صفحات

تلاش کریں

حضر ت یونس علیہ السلام کا واقعہ

حضرت یونس علیہ السلام کاذکرقرآن عزیزمیں آیاہے۔حضرت یونس علیہ السلام کاذکرقرآن کریمن کی 6سورتوں میں آیاہے ۔
سورۃ النساء
سورۃ الانعام
سورۃ یونس
سورۃ الصافات
سورۃ الانبیاء
سورۃ القلم
ان میں پہلی چار سورتوں میں یونس علیہ السلام کانام مذکورہے اورآخری دوسورتیں میں “ذوالنون ” اور”صاحب الحوت “یعنی مچجلی والاکہہ کرپکاراگیاہے ۔
“حضرت یونس علیہ السلام ایک عظیم اورکریم نبی تھے ۔ان کاقصہ قرآن پاک میں ایک انوکھاقصہ ہے ۔حضرت یونس علیہ السلام کازمانہ (860سے784)قبل مسیح کےدرمیان بتایاجاتاہے ۔حضرت یونس علیہ السلام کےوالدکانام (متی) تھا۔اوریہ سیدناابراہیم علیہ السلام کی نسل سےتھے ،لہذا یہ اسرائیلی نبی تھے ۔حضرت یونس علیہ السلام کی عمرمبارک 28سال تھی تواللہ نے انہیں منصب نبوت سےسرفرازکیا۔
ان کوآشوریوں کی ہدایت کےلیے عراق بھیجا ۔یہ کافرومشرک لوگ تھے ۔اس قوم کامرکز اس وقت نینویٰ تھا۔جس کےوسیع کھنڈرات آج بھی دریائے دجلہ کےمشرقی کنارے پرآبادموصل شہرکےعین مطابق پائےجاتےہیں ۔حضرت یونس علیہ السلام نے آشوریوں کو” وحدہ لاشریک لہ “کی دعوت دی ،توانہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کوجھٹلایااوربتوں کی پرستش کرنےسےانکارکردیااورایسےکفرپرڈٹے رہے پھرانہوں نےیونس علیہ السلام پرظلم وستم شروعکردیا۔انہیں دھمکیاں دی گئیں اوردعوت حق کامذاق اڑایا۔ تب مسلسل یونس علیہ السلام ان کی مخالفت سےمتاثرہوکرقوم سےخفا ہوگئے اوران کوتین دن میں آنےوالےدردناک عذاب الٰہی کی بددعادی ۔
پھرتیسرادن آنےسے پہلے ہی آدھی رات کوبستی سےنکل گئے ۔دن کےوقت جب عذاب قوم کےشہروں پرپہنچ گیاتوانہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کوتلاش کیامگر وہ نہ ملے۔”
حضرت یونس علیہ السلام کااپنی قوم سےناراض ہوکر چلےجانا ہجرت تھی مگرانہیں اس کاحکم نہیں دیاگیاتھا،وہ عذاب کی اطلاع دینےکےبعد اللہ کی اجازت کےبغیر اپناعلاقہ چھوڑکرچلےگئے تھے ،آثار عذاب دیکھ کر جب آشوریوں نےتوبہ استغفار کی تواللہ نےانہیں معاف کردیا۔
قرآن مجیدمیں اللہ کےدستورکےجواصول بیان کیےگئے ہیں ۔ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کواس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک وہ اپنی رحجت پوری نہیں کرلیتا،

پس کب نبی نے اس قول کومہلت کےآخری لمحے تک نصیحت کاسلسلہ جاری نہ رکھا۔اوراللہ کےمقررکردہ وقت سے پہلے وہ خودہی ہجرت کرگئے تواللہ تعالیٰ کےانصاف نے اس قوم کوعذاب دیناگوارہ نہ کیا،کیونکہ ان پرتمام حجت کی شرائط پوری نہ ہوئیں تھیں اورانہیں معاف فرمادیا۔

حضرت یونس علیہ السلام فرات کےکنارے پہنچے توایک کشتی کومسافروں سے بھراہواپایا۔حضرت یونس علیہ السلام کشتی میں سوارہوگئے اورکشتی نے لنگراٹھایا۔پورے دن میں کشتی سمندرمیں سکون سےچلتی رہی۔ اچانک اونچی اونچی لہریں اٹھنےلگیں ۔لوگوں نے اپناسازوسامان سمندرمیں پھینک دیاکہ کشتی کابوجھ کم ہوجائے لیکن کشتی کابوجھ پھربھی کم نہ ہوا۔ جب کشتی ڈگمگانے لگی توکشتی کے کےغرق ہونے کایقین ہونےلگا۔اہل کشتی نےاپنے عقیدے کےمطابق کہا! کہ ایسامعلوم ہوتاہے کشتی میں کوئی غلام اپنےآقاسےبھاگاہواہے ۔جب تک اس کو اس کشتی سےجدانہ کیاجائے گانجات مشکل ہے ۔یونس علیہ السلام نےسناتو ان کوتنبیہ ہواکہ اللہ تعالیٰ کومیرانینویٰ سےوحی کاانتظارکیےبغیر اس طرح چلےآناپسندنہیں آیااوریہ میری آزمائش کےآثارہیں ۔یہ سوچ کرانہوں نے اہل کشتی سےفرمایاکہ میں وہ غلام ہوں جواپنےآقا سےبھاگا ہواہوں مجھے کشتی سےباہر پھینک دو۔مگرفلاح اوراہل کشتی نے ان کی پاکبازی سے اس قدر متاثرتھے کہ انہوں نے ایساکرنےسےانکارکردیا۔اورآپس میں یہ طے کیاکہ قرعہ اندازی کی جائے چنانچہ تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی اورتینوں مرتبہ قرعہ اندازی میں حضرت یونس علیہ السلام کانام نکلاتب مجبور ہوکرانہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کودریامیں ڈال دیا یا وہ خوددریامیں کودگئے ۔اس وقت خدائے تعالیٰ نےمچھلی کوحکم دیاکہ انہیں نگل لویہ تمہاری غذانہیں ہے۔اس لیے ان کےجسم پرکوئی تکلیف نہیں ہونی چاہے مچھلی نےیونس علیہ السلام کواپنےپیٹ میں نگل لیایونس علیہ السلامن نے جب مچھلی کے پیٹ میں خودکوزندہ پایاتوبارگاہ الٰہی میں اپنی ندامت کااظہار کیاکہ کیوں وہ وحی الٰہی کاانتظارکیے بغیر اوراللہ سے اجازت لیے بغیر امت سے ناراض ہوکرنینویٰ سےنکل آئے ۔حضرت یونس علیہ السلام نےمچھلی کےپیٹ میں اللہ کوپکارا ان پرتین اندھیرےاکھٹے ہوگئے تھے۔
1)رات کااندھیرا
2 ) مچھلی کےپیٹ کااندھیرا
3) سمندرکااندھیرا
اگروہ یہ تسبیح نہ فرماتے توقیامت تک مچھلی کےپیٹ میں رہتے ۔آخرکاروہ اندھیروں میں پکاراٹھے۔
لاالہ الاانت سبحنک انی کنت من الظلمین
ترجمہ: “الٰہی تیرے سواکوئی معبود نہیں ہے تویکتاہے،میں تیری پاکی بیان کرتاہوں بلاشبہ میں اپنے نفس پرخودہی ظلم کرنےوالا ہوں “

“جوبھی مسلمان اپنی کسی حاجت میں یہ دعامانگے گااللہ ا س کی یہ دعاضرور قبول کریں گے یہ قبول دعاؤں میں سے ایک دعاہے ۔

“ابن حاتم میں ہے کہ حضورﷺ فرماتےہیں کہ جب یونس علیہ السلام نے یہ دعاکی تویہ کلمات عرش کےگردگھومنےلگی ،فرشتے کہنےلگے کہ یہ بہت دوردازجگہ سےآوازآرہی ہے۔لیکن کان اس سے پہلے اس سے آشنا ضرورہیں۔آوازبہت ضعیف ہے :اللہ تعالیٰ نےحضرت یونس علیہ السلام کی دردبھری آوازکوسناتوفرمایا: کیاتم اس آوازکونہیں پہچانتے ؟ انہوں نے کہانہیں : فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آوازہے۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہرروز تیری طرف چڑھتے تھے اور جس کی دعائیں تیرے پاس قبول تھیں ۔

الٰہی جیسے وہ آرام کےوقت نیکیاں کرتاتھا،تواس کی مصیبت کےوقت اس پررحم کرے ،تواسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کوحکم دیاکہ وہ آپ کوبغیر کسی تکلیف کےسمندر کےکنارے پراگل دے ۔

“روایت میں آتاہے کہ یونس علیہ السلام مچھلی کےپیٹ میں تین دن ، سات دن ،چالیس دن یاچندگھنتے تسبیح کرتے رہے ،چنانچہ مچھلی نے اللہ کےحکم سےسمندر کےکنارے پراگل دیا۔

“حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ مچھلی کےپیٹ میں رہنے کی جوہ سے ان کاجسم ایساہوگیاتھاجیساکہ پرندہ کاپیداشدہ بچہ جس کاجسم نرم ہوتاہے اورجسم پربال تک نہیں تھے غرض یونس ؑ بہت نحیف وناتواں حالت میں خشکی پرڈال دئیے گئے تھے ۔ا سکے بعد اللہ تعالیٰ نے ساحل پرایک بیلداردرخت اگایا۔
“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ جب مچھلی نےیونس علیہ السلام کوکھلے میدان میں ڈالا تواللہ تعالیٰ نے آپ پر “یقطین ” کی بیل اگادی ۔ان سے پوچھاگیاکہ یقطین کسے کہتےہیں ” فرمایا ( کدوکےپودےکو) اس کےعلاوہ اللہ نے ان کے لیے ایک جنگلی بکری بھیج دی۔جوزمین کی گھاس اورجڑی بوٹیاں کھاتی تھی۔
اورصبح وشام آپ کودودھ پلاتی تھی ۔ حتیٰ کہ آپ کی توانائی لوٹ آئی ۔ حضرت یونس علیہ السلام درخت کےسائے میں جھونپڑی بناکررہنےلگے ۔چنددنوں بعدایساہواکہ اس بیل کی جڑمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کپڑالگ گیااوراس نے جڑکوکاٹ ڈالا۔ جب کوکاٹ ڈالا۔جب بیل سوکھنےلگی تویونس ؑکوبہت دکھ ہوا،تب اللہ تعالیٰ نے وحی کےذریعے ان کومخاطب کیااورفرمایا : یونس !تم اس بیل کےسوکھنےپرکتنارنج کااظہارکررہےہوجوایک حقیرسی چیزہے۔ مگرتم نےیہ نہ سوچاکہ نینویٰ کی ایک لاکھ سےزائد آبادی جس میں انسان بس رہےہیں اوران کےعلاوہ جانداربھی آبادہیں ۔اس کوبرباداورہلاک کردینےمیں کیاہم کوکوئی ناگواری نہیں ہوگی ۔اورکیاہم ان کےلیے اس سےزیادہ شفیق ومہربان نہیں ہیں جتنکہ تجھ کواس بیل سےانس ہےجوتم وحی کاانتظارکیےبغیر قوم کوبددعاکرکےان کےدرمیان سےنکل آئے ۔ایک نبی کی شان کےنزدیک یہ نامناسب تھاکہ وہ قوم کےحق میں عذاب کی بددعا کرتے اوران سے نفرت کرکےجداہوجانےمیں عجلت کرلےاوروحی کاانتظار بھی نہ کرے۔
“یونس علیہ السلام کےبستی چھوڑدینےکےبعدنینویٰ کےلوگوں کویقین ہوگیاتھاکہ وہ ضرور خداکےسچےپیغمبرہیں اوراب ہلاکت یقینی ہے ۔تب ہی یونس علیہ السلام ہم سےجداہوگئے یہ سوچ کرفوراً بادشاہ سےلے کررعایاتک سب کےدل خوف ودہشت سے کانپ اٹھے اوریونس علیہ السلام کوتلاش کرنےلگے ۔تاکہ ان کےہاتھ پراسلام کی بیعت کریں ۔اورساتھ ہی خدائے تعالیٰ سےتوبہ واستغفار کرنےلگے ،اورہرقسم کےگناہوں سےکنارہ کش ہوکرآبادی سے باہرمیدان میں نکل آئے اوربارگاہ الٰہی میں بلندآوازسے یہ اقرارکرتے رہے ۔

ربناامنابماجاء یونس “

ترجمہ : اے ہمارے رب ! یونس علیہ السلام جوتیراپیغام ہمارے پاس لےکرآئیں ہیں ہم اس کی تصدیق کرتےہیں اورہم اس پرایمان لاتےہیں “

آخرکار اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اوران کوعذاب الٰہی سےمحفوظ رکھابہرحال یونس علیہ السلام کواللہ پاک نے صحت وتندرستی دےکراب دوبارہ نینویٰ جانےکاحکم دیا کہ قوم میں رہ کران کی رہنمائی فرمائی جائے چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام نینویٰ واپس تشریف لےگئےقوم کےلوگوں نےجب انہیں دیکھاتوخوشی کااظہارکیا۔

حضرت یونس علیہ السلام کی زندگی نینویٰ ہی میں گزری اوروہیں ان کاانتقال ہوااوروہیں ان کی قبر تھی ۔جونینویٰ کی تباہی کےبعدنامعلوم ہوگئی ۔

اس قصے میں سبق یہ ہےکہ کسی بھی حال میں اللہ کی رحمت سےمایوس نہیں ہوناچاہیے اورنہ ہی ہدایت کےمعاملےمیں اپنی ذات پربھروسہ کرناچاہیے ہدایت توبس اللہ ہی کی طر ف سے ہے ۔آپ کےذمے توبس پیغام حق پہنچاناہے ۔

“حضرت یونس علیہ السلام ایک عظیم اورکریم نبی تھے ۔ان کاقصہ قرآن پاک میں ایک انوکھاقصہ ہے ۔حضرت یونس علیہ السلام کازمانہ (860سے784)قبل مسیح کےدرمیان بتایاجاتاہے ۔حضرت یونس علیہ السلام کےوالدکانام (متی) تھا۔اوریہ سیدناابراہیم علیہ السلام کی نسل سےتھے ،لہذا یہ اسرائیلی نبی تھے ۔حضرت یونس علیہ السلام کی عمرمبارک 28سال تھی تواللہ نے انہیں منصب نبوت سےسرفرازکیا۔

ان کوآشوریوں کی ہدایت کےلیے عراق بھیجا ۔یہ کافرومشرک لوگ تھے ۔اس قوم کامرکز اس وقت نینویٰ تھا۔جس کےوسیع کھنڈرات آج بھی دریائے دجلہ کےمشرقی کنارے پرآبادموصل شہرکےعین مطابق پائےجاتےہیں ۔حضرت یونس علیہ السلام نے آشوریوں کو” وحدہ لاشریک لہ “کی دعوت دی ،توانہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کوجھٹلایااوربتوں کی پرستش کرنےسےانکارکردیااورایسےکفرپرڈٹے رہے پھرانہوں نےیونس علیہ السلام پرظلم وستم شروعکردیا۔انہیں دھمکیاں دی گئیں اوردعوت حق کامذاق اڑایا۔ تب مسلسل یونس علیہ السلام ان کی مخالفت سےمتاثرہوکرقوم سےخفا ہوگئے اوران کوتین دن میں آنےوالےدردناک عذاب الٰہی کی بددعادی ۔

 حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے افراد عراق میں موصل کے مشہور مقام نینوی میں بستے تھے۔ ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کو بھیجا۔ انھوں نے ایمان لانے سے انکار کیا،حق تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو آگاہ کر دو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آنے والا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے قوم میں اس کا اعلان کردیا، قوم یونس نے آپس میں مشورہ کیا تو اس پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہم نے کبھی یونس علیہ السلام کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا، اس لئے ان کی بات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں،

مشورہ میں یہ طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس علیہ السلام رات کو ہمارے اندر اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے گئے تو یقین کر لو کہ صبح کو ہم پر عذاب آئے گا، حضرت یونس علیہ السلام با ارشاد خداوندی رات کو اس بستی سے نکل گئے، صبح ہوئی تو عذابِ الہی ایک سیاہ دھوئیں اور بادل کی شکل میں ان کے سروں پر منڈلانے لگا اور فضاء آسمانی سے نیچے ان کے قریب ہونے لگا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب ہم سب ہلاک ہونے والے ہیں۔
یہ دیکھ کر حضرت یونس علیہ السلام کو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر مشرف بایمان ہو جائیں اور پچھلے انکار سے توبہ کر لیں مگر یونس علیہ السلام کو نہ پایا تو خود ہی اخلاصِ نیت کے ساتھ توبہ و استغفار میں لگ گئے، بستی سے ایک میدان میں نکل آئے، عورتیں بچے اور جانور سب اس میدان میں جمع کر دیے گئے، ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجز و زاری کے ساتھ اس میدان میں توبہ کرنے اور عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ پورا میدان آہ و بکا سے گونجنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور عذاب ان سے ہٹا دیا جیسا کہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے،
روایات میں ہے کہ یہ عاشورہ یعنی دسویں محرم کا دن تھا۔ ادھر حضرت یونس علیہ السلام بستی سے باہر اس انتظار میں تھے کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہوگا، ان کے توبہ استغفار کا حال ان کو معلوم نہ تھا، جب عذاب ٹل گیا تو ان کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دیا جائے گا کیونکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ تین دن کے اندر عذاب آ جائے گا، اس قوم میں قانون یہ تھا کہ جس شخص کا جھوٹ معلوم ہو اور وہ اپنے کلام پر کوئی شہادت نہیں پیش کرے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا، یونسؑ کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دے کر قتل کر دیا جائے گا۔
انبیاء علیہم السلام ہر گناہ و معصیت سے معصوم ہوتے ہیں مگر انسانی فطرت و طبیعت سے جدا نہیں ہوتے، اس وقت یونس علیہ السلام کو طبعی طور پر یہ ملال ہوا کہ میں نے بحکم الٰہی اعلان کیا تھا اور اب میں اعلان کی وجہ سے جھوٹا قرار دیا جاؤں گا، اپنی جگہ واپس جاؤں کس منہ سے جاؤں اور قوم کے قانون کے مطابق گردن زنی بنوں، اس رنج و غم اور پریشانی کے عالم میں اس شہر سے نکل جانے کا ارادہ کرکے چل دیے یہاں تک کہ بحرِ روم کے کنارہ پر پہنچ گئے وہاں ایک کشتی دیکھی جس میں لوگ سوار ہو رہے تھے،
یونس علیہ السلام کو ان لوگوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، کشتی روانہ ہو کر جب وسطِ دریا میں پہنچ گئی تو دفعتہ ٹھہر گئی، نہ آگے بڑھتی ہے نہ پیچھے چلتی ہے، کشتی والوں نے منادی کی کہ ہماری اس کشتی منجانب اللہ یہی شان ہے کہ جب اس میں کوئی ظالم گنہگار یا بھاگا ہوا غلام سوار ہو جاتا ہے تو یہ کشتی خود بخود رک جاتی ہے، اس آدمی کو ظاہر کر دینا چاہیے تاکہ ایک آدمی کی وجہ سے سب پر مصیبت نہ آئے۔
حضرت یونس علیہ السلام بول اٹھے کہ وہ بھاگا ہوا غلام گناہ گار میں ہوں، کیونکہ اپنے شہر سے غائب ہو کر کشتی میں سوار ہوا ایک طبعی خوف کی وجہ سے تھا بازنِ الٰہی یہ تھا، اس بغیر ازن کے اس طرف آنے کو حضرت یونس علیہ السلام کی پیغمبرانہ شان نے ایک گناہ قرار دیا کہ پیغمبر کی کوئی نقل و حرکت بلا اذن کے نہیں ہونی چاہیے تھی اس لیے فرمایا کہ مجھے دریا میں ڈال دو تو تم سب اس عذاب سے بچ جاؤ گے،

کشتی والے اس پر تیار نہ ہوئے بلکہ انھوں نے قرعہ اندازی کی تاکہ قرعہ میں جس کا نام نکل آئے اس کو دریا میں ڈالا جائے، اتفاقاً قرعہ میں حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکل آیا، ان لوگوں کو اس پر تعجب ہوا کہ کئی مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر مرتبہ بحکم قضاء و قدر حضرت یونس علیہ السلام کا ہی نام آتا رہا، قرآنِ کریم میں اس قرعہ اندازی اور ان میں یونس علیہ السلام کا نام نکلنے کا ذکر موجود ہے،

 فساھم فکان من المد حضین 

یونس علیہ السلام کے ساتھ حق تعالیٰ کا یہ معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انھوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جاتا ہے اور کسی پیغمبر سے اس کا امکان نہیں، کیونکہ وہ معصوم ہوتے ہیں لیکن پیغمبر کے مقام بلند کے مناسب نہ تھا کہ محض خوفِ طبعی سے کسی جگہ بغیر اذن خداوندی منتقل ہو جائیں، اس خلافِ شان عمل پر بطور عتاب یہ معاملہ کیا گیا۔
اس طرف قرعہ میں نام نکل کر دریا میں ڈالے جانے کا سامان ہو رہا تھا دوسری طرف ایک بہت بڑی مچھلی بحکم خداوندی کشتی کے قریب منہ پھیلائے ہوئے موجود تھی یہ دریا میں آئیں تو ان کو اپنے پیٹ میں جگہ دے، جس کو حق تعالیٰ نے پہلے سے حکم دے رکھا تھا کہ یونس علیہ السلام کا جسم جو تیرے پیٹ کے اندر رکھا جائے گا یہ تیری غذا نہیں بلکہ ہم نے تیرے پیٹ کو ان کا مسکن بنایا ہے،
یونس علیہ السلام دریا میں گئے تو فوراً اس مچھلی نے منہ میں لے لیا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یونس علیہ السلام اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس روز رہے یہ ان کو زمین کی تہہ تک لے جاتی اور دوردراز کی مسافتوں میں پھراتی رہی، بعض حضرات نے سات، بعض نے پانچ دن اور بعض نے ایک دن کے چند گھنٹے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدت بتائی ہے۔
حقیقتِ حال حق تعالیٰ کو معلوم ہے، اس حالت میں حضرت یونس علیہ السلام نے یہ دعاء کی لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا اور بالکل صحیح و سالم یونس علیہ السلام کو دریا کے کنارے پر ڈال دیا۔
مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے ان کے بدن پر کوئی بال نہ رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے قریب ایک کدو (لوکی) کا درخت اگا دیا، جس کے پتوں کا سایہ بھی حضرت یونس علیہ السلام کے لئے ایک راحت بن گئی اور ایک جنگلی بکری کو اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرما دیا کہ وہ صبح و شام ان کے پاس آ کھڑی ہوتی اور وہ اس کا دودھ پی لیتے تھے۔
اس طرح حضرت یونس علیہ السلام کو اس لغزش پر تنبیہ بھی ہوگئی اور بعد میں ان کی قوم کو بھی پورا حال معلوم ہوگیا۔