ماخذ: کتاب ایپ
www.idealideaz.com
www.kitaabapp.com
لوہے کا چھوٹا زنگ آلود دروازہ ایک خوف ناک آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔
سیڑھیاں اُترتے وہ بری طرح چونکا اور جونہی اسے احساس ہوا کہ وہ تہہ خانے میں تنہا قید ہو گیا ہے، وہ پوری قوت سے چیخا۔ دل دوز آواز میں چلاتے ہوئے وہ بند دروازہ دونوں ہاتھوں سے پیٹنے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ دل خراش آواز میں چلا رہا تھا۔
’’کھولو… دروازہ کھولو… مجھے ڈر لگ رہا ہے … خدا کے لیے باہر نکالو… جاوید دروازہ کھولو… میں مر جاؤں گا… کامران… راشد… تم لوگوں کو اللہ کا واسطہ ہے … میرا دم نکل جائے گا… مذاق ختم کر دو… مجھے باہر نکالو…‘‘
باہر سے اس کے دوستوں کے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ جاوید کی آواز آئی۔ وہ ہنسی کے درمیان بول رہا تھا۔ ’’بس اب تم صبح تک بند رہو گے … بے فکر رہو تم تہہ خانے میں اکیلے نہیں ہو گے، تمہارے ساتھ دلجوئی کے لیے کئی جن بھوت ہوں گے … ہاہا ہا…‘‘
’’نہیں … بس بس… مذاق مت کرو…‘‘ وہ رونے لگا تھا۔ ’’تم جانتے ہو میرا دل کتنا کمزور ہے۔ میں مر جاؤں گا… مجھے باہر نکال دو…‘‘
’’تیرا دل کمزور ہے ناں …؟ ہم تمہیں بہادر بنانے کے لیے بھوتوں کے پاس چھوڑے جا رہے ہیں … ایک ہی رات میں تم بہادر بن جاؤ گے۔‘‘ کامران کھلکھلا کر ہنس دیا۔
’’نہیں نہیں ایسا مت کرو… یہاں بہت اندھیرا ہے … مجھے اندھیرے سے خوف آتا ہے … پلیز دروازہ کھول دو…‘‘ وہ گڑ گڑا کر التجائیں کر رہا تھا۔
’’دھت تیرے کی…‘‘ راشد جھنجلانے کی اداکاری کرتا ہوا بولا۔ ’’اندھیرے سے ڈر لگ رہا ہے … اور جب بھوتوں سے ملاقات ہو گی تب کیا ہو گا؟ اور ہاں … بھوتوں سے معلوم کر لینا… انہیں کھانے میں کیا کیا پسند ہے … ویسے میرے خیال میں وہ انسانی گوشت بڑے مزے سے کھاتے ہیں … کیوں بھئی… کھاتے ہیں ناں؟‘‘
’’ہاں ہاں بالکل…‘‘ کامران اور جاوید کی ہنستی ہوئی تائیدی آوازیں سنائی دیں۔
’’د… در… دروازہ کھول… لو…‘‘ دوستوں کی باتوں سے اس کا دم خشک ہوتا جا رہا تھا۔
’’گڈ نائٹ فرینڈ… صبح ملاقات ہو گی…‘‘ قدموں کی آوازیں دور ہونے لگیں۔
وہ حلق پھاڑ کر چلایا۔ ’’رکو… رکو… دروازہ کھولو… مجھے باہر نکالو… رک جاؤ… کامران… جاوید… راشد… تم… آہ … کامران… تم میرے سب سے اچھے دوست ہو… مجھے باہر نکالو…‘‘ وہ روتا رہا بولتا رہا۔
تینوں ساتھی وہاں سے جا چکے تھے اور اب وہ تھا اور تہہ خانے کا ہولناک اندھیرا اور بھیانک سناٹا۔
جاوید، کامران، راشد اور آصف… چاروں دوست کراچی سے بائی روڈ لاہور جا رہے تھے۔ پندرہ دن کا تفریحی پروگرام تھا۔ ضرورت کی تمام اشیاء انہوں نے ساتھ لے لی تھیں۔ سفر کے لیے جاوید کی پرانے ماڈل کی مضبوط ٹویوٹا کرولا تھی۔ انہیں کوئی جلدی نہیں تھی، اس لیے کار مناسب رفتار سے سڑک ناپ رہی تھی۔ جاوید کار ڈرائیور کر رہا تھا۔ برابر میں آصف بیٹھا تھا، جب کہ عقبی نشست پر راشد اور کامران بیٹھے ہوئے تھے۔ جاوید نے کن انکھیوں سے آصف کی جانب دیکھا۔ وہ ان سے لا تعلق دور کھیتوں میں دیکھ رہا تھا۔ جاوید نے بیک ویو مرمر سے عقبی سیٹ پر بیٹھے ہوئے کامران اور راشد کو دیکھا اور معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے آنکھ سے اشارہ کیا۔ دونوں سمجھنے والے انداز میں مسکرانے لگے گویا وہ جاوید کا اشارہ جان گئے تھے۔
آصف ان سے بے خبر تھا۔ تینوں جانتے تھے کہ آصف بہت ڈرپوک ہے۔ انہوں نے آپس میں پہلے ہی ایک دل چسپ پروگرام بنا لیا تھا۔ جاوید پہلے بھی متعدد مرتبہ اس طرح کے سفر کر چکا تھا۔ تقریباً آدھے سفر کے بعد ایک قصبہ پڑتا تھا اور قصبے سے کچھ آگے جا کر ایک بہت پرانی عمارت تھی، جو کبھی کسی دور میں محکمہ جنگلات والوں کے استعمال میں رہی تھی۔ عرصہ دراز سے اب وہ خالی پڑی تھی۔ قصبے میں رہنے والا ایک شخص وہاں کا چوکیدار ہوا کرتا تھا، جو نا صرف وہاں چوکیداری کرتا تھا، بلکہ وہاں ٹھہرنے والے افسران کے لیے باورچی کے فرائض بھی انجام دیا کرتا تھا، مگر جب محکمہ جنگلات والوں کے لیے کسی دوسری جگہ نئی اور جدید عمارت کا بندوبست ہو گیا تو پرانی عمارت ویرانی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ کچھ عرصہ تک تو چوکیدار وہاں کی دیکھ بھال کرتا رہا، مگر پھر وہ ہمیشہ کے لیے قصبے میں چلا گیا۔ حوادث زمانہ کے سبب عمارت دھیرے دھیرے کھنڈر میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور اب وہاں سوائے حشرات الارض، مکڑیوں، پرندوں اور چمگادڑوں کے علاوہ اور کوئی ذی حس نہیں رہتا۔
جاوید کو ان تمام باتوں کا علم تھا۔ وہ کچھ ماہ قبل بھی ادھر آ چکا تھا۔ دن کے وقت اس نے عمارت کو اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ اور قصبے کا ایک شخص بھی تھا، جس نے اسے عمارت سے متعلق باتیں بتائی تھیں۔ اسی مقامی شخص نے عمارت میں موجود تہہ خانہ بھی دکھایا تھا، جو پہلے کبھی محکمہ جنگلات والوں کا ریکارڈ روم ہوا کرتا تھا۔ وہاں دیمک زدہ ٹوٹی پھوٹی لکڑی کی الماریاں، کرسیاں اور میزیں اب تک موجود تھیں۔ ریکارڈ کی بے کار فائلیں اور کاغذات اب بھی وہاں پڑے تھے، جنہیں چوہوں نے کتر ڈالا تھا۔
اب دوبارہ جاوید اپنے دوستوں کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ اس نے راشد اور کامران کو محکمہ جنگلات کی پرانی عمارت اور تہہ خانے سے متعلق بتا دیا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے پروگرام سے بھی آگاہ کر دیا کہ وہ گاڑی کی خرابی کا بہانہ کر کے اس عمارت میں جائیں گے، تاکہ رات گزار سکیں اور تہہ خانے میں آصف کو دھوکے سے بند کر دیں گے۔ تینوں جانتے تھے کہ آصف اول درجے کا بزدل اور ڈرپوک انسان ہے۔ کتنا مزہ آئے گا، جب آصف پوری رات ایک اندھیرے تہہ خانے میں گزارے گا۔ دوسری صبح وہ آصف کا خوب مذاق اڑائیں گے۔ بے چارہ آصف اپنے دوستوں کے اس منصوبے سے قطعی لا علم تھا۔ اگر اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے ساتھی اس کے ساتھ ایسا مذاق کرنے والے ہیں تو شاید وہ پیدل ہی واپس پلٹ جاتا، مگر ان کے ساتھ جانا گوارا نہیں کرتا۔
راستے میں دو ایک جگہ انہوں نے گاڑی روکی اور کچھ آرام کے بعد دوبارہ محو سفر ہو گئے۔ جاوید اس مقام کو اچھی طرح جانتا تھا، جہاں سے کچی سڑک قصبے کی طرف جاتی تھی، مگر ابھی چند گھنٹے باقی تھے۔
سورج مغرب کی آغوش میں چھپ چکا تھا۔ سیاہ اندھیروں کے غول ہر طرف جھپٹ رہے تھے، البتہ مین سڑک پر بھاری ٹریفک اپنی مخصوص رفتار سے معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ تقریباً آٹھ بجے کا وقت تھا، جب ان کی گاڑی قصبے کی سڑک پر مڑی تھی۔ سب سے پہلے آصف ہی چونکا تھا اور انہیں اس بات کی توقع تھی۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ اس نے جلدی سے اپنی طرف کا شیشہ چڑھا دیا۔’’ اِدھر کیوں آئے ہو؟ یہاں تو مجھے آگے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے … آگے کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’گاڑی تھوڑی گڑ بڑ کر رہی ہے۔‘‘ جاوید اپنی گاڑی کی رگ رگ سے واقف تھا، اس لیے جب چاہے اس میں خرابی پیدا کر سکتا تھا اور فوراً درست بھی کر دیتا تھا۔ صرف تاروں کے گچھے سے کسی ایک تار کو علیحدہ کرنا پڑتا تھا۔ اب بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا۔ گاڑی میں عجیب سی گھڑگھڑاہٹ پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے گاڑی روک لی تھی۔
’’اگر گڑبڑ کر رہی ہے تو اِدھر کیوں لے آئے اندھیرے میں؟‘‘ آصف شیشوں کے پار اندھیرے میں دیکھتا ہوا بولا۔ اس کی آواز میں خوف جھلک رہا تھا۔ ’’اگر کوئی آ گیا تو کیا ہو گا؟‘‘
’’ہش ڈرپوک…‘‘ جاوید نے اسے جھڑک دیا۔ ’’دم کیوں نکل رہا ہے۔ کوئی نہیں آتا ادھر… آگے ایک قصبہ ہے، وہاں چلیں گے۔‘‘
’’کامران، راشد… بھئی ہمیں پیدل کچھ دور چلنا ہو گا۔‘‘ وہ گردن موڑ کر کہہ رہا تھا ’’ آگے قصبہ ہے اور قصبے کے قریب ایک جگہ ہے، وہاں ہم رات بسر کریں گے۔ صبح ہی گاڑی کی خرابی کا پتا چل سکے گا۔ اس کمبخت نے بھی ابھی خراب ہونا تھا۔‘‘
’’پھر تو گاڑی ادھر ہی چھوڑنا پڑے گی۔‘‘ راشد نے چہرے پر فکر مندی کے آثار نمایاں کر لیے تھے۔
’’ہاں … گاڑی لاک کر دیں گے۔ باقی سامان رہنے دو، صرف کھانے پینے کی چیزیں لے چلو…‘‘ جاوید خود بھی پریشان نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’چلو یار اس بہانے کچھ ایڈونچر رہے گا۔‘‘ کامران نے ہنس کر آصف کی طرف دیکھا۔
’’یار… کہیں جانے سے بہتر ہم گاڑی میں ہی جیسے تیسے رات گزار لیتے ہیں …‘‘ آصف نے تجویز پیش کی۔
’’پاگل ہوا ہے کیا…؟‘‘ راشد نے آصف کو گھورا۔ ’’پوری رات یہاں ہم گاڑی میں بیٹھے بیٹھے گزاریں گے؟ صبح تک ہماری کمریں پتھر کی طرح ہو جائیں گی۔ پھر سفر کرنا تو دور کی بات… ہم سے بیٹھا بھی نہیں جائے گا۔‘‘
’’مم… مگر یار…‘‘ آصف ہکلایا ’’باہر منظر تو دیکھو، کتنا خوف ناک ہو رہا ہے۔‘‘
’’او بھائی منظر… جاوید جھلا اٹھا۔ ’’اگر تم نے یہاں گاڑی میں رات گزارنی ہے تو گزارو کم از کم ہم تینوں تو یہاں نہیں رک سکتے۔‘‘
’’چل یار آصف ہمت کر… بچوں کی طرح ڈر رہا ہے۔ وہاں چل کر آرام سے سو جائیں گے کون سا ہم تجھے اکیلا بھیج رہے ہیں ہم بھی تو تیرے ساتھ ہوں گے۔‘‘ کامران نے اس کا ہاتھ تھام کر تسلی دی۔ مرتا کیا نہ کرتا، چلنا ہی پڑا۔
الغرض وہ لوگ اشیاء خورد و نوش لے کر اور گاڑی لاک کر کے چل پڑے۔ جاوید آگے آگے چل رہا تھا۔ قصبے کے پہلو سے ہوتے ہوئے وہ ایک سمت میں بڑھتے چلے گئے۔ قصبہ مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ کبھی کبھی قصبے سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آتی تھیں۔ راستے میں ہر طرف سے جھینگروں کی ریں ریں سنائی دے رہی تھی۔ آصف… جاوید کے پیچھے تھا۔ ان کے عقب میں راشد اور کامران چل رہے تھے۔
اچانک ایک زور دار بھیانک چیخ گونجی۔
جاوید چونک گیا۔ یہ آواز اس کے لیے بھی غیر متوقع تھی۔ آصف کا سب سے برا حال ہوا تھا۔ وہ ایسے اچھلا، جیسے کرنٹ لگا ہو۔ ڈر کے مارے اس نے جاوید کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ بری طرح کانپ رہا تھا۔
کامران اور راشد زور سے ہنس دئیے۔ یہ شرارت راشد کی تھی۔ اسی نے آصف کو ڈرانے کے لیے چیخ ماری تھی۔ ’’ڈر گئے … بڑے بزدل ہو تم…‘‘ راشد ہنستا ہوا بولا۔
’’اب ایسا بھی ڈرپوک نہیں کہ ڈر گیا۔‘‘ آصف جھینپے جھینپے انداز میں کہہ رہا تھا۔ ’’بس ایسے ہی…‘‘
’’یار تم لوگ خاموشی سے نہیں چل سکتے …‘‘ جاوید بھنائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’چل سکتے ہیں …‘‘ کامران نے ہنسی دباتے ہوئے کہا۔ ’’چلو بھئی، اب سب خاموش…‘‘
باقی سفر خاموشی سے طے کیا۔ پھر دیر بعد انہیں ایک دیو پیکر عمارت کا ہیولہ نظر آنے لگا۔ یہی محکمہ جنگلات کی سابقہ عمارت تھی، جو اب خوف ناک پرانے کھنڈر کی مانند لگ رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہاں کبھی انسان آئے ہی نہیں، بلکہ صدیوں سے یہاں بھوتوں کا بسیرا رہا ہو۔ ڈر کے مارے آصف کی جان نکلے جا رہی تھی، لیکن وہ اپنے خوف کو اپنے ساتھیوں پر ظاہر نہیں ہونے دے رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لوگ پھر اس کا مذاق اڑائیں گے۔ عمارت کا مین گیٹ تو کب کا ٹوٹ چکا تھا۔ وہ لوگ اندر داخل ہو گئے۔ جاوید اور راشد نے ٹارچیں روشن کی ہوئی تھیں، جن کی مدد سے وہ لوگ وہاں کا جائزہ بھی لے رہے تھے۔ وہاں ہر شے پر مکڑیوں نے اتنے دبیز جالے بن رکھے تھے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ عمارت ان مکڑیوں کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔ ٹارچوں کی روشنیاں جہاں جہاں پڑتیں، وہاں کیڑوں اور دیگر حشرات میں ہلچل سی مچ جاتی۔ ان روشنیوں میں انہوں نے کئی موٹے موٹے گول مٹول چوہے بھی بھاگتے دوڑتے دیکھے۔ لکڑیوں کے تختے، پودوں کے سوکھے پتے، سوکھی ٹہنیاں اور پتھر، مٹی، گرد پوری عمارت میں جا بجا وافر مقدار میں موجود تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ وہ لوگ کسی بھوت بنگلے میں آ گئے ہوں۔ کتنی ہی مرتبہ ان کے پیروں سے موٹے چوہے ٹکرائے۔ آصف کے منہ سے چیخیں نکلتے نکلتے رہ گئیں۔ عمارت کے اندرونی حصے میں سخت بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ جاوید نے عمارت کی چھت پر ٹارچ کا رخ کیا۔ تو وہاں بے شمار چمگادڑیں الٹی لٹکی نظر آئیں۔ روشنی پڑتے ہی وہ پھڑپھڑیاں لینے لگیں اور یکلخت وہاں پھڑپھڑاہٹ کا طوفان اُبل پڑا۔ چمگادڑوں کی مکروہ چیں چیں ان کے پردہ سماعت کو پھاڑے دے رہی تھی۔ وہ جلدی سے آگے بڑھ گئے فرش گرد اور چمگادڑوں کی بیٹوں سے اَٹے ہوئے تھے۔
’’کیا ہم اس گندگی کی جگہ رات گزاریں گے؟‘‘ آصف کی آواز گونجی۔ ’’مجھے تو کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آ رہی جہاں ہم سو سکیں۔‘‘
’’مجبوراً ہمیں ادھر ہی سونا پڑے گا۔‘‘ جاوید بولا۔ ان کی آوازیں وہاں گونج رہی تھیں۔ ’’اور یار …کبھی کبھی ایسے حالات بھی زندگی میں پیش آتے ہی ہیں۔‘‘
’’مگر یہاں تو زہریلے کیڑے مکوڑے اور غلیظ چوہے بھی ہیں … اگر کسی کیڑے …‘‘ آصف نے بولنا چاہا، مگر راشد نے اس کا جملہ درمیان میں سے اچک لیا۔ ’’یار آصف یہ تو ہم جانتے ہی تھے کہ تم ڈرپوک ہو، مگر اس حد تک…؟ یہ ہمیں اب معلوم ہوا ہے۔‘‘
’’بات ڈرنے کی نہیں ہے‘‘۔ آصف کو لفظ بزدل اور ڈرپوک سن سن کر تھوڑا غصہ آ گیا۔ ’’میں بزدل نہیں ہوں … بات احتیاط کی ہے۔‘‘
’’چالاک بھی ہو۔‘‘ کامران مسکرایا۔ ’’بزدلی کو احتیاط کا نام دے رہے ہو… بلکہ اپنی کمزوری کو احتیاط کا لبادہ پہنا رہے ہو۔‘‘
’’دوسرے کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اسے ذلیل کرنا تم کو خوب آٹا ہے۔‘‘ آصف غصیلے انداز میں چڑ کر بولا تھا۔
جاوید انہیں وہاں لے آیا، جہاں تہہ خانہ تھا۔ اس نے تہہ خانے کے چھوٹے زنگ آلود دروازے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی اور حیرت زدہ آواز میں کہا۔ ’’ارے یہ کیا…؟ یہ چھوٹا سا دروازہ کس چیز کا ہے۔‘‘ تینوں ساتھی بھی ادھر ہی متوجہ ہو گئے تھے۔
’’ذرا اسے کھول کر دیکھو…‘‘ راشد نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
جاوید اس دروازے کی زنگ آلود موٹی کنڈی کو کھولنے لگا۔ اس سلسلے میں اسے کافی طاقت صرف کرنا پڑ رہی تھی۔ آصف نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا، مگر پھر خود ہی چپ ہو گیا۔ غالباً وہ انہیں دروازہ کھولنے سے منع کرنا چاہتا تھا۔ جاوید نے کنڈی کھول دی اور دروازہ باہر کی طرف کھول دیا۔ اب ٹارچوں کی روشنی میں انہیں نیچے جاتی ہوئی سیڑھیاں نظر آ رہی تھیں۔
’’اوہ… یہ تو تہہ خانہ ہے۔‘‘ کامران کے منہ سے تحیر خیز آواز برآمد ہوئی۔
’’ہے تو تہہ خانہ ہی…‘‘ راشد نے اندر جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’میرا خیال ہے نیچے چل کر دیکھتے ہیں اندر کیا ہے۔‘‘
’’تہہ خانے میں بھلا کیا ہو گا… کچھ بھی نہیں ہو گا… فضول وقت برباد کرو گے۔‘‘ آصف نے انہیں اپنے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کہا۔ ’’اب تو تم ہی سب سے آگے تہہ خانے میں اترو گے آصف…‘‘
جاوید نے اسے دیکھا آصف بوکھلانے لگا ’’مم… میں …‘‘
’’ہاں تم… بکری کے بچے … چلو چلو… ہر جگہ اپنی بزدلی کا ثبوت مت دیا کرو…‘‘ جاوید نے اسے آگے دھکیلا۔ اب تو آصف بہت مجبور ہو گیا تھا۔ عزت کا معاملہ آن پڑا تھا۔ وہ سب سے آگے اندر اترا۔ عقب سے جاوید ٹارچ کی روشنی اندر کی جانب پھینک رہا تھا۔ آصف کو ان سے ٹارچ لینے کا خیال بھی نہ رہا۔
اور یہ وہی وقت تھا کہ جب جاوید، کامران اور راشد نے تہہ خانے کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ آصف فریادیں، التجائیں کرتا رہ گیا، مگر دوستوں پر مذاق کا بھوت سوار تھا۔ وہ لوگ اسے بند کر کے چلے گئے۔
آصف بہت دیر تک زینے پر بند دروازے کے قریب کھڑا رہا۔ اندھیرا شاید قبر سے کئی گنا زیادہ تھا۔ پھر بھی اندھیرے میں کافی دیر تک مسلسل گھورنے کے بعد اس کی آنکھیں دھندے دھندے ہیولے دیکھنے کے قابل ہو گئیں۔ وہ دھیرے دھیرے زینے سے نیچے اترنے لگا۔ اس کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں۔ دل دھڑکنے کی دھمک اس کے کانوں سے ہتھوڑے کی بھاری ضربوں کی مانند ٹکرا رہی تھیں۔ ایک ایک لرزتا ہوا قدم انتہائی ہلکے ہلکے نیچے کی طرف بڑھا رہا تھا۔ اس نے سہارے کے لیے دیوار پر ایک ہاتھ جما لیا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ زمین کی انتہائی گہرائیوں میں اترتا جا رہا ہے۔ زینہ گو کہ زیادہ طویل نہیں تھا، مگر اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اسے اُترتے ہوئے کئی گھنٹے بیت گئے ہیں۔ زینے کے اختتام پر جب اس کی قدم فرش پر پڑے تو اس کے پیروں تلے کوئی چیز یا آواز بلند چرچرائی۔ خوف کے مارے آصف کے منہ سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔ وہ لڑکھڑا کر گر گیا۔ اس کے جسم کے کئی حصوں پر چوٹیں آئیں، مگر خوف کی زیادتی نے درد کا احساس پی لیا تھا۔ اس نے ہاتھ سے ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ چرچرانے والی چیز ایک کمزور لکڑی کا تختہ تھا۔ اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں۔ ایسا لگا کہ ہر طرف بھوت پریت سائے بن کر اس کے گرد رقص کر رہے ہیں۔ کسی بھی لمحے کوئی بھی بھوت اس کا گلا دبوچ لے گا اور پھر اس کی زندگی کا خاتمہ انتہائی دردناک انداز میں ہو جائے گا۔ اسے چکر آ رہے تھے۔ وہ سیلن زدہ فرش پر اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں، مگر آنکھیں بند کر لینے سے اندھیرا مزید بڑھ گیا۔ نیلے، پیلے، سرخ اور سبز دائرے اس کی نظروں کے سامنے ابھرنے اور معدوم ہونے لگے۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول لیں، مگر اندھیرا بدستور قائم رہا۔ دفعتاً کوئی جان دار شے اس کے جسم پر کودی اور آصف کے حلق سے ہول ناک چیخ نکلی۔ چیخ تہہ خانے کے محدود ماحول میں قید پھڑپھڑاتی رہ گئی تھی۔
باقی تینوں دوست ایک کمرے میں تھوڑی جگہ صاف کر کے سو گئے تھے۔ سردیوں کی آمد آمد تھی۔ مچھروں کے حملوں سے بچنے کے لیے انہوں نے چادریں اوڑھ لی تھیں۔ دوسری صبح سب سے پہلے کامران کی آنکھ کھلی۔ اٹھتے ہی اسے تہہ خانے میں بند آصف کا خیال آیا۔ اس نے جلدی جلدی جاوید اور راشد کو بھی اٹھا دیا۔ دونوں آنکھیں ملتے اور جمائیاں لیتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ ’’یار کیا مصیبت ہے ٹھیک سے سونے دو… بلا وجہ اتنی جلدی اٹھا دیا…‘‘ راشد دوبارہ لیٹنے لگا۔
’’بھائی اٹھو… یہ تیرے گھر کا بستر نہیں ہے اتنے مزے سے دوبارہ سونے جا رہے …‘‘ کامران نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا۔
’’ہاں یا اس آصف کا حال بھی معلوم کرنا ہے۔‘‘ جاوید جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ ’’اس بے چارے کی تو جان ہی آدھی ہو گئی ہو گی۔‘‘
یہ سنتے ہی راشد کی نیند بھی چھو منتر ہو گئی۔ ’’ارے ارے … جلدی کرو… کہیں بے چارہ گزر ہی نہ ہو گیا۔‘‘
’’بکواس کرنا ضروری ہے کیا…؟‘‘ جاوید نے اسے گھورا۔ ’’چلو آؤ…‘‘
وہ تیزی سے تہہ خانے کے دروازے تک پہنچے۔ ٹوٹی ہوئی دیواروں اور کھڑکیوں سے سورج کی روشنی اس جگہ تک آ رہی تھی۔ روشنی منعکس ہو کر تہہ خانے کے اندر تک پہنچ رہی تھی، لیکن پھر بھی انہیں ٹارچ کا سہارا لینا پڑا۔ جاوید آگے آگے اُتر رہا تھا۔
’’آصف…‘‘ اس نے آواز لگائی۔
کوئی جواب نہیں ملا۔ کامران اور راشد اس کے پیچھے آ رہے تھے۔ پھر انہوں نے آصف کو دیکھ لیا۔ وہ تہہ خانے کے فرش پر پڑا ہوا تھا۔ وہاں انہوں نے کئی بڑے بڑے چوہے دیکھے۔ آصف کا منہ دوسری جانب تھا۔ وہ بے ہوش لگ رہا تھا۔ ان تینوں کے دل دھڑکنے لگے اور اپنے مذاق پر افسوس ہونے لگا۔ آصف کا جسم بالکل ساکت پڑا تھا۔
’’آصف…‘‘ جاوید نے آصف کا شانہ پکڑ کر اسے سیدھا کیا۔
ایک چوہا آصف کے چہرے کے نزدیک بیٹھا تھا وہ ایک دم بھاگ نکلا۔
اگلے ہی لمحے تینوں دوستوں کے منہ سے ہولناک چیخیں نکلیں۔ خوف و دہشت کے مارے ان کی آنکھیں اپنی جگہ چھوڑ کر باہر اُبل پڑی تھیں۔ آصف کی آنکھیں پھٹے پھٹے انداز میں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں زندگی کی حرارت ختم ہو چکی تھی۔ دہشت کے آثار اس کے چہرے کے خد و خال میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو کر رہ گئے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ بڑی اذیت میں جان دی ہے۔ دوستوں کے مذاق نے دوست کی جان لے لی تھی۔ اس کے چہرے کو تہہ خانے کے موٹے موٹے چوہوں نے کھرچ ڈالا تھا۔ ان کھرونچوں سے تازہ خون رس رہا تھا۔ نچلے ہونٹ کو بھی چوہوں کے تیز دھار دانتوں نے کاٹ ڈالا تھا۔ انہیں یوں لگ رہا تھا کہ آصف کی چیخیں ابھی تک گونج رہی ہیں۔ اس کی فریادیں اب تک کانوں سے متصادم ہو رہی تھیں۔ تینوں دوستوں کے چہرے دھواں دھواں ہو گئے تھے۔ انہیں احساس تھا کہ یہ قتل ہے اور اپنے دوست کے قاتل وہ تینوں ہی ہیں۔ حالاں کہ یہ سب نادانستگی میں ہوا تھا۔ اس میں ان کے ارادے کا کوئی دخل نہیں تھا، وہ صرف مذاق کر رہے تھے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کا یہ مذاق جان لیوا ثابت ہو گا۔ وہ تینوں ہی برابر کے مجرم تھے۔
کتنی دیر تک وہ پتھر کے بت بنے کھڑے رہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا؟ اور اب کیا کیا جائے؟ وہ آصف کے گھر والوں کو کیا جواب دیں گے؟ کامران اکڑوں زمین پر بیٹھ گیا اور مسلسل آصف کی لاش کو گھور رہا تھا۔ جاوید نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا تھا۔
’’اف خدایا… اب کیا کریں …؟‘‘ راشد کی لرزتی ہوئی آواز ابھری۔ ’’یہ… یہ ہم سے کیا ہو گیا…؟‘‘
’’چلو… چلو نکلو ادھر سے …‘‘ جاوید بولا۔ ’’اوپر چل کر کچھ سوچتے ہیں …‘‘
’’مم… مگر… یہ … اس کا کیا کریں …؟‘‘ کامران ہکلایا۔ ’’اسے یونہی چھوڑ دیں؟‘‘ اس کا اشارہ لاش کی جانب تھا۔
’’فی الحال بحث مت کرو باہر نکلو…‘‘ جاوید سختی سے بولا۔ دونوں چپ چاپ اس کے پیچھے تہہ خانے سے نکل کر اوپر آ گئے۔
’’سنو…‘‘ جاوید نے کامران اور راشد کو مخاطب کیا ’’جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو اور اچھی طرح ذہن میں بٹھا لینا۔ جو کچھ ہو رہا ہے، اسے اپنی ذات تک محدود رکھنا، ورنہ بڑی مشکل میں پھنس جاؤ گے۔ ہم واپس جائیں گے اور بتائیں گے کہ ایک مقام پر ہم لوگ رکے تھے، تاکہ کچھ آرام کر لیا جائے۔ جب ہم سو کر اٹھے تو ہمارا سارا ساز و سامان غائب تھا۔ ساتھ ہی آصف کا بھی کوئی پتا نہ تھا۔ آثار ایسے نظر آئے تھے کہ کسی نے ہمیں سوتے میں لوٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن آصف کی آنکھ کھل گئی۔ لوٹنے والوں نے آصف کو بھی اغوا کر لیا۔ ہم نے آصف کو بہت تلاش کیا، مگر کچھ پتا نہ چلا۔ آخر تھک ہار کر ہم واپس آ گئے … سمجھ گئے …؟‘‘
’’لیکن… لیکن وہ ہمارا سامان تو… گاڑی میں ہی ہے۔‘‘ کامران نے فکر مندی سے کہا۔
’’تو اسے تہہ خانے میں پہچانے میں کتنا ٹائم لگے گا؟‘‘ جاوید سپاٹ لہجے میں بولا۔ ’’اپنا سامان ہم تہہ خانے میں پہنچا دیں گے۔‘‘
’’اگر اتفاق سے کسی نے آصف کی لاش تہہ خانے میں دریافت بھی کر لی تو…‘‘ راشد نے تیزی سے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا ’’تو مسئلہ الجھ جائے گا جاوید…‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘ جاوید اسے گھورنے لگا۔
’’عقل سے سوچو… اگر سامان بھی آصف کی لاش کے ساتھ برآمد ہوا… تو کیا لوگ یہ نہیں سوچیں گے کہ لٹیرے سامان کو جوں کا توں لاش کے پاس کیوں چھوڑ گئے …؟ اگر سامان سے ان کو کوئی غرض نہیں تھی تو آصف کو کیوں مارا…؟ نہیں جاوید نہیں … اس طرح ہم مشکوک ہو جائیں گے … ہمیں سامان کو کہیں اور پھینک دینا چاہیے۔‘‘ راشد نے عقل کی بات کی تھی۔ جاوید سر ہلانے لگا۔
بعد میں ان تینوں نے بڑی پھرتی دکھائی اپنا تمام سامان انہوں نے ایک گہرے کھڈے میں دبا دیا۔ اوپر بڑے بڑے پتھر رکھ دئیے۔ آس پاس جھاڑیاں تھیں، اس لیے اس جگہ کسی کے آنے کے امکانات بھی نہیں تھے۔ پھر انہوں نے پرانی عمارت میں اپنی موجودگی کے تمام آثار ختم کر دئیے۔ جہاں جہاں ان کے ہاتھ لگے تھے۔ وہاں سے فنگر پرنٹس بھی حتی الامکان مٹا دئیے گئے تھے۔ گرد ومٹی سے اَٹے ہوئے فرش پر سے قدموں اور جوتوں کے نشانات بھی مٹا دئیے گئے۔ الغرض وہ ہر طرح سے مطمئن ہو گئے تھے۔ ابھی ایک مسئلہ اور باقی تھا۔ وہ لوگ چوں کہ کار کو بھی مین روڈ سے کچی زمین پر کافی دور تک لائے تھے، اس لیے کچی زمین پر گاڑی کے ٹائروں کے نشانات بھی پڑ گئے تھے۔ گاڑی مین روڈ تک دوبارہ لائی گئی۔ پھر جاوید اور راشد نے واپس جا کر جہاں تک ٹائروں کے نشانات تھے، مٹا دئیے اور اس احتیاط سے گاڑی تک پہنچے کہ ان کے جوتوں کے نشانات بھی نہ بن سکیں۔
اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ کامران اور راشد کے چہرے خوف اور احساس جرم کے باعث اپنی اصل رنگت کھو چکے تھے۔ اب تک ان کو اپنے ذہن ماؤف لگ رہے تھے۔ اپنی شرارت کی وجہ سے انہوں نے اپنے دوست کو مار ڈالا تھا۔ خوف زدہ تو جاوید بھی تھا، مگر اس نے خوف کو چہرے سے ظاہر ہونے نہیں دیا تھا۔ وہ بڑی سنجیدگی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ انہیں کھانے پینے اور آرام کرنے کا بھی خیال نہ رہا۔ صرف ایک ہی جگہ گاڑی کا ایندھن لینے رکے تھے۔ جاوید کئی مرتبہ راستے میں تاکید کر چکا تھا کہ کہنا وہی ہے، جو اس نے بتایا ہے۔ کہیں بھی کسی کے بیان میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے، ورنہ پھندا تینوں کے گلے میں آ جائے گا۔
اور پھر اس افسوس ناک واقعہ کو پورے دو ماہ بیت گئے۔
تینوں نے وہی من گھڑت کہانی سنائی تھی۔ آصف کے گھر والے رو پیٹ کر آخر کار صبر کر کے بیٹھ گئے۔ بہت تلاش کیا گیا۔ پولیس میں رپورٹ کرائی گئی، لیکن پولیس کی کارکردگی ویسے ہی زیرو ہوتی تھی۔ یہاں بھی صفر ہی رہی۔ یوں معاملہ دب گیا۔ صرف جاوید، کامران اور راشد ہی اصل معاملہ جانتے تھے اور تینوں نے اس راز کو سینے میں دفن کر لیا تھا، کیوں کہ اسی میں ان کی بقاء تھی۔
یوں آصف کی کہانی ختم ہو گئی، لیکن اصل کہانی تو اب شروع ہوئی تھی۔
اس کہانی کا آغاز رات ڈیڑھ بجے ہوا تھا۔ کامران اپنے کمرے میں ویڈیو پر انگلش مووی دیکھ رہا تھا۔ فائٹ فلم تھی اور کامران بڑی دل چسپی اور انہماک سے فلم دیکھ رہا تھا۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس نے تقریباً آصف والا معاملہ فراموش کر دیا ہے۔ اس کے گھر والے اپنے اپنے کمروں میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ یک بیک ٹی وی خود بخود آف ہو گیا، اسکرین پر سے تصویر ایک جھماکے کے ساتھ غائب ہو گئی۔ کامران چونک گیا۔ وہ جھنجلا کر اٹھا اور ٹی وی کے قریب پہنچ گیا۔ کمرے میں نیم تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ کامران ٹی وی کا بٹن دبا کر دیکھنے لگا، کیوں کہ اس کا ریموٹ بھی کارآمد ثابت نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے عقب والی دیوار پر زیرو کا بلب روشن تھا۔ ٹی وی کو چھیڑ چھاڑ کرتے کرتے کامران چونک گیا۔ ہلکی سبز روشنی میں سامنے کی دیوار پر اس کا سایہ بن رہا تھا۔ یہ کوئی اچنبھے والی بات تو نہ تھی۔ کامران کے چونکنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ سایہ کامران کے قد وقامت اور انداز سے الگ تھا۔ کامران نے ہلکا کرتا اور پاجامہ پہنا ہوا تھا، جب کہ سائے سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ہے۔ تو اس کا مطلب یہ تھا کہ سایہ کسی اور کا تھا، مگر کس کا؟
کامران کا دماغ ٹھنڈا پڑتا جا رہا تھا۔
وہ پلکیں جھپکائے بغیر سائے کو گھور رہا تھا۔ کہیں اسے وہم تو نہیں ہو رہا ہے؟ کہیں اس کی آنکھیں دھوکا تو نہیں کھا رہی ہیں؟ کامران کو یاد آ رہا تھا… کچھ یاد آ رہا تھا۔ آصف کے بالوں کا اسٹائل… اس کا لباس… جو دوران سفر اس کے جسم پر تھا اور آخر وقت بھی وہی سوٹ اس کے بدن پر تھا۔ اور پھر… پھر ایک دل ہلا دینے والی بات ہوئی۔
کامران کے حلق سے چیخ تک نہ نکل سکی۔ دہشت نے اس کا حلق دبوچ لیا تھا۔ اس کے جسم نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کامران تو اپنی جگہ ہی کھڑا تھا، مگر اس کا سایہ… بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ’’وہ‘‘ سایہ اپنی جگہ سے متحرک ہو گیا تھا۔ وہ ایک دیوار سے دوسری دیوار پر آ گیا۔ روشنی کی سمت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ کامران نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنا سایہ دیکھنا چاہا تو اسے حیرت اور خوف کا ایک اور جھٹکا لگا۔ اس کا اپنا سایہ غائب تھا، جب کہ ٹی وی کا عکس بھی دیوار پر نمایاں تھا۔ تپائی کا عکس، ٹیلی فون کا عکس، پردوں کا عکس، رائیٹنگ ٹیبل اور کرسی کا عکس، حتیٰ کہ ہر اس شے کا عکس، جو روشنی کا زد سے آ رہی تھی نظر آ رہا تھا، لیکن خود کامران کا عکس کدھر گیا؟ ’’وہ‘‘ پراسرار سایہ دیوار پر واضح نظر آ رہا تھا، جیسے کامران کی حالت زار سے محفوظ ہو رہا ہو اور کامران سمجھ گیا۔
’’وہ‘‘ آصف کا سایہ تھا۔
ہاں ہاں … وہ آصف کا ہی سایہ تھا، جو ان کے مذاق کانشانہ بن کر اپنی زندگی گنوا بیٹھا تھا۔ اس کے دل میں آئی کہ وہ مدد کے لیے حلق پھاڑ کر چلائے، لیکن وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔ ناجانے کیوں اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا جسم تابع نہیں رہا۔ اس کی زبان، ہاتھ، پیر اس کے حکم کی تعمیل نہیں کر رہے تھے۔ دفعتاً پر اسرار سائے نے قہقہہ لگایا۔ کامران نے اسے واضح سنا تھا۔ سو فیصد آصف کی آواز تھی۔ وہ بھلا آصف کی آواز کو کیسے بھول سکتا تھا۔ ایک طویل عرصہ انہوں نے ساتھ گزارا تھا۔ اس کے ایک ایک انداز سے وہ بخوبی آشنا تھا۔ پھر کامران نے آصف کی سرگوشیانہ آواز سنی، جو اس سے کہہ رہی تھی۔
’’مار ڈالا ناں تم نے …؟ مار دیا ناں؟ تم نے بھی… کامران، تم تو میرے اچھے دوست تھے۔ تم بھی راشد اور جاوید کے ساتھ مل گئے تھے … تم… تم جانتے تھے کہ میرا دل کتنا کمزور ہے۔ پھر تم نے انہیں منع بھی نہیں کیا اور نہ ہی روکا… یعنی تم بھی میرے قتل میں برابر کے شریک ہو… اب… ڈر کیوں رہے ہو دوست…؟ تم تو بزدل نہیں تھے۔ بزدل تو میں تھا۔ تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے … تم تو بہادر ہو… دیکھو مجھے … مرنے کے بعد بھی چین نہیں ملا… بے چین روح ادھر ادھر پھرتی رہی اور اب میری روح کو چین اس وقت ہی آئے گا جب تم تینوں کو بھی مار ڈالوں … تم کچھ نہیں کر سکتے ہو۔ کسی کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو اور نہ ہی کہیں بھاگ سکتے ہو۔ شاید تم ہر چیز سے فرار ہو سکتے ہو، مگر سائے سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے … میں تو اب تمہارا سایہ بن گیا ہوں … سمجھے … سایہ… ہا ہا ہا …‘‘
دہشت کے مارے کامران کے جسم سے پسینہ دھاروں دھار بہہ رہا تھا۔
’’وہ‘‘ سایہ دیوار سے ہٹ گیا اور فرش سے ہوتا ہوا کامران کے قدموں سے سائے کے قدم جڑ گئے۔ پھر ایک اَن دیکھی طاقت کامران کو قدم بڑھانے پر مجبور کر دیا۔ کامران پراسرار سائے کا تابع ہو چکا تھا۔ وہ اس کے احکامات کی تکمیل کرنے پر مجبور تھا۔ اس کا ہر قدم اس کی مرضی کے بغیر آگے بڑھتا جا رہا تھا، ورنہ کامران کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پلٹ کر بھاگ لے اور لوگوں کو مدد کے لیے جمع کرے، مگر اس کی زبان پر بھی چپ کے تالے پڑ گئے تھے۔ صرف ذہن بیدار تھا۔ وہ سوچ سکتا تھا، دل ہی دل میں چیخ چلا سکتا تھا، ڈر سکتا تھا، دیکھ سکتا تھا، محسوس کر سکتا تھا، مگر صرف اس کا پورا جسم اور زبان قابو میں نہیں تھی۔ چھوٹے سے گیراج میں اس کی ہیوی بائیک کھڑی تھی۔ اسے ہیوی موٹر بائیک چلانے کا جنون تھا۔ اس نے ان دیکھی طاقت کے ایماء پر گیراج میں سے بائیک نکالی اور اسے مین گیٹ تک لایا۔ پھر مین گیٹ کھول کر بائیک باہر نکالی۔
کامران کا ذہن چیخ رہا تھا۔ آخر ’’وہ‘‘ کیا چاہتا ہے؟
شاید سائے نے اس کا ذہن پڑھ گیا تھا۔ اس کے کانوں سے سرگوشی ٹکرائی۔ ’’جو بویا ہے، وہ کاٹنا تو پڑے گا میرے پیارے دوست…‘‘
کامران سمجھ گیا۔ اس محاورے میں چھپا ہوا ہولناک مطلب اس کے دماغ میں آ گیا۔ کامران دماغ میں گڑگڑاتا ہوا بولا۔ ’’مجھے معاف کر دو آصف… مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے … یقین کرو مجھے خود بہت دکھ ہوا تھا تم مجھے معاف نہیں کر سکتے؟‘‘
سرگوشی ذہن میں گونجی۔ ’’اگر تمہیں احساس ہوتا تو خود کو قانون کے حوالے کر دیتے۔‘‘ کامران ذہن میں چیخا۔ ’’مجھے پھانسی سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
سائے نے کہا۔ ’’بے فکر رہو پیارے دوست… میں تم کو پھانسی ہرگز نہیں دوں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔‘‘
مین گیٹ کھلا ہی رہا۔ کامران نے میکانکی انداز میں بائیک اسٹارٹ کی۔ کچھ ہی دیر بعد ہیوی بائیک شہر کی خوابیدہ سڑکوں پر دوڑ رہی تھی، حتیٰ کہ بائیک ہائی وے پر آ گئی۔ کامران کا ذہن چوں کہ بیدار تھا، اس لیے کامران سوچ رہا تھا کہ بائیک کی رفتار کم رکھے، لیکن اس کے ہاتھ پیروں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ رفتار تیز ہوتی چلی گئی۔ دفعتاً کامران کو یوں لگا کہ اس کی زبان اَن دیکھی طاقت کے اثر سے آزاد ہو گئی ہے۔ وہ پوری قوت سے چلانے لگا۔ ساتھ ساتھ بائیک کی رفتار بھی تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ آصف کے قہقہے اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ہوا کے تیز تھپیڑے اس کے جسم سے لگ رہے تھے۔ سر کے بال بالکل سر سے چپک گئے تھے۔ آنکھیں کھولنا انتہائی دشوار ہو گیا تھا۔ کانوں میں سیٹیاں بج رہی تھیں۔ ہائی وے پر بڑی گاڑیاں حسب معمول چل رہی تھیں۔ کئی مرتبہ اسے یوں لگا کہ وہ ٹرک کے نیچے بائیک سمیت گھس گیا ہے۔ کامران نے یہ منظر دیکھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔ پھر اسے قہقہہ سنائی دیتا۔ وہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا۔ بائیک برق رفتاری سے اُڑی جا رہی تھی۔ بڑی گاڑیوں والے اسے گالیاں دے رہے تھے۔ کوئی پاگل، جنونی اور سرپھرا کہہ رہا تھا۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ وہ خوشی اور دیوانگی کے عالم میں چلا رہا ہے۔ کامران اپنے جسم پر کسی اور کا بھی وجود محسوس کر رہا تھا۔ وہ سایہ اس کے بدن پر چھایا ہوا تھا۔ اسپیڈ کی سوئی خطرے کے نشان سے تجاوز کر چکی تھی۔ اگر کوئی سڑک پر کھڑا ہو کر موٹر بائیک کو دیکھنا چاہتا تو وہ اس کو محض ایک دھبے کی مانند لگتی۔ ایسا لگتا کہ کوئی موٹی سی لکیر اس کے نزدیک سے گزر گئی ہے۔ کامران انتہائی دہشت کے عالم میں حلق پھاڑ کر چلا رہا تھا، لیکن اس کی چیخ یہاں کون سنتا۔ آصف کے قہقہے بھی اس کی چیخوں کے ساتھ گونج رہے تھے۔ بمشکل کامران نے آنکھیں کھول کر سڑک پر دیکھا۔ وہ ہر گاڑی کو پیچھے چھوڑتا جا رہا تھا۔ کبھی کوئی ٹرک اس کے سامنے اچانک آ جاتا تو کامران موت کے خوف سے آنکھیں بند کر یتا تھا۔ اگلے ہی لمحے سائے کے قہقہے سن کر آنکھیں کھولتا تو دیکھتا کہ موٹر بائیک ٹرک میں گھسنے سے بچ گئی ہے اور مزید تیز رفتاری سے آگے دوڑی جا رہی ہے۔
پھر ایک اور خوفناک بات ہوئی۔
موٹر بائیک کا رخ اچانک سڑک سے ہٹ کر کچی زمین پر ہو گیا۔ اسپیڈ کا ٹھیک اندازہ کچے میں گاڑی چلانے سے ہوتا ہے۔ سڑک تو ہموار ہوتی ہے، لیکن کچی کی زمین تو ناہموار اونچی نیچی اور چھوٹے بڑے تھروں اور کھڈوں سے پر ہوتی ہے۔ کامران کو ایسا لگا کہ زلزلہ آ گیا ہے۔ بائیک برق رفتاری سے کچے میں دوڑنے لگی کتنے ہی کھڈوں میں گھسی اور نکلی۔ کئی پتھروں پر چڑھ کر اچھلی اور زبردست جھٹکے سے دوبارہ زمین پر آئی۔ کامران کے جسم کے اندرونی حصے شدید متاثر ہوئے۔ اس اچھل کود اور جان لیوا جھٹکوں نے کئی پسلیاں توڑ ڈالی تھیں۔ گردن میں ایسا جھٹکا آیا تھا کہ سیدھی ہی نہیں ہو رہی تھی۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے بھی شاید کھسک گئے تھے۔ اس کی آواز قدرتی طور پر بند ہو گئی تھی۔ اگر سائے کی طاقت نے اسے قابو نہ کیا ہوتا تو وہ کب کا بائیک سے گر چکا ہوتا۔ اسے اپنی ہولناک موت کا بھر پور اور مکمل یقین ہو گیا تھا۔ کامران کے منہ سے خون نکل آیا۔ اس پر غشی سی طاری ہو گئی تھی۔ بائیک دوبارہ سڑک پر آ گئی۔ دفعتاً ڈوبتے ابھرتے ذہن میں آصف کی آواز گونجی۔ کامران بمشکل سرگوشی کا مفہوم سمجھ پایا۔
آصف کی آواز نے کہا تھا۔ ’’میں تم کو زیادہ اذیت نہیں دینا چاہتا، کیوں کہ تم میرے سب سے اچھے دوست تھے۔‘‘
کامران نے ڈبڈباتی نظروں سے سامنے دیکھا۔ سامنے ایک بڑا فیول ٹینکر نظر آ رہا تھا، جو اپنی دھیمی رفتار سے سفر کر رہا تھا۔ بائیک اس کی سیدھ میں لپکی جا رہی تھی۔ ٹینکر پٹرول سے لبا لب بھرا ہوا تھا۔ پھر بائیک پوری طاقت کے ساتھ ٹینکر کے عقبی حصے میں جا کر گویا پیوست ہو گئی، جیسے تیر درخت پر گھس جاتا ہے۔ اس بھیانک تصادم کا کیا نتیجہ نکلنا تھا۔ یہ منظر لفظوں میں ممکن نہیں۔ سماعت شکن دھماکے ہوئے۔ آگ کے شعلے آسمان کو چھونے لگے تھے۔ انسانی اجسام جو ٹینکر اور بائیک پر تھے، سفوف بن کر اڑ گئے۔ پیٹرول کی وجہ سے سڑک پر آگ رقص کر رہی تھی۔ پے در پے ہونے والے دھماکے دور دور تک سنے گئے۔
یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ لوگوں نے اسے خود کشی ہی قرار دیا تھا۔ شاید کامران پر کوئی ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی ہو گی، اس لیے رات کو وہ اپنی بائیک لے کر ہائی وے پر نکل کھڑا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ بائیک پر بیٹھا نوجوان چیخ چلا رہا تھا ٹھیک سے اندازہ نہیں ہو پایا کہ وہ خوف زدگی کے عالم میں چیخ رہا تھا یا خوشی سے، کیوں کہ بائیک کی رفتار بے حد تیز تھی۔ کامران کے گھر والے تو صدمے سے نڈھال تھے۔ اگر موت لکھی ہی تھی تو مر گیا تھا، لیکن لاش تو ملتی، تاکہ قبر بنائی جاتی، مگر لاش کے نام پر ایک ہڈی بوٹی بھی نہ ملی تھی۔ بھلا کیا دفن کرتے؟ صبر کر لیا۔ آئل ٹینکر میں تین افراد سوار تھے۔ وہ تینوں بھی موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔ جاوید اور راشد بھی تعزیت کے لیے کامران کے گھر آئے تھے۔
اس واقعے کے دس روز بعد کا ذکر ہے کہ راشد اور اس کے گھر والے ایک شادی کی تقریب میں گئے۔ راشد کی طبیعت وہاں اچانک ہی بوجھل سی ہونے لگی۔ گھر والے تو دیر سے ہی فارغ ہوتے۔ اس نے اپنے بڑے بھائی سے کہہ دیا۔
’’بھائی جان… میری طبیعت خراب سی ہو رہی ہے دل گھبرا رہا ہے میں گھر جا رہا ہوں …‘‘
’’خیر تو ہے … اچانک کیسے خراب ہو گئی؟‘‘ اس کا بڑا بھائی پریشان نظر آنے لگا۔
راشد ہنس کر بولا۔ ’’ارے بس ایسے ہی دل گھبرا رہا ہے … فکر کی کوئی بات نہیں ہے … آپ امی جان کو کہہ دیجیے گا کہ میں گھر چلا گیا ہوں۔‘‘
’’لیکن تم نے کھانا تو کھایا ہی نہیں؟‘‘
’’گھر جا کر کچھ کھا لوں گا… چابیاں میرے پاس ہیں … آپ امی جان کو بول دیجیے گا۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد راشد اپنی موٹر سائیکل پر گھر چلا آیا۔
وہ پورے گھر میں اکیلا ہی تھا۔ بوریت ہونے لگی تو ایک کتاب پڑھنا شروع کر دی، لیکن کتاب میں بھی دل نہیں لگا۔ اپنی اس عجیب کیفیت پہ وہ خود بھی حیران ہو رہا تھا۔ دل کسی طرح سکون نہیں پا رہا تھا۔ ایک بے چینی، بے کلی سی ہو رہی تھی۔ آخر وجہ کیا ہے؟ اس نے کتاب بند کر کے رکھ دی۔ پھر فریج میں سے سیب نکال لایا۔ پھل کاٹنے والے چاقو سے وہ سیب کاٹنے لگا اور اپنی طبیعت پر غور کرتا جا رہا تھا۔
دفعتاً اس کے دماغ میں آصف کا خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپک آیا… آہ… کس بے بسی سے وہ مرا تھا۔ صرف ان لوگوں کے مذاق کی وجہ سے … کاش ہم لوگ وہ مذاق نہ کرتے تو آج آصف زندہ ہوتا۔ ہم تینوں ہی قصور وار ہیں … لیکن تینوں کیوں …؟ اب تو میں اور جاوید ہی بچے ہیں۔ کامران تو مر گیا ہے۔
پھر اُلجھی ہوئی سوچوں اور خیالات کا دھارا کامران کی پراسرار موت کی طرف بہہ نکلا۔ معلوم نہیں وہ کیسے مرا تھا… شاید پاگل ہو گیا تھا… یا پھر اس نے خود کشی کی تھی، مگر کیوں؟ … خود کشی کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ بھلا کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ بے خیالی میں سیب کاٹتے کاٹتے چاقو انگوٹھے پر لگ گیا۔ راشد کے منہ سے بے اختیار سسکی نکل گئی۔ خون کی بوندیں انگوٹھے پر اُبھر آئی تھیں۔ اس نے جلدی سے سیب اور چاقو رکھ دیا۔ اور اپنی الماری کی طرف بڑھا، جہاں فرسٹ ایڈ کا سامان رکھا تھا۔ راشد نے ٹیوب اور پٹی نکالی۔ پھر واپس پلٹا اور رک کر انگوٹھے کو دیکھنے لگا۔ نظریں کسی ایک مقام پر مرکوز ہوں تو ارد گرد کا ماحول بھی کسی حد تک نظر آتا ہے۔ گرد و پیش میں اگر کوئی حرکت ہو رہی ہے تو بے اختیار نظریں اس حرکت پر جا پڑتی ہیں۔ راشد انگوٹھے کو دیکھ رہا تھا تو اسے یوں لگا کہ فرش پر کوئی شے متحرک ہے اور وہ آگے بڑھ رہی ہے۔ راشد نے دیکھا۔ اس کا سایہ جو آگے فرش پر پڑ رہا تھا، اب اس سے جدا ہو کر سامنے میز کرسی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
یہ حیرت انگیز منظر دیکھ کر راشد چکرا گیا۔
ایسا بھلا کس طرح ممکن تھا؟ وہ خود تو ایک جگہ کھڑا تھا۔ پھر یہ سایہ کس طرح آگے بڑھ گیا۔ پھر اس نے ہنسی کی مدھم سی آواز سنی۔ راشد کے ہاتھ سے ٹیوب اور پٹی چھوٹ گئی۔
وہ بری طرح گھگھیایا۔ ’’کک… کو… کون… کون… ہے؟ سامنے آؤ… کہاں چھپے ہو…؟‘‘ راشد اسے تلاش کر رہا تھا۔
’’تم اتنی جلدی میری آواز بھول گئے راشد…؟‘‘ شکایت آمیز آواز آئی۔
اور راشد کھڑے کھڑے اپنی جگہ سے اچھل پڑا۔
دنیا جہاں کا خوف سمٹ کر اس کی آنکھوں میں جمع ہو گیا تھا۔ پورے جسم میں زبردست کپکپی شروع ہو گئی تھی۔ چہرے پر دہشت اور خوف زدگی کی گہری لکیریں بن گئی تھیں۔ ہونٹوں کے گوشے لرز رہے تھے۔ ایک نام اس کے ذہن میں پوری شدت سے اُبھر آیا تھا۔ ’’آصف…‘‘ مگر یہ نام زبان سے ادا نہیں ہو پا رہا تھا۔
وہ پہچان گیا تھا، اب وہ آواز کو پہچان گیا تھا۔ بلا شبہ اس نے آصف کی ہی آواز سنی تھی۔ سو فیصد آصف کی آواز… لیکن آصف تو مر چکا تھا۔ اس نے خود آصف کی لاش دیکھی تھی، جسے تہہ خانے کے چوہوں نے کتر ڈالا تھا۔ پھر یہ آواز؟؟
’’ہاں … تم ٹھیک سوچ رہے ہو… بالکل ٹھیک سوچ رہے ہو…‘‘ ہنستی ہوئی آواز نے کہا۔ ’’میں تمہارا وہی دوست آصف ہی ہوں، جسے تم لوگ تہہ خانے میں چھوڑ آئے تھے۔‘‘
راشد لڑکھڑا گیا، لکنت آمیز لہجے میں بولا۔ ’’تو… تت… تم زندہ تھے …؟ مرے نہیں تھے …؟‘‘
سایہ دیوار پر مکمل واضح نظر آ رہا تھا۔ راشد نے پہچان لیا کہ وہ آصف کا ہی سایہ تھا… دہشت انگیز بات یہ تھی کہ خود راشد کا سایہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
’’تم نے خود ہی دیکھا تھا کہ میں مر گیا تھا…‘‘ آصف کی آواز بڑی سرد اور بھیانک تھی۔ ’’میں تو مر چکا تھا راشد…‘‘
راشد چیخا۔ ’’یہ مجھے کیا ہو گیا ہے … میرا جسم حرکت نہیں کر رہا ہے … تم … تم بد روح بن گئے ہو… تم نے جادو کر دیا ہے مجھے صحیح کرو… میرا… میرا سایہ بھی غائب ہو گیا ہے …‘‘
’’میں تمہارا سایہ ہوں …‘‘ سرگوشی اُبھری۔ ’’آؤ آگے بڑھو…‘‘ تحکمانہ لہجے میں کہا گیا تھا۔
’’آہ… یہ یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ…؟ میرے قدم کیوں خود بخود اٹھ رہے ہیں …؟ تم … تم کیا جانتے ہو…؟‘‘ راشد بے بسی آمیز لہجے میں بول رہا تھا۔
وہ چاہتا تھا کہ کمرے سے باہر بھاگ لے، لیکن جسم اس کے قابو سے باہر ہو گیا تھا کہ کسی پر اسرار طاقت نے اس پر طلسم کر دیا ہے۔ زبان تو اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ اس نے چاہا کہ چیخ کر مدد کے لیے کسی کو پکارے اس نے منہ کھولا، مگر آواز برآمد نہیں ہو سکی۔
’’بے کار ہے سب بے کار ہے … ہر کوشش فضول ہے … اب کچھ نہیں ہو سکتا ہے کوئی تمہاری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ یاد ہے …تم ظالموں نے بھی میری کوئی فریاد نہیں سنی تھی۔ میں بھی چیختا پکارتا رہ گیا تھا… اور تم لوگ… تم لوگ ہنستے ہوئے چلے گئے تھے … اب میں ہنسوں گا اور تم مرو گے … ہا ہا ہا… مرو… مرو…‘‘
راشد میز کے پاس کھڑا تھا۔ میز پر سیب اور پھل کاٹنے والا تیز دھار چاقو پڑا تھا۔ اچانک راشد کا ہاتھ سانپ کی طرح چاقو پر جھپٹا اور چاقو اٹھا لیا۔ راشد نے چیخ مارنی چاہی، مگر آواز برآمد نہ ہوئی۔ وہ انکار یہ انداز میں سر کو دائیں بائیں جنبش دے رہا تھا۔ اس کا ہاتھ ہی اس کا دشمن ہو گیا تھا۔ اس نے دوسرے ہاتھ سے چاقو والا ہاتھ پکڑنا چاہا، لیکن ادھر سے بھی مایوسی ہوئی۔ دوسرے ہاتھ نے بھی چاقو تھام لیا۔ دیوار پر دکھائی دینے والا سایہ خوشی سے قہقہے لگا رہا تھا۔ اب چاقو راشد کی آنکھوں کے عین سامنے تھا۔
معاً چاقو راشد کی آنکھ میں پیوست ہو گیا۔
آنکھ پانی سے بھرے ہوئے غبارے کی طرح بھچاک سے پھٹ گئی۔ رقیق مادہ بہہ نکلا۔ ستم یہ کہ وہ چیخ بھی نہیں سکتا تھا۔ بے آواز چیخ رہا تھا۔ انتہائی شدید تکلیف اور درد سے اچھل رہا تھا۔ اب معلوم ہوا تھا کہ درد کیسا ہوتا ہے، تکلیف کس چیز کا نام ہے۔ درد دینے سے نہیں، بلکہ سہنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس سے درد سہا نہیں جا رہا تھا۔ چاقو پھر حرکت میں آیا اور راشد کی ناک کٹ کر گر گئی۔ اس کی شکل ایک دم بھیانک ہوئی تھی۔ جیسے کوئی بھوت پریت بن گیا ہو۔ ناک کی جگہ اب دو خون آلود گڑھے نظر آ رہے تھے۔ پھر اس کا چاقو والا ہاتھ مسلسل گردش کرتا رہا۔ چاقو اب دوسرے آزاد ہاتھ کو کاٹ رہا تھا۔ پھر سینے پر گہری گہری لکیریں بننے لگیں۔ شہ رگ کی باری آ گئی۔ راشد نے اپنے آپ کو ذبح کر لیا۔
مرغی کی گردن کاٹی جائے تو وہ فوراً ہی نہیں مر جاتی۔ کچھ دیر پھڑکتی رہتی ہے۔ راشد اسی حالت میں خرخراتا اور مچلتا ہوا بڑے آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ وہ اپنے آپ کو دیکھنے لگا، لیکن اپنی جگہ اس نے ایک بھیانک عفریت دیکھا۔ خود اس نے اپنے آپ کو خوفناک بنا ڈالا تھا۔ شہ رگ سے خون کا فوارہ اُبل رہا تھا۔ اس کے دل سے آخری دعا یہ ہی نکلی کہ کاش وہ جلد از جلد ہی مر جائے۔ وہ اس حال میں زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔
اسی لمحے اس کا بدن روح کے بوجھ سے عاری ہو گیا۔ خون کی چھینٹیں آئینے پر بھی پڑی تھیں اور خون لکیریں بناتا ہوا نیچے آ رہا تھا۔
پہلے کامران اور اب راشد کی پر اسرار موت۔
اس کی لاش اس کے گھر والوں نے تقریب سے واپسی پر دیکھی تھی۔ بھیانک لاش کو دیکھ کر انہیں قیامت خیز جھٹکے لگے تھے۔ پولیس نے اپنی تحقیقات اور ضروری کارروائیاں کیں۔ کمرے سے راشد کے علاوہ اور کسی کے فنگر پرنٹس نہیں ملے تھے۔ چاقو کے دستے پر بھی راشد کی انگلیوں کے نشانات پائے گئے تھے۔ آخر پولیس افسر نے اسے خود کشی کا کیس قرار دے دیا تھا، لیکن اتنی اذیت ناک خود کشی؟ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق پہلے چاقو سے آنکھ پر وار کیا گیا تھا۔ پھر ناک کاٹی گئی اس کے بعد دیگر اعضاء پر وار کیے گئے اور سب سے آخر میں شہ رگ کاٹ دی گئی۔ خارج از عقل بات لگتی تھی۔ کامران کی طرح دن گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہولناک واقعہ بھی مدھم پڑتا گیا۔ کسی کا ذہن کسی اور سمت پرواز نہ کر سکا۔ صرف جاوید کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ پہلے کامران عجیب و غریب پر اسرار حالات میں مرا اور اس کی موت کو بھی خود کشی کا نتیجہ قرار دے دیا گیا۔ اس پر اچانک دیوانگی اور وحشت کا دورہ بھی حیرت انگیز تھا۔ اور اب… اب راشد بھی پر اسرار ناقابل یقین موت کا شکار ہو گیا۔
جاوید کڑیاں ملا رہا تھا اور کڑیاں مل رہی تھیں اور پھر ٹوٹ رہی تھیں۔
دل نہیں مان رہا تھا۔ اسے آصف یاد آ گیا تھا، جو تہہ خانے میں سسک سسک کر مر گیا تھا، بلکہ… بلکہ ان تینوں نے اسے مار دیا تھا۔ اپنے مذاق سے، اپنی شرارت سے۔ تو کیا دست قدرت ان سے آصف کی موت کا انتقام لے رہا ہے؟ کیا میں بھی… میں بھی کسی بھیانک حادثے کا شکار ہو جاؤں گا؟ یا پھر کوئی اور بات ہے … آصف کی بے چین روح ان سے بدلے لے رہی ہے اور کیا وہ مجھے بھی مار ڈالے گی؟ جاوید سوچ سوچ کر لرز اٹھتا۔ وہ توہم پرست نہیں تھا۔ اسے جن بھوت، بد روح، چڑیلوں وغیرہ پر کوئی یقین نہیں تھا، لیکن اب نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یہ سب سنجیدگی سے سوچ رہا تھا اور پھر دماغ کا خلل سمجھ کر رد بھی کرتا جا رہا تھا۔ بس ایک انجانی سی بے قراری دل میں مچل رہی تھی، جو کسی طور اسے چین سے کہیں بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ سانپوں کی طرح پھنکارتی ہوئی سوچوں نے اسے پاگل کر کے رکھ دیا تھا۔ جاوید ہر شے سے خوف زدہ رہنے لگا تھا۔ اپنے گھر والوں اور اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے کترانے لگا تھا۔ یہ تمام لوگ جاوید کے بدلے ہوئے عجیب رویے سے حیران و پریشان تھے۔ گھر والوں نے کرید کرنی چاہی، مگر جاوید کسی بات کا جواب نہیں دیتا تھا۔ یہ بات اس کے دماغ میں جڑ پکڑتی چلی گئی تھی کہ وہ بھی جلد کسی عبرت ناک موت کا شکار ہو جائے گا۔ اس کے معمولات تبدیل ہو کر رہ گئے تھے۔ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ یک مشت تین دوستوں کی اموات نے اس کے ذہن پر برا اثر ڈالا ہے، لیکن جاوید کی پریشانی کی وجہ صرف وہ خود ہی جانتا تھا۔
پھر ایک شام وہ اپنی اس کار میں نکل کھڑا ہوا، جس کار میں وہ چاروں دوست لاہور جا رہے تھے۔ اس نے بہت سوچ بچار کے بعد ایک فیصلہ کیا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ آصف کی روح ان سے اپنی موت کا انتقام لے رہی ہے۔ وہ آصف کی لاش کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے چلتے وقت ایک بھاری لوہے کی راڈ اپنے ساتھ لے لی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اب تک آصف کی لاش ڈھانچے میں تبدیل ہو چکی ہو گی۔ وہ اس ڈھانچے کو بھی نیست و نابود کرنے نکل کھڑا ہوا تھا۔ دیوانگی دماغ میں بس جائے تو اس کا نکلنا دشوار ہوتا ہے اور انتہائی حماقتیں سرزد ہو جاتی ہیں۔ غلط اقدام اُٹھ جاتے ہیں۔ جاوید اپنے آپے میں نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر وہ ڈھانچے کو بھی توڑ پھوڑ ڈالے گا تو آصف کی روح اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ حماقت آمیز خیال تھا، لیکن بہرحال جاوید کا خیال تھا۔ اسے کوئی ہوش نہیں تھا وہ بس جنونی انداز میں گاڑی دوڑا رہا تھا اور نہ جانے کس وقت وہ کچی سڑک پر مڑ گئی۔ محکمہ جنگلات کی پرانی عمارت اس کے سامنے تھی، جس کے تہہ خانے میں آصف نے جان دی تھی۔ جاوید ہانپتے ہوئے اُترا اور لوہے کی راڈ نکال کر عمارت میں داخل ہو گیا۔ صبح ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ وہاں کا ماحول روح قبض کر دینے والا تھا۔
کہر آلود فضا نے سارا ماحول دہشت کدہ بنا رکھا تھا۔
ہر شے دھند میں جکڑی ہوئی تھی۔ جھاڑیوں کی سرسراہٹ اور کیڑے مکوڑوں کی آوازوں کے علاوہ وہاں صرف جاوید کے ہانپنے کی آواز گونج رہی تھی۔ اس کا حلیہ خوفناک پاگل جیسا ہو رہا تھا۔ اسے اتنا ضرور معلوم تھا کہ تہہ خانے میں روشنی کی ضرورت پڑے گی، اس لیے وہ طاقت ور ٹارچ بھی لیتا آیا تھا۔ ٹارچ روشن کر کے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ سیدھے ہاتھ میں لوہے کی راڈ تھامی ہوئی تھی۔
اچانک اس کے پیروں کے قریب حرکت ہوئی۔
جاوید چیخ کر جنونی انداز میں اچھلا اور پیروں کے قریب راڈ ماری۔ ایک گول مٹول سا چوہا تھا۔ راڈ کی ضرب سے بچ نکلا۔ اتنے موٹے تازے چوہے کو دیکھ کر جاوید کی آنکھیں حیرانگی سے پھیل گئیں۔ نہ جانے کیا چیز کھا کھا کر ایسا ہو گیا تھا۔ اس نے کچھ فاصلے پر اندھیرے میں چھوٹی چھوٹی گول روشنیاں چمکتی دیکھیں، جو ادھر ادھر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ وہ چوہوں کی آنکھیں تھی اور اسے ہی گھور رہی تھیں۔ جاوید کو ایسا لگا کہ وہ بس بھوکی نظروں سے اسے یہاں آنے پر خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ اس نے زور زور سے کئی مرتبہ راڈ کو گرد آلود فرش پر مارا۔ آواز پیدا ہوئی اور چوہوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ ساری روشنیاں ادھر ادھر منتشر ہو کر غائب ہو گئی تھیں۔ جاوید آگے بڑھ گیا۔
معاً اسے ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔
وہ لرز کر ٹھٹک گیا۔ ایسا لگا کہ کوئی ہنسا تھا۔ شاید… شاید میرا وہم تھا۔ کان بھی کبھی کبھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اس نے خود کو کھوکھلی سی تسلی دی۔ ہو سکتا ہے، چوہوں کی آواز سنائی دی ہو۔ وہ تہہ خانے کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ تہہ خانے کا چھوٹا زنگ آلود دروازہ اسی طرح بند تھا۔ جیسے انہوں نے چھوڑا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ اس وقت سے اب تک کسی نے یہ دروازہ چھوا تک نہیں تھا۔ جاوید کو ہلکی سی طمانیت کا احساس ہوا۔ اس نے دروازے کی کنڈی پر ہاتھ رکھا اور اسی لمحے اس کے دل پر خوف اور دہشت نے زبردست یلغار کی۔
’’یہ… یہ… میں کیا کر رہا ہوں؟ اندر تو… آصف کی لاش… لاش نہیں ڈھانچا ہو گا۔ مگر… مگر ڈھانچا تو بس ڈھانچا ہی ہوتا ہے۔ ہڈیوں کا بے جان بے حس مجموعہ۔ آہ… میں ادھر کیوں آیا ہوں؟ میرا دماغ خراب ہو گیا تھا؟ کیا ہو گیا ہے مجھے؟‘‘ جاوید نے ٹارچ والے ہاتھ سے اپنی کن پٹی دبائی۔ ’’لیکن مجھے نیچے جا کر اس کا ڈھانچا تو دیکھنا چاہیے۔‘‘ جاوید کے اندر سے ایک اجنبی سی آواز ابھری اور بے اختیار اس کے قدم تہہ خانے کی سیڑھیاں پر جا پڑے۔ وہ یوں قدم اٹھا رہا تھا جیسے اس پر کسی نے عمل کر رکھا ہو اور یہ درست ہی تھا کہ جاوید کو یہاں تک لانے والی طاقت اسی پر اسرار سائے کی تھی۔ سایہ جاوید کے اندر سما گیا تھا۔ اس کے ہی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے جاوید تہہ خانے تک آ گیا تھا۔ سائے نے اس کے دل دماغ اور سوچوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ہر کام حسب منشا ہی ہوا تھا۔
چوہا… چوہے دان میں آ گیا تھا۔
آخر ٹارچ کی روشنی میں جاوید نے وہ دہشت ناک منظر دیکھ لیا۔ آصف کا ڈھانچا اسی طرح پڑا ہوا تھا، جس طرح انہوں نے لاش چھوڑی تھی۔ ڈھانچے کا منہ بھیانک انداز میں کھلا ہوا تھا۔ آنکھوں اور ناک کی جگہ تاریک کھڈے نظر آ رہے تھے۔ پورے ڈھانچے پر گوشت یا کھال نامی کوئی شے نہیں تھی۔ ایک دم جاوید کو انتہائی زبردست بد بو کا احساس ہوا۔ سخت تعفن کی وجہ سے اس کا دم اُلٹ پلٹ ہونے لگا۔ یوں لگتا تھا کہ پورا معدہ اور پھیپھڑے منہ کے راستے باہر اُبل پڑیں گے۔ سانس لینا دشوار ہوا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ہر سانس کے ساتھ دنیا بھر کی غلاظت پیٹ میں اُتر رہی ہے۔ ساتھ ہی جاوید کو اس موٹے اور گول مٹول چوہے کا خیال آیا، جس کو ابھی اس نے اوپر دیکھا تھا۔ اس کا بدن جھرجھری لے کر رہ گیا۔ اب سمجھ میں آ رہا تھا کہ وہ اتنا گول اور پھولا ہوا کیوں تھا۔ خوف کے مارے اس کے ذہن نے زیادہ وضاحت و تشریح نہیں کی۔ نہ جانے کیوں جاوید کو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ یہاں اپنی مرضی سے نہیں آیا ہے، بلکہ کوئی انجانی طاقت اسے یہاں کھینچ لائی ہے۔ اب خوف کے مارے اس کا برا حال ہو گیا تھا۔ اس نے لوہے کی راڈ پھینکی اور واپس زینے کی طرف بھاگا۔
اسی لمحے زور دار آواز کے ساتھ تہہ خانے کا اکلوتا دروازہ بند ہو گیا۔
خود بخود… اچانک… جاوید کے حلق سے بھیانک چیخ نکلی۔ وہ گرتا پڑتا اوپر چڑھ رہا تھا اور ٹھٹھرائی ہوئی آواز میں چیخ رہا تھا۔
’’کھولو… میں مر جاؤں گا… کون ہے …؟ دروازہ کھولو… میں مر جاؤں گا… میرا دم… گھٹ رہا ہے … خدا کے لیے مجھے باہر آنے دو…‘‘
اسے ایک ہنستی ہوئی آواز سنائی دی۔ جاوید آواز کو پہچان کر لڑکھڑا گیا۔ ’’آ… آصف… آصف…؟‘‘
’’ہاں … میں آصف… جس کو تم نے مار ڈالا تھا…‘‘ اوپر سے آواز آئی۔
’’تو کیا… یہ تمہاری روح ہے …؟‘‘ جاوید قریب المرگ ہو گیا تھا۔
’’ہنہ… بے وقوف…‘‘ ڈانٹتی ہوئی آواز آئی۔ ’’روح کا بھلا زمین پر کیا کام…؟ روح تو تب نکلتی ہے جب آدمی مرتا ہے … میں مرا ہی کب تھا۔‘‘
’’تم… جھو… جھوٹ بول رہے ہو ہم نے خود تمہاری لاش دیکھی تھی۔‘‘ جاوید بے یقینی کے عالم میں بولا۔
’’تم نے مجھے دیکھا ضرور تھا، لیکن اس وقت میں مرا نہیں تھا زندہ تھا… جب تم تینوں مجھے دیکھنے آئے تھے تو میں نے سانس روک لی تھی۔ تم جانتے ہو کہ مجھے سانس کی پریکٹس ہے۔ تم نے مجھے مردہ سمجھا اور بند کر کے چلے گئے۔ یہ درست ہے کہ میں بہت زخمی تھا۔ بھوکے چوہوں نے مجھے کئی جگہ سے کاٹ کھایا تھا، لیکن میں زندہ رہا۔ میں لاکھ بزدل سہی، مگر توہم پرست نہیں ہوں اور میں جانتا تھا کہ تم تینوں بہادر تو ہو، مگر ساتھ ساتھ بلا کے توہم پرست اور ضعیف العقیدہ بھی ہو۔ تم لوگ مجھے مرا ہوا سمجھ کر اپنا جرم چھپانے کے لیے مجھے بند کر کے چلے گئے۔ تم لوگوں کے چلے جانے کے بعد میں نے پر زور آزمائی شروع کر دی، کیوں کہ بہرحال مجھے یہاں سے باہر نکلنا ہی تھا۔ تم لوگوں نے میرے ساتھ جان لیوا مذاق کیا تھا۔ میری قسمت تھی کہ میں بچ گیا۔ میں نے اسی رات فیصلہ کر لیا تھا کہ میں بھی کچھ ایسا ہی مذاق تم لوگوں کے ساتھ بھی کروں گا۔ اگر قسمت نے تمہارا ساتھ دیا تو تم لوگ بچ جاؤ گے، جیسے میں بچ گیا، ورنہ تم لوگ قاتل تو ہو ہی۔ قتل تو بہرحال میرا تم لوگوں نے اپنی دانست میں کر ہی ڈالا تھا۔ اور جو من گھڑت کہانی تم نے میرے گھر والوں اور پولیس کو سنائی ہے، وہ بھی میں خوب جانتا ہوں۔ بے فکر رہو پیارے جاوید… تم لوگوں نے نادانستگی میں میری مشکل آسان کر دی ہے۔ تم سے نمٹنے کے بعد میں گھر جاؤں گا اور بتاؤں گا کہ میں بڑی مشکلوں سے ڈاکوؤں کے چنگل سے بچ کر نکلا ہوں۔ میں تب سے ڈاکوؤں کی قید میں تھا۔ لوگ آسانی سے یقین کر لیں گے، کیوں کہ تم نے بھی ایسی ہی کہانی گھڑی تھی۔ ہاں تو میں دروازے پر زور آزمائی کرتا رہا، لیکن دروازہ زنگ آلود ضرور ہے، مگر ہے بہت مضبوط اور موٹے لوہے کا میں اسے دھڑدھڑاتا رہا۔ اس امید پر کہ شاید کوئی اگر اتفاق سے عمارت کے قریب سے گزر رہا ہو تو سن لے۔ یہاں کہانیوں جیسا اتفاق ہوا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تقدیر میرے ساتھ تھی۔ اسی عمارت کا سابقہ چوکیدار جو یہاں کافی دنوں بعد آیا تھا، اس نے دروازہ پیٹنے کی آواز سن لی اور یوں میں باہر نکل گیا۔ چوکیدار میرا محسن تھا، اس لیے میں نے اس بوڑھے کو ساری کہانی بلا کم و کاست سنا دی۔ چوکیدار بوڑھا بنگالی تھا اور اسے سفلی علم سے بھی خاصی شد بد تھی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں اپنے تینوں دوستوں سے بھیانک انتقام لینا چاہتا ہوں، کیوں کہ انہوں نے مجھے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور مجھے یونہی ’’بے گور و کفن‘‘ چھوڑ کر بھی چلے گئے۔ میں اس کے ساتھ ہی اس کے گھر رہنے لگا۔ تقریباً بیس دن اس نے مجھے خاموش رہنے کا کہا اور خود بھی کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد اس نے عمل شروع کر دیا۔ تم تینوں کے زبانی کوائف میں اسے دے چکا تھا، اس لیے بابا کو عمل کرنے میں دشواری پیش نہیں آئی۔ ادھر ایک رات کامران پر جادو شروع ہو گیا۔ اسے میرا سایہ نظر آنے لگا اور آواز بھی، لیکن وہ سب سفلی علم کی بدولت ہو رہا تھا۔ کامران کا پتلا بابا کے قبضے میں تھا، اس لیے وہ ہی کچھ کرتا رہا، جس کے لیے اسے مجبور کیا جاتا رہا۔ تم بھی کامران کی حادثاتی موت کے بارے میں جانتے ہو۔ اسی طرح راشد کا بھی پتلا بنا کر اسے ختم کیا گیا۔ پھر تم کو مجبور کیا گیا کہ تم یہاں آؤ اور دیکھ لو جاوید… تم یہاں آ چکے ہو… اب تم مرو گے … سسک سسک کر… تڑپ تڑپ کر… بھوکے پیاسے … اور ہاں وہ جو تم ڈھانچا دیکھ چکے، وہ ہم نے قصبے کے قبرستان سے حاصل کر کے یہاں پہنچایا تھا… کہو … کیسی لگی اسٹوری…؟ دوست گھبرانا بالکل نہیں … یہ تو صرف مذاق ہے … دس پندرہ دن بعد آ کر میں خود یہاں سے نکال لوں گا۔‘‘
آصف تفصیل بتا کر ہنسنے لگا اس تمام تفصیل کے دوران جاوید روتا پیٹتا رہا تھا۔ فریادیں، التجائیں کر رہا تھا۔ معافیاں مانگ رہا تھا۔ نہ جانے کس کس کے واسطے دیتا رہا، لیکن آصف کے کان پر جوں نہ رینگی۔ وہ اپنی سناتا رہا۔ مزے لے لے کر جیسے کوئی دل چسپ اور سنسنی خیز کہانی سنا رہا ہو۔
’’گڈ نائٹ فرینڈ… یہی کہا تھا نا تم لوگوں نے …‘‘ آصف کے قدموں کی آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔
جاوید دھاڑیں مارتا رہ گیا۔ بلکتا، سسکتا، خوفزدہ سا۔ ٹارچ پتا نہیں کب اور کہاں گر گئی۔ تہہ خانے میں بھوکے چوہے ادھر ادھر پھدکتے پھر رہے تھے۔ شاید اپنے شکار پر حملہ کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔
آصف باہر نکلا۔ ایک درخت کے نزدیک بوڑھا چوکیدار کھڑا تھا۔ وہ تیزی سے آصف کے پاس آیا۔
’’بند کر دیا اسے …؟‘‘ بوڑھے کی آواز میں خباثت رچی ہوئی تھی۔
’’ہاں … اور اب تو وہاں سے صرف اس کی روح ہی نکلے گی۔‘‘ آصف پر سکون اور شادمان لہجے میں بولا۔ ’’چلو بابا… اب چلتے ہیں … ویسے ہی آج کل قصبے میں چوریاں بہت ہو رہی ہیں … گھر اکیلا ہے … جلدی چلو… کل پرسوں تک تو میں بھی واپس چلا جاؤں گا۔‘‘
’’پھر واپس یہاں نہیں آئے گا تو…؟‘‘ بوڑھے نے پوچھا۔
’’کیسے نہیں آؤں گا بابا… ضرور آؤں گا… بھلا تم کو بھول سکتا ہوں اور پھر اپنے پیارے دوست کی لاش بھی تو دیکھوں گا… اس سے وعدہ کیا ہے دس پندرہ دن بعد آ کر اسے نکالوں گا… دس پندرہ دن…‘‘ آصف ہنس پڑا۔
اس کی ہنسی میں بوڑھے کی مکروہ ہنسی بھی شامل ہو گئی۔
وہ دونوں قصبے کی جانب روانہ ہو گئے۔ ابھی انہوں نے آدھا فاصلہ طے کیا تھا کہ انہوں نے بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں سنی تھیں، لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے بھاگنے والے کو دیکھ نہ سکے۔ دونوں ابھی کچھ سمجھ نہیں پائے تھے کہ اندھیرے میں زور دار دھماکوں کے ساتھ شعلوں کی لکیریں کوندیں اور ان دونوں کو چاٹ گئیں۔ آصف اور بوڑھا خاک و خون میں لتھڑ کر لوٹنے لگے۔ آن کی آن میں دونوں ایک ساتھ موت کے منہ میں پہنچ گئے۔
سامنے سے اندھیرے نے کئی آدمی اگلے وہ سیدھا دونوں لاشوں کی طرف آئے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ ان کی نالوں میں سے دھوئیں نکل رہے تھے۔
’’مر گئے … یہ دیکھو یہ پڑے …‘‘ آگے والے آدمی نے دوسروں کو بتایا۔
’’کب تک بچتے … بڑے دنوں سے تنگ کر رکھا تھا… پر جبارے ذرا دیکھ تو۔ تھے کون یہ دونوں چور…؟‘‘
’’اوئے کوئی بھی ہوں … چور بس چور ہوتا ہے … سمجھا کہ نہیں …؟‘‘
’’اندھیرا بہت ہے چلو اٹھا لے چلو انہیں … اب قصبے میں سکون ہو جائے گا… بڑی چوریاں کی ہیں انہوں نے …‘‘
یہ قریبی قصبے کے لوگ تھے، جو قصبے میں ہونے والی چوریوں سے تنگ تھے اور ٹولیاں بنا کر راتوں میں چوروں کو تلاش کرتے تھے۔ آصف اور بوڑھے کو دیکھ کر اُنہوں نے چور سمجھا اور گولیاں مار دیں۔
برائی کا بدلہ برائی سے لے کر بھلا آصف کیسے بچ پاتا۔
وہ لوگ دونوں ’’چوروں‘‘ کو اٹھا کر قصبے کی جانب روانہ ہو گئے۔
٭٭٭
متن کتاب ایپ سے حاصل ہوا
ای بک سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید