صفحات

تلاش کریں

ناولٹ:خواب کیوں نہیں زندگی(ردا کنول)

"آج میری زندگی کا اٹھا ئیسواں سال شروع ہو چکا ہے، یعنی تمہیں میری زند گی میں دا خل ہوئے آج دس سال ہو چکے ہیں۔ ان دس سالوں میں جو کچھ مجھ پر بیتا تم اُس کی گواہ ہو۔ یاد ہے نا تمہیں کہ میں کون ہوں ؟میں کیا کیا کر چکی ہوں اپنے ساتھ اور۔۔ اور تمہا رے ساتھ بھی تو۔ تمہیں یاد رکھنا ہو گاورنہ تم جانتی ہو۔ وہ دن میرا اس دنیا میں آ خری دن ہو گا۔ جب تم مجھے بھلا دو گی۔ مگرتم۔۔ ۔ تم تو مجھے نہیں بھلا سکتی۔ کم از کم تم تو یہ جرات نہیں کرو گی۔ تمہیں میرا ساتھ دینا ہو گا میری زندگی کی آخری سانسوں تک۔۔ ۔ جب تک میں مٹی میں دفن نہیں ہو جا تی تمہیں میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہو گا تم چلو گی نا۔۔؟

میں ہر بار تم سے ایک ہی سوال پو چھتی ہوں اور ہر بار تم مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیتی۔ چلو تم تسلی نا سہی جواب تو دو۔ کچھ تو جس سے مجھے لگے کہ کوئی تو ہے جسے میرے غم کا ذرا سا بھی احساس ہے، کوئی تو ہے جو جا نتا ہے کہ میں۔۔ ۔ میں کیا ہوں۔؟

مگر میں جا نتی ہوں تم مجھ سے ایسا کچھ نہیں کہو گی، تم ہمیشہ سے یہ ہی تو کر تی آئی ہو، اور میں۔۔ میں سب کچھ جا نتے ہوئے بھی تم سے یہ سب کہتی ہوں۔ کاش میں اتنی مجبور نا ہو تی تو کبھی تم سے اس قسم کے سوال نہ پو چھتی۔ کبھی مجھے تمہارے سامنے گڑگڑانا نہ پڑتا۔ اگر جو میں۔۔ ۔

مجھ سے زیادہ تکلیف میں کیا کوئی اس دنیا میں ہو گا جس کے پاس کہنے سننے کیلئے کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں ہے اور جو صرف تمہارے سے ہمکلام ہونے کیلئے مجبور ہے ..؟مجبوری انسان سے کیا کیا کرواتی ہے آخر..اب اس وقت بھی میں تمہارے ساتھ سر کھپانے میں مصروف ہوں جبکہ مجھے تو باہر نکلنا چاہیے تھا۔ مجھے بھی دنیا کی خوب صو رتی کو اُسی طرح محسوس کرنا چاہیے تھا جیسے سب کرتے ہیں۔ مجھے تمہارے لیے دنیا کو نہیں چھو ڑنا چا ہیے تھا۔"

کل رات کی با رش کے بعد سے صبح مو سم بڑا نکھرا نکھرا اور اُجلا اُجلا سا تھا۔ اُو نچے لمبے سفیدے کے در خت با رش کے پا نی سے دھل کر جیسے نکھر سے گئے تھے۔ گھاس پر شبنم کے قطرے مو تیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ ان سب سے بے نیاز وہ اپنے کمرے کی کھڑکیاں دروازے بند کیے رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھی تھی۔ کا غذوں کا ایک ڈھیر تھا جو تر تیب سے رائٹنگ ٹیبل کی دونوں اطراف میں رکھا ہوا تھا۔ خود وہ ایک ڈا ئری پر جھکی سنہری قلم سے لکھتی جا رہی تھی۔ را ئٹنگ ٹیبل کے بائیں طرف ایک چھو ٹی میز رکھی تھی جس پر ایک پانی کی بو تل اور مگ رکھا تھا۔ دفعتا اُس نے جھکی گر دن اُٹھائی تھی۔ ماتھے پر آئی لٹ کوکان کے پیچھے اڑسا تھا۔

باہر دن کا فی نکل آیا تھا لیکن کمرے میں تا ریکی سی پھیلی تھی۔ چہرہ اُٹھانے پر لیمپ کی مدھم رو شنی اُس کے چہرے پر پڑی تھی۔ اُس کا چہرہ ڈائری پر لکھے الفاظ کے بر عکس بالکل بے تا ثر تھا۔

وہ کا غذ کو داغ دار کر تی تھی، اذیت سے پُر الفاظ کے ساتھ۔ وہ جیسے خود لمحہ بہ لمحہ اُس اذیت میں ڈوب ڈوب جا تی تھی۔

ایک گہری سانس لے کر اُس نے ڈا ئری پر آخری الفاظ تحریر کیے تھے۔

"میں چا ہتی ہوں تم مجھ سے وہ کہو جسے سننے کیلئے میرے کان ترس رہے ہیں، جسے سننا میرا حق ہے۔ مجھے میرا حق دو۔ تم سب کچھ کر سکتی ہو۔ میرا ساتھ دے سکتی ہو۔ اور تم یہ سب میرے لیے تب کرو جب اس کا وقت ہو گا۔ اور تم جا نتی ہو جب وقت آئے گا تو وہ اپنے ہونے کا پتاخود دے گا۔ تب مجھے تمہیں بتا نے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تم خود سمجھ جا ؤ گی۔ لیکن پھر تب تم پیچھے نہیں ہٹو گی۔ تم وہ بو لو گی جو میں چا ہتی ہوں۔ تم کرو گی نا وہ سب؟ "

سنہری قلم بند کر کے اُس نے قلم پین ہو لڈر میں رکھا تھا۔ ڈائری پر لکھی ہوئی عبارت کو وہ چند لمحے اُسی طرح دیکھتی رہی تھی پھر اُسے آ ہستگی سے بند کر کے ایک طرف ڈال دیا۔ کر سی سے اُٹھنے کی کوشش میں وہ بس سسکی لے کر رہ گئی تھی۔ پتہ نہیں کب سے وہ اسی حالت میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اب وہ ہلنے جلنے سے بھی قا صر تھی۔ ٹا نگیں جیسے مفلوج ہو کر رہ گئی تھیں۔ اپنی ٹانگوں کو آگے پیچھے ہلاتے ہوئے بلا آخر وہ اُٹھنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ کمرے میں چکر کا ٹتے ہوئے اُس نے اپنے بالوں کو دوبارہ سے جو ڑے کی شکل میں با ندھا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔ کمرے کے بر عکس با ہر چہار سو روشنی پھیلی تھی۔ وہ سید ھی کچن میں گھس گئی تھی۔ تھو ڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ وہ اس دستک کو پہچا نتی تھی۔ آہستہ آہستہ سے چلتے ہوئے اُس نے لا ؤ نج کا دروازہ کھول دیا تھا۔ باہر زلیخا کھڑی تھی۔

تسکین نے مدھم آواز کے ساتھ اُس کے سلام کا جواب دیا تھا اور چائے بنانے واپس کچن میں گھس گئی تھی۔ پھر جس وقت وہ چائے کا مگ ہاتھ میں پکڑے کچن سے باہر نکلی زلیخا لاؤںج کی جھاڑ پو نچھ کرنے میں مصروف تھی۔

لاؤنج میں آنے کے بعد وہ زلیخا کو ہدایات دینے لگی تھی۔ "رات بہت آندھی آئی ہے اس لیے آج تم ایسا کرنا لاؤنج اور کچن صاف کرنے کے بعد باقی سارے کمروں کو بھی دیکھ لینا۔ اور ہاں پورچ اور لان کی بھی آج جمعدار کو بلوا کر صفائی کروا دینا۔ اتنا سارا کام تو تم اکیلے نہیں کر سکو گی"۔ اُس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔

"باجی پچھلے با غیچے کی بھی کروا دوں ؟‘‘ زلیخا نے کمر پر دوپٹہ کس لیا تھا اور اب وہ لاؤںج کی جھاڑ پوچھ میں لگ گئی تھی ایک دم اُسے خیال آیا تو اُس نے کہہ ڈالا۔

"نہیں بالکل نہیں۔۔ وہاں کوئی نہیں جائے گا۔ ‘‘ تسکین نے ایک دم اُس کی طرف رُخ مو ڑا تھا اور کچھ ڈپٹنے والے لہجے میں اُس نے زلیخا سے کہا تھا۔

زلیخا کے لیے اُس کا یہ انداز کوئی نیا نہیں تھا۔ جتنی اُس کی عمر تھی اُتنے سالوں سے ہی وہ تسکین کے یہاں کام کر رہی تھی۔ جب تک نور الٰہی زندہ تھے وہ با قاعدگی سے پچھلے با غیچے کی صفائی کروایا کرتے تھے لیکن اُن کی موت کے بعد سے یہ سلسلہ تسکین نے بند کر وا دیا تھا۔ وسیع و عریض کو ٹھی کے دو کمروں کے علاوہ تمام کمرے لاک کر دئیے گئے تھے اور ملازموں کو سرونٹ کواٹر سے نکال دیا گیا یہاں تک کہ لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی بند کر دیا گیا۔

نور الٰہی کی زندگی میں زلیخا اپنے خاندان کے ساتھ سرونٹ کواٹر میں رہتی تھی لیکن پھر تسکین کے کہنے پر اُنہوں نے سر ونٹ کواٹر چھوڑ دیا تھا۔ پھر وہ روزانہ صبح اپنی ماں کے ساتھ آیا کرتی تھی لیکن پچھلے سال اپنی ماں کے مرنے پر اب وہ اکیلی ہی صبح صبح آ جایا کرتی تھی۔ تسکین اُس سے اتنے بڑے گھر میں سے صرف لاؤنج اور کچن کی صفائی کر واتی تھی حتی کہ اپنے کمرے کی بھی نہیں۔ اب بھی وہ صفائی کرنے میں مگن ہو گئی تھی کچھ دیر بعد با ری باری سارے کمرے اُس نے جھاڑ کے صاف کر دئیے تھے، تسکین کے کمرے کو اسی طرح چھوڑ کر وہ واپس نچلے پو رشن میں آ گئی تھی۔ وہ جمعدارسے صفائی کروانے میں مصروف تھی جب اُس نے تسکین کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک چٹ تھی۔ زلیخا نے بے اختیار ایک گہری سانس لی۔

"زلیخا یہ لو اس پر جو کتابوں کے نام لکھے ہیں وہ مجھے لا دو۔ اور دھیان رکھنا کوئی ایک بھی کتاب کم نہ ہو۔ مجھے سب کتا بیں چا ہیے۔ "

زلیخا کے لیے یہ الفاظ بھی نئے نہیں تھے وہ ہر دوسرے دن کے وقفے کے بعد اُنہیں محتلف تر تیب کے ساتھ سنتی تھی۔ چٹ اُسے پکڑانے کے بعد تسکین لان کے وسط میں پڑی ہوئی کر سیوں میں سے ایک پر جا کر بیٹھ گئی۔ میز پر پڑے ہوئے اخبار کو اُس نے اُٹھایا تھا اور پڑھنے میں مشغول ہو گئی تھی۔ ایک دم زلیخا کا دل چا ہا تھا وہ جائے اور تسکین سے پو چھے "آپ تھکتی نہیں ہیں۔ ایک ہی کام، ایک انداز، ایک ہی الفاظ کہتے اور کرتے ہوئے "۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہو تی ہیں جن کو کرنے کا بس دل چاہتا ہے اُن کو کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اس لیے زلیخا نے بھی رُخ موڑا تھا اور پودوں کی کانٹ چھانٹ میں مصروف ہو گئی تھی۔

دس سال سے وہ ایک ہی روٹین اپنائے ہوئے تھی۔ زلیخا کو اُس کی راتوں کا علم نہیں تھا مگر اُس کے دن سارے ہی ایک جیسے تھے۔ عجیب تھکے ہوئے سے، ٹھہرے ہوئے سے۔ اور زلیخا جانتی تھی اُس کی راتیں بھی کوئی محتلف نہیں ہوں گی وہ ساری ساری رات ایک ہی کرسی پر بیٹھے نجانے کیا کیا صفحے پر اُتارتی جاتی تھی۔ راتیں بھی عجیب تھیں اُن میں بھی ایک یکسانیت سی تھی۔

تسکین شاذ و نادر ہی گھر سے باہر نکلتی تھی اور جس دن وہ خود کہیں باہر جا رہی ہو تی تب بھی وہ زلیخا کو ساتھ لے لیتی۔ باہر جانے کے بعد وہ ضرورت کی کوئی چیز لینے کے بعد واپس گا ڑی میں آ کر بیٹھ جاتی اور زلیخا کو کتابوں والی دکانوں میں بھیج دیتی۔ وہ محتلف کتابیں اکٹھی کرتی جا تی اور اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا تی جا تی۔

وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ تسکین زلیخا کو ساتھ لیے بازار آئی تھی اُسے کچھ ضروری چیز یں لینی تھی۔ ضرورت کی چند چیز یں لینے کے بعد وہ واپس گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی تھی اور زلیخا کو اُس نے کتا بوں والی دکان میں جانے کا کہا تھا۔ زلیخا بڑی بے دلی سے گا ڑی سے اُتری تھی اور جب وہ محتلف کتابوں کے لیے ایک دکان سے دو سری دکان میں خوار ہو رہی تھی تو وہ اپنے اُوپر قابو نہیں رکھ پائی تھی۔

ساتھ آئی ہوئی ہیں پر گاڑی میں گھس کے بیٹھی ہوئی ہیں یہ نہیں کہ خود آ کر دو کتابیں پکڑ لیں۔ مجھے آگے کرنا ہوتا ہے بس۔۔ جیسے کتابوں والی دکان میں یکدم کیڑے نکل آئیں گے اُن کے آنے سے۔ عجیب ہی ہیں با جی۔۔ ۔

زلیخا بڑ بڑا تی جا تی اور کتا بیں اکٹھی کر تی جا تی۔

بالکل معمول کی طرح کے ہی دن گزرتے جا رہے تھے۔ ہر دن ایک جیسا تھا۔

تسکین لان کی کر سی پر بیٹھی بظاہر اخبار پڑھنے میں مگن تھی۔ زلیخا اپنی ہی سوچوں میں غرق پو دوں کی سو کھی شاخیں کاٹ کر پھینک رہی تھی جب کسی غیر ما نوس سی آواز پر وہ چو نکی تھی۔ زلیخا نے گردن گھما کر تسکین کی طرف دیکھا تھا۔ دروازے پر بیل بجی تھی۔ وہ تھوڑا حیران ہوئی تھی اس گھر میں خود اُس کے اور جمعدار کے علاوہ کوئی نہیں آتا تھا۔ تسکین نے بھی اخبار سے نظر اُٹھا کر گیٹ کی طرف دیکھا تھا اور پھر زلیخا کی طرف۔ زلیخا نے اُس کے دیکھنے پر گارڈن کٹر ایک طرف رکھا اور کپڑے جھاڑتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہو ئی۔ چند منٹوں بعد وہ واپس آئی تو اُس کے ساتھ ایک لمبا تڑنگا مگر خوبرو نو جوان تھا۔ تسکین نے انجانی نظر سے اُس کی طرف دیکھا تھا اور اخبار سامنے پڑے ہوئے ٹیبل پر ڈالنے کے بعد وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

السلام و علیکم میں ہتف ہوں۔ امریکہ سے ابھی کل ہی واپس آ یا ہوں۔ یہ خط مجھے دس سال پہلے اپنے تایا جان کی طرف سے ملا تھا۔ کہنے کے ساتھ ہی اُس نے خط تسکین کی طرف بڑھایا تھا۔ تسکین نے کچھ حیرانی سے خط پکڑا تھا اور اُسے پڑھنے لگی تھی۔ اس خط میں ہی یہاں کا ایڈریس لکھا تھا اس لیے میں یہاں چلا آیا۔ تسکین نے خط پڑھ کر ایک نظر اُس کی طرف دیکھا تھا اور پھر اُسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی بیٹھ گئی تھی۔ تایا جان نے آپ سے ذکر کیا ہو گا اس بارے میں۔ لڑکا شاید کچھ زیادہ ہی با تو نی تھا یا تسکین کو بو لنے کی عادت بالکل نہیں تھی۔

جی نہیں نور الٰہی نے مجھ سے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔ مگر آپ تسلی رکھیے آپ جب تک چاہیں یہاں رہ سکتے ہیں۔ میری تسلی کے لیے نور الٰہی کا یہ خط ہی کا فی ہے۔ اُس نے ہاتھ میں پکڑے خط کو ہوا میں لہرایا تھا اور جیسے ہتف کو یقین دلانا چا ہا تھا۔ زلیخا کو اُس نے چائے لانے کو کہا تھا اور پھر سے ہتف سے باتوں میں مشغول ہو گئی تھی۔

میں تو ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ تایا جان کے ساتھ ہی جا کر پاکستان میں رہوں لیکن پھر ہائی سکول سٹارٹ ہونے کی وجہ سے میں واپس نہ آ سکا، حتی کہ تایا جان کی ڈیتھ پر بھی نہیں۔ میں آج بھی اپنے آپ کو کوستا ہوں کیوں ممی کی باتوں میں آ کر میں نے ایسا کیا۔ مجھے آنا چاہیے تھا۔ وہ یکدم بے حد افسردہ نظر آنے لگا تھا۔ تسکین نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو گھورنے میں مصروف تھی۔

ایک چھوٹی سی غلطی پر نور الٰہی تایا کے ساتھ ممی بابا نے بہت غلط کیا۔ لیکن اس خط نے ثابت کر دیا وہ بڑے انسان تھے۔ سر جھکائے رندھے ہوئے لہجے کے ساتھ وہ تسکین سے مخاطب تھا۔ میز پر چائے رکھتی زلیخا حیران سی اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ دس سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی شخص رشتہ دار کی صورت میں اس گھر میں آیا تھا۔ زلیخا جتنا حیران ہو تی کم تھا۔

آپ کل آئے تھے امریکہ سے تو کہاں رہ رہے ہیں آپ ؟تسکین نے ہاتھ کے اشارے سے زلیخا کو وہاں سے جانے کو کہا اور خود چائے بنانے لگی۔ ہتف کو چائے کا کپ پکڑاتے ہوئے تسکین نے اُس سے پوچھا تھا۔

ہوٹل میں۔ وہ جواباً سیدھا ہو کر بیٹھا تھا اور گلا کھنکھارتے ہوئے اُس نے تسکین سے کہا تھا۔ ٹھیک ہے ابھی آج آپ وہیں رہیں کل میں انیکسی صاف کر وا دوں گی، آپ آرام سے وہاں رہ سکتے ہیں۔

جی جیسے آپ بہتر سمجھیں۔ کپ کو لبوں سے لگاتے ہوئے وہ تسکین کے چھو ٹے چھوٹے سوالوں کے جواب دینے لگا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



ہتف کو رخصت کرنے کہ بعد وہ واپس اندر آئی تو زلیخا ساری صفائی مکمل کر کہ چائے کے برتن دھونے میں مصروف تھی۔

کل انیکسی کی اچھی سی صفائی کروا دینا۔ یہ لڑکا اب یہیں رہے گا۔ زلیخا سر ہلا کر باہر نکل گئی، وہ اب واپس اپنے گھر جا رہی تھی آج وہ معمول کے دنوں سے کچھ دیر زیادہ یہاں رہ گئی تھی ورنہ عام دونوں میں وہ ایک دوگھنٹوں میں کام مکمل کر کے چلی جا تی تھی۔ لاؤنج کا دروازہ بند کرنے کے بعد وہ واپس کچن میں آئی تھی اور کھانا بنانے میں مصروف ہو گئی تھی۔

منہ میں چھوٹے چھوٹے نوالے ڈالتے ہوئے وہ بار بار گھڑی پر نظر ڈالتی تھی۔ جہاں اب دوپہر کے پونے تین ہو رہے تھے۔ کھانا وہ ایسے کھا رہی تھی جیسے وقت گزارنے کے لیے کھارہی ہو۔ بلا آخر کھانا ختم کرنے کے بعد وہ کمرے میں آئی تو تین بج چکے تھے۔ بیڈ پر پڑے ہوئے سفری بیگ کو اُس نے دونوں ہاتھوں سے اُٹھایا تھا اور بمشکل گھسیٹتے ہوئے نیچے لائی تھی۔ چند منٹوں بعد وہ اُسی طرح مشکل سے بیگ کو گاڑی میں رکھنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ بیگ شاید بے انتہا وزنی تھا، وہ رکھنے کے بعد چند منٹ اپنا سانس درست کرتی رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ گاڑی گیٹ سے باہر نکال کر لے گئی تھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



۲۰۱۶/۳/۴

تم جا نتی ہو آج کادن باقی دنوں سے بالکل محتلف تھا۔ آج ایک بالکل انجان لڑکا میرے گھر میں گھس کر مجھ سے کہہ رہا تھا کہ وہ نور الٰہی کا بھتیجا ہے۔ اور میں اُس کی ہمت پر حیران ہوں، کتنے آرام سے اُس نے میرے ساتھ اتنا بڑا جھوٹ بول دیا۔ لوگ کتنے دلیر ہوتے ہیں۔ اور میں۔۔ ۔ میں کتنی بزدل ہوں۔ میں روزانہ اُس دلدل میں مزید گھستی ہی جا رہی ہوں جس کے اندر کبھی میں نے خود اپنی مر ضی سے پا ؤں رکھے تھے۔ میں اُس میں سے نکل ہی نہیں پا تی ہوں۔

تم میرے جیسی بزدلی نہ دکھانا۔ جب تمہا را وقت آئے گا تو تم خاموش مت رہنا تم سب کو چیخ چیخ کر بتانا۔ تم خاموش نہیں رہو گی۔ میری طرح تو بالکل نہیں۔ اپنے حصے کی جنگ لڑنا ہر کسی کا حق ہے اور ہر کسی کو اپنی جنگ خود ہی لڑنا پڑتی ہے، کوئی کسی کے لیے اپنی جان داؤ پر نہیں لگا تا ہے۔ کوئی کسی کے لیے اُس میدان جنگ میں نہیں اُترتا جو اُس کا اپنا نہیں ہوتا۔ تمہیں بھی اپنے حصے کی جنگ خود ہی لڑنا ہو گی۔

میں جا نتی ہوں تم مجھ سے کیا پو چھنا چاہ رہی ہویہی نا کہ اب میں اُس لڑکے کے ساتھ کیا کروں گی۔ میں تمہیں اس کا جواب نہیں دوں گی اس بارے میں تمہیں وقت آگاہ کرے گا۔ وقت۔۔ جو بعض دفعہ مرہم بن کر زخموں کو آرام پہنچا دیتا ہے اور کئی بار تو یہ روح تک کو چھلنی کر دیتا ہے۔ جب جسم کو تکلیف پہنچتی ہے تو آنکھ سے آنسو نکلتے ہیں، روح کی تکلیف پہ دل کر لاتا ہے۔ تب کراہ نہیں نکلتی، روح آہ بن جا تی ہے پھر وہ جسم کے ارد گرد منڈلا تی رہتی ہے۔

تم جا نتی ہو میں آج پھر ایک بار صرف تمہاری سن رہی ہوں۔ صرف تمہاری۔۔ ۔

لوگ دل کی سنتے ہیں یا دماغ کی، اور میں۔۔ ۔ میں صرف تمہارے لیے جیتی ہوں۔ تمہارے لیے کرتی ہوں۔ اور جب تک زندہ ہوں صرف تمہارے لیے ہی کر تی رہوں گی۔ اب مجھے اپنی پرواہ نہیں ہے۔

میں آج تم سے کوئی گلہ بھی نہیں کروں گی۔ کوئی شکوہ میں آج تمہارے لیے اپنی زبان پر نہیں لاؤں گی۔ تم یہ مت سمجھنا کہ میں تم پر یہ کر کہ کوئی احسان کروں گی یا میں تم پر ترس کھا رہی ہوں۔

درا صل میں سمجھ گئی ہوں جو کچھ میرے ساتھ ہوا اُس میں تمہارا قصور نہیں تھا۔ وہ سب میرا مقدر بھی نہیں تھا۔ وہ میرا وہ فعل تھا جو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے بخو شی انجام دیا۔ میں آج پھر سے اپنے اسی گناہ کا کفارہ ادا کرنے جا رہی ہوں۔ میں پچھلے دس سالوں سے یہی تو کر رہی ہوں۔ تم دعا کرنا مجھے سکون مل جائے کسی طرح تو۔۔ ۔ میرے دل پہ جو سیاہ دھپے پڑ گئے ہیں میں کسی طرح تو اُن نشانوں کو مٹا سکوں۔ میری روح کو سکون مل جائے۔ وہ تھم جائے، اُس کے ساتھ چکر کاٹتے کا ٹتے میں تھکنے لگی ہوں۔ اب تو سانس بھی اُکھڑنے لگی ہے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



رات کے دو بج رہے تھے وہ تیزی کے ساتھ اپنی رائٹنگ ٹیبل سے اُٹھی تھی اور سامنے پڑے ہوئے کاغذوں کے پلندے اُس نے تیزی سے سمیٹے تھے۔ یہ سب وہ مسودے تھے جو وہ پچھلے کا فی دنوں سے لکھنے میں مصروف تھی۔ کا غذوں کو ترتیب سے پکڑتے ہوئے اُس نے باہر کی طرف قدم بڑھائے تھے۔ سیڑھیاں اُتر کر وہ کچن میں آئی تھی۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے مسودوں کو اُس نے کچن کاؤںٹر پر رکھا تھا اور خود کچن کے ایک کیبن سے کچھ ڈھونڈنے لگی تھی۔ چند منٹوں بعد جب اُس کی تلاش ختم ہوئی تو وہ کچن کے پچھلے دروازے تک آئی جو ہر وقت بند رہتا تھا۔ چابی سے اُس کا تالا کھول کر اُس نے دروازہ پورا کھول دیا تھا اور خود واپس آ کر کا غذ وں کی کاپیاں اُٹھا نے لگی۔ کچھ دیر وہ اپنے لکھے ہوئے مسودے اُٹھائے کچن سے کے اُس دروازے سے نکل گئی تھی جو پچھلے با غیچے کی طرف کھولتا تھا۔ اُس کے پیچھے دروازہ ایک بار پھر بند ہو گیا تھا اور کچن خالی رہ گیا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



زلیخا تم پھر تین کتا بیں بھول آئی ہو؟ہر دفعہ ایسا کرنا ضروری ہے کیا؟ لا ؤ نج کے میز پر پڑے کتا بوں کے بنڈلوں میں سے وہ کتا بیں الگ کر تی جا رہی تھی اور ہاتھ میں پکڑی چٹ پر سرخ نشان لگا تی جا رہی تھی۔ کل جو کتا بیں اُس نے زلیخا کو لانے کے لیے کہا تھا وہ سب آج اُس کے سامنے بنڈلوں کی صورت میں پڑی تھیں۔ اور اتنی ڈھیر کتابیں وہ ہر دوسرے دن کے وقفے سے منگوایا کر تی تھی اور زلیخا بعض دفعہ چڑ جاتی۔ آخر اتنی کتا بوں کا وہ کر تی کیا ہے ؟؟؟ مگر ہمیشہ کی طرح وہ پو چھنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پا تی تھی۔

با جی میں نے تو بہت کوشش کی تھی پر یہ والی تو مل کے نہیں دے رہی تھیں۔ زلیخا نے بے چا رگی سے اُس کی طرف دیکھ کر کہا تھا کہ کہیں وہ پھر سے اُسے ڈانٹنے نہ لگے۔

ایسا ہر دوسرے دن کہتی ہو تم زلیخا۔ تسکین نے کچھ نا را ضی سے اُس سے کہا تھا۔ اب جواباً بھلا زلیخا کیا کہتی سو خا موش رہی۔ تسکین ساتھ ساتھ کتا بیں نکال کر علیحدہ کرتی جا رہی تھی اور چٹ پر نشان لگا تی جا رہی تھی۔ دفتا ایک کتاب ہاتھ میں پکڑے وہ جیسے چو نک گئی تھی۔ بے اختیار کتاب کے ٹا ئٹل پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ جیسے کسی ٹرا نس کی کیفیت میں کھڑی تھی۔ چٹ پر سرخ نشان لگا نا وہ بھول چکی تھی۔ اُس کی پلکیں گیلی ہو رہی تھیں، ہر چیز دھند لا گئی تھی۔ کہیں اندر جیسے بہت سارا پا نی اکٹھا ہوا تھا، اُس کے گلے میں جیسے کوئی گو لا سا اٹکا تھا۔ بہت ساری دھند پورے کمرے میں چھانے لگی اور پھر وہ اس دھند میں لپٹ لپٹ گئی۔ زلیخا اُٹھ کر کچن میں جا چکی تھی۔ تسکین اسی طرح لا ؤ نج میں ساکت کھڑی تھی۔

یک دم کسی چیز کے ٹو ٹنے کی بڑی زور دار آواز آ ئی۔ تسکین کو لگا اُس کا دماغ چٹخ گیا ہو مگر وہ کچھ اور تھا۔ آواز باہر سے آئی تھی۔ زلیخا با ہر کی طرف بھاگی۔ لا ؤ نج کے دروازے کے پاس ایک فو ٹو فریم ٹو ٹا پڑا تھا جس کا شیشہ گر کر چکنا چور ہو گیا تھا۔ پاس ہی ہتف مسکین سی شکل بنائے کھڑا تھا۔

ارے یہ تو نور الٰہی صاحب ہیں۔ تصویر پر نظر پڑتے ہی زلیخا چیخی تھی۔ زلیخا کی بات سننے کی دیر تھی کہ تسکین دوڑی باہر آ ئی۔ وہ بھی جیسے ساکت رہ گئی تھی۔

یہ تصویر تمہارے پاس کہاں سے آ ئی؟ وہ نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی تھی اور تصویر کو شیشوں سے آزاد کرنے لگی تھی۔

بہت سال پہلے نور الٰہی تایا نے یہ تصویر بابا کو بھیجی تھی۔ وہ زمین پر بیٹھے ہوئے شیشے اُٹھا رہی تھی۔ میں اُٹھا دیتی ہوں با جی، آپ اندر چلیں۔ زلیخا نے آگے بڑھ کر شیشے اُٹھانے چاہے تھے لیکن تسکین نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے منع کیا تھا۔

نہیں یہ میں خود اُٹھا ؤں گی۔ جا ؤ تم کام کرو۔ زلیخا مڑ کر اندر چلی گئی۔

یہ آپ کے اور نور الٰہی تایا کے نکاح والے دن کی تصویر ہے نا؟

ایک کر چی زور سے اُس کے ہاتھ پر چبھی تھی۔ سسکی کے سا تھ اُس نے ایک دم ہاتھ پیچھے کھینچا تھا۔

ارے دھیان سے۔ یہ تو خون نکل آیا ہے۔ چلیں اندر یہ سب زلیخا اُٹھا لے گی۔

نہیں یہ سب میں خود اُٹھا ؤں گی۔ اُس نے جیسے ضد کرنے والے لہجے میں کہا تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ پھر سے کرچیاں اُٹھا نے لگی تھی۔ سارے شیشے اکھٹے کر لینے کے بعد وہ اُنہیں پھینکنے کی بجائے اپنے کمرے میں لے گئی تھی۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح اُن کر چیوں کو بھی اُٹھا لے جو تقریباً فرش کے ساتھ چپکی ہوئی تھیں۔

واپس جس وقت وہ لاؤنج میں آ ئی، ہتف اُن کتابوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا جو اُس کے آ نے سے پہلے تسکین علیحدہ کرتی جا رہی تھی۔ اُس کے ہاتھ سے اب بھی تھوڑا تھوڑا خون رس رہا تھا۔ جسے وہ ٹشو پیپر سے ہلکے ہلکے دبا رہی تھی۔

یہ اتنی کتا بیں۔۔ ۔ آپ کیا کریں گی ان کا؟ ہتف کچھ حیران سا اُس کی طرف رُخ پھیر کر کہہ رہا تھا۔

تسکین چلتی ہوئی آ کر سنگل صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ مجھے چاہیے ہو تی ہیں کتابیں، تم سناؤجاب پر جا رہے ہو؟ کیسی جا رہی ہے ؟ اُس نے ایک ہی سانس میں جواب دیا تھا اور سوال کیا تھا۔ انداز سراسر ٹالنے والا تھا۔

جی جا رہا ہوں، بہت اچھی جا رہی ہے۔ وہ پھر سے کتا بیں دیکھنے میں مگن ہو گیا تھا۔ اُسے اسی طرح چھوڑ کر تسکین کچن میں آئی تھی اور چائے کا پا نی رکھنے لگی تھی۔ لا ؤ نج اور کچن کے درمیان دیوار نہیں تھی۔ لا ؤ نج کے صوفے سے کچن واضح نظر آتا تھا۔ زلیخا با ہر اگلے باغیچے کی صفائی کروانے چلی گئی تھی۔

اچھا تو کتب بینی کا شوق ہے آپ کو، اور ان سب کتابوں کو دیکھ کر تو لگتا ہے آپ نے اگلے دو سال کا اسٹاک اکٹھا ہی منگوا لیا ہے۔ ہتف مسکراتے ہوئے اُس سے کہہ رہا تھا۔ اُس نے کوئی بھی تبصرہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی وہ چپ چاپ کباب فرائی کر تی جا رہی تھی جن کی ایک سائیڈ اب قدرے سنہری ہو گئی تھی۔ آ رام سے اُن کی سائیڈ بدلنے کے بعد وہ دوسری سائیڈ کے بھی اسی طرح سنہری ہونے کا ا نتظار کرنے لگی تھی، ساتھ ساتھ چائے ڈالنے کے لیے کپوں کو ٹرے میں رکھتی جا رہی تھی۔

ویسے ایک بات پو چھوں ؟ ایک کتاب کو ہاتھ میں لیے اُس کے صفحے پلٹتے ہوئے ہتف نے اُس سے کہا تھا۔

ہاں پو چھو؟ اسی طرح اپنے کام میں مگن اُس نے کہا تھا۔

میں آپ کو کیا کہہ کر پکاروں، آئی مین آپ مجھ سے چند سال ہی بڑی ہیں اور تایا جان کی وجہ سے آپ کو تائی جیسے کسی الفاظ سے بلاتے ہوئے بھی عجیب لگتا ہے۔ اُس نے کچھ جھجھکتے ہوئے تسکین سے کہا تھا۔

آپ اتنی ینگ ہیں تائی جان کہوں گا تو مجھ جیسے ہٹے کٹے انسان کو تو ویسے ہی شرم محسوس ہو گی۔ کچھ ڈھیٹ پن سے مسکراتے ہوئے اُس نے جیسے اپنا ہی مذاق اُڑایا تھا۔

تم مجھے تسکین کہہ سکتے ہو۔ تسکین نے جیسے اُس کی مشکل آسان کی تھی۔

وہ اب واپس لا ؤ نج میں آ گئی تھی۔ تسکین سے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے ہتف نے اُس سے کہا تھا۔

یہ والی جو کتاب ہے جب آئی تھی تو بڑا چرچہ اُٹھا تھا اس کا، لو گوں نے بے پناہ پسند کیا تھا اس کو، ویسے مجھے یہ کوئی اتنی خاص نہیں لگی تھی عجیب طرح کی فلاسفی جھا ڑی ہوئی ہے اس میں۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟ایک دم ہتف نے اُس سے کہا تھا، ہاتھ میں اُس نے وہی کتاب اُٹھا رکھی تھی جس کے ٹائٹل پر ہاتھ رکھے تسکین کچھ دیر پہلے جیسے دنیا سے کٹ گئی تھی۔

تسکین کا دل چا ہا وہ ابھی اور اسی وقت ہتف کو اُٹھا کر با ہر پھینک دے۔ یکدم اُس کا دل جیسے ہر چیز سے اُچاٹ ہوا تھا۔ بمشکل چائے کا گھونٹ حلق سے اُتارتے ہوئے اُس نے ہتف کو کہا تھا کہ وہ کچھ دیر آرام کرنا چا ہتی ہے دوسرے معنوں میں اُس نے ہتف کو جانے کو کہا تھا۔ اور ہتف اُس کی بات کو سمجھتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور واپس انیکسی میں چلا گیا تھا۔

اُس کے جاتے ہی تسکین نے زلیخا کو رُخصت کیا تھا اور لاؤںج کا دروازہ بند کر کے دیوانہ وار کتابوں کو دیکھتے ہوئے چٹ پر سرخ نشان لگانے شروع کر دئیے تھے۔ اُس کی دیوانگی بڑ ھتی ہی جا رہی تھی اوکا غذ پر سرخ نشانوں کی تعداد بھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



رات جس وقت اُس کی آنکھ کھو لی ہر طرف خا مو شی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن کوئی چیز تھی جو اُسے سو نے نہیں دے رہی تھی، وہ جیسے بے چین سا ہو کر اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ روم فر یج سے پا نی کی بو تل نکال کر اُس نے منہ کو لگا لی تھی۔ آ دھی بو تل خالی کرنے کہ بعد وہ قدرے پر سکون ہوا تھا۔ آدھی رات کو نیند ٹوٹنے کا مطلب تھا باقی ساری رات نیند کا نہ آ نا سو وہ اپنا پین اور نوٹ بک اُٹھا کر کھڑکی کے سامنے کر سی رکھ کے بیٹھ گیا۔ تیزی سے اُس نے نوٹ پیڈ پر کچھ نوٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ تھو ڑے تو قف کے بعد کچھ سو چتے ہوئے اُس کی نظر سامنے پھیلے وسیع و عریض با غیچے پر پڑی تھی اور چو نک گیا تھا۔ اُس کی کھڑکی سے پچھلے با غیچے کا آدھا حصہ نظر آتا تھا، اور اس وقت اُس آدھے نظر آتے با غیچے میں اُسے ایک ہیو لا سا نظر آیا تھا۔ وہ یکدم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ پہلا خیال جو اُس کے ذہن میں آیا تھا وہ کسی چور کا تھا اور دوسرا خیال جواُسے آ یا وہ یہی تھا کہ اب اُسے کیا کرنا چا ہیے ؟؟

وہ ہیولے کو صرف ایک نظر دیکھ پایا تھا اور پھر وہ اُس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ اور وہ اس ایک نظر میں یہ طے کرنے سے قاصر تھا آیا کہ اُس ہیولے کی ساخت کیسی تھی۔ تیزی سے اپنی کر سی سے اُٹھتے ہوئے اُس نے تسکین کا نمبر ملایا تھا۔ چند منٹ بیل جا تی رہی تھی مگر کسی نے فون نہیں اُٹھایا تھا۔ ہتف کال ملاتا رہا یہاں تک کے تسکین نے فون اُٹھا لیا۔

ہیلو۔ کیا ہوا ہتف خیریت؟ فون سے اُسے تسکین کی مندی ہوئی سی آواز سنائی دی تھی۔

تسکین آپ کے کمرے سے پچھلا با غیچہ پورا نظر آتا ہے کیا؟ ہتف گھبرایا ہوا سا لگ رہا تھا اور اسی گھبراہٹ کے ساتھ اُس نے تیزی سے تسکین سے پو چھا تھا۔

ہاں آتا ہے کیوں کیا ہوا؟ جواباً تسکین نے بھی اُس سے گھبرائے ہوئے لہجے میں ہی کہا تھا۔

آپ دیکھیں وہاں کوئی ہے۔

اچھا میں دیکھتی ہوں۔

تسکین نے ذرا کی ذرا نظر اُٹھا کر بھی کھڑکی سے باہر نہیں دیکھا تھا وہ اسی طرح سامنے پڑے ہوئے کاغذ پر آ ڑی تر چھی لکیریں کھینچتی رہی تھی۔

مجھے تو وہاں ایسی کوئی قابل اعتراض چیز نظر نہیں آ رہی تم کس کے بارے میں بات کر رہے ہو؟

وہاں میں نے ایک انسان کا سایا دیکھا تھا ابھی کچھ دیر پہلے۔ آپ دھیان سے دیکھیں۔ ہتف ابھی بھی گھبرایا ہوا سا تھا اور وہ جیسے تسکین کو یقین دلا رہا تھا کہ ابھی اُس نے کسی کو وہاں دیکھا ہے۔

ہتف مجھے لگتا ہے تم نے کوئی خواب دیکھا ہے۔ تسکین نے اپنی مصنو عی جمائی کو روکتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔ پلیز تم بھی سو جا ؤ اور مجھے بھی سو نے دو۔ یہاں اس مکان میں کوئی نہیں آ سکتا تم بے فکر ہو کر سو جاؤ۔ آخری الفاظ اُس نے جیسے کسی اذیت کے تحت کہے تھے، مگر وہ ہتف کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئی تھی جو کچھ اُس نے کچھ دیر پہلے دیکھا ہے وہ خواب ہے اور کچھ نہیں۔

ہتف سخت اُلجھن میں مبتلا ہوا تھا، تقریباً بیس منٹ سے وہ لکھنے میں مصروف تھا ایسے میں وہ اگر ایسی کوئی چیز دیکھتا ہے تو وہ ظاہر ہے خواب کی حالت میں تو بالکل نہیں تھا کیو نکہ ایک بار آ نکھ کھلنے کی صورت میں وہ واپس سونے والوں میں سے بالکل نہیں تھا پھر یہ سب۔۔ ۔ وہ سخت اچنبھے میں مبتلا ہوا تھا۔ ایک بار پھر سے وہ کھڑکی کے سامنے کر سی پر آ کر بیٹھ گیا تھا۔ اس بار اُس نے آ نکھیں پھاڑ پھاڑ کر با غیچے میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور اُس کی آ نکھیں نا کام واپس لوٹ آئی تھیں۔ وہاں اُسے اب کچھ بھی نظر نہیں آیا تھا۔ کچھ دیر وہ اسی طرح کر سی پر بیٹھا کچھ سو چتا رہا تھا پھر وہ پہلے ہی کی طرح اپنی نوٹ بک پر جھک گیا تھا اور تیزی سے کچھ لکھنے لگا تھا۔

رات کے اُس پہر کھڑکی کے پاس اپنے کا غذ پر جھکا جلدی جلدی کچھ لکھنے والا وہ اکیلا نہیں تھا، کوئی اور بھی تھا جو صفحے کالے کر رہا تھا۔ دونوں کے الفاظ اور سوچ محتلف تھی مگر انداز ایک سا تھا۔ وہ لکھتے جاتے تھے تیزی سے روانی سے، وہ جیسے کسی اور دنیا میں پہنچ جاتے تھے جہاں کہ وہ فا تح تھے، جہاں کی دنیا اُن کے قدموں کے نیچے تھی۔ وہ دونوں جب لکھتے تھے تو ایک سچ لکھتا تھا اور ایک جھوٹ۔ گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئیاں بھی یہ طے نہیں کر پا رہیں تھیں کہ ان میں سے سچا کون ہے اور جھو ٹا کون ؟؟؟

دفتا دونوں نے نظر اُٹھا کر باہر پھیلے پچھلے باغیچے کو دیکھا۔ ایک نے حیرانی سے اور دوسرے نے مدھم پرسرار مسکراہٹ کے ساتھ۔

با غیچہ خالی تھا۔۔ ۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



اُس کے بعد سے تو جیسے یہ معمول ہی ہو گیا۔ وہ روزانہ رات کواُسی وقت اُٹھتا اور کھڑکی کے سامنے جا کر بیٹھ جاتا۔ ہر رات وہ اُس ہیولے کو دیکھتا اور ہر رات وہ تسکین کر فون کرتا۔ وہ اُسے باتوں میں پھسلا کر فون بند کر دیتی اور وہ رات دیر تک بیٹھا صفحے کالے کرتا جاتا۔

ہر دن کے ساتھ اُس ہیولے کی جسمانی ساخت واضح ہوتی جا رہی تھی اور جو کچھ اُس کے سامنے آ رہا تھا وہ تو اب اُس سے چو نکتا بھی نہ تھا۔ روز روز کے انکار پر تسکین پر اُس کا شک بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اور آخر وہ شک سچ ثابت ہوا۔ وہ ہیولا بلا شبہ تسکین ہی تھی۔ جانے وہ وہاں آ دھی رات کو کیا کر تی تھی وہ ابھی بھی یہ معمہ حل نہیں کر پایا تھا۔ پھر ایک دن ہتف نے اُسے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا منصوبہ بنایا۔ جیسے ہی اُسے تسکین پچھلے با غیچے میں نظر آئی وہ بھا گتا ہوا انیکسی سے نکل گیا اور بلند و بالا عمارت کے سامنے سے ہو کر پچھلے با غیچے کی طرف جانے لگا۔ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ مرد ہوتے ہوئے بھی وہ اندر تک کانپ کر رہ گیا۔ اُسے شبہ ہوا ایک عورت ہوتے ہوئے بھی تسکین روزانہ وہاں کیسے جا سکتی تھی وہ بھی ایسے ڈرا دینے والے اندھیرے میں تنہا۔ سہما ہوا سا نپے تلے قدم اُٹھا تا وہ چلتا جا رہا تھا۔ یکدم اُس کے ذہن میں کوندا سا لپکا اگر وہ واقعی تسکین نہ ہوئی تو۔۔ ۔ اور اُس کی باقی رہی سہی کسر بھی پو ری ہو گئی۔ سر سے پیر تک اُس کے اندر ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ اس سوچ کے آتے ہی وہ اُدھر ہی کھڑا ہو گیا۔ لیکن پھر جی کڑا کر کے وہ پھر سے چلنے لگا۔

جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ اور وہ ہیولا بالکل تسکین کی طرح کا تھا ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی اور ہو۔ اپنے آپ کو تسلیاں دیتا ہوا وہ چلتا جا رہا تھا۔ عمارت والا حصہ ختم ہو گیا تھا اب وہ پچھلے با غیچے میں داخل ہو گیا تھا۔ اور وہ جیسے سانس لینا بھول گیا تھا۔ اُس کا رواں رواں کانپ اُٹھا تھا۔ سامنے باغیچہ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ ہتف بت بنا سفیدے کے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ہتف سوچ رہا تھا اب واپس کیسے جائے۔ وہ تو تسکین کو رنگے ہاتھوں پکڑنے آ یا تھا۔ وہاں تسکین تو ایک طرف کوئی بلی کا بچہ بھی نا تھا۔ با غیچہ خا لی تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



کے نیچے ایستادا تھا۔ تسکین کا چہرہ یکسر تاثرات سے عاری تھا۔ وہ یک ٹک اُس کی طرف بس دیکھے ہی چلے جا رہی تھی۔ ایک دم ہتف وہاں سے اُلٹے قدموں بھاگا تھا۔ وہ اُسے تب تک دیکھتی رہی جب تک کہ وہ نظروں سے اُو جھل نا ہو گیا۔

کل کی رات اُس نے کچھ نہیں لکھا تھا وہ پین کے پچھلے حصے سے اپنے ماتھے کو رگڑتی رہی تھی۔ اور جب تک کھڑکی کے باہر پھیلے اندھیرے روشنیوں میں تبدیل نہ ہو گئے وہ اسی طرح بیٹھی کچھ سو چتی رہی تھی۔

کچن میں معمول کی طرح وہ اپنی چائے بنانے میں مصروف تھی جب اُسے دروازہ بجنے کی آ واز سنائی دی۔ اتنی صبح دروازے کا بجنا بالکل بھی معمول کی بات نہیں تھی لیکن وہ کسی معمول کی طرح ہی چلتی ہوئی دروازے تک گئی تھی اور اُسے کھول دیا تھا۔ ایسے جیسے وہ پہلے سے یہ جا نتی تھی۔ دروازے پہ ہتف تھا۔

ہتف آ ؤ۔ آؤ اندر آ جاؤ۔ دروازہ کھولنے کے بعد تسکین ر کی نہیں تھی وہ تیز تیز چلتے ہوئے پھر سے کچن میں غا ئب ہو گئی تھی۔

نا شتہ لا ؤں تمہارے لیے ؟ اُس نے کچن سے ہی آواز لگائی تھی۔

میں یہاں نا شتہ کرنے نہیں آیا۔ ہتف نے بھی اُ سی طرح بغیر کسی لگی لپٹی کے اُس سے کہا تھا۔

اچھا تو پھر کس لیے آئے ہو؟ چائے کا بڑا سا مگ ہاتھ میں پکڑے وہ کچن سے نمودار ہوئی تھی اور آ کر لاؤںج کے سنگل صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھ گئی تھی۔ ہتف بھی اُس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔ وہ ابھی تک شب خوا بی کے لباس میں ملبوس تھا، بال قدرے بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر اُلجھن بھرے تا ثرات پھیلے تھے۔ تسکین کی بات پر ابھی اُس نے اپنا منہ کچھ کہنے کے لیے کھولا ہی تھا کہ تسکین نے اُسے ٹوک دیا۔

کہیں تم یہ پو چھنے تو نہیں آئے کہ اس گھر میں بھوت پریت یا چڑیل تو نہیں رہتی؟ تسکین آ رام سے صوفے پر براجمان کہہ رہی تھی۔ اگر یہی پو چھنے آئے ہو تو میں تمہیں خود بتا دیتی ہوں۔ وہ اب صوفے پر آ گے کو جھک آئی تھی، کپ سامنے پڑے میز پر رکھتے ہوئے وہ ہتف کے قدرے قریب ہو کر بیٹھی تھی۔ اور کسی سر گو شی کی سی آواز کے ساتھ اُس نے ہتف سے کہا تھا۔

یہاں سو فیصد ایک عدد چڑیل رہتی ہے، مگر اُس کو کھو جنا تمہا را کام ہے۔۔ ۔ صحا فی۔۔ آخری الفاظ اُس نے قدرے رُک رُک کر ادا کیے تھے۔ چائے کا مگ اُس نے دوبارہ پکڑ لیا تھا اور بے نیا زی سے بیٹھے ہوئے پا ؤں جھلانے لگی تھی۔ اور ہتف کو تو جیسے سانپ ہی سو نگھ گیا تھا۔ وہ حیران سا اور کچھ کچھ شا کڈ سا صوفے پر سن سا بیٹھا تھا۔

مسڑہتف جمال میں نے اپنی زندگی کے ستا ئیس سال جھک نہیں ماری ہے۔ پچھلے دس سال سے اس گھر میں اکیلے رہ رہی ہوں اور یہ بات تو تم جانتے ہی ہو گے ایک عورت کے لیے اس معا شرے میں اکیلے رہنا کس قدر دشوار ہے مگر دیکھو میں رہ رہی ہوں۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں اُٹھائے تھے۔

اور اس سے پچھلے اٹھارہ سال بھی میرے لیے کوئی آسان نہیں رہے۔ صرف اٹھا رہ سال کی عمر میں میرا پینتا لیس سال کے مرد سے نکاح ہوا تھا۔ نور الٰہی جو بقول تمہارے، تمہارے تایا تھے۔ تم کیا سمجھتے ہو نور الٰہی نے مجھے کچھ نہیں بتایا ہو گا ؟؟؟ تو مسڑ ہتف جمال کان کھول کر سن لو نورالٰہی کے اُٹھنے بیٹھنے حتی کے سونے تک پہ بھی میرا اختیار تھا تو ایسے میں وہ اپنے کسی بھتیجے کا ذکر مجھ سے نہیں کریں گے کیا؟؟؟

تسکین سانس لینے کے لیے رو کی تھی وہ ابھی تک اپنے پیر اسی طرح جھلا رہی تھی۔ لہجہ بے تاثر تھا مگر آ نکھیں اپنے احسا سات چھپانے میں ناکام رہیں تھیں۔ اُس کی آنکھوں سے شعلے ٹپک رہے تھے۔ ہتف ابھی تک اُسے دم سادھے سن رہا تھا۔

تمہیں دیکھتے ہی میں جان گئی تھی کہ تم کون ہو۔ تم جیسے لوگ اکثر ہی ٹکراتے رہتے ہو مجھ سے۔

اکیلی ہوں، اپنے شوہر کی چھو ڑی ہوئی جائیداد اُڑا رہی ہوں، کوئی آگے پیچھے سوال کرنے والا بھی نہیں ہے، جوان ہوں در حقیقت میں اُن تمام مردوں کے لیے بے حد پر کشش آسامی ہوں جو بے انتہا لالچی اور خود غرض لا حق ہوتے ہیں۔ اور تم جانتے ہو ہتف جمال یہاں پر آ کر تم اُن سب مردوں سے محتلف ہو جاتے ہو کیونکہ تم یہاں اُن سب چیزوں کے لیے نہیں آئے تمہیں تو کچھ اور یہاں کھینچ لایا ہے۔

کہتے کہتے وہ ایک بار پھر آگے ہو کر بیٹھی تھی۔ اور بے حد مدھم آواز میں اُس نے ہتف کے کانوں میں جیسے سُور پھو نکا تھا۔

میں خطر ناک حد تک پر سرار ہوں۔ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ اُس نے جیسے ہتف کا راز فاش کیا تھا۔ ’’ اور مجھ میں تمہیں اپنی ڈو بتی ہوئی صحافت کا چمکتا ہوا سکا نظر آ رہا ہے۔ کیوں صحافی میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟ اپنی آنکھوں کومعصو میت سے پٹپٹاتے ہوئے اُس نے براہ راست ہتف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔ ہتف نے بے اختیار نظریں چرائی تھیں۔

اگر آپ کو سب پتہ تھا تو مجھے یہاں کیوں رہنے دیا ؟ کا فی دیر بعد جب وہ کچھ بولنے کے قابل ہوا تو بس اتنا ہی کہہ سکا۔

تا کہ تم اپنا کام کر سکو اور میں اپنا۔ ایک بار پھر سے وہ پیچھے ہو کر بیٹھ گئی تھی اور ایک ٹھنڈی سانس خا رج کرتے ہوئے اُس نے کہا تھا۔ ہتف کہ کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ بو لی تھی۔

تم میرے پرسرار رازوں کی گر ہیں کھولواور ایک مشہور صحا فی بن جاؤ۔ تمہیں صرف اسی لیے میں نے یہاں رکھا تھا۔ اور جب تم ایک ایک کر کے میرے تمام رازوں سے واقف ہو جا ؤ تو تمہیں میرا ایک کام کرنا ہو گا۔

لیکن آپ نے اپنا کام تو بتایا ہی نہیں۔ ہتف اب قدرے سنبھل چکا تھا۔

تم میرا مو ضوع تھے، میری نئی تحریر کا بہترین مو ضو ع۔ تم میری وہ قربا نی ہو جو میں پچھلے دس سالوں سے اپنے ضمیر کو دے رہی ہوں۔ آ خر میں ایک بار پھر اُس کی آواز مدھم ہوئی تھی۔

تمہارے لیے بس اتنا جاننا ہی ضرو ری تھا اس سے آ گے تم خود سو چو ڈھونڈو کھوج لگا ؤ۔ ‘‘ اُسے اسی طرح چھوڑ کو اُس نے مگ اُٹھایا تھا اور اُٹھ کر چلی گئی تھی۔ پیچھے ہتف گنگ سا بیٹھا رہ گیا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



۲۰۱۶/۶/۱۵

میں جانتی ہوں لیمپ کی مدھم روشنی جب تم پر پڑتی ہے تو تم مجھے آ نکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی ہو۔ تمہاری آ نکھوں کا ایک ایک رنگ جا نتی ہوں میں، دس سال گزارے ہیں میں نے تمہارے ساتھ۔ تمہاری آ نکھیں اتنی بے چا رگی لیے ہوئے کیوں ہو تی ہیں۔ تم کیوں مجھے وہ سب نہیں کہتی جو میں تم سے سننا چا ہتی ہوں۔ تمہیں میرے درد کا ذرہ احساس نہیں ہے۔ میں نے کیا کچھ نہیں کیا تمہارے لیے۔ کیسا۔۔ ۔ کیسا گھناؤ نا کام کیا میں نے تمہارے لیے، لیکن تم۔۔ تم کسی طور بھی اب میرا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ لیکن تم دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کرتی ہوں۔ اپنی ایک ایک معصو میت کا بدلہ لوں گی میں تم سے۔ میں تمہارے ساتھ بھی وہ ہی سب کروں گی جو تم نے مجھ سے زبر دستی کر وایا۔ میں یہ مدھم لیکن تمہاری آ نکھوں کو چیر دینے والی رو شنی ہر وقت تم پر ڈالتی رہوں گی جب تک کہ تم میرے زخموں کا مداوا نہیں کرو گی۔ میں تمہیں اپنی سانسوں تک اپنے ساتھ گھیسٹوں گی، اور پھر جب تم تھک جا ؤ گی تو میں تم سے اپنے سوالوں کے جواب لوں گی۔ اور پھر تمہیں وہ سب کہنا ہو گا جو میں سننا چا ہتی ہوں۔

میں جا نتی ہوں تم مجھے بالکل ابنارمل سمجھتی ہو۔ مگر میں تمہیں بتا ؤں میں ابنارمل نہیں ہوں میں پاگل بھی نہیں ہوں میں تو۔۔ میں تو جو گی ہوں۔ تمہیں پتہ ہے میں نے جوگ لگا لیا ہے۔ جوگ بھی ایسا کہ پچھلے پتہ نہیں کتنے بر سوں سے میں اس میں سے نکلنا چاہ رہی ہوں یہ جانتے ہوئے بھی جوگ جان نہیں چھو ڑا کرتے وہ تو جیسے روح تک کو چپک جاتے ہیں۔ اور میں یہ سب جانتے ہوئے بھی اس تپتے صحرا میں ننگے پاؤں چلتی جا رہی ہوں۔ لیکن میرا کوئی داؤ، کوئی حر بہ، کا رگر ثا بت نہیں ہو رہا۔

مجھے تمہیں یہ بات تو بتا نے کی ضرورت نہیں کہ یہ جوگ میں نے کس کے لیے لیے۔ تم بہت اچھے سے جا نتی ہو۔ اب تم مجھے اتنی حیران بھری نظروں سے مت دیکھو۔ تم جا نتی ہو یہ سب جو میں نے اپنے ساتھ کیا یہ سب تمہا ری دین ہے۔ تم ہی تھی وہ جس نے اُس وقت مجھے اُکسایا تھا جب۔۔ ۔

خیر میں یہ سب کچھ تمہیں کیوں بتا رہی ہوں۔ کب تک بتا تی رہوں گی۔ اب تمہیں خود میرے غموں کا حساب دینا پڑے گا میرے جتائے بغیر۔ میں اب تم سے نہیں کہوں گی کہ تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔ تمہیں خود میرا خیال رکھنا ہو گا۔ آخر میں اتنے سال تمہارا خیال کر تی آئی ہوں۔ تمہارے لیے قر بانیاں دیتی آئی ہوں۔ اب سب کچھ تمہیں کرنا ہو گا۔

تم سوچ رہی ہو گی میں ایک بار پھر تم سے وہی گلے شکوے شکایات کر رہی ہوں۔ میں کیا کروں۔ جب میں اپنے آپ کو دیکھتی ہوں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ اور میرا کون ہے جس سے میں یہ سب کہوں۔ صرف تم۔۔ ۔

پہلے نو رالٰہی تھے۔ اُن سے میں کچھ نہیں بھی کہتی تھی تو بھی دل و دماغ پر اتنا بو جھ نہیں ہوتا تھا۔ اُن کا ہونا ہی کا فی تھا۔ وہ چل پھر نہیں سکتے تھے، اُن کی دیکھ بھال میں میں اپنا سارا سارا دن نکال دیتی تھی۔ وہ تھے تو میں زندہ تھی۔ اب صرف سانس لیتی ہوں۔

وہ پچاس سال کے تھے اور میں اٹھا رہ سال کی، جب ہماری شادی ہو ئی۔ مگر مجھے کوئی رنج نہیں تھا اُن سے شادی پر۔ مجھے سائبان چاہیے تھا اور اُنہیں ساتھ۔ میں نے اپنی ساری زندگی سسکتے ہوئے گزاری تھی۔ نور الٰہی سے شا دی کے بعد کم از کم میرے شوق کو تسکین ضرور ملی تھی۔ مگر وہ روگ جو میری جان کو چمٹ گیا تھا اُس کا میں کچھ نہ کر سکی۔ اُس کا وقت بھی کچھ نہیں کر سکا۔ وہ آج تک مجھے گرداب میں لیے ہوئے ہے۔ اب تو میں ہاتھ پاؤں مارنے سے بھی قا صر ہوں۔

اور یہ ہتف جو نو رالٰہی کا رشتہ دار بن کر آیا ہے، یہ سمجھتا ہے میں بے وقوف ہوں۔ تبھی یہ کتنے آرام سے وہ تصویر نو رالٰہی کے کمرے سے نکال لے گیا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا میں سب کچھ ہوں لیکن بے وقوف بالکل نہیں۔ اُسے نور الٰہی کے کمرے تک کا راستہ میں نے خود فرا ہم کیا تھا۔ میں دیکھنا چا ہتی تھی آخر وہ کس حد تک جاتا ہے۔ اور اُس کی حد میں نے جان لی۔

نور الٰہی نے اپنے خاندان کی مر ضی کے خلاف مجھ سے شادی کی تھی۔ بہت سال پہلے وہ اپنے خاندان سے کٹ آف کر گئے تھے۔ مگر اُن کا وہ بھائی جن کا حوالہ ہتف دیتا ہے، جن کا بیٹا بن کر وہ یہاں آیا ہے۔ وہ سب فریب ہے۔ نو رالٰہی کے چھو ٹے بھائی بہت سال پہلے نیو یارک ضرور چلے گئے تھے مگر اُن کے ساتھ نو رالٰہی مسلسل را بطے میں تھے۔ اور میں جا نتی تھی کہ اُن کے بھائی کے بچوں میں سے صرف ایک بیٹی تھی جو زندہ بچی تھی۔ کیونکہ نیو یارک جانے کے کچھ عر صے بعد اُن کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا اور اُن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی جان بحق ہو گئے تھے۔ ہتف ہوم ورک کر کے آیا تھا لیکن اتنا نہیں جتنا سب کچھ میں جا نتی تھی۔ سب کا خیال تھا نو رالٰہی اپنی فیملی میں سے کسی کے بھی ساتھ رابطے میں نہیں تھے، اس لیے ہتف نے اس بارے میں زیادہ غور و خوض بھی نہیں کیا ہو گا۔

اور جب وہ جان گیا ہے تو وہ کیا کرے گا۔ میں نے اُس کو مکمل آزادی دے دی ہے۔ تم سوچ رہی ہوں گی میں کیسے اپنے آپ یہ سب کر سکتی ہوں۔ کیسے اپنی زندگی کی کہا نی کا سودا کر لیا میں نے۔۔ ۔۔

میں تمہیں کیسے بتا ؤں کہ سب میں نے کیسے کیا۔ دل پر پتھر رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ کڑے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جو کھن اُٹھانے پڑتے ہیں۔

میرے لیے یہ کرنا آسان نہیں تھا۔ مگر میں اب تھک گئی ہوں۔ سانس لینا تک دشوار ہو گیا ہے میرے لیے۔ اب تک دل پر بو جھ برداشت کرتی آئی تھی، روح کے بو جھ کا کیا کروں۔ روح سیراب ہو کر نہیں دے رہی۔ دن بہ دن پیاس کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے میں کسی تپتے صحرا میں کھڑی ہوں۔ جس کا نہ تو کوئی آغاز ہے نہ انجام۔ بس تا حد نگاہ ریت ہی ریت ہے۔ آنکھوں کو چھلنی کر دینے والی ریت۔ میں نے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، اور کچھ نہیں کر رہی۔ پر یہ پیا س۔۔ یہ چبھن۔۔ ۔ یہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔

میں اسی لیے تم سے کہتی ہوں تم چپ مت رہنا۔ تم چپ رہو گی تو زندگیاں اُجڑ جائیں گی۔ تم وہ سب کرنا جو میں چا ہتی ہوں۔ تم کرو گی نا؟

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



۲۰۱۶/۸/۵

آج میں ایک بار پھر اُس علاقے میں گئی تھی جہاں کے مکینوں کی آنکھیں میرے آنے سے یوں جگمگانے لگتی ہیں جیسے اُنہوں نے ستارے پا لیے ہوں۔ اور میری آ نکھیں۔۔ ۔ اُن آ نکھوں کی دمکتی ہوئی رو شنی سے جھل مل کرنے لگتی ہیں۔ مجھے جیسے سانس آنے لگتا ہے۔ جب میں لڑکیوں کو اُن کی مطلو بہ کتا بیں پکڑاتی ہوں۔

پسماندہ علاقے کی وہ لڑکیاں جب کوئی کتاب مجھ سے منگواتی ہیں تو مجھے لگتا ہے میں نے اُنہیں ایک مسلسل عذاب سے نجات دلائی ہو۔ وہ عذاب جو برسوں سے میں جھیل رہی ہوں۔ میں چا ہتی ہوں جب تک میں زندہ ہوں کتابیں فرا ہم کر تی رہوں تا کہ پھر کوئی تسکین مراد پیدا نہ ہو۔ کبھی کوئی لڑکی وہ قدم نہ اُٹھائے جو میں نے اُٹھایا۔ کبھی وہ اپنے اندر پلتے ہوئے بے لگام شوق کی بھینٹ نہ چڑھے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



ہتف پلیز مجھ سے اپنی سو کالڈر یسرچ کے بارے میں کوئی سوال مت کرنا۔ تم جانتے ہو میں تمہیں اس قسم کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دو گی۔

لا ؤ نج کا دروازہ کھول کر ایک سرسری نظر ہتف پر ڈالتے ہوئے اُس نے اُونچی آواز میں بیان جا ری کر دیا تھا اور تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے سامنے صوفے پر جا کر بیٹھ گئی تھی۔ اپنے پیچھے اُسے ہتف کے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔

میں آپ سے کوئی سوال جواب کرنے نہیں آیا ہوں۔ تسکین کو اُس کے لہجے میں بے چار گی سی محسوس ہوئی تھی۔ ہاتھ سے اُسے اپنے سامنے والے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے اُس نے پھر سے اپنے سامنے پھیلے کا غذات پر تیزی سے دستخط کرنا شروع کر دئیے تھے۔

تو پھر۔

بس یو نہی۔ دل چاہا کے کچھ دیر بیٹھ کر آپ سے باتیں کروں۔ ہتف اب کچھ آرام دہ انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔

اچھا۔ تسکین نے اپنی بھنووں کو خم دیا تھا اور کچھ استہزائیہ انداز میں اُس نے ہتف سے کہا تھا۔ لیکن اپنی نظر اُس نے کا غذات پر ہی جمائی رکھی تھی۔

ہاں ایک چڑیل سے باتیں کرنے کو۔ ہتف نے ہنس کر اضا فہ کیا تھا۔

تسکین نے ابرو اچکا کر اُس کی طرف نظر کی نظر دیکھا تھا اور ایسی نظرسے دیکھا تھا، اگر زیادہ فری ہونے کی کوشش کی تو دانت توڑ دوں گی۔ ہتف کی ہنسی کو بریک لگے تھے۔ کچھ کھسیانا سا ہو کر وہ صوفے پر آگے کو ہو کر بیٹھ گیا تھا۔

درا صل تسکین میں آپ سے کچھ کہنا چا ہتا ہوں۔ بلا آخر ہتف نے اُس سے کہا تھا۔ ہاں کہو۔ تسکین نے فا ئل کا صفحہ پلٹا تھا اور دونوں ہاتھوں سے فا ئل کو اُٹھا کر اپنی گود میں ٹرا نسفر کرتے ہوئے وہ صوفے پر پاؤں اُوپر کر کے بیٹھ گئی تھی۔ ہتف کچھ بے چین ہوا تھا۔ وہ فائل میں یوں گم تھی جیسے ہتف اُس کے سامنے مو جود ہی نا ہو۔

میں آپ سے ضرو ری بات کرنا چا ہتا ہوں۔ اس بار اُس نے کچھ جھنجھلا کر تسکین سے کہا تھا۔

ہتف کہو میں سن رہی ہوں۔

ایک گہری سانس لیتے ہوئے ہتف نے کہنا شروع کیا تھا، وہ جان گیا تھا کہ تسکین اپنے کام چھوڑ کر تو اُس کی کوئی بات سننے والی نہیں۔

کچھ لمحے تسکین اُس کے بات شروع کرنے کا انتظار کرتی رہی لیکن جب اُسے ہتف کی طرف سے کوئی پیش رفت ہو تی ہوئی نظر نہ آئی تو وہ بے چین ہوئی لیکن اپنے تا ثرات وہ اب بھی اُس سے چھپا گئی تھی۔

میں یہ بات کبھی بھی شاید آپ سے نہیں کہہ سکتا۔ ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے بلا آخر اُس نے کہا تھا۔ میں اگر آپ سے ایسی کوئی بات کروں گا تو آپ مجھے بھی اُن مردوں میں شمار کرنے لگیں گی جو کسی نا کسی وجہ سے آپ تک رسائی حا صل کرنا چا ہتے تھے۔

تسکین کچھ مزید اپنی فا ئل پر جھکی تھی۔ وہ اُس کی طرف دیکھنا نہیں چا ہتی تھی۔ لیکن پو ری طرح اپنی فا ئل پر جھکے ہونے کے با وجود بھی وہ ہتف کی ایک ایک حر کت کو اپنی نظروں میں رکھے ہوئے تھی۔ وہ غیر معمولی حد تک سنجیدہ تھا اور کنفیوژ بھی، وہ محسوس کر سکتی تھی۔

اس لیے میں آپ سے کچھ نہیں کہوں گا۔ تیزی کے ساتھ کہتے ہوئے وہ صوفے سے اُٹھا تھا اور لمبے لمبے ڈنگ بھر تا ہوا وہ لاؤںج کے دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا۔

فائل پر جھکے ہوئے ہی تسکین نے محسوس کیا تھا وہ رُکا تھا۔

بلا آخر پین کا ڈھکن کھو لتے ہوئے تسکین نے چند کا غذات میں سے ایک کا غذ با ہر نکالا تھا اور اُس پر دستخظ کرنے لگی تھی۔ اُس کے ہاتھوں کی لرزش بڑی واضح تھی۔ چند لمحوں پہلے وہ بغیر کسی لرزش کے دستخط کر تی جا رہی تھی۔ اب کیا ہوا تھا، وہ خود بھی یہ سمجھنے سے قا صر تھی۔ بلا آخر کا غذ پر آخری د ستخط اُس نے اپنے ہاتھوں کی شد ید کپکپا ہٹ کے با وجود کر دئیے تھے۔

کچھ دیر پہلے اُس نے محسوس کیا تھا ہتف رُکا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں محسوس کر پائی تھی وہ نہا صرف رُکا تھا بلکہ پیچھے مڑ کر چند ساعتوں کے لیے پتھر کا مجسمہ بھی بنا تھا۔ وہ مجسمہ صدا تھا۔ وہ آواز کا پر وانہ تھا جو بنا کہے ہی پلٹ گیا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰



۲۰۱۶/۱۰/۲

میں نے تم سے کہا تھا نا میں کمزور نہیں پڑوں گی۔ دیکھو۔۔ دیکھو مجھے میں کیسی بہا دری دکھا آئی ہوں۔ تمہیں پتہ ہے مجھے دل تو ڑنے کا ہنر نہیں آتا مگر میں تمہیں ایک بات بتا ؤں مجھے تو دل جو ڑنے کا ہنر بھی نہیں آتا۔ میں آرزردہ ہوں۔ میں بے مول ہوں۔ مگر سیپ میں بند مو تی بننا چا ہتی ہوں۔ پر میں تو وہ مو تی بن گئی جسے بند سیپ میں ہی گر ہن لگ گیا۔ اب اپنی پسماندہ آب و تاب لے کر میں کہاں جا ؤں۔ چمکنے والے، شفاف مو تی تو سب کو بھاتے ہیں، میں اپنے داغ دار وجود کا کیا کروں ؟؟؟

میں شفا بھی نہیں، میں تشفی بھی نہیں میں آہ کیسے بن جا تی میں تو تسکین ہی رہی۔ ساری زندگی تسکین کے پیچھے ہی بھا گتی رہی۔

تمہیں پتہ ہے اس دنیا میں سب کچھ بس پیسے والے لو گوں کے لیے ہے حتی کہ کتا بیں بھی۔ کتا بوں پر تو سب کا حق ہونا چا ہیے نا کیا امیر کیا غریب۔ غریب اپنے بچوں کو پیلے سکولوں سے لکھنا پڑھنا تو سکھا دیتے ہیں پر اُن کی پیاس نہیں بجھا پاتے۔ وہ اُن کے اندر صرف پا نی کی شدید خواہش کو جنم دیتے ہیں اس سے زیادہ نہ وہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں نا استطا عت۔

ایسا کیوں ہوتا ہے ؟؟تم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے ؟؟

میں نے سوچا ہے۔۔

تم جا نتی ہوسوچنا اور آگہی کے مراحل طے کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ یہ چیزیں جینا حرام کر دیتی ہیں۔ پھر زندگی مشکل لگنے لگتی ہے۔ میں بھی جب آگہی کے دور سے گزرتی ہوں پل پل تڑپی ہوں۔ میرا دماغ ما ؤف ہو جا تا ہے کہ آخر کیوں۔۔ ۔

کتا بیں پڑھنا صرف امیروں کا شوق ہی کیوں ؟؟

اُن پر حق جتا نا اُنہیں اپنی دسترس میں رکھنا آخر پیسے والوں کا حق ہی کیوں ؟؟

کیوں کہ یہ معاشرہ نفسا نفسی کے چرا غوں تلے پھل پھول رہا ہے۔

کتا بیں پڑھتے ہیں پر عمل نہیں کرتے۔

لوگ صرف بڑی بڑی با تیں کرتے ہیں یا لکھتے ہیں عمل کرنے کے کڑے مرا حل سے نہیں گزرتے۔ اگر گزر جائیں تو۔۔ ۔ تو کبھی کسی تسکین مراد کو آگہی کے در پار نہ کرنا پڑیں۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



صبح سے ہی نور ولا سے عجیب طرح کا شور اُٹھ رہا تھا۔ تپتی دو پہر میں مزدور عمارت کی دیواریں گرانے میں مصروف تھے۔ ماتھے پر آئے پسینے کو ہاتھ سے نیچے زمین پر ٹپکاتے ہوئے وہ اُس عا لی شان اور قیمتی عمارت کو تقریباً زمین بوس کر چکے تھے اور اب اینٹوں کو اُکھاڑ اُکھاڑ کر پھینکتے جا رہے تھے۔ اُن کے سر پہ کھڑا ٹھیکدار اُنہیں محتلف ہدایات بھی دیتا جا رہا تھا۔ غرض کہ وہاں موجود ہر شخص بے انتہا مصروف تھا۔ دفتا گھر کے پچھلے حصے کی طرف سے ایک مزدور کی آواز سنائی دی اور اُس کے ساتھ ہی چند اور مزدوروں کی بھی، وہ لوگ وہاں پچھلے ایک گھنٹے سے کھدائی کرنے میں مصروف تھے تا کہ وہاں نئی بننے والی عمارت کا کچھ حصہ تعمیر ہو سکے۔ ٹھیکدار کے وہاں پہنچنے تک وہ آوازیں سر گو شیوں سے اب اُو نچی بے ہنگم آوازوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔

کیا ہوا کھدائی کیوں روک دی؟ٹھیکدار کا لہجہ تشویش سے پُر تھا۔

صاحب ہم نے ابھی یہ والے حصے کی صفائی شروع کی ہی تھی کہ ہمیں یہ ملا۔ ایک مزدور آگے بڑھ آیا تھا اور ٹھیکدار کو لیتا ہوا مزدورں کو پیچھے کرتا کھددائی والے حصے تک پہنچ گیا۔ وہاں تک پہنچنے کی دیر تھی ہتف کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بے اختیار اُس کے قدم اُس تھو ڑے سے کھودے ہوئے حصے کے قریب اُٹھے تھے۔ مٹی کے اُکھڑے ہوئے حصے سے سفید سفید کاغذ جھانک رہے تھے۔ وہاں پر ایک گڑھا کھو دا گیا تھا جو تقریباً پا نچ فٹ گہرا تھا۔ اُس پا نچ فٹ گہرے گڑھے میں ایک ہی طرح کے کئی بے شمار مسودے پڑے تھے۔ ہتف ابھی تک بے یقین سا اُن مسودوں کو گھور رہا تھا۔ پل بھر میں وہ ساری کہا نی سمجھ گیا تھا۔ اُسے یاد آیا تھا ایک رات وہ تسکین کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیے اس حصے کی طرف آیا تھا تب وہ نا مراد لو ٹا تھا۔

مزدوروں کو پیچھے ہٹاتا ہوا وہ زمین پر پنجوں کے بل بیٹھ گیا تھا۔ چند منٹ بعد وہ وہاں سے ہٹا اور مزدوروں کو اُن مسودوں کو باہر نکالنے کے لیے کہا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ سب مسودے اُس کی گا ڑی میں منتقل کر دئیے گئے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰



اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس وہ اسٹڈی ٹیبل پر تقریباً شل سا بیٹھا تھا۔ صبح کے نکالے گئے مسودوں کا ڈھیر اُس کے ارد گرد بکھرا پڑا تھا اور خود وہ ڈائری پر جھکا بنا پلک جھپکائے اُسے پڑھنے میں مصروف تھا۔ وہ رات سے تقریباً ایک ہی پو زیشن میں بیٹھا تھا۔ ڈائری کا آخری صفحہ پلٹنے کے بعد اُس نے ڈائری کو ایک طرف کھسا دیا اور پیچھے کو ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ذہن میں بس ایک ہی نام کی باز گشت دھکم پیل مچا رہی تھی، آنکھیں بس ایک ہی انسان کی صورت دکھا رہی تھیں۔ اُس کے ارد گرد یادیں بکھریں پڑی تھیں۔ وہ ہر ایک یاد میں بھنور کی طرح گھوم رہا تھا۔

میں نے یہ گھر ڈونیٹ کر دیا ہے۔ جب بھی میں مر جا ؤں گی یہاں پر ایک لائبر یری بنا دی جائے گی۔ میں چا ہتی ہوں ہتف جب اس گھر کو گرایا جائے لا ئبر یری بنانے کے لیے تو تم یہاں منتظم کے انتظامات سنبھالو۔ اسے میری آخری خواہش سمجھ کر قبول کر لینا۔

ہتف انیکسی میں اپنا سامان پیک کرنے میں مصروف تھا جب تسکین انیکسی میں چلی آئی تھی۔ ہتف اُس کے آنے سے حیران نہیں ہوا تھا۔ تسکین اب اُسے حیران نہیں کر تی تھی۔ یہ ہتف کی بھول تھی۔

ہتف نے اُس سے بیٹھنے کے لیے نہیں کہا تھا اور نہ ہی وہ خود بیٹھی تھی سٹنگ ایریا کی کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی تھی۔ باہر شام کا ہلکا دھندلکا چھا رہا تھا۔ اُونچے لمبے سفیدے کے درخت عجیب ہیبت ناک سے دکھائی دے رہے تھے۔ تسکین بنا کچھ بولے پچھلے با غیچے کو عجیب کھوئی کھوئی سی کیفیت میں دیکھ رہی تھی۔ ہتف چپ چاپ اپنی چیزیں اکٹھی کر کے اُنہیں ایک بیگ میں بھرنے میں مصروف تھا وہ تسکین کو دیکھنے سے احتراز برت رہا تھا۔ یکدم اُسے تسکین کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ اُس سے جو کہہ رہی تھی وہ اُس کے لیے نا قابل یقین تھا۔ لیکن پھر بھی وہ اُس سے کچھ نہیں پایا تھا، کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ تسکین اُس کے لیے کسی جا دو گر نی سے کم نہیں تھی وہ بو لتی تھی تو ہتف اُس کے لفظوں کے ہیجوں میں لپٹ لپٹ جاتا تھا وہ اُس کے لہجے کے اُتار چڑھا ؤ میں چکر کا ٹنے لگتا تھا۔ اب بھی تسکین بول رہی تھی تو ہتف کیسے صدا بلند کرتا۔

اپنی بات کہنے کے بعد تسکین وہاں رُکی نہیں تھی وہ وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی۔ پیچھے ہتف نے اپنا سامان تیزی سے پیک کرنا شروع کر دیا تھا وہ مزید وہاں نہیں رُک سکتا تھا، رُک جاتا تو قیامت بر پا ہو جا تی۔ وہ وہاں تسکین کی کھوج لگانے آیا تھا وہ خود کھو گیا تھا اور جو وہ کھو یا تھا وہ کبھی نہ ملنے والا تھا۔۔ وہ اپنی رُوح کھو آیا تھا جسے اب ساری عمر اسی عمارت میں چکر کا ٹنے تھے بالکل ویسے ہی جیسے تسکین کی رُوح۔۔ ۔

اس سے آگے وہ سوچ نہ سکا بیگوں کو گھسیٹتے ہوئے وہ انیکسی سے باہر نکل آیا تھا، گا ڑی میں بیٹھتے وقت اور سٹیرنگ سنبھالتے ہوئے وہ ہر چیز سے نظریں چرا رہا تھا۔ سامنے پھیلی ہوئی بلند و بانگ عمارت سے۔۔ ۔، لان میں اُگی ہوئی بے انتہا سبز گھاس سے۔۔ ۔، اونچے لمبے سفیدے کے درختوں سے اور اُوپری منزل کے ایک کمرے سے جھا نکتی دو آنکھوں سے جو اب بھی کھڑکی کے ساتھ لگے میز پر بیٹھی تھی اپنے سنہری قلم کو ماتھے سے رگڑتے ہوئے وہ نیچے اُن دو آنکھوں میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں نہ کامیاب لو ٹی تھیں نہ ناکام۔ مگر اُس کے بت جیسے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی حالانکہ گا ڑی گیٹ سے نکل کر دور سڑک پر دوڑتی چلی گئی تھی۔ تسکین ساکن بیٹھی رہ گئی تھی۔ اور انیکسی کے ایک کمرے میں وہ نوٹ بک دو حصوں میں پڑی تھی جس میں ہتف اپنی روزانہ کی گئی ریسرچ کو بڑی دلجمعی سے لکھتا تھا اور اب وہ کمرے میں ادھر اُدھر بکھری پڑی تھی۔ جس کے اوراق کھلی کھڑکی سے آتی ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے اور کمرے میں عجیب پرسرار سی سر سرا ہٹ طا ری کر رہے تھے۔

۰۰۰۰۰۰۰



لا ئبر یری کی عمارت تیزی سے اپنی اختتام کی جانب گا مزن تھی۔ تپتی دوپہر تلے مزدور پسینے میں شرابور مگن سے اپنے کام کو اُس کے انجام تک پہچانے میں مصروف تھے۔ عمارت کے مرمت والے حصے سے کچھ دور سفیدے کے درخت تلے وہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں پکڑی ڈائری کو وہ ابھی تک کھول نہیں سکا تھا یوں جیسے شش و پنج میں مبتلا ہو۔ یکدم اُس نے سر اُٹھایا تھا دور خلا میں دیکھتے ہوئے اُس نے ٹھنڈی سانس خارج کی تھی اور ڈائری کو کھول لیا تھا۔ چند صفحات پلٹنے کے بعد وہ ایک صفحے پر جھک گیا تھا۔ پھر وہ تب تک اُس ڈائری پر جھکا رہا جب تک کہ رات گہری نہ ہو گئی اس دوران مزدوروں نے اُس کے پاس آ کر اُس سے چند باتیں پو چھتے رہے تھے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں اُٹھا تھا وہ وہیں بیٹھا رہا تھا۔ اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے اندھیرے سے اب اُسے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ بلکہ اب وہ اُس اندھیرے کا جیسے کوئی حصہ تھا۔ کوئی بہت ضروری عضو۔۔ جس کا نہ ہونا تکلیف میں مبتلا کیے رکھتا ہے۔ لیکن اب جب وہ وہاں تھا تو سکوت طاری تھا ہر شے پر، کوئی پر سکون سا لمحہ آ کر جیسے وہیں کا ہو کر رہ گیا تھا۔ اور پھر وہ صبح تک وہیں بیٹھا رہا تھا۔ اُسی سکون بھرے لمحے کے ساتھ قطرہ قطرہ پگھلتے ہوئے۔ گود میں رکھی ڈائری کو سینے سے لگاتے ہوئے وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ عین اُسی جگہ جا کر بیٹھ گیا تھا جہاں ایک عرصہ تک تسکین اپنی لکھی ہوئی کہانیاں دبا تی رہی تھی۔ وہ جگہ ابھی تک کچی تھی وہاں ابھی تک تعمیر و مرمت کا کام شروع نہیں ہوا تھا۔ نیچے زمین پر دو زانو بیٹھتے ہوئے اُس نے اپنی ہتھیلی میں تھو ڑی سی مٹی لی تھی۔ دوسرے ہاتھ سے سینے کو لگائی ہوئی ڈائری کو اُس نے زمین پر رکھ دیا تھا۔ ڈائری کا آخری صفحہ کھولتے ہوئے وہ کچھ دیر اُسے دیکھتا رہا تھا اور پھر دائیں مٹھی میں دبی ہوئی مٹی کو اُس نے اُس آخری صفحے پر نر می سے گرا دیا تھا۔ ڈائری کو آرام سے بند کرتے ہوئے وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ سورج کی کچھ کرنیں اُس کے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئی تھیں۔ اُسی رو شنی کی کرنوں کی لپیٹ میں وہ اُس جگہ سے دور ہو گیا تھا۔ اُس کے ارد گرد روشنی اپنی لپیٹیں گہری کر تی جا رہی تھی۔ پھر ایک لمحہ آیا وہ نظر آنا بند ہو گیا صرف روشنی تھی جو دور تلک مجسم چلتی جا رہی تھی۔

وہ معصم ارادہ کر کے اُٹھا تھا تسکین کی کہانیوں کو دنیا کے سامنے لائے گا اور نہ صرف ارادہ آنے والے کچھ عر صے میں وہ یہ کر بھی گزرہ تھا اور اُس کی ڈائری۔۔ ۔ وہ ڈائری سنہری غلاف میں لپٹی ہوئی vast radiance library کے اُن تمام افراد کے لیے رو شنی کا منکعس ذریعہ تھی جو کہیں نہ کہیں اپنی زندگی میں نور کی چاہ کرتے ہیں۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



میں تمہیں صبح وہ کتاب بھجواتی ہوں۔ میں نے پڑھ لی ہے بہت ہی عمدہ لکھا ہوا تھا یار را ئٹر نے میں تو اُس کے عشق میں گرفتار ہو گئی۔

اُس کی نظر بے اختیار اسٹڈی ٹیبل تک گئی تھی جہاں وہ کتاب پڑی تھی جس کے بارے میں وہ اب اپنی مالکن کی بیٹی کے منہ سے سن رہی تھی۔ جو کہ یقیناً اُس نے اپنی کسی دوست سے Borrow کی تھی۔ یہ بات اُسے تب معلوم ہوئی تھی جب وہ لڑکی فون پر اُس کتاب کے بارے میں تعریفوں کے پل با ندھ رہی تھی۔

یہ کتاب بہترین ہے ویسے تو اس را ئٹر کی تمام کتا بیں ہی بے مثال ہیں لیکن یہ والی تو اُن سب پہ بھا ری ہے۔

وہ کمرے کی صفائی کرنے میں مصروف تھی لیکن اُس کا سارا دھیان اُس لڑکی کی آواز پر تھا۔ اور اُس کا اشتیاق بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اُس کے دماغ میں عجیب طرح کے خیال ادھر سے اُدھر کو دتے پھر رہے تھے۔

کل یہ کتاب یہاں سے چلی جائے گی مجھے اسے چھپا کر لے جانا چا ہیے۔ بے اختیار اُس کی نظر اپنی مالکن کی بیٹی پر پڑی تھی۔ وہ اُسی طرح بیڈ پر پا ؤں پسارے ایک ہاتھ سے فون کان کو لگائے دوسرے سے اپنے بالوں کی لٹ کو انگلی میں لپیٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی دوست کے ساتھ محو گفتگو تھی۔

اگر بیگم صاحبہ کو پتہ چل گیاتو۔۔ ۔ تسکین سر سے پیر تک لرز اُٹھی۔

اور اس میں فلا سفی سے بھر پور جملے۔۔ ۔ افوہ۔۔

اس جملے نے تسکین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میز کی شفاف سطح کو کپڑے سے رگڑتے ہوئے وہ اُس کتاب کو اپنے دل و دماغ پر حا وی ہوتا

دیکھنے لگی۔ وہ نظر نہیں اُٹھا پا رہی تھی وہ کتاب اُسے ہر جگہ نظر آ رہی تھی۔ چور نظروں سے اپنی مالکن کی بیٹی کی طرف دیکھنے پر اُسے احساس ہوا وہ فون بند کر چکی تھی اور بیڈ سے اُٹھتے ہوئے وہ کمرے کے وسط میں آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ ڈریسنگ سے ہئر برش اُٹھا کر اُس نے اپنے جدید کٹ بالوں کو سنوارا تھا۔

تسکین ممی آئیں تو اُنہیں بتا دینا میں اپنی فر ینڈ کی طرف جا رہی ہوں۔

جی اچھا۔ میز کی سطح کو بظاہر دلجمعی سے رگڑتے ہوئے اُس نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اُس سے کہا تھا۔

ایک بار پھر سے اُس نے چور نظروں سے لڑکی کی طرف دیکھا تھا وہ کمرے سے باہر نکل رہی تھی۔ پیچھے تسکین اکیلی رہ گئی تھی۔ اُس کا دل بے انتہا زور سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن ابھی تک وہ کتاب اُس کی نظروں سے اُوجھل نہیں ہوئی تھی۔ بلا آخر وہ اُٹھی تھی۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اُس نے وہ کتاب اُٹھا لی تھی۔ کپڑے میں کتاب کو چھپا تے ہوئے وہ ڈرتے ڈرتے سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ حلانکہ وہ جا نتی تھی گھر میں اس وقت اُس کے ایک دو اور ملا زموں کے سوا کوئی نہیں تھا۔ وہ چپکے سے کچن میں آ گئی تھی۔ اُس نے ایک شاپر میں اُس کتاب کو ڈال لیا تھا جس میں کچھ دیر پہلے اُس کی مالکن اُسے بچے ہوئے کچھ چا ول اور دوسری کھانے پینے کی اشیاء دے کر گئی تھی۔ شاپر کو کچن میں ایک طرف رکھنے کے بعد وہ واپس کام کرنے میں مصروف ہو گئی تھی۔ اُس کا رواں رواں کانپ رہا تھا۔ بار ہا اُس کی نظر کچن کی طرف اُٹھتی تھی۔ لیکن وہ بچ گئی تھی اُسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

پھر اُس دن وہ سارا دن ڈرتی رہی تھی لیکن جیسے ہی شام ہوئی وہ اپنے گھر کو سر پٹ بھا گی تھی۔ وہ ایک بار پھر سے کامیاب رہی تھی ہمیشہ کی طرح۔

بالکل ہمیشہ کی طر ح۔۔ ۔

٭٭٭

ماخذ: کنواس ڈائجسٹ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید