باب: 1
”عمر آرہا ہے پرسوں۔ ”
لنچ پر نانو نے اچانک اس سے کہا۔ وہ کھانا کھانا بھول گئی۔
”پرسوں آرہا ہے آپ کو کس نے بتایا؟”
اس نے بے چینی سے نانو سے پوچھا۔
”تم اس وقت سو رہی تھیں،وہ بھی تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا،مگر میں نے جب یہ بتایا کہ تم سو رہی ہو تو پھر اس نے جگانے سے منع کر دیا۔ ”نانو نے تفصیل بتائی تھی۔ علیزہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
”چھٹیاں گزارنے آرہا ہے؟”
اس نے پوچھا۔
”ہاں یہی سمجھ لو ،فارن سروس چھوڑ رہا ہے۔ کہہ رہا تھا، چند ہفتے تک پولیس سروس جوائن کر لے گا۔ ”
علیزہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
”عمر اور پولیس سروس،مجھے یقین نہیں آرہا نانو! اتنی اچھی پوسٹ چھوڑ کرآخر وہ کرے گا کیا یہاں۔ انکل نے اس سے کچھ نہیں کہا؟ ”
اسے ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا۔
”جہانگیر سے اس کا کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ اس نے مجھے تفصیل نہیں بتائی لیکن
they are not on talking terms now-a-days.”
” اس میں کونسی نئی بات ہے ،یہ تو پچھلے کئی سال سے ہو رہا ہے۔ ”
علیزہ کو واقعی کوئی حیرانی نہیں ہوئی تھی۔
”ہاں مگر ابھی پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے دونو ں میں۔ اب آئے گا، تو پتہ چلے گا کہ کیا ہوا۔ ”
نانو بھی زیادہ فکر مند نہیں لگ رہی تھیں۔
”یہیں رہے گا کیا؟”
اس نے نانو سے پوچھا۔
”ہاں ،کہہ رہا تھا کہ پوسٹنگ ملنے تک یہیں رہے گا۔ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ تمہارے یا اپنے لئے کسی چیز کی ضرورت ہو تو اسے بتا دیں، وہ لے آئے گا۔ اپنے لئے تو میں نے کچھ نہیں کہا لیکن تمہارے لئے کچھ پرفیومز لانے کے لئے کہا تھا۔ میری بات پر وہ ہنسنے لگا۔ ”
علیزہ کے ذہن میں بے اختیار ایک یاد لہرائی۔
”کہہ رہا تھا یہ تو کوئی منگوانے والی چیز نہیں ہے ،جانتا ہوں علیزہ کے سامنے جاؤ ں گا تو پرفیومز کے بغیر کیسے جاؤں گا۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ کچھ اچھی کتابیں لے آئے تمہارے لئے، خاص طور پر پینٹنگ کے بارے میں کوئی نئی کتاب۔ ”
نانو اسے بتاتی گئی تھیں۔
”آپ نے ایسے ہی تکلیف دی نانو۔ ”
”ارے نہیں وہ خود اصرار کر رہا تھا،خیر تم ذرا اس کے لئے کمرہ سیٹ کروا دینا، اور انیکسی بھی ذرا صاف کروا دینا۔ اس کا سارا سامان بھی آرہا ہے۔ ابھی فی الحال تو یہیں رکھوائے گا ،پھر جب پوسٹنگ ملے گی تو لے جائے گا۔ ”
نانو نے اسے ہدایات دیتے ہوئے کہاتھا۔ پھر وہ لنچ کرنے کے بعد اٹھ کر چلی گئی تھیں۔ وہ بہت دیر تک وہیں بیٹھے بہت کچھ سوچتی رہی تھی۔ ذہن میں بہت کچھ تازہ ہوتا جارہا تھا۔
”تو عمر جہانگیر آخر کار تم واپس آ ہی رہے ہو۔ ”
اس نے مسکراتے ہوئے سوچا۔ پھر کچھ ذہن میں آنے پر وہ اٹھ کر اس کمرے کی طرف آگئی جہاں وہ ہمیشہ ٹھہرتا تھا۔ دروازہ کھولتے ہوئے اسے بہت خوش گوار سا احساس ہوا تھا۔ وہ اکثر اس کمرے میں آ کر کچھ وقت گزاراکرتی تھی، اور ہمیشہ ہی یہاں آکر اسے یوں لگتا جیسے وہ یہیں کہیں موجود تھا۔
اس کی راکنگ چیئر اسے ساکت حالت میں بھی اسی طرح جھولتی ہوئی نظر آتی تھی۔ جس طرح وہ اسے جھلایا کرتا تھا۔ ہر چیز پر جیسے اس کا لمس تھا۔ ہر طرف اس کی جیسے آواز گونجتی تھی۔ وہی دھیما،گہرا اور ٹھہرا ہوا لہجہ۔ وہی پر سکون دل کے کہیں اندر تک اتر جانے والی آواز،اور پھر وہی کھلکھلاتے ہوئے بے اختیار قہقہے، اس کمرے میں آکر سب کچھ جیسے زندہ ہو جاتا تھا۔ الوژن عکس بن جاتا تھا، اور عکس حقیقت بن کر اس کے ارد گرد پھرنے لگتا تھا۔ کمرے میں وہی مخصوص خوشبو بسی ہوئی تھی۔ عمرکے استعمال میں آنے والی چھوٹی چھوٹی چیزیں اسی طرح اپنی جگہ پر تھیں جیسے انہیں کل ہی رکھا گیا ہو۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ پہلی بار وہ کب آیا تھا۔ اسے اپنے ذہن پر زور نہیں دینا پڑا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ وہ کس سال ،کس تاریخ،کس دن اور کس وقت آیا تھا۔ بعض باتیں آپ کبھی بھولنا نہیں چاہتے۔ اور وہ کب گیا تھا، اسے یہ بھی یاد تھا بعض باتیں آپ کبھی یاد رکھنا نہیں چاہتے۔
علیزہ کے لئے تب سے آج تک وہ یہیں تھا۔ اسی کمرے میں ، کم از کم اس کے لئے۔ اسے اپنے پیچھے دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی وہ بے اختیار پلٹی۔
”اچھا کیا تم ابھی یہ کمرہ دیکھنے آ گئیں ،میں نے سوچا میں بھی ایک نظر ڈال ہی لوں۔”
نانو اندر آ گئی تھیں۔ چند لمحے تنقیدی نظروں سے وہ کمرے کا جائزہ لیتی رہیں پھر جیسے مطمئن بھی ہو گئیں۔
”میرا خیال ہے، کہ سب کچھ ٹھیک ہی ہے لیکن پھر بھی تم ذرا ہر چیز کو اچھی طرح چیک کر لینا۔ میں نہیں چاہتی کہ اسے یہاں کوئی تکلیف ہو۔ ”
نانو مڑ کر کمرے سے نکل گئی تھیں۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی تھی، اور وہاں پڑا ہوا ایک پرفیوم اس نے ہاتھ میں لے لیا۔ آہستہ آہستہ اس نے پرفیوم کا ڈھکن اتار کر خوشبو کو محسوس کر نے کی کوشش کی۔ بے اختیار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی۔ ایک بار پھر ایک امیج اس کے ذہن میں لہرایاتھا۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینہ کو دیکھا، وہاں یک دم کوئی اورنظر آنے لگا تھا وہیں اسی جگہ چند سال پہلے۔ وہ بے اختیار چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اسے اپنی گردن اور بالوں پر پھوار پڑتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
باب: 2
وہ کار کا دروازہ کھول رہی تھی جب اس نے لاؤنج کا دروازہ کھول کر نانوکو باہر آتے دیکھا۔ شاید وہ کار کا ہارن سن کر باہر آئی تھیں۔ انہوں نے اسے دیکھ کر دور سے ہی بازو پھیلا دئیے۔ وہ مسکراتی ہوئی ان کے پاس جا کر لپٹ گئی۔
”اس بار میں نے تمہیں بہت مس کیا۔ ”
انہوں نے اس کے گال چومتے ہوئے کہاتھا۔
”میں نے بھی آپ لوگوں کو بہت مس کیانانو!”
ان کے ساتھ اندر لاؤنج کی طرف جاتے ہوئے اس نے کہاتھا۔
”میں جانتی ہوں۔ ”
انہوں نے بڑے پیار سے ساتھ چلتے ہوئے اسے اپنے کندھے سے لگا یا۔
”کیسا رہا تمہارا قیام ،انجوائے کیا؟”
”ہاں بہت انجوائے کیا۔ ”
”ثمینہ کیسی ہے ؟ پاکستان کب آ رہی ہے؟”
”ممی ٹھیک ہیں ابھی پاکستان آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ شاید اگلے سال آئیں۔ ”
لاؤنج میں آکر اپنا بیگ صوفہ پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
”چار سال ہو گئے ہیں اسے وہاں گئے ابھی بھی اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا آنے کو۔ ”
اس نے نانو کو بڑ بڑاتے ہوئے سنا تھا۔ وہ کچھ دیر ان کاچہرہ دیکھتی رہی۔
”وہ لوگ آسٹریلیا سے امریکہ شفٹ ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ انکل کا کا نٹریکٹ ختم ہو رہا ہے اس سال۔ امریکہ کی کسی کمپنی کی آفر پر غور کر رہے ہیں۔ ممی کہہ رہی تھیں کہ اگلے سال اگر امریکہ سیٹل ہونے کا ارادہ کر لیا تو وہاں جانے سے پہلے پاکستان کا ایک چکر لگا کر جائیں گی۔ ”
اس نے جیسے نانو کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”تمہارے باقی بہن بھائی کیسے ہیں ؟”
نانو نے جیسے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔
”بہت اچھے ہیں اب تو بہت بڑے ہو گئے ہیں۔ میں تصویریں لے کر آئی ہوں۔ آپ دیکھ لیجئے گا۔ ”
اس نے نظریں چراتے ہوئے جھک کر اپنے جاگرز کھولنے شروع کر دئیے تھے۔ نانو خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی تھیں۔
”تم پہلے سے کمزور ہو گئی ہو۔ ”
”ہاں شاید ، میں کچھ دن بیمار رہی تھی وہاں۔ پانی سوٹ نہیں کر رہا تھا۔ ”
ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے نانو کو بتایا تھا۔
”بیمار ہو گئی تھیں مگر تم نے مجھے تو نہیں بتایا۔ ثمینہ نے بھی فون پر ذکر نہیں کیا ۔ ”
نانو اٹھ کر تشویش بھرے انداز میں اس کے پاس آکر بیٹھ گئی تھیں۔
”میں نے منع کر دیا تھا۔ آپ خواہ مخواہ پریشان ہو جاتیں ،ویسے بھی زیادہ سیریس بات نہیں تھی۔ ”
اس نے لاپروائی سے کہا تھا۔
”پھر بھی تمہیں بتانا تو چاہیے تھا، اس طرح…؟”
”نانو ! پلیز میں ٹھیک ہوں۔ آپ خود دیکھ لیں کیا اب بیمارلگ رہی ہوں؟ ”
اس نے بات ٹالنے کی کوشش کر تے ہوئے کہا۔
”کرسٹی کہاں ہے۔ اسے یک دم جیسے یاد آ یاتھا۔
”سیڑھیوں کے نیچے سو رہی تھی۔ میں نے تم سے چائے کا بھی نہیں پوچھا ،میں ذرا تمہارے کھانے کے لئے کچھ کہہ کر آ تی ہوں..
نانو اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئیں۔ اس نے گہرا سانس لے کر صوفہ کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ ایک ماہ بعد واپس آ کر اسے بہت سکون بہت طمانیت کا احساس ہو رہا تھا۔ یوں جیسے وہ گھر واپس آ گئی ہو۔ ہر چیز اسی طرح تھی۔ وہ اٹھ کر کھڑ کی کے پاس آئی۔مالی گھاس کاٹ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر تک بے مقصد اسے دیکھتی رہی، پھر وہاں سے کوریڈور کی طرف آگئی تھی۔ کوریڈور کراس کرنے کے بعد اسے سیڑھیاں نظر آ ئیں۔ بے اختیار ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہو ئی گئی۔
”کرسٹی!”
اس نے بلند آواز میں پکارا۔
میاؤں کی آواز کے ساتھ ایک بلی سیڑھیوں کے نیچے نمودار ہوئی اور تیزی سے اس کی طرف لپکی۔ وہ گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گئی تھی۔ بلی سیدھی اس کے پاس آئی تھی اس نے اسے گود میں بٹھا لیا۔ چند منٹوں تک وہ اس کا سر اور جسم سہلاتی رہی پھر اس نے اسے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنے چہرے کے پاس کیا تھا۔
”میں نے تمہیں بہت ،بہت ، بہت مس کیا۔ ”
اس نے اس سفید بلی سے یوں کہا تھا کہ جیسے وہ اس کی بات سمجھ رہی ہو۔
”تم نے مجھے یاد کیا ؟”
بلی نے میاؤں کی آواز کے ساتھ جیسے اس کی بات کا جواب دینے کی کوشش کی تھی۔
”ہاں میں جانتی ہوں تم نے بھی مجھے بہت مس کیا ہو گا۔ ”
وہ بلی کو اٹھا کر دوبارہ لاؤنج میں آ گئی۔ صوفہ پر بیٹھنے کے بعد اس نے بلی کو بھی اپنی گود میں بٹھا لیا اور بہت نرمی اور محبت سے اس کا جسم سہلانے لگی۔
”تو پہنچ گئی یہ تمہارے پاس۔ ”
نانو اس وقت کچن سے آئی تھیں وہ ان کی بات پر مسکرا ئی۔
”نہیں اس کو تو پتہ بھی نہیں چلا میں خود ہی لے کر آئی ہوں۔ نانا کہاں ہیں ،نانو!”
اسے بات کرتے کرتے اچانک یاد آ یا تھا۔
”وہ گھر پر ہی تھے ،تمہارا انتظار کر رہے تھے پھر اچانک جم خانہ سے فون آ گیا کوئی کام تھا وہاں۔ مجھ سے کہہ کر گئے تھے کہ تین، چار گھنٹوں تک آ جائیں گے۔ اب دیکھو کہ ان کے تین ، چار گھنٹے۔ تین ، چار ہی رہتے ہیں یا۔۔۔۔۔!”
نانو نے اس کے پاس صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہاتھا۔
”السلام علیکم !علیزہ بی بی ! کیسی ہیں آپ؟”
اسی وقت خانساماں چائے کی ٹرے لے کر آیا، اور اس نے آ تے ہی علیزہ کو مخاطب کیا تھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ،مرید بابا! آپ کیسے ہیں؟”
اس نے جواباً ان کا حا ل پوچھاتھا۔
”اللہ کا شکر ہے بی بی! اس بار تو آپ نے بہت دیر لگا دی واپس آتے آتے۔ ”
مرید بابا نے چائے کی ٹرے اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہاتھا۔
”ہاں کچھ زیادہ دن ہی لگ گئے مگر واپس تو آ گئی، مرید بابا!”
وہ ایک بار پھر مسکرائی تھی۔ خانساماں چائے رکھ کر واپس کچن کی طرف چلا گیا تھا۔ نانو نے اس کے لئے چائے بنانی شروع کی۔
”ارے ہاں میں نے تو تمہیں بتایا ہی نہیں عمر آیا ہوا ہے۔ ”
چائے کا کپ اسے تھماتے ہوئے نانو نے اچانک پر جوش آواز میں بتایا تھا۔
”عمر… ! وہ کب آیا؟ ”
وہ نانو کی بات پر حیران ہو گئی۔
”پچھلے ہفتے کا آیا ہوا ہے۔ ”
”اکیلا آیا ہے؟ ”
”ہاں اکیلا ہی آیا ہے۔ سی ایس ایس کے پیپرز دینے آیا ہے۔ ابھی یہیں رہے گا ایک دو ماہ۔ ”
”سی ایس ایس ؟ مگر وہ تو جاب کر رہا تھا ، لندن میں پھر یہ۔۔۔۔ ؟”
وہ الجھ کر رہ گئی تھی۔
”جاب چھوڑ دی ہے اس نے۔ کہہ رہا تھا وہ اپنے آپ کو سیٹ نہیں کرپا رہا تھا۔ وہاں بہت تکلیف دہ روٹین ہو گئی تھی۔ میرا خیال ہے جہانگیر نے اس طرف آنے پر مجبور کیا ہے۔ تمہیں پتہ ہے وہ شروع سے ہی دباؤ ڈال رہا ہے۔ پچھلی دفعہ وہ جب یہاں آیا تھا تو عمر کے بارے میں کافی فکر مند تھا۔ وہ کسی بھی کام میں مستقل مزاج نہیں ہے۔ ہر سال چھ ماہ بعد اس کی دلچسپیاں بدل جاتی ہیں اور ظاہر ہے آگے نکلنے کے لئے ٹک کر کام کر نا بہت ضروری ہے۔ تب بھی وہ عمر کو مجبور کر رہا تھا کہ وہ فارن سروس میں آ جائے۔ ابھی اچھی پوسٹ پر ہے جہانگیر وہ چاہتا ہے کہ بیٹا بھی فارن سروس میں آ جائے۔ تو اسے بھی اسٹیبلش کر دے گا۔”
نانو نے چائے پیتے ہوئے اسے تفصیل سے بتایا تھا۔
وہ چائے پیتے ہوئے ایک ہاتھ سے کرسٹی کے سرکو سہلاتے ہوئے ان کی بات سنتی رہی۔
”اس وقت کہاں ہے ؟”
ان کے بات ختم کرنے پر اس نے پوچھا تھا۔
”سو رہا ہے ابھی ، سونے کی روٹین تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انگلینڈ اور یہاں کے وقت میں بہت فرق ہے، اور اسے یہاں آ کر سونے کے اوقات میں کافی تبدیلی کرنی پڑ رہی ہے۔ اوپر سے آج کل گرمی بھی بہت ہے۔ کل باہر گیا تھا مارکیٹ کچھ چیزیں لانے کے لئے اور واپس آیا تو حالت خرا ب ہو رہی تھی۔ میں تو پہلے ڈر گئی کہ کہیں سن سٹروک ہی نہ ہو گیا ہو۔ مگر ڈاکٹر نے کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہے بس ابھی ذرا باہر نکلنے میں احتیاط کرے۔ شام کو کہیں جا کر اسے کچھ ہوش آ یا، لیکن بہت زندہ دل ہے مجھ سے کہہ رہا تھا۔ میں پورا انگریز ہوتا تو یقیناً فوت ہو جاتا۔ تھوڑا بچ گیا ہوں تو یہاں کا ہونے کی وجہ سے، لگتا ہے گرمی نے پہچان لیا ہے مجھے، لگتا ہے کہ دوبارہ کوئی گڑ بڑ نہیں ہو گی۔ میں نے اس سے کہا کہ اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے بہتر ہے کہ وہ ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق ابھی باہر جانے سے پر ہیز ہی کرے۔ ضروری نہیں کہ اگر ایک بار سن سٹروک سے بچ گیا تو دوسری بار بھی بچ جائے گا۔
علیزہ قدرے عدم دلچسپی سے ان کی باتیں سنتی رہی۔ وہ مسلسل عمر کے بارے میں ہی بات کر رہی تھیں۔
”پتہ ہے تمہاری تصویریں دیکھ کر کیا کہہ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا علیزہ پھوپھو کی کاربن کاپی ہے۔ میں نے کہا کہ تمہیں کیسے پتہ، تم کونسا ثمینہ کو اتنا دیکھتے رہے ہو یا علیزہ کو اچھی طرح دیکھ چکے ہو۔ اس کے لئے کسی کو ایک بار دیکھنا ہی کافی ہے۔ اصل میں دو سال پہلے وہ بھی آسٹریلیا گیا ہوا تھا،کچھ دوستوں کے ساتھ سیر وغیرہ کے لئے ، وہاں ثمینہ کے پاس بھی گیا تھا۔ بہت تعریف کر رہا تھا اس کی۔ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا تم بھی اپنی ماں کی طرح باتونی ہو۔ میں نے کہا جب ملو گے تو خود ہی دیکھ لینا،کہ باتونی ہے یا نہیں۔ ابھی کچھ ہی دیر میں اٹھنے ہی والا ہو گا مل لینا اس سے۔ اسے بھی پتہ ہے کہ آج تم آ رہی ہو۔ ”
اسے ابھی بھی نانو کی باتوں میں کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ کوئی بھی جواب دئیے بغیر وہ خاموشی سے چائے پیتی رہی۔
”ممی نے آپ کے لئے کچھ گفٹس بھجوائے ہیں ،ابھی نکال دوں یا پھر کل؟ ”
اس نے ان کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔
”ابھی سامان مت کھولو ،تم تھکی ہو ئی ہوگی ،آرام کرو۔ کل میں خود تمہارے ساتھ سامان کھلواؤں گی۔ پھر دیکھ لوں گی۔ ”
نانو نے اس سے کہا تھا۔ چائے پینے کے بعد نانو نے آرام کرنے کے لئے کہا تھا، اور وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی اور کپڑے تبدیل کئے بغیر ہی بستر پر لیٹ کر سو گئی۔
عمر جہانگیر اس کے لئے کوئی نیا نام نہیں تھا۔ وہ دو ، تین سال کے بعد اکثر چھٹیوں میں اپنے باپ اور فیملی کے ساتھ پاکستان آیا کرتا تھا، اور وہ وہیں ٹھہرا کرتا تھا اور ایسا پچھلے بہت سے سالوں سے ہو رہا تھا۔ مگر اس بار وہ تقریباً چھ سال کے بعد آ یا تھا، اور پہلی بار اس طرح اکیلا آیا تھا۔ علیزہ اور اس کے درمیان رسمی سی ہیلو ہائے تھی۔ اسے ہمیشہ ہی وہ بہت ریزرو لگا تھا۔ بچپن میں بھی وہ اس طرح کا بچہ نہیں تھا جو آ سانی سے دوسرے بچوں سے گھل مل جائے۔ خود علیزہ بھی اسی طرح تھی، اس لئے دونوں کے درمیان کبھی بے تکلفی نہیں ہوئی تھی۔ پھر کئی بار ایسا بھی ہو تا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ چھٹیاں گزارنے پاکستان آتا اور خود علیزہ اپنی ممی کے پاس آسٹریلیا چھٹیاں گزارنے چلی جاتی۔ اس لئے انہیں کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہ ملا تھا، اور اب بھی عمر جہانگیر کی آمد اس کے لئے کسی خاص خوشی کا باعث نہیں بنی تھی۔
اسے اندازہ نہیں ہوا،وہ کتنی دیر سوئی رہی تھی۔ جب دوبارہ بیدار ہوئی تو کمرے میں اندھیرا پھیلا ہو تھا۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہو ئی رسٹ واچ ہاتھ میں لے کر ٹائم دیکھنے کی کوشش کی تھی،ریڈیم ڈائل سات بجا رہا تھا۔ اس نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ آن کر دی۔ وارڈ روب سے کپڑے نکال کے وہ واش روم میں چلی گئی تھی۔ جب وہ لاؤنج میں آئی تو سوا سات ہو رہے تھے۔۔ جب وہ لاؤنج میں آئی تو سوا سات ہو رہے تھے۔
”So the lady is here!”(تو محترمہ یہاں ہیں)۔
نانا نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا، وہ مسکراتے ہوئے جا کر ان سے لپٹ گئی۔
”میں نے دو ، تین بار تمہارے کمرے میں جانے کی کوشش کی لیکن تمہاری نانو نے منع کر دیا کہ تم ڈسٹرب ہو گی...
نانا نے اس سے کہا تھا وہ مسکراتے ہوئے ان کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی تھی، اور اسی وقت اس کی نظر دورکونے میں رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے شخص پر پڑی تھی۔ جو مسکراتے ہوئے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے متوجہ ہونے پر اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ ایک لمبے عرصے کے بعد دیکھنے کے باوجود علیزہ کو اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی تھی۔ پانچ سال پہلے اس نے جب عمر کو دیکھا تو وہ خاصا دبلا پتلا تھا۔ مگر اس وقت وہ ایک لمبے چوڑے وجیہہ سراپے کا مالک تھا۔ وہ اس سے آٹھ سال بڑ ا تھا۔ مگر اپنی قد و قامت کے لحاظ سے وہ اپنی عمر سے بڑا نظر آ رہا تھا۔ وہ بے اختیار کچھ جھجکی۔ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ وہ اسے کیسے مخاطب کرے ، گلا صاف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے کہا۔
)”Hello! How are you?” ہیلو! آپ کیسے ہیں؟)
عمر نے ہلکے سے سر کو نیچے کیا تھا۔
”Oh! I am fine.” (میں ٹھیک ہوں)۔
” It means you have recognized me.” ”Am I right Aleezah?”
اس نے اس طرح اس کی بات کا جواب دیا تھا جیسے وہ اس کا بہت گہرا دوست ہو۔
”Yes! Nano told me about you.” ”She was….!”
وہ عمر سے بات کر رہی تھی جب نانو نے اسے آ واز دی تھی۔
”علیزہ! شہلا کا فون ہے بات کر لو۔ ”
اس نے چونک کر نانو کو دیکھا تھا،ان کے ہاتھ میں کارڈ لیس تھا۔
”Excuse me!”
وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر نانو کے ہاتھ سے کارڈ لیس لے کر ڈائننگ کی طرف چلی گئی تھی۔ شہلا اس کی دوست تھی اور وہ جانتی تھی کہ اب، آدھ گھنٹے سے پہلے وہ فارغ نہیں ہوپائے گی۔ شہلا کو لمبی کالز کرنے کی عادت تھی اور آج تو ویسے بھی ایک ماہ کے بعد اس سے گفتگو ہو رہی تھی۔ وہ کافی دیر تک فون پر اس سے باتیں کرتی رہی ، اور جب فون بند کر کے واپس لاؤنج میں آئی تو عمر وہا ں نہیں تھا۔ وہ نانو اور نانا کے ساتھ باتیں کرتی رہی، اور ان ہی سے اسے پتہ چلا کہ وہ کسی دوست کے ساتھ باہر گیا ہوا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد وہ دیر تک نانا کے ساتھ بیٹھی رہی تھی۔ پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی عمر تب تک واپس نہیں آیا تھا۔
صبح وہ دیر سے اٹھی تھی جب وہ ناشتہ کے لئے آئی تو ساڑھے دس بج رہے تھے۔ خانساماں نے اسے بتایا تھا کہ نانو باہر گئی ہوئی ہیں۔ نانا تو پہلے ہی اس وقت کلب میں ہوتے تھے۔ وہ ناشتہ کر رہی تھی جب عمر بھی وہاں آگیا۔ ہیلو، ہائے کے بعد وہ بڑی بے تکلفی سے اس کے سامنے ہی چیئر کھینچ کر بیٹھ گیا تھا، اور خود بھی ناشتہ کرنے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا ، اس کی مصروفیات کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ آسٹریلیا میں اس کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ علیزہ نے نوٹ کیا وہ پہلے کی نسبت بہت خوش مزاج ہو گیا تھا۔ پہلے کی طرح ریزرو سا نہیں تھا۔ کافی دیر تک انگلش میں دونوں میں گفتگو جاری رہی ، پھر خانساماں اس کے لئے جوس لے کر آگیا تھا۔ پہلی با ر عمر نے بڑی صاف اردو میں اس سے کہا تھا۔
”مجھے ایک پیالے میں دہی لا دیں مگر پہلے دیکھ لیں کہ کھٹا نہ ہو ، اور کل میرے لئے پورج بنائیں، انڈہ فرائی مت کریں ، ابال کر دے دیں۔ ”
اس نے خانساماں کو ہدایات دیں تھیں اور جوس پینے لگا تھا۔
وہ کچھ ہونق سی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اس کی حیرانی بھانپ گیا تھا۔ گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
)”What happened?” کیا ہوا؟(
”آپ تو اردو بول سکتے ہیں!”
اس نے قدرے سٹپٹا کر کہا۔
”ہاں تو بول سکتا ہوں، اس میں حیرانی والی بات کیاہے؟”
اس نے پہلی بار اس کے جملے کا جواب اردو میں ہی دیا تھا۔
”میں سوچ رہی تھی کہ شاید آپ۔۔۔۔۔!
وہ کچھ کھسیانی ہو گئی تھی۔
”یہ کیوں سوچا تم نے، باہر رہنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ بندے کو اپنی زبان بھی نہ آتی ہو گی۔ ”
”پہلے جب بھی آپ آیا کرتے تھے تو کبھی بھی اردو بولتے ہوئے نہیں دیکھا تھا آپ کو،اس لئے میں نے سوچا ۔۔۔۔”
اس نے وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی عمر نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کاٹ دی۔
”پہلے تم سے بھی اتنی لمبی چوڑی باتیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ویسے بھی چھوٹا تھا تب میں۔ ”
اس نے عمر کا چہرہ دیکھا تھا ،وہ خاصا محظوظ نظر آ رہا تھا۔
”پچھلی دفعہ جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تو تم بہت چھوٹی تھیں۔ میرا خیال ہے گیارہ ، بارہ سال کی تھیں اور اب تو……!”
”But I must admit you are prettier now!” (پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت ہو گئی ہو)۔
علیزہ کے گال سرخ ہو گئے، اس نے سر جھکا لیا۔ عمر جہانگیر اسے بہت عجیب لگا تھا اسے یہ بے باکی کچھ زیادہ پسند نہیں آئی تھی۔
“میں دوبارہ کبھی اکیلے اس کے پاس نہیں بیٹھوں گی”، اس نے ٹوسٹ کھاتے ہوئے سوچاتھا۔ وہ ناشتہ ختم کرتے ہی اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ وہ کرسٹی کو لے کر لاؤنج میں ہی بیٹھ گئی۔
عمر ناشتہ دیر سے کیا کرتا تھا اور پھر لنچ نہیں کرتا تھا۔ شام کی چائے بھی وہ اپنے کمرے میں ہی پیتا تھا۔ البتہ رات کا کھانا سب کے ساتھ ہی کھاتا تھا۔ اس دن کے بعد وہ اس سے بہت پہلے ہی ناشتہ کر لیا کرتی تھی۔ اسے آہستہ آہستہ احساس ہونے لگا تھا کہ عمر جہانگیر کے گھر میں آنے کے بعد بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اس کے بہت کم گھر والوں کے پاس موجود رہنے کے باوجود گھر میں بہت کچھ اس کی مرضی اور پسند سے ہور رہا تھا۔ نانا اور نانو کی زیادہ تر گفتگو اسی کے بارے میں ہوتی۔ پہلے کی طرح وہ علیزہ کے بارے میں اتنی باتیں نہیں کرتے تھے۔ کھانے کی ٹیبل پر زیادہ تر ڈشز اس کی مرضی اور پسند کے مطابق بنتی تھیں۔ علیزہ سے کھانے کے بارے میں رائے لینا کم کر دیا گیا تھا۔ نانو ہر وقت اس کی صحت اور آرام کے بارے میں فکر مند رہا کرتی تھیں، اور وہ جیسے گھر میں ثانوی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ یہ سب کچھ اس کے لئے نیا نہیں تھا۔
ہر سال جب بھی اس کے ماموؤں اور خالاؤں میں سے کسی کی فیملی وہاں آتی تھی وہ اسی طرح پس پشت چلی جایا کرتی تھی۔ تب نانا اور نانو کی توجہ صرف آنے والے لوگوں پر ہی مرکوز رہتی تھی۔ مگر اسے یہ سب اتنا برا نہیں لگتا تھا، کیونکہ وہ لوگ صرف چند ہفتے ہی ٹھہرتے تھے۔ مگر عمر جہانگیر کو ابھی بہت عرصہ وہاں رہنا تھا، اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے بڑے آرام سے اس کی جگہ ہتھیا لی ہے۔
اس دن دوپہر کو سو کر اٹھنے کے بعد اس نے حسب معمول کرسٹی کو ڈھونڈنا شروع کیا تھا۔ وہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں تھی۔ اس وقت وہ باہر لان میں بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کی مخصوص جگہوں پر اسے پانے میں ناکام رہنے کے بعد اس نے اسے آ وازیں دینی شروع کر دی تھیں۔ مگر وہ نہیں آئی تھی۔
”نانو کرسٹی کہاں ہے؟”
وہ نانوکے کمرے میں چلی آئی تھی، وہ ابھی آرام کر رہی تھیں۔
”عمر کے کمرے میں دیکھو وہاں ہو گی۔ ”
انہوں نے اسے بتایا۔
”عمر کے کمرے میں……لیکن کرسٹی تو کبھی کسی کے پاس نہیں جاتی۔۔۔۔”
اسے ان کی بات پر جیسے صدمہ ہوا تھا۔
”ہاں! لیکن عمر کے ساتھ بہت اٹیچ ہو گئی ہے۔ تمہارے بعد سارا دن اس کے ساتھ ہوتی تھی۔ ابھی بھی وہیں ہوگی۔”
نانو نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا تھا۔
وہ چپ چاپ ان کے کمرے سے نکل آئی تھی۔ اسے ابھی بھی ان کی بات پہ یقین نہیں آرہا تھا کہ کرسٹی اس کے علاوہ کسی اور کے پاس جا سکتی ہے۔ عمر کے کمرے کے دروازے پر اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے دستک دی تھی۔
”یس! کم ان۔ ”
اندر سے فوراً ہی اس کی آواز ابھری تھی اور وہ دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔
”کرسٹی یہاں تو۔۔۔۔۔”
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ سامنے ہی راکنگ چیئر پر جھول رہا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرا ہاتھ کرسٹی کو سہلا رہا تھا۔ وہ اس کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔ علیزہ کو دیکھ کر بھی کرسٹی نے اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھی رہی تھی۔ علیزہ صدمے اور مایوسی سے اسے دیکھتی رہی۔
”ہاں ! کرسٹی میرے پاس ہے، جاؤ کرسٹی_،،
اس نے کرسٹی کو گود سے اتار دیا، اور کرسٹی بھاگتے ہوئے اس کی طرف آنے لگی۔ علیزہ کو ان دونوں پر بے تحاشا غصہ آیا تھا۔
”Just go to hell.”(دفع ہو جاؤ(
اس نے بلند آواز میں کہا تھا اور زندگی میں پہلی دفعہ پوری قوت سے دروازہ بند کرتے ہوئے بھاگ آئی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی اور شام تک کمرے سے باہر نہ نکلی تھی۔ شام تک اس کا غصہ تشویش میں بدل چکا تھا۔ وہ پریشان تھی کہ اگر عمر نے نانو کو اس کی اس حرکت کے بارے میں بتا دیا تو وہ کیا سو چیں گی۔ اسے اپنی اس حرکت پر افسوس ہو رہا تھا۔ اسے خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کس بات پر غصہ آ یا تھا۔ کرسٹی کے کسی اور کے پاس چلے جانے پر یا عمر کے پاس جانے پر ،یا اس کو دیکھ کر بھی اس کے پاس نہ آنے پر ، یا پھر عمر کے کہنے پر اس کے پاس آ نے پر۔
جب وہ لاؤنج میں آئی تو کرسٹی وہیں بیٹھی ہوئی تھی۔ علیزہ کو دیکھتے ہی اس نے اس کے پاس آ نے کی کوشش کی تھی مگر علیزہ نے اسے درشتی سے اپنے سے دور ہٹا دیا تھا۔
عمر رات کے کھانے کے لئے معمول کے مطابق اپنے کمرے سے آیا تھا۔ وہ جس بات پر خوفزدہ ہوئی تھی ویسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ اسے د یکھ کر ہمیشہ کی طر ح مسکرایا۔ پھر ویسے ہی کھانے کے دوران اسی طرح سب سے باتیں کرتا رہا تھا جیسے وہ ہمیشہ کیا کرتا تھا۔ وہ سر جھکائے خاموشی سے کھانا کھاتی رہی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیاتھا۔ علیزہ نے سکون کا سانس لیا تھا۔
اگلے چند د ن بھی ا سی طرح گزر گئے۔ عمر نے اس واقعہ کے بارے میں نانا ، نانو یا اس سے کوئی بات نہیں کی تھی لیکن علیزہ نے نوٹ کیا تھا کہ اس نے دوبارہ کرسٹی کو بلانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کرسٹی اس کے نظر آنے پر اگر اس کی طرف جانے کی کوشش کر تی بھی تو وہ اسے نظر انداز کر دیتا ۔ اس کا مطلب تھا وہ اس کے اس دن کے غصے کی وجہ جان گیا تھا۔
”مرید بابا! آج رات کے کھا نے پر میرے لئے تھوڑی سی سبزی بنا لیں۔ ”
اس دن کافی دنوں کے بعد علیزہ نے رات کے کھانے کے لئے کوئی فرمائش کی تھی۔ رات کو کھانے کی ٹیبل پر اس نے بڑی خوشی کے ساتھ ڈونگے کا ڈھکن اٹھایا تھاساتھ ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔
”نانو سبزی میں چکن کیوں ڈالا ہے،مرید بابا نے۔ انہیں پتہ ہے میں ہمیشہ چکن کے بغیر ہی سبزی کھاتی ہوں؟”
اس نے کچھ حیرانی کے عالم میں نانو سے کہا تھا۔
”میں نے کہا تھا چکن ڈالنے کے لئے۔ میں عمر کو رات کے کھانے کے بارے میں بتا رہی تھی۔ اس نے کہا کہ سبزی بن رہی ہے تو چکن والی بنا لیں میں بھی تھوڑی کھا لوں گا۔” علیزہ نے ڈونگے کا ڈھکن ہاتھ میں پکڑے پکڑے ٹیبل کی دوسری طرف عمر کو دیکھا۔ وہ اپنی پلیٹ میں چاول نکا ل رہا تھا۔ ٹیبل پر پڑی ہوئی ساری چیزیں یا تو عمر کی مرضی سے بنی تھیں یا پھر نانواور نانا کی ۔ اس نے آسٹریلیا سے و اپس آنے کے بعد پہلی فرمائش کی تھی، اور …یک دم ہی اس کی بھوک غائب ہو گئی تھی۔
کچھ افسردگی سے اس نے دوبارہ ڈونگے پر ڈھکن رکھ دیا، اور جب اس نے چمچ بھی رکھ دیا تو نانو اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
”کیوں کیا ہوا ، سبزی نہیں لی؟”
وہ کرسی کھینچ کر کھڑی ہو گئی۔ عمر نے اسے پہلی بار چونک کر دیکھا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔ ”
”یہ کیا حماقت ہے، ابھی تم کھانے کے لئے بیٹھی تھیں ابھی بھوک ہی ختم ہو گئی ہے۔ بیٹھ جاؤ۔ ”
نانا نے اسے کہا تھا۔
”میں دودھ پی لوں گی۔ ”
وہ چل پڑی تھی۔
”دودھ سے کیا ہو گا ، علیزہ! واپس آؤتھوڑا سا ہی سہی لیکن کھانا کھاؤ۔ ”
.....
نانو نے اسے واپس بلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ پیچھے مڑے بغیر ہی وہاں سے چلی گئی۔ عمر حیرانی سے اسے جاتے دیکھتا رہاتھا۔
”اسے کیا ہوا؟ کیاناراض ہو کر گئی ہے؟”اس نے ڈائننگ سے نکلتے ہوئے اپنے پیچھے عمر کی آواز سنی تھی۔
”نہیں علیزہ کبھی ناراض نہیں ہوتی، اسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ شاید ویسے ہی بھوک ہی نہیں تھی۔ میں ابھی پوچھوں گی جا کر ۔”
نانو نے نے اس کے جانے کے بعد عمر سے کہا تھا۔
وہ کچھ دیر سبزی کے ڈونگے کو دیکھتا رہا پھر کھانا کھانے لگا مگر اس کا ذہن الجھ چکا تھا۔
نانو کھانے سے فارغ ہو کر سیدھا اس کے کمرے میں آئی تھیں،اور اسے لمبا چوڑا لیکچر دیا۔
”مجھے حیرانی ہو رہی ہے علیزہ ! کہ تم نے میری بات بھی نہیں سنی اور اس طرح اٹھ کر باہر آ گئیں۔ کیا سوچ رہا ہو گا عمر کہ تم کتنی بد تمیز لڑ کی ہو۔ ”
وہ واقعی خفا تھیں۔
”I am sorry.” (مجھے افسوس ہے)
وہ ہلکے سے منمنائی۔
”اب اس کا کیا فائدہ ، بہرحال آئندہ خیال رکھنا کہ ایک بار ڈائننگ ٹیبل پر آ نے کے بعد اس طرح اٹھ کر نہیں آتے۔ وہ بھی اس وقت جب سب کھانا کھا رہے ہوں۔ تمہارا دل کھانے کو نہیں چاہ رہا تھا تم سلاد لے لیتیں یا سویٹ ڈش لے لیتیں، مگر تمہیں وہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔ ”
نانو اسے مینرز کی وہی پٹی پڑھا رہی تھیں جوہمیشہ سے ہی پڑھاتی آ ئی تھیں۔ وہ خاموشی سے ان کی بات سنتی رہی، اس کی رنجیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”ضرور عمر نے ان سے میرے بارے میں کچھ کہا ہو گا۔ ”
وہ ان کی باتوں پر اس سے اور بد گمان ہو تی جا رہی تھی۔
”میں نے مرید سے کہہ دیا ہے وہ ابھی تمہیں دودھ میں اوولٹین ملا کر دے جائے گا۔ اب مجھے کوئی اعتراض نہیں سننا ہے۔ ”
نانو نے اٹھتے ہوئے اسے اطلاع دی تھی اور ساتھ ہی اس کے متوقع رد عمل پر خبر دار کر دیاتھا۔ وہ کچھ کہتے کہتے چپ ہو گئی۔ نانو کمرے سے نکل گئی تھیں وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی۔ عمر جہانگیر آج اسے سب سے زیا دہ برا لگ تھا۔ جو واحد چھوٹی چھوٹی چیزیں اس کی مرضی سے ہوتی تھیں اب ان میں بھی اس کا عمل دخل ختم ہو گیا تھا۔ مرید بابا نے کچھ دیر بعد دودھ لا دیا تھا، اس نے خاموشی سے دودھ کا گلاس لے کر پی لیا۔ پھر وہ سونے کے لئے لیٹ گئی تھی، لیکن سونے کی کوشش میں اسے بہت دیر لگی تھی۔
اگلے کچھ دن میں اس میں یہ تبدیلی آ گئی تھی کہ اس نے عمر سے بات کر نا بند کر دیا تھا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں وہ پہلے والی ہوں ہاں بھی نہیں کرتی تھی جب تک وہ باقاعدہ اس کا نام لے کر بات نہ کرتا۔
اس دن وہ لاؤنج میں کارپٹ پر فلورکشن کے سہارے بیٹھی کوئی میگزین دیکھ رہی تھی۔ تب ہی اس کے ذہن میں ایک خیال آیا تھا اس نے احتیاط سے نانو کا موڈ دیکھنے کی کوشش کی تھی پھروہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
”نانو ایک بات پوچھوں؟ ”
اس نے ہو لے سے کہا تھا۔
”ہاں! پوچھو۔ ”
وہ اخبار میں غرق تھیں۔
”یہ عمر واپس کب جائے گا؟”
اس نے کافی احتیاط سے لفظوں کا انتخاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
”بہت جلد، مائی ڈئیر کزن بہت جلد!”
سوال کا جواب کہیں اور سے ملا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر بالکل ساکت بیٹھی اپنے سوال کا کوئی بہانہ سوچنے لگی۔
اب وہ اس کی پشت سے ہو کر اس کے بالکل سامنے آکر نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔
” بلکہ آپ جب چاہیں مجھے نکال دیں یہاں سے ۔ ”
اس نے علیزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
”فضول باتیں مت کرو، کوئی نہیں نکال رہا تمہیں یہاں سے۔ تمہاری وجہ سے تو رونق ہو گئی ہے گھر میں۔”
نانو نے اسے پیار سے جھڑکتے ہوئے اس کے گال چھوئے تھے۔ علیزہ نے کچھ کہنے کی بجا ئے میگزین اٹھایا اور وہاں سے واپس آ گئی تھی۔ کچھ شرمندگی کے عالم میں وہ لان میں آکر بیٹھ گئی تھی۔
چند منٹوں بعد اس نے قدموں کی چاپ سنی تھی، عمر اس کی طرف آ رہا تھا۔ وہ کچھ جھنجلا گئی، وہ قریب آکر ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔
”میں بہت دنوں سے تم سے ایک بات کہنا چاہ رہا تھا بلکہ شاید بہت سی باتیں، مگر تم نظر انداز کر رہی تھی۔ ”
”مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھے ناپسند کیوں کرتی ہو؟”
وہ اس کے اتنے ڈائریکٹ سوال پر کچھ گڑ بڑا گئی تھی۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے؟”
وہ کھڑی ہو گئی تھی۔
”تم بیٹھ جاؤ ورنہ میں تمہیں پکڑ کے بٹھا دوں گا۔ ”
وہ پہلی بار بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ وہ خود بھی کھڑا ہو گیا تھا،وہ کچھ خفگی کے عالم میں سامنے بیٹھ گئی تھی۔
عمر نے درمیان میں پڑاہوا ٹیبل کھینچ کر ایک طرف کر دیا اور پھر اپنی کرسی کھینچ کر سیدھا اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔ وہ اس کے اتنے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ وہ نر وس ہو گئی۔
”ہاں ! اب بتاؤ۔ ”
”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں آ پ کو ناپسند نہیں کرتی ہوں۔ ”
”ویری گڈ لیکن پھر تمہیں میرا یہاں رہنا اچھا کیوں نہیں لگ رہا؟”
”ایسا نہیں ہے۔ ”
”ایسا ہی ہے۔ اگر تم چاہو تو میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ ”
”یہ میرا گھر نہیں ہے کہ میں یہاں سے کسی کو نکالوں۔ ”
وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنی خفگی ظاہر کر بیٹھی۔
”دیکھو میں کچھ باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں ،میں نہیں چاہتاکہ میری وجہ سے اس گھر میں کوئی تناؤ آئے۔ یہ گھر تمہارا تھا، اور رہے گا۔ مجھے تو یہاں رہنا نہیں ہے۔ چند ماہ کے بعد میں یہاں سے واپس لندن چلا جاؤں گا۔ میرا یہاں قبضہ جمانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے،پھر میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کس بات پہ اتنی ناراض ہو۔ شکایت کیا ہے تمہیں مجھ سے؟ میرا تو خیال تھا کہ میں خاصا بے ضرر آدمی ہوں۔ ”
”مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے ، لیکن آپ گھر میں ہر چیز کو dominate کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سارا کھانا آپ کی پسند کے مطابق بنتا ہے،ٹھیک ہے آپ مہمان ہیں لیکن جو چیز میں کرنا چاہتی ہوں اس میں تو کسی دوسرے کی مرضی__
عمر نے اس کی بات کاٹ کر دی۔
”تم اس دن ڈش والے واقعہ کی بات کر رہی ہو۔ ٹھیک ہے میں آئندہ ایسی کوئی مداخلت نہیں کروں گا، اور کوئی اعتراض؟ ”
”نہیں اور کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ”
وہ اب وا قعی شرمندہ ہو نے لگی تھی۔
”بس ٹھیک ہے، آئندہ تم اپنا موڈ میری وجہ سے خراب مت کرنا، اور اگر میری کوئی بات بری لگے تو بس مجھ سے آ کر کہہ دینا۔ ”
عمر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے جھینپتی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا تھا۔ عمر نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑ اتھا بلکہ خود بھی کھڑا ہو گیا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس نے قدم بڑ ھائے تھے۔
”اب تمہاری ناراضگی دور ہو گئی ہے،اس لئے میں تمہیں کوئی اچھی سی چیز دوں گا۔ ”
وہ کسی ننھے بچے کی طرح اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے اندر لے گیا تھا۔ نانو ابھی بھی لاؤنج میں بیٹھی ہوئی تھیں۔
”گرینی! میں اور علیزہ بہت اچھے دوست بن گئے ہیں۔ میں علیزہ کے لئے کچھ لایا ہوں۔ ”
اس نے اندر آتے ہی اعلان کیا تھا،وہ اسے اسی طرح ہاتھ پکڑے اپنے کمرے میں لے گیا تھا۔
کمرے میں داخل ہونے کے بعد عمر نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
”گرینی نے بتایا تھا، تمہیں پرفیومز بہت اچھے لگتے ہیں۔ یہ تمہارے اور میرے درمیان پہلی کامن چیز ہے۔ مجھے بھی پرفیومز بہت پسند ہیں۔ ”
وہ اس کی طرف پشت کئے ،ڈریسنگ ٹیبل کی دراز کھول کر کچھ تلاش کرتے ہوئے بول رہا تھا۔ علیزہ کی نظریں ڈریسنگ ٹیبل پر مرکوز تھیں۔ جہاں پر پرفیومز کا ایک ڈھیر موجود تھا۔ وہ بے اختیار کچھ آگے بڑھ آئی تھی۔
”عام طور پر مرد کبھی عورتوں کے پرفیومز استعمال کرنا پسند نہیں کرتے،مگر میں ہر وہ پرفیوم خرید لیتا ہوں جو مجھے پسند ہو۔ چاہے وہ خواتین کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ استعمال کروں یا نہ کروں لیکن پاس رکھنے میں کیا حرج ہے۔ ”
اس سے باتیں کرتے ہوئے اس کی تلاش ابھی بھی جاری تھی۔ پھر جیسے اسے وہ چیز مل گئی تھی۔ وہ سیدھاہونے کے بعد اس کی طرف مڑا علیزہ نے اس کے ہاتھ میں Chanel 5 کی ایک پیکڈ شیشی دیکھی تھی۔
مسکراتے ہوئے اس نے ہاتھ علیزہ کی طرف بڑھا دیاتھا۔
”یہ تمہارے لئے ہے۔ ”
علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔
”میرے لئے ؟”
اس نے سوالیہ لہجہ میں پوچھا۔
”ہاں دوستی کرنے کے لئے اس سے اچھا گفٹ تو کوئی نہیں ہو سکتا، اور میں اپنے فرینڈزکو ہمیشہ پرفیومز ہی گفٹ کرتا ہوں۔ ”
وہ ہاتھ بڑھائے کہہ رہا تھا۔ علیزہ نے ایک بار پھر اس کے ہاتھ کو دیکھا ،وہ کچھ جھجک گئی تھی۔
”Just take it!”
عمر نے ایک بار پھر اس سے کہا تھا۔
”مگر میں۔۔۔۔”
اس نے کہنے کی کوشش کی تھی مگر عمر نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”اگر مگر کرنے کی ضرورت نہیں بس یہ لے لو۔ ”
اس نے بڑے مستحکم لہجہ میں کہا تھا۔
کچھ جھجکتے ہوئے اس نے عمر کے ہاتھ سے پرفیوم پکڑلیا تھا۔
”مجھے یہ تو نہیں پتا کہ تمہارا فیورٹ پرفیوم کون سا ہے مگر مجھے بہت اچھا لگتا ہے، اگر کوئی لڑ کی یہ پرفیوم استعمال کرے۔ ویسے تمہیں کونسا پرفیوم پسند ہے۔ ”
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔
”مجھے وہ سارے پرفیوم پسند ہیں جو لڑکوں کے لئے ہوتے ہیں۔ ”
اس کی اس بات پر عمر ایک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا....
” گڈ تمہارے اور میرے درمیان یہ دوسری کامن چیز ہے۔ پھر توتمہیں شینل 5کے بجائے212 Men دینا چاہئے تھا۔ ”
اس نے ایک دوسرے پرفیوم کا نام لیتے ہوئے کہا تھا۔
”نہیں مجھے Eternityاور Joy زیادہ پسند ہیں۔ ”
علیزہ نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”اور مجھے Baby Dollاور Ripple”
عمر نے اپنی پسند بتائی تھی ۔ علیزہ کو یک دم اس میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔
”عمر اتنا برا نہیں ہے جتنا میں سمجھ رہی تھی۔ وہ اچھا ہے۔ ”
اس نے فوراً نتیجہ اخذ کر لیا تھا۔
”کیا میں یہ پرفیوم دیکھ لوں ؟”
اس نے ہاتھ سے ڈریسنگ کی طرف اشارہ کیا تھا۔
”Sure why not?” (ہاں ، کیوں نہیں۔)
عمر نے دوستانہ انداز میں کہا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے ہٹ گیا تھا۔
وہ بڑے متجسس انداز میں ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی۔ پرفیومز کا انبار دیکھ کر اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کونسا پرفیوم پہلے اٹھا کر دیکھے۔ اس نے سب سے پہلے سب سے چھوٹی شیشی اٹھائی۔ وہ White Linen تھا۔ وہ باری باری ہر شیشی اٹھا کر دیکھتی رہی۔ کچھ پر فیومز بالکل استعمال نہیں کئے گئے تھے۔
”میں ہر ماہ کچھ اور خریدوں یا نہ خریدوں لیکن پرفیومز ضرورخریدتا ہوں۔ ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ”
وہ پاس کھڑا بتا رہا تھا۔
”لیکن آپ پرفیومز زیادہ استعمال تو نہیں کرتے۔ ”
علیزہ نے ایک پرفیوم ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا تھا۔
”دن میں نہیں لگاتا، رات میں لگاتا ہوں۔ ”
علیزہ نے اس کے جواب پر کچھ حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔
”سونے سے پہلے۔ ”
وہ اس کی حیرانی کی وجہ جیسے جان گیا۔
”کیوں؟”
وہ کچھ اور ہی الجھی تھی۔
”دن کے وقت آپ اتنے بہت سے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں کہ پرفیوم انجوائے نہیں کر سکتے۔ ہمارا دھیان دوسری چیزوں کی طرف ہوتا ہے۔ ہاں رات کو آپ کسی بھی پرفیوم کی مہک کو بہت اچھی طرح انجوائے کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ کسی بھی مہک کو اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔اس وقت senses بہت شارپ ہوتی ہیں۔ ”
علیزہ نے بہت توجہ سے اس کی فلاسفی سنی اب وہ اسے خود کچھ پرفیوم دکھا رہا تھا۔ پھر اس نے ایک چھوٹی سی بوتل اٹھائی تھی۔ اس کی طرف وہ بوتل بڑھاتے ہوئے اس نے کہا تھا” یہ Enigmaہے۔ اس ٹیبل پر سب سے قیمتی چیز Extracted Essence ہے۔ یہ پاپا نے گفٹ کیا تھا، ورنہ میں اسے افورڈ نہیں کر سکتا۔ بہت احتیاط سے میں اسے استعمال کرتا ہوں تاکہ یہ جلدی ختم نہ ہو۔ ”
علیزہ کی توجہ اس شیشی پر مرکوز تھی۔ اسے ہاتھ میں لے کر اس نے خوشبو کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔ سانس اندر کھینچتے ہی اس نے اپنے اندر ایک عجیب سی تازگی محسوس کی۔
”Exotic” علیزہ نے بے اختیار کہا تھا۔
اس کے ریمارکس پر عمر کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ علیزہ نے ایک دو بار سونگھنے کے بعد اس چھوٹی سی شیشی بند کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ نہیں جانتی کیا ہوا تھا مگر شیشی ایک دم اس کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی، اس کے ہاتھ میں صرف ڈھکن رہ گیا تھا۔ ایک ثانیے میں شیشی ڈریسنگ ٹیبل پہ گری اور پھر وہاں سے اچھل کر نیچے کارپٹ پرگری۔ علیزہ نے بے اختیار اسے پکرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ کمرہ یک دم تیز خوشبو سے بھر گیا۔ علیزہ نے مایوسی سے شیشی اٹھالی تھی ۔ اس میں اب صرف چند قطرے باقی تھے۔ اس نے شرمندگی سے عمر کو سر اٹھا کر دیکھا۔
”پتہ نہیں کیسے…۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا ، وہ بات کیسے مکمل کرے۔
وہ چند لمحے خاموشی سے اسے چہرہ دیکھتا رہا ، اور پھر اس نے سکون سے ہاتھ بڑھا کر اس سے شیشی اور ڈھکن لے لیا تھا۔
”it’s alright.”
” یہ قیمتی تھا مگر میرا فیورٹ نہیں۔ ”
علیزہ اس کی اس بات پر ایک دم اضطراب کا شکا ر ہو گئی تھی۔
”I am sorry، میری وجہ سے۔۔۔۔۔!”
اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر عمر کی حرکت نے اسے ہکا بکا کر دیا تھا۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے ایک اور پرفیوم اٹھایا اور دیوار پرکھینچ مارا۔ شیشی ٹوٹتے ہی کمرہ ایک بار پھر تیز خوشبو سے بھر گیاتھا۔
”چیزیں ٹوٹنے کے لئے ہی ہوتی ہیں ،اور بعض دفعہ تو چیزیں توڑنے میں مزہ آتا ہے۔ ہے نا علیزہ! آؤ ایک ایک پرفیوم اور توڑیں۔ ”
اس نے پرسکون انداز میں کہتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل سے دو پرفیوم اٹھا لئے اور ایک اس کی طرف بڑھا دیا۔ وہ جیسے کرنٹ کھاکر پیچھے ہٹی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
”آپ بہت عجیب ہیں۔ ”
اس نے کچھ بے چین ہو کر عمر سے کہا تھا۔
”اس کو میں کیا سمجھوں، complimentیا Comment (تعریف یا تبصرہ)
عمر کا اطمینان برقرار تھا۔ وہ یک دم بہت الجھ گئی تھی۔ عمر نے دونوں پرفیوم ایک بار پھر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دئیے، اور پھر ایک اور پرفیوم اٹھاکر اس کی طرف بڑھایا Ecstacy یہ میں تب لگاتا ہوں جب خود کو بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں۔ ”
اس نے سلسلہ وہیں سے جوڑنے کی کوشش کی تھی ، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ علیزہ نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ وہ اب اس کمرے سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ وہاں اس کی ساری دلچسپی یک دم ختم ہو گئی تھی۔
”یہ پرفیوم نہیں دیکھنا چاہتیں؟”
عمر نے بڑے دوستانہ انداز میں پوچھا۔ علیزہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ عمر نے اس کی آنکھوں میں ابھرتی ہوئی نمی کو دیکھ لیا تھا، اور کمال مہارت سے نظر انداز بھی کر دیا تھا۔Chanel 5 کی بوتل اٹھا کر اس نے ڈھکن اتارا تھا اور پھر بڑے آرام سے علیزہ کے بالوں پر اس نے اسپرے کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بے اختیار ایک قدم پیچھے ہٹی تھی۔ اسے اپنی گردن اوربالوں پر نمی محسوس ہوئی۔
”یہ پرفیوم دنیا کی سب سے اچھی اور precious (مکمل) لڑکیوں کے لئے ہو تا ہے، اور علیزہ میرا خیال ہے ،تم ان لڑکیوں میں شامل ہو۔”
اس نے سائفن کو پریس کرنا چھوڑ دیا۔ ڈھکن بند کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر پرفیوم ٹیبل پر رکھ دیا۔ علیزہ کی سمجھ میں ہی نہیں آیا وہ کس قسم کا رد عمل ظاہر کرے ، عمر بہت عجیب قسم کا تھا۔ اس نے chanel5اٹھا کر باہر نکلنا چاہا تھا۔
”اب تو تم ناراض نہیں ہو نا؟”
علیزہ نے اپنے پیچھے عمر کی آواز سنی تھی۔ اس نے مڑ کر عمر کودیکھا تھا۔ وہ وہیں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
علیزہ نے کچھ کہنے کی بجائے صرف سر ہلا دیا۔ عمر کی مسکراہٹ کی دلکشی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
“So Aleezah we are friends, and true friends are friends for ever.”
(تو علیزہ ہم دوست ہیں اور سچے دوست ہمیشہ دوست رہتے ہیں۔)
علیزہ نے اسے کہتے ہوئے سنا تھا۔ اس کے چہرے پر بھی ایک مسکراہٹ نمودار ہو گئی تھی۔
باب:3
کمرے کا دروازہ یک دم کھل گیاتھا۔ وہ یک دم ہڑ بڑا گئی تھی،اور کمرہ ایک بار پھر اس وجود سے خالی ہو گیا تھا۔
”علیزہ بی بی ! مجھے بیگم صاحبہ نے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہی ہیں، کمرے کی سیٹنگ بدلنی ہے۔ تو مجھے بتا دیں، میں چیزیں اٹھا کر ادھر ادھر کر دوں گا۔ ”
ملازم نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا تھا۔ وہ کچھ دیر خالی الذہنی کی کیفیت میں اسے دیکھتی رہی ، پھر جیسے وہ اپنے حواس میں آگئی۔ اس نے پرفیوم کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”ہاں میں کچھ چیزیں ادھر ادھر کروانا چاہتی ہوں ، مگر پہلے تم اسٹور روم میں جا کر وہ پردے نکالو جو پچھلے ماہ تم نے یہاں سے اتارے تھے۔ ”
علیزہ نے اسے ہدایات دینا شروع کر دیا تھا۔
”وہ نیلے والے !”
ملازم نے علیزہ سے پوچھا تھا۔
”ہاں ! وہی والے ، اور دیکھو ویکیوم بھی لے آؤ۔ ”
ملازم نے اس کی ہدایات پر سر ہلانا شروع کر دیا۔ وہ واپس مڑ رہا تھا جب علیزہ نے ایک بار پھر اسے روکا۔
”اچھا دیکھو، واپس آؤ تو ساتھ حاکم کو بھی لیتے آنا۔ میں چاہتی ہوں کہ کمرہ جلدی صاف ہو جائے۔ ”
اس نے ملازم کو روک کر اسے مزید ہدایات دی تھیں۔
”جی ٹھیک ہے!”
ملازم کمرے سے نکل گیاتھا۔
وہ ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لینے لگی تھی۔ کمرے میں بہت سے ان ڈور پلانٹس رکھے ہوئے تھے،اور یہ سب عمر کی چوائس تھے۔ اسے جن چند چیزوں میں دلچسپی تھی ،ان میں باغبانی بھی تھی۔ وہ جتنا عرصہ وہاں رہا تھا اس نے گھر کو اپنی پسند کے ان ڈور پلانٹس سے بھر دیا تھا۔ مہینے میں ایک دن وہ ان سب پودوں کو لے کر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ ان کی تراش خراش کرتا، ان میں کھاد ڈالتا، ان پر دواؤں کا سپرے کرتااور اپنے کمرے میں ان کی جگہ بدلتا رہتا۔ اس کے جانے کے بعد یہ کام علیزہ نے سنبھال لیا تھا۔
”ان پلانٹس کو باہر لان میں لے آؤ۔ ”
ملازم جب پردے لے آیا تھا تو علیزہ نے اسے ایک نئی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ وہ خود بھی کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ ملازم باری باری سارے پلانٹس باہر لے آیا۔ علیزہ نے پودوں کو دیکھنا شروع کر دیا، اس نے ان کی کٹنگ شرو ع کر دی تھی۔ وہ منی پلانٹ کو دیکھ رہی تھی چند چھوٹی شاخیں خشک ہو کر لٹک رہی تھیں،اس نے اسے چھانٹنا شروع کر دیاتھا۔ وہ بڑی احتیاط سے بیل کی شاخوں اور پتوں کو کاٹ رہی تھی۔ صرف ایک لمحہ کے لئے اس کا دھیان کہیں اور گیا خشک شاخ کے ساتھ ایک ہری بھری شاخ بھی کٹ گئی تھی۔ وہ یک دم ساکت ہوگئی تھی۔
”کوئی بات نہیں۔ ایسا ہو جاتا ہے۔ تم دیکھنا، اب یہ بہت تیزی سے بڑھے گا اور پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو جائے گا۔ مجھ سے جب بھی کوئی پلانٹ اس طرح کٹتا ہے پھر وہ پہلے سے بہت اچھا ہو جاتا ہے۔”
باب: 4
وہ پرفیوم اپنے کمرے میں رکھ کر لاؤنج میں آگئی تھی۔ وہ پہلے ہی نانو کے پاس موجود تھا۔ نانو اسے دیکھ کر مسکرانے لگی تھیں۔
”عمر نے کون سا گفٹ دیا ہے تمہیں؟”
انہوں نے علیزہ کو دیکھتے ہی پوچھا تھا۔
وہ مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”انہوں نے آپ کو بتایا نہیں؟”
اس نے عمر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا ، جو دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”نہیں! وہ کہہ رہا تھا کہ یہ ایک سیکرٹ ہے ، مگر علیزہ آپ کو بتاسکتی ہے۔ ”
نانو نے بتایا تھا۔ علیزہ نے ایک بار پھر اسے دیکھا تھا۔
”پرفیوم دیا ہے۔ ”
اس نے آہستہ آواز میں بتایاتھا۔
”کونسا پرفیوم؟”
نانو کو تجسس ہوا۔
”Chanel 5”
”تمہارا فیورٹ پرفیوم۔ کیوں عمر ! تمہیں کیسے پتہ چلا ، کہ علیزہ کو پرفیوم سب سے زیادہ پسند ہے؟”
نانو نے عمر سے پوچھا۔
عمر نے اسے دیکھا تھا وہ نظریں چرا گئی تھی۔
”ہمیں ہر چیز کا پتہ ہو تاہے۔ ”
اس نے ایک جملے میں جواب دیاتھا۔
”اگلی بار میں علیزہ کو Joyدوں گا اور اس کے بعد ” Eternity ”
چند لمحوں کے بعد اس نے اپنا پروگرام بتایاتھا۔
علیزہ نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ نانو کو دیکھ رہا تھا، اس طرف متوجہ نہیں تھا۔ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی۔
”کیا یہ……!”
اور وہ آگے نہیں سوچ سکی تھی۔
نانو نے اسے مخاطب کیا تھا۔
”دیکھ لو علیزہ عمر نے کتنی لمبی پلاننگ کر لی ہے۔ تمہیں بھی اسے کچھ دینا چاہئے۔ ”
وہ نانو کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔
”مجھے کیا دینا چاہئے ؟”
اس نے الجھے ہوئے انداز میں نانو سے پوچھاتھا۔
”بھئی یہ تو تمہیں سوچنا چاہئے۔”
انہوں نے اپنا دامن چھڑا لیاتھا۔
”گفٹ ہمیشہ بڑوں سے لیتے ہیں ، چھوٹوں سے نہیں اور علیزہ مجھ سے چھوٹی ہے۔ ”
عمر نے بڑی مہارت سے بات پلٹی تھی۔
”ہاں ! مجھے اگر کوئی گفٹ دینا ہی چاہئے تو گرینڈ پا!آپ ہی دے دیں۔ کیونکہ آپ مجھ سے بڑے ہیں۔”
”کیا گفٹ چاہئے ؟”
نانا کو بھی یک دم دلچسپی محسوس ہوئی تھی ۔
”کوئی بھی اچھی چیز،Armaniکا سوٹ، ڈینم کی جینز،کرسچن ڈی اور کی گھڑی، یا پھر Play Boy اور Lomaniکے پرفیومز۔ ”
اس نے ایک لمبی لسٹ گنوائی تھی۔
”اس سے بہتر نہیں کہ میں تمہیں چیک کاٹ کر دے دوں۔”
”ہاں یہ زیادہ بہتر آئیڈیا ہے۔ آپ بہت Innovative(جدت پسند) ہیں۔”
عمر نے شرارتی انداز میں کہا تھا علیزہ خاموشی سے ان کی نوک جھوک سنتی رہی تھی.....
نانو بہت سنجیدہ مزاج تھیں۔ وہ بہت زیادہ نہیں بولتی تھیں۔ مگر جب سے عمر آیا تھا سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ اب اکثر قہقہہ لگانے لگی تھیں عمر بہت باتونی تھا، اور اس کی حس مزاح بہت اچھی تھی۔ وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بات ضرور کر دیتا تھا جو ان کو قہقہہ لگا نے پر مجبور کر دیتی تھی۔ نانو عام دنوں میں صرف ضرورت کے وقت ہی بولتی تھیں، لیکن جن دنوں ان کے بچوں میں سے کوئی ان کے پاس رہنے آتا تو پھر ان دنوں وہ بہت خوش پھرا کرتی تھیں۔ مگر عمرکی آمد نے تو جیسے اس خوشی کو دوبالا کر دیا تھا۔ کسی اور کے آنے پر نانو اور نانا میں اتنی تبدیلیاں کبھی نہیں آئی تھیں ، جتنی عمر کے آ نے پر آ گئی تھیں۔
اس وقت بھی نانو کا موڈ ہی دیکھ رہی تھی۔ نانو اب عمر کی باتوں پر بے تحاشا ہنس رہی تھیں۔ وہ انہیں اپنے کسی دوست کا قصہ سنا رہا تھا۔ علیزہ کا دھیان کہیں اور ہی تھا۔
”کیا میری کسی بات پر نانو اس طرح سے ہنس سکتی ہیں؟”
اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی اور مایوسی سے غیر محسوس انداز میں سر کو جھٹک دیا تھا۔
”نہیں ،میری کسی بات پر تو یہ کبھی اس طرح نہیں ہنس سکتیں۔ بلکہ یہ تو مجھے بھی یہی کہتی ہیں کہ میں بھی بلند آواز میں نہ ہنسوں۔”
اس نے سوچا تھا۔
”کیا میں کبھی عمر کی طرح……!”
ایک بار پھر اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی۔ ایک بار پھر اس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیاتھا۔
”علیزہ ! تمہارے کتنے فرینڈز ہیں؟”
عمر نے اس سے پوچھا تھا۔
”کتنے؟”
وہ اس کے سوال پر کچھ حیران ہوئی تھی۔ چند لمحے تک اس نے کچھ جواب نہیں دیا۔
”جلدی گنتی کرو اور مجھے بتاؤ۔”
عمر نے اس کی خاموشی سے خود ہی نتیجہ اخذ کر لیاتھا۔
”کیا گنتی کروں؟”
وہ کچھ اور حیران ہوئی تھی ۔
”بھئی فرینڈز اور کیا۔”
عمر نے کہا تھا۔
”میری صرف ایک فرینڈ ہے۔”
”I can’t believe it! لڑکیوں کی کم از کم ایک دوست تو نہیں ہو سکتی۔”
عمر کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا، اور علیزہ اس کے چہرے کے تاثرات سے جھنجلا گئی تھی۔
”یار!لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ سوشل ہوتی ہیں، اور ظاہر ہے پھر فرینڈز تو بننا ہی ہوتے ہیں۔”
عمر کو فوراً ہی اس کی خفگی کا اندازہ ہو گیا۔ اس نے سنبھل کر ایک لاجک پیش کی۔
”میں بہت زیادہ سوشل نہیں ہوں۔”
اس نے جیسے جتایاتھا۔
”But you should be.”، (لیکن تمہیں ہونا چاہئے)کیوں گرینی! میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔”
عمر نے بات کرتے کرتے دادو کی طرف دیکھا۔ وہ یکدم چپ سی ہو گئی تھیں۔
”نہیں عمر! لڑکیوں کے لئے زیادہ سوشل ہونا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ آج کل پتہ ہی نہیں ہو تا دوسرے لوگ کس طرح کے ہوں۔”
نانو نے کچھ محتاط ہو کر توجیہہ پیش کی۔
”What do you mean?”
وہ کچھ حیران ہو گیا تھا۔
”کچھ نہیں، بس ویسے ہی……اصل میں علیزہ کو زیادہ لوگوں میں مکس اپ ہونا اچھا نہیں لگتا۔”
نانونے بات کچھ بدلنے کی کوشش کی تھی ۔
”نہیں مگر ایک دوست تو بہت کم ہے۔”
وہ اب بھی حیران تھا،علیزہ کو اپنا آپ اس طرح سے زیر بحث لانا اچھا نہیں لگا تھا۔
”ہر ایک کی اپنی چوائس ہو تی ہے،مجھے اچھا لگتا ہے کہ میری بس ایک ہی فرینڈ ہو ،تو اس میں عجیب بات کون سی ہے؟”
اس بار علیزہ نے روکھے انداز میں عمر سے کہا تھا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔ شاید وہ اس تاثرات سے اس کی اندرونی کیفیات سمجھ گیا تھا۔ علیزہ کو اچانک اپنے لہجے کے کھردرے پن کا احساس ہوا تھا اسے کچھ ندامت سی محسوس ہوئی۔
”ابھی ابھی اس نے مجھے اتنا قیمتی پرفیوم دیا ہے اور میں پھر بھی اس کے ساتھ اس طرح کر رہی ہوں۔”
اس نے جیسے اپنے آپ کو یاد دہانی کروانے کی کوشش کی تھی
”میری فرینڈ بہت اچھی ہے۔ وہ اسکول سے میری فرینڈ ہے ،اس کے علاوہ اور کوئی مجھے اچھا نہیں لگا، بس اسی لئے یہی میری ایک ہی فرینڈ ہے۔”
اس نے جیسے عمر کی تشفی کرنے کی کوشش کی اس بار اس کا لہجہ کمزور تھا۔
”کیا آپ کے بہت سے فرینڈز ہیں؟”
اس نے صرف موضو ع بدلنے کے لئے پوچھا تھا۔
”ہاں! میرے بہت سے فرینڈز ہیں۔ مجھے فرینڈز بنانا بہت اچھا لگتا ہے۔ جیسے آج میں نے تم کو اپنی فرینڈ بنایا ہے۔”
عمر نے خوشگوار لہجہ میں اس سے باتیں کرتے ہوئے کہاتھا۔
”فرینڈز زیادہ ہوں تو زیادہ مزہ ہے۔”
”may be.”(ممکن ہے(
اس نے اختلاف کرنے کی بجائے مبہم انداز میں ہی جواب دے دیاتھا۔
وہ ایک بار پھر خاموش ہو گئی تھی۔ عمر نے اپنی گھڑی دیکھی اور پھر کھڑا ہو گیا تھا۔
”مجھے لائبریری جانا ہے، میں دو تین گھنٹوں تک واپس آ جاؤں گا۔”
اس نے نانو کو اطلاع دی تھی پھر وہ لاؤنج سے نکل گیاتھا۔ اس کے جانے کے کچھ دیر بعد وہ باہر لان میں نکل آئی تھی۔لان کے ایک کونے میں بیٹھ کر وہ کچھ دیر پہلے کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگی۔ وہ عمر کے بارے میں کوئی حتمی اندازہ نہیں لگا پارہی تھی۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ عمر واقعی اتنا مخلص ہے جتنا وہ نظر آرہا ہے۔ یا پھر اس کے اندازے ٹھیک ہیں۔ وہ عمر کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اس کی شخصیت علیزہ کو بہت عجیب لگی تھی۔ اس کے موڈز گھڑی کی سوئیوں سے زیادہ تیز رفتاری سے بدلتے تھے۔ وہ جب بھی اپنے کمرے سے نکل کے لاؤنج میں آتا تو گھر میں جیسے زندگی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی،نانا، نانو سے لے کر ملازموں تک ہر کوئی اسے پسند کرتاتھا اور اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھتا تھا۔
اس کے پاس یقیناً کوئی ایسی خوبی تھی جس سے وہ دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا۔ مگر علیزہ ابھی تک اس بارے میں بہت محتاط تھی۔ اسے آخر مجھے پرفیوم دینے کی کیا ضرورت تھی، وہ ابھی سوچ رہی تھی۔
”اس کا خیال ہو گا کہ میں گفٹ لے کر خوش ہو جاؤں گی، اور باقی لوگوں کی طرح وہ مجھ پر بھی قبضہ کر لے گا۔ مگر…!”
وہ اب الجھن میں گرفتار ہو گئی تھی کہ گفٹ کے بارے میں کیا سوچے۔
”کیا میں نے اس سے گفٹ لے کرٹھیک کیا یا پھر یہ میری غلطی تھی؟”
وہ ابھی تک سوچوں میں گم تھی۔ بہت دیر تک سوچوں میں گم رہنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا تھا۔
”نہیں ! مجھے گفٹ واپس نہیں کرنا چاہئے کیونکہ پھر نانو خفا ہو سکتی ہیں۔”
اسے خیال آیا تھا۔
”مگر میں اب دوبارہ اس سے کوئی گفٹ نہیں لوں گی کیونکہ مجھے اس سے دوستی نہیں کرنا ہے۔”
اس نے بالآخر طے کر لیا۔
چند دنوں بعد جب عمر نے اسے ایک اور پرفیوم دیا تو وہ انکار نہ کر سکی، اور پھر یہ ایک روٹین بن گئی تھی وہ جب بھی گھر سے باہر کسی کام کے لئے جاتا،اس کے لئے کچھ نہ کچھ لاتا رہتا۔ بعض دفعہ یہ بڑی معمولی چیزیں ہوتی تھیں۔ مثلاً آئس کریم کا ایک کپ، ایک بھٹہ، چیو نگم کا ایک پیکٹ، کبھی لیٹر پیڈ، کبھی ناول۔ وہ ہر بار یہ طے کرتی کہ اگلی بار اس سے کچھ نہیں لے گی، مگر اگلی بار خاموشی سے اس کا گفٹ لے لیتی۔ وہ اسے ہر چیز گفٹ کہہ کر ہی دیتا تھا۔
”علیزہ میں تمہارے لئے ایک گفٹ لایا ہوں۔ I swear ، (میں قسم کھا کر کہتا ہوں) ایسا گفٹ تمہیں پہلے کبھی کسی نے نہیں دیا ہو گا، بلکہ تمہیں کیا کسی نے بھی کسی کو نہیں دیا ہو گا۔”
وہ باہر سے آ نے پر کہتا اور وہ متجسس ہو جاتی۔
”اور یہ گفٹ ہے ایک عدد، بھٹہ۔”
اور وہ کاغذ میں لپٹا ہوا ایک عدد بھٹہ اس کی طرف بڑ ھا دیتا۔
”علیزہ! آج میں تمہارے لئے دنیا کی سب سے خاص چیز لے کر آیا ہوں، اور یہ چیز بہت ہی خاص لوگوں کو دی جاتی ہے۔”
اگلی بار اس کے الفا ظ کچھ اور ہوتے۔ علیزہ ایک بار پھر دلچسپی لینے پر مجبور ہو جاتی۔ وہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا اور Kit Kat کا ایک پیکٹ اسے تھما دیتا۔
”آج میں تمہیں دنیا کی سب سے خطرناک اور پر اثر چیز دوں گا۔”
علیزہ ایک بار پھر اندازے لگانے میں مصروف ہو جاتی وہ پچیس، تیس روپے کا ایک بال پوائنٹ اسے ایک مسکراہٹ کے سامنے پیش کر دیتا۔
”اس بار میں تمہیں ایک ایسا گفٹ دوں گا جو تمام عمر تمہارے ساتھ رہے گا، اور تم ساری عمر اس کو استعمال کرتی رہو گی۔”
علیزہ پھربوجھنے میں ناکام رہی، اور اسکے سامنے ایک کتاب پیش کر دی جاتی۔
اس بار میرا گفٹ سب سے unique(نادر)ہے۔ یہ تمہیں فٹ اورسمارٹ رکھے گا، اور تم کو کبھی، بھی ڈائٹنگ کرنا نہیں پڑے گی۔۔۔۔۔۔
چیونگم کا ایک پیکٹ اس کے سامنے رکھ کر فرماتا۔
”بس تم ہر بار بھوک لگنے پر اسے منہ میں ڈال لینا۔”
وہ مزے سے کہہ کر چلا جاتا۔ بعض دفعہ اسے ہنسی آجاتی ، بعض دفعہ وہ الجھ جاتی۔ بعض دفعہ اسے غصہ آتا اور بعض دفعہ وہ عمر کے بارے میں سوچ میں پڑ جاتی۔
اس دن وہ مارکیٹ سے واپسی پر اپنے ساتھ کچھ پلانٹس لے کر آیا تھا۔
”دیکھو علیزہ! یہ پلانٹس کیسے ہیں ؟”
وہ ان پودوں کو علیزہ کو دکھا رہا تھا۔ آج کل وہ ہر بات میں علیزہ کی رائے لینا ضروری سمجھتا تھا۔
”میں قذافی سٹیڈیم کے پاس سے گزر رہا تھا وہیں سے انہیں لایا ہوں۔”
”اچھے ہیں!”
علیزہ نے ایک نظر ان پلانٹس کو دیکھا تھا اور پھر انہیں دیکھتے ہوئے ، بڑے عام سے انداز میں تبصرہ کیا تھا۔
وہ کچھ مایوس ہو گیا تھا۔
”صرف اچھے ہیں!”
علیزہ نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھاتھا۔
”تو پھر مجھے کیا کہنا چاہئے؟”
”اپنی رائے دو کہ اچھے ہیں تو کیوں اچھے ہیں، برے ہیں تو کیوں برے ہیں۔”
عمر نے اسے سمجھایا۔
”میں پلانٹس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی، اس لئے صحیح رائے دینا تو بہت مشکل ہے۔ آپ کو نانو سے پوچھنا چاہئے، آپ کو زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکتی ہیں کہ یہ پلانٹس کیسے ہیں؟”
اس نے عمر سے کہا۔
”میں حیران ہوں کہ تمہیں گارڈننگ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہیں نیچر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”نہیں، ایسا نہیں ہے مجھے نیچر تو اٹریکٹ کرتی ہے گارڈننگ نہیں۔”
اس نے جیسے قطعی طور پر اسے بتایا تھا۔
”یہ پلانٹس کہاں سے لائے ہو؟”
نانو اسی وقت لاؤنج میں آئی تھیں۔
”قذافی سٹیڈیم سے۔ آپ بتائیں کیسے ہیں۔”
اس نے فوراً نانوسے رائے لینے کی کوشش کی تھی۔
”اچھے ہیں، بہت اچھے ہیں ، مگر قیمت کیا ہے ان کی؟”
نانو نے فوراً تعریف کی تھی مگر ساتھ ہی سوال بھی داغ دیا تھا۔
عمر نے انڈور پلانٹس کی قیمت بتائی تھی۔
”تمہیں زیادہ مہنگے دے دئیے ہیں ان لوگوں نے،ان کو پتہ چل گیا ہو گا کہ تم بہت دیر کے بعد یہاں آئے ہو ،اسی لئے انہوں نے تم سے دوگنی قیمت وصول کی ہے۔”
نانو نے قدرے افسوس سے کہا تھا۔
”یہ کون سی نئی بات ہے گرینی!ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ یہ یہاں کا کلچر ہے۔ وہ کہتے ہیں “Make hay while the sun shines.”
اس نے بہت عجیب سے لہجہ میں کہا تھا۔ علیزہ نے کچھ چونک کر اسے دیکھا وہ اب بھی بول رہا تھا۔
”یہاں سب کچھ بہت خراب ہے، جو سو روپے کی کرپشن کر سکتا ہے وہ سو روپے کی کرپشن کرتا ہے، اور جو دو روپے کی کرپشن کر سکتا ہے وہ دو روپے کی کرپشن کرتا ہے، لیکن ان سب چیزوں سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ایک روپے کی چیز دس میں خرید کر کم از کم یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ دوسرا اپنے فائدہ کے لئے کسی حد تک جا سکتا ہے۔”
وہ پہلی بار اس طرح باتیں کر رہا تھا۔ ورنہ پہلے علیزہ نے ہمیشہ اسے صرف ٹوٹی سڑکوں اور ٹریفک جام کے بارے میں بولتے سنا تھا۔
”تم جوائن کرو گے نا سول سروس ، تو پھر تم چینج لانا، ان چیزوں میں جن پر تمہیں اعتراض ہے۔”
نانو نے اس سے کہا تھا۔
وہ یک دم کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔
”آپ بھی بہت عجیب باتیں کرتی ہیں ، گرینی!
”آپ کا کیا خیال ہے کہ میں سول سروس یہ سب ٹھیک کرنے کے لئے جوائن کر رہا ہوں۔ مجھے سوشل ورک کا کوئی شوق نہیں ہے، اور ویسے بھی ایک آدمی کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ میں بدلنا چاہوں بھی تو نہیں بدل سکتا۔ یہاں ہر چیز اتنی Rotten (خستہ) اور Rusted(پھپھوندی زدہ) ہے کہ جب تک اگر آپ ایک چیز ٹھیک کریں گے تو پہلے والی اس حالت میں آجاتی ہے۔ ویسے گرینی ! آپ نے کبھی اپنے بیٹوں کوکیوں نہیں کہا۔ آپ کے تو سارے بیٹے سول سروس میں ہیں۔ میری جنریشن کے لئے ریفارم کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ مگر مجھ سے پہلے کی جنریشن یہ کام آسانی سے کر سکتی تھی۔ تب لوگ اتنے بگڑے ہوئے نہیں تھے،انہیں کنٹرول کرنا بہت آسان تھا
وہ اب سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”جب تمہارے پاپا اور انکلز نے سول سروس جوائن کی تھی تو میں نے انہیں بھی بہت سی نصیحتیں کی تھیں۔ صرف میں نے ہی نہیں بلکہ تمہارے دادا نے بھی۔ میں آج تک حیران ہوں کہ وہ چاروں ، ان ساری نصیحتوں کو کیسے بھول گئے۔ مجھے نہیں پتہ ان چاروں کو زندگی میں کیا چاہئے تھا۔ میں نے اور معاذ نے انہیں دنیا کی ہر چیز دی تھی ہمارے پاس وہ سب کچھ تھا جو ایک خوشحال زندگی گزارنے کے لئے کافی تھا۔ میرا خیال تھا کہ ان چاروں کو ان چیزوں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر میرا خیال غلط تھا۔ ان چاروں کو اپنی زندگی میں ہر چیز ایک کی تعداد میں نہیں بلکہ درجنوں کی تعداد میں چاہئے تھی۔ جب ذہن میں یہ سب کچھ ہو تو نصیحت الٹا اثر کرتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے ۔ میں نے جتنا انہیں سمجھانے کی کوشش کی ، وہ ……!”
عمر نے ان کی بات سنتے سنتے بات کاٹی۔
”اس سے ایک بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ گرینی! آپ کی باتوں میں اثر نہیں تھا یا پھر شاید آپ کے سمجھانے کا طریقہ غلط تھا۔ وجہ جو بھی ہو ، بہرحال اب تو سب کچھ جیسا ہو رہا ہے ہونے دیں۔ چیزوں کو اب بدلنا ناممکن ہے اور ناممکن کام کرنے کے لئے جن لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے ویسے لوگ ہماری قوم میں نہیں ہیں۔ میں تو فارن سروس جوائن کرنے کے بعد ڈیڈی کی طرح عیش کرنا چاہتا ہوں، ویسی زندگی گزارنا چاہتا ہوں جیسی وہ گزار رہے ہیں۔ دیکھیں، بات کہاں سے کہاں چلی گئی،میں آپ سے پلانٹس کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔”
اس نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔ علیزہ بڑی بے زاری سے یہ ساری گفتگو سن رہی تھی۔
”میں ذرا ان پلانٹس کولگوا لوں۔ گرینی! آپ چلیں گی میرے ساتھ باہر لان میں؟”
اس نے دادو کو انوائٹ کیاتھا۔
”نہیں بھئی مجھے باہر نہیں جانا۔ کچھ کام کرنے ہیں مجھے، تم خود ہی مالی کے ساتھ جا کر یہ پلانٹس لگوا لو۔”
نانو نے اس سے کہا۔
”میں اس لئے آپ کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا تا کہ آپ لان میں جگہ سیلیکٹ کر لیں، ان پلانٹس کے لئے بعد میں آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو کہ میں نے غلط جگہ پر پلانٹس کیوں لگوا دیئے ہیں۔
”نہیں ! مالی اچھا ہے ، وہ تمہیں بتا دے گا کہ یہ کہاں ٹھیک لگ رہے ہیں اور کہاں نہیں۔ تمہیں اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی تم جہاں بھی پلانٹس لگواؤ گے مجھے برا نہیں لگے گا کیونکہ وہ تمہارے لگوائے ہوئے پلانٹس ہوں گے۔”
عمر نے نانو کی بات پر مسکرا کر انہیں دیکھاتھا۔ علیزہ نے نانو کی آنکھوں کی چمک کو کچھ اور گہرا ہوتے دیکھا اسے ان دونوں کی مسکراہٹیں بری لگی تھیں۔
”چلو علیزہ ! ہم دونوں پلانٹس لگواتے ہیں۔”
عمر نے کھڑے ہوتے ہوئے اسے آفر کی تھی۔
”میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے،کہ مجھے گارڈننگ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر آپ مجھے ساتھ لے جاکر کیا کریں گے۔”
علیزہ نے سنجیدگی سے اسے کہا تھا۔
”تم آؤ تو، دلچسپی بھی پیدا ہو ہی جائے گی۔ میں اسی لئے تو تمہیں ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔”
عمر نے بڑے ہشاش بشاش لہجہ میں اس سے کہا تھا۔
”نہیں میں نے آپ سے کہا ۔۔۔۔۔”
علیزہ نے ایک بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر نانو نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”کم آن علیزہ ! جب وہ بار بار تم سے کہہ رہا ہے تو اتنا نخرہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چلی جاؤ اس کے ساتھ۔”
علیزہ نے نانو کے چہرے کو دیکھا تھا،وہاں ناگواری کے تاثرات نمایاں تھے۔ وہ خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔ عمر ملازم کو پودے اٹھانے کے لئے کہہ رہا تھا۔ وہ بجھے دل کے ساتھ باہر لان میں آ گئی تھی۔ کچھ دیر بعد عمر بھی لان میں نکل آیا تھا۔ وہ بے مقصد لان میں چکر لگانے لگی تھی۔
عمر مالی کے ساتھ مل کر لان میں پودے لگوا رہا تھاگاہے بگاہے وہ علیزہ سے بھی رائے لے لیتا۔ وہ ہوں ہاں میں جواب دے کر اس کے پاس سے ہٹ جاتی۔ وہ مالی سے پودے لگواتے ہوئے خاصے غور سے اس کے چکروں کو دیکھتا اور کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا۔
تقریباً ایک گھنٹے میں مالی نے سارے پودے لگا دئیے تھے۔ عمر نے واپس اندر جانے کی بجائے اپنے کمرے میں رکھے ہوئے ان ڈور پلانٹس بھی باہر ہی منگوالئے تھے۔ علیزہ نے بے زاری سے ملازم کو انڈور پلانٹس کوباہر لاتے دیکھا۔
”ان پلانٹس کی کٹنگ وغیرہ کر دیتے ہیں۔ پھر کل تک انہیں یہیں لان میں ہی رہنے دوں گا۔ تا کہ انہیں کچھ روشنی وغیرہ مل جائے۔ لو علیزہ ! تم بھی ان پلانٹس کو prune کرنا (تراشنا) شروع کر دو کام جلدی ختم ہو جائے گا۔”
اس نے علیزہ کو پاس بلا کر اسے ایک قینچی تھما دی تھی۔ وہ بے دلی سے پودوں کی کٹنگ کرنے لگی۔ عمر بڑی دلجمعی اور مہارت سے پودوں کی تراش خراش کر رہا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ ہر پودے کے باے میں بھی اسے کچھ نہ کچھ بتا رہا تھا۔ وہ گارڈینیا کی کٹنگ کر رہی تھی کہ اس نے عمر کو کہتے ہوئے سنا۔
”یہ میرا سب سے فیورٹ پلانٹ ہے۔”
وہ ہاتھ روک کر اسے دیکھنے لگی تھی۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ اس پلانٹ کو دیکھ رہا تھا۔
”مجھے زندگی میں بہت زیادہ چیزوں میں دلچسپی نہیں ہے ، مگر جن چیزوں میں ہے ان سے بہت دلچسپی ہے۔ یہ سارے پلانٹس بھی ان ہی چیزوں میں شامل ہیں۔ پتہ ہے علیزہ! یہ پلانٹس بعض دفعہ مجھے اپنے فرینڈز کی طرح لگتے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ میری آواز سنتے ہیں،شاید جواب بھی دیتے ہیں ، میں بہت چھوٹا تھا جب مجھے ان ڈور پلانٹس لگانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ شاید میں سات یا آٹھ سال کا تھا جب اپنے ہاتھوں سے ایک پلانٹ لگا یا تھا بعد میں تو جیسے عادت سی ہو گئی۔ یہ کمرے میں ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کمرے میں کوئی اور زندہ چیز موجود ہے، جو سانس بھی لیتی ہے ، اور شاید میرے وجود کو بھی محسوس کر لیتی ہے۔”
علیزہ کو اس وقت یوں لگا جیسے اس کا دماغ خراب ہے۔ اس نے کچھ دیر حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
”تم سوچ رہی ہو گی میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔”
عمر نے اس کا ذہن پڑھ لیا تھا۔
وہ گڑ بڑا گئی تھی ۔
”تم اگر ایسا سوچ رہی ہو تو غلط نہیں سوچ رہی۔ ہو سکتا ہے۔ میرا دماغ واقعی خراب ہو گیا ہو مگر میں جس کلچر جس سوسائٹی سے آیا ہوں، وہاں سب کے دماغ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جب انسانوں سے آپ کی محبت ختم ہو جائے توپھر چیزوں سے محبت شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے باہر لوگوں کو ، جانوروں سے محبت ہوتی ہے ، پلانٹس سے محبت ہوتی ہے، پینٹنگز سے محبت ہوتی ہے۔ میوزیم ، آرٹ گیلریز اور تھیٹر سے محبت ہوتی ہے۔ میں بھی اسی ماحول میں پیدا ہوا ہوں وہیں بڑا ہوا ہوں مجھے بھی انسانوں کے بجائے چیزوں سے زیادہ محبت ہے۔ ٹھنڈے ملک میں رہتے رہتے بعض دفعہ مجھے لگتا ہے کہ میں بھی cold blooded ، جانور بن گیا ہوں۔”
وہ بات کرتے کرتے اچانک قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا تھا۔
”ہے نا مزے کی تھیوری؟ Cold blooded animal!”
اس نے علیزہ سے پوچھا تھا، مگر علیزہ کو یوں محسوس ہو ا کہ جیسے اسے اس کی رائے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ خود ہی اپنے جملے کو انجوائے کر رہا تھا۔ سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے وہ اچانک مذاق کرنے لگا تھا۔ وہ کچھ دیر غور سے اسے دیکھتی رہی، جیسے اسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو ، اور عمر جہانگیر سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ وہ کچھ بولتے بولتے بات بدل گیاتھا، بڑی مہارت کے ساتھ اس نے سب کچھ کیمو فلاج کر لیا تھا، اور یہ کام کرنے میں کوئی اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
”وائٹ کلر مجھ پر بہت اچھا لگتا ہے ، ہے نا علیزہ
اس نے یک دم سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈال کی بڑی بے خوفی اور بے تکلفی سے پوچھاتھا۔
”اور خاص طور پر Versaceکی شرٹس۔”
علیزہ اس کے سوال سے زیادہ مسکراہٹ سے گڑ بڑائی تھی۔
”ایسے سوال کی کیا تک بنتی ہے؟”
اس نے عمر جہانگیر کے چہرے سے نظر ہٹاتے ہوئے کچھ جھینپ کر کہا تھا۔
”مجھے کیا پتہ کون سا کلر اچھا لگتا ہے؟”
وہ ہاتھ سے سامنے رکھے ہوئے پلانٹس کو سنوارنے لگی تھی۔
”اوہ……میں نے سوچا ، شاید یہ کلر بہت سوٹ کر رہا ہے۔ اس لئے تم اتنی دیر سے اور اتنے غور سے میرا چہرہ دیکھ رہی ہو۔”
علیزہ نے عمر کے چہرے کو دیکھا تھا ، جس پر مایوسی چھا ئی ہو ئی تھی۔ اسے ان تاثرات کے اصلی یا نقلی ہونے کو شناخت کرنے میں دیر نہیں لگی تھی۔ وہ اب پھر اطمینان کے ساتھ پلانٹس کے ساتھ مصروف تھا۔
”مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں آپ کو ”غور” سے دیکھوں۔ میں آپ کو صرف ”دیکھ” رہی تھی۔”
اس نے سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ وضاحت کی تھی۔
”اور کافی دیر سے بھی تو دیکھ رہی تھیں۔” ”دیرسے اس لئے دیکھ رہی تھی کیونکہ آپ بات کر رہے تھے۔” اس نے جیسے احتجاجاً کہا تھا۔
”اچھا سوری مجھے ایسے ہی غلط فہمی ہو گئی۔ اصل میں لیو(اسد) ہوں نا اس لئے مجھے ایسی غلط فہمیاں اکثر ہوتی ہی رہتی ہیں۔”
اس نے بڑے دوستانہ انداز میں معذرت کرتے ہوئے ، وضاحت کی تھی۔ مگر اس بار علیزہ نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ ناگواری سے اپنے سامنے پڑے ہوئے پلانٹس کو دیکھتی رہی تھی۔ وہ خاموش ہو گیاتھا۔ اس نے قینچی اٹھا کراسے کن اَکھیوں سے دیکھا ، وہ کدال کے ساتھ مٹی نرم کر رہا تھا۔
علیزہ نے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اپنے سامنے پڑے ہوئے پودے کی ایک بڑی شاخ کاٹ دی تھی۔ سر اٹھا کر اس نے ایک بار پھر عمر کی طرف دیکھا تھا، اور دھک سے رہ گئی تھی۔ وہ اسی کی طرف متوجہ تھا۔ بہت غور سے اسے دیکھتے ہوئے اس کا اپنا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پائی۔ کہ وہ کس وقت اس کی طرف کب متوجہ ہوا تھا، اور کیا اس نے دیکھ لیا تھا کہ وہ۔۔۔۔”
”سوری……پتہ نہیں یہ کیسے کٹ گئی، میں تو بڑی احتیاط سے انہیں کاٹ رہی تھی۔”
اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہاتھا۔ اپنی بات کے جواب میں اس نے عمر جہانگیر کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ ابھرتے دیکھی تھی۔
”کوئی بات نہیں، ایسا ہو جاتا ہے۔ تم دیکھنا ، اب یہ بہت تیزی سے بڑھے گا اورپہلے سے زیادہ خوبصورت ہو جائے گا۔ مجھ سے جب بھی کوئی پلانٹ اس طرح کٹتا ہے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ اچھا ہو جاتا ہے۔”
اس نے عجیب سی منطق پیش کی تھی۔ وہ اس کی اس حرکت سے بالکل متاثر نہیں ہوا تھا۔ وہ دم سادھے ، ہونٹ بھینچے چند لمحوں تک دیکھتی رہی ، وہ ایک بارپھر پلانٹس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا پھر ایک دم وہ اٹھ کر اند ربھاگتی چلی گئی تھی۔
عمر جہانگیر نے پر سکون انداز میں سر اٹھا کر اسے بھاگتے ہوئے اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا، پھر اس نے اس پودے کی کٹی ہوئی شاخ کو اٹھا لیاتھا۔ لاؤنج میں داخل ہونے سے پہلے اس نے مڑ کر ایک بار پیچھے دیکھا تھا تو عمر پودے کی اس کٹی ہوئی شاخ کو اٹھا رہا تھا۔ وہ غیر ارادی طور سے دروازہ میں رک گئی۔ وہ کچھ دیر تک اس شاخ پر ہاتھ پھیرتا رہاتھا۔ وہ دور سے اس کے تاثرات نہیں دیکھ پائی تھی۔ مگر دلچسپی سے اسے دیکھتی رہی۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اسے اس شاخ کو پودے کے پاٹ میں گاڑتے دیکھاتھا۔ وہ کچھ حیران ہوتی ہوئی اندر آ گئی تھی
باب:5
علیزا بی بی یہ پودے اندر لے جاؤں ؟
ملازم نے ایک بار پھر اس کی سوچوں کا تسلسل توڈ دیا تھا وہاں صرف وہ تھی اور سامنے پڑے پودے۔
ملازم ایک بار پھر اس سے پوچھ رہا تھا
علیزا نے گہرا سانس لیا اور کہا ہاں اندر لے جاؤ۔
وہ اٹھ کر گھسی ہو گئ اور ملازم پودے اندر لے جانے لگا یک دم ہی اس کی دلچسپی پودوں سے ختم ہو گئی۔
مالی بابا یہ کچھ پلانٹس پڑے ہیں انہیں دیکھ لیں دور کھڑے مالی بابا کو اس نے آ واش دے کر بلایا تھا اور خود اندر آ گئی تھی۔
نانو وہ پرسوں کتنے بجے کی فلائٹ سے آ ئیے گا اندر آ تے ہی وہ کچن میں کھڑی نانو جان سے پوچھ رہی تھی جو خانساماں کو ہدایت دینے میں مصروف تھیں۔
وہ پرسوں رات دو بجے کی فلائٹ سے آ ئیے گا
نانو نے اسے بتایا تھا اور وہ سن کے تھوڑا اداس ہو گئی
دو بجے کی فلائٹ سے؟
پھر تو ہم اسے ریسیو کرنے نہیں جا سکیں گے ڈرائیور کو ہی بھیجنا پڑے گا ۔
اس نے نانو سے کہا تھا۔وہ تو کہہ رہا تھا میں ڈرائیور کو بھی نہیں بھیجوں لیکن میں نے زبردستی اسے کہا ہے کہ ڈرائیور کے ساتھ آ ئے۔
نانو اگر ہم دونوں اسے ریسیو کرنے چلے جائیں
اس نے التجاء انداز میں نانو کو کہا تھا ۔سوال ہی نہیں پیدا ہوتا رات کے دو بجے ہم اسے ریسیو کرنے جاہیں آ ج کل حالات دیکھے ہیں ۔
اچھا نا نو پھر آ پ مجھے ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں
تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے علیزا رات کے دو بجے میں جوان لڑکی کو ڈرائیور کے ساتھ اکیلا بھج دوں۔نانو کچھ نہیں ہوتا پلیز۔
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور آ خر تمہے اتنی بے چینی کیوں ہے آ نا تو اس نے یہیں ہے نا تو اسے ریسیو کرنے جانے کی اتنی ضد کیوں؟
نانو نے اسے ڈانٹ دیا تھا ۔
نانو دیکھنے اسے برا نہیں لگے گا وہ اتنے سالوں بعد آ رہا ہے اور ہم میں سے کوئی اسے ریسیو کرنے بھی ٹجا رہا
بلکل نہیں وہ جانتا ہے ہم دونوں یہاں اکیلے ہیںوہ احمق نہیں ہے اور تمہیں میں نے بتایا ہے نا کہ وہ تو ڈرائیور کو بھیجے سے بھی منع کر رہا تھا یہ تو میں نے ہی ضد کی تھی۔
نانو پلیز
علیزا بچوں کی طرح ضد نہیں کرو نانو نے قطع لہجے میں اسے کہا تھا۔وہ بد دل ہو کر کچن سے باہر نکل آ ئیے تھی شام ہو رہی تھی اپنے کمرے میں آ کر اس نے لائٹس آ ن کر لیں تھیں۔
کمرے میں آ کر کچھ دیر تک سوچتی رہی اسے کیا کرنا چاہیے اسے ایسا لگ رہا تھا وہ ہر کام نمٹا چکی ہو۔جیسے کرنے کے لیے کچھ اور رہا ہی نہ ہو۔
کچھ سوچ ٹوہ اپنی سکیچ بک نکال کر بیڈ پر آ گئی ۔پہلے سے بنے سکیجز کو پینسل سے ڈارک کرنے لگی پھر ایک نیا صفحہ نکال کر اس پر ایک سکیچ بنانے لگی۔سکیچ کرتے کرتے اسے پتا بھی نہیں چلا وہ چہرہ اسے شناسا لگنے لگا اس نے کچھ دیر رک کر اس چہرے کو دیکھا اسے پہچاننے میں دیر نا لگی ۔اس چہرے کو وہ پہچان چکی تھی اس کا ہاتھ پھر سے روانی سے چل پڑا تھا ۔
باب:6
“These are simply fantastic!”
اس دن وہ لاؤنج میں بیٹھی اپنی اسکیچ بک میں کرسٹی کا سکیچ بنا رہی تھی۔ بہت دیر تک اس کام میں مصروف رہنے کے بعد وہ اکتا گئی تھی۔ اسکیچ بک کو صوفہ پر رکھنے کے بعد وہ کچھ دیر تک کرسٹی کو سہلاتی رہی پھر اسے ہاتھ میں لے کر کھانے کی کوئی چیز لینے کچن میں چلی گئی۔ وہاں اسے دس پندرہ منٹ لگ گئے جب وہ دوبارہ لاؤنج میں داخل ہوئی تو نہ صرف عمر وہاں موجود تھا بلکہ وہ صوفہ پر دراز ٹیبل پر اپنی ٹانگیں رکھے، ایک ہاتھ میں چائے کا مگ لئے دوسرے ہاتھ سے اس کی سکیچ بک دیکھنے میں مصروف تھا۔ قدموں کی آہٹ پر اس نے سر اٹھایا تھا علیزہ کو دیکھ کر مسکرایا تھا اور اس کے اسکیچز پر تبصرہ کیا تھا۔علیزہ کو اس کا اس طرح بغیر اجازت اپنی سکیچ بک دیکھنا اچھا نہ لگا تھا، مگر وہ خاموش رہی تھی۔
پلانٹس والے واقعہ کے بعد وہ آج پہلی بار اس سے بات کر رہا تھا۔ وہ چپ چاپ دوسرے صوفہ پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگی تھی۔
”علیزہ پینٹنگز میں دلچسپی ہے؟”
اس نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیاتھا۔ علیزہ نے ایک نظر اس کے چہرے پر دوڑائی۔
”اگر اسکیچز بنا لیتی ہو تو ظاہر ہے کہ پینٹنگ سے بھی دلچسپی ہو گی۔”
وہ دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئی ،اور وہ غور سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگا۔
”کون سی کلا س میں پڑھتی ہو؟”
”اے۔ لیولز”
جواب انتہائی مختصر تھا۔
”کہاں تک پڑھنے کا ارادہ ہے؟”
”پتہ نہیں!”
”کیوں؟”
وہ جواب میں کچھ نہیں بولی تھی۔
”تم فائن آرٹس میں کچھ کرنا۔”
”کیا؟”
”کچھ بھی مگر آرٹ سے متعلق ہو۔”
”کیوں؟”
”کیونکہ تم بہت اچھی آرٹسٹ بن سکتی ہو!”
”آپ مجھے مشورہ دے رہے ہیں۔ خود آرٹسٹ کیوں نہیں بنے؟”
ٹکڑا توڑ جواب آیاتھا۔ عمر جہانگیر بے اختیار مسکرایا۔ علیزہ کا چہرہ سپاٹ تھا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔
”آرٹسٹ بنتے نہیں ہیں، بنے بنائے ہوتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر بن سکتے ہیں انجینئربن سکتے ہیں ، مگر آرٹسٹ بننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تم سے اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ تم میں ٹیلنٹ ہے۔ تم کچھ کر سکتی ہو اس فیلڈ میں۔”
اس سے بات کرتے ہوئے عمر نے اسکیچ بک بند کر کے علیزہ کی طرف بڑھا دی۔
”مجھے آرٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ، چاہے وہ کیسا بھی آرٹ کیوں نہ ہو، نہ ہی میں آرٹ میں کچھ کر نا چاہتی ہوں۔ مجھے میتھس میں دلچسپی ہے، اور میں وہی پڑھوں گی۔”
اس نے اسکیچ بک پکڑتے ہوئے دو ٹوک انداز میں عمر سے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے تم میتھس ہی پڑھ لینا، لیکن میرا ایک اسکیچ تو بنا سکتی ہو، کیوں علیزہ! میرا سکیچ بناؤ گی !”
”میں صرف ان ہی لوگوں کے اسکیچ بناتی ہوں جن کے چہرے مجھے اچھے لگتے ہیں۔”
وہ ایک بار پھر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئی تھی ۔
”اس کا مطلب ہے۔ میرا چہرہ تمہیں اچھا نہیں لگا؟”
عمر نے اس سے پوچھا لیکن وہ خاموشی سے ٹی وی دیکھتی رہی۔
”میرا خیال تھاکہ میرا چہرہ اچھا خاصا ہے ویسے علیزہ میرے چہرے میں کیا defect ہے ، تم یہ بتا دو۔”
عمر جیسے اس کے ساتھ گفتگو کو انجوائے کر رہا تھا۔
”مجھے کیا پتہ ، بس مجھے آپ کا چہرہ اسکیچنگ کے لئے پسند نہیں ہے ۔”
”اور کرسٹی کا چہرہ پسند ہے؟”
علیزہ نے کچھ ناراضگی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ وہ چائے کا مگ ٹیبل پر رکھ کر اٹھ رہا تھا۔
”مجھے کوئی بھی چہرہ کرسٹی سے زیادہ اچھا نہیں لگتا، آپ اس طرح کرسٹی کی بات مت کریں۔۔۔”
اس نے کچھ بگڑ کر اس سے کہا تھا۔ ”سوری!”
علیزہ نے اس کی معذرت پر کوئی دھیان دیئے بغیر دوبارہ اپنی توجہ ٹی وی کی طرف مبذول کرلی تھی۔ وہ کچھ دیر وہا ں لاؤنج میں کھڑا رہا، اور پھروہاں سے باہر نکل گیا۔
باب: 7
علیزہ نے اسکیچ مکمل کر لیا تھا۔ عمر جہانگیر کے اسکیچ کو اسکیچ بک سے نکالنے کے بعد وہ ایک بار پھر اٹھ کر اس کے کمرے میں آگئی تھی۔ لائٹ آن کرنے کے بعد وہ سٹڈی ٹیبل کی طرف گئی اور وہاں اسکیچ رکھنے کے بعد اس نے پیپر ویٹ اس کے اوپر رکھ دیا۔ وہ جانتی تھی عمر جہانگیر کے لئے یہ ایک خوشگوار سرپرائز ہو گا۔
یہ پہلا اسکیچ نہیں تھا جو اس نے عمر جہانگیر کے لئے تیار کیا تھا۔ پچھلے کئی سالوں میں ایسے کئی اسکیچز اس نے تیار کئے تھے۔ اس کا چہرہ ان چند چہروں میں سے تھا جو کسی بھی لمحہ ان کے ذہن سے غائب نہیں ہوتے تھے۔ بعض دفعہ جب وہ عمر کا کوئی بہت اچھا اسکیچ بنا لیتی تو اسے پوسٹ کر دیتی۔ جواب میں بعض دفعہ وہ شکریے کے طور پر کارڈ بھیج دیتا یا پھر فون کر لیتا۔ علیزہ کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا تھا۔ اگر وہ یہ دونوں کام نہ بھی کرتا تو بھی شاید اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔وہ کچھ دیر وہیں کھڑی اسکیچ کو دیکھتی رہی پھر اس نے جھک کر اسکیچ کے نیچے ایک کونے میں کچھ لکھ دیا تھا۔ سیدھی ہو کر وہ مسکرائی تھی اور اس نے پین کو دوبارہ ہولڈر میں رکھ دیا تھا۔
بااب:8
عمر اچانک بہت ریزرو ہو گیا تھا۔ باقی سب کی طرح یہ تبدیلی علیزہ نے بھی نوٹ کی تھی۔ وہ زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتا اور جب کھانے کے لئے باہر آتا بھی تو خاموش ہی رہتا۔ نانو اور نانا کے ساتھ پہلے کی طرح ہنسی مذاق نہیں کرتا تھا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں تو پہلے کی طرح ہی ہوں۔ بس ذرا پیپرز کی وجہ سے زیادہ مصروف ہو گیا ہوں۔”
اس دن رات کے کھانے پر نانو نے اس سے کہہ ہی دیا، اور جواب میں اس نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ وضاحت کر دی۔
”خاموشی تم پر سوٹ نہیں کرتی عمر !”
نانانے سویٹ ڈش لیتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیاتھا۔
”اچھا تو پھر کیا سوٹ کر تا ہے؟”
عمر نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا تھا۔
”تم ویسے ہی اچھے لگتے ہو ، جیسے پہلے تھے، ہنگامہ کرتے ہوئے ، قہقہے لگا تے ہوئے، شور مچاتے ہوئے۔”
نانو نے کہا تھا۔
”رہنے دیں گرینی! میں اب چوبیس سال کا ہوں ، آپ میری جو باتیں بیان کر رہی ہیں اس سے تو میں چھ سال کابچہ لگتا ہوں۔”
عمر نے ایک شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا، وہ اب سلاد کھا رہا تھا۔
”ہم لوگو ں کے لئے تم کبھی بھی چوبیس سال کے نہیں ہو گے، ہمیشہ چھ سال کے ہی رہو گے، اور ہم لوگ چاہیں گے کہ تم بھی خود کو چھ سال کا ہی سمجھو۔”
علیزہ نے بڑی سنجیدگی سے نظریں اٹھا کر نانو کو دیکھا ، وہ اپنے ساتھ کرسی پر بیٹھے ہوئے عمر کا گال چومتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھیں۔ عمر نے نانو کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہاتھا، صرف خاموشی سے سلاد کھا رہا تھا۔
“نانو اور نانا کے بھی ڈبل اسٹینڈرڈز ہیں ، مجھے وہ کسی اور طرح سے ٹریٹ کرتے ہیں۔ عمر کو کسی اور طرح سے ۔ مجھے وہ کچھ اور طرح کا دیکھنا چاہتے ہیں اور عمر کو کسی اور طرح کا، اور پھر بھی نانو کہتی ہیں کہ ان کے لئے سب ایک جیسے ہیں۔ وہ سب سے ایک جتنا پیار کرتی ہیں۔ حالانکہ ایسا تو نہیں ہے۔ اب کیا عمر سے وہ میرے جتنا ہی پیار کرتی ہیں……بالکل بھی نہیں……میں ان کے پاس اتنے سالوں سے رہ رہی ہوں اور عمر……عمر کو آئے ہوئے تو چند ہفتے ہوئے ہیں اور …اور نانو نے کتنی آسانی سے اسے میری جگہ دے دی……حالانکہ عمرکو……عمر کو تو اس جگہ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اسے نانا یا نانو کی محبت کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے۔ اس کے پاس تو پہلے ہی سب کچھ ہے۔”
علیزہ کو نانو سے شکایت ہونے لگی تھی اور نانو سے بہت سی شکایتیں ہوتی رہتی تھیں، اور وہ کبھی بھی ان کا اظہار نہیں کرتی تھی۔ صرف اس کے دل میں ایک اور گرہ کا اضافہ ہو جاتا تھا۔
اس دن دوپہر سے کچھ پہلے وہ کرسٹی کو نہلا رہی تھی جب نانو نے ملازم کے ذریعے اسے لاؤنج میں بلوایا تھا۔
”علیزہ تمہارے پاپا کا فون ہے، وہ تم سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔”
اسے دیکھتے ہی نانو نے جو فون پر بات کر رہی تھیں ، ریسیور اس کی طرف بڑ ھادیا تھا۔
وہ بے اختیار خوش ہوئی تھی۔
”پاپا کا فو ن ہے؟”
اس نے کچھ بے یقینی سے کہا۔
عام طور پروہ دو یا تین ماہ بعد ایک بار اسے کال کرتے تھے،اور وہ بھی رات کے وقت، مگر اس بار ڈیڑھ ماہ کے بعد ہی دوسری کال کر لی تھی۔
”ہیلو ! علیزہ! کیسی ہو تم؟”
فون پر اس کی آواز سنتے ہی پاپا نے کہا تھا۔
” میں ٹھیک ہوں پاپا! آپ کیسے ہیں؟”
اس نے جواباً پوچھاتھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں، تم آسٹریلیا گئی ہوئی تھیں ؟”
انہوں نے پوچھاتھا۔
”ہاں پاپا! ایک ماہ رہ کر آئی ہوں ممی نے بلایا تھا۔”
اس نے کہاتھا۔
”سب لوگ ٹھیک ہیں وہاں؟”
”ہاں ! سب ٹھیک ہیں۔”
”انجوائے کیا وہاں؟”
”ہاں بس تھوڑا بہت۔”
”کتنی چھٹیاں رہ گئی ہیں باقی؟”
انہوں نے پوچھا۔
”بس ایک ہفتہ۔”
”اچھا پھر ایسا کرو ایک ہفتہ کے لئے میرے پاس آ جاؤ۔”
”آپ کے پاس ، مسقط؟”
وہ حیران ہوئی تھی۔
”نہیں، مسقط نہیں، میں کراچی آیا ہوا ہوں۔”
”پاکستان آئے ہوئے ہیں ، کب آئے ہیں؟”
وہ بے اختیار خوش ہوئی تھی۔
”کافی دن ہو گئے ہیں ، میرا دل چاہ رہا ہے تمہیں دیکھنے کو۔”
”میرا دل بھی آپ کو دیکھنے کو چاہ رہا ہے۔”
” تو بس ٹھیک ہے۔ تم کل کرا چی آ جاؤ۔”
انہوں نے حتمی انداز میں کہاتھا۔
”آپ نے نانو سے بات کر لی ؟”
اس نے حامی بھرنے سے پہلے ان سے پوچھا تھا۔
”ہاں ! میں نے انہیں بتا دیا ہے۔ ائیر پورٹ سے فون کر دینا۔ میں ڈرائیور بھیج دوں گا۔ گھر کا نمبر ہے نا پاس؟”
”یس پاپا۔”
”اور موبائل کا ؟”
”وہ بھی ہے!”
”بس ٹھیک ہے۔ اب تم سے کراچی میں ملاقا ت ہو گی خدا حافظ۔”
انہوں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا تھا۔
”پاپا!”
اس نے بڑی تیزی سے کہا تھا وہ فون بند کرتے کرتے رک گئے۔
”کیا بات ہے علیزہ!”
انہوں نے پوچھا تھا وہ چند لمحے خاموش رہی۔
”پاپا! میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں۔”
اس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا تھا۔
”میں بھی تمہیں بہت مس کرتا ہوں علیزہ!”
دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔
” پھر تم جارہی ہو؟”
فون کا ریسیور کانوں سے ہٹاتے ہی نانو نے اس سے سوال کر دیا۔
”ہاں نانو!”
”میں تمہاری سیٹ بک کروا دیتی ہوں۔ کتنے دن رہو گی وہاں؟” نانو نے اس سے پوچھا تھا۔
”کم از کم ایک ہفتہ اور زیادہ سے زیادہ کا کوئی پتہ نہیں۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہاتھا۔
”لیکن ایک ہفتہ کے بعد تمہارا کالج بھی تو کھل رہا ہے!”
نانو نے جیسے اسے یاد دلایاتھا۔
”ہاں ! مجھے پتہ ہے لیکن نانو! کچھ نہیں ہوتا ، اگر میں کالج سے کچھ چھٹیاں بھی لے لوں۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ میں کتنی دیر کے بعد پاپا سے مل رہی ہوں۔”
”لیکن تمہاری سٹڈیز کا حرج ہو گا۔”
”کچھ نہیں ہو گا نانو! میں واپس آنے کے بعد سب کچھ کور کر لوں گی۔ آپ جانتی ہیں مجھے یہ کرنے میں کوئی پرابلم نہیں ہو گا
اس نے اصرار کیاتھا۔
”ٹھیک ہے تم شہلا کو فون پر کالج میں Applicationدینے کے لئے کہہ دینا۔”
نانو اسے ہدایت دیتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
اس رات وہ بے تحاشا خوش تھی اور یہ خوشی کسی سے بھی چھپی نہیں رہ سکی تھی حتیٰ کہ عمر سے بھی۔ رات کے کھانے پر نانو نے نانا کو اس کے کراچی جانے کے بارے میں بتا دیا تھا۔ عمر نے اس وقت غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ آج پہلی بار کھانے کی ٹیبل پر مسکرا رہی تھی۔ نانا کچھ دیر اس سے اس کے پاپا کا حال احوال پوچھتے رہے۔ وہ بڑے جوش و خروش سے پروگرا م کے بارے میں بتاتی رہی۔رات کو وہ اپنا سامان پیک کر رہی تھی جب نانو اس کے کمرے میں آئی تھیں۔
”کل صبح نو بجے کی فلائٹ ہے، تم سات بجے تک تیا ر ہو جانا۔ میں نے عمر کو کہہ دیاہے وہ تمہیں ائیر پورٹ ڈراپ کر دے گا۔”
انہوں نے اسے اطلاع دیتے ہوئے کہاتھا۔
”عمر ڈراپ کرے گا، مگر عمر کیوں نانو؟ ڈرائیور کو کہیں نا!”
وہ کچھ سٹپٹائی تھی ۔
”ڈرائیور آج نہیں آیا ، مجھے نہیں پتہ کل بھی آتا ہے یا نہیں، ویسے بھی ڈرائیور ساڑھے آٹھ بجے آتا ہے اور تمہیں آٹھ بجے تک ائیر پورٹ پر پہنچ جانا چاہئے آج ڈرائیور آ جاتا تو میں اسے کل جلدی آنے کا کہہ دیتی۔”
”آپ نانا سے کہہ دیں نا مجھے ڈراپ کرنے کے لئے!”
اس نے پھر اصرار کیاتھا۔
”تمہارے نانا کو میں اتنی صبح کہاں اٹھاؤں ، تمہیں عمر کے ساتھ جانے میں کیا پرابلم ہے؟”
”نہیں، بس ویسے ہی!”
”کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بس وہی تمہیں صبح چھوڑنے جائے گا۔”
نانو نے حتمی طور پر کہاتھا۔
علیزہ نے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔
” وہ تو صبح اٹھتے ہی نہیں ، تو پھر کل ۔۔۔۔۔”
نانو نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”یہ تمہارا نہیں میرا پرابلم ہے، کل وہ اٹھ جائے گا اور نہیں بھی اٹھاتو میں اسے اٹھا دوں گی۔”
نانو کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں۔
اگلی صبح وہ بہت ایکسائٹیڈ تھی۔ اپنا بیگ لے کر جب وہ لاؤنج میں آئی تو وہاں عمر نہیں تھا۔
”تم بیٹھ کر ناشتہ کر لو۔”
نانو نے اسے دیکھتے ہی کہاتھا۔
”نہیں نانو ! مجھے کچھ بھی نہیں کھانا، بس آپ ملازم سے کہیں ، میرا بیگ گاڑی میں رکھ دے۔”
اس نے بیگ فرش پر رکھتے ہوئے کہاتھا۔
”کچھ کھائے پیئے بغیر گھر سے نکلنا ٹھیک نہیں ہے، ناشتہ کر لو۔”
”نانو ! مجھے بھوک نہیں ہے۔”
”بھوک ہے یا نہیں ، تمہیں کچھ نہ کچھ ضرور کھانا ہے۔”
”میں پلین میں کھا لوں گی۔”
”پلین میں پتہ نہیں کیا ملے اور کیا نہیں، بس تم یہیں کھاؤ۔”
نانو کی ضد برقرار تھی۔
”پلیز نانو ! میرا دل نہیں چاہ رہا بلیو می۔ میرا دل واقعی نہیں چاہ رہا۔ ”
وہ منمنائی تھی۔
”چلو یہ جوس ہی پی لو۔”
علیزہ نے کچھ سوچ کر جوس کا گلاس اٹھا لیاتھا۔
نانو نے ملازم کو آواز دے کر بیگ گاڑی میں رکھنے کے لئے کہا تھا۔
”آپ دیکھ لیں کہ عمر ابھی تک نہیں آیا۔ میں نے آپ سے کہا تھا نا۔”
اس نے جوس کا گلاس خالی کرتے ہی کہا۔
”وہ ابھی تک سو رہا ہو گا۔ آپ نے خواہ مخواہ ہی اسے مجھے چھوڑنے کے لئے کہا۔”
علیزہ نے گھڑی دیکھی۔
”میں پتہ کرواتی ہوں ، سو بھی رہا ہو گا تو ملازم اٹھا دے گا۔ یہ کون سا اتنا بڑا پرابلم ہے۔”
نانو نے اطمینان سے کہاتھا۔ ملازم کو آواز دے کر انہوں نے اسے عمر کے کمرے میں بھیجاتھا۔ ملازم چند منٹوں میں ہی واپس آگیا تھا۔ عمر اس کے پیچھے تھا۔ اس کے حلیے سے لگ رہاتھا کہ وہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے ، وہ نائٹ سوٹ اور سلیپرز میں ہی ملبوس تھا۔ نانو نے مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیاتھا۔۔۔۔
”تمہیں یاد نہیں رہا کہ تمہیں آج علیزہ کو ائیر پورٹ چھوڑنے جانا ہے؟”
نانو نے اس سے پوچھا۔
”مجھے جگانے کے لئے ، ملازم کو بھیجنا پڑا۔”
”نہیں ملازم کے جانے سے پہلے ہی اٹھا ہوا تھا۔ مجھے یاد تھا۔ میں الارم لگا کر سویا تھا۔”
”علیزہ نے سات بجے تیار ہو کر نیچے آنا تھا۔ میں نے سوچا ، پندرہ منٹ میں وہ بریک فاسٹ کرے گی۔ میں سات بج کر دس منٹ کا الارم لگا کر سویا اور پانچ منٹ میں یہاں ہوں۔”
اس نے انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے بتایا۔ اس کی ہر چیز ہمیشہ کی طرح تھی۔ نانو اس کی بات کے اختتام پر کچھ فخریہ انداز میں علیزہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی تھیں۔ وہ کچھ کہے بغیر نظریں چرا گئی ۔
”چلیں علیزہ !”
عمر نے اس بار علیزہ سے پوچھا۔ وہ خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔
”آؤ ،میں تمہیں باہر تک چھوڑ آتی ہوں۔”
نانو نے علیزہ کا ہاتھ پکڑ لیاتھا۔
عمر ان کے آگے چلتا ہوا باہر نکل آگیا۔ وہ گاڑی سٹارٹ کر رہا تھا جب نانو نے اسے گلے لگا کر خدا حافظ کہاتھا۔
”وہاں جاتے ہی مجھے رنگ کر لینا۔ مجھے تسلی ہو جائے گی۔”
انہوں نے علیزہ سے کہاتھا۔
”اور کوشش کرنا کہ جلدی آجاؤ۔”
علیزہ نے مسکرا کر سر ہلا دیاتھا۔
عمر نے فرنٹ ڈور کھول دیا تھا۔ علیزہ نے ایک بار پھر نانو کی طرف ہاتھ ہلایا ، اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ نانو وہیں پورچ میں کھڑی ہاتھ ہلاتی رہی تھیں۔
”بہت خوش ہو علیزہ !”
گاڑی سڑک پر لاتے ہی عمر نے اس سے پوچھاتھا۔
”ہاں!”
اس نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیاتھا۔
”تمہارے پاپا بھی بہت خوش ہوں گے؟”
”ظاہر ہے ، وہ تو مجھ سے بھی زیادہ خوش ہوں گے!”
اس نے فخریہ انداز میں کہاتھا۔
”وہاں ائیر پورٹ پر کون ریسیو کرے گا تمہیں؟”
عمر نے مرر ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا۔
”ظاہر ہے کہ ، پاپا ہی ریسیو کریں گے۔”
اس نے بے اختیار جھوٹ بولاتھا۔
”تمہارے پاپا کافی سال کے بعد آئے ہیں پاکستان؟”
اس نے پوچھا تھا۔
”ہاں! تین سال کے بعد۔”
”تم تین سال کے بعد مل رہی ہو؟”
”چار سال بعد!”
”ہر سال کیوں نہیں ملتیں؟”
”بس ویسے ہی، پاپا تو مجھے مسقط بلاتے رہتے ہیں مگر میرا دل نہیں چاہتا وہاں جانے کو۔ میں ممی کے پاس چلی جاتی ہوں، اس لئے کہ مسقط میں بہت گرمی ہوتی ہے۔ میں سوچتی ہوں شاید مجھے وہاں کا موسم سوٹ نہ کرے۔ مجھے اصل میں آسٹریلیا میں زیادہ مزہ آتا ہے۔”
وہ یکے بعد دیگرے وضاحتیں کرتی جارہی تھی۔ عمر جہانگیر نے گردن موڑ کر چند لمحے اسے دیکھا تھا۔
”ہاں! واقعی آسٹریلیا میں رہنے میں زیادہ مزہ آتا ہے، میں بھی چند سال پہلے وہاں گیا تھا۔”
اس نے جیسے اس کے جھوٹ میں اس کی مدد کی۔
علیزہ نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا، وہ ایک بار پھر ونڈ سکرین کی طرف متوجہ تھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر اور پر سکون تھا۔ وہ کچھ مطمئن ہو گئی تھی۔
”ہاں ، آسٹریلیا میں زیادہ مزہ آتا ہے ، اس لئے میں وہیں جاتی ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی تھی۔ گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھاگئی۔ رستے میں ایک فلاور شاپ پر اس نے گاڑی روک دی۔ کچھ کہے بغیر وہ گاڑی سے اتر گیاتھا۔ چند منٹ بعد جب اس کی واپسی ہوئی تو اس کے ہاتھ میں سفید للی Liliesکا بکے تھا۔ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے علیزہ کی گود میں رکھ دیا۔ وہ حیران ہو گئی۔
”یہ تمہارے لئے ہے۔”
اس نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہاتھا۔
”مگر کس لئے؟”
”پھول دینے کے لئے کسی وجہ کی ضرورت تو نہیں ہوتی ہے۔ بغیر کسی وجہ کے بھی تو دئیے جا سکتے ہیں، اور میں تو ویسے بھی تمہیں بہت سے گفٹ دیتا رہتا ہوں۔ تم انہیں بھی گفٹ سمجھو۔”
اس نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا تھا، وہ کچھ دیر اس کا چہرہ ہی دیکھتی رہی۔
”تھینک یو!”
کچھ دیر کے بعد اس نے کہاتھا۔
”ویلکم!”
اس نے اسی پر سکون انداز میں کہا تھا۔
ائیر پورٹ پر گاڑی پارک کرنے کے بعد اس نے علیزہ کا بیگ اٹھا لیاتھا۔ علیزہ نے اس سے بیگ لینا چاہا۔
”اٹس آل رائٹ علیزہ ! میں تمہیں اندر چھوڑ آتا ہوں۔”
اس نے بیگ نہیں دیا تھا۔ علیزہ نے دوبارہ اصرار نہیں کیاتھا۔
”تم واپس کب آؤ گی؟”
اس کے ساتھ چلتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”تقریباً ایک ہفتے کے بعد یا شاید کچھ دن زیادہ لگ جائیں۔”
اس نے اسے بتایاتھا۔
”واپسی پر تمہیں ایک اور خوشخبری ملے گی۔”
اس نے سرسری سے انداز میں کہاتھا۔ علیزہ نے چونک کر اسے دیکھاتھا۔ وہ نارمل انداز میں مسکرایا تھا۔
”کیسی خوشخبری؟”
”یہ تو تمہیں واپسی پر ہی پتہ چلے گی!”
”پھر بھی آپ بتائیں تو سہی؟”
اس نے اصرار کیاتھا۔
”بس یہ تو تمہیں واپس آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔”
وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔ علیزہ نے اس کی طرف دیکھ کر کندھے اچکا دئیے۔
بیگ اسے تھماتے ہوئے اس نے علیزہ کو خدا حافظ کہا تھا۔ وہ اندر جانے کے لئے مڑ گئی تھی۔
”علیزہ !”
اسے اپنے پیچھے اس کی آ واز سنائی دی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔
”I will miss you!”
اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اس نے انگلش میں کہا تھا۔ وہ کچھ حیرانی سے اسے دیکھتی ہوئی واپس مڑ گئی۔۔۔۔
باب: 9
اگلے دن یونیورسٹی میں اس کا دل نہیں لگا تھا۔ گھر واپس آتے ہی وہ سیدھا کچن میں گئی۔
”نانو رات کے لئے کیا پکوا رہی ہیں!”
” کوئی خاص چیز کھا نے کو دل چاہ رہا ہے؟”
نانو نے مسکراتے ہوئے پوچھاتھا۔
”نہیں ! میں اپنے لئے نہیں عمر کے لئے پوچھ رہی ہوں۔ اس کے لئے کیا بنوا رہی ہیں۔”
نانو کرسی پر بیٹھی ملازم سے فریزر صاف کروا رہی تھیں۔ انہوں نے کچھ حیرانی سے دیکھاتھا۔
”عمر کے لئے تو کچھ بھی نہیں بنوارہی۔”
”کیوں نانو ؟”
وہ کچھ حیران رہ گئی۔
”آپ کو یاد ہے نا کہ وہ رات کو آ رہا ہے؟”
”ہاں ، مجھے یاد ہے ، وہ دو بجے کی فلائٹ سے یہاں آئے گا۔ پہنچتے پہنچتے اسے تین بج جائیں گے ظاہر ہے کہ اس وقت تو وہ کھانا نہیں کھائے گا، سیدھا سونے کے لئے چلا جائے گا۔”
”پھر بھی نانو! فرض کریں اس نے کھانا نہ کھا یا ہوا تو؟”
”یہ فرض کرنے والی بات ہے ہی نہیں ، وہ رات کا کھانا یقیناً فلائیٹ میں ہی کھائے گا۔ تم جانتی ہو کہ کھانے کے معاملہ میں وہ کتنا باقاعدہ ہے۔”
”پھر بھی نانو! بھوک کا کیا ہے۔ وہ تو کسی بھی وقت لگ سکتی ہے، اگر اس نے کچھ کھا نے کے لئے مانگ لیا؟”
”بعض دفعہ تم حماقت کی حد کر دیتی ہوعلیزہ! اس طرح بات کر رہی ہو جیسے گھر میں کھانے کے لئے کچھ ہو ہی نا۔ تمہیں پتہ ہے ہر وقت فریج میں دو، تین ڈشز ضرور ہوتی ہیں۔ بھوکا نہیں سو ئے گاوہ۔”
علیزہ کچھ شرمندہ سی ہو گئی تھی۔
”البتہ کل کے لئے میں کافی ڈشز بنوا رہی ہوں، تم دیکھ لینا بلکہ خود بھی خانساماں سے کہہ دینا ، اگر کوئی خاص چیز وہ بھو ل جائے تو۔”
وہ اب دوبارہ ملازم کی طرف متوجہ ہو چکی تھیں۔
”میں دیکھ لوں گی ، آپ فکر نہ کریں۔”
وہ کچن سے باہر آگئی تھی، لاؤنج کی گھڑی تین بجا رہی تھی۔
”اور وہ رات کے تین بجے گھر پہنچے گا۔ ابھی پورے بارہ گھنٹے باقی ہیں اور مجھے ان بارہ گھنٹوں میں کیا کرنا چاہئے ؟”
اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی۔
اپنے کمرے میں جاکر رات کو پہننے کے لئے کپڑے دیکھنے شروع کر دئیے تھے۔ پھر ایک لباس اس نے منتخب کر ہی لیاتھا ایک خیال آنے پر وہ واپس کچن میں آگئی تھی۔
”نانو ! عمر ڈرائیور کو پہچانے گاکیسے ؟ یہ ڈرائیور تو نیا ہے اور ڈرائیور بھی عمر کو نہیں پہچانتا!”
”میں نے ڈرائیور کو عمر کی تصویر دکھا دی تھی۔ مزید احتیاط کے طور پر میں نے اسے کارڈ پر عمر کا نام لکھ دیا ہے۔ عمر کارڈ اس کے پاس دیکھ کر خود ہی آ جائے گا۔”
”ہاں ! یہ ٹھیک ہے۔”
وہ مطمئن ہو کر واپس اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
رات کا کھانا اس نے نانو کے ساتھ آٹھ بجے کھالیا۔ پہلی بار کلاک کو بار بار دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وقت کو پر نہیں لگتے بلکہ بعض دفعہ وقت بالکل رک بھی جاتا ہے۔ اس کی تیز رفتاری ہی صبر آزما نہیں ہوتی ۔بعض دفعہ اس کی سست رفتاری بھی تکلیف دہ ہوتی ہے۔
”نانو، آپ ڈرائیور کو کتنے بجے بھیجیں گی ؟”
کھانے سے فارغ ہو کر علیزہ نے پوچھاتھا۔
”ایک بجے۔”
”آپ عمر کا انتظار کریں گی؟”
”ظاہر ہے ،مجھے تو ویسے بھی رات کو نیند نہیں آتی مگر تم چاہو تو جا کر سو جاؤ۔”
”نہیں نانو ! میں بھی انتظار کروں گی۔”
”تمہیں صبح یونیورسٹی جانا ہے۔”
نانو نے اسے یاد دلایا۔
”ہاں ! مجھے پتہ ہے لیکن کچھ نہیں ہوگا۔”
اس نے ان کی یاد دہانی کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہاتھا۔
کھانے سے فارغ ہو کر وہ نانو کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھ گئی۔ ٹی وی پر پروگرام دیکھتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ عمر کے بارے میں بھی باتیں کر تی جا رہی تھیں۔
ایک بجے انہوں نے باہر گاڑی کے اسٹارٹ ہو کر جانے کی آ واز سنی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھیں۔
ڈیڑھ……دو……ڈھائی……تین……
سوا تین بجے انہوں نے گیٹ پر ہارن کی آواز سنی تھی۔
”عمر آگیا ہے۔”
بے اختیار علیزہ کے منہ سے نکلا تھا۔ وہ نانو کے ساتھ لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر آگئی تھی۔ گاڑی پورچ میں داخل ہو رہی تھی۔
علیزہ کو ایک جھٹکا لگاتھا۔ گاڑی میں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے حیرا نی سے دیکھا۔
”نانو! گاڑی میں عمرنہیں ہے۔”
”پتہ نہیں کیا بات ہے؟”
نانو بڑ بڑائی تھیں۔ ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آگیاتھا۔
”کیا ہوا اعظم؟ عمر کہاں ہے؟ نانو نے اس سے پوچھا۔
”وہ جی فلائیٹ کینسل ہو گئی موسم کی وجہ سے۔”
”کیا ، فلائیٹ کیسے کینسل ہو گئی؟ مجھے تو عمر نے کوئی اطلاع نہیں دی ، اگر ایسا کچھ ہو تا تو وہ مجھے بتا تو دیتا ۔ تمہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔”
نانو نے فکر مندی سے کہا تھا۔
”نہیں جی، میں نے تو انکوائری کاؤنٹر سے پتہ کروایا تھا۔ آپ بے شک خود ہی فون کر کے پتہ کر لیں، میں نے تو کچھ لوگوں سے بھی پوچھا تھا، انہوں نے بھی یہی کہا تھا۔”
نانو ابھی بھی بے یقینی تھی۔
” سمجھ میں نہیں آرہا، کہ اس نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔”
”ہو سکتا ہے عمر بھول گیا ہو!”
علیزہ نے کچھ مایوسی سے کہاتھا۔
”نہیں ! عمر اتنا لا پرواہ تو نہیں ہو سکتا۔”
”بیگم صاحبہ! اب میں کیا کروں؟”
ڈرائیور نے پوچھا تھا۔
”ٹھیک ہے تم بھی جا کر سو جاؤ!”
علیزہ نے نانو کے ساتھ اندر جاتے ہوئے کہا۔
”عمر کو اطلاع دینی چاہئے تھی۔”
نانو اب بھی فکر مند تھیں۔
”ہو سکتا ہے ابھی کچھ دیر تک اس کا فون آ جائے ، یا صبح فون کردے۔”
علیزہ نے نانو کو تسلی دی تھی ۔
”ہاں ، ہو سکتا ہے۔”
”اب آپ سو جائیں نانو!”
”ہاں، میں تو سو جاؤں گی۔ تم بھی جاکر سو جاؤ!”
وہ سر ہلا کر وہاں سے ہٹ گئی۔ وہ بے دلی کے ساتھ اپنے کمرے میں آئی تھی اس کی آنکھوں سے نیند مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔ وہ اب جھنجھلا رہی تھی۔
”کیا فائدہ ہوا اس طر ح احمقوں کی طرح انتظار کرنے کا۔ نانو ٹھیک کہتی ہیں، بعض دفعہ کہ میں واقعی حد کر دیتی ہوں حماقت کی۔”
اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی تھی۔
”عمر کو نہ آنے پر اطلاع تو دینی چاہئے تھی۔ اسے سوچنا چاہئے تھا،یہاں سب لوگ اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔”
وہ اپنے کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ بے اختیار اس کے قدم عمر کے کمرے کی طرف اٹھ گئے تھے۔ کمرے کی لائٹ جلا کر اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تھی ۔ اسے کمرہ یکدم بہت اداس لگنے لگا تھا۔کچھ دیر پہلے مکمل نظر آنے والی ہر چیز یک دم نامکمل نظر آنے لگی تھی۔ وہ کچھ اور دل گرفتہ ہو گئی۔ کمرے میں رکھی تازہ پھولوں کی ارینج مینٹس کو لے کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس نے انہیں دوبارہ ترتیب دینا شروع کردیا چند منٹوں میں یہ مصروفیت بھی ختم ہو گئی تھی۔ اس نے انہیں نئی جگہوں پر رکھا تھا۔ مدھم آواز میں سٹیریو آن کر دیا تھا۔ کل کمرے کی صفائی کرواتے ہوئے بھی وہ یہی کیسٹ سن رہی تھی۔
” Every thing I do I do it for you!”
برائن ایڈمز کی خو بصورت آواز کمرے میں لہرانے لگی تھی۔
”اگر وہ آ جاتا تو اس وقت یہ کمرہ اتنا اداس اوراکیلا نہ ہوتا۔”
وہ لاشعوری طور سے ایک بار پھر اس کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ریک میں پڑا ہو ا ایک ناول اٹھا کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تھی، وہ جیسے کمرے کی تنہائی اور اداسی کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔جیسے عمر کی کمی کو پورا کرنا چاہ رہی ہو۔
ناول پڑھتے ہوئے اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اس وقت کہاں ہو گا اور کیا کر رہا ہو گا۔
”وہ جہاں بھی ہو گا ، سو رہا ہو گا۔”
فوراً اس کے ذہن میں ابھراتھا۔
”اور یہاں پر لوگ اس کے انتظار میں جا گ رہے ہیں۔”
اس کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔ ناول پڑ ھتے ہوئے اسے اپنی آنکھیں بوجھل ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ آنکھوں کو بند کر کے اس نے آنکھوں کو کچھ آ رام پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ دوبارہ آنکھیں کھولنے کی اسے کوشش ہی نہیں کرنی پڑی تھی۔ وہ سو چکی تھی۔
جس وقت دوبارہ اس کی آنکھ کھلی تھی تو کمرے میں سورج کی روشنی پھیل چکی تھی۔ آنکھیں کھول کر وہ کچھ دیر تک وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ ہے کہاں ؟ پھر یک دم وہ جان گئی تھی کہ وہ کہاں ہے۔ اسے حیرانی ہوئی تھی کہ وہ وہاں کیسے سو گئی تھی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ سونے سے پہلے کیا کر رہی تھی، اسے یاد آ گیا وہ ناول پڑھ رہی تھی۔
”اور پھر مجھے نیند آگئی ہو گی۔”
اس کی نظر سامنے دیوار پر لگے ہوئے وال کلاک پر پڑی تھی، ساڑھے دس بجنے والے تھے اور وہ ہکا بکا رہگئی تھی۔
”میں اتنی دیر تک سوتی رہی۔”
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
” نانو نے یہ سوچ کر مجھے اٹھانے کی کوشش نہیں کی ہو گی کہ میں رات کو دیر سے سوئی تھی، اب اپنی نیند پوری کر لوں۔”
اس نے سوچا تھا ، بائیں ہاتھ سے جماہی روکتے ہوئے اس نے اپنی ٹانگوں سے کمبل ہٹانا چاہا ، اور ایک بار پھر رک گئی تھی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ کیا رات کو اس نے اپنے اوپر کمبل لیا تھا۔ اسے یاد تھا کہ جس وقت وہ ناول پڑھ رہی تھی اس وقت اس نے کمبل نہیں اوڑھا تھا۔
”ہو سکتا ہے نیند میں لے لیا ہو۔”
اس نے سوچاتھا۔ کمبل ہٹانے کے بعد اس نے بیڈ پر ناول دیکھنے کی کوشش کی تھی، ناول بیڈ پر نہیں نظر آیا تھا۔ اس نے نیچے کارپٹ پر دیکھا۔ ناول وہاں بھی گرا نہیں تھا۔ وہ کچھ الجھ گئی تھی۔ ناول کو وہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس نے گردن موڑ کر سائیڈ ٹیبل پر دیکھا ، اور کچھ دیر تک وہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ ناول کو وہاں ہونا چاہئے تھا۔ اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس نے ناول وہاں رکھا تھا۔ ، ہو سکتا ہے کہ میرے سونے کے بعد نانو وہاں آئی ہوں اور ناول اٹھا کر یہاں رکھ دیا ہو۔ اسے بالآخر خیال آیا اور وہ کچھ شرمندہ سی ہو گئی۔
”پتہ نہیں میرے یہاں ہونے پر نانو نے کیا سوچا ہو گا؟اور اب مجھے کیا بہانہ کر نا چاہئے ؟”
کمبل تہہ کرتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔ کمبل تہہ کرنے کے بعد اس نے سوئچ پینل کو دیکھا۔ سارے سوئچز آف تھے ، سٹیریو بھی آف کر دیا گیا تھا اور اب تو اس بات میں کوئی شک ہی نہیں رہ گیا تھا کہ ، نانو وہاں آئی تھیں اس نے بیڈ کی چادر ٹھیک کی اور اپنا دوپٹہ اٹھا کر کمرے سے نکلنے لگی تھی کہ جب اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی تھی وہ ساکت ہو گئی تھی، وہاں ایک والٹ اور رسٹ واچ پڑی تھی۔ وہ بے یقینی سے ان چیزوں کو دیکھتی رہی تھی پھر اس نے کمرے کا تفصیلی جائزہ لیا کمرے میں اور کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر خیال آنے پر وہ لپک کر ڈریسنگ روم کی طرف گئی اور دروازہ کھولتے ہی اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔ وہاں دو بھاری بھرکم سوٹ کیس پڑے ہوئے تھے۔
وہ تقریباً بھا گتی ہوئی کمرے سے باہر آئی تھی، نانو کو آوازیں دیتے ہوئے لاؤنج میں آ گئی۔
”ادھر کچن میں ہوں علیزہ! کیا ہو گیا ہے؟”
نانو کی آواز اسے سنائی دی، وہ کچن کی طرف چلی گئی۔
نانو سلاد بنا رہی تھیں۔
”نانو ! عمر آ گیا ہے؟”
نانو نے اپنی مسکراہٹ چھپا لی تھی۔
”نہیں تم سے کس نے کہا ؟”
انہوں نے انجان بنتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے ان کی مسکراہٹ دیکھ لی تھی۔۔۔
”نانو ! پلیز ،جھوٹ نہ بولیں عمر آگیا ہے۔ مجھے پتہ ہے۔”
وہ کرسی کھینچ کر ان کے پاس بیٹھ گئی۔
”ہاں آ گیا ہے صبح ساڑھے چار بجے آیا ہے!”
”مگر اس کی تو فلائیٹ تو کینسل ہو گئی تھی۔”
”ہاں ! مگر وہ اس فلائیٹ سے نہیں آیا۔ اور تم نے یہ کیا بے وقوفی کی۔ سارا دن کمرہ تیار کرنے کے بعد خود وہاں جا کر سو گئیں۔”
نانو نے اسے ڈانٹنا شروع کر دیا۔
”وہ بے چارہ تھکا ہوا تھا۔ اپنے کمرے میں گیا تو وہاں تم سوئی ہوئی تھیں۔ وہ واپس آگیا، میں تمہیں جگانا چاہتی تھی مگر اس نے منع کر دیا اندر جانے سے۔ اس نے کہا کہ وہ کہیں اور سو جائے گا۔ میں نے اسے ایک کمرہ کھول دیا مگر کمبل وغیرہ سارے اسٹور میں تھے پھر میں نے اسے اپنا کمبل دے دیا اور خود تمہارے کمرے سے کمبل لے آئی۔”
نانو سلاد بناتے ہوئے اسے بتا رہی تھیں۔
”میں ویسے ہی اس کے کمرے میں گئی تھی پھر پتہ نہیں، کب مجھے نیند آگئی۔ مجھے کیا پتہ تھا وہ آج ہی آجائے گا، لیکن وہ آیا کیسے ؟”
“ٹیکسی پر آیا ہے!”
”اب کہاں ہے؟”
”ابھی سویا ہوا ہے!”
”کہاں؟”
”میرے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں ، اب تم اس کو جگا نے مت پہنچ جانا۔”
”نہیں نانو! میں کیوں اسے جگاؤں گی؟”
وہ کچھ شرمندہ ہو ئی تھی۔
”ویسے وہ کب اٹھے گا؟”
کچھ دیر بعد اس نے پوچھا تھا۔
”پتہ نہیں لیکن میرا خیال ہے لنچ تک اٹھ ہی جائے گا۔ اسی لئے میں لنچ پر اس کے لئے خاص طور پر ڈشز تیار کر وا رہی ہوں۔”
نانو نے اسے بتایاتھا۔
”یونیورسٹی کا ٹائم تو نکل گیا ہے، اب تم منہ ہاتھ دھو لو ، کپڑے چینج کرو اور آکر کچھ کھالو۔”
نانو نے اس سے کہاتھا۔ وہ سر ہلاتی ہوئی کچھ مسرور سی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
پندرہ منٹ میں وہ نہا دھو کر وہ دوبارہ کچن میں گئی تھی۔
”نانو! میں اب لنچ ہی کروں گی ، ابھی کچھ کھالیا تو پھربھوک نہیں رہے گی۔”
اس نے آتے ہی اعلان کیا تھا۔
”ٹھیک ہے مت کھاؤ۔”
نانو نے اصرار نہیں کیاتھا۔
”آپ نے عمر کے ساتھ باتیں کی تھیں؟”
اس نے بڑی دلچسپی سے پوچھاتھا۔
”نہیں!”
”کیوں؟”
”بھئی کیا باتیں کرتی ، ساڑھے چار بجے تو وہ بے چارہ آیا تھا اور میں اس وقت اس سے کیا باتیں لے کر بیٹھ جاتی۔”
نانو کسٹرڈ کی گارنشنگ کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
”کیسا لگ رہا تھا؟”
علیزہ نے اشتیاق سے پوچھاتھا۔
” He has always been handsome!”(وہ ہمیشہ سے ہینڈسم ہے ۔)
نانو نے فخریہ انداز میں کہاتھا۔
”نانو میں اس لئے پوچھ رہی تھی کہ وہ پہلے سے کچھ بدلا ہوا ہے یا نہیں۔”
”علیزہ !ابھی اٹھ جائے گا تو دیکھ لینا کہ بدلا ہے یا نہیں!”
نانو نے مسکراتے ہوئے کہاتھا۔
باب: 10
ائیر پورٹ پر ڈرائیور اس کے نام کا کارڈ لئے موجود تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی۔ ائیر پورٹ سے گھر تک کا راستہ بھی خاموشی سے طے ہوا۔ ڈرائیور گاڑی ڈرائیو کرتا رہاتھا اور وہ سڑک پر نظر آنے والی ٹریفک دیکھتی رہی تھی۔ جوں جوں گھر قریب آ تا جا رہا تھا اس کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہ مسلسل اپنے باپ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
”وہ یقیناً مجھے دیکھ کر حیران ہوں گے ، کیونکہ اب میں بہت بڑی ہو گئی ہوں۔ ہو سکتا ہے اب میرا قد بھی ان کے برابر آگیا ہو۔”
اس نے مسکراتے ہوئے سوچاتھا۔
”پاپا یقیناً مجھے بہت مس کر رہے ہوں گے۔ اسی لئے تو انہوں نے مجھے یہاں آتے ہی بلا لیاہے۔”
اسے کچھ فخر کا احساس ہوا تھا۔
گاڑی اب اس کے ددھیالی گھر پہنچ گئی تھی۔ ڈرائیور کے ہارن بجانے پر گیٹ کھل رہا تھا۔
سامنے پورچ خالی نظر آرہا تھا۔
”ابھی ہارن سننے پر پاپا باہر آ جائیں گے۔”
اس نے کچھ مسرور ہوکرسوچا۔
گاڑی اب پورچ میں پہنچ گئی تھی۔
وہ دروازہ کھول کر نیچے اتر آئی۔ پورچ ابھی بھی خالی تھا۔ ڈرائیور اب ڈکی سے اس کا سامان نکال رہا تھا۔ وہ ابھی بھی اندر سے پاپا یا کسی اور کی آمد کی منتظر تھی۔ ڈرائیور نے ڈکی سے سامان نکالنے کے بعد اسے کہا۔
”علیزہ بی بی ! اندر آ جائیں۔”
یہ کہتے ہوئے وہ پیچھے دیکھے بغیر آگے بڑھ گیا۔ اسے یک دم مایوسی ہوئی تھی۔
”پاپا یقیناً لاؤنج میں ہوں گے اور میرے اندر آنے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔”
اس نے فوراً خود کو تسلی دی تھی ۔ ڈرائیور کے پیچھے وہ بھی اندر داخل ہو گئی تھی۔ لاؤنج خالی تھا، وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ڈرائیور نے ایک کونے میں اس کا بیگ رکھ دیاتھا۔
”آپ بیٹھ جائیں، میں اندر بتا دیتا ہوں۔” ڈرائیور اس سے کہتا ہوا اندر چلا گیا تھا۔
علیزہ کو وہ خود سے زیادہ اس گھر کا ایک فرد لگا تھا۔ کسی مہمان کی طرح وہ ایک صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ اس کی مایوسی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔ گھر میں اتنی خاموشی تھی جیسے وہاں ملازموں کے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں۔ اس گھر میں ہمیشہ اتنی ہی خاموشی رہتی تھی۔ بچپن سے لے کر اب تک وہ جتنی بار وہاں آئی تھی، ہمیشہ اسی خاموشی نے اس کا استقبال کیا تھا ہاں پہلے فرق یہ تھا کہ پاپا اسے دروازے پر ملا کرتے تھے اور اس خاموشی کو وہ بعد میں محسوس کیا کرتی تھی۔ آج خاموشی کو اس نے پہلے محسوس کیا تھا اور پاپا سے وہ ابھی نہیں ملی تھی۔
پچھلی بار جب وہ یہاں آئی تو دادا کے علاوہ چچی اور ان کے دو بچوں سے بھی اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس گھر کے مکینوں کی تعداد بس اتنی ہی تھی۔
”اب پاپا اور ان کی فیملی۔”
اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیاتھا۔ کمرے میں ڈرائیور کے ساتھ ایک عورت داخل ہوئی۔ علیزہ نے اسے پہچان لیا تھا۔ وہ خانساماں کی بیوی تھی۔ پچھلے کئی سال سے وہ دونوں وہیں کام کر رہے تھے۔ اس عورت نے آتے ہی بڑی گرم جوشی اور انکسار سے علیزہ سے ہاتھ ملایا۔ ا س کا حال احوال پوچھا تھا۔
”سب لوگ تو ابھی سو رہے ہیں، آدھے گھنٹے تک اٹھ ہی جائیں گے۔ صاحب نے آپ کے آنے کے بارے میں ہمیں رات کو بتا دیا تھا، اور کہا تھا کہ جب آپ آئیں تو میں آپ کو کمرے میں پہنچا دوں اور آرام کرنے کے لئے کہوں!”
زرینہ نے اسے آگاہ کیا تھا ۔ علیزہ کو ایک اور جھٹکا لگا۔
”پاپا سو رہے ہیں ؟”
اسے یقین نہیں آیا تھا۔
”ہاں ! یہاں سب لوگ دیر سے ہی اٹھتے ہیں ، لیکن آدھے گھنٹے تک اٹھ ہی جائیں گے۔ آپ میرے ساتھ آئیں میں آپ کو آپکا کمرہ دکھا دیتی ہوں۔ آپ چاہیں تو کچھ دیر آرام کر لیں۔”
زرینہ نے اس کا بیگ اٹھا تے ہوئے کہاتھا۔ اب وہ اس کے آگے چل رہی تھی، اور علیزہ کا سارا جوش وخروش سرد ہو چکا تھا۔ وہ خاموشی سے زرینہ کے پیچھے چلتی گئی تھی۔ زرینہ نے ایک کمرے کا دروازہ اس کے لئے کھول دیا تھا۔ وہ کمرے تک علیزہ کی رہنمائی نہ بھی کرتی تب بھی علیزہ کو وہ کمرہ اچھی طرح یاد تھا۔ ہمیشہ یہاں آنے پر وہ اسی کمرے میں ٹھہرا کرتی تھی۔ کمرے کی کلر اسکیم اور پردوں اور کارپٹ کا رنگ بدلا جا چکا تھا۔ مگر سیٹنگ وہی تھی۔ زرینہ نے کمرے کے ایک کونے میں اس کا بیگ رکھ دیا تھا۔ علیزہ خاموشی سے بیڈ پر جا کر بیٹھی گئی تھی۔
”آپ کے لئے چائے لاؤں؟”
ملازمہ نے اس سے پوچھاتھا۔
”نہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ، میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں۔”
کچھ بجھے ہوئے دل کے ساتھ اس نے زرینہ سے کہا تھا۔
وہ سر ہلاتی ہوئی اس کمرے سے نکل گئی۔ وہ چپ چاپ بیڈ پر سیدھی لیٹ گئی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی تھی کہ لاہور میں اس وقت نانو کیا کر رہی ہوں گی۔ وہ یقیناً دوپہر کا کھانا تیار کروارہی ہوں گی، اسے خیال آیا تھا اور شاید مجھے بھی یاد کر رہی ہوں گی۔ اس نے خود کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی۔
بیڈ پر سیدھی لیٹی وہ بہت دیر تک چھت کو بے مقصد دیکھتی رہی پھر اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں جب وہ غنودگی کے عالم میں تھی تو اس نے دروازہ پر دستک سنی تھی۔ بے اختیار اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ دستک ایک بار پھر ہوئی، اور وہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”یس کم ان!” اپنے ذہن پر چھائی ہوئی غنودگی کو اس نے جھٹک کر دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ دروازہ کھول کر خانساماں کی بیوی اندر آئی تھی۔
”علیزہ بی بی ! سکندر صاحب اٹھ گئے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں۔”
اس نے اندر آتے ہی اطلاع دی۔ علیزہ بے اختیار اپنے بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے کی مایوسی ایک دم غائب ہو گئی تھی۔
”پاپا کہاں ہیں ؟”اس نے زرینہ سے پوچھاتھا۔
”وہ لنچ کرنے کے لئے ڈائننگ روم میں گئے ہیں۔”
زرینہ نے اسے بتایاتھا۔
وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئی کمرے سے باہر آگئی تھی۔
”ڈرائنگ روم میں وہ صرف اکیلے ہی ہیں ؟”
اس نے کوریڈور میں آکر زرینہ سے پوچھاتھا۔
”نہیں، سب لوگ وہیں ہیں، بڑے صاحب، شمامہ بی بی اور طلحہ۔”
اس نے علیزہ کے دادا، چچی اور ان کے بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔
”انکل منان کہاں ہیں؟”
اس نے اپنے چچا کے بارے میں پوچھاتھا۔
”چھوٹے صاحب تو فیکٹری گئے ہوئے ہیں اور تانیہ بی بی ابھی سکول سے ہی نہیں آئیں۔”
زرینہ نے گھر کے باقی دو افراد کے بارے میں بھی اسے اطلاع دے دی، اور وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چلتی رہی۔
جب وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو سب لوگ گفتگو میں مصروف تھے۔ سکندر اسے دیکھ کر اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کی طرف آئے اوراسے خود سے لپٹا لیاتھا۔
”میں تو تمہیں پہچان ہی نہیں سکا علیزہ! تم تو اتنی بڑی ہو گئی ہو؟”
انہوں نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا تھا علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
”اب تو تم میرے جتنی ہو گئی ہو!”
انہوں نے اسے بہلاتے ہوئے کہاتھا۔
”کیسی ہو تم؟”
”میں ٹھیک ہوں پاپا !آپ کیسے ہیں؟”
اس نے جواباً پوچھا تھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ، اور تمہیں سفر میں کوئی پرابلم تو نہیں ہوا؟”
انہوں نے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں!”
اس نے مختصراً جواب دیاتھا۔
”اپنے دادابو اور آنٹی سے ملی ہو؟”
اسے ساتھ لئے ہوئے ڈائننگ ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے انہوں نے پوچھاتھا۔
”نہیں جب میں آئی تو سب لوگ سو رہے تھے!”
اپنی آنٹی کو دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہاتھا، اور دادا ابو نے حسب عادت اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہو ئے اس کا حال احوال دریافت کیا۔ آنٹی نے اپنی کرسی سے کھڑے ہو کر اسے گلے لگا یا تھا۔
”تمہارے پاپا ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں کہ تم تو واقعی بہت بڑی ہو گئی ہو۔”
انہوں نے اس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
آنٹی میں چار سال بعد یہاں آئی ہوں۔ چار سال میں مجھے کچھ نہ کچھ تو بڑا ہونا ہی تھا۔”
اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے، بارہ سالہ طلحہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا۔ اس کی چچی جواباً صرف ہلکے سے مسکرا دیں تھیں۔ سکندر اب اپنی کرسی پربیٹھ چکے تھے۔
”یہاں میرے پاس آ جاؤ علیزہ!”
انہوں نے اپنے بائیں طرف والی کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے ان کی طرف آئی تھی۔ سکندر اب دوبارہ اپنے باپ سے باتوں میں مصروف ہوچکے تھے۔ وہ ان کاچہرہ دیکھنے لگی، ان کے چہرے پر چند جھریوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ پچھلی بار کی نسبت زیادہ فریش اور سمارٹ نظر آرہے تھے۔ اسے وہاں ان کے پاس بیٹھ کر عجیب قسم کے تحفظ کا احساس ہونے لگا۔
”علیزہ !کھانا شروع کرو بھئی، تم کس چیز کا انتظار کرو بھئی، تم کس چیز کا انتظار کر رہی ہو؟”
اس کی چچی نے اسے مخاطب کرتے ہوتے کہا تھا۔
اس نے خاموشی سے پلیٹ اپنے آگے سرکا لی اور اس میں چاول ڈالنے لگی۔ سکندر ابھی بھی اپنے والد سے باتوں میں مصروف تھے۔ چچی اور طلحہ خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے، اور وہ جو کل سے یہ سوچ رہی تھی کہ یہاں آتے ہی سب اسے خاص اہمیت دیں گے۔ کیونکہ وہ چار سال کے بعد وہاں آئی تھی۔ بے حد دل گرفتہ تھی۔ یہاں کسی کو اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑاتھا۔
”حتیٰ کہ میرے پاپا کو بھی نہیں ،جو کل یہ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے بہت مس کر رہے ہیں۔”
اس نے بے دلی سے چاول کھاتے ہوئے سوچا۔ چچی نے کھانے کے دوران دو چار بار ڈشز اس کی طرف بڑھائی تھیں، مگر جب اس نے کھانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تو ان کا جوش و خروش بھی ٹھنڈا پڑگیا۔
اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ نانو کے ساتھ کھانا کھانے اور پاپا کے ساتھ کھانے میں کیا فرق ہے؟ اسے احساس ہو ا تھا دونوں جگہ اس کے لئے کوئی خاص تبدیلی نہیں تھی۔
کھانے کے دوران اس کے دادا ابو نے دو ، تین بار اسے مخاطب کیا تھا۔ اور پھر کھانے سے فارغ ہو کر وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ آنٹی شمامہ بھی طلحہ کے ساتھ ڈائننگ روم میں سے نکل گئی تھی۔ تب اس کے پاپا نے اس سے دوبارہ گفتگو کا سلسلہ شروع کیاتھا۔
”اسٹڈیز کیسی جارہی ہیں تمہاری؟”
انہوں نے سویٹ ڈش نکالتے ہوئے پوچھاتھا۔
”بہت اچھی !”
وہ باپ کے مخاطب کرنے پر ایک بار پھر خوش ہو گئی تھی۔
”کونسی کلاس میں ہو؟”
اسے ان کے سوال پر یک دم دھچکا لگاتھا۔ اس کا خیا ل تھا انہیں یہ یاد ہو گا ہر بار فون پر وہ انہیں اپنی کلاس کے بارے میں ضرور بتایا کرتی تھی۔
”اے۔ لیولز میں”
مدھم آواز میں اس نے کہا تھا ۔
”آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟”
”آگے کے بارے میں ابھی سوچانہیں ، آپ بتائیں پاپا! مجھے آگے کیا کرنا چاہئے؟”
اس نے بڑے اشتیاق سے سکندر سے پوچھاتھا۔
”جو تم کرنا چاہتی ہو وہ کرو۔”
انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہاتھا۔
”مگر میں وہ کرنا چاہتی ہوں جو آپ چاہتے ہیں!”
”بھئی، میں کیا بتا سکتا ہوں کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے یہ تو تمہیں خو د طے کرنا ہے یا پھر تمہاری ممی اور نانو طے کریں گی۔”
سکندر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہاتھا۔
”نو پاپا ! ان سے نہیں آپ سے گائیڈینس لینا چاہتی ہوں، یقین کریں میں وہی کروں گی جو آپ مشورہ دیں گے۔”
اس نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جیسے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی تھی۔
اس کے پاپا نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
”جو میں کہوں گا۔ چلو ٹھیک ہے اس پر بعد میں بات کریں گے۔”
انہوں نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔
”تمہارے نانا نانی کیسے ہیں؟”
”بالکل ٹھیک ہیں!”
”تمہارا خیال رکھتے ہیں ؟”
انہوں نے جیسے کچھ جانچنے کے لئے غور سے اس کی طرف دیکھتے ہو ئے پوچھا تھا۔
”بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں ، اور نانو تو ایک منٹ بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ نانا بھی بہت کیئرنگ ہیں۔ ابھی بھی یہاں آنے پر وہ دونوں بہت اداس ہو رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے بہت مس کریں گے۔ اصل میں ان دونوں کو میری بہت عادت ہو گئی ہے۔ میں نہیں ہوتی تو وہ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نانو تو آنے ہی نہیں دے رہی تھیں کہ میں ابھی چند ہفتہ پہلے ہی آسٹریلیا سے آئی ہوں، اور اب پھر جارہی ہوں۔ مگر میں ضد کر کے آئی ہوں، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، پھر بھی پاپا میرا وہاں دل نہیں لگتا۔” ا س نے جھوٹ کا ایک انبار جمع کرتے ہوئے کہاتھا۔ سکندر اس کی باتوں سے جیسے مطمئن ہو گئے تھے ،ایک بار پھر وہ سویٹ ڈش کی طرف متوجہ ہو گئے۔
”کیوں ! دل کیوں نہیں لگتا؟”
انہوں نے پوچھاتھا۔
”میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں۔”
وہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، مگر وہ کچھ جھجک کر بات بدل گئی تھی۔
”تمہیں ان کی محبت کی قدر کرنی چاہئے۔آخر وہ تمہاری اتنی پرواہ کرتے ہیں ، تمہیں کوشش کرنی چاہئے کہ تمہارا دل بھی وہاں لگا رہے!”
انہوں نے جو کہا تھا۔ وہ ان سے نہیں سننا چاہتی تھی۔ کچھ مایوس ہو کر اس نے باپ کی طرف دیکھاتھا۔
”میں کوشش کرتی ہوں۔”
کچھ بے دلی سے اس نے کہاتھا۔
”تمہاری آنٹی اپنے میکے گئی ہوئی ہیں ، شام کو آ جائیں گی تو تم مل لینا ان سے۔”
انہوں نے اسے بتایا تھا۔ علیزہ نے غور سے باپ کا چہرہ دیکھا وہ بہت مطمئن نظر آ رہے تھے۔
”وہ آپ کے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔”
”ہاں ! وہ میرے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔”
وہ کچھ چپ سی ہو گئی۔ اس کے باپ نے اس کی خاموشی کو بغور نوٹ کر لیاتھا۔
”تمہارے لئے کچھ چیزیں لے کر آیا ہوں، کچھ چیزیں تمہاری آنٹی نے بھی پسند کی ہیں۔ شام کو جب وہ آئیں گی تو خود ہی تمہیں دیں گی۔”
انہوں نے اسے اطلاع دی تھی۔
”مجھے ایک ضروری کام سے باہر جانا ہے ۔ تم آرام کرو یا پھر اپنی آنٹی وغیرہ سے باتیں کرو، شام کو تم سے دوبارہ ملاقات ہو گی۔”
انہوں نے سویٹ ڈش ختم کرنے کے بعد ٹیبل سے کھڑے ہو تے ہوئے کہاتھا۔ وہ بھی خاموشی سے ان کے ساتھ ہی کھڑی ہو ئی۔
”کیا میں اس طرح ان کے ساتھ ایک ہفتہ گزاروں گی۔”
اپنے کمرے میں جانے کے بعد اس نے کچھ دل گرفتگی سے سوچاتھا۔
”پاپا کو پتہ ہو نا چاہئے تھا کہ میں چار سال کے بعد ان سے مل رہی ہوں کیا ان کے پاس میرے لئے تھوڑا سا وقت بھی نہیں ہے؟”
وہ ایک بار پھر بیڈ پر لیٹ گئ
وہ تین سال کی تھی، جب اس کے والدین کے درمیان طلاق ہو گئی تھی۔ طلاق کی وجوہات پر دونوں میں سے کسی نے بھی روشنی ڈالنا پسند نہیں کیا تھا اس لئے وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے والدین کے درمیان کون سے اختلافات تھے۔ ان دونوں سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت وہ کبھی نہیں کر سکی مگر نانو سے اس نے چند ایک بار یہ سوال پوچھا تھا اور ملنے والا جواب اس کی تسلی نہیں کر سکا تھا۔ وہ ہمیشہ یہی کہہ دیتی تھیں کہ ان دونوں کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہوئی۔
طلاق کے بعد علیزہ اپنی ماں کی کسٹڈی میں رہی تھی۔ سکندر نے اس سلسلے میں پورا تعاون کیا تھا۔ طلاق کے ایک سال کے اندر علیزہ کی ممی کی دوسری شادی ہو گئی تھی اور تب یہ طے پایا تھا کہ علیزہ اپنے نانی، نانا کے پاس رہے گی۔
سکندر نے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ وہ خود بھی دوسری شادی کرنا چاہ رہے تھے، اور علیزہ کی ذمہ داری اٹھانے سے کچھ گریزاں تھے، ان کے اپنے گھر میں ایسا کوئی نہیں تھا جو علیزہ کو پال سکتا اور وہ اسے اتنی چھوٹی عمر میں اپنے ساتھ مسقط بھی نہیں لے جا سکتے تھے اور نہ ہی وہ لے جانا چاہتے تھے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی ذ مہ داری تھی۔ اس لئے انہوں نے علیزہ کو مستقل طور پراس کے ننھیال کے حوالے کر دیا تھا، ہر ماہ وہ اس کے اخراجات کے لئے ایک اچھی خاصی رقم اس کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتے تھے اور ان کی یہ روٹین اب تک جاری تھی۔
طلاق کے دو سال بعد انہوں نے اپنی پسند کی دوسری شادی کر لی تھی ا ور وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ مسقط لے گئے تھے۔ علیزہ سے چند ماہ کے وقفے سے وہ فون پر باتیں کیا کرتے تھے اور پاکستان آنے پر چند دن کے لئے اس کو اپنے پاس بلوا لیا کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کی ذمہ داری یہیں پر پوری ہو جاتی تھی۔
علیزہ کی ممی اپنے شوہر کے ساتھ آسٹریلیا میں مقیم تھیں اور علیزہ کے ساتھ ان کا سلوک بھی سکندر سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ وہ چھٹیوں میں علیزہ کو اپنے پاس آسٹریلیا بلوا لیا کرتی تھیں۔ چھٹیاں گزارنے کے بعد علیزہ واپس پاکستان آجایا کرتی تھی۔ پچھلے کئی سالوں سے گرمیوں کی چھٹیوں میں اس کا یہی معمول تھا۔
اس کی ممی اور پاپا بہت پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ شاید ان میں سے کسی کو بھی اپنی سابقہ زندگی کا خیال بھی نہیں آتا تھا۔ وہ ہر بار ان سے ملنے کے بعد سوچا کرتی تھی کہ اس کے بغیر بھی وہ دونوں بہت خوش تھے شاید ان دونوں کو کبھی اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ہو گی اور وہ صرف فرض نبھانے کے لئے اسے اپنے پاس بلاتے ہوں گے۔ ماں باپ سے ملنے کے لئے وہ جتنی بے تاب رہی تھی۔ ان سے ملنے کے بعد اس کی بے چینی اور مایوسی بھی اتنی بے چین ہو جاتی تھی۔
وہ جس وقت دوبارہ بیدار ہوئی تھی اس وقت شام ہو رہی تھی۔ اپنا بیگ کھول کر اس نے کپڑے نکالے تھے اور نہانے کے لئے وہ باتھ روم میں چلی گئی تھی۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ تیار ہو کر لاؤنج میں آئی تھی، وہاں کوئی نہیں تھا۔ کچھ سوچ کر وہ باہر لان میں نکل آئی تو آنٹی شمامہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ طلحہ سائیکل چلا رہا تھا اور تانیہ آنٹی کے ساتھ بیٹھی ہو ئی تھی۔
وہ آج یہاں آنے کے بعد ابھی تانیہ سے نہیں ملی تھی۔ پچھلی بار چار سال پہلے وہ یہاں آئی تھی تو تانیہ صرف چار سال کی تھی۔ وہ چلتی ہوئی ان کے پاس آگئی۔ آنٹی شمامہ نے تانیہ سے اس کا تعارف کروایاتھا۔ علیزہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تھا اور تانیہ نے کچھ شرماتے ہوئے ہاتھ ملا لیا۔ وہ کرسی کھینچ کر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔ کچھ دیر تک تینوں خاموش رہے تھے پھر علیزہ نے پوچھا
”انکل منان ابھی واپس نہیں آئے؟”
”نہیں، وہ تو نو بجے کے قریب آتے ہیں۔”
ایک با رپھر خاموشی چھا گئی اور علیزہ کی طرح شاید آنٹی شمامہ بھی اسی الجھن میں گرفتار تھیں کہ اس سے کیا بات کی جائے۔ ایک بار پھر علیزہ نے ہی پہل کی تھی۔
”پاپا کب تک آئیں گے؟”
”وہ تمہاری آنٹی کو لینے گئے ہیں اور میرا خیال ہے ۔کچھ دیر تک آ جائیں گے۔”
آنٹی نے اسے بتایا۔
”دادا ابو کہاں گئے ہیں؟”
”پاپا گالف کھیلنے گئے ہوئے ہیں وہ بھی آنے والے ہی ہوں گے !”
علیزہ ایک بار پھر اگلے سوال کی تلاش میں سرگرداں تھی مگر اس بار آنٹی شمامہ نے اس کی یہ مشکل حل کر دی تھی۔
”کراچی کیسا لگا؟”
فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ صبح ائیر پورٹ سے گھر تک دیکھے جانے والے کراچی کے بارے میں وہ کیا تبصرہ کر سکتی تھی ۔
”اچھا ہے !”
اس نے مختصر جواب دیاتھا۔
”ملنے آ جایا کرو کبھی کبھی ، تم صرف تب ہی آتی ہو جب تمہارے پاپا آتے ہیں۔”
انہوں نے شکوہ کیا تھا یا دعوت دی تھی۔ اسے اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔ اسے اندازہ لگانے میں کبھی بھی مہارت نہیں رہی تھی۔ وہ ان سے یہ نہیں کہہ سکی کہ اسے صرف پاپا کے آنے پر ہی بلایا جاتا ہے۔ وہ خاموش رہی۔
”اپنی ممی سے ملتی رہتی ہو؟”
انہوں نے اچانک پوچھا تھا۔
علیزہ نے انہیں دیکھا وہ بہت متجسس نظر آ رہی تھیں۔
”ہاں ! ممی کے پاس تو جاتی رہتی ہوں ، ہر سال چھٹیاں وہیں ان کے پاس گزارتی ہوں۔ وہ چاہتی ہیں کہ میں ان کے پاس وہیں رہوں لیکن یہ مجھے بہت مشکل لگتا ہے۔ یہاں نانا اور نانو ہیں میرے بغیر وہ بالکل اکیلے ہو جاتے ہیں۔ ان کے بغیر میر اکہیں اور دل نہیں لگتا۔ اس لئے میں ہر بار ممی کو ناراض کر کے واپس آجاتی ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر جھوٹ کا جال بننا شروع کر دیا۔ آنٹی شمامہ نے بھی جواباً کچھ نہیں کہا تھا۔
”کتنے دن کے لئے آئی ہو؟”
کچھ دیر بعد انہوں نے اچانک پوچھا تھا۔
“یہ تو پاپا پر ڈیپینڈ کرتا ہے، وہ چاہ رہے ہیں کہ جب تک یہاں ہیں میں ان کے پاس رہوں۔”
اس نے جال کو ایک اور گرہ لگائی تھی۔
”یعنی دو ہفتوں کے لئے۔”
شمامہ آنٹی نے کہاتھا۔
علیزہ کچھ حیران ہوئی تھی۔
”کیا پاپا اس بار صرف دو ہفتوں کے لئے آ ئے ہیں؟”
”نہیں سکندر بھائی کو تو پاکستان آئے یہ چوتھا مہینہ ہے، اب تو دو ہفتہ بعد وہ واپس جانے والے ہیں۔”
آنٹی شمامہ نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پر سکون انداز میں کہاتھا۔ گرہ ایک دم سے جیسے کھل گئی تھی اور علیزہ کو بری طرح سے جھٹکا لگاتھا۔
”چار ماہ سے پاپا یہاں ہیں ، یعنی میرے آسٹریلیا جانے سے بھی بہت پہلے پاپا پاکستان آئے تھے اور تب فون پر بات کرنے کے باوجود انہوں نے مجھے بتایا نہیں۔ انہیں میرا خیال اس وقت آیا جب وہ واپس جارہے ہیں۔”
وہ کچھ نہیں بول سکی۔
”کیا پاپا کو بالکل ہی میری ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔”
اس نے سوچا۔
”مگر کل انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ بھی مجھے مس کرتے ہیں تو کیا وہ جھوٹ بول رہے تھے؟”
وہ الجھ گئی تھی۔
”میں پاپا کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاپا مجھے مس نہ کرتے ہوں ، ہو سکتا ہے وہ واقعی مصروف ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر خود کو بہلانے کی کوشش کی۔ آنٹی شمامہ اس سے کچھ کہہ رہی تھیں وہ چونک کر ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”سکندر بھائی اگلے سال پاکستان شفٹ ہو رہے ہیں۔”
اس کے لئے یہ خبر بھی حیران کن تھی۔
”پاپا نے مجھے نہیں بتایا۔”
اس نے سوچا تھا۔
”اگلے سال؟”
اس نے آنٹی شمامہ سے پوچھا تھا۔
”ہاں اگلے سال تک ان کا گھر مکمل ہو جائے گا۔”
آج شاید اس کے لئے حیرانیوں کا دن تھا۔
”پاپا گھر بنوا رہے ہیں؟”
”ہاں گھر تو انہوں نے پچھلے سال بنوانا شروع کر دیا تھا، اب تو کافی حد تک مکمل بھی ہو گیا ہے۔ اگلے سال تک فرنشنگ بھی ہو جائے گی اور وہ پاکستان شفٹ ہو جائیں گے۔”
وہ گم صم سی آنٹی شمامہ کی بات سنتی رہی سکندر نے اس سے اس بات کا ذکر بھی نہیں کیا تھا۔
”ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن سے نکل گیا ہو اور ابھی ان سے میری تفصیلی بات بھی کہاں ہوئی ہے۔ شاید وہ مجھے بتائیں۔”ہمیشہ کی طرح اس نے خود کوغلط فہمیوں میں مبتلا کرناشروع کر دیاتھا۔
”مگر پچھلے سال سے اب تک پاپا سے بات ہوئی ہے انہوں نے ایک بار بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا نہ ہی اس بات کا کہ وہ پاکستان شفٹ ہونا چاہ رہے ہیں۔”
وہ چاہنے کے باوجود مطمئن نہیں ہو سکی تھی۔
گیٹ پر ہارن کی آواز سنائی دی تھی ”لگتا ہے ، تمہارے پاپا آگئے ہیں۔”
شمامہ آنٹی نے گیٹ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا، وہ بھی گیٹ کی جانب متوجہ ہو گئی جہاں کھلے گیٹ سے ایک گاڑی اندر داخل ہو رہی تھی۔ گاڑی پورچ میں جا کر رکی تھی۔ پھر اس نے گاڑی میں سے اپنے پاپا اور ان کی بیوی کو اترتے دیکھا تھا۔ پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اس کے چھوٹے دونوں بھائی گاڑی سے اتر رہے تھے۔
پاپا نے اپنی بیوی سے کوئی بات کی تھی اور وہ لان کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں پھر علیزہ نے پاپا کے ساتھ انہیں اپنی جانب آتے دیکھا۔ ان کے قریب آنے پر علیزہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہو ئی تھی۔
پچھلی کئی بار کی طرح اس بار بھی انہوں نے اسے گلے لگا کر اس کا گال چوما تھا اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علیزہ کو ان کے انداز میں گرم جوشی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ سب بالکل فارمل تھا۔
”حسن ۔ احسن ! ادھر آؤ بھئی۔ علیزہ سے آکر ملو۔”
اس کی دوسری ممی اب اپنے بیٹوں کو آواز دے کر بلا رہی تھیں۔ وہ دونوں قریب آگئے تھے اور ان کے پیچھے موجود وجود نے علیزہ کو حیران کر دیا تھا۔ حسن اور احسن نے پاس آکر علیزہ سے ہاتھ ملائے تھے مگر اس کی نظریں اسی وجود پر مرکوز رہی تھیں۔ اس نے پاپا کو اس ننھی سی ساڑھے تین سالہ بچی کو اٹھاتے اور پھر اس کا گال چومتے دیکھا تھا۔
”علیزہ! یہ مریم ہے تمہاری چھوٹی بہن اور مریم! یہ تمہاری آپی ہیں۔”
پاپا نے اس سے کہا تھا۔ وہ دم سادھے مریم کے بجائے پاپا کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ساری خالی جگہیں اس کے وجود کے بغیر ہی پر کر لی گئی تھیں۔
”شاید اسی لئے پاپا نے مجھے مس نہیں کیا کیونکہ اب صرف میں ہی نہیں ان کی ایک اور بیٹی بھی ہے جو ہر وقت ان کے پاس ان کے سامنے رہتی ہے اور جسے وہ گود میں بھی اٹھاتے ہیں اور اس کا چہرہ بھی چومتے ہیں۔”
وہ کوشش کے باوجود چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں لا سکی صرف خاموشی سے پاپا اور مریم کو دیکھتی رہی جو ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش نظر آرہے تھے۔
”میرا خیال ہے۔ اب اندر چلنا چاہئے، یہاں تو بہت اندھیرا ہو گیا ہے۔” پاپا نے اچانک کہا تھا۔
‘ہاں ٹھیک ہے اندر چلتے ہیں۔” شمامہ آنٹی نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
وہ خاموشی سے ان سب کی پیروی کرنے لگی تھی۔
”پاپا کو اب کبھی میری ضرورت پڑے گی نہ ہی میں یاد آؤں گی کیونکہ اب ان کی فیملی مکمل ہو گئی ہے۔ میرے لئے اب ان کے پاس بھی کوئی جگہ نہیں ہے اور اہمیت تو شاید مریم کی آمد کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی۔ وہ ایک مکمل فیملی ہے علیزہ کے بغیر بھی۔”
اس نے اپنے آگے چلتے ہوئے پاپا، اپنی دوسری ممی، حسن، احسن اور مریم کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
”میں تو ان کے لئے ایک ایکسٹرا چیز ہوں اور پاپا نے مجھے مریم کے بارے میں بتانا ضروری نہیں سمجھا سب لوگوں نے خود ہی مجھے اپنی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔ ممی نے، پاپا نے اور شاید… شاید نانا اور نانو نے بھی۔” اس کی افسردگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔
”میرے یہاں آنے سے کسی کو فرق نہیں پڑا۔ سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں ۔پھر…پھر پاپا کو مجھے یہاں بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا یہ کافی نہیں تھا کہ وہ فون پر ہی مجھے جانے سے پہلے خدا حافظ کہہ دیتے۔” وہ اب رنجیدہ ہو رہی تھی۔
اس رات وہ بہت دیر تک جاگتی رہی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ اگلے دن وہ بہت دیر سے اٹھی تھی، لیکن اس کے باوجود جب وہ اپنے کمرے سے باہر آئی تھی تو ابھی تک کوئی بھی بیدار نہیں ہوا تھا۔ وہ لاؤنج میں ٹی وی آن کرکے بیٹھ گئی تھی۔
دوپہر کو لنچ کرتے ہوئے پاپا نے اس سے کہا تھا۔
”علیزہ! آج ہم شام کو تمہیں سیر کروانے کے لئے لے جائیں گے۔ تم کل سے گھر پر ہی ہو۔ آج تمہیں ایک دو جگہوں پر لے کر جائیں گے۔ تم کہاں جانا چاہتی ہو؟”
انہوں نے بات کرتے کرتے اچانک اس سے پوچھا تھا۔
”کہیں بھی۔” اس نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے پھر تم شام کو تیار رہنا۔ ہم سب باہر چلیں گے۔”
انہوں نے کہا۔
اس کا دل چاہا کہ وہ ان سے کہے کہ وہ سب کے ساتھ نہیں صرف اکیلے ان کے ساتھ باہر جانا چاہتی ہے۔ ان کے ساتھ باتیں کرنا چاہتی ہے اور ان سے بہت سے سوال پوچھنا چاہتی ہے۔ مگر اس نے خاموشی سے سر جھکا دیا۔
شام کو پاپا، غزالہ آنٹی، حسن ، احسن اور مریم کے ساتھ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی وہ بے حد ناخوش تھی۔
”ایسا کرتے ہیں کہ پہلے کلفٹن چلتے ہیں۔ پھر کسی ریسٹورنٹ میں ڈنر کریں گے اس کے بعد جہاں علیزہ چاہے گی وہاں جائیں گے۔”
پاپا نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے پروگرام طے کیا تھا۔
”پاپا ! آپ جہاں مرضی لے جائیں۔”
اس نے پھر بات ان کی ہی مرضی پر چھوڑ دی۔
”پاپا ! ایسا کرتے ہیں کہ ڈنر کے بعد آپی کو اپنا گھر دکھانے چلیں گے۔ آپی ! آپ ہمارا گھر دیکھ کر حیران ہو جائیں گی۔”
احسن نے دوسرا جملہ اس سے کہا تھا۔ گاڑی میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔ شاید پاپا احسن سے اس تجویز کی امید نہیں کر رہے تھے۔
”ٹھیک ہے نا پاپا ! آپی کو گھر دکھانے چلیں گے۔”
احسن نے پاپا کی خاموشی کو رضامندی سمجھتے ہوئے کہا تھا، علیزہ منتظر تھی کہ پاپا احسن کی بات کے جواب میں کچھ نہ کچھ کہیں گے مگر انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ خاموش رہے تھے۔
نوبجے ایک ریسٹورنٹ میں انہوں نے ڈنر کیا اور اس کے بعد جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو احسن نے ایک بار پھر شور مچا دیا۔
”پاپا ! اب ہم اپنے گھر جائیں گے۔ آپی کو گھر دکھانا ہے نا۔”
”ہاں ! ٹھیک ہے وہیں جا رہے ہیں ، مجھے یاد ہے۔”
اس نے پاپا کی مدھم سی آواز سنی تھی۔
انہوں نے گاڑی کا رخ موڑتے ہوئے بیک ویو مرر سے علیزہ کو دیکھا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ سکندر اس کے چہرے سے کوئی بھی اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔
آدھ گھنٹہ گاڑی ڈرائیو کے بعد علیزہ نے ایک چھوٹے سے بنگلے کے سامنے گاڑی رکتے دیکھی تھی۔ دروازے پر ایک چوکیدار موجود تھا جس نے دروازہ کھول دیاتھا۔ سکندر گاڑی کو اندر پورچ میں لے گئے ، بنگلے کی بیرونی لائٹس آن تھیں، اور ان لائٹس کی روشنی میں پورچ اور لان میں پڑا ہوا تعمیراتی سامان نظر آرہا تھا۔ سکندر نے چوکیدار کو اندرونی دروازہ کھولنے کے لئے کہاتھا۔
علیزہ، حسن اور احسن کے ساتھ گاڑی سے نکل آئی تھی۔ چند لمحوں کے لئے پاپا سے اس کی خفگی ختم ہو گئی تھی گھر کو دیکھتے ہوئے اسے ایک خوشگوار احساس نے گھیر لیا تھا۔ اس کے باپ کا پاکستان میں ہونے کا یہ مطلب تھا کہ وہ ان کے پاس مستقل طور پر رہ سکتی تھی۔ احسن اسے بڑے پر جوش انداز میں کمرے دکھا رہا تھا اور سکندر اور غزالہ لاؤنج میں چوکیدار کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئے تھے۔ وہ شاید اسے کچھ ہدایات دے رہے تھے۔
”یہ پاپا اور ممی کا کمرہ ہے!”
اس نے ایک کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے علیزہ سے کہا تھا۔
اس نے کچھ دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے خالی کمرے میں جھانکاتھا۔ احسن نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کر دی تھی۔ چند لمحوں تک اس کمرے میں رہنے کے بعد وہ ان کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔
”یہ ساتھ والا کمرہ مریم کا ہے۔” احسن نے ایک اور کمرے کا دروازہ کھول کر لائٹ آن کی تھی۔ اس بار علیزہ نے اندر جانے کی بجائے باہر سے ہی جھانکنے پر اکتفا کیا تھا۔
”اور یہ سامنے والا کمرہ گیسٹ روم ہے!”
وہ اب اسے ایک اور کمرہ دکھا رہا تھا۔
”اب آئیں ،اوپر چلتے ہیں اور آپ کو اپنا بیڈ روم دکھاتا ہوں۔” وہ یک دم پر جوش نظر آنے لگا تھا۔
”اور میرا بیڈ روم نہیں دکھاؤ گے؟” حسن منمنایا تھا۔
”ہاں! تمہارا بھی دکھاؤں گا۔”
اس نے علیزہ کے ساتھ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے حسن کو چمکارا تھا۔
اوپر آنے کے بعد احسن نے ایک کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا۔ ”اور یہ اس گھر کا سب سے خوبصورت بیڈ روم ہے، میرا بیڈ روم۔”
علیزہ سرسری طور سے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے صرف بے دلی سے مسکرائی تھی۔
”اور یہ میرا بیڈ روم ہے۔”
حسن اتنی دیر میں ایک اور کمرے کا دروازہ کھول چکا تھا، اور اس کے پیچھے علیزہ بھی اس کے کمرے میں داخل ہو گئی تھی۔
”بس اب نیچے چلتے ہیں۔”
احسن نے اس کے پیچھے آکرکہا تھا۔
اسے ایک جھٹکا لگاتھا۔
”احسن! میر ابیڈ روم کہاں ہے؟”
اس نے احسن کے کمرے سے نکلتے ہوئے کچھ اشتیاق سے احسن سے پوچھا تھا۔
”آپ کا بیڈ روم؟”
وہ اس کی بات پر حیران ہو ا تھا۔
”مگر آپ تو ہمارے ساتھ نہیں رہتیں!”
اس نے علیزہ سے کہا تھا۔
”اس گھر میں تو بس اتنے ہی بیڈ رومز ہیں۔”
علیزہ کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیاتھا۔
”بس اتنے ہی بیڈ رومز ہیں؟”
اس نے کچھ بے یقینی سے کہا تھا۔
”ہاں ! بس اتنے ہی بیڈ رومز ہیں ، آپ کو ہمارا گھر اچھا لگا؟”
اس نے بات کرتے کرتے علیزہ سے پوچھا۔
”ہاں!”
اس نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہاتھا۔
وہ ان دونوں کے ساتھ ایک بار پھر نیچے لاؤنج میں آگئی۔
”پاپا ! آپی پوچھ رہی تھیں۔ میرا بیڈ روم کہاں ہے؟”
حسن نے نیچے آتے ہی پاپا کواطلاع دی تھی۔ علیزہ کی نظریں سکندر سے ملی تھیں۔ وہ بڑی مہارت سے نظریں چرا گئے۔
”گیسٹ روم ہے نا ، تم جب بھی آیا کرو گی وہاں رہ سکتی ہو؟”
سکندر نے کمال فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال ہے کہ اب چلنا چاہئے ۔”
وہ کہہ کر غزالہ کے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گئے تھے ۔ وہ بھی حسن اور احسن کے ساتھ دروازے کی طرف جانے لگی تھی۔
”تمہارا کالج کب کھلے گا؟”
سڑک پر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سکندر نے اس سے پوچھا تھا۔
”اس سیٹرڈے کو!”
اس نے باہر سڑک گھورتے ہوئے کہا تھا..
”ہوں ! تو اس کا مطلب ہے کہ جمعرات کو تمہاری سیٹ بک کروا دینی چاہئے ۔کیونکہ جمعہ کو تم ریسٹ کر سکو گی۔ واپس جاکر اور پھر ہفتہ سے تم کو کالج جوائن کرنا ہو گا۔”
وہ چپ چاپ ان کی سیٹ کی پشت کو دیکھتی رہی تھی۔
”تو پاپا !ہم مری کب جائیں گے، آپ نے تو کہا تھا کہ ہم بدھ کو اسلام آباد چلے جائیں گے۔”
احسن نے سکندر کو یاد دہانی کروائی تھی۔
”ہاں ! بیٹا وہ پروگرام پہلے تھا اب تمہاری آپی آئی ہوئی ہیں، تو ظاہر ہے انہیں اکیلے چھوڑ کر تو نہیں جا سکتے نا۔”سکندر نے احسن سے کہا تھا۔
”تو ہم علیزہ آپی کو بھی اپنے ساتھ مری لے جاتے ہیں پھر تو کوئی بھی پرابلم نہیں ہو گا ۔”
احسن نے ایک ہی سیکنڈ میں حل پیش کر دیا تھا۔
”نہیں تمہاری آپی کی چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں، انہیں کالج جانا ہے اور ہمیں تو مری میں کچھ دن لگ جائیں گے۔” غزالہ نے فوراً اپنے بیٹے کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”ایسا کرتے ہیں کہ سکندر آپ ہم لوگوں کو اسلام آباد بھجوادیں پھر آپ بعد میں آجائیں ۔”
”ہاں ! یہ ہو سکتا ہے۔ تو پھر ٹھیک ہے میں تم لوگوں کی سیٹیں بھی بک کروا دیتا ہوں۔”
سکندر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔
”پاپا آپ جمعرات کی بجائے میری کل ہی سیٹ بک کروا دیں۔”
اس نے مدھم سی آواز میں سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
”کیوں کل کی سیٹ کیوں؟”
سکندر نے جواباً اس سے پوچھا۔
”پاپا میں واپس جاکر تھوڑا پڑھنا چاہتی ہوں ، پوری چھٹیاں میں کچھ بھی نہیں پڑھ سکی، اور اب دو تین دن میں کتابوں کو پڑھنے کی کوشش کروں گی۔”
“نہیں علیزہ ! ابھی تم کل ہی تو آئی ہو، اور اتنی جلدی چلی جاؤ گی؟”
غزالہ نے بہت پیار بھرے انداز میں اس سے کہا تھا۔
”نانو اور نانا بھی مجھے بہت مس کر رہے ہوں گے۔ اس بار میں چھٹیوں میں ان کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکی۔” اس نے ایک اور وجہ دی تھی۔
”ٹھیک ہے اگر تم ایسا ہی مناسب سمجھتی ہو تو ایسا ہی کر لیتے ہیں۔”
اس نے پاپا کو کہتے ہوئے سنا تھا ، انہوں نے اسے روکنے کی کوشش بالکل نہیں کی تھی۔ اس نے آنکھوں میں اترنے والی نمی کو ہونٹ بھینچ کر ضبط کیا۔
”پھر کل شام کی سیٹ بک کروا دیتا ہوں۔”
اگلی شام ائیر پورٹ کے لئے روانہ ہوتے ہوئے اس کے پاپا نے ایک بیگ اسے تھما دیا تھا۔ ”اس میں تمہارے لئے کچھ چیزیں ہیں۔ میں نے اور تمہاری آنٹی نے خریدی تھیں۔”
اس نے بجھے دل سے بیگ تھام لیا تھا۔ اس کا دل چاہا تھا، وہ ان سے کہے۔” مجھے صرف چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔”
”لاہور پہنچتے ہی مجھے فون کر دینا۔”
اس نے پاپا کو کہتے ہوئے سنا تھا۔ غزالہ نے آگے بڑھ کر ہمیشہ کی طرح اسے گلے سے لگا کر چوما تھا۔
”ٹیک کئیر!”
انہوں نے اس سے علیحدہ ہوتے ہوئے کہاتھا۔ وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔
ائیر پورٹ پر پہنچ کر اس نے نانو کو فون کیا تھا، اور اپنے آنے کی اطلاع دیتے ہوئے ڈرائیور کو بھیجنے کو کہا تھا، نانو کے کسی سوال سے بچنے کے لئے اس نے جلدی سے فون بند کر دیا۔
”تمہیں تو ابھی بہت دن وہاں رہنا تھا اور اب دو ہی دن میں واپس آگئیں؟”
نانو نے اس کا استقبال کرتے ہی پہلا سوال کیا تھا۔ وہ کچھ حیران ہوئی تھی۔ نانو نے ہمیشہ کی طرح آتے ہی اسے گلے نہیں لگایا تھا۔
”ہاں ! بس میرا دل ہی نہیں لگا وہاں۔ پاپا تو بہت اصرار کر رہے تھے۔ کہ میں ابھی واپس نہ جاؤں ، وہ تو مجھے کچھ دن کے لئے مری لے جانا چاہ رہے تھے مگر میں وہاں بور ہوتی۔”
””ٹھیک ہے سو جاؤ۔” نانو یک دم اٹھ کر چلی گئی تھیں۔ وہ کچھ اور الجھ گئی تھی۔ نانو نے اس سے کھانے کا پوچھا تھا۔ نہ ہی نانا سے ملنے کے لئے کہا تھا بلکہ صرف ایک جملہ کہہ کر اٹھ گئی تھیں۔
وہ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں آگئی تھی۔ کپڑے بدلنے کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔ اس وقت وہ واقعی سونا چاہتی تھی۔
اگلے دن صبح جب وہ کچن میں آئی تھی، تو اس وقت دس بج رہے تھے۔ نانو اس وقت خانساماں کو کچھ ہدایات دے رہی تھی۔
”السلام علیکم! نانو !”
اس نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے نانو کو مخاطب کیاتھا۔
”وعلیکم السلام !”
انہوں نے اسے دیکھے بغیر ہی اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔
”نانا کہاں ہیں نانو! رات تو میں ان سے مل ہی نہیں سکی۔”
اس نے سے پوچھا۔
”کسی کام سے باہر گئے ہوئے ہیں؟”
”پتا نہیں !”
اسے ان کی آواز ایک بار پھر بہت ترش محسوس ہوئی تھی۔
”نانو مجھے بریک فاسٹ کرنا ہے۔” اس نے کہا تھا۔
”میں مرید سے کہہ دیتی ہوں وہ تیار کردیتا ہے!”
انہوں نے خانساماں کا نام لیتے ہوئے کہاتھا۔ وہ کچن میں پڑی ہوئی ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ ہی گئی۔
”تم جا کر ڈائننگ روم میں بیٹھو۔”
نانو نے اچانک تیز آواز میں اسے جھڑکتے ہوئے کہا تھا، اور اس کے لئے ان کا یہ رد عمل غیر متوقع تھا۔ چند لمحوں تک وہ نہ سمجھنے کی حالت میں ان کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
” تم نے سنا نہیں کہ میں نے کیا کہا ہے؟”
اس بار ان کی آواز پہلے سے زیادہ کرخت تھی۔ علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور وہ چپ چاپ کچن سے نکل کر ڈائننگ روم میں آگئی تھی۔ نانو کی ڈانٹ اس کے لئے کوئی نئی چیز نہیں تھی مگر آج اسے یہ ڈانٹ بلا جواز لگی تھی۔
خانساماں نے ڈائننگ ٹیبل پر اس کے لئے ناشتہ لگانا شروع کر دیا۔ اس کی بھوک اڑ چکی تھی ، وہ چند منٹ تک بے مقصد خانساماں کو ہی ناشتا لگاتے دیکھتی رہی پھر کھڑی ہو گئی۔
”مرید بابا مجھے ناشتہ نہیں کرنا۔”
”کیوں علیزہ بی بی ! کیا ہوا؟”
خانساماں نے کچھ حیران ہوکر پوچھاتھا۔
”بس مجھے بھوک نہیں ہے۔”
”بی بی آپ ناشتہ کر لیں۔ آجکل بڑی بیگم صاحبہ بہت غصہ میں ہیں۔ آپ اس طرح اٹھ کر چلی جائیں گی تو وہ آپ سے بھی بہت ناراض ہو ں گی۔”
خانساماں نے دبی آواز میں اس سے کہا تھا۔
”نانو کو ہوا کیا ہے؟”
اس نے خانساماں سے پوچھا۔
”یہ توپتا نہیں لیکن جب سے عمر صاحب……!”
اس کی بات ادھوری ہی رہ گئی ، نانو اس وقت ڈائننگ روم میں داخل ہوئی تھیں، خانساماں جلدی سے ڈائننگ سے نکل گیا تھا۔
”عمر نے ضرور میرے بارے میں کوئی نہ کوئی بات کی ہوگی۔”
اسے یک دم طیش آیا تھا۔
”وہ نانا اور نانو کو بھی مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے، اور……اورمجھ سے دوستی کے دعوے کرتا ہے۔”
”ناشتہ کیوں نہیں کر رہیں؟”
نانو نے اندر داخل ہوتے ہی اسے کھڑے دیکھ کر کہا تھا۔ ایک بار پھر ان کا لہجہ بہت کھردرا تھا۔
”نانو آپ مجھ سے ناراض ہیں؟”
اس نے بالآخر ان سے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا۔
”میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ میں ہر ایک سے ناراض ہوتی پھروں۔ تم بیٹھ کر ناشتہ کر لو۔”
ان کے جملہ نے اسے اور ہرٹ کیا تھا۔
”مجھے کچھ نہیں کھانا۔”
”ٹھیک ہے نہیں کھانا تو مت کھاؤ! اب میں تمہاری منتیں تو نہیں کر سکتی۔ مرید……مرید ! ڈائننگ ٹیبل پر سے چیزیں اٹھا دو۔”
انہوں نے خانساماں کو بلند آواز میں بلایا تھا۔ علیزہ دم بخود سی انہیں دیکھتی رہی تھی۔
”نانو نے میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں کیا ، تو پھر آج کیا بات ہو گئی۔ میری تین دن کی غیر حاضری میں ایسی کیا بات ہو گئی کہ میرے ساتھ اس طرح پیش آنے لگ گئی ہیں۔”
وہ ساکت کھڑی سوچتی ہی رہ گئی۔
” تم سے مجھے کچھ باتیں کرنی ہیں ، میرے بیڈروم میں آجاؤ۔”
نانو نے مرید کو بلانے کے بعد ایک بار پھر اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
وہ کسی معمول کی طرح ان کے پیچھے ہی ڈائننگ روم سے نکل گئی تھی۔ ان کے پیچھے ان کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس کا ذہن مسلسل یہ اندازہ لگانے کی کوشش میں مصروف تھا کہ ان کی ناراضگی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے اور کیا اب اپنے بیڈ روم میں وہ اسی بارے میں باتیں کریں گی؟
باب: 11
وہ کچن سے واپس لاؤنج میں آگئی تھی اور وہاں آکر اس نے شہلا کو اس کے موبائل پر کال کیا تھا۔
”ہیلو شہلا ! میں علیزہ ہوں۔” اس نے رابطہ قائم ہوتے ہی کہا تھا۔
”ہاں علیزہ! تم آج یونیورسٹی کیوں نہیں آئیں؟”
”نہیں، آج میں یونیورسٹی نہیں آؤں گی۔”
”کیوں بھئی کیا ہو ا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟”
شہلا کی آواز میں تشویش تھی۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ، بس دیر سے جاگی ہوں۔ یونیورسٹی کا ٹائم نکل گیا۔”
”رات کو پڑھتی رہی ہو؟”
”نہیں یار! پڑھتی کہاں رہی ہوں ، تمہیں بتایا تو تھا کہ عمر آرہا ہے اور ساری رات میں اور نانواسی کا انتظار کرتی رہیں۔”
”اچھا تو کیا وہ آگیا ہے؟”
”ہاں بہت لیٹ آیا تھا۔”
”کیا حال ہے اس کا؟”
”ابھی تو میری اس سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ میں تو انتظار کرتے ہوئے سو گئی تھی۔ وہ میرے سونے کے بعد ہی آیا اور ابھی میں جاگی ہوں تو وہ سو رہا ہے۔ لنچ سے کچھ دیر پہلے اٹھے گا تو بات ہو گی۔ میں نے تمہیں اس لئے فون کیا تھا تا کہ تمہیں انفارم کر دوں۔ ورنہ تم خوامخواہ پریشان ہوتی رہتیں۔”علیزہ نے وضاحت کی تھی۔
”کل تو یونیورسٹی آؤ گی نا؟”
”ہاں ! کل تو ضرور آؤں گی، خدا حافظ!”
”خدا حافظ۔” شہلا نے دوسری طرف سے موبائل آف کر دیا تھا۔ شہلا کو فون کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی اور اس نے دو دن پہلے ملنے والی ایک اسائمنٹ پر کام کرنا شروع کر دیا تھا مگر بار بار اس کا ذہن عمر کی جانب ہی جا رہا تھا۔ کسی نہ کسی طرح بارہ بجے تک وہ اس اسائنمنٹ کو لکھتی رہی تھی اور پھر اٹھ کر ایک بار پھر کچن میں آگئی۔
نانو شامی کبابوں کے لئے بنایاجانے والا مصالحہ چیک کر رہی تھیں۔ علیزہ نے بہت عرصہ کے بعد انہیں اس جوش و خروش کے ساتھ کچن میں کام کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ مسکراتی ہوئی باہر لان میں آگئی کچھ پھو ل اور شاخیں کاٹنے کے بعد وہ ایک بار پھر ڈائننگ روم میں آگئی تھی اور وہاں اس نے انہیں ڈائننگ ٹیبل پر پڑے ہوئے گل دان میں ارینج کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ ترتیب مکمل کر چکی تھی اور ٹیبل سے فالتو پھول اور شاخیں اکٹھی کر رہی تھی جب اس نے ڈائننگ روم میں وہی مخصوص مردانہ آواز سنی۔
”ہیلوعلیزہ ! ” وہ کچھ گڑ بڑا گئی تھی۔
ڈائننگ ٹیبل کی دوسری طرف ایک کرسی کی پشت پر وہ اپنا کوٹ لٹکا رہا تھا۔ وہ دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اب ٹیبل پر اپنا موبائل اور سن گلاسز رکھ رہا تھا۔ گزرے ہوئے چند سالوں نے اس میں کچھ تبدیلیاں کر دی تھیں۔ اس کا ہیئرسٹا ئل بدل گیا تھا۔ سول سرونٹس کے ہیئرکٹ میں وہ بہت سوبر لگ رہاتھا۔ وائٹ شرٹ کے ساتھ نیلی ٹائی لگائے وہ بہت فارمل گیٹ اپ میں تھا۔ علیزہ نے ڈائننگ روم میں پھیلی ہوئی کلون کی مہک کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔وہ اپنا کلون تبدیل کر چکا تھا۔
”کیسی ہو تم؟”
وہ ایک بار پھر اس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر بہت مدھم سی مسکراہٹ دیکھی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟”
علیزہ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس سے پوچھاتھا۔
اور وہ ایک بار پھر جواباً مسکرا یاتھا۔
”Perfectly Alright.، (بالکل ٹھیک)گرینی کہاں ہیں؟”
اس نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہی پوچھاتھا۔
”وہ کچن میں ہیں!”
اور وہ کچھ کہے بغیر کچن کی طرف چلا گیا۔
”کیا اسے مجھ سے صرف اتنی ہی بات کرنی تھی۔”
علیزہ نے ٹیبل پرسے شاخیں اٹھاتے ہوئے سوچاتھا۔ کچن میں سے اس کی آواز آ رہی تھی۔ وہ شاخیں اور پھول لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
جب وہ واپس ڈائننگ میں آئی تو وہ ٹیبل پربیٹھا نیوز پیپر دیکھ رہا تھا۔ اس کے وہاں آنے پر بھی وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے وہاں رکے یا پھر کچن میں چلی جائے۔ چند سیکنڈز وہ اسی شش و پنج میں رہی تھی پھر کچن کی طرف بڑھ گئی تھی۔ نانو کچن سے باہر نکل رہی تھیں۔
”میں نے مرید سے کہہ دیا ہے وہ کھانا لگا دے گا۔ تم آجاؤ!”
انہوں نے اسے دیکھتے ہی کہاتھا۔ وہ ایک بار پھر ان کے ساتھ واپس ڈائننگ میں آ گئی تھی۔ اس بار عمر جہانگیر ان کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ اس نے نیوز پیپر کو بند کر کے ایک طرف ٹیبل پر رکھ دیاتھا اور وہ نانو کے ساتھ ٹیبل پر آکر بیٹھ گئی۔
”علیزہ مجھ سے صبح پوچھ رہی تھی کہ تم کیسے لگ رہے تھے، بدل تونہیں گئے ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم خود ہی دیکھ لینا۔ اب بتاؤ علیزہ ! پہلے سے بدل گیا ہے یا ویسا ہی ہے؟”
نانو نے عمر سے بات کرتے کرتے اسے مخاطب کیاتھا۔ وہ ان کے اس سوال پر کچھ شرمندہ ہو گئی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ نانو عمر کے سامنے ہی یہ بات کہہ دیں گی۔ عمر اب اس کی طرف متوجہ تھا۔
”کیوں علیزہ !کیا میں کچھ بدلا ہوں ؟” اب وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
”پتہ نہیں ،میں اندازہ نہیں کر سکتی۔” اس نے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔
”تمہارا ماسٹرز کیسا جارہا ہے ؟
اس بار اس نے ایک اور سوال کیاتھا۔
”ٹھیک جا رہا ہے!”
”کون سا سبجیکٹ ہے تمہارے پاس؟”
”سوشیالوجی!”
”مگر پہلے تو تم اکنامکس میں انٹرسٹڈ تھیں، یہ ایک دم سوشیالوجی کیسے؟”
وہ بہت سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
”میں ایک این جی او کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں اور سوشیالوجی پڑھنے سے مجھے بہت سی بنیادی باتوں کا پتہ چل جائے گا اور مجھے اپنے کام میں زیادہ پرابلمز نہیں ہوں گے۔”
اس نے دھیمی آواز میں وضاحت کی۔
ڈائننگ ٹیبل پر اب کھانا لگایا جا رہا تھا۔
”اوہ…! یعنی مس علیزہ سکندر سوشل ورک میں انٹرسٹڈ ہیں۔ این جی او کے ساتھ کام کر نا چاہتی ہیں۔ بیگمات والے کام ، نیوز پیپر میں تصویریں لگوانے کے لئے، سوشل ورک، مختلف مقاصد کے لئے ٹکٹ خریدے بغیر ہی Charity Walks میں شرکت، غریب لڑکیوں کے جہیز کے لئے ہزاروں روپیہ روز خرچ کرنے والوں سے دس دس روپیہ کے ٹکٹ کے ذریعہ فنڈ اکٹھا کرنا لیکن مختلف ڈونر ایجنسیز سے ملنے والے فنڈز سے پلاٹس خرید لینا۔ مختلف مقاصد کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے کے لئے علی حیدر اور حدیقہ کیانی کے ساتھ کنسرٹس ارینج کرنا اور وہاں اپنی پوری فیملی کے ساتھ ٹکٹ کے بغیر موجود ہونا۔ تو آپ بھی کچھ اس قسم کے سوشل ورک میں انوالو ہونا چاہ رہی ہیں؟”
وہ اب ایک گلاس میں پانی ڈال رہا تھا۔ علیزہ کچھ بول نہیں سکی۔ اسے عمر جہانگیر سے ایسے تبصرے کی توقع نہیں تھی۔
”عمر ایسی باتیں تو نہیں کرتا تھا اور مجھ سے ……مجھ سے تو کبھی بھی نہیں۔”
وہ ایک شاک کے عالم میں سوچ رہی تھی۔ وہ اب پانی پی رہا تھا۔
نانو شاید علیزہ کے تاثرات سے بہت کچھ سمجھ گئی تھیں اس لئے انہوں نے بات کا موضوع بدل دیاتھا۔
”علیزہ تو اس قسم کے کام نہیں کر سکتی تم بتاؤ تمہیں فارن سروس چھوڑنے کی کیا سوجھی ہے؟”
عمر نے پانی پی کر گلاس ٹیبل پر رکھ دیا تھا ایک بار پھر وہ علیزہ کی طرف متوجہ تھا۔
”ڈونر ایجنسیز اور این جی اوز کے بارے میں بہت سی رپورٹس میری نظروں سے گزرتی ہیں۔ یہ سب بیورو کریٹس اور سیاست دانوں کی بیگمات کے ایڈونچر اور وقت گزاری ہوتی ہے۔ علیزہ ! تم تو کسی بیورو کریٹ یا سیاست دان کی بیوی بننے نہیں جارہی۔ پھر تم ایسی ایکٹیویٹیز میں کیوں انٹرسٹڈ ہورہی ہو؟”
اس بار اس کالہجہ نرم مگر الفاظ ویسے ہی تیکھے تھے۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی تھی۔ عمر اب نانو کے ساتھ بات کر رہا تھا۔
”میں اسلام آباد جارہا ہوں۔ وہاں سے شاید کل واپسی ہو!”
نانو قدرے حیران ہوئی تھیں۔ ”کیوں اب اسلام آباد جانے کا ارادہ کیسے بن گیا ہے۔ ابھی تو صبح تم آئے ہو، آتے ہی اسلام آباد میں کون سی مصروفیت یاد آگئی ہے؟”
”اسلام آباد تو ابھی کافی چکر لگانے پڑیں گے۔ فارن آفس میں کچھ کام نپٹانے ہیں پھر انٹریر منسٹری کا بھی ایک چکر لگانا ہے۔”
اس نے پلیٹ اپنے آگے کرتے ہوئے کہاتھا۔
”میں نے تم سے پوچھا تھا کہ فارن سروس کیوں چھوڑ دی تم نے؟”
نانو کو اچانک یاد آگیا۔
”بس میرا دل نہیں لگا اس میں!”
اس نے سلاد پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہاتھا۔
‘تین چار سال بعد تمہیں پتا چلا کہ تمہارا دل اس میں نہیں لگ رہا ۔ اگر دل نہیں لگ رہا تھا تو تمہیں پہلے ہی فارن سروس میں نہیں جانا چاہئے تھا۔” نانو نے اس سے کہا تھا۔
”فارن سروس کو فارن آفس میں کتی سروس کہتے ہیں۔”
علیزہ اس کے جملے پر ہکا بکا رہ گئی تھی۔ اس نے عمر کے منہ سے پہلی بار اس طرح کا کوئی لفظ سنا تھا۔
”یہ وہ سروس ہے کہ جس میں کام نہ کرکے گالیاں پڑتی ہیں اور کام کرکے زیادہ گالیاں۔”
”بکواس مت کرو تمہارا باپ بھی تو اسی سروس میں ہے۔ اس نے تو کبھی اس طرح کی بات بھی نہیں کی ۔”
نانونے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”پاپا کی کیا بات ہے وہ جاب تھوڑا ہی کرتے ہیں۔ وہ تو عیش کرتے ہیں۔ میں تو جاب کرنے والوں کی بات کر رہا ہوں۔”
اس کے لہجہ میں طنز تھا۔
نانو نے اسے غور سے دیکھا تھا۔ وہ کھانا کھانے میں مصروف تھا۔
تمہارے اور جہانگیر کے درمیان اب کس بات پر جھگڑا ہوا ہے؟”
انہوں نے قدرے ہلکی آواز میں پوچھاتھا۔
عمر کھانا کھانے میں مشغول رہاتھا۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے عمر؟”
نانو نے اسے ایک بار پھر مخاطب کیاتھا۔
گرینی یہ بریانی کس نے بنائی ہے؟”
”کیوں اچھی نہیں ہے کیا؟”
”اچھی ہے اسی لئے تو پوچھ رہا ہوں!”
”میں نے بنا ئی ہے۔”
”پچھلے تین سالوں میں، میں نے ایسی بریانی نہیں کھائی۔”
اس نے مسکراتے ہوئے تعریف کی۔
”آج میں نے تمہاری ہر فیورٹ ڈش خود بنائی ہے۔”
نانو نے فخریہ انداز میں کہا۔
”اور جب تم تک تم یہاں رہو گے، میں تمہارے لئے کھانا خود ہی بناتی رہوں گی۔”
”اس کا مطلب ہے کہ مجھے اپنے ایکسر سائز آورز بڑھا دینے چاہئیں۔ ورنہ یہاں سے جاتے ہوئے میں کسی بھی سائز میں نہیں ہوں گا۔”
اس نے خوشگوار لہجہ میں کہا تھا۔
”تم نے مجھے بتایا نہیں، تمہارے اور جہانگیر کے درمیان اب کس بات پر جھگڑا ہوا ہے؟”
نانو اپنا سوال نہیں بھولی تھیں۔
علیزہ نے اس کے چہرے پر ایک بار پھر تناؤ دیکھا تھا۔
”کوئی جھگڑا نہیں ہے گرینی!”
اس نے انہیں بہلانے کی کوشش کی تھی۔
”تم نے خود فون پر کہا تھا کہ تمہارا جہانگیر کے ساتھ جھگڑا ہوگیا ہے! اور اب تم کہہ رہے ہو کہ کوئی جھگڑا ہی نہیں ہوا ہے۔”
میرے اور پاپا کے درمیان جھگڑے کوئی نئی بات نہیں ہیں گرینی، جو چیز ہمیشہ سے ہوتی چلی آ رہی ہو اس کے بارے میں کیا بتاؤں۔”
وہ بہت سیریس نظر آرہا تھا۔
”میں جانتی ہوں کہ تم دونوں کے درمیان جھگڑے کوئی نئی بات نہیں ہیں مگر پھر بھی میں جاننا چاہتی ہوں کہ اس بار کیا ہواہے؟”
” یہی تو میں بھی پوچھ رہا ہوں کہ آپ جان کر کیا کریں گی؟”
”ظاہر ہے تم دونوں کے درمیان پیچ اپ کروانے کی کوشش کروں گی۔”
”کم آن گرینی ! آپ کیا پیچ اپ کروانے کی کوشش کریں گی اور اب آپ کو اس معاملے میں انوالو ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے؟”
اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا تھا۔
”کیوں انوالو ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، آخر تم دونوں کے ساتھ پرابلم کیاہے؟”
”ہم دونوں کے ساتھ پرابلم یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ غلط رشتے میں باند ھ دیا گیا ہے۔ مجھے ان کا بیٹا ہونے کی بجائے باپ ہونا چاہئے تھا اور انہیں میرا بیٹا ہونا چاہئے تھا، پھر ہرپرابلم بڑی Amicably(دوستانہ انداز سے) حل کر لی جاتی، بلکہ میرا خیال ہے کہ پھر پرابلم پیدا ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ میں اتنا ڈومی نیٹنگ اور کمانڈنگ قسم کا باپ بننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا، جتنا پاپا کرتے ہیں۔”
”باپ سے بار بار جھگڑا کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔”
”بیٹے سے بار بار جھگڑا کرنا کیا بہت اچھی بات ہے؟”
”میں اسی لئے تو تم سے پوچھ رہی ہوں کہ مجھے جھگڑے کی وجہ بتاؤ تاکہ میں جان سکوں غلطی کس کی ہے۔”
”گرینی! اب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے اسی لئے فارن سروس چھوڑ دی ہے کہ ان سے کبھی میرا آمنا سامنا نہ ہو۔”
”تم نے فارن سروس جہانگیر کی وجہ سے چھوڑی ہے!”
”ہاں!”
باپ سے جھگڑ کر تم فارن سروس چھوڑ کر آ گئے ، عجیب بے وقوف آدمی ہو تم۔”
نانو بہت حیران نظر آئی تھیں۔
”گرینی ! پلیز ! اس وقت مجھے کھانا کھا لینے دیں۔ اس وقت میں اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتا۔ میں بعد میں واپس آکر آپ کو سب کچھ بتا دوں گا۔”
علیزہ نے عمر کو بڑے خشک لہجہ میں کہتے سناتھا۔ نانو اس کی بات پر بالکل خاموش ہو گئی تھیں۔ وہ اپنی پلیٹ صاف کرنے کے بعد اب سویٹ ڈش اٹھا رہا تھا۔
”اتنی جلدی سویٹ ڈش۔ تم نے تو بریانی اور کبابوں کے علاوہ اور کسی چیز کو چکھا ہی نہیں۔”
”بس گرینی ! باقی چیزوں کو واپس آکر چکھ لوں گا، فی الحال تو میں اتنا ہی کھا سکتاتھا۔”
وہ اب سویٹ ڈش نکال رہا تھا۔نانو کے اصرار کے باوجود بھی اس نے کوئی دوسری چیز نہیں لی تھی۔
”ڈرائیور کو کہہ دیں کہ مجھے ائیر پورٹ چھوڑ آئے اور گرینی!آپ نے کیا انیکسی صاف کروا دی ہے؟ میرا سامان کل پرسوں تک آجائے گا۔”
اس نے نیپکن سے منہ پونچھتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں انیکسی بالکل صاف ہے۔ تم اس کی فکر مت کرو۔ کل کس وقت آ ؤ گے۔”
”رات تک آؤں گا ،آٹھ نو بجے!”
وہ ٹیبل سے کھڑا ہو گیا تھا۔
نانو نے ملازم کو آواز دے کر گاڑی نکلوانے کے لئے کہا تھا۔ ملازم نے چند لمحوں میں آکر گاڑی تیار ہونے کی اطلاع دی تھی۔ عمر نے اپنا کوٹ پہن لیا تھا اور فرش پر پڑا ہوا بریف کیس ملازم کو تھما دیا تھا۔
”اچھا گرینی! خدا حافظ”
وہ علیزہ کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے باہر نکل گیا تھا۔ نانو بھی اس کے پیچھے ہی پورچ چلی گئی تھیں۔
وہ بجھے ہوئے دل کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گئی تھی۔ عمر کا رویہ اس کے لئے شاکنگ تھا۔ اس نے کبھی بھی اسے اس طرح نظر انداز نہیں کیا تھا جس طرح آج کیا تھا۔ اس کے پہلے والے قہقہے اور مسکراہٹیں تقریباً ختم ہو چکی تھیں۔ اب وہ صرف رسماً اور ضرورتاً مسکراتا رہا تھا۔ نانو اب واپس اندر آچکی تھیں۔ علیزہ خانساماں کو جس وقت چائے کا کہہ کر واپس آئی تو وہ لاؤنج میں فون پر کسی سے باتیں کر رہی تھیں۔
”وہ تو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی گیا ہے۔”
وہ فون پر کہہ رہی تھیں۔ وہ جان گئی کہ موضوع گفتگو عمر ہے۔
”اسلام آباد گیا ہے۔…… کل رات کو ہو گی……ہاں، میرا تو خیال ہے …… یہ کنفرمڈ ہی ہے!………اچھا تم آرہے ہو؟…… کل…کل کس وقت؟……ٹھیک ہے۔ اکیلے آؤ گے؟…… اچھا۔ میں اسے نہیں بتاؤں گی ،لیکن میرا خیال ہے وہ مجھے فون نہیں کرے گا……ٹھیک ہے۔”
نانو نے فون بند کر دیا تھا۔ علیزہ نے ان کے چہرے پر تشویش دیکھی تھی۔
”کیا بات ہے نانو ! کس کا فون تھا؟” علیزہ نے پوچھاتھا۔
”جہانگیر کا فون تھا۔ وہ کل آ رہا ہے!” انہوں نے متفکر انداز میں کہا تھا۔
”انکل جہانگیر ؟” علیزہ بھی حیران ہو گئی۔
”پتہ نہیں کہ ان کے درمیان کیا جھگڑ ا ہوا ہے۔ وہ بھی بہت ٹینس لگ رہا تھا۔ عمر کے بارے میں بہت غصہ سے بات کر رہا تھا ۔” نانو بے حد فکر مند نظر آرہی تھیں۔
باب: 12
وہ نانو کے پیچھے ان کے بیڈ روم میں داخل ہو گئی تھی۔
”بیٹھو۔”
نانو نے اندر داخل ہوتے ہی اس سے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ نانو خود اپنے بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
”تم نے عمر سے کیا کہا تھا؟”
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد انہوں نے اسی اکھڑے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔
”میں نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا ۔یہ سب کچھ عمر ہی کا کیا دھرا ہے۔” اس نے نانو کے سوال پر سوچا تھا۔
”میں سمجھی نہیں نانو!”
”میں نے اتنا مشکل سوال تو نہیں پوچھا۔ صرف یہی پوچھا ہے کہ تم نے عمر کو کیا کہا تھا۔”
”نانو کس بارے میں؟”
”اس گھر سے چلے جانے کے بارے میں !”
علیزہ بالکل ساکت ہو کر رہ گئی۔
”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں نانو ، میں نے اس سے کیا کہا ہے؟”
”تمہاری وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ میں نے اس سے کیا کہا ہے؟”
اس بار نانو کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ تلخ تھا۔
وہ حیرانی سے ان کاچہرہ دیکھتی رہی۔
”نانو میں نے اس سے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا، آئی سوئیر! میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔”
وہ روہانسی ہو گئی تھی۔
”تو پھر وہ کسی وجہ کے بغیر ہی گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔”
اس با ر نانو کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”مجھے نہیں پتہ کہ وہ کیوں گھر چھوڑ گیا ہے۔، بٹ بلیو می نانو! کہ میں نے اسے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا۔ میں آخر اس سے ایسی بات کیوں کہتی۔”
وہ اپنی صفائی دینے کی کوشش کر رہی تھی۔
“تم نے اسے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا مگر تم نے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ وہ یہاں نہیں رہے۔”
وہ نانو کے اس الزام پر ہکا بکا رہ گئی۔
”نانو میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا!”
”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا علیزہ کہ تم اس طرح کی حرکتیں کرو گی۔ تم نے میری ساری عمر کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔”
”نانو پلیز ! آپ اس طرح مت کہیں۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے عمر گھر چھوڑ کر چلا گیا ہو۔”
علیزہ ! میں نے اس سے بات کی تھی ، تمہارا کیا مطلب ہے، میں نے اسے ایسے ہی جانے دیا ہے، اسی نے مجھے بتایا تھا کہ تمہیں اس کا یہاں رہنا پسند نہیں ہے اور وہ یہاں رہ کر خوامخواہ کی ٹینشن کھڑی نہیں کرنا چاہتا، اور میں یہی جاننا چاہتی ہوں کہ تمہیں اس کے یہاں رہنے پر کیا اعتراض ہے؟”
نانو نے تیز آواز میں بات کرتے ہوئے کہا تھا۔علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”نانو وہ جھوٹ بولتا ہے۔”
”وہ جھوٹا ہے اور تم؟”
”نانو ! اس نے آپ سے ایک بات کہہ دی اور آپ نے سوچے سمجھے بغیر اس کی بات کا یقین کر لیا۔ اب میں جب ایکسپلی نیشن دے رہی ہوں تو آپ میری بات ہی سننے کو تیار نہیں ہیں۔”
وہ بالکل روہانسی ہو رہی تھی۔
”آپ کو عمر کی ہر جھوٹی بات پر یقین آجاتا ہے مگر میری بات پر یقین نہیں ہے۔”
”عمر جھوٹ نہیں بولتا!”
نانو کے جملے نے اس کی رنجیدگی میں اضافہ کر دیاتھا۔
”اور میں……آپ سمجھتی ہیں کہ میں جھوٹ بولتی ہوں؟”
”مجھے تم سے فضول بحث نہیں کرنی۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تمہیں عمر کا یہاں رہنا کیوں پسند نہیں ہے؟”
”نانو ! میں نے آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ مجھے اس کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسے ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ، یہاں تو بہت سے لوگ آتے اور رہتے ہیں ، کیا میں نے پہلے کبھی کسی کے رہنے پر اعتراض کیا ہے پھر اب عمر کے رہنے پر کیوں کروں گی۔”
اس نے ایک کے بعد ایک وضاحت دیتے ہوئے کہاتھا۔
”آپ اسے دوبارہ واپس بلا لیں۔”
نانو کچھ دیر اسے دیکھتی رہی تھیں۔
”وہ اب یہاں واپس نہیں آئے گا۔ یہ بات صاف صاف کہہ کر گیا ہے ، کم از کم رہنے کے لئے تو دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔”
”آپ بتائیں نانو! اس میں میرا کیا قصور ہے۔ وہ اپنی مرضی سے یہاں ایا۔ اپنی مرضی سے واپس یہاں سے چلا گیا۔ اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔”
”اگر تم اس کے ساتھ وہ سلوک نہ کرتیں جو تم نے کیا تو شاید وہ اس طرح سے یہاں سے نہ جاتا۔” نانو ابھی بھی اپنی بات پر جمی ہوئی تھیں۔
”میں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ نانو! میں نے تو اس کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا۔”
”علیزہ ! تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے، مجھے کم از کم تم سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں تھی۔ اتنے سالوں سے میں اتنی محبت سے تمہاری پرورش کرتی رہی ہوں اور تم نے چند ہفتے میں اس ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ کیا سوچتا ہو گا عمر کہ میں نے تمہیں اس طرح کی تربیت دی ہے اور جب وہ جا کر اپنے باپ سے اس بات کا ذکر کرے گا تو جہانگیر میرے اور تمہارے بارے میں کیا سوچے گا۔ یہ گھر صرف تمہارا نہیں، ان سب کا بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ یہاں بہت کم آکر رہتے ہیں مگر نہ رہنے سے اس گھر پر ان کا حق تو ختم نہیں ہو جاتا۔ عمر ہو یا تمہارا کوئی اور کزن، تمہیں کوئی اختیار حاصل نہیں کہ تم ان کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض کر ویا اپنی ناپسندیدگی کا اظہار اپنے رویے سے کرو۔”
وہ چپ چاپ نانو کی باتیں سنتی رہی تھی۔ نانو بہت دفعہ اسے ڈانٹ دیا کرتی تھیں مگر آج ان کا رویہ بہت زیادہ سخت تھا۔ جس طرح آج وہ اس سے بات کر رہی تھیں۔اس طرح سے انہوں نے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔
”عمر کے ساتھ تو خیر جو کچھ تم نے کیا سو کیا مگر آئندہ یہ حرکت پھر کبھی مت کرنا۔ تم اب بچی نہیں ہو جسے ساری باتیں سمجھانا پڑیں۔ بڑی ہو چکی ہو، ہر چیز سمجھ سکتی ہو۔ بہتر ہے کہ اپنے رویے کو ٹھیک کرو۔اب جاؤ یہاں سے۔ مجھے کچھ کام ہے۔”
انہوں نے ایک لمبے چوڑے وعظ کے بعد بات ختم کردی وہ شاک کی حالت میں ان کے بیڈ روم سے نکل کر آئی تھی۔
”سارا قصور صرف میرا ہے اور کسی کا نہیں۔ عمر کا بھی نہیں۔ اس کے یہاں سے چلے جانے کی وجہ سے میری ہر خوبی خامی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ نانو کو میں بد تمیز لگنے لگی ہوں۔ عمر کی نانو کو پرواہ ہے ،میری نہیں!”
وہ اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے ہوئے کچھ اور ہی دل گرفتہ ہو گئی تھی۔
”میری کسی کو ضرورت ہی نہیں ہے۔ ممی کو نہیں، پاپا کو نہیں، نانو کو بھی نہیں، ضرورت تو عمر جیسے بندے کی ہوتی ہے۔ جس کی دنیا میں کوئی ویلیو ہو۔”
اس کی رنجیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”کس قدر فراڈ انسان ہے۔ مجھ سے اور طرح کی باتیں کرتا تھا اور میرے جاتے ہی یہاں چکر چلانے شروع کر دئیے مجھے اپنا دوست کہہ کراس نے میرے ساتھ ایسے کیا۔”
اور عمر جہانگیر کے لئے اس کی ناپسندیدگی میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیاتھا۔
دوپہر کو مرید کے بلانے پر بھی وہ لنچ کے لئے نہیں آئی ، اس کا خیال تھا کہ نانو اسے آکر خود ہی لنچ کے لئے کہیں گی ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نانو نے اسے دوبارہ لنچ کے لئے نہیں کہا اور وہ بھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی۔
شام کو سو کر اٹھنے کے بعد وہ نہانے کے لئے باتھ روم میں چلی گئی۔ اس وقت اسے واقعی بھوک لگ رہی تھی نہانے کے بعد نیم دلی سے وہ اپنے کمرے سے نکل آئی تھی۔ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی کانوں میں پڑنے والی آواز سے اس کا خون کھولنے لگا تھا۔ وہ عمر کی آواز تھی۔ اگر وہ لاؤنج میں داخل نہ ہوئی ہوتی اور نانو اور عمر نے اسے نہ دیکھا ہوتا تو وہ وہیں سے واپس اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ اس وقت وہ کسی صورت بھی عمر کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی تھی مگر لاؤنج میں داخل ہوتے ہی عمر کی نظر اس پر پڑ گئی تھی۔ نہ صرف اس نے علیزہ کو دیکھ لیا تھا، بلکہ فوراً اسے مخاطب بھی کیاتھا۔
”ہیلو علیزہ ! اتنی جلدی واپسی؟”
اس نے کچھ حیرانی سے علیزہ سے پوچھاتھا۔ علیزہ نے ایک نظر صوفہ پر بیٹھے ہوئے عمر پر ڈالی اور پھر نانو کی ساری نصیحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کوئی جواب دیئے بغیر کچن میں چلی گئی۔ اپنے پیچھے سے ایک بار پھر عمر کو اپنا نام پکارتے ہوئے سنا۔ مگر اس وقت وہ دنیا کا آخری شخص تھا، جس سے وہ بات نہ کرنا چاہتی تھی۔
”اگر یہ یہاں سے چلا گیا ہے تو اب یہاں کیا لینے آیا ہے۔”
اس نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے تلخی سے سوچاتھا۔
”اور اسے اس بات سے کیا کہ میں اتنی جلدی واپس کیوں آئی ہوں۔”
اس وقت اس کا غصہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔
”مرید بابا ! مجھے کچھ کھانے کے لئے دے دیں۔”
اس نے کچن میں داخل ہوتے ہی خانساماں سے کہا تھا۔
”علیزہ بی بی ! آپ کچھ دیر انتظار کرلیں۔ میں ابھی کھانا لگانے ہی والا ہوں۔ پھر آپ سب کے ساتھ ہی کھانا کھا لیجئے گا۔” خانساماں نے اس سے کہا تھا۔
”نہیں مجھے ابھی کچھ کھانا ہے اور ان سب کے ساتھ بیٹھ کر کچھ نہیں کھانا ۔”
اس نے ضد کی تھی۔ خانساماں نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔ علیزہ نے کبھی ضد نہ کی تھی، اور پھر اس طر ح کی ضد……اس نے کچھ کہنے کی بجائے کھانے کی کچھ چیزیں کچن کی ٹیبل پر رکھنی شروع کر دیں۔ اس وقت علیزہ نے لاؤنج میں سے نانا کی آواز سنی تھی۔ وہ اس کا نام پکار رہے تھے۔ وہ بے اختیار کچن سے باہر نکل آئی۔
”علیزہ تم رات کو بھی مجھ سے ملی ہی نہیں۔ آتے ہی سو گئیں۔”’
انہوں نے اسے دیکھتے ہی شکوہ کیاتھا۔
”کراچی سے اتنی جلدی کیوں واپس آگئیں؟”
انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
”بس میر ا دل نہیں لگا وہاں ، حالانکہ پاپا تو بہت کہہ رہے تھے اور ناراض بھی ہو گئے تھے میرے اس طرح سے جلدی چلے آنے پرمگر میں آپ لوگوں کو مس کر رہی تھی۔” اس نے ایک بار پھر جھوٹ بولنا شروع کر دیا تھا۔
”بہت اچھا کیا اتنی جلدی واپس آکر!”
نانا نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا، اور وہ کچھ مطمئن ہو گئی تھی کم از کم نانا تواس سے ناراض نہیں تھے۔ اس نے سوچا عمر نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھا بڑی خاموشی سے اس کی نانا کے ساتھ ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ اس بار اس نے علیزہ کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”مرید سے کہو کھانا لگا دے!”
نانا نے نانو سے کہاتھا۔
”گرینڈ پا ! میں تو کھانا نہیں کھاؤں گا۔”
عمر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”کیوں، اب تمہیں کیا ہوا ہے؟”
”کچھ بھی نہیں بس مجھے ابھی تھوڑی دیر میں واک پر جانا ہے اور اب میں نے کھانا واک سے واپسی پر کھانا شروع کر دیا ہے۔”
”یہ ایک انتہائی احمقانہ حرکت ہے۔ واک سے واپسی پر کھانا۔”
نانا نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”میں تو اپنی کچھ چیزیں لینے آیا تھا ۔یہ تو بس گرینی نے پکڑ کر بٹھا لیا۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہاتھا۔
”جو چیزیں تمہیں لینی ہیں، ضرور لو لیکن کھانا کھائے بغیر تم یہاں سے نہیں جا سکتے۔ سمجھے تم!”
نانا نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہاتھا۔
اس نے کچھ اور کہنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں سنی تھی۔ علیزہ کو ایک بار پھر اپنا آپ بیک گراؤنڈ میں جاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا وہاں صرف عمر اور نانا، نانو ہی تھے، کوئی چوتھا شخص نہیں۔ کسی چوتھے شخص کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ نانا کی پوری توجہ اب عمر پر مرکوز تھی۔ وہ ملول ہونے لگی تھی۔
خانساماں نے کھانا لگا دیا تھا اور علیزہ نے بڑی خاموشی کے ساتھ کھانا کھا یا تھا۔ عمر کے ساتھ ٹیبل پر اس کی دوبارہ کوئی بات نہیں ہوئی تھی ، نہ ہی وہ اس کی طرف متوجہ تھا۔ وہ نانا سے باتوں میں مشغول تھا،اور کھانا کھانے کے بعد نانا کپڑے بدلنے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ نانو کافی بنانے کے لئے کچن میں گئی تھیں اور ان کے جانے کے بعد عمر بھی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ علیزہ ڈائننگ ٹیبل پر بالکل اکیلی بیٹھی رہ گئی تھی۔ بڑی بے دلی کے ساتھ وہ اپنی پلیٹ میں موجود کھانا کھاتی رہی۔ پھر یک دم پلیٹ چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
عمر کے کمرے کے دروازے پر دستک دینے سے پہلے وہ ہچکچائی تھی پھر اس نے دروازے پر دستک دی۔
”یس کم ان!”
اندر سے عمر کی آواز ابھری تھی۔
وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ عمر کارپٹ پر ایک بیگ کھولے کچھ چیزیں اس میں رکھنے میں مصروف تھا۔ علیزہ کو دیکھ کر کچھ حیران ہواتھامگر پھر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”آؤ علیزہ !” وہ بدستور اپنے کام میں مصروف تھا۔
”بیٹھ جاؤ!” ایک بار پھر علیزہ کو دیکھتے ہوئے کہاتھا۔
”میں بیٹھنے کے لئے نہیں آئی۔” اس نے خفگی سے کہا تھا۔
وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا تھا اور پھر ہولے سے ہنس دیا۔ ”اچھا۔” وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔
”آپ نے نانو سے میرے بارے میں کیا کہا ہے؟” اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
”کچھ بھی نہیں!”
”آپ جھوٹ بول رہے ہیں ، آپ نے نانوسے کہا کہ میں نے آپ کو اس گھر سے جانے کے لئے کہا ہے۔”
”کم آن علیزہ ! میں نے ایسا کچھ نہیں کہا!”
اس بار اس نے ایک بار پھر بڑے پر سکون اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”آپ نے نانو سے کہا کہ میں یہاں آپ کا رہنا پسند نہیں کرتی۔”
”ہاں یہ میں نے کہا تھا۔” اس کا لہجہ اب بھی پر سکون تھا۔
”آپ نے یہ کیوں کہا تھا؟” وہ تیز آواز میں بولی تھی۔
”کیا میں نے غلط کہا ہے؟” اس نے بہت سیدھا سوال کیا گیا تھا۔ وہ چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی ۔ وہ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
”آپ نے نانو کو میرے خلاف کر دیا ہے۔” وہ کتابوں کے شیلف کی طرف جاتے جاتے مڑا تھا۔ ”میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔”
”آپ نے کیا ہے!”
”میں نے جو کچھ بھی کیا ہے، وہ تمہاری خوشی اور convenience (سہولت) کے لئے کیا ہے اور اس میں گرینی کو تمہارے خلاف کر نے کی احمقانہ حرکت شامل نہیں ہے۔” وہ اب کتابیں شیلف پر سے اٹھا رہا تھا۔
”آپ کی وجہ سے نانو مجھ سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کر رہیں!” اس بار وہ روہانسی ہو گئی تھی۔
اس نے مڑ کر علیزہ کو دیکھا تھا اور پھر بڑی نرمی سے کہا تھا۔ ”وہ اگر ایسا کر رہی ہیں تو غلط کر رہی ہیں، میں ان سے بات کروں گا۔”
”آپ کو اب ان سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ کو بہت اچھی طرح سے سمجھ چکی ہوں، You are a crook”
اس بار اس کے ریمارکس پر پہلی بار عمر کے ماتھے پر کچھ بل آئے تھے مگر اس نے کچھ کہا نہیں تھا، صرف خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
”آپ صرف نانو کو یہ بتائیں کہ میں نے آپ سے یہاں رہنے کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا،نہ ہی میں نے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض کیا ہے۔”
وہ اب بھی خاموش تھا۔
”آپ نانو کو جاکر کہیں کہ میں نے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔”
”حالانکہ تم میرے یہاں رہنے کو ناپسند کرتی ہو۔”
”میں نے آپ سے ایسا کب کہا۔”
”تم نے کہا نہیں مگرپھر بھی تم میرا یہاں رہنا پسند نہیں کرتی۔”
”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔”
”علیزہ میں کوئی بچہ نہیں ہوں اور صحیح غلط تم سے بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتا ہوں۔ تمہیں یاد ہے اس دن جب میں تمہیں پرفیومز دکھا رہا تھا ،اور میں نے اپنا فیورٹ پرفیوم تمہیں دکھایا تو تم نے اسے گرا دیا۔”
علیزہ کا رنگ اڑ گیا تھا۔ ”میں نے جان بوجھ کر پرفیوم نہیں گرایا تھا۔ میرے ہاتھ ….. !”
”علیزہ میں بے وقوف نہیں ہوں،نہ ہی مجھے بے وقوف سمجھو۔” وہ بات کرتے ہوئے بے حد پر سکون تھا۔
”اسی طرح اس دن پلانٹس کی کٹنگ کرتے ہوئے، میں نے تم سے کہاں یہ میرا فیورٹ پلانٹ ہے اور تم نے اس کی سب سے خوبصورت شاخ کاٹ دی۔” اس بار وہ کچھ بول نہ سکی ، عمر واقعی بے وقوف نہیں تھا۔
”میں نے بہت پہلے تمہیں بتا دیا تھا کہ میں یہاں تمہاری جگہ لینے نہیں آیا ہوں۔ تھوڑے عرصہ کے لئے آیا ہوں پھر واپس چلا جاؤں گا۔ مگر اس کے باوجود مجھے محسوس ہوا کہ تم میری طرف سے اپنا دل صاف نہیں کر پائیں۔ شاید تمہارے دل میں میری طرف سے کچھ خدشات تھے، اور میں کوشش کے باوجود انہیں ختم نہیں کر پایا۔ اس لئے میں نے بہتر یہی سمجھا کہ یہ جگہ چھوڑ دوں۔ بس اتنی سی بات تھی اور میں نے گرینی سے بھی ان سب باتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔ انہوں نے جب میرے باہر جانے کے فیصلے کے بارے میں بہت اصرار کیا تو میں نے ان سے صرف اتنا کہا کہ تم میرے یہاں رہنے کو پسند نہیں کرتیں۔ اس سے زیادہ میں نے ان سے کچھ نہیں کہا۔”
وہ بہت سنجیدگی سے اسے بتاتا جا رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیاتھا۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ وہ اب اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
”پلیز ! آپ واپس آجائیں!”
عمر نے ایک گہری سانس لے کر اسے دیکھا تھا۔” آئی ایم سوری۔”
”علیزہ ! میں یہاں سے ناراض ہو کر نہیں گیا۔ اپنی خوشی سے گیا ہوں اور اکثر آتا جاتا رہوں گا۔”
اس نے نرمی سے کہا۔
”پلیز آپ واپس آجائیں……جب تک آپ واپس نہیں آئیں گے نانو کا موڈ ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ سمجھتے نہیں ہیں وہ۔۔۔۔۔”
عمر نے اسے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا وہ بے حد پریشان نظر آرہی تھی۔
”میں دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گی جس سے آپ کو شکایت ہو۔” وہ اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔
”علیزہ ! میں واپس نہیں آسکتا۔” اس نے مایوسی سے عمرکو دیکھاتھا۔
”جہاں تک گرینی کی بات ہے تو وہ تم سے بہت محبت کرتی ہیں۔ وہ تم سے ناراض نہیں ہو سکتیں۔”
”ہاں ! وہ تو مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں، مگر پھر بھی یہ گھر میرا نہیں ہے میرا تواب کوئی گھر ہے ہی نہیں۔”
عمر نے اسے اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ جان گیا تھا۔ وہ کیا چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ چند لمحوں تک وہ اسے حیران پریشان آنکھوں پر ہاتھ رکھے سسکیاں بھرتے دیکھتا رہا، پھر وہ اس کے قریب آگیا تھا۔
”علیزہ ! کیا ہوا ،رونے والی کیا بات ہے؟”
اس نے بچوں کی طرح اسے چمکارتے ہوئے اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ مگر چپ ہونے کی بجائے وہ یکدم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ وہ ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہاتھا پھر اس نے کندھوں سے پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھا دیاتھا۔
”ٹھیک ہے میں واپس آجاتا ہوں لیکن تم یہ رونا بند کردو۔”
علیزہ نے اسے کہتے سناتھا مگر وہ خود سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ اپنے آنسوؤں پر قابو کیوں نہیں پا رہی اسے نہیں پتاوہ کتنی دیر روتی رہی تھی۔اس نے دوبارہ عمر کی آواز نہیں سنی تھی۔ کافی دیر کے بعد جب اس کے آنسوتھمے تو اس نے آہستہ سے چہرہ اوپر اٹھایا۔ اس کے بالکل سامنے ہی عمر ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس وقت اس کا چہرہ کیا منظر پیش کر رہا ہو گا۔ سو جی ہو ئی آنکھیں ، گیلا چہرہ، سرخ ناک اور اس میں سے بہتا ہو ا پانی۔
اس سے زیادہ بری وہ اور کسی حالت میں بھی نہیں لگ سکتی تھی۔ اس نے سر نیچے جھکا کر ٹی شرٹ کی آستینوں سے چہرہ صاف کرنے کی کوشش کی پھر نامحسوس انداز میں ٹی شرٹ کے کونے سے ناک سے بہتا ہوا پانی صاف کرنا چاہا تھا، اور اسی وقت ٹشو کا ڈبہ اس کے سامنے آ گیا۔ کچھ جھجک کے بعد اس نے دو ٹشوز نکال لئے تھے۔
”پانی چاہئے ؟”
بہت نرم آواز میں اس سے پوچھا گیا۔
اور اس کا سر اثبات میں ہل گیا۔ جب تک اس نے ٹشو سے اپنے چہرے کو خشک کیا وہ ایک گلاس میں پانی لے کر آگیا۔ اس نے پانی پینے کے بعد اسی خاموشی سے گلا س واپس اسے تھما دیا تھا۔
”رونا کس بات پر آیا تھا؟”وہ اب اس کے پاس بیٹھ کر اس سے پوچھ رہا تھا۔
علیزہ کو اب شرمندگی محسوس ہونے لگی تھی۔ اسے رونا نہیں چاہئے تھاکم از کم عمر کے سامنے تو بالکل بھی نہیں۔
”کراچی میں کوئی بات ہوئی ہے کیا؟”
علیزہ نے خوف کے عالم میں سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بلا کا قیافہ شناس تھا۔ وہ بڑے غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ علیزہ کا دل چاہا اسے بتا دے کہ اس کے پاپا نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا مگر وہ ایک بار پھر رک گئی۔ اس کی آنکھیں ایک بار پھر دھندلانے لگی تھیں۔اس بار عمر نے بڑی نرمی سے اپنی انگلیوں سے آنسو پونچھ دیے تھے۔
”رونے سے کیا ہو گا علیزہ ! زندگی میں تو بہت کچھ فیس کرنا پڑ تا ہے۔ ہر بار آنسو پرابلم حل نہیں کرتے۔”
اس کا خیا ل تھا۔ عمر اس سے پوچھے گا کہ وہاں ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اتنی دل گرفتہ تھی، مگر عمر نے مزید کوئی سوال نہیں کیاتھا۔ اس کے بجائے نرم لہجے میں ایک نصیحت کی گئی تھی۔
”چلو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔ میرے پاس جب بھی روپے آئے،میں تمہیں ایک گھر ضرور گفٹ کروں گا۔” علیزہ نے حیرانی سے عمر کو دیکھاتھا۔
”آئی ایم سیریس!” وہ علیزہ کی حیرانی کو بھانپ گیاتھا۔
”مجھے گھر نہیں چاہئے۔”
”تو پھر کیا چاہئے ؟”
”کچھ بھی نہیں!”
وہ ابھی بھی اتنی ہی ملول نظر آرہی تھی۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
”آپ پھر یہاں رہیں گے نا!”
اس نے اچا نک سر اٹھا کر عمر سے پوچھاتھا۔
”ہاں ! رہوں گا۔”
عمر کو اس کے چہرے پر کچھ اطمینان نظر آیاتھا۔وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”پھر یہ چیزیں واپس رکھ دیں۔”
اس نے بیگ کی طرف اشارہ کیا۔
”میں رکھ دوں گا لیکن آج تو مجھے جانا ہی ہو گا کیونکہ میرا باقی سامان تو وہیں ہے۔”
اس نے کہاتھا۔
وہ اٹھ کر دوبارہ اپنے بیگ کی طرف چلا گیاتھا۔ اب وہ بیگ میں سے چیزیں واپس نکال رہا تھا۔ علیزہ نے کچھ مطمئن ہو کر اسے دیکھا تھا اور کمرے سے نکلنے کے لئے مڑ گئی۔ دروازہ کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی نظر کمرے کے کونے میں پڑی ہوئی ایک چیز پر پڑی تھی اور وہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔
باب: 13
”عمر کے بارے میں کیا بات کر رہے تھے؟”
وہ بھی کچھ فکر مند ہو گئی تھی۔ نانو اب بہت الجھی ہو ئی لگ رہی تھیں۔
”پتا نہیں اب کیا پرابلم ہے؟”
نانو بڑبڑائی تھیں۔
”انکل جہانگیر کل پاکستان آئیں گے؟”
اس نے اس بار سوال بدل دیاتھا۔
”نہیں ! پاکستان تو وہ دو دن پہلے ہی آچکا ہے!”
”انہوں نے آپ کو پہلے انفارم کیوں نہیں کیا؟”
”پتہ نہیں !”
”ملنے بھی نہیں آئے؟”
”اب میں کیا کر سکتی ہوں۔ اس کی مرضی ہے۔”
”پہلے تو سیدھا یہیں آیا کرتے تھے۔”
”پہلے تو بات ہی اور تھی۔ پہلے تو تمہارے نانا کی وجہ سے وہ سیدھا یہیں آیا کرتا تھا۔ اب جب سے ان کی ڈیتھ ہوئی ہے جہانگیر بہت لاپرواہ ہو گیا ہے۔”
”انکل لاہور میں ہی ہیں؟”
”پتا نہیں۔ یہ میں نے نہیں پوچھا۔ ہو سکتا ہے، لاہور میں ہی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی کراچی میں ہو۔”
”کل کس وقت آرہے ہیں؟”
”کہہ رہا تھا کہ شام کو آئے گا۔”
”آپ نے ان سے پوچھا کہ یہاں کتنے دن رہیں گے؟”
”تم بے وقوف ہو علیزہ ! بھلا میں یہ کیسے پوچھ سکتی تھی۔ وہ سوچتا ماں کو پہلے ہی اس کی واپسی کی فکر پڑ گئی ہے۔”
علیزہ کا چہرہ خفت سے تھوڑا سرخ ہو گیاتھا۔
”نہیں ، میرا یہ مطلب نہیں تھا ، میں تو اس لئے پوچھنا چاہ رہی تھی تاکہ ان کا کمرہ اسی طرح سیٹ کر سکوں۔رہیں گے تو یہیں نا؟”
”ہاں، کہہ تو یہی رہا ہے کہ یہیں رہے گا مجھ سے کہہ رہا تھا کہ عمر کو اس کی آمد کے بارے میں کچھ نہ بتاؤں۔ میں نے کہا کہ عمر تو یہاں ہے ہی نہیں۔ کہنے لگا کہ پھر بھی اسے میرے آنے کی اطلاع نہیں ہونی چاہئے۔”
”انکل جہانگیر نے ایسا کیوں کہا؟”
علیزہ کچھ حیران ہوئی تھی۔
”آخر عمر سے وہ اپنی آمد کیوں چھپانا چاہ رہے ہیں؟”
”یہ تو میری بھی سمجھ میں نہیں آیا۔”
”پتا نہیں انکل جہانگیر اور عمر کا اتنا جھگڑا کیوں ہوتا رہتا ہے؟”
”دونوں غصہ ور ہیں۔ دونوں ہی اپنی منوانے والے ہیں۔ پھر جھگڑا نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ بہرحال تم جہانگیر کے لئے بھی کمرہ تیار کروا دو۔”
”نانو انکل اکیلے آرہے ہیں؟”
”ہاں ! اکیلا ہی آ رہا ہے۔”
نانو اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی تھیں۔
علیزہ کچھ دیر خاموشی سے وہاں بیٹھی کچھ سوچتی رہی پھر اٹھ کر عمر کے کمرے کی طرف آگئی تھی۔ کمرے میں عمر کے کلون کی مہک ابھی تک موجود تھی۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے اسٹڈی ٹیبل کی طرف گئی تھی، وہاں عمر کا وہ اسکیچ موجود نہیں تھاجو اس نے کل وہاں رکھا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عمر وہ اسکیچ دیکھ چکاتھا۔ اسے نامعلوم سی خوشی ہوئی تھی۔ وہ واپس مڑنے کو تھی جب اس کی نظر اسٹڈی ٹیبل کے پاس پڑی ویسٹ پیپر باسکٹ پر پڑی تھی۔ اس میں صرف ایک مڑا تڑا کاغذ پڑا ہوا تھا اور وہ اس کاغذ کو ہاتھ لگائے بغیر بھی جانتی تھی کہ وہ کونسا کاغذ تھا۔
انکل جہانگیر دوسرے دن شام کو پہنچ گئے تھے۔ ان کا موڈ واقعی اس بار کچھ اور ہی طرح کا تھا۔ ہر بار جب بھی آتے تھے تو بہت خوشگوار موڈ میں ہوتے تھے۔ علیزہ سے کافی گرم جوشی سے حال احوال پوچھا کرتے تھے، مگر اس بار وہ بہت سنجیدہ تھے۔ علیزہ سے ان کی رسمی سی سلام دعا ہوئی تھی اس کے بعد وہ نانو کے ساتھ ان کے کمرے میں چلے گئے تھے۔ وہاں ان دونوں کے درمیان کیا کیا باتیں ہوئی تھیں ، وہ نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اس نے جاننے کی کوشش ہی کی۔ اس نے بس ملازم کے ہاتھ چائے اور کچھ کھا نے کی چیزیں اندر بھجوادیں تھیں۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد انکل نانو کے ساتھ باہر لاؤنج میں نکل کر آگئے تھے۔علیزہ نے نانو کے چہرے پر بھی ٹینشن دیکھی تھی۔ بہت عرصہ کے بعد وہ اس طرح پریشان نظر آرہی تھیں۔ لاؤنج میں بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد عمر کا فون آگیا تھا۔ وہ ائیرپورٹ پر تھا اور ڈرائیور بھیجنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ نانو نے اس کا فون ریسیو کیا تھا اور ڈرائیور کو بھجوا دیا تھا۔
ایک گھنٹے کے بعد پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز سنائی دی تھی۔ علیزہ نے انکل کے چہرے پر نظر دوڑائی تھی، وہاں تناؤ میں اضافہ ہو گیا تھا۔ پچھلے ایک گھنٹہ سے وہ نانو اور انکل جہانگیر کی باتیں سن رہی تھی، اور وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے فیملی ممبرز کے بارے میں معمول کی گفتگو میں مصروف تھے۔ مگر ان کی گفتگو میں گرم جوشی یاخوشی نہیں تھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ صرف وقت گزارنے کے لئے باتیں کررہے تھے۔
علیزہ نے ایک گہری سانس لی تھی ۔ لاؤنج کا دروازہ کھلا اور عمر اپنی ہی رو میں اندر آیا تھا۔ پہلا قدم اندر رکھتے ہی وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر موجود ہلکی سی مسکراہٹ کو غائب ہوتے دیکھا۔ وہ انکل جہانگیر کو دیکھ چکا تھا اور علیزہ نے اس سے پہلے اس کے چہرے کو کبھی اتنا بے تاثر نہیں دیکھا تھا۔ اس نے انکل جہانگیر کو ایک نظر دیکھا اور پھر گہری نظروں سے نانو کو دیکھا تھا، اور اس وقت علیزہ کو اس کی آنکھوں میں شکوہ نظر آیاتھا۔
دروازہ بند کر کے وہ اب آگے بڑھ آیا تھا۔ السلام و علیکم کے دو لفظ کہنے کے بعد وہ وہاں رکے یا کسی کو دیکھے بغیر لاؤنج سے گزر گیاتھا۔ انکل جہانگیر نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ اس کے چہرے پر بہت عجیب تاثرات تھے۔
”علیزہ ! تم جاؤ اور اسے کہو کہ کپڑے بدل کر کھانے کے لئے آ جائے ، کھانا تیار ہے۔”
نانو نے اسی لمحے علیزہ کو مخاطب کیا تھا۔وہ ایک لمحے کے لئے جھجکی اور پھراٹھ کھڑی ہوئی۔
عمر کے بیڈ روم کے دروازے پر اسے دو تین بار دستک دینی پڑی تھی پھر وہ رک گئی۔ ہو سکتا ہے وہ پہلے ہی ڈریسنگ میں کپڑے تبدیل کر رہا ہو۔ اس نے سوچاتھا۔ چند منٹ وہ وہیں دروازہ کے باہر کھڑی انتظار کرتی رہی پھر اس نے ایک بار پھر دروازے پر دستک دی تھی۔ اس بار اسے انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ فوراً ہی اسے عمر کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ عمر اب سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا اور موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کرنے میں مصروف تھا۔ اسے دیکھ کر رک گیا تھا۔
”نانو کہہ رہی ہیں کہ آپ کھانے کے لئے آجائیں!”
علیزہ نے نانو کا پیغا م اسے دیاتھا۔
”پاپا کب آئے ہیں؟”
اس نے علیزہ کی بات کے جواب میں سوال کیا تھا۔
”انکل آج شام کو آئے ہیں۔”
” اور تم لوگوں کو پہلے سے پاپا کے آنے کا پتا تھا؟” اس بار اس کا لہجہ بہت تیکھا تھا۔
”کل انکل نے فون کر کے نانو کو اپنے آنے کا بتایا تھا۔”
”صبح جب میں نے گرینی کو فون کیا تھا تو انہوں نے مجھ سے پاپا کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔”
”انکل نے نانو کو منع کر دیا تھا کہ وہ ان کے آنے کے بارے میں آپ کو کچھ بھی نہ بتائیں۔”
وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔ یوں جیسے اس کی بات کو جانچ رہا ہو۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ، میں آ رہا ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر موبائل پر کال ملانی شروع کر دی تھی۔ وہ خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔
لاؤنج میں آکر اس نے نانو کو اس کے آنے کے بارے میں بتا دیاتھا۔ ملازم نے چند منٹوں بعد انہیں کھانا لگنے کی اطلاع دی تھی اور وہ تینوں اٹھ کر ڈائننگ روم میں آگئے تھے۔
ان کے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہی عمر ڈائننگ روم میں آگیا تھا۔ کچھ کہے بغیر وہ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔
ملازم نے سوپ سرو کرنا شروع کر دیاتھا۔
”نہیں، مجھے سو پ نہیں چاہئے۔ ”
اس نے سوپ کا پیالہ ایک طرف کرتے ہوئے چاولوں کی ڈش اپنی طرف کھینچ لی تھی۔
سب نے کھانا شروع کر دیا تھا۔ نانو باری باری انکل جہانگیر اور عمر کو ڈشز سرو کر رہی تھیں۔ عمر سر جھکائے ہوئے ایک لفظ کہے بغیر پوری سنجیدگی سے کھانا کھاتا رہا۔اس نے ایک بار بھی انکل کی طرف دیکھنے یا انہیں مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ دوسری طرف انکل جہانگیر بھی بہت خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ علیزہ کھانا کھاتے ہوئے باری باری انکل جہانگیر اور عمر پر نظر دوڑاتی رہی۔
عمر نے سویٹ ڈش کھانے کے بعد پلیٹ کھسکا کر نیپکن اٹھا لیا تھا، اور وہ منہ پونچھ رہا تھا۔ جب نانو نے اسے مخاطب کیا تھا۔
”عمر ! اب تم میرے کمرے میں چلنا مجھے تم سے اور جہانگیر سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”
علیزہ نے یکد م اس کے چہرے پر تناؤ دیکھا۔
”مجھے اس وقت کسی سے کچھ بھی بات نہیں کرنا ہے میں بہت تھک چکا ہوں اور جو واحد چیز میں اس وقت چاہتا ہوں وہ نیند ہے۔ جہاں تک آپ کی بات سننے کا تعلق ہے تو وہ میں صبح سن لو ں گا اور اس کے علاوہ مجھے کسی دوسرے کی نہ تو کوئی بات سننا ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی بات کرنا ہے۔”
وہ کرسی پیچھے کھسکا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ علیزہ جان گئی تھی کہ اس کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس نے انکل جہانگیر کے ماتھے پر بل پڑتے دیکھے تھے ۔انہوں نے بھی اپنی پلیٹ پیچھے سر کا دی تھی۔
”کیوں، مجھ سے بات کرتے ہوئے تمہیں کیا تکلیف ہوتی ہے؟”
علیزہ نے انہیں تیز آواز میں کہتے ہوئے سناتھا۔
”مجھے آپ سے جتنی باتیں کرنا تھیں ، میں کر چکا ہوں۔مزید باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔”
عمر نے پہلی بار ان کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔
”مگر مجھے تم سے بہت سی باتیں ابھی کرنی ہیں یہ تم اچھی طرح سن لو۔”
”تم اس طرح سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔”
اس بار انکل جہانگیر نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا تھا۔ نانو نے انکل جہانگیر کے کندھے کو دبا یاتھا۔
”کیا ہو گیا ہے جہانگیر ؟ کیوں اس طرح سے چلا رہے ہو؟ آرام سے بات کرو ، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
”نہیں گرینی ! انہیں چلانے دیں ۔ پچھلے تیس سالوں میں انہوں نے چلانے کے علاوہ اور کیا ہی کیا ہے۔”
”عمر ! تم بھی تمیز سے بات کرو ، وہ باپ ہے تمہارا۔”
اس بار نانو نے عمر کو جھڑکا تھا۔
”یہ باپ نہیں ہیں ،traitor(غدار) ہیں۔ ان کے نزدیک ہر چیز بکنے والی شے ہے۔ چاہے وہ ویلیوز ہوں یا پھر اولاد۔”
اس نے تلخی سے انکل جہانگیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا۔
”آپ سن رہی ہیں اس کی باتیں!”
انکل جہانگیر نے ترشی سے نانو سے کہاتھا۔
”آپ نے ہی خواہش کی تھی باتیں سننے اور سنانے کی۔ یہ میری خواہش نہیں تھی۔”
”عمر تم بیٹھ جاؤ!”
نانو نے عمرسے کہاتھا۔
”مجھے بیٹھنا ہی نہیں ہے ۔جب مجھے کوئی بات ہی نہیں کرنا ہے تو پھرمجھے یہاں بیٹھ کرکیا کرنا ہے۔”
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ انکل جہانگیرہونٹ بھینچے ہوئے اسے جاتا دیکھتے رہے تھے۔
”میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ اس کا دماغ خراب ہو چکا ہے۔”
انہوں نے اس کے جاتے ہی نانو سے کہا تھا۔
”اس وقت اسے سونے دو۔ وہ تھکا ہوا ہے۔ اس لئے زیادہ تلخ ہو گیا ہے۔ تم صبح دوبارہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرنا اور کچھ نرمی سے بات کرنا۔ وہ کوئی چھوٹا سا بچہ نہیں ہے، جوان ہے انڈیپینڈنٹ ہے، اور اس طرح وہ کبھی بات نہیں سنے گا۔”
نانو انکل جہانگیر کو سمجھارہی تھیں۔
”آپ کا کیا خیا ل ہے کہ میں نے اس سے نرمی سے بات نہیں کی ہے، میں اس سے ہر طرح سے بات کر چکا ہوں،مگر وہ اپنی بات پر جما ہوا ہے۔ اسے احساس ہی نہیں ہے کہ اس کی ضد میرے لئے کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔”
وہ تیز آواز میں نانو سے بات کر رہے تھے جو بڑی خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھیں۔
”ٹھیک ہے فی الحال ابھی تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ سونے چلا گیا ہے۔ تم بھی جا کر سو جاؤ۔ صبح دیکھوں گی کہ میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں؟”
نانو نے انکل جہانگیر کو دلاسا دیتے ہوئے کہا، اور وہ انکل جہانگیر کو اپنے ساتھ لے کر ٹیبل سے اٹھ گئیں۔
علیزہ چپ چاپ وہیں بیٹھی انکل جہانگیر کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کر تی رہی۔ ملازم ٹیبل سے کھانے کے برتن اٹھا نے لگا۔ وہ سوچتی رہی کہ اس بار عمر اور انکل کے درمیان وجہ تنازعہ کیا ہو سکتی ہے۔
ان دونوں کے درمیان ہونے والا یہ پہلا جھگڑا نہیں تھا۔ علیزہ کو ایسے بہت سے مواقع یاد تھے، جب ان دونوں کے درمیان اختلافات ہوتے رہے تھے۔ مگر اس بار معاملہ یقیناً زیادہ سیریس تھا۔
اگلے دن وہ یونیورسٹی چلی گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی واپسی تک انکل جہانگیر اور عمر کے درمیان جو بات ہونا ہو گی، ہو چکی ہو گی، اور گھر کا اعصاب شکن ماحول بدل چکا ہو گا۔ مگر سہ پہر کو واپسی پر اسے پتہ چلا تھاکہ عمر صبح ہی کہیں چلا گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ انکل جہانگیر کا پارہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور نانو کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔
عمر شام کے وقت واپس آیا تھا اور اس بار انکل جہانگیر نے وقت ضائع کئے بغیر اس سے بات کرنی شروع کر دی۔ وہ لاؤنج میں ہی بیٹھے ہوئے تھے اور علیزہ چند منٹ پہلے ہی انہیں چائے دیکر آئی تھی۔
”میں آپ کو کل بھی بتا چکا ہوں کہ مجھے آپ سے کوئی بھی بات نہیں کرنی۔”
عمر نے لاؤنج میں کھڑے کھڑے ہاتھ اٹھا کر کہاتھا۔
”عمر ! اس طرح……!”
عمر نے نانو کو بات بھی مکمل نہ کر نے دی تھی۔
”گرینی ! میں یہاں اس لئے آیا ہوں تاکہ کچھ دن سکون سے گزار سکوں۔اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔”
یہ کہہ کر وہ لاؤنج سے نکل گیا نانو نے اسے آواز دی تھی مگر اس نے ان کی آواز کو نظر انداز کر دیا تھا۔
”علیزہ ! جاؤ اس سے جا کر کہو کہ آکر چائے تو پی لے۔”
نانو نے علیزہ سے کہا۔ وہ اٹھ کر عمر کے کمرے کی طرف آگئی تھی۔ دستک کی آواز سنتے ہی اندر سے عمر نے آوازدی تھی۔
علیزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی تھی۔ وہ اپنے گلے میں بندھی ہوئی ٹائی کھول رہا تھا۔ علیزہ نے نانو کا پیغام اسے پہنچا دیا تھا۔
”نہیں، مجھے چائے نہیں پینی!”
اس نے بڑی ترشی سے کہا۔
علیزہ نے اس کے چہرے پر تھکن کے آثا ر دیکھے تھے۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تھی۔ شاید وہ رات کو دیر سے سویا تھا۔ علیزہ کو بے اختیار اس پر ترس آگیا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ انکل جہانگیر کو یہاں سے واپس بھیج دے۔
”اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتا تو نانو اور انکل اسے کیوں مجبور کر رہے ہیں؟”
اس نے خود ہی جانب داری سے سوچاتھا۔
”میں چائے یہاں لے آؤں ؟”
علیزہ نے ہمدردی سے اس سے پوچھاتھا۔
”نہیں ! ضرورت نہیں ہے !”
اس نے بڑی رکھائی سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اسی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل آئی۔
”وہ چائے پینا ہی نہیں چاہتا!”
اس نے لاؤنج میں آکر کہاتھا۔
”وہ میرا سامنا کرنا نہیں چاہتا، آپ دیکھ رہی ہیں کہ وہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے۔”
اس نے انکل جہانگیر کا چہرہ سرخ ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔
”علیزہ ! تم اس سے جاکر کہو کہ میں بلا رہی ہوں۔”
نانو نے انکل جہانگیر کو جواب دینے کے بجائے اس سے کہاتھا۔ وہ ایک بار پھر واپس پلٹ گئی تھی۔ اسے اپنے پیچھے انکل جہانگیر کی آواز سنائی دی تھی وہ ایک بار پھر نانو سے کچھ کہہ رہے تھے۔
عمر اس بار اس کے پیغام پر بھڑک اٹھاتھا۔
”میں ایک بار بتا چکا ہوں کہ مجھے چائے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی مجھے باہر آنا ہے۔ تم جاکر گرینی سے کہہ دو اور پلیز اب دوبارہ یہاں کوئی پیغام لے کر مت آنا۔ بار بار مجھے ڈسٹرب مت کرو۔”
اس نے خاصی تلخی سے علیزہ سے کہا تھا۔ اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ عمر نے کبھی اس طرح اسے جھڑکا ہو۔ وہ ایک بار پھر پلٹی تھی اور تب ہی ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر انکل جہانگیر اندر آگئے تھے۔
”آپ کو میرے کمرے میں اس طرح داخل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔”
اس نے عمر کو تیز آواز میں کہتے ہوئے سناتھا ، علیزہ کی سمجھ میں نہیں ایا کہ وہ کیا کرے ۔ وہاں ٹھہرے یا چلی جائے۔
”یہ کمرہ میرے باپ کا ہے!”
انکل جہانگیر نے جواباً کہاتھا۔
”لیکن آپ کا نہیں ہے۔ آپ یہاں سے چلے جائیں۔”
عمر نے ترشی سے ان سے کہا تھا۔
”میں نے اپنی زندگی میں تم جیسا خود غرض، خود پسند اور غیر ذمہ دار شخص نہیں دیکھا۔”
انکل نے اس کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تھا۔
”ہاں ! میں خود غرض ، خود پسند اور غیر ذمہ دار ہوں……کیونکہ آپ کا ہی بیٹا ہوں۔”
عمر نے انہیں اسی لہجے میں جواب دیا تھا۔ علیزہ کو انکل جہانگیر کے پیچھے دروازے میں نانو نظر آئی تھیں۔
”میں تم سے آخری بار صاف صاف بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”مجھے جتنی بات کرنی تھی، کر چکا ہوں اب اور کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو پہلے بھی میں انکار کر چکا ہوں اب بھی انکار ہی کرتا ہوں اور میرا جواب آئندہ بھی یہی ہو گا۔ اب آپ میرا پیچھا چھوڑ دیں اور یہاں سے چلے جائیں۔”
”’عمر تمہیں کیا ہو گیا۔ اس طرح بی ہیو کیوں کررہے ہو؟”
اس بار نانو آگے آئی تھیں۔
”میں بالکل ٹھیک بی ہیو کر رہا ہوں ، آپ نہیں جانتیں کہ یہ میرے ساتھ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔”
”میں جانتی ہوں اور میرا خیال ہے کہ جہانگیر جو کہہ رہا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ۔”
نانو اس با ر دھیمے لہجہ میں بولی تھیں۔
عمر حیران نظر آیا۔
”آپ جانتی ہیں اور پھر بھی آپ کو اس بات میں کوئی حرج نظر نہیں آرہا۔”
”عمر ! تمہیں شادی تو کرنا ہی ہے تو پھر جہانگیر کی مرضی سے کرنے میں کیا حرج ہے۔”
علیزہ نے ایک شاک کے عالم میں نانو کی طرف دیکھا تھا مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھیں۔
”آپ کے بیٹے نے ساری زندگی دوسرے لوگوں کو اپنے فائدہ کے لئے استعمال کیا ہے اور گرینی! میں ان لوگوں کی لسٹ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔”
”وہ تمہیں کیوں استعمال کرے گا تم تو اس کے بیٹے ہو۔ ہر باپ اپنی اولاد کی شادی کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہر باپ اپنی اولاد کی خوشی چاہتا ہے۔”
”ہر باپ نہیں گرینی ! ہر باپ نہیں۔ کچھ باپ آپ کے بیٹے جیسے بھی ہوتے ہیں جو صرف اپنے بارے ہی میں سوچتے ہیں۔ صرف اپنی خوشی کا ہی خیال رکھتے ہیں۔یہ جس سیاستدان کی بیٹی سے میری شادی کرنا چاہتے ہیں، میں اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا۔ اگر بات خوشی کی ہی ہے تو میں وہاں شادی کرکے خوش نہیں رہ سکتا۔ یہ میری خوشی کی خاطر مجھے مجبور نہ کریں مگر گرینی! بات خوشی کی نہیں ہے۔ بات قیمت کی ہے۔ انہیں میری بہت اچھی قیمت مل رہی ہے اور یہ مجھے بیچ دینا چاہتے ہیں۔”
”عمر ! تم غلط کہہ رہے ہو۔”
نانو نے اس کی بات کے جواب میں کہاتھا۔
”میں غلط کہہ رہا ہوں؟”
عمر استہزائیہ انداز میں ہنساتھا۔
”گرینی ! میں غلط نہیں کہہ رہا اور آپ اپنے بیٹے کو مجھ سے زیادہ نہیں جانتیں۔”
”عمر ! تمہیں کس بات پر اعتراض ہے۔ جہانگیر بتا رہا تھا کہ وہ لڑکی خوبصورت ہے، تعلیم یافتہ ہے۔ اس کا باپ منسٹر ہے، اس ملک کے چند نامی گرامی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ تمہیں اور کیا چاہئے ہے ، اس لڑکی سے شادی کر کے تمہارا اپنا کیرئیر بن جائے گا۔”
”مجھے کیرئیر نہیں بنانا ہے۔ مجھے کسی نامی گرامی خاندان کا حصہ نہیں بننا ہے۔ مجھے صرف آزادی چاہئے آدھی زندگی باپ کے اشاروں پر ناچتے ہوئے گزار دی باقی کی زندگی بیوی اور اس کے خاندان کے اشاروں پر ناچتے ہوئے نہیں گزارنا چاہتا۔ جس لڑکی کی خوبصورتی اور تعلیم کے بارے میں یہ آپ کو بتا رہے ہیں اس کے بارے میں ، میں سب کچھ جانتا ہوں۔ اس کے کتنے بوائے فرینڈز ہیں اور اس کا باپ اسے مجھ سے کیوں بیاہنا چاہتا ہے میں یہ بھی جانتا ہوں۔”
”عمر ! فضول باتیں مت کرو۔ تمہارا باپ تمہار ے لئے کسی برے کیریکٹر کی لڑکی کا انتخاب کیوں کرے گا۔ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔”
”سامنے کھڑے ہیں یہ آپ کے، اس لڑکی کے بارے میں مجھ سے بھی زیادہ جانتے ہوں گے ، آپ ان ہی سے پوچھ لیں۔ مجھ پر تو آپ کو یقین ہی نہیں ہے تو ان سے پوچھیں کہ وہ کتنی باکردار لڑکی ہے۔”
اس نے تلخ لہجہ میں کہتے ہوئے باپ کی طرف اشارہ کیاتھا۔
”تم کتنے باکردار ہو؟”
جہانگیر نے سرد لہجے میں اس سے پوچھا۔
”اگر تم اس لڑکی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہو تو میں بھی تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔”
”آپ مجھ سے باکردار ہونے کے بارے میں سوال کیسے کر سکتے ہیں ، آپ تو یہ سوال کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ میرا کردار اچھا نہیں ہے تو اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ فارن آفس کے ایک چپڑاسی کے سامنے بھی آپ کا نام لیا جائے گا۔ تو وہ آپ کا کریکٹر سر ٹیفکیٹ پیش کر دے گا۔”
وہ اب آپے سے بالکل باہر ہو چکا تھا۔
”تم جس ماں کے بیٹے ہو تم سے میں یہی سب کچھ توقع کر سکتا ہوں۔”
انکل جہانگیر اب بپھر اٹھے تھے۔
”ماں کے بارے میں ایک لفظ نہیں… ایک لفظ نہیں…… جس عورت سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے اس کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے آپ۔ میں نے تین سال تک فارن سروس میں رہ کر آپ کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ میں نے اپنے ضمیر کو بالکل سلا دیا، آپ نے جس طرح چاہا، مجھے استعمال کیا۔ آپ کی وجہ سے میرا کیرئیر خراب ہوا۔ میرا سروس ریکارڈ برا رہا لیکن میں نے وہی کیا جو آپ نے کہا۔ مگر اب نہیں…… ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور آپ کے نزدیک میری حیثیت ایک ربڑ سٹیمپ سے زیادہ نہیں ہے۔ میرے وجود کو استعمال کر کے آپ اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کر سکتے۔ اب میں وہی کروں گا جو میں چاہوں گا۔ کچھ بھی آپ کی مرضی کے مطابق نہیں کروں گا۔”
”کیاکیا ہے تم نے میرے لئے؟”
”کیا نہیں کیا میں نے آپ کے لئے۔ آپ نے تین سال تک مجھے استعمال کیا ہے۔”
” تم نے میرے لئے کچھ کر کے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ تم جانتے ہو کہ جس جگہ تمہاری پوسٹنگ ہوئی ہے وہاں تم جیسے جونئیر آفیسر کی پوسٹنگ میری مدد کے بغیر کیسے ہو سکتی تھی۔ جو سٹارٹ میں نے تمہیں تمہاری سروس میں دیا، وہ بہت کم لوگوں کو ملتا ہے مگر تمہیں میرا کوئی احسان یاد ہی نہیں ہے۔”
”آپ نے میری پوسٹنگ اس لئے وہاں کروائی تاکہ آپ اس سیٹ کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکیں۔ آپ مجھے فارن سروس میں لے کر ہی اس لئے آئے تھے تاکہ مجھے استعمال کر کے اپنے لئے کچھ اور فائدہ حاصل کر سکیں۔”
”تمہاری اس ضد کی وجہ سے جانتے ہو کہ مجھے کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے؟”
اس بار ان کا لہجہ قدرے نرم تھا۔
”میری بلا سے ، آپ کو کیا نقصان پہنچتا ہے اور کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ یہ آپ کے سوچنے کی باتیں ہیں۔میری نہیں۔” وہ ابھی بھی اتنا ہی تلخ تھا۔
”تم اس لڑکی سے شادی نہیں کرو گے؟”
”نہیں ، میں کسی بھی قیمت پر شادی نہیں کروں گا۔”
”جانتے ہو اس لڑکی سے شادی کر کے تم کہاں پہنچ سکتے ہو؟”
آپ میرا ہمدردبننے کی کوشش مت کریں میں اس سے شادی کر کے کہیں نہیں پہنچوں گا۔ ہاں اپ کے سارے پرابلمز حل ہو جائیں گے۔ سروس میں آپ کو دو سال کی ایکس ٹینشن مل جائے گی آپ کے خلاف چلنے والی انکوائریز کی رپورٹس غائب ہو جائیں گی۔ ایمبیسی کے فنڈز میں کیا جانے والا بلنڈر گول ہو جائے گا اور مستقبل کے لئے جو پرمٹ اور کوٹے آپ کو چاہئیں وہ بھی آپ کو مل جائیں گے۔ مگر مجھے اب آپ کے لئے بلینک چیک نہیں بننا۔”
”تم اس سب کے لئے بہت پچھتاؤ گے۔”
”میں پہلے ہی بہت پچھتا چکا ہوں اور اب اور نہیں پچھتاؤں گا۔”
”میں تمہیں آسمان پر لے جانا چاہتا ہوں اور تم ایک گٹر کے کیڑے بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو۔”
”ہاں ! آپ مجھے آسمان پر لے جانا چاہتے ہیں لیکن میرے گلے میں پھند ہ ڈال کر مجھے اوپر اٹھانا چاہتے ہیں۔”
”میں جانتا ہوں میرے خلاف یہ سب کچھ تمہارے دماغ میں ڈالنے والا کون ہے۔ میں اس عورت کو دیکھ لوں گا۔”
جہانگیر نے زہریلے لہجہ میں کہاتھا۔
”وہ عورت میری ماں ہے ، اور میں اس سے پچھلے چھ سال سے نہیں ملا، اور آپ کو جاننے کے لئے مجھے کسی سے کچھ سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بغیر ہی میں آپ کو بہت اچھی طرح سمجھ چکا ہوں۔”
”تمہیں یہ جو بولنا آگیا ہے تو صرف میری وجہ ہے۔ میرے نام، میری مدد کے بغیر تم سے کوئی ہاتھ ملانا بھی پسند نہ کرے گا۔”
”آپ کا نام میرے لئے کسی فخر کا باعث نہیں ہے۔ آپ اپنی ریپیوٹیشن بہت اچھی طرح جانتے ہیں، اورایسی ریپیو ٹیشن والے شخص کا حوالہ دینا بہت بڑی حماقت ہے ، اور میں ایسی حماقت نہیں کرتا۔ عمر کو جہانگیر جیسے لاحقہ کے بغیر بھی بہت سے لوگ جانتے ہیں اور وہ اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر میرے نام کے ساتھ آپ کا نام ہے تو یہ میری مجبوری ہے، میری ضرورت نہیں۔ مجھے فارن سروس میں لاکر آپ نے میری جو فیور کی، میں وہ لوٹا چکا ہوں۔ اب نہ تو آپ ہی میرے لئے کچھ کریں نہ میں آپ کے لئے کروں گا۔”
”تم میرے کسی احسان کو لوٹا نہیں سکتے۔ میں نے تمہارے لئے جو کچھ کیا ہے، وہ بہت کم لوگ اپنی اولاد کے لئے کرتے ہیں، اور جو کچھ تم بدلے میں میرے ساتھ کر رہے ہو وہ بھی کوئی اولاد بہت کم کرتی ہے۔”
”آپ نے میرے لئے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جو دنیا سے انوکھا ہو۔”
”میں نے بچپن سے آج تک تمہاری ہر خواہش پوری کی۔ تم پر روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ سب سے اچھے انسٹی ٹیوشن میں تمہیں تعلیم دلوائی۔ تمہارا کیرئیر بنا یا اور تم کہتے ہو کہ میں نے تمہارے لئے کچھ نہیں کیا ۔”
”آپ نے مجھ پر یہ ساری انوسٹمنٹ اپنے ہی فائدہ کے لئے کی۔ مجھ پر روپیہ اس لئے بہایا تاکہ بعد میں آپ میری اچھی قیمت وصول کر سکیں۔ جس طرح اب آپ وصول کرنا چاہ رہے ہیں۔ آپ نے کوئی چیزبھی میری خوشی کے لئے نہیں کی۔ اپنے فائدہ اور نقصان کے لئے سوچ کر کی۔ آپ وہ انسان ہیں جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کے لئے کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ آپ کی ہر سوچ ”میں”سے شروع ہوتی ہے اور” میرے لئے”پر ختم ہو جاتی ہے۔ آپ لوگوں سے تعلق تب تک رکھتے ہیں جب تک وہ آپ کے لئے فائدہ مند رہیں۔ جب ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لئے ان کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور ان لوگوں میں، میں بھی شامل ہوں۔”
اس کی تلخی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ جہانگیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ مت بھولو کہ تم میری فیملی کا حصہ ہو۔”
علیزہ نے عمر کے چہرے پر اضطراب دیکھاتھا۔
”اور آپ بھی یہ نہ بھولیں کہ آپ کبھی فیملی مین ہو ہی نہیں سکتے۔ فیملی آپ کی سب سے آخری ترجیح ہے۔”
اس نے عمر کو انگلی اٹھا کر کہتے ہوئے سنا۔
”میرے بارے میں فتوے دینے کی کوشش مت کرو۔ میں کون ہوں اور کیا ہوں ، میں اچھی طرح سے جانتا ہوں تم صرف اپنے بارے میں ہی بات کرو۔”
”کیوں بات نہ کی جائے آپ کے بارے میں ؟”
”میں تم سے یہاں کوئی فضول بحث کرنے نہیں آیا ہوں۔ مجھے تم سے صرف ایک سوال کا جواب چاہئے اور وہ بھی صرف ہاں میں۔”
ان کا لہجہ بے حد سرد اور خشک تھا۔
”اور میرا جواب ”نہیں” میں ہے!”
وہ اتنا ہی بے خوف تھا۔
جہانگیر اسے چند لمحے سرخ آنکھوں سے گھورتے رہے۔
”میں تمہیں اپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا۔ میں بھی دیکھوں کہ میری مدد کے بغیر تم کیسے سروائیو کرتے ہو۔”
”مجھے آپ کی جائیداد میں سے کچھ نہیں چاہئے مگر جو کچھ دادا نے آپ کے لئے چھوڑا ہے اس میں سے مجھے میرا حصہ چاہئے۔ خاص طور سے وہ بینک اکاؤنٹ جسے ان کی وصیت کے باوجود بھی میرے حوالے نہیں کیا۔”
”میں تمہیں ایک پیسہ بھی نہیں دوں گا۔”
”میں آپ سے بھیک نہیں مانگ رہا ہوں۔ اپنا حق مانگ رہا ہوں ، وہ سب کچھ مانگ رہا ہوں جو آپ کا ہے ہی نہیں، جو پہلے سے ہی میرا ہے۔”
”کچھ بھی تمہارا نہیں ہے۔”
”کیوں میرا نہیں ہے؟”
وہ یک دم چلایا تھا۔
”تم میری بات نہیں مانو گے تو میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ نہ اپنی جائیداد سے نہ پاپا کی جائیداد سے۔”
جہانگیر نے زہریلے لہجہ میں کہا تھا۔
”میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی سے ”نہیں” نہیں سنی، اس لئے مجھے اس لفظ کی عادت ہی نہیں ہے۔ اب تم سے بھی یہ لفظ نہیں سن سکتا۔ بات اگر قیمت چکانے کی کرتے ہو تو ٹھیک ہے پھر تم بھی قیمت چکاؤ۔ تمہیں اپنے آپ پر خرچ کیا جانے والا روپیہ ایک انویسٹمنٹ لگتا ہے تو ٹھیک ہے۔ تم اسے انویسٹمنٹ سمجھو اور پھر مجھے اس پر منافع دو، اس شادی کی صورت میں۔” وہ پھنکارے تھے۔
”اور میں بھی یہ نہیں کروں گا ،کبھی بھی نہیں کروں گا۔ آپ نے مجھ پر جو خرچ کیا، اپنی مرضی سے کیا۔ میں نے آپ سے کچھ بھی خرچ کرنے کے لئے نہیں کہا اور جو آپ نے کیا وہ ہر باپ کرتا ہے۔ آپ نے ایسا خاص کیا کیاجس کی قیمت میں اپ کو چکاؤں؟”
”تم تو مجھے اپنا باپ مانتے ہی نہیں، پھر کس حوالے سے ان ساری لگژریزکو اپنا حق سمجھتے ہو۔ تم میری بات نہیں مانو گے تو میں تمہیں سڑک پر لے آؤں گا اور میں یہ بھی بھول جاؤں گا کہ تم سے کبھی میرا کوئی رشتہ تھا۔”
”میں پھر بھی آپ کی بات نہیں مانوں گا، اور جائیدار میں جومیرا حصہ ہے ، میں وہ بھی لوں گا ۔ جو راستے آپ استعمال کریں گے وہ راستے میرے لئے بھی انجان نہیں ہیں۔”
”اگر تم یہ شادی نہیں کرتے تو وہ سارا روپیہ لوٹاؤ جو میں نے تم پر خرچ کیا ہے۔ پاپا کی جائیداد سے ملنے والا حصہ بھی ان ہی اخراجات میں آجاتا ہے۔ جو میں نے تم پر کئے تھے، اور اس کے علاوہ جو جتنی رقم تمہیں پے کرنی ہے، وہ میرا وکیل بہت جلد بتا دے گا۔ اگر تم اپنے حصہ کے لئے کورٹ میں جانا چاہتے ہو تو شوق سے جاؤ میں بھی تو دیکھو ں کہ تم کتنے پانی میں ہو۔ جہاں تک تمہارے کیرئیر کی بات ہے تو فارن سروس تو تم نے چھوڑ ہی دی ہے۔ اور تم سوچ رہے ہو کہ تم نے مجھ سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ تم پولیس جوائن کر رہے ہو، اس کے بعد میں تمہیں بتاؤں گا کہ مجھ سے پیچھا چھڑا نا آسان نہیں ہے۔ میری پہنچ جہاں تک ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جس شخص کی بیٹی سے تم شادی کرنے پر انکار کر رہے ہو، وہ شخص میرے پیچھے ہٹ جانے پر تمہیں زندہ گاڑ دے گا۔ کیرئیر کی تو بات ہی نہ کرو۔ اس انکار کے بعد کم از کم اس ملک میں تمہارے لئے کوئی کیریئر ہے نہ ہی کوئی فیوچر۔ باہر تم رہنا نہیں چاہتے اندر میں تمہیں رہنے نہیں دوں گا۔ جاب کے چند ہزار روپوں میں تم گزارہ نہیں کر سکتے میری طرف سے اب دوبارہ تمہیں کسی قسم کی کوئی مدد نہیں ملے گی۔ تم اپنی جاب کے ذریعہ پیسہ بنانے کی کوشش کرنا، اور یہ ہم ہونے ہی نہیں دیں گے، اور پھر ایک سال کے اندر اندر تم میرے پاس معافی مانگنے آؤ گے۔ تب تم میری ہر بات ماننے کے لئے تیار ہو گے لیکن اس وقت میں تم پر تھوکوں گا بھی نہیں اس کے بجائے تمہیں ٹھوکر ماروں گا۔ یہ ہے تمہارا برائٹ فیوچر جسے حاصل کرنے کے لئے تم فارن سروس چھوڑ کر یہاں آگئے ہو۔”
انکل جہانگیر کے لہجہ میں بے حد زہر تھا۔ علیزہ ساکت کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ نانو اس وقت بالکل ہی خاموش تھیں اور عمر……عمر کے چہرے پر تو اس وقت وحشت کے علاوہ اور کچھ دیکھ نہیں رہی تھی۔ وہ خاموشی سے گہرے سانس لے رہا تھا ، مگر اس کی سرخ آنکھیں اور بھینچے ہوئے ہونٹ اسے پر سکون ظاہر نہیں کر رہے تھے۔
”آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس بار آپ سے پیچھا چھڑانے کے لئے میں کس حد تک جا سکتا ہوں۔” وہ غرایا۔
”میں تمہارے لئے کوئی جائے فرار ہی نہیں چھوڑوں گا۔”
”جہانگیر نے اتنے ہی سرد لہجہ میں کہاتھا۔
”آپ ہر راستہ بند نہیں کر سکتے کوئی نہ کوئی راستہ تو ہر انسان کے پاس ہوتاہے۔ میرے پاس بھی ہے۔”
علیزہ نے اسے الٹے قدموں سے پیچھے جاتے اور کہتے ہوئے سنا تھا۔اس نے انکل جہانگیر کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ دیکھی تھی اور پھر……پھر اس نے عمر جہانگیر کو بجلی کی سی تیزی سے سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولتے اور ریوالور نکالتے دیکھا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنے وجود کو خوف سے سردہوتے پایاتھا۔
”عمر……!”
اس کے حلق سے بے اختیار چیخ نکلی تھی ۔ وہ اب بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹا رہا تھا۔
باب: 14
کمرے کے کونے میں وہی پلانٹ پڑا ہوا تھا۔ جس کی ایک شاخ اس نے چند دن پہلے ہی کاٹ دی تھی۔ مگر حیرانی اسے پلانٹ کو دیکھ کر نہیں ہوئی، بلکہ ربڑ پلانٹ کی اس کاٹی جانے والی شاخ کو دیکھ کر ہوئی جو اس نے جان بوجھ کر کاٹ دی تھی، اور اس وقت وہ شاخ اس گملے میں ہی لگی ہوئی تھی۔ شاخ مرجھا چکی تھی مگر اسے گملے سے نکال کر پھینکا نہیں گیا تھا۔
علیزہ کی شرمندگی میں ایک دم ہی ڈھیروں اضافہ ہو گیا چند لمحے دروازہ کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے وہ اس شاخ کو دیکھتی رہی پھر اس نے عمر کی طرف دیکھا تھا وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا، وہ تو اپنے بیگ سے چیزیں نکال رہاتھا۔ علیزہ کا ملال کچھ اور بڑھ گیا۔
”پتہ نہیں، عمر کو اس پودے سے کتنی محبت تھی، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔”
اس نے ایک بار پھر شاخ کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
اسی لمحہ عمر اس کی طرف متوجہ ہوا اس کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے اس کی نظر بھی کمرے کے کونے تک گئی، اورعلیزہ کو پلانٹ پر نظریں جمائے دیکھ کر وہ سب کچھ سمجھ گیا۔
”مجھے اپنی ہر چیز سے خاص قسم کی محبت ہوتی ہے۔ اس لئے میں انہیں ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں، اور اسے بھی میں نے اسی لئے وہاں لگایا تھا۔”
علیزہ اس کی آواز پر چونکی وہ اسی سے مخاطب تھا۔
”مگر یہ تو خشک ہو رہی ہے؟”
”جب پوری طرح خشک ہو جائے گی، تب پھینک دوں گا!”
اس نے بڑے ہی نارمل انداز میں علیزہ سے کہا اور ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ علیزہ الجھن بھری نظروں سے کچھ دیر اسے دیکھتی رہی اور پھر کمرے سے باہر نکل آئی۔
عمر کے واپس آجانے سے نانو کا رویہ یک دم بالکل ٹھیک ہو گیا تھا، اور اس پر علیزہ نے خدا کا شکر ادا کیاتھا۔
عمر کے پیپرز شروع ہو چکے تھے اور ان دونوں کا سامنا بہت کم ہی ہوتا تھا۔ خود علیزہ بھی کالج جانا شروع کر چکی تھی، اور اپنے سمیسٹر کی تیار ی میں مصروف تھی۔
اس رات جب دو بجے کے قریب عمر سونے کی تیاری میں مصروف تھاجب پیاس لگنے پر اس نے ریفریجریٹر میں پڑی ہوئی بوتل کو خالی پایااور پھر پانی پینے کے لئے وہ کچن کی طرف آیا تھا لاؤنج میں سے گزرتے ہوئے وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ لاؤنج میں ہلکی روشنی کا بلب آن تھا اور اس کی روشنی میں اس نے کسی کو لاؤنج کا دروازہ کھولتے دیکھا اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی، وہ علیزہ تھی۔
”مگر رات کے اس وقت لاؤنج کے دروازے پر وہ کیا کر رہی ہے؟” اس نے حیرانی سے سوچا اور آگے بڑھ کر لائٹ آن کر دی۔ اس کا خیال تھا کہ علیزہ واپس پلٹ کر دیکھے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ واپس پلٹے بغیر وہ دروازہ کھول کر لاؤنج سے نکل گئی تھی۔
”علیزہ!” عمر نے کچھ حیران ہو کر اسے آواز دی مگر وہ متوجہ نہیں ہوئی۔ عمر کچھ حیران ہو کر خود بھی اس کے پیچھے لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا تھا۔ علیزہ آہستہ آہستہ مین گیٹ کی طرف جا رہی تھی۔
”علیزہ !”
عمر نے ایک بار پھر اسے آواز دی مگر وہ متوجہ نہیں ہوئی۔ عمر کچھ اور حیران ہوا۔ وہ اب بھی گیٹ کی طرف چلتی جا رہی تھی۔ وہ کچھ پریشانی کے عالم میں اسے جاتا دیکھتا رہا۔ وہ اب گیٹ کے پاس پہنچ چکی تھی۔ گیٹ پر موجود چوکیدار کرسی سے اٹھ کر اس کے پاس آگیا اور اس سے کچھ کہہ رہا تھا مگر وہ گیٹ کی طرف بڑھ گئی تھی اور اب گیٹ کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ عمر تیز قدموں کے ساتھ گیٹ کی طرف بڑھ آیا۔ چوکیدار کچھ سراسیمہ نظر آرہا تھا۔
”جناب! یہ علیزہ بی بی گیٹ کھولنے کے لئے کہہ رہی ہیں۔” چوکیدار نے عمر کے آتے ہی اس سے کہا عمر اس سے کچھ کہے بغیر علیزہ کی طرف بڑھ گیا وہ گیٹ پر لگے ہوئے تالے کے ساتھ الجھی ہوئی تھی۔
”علیزہ ! کیا بات ہے؟ کہاں جانا چاہتی ہو؟” اس نے علیزہ سے پوچھا۔
” گیٹ نہیں کھل رہا۔ باہر جانا ہے!”
وہ اب بھی گیٹ کھولنے کی کو شش میں مصروف تھی۔
”یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ کہاں جانا ہے؟”
”پاپا کے پاس جانا ہے۔”
”علیزہ!”
عمر ساکت رہ گیا۔
”گیٹ کھول دوچوکیدار… گیٹ کھول دو۔”
وہ اب بھی اسی طرح کہہ رہی تھی۔ عمر نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ چند لمحے تک وہ کچھ بول نہیں سکا۔ خاموشی کے ان چند سیکنڈزمیں اسے جیسے ہر چیز سمجھ میں آنے لگی تھی۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے پوچھا۔
”پاپا کے پاس کیسے جاؤ گی؟”
”یہ باہر جاؤں گی نا……تو ادھر……وہ …پاپا ہوں گے!”
اس نے اٹک اٹک کر کہاتھا۔
”آؤ میں تمہیں پاپا کے پاس لے جاتا ہوں۔”
اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اور اسے واپس لے جانے لگا۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ اسی طرح چلتی رہی۔ عمر جان چکاتھا کہ وہ نیند میں چل کر باہرآئی ہے، لیکن اس کے لئے جو بات پریشان کن تھی، وہ یہ تھی کہ علیزہ کب سے اس عادت کا شکار تھی اور کیا نانو اور نانا اس بات سے واقف تھے۔ وہ جب سے یہاں آیا تھا، آج پہلی بار علیزہ اسے اس حالت میں ملی تھی۔ وہ اسی طرح اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس کے کمرے تک لے آیا اور اسے اس کے بیڈ پر جا کر بٹھا دیا۔
اور وہ کچھ بھی کہے بغیر بیڈ پر لیٹ گئی۔ عمر کو اس سے کچھ بھی کہنا نہیں پڑا۔ اس نے خود ہی آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ عمر کچھ دیر وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر اس پر چادر پھیلا دی۔ دوتین بار علیزہ کو آوازدینے پر بھی جب اس نے آنکھیں نہیں کھولیں تو وہ مطمئن ہو گیا۔
اگلی صبح چھٹی تھی علیزہ گھر پر ہی تھی۔ ناشتہ کی میز پر عمر سے اس کی ملاقات ہوئی۔ عمر نے بیٹھتے ہوئے بڑے غور سے اسے دیکھا۔ وہ بالکل نارمل نظر آرہی تھی۔ عمر کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ وہ رات کے بارے میں اس سے کیسے بات کرے۔ ناشتہ کرتے ہوئے اس نے جان بوجھ کر اپنی رفتار ہلکی رکھی۔ جب نانا کے بعد نانو بھی ٹیبل سے اٹھ گئیں تو عمر نے علیزہ سے بات کرنے کا سوچاتھا۔
”علیزہ ایک بات پوچھوں ؟”
عمر نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر کارن فلیکس کھاتے ہوئے کہا۔
”ہاں!”
”تمہیں نیند میں چلنے کی عادت ہے؟”
علیزہ کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ کر ٹیبل پر گرگیا۔ عمر نے اس کی آنکھوں میں بے تحاشا خوف دیکھا۔ وہ بالکل ہی بے حس و حرکت تھی۔ عمر چند لمحے میز پر پڑے چمچ کو دیکھتا رہا پھر پر سکون انداز میں اس نے علیزہ سے کہا۔
”یعنی ہے……اٹس آل رائٹ بہت سے لوگوں کو یہ…۔۔۔”عادت”ہوتی ہے۔”
وہ روانی میں بیماری کہتے کہتے رک گیا۔ وہ اب بھی اسی طرح بے حس و حرکت تھی۔
” علیزہ ! کب سے ایسا ہے؟”
عمر نے جوس پیتے ہوئے بڑے عام سے انداز میں اس سے پوچھا۔
”کیا؟”
وہ اب بھی خوفزدہ تھی۔
”نیند میں چلنے کی عادت !”
علیزہ نے بے بسی سے سر جھکا لیا اور عمر کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔
”مجھے نہیں پتا ۔”
اسے علیزہ کی مدھم سی آواز سنائی دی تھی۔
”گرینی اور گرینڈ پا جانتے ہیں کیا اس بات کو؟”
علیزہ نے اس کے سوال پر سر ہلا دیا وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
”کل رات تم باہر گیٹ پر تھیں میں تمہیں وہاں سے لے کر آیا تھا۔ پہلے تو میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا……لیکن پھر میں سمجھ گیا۔”
وہ اسے بتا رہا تھا اور علیزہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ وہاں سے غائب ہو جائے۔
”کیا عمر سے میری کوئی بات بھی راز نہیں رہے گی؟”
اس نے بے بسی سے سوچا۔
”سونے سے پہلے تم کمرہ اچھی طرح لاک کر لیا کرو پھر سلیپنگ پلز لے لیا کرو۔ بلکہ بہتر ہے کہ کوئی سکون آور گولی لے لیا کرو، لیکن ڈاکٹر سے پوچھ کر۔ اس طرح رات کو باہر نکل جانا کافی خطرناک ہے۔ ابھی تم چھوٹی ہو، اس کا ٹریٹمنٹ بہت آسانی سے ہو جائے گا۔ اگر ابھی اگنور کرو گی تو بعد میں پرابلم ہو گا۔”
وہ ہلکی آواز میں اسے سمجھا رہا تھا۔
”تم سن رہی ہو نا ،میں کیا کہہ رہا ہوں؟”
عمر نے اس سے پوچھا اور اس نے جھٹکے سے سر کوہلا دیا۔
”ٹھیک ہے!”
یہ کہہ کر وہ ٹیبل سے کھڑا ہو گیا۔
”پلیز آپ نانا کو اس بارے میں نہ بتائیں۔”
اس نے اچانک علیزہ کی التجائیہ آواز سنی تھی۔
”لیکن تم نے کہا کہ وہ یہ بات جانتے ہیں!”
”ہاں وہ جانتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ میں ٹھیک ہو چکی ہوں۔ وہ پریشان ہوں گے پلیز آپ ان سے بات نہ کریں۔”
عمر کو اس پر ترس آگیا۔
”انہوں نے کسی سے تمہارا ٹریٹمنٹ کروایا ہے۔”
”ہاں وہ… وہ ایک سائیکاٹرسٹ سے سیشن کرواتے رہے ہیں۔”
اس نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”پھر ؟”
”پھر میں ٹھیک ہو گئی تھی!”
”تواب کیوں؟” عمر نے بات ادھوری چھوڑی دی۔
”پتا نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا مگر آپ نانو سے بات نہ کریں۔”
”ان سے بات کرنے کا فائدہ ہی ہوگا۔ سائیکاٹرسٹ سے دوبارہ سیشن ہوں گے تو تم پھر ٹھیک ہو جاؤ گی۔”
عمر نے اسے تسلی دی۔
”میں یہ سب نہیں چاہتی۔”
وہ سر پکڑ کر دبی ہوئی آواز میں چلائی تھی۔
”آپ سمجھتے نہیں میرے ایگزامز شروع ہونے والے ہیں ، میں ٹینشن میں تھی، اسی لئے ایسا ہوا۔ اب میں ریلیکس ہونے کی کوشش کروں گی تو سب کچھ ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ نانو اور نانا فضول میں پریشان ہوں گے۔ مجھے بھی ڈسٹرب کریں گے۔ میں بھی اپنے پیپرز پر توجہ نہیں دے پاؤں گی۔ پلیز آپ ان کو کچھ مت بتائیں!”
اس کے لہجہ میں اتنی بے چارگی تھی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات ماننے پر مجبور ہو گیا۔
”ٹھیک ہے میں ان سے بات نہیں کروں گا۔”
اسے یک دم علیزہ کے چہرے پر اطمینان نظر آیا۔
”تھینک یو!”
اس نے بے اختیار عمر سے کہا۔
”کوئی بات نہیں !”
وہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔ علیزہ خاموشی سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔
اگلے چند دن عمر رات کو خود لاؤنج لاک کرتارہاتھا اور سونے سے پہلے باہر کا بھی ایک چکر لگا لیتا تھا۔ پھر علیزہ کے کمرے کے ہینڈل بہت آہستگی سے گھما کر چیک کرتا،دروازہ ہمیشہ ہی اسے لاکڈ ہی ملا۔ وہ مطمئن ہو گیا کہ علیزہ نے اس کی ہدایات پر عمل کیا تھا اور اس رات کا واقعہ واقعی وقتی ٹینشن کا نتیجہ تھا۔
مگر یہ اطمینان زیادہ دنوں تک بر قرار نہیں رہاتھا۔ اس رات وہ اپنے آخری پیپر کی تیاری میں مصروف تھا۔ اس نے رات کے پچھلے پہر گھر میں مدھم شور سنا۔ کچھ چونک کر اس نے غور سے شور کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ چیخوں کی آواز تھی۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے اپنے کمرے سے نکل آیا۔ چیخوں کی آواز علیزہ کی تھی، اور اس کے کمرے سے آرہی تھی۔ عمر بے اختیار بھاگتا ہوا اس کے کمرے کی طرف گیا دروازہ لاکڈ تھا اور اندر سے وہ کچھ کہتے ہوئے زور زور سے چیخ رہی تھی۔ عمر نے پوری قوت سے دروازہ بجایا۔
”علیزہ کیا بات ہے؟ کیا ہوا؟”
اس نے عمر کی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہاتھا۔ وہ اب بھی اسی طرح چیخ رہی تھی۔ عمر کی سراسیمگی میں اضافہ ہو گیا۔ اس نے ایک بار پھر پوری قوت سے دروازے کو پیٹا۔
”علیزہ !……علیزہ ! دروازہ کھولو۔”
فار گاڈ سیک… دروازہ کھولو۔”
اندر کیا ہورہا ہے۔ علیزہ… علیزہ…۔”
اس بار اندر یک دم خاموشی چھا گئی تھی اور اس خاموشی نے عمر کے اضطراب میں اور اضافہ کیا تھا۔
”علیزہ! علیزہ! دروازہ کھولو۔ کیا ہوا ہے؟” اس نے ایک بار پھر بلند آواز میں کہتے ہوئے دروازہ بجایا اور تب ہی اس نے نانا اور نانو کو تیز رفتاری سے آگے پیچھے آتے دیکھا۔
”گرینی ! علیزہ ابھی کچھ دیر پہلے اندر چیخ رہی تھی، پتہ نہیں کہ اسے کیا ہوا ہے؟”
عمر نے اضطراب کے عالم میں نانو سے کہا۔ ان کے چہرے پر بھی تشویش تھی مگر وہ عمر کی طرح گھبرائی نہیں تھیں۔
”دوبارہ ڈر گئی ہو گی!”
انہوں نے دروازہ بجاتے ہوئے کہاتھا۔
”کیا؟”
عمر نے حیرانی سے ان کا چہرہ دیکھا۔
”دوبارہ ڈر گئی، کس چیز سے ڈر گئی ؟”
نانا نے اس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ ”پریشان مت ہو۔ وہ نیند میں ڈر جاتی ہے۔”
عمر ساکت کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔ وہ بھی اب نانو کے ساتھ مل کردروازہ بجا رہے تھے۔
علیزہ لائٹ جلاؤ۔ میری جان دروازہ کھولو۔ گھبراؤ مت۔”
نانواب اسے ہدایات دے رہی تھیں۔ چند منٹوں بعد عمر نے دروازے کی جھری سے کمرے میں روشنی ہوتے دیکھی۔ پھر چند لمحوں بعد دروازہ کھل گیا۔
علیزہ کا رنگ زرد تھا اور وہ کانپ رہی تھی۔ عمر نے اس کے چہرے کو پسینے سے بھیگا ہوا دیکھا۔ نانو نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔
”کیا ہوا میری جان؟”
وہ اسے ساتھ لپٹائے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔
نانا بھی کمرے کے اندر چلے گئے، لیکن عمر اندر داخل نہیں ہوا تھا۔ وہ وہیں کوریڈور میں کھڑا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور پھروہاں سے چلا گیا۔
”تم ذہن پر اس چیز کو سوار مت کرو۔اس کے ساتھ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ جب بھی وہ اپنے پیرنٹس کے پاس رہ کر آتی ہے تو پھر اسی طرح ڈر جاتی ہے ، یا پھر نیند میں چلنے لگتی ہے۔ تم اگر پہلے مجھے اس رات کے بارے میں بتا دیتے تو میں محتاط ہو جاتی اور اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جاتی”
اگلی شام عمر نانو کے ساتھ علیزہ کا پرابلم ڈسکس کر رہا تھا۔ اس نے انہیں اس رات علیزہ کے باہر جانے کے بارے میں بھی بتا دیا تھا اور اس کے پوچھنے پر نانو نے اسے علیزہ کی پرابلم کے بارے میں بھی بتا دیا تھا۔
”سائیکاٹرسٹ کیا کہتا ہے؟”
”وہ کہتا ہے کہ Insecurity (عدم تحفظ) کے احساس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی، اور پیرنٹس کے ملنے کے بعد یہ احساس اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے، اورپچھلے کئی سالوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وہ پیرنٹس سے مل کر آتی ہے، اس کے بعد اگلے دو تین ماہ اسی طرح ڈسٹرب رہتی ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جاتی ہے۔ سائیکاٹرسٹ کی ہدایت ہے کہ پیرنٹس کے پاس نہ جانے دیں۔کم از کم اے ایک سال تک ان کے پاس رہنے کے لئے نہ بھیجیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کیسے بی ہیو کرتی ہے۔ لیکن میں اسے روک نہیں سکتی کہ وہ ماں یا باپ کے رابطہ کرتے ہی ان کے پاس جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔”
”مگر کل رات تو وہ بہت بری طرح ڈر گئی تھی۔ آپ نے اس کی حالت دیکھی۔ وہ تو… !”
”اب چند دن میں اس کے پاس سوؤں گی تو وہ ٹھیک ہوجائے گی، اورکل دوبارہ اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس لے کر جاؤں گی۔”
نانو نے اسے بتایا۔
”گرینی! آپ سائیکاٹرسٹ بدل دیں۔ اگر اتنے سالوں میں یہ سائیکاٹرسٹ اس کا علاج نہیں کر سکا، تو کوئی دوسرا سائیکاٹرسٹ دیکھیں۔”
”سائیکاٹرسٹ بدلنے سے کیا ہو گا؟”
”ہو سکتاہے، کوئی دوسرا سائیکاٹرسٹ اسے زیادہ بہتر طریقہ سے ٹریٹ کرے۔”
”میں نے تمہیں بتایا ہے نا اسے یہ پرابلمزصرف چند ماہ ہی ہوتا ہے۔ وہ بھی جب وہ اپنے پیرنٹس سے مل کر آتی ہے ، اور پھر آہستہ آہستہ وہ ٹھیک ہو جاتی ہے۔”
مگر گرینی ! ان دو تین ماہ میں ہی اسے کوئی نقصان بھی تو پہنچ سکتا ہے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اس رات وہ باہر گیٹ تک پہنچ گئی تھی، اور اسے بالکل پتہ ہی نہیں تھا۔ اگر اسی طرح نیند کی حالت میں اس نے کچھ اور کر لیا تو؟” عمر واقعی فکر مند تھا۔
”میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اسے کس قسم کا عدم تحفظ ہے؟ کیسی پروٹیکیشن چاہئے۔ میں نے اسے ہر چیز تو دے رکھی ہے ۔کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔”
”گرینی ! چیزیں انسانوں کی جگہ نہیں لے سکتیں ، وہ اپنے والدین کو مس کرتی ہے۔ آپ والدین کی کمی کو چیزوں سے پورا نہیں کر سکتیں۔”
عمر نے سنجید گی سے کہا۔
”ٹھیک ہے کہ اس کے والدین اس کے پاس نہیں ہیں، مگر پھر بھی وہ دونوں جس طرح اس کا خیال رکھتے ہیں ، بہت کم لوگ ہی رکھتے ہوں گے۔ ہر سال ثمینہ چھٹیوں میں اسے اپنے پاس بلوا لیتی ہے۔باپ سے ہر سال نہ سہی مگر وہ دو تین سال بعد ملتی ہی رہتی ہے۔ دونوں باقاعدگی سے اسے فون کرتے رہتے ہیں۔ ہر آنے جانے والے کے ہاتھ اس کے لئے کچھ نہ کچھ بھجواتے رہتے ہیں۔ ہر ماہ اس کے اخراجات کے لئے جو رقم بھجواتے ہیں وہ الگ ہے۔ پھر میں ہوں۔ اس کے نانا ہیں۔ جتنی دیکھ بھال ہم لوگ کرتے ہیں شاید ہی کوئی کرتا ہوگا، پھر بھی اسے ان سیکیورٹی کا احساس ہے پھر بھی اسے پروٹیکشن چاہئے اور کیا دیا جا سکتا ہے اسے؟ اس کے علاوہ بھی تو فیملی میں بہت سے بچوں کے ساتھ یہی پرابلم ہے۔مگر انہوں نے تو ایسی چیزیں اپنے اندر ڈیولپ نہیں کیں۔ تم بھی تو ہو، تمہارے پیرنٹس میں بھی تو Divorceہو گئی تھی۔ کتنے سالوں سے تم بھی تو بورڈنگ میں رہتے آ رہے ہو ۔تم نے بھی تو سب کچھ سنبھالا ہے نا!”
نانو نے اس کے سامنے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔
”یہ سب اتنا آسان نہیں ہے ، گرینی !”
عمر نے مدھم آواز میں کہا۔
”یہ چیز ہمیشہ تکلیف دیتی ہے!”
نانو چند لمحے تک اس کو دیکھتی رہیں۔
”میں جانتی ہوں، یہ تکلیف دہ ہے ۔مگر تم نے تو اس چیز کو اپنے اعصاب پر سوار نہیں کیا۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ بھی اسے lightly لے۔ اپنے اور دوسروں کے لئے مسئلے نہ کھڑے نہ کرے۔ میں نے اس کی پرورش بہت محنت سے کی ہے، اور اس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں نے اپنی کتنی ہی مصروفیات اس کی خاطر ختم کر دیں۔ اب اس قسم کی باتیں مجھے کتنا ٹینس کرتی ہیں۔ اسے اندازہ ہی نہیں۔” نانو بہت شاکی نظر آرہی تھیں۔
”گرینی! وہ جا ن بوجھ کر یہ سب نہیں کرتی۔ یہ اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔”
”میں جانتی ہوں، وہ یہ سب جان بوجھ کر نہیں کرتی مگر وہ خوش رہنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی۔ کیوں چیزوں کو اپنے اعصاب پر اتنا سوار کر لیتی ہے۔ تم نے غور کیا ہے جب سے وہ کراچی سے ہو کر آئی ہے اس وقت سے وہ بالکل ہی گم صم ہو گئی ہے۔ کسی بھی کام میں دلچسپی نہیں لیتی۔ ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔ ثمینہ کے پاس رہ کر آئے تب بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔”
”تو پھر آپ اسے وہاں جانے سے روک دیا کریں۔”
”میں کیسے روکوں، وہ خود وہاں جانا چاہتی ہے اور ظاہر ہے ثمینہ کے پاس جانے سے اسے نہیں روک سکتی۔ تو پھر اس کے باپ کے پاس جانے سے کیسے روکوں؟”
”گرینی ! چلیں چھوڑیں کوئی اور بات کرتے ہیں۔”
عمر نے انہیں زیادہ فکر مند دیکھتے ہوئے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی۔
”بس علیزہ اے لیولز کر لے تو میری بھی ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔”
عمر ان کی اس بات پر کچھ حیران ہوا تھا۔
”آپ کی ذمہ داری کیسے ختم ہو گی۔”
”اس کا باپ اب اس کی شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس بار واپس جانے سے پہلے اس نے اس سلسلے میں مجھ سے بات کی تھی۔”
”علیزہ کی شادی!”
عمر جیسے چلا ہی اٹھا۔ نانو نے اسے حیرانی سے دیکھا
باب: 15
علیزہ اس کے ہاتھ سے ریوالور چھین لینا چاہتی تھی۔ مگر وہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں پائی۔ عمر سیفٹی کیچ ہٹا چکا تھا، اورریوالور اپنی کنپٹی کی طرف لے جارہا تھا۔ جب انکل جہانگیر بجلی کی سی تیزی سے لپکے اور اس کاہاتھ پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتا۔ انہوں نے اس کے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ مارا۔ تھپڑ اتنا زبردست تھاکہ وہ نہ صرف چند قدم پیچھے چلا گیا ، بلکہ ریوالور پر اس کے ہاتھ کی گرفت بھی کمزور پڑگئی۔
انکل جہانگیر نے ایک جھٹکے کے ساتھ ریوالور اس سے چھین لیا اور اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا۔ علیزہ نے اس کی ناک میں سے خون بہتے دیکھا۔ انکل جہانگیر اب اسے گالیاں دے رہے تھے۔ نانو نے یک دم آگے بڑھ کر انہیں پیچھے کھینچ لیا۔ عمر اب سامنے کھڑا پلکیں جھپکائے بغیر انہیں دیکھ رہا تھا۔ علیزہ نے کبھی کسی کے لئے اس کی آنکھوں میں اتنی نفرت نہیں دیکھی تھی۔ جتنی وہ اس وقت عمر کی آنکھوں میں انکل جہانگیر کے لئے دیکھ رہی تھی۔ اس کی ناک سے ٹپکتا ہوا خون اس کی سفید شرٹ پر گر رہا تھا۔ مگر وہ جیسے اس سے بالکل بے خبر تھا۔
”مجھ پر چلائیں مت۔” اس نے اب عمر کو انکل جہانگیر سے کہتے سنا۔
”مجھ پر اب ہاتھ اٹھا کر بہت پچھتائیں گے۔”
”کیا کرو گے تم؟ یہ ڈرامہ جو ابھی کیا ہے؟ خو د کشی کرنا چاہتے ہو تو جاؤ باہر سڑک پر جا کر کرو۔ وہاں جا کر شوٹ کرو اپنے آپ کو لیکن میرے گھر میں نہیں۔”
”نہیں ! ویسے ہی مروں گا جیسے مرنا چاہتا ہوں۔”
”اس سے کیا ہو گا۔ مجھے کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا۔ چار چھ دن لوگ بات کریں گے پھر بھول جائیں گے۔ جہانگیر معاذ کو کچھ بھی نہیں ہو گا۔”
”چار ، چھ دن ہی سہی مگر بات تو کریں گے آپ کے بارے میں۔”
اس سے پہلے کہ انکل جہانگیر اس کی بات کے جواب میں کچھ کہتے نانو نے انہیں کہا تھا۔
”جہانگیر !بس کرو ۔ اس بحث کو بند کرو۔ یہاں سے باہر نکلو۔”
انہوں نے انکل جہانگیر کو بازو سے پکڑ کر باہر لے جانے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں، مجھے یہاں سے باہر نہیں جانا، کیا سمجھتا ہے یہ خود کو؟ میں ایسی بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا۔”
انہوں نے خود کو نانو سے چھڑاتے ہوئے کہاتھا۔
”پلیز جہانگیر ! فی الحال یہ سب ختم کرو۔مجھے اس طرح پریشان مت کرو۔ ابھی اسے اکیلا چھوڑ دو۔”
نانو نے ایک بار پھر ان کا بازو پکڑ کر التجائیہ انداز میں کہا تھا، لیکن انکل جہانگیر بالکل ہی بپھرے ہوئے تھے۔
”آپ اس کو نہیں جانتی ہیں۔ یہ تماشا اس نے پہلی بار نہیں کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ دو بار اسی طرح لڑنے کے بعد سلیپنگ پلز کھاچکا ہے۔”
انہوں نے انکشاف کیا، علیزہ نے شاک کے عالم میں عمر کو دیکھا وہ اب بھی اسی طرح باپ پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
”مجھے شرم آتی ہے اسے اپنی اولاد کہتے ہوئے!”
”آپ کو باپ کہتے ہوئے مجھے بھی اتنی ہی شرم آتی ہے۔” اس نے انکل جہانگیر کو سرد لہجے میں جواب دیا۔
”جہانگیر ! خدا کے لئے دوبارہ جھگڑا شروع مت کرو۔ میرے ساتھ باہر آؤ!”
نانو نے انکل جہانگیر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی انہیں باہر کھینچنا شروع کر دیا۔ انکل کچھ کہنا چاہتے تھے مگر نانو کسی نہ کسی طرح انہیں کھینچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گئیں۔ عمر اپنی جگہ پر پر بے حس و حرکت کھڑا ا نہیں باہر جاتا دیکھتا رہا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی اس کی نظریں علیزہ پر جم گئیں۔
”تم بھی یہاں سے جاؤ!”
اس نے درشتی سے علیزہ سے کہا تھا۔ وہ اب ہاتھ کی پشت سے ناک صاف کر رہا تھا، اور شاید تب ہی اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ اس کی ناک سے خون بہہ رہاہے۔ علیزہ اس کے کہنے کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ عمر نے ایک بار پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسے وہیں کھڑے دیکھ کر اس کے چہرے کی ناگواری بڑھ گئی۔
”تمہیں کہا ہے نا۔ جاؤ یہاں سے!”
اس با ر اس نے بھرائی ہوئی آواز میں علیزہ سے کہا۔
”پلیز، میں آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔” اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”مگر مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔”
”پھر بھی… پھر بھی میں یہیں رہنا چاہتی ہوں۔”
وہ اس وقت کسی بھی قیمت پر عمر کو اکیلا نہیں چھوڑ ناچاہتی تھی۔
”علیزہ ! مجھے اس وقت یہ کمرہ بالکل خالی چاہئے ۔ ،میں تمہاری موجودگی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لئے یہاں سے چلی جاؤ۔”
اس نے تیز اور ترش لہجے میں اس سے کہا اوروہ بے اختیار رونے لگی۔ عمر اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ وہ اب اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن اس کی ناک سے ٹپکتے ہوئے خون کے قطرے اب بھی اس کی قمیض پر گر رہے تھے۔ عمر دونوں ہاتھوں سے سر کو پکڑے بہت گہرے سانس لے رہا تھا۔ علیزہ کی سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ چند لمحے اپنے آنسو ؤں کو پونجھتے ہوئے وہ اسی طرح کمرے کے وسط میں کھڑی رہی۔پھر ایک خیال آنے پر وہ ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ہوئے کچھ ٹشو پیپر اٹھا لائی تھی۔
عمر کے بالکل بالمقابل گھٹنوں کے بل قالین پر بیٹھتے ہوئے اس نے ایک ٹشو سے اس کی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹا تھا۔ علیزہ کو اس کے چہرے پر پہلے والی وحشت نظر نہیں آئی تھی۔ وہ اب تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ چند لمحے وہ علیزہ کو دیکھتا رہا پھر اس نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹشو لے لئے اور خود اپنا چہرہ صاف کرنے لگا۔ علیزہ بھیگی پلکوں سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اس کی نظریں عمر کو ڈسٹرب کر رہی تھیں۔
”میں آپ کے لئے کچھ لے کر آؤں؟”
علیزہ نے اچانک ہی اس سے پوچھا۔ وہ چہرہ صاف کرتے کرتے رک گیا۔
”تمہیں میری پرواہ ہے؟”
اس نے عجیب سے لہجے میں علیزہ سے پوچھا۔ وہ ایسے کسی سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ چند لمحے حیرانی سے اس کا منہ دیکھتے رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”ہاں ! سب سے زیادہ۔”
”ٹھیک ہے پھر تم میری بات مانو اور یہاں سے چلی جاؤ۔”
علیزہ کو اس کے مطالبے پر شاک لگا۔
”اس وقت مجھے صرف تنہائی درکار ہے۔”
اس نے ایک بار پھر کہا وہ چند لمحے کچھ بھی کہے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی، جو اس کے جواب کا منتظر تھا۔ پھر اس نے کہا۔
”اگر آپ وعدہ کریں کہ آپ… آپ نہیں کریں گے تو میں چلی جاتی ہوں۔”
”کیا نہیں کروں گا؟”
اس نے علیزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا ۔
”جوکچھ دیر پہلے آپ……!”
علیزہ نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ خاموشی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا۔
”آپ نہیں کریں گے نا؟!”
اس بار علیزہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر یقین دھانی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ”نہیں کروں گا۔” بہت دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے علیزہ سے آنکھیں چرالی تھیں۔ اسے عمر کی آنکھوں میں نمی کی ہلکی سی چمک نظر آئی۔ اگلے لمحے وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے ہٹا کر چہرہ جھکا چکا تھا۔
وہ بوجھل دل سے اس کے قریب سے اٹھ گئی۔ عمر ایک بار پھر اپنا خون بند کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ بھاری قدموں سے چلتے ہوئے وہ باہر نکل آئی، اور پھر چند لمحوں کے بعد اس نے دروازہ لاک ہونے کی آواز سنی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اب وہ اندر کیا کر رہاتھا یا کیا کرنے والا تھا وہ وہاں سے نہیں جانا چاہتی تھی۔ علیزہ وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی چند منٹ پہلے جو کچھ بھی ہوا تھا وہ اس کے لئے قطعی غیر متوقع تھا، لیکن غیر متوقع ہونے سے زیادہ ناقابل یقین تھا۔
انکل جہانگیر اور عمر کے درمیان ہمیشہ ہی اختلافات رہے تھے، اور ان سے کوئی بھی بے خبر نہیں تھا، لیکن یہ کسی کے لئے تشویش کا باعث بھی نہیں تھے۔ ایسے اختلافات صرف عمر اور جہانگیر کے درمیان ہی نہیں تھے، بلکہ خاندان کے تمام لوگوں کے درمیان تھے
معاذ حیدرانگریزوں کے زمانے میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے تھے۔ اس زمانے میں انڈین سول سروس میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم تھی، اور جو تھے، وہ سول سروس میں رہنے کے لئے بڑی جانفشانی سے کام کرتے تھے۔ اپنے انگریز افسروں کے سامنے برٹش گورنمنٹ سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے بعض اوقات انہیں آؤٹ آف دا وے جا کر کام کرنا پڑتا، مگر ان کے ضمیر کے لئے یہ بات بہت کافی تھی کہ ان کے آفیسرز ان سے خوش تھے۔ سول سروس اس زمانے میں بھی ان کی ضرورت نہیں، شوق تھا۔ ان کا خاندان مالی طور پر اتنا مستحکم تھا کہ نوکری کی ضرورت نہ تو کسی کو پیش آتی تھی اور نہ ہی اسے پسند کیا جاتا تھا۔مگر معاذ حیدر کے باپ نے اس ٹرینڈ کوتوڑا اور اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے بعد سول سروس میں لے آئے۔ بنیادی طور پر وہ ایک جاگیردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اور ان کے مزاج میں جاگیرداروں والی تمام چیزیں کوشش کے باوجود ختم نہیں ہو سکی تھیں۔ سول سروس جوائن کرنے کے کچھ سالوں بعد ہندوستان تقسیم ہو گیا تھا معاذ حیدر مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔ جتنا عرصہ وہ سول سروس میں رہے، انہوں نے بہت محنت سے کام کیا۔ جب انہوں نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ لی تب تک ان کے چاروں بیٹے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے وقفہ سے سول سروس سے منسلک ہو چکے تھے۔
ان کا سب سے بڑا بیٹا ایاز حیدر بیرون ملک لاء کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب وطن واپس آکر فارن سروس جوائن کر چکا تھا۔ دوسرے بیٹے سعد حیدر نے بھی بڑے بھائی کی پیروی کرتے ہوئے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سول سروس جوائن کر لی، لیکن بڑے بھائی کے برعکس انہوں نے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کا انتخاب کیاتھا۔ عالمگیر اور جہانگیر نے بھی بڑے بھائیوں کی طرح بیرون ملک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد فارن سروس جوائن کر لی۔ سول سروس میں اپنی ساری اولاد بھیجنے والے معاذ حیدر واحد نہیں تھے، ان کے بھائیوں نے بھی قیام پاکستان کے بعد اپنی اولادوں کے لئے اسی شعبے کا انتخاب کیا تھا، اور اس وقت ان کا تقریباً سارا خاندان سول سروس کے مختلف شعبوں سے منسلک تھا۔
معاذ حیدر نے ملازمت صاف ہاتھوں سے چھوڑی تھی۔ چھوٹی موٹی چیزوں کو اگر ایک طرف رکھ دیں تو انہیں اپنی ملازمت کے دوران کسی اسکینڈل کا سامنا کرنا پڑا تھا، نہ ہی انہیں کوئی ایسا کام کرنا پڑا تھا کہ جس پر انہیں شرمندگی ہو یا ان کا ضمیر خود کو مجرم تصور کرتا ہو۔ ورثے میں باپ سے لمبی چوڑی جاگیر ملی تھی، اور انہوں نے اسی روپے سے اولاد کو بیرون ملک تعلیم کے لئے بھیجوایا تھا۔ لیکن بیرون ملک قیام کے دوران ان کے بیٹوں کی مکمل برین واشنگ ہو گئی تھی۔ وہ چاروں زندگی کو ایک نئی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے باپ نے اپنی سروس میں صرف اچھی ریپیوٹیشن کمائی ہے اور یہ کمائی ان کی محنت کے مقابلے میں کچھ نہیں تھی۔ ان چاروں نے سول سروس جوائن کرتے ہوئے اپنے ذہن میں کچھ اور مقاصد رکھے تھے اور پھر انہوں نے ہمیشہ ان ہی مقاصد کے حصول کے لئے کام کیاتھا۔ چاروں نے اپنی سروس کے دوران ہر طرح کی کرپشن کی۔ مگر اس کے باوجود وہ فیملی بیک گراؤنڈ اور تعلقات کی وجہ سے ایسے اہم عہدوں تک پہنچ گئے تھے جس کی مثال صرف پاکستان میں ہی ملتی تھی ۔
معاذ حیدر سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے کبھی اپنی اولاد کے ذہنوں کو پڑ ھنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے خود کو ضرورت سے زیادہ لبرل ظاہر کیا تھا۔ ان کی مصروفیات ہمیشہ ان کے اپنے بچوں کے ساتھ رابطوں میں آڑے آتی رہیں۔ مگر انہوں نے اس کی خاص پرواہ نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بچوں کی آئیڈیل تربیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے انہیں دنیا کی ہر نعمت دے رکھی تھی۔ اس لئے وہ ہر لحاظ سے ایک مثالی باپ ہیں۔ بعد میں بھی بیٹوں کو کسی چیز سے منع کرنے کے بجائے،انہوں نے اس چیز کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے انہیں ہر کام کی اجازت دے دی تھی۔
جب ان کے بیٹوں کی کرپشن کا ذکر ہونے لگا تب بھی انہوں نے انہیں روکنے کے بجائے انہیں بچانے کے لئے اپنے تعلقات کو بخوبی استعمال کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے بیٹے جو کچھ کر رہے ہیں وہ ساری بیورو کریسی کرتی ہے اور ان چیزوں کے بغیر ان کے بیٹے اپنا کیرئیر نہیں بناسکتے۔ کبھی اگر انہیں پچھتاوا ہوتا بھی تو وہ خود کو سو دلیلوں سے سمجھا لیتے۔
ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں کو انہوں نے اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی ، لیکن بیٹیوں کو کانونٹ میں پڑھانے کے بعد بہت ہی کم عمری میں ہی ان کی شادیاں کر دی تھیں۔ ان کے بیٹے اور بیٹیاں مالی لحاظ سے جتنے آسودہ تھے، نجی زندگی میں اتنے ہی زیادہ مسائل کا شکار تھے۔
ان کے سب سے بڑے بیٹے ایاز نے بیرونِ ملک تعلیم کے دوران ہی ان کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی سے ایک یونانی لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ ایک ڈیڑھ سال یہ شادی کسی نہ کسی طرح چلتی رہی پھر دونوں میں طلاق ہو گئی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد انہوں نے سول سروس جوائن کرنے کے بعد ماں باپ کی مرضی سے دوسری شادی کی۔ یہ شادی کچھ عرصہ تو اچھی طرح چلتی رہی۔ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہوئے پھر کچھ عرصہ بعد انہوں نے چھپ کر ایک اورشادی کر لی۔
اس بار ان کی بیوی ایک ایرانی عورت تھی۔ اس شادی کاعلم ہونے پر خاندان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ کیونکہ ان کی دوسری بیوی کا تعلق معاذ حیدرکے اپنے ہی خاندان سے تھا۔ خاندان کے بہت زیادہ دباؤ پر انہوں نے اسے طلاق دے دی، اور اس کے بعد انہوں نے کوئی اور شادی کر نے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ کسی نہ کسی طرح اپنی دوسری شادی کو ہی نبھاتے آ رہے تھے۔ ان کے تینوں بیٹے بھی اب سول سروس میں آچکے تھے۔
دوسرے بیٹے سعد نے بھائی کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے ماں باپ کی مرضی کے مطابق خاندان میں ہی شادی کی۔ آٹھ سال تک یہ شادی چلی پھر دونوں کے درمیان اختلافات طلاق تک جا پہنچے۔ سعد حیدر نے دوبارہ ماں باپ کے اصرار کے باوجود بھی دوسری شادی نہیں کی۔ ان کے دو بیٹے تھے اور وہ دونوں بیٹے اپنی ماں کے پاس تھے۔
تیسرے بیٹے عالمگیر نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی، اور ان کی شادی تمام تر اختلافات کے باوجود ابھی تک قائم تھی۔ ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔
چوتھے بیٹے جہانگیر نے پہلی شادی اپنی پسند سے کی تھی۔ گیارہ سال شادی قائم رہی پھر دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی۔ جہانگیر نے اپنی بیوی کے اصرار کے باوجود عمر کو اپنی بیوی کے حوالے نہیں کیا۔بلکہ اپنے پاس ہی رکھا۔ طلاق کے دو ہی ماہ کے اندر انہوں نے دوسری شادی کر لی۔ اس بیوی سے ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ کراچی کی ایک ماڈل سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے تیسری شادی کر لی تھی۔
ان کی بڑی بیٹی حسینہ اپنے باقی بہن بھائیوں کے مقابلے قدرے پر سکون زندگی گزار رہی تھی ، اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی ثمینہ کو شادی کے کچھ عرصہ کے بعد طلاق ہو گئی تھی۔ علیزہ کو اس کی ماں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا مگر دوبارہ شادی کرنے کے بعد اسے اپنے ماں باپ کے پاس ہی چھوڑ گئی تھی۔
معاذ حیدر اور ان کی بیوی نے اپنے بچوں کی نجی زندگی کو خاص طور سے ناکام ہوتے دیکھا تھا، اور انہیں ہمیشہ یہ حیرت ہوتی تھی کہ ان کی تربیت میں ایسی کونسی کمی رہ گئی تھی کہ جس نے ان کی اولاد کو زندگی کے اہم فیصلہ کرتے ہوئے بہت سے مسائل سے دوچار رکھا۔
عمر جہانگیر اور اس کے باپ کی طرح معاذ حیدر کے سارے بیٹے ہی اپنی اولادوں کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں رکھ پائے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ علیزہ وقتاً فوقتاً عمر اور جہانگیر انکل کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کے ساتھ اپنے دوسرے انکلز اور ان کی اولادوں کے درمیان ہونے والے جھگڑوں سے بھی آگاہ ہوتی رہتی۔ مگر اس نے کبھی کسی جھگڑے کو اتنا شدید ہوتے نہیں دیکھا تھا۔
”اور پھر عمر……کیا عمر یہ سب کر سکتا ہے؟”
اسے کمرے سے باہر آکر بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ عمر نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔
”کیا اتنی معمولی سی بات پر عمر خود کشی کر سکتا ہے۔”
”اور انکل جہانگیر کہہ رہے تھے کہ اس نے پہلے بھی دو بار سلیپنگ پلز……!”
علیزہ نے کچھ بے چینی سے کمرے کے دروازہ کو دیکھاتھا۔
”عمر ایسا نہیں تھا……عمر کبھی بھی ایسا نہیں تھا پھر اب… اب اسے کیا ہو گیا ہے۔”
اس نے دروازے اور فرش کے درمیان والی درز سے کمرے کی روشنی کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
”یہ چار سال پہلے والا عمر تو نہیں ہے۔یہ تو۔۔۔۔۔”
وہ آگے کچھ سوچ نہیں سکی تھی۔
نانو کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہاں سے بلند آوازمیں انکل جہانگیر کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔
”میں کوئی انوکھا کام تو کرنا نہیں چاہتا۔ ہمارے خاندان میں وہ کوئی پہلا تو نہیں ہے جس کے لئے ایسا سوچا جارہا ہے۔ کیا ایاز نے اپنے بیٹے کی شادی خود کو بچانے کے لئے نہیں کی تھی اور اس کے بیٹے نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ آپ بتائیں کیا وہ خوش نہیں ہے۔ اس کی بیوی اسے کہاں سے کہاں لے گئی، اور اس وقت وہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں بیٹھا ہے۔ عیش کر رہا ہے۔ کیا سعد اور عالمگیر نے اپنے بیٹوں کی شادی اپنی مرضی سے کر کے کوئی فائدے حاصل نہیں کئے، اور اگر میں بھی ایسا کرنا چاہتا ہوں تو کیا غلط ہے۔خالی خولی افسری حاصل کر نے سے کچھ بھی نہیں ہو تا۔ جب تک اوپر ہاتھ پکڑ کر کھینچنے والا نہ ہو، آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس کا خیال ہے کہ اسے ابھی تک جو کچھ ملتا رہا ہے۔ اس کی اپنی قابلیت کی بنیاد پر ملتا رہا ہے ۔ میں اگر اس کے پیچھے نہ ہوتا تو اسے پتا چل جاتا کہ یہ کتنے پانی میں ہے۔”
انکل جہانگیر کی آواز سے ان کے غصہ کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی باتیں سننے لگی تھی۔
”مگر جہانگیر ! اگر وہ یہ شادی کرنا نہیں چاہتا تو اسے مجبو رمت کرو۔ میں بہت ڈر گئی ہوں۔ اگر اسی طرح وہ کچھ کر بیٹھا تو۔۔۔”
نانو نے اپنا خوف ظاہر کرتے ہوئے کہا مگر انکل جہانگیر نے ان کی بات کاٹ دی۔
”تو……تو کیا ہو گا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ میں اس کی بلیک میلنگ کے سامنے جھک جاؤں۔ نہیں ، ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔”
”جہانگیر وہ تمہارا اکلوتا بیٹا ہے۔ تم……!”
انکل جہانگیر نے ایک بار پھر نانو کی بات کاٹ دی تھی۔
”اگر اکلوتا بیٹا میرے کام نہیں آسکتا تو مجھے ضرورت نہیں ہے ایسے اکلوتے بیٹے کی۔ میری طرف سے وہ بھاڑ میں جائے۔”
”جہانگیر ! ایسے مت کہو!”
کیوں نہ کہوں۔میں نے تو اسے دنیا کی ہر لگژری دے رکھی ہے ،اور آج سے نہیں،بچپن سے اور یہ……یہ میری ایک بھی بات مانے پر تیار نہیں ہے۔ وہاں شادی نہیں کرنا چاہتا تو پھر کہاں کرنا چاہتا ہے۔ وہ لڑکی اچھے کردار کی نہیں تو پھر میں اسے ایک اور لڑکی دکھا دیتا ہوں۔ یہ وہاں شادی کر لے مگر نہیں، یہ وہاں بھی شادی نہیں کرے گا۔ یہ ایسی کسی جگہ شادی نہیں کرے گا جہاں میں اس کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اسے لگتا ہے باپ اس کا سودا کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے یہ باپ کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ ہاں باپ اس کا ملازم ہے، وہ اسے ساری عمر فائدے پہنچاتا رہا ہے اور پہنچاتا رہے گا۔”
”جہانگیر ! تم اس معاملہ میں ضد نہ کرو۔ جوان اولاد سے ضد کرنا ٹھیک نہیں ہے اور پھر جوان بیٹے سے۔…تم سمجھتے کیوں نہیں۔ وہ تمہاری بات نہیں مانتا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس طرح اس کے پیچھے مت پڑو۔ آج اس نے جو کچھ کرنے کی کوشش کی ہے اس نے مجھے دہلا دیا ہے۔”
”آپ خوفزدہ مت ہوں……یہ پہلے بھی دوبار ڈرامہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے۔”
انکل جہانگیر اب بھی تلخ تھے۔
”اگر وہ پہلے بھی دو بار یہی کوشش کر چکا ہے تو تمہیں زیادہ فکر مند ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ واقعی اس حد تک زچ ہو چکا ہے کہ اس آخری قدم کو اٹھانے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔”
نانو نے انکل جہانگیر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی، مگر وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھے۔
”آپ اسے مجھ سے بہتر نہیں سمجھتیں ، میں جانتا ہوں، مجھے اسے کس طرح سے ہینڈل کرنا ہے اور میں کرلوں گا۔ آپ اس معاملے میں اس کی سائیڈ مت لیں۔”
”میں اس کی سائیڈ نہیں لے رہی۔میں صرف تمہیں سمجھا رہی ہوں۔ کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ تم کسی تیرہ سالہ لڑکے کو ہینڈل نہیں کر رہے۔ تیس سالہ مرد کا سامنا ہے تمہیں۔ اسے بچہ سمجھ کر کسی چیز کو اس پر ٹھونسنے کی کوشش مت کرو۔”
”اس پر کسی بھی چیز کو ٹھونسنے کی کوشش نہ کروں اور اپنا کیرئیر تباہ کر لوں۔”
”اگر وہ نہ ہوتا تو پھر تم کیا کرتے، پھر بھی تو کسی نہ کسی طرح خود کو مصیبت میں سے نکالتے ہی نا پھر اب بھی کچھ نہ کچھ کر لو۔”
”تب کی بات اور ہوتی مگر اب میں یہ سوچ کر نہیں چل رہا ہوں کہ وہ نہیں ہے۔ اب اگر وہ ہے تو پھر اسے میرے کام آنا ہو گا۔جیسے میں ہمیشہ اس کے کام آتا رہا ہوں۔”
”جہانگیر ! تم اتنی ضد کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں یاد نہیں ہے،تمہارے باپ نے کبھی تم چاروں کے ساتھ اس طرح ضد نہیں کی تھی۔ تم لوگوں نے جو کرنا چاہا، انہوں نے تمہیں کرنے دیا۔ چاہے وہ اپنی مرضی سے شادی یا طلاق جیسا احمقانہ فیصلہ ہی کیوں نہ ہوں۔”
”مجھے ڈیڈی کی مثال مت دیں۔ تب حالات اور تھے، لیکن اب صورت حال کچھ اور ہے۔”
انکل جہانگیر نے تیزی سے کہاتھا۔
” اس لئے صورت حال اور ہے کیونکہ تم اب کسی اور کے باپ ہو ، بیٹے نہیں۔ اب تمہاری ڈیمانڈز بھی بدل گئی ہیں۔”
”چلیں آپ ایسا ہی سمجھ لیں ڈیڈی اور طرح کے تھے، میں اور طرح کا ہوں۔”
”جہانگیر ! ابھی اسے چھوڑ دو ، تم اس کے پیچھے کس حد تک بھاگ سکتے ہو۔ اسے مجبور کرو گے تو وہ یہاں سے چلا جائے گا پھر کیا کرو گے۔ کہاں کہاں اس کے پیچھے جاؤ گے؟”
”آپ اسے سمجھانے کی بجائے مجھے سمجھا رہی ہیں؟”
”میں اسے بھی سمجھاؤں گی مگر تم خود کو تھوڑا ٹھنڈا تو کرو۔ میں تمہاری طرح اس کے پیچھے پنجے جھاڑ کر نہیں پڑسکتی۔ ابھی اسے کچھ بھی مت کہو۔ ابھی اسے اس کی مرضی کے مطابق جو وہ چاہے وہ کرنے دو۔ کچھ عرصہ گزر جائے گا تو اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو جائے گا، پھر میں اس سے بات کروں گی۔”
نانو انکل جہانگیر کوسمجھا رہی تھیں مگر وہ کچھ سمجھنے پر تیار نہیں تھے۔ وہ اپنی ضد پراڑے ہوئے تھے۔ علیزہ نے ایک بار پھر دروازے کو دیکھا۔ کمرے میں بالکل خاموشی تھی پتا نہیں وہ اندر کیا کر رہا تھا۔ پھر اسے پتا نہیں کیا خیال آیا اور وہ لان میں چلی گئی۔ عمر کے کمرے کی کھڑکیاں باہر لان میں کھلتی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کھڑکیوں میں سے اندر دیکھ سکے گی، لیکن اسے مایوسی ہوئی۔ کھڑکیاں بند تھیں اور ان کے آگے پردے تنے ہوئے تھے۔ وہ کسی بھی طرح اندر نہ دیکھ سکی۔
کچھ دیر وہ بنا کسی آہٹ کے کھڑکیوں کے سامنے کھڑی رہی اور ایک بار پھر اندر واپس آگئی۔ نانو اور انکل جہانگیر کی بحث اب بھی جاری تھی۔ وہ عمر کے کمرے کی طرف جانے کے بجائے اپنے کمرے میں آگئی۔ کپڑے بدل کے وہ بستر پر لیٹنے کے باوجود اس کی آنکھوں میں نیند کے کوئی آثار نہیں تھے۔ وہ عمر کے وعدہ کے باوجود اس کے بارے میں پریشان تھی اور اسے حیرانی تھی کہ انکل جہانگیر عمر کے بارے میں فکر مند کیوں نہیں ہیں۔ انہیں اس کی زندگی کی پرواہ کیوں نہیں ہے۔ کچھ بے چین ہو کر وہ ایک بار پھر اٹھ گئی اور کمرے کے چکر لگانے لگی۔ پھر تھک کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
سونے سے پہلے ایک خیال آنے پر وہ دوبارہ اپنے کمرے سے نکل کر عمر کے کمرے کی طرف گئی تھی۔ نانو کے کمرے کا دروازہ اب بند تھا وہاں اب خاموشی تھی۔ عمر کے کمرے کی لائٹ اب بھی آن تھی لیکن کمرے میں سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ عمر کبھی بھی لائٹ آن کر کے نہیں سوتا تھا۔ یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی، اور اگر اس وقت سو نہیں رہا تو پھر کیا کر رہاتھا۔ اس نے بے قراری سے سوچا۔
کچھ دیر کمرے کے سامنے کھڑے رہنے کے بعد وہ واپس کمرے میں آگئی۔ اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ بہت دیر تک عمر کے بارے میں سوچتی رہی۔
اگلی صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی۔ گھڑی ساڑھے نو بجا رہی تھی۔ آنکھیں کھولتے ہی جو پہلا خیال اس کے ذہن میں آیا، وہ عمر کا تھا۔
کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکلی، گھر میں بالکل ہی خاموشی تھی۔ عمر کے کمرے کا دروازہ اب بھی بند تھا۔ وہ دروازہ پر دستک دینا چاہ رہی تھی لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گئی۔
نانو کو ڈھونڈتے ہوئے وہ کچن میں آگئی۔ اسے نانو قدرے پریشان لگ لگیں۔ کچن میں ان کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اسے دیکھتے ہی انہوں نے کہا۔
”میں تمہیں جگانے ہی والی تھی۔ اچھا ہوا کہ تم خود اٹھ گئیں۔ آج یونیورسٹی جانے کا ارادہ نہیں ہے؟”
”نہیں نانو !میں آج یورنیورسٹی نہیں جاؤں گی!”
اس نے ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھنچتے ہوئے کہاتھا۔
”کیوں !”
” بس میرا دل نہیں چاہ رہا۔” نانو اوون میں کوئی چیز رکھ رہی تھیں۔
”پھر ناشتہ کر لو۔”
”نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا۔”
اس نے انکار کر دیا تھا۔
”نانو انکل جہانگیر کہاں ہیں؟”
اچانک اس نے پوچھا ۔
”وہ صبح چلا گیا ہے!”
علیزہ کو اچانک ہی بے حد اطمینان کا احساس ہواتھا۔
”عمر سے دوبارہ ان کی کوئی بات ہوئی۔”
”نہیں، عمر سو یا ہوا تھا میں نے اسے نہیں جگایا۔”
نانو نے کام کرتے ہوئے کہا۔
”اب جگا دوں اسے؟”
علیزہ نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد پوچھا تھا۔
”نہیں ،ابھی اسے سونے دو۔”
نانو نے اس سے کہا تھا۔ کچن میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی تھی۔
”نانو ! عمر نے یہ سب کیو ں کیا؟”
اس نے کچھ دیر بعد پوچھا تھا۔
نانو چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ ”پتا نہیں۔”
انہوں نے مایوسی سے سر ہلایا تھا۔
”نانو ! وہ بالکل بدل گیا ہے نا۔”
”ہاں ! ایسا تو ہونا ہی تھا۔”
”مگر کیوں نانو ! عمر تو……وہ تو…… مجھے یقین نہیں آتا نانو! عمر ایساہو جائے گا۔ ابھی کل تک تو وہ بالکل ٹھیک تھا، ایک دن میں ہی کیا ہو گیا؟”
”میرے پاس تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں ہے علیزہ!”
نانو نے بے بسی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہاتھا۔
”جہانگیر انکل اسے کیوں پریشان کر رہے ہیں ۔اس کی مرضی کے خلاف اس سے ایک کام کیوں کروانا چاہتے ہیں۔”
”وہ بھی مجبور ہے!”
انہوں نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں نانو ! وہ مجبور نہیں خود غرض ہیں۔”
نانو نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔
وہ کچھ دیر وہیں بیٹھی رہی پھر اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں آگئی۔
دوپہر کے دو بجے وہ ایک بار پھر پریشان ہو کر اپنے کمرے سے نکلی۔ عمر کا دروازہ اب بھی بند تھا۔ اس نے بنا سوچے سمجھے دروازہ پر دستک دی۔ اندر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔ علیزہ نے ایک بار پھر دستک دی۔ اس بار دستک کی آواز زور دار تھی۔ مگر اندر خاموشی نہیں ٹوٹی۔اس نے یکے بعد دیگرے کئی بار دروازہ بجایا۔ مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ علیزہ خوفزدہ ہوگئی۔
”عمر دروازہ کیوں نہیں کھول رہا۔ وہ اتنی گہری نیند تو نہیں سوتا۔”
اس نے دم سادھے سوچا۔
بجلی کے ایک جھماکے سے اسے یاد آیا کہ کمرے کی ایک اور چابی نانو کی درازمیں پڑی ہوئی ہے اور وہ اس چابی کو لاکر دروازہ کھول سکتی ہے۔ تقریباً بھاگتے ہوئے وہ نانو کے کمرے میں ائی تھی۔ اس نے ان کی دراز سے چابیوں کا گچھا نکالا اور تیز رفتاری سے واپس عمر کے کمرے کے دروازے کے پاس آگئی۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے دروازے میں چابی گھمائی۔دروازہ کا لاک کھل گیا۔ اس نے ناب گھما تے ہوئے آہستہ آہستہ دروازہ کھولنا شروع کر دیا۔ کمرے میں لائٹ اب بھی آن تھی، اور دروازہ کھلنے کی آواز نے بھی عمر کو متوجہ نہیں کیا تھا۔ علیزہ نے دروازہ کھولتے ہوئے اپنا قدم اندر بڑھایا اور پھر جیسے اسے شاک لگا تھا۔
عمر بیڈ پر کمبل لپیٹے اوندھے منہ سویا ہوا تھا۔ اس کا سر تکیہ پر تھا، اور دایاں ہاتھ کہنی تک تکیہ کے نیچے تھا۔ جس کی وجہ سے تکیہ داہنی طرف سے کچھ اٹھ گیاتھا اور اس اٹھے ہوئے حصہ نے اس کے چہرہ کو مکمل طور پر کور کر لیا تھا۔
اس کے لئے حیران کن بات تھی کہ عمر لائیٹ جلتی چھوڑ کر سو گیا تھا۔ مگر اس وقت جس چیز سے اسے شاک لگا تھا وہ بیڈ کے کچھ فاصلے پر تپائی پر موجود دو تین بوتلیں اور ایک گلاس تھا وہ بوتلیں اس کے لئے نئی نہیں تھیں ۔وہ بہت دفعہ ویسی ہی بوتلیں بازار سے خرید کر انہیں بیلیں لگا نے کے لئے استعمال کرتی رہی تھی مگر وہ بوتلیں ہمیشہ خالی ہوتی تھیں۔ آج پہلی بار وہ ان بوتلوں کا اصلی مصرف دیکھ رہی تھی اور وہ بھی عمر کے کمرے میں۔۔۔۔۔
وہ کچھ دیر تک ساکت کھڑی ان بوتلوں کو دیکھتی رہی تھی۔ پھر دھیمے قدموں سے تپائی کی جانب جانے لگی۔ تپائی کے قریب پہنچ کر اس نے جھک کر ان بوتلوں کو دیکھاتھا۔ ایک بوتل خالی تھی جبکہ دوسری بوتل آدھی خالی تھی۔ عمر کے بیڈ سائڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی ایش ٹرے سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی۔
وہ اب جان چکی تھی کہ رات کو کمرہ لاک کرنے کے بعد وہ کیا کرتا رہا ہو گا اور شاید نشہ کی ہی حالت میں وہ لائٹ بند کیے بغیر ہی سو گیاتھا۔ علیزہ ابھی بھی کچھ بے یقینی سے ان چیزوں کو اور بیڈ پر پڑے ہوئے عمر کو دیکھتی رہی۔
”عمر تو یہ دونوں چیزیں استعمال نہیں کرتا تھا۔ پھر اب کیوں؟” اس نے مایوسی سے سوچا، چند لمحے وہیں کھڑی وہ بے مقصد عمر کو دیکھتی رہی۔ پھر کچھ مایوسی سے اسی طرح دھیمے قدموں سے کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ نانو کے کمرے میں چابی رکھنے کے بعد وہ ایک بار پھر لاؤنج میں آگئی تھی۔
لاؤنج کے صوفہ پر بیٹھ کر وہ ایک بار پھر رات کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔
”کیا عمر اٹھ گیا ہے؟”
وہ اچانک نانو کی آواز پر چونکی تھی۔ وہ پتا نہیں کس وقت کچن سے نکل کر لاؤنج میں آگئی تھیں۔ علیزہ نے انہیں دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ نانو کچھ فکر مند کھڑی تھیں۔
”ابھی تک نہیں جاگا؟ تم نے اسے جگانے کی کوشش کی؟” انہوں نے علیزہ سے پوچھا تھا۔
”نہیں۔” اس نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”کیوں نہیں جگایا؟ تمہیں جگانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔”
وہ کچھ خفا ہو کر بولی تھیں۔
”آپ نے کہا تھاکہ اسے سونے دو۔”
اس نے انہیں یاد دلایا تھا۔
”ہاں ،میں نے کہا تھا لیکن اب تو بہت دیر ہو گئی ہے۔ مجھے خود ہی جاکر دیکھنا چاہئے۔”
نانو نے بڑ بڑا تے ہوئے کہا۔ علیزہ خاموشی سے انہیں لاؤنج سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
نانو کی واپسی بہت جلدی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تقریباً دس منٹ کے بعد واپس آئی تھیں۔
”آپ نے اسے اٹھا دیا۔”
علیزہ نے ان کے چہرے پر موجود اطمینان دیکھ کر کہا تھا۔
”ہاں بہت دیر دروازہ بجانا پڑا لیکن وہ اٹھ گیا۔ کہہ رہا ہے ابھی آتا ہوں۔”
انہوں نے ایک بار پھر کچن میں جاتے ہوئے کہا تھا۔
علیزہ نے اندازہ لگا نے کی کوشش کی تھی کہ کیا نانو عمر کے کمرے کے اندر گئی تھیں یا عمر نے دروازہ کھولے بغیر انہیں اندر سے ہی جواب دے دیا تھا۔
”نانو ! آ پ عمرکے کمرے میں گئی تھیں۔”
علیزہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے ہی بلند آواز میں پوچھاتھا۔
”نہیں ! اندر نہیں گئی ، کیوں پوچھ رہی ہو۔”
نانو نے کچن سے باہر آئے بغیر جواب دیا تھا۔
”بس ایسے ہی۔”
اس نے ایک بار پھربلند آواز میں کہا تھا۔
اس کا مطلب ہے نانو نے وہ بوتلیں نہیں دیکھی ہیں۔ یہ اچھا ہی ہوا ورنہ نانو کو تکلیف پہنچتی۔ انہوں نے تو کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ عمرڈرنک کرے گا اور پھر یوں ان کے گھر، پر ان کے سامنے۔ علیزہ نے کچھ مطمئن ہو کر سوچا تھا۔ عمر نے بھی اسی لئے دروازہ کھولے بغیر نانو کو جواب دیا ہو گا تاکہ نانو اندر آکر بوتلیں نہ دیکھ سکیں۔ مگرآخر عمر یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے۔ وہ تو ایسا نہیں تھا۔ وہ تو کبھی بھی ایسا نہیں تھا؟ اس کا ذہن ایک بار پھر الجھ گیا تھا۔
اسے کہیں بہت دور سے شور کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لاشعو ر میں اٹھنے والا شور آہستہ آہستہ جیسے بلند ہوتا جارہا تھا۔ یوں جیسے دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہو۔ شعو ر نے آہستہ آہستہ اس شور کو پہچان لیا تھا۔ عمر نے اوندھے پڑے ہوئے آنکھیں کھولنی شروع کر دیں۔ چند لمحے تو وہ آنکھیں کھولنے میں بالکل ہی ناکام رہا۔ مگر پھر کچھ جدو جہد کے بعد اس نے آنکھیں کھول دی تھیں۔کمرے میں روشنی تھی۔ کچھ دیر تک تو وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو پہچاننے کی کوشش کرتا رہا، اور پھر اس کا دھیان دروازے پر ہونے والی دستک پر چلا گیا۔ کوئی بڑی مستقل مزاجی سے دروازہ بجا رہا تھا اور ساتھ اس کا نام بھی پکار رہا تھا۔
عمر کا سر چکرا رہا تھا ، وہ لیٹے لیٹے ہی کروٹ لے کر سیدھا ہو گیااور آواز کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ آواز کو شناخت کرنے میں اسے کچھ وقت لگاتھا۔ مگر وہ آواز کو پہچان گیا، وہ آواز نانو کی تھی اور وہ بار بار اسی کا نام پکار رہی تھیں۔
”گرینی ! میں جاگ گیا ہوں ابھی باہر آجاؤں گا۔”
اس نے بے اختیار بلند آواز میں ان کی آواز کے جواب میں کہا تھا۔
اس وقت اس کے دروازے پر ہونے والی دستک اس کے اعصاب کو جھنجھوڑ رہی تھی اور وہ اسے روک دینا چاہتا تھا دستک یک دم رک گئی تھی۔
”ٹھیک ہے، عمر جلدی باہر آجاؤ بہت دیر ہو گئی ہے۔ میں کھانا لگوا رہی ہوں!”
اس نے گرینی کو کہتے ہوئے سنا۔
وہ کچھ کہے بغیر ہی چپ چاپ بستر میں پڑا رہا ، انگلیوں کے پوروں سے اس نے اپنی کنپٹیوں کو دبانے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ سر میں ہونے والی اس تکلیف سے نجات حاصل نہیں کر سکا تھا۔ اس کے لئے یہ ساری کیفیا ت نئی نہیں تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ وہ زبردست قسم کے hang over کا شکار ہو رہا ہے۔
کچھ دیر وہ اسی طرح لیٹا اپنے اعصاب کو پر سکون کرنے کی کوشش کرتا رہا پھر جدوجہد کرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے سر کو دو تین بار جھٹک کر کمرے میں لگے ہوئے وال کلاک پر نظر دوڑانے کی کوشش کی تھی مگر وہ وقت دیکھنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
سامنے تپائی پر پڑی ہوئی بوتلوں نے ایک بار پھر رات کے تمام مناظر کو اس کے سامنے کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری تھی۔
”اوراس کمرے کے باہر ایک بار پھر وہی شیطان ہوگا۔ کاش میں کہیں غائب ہو سکتا ؟”
اس نے کمبل کو ایک جھٹکے سے دور پھینکتے ہوئے سوچا تھا۔ بیڈ سے کھڑا ہونے کی کوشش میں وہ لڑ کھڑا گیا۔ اسے متلی ہو رہی تھی۔
چند لمحوں کے لئے وہ ایک بار پھر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ پھر ہمت کر کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے کنپٹیوں کو دباتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے وہ ڈریسنگ روم کی طرف چل دیا۔
ڈریسنگ روم میں داخل ہونے کے بعد اس نے وارڈروب میں پڑا ہوا بریف کیس نکال لیاتھاوہ اب جلد از جلد اس hang over سے نجات حاصل کرنے کے لئے بریف کیس میں پڑی ہوئی گولیاں لینا چاہتا تھا۔
مگر بریف کیس کھولنے کے بعد بھی وہ بریف کیس میں سے اپنی مطلوبہ گولیاں تلاش نہیں کر پایا تھا۔
”اف!”
اس نے بریف کیس کو دور پھینک دیاتھا۔ کچھ دیر گھومتے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھا رہاتھا۔ پھر وہ اٹھ کر لڑ کھڑاتے قدموں سے واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
نل کو پوری رفتا ر سے کھولتے ہوئے وہ واش بیسن کے سامنے جھک کر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اپنے حلق میں ڈالنے لگا یہ کوشش کامیاب رہی۔ اسے اپنا معدہ خالی ہوتا ہوا محسوس ہواتھا۔ مگر اس کے چکراتے ہوئے سر کو زیادہ افاقہ نہیں ہواتھا۔
چند منٹوں بعد اس نے صابن سے ہاتھ دھونے کے بعد اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے شروع کر دئیے تھے۔ مگر یہ ترکیب بھی کچھ زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی۔ چند لمحے وہ اسی طرح وہیں کھڑا رہا۔پھر کچھ بے چارگی کے عالم میں واش روم سے نکل آیا۔ اب کچن میں جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
وہ جانتا تھا۔ کچن میں اس وقت خانساماں کے علاوہ گرینی بھی ہوں گی اور شاید علیزہ بھی اور وہ اس حالت میں ان لوگوں کے سامنے نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ ڈریسنگ روم سے نکلا تھااور پھر اپنے کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا۔
دروازہ کی ناب پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے لاک کھولنے کی کوشش کی تھی اور ٹھٹک گیاتھا۔ اسے بہت اچھی طرح یاد تھا کہ رات کو علیزہ کے کمرے سے نکلنے کے بعد اس نے سب سے پہلا کا م دروازے کو لاک کرنے کا کیا تھا۔ مگر اس وقت لاک کھلا ہوا تھا۔ وہ hang over کا شکار تھا مگر وہ رات کو ہونے والے تمام واقعات یاد کر سکتا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے دروازے کو خود لاک کیا تھا تاکہ علیزہ یا کوئی اور دوبارہ اس کے کمرے میں نہ آئے اوراس کے بعد وہ ڈرنک کرنے لگا تھا۔
یہ دروازہ کھلا ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی نہ کوئی رات کے کسی وقت یا پھر صبح میرے کمرے میں مجھے دیکھنے آیا تھا، اور وہ کون ہو سکتا ہے؟” اس نے ناب پر ہاتھ رکھے ہوئے چند لمحے جھنجھلاتے ہوئے سوچا تھا، اور پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا تھا۔ وہ ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے اپنے کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔
لاؤنج سے گزر کر وہ کچن میں آگیاتھا۔
”اوہ عمر ! تم اٹھ گئے؟”
گرینی نے اسے دیکھتے ہی کہاتھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیاتھا ان کی طرف دیکھے بغیر وہ فریج کی طرف بڑھ گیاتھا۔
”تمہیں کچھ چاہئے؟”
گرینی نے اسے فریج کا دروازہ کھولتے دیکھ کر پوچھا تھا۔ اس نے اب بھی کوئی جواب دینے کے بجائے فریج کے اندر جھانکتے ہوئے سرکے کی بوتل تلاش کرنی شرو ع کر دی۔ گرینی اب کچھ کہنے کی بجائے خاموشی سے اس کی حرکات کو دیکھتی رہیں۔ وہ سرکے کی بوتل نکال کر کچن میں پڑی ہوئی چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا تھا۔
”مرید بابا ! ایک گلاس میں تھوڑا سا پانی دے دیں۔”
اس نے سرکے کی بوتل کھولتے ہوئے کہاتھا۔
گرینی دم بخود اس کی کارروائی دیکھ رہی تھیں۔ مرید بابا نے خاموشی سے ایک گلاس میں تھوڑا سا پانی ڈال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے سرکے کی بوتل میں سے کچھ سرکہ اس گلاس میں انڈیلا اور گلاس ہاتھ میں لے کر اسے پینے لگا۔ چند گھونٹ پینے کے بعد اس نے یک دم خود کو بہتر محسوس کیاتھا۔ گلاس میں اس نے کچھ اور سرکہ انڈیلا تھا اور پھر گلاس ہاتھ میں لے کر اٹھ کر کھڑا ہو۔ اس بار نانو نے اس سے کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سب کچھ سمجھ چکی تھیں اور اس وقت وہ اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ گلاس لے کر کچن کے دروازے سے نکلا تھااور اس کی نظر لاؤنج کے سامنے والے صوفے پر بیٹھی ہوئی علیزہ پر پڑی تھی۔ لاؤنج سے پہلے گزرتے ہوئے وہ علیزہ کی طرف پشت ہونے کی وجہ سے اسے دیکھ نہیں سکا تھامگر اب علیزہ اس کے بالکل سامنے تھی اور عمر یک دم غضبناک ہو گیا تھا۔ اس نے بلند آواز میں علیزہ سے کہا تھا۔
”دوسروں کے معاملات میں اتنی دلچسپی کیوں ہے تمہیں؟”
علیزہ نے بے حد حیرانی کے عالم میں اسے دیکھا تھا۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اس کے سامنے سے گزر کر کچن میں گیا تھا اور اب کچن سے باہر نکل کر وہ ایک دم اس ٹون میں اس سے بات کرنے لگا تھا۔ اس کی آواز کی کرختگی اور چہرے پر موجود خفگی علیزہ کو خوفزہ کرنے کے لئے کافی تھی۔وہ زرد چہرے سے اس کے جملے کا مقصد سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔
وہ کچھ آگے بڑھ آیا تھا اور علیزہ نے اس کے پیچھے نانو کو بھی کچن سے نکلتے دیکھا تھا۔
”کیا ہوا عمر؟ کیوں شور کر رہے ہو؟”
”میرا دماغ خراب ہو گیا ہے، اس لئے شور کر رہا ہوں!”
وہ نانو کی بات پر اور بھی بگڑ گیا۔
”آخر ہوا کیا ہے؟جس پر اتنے ناراض ہو رہے ہو؟”
نانو نے نرمی سے اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
”یہ سوال مجھ سے نہیں اس سے پوچھیں۔”
اس نے علیزہ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جو بالکل بے حس و حرکت صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ نانو کو جیسے حیرت کا ایک جھٹکا لگاتھا۔
”علیزہ سے پوچھوں؟ علیزہ نے کیا کیا ہے؟”
”اس کے نزدیک دوسروں کی زندگی تماشا ہے جسے دیکھ کر انجوائے کرنا اس کا فرض بنتا ہے۔”
نانو اس کی بات بالکل نہیں سمجھی تھیں۔
”عمر ! مجھے بتاؤ اس نے کیا کیا ہے؟”
”میں نے آپ سے کہا ہے نا کہ مجھ سے مت پوچھیں اس سے پوچھیں۔”
عمر اس کی بات پر یک دم بھڑکا تھا۔ نانو نے حیرت سے علیزہ کو دیکھا تھا جس کا چہرہ سفید ہو گیا تھا۔
اس کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ عمر کمرے میں آنے کی بات جان جائے گا اور پھر اس پر اس طرح ہنگامہ کھڑا کر دے گا۔
”کیا حق پہنچتا ہے تمہیں کہ تم لوگوں کی ذاتیات میں دخل اندازی کرو منہ اٹھا کر چوری چھپے دوسروں کے کمروں کے لاک کھول کر وہاں جاؤ۔”
اس کی آواز اتنی بلند اور لہجہ اتنا تلخ تھا کہ علیزہ کے ہاتھ پیر کانپنے لگے تھے۔
”تم ہوتی کون ہو، یہ سب کچھ کرنے والی۔ یہ گھر تمہارا یا تمہارے باپ کا نہیں ہے کہ تم یہاں کے ہر کمرے میں جھانکنے لگو۔”
وہ انگلی اٹھا کر تیز آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔
”جتنا حق تمہارا اس گھر پر ہے اتنا ہی میرا ہے اس لئے تمہیں اپنی حدود کاپتا ہونا چاہئے۔”
”عمر ! اتنے غصہ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علیزہ کا کوئی قصور نہیں ہے میں نے ہی اسے تمہارے کمرے میں جانے کے لئے کہا تھا۔”
نانو نے بڑی نرمی سے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ عمر کو ایک دم دھچکا لگا تھا۔
”آپ نے کہا تھا؟”
”ہاں ! میں نے کہا تھا؟”
عمر نے اپنے بازو پر رکھا ہوا ان کا ہاتھ ایک جھٹکے سے ہٹا دیا۔
”آپ نے کیوں کہا تھا؟”
”تمہیں اتنی دیر ہو گئی تھی ، تم اٹھ ہی نہیں رہے تھے۔ میں پریشان ہو گئی تھی، اس لئے میں نے علیزہ سے کہا کہ وہ لاک کھول کر اندر جائے اور دیکھے کہ تم ٹھیک ہو۔”
نانو نے بہت مہارت سے جھوٹ بولتے ہوئے کہاتھا۔
”میں جب چاہوں گا ، اٹھوں گا اور آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اس طرح میرے کمرے میں جاسوس بھیجیں۔”
وہ اب نانو سے الجھنے لگا تھا۔
”کیوں مجھے تمہارے بارے میں پریشان ہونے کا کوئی حق نہیں ہے ؟”
نانو نے اس سے شکوہ کیا۔
”نہیں ! آپ کو میرے بارے میں پریشان ہونے کا کوئی حق ہے نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔میں یہاں اس لئے نہیں آیا کہ اپنے بیڈ روم میں بھی آزادی سے نہ رہ سکوں۔”
”عمر ! جو لوگ تم سے محبت کرتے ہیں وہ……!”
اس نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں نانو کی بات کاٹ دی تھی۔
”جہنم میں جائیں وہ لوگ جو مجھ سے محبت کرتے ہیں، مجھے ضرورت نہیں ہے کسی کی محبت کی……نہ ہی محبت کرنے والے لوگوں کی۔ میں تھک چکا ہوں اور تنگ آچکا ہوں ان لغویات سے۔”
اس کے لہجے میں اتنی بیزاری تھی کہ نانو چپ کی چپ ہی رہ گئی تھیں۔
وہ جھنجھلایا ہوا اپنے کمرے کی جانب جانے لگا تھا، لیکن جاتے جاتے وہ ایک بار پھر رک گیا اور اس نے انگلی اٹھا کر علیزہ سے کہا تھا۔
”آئندہ کبھی ایسی کوئی حرکت میرے ساتھ مت کرنا۔”
اس کے جواب یا رد عمل سے پہلے ہی وہ لاؤنج سے نکل گیا تھا ۔ چند لمحوں بعد علیزہ نے ایک دھماکے کے ساتھ اس کے کمرے کا دروازہ بند ہوتے سناتھا۔ نانو ابھی بھی وہیں کھڑی تھیں اور اب علیزہ کے لئے ان سے نظر ملانی مشکل ہو گئی تھی۔
وہ یک دم اٹھ کر ہی بھاگتی ہوئی لاؤنج سے نکل گئی تھی۔ اس نے اپنے عقب میں نانو کی آواز سنی تھی مگر وہ رکی نہیں تھی۔
وہ ان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔
”وہ مجھ سے اس طرح کیسے بات کر سکتاہے؟”
اسے اب بھی یقین نہیں آ یا تھا کہ یہ سب اس نے عمر سے سنا تھا۔ اس نے صوفہ پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا لیا تھا۔
”عمراتنا ………تلخ کیسے ہو سکتا ہے……اور……اور وہ بھی میرے ساتھ؟”
اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ سوچا تھا۔
”اس نے کبھی مجھے اس طرح نہیں ڈانٹا……کبھی یوں بات نہیں کی پھر اب کیوں؟” اس کے آنسوؤں کی رفتار میں اضافہ ہو گیا تھا۔
”اس طرح سب کے سامنے اس نے ……کیا وہ مجھے اتنا ناپسند کرتا ہے۔”
اس کا دل ڈوبنے لگا…
”مگر میں نے ایسا کیا کیا ہے؟ میں تو… !”
اس نے اپنے کمرے کے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی وہ جانتی تھی نانو اس کے پیچھے آئی ہوں گی اور یک دم اس کے وجود کو شرمندگی نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کی وجہ سے عمر نے نانو کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔ اس نے چہرے سے اپنے ہاتھ نہیں ہٹائے تھے۔
نانو اس کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی تھیں اور انہوں نے بڑی شفقت سے اپنا بازو اس کے گرد پھیلا لیا تھا۔
”تمہیں اس کے کمرے میں اس طرح نہیں جانا چاہئے تھا۔”
اس نے ان کی دھیمی سی آواز سنی تھی۔
”آئی ایم سوری نانو ! میں پریشان تھی اس لئے……میں صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ ٹھیک ہے۔”
اس نے اسی طرح چہرہ ڈھانپے اور سسکیوں میں کہا تھا۔
”میں جانتی ہوں مگر پھر بھی تمہیں اس کے کمرے میں اس طرح نہیں جانا چاہئے تھا وہ اس وقت ذہنی طور پر بہت پریشان ہے اور معمولی سی بات بھی اسے مشتعل کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے تم آئندہ محتاط رہنا۔”
نانو نے اس کی پشت تھپتھپا تے ہوئے کہاتھا۔
”لیکن کیا نانو آپ کو لگتا ہے کہ میں اس کا تماشا……؟”
اسے اور رونا آیا تھا۔
”آخر اس نے اتنی بڑی بات کیوں کہیی
”ہر بار تم دونوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر کچھ نہ کچھ ضرور ہو جاتا ہے۔ اب کیا ہوا؟”
”وہ بالکل بدل گیا ہے شہلا! پہلے جیسا نہیں رہا۔”
اس نے دائیں ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
”وقت ہر چیز کو بدل دیتا ہے ، کوئی بھی چیز ہو یا انسان وہ ایک جیسا نہیں رہ سکتا۔ اس لئے مجھے یہ سن کر حیرت نہیں ہوئی عمر بدل گیا ہے۔”
علیزہ بے بسی سے اپنا نچلا ہونٹ کاٹنے لگی تھی۔
”دو ، چار سال بعد تم اس سے ملو گی تو وہ اور زیادہ بدلا ہوا لگے گا۔It’s but natural۔”شہلا بے حد پر سکون تھی۔
”شہلا! وہ مجھے کبھی بھی اس طرح ٹریٹ نہیں کرتا تھا۔ جس طرح اب ان دو ، چار دنوں میں مجھے یوں لگاجیسے وہ مجھے اپنی کزن نہیں سمجھتا، اس کے لئے میں ویسے ہی ہوں جیسے ، مالی، ڈرائیور، خانساماں۔۔۔۔۔”
”پریکٹیکل بنو علیزہ ! دوسروں سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں؟”
شہلا نے بہت ہی گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
”شہلا وہ میرا دوست تھا کیا دوستوں سے بھی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔”
”تم اسے صرف دوست نہیں سمجھتیں، صرف دوست سمجھتیں تو یہاں بیٹھ کر یہ سب کچھ نہ بتا رہی ہوتیں۔”
علیزہ نے سر جھکا لیاتھا۔
”بہر حال اب کیا ہوا ہے؟”
علیزہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے اسے سب کچھ بتا دیاتھا۔ شہلا بھی اتنی ہی شاکڈ ہوکر ساری بات سنتی رہی۔
”مجھے تو یقین نہیں آتا شہلا! عمر یہ سب کچھ کر سکتا ہے وہ کبھی بھی ایسا نہیں تھا، پھر اب کیوں؟ اب جب وہ سیٹل ہو چکا ہے، تو اتنے بڑے تغیرات کیوں؟”
”تم اس تغیر کی وجہ جاننے میں دلچسپی مت لو۔”
”کیوں؟”
”علیزہ ! تم اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتیں وہ اب جس مدار میں داخل ہو چکا ہے، وہاں کوئی علیزہ نہیں ہے نہ ہی اسے ضرورت ہے۔”
”میں اس کی دوست ہوں۔”
”پتہ نہیں کہ اسے دوستوں کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔”
”دوستوں کی ضرورت ہمیشہ ہوتی ہے۔”
”لیکن ہر ایک کو نہیں۔ عمر کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے وہ عارضی ہے وہ اس فیز سے نکل آئے گا۔ وہ میچور ہے سمجھدار ہے، بہت جلدی اپنی پرابلمز کو حل کر لے گا۔ تمہارے کزن میں یہ ایک خاص خوبی ہے اور ایسے بندوں کو کسی علیزہ کی ضرورت نہیں ہوتی جو ان سے ہمدردی کرے یا ان پر ترس کھائے، اس لئے تم اس کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دو۔” شہلا بہت نرمی سے اسے سمجھاتی رہی۔ وہ اسے کچھ کہنا چاہتی تھی مگر خاموش رہی۔ وہ شہلا کے ساتھ سب کچھ شیئر کرنا نہیں چاہتی تھی۔ بہت دیر تک وہاں بیٹھے رہنے کے بعد شہلا نے کہا تھا۔
”اب چلیں، بہت دیر ہو گئی ہے۔”
علیزہ کچھ کہے بغیر ہی اٹھ کھڑی ہو ئی تھی۔
اس دن گھر آنے پر نانو نے اسے بتایا تھا کہ عمر اسلام آباد چلا گیا ہے۔ اب وہ کچھ دن بعد آئے گا۔ علیزہ نے کسی بھی رد عمل کا اظہار نہیں کیاتھا۔ لنچ کرنے کے بعد وہ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ رہی تھی جب نانو نے اس سے کہاتھا۔
”عمر ہم دونوں کے لئے کچھ چیزیں لایا ہے ، وہ بیگ دے گیا ہے۔ میں نے ابھی کھولانہیں ، سوچ رہی تھی کہ تم یونیورسٹی سے آجاؤ تو کھولوں گی”
علیزہ خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اگر ایک دن پہلے گھر میں وہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا تو شاید اس وقت وہ بڑی بے تابی سے نانوکی بات پر کچھ نہ کچھ کہتی مگر اب اسے کوئی بے تابی نہیں ہوئی تھی۔
”آپ خود بیگ کھول لیں گے۔ مجھے کچھ بھی نہیں چاہئے۔”
اس نے بے دلی سے کہاتھا۔
”علیزہ ! یہاں بیٹھو۔”
”نانو ! پلیز مجھے یونیورسٹی کا کچھ کام کرنا ہے۔”
”علیزہ ! بیٹھ جاؤ۔”
نانو نے اس بار کچھ ڈانٹتے ہوئے کہاتھا۔ وہ کچھ متامل سی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
”تم عمر سے ناراض ہو؟”
انہوں نے بغیر کسی تمہید کے پوچھا۔
”نہیں!”
”تو پھر اس کی لائی ہوئی چیزیں کیوں نہیں لینا چاہتیں۔”
وہ خاموش رہی تھی۔
”میں کچھ پوچھ رہی ہوں؟”
”بس ویسے ہی!”
”بس ویسے ہی سے کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”میرا دل نہیں چاہتا!”
”علیزہ ! میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ عمر آج کل پریشان ہے اس کی کسی بات پر خفا ہونا مناسب نہیں۔ وہ شاید خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے، اور کیا کہہ رہا ہے۔ اگر سمجھنے کے قابل ہوتا تو فارن سروس میں اتنی اچھی پوسٹ چھوڑ کر یوں صرف باپ کی ضد میں پاکستا ن آجاتا۔”
”نانو میں اس کی کسی بھی بات پر ناراض نہیں ہوں۔”
”میں بے وقوف نہیں ہوں، تمہیں کل کی باتیں کیا بری نہیں لگیں؟”
” بری لگی ہوں تو میں کیا کروں۔میں یہاں سے جاتو نہیں سکتی۔”
اس نے سر جھکائے ہوئے افسردگی سے کہا تھا۔
”اس نے جو بھی کہا، اسے بھول جاؤ۔ غصہ میں انسان بہت سی باتیں کہہ دیتا ہے۔”
نانو اسے سمجھانے لگی تھیں۔
”اب دیکھو ،وہ صبح جاتے ہوئے مجھ سے خاص طور پر کہہ کر گیا ہے کہ تمہاری چیزیں تمہیں دے دوں۔”
علیزہ اس بار خاموش رہی تھی۔
نانو اسے لے کر اپنے کمرے میں آگئی تھیں۔انہوں نے عمر کا دیا ہوا بیگ کھولا، اور اس میں موجود چیزیں نکال کر بیڈ پر رکھنا شروع کر دیں۔ اسے پہلی بار عمر کی لائی ہوئی کوئی چیزیں دیکھ کر خوشی نہیں ہو رہی تھی۔ بلکہ اس کی رنجیدگی بڑھتی جارہی تھی۔
”اسے معلوم ہونا چاہئے، مجھے اس کی لائی ہوئی چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”
اس نے سوچاتھا۔ چیزوں کا ڈھیر اٹھانے کے بعد وہ کھڑی ہوئی تھی جب نانو نے اس سے کہا۔
”جب عمر واپس آئے تو تم ان چیزوں کے لئے اس کا شکریہ ادا کرنا۔”
وہ ان کی ہدایات سن کر خاموشی سے کمرے سے نکل آئی۔
اپنے کمرے میں آکر پہلی بار اس نے عمر کی دی ہوئی چیزوں کو بار بار دیکھنے کی بجائے ایک شاپر میں ڈال کر وارڈ روب کے ایک کو نے میں رکھ دیا تھا۔
سال میں دو ، تین بار جب اس کی ممی اور پاپا اس کے لئے چیزیں بھجوایا کرتے تھے تووہ انہیں بھی اسی طرح دیکھے بغیر وارڈروب میں رکھ دیا کرتی تھی، اور پھر انہیں صرف اسی وقت دیکھا کرتی تھی کہ جب اسے کسی کو کوئی گفٹ دینا ہوتا وہ انہیں چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ نکال کر گفٹ کردیتی یا پھر خود اسے اپنے استعمال کے لئے کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو وہ ان شاپرز کی طرف متوجہ ہو جاتی ۔
مگر عمر جب بھی اس کے لئے کچھ لاتا یا بھیجتا تھا تو وہ کبھی بھی ان چیزوں کو وارڈروب میں نہیں رکھتی تھی۔ وہ انہیں کمرے میں اپنے سامنے رکھتی تھی یا پھر فوری طور پر انہیں اپنے استعمال میں لے آتی تھی۔
عمر چار دن کے بعد لوٹا تھا، اور ایک بار پھر اس کے چہرے پر وہی سکون اور اطمینا ن تھا جو انکل جہانگیر کے آنے سے پہلے اس کے چہرے پر تھا۔
رات کو کھانے پر وہ نانو کو ااسلام آباد میں اپنی مصروفیات کے بارے میں بتا رہاتھا۔
”چند ہفتوں تک ٹریننگ کے لئے سہالہ جانا پڑے گا۔ مجھے پھر پوسٹنگ ہو جائے گی۔” وہ نانو کو کہہ رہا تھا۔ ولید کے ڈیڈی سے میری بات ہوئی ہے وہ کہہ رہے تھے کہ اچھی پوسٹنگ دلوا دیں گے۔”
وہ اپنے ایک دوست کا نام لے رہا تھا۔
”تم خوش ہو نا؟”
نانو نے اس سے پوچھا۔
”خوشی ؟پتا نہیں…مگر ہاں مطمئن ہوں۔”
اس کے چہرے پر اب عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”اور وہ اس لئے کہ آپ کے بیٹے نے میری راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔”
” اچھا ! تم یہ سوپ تو تھوڑا اور لو، یہ میں نے صرف تمہارے لئے ہی بنوایا ہے۔”
نانو نے کمال مہارت سے بات بدل دی۔
”میں پہلے ہی کافی لے چکا ہوں۔”
اس نے مسکرا تے ہوئے منع کیا ۔
علیزہ خاموشی سے کھانا کھاتے ہوئے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتی رہی۔نانو مسلسل اس کے ساتھ گفتگو میں مصروف رہی تھیں۔ علیزہ بہت جلد کھانے سے فارغ ہو گئی جب وہ ، ایکسکیوز می کہہ کر کھڑی ہوئی تو نانو پہلی بار متوجہ ہوئی تھیں۔
”تم نے کھانا کھا لیا؟”
”جی!”
جواب انتہائی مختصر تھا۔
”تو بیٹھو نا علیزہ ! کافی پیتے ہیں اکھٹے۔”
”نہیں نانو مجھے کچھ کام ہے۔” اس نے کہا تھا۔
“بھئی عمر ! علیزہ کو تمہارے گفٹ بہت پسند آئے۔ بہت تعریف کررہی تھی۔”
نانو اس بار عمر سے مخاطب تھیں۔ علیزہ نے عمر کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
”نانو ! پھر میں جاؤں؟”
اس سے پہلے کہ عمر جواباً کچھ کہتا علیزہ نے نانو سے کہاتھا ۔ نانو نے اسے کچھ خفگی سے دیکھا انہیں شاید علیزہ سے اس طرح کے رد عمل کی توقع نہیں تھی۔
”ٹھیک ہے جاؤ!”
”تھینک یو!”
وہ ڈائننگ روم سے باہر نکل آئی۔
اگلے چند دن بھی اس کے اور عمر کے درمیان کوئی بھی بات نہیں ہوئی تھی ۔ وہ صبح جس وقت یونیورسٹی جاتی تھی اس وقت وہ سو رہا ہوتا اور جب وہ واپس آتی تو گھر میں موجود نہیں ہوتا تھا۔شام کو وہ گھر آیا کرتا تھا، اور اس وقت وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوتی تھی۔ رات کے کھانے پر ان کا سامنا ہوتا تھا، اور اس کے بعد عمر واک پر نکل جایا کرتا تھا۔ اورعلیزہ ایک بار پھر اپنے کمرے میں آکر پڑھائی میں مصروف ہو جاتی تھی۔
اس نے اس واقعہ کے بعد کبھی بھی عمر کے کمرے میں جانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اب ملازم ہی اس کے کمرے کو صاف کیا کرتا تھا، اور وہی سارے پیغام لے کر اس کے کمرے میں جایا کرتا تھا۔ عمر سے گھر میں جب بھی اور جہاں بھی اس کا سامنا ہو تا وہ کترا کر گزر جاتی خود اس نے بھی بات کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔
اس دن سہ پہر کا وقت تھا۔ نانو کسی کام سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ خانساماں بھی اپنے کوارٹرمیں تھا۔ وہ کافی بنانے کے لئے کچن میں آئی تھی جب اس نے لاؤنج میں فون کی گھنٹی سنی۔ وہ لاؤنج میں چلی آئی فون عمر کے کسی دوست کا تھا۔
”ہاں ! وہ گھر پر ہیں ، آپ ان کے موبائل پر کال کر لیں۔”
اس نے فون سننے پر کہا تھا۔
”میں نے موبائل پر کال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن موبائل آف ہے۔ آپ یا تو ان سے بات کروا دیں۔ یا پھر انہیں کہیں کہ موبائل آن کریں۔”
دوسری طرف سے کہا گیا تھا۔
”اچھا آپ ہولڈ کریں میں ان کو بلوا دیتی ہوں۔”
اس نے کچھ سوچنے کے بعد کہاتھا۔
ریسیور رکھنے کے بعد وہ سوچتی رہی کہ عمر تک پیغام کیسے پہنچائے۔ صرف پیغام اس تک پہنچانے کے لئے وہ کوارٹر سے ملازم کو بلواتی تو یہ بات نہ صرف ملازم کے لئے عجیب ہوتی بلکہ اس وقت تک بہت دیر ہو جاتی۔
چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے خود ہی پیغام دینے کا سوچا۔ عمر کے بیڈ روم کے دروازے پر پہلی دستک دیتے ہی اندر سے آواز آئی تھی۔
”یس کم ان۔”
”آپ کی کال ہے۔”
اس نے بلند آواز میں کہا تھا۔
”علیزہ ! اندر آجاؤ۔”
اندر سے کہا گیا تھا۔
”آپ کے کسی دوست کا فون ہے۔”
اس نے اس کی بات کے جواب میں ایک بار پھر اپنا جملہ دہرایاتھا۔
”میں آرہا ہوں۔”
اس بار چند لمحوں کے وقفہ کے بعد اس نے کہا تھا۔
وہ واپس کچن میں آکر کافی میکر میں پانی ڈالنے لگی۔ چند لمحوں بعد اسے لاؤنج میں عمر کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ فون پر باتیں کر رہا تھا۔ علیزہ اپنے کام میں مصروف رہی۔ وہ اس وقت فریج سے کریم نکال رہی تھی جب اس نے عمر کی آواز سنی تھی۔
”میں نے تم کو کمرے میں آنے سے منع نہیں کیا ۔”
اس نے مڑ کر دیکھا، وہ کچن کے دروازے میں کھڑا تھا۔
”آپ جب چاہیں میرے کمرے میں آسکتی ہیں۔”
وہ مڑکر دوبارہ کریم کا پیکٹ نکالنے لگی۔
”اس دن اعتراض مجھے صرف تمہارے آنے کے طریقے پر ہوا تھا۔ کیونکہ میرا خیال ہے کہ وہ زیادہ مناسب نہیں تھا۔”
وہ ایک بار پھر کہہ رہا تھا۔ علیزہ کریم کو پیالے میں نکالنے لگی۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا، وہ اس کے وہاں کھڑے ہونے سے الجھ گئی ۔
”میں اتنا برا بھی نہیں ہوں کہ آپ میری بات کا جواب دینا بھی پسند نہ کریں۔”
وہ کچھ کہے بغیر ہی کریم کو پھینٹنے لگی۔ عمر اسے کبھی بھی آپ کہہ کر مخاطب نہیں کرتا تھا۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی اس وقت وہ اسے آپ کہہ کر کیوں مخاطب کر رہا ہے۔
”ٹھیک ہے جواب مت دیں کافی کا ایک مگ تو دے سکتی ہیں؟”
اس کی اگلی فرمائش نے علیزہ کو کچھ اور حیران کیا تھا۔
وہ اب آگے بڑھ کر کچن میں موجود ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ علیزہ کچھ دیر شش و پنج میں گرفتار رہی پھر اپنی سابقہ خاموشی کو برقرار رکھتے ہوئے اس نے ایک کی بجائے کافی کے دو مگ تیار کرنے شروع کر دیے۔
کافی تیار کرنے کے بعد اس نے دونوں مگ اٹھائے اور ایک مگ عمر کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ دوسرا مگ لے کر وہ کچن کے دروازے کی طرف بڑھنے لگی تو اسے عمر کی آواز سنائی دی۔
”آپ کافی میرے ساتھ بیٹھ کر پئیں۔”
”مجھے کچھ کام کرنا ہے۔”
اس نے جواباً کہا تھا۔
”میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ کافی پینے میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگیں گے۔”
اس نے ایک بار پھر کہا ۔
”نہیں۔ مجھے یونیورسٹی کابہت سا کام کرنا ہے۔”
اس نے سر جھکائے ہوئے ایک بار پھر انکار کر دیا۔ عمر اس بار پھر اصرار کرنے کے بجائے تیزی سے اٹھ کر کچن سے نکل گیا۔ علیزہ ہکا بکا اسے جاتا دیکھتی رہی۔ اسے عمر سے اس قسم کے رد عمل کی توقع نہیں تھی۔
کافی کا مگ اب بھی ویسے ہی میز پر پڑا ہوا تھا، اور اس میں سے نکلنے والا دھواں دیکھ کر علیزہ کو افسوس ہو رہا تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پارہی تھی کہ عمر ناراض ہو گیا ہے یا ویسے ہی اٹھ کر چلا گیا ہے۔
دو دن کے بعد چھٹی کا دن تھا، اور علیزہ دس ، گیارہ بجے کے قریب لان میں اپنی ایک پینٹنگ مکمل کرنے میں مصروف تھی۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، اور ٹھنڈی ہوا چلنے کی وجہ سے خاصی خنکی تھی۔ مگر وہ جان بوجھ کر لینڈ اسکیپ مکمل کرنے کے لئے باہر آگئی تھی۔
پیلٹ کو ہاتھ میں تھامے ہوئے وہ برش کے ساتھ کینوس پر اسٹروکس لگا تی رہی۔ سورج کی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے اسے شیڈز دینے میں بہت غور و خوض کرنا پڑ رہا تھا۔ شاید وہ ابھی کچھ اور دیر اسی انہماک سے اپنے کام میں مصروف رہتی۔ مگر کینوس پر پڑنے والے بارش کے ایک قطرے نے اسے چونکا دیاتھا۔ اس نے بجلی کی سی تیزی سے کینوس کو ایزل سے اتار لیا۔ پیچھے مڑتے ہی اس کی نظر عمر پر پڑی تھی۔ وہ لان کے بالکل ہی سامنے شیڈ کے نیچے برآمدے کی سیڑھیوں پر اس جگہ بیٹھا ہوا تھا۔ جہاں اس نے اپنے برش اور پینٹ باکس رکھے ہوئے تھے۔ وہ ایک لمحہ کے لئے ٹھٹھکی پتا نہیں وہ کب سے وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ علیزہ کو اس کی آمد کا پتا نہیں چلا تھا۔ پھر اس نے کینوس کواپنے کلرز کے پاس جاکر رکھ دیا۔ واپس لان میں آکر اس نے اپنا ایزل اٹھایا اور اسے بھی وہیں لے آئی۔ عمر اب اس کی پینٹنگ دونوں ہاتھوں میں تھامے دیکھ رہاتھا۔ علیزہ خاموشی سے اس کے قریب آکر اپنی چیزیں سمیٹنے لگی تھی۔
”علیزہ ! تمہیں اب مجھے معاف کر دینا چاہئے ۔”
وہ پینٹ باکس اور برش اٹھاکر کھڑی ہو رہی تھی۔ جب عمر نے نظریں اٹھا کر اس سے کہا۔ وہ اس کے اس جملے پر حیران رہ گئی تھی۔
”میں آپ سے ناراض نہیں ہوں تو پھر معافی کس بات کی؟”
عمر نے کچھ کہنے کے بجائے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔
”میری بکواس پر غصہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔”
”آپ ناراض تھے مجھ سے ، میں تو ناراض نہیں تھی۔”
عمر کا رد عمل اس کے لئے بے حد حیران کن تھا۔ وہ یک دم کھلکھلا کرہنسنے لگا تھا۔ چند لمحے ہنسنے کے بعد اس نے کہا۔
”میں تم سے ناراض نہیں ہو سکتا علیزہ؟ تم سے؟”
”مگر آپ تھے!”
اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں تم سے ناراض نہیں تھا۔ ناراض ہونے کے لئے شکایت کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور مجھے تم سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہو سکتی۔”
اس نے سر اٹھا کر بے یقینی سے عمر جہانگیر کو دیکھاتھا۔
”دنیا میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جس کی کوئی بات آپ کو بری نہیں لگتی جس پر کبھی آپ کو غصہ نہیں آتا۔ جس سے کبھی آپ ناراض نہیں ہوتے۔ ناراض ہونا چاہیں تو بھی نہیں ہو سکتے۔ میرے لئے وہ کوئی نہ کوئی تم ہو۔”
”عمر کو کیا ہو گیا ہے؟”
علیزہ نے سوچاتھا۔
”یہ کیا کہہ رہا ہے؟”
اس کی بے یقینی میں کمی نہیں آئی تھی۔
”آفٹر آل آپ یہ تو ضرور چاہتے ہیں کہ آپ کے مرنے پر کوئی ایسا شخص آپ کے لئے روئے جسے آپ نے ساری زندگی رونے نہ دیا ہو۔”
”میں جانتا ہوں علیزہ ! میرے مرنے پرمیرے لئے رونے والی صرف تم ہو گی۔”
وہ ہونق بنی اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اب مسکرا رہا تھا۔
”آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟”
اس نے یکدم خوفزدہ ہو کر کہا عمر بے ساختہ قہقہہ مارکر ہنسا۔
”کچھ نہیں……میں کچھ بھی کرنا نہیں چاہتا۔”
”پھر آپ اس طرح کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟”
”کیسی باتیں؟”
”یہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں!”
”میں کیا کہہ رہا ہوں!”
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا کہے وہ جانتے بوجھتے ہوئے۔۔۔۔!
”موت اور زندگی کے علاوہ بھی تو بہت سی حقیقتیں ہیں ۔”
”مثلاً!”
”جیسے یہ کہ انسان کو اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں ختم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔”
اس نے کچھ ڈرتے ہوئے کہا۔
”اور؟”
”اور یہ کہ انسان کو ہر حال میں خوش رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔”
”اور!”
”اور یہ کہ زندگی میں آنے والے پرابلمز کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔”
”بس!”
علیزہ کچھ شرمندہ ہو گئی تھی۔ اس کا خیال تھا وہ اس کی بات کے جواب میں اپنے رویے کی وضاحت کرے گا۔ اپنے اس اقدام کو صحیح ثابت کرے گا مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔
”یہ پینٹنگ تم مجھے دے دو!”
اس کی ساری باتوں کے جواب میں اس نے دونوں ہاتھوں میں پینٹنگ اٹھا کر دیکھتے ہوئے کہا۔
”آپ اس کا کیا کریں گے؟”
علیزہ نے بات کا موضوع بدل جانے پرکچھ مایوسی سے کہا۔
”میں اسے اپنے بیڈ روم میں لگاؤں گایا پھر اپنے آفس میں!”
”یہ ابھی مکمل نہیں ہوئی ۔”
”مجھے تویہ مکمل لگ رہی ہے!”
”نہیں ،کچھ سٹروکس رہتے ہیں اور پانی کے اس قطرے کی وجہ سے یہاں کلر بھی خراب ہو گیا ہے۔ اسے بھی ٹھیک کرنا ہوگا۔”
علیزہ نے ہاتھ سے تصویر کی مختلف جگہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں مجھے یہ اسی طرح چاہئے۔ کسی مزید تبدیلی کے بغیر ۔”
”مگر بارش کے اس قطرے والی جگہ کو تو مجھے ٹھیک کرنا پڑے گا۔”
”تم بارش کے اس قطرے والی جگہ کو ٹھیک کرنے کے بجائے یہاں اپنا نام لکھ دو۔”
”مگر۔۔۔۔”
” اگر مگر کچھ نہیں بس تم برش لو اور یہاں اپنا نام لکھ دو۔”
علیزہ نے کچھ حیرا نی سے اسے دیکھا اور پھر برش نکال کر سفید کلر سے تصویر کے درمیان میں بارش کے اس قطرے کی وجہ سے پھیلے ہوئے رنگوں میں کچھ بے دلی سے اپنا نام لکھ دیا۔ وہ بڑی دلچسپی سے سارا عمل دیکھتا رہا اور جب اس نے اپنا نام لکھ دیا تو اس کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”ہاں… ٹھیک ہے اب یہ مکمل ہو گئی ہے۔”
اس نے علیزہ کے ہاتھ سے پینٹنگ لیتے ہوئے ،مطمئن لہجہ میں کہا تھا۔
علیزہ کی مایوسی میں کچھ اور ہی اضافہ ہو گیا۔ عمر جہانگیر perfectionist(کاملیت پسند)تھا اور اب وہ ایک نامکمل تصویر کے درمیان موجود دھبے اور اس پر لکھے نام کو سراہ رہا تھا۔
”میرا کمرہ تمہیں بہت مس کرتا ہے۔”
اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
”اسے ایک پری کی عادت ہو گئی ہے میرے جیسا جن اس کو پسند نہیں آرہا ہے۔”
وہ بڑی سنجیدگی سے علیزہ کو بتا رہا تھا۔ علیزہ کا چہرہ چند لمحوں کے لئے سرخ ہوا پھر وہ یک دم کھکھلا کر ہنس پڑی
باب: 16
نانو نے خفگی سے عمر کو دیکھا تھا۔ ”اس طرح چلانے کی کیا ضرورت ہے؟”
”گرینی ! بات ہی ایسی کی ہے آپ نے۔”
”کیوں ! ایسی کیا بات کی ہے میں نے؟ کیا لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہوتی؟”
”ہوتی ہیں گرینی ؟ مگر اس طرح اس عمر میں؟”
وہ اب بھی حیران تھا۔
”ہاں! اسی عمر میں، تم جانتے ہو ہماری فیملی میں لڑکیوں کی شادیاں بہت جلدی کر دی جاتی ہے۔”
”ہاں ! پہلی شادی اسی عمر میں کر دی جاتی ہے۔”
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”میرا مطلب بہت صاف ہے گرینی اور آپ جانتی ہیں کہ میں کیا کہہ رہاہوں۔ آپ خود شاہد ہیں کہ ہماری فیملی میں لڑکیوں کی کم عمری میں کی جانے والی شادیوں میں سے گنتی کی شادیاں کامیاب رہتی ہیں۔”
”عمر تم۔۔۔”
عمر نے ان کی بات کاٹی تھی۔
”گرینی ! پلیز میری بات سنیں۔ آپ نے ثمینہ پھوپھو کی شادی بھی بہت کم عمری میں کر دی تھی۔ نتیجہ کیا نکلا، اور اگر آپ علیزہ کی شادی ابھی کر دیں گی تو اس پر بہت ظلم کریں گی۔”
نانو نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھاتھا۔
”تم ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے کہ مجھے ان باتوں کے بارے میں سمجھانے لگو۔”
”میں آپ کو سمجھا نہیں رہا ہوں میں تو آپ کو صرف بتا رہا ہوں، کہ آپ ٹھیک نہیں کر رہی ہیں شادی علیزہ کے پرابلمز کا حل نہیں ہے۔”
”عمر !تم ابھی چھوٹے ہو اور اتنے میچور بھی نہیں ہو کہ ان باتوں کو سمجھ سکو۔”
نانو نے بڑی متانت سے اس کو کہا تھا۔
”گرینی ! ان باتوں کو سمجھنے کے لئے میچورٹی کی ضرورت ہے اور نہ ہی عمر کی جس واحد چیز کی ضرورت ہے وہ کامن سینس ہے اور میرا خیال ہے۔ یہ چیز میرے پاس ہے۔”
نانو کچھ دیر تو اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں بول سکی تھیں۔ وہ صرف خاموشی سے دیکھتی رہیں۔
”علیزہ کے ساتھ یہ نہ کریں وہ بالکل بچی ہے۔”
عمر نے دھیمے لہجے میں نانو سے کہا تھا۔
وہ بچی نہیں ہے سترہ سال کی ہو چکی ہے۔”
نانونے مستحکم آواز میں کہاتھا۔
”سو واٹ گرینی سترہ سال پر آپ اس کی زندگی ختم کر رہے ہیں۔ میں اپنی فیملی کو سمجھ نہیں سکا بعض چیزوں میں اتنے براڈ مائنڈڈ بعض میں اتنے اڑیل، اتنے کنزرویٹو ، اتنے نیرومائنڈڈ اتنے Paradoxتو نہیں ہونے چاہئیں آپ کی زندگی میں۔” وہ جیسے پھٹ پڑا تھا۔
گرینی نے بڑے پرسکون انداز میں اس کی بات سنی۔
”عمر ! تم خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہو۔ میں نے جس شخص کو اس کے لئے منتخب کیا ہے وہ اسے بہت خوش رکھے گا۔”
”کس شخص کا انتخاب کیا ہے آپ نے اس کے لئے؟”
اس نے کچھ متجسس ہو کر پوچھا تھا۔
”اسامہ کا، حسینہ نے دو سال پہلے مجھ سے علیزہ کے بارے میں کہا تھا ، ابھی دوبارہ پوچھا ہے اس نے۔” نانو نے بڑے اطمینان سے بتایا تھا۔ عمر طنزیہ انداز میں مسکرانے لگا تھا۔
”ساری دنیا میں آپ کو علیزہ کے لئے اسامہ ہی ملا ہے۔”
نانو نے اسے خفگی سے دیکھا مگر عمر نے اپنی بات جاری رکھی تھی۔
”اور آپ کو یہ خوش فہمی بھی ہے کہ اسامہ علیزہ کو بہت خوش رکھے گا۔”
”کیوں اب کیا تکلیف ہو گئی ہے تمہیں؟”
نانو نے اس بار کچھ جل کر کہاتھا۔
”اسامہ علیزہ کو کیا کسی لڑکی کو خوش نہیں رکھ سکتا بیوی کے روپ میں۔ ہاں اگر بیوی کا رشتہ نہ ہو تو اسامہ علیزہ کو کیا ہر لڑکی کو خوش رکھ سکتا ہے۔”
”فضول بکواس مت کرو۔”
”یہ فضول بکواس نہیں ، یہ سچ ہے!”
”تمہاری تو اسامہ کے ساتھ بہت دوستی ہے۔”
”دوستی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں اس کے بارے میں سچ نہ بولوں۔”
وہ تابڑ توڑ جواب دے رہا تھا۔
”اسامہ ایک گرومڈ ،نائس لڑکا ہے۔”
”گرومڈ ، نائس اور کلچرڈ ہونے کا مطلب نہیں ہے کہ وہ ایک اچھا شوہر بھی ثابت ہو۔”
”وہ ایک دو بار علیزہ سے ملا ہے۔ اسے وہ اچھی لگی ہے اور اس نے خود ہی ماں سے علیزہ کے لئے کہا ہے۔”
”گرینی ! اسے ہر لڑکی اچھی لگتی ہے۔”
”بکو مت!” نانو نے اسے جھڑکا تھا۔.
”اس میں بکنے والی کونسی بات ہے۔ میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں آپ اس کو مجھ سے اچھی طرح تو نہیں جان سکتیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ وہ کیلی فورنیا یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھتا رہا ہے۔ وہ مجھ سے سینئر تھا۔ مگر کلاسز کے علاوہ اس کا سارا وقت میرے ساتھ گزرتا تھا۔ اسامہ اور علیزہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اس شخص کا ٹمپرا منٹ اور ہی طرح کا ہے۔ آپ میری بات لکھ لیں کہ یہ دونوں چار دن بھی ساتھ نہیں رہ سکتے۔ وہ علیزہ جیسی لڑکی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا۔ وہ تو ویسے بھی بہت بڑا فلرٹ ہے۔”
عمر نے سنجیدگی سے گرینی کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”شادی سے پہلے لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں۔”
اور گرینی نے اس کی بات کے جواب میں کہاتھا۔
”یہ لڑکا شادی کے بعد بھی ایسے ہی رہے گا۔ آپ میری بات یاد رکھئے گا۔”
”تم جانتے ہو، وہ کتنی اچھی پوسٹ پر کام کر رہا ہے۔ اس میں کچھ نہ کچھ گٹس توہوں گے کہ۔۔۔”
عمر نے ایک بار پھر سنجیدگی سے نانو کی بات کاٹ دی تھی۔
”جانتا ہوں کہ اس نے سی ایس ایس میں ٹاپ کیا تھا۔ جانتا ہوں کہ اس نے فل برائٹ سکالرشپ لیا ہے۔ جانتا ہوں اس نے اپنے کامن میں بھی بڑی شیلڈز لی تھیں۔ یہ بھی پتا ہے کہ وہ اس وقت اپنے کامن میں سب سے اچھی پوسٹ پر ہے، اور آگے بھی وہ بہت ترقی کرے گا۔ مگر ان سب باتوں سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ایک اچھا شوہر بن سکتا ہے۔زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ وہ ایک اچھا بیوروکریٹ ہے۔ مگر اچھا شوہر ثابت ہونے کے لئے اچھا انسان ہونا ضروری ہے اورمجھے بڑے افسوس سے آپ کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ اسامہ اچھا انسان تو ایک طرف اس میں انسانیت نام کی کوئی چیز سرے سے موجود نہیں ہے۔”
”عمر! تم خواہ مخواہ پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ گئے ہو، جو حرکتیں وہ کرتا رہا ہے ، وہ سارے لڑکے کرتے ہیں تم بھی تو کوئیsaint نہیں ہو۔”
”میں نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں کوئی ولی ہوں، مگر آپ علیزہ کے ساتھ میری Match Making نہیں کروا رہی ہیں اس لئے مجھے تو آپ اس بحث سے ویسے ہی نکال دیں۔ بات اس وقت اسامہ کی ہو رہی ہے، لڑکے بے شک نوجوانی میں بہت سی حرکتیں کرتے ہیں، مگر حرکتوں میں بھی فرق ہوتا ہے اور لڑکوں میں بھی۔”
نانو پر اس کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ ”شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے گا۔”
”ٹھیک ہو گا مگر کتنے دن کے لئے، زیادہ سے زیادہ دو یا چار ہفتے کے لئے اس کے بعد آپ کیا کریں گی؟”
وہ اب بھی سنجیدہ تھا۔
”اسامہ کو اگر یہ پتا چل جائے کہ تم اس کے خلاف بول رہے ہو تو وہ تمہارے ہوش ٹھکانے لگا دے گا۔”
نانو نے اسے دھمکایا تھا ۔وہ بالکل بھی متاثر نہیں ہواتھا۔
”گرینی ! آپ گھر کے اندر رہنے والی عورت ہیں اس لئے آپ باہر کی دنیا کو نہیں جانتیں۔ باہر کی دنیا میں مرد جو کچھ کرتا ہے اس کا اثر گھر کے اندر کی زندگی پرہوتا ہے، اور علیزہ اور اسامہ کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ اسامہ کسی بھی رشتہ کو سنجیدگی سے نہیں لیتا اس کے لئے زندگی صرف ایک انجوائے منٹ ہے۔ علیزہ بہت حساس ہے وہ اس کے ساتھ نہیں چل سکتی، آپ جانتی ہیں، اسامہ علیزہ سے گیارہ سال بڑا ہے؟”
اس نے کچھ تیکھے انداز میں نانو سے پوچھا تھا۔
”عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، بلکہ زیادہ عمر والا مرد اچھے طریقے سے بیوی کو رکھ سکتا ہے۔”
”اور وہ اس صورت میں ہوتا ہے اگر مرد کی عمر اٹھائیس کے بجائے اٹھاون سال ہو اور بیوی کی عمر سترہ کے بجائے ستائیس سال ہو اور شوہر اسامہ اور بیوی علیزہ نہ ہو۔”
”تمہارا خیال ہے،کہ میں سوچے سمجھے بغیر ہی علیزہ کی شادی کر نا چاہ رہی ہوں؟”
نانو نے خفگی سے اس سے پوچھا تھا۔
”گرینی ! اگر آپ واقعی سوچ سمجھ کر یہ سب کچھ کر رہی ہوتیں تو جو کچھ میں نے آپ کو بتایا ہے آپ نے اس پر غور ضرور کیا ہوتا۔ کیا آپ نے ثمینہ پھوپھو سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ آپ علیزہ کی شادی کرنا چاہتی ہیں؟”
عمر نے نانو سے پوچھا تھا۔
”عمر ! مجھے علیزہ کی شادی کی جتنی جلدی ہے اس کے باپ کو اس سے بھی زیادہ جلدی ہے، اس لئے پہلے تو تم یہ بات ذہن میں رکھو کہ علیزہ کی شادی میں مجھ سے زیادہ اس کا باپ انٹرسٹڈ ہے۔ جہاں تک ثمینہ سے بات کرنے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے میں نے اس سے بات کی ہے تب ہی یہ سب کچھ کہہ رہی ہوں وہ دونوں چاہتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو جلد از جلد پو را کر دیں۔”
”ذمہ داری پوری کرنا ایک بات ہوتی ہے اور ذمہ داری سے جان چھڑا نا دوسری بات۔جو کچھ ثمینہ پھوپھو اور ان کے سابقہ شوہر کرنا چاہتے ہیں وہ ذمہ داری سے جان چھڑانا کہلاتا ہے۔”
”عمر ! تم خوامخواہ دوسروں کے معاملے میں دخل اندازی کیوں کر رہے ہو؟”
”میں اس لئے دخل اندازی کر رہا ہوں کیونکہ مجھے علیزہ سے ہمدردی ہے۔ گرینی ! اس نے زندگی کو نہیں دیکھا ہے زندگی کے بارے میں سرے سے اس کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ اس کا کینوس بہت ہی محدود ہے۔ اس کے لئے زندگی ایک ٹرائی اینگل ہے۔ ثمینہ پھوپھو، اس کے پاپا، اور یہ گھر …باہر کی دنیا کیا ہے یہ جاننے کا آپ نے اسے موقع ہی نہیں دیا اور نہ ہی آپ دینا چاہتے ہیں اپ اسے ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے میں ٹرانسفر کر دینا چاہتے ہیں۔ میرا نہیں خیال ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے حوالے سے کوئی بھی خواب دیکھے ہوں گے اس کے خوابوں میں بھی ثمینہ پھوپھو اس کے پاپا اور آپ لوگ ہی ہوں گے۔ اسامہ بہت چالاک ہے۔ وہ گزارہ نہیں کر سکتاعلیزہ کے ساتھ۔”
”اچھا ٹھیک ہے اسامہ مناسب نہیں ہے اس کے ساتھ تو ایک دو اور پرپوزل بھی ہیں اس کے لئے میں ان میں سے کسی کو دیکھ لوں گی۔”
”یعنی آپ کو شادی ضرور کرنی ہے اس کی؟”
وہ کچھ جھنجھلا یا تھا۔ ”شادی نہ کروں تو پھر کیا کروں۔”
نانو نے اس سے تیکھے انداز میں پوچھاتھا۔
”اے پڑھنے دیں۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے دیں بلکہ ہو سکے تو باہر بھیج دیں۔ دنیا کو دیکھنے دیں، لوگوں کو سمجھنے دیں ذہنی طور پرکچھ میچور ہونے دیں۔ پھر اس کی شادی کریں تاکہ جس کے ساتھ بھی اس کی شادی ہو وہ وہاں ایڈ جسٹ ہو سکے۔ اپنی اور دوسروں کی زندگی خراب نہ کرے۔”
”اور اس کے باپ سے کیا کہوں؟”
”سمجھائیں انہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں آخر کیا تکلیف ہے ، علیزہ ان کے پاس نہیں رہتی۔ انہیں تو کچھ کرنا نہیں پڑتا تو پھر انہیں اس کی شادی میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟”
”وہ اس کا باپ ہے ، اور علیزہ اس کے ساتھ ہو یا نہ ہو بہرحال وہ اس کے بارے میں سوچتا ہو گا۔ جب تم باپ بنو گے اور بیٹی کے باپ تو پھر تمہیں ان چیزوں کا احساس ہو گا۔”
”اول تو میں شادی نہیں کروں گا اور اگر کی بھی تو کم از کم اس طرح کا باپ نہیں بنوں گا۔ میں اپنی بیٹی کو اتنی آزادی تو ضرور دوں گا کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارے، اور کم از کم میں سترہ سال کی عمر میں اس کی شادی کرنے کے بارے میں نہیں سوچوں گا۔”
اس نے کچھ جتانے والے انداز میں گرینی سے کہاتھا۔
”آپ ثمینہ پھوپھو سے بات کریں، کہ ابھی علیزہ شادی کے قابل نہیں ہے۔ اسے اپنی زندگی کو سمجھنے کے لئے ابھی چند سال دیں۔”
”عمر ! تم سمجھتے …۔۔۔” عمر نے ان کی بات کاٹی دی تھی۔
”گرینی ! اس میں ہرج کیا ہے۔ اگر اب شادی کرنے کی بجائے چند سال بعد اس کی شادی کر دی جائے، کیاآپ نے علیزہ سے پوچھا ہے اس کی شادی کے بارے میں؟”
ایک خیال آنے پر اس نے گرینی سے پوچھا۔
”علیزہ سے بھی پوچھ لوں گی، جب شادی طے ہو جائے گی۔ تو اس سے بھی پوچھ لوں گی ابھی تو بات چیت چل رہی ہے۔” عمر نے حیرانی سے گرینی کو دیکھا ۔
”یعنی آپ علیزہ سے پوچھے بغیر اس کی شادی طے کر رہی ہیں۔ گرینی! آپ کو کیا ہوگیا ہے؟”
”کیوں کیا ہوگیا ہے مجھے؟”
”جس لڑکی کی آپ زندگی کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ اس سے پوچھنے تک کی زحمت نہیں کی آپ نے اگر اسے اعتراض ہوا تو پھر آپ کیا کریں گی؟”
”علیزہ اعتراض نہیں کرے گی۔ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔”
”پھر بھی گرینی! اس کا حق ہے کہ اس کی شادی کے بارے میں اس سے پوچھا جائے۔ ابھی آپ جلد از جلد اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتی ہیں مگر ایک دو سال کے بعد وہ پھر ڈائی وورس لے کر آپ کے پاس موجود ہوگی شاید اپنی ہی جیسی کوئی اور بچی لے کر پھر آپ کیا کریں گی؟” عمر نے تلخی سے کہا تھا....
”اتنی ہولناک تصویر پیش مت کرو میرے سامنے اسامہ آخری چوائس تو نہیں ہے اس کے بجائے کسی اور پر غور کیا جاسکتا ہے۔”
”چند سال بعد شادی نہیں کرسکتیں اس کی؟” عمر نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔
”کر سکتی ہوں اگر۔۔۔” نانو کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔
”اگر؟” عمر نے چونک کر پوچھا تھا۔
”کیا تم شادی کرو گے اس سے؟” وہ ان کے اس سوال پر ساکت رہ گیا تھا۔
چند لمحے وہ کچھ کہے بغیر نانو کا چہرہ دیکھتا رہا جو بہت پرسکون اور سنجیدہ نظر آرہی تھیں۔ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کیا وہ مذاق تھا یا… مگر وہ کوئی اندازہ نہیں لگاپایا۔ پھر ایک گہری سانس لے کر اس نے ہلکی آواز میں نانو سے کہا۔
”مجھ میں اور اسامہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔”
”کیا مطلب؟”
”گرینی! میں نے آپ کو جو کچھ اسامہ کے بارے میں بتایا ہے وہی سب آپ میرے بارے میں بھی سچ مان لیں۔”
”عمر! میں تمہاری بات سمجھ نہیں رہی۔”
”میں بھی اسامہ سے بہتر نہیں ہوں جو برائیاں اس میں ہیں، وہی مجھ میں بھی ہیں۔ میں بھی علیزہ کو خوش نہیں رکھ سکتا۔” اس کی سنجیدگی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا تھا۔
نہ تم علیزہ کو خوش رکھ سکتے ہو نہ اسامہ رکھ سکتا ہے۔ کسی تیسرے کا نام لوں گی تو تم اس میں بھی سو برائیاں گنوا دو گے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ علیزہ کی شادی سرے سے کی ہی نہ جائے۔” نانو کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”گرینی میں۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن نانو نے کچھ تیز اور خشک لہجے میں اس کی بات کاٹ دی۔
”تم علیزہ کو خوش رکھ سکتے ہو لیکن تم اس سے شادی کرنا نہیں چاہتے۔”
”گرینی! میں سرے سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔”
”کیوں نہیں کرنا چاہتے؟”
” بس نہیں کرنا چاہتا۔”
”کوئی وجہ تو ہوگی نا؟” نانو اسے کرید رہی تھیں۔
”میں آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ کوئی ذمہ داری سر پر لینا نہیں چاہتا۔ ویسے بھی جب ہر چیز شادی کے بغیر مل رہی ہو تو خود کو خواہ مخواہ زنجیروں میں کیوں جکڑا جائے۔”
نانو اس کے جواب سے زیادہ اس کے اطمینان پر حیران ہوئی تھیں۔ ”تمہارا دماغ خراب ہے عمر؟”
”نہیں گرینی! میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے۔ میری زندگی کے سارے راستے بالکل صاف اور واضح ہیں اور ان کے متعلق میرے دماغ میں کوئی ابہام (Ambiguity) نہیں ہے۔ میں نے اپنی ساری فیملی کی زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ شادی نہیں کرنی چاہیے۔ زندگی گزارنے کیلئے شادی کوئی ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغیر میں زیادہ اچھے طریقے سے رہ سکتا ہوں۔”
”جہانگیر کو پتا چلے نا تمہاری اس فلاسفی کا تو وہ تمہاری عقل ٹھکانے لگا دے۔”
”میں نے یہ فلاسفی ان ہی کی زندگی کا جائزہ لے کر بنائی ہے۔”
اس نے نانو کی بات پر خوفزدہ ہوئے بغیر کہا تھا۔ کچھ دیر نانو اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکیں۔ ”میں تم سے علیزہ کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔” کچھ دیر بعد انہوں نے پھر اس سے کہا۔
”علیزہ بہت کم عمر ہے۔ وہ ابھی تک خود کو سمجھ نہیں پائی تو مجھے کیسے سمجھ سکے گی اور شادی کوئی ایک دو دن کا ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ ساری زندگی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھے بغیر زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے۔”
”چلو ٹھیک ہے۔ اب نہیں تو چار سال بعد تو وہ اس قابل ہوسکتی ہے کہ بقول تمہارے ایک اچھی بیوی کی تمام خصوصیات اپنے اندر پیدا کرلے۔ تب کرو گے تم اس سے شادی؟” نانو ابھی بھی اپنی بات پر مصر تھیں۔
عمر پر سوچ انداز میں ان کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔ ”اگر آپ ابھی اس کی شادی ملتوی کردیتی ہیں تو میں وعدہ کرتا ہوں چار پانچ سال بعد ضرور اس سے شادی کے بارے میں سوچوں گا۔”
”صرف سوچو گے؟”
”گرینی! ہر چیز سوچنے سے ہی ہوتی ہے۔”
”مگر کوئی واضح یقین دہانی تو ہونی چاہیے۔”
”میں نے آپ سے کہا نا کہ میں سوچوں گا تو پھر آپ کو اعتبار ہونا چاہیے میری بات پر۔ ٹھیک ہے نا۔ اب آپ علیزہ کی شادی کے بارے میں کچھ مت کیجیے گا۔”
نانو کچھ دیر اسے دیکھتی رہیں اور پھر اچانک ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لہرائی۔
”تم پسند کرتے ہو نا اسے؟”
وہ ان کی بات پر یک دم چونک گیا۔ ”گرینی! علیزہ کو کوئی بھی ناپسند نہیں کرسکتا۔”
”مگر تمہاری پسندیدگی کی نوعیت مختلف ہے۔” وہ اپنی بات پر مصر تھیں۔
”گرینی! میں۔۔۔” وہ اپنی بات مکمل نہیں کرسکا۔ علیزہ کرسٹی کو اٹھائے ہوئے ایک دم لاؤنج میں داخل ہوئی۔
اس کی آمد اتنی غیر متوقع اور اچانک تھی کہ نانو بھی کچھ گڑبڑا گئیں۔ عمر بات کرتے کرتے خاموش ہوگیا۔
علیزہ کرسٹی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر خاموشی سے ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔ اس نے غور کرنے کی کوشش نہیں کہ عمر کون سی بات کہتے کہتے رک گیا تھا۔
عمر نے علیزہ کی آمدکو غنیمت جانا اور گرینی سے کسی کام کا بہانا کر کے اٹھ گیا۔ گرینی نے علیزہ کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کیا اس نے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی۔ مگر علیزہ کا چہرہ بے تاثر تھا۔ وہ کوئی اندازہ نہیں لگا سکیں۔
”پھر اب کیا طے کیا ہے تم نے؟” نانا اس دوپہر کو کھانے کی میز پر اس سے پوچھ رہے تھے۔
”نہیں گرینڈ پا! پہلے ہی مجھے یہاں بہت دیر ہوگئی ہے۔ اب مجھ کو واپس جانا ہے۔”
”مگر عمر! ابھی تم واپس جا کر کرو گے کیا! چار پانچ ماہ تک تمہارا رزلٹ آئے گا۔ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ تب تک یہیں رہو۔”
”رہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے مگر پاپا کے ساتھ یہی طے ہوا تھا کہ پیپرز دینے کے بعد واپس آجاؤں گا اور انٹرویو کی تیاری وہیں کروں گا۔”
”مگر یہاں تم کو زیادہ آسانی ہوگی۔”
”آسانی کی تو خیر کوئی بات نہیں ہے، میرے لیے دونوں جگہ پر ایک ہی بات ہے مگر اب پاپا نے کہا تھا تو ظاہر ہے کہ میرے لیے ضروری ہے کہ واپس چلا جاؤں۔”
نانو نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔ ”جہانگیر سے میں خود بات کر لوں گی اس کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے، مگر تم فی الحال یہیں رہو۔”
نہیں گرینی! مجھے خود بھی وہاں کچھ کام نپٹانے ہیں اس لئے مجھ کو جانا ہو گا۔”
اس نے ایک بار پھر انکار کرتے ہوئے کہا۔
”بھئی، تمہیں اتنا پرابلم کس بات کا ہے؟”
”پرابلم کوئی نہیں ہے گرینی! بس میں اب کچھ اکتا گیا ہوں ایک ہی جگہ رہ کر… کچھ گھومنا پھرنا چاہتا ہوں۔”
”تو یہاں گھومو پھرو… تم نے پاکستان میں کچھ دیکھا ہی نہیں۔”
”یہاں گھومنے کیلئے کیا ہے گرینی؟”
”بہت کچھ ہے، ناردرن ایریاز کی طرف جاؤ گے تو حیران رہ جاؤ گے۔”
”کیوں وہاں ایسا کیا ہے؟”
”تم جاؤ گے تو پتا چلے گا نا کہ وہاں کیا ہے۔”
”گرینی! پہلے تو آپ نے لاہور کی تعریفوں کے انبار لگائے تھے… مگر لاہور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اب ناردرن ایریاز کی تعریف کر رہی ہیں تو مجھے شک ہے کہ وہاں بھی کچھ نہیں ہوگا۔”
”تم مالم جبہ جاؤ گے تو تمہیں پتا چلے گا کہ میں سچ کہہ رہی تھی یا جھوٹ، اس کے علاوہ بھوربن دیکھنا، سوات اور گلگت چلے جاؤ، تم وہاں بہت انجوائے کرو گے۔” نانو نے پورا پلان سامنے رکھ دیا۔
”اچھا سوچوں گا۔” اس نے ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”گرینی! اکیلا میں کیسے جاؤں۔ آپ کو پتہ ہے میں اکیلا کچھ بھی انجوائے نہیں کرسکتا۔”
”اکیلا جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنے دوستوں اور کزنز کو ساتھ لے جاؤ۔” انہوں نے فوراً تجویز پیش کی۔
”دوست اور کزنز اتنے فارغ کہاں ہیں کہ میرے ساتھ چل سکیں۔”
”میں ولید کو فون کردوں گی۔ وہ تو فوراً چل پڑے گا تمہارے ساتھ۔” نانو نے اسے پوری طرح گھیر لیا۔
”اچھا میں پہلے پاپا سے بات کر لوں۔” اس نے ایک بار پھر جان چھڑانے کی کوشش کی۔
”میں نے کہا نا جہانگیر سے میں خود بات کر لوں گی۔”
”یعنی گرینی! آپ مجھ کو کسی طرح بھی یہاں سے نکلنے نہیں دیں گی۔” عمر نے کچھ بے چارگی سے کہا۔
” تمہیں چلے تو جانا ہی ہے پھر کیا ہے اگر کچھ عرصہ یہاں ہمارے ساتھ گزار لو۔”
”آپ ابھی تک تنگ نہیں آئیں مجھ سے؟”
”نہیں، تنگ کیوں آؤں گی۔” نانو نے کچھ خفگی سے کہا۔
”بہت خدمتیں کرنی پڑتی ہیں آپ کو میری اس لیے پوچھ رہا ہوں۔”
”نہیں! مجھے اچھا لگتا ہے۔ کم از کم کوئی مصروفیت تو ہے نا۔ گھر میں رونق ہے تمہاری وجہ سے۔”
نانو نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔ عمر چند لمحے ان کے چہرے کو دیکھتا رہا پھر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے زیر لب کچھ کہا۔
”ہیلو پاپا! میں عمر ہوں۔” کال ملنے پر اس نے کہا۔
”ہاں عمر! کیسے ہو؟”
”میں ٹھیک ہوں پاپا… وہ مجھے پوچھنا تھا کہ آپ نے ابھی تک میری سیٹ بک نہیں کروائی؟” اس نے پوچھا۔
”ہاں، وہ بس کچھ مصروفیت تھی۔” دوسری طرف جہانگیر معاذ نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”تو پھر کب سیٹ بک کروا رہے ہیں؟”
”اتنی جلدی کیا ہے واپس آنے کی؟”
عمران کی بات پر حیران ہوا۔ ”پاپا آپ نے ہی کہا تھا کہ پیپرز کے فوراً بعد واپس آجاؤں۔”
”ہاں مگر… اب میں سوچ رہا ہوں کہ تم ابھی وہیں رہو۔”
”مگر کیوں پاپا!”
”وہاں رہ کر تم انٹرویو کی تیاری زیادہ بہتر طریقے سے کر سکو گے۔ تمہارے کزنز تمہیں اچھے طریقے سے گائیڈ کردیں گے۔”
”نہیں پاپا! میں آپ کے پاس آکر بھی بہت اچھی تیاری کر لوں گا۔ یہ کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔”
”نہیں نہیں۔ پھر بھی تمہیں وہیں رہ کر تیاری کرنی چاہیے۔” انہوں نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”پایا! کیا گرینی نے آپ سے کوئی بات کی ہے؟” اس نے کچھ بے چینی سے کہا۔
”کیسی بات؟”
”وہ مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ میں ابھی واپس نہ جاؤں مگر میں نے ان سے کہا کہ مجھے فوری طور پر واپس جانا ہے۔ پھر وہ کہنے لگیں کہ میں خود آپ سے بات کرلوں گی۔”
”نہیں۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی مگر ٹھیک ہے اگر وہ اصرار کر رہی ہیں تو پھر تم وہیں رہو۔”
”مگر پاپا! مجھے بہت سے کام ہیں امریکہ میں۔”
”کام بھی ہوجائیں گے۔ فی الحال تو میں یہ چاہتا ہوں کہ تم وہیں رہو۔”
”میں بور ہوگیا ہوں یہاں۔ امریکہ آؤں گا تو کچھ گھوم لوں گا۔ ریلیکس ہوجاؤں گا۔” اس نے اصرار کیا۔
”بور ہونے کی بات ہے تو میں تمہیں کسی دوسرے ملک کا ویزا لگوا دیتا ہوں تم کچھ دن وہاں سیر کرلو۔ اسپین چلے جاؤ یا پھر یونان۔یا جہاں بھی تم چاہو۔”
جہانگیر معاذ نے فوراً پیشکش کی۔ عمر الجھن کا شکار ہوگیا تھا۔ آخر وہ اسے امریکہ آنے سے کیوں روک رہے تھے۔
”پھر بھی پاپا۔۔۔”
”عمرضد مت کرو۔ جیسا میں کہہ رہا ہوں وہی کرو۔ میں خود بھی سوچ رہا ہوں کہ کچھ عرصے تک پاکستان کا ایک چکر لگا جاؤں۔” انہوں نے اسے مزید کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
‘پاپا! کچھ دن کیلئے ہی آنے دیں۔”
” جب میں پاکستان آؤں گا تو واپسی پر آجانا تم میرے ساتھ مگر ابھی نہیں۔ اب یہ بتاؤ کہ کہاں جانا چاہتے ہو تاکہ میں ویزا لگوا دوں؟”
انہوں نے ایک بار پھر بات کا موضوع بدل دیا۔
”کہیں بھی نہیں… پھر ٹھیک ہے’ میں یہیں ٹھیک ہوں۔ گرینی چاہ رہی تھیں کہ میں ناردرن ایریاز چلا جاؤں کچھ دنوں کیلئے تو پھر میں وہیں چلا جاتا ہوں۔”
اس نے خاصی بے دلی سے کہا۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے تم نے پہلے یہ علاقے نہیں دیکھے۔ تم خاصا انجوائے کرو گے وہاں۔” انہوں نے فوراً اسے اجازت دے دی۔
”آپ کب تک پاکستان آرہے ہیں؟”
”ابھی کچھ فائنل نہیں ہے، کچھ دنوں بعد تمہیں دوبارہ فون کروں گا اور بتا دوں گا۔” انہوں نے اسے بتایا۔
”کچھ اور پوچھنا چاہتے ہو؟”
”نہیں۔”
”ٹھیک ہے پھر گڈ بائے۔” انہوں نے ساتھ ہی بات ختم کردی۔
”گڈ بائے۔” عمر خاصا بددل تھا اور بددلی کے ساتھ ساتھ وہ حیران تھا کہ پاپا اسے امریکہ کیوں آنے نہیں دینا چاہتے۔
عمر نے دروازے پر دستک دی۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد قدموں کی چاپ ابھری اور دروازہ کھل گیا۔ علیزہ اسے دروازے پر دیکھ کر کچھ حیران ہوئی۔
”اندر آجائیں۔” وہ دروازے سے ہٹ گئی۔
”پیپرز کیسے ہوئے تمہارے؟” عمر نے اندر آتے ہی خاصی بے تکلفی سے پوچھا۔
”اچھے ہوگئے۔”
”گڈ!” وہ اب کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔
”کرسٹی کہاں ہے۔”
”وہ باہر ہے۔”
”آج کل کیا کر رہی ہو؟” وہ کمرے کے وسط میں کھڑا پوچھ رہا تھا۔
”کچھ بھی نہیں۔”
”میں بیٹھ جاؤں۔” اب اس نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”ہاں بیٹھ جائیں۔”
”تھینک یو۔” وہ اطمینان سے ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”میرے ساتھ سوات چلوگی؟”
”کیا؟” وہ اس غیرمتوقع سوال پرحیران رہ گئی۔
”ہاں بھئی! اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے۔ میں نے پوچھا ہے کہ میرے ساتھ سوات چلو گی؟” وہ اس کی حیرانی پر حیران ہوا۔
”آپ سوات جارہے ہیں؟”
”ہاں گرینی کی فرمائش بلکہ ضد پر… توپھر چلوگی؟”
”نہیں۔”
”کیوں؟”
”بس ایسے ہی۔”
”یہ بس ایسے ہی کیا ہوتا ہے۔ اگر نہیں جانا توکوئی وجہ بتاؤ۔”
”مجھے دلچسپی نہیں ہے۔”
”کم آن علیزہ! گھومنے پھرنے سے بھی دلچسپی نہیں ہے؟”
”نہیں۔”
”کیوں۔” ایک بار پھرپوچھا گیا، ایک بار پھر کہا گیا۔
”بس ایسے ہی۔”
”مگر میں تمہیں ساتھ لے کرجاؤں گا۔” اس نے اصرارکیا۔
”کیوں؟”
”کیونکہ تم آج کل فارغ ہو۔”
”نہیں۔ میں فارغ نہیں ہوں۔ مجھے بہت سے کام ہیں۔”
”کام ہوتے رہیں گے۔ تم چلنے کی تیاری کرو۔”
”نانو نہیں جانے دیں گی۔” اس بار اس نے نانو کا سہارا لیا۔
”کیوں؟”
”اکیلے کیسے آپ کے ساتھ جانے دیں؟”
وہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ ”میں اکیلا تو نہیں جارہا، ولید میرے ساتھ جارہا ہے۔ کچھ اور دوست بھی ہیں۔”
”پھر تونانو کبھی بھی جانے نہیں دیں گی۔”
”کیوں؟”
”یہ اچھی بات نہیں ہے، اس طرح آپ لوگوں کے ساتھ جانا۔”
”سو واٹ!” اس نے خاصی لاپروائی سے کہا۔ ”خیر ٹھیک ہے۔ تم نہیں جانا چاہتی تومیں مجبور نہیں کروں گا۔یہ بتاؤ تمہارے لیے وہاں سے کیا لاؤں؟”
وہ اب اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
علیزہ اس کی بات پر چونکی۔ ”میرے لیے؟”
‘ہاں بھئی تمہارے لیے… بتاؤ کیا لاؤں!”
”پتا نہیں۔”
”اب یہ بھی نہیں پتا۔” علیزہ اس باربھی خاموش رہی۔
”آپ نے تو شاید کچھ دن تک… میرا مطلب ہے، واپس چلے جانا تھا۔” علیزہ نے کچھ اٹکتے ہوئے اس سے پوچھا۔
وہ اس کی بات پر کچھ چونکا۔ ” اوہ! یہاں تو میرے جانے کا انتظار ہورہا ہے۔” عمر نے کچھ افسوس بھرے انداز میں کہا۔
علیزہ کچھ شرمندہ ہوگئی۔
”ہاں جانا تو تھا لیکن بس پاپا ابھی بلوانے پر تیار نہیں ہیں اور گرینی بھیجنے پر۔ اس لیے آپ کو کچھ اورعرصہ مجھے برداشت کرنا پڑے گا علیزہ!”
علیزہ کو کچھ مایوسی ہوئی۔ اب تو اس کے پیپرز بھی ہوچکے ہیں پھر اب یہ کیوں نہیں جارہا؟ اس نے کچھ بے دلی سے سوچا۔
عمر بڑے غور سے اس کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کے چہرے پر پھیلنے والی مایوسی اس کی تیز نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکی۔
”تم چاہتی ہو، میں چلا جاؤں؟” اس نے علیزہ سے پوچھا۔
”میں نے یہ کب کہا!”
”تم نے کہا نہیں لیکن۔۔۔”
”آپ نے خود ہی کہا تھا کہ آپ پیپرز کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ اس لیے میں نے پوچھ لیا۔” اس نے عمر کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ دیر خاموش رہا۔
”اب یہاں سے جاتا کیوں نہیں؟” وہ اپنے کمرے میں اس کی مستقل موجودگی سے تنگ آگئی تھی۔
”کچھ دن دیر سے سہی مگر مجھے یہاں سے چلے جانا ہے میں یہاں ہمیشہ رہنے کیلئے نہیں آیا۔ مگر یہاں سے جانے کے بعد میں تمہیں مس کروں گا۔”
وہ یک دم سنجیدہ نظر آنے لگا۔ علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
”تم مس کرو گی مجھے؟” اس نے یک دم علیزہ سے پوچھا۔ وہ اس کے غیر متوقع سوال پر بس اسے صرف دیکھ کر رہ گئی۔
”میں شکر کروں گی کہ تم یہاں سے چلے گئے۔” اس نے دل میں سوچا اور جواب میں کہا۔ ”پتا نہیں۔”
”مگر مجھے پتا ہے۔ تم شکر کرو گی کہ میں یہاں سے چلا گیا۔” ایک لمحے کیلئے اس کا دل دھڑکنا بھول گیا۔
”کیا یہ شخص ٹیلی پیتھی جانتا ہے؟” اس نے فق چہرے کے ساتھ اسے دیکھا جواب مسکرا رہا تھا۔
”نہیں، مجھے ٹیلی پیتھی نہیں آتی۔ میں بس چہروں کو پڑھ لیتا ہوں۔”
وہ ایک بار پھر حیران ہوئی۔ عمر جیسے اس کی ہر سوچ سے آگاہ تھا۔
”ویسے علیزہ تمہیں کیا سب کزنز اتنے ہی برے لگتے ہیں؟”
”کیا مطلب؟” وہ اس کی بات پر الجھ گئی۔
”مطلب۔۔۔”وہ خود بھی اپنے سوال پر غور کرنے لگا۔
”مطلب یہ کہ کیا اسامہ بھی اتنا ہی برا لگتا ہے جتنا میں؟”
”مجھے آپ بھی برے نہیں لگتے۔”
”مگر اسامہ زیادہ اچھا لگتا ہوگا۔” وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہتا تھا۔
”پتا نہیں، میں نے غور نہیں کیا۔ وہ بھی یہاں بہت کم آتے ہیں۔” اس نے کچھ سوچ کر کہا۔
”مگر آتا جاتا رہتا ہے؟”
”آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟” وہ پہلی بار چونکی..
”بس ویسے ہی گرینی بات کر رہی تھیں اس کے بارے میں اس لیے پوچھ رہا ہوں۔”
”جب یہاں اکیڈمی میں ٹریننگ حاصل کرتے تھے تو اکثر آیا کرتے تھے۔”
”تمہیں لگتا کیسا ہے وہ؟”
”ٹھیک ہیں۔”
”بس ٹھیک ہیں؟” وہ اب اسے کرید رہا تھا۔
”آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟” وہ اب اس کے سوالوں سے بے چین ہو رہی تھی۔
”میں… کچھ خاص نہیں… ایسے ہی پوچھ رہا تھا کہ وہ اتنا سمارٹ بندہ ہے۔ میری طرح تم اسے ناپسند نہیں کرتی ہوگی۔”
وہ یک دم بات کا موضوع بدل گیا۔ علیزہ اب اس کی گفتگو سے بری طرح بیزار ہوچکی تھی۔
”اسامہ بہت اچھا دوست ہے میرا۔” وہ اسی طرح کمرے کے وسط میں کھڑا بتا رہا تھا۔ وہ دلچسپی لیے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
”ہم دونوں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے رہے ہیں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں۔ پھر اسکالر شپ پر آکسفورڈ چلا گیا۔”
اس کا دل چاہا وہ اس سے پوچھے کہ وہ اسے یہ سب کچھ کیوں بتا رہا ہے مگر وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”گرینی کہہ رہی تھیں، تمہاری بڑی اچھی دوستی تھی اسامہ کے ساتھ؟” عمر نے دانستہ جھوٹ بولا۔
”کیا! میری دوستی؟” وہ حیران رہ گئی۔
”کیوں کیا تمہاری دوستی نہیں ہے؟”
”نہیں، وہ مجھ سے بہت بڑے ہیں۔ نانو کہتی تھیں میں انہیں بھائی کہا کروں۔ وہ بہت سنجیدہ رہتے تھے۔”
وہ نانو کے جھوٹ پر حیران ہو رہی تھی۔ عمر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”اچھا! ہوسکتا ہے گرینی کو ہی غلط فہمی ہوگئی ہو۔” اس نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ میں اب چلتا ہوں۔” اس کے اگلے جملے پر علیزہ نے اللہ کا شکریہ ادا کیا۔
دروازہ کھولتے ہوئے اس نے ایک بار پلٹ کر علیزہ کو دیکھا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر پھر وہ باہر نکل گیا۔
باب: 17
”موڈ ٹھیک ہوگیا تمہارے کزن کا؟” شہلا نے ساتھ چلتے چلتے اچانک علیزہ سے پوچھا۔
”ہاں۔” وہ ہلکے سے مسکرائی۔
”چلو شکر ہے کم از کم تمہارے چہرے پر بارہ بجے والی مستقل کیفیت سے تو چھٹکارا ملا۔” علیزہ اس کی بات پر کچھ جھینپ گئی۔
”کیا مطلب؟”
”کچھ نہیں یار! میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ اب پہلے کی طرح تمہارے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کو مل جایا کرے گی جو کئی دن سے غائب تھی۔”
”ایسی کوئی بات نہیں ہے۔”
”ایسی ہی بات ہے۔ عمر کا موڈ صحیح، تمہارا موڈ صحیح۔ عمر کا موڈ خراب تمہارا موڈ خراب۔”
”تم غلط کہہ رہی ہو شہلا۔” اس نے جیسے احتجاج کیا تھا۔
”کاش کہ یہ بات واقعی غلط ہوتی مگر ایسا نہیں ہے علیزہ سکندر! آپ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتیں۔” اس نے ہینڈ بیگ میں سے کینو نکال کر ساتھ چلتے ہوئے چھیلنا شروع کردیا۔
”میں اس کی وجہ سے پریشان تھی مگر۔۔۔”
شہلا نے اس کی بات کاٹ دی۔”تمہیں میرے سامنے کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
I know you inside out”
اس نے قاش منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ علیزہ کچھ دیر خاموشی سے اس کے ساتھ چلتی رہی پھر اس نے کچھ مدھم آواز میں کہا۔
”میری اس کے ساتھ بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔”
”صرف انڈراسٹینڈنگ ہونے سے کوئی کسی کیلئے اس طرح پریشان نہیں ہوتا۔”
وہ صاف گوئی کا ہرا گلا پچھلا ریکارڈ توڑنے پر تلی ہوئی تھی۔
”وہ میرا دوست ہے۔”
”نہیں! معاملہ دوستی کی حدود سے کافی آگے بڑھ چکا ہے۔”
”شہلا! میں۔۔۔”
شہلا نے کچھ تنک کر اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم ڈرتی کیوں ہو، یہ مان لینے سے کہ تم اس سے محبت کرتی ہو۔”
”ایسا نہیں ہے۔”
”ایسا ہی ہے بلکہ سو فیصد ایسا ہی ہے۔”
”اچھا ٹھیک ہے پھر اس سے کیا ہوتا ہے؟”
”بہت کچھ ہوتا ہے… علیزہ بی بی! آپ کا پرابلم یہ ہے کہ آپ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے یہ سمجھ لیتی ہیں کہ ساری دنیا اسی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ آپ کو اس سے محبت ہے تو آپ جاکر اس سے کہیں کہ آپ اس سے محبت فرما رہی ہیں۔ وہ بھی خاموش محبت۔”
”اس سے کیا ہوگا؟”
”اس سے یہ ہوگا کہ یا تو عمر صاحب بھی آپ سے اپنی محبت کا اقرار کرلیں گے یا پھر یہ ہوگا جس کا زیادہ امکان ہے کہ وہ آپ کا دماغ درست کردیں گے۔ کم از کم پھر آپ اس محبت کے چکر سے تو نکل آئیں گی۔”
علیزہ نے کچھ رنجیدگی سے اسے دیکھا۔ ”مجھے اس سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔”
”کیا مطلب! تم نہیں چاہتیں کہ وہ تم سے اپنی محبت کا اظہار کرے اور شادی کرے؟” شہلا نے کچھ حیران ہوتے ہوئے اسے دیکھا۔
”نہیں۔”
”تو پھر۔”
”میں بس یہ چاہتی ہوں کہ وہ ٹھیک رہے، پریشان نہ ہو، بس وہ خوش رہے۔”
”چاہے اس کی زندگی میں کوئی علیزہ سکندر نہ ہو۔”
”چاہے اس کی زندگی میں، میں نہ ہوں۔”
”میں تمہیں سمجھ نہیں پائی۔ تم آخر چاہتی کیا ہو۔ مجھے جو چیز اچھی لگے میں چاہتی ہوں وہ مجھے مل جائے۔ میرے Possession میں ہو اور تم… تم عمر سے محبت کرتی ہو تو اس کا اقرار نہیں کرتیں۔ اقرار کرتی ہو تو اسے حاصل کرنا نہیں چاہتیں اور میں سوچتی ہوں کہ اگر تم اس کو حاصل کرلو گی تو پھر تم اسے پاس رکھنا نہیں چاہو گی، ہے نا؟” شہلا کا لہجہ مذاق اڑانے والا تھا۔
”کسی چیز کو صرف میری محبت میرے پاس نہیں لاسکتی۔ میں اپنے پیرنٹس سے بھی بہت محبت کرتی ہوں۔ میری محبت انہیں اکٹھا نہیں رکھ سکی نہ انہیں میرے پاس رکھ سکی ہے۔ عمر سے محبت کروں گی تو کیا ہوگا۔ کیا وہ میرا ہوجائے گا؟”
”تو پھر یہ سب کیا ہے؟”
”کچھ بھی نہیں۔ بس میں اس کی پروا کرتی ہوں اور اسے پہنچنے والی ہر تکلیف مجھے زیادہ اذیت دیتی ہے۔ اس لیے میں چاہتی ہوں اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔”
”ہو سکتا ہے عمر… عمر بھی تم سے محبت کرتا ہو۔ وہ بھی تو تمہاری پروا کرتا ہے۔” شہلا نے بہت نرمی سے اس سے کہا۔
”ہر جذبہ محبت نہیں ہوتا۔”
”مگر بہت سے جذبے بالآخر محبت پر ہی ختم ہوتے ہیں۔”
”نہیں وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ وہ مجھ سے ہمدردی کرتا ہے۔”
”کم آن علیزہ۔۔۔”
”ہاں میں ٹھیک کہہ رہی ہوں شہلا! وہ مجھ سے صرف ہمدردی کرتا ہے جس سے ہمدردی ہو اس سے محبت نہیں ہوتی۔”
شہلا اس کی بات پر کچھ بگڑ گئی۔”کیا مطلب ہے آپ کا علیزہ بی بی۔ وہ فائنل ایر کا عفان محمود جو ہر تیسرے دن دانت نکالتا ہوا آجاتا ہے۔ مس علیزہ! آپ کو کوئی نوٹس وغیرہ تو نہیں چاہئیں۔ یا پھر وہ فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کا قاسم مجید جو اپنا ہر اسکیچ پکڑے آپ کے پاس اصلاح کیلئے موجود ہوتا ہے یہ جاننے کے باوجود کہ آپ کا اس کے ڈیپارٹمنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہیں میرا خیال ہے ہمدردی تم سے بلال وحید کرتا ہے جو ہر بار تمہیں دیکھتے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ مس علیزہ! آپ بہت کمزور ہوگئی ہیں۔ کچھ کھایا پیا کریں بلکہ آئیں میں آپ کو چائے پلواتا ہوں۔ اتنے ہمدردی کرنے والے میرے پاس ہوتے نا تو میں اب تک کسی الیکشن میں حصہ لے چکی ہوتی۔”
وہ اب علیزہ کو ہنسانے کی کوشش کر رہی تھی، مگر علیزہ کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ابھری۔
”ہر بات مذاق نہیں ہوتی، شہلا!”
”مگر کچھ باتیں مذاق ہوتی ہیں اور جس بات پر ہنسی آئے اس پر ہنس لینا چاہیے جیسے تمہارے اس فارمولے پر کہ عمر تم سے ہمدردی کرتا ہے۔”
”یہ فارمولا نہیں ہے حقیقت ہے۔”
”تم زندگی کو اور دوسرے لوگوں کو جس زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہو وہ زاویہ اب بدل دو۔” شہلا یک دم سنجیدہ ہوگئی۔ ”تم میں اتنی خوبیاں ہیں علیزہ کہ ان پر کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر تم خود اپنی اہمیت کو ماننے پر تیار نہیں۔”
”شہلا! تم میری بات نہیں کر رہی تھیں۔ ہم کسی اور موضوع پر بات کر رہے تھے۔”
”اپنے بارے میں بات کرنے سے کیوں ڈرتی ہو؟”
”میں ڈرتی نہیں ہوں بس میں۔۔۔”
”علیزہ! تمہارے لیے جو چند چیزیں اہم ہیں ناں ان میں سے ایک عمر جہانگیر بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ تم لاکھ کہو کہ تم اسے پانا نہیں چاہتیں مگر تمہیں اس کی خواہش ہے۔”
”مجھے خواہش نہیں ہے۔”
”تو پھر ہر وقت عمر کی باتیں کیوں کرتی رہتی ہو۔ اس فائل کو کھولو اور دیکھو کہاں کہاں تم نے ایک ہی چہرہ اسکیچ کیا ہوا ہے۔ کتنی بار اس کا نام لکھا ہوا ہے اور تم کہتی ہو، تمہیں اس کی خواہش نہیں ہے۔ کس کو فریب دینا چاہتی ہوں، مجھے؟ اپنے آپ کو؟ یا ساری دنیا کو؟”
”میں کبھی اس سے یہ نہیں کہہ سکتی کہ مجھے اس سے۔۔۔” اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”کہ تمہیں اس سے محبت ہے۔” شہلا نے اس کی بات مکمل کی۔ ”آخر کیوں؟”
”مجھے خوف آتا ہے۔”
”کس بات سے؟”
”اگر اس نے یہ کہہ دیا کہ اسے مجھ سے محبت نہیں ہے تو میں… میں کبھی دوبارہ اس کے سامنے نہیں جاسکوں گی۔” اس کے لہجے میں اتنی بے بسی تھی کہ شہلا کو اس پر ترس آگیا۔
”آؤ کلاس میں چلیں، پیریڈ شروع ہونے والا ہے۔”
بات کا موضوع یک دم بدلتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے چل پڑی۔ کچھ دیر اور وہاں کھڑی رہتی تو علیزہ کی آنکھوں میں امڈتی ہوئی نمی برسنا شروع ہوجاتی۔ وہ اسے بہت اچھی طرح جانتی تھی۔
باب: 18
”تم نے رزلٹ دیکھا ہے اپنا؟” عمر نے نانو کو بلند آواز میں کہتے سنا۔ ان کی آواز میں بے تحاشا غصہ تھا۔ وہ لاؤنج کے دروازے میں ہی رک گیا۔ اندر جانے سے پہلے اس نے صورتحال سمجھنے کی کوشش کی۔ اپنا بیگ اس نے اتار کر رکھ دیا۔
”اس طرح اے لیولز کس طرح کلیئر کرو گی، دو سبجیکٹس… میں فیل ہو چھٹیوں میں کیا کرتی رہی ہو تم؟”
نانو واقعی بہت غصے میں تھیں جبکہ علیزہ صوفے کے ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں آئندہ زیادہ محنت کروں گی۔”
”کون سی محنت! یہ والی محنت جو تم نے اس بار کی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پیپرز کرتے ہوئے تمہارا دھیان کہاں ہوتا ہے۔ تمہارے نانا یہ کارڈ دیکھیں گے تو جانتی ہو، کتنے ناراض ہوں گے۔”
‘نانو! میں نے بہت محنت کی تھی مگر پتا نہیں پھر بھی۔۔۔” اس نے کچھ دل برداشتہ ہو کر کہا۔
”مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش مت کرو۔ تم نے محنت کی ہوتی تو اس کارڈ میں نظر آرہی ہوتی۔ مگر تمہیں اسٹڈیز میں دلچسپی ہی کہاں ہے۔ سارا دن تم کرسٹی کو اٹھائے پھرتی رہتی ہو۔ اس سے فارغ ہوتی ہو تو ڈرائنگ اور پینٹنگ میں وقت برباد کرنے لگتی ہو۔”
”نانو! میں نے ہمیشہ اچھے مارکس لیے ہیں، صرف اس بار۔۔۔” وہ اب روہانسی ہوگئی۔
”اس بار کیا ہوا ہے؟ کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ تمہارا کارڈ اس قابل ہے کہ کسی کو دکھایا جائے۔ جو بھی دیکھے گا کہے گا شاید میں تم پر توجہ نہیں دیتی ورنہ تم اس طرح کا رزلٹ تو کبھی نہ دکھاتیں۔” انہوں نے غصے میں ہاتھ میں پکڑا ہوا کارڈ علیزہ کی طرف اچھال دیا۔ کارڈ اس سے ٹکراتا ہوا قالین پر جاگرا۔
عمر نے اس سے زیادہ دیر وہاں کھڑا رہنا بے کار سمجھا تھا۔
”ہیلو گرینی!” وہ بڑے خوشگوار انداز میں کہتا ہوا لاؤنج میں داخل ہوا۔
”عمر! تم اتنا اچانک آگئے ہو؟” نانو نے کچھ حیران ہوتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”بہت اچانک تو نہیں مگر بہرحال آگیا ہوں۔”
عمر نے جواب دیتے ہوئے علیزہ کو دیکھا جو آستین سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کارڈ اٹھا رہی تھی۔
”مگر تمہیں تو ابھی کچھ دن اور رہنا تھا سوات میں؟” نانو اب بھی مطمئن نہیں تھیں۔
”ہاں رہنا تو تھا مگر بس اچانک ہی موڈ بدل گیا۔”
”آپ علیزہ کو کیوں ڈانٹ رہی تھیں؟” وہ اپنا سامان رکھ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
”آنے سے پہلے اطلاع دے دیتے تو میں ڈرائیور کو ایئرپورٹ بھجوا دیتی۔” نانو نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے مزید شکوہ کیا تھا۔
”مگر میں تو بائی روڈ آیا ہوں کوسٹر پر۔”
”کیا! کوسٹر پر؟ خواہ مخواہ کی بے وقوفی۔۔۔” نانو بڑبڑائی تھیں۔
”گرینی اسے بے وقوفی نہیں ایڈونچر کہتے ہیں۔” اس کا اطمینان برقرار تھا۔
”یہاں تک صحیح سلامت پہنچ گئے ہونا اس لیے اسے ایڈونچر کہہ رہے ہو۔”
”گرینی! پلین کے ذریعے بھی صحیح سلامت پہنچنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ میں تو اسے بھی ایڈونچر ہی کہتا ہوں مگر آپ مجھے یہ بتائیں کہ علیزہ کو کیوں ڈانٹ رہی تھیں؟” اس نے کن اکھیوں سے سرجھکائے بیٹھی علیزہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”فرسٹ ٹرم کا رزلٹ آگیا ہے اس کا اور بری طرح فیل ہے۔”
نانو کے چہرے پر ایک بار پھر خفگی جھلکنے لگی۔ عمر نے علیزہ کی گردن کو مزید جھکتے ہوئے دیکھا۔ پھر اسی اطمینان کے ساتھ وہ دوبارہ گرینی کی طرف متوجہ ہوگیا۔
”بس اتنی سی بات ہے۔ میں سمجھا پتا نہیں کیا قیامت آگئی ہے… ویسے گرینی! فیل تو بس فیل ہوتا ہے اگر وہ بری طرح سے فیل ہے تو کیا کوئی اچھی طرح سے فیل بھی ہوتا ہے؟”
”فضول باتیں مت کرو عمر! تمہیں پتا ہے یہ دو سبجیکٹس میں فیل ہے۔”
علیزہ کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔
Really? I don’t believe it. (سچ! مجھے یقین نہیں آتا) عمر نے حیرانی کی بھرپور ادا کاری کرتے ہوئے علیزہ کو دیکھا۔
”اس میں یقین نہ آنے والی کون سی بات ہے۔ کارڈ دیکھ لو اس کا۔”
نانو اس کی بات کو ٹھیک طرح نہیں سمجھ سکی تھیں مگر عمر کی اگلی حرکت نے انہیں چند سیکنڈ میں سب کچھ سمجھا دیا۔ عمر نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے کچھ آگے کی طرف جھکتے ہوئے علیزہ کے دائیں ہاتھ کو تھاما اور اسی روانی کے ساتھ ساتھ ملانے کے بعد اس کی پشت تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ Congrats Cousin” (مبارک ہو کزن) تم نے تو حیران کردیا مجھے۔ وہ کام کیا ہے جو اس فیملی میں پہلے کوئی مرد بھی نہیں کرسکا۔ Keep it up ”
علیزہ نے کچھ بد حواس ہو کر اس کے چہرے کو دیکھا مگر وہاں پر سنجیدگی کے ساتھ خراج تحسین کے جذبات اور تاثرات نمایاں تھے۔ نانو یک دم مشتعل ہوگئیں۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ مذاق اڑا رہے ہو تم میرا؟”
”بالکل بھی نہیں گرینی! میں تو صرف داد دے رہا ہوں۔”
”فیل ہونے والے کو داد دی جاتی ہے؟”
”نہیں خالی داد نہیں دی جاتی، حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔” اس نے بڑے اطمینان سے وضاحت کی۔
”فیل ہونے والے کو داد دیتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں؟” نانو کا پارہ ہائی ہوتا جارہا تھا۔
”داداور حوصلہ افزائی صرف ایسے کام پر دی جاتی ہے جو اس سے پہلے نہ کیا گیا ہو جیسے ہماری فیملی میں علیزہ والا کام پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا۔” اس کا اطمینان اب بھی برقرار تھا۔
”داداور حوصلہ افزائی ہر ”اچھے” کام پر دی جاتی ہے۔” نانو نے اس بار اپنی بات چبا چبا کر کہی۔
”آپ ثابت کریں گرینی! کہ فیل ہونا ایک برا کام ہے۔” وہ یک دم جیسے بحث کے موڈ میں آگیا۔
”تم فضول بکواس مت کرو عمر!”
”اس میں بکواس والی بات ہی نہیں ہے۔ آپ بتائیں آج تک کبھی کسی کو ایگزام میں فیل ہونے کی وجہ سے عمر قید یا پھانسی ہوئی یا دوزخ میں بھیجے جانے والوں میں کتنے لوگ صرف امتحان میں فیل ہونے کی وجہ سے وہاں جائیں گے۔ ایک بھی نہیں تو پھر یہ برا کام تو نہیں ہے۔”
”رات کو تمہارے دادا آئیں گے۔ علیزہ کا رزلٹ دیکھیں گے اس کے بعد تم اپنی یہ تقریر ان کے سامنے بھی کرنا پھر وہ تمہیں بتائیں گے کہ فیل ہونے سے کتنی نیکیاں ملتی ہیں۔” نانو کے اشتعال میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔
”کوئی بات نہیں گرینی! گرینڈ پا سے بھی بات ہو جائے گی۔ آپ مجھے یہ بتائیں، کچھ پانی وانی پلانے کا ارادہ ہے یا میں واپس سوات چلا جاؤ؟”
عمر نے ایک بار پھر مہارت سے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ نانو کچھ دیر کچھ کہے بغیر اسے گھورتی رہیں اس کے بعد انہوں نے خانساماں کو آواز دی۔
”نانو! میں جاؤں؟” عمر نے علیزہ کی منمناہٹ سنی جسے نانو نے پوری طرح نظر انداز کردیا۔
”نانو! میں جاؤں؟”
اس نے ایک بار پھر کہا۔ اس سے پہلے کہ نانو اس بار بھی پہلے کی طرح اس کے سوال کو نظر انداز کرتیں عمر نے مداخلت کی۔
”گرینی! علیزہ کچھ پوچھ رہی ہے آپ سے؟” اس نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”میری طرف سے جہنم میں جائے۔” نانو نے خاصی رکھائی اور سرد مہری سے کہا۔ علیزہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور تقریباً بھاگتی ہوئی لاؤنج سے نکل گئی۔
”آپ بعض دفعہ بہت تلخ ہوجاتی ہیں گرینی! خاص طور پر علیزہ کے ساتھ۔” اس کے جاتے ہی عمر نے سنجیدگی سے گرینی سے کہا۔
”ہاں ہوجاتی ہوں… اس لیے کیونکہ وہ کبھی بھی میری توقعات پر پورا نہیں اترتی ہمیشہ مجھے لیٹ ڈاؤن کرتی ہے۔ ایک اسٹڈیز میں مجھے تھوڑا اطمینان تھا تو اس بار وہ ختم ہوگیا۔” نانو نے اسی سرد مہری کے ساتھ کہا۔
”وہ اسٹڈیز میں ویک ہے؟” عمر نے ان سے پوچھا۔
”نہیں۔ کبھی بھی نہیں۔ یہ پہلی بار ہوا ہے۔ اس لیے تو مجھے اتنا شاک لگا ہے۔”
”آپ نے اس سے پوچھنے کی کوشش کی کہ اتنی بری پرفارمنس کیوں تھی اس کی؟”
”اس کے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب ہوتا ہے، میں پریشان ہوگئی اس لیے۔ اب بندہ پوچھے کہ ایسی کون سی پریشانیاں لاحق ہوگئی ہیں اسے اس عمر میں کہ وہ ایگزام بھی اچھے مارکس سے پاس نہیں کرسکتی۔”
”گرینی! وہ ڈسٹرب تو تھی، یہ تو آپ جانتی ہیں شاید اسی وجہ سے۔۔۔” گرینی نے اس کی بات کاٹ دی۔
”کم از کم اسٹڈیز کے سلسلے میں، میں اس طرح کا کوئی ایکسکیوز سننا نہیں چاہتی۔ وہ ڈسٹرب ہو یا نہ ہو، ایگزام میں اسے اچھے گریڈ لینے ہوں گے۔”
”آپ کو اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”
”میں اسے بہت اچھی طرح سمجھتی ہوں… مگر تم نہیں سمجھے… بچپن سے میرے پاس رہی ہے وہ۔ میری ذمہ داری سمجھتے ہیں سب اسے۔ کیا کہیں گے سب کہ میں اسے پڑھا نہیں سکی۔ پی ایچ ڈی تو نہیں کر رہی وہ۔ اے لیولز کر رہی ہے۔ کیا اے لیولز بھی نہیں کرسکتی؟میں کیا جواب دوں گی اس کے ماں باپ کو۔ تم جانتے نہیں ہو اپنی پھوپھو کو۔ ثمینہ تو میری جان کھا جائے گی۔ اس دن بڑی تقریریں کر رہے تھے تم کہ اس کی شادی ابھی نہ کروں اسے پڑھنے دوں۔ کیسے آگے پڑھ سکتی ہے وہ جب اس نے۔۔۔”
عمر نے سنجیدگی سے ان کی بات سنتے سنتے بات کاٹی۔
”اس بار اگر اس کی پرفارمنس خراب رہی ہے تو ضروری نہیں اگلی بار بھی ایسا ہی ہو۔ صرف ایک بار خراب رزلٹ پر اس طرح تو نہیں کرنا چاہیے۔”
”میں تو جس طرح ری ایکٹ کر رہی ہوں، کر رہی ہوں مگر تمہارے دادا کو پتا چلا تو وہ اس سے زیادہ بری طرح ری ایکٹ کریں گے۔”
”اس سے کیا ہوگا؟ اس طرح اس کے گریڈ بہتر ہوجائیں گے؟” نانو اس کے سوال پر خاموش رہی تھیں۔ ”کبھی آپ اس کی شادی کے پلان بنا رہی ہوتی ہیں کبھی اسٹڈیز میں لاپروائی برتنے پر اپنا بی پی ہائی کرلیتی ہیں۔ اس کو اس کی زندگی اپنی مرضی سے کیوں گزارنے نہیں دیتیں؟”
”کیا مطلب ہے تمہارا؟” نانو کے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔
”میرا مطلب بالکل صاف ہے۔ اس پر اپنی مرضی مت ٹھونسیں، ہر بات میں مداخلت نہ کریں۔”
”ہر بات میں مداخلت نہ کروں وہ جو کرنا چاہتی ہے اسے کرنے دوں۔ فیل ہوتی ہے فیل ہونے دوں۔ خود کو تباہ کرتی ہے تو خود کو تباہ کرنے دوں۔” نانو نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”کوئی خود کو تباہ نہیں کرے گی وہ۔ اتنی بے وقوف نہیں ہے مگر اس کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے دیں۔ فیل ہوتی ہے۔ ہونے دیں۔ اس کا پرابلم ہے۔ اس کو اس کا حل نکالنے دیں۔ ٹھوکر کھاتی ہے، کھانے دیں۔ گرتی ہے، گرنے دیں مگر اس کو کسی سہارے کے بغیر کھڑا ہونا سیکھنے دیں۔ زمین پر پیر کیسے جماتے ہیں یہ اسے آنا چاہیے۔ اس کی انگلی چھوڑ دیں۔”
”وہ اتنی بڑی نہیں ہوئی۔”
تو ہونے دیں نا اس کو بڑا… آفٹر آل کتنی دیر آپ اس کو چھوٹا رکھیں گی، میری سمجھ میں نہیں آتا یہاں پاکستان میں یہ کیوں ہوتا ہے کیوں آپ کی جنریشن بچوں پر اتنی dominance (تسلط) رکھتی ہے۔” وہ کچھ الجھے ہوئے انداز میں بولا۔
”اسے تم dominance کہتے ہو مگر ہم اسے guidance (رہنمائی) کہتے ہیں۔” نانو اپنی بات پر قائم تھیں۔
”اور یہ guidance ہوتی ہے جو مشکل وقت میں فیصلے کرنے میں کبھی آپ کی مدد نہیں کرتی، کبھی آپ کے کام نہیں آتی۔ گرینی! ہر جنریشن کو صرف یہ نہ سکھائیں کہ پانی کا گلاس پکڑ کر پینے کا مہذب طریقہ کیا ہے۔ کہاں ہلکی آواز میں بات کرنا ہے، کہاں اونچی میں۔ ڈائننگ ٹیبل پر پلیٹ کے رائٹ سائیڈ پر فورک ہونا چاہیے یا اسپون۔ گھر کے اندر آتے ہوئے ڈورمیٹ پر جو گرز کو کتنی بار گڑنا چاہیے۔ شرٹ کا سب سے اوپر والا بٹن بند رکھنا چاہیے یا کھلا۔
گرینی! یہ سب کچھ سیکھنا ہماری ضرورت نہیں ہے۔ اس جنریشن کے پرابلمز اور ہیں۔ آپ کے زمانے کی طرح ہمارا واحد پرابلم اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو زیادہ سے زیادہ کلچرڈ، لبرل اور ارسٹوکریٹ بنا کر پیش کرنا نہیں ہے۔ ہم کو مینرز نہ سکھائیں ہم کو بتائیں کہ ہم اتنی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں جو اپنا وجود کیسے قائم رکھیں اپنے لیے کون سی ویلیوز کا انتخاب کریں اور پھر ان ویلیوز کو intact کیسے رکھیں۔ relationships کیسے بنائیں اور انہیں برقرار کیسے رکھیں۔ اپنا mental equilibrium کیسے رکھیں جب اسٹریس ہو تو اس سے کیسے چھٹکارا پائیں، جب ڈپریشن ہو تو اس سے کس طرح نجات حاصل کریں۔ اپنی تنہائی کا علاج کس چیز سے کریں؟ ان سب چیزوں کے بارے میں بتائیں۔ ان کے بارے میں guidance دیں۔
آپ کی جنریشن نے زندگی کو اچھے مارکس اور اچھے مینرز کے درمیان اس طرح تقسیم کردیا ہے کہ ہم میں سے بہت سے تو ویسے ہی گم ہوجاتے ہیں جہاں تک علیزہ کا تعلق ہے تو اس کو تو آپ لوگوں نے crippled (معذور) کردیا ہے۔ میں جب سے یہاں آیا ہوں حیران ہو رہا ہوں آپ اس کو اچھا کہتے ہیں، وہ خود کو اچھا سمجھتی ہے۔ آپ اس کو برا کہتے ہیں، وہ خود کو برا سمجھتی ہے۔ اس کی اپنی کوئی سوچ ہے نہ نظر۔ وہ دنیا میں آپ کی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ آپ کے دماغ سے سوچتی ہے۔ آپ کے معیار کے مطابق فیصلہ کرتی ہے اور آپ کی پسند ناپسند کے مطابق برتتی ہے… مگر کتنی دیر تک… ایک اسٹیج ایسی آتی ہے جب سب کچھ Stagnant ہوجاتا ہے۔ پھر اپنے اردگرد کی دنیا کتنی بری لگتی ہے۔ آپ اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتیں۔ پھر نہ اپنی سمجھ آتی ہے نہ دوسروں کی۔ اس وقت دل چاہتا ہے ہر چیز چھوڑ دی جائے چاہے وہ خونی رشتے ہی کیوں نہ ہوں۔
ہماری فیملی میں پچھلے کئی سالوں سے یہی سب کچھ تو ہو رہا ہے۔ ہم سب لوگ ایک ایسی ریس میں دوڑ رہے ہیں جہاں کوئی فنشنگ لائن نہیں ہے۔ یہ ریس بس تب ختم ہوتی ہے جب آپ گر جاتے ہیں اور گرنے کے بعد دوبارہ اٹھا نہیں جاتا۔ کم از کم علیزہ کو تو اس ریس میں مت دوڑائیں۔ اس کو تو زندگی گزارنے دیں۔ انجوائے کرنے دیں اس کو۔ وہ خواب دیکھنے دیں جو وہ دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کے وجود میں اس کی شخصیات میں خامیوں کی اتنی میخیں اتنی بے رحمی سے نہ ٹھونکیں کہ ساری عمر ان سے رسنے والا لہو اس کے وجود کو آلودہ رکھے اسے۔۔۔”
وہ بات کرتے کرتے یک دم تیزی سے اٹھ کر لاؤنج سے نکل گیا۔ نانو بالکل ساکت بیٹھی تھیں۔ ایسا کیا ہوا تھا کہ عمر کی آوازیوں بھرا جاتی۔ وہ اپنی آنکھوں میں نمودار ہونے والی نمی کو چھپانے کیلئے یوں بھاگ کھڑا ہوا۔ آخر وہ سوات سے اتنی جلدی واپس کیوں آگیا ہے؟ سوات میں عمر کے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے؟ وہ کچھ ماؤف ذہن کے ساتھ مسلسل سوچ رہی تھیں۔
باب: 19
”پھر کب تک آجاؤ گی؟” نانو نے شاید دسویں بار پوچھا۔
”نانو! پرسوں شام تک واپسی ہو جائے گی۔” علیزہ نے دسویں بار بھی اتنے ہی تحمل سے جواب دیا۔
”تم جب تک واپس نہیں آجاتیں، مجھے فکر رہے گی۔”
”فکر کرنے والی کون سی بات ہے نانو! میں کون سا اکیلی جارہی ہوں۔” علیزہ نے انہیں تسلی دی۔
”پھر بھی علیزہ! پتا نہیں وہاں کیسا ماحول ہو؟ کیسے لوگ ہوں؟”
”اچھے لوگ ہوں گے۔ پہلے بھی ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے بہت سے گروپ کئی سال سے وہاں جارہے ہیں۔ ظاہر ہے اچھے لوگ ہوں گے تب ہی تو بار بار ہمارا ڈیپارٹمنٹ وہاں جاتا ہے۔”
علیزہ نے آخری بار اپنے بیگ کو چیک کرتے ہوئے بند کیا۔
”پتا نہیں تم وہاں کیسے رہو گی۔ گاؤں ہے۔”
”نانو! کچھ نہیں ہوتا۔ میں کون سا ساری عمر کیلئے وہاں جارہی ہوں۔ دو ہی دن کی تو بات ہے پھر آجاؤں گی نا۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اپنے ساتھ پانی رکھ لینا تھا گاؤں کا پانی صاف نہیں ہوگا۔ صفائی بھی تو نہیں ہوتی وہاں۔”
”اب میں پانی تو ساتھ لے کر نہیں جاؤں گی، جیسا پانی سب پئیں گے میں بھی پی لوں گی۔” علیزہ نے صاف انکار کردیا۔
”تم بیمار ہوجاؤ گی۔”
”کچھ نہیں ہوگا نانو! اب میں اسٹڈی ٹور پر جارہی ہوں اور جن لوگوں کی زندگیوں کو آبزرو کرنے جارہی ہوں ان کے ساتھ پانی بھی نہ پیوں تو پھر تو میں بس جھوٹ ہی لکھوں گی۔ سوشیالوجی ہے میرا سبجیکٹ۔ نانو! آپ کچھ تو سوچیں۔”
”سوشیالوجی یہ تو نہیں کہتی کہ بندہ اپنی صحت کا خیال بھی نہ رکھے۔”
”نانو! وہ لوگ بھی وہی کچھ کھا پی کر زندہ ہیں جو آپ کے نزدیک ہائی جینک نہیں ہے اس لیے دو دن وہ سب کچھ کھا کر میں بھی فوت نہیں ہونگی۔”
”ان لوگوں کو عادت ہے’ وہ اسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں، مگر تمہیں تو عادت نہیں ہے تم اور طرح کے ماحول میں پلی ہو۔” نانو اب بھی اپنی بات پر مصر تھیں۔
”اچھا۔ میں صبح جاتے ہوئے دیکھوں گی۔” علیزہ نے مزید بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور انہیں ٹال دیا۔
”دیکھوں گی نہیں۔ میں نے ایک چھوٹے بیگ میں ٹن رکھوا دیئے ہیں۔ کوشش کرنا۔ کوئی فضول چیز وہاں سے مت کھاؤ۔ کل کا کھانا تو میں صبح تمہارے ساتھ دے دوں گی۔ شام تک کیلئے کافی ہوگا اور پرسوں تم ان ٹن کو استعمال کرنا۔”
نانو اسے ہدایات دے رہی تھیں۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔ کھانا ساتھ لے جانے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ سب مل کر اس کھانے سے اچھی انجوائے منٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس نے سوچا تھا۔
اس کی کلاس اسٹڈی ٹور پر دو دن کیلئے ڈسکہ کے قریب کسی گاؤں میں جارہی تھی۔ دو دن کے قیام کے دوران انہیں اس گاؤں اور اس سے ملحق علاقوں میں پچھلے کچھ سالوں میں این جی اوز کی طرف سے ہونے والی دیہی اصلاحات کا جائزہ لینا تھا اور پھر اس پر ایک رپورٹ بھی تیار کرنی تھی۔
علیزہ اس ٹور کی اطلاع پر سب سے زیادہ ایکسائیٹڈ تھی۔ اسے پہلی بار کسی گاؤں میں جانے کا موقع ملا تھا اور نہ صرف وہاں جانے کا موقع ملا تھا۔ بلکہ وہاں رہنے کا بھی موقع مل رہا تھا۔ اس سے پہلے ہونے والے تمام اسٹڈی ٹورز کسی نہ کسی طرح لاہور اور اس کے گرد و نواح تک ہی محدود رہے تھے۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ لوگ اتنی دور جارہے تھے۔ گاؤں میں ان کے قیام کا بندوبست وہاں کے کچھ زمیندار گھرانوں میں کیا گیا تھا۔
نانو نے بہت آسانی سے اسے جانے کی اجازت نہیں دی تھی لیکن بہرحال دے دی تھی اور علیزہ کیلئے اتنا ہی کافی تھا اور اب صبح سویرے اسے یونیورسٹی سے اپنے سفر کا آغاز کرنا تھا اور رات کو وہ اپنی پیکنگ کر رہی تھی جب نانو نے اس کے سر پر کھڑے ہو کر ہدایات دینی شروع کردیں۔
کھانے کی میز پر نانو نے یہ خبر عمر کو بھی دی۔ وہ سالن کے ڈونگے میں سے سالن نکالتے نکالتے رک گیا۔
”کیوں علیزہ! گاؤں میں کیا کرو گے تم لوگ؟”
”تھوڑی بہت ریسرچ کریں گے۔”
”جا کہاں رہے ہو؟”
علیزہ نے اسے گاؤں کا نام بتایا۔
”کس چیز کے بارے میں ریسرچ کرنی ہے۔” وہ بہت متجس نظر آرہا تھا۔
”وہاں پچھلے کچھ سالوں سے چند این جی اوز کافی کام کر رہی ہیں سوشل ڈویلپمنٹ اور دیہی اصلاحات کے حوالے سے ان ہی کے کام کا جائزہ لینا تھا۔ ان کا طریقہ کار اور اتنی کامیابی سے وہاں کیسے کام کر رہی ہیں۔”
اس نے بڑی سنجیدگی سے بتانا شروع کیا مگر اس کے جواب پر عمر کا ردعمل حیرت انگیز تھا۔ وہ بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا اور پھر کافی دیر تک ہنستا ہی رہا۔ علیزہ کچھ شرمندہ ہوگئی۔ اسے اپنی ہتک کا احساس ہوا تھا۔
”کیا ہوا عمر؟ ہنس کیوں رہے ہو؟” نانو نے بھی کچھ حیران ہو کر عمر کو دیکھا جس کا چہرہ اب سرخ ہو رہا تھا۔ پھر اچانک اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے پانی کا گلاس ہاتھ میں لے لیا۔ پانی کے چند گھونٹ لینے کے بعد اس نے علیزہ سے کہا۔
”تو آپ وہاں ان چیزوں پر ریسرچ کرنے جارہی ہیں؟”
علیزہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ چہرے پر خفگی کے تاثرات کے لئے کھانا کھانے میں مصروف رہی۔ عمر اس کی خفگی کو جیسے بھانپ گیا تھا۔
”یہ جو تم لوگوں کا ڈیپارٹمنٹ وہاں اسٹڈی ٹور کیلئے جارہا ہے، یہ خود سے جارہا ہے یا کسی کے invitation پر؟” علیزہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”میرا مطلب ہے، کوئی اسپانسر کر رہا ہے اس ٹور کو؟” اس نے وضاحت کی۔
”ہاں وہاں کام کرنے والی ایک این جی او۔” علیزہ نے مختصراً جواب دیا۔
اور عمر نے اس کا جواب سن کر بڑی روانی اور اطمینان کے ساتھ اس این جی او کا نام دہرا دیا۔ علیزہ حیران رہ گئی۔
”آپ کیسے جانتے ہیں کہ ہمیں اس این جی او نے اسپانسر کیا ہے۔”
”بس ہمارے بھی کچھ سورسز ہیں۔” وہ اب اطمینان سے چاول کھانے میں مصروف ہوگیا۔
”آپ ہنسے کیوں تھے؟” اس بار علیزہ نے اس سے کچھ کڑے تیوروں سے پوچھا۔
عمر ایک بار پھر مسکرایا۔ ”بس ایسے ہی… وہ تم کہہ رہی تھیں این جی او کی کامیابیاں اور طریقہ… وہ سوشل ڈویلپمنٹ… ہاں اور وہ دیہی اصلاحات تو بس مجھے ہنسی آگئی۔”
”اس میں ہنسنے والی تو کوئی بات نہیں ہے۔” علیزہ کچھ برہم ہوگئی۔
”اگر بندہ ایک ایسی چیز پر ریسرچ کرنے جارہا ہو جس کا کوئی وجود ہی نہیں تو پھر میرے جیسے بندے کو تو ہنسی آئے گی۔”
”کیا مطلب؟”
”علیزہ بی بی! وہاں جا کر اپنا وقت ضائع مت کریں ہم سے پوچھیں ساری انفارمیشن آپ کو گھر بیٹھے دے دیں گے۔ آپ بس حکم کریں۔”
اس کی مسکراہٹ بے حد معنی خیز تھی۔
”میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔”وہ الجھ گئی۔ ”این جی او وہاں اس قسم کا کوئی کام نہیں کر رہی ہیں جس کے بارے میں آپ ابھی اعلان فرما رہی تھیں۔ یہ ساری این جی اوز ڈونر ایجنسیز کے روپے کے بل بوتے پر چلتی ہیں اور یہ ڈونر ایجنسیز یورپین ہوتی ہیں یا امریکن اور انہیں ان کی گورنمنٹ پیسے دیتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ یا یورپ یہاں دیہی اصلاحات پر اپنا روپیہ ضائع کریں گے۔ علیزہ بی بی! جس ملک کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہو وہاں دیہی اصلاحات کا مطلب ہے کہ آپ نے اس ملک کی اکانومی کو صحیح ڈائریکشن دی اور ترقی کیلئے ایک سنگ بنیاد رکھ دیا۔ کون سا ملک اتنا احمق ہوگا کہ وہ اپنا روپیہ دوسرے ملک کی ترقی یا بقول آپ کے دیہی اصلاحات پر لگائے۔ وہاں این جی اوز ایسا کچھ بھی نہیں کر رہی۔ وہ کچھ اورکر رہی ہیں۔”
وہ اپنی پلیٹ میں کچھ اور چاول نکالتے ہوئے کہتا جارہا تھا۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ پچھلے کئی سال سے ہمارے ہیڈ آف دا ڈیپارٹمنٹ وہاں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کو بھجواتے رہے ہیں اور وہ سب لوگ وہی سب کچھ لکھتے رہے ہیں جو میں بتا رہی ہوں اور پھر انٹرنیشنل میڈیا بھی تو کافی عرصے سے وہاں این جی اوز کی کارکردگی پر لکھتا رہا ہے۔ میڈیا کو دھوکا کیسے دیا جاسکتاہے؟”
عمر نے کھانا کھاتے ہوئے اچانک سر اٹھا کر علیزہ کے سامنے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اٹھا دیں۔
”یہ کتنی انگلیاں ہیں علیزہ؟” بڑی ملائمت سے اس سے پوچھا گیا۔ وہ اس سوال پر گڑ بڑا گئی اس کے چہرے سے اندازہ نہیں کر پائی کہ وہ سنجیدہ تھا یا مذاق کر رہا تھا۔
”دو” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
”گڈ… یہ دو انگلیاں جو آپ کو دو نظر آتی ہیں، یہ اس لیے دو ہیں کیونکہ میں نے آپ کو دو ہی انگلیاں دکھائی ہیں۔ تین یا چار نہیں… لیکن دو انگلیاں نظر آنے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میرے ہاتھ میں باقی تین انگلیاں نہیں ہیں مگر ان تین انگلیوں کو میں ضرورت کے وقت دکھاؤں گا۔”
علیزہ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”آپ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ایک بہت بڑے الو ہیں… نہیں شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ ہم لوگوں کے نزدیک الو ہوسکتے ہیں، ہو سکتا ہے وہ ان معاملات میں خاصی سمجھداری کا مظاہرہ کر رہے ہوں۔” وہ پرسوچ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”کیا مطلب؟”
”مطلب یہ ہے علیزہ بی بی کہ یورپ میں الو کو ایک خاصا عقلمند جانور سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی ایسے ہی الو ہوسکتے ہیں۔”
علیزہ کچھ کہے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی وہ اب خاصی لاپروائی سے پانی پینے میں مصروف تھا۔ ” این جی او بہت عرصے سے اگر آپ کے ڈیپارٹمنٹ کو یہاں کے دورے کروا رہی ہے تو یقیناً ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو بھی کچھ نہ کچھ پیش کرتی رہی ہوگی۔ ڈالرز کی کمی تو نہیں ہوتی ان این جی اوز کے پاس۔”
پانی کا گلاس نیچے رکھ کر وہ ایک بار پھر بولنا شروع ہوچکا تھا۔
”مگر وہ کیوں دیں گے انہیں ڈالرز؟” اسے شاک لگا۔
”تاکہ آپ کا ڈیپارٹمنٹ وہاں کے اسٹڈی ٹورز کر کے رپورٹس بناتا رہے اور یہ این جی او ہمیشہ گورنمنٹ کی گڈ بکس میں رہے۔ نام بنتا رہے۔ ریپوٹیشن بہتر سے بہتر ہوتی جائے۔ آپ کا ڈیپارٹمنٹ کوئی واحد ڈیپارٹمنٹ نہیں ہوگا جسے وہاں کے وزٹ کروائے جاتے ہیں۔ دوسری بہت سی یونیورسٹیز کے ڈیپارٹمنٹس کو بھی اس طرح بلایا جاتا ہوگا۔ خود سوچو ملک کی دس بارہ اچھی یونیورسٹیز کے کچھ اچھے ڈیپارٹمنٹس کو این جی اوز بار بار انوائٹ کریں اس کے بعد وہ لوگ اپنی ریسرچ میں یا رپورٹس میں اس خاص این جی او کا ذکر اچھے لفظوں میں کریں تو کتنا بڑا ہتھیار ہے یہ اس این جی او کے ہاتھ میں جسے وہ کبھی بھی استعمال کرسکتی ہے۔” وہ اب قدرے سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”کیا این جی اوز اس علاقے میں کچھ نہیں کررہیں؟” علیزہ نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
”نہیں وہ کر رہی ہیں… اپنا کام وہ بڑی مستعدی سے کر رہی ہیں مگر وہ کام بہرحال ان کاموں میں شامل نہیں ہے جن کا ذکر تھوڑی دیر پہلے آپ کر رہی تھیں۔ یہ لوگ وہاں پچھلے کئی سالوں سے کچھ ڈیٹا اکٹھا کرنے میں مصروف تھے بلکہ کرچکے ہیں۔”
”کیسا ڈیٹا؟”
‘ یہ جو علاقہ ہے ڈسکہ، سیالکوٹ، نارووال اور اس کے اردگرد کے سارے دیہات یہ پچھلے بہت سے سالوں سے بین الاقوامی طور پر بہت مشہور ہو رہے ہیں اور ان پر خاصی نظر رکھی جارہی ہے۔ کیوں نظر رکھی جارہی ہے؟ اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔ یہ علاقے مشہور اسپورٹس گڈز کی وجہ سے ہیں۔ سرجیکل انسسٹرومنٹس کا کام بھی ہوتا ہے مگر اصل وجہ شہرت اسپورٹس گڈز ہی ہیں اور اسپورٹس گڈز میں بھی فٹ بال۔ اس وقت یورپ امریکہ میں استعمال ہونے والا اسی فیصد فٹ بال اسی علاقے سے آتا ہے۔”
وہ اب بڑی سنجیدگی سے اسے تفصیلات بتا رہا تھا۔ چند لمحے پہلے والی مسکراہٹ اس کے چہرے سے غائب ہوچکی تھی۔
”لیکن یہ فٹ بال adidas کی اسٹیمپ کے ساتھ پوری دنیا میں سپلائی کردیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں جو فٹ بال سینٹس میں تیار ہوتا ہے وہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں ڈالرز میں بکتا ہے۔”
علیزہ کی دلچسپی ختم ہوتی جارہی تھی۔
”مگر اس سارے معاملے کا این جی اوز کے ساتھ کیا تعلق ہے؟”
عمر نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”اب یہ سارا فٹ بال وہاں کی فیکٹریز میں تیار نہیں ہوتا۔ عجیب بات ہے لیکن نوے فیصد فٹ بال وہاں کے دیہی ایریا میں تیار ہوتا ہے… گاؤں میں… چھوٹے چھوٹے گھروں میں عورتیں اور خاص طور پر بچے تیار کرتے ہیں۔ وہاں سے یہ فٹ بال فیکٹریز میں جاتا ہے۔ ان فیکٹریز میں جنہوں نے joint venture کیا ہوا ہے ملٹی نیشنل کمپنیز کے ساتھ اور اب تک وہاں پر ان کمپنیز کا ہولڈ تھا جن کا تعلق امریکہ سے ہے مگر کچھ عرصے پہلے وہاں کچھ جاپانی کمپنیز نے بھی جوائنٹ وینچرز کرنا شروع کردیئے ہیں اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ وہاں فٹ بال کے حوالے سے دو بڑے حریف ہیں۔ ایک وہ فرم جس کا adidas کے ساتھ وینچر ہے اور دوسری وہ جس کا جاپانی کمپنی کے ساتھ وینچر ہے۔ اس دوسری کمپنی نے adidas کے بزنس کو خاصا نقصان پہنچایا۔ ان لوگوں نے بہت ہی پروفیشنلی کام کرتے ہوئے ان دیہی علاقے کے کافی اندر تک رسائی حاصل کی اور وہ عورتیں اور بچے جو پہلے گھروں میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ انہیں ملازم رکھا اور اپنی فیکٹریز تک لانا شروع کردیا۔ پھر ورکرز کیلئے فیسیلیٹیز کی بھرمار کردی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں اچھے ورکرز نے اس نئی فرم کیلئے کام کرنا شروع کردیا۔ adidas کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ فٹ بال کے بزنس کے حوالے سے کیونکہ ان کیلئے کام کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہوگئی اور دوسری طرف جس فٹ بال کی اسٹچنگ سات آٹھ روپے میں ہوتی تھی وہ یک دم گیارہ بارہ روپے میں پڑنے لگا کیونکہ ورکرز نے زیادہ روپیہ مانگنا شروع کردیا۔ دوسری طرف یہ بھی ہوا کہ امریکہ میں فٹ بال کا ورلڈ کپ ہونے والا ہے پھر اولمپکس… بھی آرہے ہیں۔ اس لیے وہاں اس وقت فٹ بال کی بہت ڈیمانڈ ہے اور بہت مہنگی بک رہی ہے تو فٹ بال کی مارکیٹ میں امریکی کمپنیز کا حصہ کچھ کم ہوگیا ہے۔ پہلے جو فٹ بال صرف امریکن لیبل کے ساتھ بک رہا تھا اب وہ جاپانی لیبل کے ساتھ بکنے لگا۔ تیسری طرف یورپ تھا جس کی مارکیٹ میں امریکی اور جاپانی لیبلز نے افراتفری مچائی ہوئی ہے۔ کم از کم فٹ بال کے حوالے سے۔
اب اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے ہر ایک نے اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کیے اور پہلے ہتھیار کے طور پر یورپین ممالک نے این جی اوز کو آگے لانے کا فیصلہ کیا۔ جواباً امریکہ نے بھی این جی اوز کا مقابلہ این جی اوز سے ہی کرنے کا فیصلہ کیا۔ طے یہ کیا گیا کہ اس انڈسٹری کے حوالے سے چائلڈ لیبر کا ایشو اگلے کچھ سالوں میں اٹھایا جائے گا۔”
عمر کی معلومات اور باتوں پر اسے حیرانی ہو رہی تھی۔
”مگر کیوں؟”
”اس وقت دنیا میں سب سے اچھا فٹ بال اس کو سمجھا جاتا ہے جس کی اسٹچنگ بچے کرتے ہیں۔”
”بچے؟” علیزہ نے بے یقینی سے کہا۔ ”مگر بچے اتنے ماہر تو نہیں ہوتے۔”
”ہوتے ہیں۔ آپ وہاں جاکر دیکھیں گی تو ان کی مہارت آپ کو حیران کردے گی مگر بچوں کو ان کی مہارت کی وجہ سے برتری حاصل نہیں ہے۔ بچوں کی انگلیاں باریک اور نرم ہوتی ہیں ان کے ہاتھ کی اسٹچنگ میں ایک خاص قسم کی نفاست ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب فٹ بال کو پلٹا جاتا ہے تو اس وقت باریک انگلیوں کی وجہ سے ڈوری بڑی صفائی سے کھینچی جاتی ہے یہ کچھ ویسی ہی بات ہے جس طرح کارپٹ بناتے ہوئے بھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کارپٹ کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے جسے بچے بناتے ہیں کیونکہ جب کارپٹ میں گرہیں لگائی جاتی ہیں تو بچوں کی باریک اور نرم انگلیاں بڑوں کی نسبت یہ کام زیادہ صفائی اور نفاست سے کرتی ہیں۔
یہی مسئلہ اس علاقے کا ہے۔ غربت بہت ہے اس لیے لوگوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس کام میں لگایا ہوا ہے۔ اب یورپ میں چائلڈ لیبر پر بین ہے اور وہاں گورنمنٹ سرکاری طور پر ایسی چیزیں اپنی مارکیٹ میں نہیں انے دیتی جس کے بارے میں تھوڑا سا بھی شک ہو کہ یہ بچوں نے بنائی ہے۔ امریکہ میں بھی ایسا ہی ہے این جی اوز جب یہاں آئیں تو انہوں نے دیہی اصلاحات اور سوشل ڈویلپمنٹ کا نام لے کر facts and figures اکٹھے کرنے شروع کردیئے کس علاقے میں کس عمر سے کس عمر تک کے بچے یہ کام کر رہے ہیں۔ فٹ بال کی انڈسٹری سے منسلک عورتوں کی تعداد کتنی ہے۔ بانڈڈ لیبر کی ریشو کیا ہے۔ اجرتوں کا ریٹ کیا ہے؟ ان لوگوں کو کس طرح سہولیات میسر ہیں یہ سارا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے اور آپ دیکھیے گا علیزہ بی بی! آئندہ چند سالوں میں چائلڈ لیبر اور بانڈڈ لیبر کے حوالے سے ان ہی علاقوں کے متعلق انٹرنیشنل میڈیا خاص شور مچائے گا۔ کچھ پابندیاں بھی لگائی جائیں گی۔”
”مجھے یقین نہیں آرہا۔”
”آجائے گا۔” عمر نے اطمینان سے کہا۔
”مگر یہ این جی اوز تو تعلیم کے حوالے سے بہت کام کر رہی ہیں۔”
”کام کم کر رہی ہیں، شور زیادہ کر رہی ہیں۔ وہ کس لیے ہے یہ بھی میں آپ کو بتا دوں گا۔ فی الحال تو آپ یہ جان لیں کہ ابھی اس علاقے میں موجود فیکٹریز یا فرمز iso 9000 کے سر ٹیفکیٹ کے بغیر ہیں اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور Gatt کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے مطابق اگلے کچھ سالوں میں ہر ملک کو اپنی مارکیٹ کھلی رکھنی پڑیں گی مگر اس مارکیٹ میں ان ہی فرمز یا کمپنیز کا مال جاسکے گا جس کے پاس یہ سرٹیفکیٹ ہے اور سر ٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے جب چائلڈ لیبر بانڈڈ لیبر کے حوالے سے اس فرم یا کمپنی پر کوئی الزام نہ ہو مگر این جی اوز نے اتنے اچھے طریقے سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی کمپنی یا فرم کو اس حوالے سے یورپین یا امریکن مارکیٹ میں بلیک لسٹ کروا سکتے ہیں۔ ان این جی اوز کے پاس مکمل ریکارڈ ہے کہ کون سی فرم کون سے علاقے کے کون سے گھروں سے کتنی تعداد میں کیا چیز تیار کرواتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ مال تیار کرنے میں بچوں یا عورتوں کا کس حد تک حصہ ہے۔ اب فرض کرلیں کہ اس علاقے کی کسی فرم نے کسی امریکن ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کیا۔
اب ان کی شرط یہ ہوتی ہے کہ فٹ بال میں ان کا لیبل لگے گا اس لوکل فرم کا نہیں اور ساری دنیا میں وہ فٹ بال امریکی فٹ بال کے طور پر سپلائی کی جائے گی۔ اب اگر یہ لوکل فرم یہ طے کرلیتی ہے کہ وہ خودمختار ہوجائے اور کانٹریکٹ ختم کر کے اپنے لیبل کے ساتھ دنیا میں فٹ بال سپلائی کرے تو این جی اوز کی مدد سے حاصل کیے جانے والے ریکارڈ کو اس فرم کے منہ پر مارا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آپ تو چائلڈ لیبر کرواتے ہیں۔ بانڈڈ لیبر کے بھی ذمہ دار ہیں اس لیے آپ کو آئی ایس او سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جائے گا جو اگلے چند سال میں امپورٹ ایکسپورٹ سے تعلق رکھنے والے ہر ادارے کیلئے لازمی ہوجائے گا۔ اب علیزہ! آپ بتائیے وہ لوکل فرم بے چاری کیا کرے گی۔ ظاہر ہے وہ کبھی بھی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم نہیں کرے گی اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔”
علیزہ کچھ شاکڈ سی اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”مجھے ابھی بھی یقین نہیں آرہا اگر وہاں اتنی این جی اوز اس طرح کا کام کر رہی ہیں تو ابھی تک میڈیا نے ان چیزوں کو ہائی لائٹ کیوں نہیں کیا۔جرنلسٹ تو فوراً ہر چیز، خاص طور پر چھپی ہوئی چیزوں کو ڈھونڈ لیتے ہیں اور پھر اگر این جی اوز اس طرح کا کام کررہی ہیں تو ان کی فیلڈ فورس بھی تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی کو یہ سب کچھ نظر کیوں نہیں آتا۔ یا وہ لوگ یہ باتیں میڈیا تک کیوں نہیں پہنچاتے۔”
علیزہ نے بے یقینی سے پوچھا تھا۔
”اس کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔” عمر اب بھی سنجیدہ تھا۔ ”اس علاقے کی خوش قسمتی کہہ لو یا بدقسمتی مگر یہ پاکستان کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں اقلیتوں کی ایک بڑی تعداداباد ہے اور اقلیتوں کا بھی وہ طبقہ جس کو آپ لوئر مڈل کلاس کہتے ہیں جن کے پاس صرف یہ آپشن ہوتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل نہ کر کے میونسپلٹی میں سویپر کا کام کرلیں یا تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہاسپٹلز میں نرسوں یا وارڈ بوائز کے ”اعلیٰ عہدے” حاصل کرلیں جہاں پر اقلیتوں کیلئے مواقع کو اتنا محدود کردیا جائے کہ انہیں بھوک یا بددیانتی میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو وہ بددیانتی کو چن لیں گے۔ اس علاقے میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ فیلڈ میں کام کرنے والوں کا انتخاب کرتے ہوئے این جی اوز اقلیتی طبقوں کو ترجیح دیتی ہے ان کے نزدیک وہ قدرے زیادہ قابل اعتماد ہوتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ صرف وہ لوگ ہی این جی اوز کے ساتھ کام کر رہے ہیں ان کے ساتھ ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ روپے میں بڑی طاقت ہوتی ہے، علیزہ! اور خاص طور پر تب جب بندہ بے روزگار ہو۔ یہ لوگ کام کا بہت اچھا معاوضہ دیتے ہیں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتے ہیں، کھانا بھی مہیا کرتے ہیں اس کے علاوہ بھی اور کچھ سہولیات ہوتی ہیں اور جب ایک بے کار بندے کو بیٹھے بیٹھائے اتنا سب کچھ مل جائے تو وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ کان اور زبان بھی بند کرلیتا ہے اگر کوئی ذرا زیادہ حب الوطنی کا ثبوت دینے کی کوشش کرے تو اس کی زبان بند کرنے کیلئے بھی کئی طریقے ہوتے ہیں۔
اور ویسے بھی یہ این جی اوز ان علاقوں سے صرف فیلڈ فورس کیلئے لوگ لیتی ہیں۔ آفیسرز یا ایڈمنسٹریشن کے سارے لوگ لاہور، کراچی یا دوسرے بڑے شہروں سے آتے ہیں اور وہ وہی ہوتے ہیں جو کئی کئی سالوں سے ان این جی اوز کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کا کچا چٹھا چھپائے رکھنے کی قیمت وہ ڈالرز اور پاؤنڈز میں وصول کرتے ہیں۔”
”مگر میڈیا… میڈیا کیوں خاموش ہے۔ یہ ساری باتیں ان لوگوں سے کیوں پوشیدہ ہیں؟” وہ اب کچھ فکرمند نظر آنے لگی تھی۔
”کس میڈیا کی بات کر رہی ہیں آپ۔ نیوز پیپر کی یا ٹی وی کی؟”
”دونوں کی۔”
”ٹی وی تو کبھی این جی اوز کے بارے میں سچ دکھا نہیں سکتا کیونکہ یہ گورنمنٹ کی پالیسی نہیں ہے۔ میں نے تمہیں بتایا ہے نا کہ این جی اوز کو جن ایجنسیز کے ذریعے روپیہ ملتا ہے وہ غیرملکی حکومتوں کی آلہ کار ہوتی ہیں اور یہ لوگ ہماری حکومت پر پریشر ڈالتے رہتے ہیں۔ حکومت کو این جی او پر تنقید ٹی وی پر دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اس این جی اوز کو بین کردے مگر صرف طاقت ہونے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ کس کس سے لڑے گی۔ وہ کیا کہتے ہیں Beggars Can’t be choosers گداگر کے پاس انتخاب کی گنجائش نہیں ہوتی تو ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اپنے اپنے مفاد کیلئے ہم ہر چیز کا سودا کرلیتے ہیں اس لیے گورنمنٹ بھی یہی کرتی ہے جہاں تک نیوز پیپرز کا تعلق ہے تو وہ کہاں کے پارسا ہیں۔ تم کیا سوچتی ہو کہ وہ واقعی پیپرز سے۔ وہ تو اپنے آپ کو اس ملک کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسی این جی اوز سے اس ملک میں وہ انقلاب آجائے گا جس کی انہیں خواہش ہے۔” اس کے لہجے میں علیزہ کو کچھ تلخی محسوس ہوئی۔
”تو کیا وہ تعلیم کے حوالے سے وہاں سرے سے کوئی کام نہیں کر رہے؟” علیزہ نے پوچھا۔
”کر رہے ہیں… کر کیوں نہیں رہے! دیہی علاقوں میں انہوں نے کچھ اسکولز کھولے ہیں اور شور مچا دیا ہے کہ وہ اس علاقے میں انقلاب لے آئے ہیں۔ انہوں نے قسمت بدل دی ہے علاقے کی۔ حالانکہ ایسی کوئی خاص چیز نہیں کی ہے انہوں نے وہاں ابھی بھی اتنی ہی غربت ہے جتنی پہلے تھی۔ کسی حد تک بچوں کی اسکول جانے والی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اور کچھ نہیں بدلا۔”
وہ ایک بار پھر کھانا کھانے لگا۔
”مگر آپ یہ سب کچھ کیسے اتنے وثوق سے کہہ رہے ہیں؟ ہوسکتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو؟” علیزہ نے قدرے محتاط انداز میں کہا۔
”علیزہ بی بی! آپ نے اپنی ساری زندگی گھر کی چاردیواروں کے اندر گزاری ہے۔ protected life آپ کو کیا پتا کہ اس گھر کے باہر کیا کیا ہوتا ہے اور کیسے کیسے ہو رہا ہے۔ مخصوص کلاس میں رہتی ہو۔ مخصوص سوشل سرکل ہے اور میرا تو خیال ہے کہ اب تک دوست بھی بدلے نہیں ہونگے۔ شہلا سے ہی دوستی ہے نا اب تک؟”
علیزہ کو کچھ ہتک کا احساس ہوا۔ وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا۔
”تم سمجھو، تم جنت میں زندگی گزار رہی ہو ابھی تک، اور جنت میں رہ کر دوزخ ایک الیوژن ہی لگتا ہے جیسے تمہیں لگ رہا ہے۔”
”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مجھے باہر کی دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے مجھے چیزوں کے بارے میں اتنی Authentic Information (مصدقہ معلومات) نہیں ہوں جتنی آپ کو ہے مگر میں بے خبر نہیں ہوں۔”
اس نے جیسے کچھ برامان کر کہا مگر عمر نے اس کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔
”تم جیسی لڑکیاں جن کی زندگی ایک گھر کے اندر گھومتی ہے۔ ان تک پہنچنے والی انفارمیشن اتنے ذرائع سے گزرتی ہے کہ اس میں سے سچائی کا عنصر، تلخ سچائی سمجھتی ہو نا، وہ غائب ہوجاتا ہے۔ اتنا شفاف ورژن آتا ہے تم لوگوں کے پاس چیزوں کا کہ تم لوگوں کو کوئی پریشانی ہوتی ہے نہ خوف آتا ہے۔ اسی لیے تو تم اطمینان سے زندگی گزارتے رہتے ہو۔”
وہ سلاد کھاتے ہوئے سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ جب ہم لوگ کوئی بات جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں بتائی نہیں جاتی جیسے اس وقت!” عمر نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر یک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
”او ہو… ایسا کیا پوچھ لیا آپ نے جو ہم نہیں بتارہے۔ ہاں یاد آیا، تم پوچھ رہی تھیں کہ میں اتنے وثوق سے کیسے یہ سب کہہ سکتا ہوں؟ ہے نا!”
”ہاں!”
”اصل میں جب میں امریکہ میں پوسٹڈ تھا تو ایک ٹریڈ قونصلر تھے ہمارے۔ اسی علاقے سے تعلق تھا ان کا۔ میں تو نہیں مگر وہ خاصی محب وطن قسم کی چیز تھے۔ کچھ دوستی ہوگئی میری ان کے ساتھ۔”
وہ یوں بات کر رہا تھا جیسے اپنی کسی غلطی کا اعتراف کر رہا تھا۔
”ہمیں کچھ رپورٹس ملیں کچھ این جی اوز کے حوالے سے۔ ہم نے سوچا کہ چلو کچھ ریسرچ کریں کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔ دو ماہ ہم لوگوں نے اس علاقے میں ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی اچھی خاصی چھان بین کی۔ حاصل ہونے والے حقائق اور اعداد و شمار خاصے ڈرا دینے والے تھے مگر غلط نہیں تھے۔”
”یہ کیسے ہوسکتا ہے؟” وہ گنگ تھی۔
”کیسے ہو سکتا ہے یہ تو مجھے نہیں پتا مگر یہی ہو رہا ہے۔ تمہارا ڈیپارٹمنٹ اتنے سالوں سے اس علاقے میں آجارہا ہے مگر میرے جتنی انفارمیشن نہیں ہوگی۔ اس علاقے کے بارے میں ہر چیز میری فنگر ٹپس پر ہے۔ کچھ پوچھ لو۔ پاپولیشن کے بارے میں، کسی لوکیشن کے بارے میں، کسی فیکٹری کے بارے میں، کسی این جی او کے بارے میں یا اور کسی چیز کے بارے میں۔ پھر 95 کا اکنامک سروے آف پاکستان کھولنا اور تصدیق کرلینا۔” عمر کے لہجے میں اسے عجیب سا فخر محسوس ہوا۔
”پھر آپ نے کیا کیا؟” اس نے کچھ بے تاب ہو کر پوچھا۔
”کیا کیا؟ مطلب؟” عمر پانی پیتے پیتے رک گیا۔
”آپ نے جب یہ ریسرچ کی تو آپ نے اس سب سے گورنمنٹ کو مطلع کیا؟”
عمر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔”ہاں گورنمنٹ کو مطلع کیا۔ باقاعدہ رپورٹ سب مٹ کی۔”
اس نے پانی پی کر کہا۔
”پھر گورنمنٹ نے ایکشن لیا؟”
”بالکل لیا۔ بلکہ فوری طور پر لیا۔”
”گورنمنٹ نے کیا کیا؟” اس کا تجسس اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔
”وجاہت حسین کو امریکہ سے زمبابوے ٹرانسفر کردیا گیا اور مجھے پاپا نے بلوا کر کہا کہ میں فارن سروس میں ہوں انٹیلی جنس میں نہیں اس لیے اپنے کام سے کام رکھوں اور فضول معاملات میں اپنی ٹانگ نہ اڑاؤں۔”
وہ شاکڈ رہ گئی۔ عمر کے چہرے پر کمال کا اطمینان تھا۔
”اور رپورٹ… رپورٹ کا کیا ہوا؟” اس نے ایک بار پھر پوچھا۔
”رپورٹ کی ایک ایک کاپی سوینئر کے طور پر میں نے اور وجاہت نے رکھ لی جو کاپی گورنمنٹ کو بھجوائی تھی، وہ انہوں نے تبرک کے طور پر امریکہ کے فارن آفس کو بھجوا دی۔” وہ مزے لے لے کر بتا رہا تھا۔
”کیا؟” وہ تقریباً چلا اٹھی۔
”ہاں! ٹھیک بتا رہا ہوں۔ رپورٹ سب مٹ کروانے کے ایک ہفتے کے اندر یہ سب کچھ ہوا اور پھر تقریباً ایک ہفتے کے بعد ایک سفارتی ڈنر میں امریکہ کے فارن آفس سے تعلق رکھنے والے، جان پہچان والے ایک آفیسر نے بڑی بے تکلفی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اتنے اچھے ”ریسرچ ورک” کیلئے مبارکباد دی ساتھ یہ بھی کہا کہ آئندہ بھی اگر ایسا کوئی پراجیکٹ کرنے کا ارادہ ہوتو وہ اسے اسپانسر کردیں گے۔ مجھے اخراجات کا کوئی پرابلم نہیں ہوگا۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس بار یہ رپورٹ حاصل کرنے میں انہیں دو دن لگ گئے کیونکہ پاکستان سے منگوانا پڑی۔ آئندہ میں کرٹسی کے طور پر ایک کاپی انہیں پہلے ہی بھجوا دوں تو انہیں بڑی خوشی ہوگی۔”
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ ہنسے یا روئے۔ وہ ہونقوں کی طرح عمر کا چہرہ دیکھتی رہی۔ عمر نے مسکرا کر کہا۔
”بالکل یہی ایکسپریشن میرے بھی تھے اس وقت۔ بعد میں، میں نارمل ہوگیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے تم ہوجاؤ گی۔”
علیزہ نے ایک گہری سانس لی۔ ”آپ نے کوئی احتجاج نہیں کیا؟”
”میں نے تو نہیں کیا۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔ ہاں وجاہت نے احتجاج کیا۔ اس نے زمبابوے جانے سے انکار کردیا تو اسے کہا گیا کہ پھر وہ ریزائن کردیں۔ تو اس نے ریزائن کردیا۔ دراصل وہ سیلف میڈ بندہ تھا۔ پتا نہیں بچتے بچاتے کیسے اتنے اونچے عہدے پر پہنچ گیا۔ اس کی کوئی بیک نہیں تھی۔ بیک ہوتی تو شاید اس کے ساتھ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔”
علیزہ کو بے اختیار وجاہت حسین پر ترس آیا۔
”پھر اب… اب وہ کیا کر رہے ہیں؟”
”عیش کر رہا ہے۔”
”کیا مطلب؟”
”ریزائن کرنے کے تیسرے دن اس کو ورلڈ بینک سے جاب کی آفر ہوگئی۔ اس نے وہاں کام شروع کردیا۔ اس وقت وہ تقریباً ایک لاکھ ڈالر کی تنخواہ پر کام کر رہا ہے۔ اصل میں ہوا یہ کہ وہ رپورٹ ان لوگوں نے بھی دیکھی۔ وہ بڑے متاثر ہوئے اس بندے سے۔ جان گئے کہ اس میں بڑی صلاحیت ہے بس پھر وہ اس کے پیچھے پڑ گئے۔ اب وہ وہیں ہے نیویارک میں۔”
علیزہ کے پاس جیسے لفظ نہیں رہے تھے۔ وہ اس کے سامنے کون سا پینڈورا باکس کھول رکھاتھا۔
”مگر وجاہت حسین نے کیوں جوائن کیا ورلڈ بینک… سب کچھ جانتے ہوئے بھی؟”
”تو کیا کرتا۔ بھوکا مرتا۔ایک تو اسے حب الوطنی کی بیماری اوپر سے ایمانداری کی بیماری۔ اس سے زیادہ Fatal combination کوئی نہیں ہوسکتا کسی پاکستانی کیلئے۔ پاکستان میں آجاتا تو دھکے کھاتا ان خوبیوں کے ساتھ اور دھکے کسی کو بھی اچھے نہیں لگتے۔ پھر اس کے بیوی بچے تھے۔ ذمہ داریاں تھیں اس پر۔ اس نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا۔ میری طرح اس کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا مگر کچھ دیر سے۔”
”عمر! یہ کوئی غلط کام نہیں ہے جو آپ نے کیا یا جو انہوں نے کیا۔”
”کیوں غلط کام نہیں ہے۔ ہماری آفیشل ڈیوٹیز میں تو یہ کام نہیں آتا تھا۔ انٹیریئر منسٹری کا کام تھا یہ ظاہر ہے۔ ہم نے ان کے کام میں ٹانگ اڑائی۔”
”مگر عمر! آپ یہ نہ کرتے تو شاید سب کچھ چھپا رہتا۔” اس نے جیسے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”نہیں علیزہ بی بی! ہماری غلطی یہی تھی کہ ہم جانے بوجھے حقائق کو دریافت کرنے چل پڑے تھے حالانکہ وہ باتیں سب کو پتا تھیں۔” اس نے علیزہ کو ایک بار پھر چونکایا۔
”کیا مطلب؟”
ہاں، انٹیریئر منسٹری اچھی طرح واقف تھی یہاں تک کہ ایجنسیز بھی۔ ہماری طرح کے کئی الّو ایسی ہی رپورٹس تیار کر کے پیش کرچکے تھے۔ اس علاقے میں جاؤ گی تو یہ دیکھ کر حیران ہو جاؤ گی کہ ان این جی اوز کے دفاتر کینٹ کے علاقے میں ہیں اور ظاہر ہے یہ تو ناممکن ہے کہ آرمی کے علاقے میں ہونے والی ایسی سرگرمیاں آرمی کی ایجنسیز سے خفیہ ہوں مگر وہ بھی صرف رپورٹس دے دیتے ہیں۔ کچھ کر نہیں سکتے اس لیے ہم نے کوئی ایسا نیا اور انوکھا کام نہیں کیا۔”
وہ اب سویٹ ڈش پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ علیزہ کو عمر پر رشک آیا۔ اس کی باخبری نے اسے ہمیشہ کی طرح متاثر کیا۔
”کم از کم میرے پاس کبھی بھی عمر جتنی معلومات نہیں ہوسکتیں۔” اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔
”اب جارہی ہو وہاں تو آنکھیں کھلی رکھنا۔ ہر چیز کو اس کی فیس ویلیو پر مت لینا۔ تھوڑا سا بھی ریشنل ہوجاؤ گی تو حقیقت جاننے لگو گی۔ پھر زیادہ متاثر نہیں ہوسکو گی۔” وہ اب اسے ہدایات دے رہا تھا۔
”لیکن میں اب وہاں جانا ہی نہیں چاہتی۔” اس نے اعلان کیا۔ عمر نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”آپ کہہ رہے ہیں کہ وہاں تو ایسی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے، جس کا جائزہ لینے میں جارہی ہوں تو پھر ٹھیک ہے وہاں جاکر میں وقت کیوں ضائع کروں۔” اس نے جیسے فوراً طے کرلیا تھا۔
”یار! عجیب احمق ہو تم۔۔۔” عمر نے کچھ جھلا کر کہا۔
”پہلے جو آپ کے ڈیپارٹمنٹ نے کہا، آپ نے وہ مان لیا۔ پھر آپ نے میری بات سنی تو اس پر یقین لے آئیں۔ ہوسکتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ تم آخر اپنا ذہن استعمال کیوں نہیں کرتیں۔ سچائی کو خود دریافت کرو، اس کے ہر aspect کو investigate کرو مگر مگر یہ کام خود کرو اپنی sense of judgement استعمال کرو۔”
”نہیں تو ٹھیک ہے۔ وہ نہیں جانا چاہ رہی تو نہ جائے، آخر تم خود ہی تو کہہ رہے تھے کہ یہ سب فراڈ ہے۔” نانو نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔
”اچھا یہ سب فراڈ ہے۔ چلیں اس کے بارے میں تو میں نے اسے بتادیا۔ زندگی میں آگے چل کر یہ کیسے جانے گی کہ کون سی چیز کیا ہے اور کیا نہیں۔ ایک بار اپنے دماغ اور اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھے گی، کچھ فیصلہ کرے گی تو آگے بھی کچھ کرسکے گی۔ تم ضرور جاؤ گی علیزہ۔ بلکہ واپس آکر مجھے بتانا کہ تم نے وہاں پر کیا کیا سیکھا ہے؟”
عمر کا لہجہ یک دم نرم ہوگیا۔ وہ سوچ میں پڑگئی۔
”جو کچھ میں نے تمہیں بتایا ہے وہ اس لیے نہیں بتایا کہ تم وہاں جانا ہی چھوڑ دو۔ میری کسی بات کو اپنی ذہن پر سوار کرنے کی کوشش مت کرو۔ صرف یہی سمجھو کہ تمہارے پاس ایک اور ورژن آیا ہے اب تمہیں یہ طے کرنا ہے کہ دونوں میں سے کس version میں سچائی ہے۔”
علیزہ نے عمر کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”آپ کو افسوس نہیں ہوا کہ آپ کی محنت ضائع ہوئی؟”
”نہیں۔ کوئی افسوس نہیں ہوا۔ بیورو کریسی کی ایسی محنتیں اکثر ضائع ہوتی ہیں۔ یہ تو ہماری بے وقوفی تھی کہ ہم نے ایسے کام میں اپنا وقت ضائع کیا۔”
”ایسے تو نہیں سوچنا چاہیے۔ اگر سب لوگ اس طرح سوچیں گے تو۔۔۔”
اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تو ملک کا کیا ہوگا؟ یہی کہنا چاہ رہی ہونا؟” اس نے خاصی بے رحمی سے جملہ مکمل کیا۔
”ملک کا وہی ہوگا جو اب تک ہو رہا ہے۔ میرے یا وجاہت حسین جیسے لوگوں سے کوئی انقلاب نہیں آسکتا اور ہم پر کہاں فرض ہے کہ ہم صرف ملک اور قوم کیلئے ایسی حماقتیں کر کے اپنا کیریئر داؤ پر لگاتے رہیں۔ سول سروس ہم نے سوشل ورک کرنے کیلئے جوائن نہیں کی۔ اپنے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کیلئے اس میں آئے ہیں۔”
علیزہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ وہ یک دم ہی بہت بدلا ہوا نظر آنے لگا تھا اس کے سامنے چند لمحوں کے اندر اندر اس کا نیا روپ آگیا تھا۔ insensitive اور indifferent… کچھ دیر پہلے والا انداز یکسر تبدیل ہوچکا تھا۔
”اب تم کیوں پریشان ہوگئی ہو؟” عمر نے اچانک اس سے پوچھا۔ وہ کچھ گڑبڑا گئی۔
”نہیں، میں پریشان نہیں ہوں۔ میں صرف سوچ رہی ہوں۔”
”مثلاً کیا سوچ رہی ہو؟” اس نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہی کہ۔۔۔” اس نے کچھ محتاط نظروں سے عمر کو دیکھا۔
”کہ ہم لوگ تو گھر کے اندر زندگی گزارتے ہیں ہمارے سامنے چیزوں کا شفاف ورژن آتا ہے اس لیے ہم ہر بات سے بے خبر رہتے ہیں۔ ہمیں کوئی پریشانی ہوتی ہے نہ ہی کوئی خوف محسوس ہوتا ہے اور اسی لیے ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔”
عمر اب منہ صاف کرتے کرتے ہاتھ روک کر گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو بڑی روانی سے کہہ رہی تھی۔
”مگر وہ لوگ جن کی زندگیاں گھر سے باہر گزرتی ہیں۔ جن کے بقول وہ چیزوں کے اصل ورژن سے واقف ہوتے ہیں، جنہیں سب کچھ پتا ہوتا ہے۔ جو خود کو باخبر کہتے ہیں وہ ان چیزوں کے سدباب کیلئے کیا کرتے ہیں۔ صرف باتیں؟”
وہ عمر کے تاثرات دیکھے بغیر ٹیبل سے اٹھ گئی۔ عمر نے حیرانی اور خاموشی کے ساتھ اسے باہر جاتے دیکھا چند لمحے وہ اس دروازے کو دیکھتا رہا جہاں وہ غائب ہوئی تھی پھر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”صرف باتیں؟… Good” اس نے نانو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اس کے لہجے میں ستائش تھی۔ ”علیزہ! مجھ پر طنز کر کے گئی ہے گرینی اور مجھے خوشی ہوئی ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے ٹیبل سے اٹھ گیا۔
باب: 20
میں واک کیلئے جارہا ہوں۔ چلوگی میرے ساتھ؟” وہ شام کے وقت حسب معمول واک کیلئے نکل رہا تھا جب اس نے لان کے ایک کونے میں علیزہ کو کرسٹی کے ساتھ دیکھا۔ چند لمحے وہ کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر اس کی طرف بڑھ آیا۔
قدموں کی چاپ پر علیزہ نے سر اٹھا کر دیکھا اور عمر کو دیکھ کر اس نے سر جھکالیا۔ وہ اس کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ ساری دوپہر روتی رہی ہوگی۔ اسے بے اختیار ترس آیا۔
”کیا ہو رہا ہے علیزہ؟” اس نے بڑے دوستانہ انداز میں اسے مخاطب کیا۔
علیزہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سر جھکائے وہ اسی طرح گھاس پر بیٹھی ہوئی کرسٹی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی۔
”مجھ سے کیا ناراضی ہے یار؟” وہ بے تکلفی سے کہتا ہوا خود بھی اس کے پاس گھاس پر بیٹھ گیا۔ وہ اب بھی اسی طرح خاموش اور اس کی طرف دیکھنے سے گریزاں تھی۔
”میں واک کیلئے جارہا ہوں۔ چلوگی میرے ساتھ؟”
ایک بار پھر اس نے بڑے دوستانہ انداز میں کہا۔ علیزہ نے کچھ حیران ہو کر سر اٹھایا۔ اس نے پہلے کبھی اسے ساتھ چلنے کی آفر نہیں کی تھی۔ پھر آج کیوں؟
”نہیں۔” اس کے یک لفظی جواب نے عمر کو مایوس نہیں کیا۔
”مگر گرینی کہہ رہی تھیں کہ میں تمہیں ساتھ لے جاؤں۔”
”کیوں؟” وہ حیران ہوئی۔
”یہ تو پتا نہیں مگر اندر سے نکلتے ہوئے انہوں نے مجھ سے کہا کہ علیزہ باہر لان میں بیٹھی ہے اسے ساتھ لے جاؤ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ واک کرے گی تو ٹھیک ہوجائے گی۔”
”یہ انہوں نے کہا؟” اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
”ہاں، انہوں نے ہی کہا مگر اب تم جانا نہیں چاہتیں تو میں ان سے جاکر کہہ دیتا ہوں۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
”نہیں، ٹھیک ہے۔ میں چلتی ہوں۔”
وہ ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بعد یک دم اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔” that’s great وہ بے اختیار مسکرایا۔
ساتھ چلتے چلتے دونوں گیٹ سے باہر آگئے۔ فٹ پاتھ پر آتے ہی اس نے علیزہ کو مخاطب کیا۔
”تم روتی رہی ہو؟” وہ ٹھٹھکی اسے عمر سے ایسے کسی سوال کی توقع نہیں تھی۔
”نہیں۔” چند لمحوں بعد اس نے کہا۔
عمر نے ایک نظر خاموشی سے اسے دیکھا۔ وہ سامنے سڑک پر دیکھ رہی تھی۔ اس نے علیزہ کے جواب پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
چند لمحے اسی طرح خاموشی سے چلتے رہنے کے بعد اس نے علیزہ سے پوچھا۔
”کبھی واک کیلئے آتی ہو؟”
”نہیں۔”
”کیوں؟”
”مجھے اچھا نہیں لگتا۔”
”تم پہلی لڑکی ہو جس کے منہ سے میں یہ سن رہا ہوں۔” اس نے خاصی بے تکلفی سے کہا۔ اس بار علیزہ خاموش رہی۔
”تھوڑی بہت ایکسرسائز تو ضروری ہوتی ہے۔ بندہ فٹ رہتا ہے۔”
اس نے ایک بار پھر بات کا سلسلہ جوڑنے کی کوشش کی۔ وہ ایک بار پھر خاموش رہی۔
”ایکسرسائز تو کسی کو بری نہیں لگتی۔” عمر نے ہمت نہیں ہاری۔ اس کی خاموشی ہنوز قائم تھی۔
”مجھے تو اچھا لگتا ہے جو گنگ کرنا، واک کیلئے جانا… ہفتے میں دو تین بار جم جانا۔”
علیزہ نے اس بات پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وہ کچھ دیر اس کے جواب کا منتظر رہا پھر جیسے تنگ آگیا۔
”کیا صرف میں ہی بولتا رہوں گا تم کچھ نہیں کہو گی؟”
علیزہ نے صرف گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”آپ خود باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے تو نہیں کہا۔” اس نے کچھ خفگی سے عمر کو جواب دیا۔
”میں اس لیے باتیں کر رہا ہوں کیونکہ یار میرا دل چاہ رہا تھا آپ سے باتیں کرنے کو۔”
”میں اس لیے باتیں نہیں کر رہی کیونکہ میرا دل نہیں چاہ رہا آپ سے باتیں کرنے کو۔” عمر اس کے جواب پر بے اختیار ہنس پڑا۔
”میں نے یہ واقعی نہیں سوچا تھا کہ تمہارے بات نہ کرنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔”
عمر نے ٹکٹس لیں اور وہ دونوں ریس کورس میں داخل ہوگئے۔ شام ہوچکی تھی اور پارک کی لائٹس آن تھیں۔ جوگنگ ٹریک پر آنے کے بجائے وہ واکنگ ٹریک پر آگئے۔ عمر اب خاموش تھا۔ کافی دیر وہ خاموشی سے چلتے رہے۔ پھر عمر ایک بینچ کی طرف بڑھ گیا۔
”آؤ کچھ دیر وہاں بیٹھتے ہیں۔” اس نے کہا۔ علیزہ نے خاموشی سے اس کی تقلید کی۔ بینچ پر بیٹھنے کے بعد دونوں کچھ دیر تک پارک میں پھرنے والے لوگوں کو دیکھتے رہے۔
”کراچی میں کیا ہوا تھا علیزہ؟”
بہت نرم اور مدھم آواز میں ایک جملہ اس کے قریب گونجا اس کی ساری حسیات یک دم بیدار ہوگئیں۔ گردن موڑ کر اس نے عمر کو دیکھا وہ اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
”تمہیں کونسی چیز پریشان کر رہی ہے؟” اس بار سوال ذرا مختلف انداز میں دہرایا گیا۔
”کراچی میں کچھ نہیں ہوا… اور مجھے… مجھے کوئی چیز پریشان نہیں کررہی… اور … اگر آپ مجھ سے دوبارہ اس طرح کی کوئی بات پوچھیں گے تو میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔” عمر نے اس کے چہرے پر بے تحاشا خوف دیکھا مگر وہ اسی طرح پرسکون تھا۔
”ٹھیک ہے، میں مان لیتا ہوں کہ کراچی میں کچھ نہیں ہوا اور تم پریشان بھی نہیں ہوا۔ پھر پیپرز میں کیا ہوا؟” اس کا لہجہ ابھی بھی نرم تھا۔
”کچھ نہیں ہوا۔ بس میں… میں ڈفر ہوں، ڈل ہوں، مجھے کچھ نہیں آتا، مجھے کچھ آہی نہیں سکتا۔”
”یہ سب تمہیں کس نے بتایا؟” وہ اب بھی اطمینان سے پوچھ رہا تھا۔
”میں نے خود سے سوچا ہے۔”
”غلط سوچا ہے۔”
”نہیں بالکل ٹھیک سوچا ہے۔”
”ایک ٹیسٹ میں ہونے والی ناکامی تمہارے لیے اتنی بڑی چیز بن گئی ہے۔”
وہ جواب میں کچھ بول نہیں سکی۔ عمر کو اچانک احساس ہوا کہ وہ رو رہی تھی۔ پارک میں اندھیرا اتنا بڑھ چکا تھا کہ وہ اس کے چہرے پر پھیلنے والی نمی کو دیکھ نہیں سکتا تھا اور وہ شاید اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے آواز رو رہی تھی۔
”آنسو بہانے کے بجائے تم اپنے پرابلمز کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں۔”
”میں نہیں کرسکتی۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ میرا کوئی فائدہ نہیں۔ نہ خود کو نہ کسی دوسرے کو… نانو ٹھیک کہتی ہیں میں ہمیشہ دوسروں کے سامنے ان کی بے عزتی کا باعث بنتی ہوں۔ میں نے سوچ لیا ہے اب میں کچھ نہیں کروں گی۔ میں کالج بھی نہیں جاؤں گی۔”
وہ اب بچوں کی طرح بلکتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”اسٹڈیز چھوڑ دو گی پھر گھر میں رہ کر کیا کرو گی؟”
”کچھ بھی نہیں کروں گی۔ میں اپنی ساری پینٹنگز کو جلاؤں گی پھر کرسٹی کو مار دوں گی اور پھر خود بھی مرجاؤں گی۔”
”بکواس مت کرو علیزہ۔” اسے جیسے کرنٹ لگا تھا۔
”آپ دیکھنا میں ایسا ہی کروں گی۔ میں ایسا ہی کروں گی… میرے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو میری ضرورت ہی نہیں ہے۔ میں Unwanted ہوں۔” اس کے دل کو بے اختیار کچھ ہوا۔ وہ اب چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ کر رو رہی تھی۔
”علیزہ! میں تمہاری پروا کرتا ہوں، مجھے ضرورت ہے تمہاری۔” وہ اب اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا تھا۔
”مگر تم میرے باپ نہیں ہو… تم میری ماں بھی نہیں ہو۔ مجھے ان دونوں کی ضرورت ہے۔ میں چاہتی ہوں وہ پروا کریں میری۔ مگر… مگر ان کی زندگی میں میرے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔”
وہ چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اس کا بازو پکڑے بچوں کی طرح کہہ رہی تھی۔
”مجھے ان کے روپے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے ان دونوں کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنے گھر کی ضرورت ہے جہاں مجھے آزادی ہو جہاں میری اہمیت ہو۔ مگر ان کے گھروں میں میرے لیے جگہ نہیں ہے۔ ایک کمرہ تک نہیں ہے۔”
وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اب بے اختیار اسے سب کچھ بتاتی جارہی تھی۔
”پتا ہے پاپا نے کیا کیا میرے ساتھ؟… وہ کراچی میں گھر بنوا رہے ہیں گھر میں سب کیلئے کمرے ہیں بس میرے لیے نہیں ہے۔ میں یاد بھی نہیں آتی۔ وہ سب مری جارہے تھے سیر کیلئے مجھے کسی نے کہا تک نہیں۔”
وہ خاموشی سے اس کے آنسو دیکھتا اور شکوے سنتا رہا۔
”ممی مجھے ہر سال اپنے پاس بلاتی ہیں مگر وہ بھی اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں۔ انہیں صرف اپنے بچوں کی پروا ہوتی ہے۔ اپنے شوہر کی فکر ہوتی ہے۔ میری نہیں۔ میں سوچتی ہوں پھر میری زندگی کا کیا فائدہ۔ جب میں اپنے پیرنٹس پر ہی بوجھ بن چکی ہوں۔”
وہ ایک بارپھر پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔
”بس یا، ابھی تم کو کچھ اور کہنا ہے؟”
اس کے کندھے پر بازو پھیلا کر اس نے بڑے نرم لہجے میں پوچھا۔ وہ خاموشی سے روتی رہی۔
خاصی دیر رونے کے بعد اس کی سسکیاں اور ہچکیاں آہستہ آہستہ دم توڑنے لگیں۔ پھر وہ جیسے نڈھال ہوکر خاموش ہوگئی۔
“علیزہ ! اب میری کچھ باتیں غور سے سنو۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تم جتنا چاہو رو لو لیکن تمہارے پیرنٹس اس طرح کبھی تمہیں نہیں مل سکتے جس طرح تم چاہتی ہو۔ ان دونوں کی اپنی اپنی زندگی ہے۔ اپنا گھر ہے۔ ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں اور یہ سب کچھ نیچرل ہے۔ علیحدگی کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے جو جگہ تم ان کی زندگی میں چاہتی ہو وہ نہیں مل سکتی۔ نہ آج نہ ہی آئندہ کبھی اور تمہیں اس جگہ کو تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔”
وہ بہت سنجیدگی مگر بڑی نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا۔
”مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا کوئی نہیں ہے جسے تمہاری ضرورت نہ ہو۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو تمہاری پروا کرتے ہیں۔ تمہارے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک تم اہم بھی ہو۔ گرینی تم سے جلد ناراض ہوجاتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں تم سے محبت نہیں ہے۔ انہوں نے تمہیں پالا ہے۔ وہ تم سے محبت بھی کرتی ہیں بس ان کے اظہار کا طریقہ مختلف ہے۔ پھر گرینڈ پاہیں۔ کیا تم یہ کہو گی کہ انہیں بھی تم سے محبت نہیں ہے۔ تمہاری فرینڈز ہیں۔ کرسٹی ہے اور میں بھی تو ہوں۔ ہم سب کو علیزہ سکندر کی بہت بہت ضرورت ہے۔” وہ بے یقینی کے ساتھ سر اٹھائے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ ”تم میں اتنی ہی خوبیاں اور خامیاں ہیں جتنی مجھ میں یا کسی بھی دوسرے نارمل بندے میں۔ جو چیز میں کرسکتا ہوں وہ تم بھی کرسکتی ہو۔ نہ تم ڈفر ہو نہ ہی ڈل ہو۔ تم ایک بہت ہی creative اور ذہین لڑکی ہو۔ واحد مسئلہ یہ ہے کہ تم بہت زیادہ حساس ہو۔”
اس کے آنسو مکمل طور پر خشک ہوچکے تھے۔
”زندگی میں ایک چیز ہوتی ہے جسے کمپرومائز کہتے ہیں۔ پرسکون زندگی گزارنے کیلئے اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس چیز کو تم بدل نہ سکو اس کے ساتھ کمپرومائز کرلیا کرو مگر اپنی کسی خواہش کو کبھی بھی جنون مت بنایا کرو۔ زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں نہیں مل سکتیں۔ چاہے ہم روئیں چلائیں یا بچوں کی طرح ایڑیاں رگڑیں کیونکہ وہ کسی دوسرے کیلئے ہوتی ہیں جیسے تمہارے پیرنٹس اب کسی اور کے پیرنٹس ہیں۔ تمہارا گھر کسی اور کا گھر ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ زندگی میں ہمارے لیے کچھ ہوتا ہی نہیں۔ کچھ نہ کچھ ہمارے لیے بھی ہوتا ہے۔” وہ جیسے کسی ماہر استاد کی طرح اسے گر سکھا رہا تھا۔
”تمہارے سامنے ابھی پوری زندگی پڑی ہے۔ تمہاری شادی ہوگی، اپنا گھر ہوگا، ایک اچھا شوہر ہوگا اور بھی بہت کچھ مل جائے گا مگر ابھی اس عمر میں خود کواس طرح ضائع مت کرو۔ مانا یہ سب کچھ تمہارے لیے تکلیف دہ ہے مگر تم خود کو اتنا مضبوط بناؤ کہ ایسی تکلیفوں کو برداشت کرسکو۔”
وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
”تم سوچ رہی ہو میں کیا کہہ رہا ہوں؟” علیزہ نے بے اختیار سرہلا دیا۔
”یہ سب کچھ جو تم محسوس کر رہی ہو میں بھی کرچکا ہوں۔”
اس کی آواز ایک دم دھیمی ہوگئی۔
”میں جانتا ہوں بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ صبر آجاتا ہے، سکون مل جاتا ہے۔ تمہارے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ صرف یہ مشکل وقت ہے اسے کسی نہ کسی طرح گزار لو۔ اپنے ذہن میں سے اپنے پیرنٹس کو نکال دو، ان کے گھروں، زندگیوں اور بچوں کے بارے میں مت سوچو۔ صرف یہ سوچو کہ تمہیں اپنے لیے کیا کرنا ہے۔”
”آپ بتائیں مجھے زندگی میں کیا کرنا ہے؟ میں کیا کرسکتی ہوں؟”
”تم بتاؤ! تم یہ طے کرو کہ تمہیں اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے؟ اور کیسے کرنا ہے۔”
”مگر میں کچھ طے نہیں کرسکتی۔” اس نے بے بسی سے کہا۔
”کیوں طے نہیں کرسکتیں۔ کیا یہاں دماغ نہیں ہے؟” عمر نے اس کے سر کو چھوتے ہوئے کہا۔
”میرا کسی چیز میں دل نہیں لگتا۔ کوئی چیز سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا لیکن میں نے پیپرز کیلئے بہت محنت کی تھی مگر کتابیں پڑھتے ہوئے میری کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ میرا دل چاہتا تھا میں سب کچھ پھینک دوں۔ کچھ بھی نہ کروں… یا میرا دل چاہتا ہے کہ میں کہیں چلی جاؤں۔”
”کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے بعض دفعہ، تم پچھلے کچھ عرصے سے پریشان تھیں اس لیے مینٹلی کسی چیز پر بھی توجہ مرکوز نہیں کرپائیں مگر اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اسٹڈیز میں کوئی پرابلم ہو تو مجھے بتاؤ، تھوڑی بہت ہیلپ تو میں کر ہی سکتا ہوں۔ اپنے ٹیچرز سے پوچھو، فرینڈز سے بات کرو۔ زیادہ پرابلم ہو تو گرینی سے کہو۔ وہ تمہیں ٹیوٹر رکھوا دیں گی۔ مگر اپنی اسٹڈیز پر توجہ دو۔ اپنا کیریئر بنانے کے بارے میں سوچو۔”
وہ اس سے وہ باتیں کر رہا تھا جو پہلے کبھی کسی نے نہیں کی تھیں۔ وہ اب سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”آپ کا کبھی دل نہیں چاہا کہ آپ کے پیرنٹس میں ڈائیوورس نہ ہوئی ہوتی؟” وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہتی تھی۔ وہ چند لمحے کچھ نہیں کہہ سکا۔
”پتا نہیں۔ میں نے کبھی سوچا نہیں اس بارے میں۔”
”کبھی بھی نہیں؟” اسے یقین نہیں آیا۔
”چلو مان لیتے ہیں کہ میں نے کبھی ایسا سوچا تو بھی کیا فائدہ کیا میرے سوچنے سے کچھ ہوسکتا ہے۔ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ میرا وقت ضائع ہو اور میں وہ نہیں کرتا۔”
”آپ کو کبھی اپنی ممی یاد نہیں آتیں؟” اس بار خاموشی کا وقفہ قدرے طویل تھا۔
”آتی ہیں۔” جواب مختصر تھا۔
”آپ ملتے ہیں ان سے؟”
”میں نہیں ملتا، وہ ملتی ہیں۔” وہ جواب پر کچھ حیران ہوئی۔
”آپ کیوں نہیں ملتے؟”
”پتا نہیں۔”
”آپ ان سے محبت نہیں کرتے؟”
”پتا نہیں۔”
”کیوں؟”
”علیزہ! اب اتنا وقت ہوچکا ہے ان سے الگ ہوئے کہ بس مجھے ان کے بارے میں سوچنا بھی عجیب لگتا ہے۔”
”آپ کو وہ اس لیے یاد نہیں آتیں کیونکہ آپ کے پاس سب کچھ ہے۔”
اس نے جیسے ایک نتیجہ اخذ کیا۔
”اچھا… سب کچھ ہے میرے پاس؟… مثلاً کیا؟” وہ بہت عجیب انداز میں ہنسا۔
”آپ کے پاس گھر ہے۔” اس نے کچھ رشک سے کہا۔
”یہ تم سے کس نے کہا؟”
”کیا مطلب؟ کیا آپ کے پاس گھر نہیں ہے؟” وہ کچھ حیران ہوئی۔
”نہیں میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔” اس نے صاف گوئی سے کہا۔ علیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”سچ کہہ رہا ہوں علیزہ میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔” وہ اس کی حیرت پر بھانپ گیا۔
‘یہ کیسے ہوسکتا ہے؟”
”کیوں! یہ کیوں نہیں ہوسکتا؟”
”انکل جہانگیر کے پاس تو اپنا گھر ہے اور آپ ہمیشہ ان کے ساتھ ہی رہے ہیں۔”
”ہاں، پاپا کے پاس گھر ہے اور میں ہمیشہ ان کے پاس رہا ہوں لیکن ان کے ساتھ نہیں رہا۔”
وہ اندھیرے میں اس کے چہرے پر موجود تاثرات کو دیکھنے کی کوشش میں ناکام رہی۔ وہ کہہ رہا تھا۔
”پاس رہنے اور ساتھ رہنے میں فرق ہوتا ہے۔”
”کیا فرق ہوتا ہے؟”
”پاپا کی پہلی پوسٹنگ جب لندن میں ہوئی تو ان ہی دنوں میرے پیرنٹس میں ڈائی وورس ہوگئی۔ پاپا نے مجھے بورڈنگ میں بھیج دیا۔ چند سالوں کے بعد وہ امریکہ گئے تو مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ وہاں بھی میں بورڈنگ میں رہا۔ ویک اینڈز میں ان کے پاس آجایا کرتا تھا مگر صرف ویک اینڈز پر۔” وہ گم صم اسے دیکھتی رہی۔
”پھر پاپا کی پوسٹنگز اور جگہوں پر بھی ہوئی لیکن میں وہیں رہا۔ بعد میں پاپا ایک بار پھر امریکہ آگئے تب میں یونیورسٹی میں تھا اور ہاسٹل میں ہی رہتا تھا۔”
کیوں؟ آپ ان کے ساتھ کیوں نہیں رہے؟”
”اب وجہ تو مجھے نہیں پتا لیکن… بس پاپا نے کبھی ساتھ رہنے کیلئے کہا نہیں اور میں نے بھی کبھی چاہا نہیں۔ ہوسکتا ہے ایک وجہ ان کی دوسری شادی بھی ہو۔”
”کیا آنٹی ثمرین کے ساتھ آپ کے اچھے ٹرمز نہیں تھے؟”
”نہیں۔ ایسا نہیں ہے مگر شاید پاپا سوچتے ہوں گے کہ میری وجہ سے ان کی پرسنل لائف Suffer نہ کرے یا ان کی پرائیویسی متاثر نہ ہو۔”
”صرف اس لیے؟”
”نہیں شاید یہ بھی تھا کہ مجھے پاپا کے پاس ایک ایسی زندگی گزارنی پڑتی جو بہت نارمل سی ہوتی۔ آزادی نہ ہوتی میرے پاس۔”
”آپ نے کبھی اپنے گھر کو مس نہیں کیا؟”
”کسی حد تک… مگر تمہاری طرح نہیں۔ شاید اس لیے کہ میرے پاس کرنے کو بہت کچھ تھا مگر کچھ سوچنے کیلئے وقت نہیں تھا۔” اس کے لہجے میں لاپروائی تھی۔
”آپ کا دل نہیں چاہا کہ آپ کا اپنا گھر ہو۔ پیرنٹس ہوں۔۔۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اچھا فرض کرو دل چاہتا ہے پھر کیا کروں؟ مجھے پتا ہے گھر نہیں مل سکتا۔ پیرنٹس نہیں مل سکتے۔ اب میں یہ تو نہیں کرسکتا کہ ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھ کر کود جاؤں… یار! نہیں ملتیں بہت سی چیزیں نہیں ملتیں پھر کیا کیا جائے؟”
علیزہ کو اس کے اطمینان پر رشک آیا۔
”جب آپ جاب کررہے تھے تو آپ نے کبھی اپنا گھر بنانے کی کوشش نہیں کی؟”
”لندن میں جاب کرتا تھا علیزہ!اتنی بڑی جاب نہیں تھی کہ گھر خرید لیتا۔ ایک کرائے کا فلیٹ… تھا کمپنی کی طرف سے۔ چھوٹا سا تھا۔ صبح ساڑھے چھ نکلتا تھا رات کو ساڑھے نو واپس آتا تھا، صرف سونے کیلئے ہی اسے استعمال کرتا تھا۔ لندن اتنا مہنگا شہر ہے کہ وہاں گھر وغیرہ بنانے کا بندہ نہیں سوچ سکتا۔ پھر میں نے تو ویسے بھی بہت زیادہ عرصے کیلئے جاب نہیں کی۔ پاپا مسلسل مجبور کر رہے تھے فارن سروس کیلئے بس اسی طرح وقت گزر گیا۔”
علیزہ کو کچھ شرمندگی ہوئی اس کا عمر کے بارے میں ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ وہ اپنے گھر میں انکل جہانگیر کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزار رہا ہے۔ اسی لیے نانو کے پاس آنے پر وہ اس طرح برہم ہوگئی تھی مگر وہ اسے کچھ اور ہی بتا رہا تھا۔
”مگر انکل جہانگیر تو آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔” وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہ رہی تھی۔ جواب میں ایک طویل خاموشی چھپائی رہی۔
”انکل جہانگیر تو آپ سے محبت کرتے ہیں؟” علیزہ نے اس بار قدرے بلند آواز میں اپنا سوال دہرایا۔
”کیا…! ہاں…! محبت… ہوسکتا ہے کرتے ہوں۔”
”یہ کیا بات ہوئی؟” اس کے غیر متوقع جواب نے علیزہ کو حیران کیا۔ ”آپ کو نہیں پتا کہ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں یا نہیں؟”
”نہیں میں نے کبھی اس ٹاپک کو ڈسکس نہیں کیا… ہمارے درمیان اور ٹاپکس پر بات ہوتی ہے۔”
”مگر وہ آپ سے محبت کرتے ہیں۔” اس نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اچھا!” عمر نے یوں کہا جیسے علیزہ نے اسے کوئی نئی بات بتائی ہو۔
”کتنی فرینڈز ہیں تمہاری؟” عمر نے یک دم بات کا موضوع بدل دیا۔
”بس ایک… میں نے آپ کو پہلے بھی ایک بار بتایا تھا۔” علیزہ نے جواب دیا۔
”ہاں… شہلا… یہی نام ہے نا؟” علیزہ کو حیرت ہوئی اسے نام تک یاد تھا۔
”ہاں آپ کو پتا ہے تو پھر کیوں پوچھ رہے ہیں؟”
”بس ایسے ہی… تمہاری بہت زیادہ دوستی ہے اس کے ساتھ؟”
”ہاں۔”
”بہت اچھی ہوگی؟”
”ہاں۔” اسے اب عمر سے بات کرتے ہوئے کوئی گھبراہٹ یا الجھن نہیں ہو رہی تھی۔ وہ بے اختیار اس کی باتوں کے جواب دے رہی تھی۔
”اور کوئی فرینڈ نہیں ہے۔”
”نہیں۔”
”میں بھی نہیں؟” وہ جواب دیتے ہوئے کچھ الجھی۔
”آپ بھی ہیں۔۔۔”
”شہلا جتنا کلوز فرینڈ ہوں؟” اس بار پوچھا گیا۔
”نہیں اتنا تو نہیں۔” علیزہ نے کچھ سوچ کر کہا۔
”اچھا چلو فرینڈ تو ہوں نا؟”
”ہاں۔”
”بس ٹھیک ہے۔ اسی خوشی میں، میں تمہیں کچھ کھلاتا ہوں۔ بلکہ تم بتاؤ تمہیں کیا کھاناہے؟”
”کچھ بھی نہیں۔”
”کم آن یار… آج آوارہ گردی کرتے ہیں… کہیں سے کچھ کھاتے ہیں… چلو برگر لیتے ہیں پھر آئس کریم کھائیں گے۔ آج رونے میں تم نے خاصی انرجی ویسٹ کی ہے۔ اب ضروری ہے یہ سب کچھ۔”
عمر نے اٹھتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے عمر کا ہاتھ تھام لیا۔
ریس کورس کے دوسرے گیٹ سے وہ جیل روڈ پر نکل آئے۔ عمر اب اسے لطیفے سنا رہا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے بچے کی طرح اس کا ہاتھ تھامے اس کے تیز قدموں کا تعاقب کرتی اس کی باتوں پر کھکھلانے لگی تھی۔
ایک لمبا چکر کاٹ کر وہ شادمان کی طرف نکل آئے۔ فٹ پاتھ پر لگے ہوئے برگر کے ایک اسٹال سے انہوں نے برگر خریدے اور پھر بے مقصد مارکیٹ میں ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے برگر کھاتے رہے۔
علیزہ کو اچانک احساس ہونے لگا عمر اتنا برا نہیں تھا جتنا سمجھ رہی تھی۔ اسے اس کے ساتھ اس طرح پھرنا اچھا لگ رہا تھا۔ عجیب سی آزادی اور اعتماد کا احساس ہو رہا تھا۔
برگر ختم ہونے کے بعد عمر اسے آئس کریم کھلانے کیلئے اسی طرح ایک اور اسپاٹ پر لے گیا۔
”چار کون دے دیں۔” اس نے آئس کریم مشین کو آپریٹ کرنے والے سے کہا۔ علیزہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
”چار کیوں؟”
”یار دو، دو کھائیں گے۔” اس نے اطمینان سے روپے نکالتے ہوئے کہا۔
”مگر میں تو ایک کھاؤں گی۔”
”نہیں یار آئس کریم کون ایک کھاتا ہے؟ ہمیشہ دو کھاتے ہیں۔ اگر اپنے روپے خرچ کر رہے ہوں… اور اگر کوئی دوسرا کھلا رہا ہو تو پھر تین اور چار بھی کھائی جاسکتی ہیں۔” اس نے جیسے علیزہ کو پتے کی بات بتائی تھی۔
”مگر ایک وقت میں دو کیسے کھاؤں گی؟” اس نے عمر کے ہاتھ سے کون پکڑتے ہوئے کہا۔
”یہ تمہیں میں سکھاؤں گا۔ تم آؤ تو سہی۔”
اس نے خود بھی اپنی دونوں کونز پکڑتے ہوئے کہا پھر وہ بڑی برق رفتاری سے بیک وقت دونوں کونز کھانے لگا۔ اس کی مہارت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کام کرنے کا عادی تھا۔
علیزہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے خود بھی اسی کی طرح آئس کریم کھانے کی کوشش کر رہی تھی مگر آئس کریم پگھلنے لگی تھی۔ مین روڈ پر آتے آتے آئس کریم اس کے دونوں ہاتھ اور کلائیوں پر پگھل کر بہنے لگی تھی۔ عمر اس وقت تک دونوں کونز تقریباً ختم کرچکا تھا۔ ساتھ چلتے ہوئے اس نے علیزہ کو کچھ افسوس بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا کرو گی یار! تم زندگی میں… یہ اس قدر ضروری کام تمہیں نہیں آتا۔ مجھے کم از کم تم سے یہ توقع نہیں تھی۔”
واپس جیل روڈ پر آتے ہوئے اس کی آئس کریم ختم ہوچکی تھی مگر دونوں ہاتھ پگھلی ہوئی آئس کریم سے لتھڑے ہوئے تھے۔
”اب یہ دیکھیں، میرے ہاتھ گندے ہوگئے ہیں۔ انہیں کیسے صاف کروں؟” علیزہ نے اسے ہاتھ دکھاتے ہوئے کہا۔
”اپنی شرٹ سے صاف کرو، جیسے تم روتے ہوئے اپنے آنسو صاف کرتی ہو۔” عمر نے کچھ شرارتی انداز میں کہا۔ وہ کچھ جھینپ گئی۔
”ٹراؤزر کی پاکٹ میں کوئی ٹشو نہیں ہے؟” عمر نے چلتے ہوئے اس سے کہا۔
”نہیں ہے… پانی ہو تو۔۔۔” وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
”یہاں مین روڈ پر پانی کہاں سے مل سکتا ہے۔ تم شرٹ سے صاف کرلو۔ گھر جا کر کپڑے تو چینج کرنے ہی ہیں۔” عمر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”نہیں یہ اتنی چپچپی ہے۔ مجھے گھن آرہی ہے۔” اس نے مٹھیاں کھولتے اور بند کرتے ہوئے کہا۔
”لاؤ، میں صاف کردوں۔” عمر چلتے چلتے رکا اور بڑے اطمینان سے اپنی شرٹ سے اس کے ہاتھ صاف کرنے لگا۔ علیزہ کو جیسے ایک جھٹکا لگا۔ اس نے ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی۔
”آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کی شرٹ گندی ہو جائے گی۔”
عمر نے کچھ کہنے کے بجائے اچھی طرح اس کے دونوں ہاتھ اپنی شرٹ سے صاف کردیئے۔
”کوئی بات نہیں یار! میری ہی شرٹ گندی ہوگی نا تمہارے ہاتھ تو صاف ہوجائیں گے۔”
اس نے بڑی لاپروائی سے کہا۔ وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی جو اس کا ہاتھ پکڑے سڑک کراس کرنے کیلئے ٹریفک کو دیکھ رہا تھا۔
واپسی کے راستے پر وہ باتیں کرتی رہی تھی اور عمر سنتا رہا تھا۔ علیزہ کو یاد نہیں کہ اس نے آخری بار زندگی میں کب کسی کے ساتھ اتنی باتیں کی تھیں۔ شاید کسی کے ساتھ نہیں۔ شہلا کے ساتھ بھی نہیں۔
گھر کا گیٹ نظر آنے لگا تو وہ یک دم چونکا۔
”ہاں یاد آیا علیزہ! تم سے ایک بات کہنی تھی۔”
”ہاں کہیں۔”
”مگر پہلے تم پرامس کرو کہ ناراض نہیں ہوگی۔”
وہ حیران ہوئی۔ ”ایسی کون سی بات ہے؟”
”نہیں! پہلے تم پرامس کرو۔” اس نے اصرار کیا۔
”ٹھیک ہے میں پرامس کرتی ہوں میں ناراض نہیں ہوں گی۔”
”ویری گڈ!” عمر نے کلائی پر باندھی ہوئی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”وہ دراصل بات یہ ہے کہ میں تمہیں گرینی کو بتائے بغیر لے کر آیا ہوں۔”
خاصے اطمینان سے کہے گئے جملے نے اس کے قدموں تلے سے زمین نکال دی۔ علیزہ کا منہ کھلا رہ گیا۔
”مگر آپ نے تو کہا تھا کہ۔۔۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میں نے جھوٹ بولا تھا اگر یہ کہتا کہ میں تمہیں ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں تو تم کبھی نہ آتیں۔” اس کا اطمینان ابھی بھی برقرار تھا مگر اب علیزہ کی جان پر بنی ہوئی تھی۔
”آپ کو اندازہ ہے، کتنی دیر ہوگئی ہے۔ نانو بہت ہی ناراض ہوں گی۔” وہ روہانسی ہوگئی۔
”نہیں ہوتیں یار! اور اگر ہونگی بھی تو میں کہہ دوں گا کہ میں زبردستی تمہیں ساتھ لے کر گیا تھا۔” عمر نے ساتھ چلتے ہوئے اسے تسلی دی۔
”آپ نانو کو نہیں جانتے۔ اس لیے کہہ رہے ہیں۔ میں کبھی بھی ان کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتی اور نہ ہی وہ یہ بات پسند کرتی ہیں۔”
”تم فکر مت کرو۔ میں بات کرلوں گا ان سے۔” اس نے ایک بار پھر اسے تسلی دی۔
وہ گھر کے گیٹ پر پہنچ چکے تھے بیل بجانے کے بجائے عمر نے گیٹ پر ہاتھ مار کر چوکیدار سے گیٹ کھلوایا۔ علیزہ کا تھوڑی دیر پہلے والا جوش و خروش ختم ہوچکا تھا۔ اب اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے تھے جبکہ عمر اب بھی پہلے کی طرح مطمئن اور بے فکر نظر آرہا تھا۔
پورچ کراس کرنے کے بعد لاؤنج کا دروازہ عمر نے ہی آگے بڑھ کر کھولا۔ علیزہ اس سے چند قدم پیچھے تھی۔ بہت محتاط انداز میں دھڑکتے دل کے ساتھ جب وہ عمر کے پیچھے لاؤنج میں داخل ہوئی تو لاؤنج میں ایک عجیب سی خاموشی نے اس کا استقبال کیا۔
عمر اس سے کچھ آگے بالکل ساکت کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر کچھ دیر پہلے والی شگفتگی اور مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی۔ علیزہ نے کچھ حیرانی کے ساتھ لاؤنج میں اس چیز کو تلاش کرنے کی کوشش کی جسے دیکھ کر عمر کی یہ حالت ہوئی تھی اور وہ چیز اس کے سامنے ہی تھی۔
لاؤنج کے ایک صوفے پر نانو کے ساتھ ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ رائل بلوسلک کی ساڑھی اپنے وجود کے گرد لپیٹے۔ کندھوں تک تراشیدہ بالوں اور تیکھے نقوش والی اس عورت کو علیزہ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ دونوں اتنی خاموشی کے ساتھ اندر آئے تھے کہ نانو اور اس عورت کو پتا نہیں چلاوہ دونوں چائے پینے کے ساتھ بہت مدھم آواز میں کوئی بات کر رہی تھیں اور ایک دوسرے کی طرف متوجہ تھیں۔
نانو بہت سوشل نہیں تھیں مگر پھر بھی ان کا ایک خاص حلقہ احباب تھا جن سے ان کا میل ملاپ تھا اور وہ لوگ گھر آتے رہتے تھے۔ اس وقت علیزہ بھی اس عورت کو نانو کی ایسی ہی کوئی واقف سمجھی تھی۔ مگر آخر عمر اس عورت کو دیکھ کر اس طرح ری ایکٹ کیوں کر رہا ہے؟ کیا وہ اسے جانتا ہے؟ علیزہ نے کچھ حیران ہو کر سوچا تھا مگر عمر کی واقفیت تو بہت محدود سی ہے پھر یہ عورت… اس نے کچھ الجھتے ہوئے سوچا۔
تب ہی عمر نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ علیزہ چہرے پڑھنے میں ماہر نہیں تھی نہ ہی وہ ٹیلی پیتھی جانتی تھی پھر بھی اس وقت عمر کے چہرے کو دیکھ کر اسے یوں لگا تھا جیسے وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ وہ کچھ اور بھی الجھی تھی۔ عمر کی آنکھوں میں اسے ایک عجیب سی وحشت نظر آئی تھی۔
اور اسی وقت علیزہ نے اس عورت کو عمر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک دم نانو سے باتیں کرتے کرتے رک گئی پھر علیزہ نے اسے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے دیکھا۔ اس نے عمر کو دیکھا وہ بھی اب اسی عورت کودیکھ رہا تھا۔ پھر علیزہ نے اسے کہتے سنا۔
”ہیلو، ہاؤ آر یو؟”
جواب میں اس عورت نے جو حرکت کی، اس نے علیزہ کو ششدر کردیا تھا۔
باب: 21
”ان این جی اوز کے آفس کینٹ کے علاقہ میں ہیں اور ظاہر ہے یہ تو ناممکن ہے کہ آرمی کے علاقے میں ہونے والی ایسی سرگرمیاں آرمی کی ایجنسیز سے خفیہ ہوں مگر وہ بھی صرف رپورٹس دے دیتے ہیں… کچھ کر نہیں سکتے۔”
وہاں اس عمارت کے بڑے کمرے میں سب لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے اسے عمر کی بات بے اختیار یاد آئی۔ وہ لوگ لاہور سے سیدھا اس گاؤں میں جانے کے بجائے پہلے اس این جی او کے آفس میں گئے جو شہر کے اندر کینٹ کے علاقے میں ایک خاصی بڑی کوٹھی میں واقع تھا، عمر کی ایک بات سچ ثابت ہوگئی تھی۔ وہاں انہیں اس این جی او کی طرف سے اپنے کام اور آفس کی دوسری سرگرمیوں کے بارے میں بریفنگ دی جانی تھی۔ اس وقت وہ چائے اور اسنیکس سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور علیزہ کو یہ دیکھ کر خاصی حیرت ہوئی کہ اس نسبتاً قدامت پسند علاقے میں بھی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداداس این جی او کیلئے کام کر رہی تھی جو خاصی حیران کن بات تھی آفس کی عمارت کا ایک جائزہ لیتے ہوئے اسے قدم قدم پر حیرانی ہوئی تھی۔ عمارت میں موجود سہولتیں نہ صرف بے حد جدید تھیں۔ بلکہ خاصی وافر تھیں۔ اندر موجود کمپیوٹر اور فیکس مشینوں سے لے کر باہر موجود گاڑیوں کے ماڈلز تک یہ ظاہر کر رہے تھے کہ روپے کا خاصی فراوانی سے استعمال کیا جارہا ہے۔
”این جی او اگر واقعی دیہی علاقوں میں ریفارمز اور سوشل ڈیویلپمنٹ کیلئے کام کر رہی ہیں تو پھر ان کے آفسز بھی ان ہی گاؤں وغیرہ میں ہونے چاہئیں تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ مسلسل اور بہتر رابطہ میں رہیں مگر کسی بھی این جی او کا آفس تم گاؤں کے اندر نہیں دیکھو گی۔ سارے آفسر شہر کے سب سے مہنگے اور محفوظ علاقے میں خاصے گم نام اور خفیہ رکھے گئے ہیں اگر ان کا کام لوگوں کی بہتری ہی ہے تو پھر انہیں تو لوگوں کے ساتھ رابطے زیادہ بڑھانے چاہئیں اپنے آفسزکو ایسی جگہوں پر رکھنا چاہیے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے نام سے واقف ہوں، ان کے پاس آسکیں مگر ایسا نہیں ہے شہر کے اردگرد گاؤں کے لوگ ان کے نام سے بہت آشنا ہیں مگر شہر میں اگر تم کینٹ کے علاقے میں بھی کھڑے ہو کر کسی سے کسی بھی این جی او کا نام بتا کر آفس کا پتا پوچھو تو وہ بے خبر ہوگا اگر انہیں کچھ لیک آؤٹ ہوجانے کا خطرہ نہیں ہے تو یہ لوگوں کو کھلے عام اپنے آفس میں کیوں آنے نہیں دیتیں۔ انٹرنیشنل میڈیا تو دھوم مچا رہا ہے ان کے کارناموں کی مگر مقامی اخبارات تک ان کے کام اور نام سے بے خبر ہیں۔” اسے عمر کے الزامات یاد آرہے تھے۔
چائے اور دوسرے لوازمات سے فارغ ہونے کے بعد انہیں اس این جی او کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے بریفنگ دینی شروع کی۔ ”جب ہم نے اس علاقے میں کام شروع کیا تھا اس وقت یہ پورا علاقہ ہر طرح سے پسماندہ تھا… یہاں زندگی کی بنیادی سہولیات تک نہیں تھیں صرف تیس فیصد بچے اسکول جاتے تھے اور پرائمری میں ڈراپ آؤٹ ریٹ بہت زیادہ تھا، اور وہ بہت سے مہلک امراض کا شکار ہو تے تھے۔ عورتوں کی حالت تو اس سے بھی زیادہ خراب تھی۔ ڈرگز کا استعمال بھی اس علاقے میں بہت زیادہ تھا۔”
وہ اب دوسرا ”Version” سن رہی تھی۔ ”اس علاقے میں موجود فیکٹریاں بانڈڈ لیبر کروا رہی تھیں۔ دیہاتی علاقے سے زمیندار زبردستی فیکٹریز کے مالکان کے مطالبے پر کام کیلئے لوگوں کو بھجواتے تھے۔ جو اجرت ان لوگوں کو دی جاتی تھی اسے سن کر آپ کو شاک لگے گا مگر لوگ کام کرنے پر اس لیے مجبور تھے کہ خواندگی کی شرح بہت کم تھی اور بے روزگاری بہت زیادہ تھی۔ بنیادی طور پر یہ زرعی علاقہ تھا مگر لوگوں نے اپنی زرخیز زمینیں فیکٹریز کی تعمیر کیلئے بیچنا شروع کردیں۔ اس سے یہ ہوا کہ اس علاقے میں کاشت کاری بہت کم ہوگئی۔ ایک بڑے علاقے میں ٹینریز بن گئیں اور ٹینریز سے نکلنے والے آلودہ پانی نے اس علاقے کی زرخیزی پر منفی اثرات مرتب کیے لوگوں کو نہ صرف مالی طور پر بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بہت سے جلدی امراض بھی ان علاقوں میں پھیل گئے دوسرے لفظوں میں یا مختصراً آپ یہ سمجھ لیں کہ اس علاقے میں زیادہ استحصال ہو رہا تھا۔”
وہ بہت غور سے اس شخص کی باتیں سن رہی تھی۔
”پھر سب سے پہلے ہم نے اس علاقے میں کام شروع کیا۔ آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ یہ کتنا مشکل کام تھا بلکہ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ ایک ہر کولین ٹاسک تھا، شروع شروع میں ہم جہاں جاتے تھے ہم سے تعاون نہیں کیا جاتا تھا بعض جگہوں پر تو ہمارے ممبرز پر حملے بھی کیے گئے۔ ہم پر دباؤ ڈالا گیا۔ مختلف فیکٹریز کی طرف سے کہ ہم یہ کام نہ کریں انہیں خوف تھا وہاں لوگوں میں شعور آئے گا تو ان کا بزنس ٹھپ ہوجائے گا اور یہ خوف بالکل درست تھا جن حالات اور شرائط پر وہ لوگ کام کررہے تھے شعور حاصل کرنے پر سب سے پہلے وہ ان فیکٹریز کیلئے کام کرنا ہی چھوڑتے، ہماری ثابت قدمی نے ایک طرف تو ان علاقوں کے لوگوں میں ہم پر اعتماد بڑھایا بلکہ دوسری طرف ہمیں دیکھ کر بہت سی دوسری این جی اوز بھی میدان میں آگئیں ایک پورا نیٹ ورک قائم ہوگیا۔”
اگر اسے عمر کی باتوں میں سچائی نظر آئی تھی تو اس شخص کے لہجے میں بھی وہ کوئی فریب ڈھونڈنے میں ناکام رہی اس کی الجھن بڑھ گئی تھی ”اپنی sense of Judgement۔” اسے عمر کی بات یاد آئی، مگر اسے استعمال کیسے کرتے ہیں اس نے سوچا تھا۔
”ہم لوگ گروپس بنا بنا کر سارا دن ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور دوسرے تیسرے گاؤں پھرتے رہتے ہمیں ایک ایک گھر جانا پڑا۔ وہاں سارے کوائف اکٹھے کرنے پڑے۔ گھر میں افراد کی تعداد کتنی ہے۔، ان میں عورتیں کتنی ہیں اور ان کی عمریں کیا ہیں، مرد کتنے ہیں اور کس عمر کے ہیں، بچوں کی تعداد کیا ہے اور کس عمر کے ہیں، گھر میں کام کرنے والے افراد کی تعداد کیا ہے؟ اور وہ کس کام سے منسلک ہیں۔ ان کی آمدنی کتنی ہے گھر میں کون سی سہولتیں ہیں، کیا بچے اسکول جاتے ہیں۔ گھر میں خواندہ افراد کتنے ہیں؟ یہ سب کچھ جاننے کیلئے ہمیں بڑے پاپڑ بیلنے پڑے کیونکہ لوگ ہمیں شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور معلومات چھپاتے تھے یا غلط معلومات دیتے تھے یا پھر بات ہی نہیں کرتے تھے ہمیں ان معلومات کی ضرورت اس لیے تھی تاکہ ہم ان لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے کوئی پراپر پلاننگ کرسکتے۔”
اس کے الجھے ہوئے ذہن میں اب کچھ اور گونج رہا تھا۔
”این جی اوزجب یہاں آئیں تو انہوں نے دیہی اصلاحات اور سوشل ڈویلپمنٹ کا نام لے کر حقائق اور اعداد و شمار اکٹھے کرنے شروع کردیئے۔ کس علاقے میں کس عمر تک کے بچے کام کر رہے ہیں؟ فٹ بال انڈسٹری سے منسلک عورتوں کی تعداد کیا ہے۔ بانڈڈ لیبر کی اجرتوں کا ریٹ کتنا ہے؟ ان لوگوں کو کس طرح کی سہولیات میسر ہیں؟ یہ سارا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے ”اور اب دیکھئے گا علیزہ بی بی آئندہ چند سالوں میں چائلڈ لیبر اور بانڈڈ لیبر کے حوالے سے ان ہی علاقوں کے متعلق انٹرنیشنل میڈیا خاصا شور مچائے گا۔ کچھ پابندیاں بھی لگائی جائیں گی۔” اس نے اپنے ذہن سے عمر کی آواز جھٹکتے ہوئے دوبارہ اس شخص کی آواز پر توجہ دینی شروع کی۔
”ظاہر ہے یہ لوگ کسی آدمی کو تو گھر کے اندر آنے نہیں دیتے اس لیے ہمیں لڑکیوں کی ضرورت تھی جو یہ کام کرسکیں، اسی لیے آپ لوگ دیکھیں گے کہ اس علاقے میں کام کرنے والی ساری این جی اوز کے ساتھ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد وابستہ ہے۔”
”ہم دو دو لوگوں کا ایک گروپ بناتے تھے جو ایک لڑکی اور لڑکے پر مشتمل ہوتا تھا، یہ لوگ اپنے مخصوص علاقے میں جاتے اور خود کو بہن بھائی ظاہر کرتے اس علاقے کے امام مسجد سے رابطہ کرتے پھر اس کے ذریعے سے باقی لوگوں سے واقفیت حاصل کرتے۔ لڑکیوں کا گھر کے اندر آنا جانا شروع ہوتا، وہ ان کی ضرورت کی چھوٹی موٹی چیزیں ساتھ لے جاتے دوائیاں، صابن، خشک دودھ، بسکٹ اور اسی قسم کی چھوٹی موٹی دوسری چیزیں آہستہ آہستہ وہ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے لگے اور پھر کوائف اکٹھے کرنا کافی آسان ہوگیا۔ معلومات حاصل کرنے کے بعد دوسرا مرحلہ تھا کہ ان لوگوں تک اپنی بات پہنچائی جائے اور انہیں ان باتوں کو ماننے کیلئے قابل کیا جائے۔ یہ کام زیادہ مشکل تھا مگر بہرحال کسی نہ کسی طرح ہم نے یہ کام بھی شروع کردیا۔
ہمارے چار بنیادی مقاصد تھے، چائلڈ اور بانڈڈ لیبر کا خاتمہ، بچوں کیلئے تعلیم کی فراہمی، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ان علاقوں میں روزگار کے بہتر مواقع اور بہتر اجرت کی فراہمی اوراس کے علاوہ بھی کچھ اور چیزیں تھیں جو ہم کرنا چاہتے تھے مگر وہ اتنی اہمیت کے حامل نہیں تھے۔
ہم اس علاقے اور وہاں کے رہنے والوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں لے کر آئے ہیں یہ آپ تب ہی جان پائیں گے جب آپ خود وہاں جائیں گے لوگوں سے باتیں کریں گے اور ان تبدیلیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ہمیں یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ہم نے سب کچھ تبدیل کردیا ہے ظاہر ہے ہم ابھی بھی کام کر رہے ہیں اور تبدیلی ایک مسلسل عمل کا نام ہے لیکن ہم نے ایک اہم کام کا آغاز ضرور کیا ہے اور شاید جتنی بہتری این جی اوز وہاں لائی ہیں اتنی کوئی حکومت بھی نہیں لاسکتی تھی۔”
شہلا نے اسے کہنی مار کر متوجہ کیا ”کیا تمہیں اب بھی ان پر شک ہے؟”
”کیا تمہیں شک ہے؟” اس نے جواباً پوچھا۔
”پتا نہیں میں تو بہت ہی کنفیوزڈ ہوں۔ ایک طرف عمر کی باتیں۔ دوسری طرف یہ لوگ… ابھی تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔” شہلا بھی اسی کی طرح الجھی ہوئی تھی۔
”ابھی تو یہ سب کچھ زبانی بتارہے ہیں جب ہم گاؤں میں جاکر رہیں گے تب ہی ہمیں اندازہ ہوسکے گا کہ کیا یہ واقعی سچ بول رہے ہیں یا پھر یہ واقعی کوئی جھوٹ ہے۔” اس نے شہلا سے کہا۔
وہ آدمی ایک بار پھر بولنا شروع کرچکا تھا اب وہ اپنی این جی اوز کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا اور اس کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ حقائق پیش کر رہا تھا۔ سب لوگ بے حد سنجیدگی سے اس کی باتیں سننے میں مصروف تھے۔
پہلی بار علیزہ کو اندازہ ہوا کہ سچ اور جھوٹ کو پہچاننا کتنا مشکل کام ہے۔ Sense of Judgement ہر بندے کے پاس ہوتی ہے اور اگر ہو بھی تو ضروری نہیں کہ اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت بھی سب ہی کے پاس ہو۔ کم از کم اس کیلئے تو یہ سب بہت مشکل تھا۔
”اگر عمر کے پاس ٹھوس اعتراضات تھے تو اس چیز کی ان کے پاس بھی کمی نہیں ہے اگر وہ لاجک کی بات کرتا ہے تو یہ شخص بھی ہر چیز کو منطقی بنا کر ہی پیش کر رہا ہے اگر عمر کی بات میں سچائی نظر آئی تھی تو جھوٹا تو یہ آدمی بھی نہیں لگ رہا تھا پھر میں یہ کیسے طے کروں کہ کون صحیح اور کون غلط ہے۔”
وہ جتنا سوچ رہی تھی اتنا ہی الجھتی جارہی تھی۔
باب: 22
اس عورت نے یک دم آگے بڑھ کر عمر کا ماتھا چوم لیا۔ علیزہ نے عمر کو جیسے کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے ہٹتا دیکھا۔ اس عورت نے ایک بار پھر آگے بڑھ کر عمر کے کندھوں پر ہاتھ رکھنا چاہے مگر اس بار عمر نے اپنے ہاتھوں سے اس کے بازوؤں کو پیچھے ہٹا دیا۔
”پلیز یہ کافی ہے۔”
علیزہ نے اسے کرخت لہجے میں کہتے سنا، اس کا اشارا واضح طور پر اس عورت کے اس والہانہ اظہار محبت کی طرف تھا۔ علیزہ ہکا بکا عمر اور اس عورت کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس عورت کا چہرہ یک دم جیسے بجھ گیا تھا۔ عمر اب نانو کو دیکھ رہا تھا۔
”تم کیسے ہو عمر؟” اس بار اس عورت نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔” عمر نے نظریں ملائے بغیر جواب دیا۔
”زارا! آؤ یہاں بیٹھ جاؤ عمر! تم بھی بیٹھ جاؤ۔ اس طرح کھڑے کھڑے باتیں کرنا مناسب نہیں۔”
نانو نے پہلی بار مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے اس عورت کو پلٹ کر اپنی جگہ جاتے دیکھا۔ علیزہ نے عمر کو کسی کشمکش میں مبتلا پایا یوں جیسے وہ طے نہ کر رہا ہو کہ اسے اس عورت کے پاس جاکر بیٹھنا چاہیے یا نہیں بالآخر وہ جیسے کسی نتیجہ پر پہنچ گیا۔
علیزہ نے اسے بے آواز قدموں سے نانو کے صوفہ پر بیٹھتے دیکھا۔ اس عورت کی نظریں مسلسل عمر پر ٹکی ہوئی تھیں جبکہ عمر مسلسل اپنی نظریں نیچے جھکائے ہوئے تھا۔ علیزہ کی حیرانی میں شدت آتی جارہی تھی آخر یہ عورت کون ہے جو اس طرح یہاں آتی ہے؟ جسے نانو چائے پلا رہی ہیں اور جو عمر کودیکھ کر یوں بے اختیار ہوگئی تھی۔ اس کا ذہن عجیب سی سوچ میں الجھا ہوا تھا۔
لاؤنج میں مکمل خاموشی تھی، شاید کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کیسے شروع کی جائے۔ علیزہ اپنی جگہ کھڑی صوفوں پر موجود تینوں کرداروں کو دیکھ رہی تھی سب کچھ جیسے یکدم ہی بہت پراسرار ہوگیا تھا۔ وہ منتظر تھی کہ ان میں سے کوئی گفتگو کا آغاز کرے اور وہ اس اسرار کو حل کرسکے۔ اس عورت نے اب اچانک علیزہ کو دیکھا۔ اس کی نظریں کچھ دیر کیلئے اس پر ٹھہر گئیں علیزہ اس کی نظروں سے نروس ہوگئی۔ نانو نے اس عورت کی نظروں کا تعاقب کیا۔
”یہ علیزہ ہے۔” انہوں نے اس عورت سے جیسے اس کا تعارف کروایا تھا۔
”علیزہ؟” اس عورت نے استفہامیہ نظروں سے نانو کو دیکھا۔
”ہاں علیزہ، ثمینہ کی بیٹی۔”
”اوہ… ہاں علیزہ… کیا ثمینہ یہیں ہوتی ہے؟”
”نہیں وہ آسٹریلیا میں ہوتی ہے۔ علیزہ میرے پاس رہتی ہے۔” نانو نے مختصراً اس کا تعارف کروایا۔
”علیزہ! یہ… یہ عمر کی ممی ہیں۔”
علیزہ کا منہ نانو کے اس تعارف پر کھل گیا۔ ایک نظر اس نے اس عورت کو دیکھا جس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی۔ دوسری نظر اس نے عمر پر ڈالی، وہ اب بھی سرجھکائے بیٹھا تھا۔
”ہیلو۔” اس نے بالآخر انہیں مخاطب کیا۔
”ہیلو، کیسی ہو تم؟”
”میں ٹھیک ہوں۔” اس نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”علیزہ! آؤ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔” نانو نے یک دم اٹھتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
کیا وہ اسے اب ڈانٹنا چاہتی تھیں۔ نانو ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر لاؤنج سے باہر نکل گئیں۔ علیزہ نے بھی بے جان قدموں سے ان کی پیروی کی۔
”میں تمہیں اس لیے باہر لے آئی ہوں، تاکہ وہ دونوں آپس میں گفتگو کرسکیں۔” باہر نکلتے ہوئے نانو نے اس سے کہا۔
”مگر عمر کی ممی کہاں سے آگئی ہیں؟” اس نے خدا کا شکرادا کرتے ہوئے نانو سے پوچھا کہ انہیں یاد نہیں رہا کہ وہ کہاں گئی تھی۔
”زارا پاکستان آئی ہوئی ہے آج کل اپنی فیملی کے ساتھ، اس کا دل چاہا تو یہاں ملنے آگئی۔” نانو نے اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
”اپنی فیملی کے ساتھ۔” وہ ٹھٹک گئی۔
”ہاں بھئی، اپنی فیملی کے ساتھ۔ دو بیٹے ہیں اس کے، شادی کرچکی ہے۔ انگلینڈ سے آئی ہے۔”
”مگر کیوں؟”
”کیوں کا کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے اپنے بیٹے سے ملنے آئی ہے۔”
وہ ان کے پیچھے چل رہی تھی۔ ”کیا پہلے بھی یہ عمر سے ملنے کیلئے آتی رہی ہیں؟”
”مجھے نہیں پتا۔ عمر تو ابھی چند ماہ سے ہی میرے پاس ہے۔ اب یہ اس سے ملتی رہی ہے یا نہیں اس کے بارے میں تو کچھ کہنا خاصا مشکل ہے۔ مگر وہاں البتہ جہانگیر پسند نہیں کرتا کہ یہ عمر سے ملے۔”
علیزہ کچھ حیران ہوئی۔ ” کیوں انکل جہانگیر کیوں پسند نہیں کرتے؟”
”پتا نہیں، مگر بس وہ شروع سے ہی کوشش کرتا رہا ہے کہ زارا عمر سے نہ مل پائے، خاص طور پر علیحدگی کے فوراً بعد تو جہانگیر نے جان بوجھ کر عمر کو اس بورڈنگ میں کروایا تھا جہاں زارا کیلئے جانا مشکل ہو… اب پتا نہیں ہوسکتا ہے وہ کچھ نرم پڑ گیا ہو اور عمر کا رابطہ ماں سے ہو مگر پہلے تو ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔”
”مگر انکل جہانگیر کیوں نا پسند کرتے ہیں عمر کا اپنی ممی سے ملنا؟”
”بس دونوں میں علیحدگی خاصے خراب حالات میں ہوئی تھی۔ بہت زیادہ جھگڑے ہوئے دونوں میں۔ بات کورٹ تک گئی، وہاں بھی دونوں نے ایک دوسرے پر بہت سے الزامات لگائے۔ شاید جہانگیر اسی وجہ سے عمر کے اس سے ملنے کو ناپسند کرتا رہا۔”
”مگر اب اس میں عمر کا کوئی قصور نہیں۔ انکل جہانگیر یہ کیوں نہیں سوچتے۔” اس نے عمر کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔
”جہانگیر کا دماغ ہمیشہ ہی بہت گرم رہا… وہ اپنے معاملات میں کسی دوسرے کی سنتا ہے نہ ہی کسی کی مداخلت پسند کرتا ہے۔”
”پھر آپ نے زارا آنٹی کو اندر کیوں بٹھایا۔ عمر سے ملنے کیوں دیا اگر انکل جہانگیر کو پتا چلا تو وہ آپ سے بھی ناراض ہوسکتے ہیں۔”
”ہاں ناراض ہوسکتا ہے مگر میں اتنی بے مروت تو نہیں ہوسکتی کہ اسے اندر ہی نہ آنے دیتی یا اسے اپنے بیٹے سے نہ ملنے دیتی۔ اب نہ سہی مگر کبھی تو وہ اسی خاندان کا ایک حصہ رہی ہے۔ اگر جہانگیر اپنی عادات کچھ بدل لیتا تو شاید ان دونوں میں طلاق نہ ہوتی۔ زارا اتنی خراب لڑکی نہیں تھی۔ اچھی تھی۔ جہانگیر سے محبت کرتی تھی اور بھی خاصی خوبیاں تھیں ان دونوں کی ایک دوسرے کے ساتھ اچھی گزرسکتی تھی مگر جہانگیر… اب اگر وہ بیٹے سے ملنے آتی ہے تو مجھے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ آخر عمر بھی اب میچور ہے۔ میں نے دونوں کو ملوا دیا اب، اور پھر عمر کو زارا سے ملنا ناپسند ہوتا تو وہ ابھی انکار کردیتا مگر اس نے نہیں کیا… میں نے یہی سوچ کر زارا کو اس سے ملوایا تھا۔”
نانو اب اپنے کمرے میں آچکی تھیں۔ علیزہ ان کے ساتھ چلتے ہوئے ان کی باتیں سن رہی تھی۔
”مگر عمر نے کبھی بھی اپنی ممی کا ذکر نہیں کیا، کیا کبھی آپ کے ساتھ وہ زارا آنٹی کی بات کرتا ہے؟”
”نہیں، مجھ سے اس نے کبھی بات نہیں کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ زارا کو ناپسند کرتا ہے۔ بچپن میں بہت اٹیچ تھا یہ زارا کے ساتھ۔ جب جہانگیر اور زارا میں علیحدگی ہوگئی تو پانچ چھ ماہ خاصا بیمار رہا۔ ڈاکٹرز نے جہانگیر سے کہا کہ وہ اسے ماں کے پاس بھجوا دے مگر جہانگیر اس پر تیار نہیں ہوا وہ کہتا تھا کہ بیمار ہو یا ٹھیک رہے اسے رہنا جہانگیر کے پاس ہی ہے۔” وہ یک دم جیسے کچھ یاد کر کے خاموش رہ گئی تھیں۔
”پھر کیا ہوا نانو؟” علیزہ نے بڑی بے تابی سے پوچھا۔
”کیا ہونا تھا۔ زارا نے کافی کوشش کی، شروع میں اسے اپنی کسٹڈی میں لینے کی مگر بعد میں اس نے شادی کرلی عمر کی کسٹڈی کا کیس تب کورٹ میں تھا۔ زارا خود ہی پیچھے ہٹ گئی، جہانگیر نے عمر کو جس بورڈنگ میں رکھا تھا وہاں سائیکالوجسٹ عمر کا علاج کرتا رہا آہستہ آہستہ یہ ٹھیک ہوگیا۔ بعد میں کبھی کوئی پرابلم نہیں ہوا۔”
نانو آہستہ آواز میں بتاتی جارہی تھیں، وہ خاموشی کے ساتھ ان کی باتیں سنتی رہی۔ بات کرتے کرتے اچانک نانو کو یاد آیا۔
”تم کہاں تھیں؟ میں پورے گھر میں ڈھونڈتی رہی پھر چوکیدار نے بتایا کہ تم عمر کے ساتھ گئی ہو۔”
”وہ… عمر نے کہا تھا کہ مطلب مارکیٹ تک جانا چاہ رہا تھا تو میں۔” وہ گڑبڑا گئی اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ فوری طور پر نانو سے کیا کہے۔
نانو کچھ دیر اسے گھورتی رہیں۔ ”اس کے ساتھ مارکیٹ گئی تھیں؟”
”ہاں۔” اس نے سر ہلا دیا۔
”کم از کم بتا تو سکتی تھیں مجھے۔”
”میں نے کہا تھا مگر عمر کہہ رہا تھا کہ واپس آکر بتا دیں گے۔” اس نے منمناتے ہوئے کہا۔
”گئے کیسے تھے تم لوگ؟ گاڑی تو یہیں تھی؟”
”پیدل گئے تھے واک کرتے ہوئے۔”
”اتنی دور پیدل جانے کی کیا ضرورت تھی؟ گاڑی لے جاسکتے تھے۔ میں پریشان ہوتی رہی۔” نانو نے اب کچھ سخت لہجے میں اسے جھڑکا۔
”سوری نانو۔”
”ٹھیک ہے مگر آئندہ محتاط رہنا، اس طرح بتائے بغیر غائب ہونا کوئی مناسب بات نہیں۔ تمہارے نانا ابھی تک نہیں آئے۔ وہ آجاتے تو وہ مجھ سے بھی زیادہ پریشان ہوتے۔” نانو کا لہجہ کچھ نرم پڑ گیا۔
”اب میں جاؤں؟” علیزہ نے فوراً وہاں سے کھسکنے کی کوشش کی۔
”ہاں ٹھیک ہے جاؤ۔”
علیزہ فوراً اٹھ کر نانو کے کمرے سے باہر آگئی۔ باہر آنے کے بعد اس نے اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھائے مگر پھر جیسے اس کے ذہن میں کوئی خیال ابھرا تھا۔ نانو کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وہ یقیناً اب اسی وقت وہاں سے نکلتیں جب عمر کی ممی وہاں سے چلی جاتیں۔
”مجھے دیکھنا چاہیے کہ عمر اور اس کی ممی۔” وہ یک دم متجسس ہوگئی۔
اپنے کمرے کی طرف جانے کے بجائے وہ پچھلا دروازہ کھول کر لان میں نکل آئی اور وہاں سے لمبا چکر کاٹ کر وہ لاؤنج کی ان کھڑکیوں تک آگئی جو لان میں کھلتی تھیں لان میں تاریکی تھی اس لیے اسے یہ تسلی تھی کہ کھڑکی سے دیکھی نہیں جاسکتی۔ پھر بھی وہ دبے پاؤں لاؤنج کی کھلی کھڑکیوں کے پاس آگئی۔ اندر سے آتی ہوئی عمر کی بلند آواز نے اسے چونکا دیا تھا۔
”مجھے آپ سے کوئی رابطہ رکھنے میں دلچسپی نہیں ہے پھر آپ میرے پیچھے کیوں پڑی ہیں؟”
علیزہ نے تھوڑی سی گردن آگے کر کے اندر کا منظر دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ ماں بیٹے کا جو جذباتی سین دیکھنے کیلئے آئی تھی۔ وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ عمر صوفہ پر بیٹھنے کے بجائے لاؤنج کے درمیان کھڑا تھا اور اس کا لہجہ بہت درشت تھا جبکہ زارا آنٹی اسی صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھیں علیزہ کو ان کا چہرہ بہت بجھا ہوا لگا۔
”تم میرے بیٹے ہو عمر! میں۔۔۔” انہوں نے عمر سے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر عمر نے ان کی بات کاٹ دی۔
”اب میں آپ کا بیٹا ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔”
”عمر! اس طرح بات مت کرو مجھ سے۔”
”میں اس طرح بلکہ کسی بھی طرح آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ آپ بس یہاں سے جائیں۔”
”جہانگیر نے میرے خلاف تمہاری اتنی برین واشنگ کردی ہے کہ تم۔”
اس نے ایک بار پھر غصے میں ماں کی بات کاٹی تھی
”ہاں ٹھیک ہے’ کردی ہے انہوں نے برین واشنگ پھر…؟
زارا آنٹی زرد چہرے کے ساتھ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ ”میں تم پر اتنا حق تو رکھتی ہوں کہ کبھی کبھار تمہیں دیکھ لیا کروں، تم مجھ سے بات کرلیا کرو۔”
”آپ مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتیں۔ آپ کی اپنی فیملی ہے، گھر ہے، بچے ہیں۔ آپ اپنی زندگی ان کے ساتھ گزاریں۔ خود بھی سکون سے رہیں اور دوسروں کو بھی سکون سے رہنے دیں اور اپنا ہر حق اس اولاد کیلئے مخصوص رکھیں جو آپ کے ساتھ ہے۔”
”میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔”
”تو میں کیا کروں؟”
”میں جانتی ہوں، تم مجھ سے ناراض ہو۔ بہت سی باتیں ہیں جن کی میں وضاحت کرنا چاہتی ہوں۔”
”میں آپ سے ناراض ہوں نہ ہی آپ کی وضاحتوں میں مجھے کوئی دلچسپی ہے۔ میں اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن ہوں لیکن آپ میرا سکون خراب کرنا چاہتی ہیں۔”
”تم میری اولاد ہو عمر! میں نے اتنا بہت سا عرصہ تم سے رابطہ صرف اس لیے نہیں کیا کہ میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میرا خیال ہے اب تم اتنے میچور ہوچکے ہو کہ ہر چیز کو سمجھ سکو صرف مجھے مورد الزام ٹھہرانے سے حقیقت نہیں بدلے گی۔”
”میں نے آپ سے کہا ہے، مجھے آپ کی کسی وضاحت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آپ میری زندگی میں اب مداخلت نہ کریں۔” اس نے اس بار تقریباً چلاتے ہوئے کہا تھا۔
”میں تمہاری زندگی میں مداخلت کر رہی ہوں؟ میں تم سے صرف ملنے آئی ہوں۔”
”میں آپ سے ملنا نہیں چاہتا تو آپ کیوں ملنے آئی ہیں۔ آپ یہاں سے جائیں۔”
”مجھے اس گھر میں آنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ تم اگر سوات میں مجھے دیکھ کر یوں واپس یہاں بھاگ نہ آتے تو مجھے بھی یہاں نہ آنا پڑتا۔”
”کس نے کہا ہے کہ میں سوات سے بھاگ آیا ہوں اور وہ بھی آپ کو دیکھ کر… میں وہاں اپنی مرضی سے گیا تھا اور اپنی مرضی سے ہی آیا ہوں اور میں آپ سے خوفزدہ نہیں ہوں، پھر ڈر کر کیوں بھاگوں گا۔” اس نے تنک کر کہا تھا۔ ” تم مجھ سے خوف زدہ نہیں ہو لیکن جہانگیر سے خوف زدہ ہو۔ اسی لیے تم مجھے اس طرح رد کرتے ہو۔”
”اچھا ٹھیک ہے، میں پاپا سے خوفزدہ ہوں پھر جب آپ یہ بات جانتی ہیں تو اس طرح مجھے پریشان کیوں کر رہی ہیں؟”
”تم اب کوئی ننھے بچے نہیں ہو عمر! بڑے ہوچکے ہو اپنے فیصلے خود کرتے ہو تمہیں میرے بارے میں بھی فیصلہ خود کرنا چاہیے اگر جہانگیر کی دوسری شادی پر تمہیں کوئی اعتراض نہیں اور تم اس کی فیملی کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکتے ہو تو پھر میری دوسری شادی۔”
اس بار ان کے لہجے میں بے چارگی تھی مگر ان کی بے چارگی نے عمر پر کوئی اثر نہیں کیا۔ اس نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹ دی تھی۔
”مجھے آپ کی دوسری شادی پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے آپ سے اور آپ کی زندگی سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے آپ نے جو چاہا کیا آپ جو چاہیں کریں میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرا پیچھا کرنے کی کوشش نہ کریں۔”
”میں تم سے سال میں چند بار ملنا چاہتی ہوں… چند بار فون پر بات کرنا چاہتی ہوں… مجھے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں چاہیے۔”
”میں آپ کی وجہ سے زندگی میں پہلے ہی بہت اذیت اٹھا چکا ہوں، اب مزید کسی پرابلم کا سامنا کرنا نہیں چاہتا۔ میں آپ سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتا۔ یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ لیں۔”
”تم… تم بالکل اپنے باپ کی طرح بے حس ہو، خود غرض، جس طرح وہ ہمیشہ صرف اپنے بارے میں سوچتا تھا… اس طرح تم بھی صرف اپنے بارے میں سوچتے ہو۔”
”پھر آپ میرے جیسے بے حس اور خودغرض انسان کے پاس کیوں آئی ہیں۔ کیوں بار بار فون کرتی ہیں، خط لکھتی ہیں انسان میں جو self respect (عزت نفس) ہوتی ہے وہ شاید آپ میں نہیں ہے۔ میری خامیوں کی نشان دہی کرنے کے بجائے آپ مجھے چھوڑ دیں… میں تو آپ کے پیچھے بھاگتا ہوں نہ آپ کو آپ کی خامیاں جتاتا پھرتا ہوں۔”
”تم میرے بیٹے ہو۔ میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتی۔”
”آپ مجھے بہت سال پہلے چھوڑ چکی ہیں اور اس وقت بھی میں آپ کا بیٹا ہی تھا۔”
”عمر! تمہارے دل میں میرے لیے جو شکایتیں ہیں وہ ٹھیک ہیں مگر۔”
”میرے دل میں آپ کیلئے شکایت نہیں ہے۔ میں نے صرف آپ کے جھوٹ کی نشاندہی کی ہے۔”
”چند سال بعد جب تم شادی کرو گے اور تمہارے بچے ہوں گے۔ تب تمہیں اندازہ ہوگا کہ اولاد کو چھوڑنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔”
”میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ آپ نے مجھے کوئی نیا رشتہ قائم کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ آپ نے رشتوں کو کتنا زہر آلود کردیا ہے میرے لیے آپ کو اندازہ ہی نہیں۔”
علیزہ دم بخود اس کی باتیں سن رہی تھیں۔ ایک گھنٹہ پہلے والا عمر اب کہیں غائب ہوچکا تھا وہ جو کچھ دیر پہلے اسے سمجھا رہا تھا کمپرومائز کرنے کیلئے کہہ رہا تھا۔ سب کچھ بھلا دینے کی تاکید کر رہا تھا۔ اپنے ماں باپ کے پرابلمز کو سمجھنے کی نصیحت کر رہا تھا۔ وہ اس وقت وہی سب کچھ دہرا رہا تھا جو کچھ دیر پہلے وہ روتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی فرق صرف یہ تھا کہ وہ رو نہیں رہا تھا۔
”یہ سب صرف میں نے نہیں کیا… جہانگیر نے بھی کیا ہے۔”
”but you were the root cause of everything (لیکن اس کی بنیادی وجہ آپ ہیں) آپ کو بیوی بننا نہیں آتا تھا تو آپ نے پاپا سے شادی کیوں کی اگر کرلی تھی تو رشتے کو نبھاتیں۔”
”اس سب کے باوجود جو جہانگیر میرے ساتھ کرتا رہا؟”
”عورت میں برداشت ہونی چاہیے… پاپا میں اتنی برائیاں ہوتیں تو ثمرین آنٹی کیوں اب تک ان کے ساتھ ہوتیں… آپ کی طرح انہوں نے divorce نہیں لی۔”
علیزہ نے زارا آنٹی کی آنکھوں میں آنسو نمودار ہوتے دیکھے تھے۔
”جہانگیر جانور ہے، ایک ایسا جانور جسے زندگی میں اپنے علاوہ کسی دوسرے کے احساسات کا خیال نہیں، جس کیلئے سب سے زیادہ اہم اپنی خوشی ہے۔ اپنے پیر کے نیچے آنے والے گڑھے کو پر کرنے کیلئے وہ کسی کو بھی اس میں پھینک سکتا ہے چاہے وہ کوئی بہت اپنا ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے اس شخص کو چھوڑنے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے نہ ہی کوئی پچھتاوا ہے۔ تم میری اولاد ہو، تم سے میرا رشتہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔”
I dont need your sermons. “آپ کو میرے پاس محبت نہیں کوئی ضرورت کھینچ کر لائی ہوگی آپ بتا دیں کہ آخر اب آپ کو کیا چاہیے؟”
علیزہ نے زارا آنٹی کو یک دم کھڑے ہوتے دیکھا۔
”مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے۔’تمہارے پاس ایسا کچھ ہے ہی نہیں جوتم مجھے دے سکو تمہیں پسند ہو یا نہ ہو مگر میں تمہیں خط بھی لکھوں گی اور فون بھی کروں گی جب میرا دل چاہے گا۔ میں تم سے ملنے بھی آیا کروں گی۔”
علیزہ نے انہیں لاؤنج سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ عمر اگلے چند منٹ خاموشی سے لاؤنج کے بند ہوتے ہوئے دروازے کو دیکھتا رہا۔ پھر علیزہ نے اسے بھی لاؤنج سے غائب ہوتے دیکھا۔
علیزہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ گئی۔ اسے عمر پر بہت ترس آرہا تھا۔
”کیا واقعی اسے زارا آنٹی کی ضرورت نہیں؟ کیا واقعی یہ ان کے بغیر رہ سکتا ہے؟ یہ زارا آنٹی کو اتنا ناپسند کیوں کرتا ہے اور نانو کہہ رہی تھیں کہ یہ ان سے بہت اٹیچ تھا۔ مگر یہ تو۔”
اس کا ذہن بہت سے سوالوں میں الجھ گیا تھا۔
پچھلے دروازے سے وہ ایک بار پھر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”تو کیا عمر سوات سے اتنی جلدی اس لیے واپس آگیا تھا کیونکہ اس نے وہاں زارا آنٹی کو دیکھ لیا تھا؟ مگر زارا آنٹی کو اس نے avoid کیوں کیا اس نے اور پھر اس طرح وہاں سے چلے آنا۔ یہ زارا آنٹی سے وہاں بھی تو یہ سب کچھ کہہ سکتا تھا۔”
کپڑے بدلتے ہوئے بھی وہ مسلسل عمر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ نانو سے دوپہر کو پڑنے والی ڈانٹ بھی بھول چکی تھی۔
رات کے کھانے کی میز پر عمر نہیں تھا۔
”وہ کہہ رہا تھا اسے بھوک نہیں ہے۔ تمہارے ساتھ برگر اور آئس کریم کھا کر آیا تھا۔”
نانو نے اس کے استفسار پر اسے بتاتے ہوئے ساتھ جیسے تصدیق چاہی۔
”ہاں برگر اور آئس کریم تو کھائی تھی۔” اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”بس اسی لیے وہ اب کھانا کھانا نہیں چاہ رہا۔”
نانو نے مزید کہا، یک دم ہی جیسے اس کا دل بھی کھانے سے اچاٹ ہوگیا۔ کچھ دیر وہ کسی نہ کسی طرح چند لقمے کھاتی رہی مگر پھر اس نے کھانا چھوڑ دیا۔
”بھوک نہیں ہے میں نے بھی برگر کھایا ہے، شاید اسی وجہ سے۔”
اس نے ڈائننگ ٹیبل سے اٹھتے ہوئے نانو کو وضاحت دی۔
اپنے کمرے کی طرف آتے ہوئے اس نے عمر کے کمرے میں تاریکی دیکھی۔
”کیا وہ اتنی جلد سونے کیلئے لیٹ گیا ہے؟” کچھ حیران ہو کر اس نے سوچا تھا۔ عام طور پر وہ رات کو بہت لیٹ سوتا تھا۔ آج روٹین میں ہونے والی یہ تبدیلی فوراً ہی اس کی نظروں میں آگئی۔ کچھ دیر وہ اس کے کمرے کے آگے کھڑی رہی پھر خاموشی سے آگے بڑھ گئی۔
بیڈ پر چت لیٹے ہوئے وہ تاریکی میں کمرے کی چھت کو گھور رہا تھا۔ سوات میں ماں کو اپنی فیملی کے ساتھ دیکھنے پر جس طرح وہاں سے بھاگا تھا۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس کی ممی اس کے پیچھے ہی لاہور آگئی تھیں۔
پچھلے چودہ سالوں میں ایسا بہت بار ہوا تھا کہ ماں کو کہیں دیکھنے پر وہ سرپٹ وہاں سے بھاگ نکلا ہو ،اور زارا اگر اسے دیکھ لیتیں تو وہ اسی طرح اس کے پیچھے آتی تھیں اور ماں کا اپنے پیچھے آنا اس طرح آنا اسے اچھا لگتا تھا۔ شاید لاشعوری طور پر وہ آج بھی منتظر تھا کہ وہ اس کے پیچھے آئے اور پھر وہ اسی طرح ماں کا ہاتھ جھٹکے جس طرح پچھلے چودہ سالوں میں جھٹکتاآیا تھا اور ماں کے ساتھ اس طرح کرنے کے بعد ہر بار وہ ایسے ہی کمرہ بند کر کے بیٹھ جایا کرتا تھا۔
”کون کہتا ہے کہ میں عمر جہانگیر میچیور ہوچکا ہوں۔ کم از کم آج جو میں نے ممی کے ساتھ کیا اس کو دیکھنے والا کوئی بھی شخص مجھے میچیور سمجھ سکتا ہے نہ ہوش مند۔” آنکھیں بند کرتے ہوئے اس نے جیسے بے چارگی سے سوچا۔
باب: 23
”مجھے زارا مسعود کہتے ہیں۔” ان کے تعارف کے بعد اس نے اپنا تعارف کروایا تھا۔ جہانگیر معاذ نے اسے خاصی گہری نظروں سے دیکھا۔
”یہ جان کر خاصا افسوس ہوا، میرا خیال تھا آپ کو کچھ اور کہتے ہوں گے۔” زارا نے دلچسپی سے انہیں دیکھا۔
مثلاً کیا کہتے ہوں گے؟”
”کس زبان میں؟ اردو میں یا انگلش میں؟” جہانگیر نے اس کی مسکراہٹ کے جواب میں اتنی ہی خوبصورت مسکراہٹ پاس کی تھی۔
”دونوں میں۔”
”اردو میں دلربا، دلنشیں، دلکش، ماہ وش۔”
”اور انگلش میں؟” اس کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔
”ہیلن آف ٹرائے، قلوپطرہ princess, cynthia, moon goddes nymph جہانگیر کی فہرست اور لمبی ہوجاتی اگر زارا کے حلق سے بے اختیار ایک قہقہہ نہ نکلتا۔
”very flattering” اس نے ہنستے ہوئے جہانگیر سے کہا۔ یک دم ہی جہانگیر میں اس کی دلچسپی بڑھ گئی تھی۔
”خوبصورت عورت کی تعریف نہ کرنا ظلم ہے اور میں بہرحال ظالم نہیں ہوں۔”
شراب کا گلاس دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے اس نے زارا کی بات کا جواب دیا۔
”ایک دن میں کتنی عورتوں کو اس ظلم سے بچاتے ہیں؟” جہانگیر اس کی بات پر بے اختیار مسکرایا۔
”دن میں نہیں صرف رات کو… دن میں، میں آفس ہوتا ہوں۔ البتہ رات کو پارٹیز میں یہی کام کرتا ہوں۔”
جہانگیر معاذ اس رات پہلی بار زارا سے کراچی کے ایک ہوٹل میں ملا تھا۔ وہ وہاں ایک فیشن شو اٹینڈ کرنے آیا تھا اور زارا ماڈلز میں سے ایک تھی۔ شو کے بعد ڈنر کے دوران ایک دوست نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے متعارف کروایا۔ زارا کو پہلی ہی نظر میں وہ اچھا لگا تھا اور اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے آغاز نے اس کی دلچسپی کو کچھ اور بڑھا دیا، جہاں تک جہانگیر کا تعلق تھا تو اسے ہر خوبصورت عورت میں دلچسپی پیدا ہوجاتی تھی اور زارا کیلئے بھی اس نے ایسی ہی دلچسپی محسوس کی تھی۔
”پارٹیز میں اس کے علاوہ اور کیا کر تے ہیں؟” زارا نے اس کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”یہی کرتا ہوں جو اس وقت کر رہا ہوں۔”
”اور اس وقت آپ کیا کر رہے ہیں؟”
”آپ کا کیا خیال ہے اس وقت ہم کیا کر رہے ہیں؟” جواب دینے کے بجائے اس نے زارا سے سوال کیا۔
”ہم باتیں کر رہے ہیں۔”
”آپ باتیں کر رہی ہوں گی۔ میں باتیں نہیں کررہا۔”
”تو آپ کیا کر رہے ہیں؟”
”میں رومانس کر رہا ہوں۔” اس نے کمال اعتماد سے کہا۔ چند لمحوں کیلئے زارا اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی پھر بے ساختہ ہنسی۔
”تو آپ رومانس کر رہے ہیں؟”
”بالکل۔”
”ہر خوبصورت عورت سے رومانس کرتے ہیں؟” اس بار زارا نے بڑے انداز سے کہا۔
”نہیں… جن سے نہیں ملتا، ان سے نہیں کرتا۔”
وہ اس کی بات پر ایک بار پھر ہنسی۔
”آپ خاصی دلچسپ باتیں کرتے ہیں… فارن سروس والوں کا sense of humour (حس مزاح) خاصا اچھا ہوگیا ہے۔”
”فارن سروس والوں کی اور بھی senses (حسیات) خاصی اچھی ہوگئی ہیں۔ صرف موقع ملنے کی بات ہے۔ اچھی ماڈلنگ کرتی ہیں آپ۔” اس بار اس نے گفتگو کا موضوع بدل دیا۔
”تھینک یو آپ اکثر فیشن شوز میں آتے ہیں؟”
”اکثر تو نہیں مگر آتا جاتا رہتا ہوں۔”
”اس کا مطلب ہے آپ سے دوبارہ کبھی ملاقات بھی ہوسکتی ہے؟”
”دوبارہ ملاقات کیلئے کسی فیشن شو میں آنا ضروری نہیں ہے۔ آپ جب چاہیں مجھ سے مل سکتی ہیں… یہ میرا کارڈ ہے۔”
زارا نے اس کا کارڈ پکڑ لیا۔
”آپ تو خاصے مصروف رہتے ہوں گے پھر کسی سے ملنا خاصا مشکل ہوتا ہوگا۔” زارا نے کارڈ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”خوبصورت عورتوں کیلئے ہر مصروفیت ختم کی جاسکتی ہے اور آپ خوبصورت ہیں۔”
اسے کمپلیمنٹ سمجھوں؟”
”نہیں tribute (خراج) ۔”وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑی بے خوفی سے اسے دیکھتی رہی۔
”مجھے لگتا ہے، آپ سے میری بہت اچھی دوستی ہوسکتی ہے۔” وہ جیسے کسی نتیجہ پر پہنچی تھی۔
”میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اس کے بعد آپ سے یہ کہوں کہ مجھے آپ کا کانٹیکٹ نمبر چاہیے۔”
چند لمحوں کے تامل کے بعد زارا نے اپنا پرس کھول کر اپنا فون نمبر اور ایڈریس اسے تھما دیا۔
ان کے درمیان ہونے والی یہ پہلی ملاقات آخری ثابت نہیں ہوئی۔ جہانگیر نے دوسرے دن ہی اسے فون کیا تھا اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ زارا ستر کی دہائی کی ایک خاصی مشہور ماڈل تھی۔ اس نے اپنا کیریئر ساٹھ کی دہائی کے آخری چند سالوں میں شروع کیا اور اپنے بے باک انداز کی وجہ سے بہت جلد ہی وہ بہت مقبولیت اختیار کرگئی۔ مگر اس کی طرح ماڈلنگ میں بہت سے نئے چہرے آہستہ آہستہ آنے شروع ہوگئے اور مقبولیت کی جس سیڑھی پر وہ ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں جاکھڑی ہوئی تھی۔ چند سالوں میں آہستہ آہستہ وہ وہاں سے نیچے آنے لگی۔ بنیادی طور پر اس کا تعلق ایک ایرانی فیملی سے تھا وہ بہت عرصے پہلے پاکستان آکر سیٹل ہوگئی تھی وہ تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی اور ماڈلنگ کا آغاز اس نے صرف شوقیہ طور پر کیا۔ پھر آہستہ آہستہ اس شعبے میں اس کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ اس کے والدین نے اس شعبہ میں آنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا کیونکہ اس کی ماں خود بھی کسی زمانے میں ایک مشہور سنگررہ چکی تھی۔ جبکہ اس کا باپ بھی بہت عرصہ اسٹیج کے ساتھ منسلک رہا تھا۔
ماڈلنگ کے شعبے میں آنے کے کچھ عرصہ کے بعد اس کے والدین کا انتقال ہو گیا۔ اس سے بڑے دونوں بہن بھائی کی شادی ہو چکی تھی اور وہ دونوں ہی انگلینڈ میں تھے۔ مالی طور پر اسے اس شعبہ سے منسلک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے والدین اس کیلئے وراثت میں اچھا خاصا ترکہ چھوڑ گئے تھے اس کے زیادہ رشتہ دار امریکہ اور یورپ میں سیٹلڈ تھے۔ پاکستان میں صرف چند ایک ہی تھے جنہیں وہ اپنا رشتہ دار کہہ سکتی تھی مگر وہ بھی بہت قریبی نہیں تھے۔ خود وہ اس حد تک اس ماحول میں رچ بس چکی تھی کہ اس کیلئے پاکستان چھوڑ کر جانا آسان نہیں رہا تھا کیونکہ یہاں وہ اپنی ایک شناخت بنا چکی تھی اور مقبولیت یا شہرت کا مزہ چکھنے کے بعد مکمل طور پر اس سے قطع تعلق کرنا خاصا دشوار کام تھا۔ اس لیے زارا نہ صرف ایران یا اپنے بہن بھائی کے پاس نہیں گئی بلکہ وہ ماڈلنگ کے شعبہ کے ساتھ منسلک رہی۔
ابتدائی طوفانی قسم کی شہرت کے بعد آہستہ آہستہ اس کا جادو اس وقت ختم ہونے لگا جب بہت سی دوسری لڑکیاں بھی اس شعبہ میں آنے لگیں اور ان کم عمر لڑکیوں نے نہ صرف اس کی مارکیٹ ویلیو کو اچھا خاصا متاثر کیا بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی کافی کمی ہوگئی۔ کسی دوسری ماڈل کی طرح ڈپریشن یافر سٹریشن کا شکار ہونے کے بجائے زارا نے حقیقت پسندی سے حقائق کو تسلیم کیا وہ جان گئی تھی کہ اب وہ زیادہ دیر کیمرے کے سامنے نہیں رہ سکتی۔ وہ اپنی پروفیشنل اور گلیمرس لائف کے اختتام پر کھڑی تھی اور اب اسے کیا کرنا تھا۔ شادی کر کے اس فیلڈ سے الگ ہوجانا تھا اور جن دنوں جہانگیر معاذ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ ان دنوں وہ شادی کے بارے میں نہ صرف فیصلہ کرچکی تھی بلکہ شناسا مردوں کو اس سلسلے میں جانچ اور پرکھ بھی رہی تھی۔
جہانگیر معاذ کو بھی اس نے ان ہی نظروں سے دیکھا تھا جبکہ خود جہانگیر معاذ کے نزدیک اس رات اس سے ہونے والی ملاقات بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ اس نے زارا مسعود کو بھی ان بہت سی دوسری عورتوں کی طرح ہی لیا تھا جن سے اس کی دوستی تھی اور جنہیں وہ وقت گزاری کیلئے استعمال کیا کرتا تھا۔ فارن سروس میں آنے کے بعد ابھی وہ فارن آفس میں کام کر رہا تھا اور اپنی پہلی باقاعدہ پوسٹنگ کا منتظر تھا۔ ستائیس سال کا نوجوان، ہینڈ سم اور ایک بہت اونچے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ آفیسر اپنی ساری خوبیوں اور خامیوں سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اپنے ہتھیاروں کو بروقت اور پوری مہارت سے استعمال کرنے میں بھی ماہر تھا۔ اپنے لمبے اور شاندار کیریئر کے آغاز پر ہی وہ ایسی سرگرمیوں میں انوالو ہونا شروع ہوگیا تھا جن میں انوالو ہونے کیلئے خاصے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے دوران اقدار کا جو نیا سیٹ اپ اس نے اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ فارن سروس میں آنے کے بعد اس نے ان پر باقاعدہ طور پر عملدرآمد شروع کردیا تھا۔ اس کے نزدیک کوئی بھی چیز اس کے کیریئر سے بڑھ کر نہیں تھی نہ کوئی خونی رشتہ اسے جذباتی کرتا تھا اور نہ ہی دنیا میں کوئی دوسری ایسی چیز تھی جس کے بغیر وہ رہ نہ سکتا ہو… سوائے روپے کے۔
جہانگیر معاذ کے نزدیک زندگی ایک بہت ہی Rational اور منطقی چیز تھی اور اس میں کامیاب ہونے کی خواہش رکھنے والوں کیلئے بھی دو خصوصیات کا اپنے اندر رکھنا ضروری تھا اس کے نزدیک اخلاقیات کی وہی اقدار تھیں جو اس نے اپنی زندگی کیلئے منتخب کرلی تھیں۔ وہ کسی بھی کام کو اس کے اچھے یا برے ہونے کی بنیاد پر نہیں کرتا تھا۔ وہ ہر کام کو کرتے ہوئے دیکھتا تھا کہ وہ کام اس کیلئے کتنا فائدہ مند یا نقصان دہ ہے اور وہ ان اقدار کو اپنانے والا واحد شخص نہیں تھا۔ جس سوشل سرکل میں وہ موو کرتا تھا وہ اسی جیسے لوگوں پر مشتمل تھا جہاں وہ کام کرتا تھا۔ وہاں کے لوگوں کا code of ethics (اصول اخلاقیات) بھی اس سے ملتا جلتا تھا اور اس کے اپنے خاندان میں اس کے بڑے بھائی ان ہی اصولوں اور نظریات پر عمل پیرا تھے جنہیں اب وہ اپنانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کے باپ معاذ حیدر کی فلاسفی کہیں بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اپنے بھائیوں کی طرح وہ بھی یہی محسوس کرتا تھا کہ اس کے باپ کی فلاسفی بہت آؤٹ ڈیٹڈ شے ہے جس کو اپنانے والا شخص اس دنیا میں نہیں چل سکتا جس میں جہانگیر معاذ اور اس کے بھائی رہتے تھے۔
وہ ڈرنک کرتا تھا۔ اس کی بہت سی گرل فرینڈزتھیں۔ اپنی جاب سے روپیہ بنانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہیں چھوڑتا تھا اور وہ بہت زیادہ ambitious تھا۔ وہ اپنی زندگی میں اپنے بھائیوں سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا تھا۔
زارا مسعود کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات کے بعد اس نے ہمیشہ کی طرح زارا سے میل جول بڑھانا شروع کردیا تھا۔ فارن سروس کے ساتھ منسلک اکثر لوگوں کی طرح اسے بھی میڈیا سے متعلقہ لڑکیاں خاصی اٹریکٹ کرتی تھیں چاہے وہ ایکٹرسز ہوں یا پھر ماڈلز۔ ذاتی طور پر بھی وہ ایسی عورتوں کو بہت پسند کرتا تھا جو بہت آزاد خیال، بے خوف اور بے باک ہوں اور زارا بھی ایسی ہی ایک عورت تھی۔ مگر زارا کے ساتھ دوستی ہونے کے بعد اسے احساس ہونا شروع ہوا تھا کہ اس میں ان چیزوں کے علاوہ کوئی خاص کشش بھی ہے جومردوں کو خاص طور پر فوراً اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے اس نے پارٹیز میں بہت بڑے لوگوں کو اس کے سامنے بچھتے دیکھا تھا اس کے ساتھ پارٹیز میں شرکت کرتے وقت وہ بڑی خاموشی سے سب کچھ دیکھتا جاتا تھا اور یہ سب کچھ ایک لمبے عرصہ تک چلتا رہا۔
یہاں تک کہ اس کی پوسٹنگ ہوگئی لیکن باہر جانے سے پہلے اس نے زارا کو پرپوز کردیاتھا۔ زارا نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ پرپوزل قبول کرلیا، وہ جہانگیر کی طرف اسی مقصد کیلئے بڑھی تھی مگر اسے حیرت ہوئی تھی وہ اس بات سے بھی واقف تھی۔ وہ انتہائی ضدی ہے یہ بات بھی اس کی نظروں سے چھپی نہیں رہی تھی مگر وہ یہ بات نہیں جان سکی تھی کہ اس کے نزدیک رشتے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
جہانگیر نے اپنے گھر والوں کو جب اپنی پسند سے آگاہ کیا تو گھر میں ویسا ہی ہنگامہ اٹھا تھا جیسا اس کے بڑے بھائیوں کی اپنی پسند سے کی جانے والی شادیوں پر اٹھا تھا۔
”تم نے اپنے بھائیوں کی زندگی سے واقعی کوئی سبق حاصل نہیں کیا ورنہ تم کبھی اس طرح ایک ماڈل کو بیوی بنانے کی خواہش نہ کرتے۔” معاذ حیدر نے اس سے کہا تھا۔
”زارا اچھی لڑکی ہے اور وہ ایسے بھی شادی کے بعد ماڈلنگ چھوڑ رہی ہے۔”
”تم کو ایک بہت اچھی بیوی کی ضرورت ہے اور زارا ویسی بیوی ثابت نہیں ہوسکتی۔ تم اتنی بولڈ لڑکی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے۔ کبھی بھی تم دونوں کے درمیان اختلافات ہوئے تو وہ تمہیں بڑی بے خوفی کے ساتھ چھوڑ کر چلی جائے گی جبکہ تمہیں ایسی لڑکی کی ضرورت ہے جو ہر حال میں تمہارے ساتھ رہ سکے۔ تمہارے ساتھ نباہ کرنا کسی بھی عورت کیلئے بہت مشکل ہوگا مگر زارا جیسی لڑکیاں تمہارے جیسے مردوں کے ساتھ نباہ نہیں کرسکتیں۔ تمہیں ایک خاندانی لڑکی کی ضرورت ہے۔”
”نہیں میں کسی خاندانی لڑکی کے ساتھ گزار نہیں کر سکتا مجھے زارا جیسی ایک لڑکی کی ضرورت ہے جو میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔ آپ اس شادی کی اجازت دیں گے تب بھی اور نہیں دیں گے تب بھی، مجھے شادی زارا سے ہی کرنی ہے۔”
باپ کے لمبے لیکچر کے بعد اس نے بڑے سکون سے کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔
معاذ حیدر نے اس کے بعد اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے اسے شادی کی اجازت دے دی۔ باہر جانے سے پہلے بہت دھوم دھام سے اس نے زارا کے ساتھ شادی کرلی۔
زارا نے شو بزنس چھوڑ دیا تھا۔ وہ عمر میں جہانگیر سے دو سال بڑی تھی مگر جہانگیر کے قدو قامت کی وجہ سے یہ فرق کبھی نمایاں نہیں ہوا۔ جہانگیر سے شادی پر وہ بے حد خوش تھی۔ شادی کی تقریبات میں جہانگیر کے والدین کی ناپسندیدگی بھی اس سے چھپی نہیں رہی تھی مگر اسے اس بات پر اعتراض نہیں ہوا۔ وہ جانتی تھی کہ جہانگیر کے بجائے کوئی دوسری فیملی بھی اپنے بیٹے کی ایک ماڈل گرل سے شادی کرنے پر اسی طرح اعتراض کرتی مگر وہ مطمئن تھی کہ شوبز کو چھوڑنے کے بعد آہستہ آہستہ جہانگیر کی فیملی اسے قبول کرے گی۔
شادی کے بعد وہ جہانگیر کے ساتھ انگلینڈ چلی آئی تھی جہانگیر یہاں آنے کے بعد اپنی جاب میں مصروف ہوگیا تھا۔ لندن میں جہانگیر کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر اس کے باوجود تفریح کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ وہ زارا کے ساتھ ان تقریبات میں جاتا رہتا جس میں اسے مدعو کیا جاتا زارا کو کراچی اور یہاں کی زندگی میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا تھا۔ وہاں بھی اسی طرح ہر رات کسی نہ کسی تقریب میں شرکت کرتی رہتی اور یہاں بھی وہ کوئی شام بے کار نہیں گزارتی تھی بس فرق یہ تھا کہ وہاں وہ اپنے حوالے سے جانی جاتی تھی اور یہاں وہ جہانگیر کے حوالے سے اور اسے جہانگیر کے حوالے سے جانے جانا زیادہ اچھا لگتا تھا۔
اس شام بھی وہ جہانگیر کے ساتھ پاکستانیوں کی طرف سے آرگنائز کی جانے والی تقریب میں شریک ہونے کیلئے تیار ہو رہی تھی جب جہانگیر نے اس سے کہا۔
”آج اس پارٹی میں میں تمہیں ایک آدمی سے ملواؤں گا… سعید سبحانی… ہوٹل انڈسٹری میں بہت بڑا نام ہے نہ صرف پاکستان میں بلکہ امریکہ میں بھی بہت سی اسٹیٹس میں ہوٹل چلا رہا ہے۔ بیوی امریکن ہے اس وجہ سے یہاں کی نیشنلٹی بھی ہے اس کے پاس۔”
زارا نے کسی دلچسپی کے بغیر اس شخص کا تعارف سنا تھا وہ اس وقت مسکارا لگانے میں مصروف تھی۔
”میں اس آدمی کا ایک ہوٹل خریدنا چاہتا ہوں جو یہ کچھ عرصہ تک بیچنے والا ہے۔”
زارا کا ہاتھ رک گیا۔ ”جہانگیر! تم ہوٹل خریدنا چاہتے ہو؟”
”تم جاب چھوڑ رہے ہو؟”
”نہیں۔”
تو پھر ہوٹل؟”
”سائیڈ بزنس کے طور پر۔”
”مگر تمہیں تو جاب کے علاوہ کچھ اور کرنے کی اجازت نہیں ہے۔” وہ کچھ الجھی۔
”ہاں، صرف مجھے ہی نہیں کسی کو بھی جاب کے علاوہ کچھ اور کرنے کی اجازت نہیں ہوتی مگر سب کرتے ہیں۔ کیا تم یہ جانتی ہو کہ ہمارے سفیر وال اسٹریٹ میں شیئرز کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں بلکہ صرف موجودہ سفیر ہی نہیں ہر آنے والا یہاں آکر یہی کرتا ہے اور موجودہ سفیر تو ایمبیسی کے فنڈز کو بھی ناجائز طور پر اسی کام کیلئے استعمال کرتے ہیں۔” وہ بڑے مزے سے ٹائی کی ناٹ لگاتے ہوئے بتا رہا تھا۔
”مگر یہ تو بہت بڑا جرم ہے۔ یہاں ایمبیسی میں جو ایجنسیز کے آدمی ہوتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ کو ایسی چیزوں کے بارے میں انفارم نہیں کرتے۔”
”کرتے ہوں گے مگر گورنمنٹ کے اپنے بہت سے لوگ بھی سفیر صاحب کے ذریعے سے اپنے بہت سے کام کرواتے رہتے ہیں، اسی لیے ایسی ساری انفارمیشن دبا دی جاتی ہے ویسے بھی سفیر کے بھائی کیبنٹ سیکرٹری ہیں۔ ان کے سسر میجر جنرل ہیں۔ ایک سالا صدر کا پروٹوکول آفیسرہے دوسرا انٹریئر منسٹری میں ہے باقی رشتہ داروں کو گنوانا شروع کردوں گا تو ہم فنکشن میں نہیں جاپائیں گے۔ اس لیے انہیں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا وہ جو چاہتے ہیں آزادانہ طریقے سے کر رہے ہیں اور باقی سب بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔”
زارا کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی۔
اسے ایک بار پھر اپنے مسکارے کی فکر ہونے لگی تھی۔ ”ٹھیک ہے تم خرید لو ہوٹل۔” اس نے جیسے جہانگیر کو گرین سگنل دیا۔
”میں اسی لیے تمہیں اس شخص سے ملوانا چاہتا ہوں۔ یہ شخص خاصا رومینٹک ہے۔ میں چاہتا ہوں تم اس سے تعلقات بڑھاؤ اور پھر اس سے کہو کہ یہ ہوٹل مجھے فروخت کرے اور نسبتاً کم قیمت پر۔”
زارا نے بے یقینی سے مڑ کر جہانگیر کو دیکھا تھا۔
”میں سمجھی نہیں، تم کیا کہہ رہے ہو؟”
”اتنی مشکل بات نہیں ہے۔ تم اتنی خوبصورت ہو۔ تمہیں مردوں کو چارم کرنا آتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس آدمی پر بھی اپنے ہتھیاروں کا استعمال کرو، مجھے یقین ہے کہ تمہارے سامنے یہ مزاحمت نہیں کرسکے گا۔ پھر وہ ہوٹل مجھے مل جائے گا۔”
اس بار اس نے پہلے سے بھی صاف اور واضح لفظوں میں اپنی بات دہرا دی۔ زارا کیلئے مردوں کو رجھانا اور لبھانا نئی بات نہیں تھی وہ ایک ایسے ہی پروفیشن سے منسلک رہی تھی جس میں بہت سی ایڈورٹائزنگ ایجنسیز اپنے کلائنٹس سے خاص طور پر اسے ملواتی رہی تھیں تاکہ وہ ان ایجنسیز کیلئے بزنس حاصل کرسکے اور بدلے میں وہ ایجنسیز اپنے اشتہارات میں صرف اسے ہی لیتیں۔ اسے کبھی یہ سب برا بھی نہیں لگا کیونکہ وہ جانتی تھی یہ اس پروفیشن کی ضرورت تھی اور ماڈلنگ کے شعبے سے منسلک ہر لڑکی یہی کرتی تھی اگر وہ یہ نہ کرتی تو شہرت اور مقبولیت کی اس سیڑھی پر بھی نہ پہنچتی جہاں وہ پہنچ گئی تھی۔ مگر یہ سب اس کے پروفیشن کا حصہ تھا اور وہ اس پروفیشن کو چھوڑ چکی تھی۔ اب ذاتی زندگی میں وہی سب کچھ کرنا اور پھر شوہر کے کہنے پر کرنا…؟
”تمہیں پتا ہے’ تم کیا کہہ رہے ہو جہانگیر؟” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اچھی طرح۔ مگر ہم لوگ جس سوسائٹی میں ہیں وہاں آگے بڑھنے کیلئے یہ سب کچھ کرنا ہی پڑتا ہے اور میرا خیال ہے۔ اس میں کوئی بری بات نہیں۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ترقی کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔” وہ مطمئن تھا۔
”مگر یہ مناسب نہیں ہے۔”
”کم آن زارا! کم از کم تم تو یہ بات نہ کرو۔ یہ سب کچھ تمہارے لیے تو نیا نہیں ہے۔”
”تم جس پروفیشن سے منسلک رہی ہو، کیا تم یہ سب کچھ نہیں کرتی رہیں۔”زارا کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
”میں وہ پروفیشن چھوڑ چکی ہوں۔”
”لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب تم میرے لیے وہی کرو جو تم پہلے اپنے لیے کرتی تھیں۔ اگر تمہاری وجہ سے مجھے کچھ فائدہ پہنچ جائے تو اس میں برا کیا ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
پھر تم یہ سب کرنے والی اکیلی نہیں ہو، تم سفیر کی بیوی کو دیکھو، مجھے رشک آتا ہے اس بندے کی قسمت پر۔ وہ الو صرف بیوی کی وجہ سے اتنے بڑے ہاتھ مار رہا ہے اور وہ بھی کامیابی کے ساتھ بیورو کریسی میں کامیابی کا آدھا انحصار بیوی پر ہوتا ہے جس کی بیوی جتنی زیادہ خوبصورت اور سوشل ہوگی، وہ اتنی ہی جلدی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا جائے گا۔”
وہ ناپسندیدگی سے اس کی فلاسفی سن رہی تھی۔
”تم سے شادی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ تم میں ایک غیر معمولی چارم تھا۔ میں تو خیر ہر عورت کو دیکھ کر اس پر فدا ہو جاتا ہوں مگر تمہارے سامنے میں نے ایسے مردوں کو بھی بچھتے ہوئے دیکھا جو عورتوں سے خاصا بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
”تو یہ محبت نہیں تھی؟” زارا کو پتا نہیں کیوں اس کی بات سے تکلیف پہنچی۔
”تم اور میں جس عمر میں ہیں، اس میں ٹین ایجرز والی احمقانہ قسم کی محبتیں تو نہیں ہوسکتیں۔ اس عمر میں بندہ بہت سوچ سمجھ کر محبت کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ محبت کے بدلے میں اسے کیا مل سکتا ہے اور پھر ہی کوئی فیصلہ کرتا ہے۔” وہ اب اسے لیکچر دے رہا تھا۔
”اب دیکھو نا۔ تم نے بھی تو مجھ سے محبت کرتے ہوئے بہت کچھ دیکھا ہوگا۔” وہ اب اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔ ”یہ دیکھا ہوگا کہ میرا کیریئر کیا ہے۔ میں کس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ دیکھنے میں کیسا ہوں۔ میرا اسٹیٹس کیا ہے۔ میرے ساتھ تمہاری زندگی کیسی گزرے گی۔ میں تمہیں کتنی سکیورٹی دے سکتا ہوں۔ کیسا مستقبل دے سکتا ہوں۔”
زارا کا چہرہ زرد ہوگیا۔
”اسی طرح میں نے بھی کچھ چیزیں دیکھی تھیں۔ تم خوبصورت تھیں مشہور تھیں۔ تمہیں مردوں کو ہینڈل کرنا آتا تھا اور مجھے ایسی ہی بیوی چاہیے تھی کیونکہ جس پروفیشن سے میں تعلق رکھتا ہوں وہاں ایسی ہی بیوی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب محبت کا جہاں تک تعلق ہے تو ظاہر ہے محبت بھی ہے۔ آخر میں نے شادی کی ہے تم سے ویسے بھی میں جو کچھ حاصل کرنا چاہ رہا ہوں۔ یہ ہم دونوں کیلئے ہی ہے، کیا تم نہیں چاہتیں کہ ہمارے پاس اس جاب سے حاصل ہونے والی مراعات کے علاوہ بھی کچھ ہو۔ آخر اس جاب کے بل بوتے پر تو ہم زندگی کو انجوائے نہیں کرسکتے۔ میرا اور تمہارا جو لائف اسٹائل ہے وہ اس تنخواہ میں تو maintain نہیں کیا جاسکتا۔ تنخواہ تو دو دن میں ختم ہوجائے گی پھر مہینے کے اٹھائیس دن تم اور میں کیا کریں گے۔”
وہ اب اسے حقائق بتارہا تھا۔
”زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں اور یقیناً تم بھی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی ہوگی۔”
وہ اس سے کہہ نہیں سکی کہ وہ ایک گھر، شوہر اور بچوں کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتی۔ کم از کم زندگی کے اس حصے میں۔ وہ بولتا جارہا تھا۔
”ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کیلئے دولت ضروری ہے۔ اب دولت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے یہ ہمیں پلان کرنا ہے۔ انسان کے ہاتھ میں پاور ہو تو پھر دولت کا حصول مشکل نہیں ہوتا اور میں بھی اپنی اسی پاور کو استعمال کرنا چاہتا ہوں۔”
وہ مایوس ہو رہی تھی۔
جہانگیر معاذ کی شخصیت کا ایک اور پہلو اس کے سامنے آرہا تھا۔
”سعید سبحانی سے ملنے والا وہ ہوٹل آئندہ چند سالوں میں کتنی مالیت کا ہوجائے گا اس کا شاید تم اندازہ بھی نہ کرسکو وہ شخص اس ہوٹل کو ایک دوسری جگہ کرنے والی انویسٹمنٹ کی وجہ سے بیچنے پر مجبور ہے اور میں چاہتا ہوں اس شخص کی کمزوری کا فائدہ اٹھاؤں اور تم یہ کام بخوبی کرسکتی ہو۔” وہ اب مسکراتے ہوئے زارا کو دیکھ رہا تھا۔ وہ مسکرا نہیں سکی۔
مگر اس نے وہی کیا تھا جو جہانگیر چاہتا تھا جہانگیر نے سعید سبحانی سے اس کی ملاقات کروا دی تھی اور زارا نے اپنی خوبصورتی کا بھرپور استعمال کیا تھا۔ اگلے کئی ماہ سعید سبحانی کے ساتھ اس کی ملاقاتیں جاری رہیں۔ ملاقاتیں کس کس حد کو پار کرتی رہیں۔ جہانگیر اس سے بے خبر نہیں تھا مگر زارا کو اس اطمینان پر حیرت ہوئی، وہ صرف اس بات پر خوش تھا کہ سعید سبحانی بالآخر یہ ہوٹل جہانگیر کو بیچنے پر تیار ہوگیا بلکہ مارکیٹ پرائس سے کم پرائس پر جہانگیر کے پاس اس ہوٹل کو خریدنے کیلئے روپیہ کہاں سے آیا تھا وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ یہ روپیہ وہ اپنی تنخواہ میں سے بچا سکتا تھا نہ ہی اس نے کسی سے قرض لیا تھا۔
سعید سبحانی کے ساتھ جس دن اس نے اس ہوٹل کا سودا کیا تھا اور امریکہ میں رہائش پذیر اپنے ایک دوست کے نام پر وہ جائیداد خریدی تھی۔ اس دن اس نے زارا کو ہیروں کا ایک قیمتی ہار تحفہ کے طور پر دیا تھا۔ زارا کو پہلی بار اس کا کوئی تحفہ لے کر خوشی نہیں ہوئی۔ وہ جانتی تھی یہ تحفہ نہیں قیمت ہے اس کام کی جو اس نے جہانگیر کیلئے کیا تھا اور جو اب اسے بار بار کرنا پڑے گا۔
اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ وہ ہوٹل صرف پہلا قدم تھا اور پہلا قدم اٹھانے کے بعد جہانگیر معاذ کو روکنا بہت مشکل تھا زارا لندن کی تقریبات کا ایک بہت مقبول نام بن گئی تھی ایسا نام جس کے بارے میں صرف اچھی باتیں ہی نہیں اور بھی بہت کچھ کہا جاتا تھا۔
جہانگیر کا اس کے بارے میں اندازہ بالکل ٹھیک تھا، وہ واقعی غیرمعمولی کشش رکھتی تھی اور بہت جلد اس نے سفارت خانے کے تمام آفیسرز کی بیویوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا مگر وہ اس سب سے بہت خوش نہیں تھی جہانگیر سے شادی کرتے وقت اس نے ایسی زندگی گزارنے کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ وہ اسٹیٹس بھی برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ اسے جہانگیر سے دلچسپی بھی اس کے کیریئر اور فیملی کی وجہ سے ہوئی تھی مگر اس کے باوجود ان کی چیزوں کی جو قیمت اسے ادا کرنی پڑ رہی تھی وہ بہت زیادہ تھی۔
وہ بنیادی طور پر اس چمک دمک سے بیزار ہوچکی تھی اور عمر کی پیدائش ان چیزوں سے نجات کی ایک کوشش تھی، اس کا خیال تھا کہ بچے کی پیدائش جہانگیر کو بدل دے گی، جہانگیر کی پیسے کیلئے ہوس میں کمی آجائے گی یا کم از کم وہ پیسے کے حصول کیلئے اسے استعمال کرنا چھوڑ دے گا۔
مگر اس کا اندازہ غلط تھا۔ جہانگیر یہ جاننے پر کہ وہ امید سے ہے۔ بہت مشتعل ہوگیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے کیریئر کی اس اسٹیج پر بچے جیسی کوئی مصیبت پالنا نہیں چاہتا مگر زارا کم از کم اس معاملے پر اس کے دباؤ میں نہیں آئی تھی۔ جہانگیر کی دھمکیوں کے باوجود اس نے ابارشن نہیں کروایا تھا اور بالآخر جہانگیر اس کی اس ضدکے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
عمر کی پیدائش پر زارا بے حد خوش تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اب جہانگیر اسے پہلے کی طرح استعمال نہیں کرے گا اور وہ مطمئن ہو کر اس طرح اپنے بچے کی پرورش کرسکے گی جیسا وہ چاہتی تھی۔ عمر کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد تک وہ واقعی بہت اطمینان اور سکون کے ساتھ تقریبات میں شرکت کیے بغیر زندگی گزارتی رہی مگر جہانگیر آہستہ آہستہ ایک بار پھر اسے وہیں لے آیا تھا اور پہلی بار زارا کو اندازہ ہوا کہ عمر جہانگیر کے پیروں کی زنجیر نہیں بنا خود اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا تھا۔
فطری طور پر وہ عمر کے بہت قریب تھی اور جہانگیر کے ساتھ تقریبات میں جاتے ہوئے وہ سارا وقت اس کے بارے میں فکر مند رہتی۔ جہانگیر نے اس کی پیدائش کے فوراً بعد ہی عمر کو گورنس کے سپرد کردیا تھا اور زارا کے لاکھ احتجاج کے باوجود بھی وہ اسے ہٹانے پر تیار نہیں ہوا۔
اگلے کچھ سال زارا نے شدید ڈپریشن میں گزارے تھے۔ وہ مکمل طور پر اس زندگی سے تنگ آچکی تھی جو وہ جہانگیر کے ساتھ گزار رہی تھی۔لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ عمر کے ساتھ وقت گزارنے میں ناکام رہتی تھی اور یہ بات اس کے ڈپریشن میں اور اضافہ کرتی تھی۔
۔۔۔۔
شاید وہ اس سب کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سمجھوتا کرتے ہوئے زندگی گزارتی رہتی مگر جس چیز نے اسے مشتعل کردیا تھا وہ جہانگیر کی ایک دوسری عورت میں لی جانے والی دلچسپی تھی۔ زارا کچھ عرصہ تک یہ سب نظر انداز کرتی رہی کہ ساتھ گزارے جانے والے دس سالوں میں اس نے جہانگیر کی زندگی میں بہت سی عورتیں آتی اور جاتی دیکھی تھیں اور وہ ان کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتی تھی مگر ثمرین نام کی وہ لڑکی جہانگیر کی زندگی میں کس حد تک شامل ہوچکی تھی، اس کا اندازہ اسے کبھی نہیں ہوا۔ جہانگیر نے اسے مکمل طور پر ثمرین سے بے خبر رکھا تھا۔ وہ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کی بیٹی تھی۔ جہانگیر کے ساتھ اس کی ملاقات کب اور کہاں ہوئی۔ زارا نہیں جانتی تھی مگر جب اسے ثمرین کے وجود کا پتا چلا تھا تو زندگی میں پہلی بار وہ اپنی شادی کے اس فیصلے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی۔
اس کے پاس اب ایک دوسرا راستہ تھا۔ جہانگیر کے ساتھ لڑنے جھگڑنے کے بجائے اس نے اپنے بھائی کے پاس جانے کے بعد جہانگیر سے طلاق کیلئے مقدمہ کردیا تھا۔ جہانگیر کیلئے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زارا کبھی اس سے طلاق مانگ سکتی ہے وہ خود بھی ثمرین کی محبت میں گرفتار ہونے کے باوجود زارا کو طلاق نہیں دینا چاہتا تھا۔زارا دس سالوں میں صحیح معنوں میں سونے کی چڑیا ثابت ہوئی تھی اور شاید اگلے کئی سال وہ اس کیلئے اتنی ہی فائدہ مند ہوتی جبکہ ثمرین خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ کم عمر تھی اور جہانگیر جانتا تھا کہ وہ زارا کی طرح مردوں کو لبھا نہیں سکتی۔
اس نے زارا سے رابطہ کیا تھا مگر وہ کسی بھی صورت واپس آنے پر تیار نہیں تھی۔ ”میں دوسری شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تم بھی دوسری شادی کرلو ہم دونوں خوش رہیں گے۔”
وہ اس کے الفاظ پر دنگ رہ گیا تھا۔ اس کے بعد جتنی دفعہ بھی اس نے زاراسے رابطہ کیا تھا اس کی زبان پر یہی سب کچھ تھا۔ وہ عمر کو اپنی کسٹڈی میں لینا چاہتی تھی مگر جہانگیر کے ساتھ کسی سمجھوتے پر تیار نہیں تھی۔ جہانگیر کو اس کی ضد نے مشتعل کردیا تھا۔
”ٹھیک ہے، تم طلاق لے لو مگر عمر کو میں کسی بھی صورت تمہیں نہیں دوں گا۔” اس نے زارا سے کہا تھا۔
طلاق کے بعد زارا نے اپنے بھائی کے ایک بڑی عمر کے ایرانی دوست کے ساتھ شادی کرلی تھی اور یہ شادی بے حد کامیاب رہی تھی۔ اس کے دوسرے شوہر کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا اور اس کی بیٹی کی شادی ہوچکی تھی۔ زارا سے شادی کے بعد ان کے ہاں دو بیٹے ہوئے۔ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ لندن میں سیٹلڈ تھی اور بہت پرسکون زندگی گزار رہی تھی مگر اس کے باوجود اس نے کبھی بھی عمر کو فراموش نہیں کیا۔ جہانگیر نے عمر کو ایک بورڈنگ میں داخل کروا دیا اور زارا کوشش کے باوجود عمر سے ملنے یا اسے دیکھنے میں ناکام رہی مگر اس سب کے باوجود وقتاً فوقتاً اسے کچھ نہ کچھ بھجواتی رہتی جو زیادہ تر جہانگیر کے ہاتھ لگتا اور وہ اسے ضائع کردیتا۔
جہانگیر نے اسے طلاق دینے کے کچھ عرصہ بعد ہی ثمرین سے شادی کرلی تھی اور ثمرین کو کوشش کے باوجود وہ زارا کی طرح استعمال نہیں کرسکا وہ صرف ایک اچھی بیوی اور ماں ہی بن سکتی تھی۔ عمر کے ساتھ اس کے تعلقات سرد رہے نہ بہت خوشگوار اس کی وجہ یہ تھی کہ عمر ہمیشہ بورڈنگ میں رہا۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اور بعد میں انگلینڈ میں جاب کے دوران بہت دفعہ زارا نے عمر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر عمر نے کبھی بھی اس سے جوابی رابطہ نہیں کیا وہ ماں سے محبت کرنے کے باوجود بچپن سے باپ کے دباؤ پر ماں سے ملنے سے انکار کرتا رہا حتیٰ کہ کورٹ میں کسٹڈی کیس کے دوران بھی اس نے ماں سے ملنے سے انکار کردیا۔ بچپن میں چند بار ماں کی طرف سے ملنے والے کچھ تحائف اور کارڈ وصول کرنے کے بعد جہانگیر کی طرف سے اٹھایا جانے والا ہنگامہ اسے ہمیشہ یاد رہا تھا اور غیر محسوس طریقے سے وہ اس ہنگامہ سے بچنے کی کوشش کرتا رہا
باب: 24
چند گھنٹوں کے بعد وہ این جی او کے کچھ لوگوں کے ساتھ سیالکوٹ کے ایک قریبی گاؤں میں تھے۔ گاؤں میں وہ سیدھا اس حویلی میں گئے تھے۔ جہاں ان کے رہنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کچھ دیر ان لوگوں نے وہاں آرام کیا اس کے بعد ان لوگوں کو این جی او کے زیرانتظام چلنے والے ایک اسکول میں لے جایا گیا۔
علیزہ کو وہاں موجود بچوں کی تعداد دیکھ کر بہت حیرت ہوئی تھی۔ وہ اسکول گاؤں کے ہی ایک شخص کے گھر میں قائم کیا گیا تھا۔ جہاں اس شخص کی بیٹی دو شفٹوں میں بچوں کو تعلیم دیتی تھی۔
” اس گاؤں میں چند سال پہلے تک گورنمنٹ کی طرف سے قائم شدہ ایک سکول بھی تھا۔ ایک دفعہ سیلاب کے دوران اسکول کی چار کمروں پر مشتمل عمارت بہہ گئی۔ بعد میں گورنمنٹ نے دوبارہ اسکول قائم کرنے کی زحمت نہیں کی۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسکول آنے والے بچوں کی تعداد بہت کم تھی۔ گورنمنٹ کا خیال تھا کہ قریبی گاؤں میں موجود اسکول بھی دونوں گاؤں کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔”
ان لوگوں کے گروپ کے ساتھ چلنے والے گائیڈ نے ساتھ چلتے ہوئے انہیں بتانا شروع کیا۔
”گاؤں والوں نے اس لیے اس پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ پہلے ہی یہاں اسکول کی موجودگی کو ناپسند کر رہے تھے۔ انہوں نے خس کم جہاں پاک کے مصداق اس اقدام پر شکر ادا کیا۔ یہ صرف اسی گاؤں میں نہیں ہوا آس پاس کے بہت سے علاقوں میں ایسا ہی ہوتا آرہا تھا۔ لڑکوں کو پڑھانے پر تو یہاں کے لوگوں میں پھر بھی کچھ آمادگی پائی جاتی تھی مگر لڑکیوں کے پڑھانے کے بارے میں بات بھی کرنے پر یہ لوگ سر پھاڑنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح نہ صرف ان کے علاقے کی روایات ختم ہوجائیں گی بلکہ عورتیں منہ زور ہوجائیں گی اور گھر کے مردوں کی حکمرانی ختم ہوجائے گی۔”
علیزہ دلچسپی سے گفتگو سن رہی تھی۔
”آپ لوگ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کے گھروں میں جاکر انہیں اپنی بات سننے کیلئے تیار کرنا کتنا مشکل کام تھا اور اس سے بھی مشکل کام اس علاقے میں کوئی تبدیلی لانا تھا۔ ہماری ورکرز نے یہاں شام چھ بجے سے رات نو بجے تک بھی گھر گھر پھر کر کام کیا۔ اب آپ نتیجہ دیکھ سکتے ہیں یہ اسکول اس علاقے میں چلنے والا واحد اسکول نہیں ہے آپ یہاں جس گاؤں میں بھی جائیں گے۔ آپ کو اس طرح کا کوئی نہ کوئی اسکول کام کرتا ضرور ملے گا اور صرف اسکول ہی نہیں ہوگا بلکہ وہاں بچوں کی اچھی خاصی تعداد تعلیم حاصل کرتی بھی پائی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ان اسکولوں کو قائم کرنے میں بنیادی ہاتھ یہاں کے لوگوں کا ہوگیا ہے۔ وہ خود ہی اس کیلئے عمارت اور دوسری چیزوں کا انتظام کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ ہمیں ٹیچر کیلئے بھی بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑتی کچھ گاؤں میں ایسا بھی ہوا کہ ایک اسکول میں جب بچوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی تو گاؤں والوں نے خود ہم سے ایک دوسرے اسکول کے قیام میں مدد کی درخواست کی۔”
گروپ میں موجو باقی لوگ بھی اس طرح دم بخود اس شخص کی باتوں کو سن رہے تھے۔
”تو ہم بنیادی طور پر جس چیز کو کرنے میں کامیاب ہوئے وہ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی تھی۔ اس وقت 95ء ہے ہمارا اندازہ ہے کہ 2000ء تک ہم اس علاقے میں لٹریسی کا تناسب بہت زیادہ کردیں گے۔ 95ء سے 2000ء تک کے ان پانچ سالوں میں ہم اس علاقے کے لوگوں کی سوچ میں مزید تبدیلیاں لائیں گے اور شاید پانچ سال بعد اس علاقے کو دیکھ کر آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ کبھی یہ علاقہ اپنی ناخواندگی کی وجہ سے مشہور تھا۔
تعلیم کے علاوہ یہاں آمدنی کے ذرائع بڑھانے کیلئے ہم نے ان فیکٹریز سے رابطے کیے جو یہاں سے گھروں میں سلے ہوئے فٹ بال منگواتی تھیں۔ یہاں عورتوں کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا تھا کہ وہ ان فیکٹریز میں جا کر وہاں فٹ بال سیئیں اور اس طرح کچھ بہتر معاوضہ حاصل کریں، لیکن ہم نے ان فیکٹریز کو مجبور کیا کہ وہ ان علاقوں میں اپنے سنیٹرز قائم کریں جہاں یہ عورتیں کام کریں اور اس طرح نہ صرف اچھا معاوضہ حاصل کرسکتی ہیں بلکہ انہیں اپنے گھر سے بہت دور بھی نہیں جانا پڑے گا۔ شروع میں اس کام میں بھی ہمیں بہت پرابلم ہوا کیونکہ زیاہ تر علاقے بارڈر ایریاز ہیں اور فیکٹریز یہاں اپنے سنیٹرز قائم کرنے کو تیار نہیں تھیں کیونکہ بارڈرز پر ٹینشن کے زمانے میں نہ صرف یہ علاقے خالی کروا لیے جاتے بلکہ ان سنیٹرز کو بھی بند کرنا پڑتا لیکن پھر آہستہ آہستہ کچھ بڑی فیکٹریز نے ہم لوگوں کے دباؤ کے تحت یہاں سنیٹرز قائم کیے۔
باب: 25
”میں نے سوچا شاید تم زارا سے ملتے ہوگے۔”
علیزہ اگلی شام اپنے کمرے سے نکل کر لاؤنج کی طرف آرہی تھی، جب اس نے لاؤنج میں نانو کو عمر سے کہتے سنا تھا۔ وہ ٹھٹھک گئی۔
رات کو عمر کے کمرے میں جانے کے بعد وہ بھی کھانا کھا کر اپنے کمرے میں آگئی تھی… بہت دیر تک وہ عمر کے بارے میں سوچتی رہی پھر آہستہ آہستہ نیند نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔
آج صبح عمر ناشتے کی میز پر نہیں تھا۔ کالج سے واپس آنے پر اس نے لنچ پر بھی موجود نہیں پایا۔ ”سر میں کچھ درد ہے اس کے… آرام کر رہا ہے۔” اس کے پوچھنے پر نانو نے کہا تھا۔
علیزہ کچھ بے چین ہوگئی۔ ”کیا زیادہ درد ہے؟”
”پتا نہیں… کچھ بتایا نہیں کہہ رہا تھا کہ سوؤں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا۔” نانو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”آپ کو پوچھنا چاہیے تھا!” اس نے بے ساختہ کہا۔ ”موسم تبدیل ہو رہا ہے اسی کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی۔” نانو نے اس کی بات پر زیادہ دھیان نہیں دیا تھا۔
وہ کچھ دیر تک انہیں دیکھتے رہنے کے بعد اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
عمرکے لئے اس کے دل میں موجود ہمدردی میں یک دم اضافہ ہوا تھا۔ پڑھائی کے دوران بھی وہ بدستور عمر کے بارے میں سوچتی رہی۔
اور اب جب وہ تین گھنٹے بعد شام کی چائے کیلئے نکلی تھی تو وہ لاؤنج میں موجود تھا۔
”نہیں، آپ نے غلط سوچا۔ میں ممی سے نہیں ملتا ہوں۔”
وہ کافی کا مگ ہاتھ میں لیے مدھم آواز میں نانو سے کہہ رہا تھا۔
”کیوں؟” نانو کے سوال پر عمر نے چند لمحے خاموشی سے ان کے چہرے کو دیکھا تھا۔
”کبھی طلب محسوس نہیں ہوئی۔” اس کا لہجہ بہت عجیب تھا۔
”والدین اور اولاد ایک دوسرے کیلئے طلب نہیں ضرورت ہوتے ہیں۔” نانو نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا تھا۔
”ہماری کلاس میں پیرنٹس اور اولاد ایک دوسرے کیلئے طلب ہوتے ہیں نہ ہی ضرورت ،بلکہ چیزوں کی طرح ہوتے ہیں… جب اولاد کو ضرورت پڑے تو وہ ماں باپ کو استعمال کرلے اور جب ماں باپ کو ضرورت پڑے تو وہ اولاد کو استعمال کرلیں۔” علیزہ نے اس کی مذاق اڑاتی ہوئی ہنسی سنی تھی۔ وہ کوریڈور میں جہاں کھڑی تھی، وہاں سے اس کی پشت نظر آرہی تھی۔ وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی مگر اس کی آواز سے وہ اندازہ کرسکتی تھی کہ وہ طنز کر رہا تھا۔
”اس طرح مت کہو۔” نانو نے اسے جیسے روکنے کی کوشش کی تھی۔
”سچ کہہ رہا ہوں گرینی! جیسے میں یہ مگ استعمال کر رہا ہوں نا میرے اور اس مگ کے درمیان اتنا ہی گہرا رشتہ ہے جتنا میرا اپنے ماں باپ کے ساتھ اور میرے ماں باپ کے نزدیک بھی میری اہمیت کافی کے اس گرم مگ جتنی ہی ہوگی جو ضرورت کے وقت ان کے کام آجائے۔” اس کا لہجہ پہلے سے زیادہ تلخ تھا۔
علیزہ کوشش کے باوجود اندر داخل نہیں ہوسکی۔
”پتا نہیں، میرا اندر جانا ٹھیک ہے یا نہیں؟” وہ وہیں کھڑی سوچنے لگی۔
”تم زارا سے مل لیا کرو۔” نانو کی آواز میں اس بار ہمدردی جھلکی تھی۔
”کیوں؟” عمر کا لہجہ بہت تیکھا تھا۔ ”ا ب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ میں ان سے مل لیا کروں؟”
”وہ تمہاری ماں ہے۔”
”تو میں کیا کروں؟”
”تم بچپن میں بہت اٹیچ تھے اس کے ساتھ۔”
”ہوسکتا ہے۔”
”جھوٹ مت بولو عمر!”
”میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔ میں واقعی انہیں مس نہیں کرتا بلکہ میں کبھی بھی کسی کو بھی مس نہیں کرسکتا۔” اس کی آواز میں بے حد سنجیدگی تھی۔
”مگر زارا تم سے ملنا چاہتی ہے۔ بہت محبت کرتی ہے وہ تم سے بار بار تمہاری باتیں کر رہی تھی۔ مجھے بتا رہی تھی کہ تمہیں اس نے سوات میں دیکھا تھا۔ پھر تمہیں ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کی مگر تم ہوٹل سے چیک آؤٹ کرگئے۔ پھر اس نے اندازہ لگایا کہ تم یہیں ہوگے میرے پاس اور وہ سیدھی تمہارے پیچھے لاہور آگئی۔” نانو اب تفصیل سے بتا رہی تھیں۔
”بڑا کارنامہ کیا مجھے ڈھونڈ کر۔” اس نے عمر کو بڑبڑاتے سنا تھا۔
”وہ اپنی فیملی کو وہیں سوات میں چھوڑ کر صرف تمہارے لیے یہاں آئی تھی۔” نانو نے جیسے اسے جتایا۔
”نہ آتیں… اپنی فیملی کے ساتھ ہی رہتیں… انجوائے کرتیں۔”
”وہ صرف تمہارے لیے یہاں آئی تھیں… مجھے بتا رہی تھی کہ تمہیں بہت مس کرتی ہے۔”
”مس کرتی ہیں تو یہ ان کی غلطی ہے نہ کیا کریں… بے اولاد تو نہیں ہیں۔ دوسرے بیٹے ہیں نا پاس… پھر میرے لیے یہ ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟” اس کے لہجے میں بے زاری تھی۔
”کبھی کبھار زارا سے مل لینے میں توکوئی ہرج نہیں۔”
”ان سے ملوں تاکہ پاپا مجھے اپنی جائیداد سے عاق کردیں۔”
”جہانگیر ایسا نہیں کرے گا۔”
”آپ کو اپنے بیٹے کے بارے میں بہت سی خوش فہمیاں ہیں گرینی! انہیں دورکرلیں۔”
”مجھے کوئی خوش فہمی نہیں ہے مگر وہ اب ایسا نہیں کرسکتا… کیونکہ تم کوئی ننھے بچے ہو نہ اس پر انحصار کرتے ہو۔”
”آپ کو یہ بھی غلط فہمی ہے… میں آج بھی بڑی حد تک ان پر انحصارکرتا ہوں۔” اس نے ان کی بات کاٹ کر کہا تھا۔
نانو چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔
”کچھ عرصے کے بعد جب تمہیں جاب مل جائے گی تو تمہیں جہانگیر پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا پھر تم۔۔۔”
عمر نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹی ”کیا ہوجائے گا جاب سے… چند ہزار روپے پر مشتمل تنخواہ تو میری ضروریات پوری نہیں کرسکتی… مجھے کل بھی اپنے باپ کی دولت کی اتنی ہی ضرورت ہوگی جتنی آج ہے۔”
”صرف پیسے کیلئے تم زارا سے ملنا نہیں چاہ رہے؟”
”ہاں یہی بنیادی وجہ ہے، انہوں نے زندگی میں اپنے لیے اس چیز کا انتخاب کیا تھا جو ان کے اور ان کے مستقبل کیلئے فائدہ مند تھی… انہوں نے میرے لیے کوئی قربانی نہیں دی میں بھی یہی کروں گا۔۔۔”
”تم چاہو تو میں جہانگیر سے بات کرسکتی ہوں۔ ہوسکتا ہے وہ تمہیں اب زارا سے ملنے سے نہ روکے۔”
”آپ اپنے بیٹے کو مجھ سے زیادہ نہیں جان سکتیں۔”
”وہ ضدی ہے مگر انسان ہے اوروقت کے ساتھ انسان میں بہت سی تبدیلیاں آجاتی ہیں۔”
”مگر میں ممی سے ملنا نہیں چاہتا۔ اس لیے آپ پاپا سے کوئی بات نہ کریں، بلکہ ان سے ذکر تک نہ کریں کہ ممی یہاں آئی تھیں یا مجھے ملی تھیں۔” اس کا لہجہ بالکل حتمی تھا۔
علیزہ کچھ دیر تک کچھ اور سننے کی منتظر رہی، مگر لاؤنج میں خاموشی چھائی رہی۔ نانو نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا اور وہ خاموشی سے کافی پینے میں مصروف تھا۔
وہ دبے قدموں سے لاؤنج میں داخل ہوگئی۔
”علیزہ!آج میں نے چائے کے بجائے کافی بنوائی ہے عمر کہہ رہا تھا ،اگر تم چائے لینا چاہو تو میں خانساماں سے کہہ دوں۔” نانو نے اسے اندر آتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا۔
”نہیں ٹھیک ہے میں بس کافی لے لوں گی۔” وہ بڑے محتاط سے انداز میں کہتے ہوئے نانو کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی۔ وہ اب عمر کے بالمقابل تھی مگر دانستہ طور پر اس پر نظر ڈالنے سے گریز کر رہی تھی۔
نانو نے کافی تیار کر کے کپ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ پہلا سپ لیتے ہوئے اس نے بڑے محتاط انداز میں عمر کو دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ اس کی طرف متوجہ تھا۔ علیزہ کو اپنی طرف دیکھتے پاکر وہ ہلکا سا مسکرایا۔ علیزہ کو حیرانی ہوئی۔”کیا وہ اب بھی مسکرا سکتا ہے؟” اس نے سوچا۔
”بارش شروع ہوگئی ہے۔” نانو نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے جیسے اطلاع دی تھی۔
علیزہ نے چونک کر کھڑکیوں کی طرف دیکھا۔ شام کے ملگجے اندھیرے میں لان میں یک دم پڑنے والی بارش کی تیز بوچھاڑ کھڑکیوں کے شیشوں کو گیلا کرنے لگی تھی۔
ایک نظر بارش کی بوندوں پر ڈال کر علیزہ ایک بار پھر عمر کی طرف متوجہ ہوگئی۔ وہ صوفے پر نیم دراز کافی پیتے ہوئے کھڑکیوں کے باہر برستی بارش کو دیکھ رہا تھا۔
اس کے چہرے پر نظریں جمائے وہ جیسے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی۔
”کیا عمر واقعی صرف پیسے کیلئے اپنی ممی سے ملنا نہیں چاہ رہا؟ کیا وہ اتنا materialistic (مادہ پرست) ہوسکتا ہے؟ کیا اسے اپنی ممی سے محبت نہیں ہے؟ کیا اسے اپنے پاپا سے محبت ہے؟ اور اگر اسے ان سے بھی محبت نہیں تو پھر آخر اسے کس سے محبت ہے؟” وہ اسے دیکھتے ہوئے جیسے الجھ رہی تھی۔
عمر کو یک دم جیسے اس کی نظروں کا احساس ہوا کچھ چونک کر کھڑکی سے باہر نظر آنے والے منظر سے نظریں ہٹا کر علیزہ کی متوجہ ہوا۔ علیزہ گڑبڑا گئی۔ شرمندگی کے عالم میں اس نے اپنی نظریں جھکا لی تھیں۔
”گرینی! مجھے کچھ اور کافی ڈال دیں۔” علیزہ کو مخاطب کرنے کے بجائے اس نے اپنا جہازی سائز کا مگ نانو کی طرف بڑھا دیا تھا۔ نانو اس کیلئے کافی بنانے لگیں۔
علیزہ ایک بار پھر اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ وہ نانو کو کافی بناتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور اس وقت پہلی بار علیزہ کو احساس ہوا کہ اس کی آنکھیں سرخ بھی ہیں اور متورم بھی۔ وہ کافی پیتے پیتے جیسے ٹھٹھک گئی۔
”کیا عمر روتا رہا ہے؟” اس سوال نے اس کے وجود میں جیسے ایک کرنٹ دوڑا دیا تھا۔
”کیا عمر بھی رو سکتا ہے؟” وہ کافی پینا بھول گئی۔
عمر نے نانو سے کافی کا مگ تھاما صوفے پر سیدھا ہوتے ہوئے ایک بار پھر اس کی نظر علیزہ پر پڑی تھی۔ اس بار علیزہ نے اس پر سے نظریں ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسے دیکھتی رہی اور عمر کو یک دم جیسے احساس ہوگیا کہ وہ اس کے چہرے پر کیا ڈھونڈ چکی ہے۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا دیکھا تھا اور پھر وہ علیزہ سے نظریں چراگیا۔
”گرینی!ْ میں اپنے کمرے میں جارہا ہوں۔” اگلے لمحے وہ مگ ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔
اسے لاؤنج سے باہر جاتے ہوئے دیکھ کر وہ بے چین ہوگئی۔
”مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا… یا کم از کم اس طرح اسے گھورنا نہیں چاہیے تھا۔ کیا عمر کو میرا اس طرح دیکھنا برا لگا ہے ہوسکتا ہے وہ یہ سوچ رہا ہو کہ میں اسے اس صورت حال میں پاکر خوش ہو رہی ہوں۔” اس کا پچھتاوا بڑھتا جارہا تھا۔
راکنگ چیئر پر جھولتے ہوئے وہ برستی بارش کو دیکھ رہا تھا۔ باہر لان میں اب لائٹس آن کردی گئی تھیں اور ہوا سے ہلتے بارش میں بھیگتے پودے اور بیلیں بہت عجیب لگ رہی تھیں۔
کمرے کے دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے چونکا دیا۔
”بس کم ان۔” اس نے بلند آواز میں کہتے ہوئے راکنگ چیئر کو جھلانا بند کردیا۔ دروازہ آہستہ آہستہ کھلا تھا اور پھر عمر نے علیزہ کو کمرے کے اندر آتے دیکھا، وہ اپنے ہاتھوں میں کرسٹی کو اٹھائے ہوئی تھی۔
”اوہ علیزہ!” عمر کچھ حیران ہوا تھا۔
”میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟” وہ کچھ نروس تھی۔
”ناٹ ایٹ آل میں فارغ بیٹھا ہوا تھا… تمہیں کوئی کام ہے؟” اس نے مسکراتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔
”میں تھوڑی دیر کیلئے آپ کے پاس بیٹھ جاؤں؟”
”وائے ناٹ۔” عمر نے کچھ حیرانی آمیز مسکراہٹ سے کہا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بیڈ کی پائنتی کی طرف بیٹھ گئی۔ عمر اب راکنگ چیئر کو جھلانا بند کرچکا تھا۔
”آپ کو بارش بہت اچھی لگتی ہے؟” علیزہ نے کھڑکی کے پردے ہٹے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں۔”
”کیوں؟”
”مجھے بارش سے خوف آتا ہے۔”
”بارش سے خوف؟… کیا مطلب؟” وہ حیران ہوئی۔
”چھوڑو یار… مذاق کر رہا ہوں۔ تمہیں اچھی لگتی ہے بارش؟”
”نہیں۔”
”کیوں؟”
”پتا نہیں بس مجھے بارش سے الجھن ہوتی ہے۔” عمر کچھ کہے بغیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھاگئی۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ اب کیا بات کرے۔ کچھ دیر وہ سوچتی رہی پھر اس نے ایک کاغذ عمر کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ کیا ہے؟” عمر نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”آپ دیکھ لیں۔” عمر نے کچھ تجسس کے عالم میں کاغذ کھولا تھا۔ پھر اس کے چہرے پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ علیزہ کی آنکھوں میں یک دم چمک لہرائی۔
”اٹس جسٹ ونڈر فل۔” عمر نے کاغذ پر بنے ہوئے اس اسکیچ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”تھینک یو۔” علیزہ کا چہرہ کچھ سرخ ہوا۔
”مگر میں حیران ہوں کہ میرا چہرہ اس قابل کیسے ہوگیا کہ تم میری اسکیچنگ کرو۔”
”وہ… وہ تب آپ میرے دوست نہیں تھے اس لیے۔” اسے یاد آگیا تھا جب عمر نے ایک بار اس کی اسکیچ بک دیکھ کر اس کی تعریف کرنے کے بعد اسکیچ بنانے کی فرمائش کی تھی اور اس نے بڑی بے رخی سے اس کی یہ فرمائش رد کردی تھی۔
”اوہ… یعنی اب ہم دوست ہیں؟” عمر نے دلچسپی سے پوچھا۔ علیزہ نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔
”So nice of you۔” وہ ایک بار پھر اسکیچ دیکھنے لگا۔
”کیا میں واقعی اتنا گڈلکنگ ہوں، جتنا اس اسکیچ میں لگ رہا ہوں یا پھر یہ صرف تمہارے ہاتھ کا کمال ہے؟”
وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔ علیزہ کا چہرہ ایک بار پھر سرخ ہوگیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس کے سوال کا کیا جواب دے۔
عمر نے علیزہ کو جھینپتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ”تم اسکیچنگ کے بجائے پینٹنگز بنایا کرو، میں تمہاری ایگزیبیشن کرواؤں گا۔”
وہ اس کی بات پر حیران ہوئی۔ ”ایگزیبیشن کیلئے تو بہت ساری پینٹنگز چاہئیں۔ اس میں تو بہت وقت لگے گا۔”
”کتنا وقت لگے گا؟ ایک سال دو سال، دس سال میں کون سا مرنے والا ہوں یہیں ہوں۔ بس تم اب پیٹنگز بنایا کرو۔”
”لیکن میں ایگزیبیشن کروا کے کیا کروں گی… مجھے کوئی آرٹسٹ تو نہیں بننا۔” وہ ہچکچائی۔
”یہ کوئی لاجک نہیں ہے۔ بہت سے لوگ آرٹسٹ نہیں ہوتے مگر پینٹنگز بھی بناتے ہیں اور ایگزیبیشن بھی کرواتے ہیں۔ بس اسے پروفیشن نہیں بناتے۔ تم بھی یہی کرنا۔” وہ بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
علیزہ مطمئن تھی۔ وہ اس کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
اب عمر یقیناًاپنی ممی کے بارے میں سوچ رہا ہوگا۔ میں اس سے باتیں کروں گی تو یہ آہستہ آہستہ ریلیکس ہو جائے گا۔ وہ سوچ رہی تھی۔
”نہیں… ہر بندہ آرٹسٹ نہیں ہوتا۔”
”آپ نے کبھی کوشش نہیں کی؟”
”جو چیز مجھے پسند نہیں، وہ میں کبھی کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔” اس کا لہجہ دو ٹوک تھا۔
علیزہ یک دم ساکت ہوگئی۔ ”ابھی چند لمحے پہلے یہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں… اور اب کیا کہہ رہا ہے کہ اسے پینٹنگ پسند نہیں ہے۔” وہ الجھنے لگی۔
”پھر آپ مجھے پینٹنگز بنانے کیلئے کیوں کہہ رہے ہیں جبکہ آپ کو خود یہ کام پسند نہیں ہے؟” وہ برا مانتے ہوئے بولی۔
”میری پسند یا ناپسند کوئی اہمیت نہیں رکھتی ،میرے لیے تمہاری پسند یا نا پسند اہمیت رکھتی ہے۔” وہ اس کی بات سمجھ نہیں پائی صرف اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
مزید کچھ کہنے کے بجائے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کرسٹی کو عمر کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا۔
”آپ چاہیں تو اسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں… اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔”
عمر نے کچھ حیرانی سے اس کے ہاتھ سے کرسٹی کو لے لیا۔
”تم برا نہیں مانو گی؟”
”نہیں۔” وہ کچھ اور حیران ہوا۔
”آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟” وہ جاتے جاتے مڑی۔
”نہیں۔” وہ کمرے سے نکل گئی۔
عمر اسے کمرے سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا، علیزہ کا بدلا ہوا رویہ اس کیلئے حیرانی کا باعث تھا۔
”اتنی مہربانی کس لیے؟” وہ سوچنے لگا اور پھر اس کے ذہن میں جیسے جھماکا ہوا۔ وہ جان گیا تھا۔ وہ کیا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ بہت دیر تک وہ کرسٹی کو ہاتھوں میں لیے بے حس و حرکت اپنی کرسی پر بیٹھا رہا۔
”تم کچھ دنوں کیلئے اسلام آباد چلے جاؤ۔” تین چار دن کے بعد عمر کو جہانگیر نے کال کیا تھا حال احوال دریافت کرنے کے فوراً بعد انہوں نے اس سے کہا تھا۔
”کس لیے؟”
”لئیق علی کے پاس جانا ہے تمہیں۔” انہوں نے اپنے ایک کزن کا نام لیا۔
”لیکن کس لیے؟”
”ایک تو وہ تمہیں پبلک سروس کمیشن کے ان دونوں سائیکالوجسٹس سے ملوائیں گے، جو رزلٹ آنے پر تمہارا سائیکلوجیکل ٹیسٹ لیں گے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ تمہاری گروپ ڈسکشن بھی وہی کنڈکٹ کروائیں۔”
”مگر پاپا! اتنی جلدی کیا ہے، ابھی توچند ہفتے ہوئے ہیں تحریری امتحان کو، پہلے رزلٹ تو آنے دیں۔ اس کے بعد۔”
جہانگیر نے اس کی بات کاٹ دی ”تمہارے پیپرز چیک ہوتے ہی رزلٹ مجھے پتا چل جائے گا اور اس میں صرف ایک ڈیڑھ ماہ اور لگے گا۔”
”نہیں پاپا! چار پانچ ماہ لگیں گے رزلٹ ڈکلیئر ہونے میں۔” اس نے تصحیح کی۔
”میں رزلٹ ڈکلیئر ہونے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ وہ جب چاہے ہوتا رہے… لیکن تمہارے پیپرز چیک ہوتے ہی مجھ تک تمہارا رزلٹ پہنچ جائے گا اور میں تمہیں انفارم کردوں گا۔”
وہ خاموشی سے فون پر ان کی بات سنتا رہا۔
”ان لوگوں سے مل کر میں کیا کروں گا؟”
”کیا مطلب ہے کیا کروں گا؟ وہ تمہیں گائیڈ کریں گے۔ سائیکلوجیکل ٹیسٹ کے بارے میں۔
”مگر پاپا کافی بے اصولی کی بات ہے یہ، وہی لوگ بعد میں ٹیسٹ کنڈکٹ کروائیں گے اور وہی لوگ پہلے ہی مجھے۔” اس نے کچھ کہنا چاہا تھا۔
”Everything is fair as long as it goes to you” اس لیے دوبارہ مجھ سے اصولی یا بے اصولی کی بات مت کرنا تم بیوروکریسی کو کوئی نیا ٹرینڈ دینے نہیں جارہے ہو۔” جہانگیر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے بہت سرد آواز میں کہا۔
”میں نے یہ کب کہا پاپا کہ میں… میں تو بس چاہ رہا تھا کہ مجھے اپنی potential کا پتہ چلے۔”
”اپنی potential کا جائزہ تم بعد میں لیتے رہنا فی الحال لئیق علی کے پاس چلے جاؤ… میں نے اسے تمہاری آمد کے بارے میں انفارم کردیا ہے۔ پھر بھی جانے سے پہلے تم اسے کال کرلینا۔”
”ٹھیک ہے مگر مجھے کتنے دن وہاں رہنا ہے؟”
”یہ میں تمہیں بعد میں بتا دوں گا… کال کرتا رہوں گا وہاں بھی۔”
”پھر بھی پاپا! مجھے اندازہ تو ہونا چاہیے کہ مجھے وہاں کتنے دن رہنا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا سامان پیک کروں۔”
”شاید ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ۔”
”واٹ؟ اتنا لمبا قیام کیوں؟” وہ حیران رہ گیا۔
”بس میں چاہتا ہوں کہ تمہاری اچھی طرح سے تیاری ہوجائے۔”
”نہیں تیاری کیلئے اتنے لمبے قیام کی ضرورت نہیں ہے۔ دو تین دن کافی ہیں۔”
”جب تک میں تمہیں وہاں سے واپس آنے کو نہ کہوں، وہاں سے واپس مت آنا۔” جہانگیر کی آواز ایک بار پھر خشک ہوگئی۔
”پاپا… میں کچھ دنوں کیلئے امریکہ آنا چاہتا ہوں۔” اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔
”کس لیے؟” جہانگیر کی آواز پہلے کی طرح سرد تھی۔
وہ کچھ دیر خاموش رہا ”ویسے ہی۔”
”ویسے ہی سے کیا مطلب ہے تمہارا؟” جہانگیر کی آواز پہلے سے زیادہ تیکھی تھی۔
”میں کچھ ریلیکس کرنا چاہ رہا تھا۔”
”تم سوات گئے تو تھے۔ کیا وہاں ریلیکس نہیں کیا؟”
”پاپا! مجھے کچھ چیزوں کی ضرورت ہے۔”
”تم نام بتا دو، میں خرید کر بھجوا دیتا ہوں۔” عمر نے ان کے جواب پر ہونٹ بھینچ لیے۔
”مجھے اپنے کچھ پیپرز اور دوسری چیزیں چاہئیں جو میں خود ہی آکر لے سکتا ہوں۔”
”تمہارا سارا سامان یہیں گھر میں ہے تم پیپرز اور دوسری چیزوں کے بارے میں بتا دو میں آج ہی پیک کروا کر تمہیں بھجوا دیتا ہوں۔ دو تین دن تک تمہیں مل جائیں گی۔”
”آخر آپ مجھے امریکہ آنے کیوں نہیں دینا چاہتے۔” وہ بالآخر تلخ ہوگیا۔
”کیونکہ میں جانتا ہوں، تم امریکہ کس لیے آنا چاہتے ہو؟”
وہ چپ سا ہوگیا۔
”مجھے ایسے لوگوں سے نفرت ہے جو مجھ سے جھوٹ بولیں یا غلط بیانی کریں۔” اس نے اپنے باپ کو کہتے سنا۔ وہ ہونٹ کاٹنے لگا۔ اس کا دل چاہا، وہ ان سے کہے آپ کو ایسے لوگوں سے نہیں صرف مجھ سے نفرت ہے۔
”تمہارے ا کاؤنٹ میں، میں نے کچھ اور روپے ٹرانسفر کروائے ہیں۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو۔” وہ کچھ دیر اس کے بولنے کے منتظر رہے۔
”نہیں، کچھ نہیں چاہیے۔” اس نے کچھ دیر بعد کہا۔
”ٹھیک ہے۔ دو دن کے بعد میں تمہیں دوبارہ فون کروں گا… تب تمہیں لئیق کے پاس ہونا چاہیے۔” فون بند کردیا گیا تھا۔
باب:26
علیزہ گروپ کے باقی لوگوں کے ساتھ اس شخص کی باتیں بہت غور سے سن رہی تھی۔
”یار! میں تو متاثر ہو رہی ہوں، ان لوگوں نے واقعی خاصا کام کیا ہے یہاں پر۔” شہلا نے ساتھ چلتے ہوئے مدھم آواز میں کہا وہ صرف سر ہلا کر رہ گئی۔
”نہیں، ان لوگوں کی وجہ سے ہماری بہت سی پریشانیاں اور مسئلے ختم ہوگئے ہیں۔ آپ لوگ کچھ سال پہلے آتے تو حیران رہ جاتے کہ ہم یہاں کس طرح زندگی گزار رہے تھے، جانووں سے بھی بدتر زندگی تھی جی… زمین دار غلام سمجھتا تھا… یہاں کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ زمین دار کی مرضی کے بغیر کوئی کام کرسکتا۔”
گاؤں میں قائم ایک سنیٹر میں فٹ بال سینے والے شخص سے گفتگو کا آغاز کرنے پر انہوں نے اس سے سنا تھا۔
”یہاں زمین دار سکول بننے نہیں دیتا تھا۔ جتنی دفعہ بھی حکومت نے یہاں اسکول بنوانے کی کوشش کی۔
زمیندار نے یہاں کسی ماسٹر کو آنے نہیں دیا اسکول ماسٹر کے بغیر تو نہیں چل سکتا تھا جی… ہم سب کو مجبور کیا جاتا تھا کہ ہم اس کے کھیتوں کے علاوہ کہیں اور کام نہ کریں… کام کے بدلے ہمیں سال کا اناج دیا جاتا تھا ساتھ چند جوڑے کپڑے اگر یہاں کا کوئی آدمی گاؤں سے باہر کہیں کام کرنے کی کوشش کرتا تو زمین دار اسے مجبور کرتا کہ وہ آدمی اپنے پورے خاندان کے ساتھ علاقہ چھوڑ کر چلا جائے۔”
وہ لوگ خاموشی سے اس شخص کی باتیں سن رہے تھے۔ علیزہ ہر چیز کو judge کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ”پھر آہستہ آہستہ یہ لوگ یہاں آنے شروع ہوئے… یہ ساری ترقی ان لوگوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے یہاں پہلے گورنمنٹ کا قائم شدہ اسکول چلوانا شروع کیا پھر ہمارے گاؤں میں ہی دو تین گھروں میں اور اسکول قائم کیے یہ سنیٹرز بھی ان ہی لوگوں کی کوششوں سے بنے، آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ ان ہی سنیٹرز کی وجہ سے ہمارے علاقے میں کتنی خوشحالی آگئی ہے۔ ہمارے علاقے کی آدھی سے زیادہ عورتیں اس سنیٹر میں کام کر رہی ہیں۔ اب یہاں باقاعدہ فیکٹریز کی کوچز آتی ہیں یہاں سے آدمیوں کو فیکٹریز لے کر جاتی ہیں۔ پہلے ہمارے بچے ہمارے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے تھے اور دوسری جگہوں پر مزدوری کرنے جاتے تھے۔ اب ہمارے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں اس علاقے میں ایسا کوئی بچہ آپ کو نہیں ملے گا جو تعلیم حاصل نہیں کر رہا ہوگا۔” علیزہ مرعوب ہو رہی تھی۔
”این جی اوز جب بھی دیہاتی علاقے میں کام کرنا شروع کرتی ہیں وہ ہمیشہ ایسے علاقے کا انتخاب کرتی ہیں جہاں جاگیرداری نظام بہت سختی سے رائج ہو۔ اس علاقے کا انتخاب کرتے ہوئے بھی انہیں اس چیز کا بہت فائدہ ہوا کہ یہاں فیوڈل سسٹم بہت پختہ تھا۔”
اس کے کانوں میں یک دم عمر کی آواز گونجنے لگی تھی۔
”فیوڈل سسٹم میں لوگوں کے اندر یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے علاقے میں رائج طور طریقوں پر احتجاج کرسکیں یا انہیں بدل سکیں، فیوڈل لارڈز لوگوں کی زندگیوں کو اتنی مضبوطی اور سختی کے ساتھ کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہزار کوشش یا خواہش کے باوجود بھی ان سے جان چھڑا نہیں پاتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے ماحول میں اگر ایک شخص بھی ان فیوڈل لارڈز کے خلاف آواز بلند کرے یا تبدیلی لانے کی کوشش کرے تو لوگ بغیر سوچے سمجھے اس کی حمایت کرتے ہیں… پہلے وہ دل ہی دل میں اس شخص سے ہمدردی کرتے ہیں اور پھر جب یہ دیکھتے ہیں کہ وہ شخص واقعی کچھ تبدیلیاں لا رہا ہے اور اب صرف باتیں ہی نہیں کررہا تو وہ عملی طور پر بھی اس کے ساتھ شامل ہوجانا چاہتے ہیں… اب ظاہر ہے ایسی صورتحال میں فیوڈل سسٹم میں دراڑیں آنا شروع ہوجاتی ہیں… اس کی وجہ یہ این جی اوز ہوتی ہیں ان کے پاس روپیہ ہوتا ہے اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ حکومتی ایجنسیوں کی طاقت ہوتی ہے۔ غیر ملکی مشنز کی پشت پناہی ہوتی ہے۔ کسی بھی فیوڈل میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ ان لوگوں سے ٹکرلے سکے یا انہیں نقصان پہنچائے… نتیجہ کے طور پر وہ اپنے علاقے میں ہونے والی تبدیلیوں کو روک نہیں پاتا… اسکول بھی بننے دیتا ہے… تعلیم کیلئے لوگوں کو باہر بھی جانے دیتا ہے… اپنے کھیتوں پر کام کرنے کیلئے بھی لوگوں کو مجبور نہیں کرپاتا اپنے علاقے میں ہونے والی ترقی کو روکنے کیلئے بھی کچھ نہیں کرسکتا… اور میڈیا اس سب کو ریفارمز کا نام دینا شروع ہوجاتا ہے… دیہی اصلاحات حالانکہ یہ اصلاحات نہیں ہوتیں، صرف لارڈز بدل جاتے ہیں اور حکومت کرنے کا طریقہ… کچھ آزادی بھی دی جاتی ہے اور گھر میں بھی کچھ زیادہ خوشحالی آجاتی ہے۔”
”جہاں لوگ نسلوں سے بھوک اور بے عزتی کا شکار ہوں، تو بس یہی کافی ہے کہ آپ انہیں تین وقت کی روٹی اور سراٹھا کر بات کرنے کا حق دے دیں… پھر ان سے جو چاہے کروا لیں وہ آپ سے کتے سے بھی زیادہ دفاداری کریں گے۔”
وہ بے چین ہونے لگی تھی۔
”کیا یہاں بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے؟”
اس نے سوچا اور یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے، کیا یہ بھی صرف وفاداری… وہ شدید کشمکش کا شکار ہوگئی تھی۔
وہ لوگ واپس حویلی میں آگئے تھے۔ رات کو اپنے گروپ کے دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر، وہ سارے دن کے لئے ہوئے نوٹس دیکھ رہی تھی۔ جب اس کی کلاس فیلو سائرہ نے کہا۔
”جس طرح اس علاقے میں این جی اوز نے کام کیا ہے، اگر سارے دیہی علاقے میں اسی طرح کام کیا جائے تو اس ملک کی ستر فیصد آبادی کو زندگی نئے سرے سے گزارنے کا طریقہ آجائے گا، جس فیوڈل سسٹم کو بار بار کی کوششوں کے باوجود ہم بدل نہیں پائے… وہ خودبخود ختم ہو جائے گا۔”
”مجھے افسوس صرف اس بات پر ہے کہ یہ کام ہمارے بجائے این جی اوز کر رہی ہیں حالانکہ یہ ہماری ذمہ داری تھی۔”
”اہمیت اس بات کی نہیں ہے کہ کام کون کررہا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ کام ہو رہا ہے یا نہیں اور کام تو یقیناً ہو رہا ہے۔” شہلا اور مبینہ بھی سائرہ کے ساتھ گفتگو میں شریک ہوگئی تھیں۔
”جس ملک کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہو، وہاں دیہی اصلاحات کا مطلب ہے کہ آپ نے اس ملک کی اکانومی کو صحیح ڈائریکشن دے دی اور ترقی کیلئے ایک سنگ بنیاد رکھ دیا، کون سا ملک اتنا احمق ہوگا کہ وہ اپنا روپیہ دوسرے ملک کی ترقی یا بقول آپ کے دیہی اصلاحات پر لگا دے۔” وہ آواز پھر اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
”جب اپنے لیے خود کچھ کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر گھر میں رات کو آنے والا چور بھی اندھیرے میں رحمت کا فرشتہ ہی لگتا ہے۔ بیسویں صدی کی اس آخری دہائی میں کون سا ایسا شخص ہوگا، جو کسی مطلب کے بغیر کسی کے لیے کچھ کرے اور ہم بات کر رہے ہیں برسات میں مشرومز کی طرح اگنے والی درجنوں فارن این جی اوز کی جو ڈالرز اور پاؤنڈز کے تھیلے بھر کر تھرڈ ورلڈ میں سوشل اور رورل ریفارمز کرنے نکلی ہیں کیا لطیفہ ہے۔” اسے عمر کا قہقہہ یاد آیا تھا۔
”تم کیا سوچ رہی ہو علیزہ؟” شہلا نے اسے مخاطب کیا۔
وہ یکدم چونک گئی ”کیا؟”
”میں پوچھ رہی ہوں، تم کیا سوچ رہی ہو؟”
”میں۔” وہ ایک بار پھرسوچ میں پڑ گئی۔
”کہاں گم ہوگئی ہو؟” اس بار شہلا نے ایک بار پھر علیزہ کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا۔ وہ ایک گہری سانس لے کر جیسے کسی ٹرانس سے باہر آگئی۔
”تمہارا کیا خیال ہے یہاں ہونے والے کام کے بارے میں؟” سائرہ نے اسے مخاطب کیا۔
”پتا نہیں۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے بے بسی سے کہا۔
”کیا مطلب؟” سائرہ اس کے جواب پر حیران ہوئی۔
”میں اصل میں، سمجھ نہیں پارہی کہ میں کیا کہوں۔” اس نے وضاحت کی۔
”یعنی تم بھی میری طرح یہاں ہونے والے کام سے بہت متاثر ہو۔”سائرہ نے مسکرا کر کہا۔
”یہ بھی پتا نہیں۔”
”یہ کیا بات ہوئی؟”سائرہ پھر حیران ہوئی۔
”سب کچھ تو دیکھا ہے تم نے… ان کا آفس… وہاں ہونے والا کام… یہاں چلنے والے اسکول… عورتوں کا سینٹر… اور یہ جو ڈھیروں ڈھیر پیپرز پکڑائے ہیں انہوں نے… یہ پڑھنے کیلئے دیئے ہیں، سارے Facts and figures ہیں اس میں… چائلڈ لیبر کے حوالے سے روزگار کی صورتحال، عورتوں کی کنڈیشن، ان کا رول، آنے والے سالوں کیلئے این جی اوز کی پلاننگ اتنا ڈیٹا ملنے کے بعد بندے کی کوئی رائے تو ہوتی ہے نا، تمہاری کیا رائے ہے؟” سائرہ نے پوچھا۔
”مجھے اصل میں یقین نہیں آرہا۔” اس نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
”کیا؟ یقین نہیں آرہا؟ مگر کس بات پر؟” فائزہ تقریباً چلائی۔
”یہی کہ این جی اوز واقعی اس علاقے میں اتنا بڑا انقلاب لے آئی ہیں۔”
”کیوں یقین کیوں نہیں آرہا۔ تم نے تو سب کچھ خود دیکھا ہے… لوگوں سے ملی ہو یہ پیپرز دیکھو۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے پاس موجود رپورٹ دیکھو حیرانی کی بات ہے کہ تمہیں یقین نہیں آرہا۔” منیبہ نے اس بار اس سے کہا تھا۔
”اصل میں اس کے ایک کزن نے اس کی برین واشنگ کردی ہے یہاں آنے سے پہلے۔” شہلا نے بڑے اطمینان سے بتایا۔
”کیا مطلب؟” سائرہ کچھ الجھی۔
”اس کا ایک کزن ہے فارن سروس میں، اس نے اس علاقے کے بارے میں چند سال پہلے کوئی سروے یا ریسرچ وغیرہ کی تھی این جی اوز کے حوالے سے… اسی نے اسے کہا ہے کہ این جی اوز یہاں کوئی پازیٹو کام نہیں کر رہیں۔” شہلا نے مختصراً بتایا
کم آن علیزہ! تم تو ایسی باتوں پر یقین نہ کرو، تمہارے کزن کو تو یہی کہنا تھا بیورو کریٹ ہے نا اس لیے۔ بیورو کریٹ اسی فیوڈل سسٹم کا ایک دوسرا ورژن ہیں۔ اس ملک کی دو بیساکھیاں ہیں فیوڈل لارڈز اور بیوروکریٹس… دونوں بیساکھیاں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتی ہیں… بیساکھیوں کو اس بات سے دلچسپی نہیں ہے کہ وہ سہارا دے رہی ہیں انہیں صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ ان کا سہارا لے کر چلنے والا مریض صحت یاب نہ ہوجائے… تمہارا کزن بھی اس سسٹم کی پروڈکٹ ہے تم اس سے اسی قسم کی باتیں سنوگی۔”
”عمر کا فیوڈلز سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس طرح کا بیورو کریٹ ہے جس طرح کا تم سمجھتی ہو۔”
علیزہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”فیوڈلزم ایک ذہنیت کا نام ہے اس کیلئے فیوڈل ہونا ضروری نہیں ہے۔ بیورو کریٹس…”
علیزہ نے سائرہ کی بات کاٹ دی۔ ”عمر ایسا نہیں ہے ۔”
اس بار سائرہ نے اس کی بات کاٹ دی۔”پلیز علیزہ اب اپنے کزن کی پاکیزگی اور اعلیٰ کردار پر کوئی تقریر مت کرنا۔ میرا اپنا پورا خاندان بیوروکریٹس سے بھرا ہوا ہے۔ کوئی مجھ سے بہتر تو انہیں نہیں جان سکتا۔” سائرہ نے اتنے اکتائے ہوئے انداز میں کہا تھا کہ وہ جھینپ کر چپ ہوگئی۔
”تمہارے کزن نے جو کچھ این جی اوز کے بارے میں کہا ہے اسے ایک طرف رکھ کر اپنے سامنے نظر آنے والی چیزوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرو۔” منیبہ نے اس بار اسے مخاطب کیا۔
”ویسے تم ایک بات بتاؤ کیا یہاں نظر آنے والی تبدیلیوں نے تمہیں خوش نہیں کیا۔ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے۔ عورتوں کے نئے کردار کے حوالے سے۔ یہاں لوگوں کے منہ سے سننے والی باتوں نے آخر این جی اوز نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہے نا یہاں پر… ورنہ لوگ اتنے بے وقوف تو نہیں ہوسکتے کہ خوامخواہ کسی کی تعریفیں کرتے پھریں۔” وہ سائرہ کا چہرہ دیکھتی رہی۔
اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ سب باتوں میں مصروف ہوگئی تھیں۔ وہ کچھ دیر انہیں دیکھتی رہی پھر اپنے آگے پڑے ہوئے پیپرز کے ڈھیر کو دیکھنے لگی۔ ”Sense of judgement” وہ مسکرانے لگی تھی۔ اس رات وہ بہت دیر تک ان کاغذات کیلئے جاگتی رہی۔
باب : 27
”یہ نہیں پتا میں کب واپس آؤں گا؟” وہ اگلے دن ناشتے کی میز پر بیٹھا نانو اور نانا کو بتا رہا تھا۔
”مگر لئیق کے پاس اتنی دیر رہنے کی کیا تک ہے… تم بس سا ئیکالوجسٹ سے ملو پھر واپس آجاؤ۔”
نانا نے عمر سے کہا، علیزہ نے انڈا چھیلتے ہوئے عمر کو دیکھا۔ وہ بہت الجھا ہوا نظر آرہا تھا۔
”میں کچھ نہیں کرسکتا، پاپا نے کہا ہے۔ مجھے وہیں رہنا پڑے گا۔” ناشتہ کرتے ہوئے اس نے کندھے اچکائے تھے۔
”لیکن پھر بھی ایک ماہ تو وہاں نہیں رہنا چاہیے… میں تو اداس ہوجاؤں گی۔” نانو نے عمر کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا۔ وہ مسکرانے لگا۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے نانا کے پاس ٹیبل پر پڑے ہوئے نیوز پیپر کا شوبز والا صفحہ اٹھالیا۔
نانا پولیٹیکل اور ایڈیٹوریل صفحات دیکھ رہے تھے چائے کے کپ میں چمچ ہلاتے ہوئے اس نے صفحہ کھول لیا۔ علیزہ انڈہ چھیلنے کے بعد اپنی پلیٹ میں کانٹے کے ساتھ اس کے ٹکڑے کرنے میں مصروف ہوگئی۔ انڈے کے ٹکڑے کرنے کے بعد وہ نمک اورکالی مرچ shakers کی تلاش میں ٹیبل پر نظر دوڑانے لگی۔ وہ دونوں اسے عمر کے سامنے پڑے نظر آئے۔ وہ اس سے کافی فاصلے پر تھے۔ وہ ہاتھ بڑھا کر انہیں نہیں پکڑ سکتی تھی، وہ عمر سے انہیں پکڑانے کیلئے کہنا چاہتی تھی، مگر عمر کے چہرے پر نظر دوڑاتے وہ چونک گئی تھی۔ وہ شوبز کا صفحہ کھولے اس پر نظریں جمائے بالکل بے حس و حرکت تھا۔ ہونٹ بھینچے ہوئے اس کے چہرے کی رنگت سرخ ہو رہی تھی وہ حیران ہوئی وہ ایسی کون سی چیز پڑھ رہا تھا جس نے اسے یوں مشتعل کردیا تھا۔ وہ سب کچھ بھول کر اسے دیکھنے لگی۔
تب ہی نانو بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئی تھیں۔
”عمر! کیا ہوا؟” انہوں نے یکدم تشویش بھری نظروں سے عمر کو دیکھا۔ نانا بھی اخبار سے نظریں ہٹا کراس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
عمر نے نانو کی طرف دیکھا۔ علیزہ نے اس کی آنکھوں میں یک دم نمی امڈتے دیکھی پھر کچھ کہے بغیر وہ اخبار ٹیبل پر پٹخ کر ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گیا۔
”عمر…! عمر…! کیا ہوا؟ مجھے بتاؤ تو۔”
نانو اسے آوازیں دیتی رہ گئی تھیں مگر وہ رکا نہیں۔ تیز قدموں کے ساتھ وہ ڈائننگ روم سے نکل گیا۔
نانا نے ہاتھ بڑھا کر شوبز کا وہ صفحہ اٹھالیا۔ ”آخر ایسی کیا چیزدیکھ لی ہے کہ اس طرح اٹھ کر چلا گیا۔” علیزہ نے نانا کو پریشانی کے عالم میں کہتے سنا۔ وہ اب اس صفحہ کا جائزہ لے رہے تھے۔ علیزہ اور نانو منتظر نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ دیر جائزہ لیتے رہے۔
”مجھے تو یہاں کچھ بھی ایسا نظر نہیں آیا جو اسے اس طرح مشتعل کردے۔” وہ بالآخر بڑبڑائے۔
”پلیزمعاذ! آپ دھیان سے دیکھیں۔ آخرکوئی تو چیز ہے نا جس نے اسے پریشان کیا ہے۔” نانو بہت پریشان تھیں۔
نانا ایک بار پھر اس صفحہ کا تفصیلی جائزہ لینے لگے تھے۔ علیزہ کی بھوک اڑگئی تھی۔
”آخر عمر اب کیوں پریشان ہوا ہے؟” وہ سوچ رہی تھی۔
”نانا پلیز مجھے دکھائیں، شاید مجھے پتا چل جائے۔” اس نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اضطراب کے عالم میں اپنے نانا سے کہا مگر معاذ حیدر نے اخبار اس کی طرف نہیں بڑھایا۔ ان کے چہرے کا رنگ یک دم بدل گیا تھا۔ عمر کو کیا ہوا تھا وہ جان چکے تھے۔ کچھ کہے بغیر انہوں نے اخبار نانو کے سامنے رکھتے ہوئے ایک خبر کی طرف اشارہ کیا۔ علیزہ نے نانو کے چہرے کا رنگ بھی اسی طرح اڑتے دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنے سر کو پکڑ لیا تھا۔
”جہانگیر… جہانگیر کو کیا ہوگیا ہے؟”
علیزہ گھبرا گئی ” کیا ہوا نانو؟ انکل جہانگیر کو کیا ہوا؟” نانو کوئی جواب دینے کے بجائے یک دم ٹیبل سے اٹھ گئیں۔ علیزہ نے نانا کو بھی ان کے پیچھے جاتے دیکھا۔ اس نے بے اختیار کھڑے ہو کر ٹیبل کے دوسرے سرے پر پڑا ہوا اخبار اٹھالیا۔ کچھ دیر تک وہ متلاشی نظروں سے اخبار کو دیکھتی رہی پھر اس کی نظریں ایک خبر پر جم گئیں۔ ایک مشہور اور کم عمر ماڈل کی ایک بہت ہی خوبصورت تصویر کے ساتھ ایک کیپشن لگا ہوا تھا۔
Sultry Rushna tied the knot
وہ تفصیل پڑھنے لگی تھی۔ خبر میں بیس سالہ رشنا کی عمر میں اپنے سے پینتیس سال بڑے واشنگٹن میں پوسٹڈ پاکستانی سفارت کار جہانگیر معاذ کے ساتھ شادی کو مرچ مسالہ لگا کر پیش کیا گیا تھا جہانگیر معاذ کی پہلی دونوں شادیوں کے ساتھ ساتھ ان کی رنگین مزاجی کا بھی ذکر کیا گیا تھا اور رپورٹر نے رشنا کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ خیال رکھے کہ جہانگیر چوتھی شادی نہ کرپائے کیونکہ عادتیں مشکل سے چھوٹتی ہیں۔ علیزہ نے اخبار بند کردیا۔
وہ غصے میں بھرا ہوا اپنے کمرے میں گیا تھا۔ موبائل نکال کر اس نے جہانگیر کو کال کرنا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد جہانگیر لائن پر آگئے تھے۔
”اوہ عمر… تم نے کیسے فون کیا؟ کیا لئیق کے پاس پہنچ گئے ہو؟”
”نہیں، میں ان کے پاس نہیں گیا اور نہ ہی جاؤں گا۔”
”کیوں؟ کیا ہوا؟” جہانگیر جیسے کچھ محتاط ہوگئے۔
”میں امریکہ آنا چاہتا ہوں۔” اس نے اسی اکھڑ انداز میں کہا۔
”تم سے میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ میں نہیں چاہتا ابھی تم یہاں آؤ۔”
”کیوں نہیں چاہتے آپ؟”
”مجھے کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔” ان کا لہجہ یک دم خشک ہوگیا۔
”’ہاں، آپ کو کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں۔ آپ مجھے امریکہ آنے سے کیوں روک رہے ہیں۔” اس کے لہجے کی تلخی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
”کیوں روک رہا ہوں؟”
”اپنی نئی بیوی کی وجہ سے۔”
دوسری طرف یک دم خاموشی چھاگئی تھی۔ عمر جہانگیر کے کسی جملے کا منتظر رہا مگر وہ خاموش ہی رہے تھے۔ ایک لمبے وقفے کے بعد انہوں نے بالآخر ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
”تمہیں کس نے بتایا ہے؟”
”ساری دنیا میری طرح اندھی نہیں ہوتی۔”
”مجھ سے بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے صرف یہ بتاؤ کہ تمہیں اس شادی کے بارے میں کس نے بتایا؟”
عمر کے ڈپریشن میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ جہانگیر شرمندہ لگ رہے تھے نہ انہوں نے اس شادی سے انکار کیا تھا۔
”نیوز پیپرز میں پڑھا ہے میں نے۔”
”کس نیوز پیپر میں؟”
”آپ نیوز پیپر کا نام جان کر کیا کریں گے؟ نیوز پیپر بند کروا دیں گے سچ چھاپنے کے جرم میں؟”
”تم مجھ سے کیا جاننا چاہتے ہو؟” اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے انہوں نے کہا تھا۔
”میں کیا جاننا چاہتا ہوں میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ شادی کیوں کی ہے؟”
”تمہیں مجھ سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت کیسے ہوئی؟”
وہ فون پر چلا اٹھے تھے۔ چند لمحوں کیلئے وہ چپ سا رہ گیا۔
”آپ کو پتا ہے، وہ لڑکی عمر میں آپ سے کتنی چھوٹی ہے۔ مجھ سے بھی چھ سال چھوٹی ہے وہ۔”
”تمہیں مشورہ دینے کو کس نے کہا ہے؟”
‘میں آپ کو کوئی مشورہ نہیں دے رہا ہوں، میں آپ کو صرف یہ بتا رہا ہوں کہ آپ۔۔۔”
جہانگیر نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ”مجھے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں، میں نے کیا کیا ہے اور کیوں کیا ہے؟”
”آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کی اس حرکت سے آپ کے بچوں پر کیا اثر ہوگا؟”
”تم صرف اپنی بات کر رہے ہو۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟”
”Am I right” انہوں نے بڑے جتانے والے انداز میں کہا۔
”میں صرف اپنی بات نہیں کر رہا ہوں میں آپ کے سب بچوں کی بات کر رہا ہوں۔”
”تمہیں دوسروں کی بات کرنے کا کوئی حق ہے نہ ضرورت تم صرف اپنی بات کرو۔”
”آپ نے کسی کے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا۔”
”مجھ سے مزید بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔ میری شادی میرا پرسنل افیئر ہے۔ میں جب جس سے چاہوں شادی کرسکتا ہوں۔ میرے معاملات میں ٹانگ مت اڑاؤ۔ کیا اتنی بکواس کافی ہے یا کچھ اور بھی بکنا ہے تمہیں؟”
”آپ جانتے ہیں پریس آپ کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔ آپ کے بارے میں کیا کمنٹس دیئے جارہے ہیں۔” وہ بمشکل اپنی آواز پر قابو پارہا تھا۔
”مجھے پروا نہیں ہے” اس نے باپ کی سرد آواز سنی۔ اس کا خون کھول کر رہ گیا۔
”But I do care. میرے لیے لوگوں سے ملنا بہت مشکل کردیا ہے آپ نے ۔آپ کی اس تیسری اور اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی سے شادی کی کیا لاجک پیش کروں میں لوگوں کے سامنے؟”
”تم اپنے کام سے کام رکھو اورمیرے معاملات کے بارے میں فکر مندی کے ڈرامے مت کرو، کل تک لئیق کے پاس چلے جاؤ۔ میں کل اس سے فون پر کانٹیکٹ کروں گا۔”
”میں ان کے پاس نہیں جا رہا ہوں۔”
”کیا مطلب؟”
”میں آج سیٹ بک کرواؤں گا اور اگلی فلائٹ سے امریکہ آرہا ہوں۔”
”بکواس مت کرو۔”
”میں بکواس نہیں کر رہا ہوں جو کرنے والا ہوں وہی بتا رہا ہوں۔”
”اور امریکہ آکر کیا کروگے تم؟”
”یہ وہاں آکر ہی دیکھوں گا۔” اس نے موبائل بند کردیا۔ چند لمحے بعد موبائل پر دوبارہ کال آنے لگی۔ وہ جانتا تھا، جہانگیر اسے کال کر رہے ہوں گے۔ اس نے موبائل آف کر کے رکھ دیا
”مجھے ان سے بات نہیں کرناہے۔” جہانگیر نے اس کا موبائل آف ہونے کے بعد فون پر معاذ حیدر سے اس سے بات کروانے کیلئے کہا۔ معاذ حیدر نے جہانگیر سے ان کی اس شادی کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر انہوں نے انتہائی سختی کے ساتھ انہیں یہ کہہ کر خاموش کردیا تھا۔
”پاپا! آپ کا اس سے کوئی کنسرن نہیں ہونا چاہیے… یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے، میں چاہوں تو دس اور شادیاں کرلوں۔ آپ مجھے منع کیسے کرسکتے ہیں۔” جہانگیر کا لہجہ اتنا خشک اور اکھڑ تھا کہ معاذ اس سے کچھ نہیں کہہ سکے۔
آپ عمر سے میری بات کروادیں… میں اس کے موبائل پر بات کر رہا تھا، مگر اب اس کا موبائل آف ہے۔” انہوں نے معاذ حیدر سے کہا تھا۔
اور اب معاذ حیدر اس کو جہانگیر سے فون پر بات کرنے پر مجبور کر رہے تھے۔ وہ سامان پیک کرنے میں مصروف تھا۔
”مجھے ان سے بات نہیں کرنا ہے… یہ بتا دیں انہیں۔” وہ ان کی بات پر غرایا تھا۔
”مگر تم سامان کیوں پیک کر رہے ہو؟” نانو گھبرا رہی تھیں۔ وہ خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔ نانا کچھ دیر اسے دیکھ کر باہر نکل گئے۔
”وہ بات نہیں کرنا چاہتا۔” انہوں نے جہانگیر کو فون پر بتایا تھا۔
”ٹھیک ہے نہ کرے… مگر اسے صاف صاف کہہ دیں کہ کل تک اسے لئیق کے گھر پر ہونا چاہیے۔” جہانگیر نے فون پٹخ دیا تھا۔
نانا واپس عمر کے کمرے میں آگئے۔ عمر اب موبائل پر اپنی سیٹ کی بکنگ کروا رہا تھا۔ معاذ حیدر اسے دیکھتے رہے جب اس نے موبائل بند کردیا تو انہوں نے کہا۔
”تم واپس امریکہ جارہے ہو؟”
”ہاں۔”
”مگر جہانگیر نے تمہیں اسلام آباد لئیق کے پاس جانے کیلئے کہا ہے۔”
”وہ بہت کچھ کہتے رہتے ہیں، مجھے ان کی پروا نہیں ہے۔” وہ اپنا دوسرا بیگ کھولنے لگا تھا۔
”مگر تم امریکہ جاکر کرو گے کیا؟” نانو اب اس سے پوچھ رہی تھیں۔ وہ ہونٹ بھینچے بیگ میں اپنے کپڑے ٹھونستا رہا۔
”تم لڑو گے جہانگیر سے جاکر؟” نانا نے اس سے پوچھا۔
”میں آپ کو اتنا احمق لگتا ہوں؟” وہ تنک کر بولا۔
”تو پھر کیوں جارہے ہو؟”
”بس ویسے ہی۔”
”عمر۔” نانو نے جیسے تنبیہی انداز میں کہا۔
”میں فیڈ اپ ہوچکا ہوں۔” اس نے پیر سے بیگ کو زوردار ٹھوکر ماری۔ بیگ ایک جھٹکے سے دور جاپڑا تھا۔
”واپس جا کر اپنا وقت ضائع کرو گے۔” نانو نے اس سے کہا تھا۔
”وقت… یہ وقت کیا ہوتا ہے… جب زندگی ضائع ہو رہی ہو تو وقت ضائع ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔” اس کا لہجہ ترش تھا۔
”پاپا سے کہیں، بس کریں یہ سب کچھ… اب یہ سب کچھ چھوڑ دیں… یا کم از کم ہر ایک کے ساتھ رشتے جوڑنے تو نہ بیٹھ جائیں… پاپا کو شرم نہیں آتی یہ سب کچھ کرتے ہوئے۔ مگر مجھے آتی ہے… میں اپنے فرینڈز اور کزنز کے سامنے کس طرح جاؤں گا۔”
”تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے… جہانگیر جو کچھ کررہا ہے، وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔ تمہیں پروا نہیں کرنی چاہیے۔” نانو نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”کہنا بہت آسان ہے گرینی… مگر میرے لیے یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے۔”
”مگر امریکہ جا کر تم کیا کرلو گے پھر واپس آنا پڑے گا… چند ماہ بعد تمہیں انٹرویو کیلئے آنا ہے پھر وہاں جاکر وقت ضائع مت کرو۔” نانا نے اسے سمجھانے کی ایک اور کوشش کی۔
”نہیں، اب مجھے واپس نہیں آنا ہے۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے انٹرویو میں۔ کون عزت کرے گا میرے جیسے بندے کی جو سول سروس میں ہوگا اور اس کے باپ کی شادیوں کی تفصیلات ہر دوسرے سال اخبار چھاپتے رہیں۔”
”لوگوں کی یادداشت اتنی اچھی نہیں ہوتی ہے، تم جہانگیر کی وجہ سے اپنا کیریئر تباہ مت کرو۔”
”لوگوں کی یادداشت اچھی ہو یا نہ ہو، مگر میری یادداشت اچھی ہے۔ مجھے کوئی کیریئر نہیں بنانا… پاپا سے کہیں، جائیداد میں سے میرا حصہ دے دیں۔”
”عمر! تم ابھی غصے میں ہو۔ اس حالت میں تم کچھ نہیں سوچ سکتے۔”
”نہیں گرینڈ پا! میں غصے میں نہیں ہوں۔ میں نے پاپا کے ساتھ کتنا مشکل وقت گزارا ہے۔ آپ تصور نہیں کرسکتے۔ وہ کتنے بڑے ہپوکریٹ ہیں آپ نہیں جانتے۔” وہ اپنے بیڈپر بیٹھ گیا تھا۔
”افیئرز چلاتے ہیں… چلاتے رہیں مگر شادی اور وہ بھی اس طرح لڑکیوں سےtoo disgusting۔” نانا اس کے پاس بیٹھ گئے۔
”تم جہانگیر کو نہیں بدل سکتے اس کے دل میں جو آتا ہے وہ وہی کرتا ہے مگر تم اپنے ہاتھ پاؤں کاٹنے کی کوشش مت کرو۔” وہ نانا کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”ابھی تم جہانگیر پر ڈیپینڈنٹ ہو… اس کے ساتھ لڑنے کے حماقت مت کرو… جس شادی پر تمہیں اعتراض ہو رہا ہے… پتا نہیں وہ کتنا عرصہ چلتی ہے۔ جہانگیر کے بدلتے ہوئے موڈز کا تو تمہیں پتا ہی ہے… اور پھر یہ لڑکی بہت کم عمر ہے۔ چار دن جہانگیر کے پیسے پر عیش کرے گی پھر اسے چھوڑ جائے گی… یہ ماڈلز گھر نہیں بساتی ہیں۔”
معاذ حیدر کو روانی میں بات کرتے کرتے احساس ہوا تھا کہ انہوں نے عمر کے سامنے ایک غلط بات کہہ دی تھی۔ اس کے چہرے کا رنگ یک دم بدل گیا تھا۔ انہوں نے اس کی آنکھوں میں شکست خوردگی دیکھی تھی۔
اس کے پاس یکدم جیسے سارے لفظ ختم ہوگئے تھے۔ معاذ حیدر بات کہہ کر جیسے چور بن گئے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ اب اپنی بات کی تلافی کے لئے اسے کیا کہیں۔
وہ اب سرجھکائے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے ناخن سے باری باری باقی انگلیوں کے ناخن کھرچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ معاذ حیدر نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ نانو بھی ان کی بات پر اتنی ہی شرمندہ نظر آرہی تھیں جتنا وہ خود تھے۔
بالآخر انہوں نے ایک بار پھر کہنا شروع کیا۔
”ساری ماڈلز تو بری نہیں ہوتیں مگر جب عمروں میں اتنا فرق ہو تو پھر شادی کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر اگرجہانگیر جیسا آدمی ہو تو یہ کام اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔”
عمر نے ان کی بات پر سراٹھا کر غور سے انہیں دیکھا تھا۔ ”گرینڈ پا! دوبارہ کبھی یہ بات مت کہیے گا۔ میری ماں کو کبھی ماڈل بھی نہ سمجھئے گا۔ ماڈل عورت ہوتی ہے، گھر بسا سکتی ہے اگر دوسری طرف تھوڑی سی وفاداری ہو… پاپا میں وفاداری نہ کبھی تھی… نہ ہے… نہ ہوگی… جو عورت گیارہ سال کسی جہانگیر معاذ کے ساتھ گزار سکتی ہے وہ ساری عمر بھی گزار سکتی ہے، میری ماں نے یہ کوشش کی تھی۔”
وہ یک دم اس طرح زارا کی حمایت میں بولا تھا کہ معاذ حیدر اور ان کی بیوی دونوں حیران رہ گئے تھے، کہاں وہ زارا سے ملنے پر تیار نہیں تھا کہاں وہ اس کے حق میں دلیلیں دے رہا تھا۔
‘میں نے زارا کی بات نہیں کی تھی، میں جانتا ہوں، وہ اچھی عورت تھی۔ میں تو ویسے ہی بات کر رہا تھا۔” معاذ کچھ خجل ہوگئے۔
”نہیں! وہ اچھی عورت نہیں تھیں۔ اچھی عورت ہوتیں تو پاپا سے شادی کبھی نہ کرتیں۔” اگلے ہی جملے میں وہ ایک بار پھر اپنی ہی بات کی نفی کرنے لگا۔
معاذ حیدر نے جیسے کچھ بے بس ہوکر اسے دیکھا۔ ”جو بھی ہے، بہر حال تم جہانگیر کی وجہ سے اپنا کیریئر داؤ پر مت لگاؤ۔ تھوڑے سکون اور سمجھ داری سے کام لو۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس طرح بھاگم بھاگ امریکہ جاکر تمہیں کیا مل جائے گا۔ جہانگیر سے سامنا ہوگا، وہ اور مشتعل ہوگا۔ یہاں سے چلے جانے سے بھی تمہارا ہی نقصان ہوگا۔ اس لیے تم ٹھنڈے دماغ سے اس مسئلے پر غور کرو اور پھر کوئی فیصلہ کرو۔”
معاذ حیدر نے ایک بار پھر اسے سمجھانا شروع کردیا وہ پوری خاموشی کے ساتھ سرجھکائے ان کی بات سنتا رہا۔ پہلے کی نسبت وہ اب مضمحل لگ رہا تھا۔ معاذ حیدر کو اس کے تاثرات سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ کشمکش کا شکار ہوچکا ہے۔
بہت دیر تک وہ دونوں اس کے پاس بیٹھے اسے سمجھاتے رہے۔ وہ اسی خاموشی کے ساتھ کچھ جواب دیئے بغیر ان کی باتیں سنتا رہا۔
جب وہ دونوں اس کے پاس سے اٹھ کر آئے تھے تب بھی وہ خاموش تھا۔ اب اس کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پائے، اس نے کیا فیصلہ کیا تھا۔
ان دونوں کے جانے کے بعد عمر نے کمرہ لاک کر لیاتھا۔ بیڈ پر سیدھا لیٹا چھت کو گھورتے ہوئے وہ بہت دیر تک اپنا ذہن کسی بھی چیز پر مرکوز نہیں کرپارہا تھا۔
”گرینڈ پا ٹھیک کہتے ہیں۔ میں واقعی ایک ایسی کٹھ پتلی ہوں جس کی ڈوریاں پوری طرح سے آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ میں چاہوں بھی تو خود کو آپ سے نہیں چھڑا سکتا۔ آپ میرے لئے آکٹوپس سے بھی زیادہ خوفناک ثابت ہورہے ہیں۔ مگر پاپا! ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب میں خود کو آپ کے شکنجے سے چھڑا لوں گا۔ مجھے صرف یہ دیکھنا ہے کہ وہ وقت کتنی جلدی آتا ہے۔”
وہ لیٹے لیٹے بڑبڑایا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ چند منٹ وہ اس طرح پڑا رہا پھر یکدم جیسے ایک خیال آنے پر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا والٹ ہاتھ بڑھا کر اٹھالیا۔ آہستگی سے والٹ کھول کر اس نے اس میں لگی ہوئی ایک تصویر کو دیکھنا شروع کردیا۔ پھر کھلے ہوئے والٹ کو اپنی آنکھوں پر الٹ کر اس نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔
وہ صبح کی فلائٹ سے اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔ ایئرپورٹ پر اسے لئیق انکل کی بڑی بیٹی شانزہ نے ریسیو کیا۔ وہ شانزہ سے پہلے بھی دو تین بارمل چکا تھا اس لیے اسے کوئی اجنبیت نہیں ہوئی تھی، مگر جس موڈ میں وہ ان دنوں تھا بہت کوشش کے بعد بھی وہ اس طرح شانزہ سے بات نہیں کرسکا جیسے پہلے کرتا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ کھنچا کھنچا تھا اور شانزہ نے یہ بات فوراً محسوس کرلی تھی۔
ایئرپورٹ سے گھر جاتے ہوئے گاڑی میں اس نے عمر سے خاصی بے تکلفی سے کہا۔
”تم خاصے سیریس ہوگئے ہو عمر! چھ ماہ پہلے جب تم سے ملاقات ہوئی تھی تو تم خاصے جولی ہوا کرتے تھے۔ اب کیا ہوا ہے؟”
‘نہیں، میں ویسا ہی ہوں، کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پتا نہیں تمہیں کیوں ایسا لگا ہے۔” عمر نے مسکرا کر کہا۔
”چلو ٹھیک ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔”
”لئیق انکل تو اس وقت آفس میں ہوں گے؟” عمر نے بات شروع کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں! پاپا تو آفس میں ہی ہیں۔ اسی لیے تو میں لینے آئی ہوں تمہیں۔ اگر تمہاری فلائٹ رات کو ہوتی تو وہ خود تمہیں لینے آتے۔ تم اب گھر جانے کے بعد انہیں رنگ کرلینا۔ انہوں نے خاص طور پر کہا ہے۔”
”میں سوچ رہا ہوں کہ انکل کے آفس ہی چلا جاتا ہوں۔ وہاں۔۔۔”
شانزہ نے عمر کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔ ”وہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ آج تھوڑی دیر ہی وہاں رہیں گے… پھر انہیں دو تین جگہوں پر جانا ہے… آج کل آفس میں ان کا زیادہ وقت نہیں گزرتا بلکہ کچھ دوسری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔” شانزہ نے لاپروائی سے کہا۔
”اس کا مطلب ہے کہ آج کا دن تو ایسے ہی نکل جائے گا۔” عمر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”تمہیں جلدی کس بات کی ہے۔ آج کا دن گزر جائے گا تو پھر کیا ہے۔ تم آرام سے یہاں رہ کراپنا کام کرو۔ دن گننے کی کوشش نہ کرو، ویسے بھی پاپا بتا رہے تھے کہ انکل جہانگیر نے تمہیں ابھی اسلام آباد رہنے کیلئے ہی کہا ہے۔”
عمر نے اس بات پر ایک گہرا سانس لے کر کھڑکی سے باہر جھانکا۔
”ویسے عمر! انکل جہانگیر کا ٹیسٹ بہت اچھا ہے۔” عمر نے چونک کر شانزہ کی طرف دیکھا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ تھی۔
”رشنا کسی کو گھاس تک نہیں ڈالتی تھی… شادی تو دور کی بات تھی مگر دیکھ لو۔۔۔”
عمر نے بے اختیار اپنا نچلا ہونٹ بھینچ لیا۔
”میں نے ایک دو شوز میں ماڈلنگ کی ہے اس کے ساتھ، وہ واقعی بہت اٹریکٹو اور گلیمرس ہے۔” شانزہ اب اس کی تعریف کر رہی تھی۔
”تم ماڈلنگ کرنے لگی ہو؟” عمر نے دانستہ طور پر بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”پروفیشنلی تو نہیں بس ایڈونچر کے طور پر… ممی کی ایک فرینڈ کے کہنے پر لیڈیز کلب کے ایک فنکشن میں کی تھی… رسپانس بہت اچھا ملا اور وہیں ایک میگزین کی ایڈیٹر نے ایک فیشن شوٹ کے لئے کہا۔ بس پھر آہستہ آہستہ کچھ اور فیشن شوز بھی ملنے لگے۔ بلکہ اب تو ایک ٹی وی سیریل کا کانٹریکٹ بھی سائن کیا ہے۔ لیڈنگ رول نہیں ہے مگر اچھا رول ہے۔ مجھے تو بس یہ خوشی ہے کہ بہت اچھی کاسٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا۔”
شانزہ نے بہت جوش سے اپنے بارے میں تفصیل سے بتانا شروع کردیا تھا۔
”اچھی ایکٹیویٹی ہے۔” عمر نے سرسری سا تبصرہ کیا۔
”اس ویک اینڈ پر ایک فیشن شو میں حصہ لے رہی ہوں، تم چلنا ساتھ۔” شانزہ نے فوراً اسے آفر کی۔
”نہیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے فیشن شوز میں۔” عمر نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
”کیا؟ تمہیں کوئی انٹرسٹ ہی نہیں ہے حالانکہ تمہاری ممی خود اتنی مشہور ماڈل رہ چکی ہیں۔ پھر بھی تمہیں انٹرسٹ نہیں ہے۔”
عمر نے اس کی بات کا جواب ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے دیا۔ گاڑی میں کچھ دیر کیلئے خاموشی چھاگئی۔
”ویسے انکل جہانگیر نے تمہیں رشنا سے شادی کے بارے میں بتایا تھا۔ میرا مطلب ہے شادی سے پہلے؟”
ایک بار پھر شانزہ نے ہی خاموشی توڑی۔ گفتگو کا موضوع ایک بار پھر وہی ہوگیا تھا جس سے عمر بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”ہاں۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”اور تم نے کچھ کہا نہیں۔ کوئی اعتراض؟”
”میں اعتراض کیوں کرتا۔ یہ پاپا کی زندگی ہے، وہ جو چاہیں کریں۔” اس نے بڑی سرد مہری اور لاپروائی سے کہا۔
”ہاں! ویسے بھی انکل جہانگیر کی شادی سے تمہیں تو زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ تمہاری ممی سے تو پہلے ہی ان کی سیپریشن ہوچکی ہے۔ اعتراض تو ثمرین آنٹی نے کیا ہوگا۔ پاپا بتارہے تھے کہ انہوں نے سوسائٹیڈ کی کوشش کی تھی اس شادی سے کچھ دن پہلے۔۔۔”
عمر یک دم چونک گیا۔ شانزہ کے پاس وہ ساری معلومات تھیں جو اس کے پاس ہونی چاہیے تھیں۔ لئیق انکل سے اس کے پاپا کی بہت گہری دوستی تھی۔ صرف رشتہ داری نہیں تھی۔
”سوسائیڈ؟” اس نے کچھ حیران ہو کر کہا۔
”تمہیں نہیں پتا؟”
”نہیں۔”
”ثمرین آنٹی خوش قسمتی سے بچ گئیں اور انکل جہانگیر اتنے غصے میں آگئے کہ انہوں نے ثمرین آنٹی کو ڈائی وورس (طلاق) کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر پاپا اور دوسرے انکلز نے ثمرین آنٹی کی ریکویسٹ پر انہیں سمجھایا۔ انکل جہانگیر بڑی مشکل سے اس کام سے باز آئے۔ ڈائی وورس تو انہوں نے نہیں دی مگر ثمرین آنٹی کو یہاں اسلام آباد شفٹ کر رہے ہیں۔ اب وہ انہیں ساتھ رکھنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہاں امریکہ میں بھی انہوں نے ثمرین آنٹی کو کسی اپارٹ منٹ میں شفٹ کردیا ہے۔ اپنے ساتھ انہوں نے رشنا کو رکھا ہوا ہے۔”
وہ خاموشی سے شانزہ کی گفتگو سن رہا تھا۔
”سوائے میرے اور گرینڈ پا اور گرینی کے خاندان میں سب کو پاپا کی اس متوقع شادی کے بارے میں بہت پہلے پتا چل چکا تھا مگر اس بارے میں انفارم نہیں کیا۔ ہر ایک نے یہ بات چھپائی۔” عمر کڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا اور اسے اپنے کزنز پر بھی حیرت ہو رہی تھی جن سے اس کی اچھی خاصی دوستی تھی۔
”شاید یہ اچھا ہی ہوا ورنہ جوکچھ وقت میں نے لاہور میں سکون سے گزارا ہے، وہ بھی گزار نہ پاتا۔” وہ اب سوچ رہا تھا
”خود سوچو انجوائے کر رہی ہو یا نہیں۔ تم خواہ مخواہ اپنی نانو سے خوفزدہ ہو رہی تھیں۔”شہلا نے تالیاں بجاتے ہوئے بلند آواز میں علیزہ سے کہا جو خود بھی تالیاں بجانے میں مصروف تھی۔ علیزہ مسکراتے ہوئے کچھ کہے بغیر اسٹیج پر نظریں جمائے رہی جہاں سنگر اگلے گانے کی تیاری کر رہا تھا۔
وہ دونوں اس وقت ایک میڈیکل کالج میں ہونے والے ایک کنسرٹ میں موجود تھیں۔ شہلا کا بھائی اور اس کے کچھ دوست بھی اس کنسرٹ میں پرفارم کر رہے تھے۔ کنسرٹ شام کو تھا اور شہلا کا اصرار تھا کہ علیزہ بھی اس کے ساتھ وہاں چلے۔ مگر علیزہ جانتی تھی کہ نانو شام کے وقت اسے گھر سے باہر نہیں جانے دیں گی اور پھر کسی کنسرٹ میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کنسرٹ بھی ایسا جو لڑکوں کے ایک کالج میں تھا… شہلا کے اصرار کے باوجود اس نے انکار کردیا مگر شہلا نے ہار نہیں مانی تھی۔
”دیکھو! میں خود نانو سے بات کرلیتی ہوں۔” اس نے بالآخر علیزہ سے کہا۔
”بات کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں جانتی ہوں وہ نہیں مانیں گی۔”
”مان جائیں گی۔ میں انہیں یہ نہیں بتاؤں گی کہ میں تمہیں کنسرٹ پر لے جا رہی ہوں۔”
”کیا مطلب!” علیزہ حیران ہوئی۔
”میں ان سے یہی کہوں گی کہ میرے گھر پر فنکشن ہے اور میں تمہیں اس کیلئے انوائٹ کر رہی ہوں۔” شہلا نے بڑے آرام سے کہا۔
”یعنی تم نانو سے جھوٹ بولو گی؟”
”ظاہر ہے بھئی جب وہ سچ سچ بتانے پر جانے نہیں دے رہیں تو پھر جھوٹ ہی بولنا پڑے گا۔”
”نہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔” علیزہ نے صاف انکار کردیا۔
”کیوں ٹھیک نہیں ہے۔ میں بھی تو تمہارے ساتھ جارہی ہوں۔”
”مگر نانو کو پتا چل گیا تو وہ آئندہ تمہارے ساتھ کبھی کہیں نہیں جانے دیں گی بلکہ وہ مجبور کریں گی کہ میں تم سے دوستی بھی ختم کردوں۔”
”مگر انہیں پتا چلے گا ہی نہیں۔ شام چھ بجے کنسرٹ شروع ہو رہا ہے ہم آٹھ بجے تک واپس آجائیں گے۔”
”اور اگر نانو نے اس دوران تمہارے گھر فون کرلیا تو؟”
”تو میری ماما ان سے کہہ دیں گی کہ تم وہیں ہو اور بس گھر آنے والی ہو۔”
”یعنی تمہاری ماما بھی جھوٹ بولیں گی؟”
‘ہاں صرف تمہارے لیے۔”
علیزہ اس کی بات پر سوچ میں پڑ گئی، وہ خود بھی اس کنسرٹ میں جانا چاہ رہی تھی کیونکہ اس کے کالج کی بہت سی لڑکیاں وہاں جارہی تھیں مگر نانو اسے اس طرح اکیلے کبھی کنسرٹس میں نہیں بھیجتی تھیں۔ وہ ان ہی کنسرٹس میں جایا کرتی تھی جو جم خانہ میں ہوتے تھے اور جہاں نانا اور نانو بھی اس کے ساتھ ہوتے تھے۔ اس طرح لڑکوں کے کسی کالج میں کنسرٹ پر جانے کی اجازت ملنا ناممکن تھا اور اب شہلا اصرار کر رہی تھی کہ۔
”ٹھیک ہے ۔ تم نانو سے بات کرلو۔ اگر وہ اجازت دیتی ہیں تو پھر سوچ لیں گے۔” علیزہ نے نیم رضا مندی سے کہا۔
”یہ ہوئی نا بات۔”شہلا اس کی بات پر بے تحاشا خوش ہوئی۔
”مگر تم انہیں کس فنکشن کے بارے میں کہو گی؟”
”اپنی برتھ ڈے کروا دوں گی۔”
”یہ کبھی مت کرنا، انہیں تمہاری برتھ ڈے یادہے۔” علیزہ نے فوراً منع کیا۔
”تو پھر ٹھیک ہے، سبین کی برتھ ڈے پارٹی کا کہہ دیتے ہیں۔” شہلا نے اپنی چھوٹی بہن کا نام لیا۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے۔” علیزہ متفق ہوگئی۔
پھر اگلے دن شہلا کالج سے اس کے ساتھ اس کے گھر آئی تھی اور اس نے نانو سے علیزہ کو اس فنکشن پر بھیجنے کیلئے اجازت مانگی تھی۔ نانو نے حسب توقع فوراً انکار کردیا مگر شہلا نے اپنی بات پر اصرار اور ان کی اتنی منت کی کہ وہ بالآخر تیار ہوگئیں۔
اور اب وہ دونوں وہاں کنسرٹ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ کنسرٹ میں دو مشہور سنگر تھے اور ان کے علاوہ باقی سارے اسٹوڈنٹ سنگرز تھے۔
”کنسرٹ ختم ہونے کے بعد سنگرز سے بھی ملیں گے۔” شہلا نے شور و غل کے درمیان اس سے کہا۔ علیزہ بے اختیار خوش ہوئی۔
”مگر کنسرٹ ختم ہوتے ہوتے تو بہت دیر ہوجائے گی پھر۔۔۔” علیزہ کو اچانک خیال آیا۔
”ایسا کریں گے جب فاروق پرفارم کرلے گا تو ہم اسٹیج کے پیچھے جا کر ان لوگوں سے مل لیں گے اور پھر چلے جائیں گے۔” شہلا کو بھی احساس ہوا کہ اس وقت تک دیر ہوجائے گی۔
پھر انہوں نے یہی کیا۔ شہلا کے بھائی نے اسٹیج پر دو گانے گائے اور اس کے دوسرے گانے کے ختم ہوتے ہی وہ دونوں اسٹیج کے پیچھے چلی آئی تھیں۔ شہلا نے جاتے ہی فاروق کومبارکباد دی اور پھر کہا۔
”میرا اور علیزہ کا تعارف کرواؤ ان لوگوں سے۔ کوئی فائدہ تو ہو تمہارے کنسرٹ کا۔” شہلا نے دور کھڑے ہوئے سنگرز کو خوش گپیوں میں مصروف دیکھ کر اس سے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے میرے ساتھ آؤ۔”
وہ انہیں لے کر ان لوگوں کی طرف بڑھ گیا تھا۔ علیزہ یک دم ایکسائیٹڈ ہوگئی۔ فاروق نے ان دونوں کا تعارف کروایا تھا۔ شہلا اب بڑی بے تکلفی سے ان لوگوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھی جبکہ علیزہ کچھ نروس سی ان لوگوں کودیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر ان لوگوں کے ساتھ گپ شپ کرنے کے بعد وہ لوگ فاروق کے ساتھ واپس جارہے تھے جب ایک لڑکے کو دیکھ کر فاروق ایک بار پھر رک گیا۔
”یہ ذوالقرنین آج اس نے بھی پرفارم کیا ہے۔ تم لوگوں نے دیکھا ہی ہوگا۔ بہت اچھا دوست ہے میرا۔” اس نے علیزہ اور شہلا سے کہا۔
علیزہ نے اسٹیج پر سب سے پہلے اسی لڑکے کو پرفارم کرتے دیکھا تھا اور وہ اس کے گانے سے زیادہ اس کی اسمارٹنیس سے متاثر ہوئی تھی۔
”ویری گڈ لکنگ، یار” اس نے اس کے اسٹیج پر آتے ہی شہلا سے کہا تھا اور اب وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
”آپ لوگوں کو میرا گانا کیسا لگا؟” وہ مسکراتے ہوئے ان سے پوچھ رہا تھا۔
”خاصا اچھا گا لیتے ہیں آپ۔” شہلا نے تعریف کی۔
”اور آپ کی کیا رائے ہے؟” وہ علیزہ کی طرف متوجہ ہوا۔
اس سے پہلے کہ علیزہ کچھ کہتی، شہلا نے شوخ انداز میں کہا۔ ”علیزہ آپ کی آواز سے زیادہ آپ کی لکس سے متاثر ہوئی ہے۔”
علیزہ کا دل چاہا وہ دھواں بن کر وہاں سے غائب ہوجائے۔ بے تکلفی اور مذاق میں کہا گیا وہ تبصرہ شہلا اس طرح ذوالقرنین کو بتا دے گی، یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
ذوالقرنین اور فاروق نے بے اختیار شہلا کی بات پر قہقہہ لگایا۔ ”ہاں یہ ہمیشہ اپنی لکس کی وجہ سے فائدے میں رہتا ہے۔ سنگر گڈلکنگ ہو تو سننے والوں کی توجہ خودبخود بڑھ جاتی ہے۔ پھر بونگی آواز کو بھی وہ برداشت کرلیتے ہیں۔” اب فاروق نے تبصرہ کیا۔
”تمہارا اشارہ میری طرف ہے۔” ذوالقرنین نے فاروق کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”نہیں یار! یہ جرأت میں کیسے کرسکتا ہوں۔” فاروق نے پہلو بچایا۔
”چلیں میں تو آپ کو پسند آیا لیکن میری آواز آپ کو کیسی لگی۔ یہ آپ نے نہیں بتایا؟”
ذوالقرنین ایک بار پھر علیزہ سے مخاطب تھا۔ علیزہ میں سر اٹھانے کی بھی ہمت نہیں رہی۔ کچھ دیر پہلے کا سارا جوش و خروش غائب ہوچکا تھا۔
”بتاؤ علیزہ! ان کاگانا کیسا لگا تمہیں؟” اس بار شہلا نے جیسے اس کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے کچھ کہے بغیر غصے سے ایک نظر اس کو دیکھا۔
”اب علیزہ ناراض ہوگئی ہے۔ یار! میں مذاق کر رہی تھی۔” شہلا اس کے تیور فوراً بھانپ گئی۔
”نہیں بہرحال! میں تو اس بات کو مذاق سمجھنے پر تیار نہیں۔ میں واقعی اچھا خاصا گڈلکنگ بندہ ہوں۔” ذوالقرنین نے شہلا کی بات پر فوراً کہا۔
”مگر اتنے گڈلکنگ نہیں کہ علیزہ آپ سے متاثر ہوجائے۔” شہلا نے جیسے کچھ جتاتے ہوئے کہا۔
”کیوں علیزہ کو متاثر کرنے کیلئے کتنا گڈلکنگ ہونا ضروری ہے؟” اس بار پھر اس نے بڑی بے ساختگی سے کہا۔
”یہ تو آپ علیزہ سے پوچھیں۔” شہلا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے ان ہی سے پوچھ لیتا ہوں۔”
”شہلا! گھر چلو دیر ہو رہی ہے۔” وہ جواب دینے کے بجائے شہلا کو بازو سے کھینچنے لگی۔
”بھئی، یہ اتنا مشکل سوال تو نہیں ہے کہ آپ اس طرح یہاں سے بھاگنے کا سوچیں۔” ذوالقرنین نے ایک بار پھر قہقہہ لگا کر کہا۔ علیزہ مزید نروس ہوگئی۔
”جی نہیں، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہم بالکل یہاں سے بھاگنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہمیں واقعی دیر ہورہی ہے۔” شہلا نے بلند آواز میں کہا۔
”ٹھیک ہے، میں مان لیتا ہوں لیکن کیا آپ لوگ میرے اگلے کنسرٹ میں آئیں گے۔ خاص طور پر علیزہ؟” اس نے انہیں انوائیٹ کیا۔
”آپ کا کنسرٹ کب ہے؟” شہلا نے پوچھا۔
”اگلے مہینے۔”
”ٹھیک ہے، ہم سوچیں گے اور فاروق کو بتادیں گے۔” شہلا نے چلنا شروع کردیا۔
”میں کم از کم علیزہ سے یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ میرے کنسرٹ میں آنے کیلئے پہلے سوچیں اور پھر فیصلہ کریں انہیں آنا ہے۔”
علیزہ نے شہلا کے ساتھ تیز قدموں سے چلتے ہوئے اپنی پشت پر اس کی آواز سنی۔
فاروق اور ذوالقرنین کی نظروں سے اوجھل ہوئے ہی علیزہ شہلا پر برس پڑی۔
”تمہیں شرم آنی چاہیے اس طرح اس سے میرے بارے میں بات کرتے ہوئے… وہ کیا سوچتا ہوگا کہ میں کیسی لڑکی ہوں۔”
”اس میں بری بات کیا ہے۔ اس نے تمہارے بارے میں اچھا ہی سوچا ہوگا اسی لیے تو خاص طور پر اپنے کنسرٹ میں انوائیٹ کیا ہے اگر برا سوچتا تو ایسا نہ کرتا۔ ویسے بھی اپنی تعریف کسی کو بری نہیں لگتی۔”
”شہلا! تم بہت بدتمیز ہو، میں آئندہ تم سے کوئی بات شیئر نہیں کروں گی۔” علیزہ کا غصہ کم نہیں ہوا تھا۔
”اچھا ٹھیک ہے، میں ایکسکیوز کرتی ہوں، آئندہ ایسا نہیں کروں گی۔ اب تم یہ بتاؤ کہ اس کے کنسرٹ میں چلنا ہے؟” شہلا نے فوراً معذرت کرنی شروع کردی۔
”میں ابھی تم سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی، تم بس چپ ہوجاؤ۔” علیزہ اس کی معذرت سے متاثر نہیں ہوئی۔ شہلا خاموش ہوگئی۔ وہ علیزہ کو اچھی طرح جانتی تھی اور اسے پتا تھا کہ اب وہ اس وقت تک اس سے بات نہیں کرے گی جب تک اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوجاتا۔
ذوالقرنین سے ہونے والی علیزہ کی یہ پہلی ملاقات تھی اور پہلی ملاقات آخری ثابت نہیں ہوئی، کوشش کے باوجود بھی اس رات کنسرٹ سے گھر واپس جانے کے بعد علیزہ اسے اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پائی، وہ واقعی اتنا ڈیشنگ تھا کہ کسی بھی لڑکی کیلئے اسے نظر انداز کرنا مشکل ہوتا اور علیزہ جس عمر سے گزر رہی تھی اس عمر میں صنف مخالف میں اس طرح پیدا ہوجانے والی دلچسپی بڑی طوفانی رفتار سے بڑھتی ہے۔
اگلے چند دن بعد ایک دن شہلا نے اسے ایک فون نمبر دیا تھا۔
”یہ ذوالقرنین کا فون نمبر ہے، وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے یا پھر تم اگر کہو تو وہ خود تم کو کال کرلے۔”
”کیا مطلب وہ کیوں بات کرنا چاہتا ہے۔” علیزہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔
”وہ دوستی کرنا چاہتا ہے تم سے۔”
”اس نے فاروق کا دماغ کھالیا ہے اس دن سے کہ وہ تم سے اس کا رابطہ کروائے، فاروق نے مجھ سے کہا اب میں تمہیں اس کا فون نمبردے رہی ہوں۔”
”کہیں تم نے اس کو میرا فون نمبر تو نہیں دیا؟” علیزہ یک دم خائف ہوگئی۔
”میں نے تو نہیں مگر فاروق نے دے دیا ہے، اب اگر تم اسے فون نہیں کرتیں تو پھر یقیناً وہ تمہیں فون کرے گا۔” علیزہ کا جیسے سانس رک گیا۔” اوہ گاڈ! اگر فون نانو نے ریسیو کرلیا تو… شہلا! تم اسے منع کردو کہ مجھے کبھی فون مت کرے۔”
”تو پھر بہتر ہے تم خود اس سے بات کرلو… اسے فون کرلو۔۔۔”
شہلا نے اس کے سامنے جیسے ایک تجویز رکھی تھی۔
”مگر میں اس سے فون پر کیا کہوں… نہیں میں اسے کال نہیں کروں گی۔” اس نے فوراً انکار کردیا۔
اس کا انکار بہت دیر تک نہیں چلا۔ دوسرے دن لاشعوری طور پر اسے فون کر بیٹھی تھی۔ اور فون کالز کا یہ سلسلہ پھر بڑھتا گیا تھا۔ ذوالقرنین میڈیکل کالج میں فاروق کا کلاس فیلو تھا وہ دونوں تھرڈ ایئر میں تھے اور نہ صرف فاروق بلکہ شہلا کی بھی ذوالقرنین کے بارے میں اچھی رائے تھی۔
عمر ان دنوں اسلام آباد میں تھا اور اس کے اور علیزہ کے درمیان ہمدردی اور انسیت کا جو ایک تعلق شروع ہوا تھا وہ یک دم جیسے غائب ہوگیا تھا، عمر خود اسے کبھی کال نہیں کرتا تھا، نانو یا نانا ہی اسے کال کیا کرتے تھے اور علیزہ کو کبھی اس سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا نہ ہی عمر نے کبھی علیزہ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
دوسری طرف علیزہ کیلئے ان دنوں ذوالقرنین سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں رہی تھی۔ وہ شہلا کو کال کرنے کے بہانے ذوالقرنین کو کال کرتی اور بہت دیر تک اس سے باتیں کرتی رہتی۔ اس کے اندر یک دم بہت سی تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ وہ پہلے سے زیادہ خوش رہنے لگی تھی۔ خود پر بہت زیادہ توجہ دینے لگی تھی۔ کرسٹی کے ساتھ بھی پہلے سے کم وقت گزارنے لگی تھی۔ نانو اس میں ہونے والی ان تبدیلیوں کی وجہ نہیں جانتی تھی مگر وہ خوش تھیں کہ وہ آہستہ آہستہ ڈپریشن کے اس فیز سے باہر آرہی ہے جس میں وہ پچھلے کچھ عرصہ سے تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اب وہ اپنی اسٹڈیز پر بھی پہلے کی طرح توجہ دینے لگے گی۔
ذوالقرنین میں علیزہ کو کیا چیز اچھی لگی تھی۔ علیزہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔ وہ اس کے لکس سے زیادہ متاثر ہوئی تھی یا اس کے سنگر ہونے سے یا پھر علیزہ میں لی جانے والی دلچسپی سے… اسے کچھ بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا مگر وہ صرف اس بات سے خوش تھی کہ وہ یک دم کسی کیلئے اتنی اہم ہوگئی ہے۔ ذوالقرنین اس کی تعریفیں کرتا تھا اور علیزہ کیلئے ان دنوں عمر کی عدم موجودگی میں شاید اسی چیز کی ضرورت تھی۔
وہ لئیق انکل کے ساتھ شام کو جاگنگ کیلئے پارک میں آیا تھا جاگنگ ٹریک پر دوڑتے ہوئے ہر دوسرے قدم میں ان کے ساتھ کام کرنے والا کوئی نہ کوئی کولیگ یا شناسا انہیں مل رہا تھا۔ وہ جاگنگ کرتے ہوئے سلام دعا کا تبادلہ کرتے اور رکے بغیر آگے بڑھ جاتے۔
”میں نے جہانگیر سے کہا تھا، تمہیں فارن سروس کے بجائے پولیس سروس میں آنے دے مگر وہ میری بات ماننے پر تیار نہیں ہوا۔” جاگنگ ٹریک پر اس کے ساتھ بھاگتے بھاگتے وہ باتیں کرتے جارہے تھے۔
”تمہارا اپنا انٹرسٹ کس چیز میں ہے؟”
”کسی میں بھی نہیں۔” اس کا دل چاہے وہ کہہ دے۔
”فارن سروس ہی ٹھیک ہے۔” اس نے ساتھ بھاگتے ہوئے کہا۔
”فارن سروس ٹھیک نہیں ہے۔ اسکوپ نہیں ہے اب اس کا کوئی… ہر پولیٹیکل گورنمنٹ آتے ہی سیاسی بنیادوں پر اپائنٹمینٹ کردیتی ہے۔ چار چھ جو اچھے ملک ہیں وہاں فارن سروس کے کسی بندے کو وہ لگاتے ہی نہیں جو سیاست دان الیکشن ہار جاتے ہیں، مگر پارٹی کو اچھا خاصا روپیہ دیتے رہتے ہیں وہ انہیں کو اٹھا کر ان ملکوں میں بھیج دیتی ہے۔ باقی جو ملک رہ جاتے ہیں وہاں صرف کام ہی کیا جاسکتا ہے۔ عیش کرنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا اور کام اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ مشن کے پاس فنڈز ہی نہیں ہوتے جو روپیہ گورنمنٹ دیتی ہے اس سے بمشکل مشن اپنے اخراجات ہی پورے کرسکتا ہے ایسے حالات میں فارن سروس میں آنے کا فائدہ کیا ہے۔” وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ کہتے جارہے تھے۔
”پوسٹنگ میرا کنسرن نہیں ہے، پاپا کروالیں گے۔”
”جہانگیر کروا تو لے گا مگر بات صرف ایک پوسٹنگ کی تو نہیں ہوتی۔ مسلسل اچھی پوسٹنگ ملتی رہے تب جاکر کچھ فائدہ ہوتا ہے اور جہانگیر کو تو خود اس بار بہت پرابلم ہوا ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی پوسٹ بچائی ہے۔ فارن منسٹر اپنے بھائی کو اس کی جگہ لانے کی کوشش کر رہے تھے بلکہ لانے میں کامیاب ہوگئے تھے وہ تو بس جبار کام آگیا۔ اس کے فادران لا نے منسٹر کے بھائی کی پوسٹنگ نہیں ہونے دی۔”
انہوں نے عمر کو جہانگیر کے ایک اور دوست کے بارے میں بتایا عمر نے اس بار کوئی جواب نہیں دیا۔
پھر جہانگیر کی اس اچانک شادی کی وجہ سے بھی مسئلہ ہوا۔ ایمبیسی میں موجود کسی ایجنسی کے آدمی نے جہانگیر کی شادی سے پہلے رشنا کے حوالے سے کوئی خفیہ رپورٹ بھیج دی۔ فارن منسٹر تو پہلے ہی تاک میں بیٹھے تھے، انہوں نے فوراً شور شرابا کردیا۔ پریس تک یہ خبر لانے والے بھی وہی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ معاملہ پریس تک آئے گا تو خوب اچھلے گا اور پھر وزیراعظم اسے ہٹانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مگر جبار بہت کام آیا۔ اس نے منسٹر کی ایک نہیں چلنے دی… لیکن آخر کب تک… اب منسٹر مسلسل تاک میں ہے۔ چوٹ کھایا ہوا سانپ بنا بیٹھا ہے۔”
”فارن سروس میں اس طرح کی سچویشن ہے تو پولیس سروس میں تو اور بھی زیادہ پرابلمز ہوں گے، کیونکہ وہاں سیاسی مداخلت اور بھی زیادہ ہے۔” لئیق انکل کے ساتھ بھاگتے ہوئے اس نے تبصرہ کیا۔
”اچھی پوسٹنگ تو وہاں بھی مشکل سے ہی ملے گی۔”
”ہاں یہ پرابلمز تو وہاں بھی ہیں، مگر وہاں بندہ جس بھی شہر میں پوسٹڈ ہو، وہاں کی انڈسٹریلسٹ کلاس سے کانٹیکٹس بنا سکتا ہے۔ اچھا خاصا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بندے کے پاس پاور اور اتھارٹی ہو تو سمجھو، ساری دنیا اپنی ہے۔” وہ اسے گر سکھا رہے تھے۔
”تم نے انتخاب میں دوسرے نمبر پر کون سا ڈیپارٹمنٹ دیا ہے؟”
”ڈی ایم جی۔”
”اور پولیس سروس کو کس نمبر پر لیا ہے؟”
”تیسرے پر۔”
”بہتر ہوتا تم اسے ہی پہلے نمبر پر رکھتے بہر حال ابھی بھی وقت ہے، تم سوچ لو، میں جہانگیر سے دوبارہ بات کروں گا۔ سب کچھ بدلا جاسکتا ہے۔” انہوں نے اس کے سامنے جیسے نیا راستہ کھولا تھا۔
”نہیں انکل! میں فارن سروس ہی جوائن کرنا چاہتا ہوں… مجھے کسی دوسرے گروپ میں دلچسپی نہیں ہے۔” عمر نے انکار کردیا۔
”پھر بھی ایک بار دوبارہ سوچ لو۔”
”نہیں، جو بھی پاپا نے طے کیا ہے۔ وہ ٹھیک ہے۔” لئیق انکل جاگنگ کرتے ہوئے خاموش ہوگئے۔
لئیق انکل جہانگیر معاذ سے اپنی دوستی پر بڑا فخر کرتے تھے اور وہ اس بات پر بھی خاصے نازاں تھے کہ جہانگیر معاذ ان پر مکمل طور پر اعتماد کرتا تھا۔
عمر سے ملاقات کے دوران بھی انہوں نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا تھا اور وہ صرف مسکرا کر رہ گیا تھا وہ ان کی خوش فہمی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ ورنہ وہ جانتا تھا کہ جہانگیر معاذ جیسا شخص جو اپنے سائے پر بھی اعتماد نہیں کرتا۔ وہ ایک کزن پر کیسے اعتماد کرسکتا ہے، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح لئیق انکل بھی ان کے ہاتھ ایک کٹھ پتلی کی طرح تھے جنہیں وہ بڑی ہوشیاری سے استعمال کر رہے تھے۔ عمر صرف اس بات کا اندازہ نہیں کر پارہا تھا کہ لئیق انکل اس بات کو جانتے تھے یا نہیں۔ عمر نے لئیق انکل کے بارے میں اپنے باپ کے منہ سے بہت بار تمسخرانہ جملے سنے تھے اور لئیق انکل واحد نہیں تھے۔ وہ اپنے ہر دوست اور ملنے والے کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتے رہتے تھے۔ عمر کو حیرانی ہوتی کہ اس کے باوجود ان کے دوستوں کی لمبی چوڑی تعداد میں کوئی کمی آئی نہ ہی انہیں کبھی اپنے دوست سے نقصان پہنچا تھا۔
اس نے جہانگیر معاذ کو صرف اپنے فرینڈ اور کزنز کا ہی نہیں بلکہ اپنے بھائیوں کے نام اور پوزیشن کا بھی بری طرح استعمال کرتے دیکھا تھا، اور اب جب وہ اپنے باپ کے کسی بھی دوست سے ملتا تو اسے ہمیشہ ان پر ترس آتا… لئیق انکل بھی ان ہی میں سے ایک تھے۔
”وہ عمر! ثمرین آنٹی نے دوبارہ کال کی ہے۔ میں نے انہیں بتا دیا کہ تم گھر پر نہیں ہو۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ جب تم واپس آؤ تو میں تم سے کہوں کہ تم انہیں کال کرو۔”
وہ اس وقت کلب سے واپس آیا تھا جب لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اسے دیکھ کر شانزہ نے اطلاع دی۔ عمر یک دم سنجیدہ ہوگیا۔
”انہوں نے بس یہی پیغام چھوڑا ہے؟”
”ہاں بس یہی کہا تھا انہوں نے تمہارے موبائل پر بھی کال کی تھی مگر تم نے اپنا موبائل آف کیا ہوا تھا۔”
شانزہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ عمر مزید کچھ پوچھنے کے بجائے سیدھا اپنے کمرے میں آگیا۔
موبائل آن کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ نہانے کیلئے باتھ روم میں چلا گیا۔ آدھ گھنٹہ کے بعد جب وہ نہانے کے بعد باہر نکلا تھا تو اس کے موبائل کی بیپ سنائی دے رہی تھی۔ اس نے کچھ ٹھٹک کر تذبذب کے عالم میں موبائل اٹھایا تھا کال کرنے والے کا نمبر دیکھ کر اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ایک گہرا سانس لے کر اس نے کال ریسیو کیا۔
”ہیلو عمر! میں ثمرین بات کر رہی ہوں۔” دوسری طرف سے اسے اپنے باپ کی دوسری بیوی کی آواز سنائی دی۔
”ہاں، میں بول رہا ہوں… کیسی ہیں آپ؟”
”میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو؟”
”فائن۔”
”میں آج سارا دن بار بار تم سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر تمہارا موبائل آف تھا۔”
”ہاں، میں کچھ مصروف تھا، آپ کو کوئی ضروری کام تھا؟” دوسری طرف چند لمحے خاموشی رہی پھر ثمرین کی آواز سنائی دی۔
”تمہیں جہانگیر کی شادی کا تو پتا چل ہی گیا ہوگا؟”
”ہاں میں جانتا ہوں۔” اس نے مختصراً کہا۔
”تم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہو گے کہ وہ لڑکی جہانگیر کی آدھی عمر سے بھی کم عمر ہے۔ پھر جس طرح کی شہرت وہ رکھتی ہے میں نہیں جانتی، جہانگیر کو کیا ہوگیا ہے وہ کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہا ہے۔” ثمرین کے لہجے سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
عمر خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا۔” میں اور بچے جہانگیر کی اس حرکت سے کتنے ڈسٹرب ہیں اس کا تم اندازہ نہیں کرسکتے۔
”لیکن میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں؟” اس نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”تم جہانگیر سے بات کرو” ثمرین کا لہجہ اس بار کچھ دھیما تھا۔
”کیا بات کروں؟” دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔
”کہ وہ اس لڑکی کو ڈائی وورس دے دے۔”
”آپ کا کیا خیال ہے، میرے کہنے پر پاپا اسے ڈائی وورس دے دیں گے؟” اس نے جواباً ان سے پوچھا۔
”تم اس کے سب سے بڑے بیٹے ہو، تمہاری بات بہت اہمیت رکھتی ہے۔”
”آپ اگر ایسا سوچ رہی ہیں تو غلط سوچ رہی ہیں۔ خوش قسمتی سے میں ان کا سب سے بڑا بیٹا تو ہوں لیکن میری بات ان کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔”
”عمر! تم اسے مجبور کرسکتے ہو۔”
”نہیں۔ میں انہیں مجبور کرسکتا ہوں نہ ہی کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”عمر! میں تم سے ریکویسٹ کررہی ہوں۔” اس بار ثمرین کا لہجہ منت بھرا تھا۔
۔۔۔۔۔
”میں ان پر جتنا دباؤ ڈال سکتا تھا، ڈال چکا ہوں، ان سے اس موضوع پر میری بات ہوچکی ہے اور یہ گفتگو کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہی، اس لیے میں اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتا۔”
”جہانگیر ہمیں اسلام آباد والے گھر میں شفٹ کرنا چاہتا ہے۔”
”میں جانتا ہوں۔”
”مگر میں اور بچے ایسا نہیں چاہتے۔ جہانگیر اپنی اس نئی بیوی کو کیوں نہیں یہاں شفٹ کرتا… میں اور بچے اس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح ہمیں اٹھا کر کیسے پھینک سکتا ہے۔ تم کم از کم اس سے یہ تو کہہ ہی سکتے ہو کہ وہ ہمیں امریکہ میں اپنے پاس ہی رہنے دے۔”
”میرے کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ پاپا میری بات سنیں گے نہ مانیں گے، ویسے بھی یہ آپ دونوں کا ذاتی معاملہ ہے بہتر ہے آپ اسے خود حل کریں۔ مجھے درمیان میں مت لائیں۔”
اس نے بڑے پرسکون انداز میں کہا۔
”جہانگیر کی شادی صرف میرا یا میرے بچوں کا ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ کیا تم اس سے متاثر نہیں ہوئے، کیا تمہیں شرمندگی نہیں ہوئی کہ اس عمر میں جہانگیر نے اس طرح کی حرکت کی ہے۔”
”میں اس تکلیف سے بہت پہلے گزر چکا ہوں۔ باپ کی صرف دوسری شادی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی سے کچھ نہیں ہوتا۔ وہ سب کچھ پھر روٹین لگتی ہے۔” اس کے لہجے کی کاٹ نے ثمرین کو چند لمحوں کیلئے خاموش کردیا
”میں نے جہانگیر سے شادی تمہاری ماں کی ڈائی وورس کے بہت بعد کی تھی۔”
”مگر اس ڈائی وورس کا سبب آپ ہی تھیں۔”
”نہیں ایسا نہیں ہے۔ عمر جہانگیر اور زارا کے درمیان انڈر سٹینڈنگ نہیں تھی پھر تمہاری ماں نے اپنی مرضی سے۔۔۔”
عمر نے ناگواری سے ان کی وضاحت کو کاٹ دیا۔
”میں ماضی میں نہیں جانا چاہتا کہ کس نے کیا کس کی وجہ سے اور کیوں… کم از کم اب مجھے اس بحث سے کوئی دلچسپی نہیں ہے میں آپ کو بس یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اپنے ہاتھ کا ہتھیار بنا کر استعمال کرنے کی کوشش نہ کریں۔”
”عمر! تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو۔”
”ہوسکتا ہے، بہرحال یہ آپ دونوں کا ذاتی معاملہ ہے اور بہتر ہے، آپ اسے خود ہی حل کریں۔ جو کچھ آپ میرے ذریعے پاپا سے کہلوانا چاہتی ہیں۔ وہ خود کہہ دیں یا پھر ولید سے کہیں کہ وہ پاپا سے بات کرے ہوسکتا ہے، میرے بجائے وہ زیادہ بہتر طریقے سے یہ سب کچھ پاپا تک پہنچا دے۔”
دوسری طرف سے فون یکدم بند کردیا گیا تھا۔
ثمرین کے ساتھ اس کے تعلقات میں ہمیشہ ایک تکلف رہا تھا۔ ثمرین نے یہ اجنبیت دور کرنے کیلئے پہل کی تھی نہ ہی عمر نے اس کی کوشش کی تھی۔ عمر اور ان کے درمیان بڑی سرسری اور رسمی سی گفتگو ہوتی تھی۔ عمر کو حیرانی ہوئی تھی کہ ثمرین نے اس طرح اس سے مدد لینے کی کوشش کیوں کی تھی۔
اس کے دل میں ثمرین کے خلاف کسی قسم کا کوئی بغض نہیں تھا نہ ہی اس نے کبھی ثمرین کو اپنی ماں اور باپ کے درمیان ہونے والی علیحدگی کا ذمہ دار سمجھا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس نے ثمرین کیلئے کبھی بہت اچھے احساسات بھی نہیں رکھے تھے اور اس میں بڑا ہاتھ خود ثمرین کا ہی تھا۔
باب: 28
”تو علیزہ بی بی واپس آچکی ہیں۔” عمر نے رات کے کھانے کیلئے ڈائننگ روم میں آتے ہی علیزہ کو دیکھ کر خوشگوار انداز میں کہا تھا۔
علیزہ سہ پہر کو واپس پہنچ گئی تھی اور اس وقت گھر میں عمر نہیں تھا۔ وہ رات کو ہی واپس آیا تھا اور واپس آنے کے بعد ان دونوں کی ملاقات ڈائننگ روم میں ہی ہوئی تھی۔
”تو کیا کچھ سیکھا اور دیکھا آپ نے؟” وہ اب کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھ رہا تھا۔
”بہت کچھ۔” علیزہ نے مسکرا کر کہا۔
”اس بہت کچھ کے بارے میں ہمیں بتانا پسند کریں گی؟”
”اس وقت سے یہ میرے کان کھا رہی ہے، اب تمہارے کھائے گی۔” نانو نے مسکراتے ہوئے عمر کو جیسے خبردار کیا تھا۔
”تو اب کیا خیال ہے این جی اوز کے بارے میں؟” عمر نے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”آپ نے این جی اوز کے بارے میں جو کچھ کہا تھا۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتی۔” عمر نے پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی۔
”ویری گڈ… اس کا مطلب ہے آپ نے واقعی اپنی sense of judgement (جانچنے کی صلاحیت)کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ویسے کس بات سے ایگری نہیں کرتیں تم؟” اس نے پوچھا۔
”آپ کی سب باتوں سے۔” اس نے اپنی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے کہا۔
”سب باتوں سے؟” ”تمہارا مطلب ہے میں نے تم سے جھوٹ بولا ہے؟”
علیزہ یک دم گڑبڑا گئی ”نہیں… میں نے یہ تو نہیں کہا۔”
”تو پھر آپ کیا فرما رہی ہیں؟”
علیزہ کچھ دیر خاموشی سے جیسے اپنے لفظوں کو ترتیب دیتی رہی پھر اس نے کہا ”آپ نے این جی اوز کے بارے میں مجھے انفارمیشن دی تھی وہ ٹھیک نہیں تھی۔ این جی اوز نے اس علاقے میں بہت کام کیا ہے۔”
”تم نے ان کے اسکول وغیرہ دیکھے ہوں گے اس لیے۔۔۔”
علیزہ نے عمر کی بات کاٹ دی۔” نہیں بات صرف اسکولز نہیں ہے، میں نے صرف اسکولز ہی نہیں دیکھے وہاں اور بھی کچھ دیکھا ہے میں نے لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ ایک شخص جھوٹ بول سکتا ہے دو بول سکتے ہیں، مگر ہر شخص تو نہیں وہاں ہر شخص یہی کہہ رہا ہے کہ ان این جی اوز کی وجہ سے اس علاقے میں بہت ترقی ہوئی ہے۔”
”اس چیز پر بھی پورا یقین نہیں کرنا چاہیے جو آنکھوں دیکھا ہو نہ کانوں سنا ہو۔”
عمر نے اطمینان سے اس کی بات رد کی۔
”اور ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا ہو۔”
علیزہ نے کچھ اکھڑے لہجے میں کہا۔
”پھر اس پر غور کرنا چاہیے کہ جو کچھ سنائی اور دکھائی دے رہا ہے، کیا وہ واقعی ٹھیک ہے۔” عمر سنجیدہ ہوگیا تھا۔
”میں نے یہی کیا ہے۔”
عمر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد وہ بڑے عجیب سے انداز میں مسکرایا ”اور تمہارے اس غور و خوض نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ این جی اوز وہ آسمانی معجزہ ہیں جو اس ملک میں بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔”
علیزہ کو اس کے لہجے میں چھپا تمسخر برا لگا تھا۔”میں نے یہ نہیں کہا کہ این جی اوز کوئی آسمانی معجزہ ہیں۔ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ اس علاقے کے لوگ ان این جی اوز پر اعتبارکرتے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ لوگ ان کے علاقے میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ اور ان کے کام کر رہے ہیں۔”
”کن لوگوں کی بات کر رہی ہو تم؟” اس کا لہجہ یک دم سرد ہوگیا تھا۔ ” ان لوگوں کی جن کے پاس تعلیم اور شعور نام کی کوئی چیز نہیں ہے، سہولیات اور ذہنیت کے اعتبار سے اس ملک کی سب سے پسماندہ کلاس جو دیہات میں بستی ہے جس کی سوچ غلامانہ تھی، ہے اور رہے گی۔ جن پر پہلے نواب اور مہاراجہ حکومت کرتے تھے پھر جاگیردار اور رئیس اور اب این جی اوز… اور تمہارا خیال ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ کل تک گالیاں اور دھکوں کو مہربانی سمجھ کر مسکرانے والے لوگ اتنے باشعور ہوگئے کہ ان میں اچھے اور برے کی پہچان آگئی ہے؟”
۔۔۔
”ان لوگوں میں شعور آرہا ہے۔ وہاں تعلیم کا ریشو بھی زیادہ ہو رہا ہے۔” علیزہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔
”تعلیم اور شعور کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا علیزہ بی بی… اگر ایسا ہوتا تو آج تک کسی تعلیم یافتہ شخص نے کوئی جرم نہ کیا ہوتا۔” اس کا لہجہ اب بھی کھردرا تھا۔
”مگر وہاں کے لوگ واقعی بدل رہے ہیں اگر این جی اوز یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے وہاں اصلاحات کی ہیں تو وہ غلط نہیں کہتیں وہاں لوگ واقعی ایک بدلے ہوئے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اور وہاں کے لوگ این جی اوز کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
عمر استہزائیہ انداز میں ہنسا ”وہاں کے لوگ تو غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے بارے میں بھی بہت اچھی رائے رکھتے ہیں پھر کیا تم یہ سوچنا شروع کردو گی کہ یہ بھی ٹھیک ہوتا ہے؟”
علیزہ کچھ دیر بات نہیں کرسکی۔
”بہتر ہوتا تم این جی اوز سے کہہ کر وہاں کے تھانوں کا ریکارڈ بھی چیک کرلیتیں، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ڈسکہ اور اردگرد کا علاقہ خاندانی دشمنیوں کیلئے بھی خاصا مشہور ہے اور یہ نسل درنسل چلی آتی ہیں، تب تک جب تک مخالف کا پورا خاندان نہ ختم ہوجائے اور یہ لوگ ایک دو قتل نہیں کرتے، یہ چھ چھ، سات سات لوگوں کو اکٹھا مروا دیتے ہیں اور کوئی مہینہ ایسا نہیں ہوتا جب اس علاقے میں ایسا کوئی واقعہ نہ ہو۔ اب بقول آپ کے اگر این جی اوز نے واقعی ان لوگوں کی سوچ میں تبدیلی کردی ہے تو سب سے پہلے تو ان لوگوں کے رویوں میں تبدیلی ہونی چاہیے۔”
وہ اب سلاد کھا رہا تھا۔ علیزہ اس کی باتوں پر خفت محسوس کر رہی تھی۔
”جو لوگ ایک گائے بھینس چرائے جانے پر مخالف کے گھر کی عورت اٹھالیتے ہیں۔ رات کو کھیتوں کی رکھوالی کرنے والے کتے کے مارے جانے پر مخالف کی تیار فصلوں کو آگ لگا دیتے ہیں، کھیت کا پانی روکے جانے پر کسی کو بھی قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی این جی اوز کے بارے میں اچھی رائے کس حد تک قابل اعتبار ہوسکتی ہے یا اسے کتنی اہمیت دینی چاہیے یہ کافی قابل غور ہے۔”
”ہر تبدیلی لانے میں وقت لگتا ہے، این جی اوز کو بھی وقت لگے گا مگر یہ سب چیزیں ختم ہوجائیں گی۔” علیزہ کی رائے ابھی بھی تبدیل نہیں ہوئی تھی۔
اور ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ کم از کم این جی اوز یہ کام نہیں کرپائیں گی کیونکہ وہ یہ کام کرنے نہیں آئی ہیں۔” عمر کا لہجہ بہت مستحکم تھا۔
”ہوسکتا ہے این جی اوز میں کچھ لوگ خراب ہوں یا کہہ لیں کہ چند این جی اوز خراب ہوں مگر سب این جی اوز تو اس طرح کی نہیں ہیں۔ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا این جی اوز بھی نہیں ہوسکتیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم انہیں پرفیکٹ دیکھنا کیوں چاہتے ہیں؟” وہ اس بار کچھ زچ ہو کر بولی۔
”اس لیے کہ وہ تبدیلی لانے کے دعوے کر رہی ہیں۔” عمر کا اطمینان برقرار تھا۔
”آپ این جی اوز کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟” اس بار علیزہ نے کچھ ناراضی سے اس سے پوچھا۔
”تم سے کس نے کہا کہ میں این جی اوز کے خلاف ہوں؟” عمر نے اتنی ہی بے ساختگی اور سکون سے کہا۔ علیزہ حیران ہوئی۔
”کیا مطلب…؟ یہ سب کچھ جو آپ کہہ رہے ہیں، یہ کیا ہے؟”
”حقائق۔” وہ اب بھی اسی طرح مسکرا رہا تھا۔
”اچھا فرض کریں اگر یہی حقائق ہیں تو یہ سب کچھ جاننے کے بعد آپ این جی اوز کے خلاف نہیں ہیں؟”
”نہیں بالکل نہیں۔” علیزہ منہ کھولے بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی، میز کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے شخص کو سمجھنا اس وقت دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا۔
”یہ کیا بات ہوئی؟ اس کا مطلب ہے آپ این جی اوز کو پسند کرتے ہیں؟” وہ الجھ گئی تھی۔
”میں نے یہ بھی نہیں کہا۔”
”نہ آپ این جی اوز کو پسند کرتے ہیں نہ آپ انہیں ناپسند کرتے ہیں، مگر آپ ان کے بارے میں اچھی رائے بھی نہیں رکھتے۔یہ کیا تضاد ہے۔”
عمر نے اس کے لہجے میں جھلکنے والی خفگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی پلیٹ میں ایک کباب نکال لیا۔ ”ہے تو؟” اس نے کمال بے نیازی سے کباب کھاتے ہوئے کہا۔
علیزہ ایک بار پھر اسے دیکھنے لگی۔ ”آپ پولیس سروس جوائن کر رہے ہیں، فرض کریں آپ کے علاقے میں کوئی این جی او کام کر رہی ہوگی، تو آپ کیا کریں گے؟”
”کچھ بھی نہیں۔”
”اور اگر اس این جی او نے اس علاقے میں پولیس کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کے خلاف کام کرنا شروع کردیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟”
”میں اس علاقے سے اسے اٹھا کر باہر پھینک دوں گا۔”
اس نے بے تاثر چہرے اور آواز کے ساتھ کہا، اور پانی کا گلاس اٹھالیا۔ علیزہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”اس کے باوجود کہ وہ ایک صحیح کام کر رہے ہوں گے؟”
”علیزہ! اس کیکٹس کو دیکھو۔” عمر نے پانی کا گلاس رکھتے ہی ڈائننگ ٹیبل سے کچھ فاصلے پر ایک کونے میں پڑے ہوئے کیکٹس کی طرف اشارہ کیا ”فرض کرو میں بازار میں ایک پودا خریدنے جاتا ہوں اور وہاں صرف یہی ایک پودا ہے اور کوئی پودا نہیں ہے۔ میں نہ اس کے نام کو جانتا ہوں نہ مجھے یہ پتا ہے کہ یہ پھول دار ہے یا نہیں یا کتنا عرصہ چل سکتا ہے مگر مجھے ایک پودے کی ضرورت ہے تو میں اسے خرید لاؤں گا۔ پھر اسے یہاں ڈائننگ روم میں رکھ دوں گا یہ جاننے کے باوجود کہ اس پر کانٹے ہیں یہ یہاں پر اس وقت تک پڑا رہے گا جب تک اس کے کانٹے میرے لیے کسی تکلیف کا باعث نہیں بنتے جس دن اس کے کانٹوں سے کسی کو زخم لگایا کسی کے کپڑے پھٹے اس دن اس کیکٹس کو یہاں سے ہٹا دیا جائے گا میں ہوں یا تم ہر ایک یہی کرے گا۔ کوئی بھی دوبارہ زخم لگنے یا کپڑے پھٹنے کا انتظار نہیں کرے گا۔”
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا۔
۔۔۔۔
”مگر میں کبھی کیکٹس نہیں ہٹاؤں گی، میں اس کے کانٹے ختم کردوں گی۔”
وہ بے اختیار اس کی بات پر مسکرایا but i always play safe. میں کانٹوں کے دوبارہ اگنے کا رسک نہیں لے سکتا۔”
”صرف اس لیے کہ آپ کے اپنے ہاتھ زخمی ہوں گے کپڑے پھٹیں گے، ہے نا؟ آپ جو این جی اوز کے بارے میں اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں وہ صرف اسی لیے ہیں کیونکہ شاید اس کلاس کو ان این جی اوز سے خطرہ ہے جس سے آپ تعلق رکھتے ہیں۔”
عمر اس کی بات پر چونکا ”تمہار اشارہ کس کلاس کی طرف ہے، بیورو کریسی کی طرف یا ایلیٹ کلاس کی طرف؟”
”دونوں کی طرف۔” اس کی آواز مدھم تھی عمر مسکرایا۔
”تم بھی اس کلاس کا حصہ ہو، بیورو کریٹ نہ سہی ایلیٹ تو ہو۔”
”ہاں حصہ ہوں مگر اچھی چیز کو اچھا کہوں گی۔ برا نہیں کہوں گی۔ چاہے وہ میرے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔”
”تمہارا خیال ہے کہ این جی اوز بیورو کریسی یا ایلیٹ کلاس کو کوئی نقصان پہنچا رہی ہیں یا آئندہ کبھی پہنچا سکتی ہیں؟”
”ہاں ایسا ہی ہے یہ اس طبقے کے مفادات کیلئے کام کر رہی ہیں جنہیں ہماری وجہ سے بہت پرابلمز کا سامنا ہے۔”
”آپ اگر ایسا سوچ رہی ہیں تو ایک بار پھر غلط سوچ رہی ہیں۔ کوئی این جی او بیورو کریسی کو نقصان پہنچا سکی ہے نہ ایلیٹ کلاس کو… کیونکہ ہر این جی او ایلیٹ کلاس ہی بناتی ہے۔ بڑے بڑے بیورو کریٹس کی بیگمات… سیاستدانوں کی بیویاں، صنعت کاروں کی بیویاں کیا تم نے کبھی کوئی ایسی این جی او دیکھی ہے جسے لوئر مڈل کا کوئی مرد یا عورت چلا رہا ہو، یا کسی اسکول کا ٹیچر کسی کسان کی بیوی کوئی مزدور اس کی بیوی… نہیں تم ایسا کبھی نہیں دیکھو گی اور تمہارا خیال ہے کہ بیورو کریٹس کی بیویاں بیورو کریسی کے خلاف کام کریں گی۔ صنعت کاروں کی بیویاں انڈسٹریلسٹ کلاس کے مفادات کے خلاف کام کریں گی اور سیاستدانوں کی بیویاں اپنے شوہروں کی دھاندلیوں کے خلاف لوئر مڈل کلاس کو اکسا کر انقلاب لے آئیں گی۔ بہت بچگانہ سوچ ہے تمہاری تمہیں بہت کچھ سیکھنا ہے ابھی۔” وہ جیسے اپنی باتوں سے خود ہی محظوظ ہو رہا تھا۔
”میں تو بالکل خوفزدہ نہیں ہوں کسی این جی او سے بلکہ اگر کبھی میں نے شادی کی… تو میں بھی اپنی بیوی سے کہوں گا کہ وہ ایک این جی او بنائے ہم بھی کچھ گرانٹس وغیرہ لے کر کہیں پلازے وغیرہ بنائیں گے۔ فری میں باہر سیمینار میں جاکر پیپرز پڑھے جائیں گے شہرت ملے گی دولت ہوگی اثر و رسوخ بڑھے گا۔ سیرو تفریح کے مواقع ملتے رہیں گے پھر کل کو بچوں کی بیرون ملک تعلیم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ وہ بھی عیش کریں گے۔”
عمر کی سنجیدگی یک دم ختم ہوگئی تھی اب وہ جیسے علیزہ کو چڑا رہا تھا۔
”اور تم… علیزہ تم بھی ٹھیک ہوجاؤ گی۔ اگر تمہاری شادی بھی کسی بیورو کریٹ سے ہوئی، پھر تم بھی ایسی ہی کسی فراڈ این جی او کی روح رواں ہوگی۔ ہر تیسرے دن پریس کانفرنس کر رہی ہوگی۔ سڑک پر جاکر جلوس بھی نکالا کرو گی۔ مختلف کاز کیلئے واکس ارینج کروایا کرو گی بیرون ملک کے چکر پر چکر لگیں گے اور پھر اگر کہیں دس سال بعد یہیں اسی ٹیبل پر میری تم سے اور تمہارے شوہر سے ملاقات ہوگی تو تم اسٹائلش سی ساڑھی پہنے… ڈائمنڈز سے لدی ہوئی میری طرح مینرل واٹر کی بوتل سے پانی پیتے ہوئے مجھے بتا رہی ہوں گی کہ تمہاری این جی او صاف پانی کی سپلائی کیلئے کس قدر محنت کر رہی ہے اور تمہارا شوہر تمہاری باتوں پر مسکرا مسکرا کر مجھے بتا رہا ہوگا کہ اسے تم جیسی ٹیلنٹڈ بیوی ملی ہے۔ کیوں گرینی؟”
نانو عمر کی بات پر مسکرائی تھیں، علیزہ کا چہرہ یکدم سرخ ہوا پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے… وہ یکدم اپنی کرسی سے کھڑی ہوگئی۔
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔” اس نے بلند آواز میں کہا۔
اور پھر ایک چھپاکے کے ساتھ ڈائننگ روم سے نکل گئی، عمر اور نانو کے چہرے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی۔
”علیزہ ناراض ہوگئی ہے، میں دیکھتا ہوں۔” عمر نے کچھ معذرت خواہانہ انداز میں نانو سے کہا اور ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گیا۔
اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے وہ کچھ شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی چھوٹی سی بات پر اس طرح رونا شروع کردے گی۔
دروازے پر ایک بار دستک دینے کے بعد وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ دروازہ کھلنے پر اس نے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تھا اور عمر کو دیکھتے ہی وہ آگ بگولہ ہوگئی۔
”اب آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟” گالوں پر بہتے آنسوؤں اور سرخ چہرے کے ساتھ اس نے عمر سے پوچھا۔
”کم آن علیزہ! میں مذاق کر رہا تھا۔” عمر نے دروازہ بند کرتے ہوئے جیسے اسے بہلاتے ہوئے کہا۔
”آپ کیلئے ہر چیز مذاق کیوں ہے؟” عمر نے اسے پہلی بار اس موڈ میں دیکھا تھا۔ ”اور میری ہر بات ہی مذاق کیوں ہے… آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں؟”
”یار! اتنا غصہ۔۔۔” عمر نے مسکراتے ہوئے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”آپ کو میرا مذاق اڑانے کا کیا حق پہنچتاہے؟” وہ اس کی کوشش سے متاثر نہیں ہوئی۔ ”آپ کو اپنے علاوہ دوسروں کی ہر بات مذاق لگتی ہے۔ کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ میں بھی مذاق میں آپ کے بارے میں ایسی باتیں کروں جیسی آپ کرتے ہیں۔” وہ تیز آواز میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”میں ایکسکیوز کرتا ہوں۔ میں نے جو بھی کہا غلط کہا۔ میں ایکسکیوز کرنے ہی یہاں آیاہوں۔” عمر نے ایک دم دونوں ہاتھ اٹھا کر اس سے کہا۔
وہ اب بھی بولتی رہی ”آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اپنی sense of judgement استعمال کر کے اپنی رائے بناؤں اور جب میں ایسا کرتی ہوں تو آپ مجھ پر ہنستے ہیں۔ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ آپ کے نزدیک دنیا میں آپ کے علاوہ کوئی دوسرا صحیح رائے رکھنے کے قابل ہی نہیں ہے۔”
”علیزہ! میں نے ایسا نہیں کہا۔ میں تمہیں ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ہی ایک بات کہی۔” عمر بالکل مدافعانہ رویہ اختیار کیے ہوئے تھا مگر علیزہ اس کی بات سنے بغیر بول رہی تھی۔
”میں نے این جی اوز کے بارے میں جو کچھ کہا ٹھیک کہا۔ میں نے جو دیکھا، جو محسوس کیا وہی بتایا۔ میں نے آپ کی رائے کا مذاق نہیں اڑایا۔ میں نے آپ کی ہر بات سنی مگر آپ… آپ میری باتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں… ایڈیٹ؟”
عمر کے چہرے سے اب مسکراہٹ بالکل غائب ہوچکی تھی۔
”آپ کو لگتا ہے، دنیا میں آپ کے علاوہ اور کوئی جینئس نہیں ہے۔”
”میں نے ایسا نہیں کہا۔”
”آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے علاوہ کسی کے پاس sense of judgement (پرکھنے کی صلاحیت) ہی نہیں ہے۔”
”تم اس وقت غصے میں ہو، تمہیں پتا نہیں، تم کیا کہہ رہی ہو۔ میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔”
عمر یکدم پلٹ گیا مگر علیزہ بجلی کی رفتار سے اس کے راستے میں آگئی۔
”نہیں! آپ میری بات سنیں، اس کے بعد جائیں۔”
”میری ایک چھوٹی سی بات پر اتنا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”مجھے آپ کی کسی بات پر مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ آپ کو ہر بات کہنے کا حق ہے لیکن مجھے کچھ بھی کہنے کا حق نہیں ہے۔”
”تم بہت کچھ کہہ رہی ہو علیزہ! اور میں سن بھی رہا ہوں۔ اس کے باوجود کہ تمہارا رویہ بہت انسلٹنگ ہے۔”
”میں نے آپ سے کیا کہا ہے؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔ جو کچھ آپ مجھ سے کہہ چکے ہیں، اس کے سامنے تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔” وہ اب بھی اسی طرح برہم تھی۔
”میں اپنی بات کیلئے ایکسکیوز کر چکا ہوں۔”
”آپ ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔ انسلٹ کرتے ہیں۔ پھر انسلٹ کرتے ہیں اور ایسا بار بار کرتے رہتے ہیں۔”
علیزہ! تم غلط کہہ رہی ہو۔” عمر حتی الامکان اپنے لہجے کو نارمل رکھ رہا تھا۔
”میں غلط نہیں کہہ رہی ہوں۔ آپ نے اس دن بھی میری انسلٹ کی تھی جب انکل جہانگیر کے ساتھ آپ کا جھگڑا ہوا۔”
عمر کے چہرے کے تاثرات یکدم تبدیل ہوگئے۔ ”وہ تمہاری غلطی تھی، تم میرے کمرے میں اس طرح کیوں آئی تھی۔” اس نے سرد آواز میں علیزہ سے کہا۔
”نہیں آپ کو اس بات پر غصہ نہیں آیا کہ میں آپ کے کمرے میں اس طرح کیوں آئی تھی۔ آپ کو غصہ اس بات پر آیا تھا کہ میں یہ بات جان گئی ہوں کہ آپ ڈرنک کرتے ہیں۔”
”تمہیں پتہ چل گیا تو کیا فرق پڑتا ہے اور تم ہو کون جس کو یہ پتا چلنے سے مجھے کوئی فکر ہوگی۔” اس کی آواز میں اب تلخی تھی۔
”میں نے نانو کو نہیں بتایا کہ آپ ڈرنک کرتے ہیں۔ اگر میں نانو کو بتا دیتی تو۔۔۔”
عمر اس کی بات پر یکدم بھڑک اٹھا۔ ” تو پھر… پھر کیا ہوتا؟ وہ مجھے شوٹ کردیتیں یا اس گھر سے نکال دیتیں۔ تم جس کو چاہو بتاؤ مجھے کوئی پروا نہیں، اس گھر کا کون سا مرد شراب نہیں پیتا۔ وہ خود گرینڈ پا کو ڈرنک کرتے دیکھتی رہی ہیں۔ وہ کس منہ سے مجھ سے اس بارے میں بات کرسکتی ہیں۔”
علیزہ جیسے رونا بھول گئی۔ ”آپ کو شرم آنی چاہیے۔ اس طرح کی بات کرتے ہوئے۔”
”مائینڈ یور لینگویج علیزہ ! تم کافی بکواس کرچکی ہو اور میں سن چکا ہوں۔ اب اپنا منہ بند کرلو تو بہتر ہے۔”
‘مجھے آپ سے نفرت ہے۔ آپ دنیا کے سب سے گندے اور بدتمیز آدمی ہیں۔”
وہ بلند آواز میں چلائی۔ جواباً عمر نے اس کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ مارا تھا۔ علیزہ گال پر ہاتھ رکھے بالکل ساکت رہ گئی تھی۔ دنیا میں آخری چیز جو وہ کسی سے توقع کرسکتی تھی، وہ عمر کا خود پر ہاتھ اٹھانا تھا۔ وہ پلکیں جھپکے بغیر بے یقینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”مجھے اپنے بارے میں کسی شخص کے تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے انگلی اٹھا کر کہا اور پھر وہ تیزقدموں کے ساتھ رکے بغیر کمرے سے نکل گیا۔
باب: 29
تمہارا جہانگیر کے ساتھ کوئی جھگڑا ہے؟” اس شام لان میں چائے پیتے ہوئے باتوں کے دوران اچانک لئیق انکل نے اس سے پوچھا۔
عمر چونکا ”نہیں۔” اس نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
”اچھا!” لئیق انکل نے حیرت کا اظہار کیا۔ ”جہانگیر تو کہہ رہا تھا کہ تم آج کل اس سے کچھ ناراض ہو۔ تم دونوں کے درمیان کوئی بات وات نہیں ہوتی؟”
لئیق انکل نے چائے کے سپ لیتے ہوئے بڑے جتانے والے انداز میں کہا۔
”نہیں، بات تو ہوجاتی ہے مگر کوئی خوشگوار انداز میں نہیں ہوتی۔” عمر نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
”اچھا! کیوں؟” لئیق انکل نے خاصی بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا۔
عمر نے ایک گہری نظر ان پر ڈالی۔ ”پاپا خوشگوار انداز میں کسی خوبصورت عورت سے ہی بات کرتے ہیں۔ یا پھر کسی سیاست دان سے۔”
لئیق انکل نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔ عمر اسی طرح بے تاثر چہرے سے انہیں دیکھتا رہا۔ بمشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے انہوں نے کہا۔ ”you have a very good sense of humour” (تمہاری حس مزاح بہت اچھی ہے) مگر اس طرح کی بات جہانگیر کے سامنے مت کرنا۔”
”ورنہ وہ چوتھی شادی کرلیں گے۔ ہے نا۔۔۔” عمر نے لاپروائی سے کہہ کر ایک بار پھر چائے پینا شروع کردیا۔
”اسی قسم کی باتیں تم جہانگیر سے کرتے ہو، اسی لیے تو وہ اتنا پریشان رہتا ہے۔”
”ایکسکیوزمی! پاپا میری وجہ سے پریشان نہیں ہوتے۔ وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں پریشان ہوتے ہیں نہ ہی کسی دوسرے کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔”
عمر نے چائے کا کپ سامنے پڑی ہوئی میز پر رکھ دیا۔
”عمر! جہانگیر کے بارے میں اتنا بدگمان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تمہاری بہت پروا کرتا ہے۔ تم اس کے بیٹے ہو۔ وہ تمہارے رویے کی وجہ سے بہت فکر مند رہتا ہے۔” لئیق انکل یکدم سنجیدہ ہوگئے۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں ان کی اولاد ہوں یا ان کا بیٹا ہوں۔”
”کیوں فرق نہیں پڑتا… تم جہانگیر سے پوچھو، کتنی اہمیت ہے اس کے نزدیک تمہاری۔”
”میں ان کی اکلوتی اولاد نہیں ہوں۔ دوسری بیوی سے بھی ان کی اولاد ہے اور اب۔ اب تیسری سے بھی ہوجائے گی۔” اس کے لہجے میں تلخی تھی۔
”مگر تم اس کے سب سے بڑے بیٹے ہو۔ تمہاری اور اس کی بہت اچھی انڈراسٹینڈنگ ہونی چاہیے ورنہ آگے چل کر اور پرابلمز ہوں گی۔”
عمر نے غور سے ان کا چہرہ دیکھا۔ ”کیا مطلب! آگے چل کر کیا پرابلمز ہوں گی؟” عمر نے کچھ الجھ کر کہا۔
”وہ تمہارے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ پلان کرتا رہتا ہے۔ کل کو جب تمہاری شادی کے بارے میں اگر وہ کوئی فیصلہ کرنا چاہے گا تو اس طرح کے ٹکراؤ کی صورت میں پرابلم ہوگا۔”
لئیق انکل نے اتنے نارمل انداز میں یہ بات کہی کہ وہ ان کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔
”میں آپ کی بات نہیں سمجھا ہوں۔ آپ کس کی شادی کی بات کر رہے ہیں؟” اس نے سرد آواز میں کہا۔
”تمہاری شادی کے بارے میں؟”
”میری شادی کے بارے میں پاپا کچھ طے کیوں کریں گے؟”
”وہ تمہارا باپ ہے۔”
”تو۔۔۔”
”عمر! تمہیں شادی۔۔۔”
اس نے یکدم لئیق انکل کی بات کاٹ دی۔ ”انکل! آپ مجھ سے جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں، صاف صاف کہیں۔ کیا پاپا نے میری شادی کے بارے میں آپ سے کچھ کہا ہے؟” وہ جیسے بات کی تہہ تک پہنچ گیا تھا۔
لئیق انکل کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔ ”شادی تو نہیں! ہاں البتہ وہ تمہاری انگیجمنٹ ضرور کرنا چاہتا ہے۔”
”کس سے؟”
”یہ میں نہیں جانتا۔”
”بہت خوب، بہر حال آپ پاپا کو بتا دیں کہ مجھے شادی نہیں کرنا نہ آج نہ ہی آئندہ کبھی اور جس سے وہ میری انگیجمنٹ کرنا چاہتے ہیں اس سے خود شادی کرلیں۔” اس کی آواز میں تلخی تھی۔
”یار! تم خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہو، میں نے تو ویسے ہی بات کی تھی ایک… اس نے کون سا کچھ طے کرلیا ہے۔”
تم مجھے یہ بتاؤ کہ صفدر مقصود کے ساتھ کیسی ملاقات رہی تمہاری؟”
لئیق انکل نے یکدم بات کا موضوع بدلتے ہوئے سائیکالوجسٹ کا نام لیا۔
”میں نے پاپا سے پہلے بھی کہا تھا، مجھے کسی سائیکالوجسٹ کے ساتھ سٹنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لیے یہ سائیکالوجیکل ٹیسٹ ایک کیک واک ہے۔ مجھے صفدر مقصود جیسے لوگوں کی گائیڈنس کی ضرورت نہیں ہے۔”
”کسی بھی چیز کو اتنا سرسری نہیں لینا چاہیے۔ بعض دفعہ یہ نقصان دہ بھی ہوتا ہے۔ صفدر مقصود نے ہی بعد میں تمہارا انٹرویو کرنا ہے۔ اس لیے جو کچھ وہ بتاتا ہے، اسے غور سے سنا کرو۔” لئیق انکل نے اسے سنجیدگی سے سمجھایا۔
”جو شخص جہانگیر معاذ کے ساتھ چھبیس سال گزار کر بھی پاگل نہیں ہوا، وہ یقیناً ایک بہت ہی پازیٹو پرسنالٹی رکھتا ہوگا اور ویسے بھی پبلک سروس کمیشن کے سائیکالوجسٹس کیا جان سکتے ہیں، انسان کی شخصیت کے بارے میں۔ ان کے اپنے اندر اتنے کمپلیکسز ہوتے ہیں کہ ان سے دس منٹ بات کرنے کے بعد ان پر ترس آنے لگتا ہے۔ مجھے وہ شخص اچھا نہیں لگا۔” عمر نے بڑی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”وہ بہت ماہر سائیکالوجسٹ ہے۔” لئیق انکل نے صفدر مقصود کو سراہا۔
”ہوسکتا ہے مگر اس کی اپنی پرسنالٹی… مجھے کچھ زیادہ متاثر نہیں کرسکی۔۔۔” لئیق انکل بے اختیار اس کی بات پر ہنسے۔
”فارگاڈسیک عمر! یہ بات کہیں اس کے سامنے مت کہہ دینا۔”
”کہہ دینا کیا مطلب… میں کہہ چکا ہوں۔” عمر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”تمہارا باپ تمہارے بارے میں جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہی کہتا ہے۔ تم واقعی اپنے اور دوسروں کیلئے پرابلمز پیدا کردیتے ہو۔ اب صفدر مقصود اگر اس طرح کے ریمارکس پر ناراض ہوگیا تو۔۔۔” لئیق انکل یکدم سنجیدہ ہوگئے… ”تم جانتے نہیں ہو اسے بڑا انا پرست بندہ ہے سیلف رسپیکٹ کی بات آئے تو۔۔۔” عمر نے لئیق انکل کی بات کاٹ دی۔
”کسی کرپٹ شخص میں سیلف رسپیکٹ نہیں ہوسکتی اور صفدر مقصود ایک کرپٹ بندہ ہے۔” عمر کے لہجے میں حقارت تھی۔
”فضول باتیں مت کرو… وہ تمہاری مدد کر رہا ہے اور تم اس کے بارے میں اس طرح کی باتیں کر رہے ہو۔” لئیق انکل نے کچھ سختی سے اسے کہا۔
”مدد وہ اپنے مقصد کیلئے کر رہا ہے۔ مجھ پر کوئی احسان نہیں کررہا۔ اس کی مدد کے بغیر بھی میں کامیاب ہوسکتا ہوں۔” عمر پر ان کی ڈانٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
”تمہیں عزت کرنی چاہیے اس کی۔”
”سوری انکل! کم از کم میں کسی کرپٹ شخص کی عزت نہیں کرسکتا۔” عمر نے بڑے دوٹوک انداز میں کہا۔ لئیق انکل کچھ دیر عجیب سی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے ٹھہرٹھہر کر کہا۔
”جہانگیر… بھی… کرپٹ… ہے۔”
”میں ان کی عزت بھی نہیں کرتا۔” عمر نے بغیر رکے کہا۔
لئیق انکل کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ”اور میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟”
”آپ کے بارے میں آپ کے سامنے بیٹھ کر کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ آپ مجھے اٹھوا کر اس گھر سے باہر پھینکوا دیں۔” اس بار اس نے کچھ مسکرا کر کہا۔ لئیق انکل کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔
”تم ذرا سروس جوائن کرلو پھر میں تم سے پوچھوں گا کہ تم کسی کرپٹ شخص کی عزت کرتے ہویا نہیں۔ جب تمہارے اوپر بیٹھے ہوئے سارے افسران اور ان کے اوپر موجود سارے حکومتی عہدیدار تمہارے سامنے اپنے اصل چہروں کے ساتھ ہوں گے اور تم پھر بھی انہیں سر… سر کہتے پھرو گے… پھر میں دیکھوں گا کہ تم کرپٹ شخص کی عزت کیسے نہیں کرتے۔” لئیق انکل کے لہجے میں تلخی جھلکنے لگی تھی۔
”سر کہنے میں اور عزت کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ میں بہت سے لوگوں کو سر کہتا ہوں مگر ان کی عزت نہیں کرتا بالکل ویسے ہی جیسے میں بہت سے لوگوں کی عزت کرتا ہوں مگر انہیں سر نہیں کہتا، اس لیے مجھے کسی کو سر کہنے میں کوئی عار نہیں ہوگا مگر میں کسی کرپٹ شخص کی عزت نہیں کروں گا۔” عمر نے اس بار بھی خاصی بے خوفی سے کہا۔
”اس ملک میں اپنی بقا کیلئے کرپٹ ہونا پڑتا ہے۔ کرپشن کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہوسکتا۔ سروس جوائن کرو گے تب تمہیں پتا چلے گا کہ اس جاب میں کیا کیا پریشانیاں ہیں جب تمہیں دس،بارہ ہزار کے ساتھ ایک مہینہ گزارنا پڑے گا… وہ بھی افسر بن کر… تو تمہارے ہوش ٹھکانے آجائیں گے تب تمہیں پتا چلے گا کہ کرپشن کے بغیر تم کسی سفارت خانے میں ہونے والے تین ڈنر اٹینڈ نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں پہنچنے کیلئے بھی تمہیں تین نہیں تو کم از کم ایک سوٹ تو ضرور ہی چاہیے ہوگا اور ایسے سوٹ کی قیمت کم از کم تمہاری تنخواہ پوری نہیں کرسکے گی۔”
عمر نے ان کی باتوں کے جواب میں کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ وہ بس خاموشی سے مسکرا دیا۔
”تعلقات بنانا سیکھو۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر شخص جو تمہیں پسند نہیں آتا اس کے ساتھ رابطہ ہی نہ رکھا جائے۔ کسی کے ساتھ کوئی بھی کام پڑسکتا ہے۔ پھر ایسے وقت تعلقات ہی کام آتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے جہانگیر نے تمہیں اب تک یہ سب کچھ سکھایا کیوں نہیں؟ بیورو کریٹس کے بچے تو ایسی باتوں کے بارے میں خاصے باخبر ہوتے ہیں۔ کم از کم انہیں یہ نہیں بتانا پڑتا کہ جھوٹ ہمارے پروفیشن کی کتنی بڑی ضرورت ہے۔ کوئی شخص پسند نہ بھی آئے تو بھی اس کی تعریف کردینے میں کیا ہرج ہے۔”
”انکل! آپ بہت اچھے ہیں” عمر نے درمیان میں ان کی بات اچکتے ہوئے یکدم سنجیدگی سے کہا۔
لئیق انکل فوری طور پر اس کے جملے پر حیران ہوئے مگر پھر وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔’ ‘تم اگر جہانگیر کے بیٹے نہ ہوتے تو اس جملے کے بعد اس گھر میں نہیں رہ سکتے تھے مگر اب میں تمہیں اور کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ تم سب کچھ خود ہی سیکھ جاؤ گے۔”
انہوں نے جیسے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
ذوالقرنین سے علیزہ کی دوسری ملاقات بھی شہلا کے ساتھ ہی ہوئی تھی، علیزہ کالج سے واپسی پر شہلا کے ہاں جانے کیلئے اس کے ساتھ گئی، راستے میں دونوں آئس کریم کھانے کیلئے لبرٹی میں رک گئیں اور آئس کریم کھانے کے ساتھ وہ ونڈو شاپنگ میں مصروف تھیں۔ جب ہیلو کی ایک آواز نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ذوالقرنین تھا۔ علیزہ اسے دیکھتے ہی حواس باختہ ہوگئی۔
”ارے آپ… آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟” شہلا نے ذوالقرنین کو دیکھتے ہی خاصی حیرت اوربے تکلفی کا مظاہرہ کیا۔
”تقریباً وہی کر رہا ہوں جو آپ لوگ کر رہی ہیں۔” اس نے علیزہ پر نظریں جماتے ہوئے کہا جس کیلئے وہاں کھڑے رہنا مشکل ہو رہا تھا۔
”ویسے آپ کا کیا خیال ہے ہم یہاں کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟” شہلا نے خاصی شوخی سے کہا۔
”آپ مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھیں۔” جواب دینے والے نے کمال اعتماد سے کہا۔
”ارے واہ… آپ کو تو اچھی خاصی خوش فہمی ہے اپنے بارے میں۔”
”اگر خوش فہمی ہے تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ آفٹر آل میں اچھا خاصا گڈلکنگ بندہ ہوں۔ ایسی خوش فہمیاں افورڈ کرسکتا ہوں۔ کیوں علیزہ؟” اس کے لہجے میں شرارت تھی اور علیزہ کا دل چاہ رہا تھا۔ وہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ جائے۔ ”ویسے یہ سوال آپ نے علیزہ سے ہی کیوں کیا ہے؟ مجھ سے بھی کرسکتے ہیں۔” شہلا نے دوبدو جواب دیتے ہوئے کہا۔
”آپ مجھے علیزہ جیسی باذوق نہیں لگتیں، اس لیے آپ سے رائے لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” اس کی بے تکلفی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”اچھا اور علیزہ کے ذوق کے بارے میں آپ کیسے جانتے ہیں؟” شہلا اب باقاعدہ بحث پر اتر آئی۔
”علیزہ کے صرف ذوق کے بارے میں ہی نہیں جانتے اور بھی بہت کچھ جانتے ہیں ہم۔” اس بار ذوالقرنین کا لہجہ معنی خیز تھا۔
”مثلاً…؟” شہلا نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر بات آپ کو بتائی جائے مس شہلا۔”
”ارے!کس طرح آپ نے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ جب علیزہ سے رابطہ کرنا چاہ رہے تھے تو واحد ذریعہ میں ہی نظر آرہی تھی اور اب… اب مجھے کچھ بتانا بھی ضروری نہیں لگ رہا۔” شہلا یکدم برامان گئی۔
”تم فضول مت بولا کرو۔ اب چلو یہاں سے۔”
علیزہ نے یکدم اس کا بازو پکڑ کر کھینچنا شروع کردیا۔ اس نے شہلا کو یہ ضرور بتایا تھا کہ ذوالقرنین نے اسے چند بار فون کیا تھا مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اس سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہے اور اسے خوف تھا کہ مذاق میں ہونے والی اس گفتگو کے دوران ذوالقرنین کوئی ایسی بات نہ کردے جس سے شہلا کو یہ پتہ چل جائے کہ اس نے ذوالقرنین سے رابطے کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا ہے۔
”علیزہ! آپ انہیں کہاں لے جارہی ہیں۔ بھئی! میں تو آپ دونوں کو لنچ کروانے کا سوچ رہا ہوں۔” ذوالقرنین نے فوراً مداخلت کی۔
”لنچ؟ ضرور۔”شہلا فوراً آمادہ ہوگئی۔
”نہیں۔ بہت دیر ہو رہی ہے ابھی مجھے شہلا کے گھر جانا ہے اور پھر واپس اپنے گھر بھی جانا ہے۔” علیزہ نے نظریں ملائے بغیر فوراً کہا۔
”یار میرے گھر جاکر بھی تو ہم نے کھانا ہی کھانا ہے۔ اب ذوالقرنین آفر کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے چلتے ہیں۔ ایڈونچر رہے گا۔” شہلا نے اپنا بازو اس کے ہاتھوں سے چھڑاتے ہوئے کہا۔
”نہیں! شہلا دیر ہو رہی ہے۔”
”کبھی کبھی دیر ہوجانے میں کوئی ہرج نہیں۔ اس کو بھی ایڈونچر ہی سمجھیں۔” ذوالقرنین نے علیزہ کے انکار کے جواب میں کہا۔
”نہیں۔ مجھے جانا ہے۔”
”یار! جب کوئی اتنا اصرار کرے تو اس کی بات مان لینی چاہیے۔ روز روز ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں جو خود بخود ہی لنچ کی دعوت دیتے پھریں۔”
شہلا پر بھی علیزہ کے انکار کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
پھر علیزہ کے مسلسل انکار کے باوجود وہ دونوں اسے ایک ریسٹورنٹ میں لے گئے تھے۔ ذوالقرنین اور شہلا لنچ کے دوران مسلسل چہکتے رہے تھے جبکہ علیزہ بمشکل اپنے حلق سے کھانا نیچے اتارتی رہی۔ ذوالقرنین کے سامنے اس طرح بیٹھ کر کھانا کھانا اس کیلئے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ اسے اس کی باتوں پر ہنسی بھی آرہی تھی اور ساتھ یہ خوف بھی تھا کہ اگر نانو کو یہ پتہ چل گیا کہ وہ شہلا کے گھر کے بجائے اس وقت کسی انجان شخص کے ساتھ بیٹھی لنچ کر رہی ہے تو وہ شاید قیامت ہی اٹھادیں گی۔ ذوالقرنین بار بار اسے مخاطب کر رہا تھا وہ نروس ہو رہی تھی۔ شاید اسے اس کا اندازہ بھی تھا، اس لیے وہ بار بار اس حوالے سے بھی مذاق میں تبصرے کر رہا تھا اور علیزہ کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
ایک گھنٹہ ریسٹورنٹ میں گزار کر وہ دونوں وہاں سے نکلی تھیں اور تب تک علیزہ روہانسی ہوچکی تھی۔ شہلا کے گھر جانے کے بجائے وہ اس کے ڈرائیور کے ساتھ واپس گھر آگئی۔
۔۔۔
نانو کو اس کے اس ایڈونچر کا پتہ نہیں چل سکا۔ اگلے چند دن وہ اس خدشہ سے ہولتی رہی کہ انہیں کسی نہ کسی ذریعے سے کہیں ذوالقرنین کے ساتھ کیے جانے والے اس لنچ کا پتا نہ چل جائے مگر نانو کو پتا نہیں چل سکا تھا۔ وہ ایک بار پھر نانو کو دھوکا دینے میں کامیاب رہی تھی اور اس کامیابی نے اسے غیرمحسوس طور پر خوش کیا تھا۔ نہ صرف وہ خوش تھی بلکہ اس کے اعتماد میں بھی کچھ اضافہ ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ چند دن بعد… ذوالقرنین کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے اس نے جب اس سے دوبارہ ملنے پر اصرار کیا تو وہ کوشش کے باوجود بھی انکار نہیں کرسکی۔
ان کی اگلی ملاقات فیروز سنز پر ہوئی تھی اور اس بار وہ اکیلی تھی۔ نانو سے اس نے کچھ کتابیں خریدنے کیلئے مارکیٹ جانے کا کہا اور فیروز سنز پہنچ کر اس نے ڈرائیور کو ایک گھنٹہ تک انتظار کرنے کیلئے کہا۔
ذوالقرنین اندر پہلے ہی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس دن وہ ایک گھنٹہ وہیں اندر کھڑے باتیں کرتے رہے۔
اگلی ملاقات امریکن سینٹر میں ہوئی۔ اس کے پاس امریکن سینٹر اور برٹش کونسل کی لائبریریز کی ممبر شپ تھی، اور پہلے بھی اکثر ان دونوں جگہوں پر جایا کرتی تھی۔ صرف یہ دو جگہیں ایسی تھیں جہاں جانے کی اسے بڑی آسانی سے اجازت مل جایا کرتی تھی۔ اب یہ دونوں جگہیں ان کیلئے ملاقات کا مقام بن چکی تھیں۔ علیزہ کو وہاں یہ خوف نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ذوالقرنین کے ساتھ دیکھے جانے پر نانو کو انفارم کردے گا کیونکہ وہ کوئی بھی بہانا بنا سکتی تھی… وہاں بہت سے لوگ آتے جاتے رہتے تھے اور کہا جاسکتا تھا کہ وہ بھی کسی سے رسمی سی گفتگو کر رہی تھی۔
فون پر ذوالقرنین سے ہونے والی گفتگو کا سلسلہ بھی طویل ہوتا جارہا تھا۔ وہ ذوالقرنین سے بات کرنے کیلئے رات دیر تک جاگتی رہتی اور پھر لاؤنج میں آکر اندھیرے میں بیٹھ کر اسے فون کرتی اور ہر روز رات کو وہ نانا اور نانو کے کمرے میں موجود ایکسٹینشن کے پلگ کو نکال دیتی اور پھر صبح سویرے جب نانا واک کیلئے نکل جاتے اور نانو نماز میں مصروف ہوتیں تو وہ ان کے کمرے میں جاکر دوبارہ اسے لگا آتی۔
عورت کی تعریف اسے زیرکرنے کیلئے مرد کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے اور ذوالقرنین اس ہتھیار کو بخوبی استعمال کرلیتا تھا۔ اس سے بات کر کے علیزہ کو یوں لگتا تھا جیسے وہ اس دنیا کی مخلوق نہ ہو۔ اس کا تعلق کسی دوسری دنیا سے ہو۔ اس دنیا سے جہاں سے ذوالقرنین تعلق رکھتا تھا۔ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ وہ کسی کیلئے کتنی اہم ہے۔ کوئی اس کے دیر سے آنے پر ناراض ہوسکتا ہے۔ علیزہ سکندر خود کو پہلی بار دریافت کر رہی تھی یا شاید زندگی کو پہلی بار دریافت کر رہی تھی۔
اس کیلئے ہر چیز جیسے مکمل طور پر بدل گئی تھی۔ ذوالقرنین جیسے ہر جگہ موجود رہنے لگا تھا۔ جہاں وہ نہ ہوتا وہاں اس کی آواز ہوتی، جہاں اس کی آواز نہ ہوتی وہاں اس کا خیال ہوتا جہاں اس کا خیال نہ ہوتا۔ وہاں… وہاں علیزہ سکندر کیلئے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہر بار فون رکھنے کے بعد وہ اگلے فون پر اس سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں سوچنا شروع کردیتی۔ اسے کیا کہنا تھا… ذوالقرنین کس بات کے جواب میں کیا کہے گا اس کے ذہن میں اس کے علاوہ کچھ نہیں رہتا تھا۔
ان دنوں پہلی بار اس نے اپنے ذہن میں اپنے ماں، باپ کے بارے میں سوچنا ختم کردیا تھا۔ ذوالقرنین کی محبت نے جیسے دوسری ہر محبت، ہر رشتہ کی جگہ لے لی تھی۔ اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے اپنے ماں، باپ کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ اپنا وقت ضائع کر رہی تھی۔ وہ عمر کو بھی مکمل طور پر فراموش کرچکی تھی۔
”آپ کا کیا خیال ہے اگلے الیکشن میں کون سی پارٹی کی حکومت آئے گی؟”
اسلام آباد میں ایک فیڈرل سیکرٹری کے گھر ہونے والی اس پارٹی میں عمر لئیق انکل کے ساتھ جس ٹیبل پر بیٹھا ہوا تھا، وہاں ان سروس اور ریٹائرڈ بیورو کریٹس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی اور ہونے والی گفتگو کا موضوع اگلے الیکشنز تھے۔ ملک میں مارشل لاء کے ایک لمبے عرصے کے بعد بننے والی پہلی جمہوری حکومت کو کچھ عرصہ پہلے برطرف کیا جاچکا تھا اور اب عبوری حکومت ملک چلا رہی تھی اور بیسویں صدی کے اس آخری عشرے میں جمہوریت کے اس پہلے تجربے کی ناکامی کے بعد جانے والی حکومت کے مختلف عہدیداروں کی طرف سے کی جانے والی حماقتوں پر کھل کر ہنسا جارہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ آنے والی حکومت کے بارے میں اندازے لگائے جارہے تھے۔
”ایک بات تو طے ہے کہ اگلے الیکشن میں یہ پارٹی تو برسر اقتدار نہیں آسکتی جس کی حکومت برطرف کی گئی ہے۔”
عمر کوک کے سپ لیتے ہوئے خاموشی سے گفتگو میں حصہ لیے بغیر صرف ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ ایک ان سروس بیورو کریٹ کے اس جملے پر میز کے اطراف بیٹھے ہوئے تمام لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔
”میں، میں تو چاہتا ہوں کہ دوسری پارٹی کے بجائے تیسری پارٹی آجائے۔” لئیق انکل کے اس معنی خیز جملے پر اس بار مسکراہٹیں ہلکے پھلکے قہقہوں میں تبدیل ہوگئیں۔
”آپ تو یہی چاہیں گے لئیق صاحب! آخر آپ کا پورا سسرال تیسری پارٹی میں ہے۔”
زمان شاہد نامی ایک سینئر بیورو کریٹ نے لئیق انکل کے سسرال کے فوجی بیک گراؤنڈ کی طرف اشارہ کیا۔ اس جملے پر ایک بار پھر قہقہے ابھرے۔
”یار! بہت عیش کروا چکے ہیں تمہارے سسرال والے۔ پچھلے دس بارہ سالوں میں تمہیں… اب ہم جیسے لوگوں کے سسرال والوں کو بھی ہماری خدمت کا موقع دو۔”
حسین شفیع کی بیوی کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے تھا اور ان کو توقع تھی کہ اس بار اگر ان کی بیوی کے معروف گھرانے کی پارٹی الیکشن جیت گئی تو ایک عدد صوبائی وزارت ان کی بیوی کے باپ یا بھائی کی جیب میں تھی۔
”تیسری پارٹی ہمیشہ سے ہی حکومت میں شامل رہی ہے۔ ڈائریکٹ نہیں تو ان ڈائریکٹ طریقے سے مگر وہ ہمیشہ حکومت کے آگے، پیچھے ، اوپر نیچے رہتے ہیں اور اگلی حکومت کے ساتھ بھی یہی ہوگا، کیوں جنرل صاحب؟”
راجہ سعید نے اس بار میز پر بیٹھے ہوئے ایک ریٹائرڈ جنرل کو خاصی شوخی سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”یہ آگے، پیچھے اوپر، نیچے آپ نے خوب کہا مگر دائیں بائیں کو کیوں بھول گئے۔”
ریٹائرڈ جنرل جیسے ان کے تبصرے پر محظوظ ہوا۔
میز کے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں نے ایک ہلکا فہمائشی قہقہہ لگایا۔
”بھئی! تم لوگ مجبور کردیتے ہوئے آگے، پیچھے اور اوپر، نیچے رہنے پر۔” جنرل نے اپنا پائپ سلگاتے ہوئے کہا۔
”قریشی صاحب! یہ نہ کہیں … یہ کہیں کہ اقتدار کا نشہ ایسا نشہ ہے کہ ایک بار لگ جائے… پھر چھوٹتا نہیں۔”
شاہد زمان نے جنرل کو مخاطب کیا۔
”چلیں… آپ یہی سمجھ لیں۔ کچھ نشہ آپ کو ہے… کچھ ہمیں… وہ کیا کہتے ہیں… ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔” جنرل قریشی نے اس بار اس بیورو کریٹ پر جوابی جملہ کیا تھا۔
”نہیں! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا۔
birds of a feather flock together (کندہم جنس، باہم جنس پرواز) ٹیبل پر بیٹھے ہوئے واحد سیاسی رہنما نے اپنے سامنے پڑا ہوا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔
”اجمل صاحب! آپ یہ نہ بھولیں۔ آپ بھی اسی flock (ٹولے) کا حصہ ہیں۔” جنرل قریشی نے اس بار اجمل درانی سے کچھ طنزیہ انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے! سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔” اجمل درانی نے بڑے مؤدب مگر جتانے والے انداز میں سرجھکاتے ہوئے گلاس لہرایا۔
”مگر ہمیں تو فی الحال اگلے کچھ عرصہ کیلئے اس ٹولے سے باہر ہی سمجھیں۔”
”اچھا…! ہماری طرح آپ کو بھی یقین ہے کہ اگلے الیکشن میں آپ کی پارٹی اقتدار میں نہیں آرہی۔” لئیق انکل نے اجمل درانی سے کہا۔
”بھی، اتنے احمق تو ہم نہیں ہیں۔ ہمیں ہی دوبارہ لے کر آنا ہوتا تو ہمارا تختہ کیوں پلٹتے اس طرح… مگر چلو… کچھ دیر باہر بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اگلے کھلاڑی کس طرح پٹتے ہیں۔” اجمل درانی کے لہجے میں طنز تھا۔
”یہ تو کھلاڑیوں پر ہے کہ وہ پٹنے کیلئے آتے ہیں یا پیٹنے کیلئے۔” جنرل قریشی نے اس بار بھی طنزیہ مسکراہٹ سے کہا۔
”ارے جناب! پیٹنا کس کو ہے… آپ کو… یا ان کو؟” اجمل درانی نے بڑے معنی خیز انداز میں پہلے جنرل قریشی اور پھر شاہد زمان کی طرف اشارہ کیا۔
”آپ بتایئے آپ کسے پیٹنا پسند کریں گے؟” جنرل قریشی نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”آپ تو ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے انتخاب کا حق واقعی ہمیں دے رہے ہوں۔ بھئی تم لوگوں میں سے جس کا داؤ لگے گا… وہی پیٹے گا۔ ملٹری بیورو کریسی کی باری آئے گی تو وہ پیٹے گی اور سول بیورو کریسی کا بس چلے گا تو وہ بھی ویسی ہی تواضع کرے گی ہم ”عوامی نمائندوں” کی۔”
اجمل درانی نے مشروب کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”ہاں! جی آپ جیسے ”عوامی نمائندے” ہی تو کسی بھی قوم کا تیا پانچہ کردیتے ہیں۔ آپ جیسے مظلوموں کا کیا کہنا؟”
جنرل قریشی کی بات پر ٹیبل کے گرد بیٹھے ہوئے دوسرے سامعین نے ایک بار پھر فہمائشی قہقہہ لگایا۔
”جنرل صاحب…! جنرل صاحب…! میں کچھ کہوں گا تو آپ کے ماتھے پر بھی خاصا پسینہ آجائے گا۔ قوم کا تیا پانچہ کرنے والوں میں بڑے بڑے نامور لوگ شامل ہیں۔” اجمل درانی کا لہجہ اس بار بھی طنزیہ ہی تھا۔
”ارے بھئی! چھوڑیں۔ کچھ اور باتیں کریں۔ آپ لوگ بھی کن باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔” ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان کے میزبان فیڈرل سیکرٹری نے شاید ہونے والی گفتگو سن لی تھی، اس لیے وہ قریب آگیا تھا۔
”اس بار آپ نے ڈرنکس میں کوئی چوائس نہیں چھوڑی۔ وہی پیناپڑرہا ہے۔ جو ناپسند ہے عباس صاحب! آپ تو خاصے ”دلیر” قسم کے میزبان تھے۔ آپ کی ڈرنکس کو کیا ہوگیا؟” شاہد زمان نے ایک معنی خیز بات کی۔
”ہم آج بھی خاصے دلیر قسم کے ہی میزبان ہیں بلکہ یہ کہیے کہ ”شوقین” میزبان ہیں۔ بس کچھ مجبور ہیں۔ خطرہ مول نہیں لیا کیونکہ ابھی الیکشن ہونے والے ہیں۔ کوئی پتا نہیں کون سی پارٹی ٹیک اوور کرتی ہے۔ اگلی پوسٹنگ سے پہلے کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ آپ فکر نہ کریں، اگلی پارٹی میں سارے شکوے ختم کردوں گا۔”
عباس حاکم نے شاہد زمان کا کندھا تھپکتے ہوئے کہا۔
”ہمارے ہوتے ہوئے ڈرنے کی کیا ضرورت تھی عباس صاحب…؟ جو چاہے پیش کرتے۔” جنرل قریشی نے پائپ کا کش لیتے ہوئے کہا۔
”آپ کے ہوتے ہوئے ہی تو کچھ پیش کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ آپ خود ”کھا پی” لیتے ہیں مگر دو سروں کو نہ ”کھانے” دیتے ہیں اور نہ پینے۔” اجمل درانی نے عباس حاکم کے کچھ کہنے سے پہلے برجستہ انداز میں کہا۔ ٹیبل پر بے اختیار ایک قہقہہ گونجا۔
”اجمل صاحب! آج بڑی فارم میں ہیں۔ آج ان کے ساتھ ٹکر نہ ہی لیں تو بہتر ہے۔” لئیق انکل نے ہنستے ہوئے جنرل قریشی سے کہا۔
عباس حاکم اپنی پارٹیز میں غیرملکی مہمانوں کی ایک لمبی چوڑی تعداد کو مدعو کرتے رہتے تھے اور ان کا ہی سہارا لے کر وہ اپنی پارٹیز میں شراب بھی پیش کیا کرتے تھے۔ اس وقت وہ سب لوگ بھی پہلی بار ان کی پارٹی میں شراب پیش نہ کرنے کے بارے میں شکایت کررہے تھے۔ عباس حاکم کچھ دیر وہیں ٹیبل کے پاس کھڑے خوش گپیوں میں مصروف رہے، پھر وہاں سے چلے گئے۔
عمر خاصی دلچسپی کے ساتھ وہاں ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ اس نے گفتگو میں حصہ لینے کی کوشش نہیں کی تھی شاید اس کی ایسی کوشش کو بہت اچھا بھی نہ سمجھا جاتا کیونکہ اس ٹیبل پر وہ سب سے کم عمر تھا اور وہ وہاں بیٹھے ہوئے باقی لوگ نہ صرف عمر میں اس سے بہت بڑے تھے بلکہ وہ بہت سینئر پوسٹس پر بھی تھے اور عمر کو ایسے ڈنرز اٹینڈ کرنے کا اچھا خاصا تجربہ تھا۔
جہانگیر معاذ اسے بہت کم عمری سے ہی ایسی تقریبات میں لے جاتے رہتے تھے اور وہاں ہونے والی گفتگو یا موضوعات اس کیلئے کوئی نئی چیز نہیں تھے۔ ایسی تمام تقریبات میں وہ بس خاموشی سے ایک غیرمتعلق شخص کی طرح سب کچھ سنتا اور دیکھتا رہتا۔ اس کیلئے یہ سب جیسے زندگی کا ایک حصہ تھا۔
اس وقت بھی وہاں بیٹھا وہ اسی قسم کے تبصرے اور خوش گپیاں سن رہا تھا جیسی وہ پچھلے کئی سالوں سے سنتا آرہا تھا۔
”تم بور تو نہیں ہو رہے؟” یکدم لئیق انکل کو اس کا خیال آیا تھا اور ان کے اس جملے پر ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی توجہ اس پر مرکوز ہوگئی۔ اس کا تعارف لئیق انکل پہلے ہی ان لوگوں سے کروا چکے تھے اور جہانگیر معاذ کا نام وہاں کسی کیلئے بھی نیا نہیں تھا اور جہانگیر معاذ کا بیٹا بھی ان کیلئے اتنا ہی شناسا ہوگیا تھا۔
”نہیں! بالکل نہیں۔” اس نے بے نیازی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”یہ اس عمر میں کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ ہم جیسے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے پاس بھی اتنی دیر بیٹھ کر تم بور نہیں ہوئے۔ جاؤ کہیں ادھر ادھر پھرو۔ اپنے لیے کوئی خوبصورت کمپنی ڈھونڈو، تم تو جہانگیر معاذ کے بیٹے ہی نہیں لگتے۔”
شاہد زمان کی بات پر ایک قہقہہ لگا اور عمر کا چہرہ چند لمحوں کیلئے بے اختیار سرخ ہوگیا۔ وہ آج کل باپ کے نام پر اسی طرح نروس ہوجاتا تھا۔ اسے یہی لگتا تھا کہ جہانگیر کا ذکر آتے ہی لوگ فوراً ان کی حالیہ شادی کا ذکر کرنے سے نہیں چوکیں گے اور زیادہ تر ایسا ہی ہو رہا تھا۔ اس وقت بھی وہ یہ سوچ کر نروس ہونے لگا تھا کہ اب بات جہانگیر کی شادی کی طرف نہ نکل پڑے۔
”جہانگیر کی تو بات ہی اور ہے۔ ضروری تو نہیں ہے، اولاد بھی ویسی ہی ہو۔”
لئیق انکل حسب عادت جہانگیر کو سراہنا شروع ہوگئے تھے اور عمر کو حیرت نہیں ہوئی جب اس نے ان لوگوں میں سے بہت سوں کو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھا تھا۔
وہ اپنے باپ کو جتنے قریب سے جانتا تھا، شاید کوئی دوسرانہیں جانتا تھا۔ جہانگیر معاذ کرپٹ تھا، لوز کریکٹر کا مالک تھا، خودغرض تھا۔ …خود پرست تھا… مگر عمر یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ ان تمام خامیوں کے باوجود اس کے باپ کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ اس کی شخصیت میں کوئی ایسا چارم ضرور تھا کہ جو شخص ایک بار اس سے مل لیتا اس کیلئے جہانگیر معاذ کو بھلانا ناممکن تھا۔ عمر کیلئے کسی سے دوستی کرنا ہمیشہ مشکل کام تھا۔ وہ لوگوں سے تعلقات بڑھانے میں محتاط تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس کے دوستوں کی تعداد بھی خاصی محدد تھی اور ان میں کتنوں پر وہ مکمل طور پر اعتبار کرسکتاتھا۔ وہ اس بارے میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا مگر اس نے اپنے باپ کو چند منٹوں میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتے دیکھا تھا۔ جہانگیر معاذ نہ صرف بہت آسانی سے لوگوں کو دوست بنالیا کرتا تھا بلکہ جن لوگوں کو اس نے ایک بار اپنا دوست بنالیا وہ پھر اس کے زندگی بھر دوست ہوتے تھے اور عمر نے کبھی اپنے باپ کے دوستوں میں کسی کو جہانگیر معاذ کے ساتھ دھوکا کرتے نہیں دیکھا تھا۔ جہانگیر معاذ کی اس خوبی نے اسے پچھلے کئی سالوں میں بہت سی مصیبتوں سے بچایا تھا۔ ہربار اپنے خلاف انکوائری شروع ہونے سے پہلے جہانگیر معاذ کو اس بارے میں اطلاعات ہوتیں اور پھر اپنے دوستوں کی مدد سے وہ بڑی آسانی سے پہلے ہی اس کا توڑ کرلیا کرتا تھا۔ بعض دفعہ عمر کو اپنے باپ کی اس خوبی پر رشک بھی آتا۔
اب کھانا شروع کیا جانے لگا تھا اور عمر نے شکرادا کیا کہ گفتگو کا موضوع یکدم بدل گیا تھا۔
باب: 30
اس واقعہ کے اگلے ایک ہفتہ تک ان دونوں کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی عمر نے اس بار معذرت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور اس بات نے علیزہ کی رنجیدگی اور غصے میں کچھ اور اضافہ کیا تھا۔ اس سے پہلے اس نے ہمیشہ عمر کو چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی فوراً معذرت کرتے دیکھا تھا اوروہ اس بات کی اتنی عادی ہوچکی تھی کہ اس بار پہلے کی طرح اس سے معذرت نہ کرنے پر وہ جیسے شاکڈ ہوگئی تھی۔ اس نے نانو کو عمر کے اس طرح ہاتھ اٹھانے کے بارے میں نہیں بتایا تھا، اس کیلئے یہ اتنی توہین آمیز بات تھی کہ وہ کسی سے اس کے بارے میں ذکر کر ہی نہیں سکتی تھی۔
نانو نے دونوں کے درمیان موجود کشیدگی کو محسوس کرلیا تھا کیونکہ ڈائننگ ٹیبل پر پہلے کی طرح دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا سلسلہ بند ہوچکا تھا۔ دونوں اپنے اپنے وقت پر آتے۔ خاموشی سے کھانا کھاتے اور اٹھ کر چلے جاتے۔
نانو ان کے درمیان اس بے اعتنائی کو اس دن کے عمر کے تبصرے کا نتیجہ سمجھ کر صلح صفائی کروانے کی کوشش میں لگی رہی تھیں۔ انہوں نے دونوں کو علیحدگی میں اور ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھانے کے دوران بھی سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح ناکام رہی تھیں۔ علیزہ اگر ناراضگی دور کرنے کی بات پر مشتعل ہوجاتی تھی تو عمر سرے سے اس موضوع پر بات کرنے کو ہی تیار نہیں تھا۔ وہ ہر بار بات شروع کرنے پر بڑی سختی سے نانو کو روک دیتا۔
”اگر آپ اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کریں گی تو میں یہاں سے اٹھ کر چلا جاؤں گا۔”
وہ تلخی سے کہتا اور نانو خاموش ہوجاتیں۔
عمر ان دنوں باہر سے آنے والے اپنے سامان کو انیکسی میں رکھوانے میں مصروف تھا۔ نانو کے بہت بار کہنے کے باوجود بھی علیزہ نے اس کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کی۔
دو تین دن وہ وقفوں وقفوں سے کارگو سے آنے والے اپنے سامان کو انیکسی کے کمروں میں رکھواتا رہا۔ علیزہ دن میں کئی بار اسے انیکسی کی طرف آتے جاتے دیکھتی رہی۔ وہ ان دنوں یکدم جیسے بہت مطمئن نظر آرہا تھا اور علیزہ کیلئے یہ خبر تکلیف دہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اگر اس سے معذرت نہیں بھی کرتا تب بھی اپنی حرکت پر پشیمان ضرور ہوگا مگر عمر جہانگیر کے رویے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے علیزہ کو یہ لگتا کہ وہ اپنی اس حرکت کی وجہ سے پریشان ہے۔
زندگی میں پہلی بار وہ عمر جہانگیر کے رویے سے حقیقی طور پر ہرٹ ہوئی تھی۔
زندگی میں پہلی بار اس نے عمر اور اپنے تعلق کو ایک نئی نظر سے دیکھنا شروع کیا تھا۔ پچھلے پانچ سال سے اس کی زندگی میں عمر کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اس سے مستقل رابطہ نہ ہونے کے باوجود علیزہ کیلئے دنیا میں عمر سے زیادہ اہم کوئی نہیں تھا۔
اس نے پچھلے پانچ سالوں کو اس طرح ہی گزارنے کی کوشش کی تھی جس طرح عمر کی خواہش تھی۔ عمر جس چیز کو ناپسند کرتا، وہ لاشعوری طور پر اس چیز سے کترانے لگتی۔ عمر جس چیز کو پسند کرتا، وہ بھی اس چیز کے عشق میں گرفتار ہوجاتی۔ وہ جیسے عمر کے پیروکاروں میں سے تھی۔ آنکھیں بند کر کے سب کچھ کر گزرنے والوں میں سے… جو اس سے کہا جاتا اور ا سے اس چیز پر رتی بھر بھی ملال محسوس نہ ہوتا۔ اس کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ عمر اس سے خوش تھا۔ پہلی بار اس نے عمر کی کسی بات سے اختلاف کیا تھا اور پہلی بار ہی عمر کا رویہ…؟
”کیا یہ شخص کسی دوسرے میں sense of judgement ڈیولپ کرسکتا ہے؟ انکل جہانگیر پر تنقید کرتے کرتے کیا یہ خود ویسا نہیں ہوگیا؟”
وہ اب انتہا پر جاکر سوچ رہی تھی۔
”میرے لیے ہمیشہ سب سے اہم رہنے والے شخص کی زندگی اور نظر میں خود میری کیا اہمیت اور حیثیت ہے؟ اس کی نظر میں علیزہ سکندر کی کیا اوقات ہے؟ ایک امیچور لڑکی جس کی ہر خوبی اور ہر خامی سے وہ اچھی طرح واقف ہے۔ یا پھر اس کی انگلی پکڑ کر چلنے والی لڑکی جس کی اپنی کوئی شخصیت سرے سے ہے ہی نہیں اور میں… میں علیزہ سکندر آخر کب تک عمر کی چھتری کے سائے میں پھلنے پھولنے کی کوشش کرتی رہوں گی اور اس شخص کا سایہ کتنا بھی آرام دہ کیوں نہ ہو مگر وہ میرے وجود کو کبھی بھی اپنے قد تک آنے نہیں دے گا۔”
اس کے ذہن میں ان دنوں ان سوالوں کے علاوہ اور کوئی سوچ نہیں آتی تھی۔
”میں پچھلے پانچ سالوں سے کیا کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اپنے آپ کو صرف عمر جہانگیر کیلئے قابل قبول بنانے کی کوشش کرنے کے علاوہ میں اپنی زندگی میں کیا کر رہی ہوں۔ کیا عمر جہانگیر کی ہمدردی اور ترس کی بھیک نے مجھے اتنا کمزور کردیا ہے کہ اب میں اپنی زندگی کو عمر جہانگیر کے بغیر سوچنے کے قابل نہیں رہی اور خود اس شخص کے دل میں میرے لیے ترس یا ہمدردی سے زیادہ کیا اور کچھ ہے…؟ یاکبھی تھا؟ یا کبھی ہوگا…؟ اور میں کیا ساری زندگی عمر جہانگیر کی انگلی پکڑ کر چلتی رہوں گی… اس کی نظروں سے دنیا کو دیکھتی رہوں گی… علیزہ سکندر کیا ہے؟ کیا یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کروں گی؟ علیزہ سکندر کیا کرسکتی ہے؟ کیا یہ دریافت
کرنے کی خواہش نہیں کروں گی۔ بائیس سال کی عمر میں کم از کم اب تو مجھے اپنی ترجیحات کا پتا ہونا چاہیے۔ مجھے اب تو عمر جہانگیر کے مدار سے نکل آنا چاہیے۔ اس نے میری زندگی کے بہت سے مشکل لمحات میں میرا ساتھ دیا ہے مگر پچھلے پانچ سالوں میں یہ کام میں نے بھی تو کیا ہے بلکہ شاید عمر جہانگیر سے بڑھ کر… یہ کچھ لو اور کچھ دو تھا اور یہ سلسلہ اب ختم ہوجانا چاہیے۔ کم از کم اب عمر جہانگیر کے پاس میرے لیے ترس اور ہمدردی بھی نہیں رہی۔”
وہ اپنے لیے زندگی کا ایک نیا راستہ منتخب کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایسا راستہ جہاں کہیں بھی اس کا سامنا عمر جہانگیر سے ہو، نہ ہی وہ اس کے راستے کی رکاوٹ بنے۔
اگلے چند ہفتوں کے بعد عمر سہالہ چلا گیا تھا۔ جانے سے پہلے بھی اس نے علیزہ سے کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی، نہ ہی اسے خدا حافظ کہنے آیا تھا۔ بس خاموشی سے چند دن اپنا سامان پیک کرتا رہا اور پھر ایک دن یونیورسٹی سے واپسی پر اسے اس کی روانگی کی اطلاع مل گئی تھی۔ علیزہ نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا مگر پچھلے پانچ سالوں میں پہلی بار اسے عمر کے چلے جانے سے خوشی ہوئی تھی۔ اس سے کھانے کی میز پر ہونے والا سامنا اس کی ٹینشن اور ڈپریشن میں اضافہ کردیتا تھا اور بہت دنوں کے بعد پہلی بار وہ خود کو آزاد محسوس کر رہی تھی۔ اس کے برعکس نانو، عمر کے جانے پر بہت اداس تھیں۔ عمر سے ان کی اٹیچ منٹ علیزہ کے بعد خاندان کے سارے بچوں سے زیادہ تھی اور عمر کا آنا جانا ہمیشہ ہی ان کیلئے بہت اہمیت رکھتا تھا۔
علیزہ کو اگلے چند دنوں نانو کی زبان سے بار بار عمر کا ذکر سن کر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ ہر بار اس کے جانے پر وہ ایسے ہی کرتی تھیں مگر نانو کو اس بار حیرت ہوئی تھی جب علیزہ نے اس کے جانے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا