صفحات

تلاش کریں

شخصیت - بہادر شاه ظفر



خواجه حسن نظامی نے آخری مغل بادشاه بهادر شاه ظفر کی لاڈلی بیٹی کلثوم زمانی بیگم کی داستان اس کی اپنی زبانی لکھی هے۔ کلثوم زمانی بیگم بتاتی هیں که جس وقت میرے ابا کی بادشاهت ختم هوئ اور تخت و تاج کے لٹنے کا وقت آیا تو همارے محل یعنی لال قلعه میں ایک کهرام مچا هوا تھا۔ تین وقت سے کسی نے کچھ نهیں کھایا پیا تھا۔ میری ڈھائ سال کی بچی زینب دودھ سے بلک رهی تھی۔ هم سب اسی پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے که ابا حضور نے همیں بلا بھیجا۔ هم ان کی خدمت میں حاضر هوۓ تو وه مصلے پر تشریف فرما تھے، اور تسبیح ان کے هاتھ میں تھی۔ مجھے دیکھ کر انهوں نے فرمایا که بیٹی میں نے تمهیں خدا کے سپرد کیا۔ تم اپنی بچی اور خاوند کو ساتھ لے کر یهاں سے فوراً کهیں دور چلے جاؤ۔ اگر تم لوگ میرے ساتھ رهے تو نقصان کا اندیشه هے۔ دور چلے جاؤ گے تو شاید الله کوئ بهتری کا سامان پیدا کردے۔ یه کهه کر انهوں نے همارے لیے الله کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی یا الله ان لاوارث اور بے کس عورتوں کی آبرو بچایئو۔ تیمور کے گھرانے کی یه عورتیں جنهوں نے کبھی محل سے قدم باهر نهیں رکھا تھا میں تیرے حوالے کرتا هوں۔ تو هی ان کی مدد فرما۔ اس کے بعد انهوں میرے خاوند مرزا ضیاء الدین کو کچھ جواهرات عنایت کیے اور بڑی حسرت و یاس سے همیں رخصت کیا۔
رات کے پچھلے پهر همارا قافله محل سے نکلا۔ همارے قافلے میں میرے خاوند اور بچی کے علاوه ابا حضور کی بیگم نور محل بھی تھیں۔ ابا کے بهنوئ مرزا عمر سلطان اور ابا کی ایک سمدھن تھیں۔ گویا همارے قافلے میں دو مرد اور باقی عورتیں تھیں۔ لال قلعے سے همیشه کے لیے جدا هوکر همکورالی گاؤں پهنچے۔ اور اپنے رتھ بان کے مکان پر قیام کیا۔ وهاں پر همیں کھانے کو باجره کی روٹی اور پینے کو چھاچھ دی گئ۔ بھوک کی حالت میں یه چیزیں بھی همیں بریانی اور متنجن سے زیاده لزیز معلوم هوئیں۔ ایک دن تو هم نے وهاں پر امن و سکون سے گزارا۔ لیکن دوسرے دن علاقے کےجاٹ اور گوجر جمع هوکر همیں لوٹنے کے لیے آگۓ۔ ان کے ساتھ ان کی عورتیں بھی تھیں۔ وه هم لوگوں سے چمٹ گئیں۔ اور همارے تمام زیوراور کپڑے ان لوگوں نے اتار لیے۔ اس لوٹ مار کے بعد همارے پاس اتنا کچھ بھی نه بچا که هم ایک وقت کی روٹی هی کھا سکتے۔ میری ننھی سی بچی پیاس کی شدت سے تڑپ رهی تھی۔ سامنے کے ایک گھر سے زمیندار نکلا تو مین نے کها که بھائ تھوڑا سا پانی اس بچی کو پلا دے۔ زمیندار فوراً ایک مٹی کے برتن میں پانی لے آیا۔ اور کها که آج سے میں تیرا بھائ اور تو میری بهن۔ اس زمیندار کا نام بستی تھا اور یه اس کورالی گاؤں کا کھاتا پیتا زمیندار تھا۔ اس نے اپنی بیل گاڑی تیار کرکے هم کو اس میں سوار کیا۔ اور هم سے هماری منزل کا پوچھا۔ هم نے اجاڑه ضلع میرٹھ میں اپنے شاهی حکیم میر فیض علی کے هاں جانے کی خواهش ظاهر کی۔ وهاں پهنچے تو میر فیض نے هم سے ایسی بے مروتی کا اظهار کیا که همیں ایک لمحه بھی وهاں رکنے کے لیے نه کها۔ اس نے صاف کهه دیا که میں تم لوگوں کو اپنے پاس ٹھھراکر اپنا گھر بار تباه نهیں کرسکتا۔ هم سب بے حد مایوس هوۓ۔ لیکن آفرین هے اس بستی زمیندار پر که جس نے مجھے اپنی بهن کها تھا۔ اس نے آخر وقت تک همارا ساتھ نه چھوڑا۔ وهاں سے هم نے حیدرآباد کا رخ کیا۔ عورتیں بستی کی گاڑی میں سوار تھیں اور مرد پیدل چل رهے تھے۔


تیسرے روز ایک ندی کے کنارے پهنچے، تو وهاں کومل کے نواب کی فوج نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ انهوں نے جونهی سنا که هم شاهی خاندان کے افراد هیں۔ تو انهوں نے هماری بڑی خاطر مدارت کی اورهاتھی پر سوار کرا کر همیں ندی کے پار پهنچایا۔ اتنے میں سامنے سے انگریز فوج آگئ اور دونوں فوجوں میں لڑائ هونے لگی۔ نواب کے آدمیوں نے همیں فوراً وهاں سے کھسک جانے کو کها۔ سامنے کھیت تھے جن میں پکی هوئ فصل کھڑی تھی۔ هم لوگ اس میں چھپ گۓ۔ اچانک اس کھیت میں ایک گولی آئ جس سے وهاں پر آگ بھڑک اٹھی اور پورا کھیت جلنے لگا۔ هم سب وهاں سے بھاگے۔ لیکن همیں بھاگنا بھی نهیں آتا تھا۔ هم گھاس میں الجھ کر گرتے پڑتے تھے۔ سروں کی چادریں اتر گئیں۔ پاؤں زخموں سے خون آلود هوچکے تھے۔ پیاس کے مارے منه سے زبانیں باهر نکلی هوئیں تھیں۔ نور محل بیگم تو کھیت سے نکلتے هی چکرا کر گر پڑیں، بے هوش هوگئیں۔ هم سب پریشان تھے که اب کیا کریں اور کدھر کو جائیں۔ جب دونوں فوجیں لڑتی هوئیں دور نکل گئیں، تو بستی ندی سے پانی لے آیا۔ هم سب نے پیا اور نور محل بیگم کے چهرے پر چھڑکا۔ هوش میں آتے هی وه رونے لگ گئیں که میں نے خواب میں بادشاه حضور کو زنجیروں میں جکڑے دیکھا هے۔ سب نے ان کو تسلی دی اور هم پھر سے بستی کی گاڑی میں سوار هوگۓ۔ ایک گاؤں کے قریب رات هوگئ۔ تو هم نے وهیں رات گزارنے کا فیصله کرلیا۔ یه مسلمان راجپوتوں کی ایک بستی تھی۔ گاؤں کے نمبر دار نے همارے لۓ ایک چھپر خالی کروا دیا۔ جس میں سوکھی گھاس پھوس کا بچھونا تھا۔ اس طرح کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سونے سے تو میرا جی الجھنے لگا۔ لیکن مجبوری تھی، کیا کرتے۔ رات کو پسوؤں نے بھی بھت تنگ کیا اور یوں روتے دھوتے هم نے وه رات وهاں بسر کی۔ اس کے بعد هم حیدرآباد پهنچ گۓ۔ اور سیتا رام کے علاقے میں ایک مکان کراۓ پر ره کر رهنے لگے۔



میرے خاوند کے پاس ایک قیمتی انگوٹھی تھی جو کورالی گاؤں کے جاٹوں کی لوٹ کھسوٹ سے بچ گئ تھی۔ جبل پور میں انهون نے اسے فروخت کردیا۔ اور اسی سے راستے کا خرچ چلاتے رهے۔ حیدرآباد میں بھی چند روز انهی پیسوں میں گزارا کیا، لیکن آخر وه بھی ختم هوگۓ۔ پیٹ بھرنے کے لیے گھر میں کچھ نه بچا تھا۔ میرے خاوند ایک اعلٰی درجے کے خوشنویس تھے۔ انهوں نے بڑے خوبصورت انداز میں درود شریف لکھا، اور بازار میں جار کر پانچ روپے میں اس کا هدیه وصول کیا۔ اسکے بعد انهوں نے یه کام باقاعدگی سے شروع کردیا۔ اور هماری گزر بسر اچھی هونے لگی۔ هماری رهائش کے نزدیک ایک ندی بهتی تھی۔ اس میں طغیانی آجانے کے خوف سے هم وهاں سے نظام حیدرآباد کے ایک ملازم داروغه احمد کے ایک مکان میں کراۓ پر آکر رهنے لگے۔ چند هی روز بعد شهر میں خبر مشهور هوگئ که نواب شکر جنگ جس نے شهزادوں کو اپنے پاس پناه دی تھی، انگریز کے زیرعتاب آگۓ هیں۔ ساتھ هی انگریزوں نے حکم دیا که کوئ بھی شخص شهزادوں کو پناه نه دے، بلکه انهیں گرفتار کرانے کی کوشش کرے۔ یه سن کر هم گھبرا گۓ۔ اور میں نے اپنے خاوند کو باهر جانے سے روک دیا۔ چند دن تو گھر پر بیٹھے رهے لیکن جب نوبت فاقوں تک پهنچی تو مجبوراً انهوں نے باره روپے ماهوار پر ایک نواب کے لڑکے کو قرآن کریم پڑھانے کی ملازمت اختیار کرلی۔ وه نواب میرے خاوند کے ساتھ ادنٰی ملازموں کا سا سلوک کرتا تھا۔ جس سے وه بے حد پریشان تھے۔ اسی اثناء میں کسی نے میاں نظام الدین صاحب کو همارے بارے میں بتادیا۔ میاں صاحب رات کے وقت همارے گھر تشریف لاۓ، بهت دیر تک همارے حالات دریافت کرتے رهے۔ اور اس کے بعد تشریف لے گۓ۔ صبح کو انهوں نے پیغام بھجوایا که هم نے تم سب کے خرچ کا انتظام کردیا هے، تم لوگ حج کے لیے مکه معظمه جانے کی تیاری کرو۔ یه خبر سن کر هم سب بے حد خوش هوۓ، اور مکه جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔


حیدرآباد سے هم بمبئ کے لیے روانه هوۓ، میں نے اپنے منه بولے بھائ بستی کو خرچ دے کر رخصت کیا۔اور خود جهاز میں سوار هوگۓ۔ جهاز میں جو مسافر بھی همارے بارے میں سنتا تھا که هم شاهی گھرانے سے تعلق رکھتے هیں، همیں ملنے اور دیکھنے کا شوق ظاهر کرتا، مکه پهنچے تو الله نے هماری رهائش کا بهت هی اچھا بندوبست کردیا۔ عبد القادر نامی میرا ایک ملازم تھا، جسے میں نے آزاد کرکے مکے بھیج دیا تھا، یهاں آکر اس نے خوب دولت کمائ۔ اور زم زم کا داروغهمقرر هوگیا۔ اس کو همارے آنے کی اطلاع ملی تو وه دوڑا هوا آیا۔ اور قدموں میں گر کر خوب رویا۔ اس کا مکان بهت اچھا اور آرام ده تھا۔ هم سب وهیں ٹھھر گۓ۔ چند روز بعد روم کے سلطان کے نائب کو جو مکے میں رهتے تھے، هماری آمد کی اطلاع ملی، وه خود همیں ملنے چلے آۓ، اور خواهش ظاهر کی که میں آپ کے آنے کی اطلاع حضور سلطان کو دینا چاهتا هوں۔ لیکن میں نے انهیں جواب دیا که هم ایک بڑے سلطان کے دربار میں آگۓ هیں، اس لیے همیں کسی دوسرے سلطان کی پرواه نهیں۔ بهرحال نائب سلطان نے همارے اخراجات کے لیے ایک معقول رقم مقرر کردی۔ اور هم نو برستک وهاں مقیم رهے۔ اس کے بعد ایک سال بغداد شریف اور ایک سال نجف اور کربلاۓ معلٰی میں بسر کیا۔ وطن سے دور هوۓ اتنی مدت هوگئ تھی، دهلی کی یاد نے بے چین کیا تو واپس دهلی آگۓ۔ یهاں پر انگریز سرکار نے هم پر ترس کھاکر دس روپے ماهوار پینشن مقرر کی۔ اس رقم کا سنکر مجھے بے حد هنسی آئ، که میرے باپ کا اتنا بڑا ملک لے کر اس کا معاوضه صرف دس روپے دیتے هیں۔ لیکن پھر خیال آیا که ملک تو خدا هے وه جس کو چاهے دے دیتا هے اور جس سے چاهے چھین لیتا هے۔ اسکے کاموں میں کسی انسان کو دم مارنے کی جرات نهیں۔