صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ: تیسری دفعہ کا ذکر ہے (پروفیسر غلام شبیر رانا)

فہرست


















تُلا جاروب کش



صبح و مسا بھری ہوئی سگریٹ کے کش لگا کر زندگی بھر ستم کشِ سفر رہنے والا درِ سفلگی پر ہنہنانے والا غاصب تسمہ کش تُلا جاروب کش بھی کوہِ ندا کی صدا سن کر ساتواں در کھول کر مسائلِ زیست کی غیر مختتم کشا کش سے دامن چھڑا کر بالآخر زندگی بازی ہار گیا اور عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ مکر وال کی رذیل طوائف قفسی کی شادی تو رمنو بھڑوے سے ہوئی مگر اس طوائف نے تُلا جاروب کش کو بچپن ہی سے اپنے سپنوں کا راجا، مہا جاروب کش اور چُلّو میں اُلّو بن جانے والا بادہ کش بنا لیا تھا۔ تلا جاروب کش کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں میں سیاہ رنگ بھر کے انھیں قباحت، کراہت، ذلت، تخریب، نحوست، بے غیرتی، بے ضمیری اور بے حیائی کے سب استعاروں کا منبع بنا دیتا ہے۔ نائکہ قفسی نے جب رمنو سے شادی کر لی تو تُلا جاروب کش بھی ایک کانڈی وال سے ایک نوجوان نت لڑکی بھگا لایا۔ اس نت لڑکی نے قفسی کے قحبہ خانے سے دُور ایک گھر میں بسیرا کیا۔ وقت بڑی تیزی سے گزرتا رہا۔ تلا جاروب کش کے چھے بیٹے پیدا ہوئے۔ نت عورت نے اپنے بیٹوں کو محنت اور جفا کشی سے زندگی بسر کرنے کی تربیت دی۔ تلا جاروب کش اگرچہ قفسی کے زر و مال کے خفیہ دفینے کے سب راز جانتا تھا مگر اُس نے قحبہ خانے کی رذیل طوائف قفسی کو کبھی یہ احساس تک نہ ہونے دیا کہ وہ اس کی خست و خجالت اور مکر و فریب کو پرکھ چکا ہے۔ تلا جاروب کش اپنی محبوبہ قفسی کے سامنے محبت کی ایسی اداکاری کرتا کہ وہ اس کی ہر بات مان لیتی۔ وہ اکثر چوری چھپے اپنی نت بیوی سے ملنے چلا جاتا اور قفسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ مکروال کی عیار مہترانی قفسی اس شہر ناپرساں کی ایسی بد نام کسبی تھی جس کے خاندان نے نسل درنسل قحبہ خانے کے دھندے سے زر و مال بٹورا۔ گرد و نواح کے علاقوں سے تعلق رکھنے والی ہر دیو داسی، ڈومنی، رقاصہ، مغنیہ اور طوائف اس سے لُوٹ مار اور جنسی جنون کے ڈھنگ سیکھتی تھی۔ اس کا تعلق ٹھگوں کے اُس خاندان سے تھا جس کے مورث ادنیٰ اُجرتی بد معاش بے رحم سلسلہ وار قاتل درندے جمعدار بہرام ٹھگ (1765-1840) نے اپنی زندگی میں نہایت سفاکی سے مجموعی طور پر نو سو (900) نہتے مظلوم انسانوں کی زندگی کی شمع بجھا دی تھی۔ اسی شقی القلب ٹھگ خاندان کے تربیت یافتہ ایک اور بد نام ٹھگ فرنجیا (Feringeea) کے گروہ نے ٹھگی کی بتیس (32) پر تشدد وارداتوں میں ایک سو پانچ مسافروں کو لوٹنے کے بعد موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ چیتھڑوں میں ملبوس اپنی دھُن میں مگن حال مست مجذوب تُلا جاروب کش کے ساتھ چار عشروں پر محیط اپنے گہرے تعلقات کے بارے میں نائکہ قفسی یہ بات بر ملا کہتی:

تُلا تُلا پکارتے میں تو ہو گئی آپ ہی تُلا

جھَلا کر گیا قفسی کو وہ اوڑھ کے چیتھڑا جھُلا

وہ کوٹھا جس میں نائکہ قفسی اور اس کی پروردہ طوائفوں نے اپنے مکر کا جال بچھا رکھا تھا اُسے شہر کے واقف حال لوگ ’در و بامِ کرگساں‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ در و بام کرگساں میں جن بدنام بھوتوں اور ڈائنوں کی خیالی تصاویر آویزاں تھیں ان میں ناصف بقال، زدخورو لُدھڑ، نعمت خان کلانونت، نظام سقہ، لال کنور، زہرہ کنجڑن اور اینی بونی شامل ہیں۔ مکروال کی مکار، کینہ پرور اور لومڑی مزاج رذیل طوائف قفسی کی رقاصہ اور مغنیہ بیٹی صبوحی کلموہی جب جعل سازی کے مرض (Imposter Syndrome) میں مبتلا ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ عیاش اور جاہل مطلق حسینہ رواقیت کی داعی بن بیٹھی۔ مکروال کی گلیوں کی یہ دھُول اپنے زعم میں اپنی کریہہ صورت کو پھُول، گوبر میں لتھڑی متعفن کونپل خود کو پیپل اور مردار خور کرگس اپنی ذات کو نرگس قرار دیتی۔ قفسی اپنی بیٹی صبوحی کے بارے میں کہتی کہ میرے قحبہ خانے کی ایک نوجوان مہترانی اپنے عشرت کدے کی نگہبانی اور صفائی ستھرائی تو کسی حد تک کر سکتی ہے مگر مجھ جیسی نو سو چوہے کھا کر گنگا جانے والی گربہ کونے کھدروں، کھنڈرات اور غاروں میں پھنسے کوڑا کرکٹ کے بارے میں ہر نوجوان گناہوں میں لتھڑی بھیگی بلی سے کہیں زیادہ آگہی رکھتی ہے۔ ماہرین نفسیات نے صبوحی کلموہی کا طبی معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ مریضہ میں جو متعدد علامات ایک ساتھ ظاہر ہوئی ہیں ان میں عیاری، مکاری، ٹھگی، دُزدی، جعل سازی، پیمان شکنی، محسن کشی، سادیت پسندی، ہوس زر، خود غرضی، طوطا چشمی، خود رائی اور خود ستائی شامل ہیں۔ اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صبوحی کلموہی کی زندگی کی راتیں لُوٹ مار، ہوسِ زر اور فریب کاری کی کشمکش میں گزریں۔

قحبہ خانے کی بدنام نائکہ قفسی کی لے پالک بیٹیوں سونی، ظلی، گوشی، سموں، شباہت، شعاع، پونم، روبی اور صبوحی نے خرچی سے کروڑوں روپے بٹورے اور ملک کے کئی بڑے شہروں میں کھربوں روپے مالیت کے کئی عشرت کدے بنا لیے۔ اپنے زن مرید شوہر رمنو سے بدگمانی اور باز پرس کے خوف سے قفسی نے اپنی ساری جائیداد اپنے بچپن کے راز داں اور عاشق نامراد تلا جاروب کش کے نام کرا دی تھی۔ تلا جاروب کش کو قفسی گھڑے کی مچھلی سمجھتی تھی اور اس پر اندھا اعتماد کرتی تھی۔ رمنو، ایاز، جھابو اور تُلا جاروب کش ایسے بھڑوے تھے جو قفسی کے قحبہ خانے میں کالا دھن کمانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے تھے۔ ضمیر اور جسم کے سودے، منشیات، جنس و جنوں، رقص و موسیقی اور اغوا برائے تاوان کے قبیح دھندے اور مکر کے پھندے تیار کرنا بدنام نائکہ قفسی کا وتیرہ تھا۔

تُلا جاروب کش اپنے ہاتھ میں جھاڑو تھام کر اس انداز میں کوچہ و بازار کا رخ کرتا جس طرح ماہر شکاری بندوق تھام کر شکار کی تلاش میں جنگل کا رخ کرتا ہے۔ تُلا جاروب کش نگری نگری پھرتا وہ صرف گلیوں کی صفائی ہی نہیں کرتا تھا بل کہ اہلِ ثروت کے گھروں کا صفایا بھی اِس انداز سے کرتاکہ کسی کوکانوں کان خبر نہ ہوتی۔ مکروال ایسا شہر نا پرساں تھا جہاں کے پیشہ ور مسخرے، اچکے، شہدے، بھانڈ، بھڑوے، لچے، تلنگے، ٹھگ، اجرتی بد معاش اورقاتل سب کے سب رمنو، ایاز، جھابو اور تُلا جاروب کش کے باج گزار تھے۔ یہ گروہ کچھ عرصہ کالا باغ میں مقیم رہا وہاں سے بے نیلِ مرام نکلنے کے بعد ان ڈاکوؤں نے مکروال کا رخ کیا اور سادہ لوح لوگوں کو سبزباغ دکھا کر لوٹنا شروع کر دیا۔ کالی دیوی کی سبز قدم پجارن قفسی کی زبان بھی کردار کی طرح کالی تھی۔

اپنی عیاش بیوی کے تابع رہنے کا عادی رہنے والے رمنوکی زندگی کو قفسی نے غم کے افسانے میں بدل دیا۔ اس عیار نائکہ اور مکار چھنال نے پہلے تو اپنی بیٹیوں کواپنے قحبہ خانے میں بٹھایا اور یہ چمن سیکڑوں مرتبہ لُوٹا گیا۔ بے شمار کالے بھنوروں نے جب ان طوائف زادیوں کی اُٹھتی جوانی کا رس نچوڑ لیا اور ان کا حسن و جمال زوال کا شکار ہو گیا تو عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے نوجوانوں سے ان کی منھ مانگی قیمت وصول کر کے ان کے ساتھ ان ادھیڑ عمر کی طوائف زادیوں کا بیاہ کر دیا۔ قفسی کی بیٹیاں جہاں بھی گئیں وہاں اُنھوں نے خفیہ طور پر اپنا قبیح کاروبار اور آبائی دھندا بھی جاری رکھا۔ جب رمنو کے اعضا مضمحل ہو گئے تو اِس کے ساتا روہن نے بھی اسے تنہا چھوڑ کر اپنی راہ لی۔ ضعیفی میں کئی بیماریوں نے رمنو کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ دوسری طرف قفسی نہایت ڈھٹائی سے کہتی کے ابھی تو وہ جوان ہے۔ مہمانوں کے سامنے قفسی جب اپنے بیمار شوہر کی بے توقیری، توہین، تذلیل اور تضحیک کرتی تو شہرکے اہلِ درد دِل تھام لیتے۔ اپنی بیوی کے بدلتے تیور دیکھ کر رمنو پیچ و تاب کھانے لگتامگرمجبوریِ حالات نے اسے مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا تھا۔ بیماری اور بے روزگاری نے رمنو کو زود رنج اور جھگڑالو بنا دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قفسی کے منحوس قحبہ خانے میں روز جوتیوں میں دال بٹتی تھی۔

گرمیوں کی ایک شام تھی قفسی کے قحبہ خانے میں سب مست بند قبا سے بے نیاز ساز کی لے پر رقص کر رہے تھے۔ بھڑوے رقصِ مے کو تیز تر کر کے اپنی تشنگی کی تسکین کر رہے تھے۔ حالات سے نا خوش و بیزار دُور بیٹھے رمنو نے اپنی بد معاش بیوی قفسی کو سمجھاتے ہوئے کہا:

’’ہم اپنی بیٹی حسین و جمیل بیٹی صبوحی کی سو سے زائد مرتبہ منگنی کر کے سادہ لوح لوگوں سے بے پناہ زرو مال بٹور چکے ہیں۔ اس بار ہمارا شکار میرادیرینہ دوست منشی کرم دادہے۔ اپنے بڑے بیٹے کی اچانک وفات نے اس بوڑھے معلم کو زندہ در گور کر دیا ہے۔ ہم نے اس کی پنشن، بیمہ کی رقم اور ساری جمع پونجی ہتھیا لی ہے۔ اگر اس سے فریب کیا گیا اور صبوحی کی شادی اس کے چھوٹے بیٹے سے نہ کی تو اجل کے وار سہنے والا دل گرفتہ معلم کرم داد جیتے جی مر جائے گا۔ میری مانو جتنی جلدی ہو سکے صبوحی کا بیاہ کرم داد کے چھوٹے بیٹے سے کر دو۔ تقدیر کے ستم سہہ کر آلامِ روزگار کے ہاتھوں اُجڑنے والے کرم داد جیسے لوگ حالات کی قبروں کے کتبے کی صورت ہوتے ہیں۔ مظلوم کرم داد سے فریب کاری کرنا ایسی کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے جو اُسے تباہ کر دے گی۔ کرم داد کی زندگی میں گریہ و زاری کے سوا کیا ہے؟ اسے مارنا تو مرے کو مارنے کے مترادف ہے۔‘‘

’’اونہہ! تمھاری بیماری ہمارے لیے ذلت و خواری بنتی چلی جا رہی ہے۔‘‘ قفسی نے نفرت اور حقارت سے اپنے بیمار شوہر کو دیکھا اور غراتے ہوئے اس سے کہا ’’صبوحی تو میرے قحبہ خانے اور چنڈو خانے کے لیے سونے کی چڑیا ہے۔ اگر یہ اُڑ گئی تو یہاں ہر طرف دھُول اُڑنے لگے گی۔ میرے قحبہ خانے کو خرابے میں بدلنے کی تمھاری خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ کوئی احمق ہی ہو گاجوسونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو بے رحم قصاب کے سپر کر دے گا۔‘‘

’’یہ مت بھولو کہ اکہتر سالہ ضعیف استاد منشی کرم داد کے ہم پر بہت احسان ہیں۔ اس نے صبوحی کی تعلیم اور ملازمت کے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے۔ اگر کرم داد صبوحی کا چار سو صفحات کا مقالہ ’ اردوزبان اور دکنی زبان کا ارتقا ‘ نہ لکھتا تو جامعہ اودھ سے صبوحی کو ایم۔ فل اردو کی ڈگری کبھی نہ ملتی۔ اسی ڈگری کی وجہ سے صبوحی کو جامعہ ایودھیا میں اردو لسانیات کی پروفیسر لگا دیا گیا ہے۔ اب تو اس کی پانچوں گھی میں ہیں، ہمارا دھندہ اور پھندہ بھی جاری رہے گا اورہم منشی کرم دادا کو بھی تسلی دے سکیں گے ورنہ شہرکے سب واقف حال لوگ یہی کہیں گے کہ ہم نے ایک ضعیف استادکو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اپنی چربہ سازی، جعل سازی، کفن دُزدی اور جسارت سارقانہ پر نادم ہونے کے بجائے غرور کرناتمھاری اور صبوحی کی بے حسی اور بے ضمیری کی علامت ہے۔‘‘

’’اب زیادہ باتیں بنانے کی ضرورت نہیں، تم ناحق منشی کرم داد کی حمایت کر رہے ہو۔‘‘ قفسی نے اپنے بیمار شوہر کو ڈانٹتے ہوئے کہا ’’میری چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹی صبوحی تو سال 2019 ء کی حسینۂ عالم ٹونی این سنگھ (Toni-Ann Singh)سے بھی کہیں بڑھ کے حسین ہے۔ اس کے لیے نئی بگاٹی لا وائٹر نوائر ڈیبٹس(Bugatti La Voiture Noire Debuts)کار، سوکنال کی کوٹھی، فارم ہاؤس، وسیع زرعی اراضی، پانچ کلو سونا اور چار سو قیمتی ملبوسات کی ہماری مانگ یہ بوڑھا معلم کیسے پوری کرے گا؟ تم نے سمدھی، میں نے سمدھن اورصبوحی نے بہو کی اداکاری کر کے اس بوڑھے معلم سے ’ اردوزبان اور دکنی زبان کا ارتقا‘ جیسے مشکل موضوع پر ایم۔ فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھوا لیا۔ اب رات گئی اور اس کے ساتھ ہی کرم داد کے بیٹے کے ساتھ صبوحی کی منگنی کی بات گئی والا معاملہ ہے۔ میں اس شہر کے حاسد اور کینہ پرور لوگوں کی بے سر و پا باتوں سے بالکل نہیں ڈرتی۔ یہ تومحض ایک ڈرامہ تھا جس میں پہلے سے طے شدہ سکرپٹ کے مطابق ہم سب بہت اداکاری کر چکے اب تم کرم داد کو چلتا کرو۔ اگر تم نے اُس بوڑھے معلم سے ہماری جان نہ چھڑائی تو میں تُلا جاروب کش سے کہہ کر پہلے تو کرم داد کے گھر میں جھاڑو پھروا دوں گی اور اس کے فوراً بعد اپنے اس خنجر آزما رفیق کے ذریعے اِس بڈھے کو شہر خموشاں میں بھجوا دوں گی جہاں وہ ردائے غم و حسرت و یاس اوڑھ کر لمبی تان کر سوئے گا۔‘‘

’’نہیں نہیں ایسا ظلم ہر گز نہ کرنا، تُلا جاروب کش تو اُجرتی بد معاش اور کرائے کا قاتل ہے۔ اُس ڈریکولا نے کئی بے گناہ انسانوں کو تمھارے کہنے پر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اس پر رحم کرو اور اسے پریشاں حالی و درماندگی کے عالم میں انتقام کی چکی کے پاٹوں میں پیسنے سے باز رہو۔ جس مس ورلڈ کا تم نے ابھی نام لیا ہے وہ تئیس (23) سال کی ہے جب کہ تمھاری بیٹی صبوحی اب تک زندگی کی اکتیس (31) بہاریں اور عشاق کی لمبی قطاریں دیکھ چکی ہے۔‘‘ خست، خفت اور خجالت کا پیکر رمنو بھڑوا اپنی اہلیہ سے دھیمے لہجے میں مخاطب تھا ’’اپنے مطالبات کو اس قدر طول نہ دو، ذرا دامن اور بندِ قبا پر بھی نظر ڈال لو۔ بوڑھا معلم کرم داد اپنی زندگی میں کسی خوشی کو دیکھنے کے لیے اب تک بڑی قربانیاں دے چکا ہے۔ اب تو میں یہ کام تکمیل تک پہنچا کے دم لوں گا۔ ‘‘

’’جب تک میرے دم میں دم ہے میں تمھیں دم نہ لینے دوں گی۔‘‘ قفسی نے غیظ و غضب کے عالم میں غراتے ہوئے کہا ’’جو شخص بھی صبوحی اور میری راہ میں دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔ آج کے بعد کرم داد کے بیٹے کے ساتھ صبوحی کی منگنی کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے ختم سمجھو۔ میں صبوحی کی نئی منگنی کروں گی اور اس کے لیے نیا جہان آباد کروں گی۔ جب سے صبوحی نے جامعہ ایودھیا میں منصب سنبھالا ہے ملک کے بڑے بڑے تاجر، کارخانہ دار، اعلا عہدے دار اور جاگیردار مجھ سے مسلسل رابطہ کر ہے ہیں۔ اب میں تیل اور تیل کی دھار نہیں دیکھوں گی بل کہ صبوحی کے حسن بے پروا کی مار اور اس کے عشوہ و غمزہ و ادا کے وار دیکھوں گی۔ اب تو آنے والا وقت ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ کون ہے جو میری خورشید جمال صبوحی کے جان لیوا وار کی تاب لا سکے۔ اس کی چاہت میں اس کے شیدائی سب کچھ وار دیں گے۔‘‘

’’تم نے تو مرسی براؤن کا روپ دھار لیا ہے اور تمھارا خاتمہ بھی اسی چڑیل کی طرح ہو گا۔ اپنے ان مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے تمھیں میری لاش پر سے گزرنا ہو گا۔‘‘ بیمار اور لاچار رمنو نے آہ بھر کے کہا ’’بے درد کو کسی کے درد کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ میں آج ہی کرم داد کو سب حقائق بتا دوں گا اور اس کا سامان بھی لوٹا دوں گا۔ فریب کاری، عیاری، مکاری اور عقوبت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ تم نے تو آدم خور چڑیل اور خون آشام ڈائن کو بھی مات دے دی ہے۔ مکر وال کی چڑیل صبوحی تو خون آشامی میں وینس کی چڑیل سے بھی آ گے نکل گئی ہے۔ اس جعلی منگنی اور فریب کاری میں کرم داد کو جس ذہنی مشقت، اذیت و عقوبت کا سامنا کرنا پڑا اس کا مداوا تو ممکن ہی نہیں البتہ جو زر و مال تم نے اس سے بٹور لیا ہے وہ تو اسے واپس کر دو۔‘‘

’’ہاں میں اور میری بیٹی صبوحی دونوں آدم خور چڑیلیں اور ڈائنیں ہیں!‘‘ قفسی نے چیختے ہوئے کہا ’’خضاب آلود بڈھے کھوسٹ اور ناکارہ تھوتھے چنے تم اس وقت گھنا بج رہے ہو، میں بہت جلد تمھیں عبرت کی مثال بنا دوں گی۔‘‘

رمنو نے اپنی بے بسی اور قفسی کی ہوس کے بارے میں منشی کرم داد کو آگاہ کرنے کی غرض سے اُسے اپنے پاس بلایا اور کہا:

’’کرم داد! میں بہت شرمندہ ہوں کہ اب تک زندہ ہوں۔ قفسی اور صبوحی پر میرا بس نہیں چلتا اب وہ میرے کیے گئے عہد و پیمان سے منحرف ہو گئی ہیں۔ ان چڑیلوں کے مکر کی وجہ سے تمھاری سب محنت اکارت گئی اور اُمیدوں کی فصل غارت چلی گئی۔ تم بلا شبہ آج کے سیزر ہو اور صبوحی نے بروٹس کا کردار ادا کیا ہے۔ تم سے ایم۔ فل۔ اردو کا تحقیقی مقالہ لکھوا کر احسان فراموشی، بے غیرتی، بے ضمیری اور محسن کشی کی شرم ناک مثال قائم کر کے صبوحی نے اپنا منھ کالا کیا ہے۔‘‘

کرم دادا نے خاموشی سے رمنو کی باتیں سنیں اور دامن جھاڑ کر وہاں سے ایسے اُٹھا جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔ منشی کرم داد بار بار پُر نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتا اور دل ہی دل میں اپنے خالق کے حضور التجا کرتا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ ظلم کا سلسلہ بالآخر ختم ہو گا اوردرندے ہر حال میں اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچیں گے۔ ہر فرعون، نمرود اور ڈائر کی ہلاکت اور تباہی نوشتۂ تقدیر ہے۔ وہ وقت دُور نہیں جب قفسی کے قحبہ خانے کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ ظلم کی رات ختم ہو گی اور الم نصیب و جگر فگار طلوع صبح بہاراں کا منظر دیکھیں گے۔

اُدھرقفسی نے یہ تہیہ کر لیا کہ اپنے ناکارہ شوہر سے نجات حاصل کر کے کسی اور نوجوان کو اپنے دام فریب میں پھنسا لے۔ اپنی عیار بیٹی صبوحی کے مشورے سے قفسی نے اپنے شوہر کو اپنی راہ سے ہٹانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ رمنو یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ مصیبت کی اِس گھڑی میں اُس کے ہر چارہ گر نے طوطا چشمی کو شعار بناتے ہوئے چارہ گری سے گریز کی راہ اختیار کر لی ہے ورنہ اس کے درد و کرب لا دوا ہر گز نہیں۔ رمنو کے دِل کے گلشن میں خزاں کے سیکڑوں مناظر کا مسموم ماحول دیکھ کر مرغانِ باد نما اور فصلی بٹیروں نے جب لمبی اُڑان بھر لی تو ایک دن شدید علالت کے باوجود رمنو تنہا علاج اور دوا کی غرض سے شہر کے ایک خیراتی ہسپتال کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک ایک تیز رفتار کار سڑک سے گزری اور رمنو کو کچلتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ رمنو کو ابتدائی طبی امداد کے لیے مقامی ہسپتال کے شعبہ حادثات میں پہنچایا گیا مگر جسم پر لگنے والے شدید زخموں اور سر کی چوٹ کے باعث اس کا دمِ آخریں بر سر راہ تھا۔ قفسی فوراً ہسپتال پہنچی اور شوہر کے سرہانے بیٹھ کر مگر مچھ کے آنسو بہانے لگی۔ سردیوں کی ایک یخ بستہ شام تھی رمنو نے آخری ہچکی لی اور قفسی نے اپنے نوجوان آشنا سے پہلی سرگوشی کی۔ اس کے نئے آشنا نے متعلقہ شعبے سے رمنو کی موت کا میڈیکل سرٹیفکٹ بنوا لیا۔ اگلی صبح قفسی نے زندگی کا بیمہ کرنے والی کمپنی سے حادثاتی موت کا ڈبل کلیم حاصل کرنے کے کاغذات جمع کرا دئیے۔ چند روز بعد جب اس ڈائن کو ایک کروڑ روپے کا کلیم مِل گیا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائی۔

’’یہ بہت عجیب بات ہے کہ میں چونسٹھ سال کی عمر میں تم جیسے کڑیل نوجوان سے تیرہویں مرتبہ شادی کر رہی ہوں، قفسی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’تمھاری اُٹھتی جوانی دیکھ کر مجھے اپنا گزرا ہوا وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب میں پہلی بار کسبی بننے سے پہلے کنواری تھی۔ تم اس لیے خوش ہو کہ تمھاری تو یہ پہلی شادی ہے۔ آج میرے اور تمھارے پیار کے حالات دیکھ کر حاسد اور منافق درندے میری شادی کے بارے میں یہی کہیں گے کہ بوڑھی گھوڑی لال لگام! ہا ہا ہا۔‘‘

’’تم جانتی ہو کہ اس وقت میں سولہ سال کا ہوں اور یہ میری پہلی شادی ہے۔‘‘ نوجوان جھابو نے مسکراتے ہوئے قفسی کو اپنے بازوؤں میں تھام لیا اور کہا ’’تم نے ابھی میری اُٹھتی جوانی کا ذکر کیا ہے، اب میں تمھارے قدموں میں بیٹھ کر سب کچھ نچھاور کر دوں گا۔ جو بھی تیرے آستاں سے اُٹھتا ہے پھر اسے کہیں بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔‘‘

جھابو کے والدین کا شمار شہر کے متمول ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ جھابو کا باپ جھلا جھکیار زندگی کے بیمہ کے کاروبار سے وابستہ تھا۔ اس نے کالا دھن کمانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ ایک زمانہ تھا جب اپنی اہلیہ کی موت کے بعد جھلا جھکیار قفسی کے قحبہ خانے میں دادِ عیش دینے کے لیے بلا ناغہ سر شام پہنچ جاتا۔ عالمِ پیری میں کثرت مے نوشی اور جنسی جنون کے باعث جھلا جھکیار کے اعضا مضمحل ہو گئے اور وہ فالج کے عارضے میں مبتلا ہو کربستر تک محدود ہو گیا۔ جھلا جھکیار کی بیماری کے اس عرصے میں قفسی اکثر جھلا جھکیار سے ملنے اس کے گھر چلی آتی۔ قفسی کے ساتھ شادی کے بعد جھابو نے اپنے بوڑھے اور بیمار باپ کو ٹھکانے لگا دیا۔ اب جھابو ہی اپنے باپ کی تمام جائیداد کا واحد مالک تھا۔ جھلا جھکیار کی موت پر قفسی نے ٹسوے بہاتے ہوئے کہا:

’’جھلا جھکیار بہت رحم دل شخص تھا۔ اس نے بے سہاروں کو سہارا دیا اور غریبوں کی مدد کی۔‘‘

اپنے شوہر رمنو کا کام تمام کرنے اور کرم داد کو محرومیوں اور مایوسیوں کی بھینٹ چڑھا کر قفسی نے سکھ کا سانس لیا۔ جھلا جھکیار کی سب جائیداد اب قفسی اور اس کی عیاش بیٹی صبوحی کے تصرف میں تھی۔

جو شخص بھی ان عادی دروغ گو ٹھگوں کے نرغے میں پھنستا اُسے جان کے لالے پڑ جاتے۔ طرب یا تعب تقدیر ہر صورت میں ان الم نصیبوں کی پیشانی پر اِن کے منتشر ہونے کا سبب درج کر دیتی۔ گلشن ہستی میں گل نو شگفتہ کی صورت میں مہکنے والے پھول ان کی لوٹ مارے کے باعث خار و خس کی صورت میں دھول میں پڑے ملتے۔ اپنی نوجوان بیٹی صبوحی کو جب نائکہ قفسی نے نتھلی پہنائی تو جھابو اور صبوحی کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگی:

’’میں نے اپنی بیٹی صبوحی کو قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں زر و مال بٹورنے کے سب حربے سکھا دئیے ہیں۔ وہ اعلا تعلیم یافتہ اور ماہر پیشہ ور طوائف ہے۔ میری طرح اس نے بھی ہمیشہ غم گسار، ایثار پیشہ، مخلص اور ہمدرد رفیقہ کا روپ دھار کر سادہ لوح لوگوں کو فریب دیا ہے اور انھیں جی بھر کر لُوٹا ہے۔ ہم ایک جنگل میں رہتے ہیں اور یہاں جنگل کا قانون ہی پوری شدت سے نافذ ہے۔ ہمیں یہاں من مانی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خرچی کی کمائی کے لیے کرگسی نگاہ، چغد جیسی نحوست، زاغ و زغن جیسی حرام خوری، طوطے جیسی بے وفائی، لومڑی جیسی مکاری، عقرب جیسی نیش زنی اور ناگ جیسا زہر درکار ہے۔‘‘

صبوحی نے اپنی ماں کی باتیں سن کر اثبات میں سر ہلایا اور کہا: ’’عیاش، مغرور اور بگڑے ہوئے سرمایہ دار نوجوانوں کی جیبیں خالی کرانے کے لیے میں اپنی ترکش کا ہر تیر چلا سکتی ہوں۔ وہ مجھے نوچتے اور بھنبھوڑتے ہیں تو میں بھی ان کی میراث میں سے کچھ باقی نہیں چھوڑتی۔ میں نے نئے انداز اپنا کر اور ہر سوانگ رچا کر اس قدر زر و مال جمع کیا کہ پرانی طوائفیں میری بڑھتی ہوئی مقبولیت اور شہرت کی چڑھتی ہوئی پتنگ کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ میں نے اپنی لوٹ مار میں مکر و فریب، عشوہ و غمزہ و ادا، عریانی و فحاشی کے حربوں کو منظم انداز میں اپناتے ہوئے اپنے عشرت کدوں کے لیے زر و مال جمع کیا۔ میرے سامنے فہم و فراست اور معاملہ فہمی کے داعی سب باون گزے دیکھتے ہی دیکھتے بونے بن جاتے ہیں۔ میں اس قدر زہریلی ناگن ہوں کہ میرا ڈسا تو پانی بھی نہیں مانگتا۔‘‘

’’تم سچ کہتی ہو صبوحی تم نے تو ہتھیلی پر سرسوں جما دی ہے۔‘‘ قفسی نے اپنی بیٹی صبوحی کی پیٹھ پر تھپکی دی اور اکڑتے ہوئے کہا ’’یہ لطائف یا قیافہ ہر گز نہیں بالکل سب کی معلومات میں اضافہ ہے کہ قحبہ خانے کے دھندے کی ماہر کسبی نائکہ کی پروردہ بیٹی بھی عیار حرافہ اور جنسی جنون میں مشاق طوائف ہی ثابت ہوتی ہے۔ منشیات، سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے کا لا دھن کمانے والے دولت و ثروت کے لحاظ سے میرے قدموں کی دھُول ہیں اور مجھے گل چھرے اُڑاتے دیکھ کر بے حد ملول ہیں۔ اتنا مال تو چور، ڈاکو، لٹیرے، قاتل، بھتہ خور اور در انداز بھی اتنا مال نہیں لُوٹ سکے جتنا میں نے اپنی زندگی میں لُوٹا ہے۔‘‘

’’سال 2020ء کے آغاز میں میری عمر اکتیس سال ہے اور میں نے بارہ سال کی عمر میں نتھ کھلوائی۔‘‘ خراباتیان خرد باختہ کی پروردہ صبوحی نے باؤلی کتیا کی طرح غراتے ہوئے کہا ’’اس وقت شہر کا ہر نوجوان دولت مند میرا شیدائی اور میری زلفوں کا اسیر ہے۔ اب تک میری جائیداد کی مجموعی مالیت اربوں سے بڑھ کر کھربوں تک جا پہنچی ہے۔‘‘

شہر کے لوگ حیران و پریشان تھے کہ صبوحی کے گھر میں سونے کی کان نکلی ہے یا اسے کوئی طلسمی چراغ مِل گیا ہے جو وہ اس قدر مال دار بن گئی ہے۔ کچھ عرصے سے صبوحی اور قفسی کے ساتھ جھابو کا روّیہ بدل رہا تھا۔ دوسری طرف صبوحی اور قفسی بھی جھابو کو کباب میں ہڈی سمجھنے لگی تھیں۔ ہوس اور حرص کی آگ ہوش و خرد کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ خفتہ آتش فشاں کے مانند ایک لاوا تھا جو اندر ہی اندر اُبل رہا تھا اور کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا۔ تلا جاروب کش انبوہ مہوشاں اور ہجوم کرگساں کے جذبات سے آگاہ تھا۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ قفسی اور صبوحی کے مکر کی چالوں سے سیکڑوں گھر بے چراغ ہو گئے اور ہزاروں نوجوان در بہ در اور خاک بہ سر ہو گئے۔ سردیوں کی ایک شام تھی جھابو ایک مقامی ہوٹل سے کھانے کے دو پیکٹ لایا۔ مقامی ہوٹل سے جھابو کھانے کے جو دو پیکٹ لایا تھا وہ اُس نے قفسی کی ہدایت کے مطابق باورچی خانے میں رکھ دئیے تھے اسی اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی اور جھابو تیزی سے باہر نکلا تا کہ یہ معلوم کر سکے کہ اس وقت کون ہے جو اتنا زور سے دروازہ پیٹ رہا ہے۔ جھابو باہر نکلا تو یہ دیکھ کر اس کے پاؤں تلے سے زمیں نکل گئی کہ چھے نقاب پوش مسلح ڈاکو باہر دروازے پر کھڑے تھے۔ انھوں نے جھابو کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اپنی ویگن میں ڈال کر تیزی سے دُور نکل گئے۔ قفسی نے اپنی بیٹی صبوحی کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور کہا:

’’ایسا معلوم ہوتا ہے سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے۔ میں نے نت نگر کے چھے نت نوجوانوں کو جھٹ منگنی پٹ بیاہ کا جھانسہ دے کر قابو کیا ہے اور نواحی گاؤں نت نگر کے وہی چھے نت نوجوان جھابو کے پیچھے لگا دئیے ہیں۔ میں نے بڑی راز داری سے شہر کے ایک ضعیف پنساری سے زہر کی پڑیا خریدی اور اسے باورچی خانے میں رکھ دیا ہے۔ یہ زہر ایک گھنٹے کے بعد اثر کرتا ہے اور اس زہر کا کوئی تریاق بھی نہیں۔‘‘

’’کڑی کمان کا تیر کبھی خطا نہیں ہوتا۔‘‘ صبوحی نے دانت پیستے ہوئے کہا ’’جھابو تو یہاں کے کھانے ڈکار کر غرانے لگا تھا اب تک وہ ٹھکانے لگ چکا ہو گا۔ گزشتہ کئی ماہ سے وہ مجھے گھورتا رہتا تھا اور پاس بُلاتا تھا۔ یہ چھے نت بھائی جب جھابو کا کام تمام کر کے واپس آئیں گے تو ان کی ضیافت کی جائے گی۔ ان کے کھانے میں تمھاری لائی ہوئی زہر کی وہ پڑیا ڈال دوں گی جو میں نے باورچی خانے میں مسالحے کی دراز میں رکھی ہے۔‘‘

’’اب اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ان چھے نوجوان نت بھائیوں کو کھانا کھلا کر فوراً چلتا کرو تا کہ یہ اپنے گھر پہنچ کر اپنی شادی کی تیاری کریں۔‘‘

پردے کے پیچھے تلا جاروب کش مایوسی، محرومی اور اضمحلال میں ڈُوبا سب باتیں سُن رہا تھا۔ وہ ان رذیل طوائفوں کے سفاکانہ منصوبے سے آگاہ ہو گیا اوردِل ہی دِل میں ان کی چال کو ناکام بنانے کی تدبیر سوچنے لگا۔ اچانک قفسی نے کفن پھاڑ کر غراتے ہوئے کہا:

’’تُلا جاروب کش! تم کہاں ہو؟ جلدی یہاں آؤ۔‘‘

تلا جاروب کش فوراً قفسی اور صبوحی کے کمرے میں پہنچا۔ کمرے کی دیوار پر دو کریہہ چھپکلیاں لڑ رہی تھیں، اچانک ایک چھپکلی نے دوسری چھپکلی کو نیچے گرا دیا۔ باہر درختوں پر چغد کی آواز سُن کر وہ چونکا، حیرت و حسرت کے عا لم میں وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ قفسی نے غصے سے کہا:

’’آج چھے نوجوان مہمان یہاں آ رہے ہیں ہم نے ان کے لیے کھانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ اب یہاں کھڑے میرا منھ کیا دیکھ رہے ہو؟جاؤ اور ہمارے لیے وہ کھانا گرم کر کے لاؤ جو جھابو نے باورچی خانے میں رکھا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تم تو ندیدے پیٹو ہو مگر پریشان نہ ہونا مہمان ابھی پہنچنے والے ہیں جو کھانا مہمانوں سے بچے گا وہ مہمانوں کے چلے جانے کے بعد ہمیشہ کی طرح تمھیں ہی مِلے گا۔‘‘

تلا جاروب کش کھانا گرم کر کے لایا اور صبوحی کی بتائی ہوئی پڑیا بھی مسالحے کے خانے سے نکال کر اسی کھانے میں اُنڈیل دی۔ صبوحی اور قفسی نے جھابو کا انتظار کیے بغیر جی بھر کر کھانا کھا لیا۔ کھانا کھاتے ہی دونوں طوائفوں کی حالت بگڑنے لگی اور دونوں رذیل طوائفیں ایک گھنٹے کے بعد تڑپ تڑپ کر مر گئیں۔ دونوں کی ناک اور کانوں سے خون بہہ رہا تھا جس کی رنگت سیاہ تھی اور منھ سے متعفن جھاگ بہہ رہا تھا۔ اگلی صبح جھابو کا ڈھانچہ بستی کے نواحی جنگل میں پایا گیا جنگلی درندوں نے لاش کو اُدھیڑ اور کھدیڑ کر ناقابل شناخت بنا دیا تھا۔ ہڈیوں پر باقی رہ جانے والا گوشت حشرات الارض اور ملخ و مُور کے جبڑوں میں تھا۔ چشمِ فلک نے عبرت سرائے دہر کا یہ منظر بھی دیکھا کہ قفسی کے عشرت کدے میں نئی پریوں کا اکھاڑا سج گیا ہے اور راجہ اندر بھی نئے ہیں۔ پاس ہی ضعیف قحبہ گر تلا جاروب کش جھاڑو تھامے گھوم رہا تھا اس کے پاس چھے نوجوان سر جھکائے کھڑے تھے۔ قفسی اور صبوحی کی ہلاکت کے بعد تلا جاروب کش مطمئن و مسرور تھا اور اس کے چہرے پر کوئی ملال نہ تھا۔ بے ضمیروں کے اب بھی وارے نیارے تھے صرف قحبہ خانے اور چنڈو خانے کا نام بدل گیا تھا۔ بڑے دروازے پر پہلے جہاں ’در و بام کرگساں‘ کی تختی لگائی گئی تھی اس کی جگہ اب وہاں جلی حروف میں ’چغد بسیرا‘ لکھا تھا۔ زاغ و زغن، بوم و شپر اور کرگس پھر سے یہاں نئے اور دل کش پھندے سجا کراور رندے تھام کر اپنا دھندہ شروع کر چکے تھے۔ قفسی اور صبوحی کے دفینے کے بارے میں اب کسی کو کچھ معلوم نہیں سنا ہے کہ قفسی اور صبوحی کے دفینے کا راز تلا جاروب کش نے اپنے چھے بیٹوں کو بتا دیا تھا جنھوں نے کئی من سونا، چاندی کے زیورات اور ہیرے جواہرات ٹھکانے لگا دئیے۔

٭٭٭





رانا مبشر
اَب زندگی ہے خواب میں گفتار کی طرح



وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا

میں اُس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

خبر مِلی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں

میں جِس زمین پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا (راحت اندوری)

اپنی آخری عمر میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے والے قناعت پسند شخص رانا مبشر سے مل کر زندگی سے پیار ہو جاتا تھا۔ جب بھی مصائب و آلام نے اُس کے نہاں خانۂ دِل پر دستک دی اُس نے ایک شانِ استغنا سے اُنھیں خندۂ استہزا میں اُڑا دیا۔ فروغ گلشن و صوتِ ہزار کے موسم کی تمنا اور صحرا میں گل ہائے رنگ رنگ کی نمو کے تقاضوں سے عہدہ بر آ ہونے کی خاطر اس نے سرِ ہر خار کو اپنے جگر کے خون سے سیراب کیا۔ وہ اکثر اس بات پر اصرار کرتا کہ غلطی کرنا انسانی فطرت، بار بار ایک ہی غلطی کو دہرانا حماقت اور اپنی غلطی پر ڈٹ جانا بے غیرتی، بے ضمیری اور بے شرمی کی دلیل ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اس پر ندامت کا اظہار کرنا عالی ظرفی اور عظمت کردار کی نشانی ہے۔ اپنے دل میں انصاف کے حصول کی حسرت رکھنے والوں میں خود اپنے خلاف فیصلہ صادر کرنے کا ظرف ہونا چاہیے۔ وہ یہ بات واضح کر دیتا کہ احساس کم تری کو احساس برتری میں بدلنے کی کوشش نیوراتیت کہلاتی ہے۔ جب کہ بے بس ولاچار انسانوں کو عقوبتی ہتھکنڈوں سے اذیت میں مبتلا کر کے لطف اندوز ہونا سادیت پسندی کہلاتا ہے۔ فرانسیسی ادیب مارکیوس ڈی ساد (-1814: 1740 Marquis de Sade) کی پیروی کرنے والے سادیت پسندوں اور نیوراتیت پسندوں سے بچنا چاہتا تھا۔ عالمی کلاسیک پر کامل دسترس رکھنے والے اس ادیب نے اپنی پوری زندگی لفظوں کی مکانوں میں بسر کی۔ کتابوں کے مطالعہ کے دوران میں کوئی اور مصروفیت حائل ہوئی تو اُس نے سدا اُسے وقت دِگر پر موقوف رکھا۔ ایک ملاقات میں اُس نے بتایا کہ وہ اپنے دِل کے زخموں کی اس انداز سے دیکھ بھال کرتا ہے جس طرح ایک حساس باغبان گلستان کی احتیاط کے ساتھ پرورش کرتا ہے۔ وہ اس خوف میں مبتلا رہتا کہ کہیں یہ کرب اور گھاؤ اس کے لیے زخم اور کمان کی صورت اختیار نہ کر لیں۔ زخم اور کمان کی تلمیح کے بارے میں رانا مبشر نے بتایا کہ یونانی دیومالا کے مطابق تھیسلے (Thessaly) میں واقع میلوبیا (Meliboea) کے بادشاہ پوئیاس (Poeas) کے شجاع بیٹے فیلو ککٹس (Philoctetes) کی بہادری، مہم جوئی اور خطر پسند طبیعت کی ہر طرف دھوم مچی تھی۔ جادو کی کمان رکھنے والا وہ ایسا ماہر ناوک انداز تھا جس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا تھا۔ اس نے ہیری کلز(Heracles) کی آخری آرام گاہ کا راز فاش کر دیا اور اس کی بد دعا سے ایک سفر میں سانپ کے کاٹنے سے اُسے پاؤں پر ایسازخم لگا جو مندمل نہ ہو سکا۔ اس زخم سے بیمار کر دینے والی عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے۔ شہر کے لوگوں کی نفرتوں، حقارتوں اور عداوتوں سے عاجز آ کروہ روپوش ہو گیا۔ کینہ پرور اور حاسد اس مہم جو کے خون کے پیاسے تھے۔ ابن الوقت اور کینہ پرور حاسد جنگ تورجان (Torjan War) جیتنے کے لیے وہ طلسماتی کمان اور تیر حاصل کرنا چاہتے تھے جو فیلو ککٹس کو ہیری کلز نے دی تھی۔ اُس کے زخم سے نکلنے والی بُو کی وجہ سے اُنھوں نے فیلو ککٹس کو ڈھونڈ نکالا۔ امریکی ادیب ایڈ منڈولسن (Edmund Wilson: 1895-1972) نے اپنی کتاب زخم اور کمان (The wound and the bow) میں اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ عالمی شہرت کے حامل ممتاز جرمن ناول نگار تھامس من (: 1875-1955 Thomas Mann) کے اسلوب میں بھی اس یونانی دیو مالائی کہانی کا پرتو ملتا ہے۔

