حصہ اول(قسط نمبر ١)
ابوالحسن
ہندوستان کے مغربی ساحل کی اہم بندرگاہوں اور جزیرا سراندیپ(موجودہ سریلنکا یا سیلون) کے ساتھ ایک مدت سے عربوں کے تجارتی تعلقات چلے آرہے تھے۔زمانہ جاہلیت میں چند عرب تاجر سر اندیپ میں آباد ہوگئے تھے اور جب عرب میں ایک نئے دین کا چرچا ہونے لگا تو یہ دین ان عربوں کو اپنے آباواجداد کے مذہب کو ترک کرنے پر آمادہ نا کرسکا۔لیکن ایرانیوں اور رومیوں کے مقابلے میں عربوں کی شاندار فتوحات کی خبریں سن کر ان کی قومی عصبیت جاگ آٹھی تھی۔ ایران، عرب کے مقابلے میں ایک متمدن ملک سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے ہندوستان کے بازاروں میں عرب کے مقابلے میں ایران کی مصنوعات کی زیادہ قدر تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے حکمران حیران کو ایک طاقتور ہمسایہ خیال کرتے تھے اور عربوں کے مقابلے میں ایرانی تاجروں کو زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔اگر شام سے کوئی قافلہ آجاتا تو روما کی قدیم سطوت سے مرعوب ہندوستانی انھیں بھی عربوں سے زیادہ مرعات دیتے۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شاندار فتوحات نے عربوں کے مطلق ہمسایہ ممالک کے زاویہ نگاہ کو تبدیل کردیا۔
سراندیپ اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں آباد ہونے والے وہ ےاجر جو ابھی تک عرب کے اندرونی انقلاب سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔ کفر کے مقابلے میں اسلام کی فتوحات کو ایرانیون اور رومیوں کے مقابلے میں عرب کی فتوحات سمجھ کر پھولے نہیں سماتے تھے۔ عربوں کے نئے دین سے ان کی نفرت اب محبت میں تبدیل ہورہی تھی۔ اس زمانے میں جن لوگوں کو عرب جانے کا اتفاق ہوا وہ اسلام کی نعمتوں سے مالا مال ہو کر وآپس آئے۔
عبدالشمس عرب عرب تاجروں کا سرکردہ تھا۔ اس کا خاندان ایک مدت سے سر آندیپ میں آباد تھا۔ وہ اسی جزیرے میں پیدا ہوا اور اسی جگہ آباد ہونے والے ایک عرب خاندان کی لڑکی سے شادی کی۔ جوانی سے بڑھاپے تک اس کے بحری سفر بھی سراندیپ سے کاٹھیاوار تک محدود رہے۔اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کے عرب میں اس کے خاندان کے دوسرے افراد کون ہیں اور کس جگہ رہتے ہیں۔
دوسرے عربوں کی طرح وہ بھی مادرِ وطن کے ساتھ اس وقت دلچسپی لینے لگا جب یرموک اور قادسیہ میں مسلمانوں کی شاندار فتوحات کی خبریں دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ چکی تھیں۔
موجودہ راجہ کے باپ کو انھی خبروں نے عرب کے ایک بےنام تاجر کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر آمادہ کیا تھا۔ اس نے عبدالشمس اور اس کے ساتھیوں کو دربار میں بلایا اور بیش قیمت تحائف دے کر رخصت کیا۔
سن ٤٥ہجری میں اپنے باپ کی وفات کے بعد نئے راجہ نے تخت نشین ہوتے ہی عبدالشمس کو اپنے پاس بلایا اور کہا ”مدت سے ہمارے ملک میں تمہارے ملک کا کوئی تاجر نہیں آیا۔ میں عرب کے تازہ حالات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے تمہارے نئے دین کے ساتھ دلچسپی ہے اگر تم وہاں جانا پسند کرو تو میں تمہارے لیے ہر سہولت مہیا کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
عبدالشمس نے کہا ”آپ کے منہ سے میرے دل کی دبی ہوئی آواز نکلی ہے۔ میں جانے کے لیے تیار ہوں۔“
پانچ عرب تاجروں کے سوا باقی سب عبدالشمس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے۔
دس دن بعد بندرگاہ پر ایک جہاز کھڑا تھا اور عرب اپنے اپنے بال بچوں سے رخصت ہورہے تھے۔عبدالشمس کی بیوی فوت ہوچکی تھی اس نے سینے پر پتھر رکھ کر اپنی اکلوتی بیٹی کو الوداع کہا۔ اس لڑکی کا نام سلمی تھا۔ شہر میں کوئی شخص ایسا نا تھا جو اسے نسوانی حسن کا بلند ترین معیار تصور نا کرتا۔ شہ سوار اسے سرکش گھوڑوں کو دوڑاتے اوربہترین تیراک اسے خوفناک آبشاروں میں کودتے اورسمندر میں مچھلی کی طرح تیرتے دیکھ کر دم بخود رہ جاتے۔
عبدالشمس کی روانگی کے بیس دن بعد کاٹھیاوار کے تاجروں کا ایک جہاز بندرگاہ پر رکا اور عبدالشمس اور اس کے دوساتھیوں نے اتر کر یہ خبر سنائی کہ ان کا جہاز اور دوسرے ساتھی سمندر کی لہروں کا شکار ہوچکے ہیں اور اگر کاٹھیاوار کے تاجروں کا جہاز وقت پر نا پہنچتا تو وہ بھی چند ساعت اور پانی میں ہاتھ پاوں مارنے کے بعد ڈوب جاتے۔
راجہ نے اس حادثے کی خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی۔ سندھی تاجروں کے سردار کا نام دلیپ سنگھ تھا۔ راجہ نے اسے دربار میں بلایا اور تین عربوں کی جان بچانے کے عوض اسے تین ہاتھی انعام دے۔ راجہ کو مہربان دیکھ کر دلیپ سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے وہاں آباد ہونے کا خیال ظاہر کیا۔ راجہ نے خوشی کے ساتھ ان کی یہ درخواست منظور کی اور شاہی خزانے سے ان کے لیے مکانات تعمیر کروا دیے۔
چند سال کی وفادارانہ خدمات کے بعد دلیپ سنگھ کو راجہ کے بحری بیڑے کا افسرِ اعلی بنا دیا گیا۔
(قسط نمبر 2)
اس واقع کے تین سال بعد ابوالحسن پہلا مسلمان تھا جسے تجارت کا ارادہ اور تبلیغ کا شوق اس دور افتادہ جزیرے تک لے آیا۔
کئی ہفتوں کے سفر کے بعد ایک صبح ابوالحسن اور اس کے ساتھ جہاز پر کھڑے سراندیپ کے سرسبز ساحل کی طرف دیکھ رہے تھے۔
بندرگاہ کے قریب مرد،عورتیں اور بچے کشتیوں پر سوار ہوکر اور چند تیرتے ہوئے لوگ جہاز کے استقبال کے لیے نکلے۔ ایک کشتی پر ابوالحسن کو جزیرے کی سیہ فارم اور نیم عریاں عورتوں کے درمیان ایک احنبی صورت دیکھائی دی۔ اس کا رنگ سرخ و سفید اور شکل جزیرے کے باشندوں سے مختلف تھی۔دوسری کشتیوں سے پہلے جہاز کے قریب پہنچنے کے لیے وہ اپنی کشتی پر کھڑی دو تنو مند ملاحوں کو جو کشتی کے چپو چلا رہے تھے، ڈانٹ ڈپٹ کر رہی تھی۔
یہ کشتی تمام کشتیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جہاز کے قریب آلگی۔ لڑکی نے ابوالحسن کی طرف دیکھا اور اس نے بےباک نگاہوں کا جواب دینے کی بجائے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ ابوالحسن کے ساتھیوں کو بھی عورتوں کا نیم عریاں لباس پسند نا آیا۔حسین لڑکی نے جہاز والوں کی بےاعتنائی کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے سراندیپی زبان میں کچھ کہا لیکن جہاز پر سے کوئی جواب نا آیا۔
اچانک ابوالحسن نے کسی کی چیخ پکار سن کر نیچے دیکھا۔کشتی سے آٹھ دس گز کے فاصلے پر وہی خوبصورت لڑکی پانی میں غوطے کھا رہی تھی اور کشتی والے اس کی چیخ و پکار کے باواجود سخت بے اعتنائی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ابوالحسن نے پہلے رسی کی سیڑھی پھینکی لیکن جب اس بات کا یقین ہوگیا کہ لڑکی کے ہاتھ پاوں جواب دے رہے ہیں اور وہ سیڑھی تک نہیں پہنچ سکتی تو وہ کپڑوں سمیت سمندر میں کود پڑا لیکن لڑکی اچانک پانی میں غائب ہوگئی اور وہ پریشان ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اتنی دیر میں بہت سی کشتیاں جہاز کے گرد جمع ہوچکی تھیں اور جزیرے کے باشندے قہقہے لگا رہے تھے۔۔۔
ابوالحسن نے تین مرتبہ غوطہ لگانے کے بعد دل برداشتہ ہوکر سیڑھی کی رسی پکڑ لی اور وہ جہاز پر چڑھنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ اوپر سے اس کا ساتھی چلانے لگا۔ ”وہ ادھر ہے جہاز کی دوسری طرف۔وہ ڈوب رہی ہے شاید کسی مچھلی نے پکڑ رکھا ہے“
مقامی مردوں اور عورتوں نے پھر قہقہہ لگایا۔ابوالحسن لڑکی کے جہاز کی دوسری طرف پہنچنے کی وجہ نا سمجھ سکا۔ تشویش اور حیرانی کے ملے جلے جزبات کے ساتھ اس نے جلد ہی پھر غوطہ لگایا اور جہاز کے نیچے سے گزرتا ہوا دوسری طرف پہنچ گیا۔وہاں کوئی نا تھا۔اوپر سے اس کا وہی ساتھی شور مچا رہا تھا: ”وہ ڈوب گئی۔اسے مچھلی نگل گئی۔“
ابوالحسن مایوس ہوکر پھر دوسری طرف پہنچا۔اس دفعہ لوگوں کے قہقہوں میں اس کے ساتھی بھی شریک تھے اور ایک عرب نے کہا ”آپ آجایے وہ آپ سے بہتر تیر سکتی ہے۔“
ابوالحسن نے کھسیانا ہوکر سیڑھی پکڑ لی لیکن ابھی ایک ہی پاوں اوپر رکھا تھا کہ کسی نے اس کی ٹانگ پکڑ کرپانی میں گرا دیا۔اس نے سنبھل کر ادھر ادھر دیکھا تو لڑکی تیزی سے سیڑھی پر چڑھ رہی تھی۔
ابوالحسن جہاز پر پہنچا تو اس کے ساتھی پریشان ہوکر لڑکی کے قہقہے سن رہے تھے۔
لڑکی نے ابوالحسن کی طرف دیکھ کر عربی میں کہا ”مجھے آپ کے بھیگ جانے کا بہت افسوس ہے۔“
لڑکی کے منہ سے عربی کے الفاظ سن کر سب کی نگاہیں اس ہر جم کر رھ گئیں۔
(قسط نمبر3)
ابوالحسن نے پوچھا ”کیا تم عرب ہو؟“
لڑکی نے ایک طرف سر جھکا کر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کے بالوں کا پانی نچوڑتے ہوئے جواب دیا”ہاں! میں عرب ہوں۔ ایک مدت سے ہم عربوں کے جہازوں کی راہ دیکھا کرتے تھے۔ میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں۔ آپ کیا مال لائے ہیں؟“
ایک عرب لڑکی کو اسے لباس میں دیکھنا ابوالحسن اور اس کے ساتھیوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔وہ پریشان ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
لڑکی نے اپنے سوال کا جواب نا پاکر پھر پوچھا ”میں پوچھتی ہوں آپ کیا مال لائے ہیں؟ آپ حیران کیوں ہیں۔ کیا عرب عورتیں تیرنا نہیں جانتیں۔ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ اچھا میں خود دیکھ لیتی ہوں۔“
ابوالحسن نے کہا ”ٹھہرو! ہم گھوڑے لائے ہیں۔ میں تمہیں خود دیکھاتا ہوں لیکن میں حیران ہوں کہ اس جزیرے کے عرب ابھی تک زمانہ جاہلیت کے عربوں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا انھیں انسانوں کا سا لباس پہننا اور مردوں سے حیا کرنا کسی نے نہیں سیکھایا؟“
لڑکی کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ اس نے جواب دیا”کیا یہ انسانوں کا لباس نہیں؟“
”نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے گھر تک اسلام کی روشنی ابھی تک نہیں آئی۔“ یہ کہہ کر ابوالحسن نے ایک جبہ اٹھایا اور لڑکی کے کندھوں پر ڈال کر کہا ”اب تم ہمارا جہاز دیکھ سکتی ہو۔“
لڑکی نے ابوالحسن کے الفاظ سے زیادہ اس کی شخصیت سے مرعوب ہوکر اپنے عریاں بازوں اور پنڈلیوں کو جبے میں چھپا لیا۔
ابوالحسن کی پونجی پچاس عرب گھوڑے تھے۔لڑکی نے یکے بعد دیگرے تمام گھوڑوں کا معائنہ کیا اور ایک گھوڑے کی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولی ”میں یہ خریدوں گی۔ اس کی قیمت کیا ہے؟“
ابوالحسن نے کہا ”تم میں ابھی تک عربوں کی ایک خصوصیت باقی ہے۔یہی گھوڑا ان سب میں بہترین ہے لیکن تم نا اس کی قیمت ادا کرسکو گی اور نہ یہ عورتوں کی سواری کے قابل ہے۔یہ جس قدر خوبصورت اور تیز رفتار ہے اسی قدر منہ زور بھی ہے۔“
لڑکی اس کے جواب پر مسکرائی اور بولی ”خیر دیکھا جائے گا۔ آپ نے جہاز اتنی دور کیوں ٹہرا لیا؟“
ابوالحسن نے کہا”میں اس ملک کی حکومت سے اجازت لینا ضروری خیال کرتا ہوں“
لڑکی نے کہا”سراندیپ کا راجہ ایک مدت سے عربوں کے جہاز کا انتظار کررہا ہے۔جہاز کنارے تک لے چلیے؛ لیجیے راجہ کہ امیر البحر خود ہی آپہنچے۔“
دلیپ سنگھ عبدالشمس سے گہرے تعلقات کی بدولت عربی میں اچھی خاصی استعداد پیدا کرچکا تھا۔ اس نے جہاز پر چڑھتے ہی عربی زبان میں کہا ”آپ نے جہاز اتنی دور کیوں ٹھرا لیا؟“
ابوالحسن کی بجائے لڑکی نے جواب دیا۔ ”ان کا خیال تھا کہ شاید جہاز کو بندرگاہ پر لگانے سے پہلے راجہ سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔ ”مہاراج آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے“
لڑکی نے کہا۔”میں جاتی ہوں لیکن اس بات کا خیال رہے کہ وہ سفید گھوڑا میرا ہے اور میں اس کے منہ مانگے دام دوں گی۔“ یہ کہہ کر لڑکی نے جبہ اتار کر ایک عرب کے کندھے پر پھینک دیا اور بھاگ کر سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
(قسط نمبر4)
عبدالشمس کو عربوں کے جہاز کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی۔اس نے شہر کے چند معززین کے ساتھ ابوالحسن اور اس کے ساتھیوں کا استقبال کیا، انھیں اپنے گھر اور ان کے گھوڑوں کو اپنے اصطبل میں جگہ دی۔آن کی آن میں پچاس گھوڑوں کے کوئی دوسو خریدار جمع ہوگئے اور تمام ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی دینے لگے۔
دلیپ سنگھ نے مشورہ دیا کہ راجہ کو دیکھائے بغیر کوئی گھوڑا فروخت نا کیا جائے، ممکن ہے وہ تمام گھوڑے خرید لیں۔عبدالشمس نے دلیپ سنگھ کی تائید کی۔ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ راجہ کا ایلچی آیا اور اس نے کہا ”مہاراج عرب تاجروں سے ملنا اور ان کے گھوڑے دیکھنا چاہتے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے ایلچی سے کہا ”تم جاو اور مہاراج سے کہو ہم آتے ہیں۔“ یہ کہہ کر ابوالحسن سے مخاطب ہوا۔ ”ایک گھوڑا شیخ عبدالشمس کی بیٹی نے اپنے لیے منتخب کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے یہیں رہنے دیا جائے۔“
ابوالحسن نے کہا” اگر شیخ اپنے لیے لینا چاہتے ہیں تو مجھے عزر نہیں لیکن وہ لڑکیوں کی سواری کے قابل نہیں۔وہ بہت سرکش ہے!“
ایک طرف سے آواز آئی ”نہیں ابا جی! اس کا خیال ہے کہ ہم اس کی قیمت ادا نہیں کرسکیں گے۔“
ابوالحسن نے دیکھا۔وہی لڑکی جسے اس نے جہاز پر دیکھا تھا۔ ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے ہاتھ میں چابک لیے کھڑی تھی لیکن اس دفعہ اس کا لباس عرب عورتوں کاساتھا۔
ابوالحسن نے قدرے خفیف ہوکر کہا ”اگر مجھ پر اعتبار نہیں آتا تو تم خود دیکھ لو، اگر تم اسے لگام بھی دیکھ سکو تو یہی گھوڑا تمہارا انعام ہوگا!“
لڑکی تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی اصطبل کی طرف بڑھی، گھوڑے نے اسے دیکھتے ہی چارہ چھوڑ کر کان کھڑے کر لیے۔لڑکی نے گھوڑے کو تھپکی دی اور وہ پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔اسے دیکھ کر دوسرے گھوڑے رسے تڑانے لگے۔
ابوالحسن نے کہا ٹھرو! اور اگے بڑھ کر گھوڑے کا رسہ کھول کر باہر لے آیا اور اسے ایک درخت کے ساتھ باندھ کر کہنے لگا ”اب آپ ہمت آزمائی کرسکتی ہیں“
لڑکی نے اچانک آگے بڑھ کر گھوڑے کا نچلا جبڑا پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے زخمی درندے کی طرح تڑپتے اچھلتے اور کودتے ہوئے جانور کے منہ میں لگام ٹھونس دی۔تماشائیوں نے حیرانی پر قابو نا پایا تھا کہ اس نے رسہ کھولا اور گھوڑے کی پیٹ پر سوار ہوگئی۔ گھوڑا چند بار سیخ پا ہونے کہ بعد چھلانگیں لگاتا ہوا مکان سے باہر نکل گیا۔
شیخ عبدالشمس نے فخریہ انداز میں کہا ”عرب کی گھوڑیوں نے ایسا گھوڑا پیدا نہیں کیا جس پر سلمی سواری نا کرسکتی ہو، مجھے افسوس ہے کہ آپ شرط ہار گئے لیکن اطمنان رکھیے! کہ آپ کو اس کی پوری قیمت ادا کی جائے گی۔“
ابوالحسن نے کہا ”یہ شرط نہ تھی، انعام تھا اور انعام کی قیمت نہیں لی جاتی۔ خوش قسمت ہے وہ گھوڑا جسے ایسا سوار مل جائے۔“
(قسط نمبر5)
راجہ دیکھنے سے پہلے ہی تمام گھوڑے خریدنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔شاہی خزانے سے جو قیمت ادا کی گئی وہ عربوں کی توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ راجہ نے ابوالحسن سے ان کے نئے دین اور ان کی فتوحات کے متعلق کئی سوال کیے۔ دلیپ سنگھ نے ترجمانی کے فرائض سرانجام دیے۔ ابوالحسن نے تمام سوالات کے جواب دینے کے بعد دینِ اسلام کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی۔راجہ نے اسلام کی بہت سی خوبیوں کا اعتراف کرنے کے بعد ابوالحسن سے دوبارا ملاقات کا وعدہ لے کر اسے رخصت کیا۔
جب ابوالحسن اپنے میزبان کے گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ سلمی ابھی تک گھر وآپس نہیں آئی اور عبدالشمس چند آدمیوں کے ہمراہ اس کی تلاش میں جا چکا ہے۔ابوالحسن نمازِ ظہر کے بعد پریشانی کی حالت میں مکان کے صحن میں ٹہل رہا تھا کہ سفید گھوڑا بے تجاشا بھاگتا ہوا اندر آیا۔گھوڑے کی لگام بھی غائب تھی۔
ابوالحسن نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر کہا ”خدا معلوم اسے کیا ہوا۔ یہ گھوڑا سرکش ضرور ہے لیکن گرے ہوئے سوار کو چھوڑ کر آنے والا نہیں اور لگام پاوں کے نیچے آکر ٹوٹ سکتی تھی، لیکن اس کا گرپڑنا ممکن نا تھا۔ میں جاتا ہوں۔“
ابوالحسن نے شیخ عبدالشمس کے خادم سے دوسری لگام منگوا کر گھوڑے کو دی اور ننگی پیٹ پر سوار ہوکر مکان سے باہر نکلا اور گھوڑے کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ گھوڑےکی رفتار ظاہر کرتی تھی کہ اس سے بہت زیادہ کام لیا جاچکا ہے۔ گھوڑا چند کوس گھنے جنگل میں سے گزرنے کے بعد ایک ٹیلے پر چڑھا اور ایک آبشار کے قریب جا کر رک گیا۔ اس سے اوپر جانے کا کوئی راستہ نا تھا۔ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد ابوالحسن گھوڑے سے نیچے اترا اور اسے ایک درخت کے ساتھ باندھ کر سلمی کو آواز دینے لگا۔دیر تک تلاش کرنے کے بعد وہ تھک کر آبشار کے قریب ایک پتھر کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ شام ہونے کو تھی۔ ابوالحسن نے عصر کی نماز ادا کی اور پھر دشوار گزار راستے سے اس مقام پر پہنچا، جہاں سے پہاڑی ندی کا پانی ایک آبشار کی شکل میں نیچے گرتا تھا۔ سلمی چند قدم کے فاصلے پر ندی کے کنارے ایک درخت کے نیچے لیٹی ہوئی تھی۔ابوالحسن کی نظر اس پر اس وقت پڑی جب ایک تین چار گز لمبا اور آدمی کی ران کے برابر موٹا اژدھا گھاس میں سے سرکتا ہوا اس کے قریب پہنچ رہا تھا۔ ابوالحسن سلمی! سلمی! کہتا ہوا بھاگا اور اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹتا ہوا چند قدم دور لے گیا۔ سلمی نے ہلکی سی چیخ کے ساتھ آنکھیں کھولیں۔ اژدھا شکار کو جاتا ہوا دیکھ کر پھنکارتا ہوا نکلا۔ اتنی دیر میں ابوالحسن نیام سے تلوار تلوار نکال چکا تھا۔اژدھے نے اس کے بلکل قریب پہنچ کر گردن بلند کی۔ابوالحسن نے ایک طرف کود کر وار کیا، اژدھے کا سر کٹ کر علحیدہ ہوگیا۔ ابوالحسن نے ندی کے پانی سے تلوار صاف کرتے ہوئے کہا ”تم بہت بےوقف ہو۔۔۔یہ سونے کی کون سی جگہ تھی؟؟“
سلمی ابھی تک دہشت زدہ ہوکر کانپ رہی تھی۔ وہ بولی ”میں تھک کر یہاں بیٹھ گئی تھی اور اونگھتے اونگھتے نا جانے کس وقت لیٹ کر سو گئی۔میں یہاں کئی بار آچکی ہوں۔لیکن ایسا اژدھا کہیں نہیں دیکھا۔ آپ پہنچ گئے ورنہ یہ اژدھا اسی طرح تڑپنے کی بجائے مجھے نگل چکا ہوتا۔ آپ یہاں کیسے؟؟؟“
(قسط نمبر6)
”تم جانتی ہو میں یہاں کیسے پہنچا ہوں۔تم یہ بتاو کہ تم نے یہاں پہنچ کر گھوڑا کیوں چھوڑ دیا تھا؟“
سلمی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”میں نے کب چھوڑا۔وہ مجھے گرا کر بھاگ گیا تھا۔“ ابوالحسن نے زرا سخت لہجے میں کہا ”معلوم ہوتا ہے تمہاری تربیت بہت ناقص ماحول میں ہوئی ہے۔اس لیے تمہارے اخلاق کا معیار وہی ہونا چاہیے جو زمانہ جاہلیت کے عربوں کا تھا لیکن وہ بھی ہزار برائیوں کے باوجود مہمان سے جھوڑ بولنا ایک گھناونا فعل خیال کرتے تھے اور اس گھوڑے کو خالی واپس آتادیکھ کر مجھے یہ یقین نا آتا تھا کہ یہ تمہیں گرا کر بھاگ آیا ہے۔ اس کی تربیت میرے اصطبل میں ہوئی ہے۔ یہ سرکش اور مغرور ضرور ہے لیکن دھوکا دینا نہیں جانتا۔ سچ بتاو تم نے اپنے ہاتھوں سے اس کی لگام نہیں اتاری اور اسے ڈرا دھمکا کر وآپس نہیں بھیجا؟“
سلمی نے آنکھیں جھکاتے ہوئے جواب دیا۔ ”اگر آپ برا مانتے ہیں تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ کبھی جھوٹ نا بولوں گی۔“
”تم میں ایسی بہت سے باتیں ہیں جنھیں میں برا سمجھتا ہوں۔جنھیں ہر مسلمان برا جانے گا۔“
”آپ چاہیں تو میں ہر عادت چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔آپ کی خوشنودی میرا فرض ہے اور آپ نے تو آج میری جان بھی بچائی ہے۔“
”تمہیں مجھے خوش کرنے کی ضرورت نہیں۔میں چاہتا ہوں تمہارا خدا تم سے خوش ہو۔تمہیں صرف وہ چیز پسند کرنی چاہیے جو اسے پسند ہو اور ہر اس چیز کو ناپسند کرنا چاہیے جو اسے ناپسند ہو۔خدا کو عورتوں کا نیم عریاں لباس مردوں کے سامنے جانا پسند نہیں۔“
سلمی نے کہا۔”لباس تو میں نے آپ کے کہنے سے تبدیل کرلیا تھا۔؟
ابوالحسن نے کہا۔”لباس سے زیادہ دل کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔خیر اب باتوں کا وقت نہیں۔شام ہورہی ہے۔تمہارے والد پریشان ہوں گے۔وہ گھوڑے کے پہنچنے سے پہلے ہی تمہاری تلاش میں نکل گئے تھے۔“
چاندنی رات میں ابوالحسن اور سلمی جنگل عبور کررہے تھے۔سلمی گھوڑے پر سوار تھی۔ابوالحسن بھاگ تھامے اگے اگے چل رہا تھا۔راستے میں سلمی نے ابوالحسن کے بحری سفر، اس کی خاندان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق سوالات کیے لیکن اس کی توقع کے خلاف ابوالحسن کی بےاعتنائی بڑھتی گئی۔سلمی پریشان بھی تھی اور نادم بھی، بالآخر اس نے کہا ”آپ کو میری وجہ سے بہت تکلیف ہوئی، میں معافی چاہتی ہوں۔آپ مجھے سزا دے لیں خفا نا ہوں، یہ میرا قصور تھا اور مجھے پیدل چلنا چاہیے تھا۔میں اتر آتی ہوں۔آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں۔“
اس دفعہ بھی اس کی توقع کے خلاف ابوالحسن نے سردمہری سے جواب دیا۔”اگر مجھے اس بات کا خدشہ نا ہوتا کہ تم عورت ہواور کوئی درندہ تمہیں کھا جائے گا تو میں یقیناً اس وقت تمہارے ساتھ چلنا گوارا نا کرتا۔“
سلمی شکست خوردہ سی ہوکر تھوڑی دیر خاموش رہی۔پھر بولی۔”اگر وہ اژدھا مجھے نگل جاتا تو آپ کو اس بات کا افسوس ہوتا؟“
”یہ صرف تمہارے لیے ہی نہیں۔ میرے سامنے اگر وہ کسی کو بھی ہلاک کرتا تو مجھے اسی قدر افسوس ہوتا۔“
”آپ نے میرے لیے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالی؟“
”ایک انسان کی جان بچانا مسلمان کا فرض ہے۔“
سلمی دیر تک خاموش رہی۔دور سے چند گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی اور ابوالحسن نے کہا ”دیکھو! وہ ابھی تک تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔“
تھوڑی دیر بعد عبدالشمس اور اس کے ساتھی وہاں پہنچ گئے۔بیٹی کو سلامت دیکھ کر عبدالشمس نے واقعات کی تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نا کی۔ سلمی کی زبانی اژدھے کا سن کر اس نے ابوالحسن کا شکریہ ادا کیا۔
(قسط نمبر7)
اگلے روز علی الصباح عبدالشمس اپنے مکان کی چھت پر نیم خوابی کی حالت میں لیٹے لیٹے اذان کی دلکش آواز سن رہا تھا۔کچھ دیر انگڑائیاں لینے کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔سلمی ابھی تک گہری نیند سو رہی تھی۔عبدالشمس جگا کر صبح کی ہوا خوری کے ارادے سے نیچے اتر آیا۔
ابوالحسن کے ساتھی شبنم آلود گھاس پر چادریں بچھا کر اس کے پیچھے صف بستہ کھڑے تھے۔ابوالحسن نے نہایت دلکش آواز میں سورہ فاتحہ کے بعد چند آیات تلاوت کیں۔ قرآن مجید کے الفاظ نے عبدالشمس کے دل میں تلاطم بپا کردیا۔ اس کے پڑوسی عرب بھی اس کے قریب آکھڑے ہوئے اور اپنی قوم کے نوجوانوں کے نئے طریق عبادت کو دلچسپی سے دیکھنے لگے۔رکوع و سجود کے بعد دوسری رکعت تک عبدالشمس پر ایک بے خودی سی طاری ہوچکی تھی۔اس نے آہستہ آہستہ نمازیوں کی طرف چند قدم اٹھائے قریب پہنچ کر جھجکا، رکا، اور جزبات کے ہیجان کی کسی رو کے ماتحت بھاگتا ہوا صف میں کھڑا ہوگیا۔اس کے ساتھیوں نے اس کی تقلید کی۔نماز کے اختتام پر ابوالحسن نے آٹھ کر عبد الشمس کو گلے لگا لیا۔عبدالشمس کی آنکھوں سے مسرت کے آنسو جھلک رہے تھے۔ابوالحسن اور اس کے ساتھیوں نے اسے مبارک باد دی۔
عبدالشمس نے کہا۔”آپ کی زبان میں ایک جادو تھا۔مجھے کچھ اور سنائیے!“
ابوالحسن نے کہا۔”یہ میری آواز نا تھی۔یہ خدا کا کلام تھا۔“
عبدالشمس نے کہا۔”بے شک یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔سنائیے مجھے!“
ابوالحسن نے اپنےایک ساتھی طلحہ کی طرف اشارہ کیا۔ طلحہ قرآن کا حافظ تھا۔عرب اس کے اردگرد بیٹھ گئے۔طلحہ نے سورہ یسین کی تلاوت کی۔قرآن مجید کے مقدس الفاظ اور طلحہ کی دل گداز آواز سے عبدالشمس اور اس کے ساتھیوں پر رقت طاری ہوگئی۔تلاوت کے بعد ابوالحسن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اسلام کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے انھیں اسلام کی دعوت دی۔ عبدالشمس اور اس کے ساتھی جو ایک مدت سے عربوں کی عظمت کی داستانیں سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اعتراف کر چکے تھے۔ابو الحسن کی تبلیغ کے بعد دین اسلام کی صداقت پر ایمان لے آئے۔کلمہ توحید پڑھنے کے بعد عبدالشمس نے اپنے لیے عبداللہ کا نام پسند کیا۔
سلمی ناریل کے ایک درخت کا سہارہ لیے کھڑی یہ تمام واقعات دیکھ رہی تھی۔وہ جھجکتی ہوئی آگے بڑھی اور اپنے باپ سے کہنے لگی۔
”ابا جان! کیا عورتیں بھی مسلمان ہوسکتی ہیں؟“
عبداللہ نے مسکراتے ہوئے ابوالحسن کی طرف دیکھا اور وہ بولا۔”خدا کی رحمت عورتوں اور مردوں کے لیے یکساں ہے۔“
سلمی نے کہا۔”تو میرا نام بھی تبدیل کردیجیے! میں بھی مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔“
ابوالحسن نے کہا۔”تمہارا یہی نام ٹھیک ہے۔تم فقط کلمہ پڑھ لو۔“
سلمی نے کلمہ پڑھا اور سب نے ہاتھ اٹھا کر اس کے لیے دعا کی۔
آسمان پر بادل چھا رہے تھے۔ اچانک موسلادھار بارش ہونے لگی اور یہ لوگ ایک کمرے میں چلے آئے۔
تھوڑی دیر بعد بارش تھیم گئی اور دلیپ سنگھ نے آکر خبر دی کہ مہاراج آپ کا انتظار کررہے ہیں۔
ابوالحسن اپنے ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر دلیپ سنگھ کے ساتھ ہولیا۔
(قسط نمبر8)
دوپہر کے وقت ابوالحسن واپس آیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ راجہ اور بعض سرداروں نے اور بھی عربی گھوڑے خریدنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس لیے ہمارا جہاز چوتھے روز واپس روانہ ہوجائے گا۔
عنداللہ(عبدالشمس) نے انھیں کچھ دن اور ٹھہرنے کے لیے کہا لیکن ابوالحسن نے جلد واپس آنے کا وعدہ کرکے اجازت حاصل کرلی۔
عبداللہ نے کہا ”ابھی ہمیں اسلام کے متعلق بہت کچھ جاننا ہے۔اگر آپ طلحہ کو یہاں چھوڑ جائیں تو بہت اچھا ہوگا۔“
ابوالحسن نے طلحہ کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا ”اگر یہ پسند کریں تو میں انھیں بخوشی یہاں چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔“
طلحہ نے یہ دعوت خوشی سے قبول کر لی۔
اگلے دن ابوالحسن کے ساتھی جہاز کے بادبانوں کی مرمت اور خوردونوش کا ضروری سامان خریدنے کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ دلیپ سنگھ اور عبداللہ سے مشورہ کرنے کے بعد ابوالحسن نے اپنے تمام سرمائے سے آٹھ ہاتھی اور باقی ناریل سے جہاز بھر لیا۔
شام کے وقت ابوالحسن عبداللہ کے باغیچے میں چہل قدم کر رہا تھا کہ پیچھے سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ مڑکر دیکھا تو سلمی کھڑی تھی۔وہ چہرہ جو دودن پہلے مسرتوں کا گہوارہ تھا۔اب حزن و ملال کی تصویر بنا ہوا تھا۔وہ آنکھیں جو اندھیری رات کے ستاروں سے زیادہ دلفریب اور چمکیلی تھیں،اب پرنم تھیں۔
اس نے قدرے بےاعتنائی سے پوچھا ”سلمی تم یہاں کیا کررہی ہو۔؟“
ابوالحسن کا روکھا پن دیکھ کر ضبط کی کوشش کے باوجود اس کے آنسو چھلک پرے۔کانپتے ہوئے ہونٹوں سے درد کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی ”آپ پرسوں جارہے ہیں۔“
”ہاں! لیکن تمہیں کیا؟ تم رو کیوں رہی ہو؟“
”کچھ نہیں! کچھ بھی تو نہیں۔“
آنسووں سے بھیگی ہوئی مسکڑاہٹ ابوالحسن کے دل پر اثر کیے بغیر نا رہی۔اس نے کہا ”سلمی! تم ابھی تک وہی ہو۔اسلام قبول کرنے کے باوجود میں تم میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھتا۔تمہیں اب نامحرموں کے سامنے آنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ایک مسلمان لڑکی کا سب سے بڑا زیور حیا ہے۔“
”آپ اب تک مجھ سے خفا ہیں؟ آپ کے کہنے پر میں لباس تبدیل کرچکی ہوں، نماز پڑھ چکی ہوں۔پرسوں سے میں نے گھر کے باہر پاوں نہیں رکھا۔کیا یہ بھی ضروری ہے کہ میں ایک مسلمان کے سامنے بھی نا آوں؟“
”ہاں! یہ بھی ضروری ہے۔میں طلحہ کو یہاں چھوڑ کے جا رہا ہوں۔وہ تمہیں ایک مسلمان عورت کے فرائض سے آگاہ کرے گا۔تمہیں اسلام کی صحیح تعلیم دے گا۔“
سلمی نے جواب دیا۔”مجھے کسی اور تعلیم کی ضرورت نہیں۔آپ جو حکم دیں گے میں مانوں گی۔آپ کے اشارے پر میں پہاڑ پر سے کودنے اور ہاتھ پاوں باندھ کر سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہوں۔“
ابو الحسن نے کہا۔”سلمی! اگر تمہیں میری خوشی اتنی عزیز ہے تو سنو! میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا کہ تم سر سے پاوں تک اسلام کے سانچے میں ڈھل جاو۔سچے مسلمان کی ہر نیت اور ہر فعل کو کسی انسان کی خوشی نہیں بلکہ خدا کی خوشی کا طلبگار ہونا چاہیے۔ کلمہ پڑھنے کے بعد تم ایک ایسی دنیا میں قدم رکھ چکی ہو جو ایک لامتناہی جدوجہد کا گھر ہے اس میدان میں کودنے والے کو دل میں انسووں اور آہوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔مسلمان کے لیے زندگی ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ اس کی پہلو میں وہ دل ہونا چائیے جو خدا کی راہ میں زندگی کی بلند ترین خوآہشات کو بھی قربان کرنے سے نا گھبرائے۔اس کا سینہ تیروں سے چھلنی ہو لیکن زبان سے آہ تک نا نکلے۔تم عرب جاو تو شاید یہ دیکھ کر حیران ہوگی کہ مسلمان عورتیں اپنے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کو جہاد پر رخصت کرتی ہیں لیکن ان کی آنکھ میں آنسو تو درکنار پیشانی پر شکن تک نہیں آتی اور یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ خدا کی خوشی کو دنیا کی ہر خوشی پر ترجیح دیتی ہیں۔اگر تم نے مجھے خوش کرنے کے لیے اسلام قبول کیا ہے تو مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑے گا کہ تم اسلام کو سمجھی نہیں۔اگر خدا کو خوش کرنا چاہتی ہو تو گھر جاومیں طلحہ کو بھیجتا ہوں، وہ آج ہی تمہیں قرآن پڑھانا شروع کردے گا۔میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میں وآپس آوں تو تم میری پیراکی کا امتحان لینے کے لیے ساحل سے ایک میل کے فاصلے پر سمندر میں میرا استقبال نا کرو اور مجھے جنگلوں اور پہاڑوں میں تمہیں تلاش نا کرنا پڑے۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوگی کہ عبدالشمس کا نام تبدیل ہونے کے بعد اس کے گھر کا نقشہ بھی بدل چکا ہے اور اس چار دیوار میں ایک مسلمان لڑکی پرورش پا رہی ہے۔“
سلمی نے پرامید ہوکر پوچھا۔ ”آپ کب آئیں گے؟“
”میں دن معین نہیں کرسکتا لیکن ارادہ یہی ہے کہ گھوڑے خریدتے ہی وہاں سے وآپس آجاوں لیکن اگر مجھے جہاد کے لیے کہیں جانا پڑا تو ممکن ہے کہ دوبارا نا آسکوں۔“
سلمی کے چہرے پر پھر ایک بار اداسی چھا گئی۔
(قسط نمبر9)
ےتیسرے دن آسمان پر بادل چھا رہے تھے۔سلمی کوٹھے پر چڑھ کر حسرت بھری نگاہوں سے سمندر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ساحل سے دور ابوالحسن کا جہاز موجوں پر رقص کرتا نظر آرہا تھا۔ہوا کے چند تیز جھونکے آئے اور بارش ہونے لگی۔بارش کی تیزی کے ساتھ اس کی نگاہوں کا دائرہ محدود ہوتا گیا۔ یہاں تک کے جہاز آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ضبط کی کوشش کے باوجود اس کی آنکھوں سے آنسو جھلک پڑے اور رقصاروں پر بہتے ہوئے بارش کے قطروں کے ساتھ مل گئے۔ سلمی دیر تک ہاتھ اٹھا کر یہ دعا دہراتی رہی۔ ”میرے مولی! اسے سمندر کی سرکش لہروں سے محفوظ رکھیو!“
باغیچے میں ابوالحسن سے آخری ملاقات کے بعد سلمی کے خیالات اور عادات میں بہت بڑی تبدیلی آچکی تھی۔اسے ابوالحسن کی بےاعتنائی کا بےحدملال تھا۔تاہم اسے انسانیت کا بلند ترین معیار تصور کرتے ہوئے وہ اس بات پر ایمان لاچکی تھی کہ اس کی جو عادات ابولحسن کو ناپسند ہیں۔یقیناً برٌی ہیں۔چنانچہ اس نے دوبارا کسی کے سامنے بے حجاب ہونے کی جرات نا کی۔
جب ابوالحسن اور اس کے ساتھی بندرگاہ کی طرف روانہ ہوئے تو اس نے اپنے دل سے یہ سوال کیا۔”کیا اس کے دل میں میرے لیے کوئی جگہ ہوسکتی ہے؟“ ابوالحسن کی باتیں یاد آتیں تو اس کے دل میں کبھی یاس کی تاریکیاں مسلط ہوجاتیں اور کبھی امید کے چراغ چمک اٹھتے۔
عبداللہ کی آواز سن کر وہ نیچے اتری۔بوڑھے باپ نے سوال کیا۔”سلمی! تم بارش میں اوپر کیا کررہی تھی؟“
”کچھ نہیں اباجی!میں۔۔۔۔۔۔۔۔“ سلمی کوئی بہانہ کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ابولحسن کی نصیحت یاد آگئی اور وہ بولی۔”میں ان کا جہاز دیکھ رہی تھی۔“
عبداللہ نے کہا۔”وہ تو دیر ہوئی جاچکے۔جاو تم کپڑے بدل آو! طلحہ ابھی آجائے گا۔ ہم اس سے قرآن مجید پڑھیں گے۔“
سلمی نے پوچھا۔”آپ انھیں کہاں چھوڑ آئے ہیں؟“
”وہ راستے میں زید کے گھر ٹھر گیا تھا۔ابھی آجائے گا۔“
چند دنوں میں طلحہ کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ سلمی اب اپنی ہر بات میں ابوالحسن کی خوشی کو مقدم سمجھنے کی بجائے خدا کی رضا کو مقدم سمجھنے لگی۔تاہم ہر نماز کے بعد پہلی دعا ابوالحسن کے لیے ہوتی تھی۔
چھ مہینے گزر گئے ابوالحسن کی کوئی خبر نا آئی۔سلمی کی اداسی بے چینی میں تبدیل ہونے لگی۔وہ صبح و شام مکان کی چھت پر چڑھ کر سمندر کی طرف دیکھتی۔ بندرگاہ کی طرف آنے والا ہر جہاز اسے ابوالحسن کی آمد کی اطلاع دیتا۔وہ اپنے خادم کو دن میں کئی کئی بار بدرگاہ کی طرف بھیجتی۔جب وہ مایوس نگاہوں کے ساتھ وآپس آتا تو وہ بےقرار سی ہوکر پوچھتی۔”تم نے اچھی طرح دیکھا۔ممکن ہے ان میں کوئی عرب بھی ہو؟“
خادم جواب دیتا۔”وہ فلاں جگہ سے آیا ہے۔ میں پوری چھان بین کرکے آیا ہوں۔ ان میں ایک بھی عرب نہ تھا۔“
وہ امید و بیم کے سمندر میں غوطے کھانے والے انسان کی طرح تنکے کا سہارا لیتی اور کہتی۔”تم نے ملاحوں سے پوچھا ہوتا۔ممکن ہے انھوں نے راستے میں کسی بندرگاہ پر عربوں کا جہاز دیکھا ہو یا ان کے منعلق سنا ہو؟“
خادم پھر بھاگتا ہوا بندرگاہ جاتا۔سلمی کی امنگیں پرانی امیدیں کے کھنڈروں پر نئی امیدوں کا محل کھڑا کرلیتیں۔بوڑھے نوکر کاافسردہ اور ملول چہرہ پھروہی حوصلہ شکن خبر دیتا اور سلمی کی امیدوں کا محل دھڑم سے نیچے آرہتا۔ہر صبح وہ اپنی دل میں امید کے چراغ روشن کرتی۔جب سورج سمندر کی لہروں میں چھپ جاتا تو یہ چراغ بھی بجھ جاتا۔اس کے دل کی دھڑکنیں آھوں اور سسکیوں میں تبدیل ہوجاتیں۔
(قسط نمبر10)
مدت تک طلحہ یا انے باپ میں سے کسی پر اس نے اپنا دل کا حال نہ بیان کیا۔لیکن ایک شام سلمی کے طرزِ عمل نے انھیں شبہ میں ڈال دیا۔باہ موسلادھار بارش ہورہی تھی۔طلحہ اور عبداللہ برآمدے مین بیٹھے باتیں کررہے تھے۔سلمی ایک کمرے کے دریچے کے سامنے بارش کا منظر دیکھ رہی تھی۔باتوں باتوں میں ابوالحسن کا ذکر آگیا۔ عبداللہ نے کہا۔”خدا جانے وہ اب تک کیوں نہیں آئے۔آٹھ مہینے ہوگئے ہیں۔“
طلحہ نے کہا۔”اگر خدا نے اسے سمندر کے حوادث سے محفوظ رکھا ہو تو اتنی دیر تک اس کے وآپس نا آنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ کہیں جہاد پر چلا گیا ہے۔“
عبداللہ نے کہا آج مجھے دلیپ سنگھ نے بتایا ہے کہ یہاں سے کوئی تیس میل کے فاصلے پر مالا بار کا کوئی ایک جہاز غرق ہوچکا ہے۔صرف ایک کشتی پانچ آدمیوں کو لے کر یہاں پہنچی ہے۔“
طلحہ نے ہوچھا۔”اس پر کتنے آدمی تھے۔“
”شاید بیس تھے۔جہاز بہت بڑا تھا اور اس پر تجارت کا بہت سامال تھا۔“
”جہاز کیسے غرق ہوا؟“
”ملاح منزل کو قریب دیکھ کر بےہرواہ ہوگئے اور جہاز ایک چٹان سے ٹکڑا کا پاش پاش ہوکیا۔“
سلمی پاس کے کمرے میں بیٹھی اپنے خیالات میں محو تھی۔اس نے فقط آخری جملہ سنا اور ایک سانیہ کے لیے اس کی رگوں کا ہر قطرہ منجمد ہوکررھ گیا۔
برآمدے سے پھر عبداللہ کی آواز آئی۔” یہ چٹانیں بہت خطرناک ہیں۔ہر سال ان کی وجہ سے کوئی نا کوئی جہاز غرق ہوجاتا ہے۔یہاں کے باشندوں کا خیال ہے کہ یہ چٹانیں سمندر کے دیوتا کے مندر ہیں۔“
یہ سنتے ہیں سلمی کی رگوں میں غیر معمولی ارتعاش پیدا ہوا۔وہ اٹھی اور اپنے کمرے سے نکل کر باپ کے سامنے آکھڑی ہوئی۔اس کا دہشت زدہ چہرہ اور پتھرائی ہوئی آنکھیں دیکھ کر باپ نے پوچھا۔”بیٹی!تمہیں کیا ہوا؟“
کچھ دیر جذبات کی شدت کی وجہ سے سلمی کے منہ سے کوئی آواز نا نکلی۔رنج و کرب کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی نگاہیں یہ کہہ رہیں تھیں۔”جو کچھ تم مجھ سے چھپانا چاہتے ہو میں سن چکی ہوں۔“
طلحہ نے حیران ہوکر پوچھا۔”کیوں بیٹی کیا بات ہے۔“
سلمی کے بھنچے ہوئے ہونٹ کپکپائے۔پتھرائی ہوئی آنکھوں پر آنسووں کے باریک پردے چھا گئے۔اس نے کہا۔”بتائیے کب ڈوبا ان کا جہاز۔۔۔؟ آپ کو کس نے بتایا؟ اور وہ۔۔۔۔۔! آپ خاموش کیوں ہیں؟ خدا کے لیے کچھ کہیے! میں بری سے بری خبری سننے کے لیے تیار ہوں۔“ ہچکیوں اور آہوں کا تسلسل اس کی آواز کے تسلسل کو توڑ رہی تھی۔
عبداللہ نے پریشان سا ہوکر جواب دیا۔”بیٹی ہم مالا بار کے جہاز کا ذکر کررہے تھے۔آج دلیپ نے مجھے بتایا تھا۔“
لیکن سلمی نے باپ کا فقرہ پورا نا ہونے دیا۔”نہیں!نہیں!! آپ مجھ سے چھپانا چاہتے ہیں۔مجھے جھوٹی تسلیاں نا دیں!“ یہ کہہ کر سلمی ہچکیاں لیتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
بوڑھا باپ کچھ سمجھا کچھ نا سمجھا۔ وہ طلحہ کی طرف معذرت طلب نگاہوں سے دیکھتا ہوا اٹھا اور سلمی کے کمرے میں چلا گیا۔سلمی منہ کے بل بستر پر لیٹی ہچکیاں کے رہی تھی۔بوڑھے باپ کا دل بھر آیا۔اس نے قریب بیٹھ کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”بیٹی کیا ہوگیا ہے تمہیں۔“
(قسط نمبر11)
سلمی اٹھ کر بیٹھ گئی۔آنسو پونچھے اور ہچکیاں ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔”کچھ نہیں اباجان! مجھے معاف کیجیے!! آئندہ آپ مجھے کبھی روتا نہیں دیکھیں گے۔“
”لیکن رونے کی کوئی وجہ بھی تو ہو؟ ایسی خبریں تو ہم روز سنا کرتے ہیں۔آخر مالابار کا ایک جہاز غرق ہوجانے میں کیا خصوصیت تھی؟“
سلمی نے غور سے اپنے باپ کے چہرے کی طرف دیکھا اور قدرے مطمین ہوکربولی۔ ”آپ سچ کہتے ہیں؟“
عبداللہ نے برہم ہوکرکہا۔”آخر مجھے جھوٹ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ آج تک تم نے میری کسی بات پر شک نہیں کیا۔اگر مجھ پر یقین نہیں آتا تو طلحہ سے پوچھ لو!“
سلمی نے ندامت سے سر جھکا لیا اور کہا۔”اباجان! میں معزرت چاہتی ہوں۔میں سمجھی تھی۔۔۔۔۔کہ شاید آپ عربوں کے جہاز کا ذکر کررہے ہیں۔“
”بیٹی! تم یہ سمجھتی ہو کہ خدانخواستہ اگر میں ان کے جہاز کے متعلق ایسی خبر سنتا تو مجھے تم سے کم صدمہ ہوتا؟“
شام کے کھانے کے بعد طلحہ اور عبداللہ کا خادم عشاء کی نماز ادا کررہے تھے۔ خادمہ برتن صاف کررہی تھی۔اتنے میں کسی نے باہر کے پھاٹک پر دستک دی، سلمی نے خادمہ سے کہا۔”شاید زید اور قیس آئے ہیں۔تم نے باہر کا دروازہ بند تو نہیں کردیا تھا؟“
خادمہ نے جواب دیا۔”ایسی بارش میں کون آسکتا ہے۔ میں ابھی کواڑ بند کرکے آئی ہوں۔اگر انھیں آنا ہوتا تو مغرب کی نماز کے لیے نا اتے؟ اور ہاں زید تو بیمار ہے، قیس بیچارہ بوڑھا۔اس نے گھر ہی پر نماز پڑھ لی ہوگی۔“
”لیکن پھر بھی کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔“
”یہ آپ کا وہم ہے۔دروازہ ہوا سے ہل رہا ہے۔“
”نہیں کسی کی آواز بھی سن رہی ہوں۔شاید۔۔۔۔! میں جاتی ہوں۔“
سلمی کا دل دھڑک رہا تھا۔تاریکی میں ایک قدم آگے دیکھنا محال تھا۔وہ بجلی کی چمک میں درختوں سے بچتی ہوئی پھاٹک تک پہنچی۔
پھاٹک کے باہر کوئی آہٹ نا پاکر اس کا دل بیٹھ گیا۔وہ مایوس ہوکر وآپس ہونے کو تھی کہ کسی نے دروازے کو زور سے دھکا دے کر آواز دی ”کوئی ہے؟“
ایک آن کے لیے سلمی کے پاوں زمین سے پیوست ہوکررھ گئے۔پھر وہ لپک کر آگے بڑھی اور دروازہ کھول دیا۔سلمی کے سامنے ایک بلند اقامت انسان کھڑا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی اس نے سوال کیا۔”کیا یہ عبداللہ کا گھر ہے؟“
بیشتر اس کہ کے سلمی کوئی جواب دیتی۔بجلی چمکی اور ابوالحسن سلمی کو پہچان کراندر داخل ہوا۔
ابوالحسن نے کہا۔”اوہوتم! مجھے افسوس ہے کہ اس وقت میری وجہ سے تمہیں بارش میں بھیگنا پڑا۔“
سلمی نے اپنے دل میں کہا۔”کاش تم یہ جان سکتے کہ اس بارش کی بوندیں کس قدر خوشگوار ہیں۔“ اور پھر ابوالحسن سے مخاطب ہوکر بولی۔”چلیے!“
برآمدے میں طلحہ اور عبداللہ ابوالحسن کی آواز سن کر اس کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔عبداللہ نے آواز دی:- ”کون! ابوالحسن!!“
ابوالحسن نے برآمدے کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے کہا۔”جی ہاں! میں ہی ہوں۔مجھے افسوس ہے کہ میں نے خوامخواہ اس وقت آپ کو تکلیف دی۔“
طلحہ نے کہا۔”کہیے خیریت تو ہے نا! آپ کے ساتھی کہاں ہیں۔؟“
”ہاں! خیریت ہے۔میں ان سب کو جہاز پر چھوڑ آیا ہوں۔مجھے معلوم نا تھا کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے مجھے اتنے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔راستے میں ایک دفعہ پھسلا، دومرتبہ ندی میں گرا، پانچ مکانات کو آپ کا مکان سمجھ کر آوازیں دیں۔ایک گھر کے چند فرض شناس کتوں نے میرا استقبال کیا۔“
عبداللہ نے سلمی کو آواذ دی۔سلمی ابھی بےخودی کے عالم میں برآمدے سے باہر کھڑی تھی۔
آج بھی بارش کے قطرے اس کے رخساروں کے آنسو دھو رہے تھے لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے۔باپ کی آواز سن کر وہ چونکی اور بھاگتی ہوئی برآمدے میں داخل ہوئی۔
”کیا ہے اباجان؟“
”بیٹی! جاو ان کے لیے کھانا اور کپڑوں کا جوڑا لے آو اور باقی مہمانوں کے لیے بھی کھانا تیار کرواو! میں انہیں بلانے کے لیے جاتا ہوں۔“
ابوالحسن نے کہا۔”کھانا ہم سب کھا چکے ہیں۔آپ تکلیف نا کریں۔“
کپڑے بدلنے کے بعد ابوالحسن، عبداللہ اور طلحہ سے کافی دیر باتیں کرتا رہا۔اس نے دیر سے آنے کی یہ وجہ بیان کی کہ بصرہ سے اسے افریقہ ایک مہم میں شریک ہونے کے لیے بھیج دیا گیا۔
ساتویں دن عبداللہ کی رضا مندی نے سلمی اور ابوالحسن کو رشتہ ازدواج میں منسلک کردیا۔
(قسط نمبر12)
تین سال بعد ابوالحسن شہر میں اپنے لیے ایک خوبصورت مکان اور اس کے قریب ایک مسجد تعمیر کروا چکا تھا۔اس کے دیکھا دیکھی اس کے چند ساتھی بھی اس شہر میں آباد ہوگئے۔پانچ سال کے عرصہ میں ابوالحسن اور طلحہ کی تبلیغ سے مقامی باشندوں کے چند گھرانے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئےاور ابوالحسن نے مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک مدرسہ تعمیر کرکے درس وتدریس کے فرائض طلحہ کے سپرد کردیے۔
عبداللہ کی بدولت اس کی تجارت کو بہت فروغ ہوا۔شادی کے دوسرے سال اس کے ہاں ایک لڑکا اور چوتھے سال ایک لڑکی پیدا ہوئی۔لڑکے کا نام اس نے خالد اور لڑکی کا نام ناہید رکھا۔دسویں سال ایک اور لڑکا پیدا ہوا لیکن تین ماہ کی عمر میں والدین کو داغِ مفارقت دے گیا۔
جب خالد کی عمر سات اور ناہید کی عمر پانچ برس تھی۔ سلمی کے باپ نے چند دن موسمی بخار میں مبتلا رہ کر داعی اجک کو لبیک کہا۔
ابوالحسن کو دنیا کی ہر نعمت میسر تھی۔اس کے پاس مال و دولت کی کمی نا تھی۔اسے اپنے بیوی بچوں سے بےانتہا محبت تھی لیکن یہ محبت اس گھر کی چاردیواری میں سلاسل نا رکھ سکی۔ وہ قریباً ہرسال فریضہ حج ادا کرنے کے لیے طویل سفر کی کٹھن منازل طےکرتا۔پانچ دفعہ اس نے ایشیائے کوچک اور شمالی افریقہ میں جہاد کرنے والی افواج کا ساتھ دیا۔۔۔
ہر بار جہاد اور حج سے وآپس آنے کے بعد وہ فنونِ حرب اور مذہبی تعلیم میں اپنے بچوں کا امتحان لیتا۔خالد تیر اندازی، شاہسواری ، تیغ زنی اور جہاز رانی کی تعلیم میں اپنے باپ کی بہترین توقعات کو پورا کررہا تھا۔
ناہید بارہ سال کی عمر تک تیر اندازی کے علاوہ سرکش گھوڑوں پر سوار ہوناسیکھ چکی تھی۔ پڑھنے لکھنے میں بھی طلحہ کو اس کی غیرمعمولی ذہانت کا اعتراف تھا۔
راجہ کے ساتھ ابوالحسن کے تعلقات بہت خوشگوار تھے۔مہارانی ایک مدت سے سلمی کی سہیلی بن چکی تھی۔وہ ہفتے میں ایک دومرتبہ پالکی بھیج کر ماں کو بیٹی کو محل بلاتی۔ راجکماری ناہید سے اس قدر مانوس ہوچکی تھی کہ خود بھی کبھی کبھی ابوالحسن کے گھر چلی آتی۔
راجکمار عمر میں خالد سے چار سال بڑا تھا لیکن پھر بھی وہ خالد کو ہر بات میں قابلِ تقلید سمجھتا تھا۔
ایک دن دلیپ نے راجہ کے سامنے فنونِ حرب میں خالد کی غیر معمولی استعداد کی تعریف کی۔راجہ نے پوچھا۔”کیا وہ ہمارے راجکمار کا مقابلہ کرسکے گا؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! ہمارے راجکمار نازوں کے پلے ہوئے ہیں اور وہ ایک سپاہی کا بیٹا ہے۔“
”لیکن وہ بہت چھوٹا ہے۔“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! اگر عرب مائیں بچپن میں اپنے بچوں کی اس طرح تربیت نا کرتیں تو آج وہ آدھی دنیا پر قابض نا ہوتے۔ میں نے سنا ہے کہ عرب مائیں چودہ سال کے بچے کو میدانِ جنگ میں بھیج دیتی ہیں۔“
راجہ نے پوچھا۔”خالد کی عمر کیا ہے؟“
”مہاراج!یہی کوئی بارہ سال ہوگی۔“
”آخر ان بچوں میں کیا خوبی ہے جو ہمارے بچوں میں نہیں؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! اگر برا نا مانیں تو میں عرض کروں۔“
راجہ نے کہا۔”کہو!“
”مہاراج! ہم میں اور ان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ہم بے شمار دیوتاوں کو مانتے ہیں۔ان دیوتاوں کے علاوہ دنیا کی ہر وہ طاقت جو ہمیں خوفزدہ کرتی ہے ہمارے نزدیک دیوتا کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔مثلاً ہماری راہ میں اگر کوئی دشوار گزار پہاڑ آجائےتو ہم اپنی قوتِ تسخیر کے امتحان کی بجائے اسے دیوتا سمجھ کر اس کی پوجہ شروع کردیتے ہیں۔لیکن وہ صرف ایک خدا کومانتے ہیں اور اس کے سوا روئے زمین کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے سرجھکانا گناہ سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا ایمان ہے کہ انسان مر کر فنا نہیں ہوتا بلکہ موت کے بعد اس کی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ابو الحسن نے ایک دن مجھے بتایا تھا جب خالد(رضی اللہ عنہ) ان کا بہت بڑا سپہ سالار شام کی طرف پیش قدمی کررہا تھا تو شام کے گورنر نے اسے لکھا تھا کہ تم پہاڑ سے ٹکڑا رہے ہو۔تمہارے چالیس ہزار سپاہیوں کے مقابلے میں میرے پاس اڑھائی لاکھ ایسی فوج ہے جو بہترین ہتھیاڑوں سے مسلح ہے۔اس کے جواب میں مسلمانوں کے سپہ سالار نے لکھا کہ مجھے تمہاری طاقت کا اندازہ ہے لیکن تم شاید شاید یہ نہیں جانتے کہ تمہارے سپاہیوں کے دلوں میں جس قدر زندہ رہنے کی آرزو ہے میرے سپاہیوں میں موت کی تمنا اس سے کہیں زیادہ ہے۔“
راجہ نے کہا۔”دلیپ سنگھ!میں یہ چاہتا ہوں کہ راجکمار کی سپاہیانہ تربیت ابوالحسن کو سونپ دی جائے۔تم اس سے ملو۔ اگر وہ یہ خدمت قبول کرے تو ہم اسے ایک معقول معاوضہ دینے کے لیے تیار ہیں۔“
دلیپ سنگھ کے کہنے پر ابوالحسن نے راجہ کی دعوت خوشی سے قبول کرلی لیکن معاوضہ لینے سے انکار کردیا۔
دوسال کی تربیت کے بعد ابوالحسن نے راجہ سے کہا۔”اب آپ کا بیٹا فنونِ سپہ گری میں اس ملک کے بہترین نوجوانوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔“
راجہ نے پوچھا۔”میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ تیر اندازی اور شاہسواری میں خالد کا مقابلہ کرسکتا ہے یا نہیں؟“
ابوالحسن نے جواب دیا۔”خالد نے اس عمر میں تیر وکمان سنبھالا تھا جب آپ کا راجکمار کھلونوں سے دل بہلایا کرتا تھا اور اس عمر میں گھوڑوں کی پیٹ پر بیٹھنا سیکھا تھا جس عمر میں راجکمار کو نوکر کندھوں پر اٹھائے پھڑتے تھے۔خالد فطرتاً ایک سپاہی ہے اور راجکمار فطرتاً ایک شہزادہ ہے۔“
”اور راجکمار تیغ زنی میں کیسا ہے؟“
”وہ خالد سے عمر میں بڑا ہے اور اس کے بازو بھی اسی قدر مضبوط ہیں۔میں نے دونوں کا مقابلہ کراکے نہیں دیکھا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ خالد کی نسبت زیادہ آسانی سے تلوار گھما سکتا ہے۔“
راجہ نے بیٹے کو بلا کرپوچھا۔”کیوں راجکمار۔”تو اپنے استاد کے بیٹے سے تلوار کے دودو ہاتھ دیکھانے کے لیے تیار ہو؟“
راجکمار نے کہا۔” نہیں پتا جی! وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔اگر میں ہارگیا مجھے شرم آئے گی اور اگر وہ ہار گیا تو بھی مجھے ہی شرم آئے گی۔“
(قسط نمبر13)
ابوالحسن کی شادی کو اٹھارہ برس گزر چکے تھے۔خالد کی عمر سولہ اور ناہید کی عمر چودہ برس تھی۔خلیفہ ولید کی مسند نشینی کے ساتھ مسلمانوں کی نئی فتوحات کا آغاز ہوچکا تھا۔
ایک دن سندھی تاجروں کا جہاز آیا۔ان کے ساتھ عمان کا ایک عیسائی بھی تھا۔سندھ کے تاجروں نے جزیرے کے عربوں سے ترکستان اور شمالی افریقہ میں مسلمانوں کی شاندار فتوحات کا ذکر کیا۔عمان کے تاجر نے ان ساری باتوں کی تصدیق کی۔ابوالحسن اور اس کے چند ساتھی حج کے لیے تیار تھے۔اب حج کے ارادوں کے ساتھ شوقِ جہاد بھی شامل ہوگیا۔
راجہ باہر سے آنے والے تاجروں کی زبانی نئے ممالک کی خبریں نہایت دلچسپی سے سنا کرتا تھا۔مسلمانوں کی تازہ فتوحات کا سن کے اس نے ابوالحسن کو بلایا اور مسلمانوں کے خلیفہ اور عراق کے گورنر کو سونے اور جواہرات کے چند تحائف بھیجنے کی خواہش ظاہر کی۔
ابوالحسن نے کہا۔”میں خوشی سے آپ کے تحائف ان کے پاس لے جاوں گا۔“
سندھ کے تاجروں نے اپنا مال فروخت کیا اور نیا مال خرید کر لوٹ گئے۔ان کے جانے کے چند دن بعدابوالحسن اور اس کے ساتھی حج کے لیے تیار ہوگئے۔اس سال سراندیپ کے نومسلموں کے علاوہ حج پر جانے والے عربوں کی تعداد بھی خلافِ معمول زیادہ تھی۔
طلحہ اور اس کے علاوہ تین اور عرب تاجر حج پر جانے والوں کے گھروں کی دیگھ بھال کے لیے پیچھے رھ گئے۔بعض عرب اپنے کم سن بچوں کو طلحہ کی حفاظت میں چھوڑ کر بیویوں کو ساتھ لے گئے اور بعض اپنے اہل و عیال کو گھروں میں چھوڑ گئے۔
ابوالحسن اپنے بیوی اور بچوں کو ساتھ لے جانے کا ارادہ کرچکا تھا لیکن سفر سے تین دن قبل سلمی کی طبعیت خراب ہوگئی اور اسے یہ ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔
خالد عقاب کے اس بچے کی طرح جو پر نکلنے کے بعدگھونسلے میں پھرپھڑا رہا ہو، میدانِ عمل میں اپنے سپاہیانہ جوہر دیکھانے کے لیے بےقرار تھا لیکن ماں کی علالت نے اسے گھر ٹھرنے پر مجبور کردیا۔ابوالحسن نے وعدہ کیا کہ وآپس اتے ہی اسے عرب کی سیاحت کے لیے بھیج دے گا۔
رخصت کے دن سلمی کو سخت بخار تھا لیکن وہ انتہائی تکلیف کے باوجود بستر پر نا لیٹی۔شوہر کو رخصت کرنے سے پہلے اس نے سراپا التجا بن کر کہا۔”دیکھیے! میں بلکل تندرست ہوں۔مجھے ساتھ لے چلیے۔اپنے وعدے نا بھولیے۔“
ابوالحسن نے مغموم سا ہوکرجواب دیا۔”نہیں سلمی! جہاز پر موسمی بخار تمہیں بہت تکلیف دے گا۔تم تندرست ہوجاو گی تو میں دوسرے سفر میں تمہیں ساتھ لے چلوں گا۔دیکھو میں تمہاری تیماداری کے لیے خالد اور ناہید کو چھوڑ کرجارہا ہوں۔طلحہ بھی تمہارا خیال رکھے گا۔“
اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔”نہیں!!! نہیں!!! مجھے ضرور لے چلیے۔میں آپ کے ساتھ ہر تکلیف برداشت کرسکتی ہوں۔“
ابوالحسن نے کہا۔”سلمی ضد نا کرو۔دیکھو تمہاری نبض کس قدر تیز ہے۔بخار سے تمہارا چہرہ سرخ ہورہا ہے۔تم نے کبھی سمندر کا سفر نہیں کیا۔میں جلد وآپس آجاوں گا۔“
”نہیں!!! اس دفعہ مجھے معلوم ہورہا ہے کہ آپ کا سفر بہت لمبا ہے اور میں شاید دیر تک انتظار نا کرسکوں گی۔“
ابوالحسن نے مغموم صورت بنا کرجواب دیا۔”سلمی! تم رورہی ہو۔ کئی برس ہوئے میں نے تمہیں بتایا تھا کہ مسلمان عورتیں مجاہدوں کو رخصت کرتے ہوئے آنسو نہیں بہاتیں۔“
ان الفاظ نے سلمی پر جادو کا اثر کیا۔اس نے آنسو پونچھ ڈالے اور مسکرانے کرتے ہوئے بولی۔”میرے اس درجہ مغموم ہونے کی وجہ یہ نا تھی کہ آپ جارہے ہیں بلکہ یہ تھی کہ آپ مجھے چھوڑ کرجارہے ہیں۔آپ اگر ایک بار مجھے میدانِ جہاد میں لے جاتے تو پھر شاید مجھے کمزوری کا طعنہ نا دیتے۔میں آپ کے ساتھ تیروں کی بارش میں کھڑی ہوسکتی ہوں لیکن آپ کے انتظار میں صبح و شام کوٹھے کی چھت پر چڑھ کر سمندر کی طرف دیکھنا میرے لیے صبر آزما ہوگا۔“
ابوالحسن نے جواب دیا۔”یہی صبر عورتوں کا جہاد ہے۔جو کام مرد میدان میں نہیں کرسکتے وہ کام عورتیں گھر کی چار دیواری میں رھ کرسکتی ہیں۔عورتیں خالد(رضی اللہ عنہ) اور مثنی(رضی اللہ عنہ) نہیں بن سکتیں لیکن ان کی ماوں کا رتبہ حاصل کرسکتی ہیں۔آج ہمارے سپاہی اپنے گھروں سے کوسوں دور لڑ رہے ہیں اور ان کے عزائم وہ عورتیں بلند رکھتی ہیں جو صبر واستقلال سے گھروں میں ماوں، بہنوں اور بیویوں کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ان پر اعتماد کی بدولت ان کے دل میں یہ خیال بے چینی پیدا نہیں کرتا کے گھر پر ان کے ننھے بھائیوں اور بچوں کا کیا حال ہوگا۔سلمی! تم ہی بتاو۔کیا وہ سپاہی جسے یہ خیال ہو کہ اس کی بیوی رورو کر اندھی ہوگئی ہوگی اور بچے گلیوں میں ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے،ایک بہادر کی طرح مسکرا کر جان دے سکتا ہے؟ فرض کرو اگر میں نا آوں تو عرب کی دوسری عورتوں کی طرح خالد کو جہاد پر رخصت نا کرو گی؟“
سلمی نے جواب دیا۔”آپ یقین رکھیے! اگر آپ خالد کے لیے برا باپ بننا گوارا نہیں کرتے تو میں بھی بری ماں بننا پسند نہیں کروں گی۔“
شام کے وقت ابوالحسن کا جہاز روانہ ہوا۔سلمی ناہید کے ساتھ چھت پر کھڑی سمندر کی طرف دیکھ رہی۔ضبط کے باوجود اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
ناہید نے کہا۔”امی جان! آپ نے اباجان سے وعدہ کیا تھا کہ آپ ہمارے سامنے آنسو نا بہائیں گی۔“
سلمی نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔”بیٹی! کاش یہ میرے بس کی بات ہوتی، تمہارے باپ کے مقابلے میں میرا دل بہت کمزور ہے۔“
سلمی یہ کہہ کربیٹھ گئی۔ناہید نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”امی! آپ کو ابھی تک بخار ہے۔آپ بستر پر لیٹ جائیں۔“
(قسط نمبر14)
سر اندیپ کے دربار میں
مہاراجہ سراندیپ تخت پر روبق افروز تھا۔تخت سے نیچے دائیں بائیں آبنوس کی کرسیوں پر چند سردار حسبِ مراتب بیٹھے تھے۔راجہ کے دائیں ہاتھ سب سے پہلی کرسی راجکمار اودھے رام کی تھی۔راج کمار ایک خوش شکل اور بارعب نوجوان تھا۔کرسیوں کے پیچھے کے پیچھے دوقطاروں میں چند عہدہ دار ہاتھ باندھ کرکھڑے تھے۔چوبدار دربار میں داخل ہوا اور رسمی آداب بجالانے کے بعد بولا۔”مہاراج! دلیپ سنگھ حاضر ہونے کی اجازت چاہتا ہے۔“
راجہ پریشان سا ہوگیا اور بولا۔”دلیپ سنگھ آگیا! ابوالحسن اور اس کے ساتھی کہاں ہیں؟“
چوبدار نے جواب دیا۔”مہاراج! ان میں سے اس کے ساتھ کوئی نہیں، ایک عرب نوجوان ہے اور وہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔“
راجہ نے بےقرار ہوکرکہا۔”بلاو انھیں جلدی کرو۔“
چوبدار کے واپس جانے کے تھوڑی دیر بعد دلیپ سنگھ ایک بیس بائیس سالہ عرب نوجوان حے عمراہ داخل ہوا۔دلیپ سنگھ کے ہاتھ میں چاندی کا ایک طشت تھا جس میں ایک سونے کی ڈبیا اور ایک خنجر تھا۔خنجر کے دستے میں بیش قیمت ہیروں کے نگینے جگمگا رہے تھے۔دلیپ سنگھ نے دروازے اور تخت کے درمیان مختلف مقامات پر تین بار جھکا۔پھر اگے بڑھا اور راجہ کے سامنے تخت رکھنےکے بعد ہاتھ باندھ کرکھڑا ہوگیا لیکن اس دوران میں راجہ، ولی عہد اور باقی حاضرین دربار کی نگاہیں زیادہ تر اس کے نوجوان ساتھی پرمرکوز تھیں۔
یہ زمانہ جس سے ہماری داستان تعلق رکھتی ہے عرب کے سہرہ نشینوں کی تاریخ کا سنہری زمانہ تھا۔اسلامی فتوحات کی سیلابی موجوں کے سامنے اس سے کئی سال پہلے کفر کے مضبوط قلعوں کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکیں تھیں اور اب ایک زبردست ریلا انھیں خس وخاشاک کی طرح بہائے لے جارہا تھا۔ترکستان، آرمینیا اور شمالی آفریقہ کے میدانوں میں ان کے گھوڑے سرپٹ دوڑ رہے تھے۔فتوحات کے سیلاب کی ایک لہر مشرق میں مکران تک پہنچ چکی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قرب وجوار کے ممالک کے باشندے ہر عرب کے چہرے پر سکندر کا بخت، ارسطو کی سی فراست اور سلمان(علیہ السلام) کا سا جاہ و جلال دیکھنے کے عادی ہوچکے تھے۔روئے زمین کی ایک پسماندہ قوم اسلام کی دولت سے مالا مال ہوکر دنیا کی نگاہوں میں وہ بلندی حاصل کرچکی تھی جو آج تک کسی قوم کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔
سیلون(سراندیپ) کے راجہ کے دربار میں وہ نوجوان کھڑا تھا۔جس کے آباواجداد قادسیہ اور یرموک کی جنگوں میں مشرق اور مغرب کی دو عظیم سلطنتوں کی عظمت خاک میں ملا چکے تھے، وہ ان نوجوانوں میں سے تھا جن کی صورت دیکھنے کے بعد کسی کو ان کی سیرت کے متعلق تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔راجہ اور اس کے درباری ایک نظر میں اس کی صورت اور سیرت کی ہزار خوبیوں کے متعرف ہوچکے تھے۔وہ بے پروائی سے قدم بڑھاتا ہوا آگے بڑھا اور دیکھنے والوں کی نگاہیں اس کے جسم کی ہر جنبش میں ایک غایت درجہ کی خوداعتمادی دیکھنے لگیں۔اس کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی اور تمام درباری ہمہ تن گوش ہوگئے۔کچھ دیر ”السلام علیکم“ کے الفاظ راجہ اور درباریوں کے کانوں میں گونجتے رہے۔راجکمار وعلیکم السلام کہہ کر مسکراتا ہوا اٹھا اور تمام سردار اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔راج کمار نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور تمام سردار دربار کے آداب کا لحاظ نا رکھتے ہوئے باری باری آگے بڑھ کر اس سے مصافحہ کرنے لگے۔راجکمار نے اسے اپنے قریب بٹھا لیا اور ٹوٹی پھوٹی عربی میں باتیں کرنے لگا۔
(قسط نمبر15)
راجکمار نے پوچھا۔”آپ کا نام؟“
نووارد نے جواب دیا۔”زبیر۔“
”آپ کہاں سے آئے ہیں؟“
”بصرہ سے“
”ابوالحسن اور ان کے ساتھیوں کا پتہ چلا؟“
زبیر نے کہا۔”نہیں! مجھے ڈر ہے کہ وہ راستے میں کسی حادثے کا شکار ہوچکے ہیں۔“
راجکمار کے چہرے پر مژمردگی چھا گئی۔
راجہ کچھ دیر یہ فیصلہ نا کرسکا کہ اسے راجکمار کی باتوں پر خوش ہونا چاہیے یاناراض، حاضرین تخت کی بجائے ان دو کرسیوں کی طرف دیکھ رہے تھے جن پر راجکمار اور عرب نوجوان رونق آفروز تھےاور راجہ کے لیے یہ نئی بات تھی لیکن اپنے اکلوتے بیٹے کے منہ سے عربی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سننے کی مسرت اس تلخی پر غالب آرہی تھی۔بالآخر اس نے کہا۔”ہم آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ہیں۔“
زبیر نے جواب دیا۔”شکریہ! سراندیپ کے راجہ کو ہمارے خلیفہ اور وائی عراق سلام کہتے ہیں۔“
یہ فقرہ نصف عربی اور نصف سراندیپ کی زبان میں ادا کیا گیا۔راجہ اور ولی عہد کی مسکراہٹ دیکھ کر تمام درباری ہنس پڑے۔
راجہ نے پوچھا۔”آپ نے ہماری زبان کہاں سے سیکھی؟“
زبیر نے دلیپ سنگھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔”یہ میرے استاد ہیں۔“
راجہ اور درباریوں نے دلیپ سنگھ کو پہلی دفعہ تاجہ کا مستحق سمجھا۔راجہ نے کہا۔”ہاں دلیپ! ابوالحسن کا کچھ پتا چلا؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”مہاراج! اس سال ہمارے ملک کا کوئی جہاز عرب کی کسی بندرگاہ تک نہیں پہنچا۔بصرہ،مکہ،مدینہ اور دمشق میں ہر جگہ ان میں سے کسی نا کسی کے رشتے دار موجود تھےلیکن سب نے یہی بتایا کہ وہ حج پر نہیں پہنچا۔وآپسی پر میں ہر بندرگاہ سے ان کا سراغ لگاتا آیا ہوں لیکن ایسا لگتا ہے سندھ کے ساحل کے قریب ان کا جہاز کسی حادثے کا شکار ہوچکا ہے۔مہاراج نے دمشق کے بادشاہ اور عراق کے حاکم کو جو تحائف بھیجے تھے، وہ بھی ان کے پاس نہیں پہنچے، پھر بھی وہ آپ کا شکریہ ادا کرتے تھے۔میں ان کی طرف سے یہ تحائف آپ کی خدمت میں لایا ہوں۔اس سونے کی ڈبیہ میں ایک ہیراہے۔ یہ دمشق کے بادشاہ نے بھیجا ہے اور یہ خنجر عراق کے حاکم نے۔میں عربی نسل کے آٹھ گھوڑے بھی لایا ہوں۔چار سفید ہیں جو بادشاہ نے دیے ہیں اور چار مشکی ہیں جو عراق کے حاکم نے بھیجے ہیں۔انھیں شاہی اصطبل میں بھیجا گیا ہے۔“
راجہ نے اٹھ کر ڈبیا اٹھائی اور کھول کر کچھ دیر چمک دار ہیرا دیکھنے کے بعد خنجر اٹھا کر اس کے دستے کی تعریف کرتا رہا۔اس کے بعد اس نے دونوں تحفے راج کمار کی طرف بڑھاتے ہوئے کہاں۔”دیکھو راجکمار!یہ تحفہ اس بادشاہ کا ہے جس کا لوہا ہر لوہے کو کاٹتا ہے۔جس کی سلطنت میں کئی دریا کئی ہہاڑ اور کئی سمندر ہیں۔جس کے سپاہی پتھر قلعوں کو مٹی کے گروندے سمجھتے ہیں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر دریاوں کو عبور کرتے ہیں اور یہ خنجرمجھے عراق کے حکم نے بھیجا ہےجس کے نام سے بڑے بڑے بادشاہ کانپتے ہیں۔“
راجکمار کسی اور خیال میں تھا۔اس نے یہ دونوں چیزیں بےپرائی سے دیکھیں اور وزیر کے ہاتھ میں تھما دیں۔یہ تحائف جنھیں سراندیپ کا سادہ دل راجہ روئے زمین کے تمام خزانوں سے زیادہ قیمتی سمجھتا تھا۔یکے بعد دیگرے تمام درباریوں کے ہاتھوں میں گردش کرنے کے بعد پھر سے راجہ کے پاس پہنچ گئے۔وہ کبھی خجر کا دستہ ٹٹولتا اور کبھی ڈبیا کھول کر دیکھتا۔بالآخر اس نے زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”میرا جی چاہتاہے کہ میں اپنی آنکھوں سے تمہارا بادشاہ دیکھوں۔“
زبیر نے کہا۔”ہمارا کوئی بادشاہ نہیں۔“
راجہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔”ابوالحسن بھی یہی کہا کرتا تھا کہ مسلمان کسی کو بادشاہ نہیں بناتے۔آہ! بیچارہ کتنا اچھا تھا۔تلوار کا دھنی، بات کا پکا۔اس کی لڑکی کو کتنا صدمہ ہوگا اور وہ عبدالرحمن اور یوسف کس قدر شریف تھے۔بھگوان جانے یہ خبر سن کر ان کے بال بچوں کی کیا حالت ہوگی، آپ ان سے ملے ہیں؟“
”جی نہیں۔میں سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں۔“
زبیر نے اپنی جیب سے ایک خط نکال کر راجہ کو پیش کرتے ہوئے کہا۔”یہ خط مجھے بصرہ کے حاکم نے دیا ہے۔“
(قسط نمبر16)
راجہ نے دلیپ سنگھ کو اشارہ کیا۔دلیپ سنگھ نے زبیر سے خط لے لیا اور اسے کھول کر ترجمہ سنانے لگا۔
”مہاراج کو والی بصرہ سلام کہتے ہیں۔وہ عرب کی بیواوں اور یتیم بچوں کے ساتھ نیک سلوک کےممنون ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ مہاراج ان بیواوں اور یتیم بچوں کو بصرہ پہنچا دینے کا بندوبست کریں، وہ آپ کے ایلچی کے ساتھ اپنی فوج کے ایک سالار زبیر کو ایک جہازدے کر بھیج رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ بہت جلد ان کی روانگی کا بندوبست کردیں گے۔والی بصرہ کا خیال ہے کہ ابوالحسن اور اس کے ساتھی ہندوستان کے مغربی ساحل پر کسی حادثے کا شکار ہوگئے ہیں۔اگر پتہ چلا کہ ان کا جہاز کسی علاقے کے بحری لٹیروں نے غرق کیا ہے تو انھیں سزا دینے میں کسی قسم کی تاخیر نا ہوگی۔“
خط کا مضمون سننے کے بعد راجہ گردن جھکائے دیر تک سوچتا رہا۔ زبیر نے راجکمار کی طرف دیکھا۔ وہ آبدیدہ ہوکر چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔زبیر نے کہا۔”آپ بہت پریشان ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو عربوں کے ساتھ بہت انس تھا۔“
راجکمار کے بھنچے ہوئے ہونٹوں پر کپکپی سی طاری ہوگئی۔اس نے آنسووں کو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کی، پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور کوئی بات کیے بغیر عقب کے کمرے میں چلا گیا۔
راجہ کو بذاتِ خود ابوالحسن کے ساتھ دلی لگاو تھا۔اس کی موت کی خبر اس کے لیے کم المناک نا تھی لیکن مسلمانوں کے خلیفہ کے ایلچی کی موجودگی کا احساس اسے انتہائی ضبط سے کام لینے پر مجبور کررہا تھا۔راجکمات کے اٹھ جانے کے بعد اس نے زبیر اور دلیپ سنگھ کے سوا تمام درباریوں کو رخصت کا حکم دیا اور زبیرسے کہا۔”راجکمار کو ابوالحسن کے ساتھ بےحد انس تھا۔میں بھی اسے اپنا بھائی سمجھتا تھا۔مجھے اس کی موت کا بہت دکھ ہے لیکن یہ کیسے کہا وہ اور اس کے ساتھی مرچکے ہیں،ممکن ہے انھیں راستے میں بحری ڈاکووں نے گرفتار کرلیا ہو۔مجھے سب سے زیادہ بےچاری ناہید کا دکھ ہے ابھی وہ اپنی ماں کا غم نہیں بھولی ۔اب یہ صدمہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگا۔“
زبیر نے سوال کیا۔”ناہید کون ہے؟“
راجہ نے جواب دیا۔”وہ ابوالحسن کی اکلوتی بیٹی ہے۔میں بھی اسے اپنی ہی بیٹی سمجھتا ہوں۔بہت اچھی لڑکی ہے۔“اس کے بعد راجہ دلیپ سنگھ کی طرف متوجہ ہوا۔”دلیپ! انھیں مہمان خانے میں لے چلو! اس بات کا خیال رکھنا کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف نا ہو، میں راجکماری کو ان بچوں کو تسلی دینے کے لیے بھیجتا ہوں۔“
زبیر نے کہا۔”میں سیدھا آپ کے پاس چلا آیا تھا۔ان بچوں کو ابھی تک نہیں دیکھا۔“
”بہت اچھا۔دلیپ سنگھ! انھیں ان کے پاس لے جاو!“
محل کے دروازے پر دلیپ سنگھ اور زبیر کو انیس برس کا ایک نوجوان ملا۔اس نے دلیپ سنگھ کو دیکھتے ہی سوال کیا۔”کیا یہ سچ ہے کہ اباجان کا جہاز جدہ نہیں پہنچا؟“
دلیپ سنگھ نے ہاتھ بڑھا کر اسے گلے لگا لیا اور کہا۔”خالد میں ہر شہر اور ہر بندرگاہ میں انھیں تلاش کرچکا ہوں لیکن ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔“
خالد نے کہا۔”میں ابھی بندرگاہ سے ہوکرآیا ہوں۔عرب کے چند جہازران بتاتے تھے کہ ان کا جہاز سندھ کے ساحل کے قریب غرق ہوچکا ہے۔آپ دیبل کے حاکم سے ملتے شاید کوئی سراغ مل جاتا۔“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا”سندھ کا راجہ اور اس کے اہلکار بہت مغرور ہیں، مجھے ڈر تھا کہ دیبل کا سردار مجھے کوئی تسلی بخش جواب نا دے گا۔اس لیے میں نے خود وہاں جانے کی بجائے مکران کے مسلمان گورنر کو کہا تھا کہ وہ اپنا ایلچی بھیج کر معلوم کریں۔دمشق میں آپ کے خلیفہ اور بصرہ میں ججاج بن یوسف کو ملنے کے بعد میں واپسی پر پھر مکران کے حاکم سے ملا تھا۔ سندھ سے ان کا ایلچی وآپس آچکا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ دیبل کے حاکم نے اس جہاز کے متعلق لاعلمی ظاہر کی ہے۔“
خالد نے کہا۔”میں بدرگاہ سے سیدھا اسی طرف آیا ہوں۔کیا آپ ہمارے گھروں میں یہ خبر پہنچا چکے ہیں؟“
”نہیں! ہم ابھی وہاں نہیں گئے۔میں انھیں مہمان خانے میں ٹھرا کر تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔“
خالد زبیر کی طرف متوجہ ہوا۔”آپ کی مہمان نوازی ہمارا حق ہے۔آپ میرے ساتھ چلیں۔کم از کم عورتوں اور بچوں کو تسلی دینے کے لیے تو۔۔۔۔۔۔!!!“
زبیر نے کہا۔”چلو دلیپ سنگھ!“
اس نے جواب دیا۔”اگر مناسب خیال کریں تو آپ زبیر کے ساتھ ہو آئیں میں اتنی دیر میں آپ کے ساتھیوں کو ٹھرانے کا انتظام کرآوں۔“
زبیر خالد کے ساتھ چل دیا۔راستے میں اس نے پوچھا۔ ”تم ابوالحسن کے بیٹے ہو؟“
”ہاں! لیں آپ کو کس نے بتایا؟“
”میں تمام راستے دلیپ سنگھ سے تم لوگوں کے متعلق پوچھتا آیا ہوں۔اس کی باتوں سے تمہاری جو تصویر میرے ذہن میں تھی تم اس سے مختلف نہیں ہو۔جس صبر و سکون کے ساتھ تم نے یہ خبر سنی ہے میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔تم سچ مچ خالد ہو؟“خالد نے اپنے ہونٹوں پر مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔” جب ابا جان حج کے لیے رخصت ہورہے تھے تو میں نے بھی ساتھ جانے کے لیے اصرار کیا تھا۔امی کی علالت کی وجہ سے انھوں نے مجھے ساتھ لے جانے سے انکار کردیا۔میں اس وقت پہلی بار رویا تھا۔میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر انھیں بہت دکھ ہوا تھا۔ انھوں نے کہا بیٹا خالد رویا نہیں کرتے۔میں نے تمہیں اس مجاہدِ اعظم کا نام دیا ہے جو زخموں سے چور ہونے کے باوجود اف تک نا کرتا تھا۔“
(قسط نمبر17)
شہر کے ایک کونے پر ایک ندی کے پاس عرب تاجروں کے مکانات تھے۔ندی کے دونوں کناروں پر ناریل کے سرسبز درخت کھڑے تھے۔تھوڑی دیر چلنے کے بعد خالد نے پتھر کی ایک چار دیواری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”یہ ہے ہمارا مکان۔“
چاردیواری کے اندر کیلے اور ناریل کے درختوں کا ایک گنجان باغیچہ تھا۔پتھر کے چھوٹے سے مکان کے سامنے ایک چبوترے پر بانس کا چھپر تھا،جسے ایک سرسبز بیل نے ڈھانپ رکھا تھا۔ہوا بند ہونے سے فضا میں حرارت بڑھ رہی تھی۔زبیر کو پسینے میں شرابور دیکھ کر خالد نے اسے مکان کے اندر لے جانے کی بجائے اس چبوترے پر بٹھانا مناسب خیال کیا۔
زبیر بید کے منڈھے پر بیٹھ گیا۔خالد کے اشارے سے ایک سیاہ فام لڑکا پنکھے سے اسے ہوا دینے لگا۔سیاہ فام لڑکا پنکھا ہلانے میں ایک طرح کی مسرت محسوس کررہا تھا لیکن زبیر نے خالد سے کہا۔”ہمیں اس گرمی میں اسے تکلیف نہیں دینی چاہیے! اسے کہو آرام کرے۔“
سیاہ فارم لڑکے نے عربی میں جواب دیا۔”آپ ہمارے مہمان ہیں۔مجھے خدمت کے حق سے محروم نا کیجیے۔“
زبیر نے کہا۔”اوہو! تم عربی جانتے ہو۔“
لڑکے کی بجائے خالد نے جواب دیا۔”یہ بچپن سے ہمارے ساتھ رہتا ہے۔اسے ہمارے ابا نے پالا تھا۔“
لڑکے نے مزید تعارف کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کہا۔”اور میں مسلمان ہوں۔میرا نام علی ہے۔“
خالد نے سراندیپ زبان میں کچھ کہا اور علی پنکھا رکھ کربھاگتا ہوا پاس ہی ایک ناریل کے درخت پر چڑھ کر چند ناریل توڑ لایا۔
ناریل کا پانی پینے کے بعد زبیر خالد سے کچھ دیر باتیں کرتا رہا۔اپنے باپ کے المناک انجام کے باوجودخالد عربوں کی روائتی مہمان نوازی کا ثبوت دینے کے لیے ہر بات میں دلچسپی لینے کی کوشش کررہا تھا۔تاہم زبیر نے کئی بار محسوس کیا کہ اس کے ہونٹوں پر ایک غمگین مسکراہٹ آہوں اور آنسووں سے کہیں زیادہ جگردوز تھی۔
باتیں کرتے کرتے خالد نے کئی بار باہر کے پھاٹک کی طرف اٹھ اٹھ دیکھنے کے بعد علی سے پوچھا۔”علی! ناہید ابھی نہیں آئی۔جاو اسے بلا لاو!“
علی اٹھ کر باہر نکل گیا۔خالد نے زبیر سے کہا۔”مہارانی اور راجہ کی بیٹی کو میری بہن سے بہت محبت ہے۔آج صبح وہ خود یہاں آکر اسے اپنے ساتھ لے گئیں تھیں۔اسے یہ خبر سن کر بہت صدمہ ہوگا۔وہ ابھی تک امی کی قبر پر ہر روز جایا کرتی ہے اور اب!“
یہاں تک کہہ کر وہ ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہوگیا۔زبیر نے مغموم لیجے میں پوچھا۔”آپ کی والدہ کب فوت ہوئیں؟“
انھیں فوت ہوئے دو مہینے ہو چکے ہیں۔ابا کے حج پر جانے کے بعد وہ چھ مہینے موسمی بخار میں مبتلا رہیں لیکن ان کی موت کا باعث اباجان کا لاپتہ ہونا تھا۔ وہ صبح و شام مکان کی چھت پر چڑھ کر سمندر کی طرف دیکھا کرتی تھیں۔جب دور سے کوئی جہاز نظر آتا تو ان کے چہرے پر رونق آجاتی۔وہ مجھے خبر لانے کے لیے بندرگاہ کی طرف بھیجتیں اور جب میں مایوس لوٹتا تو دور سے میری شکل دیکھتے ہی ان کی آنکھیں پتھرا جاتیں۔زندگی کی آخری شام ان میں زینے پر پاوں رکھنے کی ہمت نا تھی۔ان کے اصرار پر ہم ان کی چارپائی چھت پر لے گئے۔وہ تکیے کا سہارا لے کر دیر تک سمندر کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہیں۔بدقسمتی سے ہمیں اس دن کوئی جہاز بھی دکھائی نا دیا۔میں مغرب کی اذان سن کر نیچے اترا اور یہاں سے نزدیک ہی ایک مسجد میں چلا گیا۔جب وآپس آیا تو وہ آخری سانس لے چکی تھیں۔ان کی آنکھیں کھلیں تھیں اور ایسا لگ رہا تھا دور افق پر کسی جہاز کو دیکھ رہی ہیں۔ناہید نے مجھے بتایا کہ ان کے آخری الفاظ یہ تھے۔”ناہید تمہارے ابا آئیں گے۔اور ضرور آئیں گے۔۔۔۔وہ بےوفا نہیں ہیں۔میں بےوفا ہوں جو ان کا انتظار نا کرسکی۔“
زبیر نے اپنی بائیس سالہ زندگی میں تیروں اور نیزوں کے سوا کچھ نا دیکھا تھا۔وہ ایک نڈر ملاح اور فقط طوفانوں سے کھیلنا جانتا تھا۔اس کی زبان میٹھے اور شیریں الفاظ سے نا آشنا تھی۔خالد کی باتوں سے بےحد متاثر ہونے کے باوجود وہ تسلی اور تشفی کے موزوں الفاظ تلاش نا کرسکا۔وہ صرف اتنا کہہ کرخاموش ہوگیا۔”خالد! مجھے ان کی حسرت ناک انجام کا بہت دکھ ہے۔کاش! میں تمہارے حصے کا بوجھ اٹھا سکتا۔“
علی بھاگتا ہوا وآپس آیا اور کہنے لگا۔”وہ آرہی ہیں۔“
زبیر کی نگاہیں نادانستہ باہر کے دروازے پر مرکوز ہو کررھ گئیں۔ناہید آئی اور دور سے اپنے بھائی کے ساتھ ایک اجنبی کو دیکھ کر جھجکی، رکی اور چہرے پر نقاب ڈال لیا۔ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی آگے بڑھی۔
زبیر کو دلگداز آواز سنائی دی۔”کیا یہ سچ ہے کہ ابا جان۔۔۔۔۔“
فقرے کا آخری حصہ ہچکیوں میں تبدیل ہوکر رہ گیا۔
(قسط نمبر18)
زبیر نسوانی حسن و وقار کی ایک غیرفانی جھلک دیکھ چکا تھا۔اس کی نگاہیں اس کے لیے تیار نا تھیں اور بیشتر اس کے کہ ناہید کا چہرہ نقاب میں چھپتا، اس کی نگاہوں کا رخ بدل چکا تھا۔وہ سامنے دیکھنے کی بجائے نیچے دیکھ رہا تھا۔
زبیر میں غایت درجہ کی حیا، والدین اور ماحول کی تربیت کا نتیجہ تھی اور اس کے علاوہ اس کے قرادار کی سب سے بڑی خوبی حددرجہ خوداعتمادی تھی۔وہ لڑکپن میں اپنے باپ کے ساتھ دوردراز کے ممالک میں چکر لگایا کرتا تھا۔اوائل شباب میں اسے ایک تجربہ کار جہازران مانا جاتا تھا۔وہ دور دراز کے ممالک میں غیر اقوام کی ان شوخ وطرار لڑکیوں کو دیکھ چکا تھا جو متاثر ہونے والی نگاہوں کی تلاش میں پھرتی ہیں۔شام وفلسطین میں بےشمار بےباک نگاہیں اس کے مردانہ حسن کا اعتراف کرچکی تھیں۔لیکن اس کے دور کے عام نوجوانوں کی طرح وہ نگاہیں نیچی رکھنے کا عادی تھا۔
زبیر جہاز پر سفر کے دوران دلیپ سنگھ سے ہرعرب بچے کے متعلق سوالات پوچھ کر اپنے ذہن میں ان کی خیالی تصور بنا چکا تھا۔دلیپ سنگھ سے ابوالحسن اور اس کے بچوں کے متعلق جو کچھ وہ سن چکا تھا اس سے اس کا اندازا یہ تھا کہ ابوالحسن کے بچے شکل و شباہت اور عادات و اطوار میں باقی تمام بچوں سے مختلف ہوں گے۔یہ اس کی دلچسپی کی پہلی وجہ تھی۔پھر خالد کی زبانی جو کچھ اس نے سنا، اس کی دلچسپی میں اضافہ بھی ہوگیا اور اس کے بعد جب علی ناہید کو بلانے کے لیے گیا تو سابقہ دلچسپی کے ساتھ ایک ہلکی سی خلعش کا بھی اضافہ ہوگیا لیکن اس کی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اس قوم کی ایک ستم رسیدہ لڑکی ہے۔
ناہید نے پھر کہا۔”مجھے جواب دیجیے کیا یہ سچ ہے؟آپ مجھ سے کیا چھپانا چاہتے ہیں۔میں سن چکی ہوں۔“
خالد نے اٹھ کر آگے بڑھتے ہوئے جواب دیا۔”ناہید! تقدیر کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا۔“
زبیر نے اسے تسلی دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے پاس کوئی خوشی کی خبر نہیں لاسکا۔“
ناہید کوئی بات کیے بغیر مکان کی طرف چل دی اور چند قدم آہستہ آہستہ اٹھانے کے بعد بھاگ کر ایک کمرے میں داخل ہوگئی۔
خالد ایک لمحہ کے لیے تزبزب کی حالت میں کھڑا رہا۔بالآخر زبیر کی طرف دیکھ کربولا۔”میں ابھی آتا ہوں۔“
خالد بھاگ کرناہید کے کمرے میں داخل ہوا۔ناہید بستر پر منہ کے بل پڑی ہچکیاں لے رہی تھی۔خالد نے پیار سے اس کا بازو پکڑ کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”ناہید! صبر سے کام لو۔“
علی زبیر کے پاس تھوڑی دیر بےحس و حرکت کھڑا رہا۔پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کمرے کے دروازے تک پہنچا۔ناہید کی آہیں سن کر اسے زمین کی ہر شے اداس اور غمگین نظر آرہی تھی۔وہ سہمتا اور ججھکتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور ڈرتے ڈرتے خالد کے بازو کو چھو کربولا۔”آپا ناہید کیوں رورہی ہیں؟“
خالد نے اس کی ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں دیکھ کر پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”علی! اباجان وآپس نہیں آئیں گے۔“
کم سن بچے کے منہ سے ایک جگر دوز چیخ نکلی ۔”نہیں نہیں! یہ نا کہیے۔ وہ ضرور آئیں گے۔“
خالد نے کہا۔”یہ دلیپ سنگھ کے ساتھ آئے ہیں۔ان کا جہاز شاید غرق ہوچکا ہے۔“
علی کی آنکھوں سے آنسووں کے چشمے پھوٹ نکلے اور وہ ہونٹ بھینچ بھینچ کر چیخوں کو ضبط کرتا ہوا باہر نکل گیا۔وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں اس کی آواز سننے والا کوئی نا ہو لیکن باہرنکلتے ہی اس نے پڑوس کے بہت سے لوگ اپنے گرد جمع کرلیے۔تھوڑی دیر میں عربوں کے تمام بچے، عورتیں اور مرد خالد کے مکان کے صحن میں جمع ہوگئے۔لوگوں کا شوروغوغا سن کر خالد باہر نکلا اور بیک وقت کئی زبانیں اس سے مختلف سوالات پوچھنے لگیں۔
طلحہ نے آگے بھر کر سب کو خاموش کیا اور پوچھا۔”کیا جہاز غرق ہونے کی خبر درست ہے؟“
خالد نے اثبات میں سرہلایا۔
اس نے زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیا یہ خبر آپ لائے ہیں؟“
زبیر نے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں کسی اچھی خبر کا ایلچی نا بن سکا۔“
طلحہ نے پوچھا۔”جہاز کیسے غرق ہوا؟“
زبیر نے کہا۔”ہم یہ معلوم نا کرسکے۔“
زبیر نے بیواوں اور یتیموں کو فرداً فرداً تسلی دینے کے بعد عرب وآپس جانے کے متعلق ان کے ارادے دریافت کیے۔
یتیم بچوں اور بیواوں نے یک زبان ہوکر وآپس جانے کی خواہش ظاہر کی۔زبیر دیر تک ان سے باتیں کرتا رہا۔بالآخر نمازِ عصر کی اذان سن کر اس نے لوگوں کے ہمراہ مسجد کا رخ کیا۔
طلحہ کے اصرار پر زبیر نے امام کے فرائض سرانجام دیے۔جب وہ مسجد سے نکلا تو دروازے پر راجکمار اور دلیپ سنگھ کھڑے تھے۔خالد کو دیکھ کر راجکمار کی سیاہ اور چمک دار آنکھیں پرنم ہوگئیں اور اس نے آگے بڑھ کر خالد کو گلے لگالیا۔
دلیپ سنگھ نے زبیر سے کہا۔”مہاراج نے آپ کو یاد کیا ہے۔خالد تم بھی چلو!“
زبیر نے کہا۔”میں ابھی ان سے مل کر آیا ہوں۔کوئی خاص بات تو نہیں؟“
”مہاراج کے دل پر ابوالحسن کی موت نے گہرا اثر کیا تھا۔اس وقت وہ آپ سے زیادہ دیر بات نا کرسکے۔“
زبیر نے کہا۔”معلوم ہوتا ہے راجکمار کو بھی ان کے ساتھ گہری محبت تھی۔ان کے آنسو ابھی تک خشک نہیں ہوئے۔“
دلیپ سنگھ نے کہا۔”ہاں! راجکمار کو بہت صدمہ ہوا ہے۔وہ انھیں بہت پیار کرتے تھے۔“
(قسط نمبر19)
شاہی محل جاتے ہوئے زبیر کو لوگوں کا ایک ہجوم جلوس کی شکل میں دکھائی دیا۔دلیپ سنگھ نے کہا۔”مہاراج! آپ کے تحائف اور گھوڑوں کو دیکھ کر پھولے نہیں سماتے۔ان کے حکم سے گھوڑوں کا جلوس نکالا گیا۔گھوڑوں کی لگام تھام کر بازار میں چلنے کی عزت ان لوگوں کے حصے میں آئی ہے جو ہماری ریاست کے سب سے بڑے سردار ہیں۔اگر انہیں ابوالحسن کی موت کا غم نا ہوتا تو شاید خود بھی اس جلوس میں شرکت کرتے۔“
زبیر نے قریب سے دیکھا تو دربار میں سب سے اگلی کرسیوں پر براجمان ہونے والے آٹھ سردار گھوڑوں کی لگامیں تھامے ہجوم کے آگے چلے آرہے تھے۔ گھوڑوں پر جو دوشالے ڈالے گئے تھے وہ بیش قیمت موتیوں سے مرصع تھے۔
راجکمار نے مسکراتے ہوئے زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیا آپ کے ملک میں بھی گھوڑوں کی یہ عزت ہوتی ہے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”نہیں! ہم زیادہ تران کے چارے اور پانی کی فکر کیا کرتے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے کہا۔”یہ گھوڑوں کی عزت نہیں گھوڑے بھیجنے والوں کی عزت کی جارہی ہے۔“
آسمان پر بادل چھا رہے تھے اور ہوانسبتاً خوشگوار ہورہی تھی۔ راجہ محل کی دوسری منزل پر ایک دریچے کے سامنے بیٹھا سمندر کی طرف دیکھ رہا تھا۔زبیر اور اس کے ساتھیوں کے قدموں کی چاپ سن کر اس نے پیچھے مڑکردیکھا اور اٹھ کرزبیر کے ساتھ مصافحہ کرنے کے بعد خالد کی طرف متوجہ ہوا۔”بیٹا! مجھے تمہارے باپ کی موت کا بہت دکھ ہے۔میرا خیال ہے کہ ان کا جہاز طوفان کے باعث غرق ہوچکا ہے لیکن اگر یہ ثابت ہوگیا کہ راستے میں کسی نے حملہ کرکے ان کا جہاز غرق کردیا ہے تو میں اس کی سرکوبی کے لیے اپنے تمام ہاتھی اور سارے جہاز بصرہ کے حاکم کے سپردکردوں گا۔“
راجہ سامبے کرسیوں کی طرف اشارہ کرکے بیٹھ گیا۔زبیر اور خالد بھی بیٹھ گئے۔لیکن دلیپ سنگھ کھڑا رہا۔
راجہ نے دلیپ سنگھ کی طرف اشارہ کرکے کہا. ”بیٹھ جاو۔تم نے بہت بڑا کام کیا ہے۔کل سے تم ہمارے دربار میں تمام سرداروں سے اگے راجکمار کے پاس بیٹھا کرو۔“
دلیپ سنگھ اگے بڑھ کر راجہ کے پاوں چھونے کے بعد کرسی پر بیٹھ گیا اور راجہ زبیر سے مخاطب ہوا۔”میں بصرہ کے حاکم کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا لیکن اگر آپ عرب بچوں کو لاوارث سمجھ کر یہاں سے لے جانا چاہتے ہیں تو مجھے بہت افسوس ہوگا۔میں انھیں اپنے بچے سمجھتا ہوں۔اگر وہ یہاں رہے تو ان کی ہرضرورت شاہی خزانے سے پوری ہوگی۔آپ ان سے پوچھ لیں، اگر انھیں یہاں کوئی تکلیف ہو تو بیشک انھیں اپنے ساتھ لے جائیے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”انھیں یہاں کوئی شکایت نہیں اور میں اپنی حکومت اورتمام عربوں کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری قوم کے یتیم بچے اپنے ملک سے اس قدر دور رہیں۔ان کی بہترین تعلیم و تربیت وہیں پرہوسکتی ہے۔اس کے بعد اگر وہ پسند کریں گے تو انھیں یہاں بھیج دیا جائے گا۔“
راجہ نے پوچھا۔”آپ سب کو لےجانا چاہتے ہیں؟“
”نہیں! طلحہ اور چند تاجر یہیں رہیں گے۔“
”لیکن خالد اور اس کی بہن تو یہیں رہیں گے نا؟“
”نہیں! یہ بھی ہمارے ساتھ جائیں گے۔“
راجکمار نے مغموم لہجے میں کہا۔”نہیں! انھیں ہم نہیں جانے دیں گے۔خالد کو میں اپنا بھائی بنا چکا ہوں۔“
”اور ناہید میری بہن ہے۔“ پچھلے کمرے کی آڑ سے ایک نسوانی آواز آئی اور چودہ پندرہ برس کی ایک لڑکی راجہ کے سامنے آکھڑی ہوئی۔اس کا رنگ راجکمار کی طرح سانوالہ تھا لیکن چہرے کے نقوش اس کی نسبت تیکھے، آنکھیں خوبصورت اور چمکدار تھیں۔اس نے خالد کی طرف دیکھا اور کہا۔”بھیا! تمہیں ماما جی بلاتی ہیں۔“
خالد آٹھ کردوسرے کمرے میں چلا گیا اور لڑکی نے چلتے چلتے راجہ کی طرف دیکھا اور کہا۔”پتا جی! آپ ان کی باتیں ناسنیں۔“
راجہ نے زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”دیکھا آپ نے؟“
زبیر نے کہا۔”بہت اچھا۔میں ان کی مرضی پر چھوڑتا ہوں۔“
خالد تھوڑی دیر بعد سرجھکائے وآپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ راجہ نے کہا۔”بیٹا انھوں نے یہ فیصلہ تم پر چھوڑ دیا ہے۔اب تم بتاو تم یہاں رہنا چاہتے ہو یا نہیں؟“
خالد نے جواب دیا۔”آپ کے ہم پر بہت سے احسانات ہیں۔اگر میرے پیشِ نظر دنیا کا کوئی آرام ہوتا تو میں آپ کا ساتھ کبھی نا چھوڑتا لیکن اس وقت ہماری قوم دور دراز کے ممالک میں جہاد کررہی ہے اور میری رگوں میں ایک مجاہد کا خون ہے۔میں نے سنا ہے کہ موجودہ وقت کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے مجھ سے کم عمر لڑکے بھی جہاد کے لیے جارہے ہیں۔میں اس سعادت سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔“
راجہ کچھ دیر سرجھکا کر سوچنے کے بعد بولا۔”بیٹا! تم ابوالحسن کے بیٹے ہو۔ اگر تم ارادہ کرچکے ہو تو مجھے یقین ہے کہ تمہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ خوش نصیب ہے وہ قوم جس کی مائیں تم جیسے بچے جنتی ہیں۔“
خالد نے کہا۔”میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے خوشی سے اجازت دیں۔“
راجہ نے جواب دیا۔”ابوالحسن کے بیٹے کی خوشی میری ناراضگی کا باعث نہیں ہوسکتی۔“
(قسط نمبر20)
قزاق
دس دن بعد ایک صبح بندرگاہ پر دو جہاز سفر کے لیے تیار کھڑے تھے۔ایک جہاز پر زبیر یتیم بچوں اور بیواوں کو لیے جارہا تھا اور دوسرے جہاز پر دلیپ سنگھ راجہ کی طرف سے حجاز بن یوسف اور خلیفہ ولید کے لیے ہاتھی، سونا، چاندی اور ہیروں کے تحائف لے جارہا تھا۔ہاتھی تعداد میں دس تھے۔
راجہ اور ولی عہد زبیر اور اس کے ساتھیوں کو رخصت کرنے کے کیے بندرگاہ تک آئے۔راجہ بیواوں اور یتیم بچوں میں سے ہر ایک کو گرانقدر تحائف دے چکا تھا۔زبیر کو اس نے کئی چیزیں پیش کیں لیکن فقط اس نے گینڈے کی ڈھال پسند کی۔رانی اپنا موتیوں کابیش قیمت ہار سخت اصرار کے بعد ناہید کو پہنا سکی۔راجکماری رخصت کے دن اس کے گھر آئی اور بضد ہوکر ناہید کو اپنی ہیرے کی آنگوٹھی دے گئی۔
بندرگاہ پر جہاز میں سوار ہونے سے پہلے راج کمار نے آبدیدہ ہوکر خالدکو گلے لگا کیا اور اپنی موتیوں کی مالا اتار کر اس کے گلے میں ڈال دی۔
جہازوں کے بادبان کھولے گئے اور ہوا کے ایک جھونکے جہازوں کو دھکیلنے لگے۔شہر کے لوگوں نے اپنے مہمانوں کو آنسووں اور آہوں کے ساتھ آلودع کیا۔
عورتوں کے لیے جہاز کے اندر ایک کشادہ کمرے کے علاوہ بالائی تختہ کے ایک حصے پر بھی چلمنیں ڈال کر پردے کا انتظام کیا گیا تھا۔خالد ادھر ادھر گھوم کر ملاحوں کے کام میں دلچسپی لے رہا تھا۔ناہید،علی کے ساتھ تختہ جہاز پر کھڑی ناریل کے ان بلند قامت اور سرسبز درختوں کو دیکھ رہی تھی۔جن کی چھاوں میں اس نے زندگی کے بہترین دن گزارے تھے۔
صبح شام میں تبدیل ہوگئی اور سراندیپ کا ساحل افق پر ایک ہلکی سی سرسبز لکیر نظر آنے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ لکیر بھی شام کے دھند لکے میں چھپ گئی۔وہ آنسو جو دیر سے ناہید کی آنکھوں میں جمع ہورہے تھے،ٹپک پڑے، علی بھی اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر قدرے ملول تھا۔لیکن اس کے دل میں خالد اور ناہید کے ساتھ جانے کی خوشی اس سے زیادہ تھی۔
رات کے وقت مطلع صاف تھا۔بچے اور عورتیں عرشے پر کھلی ہوا میں سوگئے۔ناہید دیر تک آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھتی رہی۔چلمن کی دوسری طرف خالد، زبیر اور ملاحوں سے باتیں کررہا تھا۔
ہاشم ایک آٹھ سال کا لڑکا ناہید کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔اس کی ماں فوت ہوچکی تھی اور باپ ابوالحسن کے ساتھ لاپتہ ہوچکا تھا۔ہاشم اٹھ کر بیٹھتے ہوئے تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرادھر ادھر دیکھنے لگا۔ناہید نے پوچھا۔”کیا ہے ہاشم۔۔۔۔۔۔۔؟“
اس نے سوال کیا۔”عکی کہاں ہے؟“
”وہ خالد کے ساتھ ملاحوں سے باتیں کررہا ہے۔“
”میں اس سے ایک بات ابھی پوچھ کرآتا ہوں۔“ یہ کہہ کر ہاشم تاریکی میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا علی کے پاس پہنچا اور پوچھنے لگا۔”علی! جب جہاز ڈوب جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟“
علی نے بھولے پن سے جواب دیا۔”سمندر کی تہہ میں چلا جاتا ہے۔“
ملاح اس جواب پر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
ہاشم نے پھر کہا۔”واہ! یہ تو مجھے معلوم تھا۔لوگ کہاں جاتے ہیں؟“
”لوگوں کو مچھلیاں کھا حاتی ہیں۔“
”جھوٹ! مچھلیوں کو تو آدمی کھاتے ہیں۔“
علی نے پھر جواب دیا۔”زمین پر آدمی مچھلیوں کو کھاتے ہیں۔ لیکن سمندر میں مچھلیاں آدمیوں کو کھا جاتی ہیں۔“
ہاشم کچھ سمجھا اور کچھ نا سمجھا اور وآپس آکر بستر پر لیٹ گیا۔
(قسط نمبر21)
چند دن بعد یہ جہاز مالابار کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کررہا تھے۔راستے میں سامانِ خوراک اور تازہ پانی حاصل کرنے کے لیے انھیں مغربی ساحل کی مختلف بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونا پڑا۔اس دوران میں انھیں کوئی حادثہ پیش نا آیا۔مالابار کی ایک بندرگاہ پر چند عرب تاجروں نے زبیر کا خیرمقدم کیا اور گذشتہ طویل سفر میں تھکے ہوئے مسافروں کو چار دن کے لیے اپنے پاس ٹھہرا لیا۔ان چار دنوں میں سراندیپ کے راجہ کے گرانقدر تحائف کی خبر دوردور تک مشہور ہوچکی تھی۔
رخصت کے دن حاکمِ شہر بندرگاہ پر زبیر اور دلیپ سنگھ سے ملا اور اس نے انھیں راستے میں بحری ڈاکووں کے حملے کے پیشِ نظر ہوشیار رہنے کی تاکید کی۔دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”آپ فکر نا کریں! ہمارے جہاز پوری طرح مسلح ہیں۔“
تیسرے دن مستول پر سے دونوں جہازوں کے پہرے داروں ن نے یکے بعد دیگرے افق شمال کی طرف اشارہ کرکے دو جہازوں کی آمد کا پتہ دیا اور جہاز ران پریشان ہوکر تختہِ جہاز پر کھڑے ہوگئے۔دلیپ سنگھ کا جہاز آگے تھا۔وہ اپنے جہاز کو روکنے کا حکم دے کر زبیر کا جہاز قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔جب دونوں جہاز ایک دوسرے کے بہت تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوگئے تو دلیپ سنگھ نے کہا۔”ممکن ہیں وہ جہاز بحری ڈاکووں کے نا ہوں، لیکن ہمیں مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔آپ اپنا جہاز مغرب کی طرف لے جائیں، میں ان سے نمٹ لوں گا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”نہیں! ہم خطرے میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔“
دلیپ سنگھ نے کہا۔”مجھے آپ کی ہمت پر شبہ نہیں لیکن ہماری سب سے پہلی ذمہ داری بچوں کی جان بچانا ہے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”اگر وہ واقعی بحری ڈاکو ہیں تو ممکن ہے کہ مغرب کی طرف سے بھی انھوں نے ہمارا راستہ روک رکھا ہو۔اس صورت میں بھاگ نکلنے کی بجائے لڑنا کم خطرناک ہوگا اور ہم سے یہ بھی ناممکن ہے کہ ہم اپنے دوستوں کی جانیں خطرے میں چھوڑ کر بھاگ جائیں۔“
”آپ کی مرضی۔تاہم عورتوں کو حکم دیں کے نیچے چلی جائیں۔“
دلیپ سنگھ یہ کہہ کر اپنے ساتھیوں کو ہدایت دینے میں مصروف ہوگیا۔
زبیر نے خالد سے کہا۔”خالد! تم عورتوں اور بچوں کو نیچے لے جاو!“
دونوں جہازوں کے ملاح کیل کانٹے سے لیس ہوکر دور سے آنے والے حہازوں کو دیکھنے لگے۔کچھ دیر بعد دلیپ سنگھ ایک جہاز کا سیاہ جھنڈا دیکھ کر چلایا۔”یہ بحری ڈاکووں کے جہاز ہیں۔مقابلے کے لیے تیار ہوجاو۔“
زبیر نے اپنے ساتھیوں سے مخاب ہوکرکہا۔”بھائیو! یہ عورتیں اور بچے ہمارے پاس امانت ہیں۔ہمیں انھیں سلامتی سے بصرہ پہنچانا ہے۔اگر ہم پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری نا ہوتی۔ تو ہمارا طریق جنگ اس طریقے سے مختلف ہوتا جو میں نے اب تجویز کیا ہے۔میں ایک خطرناک مہم کے لیے تم میں سے دو رضاکار چاہتا ہوں۔“
اس پر سب سے پہلے خالد اور پھر یکے بعد دیگرے تمام ملاحوں نے اپنے نام پیش کیے۔زبیر نے کہا۔”اس کام کے لیے دو بہترین تیراک درکار ہیں۔میں یہ کام ابراہیم اور عمر کو سونپتا ہوں۔“
زبیر کی ہدایت پر دونوں جہازوں سے دو کشتیاں سمندر میں اتار دیں گئیں اور ان کے ساتھ باندبان باندھ دیے گئے۔دلیپ سنگھ کے جہاز پر ہاتھیوں کے لیے خشک گھاس موجود تھی۔ملاحوں نے اس کے چند گٹھے اتار کر کشتیوں پر لادیے۔ابراہیم اور عمر ہاتھوں میں جلتی مشعلیں لیے کشتیوں پر سوار ہوگئے۔اس کے بعد زبیر اور اس کے ساتھی تیرکش اور کمان سنبھال کر حملہ آوروں کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگے۔اگلے جہاز کا رخ دلیپ سنگھ کے جہاز سے زیادہ زبیر کے جہاز کی طرف تھا۔عمر اور ابراہیم کی کشتیاں ایک لمبا چکر کاٹ حملہ آوروں کے عقب میں پہنچ چکی تھیں۔
(قسط نمبر22)
زبیر ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگتا ہوا اپنے ساتھیوں کو ہدایت دے رہا تھا۔حملہ آور جہاز نے قریب آتے ہی زبیر کے جہاز پر تیر برسانے شروع کردیے اور ایک تیر سن سے زبیر کے سر کے قریب سے گزرگیا۔اس کے ساتھ ہی اسے ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ ”آپ کسی محفوظ جگہ پر بیٹھ جائیے۔ہم دشمن کے تیروں کی زد میں آچکے ہیں۔“
زبیر نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ناہید تیرو کمان لیے کھڑی تھی۔ آنکھوں کے سوا اس کا باقی چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا۔ زبیر نے کہا۔”تم یہاں کیا کررہی ہو؟ جاو نیچے!“
ناہید نے اطمنان سے جواب دیا۔”آپ میری فکر نا کریں۔ میں تیر چلانا جانتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ کرایک سپاہی کے قریب بیٹھ گئی۔
کچھ دیر تیروں کی لڑائی ہوتی رہی۔لٹیرے زیادہ قریب پہنچ کر جلتے ہوئے تیر پھنکنے لگے۔دوسری طرف زبیر کی ہدایت کے مطابق ابراہیم اور عمر نے اپنی کشتیاں لٹیروں کے جہازوں کی طرف چھوڑ دیں اور قریب پہنچ کر جلتی ہوئی مشعلوں سے گھاس میں آگ لگائی اور خود پانی میں کود گئے۔ لٹیرے جو ہاتھوں میں کمندے لیے ہوئے اپنے حریف کے جہازوں میں کودنے کے لیے تیار کھڑے تھے بدحواس ہوکر کشتیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ہوا کے جھونکوں نے کشتیوں سے آگ کے شعلوں کو جہازوں کے بادبانوں تک پہنچا دیا۔ آن کی آن میں لٹیروں کے دونوں جہازوں پر آگ بےقابو ہوچکی تھی اور وہ چیختے چلاتے سمندر میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی دلیپ سنگھ اور زبیر کے ساتھی تیر برسا رہے تھے۔زبیر نے لٹیروں کا ایک جہاز اپنے جہاز کے قریب آتا دیکھ کر آگ کے خطرے سے بچنے کے لیے لنگر اٹھانے کا حکم دیا لیکن اتنے میں آٹھ دس لٹیرے کمندے ڈال کر زبیر کے جہاز پر کودنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ زبیر کے ساتھیوں نے انھیں اڑے ہاتھوں لیا۔لٹیروں کے جہاز سے ایک تیر آیا اور زبیر کے بائیں بازو میں پیوست ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی ناہید کی کمان سے ایک تیر نکلا اور ایک لٹیرے کے سینے میں پیوست ہوگیا۔
زبیر نے مرحبا کہا۔ناہید نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔زبیر کمان پھینک کر بازو سے تیر نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔ناہید نے جلدی سے کمان نیچے رکھ کہ ایک ہاتھ سے زبیر کا بازو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے تیر کھینچ کرنکال دیا۔تیر کے نکلتے ہی زبیر کے بازو سے خون کی دھار بہہ نکلی۔ناہید نے اس کی آستین اوپر چرھائی اور جھٹ سے اپنا نقاب اتار کر اس کے بازو پر باندھ دیا۔
زبیر کا جہاز کمندوں کی زد سے نکل چکا تھااور جلتے ہوئے جہاز کے رہے سہے ملاح مایوس ہوکر سمندر میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔زبیر نے دوبارا کمان اٹھاتے ہوئے کہا”ناہید! اب تم عورتوں کے پاس جاو اور انھیں تسلی دو کہ ہم خدا کے فضل سے فتح حاصل کرچکے ہیں۔“
ناہید نے چلتے چلتے رک کرپوچھا۔”آپ کو تکلیف تو نہیں ہوئی؟“
”نہیں یہ بہت معمولی زخم ہے۔تم میری فکر نا کرو!“
یہ کہتے ہوئے ایک لمحے کے لیے زبیر کی نگاہیں نائید کے چہرے پر گڑگئیں۔سپاہیانہ وقاراس کے خدوخال کی دلکشی میں اضافہ کررہا تھا۔ ناہید نے اچانک محسوس کیا کہ وہ بےنقاب ہے، اور وہ تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی نیچے عورتوں کے پاس چلی گئی۔
جلتے ہوئے جہاز سے چند آدمی اتر کر ایک کشتی پر سوار ہوئے اور ایک آدمی جو کہ ڈاکووں کا سردار معلوم ہوتا تھا سفید جھنڈا لہرانے لگا۔زبیر نے تیر اندازوں کو ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔عمر اور ابراہیم اپنا کام کرکے جہاز کے قریب پہنچ چکے تھے۔زبیر نے اپنے جہاز کو خطرے سے محفوظ پاکر لنگر ڈالنے اور رسیوں کی سیڑھی نیچے پھینکنے کا حکم دیا۔ عمر اور ابراہیم جہاز پر چڑھ آئے۔خالد نے زبیر کو دلیپ سنگھ کے ساتھیوں کی طرف متوجہ کیا، جو ابھی تک سمندر میں غوطے کھانے والے دشمنوں پر تیروں کی مشق کررہے تھے۔زبیر نے انھیں بھی ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور لٹیرے قدرے مطمین ہوکر سیڑھی کے ذریعے جہاز پر چڑھنے لگے۔سب سے آخر میں لٹیروں کے سردار کی کشتی دونوں جہازوں کے درمیان میں آکررکی۔ایک قوی ہیکل اور معمر آدمی جس کی داڑھی کے آدھے بال سفید ہوچکے تھے، زخمی شیر کی طرح جہاز رانوں کو دیکھ رہا تھا۔
اس کشتی میں زبیر کی نظر ایک نوجوان اور ایک لڑکی پرپڑی۔ دونوں شکل و صورت اور لباس کے اعتبار سے لٹیروں سے بہت مختلف تھے۔
زبیر نے قوی ہیکل اور بارعب آدمی کو ڈوکووں کا سردار سمجھ کر اس کی طرف اشارہ کیا اور ملاح کشتی کو کھیتے ہوئے جہاز کے قریب لے آئے اور یکے بعد دیگرے رسی کی سیڑھی ہر چڑھتے ہوئے اوپر آگئے۔لڑکی کے چہرے سے علالت اور تکلیف کے اثرات نمایا تھے۔ خوش وضع اور خوش پوش نوجوان اس کا بازو پکڑ کراسے سہارا دے رہا تھااور وہ سنبھل سنبھل کر سیڑھی پر پاوں رکھ رہی تھی۔
جہاز پرپہنچ کر نوجوان نے ایک اجنبی زبان میں کچھ کہا اور لٹیروں کی طرف گھورنے لگا۔زبیر نے اس کی زبان پوری طرح نا سمجھتے ہوئے بھی محسوس کیا کہ وہ لٹیروں کے مظالم کی شکایت اور اس کا شکریہ ادا کررہا ہے۔
زبیر نے اپنی استطاعت کے مطابق سندھ اور سراندیپ کی ملی جلی زبان میں اسے تسلی دی۔نوجوان اور لڑکی اس کے دوستانہ لہجے سے متاثر ہوکر تشکر آمیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔لڑکی نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی سہمی ہوئی آواز گلے میں آٹک کررھ گئی۔ وہ آنکھوں میں آنسو بھر کرزبیر کی طرف دیکھنے لگی۔اس کی عمر چودہ پندرہ سال کے لگھ بھگ معلوم ہوتی تھی۔خوبصورت چہرہ دوپہر کے پھول کی طرح کملایا ہوا تھا۔زبیر نے پھر ایک بار ان دونوں کو تسلی دی سب سے آخر میں ڈاکووں کا سردار جہاز میں پہنچا۔ اس کی آنکھوں میں ندامت کے آنسوون کی جگہ انتقام کی بجلیاں تھیں۔
تھوڑی دیر میں دلیپ سنگھ اپنے جہاز سے اتر کر کشتی کے زریعے زبیر کے جہاز پر پہنچ گیا۔اس نے آتے ہی ڈاکووں کے سردار کو مارنے کے لیے چابک اٹھایا لیکن زبیر نے آگے بھر کر اس کا بازو پکڑ لیا۔دلیپ سنگھ نے زبیر کے قمیص کی آستین کو خون آلود دیکھ کر کہا۔”آپ زخمی ہیں؟“
زبیر نے بےپروائی سے جواب دیا۔”یہ معمولی زخم ہے۔“
خوش پوش نوجوان نے کچھ کہہ کر دلیپ سنگھ کو اپنی طرف متوجہ کیا اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرنے لگے۔اس کے بعد دلیپ سنگھ نے ڈاکووں کے سردار سے چند باتیں کرنے کے بعد عربی زبان میں زبیر کے ساتھیوں کو کہا۔”کشتی میں ایک صندوق پڑا ہے اسے اوپر لے آو۔“
ملاحوں نے صندل کی لکڑی کے چھوٹے سے صندوق کو رسے کے ساتھ باندھ کر اوپر کھینچ لیا۔دلیپ سنگھ نے ڈھکنا اوپر اٹھایا اور تمام ملاح حیران ہوکرسونے موتیوں اور جوہرات سے بھرے صندوق کو دیکھنے لگے۔
زبیر کے استفسار پر دلیپ سنگھ نے خوش پوش نوجوان سے چند سوال پوچھے اور اس نے اپنی آپ بیتی کچھ یوں سنائی:-
(قسط نمبر23)
نوجوان کا نام جے رام تھا۔وہ کاٹھیاوار کے ایک اعلی نسب راجپوت خاندان کا چشم و چراغ تھا۔اوائل شباب میں اسے ناموری اور شہرت کا شوق سرزمین سندھ تک لے گیا۔برہمن آباد کے ایک میلے میں اس نے تیر اندازی میں اپنے کمالات دکھا کر سندھ کے راجہ کو اپنا قدردان بنالیا۔راجہ نے اسے اپنی فوج میں معمولی عہدہ دے کر اپنے پاس رکھ لیا۔دو سال کی خدمت گزاری کے بعد جے رام نے دیبل کے نائب حاکم کی جگہ حاصل کرلی۔دیبل میں آئے ہوئے اسے ایک ہفتہ نا ہوا تھا کہ گھر سے اسے اپنے باپ کی وفات اور ماں کی علالت کی خبر ملی اور چند ماہ کی رخصت لے کر وہ کاٹھیاوار پہنچا۔گھر پہنچنے کے دس دن بعد اس کی والدہ بھی چل بسی۔گھر میں اب اس کی ایک چھوٹی بہن مایادیوی تھی۔جے رام نے رشتے داروں کی نصیحت اور مایا دیوی کے آنسووں سے متاثر ہوکر وآپس سندھ جانے کا خیال چھوڑ دیا، لیکن چار ماہ گھر گزارنے کے بعد اسے اپنی پرسکون زندگی تلخ محسوس ہونے لگی اور ایک دن اس نے کاٹھیاوار کے راجہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ملازمت کی درخواست کی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کے راجہ نے اپنا حلقہ اقتدار وسیع کرنے کے لیے پڑوس کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کررکھی تھی اور خودمختار راجے اور سرادر اسے اپنا طاقتور ہمسایہ تسلیم کرنے کے ثبوت میں اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اس کی نزر کیا کرتے تھے۔کاٹھیاوار کے راجہ کو اگرچہ براہِ راست سندھ کے راجہ سے کوئی خطرہ نا تھا۔ تاہم وہ کچھ سونے اور چاندی کے عوض اسے اپنا دوست بنانا غنیمت سمجھتا تھا۔
جے رام کو اپنے دربار میں کوئی عہدہ دینے کی بجائے اس نے سندھ میں اس کے اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانا زیادہ مناسب خیال کیا اور اسے سونے جواہرات اور موتیوں کا صندوق دے کر سندھ کے راجہ کی خدمت میں بھیج دیا۔جے رام کو یقین تھا کہ راجہ دھر اسے وآپس نا آنے دے گا۔ اس لیے اس نے آپنی اکیلی بہن مایا دیوی کو گھر چھوڑنا مناسب نا سمجھا۔مایا دیوی بھی اس کے ساتھ جانے پر بضد تھی۔اس لیے یہ دونوں اپنا گھر بار چچازاد کے سپرد کرکے سندھ کی طرف روانہ ہوگئے۔ لیکن کاٹھیاوار اور سندھ کے درمیان ان کے جہاز کو بحری ڈاکووں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ اس کے ساتھی بہادری سے لڑے لیکن ڈاکووں کے سامنے ان کی پیش نا گئی۔ڈاکووں نے جواہرات کے صندوق پر قبضہ کرلیا، مایا دیوی اور جے رام کے سوا ان کے ساتھیوں کو سمندر کے کنارے آزاد کردیا گیا۔ڈاکووں کا سردار سمجھتا تھا کہ جےرام اور مایا دیوی راجہ کاٹھیاوار کے عزیز ہیں اور وہ اس کی جان بچانے کے لیے معقول رقم دینے پر آمادہ ہوجائے گا۔اس لیے وہ کاٹھیاوار کے ساحل کے غیر آباد حصے پر لنگرانداز ہوکر راجہ کے ساتھ یہ سودا کرنا چاہتا تھا لیکن ان کے ایک جاسوس نے اسے سراندیپ کے جہازوں کی آمد کی خبر کردی اور اس نے کاٹھیاوار ٹھہرنے کی بجائے مالابار کا رخ کیا۔
زبیر نے یہ قصہ سن کر پھر ایک بار جے رام اور اس کی بہن کو تسلی دی اور کہا۔”یہ لٹیرے جیسے ہمارے مجرم ہیں ویسے ہی آپ کے مجرم ہیں۔میں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ انھیں کیا سزا دی جائے۔ تاہم میں یہ جانتا ہوں کہ آپ کے ملک میں انھیں کیا سزا دی جاتی ہے؟“
جے رام نے کہا۔”ایسے ظالم ڈاکووں کے لیے ہمارے قانون میں اور آپ کے قانون میں رحم کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم جب ان لوگوں سے آپ کا مقابلہ ہوا تھا تو مجھے اور میری بہن کو جہاز کے ایک کونے میں بندکردیا گیا تھا اور جہاز کو آگ لگ جانے کے بعد یہ لوگ ہمیں وہیں چھوڑنا چاہتے تھے، اپنے لیے شاید میں ان سے رحم کی درخواست نا کرتا لیکن اپنی بہن کے لیے مجھے عاجز ہونا پڑا اور ان لوگوں نے ہمیں کشتی پر سوار کرنے سے پہلے وعدہ لیا کہ میں آپ سے ان لوگوں کی جان بخشی کی سفارش کروں گا، میرا یہ مطلب نہیں کہ انھیں آزاد چھوڑ دیا جائے۔ میں انھیں صرف موت کی سزا سے بچانا چاہتا ہوں۔لیکن یہ ضروری ہے کہ جب تک ان کے راہِ راست پر آجانے کا اطمینان نا ہو انھیں قید میں رکھا جائے۔“
(قسط نمبر24)
مایا دیوی علالت کی وجہ سے دیر تک کھڑی نا رھ سکی۔اس نے اپنے بھائی سے کچھ کہا اور بیشر اس کے کہ وہ کوئی جواب دیتا۔دلیپ سنگھ نے کہا۔”اوہو! ہمیں معلوم نا تھا کہ آپ کی بہن علیل ہے۔خالد بیٹا! انھیں اپنی بہن کے پاس لے جاو۔“
خالد اگے برھااور مایا دیوی اپنے بھائی کی طرف دیکھنے لگی۔جے رام نے دلیپ سنگھ سے پوچھا۔”اس جہاز پر عورتیں بھی ہیں؟“
”جی ہاں۔آپ کی بہن کو کسی قسم کی تکلیف نا ہوگی۔ہاں بیٹی۔جاو۔تم آرام کرو۔“
جہازوں کی دوبارا روانگی سے پہلے لٹیروں کے سردار کے سوا باقی تمام قیدیوں کو دلیپ سنگھ کے جہاز میں منتقل کردیا گیا۔زبیر نے دلیپ سنگھ کو تاکید کی کہ جب تک ان کی سزا کا فیصلہ نا ہوجائے ان کے ساتھ بدسلوکی نا کی جائے۔ڈاکووں کے سردار کو اس کے ساتھیوں کی نیک چلنی کی ضمانت کے طور پر زبیر نے اپنے جہاز پر ٹھہرا لیا۔جے رام نے اپنی بہن کی علالت کے پیشِ نظر زبیر کے جہاز میں رہنا پسند کیا۔
خالد نے مایا دیوی کو ناہید کے پاس پہنچا دیا۔ناہید نے اسے ایک بستر پر لٹا دیا اور سب عرب عورتیں اس کے گرد جمع ہوگئیں۔پہلی ملاقات میں مہمانوں اور میذبانوں کہ درمیان فقط اشاروں سے ہمدردی اور تشکر کے جزبات کی ترجمانی ہوئی۔
دلیپ سنگھ نے اپنے جہاز پہ جانے سے پہلے جےرام سے کہا۔”آپ کو شاید کھانے میں دقت ہو۔ میں ایک مدت تک مسلمانوں کے ساتھ رھ رھ کر چھوت چھات کا قائل نہیں رہا۔ہم سب ایک ہی دسترخوان پر کھا لیتے ہیں۔میرے ساتھ جتنے بھی آدمی ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو مسلمانوں کے ساتھ نہ کھا چکا ہو۔تاہم میرا یک آدمی جسے میں اس جہاز پر چھوڑ کر جا رہا ہوں آپ دونوں کے لیے کھانا تیار کرے گا۔اور آپ کے میزبان آپ کی مرضی کے بغیرآپ کو اپنے دسترخوان پر بیٹھنے پر مجبور نہیں کریں گے۔“
دلیپ سنگھ نے چند باتیں زبیر کو سمجھائیں اور اتر کر اپنے جہاز پر چلا گیا۔اس کے پہنچنے سے پہلے اس کے ساتھی اپنے کنداستروں سے پانچ سفید ریش لٹیروں کےسر اور داڑھیاں، پونچھیں اور نھنویں مونڈ چکے تھے۔ایک ڈاکو جو شکل و صورت سے زیادہ معمر معلوم ہوتا تھا۔اس کی صرف آدھی داڑھی آدھی مونچھ اور اور آدھا سرصاف کرنے پراکتفاء کیا۔
ناہید اور دوسری عورتوں نے دل وجان سے مایادیوی کی تیماداری کی۔موسمی بخار کے لیے ناہید سراندیپ سے چند جڑی بوٹیاں ساتھ لائی تھی ان کے استعمال سے ناہید چند دنوں میں تندرست ہوگئی۔
زبیر نے اپنے بازو کے زخم کو معمولی سمجھ کے شروع میں چنداں پروا نا کی لیکن مرطوب ہوا کے باعث زخم میں تیسرے روز پیپ پر گئی اور اسے درد کی شدت اور بخار سے چند دن بستر پر لیٹنا پڑا۔
دلیپ سنگھ کئی بار اپنا جہاز چھوڑ کر اس کی تیماداری کے لیے آیا۔علی،خالد اور ہاشم،ناہید اور دوسری عرب عورتوں کو ہر آن اس کی حالت سے باخبر رکھتے۔جےرام ہر وقت اس کے پاس بیٹھا رہتا۔مایا دیوی ایک عورت کی ذکاوتِ حس کے بدولت ناہید کے مغموم اور پریشان رہنے کی وجہ سمجھ چکی تھی۔وہ اپنے بھائی کی موجودگی میں کبھی کبھی زبیر کو دیکھ آتی اوروآپس آکر اشاروں میں اور عربی کے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جنھیں وہ چند روز عرب عورتوں کی صحبت میں رھ کر سیکھ چکی تھی۔ناہید کو تسلی دیتی۔
(قسط نمبر25)
ایک شام زبیر کی حالت قدرے مخدوش تھی۔دلیپ سنگھ آیا اور زخم کی مرہم پٹی کرنے کے بعد چلا گیا۔رات کے وقت مطلع آبرالود تھا اور ہوا تیز تھی ملاح اپنی اپنی جگہ پر متعین تھے۔جےرام خالد اور علی زبیر کی تیماداری کررہے تھے۔
عرب عورتیں عشاء کی نماز کے لیے اٹھیں اور مایا دیوی اپنے بھائی سے زبیر کا حال پوچھنے چلی گئی۔جب ناہید نماز سے فارغ ہوکرزبیر کی صحت کے لیے دعا کررہی تھی تو خالد نے آکر بتایا کہ زبیر بےہوش ہے۔
ایک عمر رسیدہ عورت نے کہا۔”ہمارے تمام آدمی آندھی کی وجہ سے جہاز پر مصروف ہیں۔ہمیں ان کے پاس ضرور جانا چاہیے۔“
تمام عورتیں اٹھ کر زبیر کے پاس پہنچیں۔مایا دیوی نے انھیں دیکھ کراپنے بھائی کی طرف اشارہ کیا اور وہ اٹھ کر باہر نکل گیا۔جےرام نے کئی راتیں آنکھوں میں کاٹی تھیں۔وہ باہر نکلتے ہی جہاز کے ایک کونے میں لیٹ کر گہری نیند سوگیا۔
آدھی رات کے وقت زبیر کا بخار قدرے کم ہوا اور ناہید اور مایا دیوی کے علاوہ باقی عورتیں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔خالد اور علی وہیں لیٹ گئے۔
رات کے تیسرے پہر زبیر نے آنکھیں کھولیں اور شمع کی روشنی میں ناہید اور مایا دیوی کو دیکھ کر پوچھا۔”آپ یہاں؟ جائیں آرام کریں۔“
ناہید کا مرجھایا ہوا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور اس نے سوال کیا۔”آپ اب کیسے ہیں؟“
”میں اب ٹھیک ہوں۔مجھے پانی دیجیے۔“
مایا دیوی نے اٹھ کر صراحی سے پانی کا پیاکہ بھرا اور ناہید کے ہاتھوں میں دے دیا۔ناہید نے ہچکچاتے ہوئے ایک ہاتھ سے زبیر کے سر کو سہارا دے کر اٹھایا اور دوسرےہاتھ سے پانی کا پیالہ اس کے ہونٹوں سے لگادیا۔
زبیر نے پانی پی کر پھر تکیے پر سررکھ دیا اور ناہید سے کہا۔”ٗان کے بھائی نے میرے لیے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔اب وہ کہاں ہیں؟“
”وہ باہر سورہے ہیں۔“
”آپ بھی جاکر سوئیں۔مجھے اب آرام ہے۔ دلیپ سنگھ کے نئے مرحم نے بہت فائدہ کیا ہے۔“
چند دن بعد زبیر چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا۔عربوں کا خلق جےرام کو بہت متاثر کرچکا تھا۔زبیر سے اس کا انس، انتہائی درجے کی عقیدت اور محبت کی حد تک پہنچ چکا تھا۔وہ زبیر سے عرب کے تازہ ترین حالات کے متعلق کافی واقفیت حاصل کرچکا تھا۔عربوں کے نئے دین میں انسانی مساوات کے تخیل نے شروع شروع میں اسے بہت پریشان کیا۔لیکن زبیر کی تبلیغ سے جلدہی وہ قائل ہوگیا کہ دنیا بھر میں قیامِ امن کے لیے تمام اقوام کا کسی ایسے دین کو قبول کرنا ضروری ہے۔جو ہر انسان کو مساوی حقوق دیتا ہو۔جو تمام اقوام کو رنگ، خون اور نسل سے نہیں بلکہ اعمال سے پہچانتا ہو۔ ابتدا میں اس نے کھامے پینے کے معاملے میں مسلمانوں کی چھوت سے پرہیز کیا لیکن چنددن زبیر کی صحبت میں رہ کے اسے چھوت اور اچھوت کا امتیاز مضحکہ خیز نظر آنے لگا اور ایک دن وہ اپنی بہن سے مشورہ کیے بغیر زبیر کے دسترخوان پر بیٹھ گیا۔
مایا دیوی میں اپنے بھائی سے بھی پہلے ذہنی انقلاب آچکا تھا اور اس انقلاب کی وجہ یہ نا تھی کہ وہ اپنے بھائی کی طرح اسلام کی تعلیمات سے واقف ہوچکی تھی بلکہ اس کی وجہ عربوں کا وہ اخلاق تھا جس نے ایک غیور راجپوت لڑکی کو یہ محسوس نا ہونے دیا کہ وہ ایک اجنبی قوم کے انسانوں کے رحم پر ہے۔مسلمان ملاح اسے دیکھتے اور آنکھیں جھکا لیتے۔پہلے ہی دن وہ محسوس کرنے لگی کہ ان سب کی نگاہیں اس کی بھائی کی نگاہوں سے مختلف نہیں۔
ناہید کی تیماداری نے بھی اسے بہت متاثر کیا تھا۔ان سب سے بڑھ کر وہ خالد کے طرزِ عمل سے متاثر ہوئی تھی۔نجانے کیوں اس کی نگاہیں اسے دیکھنے اور کان اس کی آواز سننے کے لیے بےقرار رہتے اور جب وہ سامنے آتا اسے آنکھ اٹھانے کی جرات تک نا ہوتی۔ وہ بےپروائی سے منہ پھیر کر چلا جاتا اور وہ دیر تک اپنے دل کی دھڑکنیں سنتی رہتی۔کبھی طرح طرح کے خیالات سے پریشان ہوکر وہ اپنے آپ کو کوستی۔
رات کے وقت وہ اپنے ہم عمر لڑکے سے مرعوب ہونے کی بجائے اسے نفرت اور حقارت اور بے پروائی سے دیکھنے کا ارادہ لے کر سوتی لیکن صبح کی نماز کے بعد جب عرب نماز کے لیے کھڑے ہوتے۔وہ ان ارادوں کے باوجود اٹھ کر عرشے پر چلی جاتی اور ایک طرف کھڑی ہوکر نیلگوں سمندر کی لہروں سے دل بہلانے کی کوشش کرتی لیکن جلد کی اکتا کر منہ پھیر لیتی اور نمازیوں کی طرف دیکھتی غیر شعوری طور پر اس کی نگاہیں خالد پر مرکوز ہوجاتیں۔خالد کی وجہ سے اسے دوسرے نمازیوں کا رکوع و سجود پسند آتا۔ نماز کے بعد خالد کے ہاتھ دعا کے لیے بلند ہوتے دیکھ کر اسے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا طریقہ دلکش معلوم ہوتا۔
اسلام کے ساتھ اس کی پہلی دلچسپی اس لیے تھی کہ یہ خالد کا دین تھا۔عربی زبان وہ اس لیے سیکھنے کی کوشش کرتی تھی کہ یہ زبیر کی زبان تھی۔
(قسط نمبر26)
گنگو اور اس کی سرگزشت
ڈاکووں کے سردار کو پابہ زنجیر رکھا گیا تھا۔دلیپ سنگھ کی ہدایت تھی کہ اس پر کسی قسم کا اعتبار نا کیا جائے۔اسے دونوں وقت کا کھانہ پہنچانے کا کام علی کا تھااور علی کو ہر وقت فکر رہتی تھی کہ شاید اس کا پیٹ نہیں بھرا اور ہر کھانے پر بوڑھے سردار کو علی کے کہنے پر ایک دو لقمے زیادہ ہی کھانے پڑتے۔
زبیر کا سلوک بھی اس کی توقع کے خلاف تھا۔زبیر دن میں ایک دو دفعہ ضرور اس کے پاس آتا۔پہلی بار اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی سندھی میں باتیں کرنے کی کوشش کی لیکن اسے جلد ہی یہ معلوم ہوگیا کہ وہ عربی میں بےتکلفی سے بات چیت کرسکتا ہے۔
ایک دن اس نے زبیر سے کہا۔”موت کے انتظار میں جینا میرے لیے بہت صبرآزما ہے۔اگر آپ مجھ پر رحم نہیں کرنا چاہتے تومیں چاہتا ہوں کہ مجھے جو سزا ملنی ہے جلد مل جائے۔“
زبیر نے کہا۔”مجھے تمہارے بڑھاپے پہ ترس آتا ہےلیکن تمہیں اس وقت تک قید سے نہیں چھوڑا جاسکتا جب تک مجھے یہ یقین نا ہوکہ تم آزاد ہوکر پھر یہی پیشہ اختیار نا کرلوگے۔“
اس نے جواب دیا۔”میرے جہاز غرق ہوچکے ہیں اور اب میں بڑھاپے کے باقی دن کسی جنگل میں چھپ کر گزارنے کے سوا کرہی کیا سکتا ہوں۔“
”ڈاکو ہر جگہ خطرناک بن سکتا ہے۔تم سمندر میں جہازوں کو لوٹتے تھے خشکی پر لوگوں کے گھروں میں ڈاکے ڈالو گے اگر میں تمہیں بصرہ لے جاوں تو وہاں غالباً تمہارے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔اور اگر تمہارا فیصلہ جےرام پر چھوڑوں تو باقی عمر تمہیں قید خانے کی کوٹھری میں گزارنا پڑے گی۔“
ڈاکووں کے سردار نے جواب دیا۔”میں آپ کی حکومت کے متعلق کچھ نہیں جانتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ دیبل کی حکومت کو مجھے سزا دینے کا کوئی حق نہیں۔“
”وہ کیوں؟“
”وہ اس لیے کہ میں گزشتہ چند برس جو کچھ سمندر میں اپنے جہاز پر سورا ہوکر کرتا رہا ہوں۔وہی کچھ سندھ کا راجہ تخت پر بیٹھ کر کرتا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس کے اہلکار کمزور اور غریب لوگوں کو لوٹتے ہیں جبکہ میرے ساتھی چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی بجائے صرف بڑے بڑے جہازوں کو لوٹتے ہیں۔ہمارا پیشہ ایک ہے لیکن نام ہمارے مختلف ہیں۔میں ایک ڈاکو ہوں اور وہ ایک راجہ۔اس کی طرح اس کا باپ بھی راجہ تھا لیکن میرا باپ ڈاکو نا تھا۔میں خود بھی ڈاکو نا بنتا لیکن ظلم نے مجھے بنا دیا۔خیر ان باتوں کا اب کوئی فائدہ نہیں۔آپ غالب ہیں اور میں مغلوب۔لیکن میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ آپ مجھے سندھ کی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے خود جو سزا چاہیں دے لیں۔“
زبیر نے کہا۔ ”میں تمہاری سرگزشت سننا چاہتا ہوں۔“
ڈاکووں کے سردار نے قدرے تامل کے بعد مختصر الفاظ میں اپنی سرگزشت یوں بیان کی۔
”میرا نام گنگو ہے۔“
(قسط نمبر27)
میرا نام گنگو ہے۔میں دریائے سندھ کے کنارے ایک چھوٹے سے گاوں میں پیدا ہوا۔اپنے باپ کی طرح میرا بھی پیشہ ماہی گیری تھا۔بیس سال کی عمر میں میرے سر سے والدین کا سایہ اٹھ گیا۔ہمارے گاوں میں ایک لڑکی تھی۔اس کا نام لاجونتی تھا اور وہ تھی بھی لاجونتی۔اس کی آنکھیں ہرنی کی آنکھوں سے زیادہ دلفریب اور اس کی آواز کوئل کی آواز سے زیادہ میٹھی تھی۔لوگ اسے جل پری کہا کرتے تھے۔گاوں میں کوئی نوجوان ایسا نا تھا جو لاجو کے لیے جان دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ لیکن وہ صرف مجھے چاہتی تھی۔ اس کا باپ سادہ دل آدمی تھا۔برسات میں ایک دفعہ دریا زوروں پر تھا تو اس نے شرط لگائی کہ میں لاجو کی شادی اس کے ساتھ کروں گا جو یہ دریا تیر کر عبور کرے۔ہمارے گاوں میں اچھے اچھے تیراک تھےلیکن برسات میں کسی کو دریا میں کودنے کی ہمت نا ہوئی۔میں لاجو کے لیے جان قربان کرنے کو تیار تھا۔میں نے اس کی شرط پوری کی اور چند دنوں میں میری اور اس ی شادی ہوگئی۔
ہم دونوں خوش تھے اور زیادہ وقت کشتی پر گزارتے تھے۔میں مچھلیاں پکڑا کرتا تھا اور وہ کھانا پکایا کرتی تھی۔رات کے وقت ہم ہنستے ہنستے اور گاتے گاتے تاروں کی روشنی میں سوجاتے تھے۔عجیب دن تھے وہ بھی۔“
یہاں تک کہہ کر گنگو کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دیر تک ہچکیاں لینے کے بعد اس نے پھر سے اپنی داستان شروع کی:-
”لیکن ایک دن ایسا آیا کہ مجھے لاجو سے جدا ہونا پڑا۔ہمیشہ کے لیے مجھے معلوم نا تھا کہ ایک نیچ ذات اور کمزور آدمی کے لیے خوبصورت بیوی رکھنا پاپ ہے ہمارے گاوں سے ایک کوس کے فاصلے پر ہمارے علاقے کے سردار کا شہر تھا۔ ایک دن وہ چند سپاہیوں کے ساتھ دریا پر آیا۔مجھے پار لے جانے کے لیے کہا۔کشتی پر سوار ہوکر وہ لاجو کو بری طرح گھور رہا تھا۔اس کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ یہ میری بیوی ہے۔وہ بولا”یہ کسی ماہی گیر کی بیٹی نہیں ہوسکتی۔تم اسے کہاں سے لائے ہو؟“ میں نے کوئی جواب نا دیا۔ دوسرے کنارے پر اس نے مجھے پہنچ کربتایا کہ میں شام تک وآپس آجاوں گا۔تم اتنی دیر میرا انتظار کرو۔لیکن وہ شام سے پہلے ہی وآپس آگیا اور میں نے اسے دوسرے کنارے پہنچا دیا۔وہ میرا نام پوچھ کر چلاگیا۔اس کے بعد وہ ہمارے گاوں کے ماہی گیروں کا شکار دیکھنے کے بہانے کبھی کبھی چلاآتا۔گاوں کے لوگ اسے اپنے ساتھ بےتکلفی سے پیش آتا دیکھ کر خوش ہوتے لیکن لاجو نے ایک دن مجھے کہا کہ اس کی نیت ٹھیک نہیں وہ میری طرف بہت بری نظروں سے دیکھتا ہے۔
ایک دن لاجو حسبِ معمول کشتی پر کھانا پکا رہی تھی۔وہ گھوڑے پر آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ ”تمہارے پاس کوئی تازہ شکار ہے تو لاو“ میں نے تھوڑی دیر بیشتر دو بڑی مچھلیاں پکڑی تھیں۔وہ میں نے اسے پیش کیں۔اس نے مجھے مچھلیاں پکڑ کر اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ شہر دور نا تھا۔میں نے لاجو سے کہا۔”میں کھانا تیار ہونے تک آجاوں گا۔“
میں اس کے گھوڑے کے پیچھے چل رہا تھا کہ راستے میں جھاڑیوں کی آڑ سے چند آدمی نمودار ہوئے اور مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ میں نے ان کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کی لیکن کسی نے میرے سر پر لاٹھی ماری اور میں تیورا کر گرپڑا۔اس کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک تاریک کوٹھری میں پڑا ہوا تھا۔
(قسط نمبر28)
دودن میں بھوکا اور پیاسا جان کنی کی حالت میں وہاں پڑا رہا۔تیسرے دن دروازہ کھلا اور لاجونتی کے ساتھ تین آدمی جن میں سے ایک کھانا اور پانی اٹھائے ہوئے تھا،اور دو کے ہاتھوں مین ننگیں تلواریں تھیں،کوٹھری میں داخل ہوئے۔لاجونتی کا رنگ زرد تھا اور اس کی آنکھیں دیکھنے سے ایسا لگتا تھا جیسے پانی کا تمام ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔اس کا نگاہ پڑتے ہی بھوک اور پیاس بھول گئی۔میرا جی چاہتا تھا کہ بھاگ کر اس سے لپٹ جاوں لیکن میرے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے تھے۔لاجو نے سپاہیوں کی طرف دیکھا اور وہ تلوار سے میری رسیاں کاٹ کر باہر نکل گئے۔
میں نے پوچھا۔”لاجو! تم یہاں کیسی پہنچیں؟“ اور وہ ہونٹ بھینچ کر اپنی چیخوں کو ضبط کرتی ہوئی مجھ سے لپٹ گئی۔لیکن اچانک اس نے خوفزدہ ہوکر مجھے چھوڑ دیا اور دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔اس نے مجھے بتایا کہ میرے چلے آنے سے تھوڑی دیر بعد چند آدمیوں نے کشتی پر حملہ کیا اور اسے پکڑ کر سردار کے پاس لے آئے اسے میرا حال معلوم نا تھا اور وہ بےغیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دینا چاہتی تھی لیکن سردار نے اسے میری قید کا حال بتا کر یہ دھمکی دی کہ اگر میں نے اس کے محل میں بےحیائی کی زندگی نا گزارنے پر آدمی نا ہوئی تو تیرا شوہر اس کوٹھری میں بھوکا اور پیاسا ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے گا۔اب وہ میرے پاس آئی تھی، یہ کہنے کے لیے کہ گنگو تم آزاد ہو۔تم جاو اور یہ سمجھو کہ تمہاری لاجو مرگئی۔وہ اپنی عصمت سے میری ازادی کا سودا کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے اسے غلط سمجھا۔میں سمجھا کہ وہ ایک غریب ملاح کی کشتی چھوڑ کے محلوں میں رہنا چاہتی ہے۔میں نے اسے برا بھلا کہا، گالیاں بھی دیں اور ان ظالم ہاتھوں سے تھپڑ بھی مارے لیکن وہ پتھر کی مورتی کی طرح کھڑی یہ سب برداشت کرتی رہی۔اس نے صرف یہ کہا۔”گنگو! میں بےعزتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دوں گی لیکن میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ مجھے تمہاری جان اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے بھگوان کے لیے تم جاو! موقع نا گنواو۔ممکن ہے کہ تم آزاد ہو کر مجھے اس ظالم کے پنجے سے آزاد کرانے کی کوئی تدبیر سوچ سکو۔“
اس کے آنسو اور آہوں نے میری غلط فہمی دور کردی۔میں نے اسے پھر گلے لگا لیا اور وعدہ کیا کہ میں جلد آوں گا۔میں اس محل کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا۔
قید خانے کا دروازہ پھر کھلا ، سپاہیوں کی بجائے وہ ظالم بھیڑیا اندر داخل ہوا۔اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار نا ہوتی تو یقیناً میں اس پر حملہ کردیتا۔اس نے آتے ہی لاجو سے کہا۔”اب بتاو کیا فیصلہ کیا تم نے؟اس کی زندگی تمہارے ہاتھ میں ہے۔“
لاجو نے جواب دیا۔”اگر میں آپ کی بات مان لوں تو کیا ثبوت ہے کہ یہ زندہ اور سلامت شہر سے نکل جائیں گے؟“
اس نے کہا۔”میں وعدہ کرتا ہوں۔“
لاجو آنسو بہاتی ہوئی اس کے ساتھ چلی گئی اور مجھے چار سپاہی شہر سے باہر لے آئے۔ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں۔مجھے سردار کے وعدے پر اعتبار نا تھا۔شہر سے نکل کر جب ہم اس جنگل میں پہنچے جو دور تک پھیلا ہوا تھا تو ایک شخص نے پیچھے سے اچانک مجھ پر وار کیا۔مجھے پہلے ہی اس حملے کی توقع تھی اس لیے میں نے ایک طرف کود کر خود کو بچا لیا۔اس پر چاروں نے مجھ پر حملہ کردیا لیکن میں بھاگنے میں تیز تھا جلد ہی جنگل میں پہنچ کر ایک جھاڑی کے نیچے چھپ گیا۔وہ تھوڑی دیر تلاش کرنے کے بعد مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔
شام ہورہی تھی۔میں چھپتا چھپاتا دریا کے کنارے پہنچا۔میری کشتی جل رہی تھی اور دریا کے کنارے وہی چاروں کھڑے تھے۔ان واقعات نے میرے جیسے امن پسند آدمی کو بھیڑیا بنا دیا۔میں گاوں کی طرف بھاگا۔میری آواز میں ایک اثر تھااور آن کی آن میں چند نوجوان لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر میرے ساتھ نکل آئے۔ہمیں دیکھ کر سپاہی سراسیمہ ہوکر بھاگے لیکن ہم نے کسی کو بچ نکلنے کا راستہ نادیا اور چاروں کو مار کے ان کی لاشیں دریا میں پھینک دیں۔آدھی رات تک میں نے ماہی گیروں کی بیس پچیس بستیوں سے کوئی دو سو نوجوان اکٹھا کرلیے اور تیسرے پہر سردار کے محل پر دھاوا بول دیا۔شہر کے لوگ پہلے ہی اس کے مظالم سے تنگ تھے کوئی اس کی مدد کے لیے نا نکلا۔اس کے چند سپاہیوں نے مقابلہ کیا۔لیکن اکثر نے بھاگ کر لوگوں کے گھر پناہ لی۔ہم نے سردار کو پکڑ لیا اور اس سے لاجو کے متعلق پوچھا وہ ہر سوال پر یہ جواب دیتا تھا کہ ”میں بے قصور ہوں بھگوان کے لیے مجھے چھوڑ دو“ میں نے مشعل پکڑ کر جلا دینے کی دھمکی دی تو وہ مجھے محل کی نچلی منزل کے ایک کمرے میں لےگیا۔ فرش پر لاجو کی لاش دیکھ کر میری چیخ نکل گئی وہ ہاتھ باندھ کر کہہ رہا تھا کہ ”میں نے اسے نہیں مارا اس نے محل کی چھت سے چھلانگ لگا دی تھی۔تم سپاہیوں سے پوچھ سکتے ہو۔بھگوان کے لیے مجھ پر دیا کرو۔“ میں نے جلتی ہوئی مشعل اس کی آنکھوں میں جھونک دی اور کلہاڑی کے پےدرپے وار کر کے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔
اس کے بعد میں ایک ڈاکو تھا۔
(قسط نمبر29)
اس کے بعد میں ایک ڈاکو تھا۔میرے دل میں کسی کے لیے رحم نا تھا۔میں نے کئی سرداروں کو لوٹا اور جب راجہ کی فوج نے زمین تنگ کردی ہمارے لیے تو میں نے دریا کے راستے سمندر کا رخ کیا۔دیبل کی بندرگاہ سے ہم نے رات کے وقت دو جہاز چوری کیے اس کے بعد میں اب تک کئی جہاز لوٹ چکا ہوں۔میں ہر اس شخص کو اپنا دشمن سمجھتاہوں جو راجوں اور سرداروں کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔مجھے ہر دولت مند انسان میں اس سردار کی روح نظر آتی ہے۔مجھے ہر اونچے ایوان میں لاجونتی جیسی مظلوم لڑکیوں کی روحیں انتقام کے لیے پکارتی نظر آتی ہیں۔“
زبیر نے کہا۔”مجھے اس لڑکی کی دردناک موت کا سخت افسوس ہے اور سردار سے جنگ کرنے میں بھی شاید تم حق بجانب سمجھے جا سکو گے۔لیکن تم ایک انسان کے ظلم کا بدلہ دوسرے انسان سے کیسے لے سکتے ہو؟ تم نے ہمارے جہاز پر حملہ کیا اور اس پر کوئی سردار نا تھا۔ اس پر چند یتیم بچے اور عورتیں تھیں۔“
گنگو نے کہا۔”مجھے افسوس ہے۔لیکن دوسرے جہاز پر سراندیپ کے راجہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور آپ اس کے معاون تھے تاہم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کے جہاز پر عورتیں اور بچے سوار ہیں تو میں حملہ نا کرتا۔چند ماہ ہوئے میں نے اسی سمندر پر آپ کے ملک کا ایک جہاز دیکھا تھا لیکن میں نے اسے صرف اس لیے چھوڑ دیا کیونکہ اس میں مردوں کے علاوہ چند عورتیں بھی تھیں۔“
خالد چلا اٹھا۔”کیا اس پر سراندیپ کے چند ملاح بھی تھے؟“
”ہاں!“
”وہ تو ابا کا جہاز تھا۔اور ابھی تک اس کا پتہ نہیں۔تم جھوٹ کہتے ہو تم نے ان کا جہاز غرق کرچکے ہو۔“
گنگو نے جواب دیا۔”اگر میں اس جہاز کو غرق کرچکا ہوتا۔تو مجھے آپ کے سامنے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نا تھی۔“
”اس جہاز پر ہاتھی بھی تھے؟“
”ہاں!“
تمہیں اس کے مطلق یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں غرق ہوا ہے؟“
”نہیں مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ جہاز دیبل تک صحیح سلامت پہنچ گیا تھا۔“
زبیر نے پوچھا۔”اس سمندر میں تمہارے سوا لٹیروں کا کوئی اور گروہ بھی ہے؟“
”ہاں!“
”کیا یہ ممکن ہے دیبل کے حاکم نے وہ جہاز لوٹ لیا ہو؟“
”ہاں!میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ خشکی کے ڈاکو سمندر کے لٹیروں سے زیادہ خطرناک ہیں۔“
(قسط نمبر30)
اس گفتگو کے بعد گنگو کے ساتھ زبیر کی دلچسپی بڑھ گئی۔جےرام عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔گنگو کی سرگشت نے زبیر کی طرح اسے بھی متاثر کیا لیکن ایک وفادار سپاہی کی طرح وہ راجہ کو نکتاچینی سے بلند سمجھتا تھا۔وہ رعایا کے کسی فرد کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے تیار ناتھا کہ وہ کسی ذاتی رنجش کی بنا پر راجہ کے خلاف اعلانِ جنگ کردیے۔وہ راجووں کی تقدیس کے مقابلے میں رعایا کی کمتری کا قائل تھا۔تاہم جب زبیر نے گنگو سے پرامن رہنے کا وعدہ لےکراس کی زنجیریں کھلوا دیں تو اس نے مزاحمت نا کی۔
چند دن زبیر کی صحبت میں رھ کہ گنگو نے اپنے خیالات میں عجیب تبدیلی محسوس کی۔زبیر نے چند ملاقاتوں میں روم اور ایران کے خلاف مسلمانوں کی ابتدائی جنگوں کا ذکرکے یہ ثابت کردیاتھا کہ دنیا میں صرف اسلام ہی ایسا نظام پیش کرتا ہے جو جبرواستبداد کی حکومتوں کا خاتمہ کرسکتا ہے۔گنگو ایک ڈاکو کی زندگی اختیار کرکے سماج کے تمام مذہبی عقاید سے کنارہ کش ہوچکا تھا۔اس کے لیے دنیا ایک وسیع جھیل تھی، جس میں چھوٹی مچھلیاں بڑی مچھلیوں کو نگلتی ہیں، وہ خود کو ایک چھوٹی مچھلی سمجھ کے ہر بڑی مچھلی کے ساتھ جنگ کے لیے تیار تھا۔مسلمانوں کے ساتھ اس کی ہمدردی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ روحِ زمین پر بڑی مچھلیون کے خلاف برسرِپیکار تھے۔
ایک دن زبیر نے اسے سمجھایا کہ ”تم ظلم کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہو لیکن تمہارا ہتھیار دشمن کے ہتھیار سے مختلف نہیں۔انھوں نے تمہاری کشتی جلائی تھی اور تم ان کے جہاز جلاتے ہو دونوں کا اصول ظلم ہے۔جس طرح کئی بےگناہ ان کے ظلم کا شکار ہوتے ہیں اسی طرح کئی بےگناہ تمہارے ظلم کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ تم خود تسلیم کرچکے ہوکہ تم دونوں میں کوئی فرق نہیں۔تم دونوں میں سے کسی کے پاس عدل و انصاف اور امن کا قانون نہیں۔ اور جب تک تم دونوں میں سے ایک کے پاس یہ قانون نہیں تم دونوں کی تلواریں ٹکراتی رہیں گی۔ ایک تلوار کند ہوگی تو تم دوسری اٹھا لوگے اور ایک کمان ٹوٹے گی تو تم دوسری بنا لو گے۔ لیکن ظلم کے مقابلے میں حق و انصاف کے لیے لڑنے والے انسان اپنے حریف کی تلوار کند ہی نہیں کرتے بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے چھین لیتے ہیں۔ایران و روم پر عربوں کی فتح دراصل نظامِ باطل پر نظامِ حق کی فتح تھی۔ایران مصر اور شام کے وہ لوگ جو کل تک حق پرستوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، آج افریقہ اور ترکستان سے ظلم کی طاقتوں کو مٹانے کے لیے ہمارے دوش بدوش لڑرہے ہیں۔“
گنگو نے متاثر ہوکر پوچھا۔”کیا میں بھی آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں؟“
زبیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”ایک ڈاکو کی حثیت سے نہیں۔ہمارا کام بھٹکے ہوئے قافلوں کو لوٹنا نہیں انھیں سلامتی کا راستہ دیکھانا ہے وہ انسان جو خود ایک غلط مسلک پر کاربند ہو، ایک صحیح اصول کا علمبردار نہیں ہوسکتا۔“
گنگو نے نادم سا ہوکر کہا۔”اگر میں آپ کو یقین دلاوں کے میں ایک لٹیرے کی زندگی سے توبہ کرچکا ہوں تو کیا آپ میرا یقین کرلیں گے؟“
”میں خوشی سے تم پر اعتبار کروں گا۔“
”اور آپ مجھے آزاد بھی کردیں گے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”اگر تم توبہ کے لیے یہ شرط پیش کرو، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اس لیے توبہ نہیں کررہے کہ تم اپنے افعال پر نادم ہو اور اپنی اصلاح کرنے چاہتے ہو بلکہ اس لیے کہ تم آزاد ہونا چاہتے ہو۔“
”لیکن میری توبہ سے آپ یہ خیال تو نہیں کریں گے کہ میں بزدل ہوں؟“
”نہیں۔ توبہ کرنا بہت بڑی جرات کا کام ہے۔“
”تو میں آپ سے ایک ڈاکو کا پیشہ ترک کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔“
”مجھے تم پہ یقین ہے اور اگر تم اپنے ساتھیوں کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوتو میں تم سب کو آزاد کردوں گا، اور جس جگہ کہو گے اتاردوں گا۔“
گنگو نے کہا۔”میرے ساتھیوں نے صرف میری وجہ سے یہ پیشہ اختیار کیا تھا۔ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو میری راہنمائی کے بغیر ایسی جرات نہیں کرسکتے اور اگر آپ انھیں سندھ کے کسی غیرآباد حصے پر اتار دیں تو پھر سے ماہی گیری کا پیشہ اختیار کرلیں گے۔وہ مدت سے میرے ساتھ ہیں اور انھیں پہچانے گا بھی کوئی نہیں لیکن ان میں چار آدمی خودسر ہیں۔ان کے متعلق میں آپ کو یقین نہیں دلاسکتا۔مجھے خود اپنے اوپر اعتبار نہیں اگر آپ نے مجھے آزاد کردیا تو ممکن ہے کہ کسی ظالم سرادر کو دیکھ کر میں صبر نا کرسکوں اور پھر اسی ظلم پر اتر آوں۔اگر آپ مجھے اپنے ساتھ لیں چلیں تو ممکن ہے کہ آپ کے ملک میں رھ کے میں بھی آپ جیسا انسان بن جاوں۔وہ چار آدمی جن کا میں نے ذکر کیا ہے میری طرح اس جہاز پر ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ آپ کی باتیں انھیں بھی متاثر کرتی اگر آپ اجازت دیں تو میں آپنے ساتھیوں سے مل لوں۔“
(قسط نمبر31)
اگلےدن جہاز ایک ڈاپو کے کنارے لنگراندز ہوئے۔زبیر گنگو کو ساتھ لےکر دلیپ سنگھ کے جہاز پرچلاگیا۔گنگو نے اپنے ساتھیوں کے سامنے سندھی زبان میں مختصر تقریر کی۔رہائی کا مثدہ سن کے قیدیوں کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے لیکن جب زبیر نے یہ بتایا کہ وہ لوٹ مار سے توبہ کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کا ساتھ چھوڑ چکا ہے تو بعضوں کی خوشی غم میں تبدیل ہوگئی۔ گنگو نے یکے بعد دیگرے سب سے قسمیں لیں لیکن تین آدمی جن میں سے ایک وہ بھی تھاجس کے آدھے سر اور داڑھی اور مونچھوں پر دلیپ سنگھ کے ساتھی اپنے استروں کی دھاڑ کی آزمائش کرچکے تھے۔مذبذب ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
گنگو نے ان سے مخاطب ہوکرکہا۔”کالو، داسو اور موتی، تم کچھ عرصہ میرے ساتھ رہو گے۔“
اس کے بعد اس نے زبیر سے مخاطب ہوکر کہا۔”میں ان کے پرامن رہنے کی ضمانت دیتا ہوں۔“ زبیر نے دلیپ سنگھ سے چند باتیں کرنے کے بعد ملاحوں کو قیدیوں کی زنجیریں کھولنے کا حکم دیا۔
کالو،داسو،موتی اور گنگو زبیر کے ساتھ دوسرے جہاز میں چلے گئے۔ داسو کا عجیب و غریب حلیہ دیکھ کر تمام عرب اس کے گرد جمع ہوگئے۔علی نے بےاختیار ایک قہقہہ لگایا اور عورتوں تک یہ خبر پہنچانے کے لیے بھاگا اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ہاشم کے علاوہ چند اور بچے بھی تھے۔تمام لوگ حیران ہوکر اسے دیکھنے لگے، ہاشم نے اگے بڑھ کے معصومانہ انداز میں پوچھا۔”تمہارے چہرے کے بائیں طرف بال نہیں اگتے؟“
تمام عرب ہنس پڑے۔علی کا قہقہہ سب سے بلند تھا۔گنگو نے ہنستے ہوئے ہاشم کو گود میں اٹھا لیا۔
شام کے وقت خالد نے زبیر سے کہا۔”ناہید کا خیال ہے کہ گنگو کو ابا حضور کے جہاز کا ضرور علم ہوگا۔وہ بذاتِ خود گنگو سے چند سوالات پوچھنے پر اصرار کررہی ہے۔“
زبیر نے کہا۔”میرے خیال میں ہمیں گنگو کے باتوں پر اعتبار کرنا چاہیے۔“
خالد نے کہا۔”لیکن ناہید یہ کہتی ہے کہ اگر اسے علم نا بھی ہوا تو بھی وہ ڈھونڈنے میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔کل انھیں کوئی خواب نظر آیا تھا اور وہ کہتی ہے کہ اباجان زندہ ہیں۔“
”پوچھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن بہتر یہ ہے ہے کہ وہ گنگو پر کوئی شک و شبہ ظاہر نا کریں۔جاو اپنی بہن کو بلا لاو۔میں گنگو کو بلاتا ہوں۔“
دلیپ سنگھ نے گنگو کو بلا لیا اور ناہید کے ساتھ مایا دیوی بھی آگئی۔ناہید کے چہرے پر سیاہ نقاب تھا۔اس نے مایا دیوی کے کان میں کچھ کہا، اور مایادیوی کے اثبات میں سر ہلانے پر اپنا ہار اتار کر اس کے ہاتھ میں دےدیا۔
مایا دیوی نے ہار گنگو کے ہاتھ میں دے کرکہا۔”آپ نے چنددن قبل ان کے باپ کے جہاز کا ذکرکیا تھا۔اگر اپ ان کے باپ کا پتہ لگا سکیں تو یہ آپ کا انعام ہے۔“
گنگو نے رنج و ندامت سے آبدیدہ ہوکریکے بعددیگرے خالد اور زبیر کی طرف دیکھا اور پھر ناہید سے مخاطب ہوکرکہا۔”بیٹی میں اتناگرا ہوا تو نا تھا!“
ناہید نے اس کے آنسووں سے متاثر ہوکر کہا۔”آپ کو غلط فہمی ہوئی۔مجھے آپ پر شک نہیں میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ ہماری مدد کریں۔“
”اس کے لیے مجھے ہار دینے کی ضرورت نا تھی۔میں زبیر کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتا۔اگر کوئی لٹیرا اس جہاز کو لوٹتا تو مجھے ضرور معلوم ہوجاتا لیکن مجھے شک ہے کہ وہ جہاز دیبل کی بندرگاہ کے آس پاس شہر کے حاکم نے لوٹا ہے۔“
ناہید نے کہا۔”میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میرا باپ زندہ ہے۔“
گنگو نے جواب دیا۔”اگر وہ زندہ ہے تو سندھ کے کسی قیدخانے میں ہوگا۔ جہاں سے لوگ موت سے پہلے نہیں نکلتے لیکن میں ان کا سراغ لگانے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔اگر ان کا پتہ مل گیا تو میں مکران کے حاکم کے پاس اطلاح بھیج دوں گا۔“
یہ کہہ کروہ زبیر سے مخاطب ہوا۔”آپ مجھے دیبل کے آس پاس اتار دیں اور جےرام اگر میری مدد کرے تو میں بہت جلد ان کا پتہ لگا سکوں گا۔“
مایا دیوی نے کہا۔”میں اپنے بھائی کی طرف سے تمہاری مدد کا وعدہ کرتی ہوں۔دیبل کا حاکم ان کا دوست ہے اور وہ ان سے کوئی بات نہیں چھپائے گا۔“
گنگو نے کہا۔”حاکم کسی کے دوست نہیں ہوتے اور دیبل کے حاکم کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ زبیر سے مخاطب ہوا۔”آپ دیبل کی بندرگاہ پر ٹھہرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟“
زبیر نے جواب دیا۔”میرا تو ارادہ نا تھا لیکن جےرام کے مجبور کرنے پر میں ایک دو دن کا ارادہ کرچکا ہوں۔“
گنگو نے کچھ سوچ کرجواب دیا۔”مجھے معلوم نہیں کے سندھ کے راجہ اور دیبل کے حاکم پر جےرام کا کتنا اثر ہے۔ورنہ میں آپ کو سندھ کے ساحل پر اترنے کا مشورہ نا دیتا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”ہمارے ساتھ سندھ والوں کے تعلقات اتنے برے نہیں پچھلے دنوں ابوالحسن کے متعلق پوچھنے کے لیے والئی مکران وہاں گیا تھا راجہ اس کے ساتھ غرور سے ضرور پیش آیا۔لیکن اس کے ساتھ دست درازی نہیں کی۔“
گنگو نے جواب دیا۔”اس کا جہاز خالی ہوگا۔ لیکن آپ کے جہاز میں ہاتھی ہیں اور وہ اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے ہاتھیوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔اس کے علاوہ آپ کے ساتھ عورتیں ہیں جن کے لیے اس کے دل میں کوئی عزت نہیں۔“
(قسط نمبر32)
گنگو، قالو،داسو اور موتی کے علاوہ باقی تمام قیدی دیبل سے چند کوس دور ایک غیر آباد مقام پر اتار دیے گئے۔گنگو،ابوالحسن کا سراغ لگانے کا بیڑہ اٹھا چکا تھا،اس لیے اس نے ایک گجراتی تاجر کے بھیس اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ دیبل کی بندرگاہ پر اترنے کا فیصلہ کیا۔جےرام اس مہم میں گنگو کی مدد کرنے کا وعدہ کرچکا تھا۔تاہم اس نے زبیر کو بار بار یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ حکومت سندھ ایسا نہیں کرسکتی اگر ابوالحسن کا جہاز دیبل کے آس پاس لوٹا گیا ہے تو دیبل کے حاکم اور راجہ کو اس کی خبر نہیں ہوگی۔
زبیر نے جواب دیا۔"مجھے خود یہ شبہ نہیں۔لیکن میں ناہید کے شبہات دور کرنا چاہتا ہوں۔"
شام سے کچھ دیر پہلے یہ جہاز دیبل کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوئے، مایا دیوی نے تمام عرب عورتوں کو اپنے گھر لےجانے پر اصرار کیا۔جےرام نے تمام ملاحوں کو دعوت دی۔لیکن گنگو نے دلیپ سنگھ کے کان میں کچھ کہا،اور اس نے جےرام کو مشورہ دیا۔”آپ کئی ماہ کے بعد دیبل وآپس جارہے ہیں۔ممکن ہے آپ کی جائے قیام پر کسی اور کا قبضہ ہو ممکن ہے دیبل کا حاکم انھیں شہر میں جانے کی اجازت دینے میں کوئی عزر پیش کرے۔“
جےرام نے جواب دیا۔”اسے کیا عزر ہوسکتا ہے۔وہ خود آپ کا میزبان بننے پر اصرار کرے گا۔اگر آپ میری مدد نا کرتے تو کاٹھیاوار کے بیش قیمت تحائف راجہ تک نا پہنچ سکتے۔اب تو راجہ پر بھی آپ کا حق ہے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”آپ شہر کے گورنر سے مل آئیں۔پھر ہمیں آپ کے ساتھ چلنے میں کوئی اعتراض نا ہوگا۔“
مایا دیوی نے کہا۔”بھیا! آپ جائیں۔اگر آپ کے مکان پر کوئی اور قابض ہوا تو یہ بری بات ہوگی۔آپ مہمانوں کو ٹھہرانےکا انتظام کرآئیں۔میں اتنی دیر بہن ناہید کے پاس ٹھہروں گی۔“
جےرام نے بندرگاہ سے ایک ملازم کو بلاکر اسے تحائف اٹھانے کا حکم دیااور سیدھا دیبل کے گورنر پرتاپ رائے کے محل چلا گیا۔پرتاپ رائے نے کاٹھیاوار کے تحائف کے ذکر کے سوا باقی سرگزشت بےتوجہی سے سنی لیکن جب اس نے یہ بتایا کہ اسے ڈاکووں سے بچا کر یہاں پہنچانے والے سراندیپ کے جہاز ہیں تو اس نے چونک کر سوال کیا۔”کیا یہ جہاز وہی تو نہیں جن پر سراندیپ کے راجہ نے عربوں کو ہاتھی بھیجے ہیں؟“
”ہاں! لیکن آپ کو کیسے معلوم؟“
”یہ بعد میں بتاوں گا۔پہلے میرے سوال کا جواب دو۔اس میں عرب عورتیں اور بچے بھی ہیں؟“
”ہاں!“
”یہ جہاز بحری ڈاکوووں کے دو جہاز ڈبو چکے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھی طرح مسلح ہیں۔وہ بندرگاہ سے روانہ تو نہیں ہوگئے؟“
”نہیں! میں مسافروں کو اپنے پاس ایک دو دن مہمان رکھنا چاہتا ہوں۔انھوں نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں۔میں آپ سے یہ پوچھنے آیا تھا کہ ان کے شہر میں ٹھہرنے پر آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟“
”اعتراض! نہیں۔وہ باقی تمام عمر ہمارے مہمان رہیں گے۔میں مہاراج سے ان کے جہاز لوٹنے اور انھیں گرفتار کرنے کی اجازت لے چکا ہوں۔“
(قسط نمبر33)
اگر اس محل پر بجلی گرتی تو بھی شاید جےرام اس قدر بدحواس نا ہوتا وہ ایک لمحہ کے لیے ایک بےجان مجسمے کی طرح بےحس و حرکت کھڑا رہا۔بالآخر اس نے سنبھل کر کہا۔”آپ مذاق کرتے ہیں؟“
پرتاپ رائے نے ذرا سخت لہجے میں جواب دیا۔”میں بچوں کے ساتھ مذاق کرنے کا عادی نہیں۔ہمیں سندھی تاجروں سے ان جہازوں کی آمد کی اطلاح مل گئی تھی اور مہاراح کا حکم یہی ہے کہ ان جہازوں کو چھین لیا جائے۔مہاراح تحائف کا یہ صندوق دیکھنے سے زیادہ اس بات سے زیادہ خوش ہوں گے کہ آپ مال و متاع سے بھرے ہوئے دو جہاز یہاں لے آئے ہیں۔“
جےرام نے چلا کرکہا۔”نہیں! یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔وہ میرے مہمان ہیں۔وہ میرے دوست اور محسن ہیں۔“
پرتاپ رائے نے ڈانٹ کرکہا۔”ہوش سے بات کرو۔تمہیں معلوم نہیں تم کہاں کھڑے ہو؟“
جےرام نے کہا۔”یہ انسانیت کے خلاف ہے۔تم ایک ایسی قوم کی دشمنی مول لو گے جو سندھ جیسی کئی سلطنتیں پاوں کے نیچے روند چکی ہیں۔مہاراج کو اس قسم کا مشورہ دینے والے نے اچھا نہیں کیا۔میں جاتا ہوں۔مہمان کی رکھشا ایک راجپوت کا دھرم ہے۔“
”راجہ کے باغی ہوکر تم کہیں نہیں جاسکتے۔“ یہ کہتے ہوئے پرتاپ رائے نے پہرے داروں کو آواز دی اور آن کی آن میں چار چار سپاہیوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ اس کے گرد گھیرا ڈال لیا۔“
جےرام کو اپنی تلوار بےنیام کرنے کا موقع نا ملا۔پرتاپ رائے نےکہا۔”تمہیں کچھ دیر میری قید میں رہنا ہوگا۔بندرگاہ سے وآپس آکر میں تمہیں آزاد کردوں گا۔کل تمہیں مہاراج کے پاس روانہ کردیا جائے گا۔اگر تم اپنے مہمانوں کی جان بخشی کروا سکو، تو میں انھیں رہا کردوں گا۔لیکن تمہاری خوشی کے لیے میں راجہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتا۔“
سپاہیوں نے جےرام کو محل کی ایک کوٹھی میں بند کردیا۔جےرام دروازوں کو دھکے دینے، دیواروں سے سر پٹخنے اور شور مچانے کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔اسے اپنی بہن کا خیال آیا اور پھر اٹھ کر دروازے سے ٹکریں مارنے لگا۔اس نے تلوار نکالی لیکن مضبوط کواڑ پر چند ضربیں لگانے سے وہ ٹوٹ گئی۔اس نے ٹوٹی ہوئی تلوار کا پھل اٹھا کراپنے سینے میں گھونپے کا ارادہ کیا لیکن کسی خیال نے اس کا ہاتھ روک لیا وہ اٹھ کر بیقراری سے کوٹھری میں ٹہلنے لگا۔پھر اسے ایک خیال آیا اور وہ پہرے داروں کو آوازیں دینے لگا۔انھیں طرح طرح کے لالچ دیے لیکن کسی نے اس کے حال پر توجہ نا دی۔اس نے راجہ کے پاس شکایتیں کرنے کی دھمکیاں دیں، لیکن جواب میں پہرے داروں کے قہقہے سنائی دیے۔
جےرام کے شہر جانے سے کچھ دیر بعد گنگو اور اس کے ساتھی شام کے دھندلکے میں زبیر سے رخصت ہوکر شہر کی طرف روانہ ہوئے۔شہر میں داخل ہوتے ہی انھیں پندرہ بیس سوار اور ان کے پیچھے قریباً دوسو پیدل سوار بندرگاہ کا رخ کرتے ہوئے دیکھائی دیے۔گنگو کا ماتھا ٹھنکا اور وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک طرف ہوکرکھڑا ہوگیا۔سوار اور پیدل گزر گئے تو گنگو نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”شہرکا سردار مسلح آدمی لےکر بندرگاہ کی طرف جارہا ہے۔ان کی رفتار سے لگ رہا ہے ان کی نیت ٹھیک نہیں۔ہمیں وآپس چلنا چاہیے۔“
کالو نے کہا۔”اگر وہ واقعی کسی بری نیت سے جارہے ہیں تو ہم لوٹ کرکیا کرسکتے ہیں انھیں تو جہازوں کے لنگر اٹھانے اور بادبان اٹھانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ہمیں اپنی فکرکرنی چاہیے۔“
گنگو نے کہا۔”اگر تم میرا ساتھ چھوڑنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی۔لیکن میں ضرور جاوں گا اور داسو اور موتی تم بھی جانا چاہو تو جا سکتے ہو۔“
ان دونوں نے یک زبان ہوکرکہا۔”نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔“
کالو نادم سا ہوکر بولا۔”میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں؟“
گنگو نے کہا۔”یہ ہم وہاں جا کے دیکھیں گے۔“
موتی نے کہا۔”معلوم ہوتا ہے کہ جےرام نے اپنے محسنوں کو دھوکا دیا ہے۔“
گنگو نے جواب دیا۔”ہوسکتا ہے لیکن اگر اس کی نیت بری ہوتی تو وہ اپنی بہن کو وہاں کیون چھوڑجاتا۔“
داسو نے کہا۔”یہ سمجھنا مشکل نہیں۔وہ اپنی بہن کو اس لیے ان کے پاس چھوڑ گیا تھا کہ وہ اس کے جانے بعد بندرگاہ پر ٹھہرنے کا ارادہ تبدیل نا کردیں۔میرا خیال ہے کہ وہ لڑکی بھی اس سازش میں شریک تھی۔دیکھنے میں وہ کتنی بھولی بھالی ہےوہ جہاز پر اس عرب عورت کو اپنی بہن کہا کرتی تھی۔“
گنگو نے کہا۔”اور جےرام خالد کو چھوٹا بھائی کہا کرتا تھا اور جب زبیر بیمار تھا۔وہ دن رات اس کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔جھوٹا، مکار، دغاباز! کاش وہ میرے ہاتھ پڑ جائے لیکن وہ لڑکی___کالو وہ ہمارے ہاتھ سے ناجائے اسے پکڑ کر ہم بہت سے کام نکال سکتے ہیں۔چلو جلدی کرو۔یہ باتوں کا وقت نہیں۔“
گنگو اور اس کے ساتھی پوری رفتار سے بندرگاہ کی طرف بھاگنے لگے۔
(قسط نمبر34)
عرب ملاح جہاز پر نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد دعا کررہے تھے کہ دلیپ سنگھ نے اپنے جہاز سے ان کے جہاز پر پہنچ کر انھیں بندرگاہ کی طرف متوجہ کیا۔زبیر اور اس کے ساتھ ساحل پر مسلح سپاہی دیکھ کر بہت پریشان ہوئے۔چار آدمی ایک کشتی پر سوار ہو کر جہاز پر پہنچے اور ان میں سے ایک نے سندھی زبان میں کہا۔”دیبل کے حاکم سردار پرتاپ رائے آپ لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، وہ ان جہازوں کے آفسروں سے ملنا چاہتے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے پرتاپ رائے کے پیام رساں سے پوچھا۔”لیکن جےرام کہاں ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”وہ مہاراج پرتاپ رائے سے مل کر آپ لوگوں کی دعوت کا انتظام کرنے کے لیے اپنی قیام گاہ پر چلے گئے ہیں۔مہاراج خود آپ کا استقبال کرنے کے لیے آئے ہیں۔“
دلیپ سنگھ نے زبیر سے عربی میں کہا۔”یہ ضرور کوئی فریب ہے لیکن ہمارے لیے جانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔“
زبیر نے جواب دیا۔”میں خود حیران ہوں کے دیبل کا حکمران اتنے سپاہی ساتھ لے کر کیوں آیا ہے لیکن مجھے جےرام سے فریب کی توقع نہیں۔اس کی بہن اس جہاز پر ہے۔“
ایلچی نے پھر پوچھا۔”میں مہاراج کے پاس کیا جواب لےجاوں؟“
زبیر نے کہا۔”ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں۔“
زبیر اور دلیپ سنگھ کشتی میں سوار ہوکر ساحل پر پہنچے۔دلیپ سنگھ پرتاپ رائے کے سامنے جھک کر آداب بجالا، لیکن زبیر کی گردن میں خم نا آنے پر پرتاپ رائے نےکہا۔”تو تم عرب کے باشندے ہو۔تم میں سے کسی کو بڑوں کا ادب کرنا نہیں آتا؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”ان کے مذہب میں انسانوں کے سامنے جھکنا پاپ ہے۔“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”ہمارے پاس رھ کر اسے انسانوں کے سامنے جھکنا بھی آجائے گا۔“
دلیپ سنگھ نے پوچھا۔”آپ کا مطلب؟“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”کچھ نہیں۔تمہارے جہازوں پر کیا ہے؟“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”جےرام نے آپ کو سب کچھ بتا دیا ہوگا۔آپ ہم سے کیوں پوچھتے ہو؟“
”جےرام نے کچھ بتایا ہے۔اگر وہ صحیح ہے تو یہ جہاز یہاں سے نہیں جاسکتے۔“
”جہاز یہاں سے نہیں جاسکتے۔وہ کیوں؟“
”یہ راجہ کا حکم ہے۔“
دلیپ سنگھ نے چاروں طرف دیکھا،زبیر اور اس کے گرد مسلح سپاہیوں کا گھیرا تنگ ہوچکا تھا۔اس نے عربی زبان میں زبیر کو صورتِ حال سے آگاہ کیا اور زبیر کے سمجھانے پر وہ پرتاپ رائے سے مخاطب ہوا: ”یہ سندھ کے نادار ملاحوں کی کشتیاں نہیں جن پر آپ دست درازی کرسکیں، یہ عربوں کے جہاز ہیں۔ان پر اس قوم کی بیٹیاں سوار ہیں جو سرکشوں اور باغیوں کے مقابلے میں آندھی کی طرح اٹھتی ہے اور بادل کی طرح چھاجاتی ہے اور جو آسمان سے بجلیاں گرتی دیکھ کر نہیں ڈرتے، وہ ان کی تلوار دیکھ کر نہیں ڈرتے۔“
پرتاپ رائے نے غضب ناک ہوکر تلوار نکال لی۔دلیپ سنگھ اور زبیر نے تلواریں کھنچنے کی کوشش کی لیکن کئی ننگیں تلواروں اور چمکتے ہوئے نیزوں نے ان کے ہاتھ روک لیے۔پرتاپ رائے نے کہا۔”تم سندھی معلوم ہوتے ہو لیکن تمہاری رگوں میں کسی بزدل غدار اور کمینے آدمی کا خون ہے۔“
دلیپ سنگھ نے جواب دیا۔”دنیا میں سب سے بڑی غداری اور کمینگی اپنے مہمان کو دھوکہ دینا ہے اور مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تم۔۔۔۔۔۔۔۔“
دلیپ سنگھ کا فقرہ پورا نا ہوا تھا کہ پرتاپ رائے کی تلوار کی نوک اس کے سینے میں اتر گئی اور وہ تیورا کر زمین پر گرپڑا۔زبیر نے جھک کر اسے ہاتھوں کا سہارا دیا۔اس نے ایک جھرجھری لےکر زبیر کی طرف دیکھا اور کہا۔”زبیر! تمہارے ساتھ میرا سفر مکمل ہوا۔میں دل پر ایک بھاری بوجھ لےکر جارہا ہوں۔میں جہالت کی گود میں پلا۔ابوالحسن نے مجھے انسان بنایا اور تم نے میرے دل میں اسلام کے لیے تڑپ پیدا کی لیکن نامعلوم میں اب تک کیوں اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے سے جھجھکتا رہا۔میں لوگوں کی نظروں سے چھپ کر نمازیں پڑھ چکا ہوں۔روزے رکھ چکا ہوں۔لیکن اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے سے جھجھکتا رہا،اب میں ارادہ کررہا تھا کہ بصرہ پہنچ کر مسلمان ہونے کا اعلان کروں، لیکن خدا کو یہ منظور نا تھا۔مجھے ناہید کا افسوس ہے۔خدا اسے بےرحم دشمن کے ہاتھوں سے بچائےمیرے دوست! مجھے۔۔۔۔۔بھول نا جانا! میرے لیے دعا کرنا!!“
دلیپ سنگھ نے پھر ایک جھرجھری لےکر آنکھیں بند کرلیں۔چند بارکلمہ توحید دہرایا۔اس کی آواز بدھم اور خفیف ہوتی گئی۔ہونٹ کپکپائے،بھنچے اور ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے۔بصرہ کے مسافر کی پتھرائی ہوئی آنکھیں کسی ایسی منزل کو دیکھ رہی تھیں جس کے مسافر وآپس نہیں آتے۔دلیپ سنگھ دائمی نیند کی گود میں جاچکا تھا۔زبیر نے اناللہ واناالیہ راجعون کہا اور دلیپ سنگھ کا سر زمین پر رکھ کر حقارت سے پرتاپ رائے کی طرف دیکھنے لگا۔
سپاہی کشتیوں پر سوار ہوکر تیر برساتے ہوئے جہازوں کا رخ کررہے تھے اور جہازوں سے تیروں کا جواب تیروں میں آرہا تھا۔زبیر کے لیے فرار کی تمام راہیں بند تھیں۔پرتاپ رائے کے اشارے سے آٹھ دس سپاہی اس پر پل پڑے اور اسے رسیوں سے جکڑ کر زمین پر ڈال دیا۔زبیر حسرت سے اپنے جہازوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
(قسط نمبر35)
جہاز پر ناہید کے علاوہ دوسری عرب عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ لڑرہی تھیں۔ہاشم دیر تک دوسرے بچوں کے ساتھ ایک کونے میں چھپ کرنا بیٹھ سکا۔وہ اوپر آکر خالد کے قریب کھڑا ہوگیا اور پوچھنے لگا۔”ہمیں کتنی بات بحری ڈاکووں سے مقابلہ کرنا پڑے گا؟“
خالد نے کمان میں تیر چڑھاتے ہوئے مڑ کر دیکھا۔ہاشم کے قریب مایا دیوی حیران و ششدر کھڑی تھی۔اس نے کہا۔”مایا دیوی تم ہاشم کو نیچے لے جاو۔“مایا دیوی ہاشم کو اٹھانے لگی تو ایک سنسناتا ہوا تیر آیا اور ہاشم کے سینے میں پیوست ہو گیا۔مایا دیوی نے بھاگ کر اسے ایک کونے میں لٹا دیا اور تیر نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔ہاشم ایک ہلکی سے آہ اور معمولی سی کپکپاہٹ کے بعد ٹھنڈا ہوگیا مایا دیوی سسکیاں لیتی ہوئی اٹھی۔لیکن پیچھے سے ایک مضبوط ہاتھ کی گرفت میں بےبس ہوکر رھ گئی۔
”کون؟ گنگو!“ اس نے چاند کی دھیمی روشنی میں آنکھیں پھاڑ کردیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں۔میں ہوں۔کالو اٹھا لو اسے اور اگر شور کرے تو گلا گھونٹ دینا۔“
کالو مایا دیوی کو اٹھا کر جہاز کی پچھلی طرف رسی کی ایک سیڑھی سے اتر کر کشتی پر سوار ہوگیا۔گنگو نے اگے بھر کے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”اب مقابلہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ان کی تعداد ہم سے بہت زیادہ ہے اور عقب سے بھی دوجہاز ہم پر حملہ کرے کے لیے آرہے ہیں۔میری کشتی جہاز کے پیچھے کھڑی ہے۔میں تمہیں اور ناہید کو بچا سکتا ہوں۔“
خالد نے بےپروائی سے جواب دیا۔”ہم اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔“
”لیکن تم نہیں جانتے وہ لوگ تمہاری بہن کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔“
”لیکن میں جہاز کی تمام عورتوں کو اپنی بہنیں سمجھتا ہوں، اب جےرام کی دغابازی سے مجھے کسی پر اعتبار نہیں رہا۔“
ایک تیر ناہید کو لگا اور وہ پسلی پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔خالد نے اگے بڑھ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا۔”میں ٹھیک ہوں۔خالد! تم میری فکر نا کرو۔“
خالد نے اس کے اصرار کے باوجود اسے اٹھا کر ہاشم کے قریب بیٹھا دیا۔ہاشم کی لاش دیکھ کر ناہید کو اپنا زخم بھول گیا۔اس نے ہاشم کو جھنجوڑا، آوازیں دیں اور انتہائی کرب کی حالت میں بولی۔”ہاشم تم اوپر کیوں آئے؟“
گنگو نے بےخبری کے عالم میں باہید کی پسلیوں سے تیر نکال کر پھینک دیا اور داسو سے کہا۔”اسے اٹھا لو۔“
داسو ناہید کو اٹھانے کے لیے جھکا لیکن خالد نے اگے بڑھ کر اسے پیچھے دھکیل دیا اور کہا۔”تم جےرام اور یہ سپاہی مختلف راستوں سے آئے تھے لیکن تم سب کا مقصد ایک ہے جاو ہم تمہیں ایک دفعہ معاف کر چکے ہیں۔“
گنگو نے کہا۔”بیٹا! اگر باتوں کے لیے وقت ہوتا تو میں تمہارا شک دور کرنے کی کوشش کرتا، لیکن ہم پر دشمن کا گھیرا تنگ ہورہا ہے اور اگر ہم نے چند لمحے اور ضائع کردیے تو بھاگنے کے تمام راستے بند ہوجائیں گے۔افسوس میں تمہیں سوچنے کی مہلت بھی نہیں دےسکتا۔بیٹی! مجھے معاف کرنا۔“ یہ کہتے ہوئے گنگو نے اچانک ایک چھوٹا ساڈنڈا خالد کے سرپر دے مارا۔ خالد لڑکھڑایا لیکن گنگو نے اٹھا کر اسے کندھے پر رکھ لیا۔داسو نے ناہید کو اٹھا لیا اور گنگو نے داسو سے کہا۔”تم یہ کمانیں اٹھا لو، یہ ہمیں کام دیں گی۔“
حملہ آور کمندیں ڈال کر جہازوں پر سوار ہو رہے تھے اور تیروں کی لڑائی تلواروں کی لڑائی میں تبدیل ہوچکی تھی۔اس ہنگامے میں کسی کو ناہید، خالد اور مایا دیوی کے اغوا کیے جانے کا پتہ نا چلا۔جب تک یہ لوگ کشتی میں سوار ہوئے، چند کشتیاں عقب سے بھی جہازوں کے قریب پہنچ چکی تھیں۔گنگو اور اس کے ساتھیوں نے سندھی زبان میں ہاہو کر کے حملہ آوروں کو شک نا ہونے دیا اور بچتے بچاتے جہازوں سے ایک طرف نکل گئے۔
(قسط نمبر36)
گنگو کے کہنے پر مایا دیوی نے اپنا دوپٹہ پھاڑ کر ناہید کے زخم پر پٹی باندھ دی، خالد کو اپنے ساتھ دیکھ کر اب اسے یہ بھی خیال نا تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ گنگو پانی میں کپڑا بھگو بھگو کر خالد کے ماتھے پر رکھ رہا تھا اور مایا دیوی کو وہ شخص جو چند لمحے بیشتر ایک بدترین دشمن کی صورت میں نمودار ہوا تھا ایک غمگسار نظر آرہا تھا۔
کشتی خطرے کی حد سے دور آچکی تھی اور مایا گنگو سے ہم کلام نا ہونے کا ارادہ کرنے کے باوجود ناربار یہ پوچھ رہی تھی۔”اسے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟ یہ کیسے بہوش ہوا؟“
ناہید انتہائی رنج و ملال کی وجہ سے کسی سے ہم کلام نا ہوئی۔وہ تشویش کی حالت میں اپنے بھائی کی طرف دیکھتی اور جب گنگو یہ کہتا۔”بیٹی تم فکر نا کرو۔تمہارے بھائی کو ابھی ہوش آجائے گا۔میں تمہارا دشمن نہیں۔میں سمندر کے دیوتا کی قسم کھاتا ہوں۔“ تو ناہید خون کے گھونٹ پی کررھ جاتی۔
پھر وہ مایا دیوی سے مخاطب ہوا۔”مایا! تم ایک راجپوت لڑکی ہو۔راجپوت جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے میں تم سے پوچھتا ہوں، کیا تمہیں یہ شک تھا کہ تمہارا بھائی انھیں دھوکہ دے گا۔“
”نہیں! نہیں! میرا بھائی ایسا نہیں۔میں بھگوان کی قسم کھاتی ہوں۔“
”اور اگر یہ ثابت ہوگیا تو؟“
”تو میں۔۔۔۔۔۔۔میں کنویں میں چھلانگ لگادوں گی۔آگ میں جل جاوں گی۔اپنا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ ڈالوں گی۔بھگوان کے لیے ایسا نا کہو۔“ مایا دیوی کی ہچکیوں نے ناہید کو متاثر کیا اور اس نے کہا۔”مایا! تم ان باتوں کی پروا نا کرو۔ مجھے تم پر یقین ہے۔ اور اگر تمہارے بھائی نے ہمارے ساتھ دھوکا بھی کیا ہو تو اس میں تمہارا کیا قصور؟“
”میں کہتی ہوں میرا بھائی ایسا نہیں۔اس کی رگوں میں راجپوت کا خون ہے اور وہ اتنا احسان فراموش نہیں ہوسکتا۔“
ناہید نے کہا۔”اس وقت ہمارا دشمن وہ ہے جس نے ہمیں زبردستی جہاز سے اتارا ہے اور نامعلوم جگہ پر لےجارہا ہے۔“
گنگو نے کہا۔”بیٹی! کاش میں تمام بچوں اور عورتوں کو ساتھ لاسکتا لیکن اس کشتی پر صرف اتنی سواریوں کی جگہ تھی۔ تم نوجوان ہو اور میں تمہیں ایک بےرحم دشمن کے ہاتھوں سے بچانا چاہتا ہوں اور مایا دیوی! تم شاید باقی سب کو بچا سکو۔میں تمہاری آزادی کے بدلے باقی لوگوں کو آزاد کروانا چاہتا ہوں۔“
خالد نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں اور حیران ہوکر سب کی طرف دیکھا۔ گذشہ واقعات یاد آتے ہی وہ آتھ کر بیٹھ گیا اور دکھتے سر پر ہاتھ رکھ کربولا۔”ہمارا جہاز کہاں ہے؟ ہم کہا جارہے ہیں؟ گنگو!!! گنگو!!! ظالم دغاباز فریبی! تم نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟ وہ کیا کہیں گے۔تم ہمیں کہاں لے جارہے ہو؟“
گنگو نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔”خالد! یہ میری عمر میں پہلا موقع ہے کہ مجھے کسی کی گالی پر غصہ نہیں آیا۔تم مجھے جوجی میں آئے کہو لیکن میں نے برا نہیں کیا۔میں صرف مایا کو لینے آیا تھا لیکن تمہاری بہن کو زخمی دیکھ کر یہ گوارا نا کرسکا کہ اسے دشمن کے رحم پر چھوڑ دوں۔“
خالد نے حقارت سے مایا دیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”میں اب سمجھا۔جےرام نے ایک طرف ہم پر حملہ کرنے کے لیے سپاہی بھیج دیے اور دوسری طرف سے تمہیں مایا دیوی کو لینے کے لیے بھیج دیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ لٹیروں کے سردار تم نا تھے جےرام تھا۔“
”تم درست کہتے ہو۔میں نےتوبہ کرلی ہے لیکن جےرام نے توبہ نہیں کی۔ممکن ہے وہ اپنی بہن کی خبرسن کر توبہ کرے۔“
”تو تم ہمیں اس کے پاس نہیں لےجارہے۔“
”تم دیکھ سکتے ہو بندرگاہ کس طرف ہے اور ہم کس طرف جارہے ہیں؟“
”تو تم ہمیں کہاں لے جاو گے؟“
”کسی ایسی جگہ جہاں راجہ کے سپاہی نا پہنچ سکیں۔“
خالد نے کہا۔”اگر تمہاری نیت بری نہیں تو ہمیں اپنے ساتھیوں کے پاس چھوڑ آو۔“
گنگو نے کہا۔”تمہارے ساتھی تھوڑی دیر میں دیبل کے قید خانے میں ہوں گے۔تم قید ہونے کی بجائے قید سے باہر رھ کران کی زیادہ مدد کرسکتے ہو۔“
خالد نے قدرے پرامید ہوکر پوچھا۔”تم سچ مچ ان کی مدد کرنا چاہتے ہو؟“
گنگو نے جواب دیا۔”بیٹا مجھے تم سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نا تھی۔اگر میں تمہارا دشمن ہوتا تو یقیناً اس قدر ٹھنڈے دل سے یہ گالیاں نا سنتا۔“
اگلے دن یہ کشتی دریائے سندھ کے دہانے پر پہنچ گئی۔گنگو کو اپنے ساتھی مچھلیاں پکڑتے ہوئے مل گئے۔
(قسط نمبر37)
__قیدی___
اگلے دن کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور پہرے دار نے ہاتھ جوڑ کر جےرام کو پرنام کیا اور کہا۔” آپ کو سردار پرتاپ رائے بلاتے ہیں۔“
جےرام پہرےدار کے طرزِ عمل میں اس تبدیلی پر حیران تھا۔وہ چپکے سے اس کے ساتھ ہولیا۔پرتاپ رائے اپنے دیوان خانے کے برآمدے میں آبنوس کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے سامنے چاندی کے ایک طشت میں سراندیپ کے راجہ کے وہ تحفے پڑے ہوئے تھے، جو گذشتہ شاپ عربوں کے جہاز سے لوٹے گئے تھے۔
اس نے جےرام کو دیکھتے ہی جواہرات کے انبار کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔”جےرام! مہاراج سراندیپ کے تحائف دیکھ کر کاٹھیاوار کے راجہ کے تحائف کی نسبت زیادہ خوش ہوں گے۔ان میں سے ایک ایک ہیرا تمہارے صندوق کے سارے مال سے زیادہ قیمتی ہے۔“
جےرام نے اس پر قہر آلود نگاہ ڈالی اور اپنے ہونٹ کاٹنے لگا۔
پرتاپ راہے نےکہا۔”لیکن تمہارا چہرہ زرد اور تمہاری آنکھیں سرخ ہیں۔معلوم ہوتا ہے تم رات بھر نہیں سوئے۔کوٹھڑی میں بہت گرمی تھی۔بندرگاہ سے وآپس آکر مجھے تمہارا خیال نا آیا۔ ورنہ تمہیں اتنی دیر وہاں رکھنے کی ضرورت نا تھی۔میں نے مہاراج کی خدمت میں ایلچی بھیج دیا ہے۔ چنددنوں تک قیدیوں کے متعلق ان کا حکم آجائے گا۔“
جےرام نے کہا۔”تو آپ نے انھیں قید کرلیا ہے؟“
”ہاں! میں نے تمہیں کل بھی کہا تھا کہ یہ راجہ کا حکم ہے۔“
”آپ نے انھیں لڑکر قید کیا یا میزبان بن کر؟“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”تم ابھی بچے ہو۔لڑائی میں سب جائز ہے۔“
”میری بہن کہاں ہے؟“
”کون؟“
”میری بہن۔“
”کہاں تھی؟“
”آپ مجھے بنانے کی کوشش نہ کریں۔ایک راجپوت کی عزت پر ہاتھ ڈالنا اس قدر آسان نہیں جتنا آپ سمجھے ہیں۔میں پہلے آپ کے راجہ کا ملازم تھا اور اب میں کاٹھیاوار کے راجہ کے سفیر کی حثیت سے یہاں آیا ہوں۔اگر آپ نے میری بہن کی طرف آنکھ آٹھا کے بھی دیکھا تو یاد رکھیے میں کاٹھیاوار سے لے کر راجپوتانہ تک آگ کی دیوار کھڑی کردوں گا اور مہاراج اپنے ہزاروں سپاہیوں کی جانیں ضائع کرنے کی بجائے دیبل کے ایک مغرور حاکم کو ہمارے حوالے کردینا زیادہ مناسب سمجھین گے۔ رہے عرب وہ مہمان تھے۔مجھے افسوس ہے وہ میری وجہ سے اس مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ممکن ہے کہ ان کے متعلق میری پکار ہندوستان کے کسی گوشے میں نا سنی جائے لیکن ان کے بازو بہت لمبے ہیں۔وہ جب چاہیں گے آپ کا گلا دبوچ لیں گے۔“
پرتاپ رائے کو معلوم تھا کہ بعض اوقات راجہ کے غلط فیصلوں کا خمیازہ اہلکاروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔حاکم خطرے کے وقت اپنا قصور اہلکاروں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔عربوں کے متعلق وہ اپنے راجہ کی طرح مطمین تھا لیکن وہ کاٹھیاوار کے سفیر کی بہن کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نا تھا۔اس نے کہا۔”جےرام! مجھے تمہاری بہن کے متعلق کوئی علم نہیں۔“
”آپ جھوٹ کہتے ہیں۔میں اسے جہاز پر عرب عورتوں کے پاس چھوڑ آیا تھا۔“
”عورتیں جو جہاز میں تھیں وہ سب ہماری قید میں ہیں۔اگر تمہاری بہن ان میں ہے تو میں ابھی تمہارے ساتھ چل کر اس سے معافی مانگتا ہوں۔چلو!!!“
(قسط نمبر38)
بہن کو تلاش کرنے کی خواہش جےرام کے تمام ارادوں پر غالب آگئی۔اور وہ پرتاپ رائے کے ساتھ چل دیا۔راستے میں اس نے پوچھا۔”عرب ملاحوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”وہ سب آخری وقت تک لڑتے رہے۔عورتوں اور بچوں کے علاوہ ہم صرف پانچ آدمیوں کو زندہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔دوسرے جہاز پر سراندیپ کے ملاحوں نے معمولی مزاحمت کی اور جلد ہی ہتھیار ڈال دیے۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے بیک وقت سراندیپ اور عربوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے۔“
”میں نے صرف راجہ کے احکام کی تعمیل کی ہے اور جب تک اس عہدے پر رہوں گا ایسے احکامات کی تعمیل کرتا رہوں گا۔میرے خط کے جواب میں اگر تمہیں راجہ نے بلا بھیجا اور تم نے ان قیدیوں کو رہا کرنے کی اجازت طلب کرلی، تو مجھے خوشی ہوگی اور میں خوامخواہ کی ذمہ داری سے بچ جاوں گا۔“
محل سے نکل کر چند قدم کے فاصلے پر جےرام اور پرتاپ رائے قید خانے کی چار دیواری میں داخل ہوئے۔پہرے داروں نے پرتاپ رائے کا اشارہ پاکر عربوں کے کمرے کا دروازہ کھولا۔عورتوں نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے۔عرب ملاحوں نے جےرام کو دیکھتے ہی منہ پھیر لیے۔زبیر ایک کونے میں دیوار کے سہارے بیٹھا ہوا تھا۔اس نے نفرت اور حقارت سے جےرام کی طرف دیکھا اور منہ اپنے ساتھیوں کی طرف پھیر لیا۔
جےرام نے پرتاپ رائے کی طرف دیکھا اور کہا۔”میری بہن یہاں نہیں ہے۔وہ کہاں ہے؟“
پرتاپ رائے نے ایک پہرے دار کو آواز دے کر بلایا اور اس سے پوچھا۔”کیا تمام عورتیں اسی کمرے میں ہیں یا سراندیپ کے ملاحوں کے کمرے میں بھی کوئی ہے؟“
”نہیں مہاراج! تمام عورتیں یہیں ہیں۔“
جےرام نے بدحواس سا ہوکر جےرام کی طرف دیکھا اور ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا۔”زبیر! میری طرف اس طرح نا دیکھو میں بےقصور ہوں۔ تمہیں معلوم ہے میری بہن کہاں ہے؟“
زبیر کے منہ سے اچانک ایک بھوکے شیر کی گرج سے متلی جلتی آواز نکلی۔”تم میری توقع سے کہیں زیادہ ذلیل ثابت ہوئے ہو۔تم جھوٹ سے حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔یادرکھو! ناہید کا بال بھی بیکا ہوا تو خدا کی زمین پر کوئی ایسا خطہ نہیں ملے گا جو ہمارے انتقام سے پناہ دے سکے۔ناہید کو اڑانے کے لیے تم نے اپنی بہن کو جہاز پر چھوڑا تھا۔تمہاری تدبیر کامیاب تھی۔تم نے اس حلیف کو ہمارا میزبان بنا کر بھیجااور مجھے جہاز سے بلوالیااور خود پیچھے جہاز پر پہنچ کر نہ معلوم کس بہانے سے ناہید کو کہیں لے گئے لیکن اگر صلح اور جنگ کے لیے تم لوگوں کے اصول یہی ہیں تو یاد رکھو تمہارے جہاز کے دن گنے جاچکے ہیں۔“
پرتاپ رائے نے اچانک سپاہی کے ہاتھ سے کوڑا چھین کر زبیر کے منہ پر دے مارا اور دوسرے کوڑے کے لیے تیار کھڑا تھا کہ جےرام نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑلیا۔پرتاپ رائے نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”تم راجہ کی توہیں برداشت کرسکتے ہو لیکن میں نہیں کرسکتا۔“
جےرام نے کہا۔”میں تم سے آخری بار پوچھتا ہوں کہ میری بہن اور وہ عرب لڑکی کہاں ہے؟“
اس سوال نے پرتاپ رائے کا غصہ ٹھنڈا کردیا اور تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولا۔”کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے حملے کے وقت اسے انتقامی جذبے کے ماتحت جہاز سے نیچے پھین دیا گیا ہو۔“
جےرام نے کہا۔”یہ لوگ دشمنی میں شرافت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔میری بہن کے ساتھ عرب لڑکی کا غائب ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس شازش کی تہہ میں تمہارے جیسے کسی کمینے آدمی کا دماغ کام کررہا ہے۔“
زبیر نے پھر جےرام سے مخاطب ہوکرکہا۔”تم ان باتوں سے مجھے بیوقوف نہیں بنا سکتےناہید، خالد اور تمہاری بہن بیک وقت جہاز سے غائب ہوئے ہیں اور وہ یقیناً تمہاری قید میں ہیں۔مجھے تم سے کسی نیکی کی توقع نہیں لیکن ہم اتنا ضرور چاہتے ہیں کہ ہمیں راجہ کے سامنے پیش کیا جائے اور جب تک وہ ہمارا فیصلہ نہیں کرتا ناہید اور خالد کو ہمارے ساتھ رکھا جائے۔“
پرتاپ رائے نے چونک کر کہا۔”میں اب سمجھا جےرام! اگر ان لڑکیوں کے ساتھ جہاز پر کوئی آدمی بھی غائب ہوا ہے تو یہ معاملہ صاف ہے کل رات بندرگاہ سے ایک سرکاری کشتی بھی غائب ہوگئی ہے لیکن وہ زیادہ دور نہیں جاسکتے۔تم میرے ساتھ آو۔“
پرتاپ رائے اور جےرام قید خانے سے باہر نکل کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور انھیں سرپٹ دوڑاتے ہوئے بندرگاہ پر پہنچے۔بندرگاہ کے پہرے داروں نے شام کے وقت کسی کشتی غائب ہوجانے کے متعلق پرتاپ رائے کے بیان کی تصدیق کی، اور مایا کے متعلق جےرام کی تشویش بڑھنے لگی۔پرتاپ رائے نے چند کشتیاں اور جہاز شمال اور مغرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال کے لیے روانہ کردیے اور جےرام کو تسلی دی کہ وہ زیادہ دور نہیں جاسکتے۔جےرام پرتاپ رائے کے ساتھ وآپس شہر چلا آیا۔
سہ پہر تک اپنے مکان میں مایا کے متعلق کوئی خبر نا پاکر اس نے بندرگاہ پر جانے کا ارادہ کیا لیکن پرتاپ رائے کا سپاہی آیا اور اسے اپنے ساتھ اس کے محل کی طرف لے گیا۔“
(قسط نمبر39)
پرتاپ رائے کے محل کے پائیں باغ میں زبیر اور علی ناریل کے دو درختوں کے ساتے جکڑے ہوئے تھے۔پرتاپ رائے اور اس کے چند ساتھی اور دو جلاد ہاتھ میں کوڑے لیے ان کے پاس کھڑے تھے۔علی اور زبیر کی جھکی ہوئی گردنیں اور عریاں سینوں پر ضربوں کے نشانات یہ ظاہر کررہے تھے کہ انھیں ناقابلِ برداشت جسمانی اذیت پہنچائی جاچکی ہے۔ ایک سپاہی نے جےرام کی آمد کی اطلاح دی، اور پرتاپ رائے کا اشارہ پاکر جلاد علی اور زبیر پر کوڑے بسانے لگے۔زبیر ایک چٹان کی طرح کھڑا تھا لیکن علی کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی اور کوڑے کی ہر ضرب کے ساتھ اس کے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں۔
باہر کے دروازے میں پاوں رکھتے ہی علی کی چیخ وپکار نے جےرام کو متوجہ کیا اور اس نے بھاگ کر یکے بعد دیگرے دونوں جلادوں کو پیچھے دھکیل دیا اور پرتاپ رائے کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”یہ ظلم ہے۔یہ پاپ ہے۔آپ نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ان کا فیصلہ راجہ پرچھوڑ دیا ہے۔“
پرتاپ رائے نے علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔”یہ لڑکا سپاہیوں نے شہر سے تلاش کیا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمہاری بہن کے ساتھ ہی جہاز پر سے روپوش ہوا تھا اور اس کے ساتھی شہر کے آس پاس چھپے ہوئے ہیں۔“
جےرام نے آگے بڑھ کر علی سے پوچھا۔”تم کہاں تھے؟ میری بہن کہاں ہے؟“
علی نے سراپا التجا بن کر اس کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی۔
جےرام نے کہا۔” اگر تمہیں مایا دیوی کے متعلق کچھ معلوم ہے تو بتا دو۔میں تمہیں بچا سکتا ہوں۔“
علی نے دوبارا گردن اٹھائی اور چلاچلا کر کہنے لگا۔” مجھے معلوم نہیں۔میں سچ کہتا ہوں۔مجھے ان کے متعلق معلوم نہیں۔میں نے جہاز پر سے کودنے سے پہلے انھیں تلاش کیا تھا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیسے غائب ہوا۔“
جےرام نے پوچھا۔”تم شہر میں کیسے پہنچے؟“
میں جہاز سے کود کر سمندر کنارے ایک کشتی میں چھپ گیا تھا۔آج میں شہر پہنچا اور سپاہی مجھے پکڑ کر یہاں لے آئے۔تم سب ظالم ہو۔میں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا۔“
جےرام نے زبیر کی طرف دیکھا لیکن حیرانی، غصہ، ندامت اور افسوس کے جذبات کے ہیجان میں وہ اس سے مخاطب ہونے کے لیے موزوں الفاظ تلاش نا کرسکا۔اس کی آنکھیں ایک بار اٹھیں اور جھک گئیں۔ہونٹ کپکپائے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوگئے۔اس نے پرتاپ کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔” آپ انھیں چھوڑ دیں۔مجھے ان پر کوئی شبہ نہیں۔“
پرتاپ رائے نے کہا۔”میں انھیں کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔اگر تمہاری بہن جہاز میں تھی تو انھیں یقیناً یہ علم ہوگا کے وہ کہاں ہے۔تم شاید اب تک مجھے مجرم خیال کرتے ہو اور میں ان لوگوں کی زبان سے تمہیں یقین دلانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ تمہاری بہن نے ان لوگوں نے چھپا رکھا ہے اور اگر وہ زندہ نہیں تو انھوں نے جہاز پر حملہ ہونے سے پہلے اسے سمندر میں پھینک دیا ہوگا۔اب یا انھیں اپنا جرم تسلیم کرنا پڑے گا اور یا تم کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمہاری بہن جہاز پر تھی ہی نہیں اور تم نے مجھے مرعوب کرنے کے لیے یہ بہانہ تلاش کیا ہے۔“
(قسط نمبر40)
پرتاپ رائے نے پھر جلادوں کو اشارہ کیا اور وہ علی اور زبیر پر کوڑے برسانے لگے۔جےرام چلایا۔”ٹھہرو! ٹھہرو! یہ بےقصور ہیں۔یہ ظلم ہے۔انھیں چھوڑ دو۔“
لیکن اس کی چیخ وپکار بےاثر ثابت ہوئی۔اس نے آگے بڑھ کر ایک جلاد کے منہ پر گھونسا رسید کیا، لیکن پرتاپ رائے کے اشارے پر چند سپاہیوں نے اسے پکڑ کر پیچھے ہٹا دیا وہ سپاہیوں کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے جدوجہد کررہا تھا۔علی چیخیں مارنے کی بجائے نیم بیہوشی کی حالت میں آہستہ آہستہ کراہ رہا تھا۔زبیر کر کوڑے کی ضرب لگنے کے بعد جےرام کی طرف دیکھتا اور پھر آنکھیں بند کرلیتا۔بالآخر علی کے کراہنے کی آواز بند ہوگئی اور گردن اٹھانے اور آنکھیں کھولنے کے لیے زبیر کی طاقت بھی جواب دے گئی۔
پرتاپ رائے نے ایک سپاہی کو گرم لوہا لانے کا جکم دیا۔جےرام پھر چلایا۔پرتاپ تم ظالم ہو، کمینے ہو۔مجھے جو سزا چاہو دے لو لیکن ان پر رحم کرو۔“
پرتاپ رائے نےگرج کرکہا۔”مجھے تمہاری بدزبانی کی پروا نہیں۔میں تمہارا فیصلہ مہاراج پر چھوڑ دوں گا لیکن اس وقت ان کی جان ہمارے قبضے میں ہے۔میں ان کی آنکھیں نکلوا دوں گا۔ان کی بوٹیاں نوچ ڈالوں گا۔یہ ناممکن ہے کہ یہ زندہ بھی رہیں اور تم مہاراج کے پاس جاکر اپنی بہن کے اغواء کیے جانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈالو۔اگر تمہاری بہن جہاز پر سے غائب ہوئی ہے تو میں ضرور اس کا پتہ لگاوں گا۔اس کے لیے ان تمام بچوں اور عورتوں کے ساتھ یہی سلوک کرنا پڑا تو دریغ نہیں کروں گا۔“
سپاہی نے لوہے کی سلاخ پرتاپ رائے کے ہاتھ میں دےدی اور وہ زبیر کی طرف بڑھا۔جےرام نے بلند آواز میں کہا۔”نہیں!!! نہیں!!! ٹھہرو! میری بہن جہاز پر نہ تھی۔میں اکیلا آیا تھا۔میں فقط ان کی جان بچانا چاہتا تھا۔“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”لیکن مجھے کیونکر یقین آئے کہ تم راجہ کے سامنے ایسی کہانیاں بیان کرکے اسے میرے خلاف نہیں بھڑکاو گے؟“
”پرتاپ میں وعدہ کرتا ہوں۔ایک راجپوت کا وعدہ! مجھ پر اعتبار کرو۔“
”تمہیں یہ گواہی بھی دینی پڑے گی کہ جہاز پر سے کوئی بھی لڑکی غائب نہیں ہوئی۔“
”اگر تم انھیں چھوڑ دو تو میں یہ وعدہ کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔“
”انھیں چھوڑنا نا چھوڑنا راجہ کا کام ہے۔میں صرف یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ آئندہ کوئی سختی نہیں کی جائے گی۔تمہیں راجہ کے سامنے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تم نے ان لوگوں کو چھڑانے کی نیت سے مجھ پر دباو ڈالا اور اپنی بہن کا بہانہ بنایا تھا۔“
جےرام نے شکست خوردہ سا ہوکر جواب دیا۔”میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔“
پرتاپ رائے نے لوہے کی سلاخ پھینکتے ہوئے کہا۔”تم نے مجھے خواہ مخواہ پریشان کیا۔“
زبیر نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں۔وہ علی کے قریب قید خانے میں پڑا ہوا تھا۔جےرام ٹھنڈے پانی کی بالٹی سے رومال بھگو بھگو کے اس کے زخموں کی ٹکورکررہا تھا۔ایک عورت علی کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہی تھی۔زبیر ہوش میں آتے ہی اٹھ کربیٹھ گیا۔جےرام نے پانی کا کٹورا بھر کے اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔زبیر کے دل میں ایک لمحے کے لیے پھر غصے اور حقارت کے جزبات بیدار ہوئے لیکن جےرام کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے پانی کے چند گھونٹ پی لیے۔جےرام نے فقط اتنا کہا۔”زبیر مجھے افسوس ہے۔“ اور اس کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔زبیر نے اپنے چہرے پر مغموم مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”جےرام! تم میرے لیے ایک معما ہو۔تم نے دیبل کے حاکم سے سازباز کرکے ہمیں اس حالت تک پہنچایا۔اس کے بعد تم میرے لیے جلادوں سے نبردآزماہوئے۔اب تم آنسو بھی بہا رہے ہو آخر ان سب باتوں کا مطلب کیا ہے؟“
(قسط نمبر41)
جےرام کے ہونٹوں سے درد کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی۔”زبیر! مجھ پر اعتبار کرو۔میں تمہارا دوست ہوں۔تم نے میری جان بچائی تھی اور ایک راجپوت احسان فراموش نہیں ہوسکتا۔دیبل کے سردار نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔تمہارے جہازوں پر حملہ کرنے سے پہلے مجھے ایک کوٹھی میں بند کردیا۔تم مجھ سے بدظن ہو۔مجھے دغاباز سمجھتے ہو لیکن میں بےقصور ہوں۔اگر بھگوان نے موقع دیا تو میں یہ ثابت کرسکوں گا۔“
زبیر نے کہا۔”اگر تم اس سازش میں شریک نہیں تو میں پوچھتا ہوں ناہید اور خالد کہاں ہیں؟“
جےرام نے جواب دیا۔”اگر تم مایا کے متعلق کچھ نہیں جانتے تو میں خالد اور ناہید کے متعلق کیا بتا سکتا ہوں۔۔۔؟ میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں ساری رات کوٹھڑی میں بند رہا۔تم جہاز پر تھے۔بندرگاہ سے ایک کشتی بھی اس رات غائب ہوچکی ہے۔اگر تم نے لڑائی سے پہلے انھیں کہیں بھیج دیا ہے تو بھگوان کے لیے مجھ سے نا چھپاو۔مجھے یقین ہے کہ تم نے انھیں پرتاپ رائے کے ظالم ہاتھوں سے بچانے کے لیے کہیں بھیجا ہوگا۔مجھے صرف اتنا بتا دو کہ مایا زندہ ہے اور کسی محفوظ جگہ پر ہے۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ تم پر کوئی آنچ نا آنے دوں گا۔میں پرتاپ رائے کو یقین دلا چکا ہوں کہ میری بہن میرے ساتھ نہ تھی۔ورنہ وہ آج تمہیں زندہ نا چھوڑتا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”کاش! میں تم پر اعتبار کرسکتا۔تم دونوں ناہید کو چھپا کر مایا کی ذمہ داری ہمارے سر اس لیے تھوپ رہے ہو کہ ہم راجہ سے ناہید اور خالد کے متعلق سوال نا کرسکیں۔“
جےرام نے کہا۔”زبیر! مجھ پر اعتبار کرو۔مجھے تم سے جھوٹ بولنے میں کوئی فائدہ نہیں۔اگر تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو مایا اور ناہید کے متعلق کوئی علم نہیں تو یہ پرتاپ رائے کی شرارت ہے۔آج وہ میرے سامنے تم لوگوں کو اس لیے سزا دے رہا تھا کہ میں آئندہ مایا اور ناہید کا نام نا لوں۔میں یہ وعدہ کرتا ہوں اور تم نہیں جانتے کہ ایک راجپوت بھائی کے لیے اپنی بہن کے متعلق اس قسم کا وعدہ کرنا کس قدر صبر آزما ہے۔“
زبیر نے جواب دیا۔”تمہاری مہربانی کا شکریہ۔اس وقت ہم پر تمہاری تلواروں کا پہرہ ہے۔ہمارے لیے تمہارے جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق نہیں پڑتا میں سچ بولنے کا انعام دے سکتا ہوں اور نا جھوٹے بولنے کی سزا۔صرف یہ جانتا ہوں کہ ہم تمہاری وجہ سے اس مصیبت میں گرفتار ہوئے اور جب تک میں ناہید کو نہیں دیکھتا مجھے نا تم پر اعتبار آسکتا ہے نا دیبل کے حکمران پر۔اگر مستقبل کے حالات نے یہ ثابت کردیا کہ تم بے قصور تھے۔تو میں اپنی بدگمانی کے لیے تم سے معزرت کرلوں گا۔اگر دیبل کا حاکم قصوروار ہے تو تمہاری سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا آواز راجہ کے کانوں تک پہنچ جائے۔میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو خالد، ناہید اور تمہاری بہن کا کوئی علم نہیں۔دوسرے جہاز سے سراندیپ کے ملاحوں نے ہمارے جہاز سے چند آدمیوں کو کشتی پر سوار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ کشتی جنوب کی طرف غائب ہوگئی تھی۔اگر انھیں اس کشتی پر اغواء کیا گیا ہے تو معاملا صاف ہے۔کشتی ہمارے جہازوں سے نہیں بلکہ بندرگاہ سے غائب ہوئی ہے اور اس بات کا علم بندرگاہ والوں کو ہونا چاہیے کے وہاں سے کشتی کون لایا۔“
جےرام نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔”پرتاپ! کمینہ! مکار! ظالم! بزدل!۔۔۔۔زبیر بھگوان کے لیے میری خطا معاف کردو۔میں نے تم پر شک کیا۔میں نادم ہوں۔“
زبیر کو ان الفاظ سے زیادہ جےرام کی پرنم آنکھوں نے متاثر کیا اور اس نے جےرام کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”جےرام! تم جاو۔انھیں تلاش کرو۔پرتاپ رائے ظالم بھی ہے اور مکار بھی۔اسے اپنے دل کا حال مت بتانا ورنہ تم اپنی بہن کو تلاش نہیں کرسکو گے اور نا راجہ ہی کے کانوں میں یہ خبر پہنچے گی۔“
جےرام اٹھ کر قید خانے کی کوٹھڑی سے باہر نکل آیا۔پہرے داروں نے دروازہ بند کردیا۔چند قدم دور جانے کے بعد جےرام نے وآپس آکر ایک پہرے دار کو سراندیپ کے ملاحوں کی کوٹھڑی کھولنے کا حکم دیا۔
ان لوگوں سے چند سوالات پوچھنے کے بعد جب وہ باہر نکلا تو اس کے دل پر بھاری بوجھ تھا۔سراندیپ کے ملاح زبیر کے بیان کی حرف نا حرف تصدیق کرچکے تھے اور اسے افسوس تھا کہ اسے زبیر کی باتوں پر شک کیوں گزرا۔“
(قسط نمبر42)
___مایا کی پریشانی____
تین ہفتوں کے بعد ناہید ایک اجڑے ہوئے قلعے کے ایک کمرے میں بستر پر لیٹی تھی۔برہمن آباد سے بیس کوس کے فاصلے پر ایک گھنے جنگل میں یہ قلعہ کسی زمانے میں گنگو اور اس کے ساتھیوں کی قیام گاہ تھی۔چند دنوں سے گنگو اور اس کے ساتھی پھر سے اس قلعے کو آباد کرچکے تھے۔
ناہید کے زخم اور بخار سے گنگو کو سخت تشویش تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس نے ناہید کے شفایاب ہونے تک ایسی جگہ کو قیام گاہ بنایا تھا، جو گردو بیش کے خطرات سے محفوظ تھی۔گنگو لوٹ مار کی قسم کھا چکا تھا۔اسے ایک خاص مقصد کے لیے اپنے ساتھیوں کے لیے گھوڑوں اور دوسرے سازوسامان کی ضرورت تھی۔جہاز غرق ہونے کے بعد اس کے پاس صرف چار بیش قیمت ہیرے رھ گئے تھے۔جنھیں وہ ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا۔وہ ایک گجراتی تاجر کا بھیس بدل کر برہمن آباد پہنچا۔وہاں پر صرد دو عدد ہیرے بیچنے سے اتنی رقم مل گئی جو اس کے تمام ساتھیوں کو گھوڑے تلواریں اور کھانے پینے کا سامان مہیا کرنے کے لیے کافی ثابت ہوئی۔
گنگو کو دیبل کے آس پاس اگر اس قسم کی جائے پناہ مل جاتی تو وہ یقیناً اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بناتا لیکن وہاں کوئی موزوں جگہ ہونے کے علاوہ گنگو کو یہ بھی یقین تھا کہ قیدیوں کو برہمن آباد یا آرور میں راجہ کے سامنے ضرور پیش کیا جائے گا۔چند دنوں سے گنگو کے ساتھی دیبل اور برہمن آباد کے درمیان تمام راستوں پر پہرہ دے رہے تھے۔ گنگو کی نیت کے متعلق خالد کے تمام شکوک رفع ہوچکے تھے۔مایا دیوی بھی دن رات ناہید کی تیماداری کرکے گنگو کو کسی حد تک اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے چکی تھی۔ناہید کے شبہات دور کرچکی تھی لیکن خالد پر اس کے باتوں کا کوئی اثر نا ہوا۔اس کے لیے گویا وہ تھی ہی نہیں۔وہ تیماداری کے لیے ناہید کے پاس بیٹھتا۔وہ اس کے سامنے ناہید کے زخم کی مرہم پٹی کرتی۔اسے دوائی کھلاتی، اس کا سر دباتی اور خالدکو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنے ارادوں کے خلاف کئی بار یہ الفاظ دہراتی۔”آپ کی بہن کی طبعیت اب ٹھیک ہے۔زخم جلد ہی اچھا ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔بہن ناہید اب تندرست ہے۔آپ پریشان نا ہوں۔۔۔۔خدا آپ کی مدد کرے گا۔“ لیکن خالد کی طرف سے کوئی جواب نا پاکر وہ محسوس کرتی کہ خالد کی آنکھیں اور کان اس کے لیے بند ہو چکے ہیں۔دریائے سندھ کے دہانے سے اس مقام تک کشتی کے طویل سفر میں بھی یہی حالت تھی۔دریا میں وہی پانی تھا، جسے وہ سمندر میں دیکھ چکی تھی۔ہر صبح وہی سورج نمودار ہوتا اور شام کے وقت انہیں چاند اور ستاروں کی محفل سجتی تھی لیکن خالد کے طرزِ عمل میں تبدیلی کے بعد اس کے لیے کائنات کی تمام رنگینیاں پھیکی پر چکی تھیں۔اگر خالد اسکی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دے سکتا۔اگر وہ ایک بار پوچھ لیتا مایا تم کیسی ہو۔اگر اس کے ہاتھ مایا کی آنکھوں سے بےبسی کے آنسو پونچھنے کے لیے معمولی سے آمادگی ظاہر کرتے تو بھائی کی جدائی کے احساس کے باوجود وہ اس بات پر خوش ہوتی کہ قدرت نے دیبل سے ان کے رابطے جدا نہیں کیے۔وہ جہاز پر سفر کے دوران میں اکثر یہ سوچا کرتی تھی کہ کاش خالد کے ساتھ اس کا سفر ختم نا ہو۔کاش کوئی طوفان جہاز کا رخ بدل دے، اور خالد کے ساتھ کسی ایسے جزیرے پر پہنچ جائے جہاں صاف اور شفاف پانی کی ندیاں بہتی ہوں۔آبشاریں محبت کے گیت گاتی ہوں۔سدا بہار درخت لہلہاتے ہوں۔گہری جھیل میں کنول کھلتے ہوں۔دیبل کی بندرگاہ کی ایک پہلی جھلک دیکھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے اس کے سپنوں کی رنگین دنیا درہم برہم ہوئی لیکن قدرت نے جب اسے جہاز کی بجائے ایک کشتی میں سوار کردیا تو مایا دیوی پھر سپنوں کی نئی دنیا آباد کرنے لگی لیکن دیبل کے حادثہ نے ایک جیتے جاگتے نوجوان کو پتھر کا مجسمہ بنا دیا۔محبت اور وفا کی دیوی کی ملتجی اور متمنی نگاہوں کے جواب میں خالد کی آنکھوں میں نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نا تھا۔
ان لوگوں میں صرف ناہید ایسی تھی جسے یقین تھا کہ دیبل کے حادثے سے مایا دیوی کا کوئی تعلق نہیں۔وہ ایک عورت کی ذکاوتِ حس سے مایا کی ذہنی کشمکش کا اندازہ کرچکی تھی۔اسے جب بھی موقع ملتا وہ خالد کے سامنے مایا کی پاکیزگی، اس کی معصومیت اور اس کی حیا کا ذکر چھیڑ دیتی۔خالد گفتگو کا موضع بدلنے کی کوشش کرتا تو وہ کہتی۔”خالد! تمہارا دل بہت سخت ہے۔تم دیکھتے نہیں اس کا سرخ و سفید چہرہ دوپہر کے پھول کی طرح مرجھا گیا ہے۔اس کا بھائی برا سہی لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ معصوم ہے۔وہ تمہیں اپنی آخری پناہ خیال کرتی ہے۔تم اسے تسلی دے سکتے ہو۔وہ اب یہاں تک کہہ چکی ہے کہ اگر اس کا بھائی واقع اس سازش میں شریک تھا تو وہ اس کے پاس جانے سے مرنا بہتر سمجھتی ہے۔“
اور وہ جواب دیتا۔”میں دوپہر کے وقت چراغ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔میں جو کچھ دیکھ چکا ہوں۔اس کے بعد اس لڑکی کے لیے اپنی رائے بدلنا میرے بس کی بات نہیں۔“
(قسط نمبر43)
چند دن اس قلعے میں رہنے کے بعد ناہید چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی لیکن قمر کا زخم ابھی تک مدمل نہیں ہوا تھا۔خالد کبھی کبھی سواروں کی ٹولی کے ساتھ گشت پر چلا جاتا تھا۔
ایک شام مختلف اطراف سے سپاہیوں کی تمام ٹولیاں وآپس آگئیں لیکن خالد اور اس کے چار سپاہی وآپس نا آئے۔ناہید نمازِ مغرب کے بعد اپنے بھائی کی خیریت کی دعا کررہی تھی۔گنگو اپنے چند ساتھیوں کو خالد کی تلاش میں روانہ کرکے ایک اونچے درخت پر چڑھ کر اس کی راہ دیکھ رہا تھا۔مایا قلعے سے باہر نکل کر گھنے درختوں میں اسے ادھر ادھر تلاش کررہی تھی۔اچانک اسے دور سے گھوڑوں کی ٹاپ کی آواز سنائی دی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور وہ تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی آگے بڑھی۔اس کا دامن ایک جھاڑی کے کانٹوں سے الجھ گیا۔وہ کانٹوں کو الگ کررہی تھی کہ جھاڑیوں کے عقب سے خالد اور دوسرے سوار نمودار ہوئے۔خالد نے گھوڑا روکتے ہوئے پوچھا۔”میری بہن کیسی ہے؟“
کانوں کے راستے یہ الفاظ مایا کے دل میں اتر گئے۔وہ خالد کی طرف دیکھنے لگی۔خاردار جھاڑی کی چند شاخیں جو اس نے اپنے دامن سے جدا کی تھیں۔اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اس کے دامن میں الجھ گئیں۔
خالد نے پھر کہا۔”بتاو میری بہن ٹھیک ہے نا؟“
مایا نے چونک کرجواب دیا۔”وہ بلکل ٹھیک ہے۔آپ نے بہت دیر لگائی!“
”تم یہاں کیا کررہی ہو؟“
”میں___کچھ نہیں۔“ یہ کہہ کر مایا اپنے دامن کو کانٹوں سے چھڑانے لگی۔لیکن اس کی نگاہیں خالد پر گڑی ہوئی تھیں۔خالد گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھی دزدیدہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکراتے ہوئے آگے نکل گئے۔خالد شاخوں کو ایک ایک کر کے اس کے دامن سے الگ کرنے لگا۔مایا کا تنفس تیز ہورہا تھا۔اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو امڈنے لگے۔اس نے اپنا کانپتا ہاتھ خالد کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
خالد نے ایک شاخ اس کے دامن سے الگ کرتے ہوئے کہا۔”اسے پکڑو۔“اس نے جلدی سے شاخ پکڑنے کی کوشش کی لیکن ایک تیز کانٹا اس کی انگلی میں پیوست ہوگیا اور شاخ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اس کے دامن سے الجھ گئی۔مایا کانٹے کی تکلیف کے باوجود مسکرائی۔تشکر کے آنسووں میں بھیگی ہوئی مسکراہٹ نے اس کا چہرہ شبنم آلود پھول سے کہیں زیادہ دلفریب بنادیا۔خالد نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔”لاو میں نکال دوں۔“
مایا نے کچھ کہے بغیر اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔خالد کانٹا نکال کر پھر جھاڑی کی طرف متوجہ ہوا۔اس نے پوچھا۔”تم یہاں کیوں آئیں؟“
مایا نے جواب دیا۔”قلعے میں گرمی تھی اور میں ذرا ہوا خوری کے لیے یہاں نکل آئی تھی۔“ لیکن اس کا دل کہہ رہا تھا کہ کیا سچ مچ تم میرے یہاں آنے کی وجہ نہیں سمجھ سکے؟ کاش میں تمام عمر کانٹوں میں الجھی رہوں اور تم نکالتے رہو۔
خالد نے جواب دیا۔”لیکن اس وقت درختوں کے نیچے تو زیادہ حبس ہے؟“
مایا نے پریشان سی ہوکر خالد کی طرف دیکھا۔لیکن کچھ سوچنے کے بعد جواب دیا۔”میں دریا کی طرف جارہی تھی۔“
”دریا دوسری طرف ہے۔“
”میں بھی اسی طرف جارہی تھی۔لیکن_“
”لیکن کیا؟“
”گھوڑوں کی ٹاپ سن کر اس طرف نکل آئی۔آج آپ نے بہت دیر کی۔میں۔۔۔۔بہت پریشان تھی۔“
”میں تمہاری پریشانی کی وجہ نہیں سمجھ سکا۔اگر میں زبیر اور اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح قید میں ہوتا تو تمہیں بہت اطمینان ہوتا لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اب بھی قید میں ہوں۔میں تمہارے بھائی کی طرح اپنی بہن کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔“
مایا کے دل پر چرکا لگا۔وہ دیر تک بےحس و حرکت کھڑی رہی۔اس نے خلافِ معمول خالد کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھا اور اس کی چمکتی ہوئی پتلیوں پر پھر پانی کے دھندلے نقاب چھا گئے۔یہ نقاب ابھر کر چھلکتے ہوئے آنسووں میں تبدیل ہوگئے۔پلکیں انھیں زیادہ سہارا نا دے سکیں۔دو چمکتے ہوئے موتی رخساروں پر ہلکی ہلکی لکیتیں چھوڑتے ہوئے ہونٹوں پر آرکے۔مایا نے اپنا چہرہ دوبٹے میں چھپا لیا۔
”چلو اب دیر ہورہی ہے۔“ خالد کی آواز سن کر مایا نے چونک کر چہرے سے ہاتھ ہٹائے۔اس کا دامن کانٹوں سے الگ ہو چکا تھا اور خالد گھوڑے کی باگ پکڑ کر چلنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔وہ بولی۔
”آپ جائیے! میں خود آجاوں گی لیکن میں آپ سے آخری بار صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ میں بےقصور ہوں۔اگر میرا بھائی اس سازش میں شامل تھا تو یہ بھی انصاف نہیں کے اس کے پاپ کی سزا مجھے ملے۔“
خالد نے کہا۔”میں تمہیں سزا نہیں دینا چاہتا۔تمہیں بہت جلد تمہارے بھائی کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔تمہارا بھائی بھی تم سے دور نہیں۔وہ یہاں سے چار کوس دور دریا کے کنارے ایک ٹیلے پر پڑاو ڈالے ہوئے ہے۔وہ راجہ سے انعام حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کو برہمن آباد لے جارہا ہے۔اس کے ساتھ دیبل کا حاکم بھی ہے۔کل تک وہ برہمن آباد پہنچ جائیں گے۔شاید آج رات ہی تمہارے بھائی کے پاس ہمارا پیغام پہنچ جائے اور اگر اس نے قیدیوں کو چھوڑنا منظور کرلیا، تو تمہیں اس کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔میں شروع سے اس بات کا حامی نا تھا کہ تمہیں یہاں رکھا جائے۔ہمارا اخلاق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ایک بےبس عورت پر ہاتھ اٹھائیں۔تم اطمنان رکھو۔“
”آپ کو کس نے بتایا کہ میرا بھائی قیدیوں کو لے جارہا ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ پرتاپ کے ساتھ وہ بھی قیدی کی حثیت میں جارہا ہو۔“
”میں خود آج اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔وہ ایک مشکی گھوڑے پر سوار تھا، اور قیدی بیل گاڑیوں پر بھی پابہ زنجیر تھے۔چلو اب دیر ہورہی ہے۔گنگو میرا انتظار کررہا ہوگا۔“
”آپ جائیں! میں ابھی آتی ہوں۔“
(قسط نمبر44)
خالد گھوڑے کی باگ پکڑ کر پیدل چلتا ہوا قلعے کے دروازے تک پہنچا۔گنگو باہر اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔”خالد! مایا کو کہاں چھوڑ آئے؟“
خالد نے بےپروائی سے جواب دیا۔”وہ آرہی ہے۔“
”رات ہو رہی ہے۔تم اسے ساتھ کیوں نا لے آئے؟“
”آپ لے آئیں۔وہ کہتی تھی تم جاو میں آجاتی ہوں۔“
گنگو نے مسکراتے ہوئے کہا۔”یہ عورت بھی عجیب مخلوق ہے۔وہ چھپ چھپ کر تمہاری راہ دیکھ سکتی ہے۔تمہارے لیے کانٹوں میں الجھ سکتی ہے لیکن تم زرا اس کی طرف مائل ہوئے اور وہ وحشی ہرنی کی طرح کترا کر بھاگی۔“
خالد نے جواب دیا۔”میرے دل میں شاعری کے لیے کوئی جگہ نہیں۔اب آپ بتائیں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔آپ دیبل کے قافلے کی خبر سن چکے ہوں گے۔“
”ہاں میں سن چکا ہوں۔ان کے ساتھ دو سو مسلح سپاہی ہیں ہم مٹھی بھر آدمیوں کے ساتھ ان پر حملہ نہیں کرسکتے۔میں جےرام کو یہاں لانے کی تجویز سوچ چکا ہوں۔“
”دیکھا اس لڑکی کی باتوں میں آکر ناہید جےرام کے متعلق اپنے خیالات بدل چکی تھی اور آپ بھی متاثر ہورہے تھے۔“
گنگو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”بیٹا! تم مجھ سے زیادہ متاثر تھے۔بہرحال مجھے اب یقین ہوچکا ہے کہ مایا معصوم ہے۔“
”اور اس کے باوجود آپ جےرام کو مایا کے قتل کی دھمکی دینا چاہتے ہیں۔“
”تمہارے ساتھیوں کو آزاد کرانے کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں۔“
”لیکن اگر جےرام نے اپنے راجہ کی خوشی پر اپنی بہن کو قربان کردیا تو؟“
”مجھے ایسی امید نہیں لیکن اگر جےرام اس قدر ذلیل ثابت ہوا تو مایا جیسی لڑکی کو ایسے ظالم بھائی کے ہاتھوں سے بچانا ہمارا فرض ہے۔وہ خود بھی جےرام کی بجائے تمہاری پناہ کو ترجیج دے گی۔چند دنوں تک تمہاری بہن سفر کے قابل ہوجائے گی، اور ہم تمہیں مکران کی حدود کے اندر پہنچا دیں گے۔“
”لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے ساتھیوں کو مصیبت میں چھوڑ کر چلے جائیں۔“
”تم وہاں جاکر ان کی زیادہ مدد کرسکو گے۔عربوں کے علاوہ سراندیپ کے ملاحوں کو بھی قید میں رکھے جانے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ تمہارے جہازوں کے لوٹے جانے کی خبر سندھ سے باہر نا نکلے۔اگر یہ خبر وہاں تک پہنچ گئی تو تمہاری قوم اسے خاموشی سے برداشت نہیں کرے گی۔ لیکن تم اس وقت تک نہیں جاسکتے کہ جب تک ناہید تندرست نہیں ہوتی۔اگر جےرام ہمارے قابو میں آگیا تو یہ ممکن ہے کہ ہم کم از کم زبیر کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوجائیں۔“
”اگر یہ ہوسکے،تو بہت اچھا ہوگا۔میں عرب میں کسی کو نہیں جانتا ممکن ہے کہ بصرہ اور دمشق میں میری آواز پر کوئی توجہ نا دے لیکن زبیر وہاں ہزاروں آدمیوں کو جانتا ہے۔ہاں! آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آج رات میرے ذمہ کیا کام ہے؟“
گنگو نے جواب دیا۔”تم آرام کرو۔لیکن مایا دیوی ابھی تک نہیں آئی۔شاید وہ دوسرے راستے قلعے میں پہنچ گئی ہو۔“
”میں ابھی معلوم کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر خالد بھاگتا ہوا قلعے میں داخل ہوا۔تھوڑی دیر بعد اس نے وآپس آکر گنگو کو اطلاح دی کہ وہ ابھی تک نہیں پہنچی۔
گنگو نے کہا۔”تم اسے کتنی دور چھوڑ آئے تھے؟“
”اس جھاڑی کے پیچھے کوئی سو قدم کے فاصلے پر۔“
”تم نے اس کے ساتھ کوئی سخت کلامی تو نہیں کی؟“
”نہیں۔لیکن اسے میری ہربات پر رونے کی عادت ہوچکی ہے۔ہاں میں ایک غلطی کرچکا ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”میں نے اسے بتادیا تھا کہ اس کا بھائی یہاں سے چارکوس پر ہے۔“
”رات کے وقت اس جنگل کو عبور کرنا ایک عورت کا کام نہیں۔“ یہ کہتے ہوئے گنگو نے اپنے ساتھیوں کو آواز دے کر بلایا اور جنگل میں مایا کو تلاش کرنے کا حکم دے کر خالد کو کہا۔”تم اس طرف جاو۔ میں دریا کی طرف جاتا ہوں۔مجھے اس پر شک نہیں لیکن مایوسی کی حالت میں عورت توقع کی خلاف بھی بہت کچھ کرگزرتی ہے۔میں جاتا ہوں۔کہیں دریا کے کنارے ہماری کشتی اس کی تباہی کا باعث نا ہو۔“
(قسط نمبر45)
خالد کے جانے کے بعد مایا کچھ دیر اس خاردار جھاڑی کے قریب کھڑی رہی وہ کانٹے جو اس کے دامن کو کھینچ کر خالد کے ہاتھوں تک لے گئے تھے۔اس کے لیے مہکتے پھولوں سے کم نا تھے۔وہ ان چند لمحات کا تصور کررہی تھی،جب خالد اس سے اس قدر قریب تھا۔اس کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔وہ یکے بعد دیگرے زہر اور شہد کے گھونٹ اپنے حلق میں اتار رہی تھی۔اس کا دل خالد کے متعلق متضاد خیالات کی رزم گاہ تھا۔وہ کبھی اسے قہروغضب کا پیکرِ مجسم اور کبھی ایثارومحبت کا دیوتا خیال کرتی۔تھوڑی دیر وہاں کھڑی رہنے کے بعد وہ اپنے دل پر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ محسوس کرنے لگی اور چاند کی روشنی میں درختوں اور جھاڑیوں سے بچتی ہوئی دریا کی طرف چل دی۔
دریا کے کنارے ایک کشتی کھڑی تھی۔وہ کشتی جس نے انھیں سمندر سے یہاں تک پہنچایا تھا۔جس پر سفر کرتے ہوئے اس نے پہروں تاروں سے باتیں کیں تھیں۔ اس نے کشتی کے ایک سرے پر بیٹھ کر نیچے پاوں لٹکا دیے۔پانی کی لہریں اس کے پاوں کو چھورہی تھیں۔آس پاس جنگل میں گیدڑوں اور بھیڑیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔مایا نے اپنے نے اپنے دل سے سوال کیا۔”اگر کوئی بھیڑیا اس طرف آجائے تو؟“ اور پھر خود ہی جواب دیا۔”اگر بھیڑیا آجائے تو میں بھاگنے کی کوشش نا کروں گی۔میں کشتی سے اتر کر اس کے سامنے کھڑی ہوجاوں گی اور پھر جب وہ صبح کے وقت میری لاش دیکھے گا تو اس کی کیا حالت ہوگی؟وہ کہے گا، مایا! تم ادھر کیوں آئیں۔میں تو تمہارے ساتھ مذاق کرتا تھا۔میں جانتا تھا، تم بےقصور ہو۔مایا مجھے معاف کردو۔میں نے تمہیں پہچاننے میں غلطی نہیں کی۔نہیں! نہیں!!! وہ شاید یہ نا کہے۔وہ کہے گا۔یہ دیوانی تھی۔یہ پگلی تھی۔ہاں میں سچ مچ پگلی ہوں۔اس کے دل میں میری لیے کوئی جگہ نہیں۔وہ میرا دامن کانٹوں سے چھڑارہا تھا اور میں سمجھ رہی تھی کہ مجھے دنیا کی بادشاہت مل گئی۔۔۔۔میں دریا کے کنارے ریت کے کھروندے بنا رہی تھی اس کا دل پتھر کا ہے۔وہ ظالم ہے۔اسے کسی پر اعتبار نہیں، اور بھی کیونکر، میرے بھائی نے ان لوگوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے۔کاش! وہ میرا بھائی نا ہوتا۔کاش اس نے جہاز پر ہی مجھے بتادیا ہوتا کہ وہ ان کے ساتھ یہ دھوکہ کرنے والا ہے اور وہ چھپ چھپ کر خالد کو نا دیکھتی۔اب وہ مجھے بھائی کے پاس بھیجنے والے ہیں لیکن اگر اس کا انجام یہی تھا تو قدرت نے مجھے اس کے جہاز تک کیوں پہنچایا؟ اور پھر جب ہم دیبل سے جدا ہونے والے تھے،قدرت ہمیں یہاں کیوں لے آئی؟ میں اب تک اس کی نفرت کے باوجود اس سے محبت کیوں کرتی رہی۔میں نے مایوسیوں کی آندھی میں کھڑی ہوکر امید کے چراغ کیوں جلائے۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں مجبور تھی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میرے بس کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔میں اب بھی بےبس ہوں۔۔۔۔میرا کوئی نہیں۔۔۔۔میرا کوئی نہیں۔۔۔۔۔میں اپنے بھگوان کو پکار چکی ہوں جس کی وہ دن میں پانچ بار عبادت کرتا ہے۔لیکن میرے لیے آنسووں اور آہوں کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔آنسواور آہیں۔۔۔۔۔کاش! میں پیدا ہی نا ہوتی۔کاش! سمندر کی لہریں مجھ پر ترس نا کھاتیں۔“
(قسط نمبر46)
مایا سر کو ہاتھوں کو سہارا دے کر دیر تک ہچکیاں لیتی رہی۔کسی نے اس کے کندھےپر ہاتھ رکھتے ہوئے ”مایا“ کہہ کر پکارا اور اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔اس نے مڑ کر دیکھا۔گنگو قریب کھڑا تھا۔اس نے کہا۔”بیٹی تم ڈر گئیں، اس وقت یہاں کیا کررہی ہو؟“
”کچھ نہیں۔“ اس نے آنسو پونچتے ہوئے جواب دیا۔
”تم رورہی ہو؟ کیا ہوا؟“
مایا خاموش رہی۔گنگو نے پھر پوچھا۔”اس وقت ایسی سنسان جگہ پر تمہیں ڈر نہیں لگتا؟ سنو! چاروں طرف سے بھیڑیوں کی آوازیں آرہی ہیں۔چلو میرے ساتھ!“
مایا نے کہا۔”میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”آپ سچ مچ مجھے میرے بھائی کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کرچکے ہیں؟“
گنگو نے جواب دیا۔”میں اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے تمہارا فیصلہ سننا چاہتا ہوں۔“
”بھگوان کے لیے مجھے اس کے پاس نا بھیجیے!“
”لیکن کیوں؟“
”میں بھائی کے پاس نہیں جانا چاہتی۔جس نے میری ماں کے دودھ کی لاج نہیں رکھی۔“
”یہ تم دل سے کہہ رہی ہو یا مجھے بنانے کے لیے؟“
”کاش آپ میرا دل چیڑ کردیکھ سکتے۔“
”لیکن جےرام سے نفرت کی وجہ؟“
”میں خالد سے اس کے متعلق سن چکی ہوں اور اب مجھے اس کی دغابازی کے متعلق کوئی شبہ نہیں رہا۔“
”لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم تمہیں تمہارے بھائی کے حوالے کرکے زبیر کے ساتھیوں کو آزاد کرواسکیں۔“
”اگر جےرام ایک دفعہ دھوکا کرچکا ہے تو وہ دوبارا موقع ملنے پر بھی دھوکہ کرے گا۔اسے کسی صورت بھی یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ میں آپ کے پاس ہوں۔ورنہ وہ راجہ کے سپاہیوں کو ساتھ لےکر جنگل کا کونہ کونہ چھان مارے گا۔ناہید اچھی طرح چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوئی۔آپ کے لیے اس کی حفاظت مشکل ہوجائے گی۔“
”بیٹی! تم اطمینان رکھو۔جےرام کو تمہیں میرے قبضے میں دیکھ کر سب مکاریاں بھول جائیں گی۔اگر بعد میں اس کی طرف سے کئی خدشہ بھی پیش آیا تو ناہید کے لیے میں ایک اور محفوظ جگہ تلاش کرچکا ہوں۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس نے قیدی آپ کے حوالے کردیے تو آپ مجھے اس کے سپرد کردیں گے؟“
”بیٹی! وہ تمہارا بھائی ہے۔تم اس کے پاس جانے سے کیوں ڈرتی ہو؟“
”میرا دنیا میں کوئی نہیں۔بھائی نے مجھے اپنے مقصد پر قربان کرنا چاہا اور میں آپ کے قبضے میں آگئی۔اب آپ مجھے بیٹی کہہ کر اپنے مقصد کے لیے پھر اس کے پاس بھیجنا چاہتے ہیں، اپنے بھائی کی طرح آپ کا فیصلہ بھی میرے لیے تقدیر کا حکم ہوگا۔کاش! میری تقدیر میرے ہاتھ میں ہوتی۔کاش! مجھے اس دنیا میں اپنا راستہ تلاش کرنے کا حق ہوتا لیکن میری پسند اور ناپسند کے کوئی معانی نہیں میں اس طوفان میں ایک تنکا ہوں جسے ہوا کا جھونکا جس طرف چاہے اڑا کر لےجاسکتا ہے۔میرا ہونا نا ہونا برابر ہے۔“
گنگو نے کچھ سوچنے کہ بعد کہا۔”اگر یہ معاملہ تمہاری پسند پر چھوڑ دیا جائے تو تم کیا کرو گی؟“
مایا نے قدرے پرامید ہوکرجواب دیا۔”میں آپ کی قید کو آزادی پر ترجیح دوں گی۔“
”وہ کیوں؟“
”میں ناہید کو بیماری کی حالت میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔“
”مایا! میں ایک سوال پوچھتا ہوں،سچ کہو،تمہیں خالد کے ساتھ محبت ہے؟“
مایا نے آنکھیں جھکا لیں۔
اس نے پھر کہا۔”مایا! میرے سوال کا جواب دو۔“
وہ بولی۔”لیکن آپ یہ کیوں پوچھتے ہیں؟“
”اس لیے کہ شاید اس سوال کا جواب پوچھ کر میں تمہارے لیے کوئی بہتر فیصلہ کرسکوں۔“
”مجھے معلوم نہیں۔لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ میں ان کے بغیر زندہ نہیں رھ سکتی۔“
”تم یہ بھی جانتی ہو کہ تمہارے متعلق اس کے شکوک ابھی رفع نہیں ہوئے۔اس کا دل سمندر کی چٹانوں سے زیادہ سخت ہے۔میں تمہیں بیٹی کہہ چکا ہوں۔آج سے تمہارا سکھ میرا سکھ اور تمہارا دکھ میرا دکھ۔میں یہ نہیں چاہتا کہ تم کسی دن اسے اپنا بنا لینے کی امید میں سب کچھ قربان کردو۔ممکن ہے اسے تمام عمر تمہاری نیک نیتی کا یقین نا آئے۔اپنے متعلق اس کے خیالات بدلنے کے لیے تمہیں بہت بڑی قربانی دینی ہوگی۔“
”میں ہرقربانی کے لیے تیار ہوں۔لیکن مجھ سے ہمیشہ کی جدائی برداشت نہیں ہوسکتی۔“
”تمہیں بھائی کا خیال تو نہیں ستائے گا؟“
”راجہ کے ٹکڑے کھانے کے بعد وہ میرا بھائی نہیں رہا۔مجھے اس سے کئی ہمدردی نہیں۔“
گنگو نے کہا۔”میں اسے ایک طریقے سے یہاں لانا چاہتا ہوں۔اس کی صورت دیکھ کر تمہارا دل پسیج تو نا جائے گا؟ اس نے اپنے محسنوں کے ساتھ دغا کی ہے۔اگر اس کی سزا تم پر چھوڑ دی جائے تو تم اس کے ساتھ کیا سلوک کرو گی؟“
”وہی جو ایک دغاباز، بزدل اور فریبی کے ساتھ ہونا چاہیے۔“
گنگو نے کہا۔”مایا! مجھے سوچ کر جواب دو۔یہ ایک کڑا امتحان ہے۔ممکن ہے کہ میں تمہارے بھائی کو تمہارے سامنے کھڑا کرکے انصاف کی تلوار تمہارے ہاتھ میں دےدوں۔“
”میں سوچ چکی ہوں۔میں اسے رحم کی مستحق نہیں سمجھتی۔“
گنگو کچھ کہنا چاہتا تھا۔لیکن جھاڑیوں کے پیچھے سے خالد کی آواز آئی۔”مایا! مایا! تم کہاں ہو؟“
گنگو نے کہا۔”مایا تم کشتی میں چھپ جاو اور جب تک میں نا کہوں باہر مت آنا۔“
مایا نے کچھ سوچے سمجھے بغیر اس کے حکم کی تعمیل کی۔گنگو کشتی سے اتر کر دریا کے کنارے کھڑا ہوگیا۔خالد نے پھر آواز دی تو اس نے کہا۔”خالد میں ادھرہوں۔“
(قسط نمبر47)
خالد نے جھاڑیوں کے عقب سے نمودار ہوکر پوچھا۔”مایا نہیں ملی؟ آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟“
گنگو نے اپنے لہجے کو مغموم بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”مایا چلی گئی۔آہ بےچاری۔“
خالد نے بدحواس ہوکر پوچھا۔”کہاں چلی گئی۔کیا ہوا؟“
”خالد تم نے بہت برا کیا۔کاش تم اس کا دل نا توڑتے۔“
”آخر کیا ہوا؟ خدا کے لیے مجھے بتاو۔“
”اب پچھتانے سے فائدہ؟ جو ہونا تھا سوہوچکا۔کاش وہ تم جیسے سنگدل انسان سے محبت نا کرتی۔“
خالد نے بےتاب ہوکر گنگو کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔”خدا کے لیے مجھے پریشان مت کرو۔صاف صاف کہو کیا ہوا؟“
”مایا چل بسی۔میں یہاں آیا تو وہ دریا کے کنارے کھڑی تھی۔میں نے اسے آواز دی تو اس نے مجھے جواب دینے کی بجائے دریا میں چھلانگ لگا دی۔میں نے جلدی جلدی کپڑے اتارے لیکن اتنی دیر میں پانی کی لہر اسے کنارے سے بہت دور لےگئی۔ جب میں پانی میں کودنے لگا وہ لہروں کی آغوش میں چھپ چکی تھی۔“
خالد نے چلا کرکہا۔”مایا ڈوب رہی تھی اور تم اطمینان سے کنارے کھڑے کپڑے اتارتے رہے تھے۔بے رحم! ظالم! ڈاکو! میں سمجھتا تھا تم انسان بن چکے ہو۔“
گنگو نے کہا۔”میں کپڑوں سمیت چھلانگ لگا دیتا تو خود ڈوب جاتا۔“
”تو تم سمجھتے ہوکہ تمہارے ڈوبنے سے دنیا میں کوئی کمی آجاتی؟“
”تو اس کے مرنے سے کون سا دنیا میں کمی آگئی ہے۔بھائی سے اس کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ تمہارے طرزِ عمل سے وہ مایوس ہوچکی تھی۔اچھا ہوا۔وہ گھل گھل کر مرنے کی بجائے دریا میں ڈوب کر مرگئی۔ہاں جب میں کپڑے اتار رہا تھا اور لہریں اسے دھکیل کر منجدھار کی طرف لےجارہی تھیں۔وہ چلا چلا کرکہہ رہی تھی۔گنگو! مجھے بچانے کی کوشش بےسود ہے۔خالد کو میرا سلام کہنا۔میں اس کی محبت سے مایوس ہوکر زندہ نہیں رہنا چاہتی۔“
خالد دیر تک بےحس و حرکت کھڑا رہا۔گنگو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”خالد چلو! اب افسوس سے کیا حاصل؟ جو ہونا تھا سو ہوچکا۔“
خالد نے اس کا ہاتھ جھٹک کر پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔”تم جاو!“
گنگو نے کہا۔”آج رات ہمیں بہت سے کام کرنے ہیں چلو!“
خالد نے سخت لہجے میں کہا۔”گنگو خدا کے لیے جاو! مجھے تھوڑی دیر کے لیے تنہا چھوڑ دو۔“
وہ بولا۔”خالد! مجھے معلوم نا تھا کہ مایا کی موت کا تمہیں اس قدر صدمہ ہوگا۔ورنہ میں اپنی جان پر کھیل کر بھی اسے بچانے کی کوشش کرتا۔“
خالد نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔”اس کی موت کا صدمہ! گنگو تمہارے پہلو میں ایک انسان کا دل نہیں۔یہ حادثہ میری زندگی کا سب سے بڑا حادثہ ہے۔اس کی موت کا باعث میں ہوں اور میں مرتے دم تک خود کو معاف نہیں کروں گا۔“
”لیکن تم تو مجھ کو کئی بار کہہ چکے ہو کہ مایا دیوی کو اس کے بھائی کے پاس بھیج دو۔اگر تمہیں اس سے جدا ہونے کا خوف نا تھا تو اس کی موت کا اس قدر رنج کیوں؟“
”گنگوخدا کے لیے میرے زخموں پر نمک نہ چھڑکو۔میں نے اسے سمجھنے میں غلطی کی اور یہ سزا میری قوتِ برداشت سے زیادہ ہے۔“
”خالد چھوڑو ان باتوں کو۔مجھے یقین ہے کہ اگر وہ ایک بار پھر زندہ ہوجائے تو بھی تمہارا غرور تمہیں اس کی محبت کا جواب دینے کی اجازت نہیں دےگا۔تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آو گے۔چلو ایک دو دن میں تم اسے بھول جاو گے۔“
خالد کوئی جواب دیے بغیر ایک گرے ہوئے تنے کے درخت پر بیٹھ گیا اور دریا کی لہروں کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے درد بھری آواز میں کہا۔”مایا! مایا! یہ تم نے کیا کیا!“
گنگو نے پھر کہا۔”خالد! تمہیں اب ایک مرد کے حوصلے سے کام لینا چاہیے۔“
”گنگو تم جاو! میں ابھی آجاوں گا۔“
”اچھا تمہاری مرضی۔“گنگو یہ کہہ کر چل دیا۔لیکن قلعے کا رخ کرنے کی بجائے جھاڑیوں میں چھپتا ہوا کشتی کے قریب ایک درخت کی آڑ میں جا کھڑا ہوا اس نے آہستہ سے آواز دی۔”مایا اب نکل آو۔“
مایا کا دل دھڑک رہا تھا۔وہ خالد اور گنگو کی باتیں سن چکی تھی۔وہ اس موت کو جو اسے خالد کے دل سے اس قدر قریب لاسکتی تھی ہزار زندگیوں پر ترجیح دینے کے لیے تیار تھی۔وہ خالد کی آہیں سن رہی تھی اور اسے خدشہ تھا کہ اس مذاق کے بعد خالد اس سے ہمیشہ کے لیے بدظن ہوجائے گا۔اس نے اپنے دل میں سوچا۔کاش میں سچ مچ دریا میں کود گئی ہوتی اور آن کی آن میں یہ خیال ایک خوفناک ارادے میں تبدیل ہوگیا۔
گنگو نے پھر آہستہ سے آواز دی۔مایا کے لیے سوچنے اور فیصلہ کرنے کا وقت نا تھا۔اس نے اچانک اٹھ کر پانی میں چھلانگ لگا دی۔
گنگو مایا! مایا! کہتا ہوا بھاگا۔خالد بدحواس ہوکر اپنی جگہ سے اٹھا اور دونوں بیک وقت دریا میں کود پڑے۔گنگو کہہ رہا تھا۔”خالد پکڑو یہ مایا ہے۔مایا ٹھہرو آگے پانی بہت خطرناک ہے۔“ لیکن وہ تیر کر تیز دھارے میں جانے کی کوشش کررہی تھی۔
خالد تیزی سے پانی کو چیرتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔مایا نے غوطہ لگا دیا لیکن اچھی بھلی تیراک کو خود کو پانی کے رحم و کرم پر چھوڑدینا ممکن نا تھا۔اس نے جلد ہی اپنا سر پانی سے باہر نکال لیا۔ اور پھر مجدھار کی طرف جانے کی کوشش کرنے لگی، لیکن خالد نے اس کا بازو پکڑ لیا۔اتنی دیر میں گنگو بھی پہنچ گیا اور دونوں مایا کو سہارا دے کر کنارے کی طرف تیرنے لگے۔
کنارے پر پہنچ کر گنگو نے کہا۔”خالد! اب مجھے اس لڑکی پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔اسے تمہاری بےرخی نے پاگل بنا دیا ہے۔“ اور پھر مایا سے مخاطب ہوکر پوچھا۔”مایا! تم نے دریا میں چھلانگ کیوں لگائی؟“
اس نے اطمنان سے جواب دیا۔”آپ نے ان کے ساتھ یہ مذاق کیوں کیا تھا؟“
گنگو نے خالد کو کہا۔”بھئی! مجھے معاف کرنا۔میں نے تمہیں چھیڑنے کے لیے اسے کشتی میں چھپا دیا تھا۔لیکن مجھے معلوم نا تھا کہ یہ سچ مچ ایسا کر دیکھائے گی۔تم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو اور میں خوش ہوں۔“
خالد نے کوئی جواب نا دیا۔اس کی آنکھوں میں صرف آنسو تھے۔محبت خوشی اور تشکر کے آنسو!
گنگو نے پوچھا۔”اب مایا کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟“
اس نے کہا۔”مایا کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق کسی کو نہیں۔وہ اپنے متعلق خود فیصلے کرسکتی ہے۔“
(قسط نمبر48)
_____بہن اور بھائی_____
علی الصباح قلعہ کے چار کوس کے فاصلے پردریا کے کنارے پرتاپ رائے کے سپاہی سفر کی تیاری کررہے تھے۔جےرام دریا میں نہا کر کپڑے بدل رہا تھا کہ پاس ہی ایک جھاڑی کے عقب سے ایک سنسناتا ہوا تیر آیا، اور اس کے پاوں کے نزدیک زمین میں پیوست ہوگیا۔تیر کے ساتھ ایک سفید رومال بندھا ہوا تھا۔جےرام نے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد زمین سے تیر نکالا اور اس کے ساتھ بندھا ہوا رومال کھول کر دیکھنے لگا۔ جس پر کوئلے کے ساتھ یہ چند حروف لکھے ہوئے تھے:
”جےرام میں تمہیں کس نام سے پکاروں۔تم کو بھائی کہتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔اگر میری جان بچانا چاہتے ہو تو گنگو کے ساتھ چلے آو ورنہ میری خیر نہیں۔“
تمہاری بدنصیب بہن
مایا
جےرام نے بھاگتے ہوئےجھاڑیوں کے قریب پہنچ کر آواز دی۔”گنگو! گنگو! تم کہاں ہو؟“
گنگو نے آہستہ سے جواب دیا۔”میں یہاں ہوں اس طرف۔“
جےرام جھاڑیوں میں سے گزر کر اس کے قریب پہنچا۔گنگو گھوڑے پر سوار تھا۔جےرام نے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور بےقرار سا ہوکر پوچھا۔”گنگو! مایا کہاں ہے؟ وہ کس حال میں ہے۔وہ تمہارے پاس کیسے پہنچی؟“
گنگو نے جواب دیا۔”مایا زندہ ہے۔اور میں تمہیں اس کے پاس لے جاسکتا ہوں کہو تم میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو؟“
”میں مایا کے لیے سات سمندر عبور کرنے کے لیے تیار ہوں۔بتاو وہ کہاں ہے؟“
”وہ یہاں سے زیادہ دور نہیں۔تم میرے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ جاو۔“
”اگر زیادہ دور ہو تو میں اپنا گھوڑا لے آوں؟“
”تم اپنا گھوڑا لاسکتے ہو لیکن تم نے اگر پھر کوئی چلاکی کی تو یاد رکھو۔مایا کو کبھی نہیں دیکھ سکو گے۔میں یہاں تمہارا انتظار کرتا ہوں۔“
”میں ابھی آتا ہوں۔“ جےرام یہ کہہ کر ٹیلے کی طرف بھاگا۔گنگو احتیاط کے طور پر اس جگہ سے ہٹ کر گھنے درختوں کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد جےرام نے جھاڑی کے قریب پہنچ کر گھوڑا روکا اور گنگو کو وہاں ناپاکر آواز دی۔گنگو نے مطمین ہوکر اسے اپنے پاس بلا لیا۔
گنگو کے ساتھ چلنے سے پہلے جےرام نے اس سے کئی سوالات پوچھے۔ لیکن گنگو نے بس یہی جواب دیا کہ مایا کہ پاس پہنچ کر تمہیں سب حال معلوم ہوجائے گا۔جنگل میں تھوڑی دور چلنے کے بعد گنگو کے دس اور مسلح ساتھی جھاڑیوں سے نکل کر ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔جےرام کو گنگو کی نیت پر شبہ ہوا اور اس نے لگام کھینچ کر گھوڑے کو روکتے ہوئے پوچھا۔”گنگو! یہ کیا؟“ لیکن اس سے پہلے کے گنگو کوئی جواب دیتا اس کے ساتھیوں نے جےرام کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ایک نے آگے بڑھ کر اس سے گھوڑے کی لگام چھین لی۔ گنگو کی توقع کے خلاف جےرام نے کوئی مدافعت نا کی اور جب اس کے ساتھیوں نے اس کے ہتھیاڑ چھیننے کی کوشش کی تو اس نے خود ہی اپنی تلوار کمان اور ترکش اتار کر اس کے حوالے کردیے۔
کمر کے پٹکے میں ایک چھوٹا سا خنجر لٹک رہا تھا۔گنگو کے ایک ساتھی نے وہ بھی اتارنا چاہا لیکن اس نے اشارے سے منع کیا۔
جےرام نے کہا۔”تمہیں معلوم ہے کہ میں مایا کا پیغام سننے کے بعد بھاگ نہیں سکتا۔“
گنگو نے جواب دیا۔”تم بھاگنا بھی چاہو تو نہیں بھاگ سکتے۔اس جنگل میں جگہ جگہ تیر انداز چھپے ہیں۔“
”لیکن گنگو میں نے تم سے کوئی وعدہ خلافی نہیں کی۔تم جہاں کہو میں چلنے کے لیے تیار ہوں۔“
”جو شخص زبیر جیسے محسن کے ساتھ دغاکرسکتا ہے۔مجھے اس کی کسی بات پر اعتبار نہیں آسکتا۔تمہاری خیر اسی میں ہے کہ آنکھیں بند کر کے میرے ساتھ چلتے رہو۔“
”قلعہ چار کوس سے زیادہ دور نا تھا۔لیکن گنگو نے مصلحتاً طویل اور دشوار گزار راستہ اختیار کیا۔قلعے کے سامنے پہنچ کر سوار گھوڑوں سے اترے۔جےرام کو خالد قلعے سے باہر آتا ہوا دیکھائی دیا۔وہ اس کی طرف ہاتھ پھیلا کر آگے بھرا۔”خالد خالد تم بھی یہاں ہو۔تم بھی یہاں ہو۔ تمہاری بہن کہاں ہے؟“
خالد نے حقارت سے اس کی طرف دیکھا اور جواب دینے کی وجہ کترا کر گنگو کے پاس کھڑا ہوگیا۔جےرام کے دل پر چرکا لگا۔اس کے پاوں زمین میں گڑ گئے۔وہ ہاتھ جو خالد کے استقبال کے لیے اٹھے تھے جھکتے جھکتے پہلووں سے آلگے۔اس نے بےچارگی اور بےبسی کی حالت میں چاروں طرف دیکھا۔اس کی نگاہیں پھر ایک بار خالد کے چہرے پر جم گئیں۔خالد نے منہ پھیڑ لیا۔
جےرام نے انتہائی کرب کی حالت میں کہا۔”خالد! مجھے معلوم نہیں۔میں تم سب کی نظروں میں اس قدر حقیر کیوں ہوگیا ہوں۔میں بےقصور ہوں۔میرے ساتھ اس طرح پیش نا آو۔مایا کہاں ہے؟“
(قسط نمبر49)
پیچھے سے آواز آئی۔”میں یہاں ہوں۔“ جےرام نے چونک کر پیچھے دیکھا۔مایا چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ ”مایا! مایا! میری بہن! میری بہن!! میری ننھی بہن!!“ وہ یہ کہہ کر مایا کی طرف بڑھا لیکن وہ پیچھے ہٹتے ہوئے چلائی۔”ظالم! کمینے! دغاباز! مجھے ہاتھ نا لگاو۔تم نے ایک راجپوت باپ کے خون اور ایک راجپوت ماں کے خون کی لاج نہیں رکھی۔تم میرے کچھ نہیں لگتے۔تمہارا دامن اپنے محسنوں کے خون سے داغدار ہے۔“
اگر کوئی جےرام کا سینہ خنجر سے چھلنی کردیتا تو بھی شاید اسے اس قدر تکلیف نا ہوتی۔اس کے دل میں غصے کی آگ کے شعلے بھڑکے اور غم کے آنسووں سے بجھ گئے۔اس نے پھر ایک بار چاروں طرف دیکھا۔گنگو کے چہرے پر ایک حقارت آمیز تبسم دیکھ کر اس کا منجمد خون کھولنے لگا۔وہ اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتا اور ہونٹ چباتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔”ذلیل ڈاکو! ان سب باتوں کے ذمہ دار تم ہو۔تم نے ان سب کو میرے خلاف کیا ہے۔“ بیشتر اس کے کہ گنگو کے ہاتھ مدافعت کے لیے آٹھتے۔جےرام نے اچانک دو مکے اس کے منہ پر دے مارے۔گنگو اپنے گال سہلاتا ہوا پیچھے ہٹا۔خالد نے آگے برھتے ہوئی جےرام کے منہ پر ایک مکا مارا۔جےرام نے خالد کے ہاتھ کی ضرب منہ سے زیادہ اپنے دل پر محسوس کی اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔”خالد! تم۔۔۔۔۔؟“
گنگو کے ساتھیوں کی تلواریں نیاموں سے باہر آچکی تھیں۔لیکن اس نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور جےرام کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”اب بتاو تم اپنی بہن کی جان بچانے کے لیے زبیر کے ساتھیوں کو قید سے چھڑانے کے لیے تیار ہو؟“
جےرام نے زخم خوردہ سا ہوکر جواب دیا۔”تو تم بھی زبیر کی طرح یہ سمجھتے ہو کہ میں پرتاپ رائے کی سازش میں شریک تھا؟“
گنگو نے جواب دیا۔” نہیں بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پرتاپ رائے تمہاری سازش میں شریک تھا۔تم نے اسے سراندیپ کے ہاتھیوں اور جواہرات کا کا لالچ دے کر جہاز لوٹنے کے لیے آمادہ کیا۔“
”بھگوان جانتا ہے کہ میں بےقصور ہوں۔“
گنگو نے جواب دیا۔“
گنگو نے جواب دیا۔”بھگوان اس سے زیادہ جانتا ہے۔اس وقت ہمارا کام تمہاری بےگناہی پر بحث کرنا نہیں۔ہم صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں کہ تم اپنی بہن کے لیے ان بےگناہ قیدیوں کو چھوڑتے ہیں یا نہیں۔“
جےرام نے جواب دیا۔”کاش! انھیں چھوڑنا میرے بس میں ہوتا۔وہ اس وقت دوسو سپاہیوں کے پہرے میں برہمن آباد جارہے ہیں اور میں اکیلا ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔“
”تو تم ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہوکہ تمہارے اپنی سپاہی تمہارا حکم نہیں مانتے؟“
کاش! میرے سپاہی ہوتے۔قیدیوں پر پرتاپ رائے کا چہرہ اس قدر سنگین ہے کہ ان کے ساتھ بات چیت بھی نہیں کرسکتا۔اسے یقین ہو چکا ہے کہ میں ان کا طرفدار ہوں۔“
(قسط نمبر50)
گنگو نے اپنے چہرے پر ایک طنز بھری مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”تمہاری طرفداری کا شکریہ! اب میرے سوال کا جواب دو۔تم انھیں چھڑانے کے لیے تیار ہو یا نہیں؟“
بھگوان کے لیے مجھ پر اعتبار کرو۔جب تک ان کا معاملہ راجہ کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔میں بےبس ہوں۔مجھے یقین ہے راجہ انھیں قید میں رکھ کر عربوں سے لڑائی مول لینے کی جرات نہیں کرے گا۔“
گنگو نے کہا۔”پرتاپ رائے تمہارا دوست ہے اگر اس کے پاس تمہارا خط پہنچ جائے کہ تم ہماری قید میں ہو تو کیا پھر بھی وہ انھیں رہا نہیں کرے گا۔تم یہ خط لکھ دو اور ہم اسے برہمن آباد پہنچنے سے پہلے تمہارا یہ خط پہنچا دیں گے۔“
جےرام نے جواب دیا۔”وہ لومڑی سے زیادہ مکار اور بھیڑیے سے زیادہ ظالم ہے۔مجھے اپنی سرگزشت بیان کرنے کا موقع دو۔تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔بھگوان کے لیے میری بات مانو۔پرتاپ رائے کو میری جان بچانے سے زیادہ خالد اور اگر ناہید بھی یہاں ہے تو ان دونوں کی تلاش ہوگی۔جس طرح اب تک مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ تم یہاں کیسے پہنچے، اسی طرح تم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ دیبل کا واقعہ کس طرح پیش آیا۔“
گنگو اور اس کے ساتھیوں کو متوجہ دیکھ کر جےرام نے بندرگاہ سے رخصت ہونے سے لیکر قید خانے میں زبیر سے ملاقات تک تمام واقعات بیان کیے اور اختتام پر گنگو اور خالد کو ملتجی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔”اب بھی تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں آتا، تو میں ہر سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
گنگو بولا۔” تو اب تم راجہ کے پاس قیدیوں کی سفارش کے لیے جارہے ہو؟“
”آپ کو اب بھی یقین نہین آتا؟“
”اپنی بہن سے پوچھ لو۔اگر اسے تمہاری باتوں پر اعتبار آگیا ہو تو ہم بھی تمہاری باتوں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار ہیں۔“ یہ کہہ کر گنگو مایا سے مخاطب ہوا۔” ہم تمہارے بھائی کا فیصلہ تم پر چھوڑتے ہیں۔“
جےرام مایا کی طرف متوجہ ہوا۔مایا کے لیے یہ گھڑی صبرآزما تھی۔بھائی کی سرگزشت سننے کے بعد اس کے دل میں ایک ردِ عمل شروع ہوچکا تھا تاہم وہ اس کے متعلق خیالات فوراً بدلنے کے لیے تیار نا تھی۔ضمیر کی یہ آواز اگر یہ کہہ رہی تھی کہ مایا تجھے اپنے بھائی پر اعتبار کرنا چاہیے تو دوسری آواز کہہ رہی تھی کہ نہیں، وہ صرف تمہیں ساتھ لے جانے کے لیے بہانے بنا رہا ہے۔اس ذہنی کشمکش کے دوران اسے گنگو کے یہ الفاظ یاد آئے۔”اس کی صورت دیکھ کر تمہارا دل تو پسیج نہیں جائے گا ممکن ہے کہ میں تمہارے ہاتھ میں انصاف کی تلوار دےدوں۔“ مایا نے گنگو کی طرف دیکھا۔اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں۔”میں انصاف کی تلوار تمہارے ہاتھ میں دے چکا ہوں۔اب تم اپنا وعدہ یاد کرو۔“
اس نے جواب دیا۔”اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم نے ان لوگوں کے انتقام کے خوف سے یہ قصہ نہیں سنایا۔“
جےرام نے درد بھری آواز میں کہا۔”مایا! تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں بزدل ہوں۔میں موت کے خوف سے جھوٹ بول رہا ہوں۔بھگوان کے لیے مجھے دوسروں کے سامنے شرسار نا کرو۔میں تمہارا بھائی ہوں۔بھگوان کے لیے مجھے شرمسار مت کرو۔میں تمہارا بھائی ہوں۔لیکن اگر تمھیں مجھ یقین نہیں آتا تو یہ میرا خنجر لو اور میرا دل چیر کر دیکھو کہ میرا الہوا ابھی تک سرخ ہے یا سفید ہوچکا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے جےرام نے اپنا خنجر مایا کے ہاتھ میں دےدیا اور اپنا سینہ اس کے سامنے تان کر بولا۔ ”مایا! تمہیں باپ کے سفید بالوں کی قسم اپنی ماں کے دودھ کی قسم! اگر میں مجرم ہوں، تو یہ خیال نا کرو کہ تمہارا بھائی ہوں۔میں یہ جاننے کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتا کہ میری بہن بھی مجھے بزدل خیال کرتی ہے، مجھے اپنے ہاتھوں سے موت کی نیند سلا دو۔تمہاری رگوں میں ایک راجپوت کا خون ہے تو اپنے بھائی کے ساتھ رعائیت نا کرو۔“
مایا نے جذبات کی شدت میں غیرشعوری طور پر اپنا ہاتھ جس میں خنجر تھا، بلند کیا__ جےرام کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ کھیلنے لگی۔خالد نے کپکپی لی۔مایا نے عزم و ہمت کے اس پیکر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔اس کا ہاتھ کانپنے لگا۔خالد چلایا۔”مایا! تمہارا بھائی معصوم ہے۔“مایا کے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے خنجر گرپڑا۔آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور بےاختیار جےرام سے لپٹ کر ہچکیاں لینے لگی۔”بھیا بھیا مجھے معاف کرد۔“
جےرام اس کے سیاہ بالوں پر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بار بار یہ کہہ رہا تھا۔”میری بہن! میری ننھی مایا تھا۔
بہن اور بھائی ایک دوسرے باہر سے علیحدہ کھڑے ہے گئے۔خالد نے جےرام کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔”جےرام مجھے معاف کرنا۔مجھے تم پر شک نہیں کرنا چاہیے تھا۔“
جےرام نے اس کا۔
جےرام نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا۔”مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو میں بھی شاید یہی کچھ کرتا۔“
خلد نے مسکراے ہوئے کہا۔”میں نے ہنگامی جوش میں آپ کے منہ پر مکا رسید کردیا تھا۔اب آپ یہ قرض وصول کرسکتے ہیں۔“
جےرام نے کہا۔”نہیں!!! اب یہ قصہ نا چھیڑو ورنہ ایک مکا ما کے مجھے گنگو سے دو وصول کرے پڑیں گے۔
(قسط نمبر51)
گنگو اپنی زندگی میں کبھی اس قدر پریشان نہیں ہوا تھا۔وہ سر جھکائے کھڑا تھا جےرام نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”گنگو! اگر خلوصِ دل سے زبیر اور اس کے ساتھیوں کو چھڑانا چاہتے ہو تو یہ معاملہ چنددن کے لیے مجھ پر چھوڑدو۔ مجھے امید ہے کہ راجہ صحیح خطرات سے باخبر ہوکر انھیں قید میں رکھنے کی جرات نہیں کرے گا اور اگر اس نے میری بات نا سنی تو میں تمہارے پاس چلا آوں گا اور پھر ہم کوئی اور تدبیر سوچین گے لیکن خالد کی بہن کہاں ہے؟“
گنگو نے کہا۔”وہ بھی ہمارے ساتھ ہے۔وہ جہاز پر زخمی ہوگئے تھے۔“
”اب وہ کیسی ہے؟“
اس سوال کے جواب میں خالد بولا۔”اب وہ پہلے سے اچھی ہے لیکن زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوا۔میں مایا دیوی کا شکرگزار ہوں۔انھوں نے اس کی تیماداری میں بہت تکلیف اٹھائی۔“
گنگو نے کہا۔”جےرام! اگر پرتاپ رائے نے راجہ کے حکم سے جہاز لوٹے ہیں تو مجھے یقین نہیں کہ وہ قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوگا۔میرے خیال میں وہ اس بات کی کوشش کرے گا کہ یہ خبر سندھ سے باہر نا نکلے۔برہمن آباد میں ایسے قیدخانے ہیں جہاں سے صرف موت کی صورت میں انسان باہر نکلتے ہیں۔اس خبر کو مکران یا بصرہ تک پہنچانا ضروری ہے۔اگر ان کی حکومت نے مداخلت کی تو راجہ یقیناً قیدیوں کو چھوڑ دےگا۔“
جےرام بے کہا۔”اگر خالد جانا چاہے تو میں اسے سرحد پار پہنچادینے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔“
گنگو نے جواب دیا۔”خالد کو میں بھی سرحد کے پات پہنچا سکتا ہوں، لیکن جب تک اس کی بہن تندرست نہیں ہوتی، اس کے لیے جانا ممکن نہیں۔اس کے علاوہ عربوں کی فوجیں اس وقت ترکستان اور افریقہ میں لڑرہی ہیں۔ممکن ہے کہ وہ سپاہیوں کی قلت کے پیشِ نظر سندھ کے ساتھ بگاڑ پسند نا کریں۔خالد کا خیال ہے کہ اگر زبیر کسی طرح رہا ہوجائے۔تو یہ مہم اس کے لیے بہت آسان ہوگی۔وہ بصرہ اور دمشق کے ہر بااثر آدمی کو جانتا ہے۔“
جےرام نے کہا۔”اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی جان پر کھیل کر بھی زبیر کو قید سے آزاد کرانے کی کوشش کروں گا۔“
مایا نے کہا۔”بھیا! تم سب کچھ کرسکتے ہو۔زبیر کی رہائی کی کوشش ضرور کرو۔“
”مایا! تمہاری سفارش کے بغیر بھی یہ میرا فرض ہے۔“ یہ کہہ کر جےرام گنگو سے مخاطب ہوا۔”اب اگر آپ کی اجازت ہو تو مایا سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔“
گنگو کا اشارہ پاکر اس کے ساتھی وہاں سے کھسک گئے۔گنگو نے ایک طرف ہوکر خالد سے کہا۔ ”تم ناہید کے پاس جاو اور اگر وہ قیدیوں کو کوئی پیغام بھیجنا چاہتی ہے تو پوچھ آو۔“
خالداندر داخل ہوا تو ناہید دروازے کی آڑ میں کھڑی تھی۔اس نے کہا۔”ناہید تمہیں تھوڑا افاقہ ہوتا ہے تو چلنے پھرنے لگتی ہو تمہیں بستر پر لیٹنا چاہیے۔“
ناہید نے اس کی بات پر توجہ دیے بغیر کہا۔”تم نے بیچارے جےرام پر بہت سختی کی۔اب مایا کے متعلق تم نے کیا فیصلہ کیا؟“
خالد نے جواب دیا۔”مایا کے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔وہ بہن بھائی آپس میں باتیں کررہے ہیں۔غالباً وہ اس کے ساتھ چلی جائے گی۔جےرام نے زبیر کو قید سے چھڑانے کا وعدہ کیا ہے۔وہ رہا ہوتے ہی مکران کے راستے بصرہ پہنچ کر ہماری سرگزشت سنائے گا۔عورتوں اور بچوں کے رہا ہونے کی اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں کہ ہماری حکومت اس معاملے میں مداخلت کرے۔“
ناہید نے کہا۔”میں یہ باتیں سن چکی ہوں۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ جس طرح ابا کے معاملے میں حکومتِ سندھ نے مکران کے گورنر کو ٹال دیا تھا۔اس طرح یہ معاملہ بھی رفع دفع ہوجائے گا۔میں نے سنا ہے کہ بصرہ کا حاکم بہت جابر ہے لیکن سندھ کی طرف متوجہ نا ہونے کے لیے اس کے پاس معقول بہانہ ہے کہ عرب کی تمام افواج افریقہ اور بصرہ میں برسرِپیکار ہیں۔“
خالد نے پریشان ہوکر کہا۔”میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔لیکن میں خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔“
ناہید نے کہا۔”میں نے ایک تجویز سوچی ہے۔میں بصرہ کے حاکم کو خط لکھتی ہوں۔ اگر جےرام زبیر کو رہا کروا سکے تو اسے کہو یہ خط اس کے حوالے کردے۔اگر باالفرض میرا خط حاکم بصرہ کو متاثر نا کرسکا تو بصرہ کی عوام اس سے متاثر ضرور ہوں گے۔میں خواب میں مسلمانوں کو قید کے دروازے توڑتے ہوئے دیکھ چکی ہوں۔مجھے اپنے خواب کے صحیح ہونے کا یقین ہے۔“
”تو تم اندر جاکر خط لکھو۔کس چیز پر لکھو گی؟ ہاں یہ لو میرارومال ۔“ خالد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ناہید کو رومال دیا اور وآپس مڑتے ہوئے کہا۔”تم خط لکھو میں اتنی دیر جےرام کو روکتا ہوں۔“
باہر مایا اپنے بھائی کو آپ بیتی سنا رہی تھی۔اختتام پر جےرام نے پوچھا۔”مایا! تمہیں یہاں کسی قسم کی تکلیف تو نہیں؟“
”نہیں“ اس نے جواب دیا۔”گنگو مجھے اپنی بیٹی سمجھتا ہے۔ناہید مجھے اپنی چھوتی بہن خیال کرتی ہے۔“
جےرام نے کہا۔”مایا میں تمہیں ایک بہت بری خبر سنانا چاہتا ہوں۔“
مایا نے گھبرا کر پوچھا۔”وہ کیا؟“
”بات یہ ہے کہ میں تمہیں اس وقت اپنے ساتھ نہیں لےجاسکتا۔میں نے تمہارے غائب ہونے کی ذمہ داری پرتاپ رائے پر تھوپ دی تھی۔لیکن جب اس نے زبیر اور علی کو اذیت دینی شروع کی تو مجھے ان کی جانیں بچانے کے لیے یہ تسیلم کرا پڑا کہ تم میرے ساتھ نا تھیں۔اب اگر میں تمہیں ساتھ لےجاوں تو مجھے خالد اور ناہید کا پتہ بتانے پر مجبور کیا جائے گا۔میں بذاتِ خود راجہ کی سختی سے نہیں ڈرتا لیکن پرتاپ رائے کو شک ہو جائے گا اور وہ خالد اور ناہید کی تلاش شروع کردے گا۔میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں دیکھ کر انھیں خالد اور ناہید کے روپوش ہونے کا شک ہو۔اگر تم چنددن اور یہاں رہنا گوارا کروتو پرتاپ رائے غالباً تین چار دن روز تک واپس دیبل چلا جائے گا۔اس کے بعد میں تمہیں یہاں سے لےجاں گا۔“
مایا نے اطمنان سے جواب دیا۔”بھیاآپ میری فکر نا کریں۔میں یہاں ہرطرح خوش ہوں۔اور جب تک ناہید تندرست نہیں ہوتی۔میں اسے چھوڑ کرجانا پسند بھی نہیں کروں گی۔“
گنگو اور خالد کچھ فاصلے پر آپس میں باتیں کررہے تھے۔جےرام نے انھیں آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر اشارے سے اپنے پاس بلا لیا۔جب قریب پہنچے تو اس نے کہا۔” آپ کو کہیں پھر شک نا ہوجائے گا کہ میں کوئی سازش کررہی ہوں۔مایا کہتی ہے کہ وہ ناہید کے تندرست ہونے تک یہیں رہنا چاہتی ہے اور میں بھی بعض مصلحت میں چند دن تک اسے لےجاوں گا۔ممکن ہے کہ مجھے بھی زبیر کے ساتھ فرار ہونا پڑے اور میں ہمیشہ کے لیے آپ سے آملوں۔ اب مجھے دیر ہورہی ہے ممکن ہے کہ راجہ پرتاپ رائے کے شہر میں پہنچتے ہی ہمیں ملاقات کے لیے بلالے۔میرا غیرحاضر ہونا ٹھیک نہیں۔“
خالد نے کہا۔”آپ زرا ٹھہریے۔ناہید ایک خط لکھ رہی ہے۔آپ یہ خط زبیر کو آزاد کروانے کے بعد اس کے حوالے کردیں۔“
”تو جلدی سے وہ خط لے آو۔مجھے بہت دیر ہوگئی ہے۔وہ برہمن آباد کے قریب پہنچ گئے ہوں گے۔“
گنگو نے کہا۔”تم فکر نا کرو۔ہم ان سے پہلے ایک آسان راستے سے تمہیں برہمن آباد پہنچا دیں گے۔“
جےرام نے کہا۔”میں فقط آپ کا ایک ساتھی ساتھ لے جانا چاہتا ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ برہمن آباد میں اسے کوئی پہچانتا نا ہو۔اگر کوئی نازک صورتِ وقت آیا تو میں اسے آپ کے پاس پیغام بھیج دوں گا۔“
گنگو نے کہا۔”آپ داسو کو لےجائیں۔
دوپہر کے وقت جےرام داسو کی رہنمائی میں جنگل عبور کررہا تھا۔
(قسط نمبر52)
____دوست اور دشمن___
برہمن آباد سے ایک کوس کے فاصلے پر جےرام کو اپنا قافلہ دکھائی دیا۔اس نے داسو کے ساتھ قافلے میں شریک ہونا خلافِ مصلحت سمجھتے ہوئے اپنا راستہ تبدیل کردیا اور دوسرے دروازے سے شہر میں داخل ہوا۔برہمن آباد میں نرائن داس نامی ایک آدمی اس کا پرانا دوست تھا۔جےرام نے داسو کو اس کے گھرٹھہرا کر شاہی مہمان خانے کا رخ کیا۔تھوڑی دیر بعد پرتاپ رائےسپاہیوں اور قیدیوں سمیت وہاں پہنچ گیا۔اس نے جےرام کو دیکھتے ہی کہا۔”مجھ سے تم نے شکار کا بہانہ کیوں کیا؟ تم نے صاف یہ کیوں نا بتایا کہ تم مجھ سے پہلے مہاراج سے ملنا چاہتے تھے۔اب بتاو! تمہاری بہن کی کہانی سننے کے بعد مہاراج نے کیا کہا؟“
”میں ابھی تک مہاراج سے نہیں ملا اور نہ میری یہ نیت تھی۔“
پرتاپ رائے نے مطمئین ہوکر کہا۔”جےرام! میرا خیال ہے کہ اپنی بہن کے غائب ہوجانے کے متعلق تم نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔میں عربوں کے علاوہ سراندیپ کے قیدیوں سے بھی پوچھ چکا ہوں وہ سب تمہارے پہلے بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔اگر انھوں نے راجہ سے شکایت کی کہ تمہاری بہن کے علاوہ ایک مسلمان لڑکی بھی جہاز سے غائب ہوئی ہے تو ممکن ہے کہ راجہ مجھے اس بات کا ذمہ دار ٹھہرائے ۔“
میں راجہ کے سامنے یہ کہنے کے لیے تیار ہوں کہ میری بہن جہاز پر نہیں تھی اور مسلمان لڑکی کے غائب ہوجانے کا واقع بھی صحیح نہیں۔“
”لیکن جب قیدی یہ شکایت کریں گے کہ وہ جہاز سے غائب ہوئی ہیں تو تمہارا بیان راجہ کو مطمئین نہیں کرسکے گا۔“
جےرام نے پریشان ہوکرکہا۔” آخر آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ پہلے آپ نے زبیر اور علی کو اذیت پہنچا کر مجھے یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ میری بہن غائب نہیں ہوئی اور اب آپ یہ ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ عرب لڑکی اور میری بہن جہاز سے غائب ہوئی ہیں۔“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کون سی مجبوری ہے جس نے تمہیں اپنی بہن کا راز چھپانے پر مجبور کیاہے؟“
”آپ یہ جانتے ہیں کہ زبیر میرا مہمان ہے۔ اس نے میری جان بچائی تھی اور میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ اس واقعہ کی آڑ لے کر اسے اذیت پہنچائیں۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم صرف زبیر کی خاطر اپنے صحیح دعوے سے دستبردار ہوئے۔تم زبیر کی دوستی پر اپنی بہن کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو لیکن تمہارا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ تمہاری بہن کو میں نے اغوا کیا ہے اور صرف تمہاری بہن ہی نہیں ایک عرب لڑکے اور لڑکی کے غائب ہوجانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہی عائد ہوتی ہے۔“
جےرام نے کہا۔”نہیں! نہیں! مجھے آپ کے متعلق جو غلط فہمی تھی وہ دور ہوچکی ہے۔“
”کب؟“
جےرام نے اچانک محسوس کیا کہ پرتاپ رائے اس کے لیے پھر ایک پھندا تیار کررہا ہے۔اس نے چونک کر کہا۔” آخر ان باتوں سے آپ کا مطلب ہے میں آپ سے وعدہ کرچکا ہوں کہ میں راجہ کے سامنے اپنی بہن کا ذکر نہیں کروں گا۔“
پرتاپ رائے نے سردمہری سے کہا۔”تم جو کچھ خود نہیں کہنا چاہے وہ عربوں کی زبان سے کہلواو گے۔اس سے میرے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔پہلے جس راز کو تم ظاہر کرنا چاہتے تھے، اسے میں چھپانا چاہتا تھا۔اب جس راز کو تم چھپانا چاہتے ہو، اسے میں ظاہر کرنے پر مجبور ہوں۔میرے متعلق اگر تمہاری غلط فہمی دور ہوئی ہے تو اس کی کوئی وجہ ہے۔ اور میں وہ وجہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ تم ایک عرب کے لیے اتبی بڑی قربانی دےسکتے ہو۔کوئی عقل مند آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نا ہوگا۔“
”تو تمہارا مطلب ہے کہ میں نے خود اپنی بہن کو غائب کردیا ہے؟“
”تمہاری بہن کا مسئلہ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن عرب لڑکی کا سراغ لگانے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔بہت ممکن ہے کہ عربوں نے بھی راجہ کو مجھ سے بدظن کرنے کے لیے ایک لڑکی کے غائب ہوجانے کا بہانہ تراشہ ہو لیکن اگر دربار میں اس کے غائب ہوجانے کا سوال اٹھایا گیا تو ہم میں سے ایک کو یہ ذمہ داری اپنے سر لینا پڑے گی۔“
(قسط نمبر53)
جےرام نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔”جس طرح میں نے آپ سے انتقام لینے کے لیے اپنی بہن کے غائب ہو جانے کا جھوٹا افسانہ تراشہ تھا۔اسی طرح انھوں نے مجھے آپ کا شریکِ کار سمجھ کر محض انتقام لینے کے لیے یہ بہانہ تلاش کیا ہے۔میں زبیر کو سمجھا سکتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ میرے کہنے پر راجہ کے سامنے جھوٹی شکایت نہیں کرے گا۔“
پرتاپ رائے نے بےرخی سے کہا۔”تم کسی قیدی سے بات چیت نہیں کرسکتے۔ میں نے سپاہیوں کو حکم دیا ہے کہ راجہ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے تمہیں اپنا صندوق کھول کر دیکھنے کی اجازت بھی نہیں۔“
جےرام کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن فوج کے ایک افسر نے آکر اطلاع دی کہ مہاراج آپ کو یاد فرماتے ہیں۔
جےرام نے پرتاپ رائے کے ساتھ جانا چاہا لیکن اس نے کہا۔”مہاراج مجھے یاد فرماتے ہیں تمہیں نہیں۔تم اطمینان سے بیٹھے رہو! جب تمہیں بلایا جائے گا میں تمہارا راستہ نہیں روکوں گا۔“
پرتاپ رائے جہاز سے لوٹا ہوا مال اٹھا کر چلا گیا اور جےرام پریشانی کی حالت میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔زبیر باقی قیدیوں کے ساتھ ہی ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔اس نے ٹہلتے ٹہلتے اندر جھانک کردیکھا لیکن پہرےدار نے اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔جےرام سے ایک معمولی پہرےدار کا یہ سلوک دیکھ کر زبیر اور اس کے ساتھیوں کو یقین ہونے لگا کہ وہ اور ان کے ساتھی ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔
غروبِ آفتاب سے کچھ دیر پہلے راجہ کے ایک سپاہی نے جےرام کو اطلاع دی کہ مہاراج آپ کو بلاتے ہیں۔جےرام کا کاٹھیاوار کے راجہ کے تحائف کا صندوق اٹھوا کر راجہ کے محل پہنچا۔پہرےدار اسے محل کے ایک کمرے میں لےگئے۔
راجہ دہر سنگِ مرمرکے چبوترے کے اوپر سونے کی کرسی پر بیٹھا تھا۔پرتاپ رائے کے علاوہ دیبل کے ایک حاکمِ اعلی اور سیناپتی ادھے سنگھ اور اس کا ایک نوجوان بیٹا بھیم سنگھ جو ارور سے راجہ کے ساتھ آئے تھے، اس کے سامنے کھڑے تھے۔
(نوٹ: ”ارور“ سندھ کا دارالحکمومت ضلع نواب شاہ میں بیرانی کے قریب ایک قدیم شہر کے کھنڈرات موجود ہیں، جسے دلور کہا جاتا ہے۔بعض محقیقین کے خیال میں دلور، ارور کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔لیکن بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ارور کا شہر موجودہ روہڑی آس پاس آباد ہے۔ اور دریائے سندھ نے اس کا نشان تک نہیں چھوڑا۔)
جےرام نے راجہ کو تین بار جھک کرسلام کیا اور ہاتھ باندھ کرکھڑا ہوگیا۔دو سپاہیوں نے آبنوس کا صندوق راجہ کے سامنے لاکر رکھ دیا۔جےرام نے راجہ کے حکم سے صندوق کھولا۔راجہ نے جواھرات پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔پھر پرتاپ رائے کی طرف دیکھا اور جےرام سے سوال کیا۔”ہم نے سنا ہے کہ تم عربوں کی حمایت کرنا چاہتے ہو۔تم نے ہمارے متعلق یہ بھی کہا ہے کہ ہم عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور تم نے ہمارے وفادار پرتاپ رائے پر تہمت لگانے کے لیے ایک عرب لڑکی اور اپنی بہن کو کہیں چھپا دیا ہے؟“
جےرام نے جواب دیا۔”ان داتا!مجھے یہ یقین نا تھا کہ پرتاپ رائے نے آپ کے حکم سے ان کے جہازوں کو لوٹا تھا، ان کا دیبل میں ٹھہرنے کا ارادہ نا تھا۔انھوں نے مجھے راستے میں بحری ڈاکووں سے چھڑایا تھا۔دیبل میں میں انھیں اپنا مہمان بنا کرلایا تھا اور اپنے مہمان کی رکھشا ایک راجپوت کا دھرم ہے۔عرب لڑکی اور اپنی بہن کے متعلق میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ جب جہاز لوٹے جارہے تھے میں ایک کوٹھری میں بند تھا۔“
(قسط نمبر54)
”تم نے پرتاپ رائے سے یہ کہا تھا کہ تھا کہ تم نے عربوں کو اس کی قید سے چھڑانے کے لیے یہ بہانا تراشہ تھا؟“
”ان داتا! میں اس سے انکار نہیں کرتا لیکن۔۔۔۔۔۔۔!“
راجہ نے سخت لہجے میں کہا۔”ہم کچھ نہیں سننا چاہتے۔اگر عربوں نے شکایت کی کہ جہاز پر سے ان کی ایک لڑکی غائب ہوئی ہے تو تمہیں اس لڑکی کو ہمارے حوالے کرنا پڑے گا۔“
”مہاراج! اگر عرب مجھ پر یہ شبہ ظاہر کریں کہ لڑکی کو میں نے اغوا کیا ہے تو میں ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔“
”ہم تمہاری چال اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اگر عربوں نے تمہیں قصوروار نا ٹھہرایا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے ان کی مرضی سے لڑکی کو کہیں چھپا رکھا ہے۔تم جانتے ہو کہ ہمارے پاس ایسے طریقے ہیں جن سے انھیں سچ بولنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔“
”ان داتا! اگر آپ مجھے قصور وار ٹھہراتے ہیں تو جو سزا جی میں آئے دے لیں، لیکن عربوں کے ساتھ پہلے ہی زیادتی ہوچکی ہے۔“
”تو تم ہمارے دشمنوں کے ساتھ دوستی کا دم بھرتے ہو؟“
”وہ ہمارے دشمن نہیں۔وہ سندھ کو عرب کا پرامن ہمسایہ خیال کرتے تھے۔ورنہ وہ دیبل کے قریب سے بھی نہ گزرتے تھے۔اگر وہ نیک نیت نا ہوتے تو جواہرات کا یہ صندوق جو میں مہاراجہ کاٹھیاوار کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں، آپ تک نا پہنچتا۔“
راجہ نے کہا۔”کاٹھیاوار کے جواہرات سراندیپ کے جواہرات کے مقابلے میں پتھر کے معلوم ہوتے ہیں۔“
”مہاراج! میں جوہری نہیں، ایک سپاہی ہوں، میں پتھروں کو نہیں پہچانتا لیکن آپ کے دوست اور دشمن کو پہچانتا ہوں۔میں ان پتھروں کے ساتھ آپ کی خدمت میں مہاراجہ کاٹھیاوار کی دوستی کا پیغام لایا ہوں۔ان پتھروں کی قیمت اگر ایک کوڑی بھی نہ ہوتو بھی وہ ہاتھ جو آپ کے سامنے یہ ناچیز تحائف پیش کررہا ہے بہت قیمتی ہے لیکن پرتاپ رائے نے عرب جیسی پرامن اور طاقتور ہمسایہ سلطنت کے جہاز لوٹ کر جو کچھ آپ کے لیے حاصل کیا ہے وہ آپ کو بہت مہنگا پڑے گا۔
ان داتا! آپ کو مسلمانوں سے دشمنی مول لینے سے پہلے سوچ بچار سے کام لینا چاہیے۔ان کا ہاتھ ہر ہاتھ سے مضبوط ہے اور ان کا لوہا ہر لوہے کو کاٹتا ہے۔وہ جیٹھ کی آندھیوں کی طرح اٹھتے ہیں اور ساون کے بادلوں کی طرح چھا جاتے ہیں۔ان کے مقابلے میں آنے والوں کو نا سمندر پناہ دیتے ہیں نہ پہاڑ۔ان کے گھوڑے پانی میں تیرتے اور ہوا میں اڑتے ہیں۔آپ نے برسات میں دریائے سندھ کی لہریں دیکھی ہیں، لیکن ان کی فتوحات کا سیلاب اس سے کہیں زیادہ تند اور تیز ہے۔“
راجہ دہر کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی۔اس نے چلا کرکہا۔”ڈرپوک گیدڑ! تمہاری رگوں میں راجپوت کا خون نہیں۔میرے ملک میں تم جیسے بزدل آدمی کے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔“
”ان داتا! میں اس وقت مہاراجہ کاٹھیاوار کا ایلچی ہوں۔میں خود ایسے ملک میں نہیں رہنا چاہتا جہاں دوست کو دشمن اور دشمن دوست خیال کیا جائے۔“
”کاٹھیاوار کا راجہ اگر خود بھی یہاں موجود ہوتا تو بھی میں یہ الفاظ سننے کے بعد اس کا سر قلم کروا دیتا۔پرتاپ رائے! اسے لے جاو۔ہم کل اس کی سزا کا فیصلہ کریں گے۔صبح عربوں کے سرغنہ کو میرے سامنے پیش کرو۔“
پرتال رائے نے سپاہیوں کو آواز دی اور آٹھ آدمی ننگی تلواریں لیے آموجود ہوئے۔پرتاپ رائے نے جےرام کو چلنے کا اشارہ کیا۔جےرام ننگی تلواروں کے پہرے میں پرتاپ رائے کے آگے آگے چل دیا۔“
اودھے سنگھ، جےرام کی تقریر کے دوران میں یہ محسوس کررہا تھا کہ ایک سرپھرا نوجوان اس کے اپنے خیالات کی ترجمانی کررہا ہے۔اس نے کہا۔”ان داتا! اگر مجھے اجازت ہو تو کھ عرض کروں؟“
راجہ نے جواب دیا۔”تمہارے کہنے کی ضرورت نہیں۔ہم اسے ایسی سزا دیں گے جو برہمن آباد کے لوگوں کو دیر تک نا بھولے۔“
اودھے سنگھ نے کہا۔”لیکن مہاراج میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے جوکچھ کہا نیک نیتی سے کہا ہے۔ہمیں چند ہاتھیوں اور جواہرات کے لیے عربوں کے ساتھ دشمنی مول نہیں لینی چاہیے۔ ہمیں اپنی طاقت پر بھروسہ ہے لیکن عرب نہایت سخت جان دشمن ہے۔“
راجہ نے کہا۔”اودھے سنگھ! ایک گیدڑ کی چیخیں سن کے تم بھی گیدڑ بن گئے۔یہ عرب اونٹنیوں کا دودھ پینے والے اور جو کی روکھی سوکھی روٹی کھانے والے ہماراےمقابلے کی جرات کریں گے؟“
”مہاراج! وہ اونٹنیوں کا دودھ پی کے شیروں سے لڑتے ہیں۔جو کی روٹی کھا کر پہاڑوں سے ٹکراتے ہیں۔“
”تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ اونٹوں پر چڑھ کر ہمارے ہاتھیوں کا مقابلہ کرنے آئیں گے؟“
”ان داتا! برا نا مانیے! ان کے اونٹ ایران کے ہاتھیوں کو شکست دے چکے ہیں۔“
راجہ نے غصے میں آکر کہا۔”اودھے سنگھ! مجھے تم سے یہ امید نا تھی کہ تم عربوں کے متعلق سنی سنائی باتوں سے مرعوب ہوجاو گے۔ہم عرب کی ساری آبادی سے زیادہ سپاہی میدان میں لاسکتے ہیں۔راجپوتانہ کے تمام راجے ہمارے اشارے پر گردانیں کٹوانے کے لیے تیار ہوں گے۔“
(قسط نمبر55)
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! مجھے ان کا خوف نہیں لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ہمیں سوئے ہوئے فتنے کو جگانے سے کوئی فائدہ نا ہوگا۔دوسروں کی مدد کے بھروسے پر ایک طاقتور دشمن سے لڑائی مول لینا ٹھیک نہیں۔“
”اودھے سنگھ! تم بار بار کیا کہہ رہے ہو؟ سندھ کے سامنے عرب کے صحرائی ایک طاقتور دشمن کی حثیت ہرگز نہیں رکھتے۔آخر عربوں میں کیا خوبی ہے جو ہمارے سپاہیوں میں نہیں؟“
”مہاراج! ایسے دشمن کا کوئی علاج نہیں جو موت سے نا ڈرتا ہو۔اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو آپ قیدیوں میں سے ایک عرب کو لاکر اس کا امتحان لےلیں۔تلواریں ان کے کھلونے ہیں۔“
راجہ نے اودھے سنگھ کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیوں بھیم سنگھ! تمہارا بھی یہی خیال ہے کہ ہمارے سپاہی عربوں کے مقابلے میں کمزور ہیں؟“
بھیم سنگھ نے کہا۔”مہاراج! پتاجی عربوں کے ساتھ پرامن رہنے رہنے میں بھلائی سمجھتے ہیں، ورنہ ہم نے بھی تلواروں کے سائے میں پرورش پائی ہے، اگر عرب موت سے نہیں ڈرتے تو ہمیں مارنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔“
راجہ نے کہا۔”شاباش! دیکھا اودھے سنگھ! تمہارا بیٹا تم سے بہادر ہے۔“
اودھے سنگھ نےجواب دیا۔”مہاراج کے منہ سے یہ سن کر مجھے خوش ہونا چاہیے، لیکن سینا پتی کے فرائض کا احساس مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں مہاراج کے سامنے آنے والے خطرات کو گھٹا کر پیش نا کروں۔بھیم سنگھ ابھی بچہ ہے۔اس نے عربوں کو لڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔لیکن میں مکران کی جنگ میں دیکھ چکا ہوں کہ عام عرب سپاہی ہمارے بڑے بڑے پہلوانوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔مکران پر عربوں نے کل چھ سو سواروں کے ساتھ حملہ کیا تھا اور راجہ کے چارہزار سپاہیوں کو تنکوں کی طرح بہاکر لے گئے تھے۔جےرام کو آپ دیر سے جانتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں میں اس سے بڑھ کر تلوار کا دھنی اور کوئی نہیں. اگر وہ عربوں سے اس قدر مرعوب ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بزدل یا مہاراج کا نمک حرام ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ عربوں سے بگاڑ کے خطرے کا صحیح اندازہ کرچکا ہے۔“
راجہ نے تلخ لہجے میں کہا۔”تم میرے سینا پتی ہو وزیر نہیں اور میں ان معاملات میں تمہاری سمجھ سے کام نہیں لینا چاہتا۔اگر بڑھاپے میں تمہاری ہمت جواب دےچکی ہے تو تمہیں اس عہدہ سے سبکدوش کیا جاسکتا ہے اور تمہیں یہ حق بھی نہیں کہ تم جےرام جیسے سرکش، گستاخ اور بزدل کی سفارش کرو۔وہ جو کچھ ہمارے سامنے کہہ چکا ہے وہ اسے بڑی سے بڑی سزا دینے کے لیے کافی ہے۔“
اودھے سنگھ راجہ کے تیور دیکھ کر سہم گیا۔اس نے کہا۔”مہاراج! میں مافی چاہتا ہوں۔آپ کو میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے۔میں نے اتنی باتیں کرنے کی جرات اس لیے کی کہ ابھی تک آپ نے عربوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا اگر آپ اعلان جنگ کرچکے ہوں تو میرا فرض ہے کہ آپ کی فتح کے لیے اپنی جان قربان کردوں۔جےرام کی گستاخی کا مجھے افسوس ہے۔لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وقت آنے پر وہ بھی وفادار راجپوت ثابت ہوگا۔اگر آپ عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو ہمیں آج سے ہی تیاری شروع کردینی چاہیے۔میں چاہتا ہوں کہ ہم عربوں کو ایسی شکست دیں کہ وہ پھر سراٹھانے کے قابل نہ ہوسکیں۔اس مقصد کے لیے ہمیں افواج منظم کرنے کے علاوہ شمالی اور جنوبی ہندوستان کے تمام چھوٹے اور بڑے راجوں کا تعاون حاصل کرنا چاہیے۔وہ سب آپ کا لوہا مانتے ہیں اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر لڑنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھیں گے۔ہمیں کاٹھیاوار کے راجہ کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔اس نے آپ کو تحائف نہیں بھیجے خراج بھیجا ہے۔اگر آپ جےرام کا جرم معاف کردیں تو اس کی وساطیت سے جنگ میں بھی مہاراجہ کاٹھیاوار کا تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔“
راجہ نے قدرے مطمئین ہوکر کہا۔”اب تم ایک راجپوت کی طرح بول رہے ہو لیکن جےرام عربوں کے ساتھ مل چکا ہے۔اگر اسے معاف بھی کردیا جائے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں کرے گا۔ہاں! میں نے سنا ہے کہ وہ ایک عرب نوجوان کی دوستی کا دم بھرتا ہے۔اگر وہ اس کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہوجائے اور اسے تلوار کے مقابلے میں مغلوب کرلے تو میں اسے چھوڑدوں گا۔“
”مہاراج! وہ آپ کا اشارہ پاکر پہاڑ کے ساتھ ٹکڑ لگانے کے لیے بھی تیار ہوگا۔“
”بہت اچھا! ہم تمہاری سفارش پر اسے موقع دیں گے۔کل ہم جےرام کی نیک نیتی کے علاوہ تلوار چلانے میں ایک عرب کی مہارت بھی دیکھ لیں گے۔“
راجہ نے اس کے بعد مجلس برخاست کی اور اٹھ کر محل کے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
(قسط نمبر56)
اگلے دن راجہ دہر نے برہمن آباد کے محل کے کشادہ کمرے میں دربار منعقد کیا۔سندھ کے دارالحکومت ارور سے اس کا وزیر بھی برہمن آباد پہنچ چکا تھا۔وزیر، سیناپتی اور برہمن آباد کے امرا حسبِ مرتب تخت کے قریب کرسیوں پر رونق آفروز تھے۔وزیر اور سینا پتی کے بعد تیسری کرسی جس پر پہلے برہمن آباد کا گورنر بیٹھتا تھا۔اب دیبل کے گورنر کو دی گئی تھی اور برہمن آباد کا گورنر راجہ سے چند بالشت دور ہوجانے پر محسوس کررہا تھا کہ قدرت نے راجہ اور اس کے درمیان پہاڑ کھڑے کردیے ہیں۔راجہ کے بائیں ہاتھ پانچویں کرسی پر بھیم سنگھ براجمان تھا۔باقی امرا بائیں طرف دوسری قطار میں بیٹھے ہوئے تھے۔کرسی کے پیچھے پندرہ بیس عہدے دار دائیں بائیں دو قطاروں میں کھڑے تھے۔تخت پر راجہ کے دائیں اور بائیں دورانیاں رونق آفروز تھیں۔ایک حسین و جمیل لڑکی راجہ کے پیچھے صراحی اور جام لیے کھڑی تھی۔درباری شاعر نے مترنم آواز میں راجہ کی تعریف میں چند اشعار پڑھے۔اس کے بعد کچھ دیر کے لیے رقص و سرور کی محفل گرم رہی۔راجہ نے شراب کے چند گھونٹ پیے اور قیدیوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔سپاہی زبیر کو پابہ زنجیر دربار میں لے آئے۔اس کے تھوڑی دیر بعد جےرام داخل ہوا۔زبیر کی طرح اس کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں نا تھیں لیکن اس کے آگے اور پیچھے ننگیں تلواروں کا پہرہ زبیر کو یقین دلانے کے لیے کافی تھا کہ اس کی حالت اس سے مختلف نہیں۔
راجہ نے پرتاپ رائے کی طرف دیکھا۔”یہ ہماری زبان جانتا ہے؟“
اس نے اٹھ کرجواب دیا۔”جی مہاراج! یہ اجنبی زبانیں زبانیں سیکھنے میں بہت ہوشیار معلوم ہوتا ہے۔“
راجہ نے زبیر کی طرف دیکھا اور پوچھا۔”تمہارا نام کیا ہے؟“
”زبیر!“ اس نے جواب دیا۔
راجہ نے کہا۔”ہم نے سنا ہے کہ تم ہم سے بات کرنے کے لیے بہت بےچین تھے۔کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟“
”میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ دیبل کی بندرگاہ پر ہمارے جہاز کیوں لوٹے گئے اور ہمیں قیدی بنا کر ہمارے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟“
راجہ نے قدرے بےچین ہوکر جواب دیا۔”نوجوان! ہم پہلے سن چکے ہیں کہ عربوں کو بولنے کا سلیقہ نہیں لیکن تمہیں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی خاطر زرا ہوش سے کام لینا چاہیے۔“
زبیر نے کہا۔”ہمارے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے،اگر آپ کو اس کا علم نہیں تو یہ اور بات ہے، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ دیبل کے گورنر نے بغیر کسی وجہ کے ہم پر دست درازی کی۔اگر آپ کو ہمارے متعلق کوئی غلط فہمی ہو تو ہم اسے دور کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اگر سندھ کی طرف سے یہ قدم ہماری غیرت کا امتحان لینے کے لیے اٹھایا گیا ہے تو ہم واکی سندھ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم ہندوستان کے اچھوت نہیں جن کی فریاد ان کے گلے سے باہر نہیں آسکتی۔آج تک ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرنے کی جرات کسی نے نہیں کی اور سندھ کی سلطنت کو میں ایسی سلطنت نہیں سمجھتا، جو ایران کیزرہیں اور روما کے خود کاٹنے والی شمشیروں کی ضرب برداست کرسکے۔وہ قوم جو روئے زمین کے ہر مظلوم کی داد رسی اپنا فرض سمجھتی ہے اپنی بہو بیٹیوں کی بےعزتی پر خاموش نہیں بیٹھے گی۔“
راجہ نے وزیر کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”سنو! ایک قیدی ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کررہا ہے۔“
وزیر نے جواب دیا۔”مہاراج! یہ عرب بہت باتونی ہیں۔ایران اور روم کی فتوحات نے انھیں مغرور بنا دیا ہے لیکن انہیں سندھ کے شیروں سے واسطہ نہیں پڑا۔“
زبیر نے جواب دیا۔” ہم نے دیبل میں شیروں کی شجاعت نہیں دیکھی، لومڑیوں کی مکاری دیکھی ہے۔“
زبیر کے ان الفاظ کے بعد تمام درباری ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
اودھے سنگھ موقع کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے اٹھا اور ہاتھ باندھ کرکہنے لگا۔”مہاراج! چنددن قید میں رھ کر یہ نوجوان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے اور پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جس سپاہی کی تلوار کند ہو۔اس کی زبان بہت تیز چلتی ہے۔“
(قسط نمبر57)
زبیر غصے کی حالت میں اودھے سنگھ کی دوستانہ مداخلت کا مطلب نا سمجھ سکا اور بولا۔”مجھ پر پیچھے سے وار کیا گیا ہے، ورنہ میری تلوار کے متعلق تمہاری یہ رائے نا ہوتی۔“
پرتاپ رائے نے اٹھ کرکہا۔”مہاراج! یہ جھوٹ کہتا ہے۔ہم نے اسے لڑ کر گرفتار کیا تھا۔“
زبیر نے غصے اور حقارت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔”بزدل آدمی! تم انسانیت کا ذلیل ترین نمونہ ہو۔میرے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے ہیں۔لیکن اس کے باوجود تمہارے چہرے پر خوف و ہراس کے آثار ظاہر ہیں۔لومڑی شیر کو پنجرے میں بھی دیکھ کر بدحواس ہے۔میرا صرف ایک ہاتھ کھول دو اور مجھے میری تلوار دےدو۔پھر ان سب کو میرے اور تمہارے دعوی کی صداقت معلوم ہوجائے گی۔“
پرتاپ رائے پھٹی پھٹی نگاہوں کے ساتھ حاضرین جماعت کو دیکھ رہا تھا۔برہمن آباد کا گورنر زبیر کی آمد کو تائیدِ غیبی سمجھ رہا تھا۔اس نے آٹھ کر دربار کا سکوت توڑا اور کہا۔”مہاراج یہ کھشتری دھرم کی توہین ہے کہ ایک معمولی عرب بھرے دربار میں سردار پرتاپ رائے کو بزدلی کا طعنہ دے۔آپ سردار پرتاپ رائے کو حکم دیں کے وہ اس کا دعوی جھوٹ ثابت کردکھائیں۔“
اودھے سنگھ کو پرتاپ رائے سے کم نفرت نا تھی لیکن وہ جےرام کو راجہ کے عتاب سے بچانا زیادہ ضروری سمجھتا تھا اور اس کو بچانے کی اس کے ذہن میں یہی صورت تھی کہ جےرام زبیر کا مقابلہ کرکے راجہ کے شکوک رفع کردے کہ وہ عربوں کا دوست ہے۔اس نے آٹھ کرکہا۔”مہاراج! برہمن آباد کے حاکم کا خیال درست نہیں۔سردار پرتاپ رائے کا مرتبہ ایسا نہیں کہ وہ ایک معمولی عرب سے مقابلہ کریں، یہ ان کی توہیں ہے۔اس نوجوان کی خواہش پوری کرنے کے لیے ہمارے پاس ہزاروں نوجوان موجود ہیں۔اگر مہاراج کو ناگوار نا ہو تو آپ جےرام کو یہ ثابت کرنے کا موقع دیں کہ وہ ملیچھ عربوں کا دوست نہیں۔“
راجہ نے جواب دیا۔”تم کئی بار جےرام کی سفارش کرچکے ہو لیکن اس کی باتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ عربوں سے بہت زیادہ مرعوب ہے۔کیوں جےرام! تم اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے تیار ہو؟“
جےرام نے ملتجیانہ انداز میں کہا۔”مہاراج! میں آپ کے اشارے پر آگ میں کود سکتا ہوں لیکن زبیر میرا مہمان ہے اور میں اس پر تلوار نہیں اٹھا سکتا۔“
دربار میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔اودھے سنگھ نے دل برداشتہ ہوکر جےرام کی طرف دیکھا۔راجہ نے چلا کرکہا۔”اس گدھے کو میرے سامنے سے لےجاو۔اس کا منہ کالا کرکے پنجرے میں بند کردو اور شہر کی گلیوں میں پھراو۔کل اسے مست ہاتھی کے سامنے ڈالا جائے گا۔اودھے سنگھ! تم نے اس عرب کے سامنے ہمیں شرمسار کیا اور پرتاپ رائے! تم چپ کیوں بیٹھے ہو۔تم دیبل میں اسے نیچا دیکھا چکے ہو۔اب تمہاری تلوار نیام سے باہر کیوں نہیں آتی؟ تم سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟“
نوجوان بھیم سنگھ نے آٹھ کر تلوار بےنیام کی اور کہا۔”مہاراج! مجھے اجازت دیجیے۔“
بھیم سنگھ کی طرف دیکھا دیکھی تمام درباریوں نے تلواریں کھینچ لیں۔سب سے آخر میں پرتاپ رائے نے تلوار نکالی لیکن اس کی نگاہیں راجہ سے کہہ رہی تھیں۔”ان داتا! میرے حال پر رحم کر۔“ درباریوں کو راجہ کے اشارے کا منتظردیکھ کر زبیر نے آپنے ہونٹوں پر حقارت آمیز مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ”بس اب جانے دیجیے! مجھے یقین ہوگیا کہ اپنے حریف کو پابہ زنجیر دیکھ کر آپ کے درباری بزدل کہلانا پسند نہیں کرتے لیکن قدرت لومڑیوں کے سامنے شیروں کو ہمیشہ باندھ کر پیش نہیں کرتی۔“
بھیم سنگھ نے کہا۔”مہاراج! اس کی بیڑیاں کھلوا دیجیے۔میں اسے ابھی بتادوں گا کہ شیر کون ہے ارو لومڑی کون۔“
راجہ کے اشارے پر سپاہیوں نے زبیر کی بیڑیاں اتار دیں اور اس کے ہاتھ میں ایک تلوار دےدی گئی لیکن وزیر نے کہا۔”مہاراج! آپ کےدربار میں مقابلہ ٹھیک نہیں۔“
راجہ نے کہا۔”ٹھیک کیوں نہیں؟ اسی دربار میں ہمارے ساتھیوں کو بزدلی کا طعنہ دیا گیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہیں اس کا انتقام لیا جائے۔“
”مہاراج! انتقام اس نوجوان کو لڑنے کا موقع دیے بغیر بھی لیا جاسکتا ہے۔“
راجہ نے جواب دیا۔”نہیں! ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ عرب تلوار کس طرح چلاتے ہیں۔“
(قسط نمبر58)
بھیم سنگھ کرسیوں کے درمیان کھلی جگہ پر آکھڑا ہوا اور اس نے تلوار کے اشارے سے زبیر کو سامنے آنے کی دعوت دی۔
زبیر نے راجہ کی طرف دیکھا اور کہا۔”اس نوجوان کے ساتھ مجھے کوئی دشمنی نہیں۔میرا مجرم پرتاپ رائے ہے۔آپ اسے قربانی کا بکرا کیوں بناتے ہیں؟“
بھیم سنگھ نے کہا۔”بزدل! تم صرف باتیں کرنا جانتے ہو۔اگر ہمت ہے تو سامنے آو۔“
”اگر تم دوسروں کا بوجھ اٹھانے پر بضد ہو تو تمہارے مرضی۔“ یہ کہتے ہوئے زبیر آگے بڑھ کر بھیم سنگھ کے سامنے آکھڑا ہوا۔ راجہ کے حکم سے سپاہی تخت اور کرسیوں کے آگے نصف دائرے میں کھڑے ہوگئے۔اودھے سنگھ نے اٹھ کرکہا۔”بیٹا! اوچھا وارنہ کرنا۔تم ایک خطرناک دشمن کے سامنے کھڑے ہو۔“
”پتاجی! آپ فکر نا کریں۔“ یہ کہتے ہوئے بھیم سنگھ نے یکے بعد دیگرے تین چار وار کردیے۔زبیر اس حملے کی غیر متوقع شدت سے دو تین قدم پیچھے ہٹ گیا اور اہلِ دربار نے خوشی کا نعرہ بلند کیا۔زبیر کچھ دیر بھیم سنگھ کے وار روکنے پر اکتفا کرتا رہا۔تھوڑی دیر بعد تماشائی یہ محسوس کرنے لگے کہ حملہ کرنے والے ہاتھ سے حملہ روکنے والا ہاتھ کہیں زیادہ پھرتیلا ہے۔اودھے سنگھ پھر چلایا۔”بیٹا جوش میں نا آو۔تلوار کا ٹھنڈا کھلاڑی ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔“
لیکن زبیر کے چہرے کی پرسکون مسکراہٹ نے بھیم سنگھ کو اور زیادہ سیخ پاکردیا اور وہ اندھا دھند وار کرنے لگا۔اسے آپے سے باہر آتا دیکھ کر زبیر نے یکے بعد دیگرے چند وار کیے اور بھیم سنگھ کو جارحانہ حملوں سے مدافعت پر مجبور کردیا۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بھیم سنگھ کی تلوار بروقت مدافعت کے لیے نااٹھ سکی لیکن زبیر کی تلوار اسے گھائل کرنے کی بجائے اس کے جسم کے کسی حصے کو چھونے کے بعد وآپس چلی گئی۔درباری اب یہ محسوس کررہے تھے کہ وہ جان بوجھ کر بھیم سنگھ کو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔بھیم سنگھ کو خود بھی اس کی برتری کا احساس ہوچکا تھا لیکن وہ اعترافِ شکست پر موت کو ترجیح دینے کے لیے تیار تھا۔پرتاپ رائے بھیم سنگھ کے باپ سے پرانی رنجشوں کے باوجود انتہائی خلوص سے بھیم سنگھ کی فتح کے لیے دعائیں کررہا تھا لیکن بھیم سنگھ کے بازو ڈھیلے پرچکے تھے، راجہ اور اہلِ دربار کے چہروں پر مایوسی چھا رہی تھی۔
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! بھیم سنگھ جان دےدے گا لیکن پیچھے نہیں ہٹے گا۔آپ اس کی جان بچا سکتے ہیں۔“
بڑی رانی نے اودھے سنگھ کی سفارش کی لیکن چھوٹی رانی نے کہا۔”مہاراج! سپاہیوں کو بھیم سنگھ کی مدد کا حکم دینا انصاف نہیں۔اپنے بیٹے کے لیے اودھے سنگھ کے خون نے جوش مارا ہے لیکن جب وہ پردیسی دوقدم پیچھے ہٹا تھا، اس پر کسی کو رحم نا آیا۔اگر بچانا چاہتے ہیں تو دونوں کی جان بچائیے.“
راجہ تذبذب کی حالت میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔اچانک زبیر پہ درپہ چند سخت وار کرنے کے بعد بھیم سنگھ کو چاروں طرف سے گھیر کے اس کی خالی کرسی کے سامنے لے آیا۔سپاہی جو ننگی تلواریں لیے قطار میں کھڑے تھے، ادھر ادھر سمٹ گئے۔بھیم سنگھ لڑکھڑاتا ہوا پیٹھ کے بل کرسی پر گرپڑا۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن زبیر نے اس کے سینے پر تلوار کی نوک رکھتے ہوئے کہا۔”تم اگر چند سال اور زندہ رہو تو ایک اچھے سپاہی بن سکتے ہو۔لیکن سرِدست تمہاری جگہ یہ کرسی ہے۔“
بھیم سنگھ کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی اور وہ غصے اور ندامت کی حالت میں اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔
راجہ نے سپاہیوں کی طرف اشارہ کیا لیکن ان کی تلواریں بلند ہونے سے پہلے زبیر بھیم سنگھ کی کرسی سے اوپر کود کر پرتاپ رائے کے پیچھے جاکھڑا ہوا اور بیشتر اس کے کہ پرتاپ رائے اپنی بدحواسی پر قابو پاتا زبیر نے اپنی تلوار کی نوک اس کی پیٹھ پر رکھتے ہوئے کہا۔”اپنے سپاہیوں کو وہیں کھڑا رہنے کا حکم دیجیے! ورنہ میری تلوار اس موذی کے سینے سے پار ہوجائے گی۔“
(قسط نمبر59)
راجہ کے اشارے سے سپاہی پیچھے ہٹ گئے تو زبیر نے پھر راجہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”بےوقوفوں کے بادشاہ! مجھے تم سے نیک سلوک کی توقع نہیں لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ جن صلاح کاروں نے تمہیں عرب کے ساتھ لڑائی مول لینے کا مشورہ دیا ہے، وہ تمہارے دوست نہیں۔جن لوگوں پر تمہیں بھروسہ ہے، وہ سب دیبل کے حاکم کا دل و دماغ رکھتے ہیں۔اس کی طرف دیکھو، یہ وہ بہادر ہے جو کرسی پر بیٹھا بیدِ مجنوں کی طرح کانپ رہا ہے۔اب میں تمہارے سامنے اس شخص سے چند سوالات کرتا ہوں. ”کیوں پرتاپ رائے! تم نے مجھے لڑ کر گرفتار کیا تھا یا دوستی کا فریب دےکر جہاز سے بلایا تھا؟ جواب دو، خاموش کیوں ہو! اگر تم نے جھوٹ بولا تو یاد رکھو، ان سپاہیوں کی حفاظت سے تم نہیں بچ سکتے۔بولو!“ یہ کہتے ہوئے زبیر نے تلوار کو آہستہ سے جنبش دی اور اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔”میں نے تمہیں جہاز پر سے بلایا تھا لیکن مہاراج کا یہی حکم تھا کہ تمہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے۔“
راجہ نے کہا۔”ٹھہرو! پرتاپ رائے نے ہمارے حکم کی تعمیل کی تھی۔ اگر تم نے اس کے ساتھ کوئی زیادتی کی تو قیدیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے گا جسے تم تصور میں بھی برداشت نہیں کرسکو گے۔ابھی ہم نے تمہارے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ہم خوامخواہ عرب کے ساتھ بگاڑ نہیں چاہتے۔تمہاری قوم واقعی بہادر ہے لیکن اگر تم زرا سی سمجھ سے کام لو تو ممکن ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو آزاد کردیں۔تمہارے سر پر اس وقت بیس سپاہی کھڑے ہیں۔تم زیادہ سے زیادہ ایک کو مار سکو گے لیکن اس وقت ایک آدمی کے بدلے ہم تمام قیدیوں کو پھانسی دے دیں گے۔ اگر اپنے ساتھیوں کی خیر چاہتے ہو تو تلوار پھینک دو!“
زبیر نے کہا۔”مجھے تم میں سے کسی پر اعتبار نہیں لیکن میں تمہیں اپنا نفع اور نقصان سوچنے کا آخری موقع دیتا ہوں۔یادرکھو! اگر تم نے میرے ساتھیوں کے ساتھ بدسلوکی کی تو وہ دن دور نہیں جب تمہارے ہر سپاہی کے سر پر میرے جیسے سرپھیروں کی تلواریں چمک رہی ہوں گی۔تمہیں اگر جواہرات اور ہاتھیوں کی لالچ ہے تو میں ان کا مطالبہ نہیں کرتا۔میں صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ تم مجھے اور میرے ساتھیوں کو رہا کردو اور خالد اور اس کی بہن کو ہمارے حوالے کردو!“
راجہ نے جواب دیا۔”جب تک تم تلوار نہیں پھینکتے ہم تمہاری کسی درخواست پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔“
زبیر کو راجہ کے متعلق کوئی خوش فہمی نا تھی۔اگر اسے اپنے ساتھیوں کا خیال نا آتا تو یقیناً اپنے آپ کو راجہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے بہادرانہ موت پر ترجیح دیتا لیکن بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کے عبرتناک انجام کے تصور نے اس کا جوش ٹھنڈا کردیا۔اسے ناہید کا خیال آیا اور اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔مختلف خیالات کے گرداب میں راجہ کے حوصلہ افزاء کلمات اس کے لیے تنکوں کا سہارا ثابت ہوئے اور اس نے اپنی تلوار تخت کے سامنے پھینک دی۔راجہ نے اطمنان کا سانس لیا۔پرتاپ رائے کی حالت اس شخص سے مختلف نا تھی جو بھیانک سپنا دیکھنے کے بعد نیند سے بیدار ہوا ہو۔بڑی رانی نے راجہ کے دائیں کان میں کچھ کہا۔”مہاراج! ایسے لوگوں سے دشمنی مول لین ٹھیک نہیں۔“
راجہ نے اشارے سے وزیر کو اپنے پاس بلایا اور آہستہ سے پوچھا۔”تمہارا کیا خیال ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”مہاراج مجھ سے بہتر سوچ سکتے ہیں۔“
راجہ نے کہا۔”اگر میں اسے چھوڑ دوں تو یہ سرادر اور میری رعایا مجھے بزدل تو خیال نا کرے گی؟“
”مہاراج! چاند پر تھوکنے سے اپنے منہ پر چھینٹے پڑتے ہیں۔آپ اپنی رعایا کی نظر میں ایک دیوتا ہیں لیکن اب ان قیدیوں کو چھوڑنا مصلحت کے خلاف ہے۔عربوں کو یہ جرات نہیں ہوسکتی کہ وہ سندھ پر حملہ کریں۔لیکن ان لوگوں کو اگر ان کے ملک میں وآپس بھیج دیا گیا تو یہ تمام عرب میں ہمارے خلاف آگ کا طوفان کھڑا کردیں گے۔اگر آپ عربوں کے ساتھ جنگ کرکے مکران کا علاقہ حاصل کرنے کا ارادہ بدل چکے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ ان سب کو آزاد کرنے کی بجائے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے تاکہ عربوں کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نا ہو کہ ہم نے دیبل سے ان کے جہاز لوٹے ہیں۔اس سے پہلے ہم ابوالحسن کے معاملے میں مکران کے گورنر کو ٹال چکے ہیں۔اب بھی اگر کوئی ان کا پتہ کرنے آیا تو تسلی کردی جائے گی۔“
راجہ نے کہا۔”تمہیں کس نے کہا کہ ہم مکران کو فتح کرنے کا ارادہ بدل چکے ہیں۔“
وزیر نے جواب دیا۔”مہاراج! اگر آپ کا ارادہ نہیں بدلا تو پھر ان لوگوں کے متعلق سوچنے کی ضرورت نہیں۔میرے خیال میں اس کی کم سے کم سزا یہ ہوسکتی ہے کہ شہر کے کسی چوراہے میں پھانسی دی جائے تاکہ ہمارے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ عرب انسانوں سے مختلف نہیں!“
راجہ نے کہا۔”میرا بھی یہی خیال ہے لیکن جہاز سے ایک لڑکا اور لڑکی غائب ہوچکے ہیں۔ اگر انھوں نے سندھ کی عبور پار کرکے مکران میں اور عربوں کو یہ خبر پہنچادی تو ممکن ہے کہ ہمیں بہت جلد لڑائی کی تیاری کرنی پڑے۔“
وزیر نے کہا۔”مہاراج! عرب کی موجودہ حالت مجھ سے پوشیدہ نہیں۔ان کی خانہ جنگی کو ختم ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی اور اب ان کی تمام افواج شمال اور مغرب کے ممالک میں لڑرہی ہے۔ ہمارے پاس ایک لاکھ فوج موجود ہے اور ہم ضرورت کے وقت اسی قدر اور سپاہی جمع کرسکتے ہیں۔پھر راجپوتانے کے تمام راجہ آپ کے باجگزار ہیں۔وہ آپ کے جھنڈے تلے عربوں سے لڑنا اپنی عزت سمجھیں گے۔مجھے یقین ہے کہ جو عرب سندھ میں آئے گا، وآپس نہیں جائے گا۔“
”شاباش! مجھے تم سے یہی امید تھی۔تم آج ہی تیاری شروع کردو۔“
راجہ سے کانا پھوسی ختم کرنے کے بعد وزیر اپنی کرسی پر آبیٹھا۔
راجہ نے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”اسے لےجاو!آج شام تک ہم اس کا فیصلہ کردیں گے۔“
(قسط نمبر60)
__آخری آمید__
رات ک وقت سونے سے پہلے داسو نے کئی بار نرائن داس سے جےرام کے ناآنے کی وجہ پوچھی لیکن اس نے ہر بار یہی جواب دیا کہ شہر میں اس کے کئی دوست ہیں۔کسی نے اپنے پاس ٹھہرالیا ہوگا۔داسو کو جےرام کی ہدایت تھی کہ وہ وآپس آنے تک نرائن داس کے گھر سے باہر نا نکلے۔اگلے دن بھی اس نے طوعاً اور کرہاً جےرام کی اس ہدایت پر عمل کیا۔شام سے کچھ دیر پہلے نراہن داس نے آکر یہ خبر دی کہ جےرام کو ایک عرب کے ساتھ پنجرے میں بند کرکے شہر میں گھمایا جارہا ہے اور صبح سورج نکلنے سے پہلے ان دونوں کو شہر کے چوراہے میں پھانسی دےدی جائے گی۔معلوم ہوا ہے کہ اس نے بھرے دربار میں راجہ کے ساتھ گستاخی کی ہے۔
داسو نے یہ سنتے ہیں شہر کا رخ کیا۔لوگ شہر کے ایک پررونق چوراہے میں ایک بانس کے پنجرے کے گرد جمع ہورہے تھے۔ داسو اپنے مضبوط بازووں سے لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتا ہوا پنجرے کے قریب پہنچا اور پنجرے کے اندر زبیر اور جےرام کو ایک نظر دیکھنے کے بعد الٹے پاوں لوٹ آیا۔تھوڑی دیر بعد وہ گھوڑے پر سوار ہوکر جنگل کا رخ کررہا تھا۔
شہر میں آدھی رات تک چند پہریداروں کے سوا تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔جےرام زبیر کو جنگل میں خالد، ناہید اور مایا سے ملاقات کا واقعہ سنا چکا تھا۔چند پہرےدار سو چکے تھے اور باقی پنجرے کےقریب بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے۔زبیر نے موقع پاکرکہا۔”وہ رومال کہاں ہے؟“
جےرام نے جواب دیا۔”وہ میری کلائی کے ساتھ بندھا ہوا ہے لیکن ہم دونوں کے ہاتھ پہچھے کی طرف بندھے ہوئے ہیں۔کاش! داسو کو ہماری خبر ہوجاتی۔زبیر! زبیر! میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں!“
”پوچھو!“
”ہمیں سورج نکلنے سے پہلے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔تمہیں اس وقت سب سے زیادہ کس بات کا خیال آرہا ہے؟“
”میرے دل میں صرف ایک خیال ہے اور وہ یہ کہ میں اب تک خدا اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کو خوش کرنے کے لیے دنیا میں کوئی مفید کام نہیں کرسکا۔“
”تمہیں مرنے کا خوف تو ضرور ہوگا؟“
”ایک مسلمان کے ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ موت سے نہ ڈرے اور ڈرنے سے فائدہ ہی کیا۔انسان خواہ کچھ ہی کرے۔جو رات قبر میں آنی ہے،قبر میں ہی آئے گی۔اگر میری زندگی کے دن پورے ہو چکے ہیں تو میں آنسو بہا کر انھیں زیادہ نہیں کرسکتا لیکن مجھے افسوس ہے کہ ایسی موت ایک سپاہی کی شان کے شایاں نہیں۔“
جےرام نے کہا۔”مجھے ابھی تک یہ خیال آرہا ہے کہ شاید ہم اس سزا سے بچ جائیں۔کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید ابھی بھونچال کے جھٹکے سے یہ شہر مٹی کا ایک ڈھیر بن جائے گا۔کبھی مجھے ایک خیال آتا ہے کہ شاید بھگوان کا کائی اوتار آسمان سے اتر کر راجہ سے کہے کہ ان بےگناہوں کو چھوڑ دو،ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ کبھی مجھے یہ امید سہارا دیتی ہے کہ شاید دریائے سندھ اپنا راستہ چھوڑ کر دیبل کا رخ کرلے اور لوگ بدحواس ہوکر شہر سے بھاگ نکلیں اور جاتے جاتے ہمیں آزاد کرجائیں۔تمہیں اس قسم کا کوئی خیال نہیں آتا؟“
”نہیں! مجھے یسے خیالات پریشان نہیں کرتے۔میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر خدا کو میرا زندہ رکھنا منظور ہے تو وہ ہزار طریقوں سے میری جان بچا سکتا اور اگر میری زندگی کے دن پورے ہوچکے ہیں تو میری کوئی تدبیر مجھے موت کے پنجے سے نہیں چھڑا سکتی۔“
جےرام نے کہا۔”زبیر! کاش میں تمہاری طرح سوچ سکتا لیکن میں جوان ہوں اور ابھی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔تم بھی جوان ہو لیکن تمہارے سوچنے کا ڈھنگ مجھ سے مختلف ہے۔“
زبیر نے کہا۔”تم بھی اگر میری طرح سوچنے کی کوشش کرو تو دل میں تسکین محسوس کرو گے۔“
جےرام نے جواب دیا۔”یہ میرے بس کی بات نہیں۔“
زبیر نے کہا۔”جےرام! میری ایک بات مانو گے؟“
”وہ کیا؟“
”صبح ہونے میں زیاہ دیر نہیں۔میری اور تمہاری زندگی کے شاید تھوڑے سانس باقی ہیں۔میرے دل پر صرف ایک بوجھ ہے اور اگر تم چاہو تو میں موت سے پہلے اس بوجھ کو اپنے دل سے اتار سکتا ہوں!“
جےرام نے کہا۔”میں اس پنجرے میں تمہارے لیے جو کچھ کرسکتا ہوں، اس کے لیے تیار ہوں۔“
(قسط نمبر61)
”جےرام! ہم نے زندگی کی چند منازل ایک دوسرے کے ساتھ طےکی ہیں اور میں نہیں چاہتا کے مرنے کے بعد ہمارے راستے مختلف ہوں۔میں چاہتا ہوں کہ تم مسلمان ہو جاو۔اگر تم اس وقت بھی کلمہ توحید پڑھ لو تو میری گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی ہوجائے گی۔اب اتنا وقت نہیں کے میں تمہیں اسلام کی تمام خوبیوں سے آگاہ کرسکوں۔کاش! میں جہاز پر اس ذمہ داری کو محسوس کرتا لیکن اگر تم میری باتوں پر توجہ دو تو مجھے یقین ہے کہ تم جسیے نیک دل اور صداقت دوست آدمی کو صحیح راستہ دیکھانے کے لیے ایک لمبے عرصے کی ضرورت نہیں۔“
جےرام نے کہا۔”اگر تمہاری باتیں مجھے موت کے خوف سے نجات دلا سکتی ہیں تو میں سننے کے لیے تیار ہوں۔“
زبیر نے کہا۔”اسلام انسان کے دل میں صرف ایک خدا کا خوف پیدا کرتا ہے اور اسے ہر خوف سے نجات دلاتا ہے۔“ ”سنو!“ یہ کہہ کر زبیر نے نہایت مختصر طور پر اسلام کی تعلیم پر روشنی ڈالی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بیان کیے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لیے اسلام کی ابتدائی تاریخ کے واقعات بیان کیے۔ اختتام پر زبیر اجنادین، یرموک اور قادسیہ کی جنگوں کے واقعات بیان کررہا تھا اور جےرام یہ محسوس کررہا تھا کہ وہ ساری عمر تاریک غار میں بھٹکنے کے بعد ایک ہی جست میں روئے زمین کے بلند ترین پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ چکا ہے۔اس کی آنکھوں میں امید کی روشنی جھلک رہی تھی۔
رات کے تیسرے پہر جےرام برسوں کے اعتقادات چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوچکا تھا۔
زبیر نے پوچھا۔” اب بتاو! تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہوا ہے یا نہیں؟“
جےرام نے کہا۔”میرے دل میں صرف ایک اضطراب باقی ہے اور وہ یہ کہ میں نے موت کی دہلیز پر کھڑے ہوکر اسلام قبول کیا ہے۔ کاش میں چند دن اور زندہ رھ کر تمہاری طرح نمازیں اور روزے رکھتا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”ایک مسلمان کو خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔“
پہرے دار نے کسی کو پنجرے کے قریب آتے دیکھ کر آواز دی۔
”کون ہے؟“
ایک آدمی جواب دیے بغیر پنجرے کے قریب پہنچ کررکا۔چند سپاہی اٹھ کرکھڑے ہوگئے۔پہلے سپاہی نے پھر کہا۔” جواب نہیں دیتے۔تم کون ہو؟“
لیکن اتنی دیر میں چند سپاہی اسے پہچان چکے تھے اور ایک نے پرانے ساتھی کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔”گنواروں کی طرح آوازیں دے رہے ہو انھیں پہچانتے نہیں، یہ سردار بھیم سنگھ ہیں۔مہاراج! آپ اس وقت؟“
”میں قیدیوں کو دیکھنے آیا تھا۔“
دوسرے سپاہی نے کہا۔”مہاراج! آپ بےفکر رہیں۔ یہ چند آدمی ابھی سوئے ہیں!“
بھیم سنگھ نے پوچھا۔”تمہارا نام کیا ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”مہاراج! میرا نام سروپ سنگھ ہے۔“
”تم بہت ہوشیار آدمی معلوم ہوتے ہو. میں برہمن آباد کے حاکم سے بات کروں گا کہ تمہیں ترقی دی جائے۔“
”بھگوان سرکار کا بھلا کرے۔میرے چار بچے ہیں۔آپ کا ہونٹ ہلے گا اور میرا کام بن جائے گا!“
”تم فکر نا کرو۔ہاں، قیدی سورہے ہیں؟“
”مہاراج ابھی باتیں کررہے تھے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے آگے بھر کر پنجرے میں جھانک کردیکھا اور بولا۔”مہاراج! یہ جاگ رہے ہیں۔“
”میں جےرام سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔“
”مہاراج! آپ کو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔“ یہ کہہ کر سپاہی نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور وہ پنجرے سے ہٹ کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔
بھیم سنگھ نے پنجرے میں جھانکتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔” جےرام تم بہت بےوقوف ہو۔“ اور پھر اپنا ہاتھ پنجرے میں ڈال کر زبیر کا بازو ٹٹولتے ہوئے آہستہ سے کہا۔”تم اپنے ہاتھ میری طرف کرو۔“ زبیر نے اپنی پیٹھ پھیر کر اپنے بندھے ہوئے ہاتھ اس کی طرف کردیے۔بھیم سنگھ نے دوبارا بلند آواز میں کہا۔”نمک حرام! تمہیں راجہ کے سامنے اس ملیچھ عرب کی دوستی کا دم بھرتے ہوئے شرم نہ آئی۔“ اور پھر آہستہ سے کہا۔”جےرام! میں تمہارے ساتھی کی ہاتھوں کی رسیاں کاٹ رہا ہوں۔ کچھ بولو ورنہ سپاہیوں کو شک پڑ جائے گا۔“
جےرام نے چلا کرکہا۔”بھیم سنگھ شرم کرو۔ یہ ایک راجپوت کی شان کے شایان نہیں کہ وہ کسی کو بےبس دیکھ کر گالیاں دے!“
(قسط نمبر62)
میں تمہارے جیسے بزدل کو گالیاں دینا اپنی بےعزتی سمجھتا ہوں۔میں صرف یہ پوچھنے کے لیے آیا ہوں کہ تم نے اس لڑکی اور لڑکے کو کہاں چھپایا ہے!“
”مجھے ان کا کوئی علم نہیں۔جاو مجھے تنگ نا کرو۔“
زبیر کے ہاتھ آزاد ہوچکے تھے۔بھیم سنگھ نے اس کے ہاتھ میں خنجر دیتے ہوئے آہستہ سے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔تمہارے لیے یہ پنجرہ توڑ کر بھاگ نکلنا ممکن نہیں لیکن پھر بھی قسمت آزمائی کر دیکھو۔اگر تم آزاد نا بھی ہوسکے تو کم ازکم بہادروں کی موت مرسکو گے۔“
سپاہیوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لیے بھیم سنگھ نے اپنا لہجہ تبدیل کرتے ہوئے کہا۔”مجھے یقین ہے کہ عرب لڑکی کو تم نے کہیں چھپا رکھا ہے۔اچھا تمہاری مرضی،بنا بتاو لیکن یاد رکھو، سورج نکلنے سے پہلے برہمن آباد کے باشندے تمہیں پھانسی کے تختوں پر دیکھ رہے ہوں گے۔“
بھیم سنگھ نے پنجرے سے چند قدم دور جا کر سپاہیوں سے کہا۔”تم ایک طرف کیوں کھڑے ہو۔مجھے ان سے کوئی مخفی بات نہیں کرنی تھی۔ذرا اس جےرام کو دیکھو اس کا غرور ابھی تک نہیں ٹوٹا۔“
سپاہی نے جواب دیا۔”مہاراج! اس کی قسمت بری تھی۔ورنہ ہم نے سنا ہے کہ راجہ اس کی بہت قدر کرتا تھا۔مہاراج! شہر کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ عرب جادوگر ہے۔اس نے جادو کی طاقت سے جےرام کو راجہ کا نافرمان بنا دیا تھا۔“
بھیم سنگھ نے کہا۔”شاید یہی بات ہو۔مجھے بھی اس کے پنجرے کے قریب نہیں جانا چاہیے تھا۔“
”نہیں مہاراج! آپ پر اس کے جادو کا کیا اثر ہوگا۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی آپ گھر جاکر پراتھنا کریں۔“
”تم بہت سمجھ دار ہو۔میں جاتا ہوں، میرا سر چکرا رہا ہے۔شاید یہ جادو کا اثر ہے!“
”مہاراج! اگر حکم ہو تو ہم میں سے کوئی ایک آپ کو گھر چھوڑ آئے؟“
”نہیں! نہیں! اس کی ضرورت نہیں۔“
بھیم سنگھ چل دیا تو سپاہی نے پیچھے سے آواز دےکر کہا۔”مہاراج! میرا خیال رکھنا۔“
”تم فکر نا کرو!“
”ایشور آپ کا بھلا کرے۔“
بھیم سنگھ کے چلے جانے کے بعد ایک سپاہی نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”دیکھا میں نا کہتا تھا یہ جادوگر ہے، تم نا مانتے تھے۔سروپ سنگھ تمہاری خیر نہیں۔تم کئی بار پنجرے کو ہاتھ لگا چکے ہو۔اب تک تمہارا سر نہیں چکرایا؟“
”میرا سر۔۔۔۔۔؟ ہاں کچھ بوجھل سا ضرور ہے۔“
”فکر نا کرو۔ابھی چکرانے لگ جائے گا۔“
سروپ سنگھ نے فکر مند سا ہوکر کہا۔”لیکن میں نے سنا ہے کہ جادوگر کے مرنے سے جادو کا اثر نہیں رہتا۔“
”ایسے جادوگر مر کر پھر زندہ ہوجاتے ہیں۔“
ایک اور سپاہی بولا۔”یار میں نے پنجرے کو ہاتھ لگایا تھا۔میرا سر بھی چکرا رہا ہے۔“
سروپ سنگھ بولا۔”بھگوان ایسے جادوگر کو غارت کرے۔اب میرا سر سچ مچ چکرا رہا ہے۔“
ان باتوں کا یہ اثر ہوا کہ سپاہی آٹھ دس قدم ہٹ کر پہرہ دینے لگے۔
(قسط نمبر63)
زبیر پنجرے کےاندر اپنے پاوں کی رسیاں کاٹنے کے بعد جےرام کے ہاتھ پاوں بھی آزاد کرچکا تھا اور دونوں پنجرے کی سلاخوں کے ساتھ زور آزمائی کررہے تھے۔
ایک سپاہی نے چلا کرکہا۔”ارے وہ پنجرے میں کیا کررہے ہیں؟“
زبیر اور جےرام دبک کر بیٹھ گئے اور آنکھیں بند کرکے خراٹے لینے لگے۔دوسپاہیوں نے پنجرے کے گرد چکر لگایا اور مطمئیں ہوکر اپنے ساتھیوں سے جاملے۔
جےرام نے آہستہ سے کہا۔”زبیر!“
اس نے جواب دیا۔”کیا ہے؟“
”یہ سلاخیں بہت مضبوط ہیں۔قدرت نے ہمارے ساتھ مذاق کیا ہے، کیا تمہیں اب بھی چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی امید ہے؟“
”میرا دل گواہی دیتا ہے کہ خدا ہماری مدد کرے گا!“
جےرام نے کہا۔” برہمن آباد میں سینکڑوں سپاہیوں پر بھیم سنگ کا اثر ہے۔شاید وہ آخری وقت میں ہماری مدد کرے۔“
”میں صرف خدا سے مدد مانگتا ہوں اور تمہیں بھی اسی کا سہارا لینا چاہیے اگر اسے ہمارا زندہ رکھنا منظور ہے تو ہم بھیم سنگھ کی مدد کے بغیر بھی رہا ہو جائیں گے۔“
”میں تمہارے ایمان کی پختگی کی داد دیتا ہوں لیکن برا نا منانا یہ سلاخیں خودبخود ٹوٹنے والی نہیں۔“
زبیر نے کہا۔”جےرام! جہاں عقل کے چراغ گل ہوجاتے ہیں وہاں ایمان کی مشعل کام دیتی ہے۔تم ایک ایسے خدا پر ایمان لاچکے ہو، جس نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کو گلزار بنا دیا تھا۔“
جےرام کچھ کہنے والا تھا کہ باہر سے ایک سپاہی چلایا۔”کو ہے؟“
ایک شخص نے چند قدم کے فاصلے سے جواب دیا۔”جی میں ماہی گیر ہوں!“
”یہاں کیا کررہے ہو؟“
”جی میں مچھلیاں لایا ہوں۔“
”مچھلیاں! اس وقت؟“
”جی اب دن نکلنے والا ہے۔میرا ارادہ ہے کہ انھیں بیچ کر جلدی وآپس چلا جاوں۔آپ کو کوئی مچھلی چاہیے؟“
ایک سپاہی نے کہا۔”سروپ سنگھ تم لے لو۔تمہارے چار بچے ہیں۔“
مچھیرے نے کہا۔”ہاں سرکار لے لو! بالکل تازہ ہے۔“
سروپ سنگھ نے جواب دیا۔”ہم اس وقت پیسے باندھ کرتھوڑی بیٹھے ہیں۔مفت دینی ہے تو دےجاو۔“
”جی! شہر کے عام لوگ بھی ہم سے مفت چھین لیتے ہیں۔آپ تو سپاہی ہیں، آپ سے کون پیسے مانگ سکتا ہے!“
یہ کہتے ہوئے ماہی گیر نے مچھلیوں کی ٹوکری سپاہی کے آگے رکھ دی۔“
ایک سپاہی نے کہا۔”ارے تمہارے پاس تو کافی مچھلیاں ہیں۔ہمیں بھی دو گے یا نہیں؟“
سروپ سنگھ نے کہا۔”نہیں! نہیں! اس بیچارے پر ظلم نا کرو۔میں تو اس کا روز کا گاہک ہوں۔میں مفت تھوڑا لےرہاں ہوں۔کل پیسے ادا کردوں گا۔“
یہ کہتے ہوئے سروپ سنگھ نے مچھلی اٹھا لی اور شرارت آمیز تبسم کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا اور انھوں نے ہنستے ہوئے آن کی آن میں ساری ٹوکری خالی کردی۔
سروپ نے کہا۔”لو بھئی! تمہارا بوجھ ہلکا ہوگیا۔اب کل اسی جگہ اور اسی وقت پیسے لےلینا۔“
”بہت اچھا سرکار!“
پنجرے کے اندر زبیر جےرام سے کہہ رہا تھا۔”یہ گنگو ہے۔لیکن یہ اکیلا کیوں آیا ہے؟“
گنگو نے سپاہیوں سے کہا۔”مجھے الغوزہ بجانا آتا ہے.آپ کو سناو؟“
سپاہیوں نے یک زبان ہوکر کہا۔”ہاں ہاں سناو!“
گنگو نے الغوزے سے چند دل کش تانیں نکالیں اور اس کے ساتھی عام شہریوں کے لباس میں مختلف گلیوں سے نکل کر سپاہیوں کے گرد جمع ہونے لگے۔ایک سپاہی نے اپنے ساتھی سے کہا۔”ارے اس نے تو خوامخواہ مچھیرے کا ذلیل پیشہ اختیار کررکھا ہے۔یہ تو الغوزہ بجا کے کافی پیسے کماسکتا ہے۔“
گنگو کے ساتھی ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے۔” مجھے اس کی تانوں نے گہری نیند سے بیدار کیا ہے اور پھر میرا سونے کو جی نا چاہا۔“
”مجھے وسنتی کی ماں کہتی تھی کہ جاو دیکھو۔کوئی فقیر ہوگا۔“۔۔۔۔۔۔۔”ارے میرے محلے کے سارے لوگ پریشان ہیں کہ یہ کون ہے؟“
گنگو الغوزہ بجاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھی اچانک تلواریں سونت کر سپاہیوں پر پل پڑے اور آن کی آن میں ان کا صفایا کردیا۔داسو نے کلہاڑے کی چند ضربوں سے پنجرے کا دروازہ توڑ دیا اور جےرام اور زبیر لپک کر باہر نکل آئے۔
چوک کی آس پاس کی آبادی نے الغوزے کی دلکش تانوں کے بعد حملہ آوروں اور سپاہیوں کی غیر متوقع چیخ وپکار سنی لیکن اپنے گھروں سے باہر نکل کر دیکھنے کی جرات نا کی___زبیر اور جےرام گنگو اور اس کے ساتھیوں کے ہمراہ بھاگتے ہوئے شہر سے باہر نکلے۔گنگو کے چند ساتھی ایک باغ میں گھوڑے لیے کھڑے تھے۔
جس وقت شہر میں اس ہنگامے کا ردِ عمل شروع ہورہا تھا یہ لوگ گھوڑوں پر سوار ہوکر جنگل کا رخ کررہے تھے۔
(قسط نمبر64)
ناہید اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور مایا اس کے قریب بیٹھ کر آہستہ آہستہ اس کا سر دبا رہی تھی۔خالد بےقراری کے ساتھ کمرے میں ادھر ادھر ٹہلتا ہوا بستر کے قریب آکر بولا۔”ناہید بہت دیر ہو گئی ہے۔انھیں اس وقت تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔کاش! میں یہاں ٹھہرنے پر مجبور نا ہوتا۔“
مایا نے خالد کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں جھکا کر تسلی آمیز لہجے میں بولی۔”مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ راجہ دہر اس قدر ظالم ہوسکتا ہے، ممکن ہے داسو___!“
خالد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔”تمہاری نیک خواہشات ایک بھیڑیے کو انسان نہیں بنا سکتیں۔“
مایا نے جھجکتے ہوئے کہا۔”آپ فکر نا کریں، وہ آجائیں گے۔“
”زبیر پھانسی پر لٹک رہا ہے اور مجھے فکر نا ہو۔کاش! میں گنگو کے ساتھ ہوتا۔“ یہ کہتے ہوئے خالد نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور ہونٹ کاٹتا ہوا باہر نکل گیا۔مایا دیوی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ناہید کو دیکھنے لگی اور وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے بولی۔”مایا! اس نے تمہیں تو کچھ نہیں کہا۔ تم زرا زرا سی بات پررو پڑتی ہو۔“
مایا نے جواب دیا۔”آج ان کے تیور دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے۔اگر وہ ناکام آئے تو کیا ہوگا؟“
ناہید نے کہا۔”وہ ایک خطرناک مہم پر گئے ہیں اور ان کی کامیابی اور ناکامی میں ہمارا کوئی دخل نہیں۔“
”اگر گنگو اور اس کے ساتھی لڑائی میں مارے گئے تو آپ اپنے وطن چلیں جائیں گے اور میں۔۔۔۔۔“
ناہید نے جواب دیا۔”میری ننھی بہن! تم اپنے لیے عرب کی زمین تنگ نا پاو گی۔“
”لیکن خالد آج بات بات پر مجھ سے بگڑتے ہیں۔ممکن ہے وہ مجھے یہیں چھوڑ جائیں۔“
”مایا! میرے سامنے خالد نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ہاں تمہارے بھائی اور زبیر کے متعلق یہ المناک خبر سننے کے بعد وہ کچھ بےقرار سا ہے۔خدا کرے وہ زندہ بچ کر آجائیں۔تو پھر خالد کے چہرے پر تمام عمر مسکراہٹیں دیکھا کرو گی۔“
خالد کی مسکراہٹوں کا ذکر مایا کو تھوڑی دیر کے لیے تصورات کی حسین وادی میں لے گیا۔اسے یہ اجڑی ہوئی دنیا مہکتے ہوئے پھولوں کی کیاری دکھائی دینے لگی۔وہ پھولوں سے کھیل رہی تھی۔مہکتی ہوئی ہوا کے جھونکوں سے سرشار ہورہی تھی۔چڑیوں کے چہچے سن رہی تھی۔ وہ ایک عورت تھی جسے محبت تنکوں کا سہارا لینا اور امید دریا کے کنارے مٹی کے گھروندے بنانا سیکھاتی ہے لیکن ایک خیال بادِ سموم کے تیز جھونکوں کی طرح آیا اور مایا کے دامنِ امید میں مہکتے ہوئے پھول مرجھا گئے۔تصور کی نگاہیں عرب کے ریگ زاروں اور نخلستانوں میں گھومنے کے بعد برہمن آباد کے چوراہے میں اپنے بھائی کو پھانسی کے تختے پر لٹکا ہوا دیکھنے لگیں۔وہ ایک بہن تھی۔ایسی بہن جو اپنے گھر میں مسرت کے قہقہے سننے کے باوجود بھائی کی ایک ہلکی سی آہ پر چونک اٹھتی تھی۔مایا نے اپنے دل میں کہا۔”بھیا!! میرے بھیا!!! خدا تمہیں وآپس لائے۔تمہارے بغیر مجھے کسی کی مسکراہٹ خوش نہیں کرسکتی۔“
ناہید نے اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے کہا۔”مایا! تمہیں واقعی خالد سے اس قدر محبت ہے۔“
مایا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور دوپٹے میں اپنا چہرہ چھپا کر ہچکیاں لینے لگی۔
ناہید نے پھر کہا۔”مایا معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں مجھ پراعتبار نہیں آتا۔میں خالد کو جانتی ہوں۔وہ۔۔۔۔۔۔“
مایا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔”نہیں! نہیں!! میں اپنے بھائی کے متعلق سوچ رہی ہوں۔“
قلعے کا ایک پہریدار بھاگتا ہوا آیا. ناہید نے اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپا لیا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔
پہریدار نے کہا۔”خالد گھوڑے پر زین ڈال رہا ہے۔وہ میرا کہا نہیں مانتے۔انھیں برہمن آباد کا راستہ بھی معلوم نہیں۔اگر کوئی حادثہ پیش آگیا تو گنگو مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔آپ انھیں منع کریں!“
ایک لمحہ کے لیے مایا کا دل بیٹھ گیا۔پھر زور زور سے دھڑکنے لگا، وہ اٹھی اور بے تحاشا بھاگتی ہوئی قلعے سے باہر نکل آئی۔اس کا دل یہ کہہ رہا تھا۔”خالد مت جاو! مت جاو! میں بھائی کا غم برداشت کرسکتی ہوں لیکن تمہارے بغیر زندہ نہیں رھ سکتی۔خالد مجھ پر رحم کر۔خالد!! خالد!!!“
قلعے سے باہر خالد گھوڑے کی لگام تھام کر اپنا ایک پاوں رکاب میں رکھ چکا تھا۔مایا نے بھاگتے ہوئے آواز دی۔”ٹھہرو! خدا کے لیے! ٹھہرو!! اکیلے مت جاو! میں تمہارے ساتھ ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔
خالد نے اپنا پاوں رکاب سے نکال لیا اور پریشان سا ہوکر مایا کی طرف دیکھنے لگا۔اتنی دیر میں ناہید بھی بار آچکی تھی۔مایا ناہید کی طرچ متوجہ ہوکر بولی۔”بہن انھیں روکو! یہ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔بھگوان کے لیے! خدا کے لیے! انھیں روکو!“
ناہید نے ان کے قریب پہنچ کر کہا۔”خالد! اگر تمہارے جانے میں کوئی مصلحت ہوتی تو میں اس بےکسی کے باوجود تمہارا راستہ نا روکتی۔تم اکیلے شہر میں راجہ کے تمام لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔تمہیں گنگو کا انتظار کرنا چاہیے۔وہ ضرور آئے گا۔اگر وہ نا آیا تو اس کا کوئی نا کوئی ساتھی ضرور آئے گا۔بیشک تم بہادر ہو۔لیکن ایسے موقعوں پر صبر سے کام لینا ہی بہادری ہے۔“
(قسط نمبر65)
خالد نے جواب دیا۔” آپا! تمہیں بخار ہے۔تم جاکر آرام کرو۔میں صرف ان کی راہ دیکھنے جارہا ہوں۔یہ وعدہ کرتا ہوں کہ دور نہیں جاوں گا۔“
مایا نے کہا۔”نہیں! نہیں!!! بہن انھیں مت جانے دو۔یہ وآپس نہیں آئیں گے۔“
خالدنے کہا۔”مایا! ممکن ہے کہ راجہ کے سپاہی ان کا تعاقب کررہے ہوں۔ان کی مدد میرا فرض ہے۔تم اپنے بھائی کا خیال کرو!“
مایا نے جواب دیا۔”میرا بھائی اگر خطرے میں ہے تو آپ اس کی مدد نہیں کرسکتے۔“
خالد کچھ کہنا چاہتا تھا مگر دور سے ایک شخص جو درخت پر چڑھ کر پہرہ دے رہا تھا چلایا۔”وہ آرہے ہیں۔“ اور معاً جنگل میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ایک اور پہرے دار بھاگتا ہوا آیا اور بولا۔”شاید دشمن ان کا پیچھا کررہے ہوں۔تم قلعے کے تہہ خانے میں چھپ جاو۔“
خالد نے اطمینان سے جواب دیا۔”چھپنے کی ضرورت نہیں۔اگر سپاہی ان کے تعاقب میں ہوتے تو وہ اس طرف نا آتے، لیکن یہ تو بہت تھوڑے گھوڑے معلوم ہوتے ہیں۔خدا خیر کرے۔“
گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز قریب آرہی تھی اور خالد نے دوسری بار چونک کرکہا۔” معلوم ہوتا ہے کہ صرف چار گھوڑے وآپس آئے ہیں۔“
گھوڑوں کے آمد کی خبر پاکر ناہید نے اپنے دل میں زبردست دھڑکن محسوس کی اور جب خالد نے یہ کہا کہ صرف چار گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دے رہی ہے تو امید کے چراغ روشن ہوکر اچانک بجھ گئے۔اس کی حالت غم داندوہ کے بحرِ بیکراں میں ٹوٹی ہوئی کشتی کے اس ملاح سے مختلف نا تھی جو اٹھتی ہوئی لہر کو ساحل سمجھنے کا دھوکا کھا چکا ہو۔وہ محسوس کررہی تھی کہ قدرت آخری بار امید کا دامن اس کے ہاتھ سے چھین رہی ہے۔تھوڑی دیر بعد ایک گھوڑا جھاڑیوں کے عقب سے نمودار ہوا۔سوار نے قریب پہنچ کر باگیں کھینچ لیں اور گھوڑے سے کود کر مایا کی طرف بڑھا۔مایا۔” بھیا!! میرا بھیا!!!“ کہتی ہوئی اس کے ساتھ لپٹ گئی۔ناہید اور خالد کی نگاہیں جھاڑیوں کی طرف تھیں۔جےرام کو دیکھ کر ناہید زبیر کے متعلق پھر ایک بار امید کے چراغ روشن کررہی تھی۔جےرام کے بعد داسو اور اس کے پیچھے گنگو اور زبیر جھاڑیوں کے عقب سے نمودار ہوئے۔زبیر کو دیکھ کر ناہید جھجکتی ہوئی دوتین قدم آگے بڑھی۔زبیر اس کے قریب پہنچ کر نیچے اترا۔خالد بھاگ کر اس سے لپٹ گیا۔ناہید نے چاہا کہ بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچ جاوں لیکن اس نے محسوس کیا کہ اس کے پاوں زمین میں پیوست ہوچکے ہیں۔اس کے اعضاء میں رعشہ ہے۔اس کا سر چکرا رہا تھا۔مہینوں کے تھکے ہوئے مسافر کی طرح منزل کو اچانک اپنے قریب دیکھ کر اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔
زبیر خالد سے علیحدہ ہوکر آگے بڑھا اور بولا۔”ناہید! اب تم اچھی ہونا۔“
وہ جواب دینے کی بجائے اپنے چہرے کا نقاب درست کرنے لگی۔
زبیر نے پھر کہا۔”ناہید! تمہارا زخم کیسا ہے؟“
ناہید کے ہونٹ کپکپائے، اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔” خدا کا شکر ہے کہ آپ آگئے۔میں ٹھیک ہوں۔“ اس کےآخری الفاظ ایک گہری سانس میں ڈوب کر رھ گئے۔ اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرپڑی۔
جب اسے ہوش آیا تو وہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔خالد اور مایا کے مغموم لہجے دیکھنے کے بعد اس کی نگاہیں زبیرپر مرکز ہوکر رھ گئیں۔ مرجھائے ہوئے چہرے پر اچانک حیا کی سرخی چھا گئی اور وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔گنگو اور جےرام دروازے سے باہر کھڑے تھے۔ خالد نے ان کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔ناہید کو ہوش آگیا۔آپ فکر ناکریں۔“
زبیر نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”ناہید! اب ہماری مصیبت ختم ہونے والی ہے۔میں آج ہی جارہا ہوں۔“
مایا ایک عورت کی ذکاوتِ حس سے زبیر کے متعلق ناہید کے حزبات کا اندازاہ لگا چکی تھی۔اس نے جلدی سے کہا۔”نہیں آپ یہیں ٹھہریں۔اس وقت سارے سندھ میں آپ کی تلاش ہورہی ہوگی۔“
زبیر نے جواب دیا۔”میرے لیے سندھ کی سرحد پار کرنے کا یہی ایک موقع ہے۔کل تک تمام راستوں کی چوکیوں کو ہمارے فرار ہونے کی اطلاع مل جائے گی۔ہمارے باقی ساتھی راجہ کے سپاہیوں کو چکمہ دینے کے لیے مشرق کے صحرا کا رخ کررہے ہیں۔میں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔خالد! تم یہیں رہو گے۔اگر اس جگہ کوئی خطرہ پیش آیا تو گنگو تمہیں کسی محفوظ مقام پر لے جائے گا۔عرب سے ہمارے افواج کی آمد تک اگر ناہید گھوڑے پر چڑھنے کے قابل ہوگئی تو گنگو تمہیں مکران پہنچا دے گا۔“
(قسط نمبر66)
ناہید نے کہا۔”جب تک میری بہنیں قید میں ہیں میں یہیں رہنا پسند کروں گی۔خدا آپ کو جلد وآپس لائے! ہم آپ کا انتظار کریں گے۔میرا خط آپ کو مل گیاہوگا۔وآپس آنے میں دیر نا کریں۔ ہاں میں علی کا حال پوچھنا چاہتی ہوں۔“
”علی آپ کو بہت یاد کرتا ہے۔دیبل کے گورنر نے اسے بہت اذیت دی ہے۔لیکن وہ ایک بہادر لڑکا ہے۔وہ خواہ کسی حالت میں بھی ہو نماز کے وقت اذان ضرور دیتا ہے۔یہ لوگ اذان سے بہت گھبراتے ہیں۔اسے باڑا کوڑوں کی سزا دی جا چکی ہےلیکن اس کے استقلال میں کوئی فرق نہیں آیا۔برہمن آباد کے قید خانے میں بھی اس کا یہی حال ہے۔راجہ کے سپاہی اسے زبان کاٹ دینے کی دھمکی دے چکے ہیں لیکن اس کا ارادہ متزلزل نہیں ہوا۔“
ناہید نے کہا۔”یہ آپ کی صحبت کا اثر ہے۔ورنہ وہ اتنے مضبوط دل کا مالک نا تھا۔سراندیپ میں اسے ایک کمزور لڑکا سمجھا جاتا تھا۔“
زبیر نے جواب دیا۔”انسان کے عیوب اور محاسن صرف خطرے کے وقت ظاہر ہوتے ہیں۔“
دروازے پر سے گنگو نے آواز دی۔”اب دوپہر ہونے والی ہے۔آپ کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔“
ناہید نے کہا۔”آپ جائیں! خدا آپ کی مدد کرے۔لیکن آپ کو مکران تک خشکی کا راستہ معلوم ہے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”داسو میرے ساتھ جارہا ہے اور وہ تمام راستوں سے واقف ہے۔میں مکران کی سرحد پر پہنچ کر اسے وآپس بھیج دوں گا!“
مایا نے کہا۔”لیکن اس لباس میں آپ فوراً پہچانے جائیں گے۔“
زبیرنے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”میری ننھی بہن کو میرا بہت خیال ہے لیکن اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔میں سندھی لباس پہن کر جارہا ہوں اور اب تو میں سندھ کی زبان بھی سیکھ چکا ہوں۔کوئی مجھ پر شک نہیں کرے گا!“
مایا نے کہا۔”آپ مجھے بہن کہہ کر بہت سے ذمہ داریاں اپنے سر لے رہے ہیں۔یاد رکھیے! ہمارے ملک میں دھرم کے بہن بھائیوں کا رشتہ سگے بہن بھائیوں کے رشتے سے کم مضبوط نہیں ہوتا۔اگر آپ مجھے اپنی بہن کہتے ہیں تو ہفتوں کا سفر دنوں میں کیجیے۔ہماری مصیبت آپ کے ساتھیوں کی مصیبت سے کم نہیں۔وہ میرے بھائی کی تلاش میں سندھ کا کونا کونا چھان ماریں گے۔مجھے ڈر ہے کہ آپ کی افواج کے آنے سے مایوس ہوکر کہیں میرا بھائی کاٹھیاوار کی طرف فرار ہونے پر آمادہ نا ہوجائے۔“
جےرام نے باہر سے بلند آواز میں کہا۔”مایا کیا کہتی ہے۔میں ایک راجپوت ہوں۔نہیں، بلکہ ایک مسلمان بھی ہوں۔میں اپنے محسنوں کو چھوڑ کر کہاں جاسکتا ہوں۔“
”مسلمان؟ میرا بھائی ایک مسلمان؟“ مایا یہ کہتی ہوئی ناہید کی چارپائی سے اٹھ کر بھاگی اور باہر نکل کر جےرام سے لپٹ گئی۔اس کا دل دھڑک رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔”بھیا! سچ کہو تم مسلمان ہوگئے؟“
اس نے جواب دیا۔”مایا! پارس سے ٹکڑا کر لوہا، لوہا نہیں رہ سکتا۔تم روٹھ تو نا جاو گی؟“
”میں__؟“ اس نے الگ ہوکر آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔”میں کیسے روٹھ سکتی ہوں۔خدا نے میری دعائیں سن لیں۔میری منتیں قبول کرلیں۔بھیا مبارک ہو لیکن تمہارا اسلامی نام؟“
زبیر نے باہر نکلتے ہوئے کہا۔”یہ میری کوتاہی ہے۔اگر تم پسند کروتو تمہارے بھائی کا نام ناصر الدین رکھتا ہوں۔“
”اور میرا نام؟“
خالد،زبیر ، گنگو اور جےرام حیران ہوکر مایا کی طرف دیکھنے لگے۔مایا نےاپنے سوال کا کوئی جواب ناپاکر کہا۔”تم حیران کیوں ہو۔ناہید سے پوچھو۔“ وہ یہ کہہ کر دہلیز میں کھڑی ہوگئی اور ناہید کو مخاطب کرتے ہوئے بولی۔”ناہید بہن انھیں بتاو۔کیا میں نے تمہارے سامنے کلمہ نہیں پڑھا؟ کیا میں نے تمہارے سامنے چھپ چھپ کر نمازیں نہیں پڑھیں؟ کیا میں نے قرآن کی آیات یاد نہیں کیں۔۔۔؟“
مایا پھر اپنے بھائی کے پاس آکھڑی ہوئی اور زبیر سے مخاطب ہوکر کہنے لگی۔”آپ کس سوچ میں پڑ گئے۔ناہید میرا نام زہرا رکھ چکی ہے اور مجھے یہ نام پسند ہے۔“
خالد نے اندر آکر ناہید کے کان میں آہستہ سے کہا۔”تم نے یہ باتیں مجھ سے کیوں چھپائیں؟“
ناہید نے مسکرا کر جواب دیا۔”مایا کو اس بات کا ڈر تھا کہ آپ یہ خیال کریں گے کہ وہ آپ کو خوش کرنے کے لیے مسلمان ہوئی ہے۔اسے اپنے بھائی کا خوف بھی تھا۔اس لیے وہ مجھ سے وعدہ لےچکی تھی کہ میں فلحال اس کا راز اپنے تک محدود رکھوں۔“ خالد پھر بھاگتا ہوا جےرام کے قریب آکھڑا ہوا۔اس کی روح مسرت کے ساتویں آسمان پر کھڑی تھی۔
زبیر نے کہا۔”بھائی ناصرالدین، اور بہن زہرا میں تم دونوں کو مبارک باد دیتا ہوں۔خدا تمہیں استقامت بخشے۔“
گنگو نے کہا۔”زبیر! اگر ہمارا دل ٹٹول کر دیکھو تو ہم سب مسلمان ہیں لیکن سب کے لیے نام سوچتے ہوئے تمہیں دیر لگ جائے گی۔یہ خدمت خالد کے سپرد کردو۔اب دوپہر ہورہی ہے۔تمہیں شام تک کم از کم یہاں سے تیس کوس نکل جانا چاہیے۔“
زبیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”میں تیارہوں۔“
گنگو نے داسو کو آواز دے کر کپڑے لانےکےلیے کہا۔زہرا پھر ناہید کےپاس آبیٹھی اور زبیر نے گنگو کی ہدایت کے مطابق ایک سندھی سپاہی کا لباس زیب تن کیا۔گنگو نے کہا۔”آپ کے لیے گھوڑے تیار کھڑے ہیں۔“
”میں ابھی آتا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ دوبارا ناہید کے کمرے میں داخل ہوا۔وہ اس کے پاوں کی آہٹ سن کر اپنے چہرے پر نقاب ڈال چکی تھی۔
زبیر نے کہا۔”ناہید! خدا حافظ۔بہن زہرا! میرے لیے دعا کرنا۔“
دونوں نےجواب میں خدا حافظ کہا اور زبیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہرنکل آیا۔
خالد، ناصرالدین اور گنگو نے قلعہ کے دروازے تک اس کا ساتھ دیا۔
داسو دروازے پر دو گھوڑے لیے کھڑا تھا۔زبیر خدا حافظ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوگیا۔داسو نے اس کی تقلید کی۔گنگو نے کہا۔”دھوپ تیز ہے۔لیکن یہ دونوں گھوڑے تازہ دم ہیں۔“تیس کوس کی پہلی منزل ان کے لیے بڑی بات نہیں۔داسو! اس مہم میں تمہاری کامیابی شاید چند مہینوں میں سندھ کا نقشہ بدل دے جب تک زبیر مکران کی سرحد عبور نا کرلے وآپس نا آنا۔“
”آپ بےفکر رہیں۔“ یہ کہہ کر داسو نے گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔زبیر نے اپنا گھوڑا اس کے پیچھے چھوڑ دیا۔
قلعے کے اندر گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سن کر زہرا نے ناہید کی طرف دیکھا۔ناہید کی آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے اور وہ آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی۔”خدا تمہاری مدد کرے۔خدا تمہیں دشمنوں سے بچائے۔“
زہرا کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اوروہ بولی۔”آپا! تم اب تک مجھ سے ایک بات چھپاتی رہی ہو۔تمہیں ان سے محبت ہے؟“
ناہید نے کوئی جواب دیے بغیر زہرا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز آہستہ آہستہ ناہید کے کانوں سے دور ہورہی تھی۔آنسووں کے موتی اس کی آنکھوں سے جھلک کر رخساروں پر بہہ رہے تھے۔
زہرا نے اپنے دوپٹے سے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔”بہن وہ جلد آئیں گے۔وہ ضرور آئیں گے۔“
(قسط نمبر67)
____نوجوان سالار_____
قتیبہ کا ایلچی
بصرہ کے ایک کونے میں دریا کے کنارے ایک سرسبز نخلستان کے درمیان والی بصرہ کا قلعہ نما مکان تھا۔ اس مکان کے وسیع کمرے میں ایک عمر رسیدہ لیکن قوی ہیکل شخص ٹہل رہا تھا۔ وہ چلتے چلتے رکتا اور دیواروں پر آویزاں نقشے دیکھنے میں منہمک ہوجاتا۔اس کے چہرے سےغیر معمولی عزم و استقلال ٹپکتا تھا۔ آنکھوں میں ذکاوت اور ذکاوت سے زیادہ ہیبت تھی۔
یہ حجاج بن یوسف تھا۔ جس کے آہنی پنجوں سے دشمن اور دوست یکساں طور پر پناہ مانگتے تھے۔جس کی تلوار عرب و عجم پر صاعقہ بن کر کوندی اور بسا اوقات اپنی حدود سے تجاوز کرکے عالمِ اسلام کے ان درخشندہ ستاروں کو بھی خاک و خون میں لٹا گئی، جن کے سینے نور ایمان سے منور تھے۔
حجاج بن یوسف کی طوفانی زندگی کا پہلا دور وہ تھا جب وہ عبدالمالک کے عہدِ حکومت میں سرکشوں کو مغلوب کرنے کے لیے اٹھا اور عراق اور عرب پر آندھی بن کر چھا گیا۔لیکن اس دور میں اس کی تلوار ایک اندھے کی لاٹھی تھی جو حق اور ناحق میں تمیز نا کرسکی۔دوسرا دور جس سے ہماری داستان کا تعلق ہے، وہ تھا جب عبدالملک کی جگہ اس کا بیٹا ولید مسندِ خلافت پر بیٹھ چکا تھا۔عراق اور عرب کی خانہ جنگیاں ختم ہوچکی تھیں اور مسلمان ایک نئے جذبے ماتحت منظم اور مستحکم ہوکر ترکستان اور افریقہ کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔ اپنے باپ کی طرح ولید نے بھی حجاج بن یوسف کو اندرونی اور خارجی معاملات میں سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا تھا۔ لیکن ایک مسلمان مورخ کی نگاہ میں حجاج نے ولید کی جو خدمات انجام دیں، وہ عبدالملک کی خدمات سے بہت مختلف تھیں۔
عبدالملک کے عہدِ حکومت میں حجاج بن یوسف کی تمام جدوجہد عرب و عراق تک محدود رہی اور اس کی خون آشام تلوار نے جہاں عبدالملک کی حکومت کو مضبوط و مستحکم کیا وہاں اس کے دامن کو بےشمار بے گناہوں کے خون سے داغدار بھی کیا لیکن ولید کا عہد مسلمانوں کے لیے نسبتاً امن کا زمانہ تھا اور حجاج بن یوسف اپنی زندگی کے باقی چند سال مشرق و مغرب میں مسلمانوں کی فتوحات کی راہیں صاف کرنے میں صرف کررہا تھا۔
جب ہم حجاج بن یوسف کی کتابِ زندگی کے آخری اوراق پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ قدرت سندھ ، ترکستان اور سپین میں مسلمانوں کی سطوت کے جھنڈے لہرانے کے لیے اس شخص کو منتخب کرتی ہے جو آج سے چند سال قبل مکہ کا محاصرہ کررہا تھا۔ وہ آنکھیں جنھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھ کر ترس نا کھایا، سندھ میں ایک مسلمان لڑکی کی مصیبت کا حال سن کر پرنم ہوجاتی ہیں۔
تاریخ ہمارے سامنے ایک اور اہم سوال پیش کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ عرب اور عراق کے مسلمان حجاج بن یوسف کے عہد کے آخری ایام میں بھی اس سے نالاں تھے اور ولید کو بھی اچھی نظروں سے نا دیکھتے تھے۔ پھر کیا وجہ تھی کہ جب سندھ اور ترکستان کی طرف پیش قدمی ہوئی تو ہر محاز پر شامی مسلمانوں کے مقابلے میں عربوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔
اس کا جواب فقط یہ ہے کہ قیادت کی خامیوں کے باوجود جمہور مسلمانوں کا انفرادی کردار اسی طرح بلند تھا۔حجاج بن یوسف سے نفرت ان کی قومی حمیت کو کچل نا سکی۔۔۔۔۔۔انھوں نے جب یہ سنا کہ ان کے بھائی افریقہ اور ترکستان کی غیر اسلامی طاقتوں سے نبردآزما ہیں تو وہ پرانی رنجشیں بھول کر ان کے ساتھ جا شامل ہوئے۔
اس لیے ولید کے عہد کی شاندار فتوحات کا سہرا حجاج بن یوسف اور ولید کے سر نہیں بلکہ ان عوام کے سر ہے جن کے ایثار اور خلوص میں ہر قوم کی ترقی اور عروج کا راز پنہاں ہے۔
(قسط نمبر68)
حجاج بن یوسف دیر تک دیواروں پر لٹکے ہوئے نقشے دیکھتا رہا۔بالآخر اس نے ایک نقشہ اتارا اور اپنے سامنے رکھ کر ایرانی قالین پر بیٹھ گیا۔ دیر تک سوچنے کے بعد اس نے قلم اٹھا کر نقشے پر چند نشانات لگائے اور اسے لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔
ایک سپاہی نے ڈرتے ڈرتے کمرے میں داخل ہوکر کہا۔”ترکستان سے ایک ایلچی آیا ہے۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”میں صبح سے انتظار کررہا ہوں۔اسے یہاں لے آو!“
سپاہی چلاگیا اور حجاج بن یوسف دوبارا نقشہ کھول کر دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد ایک زرہ پوش کمرے میں داخل ہوا۔وہ قدوقامت کے لحاظ سے ایک نوجوان اور چہرے مہرے سے پندرہ سولہ سالا ایک لڑکا معلوم ہوتا تھا۔اس کے سر پر تانبے کا ایک خود چمک رہا تھا۔تیکھے نقوش، چمکتی ہوئی آنکھیں، پتلے اور بھنچے ہوئے ہونٹ، ایک غیر معمولی عزم و استقلال کے آئینہ دار تھے۔اس کے قدوقامت میں تناسب اور چہرے میں کچھ ایسی جاذبیت تھی کہ حجاج بن یوسف حیرت زدہ ہوکر اس کی طرف دیکھتا رہا۔بالآخر اس نے کرخت آواز میں پوچھا۔”تم کون ہو؟“
لڑکے نے جواب دیا۔”میں نے ہی اطلاع بھجوائی تھی۔میں ترکستان سے آیا ہوں۔“
”خوب! ترکستان سے تم آئے ہو۔میں قتیبہ کی زندہ دلی کی داد دیتا ہوں۔میں نے قتیبہ کو لکھا تھا کہ وہ خود آئے یا کسی تجربہ کار جرنیل کو میرے پاس بھیجے اور اس نے ایک آٹھ سال کا بچہ میرے پاس بھیج دیا ہے۔“
لڑکے نے اطمینان سے جواب دیا۔”میری عمر سولہ سال اور آٹھ مہینے ہے!“
حجاج بن یوسف نے گرج کرکہا۔”لیکن تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟ قتیبہ کو کیا ہوگیا ہے؟“
لڑکے نے جواب دیے بغیر آگے بڑھ کر ایک خط پیش کیا۔حجاج بن یوسف نے جلدی سے خط کھول کر پڑھا اور قدرے مطمئین ہوکر پوچھا۔”وہ خود سیدھا میرے پاس کیوں نہیں آیا۔ تمہیں کیوں میرے پاس بھیجا ہے؟“
لڑکے نے کہا۔”آپ کس کے متعلق پوچھ رہے ہیں؟“
حجاج بن یوسف کی قوتِ برداشت جواب دے رہی تھی۔اس نے چلا کرکہا۔”وہ بےوقوف جس کے متعلق قتیبہ نے لکھا ہے کہ میں اپنا بہترین سالار بھیج رہا ہوں۔“
لڑکے نے پھر اطمینان سے جواب دیا۔”قتیبہ کے مکتوب میں جس کا ذکر ہے وہ تو میں ہی ہوں۔اگر آپ کسی اور بےوقوف سے ملنا چاہتے ہیں تو مجھے اجازت دیجیے۔“
”تم؟ اور قتیبہ کے بہترین سالار! خدا ترکستان میں لڑنے والے بدنصیب مسلمانوں کو دشمنوں سے بچائے۔ قتیبہ کے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے؟“
”ہم دونوں مسلمان ہیں۔“
”فوج میں تمہارا عہدہ کیا ہے؟“
”میں ہراول کا سالار ہوں۔“
”ہراول کے سالار! تم؟ اور بلخ سے کترا کر بخارا اور سمرقند کی طرف رخ کرنے کے ارادے میں بھی غالباً کسی تمہارے جیسے ہونہار مجاہد کے مشورے کا دخل ہے۔“
”ہاں یہ میرا مشورہ ہے اور میرے یہاں آنے کی وجہ بھی یہی ہے۔آپ اگر تھوڑی دیر ضبط سے کام لیں تو میں تمام صورتِ حال آپ کو سمجھا سکتا ہوں۔“
حجاج بن یوسف کی تلخی اب پریشانی میں تبدیل ہورہی تھی۔اس نے کہا۔”اگر آج تم مجھے کوئی بات سمجھا سکے تو میں یہ کہوں گا کہ عرب کی ماووں کے دودھ کی تاثیر زائل نہیں ہوئی۔بیٹھ جاو! میں صبح سے نقشہ دیکھ رہا ہوں۔مجھے یہ بتاو جو فوج ہرات جیسے معمولی شہر کو فتح نہیں کرسکتی۔وہ بخارا جیسے مضبوط اور مستحکم شہر پر فتح کے جھنڈے لہرانے کے متعلق اس قدر پر امید کیوں ہے۔ہاں! پہلے یہ بتاو تمہیں نقشہ پڑھنا آتا ہے؟“
لڑکے نے کوئی جواب دیے بغیر حجاج بن یوسف کے سامنے بیٹھ کر نقشہ کھولا اور مختلف مقامات پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔”یہ بلخ ہے اور یہ بخارا۔غالباً آپ بخارا کے قلعے کی مضبوطی کے متعلق بہت کچھ سن چکے ہوں گے۔لیکن بلخ کا قلعہ اگر اس قدر مضبوط نا بھی ہو، تو بھی یہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے باعث کہیں زیادہ محفوظ ہے۔بخارا کے چاروں طرف کھلے میدان ہیں اور ہم آسانی سے اس کا محاصرہ کرکے شہر کے باشندوں کو ترکستان کے باقی شہر کی افواج کی مدد سے محروم کرسکتے ہیں۔رہا قلعہ، تو اس کے متعلق میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ منجنیق کے سامنے پتھر کی دیواریں نہیں ٹھہرتیں اور یہ بھی کئی بار دیکھ چکا ہوں کہ قلعہ بند افواج زیادہ دیر فقط اس صورت میں مقابلہ کرتی ہیں جب انھیں کسی مدد کی امید ہو۔ورنہ وہ مایوس ہوکر دروازہ کھول دیتی ہیں۔اس کے برعکس بلخ میں ہیں بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔شہر پر حملہ کرنے کے لیے ہمیں جس قدر افواج کی ضرورت ہوگی۔ اس سے کہیں زیادہ سپاہی پہاڑی علاقے میں رسد و کمک کے راستے محفوظ رکھنے کے لیے درکار ہوں گے اور اس کے علاوہ شہر کا محاصرہ کرنے کے لیے ہمیں اردگرد کی تمام پہاڑیوں پر قبضہ کرنا ہوگا۔ان جنگوں میں پہاڑی قبائل کے پتھر ہمارے تیروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔بلخ کے جنوب اور مشرق کے پہاڑ کافی اونچے ہیں۔اگر جنوب مشرقی ترکستان کی تمام ریاستوں نے بلخ کو مدد دینے کی کوشش کی تو ایک بہت بڑی فوج ان انچے پہاڑوں کی آڑ لے کر ہماری طرف سے کسی مذاحمت کا مقابلہ کیے بغیر بلخ کے قریب پہنچ کر مشرق جنوب اور مغرب سے ہمارے لیے خطرہ پیدا کرسکتی ہیں اور اگر شمال سے ان کی مدد کے لیے بخارا اور سمرقند کی افواج بھی آجائیں تو مرو سے ہماری رسد و کمک کا راستہ بھی منقطع ہوجائے گا اور ہمیں چاروں طرف سے بیرونی حملہ آوروں نے محصور کر رکھا ہوگا۔تاہم گرمیوں میں ڈٹ کر ہم ان کا مقابلہ کرسکیں گے لیکن یہ محاصرہ یقیناً طول کھینچے گا اور سردیوں میں پہاڑی لوگ ہمارے لیے خطرہ ثابت ہوں گے اور پسپائی کی صورت میں ہم میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو وآپس مرو پہنچ سکیں۔“
(قسط نمبر69)
حجاج بن یوسف اب نقشے سے زیادہ اس کمسن اور نوجوان سالار کو دیکھ رہا تھا۔اس نے کہا۔”عربوں کی فوجی اصلاحات میں ابھی تک ”پسپائی“ کے لفظ کو کوئی جگہ نہیں ملی۔“
لڑکے نے جواب دیا۔”مجھے عربوں کے عزم و استقلال پر شبہ نہیں لیکن میں فوجی زاویہ نگاہ سے اس حملے کو خودکشی کے مترادف سمجھتا ہوں۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”تو تمہارا کیا خیال ہے کہ مشرق کی طرف پیش قدمی کا ارادہ ترک کردیا جائے!“
”نہیں! ترکستان پر تسلط رکھنے کے لیے مشرق میں ہماری آخری چوکی بلخ نہیں ہوگی بلکہ ہمیں کاشغر اور چترال کے درمیان تمام پہاڑی علاقے پر قبضہ کرنا پڑے گا لیکن میں اس سے پہلے بخارا کو فتح کرنا زیادہ ضروری خیال کرتا ہوں۔اس میں ہمیں دو فائدے ہوں گے۔ایک یہ کہ یہ ترکستان کا اہم ترین شہر ہے اور اہلِ ترکستان پر اس کی فتح کا وہی اثر ہوگا جو مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں اور دمشق کے بعد رومیوں پر ہوا تھا۔دوسرا یہ کہ بخارا کا محاصرہ کرتے وقت ہمیں باہر سے ان خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔جو میں بلخ کے متعلق بیان کر چکا ہوں۔وہاں سے سمرقند اور سمرقند سے قوقند اور فرغانہ کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ان فتوحات کے بعد مجھے امید نہیں کہ ترکستان کی قوتِ مدافعت باقی رہے۔اس کے بعد میری تجویز یہ ہے کہ بخارا اور سمرقند سے ہماری افواج کاشغر کا رخ کریں اور قوقند کی افواج کاشغر کا رخ کریں۔مجھے یقین ہے کہ جتنی دیر میں قوقند کی افواج دشوارگزار پہاڑیوں کو عبور کرتے ہوئے کاشغر پہنچیں گی۔اس سے پہلے جنوب میں بلخ اور اس کے آس پاس کے شہر فتح ہو چکے ہوں گے۔“
حجاج بن یوسف حیرت و استعجاب کے عالم میں اس نوعمر سپاہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس نے نقشہ لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد سوال کیا۔”تم کس قبیلے سے ہو؟“
لڑکے نے جواب دیا۔”میں ثقفی ہوں۔“
”ثقفی!۔۔۔۔۔تمہارا نام کیا ہے؟“
”محمد بن قاسم“
حجاج بن یوسف نے چونک کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”قاسم کے بیٹے سے مجھے یہی توقع تھی۔۔۔۔۔مجھے پہچانتے ہو؟“
محمدبن قاسم نے کہا۔”آپ بصرہ کے حاکم ہیں۔“
حجاج بن یوسف نے مایوس ہوکرکہا۔”بس میرے متعلق یہی جانتے ہو تم۔۔۔۔۔۔؟“
”میں اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ جانتا ہوں۔اس سے پہلے آپ خلیفہ عبدالملک کے دست راست تھے اور اب خلیفہ ولید کے دست راست ہیں۔“
”تمہیں تمہاری ماں نے یہ نہیں بتایا کہ قاسم میرا بھائی تھا اور تم میرے بھتیجے ہو؟“
”انھوں نے مجھے بتایا تھا۔“
”کب؟“
”جب آپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے مدینہ وآپس آئے تھے۔“
کم سن بھتیجے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر حجاج بن یوسف کی پیشانی کی رگیں تھوڑی دیر کے لیے پھول گئیں۔وہ غضب ناک ہوکر محمد بن قاسم کی طرف دیکھنے لگا لیکن اس کی نگاہوں میں خوف و ہراس کی بجائے غایت درجے کا سکون دیکھ کر اس کا غصہ آہستہ آہستہ ندامت میں تبدیل ہونے لگا۔محمد بن قاسم کی بےباک نگاہیں پوچھ رہیں تھیں کہ” میں نے جو کچھ کہا ہے۔کیا وہ غلط ہے۔کیا تم عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل نہیں ہو؟“
(قسط نمبر70)
حجاج بن یوسف اپنے دل پر ایک ناقابلِ بیان بوجھ محسوس کرتے ہوئے اٹھا اور دریا کی طرف کھلنے والے دریچے کے پاس کھڑا ہوکر جھانکنے لگا۔”عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل۔۔۔۔۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل!“ اس نے چند بار اپنے دل میں یہ الفاظ دہرائے۔تصور کی نگاہیں ماضی کا نقاب الٹنے لگیں۔وہ مکہ کے اس عمر رسیدہ مجاہد کو دیکھ رہا تھا جس کے ہونٹوں پر قتل ہوتے وقت بھی ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔اسے پھر ایک بار مکہ کی گلیوں میں بیواوں اور یتیموں کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔اس نے جٌھر جٌھری لیتے ہوئے مڑ کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا، وہ اس کی توقع کے خلاف اس کی طرف دیکھنے کی بجائے نقشہ دیکھنے میں منہمک تھا۔۔عہدِ ماضی کی چند اور تصویریں اس کے سامنے آگئیں۔وہ پھر ایک بار مدینہ کے ایک چھوٹے سے مکان میں اپنے نوجوان بھائی کو بسترِ مرگ پر دیکھ رہا تھا۔وہ بھائی جس نے مکہ میں اس کی کارگزاری کا حال سننے کے بعد اسے دیکھ کر غصے اور جوش میں آنکھیں بند کر لیں تھیں۔قاسم کے یہ الفاظ پھر اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔”حجاج جاو! میں مرتے وقت عبداللہ بن زبیر کے قاتل کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔تمہارے دامن پر جس خون کے چھینٹے ہیں، اسے میرے آنسو نہیں دھو سکتے۔“ پھر وہ اپنے بھائی کے جنازے کے ساتھ ایک کم سن بچے کو دیکھ رہا تھا۔یہ اس کا بھتیجا تھا، جسے اس نے اٹھا کر گلے لگانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ تڑپ کر ایک طرف کھڑا ہوکر چلایا تھا۔”نہیں! نہیں! مجھے ہاتھ نا لگاو! ابا کو تم سے نفرت تھی۔“
حجاج نے انتہائی تکلیف دہ احساس کے تحت محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”محمد! ادھر آو۔“
محمد بن قاسم نقشہ لپیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے اٹھا اور حجاج بن یوسف کے قریب جا کھڑا ہوا۔اس کے چہرے پر غیر معمولی اطمینان کی جھلک حجاج بن یوسف کے لیے صبر آزما تھی لیکن اس نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔”تو میں تمہاری نظروں میں عبداللہ بن زبیر کے قاتل کے سوا کچھ نہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”یہ خلقِ خدا کا فتوی ہےاور میں آپ کو دھوکے میں رکھنے کے لیے قاتل کی جگہ کوئی اور لفظ تلاش نہیں کرسکتا۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”تمہاری رگوں میں حجاج بن یوسف کا خون ہے۔میں تمہاری ہر بات برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔اگرچہ برداشت کرنا میری عادت نہیں۔“
”میں آپ کو اپنی عادت بدلنے پر مجبور کرنے کے لیے نہیں آیاقتیبہ بن مسلم باہلی نے جو فرض میرے سپرد کیا تھا، وہ میں پورا کرچکا ہوں۔اب مجھے اجازت دیجیے۔اگر آپ کو قتیبہ کے لیے کوئی پیغام بھیجنا ہو تو میں کل حاضر ہوجاوں گا۔“
ایک لمحہ کے تذبذب کے بعد حجاج بن یوسف نے کہا۔”تم کہاں جانا چاہتے ہو؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”شہر میں والدہ کے پاس۔میں سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں۔ابھی تک گھر نہیں گیا۔“
”تمہاری والدہ بصرہ میں ہے؟ مجھے یہ بھی معلوم نا تھا۔ وہ یہاں کب آئیں؟“
”انھیں مدینہ سے یہاں آئے ہوئے تین چار ماہ ہوئے ہیں۔مجھے مرو میں ان کا خط ملا تھا۔“
”وہ کس کے پاس ٹھہری ہیں۔وہ یہاں کیوں نا آئیں؟“
”وہ ماموں کے مکان میں ٹھہری ہیں اور یہاں نا آنے کی وجہ آپ مجھ سے بہتر سمجھ سکتے ہیں۔“
”اور تم ترکستان جانے سے پہلے کہاں تھے؟“
”میں دس برس کی عمر تک مدینہ میں ماہ کے پاس تھا اور اس کے بعد ماموں کے پاس بصرہ میں چلا آیا۔“
”اور مجھ سے اتنی نفرت تھی کہ اپنی صورت تک نا دیکھائی؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”سچ پوچھیے تو میں مکتب اور اس کے بعد سپاہیانہ زندگی میں اس قدر مصروف رہا ہوں کہ اپنے دل میں کسی کی محبت یا نفرت کے جزبات کو جگہ نہیں دے سکا۔“
حجاج بن یوسف نے کچھ سوچ کر کہا۔”مکتب میں شاید میں نے تمہیں دیکھا تھا لیکن پہچان نا سکا۔تم بہت جلد جوان ہوگئے ہو۔اب بتاو، اپنی چچی سے نہیں ملو گے؟“
محمد بن قاسم مزبزب ساہو کر حجاج بن یوسف کی طرف دیکھنے لگا۔حجاج بن یوسف نے اس کا بازو پکڑ لیا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔باغ کے دوسرے کونے میں رہائشی مکان کے دروازے پر پہنچ کر محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔”مجھے چھوڑ دیجیے! میں آپ کے ساتھ ہوں۔“
(قسط نمبر71)
حجاج بن یوسف کی آواز سن کر اس کی بیوی ایک کمرے سے باہر نکلی اور محمد بن قاسم کو دیکھتے ہی چلائی۔”محمد! تم کب آئے؟“
حجاج بن یوسف نے حیران ہوکر پوچھا۔”تم نے اسے کیسے پہچان لیا؟“
وہ خوشی کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔”میں اسے کیونکر بھول سکتی تھی؟“
حجاج بن یوسف نے پھر سوال کیا۔”تم نے اسے کب دیکھا تھا؟“
”جب میں اور زبیدہ اس کے ماموں کے ساتھ حج پر گئ تھیں۔ہم واپسی پر مدینے میں ان کے ہاں ٹھہرے تھے۔محمد بھی ترکستان سے رخصت پر آیا تھا۔“
”اور مجھ سے ذکر تک نا کیا؟“
”مجھے اس کی والدہ نے تاکید کی تھی اور مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ آپ کہیں برا نا مانیں۔“
”تو انھوں نے ابھی تک میری خطا معاف نہیں کی۔“
”وہ آپ سے ناراض نہیں لیکن قاسم کی موت کا ان کے دل پر گہرا اثر ہے۔“
حجاج بن یوسف نے کچھ سوچ کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور کہا۔”محمد! چلو!میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔“
حجاج کی بیوی نے کہا۔”نہیں! نہیں! آپ ابھی وہاں نا جائیں۔“
”لیکن کیوں؟“
”وہ بیمار ہیں۔“
”تو اس صورت میں مجھے ضرور جانا چاہیے۔“
محمد بن قاسم نے بےچین سا ہوکر کہا۔”امی جان بیمار ہیں؟ مجھے اجازت دیجیے!“
محمد بن قاسم بھاگ کر مکان سے باہر نکل گیا۔حجاج بن یوسف اس کا ساتھ دینے کے لیے مڑا لیکن اس کی بیوی نے آگے بڑھ کر راستہ روک لیا۔”نہیں! نہیں!! آپ نا جائیں۔“
”میں ضرور جاوں گا۔تمہیں یہی ڈر ہے نا کہ وہ مجھے برا بھلا کہیں گی اور میں طیش میں آجاوں گا۔“
”نہیں۔ان کا حوصلہ اس قدر پست نہیں۔“
”تو پھر مجھے اس کی تیماداری سے کیوں منع کرتی ہو اور یہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں؟“
”مجھے ڈر ہے کہ آپ خفا ہوجائیں گے۔میں آپ سے ایک بات چھپاتی رہی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”جب سے وہ یہاں آئی ہیں۔میں ہر تیسرے چوتھے دن ان کے گھر جایا کرتی ہوں۔کل میں نے خادمہ کو بھیجا اور اس نے بتایا کہ اس کی طبعیت بہت خراب ہے۔ میں ابھی وہاں سے ہوکر آئی ہوں۔اگر آپ کا ڈر نا ہوتا تو میں کچھ دیر اور وہاں ٹھہرتی۔آج زبیدہ میرے ساتھ تھی اور ان کی حالت دیکھ کر میں۔۔۔۔۔“
حجاج بن یوسف نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”تم ڈرتی کیوں ہو؟ صاف صاف کہو۔اگر تم زبیدہ کو وہاں چھوڑ آئی ہو تو برا نہیں کیا۔“
”وہ ابھی آجائے گی۔میں نے خادمہ کو بھیج دیا ہے۔“
”لیکن تم نے یہ سب کچھ مجھ سے کیوں چھپایا۔کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ مجھ میں انسانیت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی؟“
”مجھے معاف کیجیے!“
”اچھا! اب تم بھی میرے ساتھ چلو!“
زبیدہ محمد بن قاسم کی ماں کے سرہانے بیٹھی اس کا سر دبا رہی تھی، ایک شامی لونڈی ان کے پاس کھڑی تھی۔محمد بن قاسم کی والدہ نے کراہتے ہوئے زبیدہ کا ہاتھ اپنے نحیف ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا۔”بیٹی! تمہارے ہاتھوں سے میری جلتی ہوئی آنکھوں کو ڈھنڈک پہنچتی ہے۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ تمہارے باپ کو پتہ لگ گیا تو وہ بہت خفا ہوگا اور پھر شایدتم کبھی بھی یہاں نا آسکو۔بیٹی جاو!“
زبیدہ نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے جواب دیا۔”میرا جی نہیں چاہتا کہ آپ کواس حالت میں چھوڑ کر جاوں۔“
(قسط نمبر72)
صحن میں کسی کی آہٹ پاکر زبیدہ نے آٹھ کر باہر جھانکا۔محمد بن قاسم اپنے گھوڑے کی لگام حبشی غلام کے ہاتھ میں تھما کر بھاگتا ہوا آگے بڑھا۔دروازے پر زبیدہ کو دیکھ کر جھجکا اور پہچان کر بولا۔”تم یہاں؟ امی کیسی ہیں؟“
زبیدہ جواب دینے کی بجائے اس کی سپاہیانہ ہیبت سے مرعوب سی ہوکر ایک طرف ہٹ گئی اور محمد بن قاسم اندر داخل ہوا۔
بیٹے پر نگاہ پڑتے ہی ماں کے زرد چہرے پر رونق آگئی۔اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔”بیٹا! تم آگئے؟“
محمد بن قاسم نے اس کے قریب بیٹھ کر سر سے خود اتارتے ہوئے پوچھا۔”امی! آپ کب سے علیل ہیں؟“
”بیٹا! بصرہ پہنچتے ہی میری طبعیت خراب ہوگئی تھی۔“
”لیکن مجھے کیوں نا لکھا؟“
”بیٹا! تم گھر سے کوسوں دور تھے اور میں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اور یہ خود تمہارے سر پر مجھے بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔اسے پھر پہن کر دکھاو۔میں اپنے نوجوان مجاہد کو سپاہیانہ لباس میں اچھی طرح دیکھنا چاہتی ہوں.“
محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے خود اپنے سر پر رکھ لیا۔ماں کچھ دیر ٹکٹکی باندھ کر اس کی طرف دیکھتی رہی۔اس کے منہ سے بےاختیار دعا نکلی۔”میرے اللہ! یہ سر ہمیشہ اونچا رہے۔“
محمد بن قاسم سے نظر ہٹا کر اس نے زبیدہ کی طرف دیکھا اور کہا۔”بیٹی تم کیوں کھڑی ہو۔بیٹھ جاو۔“
زبیدہ جو ابھی تک دروازے کے قریب تھی، جھجکتی اور شرماتی ہوئی آگے بڑھی اور بستر کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
ماں نے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا۔”محمد! تم نے اسے پہچانا؟“
اس نے جواب دیا۔”میں نے اسے دیکھتے پی پہچان لیا تھا۔لیکن زبیدہ تم کیسے آئیں؟ چچا کو تو یہ بھی معلوم نا تھا کہ امی جان یہاں ہیں؟“
ماں نے پریشان ہوکر پوچھا۔”تم اپنے چچا سے مل آئے ہو؟“
”ہاں امی! قتیبہ کا پیغام تھا۔اس لیے میں سیدھا ان کے پاس پہنچا اور وہ مجھے پکڑ کر گھر لے گئے۔وہ خود بھی آپ کے پاس آنا چاہتے تھے۔لیکن میں آپ کی علالت کی خبر سن کر بھاگ آیا اور انھیں ساتھ نہ لاسکا۔“
ماں نے مغموم صورت بنا کر کہا۔”خدا کرے یہاں آنے میں اس کی نیت ٹھیک ہو۔“
زبیدہ کا سرخ و سپید چہرہ سرخ ہورہا تھا۔اس نے کرسی سے اٹھ کر کہا۔”چچی جان! میں جاتی ہوں۔“ شامی کنیز بھی اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
لیکن اتنے میں باہر کسی کے پاوں کی چاپ سنائی دی اور شامی کنیز نے آگے بڑھ کر صحن کی طرف جھانکا اور اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
محمد بن قاسم پریشان ہوکر اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا۔زبیدہ کی ماں اندر داخل ہوئی اور حجاج بن یوسف نے دروازے پر رک کر محمد بن قاسم سے کہا۔”محمد! اپنی ماں سے پوچھو۔مجھے اندر آنے کی اجازت ہے؟“
محمد بن قاسم نے مڑ کر ماں کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیوں امی! چچا اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟“
ماں نے سر اور چہرہ ڈھانپتے ہوئے جواب دیا۔”گھر میں آنے والے مہمان کے لیے دروازہ بند نہیں کیا جاسکتا۔انھیں بلالو۔“
حجاج بن یوسف اندر داخل ہوا۔زبیدہ کے چہرے پر کئی رنگ آچکے تھے۔اس کی ماں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”بیٹی ڈرتی کیوں ہو؟ تمہارے ابا خود تمہاری چچی کی مزاج پرسی کے لیے آئے ہیں۔“
حجاج بن یوسف کو وہاں بیٹھے چند ساعتیں نا گزری تھیں کہ گلی میں لوگوں کا شور سن کر محمد بن قاسم باہر نکلا اور تھوڑی دیر بعد مسکراتا ہوا وآپس آکر کہنے لگا۔”آپ کو دیکھ کر محلے کے تمام لوگ ہمارے دروازے پر جمع ہو گئے تھے۔وہ سمجھے تھے کہ آپ ہمیں قتل کرنے کے لیے آئے ہیں۔“
حجاج بن یوسف کے چہرے پر ایک دردناک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے سر جھکا لیا۔
(قسط نمبر73)
تیسرے دن محمد بن قاسم پھر حجاج بن یوسف کے پاس پہنچا اور ترکستان جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔حجاج بن یوسف نے پوچھا۔”تمہاری ماں کی طبعیت اب کیسی ہے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ان کی حالت اب پہلے سے کچھ اچھی ہے اور انھوں نے مجھے وآپس جانے کی اجازت دے دی ہے۔میرا ارادہ ہے کہ میں آج ہی روانہ ہوجاوں۔“
حجاج بن یوسف نے جواب دیا۔”میں نے آج صبح قتیبہ کے پاس اپنا قاصد روانہ کردیا ہے اور اسے لکھ بھیجا ہے کہ مجھے تمہاری تجاویز سے اتفاق ہے۔اب تم کچھ عرصہ یہیں رہو گے۔“
”لیکن میرا وہاں جانا ضروری ہے۔قتیبہ نے مجھے جلد وآپس آنے کے لیے بہت تاکید کی تھی۔“
حجاج نے جواب دیا۔”لیکن مجھے اس جگہ تمہاری زیادہ ضرورت ہے۔مجھ پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے اور تم میرا ہاتھ بٹا سکتے ہو۔میں یہاں سے اکیلا ہر محاز کی نگرانی نہیں کرسکتا۔اس کے علاوہ تمہارے متعلق میں نے دربارِ خلافت میں لکھا ہے۔ممکن ہے کہ تمہیں وہاں ایک فوجی مشیر کا عہدہ سنبھالنا پڑے۔“
”لیکن دمشق میں مجھ سے کہیں زیادہ تجربہ کار لوگ موجود ہیں۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ دربارِ خلافت میں آپ کے اثرورسوخ کا ناجائز فائدہ اٹھاوں۔ابھی مجھے بہت کچھ سیکھنا ہے۔آپ مجھے ترکستان جانے کی اجازت دیں۔“
”محمد! تمہارا یہ قیاس غلط ہے۔تم اگر بھتیجے ہونے کی بجائے میرے بیٹے بھی ہوتے تو بھی میں تمہاری بےجا حمایت نا کرتا۔مجھے یقین ہے کہ تم بڑی سے بڑی ذمہ داری سنبھال سکتے ہو۔یہ محض اتفاق ہے کہ تم میرے بھتیجے ہو۔پرسوں کی ملاقات میں جو اثر تم نے مجھ پر ڈالا ہے۔اس کے بعد خواہ تم کوئی ہوتے، میں یقیناً تمہارے لیے یہی کرتا۔قتیبہ بذاتِ خود غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔وہ تمہارے بغیر کام چلاسکے گا۔تم میدانِ جنگ کی بجائے دمشق یا بصرہ میں رہ کر اس کی زیادہ مدد کرسکتے ہو۔تم نوجوان ہو۔وہ نوجوان جو بوڑھوں کی آواز سے ٹس سے مس ہونے کے عادی نہیں، یقیناً تمہاری آواز پر لبیک کہیں گے۔قتیبہ کی سب سے بڑی مدد یہ ہوگی کہ تم یہاں یا دمشق میں بیٹھ کر اس کے لیے مزید فوجی بھرتی کرتے رہو۔دوسرے محاز پر ہماری افواج مغربی افریقہ تک پہنچ چکی ہیں۔ممکن ہے کہ موسی بن نصیر کسی دن سمندر عبور کرکے سپین پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔اس صورت میں ہمارے لیے مغربی محاز ترکستان کے محاز سے بھی زیادہ اہم ہوجائے گا۔اس لیے جب تک دربارِ خلافت سے میرے مکتوب کا جواب نہیں آتا تم یہیں رہو اور تمہارے ماموں جان ابھی تک کوفہ سے آئے کہ نہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”وہ شاید آج آجائیں۔“
”انھیں آتے ہی میرے پاس بھیجنا اور کہنا کہ یہ والی بصرہ کا حکم نہیں، حجاج بن یوسف کی درخواست ہے۔“
محمد بن قاسم باہر نکلا تو ایک کنیز نے کہا آپ کی چچی آپ کو بلاتی ہیں۔محمد بن قاسم حرم سرا میں داخل ہوا۔زبیدہ اپنی ماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔محمدبن قاسم کو دیکھ کر اس کے چہرے پر حیا کی سرخی چھا گئی اور وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
(قسط نمبر74)
چچی نے محمد بن قاسم کو اپنے سامنے کرسی پر بیٹھا لیا اور پوچھا۔”بیٹا! تمہارے ماموں جان آئے یا نہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”وہ آج آجائیں گے۔لیکن ان کی کیا ضرورت پڑ گئی۔چچا بھی مجھ سے ان کے متعلق پوچھتے تھے۔“
”کچھ نہیں بیٹا! ایک کام ہے۔“
محمد بن قاسم چچی سے رخصت ہوکر گھر پہنچا تو حجاج بن یوسف کی بوڑھی خادمہ باہر نکل رہی تھی۔وہ اندر داخل ہوا تو ماں بستر پر تکیے کا سہارا لیے بیٹھی تھی۔وہ اسے دیکھتے ہی مسکرا کر بولی۔”بیٹا اب تو شاید تمہیں کچھ دن اور یہیں رہنا پڑے گا۔“
”ہاں امی! چچا نے دربارِ خلافت میں فوجی مشیر کے عہدے کے لیے میری سفارش کی ہے اور مجھے جواب آنے تک یہیں ٹھہرنا پڑے گا!“
”بیٹا! حجاج کبھی کسی پر مہربان نہیں ہوا لیکن تم بہت خوش نصیب ہو۔“
”امی!میں اپنے پاوں پر اٹھنا چاہتا ہوں۔اگر دمشق جا کر مجھے معلوم ہوا کہ میں اپنے نئے عہدے کا اہل نہیں تو میں وآپس چلا جاوں گا۔مجھے ڈر ہے کہ وہاں بڑی بڑی عمر کے لوگ مجھ پر ہنسیں گے اور سب یہ کہیں گے کہ میرے ساتھ خاص رعائیت کی گئی ہے۔“
”بیٹا حجاج میں لاکھ برائیاں ہیں لیکن اس میں ایک خوبی ضرور ہے کہ وہ عہدیداروں کا انتخاب کرتے وقت غلطی نہیں کرتا۔میں خود یہ نہیں چاہتا کہ وہ میرے بیٹے کے ساتھ رعائیت کرے۔لیکن اگر اس نے تمہاری کوئی بےجا رعائیت بھی کی ہے تو میں چاہتی ہوں کہ تم ناصرف خود کو اپنے منصب کا اہل ثابت کردکھاو بلکہ یہ ثابت کردو کہ تم اس سے زیادہ اہم ذمہ داری سنبھال سکتے ہو۔میں تمہیں ایک اور خوشخبری سنانا چاہتی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”پہلے وعدہ کرو کہ میں جو کچھ کہوں گی، تم اس پر عمل کرو گے؟“
”امی! آج تک آپ کا کوئی حکم ایسا ہے جس سے میں نے سرتابی کی ہو؟“
”جیتے رہو بیٹا! میری دعا ہے کہ جب تک دن کو سورج اور رات کو چاند اور ستارے میسر ہیں، تمہارا نام دنیا میں روشن رہے اور قیامت کے دن مجاہدینِ اسلام کی ماوں کی صف میں کی صف میں میری گردن کسی سے نیچی نا ہو۔“
”ہاں امی! وہ خوشخبری کیا تھی؟“
ماں نے مسکراتے ہوئے تکیے کے نیچے سے ایک خط نکالا اور کہا۔”لو پڑھ لو، تمہاری چچی کا خط ہے۔“
محمد بن قاسم نے خط کھولا اور چند سطور پڑھنے کے بعد اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔اس نے خط ختم کیے بغیر ماں کے آگے رکھ دیا اور دیر تک سرجھکائے بیٹھا رہا۔
”کیوں بیٹا! کیا سوچ رہے ہو؟“
”کچھ نہیں امی۔“
”بیٹا! یہ میری زندگی کی سب سے بڑی آرزو تھی اور حجاج سے نفرت کے باوجود میں یہ دعا کرتی تھی کہ زبیدہ میری بہو بنے۔پچھلے دنوں وہ باپ سے چھپ چھپ کر میری تیمارداری کرتی رہی۔سچ کہتی ہوں کہ اگر میری کوئی اپنی لڑکی بھی ہوتی تو شاید میرا اسی قدر خیال کرتی۔۔۔۔مجھے یہ ڈر تک کہ حجاج بن یوسف کبھی یہ گوارا نا کرے گا اور میں خدا سے تیری عزت، ترقی اور شہرت کی دعائیں کیاکرتی تھی۔ میں جب بھی زبیدہ کو دیکھتی، میرے منہ سے یہ دعا نکلتی کہ یااللہ! میرے بیٹے کو ایسا بنادے کہ حجاج اسے اپنا داماد بنانے پر فخر محسوس کرے۔آج میرے آرزوئیں پوری ہوئیں۔لیکن یہ خیال نا کرنا کہ میں صرف اس لیے خوش ہوں کہ تم والی بصرہ کے داماد بنو گے۔ بلکہ میں اس لیے خوش ہوں کہ مدینہ، دمشق اور بصرہ میں میں نے زبیدہ جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔میں یہ چاہتی ہوں کہ دمشق میں یا کہیں اور جانے سے پہلے تمہاری شادی کردی جائے۔تمہیں کوئی اعتراض تو نا ہوگا؟“
”امی! آپ کو خوش رکھنا میں دنیا کی سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہوں لیکن ماموں جان حجاج سے بہت نفرت کرتے ہیں۔“
”اس کے باوجود زبیدہ کو انہی نگاہوں سے دیکھتے ہیں جن سے میں دیکھتی ہوں۔تم ان کی فکر نا کرو۔“
(قسط نمبر75)
تین ہفتوں کے بعد بصرہ، کوفہ اور عراق کے دوسرے شہروں میں یہ خبر حیرت و استعجاب سے سنی گئی کہ حجاج بن یوسف نے جو عالمِ اسلام کی کسی بڑی شخصیت کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔اپنے بھائی قاسم کے یتیم اور غریب لڑکے کے ساتھ اپنی اکلوتی لڑکی کی شادی کردی۔دعوتِ ولیمہ میں شہر کے معززین کے علاوہ محمد بن قاسم کے بہت سے دوست اور ہم مکتب شریک تھے۔
اگلے دن حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو بلا کر یہ خوشخبری سنائی کہ دمشق سے خلیفتہ المسلمین کا ایلچی آگیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ تمہیں فوراً دمشق بھیج دیا جائے۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”میں جانے کے لیے تیار ہوں لیکن دربارِ خلافت کے بڑے بڑے عہدہ دار مجھے دیکھ کر یہی سمجھیں گے کہ آپ کی وجہ سے میرے ساتھ بےجا رعایت کی گئی ہے۔“
حجاج نے جواب دیا۔”قیمتی پتھر اپنی ضمانت سے نہیں بلکہ چمک سے پہچانے جاتے ہیں۔میں نے فقط تمہاری فطری صلاحیتوں کی نشونما کے لیے ایک موزوں ماحول تلاش کیا ہے، دربارِ خلافت میں تم صیغہِ امورِ حرب کی مجلسِ شوری کے ایک رکن کی حیثیت سے کام کرو گے اور اگر تم اپنے رفقائے کار اور خلیفہ کو میری طرح متاثر کرسکے تو یقین رکھو کہ کسی کو تمہاری کم عمری کی شکایت نہیں ہوگی۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”لیکن میں حیران ہوں کہ صیغہ امورِ حرب کی مجلسِ شوری دمشق میں کیا کرتی ہے! خلیفہ نے امورِ حرب کی تمام ذمہ داری تو آپ کو سونپ رکھی ہے۔سپہ سالار کے ایلچی براہِ راست آپ کے پاس آتے ہیں، نقل و حرکت کے تمام احکام آپ کی طرف سے جاتے ہیں۔“
”یہ اس لیے کے مجلسِ شوری میں تمہارے جیسے سرگرم اور بیدار مغز ارکان کی کمی ہے اور ان کا بہت سا بوجھ مجھ پرڈال دیا گیا ہے۔ اب تم وہاں جاو گے تو کم از کم میرے سر سے افریقہ کے محاز کی نگرانی کا بوجھ ختم ہوجائے گا۔افریقہ کے حالات میں زرا سے تبدیلی پر امیرالمومنین مجھے ہر دوسرے تیسرے مہینے مشورے لینے کے لیے بلاتے ہیں۔ممکن ہے تمہاری صلاحیتیں دیکھ کر مجھے وہ بار بار بلانے کی ضرورت محسوس نا کریں اور میں ترکستان کی محاز کی طرف زیادہ توجہ دے سکوں۔“
محمد بن قاسم نے پوچھا۔”مجھے کب جانا چاہیے؟“
”میرے خیال میں تم کل ہی روانہ ہوجاو۔میں چند دنوں تک تمہاری والدہ اور زبیدہ کو دمشق بھیجنے کا انتظام کردوں گا۔“
محمد بن قاسم رخصت ہونے کو تھا کہ حبشی غلام نے اندر آکر حجاج بن یوسف کو اطلاع دی کہ ایک نوجوان اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ میں سراندیپ سے انتہائی اہم خبر لے کر آیا ہوں۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”بلاو اسے۔اور محمد! تم ابھی ٹھہرو! میرا دل گواہی دیتا ہے کہ سراندیپ سے کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔“
غلام کے جانے کے تھوڑی دیر بعد زبیر اندر داخل ہوا۔اس کے کپڑے گردو غبار سے آٹے ہوئے تھے اور خوبصورت چہرے پر حزن و ملال اور تھکاوٹ کے آثار تھے۔حجاج بن یوسف نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور کہا۔”زبیر! تم آگئے۔اور تمہارا جہاز۔۔۔۔۔۔!“
زبیر نے کہا۔”مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے پاس کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آیا۔سندھ کے ساحل پر دیبل کے گورنر نے ہمارا جہاز لوٹ لیا ہے۔دوسرا جہاز جس پر سراندیپ کے راجہ نے آپ کے اور خلیفہ کے لیے تحائف بھیجے تھے، وہ بھی لوٹ لیا ہے اور مسلمانوں کے یتیم بچے جنہیں میں لینے کے لیے گیا تھا، قید کرلیے ہیں۔“
حجاج نے کہا۔”تم یہاں کیسے پہنچے۔مجھے تمام واقعات بتاو۔“
زبیر نے شروع سے لے کر آخر تک اپنی سرگزشت سنائی۔حجاج بن یوسف کی آنکھوں میں غم و غصہ کے شعلے بھڑکنے لگے۔اس کے چہرے پر پرانی ہیبت چھا گئی اور وہ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتا اور ہونٹ چباتا ہوا کمرے میں چکر لگانے لگا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک دیوار کے قریب کھڑا ہوکر ہندوستان کے نقشے کو دیکھنے لگا اور اس کے منہ سے ایک زخمی شیر کی گرج سے ملتی جلتی آواز نکلی۔”سندھ کے راجہ کی یہ جرات؟ بکریاں بھی شیروں کو سینگ دیکھانے لگیں۔شاید اسے بھی معلوم ہوگیا ہے کہ ہماری افواج شمال اور مغرب میں پھنسی ہوئی ہے۔“
(قسط نمبر76)
یہ کہہ کر حجاج زبیر کی طرف متوجہ ہوا۔”تم نے ابھی تک بصرہ میں تو یہ خبر کسی کو نہیں سنائی۔“
زبیر نے کہا۔”نہیں! میں سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں۔“
حجاج بن یوسف نے کہا۔”سندھ کی طرف سے اس سے زیادہ صریح الفاظ میں ہمارے خلاف اعلان جنگ نہیں ہوسکتا۔لیکن تم جانتے ہو کہ اس وقت ہماری مجبوریاں ہمیں ایک نئے محاز کی طرف پیش قدمی کی اجازت نہیں دیتیں۔میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ الم ناک خبر ابھی عوام تک نا پہنچے، وہ خود جہاد پر جانے کے لیے تیار ہوں یا نا ہوں لیکن مجھے کوسنے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔“
زبیر نے کہا۔”آپ کا مطلب ہے آپ یہ سب کجھ خاموشی سے برداشت کرلیں گے۔“
حجاج نے جواب دیا۔”سردشت خاموشی کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں۔میں مکران کے گورنر کو لکھتا ہوں کہ وہ خود سندھ کے راجہ کے پاس جائے۔ممکن ہے وہ اپنی غلطی کی تلافی کے لیے آمادہ ہوجائے اور مسلمان بچوں کو اس کے حوالے کردے۔“
زبیر نے کہا۔”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ اپنی غلطی کے اعتراف کے لیے آمادہ نہیں ہوگا۔ابوالحسن کا جہاز لاپتہ ہونے پر بھی آپ نے مکران کے گورنر کو وہاں بھیجا تھا لیکن انھوں نے اپنی لاعِلمی کا کا اظہار کیا اور مجھے یقین ہے کہ ابوالحسن کا جہاز بھی لوٹا گیا تھا اور وہ اور اس کے چند ساتھی راجہ کی قید میں ہیں۔میں خود بھی مکران کے عامل سے مل کر آیا ہوں۔وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ راجہ اور اس کے اہلکار گزشتہ ملاقات میں نہایت ذلت آمیز سلوک کرچکے ہیں۔اس لیے وہ بذات خود دوبارہ اس کے پاس جانا پسند نہیں کرتے تاہم انھوں نے آپ کا مشورہ لیے بغیر مکران کے سالارِ اعلی عبیداللہ کی قیادت میں دیبل کے حاکم کے پاس ایک وفد بھیج دیا ہے۔جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں اس سے میرا انداہ ہے کہ دیبل کا راجہ انتہا درجہ کا ہٹ دہرھرم اور بےرحم ہے اور عبیداللہ بھی کافی جوشیلا ہے، ممکن ہے وہاں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو ہمارے ساتھ ہوچکا ہے اور وہ راجہ سے ملاقات کرنے سے پہلے ہی کسی خطرے کا شکار ہوجائیں۔“
حجاج نے کہا۔”تاہم میں عبیداللہ کی واپسی کا انتظار کروں گا۔“
”اور اگر وہ بھی اچھی خبر نا لایا تو؟“
”میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔سندھ ایک وسیع ملک ہے اور ہمیں وہاں لشکر کشی سے پہلے ایک لمبی تیاری کی ضرورت ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ امیرالمومنین، ترکستان، افریقہ اور اس کے بعد شاید اندلس کی فتح سے پہلے ہمیں سندھ پر لشکر کشی کی اجازت نا دیں۔“
محمد بن قاسم ابھی تک خاموشی سے یہ باتیں سن رہا تھا۔اس نے زبیر کی مایوس نگاہوں سے متاثر ہوکر کہا۔”خلیفہ کو راضی کرنے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔اگر آپ اجازت دیں تو میں کل کی بجائے آج ہی دمشق کے لیے راوانہ ہوجاوں۔“
حجاج نے جواب دیا۔”برخودار! جاتے ہی خلیفہ کو ایسا مشورہ دےکر تم اپنی سپاہیانہ صلاحیتوں کا اچھا مظاہرہ نہیں کرو گے۔تمہاری غیرت اور شجاعت میں کلام نہیں لیکن دشمنوں کے قلعے خالی تدبیروں سےفتح نہیں ہوتے۔اس مہم کے لیے بہت سے سپاہیوں کی ضرورت ہوگی اور عراق، عرب اور شام کے کسی مستقر میں ہمارے پاس زائد افواج نہیں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”میں مسلمانوں کی غیرت سے مایوس نہیں۔ایسی خبر ان لوگوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے، جنھیں آرام کی زندگی جذبہ جہاد سے محروم کرچکی ہے۔ممکن ہے کہ آپ اپنی عمر کے لوگوں سے مایوس ہوں لیکن میں نوجوانوں سے مایوس نہیں۔ وہ نوجوان جو آپ اور خلیفہ سے اختلاف کے باعث ترکستان اور افریقہ جاکر لڑنا پسند نہیں کرتے۔مسلمان بچوں پرسندھ کے راجہ کی مظالم کی داستان سن کر یقیناً متاثر ہوں گے۔ہزارں نوجوان ایسے ہیں جن کی حمیت ابھی تک فنا نہیں ہوئی۔وہ مسلمان جن سے آپ مایوس ہیں، مرے نہیں، سورہے ہیں اور قوم کے یتیم بچوں کی فریاد یقیناً ان کے لیے صورِ اسرافیل ثابت ہوگی۔“
(قسط نمبر77)
حجاج بن یوسف گہری سوچ میں پڑ گیا۔زبیر نے موقع دیکھ کر ایک سفید رومال جس پر ناہید کی تحریر تھی اپنی جیب سے نکال کر اسے پیش کیا اور کہا۔”آپ کے نام یہ مکتوب ابوالحسن کی لڑکی نے اپنے خون سے لکھا تھا کہ اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہوچکا ہوتو میرا یہ خط پیش کردینا ورنہ اس کی ضرورت نہیں۔“
حجاج بن یوسف رومال پر خون سے لکھی ہوئی تحریر کی چند سطور پڑھ کر کپکپا اٹھا اور اس کی آنکھوں کے شعلے پانی میں تبدیل ہونے لگے۔اس نے رومال محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دے دیا اور خود دیوار کے پاس جاکر ہندوستان کا نقشہ دیکھنے لگا۔ محمد بن قاسم نے شروع سے لے کر آخر تک یہ مکتوب پڑھا۔مکتوب کے الفاظ یہ تھے:-
”مجھے یقین ہے کہ والی بصرہ قاصد کی زبانی مسلمان بچوں اور عورتوں کا حال سن کر اپنی فوج کے غیور سپاہیوں کو گھوڑوں پر زینیں ڈالنے کا حکم دےچکا ہوگا اور قاصد کو میرا یہ خط دیکھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہوچکا ہے تو شاید میری تحریر بھی بےسود ثابت ہو۔میں ابوالحسن کی بیٹی ہوں۔میں اور میرا بھائی ابھی تک دشمن کی دسترس سے محفوظ ہیں لیکن ہمارے ساتھی ایک ایسے دشمن کی قید میں ہیں جس کے دل میں رحم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔قید خانے کی اس تاریک کوٹھری کا تصور کیجیے۔جس کے اندر اسیروں کے کان مجاہدینِ اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سننے کے لیے بیقرار ہیں۔یہ ایک معجزہ تھا کہ میں اور میرا بھائی دشمن کی قید سے بچ گئے تھے۔لیکن ہماری تلاش جاری ہے اور ممکن ہے کہ ہمیں بھی کسی تاریک کوٹھری میں پھینک دیا جائے۔ممکن ہے کہ اس سے پہلے ہی میرا زخم مجھے موت کی نیند سلا دے اور میں عبرتناک انجام سے بچ جاوں۔لیکن مرتے وقت مجھے یہ افسوس ہوگا کہ وہ صبا رفتار گھورے جن کے سوار ترکستان اور افریقہ کے درواے کھٹکھٹا رہے ہیں. اپنی قوم کے غریب اور بےبس بچوں کی مدد کو نا پہنچ سکے. کیا یہ ممکن ہے کہ وہ تلوار جو روم اور ایران کے مغرور تاجداروں کے سر پر صاعقہ بن کر کوندی سندھ کے مغرور راجہ کے سامنے کند ہوگئی۔میں موت سے نہیں ڈرتی لیکن اےحجاج! اگر تم زندہ ہوتو اپنی غیور قوم کے یتیموں اور بیواوں کی مدد کو پہنچو۔۔۔۔۔۔۔!!“
ناہید!
ایک غیور قوم کی بےبس بیٹی
محمد بن قاسم نے رومال لپیٹ کر زبیر کے حوالے کیا اور حجاج بن یوسف کی طرف دیکھنے لگا۔وہ گردوبیش سے بےخبر ہوکر نقشے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
محمد بن قاسم نے پوچھا۔”آپ نے کیا فیصلہ کیا؟“
حجاج بن یوسف نے خنجر نکالا اور اس کی نوک سندھ کے نقشے میں پیوست کرتے ہوئے کہا۔”میں سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد کرتا ہوں۔محمد! تم آج ہی دمشق روانہ ہوجاو۔زبیر کو بھی ساتھ لےجاو۔یہ مکتوب بھی امیرالمومنین کو دیکھا دینا۔جتنی فوج دمشق سے فراہم ہو، لےکر یہاں پہنچ جاو۔میرا خط بھی امیرالمومنین کے پاس لےجاو۔واپس آنے میں دیر نا کرنا۔ہاں! اگر امیرالمومنین متاثر نا ہوں تو دمشق کی رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرنا اور مجھے یقین ہے کہ امیرالمومنین عوام میں زندگی کے آثار دیکھ کر سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد میں پش و پیش نہیں کریں گے۔میں تمہیں ایک بڑی ذمہ داری سونپ رہا ہوں اور دمشق سے وآپس آنے پر شاید تمہیں اس سے ہیں زیادہ بڑی ذمہ داری سونپ دی جائے. میرا خط دیکھانے پر تمہیں راستے کی ہر چوکی سے تازہ دم گھوڑے مل جائیں گے۔اب جاکر تیار ہوآو۔اتنی دیر میں میں خط لکھتا ہوں اور زبیر تم بھی تیار ہوجاو۔“
حجاج بن یوسف نے تالی بجائی اور ایک حبشی غلام بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا۔
حجاج نے کہا۔”انھیں مہمان خانے میں لےجاو۔کھانا کھلانے کے بعد ان کے کپڑے تبدیل کراو اور ان کے سفر کے لیے دو بہترین گھوڑے تیار کرو۔“
(قسط نمبر78)
چند دنوں کی یلغار کے بعد محمد بن قاسم اور زبیر ایک صبح دمشق سے چند کوس کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی سے باہر فوجی چوکی پر اترے۔ محمد بن قاسم نے چوکی کے افسر کو حجاج بن یوسف کا خط دیکھایا اور تازہ دم گھوڑے تیار کرنے اور کھانا لانے کا حکم دیا۔
افسر نے کہا۔”کھانا حاضر ہے لیکن آج گھوڑے شاید آپ کو نا مل سکیں۔ہمارے پاس اس وقت صرف پانچ گھوڑے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”لیکن ہمیں تو صرف دو چاہیے۔“
”لیکن ان گھوڑوں پر امیرالمومنین کے بھائی سلیمان بن عبدالملک اور ان کے ساتھی دمشق روانہ ہونے والے ہیں۔کل چونکہ دمشق میں فنونِ حرب کی نمائش ہوگی، اس لیے ان کا آج شام تک وہاں پہنچنا ضروری ہے۔میں نہ والی بصرہ کے حکم سے سرتابی کرسکتا ہوں اور نہ امیرالمومنین کے بھائی کو ناراض کرنے کی جرات کرسکتا ہوں۔آپ جانتے ہیں کہ وہ بہت سخت طبعیت کے آدمی ہیں۔“
”وہ کہاں ہیں؟“
”وہ اندر آرام فرما رہے ہیں۔غالباً دوپہر کے بعد یہاں سے روانہ ہوں گے۔اگر آپ کا کام بہت ضروری ہے تو ان سے اجازت لے لیجیے۔دوپہر تک ان کے گھوڑے تازہ دم ہوجائیں گے۔ویسے بھی کوئی بڑی منزل طے کرکے نہیں آئے۔آپ کھانہ کھا کر ان سے پوچھ لیں۔بذاتِ خود میں آپ کو منع نہیں کرتا۔آپ لے جائیں تو آپ کی مرضی لیکن ہماری شامت آجائے گی۔“
زبیر اور محمد بن قاسم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھایا اور محمد بن قاسم اندر جانے کے ارادے سے اٹھا۔لیکن زبیر نے کہا۔”کیا یہ ضروری ہے کہ ہم سلیمان کی اجازت حاصل کریں۔ یہ گھوڑے صرف فوجی ضروریات کے لیے یہاں رکھے گئے ہیں اور سلیمان سیروتفریح کے لیے دمشق جارہا ہے۔اسے فوجی معملات میں رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔گھوڑے اصطبل میں تیار کھڑے ہیں۔شہزادہ سلیمان دوپہر تک آرام فرمائے گا۔ اس کے بعد کچھ دیر آئینہ سامنے رکھ کر اپنے خادموں سے اپنی خوبصورتی کی تعریف سنے گا۔اس کے بعد اشعار کی داد لےگا۔ پھر اپنی نیزہ بازی اور شہسواری کی تعریف سنے گا۔ اس کے بعد ممکن ہے کہ شام کے وقت سپاہیوں کو حکم دےکہ گھوڑوں کی زینیں اتاردو، ہم صبح جائیں گے۔“
محمد بن قاسم نے ہنستے ہوئے کہا۔”معلوم ہوتا ہے۔آپ سلیمان بن عبدالملک کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔“
”ہاں! میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔عالمِ اسلام شاید اس سے زیادہ مغرور اور خود پسند آدمی کوئی نہ ہو۔اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے اس سے کسی اچھے جواب کی امید نہیں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”مجھے صرف یہ خیال ہے کہ ہمارے چلے جانے کے بعد چوکی کے سپاہیوں کی شامت آجائے گی۔اس لیے اس سے پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔“
”آپ کی مرضی، لیکن آپ پوچھنے جائیں اور میں اتنی دیر میں اصطبل سے دو گھوڑے کھول لاتا ہوں۔“
(قسط نمبر79)
محمد بن قاسم نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔سلیمان اپنے ساتھیوں کے درمیان دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔دوخادم اس کے پاوں دبا رہے تھے۔
محمد بن قاسم السلام علیکم کہہ کر اندر داخل ہوا۔سلیمان نے بےپروائی سے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔”تم کون ہو؟ اور کیا چاہتے ہو؟“
محمد بن قاسم نے اس کی ترش کلامی سے لاپرواہی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔”معاف کیجیے! میں آپ کے آرام میں مخل ہوا۔میں آپ کو یہ بتانے آیا تھا کہ میں دمشق میں ایک ضروری پیغام لے کر جارہا ہوں۔“
”جاو! ہم نے کب روکا تمہیں؟“ سلیمان کے ساتھیوں نے اس پرایک قہقہہ لگایا لیکن محمد بن قاسم نے اپنی سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے کہا۔”ہمارے گھوڑے بہت تھکے ہوئے ہیں اور میں اس چوکی سے دو تازہ گھوڑے لےجارہا ہوں۔اس کے لیے مجھے آپ کی اجازت کی ضرورت تو نا تھی لیکن میں نے اس خیال سے آپ کی ملاقات ضروری سمجھی کہ آپ خوامخواہ چوکی کے سپاہیوں کو برا بھلا نا کہیں۔“
سلیمان نے زرا اکڑ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔”اگر تمہارے گھوڑے تھکے ہوئے ہیں تو تم پیدل جاسکتے ہو۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ایک سپاہی کے لیے پیدل چلنا باعثِ عار تو نہیں لیکن میں بہت جلد دمشق پہنچنا چاہتا ہوں۔“
”تو تم سپاہی ہو۔تمہاری نیام میں لکڑی کی تلوار ہے یا لوہے کی؟“ سلیمان کے ساتھیوں نے پھر ایک قہقہہ لگایا۔
محمد بن قاسم نے پھر اطمینان سے جواب دیا۔”اگر بازووں میں طاقت نا ہو تو لکڑی سے بھی لوہے کا کام لیا جاسکتا ہے۔لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری تلوار بھی لوہے کی ہے اور مجھے اپنے بازووں پر بھی بھروسہ ہے۔“
سلیمان نے اپنے ایک ساتھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”صالح! یہ لڑکا باتوں میں کافی ہوشیار معلوم ہوتا ہے۔ذرا اٹھو، میں اس کے سپاہیانہ جوہر دیکھنا چاہتا ہوں۔“
ایک گندمی رنگ کا قوی ہیکل شخص فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور نیام سے تلوار نکال کر اگے بڑھا۔
محمدبن قاسم نے کہا۔”میں راہ چلتوں کے سامنے اپنی سپاہیانہ صلاحیتوں کی نمائش کرنے کا عادی نہیں اور نہ میرے پاس اتنا وقت ہی ہے اور اگر وقت ہوتا بھی میں کرائے پر قہقہے لگانے والوں سے دل لگی کرنا ایک سپاہی کے لیے باعثِ عار سمجھتا ہوں۔“
محمد بن قاسم یہ کہہ کر باہر نکل آیا لیکن صالح نے آگے بڑھ کر تلوار کی نوک سامنے کرتے ہوئے اس کا راستہ روک لیا اور کہا۔”بےوقوف! اگر تمہاری عمر دو چار سال اور زیادہ ہوتی، تو میں تمہیں بتاتا کہ کرائے پر قہقہہ لگانے والا کسے کہتے ہیں۔“
سامنے زبیر ایک گھوڑے پر سوار ہوکر دوسرے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھا۔سلیمان نے باہر نکل کر کہا۔”اسے جانے دو۔بےچارہ ناجانے کہاں سے تلوار اٹھا لایا ہے۔لیکن وہ کون ہے؟“
اس نے زبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”اسے روکو!“
صالح زبیر کی طرف متوجہ ہوا لیکن آنکھ جھپکنے میں محمد بن قاسم کی تلوار باہر آچکی تھی۔اس نے کہا۔”معلوم ہوتا ہے کہ ایامِ جاہلیت کے عرب اب بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔لیکن تم ہمیں نہیں روک سکتے۔“
صالح تلوار کی نوک اس کے سینے کی طرف بڑھاتے ہوئے چلایا۔”اگر تمہاری زبان سے ایک لفظ اور نکلا تو میری تلوار خون میں نہائے بغیر تلوار میں۔۔۔۔۔۔۔“
لیکن اس کا فقرہ پورا ہونے سے پہلے محمد بن قاسم کی تلوار جنبش سے ہوا میں ایک سنسناہٹ اور پھر دو تلواروں کے ٹکڑانے سے جھنکار پیدا ہوئی اور اس کے ساتھ ہی صالح کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دس قدم دور جا پڑی اور وہ حیرت، ندامت اور پریشانی کی حالت میں اپنے ساتھیوں اور اس کے ساتھی دم بخود ہوکر محمد بن قاسم کی طرف دیکھ رہے تھے۔
سلیمان نے اپنے ساتھی کی بےبسی کو دیکھ کر قہقہہ لگایا لیکن محمد بن قاسم کو گھوڑے پرسوار ہوتا دیکھ کر قہقہے کی آواز اس کے گلے میں اٹک گئی اور اس نے چلا کر کہا۔”ٹھہرو!“
محمد بن قاسم نے گھوڑے کی لگام موڑتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔”آپ کا ساتھی بہادر ہے لیکن تلوار پکڑنا نہیں جانتا. میرا مشورہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کو دمشق کی نمائش میں لے جانے سے پہلے کسی سپاہی کے سرد کریں۔“ یہ کہہ کر محمد بن قاسم نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگادی اور دونوں آن کی آن میں درختوں کے پیچھے غائب ہوگئے۔
صالح غصے سے اپنے ہونٹ کاٹتا ہوا اصطبل کی طرف بھاگا۔سلیمان نے کہا۔”بس اب رہنے دو۔تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ایک نوجوان لڑکا ہم سب کا منہ چڑا کر نکل گیا۔“
راستے میں زبیر نے محمد بن قاسم سے کہا۔”دیکھ لیا شہزادہ سلیمان۔میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ وہ خلافت کا امیدوار بھی ہے۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”خدا مسلمانوں کوشر سے بچائے۔“
زبیر نے کہا۔”محمد! میں نے آج پہلی دفعہ تمہارے چہرے پر جلال دیکھا ہے۔تلوار نکالتے وقت تم اپنی عمر سے کئی سال بڑے معلوم ہوتے تھے اور جانتے ہو وہ شخص جسے تم نے مغلوب کیا ہے کون ہے؟ وہ صالح تھا۔قریباً ڈیڑھ سال ہوا میں نے اسے کوفہ میں دیکھا تھا۔اسے تیغ زنی میں اپنے کمال پر ناز ہے۔لیکن آج اس کا غرور اسے لے ڈوبا۔“
(قسط نمبر80)
دمشق کی جامع مسجد میں نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد محمدبن قاسم اور زبیر قصرِ خلافت میں داخل ہوئے۔خلیفہ ولید کے دربان نے ان کی آمد کی اطلاع پاتے ہی انھیں اندر بلالیا۔ولید بن عبدالملک نے یکے بعد دیگرے ان دونوں کو سر سے پاوں تک دیکھا اور پوچھا۔”تم میں سے محمد بن قاسم کون ہے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔” میں ہوں۔“
حاضرینِ دربار جن کی نگاہیں زبیر پر مرکوز ہوچکی تھیں، حیرت زدہ ہوکر محمد بن قاسم کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کی خاموش نگاہیں آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں۔حجاج بن یوسف کے گزشتہ مکتوب سے ولید کو معلوم ہوچکا تھا کہ محمد بن قاسم بالکل نوجوان ہے لیکن اس کے باوجود وہ بھی درباریوں کی طرح زبیر ہی کو حجاج بن یوسف کا ہونہار بھتیجا سمجھ رہا تھا۔ اور سولہ سترہ سالہ نوجوان کو قتیبہ کے لشکر کے ہراول کا سالار اعلی تسلیم کرنے کے لیے تیار نا تھا۔
آنکھوں کو اشاروں کے ساتھ اہلِ دربار کی زبانیں بھی ہلنے لگیں اور ولید نے اچانک یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس کے خاندان کے سب سے بڑے محسن حجاج بن یوسف کے متعلق کچھ کہا جارہا ہے، مسند سے اٹھ کر محمد اور زبیر سے مصافحہ کیا اور انھیں اپنے قریب بٹھاتے ہوئے کہا۔” وہ مجاہد جس کے متعلق حجاج بن یوسف جیسا مردم شناس اور قتیبہ بن مسلم جیسا سپہ سالار اس قدر بلند رائے رکھتے ہوں، میرے لیے یقیناً قابلِ احترام ہے۔“ پھر اس نے محمد بن قاسم سے مخاطب ہوکر پوچھا۔”اور یہ تمہارا بڑا بھائی ہے؟“
”نہیں امیرالمومنین، یہ زبیر ہے۔“
ولید نے زبیر کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔”میں نے شاید پہلے بھی تمہیں کہیں دیکھا ہے۔شاید تم سراندیپ کے ایلچی کے ساتھ گئے تھے۔تم کب آئے اور وہ بچے کہاں ہیں؟“
خلیفہ کی طرح حاضرینِ دربار کی توجہ بھی زبیر پر مرکوز ہوگئی اور بعض نے اسے پہچان لیا۔زبیر کا تذبذب دیکھ کر محمد بن قاسم نے جلدی سے حجاج بن یوسف کا خط پیش کرتے ہوئے کہا۔”امیرالمومنین! ہم ایک نہایت ضروری پیغام لےکر آئے ہیں۔آپ ملاحظہ فرمالیں۔۔۔۔۔۔۔۔“ ولید نے خط کھول کر پڑھا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد حاضرینِ دربار سے مخاطب ہوکر کہا۔”سندھ کے راجہ نے ہمارا جہاز لوٹ لیا ہے۔سراندیپ سے آنے والی بیواوں اور یتیم بچوں کو قید کرلیا ہے۔زبیر تم اپنی تمام سرگزشت خود سناو!“
زبیر نے شروع سے لے کر آخر تک تمام واقعات بیان کیے لیکن دربار میں جوش و خروش کی بجائے مایوسی کے آثار پاکر اختتام پر اس کی آواز بیٹھ گئی اور اس نے جیب سے رومال نکال کر خلیفہ کو پیش کرتے ہوئے کہا۔”ابوالحسن کی بیٹی نے یہ خط والی بصرہ کے نام لکھا تھا۔“
حجاج بن یوسف کی طرح ولید بھی یہ خط پڑھ کر بےحد متاثر ہوا۔اس نے اہلِ دربار کو سنانے کے لیے خط کو دوسری بار بلند آواز میں پڑھنے کی کوشش کی لیکن چند فقرے پڑھنے کے بعد اس کی آواز رک گئی۔اس نے مکتوب محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔”تم پڑھ کر سنادو!“
محمد بن قاسم نے سارا خط پڑھ کر سنادیا۔مجلس کا رنگ بدل چکا تھا۔حاضرین میں سے اکثر کے چہرے ظاہر کررہے تھے کہ جذبات کا طوفان عقل کی مصلحتوں کو مغلوب کرچکا ہے لیکن ولید کو خاموش دیکھ کر سب کی زبانیں گنگ تھیں۔شہر کا عمر رسید قاضی دیر تک اس خاموشی کو برداشت ناکرسکا۔ اس نے کہا۔”امیرالمومنین! اب آپ کو کس بات کا انتظار ہے۔یہ سوچنے کا موقع نہیں۔پانی سر سے گزرچکا ہے۔“
ولید نے پوچھا۔”آپ کی کیا رائے ہے؟“
قاضی نے جواب دیا۔”امیرالمومنین! فرض کے معاملے میں رائے سے کام نہیں لیا جاتا۔رائے صرف اس وقت کام دے سکتی ہے جب سامنے دو راستے ہوں لیکن ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔“
ولید نے کہا۔”میں آپ سب کی رائے پوچھتا ہوں۔“
(قسط نمبر81)
ایک عہدیدار نے کہا۔”ہم میں سے کوئی بھی اولٹے پاوں چلنا نہیں جانتا۔“
ولید نے کہا۔”لیکن ہمارے پاس افواج کہاں ہیں؟ موسی کا پیغام آچکا ہے کہ وہ اندلس پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔دوسری طرف ترکستان میں عراق کی تمام افواج کو قتیبہ اپنے لیے کافی نہیں سمجھتا۔ ہمیں نیا محاذ کھولنے کے لیے یا تو ان میں سے ایک محاز کمزور کرنا پڑے گا یا اور کچھ مدت انتظار کرنا پڑے گا۔“
قاضی نے جواب دیا۔”امیرالمومنین! یہ خط سننے کے بعد ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو انتظار کا مشورہ دے گا۔اگر آپ یہ معاملہ عوام کے سامنے پیش کریں، تو مجھے یقین ہے کہ سندھ کی مہم کے لیے ترکستان یا افریقہ سے افواج منگوانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔“
ولید نے کہا۔”اگر آپ عوام کو جہاد کے لیے آمادہ کرنے کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں تو میں بھی اعلانِ جہاد کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
قاضی تذبذب سا ہوکر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔
ولید نے کہا۔”میں عوام سے مایوس نہیں۔مجھے صرف یہ شکایت ہے کہ ہمارا اہلِ الرائے طبقہ خودغرض اور خودپسند ہوچکا ہے۔آپ جانتے ہیں جب موسی بن نصیر نے افریقہ میں پیش قدمی کی تھی تو اونچے طبقے کے کئی آدمیوں نے ہماری مخالفت کی تھی۔جب قتیبہ نے مرو پر حملہ کیا تھا تو میرے اپنے ہی بھائی سلیمان نے مخالفت کی تھی۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بااثر طبقے میں جو لوگ کچھ مخلص ہیں، وہ اہل اور تن آسان ہیں اور گھروں میں بیٹھے روئے زمین پر غلبہ اسلام کے لیے اپنی نیک دعاوں کو کافی سمجھتے ہیں۔اگر آپ سب عوام تک پہنچنے کی کوشش کریں تو چند دنوں میں ایک ایسی فوج تیار ہوسکتی ہے جو نہ صرف سندھ بلکہ تمام دنیا کی تسخیر کے لیے کافی ہو لیکن برا نا مانیں، آپ تھوڑی دیر کے لیے متاثر ہوئے ہیں اور ایک یا دودن عوام کو بلکہ اپنے جیسے اونچے طبقوں کے بےعمل لوگوں کو یہ خبر سنانے میں ایک لزت محسوس کریں گے۔سندھ کے ظالم راجہ کو برا بھلا کہیں گے اور اس کے بعد بنی اسرائیل کی طرح دنیا اور عاقبت کا بوجھ خدا کے سر تھوپ کر آرام سے بیٹھ جائیں گے لیکن اگر آپ ہمت کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عامتہ المسلمین ابھی تک زندہ ہیں۔اگر آپ اونچے طبقے کی تفریحی مجالس کی بجائے دمشق کے ہر گھر میں جانا، عوام میں بیٹھنا اور ان سے باتیں کرنا گوارا کریں تو سندھ کے اسیر جو قیدخانے کی دیواروں سے کان لگائے کھڑے ہیں۔ بہت جلد جلد ہمارے گھوڑوں کی ٹاپ سن سکیں گے اور خدا اس لڑکی کو صحت اور زندگی دے، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے گی کہ ہماری تلواریں کند نہیں ہوئیں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”اگر امیر المومنین مجھے اجازت دیں تو میں یہ ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوں۔“
ولید نے کہا۔”تمہیں میری اجازت کی ضرورت نہیں۔“
محمد بن قاسم کے بعد دربار کے ہر عہدے دار نے ولید کو نئی فوج بھرتے کرنے کا یقین دلایا اور یہ مجلس برخاست ہوئی۔
عشاء کی نماز کے بعد محمد بن قاسم اور زبیر آپس میں باتیں کررہے تھے۔ایک ایلچی نے آکر یہ پیغام دیا کہ امیرالمومنین محمد بن قاسم کو بلاتے ہیں۔ محمد بن قاسم سپاہی کے ساتھ چلا گیا اور زبیر اپنے بستر پر لیٹ کر کچھ دیر اس کا انتظار کرنے کے بعد اونگھتے اونگھتے سپنوں کی حسین وادی میں کھوگیا۔دمشق سے کوسوں دور وہ ناہید کی تلاش میں سندھ کے شہروں میں بھٹک رہا تھا۔قلعوں کی فصیلوں اور قیدخانوں کے دروازے توڑ رہا تھا۔قیدیوں کی آہنی بیڑیاں کھول رہا تھا۔ناہید کی سیاہ اور چمک دار آنکھوں کے آنسو پونچھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔”ناہید! میں آگیا ہوں۔تم آزاد ہو۔ تمہارا زخم کیسا ہے؟ دیکھو برہمن آباد کے قلعے پر ہمارا جھنڈا لہرا رہا تھا۔“
اور وہ کہہ رہی تھی۔”زبیر! میں اچھی ہوں۔ لیکن تم دیر سے آئے، میں مایوس ہوچکی تھی۔“
(قسط نمبر82)
میٹھے اور سہانے سپنے کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ انتہائی بےکسی کی حالت میں پابہ زنجیر کھڑا ہوں۔ راجہ کے چند سپاہی ننگی تلواریں اٹھائے اس کے چاروں طرف کھڑے اور باقی ناہید کو پکڑ کر قید خانے کی طرف لے جارہے ہیں اور وہ مڑمڑ کر ملتجی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتی ہے۔ناہید کے پاوں اندر رکھتے ہی قید خانے کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور وہ سخت جدوجہد کے بعد اپنے ہاتھوں اور پاوں کی زنجیریں توڑ کر سپاہیوں کو دھکیلتا، مارتا اور گراتا ہوا قید خانے دروازے تک پہنچتا ہے اور اسے کھولنے کی جدوجہد کرتا ہے۔
زبیر نے”ناہید! ناہید!“ کہتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور سامنے محمد بن قاسم کو کھڑا دیکھ کر پھر بند کرلیں۔
محمد بن قاسم اسے خواب کی حالت میں ہاتھ پاوں مارتے اور ناہید کا نام لیتے ہوئے سن چکا تھا۔تاہم اس نے اسے گفتگو کا موضوع بنانا مناسب نا سمجھا اور چپکے سے اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد زبیر نے دوبارا آنکھیں کھولیں اور کہا۔”آپ آگئے؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”ہاں! میں آگیا ہوں۔“ اور پھر کچھ سوچ کر پوچھا۔”آپ نیزہ بازی اور تیغ زنی میں کیسے ہیں؟“
زبیر نے جواب دیا۔”میں نے بچپن میں جو کھلونا پسند کیا تھا، وہ کمان تھی اور جب گھوڑے کی رکاب میں پاوں رکھنے کے قابل ہوا۔میں نے نیزے سے زیادہ کسی اور چیز کو پسند نہیں کیا۔رہی تلوار، اس کے متعلق کسی عرب سے یہ سوال کرنا کہ تم اس کا استعمال جانتے ہو یا نہیں؟ اس کے عرب ہونے میں شک کرنے کے مترادف ہے۔آپ یقین رکھیے! میری تربیت آپ کے ماحول سے مختلف ماحول میں نہیں ہوئی۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”کل میرا اور آپ کا امتحان ہے۔امیرالمومنین نے مجھے اسی لیے بلایا تھا۔ان کی خواہش ہے کہ ہم دونوں فنونِ حرب کی نمائش میں حصہ لیں، اگر ہم مقابلے میں دوسروں سے سبقت لے گئے تو دمشق کے لوگوں پر بہت اچھا اثر پڑے گا اور ہمیں جہاد کے لیے تبلیغ کا موقع مل جائے گا۔
زبیر نے کہا۔”امیرالمومنین کا خیال درست ہے۔خدا نے ہمارے لیے یہ اچھا موقع پیدا کیا ہے لیکن میں آپ کو یہ بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ صالح اور سلیمان کے متعلق غلط اندازا نا لگائیں۔راستے میں آپ کے ہاتھ اس کا مات کھا جانا ایک اتفاق کی بات تھی۔وہ دونوں نیزہ بازی میں اپنی کمال نہیں رکھتے۔تاہم میں تیار ہوں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”ہمیں اپنی بڑائی مقصود نہیں۔ہم ایک اچھے مقصد کے لیے نمائش میں حصہ لیں گے۔خدا ہماری مدد ضرور کرے گا۔امیرالمومنین نے کہا ہے کہ وہ ہمیں اپنے بہترین گھوڑے دیں گے۔“
سلیمان بن عبدالملک نے ایک قدآدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر زرہ پہنی اور خود سرپر رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”کیوں صالح! میں عام لباس میں اچھا معلوم ہوتا ہوں یا سپاہیانہ لباس میں؟“
صالح نے جواب دیا۔”خدا نے آپ کو ایک ایسی صورت دی ہے جو ہر لباس میں اچھی لگتی ہے۔“
سلیمان آئینے کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر کچھ سوچ کر بولا۔”مجھے اس لڑکے کی صورت پر رشک آگیا تھا۔وہ نمائش دیکھنے ضرور آئے گا۔اگر تم میں سے کسی کو مل جائے تو اسے میرے پاس لے آو۔وہ ایک ہونہار سپاہی ہے اور میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔“
صالح نے ایسا محسوس کیا کہ سلیمان اس کی دکھتی رگ پر نشتر چبھو رہا ہے۔وہ بولا۔”آپ مجھے زیادہ شرمندہ نا کریں۔اس وقت تلوار پر میرے ہاتھ کی گرفت مضبوط نا تھی اور یہ بات میرے وہم میں بھی نا تھی کہ وہ میری لاپرواہی کا فائدہ اٹھائے گا۔“
سلیمان نے کہا۔”اپنے مدِمقابل کو کمزور سمجھنے والا سپاہی ہمیشہ مات کھاتا ہے۔خیر یہ تمہارے لیے اچھا سبق ہے۔اچھا یہ بتاو! آج ہمارے مقابلے میں کوئی آئے گا یا نہیں؟“
صالح نے جواب دیا۔”مجھے یہ توقع نہیں کہ کوئی آپ کے مقابلے کی جرات کرے گا۔گزشتہ سال نیزہ بازی میں تمام نامور سپاہی آپ کے کمال کا اعتراف کرچکے تھے۔“
”لیکن امیرالمومنین مجھ سے خوش نا تھے۔“
”اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ ان کے بھائی ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ آپ کی ناموری اور شہرت ان کی بیٹے کی ولی عہدی کے راستے میں رکاوٹ ہوگی۔لیکن لوگوں کے دلوں میں جو جگہ آپ پیدا کرچکے ہیں وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکتی۔“
سلیمان نے کہا۔”لیکن میری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حجاج بن یوسف ہے۔وہ عراق پر اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے اس بات کی کوشش میں ہے کہ میرے بھائی کے بعد میرا بھتیجا مسندِ خلافت پر بیٹھے۔“
صالح نے کہا۔”خدا میرے بھائی کے قاتل کو غارت کرے۔مجھے یقین ہے کہ اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی۔لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالنے کے لیے جو خوبیاں آپ میں ہیں، وہ نا آپ کے بھائی میں ہیں نہ کسی اور میں۔آپ گزشتہ سال فنونِ حرب کی نمائش میں نام پیدا کرکے اپنا راستہ صاف کرچکے ہیں۔رائے عامہ خلافت کے معاملے میں آپ کی حق تلفی گوارا نا کرے گی۔“
ایک غلام نے آکر اطلاع دی کہ گھوڑے تیار ہیں اور صالح نے کہا۔”ہمیں چلنا چاہیے۔نمائش شروع ہونے والی ہے۔“
(قسط نمبر83)
____سپاہی اور شہزادہ____
زمانہ جاہلیت میں بھی عرب تیراندازی، شمشیرزنی اور شہسواری میں غیرمعمولی مہارت حاصل کرنا اپنی زندگی کا اہم ترین فریضہ سمجھتے تھے۔سرداری، عزت، شہرت اور ناموری کا سب سے بڑا معیار یہی تھا۔صحرا نشینوں کی محفل میں سب سے بڑا شاعر اسے تسلیم کیا جاتا تھا جو تیروں کی سنسناہٹ اور تلواروں کی جھنکار کا بہترین تصور پیش کرسکتا ہو۔جسے اپنے صبارفتار گھوڑوں کے سموں کی آواز کسی صحرائی دوشیزہ کے قہقہوں سے زیادہ متاثر کرتی ہو، جس کے لیے دور سے محبوبہ کے محمل اور گردوغبار میں اٹے ہوئے شاہسوار کی جھلک یکساں طور پر جاذبِ نگاہ ہو۔
اسلام نے عربوں کی انفرادی شجاعت کو صالحین کی ناقابلِ تسخیر قوت میں تبدیل کردیا۔روم و ایران کی جنگوں کے ساتھ ساتھ عربوں کی فنونِ عرب میں اضافہ ہوتا گیا۔خالد(رضی اللہ عنہ)اعظم کے زمانے میں صف بندی اور نقل و حرکت کے پرانے طریقوں میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔عربوں میں زرہ پہننے کا رواج پہلے بھی تھا لیکن روم کی جنگوں کے دوران زرہیں اور خود سپاہیانہ لباس کے اہم ترین جزبن گئے۔
قلعہ بند شہروں کے طویل محاصروں کےدوران کسی ایسے آلے کی ضرورت محسوس کی گئی جو پتھر کی دیواروں کو توڑ سکتا ہو اور اس ضرورت کا احساس منجینیق کی ایجاد کا باعث ہوا۔ یہ ایک لکڑی کا آلہ تھا جس سے بھاری پتھر کافی دور پھینکے جاسکتے تھے۔اس کی بدولت حملہ آور افواج قلعہ بند تیر اندازوں کی زد سے محفوظ ہوکر شہرِ پناہ پر پتھر برساسکتی تھی۔اس کا تخیل کمان سے اخذ کیا گیا تھا۔لیکن چند سالوں میں آلات حرب کے ماہرین کی کوششوں نے اسے ایک نہایت اہم آلہ بنادیا تھا۔
قلعہ بند شہروں کی تسخیر کے لیے دوسری چیز جسے عربوں نے بہت زیادہ رواج دیا، دبابہ تھی۔ یہ لکڑی کا ایک چھوٹا سا قلعہ تھا۔ جس کے نیچے پہیے لگائے جاتے تھے۔چند سپاہی لکڑی کے تختوں کی آڑ میں بیٹھ جاتے اور چند اسے دھکیل کر شہر کی فصیل کے ساتھ لگادیتے۔پیادہ سپاہی ان کی پناہ میں آگے بڑھتے اور اس سے سیڑھی کا کام لےکر فصیل پڑ جاچڑھتے۔
کھلے میدان میں پیادہ فوج کی طرح عرب سوار بھی ابتدا میں تلوار کو نیزے پر ترجیح دینے کے عادی تھے۔لیکن آہن پوش سپاہیوں کے مقابلے میں انھوں نے نیزے کی اہمیت کو زیادہ محسوس کیا اور چند سالوں میں عرب کے طول و عرض میں تیراندازی اور تیغ زنی کی طرح نیزہ بازی کا رواج بھی عام ہوگیا۔شام کے مسلمان روم کی قربت کی وجہ سے زیادہ متاثر تھا اور یہاں نیزہ بازی کو آہستہ آہستہ تیغ زنی پر ترجیح دی جانے لگی۔
عرب گھوڑے اور سوار دنیا بھر میں مشہور تھے۔اس لیے دوسرے فنون کی طرح نیزہ بازی میں بھی وہ ہمسایہ ممالک پر سبقت لے گئے۔
مشق کے باہر ایک کھلے میدان میں قریباً ہر روز نیزہ بازی کی مشق کی جاتی تھی۔نیزہ بازی میں یونان کا قدیم رواج مقبولیت حاصل کررہا تھا۔
ہمت آزمائی کرنے والے زرہ پوش شاہسوار کچھ فاصلے پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجاتے خطرے سے بچنے کے لیے زرہ، خود اور چار آئینہ کے استعمال کے باوجود اصلی نیزوں کے علاوہ ایسے نیزے استعمال کیے جاتے جن کے پھل لوہے کے ناہوں اور اگلا سرا تیز ہونے کی بجائے کند ہو۔ثالث درمیان میں جھنڈی لےکر کھڑا ہوجاتا اور اس کے اشارے پر یہ سوار گھوڑوں کو پوری رفتار سے دوڑاتے ہوئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے۔جو سوار اپنے مدمقابل کی زد سے بچ کر اسے ضرب لگانے میں کامیاب ہوتا وہ بازی جیت جاتا۔مات کھانے والا سوار کند نیزے کے دباو کی وجہ سے اپنا توازن کھو کر گھوڑے سے گرپڑتا اور تماشائیوں کے لیے سامانِ تضحیک بن جاتا۔
اس سال حسبِ معمول فنونِ حرب کی نمائش میں حصہ لینے کے لیے بہت سے لوگ دور دور سے آئے تھے۔ ایک وسیع میدان کے چاروں طرف تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ولید بن عبدالملک ایک کرسی پر رونق افروز تھے۔اس کے دائیں بائیں دربارِ خلافت کےبڑے بڑے عہدے دار بیٹھے تھے۔دوسری طرف تماشائیوں کی قطار کے آگے سلیمان بن عبدالملک اپنے چند عقیدت مندوں کے درمیان بیٹھا تھا۔
(قسط نمبر84)
نمائش شروع ہوئی۔اسلحہ جات کے ماہرین نےمنجنیق اور دبابوں کے جدید نمونے پیش کرکے انعامات حاصل کیے۔تیراندازوں اور شمشیرزنی کے ماہرین نے اپنے اپنے کمالات دکھائے اور تماشائیوں سے دادتحسین حاصل کی۔
سلیمان کے تین ساتھی تیراندازی کے مقابلے میں شریک ہوئے اور ان میں سے ایک دوسرے درجے کا بہترین تیرانداز مانا گیا۔اس کا دوسرا ساتھی صالح تلوار کے مقابلے میں یکے بعد دیگرے دمشق کے پانچ مشہور پہلوانوں کو نیچا دیکھا کر اس بات کا منتظر تھا کہ امیرالمومنین اسے بلاکر اپنے قریب کرسی دیں گے لیکن ایک نوجوان نے اچانک میدان میں آکر اسے مقابلے کی دعوت دی۔ اور ایک طویل اور سخت مقابلے کے بعد اس کی تلوار چھین لی۔
یہ نوجوان زبیر تھا۔ تماشائی آگے بڑھ بڑھ کر صالح کو مغلوب کرنے والے نوجوان کی شکل دیکھنے اور اس سے مصافحہ کرنے میں گرمجوشی دیکھا رہے تھے اور صالح غصے اور ندامت کی حالت میں اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔
ولید اٹھ کر آگے بڑھا اور زبیر سے مصافحہ کرتے ہوئے اسے مبارکباد دی اور پھر صالح کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”صالح! تم اگر غصے میں نا آجاتے تو شاید مغلوب نا ہوتے۔بہرصورت میں اس نوجوان کی طرح تمہیں بھی انعام کا حقدار سمجھتا ہوں۔“
سب سے آخر میں نیزہ بازی شروع ہوئی۔کئی مقابلوں کے بعد آٹھ بہترین نیزہ باز منتخب کئے گئے اور آخر میں مقابلہ شروع ہوا۔جوں جوں مقابلہ کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جاتی تھی۔ دادوتحسین میں گلا پھاڑنے والے تماشائیوں کے جوش و خروش میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔بالآخر ایک طرف ایک اور دوسری طرف دو نیزہ باز رھ گئے۔تنہارھ جانے والے سوار نے یکے بعد دیگرے اپنے دونوں مخالفین کو گرا کر اپنا خود اتارا اور عوام اسے پہچان کر زیادہ جوش و خروش سے تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرنے لگے۔یہ نوجوان ایک یونانی نومسلم تھا اور اس کا نام ایوب تھا۔ایوب نے فاتحانہ انداز میں اپنا نیزہ بلند کرتے ہوئے اکھاڑے میں چاروں طرف ایک چکر لگایا اور اس کے بعد پھر میدان میں آکھڑا ہوا۔
نقیب نے آواز دی۔”کوئی ایسا ہے، جو اس نوجوان کے مقابلے میں آنا چاہتا ہے۔“
عوام کی نگاہیں سلیمان بن عبدالملک پر مرکوز تھیں۔سلیمان نے سر پر خود رکھتے ہوئے اٹھ کر ایک حبشی غلام کو اشارہ کیا جو پاس ہی ایک خوبصورت مشکی گھوڑے کی باگ تھامے کھڑا تھا۔غلام نے گھوڑا آگے کیا اور سلیمان اس پر سوار ہوگیا۔سورج کی روشنی میں سلیمان کی زرہ چمک رہی تھی اور ہلکی ہلکی ہوا میں اس کے خود کے اوپر سبز ریشم کے تاروں کا پھندا لہرا رہا تھا۔
سلیمان اور ایوب ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور عوام دم بخود ہوکر ثالث کی جھنڈی کا انتظار کرنے لگے۔ثالث نے جھنڈی ہلائی اور ایک طرف کھڑا ہوگیا۔صبارفتار گھوڑے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔سواروں نے ایک دوسرے کے قریب پہنچ کر خود بچنے اور دوسرے کو ضرب لگانے کی کوشش کی۔سلیمان مقابلے میں آنے سے پہلے اپنے مدِمقابل کے تمام داوں دیکھ کر ان سے بچنے کے طریقے سوچ چکا تھا۔چنانچہ ایوب کا وار خالی گیا اور سلیمان کا نیزہ اس کے خود پر ایک کاری ضرب کا نشان چھوڑ گیا۔
ثالث نے سلیمان کی فتح کا اعلان کیا۔ولید نے اٹھ کر اپنے بھائی کو مبارکباد دی اور ایوب کی حوصلہ افزائی کی۔
سلیمان نے خود اتار کر فاتحانہ انداز میں تماشائیوں کی طرف نگاہ دوڑائی اور حسبِ معمول اکھاڑے کا چکر لگا کر پھر میدان میں آکھڑا ہوا۔
(قسط نمبر85)
نقیب نے تین بار آواز دی۔”کوئی ہے جس میں سلیمان بن عبدالملک کے مقابلے کی ہمت ہے؟“ لیکن لوگوں کو اس سے پہلے ہی یقین ہوچکا تھا کہ اب کھیل ختم ہوچکا ہے اور وہ امیرالمومنین کے اٹھنے کا انتظار کررہے تھے لیکن ان کی حیرت کی انتہا نا رہی، جب سوار گھوڑے پر ایک سوار نیزہ ہاتھ میں لیے میدان میں آکھڑا ہوا۔تماشائیوں کی حیرانی اس بات پر ناتھی کہ ایک نیزہ باز سلیمان بن عبدالملک کو مقابلے کی دعوت دے رہا تھا بلکہ وہ اس بات پر ششدر تھے کہ اجنبی سوار کے جسم پر زرہ نا تھی اور نا چار آئینہ۔وہ سیاہ رنگ کا چست لباس پہنے ہوئے تھا۔سر پر خود کی بجائے سفید عمامہ تھا اور آنکھوں کے سوا باقی چہرے پر سیاہ نقاب تھا۔
زرہ کے بغیر صرف وہ لوگ مقابلے میں حصہ لیتے ہیں جنھیں اپنے حریف کی کمتری کا پورا پورا احساس ہو لیکن سلیمان اس دن کا ہیرو تھا اور لوگ سلیمان کے مقابلے کے لیے زرہ اور خود کے بغیر میدان میں آنے والے سوار کی بہادری سے متاثر ہونے کی بجائے اس کی دماغی حالت کے صحیح ہونے میں شک کررہے تھے۔
ولید اور زبیر کے سوا کسی کو یہ معلوم نا تھا کہ یہ کون ہے۔لیکن اس کی اس جرت پر ولید بھی پریشان تھا۔اس نے آہستہ سے زبیر کے کان میں کہا۔”یہ محمد بن قاسم ہے یا کوئی اور ہے؟“
زبیر نے جواب دیا۔”امیرالمومنین!یہ وہی ہے۔“
”لیکن وہ سلیمان کو کیا سمجھتا ہے۔اگر اس کی پسلیاں لوہے کی نہیں تو مجھے ڈر ہے کہ لکڑی کا کندسرا بھی اس کے لیے نیزے کی نوک سے کم خطرناک ثابت نا ہوگا۔تم جاو اور اسے بلاکر سمجھاو۔“
زبیر نے جواب دیا۔”امیر المومنین! میں اسے بہت سمجھا چکا ہوں۔وہ خود بھی اس خطرے کو محسوس کرتا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ اس صورت میں اگر اس کی جیت ہوئی تو نوجوانوں پر اس کا خوشگوار اثر پڑے گا اور اسے سندھ کے حالات سناکر انھیں جہاد کے لیے آمادہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔اس کا یہ بھی خیال ہے کہ زرہ کے بغیر سوار زیادہ چست رھ سکتا ہے۔“
زبیر کا جواب ولید کو مطمین نا کرسکا۔وہ خود اٹھ کر محمد بن قاسم کی طرف بڑھا اور تماشائی پریشانی کا اظہار کرنے لگے۔
محمدبن قاسم سلیمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ولید نے قریب پہنچتے ہی آواز دے کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا۔”برخودار! مجھے تمہاری شجاعت کا اعتراف ہے لیکن یہ شجاعت نہیں نادانی ہے۔تم زرہ اور خود کے بغیر عرب کے بہترین نیزہ باز کے مقابلے میں جارہے ہو اور اگر اس نے اس کو اپنی تضحیک سمجھا تو مجھے ڈر ہے کہ تم دوبارا گھوڑے پر سوار ہونے کے قابل نہیں رہو گے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”امیرالمومنین! خدا جانتا ہے مجھے اپنی نمائش مقصود نہیں۔میں یہ خطرہ ایک نیک مقصد کے لیے قبول کررہا ہوں اور یہ کوئی بہت بڑا خطرہ بھی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ زرہ پہن کر سوار چست نہیں رہتا۔“
”لیکن اگر تمہاری چستی تمہاری پسلیاں نہ بچا سکی تو؟“
”تو بھی مجھے افسوس نا ہوگا۔مجھے اپنی پسلیوں سے زیادہ اس لڑکی کا خیال ہے۔جس کے سینے میں ہمارے بےرحم دشمن کے تیز کا زخم ناسور بن چکا ہے۔ اگر خدا کو اس کی مدد منظور ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ آج مجھے دمشق کے لوگوں کے سامنے سامانِ تضحیک نا بننے دے گا اور ممکن ہے کہ میں بازی جیتنے کے بعد اس ہجوم میں اس کا پیغام پڑھ کر سنا سکوں، انفرادی تبلیغ سے جو کام ہم مہینوں میں کرسکتے ہیں وہ ایک آن میں ہوجائے گا۔آپ مجھے اجازت دیجیے اور دعا کیجیے کہ اللہ تعالی میرے مدد کرے۔“
(قسط نمبر86)
ولید نےکہا۔”لیکن تم کم از کم سر پر خود تو رکھ لیتے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”آپ برا نا مانیں۔جو سپاہی نیزے کا وار سرپر روکتا ہے۔اس کے متعلق کوئی اچھی رائے نہیں دی جاسکتی۔ میرے لیے یہ عمامہ کافی ہے۔“
ولید نے کہا۔”بیٹا!اگر آج تم ولید پر سبقت لےگئے تو ان شاء اللہ سندھ پر حملہ کرنے والی فوج کا جھنڈا تمہارے ہاتھ میں ہوگا۔“
ولید وآپس مڑا اور راستے میں نقیب کو کچھ سمجھانے کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
دوسری طرف سلیمان کے گرد چند تماشائی کھڑے تھے۔صالح نے آگے بڑھ کر سلیمان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔”امیرالمومنین آپ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔آپ ہوشیاری سے کام لیں۔“
سلیمان نے پوچھا۔”لیکن وہ سرپھرا ہے کون؟“
”مجھے معلوم نہیں لیکن وہ کوئی بھی ہو مجھے یقین ہے کہ وہ پھر گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا۔“
نقیب نے آواز دی۔”حاضرین! اب سلیمان بن عبدالملک اور محمد بن قاسم کا مقابلہ ہوگا۔سیاہ پوش نوجوان کی عمر سترہ سال سے کم ہے۔“
تماشائی اور زیادہ حیران ہوکر سیاہ پوش نوجوان کی طرف دیکھنے لگے۔
ثالث نے جھنڈی ہلائی اور نیزہ باز پوری رفتار سے ایک دوسرے کی زد سے بچ کر نکل گئے اور عوام نے ایک پرجوش نعرہ بلند کیا۔
کم سن اور نوجوان دیر تک محمد بن قاسم کے لیے تحسین کے نعرے بلند کرتے رہے اور عمر رسیدہ لوگ یہ کہہ رہے تھے۔یہ لڑکا بلا کا چست ہے لیکن سلیمان کے ساتھ اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔پہلی مرتبہ سلیمان نے جان بوجھ کر اس کی رعایت کی ہے لیکن دوسری دفعہ اگر وہ بچ گیا تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔کہاں سترا سال کا چھوکرا اور کہاں سلیمان جیسا جہاندیدہ شہسوار!“
لیکن نوجوانوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔سلیمان کی بجائے اب سترہ سالہ اجنبی ان کا ہیرو بن چکا تھا۔وہ کسی کی زبان سے ایک حرف بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نا تھے بعض تماشائی تکرار سے ہاتھا پائی تک اتر آئی۔
رواج کے مطابق نیزہ بازوں کو دوسرا موقع دیا گیا اور دونوں پھر ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔بچ اور نوجوان بھاگ بھاگ کراس طرف جارہے تھے جس طرف ان کا کم سن ہیرو کھڑا تھا۔سب کی نگاہیں نقاب میں چھپے ہوئے دیکھنے کے لیے بےقرار تھیں۔ثالث نے بھاگ کر لوگوں کو پیچھے ہٹایا اور پھر آپنی جگہ پر آکھڑا ہوا۔جھنڈی کے اشارے کے بعد تماشائیوں کو پھر ایک بار میدان میں گرد اڑتی نظر آئی۔ تھوڑی دیر کے لیے پھر ایک بار سکوت چھا گیا۔
محمد بن قاسم پھر اچانک ایک طرف جھک کر سلیمان کے نیزے کی ضرب سے بچ گیا۔ سلیمان نے بھی بائیں طرف جھک کر اپنے مدِ مقابل کے وار سے بچنے کی کوشش کی لیکن اس سے کہیں زیادہ پھرتی کے ساتھ محمد بن قاسم نے اپنے نیزے کا رخ بدل دیا اور اس کی دائیں پسلی میں ضرب لگا کر اسے اور زیادہ بائیں طرف دھکیل دیا۔سلیمان لڑکھڑا کر نیچے گرنے کے بعد فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور پسلی پر ہاتھ رکھ کر انتہائی بےچارگی کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
چاروں طرف سے فلک شگاف نعروں کی صدا آرہی تھی۔محمد بن قاسم نے تھوڑی دور جاکر اپنے گھوڑے کی باگ موڑ لی اور سلیمان کے قریب آکر نیچے اترتے ہوئے مصافحہ کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن سلیمان مصافحہ کرنے کی بجائے منہ پھیر کر تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا ایک طرف نکل گیا۔
آن کی آن میں تماشائی ہزاروں کی تعداد میں محمد بن قاسم کے گرد جمع ہوگئے۔یونانی شاہسوار ایوب نے آگے بڑھ کر محمد بن قاسم کے گھوڑے سے باگ پکڑ لی اور کہا۔”میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔اب کوئی مجبوری نا ہو تو آپ چہرے سے نقاب اتار دیجیے! ہم سب کی آنکھیں آپ کی آنکھیں دیکھنے کے لیے بیقرار ہیں۔“
(قسط نمبر87)
محمد بن قاسم نے نقاب اتار ڈالا۔کم سن شہسوار کا چہرہ لوگوں کی توقع سے کہیں زیادہ متین اور سنجیدہ تھا۔اس کی خوبصورت سیاہ آنکھوں سے شوخی کی بجائے معصومیت ٹپکتی تھی۔لوگوں کے نعروں اور پراشتیاق نگاہوں کے جواب میں اس کا سکون یہ ظاہر کررہا تھا کہ اسے بڑی سے بڑی فتح بھی متاثر نہیں کرسکتی۔جو نوجوان اسے کندھوں پر اٹھا کردمشق کی گلیوں میں اس کا شاندار جلوس نکالنے کی غرض سے بڑھے تھے، دم بخود ہوکر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ایوب نے اپنے ایک عرب دوست سے کہا۔”میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے یونان کے مجسموں میں بھی کوئی صورت بیک وقت اس قدر خوبصورت، معصوم، سادہ اور بارعب نہیں دیکھی۔“
ایک عرب نے پوچھا۔”آپ کہاں سے ہیں؟“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”بصرہ سے۔“
اس پر کئی لوگ اصرار کرنے لگے کہ آپ ہمارے ہاں ٹھہریے۔
محمد بن قاسم نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔”میں دمشق کے لوگوں کے پاس ایک ضروری پیغام لےکر آیا ہوں اور مجھے جلد وآپس جانا ہے۔اگر آپ خاموشی سے میری بات سن لیں تو یہ مجھ پر بری عنایت ہوگی۔“
لوگ اب بہت زیادہ تعداد میں محمد بن قاسم کے گرد جمع ہورہے تھے۔ولید بن عبدالملک عہدیداروں کی جماعت کے ہمراہ آگے بڑھا۔لوگ امیرالمومنین کو دیکھ کر ادھر ادھر ہٹ گئے۔ولید نے محمد بن قاسم کے قریب پہنچ کر کہا۔”میرے خیال میں یہ تمہارے لیے بہترین موقع ہے۔تم گھوڑے پر سوار ہوجاو، تاکہ سب لوگ تمہاری صورت دیکھ سکیں۔“
محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار ہوگیا۔مجمع میں کانوں کان ایک سرے سے دوسرے سرے تک یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ یہ سیاہ پوش نوجوان کوئی اہم خبر سنانا چاہتا ہے اور وہ لوگ جو اگلی قطاروں میں تھے، یکے بعد دیگرے زمین پر بیٹھ گئے تھے۔
محمد بن قاسم نے مختصر الفاظ میں سراندیپ کے مسلمان بیواوں اور یتیم بچوں کی المناک داستان بیان کی۔اس کے بعد زبیر سے رومال لےکر ناہید کا مکتوب پڑھ کر سنایا، بیواوں اور یتیم بچوں کی سرگشت سننے کے بعد عوام کے دلوں پر ناہید کے مکتوب کے الفاظ تیرونشتر کا کام کررہے تھے۔مکتوب سنانے کے بعد محمد بن قاسم نے رومال زبیر کو وآپس کہتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
”فدایانِ اسلام! میں تم میں سے اکثر کی آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یاد رکھو! ستم رسیدہ انسانیت کے دامن پر ظلم کی سیاہی کے دھبے آنسووں سے نہیں خون سے دھوئے جاتے ہیں۔جبرواستبداد کی جو آگ سندھ کے وسیع ملک میں سلگ رہی ہے۔ہم نے دور سے اس کی ہلکی سے آنچ محسوس کی ہے اور وہ اس لیے کہ ہمارے چند بھائی، چند مائیں اور چند بہنیں اس آتش کدہ میں جل رہی ہیں۔لیکن ہمیں ان لاکھوں بےکسوں کا حال معلوم نہیں، جو مدت سے سندھ کے استبدادی نظام کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔یہ تیر جو ایک مسلمان لڑکی کے دل میں پیوست ہوا، ان لاکھوں تیروں میں سے ایک تھا جن کی مشق سندھ کا مغرور و جابر حکمران اپنی بےکس رعایا کے سینوں پر کرتا ہے۔آج سندھ میں اگر ہماری بہنیں اور بھائی قید خانے کی تاریخ کوٹھڑی میں مجاہدینِ اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپ سننے کے منتظر ہیں۔آج اگر وہ اللہ اکبر کے ان نعروں کوسننے کا انتظار کررہے ہیں۔جن میں اب بھی دیبل کے قلعے کی مضبوط دیواروں پر زلزلہ طاری کردینے کی قوت موجود ہے، تو مجھے یقین ہے کہ سندھ کی عوام جو برسوں کے ظلم و استبداد کی آگ میں جل رہے ہیں، افقِ مغرب سے رحمت کی ان گھٹاوں کے منتظر ہیں جو آج سے کئی برس پہلے آتش کدہ ایران کو ٹھنڈا کرچکی ہیں۔ان کے مجروح سینوں سے یہ آواز نکل رہی ہے کہ اے کاش! وہ مجاہدین جنھوں نے اپنے خون سے باغِ آدم میں مساوات، عدل، انصاف اور امن کے پودے کی آبیاری کی ہے۔سندھ کے حکمران کے ہاتھوں سے ظلم کی تلوار چھین لیں اور ان کے گھوڑے ان خار دار جھاڑیوں کو مسل ڈالیں جن کے ساتھ انسانیت اور آزادی کا دامن الجھا ہوا ہے۔
مسلمانو! یہ خبر ہمارے لیے بری بھی ہے اور اچھی بھی۔بری اس لیے کہ ہمیں اپنی بہنوں اور بھائیوں کا حال سن کر دکھ ہوا اور اچھی اس لیے کہ حق و صداقت کی تلوار کے آگے قیصری و کسری کی طرح ایک اور مغرور سر اٹھا ہے۔آو اسے بتادیں کے ہماری تلواریں کند نہیں ہوئیں۔
گذشتہ چند برسوں میں ہمارے اندرونی خلفشار نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔وہ سلطنتیں جو ہمارے آباواحداد کے نام سے تھراتی تھیں، آج ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کررہی ہیں۔ایک مظلوم لڑکی کا یہ خط اگر ہماری رگوں میں حرارت پیدا نا کرسکا تو یادرکھو! روئے زمین پر ہماری عظمت اور عروج کے دن گنے جاچکے ہیں لیکن میں مایوس نہیں ہوں، میں تم میں سے کسی کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھتا۔میں صرف یہ کہوں گا کہ ایک شجاع قوم غفلت کی نیند سورہی ہے اور اس قوم کی ایک غیور بیٹی بلند آواز میں یہ کہہ رہی ہے کہ اسلام کے غیور بیٹو! تم روئے زمین کی ہر بہو بیٹی کی عظمت کی حفاظت کے لیے پیدا ہوئے تھے اور آج حالت یہ ہے کہ تمہاری اپنی بہو بیٹیوں کو پابہ زنجیر برہمن آباد کے بازاروں میں کھینچا جارہا ہے۔“
(قسط نمبر88)
عوام جذبات سے مغلوب ہوکر ولید بن عبدالملک کی طرف دیکھ رہے تھے۔ایک معمر شخص نے آگے بڑھ کر کہا۔”اگر ہم سے پہلے یہ خبر امیرالمومنین تک پہنچ چکی ہے تو ہم حیران ہیں کہ انھوں نے ابھی تک سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد کیوں نہیں کیا۔“ ہجوم آتش فشاں پہاڑ کی طرح بھرا بیٹھا تھا۔چاروں طرف ”جہاد جہاد“ کے فلک شگاف نعرے گونجنے لگے۔محمد بن قاسم نے دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے لوگوں کو خاموش کیا اور پھر اپنی تقریر شروع کی:-
”میرے مخاطب وہ لوگ نہیں جو ایک ہنگامی جوش کے باعث چند نعرے لگا کر خاموش ہوجاتے ہیں۔زندہ قومیں نعرے بلند کرنے سے پہلے اپنی تلواریں بےنیام کرکے میدان میں کودتی ہیں۔تم دمشق میں چند نعرے لگا کر ان کی نگاہوں کی تشفی نہیں کرسکتے جو یہاں سے ہزاروں میل دور تمہاری تلواروں کی چمک دیکھنے کے لیے بیقرار ہیں۔امیرالمومنین کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے لیکن انھوں نے ابھی تک تمہارے نعرے سنے نہیں ہیں۔کاش! ان نعروں کے ساتھ وہ تلواریں بھی نیام سے باہر نکلنے کے لیے بیقرار ہوتیں، جن کی نوک کے ساتھ تمہارے اباواجداد سطوتِ اسلام کی داستان لکھ گئے ہیں۔میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ قادسیہ اور اجنادین کے مجاہدوں کی اولاد میں زندگی کی کوئی رمق باقی ہے کہ نہیں؟ اس میں شک نہیں کہ ہماری تمام افواج ترکستان اور افریقہ کے میدان میں مصروفِ جہاد ہیں۔لیکن تم میں سے کون ایسا ہے جو تلوار کا استعمال نہیں جانتا؟ اگر ہمت کریں تو ہم سندھ کے میدانوں میں یرموک اور دمشق کی یاد پھر زندہ کرسکتے ہیں۔آج تم کو اپنے اباواجداد کی طرح یہ ثابت کرنا ہے، کہ ضرورت کے وقت ہر مسلمان سپاہی بن سکتا ہے۔اب تمہاری تلواریں دیکھ کر میں امیرالمومنین سے اعلانِ جہاد کی درخواست کرتا ہوں۔“
محمد بن قاسم گھوڑے سے اتر پڑا۔اس کی تقریر کے اختتام پر کئی بوڑھے اور نوجوان تلواریں بلند کرچکے تھے۔ایک دس سال کا لڑکا سخت جدوجہد کے بعد لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتا ہوا آگے بڑھا اور ولید کے قریب جاکر بولا۔”امیرالمومنین! کیا مجھے بھی جہاد پر جانے کی اجازت ہوگی؟ مجھے معلوم نا تھا ورنہ میں تلوار لےکر آتا۔لیکن میں ابھی لے آتا ہوں۔آپ انھیں تھوڑی دیر روکیں۔“
ولید نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”تمہیں ابھی چند سال اور انتظار کرنا پڑے گا۔“
لڑکا دلبرداشتہ ہوکر محمد بن قاسم کے قریب آکھڑا ہوا۔ولید کے اشارے پر ایک شخص ایک کرسی اٹھا لایا اور اس نے کرسی پر کھڑا ہوکر کہا۔”اس نوجوان کی تقریر کے بعد مجھے کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں۔خدا کا شکر ہے کہ تمہاری غیرت زندہ ہے۔میں سندھ کے خلاف اعلانِ جہاد کرتا ہوں۔“
ہجوم نے پھر ایک بار نعرے بلند کیے۔ولید نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔”میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک ہفتے کے اندر اندر دمشق کی فوج بصرہ روانہ ہوجائے۔وہاں اگر محمد بن قاسم جیسے چند جوان اور موجود ہیں تو مجھے یقین ہے کہ کوفہ اور بصرہ سے بھی سپاہیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد جمع ہوجائے گی۔ آپ میں سے جن لوگوں کے پاس گھوڑے نہیں ان کے لیے گھوڑے اور جن کے پاس اسلحہ نہیں ان کے لیے اسلحہ جات کا انتظام کیا جائے گا۔میں جو اہم ترین خبر آپ کو سنانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ محمد بن قاسم کو سندھ پرحملہ کرنے والی افواج کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں۔میں نے اس ہونہار مجاہد کے لیے عمادالدین کا لقب تجویز کیا ہے۔آپ دعا کریں کے یہ صحیح معنوں میں عمادالدین ثابت ہو۔“
رات کے تیسرے پہر محمد بن قاسم جامع مسجد میں نمازِ تہجد ادا کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کرانتہائی سوزو گداز کے ساتھ یہ دعا کررہا تھا۔”یارب العالمین! میرے نحیف کندھوں پر ایک بھاری بوجھ آپڑا ہے، مجھے اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی توفیق دے! اور میرا ساتھ دینے والوں کو ان کے اباواجداد کا عزم و استقلال عطا فرما! حشر کے دن فدایانِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جماعت کے سامنے میری نگاہیں شرمسار نا ہوں۔مجھے خالد(رضی اللہ عنہ) کا عزم اور مثنی(رضی اللہ عنہ) کا ایثار عطا کر! میری زندگی کا ہر لمحہ تیرے دین کی سربلندی کے لیے وقف ہو۔“
اس دعا کے اختتام پر زبیرکے علاوہ ایک اور شخص نے بھی، جو محمد بن قاسم کے دائیں ہاتھ بیٹھا تھا، آمین کہی اور یہ دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔اس کے سادہ لباس اور نورانی چہرے میں غیر معمولی جاذبیت تھی۔وہ کھسک کر محمد بن قاسم کے قریب ہوبیٹھا اور اس کی طرف محبت اور پیار سے دیکھتے ہوئے بولا۔
”تم محمد بن قاسم ہو؟“
”جی ہاں۔اور آپ؟“
”میں عمر بن عبدالعزیز(رضی اللہ عنہ) ہوں۔“
(قسط نمبر89)
محمد بن قاسم عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کی بزرگی اور پاکیزگی کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔اس نے عقیدت مند نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔”آپ میرے لیے دعا کریں!“
عمربن عبدالعزیز رحمتہ اللہ نے فرمایا۔”خدا تمہارے نیک ارادے پورے کرے!“
محمد بن قاسم نے کہا۔”ایک مدت سے میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نیاز حاصل کروں۔آج آپ کی ملاقات کو تائیدِ غیبی سمجھتا ہوں۔مجھے کوئی نصیحت فرمائیں!“
عمربن عبدالعزیز نے کہا۔”میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے جیسے بہادر اور ہونہار سپہ سالار کی قیادت میں ان شاء اللہ دشمن کے خلاف تلوار کی مہم جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر تم سندھ میں جہاد کا صحیح جذبہ لےکر جارہے ہو تو تمہیں وہاں اپنے اخلاق اور کردار سے ثابت کرنا ہوگا کہ تم سندھ کے لوگوں کو غلام بنانے کے لیے نہیں بلکہ انھیں نظامِ باطل کی زنجیروں سے آزاد کرکے سلامتی کا راستہ دکھانے کے لیے آئے ہو۔تم کو انھیں یہ بتانا ہے کہ دائرہ توحید میں قدم رکھنے والا ہر انسان دنیا کی غلامی سے آزاد ہوسکتا ہے۔تم ایک ایسے ملک میں جارہے ہو جس میں نیچ ذات کے لوگ اپنے اوپر اونچی ذات والوں کے جبرواختیار کا پیدائشی حق تسلیم کرتے ہیں۔سندھ کے استبدادی نظام کی جڑیں کٹ جانے کے بعد اگر تم لوگوں کے سامنے اسلامی مساوات کا صحیح نقشہ پیش کرسکے تو مجھے یقین ہے کہ تم ان کے قلوب پر بھی فتح پاسکو گے، جو آج تمہارے دشمن ہیں کل تمہارے دوست ہوجائیں گے۔
مسلمان بیواوں اور یتیموں پر سندھ کے حکمران کے مظالم کی داستان سن کر بعض نوجوان صرف جذبہ انتقام کے تحت تمہارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو گرے ہوئے دشمن پر وار کرنے کی اجازت نہ دینا! خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ظالم کے ہاتھ سے اس کی تلوار چھین لو! لیکن اس پر ظلم نا کرو! بلکہ اگر وہ تائب ہوجائے تو اس کی خطا معاف کردو! اگر وہ دینِ الہی قبول کرنے پر امادہ ہوجائے تو اسے سینے سے لگا لو! اگر وہ زخموں سے نڈھال ہوکر تم سے پناہ مانگے تو تم اس کے زخموں پر مرہم رکھو! ہمارے یتیموں اور بیواوں پرظلم ہوا ہے لیکن تم ان کے یتیموں اور بیواوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھو! اور یہ یاد رکھو! کہ خدا ہمسایہ ممالک پر عرب قوم کا سیاسی تفوق نہیں چاہتا، بلکہ کفر کے مقابلے میں اپنے دین کی فتح چاہتا ہے اور یہ کام اگر عربوں کے ہاتھوں پورا ہوتو وہ دنیا میں بھی فلاح پاہیں گے اور ان کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔“
نمازِ صبح کی اذان سن کر عمر بن عبدالعزیز نے اپنی تقریر ختم کی۔نماز کے بعد محمد بن قاسم نے ان سے رخصت ہوتے وقت کہا۔”مجھے یہاں سے روانہ ہونے میں پانچ دن اور لگ جائیں گے۔اس عرصے میں آپ کے علم و فضل سے اور زیادہ مستفید ہونا اپنی خوش بختی خیال کروں گا۔ لیکن دن کا بیشتر حصہ مجھے نئے سپاہیوں کو تربیت دینے میں صرف کرنا پڑے گا۔ اگر آپ کو تکلیف نا ہوتو رات کو کسی وقت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوجایا کروں؟“
عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا۔”تم جس وقت چاہو میرے پاس آسکتے ہو۔خاص طور پراس وقت تم ہر روز مجھے یہاں پاو گے۔آٹھ دس دن بعد میں بھی مدینہ چلاجاوں گا۔“
محمد بن قاسم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ سے رخصت ہوکر باہر نکلا تو نوجوانوں کی خاص جماعت اس کے آگے اور پیچھے تھی۔دروازے کی سیڑھیوں پر پہنچ کر اس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔”آپ سب میدان میں پہنچ جائیں، میں بھی تھوڑی دیر میں پہنچ جاوں گا۔“
(قسط نمبر90)
محمد بن قاسم کی قیام گاہ کے دروازے پر دو سپاہی گھوڑے لیے کھڑے تھے۔ محمد اور زبیر نے گھوڑوں پر سوار ہوکر سپاہیوں کے ہاتھوں سے نیزے لےلیے اور گھوڑوں کو ایڑ لگا دی۔شہر کے مغربی دروازے سے باہر نکلنے کے بعد وہ سرسبز باغات سے گزرتے ہوئے ایک ندی کے کنارے آکررکے اور گھوڑوں سے اتر کر پانی میں کود پڑے۔ندی کے صاف اور شفاف پانی میں تھوڑی دیر تیرنے اور غوطے لگانے کے بعد کپڑے بدل کر کچھ دیر وہ اپنے سامنے سرسبز اور دل کش پہاڑوں کا منظر دیکھتے رہے۔محمد بن قاسم نے اپنے ساتھی کو محویت کی حالت میں دیکھ کر کہا۔”کل ہم بہت سویرے یہاں آئیں گے۔اب ہمیں چلنا چاہیے۔لوگ ہمارا انتظار کررہے ہوں گے۔“
زبیر نے چونک کر محمد بن قاسم کی طرف دیکھا۔”کیا کہا آپ نے؟“
”ہمیں دیر ہورہی ہے۔“
”چلیے!“
دونوں پھر گھوڑے پر سوار ہوگئے۔محمد بن قاسم نے پوچھا۔”تم ابھی کیا سوچ رہے تھے؟“
زبیر نے مغموم لہجے میں جواب دیا۔”میں تصور میں سراندیپ کے سبزہ زار دیکھ رہا تھا۔“
لیکن ہماری منزلِ مقصود تو سندھ کے ریگستان ہیں؟“
انھیں میں ہر وقت دیکھتا ہوں لیکن کبھی کبھی سراندیپ کے سبزہ بھی یاد آجاتے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”کل تم خواب کی حالت میں ناہید کو آوازیں دے رہے تھے۔میں نے اس کا ذکر مناسب نا سمجھا۔اب اگر برا نا مانو تو میں پوچھتا ہوں کہ خواب میں تم نے کیا دیکھا تھا؟“
زبیر نے اپنے چہرے پر اداس مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔”میں نے خواب دیکھا تھا کہ دیبل کے چند سپاہی میرے چاروں طرف ننگی تلواریں لیے کھڑے ہیں اور کچھ ناہید کو پکڑ کر قیدخانے کی طرف لے جارہے ہیں اور میں بھاگ کر اسے چھڑانا چاہتا ہوں۔“
محمد بن قاسم نے کہا۔”میرا خیال ہے کہ ناہید کی یاد کا آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر ہے۔“
”میں اس سے انکار نہیں کرتا۔جن حالات میں ہم ایک دوسرے سے ملے اور بچھڑے ہیں، ان حالات میں شاید کوئی بھی اس بہادر اور غیور لڑکی کو اپنے دل میں جگہ دینے سے انکار نا کرتا۔“
ایک ہرن بھاگتا ہوا قریب سے گزر گیا۔محمد بن قاسم نے نیزہ سنبھالتے ہوئے کہا۔”اس کی پچھلی ٹانگ زخمی ہے، کسی اوچھے تیر انداز نے اس پر وار کیا ہے۔آو اس کا تاقب کریں۔“
زبیر اور محمد نے ہرن کے پیچھے گھوڑے سرپٹ چھوڑ دیے۔زخمی ہرن دور ناجاسکا اور محمد بن قاسم کے نیزے کی ایک ہی ضرب کے ساتھ نیچے گرپڑا۔زبیر نے گھوڑے سے اتر کر اسے ذبح کیا اور پچھلی ران سے تیر نکالتے ہوئے کہا۔”اگر ہم اسے نا دیکھتے تو یہ کسی جھاڑی میں بری طرح جان دےدیتا۔“
چند سوار درختوں کی آڑ سے نمودار ہوئے اور محمد بن قاسم نے ان میں سے سلیمان کو پہچانتے ہوئے کہا۔”ارے! یہ تو ہمارے پورانے دوست ہیں۔“
سلیمان نے قریب پہنچ کر اپنے گھوڑے کی باگ کھینچی اور کہا۔”یہ شکار ہمارا ہے۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”آپ لےسکتے ہیں۔ہم نے اسے صرف ایک تکلیف دہ موت سے بچایا ہے۔اس کی ٹانگ زخمی تھی اور ہمارا خیال تھا کہ یہ جھاڑیوں میں چھپ جائے گا۔“
صالح نے کہا۔”تم غلط کہتے ہو۔تم نے گرتے ہوئے ہرن کو زبح کیا ہے۔“
محمد بن قاسم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔”یہ صحیح ہے ہرن گرپڑا تھا لیکن میرے نیزے کی ضرب سے، اور اگر تیر آپ نے چلایا تھا تو آپ اس کی ٹانگ دیکھ سکتے ہیں۔“
صالح نے غضبناک ہوکر تلوار نکالی لیکن سلیمان نے سختی سے کہا۔”تم ان دونوں کے جوہر دیکھ چکے ہو۔تمہیں اپنی تیراندازی کے متعلق غلط فہمی تھی۔آج وہ بھی رفع ہوگئی۔“ یہ کہہ کر وہ محمد بن قاسم سے مخاطب ہوا۔”میرا یہ دوست جس قدر جوشیلہ ہے اس قدر کم عقل بھی ہے۔آپ کو ضرورت ہوتو آپ یہ شکار لےجاسکتے ہیں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”نہیں، شکریہ! اگر مجھے ضرورت ہوتی تو میں خود شکار کرلیتا۔“
یہ کہہ کر اس نے زبیر کی طرف اشارہ کیا اور دونوں نے باگیں موڑ کر اپنے گھوڑے سرپٹ چھوڑ دیے۔
(قسط نمبر91)
_____پہلی فتح_____
صبح کی نماز کے بعد دمشق کے لوگ بازاروں اور مکانوں کے چھتوں پر کھڑے محمد بن قاسم کی فوج کا جلوس دیکھ رہے تھے۔دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقع تھا کہ ایک دور افتادہ ملک پر حملہ کرنے والی فوج کی قیادت ایک سترہ سالہ نوجوان کے سپرد تھی۔دمشق سے لےکر بصرہ تر راستے کے ہر شہر اور بستی سے کئی کم سن لڑکے، نوجوان اور بوڑھے اس فوج میں شامل ہوئے۔کوفہ اور بصرہ میں محمد بن قاسم کی روانگی کی اطلاع مل چکی تھی اور نوجوان عورتیں اپنے شوہروں، مائیں اپنے بیٹوں اور لڑکیاں اپنے بھائیوں کو نوجوان سالار کا ساتھ دینے کے لیے تیار رہنے پر آمادہ کررہی تھیں۔غیور قوم کی ایک بےکس بیٹی کی فریاد کوفہ اور بصرہ کے ہر گھر میں پہنچ چکی تھی۔بصرہ کی عورتوں میں زبیدہ کی تبلیغ کے باعث یہ جذبہ پیدا ہوچکا تھا کہ ناہید کا مسئلہ قوم کی ہر بہو بیٹی کا مسئلہ ہے۔نوجوان لڑکیاں مختلف محلوں اور کوچوں سے زبیدہ کے گھر آتیں اور اس کی تقاریر سے ایک نیاجذبہ لےکر وآپس جاتیں۔خرابی صحت کے باوجود محمد بن قاسم کی والدہ بصرہ کی معمر عورتوں کی ایک ٹولی کے ساتھ جہاد کی تبلیغ کےلیے ہر محلہ کی عورتوں کے پاس پہنچتی۔زبیدہ نے چند نئے سپاہیوں کو گھوڑے اور اسلحہ جات بہم پہنچانے کے لیے اپنے تمام زیورات بیچ ڈالے۔بصرہ کی تمام امیرو غیریب گھرانوں کی لڑکیوں نے اس کی تقلید کی اور مجاہدین کی اعانت کے لیے بصرہ کے بیت المال کو چند دنوں میں سونے اور چاندی سے بھر دیا۔عراق کے دوسرے شہروں کی خواتین نے اس کارِ خیر میں بصرہ کی عورتوں سے پیچھے رہنا گوارا نا کیا اور وہاں بھی لاکھوں روپے جمع ہوگئے۔
محمد بن قاسم نے بصرہ میں تین دن قیام کیا۔اس کی آمد سے پہلے بصرہ میں حجاج بن یوسف کے پاس مکران کے گورنر محمد بن ہارون کا یہ پیغام پہنچ چکا تھا کہ عبیداللہ کی قیادت میں بیس آدمیوں کا جو وفد دیبل بھیجا گیا تھا، اس میں سے صرف دو نوجوان جان بچا کر مکران پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔باقی تمام دیبل کے گورنر نے قتل کردیے ہیں۔ اس خبر نے بصرہ کی عوام میں انتقام کی سلگتی ہوئی آگ پر تیل کا کام دیا۔
دمشق سے روانگی کے وقت محمد بن قاسم کی فوج کی تعداد کل پانچ ہزار تھی لیکن جب وہ بصرہ سے روانہ ہوا تو اس کے لشکر کی مجموعی تعداد بارہ ہزار تھی۔ جن میں سے چھ ہزار سپاہی گھڑ سوار تھے۔تین ہزار پیدل اور تین ہزار سامانِ رسد کے اونٹوں کے ساتھ تھے۔
محمد بن قاسم شیراز سے ہوتا ہوا مکران پہنچا۔مکران کی سرحد عبور کرنے کے بعد لسبیلا کے پہاڑی علاقے میں اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔بھیم سنگھ بیس ہزار فوج کے ساتھ لسبیلا کے سندھی گورنر کی اعانت کے لیے پہنچ چکا تھا۔اس نے ایک مضبوط پہاڑی قلعے کو اپنا مرکز بنا کر تمام راستوں پر اپنے تیر انداز بیٹھا دیے۔اپنے باپ کی مخالفت کے باوجود وہ راجہ کو اس بات کا یقین دلا چکا تھا کہ اس کے بیس ہزار سپاہی بارہ ہزار مسلمانوں کو لسبیلا سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔
مسلمانوں کے پہاڑی علاقے میں داخل ہوتے ہی بھیم سنگھ کے سپاہیوں نے اکادکا حملے شروع کردیے۔تیس چالیس سپاہیوں کا گروہ اچانک کسی ٹیلے یا پہاڑی کی چوٹی پر نمودار ہوتا اور آن کی آن میں محمد بن قاسم کی فوج کے کسی حصے پر تیر اور پتھر برسا کر غائب ہوجاتا۔گھوڑوں کے سوار ادھر ادھر ہٹ کر اپنا بچاو کرلیتے۔لیکن شترسوار دستوں کے لیے یہ حملے بڑی حد تک پریشان کن ثابت ہوتے۔بعض اوقات بدک کر ادھر ادھر بھاگنے والے اونٹوں کو منظم کرنا حملہ کرنے والوں کے تعاقب سے زیادہ مشکل ہوجاتا۔
محمد بن قاسم نے یہ دیکھ کر ہراول کے پیادہ دستوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔لیکن حملہ آوروں کی ایک جماعت آگے سے کترا کر بھاگتی اور دوسری جماعت پیچھے سے حملہ کردیتی، ایک گروہ کسی ٹیلے پر چڑھ کر لشکر کے دائیں بازو کو اپنی طرف متوجہ کرتا اور دوسرا بائیں بازو پر حملہ کردیتا۔جوں جوں محمد بن قاسم کی فوج آگے بڑھتی گئی، ان حملوں کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔رات کے وقت پڑاو ڈالنے کے بعد شب خون کے ڈر سے کم از کم ایک چوتھائی فوج کو آس پاس کے ٹیلوں پر قابض ہوکر پہرہ دینا پڑتا۔
(قسط نمبر92)
ایک شام محمد بن قاسم کو ایک جاسوس نے اطلاع دی، کہ شمال کی طرف بیس کوس کے فاصلے پر ایک مضبوط قلعہ اس لشکر کا مستقر ہے۔محمد بن قاسم نے اپنے تجربہ کار سالاروں کی مجلسِ شوری بلائی۔بعض سالاروں کی رائے تھی کہ یہ راستہ چھوڑ کر سمندر کے ساحل کے ساتھ ساتھ نسبتاً ہموار راستہ اختیار کیا جائے۔ہم اس قلعے سے جس قدر دور ہوں گے اسی قدر ان حملوں سے محفوظ رہیں گے، لیکن محمد بن قاسم ان سے متفق نا ہوا۔اس نے کہا۔” جب تک یہ علاقہ دشمن سے پاک نہیں ہوتا۔ہمارا آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ہمارا مقصد دیبل تک پہنچنا نہیں۔سندھ کو فتح کرنا ہے اور یہ قلعہ ان کے دفاع کی اہم چوکی ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس قلعے کے فتح ہوجانے کے بعد دشمن یہ تمام علاقہ خالی کرنے پر مجبور ہوجائے گا اور دشمن کے جو سپاہی یہاں سے فرار ہوں گے۔وہ دیبل پہنچ کر ایک شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کریں گے، لیکن اگر ہم یہاں سے کترا کر نکل گئے تو ان کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور ہمارا عقب ہمیشہ غیرمحفوظ رہے گا۔ہمارا پہلا مقصد اس قلعے کو فتح کرنا ہے۔ اس قلعے کو فتح کرنے کے بعد اگر پہاڑیوں میں پھیلے ہوئے لشکر کی تعداد کافی ہوئی تو وہ اس علاقے میں ہمارے ساتھ فیصلہ کن جنگ لڑنے کی کوشش کریں گا اور اس میں بھی ہماری بہتری ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہماری پیشقدمی روکنے کے لیے اس قلعے کے محافظوں کی زیادہ تعداد آس پاس کی پہاڑیوں پر منقسم ہے۔میں آج سورج نکلنے سے پہلے اس قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں اور اس مقصد کے لیے میں اپنے ساتھ صرف پانچ سو پیادہ سپاہی لےجانا چاہتا ہوں۔آپ باقی فوج کے ساتھ رات بھر پیشقدمی جاری رکھیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ چاروں اطراف کا خیال چھوڑ کر آپ کا راستہ روکنے کی فکر کریں گے۔چاندنی رات میں آپ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ زیادہ خطرناک ہوگا۔اگر صبح تک آپ کوقلعہ فتح ہوجانے کی اطلاع پہنچ جائے تو آپ پیشقدمی روک کر میرے احکام کا انتظار کریں۔اگر قلع فتح ہوجانے کے بعددشمن نے کسی جگہ منظم ہوکر مقابلے کی ہمت کی تو میں قلعے کی حفاظت کے لیے چند آدمی چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملوں گا اور اگر انھوں نے قلعہ دوبارا فتح کرنا چاہا تو آپ وہاں پہنچ جائیں۔“
ایک بوڑھے سالار نے کہا۔”مجھے یقین ہے کہ سندھ کی فتح کے لیے خدا نے آپ کو منتخب کیا ہے۔ان شاء اللہ آپ کی کوئی تدبیر غلط نا ہوگی۔لیکن سپہ سالار کا فوج کے ساتھ رہنا ہی مناسب ہے۔سپہ سالار کی جان بہت قیمتی ہوتی ہے۔وہ فوج کا آخری سہارا ہوتا ہے۔اگر اس خطرناک مہم میں آپ کو کوئی حادثہ پیش آگیا تو۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”قادسیہ کی جنگ میں ایرانیوں کو اپنے زبردست لشکر کے باوجود اس لیے شکست ہوئی کہ انھوں نے اپنی طاقت سے زیادہ رستم کی شخصیت سے امدیں وابستہ کیں۔رستم مارا گیا تو وہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت سے بھاگ نکلے۔ لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کے سپہ سالار سعد(رضی اللہ عنہ) بن وقاص گھوڑے پر چڑھنے کے قابل نا تھے اور انھیں میدان سے الگ ایک طرف بیٹھنا پڑا۔ لیکن مسلمانوں کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ انھیں اپنے سپہ سالار کی عدم موجودگی کا احساس تک بھی نہ تھا۔ہماری تاریخ میں آپ کو کوئی ایسا واقع نا ملے گا، جب سالار کی شہادت سے بدل ہوکر مجاہدوں نے ہتھار ڈال دیے ہوں۔ہم بادشاہوں اور سالاروں کے لیے نہیں لڑتے۔ہم خدا کے لیے لڑتے ہیں۔بادشاہوں اور سالاروں پر بھروسہ کرنے والے ان کی موت کے بعد مایوس ہوسکتے ہیں، لیکن ہمارا خدا ہر وقت موجود ہے۔قرآن میں ہمارے لیے اس کے احکام موجود ہیں۔میں دعا کرتا ہوں کہ خدا مجھے قوم کے لیے رستم نا بنائے بلکہ مجھے مثنی(رضی اللہ عنہ) بننے کی توفیق دے۔جن کی شہادت نے ہر مسلمان کو جذبہ شہادت سے سرشار کردیا تھا۔میرے لیے اس سپہ سالار کی جان کی کوئی قیمت نہیں جو اسے اپنے سپاہیوں کی تلواروں کے پہروں میں رکھتا ہے اور اپنے بہادروں کو جان کی بازی لگانے کی بجائے جان بچانے کی ترغیب بتاتا ہے۔اگر اس قلعے کو فتح کرنا اس قدر اہم نا ہوتا تو میں یہ مہم شاید کسی اور کےسپرد کردیتا لیکن اس مہم کا خطرہ اور اس کی اہمیت دونوں اس بات کے متقاضی ہیں کہ میں خود اس کی رہنمائی کروں۔“
زبیر نے کہا۔”میں آپ کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں۔“
محمد بن قاسم نے جواب دیا۔”نہیں! میں ایک قلعے کو فتح کرنے کے لیے دو دماغوں کی ضرورت نہیں سمجھتا۔میری غیرحاضری میں تمہارا فوج کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔میں اپنی جگہ محمد بن ہارون کو مقرر کرتا ہوں اور تم اس کے نائب ہو۔“
(قسط نمبر93)
عشاء کی نماز کے بعد محمد بن قاسم نے پانچ سو نوجوان اس مہم کے لیے منتخب کیے اور ان کے گھوڑے باقی لشکر کے حوالے کرکے محمد بن ہارون کو پیش قدمی کا حکم دیا اور خود اپنے جانثاروں کے ساتھ ایک پہاڑی کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔
آدھی رات کے وقت چاند روپوش ہوگیا اور محمد بن قاسم نے قلعے کا رخ کیا۔راستے کی تمام پہاڑیوں کے محافظ محمد بن ہارون کی پیش قدمی کو تمام لشکر کی پیشقدمی سمجھ کر اپنی چوکیاں خالی کرکے مشرق کی طرف جاچکے تھے۔سندھی سواروں نے قلعہ میں بھیم سنگھ کو مشرق کی طرف مسلمانوں کی غیرمتوقع پیش قدمی سے باخبر کردیا تھا اور وہ تین سو سپاہی قلعے کے اندر چھوڑ کر مسلمانوں کے لشکر کی راہ روکنے کے لیے روانہ ہوگیا۔تیسرے پہر محمد بن قاسم قلعے سے ایک میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی پر پہنچ چکا تھا۔دو چٹانوں میں بھیم سنگھ کے سواروں کے گھوڑوں کی آواز گونجی اور محمد بن قاسم نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”وہ قلعہ خالی کرکے جارہے ہیں۔ہمیں جلدی کرنی چاہیے، لیکن قلعے کے اندر حفاظت کے لیے تھوڑی بہت فوج ضرور موجود ہوگی۔اس لیے تمہاری طرف سے کوئی شور نا ہو۔تمہاری طرف سے زرا سے آہٹ قلعہ کے محافظوں کو باخبر کردے گی اور اگر ان کی تعداد چالیس بھی ہوئی تو بھی وہ ہمیں کافی دیر تک قلعے سے باہر روک سکیں گے۔“
یہ ہدایات دینے کے بعد محمد بن قاسم نے اپنے جانبازوں کو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم کیا اور قلعے کی طرف پیشقدمی کی۔
قلعے کے قریب پہنچ کریہ فوج آس پاس کے ٹیلوں میں چھپ کر بیٹھ گئی۔فصیل پر پہرہ داروں کی آوازوں میں تھکاوٹ اور نیند کی جھلک تھی اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ بولنے کی بجائے بڑبڑا رہے ہیں۔محمد بن قاسم اپنے ساتھ دس نوجوان لےکر فصیل کے ایک نسبتاً پرسکون حصے کی طرف بڑھا اور کمند ڈال کر اوپر چڑھنے کے بعد رسیوں کی سیڑھی پھینک دی۔اس جگہ دوپہرےدار گہری نیند سورہے تھے۔آن کی آن میں محمد بن قاسم کے چھ ساتھی فصیل پر چڑھ گئے لیکن ساتواں ابھی اوپر نا پہنچا تھا کہ چند قدم کے فاصلے سے ایک سپاہی نے چونک کر مشعل بلند کرتے ہوئے کہا۔”کون ہے؟“
دوسرے سپاہی نے چلا کرکہا۔”دشمن آگیا۔ہوشیار!“
محمد بن قاسم نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور ساتھ ہی ایک زور دار حملے سے فصیل کا بہت سا حصہ خالی کرالیا۔یہ نعرہ سن کر قلعے کے باہر چھپے ہوئے سپاہی آگے بڑھے اور کمندیں ڈال کر فصیل پر چڑھنے لگے۔قلعے کے اندر آرام سے سونے والے سپاہی ابھی اپنی تلواریں سنبھال رہے تھے کہ محمد بن قاسم کے پچاس سپاہی فصیل پر پہنچ گئے۔پہرے داروں نے زیادہ دیر فصیل پر مزاحمت کرنے کی بجائے اندر جاکر گہری نیند سونے والے ساتھیوں کو جگانا زیادہ مناسب خیال کیا اور انھوں نے زیادہ دیر ڈٹ کر لڑنے پر ایک سرنگ کے راستے فرار ہونے کو ترجیح دی۔سرنگ بہت تنگ تھی اور تمام سپاہی بیک وقت اس میں گھسنا چاہتے تھے۔بعض نے مایوس ہوکر قلعے کا دروازہ کھول دیا اور کوئی پیدل اور کوئی گھوڑے پر سوار ہوکر قلعے سے باہر نکل آیا۔قلعے کا دروازہ کھلتا دیکھ کر مسلمان بھی فصیل پر چڑھنے کا خیال ترک کرکے اس طرف بڑھے اور زیادہ آدمیوں کو فرار کا موقع نا مل سکا۔دشمن نے چاروں طرف سے مایوس ہوکر تلواریں سونت لیں، لیکن تھوڑی دیر مقابلہ کرنے کے بعد ہتھیار ڈال دیئے۔
قلعے کے اندر سرنگ میں جمع ہونے والے سپاہی بری طرح ایک دوسرے سے دست و گریباں ہورہے تھے۔ ان کا شور سن کر محمد بن قاسم ایک پہرے دار کی نیچے گری ہوئی مشعل اٹھا کر چند سپاہیوں کے ساتھ مختلف کمروں سے گزرتا ہوا ایک تہہ خانے کے ایک دروازے تک پہنچا اور فارسی زبان میں بولا:
”تم میں سے جو فرار ہونا چاہے اس کے لیے قلعے کا دروازہ کھلا ہے ۔ تم اپنے ہتھیار پھینک کر جاسکتے ہو۔“
یہ کہہ کر محمد بن قاسم ایک طرف ہٹ گیا۔راجہ کے سپاہیوں میں سے جو فارسی جانتے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو محمد بن قاسم کا مطلب سمجھایا اور محمد بن قاسم کو مخصوص نگاہوں سے دیکھتے ہوئے تہہ خانے سے باہر نکل آئے۔بعض نے سرنگ کو ترجیح دی لیکن محمد بن قاسم کے اشارے سے چند سپاہی تہہ خانے میں داخل ہوئے اور تلواریں سونت کر سرنگ کے منہ پر کھڑے ہوگئے۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”جب تمہارے لیے ایک کھلا راستہ موجود ہے تو تم تنگ اور تاریک راستہ کیوں اختیار کرتے ہو۔ہم پر اعتبار کرو۔اگر تمہیں قتل کرنا مقصود ہوتا تو تمہاری گردنیں ہماری تلواروں سے دور نہیں۔“
محمد بن قاسم کے یہ الفاظ سن کر باقی سپاہی بھی ہتھیار پھینک کر تہہ خانے سے باہر نکل آئے۔ محمد بن قاسم نے واپس قلعے کے دروازے پر پہنچ کر اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ قلعے سے باہر نکلنے والوں کے راستے میں مزاحم نا ہوں۔
یہ لوگ جھجک جھجک کر قدم اٹھاتے اور مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے۔مفتوح دشمن کے ساتھ یہ سلوک سندھ کی تاریخ میں ایک نیا باب تھا۔ایک معمر سپاہی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا دروازے تک پہنچا اور کچھ سوچ کر وآپس آگیا۔
محمد بن قاسم نے اس سے کہا۔”اگر قلعے میں تمہاری کوئی چیز کھو گئی ہے تو تلاش کرسکتے ہو۔اس نے غور سے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا اور سوال کیا۔”کیا عرب فوج کے سپہ سالار آپ ہیں؟“
”ہاں میں ہوں۔“محمد بن قاسم نے جواب دیا۔
”دشمن کسی حالت میں بھی نیک سلوک کا مستحق نہیں ہوتا۔کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟“
”ہمارا مقصد دشمن کو تباہ کرنا نہیں بلکہ اس کو سلامتی کا راستہ دکھانا ہے۔“
”تو یقین رکھیے کہ آپ پر کوئی فتح نہیں پاسکتا۔یہ لوگ جنھیں آپ اپنے رحم کا مستحق سمجھے ہیں، کل آپ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر ان مغرور بادشاہوں کے خلاف جنگ کریں گے، جوگرے ہوئے دشمن پر رحم کرنا نہیں جانتے۔“ یہ کہہ کر وہ دروازے سے باہر نکل گیا۔
محمد بن قاسم نے قلعے کا چکر لگایا۔چند تہہ خانے کھانے پینے کی اشیا سے بھرے پڑے تھے اور اصطبل میں ساٹھ گھوڑے موجود تھے۔
محمد بن قاسم کو یقین تھا کہ محمد بن ہارون کے تعاقب میں جانے والی فوج یہ قلعہ فتح ہوجانے کی خبر سنتے ہی وآپس آجائے گی۔اس نے محمد بن ہارون کے پاس چار سوار یہ پیغام دے کر روانہ کیے کہ وہ کسی محفوظ مقام پر پڑاو ڈال کر اس کے احکام کر انتظار کرے۔اس کے بعد اس قلعے کا دروازہ بند کرکے فصیل پر چاروں طرف تیر انداز بیٹھا دیے اور قلعے پر جابجا اسلامی پرچم نصب کردیے۔
(قسط نمبر94)
محمد بن قاسم فصیل پر کھڑا طلوحِ آفتاب کا منظر دیکھ رہا تھا۔اسے مشرق سے تیس چالیس سواروں کا ایک دستہ قلعے کی طرف آتا دیکھائی دیا۔محمد بن قاسم اور اس کے ساتھی اسے سندھ کی فوج کا دستہ سمجھتے ہوئے کمانوں پر تیر چڑھا کر بیٹھ گئے۔یہ سوار قلعے سے کوئی تین سو قدم کے فاصلے پرآکر رک گئے اور ایک سوار اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہوکر گھوڑے کو سرپت دوڑاتا ہوا فصیل کی طرف بڑھا۔تیر انداز محمد بن قاسم کے اشارے کے منتظر تھے۔محمد بن قاسم نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔سوار نے فصیل کے نیچے پہنچ کر گھوڑا روکا اور عربی میں کہا۔”ہم زبیر کے ساتھی ہیں۔ہمیں اندر آنے دو۔“
محمد بن قاسم نے آگے جھک کر پوچھا۔”تمہارا نام خالد ہے؟“
”جی ہاں۔“ اس نے جواب دیا۔
”اپنے ساتھیوں کو بلالو۔“
خالد نے پیچھے مڑ کر اپنے ساتھیوں کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور محمد بن قاسم نے سپاہیوں کو قلعے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔قلعے سے باہر نکل کر خالد سے سوال کیا۔”تمہاری بہن کہاں ہے؟“
خالد نے جواب دیا۔”وہ میرے ساتھ ہے لیکن زبیر نہیں آیا؟“
”وہ باقی فوج کے ساتھ ہے۔تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ ہم اس قلعے میں ہیں؟“
”ہمیں یہ خبر مل چکی تھی کہ آپ مکران کی سرحد عبور کرچکے ہیں۔ہم سندھی سپاہیوں کا بھیس بدل کر یہاں پہنچے اور آپ حیران ہوں گے کہ راجہ کی فوج کا سالار ہمیں یہاں سے چار میل دور ایک پہاڑی پر پہرہ دینے کے لیے متعین کرچکا تھا۔ہم سخت بےچینی سے آپ کا انتظار کررہے تھے۔آج قلعے سے فرار ہونے والے سپاہی وہاں پہنچے اور انہوں نے بتایا کہ یہ قلعہ فتح ہوچکا ہے۔ہم آپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔سپہ سالار کہاں ہے؟“
محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے اپنے ایک سپاہی کی طرف دیکھا اور اس نے جواب دیا۔”تم سپہ سالار سے باتیں کررہے ہو۔“
تھوڑی دیر میں خالد کے باقی ساتھی ان کے قریب پہنچ کر گھوڑوں سے نیچے اتر رہے تھے۔محمد بن قاسم نے ان سب پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد کہا۔”لیکن تمہاری بہن کہاں ہے؟“
خالد نے مسکرا کر مردانہ لباس میں ایک نقاب پوش کی طرف اشارہ کردیا۔
محمد بن قاسم نے کہا۔”خدا کا شکر ہے کہ آپ کی صحت اب ٹھیک ہے۔ ہاں زبیر باقی فوج کے ساتھ ہے۔“
زبیر کا نام سن کر ناہید نے اچانک اپنے کانوں اور گالوں پر حرارت محسوس کی اور پیچھے مڑکر مایا کی طرف دیکھا۔مایا بھی اس کی طرح مردانہ لباس پہنے ہوئے تھی۔اس نے آنکھ بچا کر ناہید کے بازو پر چٹکی لی اور آہستہ سے کہا۔”ناہید مبارک ہو۔“
محمد بن قاسم نے پھر ایک بار خالد کے تمام ساتھیوں کی طرف دیکھا اور ایک سفیدریش قوی ہیکل آدمی کی طرف مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔شاید تم گنگو ہو۔میں تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا شکر گزار ہوں۔“
گنگو نے محمد بن قاسم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے خالد کی طرف دیکھا۔اور خالد نے کہا۔”گنگو اور اس کے ساتھی مسلمان ہوچکے ہیں اور گنگو نے اپنے لیے سعد کا نام پسند کیا ہے۔“
محمد بن قاسم نے الحمدللہ کہہ کر یکے بعد دیگرے سب سے مصافحہ کیا اور ناصر الدین(جےرام) سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔”آپ غالباً ناصرالدین ہیں۔آپ نے ہمارے لیے بہت تکلیف اٹھائی۔خدا آپ کو جزا دے اور یہ شاید آپ کی ہمشیرہ ہے؟“
خالد نے کہا۔”یہ بھی مسلمان ہوچکی ہے اور اس کا نام زہرا ہے۔“
(قسط نمبر95)
زہرا نے ناصرالدین کے قریب آکر دبی آواز میں پوچھا۔”یہ کون ہیں؟“ اور ناصرالدین نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرکے یہ سوال خالد کے کانوں تک پہنچا دیا۔
خالد نے بلند آواز میں کہا۔”یہ ہمارے سپہ سالار ہیں۔“
سعد(گنگو) اور اس کے ساتھی حیران ہوکر محمد بن قاسم کی طرف دیکھنے لگے۔ دور سے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی اور فصیل سے ایک پہرہ دار نے آواز دی۔ ”دشمن کی فوج آرہی ہے۔“
یہ لوگ جلدی سے قلعے میں داخل ہوئے۔محمد بن قاسم نے فصیل پر چڑھ کر دور تک نظر دوڑائی۔جنوب اور مشرق کی طرف سے سندھ کے ہزاروں پیادہ اور سوار سپاہی قلعے کا رخ کررہے تھے۔محمد بن قاسم نے اپنے دس سپاہی گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے نائب تک یہ پیغام پہنچانے کا حکم دیا کہ وہ شام سے پہلے اس جگہ پہنچ جائے۔
سپاہی گھوڑوں پر سوار ہوگئے تو محمد بن قاسم نے انھیں ہدایت کی کہ وہ مغرب سے چکر کاٹ کر حملہ آور لشکر کی زد سے نکل جائے اور پھر اپنی منزل کا رخ کریں۔سپاہی گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے قلعے سے باہر نکل گئے۔حملہ آور قریب آچکے تھے۔محمد بن قاسم نے قلعے کا دروازہ بند کرنے کا حکم دے کر دوبارا فصیل پر چڑھ کر چکر لگایا اور تیر اندازوں کو ہوشیار رہنے کی تاکید کی۔فصیل کے ایک کونے پر خالد اور اس کے ساتھی نہایت ہی بےتابی سے حملہ آوروں کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔ان کے درمیان ناہید اور زہرہ کو دیکھ کر محمد بن قاسم نے کہا۔”خالد انھیں نیچے لےجاو۔یہاں ان کی ضرورت نہیں۔“
ناہید نے جواب دیا۔”آپ ہماری فکر نا کریں۔ہم تیر چلانا جانتی ہیں۔“
”تمہاری مرضی، لیکن زرا سر نیچے رکھو۔“ محمد بن قاسم یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
بھیم سنگھ کے سپاہیوں نے گھوڑوں کو ٹیلوں کے عقب میں چھوڑ کر چاروں طرف سے قلعے کا محاصرہ کرلیا اور چٹانوں اور پتھروں کے مورچے بنا کر قلعے پر تیروں کی بارش کرنے لگے۔قلعے کی فصیل کے مورچوں میں بیٹھنے والوں کے لیے حملہ آوروں کے تیر بےاثر ثابت ہوئے۔محمد بن قاسم نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ فقط قلعے پر دشمن کی یلغار روکنے کے لیے تیروں کو استعمال کریں۔
بھیم سنگھ نے اپنی فوج کے تیروں کا قلعے سے کوئی جواب ناپاکر ”راجہ دہر کی جے“ کا نعرہ بلند کیا اور چٹانوں اور پتھروں کی آڑ میں چھپ کر تیر چلانے والے لشکر نے چاروں طرف سے قلعے پر دھاوا بول دیا۔
جب یہ لشکر قلعہ کے محافظوں کے تیر کی زد میں آگیا تو محمد بن قاسم نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔یہ نعرہ ابھی فضا میں تحلیل نہ ہوا تھا کہ قلعے سے تیروں کی بارش ہونے لگی اور بھیم سنگھ کے سپاہی زخمی ہوہوکر گرنے لگے، لیکن بیس ہزار فوج چند سو سپاہیوں کے نقصان کی پروا نا کرتے ہوئے قلعے کی فصیل تک پہنچ گئی اور کمندیں ڈال کر قلعے پر چڑھنے کی کوشش کرنی لگی لیکن تیروں کی بوچھاڑ کے سامنے ان کی پیش نا گئی۔چند ساعتوں کے بعد بھیم سنگھ کے قریباً دوہزار آدمی قلعے کی دیواروں کے آس پاس ڈھیر ہوکر رھ گئے اور اسے فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دینا پڑا۔
دوسرے پہر تک بھیم سنگھ نے قلعے پر تین بار یلغار کی لیکن تینوں بار اسے مایوس ہوکر پیچھے ہٹنا پڑا۔
سہ پہر کے وقت بھیم سنگھ ایک فیصلہ کن حملے کی تیاری کررہا تھا کہ اسے پیچھے سے محمد بن قاسم کی باقی فوج کی آمد کی اطلاع ملی۔اس نے سواروں کو حکم دیا کہ وہ پیچھے ہٹ کر اپنے گھوڑے سنبھالیں اور پیادہ فوج کے تیر اندازوں کو آس پاس کے پہاڑوں پر متعین کردیا۔دشمن کی نقل و حرکت کو دیکھ کر محمد بن قاسم کو اندازہ ہوگیا کہ کہ دشمن کو محمد بن ہارون کی آمد کی اطلاع مل چکی ہے۔اسے خطرہ پیدا ہوا کہ قلعے کے قریب پہنچ کر وہ چاروں طرف کے ٹیلوں اور پہاڑوں سے تیروں کی زد میں ہوگا۔اس نے جلدی سے کاغذ پر ایک نقشہ بنایا اور محمد بن ہارون کے نام چند ہدایات لکھ کر اپنے سپاہیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”محمد بن ہارون کے یہاں پہنچنے سے پہلے اسے یہ رقعہ پہنچانا ضروری ہے لیکن یہ کام جس قدر اہم ہے اس قدر خطرناک ہے۔اس وقت دشمن کی توجہ دوسری طرف مبذول ہوچکی ہے۔شمال کی طرف سے دشمن کے مورچے تقریباً خالی ہوچکے ہیں اور ہم فصیل سے آدمی اتار سکتے ہیں لیکن پھر بھی محمد بن ہارون تک پہنچنے کے لیے اسے کئی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس مہم کے لیے رضاکار۔۔۔۔۔۔۔!“
خالد نے محمد بن قاسم کا فقرہ پورا نا ہونے دیا اور بولا۔”مجھے اجازت دیجیے۔“
بہت سے سپاہیوں نے خالد کی مخالفت کی اور اپنے نام پیش کیے۔سعد نے کہا۔”میں نے سنا ہےکہ مسلمان اپنے نومسلم بھائی کی خواہش رد نہیں کرتے۔آپ مجھے اجازت دیں۔میرے لباس سے کسی کو مجھ پر شک بھی نہیں ہوگا اور میں اس زمین کے چپے چپے سے واقف ہوں۔“
محمد بن قاسم کو اپنی فوج دشمن کے لشکر کے عقب میں دوتین میل کے فاصلے پر ایک ٹیلے سے اترتی ہوئی دکھائی دی۔اس نے سعد کے ہاتھ میں رقعہ دیتے ہوئے کہا۔”جاو خدا تمہاری مدد کرے۔“
سعد بھاگتا ہوا شمال کی دیوار کی طرف پہنچا اور ایک رسے کے ذریعے نیچے اتر گیا۔
(قسط نمبر96)
محمد بن ہارون نے دور سے بھیم سنگھ کے سوار دستوں کو حملے کے لیے تیار دیکھ کر اپنے دستے کو رکنے کا حکم دیا اور مقابلے کے لیے صفیں درست کرنے کے بعد پیش قدمی کا حکم دینے والا تھا کہ لشکر کا دائیں باوزو کا سالار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا اس کے قریب پہنچا اور اس نے ایک رقعہ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔”یہ تحریر تو سپہ سالار کی معلوم ہوتی ہے۔لیکن لانے والا ایک سندھی ہے۔ہم نے اسے گرفتار کرلیا ہے، وہ بھی عربی جانتا ہے اور کہتا ہے کہ زبیر مجھے جانتا ہے۔ اپنا نام کبھی سعد بتاتا ہے اور کبھی گنگو۔“
زبیر نے چونک کر کہا۔”میں اسے جانتا ہوں۔“
محمد بن ہارون نے رقعہ پرھنے کے بعد کہا۔”سپہ سالار کا رقعہ پڑھنے کے بعد تمہیں اس کے متعلق تحقیقات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اگر تم نے اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی کی ہے تو جاکر معافی مانگو اور اپنے سواروں سے کہو کے وہ میرے ساتھ آملیں۔زبیر! ہمارے دائیں اور بائیں طرف تمام پہاڑیوں پر دشمن کے تیراندازوں کا قبضہ ہے۔تم میسرہ کے شتر سواروں کو اونٹوں سے اتر کر دونوں بازووں سے پہاڑوں پر حملہ کرنے اور بائیں بازو کے سواروں کو مقدمہ الجیش کے ساتھ شامل ہونے کا حکم دو۔جب تک دشمن کے تیر انداز ان پہاڑوں پر موجود ہیں، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔“
بھیم سنگھ کی چال نہایت کامیاب تھی۔اگر محمد بن ہارون سامنے سے فوراً حملہ کردیتا تو اس کے لشکر کے دونوں بازووں پر پہاڑوں میں چھپے ہوئے تیرانداز مسلمانوں کی فوج کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوتے۔لیکن بھیم سنگھ کی توقع کے خلاف جب دائیں اور بائیں سے مسلمانوں کی پیادہ فوج پہاڑوں پر چڑھنے لگی، تو اس نے فوراً اگے بڑھ کر حملے کا حکم دے دیا۔۔۔
قلعے کے اندر محمد بن قاسم اس موقع کا منتظر تھا۔اس نے پچاس سپاہیوں کو قلعے کی حفاظت پر متعین کیا اور باقی فوج کو قلعے سے باہر نکال کردشمن پر عقب سے حملہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا۔سوار اور پیدل سپاہی قلعے کے دروازے پر جمع ہوگئے اور محمد بن قاسم دروازے کے سوراخ میں سے دونوں افواج کی نقل وحرکت دیکھنے لگا۔
خالد، ناصرالدین اور اس کے ساتھی بھی قلعے میں ٹھہرنے والے سپاہیوں سے خود، زرہیں اور عربی لباس حاصل کرکے گھوڑوں پر سوار ہوگئے۔اچانک ناہید اور زہرا کیل کانٹوں سے لیس ہوکر ایک کمرے سے باہر نکلیں اور دروازے کے پاس پہنچ کر کھڑی ہوگئیں۔
خالد نے کہا۔”ناہید! زہرا!! جاو! قلعے کے باہر تمہارا کوئی کام نہیں۔“
ناصرالدین نے اس کی تائید کی۔محمد بن قاسم نے مڑکر ان کی طرف دیکھا اور کہا۔”میں تمہارے جزبہ جہاد کی داد دیتا ہوں۔لیکن تم قلعے کی حفاظت کے لیے سپاہیوں کا ساتھ دےکر ہماری مدد کرسکتی ہو۔
قوم کے لیے بہادر ماوں کا دودھ خون سے زیادہ قیمتی ہے۔نازک وقت آنے پر وہ گھروں کی چار دیواری کو گرتی ہوئی قوم کے لیے آخری قلعہ بناسکتی ہو۔تم یہاں ہوگی تو قلعے کی حفاظت میں یہ چند سپاہی اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے دریغ نہیں کریں گے لیکن میدان میں سپاہیوں کو دشمن کا مقابلہ کرنے سے زیادہ تمہاری حفاظت کا خیال ہوگا۔تم میں سے ایک کا زخمی ہوکر گرنا سینکڑوں سپاہیوں کو بددل کردے گا اور یہ معرکہ ایسا نہیں جس کے لیے ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہو۔ تم تھوڑی دیر آرام کرلو۔ شاید رات بھر تمہیں زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے جاگنا پڑے۔خالد! انھیں اندر لےجاو۔“
یہ کہہ کر وہ پھر دروازے کے سوراخ میں سے جھانکنے لگا۔جب دونوں افواج گتھم گتھا ہوگئیں، تو محمد بن قاسم نے گھوڑے پر سوار ہوکر دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔
(قسط نمبر97)
خالد، ناہید اور زہرہ کو کمرے میں چھوڑ کر باہر لوٹا اور ابھی دروازے تک نا پہنچا تھاکہ زہرا نے بھاگ کر اس کا دامن پکڑ لیا۔”خدا کےلیے! مجھے ساتھ لےچلیے! میں زندگی اور موت میں تمہارا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔“
خالد نے برہم ہوکر جواب دیا۔”زہرا نادان نابنو! تم سپہ سالار کا حکم سن چکی ہو، مجھے جانے دو۔ فوج قلعے سے باہر نکل رہی ہے۔“
زہرا نے آبدیدہ ہوکر کہا۔”خدا کے لیے مجھے بزدل خیال نا کرو__میں تمہارے ساتھ جان دینا چاہتی ہوں۔“
”زہرا!! زہرا!! مجھے چھوڑ دو۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے زہرا کے ہاتھ جھٹک دیے۔لیکن وہ پھر راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔
اس نے آگے بڑھ کرکہا۔”اگر آپ سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتے تو مجھے کیوں محروم رکھنا چاہتے ہیں۔“
”زہرا یہ امیرِ عساکر کا حکم ہے اور جہاد میں امیر عساکر کی حکم عدولی سب سے بڑا جرم ہے۔“
زہرا نے بددل ہوکر خالد کا دامن چھوڑ دیا اور سسکیاں لیتی ہوئی ناہید سے لپٹ گئی۔
خالد بھاگتا ہوا دروازے تک پہنچا، سپاہی جاچکے تھے اور دروازہ بند تھا۔خالد نے پہرے دار سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا لیکن اس نے جواب دیا۔”جب تک باہر سے سپہ سالار کا حکم نا آئے، میں دروازہ نہیں کھول سکتا۔“
خالد کے پاوں تلے سے زمین نکل گئی۔اسے خیال آیا کہ وہ اسے بزدل سمجھ کر پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔اس نے بھاگ کر دروازے کے سوارخ سے باھر جھانکا۔قلعے کی پیادہ فوج عقب سے بھیم سنگھ کے دونوں بازووں پر حملہ کرچکی تھی اور محمد بن قاسم ساٹھ سواروں کے ہمراہ براہِ راست قلب لشکر پر حملہ کرچکا تھا۔خالد دشمن کے لشکر کے عین وسط میں ہلالی پرچم دیکھ کر اپنی مٹھیاں بھینچتا اور ہونٹ کاٹتا ہوا پہرےداروں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔”انھوں نے میرا انتظار کیاہوگا اور یہ سمجھ لیا ہوگا کہ میں موت کے ڈر سے قلعے میں کہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہوں۔ خدا کے لیے دروازہ کھول دو، مجھے جانے دو!“
پہرےدار نے جواب دیا۔”آپ اطمینان رکھیے! سپہ سالار کو یہ شک نہیں کہ آپ بزدل ہیں۔ورنہ شاید آپ کے قتل کا حکم دے جاتے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ لڑکیوں کے پاس آپ کا ٹھہرنا ٹھیک ہوگا۔ہمیں دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں۔“
”تو میں فصیل سے کود جاوں گا۔“ یہ کہہ کر خالد فصیل کی سیڑھی کی طرچ لپکا۔راستے میں زہرا کھڑی تھی۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن خالد کے تیور دیکھ کر سہم گئی۔
خالد نے اس پرایک قہر آلود نگاہ ڈالی اور کہا۔”اب تم خوش ہونا!“
زہرا نے کہا۔”مجھے معاف کردو! میں ایک عورت ہوں۔“
”خدا ایک زندہ قوم کو تمہارے جیسی عورتوں سے بچائے۔“ خالد یہ کہہ کر بھاگتا ہوا زینے چڑھا اور رسا پھینک کر آن کی آن کی آن میں فصیل سے نیچے اتر گیا۔
زہرا نے بھاگ کر کمرے سے تلوار اٹھائی۔ ناہید نے اٹھائی۔”زہرا! کہاں جارہی ہو؟“
زہرا نے جواب دیا۔”ناہید! تمہارے بھائی نے ہمیشہ مجھے غلط سمجھا، اگر میں واپس نا آسکوں تو اسے کہہ دینا، میں بزدل نا تھی۔کاش! ہمارا سماج عورت کو اپنے پتی کی چتا جلنے کی بجائے کسی مقصد پر قربان ہونا سکھاتا۔“
ناہید نے کہا۔” زہرا! ٹھہرو! زہرا! زہرا!“
لیکن زہرا آندھی کی طرح کمرے میں داخل ہوئی اور بگولے کی طرح باہر نکل گئی ناہید اس کے پیچھے بھاگی لیکن جب تک وہ زینے کے قریب پہنچی وہ فصیل پر چڑھ کر رسیوں کی سیڑھی نیچے پھینک چکی تھی۔سپاہیوں نے اسے روکنا چاہا لیکن اس نے کہا۔”اگر میرا راستہ روکا گیا تو میں فصیل سے کود جاوں گی۔“
سپاہی پریشان ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور زہرا نیچے اتر گئی۔ناہید نے فصیل پر پہنچ کر آوازیں دیں۔”زہرا! زہرا! پگلی نا بنو۔وآپس آجاو۔“ لیکن ناہید کی ہر آواز کےساتھ اس کی رفتارتیز ہوگئی۔ ناہید نے مایوس ہوکر خود نیچے اترنے کا ارادہ کیا لیکن ایک عمررسیدہ سپاہی نے کہا۔” عورت کا جوش آندھا ہوتا ہے۔اگر آپ نے اس کا تعاقب کیا تو وہ بےتحاشا دشمنوں کی صفوں میں جاپہنچے گی۔“
ناہید نے مایوس ہرکر ایک سپاہی سے تیروکمان مگوایا اور فصیل کے ایک مورچے میں بیٹھ گئی۔ایک گھوڑا اپنے سوار کو میدان میں گرا کر ادھر ادھر بھاگ گیا تھا۔زہرا نے بھاگ کر اس کی لگام پکڑ لی اور اس پر سوار ہوگئی۔اسے گھوڑے پر دیکھ کر ناہید کو قدرے اطمینان ہوا اور وہ اس کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔
(قسط نمبر98)
مسلمانوں کی فوج پر بھیم سنگھ کی فوج کا پہلا حملہ بہت زور دار تھا اور انھیں ایک تنگ وادی میں چند قدم پیچھے ہٹنا پڑا لیکن پیادہ فوج آس پاس کی پہاڑیوں پر قبضہ جما کر تیر برسانے لگی تو سندھ کے لشکر کی توجہ دوحصوں میں بٹ گئی۔عین اس موقع پرمحمد بن قاسم نے قلعے کا دروازہ کھول کر عقب سے حملہ کردیا اور چند سواروں کے ہمراہ دشمن کی صفیں درہم برہم کرتا ہوا لشکر کے قلب تک جاپہنچا۔
لشکر کے عین درمیان سبز پرچم دیکھ کر محمد بن ہارون نے اپنے لشکر کو تین اطراف سے عام حملے کا حکم دے دیا۔زبیر! محمد بن قاسم کی اعانت کے لیے پانچ سو سواروں کو لے کر آگے بڑھا اور آن کی آن میں اس کے ساتھ آملا۔بھیم سنگھ کی فوج بدحواس ہوکر قلعے کی طرف ہٹنے لگی۔وادی میں اٹھتی ہوئی گرد نے شام کے دھندلکے کے ساتھ مل کر آمدِ شب کے آثار پیدا کردیے تھے۔بھیم سنگھ نے آخری بار اپنی فوج کی ٹوٹی ہوئی صفیں منظم کرنے کی کوشش کی۔لیکن زبیر کی تقلید میں محمد بن ہارون کے باقی سپاہی بھی میدان کو صاف کرتے ہوئے محمد بن قاسم کے ساتھ آملے۔
بھیم سنگھ کی فوج غیرمنظم ہوکر مختلف ٹولیوں میں لڑنے لگی۔مسلمانوں کے دباو سے کئی ٹولیاں پسپا ہوکر قلعے کے قریب پہنچ چکی تھیں اور جب قلعے کے محافظ ان پر تیر برسانے لگے تو وہ ندحواس ہوکر ادھر ادھر بھاگ نکلے۔
خالد تیر اندازوں کی ایک جماعت کے ساتھ ایک ٹیلے سے اترا اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمن کی ایک ٹولی پر ٹوٹ پڑا۔بدحواس سپاہی ایک طرف ہٹ گئے اور خالد ان کے تعاقب میں اپنے ساتھیوں سے علیحدہ ہوگیا۔دشمن کے سپاہیوں نے موقع پاکر اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔اچانک ایک سوار گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا اور اس نے اللہ اکبر کہہ کر اس ٹولی پر حملہ کردیا۔خالد اس کی آواز پہچان کر چونکا۔یہ زہرا تھی۔زہرا کی تلوار یکے بعد دیگرے دوسپاہیوں کے سروں پر چمکی اور دونوں گرکر خاک میں لوٹنے لگے۔ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر زہرا پروار کیا۔زہرا کا گھوڑا اچانک بدکا اور تلوار اس کی اگلی ٹانگ پر لگی۔گھوڑے نے چند چھلانگیں لگائیں اور ڈگمگا کر گر پڑا۔مسلمانوں کے دستوں کو قریب آتا دیکھ کر بھیم سنگھ کے سپاہیوں نے میدان کا یہ حصہ بھی خالی کردیا۔۔۔۔۔۔خالد بھاگتا ہوا زہرا کے پاس پہنچا۔وہ گھوڑے کے قریب منہ کے بل پڑی ہوئی تھی۔قریب آکر خالد کے ہاتھ پاوں پھول گئے۔اس کے منہ سے بیک وقت سسکیاں، آہیں اور دعائیں نکلیں۔وہ رکا، جھجکا، کپکپایا اور پھر بھاگ کر زہرا کو اٹھانے لگا۔معاً اسے زہرا کی پیٹھ پر خون کے نشان اور زرہ میں دو تیرآٹکے ہوئے نظر آئے اور زندگی کی تمام حسیات سمٹ کر اس کی آنکھوں میں آگئیں۔اس نے یکے بعد دیگرے دونوں تیر نکال کر پھینک دیے۔۔زہرا نے ایک جھرجھری لینے کے بعد آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔خالد نے چاند کی ہلکی اور پھیکی روشنی میں اس کا زرد چہرہ دیکھا اور کہا۔”تمہیں تکلیف تو نہیں؟“
اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔اس نے کہا۔”نہیں! میں نے ان تیروں کو محسوس بھی نہیں کیا۔گھوڑے سے گرنے کے بعد میرا سر چکرا گیا تھا۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔میدان کا کیا حال ہے؟“
”میدان خالی ہوچکا تھے۔ خدا نے ہمیں فتح دی ہے لیکن ناہید کہاں ہے؟“
”وہ قلعے میں ہے۔میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”آپ مجھ سے خفا تو نہیں؟“
”اف! زہرا! مجھے نادم نا کرو۔مجھے اپنی سخت کلامی کا بہت افسوس ہے۔“
وہ بولی۔”نہیں! میں غلطی پر تھا۔مجھے ڈر تھا کہ آپ شاید وآپس نا آئیں لیکن آج میں دیکھ چکی ہوں کہ انسان اپنے معین وقت سے پہلے نہیں مرتا۔میں تیروں کی بارش میں سے گزر کر میدان تک پہنچی لیکن میں نے محسوس کیا کہ قدرت کا زبردست ہاتھ میری حفاظت کررہا ہے۔“
(قسط نمبر99)
مسلمانوں کی فوج فتح کے نعرے لگاتی ہوئی قلعے کے دروازے کے سامنے جمع ہورہی تھی۔خالد نے کہا۔”چلو زہرا! ناہید بہت پریشان ہوگی۔“
زہرا نے اٹھ کر خالد کے ساتھ چند قدم اٹھائے لیکن اسے چکر آیا اور وہ ڈگمگاتی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی۔
اس نے خالد سے پانی مانگا اور خالد نے ایک گرے ہوئے سپاہی کی چھاگل اتار کر اس کے منہ سے لگادی۔زہرا پانی کے چند گھونٹ پی کر اٹھ بیٹھی۔خالد نے کہا۔”زہرا! میں اٹھالوں، خون بہہ جانے سے تم بہت زیادہ کمزور ہوچکی ہو۔“
زہرا نے کہا۔”نہیں! مجھے پیاس کی وجہ سے چکر آگیا تھا۔مجھے فقط آپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔“
خالد نے اسے اپنے بازو کا سہارا دیا اور آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلنے لگی۔چندقدم چلنے کے بعد اسے ناصرالدین کی آواز سناہی دی۔”زہرا! زہرا!“ اور اس نے خالد سے کہا۔”بھائی مجھے تلاش کررہا ہے۔اسے آواز دو!“
خالد نے بلند آواز سے کہا۔”زہرا میرے پاس ہے اس طرف۔“
ناصرالدین،زبیر اور ناہید تیزی سے چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچے۔ناہید نے بھاگ کر زہرا کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔”زہرا! زہرا! میری بہن تم کیسی ہو؟“
اس نے جواب دیا۔”میں بالکل ٹھیک ہوں۔“
لیکن ناہید نے اپنی انگلیوں پر نمی محسوس کرتے ہوئے اس کی پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور چونک کر کہا۔”زہرا تم زخمی ہو؟ بھائی ناصرالدین ! اسے قلعے کے اندر لےچلو۔“
ناصرالدین نے آگے بھر کر زہرا کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس نے کہا۔”بھیا! میں بالکل ٹھیک ہوں، میں چل سکتی ہوں اور یہ کون ہے؟___بھیا زبیر! مجھے معاف کرنا میں پہچان ناسکی۔“
زبیر نے کہا۔”ننھی بہن! تم اپنے بھائیوں کو بہت پریشان کرتی ہو۔اب چلو ہمیں تمہاری مرہم پٹی کرنی چاہیے۔“
چند قدم چلنے کے بعد انھیں سعد نظرآیا۔وہ جھک جھک کر میدان میں پڑی لاشیں دیکھ رہا تھا۔خالد نے اسے آواز دی۔”چچا! کسے ڈھونڈ رہے ہو۔ہم اس طرف ہیں۔“
وہ بھاگتا ہوا ان کے قریب آیا اور بےقرار ہوکر بولا۔”میرے بیٹے! میری بیٹی! تم کہاں تھے؟“
خالد نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔”ہم آپ کو تلاش کررہے تھے۔“
”تم مجھے تلاش کررہے تھے؟ چور کہیں کے، ناہید سے پوچھو میں کس قدر پریشان تھا۔“
ناہید نے کہا۔”یہ تمہارے لیے بہت پریشان تھے۔ہم نے میدان کا صرف ایک چکر لگایا ہے اور یہ شاید تین چار چکر لگا چکے ہیں۔“
سعد نے کہا۔”صرف اسی میدان میں نہیں، میں تو آس پاس کی تمام پہاڑیوں پر بھی خوار ہوآیا ہوں۔تم نے آواز تو دی ہوتی۔میرا تو گلا بھی بیٹھ گیا۔“
خالد نے کہا۔”میں نے آپ کی آواز نہیں سنی۔ورنہ میں جواب ضرور دیتا۔“
سعد نے کہا۔”ان زخمیوں کی چیخ پکار میں کسی کی آواز سنائی بھی کب دیتی۔“
یہ لوگ باتیں کرتے ہوئے قلعے کے دروازے کے قریب پہنچے تو ناہید نے آہستہ سے سعد کے کان میں کچھ کہا اور وہ چند بار سر ہلانے کے بعد ناصرالدین سے مخاطب ہوا۔میں علیحدگی میں آپ کے ساتھ ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ناصرالدین نے اس کے ساتھ چند قدم چلنے کے بعد رک کرکہا۔”کہیے، کیا ارشاد ہے؟“
سعد نے آس پاس جمع ہونے والے سپاہیوں کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔”یہاں نہیں۔یہاں بہت سے لوگ ہیں۔“
ناصرالدین نے کہا۔”بہت اچھا۔جہاں چاہو، چلے چلو۔“
قلعے کے دروازے سے کوئی پانچ سو قدم دور جاکے سعد نے ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔”آپ بھی بیٹھ جائیں۔“
ناصرالدین اس کے ساتھ دوسرے پتھر پر بیٹھ گیا۔
سعد نے کہا۔”پہلے آپ وعدہ کریں کہ آپ میری بات سن کر میرا سر پھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوجائیں گے؟“
ناصرالدین نے جواب دیا۔”اگر کوئی سر پھوڑنے والی بات ہوئی توضرور پھوڑ دوں گا۔“
سعد نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔”بات تو ایسی کوئی نہیں لیکن پرائے ہاتھ کا کیا اعتبار۔اچھا میں کہہ ہی دیتا ہوں۔بات یہ ہے کہ مایا نہیں! نہیں!! زہرا آپ کی بہن ہے اور میرے لیے بھی وہ بیٹی سے کم نہیں۔خالد بھی مجھے بہت عزیز ہے بالکل اپنے بیٹے کی طرح اور اس سے آگے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کہوں؟ مجھے ڈر ہے کہ آپ خفا ہوجائیں گے!“
ناصرالدین نے کہا۔”میں سمجھ گیا۔تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خالد اور زہرا کی شادی کردی جائے!“
ہاں! ہاں!! خدا تمہارا بھلا کرے۔میں یہی کہنا چاہتا تھا۔“
”بس اسی بات کے لیے مجھے یہاں تک گھسیٹ لائے ہو؟“
سعد نے جواب دیا۔”مجھے یہ خیال تھا کہ اگر آپ بگڑ کر میری داڑھی نوچنے پر آمادہ ہوجائیں تو دوسرے ہمارا تماشا نا دیکھیں۔“
ناصرالدین نے جواب دیا۔”میں حیران ہوں کہ مجھے آپ نے اس قدر برا خیال کیا۔مجھے گنگو سے نفرت تھی لیکن سعد کی میرے دل میں وہی عزت ہے جو ایک راجپوت کے دل میں اپنے باپ کے لیے ہونی چاہیے۔آپ جس وقت چاہیں، ان سے شادی کرسکتے ہیں۔“
سعد نے کہا۔”میں تو کہتا ہوں کہ ابھی ہوجائے۔“
”لیکن زہرا زخمی ہے!“
سعد نے چونک کرسوال کیا۔”زہرا زخمی ہے؟ مجھے کسی نے کیوں نہیں بتایا! چلو چلیں۔“
ناصرالدین نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔اس کے زخم بلکل معمولی ہیں۔“
(قسط نمبر100)
آدھی رات تک محمد بن قاسم کےتھکے ہارے سپاہی زخمیوں کی مرہم پٹی اور شہیدوں کی تجہیزوتکفین میں مصروف رہے۔میدان کے چاروں طرف سے دشمن کے زخمی سپاہیوں کی چیخ و پکار سنائی دی رہی تھی۔شہیدوں کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد مسلمانوں کی فوج کا سترہ سالہ سپہ سالار جس کا جسم بےآرامی کی کئی راتیں کاٹنے کے بعد تھکاوٹ سے چور ہوچکا تھا، جس کے بازو دن بھر تلواروں اور نیزوں سے کھیلنے کے بعدشل ہوچکے تھے، اپنی پیٹھ پر پانی کا مشکیزہ اٹھائے زخموں سے کراہتے ہوئے دشمنوں کی پیاس بجھا رہا تھا۔وہ آنکھیں جن میں اس کے ساتھیوں نے لڑائی کے وقت قہروغضب کی آگ کے شعلے دیکھے تھے، اب گر کر تڑپنے والے دشمنوں کے لیے عفودرگزر کے آنسووں سے لبریز تھیں۔ وہ ہاتھ جس کی تلوار دشمن کے سر پر بجلی بن کر کوندی تھی، اب ان کی زخموں پر مرہم رکھ رہا تھا۔
محمد بن قاسم کے سپاہی بھی تھکاوٹ سے چور تھے۔لیکن وہ اپنی نوجوان سپہ سالار کی تقلید میں ایک روحانی لذت محسوس کررہے تھے۔انھون نے دشمن کے زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر قلعے کے سامنے قطار در قطار لٹا دیا۔
محمد بن قاسم کو ایک پہاڑی کے دامن سے کسی کے کراہنے کی آواز آئی اور وہ مشعل اٹھائے اس طرف بڑھا۔سعد، زبیر، ناصرالدین اور چند اور سالار اس کے ساتھ تھے۔مشعل کی روشنی میں چند لاشوں کے درمیان اسے ایک زرہ پوش نوجوان دکھائی دیا۔ اس کی زرہ میں کئی جگہوں پر خون کے نشان تھے اور پسلی میں ایک تیر پیوست تھا۔اس کے دائیں ہاتھ سے تلوار کا دستہ چھوٹ چکا تھا لیکن بائیں ہاتھ میں وہ ابھی تک مضبوطی کے ساتھ سندھ کا جھنڈا تھامے ہوئے تھا۔محمد بن قاسم نے مشعل اپنے ایک ساتھی کے ہاتھ میں تھما دی اور زمین پر گھٹنا ٹیکتے ہوئے اسے اٹھنے کا سہارا دےکر پانی پلایا۔چند گھونٹ پینے کے بعد نوجوان نے آنکھیں کھولیں اور محمد بن قاسم اور اس کے ساتھیوں کو غور سے دیکھنے کے بعد جھنڈے کو دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ لیا۔
ناصرالدین نے زبیر سے کہا۔”زبیر! تم اسے پہچانتے ہو؟“ زبیر نے آگے بڑھ کر زخمی نوجوان کی طرف دیکھا اور کہا۔”اف! یہ بھیم سنگھ ہے؟“
بھیم سنگھ نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چہرے پر ایک دردناک مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں فتح مبارک ہو!“
محمد بن قاسم کے استفسار پر زبیر نے بھیم سنگھ کے الفاظ کا عربی میں ترجمہ کیا اور اس نے کہا۔”میں حیران ہوں کہ ایسے بہادر سپہ سالار کی موجودگی میں سندھ کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔زبیر! تم اسے سہارا دو میں اس کا تیر نکالتا ہوں۔“
زبیر نے آگے بڑھ کر بھیم سنگھ کو سہارا دیا۔محمد بن قاسم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بھیم سنگھ نے جھنڈا چھوڑ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
محمد بن قاسم نے ناصرالدین کو اشارہ کیا اور اس نے بھیم سنگھ کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔محمد بن قاسم نے تیر نکال کر ایک طرف پھینک دیا اور ناصرالدین کو فوراً زرہ کھول ڈالنے کا کہا۔
بھیم سنگھ کے زخم زیادہ گہرے نا تھے لیکن خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ نڈھال ہوچکا تھا۔محمد بن قاسم نے اس نے اس کی مرہم پٹی سے فارغ ہوکر سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے قلعے کے اندر لےجائیں اور خود دوسرے زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگیا۔
(جاری ہے)