صفحات

تلاش کریں

افسانہ- بُو(سعادت حسن منٹو)


 برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے اسی طرح نہا رہے تھے۔ ساگوان کے اس اسپرنگ دار پلنگ پر جو اب کھڑکی کے پاس سے تھوڑا ادھر سرکا دیا گیا تھا ایک گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ چپٹی ہُوئی تھی۔ کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے نہائے ہُوئے پتے رات کے دودھیا اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے۔ اور شام کے وقت جب دن بھر ایک انگریزی اخبار کی ساری خبریں اور اشتہار پڑھنے کے بعد کچھ سُنانے کے لیے وہ بالکنی میں آکھڑا ہوا تھا تو اس نے اس گھاٹن لڑکی کو جو ساتھ والے رسیوں کے کارخانے میں کام کرتی تھی اور بارش سے بچنے کے لیے املی کے پیڑ کے نیچے کھڑی تھی، کھانس کھانس کر اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اور اس کے بعد ہاتھ کے اشارے سے اوپر بُلا لیا تھا۔
وہ کئی دن سے شدید قسم کی تنہائی سے اُکتا گیا تھا۔ جنگ کے باعث بمبئی کی تقریباً تمام کرسچین چھوکریاں جو سستے داموں مل جایا کرتی تھیں عورتوں کی انگریزی فوج میں بھرتی ہو گئی تھیں، ان میں سے کئی ایک نے فورٹ کے علاقے میں ڈانس اسکول کھول لیے تھے جہاں صرف فوجی گوروں کو جانے کی اجازت تھی۔ رندھیر بہت اداس ہو گیا تھا۔ اس کی انا کا سب تو یہ تھا کہ کرسچین چھوکریاں نایاب ہو گئی تھیں اور دوسرا یہ کہ فوجی گوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذب، تعلیم یافتہ اور خوبصورت نوجوان اس پر فورٹ کے لگ بھگ تمام کلبوں کے دروازے بند کردیے تھے۔
اس کی چمڑی سفید نہیں تھی۔ جنگ سے پہلے رندھیر ناگپاڑہ اور تاج محل ہوٹل کی کئی مشہور و معروف کرسچین لڑکیوں سے جسمانی تعلقات قائم کر چکا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس قسم کے تعلقات کی کرسچین لڑکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ معلومات رکھتا تھا جن سے یہ چھوکریاں عام طور پر رومانس لڑاتی ہیں اور بعد میں کسی بیوقوف سے شادی کرلیتی ہیں۔ رندھیر نے بس یوں ہی ہیجل سے بدلہ لینے کی خاطر اس گھاٹن لڑکی کو اشارے پر بلایا تھا۔
ہیجل اس کے فلیٹ کے نیچے رہتی تھی اور ہر روز صبح وردی پہن کر کٹے ہوئے بالوں پر خاکی رنگ کی ٹوپی ترچھے زاویئے سے جما کر باہر نکلتی تھی اور لڑکپن سے چلتی تھی جیسے فٹ پاتھ پر چلنے والے سبھی لوگ ٹاٹ کی طرح اس کے راستے میں بچھے چلے جائیں گے۔ رندھیر سوچتا تھا کہ آخر کیوں وہ ان کرسچین چھوکریوں کی طرف اتنا زیادہ مائل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے جسم کی تمام دکھائی جاسکنے والی اشیا کو نمائش کرتی ہیں۔
کسی قسم کی جھجک محسوس کیے بغیر اپنے کارناموں کا ذکر کردیتی ہیں۔ اپنے بیتے پرانے رومانسوں کا حال سُنا دیتی ہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن کسی دوسری لڑکی میں بھی تو یہ خاصیتیں ہوسکتی ہیں۔ رندھیر نے جب گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بُلایا تو اسے کسی طرح بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ سُلالے گا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے اس کے بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر یہ سوچا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیچاری کو نمونیا ہو جائے تو رندھیر نے اس سے کہا تھا۔
”یہ کپڑے اُتار دو۔ سردی لگ جائے گی۔ “
وہ رندھیر کی اس بات کا مطلب سمجھ گئی تھی کیوں کہ اس کی آنکھوں میں شرم کے لال ڈورے تیر گئے تھے لیکن بعد میں جب رندھیر نے اسے اپنی دھوتی نکال کر دی تو اس نے کچھ دیر سوچ کر اپنا لہنگا اتار دیا۔ جس پر میل بھیگنے کی وجہ سے اور بھی نمایاں ہو گیا تھا۔ لہنگا اتار کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور جلدی سے دھوتی اپنی رانوں پر ڈال لی۔ پھر اس نے اپنی تنگ بھنچی بھنچی چولی اتارنے کی کوشش کی جس کے دونوں کناروں کو ملا کر اس نے ایک گانٹھ دے رکھی تھی۔ وہ گانٹھ اس کے تندرست سینے کے ننھے لیکن سمٹیلے گڑھے میں چھپ گئی تھی۔ دیر تک وہ اپنے گھسے ہوئے ناخنوں کی مدد سے چولی کی گانٹھ کھولنے کی کوشش کرتی رہی جو بھیگنے کی وجہ سے بہت زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ جب تھک ہار کر بیٹھ گئی تو اس نے مراٹھی زبان میں رندھیر سے کچھ کہا جس کا مطلب یہ تھا۔
”میں کیا کروں۔ نہیں نکلتی۔ “
رندھیر اس کے پاس بیٹھ گیا اور گانٹھ کھولنے لگا۔ جب نہیں کھلی تو اس نے چولی کے دونوں سروں کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ گانٹھ سراسر پھیل گئی اور اس کے ساتھ ہی دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم سے نمایاں ہو گئیں۔ لمحہ بھر کے لیے رندھیر نے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر، نرم نرم گندھی ہُوئی مٹی کو ماہر کمھار کی طرح دو پیالوں کی شکل بنا دی ہے۔ اس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدگداہٹ، وہی دھڑکن، وہی گولائی، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمھار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ برتنوں میں ہوتی ہے۔
مٹمیلے رنگ کی جوان چھاتیوں میں جو بالکل کنواری تھیں۔ ایک عجیب و غریب قسم کی چمک پیدا کردی تھی جو چمک ہوتے ہُوئے بھی چمک نہیں تھی۔ اس کے سینے پر یہ ایسے دیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی پر جل رہے تھے۔ برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے اسی طرح کپکپارہے تھے۔ لڑکی کے دونوں کپڑے جو پانی میں شرابور ہو چکے تھے ایک گدلے ڈھیر کی صورت میں پڑے تھے اور وہ رندھیر کے ساتھ چپٹی ہوئی تھی۔
اس کے ننگے بدن کی گرمی اس کے جسم میں ایسی ہلچل سی پیدا کر رہی تھی جو سخت جاڑے کے دنوں میں نائیوں کے گرم حماموں میں نہاتے وقت محسوس ہوا کرتی ہے۔ دن بھر وہ رندھیر کے ساتھ چپٹی رہی۔ دونوں جیسے ایک دوسرے کے مڈ ہو گئے تھے۔ انھوں نے بہ مشکل ایک دو باتیں کی ہوں گی۔ کیوں کہ جو کچھ بھی ہورہا تھا سانسوں، ہونٹوں اور ہاتھوں سے طے ہورہا تھا۔ رندھیر کے ہاتھ ساری کی چھاتیوں پر ہوا کے جھونکوں کی طرح پھرتے رہے۔ چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور موٹے موٹے گول دانے جو چاروں طرف ایک سیاہ دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے ہوائی جھونکوں سے جاگ اٹھتے اور اس گھاٹن لڑکی کے پورے بدن میں ایک سرسراہٹ پیدا ہو جاتی کہ خود رندھیر بھی کپکپا اٹھتا۔
ایسی کپکپاہٹوں سے رندھیر کا سینکڑوں بار واسطہ پڑ چکا تھا۔ وہ ان کو بخوبی جانتا تھا۔ کئی لڑکیوں کے نرم و نازک اور سخت سینوں سے اپنا سینہ ملا کر کئی کئی راتیں گزار چکا تھا۔ وہ ایسی لڑکیوں کے ساتھ بھی رہ چکا تھا جو بالکل اس کے ساتھ لپٹ کر گھر کی وہ ساری باتیں سُنا دیا کرتی تھیں جو کسی غیر کے لیے نہیں ہوتیں۔ وہ ایسی لڑکیوں سے بھی جسمانی تعلق قائم کر چکا تھا جو ساری محنت کرتی تھیں اور اسے کوئی تکلیف نہیں دیتی تھیں۔
لیکن یہ گھاٹن لڑکی جو پیڑ کے نیچے بھیگی ہُوئی کھڑی تھی اور جسے اس نے اشارے سے اوپر بلا لیا تھا۔ مختلف قسم کی لڑکی تھی۔ ساری رات رندھیر کو اس کے جسم سے ایک عجیب قسم کی بُو آتی رہی تھی۔ اس بُو کو جو بیک وقت خوشبو بھی تھی اور بدبُو بھی۔ وہ ساری رات پیتا رہا۔ اس کی بغلوں سے، اس کی چھاتیوں سے، اس کے بالوں سے، اس کے پیٹ سے، جسم کے ہر حصّے سے یہ جو بدبُو بھی تھی اور خوشبو بھی، رندھیر کے پورے سراپا میں بس گئی تھی۔
ساری رات وہ سوچتا رہا تھا کہ یہ گھاٹن لڑکی بالکل قریب ہونے پر بھی ہرگز اتنی قریب نہ ہوتی اگر اس کے جسم سے یہ بُو نہ اُڑتی۔ یہ بو اس کے دل و دماغ کی ہر سلوٹ میں رینگ رہی تھی۔ اس کے تمام نئے پرانے محسوسات میں رچ گئی تھی۔ اس بُو نے اس لڑکی اور رندھیر کو جیسے ایک دوسرے سے ہم آہنگ کردیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے تھے۔ ان بیکراں گہرائیوں میں اُتر گئے تھے جہاں پہنچ کر انسان ایک خالص انسانی تسکین سے محظوظ ہوتا ہے۔
ایسی تسکین جو لمحاتی ہونے پر بھی جاوداں تھی۔ مسلسل تغیر پذیر ہونے پر بھی مضبوط اور مستحکم تھی۔ دونوں ایک ایسا جواب بن گئے تھے جو آسمان کے نیلے خلا میں مائل پرواز رہنے پر بھی دکھائی دیتا رہے۔ اس بُو کو جو اس گھاٹن لڑکی کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی رندھیر بخوبی سمجھتا تھا لیکن سمجھتے ہُوئے بھی وہ اس کا تجزیہ نہیں کرسکتا تھا۔ جس طرح کبھی مٹی پر پانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی بُو نکلتی ہے۔ لیکن نہیں، وہ بُو کچھ اور طرح کی تھی۔
اس میں لونڈر اور عطر کی آمیزش نہیں تھی، وہ بالکل اصلی تھی۔ عورت اور مرد کے جسمانی تعلقات کی طرح اصلی اور مقدس۔ رندھیر کو پسینے کی بُو سے سخت نفرت تھی۔ نہانے کے بعد وہ ہمیشہ بغلوں وغیرہ میں پاؤڈر چھڑکتا تھا یا کوئی ایسی دوا استعمال کرتا تھا جس سے وہ بدبو جاتی رہے لیکن تعجب ہے کہ اس نے کئی بار۔ ہاں کئی بار اس گھاٹن لڑکی کی بالوں بھری بغلوں کو چوما اور اسے بالکل گھن نہیں آئی بلکہ عجیب قسم کی تسکین کا احساس ہوا۔ رندھیر کو ایسا لگتا تھاکہ وہ اسے پہچانتا ہے۔ اس کے معنی بھی سمجھتا ہے لیکن کسی اور کو نہیں سمجھا سکتا۔
برسات کے یہی دن تھے۔ یوں ہی کھڑکی کے باہر جب اس نے دیکھا تو پیپل اسی طرح نہا رہے تھے۔ ہوا میں سرسراہٹیں اور پھڑپھڑاہٹیں گھلی ہُوئی تھیں۔ اس میں دبی دبی دُھندلی سی روشنی سمائی ہُوئی تھی۔ جیسے بارش کی بوندوں کا ہلکا پھلکا غبار نیچے اُتر آیا ہو۔ برسات کے یہی دن تھے جب میرے کمرے میں ساگوان کا صرف ایک ہی پلنگ تھا۔ لیکن اب اس کے ساتھ ایک اور پلنگ بھی تھا اور کونے میں ایک نئی ڈریسنگ ٹیبل بھی موجود تھی۔
دن لمبے تھے۔ موسم بھی بالکل ویسا ہی تھا۔ بارش کی بوندوں کے ہمراہ ستاروں کی طرح اس کا غبار سا اسی طرح اتر رہا تھا لیکن فضا میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو بسی ہوئی تھی۔ دوسرا پلنگ خالی تھا۔ اس پلنگ پر رندھیر اوندھے منہ لیٹا کھڑکی کے باہر پیپل کے پتوں پر بارش کی بوندوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔ ایک گوری چٹی لڑکی جسم کو چادر میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے قریب قریب سو گئی۔ اس کی سرخ ریشمی شلوار دوسرے پلنگ پر پڑی تھی جس کے گہرے سرخ رنگ کا ایک پھندنا نیچے لٹک رہا تھا۔
پلنگ پر اس کے دوسرے اُتارے کپڑے بھی پڑے تھے۔ سنہری پھول دار جمپر، انگیا، جانگیا اور دوپٹہ۔ سرخ تھا۔ گہرا سرخ اور ان سب میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو بسی ہُوئی تھی۔ لڑکی کے سیاہ بالوں میں مکیش کے ذرّے دُھول کے ذرّوں کی طرح جمے ہُوئے تھے۔ چہرے پر پاؤڈر، سرخی اور مکیش کے ان ذرّوں نے مل جل کر ایک عجیب رنگ بکھر دیا تھا۔ بے نام سا اُڑا اُڑا رنگ اور اس کے گورے سینے پر کچے رنگ کے جگہ جگہ سرخ دھبے بنا دیے تھے۔
چھاتیاں دودھ کی طرح سفید تھیں۔ ان میں ہلکا ہلکا نیلا پن بھی تھا۔ بغلوں کے بال منڈے ہُوئے تھے جس کی وجہ سے وہاں سرمئی غبار سا پیداہو گیا تھا۔ رندھیر اس لڑکی کی طرف دیکھ دیکھ کر کئی بار سوچ چکا تھا۔ کیا ایسا نہیں لگتا جیسے میں نے ابھی ابھی کیلیں اکھیڑ کر اس کو لکڑی کے بند بکس میں سے نکالا ہو۔ کتابوں اور چینی کے برتنوں پر ہلکی ہلکی خراشیں پڑ جاتی ہیں، ٹھیک اسی طرح اس لڑکی کے جسم پر بھی کئی نشان تھے۔
جب رندھیر نے اس کی تنگ اور چست انگیا کی ڈوریاں کھولی تھیں تو اس کی پیٹھ پر اور سامنے سنیے پر نرم نرم گوشت پر جھریاں سی بنی ہوئی تھیں اور کمر کے چاروں طرف کس کر باندھے ہوئے ازار بند کا نشان۔ وزنی اور نکیلے جڑاؤ نیکلس سے اس کے سینے پر کئی جگہ خراشیں پڑ گئی تھیں۔ جیسے ناخنوں سے بڑے زور سے کھجایا گیا ہو۔ برسات کے وہی دن تھے۔ پیپل کے نرم نرم پتوں پر بارش کی بوندیں گرنے سے ویسی ہی آواز پیدا ہورہی تھی جیسی رندھیر اس دن ساری رات سنتا رہا تھا۔
موسم بے حد سہانا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی لیکن اس میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو گھلی ہُوئی تھی۔ رندھیر کے ہاتھ بہت دیر تک اس گوری چٹی لڑکی کے کچے دودھ کی طرح سفید سینے پر ہُوا کے جھونکوں کی طرح پھرتے رہے تھے۔ اس کی انگلیوں نے اس گورے گورے بدن میں کئی چنگاریاں دوڑتی ہُوئی محسوس کی تھیں۔ اس نازک بدن میں کئی جگہوں پر سمٹی ہوئی کپکپاہٹوں کا بھی اسے پتہ چلا تھا جب اس نے اپنا سینہ اس کے سینے کے ساتھ ملایا تو رندھیر کے جسم کے ہررونگٹے نے اس لڑکی کے بدن کے چھڑے ہُوئے تاروں کی بھی آواز سُنی تھی۔
مگر وہ آواز کہاں تھی؟ وہ پکار جو اس نے گھاٹن لڑکی کے بدن میں دیکھی تھی۔ وہ پکار جو دودھ کے پیاسے بچے کے رونے سے زیادہ ہوتی ہے، وہ پکار جو حلقہ ءِ خواب سے نکل کر بے آواز ہو گئی تھی۔ رندھیر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کے بالکل قریب ہی پیپل کے نہاتے ہُوئے پتے تھرتھرارہے تھے۔ وہ ان کی مستی بھر کپکپاہٹوں کے اس پار کہیں بہت دُور دیکھنے کی کوشش کررہا تھا جہاں مٹھیلے بادلوں میں عجیب و غریب قسم کی روشنی گھلی ہُوئی دکھائی دے رہی تھی۔
ٹھیک ویسے ہی جیسی اس گھاٹن لڑکی کے سینے میں اُسے نظر آتی تھی۔ ایسی پراسرار گفتگو کی طرح دبی لیکن واضح تھی۔ رندھیر کے پہلو میں ایک گوری چٹی لڑکی۔ جس کا جسم دودھ اور گھی میں گندھے میدے کی طرح ملائم تھا، لیٹی تھی۔ اس کے نیند سے ماتے بدن سے حنا کے عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ جو اب تھکی تھکی سی معلوم ہوتی تھی۔ رندھیر کو یہ دم توڑتی اور جنوں کی ہوئی خوشبو بہت بُری معلوم ہوئی۔ اس میں کچھ کھٹاس تھی۔ ایک عجیب قسم کی جیسی بدہضمی کے ڈکاروں میں ہوتی ہے۔
اداس۔ بے رنگ۔ بے چین۔ رندھیر نے اپنے پہلو میں لیٹی ہُوئی لڑکی کی طرف دیکھا۔ جس طرح پھوٹے ہُوئے دودہ کے بے رنگ پانی میں سفید مردہ پھٹکیاں تیرنے لگتی ہیں اسی طرح اس لڑکی کے جسم پر خراشیں اور دھبے تیر رہے تھے اور وہ حنا کے عطر کی اوٹ پٹانگ خوشبو۔ رندھیر کے دل و دماغ میں وہ بُو بسی ہُوئی تھی جو اس گھاٹن لڑکی کے جسم سے بنا کسی کوشش کے از خود نکل رہی تھی۔ وہ بو جو حنا کے عطر سے کہیں زیادہ ہلکی پھلکی اور دبی ہوئی تھی۔
جس میں سونگھے جانے کی کوشش شامل نہیں تھی۔ وہ خود بخود ناک کے اندر گھس کر اپنی صحیح منزل پر پہنچ جاتی تھی۔ رندھیر نے آخری کوشش کے طور پر اس لڑکی کے دودھیا جسم پر ہاتھ پھیرا لیکن کپکپی محسوس نہ ہُوئی۔ اس کی نئی نویلی بیوی جو ایک فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی بیٹی تھی، جس نے بی۔ اے تک تعلیم حاصل کی تھی اور جو اپنے کالج کے سینکڑوں لڑکوں کے دلوں کی دھڑکن تھی۔ رندھیر کی کسی بھی حسّ کو نہ چھو سکی۔ وہ حنا کی خوشبو میں اُس بُو کو تلاش کررہا تھا جو انھیں دنوں میں جب کہ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے بارش میں نہا رہے تھے۔ اس گھاٹن لڑکی کے میلے بدن سے آئی تھی۔