مبشر رانا کی درد مندی اور خلوص کا ایک عالم معترف تھا۔ الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے ساتھ اس نے جو عہدِ وفا استوار کیا زندگی بھر اسی کو علاج گردش لیل و نہار سمجھا۔ ادیبوں کے ساتھ اُس نے جو درد کا رشتہ استوار کیا تھا وہ اس کی پہچان بن گیا۔ اس رشتے کو وہ سب سے معتبر اور مستحکم رشتہ قرار دیتا اور کہتا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فہمیدہ ریاض، قمر زماں کائرہ، خالدہ حسین، روحی بانو، متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن، ریاض الحق، روبینہ قائم خانی، شہلا رضا، افضل احسن، محمد اکرم، محمد یوسف اور شبیر رانا کو نوجوان بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے زندہ در گور کر دیا۔

رانا مبشر کے پڑوس میں ایک مفت خور لیموں نچوڑ غبی متشاعر گنوار انتھک رہتا تھا۔ ایک دن مبشر رانا نے اس کاہل، نا اہل اور کندۂ ناتراش کو بتایا کہ اس کی ڈائری میں نا ممکن کا لفظ کہیں درج نہیں۔ یہ بات اس ابلہ کے سر سے گزر گئی۔ دوسرے دن وہ ایک کتب فروش کی دکان سے ایک نئی ڈائری خرید لایا اور اس کے ہر صفحے پر لفظ نا ممکن لکھناشروع کر دیا۔ شام تک اس نے اپنی ڈائری مکمل کر لی اور ہر صفحے پر لفظ ’’نا ممکن‘‘ کے سوا کچھ نہ لکھا تھا۔ کاتا اور لے دوڑا کے مصداق وہ اپنی ڈائری لے کر رانا مبشر کے پاس پہنچا اور ہنہناتے ہوئے بولا:

’’تمھاری ڈائری میں نا ممکن کا لفظ موجود نہیں مگر میری ڈائری دیکھو اس میں ہر صفحے پر نا ممکن ہی نا ممکن لکھا ہے۔ میری زندگی تو نا ممکن کی عملی تصویر بن گئی ہے۔ میرے خاندان کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہونا۔ ہمارے اسلاف آخری عہدِ مغلیہ میں شاہی دربار سے وابستہ رہے ہیں۔‘‘

رانا مبشر نے جب اس عادی دروغ گو کی یہ بے ہودہ گفتگو سنی تو حیران رہ گیا، اس نے پوچھا:

’’آخری عہدِ مغلیہ میں تمھارے اسلاف شاہی دربار میں کن خدمات پر مامور تھے؟‘‘

گنوار انتھک نے مسکراتے ہوئے کہا ’’مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کی بیوی ملکۂ ہند لعل کنور میری دادی تھی۔ اسی زمانے میں نعمت خان کلانونت جو ملتان کا صوبے دار تھا وہ میری دادی کا چچا زاد بھائی تھا۔ قحبہ خانہ، چنڈ و خانہ اور عشرت کدہ چلانا سو پشت سے ہمارا پیشہ ہے۔ ہمارے خاندان کے اکثر لوگ جلاد تھے۔ وہ دربار میں شمشیر بہ دست آتے اور شاہی عتاب کا نشانہ بننے والے قسمت سے محروم مظلوموں کو کوڑے مارتے، ان کی آنکھیں، زبان، ہاتھ، پاؤں، کان یا گردن کاٹ کر قصر شاہی سے صادر ہونے والے احکامات کی تعمیل کرتے۔‘‘

رانا مبشر نے جب اس بز اخفش کی ہئیت کذائی پر غور کیا تو کہا:

’’الم نصیب انسانوں کے جسمانی اعضا کاٹنے و الے جلاد منش خاندان سے تعلق رکھنے والے درندے! اسی لیے تم اُن مظلوموں کی جیبیں کاٹتے پھرتے ہو جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ گنوار انتھک! تم جیسے کور مغز کو ہمیشہ اُلٹا ہی دکھائی دیتا ہے۔ تمھاری زبان آری کی طرح چلتی ہے مگر تم اُس ذوق سلیم سے عاری ہو جو بزرگوں کی خوشہ چینی کے لیے ناگزیر ہے۔ نکتہ چینی تمھار اوتیرہ ہے اور اس کے لیے جس حماقت، خست، خجالت اور جہالت کی احتیاج ہے اس میں تم یقیناً خود کفیل ہو۔ معاشرتی زندگی میں ضبط تولید کے بارے میں بہت تحفظات پائے جاتے ہیں مگر جب میں تم جیسے ذہنی قلاش کو دیکھتا ہوں تو ضبط تولید کے جواز کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔ مرزا محمد رفیع سوداؔ نے شاید تم جیسی نا خلف اولاد کے بارے میں کسی الم نصیب والد کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:

یارو مجھ سے تو لا ولد بہتر

میرا بیٹا اور اس قدر ابتر

گنوار انتھک کی بہن اور چور محل میں جنم لینے والی رذیل طوائف اشتباہ بنوری کا تعلق مکڑوال کے ایک شُوم ڈُوم گھرانے سے تھا۔ چور دروازے سے گھس کر زرو مال سمیٹنے والی اس پیشہ ور طوائف کے قحبہ خانے اور چنڈو خانے کی محفلوں اور عیاشیوں کی ہر طرف دھُوم تھی۔ اپنے معمولات کے بارے میں یہ رسوائے زمانہ جسم فروش طوائف یہ بات بر ملاکہتی کہ اس نے اپنی زندگی کے دو اصول بنا رکھے ہیں یا تو اپنی مطلوبہ چیز کاہر قیمت پر حصول یا پھر سب کچھ فضول۔ اشتباہ بنوری کی ماں قفس جانم پورے شہر کی بدنام نائکہ اور مکار مشاطہ تھی۔ قفس جانم کی لے پالک بیٹیوں ظلی، شباہت، پونم، سمی، شگن، شعاع اور گائتری نے منشیات، رقص و سرود اور جنس و جنون کے دھندے سے بہت زر و مال جمع کر لیا۔ شہر کے کئی نوجوان ان طوائفوں کی زلف گرہ گیر کے ایسے اسیر ہوئے کہ سب کچھ لٹوا کر کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ ان طوائفوں کے ہاتھوں لُٹنے والے ایک نوجوان رافع نے رانا مبشر کو اپنے دِلِ شکستہ کاحال بتاتے ہوئے کہا کہ اس خسیس رنڈی قفس جانم اور اس کے کوٹھے کی ہر حسینہ گشتی، کنچنی، تتلی اور ناچی کے رُوپ میں واردات کرتی ہے۔ ان کی حرص و ہوس نے اِس شہر ناپرساں کے سیکڑوں گھر بے چراغ کر دئیے ہیں۔ رافع نے روتے ہوئے کہا:

’’تیرہ سال کی عمر میں جب اشتباہ بنوری نے نتھ پہنی تو رنڈی نائیکہ قفس جانم نے مجھے جھانسہ دیا کہ وہ بہت جلد میری شادی اشتباہ بنوری سے کر دے گی۔ نتھ اُتراوئی کی ہوس کا اسیر ہو کر میں نے اپنے بوڑھے والدین کی زندگی بھر کی کمائی اور بیش قیمت طلائی زیورات ان کے قدموں میں ڈھیر کر دئیے۔ زیادہ بولی لگانے والوں کے ہاتھوں مجھے ہزیمت اُٹھانی پڑی اور میری آرزوئیں مات کھا کر رہ گئیں۔ اشتباہ بنوری اب اکتیس سال کی ہو چکی ہے اور یہ چمن ہزار مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔ ہر روز اشتباہ بنوری کی نئی نتھ اور قحبہ خانے میں بھڑووں کی نئی ستھ اب قفس جانم کا معمول ہے۔ اب اپنے شہر آرزو کی ویرانی کا ماتم کرنے کے لیے میں تنہا رہ گیا ہوں۔‘‘

مبشر رانا نے جب الم نصیب رافع کی باتیں سنیں تو اس نے اپنا دِل تھام لیا وہ سوچنے لگا کہ تھکی تھکی سی فضائیں اور مقدر کے بجھے بجھے سے تارے دیکھ کر عشاق کے دل پر جو کوہِ غم ٹُوٹتا ہے اس کے نتیجے میں عشاق کے خشک لبوں پر سانس اڑی رہتی ہے۔ مبشر رانا نے رافع کو دلاسا دیتے ہوئے کہا:

’’جس خاندان سے تمھارا پالا پڑا ہے اسے نو آبادیاتی دور میں ناقابلِ ضمانت جرائم کا ارتکاب کرنے کے عادی اور انتہائی خطرناک مجرموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کچہری میں جانے والوں کے لیے مقدمے میں وکیل کا خرچہ اور قحبہ خانے پہنچ کر رنگ رلیاں منانے والوں کو طوائف کی خرچی سب سے پہلے ادا کرنا لازم ہے۔ شادی مسی کی ہوس تمھاری کور مغزی، بے بصری اور خر مستی کا منھ بولتا ثبوت ہے، بیتے لمحات پر تمھاری چیخ پکار بے وقت کی راگنی ہے۔ آنے والے دنوں کی ابتلا اور آزمائش کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا چاہیے۔ اب تم صرف یہ دعا کرو کہ جو ر و جفا اور مکر و دغا کا یہ منظر بدل جائے اور بُرا وقت جلد ٹل جائے۔ عشاق کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اُنھیں ستیز کی رسم نبھاتے ہوئے قلزمِ جذبات کی تلاطم خیز موجوں سے ہراساں نہیں ہونا چاہیے بل کہ ساحلوں کے شبستانوں کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ وہ حرص و ہوس کے طوفانوں میں لنگر انداز ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔‘‘

قحبہ خانے کا موذی و سفلہ بھڑوا رمنو جو طویل عرصہ تک نائیکہ قفس جانم کا ملازم رہا وہ اچانک کہیں سے آ ٹپکا۔ اس نے بھی یہ سب باتیں سُن لیں وہ کفن پھاڑ کر ہرزہ سرا ہوا:

’’جب قفس جانم کا پاؤں بھاری تھا توساتویں مہینے ہیرا منڈی میں رقص و سرود کی محفل سجائی گئی۔ گردو نواح کے سب ڈوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، لچے، تلنگے، لچے، شہدے، اچکے، وضیع، رہزن، قزاق، رسہ گیر، اُٹھائی گیرے اور قزاق کچے دھاگے سے کھنچے چلے آئے۔ سب مست بادہ وجام تھامے بندقبا سے بے نیاز ہو کر داد عیش دیتے رہے۔ قفس جانم کے ہونے والے بچے کے والد کے نام کے بارے میں سوچا گیا۔ رقص کی اس یادگار محفل میں قرعۂ فال میرے نام نکلا۔ اس دعوت کے تین ماہ بعد جب اشتباہ بنوری پیدا ہوئی تو مجھے ہی اس نومولود طوائف زادی کا والد قرار دیا گیا۔ سچ کہتے ہیں کہ طوائف کا سنگ سدا باعثِ ننگ۔‘‘

رافع نے جب یہ جلی کٹی باتیں سنیں تواس نے گلو گیر لہجے میں کہا:

’’جھٹ منگنی پٹ بیاہ کا ڈھونگ رچا کر اشتباہ بنوری سے میری منگنی کر دی گئی اور گنوار انتھک کو میرا سالابنایا گیا۔ اب یہ حال ہے کہ اِن میں سے کوئی بھی میرے حالِ زبوں کی خبر نہیں لیتا۔ حیف صد حیف! اشتباہ بنوری کے آستانے سے میں ایسے بے نیلِ مرام اُٹھا جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔ ایک مرتبہ غیر مقبول اور نا معقول متشاعر بُوم صحرائی مجھے دیکھ کر یہ کہا تھا:

رافع اس طرح دھَن لُٹاتا ہے

مسخرا جیسے بن میں جاتا ہے‘‘

’’رافع! تم عقل کے اندھے اور گانٹھ کو پورے تھے اس لیے قفس جانم نے تمھیں چُلّو میں اُلّو بنا دیا۔ ہوش و خرد سے تہی لوگ اپنی ذات پر جو کاری ضرب لگاتے ہیں اُس کا زخم اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ اعدا کے وار بھی اس کی گرد کو نہیں پہنچتے۔‘‘ رانا مبشر نے کہا ’’کیسی واہیات باتیں کر رہے ہو؟ جسم فروش رذیل طوائف کسی ایک مرد کی شریک حیات اور بھڑوا کسی واحد شخص کا سالا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ ان خود غرض مفاد پرستوں کے سیکڑوں خودسر اہلِ ثروت کے ساتھ اس قسم کے مراسم ہوتے ہیں۔ قحبہ خانے کی طوائف پر زر و مال نچھاور کرنا کیکر پر انگور چڑھانے، صحرا میں بکھری ریت کو آب شیریں سے سیراب کرنے اور سنپولیے کو چُلّو میں دُودھ پلانے کے مترادف ہے۔ حیرت ہے تمھیں شرم و حیا، ظرف و ضمیر اور غیرت کو دریا برد کرنے والے پیشہ ور ٹھگوں سے وفا کی امید ہے۔ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے قفس جانم کے قحبہ خانے کی ہر طوائف کو چکی پیسنی پڑے گی۔‘‘

جب قحبہ خانے میں مندی کا رجحان دیکھا تو اشتباہ بنوری نے لُوٹ مار کے لیے نیا سوانگ رچایا اور قزاقستان کی جامعہ اجودھا میں داخلہ لے لیا۔ ایک شیخ چلّی قماش کامسخرا زنہار زناری اپنی جہالت کا انعام ہتھیا کر اس جامعہ کا شیخ الجامعہ بن بیٹھا۔ اس ابلہ کا مشیر تقدیر کا مارا سرابوں کے عذابوں میں اُلجھا ناہنجار برہمچاری اپنے ساتا روہن گھامڑ غلیل اور چوب دار تغاری اور رذیل طوائف اشتباہ بنوری کے تعاون سے پریوں کا اکھاڑا سجاتا اور زنہار زناری اس محفل رقص میں راجہ اِندر بن کر داد عیش دیتا تھا۔ قزاقستان کی جامعہ اجودھا میں ایک طالبہ کا سوانگ رچانے والی طوائف اشتباہ بنوری نے شرم و حیا کو غرقاب کر کے عجب گل کھلائے۔ مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے زمانے میں بد نام طوائف لال کنور اور اس کی ہم پیشہ وہم مشرب و ہم راز سہیلی زہرہ کنجڑن نے جس طرح لُوٹ مار کی اسی طرح اشتباہ بنوری اور اس کی رذیل جرائم پیشہ سہیلیوں نے جامعہ اجودھا میں منشیات اور جنس و جنوں کے تباہ کن دھندے میں ایسے خطرناک پھندے لگائے کہ اکثر طالب علم ان رسوائے زمانہ طوائفوں کے عشوہ و غمزہ و ادا کے اسیر ہو گئے۔ اشتباہ بنوری کی سات ہم پیشہ و ہم راز سہیلیوں میں شگن المعروف بیلے سٹار (Belle Starr)، سموں المعروف مول کٹ پرس (Moll Cutpurse)، ظلی المعروف اینے بونی (Anne Bonny)، شباہت المعروف شارلٹ کورڈے (Charlotte Corday)، شعاع المعروف میری صورت (Mary Surratt)، پونم المعروف ما بارکر (Ma Barker)، گائتری المعروف بونی واکر (Bonnie Parker) شامل تھیں۔ ان طوائف زادیوں نے سادہ لوح طالب علموں کو منگنی کے سبز باغ دکھا کر انھیں مفلس وقلاش کر دیا۔ قزاقستان کی جامعہ اجودھا میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اشتباہ بنوری اور اس کی ساتھی ساتوں گرگ منش سہیلیاں اپنے حسن و جمال کی سیڑھی استعمال کر کے بلند مناصب پر چڑھ دوڑیں۔ عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن، بُوم و شپر اور کرگس گھس گئے۔ مقتدر حلقوں نے بلند مناصب جس طرح اندھے کی ریوڑیوں کی طرح بلا امتیاز اپنے پروردہ نا اہل مسخروں میں بانٹے اس کے نتیجے میں ایسی افراتفری پیدا ہو گئی کہ گمان گزرتاکہ اس شہرِ بے چراغ میں جنگل کا قانون پوری شدت کے ساتھ نافذ ہے۔ جب اشتباہ بنوری نے جامعہ اجودھا میں تدریس شروع کی تو اہلِ درد تڑپ اُٹھے کہ اس قدر بلند مناصب پر کس قدر پست لوگوں نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ بونے اپنے تئیں باون گزے سمجھنے لگے، اجلاف و ارذال کے پروردہ مشکوک نسب کے سفہاکی پانچوں گھی میں تھیں۔ ان درندوں نے مجبوروں کے چام کے دام چلائے، کئی نوجوان طالب علموں اور ان کے ضعیف والدین کو بے دردی سے لُوٹا اور انھیں اس طرح فارغ کیا جس طرح ٹشو پیپر کو استعمال کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ان فریب خوردہ نوجوانوں کی حماقت کا کیا ٹھکانہ جو اپنی ہی خود رائی کا زخم کھاتے رہے اور لب اظہار پر تالے لگا کر اپنی خود فریبی کو مستحکم کرتے رہے۔

سادیت پسندی اشتباہ بنوری کی گھٹی میں پڑی تھی، وہ یہ بات نہایت ڈھٹائی سے کہتی کہ درد کے رشتے کی تاثیر اپنی جگہ صحیح ہے مگر مکر و فریب اور عیاری و مکاری سے کام لے کر کسی جن یابھوت کو اپنے ذاتی مفادات کی بوتل میں بند کرتے وقت کئی سخت مقامات آتے ہیں۔ اشتباہ بنوری کی راحتوں، مسرتوں اور عیاشیوں کے سوتے پیمان شکنی، احسان فراموشی، محسن کشی اور مکر و فریب سے پھُوٹتے تھے۔ اس کا ایک اور شکار رفحان تھا جسے اس ناگن نے ڈس لیا۔ رفحان کو اشتباہ بنوری کے بارے میں سب درشت، تلخ و تند واضح حقائق معلوم تھے مگر اس نے ان سب صداقتوں سے شپرانہ چشم پوشی کرتے ہوئے اِس عیار و مکار حسینہ سے پیمانِ وفا باندھ لیا اور یوں رفحان کی طرف سے اپنی ذات کو دھوکا دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس رومان کا نتیجہ بھی رفحان کے جی کے زیاں کی صورت میں سامنے آیا۔ سب کچھ لٹوا کے رفحان اپنے پڑوسی اور درد آشنا محسن مبشر رانا کے پاس پہنچا۔

مبشر رانا نے رفحان کی باتیں پوری توجہ سے سنیں اور کہا:

’’تم نے صحیح فیصلہ کرنے میں دیر کر دی۔ عملی زندگی میں ہمیشہ ہاتھی کی مثال سامنے رکھو جس کے کھانے کے دانت اور جب کہ چبانے کے دانت اور ہوتے ہیں۔ جب برادرانِ یوسف اور آستین کے سانپوں سے پالا پڑے تو کبھی اپنی حقیقت ظاہر نہ کرو۔ اپنی ذات کو اس وقت بے بس و لاچار اور نحیف و ناتواں ظاہر کرو جب تم پوری قوت، ثروت اور جاہ و جلال کے مالک ہو۔ اگر کبھی ایسا وقت آ جائے کہ سب اعضا مضمحل محسوس ہوں تو کسی کے سامنے اِس ضعفِ ناتوانی کا ہر گز اظہار نہ کرو ورنہ ہر طرف سے سیکڑوں مینڈک ٹراتے ہوئے، بے شمار گدھے ہنہناتے ہوئے اور سانپ تلے کے بچھو ڈنک اُٹھائے آگے بڑھیں گے۔‘‘

’’اشتباہ بنوری نے مجھے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔‘‘ رفحان کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برس رہی تھیں۔ اس نے آہ بھر کر کہا ’’اشتباہ بنوری کے عشرت کدے میں نسیم سحر بھی ہے صبا کے جھونکے بھی آتے ہیں مگر میری کٹیا تو اس چڑیل کی ہوا و ہوس کے شعلوں میں جل کر راکھ ہو چکی ہے۔ اس راکھ میں اب کچھ بھی نہیں بچا، میرے دل کے سب ارمان اس راکھ میں دفن ہو گئے ہیں۔‘‘

’’اس شہر نا پرساں میں ہر کوئی اپنی ہی فضا میں مست پھرتا دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات میں اشتباہ بنوری کی عیاری اور مکاری کا نشانہ بننے والوں کی چشمِ تر کی جانب کون دیکھے گا؟‘‘ مبشرر انا نے رفحان کو تسلی دیتے ہوئے کہا ’’نوجوان عشاق کے لیے تو اشتباہ بنوری برقِ نشیمن ہے۔ وہ تباہیوں اور بربادیوں کو پھیلانے کی ماہر ہے۔ محبت کی اداکاری، تکلف کی روا داری، جعلی خلوص و مروّت اور جھوٹے عہد و پیمان اس کی پہچان بن گئے ہیں۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ اشتباہ بنوری کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی تم جیسے لوگ اس کینہ پرور حسینہ کے کذب و افترا کے حسین جال میں پھنس جاتے ہیں۔‘‘

’’اشتباہ بنوری منافق، جعل ساز اور جفا کار ہے۔‘‘ رفحان نے روتے ہوئے کہا ’’اس منحوس طوائف زادی کے ساتھ محبت سے پہلے میرے پاس بے پناہ وسائل تھے اور زرو مال کی کمی نہ تھی مگر میری قسمت ایسی پھوٹی کہ اب تو میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچی۔‘‘

مبشر رانا نے نوجوان رفحان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا ’’منافق یقیناً بہت خطرناک ہوتا ہے۔ ایسا جو فروش گندم نما شخص زمین کا بوجھ بن جاتا ہے۔ اشتباہ بنوری نے ایک عادی دروغ گو طوائف ہے۔ ہر وقت جھوٹ بولنا اس کی زندگی کا دستور العمل ہے۔ دروغ گوئی، بے سر و پا الزام تراشی اور بہتان جیسے قبیح افعال ہی فریب کاری اور ٹھگی کے مذموم دھندے کو پروان چڑھاتے ہیں۔ تم خالق ارض و سما کی رحمت سے مایوس مت ہونا۔ وہاں دیر تو ہو سکتی ہے مگر اندھیر کا کوئی تصور ہی نہیں۔ یہ گلہری بہت جلد پہاڑ کے نیچے آ جائے گی۔‘‘

اشتباہ بنوری نے اکتیس برس کی عمر تک تاریخ زبان و ادب کا مطالعہ کیا لیکن عیاش طوائف زادی کی بے بصری، کور مغزی اور علمی بے بضاعتی کا یہ حال تھا کہ اس عرصے میں وہ علم و ادب کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو سکی۔ نہایت گھمنڈ سے دوسروں کی حرف گیری کرتے وقت وہ جن اصطلاحات پر انحصار کرتی ان میں حقیقت نگاری، تانیثیت، رد تشکیل، فطرت نگاری اور ساختیات شامل ہیں۔ اکثر لوگ جب اس طوائف زادی کو تھوتھے چنے کے مانند گھنا باجتے دیکھتے تو وہ اس کی شرم ناک بے ہودگی اور افسوس ناک جہالت پر گہرے رنج و کرب کا اظہار کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد زر کثیر خرچ کر کے جامعہ اجودھا کے نواح میں اشتباہ بنوری نے اپنا ورکنگ ویمن ہاسٹل بنا لیا اور خود ہی اس کی مہتمم بن گئی۔ اس ہونی کو دیکھ کر اہلِ درد نے کہا شہر کی طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین کو ایک رہائشی مخبوط الحواس اور فاتر العقل مہتمم دار الاقامہ کی خدمات بھی میسر آ گئیں۔

سادہ لوح لوگوں کو سبز باغ دکھا کر لُوٹنے کی ماہر اشتباہ بنوری کی دو بہنوں نے کالا باغ میں اپنی پسند کی شادی کر لی۔ اپنے بہنوئیوں کے لیے اشتباہ بنوری دیدہ و دِل فرش راہ کر دیتی اور ان کی ہر خواہش پوری کرتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اشتباہ بنوری نے خرچی کی کثیر آمدنی سے اتنی دولت جمع کر لی کہ لاہور میں اس کا بہت بڑا بنگلہ بن گیا۔ اس نے اپنی بہت بڑی کار خرید لی اور بن سنور کر ایسے باہر نکلتی جس طرح ایک آزمودہ کار اور کہنہ مشق شکاری شکار کے لیے باہر جاتا ہے۔

اشتباہ بنوری کے تیر ستم کھانے کے بعد جب رافع، رفحان، بشیر اور کرم دادنے اپنے اپنے آشیانوں کی راکھ کی طرف دیکھا تو دل تھام لیا۔ جس سمت بھی ان کی نظر اُٹھتی اشتباہ بنوری کے غرانے کی آواز سنائی دیتی۔ اشتباہ بنوری کی کرگسی آنکھیں پلک جھپکتے میں اپنا شکار تلاش کر لیتی تھیں یہی وجہ ہے کہ جوانی میں اُمنگوں کی ترنگوں نے انھیں فریب کھانے پر مجبور کر دیا۔ مبشر رانا کی باتیں اب انھیں یاد آ رہی تھیں جب اس نے کہا تھا کہ اس دنیا میں دھوکا کھانے کے آرزو مند احمقوں کی کمی نہیں ایک کو ڈھونڈنے نکلو ہزار ہا فریب خوردہ خبطی راہ میں ملیں گے۔ کرگسوں کے نرغے میں پلنے والے عقاب بھی رہ و رسم شہبازی فراموش کر دیتے ہیں اور اپنا رزق حشرات الارض کے مانند خاکِ راہ میں تلاش کر کے خجل ہوتے ہیں۔ اشتباہ بنوری کے ہاتھوں لٹنے والے سب الم نصیب اکثر مل بیٹھتے اور ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کر کے آہ و زاری کر کے تزکیۂ نفس کی کوئی صورت تلاش کرتے۔ ایک شام یہ سب جگر فگار اکٹھے بیٹھے غم جہاں کاحساب کر رہے تھے کہ اشتباہ بنوری انھیں بے حساب یاد آئی۔ اسی اثنامیں رانا مبشر کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے جب ان سب تباہ حال لوگوں کو دیکھا تو انھیں دلاسادینے کے لیے وہاں پہنچا۔ رفحان نے آہ بھر کر کہا:

’’ہم نے کسی پرانے آشنا کو کبھی دھوکا نہیں دیا بل کہ سدا اپنے محبوب سے دھوکا کھا کے برباد ہوئے۔ دغا باز سے دھوکا کھانے کے بعد اس سے ساز باز کرنا بزدلی کی دلیل ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمارے قریۂ جاں میں بھڑکنے والی انتقام کی آگ کے شعلے ہمیں بھسم کر دیں آئیے انتقام کی آگ کے اُن شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کے بارے میں سوچیں۔‘‘

رافع نے کہا: ’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ضعفِ بصارت کے اس دور میں دھوکا دینا اور دھوکا کھانا عام سی بات ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں آئندہ ہمیں کسی پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہم ہر شخص کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہو جائیں توہم پھر کبھی دھوکا نہیں کھائیں گے۔‘‘

اشتباہ بنوری کے ہاتھوں لٹنے والے کرم داد نے کہا: ’’تم سچ کہتے ہو دنیا کا یہ دشتِ پر خار خطرناک ٹھگوں سے بھرا ہوا ہے۔ جس طرف دیکھو جعل ساز، شعبدہ باز، پینترے باز، رمال، جوتشی، عامل، نجومی، جنتر منتر کے ماہر، طوطے کی مدد سے فالنامہ دکھانے والے، پیرا سائیکالوجی اور مابعد الطبیعات کے ماہر نت نئے سوانگ رچا کر ضعیف العتقاد لوگوں کی آنکھوں میں دھُول جھونک کر انھیں اُلّو بناتے ہیں اور اپنا اُلّو سیدھا کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔‘‘

رافع نے گلو گیر لہجے میں کہا: ’’افسوس کہ ہم اپنی اوقات کو بھول گئے اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کے بارے میں کبھی نہ سوچا۔ ماضی میں ہمارا واسطہ جن چور، اچکے، ٹھگ، لٹیرے اور بد معاش لوگوں سے پڑتا رہا ہے یہ در اصل اپنے اپنے پیشے اور کاروبار کے ماہر تھے۔ ان کے کاروبار کی کوئی حد ہی نہیں، یہ ننگ انسانیت درندے بازاروں میں بیٹھ کر اپنا کاروبار نہیں چلاتے بل کہ ہر گوٹھ، گراں، شہر، قصبے اور گزرگاہ پر انھوں نے دکان کر لی ہے جہاں لٹنے پر کمر بستہ لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہ ہماری سادگی ہے کہ ہم ان سے دھوکا کھا کر بھی ان سے انتقام لینے کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچتے۔ رانا مبشر تم کوئی بات کیوں نہیں کرتے؟ کیا تمھیں ہماری اور اشتباہ بنوری کی کوئی نئی بات معلوم ہو گئی ہے؟‘‘

رانا مبشر نے توجہ سے یہ سب باتیں سن کر کہا: ’’تم نے بلاشبہ بہت ظلم سہے ہیں، تمھارے دِلِ حزیں میں ظالموں سے بدلہ لینے کی جو خواہش پیدا ہوئی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تم نے سمے کے سم کے ثمر کا ذائقہ چکھنے کے بعد اس کی تلخی کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ ماضی میں تمھیں جن لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا تمھارا ذہن اس کرب اور جان لیوا صدمے کے اثرات کو فراموش کرنے پر رضا مند نہیں۔ غیظ و غضب کے عالم میں اس وقت انتقام کے بارے میں سوچناخود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کرنے کے مترادف ہے۔ تمھارا واسطہ ذلت و تخریب کی پستی میں گرے بد معاشوں سے پڑا ہے مگر میں تمھیں یہی کہوں گا کہ تم ان کی سطح تک ہر گز نہ گرو۔‘‘

رافع نے کہا: ’’بدمعاشوں سے اُن کے مظالم اور شقاوت آمیزنا انصافیوں کا بدلہ لینے کے لیے ان کی زبان میں بات کرنی چاہیے۔ انھیں اپنے عمل کا حساب دینا پڑے گا یہی اصولِ فطرت ہے کہ انھیں نمونۂ عبرت بنا دیا جائے۔‘‘

رفحان نے اپنے دیرینہ ساتھی رافع کی بات سنی تو اثبات میں سر ہلایا اور کہا: ’’ہم اتنے دانا ہر گز نہیں کہ جو صدمے ہم پر گزرے ہیں انھیں نظر اندازکر دیں اور نہ ہی اس قدر قوی کہ ان لوگوں کو معاف کر دیں جن کی بداعمالیوں کے باعث ہم پر کوہِ ستم ٹوٹا۔ ہماری کم زوری، خستگی اور شکستگی ہمیں مجبور کر ہی ہے کہ ہم ہر ظالم پہ لعنت کریں اور اسے کیفر کردار تک پہنچائیں۔‘‘

رانا مبشر نے جب یہ دیکھا کہ ہجومِ یاس میں گھرے یہ سب لوگ اب کسی نصیحت پر کان نہیں دھرتے تو اس نے آخری بار آہ کر کے خود سے نباہ کر لی اور بولا:

’’تم نے ناحق اپنی جان جوکھوں میں ڈالی اور اشتباہ بنوری کی صورت میں ایک بلا اپنے سر لی اور یوں اپنی حالت تباہ کر لی۔ اب اپنے ہاتھ میں سپر تھام کر عدو کے ہر وار کو روکو۔‘‘

رانا مبشر کے جانے کے بعد اشتباہ بنوری کے ڈسے ہوئے سب الم نصیب دیر تک سرگوشیاں کرتے رہے اور اپنے مستقبل کے منصوبوں پر غور کرتے رہے۔

پانڈی وال میں گنوار انتھک کی شادی کی تقریب کے موقع پر کھلے میدان میں شامیانے لگا کر ایک محفل موسیقی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شادی کی اس تقریب میں رقص مے اور سازکی لے کو تیز تر کرنے کے وسیع انتظام تھے۔ مضافاتی دیہات و قصبات سے سب بھڑوے، لچے، تلنگے، شہدے اور مسخرے یہاں عیاشی کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے۔ مہمانوں کی پر تکلف ضیافت کی گئی اور سب مہمان مے انگبین سے جی بھر کر سیراب ہوئے۔ اشتباہ بنوری، اس کی ماں قفس جانم اور اس کے قحبہ خانے کی طوائفیں ظلی، شباہت، پونم، سمی، شگن، شعاع اور گائتری نیم عریاں لباس پہن کرسٹیج پر موجود تھیں۔ سب طوائفوں نے بیش قیمت طلائی

زیورات پہن رکھے تھے۔ سب سازندے موسیقی کی دھنیں بجا رہے تھے۔ سٹیج پر قفس جانم کے قریبی رشتے دار اور بھڑوے بھی پان کی جگالی کرر ہے تھے۔ سٹیج سے بیس گز کے فاصلے پر پنڈال میں تماشائی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ کچھ فاصلے پر بُور لدے چھتنار اور پرانے درختوں کے جھنڈ تھے وہاں سے نکل کر کئی اُلّو اور اُلّو کے پٹھے بھی پنڈال کے گرد منڈلا رہے تھے۔ ستارے آسمان پر چمک رہے تھے، کبھی کبھی بجلی چمکتی تومحسوس ہوتا کہ کوئی حادثہ ہونے والا ہے۔ محفل رقص و موسیقی کے آغاز سے چند لمحے پہلے سٹیج کے بالکل قریب ہی ایک آٹو رکشا رکا اور تین نوجوان رکشے سے نکل کرپنڈال کے آخری کنارے پر دُور سٹیج کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے۔ اشتباہ بنوری کے پہلے گیت سے محفل موسیقی کا آغاز ہوا۔ اشتباہ بنوری نے دُور کھڑے رافع کی طرف اشارہ کر کے جھومر ڈالی اور گیت کے بول ہوا میں گونجنے لگے:

ساری رات تیر اتکیا میں راہ ایہناں تاریاں توں پچھ چن وے

وے میں تیرے پچھے ہوئی ہاں تباہ ایہناں ساریاں توں پچھ چن وے

ترجمہ:

راہ دیکھی میں نے شب بھر تیری تارے دیں گے گواہی

محفل کے سب لوگ ہیں شاہد تُو نے کر دی میری تباہی

سٹیج کے بالکل قریب کھڑے آ ٹو رکشا میں اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پورے سٹیج کے پر خچے اُڑ گئے۔ سٹیج پربھڑکنے والی آگ کے شعلے دیکھ کر پنڈال میں بیٹھے لوگ اپنی جان بچانے کے لیے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے۔ سٹیج پر براجمان سب بھڑوے، طوائفیں، رقاصائیں، تتلیاں، کنچنیاں اور کٹنیاں قیامت خیز آگ کے مہیب شعلوں کی زد میں تھیں۔ اگلی صبح جب آگ بجھانے کے لیے لوگ پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ ہر طرف راکھ ہی راکھ تھی جس سے سڑے ہوئے گوشت کی بد بو کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے۔ کچھ حریص اور طالع آزما لوگ ملبے کی راکھ کو کریدنے لگے۔ اچانک یہ آواز سن کر سب لوگ سہم گئے:

جلا ہے جسم جہاں زر بھی جل گیا ہو گا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

٭٭٭





















مشتبہ بانوری



مکڑوال کی نواحی بستی جنجال پورہ پر ایسا وبال آیا کہ رسوائے زمانہ نائکہ قفسو اور اس کی لے پالک رذیل جسم فروش طوائف بیٹی مشتبہ بانوری، صبوحی، ثباتی، ظلی، سمن اور گوشی نے یہاں اپنا قحبہ خانہ اور چنڈو خانہ بنا لیا۔ کالا باغ اور گرد و نواح کے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر لُو ٹنا ان پیشہ ور ٹھگوں کا وتیرہ تھا۔ لُٹے پٹے فریاد کناں جگر فگاراں اور انبوہ بادہ خواراں کو دیکھ کر لوگ دل تھام لیتے۔ کالی دیوی کی پجارن قفسو کے قحبہ خانے اور چنڈو خانے پر ہر دانگ ذلت، نحوست، بے ضمیری، بے غیرتی، بے حیائی، بے توفیقی اور لعنت و ملامت کی کالی گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ وہ اپنے متوالوں کو چُلّو میں اُلّو بنا کر اپنی راہ لیتیں اس کے بعد الم نصیب عشاق رختِ دل باندھے اَپنے زخموں کے ایاغ تھامے تن پہ ردائے حسرت و یاس اوڑھے در بہ در اور خاک بہ سر ٹھوکر پر ٹھوکر کھا کر گھومتے رہتے مگر کوئی بھی ان الم نصیبوں کے دلِ شکستہ کا حال نہ پوچھتا۔ نائکہ قفسو اور اس کی لے پالک بیٹی طوائف مشتبہ بانوری نے بے شمار افراد کو اپنی بے حسی کی دیوار میں زندہ چنوا دیا۔ جہاں سے اس رذیل جسم فروش طوائف کی اذیت ناک منافقت، سادیت پسندانہ سفاکی، درندگی کی مظہر محسن کشی، توہین آمیز پیمان شکنی اور شقاوت آمیز نا انصافی نے جست کی بلاکشانِ محبت کا عزم اور صبر و تحمل اس سے کہیں آگے نکل گیا۔

کرم داد قلی اگرچہ ان طوائفوں کے قبیح کردار اور کریہہ صورت سے کلی طور پر بے تعلق رہتا تھا پھر بھی وہ ان کے بارے میں کہتا کہ غرورِ سرو وسمن بالکل عارضی ہے۔ کرم داد قلی ان رذیل طوائفوں کے ایفائے عہد اور پیمان وفا کو محض داستان قرار دیتا تھا۔ کرم داد قلی گلو گیر لہجے میں کہتا کہ اگر ان رذیل طوائفوں کی رعونت کا یہی حال رہا تو وہ کاہ اور خار و خس جو اِن سے پہلے اس گلشن میں من مانی کرتے تھے پھر سے وہی ابلہ رو سیاہ یہاں سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھیں گے۔ مصائب و آلام کا دریا پایاب نہیں، اِن جیسی کور چشم کرگسوں کے لیے عدم کے گرداب اور زندگی کے سراب سے بچ نکلنا کٹھن مرحلہ ہے۔ مشتبہ بانوری جب بارہ سال کی ہوئی تو اس نے اپنی ماں کے قحبہ خانے میں دھندے کا آغاز کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے گلو کاری اور رقص میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ اس کے قحبہ خانے میں ہر وقت تماشائیوں کا تانتا بندھا رہتا۔ اس کی خرچی کی کمائی اور پرچی کی دہائی کے ہر طرف چرچے تھے۔ یہ پیشہ ور طوائف زادی کئی رُوپ دھار لیتی۔ دن کے وقت جب وہ منشیات فروشوں کی شہ پر ایک طالبہ کا سوانگ رچا کر کسی تعلیمی ادارے میں پہنچتی تو سب لوگ دنگ رہ جاتے۔ شام ہوتے ہی مشتبہ بانوری سولہ سنگھار کر کے قحبہ خانے میں دادِ عیش دیتی تھی۔ وصل کے لمحات سے فا رغ ہونے کے بعد مشتبہ بانوری نے نہا کر جب بھی بال باندھے تو اس کے پرستاروں نے اس نوجوان، نیم عریاں اور مست حسینہ کو دیکھ کر اپنے دِلِ نا کردہ کار میں کیا کیا خیال باندھے۔

زلف لٹکا کے جس دم وہ سرِ بازار چلے

سب نے یہ حال دیکھ کر کہا مار چلے مار چلے

مشتبہ بانوری ایسی ناگن تھی جس کا ڈسا پانی بھی نہں مانگتا تھا۔ مشتبہ بانوری کے ہاتھوں لُٹنے والے ایک نوجوان رافع نے بتایا:

’’اگر خوابوں کا کوئی صورت گر پیمان شکنی، دغا و دُزدی، عریانی و فحاشی، جنسی جنون، تخریب و تحریص، محسن کُشی، طوطا چشمی، قزاقی و چالاکی اورناز و ادا کی غارت گری کی تجسیم کا معجز نما کرشمہ دکھا سکے تو جو کریہہ صورت سامنے آئے گی وہ مشتبہ بانوری سے مماثل ہو گی۔ میں اپنی بربادی کو قسمت یا تقدیر کے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ مشتبہ بانوری نے محبت کی اداکاری اور اس کی ماں قفسو نے تکلف کی روا داری سے مجھے اس طرح مد ہوش کیا کہ میرا ہوش جاتا رہا۔‘‘

مشتبہ بانوری کے ڈسے ہوئے ایک اور عاشقِ نامراد سارق عطائی نے کہا:

’’اس چڑیل زادی خون آشام ڈائن نے میری زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ میرے دل کے گلشن میں جہاں لالہ و گُل اور سر و صنوبر کی فراوانی تھی ان کی غارت گری کے بعد اب وہاں اب تھوہر، زقوم، پوہلی اور کسکوٹا کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ مشتبہ بانوری کے قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں مے ارغوانی کی فراوانی ہے مگر میری نادانی ہی میری سوختہ سامانی کا سبب بن گئی۔‘‘

شہر خموشاں میں منشیات فروشوں کو ہیروئن، افیون، چرس، بھنگ، کوڈین اور مارفین کی فراہمی بھی قفسو اور مشتبہ بانوری مافیا نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ حسبِ معمول اس بارقفسو اور مشتبہ بانوری رقم کی وصولی کے لیے جب شہرِ خموشاں کے ایک مقررہ گوشے میں پہنچیں تو وہاں مبشر نامی ایک ضعیف معلم ایک نئی قبر کے کنارے نصب کتبہ پڑھ رہا تھا۔ ضعیف معلم مبشر کا نوجوان بیٹا ساجد چھے جولائی دو ہزار سترہ کو حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث اُسے دائمی مفارقت دے گیا۔ ضعیف معلم کو یوں محسوس ہوا جیسے اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اُس کے لرزتے جسم کا آدھا حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غم و آلام کے بادل تو چھٹ جاتے ہیں مگر دائمی مفارقت دینے والے ہمارے جسم سے کٹ کر جو زخم دے جاتے ہیں اس زخم کا اندمال کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ اس کے جسم سے کٹ کر الگ ہو جانے والا آدھا حصہ جسے سپردِ خاک کر دیا گیا تھا وہ تو کبھی اپنی جگہ پر واپس نہیں آ سکتا۔ ساجد زندہ تھا تو ضعیف معلم مبشر سدا بیٹے کو دعائیں دے کر رخصت کرتا۔ وہ اپنے بیٹے کو یہ باور کراتا کہ جس وقت سورج سوا نیزے پر آ جائے تو اس وقت ضعیف والدین کی دعائیں اپنی اولاد کے لیے راحت اور سکون کی رِدائیں بن کر کڑی دھُوپ سے بچاتی ہیں۔ مگر گردشِ ایام کے نتیجے میں اب اس کی آہ و فغاں صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی تھی۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے مبشر کو کچھ کرنے ہی نہ دیتے تھے۔ یاس وہراس کے اس عالم میں وہ موت کی تمنا کرتا تو رفتگاں کی یاد کے صدمے اسے مرنے بھی نہ دیتے تھے۔ اس سانحہ کے بعد شہرِ خوگر کیا بدلا سارا منظر اور اس کے ساتھ ہی سوچ کا محور ہی بدل گیا۔ پرِ زمانہ کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ یہ پروازِ نور سے کہیں بڑھ کر تیز ہے۔ ہونی چپکے چپکے اپنا کام کر جاتی ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اِس کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب صدموں کے گرداب میں پھنسے انسان کا کام تمام ہو جاتا ہے۔ اپنے نوجوان بیٹے کی لحد کے کنارے کھڑا ضعیف معلم مبشر گلو گیر لہجے میں ندا فاضلی کی یہ نظم پڑھنے لگا:

بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے

وہ تمھاری

لغزشوں، ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے

مری آواز میں چھپ کر

تمھارا ذہن رہتا ہے

مری بیماریوں میں تم

مری لا چاریوں میں تم

تمھاری قبر پر جس نے تمھارا نام لکھا ہے

وہ جھُوٹا ہے

تمھاری قبر میں مَیں دفن ہوں

تم مجھ میں زندہ ہو

کبھی فُرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا

نوجوان بیٹے کی الم ناک وفات کے بعد اپنی باقی زندگی سیہ بختی کے اعصاب شکن سائے میں کاٹنے والے بوڑھے معلم مبشر نے تباہی کی طرف ایک قدم اور بڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔ ضعیف معلم مبشر نے اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے مشتبہ بانوری کو دیکھ کر کہا:

’’گڑیا! تم کس قدرحسین، مودب، شائستہ اور سادہ ہو۔ میرا جی چاہتا ہے اپنے ننھے طالب علم بیٹے سے تمھاری شادی کر کے تمھیں اپنی بہو بنا لوں۔‘‘

مشتبہ بانوری نے بوڑھے کی بات سنی تو لیپا پوتی سے نکھرے ہوئے اس کے کریہہ چہرے پر کبر و نخوت کے سائے بڑھنے لگے۔ وہ تلملاتی ہوئی دُور جا کھڑی ہوئی اور ضعیف معلم مبشر کی طرف حیرت سے دیکھنے لگی۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ اس بوڑھے میں دھو کا کھانے کی صلاحیت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے۔ اب وہ اپنا نیا شکار آسانی سے پھانس لے گی۔

نائکہ قفسو پان چبا رہی تھی اس کے ساتھ ہی اس کے منھ سے جھاگ بھی بہہ رہا تھا وہ جب وہ تھوک اُگلتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ ابھی کسی مظلوم انسان کا خون پی کر یہاں آئی ہے۔ اس خون آشام سفاک ڈائن نے اپنی کالی زبان باہر نکالی اور ہرزہ سرا ہوئی:

’’میری بیٹی گڑیا نہیں یہ تو آفت کی پڑیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سے تم نے اپنی دولت پر سانپ بٹھا رکھا ہے۔ تمھارے پاس تیس لاکھ روپے ہیں مگر تم نے ان میں سے اب تک کچھ خرچ نہیں کیا۔ تم جیسے بخیل کی سیوا کون کرے؟ تمھارا کوئی نام لیوا یا پانی دیوا نہیں مگر تم چکنے گھڑے بنے بیٹھے ہو۔‘‘

’’ہمارے یہاں تو جھٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات ہے۔‘‘ مشتبہ بانوری نے اکڑ کر چلتے ہوئے کہا ’’اگر تم میرے اخراجات برداشت کر سکتے ہو تو مجھے فوراً اپنی بہو بنا لو۔ میرے پسندیدہ لباس کا اندازہ اس بات سے لگا لو کہ جرمنی سے در آمد کی ہوئی السیشن کی کھال سے بنی ہوئی یہ جیکٹ جو میں نے اس وقت پہن رکھی ہے اس کی قیمت دس ہزار روپے ہے۔ میرا صرف ایک مکمل پہناوا دو لاکھ روپے میں تیار ہوتا ہے۔ میرے لیے کم از کم دس پہناوے تو منگنی کے لیے لانے پڑیں گے۔ میرے لیے دو کلو سونے کے زیورات، ہیرے، جواہرات اور ہاتھی دانت کے جڑاؤ والی روپہلی اور طلائی پازیب بھی تم مہیا کر گے۔ مجھے شادی کا تحفہ رولز رائس سیوپ ٹیل (Rolls Royce Sweptail) کار دینی ہو گی۔ اگر مجھ جیسی بہو کی تلاش میں تم اپنے دِل کا چراغ جلاؤ گے تو پھر بھی مجھے کہیں نہ پاؤ گے۔‘‘

یہ باتیں سن کر ضعیف معلم نے چپ سادھ لی اور اپنی حالت زار کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس کی پر اسرار خاموشی لفظ لفظ پھیلتی جا رہی تھی۔ اس کی بے زبانی بھی ایسی زبان بن گئی تھی جسے سن کر رذیل طوائف مشتبہ بانوری نے اپنی نائکہ ماں قفسو سے کہا:

’’یہ الم نصیب ضعیف معلم جوہمارے سامنے خاموش کھڑا ہے میں اِسے اچھی طرح جانتی ہوں۔ یہ اپنے عہد کا بہت بڑا نقاد، محقق، ادیب اور مورخ ہے۔ اپنی زندگی میں مہتاب کو دھمکانا اور خورشید جہاں تاب کو آنکھیں دکھانا اس مورخ کا شیوہ رہا ہے۔ میں اس وقت ایتھوپیا کی جس جامعہ میں ایم۔ فل سطح کا تحقیقی کام کر رہی ہوں یہ معلم اس میں میری مدد کر سکتا ہے۔‘‘

’’تمھارے باپ کی بیماری کے بعد سے ہمیں بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔‘‘ قفسونے مگر مچھ کے آ نسو بہاتے ہوئے کہا ’’تمھارے باپ کو منشیات، سمگلنگ، جنس و جنوں اور بردہ فروشی سے کالا دھن کمانے میں کمال حاصل تھا۔ قحبہ خانے کی سب رونقیں اس کے دم سے تھیں، اس کی بیماری ہمارے لیے ذلت و خواری کا باعث بن چکی ہے۔ دہائی ہے کہ تمھاری بڑھتی ہوئی عمر اور قحبہ خانے کی گھٹتی ہوئی خرچی کی کمائی پر لوگ انگشت نمائی کرنے لگے ہیں۔‘‘

یہ سنتے ہی مشتبہ بانوری کے مزاج میں تبدیلی آ گئی اور ضعیف معلم کے ساتھ احتیاج کے خلوص اور تقاضوں کے مظہر سلام دعا تک نوبت آ پہنچی۔ مشتبہ بانوری اپنے پرستاروں کو چُلّو میں اُلّو بناتی اور اپنی عیاری پر خوب اِتراتی اور ہر وقت ہنہناتی رہتی۔ اس کی سفاکانہ لوٹ مار اور جذباتی استحصال نے کئی گھرانے بے چراغ کر دئیے۔ قحبہ خانے میں اس عیار طوائف کی لُوٹ مار پر شہر کا شہر خاموشی میں ڈُوبا ہوا تھا۔ ناز و ادا سے شمشیر وسناں کا کام لینے والی اس چڑیل کی خون آشامی کو دیکھ کر بڑے بڑے ستم گر بھی محوِ حیرت تھے کہ کہنہ مشق اور جہاں دیدہ لوگ آخر کیوں اپنا زر و مال اور زندگی بھر کا اندوختہ اس قاتل حسینہ کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں۔ ضعیف معلم مبشر کے قریب جا کر مشتبہ بانوری نے رازدارانہ لہجے میں کہا:

’’نوجوان بیٹے کی الم ناک موت نے تمھاری زندگی کے شب و روز کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے تمھارا شہر آرزو مکمل طور پر منہدم ہونے کے بعد اب کھنڈرات کا منظر پیش کرر ہا ہے۔ میں غیر مشروط طور پر تمھاری بہو بننے کے لیے تیار ہوں مگر اس کے لیے تمھیں میری مدد کا وعدہ کرنا ہو گا۔‘‘

’’میں اپنی جان پر کھیل کر تمھاری مدد کے لیے تیار ہوں۔‘‘ ضعیف معلم نے اپنی عرق آلود پیشانی کو صاف کرتے ہوئے کہا ’’تمھارے باپ نے مجھے بتایا ہے کہ تم بہت سعادت مند لڑکی ہو اور جب تم میری بہو بن کر میرے گھر میں پہنچو گی تو میرے گھر کے اُداس بام و در مسکرا اُٹھیں گے اور تقدیر کے زخم سہنے والے ہم مجبوروں کا گھر جنت کانمونہ بن جائے گا۔‘‘

’’میں برصغیر کے نوآبادیاتی دور کے موضوع پر جامعہ ایتھوپیا سے ’’دکن اور دہلی کے تہذیبی، ثقافتی اور لسانی ارتقا‘‘ کے موضوع پر تحقیق کر رہی ہوں۔‘‘پیشہ ور طوائف اور عیار حسینہ مشتبہ بانوری نے اپنے میلے دانت پیستے ہوئے کہا ’’چار سو صفحات پر مشتمل یہ تحقیقی مقالہ لکھنے میں اب صرف ایک ماہ باقی رہ گیا ہے۔ میرے پاس اس وقت دنیا جہان کی راحتیں اور مسرتیں موجود ہیں تم اپنی خاک کو دیکھو کہ اس میں کچھ بچا بھی ہے۔ میں اس وقت کمانے والی لڑکی ہوں اور دنیاکو پڑھا رہی ہوں مگر تمھارا بیٹا ابھی ایک جامعہ میں پڑھ رہا ہے۔ میرا تحقیقی مقالہ لکھنا تمھارے بائیں ہاتھ کا اور تمھارے زیر تعلیم بیٹے کے ساتھ شادی کا پروانہ لکھنا میرے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ میرے بارے میں چنڈو خانے کے پیرِ مغاں نے یہ بات بر ملا کہی تھی۔

موسمِ دار جب بھی آیا پیرؔ

مشتبہ ہی کے سر پہ بار آیا

’’میں اس معاملے میں اپنے اہلِ خانہ اور معتمد ساتھیوں سے مشورہ کروں گا۔‘‘ ضعیف معلم مبشر نے آہ بھر کر کہا ’’یہ سچ ہے کہ تم نے اپنے مکر کی چالوں سے سادہ لوح لوگوں کو جی بھر کے لُوٹا ہے اور تمھیں ہرقسم کی عیش و عشرت کے فراواں مواقع میسر ہیں۔ ایک کام ضرور کرو اگر ممکن ہو تو کسی دانائے راز سے ضمیر کی دولت، انا کا بھرم اور ہوش وخرد کی متاع بے بہا میں سے کچھ مستعار لے لو اس لیے کہ تمھارے خاندان کے سب افراد کا دامن ان بیش بہا جواہر سے بالکل تہی ہے۔‘‘

مشتبہ بانوری نے معمر معلم کو گھُورتے ہوئے نفرت اور حقارت بھرے لہجے میں کہا ’’تمھاری لا محدود خواہشوں کا طلسم تمھیں سرابوں کے عذابوں اور خرابوں کی بھینٹ چڑھا دے گا۔ جب تمھارے موہوم خواب ٹُوٹیں گے تو اِس کے ساتھ ہی تمھاری گردن بھی ٹُوٹ جائے گی۔ میں دیکھتی ہوں تم کس طرح میری بات نہیں مانتے؟ تم مجھے قلم زد کرنے کے بعد یہ مت بھولو کہ تم نہ صرف اپنے آپ کو بل کہ اپنی تمناؤں اور خوشیوں کو بھی رد کر رہے ہو۔‘‘

’’تم مشورے کرتے رہو لیکن فیصلہ تو ہم نے ہی کرنا ہے۔‘‘ قفسو نے کھسیانی بلی کے مانند کھمبا نوچتے ہوئے کہا ’’تمھاری غیر معمولی احتیاط جو تمھاری بساط سے بھی بڑھ گئی ہے تمھیں لے ڈوبے گی۔ ہم تو خوشیوں کے گل ہائے رنگ رنگ تمھاری جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں مگر تم اپنے دامن میں خار مغیلاں بھرنے پر تُل گئے ہو۔ میری لے پالک بیٹی مشتبہ بانو تو صحرا کی حور ہے۔ آج اُس جیسی کوئی لڑکی کہیں موجود نہیں اور پھول بھی اس کے قدموں کی دھُول ہیں، تم کس شمار میں ہو؟۔‘‘

’’تم اس معاملے میں مجھ سے بلاوجہ اُلجھ رہی ہو۔ میں کسی صورت میں جعل سازی، سرقہ اور چربہ سازی کے قبیح کام میں شریکِ جرم نہیں بن سکتا۔‘‘ مبشر نے نہایت تحمل سے قحبہ خانے کی ان طوائفوں کی باتیں سن کر کہا ’’جاہل کو اس کی جہالت کا انعام دینا وقت کا ایسا سانحہ جسے کسی بھی نام سے تعبیر کرنا بہت مشکل ہے۔ میرے نزدیک حسنِ صورت کے بجائے حسن سیرت کو مستقل حیثیت حاصل ہے جو روح اور قلب کو ابد آشنامسرتوں سے آشنا کرتی ہے۔ اپنی بیٹی کے حسن و جمال کی باتیں کر کے تم مجھے مرعوب نہیں کر سکتیں۔ جون ایلیا نے سچ کہا تھا:

نہ کرو بحث ہار جاؤ گی

حسن اتنی بڑی دلیل نہیں

’’اونہہ! حسن ہی اس دنیا کی سب سے بڑی اور کارگر دلیل ہے۔‘‘ مشتبہ بانوری نے اپنے منھ سے بہنے والے جھاگ کو اپنی بغیر آستین کی قمیص کے دامن سے صاف کرتے ہوئے کہا ’’یہ حسن ہے جس نے قیس کو جنگل میں مار ڈالا، فرہاد کو تیشے سے ہلاک کر دیا اور مہینوال کو دریائے چناب میں ڈبو دیا۔ اب لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کہ ہار کس کا مقدر بنتی ہے؟ حالات ایسا رخ اختیار کریں گے کہ تم سو پیاز بھی کھاؤ گے اور ساتھ ہی سو جوتے بھی تمھاری پیٹھ ہی پر برسیں گے۔‘‘

مشتبہ بانو ری بڑبڑاتی ہوئی اپنی نائکہ ماں کے ساتھ مل کر وہاں سے چلی گئی۔

دھیرے دھیرے مبشر کے رگ و پے میں ایسا روگ سرایت کر گیا جس نے اس کے فکر و خیال کی وادی کو ویران کر دیا۔ اس کے دِل کی بستی سُونی سُونی سی ہو گئی۔ شہر ناپرساں کے لوگ تقدیر کے مارے اس سہمے سہمے شخص کے روگ سمجھتے تھے۔ وہ اس کے پاس مرہم بہ دست آتے مگر اپنی چبھتی ہوئی باتوں سے کچھ اور سِوا اس کا دِل دُکھا کر چلے جاتے۔ آرزوؤں کے سائیں سائیں کرتے گھنے جنگل میں مبشر نے جب بھی احباب کو مدد کے لیے پکارا اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی۔ اُس کے دلِ شکستہ کی چِتا کے شعلے بلند ہو رہے تھے مگر کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ گردشِ ایام کے نتیجے میں حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ اس بھری دنیا میں وہ اپنی جان لیوا تنہائیوں اور حسرتوں کا سوگ منانے کے لیے تنہا رہ گیا تھا۔

قفسو نے اپنی لے پالک بیٹی مشتبہ بانوری کو سمجھایا کہ بوڑھا مبشر بچ کر نہ جائے۔ اس کے پاس تیس لاکھ کی رقم موجود ہے جواس کی زندگی بھر کی کمائی ہے۔ اس کا چھوٹا بیٹا جس کی عمر بیس سال ہے وہ ٹنڈو جام میں زیر تعلیم ہے، ہم اپنی چالوں سے اس کی ترقی اور خوش حالی کا پہیہ جام کر کے دم لیں گے۔ قفسو نے مشتبہ بانوری سے کہا:

’’تم چوکس ہو جاؤ ہم ایسا دانہ پھینکیں گے کہ کرگسوں کے نرغے میں پھنسنے والا یہ فریب خوردہ شاہین زیر دام آ ہی جائے گا۔ ہم اسے اپنے قحبہ خانے کی سیڑھی پر چڑھا کے دم لیں گے۔ جو ایک بار ہماری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے وہ کسی صورت میں نیچے اُتر نہیں سکتا۔‘‘

’’اس بوڑھے معلم نے ہماری عیاری اور مکر و فریب کی بے تحاشا طاقت کا غلط اندازہ لگایا ہے۔‘‘ مشتبہ بانوری نے اپنے سبز قدموں سے زمین پر ٹھوکر مارتے ہوئے اور گرد اُڑاتے ہوئے کہا ’’جھاڑ کھنڈ اور ناگ پور کی جامعات نے مجھے اعلا عہدے دینے کی پیش کش کی ہے۔ صرف مجھے ڈگری ملنے کی دیر ہے چند ماہ بعد دیکھنا میرے جاتے ہی پورے جھاڑ کھنڈ میں جھاڑو پھر جائے گی، آب شارجم جائیں گے یہ صورت حال دیکھ کر فشار خون تھم جائے گا۔ میں جب جھاڑ کھنڈ اور ناگ پور کے تعلیمی اداروں میں توسیعی لیکچرز دوں گی تو سب جعل سازوں کو خوب جھاڑ پلاؤں گی۔ ناگ پور تو مجھے بہت پسند ہے اکثر لوگ مجھے ناگن کہتے ہیں۔ مجھے گھر میں ناگ پالنے کا بہت شوق ہے شاید مجھے ناگ پور سے اپنی پسند کا کوئی فربہ ناگ میسر آ جائے۔ کیٹی بندر بھی بہت سُندر جگہ ہے میں یہاں ایک سیر گاہ بناؤں گی جس میں بندر پالوں گی۔ جو نوجوان لڑکا میرے ساتھ گھومتا پھرتا ہے دیکھنے والے لوگ آوازے کستے ہیں کہ دیکھو حور کے ساتھ لنگور جا رہا ہے۔ یہ سب لنگور کیٹی بندر کی سیر گاہ میں دادِ عیش دیں گے۔ میں جانتی ہوں کہ بندر انتہائی مکروہ، بے ڈھب، کریہہ اور بد وضع مخلوق ہے مگر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کوئی بھی اور جانور انسان سے بڑھ کر بندر سے مماثل نہیں۔ شاید اسی سوچ پر برطانوی فطرت نگار اور ماہر حیاتیات چارلس ڈارون کی نسل انسانی کے ارتقا کی تھیوری کا انحصار ہے۔‘‘

’’تُو نے سچ کہا ہے مشتبہ بانوری! مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں تو مداری اور بندر کا تماشا بہت شوق سے دیکھتی تھی۔ بندروں سے تیری رغبت کی وجہ سے محلے کی شریر لڑکیاں بچپن میں تجھے بانوری کے بجائے ’’باندری‘‘ کہتی تھیں۔ اب تو تیری خُو بدل گئی ہے اورتُو ایک زہریلی ناگن ہے۔‘‘ قفسو کی باچھیں کھل گئیں اور وہ ناک بھوں چڑھاتے ہوئے غرانے لگی ’’تم نے بیسیوں نوجوانوں کی زندگی میں زہر گھول دیاجس کے بعد تباہ حال نوجوان سسک سسک کر زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ تمھارا تحقیقی مقالہ، تمھارے باپ کا علاج اور تمھاری مطلقہ بہن سمن کی دوسری شادی کے اخراجات یہ سب کچھ اسی ضعیف معلم کے ذمہ ہو گا۔ تم اس کی بہو بننے کی اداکاری کرتی رہو۔ میں تکلف کی روا داری سے اس کی آنکھوں میں دھُول جھونکتی رہوں گی۔ سال دو ہزار بیس شروع ہو چکا ہے اس کے ساتھ ہی تم اس وقت اکتیس سال کی ہو چکی ہو ہم اس معلم کے بیس سالہ بیٹے سے تمھاری منگنی کا ناٹک رچا کر اس سے سب زر و مال اینٹھ لیں گے۔‘‘

رفحان، قفسو، سمن، گوشی، ظلی، ثباتی، صبوحی اور مشتبہ بانوری نے پنے ترکش کے سب تیر چلا دئیے اور ضعیف معلم مبشر کو اپنے مکر کی چالوں سے زیر دام کر لیا۔ نہایت رازدارانہ انداز میں مشتبہ بانوری کی منگنی معلم کے بیٹے سے ہو گئی۔ خوشیوں کی جستجو کے لیے کھیلے جانے والے جوئے کی اس بازی میں ضعیف معلم مبشر نے سونے چاندی کے دس تولے کے زیورات، قیمتی ریشمی ملبوسات کے دس جوڑے اور پانچ لاکھ روپے نقد لگا دئیے۔ اس کے ساتھ ہی چار سو صفحات کا مکمل مقالہ ایک ماہ میں لکھ کر دینے کی حامی بھی بھر لی۔ اگرچہ اس بازی میں ضعیف معلم مبشر مات کھا گیا تھا مگر اسے اس کا کوئی احساس تک نہ تھا۔ مشتبہ بانوری کی ہر چال درست نکلی اور اس کی ترکش کا ہر تیر ٹھیک نشانے پر جا لگا۔

’’اب اس بوڑھے معلم کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں دھُول جھونکنے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘ مشتبہ بانوری نے اپنی کالی زبان باہر نکالی اور بوڑھے معلم کو ایک غلیظ گالی دیتے ہوئے کہا ’’اس کی خام خیالی اور دھوکا کھانے کی صلاحیت لامحدود ہے۔ ہماری شاطرانہ چالوں سے اب تک سیکڑوں لوگ سراب کے عذاب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس وقت یہ معلم ہمارے نشانے پر ہے، اب اس کے بیٹے کے ساتھ میری شادی کی تاریخ طے کر دو۔ یہ شادی ایک سال بعد ہونے کا وعدہ کر دو، شادی سے پہلے اس بوڑھے معلم کے گھر کا صفایا کر دیا جائے گا۔ ضرورتوں کا خلوص اور مطالبات کے میل ملاپ کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے۔ ہونی چپکے چپکے اپنے کاج میں مصروف رہے گی۔ اس ضعیف معلم کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب سمے سمے پر دبے پاؤں سنجوگ آ دھمکے گا۔‘‘

اپنی مطلقہ بیٹی سمن کی شادی کے لیے قفسو نے بوڑھے معلم کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹا۔ اپنی بیماری سے گھبرا کر رفحان اب قفسو اور اس کی بیٹیوں کے دھندے سے نفرت کرنے لگا تھا۔ رفحان کے علاج کے لیے بھی ضعیف معلم کو اس کے ساتھ لگا دیا کہ وہ ہر وقت اس کی دیکھ بھال اور خدمت جاری رکھے۔ معالج کی فیس، مختلف شہروں کے چکر اور دوا علاج پر اُٹھنے والے سارے اخراجات ضعیف معلم کے ذمے تھے۔ قفسو نے اپنے شوہر کی روز روز کی نوک جھونک سے تنگ آ کر اس سے نجات حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا۔ وہ اپنے شوہر کی غذا میں کوئی ایسی پھکی ملا دیتی جس کی وجہ سے اسے مستقل طور پر اسہال اور قے کی تکلیف رہتی۔ یہ تکلیف اس قدر بڑھی کہ رفحان معدے کے سرطان کے عارضے میں مبتلا ہو گیا۔ یوں جنجال پورہ کے ٹھکانے میں پہنچنے کے بعد قفسونے پر اسرار طور پر اپنے بھڑوے شوہر رفحان کو ٹھکانے لگا دیا۔ اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد وضیع قفسو کی وضع بدل گئی، وہ طور سے بے طور ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عیاش نائکہ اور سے اور ہو گئی اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ تاکنا جھانکنا مشتبہ بانوری کا معمول تھا رقص و سرود کے آ غازسے پہلے مے نوشی کے کئی دور ہو جاتے تھے۔ وہ مست نگاہوں سے دیکھتی تو بد مست عیاش سرمستی کے عالم میں بند قبا سے بے نیاز ہو کراس سے لپٹ جاتے۔

اپنے راستے کے قریب قریب سب کانٹے صاف کرنے کے بعد مشتبہ بانوری کے دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ جس قدر جلد ممکن ہو ضعیف معلم مبشر سے نجات حاصل کی جائے۔ ڈگری اُسے مل چکی تھی اور جھاڑ کھنڈ میں اچھی ملازمت بھی اس نے بٹور لی تھی۔ ایک رذیل طوائف، جاہل اور کاہل حسینہ نے اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیا تھا۔ اب مبشراس کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ ان پیشہ ور ٹھگوں نے ضعیف معلم مبشر کواس کی زندگی بھر کی کمائی سے محروم کر دیا۔ اُسی زمانے میں قفسو کے عیاش بیٹے پتوار نے عجب گل کھلایا۔ اس عیاش طوائف زادے نے جوئے اور منشیات میں قحبہ خانے کی ساری کمائی پھونک دی اور کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا۔ اس مُورکھ نے ایک ایسی طوائف کے ساتھ پیمان وفا باندھا جو ٹھگوں کے گروہ کی آ لۂ کار تھی۔ اس طوائف کے آتے ہی قفسو کے قحبہ خانے میں اُلّو بولنے لگے۔

ایک سال قبل معلم مبشر نے اپنے بیٹے کی شادی کی تاریخ قفسو سے لے لی تھی۔ غم و آلام کے بگولوں کی زد میں آنے کے بعد خوشیوں کی تمنا میں ضعیف معلم مبشر نے اپنے آشیاں کے جو چند تنکے سنبھال رکھے تھے وہی اس کے لیے زنجیرِ پاثابت ہوئے۔ ایک سال کی یہ تاریخ دینے کے بعد ابھی شادی میں تین ماہ باقی تھے کہ قفسو اور مشتبہ بانوری کا نہ صرف روّیہ بل کہ نیّت بھی بدل گئی۔ انھوں نے نہ صرف شادی کی تاریخ پر مشتبہ بانوری کی رخصتی سے انکار کر دیا بل کہ رفحان کے طے کیے ہوئے رشتے اورعہد و پیمان سے بھی منحرف ہو گئیں۔

مشتبہ بانوری نے جھاڑ کھنڈ میں جامعہ کے ریٹائرڈ اور انتہائی متمول استاد چوب دار تغاری سے بیاہ کر لیا جس کی عمر اسی سال تھی۔ چوب دار تغاری چراغ سحری تھا اب مشتبہ بانوری کی اُمید صرف اس بوڑھے شوہر کے مرنے پر منحصر تھی۔ مشتبہ بانوری نے جب اپنا گھر بسا لیا تو قحبہ خانے کا دھندا جو پہلے ہی بہت مندا تھا ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ ایک رات نائیکہ قفسو اپنی بیٹی مشتبہ بانوری کے کمرے میں پہنچی تو چوب دار تغاری خچر بیچ کر سو رہا تھا اور خراٹے لے رہا تھا۔ اپنے قحبہ خانے کے حالات سے بیزار ہو کر قفسو نے اپنی بیٹی مشتبہ بانوری سے رازدارانہ لہجے میں کہا:

’’یہ خضاب آلودہ بڈھا کھوسٹ ایسا مہاراجہ گدھ ہے جو تمھیں ہر وقت نوچتا اور بھنبھوڑتا رہتا ہے۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ اس کے ساتھ شادی کے بعد تمھارے حسن و جمال کی سب چکا چوند ماند پڑنے لگی ہے۔ تمھاری جلوہ آرائیاں اور حشر سامانیاں سب ماضی کی کہانیاں بن گئی ہیں۔ میرا مشورہ مانو اور جتنی جلدی ممکن ہو اس ہوس پرست بوڑھے خبطی عاشق کو چلتا کرو ورنہ یہ جنسی جنونی افیونی تمھاری اُٹھتی جوانی کی عمارت کو کھنڈر کی طرح بٹھا دے گا۔ اس بڈھے کھوسٹ کی زندگی کی شمع جلد بجھا دو اس کے بعد اس کی پوری پنشن اس کی واحد بیوہ ہونے کی وجہ سے صرف تمھیں ملے گی اور ساری جائیداد بھی تمھیں ملے گی۔ اس کی شادی شدہ بیٹیوں کو کچھ نہ ملے گا۔‘‘

مکار نائیکہ قفسو کی یہ سب باتیں چوب دار تغاری نے سن لیں اور وہ بہت محتاط ہو گیا۔

اگلے روز شام کے سائے ڈھل رہے تھے بوڑھا چوب دار تغاری اپنے گھر کے آنگن میں ایک باغیچے میں کرسی پر بیٹھا تھا۔ سامنے ایک میز اور تین کرسیاں تھیں اسے مشتبہ بانوری کا شدت سے انتظار تھا۔ ہر روز شام ہونے سے پہلے وہ چائے یہیں پیتے تھے۔ کچھ دیر بعد مشتبہ بانوری وہاں آ گئی اور اس نے چائے کے دو پیالے میز پر رکھے اور نہایت تیزی سے پر اسرار انداز میں ایک پیالہ چوب دار تغاری کی طرف بڑھا دیا اور دوسرا پیالہ ڈکوسنے کے لیے اُٹھایا ہی تھا کہ چوب دار تغاری نے کہا:

’’ٹھہرو! چائے پینے سے پہلے میرا چھوٹا سا ایک کام کرو۔ اس وقت میرے سر میں شدید درد ہے جاؤ میرے کمرے کی الماری سے ڈسپرین کی ایک گولی اُٹھا کر لے آؤَ۔‘‘

’’تم اپنے زمانے کے راسپوٹین ہو۔ جسمانی طاقت میں اضافے کے لیے کشتے کھانا اور برقی آلات کا استعمال تمھارا معمول ہے۔‘‘ مشتبہ بانوری نے غراتے ہوئے اپنے معمر شوہر سے کہا ’’جس طرح کے کام تم کرتے ہو ان کا نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ صبح سے لے کر شام تک تمھیں جنسی ہوس چین ہی نہیں لینے دیتی۔ میری تو جان پہ بنی ہے، تم نے تو مجھے نوچ نوچ کر ادھ موا کر دیا ہے۔‘‘

مشتبہ بانوری بڑبڑاتی ہوئی اُٹھی اور شوہر کے کمرے کی طرف چل دی۔ مشتبہ بانوری کمرے میں داخل ہوئی تو چوب دار تغاری نے اپنے سامنے رکھا چائے کا پیالہ مشتبہ بانوری کے سامنے کر دیا اور اس کے حصے کا پیالہ اُٹھا کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مشتبہ بانوری آ گئی اور اس نے ڈسپرین کی گولی چوب دار تغاری کو تھما دی۔

چوبدار تغاری نے گولی اپنے حلق میں پھینکی اور پلک جھپکتے میں چائے کے گھونٹ بھر کر گولی نگل لی۔

’’مجھے کچھ ہو رہا ہے میرا دل گھبرا رہا ہے۔‘‘ چوب دار تغاری نے بے چینی اور اضطراب سے کہا ’’مجھے ایسا لگتا ہے میرا دمِ آخریں بر سرِ راہ ہے۔‘‘

مشتبہ بانوری کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے چائے ڈکوستے ہوئے طنزیہ لہجے ہوئے کہا:

’’تم سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا ایک خطرناک جنسی جنونی اور موذی درندے ہو۔ ساری رات نہ تم مجھے سونے دیتے ہو اور نہ خود آرام کرتے ہو۔ اس ضعیفی میں بھی تم کہتے ہو ابھی تو میں جوان ہوں۔۔ اونہہ۔۔‘‘

یہ کہتے ہوئے اچانک مشتبہ بانوری چکرا کر منھ کے بل زمین پر جا گری۔ نو سو چوہے ڈکارنے والی اس جنگلی بلی کی باچھوں سے جھاگ مِلا خون بہہ رہا تھا اور آنکھیں مُند گئی تھیں۔ اپنے ضعیف شوہر چوب دار تغاری کے لیے اس نے جو گڑھا کھودا تھا وہ خود اس میں جا گری تھی۔

اپنی بیٹی مشتبہ بانوری کو قتل و غارت گری کی پٹی پڑھانے کے بعد قفسو نے تیزی سے اپنے قحبہ خانے کا رخ کیا۔ اس کے گھر کو جانے والی سڑک پر ٹریفک کا ازدحام تھا۔ جوں ہی اس نے بے حد مصروف سڑک عبور کرنے کی کوشش کی، وہ ایک تیز رفتار ٹرالے کی زد میں آ گئی۔ ٹرالے کا ڈرائیور پوری رفتار کے ساتھ ٹرالے کو بھگا کر لے گیا۔ پیچھے سے آنے والی ٹریفک کا بہاؤ بھی نہ رُک سکا اور اس طرح یہ رذیل طوائف اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

مشتبہ بانوری کی ہلاکت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔ مشتبہ بانوری کے دیوانوں کا خیال ہے کہ ضعیف چوب دار تغاری نے اس نوجوان حسینہ کا جینا محال کر دیا تھا۔ جب اس حور کو یقین ہو گیا کہ اب اس جنسی جنونی بڈھے کھوسٹ شکاری کے چنگل سے بچ نکلنا مشکل ہے تو اس نے مایوس ہو کر خود کشی کر لی۔

زبان خنجر اگر خاموش بھی رہے تو آستین کا لہو بے داد گری پر داورِ محشر سے انصاف طلب رہتا ہے۔ خس و خاشاک سے گلشن پاک ہو گیا اس کے باوجود ضعیف معلم مبشر کی زندگی اس کے لیے امتحاں در امتحاں بن گئی۔ رذیل طوائفوں کی ٹھگی کی سفاکانہ واردات کے جان لیوا صدمے نے ضعیف معلم مبشر کو زندہ در گور کر دیا۔ نوجوان بیٹے کی دائمی مفارقت کے جان لیوا صدمے سے یہ پہلے ہی بے حد پست تھا۔ ان ٹھگوں کی سفاکی نے اُسے تنگ دست کر دیا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ باکل تہی دست ہو گیا۔ اس پریشان حالی میں اس نے اپنے مونس و غم خوار کرم داد قلی کو بہت یاد کیا مگر عارضۂ قلب کی دوا دینے والا یہ قلی تو عرصہ ہوا اپنی دکان بڑھا گیا تھا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ضعیف معلم مبشر نے لب اظہار پر تالے لگالیے اور یہی کہتا ہے کہ صرصرِ اجل نے اس کے ہوا خواہوں کی جلائی ہوئی اُمید کی شمع کو گل کر دیا ہے۔ کینہ پرور حاسدوں کے ہاتھوں ضعیف معلم کی زندگی کا جام و سبو کرچیوں میں بٹ گیا۔ نوجوان بیٹے ساجد کی دائمی مفارقت کے جان لیوا صدمے نے اس کا حوصلہ بے حد پست کر دیا تھا۔ قفسو اور مشتبہ بانوری کی پیہم دروغ گوئی اور ٹھگی نے اسے تنگ دست کر دیا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ بالکل تہی دست ہو گیا۔ اب محروم و مغموم ضعیف معلم کو اِس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ فلک سے بادۂ گل فام برستا ہے تو لوگ اسے کیسا شگون سمجھتے ہیں۔ مبشر کی نا اُمیدی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تو اس کے نہ ہونے کی ہونی دیکھنے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں کے شور میں دل تھام کرسہمے بیٹھے اس ضعیف معلم کی حالت زار دیکھ کر نوحہ گرانِ شامِ غم دِل تھام لیتے ہیں۔ ان اعصاب شکن حالات میں وہ موہوم خوشیوں کی تلاش میں کہاں جاتا؟ کئی برس پیہم سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں رہنے والے ضعیف معلم مبشر کے کھنڈر نما بوسیدہ کمرے کی شکستہ دیوار پر نا معلوم کس نے یہ شعر لکھ دیا ہے:

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

دِل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارا کر کے

٭٭٭







تاریخ دان



پس نو آبادیاتی دور میں ریاست راجستھان کے شہر بیکانیر میں مقیم ایک ضعیف تاریخ دان کے علم و فضل کا ہر طرف ڈنکا بجتا تھا۔ پورے ملک میں اُس معمر تاریخ دان کی اصول پرستی، حق گوئی اور بے باکی کے چرچے تھے۔ قطب شاہی دور میں جنوبی ہند سے شمالی ہند کی جانب علمی و ادبی سفر اور اس کے تہذیبی و ثقافتی اثرات پر اس مورخ کی گہری نظر رہی۔ اس کے تجزیاتی تاریخی مقالے ملک کے موقر جرائد کی زینت بنتے رہتے تھے۔ اپنے اصولوں پر ڈٹ جانے والے اس ضعیف تاریخ دان نے اپنی زندگی میں جو ہفت خواں طے کیے ان کے نقوش اس کے چہرے پر عیاں تھے۔ قسمت اور تقدیر کی مسموم ہوا کے تند و تیز بگولوں نے جب اس کے دِل کی انجمن میں ضو فشاں دو چراغ گُل کر دئیے تو اس کا دل بجھ گیا۔ اس کا نوجوان بیٹا اور نو جوان بیٹی عین عالمِ شباب میں اسے داغ مفارقت دے گئے۔ کتاب زیست کے تمام ابو اب کی تکمیل کے بعد حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ وہ مورخ شہر سے کچھ دُور ایک کچی آبادی میں اپنے گوشۂ تنہائی تک محدود ہو کر رہ گیا۔ شہر کے انتہائی پس ماندہ علاقے میں واقع جدید دور کی سہولیات سے بے نیاز اس قدیم کچی آبادی کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا۔ اس معمر مورخ کی تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پرا س کی گہری نظر تھی اور اپنے گردو نواح کے حالات کے بارے میں اس کے تجزیے ہمیشہ سچ ثابت ہوتے تھے۔ طویل عرصے سے اس نے لبِ اظہار پر ایسے تالے لگائے کہ سب لوگ اس کی پُر اسرار شخصیت کے بارے میں کچھ سمجھنے سے قاصر تھے۔

اس تاریخ دان کے فلسفہ لسان کا ایک عالم معترف تھا۔ اس نے دکنی زبان کے ارتقا اور اس کے اردو سے تعلق پر جو تحقیق کی تھی اسے ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اپنی زندگی کے نشیب و فراز سے اس تاریخ دان نے جو تجربات حا صل کیے انہی کو زادہ راہ بنا کر وہ آئینۂ ایام میں اپنی ادا دیکھتا اور احتساب ذات پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ بے لوث محبت، خلوص، دردمندی اور ایثار کی اساس پر استوار وفا داری کو وہ نیت کی پاکیزگی اور کردار کی پختگی کی علامت سمجھتا اور ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتا کہ وفا انسانی کردار کا ایسا جوہر ہے جو شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ تاہم وہ وفاداری کی اداکاری اور تکلف کی رواداری کو ایک شاطرانہ شعبدہ بازی اور سادیت پسندی کی مظہر ایسی جان لیوا بیماری سے تعبیر کرتاجو زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر، کلیاں شر ر، نگاہیں بے بصر، آہیں بے اثر، زندگیاں پُر خطر، آبادیاں خوں میں تر، منزلیں در بہ در، عافیت زیر و زبر اور حیات انسانی مختصر کرنے کا باعث بن گئی ہے۔ تاریخ دان کے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا اور حالات نے ایسارخ اختیار کیا کہ وہ جان لیوا تنہائیوں کا اسیر ہو کر رہ گیا۔

جن دنوں اس کا بیٹا تعلیم کے سلسلے میں کراچی کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کے ہاسٹل میں مقیم تھا وہ اپنے گوشۂ تنہائی میں اس کے لیے دعاؤں میں وقت گزارتا۔ یہ شخص مزاج کے اعتبار سے کم گو اور کم آمیز

تھا مگر علمی و ادبی محفلوں کا دلدادہ تھا۔ علم و ادب، تاریخ و فلسفہ، نجوم اور فلکیات سے اسے گہری دلچسپی تھی یہی اس کے معمولات تھے اور وہ انہی میں مصروف رہتا تھا۔

اس مورخ کے بارے میں یہ بات سب کو معلوم تھی کہ وہ راجستھان کی جودھ پور اور جے پور جامعات میں تدریسی خدمات پر بھی مامور رہا۔ جن دنوں یہ مدراس یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا اس کی اصول پرستی اور کردار کی پختگی کے ہر طرف چرچے تھے۔ اس کے معاصر ادیبوں اور رفقا کا خیال کہ مدراس یونیورسٹی جہاں ناکام جنگ آزادی کے بعد روشنی کے سفر کا آغاز ہوا اس میں ایسے با اصول اساتذہ کی موجودگی اس تاریخی جامعہ کا بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں ایک واقعہ ایسا بھی بیان کیا جاتا ہے جسے اس کی سخت اصول پرستی اور انتہا پسندی پر محمول کیا جاتا ہے۔ آزادی سے قبل یہ مورخ مدراس یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات سے وابستہ تھا۔ وہاں اس نے ایک ایسے طالب علم کو پکڑا جو ایم۔ اے میں زیر تعلیم تھا مگر وہ کسی طالب علم کی جگہ بی۔ اے کے پرچے دے رہا تھا۔ اب اس طالب علم کو دھر لیا گیا اور اس کی بی اے کی ڈگری منسوخ کر دی گئی۔ جس طالب علم کی جگہ وہ پرچے دے رہا تھا اسے اور اس طالب علم پر تعزیری کار روائی کرتے ہوئے جامعہ نے دونوں کو زندان بھجوا دیا اور ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئے۔

اس سزا کے خلاف طالب علموں کی طرف سے اپیل دائر کی گئی مگر ان کی دادرسی کے امکانات معدوم تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اس مورخ سمیت دوسرے دو سزا دینے والے منصف جامعہ کی سنڈیکیٹ کے ارکان تھے۔ اس مورخ کے ہوتے ہوئے جامعہ میں سزا یافتہ طالب علموں کی رحم کی اپیل بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ اس سزا کے نتیجے میں دو طالب علموں پر اعلا تعلیم کے دروازے بند ہو گئے اور مقدر کی تاریکیاں انھیں لے ڈوبیں۔ اس سانحے نے دو نوجوانوں کو در بہ در کر دیا۔

کہتے ہیں ان طالب علموں کے ضعیف والدین بھی اس مورخ کے پاس پہنچے اور اس سے رحم کی التجا کی مگر اس مورخ نے کسی کی ایک نہ سنی اور ٹکا سا جواب دیا:

’’میری زندگی کے کچھ اصول ہیں میں کسی کا مستقبل بچانے کے لیے اپنی زندگی کے اصول کسی صورت میں نہیں توڑ سکتا۔‘‘

سزا یافتہ طالب علم کے ضعیف باپ نے دست بستہ التجا کی ’’دنیا بدل رہی ہے، حالات ایک جیسے کبھی نہیں رہتے ملکوں کے دستور منسوخ ہو جاتے ہیں۔ کن اصولوں کی بات کر رہے ہو یہاں تو لوگ مذہب کی تعلیمات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ضد نہ کرو یہ دو انسانوں کی زندگی اور ان کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ انھیں اپنی انا کی بھینٹ نہ چڑھاؤ اور معاملہ ختم کر کے ہماری دعائیں لو۔‘‘

’’تم لوگ سٹھیا گئے ہو اور مجھے غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہو۔‘‘مورخ نے غیظ و غضب کے عالم میں کہا ’’ایک اعلا تعلیم یافتہ طالب علم جب کسی کم تر درجے کے طالب علم کی جگہ امتحان دیتا ہے تو میرٹ کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔ حق دارکا حق مارا جاتا ہے جو بہت بڑا ظلم ہے۔ جو ظلم پہ لعنت نہیں کرتا اس کے لعین ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ کسی کا حق مارنا ایک جبر ہے اس صریح جھوٹ اور ظلم سے انکار کرنا ہمارے مذہب کی آفاقی تعلیمات کے منافی ہے۔ استحصال اور جبر کے سامنے سِپر انداز ہونا میرے مسلک کے خلاف ہے۔‘‘

’’اپنے دِل میں اپنی اولاد کا خیال کر کے کچھ نرمی پیدا کرو۔‘‘ ایک سزا یافتہ نوجوان طالب علم کی ماں نے آہ بھر کر کہا ’’ہو سکتا ہے کبھی تم پر بھی ایسا کڑا وقت آئے کہ تم اپنی اولاد کے مستقبل کی خاطر کسی ایسے امتحان میں پڑ جاؤ۔‘‘

’’میں نے اکثر لوگوں سے یہ بات سُنی ہے کہ دنیا میں پیسے کا کھیل جاری ہے، پیسے کی خاطر سب کچھ ہوتا ہے۔‘‘ ایک طالب علم کے الم نصیب بوڑھے باپ نے روتے ہوئے کہا ’’نظریۂ ضرورت کے تحت سب کچھ جائز قرار دیا جاتا ہے اور یہاں سب کچھ بِکتا ہے۔ ضرورت کسی قانون کے تابع نہیں ہوتی، مناسب دام لگیں تو استاد بھی شاگرد کی جگہ پر بیٹھ کر اس کا پرچہ حل کر دیتے ہیں۔ اصول، ضابطے، قانون، اقدار و روایات اور زندگی کے معیار سب کے سب ہاتھی کے دانت ہیں جو محض دکھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ وقت پڑنے پر وہ لوگ بھی جو بڑے با اصول ہونے کے داعی ہوتے ہیں ہر بے اصولی کر گزرتے ہیں اور گرگٹ کے مانند رنگ بدل کر اپنی فکری پستی کا ثبوت دیتے ہیں۔‘‘

’’اب یہ بے سر و پا الزامات کا سلسلہ بند بھی کرو۔‘‘ ضعیف مورخ نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا ’’ایسے نام نہاد استاد جو اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر چند ٹکوں یا کسی گھٹیا قسم کے ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر اپنے شاگردوں کی جگہ امتحان میں بیٹھتے ہیں ان کو توکڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ ایسی گندی مچھلیوں کی وجہ سے پُورے تالاب سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں۔ ایسی کالی بھیڑوں کا سخت احتساب ضروری ہے۔ میری رائے ہے کہ جامۂ ابو جہل میں ملبوس ایسے جعلی اساتذہ کا منھ کالا کر کے انھیں اُلٹے منھ گدھے پر سوار کر کے ہر کُوچہ و بازار سے ایسے ننگ وجود سفہا کا جلوس نکالنا چاہیے۔ جہاں تک ہینز کیلسن کے نظریۂ ضرورت کا تعلق ہے اسے اب دنیا بھر میں مسترد کیا جا چکا ہے اور قانون کسی ضرورت کو تسلیم نہیں کرتا۔‘‘

انتہائی مایوسی اور نا مرادی کے عالم میں طالب علموں کے والدین مورخ کے گھرسے یوں اُٹھے جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔ وہاں سے بے نیل مرام لوٹنے کے بعد طالب علموں کے والدین نے اپنے بچوں کے لیے روزگار کے لیے اور مواقع کی جستجو شروع کر دی۔ انھوں نے اپنے بیٹوں کو جے پور میں اپنے آبائی پیشہ تجارت میں لگا دیا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ان نوجوان لڑکوں نے گھوڑوں، اونٹوں، پالتو جانوروں اور پرانی کاروں کے کاروبار میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا اور بہت پیسا کمایا۔ آزادی کے بعد یہ خاندان بھی مورخ کے خاندان کی طرح پاکستان کے صوبہ سندھ منتقل ہو گیا۔

مورخ کا اکلوتا بیٹا اب اپنی تعلیم مکمل کرنے والا تھا اور صرف چھے ماہ بعد مورخ کا بیٹا جامعہ کراچی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے والا تھا۔ اس کے بعد ضعیف مورخ کے نوجوان بیٹے کا روشن مستقبل ان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور ہاؤس جاب اس کا منتظر تھا۔ اب مورخ کے سامنے ایک ہی نصب العین تھا کہ جلد از جلد اپنے بیٹے کا گھر بسائے اور اپنے بیٹے کے گھر کے گلشن میں پھول کھلتے دیکھے۔ سوال یہ تھا کہ مورخ کی نظروں کے سامنے کوئی لڑکی جچتی ہی نہ تھی۔ اس کے کڑے انتخاب پر پورا اترنا بہت مشکل تھا۔ اس کی زندگی کی راتیں اسی کشمکش میں گزر رہی تھیں کہ کس لڑکی کو اپنی بہو بنائے۔

ایک سہ پہر وہ حسب معمول اپنے گھر کے سامنے باغیچے میں سرِ راہ بیٹھا کہ ایک حسین و جمیل لڑکی اپنی ماں کے ہمراہ اس سے ملنے آئی۔ لڑکی کو دیکھ کر ضعیف مورخ کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یہی وہ لڑکی ہے جس کی تلاش میں وہ اب تک سر گرداں رہا ہے۔ لڑکی اور اس کی ماں نے نہایت ادب سے مورخ کو جھک کر سلام کیا۔ لڑکی کی سعادت مندی دیکھ کر مورخ نے فوراً یہ فیصلہ کر لیا کہ اب وہ اسے ہر صورت میں اسی لڑکی کو اپنی بہو بنا کر ہی دم لے گا۔ لڑکی نے اپنا تعارف کرایا:

’’میں ب طانیہ کی ایک یونیورسٹی سے نو آبادیاتی دور سے قبل اور اس کے بعد شمالی ہند اور جنوبی ہند کے تہذیبی، ثقافتی اور لسانی میلانات پر ایم۔ فل سطح کا تحقیقی مقالہ لکھ رہی ہوں۔‘‘

’’یہ بہت وسیع موضوع ہے اس پر ابھی تک کوئی کام نہیں ہو سکا۔‘‘مورخ نے مسکراتے ہوئے کہا ’’یہی موضوع میری چالیس سالہ تدریس اور تحقیق کا محور رہا ہے مگر گردشِ ایام نے مجھے سبزۂ نو دمیدہ کے مانند سر اُٹھاتے ہی پامال کر دیا اور میں اپنے منتشر کام کو یک جا نہیں کر سکا۔‘‘

’’اس تحقیقی مقالے کی بر وقت تکمیل کے سلسلے میں میرے پاس وقت بہت کم ہے۔‘‘ محقق لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’اگر میں ایک ماہ میں یہ مقالہ یو نیورسٹی میں جمع کرا دوں تو مجھے ڈگری مل جائے گی۔ اس کے بعد میری غیر ملکی ڈگری کی بنا پر کسی بھی جامعہ میں مجھے اٹھارہویں سکیل میں ملازمت آسانی سے مل سکتی ہے۔ اگر یہ مقالہ ایک ماہ تک شعبہ امتحانات میں جمع نہ کرایا جا سکا تو میری دو سال کی محنت اکارت اور امیدوں کی فصل غارت جائے گی۔‘‘

غیر ملکی ڈگری اور اٹھارہویں سکیل کی ملازمت کے بارے میں سن کر مورخ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہو۔

’’میری بیٹی کے لیے یہ مقالہ صرف آپ ہی لکھ سکتے ہیں۔‘‘ لڑکی کی ماں نے مورخ کو مکھن لگاتے ہوئے کہا ’’ہمارا تعلق بھی جے پور سے ہے اور ہم فیض محل خیر پور کے نواح میں واقع تعلقہ فیض گنج کے ایک کوچے میں رہتے ہیں۔ ہم نے ہر جگہ سے معلوم کیا ہے سب یہی کہتے ہیں کہ اس ملک میں آپ سے بڑا مورخ کوئی نہیں۔ آپ کی علمی فضیلت کی ہر طرف دھُوم مچی ہے اور آپ کے متعلق یہ بات بھی مشہور ہے کہ آپ تحقیق کے سرابوں میں بھٹکتے ہوئے طالب علموں کی رہنمائی میں کبھی تامل نہیں کرتے۔‘‘

’’یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ اس موضوع پر آپ کی ہر بات مستند ہو گی۔‘‘ محقق لڑکی نے بھر پور اعتماد سے کہا ’’آپ عالمی شہرت یافتہ مورخ ہیں اس نازک مرحلے پر آپ کی رہنمائی میرے لیے خضر راہ ثابت ہو گی۔ اس وقت آپ کے علاوہ دنیا میں جنوبی ہند اور شمالی ہند کی تہذیب و ثقافت کا رمز آشنا کہیں موجود نہیں۔‘‘

دانا کہتے ہیں کہ چکنی چپڑی باتوں سے پتھر میں بھی جونک لگ سکتی ہے۔ خوشامد سے اس دنیا میں سیکڑوں مشکل مراحل طے ہو سکتے ہیں اور کٹھن کام نکل سکتے ہیں۔ بڑھیا اور اس کی بیٹی کی باتوں سے چٹان میں شگاف ہو گیا تھا اور موم پگھلنے لگی تھی۔

’’جہاں تک ممکن ہے میں تحقیقی مقالہ کی تدوین میں رہنمائی کروں گا۔‘‘مورخ نے نرم لہجے میں کہا ’’اب تک مقالے کے خاکے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جو اہم بنیادی مآخذ جمع کیے گئے ہیں وہ مجھے دکھا دیں اورمقالے کے مکمل ابو اب بھی اگلی مرتبہ ساتھ لائیں تا کہ میں ان پر اپنی رائے دے سکوں اور مطلوبہ رہنمائی بھی کر سکوں۔‘‘

’’میری بیٹی کے پاس کوئی تحریر نہیں اور نہ کوئی ماخذ ہے۔ صرف رہنمائی نہیں بل کہ میری بیٹی کا مکمل مقالہ آپ ہی نے لکھنا ہے۔‘‘ بڑھیا نے پر اعتماد لہجے میں کہا ’’میں اپنی اس بیٹی کو آپ کی بہو بنا دوں گی اور یہ میری چاند سے بیٹی اس سُونے گھر کو جنت کا نمونہ بنا دے گی۔ یوں سمجھو کہ مقالہ لکھ کر اپنے بیٹے اور اپنی ہونے والی اس بہو بیٹی کے روشن مستقبل کے لیے تم وقت اور محنت کی قربانی دو گے۔‘‘

مورخ نے جب بہو بیٹی کا نام سنا تو اس کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو گئی اور اس نے بلا تامل چار سو صفحات کا مقالہ لکھنے کی ہامی بھر لی۔ مورخ نے مسکراتے ہوئے کہا:

’’آج سے ٹھیک ایک ماہ بعد مکمل مقالہ خود لکھ کر میں آپ کی اس بیٹی اور ہونے اپنی ہونے والی بہو بیٹی کے گھر پہنچا دوں گا۔‘‘

یہ سنتے ہی بڑھیا اور اس کی بیٹی کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہی خوشی جو ہنومان کو ہمالیہ پہاڑ کی سر بہ فلک چوٹی دیوناگری پر اُگی سنجیونی بوٹی کے حصول کے بعد میسر آئی تھی۔ لڑکی اور اس کی ماں کی مساعی سے شاہین صفت مورخ بالآخر زیرِ دام آ ہی گیا۔

ایک ماہ گزرنے سے قبل ہی مورخ نے مقالہ مکمل کر لیا اور ٹیلی فون پر بڑھیا کو مطلع کر دیا۔ اگلے روز بڑھیا اور اس کی بیٹی ایک نو جوان کے ساتھ ایک کار میں سوا رہو کرمورخ کے گھر پہنچیں۔ مورخ نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہر اعتبار سے مکمل مقالہ مہمانوں کے حوالے کر دیا۔ مہمان مقالہ لے کر روانہ ہو گئے مگر حیران کن بات یہ تھی کہ انھوں نے کسی قسم کا رسمی شکریہ تک ادا نہ کیا۔

دو ماہ کے بعد مورخ سے ملنے کے لیے ادھیڑ عمر کے دو اجنبی ملاقاتی ضعیف مورخ کے گھر آئے ان میں سے ایک اجنبی نے اپنا تعارف کرایا:

’’میرا نام صنوبر ہے اور میں مدراس یو نیورسٹی کا وہی طالب علم ہوں جس نے چالیس سال پہلے اپنے اس چچا زاد بھائی ارشاد کی جگہ بی۔ اے کا امتحان دیا تھا۔‘‘

’’چالیس سال پہلے کے گڑے مُردے اُکھاڑنے کا اب کیا فائدہ ہے؟‘‘ مورخ نے غصے سے کہا ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے دو نوجوانوں کو ان کی غیر قانونی حرکت پر کڑی سزا دی تھی۔ کسی کی جگہ امتحان دیان اور اس کا پرچہ حل کرنا سنگین جرم ہے۔‘‘

’’محترم تاریخ دان! یہ جرم اب آپ بھی کر چکے ہیں۔‘‘ اجنبی ملاقاتی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کواکب بھی بازی گر ہیں جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہوتے نہیں۔‘‘

’’آپ جیسے مرغ باد نما، بگلا بھگت اور جو فروش گندم نما شخص کا نہ کوئی اصول ہے نہ وقار، نہ کردار اور نہ ہی اعتبار۔‘‘ اجنبی ملاقاتی صنوبر نے قہقہہ لگا تے ہوئے ضعیف مورخ کا تمسخر اُڑایا ’’اب آپ کے اصول اور معیار کہاں گئے؟‘‘

’’خاموش رہو، میرے صبر و تحمل اور برداشت کا امتحان نہ لو۔‘‘ رعشہ کے باعث مورخ کے جسم پر لرزہ طاری تھا اور اس کی زبان بھی لکنت کے باعث رُک سی گئی تھی۔ اب اس نے مشتعل ہو کر کہا ’’تم اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے مجھے رسوا کرنا چاہتے ہو۔‘‘

’’اگر زبانِ خنجر خاموش بھی رہے تو آ ستین کا لہو پکار پکار کر ہر شقاوت آمیز نا انصافی پر داد طلب ہو گا۔‘‘ نوجوان نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’آپ کے فرضی اصولوں نے میری زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دیں اور آہیں بے اثر کر دیں۔‘‘

’’تم پرانی باتیں کر کے نا حق جی کا زیاں کر رہے ہو۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بے اصولی نہیں کی۔‘‘ مورخ نے اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا ’’میری زندگی ایک کھلی کتاب ہے جس میں سب کچھ ہے مگر کہیں بھی حرفِ ندامت نظر نہیں آتا۔‘‘

’’ایک ماہ قبل میری ہمسائی نے آپ سے جو وعدہ کیا وہ آپ نے من و عن تسلیم کر لیا آپ کو اس کے ایفائے عہد تک جینے کا کیسے یقین ہے؟ ایک غیر ملکی جامعہ میں زیر تعلیم طالبہ کے لیے ایم۔ فل کا جو تحقیقی مقالہ آپ نے اپنی موعودہ بہو کے لیے ایک ماہ میں اپنے انداز تحریر میں مکمل کر کے اس کے حوالے کیا ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ یہاں آپ کی اصول پرستی کہاں کھڑی ہے؟ کیا اس ضعیفی میں بھی جعل ساز اساتذہ کے لیے اپنی مجوزہ سزا کے لیے آپ خود کو پیش کرنے کا حوصلہ اور ظرف رکھتے ہیں؟ ‘‘

’’اپنے خلاف فیصلہ لکھنے کے لیے جس بڑے ظرف کی ضرورت ہے آپ اس سے عاری ہیں۔‘‘ دوسرے اجنبی نے طنزاً کہا ’’سیلابی پانی کا پُر شور ریلا ہمیشہ نشیبی جگہ پر پہنچتا ہے جب کہ بلند و بالا ٹیلے اور اونچی جگہیں اس سیلابی پانی کے ریلے کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ انصاف کے پتھر تک رسائی کے لیے ہاتھ میں تیشۂ زر کا ہونا ضروری ہے۔ مفاد پرستی اور ہوا و ہوس کے طوفانوں نے آپ کے سب خود ساختہ اصولوں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اب پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔‘‘

یہ سنتے ہی مورخ کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور وہ منھ کے بل زمین پر جا گرا۔

صنوبر نے ایک نظر تاریخ دان پر ڈالی اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بڑبڑاتا ہوا آگے نکل گیا۔

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

دِل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارا کر کے

٭٭٭







دشمنی کا حق





خار زارِ زیست کے جب پیچ وخم یاد آتے ہیں

جاں کے دشمن تیرے سب ظلم و ستم یاد آتے ہیں

بلند و بالا پہاڑوں کی سر بہ فلک چوٹیوں پر رواں چشموں سے نکلنے والا ایک دریا جب ایک چٹیل میدان میں سے گزرا تو اس کے پانی کی روانی میں بہت تیزی آ گئی۔ دوسرے دریاؤں کی طرح اس دریا کو بھی ہمیشہ اپنی موجوں کی طغیانی سے کام رہتا۔ انسانوں کی کشتیوں کے دریا کے پار اُترنے یا منجدھار میں غرقاب ہو جانے سے اسے کوئی غرض ہی نہ تھی۔ جو آبی مخلوق اس دریا کے گہرے پانی میں کثرت سے موجود تھی اس میں مینڈک، کچھوے، مچھلیاں، مگر مچھ اور سانپ شامل تھے۔ دریا کا تیزی سے بہتا ہوا پانی اپنی کہانی سناتا رہتا تھا کہ وقت اور دریا کا پانی جب گزر جائیں تو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ اس دریا کے کنارے پر ایک جنگل بھی تھاجس کے تناور درختوں پر جن طیور آوارہ نے اپنے آشیاں بنا رکھے تھے ان میں شِپر، چغد، زاغ و زغن اور کرگس شامل تھے۔ اس جنگل کی جھاڑیوں میں گیدڑ، بھیڑیے اور خرگوش کثرت سے پائے جاتے تھے۔ دریا کے کنارے پیلوں کا ایک بہت بڑا درخت تھا اس پر ایک گدھ کا گھونسلا تھا۔ سب طیور آوارہ اسے مہاراجہ گدھ کہہ کر پکارتے تھے۔ پیلوں کے درخت کے گر دو نواح میں رہنے والی کوئی آبی مخلوق یا خشکی کا جان دار مہاراجہ گدھ کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہ کر سکتا تھا۔ پیلوں کے درخت کے گرد رہنے و الی آبی و خشکی کی مخلوق مہاراجہ گدھ کے مشورے سے ہر کام کرتی تھی۔

دریا کے کنارے کم گہرے پانی میں ایک مینڈک اور مینڈکی کا بسیرا تھا۔ ایک مرتبہ مینڈکی کو زکام ہوا تو مگر مچھ اس کی طرف لپکا۔ اپنے محبوب شوہر بڑے مینڈک کو ساتھ لے کر مینڈکی تو غوطہ لگا کر گہرے پانی میں چلی گئی مگر اس کے بچے مگر مچھ کا لقمہ بن گئے۔ کچھ دیر بعد جب مینڈکی پانی کی سطح پر نکلی تو اپنے بچوں اور انڈوں کو وہاں نہ پا کر تڑپنے لگی۔ اسے اس حال میں دیکھ کر مگر مچھ کی آنکھوں سے بھی آ نسو بہنے لگے۔ اُس دِن سے مینڈکی نے مگر مچھ کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور وہ مگر مچھ کی خونریزی سے بچنے کی کوششوں میں لگی رہتی۔ مچھلیاں بھی اس ظالم و سفاک، موذی و مکار مگر مچھ کی خونخواری سے نالاں تھیں۔ خونخوار مگر مچھ غوطہ لگا کر مچھلیوں کو زندہ نگل جاتا اور اس کے بعد دریا کے کنارے پر دھوپ میں بیٹھ کر دیر تک آ نسو بہاتارہتا۔

ایک دوپہر جب مہاراجہ گدھ اپنے معتمد طیور زاغ و زغن کے ہمراہ دریا کے کنارے پڑے ایک مردہ گدھے کے ڈھانچے کو نوچ رہا تھاتو الم نصیب مچھلیاں اور مینڈک مہاراجہ گدھ کے پاس پہنچے اور مہاراجہ گدھ کو اپنی داستانِ غم سنائی۔ مہاراجہ گدھ نے مچھلیوں، مینڈکی اور مینڈک کے غم کا فسانہ سنا تو بولا:

’’دریاؤں میں رہنے والی مخلوق مگر مچھ سے دشمنی رکھے گی تو اپنی جان کو روگ لگائے گی۔ ہر مگرمچھ کی آنکھوں میں خنزیر کا بال ہوتا ہے اگر وہ پانی یا خشکی کے جانوروں سے دوستی کرے گا تو اپنی ذات سے دشمنی کرے گا۔ بہتر یہی ہے کہ مگر مچھ کے شر سے بچ کر کہیں اور چلے جاؤ۔‘‘

یہ سن کر مینڈک اور مینڈکی سردیوں کی آ مد پر دریا سے نکل کر خشکی پر آ گئے اور پیلوں کے درخت کے نیچے کریروں کے جھنڈ میں ایک سوراخ میں چھپ گئے اور ہائی بر نیشن(Hibernation) میں چلے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ سردیاں ختم ہونے کے بعد جور و ستم کی یہ ہوا شاید تھم جائے۔

مگر مچھ نے جب یہ دیکھا کہ آبی مخلوق تو اب اس کی دسترس میں نہیں تو وہ آنسو بہاتا ہوا دریا سے باہر نکلا اور پیلوں کے درخت کے نیچے رہنے والے ایک خرگوش کے پاس پہنچا اور کہا:

’’واہ! تم کس قدر خوب صورت جانور ہو؟ تمھارا نام ’’خرگوش‘‘ کتنا اچھا ہے۔ تمھارے کان گدھے کے کانوں جیسے ہیں۔ مشکل حالات میں کئی بار میں نے بھی گدھے کو اپنا باپ بنایا ہے۔‘‘

خرگوش نے کہا: ’’اکثر جانور یہ کہتے ہیں کہ صرف میرے کان ہی گدھے جیسے نہیں بل کہ میرے کام بھی گدھے جیسے ہیں۔‘‘

مگر مچھ نے خرگوش کی بات سنی تو ہنستے ہوئے بولا ’’مہاراجہ گدھ ابھی ایک مردہ گدھے کے ڈھانچے کو نوچ رہا تھا۔ گدھا تو ہم دونوں کا محبوب جانور ہے ہم یہ ظلم برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

’’آج سے ہماری دوستی پکی ہو گئی۔‘‘ خرگوش نے مگر مچھ سے کہا ’’اب تم بلا خوف و خطر خشکی پر میرے گھر آ کر آرام کر سکتے ہو اور میرے بچوں پر شفقت کر سکتے ہو۔‘‘

چمگاڈر نے خرگوش اور مگرمچھ کی دوستی کی مہاراجہ گدھ کو مخبری کر دی۔ مہاراجہ گدھ نے خرگوش کی مگر مچھ کے ساتھ دوستی کے اس ناتے کو جان لیوا قرار دیتے ہوئے کہا:

’’خبر دار! مگر مچھ سے بچ کر رہنا ورنہ یہ تمھارے بچوں کو کھا جائے گا۔ آئندہ اگر یہ ظالم مگر مچھ تمھارے پاس آیا تو تمھیں اس حکم عدولی کا خمیازہ اُٹھانا پڑے گا۔ میں مگر مچھ کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

مہاراجہ گدھ کے اس حکم کے بعد مگر مچھ اور خرگوش نے چوری چھپے ملتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ مگر مچھ نے خرگوش سے کہا:

’’تم کہیں سے ایک رسی لانا وہ میں اپنے پیٹ سے باندھ لوں گا اور تم بھی وہی رسی اپنے پیٹ سے باندھ لینا، جس وقت مہاراجہ گدھ مردا رخوری کے لیے پیلوں کے درخت سے کہیں دُور پرواز کر جائے تم دو قدم دریا کی مخالف سمت چلنا۔ رسی کے کھنچنے کے بعد میں دریا سے نکل کر تمھارے پاس آ جاؤں گا اور تمھارے بچوں کو نئے گیت سنا کر ان کا دِل بہلاؤں گا۔‘‘

خلوص، مروّت، وفا اور ہمدردی کا جعلی لبادہ اوڑھ کر مگر مچھ نے خرگوش کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ وہ اس قدر عیاری سے فریب کرتا کہ خرگوش کو گمان بھی نہ گزرتا کہ مگر مچھ اُسے جُل دے کر اس کے بچوں کو ہڑپ کر جاتا ہے اور اس کے بعد آنسو بہانے لگ جاتا ہے۔ خرگوش اپنے تیز دانتوں سے ایک بیل کی گردن سے لمبی رسی کاٹ لایا اور طے شدہ منصوبے کے مطابق رسی کا ایک سرا تو مگر مچھ کے پیٹ سے باندھ دیا جب کہ دوسرا سرا خرگوش نے اپنے پیٹ سے باندھ لیا۔ اس طرح کی ملاقاتوں میں مگر مچھ اور خرگوش کی دوستی تو بڑھنے لگی مگر خرگوش کے بچوں کی تعداد تیزی سے گھٹنے لگی۔ مہاراجہ گدھ کے سراغ رساں پرندوں زاغ، زغن اور چغد نے خرگوش اور مگر مچھ کی خفیہ ملاقاتوں کے بارے میں مہاراجہ گدھ کو آگاہ کر دیا۔ دوسری طرف خرگوش بھی آستین کے سانپ کی اصلیت جان چکا تھا مگر فریب خوردہ خرگوش بے بسی کے عالم میں کچھ کرنے سے قاصر تھا۔ گلہری نے خرگوش کو سمجھایا تو وہ اپنے بچوں کے نہ ہونے کی ہونی کے بارے میں سب حقائق جان گیا مگر اُس نے چُپ سادھ لی اور مگر مچھ سے رابطے کم کر دئیے۔

ایک دِن مگر مچھ نے خرگوش سے شکوہ کیا کہ ان کے قریبی تعلقات میں بگاڑ کیوں پیدا ہو گیا ہے؟

ایسے بگڑے کہ پھر خبر بھی نہ لی

دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا

ایک سہ پہر مہاراجہ گدھ جب پیلوں کے درخت سے اُ ڑا تو خرگوش تیزی سے دریا کی مخالف سمت بھاگا اور رسی تن گئی۔ مگر مچھ خوشی سے پھولا نہ سمایا اور خرگوش کے نرم ونازک بچے نگلنے کی تمنا میں دریا کے گہرے پانی سے باہر نکل کر خشکی پر آ گیا۔ وہ پیلوں کے درخت کے تنے کی کھوہ میں خرگوش کے بسیرے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک گدھ نے اُسے اپنے پنجوں میں دبوچ لیا۔ پیلوں کے بلند درخت کی چوٹی پر بیٹھ کر گدھ نے مگر مچھ کی گردن توڑ دی، آنکھیں نکال کر نگل گیا، اُس کی کھال ادھیڑ دی اور اُس کے گوشت کو نوچنا شروع کر دیا۔ اس اثنا میں خرگوش رسی سے بندھا ہوا میں لٹک رہا تھا۔ گلہری کی نظر پڑی تو وہ اونچی چھلانگ لگا کر رسی تک پہنچی اور خرگوش سے کہنے لگی:

’’مہاراجہ گدھ تو مگر مچھ کو پکڑ کر پیلوں کے درخت کی چوٹی پر بیٹھ کر مزے سے اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا ہے۔ تم یہاں رسی سے لٹکے کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’میں مگر مچھ کے ساتھ اپنی دشمنی کا حق ادا کر رہا ہوں۔‘‘

یہ سنتے ہی گلہری نے خرگوش کے پیٹ کے ساتھ بندھی رسی کو کاٹنا شروع کر دیا خرگوش نے حیرت سے کہا:

’’بی گلہری! یہ تم کیا کر رہی ہو؟‘‘

گلہری نے خرگوش کے کان میں کہا:

’’خرگوش میاں! صرف تمھارے کان ہی گدھے جیسے نہیں بل کہ تمھاری سرشت بھی گدھے جیسی ہی ہے۔ آستین کے سانپوں کے فریب کھا کر اذیتیں اور عقوبتیں برداشت کرنا تمھاری سر نوشت میں داخل ہے۔ میں نے رسی کاٹ ڈالی ہے اب سیدھے اپنے بچوں کے پاس جاؤ اور آئندہ کسی جعل سا ز، فریبی اور مکار کے ساتھ پیمانِ وفا کبھی نہ باندھنا۔ تم نے تو مگر مچھ کے ساتھ اپنی دشمنی کا حق ادا کر دیا اب میں نے تمھارے ساتھ اپنی دوستی کاحق ادا کر دیا ہے۔ جنگل میں ہر جانور کو اپنے حقوق ادا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

٭٭٭







جاہل کہیں کے (گیدڑ پروانہ)





نو آبادیاتی دور سے بے تعلق رہنے والی اس کہانی کے آغاز و انجام پر ابلق ایام کے سموں کی گرد ایسے پڑی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اس کہانی کا دیہی زندگی، کسانوں، دہقانوں، گوٹھ و گراں، جنگلوں اور کھیتوں و کھلیانوں سے اکہرا مگر نسبتاً کم گہرا تعلق ہے۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں حبس اور جبر کا ماحول دیکھ کر پِتا پانی ہو جاتا ہے۔ اس جگہ قسمت سے محروم دیہی علاقوں کے محنت کش مکین جو رہینِ ستم ہائے روزگار اور ان کے مویشی حالات کے رحم و کرم پر رہنے پر مجبور ہیں۔ دُور دراز دیہی علاقے میں واقع جس گاؤں کی یہ کہانی ہے وہاں کے باشندوں کے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ نسل در نسل ان کی زندگی کولھو کے بیل کے مانند ایک ہی ڈگر پر چل رہی ہے۔ ساری دنیا بدل رہی تھی مگر یہ گاؤں جو طوفان نوح ؑ کی باقیات میں سے تھا طرز کہن کی مظہر اپنی قدامت پر اڑا پیہم اس کی حفاظت کر رہا تھا۔ یہاں کا ماحول تو پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا مگر روّیوں کے اعتبار سے یہ اس قدر عجیب تھا کہ رفتہ رفتہ کوفے کے قریب ہو رہا تھا۔ گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر ندی کے کنارے جھونپڑیوں میں رہنے والے جفا کش دہقان موسم کی تمام سبزیاں، تربوز، خربوزے، مونگ پھلی، ککڑیاں اور شکر قندی کاشت کرتے تھے۔ اسی کاشت پر اُن کی گزر اوقات تھی اور وہ صبر و شکر سے زندگی کے دن گزار تے تھے۔

گاؤں کے نواح میں ایک ندی بہتی تھی، ندی سے کچھ دُور ایک دریا بہتا تھا جس کے کنارے پر کئی میل پر پھیلا ہواصدیوں پرانا ساجھووال کا مشہور قدرتی جنگل تھا۔ اِس گھنے جنگل میں بڑی تعداد میں گیدڑ، بھیڑیے، لنگور، خرگوش، خار پُشت، خنزیر، ناگ اور کنڈیالے چوہے رہتے تھے۔ اس گھنے جنگل میں جنگل کے قوانین و دساتیر کے مطابق گیڈروں کا سردار ایک مہا گیدڑ تھا جس کی ہر بات جنگل میں رہنے والے گیدڑ مانتے تھے۔ خربوزے پکتے تو گیدڑوں کی بن آ تی اور وہ مہا گیدڑ کی قیادت میں خربوزوں کے کھیتوں میں جاتے جی بھر کر میٹھے میٹھے خربوزے کھاتے تھے۔ ایک مرتبہ زبردست آ ندھی آئی اور کئی درخت جڑوں سے اکھڑ کر دُور جا پڑے۔ مہا گیدڑ کا ٹھکانہ بھی اِس طوفانِ باد و باراں کی زد میں آ گیا اور ایک نخل تناور اس پر آ گرا۔ اس حادثے کے نتیجے میں مہا گیدڑ کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں، شدید زخموں اور چوٹوں کے باعث وہ چلنے سے معذور ہو گیا۔ مہا گیدڑ پر بہت کڑا وقت تھا وہ بھوک سے اس قدر نڈھال تھا کہ اس کے لیے دو قدم بھی چلنا محال تھا۔ جس وقت مہا گیدڑ حواس باختہ، غرقابِ غم اور نڈھال تھا تواس نے اپنے ساتھی گیدڑوں کا بلایا اور کہا:

’’تم سب گیدڑ کس قدر محسن کش، موقع پرست، طوطا چشم اور بروٹس قماش کے عیار ہو کہمجھ خاک نشیں کو پریشاں حالی و درماندگی میں دیکھ کر تم سب نے اپنی اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی ہے۔ تمھار اروّیہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تمھاری آنکھ میں خنزیر کا بال ہے۔ جب سے میری ٹانگیں ٹوٹی ہیں شکم کی بھوک نے مجھے نڈھال کر دیا اور تمھیں مجھ شکستہ دِل کا کوئی خیال ہی نہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں میری اہلیہ بھیں گی گیدڑی بھی میرا ساتھ چھوڑ کو کسی اور عقل کے اندھے گیدڑ کے ساتھ پیمانِ وفا باندھ کر جنگل میں منگل مناتی ہے اور میٹھے خربوزے کھا کر گل چھرے اُڑاتی پھرتی ہے۔ میرے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا ہے میرے درد لا دوا ہر گز نہیں مگر میرے ساتھ المیہ یہ ہے کہ سب چارہ گر میری چارہ گری سے گریزاں ہیں اور اپنی دھُن میں مست خربوزے اور ککڑیاں کھانے میں مصروف ہیں۔‘‘

’’تم کالی دیوی کی پجارن ہماری دیرینہ محسن اور درد آشنا گیدڑی پر ناحق الزام تراشی کر کے جی کا زیاں کرر ہے ہو۔ تم لمبی کہانیوں نہ سناؤ اب اپنے مطلب کی بات کرو۔‘‘ ایک عیار گیدڑ نے دم ہلاتے اور دانت پیستے ہوئے کہا ’’یہ بات واضح کر و کہ اس وقت تمھاری فاقہ کشی کا مداوا ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ ‘‘

’’تم رات کی تاریکی میں جس وقت جی بھر کر خربوزے کھاتے ہو تو میرے لیے بھی کھیتوں سے کچھ خربوزے توڑ کر ساتھ لایا کرو۔‘‘ مہا گیدڑ نے روتے ہوئے کہا ’’تمھاری اس مہربانی سے میں بھی اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لوں گا۔‘‘

’’کھیتوں کے مالک کسانوں اور دہقانوں نے اب بڑے بڑے آ لسیشن کتے پال رکھے ہیں۔‘‘ایک گیدڑی نے ٹسوے بہاتے ہوئے کہا ’’ہمیں تو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ اب تو ہم بھی خربوزوں کے کھیتوں کا رخ نہیں کرتے۔ ہمارا بھی ڈیہلوں، لسوڑیوں، پیلوں، جنگلی بیری کے بیر، پیلکوں، کھمبیوں اور حنظل پر گزارا ہے۔ کسانوں، مزارعوں اور دہقانوں کی سادیت پسندی کی وجہ سے ہم خود خربوزوں کے لیے ترس گئے ہیں تمھارے لیے خربوزے کہاں سے لائیں؟‘‘

مہا گیدڑ کے چہرے پر نحوست، بے توفیقی اور عیاری کی لکیریں گہری ہو گئیں اس نے غیظ و غضب کے عالم میں کہا ’’پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کسانوں کے کتوں سے تمھیں بچانے کی کوشش کی جائے گی۔ میں اس مسئلے کا حل ضرور تلاش کر لوں گا۔ کل شام تم یہاں آ جانا میں تمھیں مطمئن کروں گا۔‘‘

دوپہر کے وقت تیز ہوا چلنے لگی ایک انگریزی اخبار کا صفحہ نہ جانے کس طرف سے ہوا میں اُڑتا ہوا مہا گیدڑ کے قریب آ کر گر پڑا۔ مہا گیدڑ نے فوراً وہ صفحہ اچک لیا اور اپنے پیٹ کے نیچے رکھ کر اطمینان سے لیٹ گیا۔ اتنی بے پایاں مسرت تو ہنومان جی کو سنجیونی بُوٹی والا پہاڑ اُٹھانے کے بعد بھی نہیں ہوئی تھی جتنی انگریزی اخبار کا صفحہ ملنے کے بعد مہا گیدڑ کو ہوئی تھی۔

پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق اگلی رات سب گیڈر اپنے سردار مہا گیدڑ کے ٹھکانے پر اکٹھے ہو گئے۔ مہا گیدڑ نے انگریزی اخبار کا وہ چیتھڑا جو اس نے لپیٹ کر اپنے پیٹ کے نیچے چھپا رکھا تھا باہر نکالا اور فخر سے انگریزی اخبار کا وہ صفحہ دوسرے گیدڑوں کو دکھا کر کہنے لگا:

’’اے قلعۂ فراموشی کے مفرور گیدڑو! تمھیں کیا معلوم کہ جب سے میں بیمار ہوا ہوں پورا جنگل سنسان ہو گیا ہے۔ ریچھ، ہاتھی، بھیڑیے، چیتے اور شیر سب مجھے اپنا مشیر اور محسن سمجھتے ہیں۔ میری گوشہ نشینی کے باعث جنگل کے سارے قوانین اور جنگل کا پورا نظام بھی تلپٹ ہو گیا ہے۔ میری بیمار پرسی کے لیے آج دو پہر کمپنی بہادر کا نمائندہ بھی یہاں کچے دھاگے سے کھنچا چلا آیا تھا۔ میں نے کسانوں کی گیدڑ دشمنی اور سادیت پسندی سے اُسے آگاہ کر دیا ہے۔ یہ گیدڑ پروانہ مجھے کمپنی بہادر کا نمائندہ دے گیا ہے۔ اب کوئی دشمن تم پر حملہ آور ہو تو اُسے یہ گیدڑ پروانہ دکھا دینا وہ فوراً وہاں سے رفو چکر ہو جائے گا۔ اب جنگل کی مخلوق کو جان لینا چاہیے کہ گیدڑوں کی راہ میں جو دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔‘‘

اگلی رات تو خیریت سے گزر گئی نہ تو کسی کسان نے گیدڑوں کو روکا اور نہ ہی کہیں سے کوئی کتا بھونکا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کھیتوں کے سب محافظ خچر بیچ کر مُردوں سے شرط باندھ کر لمبی تان کر سو گئے ہیں۔ سب گیدڑوں نے جی بھر کر خربوزے کھائے اور واپسی پر مہا گیدڑ کے لیے بھی بہت سے خربوزے لائے۔ سب گیڈر خوش تھے کہ مہا گیدڑ کی وجہ سے انھیں جو گیدڑ پروانہ ملا ہے اس کی وجہ سے اب انھیں کھیتوں سے خربوزے کھانے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ خربوزے کھانے کے بعد مہا گیڈر کے ٹھکانے پر سب گیدڑوں نے خوب دھمال ڈالی اور فیصلہ کیا کہ مہا گیدڑ کی گیدڑ دوستی کے صلے میں اب جنگل کا بادشاہ شیر نہیں بل کہ مہا گیدڑ ہی ہو گا۔

دوسرے دن شام ڈھلی تو گیڈر بے چینی سے راتوں کے پچھلے پہر کے منتظر تھے۔ ساری دنیا محو خواب تھی مگر گیدڑ تارے گن رہے تھے۔ جوں ہی گیدڑ خربوزوں کے کھیت میں داخل ہوئے کسان لاٹھیاں لے

کر غارت گر گیدڑوں پر ٹوٹ پڑے اور شکاری کتے بھونکتے ہوئے گیدڑوں پر جھپٹے اور انھیں کاٹنے لگے۔ گیدڑوں کا گرم مزاج سرغنہ اپنے منھ میں گیدڑ پروانہ تھامے کسان کی طرف بڑھا تو کسان نے اُس پر لاٹھی سے وار کیا اور گیدڑوں کے سرغنہ کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ زخموں سے چُور گیدڑ وہاں سے بھاگ نکلے اور واپس مہا گیدڑ کے پاس پہنچے۔

گیدڑوں کے سر غنہ نے گیدڑ پروانہ مہا گیدڑ کے سامنے پھینک دیا اور کہا ’’خربوزوں کے کھیتوں کے مالکوں نے اس گیدڑ پروانے کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔‘‘

زخمی گیدڑوں کی چیخ پکا رسن کر مہاگیڈر آگ بگولا ہو گیا اور گیدڑ بھبکی دینے لگا ’’اے میرے زخم خوردہ ساتھیو! تم سب جانتے ہو کہ اس جنگل میں شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اونہہ! جاہل کہیں کے، میں ان سب حملہ آوروں سے نپٹ لوں گا۔ یہ بُزِ اخفش کیا جانیں کہ دنیا بھر کے ہر جنگل میں اب گیدڑ پروانہ ہی چلے گا۔

آنے والے دور میں وہی یگانہ ہو گا

جس کے پاس کوئی گیدڑ پروانہ ہو گا‘‘

٭٭٭







تیسری دفعہ کا ذکر ہے (سنی ان سنی کہانی)





تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ دُور دراز علاقے میں کسی سنسان مقام پر ایک گھنا جنگل تھا۔ ظاہر ہے اس جنگل میں خونخوار درندوں کی کثرت تھی مگر اس کے ایک گوشے میں لمبے سینگوں والے دو فربہ بیل اکٹھے رہتے تھے۔ ان دونوں بیلوں کی دوستی اس قدر پکی تھی کہ کوئی درندہ اپنے مکر کی چالوں سے اس میں کبھی کوئی رخنہ نہ ڈال سکا۔ دونوں بیل جس چراگاہ میں جاتے اکٹھے جاتے اور وہاں سے جی بھر کا چارہ کھاتے اور کچھ دُور بہنے والی ندی سے پانی پی کر کسی سایہ دار درخت کے سائے میں اکٹھے لیٹ کر جگالی کرتے تھے۔ بھیڑیے بھی ان بیلوں سے خوف زدہ رہتے تھے۔ گھنے جنگل میں سے لکڑیاں کاٹنے کے لیے جانے والا لکڑہارا تُلا بڑھئی بھی ان بیلوں کو للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ تُلا بڑھئی چاہتا تھا کہ کسی طرح ان بیلوں کو پکڑ کر مویشی منڈی میں فروخت کرے اور زرو مال سے اپنی تجوری بھر لے۔ ایک دِن اُس نے جنگل میں ایک درخت کے نیچے جال لگایا اور اُس جال میں دونوں بیلوں کو پھانسنے کے لیے باجرہ، جوار، مکئی اور کماد کا گٹھڑ رکھا اور خود موٹے رسوں سے تیار کیے گئے جال کا سرا تھام کر اُسی درخت کی چوٹی پر چادر اوڑھ کر بیٹھ گیا۔ لمبے سینگوں والے موٹے بیل نرے ڈھگے نہیں تھے وہ اس سازش کو سمجھ گئے کہ جال میں رکھا ہوا باجرہ، جوار، مکئی اورکماد کا گٹھڑ ضرور کوئی چال ہے۔ کسی بیل نے بھی بے چارے تُلا بڑھئی کے رکھے ہوئے سبز چارے کے گٹھڑ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا اور ندی کے کنارے اُگی ہری ہری گھاس چرنے لگے۔ شام ہوئی تو تُلا بڑھئی اپنا خالی جال سمیٹ کر مایوسی کے عالم میں جب گھر لوٹ رہا تھا تو مُرلی قصاب اسے راہ میں ملا۔ جب اس نے مرلی قصاب کو اپنی ناکام مہم جوئی کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگا:

’’یہ تو آ بیل مجھے مار والی بات ہوئی، اے مُورکھ بڑھئی! تُو صرف خشک لکڑیاں ہی کاٹ سکتا ہے جان داروں کی گردن کاٹنا تیرے بس کی بات نہیں۔ کیا تُو نے جنگلی بیلوں کو کولھو کا بیل سمجھ رکھا ہے جو تیرے اشارے پر بھاگتے چلے آتے۔ ایک قصاب کی حیثیت سے میں جان داروں کے گلے بے تحاشا کاٹتا ہوں مگر میرا دِل بالکل نہیں پسیجتا۔ اپنی بے رحمی اور شقاوت پر میرا رویہ کبھی معذرت خواہانہ نہیں رہا جب میرا آب و دانہ اس دنیا سے اُٹھے گا تو مجھے اپنی شقی القلبی پر کوئی پچھتاوا نہیں ہو گا۔ کسی بھی جنگل کے فربہ بیلوں کو چھری کے نیچے آنے پر مائل کرنے اور اُنھیں اپنی جان دینے پر قائل کرنے کے لیے ساہی والی کی دودھیال گائے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ گائے مصنوعی نسل کشی کے لیے معالج حیوانات کے مصنوعی تخم ریزی کے سلنڈر کی طرف تو بڑے اشتیاق سے دیکھ سکتی ہے مگر کسان کے کھونٹے سے بندھا کوئی فربہ بیل اُس کی آنکھ میں جچتا ہی نہیں۔‘‘

اگلے دن مُرلی قصاب نے ساہی وال نسل کی اپنی سرخ خوب صورت دودھیال پالتو گائے کی رسی پکڑی اور جنگل کی جانب روانہ ہو گیا۔ لکڑہارے کی بتائی ہوئی جگہ پر اس نے اپنی پالتو ساہی وال نسل کی گائے کھڑی کر دی اور خود عیاری و مکاری کے ایک گہرے گڑھے میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ مُرلی قصاب کے اچانک آنکھوں سے اوجھل ہو جانے کے بعد ساہی وال نسل کی خوب صورت گائے نے عالم تنہائی میں درد انگیز نالوں کی صورت میں بلند آواز نکالنا شروع کر دی۔ گائے کی درد بھری آواز سُن کر دونوں بیل دوڑتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ پہلے تو دونوں بیلوں نے حیرت اور مسرت سے سامنے کھڑی خوب صورت گائے کو دیکھا۔ اس کے بعد دونوں بیل رقابت کے جذبات سے ایک دوسرے کو گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ مُرلی قصاب کی گائے نے ایک اچٹتی سی نگاہ ان جنگلی بیلوں پر ڈالی اور اس کے بعد بیزاری سے منھ دوسری طرف پھیر لیا۔ پہلے ایک بیل گائے کی طرف بڑھا تو دوسرا بیل اپنے جلد باز ساتھی پر جھپٹا۔ اچانک دونوں بیل آپس میں لڑنے لگے اور پے در پے ٹکریں مار مار کر ایک دوسرے کو لہو لہان کر دیا۔ جب دو جنگلی بیلوں کی کھٹ پٹ زوروں پر تھی تو گائے نے جھٹ پٹ اپنے بچنے کی فکر کی اور وہاں سے دُور چلی گئی۔ مُرلی قصاب عیاری و مکاری کے گڑھے سے باہر نکلا اور ساہی وال نسل کی اپنی پالتو گائے کی رسی تھام کر اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ جب بیلوں نے دیکھا کہ وہ گائے جس کی خاطر وہ آپس میں لڑ رہے تھے وہ تو کب کی یہاں سے روانہ ہو چکی ہے تو وہ لڑائی سے کنارہ کش ہو گئے اور پھنکارتے ہوئے گائے کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ مرلی قصاب اپنی ساہی وال نسل کی گائے کی رسی پکڑے جب اپنے گھر کی چار دیواری میں داخل ہوا تو بیل بھی ایک ایک کر کے اس کے گھر میں داخل ہو گئے۔ مرلی قصاب نے دونوں بیلوں کو باری باری بالٹی سے پانی پلایا۔ پانی پینے کے بعد زخموں سے چُور دونوں بیل زمین پر لیٹ گئے۔ گائے نے زمین پر لیٹے ہوئے اجل گرفتہ بیلوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا اور ونڈا کھاتی رہی۔ اس اثنا میں مُرلی قصاب نے دونوں بیلوں کے گلے میں ایک مضبوط رسی ڈالی اور انھیں زمین میں گڑے کھونٹے سے کچھ فاصلے پر باندھ دیا۔ مرلی قصاب نے اگلی صبح منھ اندھیرے مذبح خانے میں دونوں بیل ذبح کر دئیے اور شہر کے قصاب ان کا گوشت بیچ رہے تھے۔ سنا ہے مرلی قصاب اپنی پالتو ساہی وال کی گائے کو اب کسی اور بیل کے شکار کے لیے استعمال کرنے کی فکر میں ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید