صفحات

تلاش کریں

ناولٹ:من کی ملکہ (شہناز شورو)

گزشتہ چار دن کی بارش نے پورے شہر کو جل تھل کر دیا تھا۔ آسمان غریب کی چادر کی طرح جگہ جگہ سے پھٹا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ آج پہلا دن تھا کہ آسمان کے چھید رفو ہوتے محسوس ہوئے۔ آج صبح بھی بارش ہوئی تھی مگر مختصر سے وقت کے لیے۔ پھر سورج نے پلکیں جھپکائیں تو گویا زندگی جاگ اُٹھی۔ روز بہ روز پرانے ہوتے شہر کہاں اتنی شدت کی تاب لا سکتے تھے۔ شہر کی ہر گلی میں نکاسی کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے پانی کھڑا تھا۔

’’بھائی صاحب ذرا سنبھل کے، اس طرف سامنے گڑھا ہے، اُس میں نہ سائیکل سمیت گر جائیں۔ اس طرف سے آئیے راستہ صاف ہے۔‘‘ آسمانی کپڑے پہنے، کمر سے نیچے تک سیاہ لچھے دار بال پھیلائے، قدرے دل پذیر نقوش والی لڑکی ایک دروازے سے نمودار ہوئی۔ ایک پٹ کھلا، دوسرا بند۔ دونوں سائیکل سواروں نے اس پر ایک نگاہ ڈالی۔ سانولی کی سنجیدگی کو دیکھ کر ذرا زیادہ ہی ٹپ ٹاپ لڑکے کو خود کو مہذب ثابت کرنے کا خیال آیا اور سائیکل ہاتھ سے تھامے، مڑ کر بولا … ’’بہت شکریہ میڈم‘‘

مگر میڈ ہی منہ سے نکلا ’’م‘‘ کچھ سے کچھ بن گیا۔ کیونکہ اگلے ہی لمحے دونوں لڑکے سائیکلوں سمیت غڑاپ سے۔۔. پانی کے اندر تھے۔ نہ جانے کہاں کہاں چھپی ہوئی لڑکیوں کی ہنسی کے جلترنگ پانی بھری گلی میں بجنے لگے۔ دونوں لڑکوں کی حالت قابلِ دید تھی۔ کیچڑ میں پھنسی سائیکلیں نکالیں۔ خود ان کا اپنا حال بھی برا تھا۔ ذرا دیر پہلے کی رنگارنگ ستھری شرٹس اور نہائے دھوئے چہرے کچھ سے کچھ ہو چکے تھے۔ واپسی کا سفر بھی وہی گلی تھی کہ آگے جانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ لڑکیاں حلق پھاڑ پھاڑ کر ہنس رہی تھیں۔ نسبتاً صاف رنگت والے لڑکے نے گھور کر آفت کی پرکالہ کی طرف دیکھا۔ سانولی سنجیدگی کی جگہ گلابی مست ہنسی نے چہرے کو گلال کیا ہوا تھا۔ ’’بدمعاش کہیں کی‘‘ لمبا لڑکا منہ ہی منہ میں بولا اور دونوں اپنی اپنی سائیکلیں سنبھالتے ہوئے شرمندگی سے مسکراتے ہوئے گلی سے باہر جا نکلے۔

کیا محلہ تھا۔ بقول میری نانی … ’’کنجر خانہ‘‘ تھا۔ پتہ نہیں کہاں کہاں کی ٹہنی آ کر لگی تھی یہاں۔ نہ خاندان، نہ ماضی، نہ اوقات۔ معلوم نہیں کہاں کہاں سے آ کر آباد ہوئے تھے سب کے سب۔ ہجرتوں کی گرد سب کے ماضی کو اَٹے ہوئے تھی۔ زیادہ سے زیادہ اگر کسی کو اپنے خاندان کے بارے میں کچھ پتہ تھا تو وہ یا تو ماں کا نام تھا یا باپ کا۔ دادا یا نانا کا نام پوچھو تو اوسان خطا ہو جاتے۔ کافی لوگ تو ایک دوسرے سے اپنی ذات پوچھتے پھرتے۔ کچھ زیادہ سیانے ایک دوسرے کو مشورہ دیتے پائے جاتے … ’’اے میاں اپنی ذات قریشی رکھ لو۔‘‘ ’’ارے بھیا سید کہلوا لو۔‘‘ سیاہ دوات جیسے چہرے پر پیلے پیلے دانت نمایاں کرتے ہوئے کہتے ’’بھیا ہم تو مغل خاندان سے ہیں۔‘‘ ذاتیں وغیرہ بنانے میں انہیں زیادہ عرصہ نہ لگا تھا، مگر میری نانی ان سب کو حجام، قصائی، اُٹھائی گیرے یا اُچکے کہا کرتی تھیں اور مرحومہ آخری وقت تک اپنے بیان پر قائم رہیں۔ ایسے میں مَلکوں کا گھر سب کا دفتر تھا۔ تین لڑکیاں، تین لڑکے اور سب کے سب فنکار … اور ملکانی صاحبہ ذاکرانی!

ذکر محرم کے چالیس دن، اُلٹی چارپائیاں، اہلِ تشیع کے علاوہ ساری اُمت پر پھٹکاریں۔ اُبلے چنے، چینی ملے پانی کے ڈول، کالے کپڑے اور چادریں۔ مجلسیں … تعزیے … اب تک میرے حافظے میں محفوظ ہیں۔

ذاکرانی، جس کو نانی، نوٹنکی، بلاتیں، ’’ایک ذاکرانی اور سو میلادیں‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ ذاکرانی کا گلا پھول چکا تھا۔ میلاد پڑھتے ہوئے، گلے سے ذبح ہوتے بکرے کی طرح کی آوازیں نکلنا شروع ہوئیں تو بڑی بیٹی نے مسند سنبھال لی، مگر بڑی کو جلد ہی اپنی اہمیت کا احساس ہو گیا اور اس نے اپنی توجہ فلمی گانوں کی طرف مبذول کر لی۔ چھوٹے موٹے پروگراموں میں کم ریٹ پر بھی گا لیا کرتی تھی۔ پھر درمیانی کا نمبر آیا مگر اس کے گلے سے کچھ برآمد نہ ہوا … آخر میں سب سے چھوٹی کی باری آئی۔ مگر چھوٹی جب تک ماں کے دوپٹے کے پلو میں بندھے روپے نہ تڑواتی، ہرگز ساتھ نہ جاتی۔ ہاں البتہ یہ ہوا کہ جیسے ہی چھوٹی نے مجلسوں میں قدم رکھنا شروع کیا … تو مرثیہ سننے گویا پورا شہر اُمڈ پڑا۔

جہاں جہاں مجلس ہوتی، وہاں وہاں چھوٹی کو لانے کی فرمائش کی جاتی۔ چھوٹی ہی اب ذاکرانی کی کمائی کا ذریعہ تھی سو اس کے نخرے تو سہنا تھے۔ اسے ضرورت سے زیادہ آزادی بھی میسر آ گئی۔ چھوٹی، سارا دن گلی میں پھرتے، آتے جاتوں پر آوازیں کستی، کیا جوان کیا بوڑھے، ہر ایک سے عشق جماتی اور صبح سے شام تک دہی بھلوں سے لے کر مونگ پھلی کی سوغاتوں میں پوری گلی کی لڑکیوں کے ساتھ مستی کرتی۔ مجال ہے، کوئی شریف آدمی اس گلی سے عزت بچا کر لے جائے۔ مگر وہ ایسی بے پرواہ کہ اشاروں سے ماں کو اندر جانے کا کہہ کر، سامنے کوشلیا اور مہندر کے گھر لہک لہک کر بھجن پڑھا کرتی۔ ایسے سوز و لحن کے ساتھ کہ شیلا موسی بڑی لجاجت کے ساتھ اسے دوبارہ آنے کا کہتی اور ہاتھ میں ڈھیر سارے بتاشے تھما دیتی۔

ملکانی مر گئی۔ بڑی بہنوں کی شادیاں ہو گئیں۔ نشئی بھائی، اِدھر اُدھر لڑھکتے پڑے رہتے اور وہ اپنی دنیا میں مست مگن ہو گئی۔

نانی کا دستور تھا کہ رات کے کھانے کے بعد میری انگلی تھام کر گلستانِ بلدیہ کی سیر کو لے کر جاتیں تو باقی بہن بھائی بھی ساتھ ہوتے۔ پارک میں پہنچ کر نانی کنول کے پھولوں کی پوترتا کے قصے سناتیں۔ کانٹوں میں سر اُٹھا کر جینے والے گلاب کی آفاقیت پر روشنی ڈالتیں۔ تازہ ہوا، صفائی کے اصولوں، نیک خیالات اور حسن کے باہمی تعلق کے راز افشا کرتیں۔ اچھی لڑکیوں کے طور طریقوں، عادات، ہنسنے بولنے، نفیس لباس اور تہذیب یافتہ معاشروں کی اقدار بیان کرنے میں نانی کو کمال حاصل تھا۔ خاندانی اثر اور آنے والی نسل کی بھلائی کے لیے موجودہ نسل کی تربیت کے ساتھ ساتھ، میری عمر کی، میرے علاوہ باقی تمام لڑکیوں کی ایسی کی تیسی کر کے جب اپنی گلی میں داخل ہوتیں تو زمین پر پھسکڑے مارے لڑکوں اور لڑکیوں کے گروپ کو دیکھ کر میری امرتسری نانی کو بڑا جلال آیا کرتا، اپنی حسین ستواں ناک کو بڑی نخوت سے سُکیڑ کر، گول گول ہونٹوں کا دایاں گوشہ ذرا گرا کر، بڑی شانِ بے نیازی سے اس گروپ کے پاس سے گزرا کرتیں۔ مجال ہے جو کبھی کسی کے سلام کا جواب دیا ہو اور یہ واپسی کا منظر، اپنے دہلتے دل کے ساتھ، مجھے یوں روز دیکھنا ہوتا تھا کہ نانی کے خیال میں رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی نہ کرنے سے انسان ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے۔ مگر واپسی میں میری ہم عمر لڑکیوں کے جتھے دیکھ کر مجھے ’’کچھ کچھ ضرور ہوتا تھا۔‘‘ میرے پاؤں میں بند جوتے اور گرما گرم موزے اور ان سب کے مٹی میں رُلتے پیر، میرے قرینے سے، دو چوٹیوں میں نفاست سے گندھے بال اور یہاں کمر سے بھی نیچے تک بغیر تیل کے روکھے سوکھے، ہواؤں میں اٹھکیلیاں کرتے بے پرواہ بال۔ ہم رات کے کھانے کے بعد، دانت صاف کر کے چہل قدمی سے واپس آتے اور یہاں مونگ پھلی والے کو اپنی مسکراہٹوں سے حلال کر کے، اس کے ٹھیلے سے گچک، السی اور سفید تل کے لڈو، لچھے اور ریوڑیاں اڑائی جا رہی ہوتیں۔

نانی، فوراً میرا ہاتھ زیادہ زور سے دبا کر (بقول نانی) اس کنجر خانے کے پرلی طرف کر دیتیں۔ مگر صبح اسکول جاتے ہوئے اور واپسی میں تو مجھے اکیلے ہی اس میدانِ کارزار کو عبور کرنا ہوتا تھا۔ ملکانی کی چھوٹی نے ایک دن صبح صبح اسکول جاتے ہوئے میرا راستہ روکا۔ میں وحشتوں کی ماری، مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھنے لگی کہ گھر کی چک ہلنے کا مطلب … کہ اماں آنکھ لگا کر دیکھ رہی ہیں اور اگر ماں نے دیکھ لیا کہ میں اس گلی میں کسی کے ساتھ بات بھی کر رہی ہوں تو اس کا مطلب … میری خیر نہیں۔

’’سن، یہ تیری نانی مجھے میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیتی؟‘‘

’’دیتی ہوں گی!‘‘ میں نے نظریں چُراتے ہوئے کہا۔

’’کبھی نہیں دیا، پتہ ہے کیوں؟ سکھ ہے نہ ابھی تک …‘‘

’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے اب کی بار ذرا اشتیاق سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔

’’اسکول سے واپسی میں، میرے پاس آنا پھر بتاؤں گی۔‘‘

’’واپسی میں؟‘‘ میں منمنائی …

’’چھپ کر آ جانا۔‘‘ اس نے آنکھ ماری۔

’’او خدا چھپ کر … امی اور نانی سے چھپ کر …‘‘ میرا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ ’’یعنی جھوٹ بول کر …!! توبہ توبہ …‘‘

میں جلدی جلدی آگے بڑھی۔ ’’آنا ضرور۔‘‘ اس نے پیچھے سے ہانک لگائی۔ پورا دن اسکول میں، ایک کلاس سے دوسری، دوسری سے تیسری میں، مَیں ’’چھپ کر آ جانا‘‘ کی ماہیت پر غور کرتی رہی۔ جملہ میری سماعت سے لپٹ گیا تھا۔ ہر ایک کی بات کے فوراً بعد سرگوشی کر دیتا ’’چھپ کر آ جانا‘‘ بغاوت کا پہلا بیج کمبخت نے کہیں میرے دماغ میں چھڑک دیا تھا اور اب مسلسل چھڑکاؤ کر رہی تھی۔ شاید موسم موزوں تھا پھر اس بیج کو بھی اپنا علم لہرانے کی خواہش تھی۔

واپسی پر گلی میں داخل ہوتے ہی میری آنکھوں کے تارے پوری گولائی میں حرکت کر رہے تھے مگر ملکہ نظر نہیں آئی۔ میں نے حسبِ عادت خشوع و خضوع ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھیں۔ نانی کے پاس بیٹھ کر سکول کا سبق یاد کیا۔ نانی مسلسل میرے بال سہلاتی اور موقع بہ موقع میرا ہاتھ پکڑ کر چومتی رہیں۔ کام بالکل ختم ہو گیا تو میں نے بغیر کسی خاص تیاری کے نانی کے بالکل قریب ہو کر کہا۔

’’نا نیجی! اے سکھ کی ہوندا اے؟؟ …‘‘

لمحہ بھر پہلے کی شفیق، مجھے کسی پِلّے کی طرح پچکارتی نانی کو گویا کسی تتیو نے کاٹ لیا۔ ’’کس نے کہا تجھے؟‘‘

’’نہیں نہیں مجھ کو کسی نے نہیں‘‘ بغیر تیاری کے نانی ایسے سپہ سالار کے سا منے مجھ اناڑی ریکروٹر کو کچھ نہ سوجھا۔ ’’ شرافت نال دس۔‘‘ نانی کی گرفت میری کلائی پر مضبوط ہو گئی۔

’’ہے … وہ کلاس کی ایک لڑکی ہے نہ۔ وہ … نغمہ اس کا نام ہے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ سکھ بھی ہوتا ہے۔‘‘

’’اچھا! سکھ بھی ہوتا ہے۔‘‘نانی نے دُہرایا۔

نانی کو اپنی تربیت اور میری نسل پر بڑا بھروسہ تھا۔ بولیں ’’پتر طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں دنیا میں … کچھ مسلمان، کچھ ہندو، کچھ سکھ، تو کچھ عیسائی۔ تو کیوں ان فکروں میں پڑتی ہے اور کیا اسکولوں میں پڑھائی نہیں ہوتی جو یہ سب پوچھا جاتا ہے؟‘‘

’’ہوتی ہے۔۔ بس وہ کہہ رہی تھی۔‘‘

’’ نہ کان دھرا کر اور اب بولے تو لے چلنا مجھے اسکول، پھر دیکھو تمہاری ماسٹرنیوں کی کیسی خبر لیتی ہوں میں …‘‘ میں نے اس خوف میں بھی سوچا …

’’بولے گی کڑی … نانی خبر لے گی ماسٹرنی کی۔‘‘

’’چھپ کر آ جانا‘‘ بد بخت جملہ ایسے میں پھر سرگوشی کر گیا۔

دو دن گزرے۔ تیسرے دنا سکول سے چھٹی کے بعد، میں گلی میں داخل ہوئی تو ملکہ میری ہی راہ دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر اپنے گھر کی چک کو … چک خاموش تھی اس کی آنکھیں لفظوں کی جوت سے جگمگا رہی تھیں۔ ’’جلدی بولو … گھر جانا ہے۔‘‘ میں نے ڈرے ہوئے لہجے میں اعتماد کی آمیزش کرتے ہوئے کہا۔

’’مجھ سے دوستی کرو گی۔‘‘ وہ شرارت سے بولی۔

’’پتہ نہیں۔‘‘

’’پکا وعدہ نانی کو پتہ نہیں چلے گا۔‘‘

’’پھر دوستی کیسے ہو گی؟‘‘

’’چھپ چھپ کر ملیں گے۔‘‘

’’چھپ چھپ کر ملیں گے‘‘ دوسرا بم ’’وہ کیسے؟‘‘

’’تیری خاطر اسکول میں بھی آ جاؤں گی۔‘‘

’’ویسے تم اسکول نہیں جاتی ہو۔‘‘

’’ کیا کرنا ہے جا کے۔ زہر لگتی ہے پڑھائی۔ تمہیں اچھی لگتی ہے؟‘‘

’’اگر نہیں پڑھوں گی تو جاہل نہیں رہ جاؤں گی۔‘‘ میں نے فوراً جواب دیا۔

’’ہم تو جاہل ہی بھلے … دوستی کر نہ یار۔‘‘

’’میں بعد میں بتاؤں گی۔‘‘

’’ابھی کیوں نہیں؟‘‘ وہ مسلسل مسکرا رہی تھی۔

میں تیز تیز قدموں سے گھر میں داخل ہوئی۔ امی باورچی خانے میں، نانی اپنے تخت پر بیٹھی چاندی کا کٹورا تھامے، زیتون کے تیل میں، یاسمین کے پھول مسلتے ہوئے، نوکرانی سے کہہ رہی تھیں۔ ’’تیری ہڈیوں کو بہت ہڈ آرامی آ گئی ہے۔ صبح سے تو نے میری پنڈلیاں نہیں دبائیں، آ مر … ادھر آ کے …‘‘

میں سیدھی کمرے میں گئی۔ بستہ رکھا … اور چاہا … کہ ملکہ کے ایسے ڈراؤنے جملے بھی کسی کتاب یا کاپی میں رکھ کر بستے کی زپ بند کر دوں۔ مگر ان میں لگے سپرنگ بار بار اُچھل کر باہر آتے اور میرے سر پر ناچنے لگتے۔

Teen کے بارے میں اب دنیا کیا، گاؤں گوٹھ بھی سمجھدار ہو گئے ہیں۔ مگر میرا teen تو نرا oxygen tent تھا۔ ایک دن اسکول سے واپسی میں سائیکل پر سوار ایک لڑکا میرے ہاتھ میں اینٹوں کی طرح پکڑی کتابوں پر ایک خط رکھ کر یہ جا … وہ جا …

ہمارے دور کا معروف ترین اور ہائی سٹینڈرڈ کردار کی گواہی دیتا جملہ تھا ’’میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں۔‘‘ مگر مجال ہے جو ایک لفظ بھی میرے منہ سے نکل سکا ہو۔ پتہ نہیں لفافے میں کس قسم کی تحریر بند تھی … دل کی لرزاہٹ ویسے ہی ایسی باتوں پر قابو سے باہر ہو جاتی تھی۔ قدم بھی ساتھ نہیں دیتے تھے۔ تیز تیز قدموں اور پھولی سانسوں کے درمیاں، میں نے گلی میں قدم رکھا۔ چک ساکن تھی۔ چند قدموں کو تیزی سے عبور کر کے، میں نے سدا وا دروازے سے جھانکا۔ گیس کے چولہے کی ٹرے نکالے، ملکہ اُس پر اپنے دونوں بازوؤں کی طاقت آزما رہی تھی۔ سارا پالش اُتر چکا تھا اوراسٹیل کی ٹرے چماچم کر رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی آنکھیں چمکا کر بولی۔ ’’کیسے؟‘‘ میں نے اشارہ کیا اور لفافہ اس کی طرف بڑھا دیا۔

’’اچھا ہے … آہا!‘‘ ملکہ نے قمیض کے دامن سے ہاتھ خشک کر کے لفافہ کو آنکھوں سے لگایا۔ سینے سے لگا کر گہرا سانس اندر کھینچا اور پھر عطر زدہ لفافہ چاک کیا۔ اندر تحریر تھا۔

’’میری جان، مرے دل کی رانی، تمہیں دیکھ کر مجھے زندگی سے پیار ہو گیا ہے۔ تمہیں میری قسم کل اسکول سے واپسی میں مسجد والی گلی میں آ جانا ورنہ … ورنہ میری لاش درخت سے لٹکی ہوئی دیکھو گی۔‘‘ یہ کیسی سطر تھی … میں پتے کیطرح کانپ رہی تھی اور وہ پیٹ پکڑے ہنس ہنس کر بے حال ہوتی جا رہی تھی۔ ’’ابے یار کاش ایسا خط کوئی مجھے بھی لکھے …‘‘

’’او خدا …‘‘ میں روہانسی ہو گئی۔

’’ بات سن۔ تو کل اسکول سے واپسی میں سیدھی مسجد والی گلی میں آنا۔‘‘

’’نا ممکن! امی نے دیکھ لیا تو جان سے مار دیں گی۔‘‘

’’بات تو سن۔ تو صرف گلی میں داخل ہونا، باقی کام میرا۔‘‘

’’نہیں پلیز اسے سمجھانا کہ خود کشی ہرگز نہ کرے۔‘‘ میں نے خوفزدہ ہو کر کہا۔

’’او تو کیا تو سمجھتی ہے یہ خود کشی کرے گا۔ اوئے، کوئی نہیں مرتا جان سے تو فکر ہی نہ کر۔ اس سلیم کے بچے کو تو کل مزہ چکھاؤں گی میں۔ بس دیکھنا! تری نانی کو پتہ نہ چل جائے۔‘‘ اس نے اپنے کواڑ سے باہر جھانکا اور بولی ’’جلدی سے نکل جا۔ تمہاری چک کے پیچھے کوئی نہیں۔‘‘

میں ایک زقند میں باہر۔ گھر گئی … چور نظروں سے سب کا جائزہ لیا … اس نئے بحران کی شدت، کل کی پلاننگ۔ میرا دماغ پاگل کر رہا تھا مجھے۔ اگلے روز حسبِ وعدہ … مسجد کی گلی میں جانے کا ارادہ تو کیا مگر وسوسوں کے سنپولیے میرے ذہن میں سرسرا رہے تھے۔ آخرکار اس پتلی گلی میں داخل ہوئی۔ جس کے دونوں اطراف کی دیواروں میں بڑے بڑے شگاف تھے۔ ملکہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی مگر میں کیوں آ گئی، وہ کمبخت مصیبت یہیں کہیں ہو گا۔ اگر گلی میں سے ابا یا بھائی جان نکل آئے تو؟ میں آدھی فوت ہو چکی تھی۔ عین اسی لمحے، نیلے رنگ کا کرتا شلوار پہنے، منہ پر برستی پھٹکار لیے سلیم داخل ہوا۔ خوف اور ڈر کے ساتھ ساتھ اب گھن بھی محسوس ہوئی۔

ملکہ … ملکہ … میرا رواں رواں پکار رہا تھا۔

’’آپ کا بہت بہت شکریہ … آپ نے مرا دل رکھ لیا۔ میں آپ کو کیسے بتاؤں میں آپ کو کتنا چاہتا ہوں۔ میرا دل آپ کے نام سے دھڑکتا ہے میں آپ کی وجہ سے شاعر بن گیا ہوں۔‘‘

’’ابے او سلو کے بچے‘‘، مسجد کی پچھلی دیوار کے شگاف سے ملکہ نے چھلانگ لگائی۔ ’’اوئے میسنے میری دوست کو خط لکھتا ہے۔ تیری ماں کو …‘‘ اور دوسرے ہی لمحے سلیم نے گلی سے باہر چھال ماری … ملکہ پیچھے لپکی اور واپسی میں پورے دانت باہر نکالے واپس آئی … ’’قسم لے لے جو آئندہ ترے راستے میں بھی آیا۔‘‘

’’وہ کچھ کر نہ لے۔‘‘ میری سوئی اَٹکی ہوئی تھی۔

’’ابے وہ ماں کا …‘‘ اتنی ہمت ہے اس میں؟ بول اس درخت پر چڑھ کر تو دکھائے اور مرے گا پھندہ لگا کر … مرنے کے لیے بہت کچھ چاہے میری جان … آ کر دیکھے تیرے سامنے کبھی، اس کی ماں کو … سالے کی بہن کو …‘‘ اس نے سلیم کے خاندان کی خواتین کی ایک ہی سانس میں وہ درگت بنائی کہ میں ششدر رہ گئی۔ خدا کی قسم میں نے اکھٹی اتنی مادر پدر آزاد گالیاں، اتنی بے باکی اور زور شور سے پہلے نہیں سنی تھیں۔

’’اچھا گالیاں تو مت دو۔‘‘

’’تو کیا انڈے دوں؟‘‘ اس نے زور سے کہا۔ ’’میرا مطلب ہے وہ گالیاں دو جو تمہارے دائرہ اختیار میں ہیں۔‘‘ ’’دائرہ اختیار‘‘ نے اسے پگلا کر کے رکھ دیا۔ ہنس ہنس کر دُہری ہو گئی … گلی سے باہر جھانک کر بولی …

’’جلدی جا، کوئی نہیں ہے‘‘ اور میں جلدی سے گلی سے باہر نکل کر، گھر کی طرف مڑ گئی۔

’’پتہ نہیں کب، کیسے اور کیونکر … ملکہ میری ضرورت بن گئی … میرے ہر مسئلے کا حل بن گئی۔ میرے لیے ڈھال بن گئی۔ اس کی آزادی، اس کا بے شمار لڑکوں سے بلا خطر فلرٹ کرنا، کپڑے، میک اپ کے لوازمات، کھانے پینے کا سامان … ناشتے سے لے کر رات کا کھانا تک مختلف لڑکوں کو بلیک میل کر کے منگوا کر آرام سے ڈکار لینا …۔ کئی کئی لڑکوں کو ایک ساتھ بے وقوف بنا کر ہنستے ہنستے ان کو ایک دوسرے سے لڑوا کر خود گلی میں ننگے پاؤں کھڑے ہو کر آم چوسنا … ایک رنگ کی قمیض، ایک رنگ کی شلوار … دوپٹے سے بے نیاز … رات کو باہر تھڑے پہ بیٹھ کر اونچی آواز میں گانے گانا … روز اسکول سے چھٹی کرنا … اُف کیا آزادی تھی … گندے رہنے کی آزادی، ایک گھر سے دوسرے گھر بلا روک ٹوک جانے کی آزادی، ہر چیز چرنے کی آزادی، ہر جگہ سے تحفہ وصولنے کی آزادی … چھوٹے کا لحاظ نہ بڑے کا۔ سب بے حد نا پسندیدہ تھا۔ میرے کلچر، میری تعلیمات کے بالکل خلاف … میری ماں اور میری نانی کے لیے ناقابلِ برداشت … تو میرے لیے بھی … مگر اس کا یہ سب کرنا … ماننا پڑے گا، تھا بڑا Lush۔

میں خود کو اس کے سامنے پڑھی لکھی، معزز پر نری بدھو سمجھتی … مجھے یاد ہے ایک بار اُس کے ایک So-called محبوب نے نہ جانے کیا سوچ کر اسے ایک کتاب تحفے میں دی۔ برا سا منہ بنا کر بولی ’’اس نے مجھے خالہ سمجھا ہے جو یہ کتاب بھیجی ہے۔‘‘

میرے لیے یہ سب جملے بڑے نئے نویلے ہوتے۔ فوراً سندیسہ بھیجا کہ ’’فلاں‘‘ کو بولو ذرا ملنے آئے۔ یہ کدو ٹائپ، ویہلے لڑکے بالوں کو تیل سے چپکائے آگے پیچھے ہی رہتے تھے۔ وہ بھی لمحہ بھر میں ہی حاضر ہو گیا۔ میں اس کے گھر کے اندر، کھڑکی کی جھری سے سارا ماجرا دیکھ رہی تھی۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘ ملکہ نے بڑی سنجیدگی سے کتاب اس لڑکے کے سامنے لہرائی۔

’’آپ کے لیے کتاب۔‘‘

’’کیوں میں لائبریرین ہوں؟‘‘

’’نہیں آپ کے مطالعہ کے لیے۔‘‘ اس نے جھینپ کر کہا۔

’’کیا کتاب سے منہ کالا کروں؟ ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا مجھ پر چندا‘‘ ملکہ کی سنجیدگی دیکھنے لائق تھی۔

’’نہ تو … تو نے مجھے کتنی بار کتاب پڑھتے دیکھا ہے؟‘‘

’’کبھی نہیں …‘‘ وہ سہما سا نظر آنے لگا۔

’’اب میری سن …‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر بولی۔

’’ اس کتاب کے پنے پھاڑ، اس کی بتی بنا کر … اس کو اپنی … میں گھسیڑ … اور لائٹر سے آگ لگا لے … اس کو کہتے ہیں بیٹا کتاب سے منہ کالا کرنا …‘‘

میرے کانوں سے دھواں نکلنے لگا … قریب تھا کہ میں چکرا کر گر پڑتی وہ دروازہ زور سے پٹخ کر اندر داخل ہوئی اور بولی … ’’کاٹ دے اس کا نام لسٹ میں سے۔‘‘

’’کیا؟‘‘ میں کچھ سمجھی نہیں۔

’’یہ تیرے پیچھے جو رجسٹر ہے نہ، اس میں اس کمینے کا نمبر ساتواں ہے۔ ہمیشہ کے لیے کاٹ دے سالے کا نام۔‘‘

کتنی گندی زبان تھی اور خود کتنی گندی … میں کتنی صاف ستھری … کتاب کی دنیا کی باسی میرا اور اس کا کیا جوڑ، اور پھر اگر گھر میں کسی کو پتہ چل گیا کہ میں اس سے ملتی ہوں … ملتی بھی کیا … باقاعدہ اس کے گھر میں پائی جاتی ہوں … میرا یقین تھا کہ اس خبر کے ملتے ہی میری ماں گھر کے آنگن میں گڑھا کھودے گی اور نانی مجھے اس گڑھے میں پھینک کر، اطمینان سے مٹی ڈال کر زمین برابر کر دے گی۔

اسکول سے ہم سب کالج پہنچ گئے۔۔ نیا راستہ … نئے نئے لڑکے … نئی نئی پابندیاں، نئی گھرکیاں، نئے ضابطے۔ کالج سے گھر تک کا سفر تانگے میں طے ہونے لگا۔ یعنی ملکہ سے ملنے اور اس کے گھر جانے کے تمام راستے مسدود … میرا دل مسلا گیا۔ کالج میں تو وہ بھی تھی مگر کبھی کبھار اور وہ بھی کلاس سے باہر … جبکہ میری کوئی ایک کلاس بھی miss ہوتی تھی تو میں کئی دن تک پشیمان رہتی تھی۔ ملکہ نے حل نکالا۔ پہلے تو میرے گھر ٹرائی کریں گے ورنہ اگلی گلی میں پروین کا گھر ہے … وہاں آ جانا، ملا کریں گے۔ ایک اور ’’کنجر خانہ‘‘ بقول نانی … ’’اور اگر گھر والوں کو پتہ چل گیا؟‘‘ میرا خوف …

’’وہ کیسے؟‘‘ اس کی فطری لاپرواہی۔

’’تانگے والے نے بتا دیا تو …؟‘‘

’’اس تانگے والے کو تو یوں پٹاؤں گی کہ بس دیکھتی جا۔‘‘

تانگے والا واقعی پٹ گیا۔ کیسے؟ یہ معلوم نہیں مگر اب حکم کا اِکّا ملکہ کے پاس تھا۔ پروین کے گھرکے بجائے ہم ملکہ کے گھر ہی ملنے لگے۔ تانگے والا وقت سے پہلے مجھے کالج سے اُٹھا لیتا اور میں چوکنا ہو کر ملکہ کے گھر اُتر جاتی۔ معاملہ چل رہا تھا۔ اس کے گھر ہفتے میں ایک دو بار جانے سے مجھے اس کی گھریلو زندگی اور اسے بسر کرنے کے بارے میں زیادہ علم ہوا۔ اس کے بھائی نشہ وشہ کر کے کہیں باہر زندگی گزارتے تھے۔ بہنیں اپنے جیسوں کے ساتھ شادی کر کے جو ادھر اُدھر روانہ ہوئیں تو پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، سو اس کے مزے تھے۔ یتیم ہونا بھی ایک قسم کی موج ہی ہے، میں ان دنوں سوچا کرتی۔

اس کے گھر میں اکثر ایک لڑکی کام کرتے نظر آتی۔ دُبلی پتلی، لمبے لمبے بالوں کی چٹیا سلیقے سے بنائے ہوئے۔ خوب چوڑے دوپٹے سے خود کو لپیٹے بڑی جانفشانی سے کام کرتی ہوئی۔ کبھی آٹا گوندھتے، کبھی کپڑے دھوتے، کبھی سبزی کاٹتے … ایک دن میں نے ملکہ سے پوچھ ہی لیا۔

’’یہ لڑکی تمہارے پاس ہر وقت کام کیوں کرتی ہے؟‘‘ بولی ’’اس کی شادی میں تیرے بھائی سے کرواؤں گی؟‘‘

’’کیا؟‘‘ میں ہونق بنی اس کا منہ دیکھنے لگی۔

ملکہ نے جو کہانی مجھے سنائی۔ مجھے اس میں نہ تو کوئی دلچسپی کا پہلو نظر آیا نہ خوشی کا … بلکہ دل پر ایک بوجھ سا پڑ گیا۔ یہ سامنے والے کمرے میں استری کرتی لڑکی اصل میں میرے چھوٹے بھائی کے عشق میں گرفتار ہو چکی تھی اور ملکہ کا دعویٰ تھا کہ چونکہ وہ ہمارے گھر سے نہایت اعلیٰ قسم کے مراسم رکھتی ہے۔ لہٰذا میرا چھوٹا بھائی اس کی کوئی بات نہیں ٹال سکے گا اور اس لارے یہ غریب لڑکی … اس کے گھر سارا سارا دن کام کرتی اور ملکہ نوابی شان کے ساتھ حکم چلایا کرتی۔ یہ تھی ملکہ … یہی اس کا طرزِ زندگی تھا اور وہ شاید کسی کی خاطر بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی ایک مثال اور دیتی چلوں …

ایک دن میں نے اس کو بہت خاموش اور اداس پایا … نہ وہ چلبلاہٹ نہ وہ مستی … آخر پوچھا … ’’کیا بات ہے؟‘‘

بولی … ’’سوچ رہی ہوں میرا باپ کون ہے؟ خدا خیر …‘‘ ہندوستانی فلموں کے فارمولے میرے ذہن میں … یہ سارا دن ہنسی ٹھٹھول، دھول دھپا، مخولیاں … اس کا باپ؟؟ یعنی تو کیا ملک اس کا باپ نہیں تھا؟ کیا اس کی ماں نے دو شادیاں کی تھیں … ’’اوہ۔ ملکہ …‘‘ میں نے بڑے پیار سے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا …؟ ’’کیا کوئی راز کی بات ہے؟‘‘

’’دیکھ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اپنے ماں باپ کو ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے بات کرتے نہیں دیکھا … ایک ساتھ بیٹھنا، کھانا کھانا …ہنسی مذاق، دل لگی کرنا، دروازہ بھیڑنا یا اندر سے بند کرنا تو بہت دور کی بات ہے یار …‘‘

’’کیا مطلب …؟‘‘بات میرے پلے نہیں پڑی۔

’’مطلب یہ کہ، تو کیسے ممکن ہے کہ میری ماں نے اس شریف آدمی کو کبھی اپنے قریب پھین۔ دیا ہو؟ یار ہم چھ بہن بھائی پیدا کیسے ہو گئے؟‘‘

’’دُر فٹے منہ‘‘ میں تپ گئی۔

’’مگر ایک بات ہو سکتی ہے؟‘‘ وہ اسی سنجیدگی کے عالم میں بولی۔

’’اب وہ کیا …؟‘‘ میرا غصہ بدستور تھا۔

’’ہو سکتا ہے ملک صاحب کبھی رات کو دودھ میں نشہ وشہ ملا کے دے دیتا ہو اور اپنا کام نکال لیتا ہو۔‘‘

"My goodness" … یہ تھی اس کی اپنی پیدائش اور ماں باپ کی ازدواجی زندگی کے متعلق رائے۔

ٹیلی فون جب سے اس کے گھر میں لگا، ہر وقت لائن مصروف رہنے لگی۔ مجھے سخت بوریت ہونے لگی۔ ہر وقت ایک ہی طرح کے جملے … میں بمشکل آدھ ایک جملہ ہی بول پاتی کہ مجھے ہر صورت میں کالج کے خاتمے کے وقت گھر پہنچنا ہوتا تھا۔ ملکہ تقریباً ایک ہی طرح کے جملے دُہراتی رہتی مثلاً …

’’ کیا آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’اوہ … کیا میری آواز اتنی خوبصورت ہے؟‘‘

’’مجھے بھی آپ سے ملنے کا بہت شوق ہے۔‘‘

’’تحفے تو محبت بڑھاتے ہیں۔ جب دل چاہے بھیج دیں …‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

میں ساری لن ترانی سنتی رہیے … ایک دن پوچھا … ’’آخر اس سارے جھمیلے میں اسے کیا مزہ آتا ہے؟‘‘

بولی … ’’تو کتابیں پڑھ اور مجھے لینے دے مزے۔‘‘ آخر کار میرے سامنے ہی اس نے کسی سے ریلوے اسٹیشن پر ملنے کا پروگرام بنایا۔ کچھ سمجھ میں بات آئی، کچھ نہیں۔۔ مگر میں نے پوچھا ضرور … ’’کون ہے یہ اجنبی اور کیوں ملو گی تم اس سے؟‘‘

’’تو تماشا دیکھ مزے سے۔‘‘ وہی لا پرواہ جواب … اور پھر اس نے اپنی دوست پروین کا ذکر چھیڑ دیا۔ جس کا مختصر تعارف کروانا ضروری ہے۔

پروین ملکہ کی دوست تھی، خود غرضی کا چلتا پھرتا اشتہار، سیاہ رنگت اور سیاہ دل کا امتزاج، وہی جنہیں نانی اپنے مخصوص انداز میں یاد کرتی تھیں۔ ملکہ کچھ زیادہ ہی شوخ موڈ میں مجھے اس کے گھر لے گئی۔ پہلے اُس سے اُس کے سیاہ جوڑے کے بارے میں پوچھا۔ پھر بولی۔ ’’قسم سے بہت پیاری لگتی ہے تو اُن کالے کپڑوں میں۔‘‘

’’ وہ تو دھلائی میں ڈالا ہوا ہے۔‘‘ پروین نے جواب دیا۔

’’نکال ابھی۔‘‘

’’میلا ہے یار۔‘‘ وہ منمنائی۔

’’بس بس ابھی نکال مشین سے۔ میں تجھے وہی پہنے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

ملکہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ واشنگ مشین سے کپڑے نکال لائی … ’’بس ابھی پہن … اور وہ گلابی والی لپ سٹک لگانا۔ قسم سے بہت پیاری لگتی ہے تو اس میں … اور چل ریلوے اسٹیشن چلیں۔ اور گلاب لگا نہ بالوں میں۔‘‘

میں نے اپنے حلیے کا جائزہ لیا … پرنٹڈ گلابی اور سفید دوپٹہ، گلابی کرتا اور سفید چکن کی شلوار کے ساتھ سفید سینڈل … ملکہ پورا سبز طوطا بنی ہوئی تھی۔ بات کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ مگر بہرحال ہم تینوں، محفوظ راستے سے نکل کر ریلوے اسٹیشن جا رہے تھے۔ ابھی کالج کا وقت ختم ہونے میں پورا ایک گھنٹہ باقی تھا۔

’’ریلوے اسٹیشن کیوں؟‘‘ مجھے اس کی حرکتوں سے کچھ عجیب سا شک ہو چلا تھا۔ اس لیے پھر پوچھا۔

’’تو نے ہی تو کہا تھا کہ وہاں پر جوس بہت اچھا ملتا ہے۔‘‘ ملکہ نے فوراً جواب دیا۔

مجھے کچھ یاد نہیں آیا … بہرحال ہم تینوں وہاں پہنچ گئے۔

ریلوے اسٹیشن پہنچ کر ہم تینوں ایک بنچ پر بیٹھے۔ ملکہ نے مجھے کہا … ’’چل جوس لے کر آئیں۔

’’میں بھی چلتی ہوں۔‘‘ پروین نے اُٹھتے ہوئے کہا ’’او نہیں تو بیٹھ نہ‘‘ ملکہ نے اس کے کندھے کو دبایا اور مجھے ذرا آگے کی طرف بنے جوس کے ایک چھوٹے سے کیبن میں لے گئی۔ ’’کیا چکر ہے۔‘‘ میں بالکل انجان تھی۔

’’سن … وہ سامنے والا لڑکا ہے نہ جس کے ہاتھ میں لال رنگ کا پھول ہے … دیکھ وہ جو بنچ پر پروین کو دیکھ رہا ہے …‘‘

’’ہاں‘‘ میں نے ایک کانگڑی پہلوان کو پروین کی طرف دیکھتے پایا۔ اسی دوران، اس لڑکے نے ہاتھ میں پکڑا ہوا پھول جیب میں ڈال لیا تھا۔

’’ہا … ہا … ہا …‘‘ ملکہ نے بمشکل اپنے قہقہوں پہ قابو پایا۔ مجھے غصے کے ساتھ ساتھ اپنے بے وقوف ہونے کا احساس بھی ستانے لگا … ’’پتہ ہے یہ کون ہے؟‘‘ ملکہ نے خود کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا … ’’اب بتا بھی چکو۔‘‘ مجھے یہ حرکتیں خاصی معیوب لگ رہی تھیں۔

’’دیکھ یہ وہ لڑکا ہے جو روز فون پہ مجھے ملنے کے لیے کہتا ہے۔ ایک رانگ نمبر تھا۔ میں نے اس کو کہا کہ اسٹیشن پر دو بجے آ جانا۔ میں کالے رنگ کے کپڑے، گلابی لپ سٹک اور لال گلاب کا پھول بالوں میں لگا کر آؤں گی … مجھے پتہ تھا۔ پروین کو دیکھ کر کوئی انسان کا بچہ عاشق ہونے کا نہیں سوچے گا اور پروین کو علم نہیں ہے کسی بھی بات کا …‘‘

مجھے افسوس ہونے لگا۔ ’’کیسی بے وقوف بنی غریب۔ کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی؟‘‘

ملکہ کی حکمت نرالی تھی ’’ ہاں ذلیل تو ہوئی، مگر میرے دل میں تو ٹھنڈ پڑ گئی نہ …‘‘

’’وہ کیوں۔ آخر وہ تمہاری دوست ہے …؟‘‘ میری برداشت سے باہر تھا یہ سب۔

’’وہ اس لیے کہ یہ تجھے سخت ناپسند کرتی ہے اور پتہ ہے کیوں؟‘‘

’’کیوں بھلا؟ میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا اس کے ساتھ۔‘‘

’’ارے وہ جیلس ہے تجھ سے۔ وہ ۵۲ بار جنم لے نہ تو بھی تجھ جیسی نہیں ہو سکتی۔ اُسے جلن یہی ہے کہ تو اس کی دوست کیوں نہیں ہے اور میری کیوں ہے …‘‘ بات کچھ سمجھ میں آئی، کچھ نہیں۔ مگر مجھے ان گھٹیا سازشوں سے وحشت سی ہونے لگی۔

کالج میں ہمارا تیسرا سال تھا اور وہ کسی لڑکے سے فلرٹ یا محبت یا ایسی ہی کوئی چیز کر رہی تھی۔ یہ بات اس نے مجھے خود ہی بتائی۔ اسی کے ذریعے مجھے علم ہوا کہ وہ اس پر جان چھڑکتا ہے … محبت کرتا ہے اس کی خاطر پورے جہاں سے ٹکرا سکتا ہے … آسمان کے تارے وغیرہ وغیرہ۔۔ سطحی ناولوں اور ہندی فلموں کے سارے قصے اس Love story میں سموئے ہوئے تھے۔ مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ اس کی عشقیہ ملاقاتوں کی تفصیل سے جڑے واقعات پر رشک بھی آتا۔

پیپرز کی تیاری میں، میں بہت کچھ فراموش کر چکی تھی۔ کافی دنوں بعد ایک دن ملکہ مجھے کالج میں ملی، قدرے پریشان سی لگی … ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا؟

’’کچھ نہیں۔ تیری پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’اچھی ہے، مگر دعا کرو کہ یونیورسٹی میں داخلہ مِل جائے۔‘‘

’’کیا …؟ اب یونیورسٹی؟‘‘ وہ تقریباً چلا پڑی۔

’’او خدا کی قسم … تو بھی ایک نمبر کی …‘‘ کچھ کہتے کہتے رُک گئی، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر لجاجت سے بولی …

’’دیکھ … کیا رکھا ہے اس پڑھائی میں؟ چھوڑ نہ یہ سب … اداکارہ بن جا۔‘‘

’’ہیں؟ یہ کیسا مشورہ ہے۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

’’یار اللہ نے تجھے جیسی شکل دی ہے نہ ویسی عقل بھی دے دیتا تو اس کا کیا جاتا۔ بس مالک ہے وہ، اب اس کا جو دل چاہے گل کھلائے۔ میری مان میری جان، اداکارہ بن جا۔ میں پانی کی بوتل اور پرس اٹھا کر تیرے پیچھے پیچھے چلا کروں گی۔ خدا کی قسم سارے پروڈیوسر، ڈائریکٹر تیرے آگے پیچھے چلیں گے اور میری شان دیکھنے جیسی ہو گی۔ بے بی کے آرام کا وقت ہو گیا ہے، بے بی کو جوس دینا ہے، بے بی اس وقت موجود نہیں ہے۔ بے بی کا موڈ نہیں ہے۔۔ بے بی اس وقت آرام کرے گی …‘‘ اس نے پوری فلمی دنیا کی دو منٹ میں ایسی کی تیسی کر ڈالی۔

میری ہنسی بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی …

’’قسم سے ہم دونوں کی زندگی موج میں گزرے گی۔ میں ویسے ہی موٹی سی بھدی سی کالی سی ہوں … تھوڑا سا خود کو اور پھلا لوں تو بالکل تیری ماں لگوں گی۔ ایمان سے …‘‘

’’اور وہ تمہارے عاشق نامدار کا کیا ہو گا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’اُسے تیرا چپراسی بنا دوں گی …‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔

’’خدا کی پناہ … کچھ تو خیال کرو …‘‘ میں ہنستی رہی اور وہ میرے کالج سے نکلنے سے پہلے ہی چلی گئی … وہ کچھ عجیب سا دن تھا۔ مجھے اس کی باتوں سے ایک عجیب قسم کی اداکاری کا اندازہ ہو رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا وہ مجھے خوش کرنا چاہ رہی تھی۔ یا ہنسانا چاہ رہی تھی یا کوئی بات بھولنا چاہ رہی تھی۔ جو کچھ بھی تھا … مجھے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ اسی شام تقریباً چار بجے کے قریب گلی میں شور سا اٹھا۔۔

امی کو میں نے دروازے کی چک سے جھانکتا پایا … ایک عجیب سا شور و غوغا تھا۔۔ میں فوراً سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئی اور چھت سے نیچے جھانکا۔ ملکہ اپنے اور ہمارے گھر کے درمیان گلی میں کھڑی تھی۔ ہاتھ میں ہرے رنگ کی بوتل پکڑے۔ ساتھ میں کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم مگر وہ زور زور سے چیخ رہی تھی۔

’’بولو … ارے کوئی بولو … اس ماں کے … کو۔ کسی اور سے شادی کرنے چلا ہے۔ اگر نہیں منع ہوا نہ تو جان لے لوں گی اس کی بھی … اپنی بھی۔‘‘

ایک لمحہ بھی بڑا تھا … اس نے ہاتھ میں پکڑی بوتل اپنے اوپر انڈیلی اور لگی ماچس سے تیلی رگڑنے … جب تک کوئی آگے بڑھتا … تیل اور آگ کا ملاپ … گہرا سیاہ دھواں … او میرے خدا … کیا منظر تھا۔ کئی لوگ آگے بڑھے … شور … چیخیں … ہنگامہ … میں کانپتے وجود کے ساتھ زمین پر نہ جانے کتنی دیر بیٹھی رہی۔ میری ہمت نہ تھی کہ میں اس وحشت ناک منظر کے باقی ماندہ حصے یا دہشت کو دیکھوں یا سنوں۔ مجھے بس اتنا اندازہ تھا کہ سب کی چیخیں گونج رہی تھی۔ مگر اس شور میں ملکہ کی کوئی آواز نہ تھی۔

مجھے ہسپتال جانے کی اجازت بھی نہ ملی۔ ایسی ننگی لڑکی … بے حیا، بے غیرت، اُس بد بخت لڑکے کے لیے خود کو آگ لگا لی۔ یہ علم ملتا ہے اسکولوں اور کالجوں سے۔ یہ سب فلمیں دیکھنے کے نتیجے ہیں۔ میری نانی اور ماں کی آنکھیں خونخوار ہوئی جاتی تھیں۔ میرا دل سینے میں دھڑ دھڑ کرتا کہیں بھاگنے کا راستہ تلاش کرتا پاگل ہوا جاتا … مگر میں نے اسے ہسپتال میں ملنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ اگلے روز کالج کے آخری دو پیریڈ چھوڑ کر میں نسبتاً تیز تیز قدموں سے ہسپتال کی طرف اکیلی پیدل روانہ ہوئی۔ چھوٹا سا شہر ہی تھا۔ مگر میری آنکھوں اور دماغ پہ کولہو کے بیل والے کھوپے یوں چڑھائے گئے تھے کہ کوئی راستہ سجھائی نہ دیتا تھا۔ خدا خدا کر کے ہسپتال ملا۔ محلے کے کافی لوگ وہاں کھڑے تھے۔ معلوم ہوا … ملاقات صرف دو افراد کر سکتے ہیں۔ نہ جانے ارشد کے دل میں کیا آیا۔ بولا … ’’آپ آ جایئے، ملکہ آپ کو دیکھ کر خوش ہو گی۔‘‘ میں بغیر کسی تردد کے اس کے ساتھ چل پڑی … سفید پٹیاں پورے جسم پہ، چہرہ بچ گیا تھا … میری اذیت دو چند ہو گئی … میرے لفظ بے حیثیت تھے۔ کیا کہتی اور کس سے کہتی …۔ ارشد ہماری ہی گلی میں رہنے والا نوجوان تھا۔ کہنے لگا ’’آپ اکیلی آئی ہیں۔ کسی کو آپ کے ساتھ بھیج دوں۔‘‘ مجھے واپسی کا راستہ معلوم نہیں تھا۔ ارشد کی بہن میرے ساتھ گھر تک آئی۔ اس کا نام نازیہ تھا۔ پورے راستے بلا تکان بولتی آئی اور مجھے ملکہ کے بارے میں وہ کچھ پتہ چلا جو کبھی اس نے میرے ساتھ شیئر نہیں کیا تھا۔ وہ کسی لڑکے کے عشق میں مبتلا ہو چکی تھی جو کسی اور ہی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ شروع شروع میں ہنسی مذاق چلا … معاملہ سیریس ہوا … پھر معلوم ہوا کہ دونوں نے خفیہ شادی کر لی تھی مگر اب وہ لڑکا اپنے ہی خاندان میں شادی کر رہا تھا … یہ تھا سارا قصہ … ملکہ ہر ایک سے کہتی رہی کہ اس کو سمجھایا جائے مگر محلے بھر میں کوئی اس کے لیے راضی نہ ہوا کہ سب ملکہ کی متلون مزاجی سے واقف تھے اور اس کی خفیہ شادی کا کوئی راز دار یا گواہ بھی سامنے نہ آیا تھا۔ لہٰذا کوئی بھی خود کو قربانی کا بکرا بنانے پہ راضی نہ ہوا … اور اس نے آخری حربے کے طور پر یہ قدم اُٹھایا۔

یہ سب کیا تھا …؟ میں حیران رہ گئی۔ ایسی سنجیدہ بات اور ایسا قدم … اور مجھ سے کبھی کچھ بھی شیئر نہیں کیا۔ میں تو اسے اب واقعی اپنی دوست، ساتھی سمجھنے لگ گئی تھی۔ جھوٹی سچی کہانیاں سنا کر مجھے محظوظ کرتی رہی اور اندرونِ خانہ مظلوم کرب سے گزرتی رہی۔ کیا نام دوں اس کو۔ جھوٹی … مگر اس کے جھوٹ نے مجھے تو کوئی نقصان نہیں پہنچایا …؟ میں ادھیڑ بن میں مبتلا ہو گئی۔ مجھے ملکہ سے ہمدردی سی ہونے لگی۔ وہ الجھی ہوئی ڈور کی طرح تھی۔ وہ فطری طور پر بری نہیں تھی۔ مگر میرے اور اس کے درمیان جو تعلق تھا اس میں وہ خود کو ایک اور ملکہ بن کر مجھے دکھاتی جولا اُبالی تھی، بے فکر تھی، ہر احساس سے عاری تھی … لیکن در حقیقت ایسا نہیں تھا … وہ جو کچھ بھی تھی … میرے لیے غلط نہیں تھی، میں اسی نتیجے پر پہنچی۔

اسے ہسپتال میں لمبا عرصہ رہنا پڑا۔ میں یونیورسٹی چلی گئی … جو ایک الگ ہی محاذ تھا۔ ہاسٹل کی مختلف زندگی … اور بہت سی ملکائیں … دُہری تہری زندگی گزارتی ہوئیں … مگر ان میں سے کوئی بھی ملکہ نہیں تھی۔ کسی کے پاس اتنا خلوص نہ تھا۔ اتنی محبت اور احساس نہ تھا۔ میں ماحول سے مطابقت پیدا کر رہی تھی … مگر جب بھی ملکہ کا خیال آتا … میں خاصی ڈسٹرب ہو جاتی۔ یونیورسٹی کی چھٹیوں میں چند دن کے لیے گھر گئی … اس کے دروازے پہ اس کا نشئی بھائی بیٹھا دیکھ کر میں نے اس سے ملکہ کا پوچھا … ’’تمہیں نہیں معلوم‘‘ اس نے کسی اور ہی عالم سے جواب دیا۔

مجھے معلوم تھا ملکہ جیسے لوگوں کی خبریں جگہ جگہ سے مل جاتی ہیں۔ ملکہ جیسے لوگ، لوگوں کی ذہنی خوراک ہوتے ہیں۔ میرا شہر … ملکہ کی خبروں کا مسکن تھا۔ جب بھی وہاں جاتی کوئی نہ کوئی خبر مل جاتی۔ ہر بار ذہنی طور پر تکلیف دہ خبر لے کر ہی پلٹتی۔ باتوں باتوں میں … ہماری پڑوسن نے میری امی کو بتایا کہ اُس قبائلی لڑکے نے ملکہ سے شادی کو تسلیم کر لیا ہے اور وہ اب اسی کے دیے گھر میں رہتی ہے۔ سنا ہے اس لڑکے نے اسے خاصی پابندیوں میں رکھا ہے۔ پردہ وغیرہ بھی کرنے لگی ہے اور محلے کے کسی شخص سے ملنا بھی منع ہے۔

میرے کانوں تک یہ خبریں پہنچیں ضرور … مگر ملکہ کے وجود اور سوچ کے ساتھ اس طرح کے سلوک کو نتھی کرنا میرے لیے خاصا مشکل امر تھا۔ میری زندگی، سوچ، ماحول … سب کچھ بدل رہے تھے۔ جب جب مجھے کسی مخلص انسان کی ضرورت ہوتی … مجھے ملکہ یاد آتی۔ کتنی ساری باتیں جمع ہو چکی تھیں میری زندگی کے بارے میں، میرے اہم ترین اگلے سفر کے بارے میں … کبھی سوچتی کتنی خود غرض ہوں۔ مجھے ملکہ کی ضرورت اس لیے ہے کہ ملکہ مجھے سنتی ہے، برداشت کرتی ہے۔ میری ہر بات کو حفاظت سے سینت سینت کر رکھتی ہے۔ میرا خیال کہتا ہے، میرے لیے ہر جھوٹ بول سکتی ہے، میں … کیا کر سکتی ہوں ملکہ کے لیے؟ میں نے کیا کیا اس کے لیے؟ شاید میں اس کے لیے کچھ کر ہی نہیں سکتی کہ میرے اور اس کے مدار مختلف ہیں۔ اگر مدار مختلف ہیں تو وہ مجھ تک رسائی کیسے حاصل کر سکتی ہے۔ یا شاید اپنے مدار سے نکل جانے کا ہنر اسے آیا ہے مجھے نہیں۔

میں شعوری طور پر نہیں … لا شعوری طور پر … ملکہ سے ملنے کی سبیلیں ڈھونڈتی رہی۔ مجھے اس کے گھر کا پتہ بھی مل گیا مگر جانے کا مسئلہ تھا۔ میری شادی ہو گئی تو یہ مسئلہ بھی ختم ہو گیا اور میں ڈرائیور کے ساتھ اس کے گھر پہنچی۔ شام کا وقت تھا یہی کوئی ساڑھے پانچ چھ بجے کے قریب، کئی سال بعد میں اسے دیکھ رہی تھی۔ ملکہ نے مجھے دیکھ کر کسی حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ خلافِ توقع نرمی سے پانچوں مسٹنڈے ٹائپ لڑکوں سے بولی … ’’چلو اب تم لوگ جاؤ …‘‘ پھر مجھے دیکھ کر اطمینان سے بولی ’’چل تو آرام سے بیٹھ۔‘‘

ایک نیا منظر میرا منتظر تھا۔ میرے اندازے سے زیادہ بھیانک، زیادہ خراب اور زیادہ بدبو دار۔ پانچوں لڑکے انتہائی ڈھٹائی اور بے باکی سے مجھے دیکھتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے ان کی بدبداہٹیں اور چھوٹے چھوٹے نامناسب سے فقرے میرے کانوں سے ٹکرائے۔ سبھی غیر متوازن سے تھے۔ بے ڈھنگے کپڑے پہنے، لوفروں کے سے حلیے میں۔ میں لاکھ دیوار پہ نظریں گاڑے بیٹھی رہی مگر اس احساس سے چھٹکارا نہ پا سکی کہ ان لفنگوں کی گندی نظریں اور زبانیں میرے ہی اطراف گردش کر رہی تھیں۔ جب تک وہ باہر نکلے اس سیلن زدہ، رنگ و روغن اکھڑے کمرے کا سارا نقشہ، میرے دائیں بائیں پھیلی ہوئی عجیب و غریب سی چیزیں … میری دستک پہ خاصی دیر سے کھلنے والا دروازہ … میرے سائیں سائیں کرتے ذہن کو کئی کہانیاں سنا گیا … اس کے پرانے سے ڈبل بیڈ کی گندی سی چادر …! اِدھر اُدھر بکھرے، گندے سندے کپڑوں کے نیچے … استعمال شدہ کنڈوم … آخ تھو …

’’یہ سب کیا ہے؟‘‘میرے لبوں پہ صرف یہی لفظ آ سکے۔

’’میں ڈرگز پہ ہوں۔‘‘ اس نے اتنے آرام سے کہا گویا چائے یا کافی کا ذکر کر رہی ہو۔

’’ بہت کچھ سنا ہے تمہارے بارے میں … ملکہ … مگر شاید کم سنا ہے۔ یہ پانچ پانچ لڑکے تمہارے کمرے میں، اور وہ بھی اس حالت میں۔۔ یہ سب کاک … اور کب سے … اور کیوں مگر؟ کوئی شرم، کوئی حیا؟‘‘ مجھے شدید غصہ آ گیا۔

’’یہ سب کوئی اس سے کیوں نہیں پوچھتا؟‘‘ ملکہ کی نظریں زمین پر گڑی تھیں۔ اس کے لمبے لمبے بال پشت پہ پھیلے تھے۔ نہ اسے چاک گریباں کا ہوش تھا۔ نہ اپنے ماتھے پہ رینگنے والی جوؤں کا احساس۔۔

کوئی کیا اور کیسے پوچھے گا اس سے؟ ’’ تم نے کسی سے پوچھ کر شادی کی تھی۔ مرضی سے کی تھی نہ تو اب بھگتو۔‘‘

’’تو بھگت تو رہی ہوں … وہ بیوی سے … کرتا ہے۔ میری پورت یہ کرتے ہیں۔‘‘

’’تو کیوں کی تھی … ایسے شخص سے شادی؟‘‘

’’بات سن مجھے کوئی شوق نہیں تھا شادی وادی کا … سارا دن میرے آگے پیچھے بچھا جاتا تھا، منتیں کرتا تھا۔ ترلے کرتا تھا … کہتا تھا … منا لے گا باپ کو … ماں کو … اور جب نکاح کر لیا تو سور نے … نظریں پھیر لیں۔ کہتا ہے، اس جلے ہوئے جسم کے ساتھ … کرنے سے گھن آتی ہے۔ کہتا ہے، اس کی بیوی پانی پیتی ہے تو گردن سے پانی اترتا نظر آتا ہے۔۔ کتا … اس کے ساتھ ہر سال بچے پیدا کرتا ہے اور میرے ہر سال ابارشن … اس وعدے کے ساتھ کہ اگلا بچہ پیدا کروائے گا۔‘‘

تجھے پتہ ہے پچھلے مہینے اس نے میرے دو بچے گروائے۔ پانچویں مہینے میں۔ معلوم ہے نرس نے کیا کہا میرے جڑواں بیٹوں کے لئے؟ بولی ’’ملکہ دیکھو گی۔ دیکھنا ہے، دونوں لڑکے ہیں، پورے ہی بن چکے ہیں حرامزادے۔‘‘ ملکہ کے ہونٹوں پر زہر خند مسکراہٹ تھی اور آنکھوں کے کٹورے چھلکنے کے لئے بے تاب۔

میں گم سم تھی۔۔ ملحقہ کمرے میں بچھی چارپائی پہ ایک بوڑھی ملازمہ … اس سارے ڈرامے سے لا علم خراٹے نشر کر رہی تھی۔ ’’اور یہ سوتی رہتی ہے۔ یقیناً تمہاری چوکیداری کے لیے رکھی گئی ہو گی۔‘‘ میں نے ملکہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’میں اس کی چوکیداری کرتی ہوں …‘‘ سپاٹ لہجے میں جواب آیا۔

’’چار گولیاں پیس کر دودھ میں ڈالی تھیں۔ تب جا کر سوئی ہے یہ … اور میں اس کنجر کو ذلیل کرتی ہوں۔‘‘

’’اس کو نہیں … خود کو ذلیل کر رہی ہو۔‘‘ میں نے دکھ اور افسوس بھرے لہجے میں کہا۔

’’میں تو ہوں ہی ذلیل …‘‘ ملکہ پھیکی سی ہنسی ہنسی۔

’’کیا منہ دکھاؤ گی خدا کو۔‘‘

’’وہی جس منحوس منہ کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے …‘‘

مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اسے کیا کہوں اور کس طرح احساس دلاؤں کہ وہ سب کچھ غلط کر رہی ہے … ملکہ نظریں جھکائے ہوئے بولی …

’’سن! تو اب اس طرف مت آنا … مت ملنا مجھ سے … میں نہیں چاہتی میری بد نامی تجھ تک پہنچے … آدھے شہر سے قرضہ لے کر کھا چکی ہوں … وہ نہ مجھے جینے دیں گے نہ اس ماں کے … کو۔‘‘

’’قرضہ؟‘‘

میں نے پلستر اترے کوارٹر، ٹین کے بد رنگ صندوق … ادھڑے ہوئے گدے اور بوسیدہ بیڈ پر نظر ڈالی۔

’’اور تو کیا سمجھتی ہے۔ یہ پانچوں مجھے … مفت میں …‘‘ چل چھوڑ۔

’’کہاں ہے تمہارا شوہر؟‘‘

’’صبح ایک چکر لگاتا ہے۔ کبھی دوپہر کو بھی جھانک جاتا ہے … اور شام ہونے سے پہلے پہلے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بھاگ جاتا ہے۔ تاکہ میرے ساتھ سونا نہ پڑے … موت آتی ہے اس کو میرے ساتھ سونے سے، روز سوتا ہے جا کر اس کُتیا کے پاس۔‘‘

’’بس کرو۔‘‘ مجھے گھن سی آنے لگی۔ ’’ وہ تمہیں خرچہ تو دیتا ہے نہ … ہر چیز میسر ہے۔ اُسی کے گھر میں رہ رہی ہو۔‘‘

’’ہاں روٹی، سالن، کپڑا، چادر … صابن ہر چیز لا کر دیتا ہے۔ اب تو نشے کے انجکشن بھی لا کر رکھ دیتا ہے تاکہ میں باہر نہ جاؤں …‘‘ اس نے دیوار گیر تختے پر رکھے پیکٹس کی طرف اِشارہ کیا۔ ’’اور کیا چاہیے مجھے؟؟‘‘ اس نے اپنی گہری سیاہ آنکھوں میں پورے جہاں کی شدتیں سمیٹ کر کہا …

میں نے غور کیا … پچھتاوا، ندامت، پریشانی، خوف کچھ بھی تو نہ تھا اس کے انداز میں۔ میں خاموشی سے باہر نکل آئی۔

خبریں ملتی رہیں … کہ اب لفنگے لڑکوں نے بھی کترانا شروع کر دیا ہے … اب انجکشن لگانے کے بہانے بھی محلے کے اوباش اس کے گھر نہیں جاتے۔ لوگوں نے قرضہ دینا بھی بند کر دیا … کوئی اُدھار پہ دوا بھی نہیں دیتا … نشے کے انجکشن کے لیے راستوں پہ ماری ماری پھرتی رہتی ہے … بارہا سنا کہ اس کا شوہر اسے طلاق دے رہا ہے … دے دی ہے۔ یا دے دے گا …

ملکہ کا ذِکر اب شہر بھر کا موضوع تھا … ہر شخص کے پاس اپنا ہی ترازو تھا … اور ملکہ کے گناہوں کا پلڑا … بلا شبہ ہر جا، بھاری تھا، دشنام، الزام، نفرتیں، حقارتیں، گالیاں، تمسخر، ہنسی، سب اس کے نام بن چکے تھے … کسی کو اِس کی رُسوائی سے کیا فرق پڑنا تھا … بھائی نشئی۔ بہنیں اپنے اپنے گھر والیاں۔۔ ماں باپ مر کھپ چکے … شوہر بیوی بچوں کے ساتھ مگن رہ رہا تھا … کس کے لیے فرق پڑنا تھا۔ اسی لیے ملکہ کی موت کی خبر بھی ایسی ہی عام خبر تھی جیسے کسی غریب کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہو جائے … یا کسی بچی کی ٹافی کہیں گر جائے۔

مگر ایک احساسِ ندامت نے مجھے آن لیا تھا۔ ملکہ کے ذکر پہ میری آنکھوں میں نمکین پانی جھلملا اٹھتا تھا۔ شاید اوروں کے لیے کچھ نہیں بدلا تھا … میرے لیے پورا شہر بدل چکا تھا۔ وہ شہر جو کبھی میرا اپنا تھا کیونکہ اس میں میرے لیے ملکہ تھی … میری دلجوئی کا سامان … میرے سکھ دُکھ کو سننے، سنبھالنے اور پالنے والی ملکہ۔ سائنس نے میرے لیے جنت اور دوزخ کے تصورات بدل ڈالے تھے … مگر خوفِ خلق کی وجہ سے میرے ذہن و دِل میں ملکہ کی جگہ دوزخ کے بھانبھڑ ہی منتظر نظر آئے۔

آج جب میں اِس کی قبر کی سوکھی۔۔ مردہ سی مٹی کی ڈھیری کے پاس کھڑی ہوئی تو لحظہ بھر کو … اس کے گدگداتے جملے، چہرے پہ شرارت کی آمیزش سے بنے نقوش میری آنکھوں کے سامنے لہرا گئے۔ پتہ نہیں کون بد کردار … کون با کردار ہے۔ زندگی وحشیوں، قاتلوں، رہزنوں اور ظالموں پر بھی مہربان دکھائی دیتی ہے … مگر بد بختوں، تیرہ شبوں، ستم زدوں اور دل فگاروں پہ زندگی کی جگہ نامعلوم کیا اُترتا ہے … وہ پڑھ ہی نہیں پاتے اِس لکھے کو …؟ سمجھ ہی نہیں پاتے اِشاروں کو … اور وقت کا گھنٹہ بج جاتا ہے … چلو امتحان کا وقت ختم۔ جو لکھ دیا سو لکھ دیا۔!!

میں سوچتی رہی۔ کچھ باغی دُنیا کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ نقشہ اور جغرافیہ بدل ڈالتے ہیں۔ ذہنوں اور زندگیوں کو مفہوم بخش دیتے ہیں۔ یہ کیسی بغاوت تھی یا اِس طرزِ عمل کا کیا نام ہے؟ کیا مشرقی عورت کی بغاوت بھی صرف خود سے انتقام ہے … اپنی ہی بربادی کا نام ہے … اپنی ہی ذات، جسم اور رُوح کو روندنے کا نام؟

دعا مانگتے مانگتے … اچانک مجھے غصہ آ گیا۔ کیا کچرا تھی زندگی؟ یوں Flush کر دیا، جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ کچھ معنویت ہی نہ ہو۔ زندگی جیسی انمول چیز … یوں بے رحمی سے گنوا دی۔ ایک خود غرض شخص کی خاطر اور ایسی محبت کے پیچھے، جس کا اسے خود بھی یقین نہیں تھا۔

٭٭٭




ماخذ: ’ادب سلسلہ، شمارہ ۴‘ ، مرسلہ مرحومہ تبسم فاطمہ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید