماں جیسے تڑپ کر بولی۔

’’ارے رشتہ دار کیا اندھے گونگے اور بہرے ہیں۔ فہم سوجھ بوجھ کر پرکھ جیسے اوصاف سے خالی ہیں۔ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے سے عاری ہیں۔ نہیں جانتے ہیں یہ کیسی ہے میں اس کی رشتہ دار نہیں میرے پاس یہ گزشتہ ایک سال سے ہے۔ میں تو بہت کچھ جانتی ہوں اس کے متعلق۔‘‘

ثریا شرمسار سی نظر آتی تھی۔ سیماں جیسی تیز طرار اور کھری کھری باتیں کہہ دینے والی بھلا اسے کہیں بخشتی۔ اس نے جی بھر کر سب کو لتاڑا۔

کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد وہ لوگ چلے گئے۔ انہیں چھوڑنے صرف روح اللہ ہی گیا تھا۔ روح اللہ کا خیال تھا کہ انہیں رات کے کھانے کا کہا جائے۔ لیکن سیماں نے منع کر دیا۔

وہ گم سم ہو گئی تھی۔ سیماں محسوس کرتی تھی کہ اس نے اپنے دل پر اثر لیا ہے۔

وہ اس کے قریب آئی۔ اس کی آنکھوں میں جھانکا، اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں تھاما اور بولی۔

’’ میری جان! یہ دنیا ہے خود غرضی اور مفاد کے دامن سے لپٹی دنیا۔‘‘

اس نے نچلا ہونٹ دانتوں تلے کاٹتے ہوئے بے بسی سے کہا۔

’’تم روح اللہ، تمہارے گھر کے افراد، غلام حیدر اور سکینہ، شاہ جہاں اور اس کا گھرانہ کیا ماورائی مخلوق ہیں۔ تمہارا اس دنیا میں شمار نہیں۔ سیماں میری جان! دنیا کو اتنا خراب مت کہو۔ اس میں تم جیسے لوگ بھی ہیں۔‘‘

سکینہ حیران تھی کہ اسے کیا ہوا ہے؟ غلام حیدر تو کسی سے ملنے گیا ہوا تھا۔ وہ تو صورت حال سے یکسر بے خبر تھا۔ لیکن سکینہ کا اندر بوٹیوں میں کٹتا تھا۔ وہ بار بار سیماں سے پوچھتی تھی کہ آخر آنے والی نے کیا باتیں کی ہیں جو یہ یوں چپ سادھ بیٹھی ہے۔

دوپہر کے کھانے پر اس نے معذرت کر دی۔ سیماں اور سکینہ نے صرف ایک نوالہ کھانے کے لئے اس کی منتیں کیں۔ سیماں اس کی خوفناک قسم کی خاموشی سے خوفزدہ سی تھی۔ اسے احساس تھا کہ وہ دوسروں پر اپنا ظلم ظاہر کئے بغیر اندر ہی گھلنے والے لوگوں میں سے ہے۔ اسی لئے وہ چاہ رہی تھی کہ وہ باتیں کرے۔ اپنے غم و غصے کا اظہار کرے۔ دل کی بھڑاس نکالے۔ روئے اور ہلکی ہو جائے۔

پر وہ کوئی اتھلا انسان تھی۔ اس نے خود پر ضبط کرنا سیکھ لیا تھا۔ اس وقت اسے اگر فکر لاحق تھی تو صرف یہ کہ بلاوجہ ان لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث بنی ہے غلام حیدر اورسکینہ اس کے لئے پریشان ہیں۔ بھلا وہ اگر انہیں خوشیاں نہیں دے سکتی تو اسے غم دینے کا بھی حق نہیں۔

وہ یہاں سے چلی جائے ابھی اور اسی وقت لیکن وہ اتنے سارے من موہنے لوگوں کے جذبات کچل کر جا بھی نہیں سکتی تھی۔ چپ چپاتے نکل جانے کے لئے وقت درکار تھا۔

اسے تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ رشتوں کا مان زور اور ان کا بھرم کیا صرف اس وقت تک ہے۔ جب تک انہیں چُوری ملتی ہے یا کوئی زبردست انہیں بزور بازو منواتا رہے۔ اس کی یہی پھوپھی جس کی بیٹی نے آج اس سے اچھوتوں جیسا سلوک کیا۔ اس کے باپ کی زندگی میں کیسے واری صدقے ہوتی تھی۔

اب کون تھا؟ بھلا وہ اس کے لئے اس کی صاحب جائیداد بھاوج اور سسرال سے کیوں بگاڑتی۔ زبردست کے سامنے کلمہ حق کہنے کی توفیق تو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔

٭٭٭







باب نمبر 41





اور پھر وہی ہوا تھا جس کا سیماں کو ڈر تھا۔ شاید اسی لئے وہ چاہتی تھی کہ وہ اپنے دل و دماغ پر چھائی ہوئی غم و الم کی گھٹایا تو اپنی زبان کے راستے آندھی کی صورت میں اڑا دے۔ یا پھر آنکھوں کے ذریعے آنسوؤں کی بارش سے ہلکی کر دے۔

وہ لیٹ گئی تھی۔ سکینہ اس کے پاس ہی قالین پر بیٹھی تھی۔ جب بھی وہ اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کرتی۔ وہ آنکھوں سے اسے ’’ ٹھیک ہوں‘‘ کا اشارہ دیتی۔ چار بجے کی چائے جب للی اس کے لئے لائی۔ تو اس کی چیخ سی نکل گئی۔ اس کا چہرہ پسینہ پسینہ ہو رہا تھا اور وہ بے ہوش تھی۔ اس نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیاں جب سیماں کو اس امر کی اطلاع دی تو وہ بھاگتی ہوئی آئی۔ سکینہ کمرے میں نہیں تھی۔ اس پر نظر پڑتے ہیں سیماں ’’ روح اللہ دیکھو تو سہی آ کر‘‘ کہتے ہوئی اس زور سے چلّائی کہ روح اللہ اپنے کمرے سے اور سکینہ باہر لان سے کمرے میں بھاگتے ہوئے آئے تھے۔

سیماں اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھامے اسے آوازیں دیتی اور جھنجھوڑتی تھی۔

سکینہ پاس کھڑی سینہ کوٹتی تھی۔ روح اللہ بوکھلا یا ہوا ڈاکٹر کو فون کر رہا تھا۔ ڈاکٹر کے فوراً پہنچنے کا سن کر وہ کمرے میں آیا۔ سیماں کا اضطراب دیکھ اس نے اسے ڈانٹ دیا تھا۔

’’کیا احمقوں کی طرح واویلا مچایا ہوا ہے۔ ہاتھ پیر پھیلا دئیے ہیں۔ تحمل اور برداشت سیکھو۔‘‘

ڈاکٹر نے آ کر معائنہ کیا حالات پوچھے۔ سیماں نے اصلی واقعات کو چھپاتے ہوئے یہ بتایا۔ ان کی کزن نے کسی عزیز کی ناگہانی موت کی اطلاع دی تھی۔

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ نروس بریک ڈاؤن ہو گیا ہے۔ اسپتال لے جانا بہت ضروری ہے۔

ایمبولینس آئی اور لے گئی۔ اسے سکر دو اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا گیا۔

سیماں کو کچھ سمجھ نہیں آتی تھی۔ اس نے روح اللہ سے بات کی کہ ڈاکٹر ابراہیم کو فون کر دوں۔ اس نے کہا۔

’’رہنے دو، ابھی ضرورت نہیں۔‘‘

لیکن سیماں کو کہاں قرار تھا۔ روح اللہ جب دوبارہ اسپتال گیا اس نے خپلو فون کر دیا۔ ڈاکٹر ابراہیم سے ہی بات ہوئی انہوں نے سن کر صرف اتنا کہا۔

’’میں فوراً پہنچ رہا ہوں گھبرانا نہیں۔‘‘

رات آٹھ بچے وہ خپلو سے چلے اور دو بجے سکر دو پہنچے۔ سیدھے اسپتال آئے۔ اسے دیکھا۔ ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ سکینہ کمرے میں بینچ پر بیٹھی غالباً قرآنی آیات پڑھتی تھی۔ سیماں ایک بجے اسپتال سے گئی تھی۔ غلام حیدر کو بھی سیماں زبردستی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔

صبح دس بجے اس نے آنکھیں کھولی تھیں۔ ہر سو ایک غبار سا پھلا ہوا تھا۔ اس غبار میں ایک چہرہ اسے ڈاکٹر ابراہیم کا نظر آیا تھا جو کسی سنگی بت کی طرح اس کے بیڈ کے پاس ایستادہ تھا۔

دوسرا سکینہ کا چہرہ جو اس سے دور لکڑی کی بنچ پر بیٹھا تھا۔ دونوں چہروں کے تاثرات کیا تھے۔ یہ سمجھ آنے سے پہلے وہ پھر غنودگی کے دریا میں غوطہ مار گئی تھی۔

چار بجے اس نے پھر آنکھیں کھولیں۔ ہوش کا یہ وقفہ نہ صرف طویل تھا بلکہ اس میں غبار بھی بہت کم محسوس ہوا تھا۔ سیماں، روح اللہ، غلام حیدر، سکینہ سبھی کو اس نے صرف پہچانا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ ٹھیک ہے۔

سیماں اس کے چہرے پر جھکی کہتی تھی۔

’’دیکھو ہم سب تمہارے لئے فکر مند ہیں، پریشان ہیں۔ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو۔ ہمارے لئے زندہ رہو۔ ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔‘‘

ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر ابراہیم آئے۔ وہ پوری طرح ہوش میں تھی۔ لیکن اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کی رگ رگ میں سے کسی نے توانائی کی حرارت کشید کر لی تھی۔

وہ جھکے اس کی آنکھوں میں جھانکے اور لہجے میں شہد جیسی مٹھاس گھولتے ہوئے بولے۔

’’ارے تو تمہیں بہت بہادر اور دلیر سمجھتا تھا۔‘‘

’’دلیر تو میں ہوں ڈاکٹر صاحب! بس چاہنے والوں کی محبت اور خلوص نے بزدل بنا دیا ہے۔‘‘

ڈاکٹر ابراہیم جس جانفشانی سے اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے، وہ اس پر شرمسار

تھی۔ ایک دن کہہ بیٹھی۔

’’آپ مجھ پر احسان پر احسان کئے جا رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی میں ان کا بدلہ کیونکر اور کیسے چکا سکوں گی؟‘‘

وہ اس وقت اسے انجکشن لگانے کی تیاری میں تھے۔ ان کا ہاتھ اک ذرا رکا۔ ان کے چہرے کا رنگ بھی اس بات پر کچھ عجیب سا ہوا۔ تاہم وہ اپنے اسی متحمل انداز میں بولے تھے۔

’’آپ کا علاج اور دیکھ بھال ڈاکٹر ہونے کے ناطے میرا فرض ہے۔ میں اسے احسان یا مرعوب کرنے کے کھاتے میں ڈالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ خدا کے لئے آپ بھی ایسا مت سوچیں۔‘‘

سرخ کمبل اس کے ہونٹوں تک کھنچا ہوا تھا۔ وہ سامنے دیوار پر ٹنگی اس تصویر کو دیکھتی تھی جس پر کے ٹو کی چوٹیوں کے برفانی حصے نمایاں تھے۔ کمرہ چھوٹا ہونے کے باوجود بہت آرام دہ تھا۔ سکینہ کو اس نے زبردستی گھر بھیجا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر وہ فی الفور چارپائی سے اٹھ جانا چاہتی تھی۔ اس کی بھیڑ بکریاں اور گائے بھینسیں، جن کا خیال اُسے روندو میں بھی پریشان رکھتا تھا، سب اس کے دماغ سے محو ہوئے بیٹھے تھے۔ اس نے بہتر زور دیا تھا کہ وہ دونوں چھوربٹ چلے جائیں۔ وہ اب کچھ بہتر ہے۔ ذرا اور ٹھیک ہونے پر فوراً ان کے پاس پہنچ جائے گی لیکن وہ دونوں اس کی بات پر کان نہیں دھرتے تھے۔

سیماں اور روح اللہ کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ واقعات اور حادثات نے خونی اور غیر خونی رشتوں کے بارے میں جو وضاحت کی تھی، اس نے کئی مقولوں اور محاوروں کے بخیئے اُدھیڑ ڈالے تھے۔ بس ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اغراض کے سامنے انسان کس قدر پست ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر ابراہیم کے بارے میں وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ جب بھی اس کا ذہن اس موضوع پر آیا۔ اس کی آنکھیں گیلی ہو گئیں اور گلا رُندھ گیا۔

پھر ایک دن جب وہ آنکھیں بند کئے لیٹے تھی۔ ڈاکٹر ابراہیم کمرے میں آئے۔ اسے سوتا دیکھ کر جانے لگے۔ جب اس نے آنکھیں کھول کر انہیں آواز دی۔ وہ واپس پلٹے اور بولے۔

’’ میں نے سوچا تھا چائے آپ کے ساتھ پیوں۔‘‘

نوکر برتنوں کی ٹرے اندر لایا۔ وہ اس کے بیڈ کے قریب پڑی کرسی پر بیٹھے۔ چائے بنائی۔ ایک کپ اسے دیا اور دوسرا خود پکڑا چائے کا گھونٹ لیا اور بولے۔

’’خدا کا شکر ہے کہ علاج کے سلسلے میں آپ کا جوابی رویہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ آپ کی بحالی صحت کی اس تیز رفتاری کی مجھے امید نہیں تھی۔‘‘

’’کبھی کبھی اپنے لئے نہیں، دوسروں کے لئے جینا پڑتا ہے۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ کچھ لوگ صرف میرے لئے پریشان ہیں۔‘‘

ڈاکٹر ابراہیم نے خالی کپ ٹرے میں رکھا۔ کمر کرسی سے ٹکائی اسے دیکھا۔ اس نے فی الفور اپنی نگاہوں کا رخ بدل لیا۔

’’کہف الوریٰ۔‘‘ ان کی آواز اسے یوں محسوس ہوئی تھی جیسے بہت دور سے آتی ہو۔

’’ایک بار پھر آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘

اس کے چہرے پر دکھ کی بے چارگی پھیل گئی۔ جب اس نے کہا۔

’’ڈاکٹر صاحب! میں ٹوٹی پھوٹی عورت ہوں۔ پریشان اور شکستہ حال۔‘‘

اس کی آواز بھی دکھ سے بوجھل تھی۔

وہ خفیف سا ہنسے۔ یہ ہنسی یاس بھری تھی۔

’’مجھے ٹوٹی پھوٹی چیزیں زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ میں چھوٹا سا تھا۔ جب میں مکمل اور ثابت کھلونوں کی بجائے ٹوٹے پھوٹے کھلونوں سے کھیلا کرتا۔ میری کوشش ہوتی میں انہیں، کسی طرح جوڑ دوں۔‘‘

’’آپ مجھے آزمائش میں ڈالتے ہیں معلوم نہیں سیماں نے آپ کو یہ بتایا ہے یا نہیں کہ مجھے کلر اور شور زدہ زمین کا خطاب مل چکا ہے۔‘‘

اس کی آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی آ گیا تھا۔

انہوں نے لمبی سانس بھری تہی۔ اس کی بجائے اپنے سامنے دیکھا تھا اور کہا تھا۔

’’کہف الوریٰ! مجھے بچوں کی تمنا نہیں۔ بلتستان کے ہزاروں بھوکے ننگے علم سے محروم بچے، میرے بچے ہیں۔ میں آپ کے ساتھ مل کر انہیں بھوک، بیماری اور جہالت کی دنیا سے نکال کر پاکستان کے قابل فخر شہری بنانا چاہتا ہوں۔ آپ کی ممتا اس عظیم صدقہ جاریہ پر طمانیت اور سرشاری محسوس کرے گی۔‘‘

اس کے ہونٹ کپکپائے۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب امنڈا۔

وہ اٹھے، اس کے پاس بیٹھے، اپنے ہاتھوں سے انہوں نے اس کی آنکھیں صاف کیں۔ لیکن وہ ضبط کا بند توڑ بیٹھی تھی۔ اس کا سر تھپتھپاتے ہوئے انہوں نے کہا۔

’’اور اگر پھر بھی آپ کو اپنے بچے کی تمنا رہی تو میں خدا سے آپ کے لئے بچہ مانگوں گا اور یقیناً میں محروم نہیں ہوں گا۔‘‘

پھر جیسے ان کی پانی آواز خوابناک سی ہو گئی تھی۔ وہ بول رہے تھے۔
’’اس وقت جب گروہی، صوبائی اور لسانی تعصبات کی آندھیاں آنکھوں میں ریت اور مٹی ڈال کر بینائی متاثر کر رہی ہیں۔ آؤ کہف الوریٰ ہم نئی نسل تیار کریں۔ جو ذات کے حصار سے نکل کر مجمع میں کھو جائے۔ انفرادی سود سے بالا تر ہو کر اجتماعی زیاں پر قربان ہو جائے۔‘‘
٭٭