صفحات

تلاش کریں

سفرنامہ-خُوشبو کا سفر(طارق محمود مرزا)


فہرست

یہ سفر بذاتِ خود ایک حسین گلدستہ کہا جا سکتا ہے... 8

خوشبو کا سفر رُکتا نہیں.... 11

پیش لفظ... 13

پاکستان.. 16

یارک شائر (برطانیہ). 28

لندن.. 47

ٹریفالگر... 98

فرانس... 120

سوئٹزر لینڈ... 174

لیوژرن (Lucerne ). 183

جرمنی... 226

ایمسٹرڈم (ہالینڈ). 253

واپسی کا سفر... 339
**************************
والد صاحب مرحوم
کے نام
جنہوں نے میرے ہاتھ میں قلم پکڑایا
کل کے اندیشوں سے اپنے دِل کو آزُردہ نہ کر
دیکھ یہ ہنستا ہوا موسم، یہ خُوشبو کا سفر
فرازؔ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
’’خوشبو کا سفر‘‘ ضخیم بھی ہے، پُر اثر بھی ہے، مبسوط بھی ہے اور پُر بہار بھی!
اسلامی معاشرے میں سیر و سیاحت کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ علمِ جغرافیہ سے گہری وابستگی اور فنِ جہاز رانی پر کامل دسترس نے فرمانِ الٰہی ’’سِیرو فِی الارض‘‘ پر عمل پیرا ہونے میں مسلمانوں کی پوری اعانت کی ہے۔ سفر کو وسیلۂ ظفر بنانے والے مسلم سیاح کچھ سیکھنے اور کچھ سکھانے کا جذبۂ فراواں لے کر دنیا کے دور دراز گوشوں تک پہنچتے رہے۔ ہر خطۂ زمیں کا سفر ہی انہیں مرغوبِ خاطر نہ تھا، وہاں کی تہذیب و تمدن کا غائر مطالعہ بھی اُن کے پیشِ نظر رہتا تھا۔ یہی نہیں، معاشرت و معیشت کے رنگارنگ پہلوؤں پر مبنی ایسا سفر نامہ وہ لکھ گئے جس نے اس صنف کو ابد الآباد تک کے لئے زندگیِ جاوداں عطا کر دی۔ ایسے سفر نامے لکھنے والوں میں المسعودی، ابو زید سیرانی، البیرونی، ابنِ بطوطہ اور ناصر الدین شاہ قاچار کے نام خاصے نمایاں ہیں۔ خواہ عربی ہو یا فارسی، ان زبانوں میں سفر ناموں کا ایک ایسا سلسلہ دراز ملے گا جو مسلمانوں کے شوق و جذبے کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور ماہ و سال کی دبیز گرد بھی اس کی تابناکی کو ماند نہیں کر سکی ہے۔ اُردو زبان میں ’’سفر نامہ‘‘ کی صنف اپنی پوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر رہی ہے۔ اس کی جڑیں ماضی بعید میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یوسف خان کمبل پوش، سرسید احمد خان، خواجہ حسن نظامی اور مولانا شبلی نعمانی نے اپنے اپنے وقت میں سفری روداد لکھ کر اس فن کو آگے بڑھایا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس صنف کو پروان چڑھانے میں اُردو کے کئی ادیب پیش پیش رہے ہیں۔
آج اس صنفِ ادب کے افق پر ایک اور ستارہ اُبھرا ہے۔ میری مراد طارق محمود مرزا سے ہے جو ’’خوشبو کا سفر‘‘ لے کر رودادِ سفر سنانے آئے ہیں۔ گوجر خان کے اس سپوت نے آسٹریلیا کے وسیع و عریض بر اعظم میں اپنی افسانی نگاری، کالم نویسی، صحافتی فنکاری سے اردو زبان کا پھریرا تو لہرا ہی دیا تھا، اب دیگر مغربی ملکوں کی خاک چھان کر ایسا سفر نامہ پاکستان کی قومی زبان کی جھولی میں ڈال دیا ہے جو ضخیم بھی ہے، پُر اثر بھی ہے، مبسوط بھی ہے اور پُر بہار بھی!
کچھ سفر محض اس غرض سے کئے جاتے ہیں:
’’ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے‘‘
لیکن طارق صاحب کا سفر ’’چیزے دیگر است‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کا تحریر کردہ ’’خوشبو کا سفر‘‘ ایسی تحریر کا درجہ رکھتا ہے جو مختلف ملکوں کے سیاسی حالات، طرزِ جہاں بانی، لوگوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور نظریاتِ زندگی کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اس سفر نامے نے ہر خطے کے باسیوں کا خط و خال اور نگ و روپ اُجال دیا ہے۔ طارق صاحب نے وہاں کے رہنے والوں کے من میں جھانک شعور کی رو ’’خوئے حوا‘‘ کے جلترنگ کو بھی ’’گننے‘‘ کی کوشش کی ہے۔ قدِ آدم شیشوں میں سجی سجائی اور ’’قدرتی لباس‘‘ میں ملبوس جیتی جاگتی حسیناؤں کے انگ انگ کو دستِ نگاہ سے مَس بھی کیا ہے۔ مگر قابل تعریف ہیں کہ اُردو کے صوفی منش شاعر خواجہ میر دردؔ کے مشہورِ زمانہ شعر کو اپنے اوپر ’’لاگو‘‘ ہی نہ ہونے دیا
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
ان کا دامن بھی سلامت رہا، بندِ قبا بھی بند کا بند رہا اور یہ حضرت تمام جل پریوں کے رنگا رنگ سائے سے خود کو بچاتے ہوئے سڈنی پہنچ گئے اور ہمارے ہاتھوں میں ایسا ضخیم سفر نامہ پکڑا گئے جو ایک تہذیب کا اُجالا بھی ہے اور ایک تہذیب کا زخم بھی!
پروفیسر ڈاکٹر محمود الرحمن
علامہ اقبال یونیورسٹی، اسلام آباد
۷ اپریل ۲۰۰۸ء
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ سفر بذاتِ خود ایک حسین گلدستہ کہا جا سکتا ہے
یہ طارق مرزا صاحب کا سفر نامہ ہے۔ مرزا صاحب کی شخصیت علمی اور ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ سڈنی کی معروف ادبی شخصیت ہیں۔ ان کے افسانے، کہانیاں اور کالم مختلف اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا (سڈنی) کے سرگرم رکن بھی ہیں۔ آپ نے یہ سفر ایک ٹورسٹ گروپ کے ساتھ کیا تھا جس میں مختلف مزاج، مذہب اور ملکوں کے سیاح شامل تھے۔ اس طرح یہ سفر بذاتِ خود ایک حسین گلدستہ کہا جا سکتا ہے۔ عام طور پر سفر ناموں میں مناظر اور اپنے سفر کا حالات کو بیان کیا جاتا ہے لیکن اس کتاب کے مصنف کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے صرف منظر نامہ ہی بیان نہیں کیا بلکہ معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، ادبی، ثقافتی، ہر موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ جس میں علم اور حقیقت دونوں موجود ہیں۔ اس طرح قاری بے شمار معلومات کے ساتھ، انسانی زندگی کی محرومیاں، پردیس کے دکھ، اپنوں کی بے وفائی، ہمت اور محنت کی داستانیں، نارسائی، جذبے، کوشش و جد و جہد، بیرونِ ملک پاکستانیوں کی تگ و دو کی اصلی اور سچی تصویر پیش کی ہے کہ قاری تحریر کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور خود کو اس سفر میں ان کا ہم سفر سمجھ لیتا ہے۔ زبان خوبصورت، محاوروں کا بر موقع استعمال اور آسان فہم ہے۔ بوجھل اور ثقیل الفاظ بہت کم ہیں۔ دوستوں کی بے تکلفی، اعتبار، انتظار اور دوستی ایک جوئے بے کنار کی طرح اپنے مہمان کو دامنِ الفت میں سمیٹ لیتی ہے۔ پردیس میں رہنے والے جب کسی پاکستانی کو ملتے ہیں تو کس طرح چشم و دل فرشِ راہ کرتے ہیں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ مرزا صاحب نے اس جذبے کی بے مثال عکاسی کی ہے۔ یہ پردیسی اپنے وطن اور پیاروں کی جدائی کا بوجھ بھی اٹھاتے ہیں۔ اس معاشرے کی قدروں کا بھرم بھی رکھتے ہیں اور زرِ مبادلہ کما کر اپنے وطن بھی ارسال کرتے ہیں۔ مصروف زندگی اور نو سے پانچ بجے تک کام کی درست تصویر کشی کی ہے۔ مثلاً ’’میں سوچ رہا تھا کہ چاچا محمد علی اور ان جیسے دوسرے بزرگوں کا بڑھاپے میں ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے ان کے سامنے زندگی کا کوئی نصب العین باقی نہیں رہ جاتا، وہ زندگی برائے زندگی گزارتے ہیں۔ جنہوں نے ساری زندگی جسمانی اور دماغی محنت کی ہوتی ہے۔ اچانک ایک دن انہیں سب ذمہ داریوں، خود مختاریوں اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہو کر ایک کونے میں بیٹھنا پڑتا ہے تو زندگی کا ہر رنگ ان کے لئے پھیکا پڑ جاتا ہے اور زندگی ان کے لئے صرف شب و روز کا تسلسل بن کر رہ جاتی ہے۔ جس زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہو اس میں اور موت کے درمیان فرق نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے‘‘
اس میں مصنف نے زندگی کی ایک بڑی زخمی حقیقت بیان کر دی ہے یہ صرف بیرونِ ملک ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی یہی ہوتا ہے۔ یہ شعور پہ ایک دستک ہے کہ ان لوگوں کی بھی ایک تنظیم ہونی چاہیے اور ان کو معاشرے کا فعال حصہ بنایا جائے تاکہ ان کی محرومی کا ازالہ ہو سکے۔ کیونکہ آج جو لوگ جوان ہیں اور ادھیڑ عمر ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ عمر کے اسی حصے میں داخل ہونے والے ہیں۔ یہ زندگی کا تسلسل ہے جو جاری رہتا ہے۔ اس لئے جیسے ان کے یہاں کلب ہوتے ہیں اور مختلف مشاغل مہیا کئے جاتے ہیں اور رضاکارانہ کاموں میں یہ لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی انہیں زندگی کے دھارے میں شامل رکھنا چاہیے۔
یورپ کی تہذیب کا ذکر نہ کرتے تو یہ سفر نامہ ادھورا رہتا۔ بقول علامہ اقبالؔ
ان کی تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
جولی اور مولی دو نوجوان لڑکیوں کا ذکر پڑھ کر اُردو داں قاری سوچتا ہے کہ اس ماحول میں پل کر ہماری نوجوان نسل کیسے بچ پائے گی۔ اخلاق اور کردار قوموں کی زندگی میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی طارق مرزا کی کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھے بغیر چھوڑی نہیں جا سکتی۔ یہ صرف یورپ کی سیر ہی نہیں معلومات کا خزانہ، تہذیبِ مغرب کی ایک جھلک اور نوحہ بھی ہے۔ اس کی چمک دمک کے پردے میں کیسے ناسور ہیں۔
مرزا صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سڈنی کی مصروف زندگی میں سے وقت نکال کر اردو قارئین کو اس کتاب کا خوبصورت تحفہ دیا۔
لداخ کے دور دراز سے آنے والا گل خان جو اب ہالینڈ میں ایک بہت بڑا تاجر ہے کا ذکر ہمارا سر فخر سے بلند کر دیتا ہے۔ افضل خان کی کہانی ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے۔ کیوپڈ کے تیر سے زخمی ہونے والوں کو عشق نے کہاں سے اٹھایا اور کہاں لے گیا۔ زندگی کے یہ سارے دھنک رنگ اس کتاب میں پھیلے ہوئے ہیں جو خوشبو کی طرح آپ کی روح کو معطر کر دیتے ہیں۔
یہ ایسی کتاب ہے کہ جسے بار بار پڑھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو یورپ کی سیر کو جانا چاہتے ہیں اگر یہ معلومات آپ کے ہمراہ ہوں گی تو آپ ان جگہوں کو یاد رکھیں گے۔ کیونکہ دیارِ غیر میں حلال فوڈ تلاش کرنا خاصا مسئلہ ہوتا ہے اگر یہ کتاب آپ کے ساتھ ہو گی تو یہ تسکینِ مطالعہ کے علاوہ گائیڈ کا کام بھی کرے گی۔
ڈاکٹر شگفتہ نقوی، ملبورن آسٹریلیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خوشبو کا سفر رُکتا نہیں
میں نے خوشبو کا سفر تفصیل سے اور دلچسپی سے پڑھی ہے۔ خوشبو کا سفر رکتا نہیں، ہوائیں اس کو لے کر پھرتی ہیں اور فضائیں اسے اپنے گلے لگاتی ہیں۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ بڑے عرصے بعد ایک ایسا سفر نامہ پڑھنے کا موقع ملا جسے گھر بیٹھے نہیں لکھا گیا بلکہ انتہائی دلچسپ سفر کے بعد تحریر کیا گیا۔ ویسے بھی یہ کتاب اپنے آپ کو پڑھواتی ہے اس میں اتنی سلاست ہے، اتنی روانی ہے، اتنی دلچسپی ہے، اتنی ندرت ہے، اتنی قدرت بیان ہے، اتنی حیرتیں ہیں۔ فی الواقعہ کتاب تحریر اور واقعات کے لحاظ سے دلچسپ اور بھرپور ہے۔ سفر زندگی کا حصہ ہے۔ انسان کا پہلا سفر تو وہ ہے جس کے بارے میں علامہ اقبالؔ نے کہا تھا
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
حضرت ابراہیم کو سفر کے نتیجے میں پیغمبری ملی، موسی علیہ السلام کا نیل کی موجوں پر سفر، نبی کریمﷺ کا شام اور ہجرت کا سفر اور آپﷺ کا وہ سفر جس کے بارے میں اقبالؔ نے کیا تھا۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیﷺ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں گردوں
سفر ہر کوئی کرتا ہے لیکن سفر نامہ کوئی کوئی لکھتا ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے فی الحقیقت یہ ساری اصناف سخن میں سب سے مشکل کام ہے۔ طارق مرزا نے مشکل کام کس آسانی سے کر دکھایا۔ ’خوشبو کے سفر، میں افسانہ بھی ہے، ڈرامہ بھی ہے، مکالمہ، شاعری، منظر نگاری، خاکہ نگاری بھی ہے۔ نثر شاعرانہ ہے، منظر نگاری اتنی دلکش ہے کہ موصوف کا سراپا نظروں کے سامنے آ جاتا ہے اور پھر مصنف خود کو اس منظر سے اتنی خوبصورتی سے الگ کرتا ہے کہ ایک دلچسپ سین بیان کرتے کرتے ٹرین درمیان سے گزار دیتا ہے۔
خوشبو کا سفر میں مغرب کا کرب بیان کیا ہے جو اوپر سے خوشحال اور خوش دکھائی دیتا ہے لیکن اندر سے جھانک کر دیکھا جائے تو اس میں ہر سو خار چبھے نظر آتے ہیں لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ وہ اپنی خار زرہ تہذیب ہمارے اوپر مسلط کی جا رہی ہے۔ ثقافتی دہشت گردی ملاحظہ فرمایئے کہ تہذیب مشرق کی خوبصورت روایات کو پامال کر کے ویلنٹائن ڈے، نیو ائر، لو میرج، شادی کے بغیر بے رکاوٹ میل جول، شراب و شراب سے آلودہ مخلوط پارٹیاں، ڈش، انٹرنیٹ، سیٹلائٹ اور ٹی وی کے ذریعے ہماری تہذیب اور دین پر نقب لگائی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بقول اقبالؔ
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا
سنا ہے میں نے قدسیوں سے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
ہماری قوم کب ہوشیار ہو گی؟ یہ سوال ہے خوشبو کے سفر کا!
میں مبارک باد دیتا ہوں طارق محمود مرزا کو ان کی بہترین تصنیف پر اور دعا کرتا ہوں کہ خوشبو کے سفر کی شہرت ہر جگہ سنائی دے۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
صدر حلقہ علم و ادب پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پیش لفظ

اس ہزاروی کے شروع میں میں سیاحت کی غرض سے یورپ کے سفر پر گیا۔ دورانِ سفر کچھ ایسے دلچسپ تجربات پیش آئے کہ میرے دل میں اس سفر کے واقعات کو قلمبند کرنے کی خواہش اُبھری۔ اسی خواہش کے زیرِ اثر سفر کے دوران میں یہ واقعات اور تجربات نوٹ کرتا رہا۔ مصروفیت کی وجہ سے دو تین سال تک میں اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ اس تاخیر کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ وہ وجہ میرے اندر اُٹھنے والا یہ سوال تھا کہ کیا یہ کتاب قابلِ اشاعت ہو گی یا نہیں۔ اِس دوران آسٹریلیا اور پاکستان کے اخبارات و رسائل میں میری دوسری کئی تحریریں مسلسل چھپتی رہیں۔ ان تحریروں کو پڑھ کر مختلف لوگوں کا مختلف ردِ عمل سامنے آتا رہا۔ ان میں کچھ تو عام قاری تھے اور کچھ اہلِ قلم بھی تھے۔ ان اہلِ قلم میں بھارت سے تعلق رکھنے والے آسٹریلیا کے جانے مانے اُردو ادیب اور شاعر اوم کرشن راحتؔ بھی شامل تھے۔ میرا ایک مضمون ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ پڑھ کر انہوں نے از راہِ شفقت مجھے خط لکھا۔ جس میں انہوں نے مجھے حکم دیا کہ آ کر اُن سے ملوں۔ اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میری تحریر کی خوبیوں اور خامیوں پر روشنی ڈالی۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ ان خامیوں کے باوجود یہ ایک بہت اچھی ادبی تحریر ہے، اِس سلسلے کو جاری رکھو۔ ان کا یہ فرمان میرے لئے سند سے کم نہ تھا۔ ان کے علاوہ اُردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کے دوسرے دوستوں نے بھی حوصلہ افزائی کی۔ ان میں سے اکثر صاحبِ کتاب اور بہت اچھے لکھاری ہیں۔ ان احباب کی حوصلہ افزائی سے میرے اندر حوصلہ بڑھتا رہا اور میں ادب کی مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کرتا رہا۔ اس دوران میری تحریریں آسٹریلیا، پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسالوں میں چھپتی رہیں۔

2001 میں میں نے آسٹریلیا کے سب سے بڑے اُردو اخبار پندرہ روزہ اوورسیز کی ادارت سنبھالی۔ یہ پندرہ روزہ میگزین نما اخبار تھا۔ اس میں حالاتِ حاضرہ کے ساتھ ساتھ ادبی تحریروں کی بھی گنجائش تھی۔ اس میں آسٹریلیا بھر کے بہترین اُردو قلمکار حصہ لیتے تھے۔ یوں تو اوورسیز میں میری مختلف نوع کی بے شمار تحریریں شائع ہوئیں۔ لیکن میرے دو مستقل سلسلے بہت مقبول ہوئے۔ ان میں سے ایک میرے کالموں پر مشتمل مستقل سلسلہ ’صدائے جرس، تھا۔ جس میں مختلف موضوعات پر میں نے بہت سارے کالم لکھے۔ ان میں سے زیادہ تر ادبی مضامین تھے۔ ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ بھی اُنہی میں سے ایک تھا۔ جسے پڑھ کر اوم کرشن راحتؔ صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔

دوسرا سلسلہ یہی سفر نامہ تھا جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اُسے میں نے اوورسیز میں قسط وار لکھنا شروع کیا۔ اوورسیز بڑی تعداد میں چھپتا تھا اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ہر شہر میں پہنچتا تھا۔ اس سفر نامے کو قارئین نے بہت زیادہ پسند کیا۔ اس میں ہر طبقۂ فکر کے خواتین و حضرات شامل تھے۔ ایک قسط اخبار کے آدھے صفحے کے برابر ہوتی تھی۔ اِس طرح دو سال میں کتاب کا صرف تہائی حصہ مکمل ہوا۔ اِس حساب سے کتاب مکمل کرنے لئے مزید چار سال درکار تھے۔

2003 میں، میں نے نیا کاروبار شروع کیا۔ اس کی مصروفیات کی وجہ سے نہ صرف میں نے ’ اوورسیز، کی ادارت چھوڑ دی بلکہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل موقوف ہو گیا۔ اگلے تین سال دو اور دو چار جیسے حسابی فارمولوں کے علاوہ کچھ بھی نہ لکھ سکا۔ 2006 میں جب ذرا فرصت ملی تو ایک دفعہ پھر قلم ہاتھ میں تھاما۔ قلم تو پکڑ لیا لیکن اتنے عرصے سے ٹوٹا ہوا سلسلہ جوڑنا آسان نہ تھا۔ اُدھر کاروباری اور صحافتی مصروفیات اب بھی کم نہیں تھیں۔ کیونکہ اب کاروبار کے ساتھ ساتھ میں آسٹریلیا میں اُردو کی سب سے بڑی ویب سائیٹ بھی چلا رہا تھا۔ ویب سائیٹ کو مسلسل اپ ڈیٹ کرنے کا کام بھی بہت وقت مانگتا ہے۔ خوش قسمتی سے ان دونوں مصروفیات کے باوجود آخر کار میں کتاب مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

اس کی کتابت کرانے، کمپیوٹر پر خود ہی اس کی تصحیح کرنے، کچھ اہلِ نظر احباب کو دکھانے اور دوبارہ تصحیح کرنے میں سال ڈیڑھ سال مزید لگ گیا۔ اس طرح کتاب کے آغاز سے اختتام تک بقول شخصے پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ دُنیا کے حالات بدل چکے تھے۔ سفر کے بہت سے واقعات یاد رہنے کے باوجود ان کی جزئیات فراموش ہو گئی تھیں۔ وہ تو شکر ہے کہ اہم واقعات میں پہلے ہی اپنی ڈائری میں درج کر چکا تھا۔ ورنہ یادداشت کے سہارے کتاب مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔ میں بھی اپنی عمر کے تیسرے عشرے سے چوتھے میں داخل ہو چکا تھا۔ بقول میرے دوست جاوید کے سفر میں کی گئی ’خراب حرکتوں، کا ذکر اب مجھے زیب نہیں دیتا۔ دوسرے دوست مولوی صدیق نے فتویٰ دیا۔ اس وقت کیا، کسی بھی وقت ایسی حرکتیں جائز نہیں ہیں۔ مزید غضب یہ کر رہے ہو کہ اپنی ان حرکتوں کا تحریری اعتراف بھی کر رہے ہو۔ گویا ان کا زیادہ اعتراض ارتکاب پر نہیں اعتراف پر تھا۔

اُدھر بزرگ دوست اوم کرشن راحتؔ اور دوسرے شعراء اور ادیب دوستوں کی رائے تھی کہ یہ سب ادب کا حصہ ہے۔ پھر بھی محترم بھائی عارف صادقؔ اور محترمہ ڈاکٹر کوثر جمال صاحبہ کی سفارش پر میں نے بہت سے واقعات حذف کر دئیے۔ ان واقعات کے حذف یا ترمیم کے بعد میرے حساب سے اب یہ معصوم سی درسی کتاب بن گئی ہے۔ امید ہے قاری اسے اپنا اخلاق سدھارنے کے لئے بھی استعمال کر سکیں گے۔

کتاب میں درج تمام واقعات اصلی مگر چند کرداروں اور مقامات کے نام فرضی ہیں۔ اس کی وجہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کی سمجھ میں آ جائے گی۔

آخر میں ان احباب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جن کے تعاون سے اس کتاب کی اشاعت ممکن ہو سکی۔ دیارِ غیر کے باسیوں کے لئے کتاب تحریر کرنا جتنا مشکل ہے، اسے شائع کرانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ وطن سے دُور رہ کر فون اور ای میل کے ذریعے کتابت سے لے کر اشاعت تک تمام مرحلے طے کرنا آسان نہیں ہے۔ اس مشکل کو آسان کرنے کے لئے جن احباب نے میرے ساتھ پورا پورا تعاون کیا۔ ان میں اُردو سوسائیٹی آف آسٹریلیا کے صدر ڈاکٹر شبیر حیدر، جنرل سیکرٹری عارف صادقؔ، جناب اوم کرشن راحتؔ، محترمہ ڈاکٹر کوثر جمال، میرے بڑے بھائی لیفٹیننٹ کمانڈر طالب حسین مرزا، میرے چھوٹے بھائی خالد محمود مرزا، دوست پبلی کیشنز کے محترم اختر اور آصف صاحب شامل ہیں۔ کتاب کو حتمی شکل دینے سے پہلے یہ اُردو سوسائیٹی آف آسٹریلیا کی کئی تنقیدی نشستوں میں موضوعِ بحث رہی۔ اس سے بھی مجھے کتاب کی نوک پلک سنوارنے میں مدد ملی۔ اس لئے سوسائٹی کے تمام احباب کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان تمام احباب کے تعاون کے بغیر اس کتاب کی اشاعت ممکن نہیں تھی۔

اس سلسلے میں سب سے آخری لیکن سب سے اہم نام میرے والد صاحب مرحوم کا ہے۔ اس وقت میں صرف تیرہ برس کا تھا جب وہ ہم سے جدا ہو گئے تھے۔ وہ خود تو پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن علم اور اہلِ علم کی جو قدر و منزلت ان کے دل میں تھی۔ صرف اِس کے نتیجے میں ہی آج یہ کتاب منظرِ عام پر آئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے ہاتھ میں یہ کتاب دیکھ کر دُور آسمانوں میں ان کی رُوح مسکرا رہی ہو گی۔

طارق محمود مرزا۔ سڈنی۔ انیس فروری ۲۰۰۸

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


پاکستان


میرا ننھیال اور دُدھیال بلکہ میکہ اور سسرال سبھی کچھ پاکستان میں تھا



آسٹریلیا کا برطانیہ سے ننھیال اور دُدھیال والا رشتہ ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں بچوں کو چھٹیاں گزارنے کے لئے ننھیال یا دُدھیال بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح آسٹریلین اور برطانوی نوجوان لڑکے لڑکیاں بالغ ہوتے ہی ایک دوسرے کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ آسٹریلیا سے یورپ جانے والے چند ماہ یا سال دوسال گزار کر واپس آ جاتے ہیں۔ بعض دورانِ سفر ہی اچھی سی جاب یا اچھی سی شریکِ حیات ڈھونڈ لیتے ہیں اور وہیں رہ جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح برطانوی نوجوان بھی ہر سال لاکھوں کی تعداد میں آسٹریلیا آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو آسٹریلیا کے موسم، یہاں کے خوبصورت ساحل یا کوئی خوبصورت ساحر یا ساحرہ یہاں رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ سڈنی کے ساحلی علاقے بونڈائی، کوجی، رینڈوک اور ماروبرا میں بڑی تعداد میں ایسے ہی برطانوی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں رہتے ہیں۔ اس طرح ننھیال اور دُدھیال کا یہ چکر چلتا رہتا ہے۔

میرے آسٹریلین دوست یورپ کی سیر کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ انہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے میرا جی بھی یورپ کی سیر کو چرا یا۔ یورپ ’’بلکہ ولایت‘‘ کا ذکر تو میں بچپن سے سنتا آ رہا ہوں کیونکہ میرے آبائی علاقے کے بہت سے لوگ برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ ذکر کوہ قاف کی پریوں کی کہانیوں کی طرح افسانوی اور رُومان سے بھرپور لگتا تھا۔ اب اس عمر میں ایسا تو محسوس نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اس دیس کا جو تصور ذہن میں تھا وہ کچھ کم دلکش نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ خواہش غالبؔ والی خواہش بن جائے، اسے تکمیل کا جامہ پہنا دینا چاہیے۔ آسٹریلین اور برطانوی شہریوں کے مقابلے میں میرا ننھیال اور دُدھیال بلکہ میکہ اور سسرال سبھی کچھ پاکستان میں تھا۔ لہذا میرے اس سفرِ یورپ کا آغاز اور اختتام پاکستان میں ہی ہوا۔

یورپ جانے کے لئے میں نے جولائی کے مہینے کا انتخاب کیا۔ کیونکہ وہاں کے روتے بسورتے موسم میں جولائی قدرے بہتر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ گرمیوں کا موسم ہوتا ہے (یورپ کی سردیوں سے اللہ امان دے) دوسرا یہ کہ دن لمبے ہوتے ہیں۔ بارشیں بھی دوسرے مہینوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں۔ میرا پروگرام یہ تھا کہ پہلے سڈنی سے پاکستان جاؤں گا اور وہاں سے یورپ۔ یورپ سے واپسی پر بھی پاکستان سے ہو کر آسٹریلیا لوٹنا تھا۔

9 جولائی 2000 کی خنک اور سنہری دھوپ والی سہ پہر میں نے سڈنی کو الوداع کہا۔ آسٹریلین ائیر لائن کانٹس کی فلائٹ سہ پہر ساڑھے تین بجے سڈنی سے سنگاپور کیلئے روانہ ہوئی۔ جہاز میں خوب گہماگہمی تھی۔ زیادہ تر آسٹریلین اور یورپی مسافر تھے۔ یعنی ننھیال یا دُدھیال آ اور جا رہے تھے۔

جہاز فضا میں بلند ہوتے ہی حسین چہرے اور روشن مسکراہٹ والی ایئر ہوسٹس مشروبات کی ٹرالی لے کر حاضر ہو گئی۔ ٹرالی رنگا رنگ شرابوں سے مرصع تھی۔ شرابوں کے خوبصورت رنگ، مسافروں کی رغبت، خصوصاً ساقی کی دلآویز مسکراہٹ سے یہ حرام نہیں لگ رہی تھیں۔ اگر غالبؔ اس ماحول میں ہوتے، تو شراب نہ سہی، ساقی کا ہی بھرم رکھ لیتے۔ پھر ساغر و مینا کی موجودگی، ساقی کی دلکشی اور ماحول کی رنگینی ایک خوبصورت غزل کو جنم دے دیتی۔ میں چونکہ غالب تھا نہ قاضی اس لئے فانٹا پر گزارا کیا۔ میں نے سوچا ذائقہ جیسا بھی سہی رنگ تو پرکشش ہے۔

کھانے کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ میرے دوست ٹریول ایجنٹ نے میرے لئے مسلم فوڈ کا آرڈر نہیں لکھوایا تھا۔ شاید اسے میری مسلمانیت پر شبہ تھا۔ ناچار کچی پکی سبزیوں پر گزارا کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ ایئر لائن والوں کی غلطی نہیں تھی اس کے باوجود وہ بار بار مختلف پھل اور سبزیاں لا لا کر میرے آگے رکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ بار بار معذرت بھی کر رہے تھے۔ اُس دن اپنے ٹریول ایجنٹ دوست کی مہربانی سے میں نے سبزیاں کھا کر اور فانٹا پی کر اس طرح ڈکار لئے جس طرح ہمارے دیہاتی بھائی مکئی کی روٹی ساگ اور لسی کا لنچ کر کے لیتے ہیں۔

سنگاپور کے وقت کے مطابق ہم رات نو بجے وہاں لینڈ کر گئے۔ میری اگلی فلائٹ پی آئی اے کی تھی جو صبح سات بجے روانہ ہونا تھی۔ اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ درمیان والے دس گھنٹے کہاں اور کیسے گزارے جائیں۔ جس طرح دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے، اس طرح دو ایئر لائنوں کا مسافر ہونے کی وجہ سے مجھے سنگاپور میں ہوٹل کی سہولت نہیں دی گئی تھی۔ کانٹس والوں نے سنگاپور میں فارغ کر دیا تھا، جب کہ پی آئی اے کی میزبانی کا شرف اگلی صبح حاصل ہونا تھا۔ درمیان کے دس گھنٹے ’’اپنی مرضی‘‘ سے گزارنے کے لئے دونوں نے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ میں مخمصے میں پڑ گیا کہ یہ دس گھنٹے کہاں اور کیسے گزاروں۔ رات ہونے کی وجہ سے ائیر پورٹ سے باہر جانے کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا۔ ٹرانزٹ وغیرہ لینے میں ہی کافی وقت ضائع ہو جاتا۔ چند گھنٹوں اور رات کے اندھیرے میں سنگا پور کی سیر کیا ہو پاتی۔ میرا سامان بدستور ایئر لائنوں کے حوالے تھا۔ صرف ایک بیگ میرے پاس تھا۔ اس کے ساتھ یہ رات میں نے ایئرپورٹ پر ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔

سنگاپور ایئرپورٹ بھی ایک چھوٹے سے خوبصورت شہر کی مانند ہے۔ اس کا شمار دنیا کے چند حسین ترین ایئر پورٹوں میں کیا جاتا ہے۔ اس میں رنگارنگ دکانیں، ڈیوٹی فری شاپس، کیفے، ریسٹورنٹ، بار، سموکنگ روم (سگریٹ پینے والے کمرے)، آرام کرنے والے لاؤنجز اور وہ سب کچھ ہے جس کی آپ تمنا کریں اور جیب اجازت دے۔ جگہ جگہ معلومات اور مدد کے لئے کاؤنٹر بنے ہوئے ہیں۔ رات کے وقت وہاں عملہ نہیں ہوتا لیکن ہدایات درج ہوتی ہیں۔ ان پر عمل کرتے ہوئے فون اٹھائیں تو دوسری طرف کوئی نہ کوئی معلومات فراہم کرنے والی خاتون موجود ہوتی ہے۔ لہذا اتنا بڑا اور مصروف ایئرپورٹ ہونے کے باوجود وہاں بھٹک جانے کا خدشہ نہیں ہے۔

کانٹس کی میزبانی اور ٹریول ایجنٹ کی مہربانی سے سبزیاں اور پھل کھا کھا کر میرا پیٹ بھرا ہوا تھا لہذا سنگاپور میں میں نے ایک کافی پر اکتفا کیا جو چار امریکن ڈالر میں ملی۔ میں نے حساب لگایا تو یہ رقم 240 پاکستانی روپوں کے برابر تھی۔ یعنی ایک ایک گھونٹ تیس روپے سے کم کا نہ تھا۔ ستم یہ کہ کافی انتہائی بد ذائقہ تھی۔ شاید اس کیفے کا مالک پہلے کراچی کینٹ اسٹیشن میں اسٹال لگاتا تھا۔ جیسے تیسے کر کے آدھا کپ پیا۔ ہر گھونٹ کے ساتھ خیال آتا تھا کہ اتنے روپوں میں کراچی کے بندو خان میں ڈنر کیا جا سکتا تھا یا لاہور میں پھجے کے پائے کا لنچ ہو سکتا تھا۔ ائرپورٹ پر آوارہ گردی کرتے ہوئے بہت سے حسین چہروں اور کئی ناگفتنی مناظر کا سامنا ہوا۔ چونکہ اس طرح کے مناظر سڈنی میں اکثر نظر آتے ہیں اس لئے میرے لئے زیادہ قابلِ توجہ نہ تھے۔

کافی دیر تک ائر پورٹ کی آوارہ گردی کرنے کے بعد بارہ بجے آرام کی طلب محسوس ہوئی۔ سنگاپور ائرپورٹ پر ریسٹ لاؤنجز بنے ہوئے ہیں جہاں آرام دہ بینچ ہیں۔ وہاں روشنی بھی مدھم ہوتی ہے اور شور و غل بھی نہیں ہوتا۔ کئی اور مسافر وہاں پہلے سے محو استراحت تھے۔ میں نے بھی ایک بینچ کا انتخاب کیا۔ تولئے کا سرہانہ بنا کر دراز ہو گیا۔ نرم بستر کا عادی بدن اتنی جلدی اس بنچ پر سونے کے لئے تیار نہ تھا لہذا اسے تھپک تھپک کر منانا پڑا۔ اگلے تین چار گھنٹے اسی طرح کچھ سوتے کچھ جاگتے گزرے۔

آنکھ کھلی تو گھڑی پر نظر دوڑائی۔ سوا چھ بج چکے تھے جب کہ سات بجے میری فلائٹ تھی۔ ابھی بورڈنگ کارڈ بھی لینا تھا۔ وقت بہت ہی کم تھا۔ مجھ سے ایک اور غلطی بھی ہوئی تھی۔ رات میں نے یہ معلوم نہیں کیا تھا کہ میری فلائٹ کس ٹرمینل سے جا رہی ہے۔ اس وقت سوچا تھا ابھی بہت وقت ہے صبح معلوم کر لوں گا۔ ٹی وی اسکرین پر نظر دوڑائی تو علم ہوا کہ میری فلائٹ دوسرے ٹرمینل سے جائے گی جو خاصے فاصلے پر ہے۔ میں نے سوچا یہ فلائٹ تو گئی۔

سنگاپور ایئرپورٹ پر ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل پر جانے کے لئے ایسکالیٹر (ESCALATOR) بنے ہوئے ہیں۔ ایک ختم ہو تو دوسرے پر سوار ہو جائیں۔ میں ان پر کھڑا ہونے کی بجائے سرعت سے چلنے بلکہ دوڑنے لگا۔ پھر بھی پندرہ منٹ لگ گئے۔ پی آئی اے کا کاؤنٹر ڈھونڈ کر وہاں پہنچا تو فلائٹ میں صرف بیس منٹ باقی تھے۔ امید تو نہیں تھی لیکن انہوں نے بلا تردد بورڈنگ کارڈ دے دیا۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اُس دن مجھے پی آئی اے کی اس ’’خوبی‘‘ کا احساس ہوا کہ ان کی فلائٹس اکثر لیٹ ہوتی ہیں جس کا میری طرح سوتے رہنے والوں کو کبھی کبھار فائدہ پہنچ جاتا ہے۔


ساون کی گھن گرج نے اکیس توپوں کی سلامی دی



ایک عرصہ وطن سے دور رہنے کے بعد وطن واپسی دل میں ایک ایسی مسرت اور جوش پیدا کر دیتی ہے جو دیارِ غیر میں بسنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہوتے ہی وطن کی خوشبو محسوس ہونے لگتی ہے۔ جوں جوں وطن کی سرزمین قریب آتی جاتی ہے توں توں آتشِ شوق بڑھتی جاتی ہے۔ میرے ٹکٹ پر درج تھا کہ یہ فلائٹ ایک گھنٹہ بنکاک میں رُکے گی۔ لیکن یہ قیام دو گھنٹے کا ثابت ہوا۔ شاید وہاں بھی کچھ مسافر سوتے رہ گئے تھے۔ اس دوران پی آئی اے کے میزبان مسافروں کو ناشتہ ہی کراتے رہے۔ پہلے سنگاپور سے سوار ہونے والوں کو ناشتہ دیا، پھر بنکاک سے جہاز اڑتے ہی دوبارہ ناشتے کا دور چلا۔ شاید انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ میں نے پچھلی رات سبزیوں پر گزارا کیا تھا۔

میرے برابر والی سیٹ پر سنگا پور کا ایک بزنس مین سفر کر رہا تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ یہ جہاز پہلے اسلام آباد جائے گا اور پھر کراچی تو وہ سخت ناخوش ہوا۔ کیونکہ اس کے ٹکٹ پر واضح تحریر تھا کہ یہ فلائٹ بنکاک سے براہِ راست کراچی جائے گی۔ اسلام آباد کے راستے جانے سے اس کے چار مزید گھنٹے جہاز میں گزرنے تھے۔ ویسے بھی اس فلائٹ پر غیر ملکی مسافروں کی تفریح اور سہولت کے لئے کچھ زیادہ لوازمات نہیں تھے۔ بنتِ انگور کا تو خیر تصور ہی نہیں، کھانے، موسیقی اور خصوصاًّ میزبانوں کا طریقۂ خدمت خالصتاً پاکستانی تھا۔ جسے صرف پاکستانی ہی برداشت کر سکتے ہیں۔ تمام فضائی میزبان اُدھیڑ عمر مرد تھے۔ ان کے چہرے مسکراہٹ سے عاری بلکہ جھنجھلاہٹ سے بھرپور دکھائی دیتے تھے۔ اُن سے کچھ طلب کرتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔

دوپہر بارہ بجے ہمارے طیارے نے اسلام آباد کی سرزمین کو چھوا تو مجھے ایسے لگا کہ ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں۔ زمین پر قدم رکھا تو اسے چومنے کو دل چاہا۔ سانس لیا تو خوشبوئے وطن سے مشامِ جاں معطر ہو گیا۔ قدم آگے بڑھایا تو وطن کی ہواؤں نے جیسے گلے لگا لیا۔ ائرپورٹ پر نظر دوڑائی تو میرے ہموطن اپنے اپنے کاموں میں مصروف دکھائی دیے۔ ایسے لگا کہ یہ سب میرے ہی گھر کے فرد ہیں۔ جی چاہتا تھا کہ جا کر ایک ایک سے گلے ملوں۔ وہ سب مصروف تھے۔ انہیں احساس بھی نہیں ہوا کہ ان کے خاندان کا ایک بچھڑا ہوا فرد واپس آ یا ہے۔ لیکن موسم کو میری آمد کی خبر ہو چکی تھی۔

سامان حاصل کرنے اور کسٹم اور امیگریشن کے مراحل طے کر کے ائرپورٹ کی عمارت سے باہر نکلا تو کئی عزیز و اقارب استقبال کے لئے موجود تھے۔ برآمدے میں آئے تو ساون کی گھن گرج نے اکیس توپوں کی سلامی دی۔ پارکنگ لاٹ کی طرف بڑھے تو بارش کے نرم نرم قطرے گرنا شروع ہوئے۔ مجھے لگا جیسے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے میرا استقبال کیا جا رہا ہو۔

بارانِ رحمت کا یہ سلسلہ میرے سات روزہ قیامِ پاکستان کے دوران وقفے وقفے سے جاری رہا۔ یہ اچھا ہی ہوا۔ کیونکہ میں سڈنی میں سردی عروج پر چھوڑ کر آیا تھا اور پاکستان میں جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی زوروں پر تھی۔ بارش سے گرمی کا یہ زور قدرے کم ہو جاتا تھا۔ ویسے بھی پاکستان کی بارش مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں کم کم ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی مٹی سے ایک مسحور کن خوشبو اٹھتی ہے جو آسٹریلیا میں ندارد ہے۔ آسٹریلیا میں بارش صرف عام سی بارش ہوتی ہے۔ اس میں وہ رُومان نہیں، جو پاکستان کی بارشوں میں ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں بارش کے دوران بلکہ صرف بادل بھی چھائے ہوئے ہوں تو لوگ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، خراب موسم کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دھوپ نکلی ہو تو بہت خوش ہوتے ہیں چاہے گرمی سے جان نکلی جا رہی ہو۔

اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں کی شاعری میں ساون کی رم جھم، موسم سرما کی جھڑی اور گرم دن کی شام اچانک آنے والی بارش کا تذکرہ پہلی محبت کی طرح کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بارش کے چند اور فائدے بھی ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ تو سرکاری ملازموں کو ہوتا ہے جو صبح بستر میں لیٹے لیٹے چہرے سے کمبل ہٹا کر باہر دیکھتے ہیں۔ اگر انہیں آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر آ جائے تو کمبل دوبارہ اوڑھ لیتے ہیں اور دفتر سے چھٹی کر لیتے ہیں۔ دوسرا فائدہ بچوں کو ہوتا ہے جو بارش کے کئی دن بعد تک گلی کے گڑھوں میں جمع پانی میں نہاتے رہتے ہیں۔ یہ مزے آسٹریلیا میں کہاں ملیں گے جہاں بارش رکنے کے پانچ منٹ بعد اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ پانچ منٹ پہلے یہاں بارش ہوئی تھی۔

ایک گاڑی کے تنگ دامن میں ہم سب نہیں سما سکتے تھے۔ لہذا کار کے ساتھ ساتھ ایک ویگن کرائے پر حاصل کی گئی۔ میں نے کار کی بجائے ویگن میں سب کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دی۔ ہم اسلام آباد سے اپنے گاؤں گوجر خان کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں دو جگہ پولیس والوں نے ویگن روکی۔ ڈرائیور نے انہیں نذرانہ دیا اور پولیس نے سفر جاری رکھنے کا پروانہ دیا۔ بصورت دیگر گاڑی کے کاغذات کو غلط ثابت کر دیا جاتا یا ڈرائیور کے لائسنس میں کیڑے نکال کر پریشان کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان میں اس طرح کی پریشانیوں کا ایک ہی علاج ہے، اور وہ ہے بابائے قائد کی تصویر۔ لہذا ہمارے ڈرائیور نے بھی وہی کیا اور ہمیں بخیر و خوبی گھر پہنچا دیا۔

گاؤں سے ہمارا رابطہ بس اب اتنا ہی رہ گیا ہے کہ کبھی کبھار بچپن کی یاد تازہ کرنے کے لئے وہاں چلے جاتے ہیں۔ میں تو دیارِ غیر کی خاک چھانتا رہتا ہوں۔ میرے بھائی بھی بڑے شہروں کی نذر ہو گئے ہیں۔ گاؤں میں ہمارا گھر مکینوں کو ترستا رہتا ہے۔ اس دفعہ کافی عرصے کے بعد گاؤں جانا ہوا تو بہت اچھا لگا۔ بچپن کے دوستوں اور گاؤں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ میرے بھائی نے میرے آنے کی خوشی میں پورے گاؤں کی دعوت کر دی تھی۔ خوب رونق اور تفریح رہی۔ ایک دوست نے کہا ’’یہاں تو ولیمے والا سماں نظر آ رہا ہے‘‘

میں نے جواب دیا ’’ہاں! لیکن ایک فرق ہے۔ ولیمے والے دن دولہا کی آنکھوں میں شبِ وصل کا خمار نظر آتا ہے جبکہ میرا چہرہ مچھروں کا شکار نظر آتا ہے‘‘

یہ بات تھی بھی درست۔ ان سات دنوں میں بجلی بے وفا محبوبہ کی طرح صرف ایک جھلک دکھا کر غیر معینہ مدت کے لئے غائب ہو جاتی تھی۔ دن دستی پنکھا جھلتے اور رات مچھروں کی بھنبھناہٹ سنتے گزر جاتی۔ اسی آنکھ مچولی میں یہ سات دن گزر گئے۔ ۱۶ جولائی کی صبح میری مانچسٹر کی فلائٹ تھی۔ گاؤں کے ایک بزرگ نے پوچھا ’’پتر ولائت کسی کام سے جا رہے ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’نہیں چاچا! گھومنے کے لئے جا رہا ہوں‘‘

انہوں نے کچھ کہا تو نہیں لیکن میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ فضول میں پیسہ ضائع کر رہا ہے۔ پاکستان میں سیرو سیاحت کے بارے میں عام لوگوں کے جو خیالات ہیں اس کے پیشِ نظر اس بزرگ کا ایسی نظروں سے دیکھنا اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ بہرحال اس بزرگ کی نظروں کو نظرانداز کر کے ۱۶ جولائی کی صبح پانچ بجے میں ایک لمبے سفر کے ارادے سے گھر سے نکل پڑا۔


پچاس روپے میں ایک فوٹو کاپی



اس دن اسلام آباد ایئرپورٹ کا بین الاقوامی لاؤنج کسی دیہاتی میلے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ نہ قطار تھی اور نہ ہی ایئرپورٹ کے عملے کا کوئی شخص مدد کے لئے موجود تھا۔ جس کا جتنا بس چل رہا تھا زور آزمائی کر کے آگے سرک رہا تھا۔

الوداعی ملاقات کے بعد سات بجے میں ٹرالی لے کر لاؤنج میں داخل ہوا۔ چیونٹی کی رفتار سے سرکتے سرکتے کاؤنٹر تک پہنچا تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے رہنے سے ٹانگیں تھک چکی تھیں۔ انتظار کی اکتاہٹ الگ تھی۔ در اصل صبح کے اس وقت کئی بین الاقوامی پروازیں یکے بعد دیگرے روانہ ہونے والی تھیں۔ اس لئے اس قدر رش تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ پی آئی اے کے عملے کی شفٹ تبدیل ہو رہی تھی اور وہ اس میں بہت وقت ضائع کر رہے تھے۔ مسافر انتظار میں کھڑے تھے اور وہ موسم کا حال، فوجی حکومت کی کارکردگی، مہنگائی سے لے کر رات کو کیا کھایا تھا، سبھی موضوعات پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔

لاؤنج میں موجود مسافروں کی اکثریت برطانیہ کے لئے محوِ سفر پر تھی۔ ان میں سے اکثر چھٹیوں پر پاکستان آئے تھے اور اب واپسی کے لئے گامزن تھے۔ جب کہ کچھ بزرگ خواتین و حضرات اپنے بچوں کے پاس پہلی مرتبہ ’’ولایت‘‘ جا رہے تھے۔ میرپور (آزاد کشمیر) کی بولی کی بازگشت ہر جانب سنائی دے رہی تھی۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ میں کسی بین الاقوامی ایئرپورٹ پر کھڑا ہوں۔ بلکہ کسی دیہاتی میلے کا سا سماں تھا۔ کئی حضرات پگڑیاں اور تہہ بند پہنے ہوئے تھے اور درجنوں خواتین سرتا پا برقعے میں ملبوس تھیں۔ ایک دو حضرات نے ہاتھوں میں حقے بھی اٹھا رکھے تھے۔ آموں کی پیٹیاں تو تقریباً سبھی کے پاس تھیں۔

ساڑھے آٹھ بجے میں کاؤنٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس وقت فلائٹ میں صرف آدھ گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ ابھی امیگریشن اور کسٹم وغیرہ کے مراحل باقی تھے۔ پی آئی اے کے کاؤنٹر پر موجود خاتون لباس اور فیشن کی شوخی میں نئی نویلی دلہنوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ وہاں تک تو سب اچھا تھا لیکن جب اس نے اپنے سرخ یاقوتی لب وا کئے تو اس کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ بقول ابرار الحق ’’پچھوں اوہ وی ملتان دی سی‘‘۔ اس نے میرا آسٹریلین پاسپورٹ ہاتھ میں لے کر کہا ’’اس کی فوٹو کاپی کہاں ہے؟‘‘

میں نے کہا ’’میرے پاس پاسپورٹ کی فوٹو کاپی تو نہیں ہے۔ ویسے اس کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟‘‘

وہ انتہائی رُوکھے لہجے میں بولیں ’’یہ فوٹو کاپی ہمیں ریکارڈ کے لئے درکار ہوتی ہے‘‘

’’اگر ایسی بات ہے تو پاسپورٹ آپ کے ہاتھ میں ہے فوٹو کاپی بنا لیں‘‘

کہنے لگیں ’’ہمارے پاس فوٹو سٹیٹ مشین نہیں ہے۔ آپ کو کاپی بنوا کر لانی پڑے گی۔‘‘

میں نے حیرانگی سے کہا ’’آپ کیا چاہتی ہیں؟ کیا میں دوبارہ باہر جا کر آپ کے لئے فوٹو کاپی بنوا کر لاؤں؟ جب کہ پہلے ہی ڈیڑھ گھنٹہ کھڑا رہنے کے بعد کاؤنٹر تک پہنچا ہوں‘‘

کہنے لگیں ’’اس کی ضرورت نہیں۔ اسی لاؤنج کے دوسری طرف فوٹو اسٹیٹ مشین والی شاپ ہے۔ آپ وہاں سے فوٹو کاپی بنوا کر لے آئیں‘‘

’’اور میرا سامان؟‘‘

’’سامان یہیں رہنے دیں‘‘

میں فوٹو کاپی بنانے والی اس شاپ میں گیا۔ پاسپورٹ ان کو دیا اور ایک فوٹو کاپی بنانے کے لئے کہا۔ وہ صاحب کہنے لگے ’’آپ کو دو فوٹو کاپیاں درکار ہوں گی۔ ایک پی آئی اے والوں کے لئے اور دوسری امیگریشن کے لئے‘‘

اس سے پہلے میں متعدد بار بین الاقوامی سفر کر چکا تھا۔ یہ پاسپورٹ کی کاپی والامسئلہ کبھی درپیش نہیں آیا تھا۔ میں نے سوچا پاکستان میں آئے دن قواعد و ضوابط تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو گی۔ بہرحال میں نے دو فوٹو کاپیاں بنوائیں۔ جب معاوضے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا ’’سو روپے‘‘

میں سمجھا کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ دو فوٹو کاپیوں کا معاوضہ سو روپے تو نہیں ہو سکتا۔ میں نے دوبارہ دریافت کیا ’’کیا کہا آپ نے؟‘‘

جواب آیا ’’پچاس روپے فی کاپی کے حساب سے آپ سو روپے دے دیں‘‘

میں نے سخت حیران ہو کر کہا ’’فوٹو کاپی تو پچاس پیسے میں ہوتی ہے۔ یہ پچاس روپے کس بات کے؟‘‘

وہ صاحب بولے ’’ایئرپورٹ کے باہر پچاس پیسے میں ہوتی ہے۔ یہاں یہی ریٹ ہے کیونکہ اس دکان کا کرایہ بہت زیادہ ہے‘‘

عرض کیا ’’بھائی جہاں کرایہ زیادہ ہوتا ہے وہاں گاہک بھی زیادہ ہوتے ہیں یا یہ کرایہ آپ صرف چند لوگوں سے ہی پورا کرتے ہیں‘‘

میری بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان صاحب نے بتایا کہ وہ پچاس روپے سے کم نہیں لیتے۔ مجبوراً سو روپے میں دو کاپیاں بنوا کر دوبارہ کاؤنٹر تک پہنچا۔ بورڈنگ کارڈ لیا۔ امیگریشن کے مرحلے سے گزرا۔ وہاں کسی نے بھی فوٹو کاپی نہیں مانگی۔ اس طرح اس فوٹو کاپی والے نے نہ صرف انتہائی مہنگے داموں فوٹو کاپی بنائی بلکہ چکمہ دے کر دوسری کاپی کے پیسے بھی ہتھیا لئے۔ اِسے کہتے ہیں چُپڑیاں نالے دو دو۔ ( گھی والی روٹی اور وہ بھی دو دو)

ویٹنگ لاؤنج میں پہنچا تو فلائٹ کا وقت ہو چکا تھا لیکن مسافروں کو جہاز میں پہچانے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ میں اس وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیوٹی فری شاپ میں چلا گیا جو پان سگریٹ کے کھوکھے سے بڑی نہیں تھی۔ وہاں سے میں نے گولڈ لیف کے دو کارٹن خریدے۔ در اصل وہیں ائر پورٹ پر لوگوں کو آموں کی پیٹیاں اٹھائے دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میرا دوست آصف کریم گولڈ لیف کا بہت شوقین ہوا کرتا تھا۔ آصف کریم اور میں اسلام آباد میں ایک ہی ادارے میں تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ فارغ وقت میں چائے پیتے، سگریٹ کے کش لگاتے اور گپیں ہانکتے تھے۔ وہیں ہماری دوستی کا پودا پروان چڑھنا شروع ہو، جو اب پھل پھول کر تناور درخت بن چکا ہے۔ کچھ عرصے بعد آصف شادی کر کے انگلینڈ جا کر سسرال کو پیارا ہو گیا اور میں آسٹریلیا چلا آیا۔ اب چھ سال کے عرصے کے بعد ہماری ملاقات برطانیہ میں ہونے والی تھی۔ یورپ کے ٹور پر روانہ ہونے سے پہلے تین دن میں یارک شائر میں واقع آصف کے گھر قیام کر رہا تھا۔

ڈیوٹی فری شاپ والے نے سگریٹوں کی جو قیمت بتائی اس میں اور مارکیٹ ریٹ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ جب کہ ڈیوٹی کے بغیر یہ قیمت مارکیٹ سے ساٹھ ستر فیصد کم ہونی چاہیے تھی۔ میرے استفسار پر ان صاحب نے کہا ’’در اصل ہمارے ہاں اصلی سگریٹ ہوتے ہیں جب کہ مارکیٹ میں دو نمبر مال ملتا ہے‘‘

میں نے کہا ’’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ نقلی سگریٹ بکتے ہیں اور اصلی سگریٹ لینے کے لئے کسی ملک کا ویزہ لینا پڑتا ہے۔‘‘


تمہی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا



اس کے فوراً بعد جہاز میں سوار ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فلائٹ ایک گھنٹے کی تاخیر سے نو کی بجائے دس بجے روانہ ہوئی۔ جہاز کے اندر بھی وہی دیہاتی ماحول تھا۔ ہر طرف آموں کی پیٹیاں، تہہ بند، ٹوپی والے برقعے اور پوٹھوہاری زبان کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ میری بائیں جانب کھڑکی والی سیٹ پر ایک بوڑھی دیہاتی خاتون براجمان تھیں۔ ان کی دلیری ملاحظہ فرمائیے۔ پہلی دفعہ گاؤں سے نکلی تھیں اور اکیلی ’’ولایت‘‘ جا رہی تھیں۔ ان کا بیٹا مانچسٹر ایئرپورٹ پر انہیں لینے آ رہا تھا۔ جب کھانے کا وقت آیا تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ حتیٰ کہ کھانے کی ٹرے پر سے پیپر اتارنا بھی انہیں کارِ دارد نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے امداد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ٹرے بھی انہوں نے گود میں رکھی ہوئی تھی۔ میں نے انہیں ٹیبل کھول کر دیا۔ ٹرے پر سے ایلومونیم فائل ہٹایا اور انہیں بتایا کہ یہ کون سی ڈش ہے۔ دبی زبان میں بولیں ’’بھلا ہوئی پترا‘‘ ( خدا تمھارا بھلا کرے بیٹا)

میرے دائیں طرف کھڑکی والی سیٹ پر جو صاحب بیٹھے تھے، شلوار قمیض میں ملبوس تھے اور سر پر بڑا سا پوٹھوہاری رومال باندھا ہوا تھا۔ ان کی عمر پینتالیس کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ شروع میں کچھ جھجک رہے تھے۔ شاید سوچ رہے ہوں کہ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس یہ کلین شیو ’’بابو‘‘ نہ جانے کس مزاج کا ہو۔ لیکن جب میں نے انہیں انہی کی زبان میں مخاطب کیا تو ان کے چہرے پر خوشگوار حیرت ابھر آئی۔ وہ گوجر خان کے قریب ایک گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔ اتفاق سے اس گاؤں میں میرے بھی کچھ عزیز رہتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ بہت خوش ہوئے۔ اب جو انہوں نے بولنا شروع کیا تو دور دور تک کہیں وقفہ نہیں تھا۔ حسن اختر نامی یہ صاحب مسلسل بولنے کے عادی تھے۔ وہ بات کسی ایک موضوع پر شروع کرتے اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ لیکن ایک بات کی تکرار وہ بار بار پر کر رہے تھے کہ وہ پہلے ہانگ کانگ میں تھے اور وہاں ان کا اپنا بزنس تھا۔ وہ برطانیہ اس لئے جا بسے تھے کہ وہاں کام کئے بغیر سوشل سیکورٹی پر رہیں گے۔ لیکن گھر والوں کی مقدمہ بازی کی وجہ سے انہیں چھپ چھپا کر کچھ نہ کچھ کام کرنا پڑتا تھا۔

در اصل اس گاؤں کے کافی لوگ یورپ میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے جو لواحقین گاؤں میں باقی رہ گئے ہیں۔ ان پر باہر کے پونڈوں اور ڈالروں کا نہایت منفی اثر ہوا ہے۔ دشمنیاں عام ہیں، کئی قتل ہو چکے ہیں اور درجنوں مقدمے عدالتوں میں دائر ہیں۔ حسن اختر بھی اسی سلسلے میں پاکستان آئے تھے۔ ان کا بھائی ایک جھگڑے میں زخمی ہو گیا تھا۔ حسن اختر برطانیہ میں جو بچاتے تھے وہ گھر والے مقدموں کی نذر کر دیتے تھے۔

حسن اختر بولتے ہوئے کبھی تو ایسے مبلغ نظر آتے جسے آخرت کی فکر ستا رہی ہو۔ دوسرے ہی لمحے وہ یورپ کی رنگینوں کی باتیں مزے لے لے کرسنانا شروع کر دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں آنے کا فائدہ ہی کیا جب اپنی بیوی ساتھ ہو۔ یہاں ہر طرف حسینوں اور مہ جبینوں کی بہار ہے۔ یہاں آ کر بھی اس ماحول سے فیضیاب نہ ہوں تو وطن سے اتنی دور آنے کی ضرورت کیا ہے۔

حسن اختر کی انہی باتوں میں وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا اور ہم برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں لینڈ کرنے لگے۔ آٹھ گھنٹے کی یہ فلائٹ آسٹریلین پاکستانیوں کے لئے کچھ بھی نہیں تھی۔ کیونکہ ہمیں تو بیس بیس گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے تب جا کے منزل آتی ہے۔ میرے ذہن سے وہ رُعب جاتا رہا جو برطانیہ میں بسنے والے ہم پر ڈالا کرتے تھے کہ برطانیہ بہت ہی دور ہے۔





یارک شائر (برطانیہ)


برطانیہ میں دامادوں اور سسرال کے درمیان اکثر ٹھنی رہتی ہے



کسی بھی شہر میں لینڈ کرنے سے پہلے طیارہ جب فضا سے زمین کے قریب ہوتا ہے اس وقت اوپر سے جو منظر دکھائی دیتا ہے وہ ہمیشہ سے میرے لئے بہت پرکشش ہوتا ہے۔ مانچسٹر بھی اوپر سے انتہائی دلکش، خوبصورت اور صاف ستھرا شہر نظر آ رہا تھا۔ یہ سڈنی کی طرح اونچا، نیچا اور ڈھلوان زمین پر بسا ہوا ہے۔ ڈھلوانوں پر بنے ہوئے سرخ ٹائلوں والے اور سرسبز درختوں میں گھرے مکانات، چمکتی ہوئی کشادہ سڑکیں اور قطاروں میں سفر کرتی ہوئی رواں دواں کاریں ایک انتہائی دلکش منظر پیش کر رہی تھیں۔

مانچسٹر ائر پورٹ پر بھی ویسی ہی گہما گہمی تھی جیسی مَیں اسلام آباد میں دیکھ اور بھگت کر آیا تھا۔ اس وقت شاید ایک سے زیادہ پروازیں پاکستان سے آئی تھیں اس لئے ائیر پورٹ پر ہر طرف پاکستانی ہی نظر آ رہے تھے۔ کچھ تو پاکستان سے آئے تھے۔ زیادہ تعداد استقبال کرنے والوں کی تھی۔ جہاز سے اترتے ہی لوگ بھاگم بھاگ جا کر قطار میں کھڑے ہو گئے۔ یہ وہی لوگ تھے جو اسلام آباد میں تھے تو قطار بندی سے بے نیاز تھے۔ لیکن یہاں اترتے ہی ایسے منظم انداز میں قطار میں کھڑے ہوئے تھے جیسے گھر سے سکول میں آ گئے ہوں۔ سچ ہے جیسا دیس ویسا بھیس۔

مَیں حسبِ معمول سُست روی سے چلتا اور لوگوں کی بھاگ دوڑ سے محفوظ ہوتا ہوا قطار کے آخر میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ قطار شیطان کی آنت کی طرح طویل تھی۔ لیکن امیگریشن کے عملے نے جلد ہی دوسرے کاؤنٹروں پر بھی سٹاف بٹھا دیا اور ایک کے بجائے تین قطاریں بن گئیں۔ برطانوی امیگریشن پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر بال کی کھال نکال رہے تھے۔ نئے آنے والوں کو الگ بٹھایا جا رہا تھا تاکہ ان کا تفصیلی انٹرویو کیا جا سکے۔ اُردو مترجم کا بھی بندوبست تھا۔ میرے آسٹریلین پاسپورٹ پر انہوں نے بلا تردد مہر لگا کر پروانہ راہداری عطا کر دیا۔

یہ بھی دلچسب بات ہے کہ آسٹریلیا سے روانہ ہوتے وقت میرا پاکستان سمیت سات ممالک میں جانے کا ارادہ تھا۔ لیکن اتفاق دیکھئے کہ سڈنی سے روانگی سے قبل صرف ایک ملک کا ویزا لینا پڑا اور وہ میری جنم بھومی یعنی پاکستان تھا۔ یورپ میں آسٹریلین پاسپورٹ کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس کی انٹری کے وقت پاسپورٹ پر مہر لگتی ہے۔ جبکہ یورپ کے دیگر ممالک تو یہ تردد بھی نہیں کرتے اور صرف پاسپورٹ دیکھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

سامان کی ٹرالی لے کر باہر نکلا تو مَیں نے متلاشی نظروں سے انتظار میں کھڑے افراد میں اپنے دوست آصف کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ مجھے شدت سے سگریٹ کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے سوچا باہر چل کر ایک سگریٹ پی لوں۔ اتنی دیر تک آصف نظر نہیں آیا تو اس کے موبائل پر فون کروں گا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ وہیں کہیں موجود ہو گا۔ گیٹ سے نکلا تو آصف اندر داخل ہو رہا تھا۔ اتفاق سے پہلے مَیں نے اُسے پہچانا۔ حالانکہ پچھلے چھ برسوں میں ہم دونوں کے چہروں پر تبدیلی آ چکی تھی۔ میرے چہرے سے مونچھیں غائب ہو چکی تھیں۔ جبکہ آصف پاکستان میں ہوتا تھا تو کلین شیو تھا۔ لیکن برطانیہ میں جا کر اس نے مونچھیں بڑھا لی تھیں۔ شاید انگریزوں پر رُعب ڈالنے کے لئے۔

ہم چھ برس کے بچھڑے ہوئے تھے۔ گلے مل کر ساری کسریں پوری کرنے کی کوشش کی۔ مَیں نے کہا اب بس بھی کرو کہیں گورے ہمیں ’’گے‘‘ نہ سمجھنے لگیں۔ خیر اس ائیر پورٹ پر تو ایسے مناظر عام تھے۔ لیکن یورپ اور آسٹریلیا میں مرد مردوں کے گلے لگتے کہیں نظر نہیں آتے۔ البتہ جنسِ مخالف کے درمیان یہ عمل جا بجا نظر آتا ہے۔ ان ممالک میں مرد اگر مرد سے گلے مل رہا ہو تو ان کے تعلقات آپس میں وہی ہوتے ہیں جو پاکستان میں میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں۔ سڈنی میں آکسفورڈ سڑیٹ اور اس کا ملحقہ علاقہ ایسے ہی مردوں اور عورتوں کے لئے مشہور ہے۔ اس علاقے میں مردوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ہم جنس پرست عورتیں بھی رہتی ہیں۔ ان کے اپنے کلب ہیں۔ سال میں ایک دفعہ سڈنی میں ان کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے جہاں دنیا بھر کے گے اور لزبین جمع ہوتے ہیں۔ وہ سڈنی کی مصروف سڑکوں پر پریڈ بھی کرتے ہیں جسے دور دراز سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔

آصف کے ساتھ اس کا ایک دوست چوہدری ارشد بھی تھا جو بعد میں میرا بھی بہت اچھا دوست بن گیا۔ چوہدری دلچسپ آدمی تھا۔ وہ دو سال پہلے برطانیہ میں بسنے والی اپنی کزن سے شادی کر کے وہاں پہنچا تھا۔ یعنی دامادوں کے اس طبقے سے اس کا تعلق تھا جو آج کل برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی میں ایک الگ طبقے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ در اصل پچیس تیس سال پہلے آنے والے پاکستانیوں کے بچے جوان ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مسائل کا ایک ریلا بھی در آیا ہے۔ ظاہر ہے یہ مسائل اس نئی نسل کو پاکستانی کلچر پر کاربند رکھنے کی کوششوں سے متعلق ہیں۔ یورپ کے مادر پدر آزاد معاشرے میں پلنے والی یہ نسل ان پابندیوں کو اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ اس طرح والدین اور بچوں کے درمیان ایک کشمکش سی رہتی ہے۔ اگر والدین بچوں کی شادیاں پاکستان میں کر بھی دیں تو مسائل ختم نہیں ہوتے بلکہ ان کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے۔

وہاں والدین کی حتی الوسع یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں اپنے بھانجوں، بھانجیوں، اور بھتیجے، بھتیجیوں سے کی جائیں۔ جو لڑکیاں پاکستان سے بیاہ کر برطانیہ لائی جا رہی ہیں وہ تو پاکستانی معاشرے کی پروردہ ہوتی ہیں۔ یعنی باپوں، بھائیوں اور خاوندوں سے ڈری سہمی اللہ میاں کی گائے کی طرح ہوتی ہیں۔ جس کھونٹے سے باندھ دو بندھ جاتی ہیں۔ جس کے ساتھ وداع کر دو اس کے ساتھ ساری زندگی گزار لیتی ہیں۔ وہ پاکستان میں بے زبان ہوتی ہیں تو برطانیہ جیسے دور دراز ملک میں جا کر اپنے خاوند اور ساس سسر کے ساتھ کوئی مسئلہ کھڑا کرنے کوشش کیسے کریں گی۔ البتہ لڑکوں کا مسئلہ الگ ہے۔ چاہے وہ پاکستان میں کسی پس ماندہ گاؤں سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں کسی حد تک اپنا حق جانتے ہیں۔ ٹی وی، اخبارات اور رسائل نے انہیں دنیا بھرکی معلومات فراہم کی ہوتی ہیں۔ من مانی کرنا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پاکستان جیسے مردوں کے معاشرے میں ان کے بولنے پر اور حق طلبی پر بھی کوئی خاص پابندی بھی نہیں ہے۔ برطانیہ پہنچ کر بھی وہ باہر کی دنیا سے جلد آشنا ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ میں دامادوں کے اس طبقے اور ان کے سسرال کے درمیان اکثر ٹھنی رہتی ہے۔ برطانوی قانون بیرون ملک کی گئی شادیوں کو اکثر شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آسٹریلیا کی طرح وہاں بھی شروع کے دو سال کے اندر اگر برطانوی شہریت کا حامل لڑکا یا لڑکی شادی کا بندھن توڑ دے تو بیرون ملک سے آنے والے اس کے شریک حیات کو برطانیہ سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ قانون اکثر دامادوں کے خلاف ہتھیار بلکہ ’نکیل، کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان دو سالوں میں اکثر داماد سر جھکا کر وقت گزارتے ہیں۔ دامادوں کے اس طبقے سے گاہے گائے صدائے احتجاج بلند ہوتی رہتی ہے۔ دوسری طرف ان کے ساس سسر کو بھی ان سے کئی شکایتیں ہوتی ہیں۔

برطانیہ میں پرائیویٹ ریڈیو کا ایک چینل چوبیس گھنٹے اُردو پروگرام پیش کرتا ہے۔ مجھے اس چینل پر ایک دن دامادوں اور سسرالی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ایک نہایت ہی دلچسپ مباحثہ سننے کا موقعہ ملا۔ جس سے دونوں طبقوں کے مسائل، شکایات اور خیالات کا علم ہوا۔ وہ وقت دور نہیں جب آسٹریلیا کی پاکستانی کمیونٹی میں بھی ایسے ہی مسائل زیر بحث ہوں گے۔ کیونکہ اسی اور نوے کی دہائی میں نقل مکانی کرنے والے پاکستانیوں کے بچے اب شادیوں کی عمروں تک پہنچ چکے ہیں۔


چوہدری ارشد نے اپنی آدھی تنخواہ لٹا دی



اگلی صبح ناشتے کے بعد مَیں آصف کے ساتھ اس کی فیکٹری گیا۔ آصف کی بیڈ ہیڈز (Bed Heads) بنانے کی فیکٹری تھی۔ اس فیکٹری کے کارکنان کی کل تعداد دو تھی۔ یعنی آصف اور اس کا دوست چوہدری ارشد! اس طرح یہ دو افراد مالک، ملازم، ڈیلیوری پرسن، ڈیزائنر، کلینر اور ڈرائیور کا کام خود ہی کرتے تھے۔ آصف نے کچھ عرصہ پہلے یہ کام شروع کیا تھا جو آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ مَیں دوپہر تک وہاں رہا۔ اس دوران بیڈ ہیڈز کی ڈیلیوری کے لئے آصف کے ساتھ باہر بھی گیا۔ جہاں بھی گیا پاکستانیوں سے واسطہ پڑا۔ خود اس فیکٹری کے ارد گرد کے تمام کاروبار پاکستانیوں کے ہی تھے۔ ان میں سے کئی شلوار قمیض میں ملبوس کام کرتے دکھائی دئیے۔ ایک طرف ویلڈنگ شاپ تھی جسے جہلم کے خادم حسین چلا رہے تھے۔ دوسری طرف موٹر ورکشاپ تھی جس کے مالک لاہور کے خواجہ کریم صاحب تھے۔

عام دکانوں اور کاروباری مراکز پر انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو کے سائن بورڈ بھی موجود تھے۔ حتیٰ کے پبلک سکولوں پر بھی اُردو کے سائن بورڈ موجود تھے۔ کئی بورڈوں پر تحریر تھا کہ یہاں بچوں کے لئے دینی اور قرآن کی تعلیم کا بھی بندوبست ہے۔ Dewsberry کا یہ چھوٹا سا شہر بریڈفورڈ، لیڈز اور ہیڈرزفیلڈ کے درمیان واقع ہے۔ ان تینوں شہروں سے اس کا فاصلہ دس بارہ میل سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لئے لوگ آسانی سے ان میں سے کسی بھی شہر میں کام کر کے شام کو گھر واپس آ سکتے ہیں۔ اس علاقے میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ مانچسٹر جو برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے وہ بھی چند گھنٹوں کی ڈرائیو پر ہے۔

آسٹریلیا سے جانے والوں کے لئے یورپ میں مختلف شہروں کے درمیان یہ فاصلے نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتے ہیں۔ کیونکہ سڈنی سے برسبین اور ملبورن کا فاصلہ ایک ہزار کلو میٹر سے کم نہیں ہے۔ ایڈیلیڈ اور ہوبارٹ کا اس سے دوگنا فاصلہ ہے۔ جبکہ پرتھ کے لئے پانچ گھنٹے کا فضائی سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ برطانیہ، جس کی سلطنت میں کسی دور میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب سکڑ کر چند گھنٹوں کی مسافت تک محدود ہو گیا ہے۔

اس دوران میری ملاقات کئی انگریزوں سے ہوئی۔ ان کا ظاہری اخلاق متاثر کن تھا۔ لیکن کچھ کا تعصب باہر آنے میں دیر نہ لگی۔ ایک انگریز کے شو روم میں مَیں اور آصف بیڈ ہیڈ کی ڈیلیوری کے لئے گئے۔ جب آصف نے اسے میرے بارے میں بتایا کہ مَیں سڈنی میں رہتا ہوں تو وہ رشک بھری آواز میں بولا ’’تم کتنے خوش قسمت ہو۔ مَیں ساری زندگی آسٹریلیا جانے اور اس کے دلکش بیچوں پرنہانے کے خواب دیکھتا رہا لیکن ابھی تک اس کی تعبیر نہیں ملی‘‘

مَیں نے کہا ’’میرا معاملہ اس کے برعکس ہے‘‘

اس نے کہا ’’وہ کیسے؟‘‘

مَیں نے جواب دیا ’’خواب دیکھنے کے لئے سونا ضروری ہے۔ جبکہ مَیں جب بھی کسی آسٹریلین بیچ پر جاتا ہوں تو رات کو نیند ہی نہیں آتی۔ ویسے بھی ہم پاکستانی پانی کو دور دور سے دیکھتے ہیں تاہم پانی کے باہر موجود مخلوق کو زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں‘‘۔

وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا ’’آصف تمہارا دوست بہت زندہ دل ہے۔ اس کا Sense of humour (حسِ مزاح) خالصتاً آسٹریلین ہے‘‘

مَیں نے کہا ’’ہاں! آسٹریلین کے Sense of humour میں تو کوئی شک نہیں۔ یہ ان کا Sense of humour ہی تو ہے کہ انہوں نے اکیسویں صدی میں بھی ملکہ برطانیہ کے زیر نگیں رہنا پسند کیا‘‘

انہی دنوں آسٹریلیا میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے آسٹریلین عوام نے جمہوریہ بننے کے بجائے ملکہ برطانیہ کی علامتی بادشاہت کے زیرِ نگیں رہنے کا انتخاب کیا تھا۔ میں نے یہ بات اسی تناظر میں کی تھی۔ انگریزوں کے لئے ان کا شاہی خاندان انتہائی عزت کا حامل اور ان کی روایتوں کا آمین ہے۔ جمہوری ملک ہونے کے باوجود وہ بادشاہ یا ملکہ سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ شاہی خاندان ان کی زندگیوں میں اس طرح رچا بسا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے ان کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔ ملکہ یا شاہی خاندان کے افراد کا ذکر ہو تو ان کی آنکھیں محبت سے چمک اٹھتی ہیں۔ وہ ملکہ یا بادشاہ کے خلاف کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ میری بات سن کر وہ انگریز بھی چونکا اور پینترا بدلتے ہوئے بولا ’’لگتا ہے دیگر پاکستانیوں کی طرح آپ کو بھی انگریزوں کی روایات زیادہ پسند نہیں ہیں، حالانکہ ایشین ممالک میں جمہوریت سے زیادہ آمریت کو پسند کیا جاتا ہے‘‘

یہ اس انگریز بہادر کا براہِ راست پاکستان کے سیاسی حالات پر طنز تھا۔ (ان دنوں جنرل مشرف اقتدار پر قابض تھا) مَیں نے اگر ان کی روایتی کمزوری کو نشانہ بنایا تھا تو اس نے پاکستان کے سیاسی حالات کو ذہن میں رکھ کر مجھے رگیدنے کی کوشش کی تھی۔ مَیں نے کہا ’’آپ نے تھوڑی دیر پہلے مجھے آسٹریلین کہہ کر میرے Sense of humour کی تعریف کی تھی اور اب میرے پاکستانی پسِ منظر پر طبع آزمائی فرما رہے ہیں۔ جہاں تک آمریت کو پسند کرنے کا تعلق ہے۔ جس وقت دنیا میں جمہوریت پروان چڑھ رہی تھی اس وقت ہم غیروں کی آمریت کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے۔ انہوں نے جس وقت ہمارا ملک چھوڑا، اس وقت ہم معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مکمل غلام تھے۔ اتنے گہرے زخم اتنی جلدی مندمل نہیں ہوتے۔ لیکن ہمیں زخم لگانے والے یاد ہیں‘‘

آصف نے ہماری گفتگو کو تلخی کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر مداخلت کی اور ہم وہاں سے واپس چل دئیے۔ اس وقت تک مجھ پر اس انگریز کے ظاہری اخلاق کی قلعی کھل چکی تھی۔ ان کے تعصب کا تعفن نمایاں ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ بعد میں آصف نے بتایا کہ یہاں برطانیہ میں گوروں اور پاکستانیوں کے درمیان ایک کشمکش اور سرد جنگ کی سی کیفیت ہے۔ متعصب گورے اپنا روایتی احساس برتری چھپا نہیں سکتے اور پاکستانیوں کو چاہے وہ تین نسلوں سے یہاں رہ رہے ہوں اپنے برابر نہیں سمجھتے۔ جہاں موقع ملتا ہے وار کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ دوسری طرف پاکستانی اپنی محنت اور قابلیت سے معاشی طور پر کافی مضبوط ہو چکے ہیں۔ آئین اور قانون ان کا ساتھ دیتا ہے اور وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ متعصب انگریزوں کو پاکستانیوں کی اعلیٰ تعلیم، اچھی نوکریاں اور ان کے کاروبار ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ دوسرا یہ کہ قانون کی حکمرانی ہے اس لئے کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔

دوپہر کا کھانا ہم نے گھر پر کھایا۔ اس کے بعد ہم تینوں یعنی مَیں، آصف اور چوہدری ارشد بلیک پول کے لئے روانہ ہو گئے۔ بلیک پول برطانیہ کا ساحلی شہر ہے۔ یہ Dewsberry سے تقریباً اڑھائی گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ جس میں زیادہ تو موٹر وے ہے، جس کی سپیڈ اسی (۸۰) میل (کلو میٹر نہیں) فی گھنٹہ ہے۔ راستے کے مناظر بہت دلکش اور حسین تھے۔ سر سبز و شاداب میدان، ہرے بھرے درخت، لہلہاتی فصلیں اور جا بجا رنگ برنگے پھولوں کے کھیت آنکھوں میں ٹھنڈک پیدا کر رہے تھے۔ اس دن موسم بھی اچھا تھا۔ نرم اور رُوپہلی دھوپ ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ اگرچہ ہوا میں خنکی تھی لیکن دھوپ کی وجہ سے سردی نہیں تھی۔ اردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے اور چوہدری ارشد کی خوش گپیاں سنتے سنتے ہم بلیک پول پہنچ گئے۔

یہ شہر ساحل سمندر پر واقع ہے۔ یہاں بیچ پر سمندر کا پانی گدلا بلکہ کالا اور بدبو دار ہے۔ لہذا نہانے کے لائق نہیں ہے۔ بس ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کا نظارہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ سمندر کے کنارے ایک پُر رونق سڑک واقع ہے۔ اس سڑک پر سینکڑوں کے حساب سے ہوٹل بنے ہوئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں بے شمار سیاح آ کر ٹھہرتے ہیں۔ علاوہ ازیں دکانیں بھی زیادہ تر اسی نوع کی ہیں کہ صرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتی ہیں۔ مثلاً نوادرات، مصنوعی زیورات، ٹی شرٹیں، نقشہ جات اور سیاحوں کے لئے معلوماتی مواد وغیرہ وغیرہ۔ دکانیں خوب سجی ہوئی اور دیدہ زیب ہیں۔ لیکن اس پورے بازار میں ایک چیز جو عام نظر آئی وہ مصنوعی جنسی اعضاء تھے۔ وہ دکانوں پر اس طرح سجے تھے جیسے پھلوں کی دکان پر سیب اور کیلے سجے ہوتے ہیں۔ چوہدری ارشد ہر دکان کے آگے کھڑا ٹک ٹک دیکھتا رہ جاتا۔ ہمیں واپس جا کر اسے پکڑ کر آگے لانا پڑ رہا تھا۔

پورے علاقے میں سیاحوں کی بہتات تھی۔ چوہدری ارشد ہر منٹ کے بعد کسی نہ کسی حسینہ سے ٹکرا رہا تھا۔ اس کے فوراً بعد وہ معافی مانگ لیتا بلکہ اس کے ساتھ ہی چل پڑتا۔ ایک دو سے اس نے جھڑکیں بھی سنیں۔ لیکن وہ مرد میدان اپنے مشن سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ہمیں بار بار دھکیل کر اسے آگے بڑھانا پڑ رہا تھا۔

اس سڑک کے آخر میں گولڈ کوسٹ آسٹریلیا کی طرز کا برطانیہ کا مشہور ونڈر لینڈ ہے۔ جہاں بڑی بڑی اور بہت زیادہ تعداد میں رائڈز (جھولے)، اِن ڈور کار ریس، کشتی رانی اور دوسری بے شمار تفریحی کھیل تماشے موجود ہیں۔ اس ونڈر لینڈ سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے ایک پورا دن یا اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہے۔ یہ جگہ بچوں کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ مجھے ان میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ پھر بھی ہم دو تین رائڈز پر گئے۔ ان میں سے کچھ تو اتنی خطرناک محسوس ہوتی ہیں کہ کمزور دل لوگوں کو وہاں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک رائڈ پر جانے کے لئے جب ہم ٹکٹ لینے لگے تو چوہدری ارشد نے کہا ’’تم لوگ جاؤ! مَیں یہیں ٹھہروں گا‘‘

آصف نے گھور کر اسے دیکھا اور کہا ’’کیوں! تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘

چوہدری کہنے لگا ’’مجھے ڈر لگتا ہے۔ مَیں یہیں تمہارا انتظار کروں گا‘‘

آصف نے کہا ’’اگر یہاں سے ہلے تو مَیں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘

چوہدری نے وعدہ کیا کہ وہ ہمیں وہیں ملے گا۔

وہ دونوں دوست تھے لیکن آصف کا رول بڑے بھائیوں والا زیادہ تھا۔ ہم آدھ گھنٹے بعد واپس آئے تو چوہدری ارشد کا دور دور تک کوئی پتا نہ تھا۔ ہم تقریباً پندرہ بیس منٹ اس کا وہیں انتظار کرتے رہے لیکن چوہدری ارشد ایسے غائب تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ! آصف اسے برُا بھلا کہہ رہا تھا ’’وہ ضرور کسی لڑکی کے پیچھے چلا گیا ہے۔ نہ جانے کتنی دور گیا ہے اور پتا نہیں کب واپس آئے گا؟‘‘

مَیں نے اسے تسلی دی ’’فکر نہ کرو۔ ادھر ہی ہو گا جلد آ جائے گا‘‘

ہم اِدھر اُدھر گھومنے لگے۔ ہماری نظریں کسی اور تماشے سے زیادہ چوہدری ارشد کی متلاشی تھیں۔ گھومتے گھومتے کافی وقت گزر گیا۔ تھکن سے ٹانگیں شل ہو چکی تھیں۔ بھوک بھی ستا رہی تھی۔ چوہدری ارشد کے بغیر ہم کھانا نہیں کھانا چاہتے تھے۔ مگر جب ڈیڑھ گھنٹہ گزر جانے کے باوجود وہ واپس نہ آیا تو ہم ایک فش اینڈ چپس شاپ میں چلے گئے۔ کھانا لے کر پھر ہم اسی جگہ واپس آ گئے جہاں چوہدری کے واپس آنے کی توقع تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں ہم اسے چھوڑ کر رائڈ پر گئے تھے۔

کافی دیر بعد وہ منہ لٹکائے واپس آتا دکھائی دیا۔ وہ چھ بجے ہم سے الگ ہوا تھا اور اب آٹھ بج رہے تھے۔ آصف تو اسے دیکھتے ہی برس پڑا۔ مَیں نے بڑی مشکل سے اسے ٹھنڈا کیا اور چوہدری ارشد سے پوچھا کہ وہ کہاں چلا گیا تھا؟ اس نے بڑی معصومیت سے بتایا ’’آپ لوگوں کے چلے جانے کے بعد میں بنچ پر بیٹھ کر سگریٹ پینے لگا۔ اتنے میں ایک گوری آئی۔ اس نے مجھ سے سگریٹ طلب کی۔ مَیں نے اسے سگریٹ دی تو وہ وہیں میرے پاس بیٹھ گئی۔ اس نے پوچھا کہ تمھارے ساتھ کوئی اورہے یا اکیلے ہو؟ میرے منہ سے ’’غلطی سے ‘‘نکل گیا ’’مَیں تو اس دنیا میں بالکل اکیلا ہوں میرے ساتھ کون ہو گا؟‘‘

فلمیں دیکھ دیکھ کر تھوڑی سی اداکاری بھی آ گئی ہے۔ مَیں نے اداکار محمد علی کی نقل کرتے ہوئے چند آنسو بھی بہا دیئے۔ میری اس اداکاری کا جو اثر ہوا وہ میری توقع سے بھی زیادہ تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کئے۔ مَیں نے اسے ڈرنک آفر کی تو وہ کہنے لگی کہ اس کے ڈنر کا ٹائم ہو گیا ہے۔ دو ڈرنکس اور ڈنر کرانے میں دو گھنٹے اور پچاس پونڈ صرف ہو گئے‘‘

مَیں نے پوچھا ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘

’’ڈرنک پینے اور کھانا کھانے کے بعد اس نے مجھ سے دس پونڈ لے کر پوکر مشین میں ہارے اور مزید طلب کئے۔ جب مَیں نے اسے بتایا میرے پاس مزید رقم نہیں ہے تو اچانک اسے خیال آیا کہ گھر میں اس کا خاوند اس کا انتظار کر رہا ہے۔

مَیں نے کہا ’’تم نے پہلے نہیں بتایا کہ تم شادی شدہ ہو‘‘

کہنے لگی ’’پہلے تم نے پوچھا ہی نہیں!‘‘

اور پھر وہ چلی گئی!‘‘

آصف چوہدری کی باتیں سنتے ہوئے دانت پیس رہا تھا۔ جب چوہدری نے بات ختم کی تو اس نے کہا ’’تمہیں پتا ہے کہ ساٹھ پونڈ تمہاری تنخواہ کا نصف ہوتے ہیں جو تم نے ایک آوارہ عورت پر مفت میں لٹا دئے‘‘

اس وقت تک چوہدری بھی خاصا پشیمان ہو چکا تھا۔ مَیں نے اسے تسلی دی اور کہا ’’ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں! لیکن کسی بھی تجربے سے جو سبق حاصل ہوتا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے‘‘

تھوڑی دیر بعد ہم واپسی کے سفر پر گامزن تھے۔ اس وقت تک سب کا موڈ بحال ہو چکا تھا۔ چوہدری پھر چہک رہا تھا۔ راستے میں ایک موٹر وے سے آصف مطلوبہ ایگزٹ نہ لے سکا۔ واپس آنے کے لئے اگلا ایگزٹ تیس میل کے بعد تھا۔ اس طرح ذرا سی غلطی سے سفر میں ساٹھ میل کا اضافہ ہو گیا۔ راستے میں آصف کی فرمائش پر چوہدری ارشد نے ہمیں بہت سے پوٹھو ہاری شعر سنائے۔ اس نے مجھ سے بھی فرمائش کی، تو مَیں نے کہا ’’پوٹھو ہار کی مردم خیز زمین اور اس کے سوندھی سوندھی خوشبو سے مجھے بھی بہت پیار ہے۔ اس مٹی میں ہی میری نمو ہوئی ہے اور یہی مٹی میرا مدفن بنے گی۔ لیکن اتفاق سے پوٹھوہاری شعروں کا کبھی شوق نہیں رہا! کبھی کبھار سن ضرور لیتا ہوں، ہاں مَیں آپ کو غالبؔ، فیضؔ، فرازؔ، ناصرؔ کاظمی، اور پروینؔ شاکر کا کلام ضرور سنا سکتا ہوں‘‘

پھر راستے بھر یہی سلسلہ جاری رہا۔ چوہدری ارشد پوٹھوہاری شعر سناتا رہا۔ مجھے اُردو کے جو شعر یاد تھے ان سے جواب دیتا رہا اور آصف فلمی گانوں سے ہمارا ساتھ دیتا رہا۔ گھر پہنچتے پہنچتے رات کے بارہ بج گئے۔


کراچی کا ستر سالہ سنیاسی باوا لندن میں



مَیں نے آسٹریلیا سے روانگی سے قبل ہی یورپ میں اپنے قیام کا بندوبست کر لیا تھا۔ برطانیہ کے علاوہ دوسرے یورپی ممالک کا سفر میں ایک گروپ کے ہمراہ کر رہا تھا۔ ٹریفالگر نامی اس مشہور ٹریولنگ کمپنی نے آرام دہ کوچ، ڈرائیور، گائیڈ اور ہوٹلنگ کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ مشہور اور قابلِ دید مقامات پر جانے کے لئے ٹکٹ بھی خریدے ہوئے تھے۔

جہاں تک برطانیہ میں قیام کا تعلق ہے اس کا ایک حصہ تو یارک شائر کے قیام پر مشتمل تھا۔ وہاں مَیں اپنے دوست آصف کی وجہ سے ہی گیا تھا اور اسی کے پاس ٹھہرنا تھا۔ دوسرے حصے میں چار دن کیلئے لندن کی سیاحت شامل تھی۔ مَیں نے وہاں قبل از وقت ہو ٹل بک نہیں کروایا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مَیں آصف کو بھی وہاں لے کر جانا چاہتا تھا۔ حالانکہ اس نے کاروباری مصروفیات کی وجہ سے وہاں جانے سے معذرت کر لی تھی۔ لیکن مَیں پھر بھی توقع کر رہا تھا کہ یارک شائر جا کر اسے ساتھ چلنے پر قائل کر لوں گا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ لندن میں میرا ایک اور قریبی دوست علی بھی رہتا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ اس کے ذریعے قیام کا بندوبست ہو جائے گا۔

لیکن وہاں جا کر اپنی آنکھوں سے آصف کی مصروفیات دیکھیں تو یقین آ گیا کہ اس کا نکلنا واقعی مشکل ہے۔ یارک شائر سے ہی مَیں نے علی کو فون کیا۔ علی میرا بچپن کا دوست ہے۔ ربع صدی پر محیط اس دوستی میں دونوں کے خاندان بھی پوری طرح شامل ہو چکے ہیں۔ جس دن مَیں گوجر خان سے مانچسٹر کے لئے روانہ ہو رہا تھا علی کی دادی اور اس کا چچا اگلے دن سے ہی ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ میری روانگی کے وقت بھی وہ وہیں تھے۔

میرا فون علی کی ساس نے اٹھایا جو اس کی چچی بھی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ علی کام پر گیا ہوا ہے۔ مَیں نے ان سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ علی کو میرا یہ فون نمبر دے دیں اور بتا دیں کہ مَیں یارک شائر میں ہوں اور عنقریب لندن آنے والا ہوں اور یہ کہ علی اس نمبر پر فون کر کے مجھ سے بات کرے۔ علی کا اس رات فون نہیں آیا۔ دوسرے دن صبح مَیں نے دوبارہ فون کیا اس بار علی سے بات ہو گئی۔ اس نے خوشی اور محبت کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ لندن آؤ تو ملاقات ضرور کرنا۔ مَیں نے کہا ’’بھائی! مَیں کل صبح لندن آنے والا ہوں۔ ٹور پر روانہ ہونے سے پہلے یہ چار دن لندن رک کر اس کی سیر کرنا چاہتا ہوں‘‘

علی نے پوچھا ’’لندن میں کہاں ٹھہرو گے؟‘‘

مَیں حیران ہوا کہ علی جیسے دوست نے یہ سوال پوچھا ہے۔ بہرحال مَیں نے کہا ’’ابھی مَیں نے ہوٹل بک نہیں کرایا۔ آج دن میں کروا لوں گا اور پھر وہاں جا کر تمہیں اطلاع دوں گا‘‘

مَیں اور آصف ایک ٹریول ایجنسی میں گئے اور لندن کے علاقے بیز واٹر(Bays (Water میں واقع ایک ہوٹل میں کمرہ بک کروا لیا۔ مَیں نے آصف کو علی کے عجیب رویے کے بارے میں بتایا۔ اس نے پوچھا ’’کیا وہ سسرال میں تو نہیں رہتا؟‘‘

مَیں نے کہا ’’ہاں! وہ شروع سے انہی کے ساتھ رہ رہا ہے‘‘

آصف بولا ’’پھر وہ مجبور ہے۔ وہ خود مہمانوں کی طرح رہ رہا ہو گا کسی دوسرے کو مہمان کیا بنائے گا‘‘

لیکن یہ عذر میرے لئے قابلِ قبول نہیں تھا۔ مَیں پچیس سال پہ محیط علی سے دوستی پر غور کر رہا تھا تو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یورپ کے اس سرد موسم میں کسی انسان کے جذبات بھی اتنی جلدی سرد ہو سکتے ہیں۔ اگر علی مجھے اعتماد میں لے کر کوئی مجبوری بتاتا تو مَیں ذرا بھی برا نہیں مناتا۔ لیکن اس کا رویہ اور الفاظ برف میں لپٹے محسوس ہوئے تھے۔ یہ پاکستانیوں والا مزاج بالکل نہیں تھا۔ وہ چند سالوں میں انگریزوں سے زیادہ انگریز بن گیا تھا۔ مَیں نے لندن میں علی سے نہ ملنے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی بقول اس کے ویک اینڈ کے علاوہ اسے سانس لینے کی فرصت نہیں ہوتی۔ جبکہ مَیں یہاں لمبی لمبی بلکہ ٹھنڈی سانسیں لینے کیلئے آیا تھا۔ لمبی سانسیں پارکوں کے پر فضا مقامات پر اور ٹھنڈی سانسیں مصروف بیچوں پر!

یورپ جا کر اور وہاں کے لوگوں سے مل کر مَیں نے اندازہ لگایا کہ یورپ کی زندگی آسٹریلیا سے کہیں زیادہ تیز اور مصروف ہے۔ یہ تیزی اور مصروفیت پاکستان کی نسبت تو بہت ہی زیادہ ہے۔ بلکہ پاکستان میں تو یہ مصروفیت خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی ڈالر کمانے کی دوڑ لگ چکی ہے۔ لیکن لوگ پھر بھی دوستوں، رشتہ داروں اور دوسری تقریبات کے لئے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان سے آنے والوں کو بھی مجموعی نہ سہی تو انفرادی طور پر ضروری مدد فراہم کرتے رہتے ہیں۔ سڈنی کے ایک سابقہ قونصلیٹ جنرل کے مطابق یہاں کے لوگ ہر وقت دعوتیں دینے اور کھانے کے موڈ میں رہتے ہیں۔

یورپ اور خصوصاً امریکہ میں زندگی کا بہاؤ تیز اور اس کے مطالبے زیادہ ہیں۔

ڈالروں اور پونڈوں کی اس دوڑ میں مصروف لوگوں کو بعض اوقات یہ یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے اس دوڑ میں اپنے پیاروں اور چاہنے والوں کو کہیں کھو دیا ہے۔ جب انہیں احساس ہوتا ہے اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ سب کچھ ہونے کے باوجود تہی دامن نہ سہی تو تہی دل ضرور ہو چکے ہوتے ہیں۔ کچھ پاتے ہیں تو بہت کچھ کھو بھی دیتے ہیں۔ شاید زندگی اسی پانے اور کھونے کا نام ہے۔

اس دن میرا لنچ آصف کے بھائی کے گھر تھا۔ وہ کافی عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ان کا اپنا بزنس اور اپنا گھر ہے۔ ماشاء اللہ خوشحال گھرانا ہے۔ وہاں سے نکل کر ہم بریڈ فورڈ جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے کہ اچانک آصف کا ایک دوست ساجد آن پہنچا۔ ساجد کے والدین بہت عرصہ پہلے برطانیہ آئے تھے۔ ساجد یہیں پلا بڑھا تھا اور انگریزوں ہی کی طرح انگریزی بولتا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ آج بقیہ میزبانی کا فریضہ وہ انجام دے گا۔ اس نے ہمیں اپنی نئی مرسیڈیز میں بٹھایا اور تھوڑی دیر بعد جیسے ہم ہوا میں تیرتے ہوئے بریڈ فورڈ کی طرف رواں دواں تھے۔ گاڑی تو بہت اچھی تھی ہی! ساجد ڈرائیور بھی کمال کا تھا۔ جب آصف نے اسے آہستہ چلانے کا کہا تو بولا ’’فکر نہ کرو! اس علاقے کی پولیس مجھے ٹکٹ نہیں دے سکتی۔ سبھی میرے ریسٹورانٹ پر آ کر کھانا کھاتے ہیں‘‘ گویا پاکستانیوں نے یہاں کی پولیس کو بھی’ کانا، کر لیا تھا۔

تھوڑی دیر میں ہم برطانیہ کے منی پاکستان بریڈ فورڈ میں موجود تھے۔ بریڈ فورڈ اتنا بڑا شہر نہیں ہے، نہ ہی اس میں کوئی قابلِ ذکر تاریخی مقامات اور عمارتیں ہیں۔ لیکن اس میں برطانیہ کی تاریخی عمارتیں، سڑکیں اور پرانے طرز تعمیر کی حامل شاہکار بے شمار عمارتیں ہیں۔ گرد و نواح میں سیکڑوں صنعتی یونٹ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کے بے شمار تارکین وطن پاکستانیوں نے اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا۔ آصف اور ساجد مجھے بریڈ فورڈ کے سب سے بڑے شاپنگ سنٹر میں لے گئے جو تین منزلہ تھا۔ مجھے شاپنگ سینٹر سے دلچسپی نہیں تھی۔ ویسے بھی ان کی نظر میں یہ بہت بڑا تھا۔ جبکہ سڈنی میں میرے علاقے میں واقع ’’ویسٹ فیلڈ پیراماٹا‘‘ جو بارہ منزلوں پر مشتمل ہے کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہ تھا۔

ہم بریڈ فورڈ کے مختلف علاقے کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے رہے۔ بے شمار پاکستانی خواتین و حضرات چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے اکثر پاکستان کے قومی لباس (شلوار قمیض) میں اور کچھ پنجاب کی سوہنی دھرتی کے روایتی لباس یعنی کرتے اور تہہ بند میں تھے۔ کئی مقامات پرایسے ہی لباس میں ملبوس متعدد بزرگ حضرات فرنٹ یارڈ پر چارپائیاں ڈال کر بیٹھے نظر آئے۔ انہوں نے اپنے آگے حقے رکھے ہوئے تھے اور گاؤں کی چوپال کی طرح گپ شپ میں مصروف تھے۔ آصف نے بتایا کہ پاکستان کا حقہ اور تمباکو وہاں با آسانی دستیاب ہے۔ بلکہ پاکستان کی بنی ہوئی مٹھائیاں، پاکستانی آم اور دیگر پھل بھی دکانوں سے مل جاتے ہیں۔ آسٹریلیا کی نسبت پاکستان سے فاصلہ بہت کم ہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان سے رسل و رسائل کی زیادہ سہولتیں میسر ہیں۔

اگرچہ لندن سے جنگ اخبار روزانہ چھپتا ہے جو پورے برطانیہ بلکہ یورپ کے دوسرے شہروں میں بھی جاتا ہے، اس کے باوجود دیگر پاکستانی اخبارات بھی آسانی سے مل جاتے ہیں۔ جنگ کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ جنگ لندن کے چند روزہ مطالعے سے مجھے علم ہوا کہ پاکستانیوں کے مختلف گروپوں اور کچھ خاندانوں میں دشمنیوں کا سلسلہ وہاں بھی چل رہا ہے۔ اگرچہ برطانیہ میں قانون کی سختی ان کی سدِ راہ ہے۔ لیکن پھر بھی انہیں جہاں موقع ملتا ہے ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ چند قتل بھی ہو چکے ہیں۔ مار پیٹ کا سلسلہ تو اکثر چلتا رہتا ہے۔ گویا پاکستان میں شروع کی ہوئی دشمنیوں کی آگ لندن کی یخ ہواؤں میں بھی سرد نہ ہو سکی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی پاکستانی جو آپس کے جھگڑوں میں مصروف رہتے ہیں اگر ان کے کسی اہل وطن پر کوئی غیر حملہ کرے تو برداشت نہیں کر پاتے۔ میرے برطانیہ پہنچنے سے چند دن پہلے ایک ایسے ہی جھگڑے میں جو پاکستانیوں اور جمیکا کے کالوں کے درمیان ہوا تھا، ایک کالا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔

جنگ لندن میں چند اور دلچسپ چیزیں بھی نظر آئیں، مثلاً کراچی کا ستر سالہ سنیاسی باوا یہاں بھی موجود تھا۔ پچیس سال قبل جب میں پہلی مرتبہ کراچی گیا تو اس ستر سالہ سنیاسی باوے کے اشتہار کراچی کی دیواروں پر نظر آئے۔ میں گیارہ سال تک وہاں رہا۔ اس دوران اس باوے کا اشتہار مختلف علاقے کی دیواروں پر ہمیشہ دکھائی دیتا رہا۔ گیارہ سال میں یہ بابا ستر سال سے ذرا بھی آگے نہیں بڑھا۔ اس کے مزید دس سال بعد جب مَیں پھر کراچی گیا تو وہ تب بھی سترسال کا ہی تھا۔ یہ ’’باوا‘‘ تمام لاعلاج امراض مثلاً مردانہ کمزوری، زنانہ اور مردانہ خفیہ امراض، بواسیر، دائمی زکام اور بوڑھوں کو جوان کرنے تک ہر نا ممکن کو ممکن کر سکتا ہے۔ گویا دنیا بھر کے ڈاکٹر اور سائنسدان کروڑوں ڈالر خرچ کر کے جن بیماریوں کا علاج دریافت نہیں کر سکے یہ باوا ان سب امراض کو چٹکی بجاتے ٹھیک کر سکتا تھا۔ یہی ستر سالہ سنیاسی ’’باوا‘‘ اس وقت یورپ کے لوگوں کو اپنے تیر بہدف نسخوں سے مستفید کرنے کے لئے لندن پہنچا ہوا تھا۔

جنگ لندن میں اس کے علاوہ ایک عامل بابا کا اشتہار بھی روزانہ اخبار کی زینت بن رہا تھا۔ یہ بابا بھی نا ممکن کو ممکن کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ مثلاً محبت میں ناکامی، کاروبار میں ناکامی، بے روزگاری، شوہر کے بے التفاتی، بیوی کی بے وفائی، ساس کو قابو کرنا، بہو کو نکیل ڈالنا، باس کا دل موم کرنا اور اولاد کا نہ ہونا، ان سب مسائل کو یہ بابا راتوں رات حل کر سکتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جہالت ہے اس لئے ایسے فراڈیوں کو گل کھلانے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن لندن جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی یہ لوگ اپنی فنکاری سے بھولے بھالے لوگوں کو زیر دام لا رہے ہیں۔ گویا ہماری روایتی تو ہم پرستی کہیں بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اس صورتِ حال پر ایک مصرعہ علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا!

لندن میں بھی نہ چھوٹے مجھ سے آدابِ توہم پرستی

بریڈ فورڈ میں ایک بہت ہی مشہور پاکستانی ریسٹورنٹ ممتاز محل ہے۔ یہ وہاں کے ایک بہت بڑے کاروباری پاکستانی کی ملکیت ہے۔ ان حضرت کے کئی اسٹور اور دوسری کمرشل عمارتیں بھی ہیں۔ ساجد ہمیں ڈنر کے لئے وہاں لے گیا۔ حالانکہ اس کا اپنا بھی ریسٹورانٹ ہے۔ (اکثر ریسٹورانٹ کے مالک اپنے ریسٹورانٹ میں کھانا نہیں کھاتے، نہ جانے کیوں؟) ممتاز محل ریسٹورانٹ کا ہال محل کی طرح ہی خوبصورت اور وسیع تھا۔ اس کا عملہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس اور نہایت چاک و چو بند تھا۔ ہال میں مدھم روشنیاں، آرام دہ خنکی اور مدھر سی موسیقی کی تانیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ جب کھانا آیا تو اس کا ذائقہ لا جواب تھا۔ ہر ڈش اور ہر نان کسی فن کار طباق کے فن کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ بھوک زیادہ نہ ہونے کے باوجود ہم نے مختلف ڈشوں اور ان کی روایتی لسی سے پورا پورا انصاف کیا۔ اس ریسٹورانٹ کا بنا ہوا پیک کھانا برطانیہ کے بڑے بڑے سٹوروں میں بھی دستیاب ہے۔

وہاں سے نکل کر ہم Dewsberry میں واقع ایک میوزیم میں گئے۔ اس چھوٹے سے میوزیم کے گرد و نواح میں خوبصورت اور گھنا باغ ہے۔ ساجد نے ہنستے ہوئے بتایا کہ یہ محبت زدہ جوڑوں کے لئے منفرد جگہ ہے۔ اس میوزیم کا ایک حصہ بر صغیر پاک و ہند کے مناظر پر مشتمل تصاویر کے لئے مخصوص تھا۔ داتا دربار لاہور کا ایک خوبصورت منظر آنکھوں کو تراوت بخش رہا تھا۔ شاہی مسجد کی شاندار پینٹنگ ایک دیوار پر آویزاں تھی۔ سکھوں کا گردوارہ اور گنگا میں اشنان کرتے ہوئے ہندوؤں کا ایک منظر بھی نہایت خوبصورتی اور مشاقی سے کینوس پر منتقل کیا گیا تھا۔ گھر واپس آتے آتے رات کے دس بج گئے۔ دوسرے دن میں لندن کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔


جب اشیاء کے نرخ بتاتی تو چڑیل لگتی تھی



۱۸ جولائی کی صبح ہم ابھی ناشتے میں مصروف تھے کہ ساجد اپنی مرسڈیز کے ساتھ آ پہنچا۔ ناشتے کے فوراً بعد وہ ہمیں لے کر لیڈز کی طرف روانہ ہو گیا۔ لیڈز بھی بریڈ فورڈ کی طرح بیس پچیس منٹ کی مسافت پر تھا۔ میں نے لیڈز اوول دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ لیڈز کا اوول بھی سڈنی کرکٹ گراؤنڈ کی طرح سرسبز اور خوبصورت ہے۔ اس وقت دو کاؤنٹیز میں میچ جاری تھا۔ گراؤنڈ میں تماشائیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ تاہم جو تماشائی میدان میں موجود تھے وہ دلکش سہانے موسم اور اُجلی دھوپ سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یورپ اور آسٹریلیا میں لوگ کھیلوں سے بھر پور انداز میں لطف اٹھاتے ہیں۔ وہ ٹولیوں کی شکل میں میدانوں میں جاتے ہیں۔ ٹھنڈے اور گرم مشروبات کا دور چلتا رہتا ہے۔ ہنسی مذاق اور ہلکی پھلکی نعرے بازی بھی جاری رہتی ہے۔ ان کی ٹیم ہارے یا جیتے وہ دونوں صورتوں میں کھیل انجوائے کرتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنی ٹیم کے یونیفارم کے رنگ کے کپڑے پہن کر آتے ہیں اور اپنے پسندیدہ کلب کے جھنڈے اٹھائے ہوتے ہیں۔ کھانے پینے، ہنسی مذاق اور اچھے کھیل سے تماشائی دن کے ہر لمحے کو بھرپور اور یادگار انداز میں مناتے ہیں۔

لیڈز میں آصف کے کچھ دوست رہتے تھے۔ ہمارا لنچ اس دن اُن کے ہاں تھا۔ ہم اس اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو یوں محسوس ہوا کہ خطّہ پوٹھوہار میں ہونے والی کسی گانے کی محفل میں پہنچ گئے ہوں۔ اس فلیٹ میں چار لڑکے رہتے تھے۔ ان میں سے دو اپنے سسرال والوں سے ناراض ہو کر وہاں آئے تھے اور دو طالبعلم تھے۔ چاروں کا تعلق گوجرخان سے تھا۔ ہم جب وہاں پہنچے تو کل چھ افراد وہاں موجود تھے۔ ایک نے ڈھولک پکڑی ہوئی تھی۔ دوسرے کے ہاتھ میں ستار (گٹار) تھی اور تیسرے نے تانبے کا ایک تھال اُلٹا رکھا ہوا تھا۔ باقی تینوں تالیوں اور نعروں سے ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ پوٹھوہاری شعر خوانوں کا اندازِ گائیکی منفرد اور طرز جُدا ہے۔ شروع میں یہ انداز عجیب محسوس ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کی ردم اور تال اور گائیکی کا انداز اچھا لگنے لگتا ہے۔ مجھے اگرچہ اس طرح کے گانوں کا زیادہ شوق نہیں ہے پھر بھی گاہے گاہے سُن کر لطف اندوز ہوتا ہوں۔

ان تمام دوستوں نے ہمارا والہانہ استقبال کیا۔ گانے کی محفل جاری رہی۔ ساتھ ساتھ کھانے کا دور چلتا رہا۔ جو شوقین تھے ان کے لئے ناؤ نوش کا بھی بندوبست تھا۔ یورپین زندگی میں اس طرح کی چیزیں اکثر دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔ کھانے کے بعد تمام دوست دو گاڑیوں میں مجھے اسٹیشن چھوڑنے کے لئے گئے۔ اچھا خاصا جلوس کا ماحول بن گیا۔ میرا سامان پہلے ہی میرے ساتھ تھا۔ انہوں نے Hudersfield) (کے اسٹیشن سے مجھے لندن کی ٹرین پر بٹھایا۔ وہاں ساجد نے میری ایک نہ چلنے دی اور ٹکٹ کے پیسے زبردستی اداکئے۔ ۶۵ پو نڈ کی رقم کم نہ تھی۔ خصوصاً اس صورت میں کہ ساجد سے میری ملاقات صرف ایک دن قبل ہی ہوئی تھی۔ ان دو دنوں میں اس نے مجھے اپنے خلوص، محبت، بے تکلفی اور دریا دلی سے بے حد متاثر کیا تھا۔ آصف اور دوسرے تمام دوستوں نے بہت محبّت اور خلوص سے الوداعی معانقہ کیا اور میں ٹرین میں سوار ہو گیا۔

یورپ میں یہ میرا پہلا ٹرین کا سفر تھا۔ ان کا کرایہ آسٹریلیا کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ مثلاً Huddersfield سے لندن کا یہ سفر صرف ۳ گھنٹے کا ہے۔ جبکہ ۶۵ پونڈ آسٹریلیا کے تقریباً دو سو ڈالر کے برابر ہیں۔ آسٹریلیا میں دو سو ڈالر میں اس سے چار گنا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ ٹرین انتہائی آرام دہ، صاف ستھری اور جدید ترین سہولتوں سے آراستہ تھی۔ ٹرین کے اندر کا ماحول بالکل بین الاقوامی پرواز کی مانند تھا۔ ویسے ہی آرام دہ سیٹیں، صاف ستھرے ٹوائلٹ اور با اخلاق عملہ! جہاز کی طرح ٹرین کے میزبان ٹرالی میں تمام مشروبات، چائے، کافی اور اسنیکس وغیرہ سرو کر رہے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان میں کوئی چیز مُفت نہیں تھی۔ قیمت ادا کر کے کچھ بھی خرید سکتے ہیں۔ ائرہوسٹس کی طرح ٹرین کی میزبان بھی نوجوان، دلکش اور خوش اخلاق تھی۔ وہ چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ سجائے ہوئی تھی۔ لیکن جب ڈرنک یا کافی کی قیمت بتاتی تھی تو بالکل چڑیل لگتی تھی۔

شمالی برطانیہ کا یہ دیہی علاقہ جہاں سے ہماری ٹرین گزر رہی تھی، انتہائی خوبصورت ہے۔ سر سبز و شاداب فارم دونوں جانب اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان مرد اور عورتیں، رنگا رنگ فصلیں، اونچے نیچے پہاڑی علاقے، بل کھاتی وادیاں، غرضیکہ قدرت کی صنّاعی کے نمونے جا بجا بکھرے تھے۔ ٹرین کے اندر کا ماحول بھی کافی رنگین تھا۔ کئی دلکش چہرے اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ میں جس سیٹ پر کھڑ کی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس پر تین افراد کی گنجائش تھی۔ لیکن وہاں میرے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ البتہ میرے بالکل سامنے ایک انگریز بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کبھی تو کتاب پڑھتا اور کبھی باہر کے نظارے دیکھنے لگتا۔

پہلے ایک گھنٹے میں ہمارے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ میں جانتا تھا کہ انگریز پہل کرنا پسند نہیں کرتے۔ لیکن اگر دوسرا ان کو مخاطب کر لے تو پھر ریڈیو کی طرح بجنے لگتے ہیں۔ بالکل یہی ہوا۔ میں نے اس سے ان مناظر کی خوبصورتی کی بات کی تو اس کا بٹن آن ہو گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ لندن میں کام کرتا ہے اور Hudersfield میں اس کا آبائی گھر ہے۔ لہذا وہ پانچ دن لندن میں رہتا ہے اور دو دن یہاں اپنی فیملی کے ساتھ گزارتا ہے۔

وہ ویک اینڈ گزار کر واپس لندن جا رہا تھا۔ اس نے بتایا ’’میں اپنے بچّوں کو لندن کے شور و غُل اور کثافت زدہ ماحول سے دور یہاں دیہات میں پروان چڑھانا چاہتا ہوں۔ اس کی وجہ سے مجھے پانچ دن فیملی سے دور رہنا پڑتا ہے اور ہر ہفتے یہ مہنگا سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی صحت مند ماحول میں نشو و نما کیلئے یہ قربانی دینی پڑ رہی ہے۔‘‘

میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان میں لوگ گاؤں چھوڑ کر شہروں میں اس لئے جا بستے ہیں کہ وہاں بچوں کی بہتر پرورش اور تعلیم و تربّیت ہو گی۔ اب آہستہ آہستہ دیہات خالی ہو رہے ہیں اور شہر آبادی کے بوجھ سے دبے جا رہے ہیں۔ حالانکہ لندن کے مقابلے میں کراچی، لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے شہر انتہائی کثافت زدہ اور شور و غُل سے بھر پور ہیں لیکن ہم پھر بھی وہیں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو روزگار، بچوں کی تعلیم اور علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کی وجہ سے شہروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ کچھ لوگ شوقیہ اور بلا ضرورت بھی شہروں میں ٹکے رہتے ہیں۔ جو چار جماعتیں پڑھ جاتا ہے اسے گاؤں کی زندگی زہر لگنے لگتی ہے۔ کچھ تو صرف بیگمات کی فرمائش پر ہی شہروں کے ڈربوں میں بند رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں جہاں نہ تازہ ہوا ہے اور نہ خالص خوراک، صرف نمائشی چکا چوند ہے۔

بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات ہو رہی تھی، اس انگریز بہادر کی جو مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں۔ مَیں نے اسے بتایا ’’بنیادی طور پر میرا تعلق پاکستان سے ہے لیکن مَیں آسٹریلیا میں رہتا ہوں۔ اب یورپ کی سیر کے لئے نکلا ہوں‘‘

وہ انگریز جس کا نام مارک تھا، کہنے لگا ’’اوہ! آسٹریلیا! بہت خوبصورت ملک ہے۔ تم بہت خوش قسمت ہو کہ اتنی اچھی جگہ رہتے ہو۔ مَیں طالبعلمی کے زمانے میں ایک دفعہ وہاں گیا تو میرا دل واپس آنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ کبھی کبھی مَیں سوچتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اگر ممکن ہوا تو آسٹریلیا میں جا بسوں گا اور بقیہ زندگی وہیں گزاروں گا‘‘

یہ پہلی اور آخری دفعہ نہیں تھا کہ کسی یورپین نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس دورہ یورپ کے دوران میری بے شمار یورپین، امریکن اور ساؤتھ افریکن باشندوں سے ملاقات رہی۔ ان میں سے درجنوں نے آسٹریلیا میں رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ بعض نے کوششیں بھی کیں لیکن انہیں مستقل سکونت کا ویزہ نہ مل سکا۔ ویسے بھی آسٹریلیا میں سب سے زیادہ تارکینِ وطن یورپ خصوصاً برطانیہ سے متعلق ہی ہیں۔

مارک نے بتایا کہ اس نے ماہر تعلیم کی حیثیت سے دوسال بنگلہ دیش میں بھی گزارے ہیں۔ اس دوران اس کو دلچسپ تجربات ہوئے۔ اس کے بعد مارک سے کھلی گپ شپ شروع ہوتی رہی۔ ایک مرحلے پر وہ کہنے لگا ’’میرے خیال میں اگر بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش اکھٹے ہوتے تو وہ زیادہ مضبوط اور خوشحال ملک ہوتا‘‘

مَیں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ’’میرے خیال میں رقبہ یا آبادی زیادہ ہونے سے کسی ملک کی مضبوطی یا اس کے باشندوں کی خوشحالی مشروط نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سابقہ سویت یونین اب سمٹ کر روس نہ بن گیا ہوتا‘‘

مارک کہنے لگا ’’وہ تو درست ہے لیکن بھارت تو پھر بھی بڑا ملک ہے لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش نے الگ ہو کر غلطی کی ہے۔ آخر کل تک یہ ایک ہی ملک تھا۔ ایک ہی جیسے لوگ وہاں رہتے ہیں۔ آج سب اکھٹے کیوں نہیں رہ سکتے‘‘

مَیں نے کہا ’’یہاں پر میں ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ پورے بر صغیر میں ایک ہی جیسے لوگ رہتے ہیں۔ صرف ایک رنگ ہونے سے وہ ایک جیسے نہیں ہیں۔ بر صغیر میں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف مذاہب ہیں۔ رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت میں بھی ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہیں۔ جہاں تک آپ کا یہ خیال ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ رہتے تو بہتر تھا، وہ بھی درست نہیں ہے۔ کیوں کہ بھارت میں صرف ہندو ہی خوشحال اور آزاد زندگی گزار سکتے تھے۔ بھارت میں آج اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ میرے اس دعوے کا بین ثبوت ہے‘‘

مارک نے کہا ’’یہ اس خطے کی بد قسمتی ہے کہ وہاں مذہبی انتہا پسندی بہت زیادہ ہے۔ میرے خیال میں پاکستان اور بھارت میں اختلافات انہی انتہا پسندوں کی وجہ سے ہیں۔ اگر مذہب کا اتنا عمل دخل نہ ہوتا تو یہ تین نہیں ایک ملک ہوتا اور شاید سپر پاور ہوتا‘‘

مَیں نے کہا ’’معاف کرنا! اس معاملے میں آپ کو مکمل علم نہیں ہے۔ پاکستان مذہب کی بنیاد پر وجود ضرور آیا تھا لیکن یہ ہندوؤں کے خلاف اعلان جنگ نہیں تھا۔ یہ بات بھی اپنے ذہن میں رکھیں کہ اس خطے کے مسلمان ایک آزاد اور خود مختار مملکت چاہتے تھے۔ جہاں وہ آزادانہ اپنی مذہبی اور ثقافتی روایات پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن تقسیمِ ہند کے عمل کو غیر منصفانہ بنا کر پاکستان اور ہندوستان میں اختلافات کے جو بیج بوئے گئے ہم آج تک اس وقت کی بوئی ہوئی زہریلی فصل کاٹ رہے ہیں۔ جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے۔ بنگالی مذہب نہیں، زبان کی بنیاد پر ہم سے الگ ہوئے تھے۔ لہذا یہ کہنا کہ برصغیر کی تقسیم صرف مذہب کی بنیاد پر ہوئی ہے، درست نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان اب ایک اٹل حقیقت ہے۔ یہ بحث اب فضول ہے‘‘

مارک بولا ’’مَیں یہ بات تو تسلیم کرتا ہوں کہ برطانیہ نے ہندوستان بہت عجلت میں چھوڑا اور بہت سے مسائل ادھورے رہ گئے، جو بعد میں زیادہ گمبھیر ہوتے گئے۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان نے خود بھی تو ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یورپ نے اپنے کئی دیرینہ مسائل آسانی سے حل کر لئے ہیں۔ آخر وہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟‘‘

مَیں نے کہا ’’وہ اس لئے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مسائل حل کروانے کے بجائے انہیں مزید پیچیدہ کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً کشمیر پر اقوام متحدہ کی ریفرنڈم والی قرار داد موجود ہے۔ لیکن سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور دوسرے با اثر ممالک اس قرار داد پر عمل کرانے کی بجائے اس معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہو گئے۔ اب وہ واضح طور پر بھارت کی طرف داری کرنے لگے ہیں۔ اس طرح ان ممالک کا نہ صرف کروڑوں ڈالر کا اسلحہ اور ہتھیار فروخت ہو رہے ہیں بلکہ انہیں نمبرداری دکھانے کا زیادہ موقع مل رہا ہے۔ جہاں تک یورپ کا تعلق ہے۔ یورپی ممالک نے اپنے اختلافات کم کئے ہیں، ختم نہیں ہوئے۔ یورپ کے ممالک جو سائز میں اتنے ہیں کہ ایک دن میں چھ ممالک میں بذریعہ کار گھوما جا سکتا ہے۔ ایک کلچر، ایک مذہب، ایک لباس اور اب ایک کرنسی رکھتے ہوئے، ایک ملک کیوں نہیں بن جاتے؟ ہندوؤں اور مسلمانوں میں تو کوئی قدر مشترک ہے ہی نہیں۔ پھر وہ اتنی آسانی سے کیسے اکھٹے بیٹھ سکتے ہیں‘‘

مارک ہنستے ہوئے کہنے لگا ’’آپ کی دلیلیں دل کو لگتی ہیں۔ مَیں استادوں کا استاد ہوں اور خود کو بر صغیر کے معاملات کا ماہر سمجھنے لگا تھا۔ لیکن آج پتہ چلا ہے کہ کوئی میرا بھی استاد موجود ہے۔ مجھے آپ سے مل کر اور بات کر کے حقیقی خوشی محسوس ہو رہی ہے‘‘

مَیں نے کہا ’’مجھے بھی یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ برصغیر کے معاملات میں اتنی دلچسپی لیتے ہیں۔ جہاں تک استادی کا تعلق ہے، میں بھی استاد رہ چکا ہوں۔ لیکن صرف اپنے شاگردوں کا۔ یہ آپ کی عظمت ہے کہ مجھے استاد کہہ رہے ہیں‘‘

انہی باتوں میں ہماری ٹرین لندن میں داخل ہو گئی۔ مارک اپنا فون نمبر دے کر میرے سے پہلے اسٹیشن پر اُتر گیا۔


لندن


رات دن میں کیسے بدل گئی



ٹرین لندن میں داخل ہوئی تو میں اس کے نظاروں میں منہمک ہو گیا۔ میں نے لندن کا ذکر بہت سنا اور پڑھا تھا۔ اسی لئے یورپ کے اس شہرِ بے مثال کو دیکھنے کا بے حد اشتیاق تھا۔ لندن تاریخی اور سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں بیٹھ کر انگریزوں نے سیاسی جوڑ توڑ، سازشوں، ریشہ دوانیوں اور جنگوں کے ذریعے آدھی دنیا کو اپنا زیرِ نگیں کیا۔ یہاں وہ بادشاہ حکمران ہوا کرتا تھا جس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آج جو اہمیت اکلوتی سپرپاور امریکہ کو حاصل ہے، ایک دور میں اس سے کہیں زیادہ اہمیت برطانیہ کو حاصل تھی۔ امریکہ آج کل پوری دنیا میں اپنی من پسند حکومتیں قائم کرنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اس کے برعکس انگریز اپنے مفتوحہ علاقوں پر خود حکومت کرتے تھے اور ڈنکے کی چوٹ پر ان ممالک کی دولت سمیٹ کر لندن پہنچاتے تھے۔ میں نے خود لندن میوزیم میں یہ تحریر پڑھی ہے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ برطانیہ میں ذرائع آمدنی انتہائی محدود تھے۔ اس وقت ان کی معیشت کا سارا دار و مدار ہندوستان سے آنے والی دولت پر تھا۔ لندن میں زیادہ تر شاندار اور پر شکوہ عمارات اسی دور کی نشانیاں ہیں۔ وہ عمارات آج بھی قائم ہیں۔ انگریز ان کی پائیداری، قدامت اور تاریخی حیثیت پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں مانتے کہ ان عمارتوں کی بنیادوں میں ان کی کتنی ہی نو آبادیوں کے عوام کے منہ سے چھینے گئے نوالوں کا رنگ بھی شامل ہے۔

لندن میں زیادہ تر عمارتیں پرانے دور کی ہی ہیں۔ جدید عمارات خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ لندن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پسندیدہ شہر تھا۔ انہوں نے یہاں رہ کر اپنے آباء و اجداد اور اپنی قوم کا نام روشن کیا۔ یہاں سے حاصل گئی تعلیم کو انہوں نے پوری قوم کی آزادی کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے انگریزوں کا انہی کی زبان میں مقابلہ کر کے اور ایک طویل قانونی اور سیاسی جنگ کے بعد برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے الگ ملک حاصل کیا۔ جہاں آج ہم آ زادی کی سانس لے رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور ملک کو لوٹنے والوں کا ٹھکانہ بھی یہی شہر ہے۔ یہاں بیٹھ کر وہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے اور حکومتوں کو گرانے کے لئے جوڑ توڑ کرتے رہتے ہیں۔ گویا یہ شہر اب بھی سازشوں کا مرکز ہے۔ لیکن اب ہمارے ’’اپنے‘‘ ان سازشوں میں پیش پیش ہیں۔

میں انہی سوچوں میں غلطاں اوراس کے نظاروں میں سرگرداں تھا کہ ٹرین کنگز کراس) ((Kings Cross اسٹیشن پر پہنچ گئی، جہاں میں نے اُترنا تھا۔ سٹیشن کیا ہے، یہ پورا شہر ہے۔ بہت بڑا، انتہائی مصروف۔ اس کے بے شمار پلیٹ فارم ہیں۔ میں نے جدھر نظر دوڑائی لوگوں کا اژدہام نظر آیا۔ ہر فرد جلدی میں نظر آ رہا تھا۔ سامان کے لئے ٹرالی موجود تھی۔ مدد کے لئے عملہ حاضر تھا۔ معلومات کے لئے نقشے دستیاب تھے۔ غرضیکہ مسافروں کی مدد کا پورا بندوبست تھا۔ میں نے یہاں سے لوکل ٹرین پکڑنی تھی۔ سامان ٹرالی پر رکھا اور مددگار عملے کی رہنمائی کے مطابق مطلوبہ پلیٹ فارم پر پہنچ گیا۔ چند منٹ بعد ٹرین آئی تو اس میں سوار ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں بیز واٹر (BAYS WATER ) سٹیشن پر اُتر رہا تھا۔ سامان لے کر باہر سڑک پر پہنچا تو اسے انتہائی مصروف پایا۔ اگرچہ اس وقت رات کے نو بج چکے تھے لیکن ابھی تک سورج روشن تھا اور دن کی سی گہما گہمی تھی۔

میں ٹیکسی کے انتظار میں تھا۔ لیکن جو بھی ٹیکسی نظر آتی اس میں پہلے سے مسافر موجود ہوتا۔ میں نے سڈنی میں بہت سے انگریزوں سے سنا تھا کہ لندن کی ٹیکسی سروس بہت اچھی ہے۔ ڈرائیور نہایت خوش اخلاق، مہذب اور سڑکوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور وہ مسافروں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ لیکن میرا تجربہ اس کے برعکس ثابت ہوا۔

ایک خالی ٹیکسی نظر آئی تو میں نے اسے ہاتھ دیا۔ وہ رک گیا۔ میں نے جب اسے اپنی منزل بتائی تو وہ کچھ کہے بنا ٹیکسی بھگا کر چلا گیا۔ دوسری ٹیکسی روکی۔ اسے بتایا کہ میں اس ہوٹل میں جانا چاہتا ہوں۔ اس نے بھی سوری (sorry) کہہ کر ٹیکسی آگے بڑھا دی۔ در اصل میرا ہوٹل وہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا اور ٹیکسی ڈرائیور لمبے فیئر کے چکر میں تھے۔ اصولاً اور قانوناً وہ انکار نہیں کر سکتے تھے لیکن اصول اور قانون مکمل طور پر دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں ہیں۔ یہ صرف کتابوں میں ملتے ہیں۔

اس صورت حال پر میں نے وہی کیا، جو کرنا چاہیئے۔ میں نے تیسری ٹیکسی روکی۔ سامان اس کے اندر رکھا۔ پسنجر سیٹ پر بیٹھنے کے بعد ادھیڑ عمر انگریز ڈرائیور کو بتایا کہ اس ہوٹل لے چلو۔ ڈرائیور نے ایسے منہ بنایا جیسے کڑوی دوا نگل لی ہو، تاہم کچھ کہے بغیر چل پڑا۔ کیونکہ اب وہ منع نہیں کر سکتا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں ہم ہوٹل کے سامنے موجود تھے۔ اس وقت میٹر پر پانچ پونڈ بنے تھے۔ لیکن ڈرائیور کے ایک دو بٹن دبانے کے بعد جو ٹوٹل بنا وہ آٹھ پونڈ تھا۔ میں نے جب اس اضافے کا سبب جاننا چاہا تو ڈرائیور کہنے لگا ’’در اصل میں نے اس میں رات کے ریٹ کا اضافہ کیا ہے‘‘

میں نے پوچھا ’’یہ رات کا ریٹ کس وقت شروع ہوتا ہے اور اس کی شرح کیا ہے؟‘‘

کہنے لگا ’’یہ آٹھ بجے شروع ہوتا ہے اور یہ عام کرائے سے پچاس فیصد زیادہ ہوتا ہے‘‘

میں سمجھ گیا کہ ڈرائیور میرے رنگ کی وجہ سے مجھے پاکستان یا ہندوستان سے نیا آنے والا مرغا سمجھ کر ذبح کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے میں تمہیں آٹھ پونڈ دیتا ہوں۔ تم مجھے اس کی رسید دے دو۔ اس پر تمہاری ٹیکسی کا نمبر، تمہارا شناختی نمبر، موجودہ وقت، اصل کرایہ الگ اور رات کا ریٹ الگ درج ہو‘‘

ڈرائیور نے چونک کر مجھے دیکھا۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ اس نے غلط جگہ ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اس نے فوراً پینترا بدلا اور چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے (جو سارے راستے نظر نہیں آئی تھی) بولا ’’نائٹ ریٹ کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف نارمل ریٹ جو پانچ پونڈ ہیں وہ دے دیں‘‘

میں نے کہا ’’کیوں کیا ہو گیا؟ رات دن میں کیسے بدل گئی؟ میں نے تو وہ فون نمبر بھی نوٹ کر لیا ہے جہاں شکایت درج کی جاتی ہے‘‘

اب تو وہ خاصا پریشان ہو گیا۔ لندن میں ہر سال بے شمار سیاح جاتے ہیں۔ وہاں ٹیکسی ڈرائیوروں کے لئے خاصے سخت ضوابط موجود ہیں اور ایسی شکایات کا سختی سے نوٹس لیا جاتا ہے۔ لندن کے ٹیکسی ڈرائیور بہت پیسہ بناتے ہیں۔ ان کا لائسنس سونے کی کان کی طرح ہے۔ اگر ایسی شکایات ملتی رہیں تو یہ لائسنس منسوخ ہو سکتا ہے۔ یہ لائسنس طویل ٹریننگ اور بہت تگ و دو کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اس ڈرائیور کی پریشانی کی وجہ بھی یہی تھی۔ اب اس نے باقاعدہ معذرت کی کہ اس سے غلطی ہو گئی تھی اور آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔ میں نے کہا ’’یہ بات یاد رکھنا کہ اٹیچی کیس اٹھائے ہوئے ہر ایشیائی گاؤں سے اٹھ کر نہیں آ رہا ہوتا۔ دنیا کے سامنے تو تم انگریز اپنی اصول پرستی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہو۔ یہی ہے تمہاری اصول پرستی اور ایمانداری؟‘‘

اس نے پھر سوری کہا۔ میں نے اسے پانچ پونڈ تھمائے اور سامان لے کر ٹیکسی سے نکل آیا۔ میں نے جب اپنا ہوٹل باہر سے دیکھا تو قدرے مایوسی ہوئی۔ وہ ایک تین منزلہ چھوٹا سا اور عام سا ہوٹل تھا۔ حالانکہ میں یہاں ایک رات کا جو کرایہ ادا کر رہا تھا اس میں آسٹریلیا میں فائیو سٹار ہوٹل میں کمرہ مل سکتا تھا۔ لیکن یہ لندن تھا۔ یہاں ہر شے ہی مہنگی تھی۔ خصوصاً یہ علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ ہونے کے باعث زیادہ ہی گراں تھا۔ کاؤنٹر پر میں نے اپنا نام بتایا تو انہوں نے میری بکنگ کی تصدیق کرتے ہوئے میرے کوائف درج کئے۔ استقبالیہ کلرک چابی لے کر اور میرا سامان اٹھا کر مجھے میرے کمرے میں چھوڑ گیا۔ غالباً اس وقت اس ہوٹل میں کل سٹاف یہی اکلوتا فرد تھا جو بیک وقت کلرک، سیکورٹی گارڈ اور پورٹر کا کام کر رہا تھا۔ کمرہ چھوٹا سا لیکن صاف ستھرا تھا۔ اس میں تمام بنیادی سہولتیں موجود تھیں۔ مثلاً اٹیچ باتھ روم، ٹی وی، بجلی کی کیتلی، استری بمع ٹیبل، رائٹنگ ٹیبل، وارڈ روب وغیرہ وغیرہ۔ گو یا ہوٹل چھوٹا سہی، بنیادی اور اہم سہولتیں انہوں نے مہیا کر رکھی تھیں۔ مجھے بھی یہی چاہئے تھا۔ ورنہ کئی بڑے ہوٹلوں میں اونچی دکان پھیکا پکوان کے مصداق تکلف زیادہ اور سہولتیں کم ہوتی ہیں۔

میں نے تھوڑی دیر آرام کیا۔ پھر نہا دھو کر کپڑے بدلے اور کسی حلال ریسٹورنٹ کی تلاش میں باہر نکل آیا۔ استقبالیہ کلرک نے میری مدد کی۔ اس نے بتایا کہ وہاں سے پانچ سات منٹ کے فاصلے پر ایک سٹریٹ ہے جہاں ہر طرح کے ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں میں اس سٹریٹ کی آوارہ گردی کر رہا تھا۔ اس وقت رات کے ساڑھے دس بجے تھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ اس سڑک پر رنگی برنگی دکانیں، ٹریول ایجنسیاں، کرنسی تبدیل کرنے والے دفاتر اور درجنوں ریستوران تھے۔ بے شمار مرد اور عورتیں اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ میں گھومتا گھماتا ایک ریسٹورنٹ کے سامنے پہنچا۔ یہ عربی ریسٹورنٹ تھا اور اس پر حلال کھانوں کا سائن واضح نظر آ رہا تھا۔ میں نے سوچا پاکستانی ریسٹورنٹ ملے یا نہ ملے، رات بہت ہو گئی، کیوں نہ اسی ہوٹل میں کھانا کھا لیا جائے۔

کھانا اچھا تھا لیکن مرچ مسالے کم تھے اور ٹماٹروں کی کھٹاس زیادہ۔ کھانے کے بعد میں آدھے گھنٹے تک اس پر رونق سٹریٹ اور اردگرد کے علاقے میں گھومتا رہا۔ اس کے بعد ہوٹل کی طرف چل پڑا۔ ایک قدرے سنساں موڑ پر ایک انگریز لڑکی اچانک میرے سامنے آ گئی۔


والدین دفتر کے باس نہیں ہوتے



بڑی بڑی نیلی آنکھوں والی اس لڑکی کی عمر تقریباً بیس برس کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ نیچے دیکھ کر چل رہی تھی۔ میں اس سے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ اس لڑکی نے فوراً سوری کہا۔ پریشانی اس کے چہرے پر تحریر تھی۔ میں نے کہا ’’کوئی بات نہیں‘‘

چلنے لگا تو اس نے ایک سگریٹ طلب کی۔ میں نے اسے سگریٹ دی۔ کہنے لگی ’’تم بہت اچھے ہو۔ یہیں رہتے ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’آسٹریلیا سے تمہارے ملک کی سیاحت کے لئے آج ہی یہاں پہنچا ہوں‘‘

کہنے لگی ’’آسٹریلیا بہت خوب صورت ملک ہے۔ تم یہاں کتنے عرصے کے لئے آئے ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’چند دن لندن ٹھہروں گا۔ اس کے بعد یورپ کے چند اور شہروں میں جا رہا ہوں۔ واپسی پر پھر لندن سے ہوتا ہوا آسٹریلیا واپس جاؤں گا‘‘

لڑکی نے اپنی بڑی اور نیلی نیلی آنکھیں اشتیاق سے میرے چہرے پر گاڑ دیں اور بولی ’’بہت خوب! میں یورپ میں پیدا ہوئی ہوں۔ حالانکہ یہاں فاصلے بھی زیادہ نہیں لیکن پھر بھی میں نے بہت کم یورپ دیکھا ہے۔ میرے حالات ہی ایسے رہے۔ تم بہت خوش قسمت ہو جو اتنے دُور رہنے کے باوجود بھی یہاں کی سیر کا تمہیں موقع مل رہا ہے۔ ویسے تمہیں اگر جلدی نہ ہو تو یہاں قریب کسی ہوٹل میں تھوڑی دیر کے لئے بیٹھیں؟‘‘

میں اس لڑکی کو ابھی تک پوری طرح سمجھ نہیں سکا تھا۔ وہ کوئی فراڈ بھی ہو سکتی تھی۔ لیکن سیاحت نام ہی اسی چیز کا ہے۔ اس میں ہر طرح کے حالات اور ہر طرح کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے حامی بھری تو وہ مجھے لے کر نزدیکی ہوٹل کے بار میں پہنچ گئی۔ کاؤنٹر پر جا کر اس نے پوچھا ’’کیا پیو گے؟ اسکاچ یا بیئر!‘‘

میں نے کہا ’’میں شراب نہیں پیتا! کوک لے لوں گا‘‘

اس نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے مشروبات کی قیمت ادا کی۔ اس نے اسکاچ لی۔ میں نے کوک کا گلاس اٹھایا اور ہم ایک ٹیبل آ کر پر بیٹھ گئے۔

میں اپنے سامنے بیٹھی اس لڑکی کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس نے اپنا نام روزی بتایا تھا۔ روزی کبھی تو ہنسنے لگتی۔ ا گلے ہی لمحے اس کی آنکھیں اشک آلود نظر آتیں، آواز گلو گیر ہو جاتی۔ کبھی وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگتی اور کبھی ناخنوں پر طبع آزمائی شروع کر دیتی۔ اس کی گفتگو بھی تسلسل سے عاری تھی۔ موسم کی بات ہو رہی ہوتی تو وہ مہنگائی کا رونا رونے لگتی۔ اچانک ہی اپنی حکومت کو برا بھلا کہنے لگتی۔ میں مسلسل اس کی اضطرابی کیفیت کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اب مجھے کوئی شک نہیں رہا تھا کہ وہ سخت پریشان تھی۔ یہ پریشانی اس کے خوبصورت اور ملیح چہرے پر روزِ روشن کی طرح تحریر تھی۔ لیکن میں نے اسے کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک تو یہ میری فطرت ہے کہ میں دوسروں کے ذاتی معاملات کی ٹوہ میں نہیں رہتا۔ دوسرا یہ کہ انگریزوں کی اس عادت کا بھی مجھے بخوبی علم ہے کہ شروع میں وہ کھلتے نہیں نہ ہی براہ راست ذاتی نوعیت کے سوالات کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں بھی اِدھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔ اس دوران اس کا ڈرنک ختم ہو گیا۔ اب اصولاً اگلا ڈرنک اسے خریدنا چاہیئے تھا۔ لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ وہ خالی جام کو ہاتھوں میں لئے گھماتی رہی، لیکن اٹھنے کی کوشش نہیں کی۔

میں جا کر اس کے لئے دوسرا ڈرنک لے آیا۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ ہی لاوا ابل پڑا۔ وہ اَشک جو بہت دیر سے اس کی خوبصورت آنکھوں میں جمع ہو رہے تھے ساون بھادوں کی بارش کی طرح برسنے لگے۔ اس نے سوری کہہ کر اپنا سر میز پر ٹکا دیا۔ اس کا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ آنسو اس کے رخساروں پر سے پھسل کر میز کو گیلا کر رہے تھے۔ کافی دیر تک وہ اسی کیفیت میں رہی۔ اس دوران میں نے مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ خاموشی سے کوک کی چسکیاں لیتا رہا۔

تقریباًدس منٹ تک یہی کیفیت رہی۔ جب میں نے محسوس کیا کہ اس کے اندر کا غبار اچھی طرح آنسوؤں کے راستے نکل گیا ہے تو میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنا آپ سنبھالنے کے لئے کہا۔ اس نے سر اٹھایا اورہاتھوں سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ اس کی نیلی آنکھوں میں سرخی سی بھر گئی تھی۔ چہرہ بھی متورم نظر آ رہا تھا۔ میں نے اسے رو مال دیا اور ایک سگریٹ سلگا کر اسے پکڑائی۔ اس نے تشکر بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی ’’سوری میں اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکی‘‘

میں نے کہا ’’کوئی بات نہیں، کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے‘‘

روزی بولی ’’تم بھی کہو گے کہ یہ کیسی لڑکی ہے۔ کبھی سگریٹ مانگتی ہے، مفت کی شراب پیتی ہے اور اچانک رونے لگتی ہے‘‘

میں نے کہا ’’آپ کے انگریز دانشور اور مشہور ڈرامہ نگار شیکسپیئر نے کہا تھا کہ زندگی ایک طویل دورانیے کا کھیل ہے۔ جہاں ہر روز نت نئے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ تو میں اور تم بھی اسی ڈرامے کے کردار ہیں۔ اس میں عجیب بات تو کوئی نہیں‘‘

روزی کہنے لگی ’’تھوڑی دیر پہلے تک میں خود کو بالکل تنہا اور بے آسرا محسوس کر رہی تھی، لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ مجھے سہارا مل گیا ہے‘‘

میں نے سر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھا اور سوچا کہ یہ انگریز بھی کیسی قوم ہے۔ ایک طرف تو ان کی منصوبہ بندی اور پلاننگ صدیوں پر محیط ہوتی ہے اور دوسری طرف چند چند منٹ پہلے ملنے والے کو سہارا سمجھنے لگتے ہیں۔ روزی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی ’’وقت کتنی تیزی سے بدلتا ہے۔ یہ شہر جہاں میں پیدا ہوئی، جہاں آج صبح تک میرا اپنا گھر تھا، میرے والدین یہاں رہتے ہیں، آج اسی شہر میں میرا کوئی ٹھکانا نہیں۔ میرے پاس سر چھپانے کی جگہ تک نہیں‘‘

میں نے کہا ’’اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ تم گھر سے بے گھر ہو گئیں؟‘‘

روزی نے کہا ’’میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ دوسرے والدین کی طرح میرے والدین نے بھی میری تعلیم و تربیت اور پرورش ناز و نعم سے کی۔ لیکن میں ان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکی۔ گرتے پڑتے ایچ ایس سی تو میں نے کر لی لیکن نہ تو آگے پڑھ سکی اور نہ ہی کسی قسم کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے عام سی جاب کرنا پڑی۔ پھر بھی میرا گزارا آسانی سے ہونے لگا۔ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا، جب میری ملاقات جے سے ہوئی۔ جے سے پہلے میرے کئی لڑکوں سے تعلقات رہے۔ لیکن ان تعلقات میں زیادہ سنجیدگی نہ تھی۔ جے کے معاملے میں نہ صرف میں پوری طرح سنجیدہ تھی بلکہ اس کی دیوانی ہو گئی۔ حالانکہ جے کسی لحاظ سے اچھا شریکِ حیات نہیں تھا۔ وہ منشیات کا عادی تھا۔ کام دھندہ وہ نہیں کرتا۔ اس کی دوستیاں بھی اپنے جیسوں سے تھیں۔ جے کے متعلق جب میرے والدین کو علم ہوا تو انہوں نے مجھے سمجھایا کہ اس سے تعلقات بڑھانا غلط ہے۔ لیکن میں جے کی محبت میں اتنا آگے بڑھ چکی تھی کہ میں نے اپنے والدین کی ایک نہ سنی اور جے سے شادی کر لی۔

شادی کے بعد میں جے کے ساتھ رہنے لگی۔ جے ایک کمرے کے تنگ سے فلیٹ میں رہتا تھا۔ جہاں جے کے دوسرے دوست بھی آتے تھے۔ ان میں لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ وہ گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ مختلف منشیات سے نشہ کرتے اور فریج میں جو کچھ ہوتا، چٹ کر جاتے۔ میں نے صبح اٹھ کر کام پر جانا ہوتا تھا۔ لیکن ان کی وجہ سے رات بھر سو نہ سکتی۔ صبح یا تو کام پر لیٹ پہنچتی یا نیند کی حالت میں ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہفتوں کے بعد مجھے اس نوکری سے جواب مل گیا۔

خوش قسمتی سے تیسرے روز مجھے نئی ملازمت مل گئی۔ یہ جاب دوپہر کے بعد شروع ہوتی تھی اور رات دس بجے ختم ہوتی تھی۔ میں پھر کام پر جانے لگی۔ جو کچھ کماتی، جے اور اس کے دوست نشے میں اڑا دیتے۔ گھر کے اخراجات کے علاوہ مکان کا کرایہ، بجلی، گیس اور فون کے بل بھی مجھے دینا پڑتے تھے۔ میں نے یہ توقع اور امید لے کر جے سے شادی کی تھی کہ اپنی محبت سے اسے سدھار لوں گی اور اسے راہ راست پر لے آؤں گی۔ وہ توقع پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ میری امیدوں کا دیا بجھتا نظر آ رہا تھا۔

جے نے نہ سدھرنا تھا نہ سدھرا۔ بلکہ اس کے مطالبات بڑھتے چلے گئے۔ گھر کے اخراجات اور بل کے علاوہ جے کے نشے کے لئے بھی رقم مجھے ہی فراہم کرنا پڑتی تھی۔ جو ظاہر ہے میری تنخواہ سے پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے اپنے والدین سے مدد کے لئے کہا۔ شروع میں انہوں نے کچھ مدد کی بھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھے سمجھاتے بھی تھے کہ جے سے پیچھا چھڑا لوں۔ لیکن میرے دل سے جے کی محبت کم نہ ہو سکی۔ میں روشن سحر کی امید میں لمبی تاریک رات کا سفر کرتی رہی۔ نتیجے میں میرے والدین مجھ سے ناراض ہو گئے۔ انہوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔ ان پریشانیوں کی وجہ سے میں توجہ سے اپنا کام بھی نہیں کر پاتی تھی۔ اس تیز رفتار شہر میں سست چال چلنے والے شخص کو جلد ہی لوگ پاؤں تلے روند دیتے ہیں۔ میری کمپنی کو بھی بہتر شخص مل گیا۔ آج انہوں نے مجھے ملازمت سے الگ کر دیا۔

میں جب یہ خبر لے کر گھر پہنچی تو جے نے بجائے مجھ سے ہمدردی کرنے کے مجھے گھر سے نکال دیا۔ اسے نشے کے لئے رقم کی فوری ضرورت تھی جو اب میں اسے فراہم نہیں کر سکتی تھی۔ میں اس کی محبت میں سر تا پا غرق تھی اور اسے مجھ سے نہیں اپنے نشے سے پیار تھا، جو میری کمائی سے اسے حاصل ہوتا تھا۔ آج جب اسے نشہ نہیں ملا تو اس نے مجھ سے سارے بندھن توڑ دیئے۔ اب میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ والدین کو میں پہلے ہی ناراض کر چکی ہوں۔ میری جاب ختم ہو گئی ہے۔ میرے پاس کوئی گھر ہے نہ ٹھکانہ۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس پوری دنیا میں میں اکیلی ہوں۔ اس بھری دنیا میں میرا اپنا کوئی نہیں ہے۔ میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ اس دنیا کو میری کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘

روزی کی داستان ختم ہوئی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ اس معاشرے کی عبرت ناک کہانی ہے جسے آزاد، جمہوری، محفوظ اور مثالی کہا جاتا ہے۔ پروپیگنڈے کے زور پر مغربی تہذیب و تمدن کو بہترین طرزِ حیات کہا جاتا ہے۔ لیکن اندر جا کر دیکھیں تو وہاں انسان کتنا اکیلا، کتنا دکھی اور کتنا بے بس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہاں آزادی ہے۔ لیکن یہ آزادی کس کام کی جب آپ کے دکھوں کو بانٹنے والا کوئی نہ ہو۔

روزی نے میز پر رکھے سگریٹ کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر سلگائی۔ اس کی حسین آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی تھیں۔ لیکن اب وہ پہلے کی طرح بے قرار نظر نہیں آ رہی تھی۔ اب وہ قدرے بہتر نظر آ رہی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ اس کے اندر کا غبار نکل چکا تھا۔ اچانک وہ اٹھ کھڑی ہوئی ’’طارق! تمہارا بہت شکریہ! تم نے مجھے سہارا دیا۔ اب میں چلتی ہوں‘‘

میں نے پوچھا ’’تم کہاں جاؤ گی؟‘‘

کہنے لگی ’’یہ تو مجھے خود بھی معلوم نہیں‘‘

میں نے کہا ’’میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں؟‘‘

میرے ذہن میں تھا کہ جس طرح اس کے پاس سگریٹ اور ڈرنک کے پیسے تک نہیں ہیں۔ اس کی جیب خالی ہو گی۔ تھوڑی بہت رقم سے اسے کچھ نہ کچھ مدد مل سکتی تھی۔ لیکن روزی نے کچھ اور سمجھا اور بولی ’’میری تم سے آج ہی ملاقات ہوئی ہے۔ تم اچھے شخص دکھائی دیتے ہو۔ اگر آج کی رات مجھے اپنے کمرے میں پناہ دے دو تو کل میں کوئی بندوبست کر لوں گی‘‘

میرا اس جانب دھیان نہیں تھا۔ میں نے سنبھلتے ہوئے اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔ جب وہ بیٹھ گئی تو میں نے کہا ’’دیکھو روزی مجھے غلط نہ سمجھنا! میں حقیقتاً تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن تم جانتی ہو میں اکیلا ہوں۔ ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ ہمارا ایک کمرے میں رہنا مناسب نہیں ہے۔ لیکن اس مسئلے کا کوئی اور حل نکالا جا سکتا ہے‘‘

روزی نے پھر مجھے انہی عجیب نظروں سے دیکھا جیسے اس نے میرے شراب پینے سے انکار پر دیکھا تھا۔ کہنے لگی ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہمارا ایک کمرے میں رہنا درست نہیں ہے۔ خصوصاً اس صورت میں جب تم مجھے جانتے تک نہیں‘‘

میں نے کہا ’’روزی تم غلط سمجھ رہی ہو۔ کسی شخص کو جاننے کے لئے مجھے زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔ مجھے تم پر اور تمہاری کہانی پر مکمل یقین ہے۔ کمرے میں نہ ٹھہرانے کی وجہ یہ نہیں ہے۔ یہ ہم دونوں کے لئے مناسب نہیں ہے‘‘

روزی میری بات سمجھ کر بولی ’’مجھے معاف کر دینا۔ میں لندن میں بے شمار پاکستانیوں سے ملی ہوں۔ میں نے تمہارے کلچر کے بارے میں بہت کچھ سنا اور پڑھا بھی ہے۔ لیکن اس کی زندہ مثال آج پہلی دفعہ دیکھی ہے۔ یہاں عورت کو صرف ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جوان ہوتے ہی میں نے مردوں کی وہی ایک نظر دیکھی ہے۔ آج پہلی دفعہ کسی مرد کی آنکھوں میں عورت کا احترام نظر آیا۔ میں فوری طور پر تمہاری بات کو سمجھ نہ سکی۔ مجھے معاف کر دینا۔ میں کتنی بے وقوف ہوں‘‘

اس کے ساتھ ہی اس نے دوبارہ رونا شروع کر دیا۔ اس وقت رات کا ایک بج چکا تھا۔ میں تھکا ہوا تھا اور ہوٹل جا کر سونا چاہتا تھا لیکن روزی کو اس طرح فٹ پاتھ پر چھوڑ کر جانے پر میرا ضمیر مطمئن نہیں تھا۔ میں نے کہا ’’روزی رونے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ زندگی میں ایسے بے شمار اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ انہیں ہمت سے برداشت کرنا پڑتا ہے اور حوصلے اور سمجھداری سے ہر مسئلے کو سلجھانا پڑتا ہے۔ تمہارے سلسلے میں دو تین حل ہیں۔ پہلا حل تو یہ ہے کہ تم پولیس سے مدد حاصل کرو۔ ان کے توسط سے گورنمنٹ کے بے یار و مددگار لوگوں کی مدد کرنے والے ادارے میں وقتی پناہ حاصل کرو۔ دوسرا حل یہ ہے کہ میں کچھ رقم تمہیں دے سکتا ہوں۔ اس سے ایک دو دنوں کے لئے کہیں رہنے کا بندوبست کر لو۔ اس وقت تک کوئی نہ کئی راہ نکل ہی آئے گی۔ تیسرا اور سب سے مناسب حل یہ ہے کہ تم اپنے والدین سے رابطہ کرو۔ والدین آخر والدین ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو کبھی دُکھی اور بے بس نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے غصے میں تم سے قطع تعلق کر لیا ہو گا۔ لیکن اب اگر انہیں تمہاری اس مصیبت کا علم ہو گا تو مجھے پوری امید ہے کہ وہ ضرور تمہاری مدد کریں گے‘‘

’’لیکن انہوں نے صاف کہا ہوا ہے کہ وہ آئندہ میری کوئی مدد نہیں کریں گے‘‘ روزی بولی

میں نے کہا ’’انہوں نے یہ اس وقت کہا ہو گا جب تم جے کے سلسلے میں ان کی بات نہیں مان رہی تھیں۔ وہ تمہاری بہتری کے لئے ایسا کہہ رہے تھے۔ اب جبکہ جے سے تمہارا تعلق ختم ہو چکا ہے تو انہیں یقیناً اطمینان ہو گا اور وہ اپنا فیصلہ بدل کر ضرور تمہاری مدد کریں گے۔ اگر وہ غصہ بھی دکھائیں تو تم برداشت کر لو۔ آخر ان کا تمہارے اوپر حق بھی تو ہے۔ تم یہ سکہ پکڑو اور ابھی انہیں فون کرو‘‘

روزی نے مجھے اُمید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا وہ میری بات مان جائیں گے اور مجھے اپنے گھر میں آنے دیں گے؟‘‘

میں نے کہا ’’ضرور مانیں گے۔ والدین، والدین ہوتے ہیں۔ وہ دفاتر کے باس نہیں ہوتے کہ ایک دفعہ نوکری سے نکال دیں تو پھر دوبارہ نہیں رکھتے۔ خونی رشتے اور پیار کے بندھن بہت مضبوط ہوتے ہیں‘‘

روزی نے وہیں کونے میں موجود پبلک فون سے والدین کو فون کیا۔ انہیں ساری کہانی سنائی۔ شروع میں اس کے ڈیڈ نے اُسے برا بھلا کہا لیکن بعد میں نرم ہوتا چلا گیا۔ کافی دیر کی بات چیت کے بعد روزی کے باپ نے پوچھا ’’تم اس وقت کہاں ہو؟‘‘

روزی نے اس ہوٹل کا پتہ سمجھایا تو اس کے باپ نے کہا ’’وہیں ٹھہرو! میں اور تمہاری ماں تمہیں لینے کے لئے آ رہے ہیں‘‘

میں پاس کھڑا ساری گفتگو سن رہا تھا۔ فون بند کر کے روزی پلٹی اور اچانک میرے گلے لگ گئی ’’طارق تمہارا شکریہ! میرے والدین نے مجھے معاف کر دیا ہے اور وہ مجھے لینے آ رہے ہیں‘‘

میں نے اسے الگ کیا۔ ہم دوبارہ میز پر بیٹھ کر روزی کے والدین کا انتظار کرنے لگے۔ روزی کہنے لگی ’’میں اس ملک میں پیدا ہوئی ہوں۔ لیکن آج جب یہ مصیبت اچانک میرے سر پر پڑی تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جاؤں اور کس سے مدد طلب کروں۔ حالانکہ ان حالات میں سرکاری اور رفاہی ادارے جو کردار ادا کرتے ہیں، ان کا مجھے بھی علم تھا۔ لیکن میرا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ میں والدین سے اس لئے رابطہ نہیں کر رہی تھی کہ وہ مجھے ہر گز پناہ نہیں دیں گے۔ لیکن تم نے جس انداز میں مجھے حوصلہ دیا اور درست راستہ دکھایا اس سے لگتا ہے کہ تمہیں یہاں کے حالات اور اداروں سے بخوبی آگاہی ہے۔ خصوصاً جس یقین سے تم نے مجھے والدین سے رابطہ کرنے کے لئے کہا، رشتوں کے بارے میں وہ یقین اور اعتماد کم از کم میرے اندر نہیں ہے‘‘

میں نے کہا ’’آسٹریلیا میں بھی تقریباً یہی کلچر ہے اور تقریباً ایسے ہی ادارے ہیں۔ یہ میرے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جہاں تک والدین پر یقین اور اعتماد کی بات ہے، یہ جذبہ اور سوچ خالصتاً مشرقی ہے۔ ہمارے ہاں خونی رشتوں کی محبت، بزرگوں کا احترام، اولاد سے پیار، باہمی اعتماد اور یقین کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ یہ یقین اور یہ سوچ مرتے دم تک ہمارے ساتھ رہتی ہے‘‘

روزی نے کہا ’’کاش میں بھی کسی ایسے ہی معاشرے میں پیدا ہوتی، جہاں والدین سر پر چھتری کی طرح سایہ فگن رہتے ہیں۔ جہاں جے اور اس کے دوست نہیں ہوتے اور کوئی روزی ان کے رحم و کرم پر نہیں ہوتی اور جہاں مرد عورت کو ہڑپ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار خونخوار بھیڑیئے نہیں ہوتے۔ بلکہ خواتین کا احترام کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں‘‘

انہی باتوں میں روزی کے ماں اور باپ وہاں پہنچ گئے۔ اس کی ماں تو فوراً روزی سے لپٹ گئی۔ باپ ایک طرف کھڑا انتظار کرتا رہا۔ روزی ماں سے الگ ہو کر باپ کی طرف بڑھی تو اس نے بھی گلے لگا لیا۔ روزی پھر رونے لگی۔ اس کے باپ نے اس کے آنسو پونچھے اور چلنے کے لئے کہا۔ روزی ان سے الگ ہوئی اور مجھے لے جا کر اپنے والدین سے میرا تعارف کرایا۔ دونوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور میرا شکریہ ادا کیا۔ روزی نے مجھ سے پوچھا ’’پھر کب ملو گے؟‘‘

میں نے کہا ’’ایک مسافر سے مل کر کیا کرو گی؟‘‘

روزی میرا ہاتھ تھام کر بولی ’’کل میں تمھارے ہوٹل آؤں گی‘‘

مجھے خدا حافظ کہہ کر وہ تینوں گاڑی میں بیٹھے اور چلے گئے۔ میں بھی بھیگی اور خنک رات میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہوٹل کی طرف چل پڑا۔


لندن کے ٹرین اسٹیشن پر بم



اگلی صبح تیار ہو کر میں ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں پہنچا تو اس چھوٹے سے ہال میں دس بارہ لوگ ناشتے میں مصروف تھے۔ میں نے بھی اس ہوٹل کی خورد و نوش کی صرف ایک وقت کی سروس سے پورا پورا انصاف کیا۔ ناشتے کے بعد میں نے کاؤنٹر سٹاف سے دریافت کیا ’’کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لندن دیکھنا ہو تو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیئے‘‘

کاؤنٹر پر کھڑی خاتون کی جوانی کا جوبن ماضی کی دھُند میں دھندلا چکا تھا۔ لیکن اس نے اپنے لباس بلکہ بے لباسی سے اسے واپس لانے کی ناکام کوشش کی ہوئی تھی۔ لباس ایسا تھا کہ چھپا کم اور کھلا زیادہ تھا۔ میرے سوال کے جواب میں پہلے مسکرائی، پھر کھلکھلائی، پھر بولی ’’مجھے ساتھ لے چلو! پورا لندن دکھا دوں گی‘‘

میں نے اسے جو جواب دیا اس کا فارسی میں ترجمہ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد، اُردو میں سر آنکھوں پر اور پنجابی میں ست بسم اللہ تھا لیکن میں دل میں سوچ رہا تھا کہ تمہارے ساتھ رہ کر تو صرف آثارِ قدیمہ ہی دیکھ سکتا ہوں۔ جبکہ میں قدیم کو دور سے اور جدید کو نزدیک سے دیکھنے کا قائل ہوں۔ بہرحال اس خاتون نے مختلف طریقے بتائے جن سے لندن کی کوچہ نوردی کی جا سکتی تھی۔ اس میں سب سے مناسب طریقہ ٹور بس تھی۔ لندن میں ٹور بس کی چار کمپنیاں ہیں۔ ہر کمپنی کی درجنوں ٹور بسیں ہیں۔ ان میں سے کسی کمپنی کا دن بھر کا ٹکٹ خرید لیں۔ جہاں دل چاہے اُتر جائیں۔ جو دیکھنا ہو دیکھیں۔ واپس اسی سٹاپ پر جائیں۔ اس کمپنی کی اگلی بس میں سوار ہو جائیں اور آگے روانہ ہو جائیں۔ یہ بسیں اس مخصوص روٹ پر سارا دن محوِ گردش رہتی ہیں۔ ان ڈبل ڈیکر (دو منزلہ) بسوں کی چھت یعنی دوسری منزل پر بھی سیٹیں ہیں۔ ٹور گائیڈ رننگ کمنٹری کرتا رہتا ہے۔ (آج کل سڈنی میں بھی سیاحوں کے لئے ایسی بسیں چلنا شروع ہو گئی ہیں) آپ اس بس کے عملے سے مشہور مقامات میں داخلے کے لئے ٹکٹ بھی خرید سکتے ہیں۔ بس کے پندرہ پونڈ کے اس ٹکٹ میں دریائے ٹیمز کی پینتالیس منٹ کی کشتی کی سیر بھی شامل ہے۔

میں نے یہ آئیڈیا پسند کیا۔ ہوٹل سے تھوڑے ہی فاصلے پر بڑی سڑک تھی۔ وہاں جا کر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ان بس کمپنیوں میں سے ایک کمپنی بگ بس (Big Bus) کی بس آتی دکھائی دی۔ میرے اشارے پر بس رک گئی۔ میں نے پندرہ پونڈ کا ٹکٹ لیا اور بس میں سوار ہو گیا۔

اس دن موسم صاف تھا۔ سنہری دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ میں بس کی دوسری منزل پر جا کر بیٹھ گیا۔ آدھی سے زیادہ سیٹیں خالی تھیں۔ بس لندن کے مرکزی حصے کی طرف رواں تھی۔ West Minister Abbey کے پاس جا کر میں بس سے اتر گیا۔ سامنے ہی ویسٹ منسٹر ایبے کی شاندار بلڈنگ ایستادہ تھی۔ یہ عمارت لندن کی مشہور اور تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ چرچ گیارھویں صدی میں بنا تھا۔ تیرھویں صدی اور پھر سولہویں صدی میں موجودہ عمارت وجود میں آئی۔ 1066ء سے تاج برطانیہ کی رسمِ تاج پوشی اس عمارت میں ہو رہی ہے۔ یہ چرچ معمول کی عبادت کے علاوہ شاہی خاندان اور دوسری اہم شخصیات کا قبرستان بھی ہے۔ شاہی خاندان کی شادیاں بھی اسی چرچ میں انجام پاتی ہیں۔ موجودہ ملکہ الزبتھ نے آج سے چون سال پہلے دو جون 1953 ء میں اسی عمارت میں تاج پہنا تھا۔ (اس دن کی یاد میں 2 جون 2003 اس عمارت میں ایک شاندار تقریب بھی منعقد ہوئی تھی)

لیڈی ڈیانا اور پرنس چارلس کی شادی کی گواہ بھی یہی عمارت ہے۔ اور اسی عمارت کے سائے تلے لیڈی ڈیانا کی آخری رسومات بھی انجام پائیں۔ گویا اس عمارت کی دیواریں تاجِ برطانیہ کے عروج و زوال اور خوشیوں اور غموں کی گواہ ہیں۔ عمارت کے آگے سیاحوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ کیمروں کے فلیش چمک رہے تھے۔ لوگ مختلف پوز بنا بنا کر عمارت کے پس منظر میں اپنے اپنے فوٹو بنوا رہے تھے۔ میں نے بھی ایک خاتون کو اپنا کیمرہ تھمایا۔ اس نے بخوشی میری فوٹو اتار دی۔

اس پورے سفر میں میرا یہی طریقہ رہا۔ جہاں کہیں فوٹو بنانا مقصود ہوتا تھا کسی کے ہاتھ میں کیمرہ تھما دیتا اور فوٹو بنوا لیتا۔ وہ الگ بات ہے کہ کئی لوگوں نے میرا سر اُڑا دیا اور کسی نے صرف آدھا چہرہ دکھایا۔ (شاید انہیں میری شکل پسند نہیں آئی تھی) لیکن ایسا بار بار نہیں ہوا۔ زیادہ تر فوٹو بہت اچھے آئے۔ باہر سے یہ عمارت جتنی شاندار ہے اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔ میں تھوڑی دیر تک اس کے مختلف حصوں میں گھوم کر باہر نکل آیا۔

ویسٹ منسٹر ایبے کے سامنے ہی برطانوی پارلیمنٹ کی تاریخی عمارت ہے۔ سامنے سے اس کا نظارہ کر کے، بگ بن اور سرونسٹن چرچل کے مجسمے پر نظر ڈالتے ہوئے میں پارلیمنٹ روڈ کی طرف چل پڑا۔ اس روڈ پر برطانیہ کی تمام اہم وزارتوں کے دفاتر ہیں۔ آرمی ہیڈ کوارٹر بھی یہیں واقع ہے۔ ڈاؤننگ سٹریٹ بھی پارلیمنٹ سٹریٹ سے نکلتی ہے۔ میں گھومتا گھماتا ڈاؤننگ سنٹر کے سامنے پہنچ گیا۔ یہ برطانوی وزیر اعظم کا آفس ہے۔ میرے سامنے ہی وزیر اعظم ٹونی بلیئر عمارت سے نکل کر اپنی کار میں بیٹھا اور مختصر سے سکواڈ کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ 10 ڈاؤننگ سنٹر بھی عام سرکاری عمارتوں میں سے ایک نظر آ رہی تھی۔ نہ پولیس کا جمگھٹا اور نہ سیکورٹی گارڈز کی بہتات۔

اس دن موسم آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ صبح دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ بعد میں اچانک ہی بادل چھا گئے اور بوندا باندی شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد پھر دھوپ نکل آئی۔ میں اس وقت تک کافی پیدل چل چکا تھا اور تھک گیا تھا۔ ایک فش اینڈ چپس شاپ سے میں نے کھانا لیا اور وہیں ڈاؤننگ سنٹر کے سامنے ایک پارک میں بیٹھ کر کھایا۔ کھانے کے بعد گرما گرم کافی نے جسم میں حرارت سی دوڑا دی۔ میں واپس اسی روڈ پر آیا جہاں بس سے اترا تھا۔ تھوڑے سے انتظار کے بعد بِگ بس کمپنی کی بس آ گئی۔ ویسٹ منسٹر برج کے پاس میں پھر بس سے اتر گیا۔

دریائے ٹیمز پر واقع اس پل کے پاس ہی سائیکل کے پہیے کی شکل کی ایک دیو قامت رائڈ (ride) ہے۔ یہ پہیہ ایک بلند مینار پر بنایا گیا ہے۔ پہیہ اتنا بڑا ہے کہ اس میں 30 کیبن بنے ہیں۔ ہر کیبن میں پندرہ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ جب لوگ اس میں بیٹھ جاتے ہیں تو یہ پہیہ گھومنا شروع ہو جاتا ہے۔ انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے حد نظر تک لندن کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ پہیہ سست رفتاری سے گھومتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ تیس منٹ میں ایک چکر مکمل ہوتا ہے۔ اس پہیے کو Millennium London Eye کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اس ہزاروی کے شروع یعنی 2000ء میں بنا تھا۔ میں اُسی سال وہاں گیا تھا۔ نیا ہونے کی وجہ سے ان دنوں اس دیو قامت پہیے پر سوار ہونے والوں کا بہت رش تھا۔

لندن ویسے بھی سیاحوں کا شہر ہے۔ دنیا کے کسی اور شہر میں اتنے سیاح نہیں جاتے ہوں گے جتنے ہر سال لندن جاتے ہیں۔ لندن کو یورپ کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر کے سیاح جب یورپ کی سیر کے لئے نکلتے ہیں تو زیادہ تر اس کا آغاز لندن سے ہی کرتے ہیں۔ اس لئے لندن میں سیاحت سے متعلق ادارے خوب پیسہ کماتے ہیں۔ مثلاً ہوٹل۔ ریسٹورنٹ، ٹور بسیں، ٹیکسیاں اور ٹور گائیڈ ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی میلینئم آئی کی! اس دیو قامت پہیے پر سوار ہونے کے لئے نہ صرف غیر ملکی سیاح ٹکٹ لینے کے لئے قطار میں کھڑے تھے بلکہ مقامی انگریز بھی بڑی تعداد میں اس حیرت انگیز تجربے سیمحفوظ ہونے کے لئے وہاں آئے ہوئے تھے۔ میں بھی ٹکٹ لینے کے لئے قطار میں کھڑا ہو گیا۔ قطار شیطان کی آنت کی طرح طویل تھی۔ قطار میں کھڑے تقریباً بیس منٹ ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ مزید اتنا وقت انتظار کرنا پڑے گا۔ اچانک بارش شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر پہلے تک موسم بالکل صاف تھا۔ اسی وجہ سے صبح ہوٹل سے نکلتے وقت میں نے چھتری ساتھ نہیں لی تھی۔ تھوڑی دیر تک تو بارش کے باوجود قطار میں جما کھڑا رہا۔ جب باقاعدہ بھیگنا شروع ہوا تو کسمسایا۔ جب پانی کیمرے اور دیگر چیزوں کو بھگونے لگا تو میں قطار سے نکل آیا۔ سامنے ہی ایک شاپ تھی۔ وہاں چھتری لینے کے لئے پھر قطار بنانا پڑی۔ ان کی چھتریاں گرم پکوڑوں کی طرح بک رہی تھیں۔ چھتری لے کر باہر نکلا تو بارش رک چکی تھی۔ دو منٹ بعد باقاعدہ دھوپ نکل آئی۔ چھتری کھولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔

دوبارہ قطار میں کھڑا ہوا۔ تقریباً چالیس منٹ کے بعد میں اس دیو قامت رائڈ پر سوار ہو رہا تھا۔ جب یہ پہیہ گھومنا شروع ہوا تو ہم آہستہ آہستہ بلند سے بلند ہوتے چلے گئے۔ جتنا بلند ہوتے جاتے اتنا ہی آنکھوں کے لئے نظارہ بڑھتا جاتا۔ حتیٰ کہ جب ہمارا کیبن چوٹی پر پہنچا تو ایسا لگتا تھا کہ ہم آسمان کو چھو رہے ہیں۔ جہاں تک نظر جاتی تھی لندن اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ آنکھوں اور پھر دماغ کے کینوس پر منتقل ہو رہا تھا۔ دریائے ٹیمز سانپ کی طرح بل کھاتا لندن کے بیچوں بیچ اپنا راستہ بناتا رواں دواں نظر آ رہا تھا۔ وہاں سے بکنگھم پیلس، ویسٹ منسٹر ابے، لنڈن برج، ٹاور آف لندن، پارلیمنٹ ہاؤس، ریجنٹ پارک صاف نظر آ رہے تھے۔ یہ نظارہ اتنا دلکش تھا کہ آنکھیں جھپکنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ میں نے وہاں سے کئی فوٹو اتارے۔ لیکن یہ فوٹو آنکھوں کے نظارے کے آگے ہیچ ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد جب ہم نیچے اترے تو ایسے لگا جیسے کوئی خواب دیکھا تھا۔ دلکش اور دلنشین خواب۔

میں دوبارہ روڈ پر آ کر بس کا انتظار کرنے لگا۔ اس بار بس نے بہت دیر لگائی۔ تقریباً پون گھنٹہ انتظار کے بعد اس کی شکل دکھائی دی۔ میں نے جب تاخیر کا گلہ کیا تو انہوں نے معافی مانگی اور بتایا کہ آئی آر اے کی طرف سے ایک ٹرین اسٹیشن پر بم رکھے جانے کی اطلاع ملی ہے۔ اس کی وجہ سے ٹرینیں رک گئی ہیں۔ ٹرینیں رکنے کی وجہ سے سڑکیں بہت زیادہ مصروف ہو گئی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم تاخیر کا شکار ہوئے۔

واقعی اگلے چند کلو میٹر ہم نے چیونٹی کی رفتار سے طے کئے۔ بس کمپنی نے مسافروں سے معذرت کی کہ ٹریفک کے اس مسئلے کی وجہ سے وہ طے شدہ روٹ پر ہمیں بر وقت نہیں پہنچا سکتے۔ لہذا اِسی ٹکٹ میں ہم ان کی بسوں میں کل پانچ گھنٹے مزید سفر کر سکتے ہیں۔ اس دوران ہم لندن برج سے ہوتے ہوئے بش ہاؤس کے سامنے سے گزرے۔ بُش ہاؤس بی بی سی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ سالہا سال سے اس عمارت سے وہ خبریں اور تبصرے پڑھے جا رہے ہیں جو تقریباً دنیا کے ہر گوشے میں سنے جاتے ہیں۔ خبر جن کے حق میں ہوتی ہے وہ اسے سچ اور جن کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ میں بھی بچپن سے ریڈیو پر بُش ہاؤس کا ذکر سنتا آ رہا تھا۔ آج اس سالخوردہ عمارت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ایسے لگا کہ ایک دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ اگر وقت ملا تو یہ سٹوڈیوز اندر سے دیکھنے بھی جاؤں گا۔

ہمارا گائیڈ مختلف سڑکوں اور مختلف عمارتوں کے بارے میں بتاتا جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ لطیفے بھی سنا رہا تھا۔ لیکن میں ان ہزاروں سال پرانی عمارتوں کی تاریخی حیثیت اور ان عمارتوں کے مکینوں کے کے اس کردار پر غور کر رہا تھا جس کے اثرات آدھی دنیا پر پڑے۔ ان میں زیادہ تر عمارتیں اس وقت بنی تھیں جب انگریز تقریباً آدھی دنیا پر حکومت کر رہے تھے۔ گویا اس آدھی دنیا کی بیشتر آمدنی یہاں صرف ہو رہی تھی۔ اب جبکہ برطانیہ سمٹ کر ایک چھوٹا سا ملک رہ گیا ہے وہ دولت اب بھی ان کے کام آ رہی ہے۔ ان عمارتوں، سڑکوں، ریل، عجائب گھروں، پُلوں اور بندرگاہوں کی شکل میں۔

واٹر لو سٹیشن کے پاس سے دریائے ٹیمز کی کشتی کی سیر شروع ہوئی۔ پینتالیس منٹ کے اس cruise میں کشتی اس بل کھاتے دریا میں لندن کے بیچوں بیچ رواں دواں ہو گئی۔ ہر مسافر کے پاس ایک ہیڈ فون تھا۔ جس میں مختلف زبانوں کا انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ آپ اپنی پسند کی زبان کو منتخب کریں اور رننگ کمنٹری سنتے رہیں۔ لیکن ان میں اُردو شامل نہیں تھی۔ معلوم نہیں اس کی کیا وجہ تھی۔ شاید پاکستانی سیاح زیادہ تعداد میں وہاں نہیں جاتے یا پھر پاکستانی دوسرے بہت سے ممالک کے سیاحوں کی نسبت بہتر انگریزی بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے اُردو کو شامل کرنے کی انہیں ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کمنٹری میں دریا کے دونوں طرف مشہور و معروف مقامات کے بارے میں بتایا جا رہا تھا۔ دریا کی اس سیر کا بہت لطف آیا۔ ویسے بھی صبح سے پیدل چل چل کر میں تھک چکا تھا۔ کشتی میں بیٹھ کر آنکھوں کو نظارہ اور کانوں کو معلومات کا خزانہ مل رہا تھا۔ پون گھنٹہ گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا اور ہم واپس وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔

کشتی سے اتر کر میں تھوڑی دیر تک ملحقہ بازار میں گھومتا رہا۔ پھر واپس بس سٹاپ پر آیا۔ کافی دیر تک بس کا انتظار کیا لیکن بس کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔ وہیں ایک نوٹس بورڈ پر اس بس کمپنی کا ٹائم ٹیبل چسپاں نظر آیا۔ میں نے اس پر نظر دوڑائی تو علم ہوا کہ آخری بس سوا چھ بجے تھی۔ جبکہ اس وقت پونے سات بجے تھے۔ گویا بس کمپنی کی آج کی سروس ختم ہو چکی تھی۔

میں واٹر لو (Waterloo) ٹرین سٹیشن چلا گیا۔ اوپر سے یہ ایک چھوٹا سا سٹیشن لگا۔ لیکن جب اس زمین دوز سٹیشن میں نیچے جا کر لفٹ سے باہر نکلا تو محسوس ہوا کہ نیچے تو ایک دنیا آباد ہے۔ کئی پلیٹ فارم، ٹکٹ گھر، دکانیں، اور بے شمار لوگ ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ میں لندن میں پہلی دفعہ ٹیوب استعمال کر رہا تھا۔ کاؤنٹر سے ٹکٹ کے ساتھ مزید معلومات اور معلوماتی برو شر حاصل کئے۔ یہ چھوٹا سا چارٹ لندن ٹیوب استعمال کرنے والوں کے لئے اپنے اندر پوری معلومات رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے بغیر کسی رہنمائی کے مطلوبہ ٹرین، اس کا روٹ اور پلیٹ فارم آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ چند منٹوں بعد ہی میں اپنی مطلوبہ ٹرین میں تھا اور پندرہ منٹ کے بعد بیز واٹر (Bays water) سٹیشن پر اُتر رہا تھا۔ ٹرین کا یہ سفر اتنا آسان اور تیز رفتار تھا کہ اگلے چند دن لندن میں رہتے ہوئے میں نے ٹیوب ہی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ بگ بس کا آدھے دن کا ٹکٹ بھی میں نے انہیں بخش دیا، آج کی خدمت کی ٹپ کے طور پر۔


انگریز اور کڑاہی گوشت



ہوٹل پہنچ کر میں نے تھوڑی دیر آرام کیا۔ اس کے بعد اٹھ کر گرم پانی سے شاور کیا تو دن بھر کی تھکن دور ہو گئی۔ کھانے کی تلاش میں کمرِ ہمت باندھ کر ایک بار پھر ہوٹل سے نکل پڑا۔ اسی لبنانی ریسٹورنٹ کی طرف چلا جا رہا تھا کہ دو پاکستانی حضرات اُردو میں باتیں کرتے ہوئے میرے پاس سے گزرے۔ میں نے انہیں روک کر کسی پاکستانی ریسٹورنٹ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے جو پتا سمجھایا اس کے مطابق وہ ریسٹورنٹ زیادہ دور نہیں تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں ’’کراچی ریسٹورنٹ‘‘ میں داخل ہو رہا تھا۔ کافی بڑا اور خوبصورتی سے آراستہ ریسٹورنٹ تھا۔ زیادہ تر میزیں بھری ہوئی تھیں۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہاں پاکستانیوں سے زیادہ انگریز تھے۔ اس وقت میں انگشتِ بدنداں رہ گیا جب میں نے ان انگریزوں کو کڑاہی گوشت، بریانی، پائے، نہاری اور دیگر چٹ پٹے کھانے اس طرح کھاتے دیکھا جیسے ہمارے لاہوری بٹ یا کراچی کے حضرات کھاتے ہیں۔ اس سے پہلے گوروں کو اس رغبت سے پاکستانی کھانے کھاتے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مزید حیرانی کی بات یہ تھی کہ ان میں سے زیادہ تر چھری کانٹے کے تکلف کے بغیر ہاتھوں سے کھا رہے تھے۔ جب میں نے اپنا کھانا چکھا تو محسوس ہوا کہ اس میں مرچیں اور مسالے بھرپور بلکہ کراچی کے ریستورانوں کی طرح کچھ زیادہ ہی تھے۔ لیکن وہ گورے جس طرح ذوق و شوق سے کھا رہے تھے، اس سے لگتا تھا کہ وہ مدتوں سے ایسے کھانوں کے عادی ہیں۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ جس طرح آسٹریلین تھائی اور ترکش کھانوں کو پسند کرتے ہیں اسی طرح انگریز پاکستانی کھانوں کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ گویا چٹپٹے پاکستانی کھانوں نے گوروں کو فتح کر لیا تھا۔ ہو سکتا ہے لسی اور ساگ کا ڈنر کر کے مصطفی قریشی کی طرح ڈراؤنے ڈکار بھی لیتے ہوں۔ پاکستانی کھانوں کی اس مقبولیت کی وجہ سے برطانیہ کے ہر علاقے میں پاکستانی ریستورانوں کا ایک جال سا بچھا ہوا ہے۔

کھانے کے بعد باہر نکلا تو رات کی سیاہی روشنی کو نگل چکی تھی۔ ہوا میں قدرے خنکی ہونے کے باوجود موسم خوشگوار تھا۔ آدھ گھنٹے کی چہل قدمی کے بعد میرے قدم ہوٹل کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے۔ ایک فون بوتھ کے پاس کھڑی انگریز عورت جس کے ہاتھوں میں سلگتا سگریٹ تھا، اچانک ہی میرے بالکل سامنے آ گئی۔ اس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ ہو گی۔ اپنے حلئے اور چال ڈھال سے وہ ایک پیشہ ور خرانٹ عورت معلوم ہوتی تھی۔ سگریٹ کا دھُواں میری طرف اچھالتے ہوئے بولی ’’ڈارلنگ کیا تم میرے ساتھ کچھ خوشگوار وقت گزارنا پسند کرو گے؟‘‘

خباثت اور کراہت اس کے میک اپ زدہ چہرے سے برس رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ مصنوعی اور انداز میں انتہائی سستا پن تھا۔ اس کے لباس کا اوپری حصہ اتنا کھلا تھا کہ کچھ چھپا نہ تھا۔ بات کرتے ہوئے وہ مزید آگے جھکی تاکہ اگر کچھ نظارہ باقی ہو تو وہ بھی دکھا سکے۔ میں نے اپنی ناپسندیدگی چھپاتے ہوئے کہا ’’اس کے لئے مجھے کتنی قیمت ادا کرنا ہو گی؟‘‘

وہ اپنی پوری کاروباری صلاحیت استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ کر تقریباً میرے ساتھ لگ کر بولی ’’کچھ زیادہ نہیں! بس تیس پونڈ فی گھنٹہ! اگر تم اپنے ساتھ لے کر جاؤ تو ریٹ اور کم ہو جائے گا؟‘‘

میں نے پیچھے ہٹ کر اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ بڑھایا اور کہا ’’شکریہ! مجھے یہ سودا منظور نہیں‘‘

میں چلنے لگا تو وہ پھر میرے ساتھ آ لگی ’’اگر تم نے مجھے پسند نہیں کیا تو میرے ساتھ چلو۔ وہاں اور لیڈیز بھی ہیں۔ جس میں یورپین، ایشین اور امریکن ہر قسم کی لیڈیز شامل ہیں‘‘

میں نے چلتے ہوئے کہا ’’تم غلط دروازہ کھٹکھٹا رہی ہو۔ اپنے یہ ہتھیار سنبھال کر رکھو اور کسی اور پر آزمانا! شب بخیر‘‘

اس نے غصے سے پاؤں پٹخا اور پھر جا کر اسی فون بوتھ کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ میں چلتے ہوئے اس کے استعمال کردہ لفظ ’’لیڈیز‘‘ پر غور کر رہا تھا۔ میں نے جب بچپن میں انگریزی سیکھنی شروع کی تو استاد نے لفظ لیڈی کا مطلب ’’شریف عورت‘‘ بتایا تھا۔ لیکن پہلے آسٹریلیا اور اب انگریزوں کے ملک میں آ کر کتابی انگریزی غلط ثابت ہو رہی تھی یا پھر یہاں ایسی عورتوں کو شریف عورتیں ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ شرافت کا جو پیمانہ مشرق نے مقرر کر رکھا ہے مغرب اس میں کہیں فٹ نہیں بیٹھتا۔ جس طرح آزادی کا جو پیمانہ مغرب نے مقرر کر رکھا ہے مشرق کبھی بھی اس سطح پر جانا پسند نہیں کرے گا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب۔ ایک میں دن ہوتا ہے تو دوسرے میں رات اور رات اور دن کبھی اکھٹے نہیں ہو سکتے۔

میں ہوٹل پہنچا تو دو پیغام میرے منتظر تھے۔ استقبالیہ کلرک نے ایک چٹ میری طرف بڑھائی۔ اس پر روزی کا نام اور فون نمبر لکھا تھا۔ کلرک نے معذرت کرتے ہوئے بتایا ’’اس خاتون کا صبح سے تین مرتبہ فون آ چکا ہے۔ ایک دفعہ صبح جب آپ ہوٹل سے نکل چکے تھے اور دو مرتبہ شام کو جب آپ کھانے کے لئے نکلے ہوئے تھے‘‘

دوسرا نام پڑھ کر میں چونکا۔ اس پر علی کا نام اور فون نمبر تھا۔ جی ہاں، وہی علی جو میرے بچپن کا دوست تھا اور جس نے خلافِ توقع رکھائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ کلرک نے بتایا کہ یہ صاحب فوراً مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کمرے میں جا کر علی کا نمبر ملایا تو اس نے فوراً ہی فون اٹھا لیا۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ فون سے لگا بیٹھا ہے۔ علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا ’’سناؤ کیسے میری یاد آ گئی اور میرا فون نمبر تمھیں کہاں سے ملا؟‘‘

علی نے کہا ’’تمہارا شکوہ بجا ہے۔ لیکن فون پر بات کرنے کی بجائے میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ یہ بتاؤ ابھی آ جاؤں تو کیسا رہے گا؟ یا تم سونا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’میں نے کون سا صبح سویرے آفس جانا ہے۔ آنا چاہتے ہو تو آ جاؤ‘‘

اس نے کہا ’’میں آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں‘‘

اور پھر فون بند کر دیا۔

اس کے بعد میں نے روزی کا نمبر ملایا۔ اس نے بھی فوراً فون اٹھایا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو کہنے لگی ’’میں نے تمہاری آواز پہچان لی ہے۔ میں نے آج تین مرتبہ تمہارے ہوٹل فون کیا، لیکن تم سے بات نہ ہو سکی‘‘

میں نے کہا ’’ہاں مجھے پتا چلا ہے۔ تم بتاؤ خیریت سے ہو اور کہاں ہو؟‘‘

روزی بولی ’’میں بالکل خیریت سے ہوں اور اپنے والدین کے ہاں ہوں۔ رات کو تمہارا فون نمبر نہ لے سکی۔ شکر ہے تمھارے ہوٹل کا نام یاد رہ گیا۔ صبح اٹھ کر ڈائریکٹری ہیلپ والوں سے فون نمبر لیا۔ لیکن جس وقت میں نے فون کیا تم ہوٹل سے روانہ ہو چکے تھے۔ یہ بتاؤ میں تم سے کب مل سکتی ہوں؟‘‘

’’میں دو دن مزید لندن میں ہوں۔ اس کے بعد اگلے سفر پر نکل پڑوں گا۔ اس سے پہلے جب دل چاہے مل سکتی ہو۔ میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر ہاتھ نہ آ سکوں‘‘

روزی نے کہا ’’اگر ابھی آ جاؤں تو؟‘‘

’’ابھی اس وقت تو بہت رات ہو چکی ہے۔ کل صبح یا شام کو مل لو۔ کیونکہ کل دن میں لندن کے کچھ اور قابل دید مقامات دیکھنا چاہتا ہوں‘‘

روزی نے کہا ’’اگر تم برا نہ مانو تو میں صبح آ جاتی ہوں۔ میں تمہیں لندن کی سیر کرواؤں گی۔ ویسے بھی میں فارغ ہوں‘‘

میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر حامی بھر لی۔ روزی نے صبح آٹھ بجے پہنچنے کا وعدہ کیا اور میں نے فون بند کر دیا۔ میں نے روزی کی پیشکش اس لئے قبول کر لی کہ مقامی گائیڈ کی مدد سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لندن دیکھ سکتا تھا۔ گائیڈ بھی فری اور اوپر سے حسین، ایسے میں کون کافر انکار کر سکتا ہے۔

اتنی دیر میں کوئی میرا دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ علی تھا۔ دونوں دوست جذباتی انداز میں ملے۔ اس کے بعد گلوں، باتوں اور یادوں کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا۔ علی نے اپنے سابقہ رویے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ اس نے بتایا ’’میں انتہائی مجبور ہوں۔ میں جس شوق اور ولولے سے برطانیہ آیا تھا وہ سرد پڑ چکا ہے۔ میرے شوق پر اوس سسرال اور خصوصاً میری بیوی کی وجہ سے پڑی ہے۔ میری بیوی انتہائی خود سر اور بد دماغ ہے۔ وہ اپنے آپ کو آسمانی مخلوق اور مجھے ایک حقیر کیڑا سمجھتی ہے۔ اس نے روزِ اول سے مجھے شوہر کا وہ مقام اور مرتبہ نہیں دیا جو ہمارے معاشرے کی خواتین دیتی ہیں۔ اس نے یہ شادی والدین کے مجبور کرنے پر کر تو لی ہے لیکن ہمارے درمیان ذہنی ہم آہنگی کا مکمل فقدان ہے۔ ہماری سوچوں میں وہی دُوری ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔ میری بیوی کی پرورش خالصتاً مغربی انداز میں ہوئی ہے۔ اس میں مسلمانیت یا پاکستانیت برائے نام ہے۔ بلکہ وہ پاکستان کے نام سے الرجک ہے۔ دوسری طرف میرا چچا اور چچی بھی اپنے وعدوں کے برعکس آنکھیں بدل چکے ہیں۔ اس گھر میں میری حیثیت ایک نوکر سے زیادہ نہیں۔ یہ سب کچھ میں اس لئے برداشت کر رہا ہوں کہ مجھے اپنے گھر اور والدین کے حالات کا بھی بخوبی علم ہے۔ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے میرے اوپر جو ذمہ داریاں ہیں، میں اس سے بھی آگاہ ہوں۔ مجھ سے چھوٹی تین بہنیں ہیں جو یکے بعد دیگر شادی کے قابل ہو رہی ہیں۔ میری بیوی نے مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی تو مجھے ہمیشہ کے لئے برطانیہ چھوڑنا پڑے گا جو میرے اور میرے والدین کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔ انہی باتوں کی وجہ سے ان نامساعد حالات میں بھی میں اس گھر میں پڑا ہوں۔ حالانکہ میں شروع دن سے کما بھی رہا ہوں۔ جو کچھ کماتا ہوں وہ چچا کے گھر ہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ بڑی مشکل سے اپنا جیب خرچ اور تھوڑی سی رقم بچاتا ہوں جو ہر ماہ پاکستان بھیجتا ہوں۔ لندن میں رہتے ہوئے میں نے نہ تو یہ شہر دیکھا ہے اور نہ ہی گھومنے پھرنے کے لئے میرے پاس وقت اور سرمایہ ہے‘‘

علی کی دُکھ بھری داستان ختم ہوئی تو میری آنکھیں آبدیدہ ہو چکی تھیں۔ وہ گلو گیر لہجے میں اپنی مجبوری اور اپنے رویئے پر شرمندگی کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے اٹھ کر اسے گلے لگا لیا اور کہا ’’علی میں تمہارے رویئے سے غلط فہمی کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ تم یہ بتاؤ کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا۔ کیا ساری زندگی اِسی آگ میں جلتے رہو گے یا بہتری کی کوئی امید ہے؟‘‘

علی نے مایوسی سے بتایا ’’برطانوی قانون کے مطابق چار سال تک میں مکمل طور پر اپنی بیوی کے رحم و کرم پر ہوں۔ وہ کسی وقت بھی مجھے برطانیہ بدر کروا سکتی ہے۔ اگر چار سال کی یہ قیدِ مشقت کاٹ لی تواس کے بعد مجھے یہاں کی بلا مشروط شہریت مل جائے گی۔ اس کے بعد بھی اگر میری بیوی اور سسرال کا رویہ یہی رہا تو میں ان سے جان چھڑوا سکتا ہوں۔ لیکن یار کبھی کبھی مجھے اپنے چچا اور چچی پر بھی بہت ترس آتا ہے۔ خدا جانے انہوں نے کتنی منتیں کر کے میری بیوی کو اس شادی کے لئے منایا ہے۔ ان کا صرف یہ قصور ہے کہ انہوں نے بیٹی کی تربیت مکمل مغربی انداز میں کی ہے۔ اب وہ بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ بہرحال میری کوشش آخر وقت تک نباہ کی ہو گی‘‘

علی سے باتیں کرتے کرتے تین بج گئے۔ اس دوران ہم نے دو دفعہ چائے پی۔ میں نے علی سے کہا کہ وہ وہیں لیٹ جائے۔ اس نے کہا ’’توبہ کرو! پچھلے دو سال میں پہلی دفعہ اتنی رات تک گھر سے باہر رہا ہوں۔ حالانکہ چچا، چچی اور میری بیوی کو تمہارے بارے میں علم ہے۔ لیکن پوری رات باہر گزارنے کا میں پھر بھی رسک نہیں لے سکتا۔ اس لئے اب چلتا ہوں‘‘

میں نے پوچھا ’’پھر کب ملو گے؟‘‘

علی نے کہا ’’اوہ! میں تو بھول ہی گیا تھا۔ صبح تو میں کام پر جاؤں گا۔ کل شام کو میں یہیں آ جاؤں گا۔ پھر اکٹھے کسی ریسٹورنٹ میں جا کر ڈنر کریں گے۔ یار برا نہیں منانا! میں تمہیں گھر نہیں لے کر جا سکتا۔ اسی وجہ سے بیوی کے ساتھ میری لڑائی بھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں تمہیں یارک شائر فون نہیں کر سکا۔ ہاں تمہارا فون نمبر میں نے یارک شائر والے تمہارے دوست آصف سے لیا تھا‘‘

میں نے کہا ’’کوئی بات نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ تمہارے ساتھ ملاقات تو ہوئی۔ کل شام آٹھ بجے میں تمہارا انتظار کروں گا‘‘

اس کے بعد علی وہاں سے رخصت ہو گیا اور میں لمبی تان کر سو گیا۔


بُری بات! اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے!



ابھی میں ناشتے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ روزی آن پہنچی۔ اس دن وہ کافی نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ جینز اور ٹی شرٹ میں اس کے سڈول جسم کے پیچ و خم نظروں میں کھب رہے تھے۔ آج اس کی آنکھوں میں ستارے سے چمک رہے تھے۔ ہلکے سے میک اپ نے اس کے حسین چہرے کو مزید تاباں کر دیا تھا۔ میں ابھی ناشتے کی میز پر ہی تھا۔ اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ روزی آئی تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، سیدھی آ کر میرے گلے لگ گئی۔ میں اِس اُفتاد سے گھبرا سا گیا۔ اسے نرمی سے الگ کیا اور سامنے والی کرسی پر بٹھایا۔ اس چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں اس وقت ہوٹل کے زیادہ تر مہمان موجود تھے۔ وہ ہماری جانب دُزدیدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر سے میری علیک سلیک ہو چکی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ میں آسٹریلیا سے آیا ہوں اور اکیلا ہوں۔ اچانک ایک نوجوان اور حسین لڑکی کی آمد اور اس کا یہ انداز انہیں چونکا گیا۔ پھر یورپ کے مروجہ انداز میں انہوں نے کندھے جھٹکے اور اپنے ناشتے میں مصروف ہو گئے۔ میرے پوچھنے پر روزی نے بتایا کہ وہ ناشتے سے فارغ ہو کر آئی ہے۔ تاہم اس نے کافی پینے کی حامی بھری۔ کافی کے دوران میں روزی کو غور سے دیکھتا رہا۔ وہ اچانک ہنس پڑی۔ پھلجڑیاں سی پھوٹیں ’’ایسے غور سے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

’’خدا کی قدرت! وہ کتنے رنگ بدلتا ہے۔ پرسوں رات والی روزی اور اس روزی میں کتنا فرق نمایاں ہے۔ آج تمہارا روپ ہی ’’وکھرا‘‘ نظر آ رہا ہے۔‘‘

روزی شرمائی تو اس کے گالوں کے سیب مزید سرخ ہو گئے۔ کہنے لگی ’’تم درست کہہ رہے ہو۔ وہ روزی اور تھی اور یہ اور ہے۔ اس دن تو میں اس دنیا اور اپنی زندگی سبھی سے بے زار تھی۔ لیکن آج میں محسوس کر رہی ہوں کہ دنیا اتنی بدصورت بھی نہیں جتنی مجھے نظر آ رہی تھی۔ شاید میں نے اپنے اردگرد جو دنیا بسا لی تھی وہی بدصورت تھی۔ میں کنوئیں کے مینڈک کی طرح اسے ہی کل کائنات سمجھتی رہی۔ جبکہ اصل دنیا بہت وسیع اور بہت خوبصورت ہے‘‘

اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’طارق! میں تمہاری مشکور ہوں۔ اس رات جب میرا دل مایوس اور میرا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ میں دل و دماغ اور رات کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی تو تم نے مجھے سہارا دیا۔ اگر تم اس دن نہ ملتے تو نہ جانے کیا ہوتا۔ میں تو اپنی زندگی سے ہی بے زار تھی‘‘

میں نے کہا ’’روزی! ہم دوست ہیں اور دوستوں میں شکریے وغیرہ کا تکلف نہیں ہوتا۔‘‘

وہ ایک دفعہ پھر جلترنگ کی طرف ہنسی۔ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور بولی ’’او کے دوست!‘‘

میں بھی ہنسا اور بولا ’’آج دوست کے ساتھ ساتھ تم میری گائیڈ بھی ہو۔ بتاؤ آج مجھے کیا دکھا رہی ہو؟‘‘

پروگرام یہ بنا کہ سب سے پہلے کنسنگٹن پیلس دیکھنے چلتے ہیں جو وہاں سے بہت زیادہ دُور نہیں تھا۔

تھوڑی دیر بعد ہم لندن کے مشہور کنسنگٹن گارڈن کے درختوں کے جھنڈ کے بیچوں بیچ پیدل چلے جا رہے تھے۔ اچانک ہی کنسنگٹن پیلس کی شاندار عمارت ہمارے سامنے آ گئی۔ سرسبز درختوں میں گھرے اس محل کو دور سے دیکھنا محال ہے کیونکہ وہ پورا علاقہ درختوں سے اٹا ہوا ہے۔ عمارت زیادہ اونچی بھی نہیں ہے۔ صدیوں تک یہ محل برطانیہ کے شاہی خاندان کا مسکن رہا تھا۔ بکنگھم پیلس بننے کے بعد بادشاہ یا ملکہ تو وہاں جا بسے۔ لیکن کنسنگٹن پیلس میں اب بھی شاہی خاندان کے کئی لوگ رہتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا پرنس چارلس سے علیحدگی کے بعد اس محل میں منتقل ہو گئی تھی۔ وفات کے وقت بھی وہ یہیں رہتی تھی۔ گویا اب یہ شاہی خاندان کا دوسرا گھر ہے۔ جس حصے میں یہ لوگ رہتے ہیں اسے چھوڑ کر بقیہ عوام کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ اس کے لئے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ گویا شاہی خاندان نے محل کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔

ٹکٹ خرید کر جوں ہی ہم اندر داخل ہوئے اس تاریخی محل کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ باہر سے سادہ سی نظر آنے والی یہ عمارت اندر سے انتہائی دیدہ زیب اور خوبصورتی سے آراستہ ہے۔ اس کی راہداریاں گزرے ہوئے بادشاہوں اور ملکاؤں کی تصاویر اور پینٹنگز سے سجی ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں موبائل فون کی شکل کا ایک آلہ دے دیا گیا۔ اس کو آن کر کے ہم کوئی سی زبان منتخب کر سکتے تھے۔ ہر کمرے کے باہر نمبر پلیٹ چسپاں تھی۔ آلے پر وہ نمبر پنچ کریں تو وہ اس کمرے کا تمام تاریخ جغرافیہ آپ کو بتا دیتا تھا۔ وہ بھی آپ کی اپنی زبان میں۔ گویا یہ ایک مشینی گائیڈ تھا۔ اس طرح جس کمرے میں جائیں آلے پر وہ نمبر پنچ کرتے جائیں اور اس کی رننگ کمنٹری سنتے جائیں۔

اس محل کا ہر کمرہ نہایت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ کسی میں کوئی مشہور بادشاہ پیدا ہوا ہے اور کسی میں ملکہ نے آنکھ کھولی ہے۔ موجودہ ملکہ الزبتھ بھی اسی محل میں پیدا ہوئی تھی اور اس کا بچپن یہیں گزرا تھا۔ ماضی کے ان مشہور بادشاہوں سے متعلق تاریخی اشیاء بھی ان کمروں میں موجود ہیں۔ ان کے تاج، تخت، مرصع شاہی کرسیاں، میز، فانوس، ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے، بچوں کے پنگھوڑے، پرانے دور کی لالٹین، قلم، دوات، تلواریں، رائفلیں، زرہ بند اور بادشاہوں کے شکار کئے ہوئے درندوں کے سر بھی ان کمروں میں محفوظ ہیں۔ گویا برطانیہ کے شاہی خاندان کا صدیوں پرانا تاریخی ورثہ اس محل میں موجود ہے۔ 1760ء تک یہ محل شاہی خاندان کا مسکن رہا تھا۔ اس کے بعد بھی اس کی اہمیت جوں کی توں قائم ہے۔ انگریز اور دنیا بھر کے سیاح ذوق و شوق سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ انگریزوں کی شاہی خاندان سے محبت اور روایت پسندی یہاں نظر آتی ہے۔ انہوں نے اگر عمارت کی مرمت بھی کی ہے تو اس کا پرانا انداز بلکہ قدیم پتھر بھی جوں کے توں رکھے ہیں۔

میں اس محل کے مختلف کمروں کے سحر میں یوں کھویا کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا۔ جس کمرے میں جاتا اس کی تاریخ اور تاریخی نوادرات میں اس طرح کھو جاتا کہ اردگرد کے ماحول، اپنے ساتھی بلکہ اپنے آپ کو بھی بھول سا جاتا۔ اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چونکا دیا۔ میں جیسے کسی خواب سے جاگ اٹھا۔ دیکھا تو روزی تھی۔ کہنے لگی ’’کچھ دیکھنا باقی ہے یا چلیں؟‘‘

وہ میرا ہاتھ پکڑ کر محل کی اس جادو نگری سے باہر لے آئی۔ میں جیسے ماضی کے اس سنہرے خواب کے طلسم سے باہر نکل آیا۔ گھڑی دیکھی تو احساس ہوا کہ چار گھنٹے تک میں ان تاریخی بھول بھلیوں میں گم رہا تھا۔ کنسنگٹن پیلس سے نکل کر ہم سیدھے بکنگھم پیلس پہنچے۔ میں نے روزی سے ہنستے ہوئے کہا ’’تم اپنے شاہی محل دکھا کر مجھے مرعوب تو نہیں کرنا چاہ رہیں؟‘‘

روزی نے کہا ’’بالکل نہیں! لیکن لندن میں آ کر اگر کوئی سیاح یہ دو محل نہیں دیکھتا تو اس کی سیر مکمل نہیں ہوتی۔ جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے، ہم انگریز اپنے شاہی خاندان سے محبت ضرور کرتے ہیں لیکن ان سے مرعوب ہر گز نہیں۔ کیونکہ اکیسویں صدی میں بھی اگر ہم نے بادشاہت کو قائم رکھا ہوا ہے تو یہ برطانوی عوام کی مہربانی ہے۔ شاہی خاندان کا رعب، دبدبہ اور حکومتی جاہ و جلال تاریخ کی کتابوں اور عجائب گھروں تک محدود رہ گیا ہے۔ شاہی خاندان اب اپنے پر شکوہ ماضی کی ایک علامت کے طور پر باقی ہے۔‘‘

بکنگھم پیلس کی شاندار اور با رُعب عمارت ہمارے سامنے جلوہ گر تھی۔ مسلح شاہی محافظ اپنی شاندار شاہی وردیوں کے ساتھ صدر دروازے پر مجسموں کی طرح ایستادہ تھے۔ بکنگھم پیلس 1837 ء سے برطانیہ کے شاہی خاندان کی سرکاری رہائش گاہ، بادشاہ یا ملکہ کا دفتر اور بادشاہت کا مرکز ہے۔ ملکہ برطانیہ یہیں مقیم ہے۔ تمام اہم شاہی تقریبات یہیں منعقد ہوتی ہیں۔ محل کے باہر گارڈ کی تبدیلی کا منظر دیکھنے کے لئے سیاحوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی گارڈز کی تبدیلی عمل پذیر ہوئی۔ نئے گارڈز پوری سج دھج اور بینڈز کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے برآمد ہوئے۔ انتہائی منظم انداز میں انہوں نے اپنی جگہیں سنبھالیں اور پرانے گارڈز اسی نظم و ضبط سے رخصت ہوئے۔ گارڈز کی تبدیلی کا یہ منظر نہایت دلکش تھا۔

بکنگھم پیلس کا ایک حصہ گرمیوں کے دنوں میں عوام کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ ہم بھی ٹکٹ لے کر محل کے اندر داخل ہو گئے۔ اندر کا منظر کنگنسٹن پیلس سے ملتا جلتا تھا۔ تاہم بکنگھم پیلس کی عمارت قدرے جدید اور زیادہ آراستہ ہے۔ ملکہ کا سرکاری دفتر، شاہی عملے کے دفاتر اور شاہی خاندان کے استعمال شدہ کمروں کی سیر کرتے ہوئے میں ایک بار پھر اسی طلسمی دنیا میں کھو گیا۔ وہاں ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت پینٹنگز آویزاں تھیں۔ شاہی فرنیچر، بیڈز، کرسیاں، صوفے، پردے، وارڈ روب، منقش ٹائلیں، دیدہ زیب آرٹ پیس، مرصع لائٹس، اور کھڑکیوں پر سجے ہوئے رنگا رنگ پھول دماغ کو کسی اور جہاں میں لے گئے۔ ایک ایک کرسی کسی ماہر کاریگر کے فن کا نادر نمونہ تھی۔ اس میں جڑے ہوئے موتی، نقش و نگار اور اس کی تراش خراش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کسے دیکھوں، کسے اپنی آنکھوں میں سمیٹوں اور کسے دماغ کے کینوس پر محفوظ کروں۔ میں ایک ایک کمرے، ایک ایک چیز اور ایک ایک تصویر میں کھو جاتا۔ ایسے لگتا تھا کہ میں اسی منظر کا حصہ ہوں یا تاریخ کے اس دور میں پہنچ گیا ہوں جب یہ سب چیزیں زیرِ استعمال تھیں۔

نہ جانے کتنا وقت، کتنا عرصہ یا کتنی عمر وہیں بیت گئی۔ پھر کسی نے مجھے بیدار کر دیا۔ مجھے خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں لے آیا۔ یہ شاہی گارڈ تھا جو بہت نرم انداز میں بتا رہا تھا کہ سیاحوں کے لئے مختص وقت ختم ہونے کو ہے۔ میں اسے خالی خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا ’’اگر آپ کو باہر کا راستہ نہیں معلوم ہو تو میں مدد کر سکتا ہوں۔‘‘

میں نے سر ہلا دیا۔ وہ نہ جانے کیا باتیں کرتا ہوا میرے ساتھ چل دیا۔ جب باہر پہنچا تو سورج کی روشنی میری آنکھوں کو چندھیانے لگی۔ آج کے سورج کی روشنی مجھے کل کی چاندنی کے سحر سے باہر لے آئی۔ روزی آگے بڑھی اور بولی ’’تم کہاں کھو گئے تھے۔ میں ہر جگہ تمہیں تلاش کرتی رہی۔ اب باہر آ کر بہت دیر سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘

میں نے کہا ’’میں یہیں تھا یا شاید کہیں اور تھا۔ اب آ گیا ہوں، چلیں؟‘‘

اس نے عجیب نظروں سے دیکھا۔ جیسے کہہ رہی ہو ’’پاگل ہو گئے ہو کیا؟‘‘

ٹیوب پکڑ کر ہم سٹی سنٹر جا پہنچے۔ ٹریفالگر سکوائر لندن کا مشہور و معروف مقام ہے۔ جہاں ہر وقت سیاحوں کا جم غفیر رہتا ہے۔ وہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح گلے میں کیمرے لٹکائے ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ خوبصورت چہروں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ بے فکرے اور نئے جہانوں کی کھوج میں نکلے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹولیاں ہر سو قہقہوں کے رنگ بکھیر رہیں تھیں۔ موسم ابر آلود لیکن خوشگوار تھا۔

ٹریفالگر اسکوائر میں کبوتروں کی بہتات ہے۔ جھنڈ کے جھنڈ کبوتر میدان میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ کبوتر انسانوں سے بالکل نہیں ڈرتے بلکہ ان کے ہاتھوں اور کندھے پر آ بیٹھتے ہیں۔ میں نے باجرے کے دانوں کا ایک لفافہ خریدا۔ اپنے سامنے دانے بکھیرے تو درجنوں کبوتر میرے اردگرد جمع ہو گئے۔ کوئی میرے ہاتھ پر تھا تو کوئی سر پر بیٹھا تھا۔ روزی نے کیمرہ لے کر چند تصاویر بنائیں۔ تصویر کے ذکر پر یاد آیا، ایزل اور کینوس لے کر کئی فنکار وہاں براجمان تھے۔ اگر کوئی شخص اپنی پینٹنگ بنوانا چاہے تو یہ فنکار تھوڑی دیر میں بنا کر اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مجھے بھی کئی ایک نے آفر کی۔ لیکن میں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ مجھے اپنی تصویر سے زیادہ ارد گرد کی دنیا سے دلچسپی تھی۔ دریائے ٹیمز کے کنارے ٹہلتے اور لندن کی حشر سامانیوں کا نظارہ کرتے ہوئے شام ہو گئی۔ آٹھ بجے علی مجھ سے ملنے ہوٹل آ رہا تھا۔ اس لئے میں نے واپس چلنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ روزی نے پوچھا ’’آج کا دن کیسا گزرا۔ کیا تم نے انجوائے کیا؟‘‘

میں نے کہا ’’دن گزر گیا! انجوائے کا تو مجھے معلوم نہیں۔ لیکن یہ یادگار دن تھا۔ اتنے تاریخی مقامات اور وہ بھی ایک حسین ساتھی کے ساتھ! پھر شاید ایسا دن نہ آئے‘‘

وہ بولی ’’کیوں نہیں! میں کل پھر تمہیں لندن گھماؤں گی۔ جب تک تم یہاں ہو میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ ہاں اگر تم مجھ سے اکتا گئے ہو تو وہ الگ بات ہے۔‘‘

وہ شوخ نظروں کا رنگ بکھیر رہی تھی۔

’’میں نے غالبؔ، فیضؔ اور فرازؔ کو پڑھا ہے۔ ان کی شاعری کا دیوانہ ہوں۔ تم بھی فرازؔ کی غزل سے کم نہیں ہو۔ تمہاری سنگت سے انکار کر کے میں اپنی ادب پرستی کی توہین نہیں کر سکتا۔‘‘

روزی مسکرائی، کلیاں چٹکیں، پھول مسکائے ’’مجھے نہیں معلوم تم کن کا نام لے رہے ہو اور کیا کہہ رہے ہو۔‘‘

میں نے کہا ’’غالبؔ، فیضؔ اور فرازؔ کو نہیں جانتی تو شیکسپئرؔ، ملٹنؔ، ورڈس ورتھؔ اور شیلےؔ کو تو جانتی ہو۔ میرے لئے تم ان کی دِلربا شاعری سے کم نہیں ہو اور میں شاعری کا دلدادہ ہوں‘‘جیسے شیکسپئر نے لکھا ہے۔

So long as men can breathe, or eyes can see

and this gives life to thee, So long lives this

میں نے کالج کے زمانے میں رٹی ہوئی شکسپئیر کی چند نظموں کا بر وقت استعمال کیا۔ وہ ہنسی ’’اوہ! میں سمجھی! کیا تم مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہے؟‘‘

’’میری یہ جر ات! یہ تمہارا شہر، تمہارا ملک ہے۔ میں بے چارہ پردیسی تمہیں کیا بے وقوف بناؤں گا۔ میں تو خود تمہارے رحم و کرم پر ہوں۔‘‘

روزی کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔ ’’تعریف کا شکریہ! اور اب یہ شاعری بند کر کے مجھے بتاؤ کہ تمہارا کیا پروگرام ہے۔ کیا میں تمہارے ساتھ ہوٹل چلوں؟‘‘

میں نے کہا ’’جو مزاجِ یار میں آئے۔‘‘

وہ بولی ’’اچھا! پھر یہ تو یہ سہی! میں کل صبح تمہیں گھمانے لے جا رہی ہوں۔ کیوں نہ رات تمہارے ہوٹل میں رہ جاؤں۔ اس طرح آنے جانے کی دقت سے بچ جاؤں گی۔‘‘شرارت اس کی آنکھوں میں چمک رہی تھی۔

میں نے کہا ’’بُری بات! اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘

’کیا میں تمہیں بچی نظر آ رہی ہوں؟‘‘

’’ہاں! کبھی کبھی بچی ہی نظر آتی ہو۔‘‘

اب اس نے کہا ’’بری بات! اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘

میں نے کہا ’’اچھا بڑی بی! تم اب گھر جاؤ۔ میرا دوست انتظار کر رہا ہو گا۔ صبح ملاقات ہو گی‘‘

کچھ بحث و تمحیص کے بعد ہم نزدیکی ٹرین سٹیشن گئے۔ ٹکٹ خرید کر روزی نے مجھے ٹرین میں بٹھایا اور خود اپنی ٹرین کے لئے دوسرے پلیٹ فارم کی طرف چلی گئی۔ میں جو گائیڈ کی مدد کا عادی ہوتا جا رہا تھا جانے کن سوچوں میں گم تھا کہ میرا سٹیشن پیچھے رہ گیا اور میں ٹرین میں بیٹھا رہ گیا۔ ٹرین چلی تو باہر لکھے ہوئے سٹیشن کے نام پر میری نظر پڑی۔ اگلے سٹیشن پر اُترا۔ ٹکٹ اینڈ اسسٹنٹس Ticket and Assistance کے کاؤنٹر پر گیا تو انہوں نے واپسی کے لئے پلیٹ فارم اور ٹرین کا وقت بتایا۔ تھوڑی دیر بعد ہی میں اپنے نزدیکی ٹرین سٹیشن Queensway)) کی عمارت سے نکل کر ہوٹل کی طرف رواں دواں تھا۔ Queensway اور Bayswater دونوں اسٹیشن میرے ہوٹل کے قریب تھے۔


لندن کا بازارِ حسن



اس رات علی سے دل کھول کر باتیں ہوئیں۔ طالب علمی کے دور کے قصے دہرائے گئے۔ اس دور کی اپنی شرارتوں کا ذکر ہوا۔ پرانے ہم جماعتوں اور اساتذہ کو یاد کیا۔ ان حماقتوں کو یاد کیا جن کے بارے میں یقین نہیں آتا کہ وہ سب ہم سے سرزد ہوئی تھیں۔ بچپن اور لڑکپن کے ہم جماعت اور جگری دوست جو بچھڑے تو بہت سوں کی صورت اب تک دکھائی نہیں دی۔ ایک دوسرے کو نہ بھولنے کے دعوے اور قسمیں ریت کی دیوار یں ثابت ہوئیں۔ ہم زندگی کی بھیڑ میں ایسے گم ہو گئے کہ دوست تو درکنار، اپنا وہ معصومیت بھرا روپ بھی ذہن سے محو ہوتا چلا گیا۔ زمانے کی سرد اور گرم ہواؤں نے ہماری معصومیت، محبت، دوستیاں اور نہ جانے کیا کچھ چھین لیا تھا۔ ہم اندر اور باہر ہر طرف سے بدل چکے تھے۔ معصومیت کی جگہ منافقت، سچ کی جگہ مصلحت، دوستی کی جگہ مطلب پرستی، خوابوں کی جگہ تلخ حقیقتوں اور قہقہوں کی جگہ آہوں اور سسکیوں نے لے لی تھی۔ جن دوستوں کے بارے میں اس وقت یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم کبھی الگ رہ ہی نہیں سکتے۔ آج ان کے بارے میں علم بھی نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ وقت اور حالات کے تھپیڑوں نے کسی کو کہاں پھینکا اور کسی کو کہاں۔

ریسٹورنٹ میں بیٹھے بیٹھے بہت دیر گزر گئی۔ علی نے کہا ’’اب بند کرو یادوں کی یہ پٹاری چلو تمہیں لندن کی نائٹ لائف دکھاتا ہوں۔‘‘

میں اگرچہ تھکا ہوا تھا لیکن ایک تو علی کا ساتھ غنیمت تھا۔ دوسرا یہ کہ لندن میں نے صرف دن میں ہی دیکھا تھا۔ اس کی راتوں کی چکا چوند سے ابھی تک محروم تھا۔ اس لئے میں علی کے ساتھ نکل پڑا۔ اس وقت رات کے بارہ بجے تھے۔ لیکن لندن کی سڑکیں دن کے بارہ بجے سے مختلف نہ تھیں۔ ٹریفک ویسے ہی رواں دواں تھی۔ فٹ پاتھوں پر ویسے ہی لوگوں کا کھوا چھل رہا تھا۔ ریسٹورنٹ اور کلب بھرے ہوئے تھے۔ غرض یہ کہ خوب گہما گہمی تھی۔ روشنیوں اور رنگوں کا ایک سیلاب تھا۔ جوں جوں ہماری گاڑی شہر کے مرکزی حصے کی طرف بڑھ رہی تھی ٹریفک کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ علی پارکنگ کی جگہ ڈھونڈنے لگا جو کافی تلاش کے بعد ملی۔

گاڑی پارک کر کے اس سٹریٹ پر چند ہی قدم چلے تھے کہ مجھے احساس ہو گیا کہ یہ ’’سرخ روشنی‘ ‘والا علاقہ ہے۔ علی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سوہو (soho) ہے۔ لندن کا مشہور و معروف بازار جہاں جسم بکتے ہیں، حسن کا سودا ہوتا ہے۔ ہر رنگ و نسل کے شوقین خریدار ہوتے ہیں اور یورپ کے کونے کونے سے آ ئی ہوئی بکاؤ عورتیں اس بازار میں جسم کی دکان سجا کر بیٹھتی ہیں۔ بر صغیر میں اس بازار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے ہیں۔ لیکن آسٹریلیا اور یورپ میں ایسے بازاروں میں دن بھی جاگتے ہیں اور راتیں بھی۔ ہاں شفٹیں بدلتی رہتی ہیں۔

سوہو کے اس علاقے میں سٹرپ کلبوں کا ایک جال سا بچھا ہے۔ ہر گلی، ہر کونے میں کلب کے ایجنٹ گاہکوں کو لبھا اور پھسلا کر اندر لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بکاؤ عورتیں قدم قدم پر قدم روک رہی تھیں۔ ان کی جسمانی حرکتیں، لباس اور سستا انداز ان پر برائے فروخت کے سائن کی طرح سجا ہوا تھا۔ لباس کے نام پر بے لباسی تھی۔ ان کی حرکتیں اتنی سستی تھیں کہ دل میں کراہت کا جذبہ ابھرتا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ کسی قصاب مارکیٹ میں موجود ہوں۔ ہم ان سے بچتے بچاتے اور دلالوں سے جان چھڑاتے آگے بڑھتے رہے۔ سٹرپ کلبوں کے یہ ایجنٹ قدم قدم پر راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے، بازو تھام لیتے اور درجنوں حسینوں کی حشر سامانیوں کی تفصیل بیان کرتے۔ ایسے ہی ایک دلال پر مجھے شبہ گزرا کہ یہ پاکستانی ہے۔ میں نے اس سے دریافت کیا تو اس نے اثبات میں جواب دیا ’’ہاں جی میں پاکستانی ہوں۔ دیکھیں نا جی! روزی روزگار کے چکر میں کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

میں نے کہاں ’’ہاں بھئی ولایتیا بننا اتنا آسان نہیں ہے۔ ویسے بھی جب سوٹ پہن کر واپس جاؤ گے تو کسی کو اس بات کا علم کیسے ہو گا کہ یہ سوٹ کہاں سے اور کس کاروبار سے بنا ہے‘‘

اس نے میرے طنز کو سمجھے بغیر کہا ’’آپ درست کہتے ہو۔ لوگ تو چھوڑیں میرے اپنے گھر والے بھی نہیں جانتے کہ میں یہاں یہ کام کرتا ہوں۔ ویسے بھی میں یہاں اکیلا پاکستانی نہیں ہوں، بہت سے اور بھی ہیں۔ بلکہ اندر جو لڑکیاں کام کر رہی ہیں ان میں بھی چند پاکستانی ہیں‘‘

میں نے علی سے کہا ’’بھئی تم لوگوں نے تو بہت ترقی کر لی ہے‘‘

علی نے کہا ’’فکر نہ کرو۔ ابھی وہاں تمہاری پہلی نسل ہے۔ دوسری اور تیسری نسل تک تم لوگ بھی ترقی کے ان زینوں پر قدم رکھ چکے ہو گے‘‘

میں نے کہا ’’درست کہتے ہو! لیکن اس کا انحصار اس امر پر بھی ہے کہ ہم خود پر اور اپنی آنے والی نسل پر اپنی تہذیب و ثقافت کا کتنا گہرا رنگ چھوڑتے ہیں جو وقت کی دھوپ اور حالات کی بارش میں قائم و دائم رہ سکے‘‘

علی نے کہا ’’یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ تم یہ بتاؤ کسی کلب کے اندر چلو گے یا یوں ہی ونڈو شاپنگ کر کے واپس چلے جاؤ گے؟‘‘

’’بھئی میرا ا دل تو ویسے ہی بھر چکا ہے۔ بہتر ہے واپس چلیں۔ ویسے بھی ایسی جگہوں میں پاکستان سے نئے آنے والوں کو دلچسپی ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا میں اتنا عرصہ گزارنے کے بعد مجھے ان میں کشش نظر نہیں آتی بلکہ کراہت محسوس ہوتی ہے‘‘

ہم واپس ہوٹل پہنچ گئے۔ اس وقت صبح کے ساڑھے تین بجے تھے۔ تھکن سے میرے قدم اٹھ نہیں رہے تھے۔ پپوٹے کچھ نیند اور کچھ لندن کے حشر سامان نظاروں سے جل سے رہے تھے۔ علی کو خدا حافظ کہہ کر کمرے میں پہنچا اور بے سدھ ہو کر بستر پر گر پڑا۔


کُڑیتے ولایتی پر بندہ دیسی ای ایہہ



میں روزی کے ساتھ برطانیہ کے مشہور و معروف عجائب گھر میوزم آف لندن کے صدر دروازے پر کھڑا تھا۔ حسبِ معمول سیاحوں کی قطار ٹکٹ خریدنے کے لئے موجود تھی۔ روزی صبح وقت پر ہوٹل پہنچ گئی تھی۔ میں نے بھی نیند کی کمی کی پرواہ نہیں کی اور فوراً تیار ہو گیا۔ ٹکٹ خرید کر ہم عجائب گھر میں داخل ہوئے تو جیسے ایک انوکھی دنیا میں داخل ہو گئے۔ میوزیم آف لندن میں نوادرات اور انواع و اقسام کی تاریخی اشیاء کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اسے اچھی طرح دیکھنے کے لئے کئی دن درکار ہیں۔ صدیوں پرانے لباس، کپڑوں کے نمونے، کھلونے، زمانۂ قدیم کے گھر، تیرہ ہزار سے زائد سجاوٹ کی اشیاء، قدیم برتن، مختلف دھاتوں سے بنے صدیوں پرانے اوزار، زیورات، فرنیچر سب اس میوزیم کا حصہ ہیں۔ فنِ مصوری کے نئے اور پرانے آرٹ کے شہہ پارے ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ پندرہ ہزار سے زائد واٹر کلر پینٹنگز، سینکڑوں آئل پینٹنگز اور لندن کی تاریخ سے متعلق ہزاروں تصاویر ہیں۔ علاوہ ازیں ہزاروں کی تعداد میں گھریلو تاریخی اشیاء، تعمیری اوزار، صدیوں پرانی گاڑیاں، سکے اور طباعت کا ابتدائی دور کا مواد بھی اس میوزیم میں محفوظ ہے۔ یوں لگتا تھا اس میوزیم میں برطانیہ کی صدیوں پرانی تاریخ محفوظ ہے۔ خصوصاً لندن کی تاریخ سال بہ سال اشیاء اور تحریری شکل میں موجود ہے۔ قبل مسیح سے لے کر جب لندن پر رومنوں کی حکمرانی تھی کے دور سے لے کر موجودہ لندن کا مرحلہ وار سفر اور اس شہرِ بے مثال کا عروج و زوال اس عجائب گھر میں دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔

1907 ء میں بننے والی پہلی فورڈ کار اس میوزیم میں ہے۔ کار سے پہلے نقل و حرکت کے لئے جو سواریاں استعمال ہوتی تھیں، وہ مختلف شکل کی بگھیوں کی صورت میں اپنی اصلی حالت میں میوزیم میں موجود ہیں۔ لندن اور برطانیہ کی تاریخ میں ایک جگہ واضح درج تھا کہ امریکہ اور دوسری کالونیاں چھن جانے کے بعد کافی عرصے تک برطانیہ کی معیشت کا دار و مدار ہندوستان سے حاصل ہونے والی دولت پر رہا۔ یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان پر کیوں قبضہ کیا تھا۔ وہ اس کی دولت کو اس کے عوام پر خرچ کرنے کی بجائے سمندر پار منتقل کرتے رہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے عوام آج بھی غربت کے اس چکر سے نہیں نکل پائے۔ انگریز اپنی معیشت کو مضبوط کر کے خود تو پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔ جاتے جاتے سونے کی اس چڑیا کے پر بھی نوچ کر لے گیا۔ یہ پر کٹی چڑیا آج تک پھڑ پھڑا رہی ہے۔

اس میوزیم کے مختلف شعبوں میں فن، تاریخ، نوادرات، فن تعمیر، ہوزری، ٹیکسٹائل، دستکاری، مصوری، تصویر کشی، کاریگری، جدید و قدیم مصنوعات اور سائنسی ترقی سے متعلق ایک خزانہ موجود ہے۔ ہم نے لنچ بھی میوزیم کی کینٹین میں کیا۔ روزی نے یہ میوزیم صرف ایک مرتبہ اور وہ بھی بہت عرصہ قبل دیکھا تھا۔ اس لئے وہ بھی میوزیم کے ایک ایک گوشے اور ایک ایک فن پارے میں بھرپور دلچسپی لے رہی تھی۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہو گئی لیکن تاریخی اور فنی جادو نگری سے نکلنے کو ہمارا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ ایک دن قبل میں سوچ رہا تھامیرے پاس وقت کم ہے اس لئے اس عجائب گھر کو دیکھنے نہ جاؤں۔ روزی کی سفارش پر میں یہاں چلا آیا تھا۔ میوزیم کی سیر کے بعد احساس ہو رہا تھا کہ اگر یہاں نہ آتا تو نہ لندن کی سیر مکمل ہوتی اور نہ ہی تاریخ کا یہ علم حاصل ہو پاتا۔ یوں تو لندن میں درجنوں عجائب گھر ہیں لیکن اپنی نوعیت اور مختلف النوع اشیاء کی کثیر تعداد کی وجہ سے یہ سب سے نمایاں میوزیم ہے۔ میوزیم کی سیر کے بعد اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ انگریزوں نے اپنی ثقافتی، سائنسی اور فنی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ان عجائب گھروں کی صورت میں ایک بیش بہا تاریخی خزانہ چھوڑا ہے۔

تقریباً چھ گھنٹے کھڑے یا چلتے رہنے سے ٹانگیں تھکن سے شل ہو چکی تھیں۔ ہم نے دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھ کر کافی پی۔ اس دوران روزی مجھ سے کبھی آسٹریلیا اور کبھی پاکستان کے بارے میں مختلف سوال کرتی رہی۔ اسے پاکستان کے کلچر سے لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ خصوصاً باہمی محبتوں اور خاندانی بندھنوں کی خوبصورتی کی معترف تھی۔ دوسری طرف روزی کو آسٹریلیا کے خوبصورت ساحلوں اورسہانے موسم میں بھی دلچسپی تھی۔ اسے لندن کا روتا بسورتا موسم زیادہ پسند نہیں تھا۔ سرما کی طویل اور سرد راتیں اور مختصر اور گیلے دن اسے بالکل نہیں بھاتے تھے۔ تاہم اسے انگریزوں کی تاریخی فتوحات اور روایتی طرز زندگی پر بھی فخر تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انگریز سب سے الگ اور منفرد قوم ہے۔

میں روزی سے باتوں میں منہمک تھا کہ سنائی دیا ’’کڑیتے ولایتی پر بندہ دیسی ای ایہہ‘‘

میں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو دو ایشیائی نوجوانوں کی نظروں کو نگراں پایا۔ ان کے ہاتھوں میں کوک کے ڈبے اور لباس ملگجے سے تھے۔ میرے یوں دیکھنے پر وہ کچھ جھینپ سے گئے۔ میں روزی سے معذرت کر کے اٹھا اور ان نوجوانوں کے سامنے جا کر السلام علیکم کہا۔ انہوں نے جواباً ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا۔ وہ کچھ سہمے سہمے سے لگ رہے تھے۔ میں نے اپنا نام بتایا تو وہ ’’جی‘‘ کہہ کر رہ گئے۔ میں نے کہا ’’بھئی اپنا تعارف تو کروائیں‘‘

ایک بولا ’’میرا نام شکیل ہے اور یہ جاوید ہے‘‘

میں نے کہا ’’بہت خوب! اگر زحمت نہ ہو تو یہاں اس بنچ پر آ جاؤ کچھ گپ شپ ہی ہو جائے‘‘

میں نے روزی سے ان کا تعارف کروایا۔ روزی نے خوش دلی سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ ملایا اور ہمارے سامنے والے بنچ پر بیٹھ گئے۔ روزی کہنے لگی ’’میں ان کے لئے کافی لے کر آتی ہوں‘‘

میں نے کہا ’’میں نے اپنا نام تو بتا دیا ہے۔ میں آسٹریلیا سے یورپ کی سیر کے لئے آیا ہوں۔ پاکستان میں میرا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ اب آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں گے‘‘

شکیل کہنے لگا ’’ہمارا تعلق جہلم سے ہے۔ چند ماہ قبل برطانیہ آئے ہیں اور مسلسل دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں‘‘

’’مسئلہ کیا ہے؟‘‘

جاوید نے کہا ’’سر ہم دونوں ہی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں ہم جماعت اور بچپن کے دوست ہیں۔ ایف ایس سی کے بعد آگے نہ پڑھ سکے۔ پاکستان میں حصولِ روزگار کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ دو سال تک بے روز گار پھرتے رہے۔ پھر جہلم کے ہی ایک مائے گریشن ایجنٹ نے دو لاکھ روپوں کے عوض ہمیں برطانیہ بھجوانے کا وعدہ کر لیا۔ یہ رقم ہم نے کیسے حاصل کی یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ یوں سمجھیں کہ اپنے اپنے خاندان کا کل اثاثہ ہم نے برطانیہ پہنچنے کے لئے داؤ پر لگا دیا۔ ترکی تک تو ہم ہوائی جہاز پر آئے۔ وہاں سے سڑک کے راستے مختلف ملکوں میں سفر کرتے چھپتے چھپاتے چوروں کی طرح برطانیہ میں داخل ہوئے۔ یہ سفر انتہائی دشوار گزار تھا۔ کبھی ہمیں بھیڑ بکریوں کے ساتھ ٹرک میں سفر کرنا پڑا اور کبھی سبزیوں اور پھلوں کی بوریوں میں چھپ کر بارہ بارہ گھنٹے گزارنے پڑے۔ بھوک پیاس اور جسمانی تھکاوٹ کی انتہا سے کئی ہفتے گزرنے کے بعد برطانیہ کی سرحد غیر قانونی طریقے سے پار کی۔ یہاں پہچانے کے بعد ہمارے ایجنٹ نے ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ پچھلے کئی ہفتوں سے ہم مانچسٹر، لیڈز، برمنگھم اور اب لندن میں چھپتے پھر رہے ہیں۔ نہ کوئی روزگار ملتا ہے اور نہ رہنے کے لئے ٹھکانہ ہے۔ اگر کوئی وقتی روزگار ملتا بھی ہے تو وہ ہمیں غیر قانونی سمجھ کر نہایت قلیل معاوضہ دیتے ہیں۔ امیگریشن والے آئے دن چھاپے مارتے رہتے ہیں۔ دو جگہوں سے ان چھاپوں کی وجہ سے ہمیں اپنی تنخواہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

دوسرے شہروں میں جب کوئی بندوبست نہ ہوا تو ہم لندن چلے آئے کہ یہ بہت بڑا شہر ہے۔ شاید یہاں کوئی روزگار یا رہنے کے لئے ٹھکانہ مل جائے۔ لیکن یہ شہر تو ان سے بھی زیادہ ستم گر نکلا۔ یہاں نہ کوئی سستا مکان کرائے کے لئے ملتا ہے اور نہ مناسب روزگار۔ ایک دو جگہ جز وقتی مزدوری ملتی ہے۔ کبھی دیہاڑی لگ جاتی ہے اور کبھی نہیں۔ اب تک جو کچھ کمایا ہے اس سے بمشکل دو وقت پیٹ کا ایندھن بھر سکے ہیں۔ نہ تو ہمارے پاس زر ضمانت کی رقم ہے کہ ہم کوئی مکان کرائے پر لے سکیں اور نہ ہی ایسے کاغذات ہیں جنہیں دکھا کر مکان یا روزگار کا بندوبست ہو سکے۔‘‘

میں نے پوچھا ’’پھر آپ لوگ رہتے کہاں ہیں؟‘‘

جاوید بولا ’’ایک اسلامک سنٹر والوں نے چند دنوں کے لئے پناہ دی تھی۔ اب تو وہ بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کوئی بندوبست ہی نہیں تو جائیں کہاں!‘‘

میں نے کہا ’’آپ لوگوں کا کوئی واقف کار نہیں ہے یہاں؟ کوئی دوست کوئی رشتہ دار؟‘‘

شکیل کہنے لگا ’’دوست اور رشتہ دار تو کوئی نہیں! ہاں ہمارے علاقے کے دو بندے یہاں انگلینڈ میں عرصے سے رہ رہے ہیں۔ ایک بریڈ فورڈ میں ہے، ایک یہاں لندن میں ہے۔ بریڈ فورڈ میں ہم اسی کی وجہ سے گئے تھے۔ اس نے ہمیں سو پونڈ دے کر معذرت کر لی کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ یہاں لندن والے نے ملنا ہی گوارا نہیں کیا۔ ہم اس کا فون نمبر لائے تھے پاکستان سے۔ یہاں سے ہم نے اسے فون کیا تو کہنے لگا ’’میں نہ تمہیں اور نہ ہی تمہارے گھر والوں کو جانتا ہوں۔ ویسے بھی میں بہت مصروف شخص ہوں۔ آپ لوگ اس طرح غیر قانونی طریقے سے یہاں آئے ہی کیوں۔ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ کل کلاں آپ لوگ پکڑے گئے تو میں بھی لپیٹ میں آ جاؤں گا کہ غیر قانونی لوگوں کی مدد کرتا ہوں۔ اس لئے مجھے تو معاف ہی رکھیں۔ حالانکہ یہ آدمی جب آج سے پندرہ سال پہلے یہاں آیا تھا تو میرے والد نے اس کی مدد کی تھی۔ اب یہ کہتا ہے کہ وہ ہمارے گھر والوں کو جانتا ہی نہیں‘‘

اس دوران روزی کافی لے آئی تھی۔ وہ چپ چاپ بیٹھ کر ہمیں باتیں کرتے دیکھتی رہی۔ میں نے شکیل اور جاوید سے پوچھا ’’تو آپ لوگوں نے کیا سوچا ہے؟ کیا ایسے ہی یہاں چھپتے چھپاتے رہو گے یا پھر واپس پاکستان چلے جاؤ گے؟‘‘

جاوید نے کہا ’’پاکستان جانے کا تو سوال ہی نہیں۔ ہم جن سے رقم لے کر یہاں آئے ہیں انہیں کیا جواب دیں گے۔ پھر ہمارے گھر والے، ماں باپ اور بہن بھائی بے شمار امیدیں لے کر بیٹھے ہیں۔ ہم ان کا کس منہ سے سامنا کریں گے؟‘‘

باتوں باتوں میں شب کی سیاہی لندن کے اوپر سایہ فگن ہو گئی۔ میں نے روزی سے کہا ’’آج تم ہمارے ساتھ ڈنر کیوں نہیں کرتیں۔‘‘

روزی ہنس کر بولی ’’میں نے کب انکار کیا ہے۔ وہ تو تم ہی ہو جسے رات کے اندھیرے میں مجھ سے ڈر لگنے لگتا ہے اور دامن چھڑا کر دور بھاگنے کی سوچنے لگتے ہو‘‘

’’اچھا آج نہیں بھاگتا! لیکن ڈنر کی شرط یہ ہے کہ تمہیں پاکستانی کھانا کھانا پڑے گا‘‘

روزی نے کہا ’’اس کی تم فکر نہ کرو۔ ہم لندن والے اپنے کھانے تو تقریباً بھول ہی چکے ہیں۔ کیونکہ پاکستانی، انڈین، ترکش اور لبنانی کھانوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ مجھے ویسے بھی انڈین اور پاکستانی کھانے بہت پسند ہیں‘‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’صرف پاکستانی کھانے ہی پسند ہیں یا پاکستان کے لوگ بھی؟‘‘

روزی نے ترچھی نظر سے میری طرف دیکھا اور بولی ’’پسند تو لوگ بھی ہیں لیکن رسائی صرف کھانوں تک ہے‘‘

’’اس وقت تمہارے سامنے ہم تین پاکستانی ہیں۔ اور ہمارے اوپر ’’خطرہ 11000 وولٹ‘‘ کا سائن بھی نہیں لگا ہوا‘‘

روزی بولی ’’سائن تو ہے لیکن نظر نہیں آتا‘‘

میں نے کہا ’’میں دیکھوں گا کہ یہ سائن کہاں ہے اور اسے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس وقت تو تم ہمیں کسی قریبی پاکستانی ریسٹورنٹ میں لے چلو‘‘

شکیل اور جاوید نے بہت معذرت کی لیکن ہم نے انہیں ساتھ لے لیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم ’’لاہوری ریسٹورنٹ‘‘ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کافی مصروف ریسٹورنٹ تھا۔ اس کے اندر بیٹھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم لندن میں ہیں۔ دیواروں پر پاکستان کے حسین مناظر کی تصاویر آویزاں تھیں۔ پاکستانی موسیقی کی مدھر تانیں دھیمی آواز میں بکھر رہی تھیں۔ مختلف میزوں پر پاکستانی فیملیاں گپ شپ میں مصروف تھیں۔ دروازے پر جو دربان کھڑا تھا اس نے شلوار قمیض کے ساتھ سر پر کلا باندھا ہوا تھا اور اس کے پاؤں میں کھسا تھا۔

غرضیکہ یہ ریسٹورنٹ مکمل طور پر لاہوری رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ شکیل اور جاوید کچھ ہراساں سے نظر آ رہے تھے۔ میں نے کہا ’’زندگی کا جو لمحہ بھی مسرتوں کی نوید لے کر آئے اس کا شایانِ شان استقبال کرنا چاہیئے کہ ایسے لمحات زندگی میں خال خال آتے ہیں۔ میں بھی یہاں پر دیسی ہوں۔ پرسوں اگلی مسافتوں پر روانہ ہو جاؤں گا۔ کیوں نہ ان لمحات کو یادگار طریقے سے گزارا جائے کہ آنے والے وقت میں یہ ہم سب کے لئے ایک سہانی یاد بن جائیں۔ کل کیا ہو گا! یہ کون جانتا ہے۔ لیکن اس فکر میں آج کیوں کھویا جائے‘‘

شکیل اور جاوید پر میری باتوں کا خوش گوار اثر ہوا۔ وہ یاسیت کے خول سے نکلے تو معلوم ہوا کہ خاصے زندہ دل نوجوان ہیں۔ انہوں نے کئی اچھے لطیفوں اور اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات سے محفل میں جان ڈال دی۔ شکیل کہنے لگا ’’ہمیں برطانیہ کی جو کشش یہاں کھینچ کر لائی تھی وہ معاشی ضرورت کے علاوہ یہاں کی آزادی، حسین چہرے، دلکش بدن اور ان تک رسائی کی امیدیں بھی تھیں۔ پاکستان میں تو سر اٹھا کر کسی کو دیکھا نہیں کہ بدنامی کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ کسی کو نظر بھر کر دیکھ لو تو وہ ماں بہن کو یاد کرانے لگتی ہے۔ کسی سے بات کرنے کی کوشش کرو تو جوتا دکھانے لگتی ہے اور اگر کسی کو ہاتھ لگا دو تو باپ اور بھائیوں کو بلانے لگتی ہے۔ پھرسمجھو خیر نہیں۔ بات خون خرابے تک جا پہنچتی ہے۔ ایسی دشمنیاں خاندانوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہیں۔ ہم سوچتے تھے کہ برطانیہ پہنچیں گے تو پھر ہم ہوں گے اور حسینائیں ہوں گی۔ نہ ماں بہن کا طعنہ ہو گا، نہ کوئی جوتا دکھائے گا اور نہ باپ اور بھائی کا ڈر ہو گا۔ بلکہ ہر دن عید ہو گی اور ہر رات شب برات۔ لیکن یہاں آ کر محسوس ہوا کہ ہنوز دلی دُور است۔ یہاں حسینائیں باپ اور بھائی کو تو نہیں بلاتیں لیکن جوتے کا استعمال یہ بھی بے دریغ کرتی ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو باپ اور بھائی کی جگہ پولیس بلانے میں دیر نہیں کرتیں۔ یہاں آ کر یہ بھی احساس ہوا کہ یہاں صنفِ نازک اتنی نازک بھی نہیں ہے۔ وہ نہ صرف اپنا دفاع بخوبی کر سکتی ہیں بلکہ ضرورت پڑے تو ہم جیسوں کو دن میں تارے دکھا سکتی ہیں۔ ایک تو ان کا قد و قامت ہمارے ہاں کی خواتین سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اوپر سے جمنازیم میں گھنٹوں کسرت کر کے انہوں نے خود کو اتنا مضبوط بنایا ہوتا ہے کہ ان کے بازو میرے جیسے مرد کی ٹانگوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ شرمانا اور لجانا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔ مردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسے بات کرتی ہیں کہ انہیں ہی اپنی آنکھیں جھکانی پڑتی ہیں۔ اوپر سے قانون بھی انہی کی سنتا ہے۔ کسی عورت سے مذاق بھی کر لو تو جنسی ہراسانی کا کیس بن جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ عورتیں خود جنسی مسائل پر مردوں سے ایسے بات کرتی ہیں جسے موسم کا حال سنا رہی ہوں‘‘

میں نے جاوید سے کہا ’’آپ نے تھوڑے عرصے میں اس موضوع پر کافی ریسرچ کر ڈالی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن یورپی زندگی میں عورت مسئلہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ آپ کے پاس وقت اور وسائل ہوں۔ ویسے یہ شوق بھی شروع شروع کا ہے۔ بعد میں سب نارمل لگنے لگتا ہے۔ معاشیات کے اصولِ طلب اور رسد کی طرح جہاں کسی شے کی فراوانی ہو اس کی طلب گھٹ جاتی ہے‘‘

جاوید کہنے لگا ’’وقت کا تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، البتہ وسائل عنقا ہیں۔ تاہم وصل کے وسائل نہ ہونے کے باوجود یہاں کے نظارے ہی اتنے ہوش ربا ہیں کہ بعض اوقات انسان آنکھیں جھپکنا بھول جاتا ہے‘‘

شکیل بولا ’’یہ صحیح کہہ رہا ہے کیونکہ یہ جس گوری کو بھی اسکرٹ یا نیکر میں دیکھتا ہے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ خیالوں ہی خیالوں میں نہ جانے کن جہانوں کی سیر پر چلا جاتا ہے۔ مجھے جھنجوڑ جھنجوڑ کر اسے عالمِ مد ہوشی سے واپس لانا پڑتا ہے۔ بس اور ٹرین میں بیٹھتا ہے تو خالی سیٹوں کو چھوڑ کر کسی گوری کے ساتھ لگ کر بیٹھتا ہے۔ بعض اوقات وہ خشمگیں نظروں سے دیکھ کر رہ جاتی ہیں۔ کئی دفعہ اٹھ کر دوسری سیٹ پر بیٹھ جاتی ہیں۔ کبھی کوئی اس سے دوچار باتیں کر لیتی ہیں تو اس کا وہ دن اچھا گزر جاتا ہے۔‘‘

جاوید نے گھور کر اسے دیکھا اور بولا ’’تم اپنے بارے میں کیوں نہیں بتاتے! بازو پر گھڑی باندھی ہوئی ہے لیکن جگہ جگہ گوریوں کو روک کر وقت پوچھنے لگ جاتے ہو۔ جانا کہیں ہوتا نہیں، خواہ مخواہ بس اور ٹرین کے روٹ نمبر دریافت کرنے لگتے ہو۔‘‘

شکیل بولا ’’وہ تو میں انگریزی بولنے کی مشق کے لئے ایسا کرتا ہوں۔‘‘

جاوید بولا ’’تو کیا انگریزی صرف عورتوں سے ہی سیکھی جا سکتی ہے؟ مردوں سے کیوں نہیں بات کرتے۔ کیا ان کی انگریزی کمزور ہے؟‘‘

’’تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ عورتیں اچھی استاد ہوتی ہیں‘‘

’’تو کیا ان سب عورتوں کو استانی سمجھ کر بات کرتے ہو؟ تمہیں پتہ ہے استاد اوراستانی کا کیا رتبہ ہوتا ہے۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے اور استانی روحانی ماں‘‘

شکیل بولا ’’وہ پاکستان میں ہوتا ہے، یہاں نہیں۔ یہاں اصل باپ کی کوئی نہیں پرواہ کرتا۔ استادوں کو یہ رتبہ کون دیتا ہے۔ ویسے تم اتنی باتیں کر رہے ہو۔ جب غیر عورتوں کے ساتھ جڑ کر بیٹھتے ہو تو تمہاری مشرقی شرم و حیا کہاں چلی جاتی ہے؟‘‘

جاوید نے ہنستے ہوئے کہا ’’چلی نہیں جاتی پاکستان میں چھوڑ کر آ گیا ہوں۔ اگر اسے بھی ساتھ لانا تھا تو پھر یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اتنا لمبا سفر کر کے اور اتنی تکلیفیں کاٹ کر یہاں آئے ہیں تو اتنا تو ہمارا حق بنتا ہے کہ یہاں کی خوشبوؤں اور رنگوں میں سے کچھ حصہ چرا سکیں‘‘

میں نے ان دونوں کی دلچسپ بحث سے محفوظ ہوتے ہوئے کہا ’’بھئی تم دونوں کی جوڑی بہت خوب ہے۔ دونوں کے مزاج بھی رنگین ہیں اور مشن بھی ایک ہی ہے۔ جس طرح تم ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے ہو اس سے مشکلات کا احساس کم ہوتا ہے اور دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا رہتا ہے۔ میری دعا ہے کہ تم دونوں کی زندگی اسی طرح ہنستے کھیلتے گزرے اور وہ سب کچھ حاصل کر سکو جس کے لئے سرگرداں ہو‘‘

روزی خاموشی سے ہماری پنجابی میں گفتگو سن رہی تھی۔ ظاہر ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں خاموش ہوا تو کہنے لگی ’’لگتا ہے کہ کافی خوشگوار باتیں ہو رہی ہیں۔ کاش کہ میں سمجھ سکتی‘‘

میں نے جاوید اور شکیل کی گفتگو کا خلاصہ اُسے سنایا تو وہ بھی بہت ہنسی اور بولی ’’ایسا میرے ساتھ کئی بار ہوا ہے۔ کئی ایشیائی نوجوان روک کر مجھ سے وقت دریافت کرتے ہیں یا بسوں اور ٹرینوں کا روٹ دریافت کرتے ہیں۔ حالانکہ واضح محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نہ تو وقت کے علم سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں جانا ہوتا ہے۔ ان کی اصل دلچسپی ان کی آنکھوں میں تحریر ہوتی ہے۔ کسی بھی عورت کے لئے مرد کی آنکھیں پڑھنا مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن میں ایک بات میں ضرور کہوں گی کہ یہ زیادہ تر وہ نوجوان ہوتے ہیں جو نئے نئے یورپ میں وارد ہوتے ہیں۔ وہ بے ضرر بلکہ معصوم ہوتے ہیں۔ چند باتیں کر کے یا کسی خاتون کے قریب بیٹھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مقامی غنڈے عورت کو لولی پاپ سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کا قانون عورت کے حقوق کی سختی سے حفاظت کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو عورتوں کا اس معاشرے میں جینا محال ہو جائے‘‘

جاوید نے مجھ سے پوچھا ’’آپ آسٹریلیا سے آئے ہیں۔ کیا یہ خاتون بھی وہی سے ہیں؟‘‘

میں نے کہا ’’نہیں بھئی! روزی اسی شہر لندن کی پیداوار ہے‘‘

شکیل بولا ’’تو آپ ایک دوسرے کو کب سے جانتے ہیں؟‘‘

’’ہماری ملاقات چند دن پہلے ہوئی ہے‘‘

جاوید نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’سر یہ آپ کی گرل فرینڈ ہے‘‘

میں نے کہا ’’یوں تو یہ گرل بھی ہے اور فرینڈ بھی! لیکن ان معنوں میں نہیں جس میں آپ سمجھ رہے ہیں‘‘

جاوید نے استفسار جاری رکھا ’’کیا مطلب؟‘‘

میں نے کہا ’’جاوید کچھ رشتے بے نام بھی ہوتے ہیں اور اسی میں ان کی خوبصورتی ہوتی ہے۔ اچھا اب رات بہت ہو گئی ہے۔ آپ لوگوں کا کیا پروگرام ہے؟‘‘

شکیل بولا ’’اب ہم بھی اپنے ٹھکانے کی طرف جائیں گے۔ ویسے یہ شام آپ کی وجہ سے بہت اچھی گزری۔ ہم آپ کا کیسے شکریہ ادا کریں؟‘‘

میں نے کہا ’’یہ کیا بات ہوئی۔ جس طرح تم لوگ اس شام سے لطف اندوز ہوئے ہو۔ میرا بھی آپ لوگوں کی وجہ سے دل لگا رہا۔ اس لئے حساب برابر۔ میں یہاں نہیں رہتا اور عنقریب یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا۔ اب شاید ہی ہماری ملاقات ہو۔ لیکن میری دعائیں آپ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ خدا آپ کو اپنے مقاصد میں کامیاب کرے‘‘

شکیل اور جاوید نے معانقہ کیا تو ان کی آواز گلو گیر اور آنکھیں نم تھیں۔ میں اور روزی بھی بوجھل دِل کے ساتھ ان سے جدا ہوئے۔


ہم دونوں کا گزارا کیسے ہو گا



ان دونوں کے جانے کے بعد میں نے روزی سے پوچھا ’’اب کیا پروگرام ہے۔ گھر چلیں؟

روزی نے کہا ’’کیوں؟ کیا نیند ستا رہی ہے؟‘‘

’’نیند بے چاری مجھے کیا ستائے گی۔ میں نیند کو ستانے والوں میں سے ہوں۔ اسے اتنا بھگاتا ہوں کہ اب تو ڈر ڈر کر بلکہ پوچھ پوچھ کر آتی ہے‘‘

’’تو چلو کہیں چل کر بیٹھتے ہیں‘‘

میں بیٹھنے کا مطلب جانتا تھا۔ مجھے اس میں دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن اپنی ہم نشین کا دل توڑنا بھی گوارا نہ تھا۔ لہذا تھوڑی دیر کے بعد ہم ایک پب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ روزی اسکاچ اور میں کوک سے شغل کر رہا تھا۔ پرانی طرز کا پب تھا۔ چند اونچی میزیں اور اسی سائز کے سٹول موجود تھے۔ لیکن زیادہ تر لوگ اِدھر اُدھر کھڑے پی رہے تھے اور گپ شپ میں مصروف تھے۔ ایسے ہی چند اونچے سٹول کاؤنٹر کے ساتھ بھی موجود تھے۔ وہاں بھی کچھ لوگ مسلسل کھڑے تھے۔ پورے پب میں کرسی کوئی نہیں تھی۔ ایک طرف پرانے طرز کی لکڑیوں کی بڑی سی انگیٹھی تھی۔ جس میں جلتی لکڑیاں سرخ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہی تھیں۔

پب کے ایک کونے میں دو پوکر مشینیں ایستادہ تھیں۔ ان کے پاس بھی کرسی نہیں تھی۔ مے خواروں میں سے کوئی اس مشین تک جاتا، چند سکے ڈالتا، ایک دو ہاتھ مارتا اور پھر ہاتھ جھاڑ کر واپس اپنے ساتھیوں میں شامل ہو جاتا۔ اس کے مقابلے میں مجھے آسٹریلین پب اور ہوٹل بالکل مختلف محسوس ہوئے جن میں آرام دہ کرسیاں بلکہ صوفے، بڑی بڑی میزیں، ائر کنڈیشنڈ ہال، سنوکر ٹیبل اور درجنوں کے حساب سے پوکر مشینیں موجود ہوتی ہیں۔ آسٹریلین جواریوں کا سکوں سے کچھ نہیں بنتا۔ وہ مشین کے سامنے آرام دہ کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ مشین کے ایک طرف بیئر کا گلاس اور دوسری طرف سگریٹوں سے بھری ایش ٹرے ہوتی ہے۔ وہ نوٹوں پہ نوٹ اس مشین کے پیٹ میں اتارتے جاتے ہیں، بیئر کی چسکیاں لیتے ہیں، سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتے ہیں اور مشینوں کو لاتیں مارتے ہیں۔ جب سارے کریڈٹ اور جیب سے نوٹ ختم ہو جاتے ہیں تو کونے میں موجود اے ٹی ایم سے مزید رقم نکال کر پھر میدانِ کارزار میں آ موجود ہوتے ہیں۔ چہرہ مسلسل ناکامی سے دھواں دھواں ہو رہا ہوتا ہے۔ سگریٹ کی راکھ کپڑوں پر گر رہی ہوتی ہے۔ آنکھیں مشین پر جمی ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ پب کا سٹاف انہیں پب بند ہونے کے وقت کے بارے میں بتاتا ہے۔ بشرطیکہ وہ پب بند ہونے والا ہو۔ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک ایسے ہوٹل اور پب چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے۔ لیکن اب نیوساؤتھ ویلز کی حکومت نے قانون بنایا ہے کہ ان ہوٹلوں کو کم از کم چار گھنٹے کے لئے بند کرنا پڑے گا۔ تاکہ جواریوں کو یاد دلایا جا سکے کہ ان کا کوئی گھر بھی ہے۔ جتنا جوا ء آسٹریلیا میں ہوتا ہے شاید ہی دنیا میں کسی اور ملک میں ہوتا ہو۔ کئی لوگ اس لت میں گھر بار برباد کر دیتے ہیں۔ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آ جاتی ہے اور لکھ پتی فٹ پاتھ پر آ جاتے ہیں۔ یہ بیماری آسٹریلیا میں اتنی عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اس سے محفوظ ہو۔ خصوصاً مشرقی ایشیاء کے ممالک سے آنے والے باشندے مثلاً چینی، تائیوانی، فلپائنی، انڈونیشین اس لت میں بری طرح مبتلا ہیں۔ خود آسٹریلین بھی بڑی تعداد میں اس مرض کے مریض ہیں۔ اتنے لوگوں کی زندگی، گھر بار اور خاندانوں کی تباہی کے باوجود حکومت جوئے کو روکنے کے حق میں نہیں ہے۔ کیونکہ اسے اس مد میں بہت زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ کیسینو اور ہوٹل جوئے کی کمائی کا ایک بڑا حصہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔

اس تقابلی جائزے کا مقصد یہ ہے کہ آسٹریلیا کے مقابلے میں برطانیہ کے عام ہوٹلوں اور پبوں میں جوا ء اس تعداد میں نہیں ہوتا۔ انگریز اب بھی صدیوں پرانی روایت کے مطابق کھڑے ہو کر یا لمبی ٹانگوں والے سٹولوں پر بیٹھ کر پیتے ہیں۔ آسٹریلیا میں بیئر زیادہ مقبول ہے جبکہ برطانیہ میں اس کے مقابلے میں وائن زیادہ پی جاتی ہے۔ انگریز نشے میں ہونے کے باوجود بغیر تعارف کے کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ ایک دفعہ بولنا شروع کر دیں تو انہیں روکنا کارِ دار ہوتا ہے جبکہ آسٹریلین بہت جلد بے تکلف ہو جاتے ہیں۔

اس دوران روزی مسلسل مے نوشی میں مشغول تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی زبان بھی مشین کی طرح چل رہی تھی۔ جوں جوں اس کی رگوں میں الکوحل کی مقدار بڑھ رہی تھی توں توں اس کی زبان میں روانی پیدا ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں سرخی بڑھ رہی تھی اور گالوں کی حدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس کا سٹول کھسک کھسک کر مزید میرے قریب ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ اس کا سر میرے شانے سے آ ٹکا۔ میں نے سہارا دے کر اسے اس کی سیٹ پر سیدھا کیا اور پوچھا ’’کیا خیال ہے! اب گھر چلیں؟‘‘

روزی نے عادی شرابیوں کی طرح سر اٹھایا۔ میری آنکھوں میں جھانکا، مسکراہٹ کا تیر پھینکا اور میرے کانوں میں گنگنائی ’’جہاں تمہارا دِل چاہے لے چلو‘‘

میں سہارا دے کر روزی کو باہر فٹ پاتھ پر لے آیا۔ اس سے دریافت کیا کہ نزدیکی سٹیشن کون سا ہے۔ روزی نے سٹیشن کا نام بتایا تو میں نے کہا ’’یہاں سے سٹیشن تک ٹیکسی لے لیتے ہیں۔ تمہارا گھر سٹیشن سے کتنے فاصلے پر ہے؟‘‘

روزی بولی ’’میرا گھر بھی وہی ہے، جہاں تم جاؤ گے۔ کیونکہ آج میں اپنے گھر نہیں جاؤں گی‘‘

میں نے گھبرا کر کہا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘

’’کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہم نے سولہ گھنٹے اکھٹے گزار لئے ہیں۔ اب صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے۔ باقی چند گھنٹے بھی اکھٹے گزار لیں گے تو قیامت نہیں آئے گی‘‘

’’مگر روزی یہ مناسب نہیں ہے‘‘

روزی بولی ’’اور میرا اس وقت اس حال میں اکیلے گھر جانا مناسب ہے کیا؟‘‘

میں پریشان ہو گیا۔ تھوڑی دیر سوچ کر میں نے کہا ’’میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ کر آؤں گا‘‘

روزی اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے میں نے اُس سے اس کے گھر کا پتہ اگلوایا۔ روزی کو اُس کے گھر چھوڑ کر اسی ٹیکسی سے میں ہوٹل واپس آ گیا۔ آنے اور جانے میں ایک گھنٹہ صرف ہو گیا۔ روزی کے ’’بیٹھنے‘‘ کے چکر میں میرے پینتیس پونڈ اُٹھ گئے تھے۔ ہوٹل پہنچتے پہنچتے صبح کے تین بج گئے۔

اُس کی سنہری زلفیں میرے چہرے کو چھُو رہی تھیں

میں میٹھی نیند کی رنگین وادیوں کی سیر کر رہا تھا۔ ایسے محسوس ہوا کہ بارش کے نرم قطرے مجھے گدگدا رہے ہیں۔ ایک بھینی سی خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرائی اور دل و دماغ پر نشے کی طرح چھا گئی۔ پھر کسی کی دلنشین ہنسی کی مدھر موسیقی میرے کانوں میں رس گھولنے لگی۔ ایسا لگا کہ میں پریوں کے دیس میں پہنچ گیا ہوں۔ وہ مجھے گھیرے ہوئے ہیں۔ ان کی زلفیں مجھ پر سایہ فگن ہیں اور ان کی مدھر ہنسی میرے دل و دماغ میں نشہ سا انڈیل رہی ہے۔ میں نے دھِیرے دھِیرے نیند بھری آنکھیں وا کیں تو روزی کو اپنے اُوپر جھکے پایا۔ اس کی سنہری زلفیں میرے چہرے کو چھو رہی تھیں اور ان کی خوشبو مشام جان کو معطر کئے دے رہی تھی۔ روزی نے ہنستے ہوئے کہا ’’اٹھ جاؤ مسافر! دن کے دس بج چکے ہیں‘‘

میرا بدن تھکاوٹ اور نیند کی کمی سے ٹوٹ رہا تھا۔ لیکن یہ اگلے سفر پر روانہ ہونے سے پیشتر لندن میں میرا آخری دن تھا جسے میں سو کر گزارنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے دھِیرے دھِیرے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ روزی نے میرے لئے کافی بنائی ہوئی تھی اور خود بھی پی رہی تھی۔ بلیک کافی کا سنہری سیال معدے میں اُترا تو نیند کوسوں دور جا چکی تھی۔ دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو میں حیران ہوا کہ روزی کمرے میں کیسے داخل ہوئی۔ جب یہی سوال میں نے اس سے کیا تو وہ کھلکھلائی ’’میں نے اس کمرے کی اضافی چابی بنوا لی ہے۔ اب تم مجھے یہاں آنے سے نہیں روک سکتے‘‘

’’روزی مذاق نہیں کرو! سچ بتاؤ، تم اندر کیسے داخل ہوئیں؟ کہیں میں دروازہ لاک کرنا تو نہیں بھول گیا تھا‘‘

’’نشے میں تو میں تھی اور دروازہ تم نے کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ میں نے کھٹکھٹانے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو محسوس ہوا کہ دروازہ لاک نہیں ہے۔ مسافر ہوش کے ناخن لیا کرو۔ کہیں پردیس میں سب کچھ گنوا نہیں دینا‘‘

اپنی لاپرواہی پر مجھے بہت غصہ آیا۔ روزی درست کہہ رہی تھی۔ اگر پردیس میں پاسپورٹ، نقدی، بنک کے کارڈز اور دیگر اہم اشیاء کھو گئیں تو ناقابلِ بیان پریشانی ہو سکتی ہے۔ میں نے دل ہی دل میں آئندہ محتاط رہنے کا عزم کیا۔

اس وقت ہوٹل کا ریسٹورنٹ بند ہو چکا تھا۔ ان کا ناشتے کا وقت ساڑھے نو بجے تک تھا۔ باہر جا کر ایک کیفے سے میں نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا۔ روزی گھر سے ناشتہ کر کے آئی تھی۔ اس نے کافی کے ایک کپ پر اکتفا کیا۔ ناشتے کے دوران بلکہ اس پورے دن روزی یا میں نے گزری رات کا ذکر نہیں کیا۔ تاہم کافی پیتے ہوئے روزی نے ہولے سے کہا ’’طارق تمھارا بہت بہت شکریہ‘‘

میں نے حیرانی سے کہا ’’شکریہ! مگر کس بات کا؟‘‘

’’کل رات کا‘‘ روزی نے آنکھیں جھکا کر کہا

میں اس موضوع کو چھیڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے اٹھتے ہوئے روزی سے کہا ’’یہ شکریے اور سوری کا گردان پھر کسی وقت کر لیں گے۔ یہ بتاؤ اِس وقت اِس پردیسی کو کہاں لے کر جا رہی ہو؟‘‘

اس کے تھوڑی دیر بعد ہم ٹرین میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چند منٹوں بعد ہی ٹاور برج سٹیشن پہنچ گئے۔ سٹیشن سے باہر نکلے تو سامنے ٹاور برج تھا جو دریائے ٹیمز کے اوپر واقع ہے۔ صدیوں پرانے اس تاریخی برج سے گزر کر اور دریائے ٹیمز کا نظارہ کرتے ہوئے ہم ٹاور آف لندن کے صدر دروازے کے سامنے جا نکلے۔ اس انتہائی تاریخی عمارت کی سیر کے بغیر لندن کی سیاحت مکمل نہیں ہوتی۔ نو سو سال سے اس عمارت نے برطانیہ کی شاہی تاریخ کے اہم واقعات اور شخصیات کے عروج و زوال کو اپنی اندھی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ عمارت صدیوں سے شاہی محل، قلعہ، جیل، عقوبت خانہ اور شاہی خاندان کے نہایت بیش قیمت زیورات اور نوادرات کی نمائش گاہ بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ شاہی خاندان پہلے کنسنگٹن پیلس اور اب بکنگھم پیلس میں مقیم ہے لیکن ٹاور آف لندن کی تاریخی اہمیت جوں کی توں ہے۔ انتہائی مشہور اور تاریخی قیدی اس قلعے میں مقید رہے۔ مثلاً ولیم ہشتم کی دو بیویوں کے سر اس قلعے میں جسم سے جدا کئے گئے تھے۔ قلعے کا ہر حصہ اور ہر کمرہ اپنی جگہ پر جداگانہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔

تاریخی کہانیاں اور ان کی نشانیاں یہاں ہر سو بکھری ہیں۔ بادشاہوں اور ملکات کے علاوہ مشہور مجرموں کی کہانیاں بھی ٹاور آف لندن سے وابستہ ہیں۔ یہ کہانیاں معلوم نہیں مبنی بر حقیقت ہیں یا محض افسانہ مگر سیاح کو کسی انوکھی دنیا میں پہنچا ضرور دیتی ہیں۔ اس عمارت کے ایک حصے میں شاہی خاندان کے تاج اور دوسرے قیمتی زیورات بھی نمائش کے لئے موجود ہیں۔ مختلف ادوار کے بادشاہوں کے تاج آج بھی پوری سج دھج کے ساتھ یہاں رونق افروز ہیں۔ شاہی تخت، بادشاہوں اور ملکات کے شاہی ملبوسات، بادشاہ یا ملکہ کی عصا (جس میں قیمتی ہیرے جڑے ہیں) اور شاہی پلنگ جو تقریباً ایک چھوٹے کمرے کے برابر اور سجاوٹ میں بے نظیر ہیں، اس ٹاور میں نمائش کے لئے رکھے ہوئی ہیں۔ برطانیہ کا شاہی تاج جس طرح وقت کے ساتھ تبدیلی کے مراحل سے گزرتا رہا اور اس کی بناوٹ و سجاوٹ میں مختلف بادشاہوں کے ادوار میں جو تبدیلیاں آتی رہیں وہ سب یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مشہورِ زمانہ کوہ نور ہیرے کے علاوہ دوسرے کئی نایاب ہیرے اور دیگر بیش قیمتی پتھر بھی سیاحوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لئے یہاں رکھے ہوئے ہیں۔

ٹاور آف لندن بادشاہ ولیم نے 1080ء میں تعمیر کروا یا تھا۔ یہ مدتوں تک شاہی اسلحہ خانہ بھی رہا ہے اور اب بھی زمانۂ قدیم کے اسلحہ جات اس کے عجائب گھر میں نمائش کے لئے موجود ہیں۔ جس میں ایک ہزار سال پہلے استعمال ہونے والی پتھر پھینکنے والی توپیں اور گھوڑے والی بندوقیں بھی شامل ہیں۔ یہاں لکڑی سے تراشے گئے قدرتی سائز کے شیر اور گھوڑے بھی موجود ہیں۔ ان کی تراش خراش نہایت مہارت سے کی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ ابھی ان میں جان پڑ جائے گی اور وہ دوڑنے لگیں گے۔

گھنٹوں تک اس عمارت کے مختلف حصے اور ان میں موجود تاریخی فن پارے دیکھنے کے باوجود جی چاہتا تھا کہ ان تاریخی نوادرات کو آنکھوں میں سمیٹ لیں یا دماغ کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیں کہ جب دل چاہے تو بند آنکھوں سے انہیں بار بار دیکھ لیں۔ اس طرح کے تاریخی مقامات اور تاریخی اشیاء میں میری گہری محویت کی وجہ یہ ہے کہ میں ان چیزوں کو ان کی موجودہ شکل و شباہت میں دیکھنے کی بجائے خود کو اس زمانے میں پہنچا ہوا محسوس کرتا ہوں جب یہ سب اشیاء مستعمل تھیں۔ جب ان تختوں پر اُس وقت کے بادشاہ شان و شوکتسے بیٹھتے تھے۔ یہ ہیروں والی خوبصورت عصا ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ ان قید خانوں میں بادشاہ یا ملکہ کے خلاف آواز اٹھانے والے دیواروں کے ساتھ زنجیروں سے بندھے ہوتے تھے۔ جلاد تلوار لے کر ان کے سر قلم کرنے کے لئے ان کے سروں پرِ موت بن کر منڈلا رہا ہوتا تھا۔ ان جہازی سائز کے پلنگوں پر وہ بادشاہ سوتے تھے جن کی حکومت آدھی دنیا پر ہوتی تھی اور پوری دنیا کے وسائل جن کی دسترس میں تھے۔

ان تصورات کے ساتھ ایسی جگہوں کی سیر انسان کو انوکھے جہاں میں پہنچا دیتی ہے۔ جہاں وہ خود کو ماضی کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ بھی میرا پسندیدہ مضمون ہے۔ ان بادشاہوں اور ملکاؤں کے بارے میں میں نے بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ آج ان کی زندہ نشانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو جیسے وہ زمانہ پوری آب و تاب کے ساتھ ذہن میں روشن ہو گیا۔ اس روشنی میں اس زمانے کی زندگی ایک فلم کی مانند ذہن کی سکرین پر چلتی محسوس ہو رہی تھی۔

ٹاور آف لندن سے نکلے تو شام کے چار بجے تھے۔ اس دن صبح سے کئی مرتبہ بارش کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر دھوپ نکلی۔ تھوڑی دیر بعد پھر بارش شروع ہو گئی۔ اس طرح بادل اور سورج میں آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ سارا دن جاری رہا۔ کل کی بھی تھکاوٹ تھی۔ اوپر سے چار گھنٹے ٹاور آف لندن میں کھڑے یا چلتے ہوئے گزرے تھے۔ میرا جسم دہائیاں دے رہا تھا کہ اسے آرام کی سخت ضرورت ہے۔

ہم نے نزدیکی میکڈونلڈ سے کھانا کھایا اور ٹاور برج کے سائے تلے دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھ کر کافی کی چسکیاں لینے لگے۔ روزی حسب معمول چہک رہی تھی۔ لیکن آج اس کی باتوں میں شوخی کے ساتھ ساتھ اُداسی کا عنصر بھی شامل تھا۔ اسے علم تھا کہ اگلی صبح میں لندن سے روانہ ہو رہا ہوں۔ مجھے بھی ایسے محسوس ہونے لگا تھا کہ ہم مدتوں سے اکھٹے ہیں۔ مجھے روزی کی عادت سی ہو گئی تھی۔ حالانکہ یہ سفر میں نے اکیلے ہی کرنا تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں میرا اِس حقیقت سے آنکھیں چرانے کو دل چاہ رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ اچھے دوست کی معیت میں سیر کا مزہ دو بالا ہو جاتا ہے اور روزی ایک بہت اچھی دوست ثابت ہوئی تھی۔ شاید اس کے جذبات بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ جب وہ رخصت ہونے لگی تو اس کی آنکھیں نم اور آواز گلو گیر تھی۔ ہر ملن کے پیچھے جدائی بھی چھپی ہوتی ہے اور آج وہ لمحہ آ گیا تھا۔ خاصے جذباتی انداز میں ملنے کے بعد روزی نے مجھے ٹرین میں سوارکرایا۔ ٹرین نظروں سے اوجھل ہونے تک وہ دوڑتی رہی ہاتھ ہلاتی رہی اور اشکوں کے موتی گراتی رہی۔ جب وہ کھلی آنکھوں سے غائب ہوئی تو میں نے آنکھیں بند کر لیں حتیٰ کہ میرا مطلوبہ اسٹیشن آنے کا اعلان ہو گیا۔ روزی ہمیشہ میرے نہاں خانۂ دل میں ایک پر خلوص دوست کی حیثیت سے موجود رہے گی۔

ٹرین سے اتر کر ابھی میں ہوٹل سے چند بلاک کے فاصلے پر تھا کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص نے میرا راستہ روک لیا۔ میں نے کہا ’’جی فرمایئے‘‘

وہ کہنے لگا ’’میرا تعلق اٹلی سے ہے اور میرا جیکٹوں کا کاروبار ہے۔ میں اٹلی کی بنی ہوئی جیکٹس لندن لا کر فروخت کرتا ہوں۔ اس دفعہ جو جیکٹیں میں یہاں لایا تھا وہ ساری بک چکی ہیں۔ صرف چند دانے باقی ہیں۔ میں انہیں اونے پونے نرخوں پر فروخت کر کے جلد از جلد اٹلی واپس جانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ خریدنا چاہیں تو میں اصل سے آدھی قیمت پر آپ کو فروخت کر سکتا ہوں۔ میری گاڑی یہیں کھڑی ہے۔ آیئے آپ کو دکھاتا ہوں۔‘‘

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ مجھے ان اٹالین بیوپاریوں بلکہ نو سر بازوں سے واسطہ پڑا ہو۔ بالکل اسی انداز اور اسی کہانی کے ساتھ سڈنی میں بھی دو مرتبہ اس گینگ سے واسطہ پڑ چکا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ بین الاقوامی گینگ ہے جو ایک ہی کہانی سے مسافروں اور اجنبیوں کی جیبیں خالی کراتے ہیں۔ ایک تو وہ کہانی ایسی لے کر آتے ہیں کہ مخاطب خواہ مخواہ دلچسپی لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ قیمت اس انداز میں اچانک کم کر دیتے ہیں کہ فریقِ مخالف کے ساتھ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے کچھ پٹھان حضرات قالین اور کمبل کاندھے پر لاد کر بیچتے نظر آتے ہیں۔ ان سے کسی قالین کی قیمت دریافت کریں تو وہ دو ہزار روپے بتائے گا۔ اگر اسے کہا جائے پانچ سو روپے لو گے تو بولتا ہے ’ خوچہ دیو ٗ۔ قیمت لگانے والا ظاہر ہے خریدنے کی نیت سے اتنی کم قیمت نہیں لگاتا۔ لیکن چونکہ اصل قیمت اس سے بھی کم ہوتی ہے اس لئے خان صاحب اصرار کرنے لگتے ہیں ’’خو چہ نکالو پیسہ‘‘

اب یا تو بادل نخواستہ اسے خریدیں یا خفت کا سامنا کریں۔ یہی حال ان اٹالین بیوپاریوں کا ہے۔ لہذا میں نے جیکٹیں دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور اس سے معذرت کر کے ہوٹل کی طرف چل پڑا۔ وہ صاحب کافی دور تک میرے ساتھ چلتے رہے اور اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتے رہے۔ پھر مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔

ہوٹل پہنچ کر تھوڑی دیر آرام کیا۔ پھر شاور کر کے اور لباس بدل کر میں اس عربی ریسٹورنٹ میں ڈنر کے لئے چلا گیا۔ اس دن میری فرمائش پر انہوں نے میرے کھانے میں ٹماٹروں کی کھٹاس کم رکھی اور مرچیں قدرے تیز رکھیں۔ جس سے کھانا خاصا ذائقے دار ہو گیا۔ کھانے کے بعد وقت ضائع کئے بغیر میں ہوٹل واپس آ گیا۔ صبح ساڑھے چھ بجے ہماری ٹور بس روانہ ہو رہی تھی۔ میں نے سامان پیک کیا۔ کمرے کے ٹی وی میں الارم سسٹم موجود تھا۔ پانچ بجے کا الارم لگا دیا۔ پھر استقبالیہ پر فون کر کے احتیاطاً انہیں بھی پانچ بجے جگانے کے لئے کہہ دیا۔ یورپ سے واپسی پر میرا اسی ہوٹل میں مزید ایک رات کا قیام تھا۔ اس کی بکنگ بھی میں نے ابھی سے کروا دی۔ ہوٹل والوں سے ہی کہہ کر صبح چھ بجے کے لئے ٹیکسی بھی بک کروا دی۔

استقبالیہ کلرک نے بکنگ کے لئے میرا نام دریافت کیا۔ میں نے نام بتایا تو پوچھنے لگا آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔ مجھے بھی اندازہ ہو گیا کہ وہ کیوں پوچھ رہا ہے۔ میں نے اس کی توقع کے مطابق پاکستان بتایا تو بہت خوش ہوا۔ اس کا نام نعیم احمد تھا اور اس کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد سے تھا جہاں اس کا بھائی صوبائی اسمبلی کا رکن تھا۔ نعیم لندن میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور فالتو وقت میں کام کر کے کچھ رقم بھی کما لیتا تھا۔ رکنِ اسمبلی کے بھائی کا اس طرح ہوٹل میں کام کرنا مجھے عجیب سا لگا۔ شاید صوبہ سرحد کی ممبری میں اتنا پیسہ بنانے کا موقع نہ ملتا ہو جتنا پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں کے ممبران کو ملتا ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں کے ارکان جب یورپ، امریکہ یا آسٹریلیا کے دورے پر جاتے ہیں تو پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ انہیں گلچھرے اڑاتے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ کسی ملک کا بادشاہ یا شہزادہ یہاں آیا ہوا ہے۔ میرے ایک دوست کا دوست جو قومی اسمبلی کا ممبر تھا سڈنی آیا تو مجھے اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس ممبر نے اپنے چار ہفتے کے قیام میں وہ عیاشیاں کیں کہ الامان۔ اس دوران وہ پیسہ ایسے پانی کی طرح بہا رہا تھا کہ سعودی شاہی خاندان کے شہزادے بھی اس کے آگے پانی بھرتے نظر آتے۔ میں اس ’’پاکستانی شہزادے‘‘ کے یہاں قیام کے قصے سناتا ہوں تو لوگوں کو یقین نہیں آتا۔ قوم کا درد سینے میں سجائے وہ اسمبلی کا ممبر چند دنوں میں کروڑوں روپے لٹا کر واپس گیا۔

اگلی صبح پانچ بجے گرم بستر چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔ تیار ہو کر اور ہوٹل کا بل ادا کر کے باہر نکلا تو چھے بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ پانچ منٹ کے بعد ٹیکسی آن پہنچی۔ لندن میں دو قسم کی ٹیکسیاں چلتی ہیں۔ ایک تو اصلی ٹیکسی ہوتی ہے۔ جو خاص طور پر اس مقصد کے لئے تیار کی گئی ہے۔ مینڈک کی شکل کی اس ٹیکسی پر ٹیکسی کا سائن اور مخصوص رنگ ہوتا ہے۔ اس کی اگلی اور پچھلی سیٹوں کے درمیان پلاسٹک کی سکرین لگی ہوتی ہے۔ یہ ڈرائیور کی حفاظت کی غرض سے ہوتی ہے۔ سکرین کے ایک حصے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی سی بنی ہوتی ہے جہاں سے ڈرائیور کرایہ لیتا ہے۔ یہ ٹیکسی میٹر کے حساب سے کرایہ چارج کرتی ہے۔

ٹیکسی کی دوسری قسم جو لندن میں رائج ہے وہ پرائیویٹ اور عام کار کی شکل میں ہے۔ اس قسم کی ٹیکسی صرف فون کے ذریعے بک کی جاتی ہے۔ یہ ٹیکسی قانوناً سٹریٹ سے مسافر اٹھانے کی اہل نہیں۔ ان کا کرایہ میلوں کے حساب سے ہوتا ہے اور پہلے طے کر لیا جاتا ہے۔ میرے لئے آنے والی ٹیکسی بھی اسی قسم کی تھی اور اس کا کرایہ دس پونڈ طے تھا۔ تھوڑی دیر میں ہی اس ایرانی ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے ٹریفالگر ٹورسٹ کمپنی کے آفس میں پہنچا دیا۔







ٹریفالگر


ایک دفعہ مل لو میری شرافت کا یقین آ جائے گا



ٹریفالگر کے بارے میں سڈنی میں میرے ٹریول ایجنٹ نے ابتدائی معلومات دی تھیں۔ اسی ایجنٹ نے مجھے اس کمپنی کی ایک معلوماتی کتاب بھی دی جس میں یورپ کی سیر کے لئے اس کمپنی کے مختلف پیکجز کی تفصیلات درج تھیں۔ یورپ میں ایسی کئی بڑی کمپنیاں سیاحوں کی سروس کے لئے دستیاب ہیں جن کے توسط سے آپ اپنی سہولت، اپنے بجٹ اور دستیاب وقت کے مطابق سیر کا مکمل پروگرام بنا سکتے ہیں۔ یہ سیر دنوں سے لے کر مہینوں تک مختلف دورانیے کی ہو سکتی ہے۔ اس کے رُوٹ اور ذرائع سفر بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان کمپنیوں کی اپنی ٹورسٹ کوچز، ڈرائیورز اور گائیڈز ہوتے ہیں۔ وہ سیاحوں کی دلچسپی کے مطابق پیکج بناتے ہیں۔ انہیں اپنی کوچز میں طے شدہ روٹ پر ہر جگہ پہچانے، ہوٹلوں کا بندوبست کرنے، قابل دید مقامات کے ٹکٹ مہیا کرنے، سفری اور مقامی گائیڈ فراہم کرنے کے علاوہ کئی دیگر سہولتیں مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح سیاح کم سے کم وقت اور بغیر کسی تکلیف اور تردد کے زیادہ سے زیادہ اہم جگہوں کی سیر کر سکتے ہیں۔ ایک ماہر گائیڈ قدم قدم پر رہنمائی اور اہم مقامات کی تفصیل بتانے کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہوتا ہے (یا ہوتی ہے)۔

ٹریفالگر ٹورسٹ کمپنی اپنی نوعیت کی منفرد اور بڑی کمپنی ہے۔ اس کا دائرہ بہت وسیع، پیکج بے شمار اور عملہ لاتعداد ہے۔ اگر آپ یورپ کی سیر کر رہے ہوں تو ٹریفالگر کی کوچز آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گی۔ اس کا مرکزی دفتر لندن میں ہے۔ لیکن یورپ بھرمیں اس کے دفاتر کا جال بچھا ہوا ہے۔ بہت پرانی، تجربہ کار اور منظم ٹورسٹ کمپنی ہے۔ وہ سیاحوں کو ہرسہولت فراہم کرتے ہیں جس کا وعدہ کرتے ہیں۔ بلکہ بعض سہولتیں پیکج سے ہٹ کر اضافی بھی ہوتی ہیں۔

مجھے اس کمپنی کا پیکیج پسند آیا۔ میں نے اپنے مطلوبہ پیکج کی بذریعہ انٹرنیٹ بکنگ کرائی۔ بعد میں ان کے سڈنی آفس سے بذریعہ فون بھی رابطہ رہا جس سے مزید اہم معلومات ملتی رہیں۔ اس پیکج کے مطابق اگر سیاح فردِ واحد ہو تو ہوٹل کا الگ کمرہ لینے کی صورت میں اس کے چارجز بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر کسی دوسرے سیاح کے ساتھ ایک کمرے میں رہنا پسندکر لے تو اخراجات لامحالہ کم ہو جاتے ہیں۔ میں بھی اس سفر میں اکیلا تھا۔ اپنے کسی ہمسفر کے ساتھ رہنے میں مجھے کوئی عار نہیں تھا۔ اس طرح اخراجات بھی کم ہو جاتے اور روم میٹ کے ساتھ گپ شپ میں وقت بھی اچھا گزرتا۔ سوچا خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ لیکن ایک خدشہ بہرحال ضرور تھا کہ کسی ’فرزانے‘ سے نہ پالا پڑ جائے۔ بہرحال انٹرنیٹ پر جب بکنگ کروائی تو میں نے انہیں اپنے لئے مخلوط رہائش کا اختیار دے دیا۔

تھوڑے دنوں بعد سڈنی آفس سے فون آ گیا کہ آپ کے مطلوبہ پیکج کی بکنگ ہو گئی ہے۔ صرف ایک مسئلہ باقی ہے۔ میں نے پوچھا ’’وہ کیا؟‘‘

ایک لڑکی نے اپنی کھنکناتی ہوئی آواز میں بتایا ’’ٹریفالگر کا ہوٹلنگ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر سنگل مرد ہو تو اسے دوسرے سنگل مرد کے ساتھ ٹھہرایا جاتا ہے اور اگر عورت اکیلی ہو تو اسے کسی عورت کے ساتھ ٹھہرایا جاتا ہے‘‘

میں نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا ’’میں آپ کا دائرہ اختیار بڑھا دیتا ہوں۔ وہ یہ کہ میرے معاملے میں آپ کو آزادی ہے کہ آپ کسی بھی فرد کے ساتھ مجھے ایڈجسٹ کر سکتے ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ کم از کم مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘

وہ لڑکی ہنسی تو فون سے موسیقی سے اُبلی۔ ہنستے ہوئے بولی ’’آپ کو تو نہیں لیکن جنسِ مخالف کی اس فرد کو اعتراض ہو سکتا ہے‘‘

میں نے کہا ’’آپ ایسا کریں! اس کا فون نمبر مجھے دے دیں۔ ہو سکتا ہے سفر پر جانے سے پہلے وہ اپنا اعتراض واپس لے لے‘‘

کہنے لگی ’’آپ بہت پر اعتماد ہیں‘‘

’’اس لئے کہ میں شریف آدمی ہوں‘‘

بولی ’’لگتا تو نہیں۔ آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں‘‘

میں نے کہا ’’تم تو سڈنی میں رہتی ہو۔ مل لو یقین آ جائے گا‘‘

وہ ہنستے ہوئے بولی ’’ہوشیار بھی ہیں۔ ملنے کی خوبصورت راہ نکالی ہے۔ ویسے میں شادی شدہ ہوں اس لئے مجھ سے مل کر آپ کو مایوسی ہی ہو گی‘‘

میں نے کہا ’’میں نے اپنی شرافت کا یقین دلانا تھا۔ اس کے لئے آپ کا غیر شادی شدہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ بہرحال جب میں سفر سے واپس آؤں گا تو آپ کو یقین آ جائے گا۔ کیونکہ ظاہر ہے آپ کو شکایت نہیں ملے گی‘‘

’’آپ بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ بہرحال میں آپ کو بتانا چاہ رہی تھی کہ آپ کے گروپ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اکیلا بھی ہو اور کسی دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتا ہو۔ آپ اکیلے ہیں جنہوں نے یہ اختیار دیا ہے۔ اب ایسی صورت میں آپ کو پورے کمرے کے حساب سے اضافی رقم ادا کرنا ہو گی‘‘

میں نے کہا ’’دیکھیں ٹریفالگر بہت بڑی ٹورسٹ کمپنی ہے۔ اس میں بکنگ کرانے اور پیکج کا انتخاب کرنے سے پہلے میں نے اپنے بجٹ کو ملحوظ رکھا تھا۔ اب اگر میرے اختیار دیئے جانے کے باوجود آپ لوگ پورے گروپ میں میرے ساتھ کمرہ شیئر کرنے والا نہیں ڈھونڈ سکتے تو یہ میرا نہیں آپ کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ یہ بندوبست کرنا آپ کا کام ہے۔ میں طے شدہ رقم سے زائد ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں‘‘

وہ لڑکی کچھ سوچنے کے بعد بولی ’’میں ہیڈ آفس میں اپنے انچارج سے بات کر کے آپ کو دوبارہ فون کرتی ہوں‘‘

تھوڑی دیر بعد ہی اس کا فون آ گیا۔ کہنے لگی ’’مبارک ہو! آپ کی بکنگ برقرار ہے۔ آپ کو کمرہ بھی الگ ملے گا اور اضافی اخراجات بھی نہیں ہوں گے۔ حالانکہ آپ کے گروپ میں چند اور اکیلے افراد ہیں۔ وہ آپ سے سات سو ڈالر زائد ادا کر رہے ہیں لیکن سہولتیں بالکل برابر ہیں۔ آپ برائے مہربانی اپنے ہم سفر ساتھیوں کو ہماری اس رعایت کے بارے میں نہ بتایئے گا کیونکہ یہ خصوصی رعایت ہے‘‘

میں نے کہا ’’آپ بے فکر ہو جائیں۔ لیکن میری شرافت کے بارے میں جب بھی جاننا چاہیں میں کہیں اور کسی وقت بھی مل سکتا ہوں‘‘

اس نے ہنستے ہوئے آفر کا شکریہ ادا کیا اور پھر رسمی باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔

جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ٹریفالگر ٹورسٹ کمپنی کے دفتر میں بہت سے سیاح جمع ہیں۔ اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ ان میں سے کون ہمارے گروپ میں شامل ہے اور کون کسی دوسری راہ کا مسافر ہے۔ استقبالیہ کاؤنٹر پر دو لڑکیاں اور ایک مرد سیاحوں کی مدد کے لئے موجود تھے۔ میں نے انہیں اپنا نام بتایا تو انہوں نے میری بکنگ کی تصدیق کرتے ہوئے ایک فارم بھرنے کے لئے دیا۔ میں نے ان کی مطلوبہ معلومات لکھ دیں جو زیادہ تر میرے بارے میں ہی تھیں۔ مثلاً نام، پتہ، فون نمبر، لندن میں رہائش کا پتہ، پاسپورٹ، ویزہ اور دیگر ایسی ہی بنیادی معلومات تھیں جو انہیں ریکارڈ کے لئے درکار تھیں۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ کھانے کے بارے میں کوئی خصوصی ہدایت ہے تو درج کر دیں۔ میں نے مسلم فوڈ (حلال) لکھ دیا۔ لیکن اس کی وضاحت ٹریفالگر والوں نے شروع میں کر دی تھی کہ وہ سفر میں حلال کھانوں کا بندوبست شاید نہ کر سکیں۔ تاہم ویجیٹرین فوڈ (سبزیوں پر مشتمل کھانا) اور دیگر کھانوں میں اپنی پسند کی کوئی بھی چیز لے سکتے ہیں مثلاً مچھلی اور انڈے وغیرہ۔

آسٹریلیا میں رہتے ہوئے حلال کھانوں کی عدم دستیابی کی صورت میں متبادل کھانوں کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ غیر مسلم ممالک میں رہنے والوں اور وہاں جانے والے مسلمانوں کے لئے حلال کھانوں کا حصول بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں یہ مسائل ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ کیونکہ مسلمانوں کے لئے جس جانور کا نام لینا باعثِ کراہت ہے وہ یہاں لوگوں کی مرغوب غذا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عام کھانوں میں خنزیر کا گوشت وافر مقدار میں استعمال ہوتا ہے بلکہ اس کی چربی اور کھال بھی بہت سی اشیاء میں استعمال کی جاتی ہے۔ اسی لئے مسلمان ہر چیز خریدنے سے پہلے اس کے INGREDIENTS ضرور پڑھتے ہیں۔ مثلاً کوکنگ آئل کو صرف پکانے کا عام تیل سمجھ کر خریدا اور استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ اس میں استعمال ہونے والے مختلف اجزاء دیکھے جاتے ہیں۔ اگر اس میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ہے تو مسلمان وہ آئل نہیں خریدتے۔ اس طرح صابن، شیونگ کریم، ٹوتھ پیسٹ اور دوسری سینکڑوں اشیاء ایسی ہیں جن میں سور کی چربی، گوشت، کھال یا الکوحل شامل ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں مسلمانوں کے ادارے ایفک نے ایک ایسی لسٹ بنائی ہے جو مارکیٹ میں موجود مختلف اشیاء کے بارے میں یہ بتا دیتی ہے کہ اس میں کونسی حلال ہے اور کون سی حرام۔

مسلم خواتین و حضرات شاپنگ کرتے ہوئے یہ لسٹ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی نئی چیز خریدتے وقت اس لسٹ سے اس کے بارے میں تسلی کر لیتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں رہنے والوں کو جہاں بہت سے مسائل پیش آتے ہیں، اس میں یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ان مسائل کا ادراک ہوتا ہے اور نہ ہی اس نعمت کا احساس ہوتا ہے کہ کہیں سے کچھ بھی خرید کر کھا پی سکتے ہیں۔ وہاں پورا ماحول اسلامی ہے۔ کسی بھی دکان سے جو دل چاہے خرید سکتے ہیں۔ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہاں ہم کسی پارٹی میں جا کر خود کو اکیلا اور تنہا محسوس نہیں کرتے۔

یہاں آسٹریلیا میں ہم جب مقامی لوگوں کی پارٹیوں میں جاتے ہیں تو کوک کا گلاس پکڑ کر الگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں پر پارٹی کا آغاز اور اختتام شراب سے ہوتا ہے۔ بیچ میں بھی حلال گوشت تو درکنار خنزیر کی ڈشیں سجی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں مسلمان پہلے تو ایسی پارٹیوں میں جانے سے کتراتے ہیں اور اگر کسی مجبوری کے تحت جانا پڑ ہی جائے تو بھوکے گھر واپس آ جاتے ہیں۔ اس وقت اس ماحول میں اجنبیت اور اکیلے پن کا انہیں جو احساس ہوتا ہے وہ وطن عزیز میں رہنے والوں کو نہیں ہو سکتا۔

ایک اور مسئلہ جو درپیش آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ کئی لوگ خود یا ان کی اولاد ان پابندیوں سے آہستہ آہستہ آزاد ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً شراب تو بہت سوں کے منہ لگی ہوئی ہے کیونکہ یہاں یہ عام ہے۔ بغیر کسی تردد کے اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے۔ ماحول بھی اس کے لئے موافق ہوتا ہے۔ شراب کے علاوہ جھٹکے یا مشینوں کے ذبح کردہ جانوروں کا گوشت بھی کافی مسلمان کھاتے نظر آتے ہیں۔ کئی ایک سے میں نے سوال کیا ’’یہ گوشت آپ کیوں کھا رہے ہیں یہ حلال نہیں ہے‘‘

ان میں سے کچھ کو تو پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ حلال ہے یا حرام۔ کچھ یہ کہتے ہیں کہ یہ مرغی، بکری یا گائے کا گوشت ہے جو مسلمانوں کے لئے حلال کی گئی ہیں‘‘

’’لیکن یہ جانور اسلامی طریقے سے ذبح نہیں کئے گئے۔ اس صورت میں یہ کیسے حلال ہو سکتے ہیں؟‘‘

کئی ایک ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ ایک دوست کہتا ہے۔ میں کھانے سے پہلے تکبیر پڑھ لیتا ہوں۔ اس طرح یہ حلال ہو جاتا ہے۔ حلال حرام کی تمیز اور تقویٰ کا صحیح امتحان ان ملکوں میں ہوتا ہے۔ ورنہ پاکستان میں میرا ایک دوست کہنے لگا ’’مجھے شراب کا شوق ہے۔ لیکن کیا کروں یہاں ملتی ہی نہیں‘‘

میں نے کہا ’’اچھا ہے نہیں ملتی ورنہ روز گناہ گار ہوتے‘‘

بولا ’’’خیالوں میں روز پی لیتا ہوں۔ عملاً اس لئے نہیں پیتا کہ ملتی نہیں۔ جس دن مل گئی ذرا دیر نہیں لگاؤں گا۔ اگر خدا نیتوں کا حال جانتا ہے تو پھر میں پہلے ہی گناہگار ہوں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ کچھ کر کے گناہ گار ہوتا۔ اس گناہِ بے لذت کا کیا فائدہ‘‘

میرے اس دوست کو اس کی خراب نیت کا گناہ تو ضرور ہو گا۔ لیکن شاید اتنا نہ ہو جتنا مٹکوں کے حساب سے روزانہ پینے والوں کو ہوتا ہے۔ اصل امتحان تو یہی ہے کہ یہ بآسانی دستیاب ہو اور پھر اس سے اجتناب کیا جائے۔

ٹریفالگر والوں کو جو ہدایت میں نے لکھوائی تھی اس کا ا ثر ضرور ہوا۔ ایک تو یہ کہ کہیں بھی میرے کھانے میں گوشت نظر نہیں آیا۔ دوسرا یہ کہ میرے لئے سی فوڈ، سبزیوں اور انڈوں پر مشتمل کھانے کی ہدایت میرے جانے سے پہلے مطوبہ ہوٹل یا ریسٹورنٹ کو پہنچا دی جاتی تھی۔ ہر جگہ نئے سرے سے مغز ماری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

ٹریفالگر نے مسافروں کے لئے ایک سوٹ کیس اور ایک ہینڈ بیگ ساتھ رکھنے کی اجازت دی تھی۔ میں نے یہ ہدایت پڑھی ہی نہیں۔ میرے پاس سامانِ سفر زیادہ تھا۔ ایک سوٹ کیس، ایک سوٹ کیس جتنا ہی بڑا بیگ اور ایک درمیانے سائز کا ہینڈ بیگ۔ اس طرح ایک آئٹم زائد ہو گیا۔ لیکن بھلا ہو ان کا، کسینے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ سارا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ الگ بات ہے کہ تمام سفر میں اس زائد سامان کی وجہ سے مجھے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس شہر میں پہنچتے تھے یہ تمام سامان بس سے نکال کر ہوٹل کے کمرے میں پہنچوانا پڑتا تھا اور پھر اگلے دن کمرے سے واپس بس تک پہچانا پڑتا تھا۔

در اصل یورپ سے واپسی پر میں اگرچہ دوبارہ پاکستان جا رہا تھا لیکن صرف کراچی۔ کیونکہ پنجاب میں اپنی فیملی سے مل کر آ گیا تھا۔ اس طرح پنجاب سے ملنے والے اور آسٹریلیا سے کراچی والوں کے لئے رکھے گئے تحائف پورے سفر میں مجھے گھسیٹنے پڑے۔ جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ یارک شائر میں میرے دوست آصف کریم اور اس کی بیگم نے پوری کر دی۔ پورے گروپ میں، میں اکیلا پاکستانی تھا اور سب سے زیادہ سامان بھی میرے پاس تھا۔ اس طرح میں نے اپنی پاکستانیوں والی وہ روایت قائم رکھی جس کے مطابق ہمارے بس سٹاپ، ٹرین سٹیشن اور ائر پورٹ سامان سے اٹے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ٹرینوں میں سفر کرنے والے ایک ایک مسافر کے پاس اتنا سامان ہوتا ہے جو یورپ میں سفر کرنے والے پورے کمپارٹمنٹ کے مسافروں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ یورپین، امریکن اور آسٹریلین دورانِ سفر اپنے پاس کم سے کم سامان رکھنے کے قائل ہیں۔ ویسے بھی ان کی کون سی خالائیں، بھابھیاں، چچیاں اور پھوپھیاں ان کے تحفوں کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ رشتہ داروں کا روگ پالتے ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کرسمس پر ایک کارڈ ارسال کر دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

کئی لوگوں کے والدین کسی دوسرے شہر سے انہیں ملنے آتے ہیں تو اپنے خرچ پر سفر کرتے ہیں۔ اپنی جیب سے ادائیگی کر کے ہوٹل میں کمرہ لیتے ہیں۔ اپنی گِرہ سے ٹیکسی کا کرایہ ادا کر کے اس ریسٹورنٹ میں جاتے ہیں جہاں بیٹا یا بیٹی ایک وقت کا کھانا کھلا کر اپنا حقِ اولاد ادا کرتے ہیں۔ کھانا کھا کر بیٹا اپنے گھر اور بوڑھے ماں باپ واپس ہوٹل میں چلے جاتے ہیں۔ وہ بہت ہی خوش قسمت والدین ہوتے ہیں جن کا بیٹا یا بیٹی انہیں ایک وقت کا کھانا گھر بلا کر کھلاتے ہیں۔ لیکن رات رکنے کی اجازت انہیں پھر بھی نہیں ہوتی۔ رہنا انہیں ہوٹل میں ہی پڑتا ہے۔


میں سکون سے مرنا چاہتا ہوں



سامان بس میں رکھوانے کے بعد ہم اس میں سوار ہوئے تو ایسے لگا کہ ہوائی جہاز کی بزنس کلاس میں داخل ہو گئے ہوں۔ اسی طرح کی کھلی کھلی اور آرام دہ سیٹیں، دبیز پردے، ہیڈ فون اور سٹیریو کی تاریں، چھوٹی سی کھلنے اور بند ہونے والی میزیں اور مکمل ایئر کنڈیشنڈ۔ میں سیٹ پر بیٹھا تو اس میں دھنس سا گیا۔ اتنی نرم اور آرام دہ تھی۔ اس عظیم الجثہ کوچ میں باون سیاحوں کا گروپ سفر کر رہا تھا۔ جنہوں نے اگلے دو ہفتے اکھٹے گزارنے تھے۔ اُدھیڑ عمر اور قدرے بوڑھے لوگ زیادہ تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے تشنہ خوابوں کی تکمیل کے لئے نکلتے ہیں۔ جوانی میں غم روزگار میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ گھومنے پھرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ اپنی اور اولاد کی زندگی بنانے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ اُس وقت ان ذمہ داریوں کی وجہ سے سیر و تفریح کے لئے وقت اور پیسہ نہیں نکال پاتے۔ لیکن ان کے دِلوں میں خواہشیں اور تمنائیں کلبلاتی رہتی ہیں۔ اکثر کی تمنائیں حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔ لیکن کچھ بڑھاپے میں عمر بھر پروان چڑھنے والی ان خواہشوں اور خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ تک زندہ بھی رہتے ہیں اور جسمانی اور مالی طور پر ان خواہشوں کو عملی جامہ پہنانے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں۔ اس وقت تک یہ روزگار کے علاوہ اولاد کی ذمہ داریوں سے بھی آزاد ہو چکے ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ اولاد ان کے لئے پرائی ہو چکی ہوتی ہے۔ کئی کی تواتنی پرائی ہو جاتی ہے کہ انہیں ایسی اولاد کے لئے ترکہ چھوڑنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اس نالائق اور ناخلف اولاد سے اپنی جمع پونجی بچانے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ تاکہ وہ ساری زندگی کا جمع کردہ سرمایہ اپنے آپ پر خرچ کر کے مریں۔ اس نا خلف اولاد کے کام نہ آئے جو اُن کے نہیں رہتے۔ بعض پچھتاتے ہیں کہ انہوں نے ایسی نالائق اولاد پیدا ہی کیوں کی تھی۔

ہمارے گروپ میں ان بوڑھوں کے علاوہ جوان میاں بیوی اور بچے بھی تھے۔ ان میں دو خاندان امریکہ سے آئے تھے لیکن وہ بنیادی طور پر انڈین تھے۔ ان میں ایک سرجن ڈاکٹر تھا اور دوسرا کیلیفورنیا میں سیون الیون سٹور کا مالک تھا۔ ایک جاپانی جوڑا بھی تھا جو غلطی سے اس گروپ میں شامل ہو گیا۔ غلطی سے اس لئے کہ لڑکے کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ جبکہ ہماری گائیڈ انگریزی میں رننگ کمنٹری کرتی رہتی تھی۔ لڑکی لندن میں انگریزی سیکھنے کا کورس کرنے آئی ہوئی تھی۔ اس کی انگریزی واجبی سی تھی۔ جبکہ اس کا بوائے فرینڈ ٹوکیو سے خصوصی طور پر محبوبہ سے ملنے آیا تھا۔ اس خوشی میں لڑکی اسے لے کر یورپ کی سیر پر نکلی ہوئی تھی۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ کسی جاپانی گروپ میں شامل ہوتی جس کا گائیڈ اور معلوماتی لٹریچر جاپانی زبان میں ہوتا ہے۔ اس سے ان کو آسانی رہتی۔ وہ غلطی سے ہمارے گروپ میں آ تو گئے لیکن سارے سفر میں ہم سب سے الگ الگ رہے۔ ہمیں دیکھ کر زیادہ سے زیادہ مسکرا دیتے تھے یا ہیلو کہہ دیتے تھے۔ اس سے زیادہ بولنا ان کے بس میں نہیں تھا۔

اس کی کسر وہ آپس میں ہی بول کر پوری کر لیتے تھے۔ بلکہ بولنے سے زیادہ عملی طور پر ایک دوسرے میں مصروف رہتے تھے۔ ہر وقت آپس میں چپکے رہتے۔ جسم کے ساتھ جسم، ہونٹوں کے ساتھ ہونٹ اور گالوں کے ساتھ گال چسپاں رہتے۔ دن کا کوئی لمحہ کم ہی ایسا ہو گا جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوں۔ ان کے ہاتھ، ہونٹ اور جسم جیسے ایک دوسرے سے جڑ گئے تھے۔ سارا دن ان کی یہ حالت رہتی تھی۔ رات کو جب وہ کمرے میں بند ہوتے تھے تو خدا جانے نوبت کہاں تک پہنچتی ہو گی۔ بالغوں کے لئے یہ تصور اتنا محال بھی نہیں۔

لڑکے کا نام جانجی تھا اور لڑکی مشی کہلاتی تھی۔ بھرے بھرے ہونٹوں اور بولتی آنکھوں والی اس لڑکی کی آنکھیں ہر وقت مستی سی لٹاتی رہتی تھیں۔ کبھی کبھار جب وہ اپنے محبوب کے سراپے سے نظریں ہٹا کر کسی اور کی طرف دیکھتی تھی تو ایسے لگتا تھا کہ اپنے محبوب پر فخر کا اظہار کر رہی ہو۔ اس کی مسکراتی آنکھیں اور دہکتے ہوئے گال اپنے محبوب سے پیار کی حدت کو نمایاں کرتے رہتے تھے۔ جانجی اور مشی آپس میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ انہیں چلتی بس کے باہر خوبصورت سے خوبصورت نظاروں سے بھی کم ہی دلچسپی ہوتی تھی۔ بس کبھی کبھار ایک لمحے کے لئے ایک دوسرے سے نظریں ہٹا کر کہیں اور دیکھ لیتے تھے۔ ورنہ ان دونوں کے لئے سارے نظارے، ساری خوبصورتیاں اور دنیا بھر کا حسن ایک دوسرے کی آنکھوں میں ہی پوشیدہ تھا۔ ان دونوں کی والہانہ محبت اور وارفتگی کو دیکھ کر بے اختیار خواجہ فریدؔ کا یہ کلام ذہن میں آتا تھا۔

میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں

میڈا جسم وی توں، میڈی روح وی توں

میڈا قلب وی توں جند جان وی توں

ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ جانجی اور مشی یورپ کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے نکلے ہوں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ان رنگین اور دلکش نظاروں کو اپنی محبت کا گواہ بنا رہے ہوں۔ اور کہہ رہے ہوں کہ مانا تم خوبصورت ہو، حسین ہو، مگر اتنے نہیں، جتنا میرا محبوب ہے۔ حسن دیکھنا ہے تو ہماری آنکھوں سے دیکھو۔ پھر شاید تم خود پر ناز کرنا بھول جاؤ اور جان جاؤ کہ حسن کی حقیقت کیا ہے۔

ہمارے گروپ میں شامل زیادہ تر سیاحوں کا تعلق آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور امریکہ سے تھا۔ ان ممالک کے علاوہ صرف مشی اور جانجی کا تعلق جاپان سے تھا۔ ایک سیاح لڑکی جولی کا تعلق لندن (برطانیہ سے) تھا۔ جولی بھی در اصل آسٹریلین ہی تھی لیکن پچھلے چند برسوں سے برطانیہ میں رہائش پذیر تھی۔ ان برسوں میں جولی دوستیاں اور پیسہ بنانے میں اتنی مصروف رہی کہ لندن سے باہر کا یورپ نہ دیکھ سکی۔ اب وہ ہمارے ہمراہ یورپ کی سیر کے لئے نکلی ہوئی تھی۔ جولی کا جمیکن بوائے فرینڈ اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے اس کے ساتھ نہ تھا۔

جان کا تعلق بھی سڈنی سے تھا۔ گول گول چہرے، سڈول جسم اور سنہری مائل رنگت والے جان کی عمر چالیس کے لگ بھگ ہو گی۔ کافی ہنس مکھ اور باتونی شخص تھا۔ لیکن اس کی ہنسی کے پیچھے آہیں اور دلچسپ باتوں کے پیچھے کراہیں چھپی ہوئی ہیں۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔

جان کے علاوہ ایک اور تنہا فرد جو ہمارا شریکِ سفر تھا، اس کا نام ڈیوڈ تھا۔ ڈیوڈ جنوبی افریقہ سے آیا تھا۔ اس کی عمر پچپن سے کم نہ ہو گی۔ لیکن اس کی صحت کافی اچھی تھی دراز قد، سفید مونچھیں، اور ہمہ وقت مسکراتی آنکھیں۔ مجموعی طور پر اس کی شخصیت کافی جاذب نظر تھی۔ ڈیوڈ بظاہرسب سے گھل مل کر رہنے والا خوش اخلاق شخص تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے اندر کے جو ہر کھلے تو اس کے دل میں چھپے نسلی تعصب کو باہر آنے میں دیر نہ لگی۔ ڈیوڈ بھی گوری رنگت کی بناء پر خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا تھا۔ وہ دوسری رنگت کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ڈیوڈ کے اندر کا یہ نسلی تفاخر اور دوسروں کے لئے احساس حقارت آہستہ آہستہ ہی ہم پر ظاہر ہوا۔ ورنہ بظاہر وہ ایک ہنس مکھ اور خوش اخلاق بوڑھا تھا۔ ڈیوڈ کو جنوبی افریقہ میں کالوں کے حق میں برپا ہونے والی انقلابی تبدیلیوں پر قلق تھا۔ بلکہ اس نے عملاً اس ناراضگی کا ثبوت اس طرح دیا کہ جونہی جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی حکومت بنی ڈیوڈ نے احتجاجاً اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیوڈ کے پاس اتنی جمع پونچی تھی کہ وہ اپنی بقیہ زندگی نہ صرف عیش و آرام سے گزار سکتا تھا بلکہ اس نے یورپ کے اس دورے کے لئے بھی رقم نکال لی تھی۔ ڈیوڈ نے مجھے بتایا ’’ایک تو یہ کہ میں نے زندگی کا زیادہ حصہ اکیلے گزارا ہے۔ ظاہر ہے اکیلے کا خرچ بھی کم تھا۔ اس طرح میری تنخواہ کا ایک معقول حصہ بچتا رہا۔ دوسرا یہ کہ یہ بچت میں منافع بخش سرمایہ کاری میں لگاتا رہا اور تیسرا یہ کہ میرا خاندانی اثاثہ بھی اکلوتا وارث ہونے کی وجہ سے صرف میرے حصے میں آیا۔ اس لئے اب میرے اوپر کوئی معاشی دباؤ نہیں‘‘

’’گویا تم فارغ البال ہو۔ شاید اسی وجہ سے خوشحال ہو۔ لیکن تم بقیہ زندگی بھی اسی انداز میں گزارنا پسند کرو گے؟‘‘ایک دن میں نے اس سے پوچھا

ڈیوڈ نے کہا ’’کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں‘‘

میں نے کہا ’’دیکھو! اس وقت تم صحت مند ہو۔ اپنی دیکھ بھال کر سکتے ہو۔ جہاں چاہو، گھوم پھر کر وقت گزار سکتے ہو۔ بلکہ تم نے سمندر پار کا یہ طویل سفر بھی کر ڈالا۔ لیکن وقت اور عمر کے ساتھ انسان کا جسم اور دماغ اتنا صحت مند نہیں رہتا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اسے کسی کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی تنہائیوں کا رفیق ہو۔ جس کے ساتھ انسان اپنے دکھ درد کا اظہار کر سکتا ہو اور جو زندگی کے کٹھن سفر میں قدم سے قدم ملا کر چل سکتا ہو۔ ایک ساتھی کے قدم ڈگمگائیں تو دوسرا بڑھ کر اسے سہارا دے سکتا ہو۔ انسان جب ضعیف، تنہا اور لاغر ہوتا ہے تو اسے کسی ہمدم اور رفیق کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ کیا تم نے کبھی اس وقت کے بارے میں سوچا ہے؟‘‘

ڈیوڈ میری طویل بات کو بہت غور سے سنتا رہا۔ میری بات کے دوران ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدلنا شروع ہو گئے۔ اس کا مسکراتا چہرہ پہلے سنجیدہ پھر مغموم اور پھر رنجیدہ ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ اس کی آنکھوں میں نمی اترنا شروع ہو گئی۔ اس کی مسکراتی آنکھوں میں چھپے غم کے گوہر پانی بن کر اس کے پلکوں پر رقص کرنے لگے۔ اس نے ٹشو پیپر سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ مجھے اپنی باتوں کے اس رد عمل کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ اس کے آنسوؤں نے مجھے بدحواس سا کر دیا۔ میں نے ڈیوڈ سے کہا ’’سوری! مجھے علم نہیں تھا کہ میری باتوں سے تم یوں غم زدہ ہو جاؤ گے۔ مجھے بہت افسوس ہے‘‘

ڈیوڈ بولا ’’طارق! تم نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ لیکن تمہاری باتوں سے میرے اندر کے زخم تازہ ہو گئے ہیں۔ تم نے نادانستگی میں میری دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا ہے‘‘

میں نے کہا ’’میں تو تمہیں فارغ البال اور خوش باش انسان سمجھتا تھا۔ ایک ایسا انسان جو اپنی تنہا زندگی سے خوب لطف اندوز ہو رہا ہو اور جسے کوئی پچھتاوا یا دکھ نہ ہو۔ لیکن شاید میں غلط تھا۔ انسان کے اندر کی دنیا اتنی وسیع اور عمیق ہے کہ اندازے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ خصوصاً تمہارے جیسے بظاہر خوش باش اور شگفتہ باتیں کرنے والے شخص کے اندر جھانکنا تو بہت ہی مشکل ہے۔ لیکن انسان آخر انسان ہے۔ کسی نہ کسی وقت اپنے دکھ اور غم کو ظاہر کر ہی دیتا ہے‘‘

’’مجھے غم تو کوئی نہیں لیکن تنہائی بہت محسوس کرتا ہوں‘‘ اس بدلے ہوئے ڈیوڈ نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا

میں نے کہا ’’کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہیں کوئی غم نہیں۔ تمہارے اندر سے آنسوؤں کا جو لاوا اُبلا ہے وہ تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہا ہے‘‘

ڈیوڈ نے سوچتی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگا ’’مجھے تم پر حیرت ہو رہی ہے۔ تم دوسروں کی آنکھوں میں چھپی کہانیاں اتنی آسانی سے پڑھ لیتے ہو۔ میرے درجنوں دوست ہیں، جن کے ساتھ میری اکثر محفل بھی رہتی ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے آج تک نہ مجھے سمجھا ہے نہ میرے درد کو جانا ہے۔ لیکن تم براہ راست وہاں پہنچ گئے ہو جہاں آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا‘‘

’’ڈیوڈ آج کل کے تیز رفتار زمانے میں کسی کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ وہ دوسروں کے دل میں چھپے کرب کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اور تمہارے اس مغربی معاشرے میں لوگ دانستہ بھی ان خار دار راہوں سے بچ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی صرف مسکراتے پھولوں کا نام ہے۔ وہ ان گلوں میں پوشیدہ نوکیلے کانٹوں سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں تاکہ اس کا ذرا سا بھی منفی اثر ان کی خوشگوار زندگیوں پر نہ پڑے‘‘

’’تم صحیح کہہ رہے ہو۔ ہمارے یہاں ہر کسی کو بس یہی فکر ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ خوشگوار گزرے۔ بس آج کا دن اچھا گزر جائے۔ ہماری زندگیوں پر اپنے یا دوسروں کے غم کا سایہ نہ پڑے۔ زندگی کی ہموار راہوں پر کوئی کٹھن موڑ آئے تو یہ ہماری برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ پھر کسی دوسرے انسان کا دکھ اور غم ہم کیسے سن اور محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ شاید ہماری منفی سوچ کا ایک پہلو ہے‘‘

’’ہاں یہ اس مادی اور نفسانفسی پر مشتمل دور کا ایک ضرر رساں پہلو ہے‘‘ میں نے اس کی تائید کی۔

ڈیوڈ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’طارق مجھے نہیں معلوم کہ تم اس سوسائٹی کو کتنا جانتے ہو۔ لیکن آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہمارے دِلوں سے محبت اور ہمدردی کا جذبہ اُڑ چکا ہے۔ ہمارے رشتے ناتے اور دنیاوی بندھن مفاد کی ڈور سے بندھے ہیں۔ شادیاں بھی جسمانی ضروریات کا کاروبار ہیں۔ بچے بے دلی سے پیدا کئے جاتے ہیں اور بے پرواہی سے پروان چڑھائے جاتے ہیں۔ مرد عورت کا رشتہ ایک دوسرے کی طلب اور ضرورت تک محدود ہو گیا ہے۔ جہاں جسمانی طلب پوری نہ ہو رہی ہو یا اس کی ضرورت نہ ہو وہاں رشتے ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ محبتوں کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ اگر ایک بھی فریق اس رشتے سے فرار چاہتا ہو تو پھر کوئی رکاوٹ اس کے آڑے نہیں آتی۔ پھر یہ رشتہ صبح کے چمکتے سورج کے سامنے شبنم کے ننھے قطروں کی طرح بخارات بن کر تحلیل ہو جاتا ہے‘‘

ڈیوڈ کے اندر کا غبار زہریلے لفظوں کی شکل میں برآمد ہونا شروع ہو گیا تھا۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا ’’ڈیوڈ مجھے اپنے بارے میں بتاؤ۔ تم نے شادی کی ہی نہیں یا نبھ نہیں سکی۔ یا تمہارے اکیلے پن کی کوئی اور وجہ ہے؟‘‘

ڈیوڈ کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر گویا ہوا ’’میں بھی معاشرے کی اس نفسا نفسی، خود غرضی اور بے وفائی کا شکار ہوا ہوں۔ میں بھی شروع لا اُبالی تھا۔ نوجوانی کے دور میں میرے مختلف عورتوں سے تعلقات رہے۔ اس میں کچھ مہینوں اور کچھ سالوں تک جاری رہے۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے صحیح معنوں میں ایک عورت سے محبت ہو گئی۔ اس وقت میری عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ جولیٹ میری زندگی میں ایک خوشگوار جھونکا بن کر آئی اور میرے ہوش و حواس پر چھا گئی۔ اس وقت میرا کاروبار بھی اپنے عروج پر تھا۔ ہم نے چٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا کام کیا۔ کاروبار سے چند ہفتوں کی چھٹی لی اور ہنی مون منانے یورپ چلے گئے۔ واپس آ کر میں اپنے کاروبار میں مصروف ہو گیا اور جولیٹ جو شادی سے پہلے جاب کرتی تھی اب گھر کی زیبائش و آرائش میں مصروف رہنے لگی۔ میری کاروباری مصروفیات بڑھنے لگیں۔ گھر کے اخراجات بھی کافی بڑھ چکے تھے۔ بہرحال میں دن رات پیسہ بنانے کے چکر میں مصروف ہو گیا۔ رات گئے گھر آتا تو جولیٹ میرا انتظار کر رہی ہوتی۔ البتہ ویک اینڈ ہم شاندار انداز میں گزارتے تھے۔ سال میں ایک مرتبہ چھٹیاں گزارنے بھی کہیں نہ کہیں ضرور جاتے تھے۔ میری زندگی کا محور جولیٹ اور میرا کاروبار تھا۔ اسی طرح تین برس سرعت سے گزر گئے۔ پھر ایک دن اس خاموشی میں پوشیدہ طوفان میری زندگی کو درہم برہم کرنے کے لئے سامنے آ ہی گیا۔ مجھے جولیٹ کی بے وفائی کا علم ہو گیا۔ بلکہ میں نے اسے رنگے ہاتھوں کسی کے ساتھ پکڑ لیا۔ جولیٹ نے کسی شرمندگی، پچھتاوے یا ندامت کا احساس کئے بغیر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اسے سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن اس پر تازہ عشق کا بھوت اس شدت سے سوار تھا کہ اس نے میری کسی بات پر کان نہ دھرے۔ ناچار مجھے اسے طلاق دینا پڑی۔

میرے دل کی دنیا تو اس نے برباد کر ہی دی تھی۔ میرے گھر اور کاروبار سے بھی جاتے جاتے آدھا حصہ لے گئی۔ کچھ اس کی وجہ سے اور کچھ میری بے توجہی کی وجہ سے کاروبار کی ناؤ ڈوبتی چلی گئی۔ بالآخر یہ بالکل ٹھپ ہو گیا۔ کچھ عرصہ تو میں ادھر ادھر ہاتھ پیر مارتا رہا۔ بالآخر ایک سرکاری ادارے میں ملازمت مل گئی۔ جہاں اگلے بیس سال میں نے کام کیا۔ جولیٹ کی بے وفائی نے میری زندگی کی ہر صبح، ہر شام اور ہر شب میرے دل پر چرکے لگائے۔ پندرہ سال تک میں نے کسی عورت کو اپنی زندگی میں نہ آنے دیا۔ پھر میری ملاقات الزبتھ سے ہو گئی۔ آہستہ آہستہ ہمارے تعلقات پروان چڑھتے رہے جو بالآخر شادی پر منتج ہوئے۔ یہ شادی جوانی کے دیوانے جذبوں سے خالی تھی۔ اول تو ہم دونوں ہی شاید اپنی محبتوں کو کہیں اور لٹا چکے تھے۔ دوسرا یہ کہ اب ہمارے بڑھاپے کا زمانہ شروع ہو چکا تھا۔ میری سوچ تو یہی تھی کہ ایک دوسرے کے سہارے زندگی کا آخری حصہ خوشی خوشی گزار لیں گے۔ میری جوانی کا جوہر اگلے تین برسوں میں آہستہ آہستہ معدوم ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی الزبتھ کی محبت کا دیا بھی بجھتا چلا گیا۔

پھر ایک دن الزبتھ بھی مجھے چھوڑ کر مجھ سے کم عمر والے شخص کے ساتھ چلی گئی۔ جاتے جاتے وفا، چاہت اور عورت پر اعتبار کے بچے کھچے میرے ایمان کو بھی لے گئی۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے کسی عورت کی طرف ہاتھ بڑھایا اور نہ کسی کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما اور نہ آئندہ ایسا کوئی ارادہ ہے‘‘

ڈیوڈ کی کہانی ختم ہوئی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ صرف ایک ڈیوڈ کی کہانی تو نہیں۔ طلاق تو اس معاشرے میں اب بچوں کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ آسٹریلیا میں اتنے سالوں کے قیام کے دوران میں نے بے شمار رشتے ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھے ہیں۔ بعض اوقات وجہ اتنی معمولی ہوتی ہے کہ یقین نہیں آتا۔ مثلاً ایک صاحب نے دُکھ بھرے لہجے میں مجھے بتایا کہ اس کی بیوی پانچ سال کی رفاقت کے بعد اچانک چھوڑ کر چلی گئی۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ ان صاحب نے بیگم کے کام سے گھر پہنچنے سے پہلے کھانا تیار نہیں کیا تھا۔ اس بات پر تو تو میں میں شروع ہوئی۔ دوسرے دن ان دونوں کے درمیان ہر تعلق ختم ہو چکا تھا۔ ایک محترمہ نے بتایا کہ دس سالہ ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد اس کی خاوند سے اچانک علیحدگی ہو گئی۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ میاں کی تنخواہ بڑھ گئی۔ اسی حساب سے ان کا لائف سٹائل بھی تبدیل ہو گیا۔ یورپی معاشرے کی روایت کی رو سے بیوی گھر کے اخراجات، بلوں اور چھٹیوں وغیرہ میں پچاس فیصد شامل کرتی ہے تو ان کی ازدواجی زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔ لیکن یہ محترمہ خاوند کے مقابلے میں کم آمدنی رکھتی تھیں۔ مساوی حصہ ادا کرنے سے قاصر تھیں۔ لہذا میاں نے اس کم آمدنی والی بیوی سے علیحدگی اختیار کر کے کسی برابر کی حیثیت والی سے بیاہ رچا لیا۔ بچوں کو اپنے حصے کا ماہانہ خرچ ادا کرنے کے وعدے کے ساتھ ان کی ماں کے ساتھ روانہ کر دیا گیا۔

اب ساری زندگی بچے باپ کے سائے سے محروم رہیں گے۔ کچھ عرصے کے بعد بچوں کی ماں بھی نئی شادی کر کے نئے خاوند کے ساتھ زندگی کے مزے لوٹنے لگے گی۔ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے اس معاشرے میں بہت بڑی تعداد میں بچے باپ کے بغیر اور ایک کثیر تعداد ماں اور باپ دونوں کے بغیر پروان چڑھتی ہے۔ یہ بچے بڑے ہو کر جب والدین بنتے ہیں تو وہی سلوک اپنی اولاد کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ والدین اور اولاد کی باہمی محبت اور احترام کا جذبہ مفقود ہے۔ بچے ہوش سنبھالتے ہی باپ کو اولڈ مین کہہ کر مضحکہ اڑاتے ہیں۔ کسی باپ کی یہاں یہ مجال نہیں کہ اولاد کو زبردستی غلط کام سے روک سکے۔ وہ سکول نہ جائیں، نشہ کریں، بدتمیزی کریں یا والدین کی حکم عدولی کریں، والدین ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ حتیٰ کہ پندرہ سولہ سال کی عمر میں اکثر لڑکے لڑکیاں والدین کو خدا حافظ کہہ کر اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔ وہ والدین بہت ہی خوش قسمت ہوں گے جن کی اولاد گاہے بگاہے انہیں ملنے آتی ہو یا فون پر رابطہ رکھتی ہو۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ بہت سے لڑکے لڑکیاں جب والدین سے الگ ہوتے ہیں تو پھر دوبارہ رابطہ نہیں کرتے۔ والدین بھی اس معاشرے کے پروردہ ہوتے ہیں۔ وہ بھی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ بعض اوقات اگلی پوری زندگی اولاد ان کو اپنی شکل بھی نہیں دکھاتی۔

مرنے کے بعد سرکاری ادارے لے جا کر دفنا دیتے ہیں۔ نہ اولاد میت کو کندھا دیتی ہے اور نہ قبر پر جا کر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتی ہے۔ سڈنی میں میرے گھر سے ملحق ہی ہاؤسنگ کمیشن (غریبوں کے لئے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ رہائش) کی بلڈنگ ہے۔ اس میں ایک ایک بیڈ روم والے چار اپارٹمنٹ ہیں۔ ہر اپارٹمنٹ ایک سنگل فرد کو الاٹ ہے۔ یہ چاروں ریٹائرڈ بوڑھے ہیں جو زندگی کا آخری حصہ حکومت کی فراہم کردہ رہائش گاہ میں حکومت کی پنشن سے گزار رہے ہیں۔ ان میں سے تین بوڑھوں کی اولاد ہے۔ ایک کی بیوی بھی ہے۔ آج تک میں نے کسی کے لڑکے یا لڑکی کو یہاں آ کر بوڑھے باپ سے ملاقات کرتے نہیں دیکھا۔ ان میں ایک بوڑھا پچھلے سال سرکاری ہسپتال میں کسمپرسی کی حالت میں چل بسا۔ مرنے سے ایک روز قبل میں اسے ملنے ہسپتال گیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’لز تمہاری حالت اچھی نہیں ہے۔ اگر تم کہو تو تمہاری بیوی اور بچوں کو اطلاع دے دوں؟‘‘

لز جو ہسپتال میں کسی اپنے کی دیکھ بھال سے مکمل طور پر محروم تھا فوراً بولا ’’بالکل نہیں! بالکل نہیں بلانا۔ میں سکون سے مرنا چاہتا ہوں‘‘

دوسرے دن ہسپتال والوں نے فون کر کے اطلاع دی کہ اسی رات کو وہ ’’سکون سے‘‘ مر گیا۔

انہی بوڑھوں بروس بھی شامل ہے۔ اس کی بیوی تو کافی عرصہ پہلے مر گئی تھی۔ لیکن اس کا ایک جوان بیٹا اور ایک جوان بیٹی ہے۔ پچھلیدس سالوں سے ان دونوں میں سے ایک بھی اسے دیکھنے نہیں آیا۔ پچھلے سال اس کی بیٹی نے فون کیا کہ وہ میلبورن سے نیوزی لینڈ جاتے ہوئے سڈنی ائر پورٹ پر دو گھنٹے رکے گی۔ اس رات بروس خوشی سے سو نہ سکا۔ صبح سویرے تیار ہو کروہ ائر پورٹ پہنچ گیا۔ حالانکہ اس کی بیٹی بارہ بجے پہنچنے والی تھی۔ اس کی بیٹی پہنچی اور دونوں باپ بیٹی نے سات سال کے بعد ایک گھنٹہ اکھٹے گزارا۔ پچھلے ایک سال سے بروس بیٹی سے اس ملاقات کا تذکرہ کرتا رہتا ہے۔ اسے بیٹے کی شکل بھی بھول چکی ہے۔ بروس کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ آئندہ اس کی بیٹی یا بیٹے سے ملاقات ہو سکے گی یا نہیں۔

یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے باسیوں کے لئے ڈیوڈ کی کہانی کوئی نئی کہانی نہیں۔ یہاں ہر محلے، ہر گلی، ہر کوچے میں ایسے کئی ڈیوڈ ملیں گے۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں ایسی کہانی ہمیشہ مجھے بے چین سی کر دیتی ہے۔ میں اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے لگتا ہوں۔ یہی ہوا کہ میرے سفر کے ان ساتھیوں کے دلوں میں چھپی کہانیاں سامنے آئیں تو ان میں سے بعض میرے دل و دماغ پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو گئیں۔ ان میں سے کچھ اس سفر نامے کے ذریعے آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ شاید ان کہانیوں سے میرے سفر نامے کی اصل رواداد کی روانی متاثر ہو رہی ہو لیکن اپنے اردگرد کے زندہ کرداروں کے اندر کی دلچسب دنیا کو نظر انداز کر کے صرف خستہ عمارتوں اور بوسیدہ دیواروں کو موضوع بنانا مجھے گوارا نہیں۔ کیونکہ انسان کے اندر جو دنیا آباد ہے وہ ان تاریخی عمارتوں اور فطری نظاروں سے کہیں زیادہ دلچسپی کی حامل ہے۔ انسانوں کے اندر جھانکنا اور ان کے اندر کی کہانیوں کو پڑھنا اور پھر خدا اگر ہمت دے تو انہیں دوسروں کے لئے پیش کرنا ایک مشکل مگر دلچسپ کام ہے۔ انسانوں کی آپ بیتیاں افسانوی داستانوں سے بھی زیادہ دلچسپ اور پراثر ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان میں جذبوں کی حدت اور رشتوں کی مہک شامل ہوتی ہے۔ سفر کے ساتھ ساتھ اپنے ہم سفر چند مزید دلچسپ کرداروں کی کہانیاں سامنے آتی رہیں گی۔


آیا اکیلا ہوں واپسی کا علم نہیں



کاغذی کار روائی مکمل کرنے، سامان بس میں لدوانے اور مسافروں کے بیٹھ جانے کے بعد بس لندن کی پر پیچ گلیوں اور مصروف شاہراہوں سے گزرتی ہوئی ان دیکھی منزلوں کی جانب ہزاروں میل لمبے سفر کے لئے روانہ ہو گیا۔ لندن اتنا بڑا شہر ہے کہ چند دنوں بلکہ چند ہفتوں میں بھی اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ لندن کے اکثر باسی بھی پورے لندن سے واقف نہیں۔ جو لوگ شمال میں رہتے ہیں اور سٹی سنٹر میں جاب کرتے ہیں تو ان کا دائرہ سفر وہی رہتا ہے۔ وہ جنوب سے نابلد ہی رہتے ہیں۔ اس طرح جنوب والے شمالی لندن کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ ان کی دلچسپی کی ہر چیز ان کے اپنے علاقے میں دستیاب ہو تو انہیں لندن کے دوسرے حصوں میں جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ میں لندن کے ایسے درجنوں باسیوں سے ملا ہوا ہوں جنہوں نے ساری زندگی کسی مخصوص علاقے اور اس کے اِردگرد گزار دی۔ وہ شہر کے دوسرے حصوں سے اتنے ہی ناواقف ہیں جتنا ہم دوسرے ملکوں سے جانے والے سیاح ہوتے ہیں۔ لندن کی جن علاقوں سے ہم گزرتے ہماری گائیڈ مختصراً اس کے بارے میں بتاتی جا رہی تھی۔

ڈیڑھ گھنٹے میں ہماری بس لندن کے مصروف حصے سے نکل کر کھیتوں، چراگاہوں اور سرسبز فارموں کے ساتھ ساتھ کشادہ شاہراہ پر تیز رفتاری سے دوڑنے لگی۔ ہمارے اِردگرد کا منظر خاصا خوبصورت تھا۔ برطانیہ کا یہ علاقہ کہیں تو ہموار فارموں پر مشتمل ہے جہاں مختلف سرسبز فصلیں اپنی بہار دکھا رہی تھیں اور کہیں ہمارے خطہ پوٹھوہار کی طرح اونچا نیچا اور ڈھلوانی علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔ لیکن ایک قدر ہر دو علاقوں میں مشترک تھی۔ وہ تھا درخت اورسبزہ۔ کوئی جگہ سبزے اور پھولوں سے خالی نہیں تھی۔ عام درخت، پھل دار درخت، پھولوں بھرے پودوں کے فارم، صحت مند مویشیوں کے فارم اور صحت مند گوروں کی جفا کشی کے مناظر جا بجا بکھرے ہوئے تھے۔ لندن جیسے مصروف شہر سے نکل کر برطانیہ کا یہ دیہی علاقہ جو قدرتی حسن سے مالامال تھا دل و دماغ کو فرحت اور تازگی کا احساس بخش رہا تھا۔

لندن سے روانہ ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی ہماری گائیڈ نے ایک چھوٹا سا مائیکرو فون لیا اور مسافروں سے اپنا اور ڈرائیور کا تعارف کروایا۔ یہ گائیڈ جو دراز قد، بھرے بھرے جسم، ملیح چہرے اور بڑی بڑی آنکھوں کی وجہ سے جنسِ مخالف کے لئے اپنے اندر بہت کشش رکھتی تھی کا نام مولی تھا اور اس کا تعلق ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم سے تھا۔ مولی کی عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ ڈچ ہونے کے باوجود اس کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنی تعلیم لندن میں حاصل کی تھی۔ انگریزی اور ڈچ کے علاوہ وہ جرمن اور سوئس زبان بھی روانی سے بول لیتی تھی۔ فرانسیسی بھی اچھی خاصی جانتی تھی۔ مولی کا جنرل نالج عموماً اور تاریخ کا علم خصوصاً بہت اچھا تھا۔ جب وہ کسی علاقے کی تاریخ بیان کرتی تو گائیڈ کی بجائے تاریخ کی پروفیسر معلوم ہوتی تھی۔ وہ پروفیسروں کی طرح خشک علم ہی نہیں جھاڑتی تھی بلکہ اس کی باتوں میں مزاح کی پھلجڑیاں حاضرین کو مسکرانے پر مجبور کرتی رہتی تھیں۔ جہاں ضرورت ہوتی وہاں وہ مزاحیہ فن کاروں کی طرح لطیفے سنانے لگتی تھی۔ مولی کی باتوں اور لطیفوں میں ہلکا پن اور فحش پن نہیں تھا۔ ورنہ پیرس اور ایمسٹرڈم میں مقامی گائیڈوں کی گفتگو کا بڑا حصہ فحش لطیفوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد ہی مولی اپنے بے تکلفانہ انداز سے سیاحوں میں گھل مل گئی۔ ٹریفالگر کمپنی کی طرف سے مولی کے علاوہ اس بس کا ڈرائیور فشر اگلے دو ہفتے کے لئے ہمارے ہمراہ تھا۔ فشر کا تعلق جرمنی سے تھا۔ اس کی انگریزی بس واجبی سی تھی۔ ویسے بھی کم گو اور کام سے کام رکھنے والا تھا۔ تاہم ڈرائیور بہت اچھا تھا۔ اس پورے سفر میں اس کی ڈرائیونگ سے کسی سیاح کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ ہاں اس کی خاموشی بلکہ سرد مہری سے بعض مسافر جھنجھلا سے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کا مزاج سمجھ آتا تو لوگوں کا گلہ جاتا رہتا۔ آغاز کے برعکس اختتامِ سفر پر مسافر فشر سے خوش نظر آئے اور اس کا شکریہ بمع لفافہ ادا کیا۔

مولی نے کوچ کی ہر مسافر فیملی کو سفر کے بارے میں کچھ معلوماتی بروشر اور ایک بڑا سا نقشہ دیا جس میں سفر کا رُوٹ دکھایا گیا تھا۔ اس سے مسافروں کو اپنے رُوٹ اور اس میں آنے والے مقامات کا پہلے سے اچھی طرح علم ہو جاتا۔ میں امریکہ سے آئی ہوئی انڈین فیملی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ مولی نے مجھے وہ معلوماتی بروشر نہیں دیئے۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں اسی فیملی کا حصہ ہوں۔ جب میں نے اسے بلا کر بروشرز اور نقشہ مانگا تو اس نے فوراً ہی نکال کر دے دیئے اور معذرت کرتے ہوئے کہا ’’سوری میں سمجھی آپ اکھٹے ہیں‘‘

اس کا اشارہ میری اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی انڈین فیملی کی طرف تھا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’یوں تو ہم سب اکھٹے ہیں لیکن گھر سے میں اکیلا ہی آیا ہوں۔ ہاں واپسی کا علم نہیں۔ شاید صورتِ حال بدل جائے‘‘

مولی نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا ’’اچھا آپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے؟‘‘

میں نے مسکراتے ہوئے مولی کو سرتاپا دیکھا اور کہا ’’مجھے بتایا گیا تھا کہ ہمارے ساتھ ایک حسین اور ہنس مکھ گائیڈ ہو گی۔ جس کے ہوتے ہوئے آپ خود کو اکیلا نہیں محسوس کریں گے۔ مجھے کیا علم تھا کہ وہ حسین اور ہنس مکھ گائیڈ ہی مجھے اکیلا ہونے کا احساس دلائے گی‘‘

مولی قدرے شرمائی پھر مسکرائی ’’تعریف کا شکریہ! میرا یہ مقصد نہیں تھا۔ ہاں میرے ہوتے ہوئے اس بس میں آپ کو تنہائی کا احساس ہر گز نہیں ہو گا‘‘

وہ بہت زیرک تھی۔ اس نے بہت لطیف پیرائے میں اپنی اور میری حدود کو واضح کر دیا تھا کہ وہ ہمارے سفر کی گائیڈ تھی اور بس۔ ’’لیکن مولی ہم جب تک لندن واپس نہیں آ جاتے ہم حالتِ سفر میں ہوں گے۔ اگر بس میں نہیں ہوں گے تو بھی مسافر ہی ہوں گے۔ ویسے بھی اکیلے پن کا احساس انسان کو زیادہ تر تنہائی میں ہی ہوتا ہے۔ وہاں میرا کون رفیق ہو گا‘‘ میں بھی اسی سوسائٹی میں رہتا تھا۔ کب چوکنے والا تھا۔

مولی سے جب کوئی جواب نہیں بن پڑا تو مسکراتے ہوئے بولی ’’آپ باتیں اچھی کر لیتے ہیں۔ میں ذرا دوسرے مسافروں کو یہ نقشے وغیرہ دے دوں پھر بات ہو گی‘‘

میں نے کہا ’’ضرور! لیکن ٹریفالگر کی ڈیل کے مطابق ہماری تنہائی کا خاص خیال رکھیئے گا‘‘

وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

لندن سے دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہماری کوچ Dover Heights کی پہاڑیوں سے گزر کر ڈوور پورٹ پر جا پہنچی۔ یہاں سے ہمیں بس سمیت بحری جہاز پر سوار ہونا تھا۔ اس سے پہلے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے ہمارے پاسپورٹوں اور ویزوں کو اچھی طرح جانچا پرکھا اور پھر آگے بڑھنے دیا۔ بچپن میں دیوؤں اور اژدہوں کی کہانیوں میں ہم سنتے تھے کہ وہ پورے پورے شہر کو کسطرح نگل لیتے تھے۔ بالکل اسی طرح ہمارے سامنے کھڑے اس دیو ہیکل جہاز کیپیٹ میں بڑی بڑی بسیں، درجنوں کاریں، ٹرک اور ہزاروں افراد اس طرح گم ہوتے جا رہے تھے کہ نئے دور کے اس دیو کو کہانی کے دیوؤں پر برتری حاصل تھی۔ ہماری کوچ بھی اس جہاز کے پیٹ میں سما گئی تو تمام مسافر بس سے نکل کر جہاز میں پھیل گئے۔ ہماری کوچ کے علاوہ ایسی درجنوں اور کوچیں اور ہزاروں مسافر جہاز میں بھرے تھے۔ یہ ناشتے کا وقت تھا۔ اس لئے زیادہ تر مسافر ناشتہ کرنے ریسٹورنٹ جا پہنچے۔ کچھ مسافروں کو ناشتے سے زیادہ ڈیوٹی فری شاپ کی سستی شراب سے دلچسپی تھی۔ لہذا وہ سیدھے بار پر جا کر ناؤ نوش میں مصروف ہو گئے۔ شاید ان کا ناشتہ، لنچ اور ڈنر یہی تھا۔ کچھ جہاز میں واقع جوا خانے میں جا گھسے اور پوکر مشینوں سے الجھنے لگے۔ جہاز پر سوئمنگ پول، بلیئرڈ کے میز اور ٹیبل ٹینس کی سہولت بھی موجود تھی۔ میں ناشتہ کر چکا تھا۔ تاہم قطار میں لگ کر کافی خریدی اور ٹہلتا ٹہلتا جہاز کے عرشے کی طرف نکل گیا۔

دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح جہاز کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے تھے۔ تاہم سفید فام لوگوں کی اکثریت تھی۔ کہیں کہیں کالے افریقن اور کہیں میری طرح گندمی رنگت والے ایشیائی بھی تھے۔ اس پورے سفر میں جس میں مختلف مقامات پر ہماری مڈ بھیڑ مختلف سیاحتی گروپوں سے رہی مجھے ایک بھی پاکستانی سیاح نہیں ملا۔ ہاں چند ایک مقامات پر بھارتی سیاح ضرور ملے۔ ان میں سے بھی اکثر بھارت کے صوبے گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔ شاید بھارت کے دوسرے صوبوں کے لوگ بھی پاکستانیوں کی طرح سیر و سیاحت کو فضول تصور کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کی سیاحت سے عدم دلچسپی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہاں سڈنی میں میرے درجنوں دوست ایسے ہیں جو پندرہ بیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے سڈنی سے باہر کے آسٹریلیا کی جھلک تک نہیں دیکھی۔ ہم میں سے بہت کم ملبورن، برسبین، ایڈیلیڈ یا ہوبارٹ گئے ہیں۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے نیوکاسل اور وولنگ کانگ تک جانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اسی طرح جب میں یارک شائر میں تھا تو میرے میزبان آصف کریم سمیت کئی پاکستانیوں نے لندن نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ برطانیہ چھوٹا سا ملک ہے اور اسے دیکھنے کے لئے زیادہ وقت اور سرمایہ درکار نہیں ہے۔ وقت اور سرمائے کی بہت سے پاکستانیوں کے پاس کو ئی کمی بھی نہیں۔ لیکن ان کے شوق ذرا وکھرے، قسم کے ہوتے ہیں۔ سیر و سیاحت ان کی نظر میں گوروں کے چونچلے ہیں۔ میرے ایک دوست کے بقول اس سے تو بہتر ہے کہ میں پاکستان میں اپنے گھر میں ایک اور کمرہ بنوا لوں۔ خیر یہ اپنی اپنی پسند کی بات ہے۔

اس جہاز میں کرنسی تبدیل کرنے کا کاؤنٹر بھی موجود تھا۔ میں نے وہاں جا کر کچھ آسٹریلین ڈالرز کو فرانسیسی کرنسی میں تبدیل کروایا۔ ان کرنسی تبدیل کرنے والوں کا کمیشن اچھا خاصا ہوتا ہے۔ اس وقت تک یورپ میں یورو رائج نہیں ہوا تھا۔ اس لئے ہر ملک میں جا کر وہاں کی کرنسی خریدنا پڑتی تھی۔ پھر دوبارہ کمیشن ادا کر کے دوسرے ملک کی کرنسی لینا پڑتی تھی۔ اس طرح اگر سو آسٹریلین ڈالر کو پہلے برطانوی، پھر فرانسیسی، پھر جرمن، پھر سوئس، پھر ڈچ، پھر بلجیم اور پھر آسٹریلین کرنسی میں تبدیل کروائیں تو کمیشن ادا کرتے کرتے آپ کے ہاتھ میں صرف پچاس ڈالر آئیں گے۔ اس طرح صرف کمیشن ادا کرتے کرتے آپ کی جیب ہلکی ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس تجربے سے میں نے یہی سیکھا کہ جس ملک میں جائیں وہاں اتنی ہی کرنسی تبدیل کروائیں جتنی ضرورت ہو۔

آج کل تو کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم نے مشکل کافی آسان کر دی ہے۔ میں نے بھی متعدد ملکوں میں جہاں ضرورت پڑی کریڈٹ کارڈ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ ہر ملک میں حسبِ ضرورت اے ٹی ایم سے آسانی سے کیش نکلوایا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی نے جو آسانیاں پیدا کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں اے ٹی ایم کے ذریعے دنیا کے دوسرے سرے پر موجود ملک کے اکاؤنٹ میں جمع شدہ اپنی رقم نکلوا سکتے ہیں۔ لہذا میں نے آسٹریلیا میں اپنے اکاؤنٹ سے برطانیہ، جرمنی، فرانس ہر جگہ رقم نکلوائی۔ اتنا ضرور ہے کہ جس ملک میں ہوں اے ٹی ایم سے اس ملک کی کرنسی نکلتی ہے۔ صارف کو کرنسی تبدیل کرنے کی فیس پھر بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ جو آپ کا بنک آپ سے چارج کر لیتا ہے۔ بہرحال یہ سہولت اپنی جگہ کارآمد ہے۔ کریڈٹ اور کی کارڈ کی شکل میں دو پلاسٹک کارڈ لے کر آپ دنیا کے سفر پر نکل سکتے ہیں۔ دنیا کا ہر شاپنگ سنٹر اور ہر بینک ان دو کارڈز کو خوش آمدید کہتا ہے۔ کریڈٹ کارڈ کو تو کھل جا سم سم والی ماسٹر کی کہا جا سکتا ہے۔

ستر منٹ کا یہ بحری سفر زیادہ تر مسافروں نے کھاتے پیتے، کھیلتے اور گھومتے گھماتے گزارا۔ اس دوران ہم انگلش چینل کراس کر کے فرانس کی پورٹ کالس Calais جا پہنچے۔ اہلِ فرانس اس چینل کو فرنچ چینل کہتے ہیں۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کا یہ تنازعہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ ہمیں اس پہ ہلکان ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ کالس کے ساحل کے ساتھ جہاز لگا تو مسافر سیڑھیاں اتر کر اپنے اپنے مطلوبہ ڈیک پر جانے لگے جہاں ان کی بسیں یا کاریں موجود تھیں۔ میں ڈھونڈتا ڈھونڈتا اپنی بس تک پہنچا تو میرے علاوہ تمام مسافر بس میں موجود تھے۔ اس وقت تک جہاز کنارے لگ چکا تھا اور بسیں سٹارٹ ہو رہی تھیں۔ مجھے بس ڈھونڈنے میں کچھ دیر اس لئے لگ گئی کہ میں نے اُترتے وقت یہ نوٹ نہیں کیا تھا کہ ہماری بس کس فلور پر پارک ہے۔ اس لئے ڈھونڈتا ہوا ایک فلور سے دوسرے اور پھر تیسرے پر پہنچا تو کچھ دیر لگ گئی۔ پہلا دن ہونے کی وجہ سے اپنی بس اور ہم سفروں کے چہرے بھی زیادہ شناسا نہیں ہوئے تھے۔

میرے پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی ہماری کوچ بھی قطار میں لگ کر اژدھے کے پیٹ سے رینگ رینگ کر باہر نکلنے لگی۔ باہر نکلے تو فرنچ امیگریشن نے پاسپورٹوں کے بال کی کھال اتارنا شروع کر دی۔ (حالانکہ پاسپورٹ پر بال ہوتے ہیں نہ کھال)۔ غنیمت تھا کہ آسٹریلین، امریکن، نیوزی لینڈ، ساؤتھ امریکن یا یورپین پاسپورٹوں کو دیکھ کر وہ ویزہ لگانے میں تامل سے کام نہیں لیتے تھے۔ خدا جانے پاکستانی، بھارتی یا دوسرے ایشیائی ممالک کے پاسپورٹوں پر ان کی کارروائی کتنی مشکل اور پیچیدہ ہوتی ہو گی۔ کیونکہ اس فرنچ چینل کو غیر قانونی طریقے سے عبور کرنے کے چکر میں کئی ایشیائی نوجوان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وہ ٹرکوں کے اندر جہاں پھل اور سبزیاں لدی ہوتی ہیں، چھپ کر سرحد پار کرتے ہیں۔ تنگ جگہ میں سانس بند ہونے کے باعث کتنے ہی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ میرے لندن کے قیام کے دوران ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ چھ نوجوان اپنی جان ہار بیٹھے تھے۔ وہاں کے اخبارات اور ٹیلی ویژن پر وہ خبر کافی نمایاں انداز میں آئی تھی۔ اسی لئے مجھے ابھی تک یاد ہے۔

انسانی سمگلنگ کا دھندہ صدیوں سے چل رہا ہے۔ مستقبل میں بھی اس کے ختم ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے نقل مکانی کرنے والوں کا یہ جوا بعض اوقات کامیاب ہو جاتا ہے اور کبھی انہیں ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ دنیا کے ایک حصے میں انتہائی غربت و افلاس اور دوسرے حصے میں دولت خوشحال زندگی اور آزادی کی چکا چوند ان واقعات کے ظہور پذیر ہونے کا سبب بنتی رہیں گی۔





فرانس


تم نے اپنی تنہائی کا مسئلہ حل کرنے میں کافی جلدی دکھائی



فرانس میں ہماری بس ڈاکیارڈ سے نکل کر روڈ پر آئی تو وہ سڑک پر بائیں سے دائیں ہو گئی۔ یعنی جب وہ برطانیہ میں تھی تو سڑک کے بائیں طرف چلتی تھی۔ فرانس میں وہ دائیں سمت منتقل ہو گئی۔ جرمنی، سوئٹزرلینڈ، بلجیم اور ہالینڈ میں بھی ٹریفک سڑک کے دائیں جانب چلتی ہے۔ در اصل برطانیہ اور جہاں جہاں برطانیہ کی حکومت رہی ہے ان ممالک میں سڑک کے بائیں طرف ٹریفک چلنے کا قانون ہے۔ جبکہ باقی ساری دنیا میں ٹریفک دائیں جانب چلتی ہے۔ حتیٰ کے عرب ممالک جو پاکستان سے انتہائی قریب واقع ہیں وہاں بھی ٹریفک دائیں طرف ہی چلتی ہے۔

ہمارا ڈرائیور تو تھا ہی جرمن۔ تجربہ کار بھی تھا۔ لہذا برطانیہ سے دوسرے یورپی ممالک اور وہاں سے واپس برطانیہ جا کر ٹریفک کی اس تبدیلی پر اسے کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔ وہ ڈرائیور جو ساری زندگی سڑک کے ایک ہی طرف گاڑی چلاتے رہے ہوں انہیں اس طرح کی اچانک تبدیلی سے بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سڑک پر سیدھا چلنا تو شاید اتنا مشکل نہ ہو۔ لیکن راؤنڈ اباؤٹ، دائیں اور بائیں مڑنا، لائن تبدیل کرنا اور اوور ٹیکنگ وغیرہ میں فوری طور پر نئے ملک کے نئے اصولوں کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا خاصا مشکل ہو سکتا ہے۔ تجربہ کار اور ہوشیار ڈرائیور چند گھنٹوں کی ڈرائیونگ کے بعد اس تبدیلی سے مانوس ہو جاتے ہیں اور انہیں بہت زیادہ مشکل درپیش نہیں ہوتی۔

ڈاکیارڈ سے نکل کر پیرس کی طرف جاتے ہوئے راستے کے دونوں جانب زرعی فارم، سرسبز کھیت، پھلوں سے لدے باغات، سبزے اور پھولوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ یہ منظر اتنا دلکش اور سہانا نظر آتا ہے کہ آنکھ جھپکنے کو دل نہیں چاہتا۔ یوں تو آسٹریلیا کو بھی قدرت نے بھر پور فیاضی سے نوازا ہے مگر یورپ میں قدرتی حسن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے بارشوں کا تناسب یورپ میں آسٹریلیا سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وجہ سے یہاں سبزہ اور پھل پھول بہت زیادہ ہوتا ہے۔

پیرس سے پیشتر ہماری کوچ ایک جگہ پندرہ منٹ کے لئے رکی۔ یہ ایک چھوٹا سا دیہاتی قصبہ تھا۔ اس سٹاپ پر مسافروں کی سہولت کے لئے سب کچھ موجود تھا۔ دو تین ریسٹورنٹ، ٹوائلٹ، منی ایکس چینج، اے ٹی ایم، چھوٹا سا خوبصورت باغیچہ، جس میں رنگ برنگی چھتریوں کے نیچے صاف ستھرے بنچ اور میزیں۔ مسافر حسبِ ضرورت کیفے، ریسٹورنٹ یا ٹوائلٹ وغیرہ میں چلے گئے۔ ہمارے علاوہ دو اور ٹورسٹ کوچز بھی وہاں کھڑی تھیں۔ ان کے مسافر بھی وہی سب کچھ کر رہے تھے۔ میں سینڈوچ اور کوک کا ڈبہ لے کر ایک بنچ پر جا بیٹھا۔ ہمارے گروپ میں صنفِ نازک میں سے تنہا سفر کرنے والی اکلوتی سیاح جولی بھی اسی چھتری کے نیچے میرے سامنے والے بنچ پر آ بیٹھی۔ جولی کے بارے میں مجھے اتنا ہی علم تھا کہ جولی کا تعلق لندن سے ہے اور وہ اکیلی سفر کر رہی ہے۔ وہ مجھ سے دو سیٹیں آگے ایک فیملی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے جب گائیڈ کو اپنا تعارف کروایا تو میں بھی سن رہا تھا۔ جولی پتلی دبلی نازک سی لڑکی تھی۔ اس کی آنکھیں نیلی، زلفیں تراشیدہ اور ہونٹ صبح کی شبنم میں بھیگے گلاب جیسے نازک اور انگور کے رس سے بھرے لگتے تھے۔ میں نے جب اسے ہیلو کہا تو وہ فوراً اپنا ڈرنک اٹھا کر میرے بنچ پر آ گئی۔ سفر کی باتیں کرنے لگی۔ دیکھنے میں جتنی حسین تھی اس کی باتیں بھی اتنی ہی بھولی بھالی سی تھیں۔ لیکن کبھی کبھار وہ انتہائی پختہ کار عورتوں والا رویہ اختیار کر لیتی۔ چند منٹوں میں ہی جولی بے تکلفی سے باتیں کرنے لگی۔ اسے بھی علم تھا کہ میں آسٹریلیا سے آیا ہوں اور اکیلا ہوں۔ کہنے لگی ’’میں ایک فیملی کے ساتھ بیٹھی ہوں۔ شاید میری وجہ سے انہیں تکلیف ہوتی ہو۔ تم بھی ایک فیملی کے ساتھ ہو۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم دونوں اکھٹے بیٹھ جائیں تاکہ یہ دونوں فیملیاں ہماری وجہ سے کسی ڈسٹربنس کا شکار نہ ہوں‘‘

میں نے کہا ’’یہ تو میری خوش قسمتی ہو گی کہ مجھے اتنا حسین ہم نشین مل جائے۔ تمھارا ساتھ رہا تو میں یہ سفر ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے بھی تیار ہوں‘‘

جولی مسکرائی ’’فی الحال تو یہ دو ہفتے ہی کافی ہیں۔ کیا پتا اس سے پہلے ہی ہم ایک دوسرے سے اُکتا جائیں‘‘

’’تمھارے بارے میں نہیں جانتا۔ اپنے بارے میں مجھے یقین ہے کہ تمہارا ساتھ میرے سفر کا حسن بڑھا دے گا‘‘

جولی نے کہا ’’تو پھر یہ طے ہے کہ بس میں جا کر ہم دونوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھیں گے‘‘

میں نے کہا ’’بالکل‘‘

ہم ایک دوسرے کے متعلق مزید جاننے کے لئے باتیں پوچھتے اور بتاتے رہے۔ اتنی دیر میں بس چلنے کا وقت ہو گیا۔ واپس جا کر ہم ایک سیٹ پر اکھٹے ہو گئے۔ بس چلی تو تھوڑی ہی دیر بعد جولی پر غنودگی طاری ہو گئی۔ چند منٹوں بعد ہی وہ میرے کندھے پر سر رکھے سو رہی تھی۔ اس کی زلفوں سے اٹھنے والی بھینی بھینی مہک اور چہرے کی تپش مجھے بھی مد ہوش کرنے لگی۔ صنفِ نازک سے قربت کا یہ نشہ ایشیائی نوجوانوں پر بہت جلدی اثر انداز ہوتا ہے۔ میری جگہ جاوید اور شکیل ہوتے تو ان کے ولایت آنے کے کچھ پیسے تو پورے ہوتے۔ یورپ اور آسٹریلیا کی ٹھنڈی فضاؤں کے پروردہ لوگوں پر ان ہلکے پھلکے مناظر کا اثر کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ شاید وہ بچپن سے صنفِ نازک سے اتنے قریب رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے اوپر صنف مخالف کی قربت سے جو نشہ طاری ہونے لگتا ہے ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ شاید خون میں گرمی کا فرق بھی ہو۔

جولی کو شاید اس کا احساس بھی نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ تو چہرے پر معصومیت سجائے خوابوں کے مزے لے رہی تھی۔ لیکن یہ قربت میرے اندر کی دنیا میں ہلچل مچائے ہوئے تھی۔ دل کے دھڑکنے کی رفتار کئی گنا بڑھ چکی تھی اور خون کی گردش میں تیزی آ گئی تھی۔ شاید خون کا دباؤ بڑھنے سے میرے چہرے کی سرخی میں اضافہ بھی ہو چکا تھا۔ اسی وقت ہماری ٹور گائیڈ مولی چلتے چلتے ہمارے پاس آ کر رُکی۔ میں ڈرا کہ اس نے میرے دِل کی چوری پکڑ لی ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی ’’تم نے اپنی تنہائی کا مسئلہ حل کرنے میں کافی جلدی دکھائی ہے‘‘

میں نے اپنے آپ کو سنبھالا ’’ہاں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ ویسے میری تنہائی کا تمہیں زیادہ احساس ہونا چاہیئے کیونکہ تم ہماری میزبان ہو‘‘

مولی مسکرائی ’’ایک کی میزبانی سے فارغ ہو گے تو دوسری کی ضرورت پڑے گی نا‘‘

میں نے کہا ’’میرے ساتھ کچھ ایسا نہ ہو جائے جو دو گھروں کے مہمان کے ساتھ ہوتا ہے‘‘

مولی نے کہا ’’فکر نہ کرو! تم گھر کے اتنا اندر پہنچ چکے ہو کہ اب کسی نہ کسی کو تمہیں خوش آمدید کہنا ہی پڑے گا‘‘

’’تم حسیناؤں کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اسی وجہ سے ڈر رہا ہوں‘‘

’’اپنی کوششیں جاری رکھو نتیجہ بہتر ہی نکلے گا‘‘

مولی یہ کہہ کر مسکراتی ہوئی آگے چل پڑی۔ مولی کے بدن کا لوچ اور اس کی مسکراہٹ اتنی قاتل تھی کہ ڈیوڈ جیسا بڈھا اور عورتوں سے بے زار شخص بھی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔

جولی کافی دیر سوتی رہی۔ میں کبھی جولی کے بے مثال حسن اور کبھی فرانس کے خوبصورت نظاروں اور حد نظر تک پھیلی ہوئی سرسبز و شاداب زمینوں میں کھویا رہا۔ سفر گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا۔

فرانس کے ان حسین دیہی نظاروں سے آنکھوں کو تراوٹ اور دل کو تازگی ملتی رہی۔ اس دوران ہم دنیا کے حسین ترین شہروں میں سے ایک یعنی پیرس پہنچ گئے۔ پیرس کی مصروف مگر خوبصورت گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم اپنے ہوٹل کے سامنے جا رُکے۔ پیرس میں ہمارے ہوٹل کا نام DeCambell تھا۔ خاصا بڑا ہوٹل تھا۔ فائیو نہیں تو فور سٹار ضرور ہو گا۔ ہمارا اندازہ تھا کہ پیرس جیسے شہر میں ایسا ہوٹل خاصا مہنگا ہو گا۔ تاہم ٹریفالگر جیسی بڑی ٹورسٹ کمپنیوں کی ہر جگہ خصوصی ڈیل ہوتی ہے۔ ایسے ہوٹلوں کاکسی ایک فرد کے لئے ریٹ الگ اور زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن ٹریفالگر جیسی بڑی کمپنیوں کے ساتھ انہیں خصوصی رعایت کرنی پڑتی ہے۔

ہم نے اپنا سامان بس سے اُتروا کر پورٹرز کے حوالے کیا۔ کاؤنٹر پر جا کر کمرے کی چابی حاصل کی۔ میں نے نوٹ کیا کہ تمام ہی سنگل سیاحوں نے الگ کمرہ حاصل کیا تھا۔ کسی دوسرے سیاح کے ساتھ ٹھہرنے سے انہیں کافی رعایت مل سکتی تھی لیکن یہ لوگ کسی کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے۔ اگر پاکستانی ہوتے تو کمرہ تو ایک طرف، ایک چار پائی پر سونے میں بھی انہیں عار نہ ہوتا۔ شادی بیاہ اور مرگ پر جب زیادہ مہمان اکھٹے ہو جاتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک چارپائی پر بعض اوقات دو اور تین تین ٹیڑھے ترچھے ہو کر سو جاتے ہیں۔ اس وقت کسی کے کان میں دوسرے کا پاؤں اور ایک کے چہرے پر دوسرے کی لات رکھی ہوتی ہے۔ لوگ صبر شکر سے رات بسر کر ہی لیتے ہیں۔ خیر مجھے کیا۔ مجھے آدھے کرائے پر پورا کمرہ مل گیا تھا۔ اگر میری طرح کا کوئی دوسرا شخص انہیں مل جاتا تو اس وقت میرے کمرے کا شرکت دار بنا ہوتا۔ شکر ہے نہیں ملا۔ پیرس پہنچنے تک مجھے دھڑکا لگا ہوا تھا کہ ٹریفالگر والوں نے میرے کمرے کا حصے دار ڈھونڈھ نہ لیا ہو۔ اب یہ خطرہ ٹل چکا تھا اور بقیہ سفر میں بھی اب یہ اندیشہ نہیں تھا۔

اس وقت شام کے چار بجے تھے۔ گرمیوں کی اس سہ پہر سورج ابھی سر پر کھڑا تھا۔ کیونکہ غروبِ آفتاب دس بجے کے قریب تھا۔ اس کے بعد بھی سورج کی روشنی تقریباً ایک گھنٹے تک باقی رہتی ہے۔ مولی نے سیاحوں سے کہا ’’آپ لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا کر ایک دو گھنٹے آرام کر لیں۔ اس کے بعد چاہیں تو شاور اور ڈنر وغیرہ سے فارغ ہو جائیں۔ کیونکہ غروبِ آفتاب کا منظر ہم پیرس کے مشہور مقام ایفل ٹاور کے اوپر سے دیکھیں گے۔ اس کے لئے ہم سات بجے روانہ ہو جائیں گے۔ آپ لوگ تیار ہو کر سات بجے سے پہلے نیچے لابی میں آ جائیں‘‘

میرے اوپر پہنچنے سے پہلے پورٹر میرا سامان کمرے میں پہنچا چکا تھا۔ شاندار کمرہ تھا۔ کم از کم میرے لندن والے ہوٹل سے بہتر اور کشادہ تھا۔ میں آرام دہ بستر پر گر کر سستانے لگا۔ سات بجے سے پہلے تیار ہو کر میں نیچے لابی میں پہنچ گیا۔ ہمارے گروپ کے تقریباً سبھی سیاحوں نے ریسٹورنٹ میں جا کر گائیڈ کی ہدایت کے مطابق ڈنر کر لیا تھا۔ لیکن میں اتنے دن یورپ میں گزارنے کے باوجود چمکتی دھوپ میں اور سرِ شام ڈنر کا عادی نہ ہو سکا تھا۔ پاکستان کی طرح آسٹریلیا میں بھی ہم ڈنر رات نو بجے کے بعد ہی کرتے ہیں۔ برطانیہ میں قیام کے دوران بھی میں ڈنر رات دیر سے ہی کرتا رہا۔ لہٰذا پیرس میں بھی حسب عادت سر شام ڈنر نہ کر سکا۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ ایفل ٹاور کی سیر کے بعد واپس آ کر کھانا کھاؤں گا۔ اس وقت میرے خیال و خواب میں بھی نہیں تھا کہ ہر جگہ ہر کام ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنے رہنما کی بات کو در خور اعتنا نہیں سمجھیں گے تو اس کا خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا۔

سات بجے شام ہماری کوچ ہمیں لے کر پیرس کی خوبصورت گلیوں میں کہیں سست خرامی اور کہیں سُبک رفتاری سے سوئے منزل روانہ ہو گئی۔ سنہری کرنوں والی روپہلی دھوپ پیرس کی خوبصورت عمارتوں، جاذب نظر کھڑکیوں اور دروازوں اور کھڑکیوں کی کارنسوں پر سجے رنگ برنگے پھُولوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ پیرس کی شام! یہ تین رومانٹک لفظ میں نے بے شمار دفعہ سُنے اور پڑھے تھے۔ سُن اور پڑھ کر پیرس کی شام کا ایک رنگین تصور ذہن کے پردے پر موجود تھا۔ اس شام پیرس کے دل رُبا اور فسوں خیز نظارے جب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تو تصور کی رنگین چادر مزید رنگین ہوتی چلی گئی۔ پیرس میرے تصور سے کہیں بڑھ کر حسین تھا۔ اس کا حسن میرے دل و دماغ پر چھاتا چلا گیا۔ کسی قلمکار کے الفاظ اور مقرر کی زباں ان نظاروں کو بیان نہیں کر سکتی جو اُس کی آنکھ دیکھتی ہے۔ قدرت کی بنائی ہوئی خوبصورت زمین اور اس کے دلکش قدرتی نظارے انسان کی قدرتِ بیان میں آ بھی کیسے سکتے ہیں۔

پیرس کے حُسن میں قدرت کی فیاضی اور انسان کی بھرپور محنت دونوں شامل ہیں۔ قدرت نے اگر اس علاقے کو زرخیز زمین، سرسبز و شاداب کھیت، دلکش نظارے، بل کھاتے دریاؤں اور خوبصورت پہاڑوں سے نوازا ہے تو حضرتِ انسان نے ان دلکشیوں اور خوبصورتیوں کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس میں مصنوعی حُسن کے اضافے سے چار چاند لگا دیئے۔ پیرس کی صاف ستھری اور چمکتی ہوئی سڑکوں کے کنارے درختوں اور پودوں کی رنگا رنگ اقسام اور ان کی تزئین و ترتیب انتہائی فنکارانہ اور جاذب نظر ہے۔ ایسے لگتا ہے کسی ماہر جرنیل نے ترتیب سے مقررہ فاصلوں پر فوجی کھڑے کر رکھے ہوں۔ پودوں کی تراش خراش اور پھولوں کی اقسام دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی طرح پیرس کی عمارتیں، ان کا طرزِ تعمیر اور ان کی تزئین و آرائش بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ فرنچ طرزِ تعمیر اپنی انفرادیت اور خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ خصوصاً فرنچ دروازوں اور کھڑکیوں کا ایک مخصوص ڈیزائن ہے۔ یہ عام سی کھڑکیاں اور دروازے نہیں ہیں بلکہ کسی فن کار کے فن کا نمونہ نظر آتے ہیں۔ گرمیوں کے اس موسم میں کھڑکیوں کے چھجے رنگ برنگے پھولوں سے لدے نظر آ رہے تھے۔

ہماری بس پیرس کی سڑکوں اور گلیوں میں جتنا آگے بڑھ رہی تھی اتنا ہی اس کے حُسن کا جادو ہمارے دل و دماغ پر چھاتا جا رہا تھا۔ لبِ سڑک واقع ریستورانوں اور کافی شاپوں کے سامنے تزئین و ترتیب سے میز اور کرسیاں سجے ہوئے تھے۔ فرنچ مرد اور عورتیں بہترین لباسوں میں ملبوس ان کرسیوں پر براجمان کافی، کولڈ ڈرنک اور کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ ان کرسیوں پر بیٹھے فرانسیسیوں کی اکثریت تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھی۔ اس کے برعکس آسٹریلیا میں سُوٹ صرف کاروباری اوقات میں پہنا جاتا ہے۔ اگر شام کو باہر جانا ہو تو لوگ گھر جا کر عام لباس جو زیادہ تر پتلون اور ٹی شرٹ پر مشتمل ہوتا ہے پہن کر جاتے ہیں۔ اکثر جوان لڑکے اور لڑکیاں پیر سے جمعرات تک سوٹ پہن کر دفتر جاتے ہیں۔ لیکن جمعے والے دن عام لباس میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ ویک اینڈ نائٹ پر انہیں ریستورانوں اور کلبوں وغیرہ میں جانا ہوتا ہے۔ مرد دفتری اوقات کے بعد ڈھیلی ڈھالی پتلون یا جینز اور ٹی شرٹ جیسے آرام دہ لباس میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ البتہ لڑکیاں اور عورتیں عموماً ایسے لباس کا انتخاب کرتی ہیں جن سے بدن کے پیچ و خم نمایاں نظر آئیں۔ اگر عورت اکیلی ہو تو پھر تو وہ کیل کانٹے سے لیس ہو کر باہر نکلتی ہے۔ تاکہ کسی نہ کسی کو اپنی زلفِ گرہ گیر کا اسیر کر کے گھر لوٹ سکے۔ اگر ایک وِیک اینڈ پر اُسے اپنے مقصد میں ناکامی ہو تو اگلے ہفتے وہ اس سے بھی زیادہ ہتھیاروں سے لیس ہو کر باہر نکلتی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی نہ کوئی اس کے بدن کے پیچ و خم کا اسیر نہیں ہو جاتا۔

میں نے اپنی گائیڈ مولی سے دریافت کیا ’’یہ ریستورانوں اور کافی شاپس میں جو لوگ براجمان ہیں۔ اُن میں سے کوئی بھی بغیر سوٹ کے نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

مولی نے بتایا ’’یہ فرانسیسیوں کا رواج ہے۔ شام کو باہر نکلتے ہیں تو پورے سوٹ بوٹ میں ہوتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی! چاہے تھوڑے سے وقت اور تھوڑے سے فاصلے پر موجود کافی شاپ میں بھی جائیں یہ سوٹ کے بغیر نہیں نکلتے۔ اس لئے یہاں کسی ریستوران اور کافی شاپ میں کوئی شخص سوٹ کے بغیر نظر آئے تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ فرنچ اپنے رسم و رواج، لباس، زبان اور خوراک کے معاملے میں بے لچک بلکہ سنکی واقع ہوئے ہیں۔ یہ تو ہم سیاحوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ یہاں چند دنوں یا چند گھنٹوں کے لئے بھی آئیں تو انہی کے رسم و رواج پر چلیں۔ انہی کی زبان بولیں اور انہی کی طرح خشک اور لمبی فرنچ ڈبل روٹی کھائیں۔ چاہے بعد میں قبض ہو جائے‘‘

مولی کی بات پر سب سیاح مُسکرا دیے۔ بعد میں مولی نے فرانسسیوں کے کئی لطیفے سنائے جو زیادہ تر انگریزوں نے فرانسیسیوں کا مضحکہ اڑانے کے لئے تراشے تھے۔


پیرس کی فضاؤں میں پھیلی شفق کی سُرخی



اس دن جمعہ یعنی ویک اینڈ نائٹ تھی۔ اس لئے سڑکوں پر رش بے تحاشا تھا۔ فٹ پاتھ پر بھی کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ویسے بھی آسڑیلیا سے باہر نکلیں تو دنیا کے ہر شہر میں لوگوں کی تعداد زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ جوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے فٹ پاتھوں پر چلے جا رہے تھے۔ کئی جگہوں پر یہ ہاتھ ایک دوسرے کی کمر سے لپٹے تھا۔ کہیں بدن سے بدن چپکے تھے۔ کچھ عمر رسیدہ جوڑے کافی شاپوں کے سامنے سجی کرسیوں پر بیٹھے عمرِ رفتہ کو یاد کر رہے تھے۔ آٹھ بجے کے بعد بھی سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ہم پیرس کی خوبصورت عمارتوں، چمکتی سڑکوں، کھڑکیوں کی کارنسوں پر لگے رنگ برنگے پھولوں والے پودوں، ریستورانوں اور ہشاش بشاش فرانسیسیوں کو دیکھتے ہوئے دریائے سین کے کنارے جا پہنچے۔ یہ خوبصورت اور سانپ کی طرح بل کھاتا دریا پیرس کی حسین گردن پر سجا دلکش ہار نظر آتا ہے اور اس کے حُسن کو مزید جلا بخشتا ہے۔ دریا کے دونوں کناروں پر خوبصورتی اور ترتیب سے بنی ہوئی عمارتیں، دریا میں تیرتی رنگ برنگی کشتیاں اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنے شاندار پُل پیرس کی شان بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ ہم ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے الگزینڈر برج کراس کر کے پیرس کے ماتھے پر سجے شاندار، با وقار مشہور زمانہ ایفل ٹاور کے پاس جا کر رُکے۔ ایفل ٹاور اتنا بلند ہے کہ پیرس کے ہر علاقے سے نظر آتا ہے۔ اس کے نزدیک جا کر تو اُس کی بلندی، اُس کی ساخت اور اس کا سائز عقلِ انسانی کو دنگ کر کے رکھ دیتا ہے۔

اس بلند و بالا مینار اور دریائے سین کے درمیان ایک کھلا میدان ہے۔ جہاں ہر جانب سیاحوں کا جمگھٹا نظر آتا ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح مرد اور عورتیں اس عظیم الشان اور محیر العقول عمارت کی ہر زاویے سے فوٹو گرافی کرتے نظر آتے ہیں۔ مقامی فرنچ اور الجزائری کالے ایفل ٹاور اور دوسرے قابلِ دید مقامات کی تصاویر پر مشتمل کارڈز فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ تقریباً ہر سیاح کو یہ کارڈز خریدنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمیں مولی نے بتایا کہ ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ ٹورسٹوں کو لوٹنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ ایسے ہی ایک کھچڑی بالوں اور سیاہ رنگت والے الجزائری نے مجھے اپنے کارڈز دکھانے کی کوشش کی۔ میں نے ایک کارڈ دیکھنے کے بعد اس کا نرخ دریافت کیا۔ ا س نے جو دام بتائے وہ خاصے زیادہ تھے۔ ویسے بھی ان کارڈز کی مجھے ضرورت نہیں تھی۔ میں نے شکریہ ادا کر کے کارڈ واپس کیا تو اس کا چہرہ غصے سے مزید سیاہ ہو گیا ’’تم انڈین لوگ کچھ خرید تو سکتے نہیں۔ ایسے ہی وقت ضائع کرتے ہو‘‘

میں نے کہا ’’تم شاید بھول گئے ہو کہ میں نہیں بلکہ تم میرے پاس کارڈز بیچنے آئے تھے۔ میرا وقت تم سے زیادہ قیمتی ہے۔ جاؤ اور کوئی اور شکار تلاش کرو‘‘

وہ منہ بنا کر بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ سیاحوں کی ایک طویل قطار ٹکٹ خریدنے کے لئے کھڑی تھی۔ خوش قسمتی سے ہمیں یہ زحمت نہیں اٹھانا پڑی۔ کیونکہ ٹریفالگر کے پیکج میں یہ ٹکٹ بھی شامل تھا۔ مولی نے یہ ٹکٹ پہلے سے خرید رکھے تھے۔ تاہم لفٹ میں سوار ہونے کے لئے پھر بھی قطار بنانی پڑی۔ ایفل ٹاور کے کئی فلور ہیں۔ آپ ان میں سے کسی پر بھی جا کر دور تک کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک عمودی نظر آنے والا مینار ہی نہیں بلکہ مکمل عمارت ہے۔ جس کے مختلف فلورز پر کمرے، کینٹین، ٹوائلٹ، بالکونیاں اور لاؤںجز موجود ہیں۔ لفٹ جب اوپر کی جانب چلی تو چلتی ہی چلی گئی۔ زمین دُور اور آسمان نزدیک نظر آنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم آسمان کو چھونے جا رہے ہیں۔ میں سب سے اوپر والے فلور پر اُتر کر بالکونی میں پہنچا تو پورا پیرس حدِ نظر تک میرے سامنے تھا۔ دُور دُور تک عمارتیں، سڑکیں، دریا اور گھر میرے دائرۂ نظر میں تھے۔ ایک نظارے میں اتنے منظر دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ اس پر مستزاد بالکونی میں دوربینیں بھی ایستادہ تھیں۔ جن میں چند فرینک ڈال کر نظروں کی پہنچ کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا تھا۔

میں نے بھی تھوڑی دیر پہلے تبدیل کرائی کرنسی میں سے چند سکے لے کر ایک دُوربین میں ڈالے تو یہ مشین میلوں دور مناظر کو کھینچ کر میرے اتنے قریب لے آئی کہ ایسے لگا کہ میں ہاتھ بڑھا کر انہیں چھو سکتا ہوں۔ اس بلند و بالا عمارت سے پیرس کے دُور و نزدیک کا نظارہ اور اس کی سحر انگیزی نظروں میں جذب ہونے لگی۔ پیرس کی لمبی، سیدھی اور چمکدار سڑکیں، سُرخ چھتوں والے گھر، پارک، باغات اور بل کھاتا دریائے سین سب کچھ نظروں کے دائرے میں تھا۔ جدھر دُوربین کا رُخ کرو۔ وہیں نظارے نظروں کو کھینچ لیتے تھے۔ آنکھ جھپکنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ حتیٰ کہ دوربین میں ڈالا گیا سکہ وقت ختم ہونے پر بازاری عورت کی طرح دغا دے گیا۔ دُوربین نے اندھا ہو کر آنکھوں کو دُور کے نظاروں سے محروم کر دیا۔

میں نے دُوربین میں نیا سکہ ڈال کر اس کا رُخ دریائے سین کی طرف کیا تو کافی دُور موجود ایک کشتی مجھے بالکل قریب نظر آنے لگی۔ بوٹ میں موجود جوڑا تجدیدِ محبت کی مشق کر رہا تھا۔ اُس ہوش ربا نظارے نے اس ٹھنڈے موسم میں بھی میرا ماتھا عرق آلود کر دیا۔ وہ جوڑا میرے اتنے قریب تھا کہ ان کے چہروں پر جذبات کی تپش بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔ مجھے اس بے شرم جوڑے پر غصہ آیا جو میرے سامنے ایسی حرکتیں کر رہا تھا۔ دفعتاً دوربین میں ڈالے گئے سکے کا وقت ختم ہو گیا اور وہ جوڑا بہت دُور کھڑی بوٹ کے دھبے میں تبدیل ہو گیا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ بے شرم وہ جوڑا نہیں بلکہ میں ہوں جو اُن کی پرائیویسی میں مخل ہو رہا تھا۔ میں نے دُوربین میں دوبارہ سکہ ڈالا اور دوسری طرف کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگا۔

وہیں کھڑے کھڑے ساڑھے دس بج گئے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے سورج سرخ تھال کی شکل میں مغرب کی جانب چھ گھنٹوں کے لئے رو پوش ہو گیا۔ وہ اپنے پیچھے پیرس کی فضاؤں پر دلہن کے ہاتھوں پر سجی مہندی کے رنگ کی شفق بکھیر گیا۔ غروبِ آفتاب کا ایفل ٹاور کی انتہائی بلندی سے دیکھا گیا وہ منظر اب تک میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔ پیرس کی فضاؤں پر پھیلی شفق کی سُرخی سے رنگی وہ رنگین شام کسی خشک مزاج شخص کو دل گداز نرمی بخش کر شاعر بنانے کے لئے کافی تھی۔ وہ الگ بات ہے کہ ہر انسان اپنے دل میں مچلنے والے سندر جذبوں کو الفاظ کی مالا پہنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ وصف قدرت نے صرف شاعروں کو ہی دیا ہے۔ جو نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے جذبات کو بھی الفاظ کا جامہ پہنا کر شعروں کی شراب اور غزل کے جام میں ڈھال دیتے ہیں۔

ایفل ٹاور کی بلندی سے غروبِ آفتاب کا منظر تو انتہائی حسین تھا ہی، غروبِ آفتاب کے بعد اس میں مزید چار چاند لگ گئے۔ کیونکہ پیرس کی رنگا رنگ روشنیاں ہر چہار جانب جل اٹھی تھیں۔ اس بلندی سے یہ روشنیاں اتنی دلکش لگ رہی تھیں کہ ان سے نظریں ہٹانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ سڑکوں کے کنارے لیمپوں میں ایک دلکش ترتیب تھی۔ سرِ شام جلنے والی یہ رنگ برنگی روشنیاں اب ایک دوسرے ہی پیرس کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ میں ٹاور پر موجود کیفے سے خریدی گئی کافی کی چسکیاں لے کر بالکونی میں کھڑا ان نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اچانک جولی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چونکا دیا۔ جولی کے حسین چہرے پر شفق کی سرخی کا پرتو نظر آ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہماری بس جانے کے لئے تیار ہے۔

گیارہ بجے ہم بس میں سوار ہوئے تو دن کی روشنی غروب آفتاب کے ایک گھنٹے بعد بھی باقی تھی۔ ایفل ٹاور کے اردگرد سیاحوں کا ہجوم ویسے کا ویسا تھا۔ تصویری کارڈز اور سووینئرز بیچنے والے ویسے ہی مصروف تھے۔ علاوہ ازیں ٹریفالگر سکوائر لندن کی طرح درجنوں تصویری اسکیچ بنانے والے فنکار ایزل اور اسٹینڈ، رنگ اور برش لے کر سیاحوں کی پورٹریٹ بنا رہے تھے۔ چند ایک کے پاس رک کر میں نے دیکھا۔ وہ بہت اچھی تصاویر بنا رہے تھے۔ تاہم بعض فنکاروں کی قسمت میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں کی خاک چھاننا لکھا ہوتا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کئی کے فن پارے مشہور و معروف مصوروں سے کم نہیں تھے۔

ہم دریائے سین کے کنارے کھڑی اپنی کوچ میں جا بیٹھے۔ دریائے سین میں کھڑی کشتیوں پر رنگا رنگ روشنیاں جل اٹھی تھیں۔ جب کشتیاں ہوا کے ساتھ ہچکولے کھاتیں تو روشنیاں دریا پر تیرتی نظر آتیں۔ واپسی کے سفر میں ہم نپولین بونا پارٹ کے مقبرے کے سامنے سے گزرے۔ پھر ہم نے روشنیوں اور رنگوں میں ڈوبا پیرس کا اوپیرا ہاؤس دیکھا۔ نیشنل اسمبلی آف فرانس کے سامنے سے گزرے۔ کنکورڈ کے چورا ہے پر پہنچے تو رولر اسکیٹنگ شوز پہنے ہزاروں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں ہماری بس کے سامنے آ گئے۔ جس جگہ ہماری بس کھڑی تھی وہاں سے مجھے یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ یہ مخلوق کہاں سے برآمد ہو رہی ہے۔ لیکن وہ بیک وقت سیکڑوں کے حساب سے پوری سڑک پر پھیلے ہوئے تھے۔ وہ تیزی سے پھسلتے ہوئے ایک جانب جا رہے تھے۔ ٹریفک چاروں جانب سے رُکی ہوئی تھی۔ ہماری بس اور دیگر سیکڑوں گاڑیوں کے ڈرائیور بے چینی سے ان کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن وہ ساون کے مہینے میں زمین سے برآمد ہونے والے پتنگوں کی طرح امڈے ہی چلے آ رہے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ پورے پیرس بلکہ پورے فرانس کے لوگ اسکیٹنگ شوز پہن کر سڑک پر آ گئے ہیں۔

ہم سب اور ہم سے زیادہ ہمارا ڈرائیور تھکا ہوا تھا۔ وہ بار بار بس آگے کی جانب کھسکاتا اور ریس دیتا کہ شاید یہ مخلوق رُک کر اُسے راستہ دے دے۔ لیکن اُس رات پیرس کے اس حصے میں اسکیٹنگ کرنے والے نوجوانوں کا راج تھا۔ خدا خدا کر کے آدھے گھنٹے میں یہ قافلہ ختم ہوا تو ہماری بس آگے بڑی۔ دن بھر کی مسافت اور آدھی رات گزر جانے کے باوجود پیرس کا حُسن اور خصوصاً فرائیڈے نائٹ کی چہل پہل تھکن کا احساس بھلائے ہوئے تھی۔ ہر طرف دن کا سا سماں تھا۔ واپسی کے سفر میں، میں سڑکوں کے کنارے سٹریٹ لائٹوں کے منفرد فرنچ سٹائل کو دیکھ کر متاثر ہوا۔ سٹریٹ لیمپ صدیوں پرانی لالٹین کی شکل کے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ بہت سی لالٹینیں جلا کر کھمبوں کے ساتھ لٹکا دی گئی ہوں۔ ان لالٹینوں نے ایک عجیب سماں پیدا کر دیا تھا۔ ریستورانوں، کلبوں، کافی شاپس اور دکانوں پر رش جوں کا توں تھا۔ لگتا نہیں تھا کہ رات کے بارہ بج گئے ہیں۔ جوان جوڑے بانہوں میں بانہیں ڈالے ہنستے مسکراتے اور محبتوں کی خوشیاں سمیٹتے چلے جا رہے تھے۔

ہمارے گروپ میں شامل بوڑھے سیاح تھکے تھکے لیکن خوش نظر آ رہے تھے۔ مولی حسبِ معمول چہک چہک کر پیرس کے مختلف علاقوں اور عمارتوں کے بارے میں بتا رہی تھی۔ جولی میرے ساتھ بیٹھی کبھی باہر کے منظر دیکھنے لگتی، کبھی باتیں کرنے لگتی اور کبھی خواہ مخواہ ہنسنے لگتی۔ ہنستے ہنستے وہ لوٹ پوٹ جاتی۔ جب اسکیٹنگ کرنے والوں کا قافلہ ہمارے سامنے سے گزر رہا تھا تو وہ میرے کاندھے پر سر رکھے باقاعدہ خراٹے لے رہی تھی۔ مولی اُسے دیکھ کر میری طرف معنی خیز انداز میں مسکرا رہی تھی۔ جاپانی جوڑا اِرد گرد کے نظاروں سے بے خبر ایک دوسرے میں گم تھا۔ کبھی کبھار جب انہیں ایک دوسرے سے ایک لمحے کی فرصت ملتی تو باہر کی طرف نظر دوڑاتے اور پھر ایک دوسرے میں کھو جاتے تھے۔


میری نظر ڈراؤنی شکل والی ڈبل روٹی پر پڑی



ہوٹل پہنچے تو گھڑیاں سوا بارہ بجا رہی تھیں۔ میری آنتیں بھوک سے قُل ہو اللہ بلکہ چاروں قُل پڑھ رہی تھیں میں نے سوچا پہلے ریستوران میں جا کر کھانا کھاؤں گا پھر کمرے میں جاؤں گا۔ لیکن میرا پروگرام اس وقت دھرے کا دھرا رہ گیا جب دیکھا کہ ریستوران کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ رات کے بارہ بجے ہوٹل کا ریستوران بند ہو جاتا ہے۔ شام کے وقت میں نے ہوٹل سے تھوڑے فاصلے پر میکڈونلڈ ریسٹورنٹ دیکھا تھا۔ وہاں پہنچا تو ریسٹورنٹ کی بند روشنیاں بتا رہی تھیں کہ یہ در بھی بند ہے۔ ہمارا ہوٹل جس علاقے میں تھا وہاں زیادہ تر آفس وغیرہ تھے۔ رہائشی علاقہ نہ ہونے کی وجہ سے ریستوران وغیرہ کم تھے۔ وہ بھی اس وقت بند تھے۔ میں گھومتا گھماتا واپس ہوٹل پہنچ گیا۔ اُن کو اپنی بپتا سنائی۔ لیکن انہیں میری حالتِ زار پر ذرا رحم نہ آیا۔ تاہم انہوں نے ایک نیا راستہ دکھلایا اور وہ راستہ تھا وہاں سے دس منٹ کی مسافت پر واقع نووٹل ہوٹل کا۔ مجھے بتایا گیا کہ نووٹل کا ریسٹورنٹ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔

مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق ایک بار پھر کمرِ ہمت باندھ، رات کے سناٹے میں کھانے کی تلاش میں نکل پڑا۔ دن کے خوشگوار موسم کے مقابلے میں رات کے اس پہر اچھی خاصی خنکی تھی۔ میرے جسم پر پتلون اور ٹی شرٹ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ رات کے اس پہر خالی پیٹ سردی اور اندھیرے میں پیرس کا سارا حُسن ماند پڑ گیا تھا۔ پیرس مجھے اس پل پردے پر انتہائی دلکش نظر آنے والی اس اداکارہ کی طرح لگا جو صبح سو کر اٹھے تو میک اپ کے بغیر چڑیل لگ رہی ہو۔ پردے پر اس کے خیرہ کن حسن کے جلوے دیکھنے والا اس کا شائق ایسے میں اُسے دیکھ لے تو جو حالت اس کی ہو، وہی حالت اس وقت میری تھی۔ میں نووٹل ہوٹل پہنچا تو لابی تقریباً خالی تھی۔ پوچھتا پوچھتا ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو وہاں ایک بھی گاہک نہیں تھا۔ تا ہم دو بیرے کاؤنٹر کے پاس بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو خوش گپیاں ترک کر کے ان میں سے ایک میرے پاس چلا آیا۔ اُس نے مینو میرے سامنے رکھا اور فرنچ شریف میں کچھ فرمایا۔ جو ظاہر ہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔ مینو بھی فرنچ میں تھا۔ میں نے اُسے انگریزی میں بتایا کہ مجھے فرنچ نہیں آتی۔ لہذا مجھے انگریزی میں لکھا مینو لا کر دے۔ اس نے سر ہلا کر کہا ’’نو انگلش‘‘

میں نے اسے سمجھایا ’’دیکھو! یہ جانے بغیر کہ یہ کون سی ڈش ہے میں آرڈر نہیں دے سکتا۔ اگر تمہیں انگریزی نہیں آتی تو کسی اور آدمی کو بلا کر لاؤ جو انگریزی سمجھتا ہو‘‘

اس زبان کے دھنی کا پھر وہی جواب تھا۔ ’’نو انگلش‘‘

میں پہلے ہی بھوکا اور پریشان تھا۔ اس پکے فرنچ نے باقی کی کسرپوری کر دی تھی۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ یہاں سے اٹھ کر کہیں اور جاؤں۔ میں نے اُس کے انگریزی بلکہ پنجابی نہ جاننے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کی کچھ بھڑاس نکالی۔ جو اگر اسے سمجھ آ جاتی تو اپنی سخت اور لمبی بریڈ سے میرا سر پھوڑ دیتا۔ پھر آنکھیں بند کر کے میں نے مینو پر ایک جگہ انگلی رکھ دی اور اُسے کہا ’’یہ لے آؤ‘‘

وہ اپنے مختصر سے نوٹ پیڈ پر کچھ لکھ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے ایک پلیٹ میں وہی لمبی اور سخت سی بریڈ لا کر میرے آگے رکھ دی جس کا ذکر مولی نے کیا تھا۔ میں حیران ہو کر کبھی اُسے اور کبھی اس ڈراؤنی بریڈ کو دیکھنے لگا۔ اور پھر اس سے پوچھا ’’کیا یہی کل کھانا ہے؟‘‘

وہ اشارہ کر کے کہ صبر کرو میں کچھ اور لا رہا ہوں چلا گیا۔ میں اکیلا بیٹھا اس بریڈ کو گھورنے لگا اور سوچنے لگا کہ اسے کھاؤں یا اپنے سر پر ماروں۔ اگر کھاؤں تو کیسے کھاؤں۔ میرے گھورنے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اتنا زیادہ گھورنے پر بھی وہ بریڈ بریڈ ہی رہی۔ چکن بریانی، پلاؤ، قورمے یا پالک گوشت میں تبدیل نہیں ہوئی۔ اس پر میری آنکھوں کی گرمی بلکہ حسرت بے اثر ثابت ہوئی۔ اتنی دیر میں وہ فرنچ ویٹر میرے سامنے ایک ڈش رکھ رہا تھاجس سے بھاپ نکل رہی تھی۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ چائنیز نوڈل تھے۔ اس میں گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میں یہ گوشت والی ڈش نہیں کھا سکتا تھا۔

میں پھر سوچ میں گُم ہو گیا کہ اب کیا کروں۔ میری نظر پھر ڈراؤنی شکل والی اسی ڈبل روٹی پر پڑی جو فرنچ ناشتے، لنچ اور ڈنر تینوں کھانوں میں رغبت سے کھاتے ہیں۔ یہ ان کا من بھاتا کھاجا ہے۔ آج نووٹل ہوٹل کے اس محب وطن فرنچ نے گھیر گھار کر مجھے بھی یہ بریڈ کھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن اسے کھاؤں کیسے؟ یہ سوکھی بریڈ میرے حلق سے کیسے اترے گی؟ میں نے پھر مینو دیکھا تو مشروبات میں کوکا کولا لکھا نظر آیا جو انگریزی حروفِ تہجی کے استعمال کی وجہ سے آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔ میں نے ویٹر کو بُلا کر اس پر انگلی رکھ دی۔ تھوڑی دیر بعد میں اس سخت بریڈ کو توڑ کر کوک کی مدد سے نگلنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس طرح اس رات پیرس جیسے مشہور شہر کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں میں نے شاندار ڈنر اس طرح کیا جس طرح پنجاب کے کسی گاؤں میں کوئی کسان دو دن پرانی باجرے کی روٹی اور لسی کی مدد سے کرتا ہو۔ تھوڑی سی بریڈ کھا کر اور کوک کی بوتل پی کر میں نے ایسے ڈکار لی جیسے مرغ مسلم کھا کر اور مینگو لسی پی کر بزنس روڈ کراچی کے کسی ریسٹورنٹ سے نکلا ہوں۔ اتنے شاندار ڈنر کے بعد اب اس کا بل ادا کرنے کی باری تھی۔ بل آیا تو جو تھوڑا بہت کھایا تھا وہ بھی باہر آنے کو آیا۔ پورے پچاسی فرینک ادا کر کے اس دن میں نے اپنی زندگی کا مہنگا ترین ڈنر کیا۔ دانتوں میں خلال پھیرتا ہوا صبح کے دو بجے میں واپس ہوٹل پہنچا۔

اس دن مجھے فرانسیسیوں کا غیر فرنچ زبانوں سے تعصب اور انگریزی سے نفرت بہت بری محسوس ہوئی۔ اپنی زبان اور اپنے کلچر سے لگاؤ یقیناً بُری بات نہیں ہے۔ لیکن چند دن کے لئے فرانس جانے والے سیاحوں سے جانتے بوجھتے انگریزی نہ بولنا اور فرنچ بولنے پر ہی مُصر رہنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ چند دنوں کے لئے فرانس کی سیر پر جانے والے سیاح فرانسیسی سیکھنے سے تو رہے۔ ایسے سیاحوں کی سہولت کے لئے فرانسیسیوں کو انگریزی بولنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے بھی اپنی زبان سے محبت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دوسروں کی زبان سے نفرت شروع کر دی جائے۔

سوکھے فرنچ بریڈ اور کوک کی بوتل کے 85 فرنیک مجھے کئی دن تک کھٹکتے رہے۔ اس سفر میں کئی اور ڈنر اور تفریحی آئٹم بھی ناقابلِ یقین حد تک گراں تھے۔ لیکن ان میں لاعلمی اور زبردستی ہرگز شامل نہیں تھی۔ بلکہ وہ ہم نے بہ رضا و رغبت ادا کئے تھے۔ در اصل ہمارے پیکج کے مطابق ناشتہ تو ہر روز اور ہر ہوٹل میں مفت تھا۔ لیکن لنچ اور ڈنر کسی کسی دن تو پیکج میں شامل تھا اور کسی دن اپنی جیب سے کرنا پڑتا تھا۔ دورانِ سفر کچھ دن ہم گروپ سے الگ ہو کر آزادی سے سیر و تفریح کر سکتے تھے۔ اس دن لنچ اور ڈنر بھی اپنے پلے سے کرنا پڑتا تھا۔ اس دن بس، ریل یا ٹیکسی کا کرایہ بھی اپنے ذمہ تھا۔

اصل پیکج کے علاوہ ہماری ٹور گائیڈ نے ہمیں ایک منی پیکج کی آفر کی۔ یہ کمپنی کی نہیں بلکہ اس کی ذاتی آفر تھی۔ اس پُر کشش مگر نہایت گراں پیشکش کو چند ایک کو چھوڑ کر سبھی سیاحوں نے قبول کر لیا۔ اس منی پیکج میں اضافی تفریح آئیٹم تھے۔ پیرس میں ایک شام مشہور و معروف کیبرے ڈانس اور ڈنر تھا۔ سوئٹزرلینڈ کے تفریحی مقام LUCERN سے ملحق خوبصورت پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے لئے زنجیر سے کھینچی جانے والی ٹرین اور وہاں سے چیئر لفٹ کے ذریعے شہر واپسی، LUCERN کے ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں لائیو میوزک اور تفریح کے ساتھ ساتھ لذیذ لنچ اور ایمسڑڈم میں سمندر کے بیچ کھڑے جہاز میں واقع مشہور چینی ریستوران میں ڈنر اس منی پیکج کا حصہ تھا۔ اس اضافی پیکج کے لئے ہم نے چھ سو آسٹریلین ڈالر سے زائد ادا کئے۔ اس طرح ایک ایک ایونٹ ڈیڑھ سو ڈالر کا پڑتا تھا۔ ڈیڑھ سو ڈالر کے اس دور میں چھ ہزار پاکستانی روپے بنتے تھے۔

میرے گاؤں کے اُس بزرگ کو جس نے بغیر کسی کام کے یورپ جانے پر مجھے تنبیہی نظروں سے دیکھا تھا میری اس فضول خرچی کا علم ہوتا تو مجھے پاگل سمجھتے۔ آپ کو اپنے دل کی بات بتاؤں۔ یہ اتنے ڈھیرسارے روپے چند کھانوں پر صرف کرنا میرے جیب کے لئے بھی بھاری تھے۔ ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں بہشت کے مصداق اپنے ہمسفروں کا ساتھ دینا پڑ رہا تھا۔ شاید میرے ہمسفروں نے بھی یہی سوچ کر یہ آفر قبول کی تھی۔ ویسے بھی ایسے مواقع زندگی میں بار بار نہیں آتے۔ اگر تفریحی سفر کے دوران بھی ہر ڈالر اور ہر پونڈ کی جمع تفریق اور ضرب تقسیم شروع کر دی جائے تو تفریح کا مزہ کرکرا ہو کر رہ جائے۔ میرے گروپ کے زیادہ تر سیاحوں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس منی پیکج کے لئے ادائیگی کر دی۔ حالانکہ بعد میں سب نے اسے بہت مہنگی تفریح قرار دیا۔ چند ایک کا خیال تھا کہ ہماری گائیڈ نے اس پیکج سے اچھا خاصا کمیشن کمایا ہو گا۔ کیونکہ وہ سالہا سال سے یہی کام کر رہی ہے۔ ہر جگہ اس کی جان پہچان ہے۔ جب وہ کسی کیبرے کلب یا ریستوران میں پچاس سے زائد افراد کی بیک وقت بکنگ کراتی ہو گی تو یقیناً اپنے لئے معقول کمیشن بچاتی ہو گی۔

بہر حال کسی سیاح نے مولی سے اس سلسلے میں کوئی شکوہ یا استفسار نہیں کیا بلکہ خاموشی سے رقم ادا کر دی۔ وہ شک و شبہے اور گلے شکوے کی گرد میں اپنی تفریح کو دھندلانا نہیں چاہتے تھے۔ ویسے بھی ان لوگوں میں ظاہری مروت بہت ہوتی ہے۔ وہ حتی الوسع کسی کی دلآزاری سے گریز کرتے ہیں۔ جاپانی جوڑے کے علاوہ صرف ایک دو سیاح اور تھے جنہوں نے اس پیکج کے لئے ادائیگی نہیں کی۔ وہ یہ وقت اپنی مرضی اور اپنے بجٹ کے تحت گزارنا چاہتے تھے۔ جہاں تک جاپانی جوڑے کا تعلق تھا انہیں ایک دوسرے کے ہوتے ہوئے کسی اور تفریح کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مینڈا عشق وی توں، مینڈا یار وی توں

نووٹل سے فائیو اسٹار ڈنر کرنے کے بعد رات کے، بلکہ صبح کے دو بجے سردی سے کپکپاتا، تھکاوٹ سے بے حال، تھکی ہاری ٹانگوں کو گھسیٹتا میں بمشکل اپنے ہوٹل کے کمرے میں پہنچا۔ جاتے ہی بستر پر جا پڑا۔ یہ یقیناً ایک یادگار دن تھا۔ جس میں ایک تاریخی دارالحکومت (لندن) سے دوسرے تاریخی دارالحکومت (پیرس) کا سفر، پیرس کی سیر اور اپنی زندگی کے سب سے مہنگے اور سب سے بے ذائقہ ڈنر کے بعد مجموعی طور پر یہ دن میرے لئے اٹھارہ گھنٹے طویل ثابت ہوا تھا۔ اتنے لمبے اور تھکا دینے والے دن کے بعد نرم اور گرم بستر میسر ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ دنیا کی سب سے اچھی، سب سے پر کشش اورسب سے راحت انگیز شے بستر ہی ہے۔

جسم کو سکون ملا تو وہ دھیرے دھیرے نیند کی میٹھی وادیوں میں ہلکورے لینے لگا۔ لیکن سکون اور نیند شاید اس دن میری قسمت میں نہیں تھے۔ ابھی میں پوری طرح نیند کی آغوش میں نہیں پہنچا تھا کہ فون کی کرخت گھنٹی نے مجھے ان حسین وادیوں سے واپس کھینچ لیا۔ چند گھنٹیوں تک تو نیند سے بوجھل آنکھیں پوری طرح نہ کھل سکیں۔ جب یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا تو مجبوراً سرہانے سے ملحق رکھے میز سے فون اٹھا کر میں نے ہیلو کہا۔ دوسری طرف سے مدھم اور شیرینی میں گھُلی آواز میں ’گڈ اِیوننگ’ کہا گیا۔ مجھے اس وقت اس شیریں آواز کی شیرینی کم اور نیند کی مٹھاس کھونے کا غم زیادہ تھا۔ اس لئے میں نے جھنجلا کر کہا ’’یہ ایوننگ نہیں بلکہ صبح ہے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کون ہیں اور اس وقت فون کرنے کا مقصد کیا ہے؟‘‘

میرے جھنجھلاہٹ بھرے جواب کے باوجود اس آواز میں کچھ مزید حلاوت شامل ہو گئی ’’آپ فرانس میں ہمارے مہمان ہیں۔ میں آپ کی میزبانی کرنا چاہتی ہوں۔ اگر آپ اجازت دیں تو آپ کے کمرے میں آ کر مساج سے آپ کی ساری تھکاوٹ دور کر سکتی ہوں‘‘

میں اب پوری طرح جاگ چکا تھا۔ لیکن اس طرح کچی نیند سے بیدار ہونے پر جھلاہٹ کا شکار تھا ’’یہ فون کرنے کا کون سا وقت ہے۔ میں سو رہا تھا۔ مجھے جگا کر تھکاوٹ دُور کرنے کا کہہ رہی ہو؟‘‘

’’مجھے آپ کے آرام میں خلل ڈالنے کا سخت افسوس ہے۔ لیکن چونکہ آپ ابھی پندرہ منٹ پہلے ہی ہوٹل واپس آئے ہیں۔ اس لئے میرا خیال تھا کہ آپ ابھی جاگ رہے ہوں گے‘‘

’’اوہ! تو آپ اسی ہوٹل میں موجود ہیں اور ہوٹل کا عملہ آپ کو میزبانوں کی آمد و رفت سے بھی مطلع کرتا ہے۔ ویسے اتنے بڑے ہوٹل میں میزبانوں کو تنگ کرنے کا یہ سلسلہ میری سمجھ سے باہر ہے‘‘

اس نے اسی نرمی، حلاوت اورجنس زدہ لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ’’ہم فرانس میں آنے والے مہمانوں کی ہر طرح سے دلجوئی کرتے ہیں۔ (میں نے دل میں سوچا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے نووٹل ہوٹل کے عملے نے بھی میری دلجوئی کا اعلیٰ مظاہرہ کیا تھا) یہاں میرے علاوہ اور بھی خواتین ہیں۔ آپ نیچے لابی میں آ کر اپنی پسند کی خاتون کا انتخاب کر سکتے ہیں یا ہم ایک ایک کر کے آپ کے کمرے میں آ سکتی ہیں۔ آپ جسے چاہیں وہاں روک سکتے ہیں‘‘

’’لیکن میں آپ کا یا اتنی ساری دوسری خواتین کا کیا کروں گا۔ آخر میرے کمرے میں آ کر میری کیا خدمت کر سکتی ہیں؟‘‘

’’ہم آپ کو ہر قسم کی سروسز مہیا کر سکتے ہیں‘‘ وہ جلدی سے بولی

’’کیا آپ مجھے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا گانا سنا سکتی ہیں؟‘‘

’’جی! کیا کہا آپ نے؟‘‘

’’اچھا چھوڑیں! کیا آپ عارف لوہار کی طرح بھڑکیلا لباس پہن کر چمٹا بجا کر ناچ سکتی ہیں‘‘

وہ مزید حیران ہو کر بولی ’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی بات نہیں سمجھ پا رہی۔ ’’

’’میں آپ کی خدمات کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھا کہ آپ کس قسم کی خدمات مہیا کر سکتی ہیں‘‘

’’اوہ! میں آپ کو اپنا تعارف کرا نا تو بھول ہی گئی۔ میرا نام میرین ہے۔ میں مساج اور ۔۔۔ کے بہت سے طریقے جانتی ہوں اور ہر طریقے سے آپ کی خدمت کر سکتی ہوں‘‘

اس کے بعد میرین نے ان خدمات اور طریقوں کو گنوانا شروع کیا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے زور سے ’’شٹ اپ‘‘ کہا تو اس کی زبان کو بریک لگ گئے۔ وہ میرے سوالات سے کافی حد تک مجھے اپنے جال میں پھنسا ہوا شکار سمجھ چکی تھی۔ لیکن میں تھکاوٹ کی وجہ سے سوال جواب کا یہ سلسلہ بند کرنا چاہتا تھا۔ ’’مجھے ان لغویات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آئندہ مجھے فون نہیں کرنا۔ صبح میں ہوٹل کی انتظامیہ سے شکایت کروں گا کہ یہاں مہمانوں کو اس طرح فون کر کے تنگ کیا جاتا ہے‘‘

میرے ان تنبیہ آمیز اور سخت الفاظ سے وہ گھبرا گئی۔ اس نے ’’آئی ایم سوری‘‘ کہا اور اچانک فون سے ایک مردانہ آواز آئی ’’سر میں اس ہوٹل کا استقبالیہ کلرک بول رہا ہوں۔ اس خاتون نے آپ کو جو کال کی اور ڈسٹرب کیا اس کے لئے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ یہ ہوٹل کی پالیسی اور معیار کے خلاف ہے۔ یہ میری غلطی ہے۔ آپ اکیلے ہیں اور پیرس میں اکیلے آنے والے سیاح اکثر ایسی خدمات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اس کے پیش نظر میں نے اس خاتون کو آپ سے بات کرنے کی اجازت دی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ بُرا مان جائیں گے۔ یہ میری نوکری کا سوال ہے۔ پلیز آپ انتظامیہ کو شکایت نہ کریں۔ اس دفعہ مجھے معاف کر دیں آیندہ اس ہوٹل میں آپ کو ایسی شکایت نہیں ہو گی‘‘

میں نے بات کو بڑھانا مناسب نہیں سمجھا اور مناسب تنبیہ کے بعد فون کا سلسلہ منقطع کر کے پھر سے سونے کی تیاری کرنے لگا۔ کہ

وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ

جاگنا ساری رات مشکل ہے


کلیسائے نوٹرے ڈیم میں رُوحیں منڈلا رہی تھیں



اگلی صبح جب ہماری کوچ ہوٹل سے نکل کر پیرس کی گلیوں سے گزر رہی تھی تو پیرس پچھلی رات کی نسبت خاموش خاموش سا لگا۔ سڑکیں ویران اور فٹ پاتھ انسانوں سے خالی خالی لگ رہے تھے۔ یہ شاید دنیا کے بڑے بڑے شہروں کا وطیرہ ہے کہ وہاں راتیں جاگتی ہیں اور دن اونگھتے ہیں۔ اگر ویک اینڈ کے دن ہیں تو پھر اونگھنے کی بجائے سوتے ہیں۔ ہم سیاحوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ پورا دن سو کر گزار دیں۔ اس لیے چار پانچ گھنٹے کی مختصر سی نیند کے بعد میں اس وقت بس کی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھا اجلے اُجلے پیرس کا نظارہ کر رہا تھا۔ جولی میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی حسبِ معمول چہک رہی تھی۔ اس کا دھُلا دھلایا نرم و نازک چہرہ دلکش مسکراہٹ بکھیر رہا تھا۔ اس کے نیم وا سرخ سرخ ہونٹ کھلتے گلاب کو شرما رہے تھے۔ وہ کبھی ہمارے آگے والی سیٹ پر بیٹھے آسڑیلین جوڑے سے جھک جھک کر سرگوشیاں کرتی اور کبھی پچھلی سیٹ پر بیٹھے انڈین فیملی کے بچوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگتی۔ جب اُدھر سے فرصت ملتی تو میرے پہلو میں کہنی سے ٹہوکا دے کر مجھے خیالوں اور خوابوں کی دنیا سے واپس لانے کی کوشش شروع کر دیتی۔ جولی کی شرارتیں اور خوش گپیاں سبھی کو بھلی لگ رہی تھیں۔ میں کبھی جولی کی باتوں کا جواب دیتا اور کبھی پیرس کے نیم خوابیدہ حُسن کے سحر میں کھو جاتا۔ دیدہ زیب عمارتیں، بالکونیوں میں پھُولوں سے لدے گملے، خوبصورت ریستورانوں اور دھُلی دھلائی چمکتی سڑکوں کا نظارہ کرتے ہوئے ہم مشہور و معروف کنکورڈ چوک سے گزرے۔ نپولین کے مقبرے کی عظیم الشان عمارت پر اس کے مفتوحہ ممالک کے پرچموں کا نظارہ کرتے نپولین کی فتوحات کی یادگار محراب (Arc de Triomphe) سے گزر کر اس سُرنگ کے اندر سے گزرے جہاں لیڈی ڈیانا کا جان لیوا حادثہ ہوا تھا۔

میرے تصور کے برعکس وہ پیرس شہر کے اندر ایک سڑک کو کراس کرانے کے لئے بنائی گئی چھوٹی سی سُرنگ تھی۔ اس کی لمبائی 100 میٹر سے زیادہ نہ ہو گی۔ جب لیڈی ڈیانا کا حادثہ ہوا تو میرے ذہن میں سڈنی کی ہاربر ٹنل (سُرنگ) تھی جو کئی میل لمبی ہے۔ جہاں گاڑیوں کی حدِ رفتار 80 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس کے برعکس پیرس کی یہ سرنگ چھوٹی سی ہے۔ وہاں حد رفتار بھی صرف 60 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ ایسی جگہ پر تیز رفتاری حادثے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسی سڑک پر آگے جا کر ہم نے وہ لازوال شعلہ دیکھا جو کسی گمنام فرانسیسی سپاہی کی یادگار کے طور پر جلایا گیا ہے اور کبھی نہیں بجھتا۔ دریائے سین کے کنارے کنارے سفر کرتے اور اس کے دامن میں سمائی رنگ برنگی کشتیوں اور لانچوں کا نظارہ کرتے بالآخر ہم کلیسائے نوٹرے ڈیم جا پہنچے۔

کلیسائے نوٹرے ڈیم کے سامنے جا کر ہماری بس رُکی تو ہماری گائیڈ مولی نے ایک دن کے لئے ہم سب سے رخصت طلب کی۔ اُس نے بتایا کہ آج کے دن ہمارے ساتھ ایک مقامی فرنچ گائیڈ مشال ہو گی۔ مشال وہاں ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ جولی اس کا تعارف کرا کر چلی گئی۔ مشال نے اپنی رننگ کمنڑی فرانسیسی زبان میں شروع کر دی۔ سب سیاح حیران بلکہ پریشان نظروں سے اُسے دیکھ رہے تھے۔ سبھی فرنچ سے نا بلد تھے اور رہنما تھی کہ فرنچ پانی کی طرح بہائے جا رہی تھی۔ مشال نے ہمارے چہروں پر لکھی پریشانی کی تحریر پڑھی تو کھلکھلا کر ہنسی اور رواں انگریزی میں ہمیں فرانس میں خوش آمدید کہا۔ وہ بہت ہنس مکھ، تجربہ کار اور سرعت سے گھل مل جانے والی عورت تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد اس نے ہمارے نام بھی یاد کر لئے۔ ہمیں ناموں سے بلا کر بلکہ ہاتھوں سے چھیڑ کر مخاطب کرتی۔ وہ مسلسل بولتی تھی۔ اُس کی آنکھیں مسکراتی رہتی تھیں اور ہاتھ دوسروں کو چھوتے بلکہ جھنجھوڑتے رہتے تھے۔ اگر کسی کی کوئی بات اُسے پسند آتی تو زبانی نہیں بلکہ اُس کا منہ چوم کر اُسے داد دیتی۔ میں نے غلطی سے اُس کی انگریزی کی تعریف کر دی۔ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ آگے بڑھی مجھے گلے لگایا اور چٹاخ پٹاخ دو تین بوسے میرے گال پر داغ دیئے۔ کچھ بوسوں سے اور کچھ شرم سے میرا چہرہ لال سرخ ہو گیا۔ وہ میرا چہرہ ہاتھوں میں لے کر دوسروں کو دکھانے لگی۔

صرف میں ہی نہیں تھا جو مشال کے نرم گرم بوسوں کا نشانہ بنا۔ اس دن کی شام ہونے تک ہم میں سے شاید ہی کوئی بچا ہو جس پر مشال نے اپنے بوسوں کی بوچھار نہ کی ہو۔ کچھ سیاحوں کا خیال تھا کہ اس طرح ڈھیروں بوسے اور معانقے سیاحوں میں تقسیم کرنے کے بعد گھر جا کر اپنے شوہر کو دینے کے لئے اس کے پاس کیا بچتا ہو گا۔ دوسرے سوچ رہے تھے کہ جو غیروں پر التفات کی یوں مینہ برساتی ہے وہ کسی اپنے پر کیسی موسلا دھار بارش بن کر برستی ہو گی۔۔ دن کے ایک حصے میں ڈیوڈ نے اس سے یہ سوال کر ہی دیا۔ مشال نے بتایا کہ اس کا کوئی شوہر یا بوائے فرینڈ نہیں ہے۔ اس لیے اس کی رات آرام سے گزرتی ہے۔ میں نے کہا ’’تم اکیلے رہ کر آرام محسوس کرتی ہو۔ حالانکہ جوان ہو۔ حسین ہو۔ ایسے میں تو تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہو گی‘‘

مشال پھر آگے بڑھی۔ سابقہ تجربے کے پیشِ نظر میں پیچھے ہٹا۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ باقی سیاح بھی مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگی ’’شوہر یا بوائے فرینڈ نہیں ہے تو کیا ہو۔ دوست تو ہیں جو ملتے اور بچھڑتے رہتے ہیں۔ اس میں وقت بھی اچھا کٹ جاتا ہے اور کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔ ویسے میرے آج کے دوست تم ہو۔ تمھارے ہوٹل کے کمرے کا نمبر کیا ہے؟‘‘

میں نے گھبرا کر کہا ’’میرے کمرے کا کوئی نمبر نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے کہ میں آج ہوٹل میں نہیں ٹھہروں گا‘‘

وہ حسب عادت ہنسی۔ ’’کوئی بات نہیں میں خود ہی معلوم کر لوں گی۔‘‘ مجھے وہاں سے بھاگتے ہی بنی۔

کلسیائے نوٹرے ڈیم دنیا کے خوبصورت ترین کلسیاؤں میں سے ایک ہے اور فرانس کے قدیم اور کلاسیکی فن تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ یہ چرچ فرانس بلکہ دنیا کی قدیم اور قابلِ ذکر عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ چودھویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا تھا۔ فنِ تعمیر، خوبصورتی اور پائیداری کے لحاظ سے اس چرچ کو اپنی مثال آپ کہا جا سکتا ہے۔ چرچ کے سامنے والے حصے میں عیسائیوں کے سابقہ مذہبی رہنماؤں کے مجسمے فنِ سنگ تراشی کے دلکش نمونے ہیں۔ دیواروں پر بنی ہوئی اُڑتی تتلیاں گو تھک طرزِ تعمیر کا شاہکار ہیں۔ چرچ کے اندر نیم روشن اور خوابناک سا ماحول ہے۔ اس کی کھڑکیوں سے چھن کر آنے والی رنگا رنگ روشنی عجیب اور دلکش نظارہ پیش کرتی ہے۔ سورج کی روشنی ان کھڑکیوں کے رنگوں کو عمارت کے اندر اس طرح منعکس کرتی ہے کہ آنکھوں کے سامنے رنگوں کی قوس قزح سی بن جاتی ہے۔ ان کھڑکیوں پر مختلف رنگوں کے پھُول اس طرح بنائے گئے کہ انسان انہیں دیکھتا رہ جائے۔ یہ چرچ اتنا بڑا ہے بیک وقت ہزاروں افراد اس میں سما سکتے ہیں۔ ہال میں لکڑی کی منقش کرسیاں صدیوں سے نت نئے انسانوں کو اس چرچ میں آتا جاتا دیکھ رہی ہیں۔ کتنوں کی گناہوں کی کہانیاں سن چکی ہیں۔ کتنی ہی نسلوں کو شادی کی خوشیوں میں نہاتے اور پھر موت کیا تھاہ وادیوں میں گم ہوتے دیکھ چکی ہیں۔

چرچ کے اندر جا کر سیاح مختلف ٹولیوں کی شکل میں یا اکیلے ہی اِدھر ادھر بکھر گئے تھے۔ میں اکیلا ہی مسحور سا ہو کر حال کی اس شاندار عمارت اور ماضی میں اس کی حیثیت کے تصوراتی تانوں بانوں میں گم تھا کہ بازو پر کسی کا دباؤ محسوس ہوا۔ وہ جولی تھی۔ جو خلافِ معمول سنجیدہ بلکہ گم سم سی دکھائی دی۔ سرگوشی میں بولی ’’مجھے یہاں خوف سا محسوس ہو رہا ہے‘‘

’’خوف! کیسا خوف؟‘‘

وہ مزید میرے قریب ہو گئی اور سرگوشی میں بولی ’’لگتا ہے یہاں روحیں منڈلا رہی ہیں‘‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’اس میں سے باون روحیں تو ہمارے گروپ سے تعلق رکھتی ہیں ’’

’’طارق میں مذاق نہیں کر رہی۔ ہال میں پُر اسرار سی سرگوشیوں کی بازگشت بھی گونج رہی ہے‘‘

میں نے غور سے دیکھا تو جولی کی آنکھوں میں خوف کے سائے تھے۔ اس کا ہاتھ تھاما تو اس میں واضح کپکپاہٹ محسوس ہوئی۔ ’’جولی! تم ویسے ہی گھبرا رہی ہو۔ یہ ایک عبادت گاہ ہے اور عبادت گاہوں کا ماحول ایسا ہی ہوتا ہے۔ لگتا ہے تم اتوار کو چرچ نہیں جاتی ہو‘‘

’’کافی عرصے سے نہیں گئی۔ جب آسڑیلیا میں والدین کے ساتھ رہتی تھی تو باقاعدگی سے جاتی تھی۔ کسی بھی چرچ میں یہ احساس نہیں جاگا اور نہ ہی ایسا خوف محسوس ہوا۔ یہ چرچ سے زیادہ قبرستان لگتا ہے‘‘

باتیں کرتے کرتے ہم چرچ کے صدر دروازے تک پہنچ گئے۔ باہر نکلے تو سنہری روپہلی دھوپ ہر سمت بکھری ہوئی تھی۔ ہم یکلخت ہی جیسے قبر کے اندھیرے سے نکل کر چکا چوند روشنی میں آ گئے۔ جولی کے چہرے کی رونق بھی واپس آ گئی۔ ہمارے گروپ میں سڈنی سے تعلق رکھنے والا ایک ادھیڑ عمر جوڑا فرینک اور اس کی بیوی بھی تھے۔ جولی ان سے گھل مل گئی تھی۔ اس کا زیادہ وقت انہی کے ساتھ گزرتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جولی خود کافی کنجوس واقع ہوئی تھی۔ وہ اپنے لئے ڈرنک، چائے، کافی یا بئیر کی رقم خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی۔ اگر کوئی دوسرا اسے آفر کرتا تو بخوشی قبول کر لیتی۔ بدلے میں اپنی جیب کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتی تھی۔ فرینک اور اس کی بیوی جہاں بھی ڈرنک، کافی یا بئیر وغیرہ لیتے وہ جولی کے لئے بھی خریدتے۔ ڈرنک ختم ہونے کے بعد اصولاً جولی کو ان کے لئے دوسرا ڈرنک خریدنا چاہئے مگر وہ ایسا نہیں کرتی تھی۔ بلکہ ڈھٹائی سے بیٹھی رہتی۔ مجبوراً فرینک اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ جولی کو بھی دوسرا ڈرنک خرید کر دیتا۔ جولی کی اس عادت کو گروپ کے باقی لوگوں نے بھی محسوس کیا۔ اس لئے وہ جولی کا اپنے ٹیبل پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ جہاں تک میرا تعلق تھا، جب یہ لوگ بئیر وغیرہ پی رہے ہوتے تھے تو میں کوک کی چسکیاں لیتا رہتا تھا۔ بیئر پینے والے نشے کے لئے گلاس پر گلاس چڑھاتے رہتے تھے۔ ان کا ساتھ دینے کے لئے میں اتنا کوک تو نہیں پی سکتا تھا۔ اس لئے شام کی محفل میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو گلاس کوک کے کافی ہوتے تھے۔ جبکہ بیئر سے شغل کرنے والے اتنی دیر میں چار چار پانچ پانچ گلاس بیئر معدے میں اتار چکے ہوتے تھے۔ پیتے جاتے تھے اور واش روم کی طرف بھاگتے رہتے تھے۔ ان کی یہ دوڑ رات گئے تک لگی رہتی۔ جولی ایک آدھ گلاس تو خرید لیتی۔ اُس کے بعد دوسرے اُسے جتنا پلا دیں، پیتی رہتی تھی۔ خود اٹھ کر اپنے یا دوسروں کے لئے ڈرنک خریدنے کا تکلف نہیں کرتی تھی۔ اس کی اس عادت کی وجہ سے فرینک اور اس کی بیوی تو اسے برداشت کر لیتے تھے۔ باقی لوگ اس سے کترانے لگے تھے۔

چرچ سے باہر نکل کر جولی کو فرینک اور اس کی بیوی ایک ریستوران کی طرف بڑھتے نظر آئے۔ جولی نے مجھے ان کی طرف چلنے کے لئے کہا۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔ وہ چاہے تو ان کے ساتھ جا سکتی ہے۔ میں کیمرہ لے کر اندر اور باہر سے چرچ کی تصاویر لینے لگا۔ در اصل ایسی تاریخی جگہوں کو اپنے انداز میں دیکھنے کے لئے انسان کا اکیلا ہونا ضروری ہے۔ ساتھ کوئی ہو اور باتیں بھی چل رہی ہوں تو بعد میں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کیا دیکھا تھا۔ اس لئے ایسی جگہوں پر جا کر میں اکثر خود کو گروپ سے الگ کر لیتا تھا۔ کافی دیر چرچ کے اندر اور اُس کے سامنے پھیلے وسیع دالان کے مختلف مناظر کو اپنے دل و دماغ اور کیمرے کے سلولائیڈ پر محفوظ کرنے کے بعد مجھے کافی کی طلب محسوس ہوئی۔ سامنے ہی خوبصورت کافی شاپ موجود تھی۔ اس میں نہایت قرینے اور ترتیب سے کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے۔ ان پر خوبصورت اور منقش کافی کے کپ سجے تھے۔ لوگ چسکیاں لے لے کر اپنی تھکاوٹ دور کر رہے تھے۔

میں نے کاؤنٹر پر جا کر کافی طلب کی۔ خلافِ توقع میری انگریزی کے جواب میں انگریزی میں ہی پوچھا گیا ’’کیا آپ بیٹھ کر پینا چاہتے ہیں یا لے کر جانا چاہتے ہیں‘‘

کھانا یا کافی لے کر جانے (Takeaway) کی اصطلاح یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ میں عام مستعمل ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کھانا وہیں بیٹھ کر کھانا ہو تو اُسے ریستوران کے برتنوں میں سرو کیا جاتا ہے۔ اگر کھانا لے کر جانا ہو تو پھر کافی کے استعمال کے بعد ضائع ہونے والے ((Disposable کپ اور کھانے کے لئے بھی ایسے ہی پلاسٹک کے ڈبے استعمال ہوتے ہیں۔ میں نے Takeaway کے کپ میں کافی ڈلوائی تاکہ ادھر ادھر گھومتا بھی رہوں گا اور کافی بھی پیتا رہوں گا۔ کافی لینے کے بعد باہر نکلا تو بے خیالی میں اُسی کافی شاپ کے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر کافی کی چسکیاں لینے لگا۔ ایک منٹ بعد ہی وہی کاؤنٹر پر کافی سرو کرنے والی اور رواں انگریزی بولنے والی فرانسیسی عورت میرے پاس آ گئی۔ کہنے لگی ’’سر! اگر آپ بُرا نہ مانیں تو اس ٹیک اوے کافی کپ کے ساتھ یہاں نہ بیٹھیں‘‘

میں نے حیران ہو کر کہا ’’لیکن کیوں؟ میں نے یہ کافی بھی یہیں سے لی ہے اور یہ کرسیاں بھی اسی مقصد کے لئے رکھی ہیں۔ میں اِن پر کیوں نہیں بیٹھ سکتا؟‘‘

وہ بولی ’’سر! یہاں پیرس میں ریستورانوں اور کافی شاپس کی میزوں کرسیوں اور برتنوں کا ایک خاص سٹائل ہے۔ اس کے مطابق پلاسٹک کے کافی کپ لے کر بیٹھنے سے ان کا وہ امیج خراب ہوتا ہے۔ اگر آپ یہاں بیٹھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کی کافی دوسرے کپ میں ڈال کر لے آتی ہوں۔ پھر آپ شوق سے یہاں بیٹھ کر کافی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں‘‘

میں فرانسیسیوں کی نفاست اور سجاوٹ کے اس اہتمام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اگلے چند دن پیرس میں رہتے ہوئے میں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ فرانسیسی ریستورانوں کے اس حسنِ انتظام کو نبھا سکوں۔


فرانس میں گڈ بائی ایسے نہیں کہتے



نوٹرے ڈیم چرچ سے ہم سیدھے فرانس کے سابقہ شاہی خاندان کے محل (Place de la Concorde) پہنچے۔ یہ عظیم الشان اور تاریخی محل صدیوں پرا نا ہونے کے باوجود ابھی تک نہ صرف ثابت و سالم ہے بلکہ پوری شان و شوکت قائم رکھے ہوئے ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اُس کی بہت اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ عمارت کا بیرونی حصہ ویسے بھی بڑے بڑے اور مضبوط پتھروں سے بنا ہوا ہے، جن کا زمانے کے سرد و گرم کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ حیرانی کی بات یہ کہ اندر سے بھی نیا نیا اور اجلا اجلا ہے۔ دوسری خوبی کی بات یہ ہے کہ کمروں کے رنگ اور آرائش و زیبائش ویسے ہی رکھی گئی ہے، جو ان بادشاہوں کے دور میں ہوا کرتی تھی۔ ہماری گائیڈ مشال ہمیں عمارت کے اندر لے جانے کے بجائے محل کے عقب میں واقع پائیں باغ میں لے گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ آدھے گھنٹے میں ٹکٹ لے کر آئے گی۔ اس دوران ہم اس باغ کی سیر کر سکتے ہیں۔ یہ باغ محل کے عقب میں میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں دیدہ زیب رنگ برنگے پھولوں کے بے شمار تختے ہیں۔

ہم باغ میں داخل ہوئے تو ایسے لگا کہ بہشت کے کسی باغ میں داخل ہو گئے ہوں۔ ہر سو پھول ہی پھول، رنگ ہی رنگ اور سبزہ ہی سبزہ چہار جانب پھیلا ہوا تھا۔ پھولوں کے تختے رنگوں اور قسموں میں اس طرح تقسیم تھے کہ کسی مصور کی سات رنگوں سے بنی تصویر نظر آ رہے تھے۔ خوشبوئیں مشامِ جان کو معّطر کر رہی تھیں۔ اتنی خوشبوئیں، اتنے رنگ، اتنا سبزہ اور اتنی ترتیب و تزئین میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی۔ جدھر نظر اُٹھاؤ آنکھیں وہیں ڈیرہ ڈال لیتی تھیں۔ آگے بڑھنے اور نظریں جھپکنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ میں نے کیمرہ اٹھا کر تصویر بنانا چاہی تو فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کس سمت اور کس پھول کا عکس اتاروں۔ چہار جانب ایک جیسے دلکش نظارے تھے۔ ویسے بھی کیمرہ غریب اتنے نظاروں کو، اتنے رنگوں کو اور خصوصاً اتنی خوشبوؤں کو اپنے اندر کہاں محفوظ کر سکتا تھا۔ آگے بڑھا تو نیلے پانیوں والی ایک لمبی اور خوبصورت جھیل آنکھوں سے دماغ اور پھر دل میں اُتر گئی۔ جھیل میں کنول کے پھول تیر رہے تھے۔ کنارے پر سرو اور دوسرے خوبصورت پودے اور درخت ایسی ترتیب سے لگے تھے۔ لگتا تھا ایک جیسے قد و قامت کے فوجی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور قطار بنا کر ایستادہ ہوں۔ اُس دن آسمان سے سورج بھی پوری دلکشی کے ساتھ روشن شعاعیں اور نرم حرارت والی روپہلی دھوپ بکھیر رہا تھا۔ اس نرم گرم دھوپ میں قدرت کے یہ حسین نظارے گوشۂ بہشت کا سماں پیش کر رہے تھے۔ میں ان حسین اور رنگین نظاروں میں ایسا کھویا کہ وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا۔ میری گائیڈ مشال ڈھونڈتی ڈھونڈتی مجھ تک آ پہنچی۔ اچانک میرے قریب آ کر اس نے میرا نام پکارا تو جیسے میں خواب سے جاگ اٹھا۔ مشال نے بتایا کہ وہ ٹکٹ لے کر آ گئی ہے اور باقی سیاح میرا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ حسبِ عادت مجھے بازو سے پکڑ کر بلکہ بانہوں میں بانہیں ڈال کر واپس اپنے ساتھیوں میں لے گئی۔

باہر سے پرانے اور مٹیالے پتھروں کی وجہ سے انتہائی قدیم اور قدرے بوسیدہ نظر آنے والے اس محل کے اندر داخل ہوئے تو ہمیں ایسے لگا کہ کسی دوسری ہی دنیا میں آ گئے ہوں۔ اس عمارت کے در و دیوار انتہائی دیدہ زیب دلکش رنگوں اور خوبصورت تصویروں سے سجے ہوئے تھے۔ ایک ایک راہداری، غلام گردش اور ایک ایک کمرہ اپنی ساخت اور سجاوٹ کے لحاظ سے دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ لوئی نام کے مختلف بادشاہوں کی الگ الگ خوابگاہیں ان کے استعمال شدہ بڑے بڑے آراستہ پلنگوں کے ساتھ جوں کی توں تھیں۔ شاہی پلنگ کا سائز ایک چھوٹے کمرے کے برابر تھا۔ جن کے بیڈ ہیڈز اپنی جگہ فن کے نمونے تھے۔ پلنگ کے چاروں جانب ریشم و کمخواب جیسے انتہائی مہنگے اور خوبصورت کپڑے کے پردے آویزاں تھے۔ ہر بادشاہ کے کمرے میں بہترین مصوروں کے ہاتھوں کی بنی ہوئی اس بادشاہ اور اس کی ملکہ کی تصاویر آویزاں تھیں۔

یہ پینٹنگز اپنی جگہ فنِ مصوری کے عظیم شہ پارے تھے۔ تصاویر کے ساتھ ہی بادشاہ اور ملکہ کے نام اور ان کی تاریخ بادشاہت درج تھی۔ باقی کی کسر ہمارے گائیڈ مشال پوری کر دیتی تھی۔ وہ ریڈیو کی طرح مسلسل بج رہی تھی۔ ہر بادشاہ کی مختصر تاریخ بتا کر وہ ساتھ یہ ضرور بتاتی تھی کہ یہ بادشاہ روزانہ اپنی ملکہ کو کتنا وقت دیتا تھا اور اس کو بچے پیدا کرنے کا کتنا شوق تھا۔ پھر ملکہ کے بارے میں بتاتی کہ یہ ملکہ ہر سال بچہ پیدا کرنے کی شوقین تھی اور یہ دوسری ملکہ ہاں کم اور نہ زیادہ کہتی تھی۔ اس لئے اس کے بچے کم تھے۔ مشال نے ہی ہمیں بتایا کہ ان بادشاہوں اور ملکاؤں کی نجی اور ازدواجی زندگی بھی عوام سے پوشیدہ نہیں ہوتی تھی۔ عوام بادشاہ اور ملکہ کے ہر ہر عمل سے باخبر رہتے تھے۔

مشال نے بتایا کہ ملکہ جب بچے کو جنم دیتی تھی تو دائیوں اور ڈاکٹروں کے علاوہ کئی وزیر بھی وہاں موجود رہتے تھے۔ وہ اس بات کے گواہ ہوتے تھے کہ ملکہ سے جنم لینے والا اور مستقبل کا بادشاہ یہی بچہ ہے۔ اس طرح ملکہ بے چاری اس تکلیف دہ وقت میں وزیروں اور ججوں کے سامنے ایک تماشا بن کر رہ جاتی۔ یہ سچ ہے کہ تاج و تخت جو بظاہر پھولوں کی سیج نظر آتے ہیں اپنے اندر نظر نہ آنے والے کئی کانٹوں کی چبھن بھی رکھتے ہیں جو دُور سے ہمیں نظر نہیں آتے۔

برطانیہ کے ساتھ ساتھ فرانس بھی کئی صدیوں تک دنیا کی ایک بڑی طاقت تھی۔ صدیوں تک اس طاقت ور ملک کے طاقتور بادشاہ پوری شان و شوکت کے ساتھ اس محل میں رہائش پذیر رہے۔ دنیا بھرکے حکمران ان بادشاہوں سے ملاقات کرنے اس محل میں آتے تھے۔ اس محل کے اندر ہم نے وہ تاریخی ہال بھی دیکھا جہاں بادشاہوں کے دربار لگا کرتے تھے۔ اسی ہال میں اتحادی ممالک کے سر برا ہوں نے پہلی جنگ عظیم بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ محل اتنا بڑا ہے کہ اس میں گھنٹوں گھومتے رہیں تو ختم نہیں ہو تا۔ لیکن میں تھک چکا تھا۔ ویسے بھی ہر کمرہ دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود میرے لئے ایک جیسا ہی تھا۔ ہر ایک میں لوئی نام کا کوئی بادشاہ رہتا تھا۔ کسی کی مونچھیں تھیں اور کسی کی داڑھی تھی۔ کسی کے بارہ بچے تھے اور کسی کے صرف دو۔ کوئی فتوحات کا شوقین تھا اور کوئی صرف خواتین کا۔ اتنے بہت سارے بادشاہ جن کے نام بھی ایک جیسے ہوں کو یاد رکھنا مشکل امر ہے۔ ایک جیسی مسجع اور پر تکلف خوابگاہیں اور بہت سی دیدہ زیب پینٹنگز دیکھتے دیکھتے میرا دل بھر سا گیا۔

میں اپنے گروپ سے الگ ہو کر باہر آ گیا۔ اس وقت تک بھوک بھی ستانے لگی تھی۔ لیکن میں پہلے واش روم جانا چاہتا تھا۔ وہاں پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ پہلے دو فرینک جمع کرائیں پھر قطار میں کھڑے ہو جائیں۔ اتنی لمبی قطار تھی جیسے پاکستانی سینماؤں میں ٹکٹ لینے والی کھڑکیوں پر کسی دور میں ہوا کرتی تھی۔ میں سوچ رہا تھا اندر کہیں مولا جٹ تو نہیں چل رہی۔ باتھ روم جانے والوں سے فیس وصول کرنے والی بڑھیا وہاں بیت الخلاء میں دُہرا کاروبار کر رہی تھی۔ ایک تو ہر شخص سے مخصوص رقم وصول کر کے اسے اندر جانے دیتی تھی۔ دوسرا یہ کہ وہ ایک ٹیبل پر ٹافیاں، چاکلیٹ، ڈرائی فروٹ اور ایسی ہی کئی چیزیں سجا کر فروخت کر رہی تھی۔ بیت الخلاء میں کھانے پینے کی چیزوں کی خرید و فروخت دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہتھا۔ آگے چل کر میں نے دیکھا کہ یورپ میں عوامی مقامات پر یہ سلسلہ عام ہے۔ فرانس، جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور بلجیم ہر جگہ میں نے یہی تماشا دیکھا۔

یورپ جا کر عوامی بیت الخلاؤں میں مخصوص رقم کی داخلہ فیس کا سلسلہ بھی مجھے عجیب لگا کیونکہ آسڑیلیا میں یہ رواج بالکل نہیں ہے۔ یہاں کہیں بھی ٹوائلٹ استعمال کرنے کے لئے پیسے نہیں دینا پڑتے۔ جبکہ یورپ میں یہ کاروبار ہے۔ اور تو اور میکڈانلڈ جیسے ریسٹورنٹ میں ریسٹورنٹ کے گاہکوں سے بھی ٹوائلٹ استعمال کرنے کی پوری فیس وصول کی جاتی ہے۔ گویا یورپ میں کہیں بھی ٹوائلٹ میں جانا ہو تو جیب میں رقم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ!!!

فرانس کے سابقہ شاہی خاندان کے اس تاریخی محل سے ہماری کوچ پیرس کے سٹی سینٹر میں واقع مشہور اوپیرا ہاؤس کے سامنے جا کر رُکی۔ Rue de Faubourg نامی پیرس کی یہ سٹریٹ بڑے بڑے سٹوروں کے لئے مشہور ہے۔ وہاں جا کر سیاح بازار میں بکھر گئے۔ کوئی مختلف سٹوروں میں جا کر فرانس کی مصنوعات کی خریداری کرنے لگا۔ کوئی دکانوں کے سامنے سجے شوکیسوں پر نظر یں گاڑھے ونڈو شاپنگ کے مزے لینے لگا۔ کچھ کھانے پینے کی چیزوں کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے۔ میں بھی انہی میں شامل تھا۔ تین بجنے والے تھے اور ابھی تک میں دوپہر کے کھانے سے محروم تھا۔ پھر وہی مسئلہ کہ کہاں سے لوں اور کیا لوں۔ دوسرے سیاح صرف اپنی پسند اور استطاعت کا خیال رکھتے تھے۔ مجھے ان دو امور کے علاوہ حلال کھانے کی تلاش ہوتی تھی۔ جو ایک اجنبی شہر میں جہاں آپ نو وارد ہوں انتہائی مشکل کام ہے۔ اوپر سے زبان کا مسئلہ تھا۔ دکانوں کے سائن بورڈوں اور کھانے کے مینوز پر فرنچ کے علاوہ کچھ اور نہیں ملتا تھا۔ ان حالات میں میں نے میکڈانلڈ کی تلاش شروع کر دی۔ اس کے کھانے دنیا بھر میں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ میں ان سے بخوبی آگاہ تھا۔ وہاں سے ہمیشہ فش برگر لیتا تھا۔ کافی دیر کی تلاش کے بعد میکڈونلڈ ملا تو دیکھا کہ اُس کے اندر بھی لمبی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ یوں لگتا تھا داتا دربار میں لنگر بٹ رہا ہو۔

در اصل آسڑیلیا سے باہر اور خصوصاً یورپ جا کر ہر جگہ رش کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ آسٹریلیا کے سب سے مصروف اور سب سے بڑے شہر سڈنی میں بھی مخصوص مقامات اور مخصوص اوقات کے علاوہ رش نظر ٍنہیں آتا۔ پارک خالی نظر آتے ہیں۔ ٹرینوں میں صبح اور شام کے مصروف اوقات کے علاوہ خال خال مسافر نظر آتے ہیں۔ ریستوران، ہوٹل اور دیگر عوامی مقامات پر بھی لوگوں کا رش نہیں ہوتا۔ ویسے بھی سڈنی اتنا پھیلا ہوا ہے کہ شہر کے بعض علاقے تو دیہاتوں سے بھی زیادہ پُرسکون اور خاموش ہیں۔ خصوصاً رات کے اوقات میں پورے علاقے میں کوئی ذی نفس دکھائی نہیں دیتا۔ مکمل سناٹا چھایا رہتا ہے۔ لمبے لمبے وقفے کے بعد سڑک سے کوئی گاڑی گزرتی ہے۔ پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں پیرس اور لندن جیسے شہر انسانوں کے سمندر ہیں۔ یہاں دن اور رات کا کوئی لمحہ انسانوں کی آمدورفت سے خالی نظر نہیں آتا۔ دن کے مصروف اوقات میں شہر کے مرکزی علاقوں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ لگتا ہے انسانوں کا ایک سیلِ رواں ہے جو ہر چہار جانب چلا جا رہا ہے۔ یہاں سکون اور خاموشی نا پید ہے۔ یورپ کے ان مشہور و معروف شہروں کی سیر کے بعد میرا یہ خیال ہے کہ یہ شہر سیر و سیاحت کے لئے تو بے شک اپنے اندر بے انتہا جاذبیت رکھتے ہیں لیکن رہائش کے لئے آسٹریلیا کے شہروں کا کوئی کوئی جواب نہیں ہے۔ یوں بھی آسٹریلیا کے شہریوں کو جو سہولتیں حاصل ہیں وہ دنیا کے کم ممالک میں دستیاب ہیں۔ ان میں علاج معالجہ، تعلیم، تفریح، آزادی، کھیل کود اور روزمرہ استعمال کی اشیائے خوردنی کی وافر اور ارزاں نرخوں پر دستیابی آسٹریلیا کے شہریوں کو دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے کہیں بہتر انداز میں حاصل ہیں۔ سوشل سیکورٹی کا مربوط انتظام ہے۔ کوئی فرد بھوکا ننگا اور بغیر چھت کے نہیں سوتا۔ (وہ الگ بات ہے کہ بہت سوں کو چھت راس نہیں آتی اور وہ نشے میں مد ہوش ہو کر اپنی راتیں فٹ پاتھوں پر گزار دیتے ہیں)۔

اقوام متحدہ کے ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق تعلیم، صحت، آسانیِ رسل و رسائل، صاف آب و ہوا اور دوسری بہت سی سہولیاتِ زندگی کو مدِ نظر رکھ کر رہائش کے لئے دنیا کے جو سب سے اچھے دس شہر ہیں ان میں سڈنی، ملبورن، برسبین اور پرتھ سرِ فہرست ہیں۔ اس لحاظ سے آسٹریلیا کے شہری خوش قسمت ہیں کہ وہ دنیا کے اس پُر سکون اور بہترین خطے کے باسی ہیں۔

کھانا کھا کر نکلا تو مجھے احساس ہوا کہ کھانے کی تلاش میں میں بہت دور نکل آیا تھا۔ ریستوران میں رش کی وجہ سے کافی وقت ضائع ہوا تھا۔ ہماری کوچ ہوٹل واپس جانے والی تھی۔ میں تیز تیز قدموں واپس چل پڑا۔ وہاں پہنچا تو تمام سیاح بس میں موجود تھے اور میرا ہی انتظار ہو رہا تھا۔ فرنچ گائیڈ مشال بس کے باہر کھڑی بے چینی سے میرا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو بولی ’’آ گئے شرارتی لڑکے! میں نے تو سوچا کہ تم کسی فرانسیسی حسینہ کے ساتھ مصروف ہو کر واپسی کا راستہ بھول گئے ہو‘‘

میں نے کہا ’’تمھارے ہوتے ہوئے کسی اور حسینہ کی کیا ضرورت؟‘‘

مشال کے لئے اتنا کافی تھا۔ آگے بڑھی۔ مجھے گلے لگایا اور حسبِ معمول میرے دونوں گالوں کا بوسہ لے لیا۔ میں گال سہلا کر بس کی طرف بڑھا تو بولی ’’میرا اور آپ لوگوں کا ساتھ یہیں تک تھا۔ مجھے گڈ بائی نہیں کہو گے‘‘

مشال کو گڈ بائی کہہ کر میں دروازے کی طرف لپکا تو اُس نے آگے بڑھ کر میرا بازو پکڑ لیا ‘‘فرانس میں گُڈ بائی ایسے نہیں کہتے‘‘

میں نے بو کھلا کر پوچھا ’’پھر کیسے کہتے ہیں؟‘‘

تمام سیاح اور ڈرائیور دلچسپی سے اور مُسکرا کر ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں پہلے والے بوسوں سے گھبرایا ہوا تھا کہ مشال نے پھر اپنی بانہوں میں گھیر لیا۔ اس نے میرے گالوں پر دو مزید مہریں ثبت کر دیں۔ بڑی مشکل سے مشال کی بانہوں کے گھیرے سے نکل کر میں بس سوار ہوا۔ مشال کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاح بھی قہقہے لگا رہے تھے۔ میں جھینپ کر اور سمٹ کر اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔ بس فوراً ہی وہاں سے چل دی۔


پیرس میں گوجر خان کے پھول



شام چھ بجے تیار ہو کر میں نیچے ہال میں پہنچا تو زیادہ تر سیاح پہلے سے وہاں موجود تھے۔ تقریباً سبھی مے نوشی میں مصروف تھے۔ آج رات ہم پیرس کے ایک مشہور و معروف کیبرے میں جا رہے تھے۔ ہمارا ڈنر بھی وہیں کیبرے کلب میں تھا۔ اُس شام سیاحوں کا سیاحت سے زیادہ عیاشی کا موڈ تھا۔ پیرس کی رنگین شام کا تصور سب کے چہروں پر خوشی کے عکس بکھیر رہا تھا۔ کیبرے جانے سے پہلے سبھی ایک ایک دو دو جام لے کر ’تھکاوٹ‘ دور کر رہے تھے۔ میں تازہ پھلوں کا جوس لے کر ایک میز پر پہنچا تو وہاں سڈنی سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی جسٹن اور جوزی کے علاوہ جولی اور جان نامی سیاح موجود تھے۔ جان آسٹریلیا کے شہر گولڈ کوسٹ سے آیا تھا۔ ویسے تو خوش مزاج اور خوش لباس شخص تھا لیکن اکثر الگ الگ رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ اکیلا بیٹھا جام سے کھیلتا رہتا۔ اگر کوئی اس کی محفل میں شامل ہو جاتا تو پھر اُسے بور نہیں ہونے دیتا تھا۔ مجھے اُس کی ہنسی، قہقہوں اور خوش مزاجی کے پیچھے گہرے دکھ اور عمیق غم کے سائے نظر آئے یا شاید میرا وہم تھا۔ وہ تھوڑی دیر کسی محفل میں بیٹھ کر اپنی خوش گفتاری کا جادو بکھیر کر الگ ہونے کی کوشش کرنے لگتا تھا۔ مجھے شک سا ہوتا تھا کہ اس کی ہنسی نقلی اور قہقہے مصنوعی ہیں۔ بعد کے دنوں میں میرا یہ شک درست ثابت ہوا۔

جسٹن اور جوزی سڈنی سے تعلق رکھنے والا ایک ادھیڑ عمر جوڑا تھا۔ جوزی بنیادی طور پر نیوزی لینڈ کی ٹونگن نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا رنگ گندمی اور اعضاء مضبوط تھے۔ جیسے ٹونگن نسل سے تعلق رکھنے والوں کے ہوتے ہیں۔ جسٹن سفید فام آسٹریلین تھا۔ شریف اور کم گو سا آدمی تھا۔ اس کی نکیل پوری طرح جوزی کے ہاتھوں میں تھی۔ یہ جوڑا جسٹن کو پیش آنے والے ایک حادثے کے نتیجے میں ہمارے ساتھ یورپ کی سیاحت پر نکلا تھا۔ در اصل جسٹن سڈنی کی گودی میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ وہیں کرین سے گرا اور مہینوں تک اسپتال اور گھر کے بستر پر ریڑھ کی ہڈی کا درد برداشت کرتا رہا۔ اڑھائی سال انشورنس کمپنی کے ساتھ مقدمہ بازی کے بعد اُسے ڈیڑھ لاکھ ڈالر معاوضے کے طور پر ملے۔ رقم ہاتھ میں آتے ہی اس غریب جوڑے کے من میں سوئی ہوئی سیاحت کی خواہش ابھر کر سامنے آ گئی اور آج وہ پیرس کے اس ہوٹل میں ہمارے سامنے بیٹھے لسی کی طرح جھاگ بھری بیئر کے گلاس ہاتھ میں لئے زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ سچ ہے کہ ہر غم کے بعد خوشی اور ہر خوشی کے بعد غم دن اور رات کی طرح ہماری زندگیوں میں آتے رہتے ہیں۔ میرے اس میز پر بیٹھنے کی وجہ یہ تھی کہ جسٹن اور جوزی ہر جگہ دھڑ لے سے سگریٹ پیتے تھے۔ جبکہ دوسرے زیادہ تر سیاح اس عادت سے مبرا تھے۔ چونکہ میں خود بھی سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا تھا، (اب بھی ہوں) اس لیے اکثر اپنے جیسوں میں ہی بیٹھتا تھا۔ جہاں تک جولی کا تعلق تھا اس کے لئے مفت کی شراب، مفت کی سگریٹ اور مفت کا کھانا سب کچھ جائز تھا۔ نہ ملے تو وہ نہ تو شراب کی پرواہ کرتی اور نہ سگریٹ کی طلب اُسے ستاتی۔ اس وقت بھی وہ میز پر دھرے جسٹن کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر بیئر کے ساتھ ساتھ سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے اڑا رہی تھی۔ ہماری خوش گپیاں جاری تھیں۔ جولی کہنے لگی ’’میرا ہوٹل کے کمرے میں اکیلے رہنے کا یہ پہلا اتفاق ہے۔ رات مجھے دھڑکا سا لگا رہا اور اچھی طرح سے نیند بھی نہیں آئی‘‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’میرا کمرہ ساتھ ہی تھا۔ ڈر لگ رہا تھا تو وہاں آ جاتیں۔ ویسے بھی وہاں ڈبل بیڈ لگا ہوا ہے‘‘

جولی نے مصنوعی غصے سے گھور کر مجھے دیکھا۔ دوسرے بھی مسکرانے لگے۔ میں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا ’’یہ پیشکش آئندہ پورے سفر کے لئے ہے۔ جہاں تمھارا من گھبرائے، اکیلے میں ڈر ستائے یا کسی کی یاد آئے تو مجھے آواز دے لینا۔ میں دروازہ کھلا رکھوں گا۔ بغیر کھٹکھٹائے چلی آنا۔‘‘

جسٹن اور جوزی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ جان بھی مسکرا کر جولی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جولی مکا تان کر مجھے ڈرانے لگی۔ میں بھی ڈرنے کی اداکاری کرنے لگا۔ انہی باتوں میں ساڑھے سات بج گئے۔

مولی نے چلنے کا اشارہ کیا۔ ہم ہنستے مسکراتے پیرس کے اس مقام کی طرف چل پڑے جو صرف بالغوں کے لئے ہے۔ پیرس کے اس کیبرے کلب کی بہت دھوم تھی۔ میرے لئے یہ نیا تجربہ تھا۔ سڈنی جیسے شہر میں سالہا سال رہنے کے باوجود میں کبھی کیبرے کلب تک نہیں گیا تھا۔ اس تفریحی سفر نے کئی ممنوعات کو جائز بنا دیا تھا۔ اس میں آج کی یہ شام بھی شامل تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ دل میں کوئی حسرت باقی رہ جائے۔ ویسے بھی میرے گروپ کے سبھی لوگ ذوق و شوق سے وہاں جا رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر عمر کے اُس حصے میں تھے کہ اگر پاکستان میں ہوتے تو بزرگ کہلاتے اور ننگے سر گھر سے نہ نکلتے۔ لیکن یہ یورپ کے بزرگ تھے جو جتنے بوڑھے ہوتے جاتے ہیں اتنے ہی رنگین مزاج اور فحش گو ہوتے جاتے ہیں۔ فحش گوئی کو یہاں نہ صرف بُرا نہیں سمجھا جاتا بلکہ ایسا شخص زندہ دل اور دلچسپ تصور کیا جاتا ہے۔

یورپ میں بوڑھے جب تک چلنے پھرنے کے قابل رہتے ہیں ان کا زیادہ وقت مقامی پبوں اور کلبوں میں گزرتا ہے۔ جہاں وہ بیئر پیتے ہیں، گھوڑوں پر شرطیں لگاتے ہیں اور اپنی ہم عمر بوڑھیوں کو چھیڑتے رہتے ہیں۔ جب یہ چلنے پھرنے سے بالکل ہی معذور ہو جاتے ہیں تو نرسنگ ہوم کے مہمان بن جاتے ہیں۔ ان بوڑھوں کو اگر بزرگ یا بوڑھا کہا جائے تو بُرا مناتے ہیں۔ ویسے بھی انہیں بوڑھا تو کہا جا سکتا ہے بزرگ ہرگز نہیں۔

میرے ایک دوست نے بتایا کہ وہ پاکستان سے نیا نیا آسٹریلیا آیا تھا۔ اُس کے پڑوس میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ وہ جب بھی ملتی بہت محبت اور شفقت کا مظاہرہ کرتی۔ میرا دوست جو اپنی ماں سے ہزاروں میل دُور تھا اس بوڑھی عورت کو ماں کی طرح سمجھنے لگا۔ ایک دن جب وہ بوڑھی بن سنور کر کہیں جا رہی تھی تو میرے دوست نے اُس سے پوچھا ’’ماں! کہاں جا رہی ہو‘‘

بوڑھی نے چہرے پر مُسکراہٹ لا کر والہانہ سر خوشی سے بتایا ’’میں اپنے نئے بوائے فرینڈ سے ملنے جا رہی ہوں‘‘

میرا دوست جو ابھی اس کلچر سے پوری طرح آشنا نہیں ہوا تھا توبہ توبہ کرنے لگا۔ وہ تو بہ اس لئے نہیں کر رہا تھا کہ بوڑھی گھوڑی لال لگام پہن کر پھر سے جوانی کے کھیل میں مصروف ہو گئی تھی بلکہ وہ اُسے ماں کہہ کر پچھتا رہا تھا۔ اُس نے یہ واقعہ سنایا تو کہنے لگا ’’آئندہ میں یہاں کسی بوڑھے یا بوڑھی سے ایسا رشتہ نہیں قائم کر سکتا۔ یار اُسے اتنی بھی شرم نہیں آئی کہ میں اُسے ماں کہہ رہا ہوں اور وہ کون سا گُل کھلانے جار ہی ہے‘‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’تم اتنا زیادہ بُرا کیوں مان گئے۔ تمہیں ایک ساتھ ماں اور باپ کا پیار ملنے والا تھا‘‘

وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا ’’میں ایسے ماں باپ کے بغیر ہی اچھا ہوں‘‘

شام آٹھ بجے ہم کیبرے کلب پہنچے۔ ہمارے علاوہ سیاحوں کے کئی اور گروپ بھی وہاں موجود تھے۔ کلب کی ایک ایک سیٹ بک تھی۔ اتفاق سے مجھے پانڈے اور اُس کی فیملی کے ساتھ سیٹ ملی۔ پانڈے امریکہ سے آیا تھا۔ وہاں اُس کے کئی سیون الیون سٹور تھے۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور تین بچے بھی تھے۔ جنہیں وہ کیبرے میں بھی ساتھ ہی لائے تھے۔ حالانکہ یہ جگہ صرف بالغوں کے لئے تھی۔ لیکن پانڈے شاید اپنے بچوں کو قبل از وقت جوانی کا سبق سکھانا چاہتا تھا۔ تفصیلی تعارف ہوا۔ جب پانڈے کو میرے پاکستانی ہونے کا علم ہوا تو بہت خوش ہوا اور اُردو میں گفتگو کرنے لگا۔ کئی دن کے بعد اُردو بولنے کا موقع ملا تو بہت اچھا لگا۔ پانڈے کے ساتھ اس کے بیوی اور بچوں کے علاوہ اُس کی سالی بھی تھی۔ نوجوان اور قبول صورت تھی۔ اُسے بھارت چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ پانڈے نے بتایا ’’ہم نے اُسے امریکہ اس لئے بلایا ہے کہ وہاں اس کی شادی کر سکیں۔ ویسے بھی ہمارے بزنس کے لئے فیملی کے جتنے زیادہ لوگ ہوں اچھا ہے۔ اب میں، میری بیوی اور میری سالی سبھی وہاں کام کرتے ہیں۔ اس کی شادی ہو گئی تو اس کا میاں بھی ہمارا ہاتھ بٹائے گا‘‘

پانڈے کی بیوی اور سالی بھی خاصی خوش اخلاق ثابت ہوئیں۔ ہم کیبرے ڈانس سے زیادہ باہمی گفتگو میں مشغول رہے۔ ویسے بھی کیبرے ڈانس اور خصوصاً ڈنر انتہائی مایوس کن تھا۔ بے لباس لڑکیاں اسٹیج پر بے ہنگم سا ناچ رہی تھیں۔ ایک بھارتی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر یہ شرمناک مظاہرہ میرے لئے قدرے خفت آمیز تھا۔ لیکن پانڈے، اس کی بیوی، اس کی سالی حتیٰ کہ بچے بغیر شرمائے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ اس لئے میں بھی نہ چاہتے ہوئے وہاں بیٹھا رہا۔

کیبرے میں مجھے بالکل مزہ نہیں آیا۔ وہاں کی موسیقی بے سُری، کھانا بے ذائقہ اور مزاحیہ آئٹم گھسے پٹے تھے۔ ایک جو کر نما شخص الٹی سیدھی حرکتیں کر کے ہنسانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ کچھ یورپین بوڑھے بوڑھیاں مروتاً مسکرا دیتے تھے۔ ورنہ اُس میں ہنسنے والی کوئی بات نہیں تھی۔ کیبرے ڈانسرز کبھی اچھل کود کر اور کبھی بور لطیفے سُنا کر حاضرین کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لیکن مجھے کسی آئٹم میں بھی کشش محسوس نہیں ہوئی۔ بلکہ خاصی بوریت ہوئی۔ کھانا انتہائی بے ذائقہ بلکہ کھانے کے قابل ہی نہیں تھا۔ اُبلی ہوئی سبزیوں کے بے ذائقہ پتے، اُبلے ہوئے آلو، اُبلے ہوئے چاول اور کچھ عجیب سا بے ذائقہ سمندری کھانا تھا۔ میں نے لکھوایا ہوا تھا کہ سی فوڈ کے علاوہ میرے کھانے میں کسی قسم کا گوشت شامل نہیں ہونا چاہیئے۔ لیکن یہ پتے ہرگز کھانے کے قابل نہیں تھے۔ میں نے صرف ایک دو آلو کھائے اور بس! اس کے بعد سویٹ ڈش آئی۔ اس کی شکل بھی عجیب سی تھی۔ جب چکھا تو میٹھے کے بجائے صابن کا سا ذائقہ محسوس ہُوا۔ میں نے پلیٹ وہیں رکھ دی۔

مجھے زیادہ بھوک نہیں تھی۔ ایک دو آلو اور سلاد کے چند پتے کھانے اور کافی پینے کے بعد بھوک کا احساس مٹ گیا۔ تاہم اس کیبرے اور ڈنر کے لئے اچھی خاصی رقم ضائع کرنے کا افسوس ضرور تھا۔ ہمارے برعکس دوسرے سیاح خوش نظر آئے۔ شا ید انہیں یہ سب کچھ پسند آ رہا تھا۔ یا شاید میرے ہی دل و دماغ پر آج کچھ قنوطیت طاری تھی۔ بہرحال اس شام میرے تاثرات یہی تھے۔

کیبرے کے نام پر قدرتی لباس میں فرانسیسی عورتوں کا بے ہنگم سا ناچ، کچھ فحش عملی لطیفے، جوکر کی الٹی سیدھی حرکتیں اور صابن کے ذائقے والا کھانا کھا کر باہر نکلے تو اس ایک شام کے لئے ادا کئے گئے سو پونڈ بہت زیادہ محسوس ہوئے۔ کلب کے صدر دروازے کے سامنے ایک شخص پھول بیچ رہا تھا۔ اس نے میری طرف بھی سرخ گلاب کی شاخ بڑھائی اور فرنچ میں کچھ کہا۔ جو ظاہر ہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔ تاہم اُس کی زبان سمجھے بغیر بھی اُس کی پیشکش سمجھ میں آ رہی تھی۔ میں نے انگریزی میں کہا ’’بھائی! یہ پھول کسی جوڑے کے ہاتھ بیچنے کے کوشش کرو۔ جو ایک دوسرے کو پیش کر سکیں۔ میں ٹھہرا چھڑا چھانٹ! میں انہیں لے کر کیا کروں گا‘‘

اسے میری زبان، میری رنگت یا پھر پاکستان کی بنی ہوئی میری سوئیٹر سے کچھ شک گزرا۔ فرنچ کے بجائے انگریزی میں بولا ’’آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟‘‘

میں بھی اُسے اور اس کے سوال کو سمجھ گیا۔ اس کی توقع کے مطابق بتایا ’’پاکستان سے‘‘

اُس نے خوش ہو کر ہاتھ ملایا اور اُردو میں پوچھا ’’پاکستان کے کس علاقے سے؟‘‘

’’ویسے تو پاکستان کا ہر علاقہ میرا اپنا ہے۔ لیکن میری پیدائش ضلع راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے قصبے کی ہے‘‘

اب اُس نے پنجابی میں کہا ’’اوہ جی! کیہڑے قصبے دے ہو تُسی؟‘‘

’’گوجر خان‘‘

میرا اتنا ہی کہنا تھا کہ اُس نے پھُول نیچے رکھے۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجھے گلے لگا لیا۔ میں اس افتاد سے تھوڑا سا گھبرایا۔ لیکن وہ تھا کہ ساری کسریں نکالنے پر تُلا ہوا تھا۔ میری پسلیاں کڑکڑا کر رہ گئیں۔ کافی دیر کے بعد اُس نے چھوڑا تو میری تقریباً رُکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔ ادھر وہ صاحب جو پہلے فرنچ، پھر انگریزی، پھر اُردو اور اب پنجابی میں مخاطب ہوئے ’’اوہ جی! کمال ہو گیا! میں بھی گوجر خان کا ہوں۔ آپ کہاں رہتے ہیں‘‘

’’میں آسٹریلیا میں رہتا ہوں اور یورپ کی سیر پر نکلا ہوں۔ ویسے آپ ذرا دیر سے ملے۔ اگر تھوڑی دیر پہلے ملاقات ہو جاتی تو آپ سے کسی پاکستانی ریسٹورنٹ کا اتا پتا تو مل جاتا۔ یہاں کا مہنگا اور بے ذائقہ کھانا کھا کر بلکہ دیکھ کر جی خراب ہو گیا ہے‘‘

’’اچھا جی! ویسے یہ تو پیرس کا مہنگا ترین کلب ہے اور صرف امیر لوگ ہی یہاں کا کھانا اور تفریح افورڈ کر سکتے ہیں۔ میں اتنے عرصے سے پیرس میں رہتا ہوں۔ آج تک اس کلب کے اندر جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ حالانکہ روز شام کو میں یہیں پھول بیچتا ہوں۔ دیکھیں نا جی! وہاں گوجر خان میں میرے گھر والے، عزیز و اقارب اور دوست سب یہی سمجھتے ہیں کہ میں پیرس جیسے شہر میں عیاشی کر رہا ہوں اور دونوں ہاتھوں سے دولت اکٹھی کر رہا ہوں۔ لیکن آپ نے تو دیکھ ہی لیا۔ ہم ایک ایک ڈالر کے لئے کس طرح خوار ہوتے ہیں۔ اس کلب کو تو چھوڑیں ہم باہر کا سستے سے سستا کھانا بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ گھر میں پکاتے اور کھاتے ہیں۔ ہاں! آپ پاکستانی ریسٹورنٹ کی بات کر رہے تھے۔ سڑک کی دوسری جانب دیکھیں۔ وہ سامنے ہی پاکستانی ریسٹورنٹ ہے۔ لیکن جی! آپ ہمارے ہوتے ہوئے ریسٹورنٹ کا کھانا کیوں کھائیں گے۔ ہمارا بھی کوئی فرض ہے۔ ویسے بھی آپ گوجر خان کے ہیں۔ ہم چار لوگ ایک مکان میں اکھٹے رہتے ہیں۔ چاروں گوجر خان کے ہیں۔ ہم تین تو پاکستان سے اکھٹے آئے تھے۔ ایک یہاں مل گیا۔ چار کونے پورے ہو گئے‘‘

یہ صاحب مسلسل بولنے کے عادی لگتے تھے۔ میں نے نظر اٹھا کر سڑک کے دوسری طرف دیکھا تو ایک ریسٹورنٹ کے سامنے ’’تندوری ریسٹورنٹ‘‘ لکھا نظر آیا۔ مجھے گل فروش سے باتیں کرتے دیکھ کر پانڈے اور ڈاکٹر رمیش بھی ہمارے پاس چلے آئے۔ وہ بھی کلب کے کھانے کا گلہ کر رہے تھے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ وہ سامنے پاکستانی ریسٹورنٹ ہے تو سبھی افسوس کرنے لگے۔ ڈاکٹر رمیش بولا ’’اگر پہلے یہ ریسٹورنٹ نظر آ جاتا تو اس کلب کے بجائے وہاں کھانا کھاتے۔ ویسے جگہ تو ہم نے دیکھ ہی لی ہے کل ڈنر یہی کریں گے‘‘

پانڈے اور اس کی بیوی نے بھی دوسرے دن یہیں ڈنر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ میں نے کہا ’’بے ذائقہ یورپین کھانے کھا کھا کر میری زبان کا ذائقہ بھی خراب ہو چکا ہے۔ میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ آؤں گا‘‘

پھول بیچنے والے صاحب بولے ’’نہ جی نہ! آپ تو ہماتے مہمان ہیں۔ آپ جتنے دن بھی یہاں رہیں گے، کھانا ہمارے ساتھ کھائیں گے۔ بلکہ میں یہ پھُول شول بیچنے بند کرتا ہوں اور آپ کو گھر لئے چلتا ہوں‘‘

پانڈے اور رمیش ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا ’’آپ کا بہت شکریہ! آپ اپنا کام کریں۔ ہماری کوچ ہوٹل جانے ہی والی ہے۔ ان کے ساتھ نہ گیا تو بعد میں اکیلے جانا مشکل ہو جائے گا۔ ویسے مجھے طارق مرزا کہتے ہیں۔ آپ نے اپنا نام نہیں بتایا‘‘

’’میرا نام راجہ ظہور احمد ہے جی! میرا گھر زیادہ دُور نہیں ہے۔ ہوٹل جانے کی تو آپ فکر ہی نہ کریں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو وہاں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ رات ہمارے ساتھ ہی رہیں۔ اگر جانا بھی ہوا تو میرے دوست کی گاڑی ہے۔ ہم آپ کو ہوٹل چھوڑ دیں گے‘‘

میں اس کے خلوص سے متاثر ہوا ’’راجہ صاحب آپ کا شکریہ! آج تو ہمیں جانے دیں۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں اور آرام کرنا چاہتا ہوں‘‘

’’تو پھر وعدہ کریں کہ کل ہمیں وقت دیں گے‘‘

’’ٹھیک ہے۔ اگر آپ کا اصرار ہے تو کل ملاقات کر لیتے ہیں۔ لیکن ہم ملیں گے کہاں؟‘‘

’’اوہ جی! آپ ہوٹل کا نام بتا دیں۔ ہم وہاں سے آپ کو پک کر لیں گے‘‘

میں نے راجہ ظہور کو ہوٹل کا نام اور کمرہ نمبر بتا دیا۔ اس نے بڑے تپاک اور محبت سے ہمیں رخصت کیا۔ میں پاکستانیوں کی روایتی محبت، مہمان نوازی اور خلوص کی خوشبو سمیٹ کر ہوٹل واپس آ گیا۔


ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ



اگلے دن ہم گروپ کی پابندی سے آزاد تھے۔ صبح آٹھ بجے ناشتہ کر کے میں ہوٹل سے نکل آیا۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے مجھے نزدیکی ٹرین اسٹیشن کے بارے میں سمجھا دیا۔ چھ سات منٹ کی مسافت کے بعد میں اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہوا تو یوں لگا کہ کسی نئے شہر میں داخل ہو گیا ہوں۔ یہ ایک بڑا، پُر رونق اور خوبصورت سٹیشن تھا۔ اسٹیشن کے اندر ہی بازار کی طرح دکانیں، بنک اور پوسٹ آفس موجود تھے۔ میں نے بیورو دی چینج سے آسٹریلین کرنسی تبدیل کروائی۔ ٹکٹ خریدا اور پوچھتا پچھاتا لوور جانے والی ٹرین میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد لوور اسٹیشن آ گیا۔ یہ اس سے بھی زیادہ عظیم الشان اسٹیشن تھا۔ لگتا تھا فرانسیسیوں نے ٹرین اسٹیشنوں کو بنانے پر خاصا سرمایہ صرف کیا ہے۔ ان میں نہ صرف ساری سہولتیں تھی بلکہ اپنے اندر فنِ تعمیر، خوبصورت بناوٹ اور سجاوٹ کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک کے پاس اتنا سرمایہ تو ہوتا ہی ہے کہ ضروری اخراجات کے علاوہ اپنے شہروں کو خوبصورت بنانے پر بھی صرف کر سکیں۔ فرانس نے بھی برطانیہ کی طرح صدیوں تک دنیا کے کتنے ہی ممالک پر جبری تسلط قائم رکھا اور ان ممالک کے وسائل سے دل کھول کر استفادہ کیا۔ انہوں نے بھی دوسروں کی دولت سے اپنے درو دیوار کو خوب بنایا اور سجایا ہے۔

لوور اسٹیشن سے لوور کا عجائب گھر قریب ہی تھا۔ قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹ لے کر عجائب گھر میں داخل ہوا تو اندر سیاحوں کا جم غفیر تھا۔ جولائی کے اس مہینے میں یورپ میں دنیا بھر کے لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ پیرس میں جانے والے سیاح ایفل ٹاور اور اس عجائب گھر کو دیکھے بغیر نہیں لوٹتے۔ عجائب گھر جیسی جگہ پر اتنا زیادہ رش میرے لئے باعثِ پریشانی تھا۔ ایک ایک تصویر اور ایک ایک پینٹنگ کے سامنے درجنوں سیاح کھڑے تھے۔ ایسے میں دلجمعی اور محویت سے ان فن پاروں کو دیکھنا محال تھا۔ لیکن اب تو یہاں آ گیا تھا۔ اس لئے سیاحوں کے ریلے میں مختلف پینٹنگز پر مختصر نظریں ڈالتا ہوا میں مشہور زمانہ مونا لیزا کی تصویر کے سامنے جا پہنچا۔ یہ بہت اچھی پینٹنگ ہے۔ اس کا شہرہ دنیا بھر میں ہے۔ لیکن شاید میرا مصوری کا ذوق اتنا عمدہ نہیں ہے۔ مجھے اس میں وہ خاص بات نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کی اتنی شہرت ہے۔ مونا لیزا کی تصویر کے مقابلے میں دوسری کئی پینٹنگز مجھے زیادہ جاذب نظر اور دلکش لگیں۔ کچھ تصاویر میں رنگوں کا ایسا حسین امتزاج تھا کہ دل بے اختیار ان کی جانب کھنچا چلا جاتا تھا۔ مجھے فنِ مصوری کی باریکیوں کا تو زیادہ علم نہیں ہے لیکن ایک عام ناظر کی حیثیت سے مونا لیزا کی نسبت دوسرے کئی فن پارے زیادہ دلکش لگے۔

سیاحوں کے کئی گروپوں کے ساتھ ان کی گائیڈز بھی تھیں جو رواں کمنٹری جاری رکھے ہوئے تھیں۔ مجھے بے اختیار مشال یاد آئی۔ وہ اگر یہاں ہوتی تو ہاتھ اور کندھا پکڑ پکڑ کر بلکہ جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ایک ایک تصویر دیکھنے پر اکساتی اور سمجھاتی۔ لوور کے اس عجائب گھر میں سیکڑوں پینٹنگز اور مجسمے تھے۔ میں کافی دیر تک گھومتا اور فن پاروں کو اپنے دل و دماغ پر نقش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ عجائب گھر کے اندر خوابناک بلکہ قدرے تاریک سا ماحول تھا۔ دوسرا یہ کہ سیاح بہت زیادہ تھے۔ اس لئے میں زیادہ دیر وہاں نہیں رکا اور باہر نکل آیا۔

باہر روشن اور چمکدار دن تھا۔ میں دوبارہ ٹرین میں بیٹھا اور کنکورڈ کے اسٹیشن پر جا اُترا۔ یہ پیرس کا مرکزی علاقہ ہے۔ کافی دیر تک بازاروں اور دکانوں میں بے مقصد آوارہ گردی کرتا رہا۔ تھک گیا تو ایک کافی شاپ کے سامنے رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ویٹرس مینو لے کر آن پہنچی۔ میں نے مینو آگے سے ہٹاتے ہوئے کہا ’’ون کپ آف کافی پلیز‘‘

وہ فرنچ میں کچھ کہہ کر چلی گئی۔ شکر ہے کہ وہ کافی ہی لائی کچھ اور نہیں۔ ورنہ نووٹل ہوٹل والا معاملہ بھی درپیش آ سکتا تھا۔ کافی دیر تک میں پیرس کے اِس پر رونق علاقے کی اس کافی شاپ کی میز پر بیٹھا رنگارنگ نظاروں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ مقامی جوڑے ہاتھ میں ہاتھ اور کچھ بانہوں میں بانہیں ڈالے چلے جا رہے تھے۔ کچھ فٹ پاتھوں کو ہی خواب گاہ سمجھے ہوئے تھے۔ سیکڑوں سیاح گلے میں کیمرے لٹکائے ونڈو شاپنگ کر رہے تھے۔

وہاں سے اٹھا تو ٹیکسی لے کر میں پگال کے علاقے میں چلا گیا۔ اس تنگ رہائشی علاقے میں فرانس کی قدیم عمارتوں اور روایتی رہن سہن کی جھلک نظر آئی۔ یہ پیرس کا سرخ روشنی والا علاقہ ہے۔ شوقین سیاح اور مقامی فرانسیسی اپنی پسند اور استطاعت کے مطابق اپنی دلبستگی کا ساماں ڈھونڈ رہے تھے۔ ویسے ڈھونڈنے کی تو یہاں ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی حسینہ دام بچھائے نظر آ رہی تھی۔ کچھ دروازوں پر کھڑی تھیں اور دِلربا مسکراہٹوں سے گاہکوں کو لبھانے اور پھسلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ کچھ تو فٹ پاتھوں پر ہی برائے نام لباس بلکہ تقریباً تقریباً قدرتی لباس میں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ اُن کی مسکراہٹیں اور ادائیں ہر آنے جانے والے پر شکاری کے جال کی طرح گرتی تھیں۔ کچھ آگے بڑھ کر راستہ بھی روک لیتی تھیں اور گاہکوں کو اندر لے جانے کوشش کرتی تھیں۔ اس علاقے میں آ کر اور ان پیشہ ور عورتوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کرانسان حیران رہ جاتا ہے۔ ان میں نو خیز حسینائیں بھی تھیں اور ایسی بھی تھیں جنہیں دیکھ کر وہاں سے بھاگ جانے کو دل چاہتا تھا۔ اُن میں سے ایک اپنے لباس کا بالائی حصہ کھولے کھڑی تھی۔ جو کچھ نمایاں تھا اسے دیکھ کر ڈر لگتا تھا۔ کچھ ادھ کھلی کلیوں کی طرح دِکھتی تھیں۔ لیکن ظاہر ہے اس بازار میں وہ کب کی کلیوں سے پھول بن چکی تھیں۔ یہ سب نظروں کا دھوکا تھا۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکا کھلا کھلا

مزے کی بات یہ ہے کہ پورے فرانس میں لوگ انگریزی سے الرجک نظر آئے لیکن یہاں گاہکوں اور خصوصاً سیاحوں کی سہولت کے لئے زیادہ تر طوائفیں انگریزی بول رہی تھیں۔ گویا اس بازار کی عورتیں دوسروں سے بہتر میزبان تھیں۔ مختلف رنگ و روپ کی پیشہ ور عورتوں کی اتنی زیادہ تعداد میں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھی۔ لگتا تھا فرانس کی کل آمدنی کا ایک بڑا حصہ انہیں اس مد میں حاصل ہوتا ہو گا۔ اس بازار کو دیکھ کر فرانس کے بارے میں ایک لطیفہ مجھے یاد آ گیا۔ میں ایک ٹریول ایجنسی میں بیٹھا ہوا تھا۔ ٹریول ایجنٹ سیر کے شوقین ایک صاحب کو بتا رہے تھے ’’آپ مصر چلے جائیں وہاں آپ کو پرانے کھنڈرات دیکھنے کا موقع ملے گا‘‘

وہ صاحب بولے ’’نہیں! میں فرانس جا کر جدید عمارتیں دیکھنا پسند کروں گا‘‘

شاید وہ صاحب یہی جدید عمارتیں دیکھنا چاہتے تھے۔

ایک گھنٹے کی ونڈو شاپنگ کے بعد میں بس میں بیٹھا اور ایفل ٹاور کے پاس جا اُ ترا۔ دریائے سین کے کنارے میں نے فیری کا ٹکٹ لیا اور اس پر سوار ہو گیا۔ فیری پر بہت خوبصورت اور آرام دہ سیٹیں تھیں۔ یہ فیری دو منزلہ تھی۔ نیچے والا حصہ شیشے کی دیواروں میں محصور تھا اور اس میں ائیر کنڈیشنر آن تھا۔ چھت کھلی تھی اور اس پر سیٹیں موجود تھیں۔ میں چھت پر جا کر بیٹھا تو دور دور کا نظارہ میری آنکھوں کی دسترس میں تھا۔۔ دریا کے دونوں کناروں پر خوبصورت گھر بنے تھے۔ گرمی کے اس موسم میں پھولوں کی ہر طرف بہتات تھی۔ گھروں کے فرنٹ یارڈ میں، پارکوں میں، بالکونیوں میں لٹکے گملوں میں، حتیٰ کہ فیری کی چھت پر، ہر طرف سبزہ اور خوش رنگ پھول عجب بہار دکھا رہے تھے۔ جیسے جیسے فیری شہر کے بیچوں بیچ آگے کی جانب بڑھتی رہی ویسے ویسے خوبصورت نظارے آنکھوں کے راستے دل میں اُترتے چلے جا رہے تھے۔ کچھ پرانی مگر شاندار اور کچھ قابلِ دید جدید عمارتیں سر اٹھائے پیرس کے حسن میں اضافہ کر رہی تھیں۔ دریائے سین کا نیلا اور شفاف پانی اور سنہری اور نرم دھوپ جسم و رُوح کو فرحت بخش رہے تھے۔

ایسے ہی نظاروں میں کھو کر وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا۔ گھڑی کی جانب دیکھا تو چھ بج رہے تھے۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ آج شام راجہ ظہور احمد مجھے لینے ہوٹل آ رہا ہے۔ فیری سے اتر کر میں نے ٹرین اسٹیشن کا پتا دریافت کیا۔ پوچھتے پچھاتے اسٹیشن تک پہنچ ہی گیا۔ پانچ منٹ میں ٹرین آ گئی جس نے پچیس منٹ میں مجھے میرے ہوٹل کے قریب پہنچا دیا۔

تازہ دم ہو کر نیچے پہنچا تو ابھی سات بجے تھے۔ راجہ ظہور احمد نے ساڑھے سات بجے آنا تھا۔ میں نے کافی خریدی اور ہال میں آ کر بیٹھ گیا۔ اس وقت ہال میں میرے گروپ کا دوسرا کوئی فرد موجود نہیں تھا۔ لگتا تھا کہ گروپ سے آزاد ہو کر سبھی خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اسی لئے ابھی تک کوئی بھی نہیں لوٹا تھا۔ تھوڑی دیر میں جان آتا دکھائی دیا۔ اس کے ہاتھ میں بیئر کا گلاس تھا۔ مجھے اکیلا بیٹھا دیکھا تو سیدھا میری میز پر چلا آیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد جان نے پوچھا ’’آج کا دن کیسا رہا؟‘‘

’’بہت اچھا! آزادی اور اپنی مرضی سے گھومنے کا موقع ملا۔ اس کا بھی اپنا ہی مزہ ہے‘‘

’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ کبھی کبھی تو گروپ کی پابندی سے دل اُکتا جاتا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ بھی ہے۔ کچھ وقت گروپ کے ساتھ اور کچھ اکیلے گزارنے کا یوں ہی موقع ملتا رہا تو سیر کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔ ویسے تم آج کہاں کہاں گئے تھے؟‘‘

میں نے جان کو پورے دن کی تفصیل بتا دی۔ جان نے لوور کے ذکر میں زیادہ دلچسبی نہیں لی تاہم بازار حسن کا تذکرہ سن کر بہت محفوظ ہوا۔ کہنے لگا ’’میں آج رات وہاں ضرور جاؤں گا۔ دنیا کے بے شمار ملکوں کی بے شمار عورتوں سے میرے تعلقات رہے ہیں۔ اتفاق سے کوئی فرانسیسی حسینہ ان میں شامل نہیں۔ آج رات کے بعد میری ڈائری میں دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کی طرح فرانس کا نام بھی شامل ہو جائے گا۔ نپولین کے مقبرے پر آویزاں جھنڈوں کی طرح میری ڈائری میں بھی ایک ملک کا اضافہ ہو جائے گا‘‘

جان کی عمر اڑتیس سال تھی۔ چہرہ گول اور بھرا بھرا تھا۔ آنکھوں پر سنہرے فریم کی عینک اور جسم پر قیمتی لباس تھا۔ مجموعی طور پر وہ اسمارٹ، خوش شکل اور خوش مزاج شخص نظر آتا تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر اور مسکرا کر کہنے لگا ’’لیکن طارق! تم پگال کی گلیوں میں گھوم کر واپس آ گئے یا وہاں کچھ شاپنگ بھی کی‘‘

’’میں نے صرف ونڈو شاپنگ کی۔ ویسے بھی مجھے فاتح بننے کا کچھ زیادہ شوق نہیں ہے‘‘

جان ہنسا۔ لیکن اس کی نظر یں کہیں اور ٹکی ہوئی تھیں۔ میں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ ایک فرانسیسی حسینہ استقبالیہ کاؤںٹر کی جانب اس طرح جا رہی تھی کہ اس کے جسم کا اوپری حصہ بلاؤز سے تقریباً باہر نکلنے کو تھا۔ نچلے حصے پر منی اسکرٹ برائے نام ستر پوشی کر رہا تھا۔ اس کافر ادا حسینہ کی کمر، ٹانگوں اور سینے کا زیادہ تر حصہ لباس سے عاری ہو کر دعوتِ نظارہ دے رہا تھا۔ اُس کے ہونٹ لپ اسٹک کی سُرخی میں رنگے آنکھیں مستی میں ڈوبی اور چال مورنی جیسی تھی۔ جب وہ چلتی تو اونچی ایڑی والے سینڈل کی وجہ سے اس کے کولہے ایک خاص ردم میں رقصاں نظر آتے۔ مجموعی طور پر وہ کوئی الٹرا ماڈرن لڑکی تھی جو اپنے بوائے فرینڈ سے پہلی ڈیٹ پر آئی تھی۔ یا پھر پیشہ ور تھی اور شکار کی تلاش میں نکلی تھی۔ میں کبھی جان کی طرف اور کبھی اس لڑکی کی جانب نگاہ ڈالتا۔ جان کی نظریں اس پر ایسے جمی تھیں جیسے آنکھیں جھپکنا بھول گیا ہو۔ لڑکی ہال پر بظاہر طائرانہ سی نظر ڈالتی استقبالیہ کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ میں نے جان کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا تو وہ جیسے ٹرانس سے نکل آیا۔ بے اختیار بولا ’’ونڈر فل! کیا حُسن ہے! کیا جسم ہے! لگتا ہے مجھے فرانس کی سرزمین پر جھنڈا لہرانے کے لئے پگال جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘

’’احتیاط کرنا! ایسا نہ ہو کہ وہ تمھارے گال پر فرانس کا جھنڈا بلکہ نقشہ جما کر چلی جائے‘‘ میں نے کہا

’’تم دیکھتے جاؤ! پیرس کی اس قوسِ قزح کے سارے رنگ کل صبح تمھیں میرے بستر میں بکھرے ملیں گے‘‘ جان یہ کہ کر کاؤنٹر کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

وہ سیدھا کاؤنٹر پر گیا۔ کچھ دیر تک وہ اس سُرخ بالوں اور سُرخ لبوں والی فرانسیسی حسینہ سے محوِ کلام رہا۔ صرف دو منٹ کے بعد وہ ڈرنک خرید رہا تھا اور تیسرے منٹ میں اس حسینہ کو لے کر واپس میرے ٹیبل پر پہنچ گیا۔ اس دفعہ اُس نے بیئر کے بجائے اپنے لئے اسکاچ اور لڑکی کے لئے شیمپئن خریدی تھی۔ جان نے لڑکی سے میرا تعارف کرا یا تو اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اس حسینہ کا نرم و نازک سا ہاتھ تھاما تو اُس نے ہولے سے میرا ہاتھ دبا دیا۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں مستی کی لہریں سی دکھائی دیں۔ مجھے ایسے لگا کہ جان جسے فتح کرنے کی بات کر رہا ہے وہ تو خود گھر سے اسی مقصد کے تحت نکلی ہے۔ ہمارے درمیان چند رسمی سی باتیں ہوئی تھیں کہ راجہ ظہور احمد اپنے دوست کے ساتھ ہال میں داخل ہوا۔

تھوڑی دیر میں جان اور لیزا کو وہیں چھوڑ کر میں راجہ ظہور اور اس کے دوست کریم کے ساتھ ہوٹل سے نکل آیا۔ کریم کی فورڈ کار باہر کھڑی تھی۔ میں باتوں میں منہمک تھا۔ بے خیالی میں ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولنے لگا۔ کریم نے گاڑی کی چابی میری طرف بڑھا کر ڈرائیونگ کرنے کی دعوت دی۔ میں نے معذرت کی حالانکہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ پیرس کی سڑکوں پر ڈرائیو کروں۔ لیکن سڑک کے دائیں جانب گاڑی چلانے کا مجھے بالکل تجربہ نہیں تھا۔ کیونکہ آسٹریلیا میں برطانیہ اور پاکستان کی طرح گاڑی سڑک کے بائیں طرف چلائی جاتی ہے اور اسٹیرنگ دائیں طرف ہوتا ہے۔ جبکہ برطانیہ کے علاوہ بقیہ تقریباً تمام یورپ میں گاڑیوں کے اسٹیرنگ بائیں طرف ہوتے ہیں اور سڑک پر دائیں سمت گاڑی چلائی جاتی ہے۔ گاڑی سیدھی چلانی ہو تو پھر تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن دو راہوں اور چوراہوں پر مڑتے وقت گاڑی کو سڑک کے درست حصے میں رکھنا تجربے کے بغیر مشکل ہے۔ کریم کے اصرار پراور پیرس کی سڑکوں پر ڈرائیونگ کے شوق میں میں نے یہ چیلنج قبول کر لیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔

ڈرائیونگ سیٹ اور سٹیرنگ بائیں طرف ہونے کی وجہ سے شروع میں مجھے عجیب لگا۔ میں گاڑی کو سٹارٹ کر کے اور آہستہ آہستہ ریورس کر کے سٹرک پر لے ہی آیا۔ کریم میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ اُس کے ہوتے ہوئے مجھے تسلی تھی کہ جہاں غلطی کا اندیشہ ہو گا وہ مجھے خبردار کر دے گا۔ میرے پاس بین الاقوامی ڈرائیونگ لائسنس موجود تھا۔ لہذا یہ فکر نہیں تھی کہ فرنچ ٹریفک پولیس بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر جرمانہ کر دے گی۔ شروع کے چند موڑوں پر مجھے گاڑی سڑک کے درست سمت میں رکھنے میں دقت پیش آئی۔ کیونکہ آسٹریلیا میں اتنے عرصے سے مختلف طریقے سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے عادتیں پختہ ہو چکی تھیں۔ اس لئے ہر موڑ، راؤنڈ اباؤٹ، GIVWAY یا سٹاپ سائن کے بعد میری گاڑی سٹرک کے بائیں جانب جانے لگتی۔ کبھی میں خود کو اور کبھی کریم مجھے درست حصے پر چلنے کے لئے کہہ دیتا۔ آہستہ آہستہ میں رواں ہوتا چلا گیا۔ تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد میں فرنچ قواعد و ضوابط کے مطابق ڈرائیونگ کرنے پر قادر ہو گیا۔ اُس کے بعد پیرس کی چمکیلی سڑکوں پر فورڈ بھگاتے ہوئے مزہ آنے لگا۔ راجہ ظہور احمد کے گھر جانے کے لئے ہمیں پیرس کے مرکزی اور مصروف حصے سے گزر کر جانا پڑا۔ اب گاڑی پر میرا پورا کنٹرول تھا۔ اس لیے بآسانی اس مصروف علاقے میں سے ڈرائیو کرتا ہوا دوسری سمت پہنچ گیا۔

پیرس کی سڑکیں بھی لندن کی طرح مصروف رہتی ہیں۔ شہر پُرانا ہونے کی وجہ سے سڑکیں زیادہ کھُلی نہیں ہیں۔ نہ ہی شہر کے اندر زیادہ موٹروے وغیرہ ہیں۔ اس لئے ڈرائیونگ میں بہت زیادہ وقت ضائع ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ ورنہ سڑک پر تل دھرنے کی جگہ بھی نظر نہ آئے۔ پیرس اور لندن کے مقابلے میں سڈنی (جو آسٹریلیا کا سب سے بڑا اور سب سے مصروف شہر ہے) میں ٹریفک بدرجہا بہتر ہے۔ سڑکیں کشادہ ہیں اور کئی موٹروے شہر کے مختلف حصوں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ حالانکہ خود سڈنی کے باسی ٹریفک کے دباؤ سے پریشان رہتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں لندن، پیرس، ٹوکیو، بنکاک اور نیویارک جیسے شہر کی ٹریفک دیکھنے کا موقع ملے تو سڈنی کی ٹریفک کو بھول جائیں۔ سڈنی اور ملبورن کے علاوہ آسٹریلیا کے باقی شہروں میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسٹریلیا کے شہر بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ گنجان آباد نہیں ہیں۔ آبادیاں دُور دُور ہیں۔ سڑکیں کشادہ اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی ہیں۔ اس لئے ایڈیلیڈ، ہوبارٹ اور برسبین جائیں تو مصروف اوقات میں بھی ٹریفک ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے چھٹی کا دن ہو۔


اس کے تین پاکستانی خاوند تھے



راجہ ظہور احمد کے دوستوں نے میرا پُر تپاک استقبال کیا۔ مجھے بعد میں علم ہوا کہ ان میں سے دو کی رات کی شفٹ تھی لیکن انہوں نے میری وجہ سے جاب سے رخصت لے لی تھی۔ ان چاروں کے علاوہ ان کا ایک دوست اپنی فرانسیسی بیوی کے ساتھ وہاں آیا ہوا تھا۔ یہ موٹی فرنچ عورت فرانسیسی اور انگریزی کے علاوہ تھوڑی تھوڑی اُردو بھی جانتی تھی۔ یہ اُردو اس نے اپنے تین پاکستانی خاوندوں سے سیکھی تھی۔ جی ہاں! اس کے تین پاکستانی خاوند تھے۔ اس سے پہلے وہ کئی فرانسیسی خاوندوں کو بھی بھگتا چکی تھی۔ گویا کم از کم آدھ درجن شادیاں کر چکی تھی۔ (اب چند سال مزید گزر چکے ہیں، ہو سکتا ہے اس نے درجن کا سنگِ میل عبور کر لیا ہو) شین نامی اس فرانسیسی عورت نے آٹھ سال پہلے ایک پاکستانی سے شادی کی۔ اس سے دو بچے پیدا کئے اور خاوند کو فرانس کی شہریت دلوائی۔ شہریت ملتے ہی ان صاحب نے طلاق دے کر شین کی شادی اپنے بھائی سے کروا دی۔ بھائی نے شہریت ملنے تک شین سے دو مزید بچے پیدا کئے۔ شہریت کا کاغذ ہاتھ میں آتے ہی اس نے دو اپنے اور دو بھائی کے بچوں سمیت شین کو اپنے گھر اور اپنی زندگی سے نکال باہر کیا۔

دونوں بھائی پاکستان چلے گئے جہاں ایک تو پہلے سے شادی شدہ تھا اور دو بچوں کا باپ تھا۔ دوسرے نے وہاں جا کر چچا کی بیٹی سے شادی کی اور اسے لے کر فرانس آ گیا۔ اب دونوں بھائی اپنی پاکستانی بیویوں کے ساتھ فرانس میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ شین کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی بھول چکے ہیں۔ دو اڑھائی سال حکومت کے خرچ پر بچے پالنے کے بعد شین کو پھر کسی مرد کی رفاقت کی طلب محسوس ہوئی۔ چار بچے پیدا کرنے اور پاکستانی کڑاہی گوشت کھا کھا کر بھینس کی طرح موٹی ہو جانے والی شین کو کسی فرانسیسی مرد نے لفٹ نہیں کروائی۔ اُدھر خان نامی ایک پاکستانی فرانسیسی شہریت حاصل کرنے کے لئے کسی فرانسیسی عورت سے شادی کا خواہش مند تھا۔ ہزار کوشش کے باوجود کسی معقول عورت نے اس سے شادی کرنے کی حامی نہیں بھری۔ ناچار اس نے شین سے نکاح کر لیا جو خان سے دگنی عمر کی تھی۔ خان چھبیس سال کا سمارٹ سا نوجوان تھا جبکہ شین پینتالیس سے کم نہ تھی۔ خان کو اس گوہرِ نایاب بیوی کے ساتھ ساتھ جہیز میں چار بچے بھی ملے۔ اب جب تک اسے شہریت نہیں مل جاتی وہ شین کے نخرے اٹھائے گا۔ اسے گھمانے پھرانے اور کھانا کھلانے لے کر جائے گا۔ در حقیقت اپنی ساری کمائی اس پر لٹاتا رہے گا۔ دو تین سال میں جب تک اسے شہریت نہیں مل جاتی شین سے ایک دو بچے مزید پیدا کرے گا۔ شہریت ملتے ہی اسُے طلاق دے کر پاکستان جا کر اپنی کسی کزن کو بیاہ لائے گا۔ یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ میں یہ سلسلہ عام ہے۔ اس کی وجہ سے اگر کوئی پاکستانی واقعی کسی مقامی عورت سے محبت کرتا ہو اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اُسے سخت مشکل درپیش آتی ہے۔ کیونکہ گوریاں ہر پاکستانی کو شک کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ یہ صرف شہریت حاصل کرنے کے لئے شادی کرنا چاہتے ہیں اور دل سے انہیں نہیں چاہتے۔ گویا کرے کوئی بھرے کوئی۔

راجہ ظہور احمد کے گھر میں وہ فرانسیسی عورت نہ ہوتی تو ایسے لگتا کہ ہم گوجر خان کے کسی گھر بیٹھے ہیں۔ وہی زبان، وہی کھانا، وہی موسیقی اور وہاں کی باتیں۔ میں کافی دنوں سے گوروں کے ساتھ دن رات گزار رہا تھا۔ اس تبدیلی سے خوب لطف اندوز ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ پاکستان میں موجود ہوں۔ یہاں بیٹھ کر مجھے فرحت اور شادمانی کا احساس ہوا۔ کھانے کے بعد خان اور اس کی فرانسیسی بیوی تو گھر چلے گئے۔ جب کہ راجہ ظہور احمد اور اس کے دوست مجھے لے کر ایک انڈین نائٹ کلب چلے آئے۔ نائٹ کلب ایک چھوٹے سے ہال پر مشتمل تھا جس میں تیز بھارتی موسیقی کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں بانہوں میں بانہیں ڈال کر تھرک رہے تھے۔ ہم ڈرنک لے کر ایک میز پر جا بیٹھے۔ ہال میں لڑکے زیادہ اور لڑکیاں کم تھیں۔ یہ لڑکیاں بھی زیادہ تر بھارت سے تعلق رکھتی تھیں۔ کچھ جزیرہ فیجی سے بھی تعلق رکھتی تھیں۔ شاید ان میں کوئی پاکستانی لڑکی بھی ہو۔ کچھ فرانسیسی گوریاں بھی مشرقی موسیقی پر مغربی رقص کا پیوند لگانے میں مصروف تھیں۔ کلبوں میں دوسروں کے رقص پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ جس کا جس طرح دل چاہتا ہے اچھل کود کر لیتا ہے۔ لوگ اپنے ساتھی کے ساتھ گپ شپ یا رقص کرتے ہیں۔ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، ناچتے ہیں۔ جب تھک جاتے ہیں بیٹھ کر سستاتے ہیں۔ ڈرنک کی چسکیاں لیتے ہیں اور تازہ دم ہو کر پھر رقص کے میدان میں خوشیوں اور مسرتوں کا رس نچوڑنے لگتے ہیں۔ (یا اپنے غموں کو بھلاتے ہیں)۔

راجہ ظہور احمد کے دو ساتھیوں کو گرین سگنل ملا تو وہ سانولی سلونی سی دو لڑکیوں کے ساتھ ڈانسنگ فلور پر جا پہنچے۔ یہ لڑکیاں آپس میں خاصی مشابہت رکھتی تھیں۔ لگتا تھا بہنیں ہیں۔ بعد میں میرا یہ اندازہ درست ثابت ہوا۔ موسیقی کے وقفے میں وہ لڑکیاں ہماری میز پر آ بیٹھیں۔ معلوم ہوا کہ ان بہنوں کا تعلق فیجی سے ہے۔ ان کے والدین کافی عرصہ پہلے فیجی سے فرانس آبسے تھے۔ اس ہندو فیملی کے لئے یہ کڑا وقت تھا۔ لڑکیاں کلبوں میں جا کر اپنے لئے شریک حیات ڈھونڈ رہی تھیں۔ بقول ایک بہن کے، مناسب لڑکا ملنا خاصا مشکل ہے۔ کیونکہ اچھے لڑکے اپنے خاندانوں میں شادیاں کر لیتے ہیں۔ دوسرے ہمارے معیار کے مطابق نہیں ہوتے۔ کئی پاکستانی اور بھارتی وقتی طور پر ان کی طرف بڑھے۔ بعد میں علم ہوا کہ پاکستان یا بھارت میں ان کی پہلے سے بیویاں موجود ہیں۔ غرضیکہ یہ بیچاریاں کلبوں اور ہوٹلوں میں خود ہی اپنا بر ڈھونڈ رہی تھیں۔ نہ جانے اب تک ان کے ہاتھ پیلے ہوئے ہیں یا ہر ویک اینڈ پر نئے نئے لڑکوں کی بانہوں میں سمانے اور بدن سے بدن رگڑ نے کے بعد باقی کا پورا ہفتہ نئے انتظار اور امید و بیم میں گزارتی ہیں۔

فیجی کے بھارتی نژاد باشندے زبان اور خوراک کے معاملے میں تو اب بھی مکمل بھارتی ہیں۔ یعنی گھر میں ہندی (اردو) بولتے ہیں اور ہندوستانی کھانے کھاتے ہیں۔ لیکن ان کی نوجوان نسل مکمل طور پر یورپین کلچر کی دلدادہ ہے۔ کلبوں اور ہوٹلوں میں زندگی کی مسرتیں حاصل کرتے ہیں۔ لیکن زندگی کا ساتھی انہیں اپنی زبان، اپنے مذہب اور اپنے کلچر سے متعلق ہی درکار ہوتا ہے۔ یہ تضاد انہیں اکثر سخت مشکلات سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ کیونکہ مشرق اور مغرب کو بیک وقت اور ایک جگہ جمع کرنا اور دونوں کو ساتھ لے کر چلنا نا ممکن ہے۔ آسٹریلیا میں جزیرہ فیجی کے یہ بھارتی نژاد بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ہندوستانی اور پاکستانی لوگوں سے زبان، خوراک اور مذہب کی مماثلت کے باوجود یہ مختلف لوگ ہیں۔ وقتی خوشیوں اور وقتی رشتوں کے لئے رشتوں کے بندھن آسانی سے توڑ دیتے ہیں۔ یا شاید ہماری طرح منافقت کے رشتے نہیں نبھاتے اور جب محبت ختم ہوتی ہے تو رشتہ بھی دم توڑ دیتا ہے۔

یہاں آسٹریلیا میں جن پاکستانی اور ہندوستانی لڑکوں کو گوریاں لفٹ نہیں کراتیں اکثر وہ کسی فیجین عورت سے شادی کر لیتے ہیں۔ کچھ آسٹریلین شہریت حاصل کرنے کے لئے اور کچھ محض وقتی مسرت حاصل کرنے کے لئے۔ جب اُنہیں شہریت مل جاتی ہے تو انہیں چھوڑ کر پاکستان جا کر گھر والوں کی مرضی سے شادی کر لیتے ہیں۔ گویا رِند کے رِند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔ دوسروں کا جب دل بھر جاتا ہے تو خود ہی اُن سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں یا اُس وقت تک وہ لڑکی کسی اور ڈال پر ڈیرہ ڈال چکی ہوتی ہے۔ ایسی شادیاں کامیابی کی منزل تک بہت کم پہنچ پاتی ہیں۔


تم نے مجھے کیا سمجھا ہوا ہے نوکر یا شوہر؟



رات بارہ بجے راجہ ظہور احمد اور اس کے ساتھیوں نے مجھے ہوٹل ڈراپ کیا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے گروپ کے زیادہ تر لوگ ابھی تک نیچے ہال میں بیٹھے پی رہے تھے اور گپیں لگا رہے تھے۔ میں سب کو ہیلو ہائے کرتا جسٹن اور جوزی کے ٹیبل پر جا بیٹھا۔ جولی بھی وہیں بیٹھی جسٹن کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر پی رہی تھی۔ شاید اُس کے ہاتھ میں موجود بیئر کا گلاس بھی اُسی ہنس مکھ جوڑے کی عطا تھا۔ میں سگریٹ نوشی کی مشترک عادت کی وجہ سے اُن کی میز پر آیا تھا۔ ویسے بھی یہ دونوں میاں بیوی بہت خوش مزاج اور دوست نواز تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں کوک لینے کے لئے اٹھا اور از راہ مروت اُن سے بھی استفسار کیا کہ وہ کیا پئیں گے۔ جسٹن اور جوزی کے گلاس تو تقریباً نصف سے زائد بھرے تھے۔ لہذا انہوں نے شکریے کے ساتھ منع کر دیا۔ تا ہم جولی نے جھومتے ہوئے کہا ’’میرے لئے ایک گلاس فوسٹر بئیر لے آؤ‘‘

جولی کے لئے بئیر اور اپنے لئے کوک کا گلاس لے کر میز پر پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ جان بھی کہیں سے آ کر اسی میز پر آ بیٹھا تھا۔ میں نے اشارے سے پوچھا کہ اس فرانسیسی حسینہ کے ساتھ کیا بنا؟ اُس نے بھی اشارے میں جواب دیا کہ بعد میں بتائے گا۔ باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ جولی نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ آسٹریلیا سے برطانیہ کیوں منتقل ہوئی اور اس کم عمری میں ہی رشتوں کی کتنی شکست و ریخت سے دوچار ہو چکی ہے۔ اُس نے بتایا ’’اسکول اور یونیورسٹی کے دور کے کئی کچے پکے اور عارضی تعلقات کے سلسلوں سے گزر کر میرا پہلا با قاعدہ بوائے فرینڈ سڈنی میں میرا ایک آفس کولیگ تھا۔ ڈیڑھ سال تک ہمارے تعلقات مضبوط سے مضبوط ہوتے رہے۔ اس دوران دن اور شام کا زیادہ عرصہ ہم اکھٹے ہی گزارتے تھے۔ ہفتے عشرے میں ایک دو راتیں بھی کبھی ہمارے گھر اور کبھی اُس کے گھر اکھٹے گزرتی تھیں۔ پھر ہم نے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے کر اکھٹے رہنا شروع کر دیا۔ اس اپارٹمنٹ کا بنیادی کنٹریکٹ چھ ماہ کا تھا۔ جب یہ کنٹریکٹ ختم ہوا اس وقت تک ہمارا باہمی کنٹریکٹ بھی ہمارے تنازعوں کے ریلے میں خس و خاشاک کی طرح بہہ چکا تھا۔

کچھ عرصہ میں بالکل اکیلی رہی۔ کیونکہ والدین نے بھی مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی۔ پانچ چھ ماہ کے دوران چند عارضی تعلقات کے علاوہ میرا کسی سے دائمی تعلق نہ بن سکا۔ پھر میری ملاقات گراہم سے ہوئی۔ گراہم ایک انگریز تھا اور جاب کنٹریکٹ پر آسٹریلیا میں رہائش پذیر تھا۔ ہم تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے۔ چند ہی ماہ میں میں گراہم کے فلیٹ میں منتقل ہو گئی۔ تین ماہ بعد گراہم کا آسٹریلیا میں جاب کنٹکریکٹ ختم ہوا تو اس وقت ہمارے درمیان پہلا اختلاف ہوا۔ گراہم لندن واپس جا کر اپنی موجودہ جاب کو جاری رکھنا چاہتا تھا جبکہ میں اُسے آسٹریلیا میں روکنے پر مصر تھی۔ گراہم کو آسٹریلیا بہت پسند تھا لیکن اُس سے زیادہ یہ جاب عزیز تھی۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ کام اُس کی مرضی اور مزاج کے مطابق تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ایسی کمپنی اور ایسی جاب اُسے مشکل سے ملے گی۔ جبکہ میرا مؤقف یہ تھا کہ تمہیں بھی آسٹریلیا پسند ہے اور خصوصاً میں آسٹریلیا سے باہر نہیں جانا چاہتی۔ تمہیں جاب کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے اور وہیں رہنا چاہیے۔ ہمارے درمیان کافی دن کشمکش جاری رہی۔ آخر اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں ہار گئی۔ میں اپنے والدین، خاندان، تمام دوست اور اپنا مُلک چھوڑ کر ہزاروں میل دُور لندن میں آبسی جہاں گراہم کے علاوہ میں کسی کو نہیں جانتی تھی۔

شروع میں تو مجھے آسٹریلیا چھوڑنے کا بہت دُکھ تھا۔ لیکن لندن جیسے دلچسپ اور گہما گہمی سے بھرپور شہر میں آ کر یہاں کی عادی ہوتی چلی گئی۔ مجھے یہ شہر اچھا لگنے لگا۔ اس دوران ایک دفعہ چھٹیوں پر آسٹریلیا گئی تو مجھے سڈنی اور دوسرے شہر بور سے لگے تھے۔ شاید وہ لندن جیسے مصروف اور بڑے شہر نہیں ہیں اس لئے۔ بہرحال میں لندن میں رچ بس گئی۔

لیکن ایک دفعہ پھر وہی ہوا جو پہلے ہو چکا تھا۔ میرے اس رشتے کی عُمر بھی دو سال سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ در اصل گراہم بے وفائی کا مرتکب ہو رہا تھا۔ جب اُس کا ٹھوس ثبوت میرے سامنے آیا تو میں گراہم کی بے وفائی کا زخم اپنے سینے پر سجا کر لندن شہر میں پہلی دفعہ اور اپنی زندگی میں دوسری دفعہ اکیلی ہو گئی۔ جاب تو میں پہلے ہی کر رہی تھی۔ میں نے الگ فلیٹ کرائے پر لے لیا اور وہاں رہنے لگی۔ گراہم سے الگ ہونے کے بعد بھی میں لندن جیسے بے وفا شہر کو نہ چھوڑ سکی‘‘

اس دوران جولی کا بیئر کا گلاس ختم ہو چکا تھا۔ اُس کی نظریں پہلے جسٹن اور جوزی پھر جان اور پھر میرے اوپر آ ٹکیں۔ اُس کی دکھ بھر کہانی کے صدقے میں جُولی کے لئے ایک گلاس بیئر اور لے آیا۔ اُس نے میرا شکریہ ادا کر کے ٹھنڈی بیئر کا جھاگ بھرا گلاس منہ سے لگایا اور غٹاغٹ آدھا گلاس پی گئی۔ شاید اس طرح وہ اپنے اندر کی تپش کو بجھانا چاہتی تھی۔ دوسری طرف جان جو چٹکلے چھوڑنے کا عادی تھا بولا ’’طارق! یہ زیادتی ہے۔ بھئی اس محفل میں ہم تین فرد اور بھی موجود ہیں۔ لیکن بیئر صرف جولی کے لئے آئی ہے‘‘

شاید اس طرح وہ محفل میں جمی غم کی فضا کو تحلیل کرنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم تینوں میں سے جُولی سب سے خوبصورت ہے۔ اب تو یہ بھی پتہ چل گیا کہ اکیلی ہے۔ تمھارے لئے بیئر خرید کر تو رقم ضائع ہوتی۔ لیکن جولی سے شاید کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں وصولی کا بھی مرحلہ آ جائے‘‘

جسٹن، جوزی اور جان ہنسنے لگے۔ جولی غصے سے بولی ’’اگر تم نے بیئر اس نیت سے خریدی ہے تو میں نہیں پیتی۔ ویسے بھی ابھی تم لوگوں نے پوری کہانی نہیں سُنی۔ اب میں اکیلی نہیں ہوں۔ بلکہ میرا ایک بوائے فرینڈ بھی ہے‘‘

میں نے ہاتھ بڑھا کر بیئر جولی کے آگے سے اُٹھا لی ’’پھر تو میں نے خواہ مخواہ پیسہ ضائع کیا۔ یہ رقم کہیں اور کام آ سکتی تھی‘‘

جولی نے گلاس میرے ہاتھ سے لے کر پھر منہ سے لگا لیا اور بولی ’’طارق! تم بہت خود غرض ہو‘‘

جُوزی نے کہا ’’بھئی! یہ نوک جھونک بند کریں اور جولی کی باقی کہانی بھی سُن لیں‘‘

ہم پھر ہمہ تن گوش ہو گئے جولی بولی ’’آگے کی کہانی زیادہ طویل نہیں ہے۔ چند ماہ قبل میری ملاقات ایک جمیکن لڑکے سے ہوئی اور ہم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے‘‘

جسٹن نے مداخلت کی۔ ’’جمیکن یعنی افریقی نیگرو؟‘‘

جولی نے جیسے بُرا منا کر درشتی سے کہا ’’ہاں! میرا بوائے فرینڈ افریقی ہے۔ کالا ہے، غریب ہے لیکن دل کا بہت اچھا ہے اور مجھے بہت چاہتا ہے‘‘

جوزی نے سوالیہ نظروں سے جولی کی طرف دیکھ کر کہا ’’اور تم؟‘‘

’’میں بھی اُسے چاہتی ہوں‘‘ جولی کا لہجہ اور الفاظ نرم تھے۔ مجھے اس جواب میں کھوکھلا پن محسوس ہوا۔

جان نے کہا ’’تمھارا بوائے فرینڈ تمھارے ساتھ چھٹیوں پر نہیں آیا؟‘‘

’’اُس نے یورپ دیکھا ہوا ہے۔ وہ تو پیدا ہی لندن میں ہوا تھا۔ جبکہ میں نے برطانیہ کے علاوہ کوئی اور یورپی مُلک نہیں دیکھا تھا۔ بہت دنوں سے میرے دل میں یہ خواہش کلبلا رہی تھی۔ کافی عرصے سے تھوڑی تھوڑی رقم بھی پس انداز کر رہی تھی۔ اب جا کر اس قابل ہوئی ہوں کہ ٹریفالگر کا یہ پیکج خرید سکوں۔ ویسے بھی میرے اخراجات آپ لوگوں کی نسبت کم ہوئے ہیں۔ آپ لوگ تو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکہ اور ساؤتھ افریقہ سے آئے ہیں جبکہ میں لندن سے آپ کے ساتھ شامل ہوئی ہوں۔ وہیں جا کر یہ ٹور ختم بھی ہوتا ہے۔ راستے کے اخراجات کے لئے میرے پاس ضروری رقم تو ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں ہے کہ اُسے فضول خرچ کر سکوں‘‘

میں حیرت سے جولی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ بیس بائیس سال کی تھی۔ لیکن اتنی نازک اور کومل سی تھی کہ اس سے بھی کم عُمر لگتی تھی۔ اس کا دمکتا چہرہ، چمکتی آنکھیں، دہکتے رخسار اور رسیلے ہونٹ اَن چھوئے لگتے تھے۔ لیکن اس کی کہانی سُن کر معلوم ہوا کہ اس چہرے، ان آنکھوں، ان رخساروں اور ان ہونٹوں نے کئی گرم و سرد دیکھے ہوئے ہیں۔ جان اتنی دیر تک فضا کا بوجھل پن برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ آنکھوں میں شرارت بھری مسکراہٹ لا کر بولا ’’جولی! تم نے یورپ آ کر بہت دُکھ اٹھائے۔ آؤ میرے گلے سے لگ جاؤ۔ میں تمہیں اپنے وطن واپس لے چلتا ہوں۔ بلکہ اپنی گود میں بٹھا کر لے جاؤں گا۔ آخر کو تمہارا ہم وطن ہوں‘‘

جولی نے کہا ’’شکریہ! مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ ویسے آدھ گھنٹے پہلے تک تمہاری گود میں کوئی اور تھی۔ اُس سے دل نہیں بھرا کہ میرے اوپر ڈورے ڈال رہے ہو‘‘

جان جھینپ سا گیا۔ شاید اُسے علم نہیں تھا کہ گروپ کے کچھ لوگوں نے اُسے فرانسیسی حسینہ کے ساتھ کمرے میں جاتے دیکھ لیا تھا۔ وہ سنبھل کر بولا ’’وہ! وہ تو میں اُس سے فرانسیسی سیکھ رہا تھا‘‘

’’تو مجھ سے کیا سیکھو گے۔ ہم دونوں کی زبان تو ایک ہی ہے‘‘ جولی غبارِ غم کو جھٹک کر اب نارمل ہو گئی تھی۔

جان بولا ’’تم سے سیکھوں گا نہیں بلکہ سکھلاؤں گا کہ کس طرح اپنے ساتھی کو خوش رکھتے ہیں تا کہ آئندہ تمہیں چھوڑ کر کوئی نہ جائے‘‘

جان نے پھر جولی کی دُکھتی رگ چھیڑ دی تھی۔ وہ برہمی سے بولی ’’مجھے سکھانے کے بجائے اپنی زندگی کیوں نہیں سدھارتے۔ تم خود اس عُمر میں کیوں اکیلے ہو؟‘‘

جسٹن نے ماحول میں قدرے کشیدگی پیدا ہوتے دیکھی تو کہنے لگا ’’رات کے ڈیڑھ بج چکے ہیں۔ اب چل کر سونا چاہیے۔ صبح سوئٹزرلینڈ کے لئے روانہ ہونا ہے‘‘

جوزی نے آنکھیں نکال کر اُس کی طرف دیکھا ’’تم ہر وقت تھکے کیوں رہتے ہو۔ آج پیرس میں ہماری آخری رات ہے۔ اُسے اچھی طرح منانے تو دو۔ جاؤ جا کر بیئر لے کر آؤ‘‘

جسٹن دم دبا کر بیئر لینے چلا گیا۔ جوزی، جولی اور جسٹن کافی دیر سے پی رہے تھے۔ جوزی کی آنکھوں میں سُرخ ڈورے تیر رہے تھے۔ جولی بھی بات بے بات ہنس رہی تھی۔ دوسری میزوں سے ہمارے گروپ کے تقریباً سبھی لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ صرف ایک اور میز پر ہمارے ہی گروپ کے چار سیاح بیٹھے اب تک پی رہے تھے۔ جسٹن اپنے، جوزی اور جولی کے لئے بیئر، جان کے لئے اسکاچ اور میرے لئے کوک لے آیا۔

جسٹن اور جوزی غریب تھے مگر دل کے اچھے اور فیاض تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں سبھی پسند کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں ہمارے گروپ کے دیگر کئی سیاح بہت پیسے والے تھے۔ کچھ اتنے بوڑھے تھے کہ ان کی ٹانگیں قبر میں تھیں۔ لاکھوں کروڑوں ڈالر کے مالک ہونے کے باوجود اور زندگی کی سرحد کے بالکل نزدیک ہونے کے باوجود انتہائی کنجوس تھے۔ شاید اسی کنجوسی سے ہی انہوں نے اتنی دولت اکٹھی کی تھی۔ یہ سچ ہے کہ دولت مند ہونا الگ بات ہے اور اُس سے فائدہ اٹھانا بالکل دوسری بات ہے۔ بعض لوگ ساری زندگی مشین بن کر دولت کماتے رہتے ہیں، لیکن ان کی اپنی ذات کو اس دولت کا کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ تا ہم اُن کی دولت سے دوسرے لوگ ضرور فیضیاب ہوتے ہیں۔ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔ ویسے بھی دولت سے خوشی اور سکون نہیں خریدا جا سکتا۔ یہ دولت خداداد ہے۔ بعض اوقات یہ کسی غریب کی جھونپڑی میں محل سے زیادہ مل سکتی ہے۔

جسٹن اور جوزی کو، جسٹن کو پیش آنے والے ایک حادثے کے نتیجے میں کچھ رقم ملی تو وہ اُسے خرچ کرنے اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے اُسی وقت گھر سے نکل پڑے۔ انہیں اس بات کی بھی فکر نہیں تھی کہ واپس جا کر پھر انہیں وہی عسرت بھرے رات دن گزارنے پڑیں گے۔ وہ مستقبل کے اندیشوں سے بے نیاز حال کو نہایت خوشگوار انداز میں گزار رہے تھے۔ ایسے لوگ غربت میں بھی خوش اور قانع رہتے ہیں اور ہر حال میں زندگی سے مسرتوں کا رس کشید کرتے رہتے ہیں۔ گپیں لگاتے اور بیئر پیتے صبح کے تین بج گئے۔ میں نے ایک دو دفعہ اٹھنا چاہا تو جوزی نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا۔ وہ لوگ شام سے پی رہے تھے۔ اب بہکتے جا رہے تھے۔ جسٹن تو کرسی پر بیٹھے بیٹھے باقاعدہ خراٹے لینے لگا۔ جان کچھ گانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بھی گانے کے دوران بار بار سو جاتا۔ جبکہ جوزی نے کئی دفعہ اٹھ کر رقص کرنے کی کوشش کی۔ جب کسی نے اُس کا ساتھ نہ دیاتو اپنی کرسی پر آ بیٹھی۔ جولی بھی اپنی کرسی پر ڈگمگا رہی تھی۔ وہ کبھی اپنے پہلے بوائے فرینڈ کو یاد کرتی کبھی دوسرے کو اور پھر اُسے یاد آ جاتا کہ اس کا اب ایک نیا بوائے فرینڈ ہے۔ وہ اس کی تعریف کرنے لگتی۔ تعریف کرتے کرتے پھر بہک جاتی اور کہتی اُس کا بھی کچھ پتا نہیں۔ ہو سکتا ہے میری غیر موجودگی میں کسی اور کے ساتھ گلچھرے اڑا رہا ہو۔ میں نے کہا ’’اس کا حل تمہارے پاس ہے‘‘

’’وہ کیا‘‘ جولی نے بڑی مشکل سے گردن اٹھاتے ہوئے کہا

’’تم یہاں میرے ساتھ گلچھرے اڑانے شروع کر دو۔ اس طرح حساب برابر ہو جائے گا۔ ویسے بھی تمہارا پہلا بوائے فرینڈ بر اعظم آسٹریلیا، دوسرا یورپ اور تیسرا افریقہ سے ہے۔ اس حساب سے اگلا نمبر ایشیا کا آتا ہے۔ یہ موقع میں تمہیں فراہم کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے جہاں آسٹریلین، یورپین اور افریقن تمھارے کام نہیں آ سکے وہاں ایک ایشیائی آ جائے‘‘

جولی ہاتھ نچا کر غصے سے بولی ’’نو وے (سوال ہی پیدا نہیں ہوتا)‘‘

’’دیکھ لو! ایسی آفرز روز روز نہیں ملتیں۔ چلو تجرباتی طور پر اس سفر کے دوران مجھے بوائے فرینڈ بنا کر آزما لو۔ پسند آ جاؤں تو تمھارا مستقبل سنور جائے گا۔ نہیں تو یہ چھٹیاں تو اچھی گزر جائیں گی نا‘‘

جسٹن، جوزی اور جان دلچسپی سے ہماری گفتگو سن رہے تھے۔ جولی کا چہرہ کبھی غصے سے تمتمانے لگتا اور کبھی شیریں سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رینگنے لگتی۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میرے اوپر غصے کا اظہار کرے یا مذاق سمجھ کر انجوائے کرے۔ بالآخر وہ نارمل انداز میں بولی ’’طارق! ایک بات بتاؤں۔ آج سے پہلے کسی ایشیائی کو میں نے کبھی پسند نہیں کیا۔ تم پہلے ایشیائی ہو جسے قریب سے جاننے اور دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مجھے محسوس ہوا ہے کہ میں غلطی پر تھی۔ ہر کمیونٹی میں ہر قسم اور ہر مزاج کے لوگ ملتے ہیں۔ پوری کمیونٹی کے لئے ایک ہی سوچ رکھنا اور سب کو یکساں نظر سے دیکھنا، خصوصاً تعصب اور نفرت کی نظر سے دیکھنا بالکل غلط ہے۔ یہ غلطی میں آج تک کرتی رہی ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں آج تک کسی ایشیائی کو دوست نہیں بنایا۔ لیکن آج پہلی دفعہ میں تمہیں اپنا فرینڈ تسلیم کرتی ہوں ’’

میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’چلو اتنی تو ترقی ہوئی کہ جولی نے مجھے اپنا فرینڈ تسلیم کر لیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ وقت کے بعد یا ایک دو مزید بیئر پینے کے بعد مجھے اپنا بوائے فرینڈ بھی تسلیم کرنے لگے۔ لہذا جان! اب جولی پر غلط نظر ڈالنا چھوڑ دو۔ کیونکہ جولی پر میرے جملہ حقوق محفوظ ہوتے محسوس ہو رہے ہیں‘‘

جولی پھر غصے میں آ گئی ’’تمہارا کیا خیال ہے۔ میں نے نشے میں ایسی بات کی ہے۔ اتنی بلکہ اس سے دوگنی بیئر بھی پی لوں تو بھی میرے ہوش قائم رہتے ہیں۔ اب مجھے مزید غصہ نہیں دلاؤ۔ نہیں تو رونے لگ جاؤں گی۔ تمھیں نہیں پتا۔ اگر میں نشے میں رونا شروع کر دوں تو پھر چپ نہیں ہوتی۔‘‘

جوزی نے ہاتھ اٹھا کر کہا ’’جان اور طارق! تم دونوں جولی کو تنگ کرنا بند کرو۔ اب میرے خیال میں ہمیں چل کر سونا چاہیے۔ اگر جسٹن نے سونے دیا (اس نے پیار سے جسٹن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا) چند گھنٹے کی نیند لے لیں۔ نہیں تو صبح اٹھنا مشکل ہو جائے گا۔ ورنہ کل راستے کے قابل دید مناظر دیکھنے کی بجائے بس میں سوتے رہیں گے‘‘

جسٹن اور جوزی ایک دوسرے کو سہارا دے کر اوپر کمرے کی جانب چل پڑے۔ اُن کے پیچھے جان بھی ڈگمگاتا ہوا اور مڑ مڑ کر جولی اور میری طرف دیکھتا ہوا سیڑھیوں میں اوجھل ہو گیا۔ جولی اور میرا کمرہ ایک ہی فلور پر بلکہ ساتھ ساتھ تھا۔ میں اس کے اٹھنے کا منتظر تھا۔ لیکن وہ کسی خیال میں گہرائی تک ڈوبی ہوئی تھی۔ میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے کے لیے کہا۔ اس نے جیسے چونک کر مجھے دیکھا اور اٹھ کر سیڑھیوں کی جانب چل پڑی۔ دو ہی قدم چلی تھی کہ ڈگمگا کر گرنے لگی۔ میں نے لپک کر اسے سنبھالا۔ کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے سیدھا کیا۔ جولی نے اپنی ٹانگوں کی بجائے سارا وزن میرے اوپر ڈال دیا۔ اس طرح جولی کو بانہوں میں اٹھا کر میں سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا تھا۔ اس لیے لفٹ کی جانب بڑھا۔ لفٹ میں بھی وہ اپنے پاؤں پر نہیں کھڑی ہوئی۔ میرے اوپر سارا وزن ڈالے رہی۔

میں اسے جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھتی، مسکراتی اور پھر آنکھیں موندھ لیتی۔ اس خوبصورت بلا کو گلے میں ڈال کر ہانپتا کانپتا اس کے کمرے کے سامنے پہنچا۔ پھر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا جو کہتی تھی بیئر اسے مدہوش نہیں کرتی۔ کافی کوشش کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ جیبیں ٹٹولیں اور جینز کی جیب سے چابی نکال کر مجھے تھما دی۔ میں نے اسی طرح جولی کو بازوؤں میں تھامے تھامے دروازہ کھولا اور اسے اٹھا کر اندر داخل ہو گیا۔ اسے جوتوں سمیت بستر پرپٹک کر واپسی کے لئے پلٹا ہی تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے چونک کر اُسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نشے کی سُرخی کے ساتھ ساتھ شرارت کی چمک بھی نظر آ رہی تھی۔ جولی کے ہاتھ کی مضبوطی اور آنکھوں کی چمک صاف ظاہر کر رہی تھی کہ وہ اتنے نشے میں نہیں تھی جتنا ظاہر کر رہی تھی۔ میں نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹک کر پوچھا ’’تو تم نشے میں نہیں تھیں۔ پھر کیوں میرے کاندھوں پر سوار ہو کر اوپر آئی ہو‘‘

وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ’’اس لئے کہ میرا چلنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا‘‘

اس کے جواب سے میں مزید بھنا گیا ’’تم نے مجھے کیا سمجھا ہوا ہے نوکر یا شوہر؟‘‘

’’دونوں نہیں! تم شاید بھول گئے ہو۔ ابھی نیچے تم نے خود کو میرا بوائے فرینڈ کہا تھا‘‘

’’تم اس وقت ہوش میں نہیں ہو۔ آرام سے سو جاؤ۔ میں چلتا ہوں‘‘

جولی اٹھ کر بالکل میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اس کے پاؤں مضبوطی سے زمین پر جمے تھے۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور میرے کاندھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر کہا ’’میں مکمل طور پر ہوش و حواس میں ہوں۔ اب بناوٹی غصہ نہ دکھاؤ۔ یہ رات اور یہ لمحات دوبارہ لوٹ کر نہیں آئیں گے‘‘

اس نے اپنی بانہیں میرے گلے میں حمائل کر دیں اور اپنا تپتا ہوا چہرہ میرے رخسار پر ٹکا دیا۔ میں اس صورتِ حال کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔ نہ ہی کسی کے جذباتی اور وقتی اُبال سے فائدہ اٹھانے کے حق میں تھا۔ اس لئے آہستگی سے جولی کو خود سے الگ کیا اور تیزی سے اُس کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آ گیا۔ اندر آتے ہی احتیاطاً دروازہ بھی بند کر دیا۔

میری یہ احتیاط کام آ گئی۔ کیونکہ چند لمحوں بعد ہی کوئی میرا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ کی ہول سے جھانک کر دیکھا تو حسبِ توقع جولی تھی۔ میں نے دروازہ کھولے بغیر اُسے واپس اپنے کمرے میں جانے کے لیے کہا۔ وہ بولی ’’دروازہ کھولو! میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں‘‘

شکر ہے اسے اتنا ہوش ضرور تھا کہ اس نے اپنی آواز دھیمی رکھی تھی۔ صبح کے ساڑھے تین بجے اردگرد کے کمروں میں لوگ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ وہ جاگ جاتے تو مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا۔ قریباً پانچ منٹ تک دھیمے دھیمے اور وقفے وقفے سے جولی دروازہ کھٹکھٹاتی رہی۔ لیکن میں نے دروازہ نہیں کھولا۔ بالآخر اُس کی آواز آنا بند ہو گئی۔ میں نے سکون کی سانس لی۔ دھیرے دھیرے میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں۔







سوئٹزر لینڈ


پانچ سو اکیس عورتیں! اتنی تو وسیم اکرم کی وکٹیں نہیں



ہماری کوچ سوئٹزر لینڈ کی جانب رواں دواں تھی۔ پیرس سے نکلتے ہی ڈرائیور نے کوچ کی رفتار بڑھا دی۔ فرانس کا دیہی علاقہ اپنی تمام تر خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ ہمارے دونوں جانب حد نظر تک پھیلا ہوا تھا۔ کبھی گھنے سر سبزو شاداب جنگلات آ جاتے۔ کبھی فصلوں کی بہار آنکھوں کو ٹھنڈک دینے لگتی۔ کبھی پھلوں کے باغات دعوتِ نظارہ دینے لگتے اور کبھی رنگ برنگے پھولوں کے قطعات دل و دماغ کو فرحت پہچانے نظروں کے دائرے میں چلے آتے۔ اتنے حسین نظارے، اتنا سبزہ اور اتنے رنگ برنگے قدرتی مناظر سڑک کے دونوں جانب موجود تھے کہ نیند سے بوجھل آنکھوں کے باوجود میں سونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ دل چاہتا تھا کہ قدرت کے یہ حسین نظارے دیکھتے دیکھتے زندگی گزر جائے۔ ڈر لگتا تھا کہ آنکھیں بند کرنے کے بعد یہ نظارے کہیں گم نہ ہو جائیں۔ ویسے بھی ان جگہوں اور ان مقامات کو دوبارہ دیکھنا شاید ہی نصیب ہو اس لئے میں یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ حسین نظارے تھے کہ سلسلہ وار نگاہوں کے سامنے آتے چلے جا رہے تھے۔ ایک جیسے خوبصورت، ایک جیسے دلکش اور رنگ و بو کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے۔

پیرس سے سوئٹزر لینڈ کے بارڈر تک پہنچنے کے لئے قریباً آٹھ گھنٹے کی ڈرائیو تھی۔ تقریباً تمام سیاح رات دیر تک جاگ کر پیرس سے وداع ہونے کی تقریب مناتے رہے تھے۔ لہذا اب اپنی سیٹوں پر بیٹھے بیٹھے کچھ اُونگھ رہے تھے اور کچھ باقاعدہ سو رہے تھے۔ نیند کا خمار سبھی کی آنکھوں میں نظر آ رہا تھا۔ جانجی اور مشی حسبِ معمول ایک دوسرے سے چمٹے سو رہے تھے۔ حالانکہ رات کو وہ ہال میں نظر نہیں آئے۔ شاید ان کا تقریب منانے کا طریقہ الگ تھا۔ سبب کوئی بھی رہا ہو وہ بھی اردگرد کے نظاروں سے غافل بے خبر سو رہے تھے۔ تا ہم بھارتی خاندانوں کے بچے تر و تازہ لگ رہے تھے۔ وہ حسبِ معمول شرارتیں کر رہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ڈاکٹر رمیش ان کو آنکھیں دکھاتا اور سوئے ہوئے مسافروں کی طرف اشارہ کرتا تو وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو جاتے۔ چند ساعتوں بعد وہ پھر سے اٹھکھیلیاں کرتے نظر آتے۔ کسی بھی سیاح نے بچوں کی ان معصوم شرارتوں کا پورے سفر میں بُرا نہیں منایا۔ تمام سیاح ان بچوں سے شفقت اور محبت سے پیش آتے۔ یہ بچے میری اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے اور اب تک مجھ سے کافی بے تکلف ہو چکے تھے۔ میرے ساتھ اکثر شرارتیں کرتے رہتے تھے۔ میں بھی ان کی معصوم شرارتوں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ بلکہ گاہے بہ گاہے انہیں چھیڑ کر شرارت پر اُکساتا رہتا تھا۔

آج صبح نیند سے بوجھل آنکھیں اور ہاتھوں میں سوٹ کیس اٹھائے جب میں کوچ کے پاس پہنچا تو ذہن میں رات کے واقعات تازہ تھے۔ میں جولی کا ردِ عمل جاننا چاہتا تھا۔ ذہن میں کئی خدشات بھی کلبلا رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی کافی دن کا سفر باقی تھا۔ اپنے ہمسفروں خصوصاً اپنی ہم نشین کے ساتھ کسی بھی بدمزگی سے سفر کا مزہ کرکرا ہو سکتا تھا۔ جولی اپنا ہلکا سا سوٹ کیس اٹھائے آئی تو کافی حد تک نارمل نظر آ رہی تھی۔ سامان رکھوانے کے بعد وہ حسبِ معمول میرے ساتھ آ کر بیٹھی تو گڈ مارننگ کی رسمی علیک سلیک کے بعد چند منٹوں تک بالکل خاموش رہی۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور ہونٹوں پر کھیلنے والی مستقل مسکراہٹ بھی غائب تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے نظریں ملائے بغیر دھِیرے سے میرے کان کے پاس منہ کر کے ’’سوری‘‘ کہا اور پھر سر جھکا لیا۔ میں نے محض مسکرا دینے پر اکتفا کیا۔ یہ جان کر میرے ذہن سے بوجھ ہٹ گیا کہ جولی کو اپنی غلطی کا احساس ہے۔ میں نے اپنے آپ کو کبھی باہر کے نظاروں اور کبھی بچوں کی شرارتوں میں مصروف رکھا۔ دو گھنٹے بعد ہماری کوچ ایک خوبصورت سے کیفے کے سامنے جا کر رُکی۔ سیاح باہر نکل کر واش روم، کیفے اور کرنسی تبدیل کرنے والے کاؤنٹروں کی طرف چلے گئے۔ کافی کا گرم گرم کپ لے کر میں کیفے کے وسیع دالان کے ایک کنارے پر بچھے بنچ پر آ بیٹھا۔ سگریٹ سُلگا کر اور کافی کے گرم گرم گھونٹ حلق میں اتار کر میں نے نیند کو کافی حد تک جھٹک دیا اور تر و تازہ ہو گیا۔

تھوڑی دیر بعد ہی جولی کافی کا کپ اٹھائے میری طرف آتی نظر آئی۔ میرے پاس بیٹھ کر وہ چند لمحوں تک خاموشی سے میری آنکھوں میں جھانکتی رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں نمی سی اُترنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ نمی اس کی خوبصورت پلکوں پر اشکوں کی صورت میں نمودار ہو گئی۔ میں گھبرا سا گیا۔ ’’کم آن جولی! اپنے آپ کو سنبھالو‘‘

اس نے فوری رد عمل ظاہر کیا۔ اپنی آنکھیں صاف کیں۔ پہلا جملہ اُس کے منہ سے نکلا ’’تھینک یو طارق!‘‘

’’کس بات کا شکریہ ادا کر رہی ہو؟‘‘

’’شکریہ اس بات کا کہ تم نے ایک اچھا انسان ہونے کا ثبوت دیا اور میری مدہوشی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے رات جو کچھ کیا اس پر شرمندہ ہوں اور تم سے معافی مانگتی ہوں۔ اس وقت میں نشے کے زیرِ اثر تھی۔ امید ہے کہ تم مجھے معاف کر دو گے۔ میں ہرگز ایسی لڑکی نہیں ہوں۔ رات کو ماحول ہی ایسا بن گیا تھا۔ شراب کا نشہ، تمھاری ہلکی پھلکی باتیں اور مجھے اٹھا کر کمرے تک پہچانا۔ ان سب نے جیسے مجھے پاگل سا کر دیا تھا۔ لیکن تم نے جو کردار ادا کیا وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ ناقابلِ فراموش ہے۔ رات کو میں نے تمہیں بہت تنگ کیا۔ میں اس کے لیے ایک دفعہ پھر معافی مانگتی ہوں‘‘

میں نے جولی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو اس کا جسم قدرے کپکپاتا سا محسوس ہوا۔ اس کا چہرہ سامنے آیا تو میں نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا ’’جولی! جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ شکر ہے کہ صرف تم نشے میں تھیں میں نہیں۔ تا ہم رات کی بات کو بھول جاؤ اور سفر کو پہلے کی طرح انجوائے کرنے کی کوشش کرو‘‘

جولی میرے چہرے پر نظریں جمائے کافی دیر تک مجھے دیکھتی رہی۔ آخر میں گویا ہوئی ’’تم کتنے مختلف ہو۔ آج تک میرا کسی ایسے مرد سے واسطہ نہیں پڑا‘‘

اتنی دیر میں جان آتا نظر آیا۔ جولی نے واش روم جانا تھا۔ وہ چلی گئی۔ جان میرے پاس بیٹھ کر بولا ’’تو آخر تم نے اس اُڑتی چڑیا کو اپنے دام میں پھنسا ہی لیا۔ بہت اچھا کیا۔ اس سے تمھارا سفر اور بھی خوشگوار ہو جائے گا۔ ویسے میرے لئے اب مولی ہی بچی ہے۔ میں اس پر ٹرائی جاری رکھتا ہوں۔ ہو سکتا ہے بات بن جائے‘‘

’’جان تمھارے پاس عورت کے علاوہ کوئی اور بھی موضوع ہے بات کرنے کے لئے یا نہیں‘‘ میں نے قدرے جھنجلا کر کہا

’’عورت نہیں میری جان! لڑکیاں کہو! کیونکہ میں نے زندگی میں کبھی تیس سال سے زیادہ عُمر کی لڑکی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘

’’تیس سال کی عورت ہی ہوتی ہے لڑکی نہیں۔ بلکہ اگر پاکستان جیسے کسی ملک میں ہو تو چھ سات بچوں کی ماں بن کر بڑھاپے کی جانب مائل ہو چکی ہوتی ہے۔ اس میں لڑکپن تو در کنار جوانی کے آثار بھی غائب ہو چکے ہوتے ہیں‘‘

’’کچھ بھی کہو! عورتوں کو جتنا میں جانتا ہوں اتنا تم نہیں جان سکتے۔ کیونکہ اتنی مختلف عورتوں سے شاید ہی دنیا میں کسی مرد کے تعلقات رہے ہوں۔ ہرقسم، ہر رنگ، ہر قوم، ہر نسل، ہر زبان اور ہر مزاج کی عورت کو میں نے بھگتا ہے۔ مجھے تو عورت کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنی چاہیے بشرطیکہ کوئی یونیورسٹی اس موضوع پر ڈگری جاری کرتی ہو‘‘

یہ جان کا من پسند موضوع تھا۔ وہ اس موضوع پر بولتا تھا تو پھر بولتا ہی چلا جاتا تھا۔ میں نے اُس کی زبان کو بریک لگانے کی غرض سے کہا ’’لگتا ہے ساری زندگی تم نے اسی کام میں صرف کی ہے۔ اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دو کہ اب تک کتنی عورتوں سے تمھارے تعلقات رہے ہیں‘‘

’’طارق! تم نے یہ سوال مذاق میں کیا ہے لیکن میں بالکل سچ بتاؤں گا۔ شاید تمھیں میری بات کا یقین نہ آئے۔ میں نے اپنی ڈائری میں ان تمام عورتوں کے نام بھی نوٹ کئے ہوئے ہیں جن سے میرے جسمانی تعلقات رہے ہیں۔ ان کی کل تعداد پانچ سو اکیس ہے۔ ان میں سے اکثر سے میں دوسری بار نہیں ملا۔ کیونکہ میں وہ بھنورا ہوں جو ایک پھول کا رس دوبارہ نہیں چوستا‘‘

’’پانچ سو اکیس!‘‘میں نے بے یقینی سے کہا ’’یہ تو بہت بڑی تعداد ہے۔ اتنی تو وسیم اکرم کی وکٹیں نہیں ہیں حالانکہ وہ ایک اننگز میں پانچ پانچ وکٹیں لیتا رہا ہے۔ اب یہ بھی بتا دو کہ یہ سب تمھاری دوست تھیں یا ان میں وہ بھی شامل تھیں جن کا جسم اور وقت زرِ مبادلہ کے عوض خریدا جاتا ہے‘‘

’’زیادہ تر وہی تھیں کیونکہ اب بھی ہفتے میں کم از کم دو تین مرتبہ میں سڈنی کے کسی نہ کسی عشرت کدے کا رُخ ضرور کرتا ہوں۔ میری کمائی کا زیادہ تر حصہ اب تک اسی کام میں صرف ہوا ہے‘‘

’’بہت اچھا مصرف نکالا ہے تم نے اپنی کمائی کا جان۔ لیکن کب تک ایسا چلے گا۔ تمھیں ایک جگہ ٹھہرنے کا خیال کبھی نہیں آیا؟ اپنی بیوی اور بچوں کا تصور تمھارے دل میں کبھی نہیں اُبھرا؟ ایک ایسے گھر کا نقشہ کبھی تمھاری آنکھوں میں نہیں آیا جس میں ایک پیار کرنے والی شریک حیات تمھاری راہ دیکھتی ہو۔ معصوم بچے پیاری بھری نظروں اور توتلی زبان سے تمھیں ڈیڈ کہہ کر پکاریں اور تمھاری دِن بھر کی تھکاوٹ انہیں دیکھ اور چھو کر زائل ہو جائے‘‘

اس طویل سوال کے بعد میں نے جان کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھا تو چونک گیا۔ کیونکہ جان کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ وہ جیب سے ٹشو پیپر نکال کر ان اشکوں کو صاف کرنے لگا۔ لیکن اس کی آنکھیں ساون بھادوں کی طرح جیسے برسنے پر آ گئی تھیں۔ چہرہ شدتِ جذبات سے سُرخ اور آنسوؤں سے بھری آنکھیں مزید سُرخ نظر آ رہی تھیں۔ جان جیسے مرد کا یہ ردِ عمل میرے لئے قطعی غیر متوقع تھا۔ صرف چند منٹ پہلے کا کھلنڈرا جان اور یہ جان ایک دوسرے سے بے حد مختلف تھے۔ اس غیر متوقع صورتِ حال پر میں خود بھی حیران رہ گیا۔ تا ہم میں نے اندازہ لگا لیا کہ جانے انجانے، میں نے جان کی کسی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں اسی جگہ اسی بنچ پر جان دوسرا فرد تھا جو میرے سامنے اشکوں کے ذریعے اپنے دل کا غبار دھو رہا تھا۔ اس مختصر وقت میں مجھے دوسری بار کسی کو تسلی دینے کی ضرورت آن پڑی تھی۔ میں نے جولی کی طرح اب جان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ’’سوری جان! ایسا لگتا ہے میری کسی بات نے تمھارے جذبات اور تمھارے اندر سوئے ہوئے غموں کو بیدار کر دیا ہے۔ میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ اپنے آپ کو سنبھالو۔ ہماری کوچ جانے کے لئے تیار کھڑی ہے۔ وہ ہمیں اشارے کر رہے ہیں۔‘‘

جان نے اپنی آنکھیں اچھی طرح صاف کیں۔ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور جولی کی طرح ایک ہی لفظ کہا ’’سوری‘‘

ایسے لگتا تھا کہ آج ’سوری ڈے‘ منایا جا رہا ہے۔ صبح سے ہر کوئی سوری کہے جا رہا تھا۔ ہم دونوں کوچ میں سوار ہوئے تو کوچ فوراً ہی وہاں سے چل پڑی۔ کیونکہ پہلے ہی خلافِ معمول اُس نے یہاں زیادہ قیام کر لیا تھا۔ شاید کافی مسافروں کو کرنسی تبدیل کرانی تھی اس لئے۔ اپنی سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے جان نے میرے کان کے پاس منہ لے جا کر ہولے سے کہا ’’تمھارے سوال کا جواب میرے اوپر قرض ہے۔ میں جلد ہی تمھیں یہ قرض لوٹا دوں گا‘‘

یہ کہہ کر وہ تیزی سے اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔

فرنچ اور سوئس بارڈر پر ہماری کوچ چند منٹوں کے لئے رُکی۔ ایک مختصر سی عمارت تھی۔ دو افراد پر مشتمل مختصر سے عملے نے ہمارے پاسپورٹ بھی چیک نہیں کئے اور ہمیں دنیا کے خوبصورت ترین ملک میں جانے کی بخوشی اجازت دے دی۔ در اصل ٹریفالگر ایک مستند اور معروف ٹریولنگ کمپنی تھی۔ ہماری گائیڈ نے ٹورسٹوں کے ناموں کی جو فہرست سوئس امیگریشن کے عملے کو دی۔ انہوں نے بلا حیل و حجت اس پر یقین کیا اور ہمیں جانے دیا۔


سوئس، کاروباری ذہن رکھنے والی قوم



سارا یورپ ہی قدرتی حُسن سے مالا مال ہے لیکن سوئٹزر لینڈ کے حصے میں قدرت کی بے پناہ فیاضی آئی ہے۔ جدھر نظر دوڑاؤ انتہائی خوبصورت انتہائی سر سبز اور گل رنگ نظارے پھیلے نظر آتے ہیں۔ اِس ملک میں قدرت کی مہربانیاں عام ہیں۔ بارڈر کراس کرتے ہی ہماری کوچ ایک طویل سُرنگ میں داخل ہو گئی۔ یہ سُرنگ اس وقت زیر مرمت تھی اس لئے ٹریفک کافی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ ہماری گائیڈ نے بتایا کہ سال کے تقریباً آٹھ دس ماہ برف اور بارش کی وجہ سے سڑکوں سرنگوں اور عمارتوں کی تعمیر اور مرمت کا کام نہیں ہو پاتا۔ ان دنوں موسم اچھا ہونے کی وجہ سے ہر طرف یہ کام ہوتا نظر آئے گا۔

میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کو قدرت نے اتنا اچھا موسم دیا ہے کہ سال کے بارہ مہینے سڑکوں کی مرمت کی جا سکتی ہے لیکن وہاں سڑکیں پھر بھی ٹوٹی رہتی ہیں۔ سالہا سال تک مرمت نہیں ہوتی۔ اگر کہیں کام شروع ہوتا بھی ہے تو وہ مہینوں اور سالوں تک پھیل جاتا ہے۔ پتھر اور مٹی سڑک پر بکھرے رہتے ہیں۔ سڑک ناقابلِ استعمال بنی رہتی ہے۔ گاڑیاں مٹی سے اٹی اور پتھروں پر اُچھلتی ہوئی ایسے چلتی ہیں کہ مسافروں کا اِنجر پنجر ہل کر رہ جاتا ہے۔ مہینوں اور سالوں کے بعد تعمیر مکمل ہوتی ہے تو وہ اتنی نا پائیدار ہوتی ہے کہ تعمیر کے فوراً بعد سڑک پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہے۔ کئی سڑکیں آگے سے تعمیر ہو رہی ہوتی ہیں اور پیچھے سے تعمیر شدہ حصہ پھر پہلے جیسا شکستہ اور ٹوٹا پھوٹا نظر آتا ہے۔ اس طرح زیادہ تر سڑکیں اور مقامی گلیاں پختہ ہونے کے بجائے پتھروں اور گڑھوں کی وجہ سے ناقابلِ استعمال رہتی ہیں۔ غریب ملک ہونے کی وجہ سے حکومت سڑکوں کی مرمت کے لئے زیادہ فنڈ فراہم نہیں کر سکتی۔ مگر جہاں حکومت اس کام کے لئے گرانٹ دیتی ہے وہاں اس کا زیادہ تر حصہ نوکر شاہی اور سیاسی مگر مچھوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ جو بچتا ہے وہ ٹھیکیدار ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مشکلوں سے حاصل کی ہوئی گرانٹ کا عشرِ عشیر ہی اصل پراجیکٹ پر صرف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سڑک، گلی اور پُل پائیدار، مضبوط اور طویل العُمر نہیں ہوتا۔ غریب عوام پتھروں اور گڑھوں کو پھلانگتے عُمریں گزار دیتے ہیں۔

اس دن صبح پیرس سے روانگی کے وقت سے سوئٹزر لینڈ کے پر فضاء مقام لیوزرن پہنچنے تک تمام دن وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ میرے سفرِ یورپ کی پہلی باقاعدہ بارش تھی۔ ورنہ اس سے پہلے خلافِ توقع موسم بہت اچھا رہا تھا۔ حتیٰ کہ لندن کے عموماً روتے بسورتے موسم کے باوجود میرے قیامِ لندن کے دوران بہت کم بارش ہوئی۔ زیادہ تر دھوپ نکلی رہی۔ اس دن پیرس سے سوئٹزر لینڈ کے سفر کے دوران بھی بارش مسلسل نہیں تھی بلکہ تھوڑی دیر بارش ہوتی اور پھر اچانک مطلع صاف ہو جاتا۔ دھوپ ایسے پھیل جاتی جیسے مدتوں سے یہاں بارش نہ ہوئی ہو۔ تھوڑی دیر بعد ہی کہیں سے بادل نمودار ہوتے ہلکی ہلکی پھوار برساتے اور غائب ہو جاتے۔ اس طرح وہ پورا دن اسی آنکھ مچولی میں گزرا۔ تا ہم شام کے وقت جب ہم لیوزرن کے علاقے میں پہنچے تو مطلع مکمل طور پر صاف ہو چکا تھا۔ آسمان انتہائی صاف اور نیلا دکھائی دے رہا تھا۔

اس پہاڑی علاقے کی خوبصورتی ناقابلِ بیان اور اس کا قدرتی حسن آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا تھا۔ چمکتی سڑک کے دونوں جانب اونچا نیچا پہاڑی سلسلہ اور نشیب میں جنت نظیر وادیاں قدرت کی بھر پور فیاضی کی عکاسی کر رہی تھیں۔ سبزہ، پھول، پودے، پھلوں سے لدے درخت، بھوری بھوری گائیں، برف کے بڑے بڑے گولوں سے مشابہ سفید سفید بھیڑیں اور اُن کے پیچھے بھاگتے گول مٹول سے سوئس بچے۔ ایسے منظر تھے کہ انسان نظریں جھپکنا بھول جائے۔ ایسے لگتا تھا کہ قدرت نے اس علاقے پر اپنا خصوصی لطف و کرم کیا ہے اور انہیں خوبصورتی کا خزانہ دل کھول کر عنایت کیا ہے۔ سوئس باشندے خود بھی بہت خوبصورت اور بھولے بھالے سے ہیں۔ خصوصاً سوئس بچے اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر خود بخود نظروں میں پیار اُتر جاتا ہے۔ سوئس گائیں بھی منفرد اور خوبصورت ہیں۔ جولائی کے اس مہینے میں پورے یورپ میں پھُولوں کی بہتات نظر آئی لیکن سوئٹزرلینڈ میں تو جیسے رنگ برنگے پھُولوں کا سیلاب آیا ہوا تھا۔

ہماری کوچ جب اُن جنت نظیر وادیوں میں گزر رہی تھی تو ہر طرف پھیلے رنگ برنگے پھُولوں کے قطعات، پہاڑیوں پر سرسبز و شاداب گھنے درخت، نشیب میں سبز گھاس چرتی ہوئی خوبصورت سوئس گائیں اور پہاڑیوں کی ڈھلوانوں کے ساتھ ساتھ بنے ہوئے دِلکش مکانات جنت کا نقشہ کھینچ رہے تھے۔ سیاح یہ حسین مناظر پوری دلچسپی اور محویت سے دیکھ رہے تھے۔ جولی جو دن کے شروع کے حصے میں خاموش سی تھی اب خوب چہک رہی تھی۔ جب ہم ان وادیوں سے گزر رہے تھے تو کہنے لگی ’’ہم نے ٹریفالگر کو جو رقم ادا کی ہے آج اُس کی قیمت وُصول ہو گئی‘‘

باقی سیاح بھی اپنے اپنے انداز میں سوئٹزر لینڈ کے اس جنت نظیر خطے کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے۔ اُدھر ہماری گائیڈ مولی دلچسپ انداز میں سوئٹزرلینڈ اور اس کے باسیوں کے بارے میں بتا رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی ’’ویسے تو یورپ کے دوسرے ملکوں اور علاقوں میں بھی قدرتی حُسن کی کمی نہیں ہے لیکن سوئس باشندوں کو خدا نے دل کھول کر اس نعمت سے نوازا ہے۔ ان کے پہاڑ قیمتی درختوں سے مالا مال، ان کی زمینیں سونا اگلنے والی، ان کی گائیں خوبصورت اور بہت سا دودھ دینے والی، ان کی بھیڑیں دنیا کی بہترین اُون فراہم کرنے والی اور ان کی زمین کی تہیں پیش قیمت دھاتوں سے بھری پڑی ہیں۔ خود سوئس باشندے بھی قدرت کے بخشے حُسن سے مالا مال ہیں۔ غرضیکہ دنیا کی کوئی نعمت نہیں جو سوئس باشندوں کو حاصل نہ ہو‘‘

مولی نے حسبِ معمول جگہ اور وقت کے مطابق یہ لطیفہ بھی سنایا۔ کہنے لگی ’’کہتے ہیں کہ جب خدا نے سوئس زمین پر اپنی نعمتیں تخلیق کیں تو اُس نے سوئس باشندوں سے پوچھا ’’تمھیں کس قسم کا مُلک درکار ہے؟‘‘

سوئس لوگوں نے کہا ’’ایسا ملک جو سر سبز و شاداب ہو۔ جہاں پانی، درخت، سبزہ، پھول غرضیکہ سب کچھ ہو‘‘

خدا نے ان کی بات مان لی اور ان سب نعمتوں سے انہیں نواز دیا۔ اور پھر ان سے پوچھا ’’اور کچھ؟‘‘

سوئٹزرلینڈ کے باشندوں نے کہا ’’اے خدا! ہمیں دنیا کی خوبصورت ترین قوم بنا دے‘‘

خدا نے اُن کی یہ بھی سن لی اور انہیں خوبصورت جسم اور خوبصورت چہرے عنایت کر دیے۔ پھر ان سے دریافت کیا ’’اس کے علاوہ بھی کوئی خواہش ہو تو وہ بھی بیان کر دو‘‘

سوئس لوگوں نے کہا ’’یا خدا! جہاں تم نے ہماری تمام خواہشیں پوری کر دیں وہاں یہ بھی کر دو کہ ہماری بھیڑیں اور گائیں بھی سب سے دلکش اور سب سے زیادہ اُون اور دودھ دینے والی ہوں‘‘

خدا جو اس قوم پر خصوصی مہربان تھا اس نے سوئس باشندوں کی یہ آخری خواہش بھی پوری کر دی۔ اس کے بعد خدا نے کہا ’’میں نے تمھاری ساری خواہشیں پوری کر دیں اور تمھیں ہر نعمت سے نواز دیا۔ اس کے بدلے مجھے گائے کے دودھ کا ایک گلاس دے دو۔ سوئس جو اپنے کاروباری ذہن کے لئے مشہور ہیں انہوں نے فوراً کہا ’’پہلے دو ڈالر ادا کرو پھر دُودھ دیں گے‘‘

سوئٹرز لینڈ میں چار زبانیں جرمن، اٹالین، فرنچ اور انگریزی بولی جاتی ہیں۔ زیادہ تعداد جرمن زبان بولتی ہے۔ اُن کی جرمن کتابی جرمن سے قدرے مختلف ہے۔ سوئس باشندے تعصب سے عاری اور بھولے بھالے سے ہیں۔ انہیں جنگ سے سخت نفرت ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی اپنی کوئی فوج نہیں ہے اور نہ ہی اُن کا کسی ملک سے کوئی تنازعہ ہے۔ بلکہ سوئس دنیا بھر میں ہونے والی ہرجنگ کے مخالف ہیں۔ سوئٹزرلینڈ ایک پُر امن اور پر سکون ملک ہے۔ ان کے باشندے زندگی کو اس کی مسرتوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ پر لطف انداز میں گزارتے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ ان کے اپنے باشندوں کے علاوہ دنیا بھر کے کالے دھن والوں، کرپٹ سیاست دانوں، آمروں اور ٹیکس سے بچنے والوں کی بھی جنت ہے۔ بہت سے ملکوں کے کرپٹ بھگوڑے اپنے ملکوں سے لوٹی کھسوٹی دولت سوئس بنکوں میں جمع کراتے ہیں۔ یہ اکاؤنٹ نہایت محفوظ ہوتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے حکومتی دباؤ کے باوجود کبھی ظاہر نہیں کئے جاتے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے دنیا بھر کی دولت کا ایک بڑا حصہ سوئس بنکوں میں ہر وقت موجود رہتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ قدرت کی بخشی دوسری تمام نعمتوں کے ساتھ ساتھ اس مد میں بھی بہت کچھ کماتا ہے۔ اس لئے سوئٹزرلینڈ بہت خوشحال ملک ہے۔ فوج اور دیگر دفاعی اخراجات بھی نہیں ہیں۔ اس لئے یہ ساری دولت عوام پر خرچ ہوتی ہے۔ سوئس عوام زندگی کی تمام نعمتوں اور خوبصورتیوں سے فیضیاب ہو رہی ہے۔ غرضیکہ قدرت نے اِس خطے اور اس کے باشندوں کو قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ دولت سے بھی دل کھول کر نوازا ہے۔ دولت اور خوشحالی سوئٹزرلینڈ میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ لوگوں کے چہروں سے صحت و خوشی بن کر، شاندار اور آرام دہ مکانات کی شکل میں، قیمتی گاڑیوں کی صُورت میں اور عوام کو حاصل ہر سہولت کی شکل میں۔ کاش ساری دنیا سوئٹرز لینڈ والے اصولوں پر عمل کرنا شروع کر دے۔ اگر ایسا ہو جائے تو دُنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔







لیوژرن (Lucerne )


اپنا آخری سینٹ بھی خرچ کر کے مروں گی



لیوژرن ایک چھوٹا سا پُر فضا شہر ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ شہر سر سبز و شاداب اور رنگا رنگ پھولوں سے مزین ہے۔ یورپ کی روایت کے مطابق پرانے مگر خوبصورت مکانوں کی کھڑکیوں کی کارنسوں پر ان دنوں رنگارنگ پھولوں کی بہار سی آئی ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں سڑکوں کے کناروں پر، گھروں کے سامنے، دکانوں اور ریستورانوں کے آگے غرضیکہ ہر طرف پھُول ہی پھول مسکرا رہے تھے۔

ہم اپنے ہوٹل کی بجائے شہر کے وسط میں واقع ایک خوبصورت جھیل کے کنارے پر جا کر رُکے۔ اس جھیل کی سیر کرانے کے لئے ایک بڑی سی فیری ہمارے لئے پہلے سے بُک تھی۔ فشر اور مولی ہمیں فیری پر بٹھا کر بس لے کر ہوٹل چلے گئے۔ انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آ کر ہمیں ہوٹل لے جانا تھا۔ سیاح فیری پر سوار ہو گئے۔ فیری اس خوبصورت شہر کے بیچوں بیچ نیلے شفاف پانی پر تیرنے لگی۔ وہ نہایت ہی دلفریب منظر تھا۔ اس وقت علامہ اقبالؔ کے یہ دو شعر اس خوبصورت منظر کے حسبِ حال تھے۔

شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر

تھی نظر حیران کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب!

جیسے گہوارے ہر سو جاتا ہو طفلِ شیر خوار

موجِ منظر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب

جھیل کے ایک سمت سر سبز و شاداب پہاڑی اور دوسری جانب ایک طویل پارک تھا۔ جو جھیل کے ساتھ ساتھ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ پارک میں سبز گھاس کے ساتھ ساتھ پھولوں کے قطعات نظروں کو فرحت اور دل و دماغ کو تازگی بخش رہے تھے۔ پارک کے پیچھے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سرخ ٹائلوں والے دلکش مکانات بنے ہوئے تھے۔ پارک میں استادہ بنچوں پر اکا دکا لوگ بیٹھے جھیل، اس میں چلنے والی کشتیاں اور دوسری جانب کی پہاڑی کا نظارہ کر رہے تھے۔ کہیں کہیں رنگ برنگے ملبوسات میں خوبصورت بچے پارک میں کھیلتے نظر آ رہے تھے۔

فیری والوں نے خیر سگالی کے طور پر مہمانوں میں مفت بیئر اور دوسرے مشروبات تقسیم کئے۔ دن بھر کے پر تکان سفر کے باوجود سیاح ان دلفریب نظاروں سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے تھے۔ خصوصاً ایک دو بیئر پینے کے بعد ہلکی سی ترنگ میں آ کر خوب چہک رہے تھے۔ فیری دو منزلہ تھی۔ نیچے کی منزل شیشے کی دیواروں میں بند تھی۔ اندر ائیر کنڈیشنر آن تھا۔ لیکن ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریباً سبھی سیاح دوسری منزل یعنی چھت پر جا بیٹھے جو مکمل طور پر کھلا تھا۔ صرف کناروں پر ریلنگ لگی تھیں۔ چھت پر بھی کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے۔ بیئر اور کولڈ ڈرنک کے علاوہ نیچے کافی مشین بھی موجود تھی۔

میں نے وہاں سے کافی لی اور چھت پر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر دھوئیں کے مرغولے اُڑانے لگا۔ جوزی دو ہی بیئر کے بعد اٹھ کر ناچنے لگی۔ جسٹن تالیاں بجا کر اس کا ساتھ دے رہا تھا۔ جوزی کی دیکھا دیکھی کئی مرد اور عورتیں اٹھ کر فیری کی چھت پر تھرکنے لگے۔ یہ سچ ہے کہ ماحول کی خوبصورتی انسان کے دل و دماغ پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایسا ہی ماحول خوبصورت شعروں اور دلفریب دھُنوں کو تخلیق کرنے کا باعث بنتا ہے۔ لیوزرن کی یہ خوبصورت جھیل، اُجلی اور نکھری نکھری نرم رو پہلی دھوپ، ہلکی سی خنک ہوا اور اردگر کے ہوش ربا نظارے اچھے بھلے سنجیدہ دانشور کو بھی ترنگ میں لانے کے لئے کافی تھے۔ جبکہ یہاں تو پہلے ہی سب جولی موڈ میں تھے۔

میرے ساتھ نیوزی لینڈ سے آنے والی ادھیڑ عُمر عورت مارگریٹ بیٹھی تھی۔ جس نے سرخ بلا ؤز اور ٹائٹ جینز پہنی ہوئی تھی۔ مارگریٹ سے ہیلو ہائے کے علاوہ میری زیادہ بات نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عام طور پر چند مخصوص بڈھے اور بڈھیوں کے ساتھ ہی نظر آتی تھی اور شام ہوتے ہی اپنے کمرے میں آرام کرنے چلی جاتی تھی۔ اس دن فیری پر اس کے ہاتھ میں بھی کوک ملی اسکاچ کا کین تھا۔ وہ ان بوڑھے بوڑھیوں کے بیچ سے اٹھی اور سیدھی میرے بنچ پر آ بیٹھی ’’طارق! تمھارے پاس ایک فالتو سگریٹ ہو گی‘‘

میں نے سگریٹ نکال کر اُسے دی تو کہنے لگی ’’میں تمھیں بتاؤں۔ میں کبھی کبھار ہی سگریٹ پیتی ہوں۔ یہ شاید دو ہفتے کے بعد پہلا سگریٹ ہے‘‘

میں نے کہا ’’اچھی بات ہے۔ تمھیں زیادہ سگریٹ پینے کی عادت نہیں ہے۔ لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ سگریٹ کی طلب تمھیں کب محسوس ہوتی ہے۔ جب اداس ہو یا جب خوش ہو؟‘‘

’’جب خوش ہوں جیسے آج! جب اُداس ہوتی ہوں تو زیادہ پیتی ہوں، زیادہ کھاتی ہوں اور زیادہ سوتی ہوں‘‘

’’آج اتنی خوش کیوں ہو؟‘‘

’’اس لئے کے سب خوش ہیں۔ یہ اتنی خوبصورت جگہ ہے کہ یہاں تو ناچنے گانے کو دِل چاہتا ہے۔ تمھیں یہ جگہ کیسی لگی؟‘‘مارگریٹ کے چہرے سے مسرت عیاں تھی۔

’’اچھی! بہت اچھی! آپ پہلے یہاں آئی ہیں؟‘‘

’’نہیں! یہاں پہلی دفعہ آئی ہوں۔ تا ہم پہلے کئی دفعہ یورپ آ چکی ہوں۔ بلکہ میں تو تمھارے ملک پاکستان بھی کئی مرتبہ گئی ہوں‘‘ مارگریٹ نے بتایا

’’اچھا! گھومنے پھرنے یا کام کی وجہ سے؟‘‘

نہ گھومنے پھرنے اور نہ ہی کام کی وجہ سے، بلکہ کرکٹ دیکھنے!‘‘

’’کرکٹ دیکھنے؟‘‘ میں نے حیرانگی سے کہا

’’ہاں کرکٹ دیکھنے! میں کرکٹ کی بہت بڑی فین ہوں۔ خصوصاً نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کی تو عاشق ہوں۔ اس لئے جہاں جہاں ہماری ٹیم کرکٹ کھیلنے جاتی ہے میں بھی وہیں جاتی ہوں۔ جتنا عرصہ کرکٹ ٹیم وہاں رہتی ہے اتنا عرصہ میں بھی وہیں گزارتی ہوں‘‘

میں نے دلچسپی سے مارگریٹ کی طرف دیکھا ’’کیا واقعی! اس طرح تو تمھارا تقریباً آدھا سال نیوزی لینڈ کے باہر ہی گزرتا ہو گا‘‘

’’آدھا سال تو نہیں تاہم دو تین مہینے باہر ہی گزارتی ہوں۔ اس سلسلے میں پاکستان، ہندوستان، سری لنکا، ویسٹ انڈیز، برطانیہ، ساؤتھ افریقہ اور شارجہ میں کافی وقت گزار چکی ہوں‘‘

’’تم نے تو ریکارڈ قائم کر دیا مارگریٹ! لیکن تمھارا ذریعہ روزگار کیا ہے؟ چھ چھ ماہ فارغ رہتے ہوئے سفر کے اتنے زیادہ اخراجات کہاں سے پورے کرتی ہو‘‘ میں مارگریٹ سے متاثر ہو کر حیرانگی سے پوچھ رہا تھا۔

’’چھ ماہ نہیں! میں پورا سال ہی فارغ رہتی ہوں یعنی میں کام نہیں کرتی، سوائے اس سیر سپاٹے کے۔ جہاں تک ذریعہ روزگار کا تعلق ہے میرا خاوند میرے لئے اتنا کچھ چھوڑ کر مرا ہے کہ مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں‘‘

’’اچھا! تمھارا خاوند بہت پیسے والا تھا۔ ویسے وہ کب اس دنیا سے رخصت ہوا تھا؟‘‘

’’دس سال پہلے! جہاں تک پیسے کا تعلق ہے اس نے میرے رہائشی مکان کے علاوہ سرمایہ کاری پر مبنی دو مکان اور کافی نقد رقم چھوڑی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی حادثاتی موت کے بیمے کے طور پر بھی مجھے ایک ملین ڈالر ملا ہے؟‘‘

’’اس کی موت کیسے ہوئی تھی؟‘‘ میں نے اپنی جرح جاری رکھی

’’کار ایکسیڈنٹ میں! ایک ٹرک نے کار کو اس بری طرح ٹکر ماری کہ میرا خاوند جائے حادثہ پر ہی فوت ہو گیا‘‘

’’اوہ! افسوس ہوا یہ سن کر! مارگریٹ تم نے دوسری شادی نہیں کی‘‘

’’نہیں شادی تو نہیں کی لیکن میرا بوائے فرینڈ ہے۔ تاہم ہم اکھٹے نہیں رہتے۔ ہفتے میں ایک آدھ بار مل لیتے ہیں‘‘

’’لگتا ہے تمھیں کرکٹ کا بہت شوق ہے؟‘‘ میں نے واپس کرکٹ کی طرف آتے ہوئے کہا

’’ہاں! کرکٹ کی تو میں دیوانی ہوں۔ اسی بہانے ان ممالک کی سیر بھی ہو جاتی ہے۔ ویسے مجھے لاہور بہت پسند ہے‘‘

’’کوئی خاص بات لاہور کی جو تمھیں پسند آئی ہو‘‘

’’رونق بہت ہے وہاں۔ وہاں بازار میں چلے جائیں تو ہر طرف کھانے پینے کی اتنی چیزیں ہوتی ہیں۔ ان کی خوشبوئیں ہر طرف بکھری ہوتی ہیں۔ مٹھائیاں آپ کے سامنے بن رہی ہوتی ہیں۔ مشروبات تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب میرے لئے انتہائی دلچسپی کی چیزیں ہیں۔ کیونکہ نیوزی لینڈ میں ایسا نہیں ہوتا۔ کھانے پینے کی کوئی بھی چیز گاہکوں کے سامنے تیار نہیں ہوتی۔ بلکہ اندر سے تیار ہو کر باہر لائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کے لوگ بھی بہت مخلص، بھولے بھالے اور مہمان نواز ہیں‘‘

’’شکریہ مارگریٹ! لاہور کے علاوہ تم نے پاکستان کے کون کون سے شہر دیکھے ہیں؟‘‘

’ کراچی، ملتان، راولپنڈی، فیصل آباد، حیدرآباد، پشاور اور اسلام آباد میں بھی میں نے کافی وقت گزارا ہے۔ ملتان میں بھی ہم سیاحوں کی دلچسپی کی کافی چیزیں ہیں۔ جس میں مٹھائیاں، چوڑیاں، زیورات نوادرات، ہاتھوں سے کڑھائی کئے ہوئے خوبصورت ملبوسات اور دیدہ زیب ظروف شامل ہیں۔ پشاور، حیدر آباد، کراچی اور راولپنڈی بھی مختلف دلچسپیوں کے حامل شہر ہیں۔ میں جب بھی وہاں گئی خوب لطف اندوز ہوئی اور پھر جانے کو دل چاہا‘‘

پاکستانیوں کی کوئی خاص بات جو تمھیں پسند آئی ہو؟‘‘ میں نے اپنا انٹرویو جاری رکھا

’’مہمان نوازی! پاکستانی بہت مہمان نواز ہیں۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اور کوچ وغیرہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے کئی غیر سرکاری دعوتوں میں مجھے بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان کھلاڑیوں کی بلکہ ہم سب کی بہت آؤ بھگت ہوتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ غیر حکومتی ادارے اور افراد نجی سطح پر دعوتیں کرتے ہیں اور دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ بلکہ آسٹریلیا اور یورپ میں یہ رواج بالکل نہیں ہے‘‘

مارگریٹ کی زبان سے اپنے وطن کی تعریف سن کر مجھے دلی مسرت ہو رہی تھی۔ یہ سچ ہے کہ ہمیں پاکستان یا پاکستانیوں کے منفی پہلو تو یاد رہتے ہیں لیکن مثبت پہلوؤں کو اکثر فراموش کر دیتے ہیں۔ لیکن مارگریٹ نے اپنے بے لاگ تبصرے میں اسی مثبت پہلو کی طرف اشارہ کیا تھا۔ میں نے مارگریٹ کے انٹرویو کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا ’’مارگریٹ! تم تو صرف کرکٹ ٹیم کے ساتھ ملک سے باہر جاتی ہو پھر ہمارے ساتھ اس دورے پر کیسے نظر آ رہی ہو؟‘‘

’’اس لئے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کافی عرصے سے کسی دورے پر نہیں گئی اور میں گھر میں پڑے پڑے بور ہو رہی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ، جرمنی اور ہالینڈ کو میں نے پہلے اچھی طرح نہیں دیکھا تھا۔ میں نے چاہا یہ خواہش بھی پوری کر لوں۔ اس کا اپنا مزہ ہے۔ دیکھو نا! کتنا خوبصورت منظر ہے۔ کتنی حسین جگہ ہے‘‘

’’ہاں! واقعی یہ علاقہ قدرتی حُسن سے مالا مال ہے۔ حالانکہ پاکستان اور آسٹریلیا میں بھی بہت خوبصورت جگہیں ہیں۔ لیکن اس سے پہلے اتنا خوبصورت منظر میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ تم نے دیکھا ہے؟‘‘

’’ہاں! نیوزی لینڈ میں بھی قدرت نے ایسی خوبصورتی اور حُسن دل کھول کر عنایت کیا ہے۔ نیوزی لینڈ میں کئی جگہوں پر ایسے مناظر میں نے دیکھے ہیں۔ لیکن یہاں آپ سب لوگوں کے ساتھ اور اتنے اچھے موسم میں لیوزرن کی یہ شام یقیناً میری زندگی کی ناقابلِ فراموش شام ہے‘‘ مارگریٹ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’اس سیاحتی دورے پر آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جوں جوں میری زندگی کی شام قریب آ رہی ہے توں توں میں زندگی کی ہر رعنائی اور ہر حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ کوئی خواہش، کوئی تمنا دل میں لے کر نہ مروں۔ ویسے بھی یہ دولت میری ہے۔ میں اسے دوسروں کے لئے کیوں چھوڑ کر مروں۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنی دولت کا آخری سینٹ بھی خرچ کر کے مروں‘‘

’’مارگریٹ! تم تو خواہ مخواہ ہی مرنے کی باتیں کر رہی ہو حالانکہ تمھاری عمر ایسی نہیں ہے۔ ابھی تو نصف صدی مزید جیو گی‘‘

’’نہیں طارق! میں پینسٹھ کی ہو چکی ہوں۔ اگر دس پندرہ سال اور جی لیا تو غنیمت ہے۔ ویسے میں نے دس سال کا بجٹ بنایا ہوا ہے۔ اگلے دس سال میں یہ ساری دولت اور جائیداد اپنے اوپر خرچ کر دوں گی‘‘

’’اگر دس سال کے بعد زندہ رہی تو پھر دولت کے بغیر کیا کرو گی؟‘‘

’’اس وقت تک اگر میں زندہ ہوئی بھی تو بستر پر ہوں گی۔ لہذا میرے لئے بہترین جگہ نرسنگ ہوم ہو گی۔ ساری زندگی میں نے حکومت کو ٹیکس ادا کیا ہے آخر اس کے استعمال کا بھی تو مجھے حق ہے‘‘

مارگریٹ نے نہ صرف مرنے سے پہلے اپنی دولت کو خرچ کرنے کا پورا پروگرام بنایا ہوا تھا بلکہ حکومت کو ادا کیا ہوا ٹیکس بھی وصول کرنے کے چکر میں تھی۔ مارگریٹ کی سوچ خالصتاً مادی سوچ ہے۔ مارگریٹ بھی ان لوگوں میں شامل تھی جن کے لئے یہ دنیا ہی سب کچھ ہے۔ وہ اس زندگی میں ہر دنیاوی نعمت کا حصول، ہر خواہش کی تکمیل اور ہر عیاشی کر لینا چاہتے ہیں۔ آخرت، دوسری دنیا، قیامت، دوزخ، جنت، حساب کتاب، نیکی بدی، احسان، مروت، دوسروں کے لئے قربانی کا جذبہ، اپنی دولت میں سے ناداروں اور حاجت مندوں کا حصہ نکالنا، یہ سب کچھ ان کی ڈائریکٹری میں شامل نہیں ہے۔ والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، معاشرے کے حقوق، ان کی نظر میں کچھ بھی نہیں۔ سوائے اس کے جو قانون کی کتاب میں لکھا ہے یعنی ٹیکس ادا کرنا اور بس! یہ ٹیکس بھی ظاہر ہے مجبوری کے عالم میں ادا کیا جاتا ہے شوق اور خوشی سے کوئی نہیں دیتا۔ لیکن اس ٹیکس سے حکومت ان ٹیکس دینے والوں کی جانب سے معاشرے کے غریبوں، ناداروں، حاجت مندوں، معذوروں، ضعیفوں اور بے روزگاروں کی مدد کرتی ہے۔ لہذا ان کے نہ چاہنے کے باوجود ان کی دولت ضرورت مندوں تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ کاش اس میں ان کی خواہش اور خوشی بھی شامل ہوتی۔ سب سے بڑھ کر انسانیت کی ہمدردی اور خدا کا خوف اس کا باعث بنتا تو کتنا اچھا ہوتا۔


میرا ہر شہر میں بوائے فرینڈ نہیں ہے



لیوژرن میں ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے وہ ہمارے اس دورے کا سب سے بہترین ہوٹل ثابت ہوا۔ حالانکہ بظاہر وہ ہوٹل نہیں لگتا تھا بلکہ بہت ساری خوابگاہوں پر مشتمل ایک بڑا ساگھر نظر آتا تھا۔ یہ ایک نہیں بلکہ دو چھوٹی چھوٹی عمارتوں پر مشتمل تھا۔ ان دو گھروں کے درمیان سے سڑک گزرتی تھی۔ ایک عمارت میں متعدد کمروں کے علاوہ استقبالیہ، لاؤنج، ریستوران اور تفریحی ہال تھا۔ جبکہ سڑک کے دوسری طرف والی عمارت میں صرف کمرے ہی کمرے تھے۔ مجھے اسی عمارت میں کمرہ ملا۔ بظاہر سادہ سی نظر آنے والی اس عمارت کے کمرے میں داخل ہوا تو میر دل خوش ہو گیا۔ انتہائی صاف ستھرا، روشن، ہوادار اور آرام دہ کمرہ تھا۔ بستر کی چادریں، سرہانے کے غلاف اور کمبل وغیرہ اتنے صاف ستھرے تھے کہ لگتا تھا کہ ابھی فیکٹری سے نئے نئے آئے ہیں۔ تازہ خوشبودار پھولوں کا گلدستہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا بہت خوشنما لگ رہا تھا۔ اس چھوٹے سے ہوٹل کاسٹاف بھی عموماً ایک بوڑھی مگر انتہائی مہربان عورت تک محدود دکھائی دیتا تھا۔تا ہم ناشتے اور شام کے کھانے کے وقت دلکش خد و خال اور پُر کشش جسم کی مالک ایک سوئس دوشیزہ بھی وہاں موجود ہوتی تھی۔ یہ دونوں عورتیں مہمانوں کی خدمت کرنے پر اس طرح کمر بستہ رہتی تھیں اور اتنی خوش خلق تھیں کہ ہمارے گروپ کے ہر فرد نے ان کی تعریف کی۔ اس ہوٹل میں ہمیں بالکل گھر کا سا ماحول ملا۔ ناشتے کے وقت ہم خود کچن میں جا کر اپنی مرضی کا ناشتہ بنواتے۔ بلکہ کئی تو وہیں کھڑے ہو کر ناشتہ کر لیتے۔ وہ بوڑھی عورت غالباً اس ہوٹل کی مالکہ بھی تھی۔ لیکن مہمانوں کے ساتھ اس کا سلوک ایسا تھاجیسا اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ فارغ وقت میں وہ ہمارے کمروں میں آ کر گپ شپ بھی کر لیتی تھی۔ اگر طلب محسوس ہو تو چائے اور کافی بنا کر وہیں لے آتی تھی۔ شام کا کھانا ہم نے وہیں ہوٹل میں ہی کھایا جو سادہ مگر لذیذ تھا۔ میری فرمائش پر ہماری میزبان نے میرے اور دوسری انڈین فیملیوں کے لئے مرچوں والا سالن بھی بنا دیا تھا۔ جو ظاہر ہے پوری طرح اطمینان بخش تو نہیں تھا لیکن پھر بھی روکھے پھیکے کھانوں سے بدرجہا بہتر تھا۔ میرے لئے اس نے مسالے وغیرہ ڈال کر دو انڈے بھی فرائی کر دیئے تھے۔ جبکہ بھارتی فیملیوں نے سبزیوں پر مشتمل مرچ مسالے والی کری اور ابلے ہوئے چاولوں کو بہت رغبت سے کھایا۔

کھانے کے بعد ہم چہل قدمی کے لئے باہر نکلے تو سورج ساڑھے آٹھ بجے بھی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ سڑکیں انتہائی صاف ستھری اور خالی خالی دکھائی دے رہی تھیں۔ گاڑیوں سے زیادہ رنگ برنگی سائیکلیں نظر آ رہی تھیں۔ سوئس لڑکے اور لڑکیاں نیکریں اور ٹی شرٹس پہنے سائیکلوں پر ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ کبھی کبھار کوئی گاڑی بھی ہمارے پاس سے گزر جاتی۔ ہم دو دو چار چار کی ٹولیوں کی شکل میں فٹ پاتھ پر چلے جا رہے تھے۔ میں جسٹن، جوزی او جولی اکھٹے تھے۔ جانجی اور مشی ہمارے آگے ایک دوسرے سے چپکے چلے جا رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے اور گال ایک دوسرے سے چپکائے یک جان و دو قالب نظر آتے تھے۔ ہر دو منٹ کے بعد وہ رُکتے۔ اپنا پیار ایک دوسرے پر نچھاور کرتے اور پھر آگے چلنا شروع ہو جاتے۔ ادھر جوزی پورے موڈ میں تھی۔ اس خوشگوار شام، ہلکی خنک مگر پھولوں کی خوشبو بھری ہوا، صاف سُتھرے اور خوبصورت ماحول نے جیسے اس پر وجد سا طاری کر دیا تھا۔ وہ کبھی لطیفے سناتی، کبھی کبھی خواہ مخواہ ہنستی، کبھی جسٹن سے لپٹ کر اس کے گال پر ایک دو بوسے دے دیتی۔ ایک دو بار اس نے میرے ساتھ بھی یہی عمل دہرایا۔ جسٹن کی موجودگی میں اس کی بیوی کا بار بار مجھ سے لپٹنا مجھے خفت میں مبتلا کر دیتا۔ لیکن جسٹن کے کان پر جیسے جُوں تک نہیں رینگتی تھی۔ وہ اسی طرح دھیمی سی مسکراہٹ سے ہم سب کا ساتھ دیتا رہا۔ جولی نے مستقل میرا ایک ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ وہ غیر محسوس انداز میں جانجی اور مشی، جسٹن اور جوزی کے جوڑوں کے سامنے میرے ساتھ ایسے لگ کر چل رہی تھی جیسے ان جوڑوں کی طرح ہمارا بھی ایک جوڑا ہو۔

لیوژرن کے گھر سادہ مگر خوبصورت ہیں۔ زیادہ تر عمارتیں پرانی ہیں۔ ان دنوں ہر طرف رنگ برنگے پھولوں کی بہتات تھی۔ گھروں کے آگے، سڑک کے کنارے، کھڑکیوں اور دروازوں کی کارنس پر اور فٹ پاتھ پر لگے گملوں میں بے شمار رنگوں کے پھول ہی پھول نظر آ رہے تھے۔ یورپ میں پھولوں کی زیادتی کا ذکر میری تحریر میں بار بار آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اتنے بہت سارے پھول میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ دوسرا یہ کہ پھول مجھے پسند بہت ہیں۔ تیسرا یہ کہ آسٹریلیا میں سبزہ اور پودے تو بہت زیادہ ہیں لیکن پھول اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ اس لئے مجھے یورپ کے یہ پھولوں بھرے مناظر بہت جاذب نظر لگ رہے تھے۔ جس طرح پاکستان سے یورپ جانے والے سیاح وہاں کی صفائی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔ اس طرح آسٹریلیا اور یورپ میں مجھے چند چیزیں مختلف اور الگ محسوس ہوئیں۔ ان میں سے ایک موسم، دوسری تاریخ اور تیسرا یہاں کے بے شمار پھول تھے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جن چیزوں سے آپ سے متاثر ہوتے ہیں لا محالہ انہی کا زیادہ تذکرہ کرتے ہیں۔

سوئس لڑکے لڑکیاں صحت مند سرخ و سفید رنگت والے اور بھولے بھالے سے تھے۔ ہمارے پاس سے گزرنے والے سائیکل سوار ہاتھ ہلا کر گزرتے تھے۔ بعض گاڑیوں والے بھی اس طرح ہاتھ ہلا کر اور مسکراہٹیں بکھیر کر گزرتے تھے جیسے وہ ہمارے جاننے والے ہوں۔ سوئس لڑکے لڑکیاں اتنے بھولے بھالے ہیں کہ سڑک اور خوابگاہ کا فرق بھی بھول جاتے ہیں۔ وہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر بھی وہی حرکتیں کرتے نظر آ رہے تھے جو صرف بند خوابگاہوں میں زیب دیتی ہیں۔ ان میں سے بعض لڑکے لڑکیاں بہت کم عمر تھے۔ لگتا تھا کہ سوئس قوم جنگ و جدل سے جتنی نفرت کرتی ہے پیار محبت اور جنس کی اتنی ہی رسیا ہے۔ نیوز ایجنسی میں سجے ہوئے اخباروں اور رسالوں پر اتنی عریاں تصاویر تھیں کہ شریف آدمی انہیں دیکھ کر نظر جھکا لے۔ رات کو ٹی وی لگایا تو کئی چینل مستقلاً بلیو فلمیں براڈکاسٹ کرتے نظر آئے۔ یہ عام ٹی وی کے چینل تھے جو ہر گھر میں دیکھے جا سکتے تھے۔ اس طرح یہ جنسی عریانی والی ننگی فلمیں گھر گھر دیکھی اور دکھائی جا رہی تھیں۔ لیکن کسی بھی ٹی وی چینل پر لڑائی اور مار کٹائی والی کوئی فلم نہیں دکھائی دی۔ بقول ہماری میزبان سوئس عورت کے ’’لڑائی والی فلمیں دیکھ کر نئی نسل کا کردار خراب ہو سکتا ہے اس لئے سوئٹزرلینڈ میں ایسی فلموں پر مکمل پابندی ہے۔ جہاں تک عریاں فلموں کا تعلق ہے وہ ایک ’’قدرتی عمل‘‘ ہے جو ہر نوجوان لڑکے لڑکی کو سیکھنا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ پیار و محبت کی دنیا میں کھو کر تشدد اور لڑائی جیسی برائیوں سے بچے رہیں گے‘‘

سوئٹزرلینڈ میں جنس کی حکومتی سطح پر ترغیب و تشہیر کی جاتی ہے۔ اس سے بقول ان کے ان کی نئی نسل کا کردار ’’پروان‘‘ چڑھتا ہے اور وہ اس مثبت قدرتی عمل کی وجہ سے تشدد اور جنگ و جدل کے جذبات کو دل دماغ میں نہیں گھسنے دیتے۔

ہماری میزبان ہمارے دو روزہ قیام کے دوران ہمارے دل و دماغ کو بھی سوئس رنگ میں رنگنا چاہتی تھی۔ لہذا ہمارے کمروں میں عریاں رسالے، عریاں تصاویر اور ٹی وی پر عریاں فلمیں سبھی کچھ اس نے مہیا کر رکھا تھا۔ مزید کسر پوری کرنے کے لئے شہر بھر کی طوائفوں، نائٹ کلبوں اور سٹرپ کلبوں کے فون نمبر ہمارے سائیڈ ٹیبل پر موجود تھے۔ آپ اپنے کمرے میں کسی سوئس حسینہ کو طلب کر سکتے تھے۔ اگر یہ بھی نہ کر سکیں تو پھر فون پر ان حسیناؤں سے جنسی باتیں کر کے دل پشاوری کر سکتے ہیں۔ ایسی فون کال کے ہر منٹ کے تین ڈالر ادا کرنے پڑتے تھے۔ غرضیکہ ان کے پاس سیاحوں کی جیبیں ہلکی کرنے کے بے شمار طریقے تھے۔ سوئٹزر لینڈ نے اتنی دولت ویسے ہی تو اکھٹی نہیں کی ہے۔ اس کے پیچھے ان کا کاروباری ذہن پوری طرح کار فرما ہے۔

اس رات لیوژرن کے اس چھوٹے سے مگر انتہائی آرام دہ ہوٹل کے بار میں تقریباً سبھی سیاح ناؤ نوش میں مشغول تھے۔ آج خلافِ معمول بھارت سے تعلق رکھنے والے مگر امریکہ میں رہائش پذیر ڈاکٹر رمیش، اس کی بیوی، پانڈے، اس کی بیوی اور سالی سبھی وہاں موجود تھے۔ تا ہم ان کے بچے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ یہ سب ہمارے ہی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ جسٹن، جوزی، جولی اور ہماری گائیڈ مولی بھی خلافِ معمول آج ہمارے ساتھ ہی بیٹھی بیئر سے شغل کر رہی تھی۔ ورنہ اس سے پہلے رات کو ہمارے ساتھ وہ کم ہی نظر آتی تھی۔ در اصل سالہا سال سے اس رُوٹ پر گائیڈ کے فرائض انجام دینے کی وجہ سے اس کے ہر شہر اور ہر ملک میں دوست موجود تھے۔ وہ وہاں جا کر انہی کے ساتھ وقت گزارتی تھی۔ میں نے مذاق کرتے ہوئے ایک دفعہ اس سے کہا ’’جس طرح کہا جاتا ہے کہ ملاحوں کی ہر پورٹ میں ایک بیوی موجود ہوتی ہے اس طرح لگتا ہے یورپ کے ہر شہر میں تمھارا ایک آدھ بوائے فرینڈ موجود ہے۔ کیونکہ ہم جہاں بھی جاتے ہیں تم راتوں کو ہوٹل سے غائب رہتی ہو۔ کبھی ہم غریب الوطن سیاحوں کی طرف بھی نظر کرم کر لیا کرو جو تمھارے رحم و کرم پر ہیں‘‘

مولی حسبِ معمول ہنستے ہوئے بولی ’’یہ مبالغہ آرائی ہے۔ میرا ہر شہر میں بوائے فرینڈ نہیں ہے۔ تا ہم فرینڈز ضرور ہیں۔ جہاں تک تمھارا خیال رکھنے کی بات ہے۔ لگتا ہے اس میں تم خود کفیل ہو چکے ہو۔‘‘

بہر حال اس رات مولی بھی ہمارے ساتھ بیٹھی اپنے دلچسب تجربے سنا رہی تھی۔ اس کی باتیں بہت دلچسپ اور معلوماتی تھیں۔ باتوں باتوں میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان چپقلش کا موضوع چل نکلا۔ مولی نے ڈاکٹر رمیش سے پوچھا ’’آخر آپ دو پڑوسی ملک کیوں آپس میں لڑتے رہتے ہو۔ اس تنازعے کی اصل وجہ کیا ہے؟‘‘

ڈاکٹر رمیش نے وہسکی کا گلاس ہاتھ میں لے کر دانشورانہ سٹائل سے جواب دینے کی کوشش کی ’’اصل وجہ پاکستان کے اندر موجود انتہا پسند طبقہ ہے۔ مذہبی انتہا پسند اور جنگی جنون میں مبتلا کچھ پاکستانی جرنیل پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ ہیں۔ در اصل وہ ماضی کی بر صغیر پر مسلم حکومت کو ابھی تک فراموش نہیں کر پائے۔ وہ ہندو اکثریت کی بجائے مسلم اقلیت کو دوبارہ بر سرِ اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ بروز شمشیر دہلی پر قبضہ کرنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی پورے بر صغیر کے لوگوں کو مسلمان بنانے کے جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اس آغاز میں ان کا خواب دیوانوں کا خواب ہے۔ لیکن وہ ہیں کہ کوئی نہ کوئی شرارت کرتے رہتے ہیں‘‘

میں ابھی اس کا جواب دینے ہی والا تھا کہ پانڈے نے اپنی ٹانگ بیچ میں اڑا دی اور بولا ’’حالانکہ پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اگر جنگ شروع ہو گئی تو پاکستان ایک دن کی مار بھی نہیں برداشت کر سکتا۔ بھارت ایک دن میں پورے پاکستان کو تہس نہس کر سکتا ہے۔ لگتا ہے جیسے حالات پاکستان پیدا کر رہا ہے، یہ ہو کر رہے گا‘‘

جسٹن، جوزی، جولی وغیرہ دلچسپی سے یہ باتیں سن رہے تھے لیکن انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم مولی نے درمیانی رابطے کا کردار ادا کرتے ہوئے مجھے کہا ’’ڈاکٹر رمیش اور پانڈے نے بھارتی نقطہ نظر سے بات کی ہے۔ تم بتاؤ پاکستان کا کیا نقطہ نظر ہے؟‘‘

میں اس پورے دورے میں غیر سنجیدہ رویہ اپنائے ہوئے تھا۔ آج پہلی دفعہ سنجیدہ ہوتے ہوئے میں نے کہا ’’ہم تفریحی دورے پر یہاں آئے ہیں۔ یہاں اتنی سنجیدہ بلکہ تلخ باتوں کا سلسلہ نہیں شروع ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ڈاکٹر رمیش اور پانڈے نے جس طرح اظہار خیال کیا ہے میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ آپ سب پی رہے ہیں اور ظاہر ہے اس موقع پر صرف ہنسنے کھیلنے کی باتیں زیب دیتی ہیں۔ ایسی سنجیدہ باتیں نہیں! لیکن اب بات شروع ہو گئی ہے تو تھوڑی دیر کے لئے میں آپ سب کی توجہ چاہوں گا‘‘ میری بات کے دوران ڈیوڈ، مسز مارگریٹ اور دو اور صاحبان بھی ہماری ٹیبل پر آ بیٹھے۔ میں نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ’’پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعے کی یوں تو کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے بڑی وجہ کشمیر پر ہندوستان کا نا جائز قبضہ ہے۔ جب پاکستان اور ہندوستان الگ ہوئے تھے تو تقسیم کے لئے یہ بنیادی اصول رکھا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے باقی ہندوستان میں۔ کشمیر میں اسی فیصد سے زائد مسلمان رہتے ہیں اور وہ سب پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ وہ کشمیر پر ہندوستان کے تسلط کے خلاف ہیں اور اس سے آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن بھارت بذریعہ طاقت اس خطے اور اس کے باسیوں کو اپنے تسلط میں رکھے ہوئے ہے۔ کشمیری پہلے دن سے اس قبضے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے تقسیم کے فوراً بعد اپنی آزادی کی جنگ شروع کر دی تھی۔ پاکستان کشمیریوں کے اس بنیادی حق کی اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ جبکہ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ جنگ پاکستان نے شروع کرائی ہے۔ بہرحال 1948 میں بھارت خود یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے کر گیا۔ اقوام متحدہ نے متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کی۔ جس کے مطابق کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کے لئے کہا گیا۔ اس استصوابِ رائے سے کشمیری عوام نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے سامنے اس ریفرنڈم کی حامی بھر لی۔ لیکن آج تک نہ تو اس نے ریفرنڈم کرایا اور نہ ہی کشمیریوں کو آزادی کا حق دیا۔ یوں وہ پوری دنیا کے سامنے کئے گئے اپنے وعدے سے پھر گیا۔ کشمیریوں نے ہر طریقے سے اپنی آزادی کا مطالبہ جاری رکھا۔ جب بھارت نے ان کی ایک نہیں سنی تو کشمیری عوام اپنا حق لینے کے لئے کھل کر سامنے آ گئے۔ بھارت نے طاقت کے ذریعے ان کو کچلنا شروع کر دیا اور کشمیر میں لاکھوں کے حساب سے فوج بھیج دی جو گھر گھر کی تلاشی لیتی ہے۔ کسی کو بھی زبردستی اٹھا لیتی ہے۔ انہیں غیر قانونی طریقے سے جیلوں میں بند رکھا جاتا ہے۔ انہیں ٹارچر کیا جاتا ہے اور بہت سوں کو تو ٹارچر سیلوں میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ بھارتی فوج لوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر عورتوں کی آبروریزی کرتی ہے۔ مسجدوں اور عبادت گاہوں کا تقدس پامال کرتی ہے۔ پچھلے بیس سال میں کشمیر کی آزادی کی اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔ ہزاروں مکانات نظر آتش کیے گئے اور سیکڑوں با عصمت خواتین کی بھارتی فوجیوں نے زبردستی عصمت دری کی۔ پاکستان کشمیریوں کی آزادی کی جنگ میں اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ لیکن بھارت کو پاکستان کی یہ حمایت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ بار بار پاکستان پر الزام لگاتا ہے۔ دھمکیاں دیتا ہے بلکہ تین دفعہ پاکستان پر حملہ بھی کر چکا ہے۔

پاک بھارت تنازعے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندو اکثریت کے بل بوتے پر ہندوستان کے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو ہمیشہ کے لئے محکوم رکھنا چاہتا تھا۔ وہ مسلمانوں کی ہندوستان پر ایک ہزار سال کی حکومت کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کو جب یہ حالات نظر آئے تو انہوں نے ایک طویل جد و جہد کے بعد اپنے لئے الگ ملک حاصل کر لیا۔ جہاں وہ آزادی سے سانس لے سکیں۔ ہندوستان کو مسلمانوں کی یہ آزادی اور پاکستان کا قیام بالکل پسند نہیں آیا۔ وہ اب بھی پاکستان کو دل سے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور ہر وقت پاکستان کا وجود ختم کرنے کی سوچ میں مبتلا رہتے ہیں۔ بھارت براہ راست تین جنگوں کے علاوہ پاکستان کے اندر بے شمار ایجنٹ داخل کر چکا ہے۔ جو وہاں ہر طرح کی دہشت گردی، بموں کے دھماکے، فرقہ وارانہ اختلافات کو اُبھارنے، دہشت گردوں کو اسلحہ سپلائی کرنے اور پاکستان کی دفاعی تنصیبات کی کھوج لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ایجنٹ مختلف مسالک کی عبادت گاہوں پر حملے کر کے بے گناہ نمازیوں کو شہید کرتے ہیں۔ یوں ان مسالک کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ دو بڑی وجوہات ہیں پاکستان اور ہندوستان کے تنازعے کی‘‘

مولی جس کی معلومات قابلِ رشک تھیں، بولی ’’میں نے تنازعۂ کشمیر کا سن تو رکھا تھا لیکن اس کے اصل پس منظر سے پہلی دفعہ واقف ہوئی ہوں۔ میڈیا میں تو صرف ایسی خبریں آتی ہیں کے پاکستانی ایجنٹ کشمیر کے اندر گڑبڑ پھیلا رہے ہیں۔ لیکن تمھاری باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جنگ خود کشمیری کر رہے ہیں‘‘

ڈاکٹر رمیش جو میرے طویل بیان کے درمیان بار بار نتھنے پھلا اور پچکار ہا تھا، گویا ہوا ’’پاکستانی ایجنٹوں والی بات درست ہے۔ کشمیر کے اندر ساری گڑبڑ پاکستان کے تربیت یافتہ ایجنٹ پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کے تربیتی کیمپ لگے ہوئے ہیں اور پاکستانی فوج ان ایجنٹوں کو تربیت دے کر کشمیر میں دہشت گردی کے لئے بھیجتی ہے۔ بلکہ ان میں پاکستانی فوجی بھی شامل ہوتے ہیں‘‘

میں نے کہا ’’اگر یہ بات ہے تو بھارت پاکستان کا یہ مطالبہ کیوں نہیں مانتا کہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بین الاقوامی آبزرور تعینات کئے جائیں جو کنٹرول لائن کراس کرنے والوں پر نظر رکھ سکیں۔ اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو کیوں نہیں جانے دیتا۔ اگر کشمیری عوام آزادی نہیں چاہتے تو بھارت اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق استصوابِ رائے کیوں نہیں کراتا؟ یہ سب بھارتی پروپیگنڈہ ہے۔ وہ دنیا کو یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کرا رہا ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کے ہر شہر، ہر گاؤں اور ہر گھر پر فوج اور پیرا ملٹری فوسز کے ذریعے چڑھائی کرتا رہتا ہے۔ اگر سب کچھ پاکستان کر رہا ہے تو وہ ان کشمیریوں کی جان کے لئے کیوں عذاب بنا ہوا ہے۔ وہ انہیں آزاد کیوں نہیں کر دیتا۔ سڈنی کے علاقے ایش فیلڈ میں بھارت کے مقبوضہ کشمیر یوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک سیمینار منعقد کیا۔ وہاں میری ملاقات درجنوں کے حساب سے ایسے کشمیریوں سے ہوئی جن کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہو چکا تھا۔ وہ سب مقبوضہ کشمیر کے باسی تھے۔ ان میں سے کسی کی قبر بھی پاکستان میں نہیں تھی۔ کسی کا گھر پاکستان میں نہیں تھا۔ بلکہ ان کا گھر اب کہیں بھی نہیں ہے۔ وہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اور دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ گزین بن چکے ہیں۔ آج اکیسیوی صدی میں جب ہر طرف آزادی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسٹ تیمور بین الاقوامی مدد سے آزاد ملک بن چکا ہے تو بھارت کو بھی کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کر کے ان کی آزادی کا حق انہیں دے دینا چاہیئے۔ بقیہ دنیا کو بھی ان مظلوم اور بے بس کشمیریوں کی کم از کم اخلاقی اور اصولی حمایت کرنی چاہیے‘‘

ڈیوڈ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا ’’دنیا تو ان کی اس وقت حمایت کرے گی جب انہیں اصل صورت حال کا علم ہو گا۔ مولی کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ چند پاکستانی بھارت کے علاقے کشمیر میں جا کر گڑبڑ پھیلا رہے ہیں۔ لیکن آج پہلی دفعہ اس معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا ہے۔ ایک لاکھ انسانوں کا قتل کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہم مغربی معاشرے میں رہنے والے اییشائی اور افریقی ممالک میں بڑے سے بڑے نقصان کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔ دوسری طرف امریکہ یا یورپ میں ایک کتا بھی مر جائے تو اخباروں کی سرخی بن جاتی ہے‘‘

پانڈے نے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے کہا ’’پاکستان کے کشمیر پر دعوے کے جواب میں بھارت کا موقف یہ ہے کہ کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ بھی ہمارا ہے۔ لیکن بھارت نے اس کا قبضہ لینے کے لئے یہ سب کچھ تو نہیں کیا جو پاکستان ہمارے کشمیر میں کر رہا ہے‘‘

’’یہ تو سوئی ایک جگہ اٹکنے والی بات ہے کہ پاکستان یہ کر رہا ہے وہ کر رہا ہے۔ یہاں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کو یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ جو کچھ کر رہے کشمیری عوام کر رہے ہیں، پاکستان نہیں۔ آزاد کشمیر پر بھارت کے قبضے کی بات تو دیوانے کے خواب جیسی ہے۔ پورے آزاد کشمیر میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ہو گا جو بھارت کے ساتھ الحاق کا حامی ہو۔ بلکہ آزاد کشمیر کے کشمیری اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کے زبردست حامی ہیں۔ اگر کسی کو شک ہو تو پورے کشمیر میں ریفرنڈم کرا کر دیکھ لے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا‘‘ میں نے بلا لحاظ جواب دیا

پانڈے نے بُرا سا منہ بنایا۔ جیسے کڑوی گولی نگل لی ہو لیکن منہ سے کچھ نہیں بولا۔ ڈاکٹر رمیش کچھ بولے بغیر اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ گڈ نائٹ کہہ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ چند لمحوں کے بعد پانڈے نے بھی بیوی اور سالی کو اشارہ کیا اور وہ بھی اپنے کمروں کی طرف چل پڑے۔ ان کے جانے کے بعد جوزی نے بیئر کا گلاس اٹھایا اور بولی ’’طارق! مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنی سنجیدہ گفتگو بھی کر لیتے ہو۔ میں نے تمھیں ہر وقت ہنستے کھیلتے اور غیر سنجیدہ گفتگو کرتے ہی سنا ہے۔ اس گفتگو سے ہم سب کے علم میں اضافہ ہوا ہے۔ بہر حال اب موضوع تبدیل ہونا چاہیے‘‘

مولی نے اٹھتے ہوئے کہا ’’بھئی مجھے تو اجازت دو۔ میں نے کمرے میں جا کر کچھ پیپر ورک کرنا ہے۔ ویسے طارق! تم نے آج کی DEBATE جیت لی ہے۔ تمھاری باتوں میں وزن اور منطق تھا۔ میں ذاتی طور پر آج سے کشمیریوں کے حق خود ارادی کے حق میں ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ان کا یہ حق انہیں جلد مل جائے‘‘

’’مولی! صرف تم نہیں بلکہ ہم سب اصل صورت حال جان گئے ہیں۔ کاش کہ وہ لوگ بھی جان جائیں جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں۔ دنیا کو ان دو ایٹمی ممالک کے درمیانی معاملات کو زیادہ سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘ مارگریٹ یہ کہہ کر مولی کے ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ بھی خدا حافظ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔

ان کے جانے کے ایک گھنٹہ بعد تک ہم وہیں بیٹھے گپ شپ کرتے رہے۔ آج میرے علاوہ جولی بھی صرف کوک سے شغل کرتی رہی۔ ایک دو دفعہ اس کو بیئر کی آفر ہوئی بھی تو خلاف معمول اس نے انکار کر دیا۔ شاید پیرس کی آخری رات کا تجربہ اُسے یاد تھا۔ دو بجے کے لگ بھگ ہم سبھی اٹھ کر اپنے اپنے کمروں کی جانب چلے۔ میرا اور جولی کا کمرہ سڑک کی دوسری طرف والی عمارت میں تھا۔ ہم ہوٹل سے باہر سڑک پر نکلے تو پہاڑوں سے گھرے اس شہر میں اس وقت سردی کا راج تھا۔ سڑکیں روشن مگر بالکل ویران تھیں۔ عجیب خاموشی اور ہو کا عالم تھا۔ ہم ہوٹل کے بند ہال سے نکلے تو سردی کے ساتھ ساتھ تازہ خوشبو بھری ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔ ایک بھینی بھینی سی مہک فضا کو معطر کئے ہوئے تھی۔ شاید اردگرد پھیلے رنگا رنگ پھولوں میں سے کچھ خوشبو آور بھی تھے۔ ورنہ یورپ اور آسٹریلیا کے پھولوں میں خوشبو نہیں ہوتی ہے۔ جولی نے سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر چند لمبے لمبے سانس لئے۔ جیسے اس خوشبو کو اپنے اندر سمیٹنا چاہ رہی ہو۔ پھر گھوم کر میرا ہاتھ پکڑا اور بولی ’’چلو! تھوڑی دور تک چہل قدمی کر کے آئیں‘‘

’’جولی! اس وقت رات کے دو بجے ہیں۔ سردی سے دانت کپکپا رہے ہیں۔ تم ہو کہ گرم کمرے میں جانے کے بجائے سڑک پر چہل قدمی کرنا چاہتی ہو‘‘

اس کے جواب میں جولی نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور کہا ’’چلو! یہ سردی ہمیں کچھ نہیں کہتی۔ دیکھو نا! کیسا پرسکون اور خوبصورت ماحول ہے‘‘

ہم رات کے سناٹے میں تقریباً آدھ میل تک چلتے چلے گئے۔ اس دوران زیادہ تر جولی ہی باتیں کرتی رہی۔ وہ سڈنی میں موجود اپنے گھر والوں اور دوستوں کے بارے میں بتاتی رہی۔ لگتا تھا جولی ان سب کو بہت مس کر رہی ہے۔ لیوزرن کے خوابیدہ اور خاموش شہر کی سڑکوں پر آدھ گھنٹے کی چہل قدمی کے بعد ہم واپس ہوٹل پہنچے تو سردی سے جسم کپکپا رہے تھے۔ ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ میں نے جولی کو گڈ نائٹ کہہ کر اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ میرے پیچھے پیچھے میرے کمرے میں آ گئی۔ کمرہ مرکزی حرارتی نظام کی وجہ سے خاصا گرم اور خوشگوار ماحول لئے ہوئے تھے۔ میں نے گھوم کر سوالیہ نظروں سے جولی کی طرف دیکھا۔ وہ میرے قریب آ گئی ’’میں آج رات یہیں سوؤں گی‘‘ اس کے نازک ہونٹ سردی سے قدرے نیلے نظر آ رہے تھے۔

’’وہ کس خوشی میں؟ تمھارا الگ کمرہ ہے۔ تم وہاں کیوں نہیں سوتی؟‘‘ میں نے اسے گھور کر دیکھا

’’مجھے اکیلے میں ڈر لگتا ہے۔ آج تو میں نے پی بھی نہیں ہے۔ نہ نشے میں ہوں۔ میں تمھیں تنگ نہیں کروں گی‘‘

’’وہاں پیرس میں اکیلی رہتی رہی ہو۔ یہاں کیوں ڈر لگنے لگا؟‘‘ میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا

’’وہاں بڑا ہوٹل تھا اور ہمارے کمرے زمین سے کئی منزل کی بلندی پر تھے۔ یہاں یہ اکیلی عمارت، گراؤنڈ فلور پر کمرے اور صدر دروازے پر کوئی استقبالیہ عملہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے مجھے اکیلے میں ڈر لگے گا‘‘

’’جولی مذاق بند کرو اور جا کر سو جاؤ۔ مجھے بہت نیند آ رہی ہے‘‘

’’میری وجہ سے تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ میں یہاں صوفے پر سو جاؤں گی‘‘

میں نے جولی کا ہاتھ پکڑا۔ باہر لے جا کر اسے اس کے کمرے کے سامنے چھوڑا اور شب بخیر کہہ کر اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ اپنے پیچھے دروازہ بھی مقفل کر دیا۔


بادلوں سے ملاقات







دروازے پر دستک ہوئی تو میں گہری نیند میں تھا۔ دو تین بار کی دستک کے بعد آنکھ کھلی۔ آنکھیں ملتے ملتے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ سامنے ہوٹل کی بوڑھی مالکن تازہ پھولوں کا گلدستہ لئے موجود تھی۔ اس نے گڈ مارننگ کہہ کر پھولوں کا گلدستہ میری طرف بڑھایا ’’ناٹی بوائے! تمھارا گروپ ناشتہ کر کے تیار ہو چکا ہے۔ تم بھی جلدی جلدی آ جاؤ۔ ناشتے کا وقت ختم ہونے والا ہے‘‘

میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی تو سوا نو بجے تھے۔ دس بجے ہم نے قریبی پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے لئے روانہ ہونا تھا۔ آدھے گھنٹے میں تیار ہو کر میں ریستوران جا پہنچا۔ وہ مہربان بوڑھی عورت میرا اور جولی کا انتظار کر رہی تھی۔ جولی مجھ سے تھوڑی دیر پہلے وہاں پہنچی۔ ہم ریستوران کی ٹیبل پر بیٹھنے کی بجائے کچن میں چلے گئے۔ میں نے فرائی کئے ہوئے انڈے کا سینڈوچ اور کافی لی۔ جبکہ جولی نے سیریل میں دودھ ڈالا اور پیالا لے کر وہیں کھڑے ہو کر کھانے لگی۔ باہر نکلے تو گروپ کے سب لوگ کوچ میں سوار ہو چکے تھے۔ ہمارے بیٹھتے ہی کوچ چل پڑی۔ ہماری منزل لیوژرن سے ملحق ایک بلند قامت پہاڑ کی چوٹی تھی۔ یہ چوٹی شہر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ چوٹی پر سیاحوں کے لئے بہت سے قابلِ دید نظارے ہیں اس لئے اسے تمام سہولتوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ چوٹی پر جانے کے لئے بھی خصوصی اور دلچسپ انتظامات ہیں۔

ہماری کوچ ہمیں لے کر جھیل کے کنارے اور پہاڑ کے دامن کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگی۔ سڑک کے ایک طرف نیلے پانی والی وسیع اور خوبصورت جھیل تھی اور دوسرے کنارے پر سرسبز و شاداب درخت تھے۔ سبزے اور پانی کے علاوہ وہاں اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ موسم صاف تھا۔ تاہم بادلوں کے کچھ ٹکڑے اِدھر اُدھر تیر رہے تھے۔ اوپر جا کر ان بادلوں سے ہماری ملاقات بھی ہوئی۔

پہاڑ کے دامن میں ایک مخصوص جگہ ہماری کوچ رُک گئی۔ وہاں سے ہم نے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لئے زنجیر سے کھینچی جانے والی ایک خصوصی ٹرین پر سوار ہونا تھا۔ اس ٹرین کی چھوٹی چھوٹی بوگیاں تھیں۔ ایک بو گی میں آٹھ افراد سوار ہو سکتے تھے۔ ہمارا گروپ ٹرین کے دو چکروں میں اوپر پہنچ سکا۔ جب ٹرین ہمیں لے کر اوپر کی طرف چلی تو وہ بھی عجیب منظر تھا۔ اس ننھی سی ٹرین کا رخ سیدھا آسمان کی طرف تھا۔ وہ گرر گرر کی آواز سے اوپر کی طرف کھینچی چلی جا رہی تھی۔ دونوں کناروں پر گہری کھائیاں تھیں۔ بلندی پر پہنچنے کے لئے ٹرین نے آدھ گھنٹہ لگایا۔ اس دوران کچھ لوگ تو اس عجیب و غریب سواری سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن کچھ کے چہروں پر خوف کی پرچھائیاں تھیں۔ میرے ذہن میں یہ خیال جاگا۔ اگر اوپر کھینچنے والی زنجیر ٹوٹ جائے یا اس کا مکینیکل سلسلہ منقطع ہو جائے تو ہم سب پر کیا بیتے گی۔ پھر یہ سوچ کر دل کو سنبھالا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی مشینری کی دیکھ بھال کا نظام نہایت مکمل اور قابلِ بھروسا ہوتا ہے۔

چوٹی پر پہنچ کر ہم ٹرین سے باہر نکلے تو یہاں موسم مختلف تھا۔ ہوا میں خنکی بلکہ خنک نمی تھی۔ بادل ہمارے اردگرد منڈلا رہے تھے۔ ایک دو مرتبہ تو ہمارے چہروں اور جسموں سے ٹکرا کر ہمیں بھگو سا دیا۔ ایک منٹ بعد دھوپ سہارا دینے نکل آتی۔ اس طرح جتنی دیر بھی ہم وہاں ٹھہرے سورج اور بادلوں کی آنکھ مچولی جاری رہی۔ تاہم ٹھنڈی ہواؤں کا سلسلہ مستقل جاری رہا۔ وہ تو بھلا ہو ہماری گائیڈ کا، جس نے ہمیں قبل از وقت یہاں کی سردی سے آگاہ کر دیا تھا۔ اس لئے ہم جیکٹ وغیرہ ساتھ لائے تھے۔ پورے سفر یورپ کے دوران یہ پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے جیکٹ پہنی تھی۔ گرمیوں کے اس موسم میں زیادہ تر خوشگوار موسم سے سامنا رہا ورنہ یورپ کی سردی سے خدا بچائے۔

پہاڑ کی چوٹی پر سیاح ادھر ادھر پھیلے ہوئے تھے۔ ایک عمارت میں کیفے، سووینئر شاپ اور ریسٹ روم بنے ہوئے تھے۔ کیفے کی دیواریں شیشے کی تھیں۔ کچھ عمر رسیدہ سیاح کیفے کے اندر کرسیوں پر بیٹھے کافی کا مگ ہاتھ میں لے کر شیشے سے باہر کا منظر دیکھ رہے تھے۔ زیادہ تر لوگ ادھر ادھر پھیلے ہوئے تھے۔ کچھ پیسے دے کر دور بینوں سے دور کے نظاروں کو نزدیک لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں چلتے چلتے خاصی بلند چوٹی پر پہنچ گیا۔ یہاں سے پورا لیوژرن شہر حد نظر تک میرے سامنے تھا۔ لیوژرن چھوٹا سا شہر ہے بلکہ ایک دیہاتی قصبے کی طرح ہے۔ بڑی اور جدید عمارتیں نہ ہونے کی برابر ہیں۔ زیادہ تر گھر ہیں اور وہ بھی فاصلے فاصلے پر بنے ہوئے۔ گھروں کے ارد گرد خالی قطعات، سرسبز فارم اور مویشیوں کے باڑے نظر آ رہے تھے۔ پہاڑ پر جہاں تک نظر جاتی تھی سبزہ اور درخت نظر آ رہے تھے۔ ایک انچ جگہ بھی سبزے سے خالی نظر نہیں آتی تھی۔ اتنی خوبصورتی، اتنا حسن، اتنا سبزہ اور اتنے پھول میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔

ایک گھنٹہ ہم نے پہاڑ کی اس چوٹی پر گزارا۔ رنگا رنگ نظاروں سے لطف اندوز ہوئے، تصویریں بنائیں، بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھی بلکہ اپنے جسموں پرمحسوس کی۔ اس کے بعد ایک بڑی لفٹ میں سوار ہو کر چوٹی سے نسبتاً نیچے کے ایک مقام پر آئے۔ اس لفٹ میں بیک وقت پچاس افراد کی گنجائش تھی۔ لفٹ جب دو پہاڑوں کے درمیان نیچے کی طرف جا رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ کچھ خواتین نے ڈر کر آنکھیں بند کر لیں۔ ہمارے گروپ کے کچھ لوگ بلندی کے خوف کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں آئے تھے۔ لفٹ جس جگہ رکی وہ بھی زمین سے کافی بلندی پر واقع تھی۔ تا ہم ہم چوٹی سے کافی نیچے آ چکے تھے۔ اس مقام سے ہم نے چیئر لفٹ پر سوار ہونا تھا۔ اس چیئر لفٹ کے ہر کیبن میں چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ میرے ساتھ جولی تھی۔ ہمارے مقابل کی سیٹ پر ایک کینیڈین جوڑا براجمان تھا۔ ہمیں مولی نے بتایا کہ جہاں لفٹ رکے گی وہاں کوچ ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ گو یا ہم نے پہاڑ پر جانے کیلئے ٹرین اور واپسی پر چیئر لفٹ استعمال کی۔ مقام روانگی اور مقام واپسی بھی الگ الگ تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ چیئر لفٹ ہمیں پہاڑ کے دامن میں پہنچائے گی۔

لیکن جب یہ چلی تو چلتی ہی چلی گئی۔ پہاڑ سے نکل کر یہ میدانی علاقے کے اُوپر پرواز کرنے لگی۔ نیچے مکانات بنے ہوئے تھے۔ یہ شہر سے باہر کا مضافاتی علاقہ تھا۔ مکانات خاصے فاصلے فاصلے پر واقع تھے۔ لکڑی کے مکانات تھے جن کے ارد گرد پھولوں کے قطعات تھے۔ بھوری بھوری خوبصورت گائیں گھاس چر رہی تھیں۔ کہیں کہیں خرگوش ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ برف کے گولوں سے مشابہ بھیڑیں چرتی نظر آ رہی تھیں۔ مکانوں کے سامنے خوبصورت سوئس بچے کھیل رہے تھے۔ مویشیوں کے باڑے کے ارد گرد لکڑی کی باڑیں بنی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ حتیٰ کہ بیک یارڈ میں بنے فوارے بھی لکڑی کے تھے۔ جلانے کی لکڑی کاٹ کر ترتیب سے گھروں کے پیچھے رکھی ہوئی تھی۔

یورپ میں لکڑی کے استعمال کا رواج عام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں لکڑی کی پیداوار بہت زیادہ ہے۔ لگتا ہے یہاں چوبی مصنوعات کے کاریگر بھی بہت ہیں۔ گھر میں رکھے ڈیکوریشن پیس ہوں یا فرنیچر، دروازے اور کھڑکیاں ہوں یا کھلونے، وال کلاک ہوں یا تصویروں کے فریم، یہاں ہر طرف خوبصورت اور مضبوط لکڑی کا وافر استعمال نظر آتا ہے۔ ہماری لفٹ چلتی ہی جا رہی تھی۔ گھروں کے اوپر، سر سبز کھیتوں کے اوپر، چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے اوپر، درختوں کے جھنڈوں کے اوپر، پھولوں کے قطعات کے اوپر، چرتی ہوئی گائیوں اور بھیڑوں کے اُوپر۔ آدھے گھنٹے تک یہ فضا میں تیرتی رہی۔ ہمارے ارد گرد سنہری روپہلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ ہوا میں خوشگوار سی خنکی تھی لیکن پہاڑ کی چوٹی کی طرح سردی نہ تھی۔ میں نے جیکٹ اتار کر دوبارہ بیگ میں ڈال لی۔ آخر کار یہ لفٹ لیوژرن شہر میں جا کر ایک مقام پر رُکی۔

یہ جگہ بھی ایک خوبصورت پکنک پوائنٹ تھی۔ جھیل کے کنارے ایک دلکش پارک تھا۔ جہاں باربی کیو کا بھی انتظام تھا۔ کچھ فیملیاں خورد و نوش میں مصروف تھیں۔ مولی اور فشر کوچ کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ جب ہمارا گروپ اکھٹا ہو گیا تو ہم شہر کے مرکزی حصے میں واقع ایک بڑے اور خوبصورت ریسٹورنٹ میں لنچ کرنے کے لئے روانہ ہو گئے۔ پہاڑ کی سیر اور یہ لنچ ہمارے اضافی پیکیج میں شامل تھا۔

ریسٹورنٹ سیاحوں سے بھر اہوا تھا۔ چونکہ ہم سب کی سیٹیں ریزرو تھیں اس لئے ہمیں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ اس ریستوران کا کھانا بہت اچھا تھا۔ وہاں موسیقی اور تفریح کا بھی بندوبست تھا۔ ایک بینڈ مختلف دھنیں بجا کر مہمانوں کو محفوظ کرنے میں مصروف تھا۔ علاوہ ازیں کچھ گلو کار اور مزاحیہ فنکار بھی حاضرین کی تفریح طبع کے لئے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس ریسٹورنٹ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہاں تمام ویٹرس نوجوان اور بے حد خوبصورت تھیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کے سڈول اور خوبصورت جسمَ نیم برہنہ تھے۔ شاید یہ اس ریستوران کی ’سروس‘ کا حصہ تھا۔ اتنی حسین ویٹرس دیکھ کر لوگ کھانے میں رہ جانے والی کسی کمی کو خاطر میں نہیں لاتے ہوں گے۔ کھانے کی طرف دیکھنے کی انہیں فرصت ہی کہاں تھی کہ نظر تو دل پسند نظاروں میں محو تھی۔

پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں

پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام

میرے اور انڈین فیملیوں کے لئے خصوصی طور پر مسالوں والا کھانا تیار کیا گیا تھا۔ اِس تفریح بھرے لذیذ لنچ کے بعد شام تک ہم گروپ سے آزاد تھے۔ تمام سیاح ادھر ادھر پھیل گئے۔ اگلے پانچ گھنٹے میں نے لیوژرن شہر کی آوارہ گردی کرتے گزارے۔ سوئٹزر لینڈ دنیا بھر میں گھڑ یاں بنانے کے لئے مشہور ہے۔ سوئس گھڑیاں کوالٹی اور خوبصورتی میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ میں نے بھی ایک اپنے لئے اور تحائف دینے کے لئے چند گھڑیاں خریدیں۔ کچھ سووینئر اور گفٹ کارڈ بھی لئے۔ بعد میں علم ہوا کہ اس طرح کے تفریحی مقامات پر گھڑیوں اور دوسرے تحائف کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ سیاحوں کو مارکیٹ اور سستی دکانوں کا صحیح علم نہیں ہوتا لہذا اکثر وہ گفٹ شاپوں اور ٹورسٹ پوائنٹ پر واقع سٹوروں سے مہنگی اشیاء خرید لیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جو گھڑی میں نے لیوژرن سے تین سو پچاس ڈالر میں خریدی۔ سڈنی آنے کے بعد ایک دکان پر مجھے وہی گھڑی نظر آئی۔ سوئٹزر لینڈ سے آسٹریلیا کا سفر طے کرنے کے بعد بھی وہ یہاں صرف دو سو ڈالر میں دستیاب تھی۔

خیر سیاح تو ہمیشہ لٹتے ہی رہتے ہیں۔ انہی کے دم سے دنیا بھر میں بے شمار افراد کا روزگار لگا ہوا ہے۔ بعض ممالک کی تو پوری معیشت ہی سیاحت کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یورپ کے تقریباً سبھی ممالک اس مد میں بجٹ کا ایک بڑا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ایک اپنا وطن پاکستان ہے جہاں قدرت نے سیاحوں کے لئے بے شمار پُر کشش مقامات مہیا کئے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سے استفادہ کرنے کی آج تک کوشش نہیں کی گئی۔ بین الاقوامی سیاحوں کو ان مقامات کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوئی با ضابطہ مہم نہیں چلائی جاتی۔ نہ ہی ان مقامات کو سیاحوں کی سہولتوں سے آراستہ کر کے پُر کشش بنانے کی کوئی قابلِ ذکر کوشش روا رکھی جاتی ہے۔ نہ رسل وسائل کا مناسب بندوبست ہے اور نہ ایسی جگہوں پر رہائش کے لئے مناسب سہولتیں حاصل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کی مد میں ہونے والی آمدنی برائے نام ہے۔ حالانکہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں دنیا بھر کے سیاح آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہاں آسٹریلیا کا ہر وہ شخص جسے سیاحت کا ذرا سا بھی شوق ہے وہ بھارت کی سیر ضرور کر کے آیا ہے۔

بھارت بھی پاکستان کی طرح ایک غریب ملک ہے۔ وہ اگر سیاحوں کے لئے سہولتیں مہیا کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں بھارت سے زیادہ پُر کشش مقامات موجود ہیں۔ صرف سیاحوں کو سہولتیں دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں ان مقامات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں لوگوں کو پاکستان کی خوبصورتی اور پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے بارے میں بتانے کے لئے ایک تشہیری مہم کی ضرورت ہے۔ جس میں ان ممالک میں ہمارے سفارت خانے اور یہاں بسنے والے پاکستانی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خدا کرے وہ وقت جلد آئے جب آسٹریلین لوگ ہمیں بتائیں کہ ہم پاکستان کی سیر کر کے آئے ہیں۔ وہ دن ہم یہاں بسنے والے پاکستانیوں کے لئے باعثِ مسرت و افتخار ہو گا۔

لیوژرن کی سیر کرتے کرتے میں پاکستان جا پہنچا۔ در اصل انسان جہاں پیدا ہو، جو اس کا آبائی وطن ہو وہ ساری زندگی خیالوں اور خوابوں میں بسا رہتا ہے۔ میں اور میرے جیسے لاکھوں دیگر پاکستانی جو سالہا سال سے وطن سے دور دیار غیر میں رہ رہے ہیں انہی جذبات کے حامل ہیں۔ وطن سے دور رہنے کے باوجود وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وطن کی محبت ہمارے دلوں میں بڑھتی ہی رہتی ہے۔ اپنی مٹی کی خوشبو ہمیں ہر لمحے پکارتی رہتی ہے۔ وطن کے ترانے ہمارے دلوں کو گدگداتے رہتے ہیں۔ اپنے گھر کے در و دیوار نگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اپنے لوگ، دوست احباب، عزیز و اقارب یاد آتے رہتے ہیں۔ بچپن اور نوجوانی کا جو زمانہ وطن میں گزرا اس کی سنہری یادیں دل و دماغ میں جلتی بجھتی رہتی ہیں۔

مدت ہوئی وہ گلیاں چھوڑے ہوئے طارقؔ

خوابوں میں مگر وہی منظر پھرتے ہیں

لیکن کئی ایسی بندشیں اس وقت تک پروان چڑھ چکی ہوتی ہیں جو باوجود خواہش کے وطن واپسی کے راستے میں حائل ہوتی رہتی ہیں۔ پھر بھی ہم میں سے کافی لوگ ان بندشوں اور زنجیروں کو توڑ کر مادر وطن کی آغوش میں پناہ لینے واپس چلے جاتے ہیں۔ ایک وقت یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ کی جو چکا چوند ہمیں یہاں لے آتی ہے زندگی کے کسی دوسرے حصے میں یہ چکا چوند ماند پڑ جاتی ہے اور وطن کی خوشبو اس پر غالب آ جاتی ہے۔ اس کے بعد ہم دو دیسوں کے درمیان دو کشتیوں کے مسافر کی مانند لٹکے رہتے ہیں۔

جن کے دم سے جلتے ہیں گھروں کے چراغ

وہی تو بے وطن اور بے گھر پھرتے ہیں

زندگی تو ویسے بھی کشمکش کا دوسرا نام ہے۔ لیکن ہم جیسے مسافر اس کشمکش کے کچھ زیادہ ہی شکار رہتے ہیں۔ ایسے وقت میں ہم دنیا کے جس خطے میں بھی ہوں ذہن میں وطن کا تصور بسارہتا ہے۔ ہم اپنے وطن میں دنیا بھر کی خوبصورتیاں دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ اپنے پیارے وطن کو ترقی کے زینوں پر اوپر سے اوپر جانے کی آرزو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کی ہر خوبصورت جگہ کو پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اگر وطنِ عزیز میں کچھ کمی نظر آئے تو دل میں لا محالہ یہ خواہش ابھرتی ہے کہ کہ یہ کمی دور ہو جائے۔ ہمارا وطن بے داغ ہو کر چاند تاروں کی طرح منور اور تاباں نظر آئے اور پوری دنیا کے لئے ایک قابلِ رشک بن جائے۔




مجھے تمھارا آنٹی کہنا بہت اچھا لگا





میں گھومتا گھماتا دریائے لیوژرن کے بازو میں واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں بہت سے سیاح جمع تھے۔ وہاں شیر کا ایک بڑا سنگی مجسمہ نصب تھا۔ اس شیر کے جسم میں کئی تیر پیوست تھے اور وہ مرا پڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک پتھر نصب تھا۔ جس پر تحریر تھا کہ یہ شیر جنگ عظیم میں بے شمار انسانی جانوں کی ضیاع کی علامت کے طور پر مردہ دکھایا گیا ہے۔ شیر سے مراد بنی نوع انسان تھا۔ جو اپنے جیسے دوسرے انسان کے ہاتھوں سینے پر تیر کھا کر گھائل ہوا۔ پھر اپنی ہزاروں حسرتوں اور خواہشوں سمیت دنیا سے قبل از وقت رخصت ہو گیا۔ سیاح ہر زاویے سے اس مردہ شیر کی تصویریں اتار رہے تھے۔

لیوژرن میں ان دنوں سیاحوں کا جیسے تانتا سا بندھا ہوا تھا۔ مقامی لوگ کم اور سیاح زیادہ نظر آ رہے تھے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب سردیاں آتی ہیں اور سیاحت کا سیزن ختم ہو جاتا ہیتو پھر یہ شہر کیسا لگتا ہو گا۔ اور یہاں کے لوگ جن کا ذریعہ معاش زیادہ تر سیاحت سے ہی جڑا ہوا ہے، وہ کیا کرتے ہوں گے۔ یہی سوال میں نے ایک چھوٹے سے کیفے کے بوڑھے مالک سے کیا۔ اس کا جواب تھا ’’سردیوں میں تقریباً یہاں کے سب کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ جن دکانوں پر اب چار پانچ لوگ کام کر رہے ہیں، اُن دنوں وہاں صرف ایک شخص کافی ہوتا ہے۔ بعض دکانیں، ریستوران اور ہوٹل تو مکمل طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ لیکن سیاحوں کا سلسلہ مکمل طور پر بند نہیں ہوتا۔ سردیوں میں اور برف باری میں بھی تھوڑے بہت سیاح آتے رہتے ہیں۔ لیکن جو گہما گہمی اور چہل پہل اب نظر آ رہی ہے، سردیوں میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہو تا‘‘

اس کیفے کا بوڑھا مالک جب یہ باتیں کر رہا تھا تو ایپرن باندھے ایک عورت کچن سے نکل کر اس کے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔ اس عورت کی عمر ساٹھ کے لگ بھگ ہو گی۔ اگر کسی غریب ملک کے غریب گھر کی ہوتی تو وہ بوڑھی کہلاتی۔ لیکن اس کی صحت اتنی اچھی تھی کہ میں نے اُسے بوڑھی نہیں کہا۔ سفید بالوں اور سرخ و سفید چہرے والی اس مہربان سی عورت نے مجھ سے پوچھا کہ میرا تعلق کہاں سے ہے۔ میں نے اسے بتایا ’’بنیادی طور پر میرا تعلق پاکستان سے ہے لیکن آج کل آسٹریلیا میں رہتا ہوں‘‘

پاکستان کا نام سن کر وہ دونوں میاں بیوی (مجھے بعد میں علم ہوا کہ وہ میاں بیوی ہیں) بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے یورپ کے رواج کے برعکس مجھ سے کافی کے پیسے بھی نہیں لئے۔ میں نے اصرار کرتے ہوئے کہا ’’آنٹی! کافی کے پیسے تو لے لیں۔ یہ آپ کا کاروبار ہے‘‘

میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ کاؤنٹر سے باہر نکل آئی۔ دونوں ہاتھ میرے گال پر رکھے اور بولی ’’کیا کہا تم نے؟ پھر کہو‘‘

میں قدرے گھبرا سا گیا کہ شاید میرے منہ سے کوئی غلط بات نکل گئی ہے۔ اسی گھبراہٹ میں، میں نے کہا ’’میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھ سے کافی کی قیمت لے لیں‘‘

اس نے کہا ’’نہیں! میں کافی کی بات نہیں کر رہی۔ تم نے مجھے آنٹی کہا! یہی کہا تھا نا؟‘‘

’’جی‘‘ میں اب بھی نہیں سنبھلا تھا۔

اس نے میرے گال سہلاتے ہوئے کہا ’’تمھیں شاید احساس نہیں ہوا۔ لیکن مجھے تمھارا آنٹی کہنا بہت اچھا لگا۔ یہاں کوئی کسی کو ایسے نہیں پکارتا نہ ایسے سمجھتا ہے۔ ہمیں تو اپنے بچوں کی آوازیں سنے ہوئے بھی ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ تمھارا یوں اپنائیت سے آنٹی کہناجیسے میرے دل کے تاروں کو چھیڑ سا گیا۔ بیٹے تم کب تک یہاں ہو؟‘‘

اس عورت کی اپنائیت دیکھ کر اور بیٹے کا لفظ سن کر میرا دل بھی کچھ بھر سا آیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگلی صبح ہم وہاں سے چلے جائیں گے۔ اس مہربان عورت کے خاوند نے میری طرف ہاتھ بڑھایا ’’میرا نام اسمتھ ہے اور یہ میری بیوی میری ہے۔ ہم پاکستان کی سیر کر کے آئے ہیں اور وہاں سے کچھ بہت اچھی یادیں لے کر آئے ہیں۔ آج اتنے عرصے بعد ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی تو جیسے وہ اچھی یادیں پھر لوٹ سی آئیں۔ تم آج شام ڈنر ہمارے گھر پر کیوں نہیں کرتے؟‘‘

میں یورپ میں تھا جہاں اس طرح کے جذباتی سین بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے بھی اس شام میں فارغ تھا اس لئے میں نے بلا تردد حامی بھر لی۔ اسمتھ نے اپنا پتہ لکھ کر مجھے دیا اور پوچھا ’’اگر آنے میں کوئی مسئلہ ہو تو ہمیں بتا دینا۔ میں تمھیں ہوٹل سے پک بھی کر سکتا ہوں‘‘

میں نے اُسے تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا ’’آپ فکر نہیں کریں میں ٹیکسی لے کر آ جاؤں گا‘‘

ساڑھے چھ بجے کا وقت انہوں نے دیا تھا۔ وقت پر پہنچنے کا وعدہ کر کے میں وہاں سے نکل آیا۔

بقیہ وقت میں نے دریا کے کنارے واقع اس خوبصورت علاقے میں گھومتے گزارا۔ دریا کے اوپر ایک پرانا مگر پھولوں سے لدا پل واقع تھا۔ پل کی ریلنگ پر رنگ برنگ پھولوں کے اتنے زیادہ گملے تھے کہ ان کا شمار مشکل تھا۔ یہ پل چھتا ہوا تھا۔ چھت کے نیچے خوبصورت اور رنگا رنگ روشنیوں والے لیمپ نصب تھے۔ پل کے کناروں پر کھڑے ہونے کے لئے خصوصی ریلنگ تھیں۔ جہاں کھڑے ہو کر لوگ تصویریں بنوا رہے تھے۔ پل کے نیچے صاف اور شفاف پانی پہاڑوں سے میدانوں کی طرف بہہ رہا تھا۔ دریا کے کنارے دور دور تک ریستوران، کافی شاپس، بار اور خوبصورتی سے سجی دکانیں تھیں۔ ریستورانوں اور کافی شاپوں اور دکانوں کے سامنے بڑی بڑی رنگین چھتریاں نصب تھیں۔ جہاں دیدہ زیب پھولوں کے درمیان ترتیب و تزئین سے کرسیاں اور میز لگے تھے۔ ان پر لوگ بیٹھے خورد و نوش میں مشغول تھے۔

ایسے لگتا تھا کہ بے فکروں، شاہ خرچوں اور زندگی کا ہر خوبصورت رنگ چرا لینے والے لوگوں کا یہاں میلہ لگا ہوا تھا۔ میزوں پر رنگا رنگ مشروبات اور انواع وا قسام کے کھا نے رکھے تھے۔ ہر طرف خوشیوں اور قہقہوں کا راج نظر آ رہا تھا۔ یہ ایسا ماحول ہے جہاں کوئی اداس نہیں۔ کوئی بجھے دل والا نہیں۔ جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں غم کا کوئی شائبہ نہیں۔ جہاں ہر سو قہقہوں اور مسکراہٹوں کا راج ہے۔ چھٹیاں اسی لیے منائی جاتی ہیں کہ آدمی سال بھرکے کام کاج کی تھکن کو ایک حسین ماحول اور خوشگوار قہقہوں میں مٹا ڈالے اور پھر سے تازہ دم ہو کر دنیا کی دوڑ میں شامل ہو جائے۔

پل کے دوسرے کنارے پر بھی سیاح اسی طرح گھوم رہے تھے۔ میرے سامنے قدیم چرچ کی ایک بلند و بالا اور عظیم الشان عمارت کھڑی تھی۔ جس کے ماتھے پر کسی بہت اچھے فنکار کے ہاتھوں سے بنے خوبصورت مناظر عجب بہار دکھا رہے تھے۔ یہ مناظر چوبی تختوں پر تراشے گئے تھے۔ ان میں رنگوں کا اتنا خوبصورت استعمال کیا گیا تھا کہ بے اختیار داد دینے کو دل چاہتا تھا۔ پتھروں اور لکڑی کے امتزاج سے بنے قدیم زمانے کے اس چرچ کی عمارت فنِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ تھی۔ میں چرچ کے اندر داخل ہوا تو درجنوں سیاح پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انتہائی اونچی چھت والے اس چرچ کی مختلف دیواروں پر فنِ مصوری کے بیش بہا نمونے آویزاں تھے۔ یہ تصاویر بظاہر ماربل کے پتھروں پر بنی نظر آ رہی تھیں۔ لیکن چرچ کی ایک میزبان خاتون نے بتایا کہ در اصل ماربل نظر آنے والی یہ پینٹنگزچوبی ہیں۔ ان پر رنگوں کا اس خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے کہ وہ ماربل نظر آتی ہیں۔ اس عورت نے بتایا کہ جب یہ چرچ بنا تھا تو سوئٹزر لینڈ اتنا امیر ملک نہیں تھا۔ ہم اس وقت ماربل جیسے گراں قیمت پتھر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہمارے بڑھئیوں اور خصوصاً مصوروں نے سوئٹزر لینڈ میں وافر مقدار میں پائی جانے والی لکڑی کا اتنا اچھا استعمال کیا ہے کہ ان تصاویر کو زندہ جاوید فن پارے بنا دیا۔ اس چرچ میں ہمیں پائیداری، حسنِ تعمیر اور فنِ مصوری کا خوبصورت امتزاج نظر آیا۔ لیکن اس کے اندر کا ماحول بقول جولی پر اسرار سا تھا۔ میں اس پر اسرار ماحول سے باہر رنگ و خوشبو کی دنیا میں نکل آیا۔

باہر نکلا تو بارش شروع ہو چکی تھی۔ اگرچہ زیادہ تیز نہیں تھی پھر بھی کپڑے بھگونے کے لئے کافی تھی۔ میں سیدھا اپنی کوچ کے پاس پہنچا۔ وہاں میرے گروپ کے چند اور سیاح پہلے سے موجود تھے۔ وہ بھی واپس ہوٹل جانا چاہتے تھے۔ فشر ہمیں ہوٹل ڈراپ کر کے واپس چلا آیا۔ اس نے بقیہ سیاحوں کو بھی ہوٹل واپس لانا تھا۔

ہوٹل کی مالکہ شین نے میرے لئے ٹیکسی بُک کرا دی تھی۔ سوا چھ بجے ٹیکسی ہوٹل کے دروازے پر موجود تھی۔ میں نے اسمتھ کا دیا ہوا کاغذ کا پرزہ نکال کر ٹیکسی ڈرائیور کو پتا بتایا۔ اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور چل پڑا۔ اس دفعہ ہم شہر کے مرکزی حصے کی بجائے مضافاتی علاقے کی طرف جا رہے تھے۔ جُوں جُوں شہر سے دور ہو رہے تھے کھلے پن کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شہر کے اندر زیادہ بڑی تو نہیں لیکن چار پانچ منزلہ عمارتیں تو تھیں۔ وہاں سے باہر نکلنے کے بعد کہیں دو منزلہ عمارت بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ زیادہ تر ایک منزلہ مکانات تھے جو بڑے بڑے پلاٹوں کے ایک حصے پر بنے ہوئے تھے۔ بقیہ خالی حصہ پھولوں اور پودوں سے بھرا ہوا تھا۔ مکانات کا درمیانی فاصلہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ چھدرے چھدرے مکانات تھے جو بڑے بڑے فارموں کے درمیان بنے تھے۔ یہ فارم پھولوں، پودوں، پھلدار درختوں اور مویشیوں کے باڑوں پر مشتمل تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور جو چند منٹ تک خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا، اچانک گویا ہوا ’’آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟‘‘

لب و لہجے اور رنگت سے وہ بھی ایشیائی نظر آ رہا تھا۔ لہذا میں نے آسٹریلیا کے بجائے اسے پاکستان بتایا۔ اس نے اُردو میں کہا ’’میرا تعلق بھی پاکستان سے ہے‘‘

میں نے ایک قدم آگے بڑھ کر انگریزی اور اُردو کی بجائے پنجابی میں کہا ’’بھئی! یہاں شدھ گوروں کے دیس میں اپنے ہم وطن سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ میرا نام طارق مرزا ہے اور آپ؟‘‘

’’جی! اسد ملک‘‘

’’اسد! کب سے یہاں ہیں؟‘‘

’’جی پاکستان چھوڑے تو دس سال ہو گئے ہیں۔ لیکن یہاں لیوژرن میں پچھلے چھ سال سے رہ رہا ہوں۔ میں پانچ سال سے یہاں ٹیکسی چلا رہا ہوں لیکن آپ میرے پہلے پاکستانی پیسنجر ہیں۔ یہاں دنیا بھر کے سیاح آتے ہیں لیکن میں نے کسی پاکستانی کو کبھی نہیں دیکھا‘‘

’’اچھا! ہو سکتا ہے کچھ اور پاکستانی بھی یہاں آئے ہوں لیکن آپ کی ان سے ملاقات نہ ہوئی ہو؟‘‘میں نے کہا

’’جی! ہو سکتا ہے‘‘

’’اسد آپ کے علاوہ یہاں اور پاکستانی بھی رہتے ہیں‘‘

’’پانچ چھ ہیں۔ ان میں سے دو فیملیاں ہیں اور ایک صاحب کنوارے ہیں۔ اچھا ہے جی! یہاں زیادہ پاکستانی نہیں رہتے اور نہ گھومنے کے لئے زیادہ آتے ہیں‘‘ اسد نے کچھ عجیب سے لہجے سے کہا۔

میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر اداسی کا رنگ بکھرا نظر آیا۔ میں نے اسے کریدنے کے لئے پوچھا ’’آپ کیوں نہیں چاہتے کہ یہاں زیادہ پاکستانی آ کر رہیں یا پاکستانی سیاح آئیں۔ کیا آپ اپنے ہم وطنوں کو پسند نہیں کرتے؟‘‘

اسد نے ہولے سے کہا ’’نہیں جی! یہ بات نہیں ہے۔ کسی پاکستانی کو دیکھ کر میرا سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔ مجھے آپ سے اپنے وطن کی خوشبو آ رہی ہے۔ میں تو یہاں رہ بھی مجبوراً رہا ہوں۔ اگر میرے بس میں ہو تو ایک دن بھی یہاں نہ رُکوں اور اُڑ کر وطن پہنچ جاؤں‘‘

’’میرا سوال تو ابھی تک وہیں ہے کہ آپ کیوں پاکستانیوں کو یہاں نہیں دیکھنا چاہتے؟‘‘

’’جی! مجھے ڈر لگتا ہے‘‘ اس نے کہا

میں نے مزید حیراں ہو کر پوچھا ’’کس سے؟ پاکستانیوں سے؟‘‘

’’نہیں جی! اپنی قسمت سے!‘‘

’’میں سمجھ نہیں سکا، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں‘‘ میں نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا

’’چھوڑیں مرزا صاحب! یہ لمبی کہانی ہے۔ آپ یہاں گھومنے پھرنے آئیں۔ خوشگوار وقت گزارنے آئے ہیں۔ میں اپنی کہانی سے آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا‘‘

’’مائی ڈیئر اسد ملک! آپ مجھے نہیں جانتے۔ میں دنیا گھومنے ضرور نکلا ہوں لیکن میری دلچسپی کا اصل مرکز انسان ہے۔ عمارتیں، پہاڑ اور دریا نہیں۔ انسان اور اس کے اندر پوشیدہ کہانیاں ہی مجھے دوسرے جہانوں کی سیر کراتی ہیں۔ نئے نئے جہانوں اور نئے نئے کرداروں کے ذریعے میری سیاحتی حس کو تسکین مہیا کرتی ہیں۔ اگر ایسا کوئی کردار مجھے نظر آ جائے تو ان پتھروں اور جنگلوں سے زیادہ اس کے دل میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اصل سیاحت ہی یہی ہے کہ دلوں کی دنیا میں جھانک کر نئے نئے جذبوں اور تجربوں سے خود کو روشناس کرایا جائے۔ دلوں کی اس دنیا سے زیادہ دلچسب چیز کوئی نہیں ہے‘‘

اسی دوران ٹیکسی ایک بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے فارم کے مرکز میں بنے مکان کے سامنے جا کر رک گئی۔ یہ فارم کم از کم پانچ ایکڑ کا تھا۔ جس میں پھول، پودے اور پھلدار درخت ہر طرف بہار دکھا رہے تھے۔ فارم کے ایک حصے میں مجھے چند گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں بھی نظر آ رہی تھیں۔ گاڑی رکتے ہی اسمتھ اور میری باہر نکل آئے۔ اسد ملک نے گاڑی سے اتر کر ہولے سے کہا ’’آپ کے سوال کا جواب کافی طویل ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ یہاں کب تک رکیں گے؟ مجھے وقت بتا دیں میں آپ کو لینے آ جاؤں گا اور باقی باتیں پھر ہوں گی‘‘

میں نے کہا ’’یہ ٹھیک ہے۔ آپ نو بجے آ جائیں میں تیار ملوں گا‘‘

میں نے جب اسے کرایہ دینا چاہا تو اسد نے میرا ہاتھ روک دیا اور بولا ’’مجھے شرمندہ تو نہ کریں۔ آپ نو بجے تیار رہیں میں پہنچ جاؤں گا‘‘

اس نے یو ٹرن لیا اور ہاتھ ہلاتا ہوا واپس چل دیا۔

اس دوران اسمتھ اور میری میرے پاس پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے شاید اسد سے میرا آخری مکالمہ سن کر اندازہ کر لیا تھا کہ وہ بھی پاکستانی ہے۔ میری نے کہا ’’تم نے اپنے دوست کو کیوں واپس کر دیا۔ اسے بھی ساتھ لے آتے‘‘

اصل میں لیوژرن میں بغیر سائن کے ٹیکسیاں چلتی ہیں۔ اس لیے اسمتھ اورمیری نے سمجھا کہ میں کسی دوست کے ساتھ پرائیویٹ کار میں آیا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کے وہ میرا ہم وطن ضرور ہے۔ لیکن اس سے یہ میری پہلی ملاقات ہے اور اس کی ٹیکسی میں یہاں آیا ہوں۔ اسمتھ نے پوچھا ’’لیکن اس نے کرایہ نہیں لیا‘‘

’’ہاں! کیونکہ اسے میرے پاکستانی ہونے کا علم ہو گیا تھا، اسی لیے‘‘

اسمتھ اور میری نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کے چہروں پر ایک عجیب سی چمک دکھائی دی۔ میری اور اسمتھ کا گھر اندر سے سادہ مگر صاف ستھرا اور قرینے سے سجا ہوا تھا۔ وہ دونوں میاں بیوی باتیں کرتے ہوئے مجھے ڈرائنگ روم کی بجائے سیدھا کچن میں لے گئے۔ کچن اتنا بڑا تھا کہ کھانے کی میز وہیں لگی ہوئی تھی۔ میری نے فوراً میرے آگے گرم گرم سبزیوں کا سوپ لا کر رکھ دیا۔ میں نے اسمتھ سے کہا ’’تمھارا گھر بہت بڑا ہے۔ یہ فارم کتنے ایکڑ کا ہے؟‘‘

’’پانچ ایکڑ! یہ ہم نے اپنی جوانی کے دور میں خریدا تھا۔ اب تو یہاں بھی زمین کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں‘‘

’’کیا اُس وقت بھی آپ ریسٹورنٹ چلاتے تھے یا کوئی اور کاروبار تھا‘‘ میں نے پوچھا

’’میری ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتی تھی اور میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا تھا۔ میرے کئی ٹرک تھے جو یورپ کے مختلف ملکوں کے درمیان چلتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ سب ختم ہو گیا۔ اب ہم نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے یہ چھوٹا ریسٹورنٹ کھول رکھا ہے جس سے کچھ آمدنی بھی ہو جاتی ہے‘‘

’’اس فارم اور مویشیوں سے بھی تو آپ کچھ نہ کچھ کما رہے ہوں گے‘‘

’’کچھ خاص نہیں! دو گھوڑے، چند گائیں اور چند بھیڑیں ہیں۔ یہ بھی شوقیہ پال رکھے ہیں۔ ورنہ ان سے کچھ نہیں ملتا‘‘ اس دفعہ اسمتھ کی بجائے میری نے میرے سامنے بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔

میں نے اپنی جرح جاری رکھتے ہوئے پوچھا ’’آپ دونوں تو ریسٹورنٹ میں کام کرتے ہیں۔ انہیں کون سنبھالتا ہے؟‘‘

میری نے کہا ’’ان کی دیکھ بھال میں ہی زیادہ تر کرتی ہوں۔ ویسے ان چند جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ ان کی خوراک کا ذخیرہ ہر وقت ہمارے پاس موجود رہتا ہے۔ تازہ گھاس ہمارے اپنے فارم میں کافی ہوتی ہے۔ روزانہ صبح شام تھوڑا ساوقت ان کے لئے نکالنا پڑتا ہے۔ کچھ وقت میں گھر کی دیکھ بھال میں صرف کرتی ہوں۔ کبھی کبھار ریسٹورنٹ جا کر اسمتھ کی مدد بھی کر آتی ہوں۔ میں ریسٹورنٹ میں روزانہ نہیں جاتی‘‘

در اصل جانوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے جو سوال میں نے کیا تھا، اس کا پسِ منظر پاکستان کا کسان ہے جو چند گائیوں، ایک آدھ بھینس یا چند بکریوں کے چارے کے لئے سارا دن مارا مارا پھرتا ہے۔ ان کے پینے کے پانی کا بندوبست کرتا ہے۔ اور سردی، گرمی اور دن رات کے حساب سے انہیں کمروں کے اندر یا باہر باندھتا ہے۔ وہ ایک یا دو جانوروں کے لئے صبح سے شام تک مصروف رہتا ہے۔ لیکن میں یہ بات بھول گیا تھا کہ یورپ اور آسٹریلیا کے کسان ان تمام مسائل سے مبرا ہیں۔ یہاں بڑے بڑے فارم ہوتے ہیں جہاں جانور کھلے پھرتے رہتے ہیں۔ انہیں ہانکنے اور کل وقتی دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں ہوتا۔ جانور خود ہی کھاتے پیتے ہیں۔ تاہم سردیوں میں شام کو انہیں ہانک کر ایک بڑے باڑے میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح جگہ اور چارے کی فراوانی کی وجہ سے کسان فالتو محنت سے بچا رہتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل سڈنی میں میری ملاقات اندرون آسٹریلیا سے آئی ہوئی ایک کسان عورت سے ہوئی۔ میں نے اس سے ذریعہ معاش پوچھا تو کہنے لگی ’’ہمارا مویشیوں کا چھوٹا سا فارم ہے جہاں چھ سو گائیں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑیں ہیں۔ انہی سے ہمارا گزارا ہوتا ہے‘‘

میں نے حیرانگی سے کہا ’’چھ سو گائیں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑیں اور چھوٹا سا فارم؟‘‘

وہ اطمینان سے بولی ’’یہ نسبتاً چھوٹا فارم ہے۔ آسٹریلیا میں زیادہ تر فارموں میں ہزاروں کے حساب سے گائیں اور بھیڑ یں ہوتی ہیں‘‘

’’تو اس چھوٹے سے فارم کی دیکھ بھال کے لئے کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟‘‘

’’کتنے لوگ! میں اکیلی کرتی ہوں۔ میرا خاوند ٹریکٹر اور دوسری مشینوں کے ساتھ کھیتی باڑی میں مصروف رہتا ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال میرے ذمہ ہے‘‘

میں حیرانگی سے اس عورت کو دیکھنے لگا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ چھ سو گائیوں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑوں کی دیکھ بھال ایک عورت کرتی ہے۔ میری حیرت اس سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ وہ اسی متانت اور سنجیدگی سے بولی ’’اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ان جانوروں کو سنبھالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مجھے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بیمار وغیرہ تو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کی خوراک اور پانی ہمارے فارم میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ وہ خود ہی چر کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ جب رات آتی ہے تو سو جاتے ہیں۔ ہاں ایک مخصوص مدت اور عمر کے لحاظ سے انہیں مختلف بیماریوں سے حفاظت کے ٹیکے لگوانے پڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں بھیڑوں کی اون کترنے والوں کو بلانا پڑتا ہے۔ لیکن یہ زیادہ تر انتظامی نوعیت کے کام ہوتے ہیں اور ان کا شیڈول مقرر ہوتا ہے۔ جسے کوئی بھی شخص بغیر کسی دقّت کے انجام دے سکتا ہے‘‘

میں نے پھر پاکستانی پسِ منظر کے تحت دریافت کیا ’’جانوروں کو جب کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ گم نہیں ہوتے یا چوری نہیں ہوتے یا دوسروں کے علاقے میں نہیں چلے جاتے‘‘

وہ کہنے لگی ’’ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہر فارم کے ارد گرد باڑ لگی ہوتی ہے لہذا مویشی اپنی حدود کے اندر ہی رہتے ہیں۔ اگر کہیں چلے بھی جائیں تو اتنا مسئلہ نہیں ہوتا۔ انہیں کوئی نہ کوئی واپس کر دیتا ہے‘‘

یہ باتیں جب میں نے پہلی دفعہ سنیں تو مجھے پاکستانی اور آسٹریلین کسان کے درمیان بہت بڑے فاصلے کا احساس ہوا۔ پاکستان میں کسی نے ایک بکری بھی پال رکھی ہو تو پورا گھر اس کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔ اسے باہر جا کر چرایا جاتا ہے۔ جس میں پورا پورا دن صرف ہو جاتا ہے۔ گھر میں بھی اس کے چارے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے مزید وقت لگتا ہے۔ پھر صبح شام اور دن رات اسے اندر یا باہر منتقل کرنا، اس کی پھیلائی ہوئی گندگی صاف کرنا، یہ ایک کل وقتی کام ہے جس میں بعض اوقات دو دو فرد لگے رہتے ہیں۔

دوسری جانب آسٹریلیا کی یہ کسان عورت تھی جو اکیلی ہی چھ سو گائیوں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اور جب شہر میں کوئی کام آن پڑے تو پینٹ اور کوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس لئے اس طرح جہاز سے اترتی ہے جیسے کسی بڑی فرم کی ڈائریکٹر ہو۔ یہ وہ کسان عورت ہے جسے پوری محنت کے باوجود دنیا کے ایک خطے میں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔ لیکن دوسرے خطے میں وہ اتنی خوشحال اور پر اعتماد ہے کہ اس کے درمیان اور شہر کے بڑے کاروباری فرد کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ آسٹریلیا ہو یا یورپ یہاں کسان جدید مشینوں، کھلی زمینوں اور وافر وسائل کی بدولت ان مسائل سے نہیں گزرتا جس سے تیسری دنیا کے کسان کو گزرنا پڑتا ہے۔

میری کی باتوں سے میرا دھیان اُس آسٹریلین کسان عورت کی طرف چلا گیا تھا۔ میری اور اسمتھ سے باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ بیچ بیچ میں میری کوئی ڈش بنا کر لے آتی۔ پھر ہمارے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگتی۔ آدھ گھنٹے بعد پھر اٹھتی اور کچھ اور بنا کر لے آتی۔ باتوں باتوں میں میری اور اسمتھ نے مجھے اتنے پیار سے ڈنر پر بلانے کی وجہ بھی بتا دی۔ میری نے کہا ’’تم نے اتنے پیار سے آنٹی کہہ کر مجھے بلایا تو مجھے بہت اچھا لگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان سے ہمارا ایک خصوصی تعلق اور اُنس ہے۔ اس تعلق کے حوالے سے ہمیں ہر پاکستانی سے محبت ہے۔ مجھے میری کی باتیں اچھی بھی لگیں اور عجیب بھی۔ کیونکہ پاکستان اتنا مشہور ملک نہیں ہے۔ یورپ اور آسٹریلیا کے بہت کم لوگ وہاں گئے ہیں۔ عام لوگوں کی پاکستان کے بارے میں معلومات ناکافی ہوتی ہیں۔ پُر تعصب میڈیا پاکستان کے حوالے سے اکثر کوئی نہ کوئی منفی خبر لگاتا رہتا ہے۔ عام لوگوں کو پاکستان اور اس کے لوگوں کی اچھائیاں تو معلوم نہیں ہو پاتیں۔ تا ہم یہ منفی باتیں خوب یاد رہ جاتی ہیں۔ اس پسِ منظر میں اسمتھ اور میری کا پاکستان کے بارے میں یہ مثبت بلکہ والہانہ انداز اپنے اندر کوئی کہانی سمیٹے ہوئے تھا۔ میں وہی سننا چاہتا تھا۔ باتوں باتوں میں ہماری گفتگو اسی موضوع کی طرف آنکلی جو میں چاہتا تھا۔ اسمتھ نے بتایا کہ آج سے 25 سال پہلے ان دونوں میاں بیوی نے پاکستان کی سیر کی تھی۔ اس دوران ان کو جو تجربات پیش آئے وہ اسمتھ کی زبانی ہی سنئے۔




ہمیں ذبح کرنے کی تیاری تو نہیں ہو رہی





ہم دنیا کے دورے کے لئے نکلے ہوئے تھے۔ یورپ اور ایشیا کے بہت سے ممالک کا سفر ہم نے سڑک کے راستے کیا۔ اس مقصد کے لئے ہم نے خصوصی طور پر ایک مضبوط جیپ خریدی تھی جس نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔ لیکن ہر مشین کی طرح ہماری جیپ بھی دورانِ سفر ایک مقام پر دھوکا دے گئی۔ یہ مقام پاکستان کا شہر لاہور تھا۔ ہم بھارت کے سفر کے بعد لاہور پہنچے جہاں سے پشاور اور آگے افغانستان جانا تھا۔ لاہور کے نزدیک ہماری گاڑی کا ٹرانسمشن جواب دے گیا۔ شام کا وقت تھا۔ ہم نے لاہور کے ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیا۔ رات وہاں گزاری۔ اگلی صبح ہوٹل والوں کی مدد سے ایک بڑی ورکشاپ میں جا پہنچے۔ ورکشاپ والوں نے گاڑی کی جانچ پڑتال کے بعد ہمیں بتایا کہ ٹرانسمیشن باکس ناقابلِ مرمت ہے اور نیا لگانا پڑے۔ نئے گیئر باکس اور مزدوری سمیت انہوں نے تیس ہزار روپے کا بِل بنایا۔ ہمارے پاس کوئی اور چارا نہ تھا لہٰذا ہم نے یہ رقم ادا کرنے کی حامی بھر لی۔

چار پانچ گھنٹے میں گاڑی تیار ہو گئی اور ہم پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے صدر مقام پشاور کے لئے روانہ ہو گئے۔ پنجاب کے سرسبز میدانوں اور جہلم کے آگے کے سطح مرتفع علاقوں سے گزر کر جب ہم راولپنڈی کے نزدیک پہنچے تو گیئر باکس سے عجیب و غریب آوازیں برآمد ہونا شروع ہو گئیں۔ آدھا دن ضائع کرنے اور تیس ہزار روپے کی رقم خرچ کرنے کے بعد گیئر باکس کی دوبارہ خرابی ہمارے لئے انتہائی پریشانی کا باعث بنی۔ ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے گاڑی کے گیئر بکس میں آوازوں کا سلسلہ بھی بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ علاوہ ازیں گاڑی جھٹکے بھی دینے لگی تھی۔ اس وقت ہم پشاور سے پندرہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں گے کہ گیئر بکس نے مکمل طور پر جواب دے دیا اور گاڑی جھٹکے لے کر بند ہو گئی۔

سردیوں کا موسم تھا۔ شام کے چھ بجے ہی اندھیرا پھیل چکا تھا۔ جہاں ہماری گاڑی خراب ہوئی خوش قسمتی سے وہ جگہ ایک گاؤں یا چھوٹے سے قصبے سے زیادہ دور نہیں تھی۔ کسی ویرانے میں ایسا ہو جاتا تو بہت مشکل پیش آتی۔ ہم دونوں میاں بیوی گاڑی کو وہیں چھوڑ کر تقریباً دو فرلانگ دور اس قصبے میں پہنچے۔ اندھیرا اچھا خاصا پھیل چکا تھا۔ وہاں ایک چائے خانہ یا چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا۔ جہاں چند میزوں پر کچھ مرد بیٹھے چائے وغیرہ پی رہے تھے۔ ہم نے ان سے کسی ورکشاپ یا مکینک کے بارے میں دریافت کیا۔ وہاں زبان کا مسئلہ آڑے آ گیا۔ انہیں انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی جب کہ ہم پشتو یا اُردو سے نا بلد تھے۔ بہر حال اشاروں کی بین الاقوامی زبان کی مدد سے ہم نے انہیں اپنا مسئلہ سمجھا دیا۔ انہوں نے ہمیں ایک میز پر بٹھایا، چائے پلوائی۔ اتنی دیر میں ان میں سے ایک جا کر کسی مکینک کو پکڑ لایا۔ خوش قسمتی سے وہ مکینک گزارے لائق انگریزی سمجھ اور بول سکتا تھا۔ اس کے پاس اپنی گاڑی تھی۔ جس میں بیٹھ کر ہم جیپ کے پاس پہنچے۔ مکینک جس کا نام افضل خان تھا اس نے ٹارچ کی مدد سے گاڑی کو چیک کیا۔ اسے اسٹارٹ کیا، تھوڑی دور تک چلائی اور پھر ہمیں بتایا کہ گیئر بکس میں کافی بڑی خرابی ہے جسے دن کی روشنی اور ورکشاپ میں ہی مرمت کیا جا سکتا ہے۔

ہم پریشان ہو گئے کہ اب کیا کیا جائے۔ اس گاؤں میں تو کوئی ہوٹل بھی نہیں تھا۔ ہم اس سردی میں رات کہاں گزاریں گے۔ تیس ہزار روپے خرچ کر کے مسئلہ جوں کا توں باقی تھا۔ ہمیں لاہور کے مکینک پر سخت غصہ تھا اور اپنے خون پسینے کی رقم کے زیاں کا افسوس بھی تھا۔ افضل خان سے ہم نے دریافت کیا ’’کیا یہاں کوئی ہوٹل ہے جہاں ہم رات گزار سکیں؟‘‘

افضل خان جسے ہم نے لاہور میں ہونے والی مرمت اور وہاں ادا کی ہوئی رقم کے بارے میں بھی بتایا تھا ہمارے ساتھ بہت ہمدردی سے پیش آیا۔ میرے سوال کے جواب میں اس نے کہا ’’نہیں! یہاں کوئی ہوٹل نہیں ہے مگر آپ فکر نہ کریں۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ رات ہمارے ہاں گزاریں صبح دیکھیں گے کہ آپ کی گاڑی کا کیا کیا جا سکتا ہے‘‘

میری اس صورت حال سے خوف زدہ سی نظر آ رہی تھی۔ اس نے کیفے میں بھی دیکھا تھا کہ مرد اپنے گلے میں پستول لٹکائے ہوئے تھے۔ گاؤں کے راستے میں بھی ہم نے کئی لوگوں کو بندوقیں ہاتھ میں اٹھائے دیکھا تھا۔ ویران سا گاؤں تھا۔ بہت کم لوگ اِدھر اُدھر آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔ جو اکا دکا نظر آتا تھا وہ بھی بڑی بڑی مونچھوں، لال سرخ آنکھوں، کھلے کھلے کپڑوں اور ہتھیاروں سے سجا ’’خطرناک‘‘ دکھائی دیتا تھا۔ افضل خان کے پاس ہمیں ہتھیار تو نظر نہیں آیا لیکن اس کا حلیہ بھی باقی پٹھانوں سے مختلف نہ تھا۔ اس صورت حال میں کسی اجنبی ملک کے اجنبی شخص کے ہاں رات گزارنے کا فیصلہ بہت مشکل تھا۔ میری نے ڈر کی وجہ سے میرا بازو تھاما ہوا تھا۔ میں بھی اندر سے تو خوفزدہ تھا لیکن میری کو تسلیاں دے رہا تھا۔ افضل خان کو ہماری ہچکچاہٹ سے ہمارے خوف کا اندازہ ہو گیا۔ اس نے براہ راست میری کے سامنے آ کر کہا ’’مجھے آپ کی کیفیت کا اندازہ ہے۔ لیکن آپ ہماری روایات سے آشنا نہیں ہیں۔ میں نے آپ کو اپنا مہمان بنایا ہے تو آپ کی حفاظت اور تمام ذمہ داری میرے اُوپر ہے۔ آپ میری بہن کی طرح ہیں۔ میرے گھر میں بھی بیوی اور بیٹی موجود ہے۔ آپ بے فکر ہو کر میرے ساتھ چلیں‘‘

ہمارے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ افضل خان کی باتوں نے ہمارا خوف قدرے کم کر دیا۔ ہم نے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ افضل خان نے ہماری گاڑی اپنی گاڑی کے پیچھے باندھی۔ ورکشاپ کے سامنے جیپ پارک کر کے ہم نے ضروری سامان اس سے نکالا اور افضل خان کی گاڑی میں بیٹھ کر اس کے گھر چلے گئے۔ ہم پہلی دفعہ کسی پاکستانی گھر کے اندر داخل ہوئے تھے۔ باہر سے یہ گھر بھی عام سا، سادہ سا بلکہ بوسیدہ سا دکھائی دیتا تھا لیکن اندر سے خوب سجا ہوا اور صاف ستھرا تھا۔ افضل خان نے میری کو اندر زنان خانے میں بھیج دیا۔ میں اس کے ساتھ بیٹھک میں جا بیٹھا جہاں زمین پر نرم قالین بچھا ہوا تھا۔ اوپر کڑھی ہوئی چادر یں بچھی تھیں۔ چاروں طرف نرم نرم تکیے رکھے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں افضل خان کی بیٹھک میں لوگ آنا شروع ہو گئے۔ ایک گھنٹے میں قریباً پندرہ مرد میرے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ افضل خان نے بتایا کہ یہ میری وجہ سے بلکہ مجھے ملنے آئے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ پٹھانوں کا رواج ہے کہ ایک گھر میں مہمان آئے تو وہ پورے محلے اور گاؤں کا مشترکہ مہمان ہوتا ہے۔ سب لوگ اس سے ملنے آتے ہیں۔ باری باری ہر گھر میں اس کی دعوت کی جاتی ہے اور ہر رات گاؤں کے سب لوگ اکھٹے ہو کر مہمان کی دلجوئی کرتے ہیں۔

میں نہ صرف اس روایت اور اس رواج سے لا علم تھا بلکہ یورپین معاشرے سے تعلق کی وجہ سے یہ سب کچھ میرے لئے نا قابلِ یقین تھا۔ جسے ہم انتہائی مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ کہتے ہیں وہاں پڑوسی کو پڑوسی کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ اکیلے لوگ اپنے گھر میں مر بھی جاتے ہیں تو دنوں اور ہفتوں تک کسی کو خبر نہیں ہوتی حتیٰ کہ لاش سے بد بو آنے لگتی ہے۔ پھر پولیس یا کسی اور سرکاری محکمے کے کارندے آ کر لاش اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ کسی شخص کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہا ہو تو کوئی مدد کو آگے نہیں بڑھتا۔ کسی کو اپنے گھر میں رہنے کی دعوت دینے کا تو تصور ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی انتہائی قریبی رشتہ دار شادی بیاہ یا مرگ کی تقریب میں شرکت کے لئے یا محض ملنے کے لئے دوسرے شہر یا ملک سے آتا ہے تو اسے اپنے گھر میں کوئی نہیں ٹھہراتا۔ وہ اپنے خرچ پر ہوٹل میں ٹھہرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دن میں کسی ایک کھانے کے وقت اسے گھر یا ریسٹورنٹ میں دعوت دے دی جاتی ہے۔ پھر میزبان اپنے گھر اور مہمان واپس ہوٹل میں چلا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ باپ بیٹے یا بیٹی سے ملنے آئے تو بھی اس کی اس سے زیادہ خدمت نہیں کی جاتی۔ مگر پاکستان جیسے پسماندہ، غریب اور انتہائی کم شرحِ تعلیم والے ملک میں ہم جیسے انجانے پردیسیوں کو اس طرح کی عزت افزائی ملے گی یہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

کھانے کا وقت آیا تو ہمارے آگے اتنی بہت سی ڈشیں سجا دی گئیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں تھا۔ افضل خان نے بتایا کہ اسے ہمارے کھانوں اور پسند کا علم نہیں ہے۔ پاکستانی کھانوں کی مختلف ڈشیں اس لئے بنوا لی ہیں کہ ان میں کچھ تو ہمیں پسند آئیں گی۔ کھانا انتہائی لذیذ تھا۔ ہر ڈش بے مثال اور انوکھی تھی۔ لگتا تھا کہ ہم کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے انتہائی ماہر باورچی کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا رہے ہیں۔ کھانے میں ہمارے ساتھ سبھی حاضرین شامل ہو گئے۔ ان میں سے کچھ تھوڑی بہت انگریزی جانتے تھے جبکہ زیادہ تر اس سے نابلد تھے۔ لیکن ان کی آنکھوں میں موجود محبت واضح طور پر پڑھی جا سکتی تھی۔ افضل خان میزبانی کے ساتھ ساتھ ترجمانی کے فرائض بھی ادا کر رہا تھا۔ غرضیکہ رات گئے تک یہ محفل جاری رہی جس سے میں بے انتہا لطف اندوز ہوا۔ اس دوران میں نے پہلے کافی پی جو خصوصی طور پر میرے لئے بنائی گئی تھی۔ پھر دوسرے میزبانوں کے ساتھ ساتھ ان کا من پسند قہوہ بھی نوشِ جان کیا جو در اصل کافی سے زیادہ ذائقے دار تھا۔

رات گئے مجھے ایک کمرے میں پہنچایا گیا۔ جہاں صاف ستھرا بستر اور بڑا سا اونی کمبل (رضائی) موجود تھا۔ وہاں میں نے میری سے اُس کا حال دریافت کیا۔ وہ بھی میری طرح اپنے میزبانوں سے بہت متاثر تھی۔ اس نے دل کھول کر افضل خان کی بیوی اور دیگر عورتوں کی محبت اور خاطر مدارت کی تعریف کی۔ تا ہم زبان کا مسئلہ ان کے درمیان حائل رہا۔ وہ ایک دوسرے سے زیادہ بات چیت نہیں کر سکی تھیں۔ ہم دونوں کے دلوں میں افضل خانا اور ان کے اہلِ محلہ کی عزت اور محبت بس گئی۔ شام کو گاڑی خراب ہونے اور پھر ہوٹل کی عدم دستیابی کیے بعد جو پریشانی اور خوف و ہراس ہمارے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا وہ قدرے دور ہو گیا۔

لیکن اس نئے ملک کے حالات، کلچر، زبان اور رسم و روایات سے لا علمی کی وجہ سے ابھی بھی ذہن میں کئی اندیشے کلبلا رہے تھے۔ کبھی خیال آتا کہ ہمیں قربانی کے بکرے کی طرح کھلا پلا کر ذبح کرنے کی تیاری تو نہیں کی جا رہی۔ رات کے اندھیرے میں اس ویران سے گاؤں میں ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو جاتا تو کسی کو علم بھی نہیں ہو پاتا۔ ہمارے پاس جو زادِ رہ اور گاڑی ہے وہ چھیننے کے لئے یہ سب ڈرامہ تو نہیں رچایا جا رہا۔ اگلے لمحے افضل خان اور دوسرے پاکستانیوں کے رویے کی طرف دھیان جاتا تو اپنے اندیشے بے بنیاد محسوس ہونے لگتے۔ پھر خیال آتا کہ رہائش، کھانے پینے اور گاڑی کی مرمت کے معاوضے کے طور پر یہ لوگ نہ جانے کتنے روپے لیں گے۔ اب تو ہمارے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ ہر صورت میں افضل خان سے گاڑی مرمت کروانی پڑے گی۔ تیس ہزار لاہور میں دیئے ہیں۔ یہاں نہ جانے کتنا جرمانہ ادا کرنا پڑے۔ انہی خیالات میں کھو کر جو کبھی مثبت اور کبھی منفی بن کر کبھی ڈراتے اور کبھی دلاسا دیتے رہے ہم نیندمیں گم ہوتے چلے گئے۔

رات خیریت سے گز گئی۔ علیٰ الصبح ناشتے کے بعد میری کو افضل خان کے گھر چھوڑ کر میں اور افضل خان ورکشاپ پہنچے۔ وہاں جا کر علم ہو اکہ افضل خان اس گیراج کا مالک بھی ہے۔ اس کے علاوہ چار مزید افراد بھی وہاں کام کرتے تھے۔ جو ہمارے پہنچنے سے پہلے وہاں موجود تھے۔ یہ ورکشاپ چھوٹی سی اور جدید ٹیکنالوجی سے محروم تھی۔ لیکن افضل خان اور اس کے ساتھیوں نے جب گاڑی کا گیئر باکس کھول کر اس کی مرمت شروع کی تو ان کی مہارت کا قائل ہونا پڑا۔ گیئر باکس کے اندر کافی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی تھی۔ اگر ہم سوئٹزر لینڈ میں ہوتے تو اس کی مرمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہر صورت میں نیا گیئر باکس ڈالا جاتا۔ لیکن افضل خان اور اس کے ساتھی مکینکوں نے یہ چیلنج قبول کر لیا۔ انہوں نے گیئر بکس کا قریب قریب ہر پرزہ الگ کر دیا۔ پھر ان پرزوں کو جوڑ کر گیئر بکس کو انتہائی مضبوط طریقے سے اسمبل کیا۔ چھ گھنٹے کی محنت شاقہ کے بعد جس میں مجموعی طور پر تین ماہر افراد مسلسل مصروفِ کار رہے گیئر باکس دوبارہ کار میں لگایا گیا۔ اس کے بعد جب ہم نے گاڑی اسٹارٹ کر کے چلائی تو گیئر بکس بہترین انداز میں کام کر رہا تھا۔

در اصل افضل خان نے اسے نئے گیئر بکس سے بھی مضبوط بنا دیا تھا۔ سہ پہر تین بجے تک گاڑی بالکل تیار ہو چکی تھی۔ میں افضل خان کے ساتھ اس کے گھر گیا۔ وہاں لنچ کرنے کے بعد میں اور میری اپنی اگلی منزل یعنی پشاور کی جانب روانہ ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ میں نے اپنی جیپ سے پرس نکالا اور افضل خان سے اس کا بل طلب کیا۔ افضل خان نے کہا ’’بل تو آپ پہلے ہی ادا کر چکے ہیں۔ ہم آپ سے دوبارہ تو نہیں لے سکتے‘‘

میں نے حیرانگی سے پوچھا ’’میں نے تو پہلے تمھیں کوئی بل ادا نہیں کیا۔ تم کس بل کی بات کر رہے ہو؟‘‘

’’میں اس بل کی بات کر رہا ہوں جو آپ لاہور میں ادا کر چکے ہیں‘‘

’’کیا بات کر رہے ہو افضل خان! لاہور والے بل سے تمھارا کیا تعلق! تم نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ تقریباً پورا دن میری گاڑی پر صرف کیا ہے۔ نئے پرزے بھی لگائے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم تمھارے گھر میں رہے ہیں۔ کھایا ہے پیا ہے۔ میں اس بل کی بات کر رہا ہوں۔ مجھے بتاؤ کل کتنی رقم مجھے ادا کرنی ہے؟‘‘

میں نے دیکھا کہ افضل خان کا چہرہ قدرے لال ہو گیا۔ ا س نے کہا ’’مسڑ اسمتھ آپ ہمارے گھر میں رہے اور کھایا پیا وہ آپ کی مہربانی ہے۔ کیونکہ مہمان تو خدا کی رحمت ہوتے ہیں۔ اس کے معاوضے کی بات کر کے ہمارا دل تو نہ دکھائیں۔ جہاں تک گاڑی کی مرمت کا تعلق ہے آپ پاکستان میں ہمارے مہمان ہیں۔ گاڑی کے ایک نقص کے لئے دو بار بل وصول کر کے ہم پاکستانی آپ کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتے۔ لاہور میں آپ نے جو ادا کر دیے ہیں وہی اس مرمت کا معاوضہ ہے۔ میں آپ سے کوئی مزید رقم نہیں لوں گا۔ برائے مہربانی اصرار کر کے مجھے شرمندہ نہ کریں‘‘

’’لیکن مسڑ افضل تم اور تمھارے ساتھیوں نے سارا دن جو محنت کی ہے وہ۔۔۔۔‘‘

’’اس کا پھل اللہ دے گا‘‘ افضل خان نے میری بات کاٹ کر کہا۔ اس کے لہجے کی قطعیت، خدا پر راسخ بھروسے کا اظہار تھا ’’روزی رساں وہ ہے۔ ہماری محنت کا پھل یہ ہے کہ آپ پاکستان سے یہ تاثر نہ لے کر جائیں کہ پاکستانی بے ایمان ہیں۔ وہ معاوضہ تو پورا لے لیتے ہیں لیکن کام صحیح نہیں کرتے۔ اگر میرے ایک بھائی نے لاہور میں اپنے کام میں ذرا سی غفلت دکھائی ہے تو میں نے اس کام کو مکمل کر کے آپ کے دیے گئے معاوضے کا حق ادا کر دیا ہے۔ کسی پر احسان نہیں کیا ہے۔ بلکہ آپ کو جو زحمت ہوئی ہے میں اس کے لئے بھی آپ سے معذرت خواہ ہوں‘‘

میں افضل خان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں۔ غربت میں غنا کا یہ عالم ہے۔ انسانیت کا کتنا درد موجود ہے ان کے عمل اور کردار میں۔ میں نے دنیا دیکھی ہے۔ کردار کی یہ بلندی مجھے روئے زمین پر کہیں نظر نہیں آئی۔ انتہائی دولت مند اور قبر میں پاؤں لٹکائے بڈھوں کو بھی ایک ایک ڈالر کے لئے اپنی ہی اولاد کو ترساتے دیکھا ہے۔ کہاں یہ لوگ کہ محدود وسائل کے باوجود دل کے اتنے غنی ہیں۔ افضل خان کا رویہ اور اس کی خوشی دیکھ کر میں اور میری نے رقم دینے پر مزید اصرار نہیں کیا۔ ہم بو جھل دل اور پرنم آنکھوں کے ساتھ افضل خان سے جدا ہوئے۔ افضل خان، پاکستان اور پاکستانیوں کے جذبۂ مہمان نوازی کو اپنے ذہن و دل میں بسا کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔

یہ نہ صرف ہمارے ورلڈ ٹور بلکہ ہماری زندگیوں کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ سوئٹزر لینڈ آنے کے بعد نہ صرف ہم نے یہ واقعہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو سنایا بلکہ میری نے اُسے قلمبند کر کے ایک اخبار کو بھی بھیجا۔ اخبار والوں کی فرمائش پر ہم نے انہیں افضل خان کی تصویر بھی مہیا کی جو اس مؤقر اخبار کی زینت بنی۔ اس واقعے کے بعد ہر پاکستانی ہمارے لئے قابلِ عقیدت ہو گیا ہے کیونکہ ہر پاکستانی کے چہرے میں ہمیں افضل خان نظر آتا ہے۔




خرید کر پینے چھوڑ دیئے ہیں





اسد ملک نے پورے نو بجے ہارن دیا۔ میں اسمتھ اور میری سے اجازت لے کر باہر نکل آیا۔ دونوں میاں بیوی نے بہت پیار سے مجھے رخصت کیا۔ میں نے بھی ان کی محبت بھری دعوت اور ان کے خلوص کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کیا۔ میری اور اسمتھ کو خدا حافظ کہہ کر میں دروازہ کھول کر اسد کے برابر پیسنجر سیٹ پر جا بیٹھا۔ اسد نے پوچھا ’’کہیے! کیسی رہی آپ کی دعوت؟‘‘

’’اچھی! بہت اچھی!‘‘

’’ان گوروں کی خوراک تو بہت مختلف ہے۔ وہاں آپ کے کھانے کے لائق کیا ہو گا؟‘‘ اس نے کہا

’’ہاں! ہمارے ہاں سے بہت مختلف۔ دیکھا جائے تو ہمارے حساب سے یہ کھانا نہیں تھا۔ اسے صرف اسنیکس کہا جا سکتا ہے۔ ہم دو گھنٹے تک کچن میں بیٹھے رہے۔ وقفے وقفے سے سوپ، سلاد، مکئی کے بھٹے، کیک اور کافی سے گپ شپ کے درمیان شغل کرتے رہے‘‘

’’یہی کل ڈنر تھا؟‘‘ اسد نے پوچھا

’’اس کے علاوہ پیار، خلوص اور محبت بھی اس میں شامل تھی۔ بہرحال ان کے کھانے پاکستان کی طرح نہیں۔ جہاں بیک وقت مختلف ڈشیں سامنے رکھی جاتی ہیں۔ بیک وقت سب سے انصاف کرنا پڑتا ہے اور دس منٹ کے بعد ہاتھ دھو کر ڈکار لیتے ہوئے گھر کی جانب چل پڑتے ہیں۔ پاکستان میں دعوتوں میں کھانا اتنا زیادہ کھایا جاتا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ زندگی کا پہلا اور آخری کھانا ہے۔ اس کے بعد کولڈ ڈرنک یا پانی کے تین چار گلاس غٹا غٹ حلق میں انڈیل کر کھانے کو نیچے اتارا جاتا ہے۔ اگلے دس بارہ گھنٹے بلکہ ایک آدھ دن کے لئے پیٹ میں ایک تنکے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ بعض صاحبان کا تو یہ فارمولہ ہے کہ کھانا اتنا کھانا چاہئیے کہ یا تو میز پر کچھ باقی نہ رہے یا پیٹ میز سے ٹکرانا شروع ہو جائے۔ دعوتوں اور پارٹیوں میں سب سے پہلے کھانا لینے اور انتہائی سرعت سے کھانے کا تو جیسے مقابلہ ہوتا ہے۔ پارٹیوں میں کھانا لگتے ہی لوگ اس پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ایک منٹ کی تاخیر ہو گئی تو کھانے کے لئے کچھ بچے گا ہی نہیں۔ اس وقت لوگ اپنے ساتھ آئے ہوئے دوستوں کو بھی بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ مرغی کی ٹانگوں اور بھنے ہوئے گوشت کے علاوہ میز پر اور بھی بہت ساری ڈشیں سجی ہیں۔ ایسی دعوتوں میں سبزی یا دال کو ہاتھ لگانا تو جیسے گناہ سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ روٹی اور چاول لینے کی بجائے صرف گوشت کھاتے ہیں۔

ایسی ہی ایک دعوت میں ہم چند دوست موجود تھے۔ ایک صاحب نے جب ایک بڑی سی پلیٹ صرف گوشت سے لبا لب بھر لی تو ایک دوسرے دوست نے اسے ٹوکا کہ یہاں دوسری ڈشیں بھی رکھی ہیں۔ اس نے منہ بنایا، ہاتھ جھٹکا او کہا ’’ہٹاؤ! دال اور سبزی کون کھاتا ہے‘‘

تیسرے نے تکلف دوست نے کہا ’’تم تو ایسے کہہ رہے جیسے گھر میں بھی صرف گوشت ہی کھاتے ہو‘‘

ایک اور دوست کو بھی موقع مل گیا۔ اس نے بھی اسے رگیدنے کے لئے کہا ’’ہاں! گھر میں تو جیسے روز بکرا ذبح ہوتا ہے کہ دال اور سبزی سے یوں نفرت کا اظہار کر رہے ہو‘‘

ایک دو اور دوستوں نے بھی اس پر طنزیہ فقرے کسے۔ لیکن وہ صاحب سب دوستوں کے مذاق کو نظر انداز کر کے گوشت سے بھری ہوئی پلیٹ سے انصاف کرتے رہے۔ جب پلیٹ خالی ہوئی تو انہوں نے اسے دوبارہ بھر لیا۔ واپس میز پر آ کر بیٹھے اور بولے ’’بس یا کسی اور کو بھی کچھ کہنا ہے۔ اب آپ سب توجہ سے میری بات سنیں کہ میں گھر میں کیا کھاتا ہوں۔ تو بھائی گھر میں روزانہ دال پکتی ہے۔ وہی کھاتا ہوں۔ ایسی دعوتوں اور پارٹیوں میں ہی تو گوشت کھانے کو ملتا ہے۔ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں کہ یہاں آ کر بھی دال ہی کھاؤں‘‘ پھر انہوں نے مزید اضافہ کیا ’’آخر ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق جسم کو پروٹین کی مطلوبہ مقدار بھی تو مہیا کرنی پڑتی ہے وہ ایسی پارٹیوں جا کر پوری ہوتی ہے‘‘

سڈنی میں میرے ایک دوست ڈاکٹر ہیں۔ وہ مجھے ہمیشہ موٹاپے اور کولیسٹرول سے ڈراتے رہتے ہیں۔ مسالے دار کھانوں سے پرہیز کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اکثر پارٹیوں میں ان ڈاکٹر صاحب کو بھی میں نے کھانا کھاتے دیکھا ہے۔ وہ گوشت والی ڈشوں سے پلیٹ بھر کر ایسے کھا رہے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ جسم میں پروٹین کی مطلوبہ مقدار سال بھر کے لئے جمع کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دو دن سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔ انہیں کھاتے دیکھ کر لگتا ہے کہ اگلے دو دن بھی ان کو کھانے کی حاجت نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود ان کی سرجری میں جب بھی جاؤ ہمیں سبزیاں اور سلاد کھانے کی تلقین کرتے ہیں۔ گوشت اور موٹاپا بڑھانے والے دوسرے کھانوں سے بچنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے ڈاکٹر صاحب ہیں۔ وہ ہمیشہ مجھے سگریٹ نوشی ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سگریٹ نوش اپنی قبر خود کھودتا ہے۔ لیکن یہ ڈاکٹر صاحب خود ہر تین مریضوں کو دیکھنے کے بعد سرجری کے پیچھے بنے صحن میں جا کر سگریٹ کا دھواں اڑا رہے ہوتے ہیں۔ پارٹیوں میں جتنی سگریٹ فری ملیں پی لیتے ہیں۔ ہاں اتنا پرہیز ضرور کرتے ہیں کہ اپنے پیکٹ سے نہیں پیتے۔ برانڈ کی پروا کئے بغیر ہر دوست کے پیکٹ سے سگریٹ لے کر ایسے کش لگاتے ہیں جیسے مریضوں کو دئے گئے مشورے کے مطابق صبح کی تازہ ہوا میں لمبے لمبے سانس لے رہے ہوں۔ یہ ڈاکٹر صاحب کافی دوست دار اور گپ شپ کے شوقین ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ سگریٹ نوشی ترک کر رہے ہیں۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ایک پارٹی میں جب انہوں نے مجھ سے سگریٹ طلب کی تو میں نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ نے ابھی تک سگریٹ چھوڑے نہیں‘‘

کہنے لگے ’’خرید کر پینے چھوڑ دیئے ہیں‘‘

کھانے اور سگریٹ نوشی کی میری باتوں کے دوران پتا ہی نہیں چلا اور ہماری گاڑی ایک دو منزلہ عمارت کے کار پورچ میں جا رکی۔ اس عمارت میں اُوپر نیچے آٹھ فلیٹ تھے۔ اسد نے گاڑی کا انجن بند کرتے ہوئے کہا ’’آئیے‘‘

میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ در اصل میں یہ توقع کر رہا تھا کہ اسد مجھے کسی کافی شاپ وغیرہ میں لے کر جائے گا۔ یہ تو اس کا گھر لگتا تھا۔ اس نے میرا دروازہ کھولتے ہوئے پھر کہا ’’آئیے‘‘

اسد ملک کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے۔ اسد نے ایک فلیٹ کا دروازہ کھٹکٹایا تو اندر سے سوئس زبان میں کچھ پوچھا گیا۔ جس کا مطلب میں نے اخذ کیا کہ کون ہے؟ اسد نے پنجابی میں کہا ’’میں ہوں دروازہ کھولو‘‘

اسد کی بیوی نے دروازہ کھولا اور ہم نفاست سے سجے ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے۔ اسد کی بیوی جس کا نام شبانہ تھا، سے اسد نے میرا تعارف کروایا۔ اس نے بیوی کو میرے بارے میں بتایا کہ میں آسٹریلیا سے یورپ کی سیر کے لئے آیا ہوں۔ اسد پنجاب کی دھرتی کا روایتی گبرو جوان تھا۔ گھنگریالے بال، کالی آنکھیں، دراز قد اور مضبوط ہاتھ پاؤں۔ اسد کی طرح قدرت نے شبانہ کو بھی خصوصی حسن سے نوازا تھا۔ شبانہ حسن و نزاکت کا مرقع تھی۔ حسین کتابی چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، چہرے پر دودھ کی ملائی کا پر تو، گوری رنگت اور صراحی دار گردن۔ قدرت نے اس جوڑی کو فرصت میں تخلیق کیا تھا۔ اسد اور شبانہ کی جوڑی خوب تھی۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کی کہ خدا اس جوڑے کو نظرِ بد سے بچائے۔

اس وقت اگرچہ رات کے دس بجے تھے۔ لیکن ابھی تک دن کی روشنی باقی تھی۔ رسمی علیک سلیک اور حال احوال دریافت کرنے کے بعد اسد نے بیوی سے کہا ’’بھئی! خالی باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ کچھ کھانے پینے کا بندوبست بھی کریں‘‘

میں نے اسد سے کہا ’’آپ کو تو معلوم ہے کہ میں ابھی کھانا کھا کر آ رہا ہوں۔ اس لئے میرے لئے کسی تکلف کی ضرورت نہیں‘‘

اسد ہنس کر بولا ’’مجھے علم ہے آپ کیا کھا کر آئے ہیں۔ میں نے خود بھی کھانا ابھی تک نہیں کھایا۔ آپ یورپین کھانا کھا کر آئے ہیں اب کچھ دیسی کھانوں سے زبان کا ذائقہ بدل لیں‘‘

لگتا تھا اسد نے شبانہ کو میری آمد سے پہلے مطلع کر دیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہیں ڈرائنگ روم کی کافی ٹیبل پر ہمارے آگے گرم گرم بریانی اور لذیذ شامی کباب موجود تھے۔ قورمہ اور چپاتیاں بھی تھیں۔ میں اگر واپس ہوٹل گیا ہوتا تو اسمتھ اور میری کے ہاں کھائے ہوئے مکئی کے بھٹوں اور سلاد کو پورا کھانا سمجھ کر اب سونے کی تیاری کر رہا ہوتا۔ پردیسی ہونے کی حیثیت سے اس اجنبی ملک اور اجنبی شہر میں گھر کے بنے ہوئے ان ذائقے دار کھانوں سے انصاف نہ کرنا کفران نعمت تھا۔ میں تھوڑا کھا کر ہاتھ کھینچتا تو اسد اور شبانہ اصرار کر کے میری پلیٹ میں کچھ اور ڈال دیتے۔ خصوصاً شبانہ بھائی کہہ کر پکارتی تو بہت اچھا لگتا۔ بہت دنوں بعد گھر کا ماحول اور کھانا نصیب ہوا تھا۔ جس میں اہلِ خانہ کے خلوص اور محبت کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ میں اس حسین جوڑے کے خلوص اور محبت سے بہت متاثر ہوا۔ لگتا تھا کہ قدرت نے انہیں ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ باطنی خوبصورتی اور محبت کرنے والے دلوں سے بھی نوازا ہے۔ کھانے اور چائے کے ساتھ ساتھ باتوں کا دور چل نکلا۔ میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا اور اسد سے اس کی کہانی سننے کی خواہش ظاہر کی۔ اسد نے مجھے بتایا کہ پچھلے دس سال سے یورپ میں رہتے ہوئے میں پہلا شخص ہوں جسے وہ اپنی کہانی سنا رہے ہیں۔




وہ شکاری کتوں کی طرح مجھے ڈھونڈ رہے تھے





میرا تعلق پنجاب کے وسطی علاقے کے ایک چھوٹے سے شہر سے ہے۔ میری آنکھ ایک نچلے درجے کے زمیندار گھرانے میں کھلی۔ ہماری چند ایکڑ زمین تھی جس کی دیکھ بھال میرے والد صاحب کرتے تھے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ ان کے تمام پیار، ساری محبتوں اور توجہ کا واحد مرکز۔ میں بارہ سال کا تھا جب میری ماں چل بسی۔ ماں کی جدائی میری زندگی کا بہت بڑا المیہ تھا۔ ماں کی رحلت لڑکپن کی لا اُبالی عمر کے باوجود میرے دل و دماغ پر ایک گہرا صدمہ ثبت کر گئی۔ میری ماں جو پیار اور ممتا کا خزانہ تھی جیسے مجھے تپتی دوپہر میں ننگے سر چھوڑ گئی۔ پیشتر اس کے کہ میں بالکل ہی بکھر جاتا میرے والد نے مجھے اپنی محبت اور شفقت کی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ والد صاحب پہلے ہی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ ماں کے جانے کے بعد تو جیسے مجھے ایک پل کے لئے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔ وہ چاہتے تو دوسری شادی کر سکتے تھے لیکن میری وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ مجھ پر سوتیلی ماں کا سایہ نہیں پڑنے دینا چاہتے تھے۔ ان کی ساری توجہ میری تعلیم و تربیت پر مرکوز ہو گئی۔ وہ خود پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کے دل میں علم کا شوق بہت تھا۔ وہ علم اور اہل علم کی بہت قدر کرتے تھے۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر ایک اچھا شہری بنوں اور علم و فکر کی شمع سے اپنے دل و دماغ کو منور کروں۔ دنیا میں نام کماؤں اور ان کا نام بھی روشن کروں۔ والد صاحب کی اس خواہش کا مجھے بہت احترام تھا۔ میں نے بھی اس مد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ پوری محنت اور جانفشانی سے تحصیلِ علم میں جُت گیا۔

پڑھنے کا مجھے خود بھی شوق تھا اور میرا دماغ بھی اچھا تھا۔ گھر میں مجھے کوئی پڑھانے والا نہیں تھا بلکہ گھر آ کر مجھے زمینداری کے کام کاج میں والد صاحب کا ہاتھ بھی بٹانا پڑتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے آسانی سے میٹرک سائنس کے ساتھ فرسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا۔

میٹرک کے بعد مجھے والد صاحب سے دُور لاہور جانا پڑا۔ میں نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہیں ایک ہوسٹل میں رہتا تھا۔ ہفتے کے ہفتے گھر جاتا جہاں والد صاحب جیسے میرا راستہ دیکھ رہے ہوتے۔ ایک دن اور دو راتیں اکھٹی گزار کر میں واپس لاہور چلا آتا۔ والد صاحب اگلے ویک اینڈ کا انتظار کرنے لگتے۔ مجھے ان سے جدائی اور ان کی تنہائی کا بہت احساس تھا لیکن اس مسئلے کا کوئی حل بھی نہیں تھا۔ میرا خواب ڈاکٹر بننے کا تھا۔ یہ خواب مجھے میرے والد نے ہی دیا تھا۔ اس خواب کی تکمیل کے لئے ہم باپ بیٹا عارضی طور پر جدا ہوئے تھے۔ میں تو ہوسٹل میں دوستوں کے ساتھ رہتا تھا مگر والد صاحب گھر میں اکیلے سوچوں اور انتظار میں گھلتے رہتے۔

گھلنے کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ وہ تنہائی، شریک حیات کی دائمی جدائی، شب و روز کی مشقت سے بیمار رہنے لگے تھے۔ میں جب بھی انہیں ملنے جاتا تو ان کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو جاتا۔ وہ میرے سامنے اپنی بیماری کو ظاہر نہ ہونے دیتے بلکہ میرے سامنے ہنستے کھیلتے اور خوش رہنے کی پوری کوشش کرتے۔ شروع میں مجھے نہ اتنی سمجھ تھی اور نہ میرے پاس کوئی طریقہ تھا جس سے ان کی بیماری کے بارے میں جان سکوں۔ اس وقت میں ایم بی بی ایس کے چوتھے سال میں تھا جب والد صاحب کی بیماری کا مجھے علم ہوا۔ وہ بھی اس طرح کہ میں زبردستی انہیں اپنے ساتھ لاہور لے کر گیا۔ جہاں میرے ایک استاد ڈاکٹر نے اپنے کلینک میں ان کا چیک اپ کیا۔

مجھ پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ والد صاحب کے پھیپھڑے تقریباً جواب دے چکے ہیں۔ میں اپنی پڑھائی اور باقی سب کچھ بھول کر والد صاحب کا علاج کرانے میں جت گیا۔ اس کے لئے میں کئی دوستوں کا مقروض بھی ہو گیا۔ ان کا علاج میں نے اچھے ڈاکٹروں سے کرایا۔ مگر جب موت آتی ہے تو ڈاکٹر اور دوائیاں اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ میرے والد صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ایک دن دنیا میں میرا واحد سہارا، میرا باپ، میری ماں، میرا دوست، میرا سب کچھ، میری بانہوں میں دم توڑ گیا۔ میں اس بھری دنیا میں بالکل تنہا رہ گیا۔ محبتوں کا گھنا اور سایہ دار درخت یکلخت میرے سر سے اٹھ گیا۔ میں دنیا کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے سر کھڑا رہ گیا۔

یہ صدمہ میرے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ لیکن میرے دوستوں اور اساتذہ نے مجھے بہت سہارا دیا۔ والد صاحب کی علالت کے دوران اور ان کے انتقال کے بعد ذہنی یکسوئی کی عدم موجودگی کی وجہ سے میری پڑھائی بھی متاثر ہوئی۔ لگتا تھا کہ میں اس سال کا امتحان نہیں پاس کر سکوں گا۔ آخری تین ماہ میں نے سر توڑ کوشش کی کیونکہ میں والد صاحب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتا تھا۔ خدا نے میری مدد کی اور اس امتحان میں بھی سرخرو ہوا۔ اب ڈاکٹر بننے کے لئے صرف دو سال کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے میں نے زمین کا کچھ حصہ فروخت کر دیا۔ میرا اور والد صاحب کا مشترکہ خواب عنقریب پورا ہونے والا تھا اور منزل سامنے نظر آ رہی تھی۔ لیکن بعض اوقات انسان کی زندگیوں میں وہ کچھ ہو جاتا ہے کہ جو اس نے خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ منزلیں اور راستے اچانک تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی قسمت پر کس کا اختیار ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

شبانہ میری کلاس فیلو تھی۔ وہ ہمارے ہی علاقے کے ایک بہت بڑے زمیندار کی بیٹی تھی۔ اس زمیندار کی زرعی زمین لامحدود اور دولت بے حساب تھی۔ زمینوں کے علاوہ فیکٹریاں اور دوسرے کاروبار بھی تھے۔ وہ نہ صرف اپنے علاقے بلکہ قومی سطح کے سیاستدان تھے۔ علاقے کے لوگوں پر ان کی سیاست سے زیادہ ان کی زمینداری اور دہشت کا اثر تھا۔ ان کے خلاف انتخابات میں کھڑا ہونا تو درکنار کوئی بات تک نہیں کر سکتا تھا۔ پولیس اور دیگر سرکاری انتظامیہ جیسے ان کی مٹھی میں تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے علاقے کے بے تاج بادشاہ اور دار الحکومت میں بادشاہ گر کہے جا سکتے تھے۔ باپ کے مزاج کے برعکس شبانہ جتنی خوبصورت تھی اتنا ہی دردِ دل رکھنے والی لڑکی تھی۔ اسے باپ کی سیاست اور زمینداری کے طور طریقوں سے سخت اختلاف تھا۔ لیکن اس کا باپ کے آگے بس نہیں چلتا تھا۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ اس کے بے انتہا شوق کو مد نظر رکھ کر اس کے باپ نے اسے میڈیکل کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ تاہم وہ اپنی بیٹی کو نوکری کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے تھے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی پذیرائی کے پیش نظر انہوں نے بیٹی کے شوق میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور اسے ڈاکٹر بننے کا موقع دے دیا۔

وہی شبانہ پہلے میری کلاس فیلو پھر دوست اور پھر جان جاناں بنی۔ سب کچھ خود بخود ہوتا چلا گیا۔ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب کب اور کیسے آئے اس کا پتہ بھی نہیں چلا۔ ایسے لگتا تھا کہ قدرت نے ہمیں یکجا کرنے کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔ ورنہ اس انتہائی امیر گھر کی لڑکی کا میرے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تھا۔ میرے کوئی آگے تھا نہ پیچھے۔ ایک بہت بڑے زمیندار اور سیاسی خاندان کی نورِ نظر ہونے کی وجہ سے شبانہ کو اپنے جیسے کسی بڑے خاندان میں بیاہ کر جانا تھا۔ محبت اور محبت کی شادی کا شبانہ کے خاندان میں کوئی تصور نہیں تھا۔ خاص طور پر لڑکی کی ایسی جسارت ناقابلِ معافی تھی۔ اس حقیقت کا شبانہ اور مجھے بخوبی علم تھا۔ لیکن دل پر کس کا زور ہے۔ ہم دونوں بھی دِل کے ہاتھوں مجبور تھے۔ پھر بھی ہم ہر ممکن احتیاط برت رہے تھے۔ کالج سے باہر نہیں ملتے تھے۔ کالج میں بھی ہماری ملاقاتیں محدود اور مختصر وقت کی ہوتی تھیں۔ ہم مستقبل کے سنہرے خواب بھی دیکھتے جو ہر انسان کا حق ہے۔ ان خوابوں میں بکھرے جا بجا زہریلے کانٹوں پر بھی ہماری نظر تھی۔ اس کشمکش میں میڈیکل کالج کی شبانہ روز پڑھائی سے بھی جاری تھی۔ مستقبل کے شوق اور اندیشوں اور آس و نراس کے جذبوں کے ساتھ زندگی کی نیا کبھی ڈوبتی اور کبھی اُبھرتی دکھائی دیتی تھی۔

اچانک اس میں ایک ایسا زبردست طوفان آیا جس میں سب کچھ بہہ گیا۔ ہم دونوں کے ڈاکٹر بننے کا خواب، میرا کیرئیر، میرے مرتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں سجے سپنے، انسانیت کی خدمت کا خواب اور اپنی مٹی، سب کچھ چھن گیا اور ہم دربدر اور ملکوں ملکوں کی خاک چھانتے ہوئے آج یہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ میں ڈاکٹر کے بجائے ٹیکسی ڈرائیور بن گیا ہوں۔ اور شبانہ جو سونے کا چمچہ لے پیدا ہوئی تھی جو ایک درد دل رکھنے والی ڈاکٹر بن رہی تھی، ایک ریسٹورنٹ میں ویٹرس کا کام کر رہی ہے۔ ہم اپنی زمین، اپنی مٹی، اپنے لوگوں اور اپنے ملک کی ہواؤں کو ترس گئے ہیں۔ وہاں تک رسائی ہمارے لئے نا ممکن بنا دی گئی ہے۔ ہماری موت کے ہرکارے پاکستان سے ہمارے تعاقب میں یورپ تک چلے آئے۔ خوش قسمتی سے اب تک ہم زندہ ہیں۔ لیکن کل کا علم کس کو ہے۔ کسی بھی وقت موت کے وہ ہر کارے ہماری شہ رگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

در اصل شبانہ اور میری محبت کی خبر کسی نے شبانہ کے باپ تک پہنچا دی۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان آ گیا۔ شبانہ کو میڈیکل کے آخری سال میں کالج چھڑوا کر زبردستی گھر میں بٹھا دیا گیا۔ میرا گاؤں کا گھر اور فصلیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ مجھے قتل کرنے کے لئے کرائے کے قاتل میرے پیچھے لگا دیئے گئے۔ دشمنوں نے ایک رات میرے گھر پر حملہ کر دیا۔ وہ تو میری قسمت اچھی تھی کہ مجھے چھت کے راستے فرار کا موقع مل گیا۔ میڈیکل کالج کے دروازے پر بھی قاتل پہرہ دینے لگے۔ وہ شکاری کتوں کی طرح مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ ایئر پورٹ، ٹرین اسٹیشن اور لاریوں کے اڈے ہر جگہ موت کے ہرکارے تعینات تھے۔ قریب تھا کہ ان کے ہاتھ میری شہ رگ تک پہنچ جاتے میں ایک دوست کی مدد سے لاہور سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی دوست نے کسی طرح شبانہ کا فون نمبر مجھے مہیا کر دیا۔ میں نے کراچی سے شبانہ سے فون پر رابطہ کیا۔ ایک رات شبانہ بھی ان کڑے پہروں کی قید سے فرار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی۔ اس کے بعد ہم فوری طور پر پاکستان سے فرار ہو کر پہلے دبئی اور پھر لندن پہنچے۔ لندن جا کر ہم نے شادی کر لی۔

اپنے بکھرے ہوئے خوابوں کو کسی قدر سمیٹ کر محبت کے سائے میں زندگی گزارنا شروع کی ہی تھی کہ ہماری زندگیوں کے دشمنوں کو لندن میں ہماری موجودگی کا علم ہو گیا۔ ان کے اثر و روسوخ کی انتہا دیکھئے کہ ان کے بھیجے ہوئے موت کے فرشتے لندن میں ہمارے گھر تک پہنچ گئے۔ وہ تو شبانہ نے فلیٹ کی نگرانی کرنے والوں میں سے ایک کو پہچان لیا۔ وہ شخص شبانہ کے باپ کا سیاسی غنڈا تھا۔ ہم نے لندن پولیس کو خود سے درپیش خطرے سے آگاہ کیا۔ پولیس ان لوگوں کو گرفتار تو نہ کر سکی لیکن ہمیں ایک دوسرے محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ برطانیہ میں ہم دشمنوں کی نظروں میں آ چکے تھے۔ اسی لئے ایک دن ہم نے خاموشی سے برطانیہ کی سرحدیں عبور کیں اور دنیا کے اس جنت نظیر خطے میں آ کر پناہ لی۔

اس چھوٹے سے شہر میں رہنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا دھیان شاید یہاں تک نہیں آئے۔ یورپ کے تمام بڑے شہروں میں ہماری تلاش کافی عرصے تک جاری رہی۔ کچھ عرصہ قبل شبانہ کے والد کا انتقال ہوا تو یہ سلسلہ بند ہوا۔ شبانہ کا پاکستان میں ایک سہیلی سے رابطہ ہے۔ اسی نے بتایا کہ شبانہ کے بھائیوں نے والد کا جاری کردہ ہماری موت کا حکم منسوخ کر دیا ہے۔ وہ شبانہ اور مجھے معاف کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن ہم یہ خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شکاریوں کا بچھایا ہوا جال ہو۔

زندگی نے ہم سے جہاں بہت کچھ چھینا ہے وہاں کچھ دیا بھی ہے۔ جہاں ہمارے اتنے خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے رہ گئے وہاں ایک دوسرے کو پانے کا سب سے مشکل بلکہ نا ممکن خواب سچا ثابت ہوا۔ اگر ہم ڈاکٹر نہیں بن سکے تو کم از کم پڑھے لکھے اور با شعور شہری تو ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی دولت پیار تو ہے۔ اور پھر قدرت نے ہمیں ایک پھول سی بیٹی سے بھی نوازا ہے۔ ہم اپنی زندگیوں میں جن خوابوں کا رنگ نہ بھر سکے وہ اپنی بیٹی کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ ہم اسے ڈاکٹر بنائیں گے تاکہ وہ ماں اور باپ دونوں کے خوابوں کی مشترکہ تعبیر بن سکے۔




جرمنی




ہائیڈل برگ میں شاعرِ مشرق کی یادگار





اگلی صبح ہماری کوچ سوئٹزر لینڈ کے اس جنت نظیر شہر لیوزرن سے نکل کر جرمنی کی طرف رواں دواں تھی۔ وہی دلکش نظارے، وہی سبزے کی لامتناہی چادر، رنگا رنگ پھولوں کی بہار، حسین وادیاں اور پہاڑ ہر دو جانب آنکھوں کے راستے دل میں اترے جا رہے تھے۔ سوئٹزر لینڈ کی طرح جرمنی بھی قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ اس خوبصورتی کا تسلسل جرمنی میں بھی قائم رہا۔ ہاں جرمنی کی تاریخ سوئٹزر لینڈ سے مختلف ضرور ہے۔ جرمنی جو دوسری جنگ عظیم میں تقریباً تباہ ہو گیا تھا انتہائی سرعت سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا۔ ان کی ترقی کی رفتار حیرت انگیز ہے۔ جسے تباہ کرنے کے لئے اتحادیوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی وہ آج ان سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پانچ اتحادی ممالک نے جرمنی پر اپنا تسلط جمایا۔ جس میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، امریکہ اور روس شامل تھے۔ 1955 میں تین ملکوں فرانس، برطانیہ اور اٹلی نے جرمنی سے انخلاء اختیار کیا۔ لیکن امریکہ اور روس نے اس پر مضبوطی سے پنجے گاڑے رکھے۔ (امریکی فوجیں تو اب تک وہیں ہیں )۔ امریکہ اور روس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے جرمنی کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا شہر برلن اور دیگر جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ بہت سارے خاندان حتیٰ کہ کئی میاں بیوی اگلے پینتیس سال تک ایک دوسرے سے نہ مل سکے۔ حالانکہ درمیان میں ایک معمولی دیوار تھی۔ لیکن اس دیوار نے ایک نسل تک خاندانوں کو آپس میں ملنے نہ دیا۔

1989 میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد معاملات انتہائی سرعت سے سلجھے۔ جرمن پھر سے ایک ہو گئے۔ بچھڑے ہوئے خاندانوں کے جو افراد ابھی تک زندہ تھے آپس میں ملے تو وہ منظر انتہائی رقت انگیز تھا۔ مغربی جرمنی کا دار الخلافہ بون سے پھر برلن منتقل ہو گیا۔ جرمن اکھٹے ہوئے تو بہت کم عرصے میں بیچ کی ساری دیواریں ختم ہو گئیں۔ پھر سے ایک قوم بن کر انہوں نے دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ اس صدی کا پہلا نصف حصہ جرمنی نے جنگوں کی نذر کر دیا تھا۔ آج بھی جرمنی کی پرانی عمارتوں پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ نشان جرمنوں کی پرانی نسل کے دلوں پر بھی ثبت ہیں۔ تا ہم موجودہ نسل پرانی دشمنیوں کو بھلا کر یورپ کے ساتھ شیر و شکر ہو چکی ہے۔

جرمنوں میں فرانسیسوں کی طرح لسانی تعصب نہیں ہے۔ اکثر جرمن انگریزی بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ جرمن بارڈر سے پہلے ہم Rhine Falls پر رُکے۔ انتہائی سر سبزپہاڑوں کی بلندی سے یہ عظیم آبشار شور مچاتی اور جھاگ اڑاتی نیچے گرتی ہے تو آنکھوں کو ایک انوکھے منظر سے روشناس کر اتی چلی جاتی ہے۔ اس قابلِ دید مقام پر ہمارے علاوہ دوسری کئی کوچز بھی کھڑی تھیں۔ ان سے اتر کر سیاح دریا کے کنارے کھڑے ہو کر دوسری جانب گرتے پانی کے ریلے کا نظارہ دیکھنے اور سلولائیڈ پر منتقل کرنے میں مصروف تھے۔ ایسی جگہوں پر کیفے اور ریسٹ روم ضرور ہوتے ہیں۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو سوئس کرنسی بہت تھوڑی سیبچی تھی۔ میں نے کافی کا ایک کپ لیا اور بقیہ رقم کے چند سو وینئر اور کارڈز خرید لئے۔ کافی لے کر میں دریا کے کنارے چلا گیا۔ وہاں کھڑے ہو کر اس ناقابلِ فراموش منظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ دوسرے سیاحوں سے گپ شپ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ حتیٰ کہ ہماری کوچ چلنے کا وقت آ گیا۔ رین فالز کے سامنے ہم اگرچہ تھوڑی دیر کے لئے رُکے لیکن یہ منظر ہمیشہ کے لئے میرے ذہن کے کینوس پر محفوظ ہو گیا۔

آدھ گھنٹے بعد ہم جرمن سوئس بارڈر پر جا پہنچے۔ وہاں ہمیں کوچ سے اترنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ صرف ہماری گائیڈ مولی کیبن میں گئی۔ ہمارے ناموں کی فہرست امیگریشن حکام کے حوالے کی اور پروانہ راہداری لے کر واپس آ گئی۔ جرمنی میں داخلے کے فوراً بعد ہی ہمارا سفر جرمنی کے مشہور و معروف جنگلات بلیک فارسٹ کے اندر شروع ہو گیا۔ نہ جانے ان جنگلات کو بلیک فارسٹ کیوں کہا جاتا ہے۔ اپنے نام کے برعکس یہ جنگلات ایسے ہرگز نہیں تھے کہ انتہائی گھنے ہونے کی وجہ سے وہاں اندھیرا ہو۔ بلکہ یہ اونچے پہاڑوں، ڈھلوانوں، وادیوں، ندی نالوں، میدانوں اور سرسبز و شاداب کھیتوں کے درمیان جا بجا گھروں پر مشتمل دیہاتی علاقے کا رومان پرور منظر تھا۔ ایک شے جو ہر منظر پر محیط اور مشترک تھی وہ قدرتی حسن تھا۔ بے پناہ خوبصورتی تھی، سبزہ تھا، صفائی تھی اور قدرت کی فیاضی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ قدرت نے اس علاقے کو اپنے حسن، دولت اور قدرتی وسائل سے دل کھول کر نوازا ہے۔ سبزہ، پھول، ہرے بھرے درخت، مکئی اور تمباکو کی فصلوں کے کھیت، صحت مند گائیں، لکڑی سے بنے دلکش گھر، جنگلوں اور وادیوں کے بیچ سانپ کی طرح بل کھاتی چمکتے تارکول کی سڑک۔

یہ اتنے دلکش مناظر تھے کہ ایک کی طرف دیکھو تو دوسرے سے بے انصافی ہونے لگتی تھی۔ انسانی نظروں کا دائرہ محدود اور قدرت کے بنائے کینوس کی وسعت لامحدود تھی۔ انہی جنگلات کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت ریسٹورنٹ کے سامنے ہماری کوچ رکی۔ لنچ کا وقت ہو گیا تھا۔ یہ ریسٹورنٹ اور سڑک پہاڑ کی چوٹی پر واقع تھی۔ اس کے ساتھ ہی کافی گہرائی پر گھنے جنگل پر مشتمل وادی تھی جس کے دوسرے کنارے پر ایک اور پہاڑ ایستادہ تھا۔ ریسٹورنٹ بہت خوبصورت تھا۔ اس کے اردگرد رنگ برنگی بڑی بڑی چھتریاں ایستادہ تھیں جن کے نیچے کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے۔ اندر بھی مختلف ہال تھے۔ گیم روم، بار اور دوسری سہولیات بھی مہیا کی گئی تھیں۔

لنچ کے بعد مولی ہمیں ریسٹورنٹ سے ملحق ایک عمارت میں لے گئی۔ یہاں لکڑی سے مختلف اشیاء بنائی جا رہی تھیں۔ مثلاً قلم، پن ہولڈر، ڈیکوریشن پیس، کرسیاں، میز، کھڑکیاں، دروازے اور دیگر کئی چیزیں انتہائی مہارت اور کاریگری کا مظہر نظر آتی تھیں۔ ان میں سب سے ممتاز اور منفرد cooko clock تھا۔ جرمنی کے اس علاقے میں نہایت اچھی لکڑی وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر کاریگر دوسری اشیاء کے علاوہ یہ منفرد کلاک بنا کر پوری دنیا میں برآمد کرتے ہیں۔ اس انوکھے کلاک اور فن کے اس نادر نمونے کو سیاح دھڑا دھڑ خرید رہے تھے۔ اس کلاک میں لکڑی کا بنا cooko (ایک پرندہ) زنجیر کی مدد سے گھڑی سے بندھا رہتا ہے۔ سپرنگ اور لکڑی کے امتزاج سے اس کلاک میں ایسا میکنزم بنایا جاتا ہے کہ ہر گھنٹے بعد اس سے cooko کی آواز آتی ہے۔ یہ کلاک دیکھنے میں بھی دلکش ہے۔ یہ انسانی ہاتھوں کا بنا ایسا فن پارہ ہے کہ کاریگروں کو داد دینے کا دل چاہتا ہے۔

بلیک فارسٹ سے نکل کر جرمنی کے دیہی علاقے کا ہمارا سفر جاری رہتا ہے۔ راستے میں SCHAFFHAUSEN اور پھر LAKE TITSEE کا نظارہ کرتے ہیں۔ ان جگہوں پر قدرتی خوبصورتی، جرمنوں کا حسنِ انتظام اور قدرت کی فیاضیوں کے رنگ جا بجا نظر آتے ہیں۔ ان مناظر کو آنکھوں کے راستے دل میں اتارتے ہم جرمنی کے مشہور یونیورسٹی ٹاؤن ہائیڈل برگ پہنچ جاتے ہیں۔

ہائیڈل برگ کو یونیورسٹی ٹاؤن اس لئے کہتے ہیں کہ اس شہر کی کل آبادی یعنی ایک لاکھ تیس ہزار میں سے بائیس ہزار غیر ملکی طالب علم ہیں۔ دنیا کے شاید ہی کسی اور شہر میں غیر ملکی طالب علم اس تناسب سے رہتے ہوں۔ اس وقت شام ہو چکی تھی۔ ہوٹل جانے سے پہلے ہماری کوچ شہر کے مرکز میں جا کر رُکی۔ ہم شہر کی سیر کے لئے اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ یورپ کے دوسرے بہت سے شہروں کی طرح اس چھوٹے سے شہر کے بیچوں بیچ دریا بہتا ہے۔ ایک طرف بلند و بالا پہاڑ ہیں۔ جن پر سرسبز درختوں کے بیچ کافی اونچائی پر ایک عالیشان قلعہ بنا ہوا ہے۔ بعد میں ایسے بہت سے قلعے جرمنی کے مختلف علاقوں میں نظر آئے جو جرمنوں کی جنگجویانہ تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ دریا کے ایک جانب سڑک، پارکنگ، ریسٹورنٹ، سووینئرز شاپس، ہوٹل اور رہائشی عمارتیں تھیں۔ اسی جانب ہماری کوچ بھی کھڑی تھی۔ دریا کی دوسری جانب ایک بڑا سا سرسبز پارک نظر آ رہا تھا۔ بیچ میں نیلے شفاف پانی کا دریا بہہ رہا تھا۔ رنگی برنگی چھوٹی بڑی کشتیاں اِدھر اُدھر آ جا رہی تھیں۔ سامنے واقع پہاڑ پر بڑے بڑے جدید مکانات فاصلے فاصلے پر بنے نظر آ رہے تھے۔ مکانوں کے درمیانی جگہوں پر کھیت اور باغات تھے۔ غرضیکہ ہائیڈل برگ شہر اور گاؤں دونوں کا مرقع ہے۔

یورپ کے شہروں میں آبادی کا دباؤ زیادہ نہیں ہے۔ زیادہ تر شہر سائز میں بڑے بڑے لیکن آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے کئی گاؤں کے برابر ہیں۔ ہائیڈل برگ کو ہی لے لیجئے جس کی کل آبادی ایک لاکھ تیس ہزار ہے۔ یہ آبادی کراچی کے کسی بھی علاقے سے کم ہو گی۔ مثلاً لانڈھی، کیماڑی، ناظم آباد، شیر شاہ، شاہ فیصل کالونی اور کورنگی جیسے ہر علاقے کی آبادی جرمنی کے اس عظیم الشان شہر سے زیادہ ہو گی۔ اس لئے یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے شہروں میں صحت و صفائی اور دیگر سہولیات کا مربوط انتظام رکھنے میں آسانی رہتی ہے۔

ہائیڈل برگ ہی جرمنی کا وہ مشہور شہر ہے جہاں بر صغیر پاک و ہند کے عظیم فلسفی شاعر حضرت علامہ محمد اقبالؔ نے تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں ہائیڈل برگ کی انتظامیہ نے اقبالؔ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے اس شہر کی اس گلی کا نام اقبالؔ کے نام سے موسوم کر دیا جہاں ان کا قیام تھا۔ میرا ایک عزیز کسی دور میں اس شہر میں مقیم رہا تھا۔ اس کی زبانی مجھے اس بات کا علم ہوا تھا۔ میرے پاس وقت زیادہ نہیں تھا۔ یہاں صرف ایک رات کا قیام تھا لیکن میں اپنی مٹی کے اس عظیم سپوت کی یہ یادگار ہر صورت میں دیکھنا چاہتا تھا۔ سب سیاح ادھر ادھر چلے گئے تھے لیکن جولی حسبِ معمول میرے ساتھ تھی۔ میں نے جب اس سے اس خواہش کا اظہار کیا تو پہلے تو اسے علامہ اقبالؔ کی عظمت اور ان سے اپنی عقیدت کا احساس دلانے میں میرا کافی وقت صرف ہو گیا۔ جب اسے علامہ اقبالؔ سے میری عقیدت اور میرے جذبات کا علم ہوا تو وہ بھی میرے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئی۔

اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ وہ سٹریٹ کیسے ڈھونڈھی جائے۔ ایک دو مقامی لوگوں سے ہم نے دریافت کیا۔ ظاہر ہے پورے شہر کی ایک ایک گلی کا انہیں علم نہیں تھا۔ اچانک مجھے خیال آیا اور میں جولی کو لے کر ایک ٹیکسی میں جا بیٹھا۔ ٹیکسی ڈرائیور کو جب میں نے اقبال اسٹریٹ کا نام بتایا تو پہلے تو اسے میرا تلفظ سمجھ نہیں آیا۔ جب سمجھ میں آیا تو وہ ذرہ بھی نہیں ہچکچایا اور ہمیں لے کر چل پڑا۔ ہم اقبالؔ اسٹریٹ پہنچے تو سب سے پہلے میں نے اسٹریٹ کا سائن دیکھا جو جرمن میں لکھا ہونے کے باوجود آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔ ڈرائیور میری طرف استفسار طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اسٹریٹ تو آ گئی اب کہاں جانا ہے۔ ظاہر ہے اس کا علم مجھے بھی نہیں تھا۔ اقبال اسٹریٹ کا نام دیکھ کر ایک احساس تسکین بلکہ احساسِ تفاخر جاگا۔ میں نے گاڑی رکوائی، کرایہ ادا کیا اور باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ اب کس طرف جائیں۔ میں وہ گھر دیکھنا چاہتا تھا جہاں حضرت علامہ رہائش پذیر رہے تھے۔ ایک دو جرمنوں سے دریافت کرنے کی کوشش کی۔ ان کی انگریزی واجبی سی تھی۔ انہوں نے لا علمی کا اظہار کیا۔ شاید انہیں ہماری بات سمجھ ہی نہیں آئی تھی۔ شام کے اس وقت ارد گرد زیادہ لوگ بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ ہم یونہی اس اسٹریٹ پر چہل قدمی کرتے رہے۔

میرے ذہن میں اس وقت کا تصور اُبھرا جب علامہ اقبال ایک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے اس گلی میں رہتے اور ان فضاؤں میں سانس لیتے تھے۔ اس وقت وہ کیا سوچتے ہوں گے۔ کیسی زندگی گزارتے ہوں گے۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے ان کا تعلق کس قسم کا ہو گا۔ علامہ ایک منفرد بلکہ خاص الخاص ذہن کے مالک تھے۔ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک شاعر اور نظامِ دنیا پر گہری نظریں رکھنے والے فلسفی تھے۔ ہم جیسے عامیوں کو جو نظر یا سمجھ نہیں آتا ان کی عمیق نظریں اسے بھی بھانپ لیتی تھیں۔ اس وقت بھی جب وہ ان فضاؤں میں سانس لیتے ہوں گے ان کا دماغ ان مسائل کی گتھیاں سلجھاتا رہتا ہو گا جو عام لوگوں کو نظر ہی نہیں آتے۔ مشرق و مغرب کے حالات پر ان کی یکساں نظر تھی۔ مغرب کی معاشی اور حربی برتری اور تیسری دنیا کے ممالک خصوصاً مسلمانوں کی زبوں حالی پر ان کی گہری نظریں تھیں۔ ان مسائل کے اسباب، وجوہات اور ان کے حل بتانے کے لئے وہ اپنا وسیع علم، عمیق سوچ اور عالمگیر شاعری بروئے کار لائے۔ اسی علم، وسیع نظری اور فلسفیانہ سوچ نے اس شاعری کو جنم دیا جو رہتی دنیا تک افراد اور اقوام کے لئے مشعلِ راہ اور لمحہ فکریہ بنی رہے گی۔

مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بیتاب مجھے

عین ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے

اقبال اسٹریٹ سے واپس ہم پیدل اس مقام پر پہنچے جہاں ہماری کوچ کھڑی تھی۔ لیکن اب نہ وہاں کوچ تھی اور نہ ہمارے گروپ کا کوئی سیاح۔ جولی پریشان ہو کر کہنے لگی ’’اب کیا کریں گے۔ مجھے تو ہوٹل کا نام بھی نہیں معلوم‘‘

میری جیبی ڈائری میں اس ہوٹل کا نام درج تھا جہاں ہمیں قیام کرنا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی ’’گھبراؤ نہیں! مجھے ہوٹل کا علم ہے۔ ایک دفعہ پھر ٹیکسی لینی پڑے گی‘‘

جولی کہنے لگی ’’اگر ہوٹل کا علم ہے تو اتنی جلدی وہاں جا کر کیا کریں گے۔ یہیں مرکز شہر میں کچھ تفریح کرتے ہیں۔ رات کسی وقت بھی ہوٹل پہنچ جائیں گے‘‘

ہم شہر کے اس پر رونق علاقے میں گھومنے لگے۔ ہر طرف نوجوان طالب علم دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی دلچسبی کی دکانیں، چھوٹے چھوٹے ریستوران اور انٹرنیٹ کیفے طالبعلموں سے بھرے ہوئے تھے۔ دریائے رین پر واقع پل کراس کر کے ہم دوسری جانب گئے تو وہاں بھی کافی رونق تھی۔ اس وقت تک ہماری بھوک چمک چکی تھی۔ میں کسی پاکستانی یا دوسرے حلال فوڈ والے ریسٹورنٹ کی تلاش میں ادھر اُدھر نظریں دوڑاتا رہا۔ لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ جولی بولی ’’کھانا بعد میں کھائیں گے۔ پہلے کسی کلب یا بار میں چلو۔ میں کھانے سے پہلے ایک دو ڈرنک لینا چاہتی ہوں۔ پورے دن کے سفر کے بعد تھکاوٹ ہو گئی ہے۔ وہ زائل ہو جائے گی‘‘

’’لیکن میری تھکاوٹ کیسے دور ہو گی؟‘‘میں نے کہا

’’کوک سے بھی تھکاوٹ دور ہوتی ہے۔ تم چلو تو سہی!‘‘جولی نے میرا ہاتھ پکڑ کر سامنے واقع ایک کلب کی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔

کلب نوجوان طالب علموں سے بھرا ہوا تھا۔ مقامی لڑکے لڑکیاں بھی جام اور آنکھوں دونوں سے پینے اور پلانے میں مصروف تھے۔ مجھے سوئس اور جرمن لڑکیاں انگریز اور فرنچ لڑکیوں سے زیادہ خوبصورت لگیں۔ اکثر انگریز لڑکیاں موٹاپے کی طرف مائل نظر آئیں۔ ان میں نخوت اور کھردرا پن بھی محسوس ہوتا تھا۔ فرنچ لڑکیاں کچھ زیادہ ہی بولڈ ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان میں نسوانی کشش جو شرم و حیا کی وجہ سے ہوتی ہے ناپید ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں سوئس اور جرمن لڑکیوں میں معصومیت اور حیا کا پرتو واضح نظر آتا ہے۔ جن سے وہ مزید پُر کشش اور حسین دکھائی دیتی ہیں۔ ویسے بھی جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں میں نے موٹی لڑکیاں بہت کم دیکھیں۔ اس کلب میں بھی ہمارے سامنے والی میز پر دو جرمن لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ وہ سرخ رنگ کی شراب کے جام تھامے مصروفِ گفتگو تھیں۔ ان میں سے جو میرے سامنے بیٹھی تھی اس نے شارٹ اسکرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس کی لمبی اور سڈول ٹانگیں اور پتلی کمر انتہائی جاذبِ نظر تھی۔ اس کی آنکھیں نیلی اور بال سنہرے تھے۔ خوبصورت چہرے پر معصومیت کا ایک ہالہ سا تھا۔ جب ہنستی تو موسیقی سی کانوں میں رس گھولنے لگتی۔ جولی نے مجھے اس جرمن لڑکی کی جانب غور سے دیکھتے دیکھا تو میری آنکھوں کے آگے ہاتھ لہراتے ہوئے بولی ’’اتنے غور سے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

’’شاہکار قدرت! لگتا ہے قدرت نے اسے فرصت میں بنایا ہے‘‘

جولی نے قدرے برا مانتے ہوئے کہا ’’تم شاید بھول گئے ہو کہ تمھارے ساتھ بھی ایک لڑکی بیٹھی ہے۔ شاید تمھاری نزدیک کی نظر کمزور ہے‘‘

’’نہیں جولی! تم تو میرے اتنے نزدیک ہو کہ آنکھیں بند کر کے بھی تمھیں دیکھ سکتا ہوں‘‘

’’اب بناؤ نہیں‘‘ جولی نے مسکراتے ہوئے کہا

’’میں نے کیا بنانا ہے۔ بنایا تو تمھیں قدرت نے ہے وہ بھی انتہائی فرصت میں۔ تمھاری آنکھیں، تمھارے ہونٹ، تمھاری زلفیں اور تمھارا بدن کس کس کی تعریف کروں؟‘‘

جولی کے چہرے پر پہلے حیا پھر تسکین اور پھر شرارت سی پھیلنے لگی۔ بولی ’’اسی لئے کل رات ہوٹل سے بھاگ گئے تھے کہ کہیں پھر تمھارے کمرے میں نہ آ دھمکوں‘‘

جولی نے رات میرا بہت دیر سے ہوٹل پہنچنے کا غلط مطلب اخذ کیا تھا۔ میں نے اُسے جب گزشتہ رات کے بارے میں بتایا تو وہ مچل گئی ’’تمھاری شام اتنی دلچسپ گزری۔ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ میں بھی تمھارے ساتھ جاتی‘‘

’’میں سمجھا تم بور ہو گی کیونکہ مجھے اس میں تمھاری دلچسپی کا کوئی سامان نظر نہیں آ رہا تھا‘‘

’’اس میں بوریت کہاں تھی۔ یہ تو نہایت دلچسپ کرداروں کی نہایت دلچسپ کہانیاں ہیں۔ آخر تمھیں ہی ایسے لوگ کیوں ملتے ہیں۔ مجھے تو کبھی نہیں ملے‘‘ جولی نے شوق سے کہا

’’جولی ایسے لوگ ہمارے اِردگرد بکھرے ہوتے ہیں۔ صرف دیکھنے والی نظر ہونی چاہیے۔ یہ دنیا ایسے کرداروں اور ایسی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں بنیادی طور پر کہانی نویس ہوں۔ میرا موضوع انسان ہے۔ مجھے ایسے لوگوں کی تلاش رہتی ہے جو اپنے دل میں کوئی کہانی چھپائے ہوئے ہوں۔ انسان دنیا کی سب سے دلچسپ چیز ہے۔ انسانوں پر بیتنے والے واقعات ہمیشہ دوسرے انسانوں کی دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں بشرطیکہ ہم انہیں دِل کے کانوں سے سنیں اور محسوس کریں‘‘




میری بہت زیادہ نہیں صرف تین بیویاں ہیں





اس دوران جولی کے ’’ایک دو‘‘ ڈرنک ختم ہو گئے۔ کلب سے نکل کر ہم کھانے کی تلاش میں نکل پڑے۔ اس مرتبہ مجھے مایوسی نہیں ہوئی۔ تھوڑے ہی فاصلے ایک عربی ریستوران نظر آ گیا جہاں واضح طور پر حلال فوڈ کا سائن لگا ہوا تھا۔ کھانا لے کر ہم اس چھوٹے سے ریسٹورنٹ کے ایک کونے والی میز پر جا بیٹھے۔ ہمارے ساتھ والی میز پر دو عربی کھانے اور گفتگو میں مشغول تھے۔ ان کی گفتگو سے میں نے اندازہ لگایا کہ ان کا تعلق سلطنت آف عمان سے ہے۔ میں چند سال عمان میں رہ چکا ہوں۔ اس لیے مختلف عرب ملکوں کی عربی میں فرق سمجھ سکتا ہوں۔ عمانی لہجے میں بولی جانے والی عربی سمجھ اور تھوڑی بہت بول بھی سکتا ہوں۔ تاہم سعودی عرب اور مصر کی عربی سمجھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔

ان عمانیوں کی نظریں بار بار جولی کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ وہ عربی میں جولی کے حسن اور اس کے بدن پر پر تبصرہ بھی کر رہے تھے۔ آخر اُن سے نہ رہا گیا۔ اُن میں سے ایک اٹھ کر ہماری میز پر چلا آیا۔ کہنے لگا ’’اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا میں تھوڑی دیر کے لئے یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔ در اصل مجھے مختلف ممالک کے لوگوں سے ملنے کا اشتیاق ہے‘‘

میری نظر ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے مختلف ملکوں کے طالب علموں کی طرف اٹھ گئی۔ ان میں زیادہ تر مرد تھے۔ اس لئے ان صاحب کو جولی کی وجہ سے ہم خصوصی غیر ملکی لگے تھے اور ان کی نظرِ انتخاب ہم پر بلکہ جولی پر ٹھہری تھی۔ جولی نے ان صاحب کی جسارت پر خشمگیں نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ قریب تھا کہ وہ سخت سا جواب دے کر اسے بھگا دیتی میں نے اسے بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ جولی نے برا سا منہ بنا کر میری طرف دیکھا مگر خاموش رہی۔ میں نے ان صاحب سے کہا ’’آپ اپنے ساتھی کو اکیلا چھوڑ کر ہمارے پاس آئے ہیں۔ فرمائیں ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟‘‘

’’میرا نام سالم ہے اور میرا تعلق سلطنت آف عمان سے ہے۔ میں یہاں جرمنی میں سیر کے لئے آیا ہوں۔ آپ دونوں انگریزی بول رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جرمن نہیں ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ مجھے مختلف ملکوں کے باشندوں سے ملنے کا شوق ہے۔ میں نے سوچا آپ سے آپ کے بارے میں کچھ جان سکوں‘‘

’’میرا نام طارق مرزا ہے اور یہ جولی اسمتھ ہے۔ ہم آسٹریلیا سے سیر کے لئے یہاں آئے ہیں‘‘

’’اوہ اچھا!‘‘ سالم نے اپنی عربیوں والی مخصوص انگریزی میں کہا ’’آستریلیا! میں نے آستریلیا کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے۔ وہاں کے خوبصورت شہروں، اچھے موسم اور خوبصورت ساحلوں کا بہت چرچا ہے۔ میں دنیا کے بہت سے ملکوں میں گیا ہوں بد قسمتی سے آسٹریلیا جانے کا موقع نہیں ملا۔ ویسے مس جولی بہت خاموش ہیں۔ لگتا ہے انہیں میری آمد ناگوار گزری ہے؟‘‘

’’نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ہے‘‘ جولی نے مختصر سا جواب دیا

سالم نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ویسے آپ لوگ صرف یورپ کی سیر کرتے ہیں یا کبھی مشرق وسطیٰ جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔ میرا وہاں گھوڑوں کا فارم ہے۔ یہاں جرمنی بھی اسی سلسلے میں آیا ہوں۔ کچھ مزید گھوڑوں کی خریداری کا معاملہ ہے۔ اگر کبھی مشرقی وسطیٰ کی سیر کا پروگرام بنے تو عمان ضرور آئیں۔ آپ لوگ میرا فارم دیکھ کر خوش ہوں گے۔ سالم اگرچہ جمع کا صیغہ استعمال کر کے ہم دونوں سے بات کر رہا تھا۔ لیکن اس کی نظر یں مسلسل جولی پر گڑی ہوئی تھیں۔ جولی بھی اس بات کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ چپ نہ رہ سکی۔ اس نے سالم سے پوچھا ’’تمھارے فارم میں کتنے گھوڑے ہیں؟‘‘

’’در اصل میرا تعلق عمان کے شاہی خاندان سے ہے۔ سلطان قابوس میرا رشتہ دار ہے۔ میرے ذاتی فارم میں بیس گھوڑے ہیں جب کہ سلطان کے فارم میں سیکڑوں ہیں‘‘

جولی جس نے کچھ سوچ کر وہ سوال پوچھا تھا بولی ’’مسٹر سالم! تمھارے فارم میں بیس گھوڑے ہیں۔ میں جس فارم ہاؤس میں پل کر جوان ہوئی ہوں وہ میرے باپ کا ہے۔ اس وقت بھی وہاں اسّی گھوڑے اور ہزار سے زیادہ گائیں ہیں۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے وہ فارم اور میرے باپ کی دیگر جائیداد مجھے ملنے والی ہے۔ اب آپ یہ بتائیں کہ جو خود آسٹریلیا جیسے ہرے بھرے اور خوبصورت ملک میں اتنے بڑے فارم کی مالک ہے وہ دنیا کے اس سرے پر اور صحرا میں واقع بیس گھوڑوں پر مشتمل ایک چھوٹے سے فارم کو دیکھنے کیوں جائے گی‘‘

سالم جو جاہل اور محکوم عورتوں پر حکم چلانے کا عادی تھا کو شاید زندگی میں پہلی مرتبہ کسی عورت نے ایسا سخت جواب دیا تھا۔ وہ بغلیں جھانکنے لگا۔ لوہا گرم دیکھ کر میں نے سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’مسٹر سالم آپ کا تعلق سلطنت آف عمان کے شاہی خاندان سے ہے۔ آپ نے شاید غور نہیں کیا۔ میرا نام بھی عربی زبان میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں سلطنت آف عمان میں کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کر کے آیا ہوں۔ وہاں ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والوں سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ میں وہاں وزارت دفاع کے تحت فوج کے ایک شعبے سے منسلک تھا۔ مقامی عمانیوں کے علاوہ ہمارے ساتھ برطانوی انگریز بھی کام کرتے تھے۔ برطانوی حکومت نے عمانی حکومت کو حکم دے رکھا تھا کہ کسی بھی برطانوی کو چاہے وہ لندن کی سڑکوں پر جھاڑو کیوں نہ دیتا ہو، آپ کو کم از کم ایک مخصوص گریڈ دینا پڑے گا۔ اس طرح انگریزوں کو صرف انگریز ہونے کی وجہ سے وہاں صرف افسر بھرتی کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک ہی گریڈ پر کام کرنے والے پاکستانی یا بھارتی کے مقابلے میں عمانی کی تنخواہ دو گنا اور برٹش کی تین گنا ہوتی ہے۔ پاکستانی کو سال میں ایک مرتبہ بمع تنخواہ ایک ماہ کی چھٹی دی جاتی ہے جبکہ انگریز کو سال میں تین مرتبہ ایک ایک ماہ کی رخصت بمعہ تنخواہ اور برطانیہ کے ریٹرن ٹکٹ کی سہولت حاصل ہے۔

علاوہ ازیں برطانوی باشندوں کو خصوصی رہائشی سہولتیں ہیں۔ جن کے تحت وہ اپنی فیملی کو جب تک چاہیں ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے، رہنے سہنے اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست عمانی حکومت کے ذمے ہے۔ ان کے مقابلے میں ایشیائی ملازمین کو صرف بیچلر اکاموڈیشن حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ برطانوی اتنے زیادہ پڑھے لکھے اور کوالیفائڈ نہیں ہوتے جتنے پاکستانی یا بھارتی ہوتے ہیں۔ ہمارا ایک انگریز آفیسر لندن میں ٹرک ڈرائیور تھا۔ جبکہ عمان میں اسے بہت بڑی پوسٹ دے دی گئی تھی۔ وہ مکینکل انجئنیرنگ کے شعبے کا انچارج تھا۔ دلچسب بات یہ کہ اس کے پاس انجنئیرنگ کی ڈگری تھی نہ ڈپلومہ۔ ہمیں اس کو بریفنگ بھی دینی پڑتی، مسئلہ اور اس کا حل بھی بتانا پڑتا اور پھر اس کا آرڈر بھی سننا پڑتا تھا۔ وہاں کسی کو بولنے یا احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ جسے کسی بات پر اعتراض ہوتا وہ استعفیٰ دے کر چلا جاتا۔ اس سے کم والی کوئی صورت نہیں رکھی گئی تھی‘‘

میری اس طویل گفتگو کے دوران سالم کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور دوسرا جاتا تھا۔ میں نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا ’’مسڑ سالم! آپ پڑھے لکھے ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں جا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کا تعلق بھی عمان کے حکمران خاندان سے ہے۔ آپ کے پاس ان سوالوں کا کیا جواب ہے؟ اس نا انصافی کا کوئی جواز ہے آپ کے پاس؟‘‘

سالم کے پاس کیا جواب ہونا تھا۔ وہ تو جولی کا حسن دیکھ کر ہماری میز پر چلا آیا تھا جہاں اُسے لینے کے دینے پڑ رہے تھے۔ وہ کافی دیر سوچتا رہا پھر مری ہوئی آواز میں بولا ’’میں کیا کہوں! میرا حکومتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ برطانوی باشندوں کو زیادہ سہولتیں غالباً اس لئے دی جاتی ہیں کہ ان کا معیارِ زندگی اونچا ہے۔ اس لئے ان کی تنخواہ اور دیگر سہولیں زیادہ ہیں‘‘

’’بُل شِٹ!‘‘ جولی تقریباً چلا کر بولی ’’یہ میں پہلی دفعہ سن رہی ہوں کہ دنیا کے کسی ملک میں انسانوں کے درمیان یوں غیر منصفانہ فرق روا رکھا جاتا ہے۔ کسی ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے ملک کے لوگ اور عوام اس زیادتی کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ جس کو بھی اس زیادتی کا علم ہو گا وہ زیادتی روا رکھنے والوں سے نفرت کرے گا۔ آپ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں کہ وہاں اب تک جنگل کا قانون چل رہا ہے‘‘ جولی نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی۔

میں نے کہا ’’اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ معیار زندگی کے مطابق معاوضہ دینا چاہیے تو پڑھا لکھا ہونے کے باوجود غریب اس معاشرے میں ہمیشہ غریب رہے گا اور امیر کا بیٹا نالائق ہونے کے باوجود امیر ہی رہے گا۔ ویسے یہاں جرمنی یا کسی اور مغربی ملک میں آپ کے شہر یوں کو معاوضہ اس لئے کم دیا جائے کہ ان کا معیارِ زندگی مقامی لوگوں سے کم تر ہے تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟ آپ لوگوں کی تو زبان عربی ہے جس میں قرآن پاک اُترا ہے۔ احادیث عربی میں ہیں۔ آپ لوگ مسلمان ہیں۔ کیا یہی اسلامی مساوات ہے؟ کیا قرآن میں یہی لکھا ہے؟ کیا اسلام یہی سبق دیتا ہے؟ آپ لوگ مذہب پر عمل کر رہے ہیں نہ انصاف کے تقاضے نبھا رہے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ آپ لوگ ابھی تک پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔ وہاں ایک مرد کی چار بیویاں اور کئی لونڈیاں نہ ہوں تو وہ معاشرے میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتا۔ وہاں پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد کے ساتھ یہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ شعور اور آگاہی سے آپ لوگوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ آپ یہاں جرمنی میں سیر کرنے آئے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ آپ اپنی کئی بیویوں میں سے کسی کو ساتھ کیوں نہیں لائے؟‘‘

سالم کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے ’’میری زیادہ بیویاں نہیں، صرف تین ہیں۔ انہیں گھومنے پھرنے کا شوق نہیں ہے‘‘

سالم نے ’’صرف تین‘‘ اس طرح کہا جیسے بیچارہ غریب اور مسکین ہے اور بہت کم پر گزارا کر رہا ہے۔

’’تین بیویاں‘‘ جولی نے حیرانگی سے کہا ’’اور تینوں میں سے ایک کو بھی ساتھ نہیں لائے۔ یہ شرم کی بات ہے مسٹر سالم! وہ بھی انسان ہیں۔ جس طرح آپ کو سیر و سیاحت اور تفریح کا حق حاصل ہے انہیں بھی ہے۔ ان کا بھی من مچلتا ہو گا کہ گھر سے نکلیں۔ وہ کوئی بھیڑ بکریاں تو نہیں ہیں کہ انہیں کھونٹے پر باندھ کر خود یہاں آ گئے ہیں اور ادھر اُدھر منہ مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں اس کو سرا سر غیرانسانی فعل تصور کرتی ہوں اور ایسے شخص سے نفرت کرتی ہوں‘‘

سالم ماتھے کا پسینہ پوچھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا ’’مجھے اجازت دیجئیے ہم نے کہیں اور بھی جانا ہے‘‘

ہمارے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ اپنے دوست کو لے کر ریستوران سے نکلتا چلا گیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ جولی نے ہنسنا شروع کیا اور کافی دیر تک ہنستی چلی گئی۔ ہنستے ہنستے وہ میرے اُوپر آ گری۔ میں نے اسے الگ کرتے ہوئے آنکھیں نکالیں اور پوچھا ’’یہ تمھارا اسّی گھوڑوں اور ہزار گائیوں والا فارم کہاں ہے؟ ہے بھی یا سالم پر رعب ڈالنے کے لئے یہ تمھاری ذہنی اختراع ہے‘‘

’’بالکل ہے‘‘ جولی اب سنجیدہ ہو چکی تھی ’’یہ سڈنی کے مغرب میں واقع ایک قصبے باتھرسٹ کے پاس ہے۔ تاہم دوسری بات جھوٹ ہو سکتی ہے کہ یہ سب کچھ مجھے ملنے والا ہے۔ اگر چہ میں والدین کی اکلوتی اولاد ہوں لیکن انہیں میری کوئی خاص پرواہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے میرے ماں باپ مرنے سے پہلے بیچ باچ کر سب کچھ کھا جائیں یا کسی رفاہی ادارے کے حوالے کر جائیں۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ سب کچھ میرا تھا، نہ ہے، اس لیے مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘

’’اور تمھارے والدین! تمھیں ان کی فکر ہے یا نہیں؟‘‘

’’کیسی فکر؟ ان کے پاس سب کچھ ہے۔ میں ان کے لئے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘ جولی نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا

میں نے قدرے حیران ہو کر کہا ’’تمھارے خیال میں ان کی دولت اور جائیداد ان کے لئے سب کچھ ہے۔ تمھاری انہیں ضرورت نہیں ہے؟‘‘

’’میری کیا ضرورت ہے؟ میں تو اُلٹا ان کے لئے بوجھ ہوتی۔ تم کون سا موضوع لے بیٹھے ہو۔ رات بہت ہو گئی ہوٹل نہیں چلنا۔ صبح سویرے آگے بھی روانہ ہونا ہے‘‘

ہم نے ٹیکسی لی اور چند منٹ میں ہوٹل پہنچ گئے۔ ہمارا ہوٹل وہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ اگر ہمیں راستے کا علم ہوتا تو پیدل بھی جا سکتے تھے۔




میں فٹ پاتھ پر پڑا پتھر تھا





صبح کو لون کے لئے روانہ ہونے سے پہلے دریائے نکر کے کنارے سفر کرتے کرتے ہم ایسے مقام پر پہنچے جہاں ماؤنٹین ٹرین ہائیڈل برگ کے سر پر بنے عظیم الشان قلعے میں لے جاتی تھی۔ یہ مقام شہر کے اس مرکزی حصے سے زیادہ دور نہیں تھا جہاں رات ہم آوارہ گردی کرتے رہے تھے۔ اس مقام سے پیدل بھی یہاں ٹرین اسٹیشن پرآ سکتے تھے۔ یہ ٹرین لیوژرن میں پہاڑ کی چوٹی پر زنجیر سے کھینچی جانے والی ٹرین جیسی تھی۔ ہمارے ٹکٹ مولی نے پہلے سے خرید رکھے تھے اس لئے بغیر کسی انتظار کے ہم آسمان کی طرف جانے والی ٹرین پر سوار ہو گئے۔ جی ہاں! جب ٹرین چلی تو ایسے لگتا تھا کہ ہم سیدھا آسمان کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ آسمان پر پہنچنے سے ذرا پہلے ہمارے راستے میں یہ قلعہ آتا تھا۔ ہم وہاں جا اُترے کیونکہ ابھی ہمارا اوپر جانے کا ارادہ نہیں تھا۔

یہ عظیم الشان قلعہ چودھویں اور سترھویں صدی کے درمیان مختلف بادشاہوں نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ اتنا بڑا تھا کہ اس وقت کی ہائیڈل برگ کی کل آبادی آسانی سے اس میں سما سکتی تھی۔۔ مٹیالے رنگ کے سخت اور بڑے بڑے پتھروں سے بنے قلعے کی نہ صرف مضبوطی کا خیال رکھا گیا تھا بلکہ اس کے بڑے بڑے دروازے، محرابیں اور دیو قامت مینار انسانی ہاتھوں کا بنایا عجوبہ لگ رہے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی کی غیر موجودگی میں پہاڑ کی چوٹی پر پہاڑ جیسا قلعہ بنانے والے کاریگروں کو انسان بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چھ سات صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کے پتھر، دروازے، نقش و نگار اور چھتیں نہ صرف سلامت تھیں بلکہ مکمل دیکھ بھال کی وجہ سے عمارت اتنی پرانی محسوس نہیں ہوتی تھی جتنی تھی۔ ایک گھنٹے تک ہم قلعہ میں گھومتے رہے۔ پھر اسی ٹرین پر بیٹھ کر نیچے آئے۔ وہاں سے جرمنی کے ایک اور قدیم شہر کو لون کی طرف ہمارا سفر شروع ہو گیا۔ شہر سے نکلنے سے پہلے ہماری کوچ ایک یونیورسٹی کے سامنے سے گزری۔ جس کے بارے میں مولی نے بتایا کہ یہ جدید جرمنی کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ اس کا قیام 1386 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ آج بھی پڑھائی کے معیار اور ریسرچ کے حوالے سے جرمنی کی چند مشہور ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔

چند گھنٹوں میں ہم کولون پہنچ گئے۔ دریائے رین کے کنارے واقع یہ شہر 33 قبل مسیح میں وجود میں آیا تھا۔ یہ جرمنی کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور ان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ اس کی وجہ شہرت اس کی مشہور زمانہ کولون (خوشبو) کے علاوہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ایک عظیم الشان گرجا گھر ہے۔ گو تھک طرز تعمیر کے اس اعلیٰ نمونے کی تعمیر 1248 میں شروع ہوئی تھی۔ کئی صدیوں تک اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا۔ 1560 میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے اس کی تعمیر روکنی پڑی۔ بالآخر 1880 میں یہ مکمل ہوا۔ گویا چھ صدیوں میں یہ عمارت مکمل ہوئی۔ اس کے آسمان سے باتیں کرتے انتہائی بلند میناروں کو انسان دیکھتا رہ جاتا ہے۔ جدید سائنسی ٹیکنالوجی کے بغیر اتنی عظیم عمارت کیسے اور کس نے بنائی یہ سوچ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم چرچ کے اندر جانے سے پہلے اس کے اردگرد گھوم کراس کی جسامت کا اندازہ لگا رہے تھے۔ لگتا تھا کہ متذکرہ دور کی حکومتوں نے اپنے فنڈز کا ایک بڑا حصہ اس اور اس جیسی دوسری قابل ذکر عمارتوں کے لئے مخصوص کر رکھا تھا تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے کارنامے یاد رکھ سکیں۔ اس بہت بڑے، بلند، مضبوط، خوبصورت اور شاندار چرچ کو جرمنی کی سب سے زیادہ قابلِ ذکر عمارت کہا جا سکتا ہے۔

ہم چرچ کے اندر داخل ہوئے تو لگتا تھا کہ کسی الگ دنیا میں پہنچ گئے ہوں۔ چھت دیکھنے کے لئے آسمان کی طرف منہ اٹھانا پڑ رہا تھا۔ بڑے بڑے فانوس زنجیروں کی مدد سے لٹکے ہوئے تھے۔ انہیں زیادہ روشن نہیں رکھا گیا تھا۔ چرچ میں بجلی کی روشنی سے قبل والا ماحول قائم رکھا گیا تھا۔ زیادہ تر روشنی رنگ برنگے شیشوں والی بڑی بڑی کھڑکیوں سے چھن کر اندر آ رہی تھی۔ یہ سورج کی روشنی کی بجائے مختلف رنگوں سے بنی ایک مصنوعی اور پر اسرار روشنی لگتی تھی۔ چرچ کے بڑے ہال میں لکڑی کا بنا فرنیچر بھی دورِ قدیم کی نشانیوں میں سے ہے۔ غرضیکہ ایک عجیب، خوابناک، نیم روشن، رنگوں سے مزین اور پُرا سرار سا ماحول تھا۔ لگتا نہیں تھا کہ ہم اکیسویں صدی میں ایک ترقی یافتہ شہر میں کھڑے ہیں۔ یہ منظر ہمیں صدیوں پیچھے لے جاتا تھا جب ان چرچوں کے پادریوں کی پورے یورپ پر حکومت ہوا کرتی تھی۔ بادشاہ اور حکومتیں گرجا گھروں کے دستِ نگر اور ان کے حکم کے تابع تھے۔ ان گرجا گھروں میں بیٹھ کر جنگیں شروع کرنے اور روکنے کے فیصلے ہوتے تھے۔ ان گرجا گھروں سے ہی پروٹسٹنٹ اور کیتھولک عیسائیوں کے درمیان طویل اور خون ریز جنگ کا فیصلہ ہوا تھا جس نے پورے یورپ کی سرزمین کو سرخ رنگ میں رنگ دیا تھا۔

اِس چرچ اور اس کے نواحی علاقے کی سیر کے بعد ہم اپنے ہوٹل چلے گئے۔ یہ ہوٹل وہاں سے قریب ہی تھا۔ بقیہ سیاح ابھی تک کولون کی سیر میں مصروف تھے۔ میں اس لئے جلدی چلا آیا کہ آج شام میرا ایک جرمن دوست مجھ سے ملنے آنے والا تھا۔ براؤن عمان میں میرا کولیگ تھا۔ ہم مختلف سیکشن میں کام کرتے تھے۔ ہماری مشترکہ دلچسپی اسکوائش ہمیں قریب لے آئی۔ در اصل عمان میں میرا ایک دوست نسیم خان اسکوائش کا بہت اچھا کھلاڑی تھا۔ وہ عمان کا نمبر ون کھلاڑی بھی رہا۔ اسے جہانگیر خان اور جان شیر خان سے کھیلنے کا موقع بھی ملا۔ وطن سے دور رہنے کی وجہ سے اور پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے اسے اپنا کھیل دنیا کو دکھانے اور اسے مزید آگے بڑھانے کے مواقع نہ مل سکے۔ جس کی وجہ سے وہ قومی اور عالمی سطح پر منظرِ عام پر نہ آ سکا۔ ورنہ اس میں جتنا ٹیلنٹ تھا وہ اسے اعلیٰ سطح کا کھلاڑی بنا سکتا تھا۔ غربت، وسائل کی کمی اور غریب الوطنی کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا۔

نسیم خان روزانہ شام مجھے زبردستی اسکوائش کورٹ میں لے جاتا۔تا کہ وہ اپنی پریکٹس کر سکے اور مجھے بھگا بھگا کر ہلکان کر سکے۔ اگرچہ وہ میرے ساتھ پوری توانائی سے نہیں کھیلتا تھا۔ بلکہ ہاتھ ’’ہولا‘‘ رکھ کر مجھے بھی کھیلنے کا موقع دینے کی کوشش کرتا تھا۔ میرے لئے پھر بھی اس کا ساتھ دینا مشکل ہوتا تھا۔ اسی نسیم خان کی وجہ سے تھوڑا بہت ہاتھ چلانا مجھے بھی آ گیا۔ پاکستانی ہونے کی وجہ سے گوروں پر ہماری اسکوائش کا ویسے بھی رعب تھا۔ کیونکہ پہلے جہانگیر خان اور پھر جان شیر خان دنیا کو مسلسل فتح کرتے آ رہے تھے۔ ہمارے ساتھ کام کرنے والے انگریز، جرمن اور فرنچ جب بھی اسکوائش کھیلنے جمنازیم میں آتے وہ ہمارے ساتھ کھیل کر اپنے کھیل کو ’’بہتر بنانے‘‘ کی کوشش کرتے۔ میں نے بھی ان کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش نہیں کہ میں پاکستانی ضرور ہوں لیکن جہانگیر خان اور جان شیر خان کے مقابلے میں ایک ذرہ خاک بھی نہیں ہوں۔ گوروں کے لئے میرا پاکستانی ہونا ہی کافی تھا۔ نسیم خان سے وہ اس لئے کتراتے تھے کہ وہ انہیں بری طرح ہراتا تھا۔ جب کہ میں اکثر ’’ان کا دل رکھنے کے لئے‘‘ ہار بھی جاتا تھا۔ آپس کی بات تو یہ ہے کہ دل رکھنے والا بہانہ کافی عرصے تک میں بناتا رہا۔ ہارتا تو میں پوری کوشش کے بعد بھی تھا۔ بہر حال براؤن اور دوسرے یورپین اکثر میرے ساتھ اسکوائش کھیلنے کی کوشش میں لگے رہتے۔ اسی وجہ سے ان میں سے اکثر کے ساتھ میری دوستی ہو گئی۔

براؤن مجھ سے پہلے عمان سے جرمنی واپس چلا گیا تھا۔ جانے سے پہلے اس نے مجھے اپنا جرمنی کا فون نمبر دیا۔ گاہے گاہے فون پر ہماری بات ہوتی رہی۔ اس دوران میں عمان سے سڈنی منتقل ہو گیا۔ ایک مرتبہ براؤن کو کاروبار کے سلسلے میں سڈنی آنا پڑا۔ وہاں ہماری کئی ملاقاتیں رہیں اور اکٹھے اچھا وقت گزارا۔ وہی براؤن جرمنی کے اس شہرہ آفاق شہر کولون میں رہتا تھا۔ اسے میری آمد کی اطلاع تھی۔ میرے ہوٹل پہنچنے کے ایک گھنٹے بعد ہی وہ اپنی بیوی کیتھی کے ساتھ وہاں آ گیا۔ بہت گرم جوشی سے ملا۔ اس نے مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہا۔ اس نے اپنے گھر میں میرے لئے گیسٹ روم تیار کیا ہوا تھا۔ اس پیشکش پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور انہیں سمجھایا ’’میں ہوٹل میں رہوں یا نہ رہوں اس کی ادائیگی پہلے کر چکا ہوں۔ دوسرا یہ کہ صبح آٹھ بجے ہم نے MAINZ کے لئے روانہ ہونا ہے۔ تمھارے گھر کی نسبت یہاں آسانی سے تیار ہو کر اگلے سفر کے لئے روانہ ہو سکتا ہوں۔ تا ہم آج کی شام آپ دونوں میاں بیوی کے نام‘‘

براؤن اپنے ساتھ گاڑی میں اسکوائش کٹ بھی لے کر آیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے میرے ساتھ اسکوائش کھیل کر پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے معذرت کر لی اور اسے بتایا ’’نہ تو میں نے عرصے سے اسکوائش کھیلی ہے اور نہ ہی میرے پاس ضروری سامان ہے۔ اس لئے معذرت کرتا ہوں‘‘

براؤن نے زیادہ اصرار نہیں کیا۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا دریائے رین کے کنارے فیری اسٹیشن پر پہنچا۔ ٹکٹ لے کر ہم ایک فیری میں سوار ہو گئے جو دریائے رین کے سینے پر پھسلتی کولون کے بیچوں بیچ چل پڑی۔ دریا کے کنارے کولون کے متمول لوگوں کے شاندار مکانات بنے ہوئے ہیں۔ جن کے ٹیرس پانی سے ملے ہوئے ہیں۔ ان کی ذاتی کشتیاں گھر کے سامنے بندھی مالکوں کا انتظار کر رہی ہیں کہ وہ آئیں تو انہیں اپنے سینے پر لاد کر دریا کی سیر کرائیں اور انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچائیں۔ اس دو منزلہ فیری میں بار بھی تھا۔ براؤن نے اپنے لئے جرمن بیئر، کیتھی کے لئے مالٹوں کا تازہ جوس اور میرے لئے کافی خریدی اور ہم اس کی چھت پر آ بیٹھے۔ سنہری دھوپ ہر سمت پھیلی ہوئی تھی۔ رنگ برنگی کشتیاں اِدھر اُدھر آ جا رہی تھیں۔ جب کوئی بوٹ ہمارے نزدیک سے گزرتی تو وہ ہماری طرف ہاتھ ضرور لہراتے۔ جواب میں ہم بھی ہاتھ ہلاتے۔ براؤن عمان کی یادیں تازہ کر رہا تھا۔ اس کی گفتگو اور اس کی حسرتوں کا خلاصہ یہی تھا کہ دل ڈھونڈتا ہے پھر فرصت کے وہ رات دن۔

عمان میں ہماری جاب بہت آسان تھی۔ آٹھ سے ایکب جے تک کام ہوتا تھا۔ وہ بھی ہفتے میں صرف پانچ دن۔ اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ہم کتابیں پڑھتے، ویڈیو پر فلمیں دیکھتے، سوئمنگ کرتے، اسکوائش کھیلتے اور گپ شپ کرتے تھے۔ اس کے بعد آج تک فرصت کے وہ لمحات میسر نہ آ سکے۔ براؤن واپس جرمنی چلا گیا اور میں آسٹریلیا۔ دونوں ممالک رہنے کے لئے گراں اور جینے کے لئے روز و شب کی محنت مانگتے ہیں۔ براؤن اسپورٹس گڈز (کھیلوں کے سامان) کا کاروبار کر رہا تھا۔ یوں تو ان کا کاروبار اچھا چل رہا تھا لیکن دونوں میاں بیوی صبح سے شام تک مصروف رہتے تھے۔ یہی ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا چلن ہے۔ یہاں انسان کو لہو کے بیل کی طرح رات دن جتا رہتا ہے تب جا کر اس کا گزارہ ہوتا ہے۔ ان ممالک میں معیارِ زندگی کی سطح ترقی پذیر اور نیم ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بلند ہے لیکن اس معیار کو قائم رکھنے کے لئے بہت سے ڈالروں، پونڈوں اور مارکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لئے کوئی چور راستہ نہیں ہے۔ کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جان توڑ محنت۔ یہاں اپنے علاوہ حکومت اور دوسرے شہر یوں کے لئے بھی کمانا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہم جو کچھ بھی کماتے ہیں اس کا تیسرا حصہ حکومت کو ٹیکس کی شکل میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے نہ صرف حکومت کے اخراجات پورے ہوتے ہیں بلکہ کم آمدنی والوں، بے روزگاروں، بوڑھوں اور دوسرے ضروعت مندوں کے اخراجات بھی اسی سے ادا ہوتے ہیں۔ ٹیکس سے کسی کو مفر نہیں۔ کاروباری ہو یا تنخواہ دار سب کو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ محنت کی آمدنی کا تیسرا حصہ ٹیکس کی شکل میں دے کر ایک دفعہ پیٹ میں مروڑ تو اٹھتا ہے۔ لیکن یہ سوچ کر تسلی ہوتی ہے کہ یہ ٹیکس ضائع نہیں ہو رہا ہے۔ بلکہ اس کا صحیح استعمال ہو رہا ہے۔ اس کا بڑا حصہ صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، صفائی ستھرائی، ماحول اور رسل و رسائل کی سہولتوں کی شکل میں عوام کو واپس مل جاتا ہے۔

میری دلچسپی کو مد نظر رکھ کر براؤن اور کیتھی مجھے کولون کے مشہور میوزیم ROMISCH GERMANISCHES لے گئے۔ اس میں تیرھویں سے انیسویں صدی کے درمیان اس علاقے میں بنائے آرٹ کے فن پارے موجود تھے۔ ایک سے ایک خوبصورت پینٹنگ نظروں کو خیرہ کر رہی تھی۔ کافی دیر تک ہم میوزیم میں گھوم کر جرمنی کے مشہور مصوروں کے فن پاروں کو نظروں سے دل میں اتارتے رہے۔ براؤن اور کیتھی بھی صرف ایک مرتبہ اور وہ بھی بہت پہلے یہاں آئے تھے اس لئے وہ بھی ہر تصویر کو بہت شوق اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔

وہاں سے ہم ایک ایسے بازار میں گئے جہاں ہر طرف خوشبوئیں ہی خوشبوئیں تھیں لیکن شیشیوں میں بند۔ جی ہاں! یہ پرفیوم کی دکانیں تھیں۔ یہاں پرفیوم کی اتنی قسمیں دستیاب تھیں کہ انتخاب مشکل تھا۔ میں کولون کی یاد گار کے طور پر فیوم کی چند شیشیاں خریدنا چاہتا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا خریدوں جو معیاری بھی ہو اور جس کی اجازت میری جیب بھی دے۔ یہ دونوں مسئلے کیتھی اور براؤن نے حل کر دیئے۔ وہ اس طرح کہ کیتھی نے میرے لئے پرفیومز کا انتخاب کیا اور میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود براؤن نے ان کا بِل ادا کر دیا۔ مجھے براؤن کی عادتیں کچھ پاکستانی سی لگیں۔ یہاں عموماً اتنی دریا دلی کوئی نہیں دکھاتا۔ شاید براؤن کو سڈنی میں دیے گئے میرے تحائف یاد تھے۔ بہرحال یہ بھی اس کی بڑائی تھی۔ ان میاں بیوی نے اپنی محبت اور مہمان نوازی سے ثابت کر دیا کہ یہ وصف یورپ میں بھی موجود ہے۔

اگرچہ سورج ابھی تک پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا لیکن شام ہو چکی تھی۔ پورا دن گھومنے پھرنے سے میں خاصا تھک چکا تھا اور جسم آرام کا تقاضا کر رہا تھا۔ براؤن ڈنر کے لئے کسی ریسٹورنٹ میں جانا چاہتا تھا۔ کیتھی نے اس کی تجویز رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ گھر جا کر اپنے ہاتھوں سے ڈنر تیار کرے گی۔ براؤن نے فیصلہ میرے ہاتھ میں چھوڑا تو میں نے ان کے گھر جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ آدھے گھنٹے بعد ہم براؤن کے خوبصورت گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ کیتھی نے پوچھا کہ میں کیا کھانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ’’اگر تم برا نہ مناؤ تو ایک ڈش میں خود بنانا چاہوں گا۔ خود بھی کھاؤں گا اگر تم لوگوں کو پسند آئے تو تم بھی کھانا‘‘

کیتھی نے خوشدلی سے کہا ’’کیوں نہیں! مجھے بتاتے جائیں کہ یہ ڈش بنانے کے لئے آپ کو کیا کیا درکار ہے‘‘

’’ضرور‘‘

در اصل مجھے لیوژرن میں میری اور اسمتھ کے گھر کا ڈنر یاد تھا۔ یورپین کھانے بہت ہلکے پھلکے ہوتے ہیں جبکہ مجھے زوروں کی بھوک لگی تھی۔ دوسرا یہ کہ میں مسالے وغیرہ اپنی مرضی کے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ ان کے ہاں حلال گوشت تو نہیں تھا۔ تاہم مچھلی کے قتلے فریج میں موجود تھے۔ ابلے ہوئے سفید چنوں کے بند ڈبے بھی تھے۔ میں نے چنے ڈال کر بریانی بنائی۔ جو بھی مسالے دستیاب تھے ان کا بھر پور استعمال کیا۔ اس کے ساتھ مسالوں والی مچھلی فرائی کی۔ کیتھی نے میری مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اس دوران کچھ سبزیاں ابال لی تھیں۔ اس نیسبزی کا سوپ بھی تیار کر لیا۔ ان کے ہاں لبنانی روٹی تو نہیں تھی تاہم بریڈ موجود تھی جسے ہم نے فرائی پین میں ہلکا سا تیل لگا کر فرائی کر لیا۔ کیک بھی موجود تھا۔ اس طرح اچھا خاصا اہتمام ہو گیا۔

میں نے بریانی میں اگرچہ مرچیں کم ہی رکھی تھی لیکن کیتھی اور براؤن کو وہ بھی تیز محسوس ہو رہی تھیں۔ براؤن نے ایک پلیٹ بریانی کے ساتھ دو بوتلیں بئیر کی ختم کر دیں۔ کیتھی نے بھی اپنی پلیٹ ختم کر کے چھوڑی حالانکہ وہ بھی سی سی کر رہی تھی۔ مرچوں کے باوجود انہوں نے وہ بریانی بہت رغبت سے کھائی۔ تلی ہوئی مچھلی بھی انہیں بہت اچھی لگی۔ اس طرح میں نے مہمان کی بجائے میزبان کا کردار ادا کیا۔ دونوں میاں بیوی بہت خوش تھے۔ براؤن کھانا پکنے کے دوران کچن میں بیٹھا اسکاچ کی چسکیاں لیتا رہا اور کھانے کے دوران بئیر پر ہاتھ صاف کرتا رہا۔ اس نے بھی مرچ مسالے والے کھانے کو بہت پسند کیا۔ وہسکی، بئیر اور بریانی نے اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔ وہ کیتھی سے لپٹ کر بوس و کنار میں یہ بھول گیا کہ کہ کوئی اور بھی وہاں موجود ہے۔ میں نے کھنکار کر انہیں متوجہ کیا تو کیتھی کسمسا کر اس کی بانہوں سے نکل آئی۔ کیتھی کے گال اور لب کچھ شرم سے اور کچھ براؤن کی گستاخیوں سے گلنار ہو گئے تھے۔

براؤن کیتھی سے کہنے لگا ’’بریانی بنانے کا یہ طریقہ یاد رکھنا اور آئندہ اُبلے ہوئے چاولوں کی بجائے اسی طرح پکایا کرو‘‘

’’تاکہ تمہیں بئیر پینے کا موقع مل جائے‘‘ کیتھی نے پیار بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا

’’بریانی اور بئیر سے تمھارا پیار یوں ہی پروان چڑھ سکتا ہے تو میں یہ طریقہ لکھ کر چھوڑ جاتا ہوں‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا

رات گئے براؤن مجھے ہوٹل چھوڑنے نکلا لیکن وہ ہوٹل کی بجائے کسی اور سمت ہی جا نکلا۔ یہاں ہر جانب نائٹ کلب، فاسٹ فوڈز، جواء خانے اور ریستورانوں کی روشنیاں جلتی بجھتی نظر آ رہی تھیں۔ میرے استفسار پر براؤن نے بتایا ’’یہ کولون کا وہ علاقہ ہے جہاں دن سے زیادہ راتیں جاگتی ہیں۔ چراغ جلے نوجوانوں کی ٹولیاں کی ٹولیاں یہاں چلی آتی ہیں۔ کلب، جواء خانے اور ریستوران بھر جاتے ہیں۔ یہاں ہر وہ کام ہوتا ہے جو مسقط میں منع تھا۔ حتی کہ اگر جیب میں مال ہو تو منشیات بھی آسانی سے مل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ بھر کے شوقین لڑکے لڑکیاں کولون کے اس علاقے کو جنت سمجھتے ہیں۔ رات بھر خوب ناچ گانا، پینا پلانا اور چرس اور افیم سے بھرے سگریٹوں کا دھواں اڑانا، ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ نشے میں وہ اپنی گرل فرینڈز بلکہ خود کو بھی بھول جاتے ہیں۔ صبح جب نشہ اترتا ہے تو کوئی فٹ پاتھ پر پڑا ہوتا ہے اور کوئی کلب کی میز پر سر رکھے سویا ہوتا ہے۔ ایک کی گرل فرینڈ دوسرے کی بانہوں میں اور دوسرے کی تیسرے کی گود میں ہوتی ہے۔ اس طرح جوڑیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور وہ اپنا غم غلط کرنے ہر شام یہاں چلے آتے ہیں۔ انہیں نہ دنیا کی فکر ہوتی ہے نہ مستقبل کا غم اور نہ کسی اپنے کی پرواہ۔ بس نشے سے بھرا ایک سگریٹ یا انجکشن ان کی کل کائنات ہوتی ہے۔ جب تک نشے میں مد ہوش نہیں ہوتے خوب ناچتے اور چہکتے ہیں۔ پھر آنکھیں بند کر کے کسی اور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں‘‘

براؤن نے جب اتنی تفصیل سے ان نشئیوں کا حال سنایا تو میں نے کہا ’’جتنی تفصیل سے تم ان کے اندر کا حال سنا رہے ہو۔ لگتا ہے تم خود بھی کبھی ان راستوں سے گزرے ہو‘‘

کہنے لگا ’’تم بالکل درست کہہ رہے ہو۔ کبھی میں بھی اس بازار کی ایک اینٹ بلکہ سڑک پر پڑا ہوا ایک پتھر تھا۔ اینٹ تو عمارت کا حصہ ہوتی ہے اور صدیوں تک عمارت کی سربلندی کو قائم رکھنے کے لئے اپنی جگہ جمی رہتی ہے جب کہ میں فٹ پاتھ پر پڑا وہ پتھر تھاجسے ہرا یرا غیرا ٹھوکر مار کر ادھر سے اُدھر کر دیتا ہے۔ وہ بھی کیا دور تھا۔ نوجوانی اور آزادی تھی۔ گھر چھوڑا تو پھر والدین اور بہن بھائیوں کو بھول کر سکون کی تلاش میں اس بازار میں آ نکلا۔ نئی نئی آزادی ملی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ ہر وہ کام کر گزروں جس سے والدین منع کرتے تھے۔ سال دو سال یہی مشغلہ رہا۔ پڑھائی تو کب کی چھوٹ چکی تھی۔ جو عارضی جاب کرتا اس کی تمام کمائی اسی رات اس بازار میں لٹا کر گھر چلا جاتا۔ گھر بھی کیا تھا۔ ایک ہی کمرے میں پانچ چھ میرے ہی جیسے نشئی لڑکے لڑکیاں سونے کے لئے چلے آتے تھے۔ سو نے کے علاوہ اس کمرے میں اور کوئی سہولت نہیں تھی۔ حتیٰ کہ ٹوائلٹ بھی عمارت کے باہر تھی۔ غرضیکہ دو سال تک میں دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے نادیدہ غم غلط کرتا رہا۔

جب آہستہ آہستہ ہوش کی دنیا میں آیا تو محسوس ہوا کہ اپنی زندگی کے دو قیمتی سال ضائع کر دئیے ہیں۔ رسمی تعلیم کا سلسلہ تو کب کا منقطع ہو چکا تھا۔ ایک ٹیکنیکل کالج میں ایر کنڈیشنگ کا کورس کیا اور ایر کنڈیشنگ انجنیئر بن کر میں عام لوگوں کی صف میں شامل ہو کر نارمل زندگی بسر کرنے لگا۔ اسی ہنر کی وجہ سے مجھے عمان کی وہ جاب ملی تھی۔ اس گرم اور صحرائی ملک میں چند سال گزارنے کا بہت فائدہ ہوا۔ میں اتنی رقم پس انداز کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ آج اپنے کاروبار کا مالک ہوں۔ میری زندگی میں اگر کوئی کمی تھی تو وہ کیتھی نے پوری کر دی۔ وہ بہت پیار کرنے والی بیوی ہے۔ میرے ماضی سے واقف ہونے کے باوجود اس نے کبھی اس کا طعنہ نہیں دیا۔ مجھے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ کیتھی کو پا کر میں خود کو بہت خوش قسمت محسوس کرتا ہوں۔ ہفتے عشرے میں ہم اپنے والدین کے ہاں جاتے ہیں۔ وہاں دوسرے بہن بھائی بھی آتے ہیں اور خوب رونق رہتی ہے۔ زندگی بہت سکون سے گزر رہی ہے۔‘‘

براؤن جب اپنی کہانی سنا رہا تھا تو ہم ایک کلب کے اندر بیٹھے رنگ برنگی روشنیوں کے جھماکے اور تیز موسیقی کی زد میں تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ براؤن اس علاقے سے نفرت بھی کرتا ہے اور مجھے لے کر یہاں آ گیا ہے۔ شاید وہ میرے سامنے اپنے ماضی کی تلخ و شیریں یادوں کو دُہرانا چاہتا تھا۔ وہاں تیز موسیقی، سگرٹوں کے دھوئیں، بدبو اور شور شرابے کی وجہ سے میرا سر درد کرنے لگا۔ اس لئے براؤن کا ڈرنک ختم ہوتے ہی ہم وہاں سے چلے آئے۔

براؤن نے مجھے ہوٹل کے سامنے ڈراپ کیا تو پاکستانیوں کی طرح گلے ملا۔ گلو گیر آواز میں بولا ’’جانے اب کب ملاقات ہو گی! ہو گی بھی یا نہیں۔ میرے پاکستانی دوست! تم میرے دل کی کتاب میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہو گے‘‘

میں براؤن کے جذباتی پن سے واقف تو تھا لیکن اس کے جذبات کی اس گرمی سے پہلی دفعہ آشنا ہوا تھا۔ یورپ کی یخ ٹھنڈی فضاؤں میں پرورش پانے والا یہ شخص اندر سے بالکل پاکستانی تھا۔ خلوص و محبت اس کے رگ و پے میں بسی تھی۔ سچ ہے کہ یہ دولت خدا کسی کو بھی عنایت کر سکتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے اور کسی بھی ماحول میں رہتا ہو۔




رات نو سر نو سر کہتے گزرتی ہے





ہوٹل کے سامنے پبلک فون بوتھ تھا۔ جانجی اور مشی وہاں سے جاپان کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو مشی نے کہا ’’مسٹر طارق پلیز! مسٹر طارق پلیز!‘‘

میں ان کے پاس گیا اور پوچھا ’’کیا بات ہے؟‘‘

مشی بولی ’’کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں اس شہر کا کیا نام ہے‘‘

’’کولون‘‘ میں نے حیرانگی سے کہا

’’تھینک یو! تھینک یو! مسٹر طارق‘‘ مشی نے ایسے کہا جیسے میں نے کسی نہایت پیچیدہ مسئلے کا حل بتا دیا ہو۔

مشی نے جانجی کو بتایا اور جانجی نے فون پر کسی کو بتایا کہ وہ اس وقت کولون میں ہیں۔ گویا پورا دن یہاں گزارنے کے بعد بھی ہنسوں کے اس جوڑے کو شہر کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ ایسے بھی ہوتے ہیں سیاح۔

اس وقت آدھی رات تھی لیکن ہمارے گروپ کے زیادہ تر سیاح ابھی ہوٹل کے بار میں موجود گپ شپ اور مے نوشی میں مصروف تھے۔ میری اس رودادِ سفر میں کلب اور بار کا ذکر بار بار آ رہا ہے۔ اس سے کچھ قارئین غلط فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان کے لئے میں عرض کرتا چلوں۔ کلب میں زیادہ وقت گزارنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ وہاں پینے کے لئے جاتے ہیں۔ پینے پلانے کے ساتھ وہاں وہ تفریحِ طبع کے دوسرے ذرائع سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ دوسری قسم والے پینے سے زیادہ دوسرے لوگوں سے ملنے اور ان کے ساتھ گفتگو کر کے وقت گزارنے جاتے ہیں۔ کلب میں جانے والے تمام لوگ وہاں سے ڈرَنک ہو کر ہی نہیں نکلتے۔ بعض صرف ایک آدھ ڈرنک لیتے ہیں اور بعض تو صرف سافٹ ڈرنک پی کر ڈکار لیتے ہوئے گھر لوٹ جاتے ہیں۔ ان کا مطمحِ نظر صرف ہنس کھیل کر وقت گزارنا ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہیں۔ بلیئرڈ اور موسیقی سے دل بہلاتے ہیں، گھوڑوں کی ریس پر شرطیں لگاتے ہیں، پو کر مشین میں ڈالر گنوا کر بھی مطمئن نظر آتے ہیں کہ وقت اچھا گزرا۔ کلب کی بڑی اسکرین والی ٹی وی پر نئے اور پرانے مختلف کھیلوں کے دلچسپ مقابلے دیکھتے ہیں۔ وہاں یہ کھاتے ہیں پیتے ہیں اور پھر سونے کے لئے گھر چلے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ لوگوں کا تو گھر سے زیادہ ان کلبوں میں وقت گزرتا ہے۔ اگر یہ کلب بھی نہ ہوں تو جس طرح کی فیملی لائف یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے لوگوں کی ہوتی ہے اس میں تو وہ گھٹ گھٹ کر وقت سے پہلے مر جائیں۔ کیونکہ گھر میں نہ بچے ہوتے ہیں نہ بہو اور نہ پوتے پوتیاں جن کے ساتھ وہ وقت گزار سکیں۔ بڈھا بڈھی ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر اکتا جاتے ہیں تو کلبوں میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔

ذکر ہو رہا تھا کولون کے اس ہوٹل میں ہمارے گروپ کے سیاحوں کی مے نوشی کا۔ اس رات خلاف معمول مولی بھی وہاں بیٹھی پی رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو سب سے پہلا تبصرہ اسی نے کیا ’’کہاں تھے اب تک ناٹی بوائے! لگتا ہے یورپ کی ہوا تمھیں خوب راس آئی ہے اس لئے اکثر راتیں باہر گزارنے لگے ہو‘‘

میں نے ایک سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا ’’بھئی! جب میزبانوں کو ایک چھڑے چھانٹ مہمان کا خیال نہ ہو تو مہمان بے چارے کو اپنا بندوبست کرنا ہی پڑتا ہے‘‘

مولی نے جولی کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں کہا ’’تم اتنے بھی چھڑے چھانٹ نہیں ہو۔ تمھارا خیال رکھنے والے بہت لوگ ہیں۔‘‘

یہ بات مجھے مولی پہلے بھی کئی بار کہہ چکی تھی۔ لگتا تھا مولی میرے اور جولی کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار تھی۔ میں نے بات بدلنے کے لئے کہا ’’تم آج خلافِ معمول ہم مسافروں کے ساتھ کیسے بیٹھی ہو‘‘

’’بھئی! مسافر تو میں بھی ہوں بلکہ میرا سفرتو سارا سال جاری رہتا ہے۔ ویسے میں بھی تمھاری طرح ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی واپس آئی ہوں۔ کمرے میں جانے سے پہلے سوچا آپ لوگوں کے ساتھ ایک آدھ ڈرنک لے لوں۔ نیند اچھی آئے گی‘‘

’’اگر پھر بھی نہ آئی تو مجھے بلا لینا‘‘ میں نے شرارت سے کہا

مولی جس کے چہرے پر سرخی سی پھیل گئی بولی ’’تم کیا کرو گے ناٹی بوائے؟‘‘

’’میں نے کیا کرنا ہے بس کوئی لوری وغیرہ سنا دوں گا۔ شاید اس سے تمھیں نیند جلدی آ جائے‘‘

مولی نے اٹھتے ہوئے کہا ’’شکریہ! مجھے اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ویسے آپ لوگ کب تک سونے جائیں گے۔ صبح ہم نے آگے روانہ ہونا ہے‘‘

جارج نے کہا ’’بس ایک ڈرنک اور! اس کے بعد چلے جائیں گے‘‘

میں نے دیکھا کہ جولی نے خفگی کے اظہار کے طور پر چہرہ کچھ پھلایا ہوا تھا۔ اس نے اب تک کوئی بات بھی نہیں کی تھی۔ ورنہ وہ ایک لمحے کے لئے بھی خاموش رہنے والی نہیں تھی۔ میں نے اس کی دلجوئی کی خاطر کہا ’’میں ڈرنک لینے جا رہا ہوں تم کیا لو گی؟‘‘

’’کچھ نہیں! میرے پاس ڈرنک ہے‘‘ اس نے بدستور سرد لہجے میں کہا۔

حالانکہ بیئر کا جو گلاس اس کے آگے رکھا تھا اس کے پیندے کی جھاگ ہی باقی تھی۔ سب کے سامنے بحث جاری رکھنے کی بجائے میں کاؤنٹر پر گیا۔ اپنے لئے کوک اور جولی کے لئے فوسٹر کا گلاس لے آیا۔ اس محفل میں بھارتی نژاد ڈاکٹر رمیش اور پانڈے نظر نہیں آ رہے تھے۔ لیوژرن میں ہونے والی تلخ بحث کے بعد وہ میرے ساتھ تو کچھ کھنچے کھنچے تھے ہی باقی ٹورسٹوں سے بھی الگ الگ اپنی فیملیوں میں زیادہ وقت گزارنے لگے تھے۔ ویسے بھی ان کی فیملیوں میں اتنے ممبر تھے کہ وہ آپس میں گپ شپ کر کے وقت گزار سکتے تھے۔ جسٹن اور جوزی حسبِ معمول پینے اور قہقہے لگانے میں مصروف تھے۔ وہ میاں بیوی ہمارے گروپ کی جان تھے۔ ہنس مکھ، ملنسار اور ہر وقت ہنسنے کھیلنے والے۔ یہ میاں بیوی زندگی کا ہر میٹھا رس کشید کرنے اور اور اُسے مزے لے لے کر پینے کا فن جانتے تھے۔ حالانکہ اپنی زندگی میں پہلی اور شاید آخری مرتبہ ملنے والی ایک معقول رقم اس دورے میں خرچ کر کے وہ خالی ہاتھ سڈنی لوٹنے والے تھے۔ لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جو صرف آج کی فکر کرتے ہیں کل کے لئے وقت سے پہلے ہلکان نہیں ہوتے۔ توکل جن کا مضبوط سہارا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے سے پیار کے سہارے زندگی کی کڑی منزلوں سے آسانی سے گزر جاتے ہیں۔

اس رات خلافِ معمول ہمارے ساتھ امریکن بوڑھا باب بھی بیٹھا وہسکی سے چسکیاں اور زبان سے چٹکیاں لے رہا تھا۔ وہ اکثر ایک دو مخصوص فیملیوں کے ساتھ ہی زیادہ وقت گزارتا تھا۔ زیادہ بڑی محفل میں شرکت سے اجتناب کرتا تھا۔ لیکن آج شاید وہ بوڑھے جوڑے اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے۔ لہذا باب ہمارے ساتھ آ بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ تفصیلی بات چیت کا مجھے پہلے موقع نہیں ملا تھا۔ آج یہ موقع میسر آیا تو ہم نے دیکھا کہ باب جو بظاہر سنجیدہ نظر آتا تھا محفل کو اپنی مزاحیہ باتوں سے زعفرانِ زار بنانا جانتا تھا۔ وہ کسی دور میں امریکن آرمی میں رہ چکا تھا۔ امریکن آرمی میں مرد اور عورتیں ہر شعبے میں بلا تخصیص اکٹھے کام کرتے ہیں۔ جہاں جوان مرد اور جوان عورتیں چوبیس گھنٹے اکھٹے رہتے ہوں۔ ان پر کوئی خاص پابندی بھی نہ ہو تو ہر دن اور ہر رات نئے رشتے اور نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ کئی لطیفے وجود میں آتے ہیں۔ کئی طربیے اور کئی المیے بھی ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ بہرحال اس رات باب المیوں سے زیادہ لطیفوں کا ذکر کر رہا تھا۔ ایک لطیفہ اس نے سنایا ’’ایک امریکن لڑکی فوج میں بھرتی ہوئی۔ چند ماہ کے بعد اسے پہلی چھٹی ملی اور وہ گھر گئی۔ وہاں اس کی ملاقات اپنی بچپن کی سہیلوں سے ہوئی تو ایک سہیلی نے پوچھا ’’سناؤ فوج کی نوکری میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے؟‘‘

فوجی لڑکی سے کہا ’’کچھ نہیں! بس سارا دن ’یس سر،‘ ’یس سر‘ کرتے گزر جاتا ہے‘‘

دوسری لڑکی نے چھیڑتے ہوئے کہا ’’اور رات؟‘‘

فوجی لڑکی نے بلا جھجک کہا ’’رات ’نو سر‘ ’نو سر‘ کہتے گزرتی ہے‘‘

انہی لطیفوں اور چٹکلوں میں صبح کے دو بج گئے۔ اس وقت پورے ہال میں صرف ہمارا ٹیبل ہی آباد تھا۔ باقی لوگ کب کے سونے جا چکے تھے۔ دو بجے ہم نے بھی یہ محفل بر خواست کی اور اٹھ کر اپنے کمروں کی طرف چل دئیے۔ اس وقت تک تقریباً سبھی ڈرَنک ہو چکے تھے اور ایک دوسرے کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔ جولی جس نے آج خلاف معمول چپ سی سادھی ہوئی تھی، اُٹھنے کی بجائے سیٹ پر بیٹھی گلاس سے کھیلتی رہی۔ میں لفٹ کے پاس سے واپس مڑا۔ اس سے پوچھا ’’سرکار! کیا ارادہ ہے۔ کیا رات یہیں بیٹھ کر گزار دو گی‘‘

اس نے ڈرَنک ہونے کے باوجود خفگی کا سلسلہ جاری رکھا ’’تمھیں کیا! میں یہاں بیٹھوں یا مروں۔ تمھیں تو اکیلے سیر سپاٹے کا شوق ہے۔ پورا کر لیا نا شوق‘‘

’’اچھا یہ بات ہے۔ تم میرے اکیلے باہر جانے پر خفا ہو۔ بھئی میں ایک دوست کے ہاں تھا۔ وہ ابھی مجھے ہوٹل چھوڑ کر گیا ہے‘‘

’’یہ تمہارا ہر شہر میں کوئی نہ کوئی دوست کہاں سے نکل آتا ہے‘‘ اس نے جھنجلا کر کہا

میں واپس بیٹھ گیا ’’دوست تو اللہ کی دین ہوتے ہیں۔ میں نے زندگی میں کئی جگہوں پر وقت گزارا ہے۔ ہر جگہ کچھ لوگوں سے انسان کی بے تکلفی ہو ہی جاتی ہے اور ان میں سے کچھ کہیں نہ کہیں مل بھی جاتے ہیں۔ میرا یہ جرمن دوست عمان میں میرا کولیگ رہا ہے اور ہم نے کافی وقت اکھٹے گزارا ہے۔ اچھی فطرت کا انسان ہے کہ اس نے اب تک مجھے یاد رکھا۔ وہ خود مجھے ہوٹل سے لے کر گیا تھا‘‘

جولی پہلے تو شک بھری نظروں سے دیکھتی رہی پھر اٹھتے ہوئے بولی ’’تمہارا دوست مجھے تمہارے ساتھ دیکھ لیتا تو اسے کچھ ہو جاتا یا تمہاری دوستی پر حرف آتا‘‘

’’میں نے سوچا کہ دو دوستوں کی پرانی یادوں کے حوالے سے ملاقات میں تم بوریت محسوس کرو گی اس لئے تمہیں بتائے بغیر چلا گیا۔ اب بحث بند کرو اور اٹھو‘‘

جولی نے سیٹ تو چھوڑ دی لیکن جو وزن پہلے سیٹ پر تھا اب میرے کاندھوں پر آ گیا۔ میں نے اسے الگ کرتے ہوئے خفگی سے کہا ’’اب اتنی بھی ڈرَنک نہیں ہو کہ اپنے پاؤں پر نہ کھڑی ہو سکو۔ سیدھی طرح چل کر اپنے کمرے میں جاؤ اور سو جاؤ‘‘

اس نے میرے کندھے سے سر اٹھایا، گلے سے بانہیں الگ کیں اور دوبارہ جا کر سیٹ پر گر گئی۔ میں تھکن اور نیند سے پہلے ہی بے حال تھا۔ جولی کی ان حرکتوں سے جھلا گیا۔ ہاتھ پکڑ کر اُسے جھٹکے سے اٹھایا اور تقریباً گھسیٹ کر لفٹ تک لے کر گیا۔۔ اس کو تو جیسے یہی چاہیے تھا

وزن میرے اوپر ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس نے ہاتھوں اور پاؤں کا استعمال بھی بند کر دیا بلکہ آنکھیں بھی بند کر لیں۔ میں جانتا تھا کہ ڈرامہ کر رہی ہے لیکن میرے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ اسی حالت میں اُسے بمشکل اس کے کمرے تک پہنچایا۔ اس کا دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں آیا اورلباس تبدیل کر کے چند گھنٹے نیند لینے کے لئے بستر پر دراز ہو گیا۔




بے چارے یورپ والے





ہماری اگلی منزل ہالینڈ کا دار الخلافہ ایمسٹرڈم تھا۔ لیکن اس سے پہلے کولون میں جرمنی بلکہ یورپ کے مشہور و معروف دریائے رین کا کروز (دریائی سیر) ہمارے پروگرام کا حصہ تھا۔ دریائے رین یورپ کے مختلف ممالک میں سانپ کی طرح بل کھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ یورپ کے مختلف شہروں میں رسل و رسائل کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ کافی لوگ خشکی کی بجائے اس دریا کے سینے پر سفر کر کے ایک سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ دریا کا یہ سفر جدید ترین سہولتوں کی وجہ سے خوبصورت تفریح کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ آج ہم بھی اس سے لطف اندوز ہونے والے تھے۔ جس فیری میں ہم سوار ہوئے وہ انتہائی خوبصورت اور تمام سہولیات سے آراستہ تھی۔ یہ تین منزلوں پر مشتمل تھی۔ اسے بحری جہاز کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ شیشے کی دیواروں والے ہال، خوبصورت کھلے عرشے، کافی شاپس، رنگا رنگ دکانیں اور کئی ریستوران اس فیری کا حصہ تھے۔ اس بہت بڑے دریائی برتن میں ہمارے گروپ کے علاوہ سیکڑوں مزید سیاح بھی سمائے ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر ہماری طرح آسٹریلیا، امریکہ، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور جنوبی افریقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ ایشیائی خاندان بھی ان میں نظر آئے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہ سبھی بھارت کے صوبے گجرات سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکہ میں مستقل سکونت رکھے ہوئے ہیں۔ یورپ کے اس پورے سفر میں مختلف ہوٹلوں، تفریحی مقامات اور فیریز پر ہمارا دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے بے شمار سیاحوں سے پالا پڑا۔ اتفاق سے پورے سفر میں مجھے ان میں سے ایک بھی پاکستانی نہیں ملا۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے بھی بشمول ہمارے اپنے گروپ کے صرف صوبہ گجرات کے لوگ ہی ملے۔ شمالی بھارت کا کوئی شخص اس فضول خرچی میں شامل نظر نہیں آیا۔

ہماری فیری جرمنی کے جس علاقے میں تیرتی چلی جا رہی تھی وہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ دریا کے دونوں جانب سبزے کی چادر پہنے پہاڑ ایستادہ تھے۔ ایک جانب اونچا اور دوسری جانب قدرے چھوٹا پہاڑ تھا۔ اس چھوٹے پہاڑ کی ڈھلوانوں پر دریا کے ساتھ ساتھ خوبصورت مکانات، ہرے بھرے درخت، پودے اور رنگ برنگے پھول دعوتِ نظارہ دے رہے تھے۔ پہاڑ کی چوٹیوں پر جا بجا بڑے بڑے جنگی قلعے نظر آ رہے تھے۔ اس وقت صبح کے دس بجے تھے۔ ابھی ہوٹل سے سب ناشتہ کر کے نکلے تھے پھر بھی اکثر سیاحوں کے ہاتھ میں شراب کے جام یا بیئر کی بوتلیں نظر آ رہی تھیں۔ رات کو نیند پوری نہ کر سکنے پر میری طبیعت قدرے مضمحل تھی۔ اس لئے میں نے گرما گرم کافی کا کپ لیا۔ میرے ساتھیوں میں سے کچھ نے میری تقلید میں کافی کے کپ خریدے۔ ہم فیری کی تیسری منزل سے ہر دو جانب کے نظارے نظروں سے دل میں اتارنے لگے۔ ڈیک پر صاف ستھرے بینچ اور میزیں تھیں۔ جہاں میرے علاوہ جسٹن، جوزی، باب، جولی، ڈیوڈ، مسز مارگریٹ کے علاوہ جانحی اور مشی بھی بیٹھے تھے۔ جسٹن اور جوزی حسبِ معمول چٹکلے چھوڑنے اور قہقہے لگانے میں مصروف تھے۔ باب کل رات کی طرح آج بھی خوش نظر آ رہا تھا۔ جانحی اور مشی حسبِ معمول سب سے بے نیاز پیار کی دنیا میں گم تھے۔ کبھی کبھار ایک دو لمحوں کے لئے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے آنکھیں اِدھر اُدھر گھما کر ہماری طرف مسکرا کر دیکھتے اور پھر اُسی پوزیشن میں چلے جاتے۔ دوسرے سیاحوں کے ساتھ ان کی گفتگو عموماً ہیلو ہائے اور ایک آدھ مسکراہٹ تک محدود رہتی تھی۔ زبان کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن ان کے باہمی مصروفیات بھی انہیں کسی دوسری جانب دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ شاید انہیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں ہی ساری دنیا سمائی نظر آتی تھی۔

تھوڑی دیر پہلے خوبصورت دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ اچانک آسمان گرے کلر میں تبدیل ہوا اور بارش شروع ہو گئی۔ موسم کی اس اتنی اچانک تبدیلی پر ہم حیران سے رہ گئے۔ لیکن یہ یورپ تھا جہاں کا موسم ان کی نیلی آنکھوں والی حسیناؤں کی طرح تیزی سے آنکھیں بدلنے کا عادی تھا۔ ہم اپنے کپ تھامے ہال کے اندر چلے گئے۔ فیری کا کپتان ارد گرد کے علاقے اور قلعوں کی تاریخ بتا رہا تھا۔ مجھے تاریخ سے زیادہ اپنے اردگرد پھیلے سیکڑوں سیاحوں اور دریا کے کناروں پر قدرت کی فیاضی سے دلچسپی تھی۔ دریا کی یہ دو گھنٹے کی سیر ہمارے لئے بہت اچھی تفریح ثابت ہوئی۔ سیاح ہنس کھیل اور کھا پی کر خوب لطف اندوز ہوئے۔ شہر سے کافی باہر ایک جگہ یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔

ہم فیری سے اتر کر باہر نکلے جہاں فشر اور مولی کوچ کے ہمراہ موجود تھے۔ ایمسڑڈم جانے سے پہلے ہم جرمنی کے کئی شہروں میں سے گزرے۔ ان میں سے زیورچ اور مینز قابل ذکر ہیں۔ زیورچ کے مرکزی حصے میں اس کا عظیم الشان چرچ آسمان سے باتیں کرنے والے بلند و بالا مینار کی وجہ سے بہت نمایاں نظر آ رہا تھا۔ وہاں مختصر قیام کے بعد ہمارا سفر جاری رہا۔ اب ہم جرمنی کے ایک اور شہر MAINZپہنچے۔ وہاں بھی رکنے اور کچھ دیکھنے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ تاہم لنچ ہم نے وہیں کیا۔ جرمنی کی جتنی تھوڑی بہت کرنسی بچی تھی میں نے لنچ پر خرچ کر دی۔ وہاں سے روانہ ہونے لگے تو مولی نے بتایا کہ آگے چند گھنٹے تک سفر میں وقفہ نہیں ہے۔ اس لئے اپنی ضروریات سے یہیں فارغ ہو لیں۔ مجھے جرمنی میں پیئے ہوئے پانی اور کافی کو یہیں بہانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ٹوائلٹ میں گیا تو پتا چلا کہ حسب معمول اندر جانے کے لئے رقم کی ضرورت ہے۔ شاپنگ وغیرہ کے لئے تو کریڈٹ کارڈ استعمال کیا جا سکتا تھا لیکن ٹوائلٹ میں یہ سہولت نہیں تھی۔ کریڈٹ کارڈ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر یہ بعید نہیں کہ وہاں اب ٹوائلٹ میں بھی کریڈٹ کارڈ استعمال ہو رہا ہو۔

لیکن اس وقت جرمنی کے مشہور شہر مینز میں ٹوائلٹ جانے کے لئے مجھے صرف چند سکے درکار تھے جو میرے پاس موجود نہیں تھے۔ مجبوراً میں نے گھوم پھر کر ایک اے ٹی ایم ڈھونڈا۔ قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ باری آنے پر پچاس ڈچ مارک نکلوائے اور پھر ٹوائلٹ میں گیا۔ ایک کرنسی کو دوسری کرنسی میں تبدیل کرنا ہو تو بیورو ڈی چینج والے اچھا خاصا کمیشن لے لیتے ہیں۔ ٹوائلٹ میں چند سکے خرچ ہوئے۔ لیکن بعد میں یہ کرنسی ڈچ مارک میں تبدیل کروائی تواس کا اچھا خاصا کمیشن ادا کیا۔ ادھر آسٹریلیا میں میرے بنک نے جرمنی کی کرنسی لینے پر اپنا کمیشن چارج کیا۔ ان دونوں کمیشنوں کی کل رقم پاکستانی پانچ سو روپے سے زائد بن جاتی ہے۔ گویا ایک پاؤ بھر پانی بہانے کے مجھے پانچ سو روپے ادا کرنے پڑے۔ کہاں ہوتا کراچی، لاہور یا پنڈی جہاں ٹوائلٹ کی فیس تو درکنار خود ٹوائلٹ کی بھی ضرورت نہ پڑتی کہ زمینِ خدا تنگ نیست۔

یورپ والے اپنے آپ کو آزاد کہتے ہیں۔ کیا ایسی آزادی انہیں حاصل ہے۔ یہ بے چارے تو مالٹے کا چھلکا تک زمین پر پھینکنے کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ انہیں زمین پر تھوکنے اور سگریٹ کے ٹوٹے پھینکنے کی بھی آزادی نہیں ہے۔ کہاں ہم پاکستان جیسے آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں کہ پان کی پیک سے دیواریں لال کر دیتے ہیں۔ بسیں اور ٹرینیں گل و گلزار کر دیتے ہیں۔ پھل کھا کر چھلکے جہاں دل چاہتا ہے پھینک سکتے ہیں۔ بلکہ پورے گھر کا کچرا سڑک پر پھینک سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی روک سکتا ہے اور نہ کسی قسم کا جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ یہ ہے اصل آزادی۔ یورپ والے اس آزادی سے ایک دفعہ مستفید ہوں تو پھر انہیں اپنی آزادی پھیکی لگنے لگے۔ جہاں ٹوائلٹ میں جانے کے لئے پانچ سو روپے دینے پڑتے ہیں۔ بے چارے یورپ والے۔







ایمسٹرڈم (ہالینڈ)




سائیکلوں کا سیلاب سا آیا ہوا تھا





اب ہم جرمنی سے نکل کر ہالینڈ میں سفر کر رہے تھے۔ ہالینڈ، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کی نسبتاً میدانی علاقے پر آباد ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر ہالینڈ والوں نے ہر طرف نہروں کا جال بچھا دیا ہے۔ یہ چھوٹی بڑی بے شمار نہریں ان کی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں جس سے یہ لوگ سونا اُگا کر پوری دنیا میں سپلائی کرتے ہیں۔ ہالینڈ کا گوشت، پنیر، مکھن، خشک دودھ، دودھ کی دیگر بہت سی مصنوعات، سورج مکھی کا تیل اور اس سے متعلق مصنوعات، بھیڑ اور گائے کا گوشت، بھیڑ کی اون، کھالیں اور دیگر بہت سی زرعی مصنوعات ہالینڈ سے تقریباً پوری دنیا میں جاتی ہیں۔ ہالینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ چند گھنٹوں میں ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کیا جا سکتا ہے لیکن ڈچ قوم نے اپنی زمین کے ایک ایک چپے کو انتہائی قیمتی بنا دیا ہے۔ وہ اپنی زمین کے ایک ایک انچ کو پوری طرح استعمال کرتے ہیں اور اس سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔

ڈچ محنتی اور دلیر قوم ہے۔ انگریزوں کے ساتھ ساتھ اس قوم نے بھی دنیا کے کتنے ہی ممالک کو صدیوں تک اپنے زیرِ نگیں رکھا۔ اس چھوٹے سے ملک کے بظاہر بھولے بھالے سے نظر آنے والے لوگوں کو دیکھتے ہوئے ان کی تاریخی کامیابیوں پر رشک آتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ صدیوں پہلے سفر کی دشواریوں کے باوجود یہ یورپ سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے کتنے ہی ممالک پر قبضہ کرنے اور صدیوں تک اُسے قائم رکھنے میں بھی کامیاب رہے۔ انگریزوں کی طرح انہوں نے بھی دنیا بھر سے اکٹھی کی ہوئی دولت کو اپنے ملک اور اپنے عوام کی ترقی کے لئے اس طرح استعمال کیا ہے کہ موجودہ نسلوں کو پکے مکانات سے لے کر نہریں اور پل سب کچھ بنا بنایا مل گیا ہے۔ ملک ترقی کے

سب سے اوپر والے زینے پر کھڑا ہے۔ عوام اس سے مستفیض ہو کر مکمل خوشحال اور زندگی کی نعمتوں سے فیضیاب ہو رہی ہے۔ اس کا کریڈٹ ان کی گزشتہ نسلوں کو جاتا ہے جنہوں نے طویل اور کامیاب جنگی مہمات سے خود کو اور اپنے آنے والی نسلوں کو ایک عظیم قوم بنا دیا۔ انہوں نے دنیا کے کتنے ہی ممالک کی دولت کو اپنی سرزمین پر منتقل کر کے آنے والی کی نسلوں کا مستقبل محفوظ کر دیا۔

یہ وہی دور تھا جب ہندوستان میں نواب اور راجے عیاشیوں میں مصروف تھے۔ بادشاہ اور شہزادے حکومت حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے تھے۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا تھا اور عوام کسی مضبوط لیڈر شپ کے بغیر منتشر، نادار، بے بس اور کمزور تھی۔ لوگ انگریزوں کی تجارتی کمپنی (ایسٹ انڈیا کمپنی) کی فوج میں نوکری حاصل کر کے فخر کرتے تھے۔ وہی ایسٹ انڈیا کمپنی جو تاجروں کے بھیس میں آئی اور آہستہ آہستہ پورے ہندوستان کو تاجِ برطانیہ کا غلام بنا لیا۔ اس وقت جب برطانیہ میں عظیم الشان عمارتیں بن رہی تھیں ہندوستانی ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے۔ ا س وقت انگریز، ڈچ اور فرنچ پوری دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی اپنی قوموں کو معاشی طور پر مضبوط کیا بلکہ بین الاقوامی برادری میں نمایاں مقام بھی حاصل کر لیا۔ اب بھی سلامتی کونسل سمیت دنیا کے ہر بڑے پلیٹ فارم میں ان ممالک کو خاص حیثیت حاصل ہے۔ خصوصاً برطانیہ اور فرانس کو۔

ہالینڈ معاشی استحکام حاصل کرنے کے بعد اب بین الاقوامی سیاست میں زیادہ فعال نہیں ہے۔ اس کا بھی انہیں فائدہ ہے۔ وہ خواہ مخواہ دوسروں کی جنگوں میں حصہ نہیں لیتے اور نہ بلاوجہ لوگوں کو اپنا دشمن بناتے ہیں۔ انہیں دفاع پر زیادہ رقم نہیں خرچ کرنا پڑتی۔ یہی رقم عوام کی بہتری، تعلیم، علاج معالجے اور رسل و رسائل کے ذرائع بہتر کرنے لئے استعمال ہوتی ہے۔

ہالینڈ میں ہر طرف نہریں ہی نہریں ہیں۔ مولی نے بتایا ’’یہ نہریں جو گرمیوں میں زمینوں کی سیرابی کے کام آتی ہیں سردیوں میں برف میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ لوگ ان پر اسکیٹنگ کرتے ہیں‘‘

گویا اتنی محنت سے بنائی گئی نہریں صرف سال کے چھ ماہ استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کوا للہ نے ایسے موسم سے نوازا ہے کہ سال کے بارہ مہینے نہ تو پانی جمتا ہے اور نہ سڑکوں پر برف جمتی ہے۔ فصلوں کو پانی ہر وقت دیا جا سکتا ہے۔ سڑکوں اور عمارتوں کی مرمت اور تعمیر کا کام بھی سال کے بارہ مہینے بلا رکاوٹ کیا جا سکتا ہے۔ یورپ کی طرح کئی کئی دن مسلسل برف باری جاری نہیں رہتی جہاں سارے تعمیراتی کام بند ہو جاتے ہیں۔ یہ اندازہ لگا نا مشکل ہے کہ ڈچ، سوئس اور جرمن قوموں کو سال کے یہ چھ ماہ بھی کام کرنے کے لئے مل جاتے تو ان کے تعمیراتی کاموں کی حد کیا ہوتی۔

نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے صبح جو کسلمندی میرے اُوپر طاری تھی اب دور ہو چکی تھی۔ ویسے بھی اس پورے دورے میں پوری نیند لینے کا کم ہی موقع ملا تھا۔ روزانہ چار پانچ گھنٹے ہی سونے کے لئے ملتے تھے۔ بلکہ ہم خود بہت کم سوتے تھے۔ سارا دن گھومنے پھرنے میں صرف ہو جاتا اور رات میں محفل جم جاتی۔ بعد میں مولی نے ہمیں بتایا ’’جتنے زندہ دل لوگ اس گروپ میں شامل ہیں اتنے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے‘‘

ہم میں سے آدھے سے زیادہ رات کو دیر تک بیٹھنے پینے پلانے اور گپ شپ کے شوقین تھے۔ اس تفریحی سفر میں نہ تو ہم نیند کی زیادہ فکر کرتے تھے اور نہ ہی پیسہ خرچ کرنے میں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیرس کی کیبرے نائٹ، سوئٹزر لینڈ میں پہاڑ کی چوٹی کے مہنگے سفر اور ایمسٹرڈم میں سمندر میں موجود جہاز میں چائنیز ڈنر کی مہنگی عیاشی کے لئے رقم دینے میں ایک دو کو چھوڑ کرکسی نے تامل نہیں کیا تھا۔ ہمارے گروپ کے زیادہ تر لوگوں کا مطمحِ نظر یہ تھا کہ یہ سفر زندگی میں ایک دفعہ کر رہے ہیں۔ اسے کنجوسی یا نیند کی نذر نہ کریں اوراس کا ایک ایک لمحہ بھر پور طریقے سے انجوائے کریں۔

شام پانچ بجے ہم سطحِ سمندر سے نیچے واقع یورپ کے قدیم شہر اور ہالینڈ کے دار الخلافہ ایمسٹرڈم پہنچے۔ اس شہر کا پہلا تاثر یہی تھا کہ یہ انتہائی قدیم اور تاریخی عمارات پر مشتمل ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ نہروں کا جال سا بچھا ہے۔ لوگ کاروں، بسوں اور سائیکلوں کے ساتھ ساتھ فیری کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ پرانی پرانی عمارتوں کے آگے درجنوں سائیکلیں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ سڑکوں پر بھی بے شمار لوگ سائیکلوں پر سفر کر رہے تھے۔ سائیکل سواروں کی تعداد ڈرائیونگ کرنے اور پیدل چلنے والوں سے کہیں زیادہ تھی۔ پرانی اور بھدی بھدی سی سائیکلیں تھیں لیکن انہیں چلانے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں خوبصورت اور خوش لباس تھے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں گرمیوں کے اس موسم میں رنگ برنگی نیکریں اور ٹی شرٹس پہنے آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے سائیکلیں چلاتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ شام کے اس وقت سڑکوں پر جیسے سائیکلوں کا سیلاب سا آیا ہوا تھا۔ سائیکلوں کا اتنا استعمال میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

آسٹریلیا میں بھی کچھ لوگ شوق سے سائیکل چلا کر کام پر جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہفتے میں ایک دفعہ ویک اینڈ پر لمبی سائیکلنگ کر کے ورزش کرتے ہیں۔ لیکن یہاں سائیکلوں کا بہت زیادہ استعمال نہیں ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سڈنی اور آسٹریلیا کے دوسرے شہر اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے کا سفر بہت طویل ہو جاتا ہے جو سائیکل پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً سڈنی میں بلیک ٹاؤن سے سٹی سنٹر جانا ہو تو پچاس ساٹھ کلومیٹر کا فیصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ لیورپول سے شہر کے مرکزی حصے کا سفر بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔ بعض علاقے مثلاً پنرتھ، رچمنڈ، پام بیچ اور کیمبل ٹاؤن وغیرہ شہر سے اس سے بھی زیادہ فاصلے پر ہیں پھر بھی وہ سڈنی شہر کا حصہ ہیں۔ اس لئے اتنی دور سائیکل پر نہیں جایا جا سکتا۔ اس کے مقابلے میں ایمسٹرڈم اور دوسرے یورپین شہر کافی گنجان آباد ہیں۔ آسٹریلین شہروں کے مقابلے میں سڑکیں تنگ ٹریفک اور آبادی کا دباؤ زیادہ ہے۔ ہالینڈ میں سائیکلوں کا استعمال ایک رواج اور روایت بن چکا ہے۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں جہاں ٹریفک زیادہ نہیں ہے وہاں بھی سائیکل کا استعمال عام ہے۔ یہ بہت صحت مند رواج ہے۔ یہ لوگ جو سائیکلوں پر آ اور جا رہے تھے یقیناً اپنی گاڑی خریدنے اور چلانے کی صلاحیت رکھتے تھے بلکہ زیادہ تر لوگوں کی گاڑیاں گھروں میں موجود ہوں گی۔ سائیکل وہ اس لئے چلاتے ہیں کہ اس سے ان کی ورزش ہوتی ہے۔ سڑکوں پر دھواں اور ٹریفک کا رش نہیں ہوتا۔ شہر کی آب و ہوا صاف اور پرسکون رہتی ہے۔ پیٹرول کی بھی بچت ہوتی ہے جو پوری قوم کی معیشت کے لئے مفید ہے۔ اس طرح پوری قوم بحیثیت مجموعی صحت مند اور خوشحال رہتی ہے۔ کاش یہ رواج پاکستان میں بھی عام ہو جائے۔ جہاں گاڑیوں کے رش دھوئیں اور شور و غل نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

ہوٹل جانے سے پہلے ہماری بس ایک ڈائمنڈ فیکٹری میں جا کر رکی۔ اس فیکٹری کی سیر ہمارے پروگرام کا حصہ تھی۔ یہاں ہم نے ہیرے کاٹنے، تراشنے اور مختلف شکلوں میں ڈھالنے کا عملی مظاہرہ دیکھا۔ خام ہیرے (تراش خراش سے پیشتر والے) بھی ہمیں دکھائے گئے۔ ہمیں ہیروں کی ایک دکان میں بھی لے جایا گیا جہاں مختلف زیورات اور گھڑیوں میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ مختلف مالیت کی ان گھڑیوں اور زیورات کو دکھانے کا مقصد یہی تھا کہ سیاح ان میں سے کچھ خریدیں گے۔ ہمارے علاوہ کئی اور گروپ بھی فیکٹری کی سیر کر رہے تھے۔ کئی سیاحوں نے اپنی پسند کی چیزیں خریدیں۔ زیادہ تر نے ونڈو شاپنگ پر اکتفا کیا۔ وہاں کافی اور اسنیکس سے ہماری تواضع کی گئی اور فیکٹری کا کچھ معلوماتی لٹریچر بھی ہمارے حوالے کیا گیا۔ ہیروں کی فیکٹریاں ہالینڈ کی صنعت کا نہایت اہم حصہ ہیں۔

ایمسٹرڈم میں ہمارا قیام نووٹل میں تھا۔ نوووٹل ہوٹل پہنچے تو طبعیت خوش ہو گئی۔ بہت صاف ستھرا اور خوبصورت ہوٹل تھا۔




جوانیوں کی شراب بھی چھلکنے لگتی تھی





ڈیڑھ دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد ہم باہر نکلے تو ہماری کوچ تیار کھڑی تھی۔ آج شام ہمارا ڈنر ایمسٹرڈم کے ایک مہنگے چائنیز ریستوران میں تھا۔ یہ ریسٹورنٹ شہر کے مرکزی حصے سنٹرل اسٹیشن کے قریب اور پسینجر ٹرمینل (Passenger Terminal) کے سامنے پانی میں کھڑے جہاز پر واقع تھا۔ آج کا یہ ڈنر بھی ان اضافی عیاشیوں میں سے ایک تھا جس کے لئے ہم نے الگ سے رقم ادا کی تھی۔ جہاز کی سیڑھیوں پر اور پھر اس کے اندر پہنچے تو ایسے لگا جیسے کسی محل میں داخل ہو گئے ہوں۔ سرخ دبیز قالین، با وردی مؤدب بیرے، ایر کنڈیشنر کی خنکی میں ایک دلربا سی خوشبو اور مدھر موسیقی نے جیسے ہمیں کسی انوکھی اور پر تحیر دنیا میں پہنچا دیا۔ اس انتہائی رومانٹک ماحول میں دھیمی دھیمی روشنیوں نے ایک عجیب سا جادوئی حسن پیدا کر دیا تھا۔ اس چار منزلہ ریستوران کی تیسری منزل پر ہماری سیٹیں مخصوص تھیں۔ بیروں نے سیٹیں ڈھونڈنے اور ان پر بیٹھنے میں ہماری مدد کی۔

ایک میز پر ہم آٹھ افراد بیٹھے تھے۔ جس میں میرے علاوہ جسٹن، جوزی، جولی، باب، اسمتھ وغیرہ تھے۔ در اصل یہ سگریٹ نوشوں کا گروپ تھا۔ سگریٹ نوشی کی مشترکہ عادت کی وجہ سے ہم اکثر اکھٹے نظر آتے تھے۔ اس عادت کے علاوہ اب ایک دوسرے سے ہماری دوستی بھی ہو چکی تھی۔ سب سے زیادہ قہقہے اور ہنسی مذاق ہمارے ٹیبل سے ہی سنے جاتے تھے۔ کھانے کا مینو کافی طویل اور مشکل تھا۔ میری ہدایت کے مطابق مجھے سی فوڈ مہیا کر دیا گیا۔ جس میں تلی ہوئی مچھلی، پران، سلاد، آلو، مچھلی کی کری، سبزیاں، فرائی کئے ہوئے چاول، دال اور ایسی ہی چیزیں شامل تھیں۔ میرے ٹیبل کے باقی افراد نے شاید ہی کوئی ڈش چھوڑی ہو۔ کسی کو بھی مختلف ڈشوں کے بارے میں صحیح علم نہیں تھا۔ وہ بس مینو پر انگلی رکھ کر ہر وہ چیز منگوا رہے تھے جو وہاں درج تھی۔ اس طرح ہمارا ٹیبل نوع بہ نوع کھانوں سے بھر گیا۔ ان کی منطق یہ تھی کہ اس ڈنر کے لئے ہم نے خاصی بڑی رقم دی ہے تو کیوں نہ اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیٹ بھر کر کھانے کے باوجود میز پر آدھے سے زیادہ کھانے بچے ہوئے تھے۔ در حقیقت اس ڈنر کا بل اتنا تھا کہ اس ضیاع کے بعد بھی ریستوران والوں نے بہت زیادہ کمایا تھا۔

کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد رنگ برنگی شرابوں کی ٹرالی مسلسل محوِ گردش رہی۔ لوگ اس سے بھی دل کھول کر استفادہ کر رہے تھے۔ شراب کے رنگوں کے ساتھ ساتھ حُسنِ ساقی نے بھی ماحول رنگین کیا ہوا تھا۔ مختصر سے لباس کے ساتھ یہ حسینائیں جب جھک کر جام لبریز کرتیں تو ان کی جوانیوں کی شراب بھی چھلکنے لگتی تھی۔ لوگ ہونٹوں اور آنکھوں دونوں سے پی رہے تھا۔ کئی لوگوں کو شراب کے ساتھ کافی اور چائے پیتے میں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ لگتا تھا کہ بھائی لوگ کسی چیز کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ وہ دی ہوئی رقم کے پیسے پیسے کا استعمال کرنا چاہتے تھے۔ یہاں کھانے کے معاملے میں کئی لوگ بہت ندیدے ہوتے ہیں۔ خصوصاً مفت کی کوئی چیز چھوڑنے کے روا دار نہیں ہو تے۔ اس معاملے میں غریب امیر اور چھوٹا بڑا ہر شخص یکساں رویے کا حامل ہے۔ مفت کی ہر چیز کا ذائقہ انہیں ہمیشہ بھاتا ہے۔ زیادہ کھانے اور پینے کے بعد پارٹی کے اندر اور باہر نکلتے ہی الٹیاں کرنے کی بے شمار شکایتیں ہوتی ہیں۔ کئی لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی میں گندگی پھیلاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہوٹلوں اور کلبوں میں سے اکثر دھکے دے کر نکالے جاتے ہیں۔ ایسے مناظر جمعے اور ہفتے کی رات اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں دو واقعات مجھے یاد آ رہے ہیں۔

مجھے آسٹریلیا آئے ہوئے چند ہی ہفتے ہوئے تھے۔ میں کچھ دوستوں کے ساتھ سڈنی شہر کے قریب ایک سبرب سری ہلز میں ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ ایک شام جاب کے بعد گھر پہنچا تو بھوک زوروں پر تھی۔ میرے دوستوں میں سے ابھی تک کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ کچن میں دیکھا تو اگلے دن کا باسی سالن فریج سے باہر رہنے کی وجہ سے بساند سی چھوڑ چکا تھا۔ لبنانی روٹی بھی پرانی سخت اور کائی زدہ سی تھی۔ شام کا کھانا ہم گھر میں بناتے تھے۔ دوسرے ساتھی وہاں نہیں تھے اس لئے میں نے کھانا بنانے کی تیاری شروع کر دی۔ اتنی دیر میں ڈور بیل بجی۔ دروازہ کھولا تو میرے دوستوں میں سے ایک کی گرل فرینڈ اس سے ملنے آئی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میرا دوست اس وقت وہاں نہیں ہے شاید تھوڑی دیر میں آ جائے۔ اس نے پوچھا ’’اگر تم برا نہ مانو تو کیا میں یہاں بیٹھ کر اس کا انتظار کر سکتی ہوں‘‘

میں نے کہا ’’کیوں نہیں! ضرور بیٹھو۔ وہ ابھی آتا ہی ہو گا‘‘

اسے بٹھا کر میں کچن میں چلا گیا تاکہ کھانا بنانے کی تیاری کر سکوں۔ وہ میرے پیچھے وہیں چلی آئی اور بولی ’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘

میں نے چاول نکالتے ہوئے کہا ’’ڈنر تیار کرنے لگا ہوں‘‘

کہنے لگی ’’اس وقت کچھ بنا ہوا نہیں ہے؟ در اصل مجھے پاکستانی کھانا بہت پسند ہے‘‘

لگتا تھا میری طرح اسے بھی بھوک ستا رہی تھی۔

میں نے کہا ’’یہ کل کا کھانا ہے باسی ہو چکا ہے میں اسے پھینکنے والا تھا‘‘

اس نے پتیلی پر سے ڈھکنا اٹھایا۔ چمچ سے تھوڑا سا سالن نکال کر چکھا اور بولی ’’یہ تو بہت مزیدار ہے‘‘

میں نے کہا ’’لیکن یہ خراب ہو چکا ہے۔ یہ روٹی بھی پرانی اور کھانے کے قابل نہیں ہے‘‘

بولی ’’مجھے تو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ کیا میں یہ لے سکتی ہوں۔ مجھے پاکستانی کھانے اچھے لگتے ہیں‘‘

میں حیرانگی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ میرے بتانے کے باوجود وہ باسی اور خراب کھانا کھانے پر اصرار کر رہی تھی۔ وہ میرے دوست کی گرل فرینڈ تھی۔ اس لئے اسے منع بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے خود ہی ایک پلیٹ میں بساند زدہ سالن نکالا۔ پھر کائی زدہ سوکھی ہوئی روٹی پر یہ سا لن رکھا اور رول بنا کر مزے سے کھا گئی۔ میں ڈر رہا تھا کہ ایک دو نوالے لینے کے بعد وہ کھانا پھینک کر الٹیاں نہ شروع کر دے۔ لیکن اس حسینہ نے یہ کھانا ایسے کھایا جیسے یہ اس کی زندگی کا سب سے مزیدار کھانا ہو۔ یہ بات بعد میں درست بھی ثابت ہوئی۔ اس نے مجھ سے اجازت لے کر کسی دوست کو وہیں سے فون کیا اور اسے بتایا ’’میں نے آج انتہائی لذیذ پاکستانی کھانا کھایا ہے۔ اتنا مزہ مجھے پہلے کبھی نہیں آیا جتنا یہ کھانا کر آیا ہے‘‘

یہ بات اس نے فون پر ایک دو اور دوستوں اور اپنی ماں کو بھی بتائی۔ میں ڈر رہا تھا کہ خراب کھانا کھا کر وہ بیمار ہو گئی تو ہمارے لئے مصیبت بھی کھڑی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہ سڈنی بھر میں دوستوں اور رشتہ داروں کو فون کر کے اس کھانے کی تعریف کرتی رہی۔ حتیٰ کہ میرا دوست آ گیا اور میری جان چھوٹی۔

جہاں تک بسیار خوری کا تعلق ہے اس میں بھی کئی لوگوں کا جواب نہیں۔ متذکرہ فلیٹ میں ہم نے ایک مرتبہ چھوٹی سی پارٹی رکھی۔ ہمارے ایک دوست کا تعلق کراچی سے تھا۔ وہ بہت اچھا کھانا بناتے تھے۔ کراچی والوں کے ذائقے دار اور تیز مرچ مسالوں والے کھانے مجھے بھی بہت پسند ہیں۔ پسندیدگی کے باوجود تیز مرچوں والے کھانوں کی اب تک مجھے عادت نہیں پڑ سکی۔ ایساکھانا اچھا بھی لگتا ہے لیکن ہر نوالے کے بعد پانی کا گھونٹ لیتا ہوں تو نوالہ حلق سے اترتا ہے۔ میرے دوست نے اپنے ہاتھوں سے اس دن بہت لذیذ بریانی بنائی۔ اس نے حسبِ عادت مرچیں اتنی تیز رکھیں کہ کہ پہلا چمچ لیتے ہی میں سی سی کر اٹھا۔ بڑی مشکل سے میں آدھی پلیٹ کھا پایا۔ اسی پارٹی میں میرے دوست کا ایک مقامی کولیگ بھی مدعو تھا۔ وہ پہلی دفعہ پاکستانی یا بھارتی کھانا کھانے جا رہا تھا۔ اس سے پہلے اس نے کبھی مرچوں والا کھانا نہیں کھایا تھا۔ اسے جب یہ تیز مرچوں والی بریانی کی پلیٹ پکڑائی گئی تو سب کنکھیوں سے اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔ اس نے پہلا چمچ لیا تو جیسے اس کے گلے میں اٹک گیا۔ آہستہ آہستہ اُس نے نیچے اتارا۔ پاس رکھی ہوئی کوک کی بوتل سے ایک گھونٹ لیا اور دوسرا چمچ منہ میں ڈال لیا۔ تیز مرچیں کھانے سے اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوتے گئے۔ چہرہ لال سے لال سرخ ہوتا گیا لیکن وہ ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا چمچ حلق میں اتارتا چلا گیا۔ اس دوران اس کے چہرے پر سردی کے باوجود پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے حتیٰ کہ اس کی پلیٹ ختم ہو گئی۔ میرے دوست نے اس کی پلیٹ دو بارہ بھر دی۔ اس نے بلا تردد پکڑ لی اور تھوڑی دیر میں وہ بھی صاف کر دی۔ وہ سی سی بھی کر رہا تھا، معدے میں جلن کی وجہ سے کوک کے گھونٹ بھی لے رہا تھا، چہرے سے پسینہ بھی پونچھ رہا تھا، لیکن اس نے ہاتھ نہیں روکے۔ حتیٰ کہ وہ پلیٹ بھی خالی ہو گئی۔ ایک اچھے میزبان کی حیثیت سے میرے دوست نے اس سے تیسری پلیٹ لینے کے لئے کہا۔ اس وقت سب حاضرین حیران رہ گئے جب اس نے وہ بھی لے لی۔ نہ صرف لے لی بلکہ وہ بھی کھا گیا۔

یہ انتہائی غیر معمولی بات تھی۔ ایک تو یہ کہ وہ شخص جس نے ساری زندگی مرچوں والا کھانا کھایا ہی نہیں تھا اسے بہت تیز مرچوں والا کھانا کھانا پڑ رہا تھا۔ یقیناً یہ تیز مرچیں اس کے لئے بھی تکلیفدہ تھیں۔ اس کے باوجود وہ لگاتار کھاتا جا رہا تھا۔ دوسری غیر معمولی بات یہ تھی کہ وہ اتنا زیادہ کھا گیا تھا کہ عام صحت مند آدمی کے کھانے سے تین گنا زیادہ تھا۔ گھر جا کر خدا جانے اس کی کیا حالت ہوئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے باہر فٹ پاتھ پر الٹیاں کرتا رہا ہو۔

ایمسٹرڈم کے پانی میں تیرتے اس خوابناک ماحول والے ریستوران میں کھانے کی باتیں کرتا ہوا میں کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ اب واپس ایمسٹرڈم چلتے ہیں۔ کھانے کے بعد ہم باہر نکلے تو ایمسٹرڈم شہر کے اس مرکزی حصے میں رات کے نو بجے ہر چہار جانب رونق ہی رونق تھی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ ان میں بہت سے سیاح تھے جو دنیا کے مختلف ملکوں سے ہالینڈ کی سیر کرنے آئے تھے۔ اس وقت ایمسٹرڈم شہر روشنیوں اور رنگوں سے عبارت نظر آتا تھا۔ دریا کے ہر دو جانب رہائشی عمارتیں، ریستوران، کلب، دکانیں اور دریا میں کشتیاں رنگوں اور روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی۔ یہ کشتیاں رنگ و نور کا مرقع نظر آ رہی تھیں۔




شو کیسوں میں سجی عورتیں





موسم خنک مگر خوشگوار تھا۔ سردی زیادہ تھی نہ گرمی۔ موسم گرما کی راتیں یورپ کے ان شہروں میں بہترین موسم کی حامل ہوتی ہیں۔ دن کے اوقات میں اگر قدرے گرمی ہو بھی تو رات کو وہ ناپید ہو جاتی ہے۔ ہلکی سی خنکی جسم و جان کے لئے باعثِ تسکین ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھیوں میں زیادہ تر صرف دو کپڑوں میں ملبوس تھے۔ تا ہم کچھ بوڑھے مرد اور عورتیں ہلکے سویٹر وغیرہ بھی پہنے ہوئے تھے۔

ان بوڑھے جسموں میں گرمی کی لہر دوڑانے کے لئے مولی ہمیں کوچ میں بٹھا کر دریا کے اس پار ریڈ لائٹ ایریا میں لے گئی۔ ایمسٹرڈم کا سرخ روشنی والا یہ علاقہ شہر کا سب سے با رونق اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے باعثِ کشش ہے۔ یہ علاقہ چوبیس گھنٹے بھانت بھانت کے لوگوں سے اٹا رہتا ہے۔ قدرے تنگ گلیاں، بے شمار ریستوران اور نائٹ کلب اس علاقے کی پہچان ہیں۔ سب سے زیادہ قابلِ ذکر اس علاقے کے قحبہ خانے ہیں۔ وہاں میں نے انوکھا منظر دیکھا۔ جسم فروش عورتیں فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ ایستادہ بہت سے شو کیسوں میں کھڑی ہو کر گاہکوں کو ترغیب دے رہی تھیں۔ شو کیسوں میں کھڑی ان عورتوں نے اتنا ہی لباس پہنا ہوا تھا جتنا دنیا میں آنے والے نو مولود بچے نے پہنا ہوتا ہے۔ سیاحوں اور ان عورتوں کے درمیان شیشے کی بس باریک سی دیوار تھی۔ یہ شیشہ چونکہ نظر نہیں آتا اس لئے کئی سیاح ہاتھ بڑھا کر انہیں چھونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ عورتیں مردوں کی ہوس بھری نظروں اور اشاروں کا جواب بھی دے رہی تھیں۔ شیشے کی دیوار کے پیچھے کھڑی ان برہنہ عورتوں کا یہاں کوئی شمار نہیں تھا۔ یہ بازار بہت طویل اور کئی گلیوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے کی ہر گلی میں ایسے ہی مناظر ہیں۔

ایمسٹرڈم میں اس بازار کا سائز دیکھ کر ایسے لگتا تھا کہ ہالینڈ کا یہ بھی ایک بڑا ذریعہ آمدنی ہو گا۔ مولی نے بتایا ’’ایمسٹرڈم کا یہ علاقہ ہالینڈ میں اس کاروبار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس کا سلسلہ ایمسٹرڈم شہر کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں دوسرے شہر اور قصبے بھی انسانی جسموں کی خرید و فروخت کے اس کاروبار میں پیچھے نہیں ہیں۔ ہم اس بازار میں جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے توں توں فشارِ خون بھی بڑھ رہا تھا۔ ادھر یہ عورتیں ہر دروازے پر کھڑی سیاحوں کو اندر آنے کی ترغیب دے رہی تھیں۔ بعض دامن تھام لیتیں اور بعض ہاتھ پکڑ کر اندر لے جانے کی کوشش کرتیں۔

میں نے سڈنی، لندن اور بنکاک میں بھی ریڈ لائٹ ایریے کے مناظر دیکھے ہیں لیکن ایمسٹرڈم اس معاملے میں سب سے بازی لے گیا تھا۔ سڈنی میں کنگز کراس کے قحبہ خانوں کے دروازوں پر عام طور پر مرد کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ سیاحوں کو پکڑ پکڑ کر اندر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کبھار اندر کام کرنے والی عورتیں بھی دروازے پر آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں لیکن وہ تھوڑا بہت لباس پہنے ہوتی ہیں۔

ایمسٹرڈم کے اس بازار حسن کا طریقہ سب سے جدا اور منفرد ہے۔ اس بازار میں آنے والا مرد اگر خریدار نہ بھی ہو تو ونڈو شاپنگ تو کر ہی لیتا ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں۔ کیونکہ یہ تماشہ سر بازار ہوتا ہے۔ مولی اپنے گروپ کی عورتوں کو کہہ رہی تھی ’’اپنے اپنے مردوں پر نظر رکھیں۔ ایسا نہ ہو وہ آپ کے ہاتھوں سے پھسل کر کسی دروازے میں داخل ہو جائیں اور آپ ہاتھ ملتی باہر رہ جائیں‘‘

مولی نے تو یہ بات مذاق میں کہی تھی لیکن میں نے دیکھا کہ اکثر بوڑھے ہر شو کیس کے پاس ٹکٹکی باندھ کر کھڑے ہو جاتے۔ حتیٰ کہ ان کی بیویاں انہیں ٹہوکا دے کر آگے جانے کے لئے کہتیں۔ بعض نے عملی طور پر مردوں کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے۔ کئی اپنے مردوں کے ندیدے پن پر انہیں سرِ بازار ٹوک رہی تھیں۔ مولی نے پھر کہا ’’باقی مردوں کے ساتھ تو ان کی پاسبانِ عقل موجود ہیں لیکن طارق اکیلا ہے۔ اس پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کہیں کھو نہ ہو جائے‘‘

میں نے کہا ’’میرے گم ہونے کا اس لئے خطرہ نہیں ہے کہ اس بازار سے زیادہ کشش میرے لئے اپنے گروپ کے لوگوں خصوصاً اپنی رہنما میں ہے‘‘

مولی نے دزدیدہ نظروں سے جولی کی طرف دیکھ کر کہا ’’اس بازار کی اپنی کشش ہے جس سے بچ نکلنا کسی بھی مرد کے لئے آسان نہیں ہے‘‘

’’ان بے لباس جسموں میں میرے لئے کشش نہیں ہے۔ نہ مجھے کوئی بہکا سکتا ہے البتہ تمھیں کھلی چھٹی ہے‘‘

مولی کی بے باکانہ باتوں کے جواب میں میں کچھ زیادہ ہی بے باک ہو گیا تھا۔ وہ ناٹی بوائے کہہ کر آگے چل پڑی۔ مولی نے مذاق میں میرے اوپر نظر رکھنے کے لئے کہا تھا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کہیں گم نہ ہو جاؤں مگر میں سچ مچ گم ہو گیا۔

در اصل مجھے ایک پاکستانی ریستوران بلکہ کچھ پاکستانی بھائی نظر آ گئے۔ اس ریستوران کے باہر سائن انڈین فوڈ کا تھا اورسائن کے نیچے لفظ ’’حلال‘‘ تحریر تھا۔ ریسٹورنٹ کے دروازے پر تین پاکستانی کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ وہی میرے رکنے کا سبب بنے تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ یہ کسی پاکستانی کا ریسٹورنٹ ہے۔ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں بہت سے پاکستانی ’’انڈین فوڈ‘‘ کے نام سے پاکستانی ریسٹورنٹ چلاتے ہیں۔ حالانکہ بر صغیر پاک و ہند کے کھانے تقریباً ایک جیسے ہیں لیکن یورپی دنیا میں انہیں انڈین فوڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں بھی بہت سے پاکستانی گوروں کی آسانی کے لئے اسی نام سے اپنے ریستوران چلاتے ہیں۔ تا ہم کچھ ریستوران جو پاکستانی گاہکوں کے بل بوتے پر چلتے ہیں وہاں باقاعدہ پاکستانی ریستوران لکھا نظر آتا ہے۔ برطانیہ میں انگریز پاکستانی کھانوں سے بخوبی آشنا ہیں اور انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں ابھی وہ وقت نہیں آیا۔تا ہم جس طرح یہاں پاکستانیوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں آسٹریلین بھی پاکستانی کلچر اور اُن کے کھانوں سے آگاہی حاصل کر لیں گے کیونکہ ایک دفعہ جس کو پاکستانی کھانوں کا چسکا لگ گیا پھر اس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔




گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے





میرا اندازہ درست نکلا۔ اس ریستوران کی انتظامیہ پاکستانی تھی۔ درمیانے سائز کے ہال میں چند میزوں پر اس وقت صرف پاکستانی بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ ان چند پاکستانیوں کے علاوہ کوئی اور گاہک وہاں نہیں تھا۔ میں کھانا کھا کر آیا تھا جو میری زندگی کے مہنگے ترین کھانوں میں سے ایک تھا۔ اس کے بعد مزید کچھ کھانے کی گنجائش نہیں تھی۔ در اصل میں ہالینڈ میں بسنے والے کسی پاکستانی سے ملنا چاہتا تھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ یہاں کے پاکستانیوں کے حالات سے آگاہی حاصل کرنا مقصود تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میرے آبائی علاقے کی ایک فیملی یہاں ایمسٹرڈم میں کہیں رہائش پذیر تھی۔ ان سے ہمارے خاندانی تعلقات تھے۔ اُن میں میرا ایک ہم جماعت دوست بھی تھا۔ یورپ کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے میں اس کا فون نمبر لانا بھول گیا تھا۔ اس پاکستانی ریسٹورنٹ اور اس میں موجود چند پاکستانیوں کو دیکھ کر مجھے اُن کی یاد آ گئی۔ میں نے سوچا شاید اِن میں سے کوئی اُنہیں جانتا ہو۔

کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے صاحب سے میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا ’’میں پاکستانی ہوں اور آسڑیلیا سے سیر کے لئے یہاں آیا ہوں۔ پاکستانی ریسٹورنٹ دیکھا تو چلا آیا۔ سوچا شاید کسی پاکستانی بھائی سے ملاقات ہو جائے‘‘

ان صاحب نے خوش دلی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ’’ہو جی! آپ بالکل صحیح جگہ پر آئے ہیں۔ یہ ریسٹورنٹ پاکستانیوں کا ہے اور پاکستانیوں کے لیے ہے۔ ویسے میرا نام جمشید بٹ ہے اور میں سوہنے شہر لاہور کا ہوں۔ آپ اتنے دُور آسٹریلیا سے ہمارے مُلک میں آئے ہیں تو ہمارے مہمان ہوئے نا جی! آئیں میرے ساتھ میں دوسرے دوستوں سے آپ کو ملواتا ہوں‘‘

بٹ صاحب کاؤنٹر سے باہر نکل آئے۔ وہ مجھے ایک میز پر لے گئے جہاں چار پاکستانی جو ان بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ بٹ صاحب نے ان سے میرا تعارف کروایا اور مجھے بتایا کہ یہ سب اُن کے دوست ہیں۔ سب نے میرا تپاک سے استقبال کیا اور مجھے کرسی پیش کی۔ بٹ صاحب بھی چند منٹ بعد ہمارے ساتھ آ بیٹھے۔ انہوں نے کھانے کے لئے پوچھا تو میں نے معذرت کر لی ’’کھانا تو میں کھا کر آیا ہوں تاہم چائے پی لوں گا‘‘

بٹ صاحب بولے ’’اوہ جی! کھا کر آئے ہیں تو کیا ہوا۔ پاکستانی کھانا تو نہیں کھایا نا! گوروں کے کھانے جتنے مرضی کھالیں، پاکستانی کھانا آئے تو گنجائش نکل ہی آتی ہے۔ آپ حکم کریں کھائیں گے کیا؟‘‘

’’بٹ صاحب! آپ کا بہت شکریہ! کھانے کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ ورنہ جتنی محبت سے آپ پوچھ رہے ہیں میں منع نہیں کرتا‘‘

بٹ صاحب اس بے تکلفی سے بولے جو برسوں کی آشنائی کے بعد پیدا ہوتی ہے ’’اوہ جی! مرزا صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیں کہ گنجائش نہیں ہے۔ یہ چار مسٹنڈے جو آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں اور میں خود بھی کچھ دیر پہلے پیٹ بھر کر کھانا کھا کر فارغ ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی کوئی تازہ ڈش ہمارے سامنے آ جائے تو ایک منٹ میں اُسے چٹ کر جائیں گے۔ اوہ جی! پنجابی جوان ہو کر آپ کھانے سے ڈرتے ہیں‘‘

بٹ صاحب کی بے تکلفی کے جواب میں، میں بھی قدرے بے تکلف ہو گیا ’’معاف کیجئے گا! میں پنجابی تو ہوں لیکن بٹ نہیں ہوں۔ سارے پنجابی اتنے خوش خوراک نہیں ہوتے جتنے ہمارے کشمیری بھائی ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں کھانے میں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘

بٹ صاحب میرے مذاق سے بہت خوش ہوئے ’’اوہ جی! خوش خوراکی کا تو مجھے علم نہیں لیکن خوش مزاجی میں آپ بھی بٹ ہی لگے ہو۔ ویسے میرے ان دوستوں میں سے دو تو اصلی والے بٹ ہیں اور دوسرے دو بٹ نہ ہونے کے باوجود عادات و اطوار میں ہم سے بھی زیادہ بٹ ہیں‘‘

’’میری طرح ان پر بھی بٹوں کی صحبت کا اثر ہو گیا ہو گا‘‘ سبھی میری بات پر ہنس پڑے۔

وہ سارے دوست خوش مزاج اور ملنسار تھے۔ اگلے دو گھنٹے ان کے ساتھ ایسے گزرے جیسے چند منٹ گزرتے ہیں۔ جب یہ محفل برخواست ہوئی تو یوں لگا کہ ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ جمیل، اصغر، رب نواز، اور افضل نامی ان نوجوانوں نے اپنی محبت، حُسن سلوک اور مہمان نوازی کے جذبے سے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں انہیں کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔ اس دوران جمشید بٹ صاحب نے لاہوریوں کی مہمان نوازی کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اور اپنی بات منواتے ہوئے ہمیں گرما گرم سیخ کباب، تکے اور نان کھلوا کر ہی چھوڑا۔ ان کی یہ بات بھی درست ثابت ہوئی کہ دوسرا کھانا جتنا بھی کھا لیں پاکستانی کھانے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ اس کے بعد حلوے اور سبز چائے کا دور چلا تو پاکستان کی یاد تازہ ہو گئی۔

جمشید بٹ کے ان چاروں دوستوں کو ابھی تک ہالینڈ کی مستقل سکونت نہیں ملی تھی۔ رب نواز اور افضل حصولِ علم کے لئے وہاں آئے تھے۔ ان کو ڈگریاں ملنے والی تھیں جو خوشی کی بات تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پریشانی کی بات بھی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ان کے ویزے کی میعاد بھی ختم ہو رہی تھی۔ جبکہ متوسط طبقے کے یہ نوجوان ہالینڈ میں رہ کر اپنے اپنے خاندانوں کی معاشی بہتری چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں ان ڈگریوں کے باوجود پاکستان میں کوئی بڑی جاب ملنے کی انہیں توقع نہیں تھی۔ علاوہ ازیں ان کے اہلِ خانہ نے ان کی تعلیم کے لئے نہ صرف اپنی تمام جمع پونجی صرف کر دی تھی بلکہ قرضے تلے دب چکے تھے۔ اس کثیر سرمائے کی واپسی صرف ہالینڈ میں رہ کر ممکن تھی۔ لیکن انہیں ہالینڈ میں رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد ہالینڈ میں ان کا قیام غیر قانونی ہو جاتا جس کی وجہ سے وہ کوئی اچھی جاب حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اوپر سے پکڑے جانے کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا۔ اس صورتِ حال سے وہ پریشان تھے۔

رب نواز اور افضل نے خود سے درپیش تمام صورتِ حال مجھے بتا دی۔ وہ آسٹریلیا مائیگریٹ ہونے کے بارے میں معلومات بھی چاہتے تھے۔

آسٹریلیا میں مائگریشن کے لئے جو معلومات مجھے حاصل تھیں وہ میں نے ان کے گوش گزار کر دیں۔ آسٹریلیا کے بارے میں سوالات اور جوابات کا سلسلہ شروع ہوا تو جمشید بٹ جو اچھے خاصے کاروبار کے مالک تھے سمیت سب دوستوں نے ان معلومات میں دلچسپی لی۔ وہ سبھی اپنے اپنے حالات کے تحت آسٹریلیا میں مستقل سکونت حاصل کرنے میں کامیابی یا ناکامی کے بارے میں جاننے کے خواہاں تھے۔ ان چاروں نوجوانوں کی دلچسپی تو سمجھ میں آتی تھی کہ وہ ابھی تک ہالینڈ میں ’’پکے‘‘ نہیں تھے لیکن جمشید بٹ سے میں نے پوچھا ’’آپ تو عرصے سے یہاں ہالینڈ میں رہ رہے ہیں۔ آپ کا اپنا یہاں کاروبار ہے۔ پھر آسٹریلیا کسی لئے جانا چاہتے ہیں؟‘‘

جمشید بٹ نے اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’اوہ چھڈو جی ہالینڈنوں!ا یتھے کی رکھیا اے۔ نہ کرکٹ ہے نہ گرمی ہے اور نہ انگریزی۔ میں جب پاکستان میں رہتا تھا تو ٹی وی پر آسٹریلیا میں ہونے والے کرکٹ میچ دیکھا کرتا تھا۔ ان میچوں میں آسٹریلین گوریاں جس لباس اور جس انداز میں وہاں بیٹھی نظر آتی تھیں وہ آج تک مجھے نہیں بھولا۔ یہاں سال کے چھ ماہ سردی کی قبر میں گزارنے پڑتے ہیں۔ اوپر سے گوریوں نے پورے کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔ کیا فائدہ ہوا جی اتنے دُور آنے کا۔ بس یوں سمجھیں کہ ہر سال ہماری زندگی کے چھ ماہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یورپ کے باسیوں کی آپ لوگوں کے مقابلے میں سمجھو آدھی عمر ہوتی ہے۔ باقی آدھی تو سردی، اندھیرے اور بارش کی نذر ہو جاتی ہے۔ آپ لوگ اچھے ہیں جہاں سال کے بارہ مہینے دھوپ اور روشنی ہوتی ہے۔ اوپر سے وہ سرسبز کرکٹ گراؤنڈ اور اُس میں بیٹھی اور لیٹی گوریاں جیسے مجھے وہاں بلاتی رہتی ہیں۔ ویسے میں نے سُنا ہے کہ وہاں سمندر کے کنارے (Beaches) بھی غضب کے ہیں۔ اگر کرکٹ گراؤنڈ میں ایسا لباس ہوتا ہے تو وہاں کیسا ہوتا ہو گا‘‘

میں نے بٹ صاحب کی باتوں پر ہنستے ہوئے کہا ’’وہاں ہوتا ہی نہیں یا اتنا کم ہوتا ہے کہ لباس کے علاوہ باقی سب کچھ نظر آتا ہے۔‘‘

’’پھر تو آسٹریلیا ہی اچھا ہے۔ مجھے اگر وہاں جانے کا موقع مل جائے تو سب کچھ بیچ باچ کر آسٹریلیا چلا جاؤں گا۔ وہاں بھی پاکستانی ریسٹورنٹ کھولوں گا۔ لیکن کسی سنہری دھوپ اور سفید ریت والے بیچ پر جہاں سارا دن آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع ملے اور رات کو خواب بھی رنگین نظر آئیں‘‘

جمشید بٹ کی باتوں پر سبھی ہنس رہے تھے۔ میں نے پوچھا ’’بٹ صاحب! آپ اتنے عرصے سے ہالینڈ میں رہ رہے ہیں۔ ریسٹورنٹ بھی آپ نے ایسے علاقے میں کھولا ہے جہاں حسینوں کا بازار لگا ہوا ہے۔ ابھی تک آپ کا شوق پورا نہیں ہوا؟‘‘

’’اوہ جی! یہ شوق بھی کبھی پورا ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں اس بازار میں ایسے ایسے بڈھے نظر آتے ہیں جن کے پاؤں قبر میں ہوتے ہیں۔ تنکا توڑنے کے قابل نہیں ہوتے لیکن ان کی آنکھوں میں ہوس کے شعلے لپک رہے ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے مرزا غالبؔ صاحب نے انہی کے لئے لکھا تھا۔

اگر ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی مینا و ساغر میرے آگے

اگر ان بڈھوں کا شوق ابھی تک پورا نہیں ہوا تو میں نے تو پنجاب کی پیڑے والی لسی پی ہوئی ہے‘‘




سب خواب بکھر چکے ہیں





جمشید بٹ کی دلچسپ باتوں سے سبھی محفوظ ہو رہے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ جمیل اور اصغر اپنے قہقہوں کے باوجود کچھ بجھے بجھے سے تھے۔ ان کی آنکھوں میں تفکرات کی پرچھائیاں اس خوشگوار ماحول میں بھی نظر آ رہی تھیں۔ علاوہ ازیں وہ سُن زیادہ رہے تھے اور بول کم رہے تھے۔ میں نے ان کی طرف توجہ مبذول کرتے ہوئے کہا ’’’کیوں بھئی! آپ لوگ کچھ خاموش خاموش لگ رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے؟‘‘

جمیل نے کہا ’’نہیں جی! ایسی تو کوئی بات نہیں! ہم تو اس محفل سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں‘‘

میں نے پوچھا ’’رب نواز اور افضل نے تو بتایا ہے کہ وہ طالب علم ہیں۔ آپ لوگوں کو یہاں کی مستقل سکونت مل چکی ہے یا نہیں؟‘‘

اس دفعہ اصغر نے جمیل کی طرف دیکھا اور سر جھکاتے ہوئے کہا ’’نہیں جی! ہم تو ان سے بھی زیادہ پریشان ہیں کیونکہ ہمارے ویزے ختم ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سارے مسائل کا بیک وقت سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سب سے پہلے تو اپنے آپ کو پولیس اور دوسری سرکاری ایجنسیوں سے بچانا اور چھپ چھپا کر نوکری کرنا۔ ظاہر ہے ان حالات میں کوئی اچھی نوکری بھی نہیں مل سکتی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کل کیا ہو گا؟ ایک دبیز اور لامتناہی اندھیرے کے سوا دور دور تک اور کچھ دکھائی نہیں دیتا‘‘

میں جمیل اور اصغر کے مسائل بخوبی سمجھ سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آسٹریلیا میں میرے بہت سے دوست اور جاننے والے ایسے ہی مسائل سے گزرے ہیں۔ بعض اب بھی گزر رہے ہیں۔ ان سب کی الگ الگ کہانی ہے۔ لیکن ان سب کا مشترکہ مسئلہ معاشی ہے۔ وہ اپنی اور اپنے کنبے کی معاشی بہتری اور بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کا رُخ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بیروزگاری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، سفارش، رشوت اور لاقانونیت بھی انہیں ان ممالک کی طرف ہجرت پر اکساتی ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا خصوصاً ٹی وی مغربی طرزِ زندگی کی جو تصویر پیش کرتا ہے وہ بھی نوجوانوں کو بلا سوچے سمجھے ادھر کا رُخ کرنے کی ترغیب کا باعث بنتا ہے۔

انسانوں کی غیر قانونی اسمگلنگ کرنے وا لے گروہ ان نو جوانوں کے جذبات و حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر، بڑی بڑی رقمیں بٹور کر، مختلف طریقوں سے انہیں ان مما لک کی سر حدوں کے اندر تو دھکیل دیتے ہیں لیکن انہیں تصویر کا دوسرا رُخ کوئی نہیں دکھا تاکہ وہاں جا نے کے بعد ان پر کیا بیت سکتی ہے۔ غیر قا نو نی طور پر کسی ملک میں جا نا شاید اتنا مشکل نہیں جتنا وہاں سیٹل ہو نا اور قانونی حیثیت حاصل کرنا ہے۔ اس انتہائی تکلیف دہ، طویل اور مشکل عمل کے دوران ان نو جوانوں پر کیا کچھ بیتتا ہے اس کا علم اگر پاکستان میں سب لوگوں کو ہو جائے تو شا ئد بہت سے نو جوان سنبھل جائیں۔ اور جذباتی فیصلے کرنے سے پہلے کچھ سوچ بچار کر لیں۔ اس طرح نہ صرف وہ خود کو پیش آنے والی بہت سی مشکلات سے بچ سکیں گے بلکہ والدین کی جمع پو نجی اور زندگی بھر کا سرمایہ انسانوں کے ان اسمگلروں کے ہاتھوں گنوانے سے بھی بچ جائیں گے۔

اصغر اور جمیل کے موجودہ حالات سن کر آسٹریلیا میں موجود بہت سے احباب کی کہانیاں میرے دماغ میں گردش کرنے لگیں۔ میں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے ان سے پوچھا ’’آپ لوگ ہالینڈ آئے کیسے تھے؟‘‘

اس دفعہ جمیل نے کہا ’’یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ مختصر یہ کہ ہم کچھ سیاست دانوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر گھر سے بے گھر ہوئے ہیں‘‘

’’اگر تم لوگ محسوس نہ کرو تو اپنی کہانی سنا دو کہ انسانوں کی یہی کہانیاں جہاں دوسروں کی دلچسپی کا باعث بنتی ہیں وہاں کسی کے لئے سنبھلنے اور ٹھوکر سے بچنے کا ذریعہ بھی بنتی ہیں، ، اپنے اس سفر نامہ کو احاطۂ تحریر میں لانے کے خیال سے میں نے کہا۔ میرے سوال کے جواب میں جمیل نے جو بتایا وہ اسی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔

’’آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ میں جو یہاں ریستورانوں میں برتن مانجھتا ہوں میڈیکل کالج کا طالبعلم تھا۔ ساڑھے چار برس کا کورس میں نے کامیابی سے مکمل کر لیا تھا اور میرے ڈاکٹر بننے میں صرف اٹھارہ ماہ کا مختصر عرصہ باقی رہ گیا تھا۔ ڈاکٹر بننا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش اور میرے والدین کا خواب تھا۔ آج میری یہ خواہش حسرت بن گئی ہے اور میرے والدین کے خواب ادھورے رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر بن کر معزز شہری، والدین کا سہارا اور دکھی انسانیت کی خدمت کا فرض ادا کرنے کی بجائے آج میں لوگوں کے جھوٹے برتن مانجھ رہا ہوں۔ اس سے زیادہ قدرت کی ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہے۔

میری طرح اصغر بھی انجینئر بننے کے قریب تھا۔ ہم دونوں اپنی سہانی اور خواب ناک منزل سے اتنے قریب تھے کہ آج دونوں کو یقین نہیں آ رہا کہ وہ سب خواب بکھر چکے ہیں۔ ہماری منزل ہاتھ آتے آتے اتنی دور چلی گئی کہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ ہمارے اور ہمارے خاندانوں کے مستقبل تباہ ہو چکے ہیں۔

ہمارا قصور صرف اتنا تھا کہ ہم دونوں اپنے دوستوں اور اپنے کالجوں میں ہر دلعزیز طالبعلم تھے۔ اسی وجہ سے کچھ لوگوں نے ہمیں آہستہ آہستہ سیا ست کے خارزار میں کھینچ لیا۔ ہم انہیں دوست اور کلاس فیلو سمجھتے رہے لیکن وہ کچھ سیا سی جماعتوں کے تنخواہ دار ایجنٹ تھے۔ انہیں اسی مقصد کے لئے کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں بھیجا جاتا ہے کہ وہاں کے بھولے بھالے طالب علموں کو بہلا پھسلا کر سیاست کے گندے کھیل میں اس طرح ملوث کر دیا جائے جس سے اس ان سیاسی جماعتوں کو نوجوان اور جذباتی کارکن ملتے رہیں جنہیں وہ سیاسی غنڈہ گردی، توڑ پھوڑ، احتجاج اور مظاہروں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض با قاعدہ مجرم بن جاتے ہیں۔ وہ توڑ پھوڑ، مظاہرے، غنڈہ گردی اور قتل تک سے گریز نہیں کرتے۔ ہمیں شروع میں یہی بتایا گیا کہ اپنے کالج کے طالبعلموں کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ بعد میں ہمیں ملک میں جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کی علمبرداری کا خوبصورت نعرے دے کر مزید آگے بڑھا دیا گیا۔ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ ملک کا مستقبل بہتر بنانے کی ڈیوٹی سنبھالنے کے لئے کہا گیا۔ غرضیکہ کالج اور یونیورسٹی میں جلسے جلوس کرتے کرتے ہم سیاسی جلسوں اور سڑکوں پر چلنے والی تحریکوں میں آگے سے آگے بڑھتے رہے۔ اس دوران ہمیں سو چنے اور سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ہماری کم عمری، نا تجربہ کاری اور جذباتی پن سے فائدہ اٹھا کر اپنے اور ملک کے سنہرے مستقبل کے ایسے سہا نے خواب ہماری آنکھوں میں سجا دیے گئے کہ ہمیں اس کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔

اس کے با وجود ہمیں کچھ عرصے میں اس سیاست دان کے دو غلے پن اور گندی سیاست کا علم ہو گیا۔ وہ جس طریقے سے ہمیں کھلونا بنا کر اپنی سیاست کی دکان چمکا رہے تھے آہستہ آہستہ ہمیں اس کا احساس ہو گیا۔ کیونکہ ایسے سیا ست دان عوام کے سامنے کچھ اور کہتے ہیں اور کرتے اس کے بر عکس ہیں۔ انہیں صرف کرسی درکار ہوتی ہے۔ عوام کی بہتری اور ملک کا مستقبل ان کے اصل ایجنڈے میں کہیں نہیں ہوتا۔ یہ صرف لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سیا ست دانوں کے قریب رہ کر ہمیں ان کے کردار اور عمل کو جانچنے اور پرکھنے کا موقع ملا تو ہماری آنکھیں کھل گئیں۔ وہ جس طریقے سے ہمیں استعمال کر کے ہمارے مستقبل کو برباد کر رہے تھے اس کا بھی ہمیں احساس ہو گیا لہذا ہم نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن ان سیاست دانوں کا مافیا اتنا مضبوط اور ہمارے ارد گرد پھیلایا گیا جال اتنا پُر پیچ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس سے نکلنا بھی چاہے تو نہیں نکل سکتا۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے شکار کو آسانی سے کھونے کے قائل نہیں۔ خاص طور پر وہ جو اُن کی اصلیت سے وا قف ہو جائے۔

ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جب انہیں ہمارے ارادوں کا علم ہوا تو ہمیں قتل کے کیس میں ملوث کرا دیا گیا۔ یہ کیس مخالف پارٹی کی طرف سے تھا۔ لیکن ہمیں علم تھا کہ ہمارے نام ’’اپنوں‘‘ نے دئیے ہیں۔ قتل کے اس کیس سے میرا یا اصغر کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ جس جگہ یہ قتل ہوا ہم وہاں مو جود ہی نہیں تھے۔ ایف آئی آر میں ہمارا نام درج کرانے کے بعد اس سیاست دان نے ہمیں عملاً اغوا کر کے نامعلوم جگہ پر بن کرا دیا۔ بظاہر ہمیں پولیس سے بچایا جا رہا تھا لیکن اس سے ہمارے خلاف کیس مزید مضبوط ہو گیا۔ پولیس نے اسے ہمارے فرار سے تعبیر کیا اور ہمیں اشتہاری ملزم قرار دے دیا گیا۔

اس طرح ہمارے سنہرے مستقبل پر تاریکی کا ایسا پردہ ڈال دیا گیا کہ یہ تاریکی ساری زندگی نہ ختم ہو سکے گی۔ ہم نہ جانے کب تک اس تاریکی میں بھٹکتے رہیں گے۔ ہم اپنے والدین اور گھر والوں کے لئے سہارا بننے کے بجائے بوجھ بن گئے ہیں۔ ان کے ماتھے کے کلنک بن گئے ہیں۔ پولیس انہیں تنگ کر رہی ہے۔ ہم چھپتے چھپتے یہاں پر دیس کی خاک چھاننے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ نہ ہمیں یہاں اپنا کوئی مستقبل دکھائی دیتا ہے اور نہ اپنے وطن اور عزیز و اقارب کو دیکھنے کی کوئی امید نظر آتی ہے‘‘

جمیل کی زبانی ان کی طویل اور درد بھری کہانی سننے کے دوران ہم سب جذباتی ہو گئے۔ خصوصاً جمشید بٹ تو با قاعدہ رو رہا تھا۔ یہ آنسو اس کے حساس اور درد بھرے دل کی گوا ہی دے رہے تھے۔ یہ وہی شخص تھا جو تھوڑی دیر پہلے اپنے قہقہوں سے محفل کو زعفرانِ زار بنائے ہوئے تھا۔ اور اب اپنے دو ہم وطنوں کی دُکھ بھری کہانی سن کر آنسو بہا رہا تھا۔ شاید یہی انسان کے زندہ ضمیر کی علا مت ہے۔ تھوڑے توقف کے بعد میں نے جمیل سے پو چھا ’’ان حالات میں آپ لوگ یہاں ہالینڈ میں کیسے پہنچے؟‘‘

اس دفعہ اصغر نے جواب دیا ’’یہاں بھی ہمیں ان لوگوں نے ہی پہنچایا ہے، جنہوں نے ہمیں ان حالات تک پہنچایا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے خلاف کیس اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں پھانسی بھی ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں تھانے میں جا کر رپورٹ کرنا اور کیس کا سا منا کرنا موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہے۔ اس طرح خوفزدہ کرنے کے بعد ہمیں یہی ایک صورت بتائی گئی کہ ہم ملک سے باہر بھاگ جائیں۔ ہمارے پاسپورٹ اور ویزے کا بندو بست بھی انہوں نے ہی کیا۔ جس کے نتیجے میں آج ہم یہاں آپ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ یہاں آنے کے بعد ہمیں حالات کا تجزیہ کرنے کا موقع ملا۔ کچھ دوستوں سے مزید معلومات بھی ملیں تو پتہ چلا کہ ہمارے خلاف یہ سازش اسی سیاست دان نے کی تھی جس کا جھنڈا لے کر ہم سڑکوں پر مظاہرے کرتے رہے۔ در اصل یہ قتل بھی اسی نے کرایا تھا۔ اس سے اس کو کئی فائدے ہوئے۔ ایک تو اس نے اپنے مخالف کو راستے سے ہٹا دیا۔ دوسرا یہ کہ مخالف پارٹی پر رعب قائم کر لیا۔ تیسرا قاتل کو صاف بچا لیا اور چوتھا یہ کہ ہم جو اس کی اصلیت سے واقف ہو گئے تھے اور ہمارے سامنے آنے سے اصل قاتل اور اس کے پیچھے چھپے چہرے کے سامنے آنے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کو اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور کر دیا تھا۔ وہ اب بھی عوام کا ہمدرد، اصولی سیا ست دان اور ملک کی بہتری چاہنے والا مقبول رہنما بن کر اہم کرسی پر براجمان ہے اور ہم بے گناہ ہوتے ہوئے نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ نہ جانے یہ سزا کب ختم ہو گی؟ ختم ہو گی بھی یا نہیں؟‘‘

اصغر نے اپنی بات ختم کی تو کافی دیر تک کوئی کچھ نہیں بولا۔ اس کی غم ناک روداد کے دوران ساغرؔ صدیقی کا یہ شعر میرے ذہن میں گردش کرتا رہا۔

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جا نے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

جمشید بٹ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ میرا تعارف صرف دو گھنٹے پہلے ہوا تھا۔ ان دو گھنٹوں میں، میں ان کے ساتھ اتنا گھل مل چکا تھا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ یہ صرف جمشید بٹ کی زندہ دلی اور ہموطنوں سے اس کی محبت کی بدولت تھا۔ ورنہ یو رپ کی تیز رفتار زندگی میں اپنے کاروبار اور وقت کی قربانی دے کر کسی کے لئے کوئی کم ہی وقت نکال پاتا ہے۔ پاکستان کی روایتی مہمان نوازی اور باہمی محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو مغربی دنیا کے لئے ایک مثال اور ہمارے لئے خدا کی نعمت ہے۔ ورنہ یہاں یورپی زندگی میں ان چیزوں کا تصور ہی نہیں۔

رات کے اس وقت ریستوران میں گاہک برائے نام ہی تھے۔ اگر کوئی اکّا دکّا آ جاتا تو بٹ صاحب کا ملازم اسے نبٹا دیتا تھا۔ بٹ صاحب ہمارے ساتھ بیٹھے نہ صرف مصروفِ گفتگو تھے بلکہ ہماری خاطر مدارت بھی کر رہے تھے۔ ایسے کردار خال خال اور نا قابلِ فراموش ہوتے ہیں۔ میں آج تک جمشید بٹ کی زندہ دلی اور اس کے دوستوں کی کہانیاں دل و دماغ میں بسائے ہوئے ہوں۔ میری دعا ہے کہ خدا ان سب کے مسائل حل کرے اور انہیں زندگی میں خوشی، سکون اور امن نصیب فرمائے۔ آمین۔

رات دو بجے جمشید بٹ نے مجھے نووٹل ڈراپ کیا۔ میں اتنا تھک چکا تھا کہ ہوٹل کے بار میں ساتھیوں کو دیکھنے کے لئے نہیں گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ ان میں سے کچھ ابھی تک وہاں بیٹھے پینے پلانے میں مصروف ہوں گے۔ اگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو ایک دو گھنٹے مزید بیٹھنا پڑ سکتا تھا۔ میں نے استقبالیہ سے اپنے کمرے کی چابی لی اور سیدھا اوپر چلا گیا۔ لباس تبدیل کر کے نرم بستر پر دراز ہوا تو کچھ دیر تک ایمسٹرڈم کے سرخ روشنی والے علا قے کے مناظر آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلتے رہے۔ کبھی جمشید بٹ، جمیل، اصغر، رب نواز اور افضل سے ہونے والی گفتگو دل و دماغ میں گونجتی رہی۔ آہستہ آہستہ نیند ان خیالوں پر غالب آتی گئی اور میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر سو گیا۔




میں پنجابی وی بول لینا آں





اگلی صبح میری آنکھ ٹیلیفون کی گھنٹی سے کھلی۔ آج کا دن ہم گروپ سے آزاد تھے۔ جہاں دل چاہے اپنے طور پر گھومنے پھرنے جا سکتے تھے۔ میں رات دیرسے سویا تھا۔ اس سے پچھلی رات بھی پوری نیند نہیں لے سکا تھا۔ اس لئے میرا ارادہ تھا کہ آج دیر تک سو کر ساری کسر پوری کروں گا لیکن ٹیلیفون کی گھنٹی نے میرے ارادوں پر پانی پھیرتے ہوئے میرے سہانے خوابوں کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو صرف آٹھ بجے تھے۔ گویا مجھے میرے پرو گرام سے دو گھنٹے پہلے جگا دیا گیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ اتنی صبح یہ مہربانی کی کس نے ہے۔ اس سوال کا جواب پانے کے لئے میں نے ٹیلیفون اٹھایا جو مسلسل بجے جا رہا تھا۔ میری ہیلو کے جواب میں کسی نے ڈچ زبان میں پتھر لڑھکائے جو ظاہر ہے میری سمجھ میں نہیں آئے۔ میں نے انگریزی میں کہا ’’سوری! مجھے ڈچ نہیں آتی۔ کیا آپ انگریزی میں بات کر سکتے ہیں‘‘

’’اوہ پاپا جی! انگریزی نوں چھڈو! میں پنجابی وی بول لینا آں‘‘

میں نے پہچان لیا!

اگرچہ اظہر کو ملے ایک عرصہ بیت گیا تھا لیکن اس کا مخصوص لہجہ میں نہیں بھو لا تھا۔ اظہر میرا بچپن کا دوست اور سکول میں ہم جماعت تھا۔ اس کے دو بڑے بھائی عرصہ دراز سے یہاں ہالینڈ میں مقیم تھے۔ اظہر نے تعلیم مکمل کر لی تو وہ بھی یہاں چلا آیا۔ بعد میں ان کے والدین اور دو کزن بھی یہیں آ گئے۔ اس طرح ہا لینڈ میں ان کے خاندان کے کافی لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ اسکول سے نکلے تو اس کے بعد میری اظہر سے ملا قات نہیں ہوئی۔ آج اتنے عرصے کے بعد اس کی آواز سُنی تو ایسے لگا جیسے کل ہی کی بات تھی جب ہم بیگ اٹھائے اکٹھے اسکول جاتے تھے۔ لمحے بھر میں میرے خیالات نے حال سے ماضی اور پھر حال تک کا سفر کر لیا۔ میں نے کہا ’’اظہر کے بچے! اتنی صبح تم نے مجھے یہی بتانے کے لئے فون کیا ہے کہ تمھیں پنجابی آتی ہے‘‘

’’صرف فون نہیں کیا بلکہ ابھی تمھیں ملنے بھی آ رہا ہوں۔ اب اتنی بھی صبح نہیں ہے۔ اس وقت تک ہم اسکول میں پہنچ کر ایک پیریڈ ختم کر چکے ہوتے تھے۔ لگتا ہے اب تمھاری عادتیں بگڑ چکی ہیں، ،

’’عادتیں تو اس وقت بھی ایسی ہی تھیں‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’لیکن اس وقت ماسٹر صاحب کے ڈنڈوں کا ڈر ہوتا تھا‘‘

’’بس سمجھو! کہ آج وہی ڈنڈا میرے پاس ہے۔ جلدی سے اٹھ کر تیار ہو جاؤ۔ میں پندرہ منٹ میں تمھارے ہوٹل پہنچ رہا ہوں‘‘

’’لیکن تمھیں میرے بارے میں بتایا کس نے ہے؟‘‘ میری آنکھ اب پوری طرح کھل چکی تھی اور میں اظہر کے اس طرح فون کرنے پر حیران ہو رہا تھا

اظہر نے کہا ’’یہ میں تمھیں وہیں آ کر بتاؤں گا۔ مجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ رات تم کہاں گھومتے رہے ہو۔ اسی لئے میں نے کہا تھا کہ تمھاری عادتیں بگڑ چکی ہیں‘‘

لگتا تھا کہ وہ حسب عادت تنگ کرنے کے موڈ میں ہے۔ اس لئے میں نے سوال جواب کا سلسلہ اس کے آنے تک ملتوی کر دیا اور فون بند کر کے شاور کی تیاری کرنے لگا۔

گزرے برسوں میں اظہر میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ ویسے بھی بچپن سے جوانی تک کے سفر میں انسان میں قدرتی طور پر بہت تبدیلی آ جاتی ہے۔ آنکھوں اور چہرے کے خد و خال کی وجہ سے میں نے اُسے بآسانی پہچان لیا۔ اس نے بھی ہوٹل کی لابی میں ایک نظر دوڑانے کے بعد میری طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ ویسے بھی ہم دونوں کے سوا کوئی اور ایشیائی وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔ اظہر بہت تپاک بلکہ دبا دبا کر ملا۔ بچپن میں دبلا پتلا اور مریل سا ہوتا تھا لیکن اب میری پسلیاں توڑنے پر تلا ہوا تھا۔ میں نے کہا ’’اب بس بھی کرو! کہیں اس پردیسی کی پسلیاں اِدھر سے اُدھر نہیں کر دینا۔ لگتا ہے ہالینڈ کا گوشت اور مکھن تمھیں خوب راس آیا ہے‘‘

خدا خدا کر کے اس نے جان چھوڑی تو میں نے سکون کی سانس لیتے ہوئے کہا ’’تم ذرا بھی نہیں بدلے۔ اب بھی ویسے ہی شرارتی، ضدی اور دوسروں کو تنگ کرنے وا لے ہو۔ اب تو تم نے شادی بھی کر لی ہے۔ تمھاری بیوی بیچاری پر کیا گزرتی ہو گی‘‘

در اصل اظہر نے کچھ عرصہ پہلے ہی دھوم دھام سے شا دی کی تھی اور دلہن کو ہالینڈ لے کر آیا تھا۔ ہماری باہمی ملاقات تو عرصے سے نہیں ہوئی تھی۔ لیکن گاؤں کے لو گوں کے حالات، غمی اور خوشی کی خبریں، اس کے باسیوں کو، وہ جہاں بھی رہیں، معلوم ہوتے رہتے ہیں۔ پردیس میں رہنے وا لے اپنے محّلے، گاؤں اور ملک کے حالات کی خبر رکھتے ہیں۔ وہ دنیا کے کسی خطے میں بھی رہیں ان کے تعلق کی ڈور اپنے لو گوں کے ساتھ مضبوطی سے بندھی رہتی ہے اور ان کے دکھ درد میں برا بر کے شریک رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دُوریوں اور فاصلوں کی وجہ سے وہ متعلقہ لوگوں تک اپنے جذبات پہنچا نہیں پاتے۔ ویسے بھی اپنے گھر اور اپنے ملک میں رہنے والوں کو بچھڑ جانے والے اور دُور دیس جانے والے شائد اتنے یاد نہ آتے ہوں، کیونکہ وہ اپنوں میں اور اپنے گھروں میں ہوتے ہیں۔ لیکن ہم یہاں بڑے بڑے گھروں کے با وجود بے گھر مسافروں کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کے خوابوں میں صرف ’’اپنا گھر‘‘ اور اس گھر کے مکین بسے رہتے ہیں۔ انسان فائیو اسٹار ہوٹل کے آرامدہ بیڈ پر سکون کی نیند نہیں سو پاتا کہ یہ اس کا اپنا گھر نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم محلوں میں بھی ہوں تو وہ کانٹوں کا بستر لگتا ہے۔

اظہر اور میں ایک دوسرے سے عرصۂ دراز تک ملے بغیر بھی ایک دوسرے کے حالات سے کافی حد تک واقف تھے۔ کیونکہ جب بھی گاؤں جانا ہوتا ہے ہمیں تمام حالات سے اپ ٹو ڈیٹ کر دیا جاتا ہے۔ بھلا ہو ٹیلیفون کمپنیوں کا! جب سے اس کے دام کم ہوئے ہیں اور پاکستان میں ٹیلی فون عام ہوا ہے اب اس کے ذریعے بھی کا فی خبریں تفصیل سے مل جاتی ہیں۔ جس سے وہاں کے حالات جاننے اور یادیں تازہ کرنے کا نیا سامان ہو جاتا ہے۔

اپنی نئی نویلی دلہن کے بارے میں میرے سوال کے جواب میں اظہر نے کہا ‘‘یہ تم گھر جا کر اُسی سے پو چھ لینا کہ وہ خوش ہے یا نہیں! اب چلیں؟‘‘

’’مجھے ناشتا تو کرنے دو کہ اس کا یہاں ہالینڈ میں رواج نہیں ہے‘‘

’’ہر روز ناشتا کرنا ضروری نہیں ہے۔ کبھی کبھار ناغہ بھی کر لیتے ہیں اس سے نظامِ ہضم درست رہتا ہے۔ اب چل بھی پڑو‘‘

اظہرحسبِ عادت اپنی مرضی کرتے ہوئے مجھے لے کر باہر آ گیا جہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایمسٹرڈم کی مصروف سڑکوں پر ڈرائیو کرتے اور اپنے ارد گرد سائیکل سواروں کی قطاریں دیکھتے چلے جا رہے تھے۔ صرف بیس منٹ بعد ہم اظہر کے گھر کے سامنے گاڑی پا رک کر رہے تھے۔

یہ پرانے دور کی ایک بڑی سی عمارت تھی۔ جس میں مجموعی طور پر آٹھ فلیٹ تھے۔ ان میں سے تین فلیٹ اظہر اور اس کے بھا ئیوں کے تھے۔ ان کے علاوہ بھی ایک اور فلیٹ ایک پاکستانی کی ملکیت تھا۔ گویا آدھی عمارت پاکستانیوں کے قبضے میں تھی۔ باہر سے صدیوں پرانی اور خستہ سی نظر آنے والی عمارت اندر سے تمام جدید سہولتوں سے آراستہ تھی۔ ایمسٹرڈم میں جدھر نظر دوڑائیں پرانے طرز کی عمارتیں نظر آتی ہیں۔ بیسویں صدی میں بننے والی عمارتیں خال خال ہیں۔ گویا موجودہ نسلوں کو عمارتیں بنا نے پر رقم خرچ کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ انہیں سب کچھ بنا بنایا مل گیا ہے۔ یہ عمارتیں اتنی دیر پا ہیں کہ آئندہ بھی کئی نسلیں ان میں رہ سکتی ہیں۔ سرخ اینٹوں سے بنی یہ عمارتیں باہر سے سادہ نظر آتی ہیں لیکن ان کے اندر جدید زمانے کی تمام سہولتیں مو جود ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی یہی نشانی ہے کہ ان کے تمام منصوبے اور پرو جیکٹ دیر پا ہوتے ہیں۔ ان کی حکومتیں اور دیگر ادارے عارضی کاموں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا الّو سیدھا نہیں کر تے۔ وہ مصنوعی شہرت حاصل کرنے کی بجائے حقیقتاً ملک کی ترقی کے لئے دیر پا منصوبے بناتے اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔

اظہر کے گھر اس کی دُلہن کے علاوہ اس کا ایک بھائی سعید اور اس کی بیوی بھی مو جود تھے۔ سعید ہم دونوں سے صرف دو سال بڑا تھا اور ہما رےساتھ ہی اسکول جایا کرتا تھا۔ اس لئے اس سے بھی میری خاصی بے تکلفی تھی۔ سعید سے اسکول کے زمانے کے بعد بھی ایک دو مرتبہ ملاقات رہی تھی۔ پوری فیملی ناشتے پر ہمارا انتظار کر رہی تھی۔

در اصل جمشید بٹ صاحب کو میں نے اظہر اور اس کے بھائیوں کے بارے میں بتایا تھا اور ان کا فون نمبر معلوم کرنے میں مدد طلب کی تھی۔ بٹ صاحب نے صبح سویرے اُٹھ کر سب سے پہلا کام یہی کیا۔ اظہر کا فون نمبر ملا تو انہوں نے خود ہی اس سے رابطہ کر کے میرے بارے میں سب کچھ بتا بھی دیا۔

بٹ صاحب کی اس چابکدستی کے نتیجے میں اب میں ان پرانے دوستوں کے ساتھ بیٹھا گرم گرم پراٹھوں کا ناشتہ کر رہا تھا۔ اظہر اور سعید کے ساتھ ساتھ میں بھی اپنے آبائی گاؤں سے بہت دُور پر دیس میں بسا ہوا تھا۔ ہمارا موضوعِ گفتگو اپنا گاؤں اور اس کے مکین تھے۔ اسکول کے دور کی یادیں تازہ ہو رہی تھیں۔ وہ باتیں یاد کرتے ہوئے ایسے لگتا تھا کہ یہ سب کل کی باتیں ہیں۔ در میان میں حائل ماہ و سال جیسے مٹ سے گئے تھے۔ ہم ماضی کی طرف سفر کر کے واپس اس دور میں پہنچے ہوئے تھے جب کھیلنے کودنے اور پڑھنے کے علاوہ کوئی اور ذمہ داری ہمارے کندھوں پر نہیں تھی۔ جب یہ دنیا ایک کھیل تماشہ محسوس ہوتی تھی۔ جب ہماری نظروں اور سمجھ کا دائرہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر تک محدود تھا۔ جب ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے تو ایک ہی خیال آتا تھا کہ ہمیں فوج کی نوکری کرنی ہے۔

ہمارا آئیڈیل وہ فو جی سپا ہی ہوتے تھے جو سفید کپڑوں میں ملبوس اور کاندھے پر سیاہ جستی بکس لے کر چھٹیوں پر گاؤں آتے تھے۔ ان کی باتیں ہمارے لئے خواب جیسی ہوتی تھیں۔ جب برطانیہ اور جرمنی وغیرہ کے نام ہمارے لئے پریوں کے دیس جیسے تھے۔ آسٹریلیا کا نام تو اس دور میں ہم جانتے بھی نہیں تھے۔ اس دور میں یہ دیس کوہ قاف کی طرح ہمارے خیالوں یا پھر کتابوں کے حرفوں میں ہی پائے جاتے تھے۔ اس دیس کے باسیوں اور اس ملک کی سر زمین کو دیکھنا دیوانے کے خواب جیسا تھا۔ اس وقت ہم ان دیوانوں میں سے ہر گز نہیں تھے۔ ہماری سوچ اور ہمارے خواب خاکی وردی پہننے تک محدود تھے۔ زیادہ سے زیادہ حوالدار یا صوبیدار بننا ہمارے خوابوں کی معراج ہو سکتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ایسے ہی خوابوں میں میرے بڑے بھائی طالب حسین مرزا بھی شریک تھے۔ وہ انتہائی ذہین طالبعلم تھے۔ ان کی نظریں اپنے گاؤں کے سب سے بڑے عہدیدار کے برابر پہنچنے یعنی صوبیداری حاصل کرنے پر لگی تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ میں گاؤں کے دوسرے بہت سے لڑکوں کے برعکس میٹرک کا امتحان پاس کر کے رہوں گا۔ (ہمارے گاؤں کے زیادہ تر لڑکے میٹرک سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے تھے)۔ پھر ایک دن انہوں نے یہ کام کچھ اس طرح کر کے دکھایا کہ ربع صدی گزرنے کے بعد بھی اس اسکول میں ان کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے پورے ضلع میں ٹاپ کر کے جو ریکارڈ قائم کیا اُسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ وہی طالب حسین مرزا ایک وقت جن کے لئے میٹرک پاس کرنا اور پھر فوج میں صوبیداری حاصل کرنا خوابوں کی معراج تھا۔ انہوں نے بعد میں الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ آج وہ اللہ کے فضل سے پاکستان بحریہ میں لیفٹینٹ کمانڈر کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ سب کچھ انہوں نے مکمل طور پر اپنے بل بوتے پر کیا ورنہ گاؤں تو انہوں نے میٹرک کے بعد ہی چھوڑ دیا تھا۔

میں بھی اپنی ابتدائی پلاننگ یعنی حصولِ سند میٹرک سے تھوڑا آگے بڑھا اور کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ مکینکل انجینرنگ میں ڈپلومہ بھی حاصل کر لیا۔ وہ الگ بات ہے کہ ان دونوں ڈگریوں نے میرا کچھ نہیں بگاڑا۔ مستقبل کے میرے پروگرام میں بھی ایک چھوٹی سی مزید تبدیلی آئی۔ میں فوج میں صوبیداری کے حصول سے محروم رہا۔ پہلے پاکستان اور پھر عمان میں بحیثیت انجینئر کام کیا۔ کچھ عرصہ درس و تدریس کے شعبے میں جھک ماری۔ آج کل سڈنی میں ایک بڑی چین کے ساتھ کاروبار کر رہا ہوں۔ ایک آدھ کتاب لکھ کر اپنی جہالت چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ کہانیاں اور افسانے چھپوا کر اپنا آپ چھپانے کی کوشش کی۔ یہ سفر نامہ بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔ بہت سے ایڈیٹروں کو میرے بارے میں اچھی طرح علم نہیں ہے اور وہ میری تحریریں چھاپتے رہتے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ آپ بھی ان کو نہیں بتائیے گا۔ جب تک وہ غلط فہمی میں مبتلا ہو کر میری تحریریں چھاپ رہے ہیں چھاپنے دیں۔ آپ کا کیا جاتا ہے۔

وقت کبھی خوابوں اور تمناؤں کا قبرستان ثابت ہوتا ہے اور کبھی ہماری سوچوں اور خواہشوں سے بڑھ کر ہمیں عطا کرتا ہے۔ ویسے بھی عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی خواہشیں، تمنائیں اور اس کے خواب بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت جو زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اور جس کا حصول مقصدِ حیات ہوتا ہے بدلتے وقت کے ساتھ وہی خواہش ہیچ اور بے مقصد نظر آتی ہے۔ اسی لئے قدرت نے انسان کو علم بخشا ہے تاکہ اس کا ذہنی سفر آگے سے آگے جاری رہے۔




ہر پُر کشش چیز قابلِ رسائی نہیں ہوتی





اظہر کے گھر کے کچن میں ناشتہ کرتے کرتے ہم ہزاروں میل دور اپنے وطن اور گاؤں کی گلیوں میں پہنچ گئے تھے۔ ماہ و سال کی گرد نے میرے ذہن سے بچپن اور گاؤں کے مکینوں کو دھندلا سا دیا تھا۔ لیکن اظہر اور سعید نے اپنے علاقے کی زبان، رسم و رواج، روایتوں اور اس کے ماضی اور حال سے خود کو زیادہ دور نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ اکثر پاکستان جاتے رہتے تھے۔ میرے بر عکس ان کا قیام بھی گاؤں میں ہوتا تھا۔ اس لئے ان کی معلومات مجھ سے بہت زیادہ تھیں۔ ان سے مجھے بھی اپ ٹو ڈیٹ ہونے کا موقع ملا۔

ناشتے کے بعد اظہر اور سعید کے ساتھ میں ان کے اسٹور میں آ گیا۔ یہ گراسری اسٹور ان کے گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ خاصا بڑا اسٹور تھا جس میں زیادہ تر ایشیائی کھانوں پر مشتمل چیزیں تھیں۔ تاہم مقامی ڈچ لوگوں کی ضرورت پر مبنی اشیاء بھی دستیاب تھیں۔ اسٹور میں بیک وقت تین چار افراد کام کرتے تھے۔ اسٹور کے پیچھے ایک بڑا سا کمرہ اسٹاک جمع کرنے کے لئے تھا۔ اس میں ایک طرف کچن، باتھ روم اور آفس بھی موجود تھا۔ یہ اسٹور کافی مصروف جگہ پر واقع تھا اس لئے اچھا بزنس کر رہا تھا۔ یہ اظہر اور اس کے بھائیوں کا فیملی بزنس تھا۔تاہم ان کا بڑا بھائی کسی فرم میں جاب بھی کر رہا تھا۔ ان تینوں بھائیوں نے اپنی محنت، لگن اور اتحاد سے خود کو یہاں اچھی طرح سیٹ کر لیا تھا۔ تینوں بھائیوں کے اپنے اپنے الگ گھر تھے۔ تا ہم ان میں باہمی اتفاق اور محبت کی مضبوط زنجیر قائم تھی۔ یہ سب دیکھ کر مجھے مسرت ہو رہی تھی۔ ایک چھو ٹے سے گاؤں سے آنے والے میرے ان دوستوں نے یہاں اتنی کامیابیاں حاصل کی ہوئی تھیں۔

وہ تمام دن میں نے اظہر کے اسٹور اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں گھومتے پھرتے گزارا۔ اس علا قے میں رہائشی عمارتوں کے علاوہ دفاتر، دکانیں، ریستوران، اسٹور اور کافی شاپس وغیرہ تھیں۔ دریا وہاں سے زیادہ دُور نہیں تھا۔ میں ٹہلتا ہوا دریا کے کنارے چلا گیا۔ دریا کے ساتھ ساتھ سڑک چلی جا رہی تھی۔ اس سڑک پر بھی ویسی ہی رنگ برنگی دکا نیں واقع تھیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ دریا کے اندر کشتیاں اِدھر اُدھر آ جا رہی تھیں۔ دریا پر جگہ جگہ پل بنے تھے۔ یہ پُل زیادہ تر پرانے زمانے کے تھے جن کے نیچے کشتیاں گزرنے کے لئے حصّہ مخصوص تھا۔ کشتیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے لئے انتظامیہ نے پُل کے نیچے ٹریفک لائٹس کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ جس طرح سڑکوں پر سرخ اور سبز بتیوں کے ذریعے ٹریفک کو روکا اور چھوڑا جاتا ہے اسی طرح ان پلوں کے نیچے لگی بتیاں ایک وقت میں ایک طرف کی کشتیوں کو پُل کے نیچے سے گزرنے دیتی ہیں۔ اس دوران دوسری جانب سرخ روشنی دوسری کشتیوں کو روک کر رکھتی ہے۔ پھر اس طرف سبز بتی آن ہوتی اور پہلی جانب سے سرخ بتی کشتیوں کو روک لیتی ہے۔ اس دریا میں کشتیوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کو کنٹرول کرنے کے لئے انتظامیہ نے انتہائی مربوط نظام بنایا ہوا ہے۔ دن کے اس مصروف وقت میں وہ کشتیاں بھری نظر آ رہی تھیں۔ در اصل ایمسٹرڈم میں بہت سے لوگوں کا ذریعہ سفر یہ کشتیاں ہی ہیں۔ علاوہ ازیں کاروں، بسوں، ٹیکسیوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد سائیکلوں پر سفر کرتی ہے۔ یہ عام سی بھدی بھدی سائیکلیں ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا میں سائیکلیں بہت اچھی اور گئیر والی استعمال ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں نے سائیکل کے ساتھ موٹر لگا کر اسے موٹر سائیکل کی طرح بنایا ہوتا ہے۔ جب دل چاہتا ہے پیڈل سے چلاتے ہیں جب تھک جاتے ہیں موٹر آن کر لیتے ہیں۔



اظہر نے اس شام مجھے گھمانے کے لئے با ہر لے جانے کا پرو گرام بنایا ہوا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ آج شام یہ ممکن نہیں ہے۔ در اصل تمام سفر میں مولی کو تنگ کرتا رہا تھا کہ وہ میرے جیسے اکیلے مسافر کے لئے کچھ وقت نکالے۔ پہلے تو وہ ٹالتی رہی بلکہ ایک آدھ دفعہ اس کے ماتھے پر بل بھی پڑے۔ شروع میں ایسے لگتا تھا کہ وہ میرے ہنسی مذاق کو بمشکل برداشت کر رہی ہے۔ اگر وہ ہماری گائیڈ نہ ہوتی اور صرف مسافر ہوتی تو شاید مجھے سخت جواب بھی دیتی۔ مگر آہستہ آہستہ اس کے رویّے میں تبدیلی آتی گئی۔ اب میرے مذاق کو نہ صرف وہ بر داشت کرتی تھی بلکہ ہنس کر جواب دینے لگی تھی۔ شروع میں صرف ضروری بات کرتی تھی۔ اب فارغ وقت میں اکثر میرے پاس آ کر بیٹھ بھی جاتی تھی۔ اس صورتِ حال کا جولی نے برا منایا اور وہ مجھ سے کھنچی کھنچی رہنے لگی تھی۔ ان لوگوں کے مزاج اتنے نا زک ہوتے ہیں کہ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ۔ لیکن ان کی خوبی یہ ہے کہ اپنے جذبات کو پوشیدہ نہیں رکھتے۔ اپنی پسند اور نا پسند کا برملا اظہار کر دیتے ہیں۔ کاروباری اوقات میں جتنے مہذب اور قوت برداشت کے حامل نظر آتے ہیں تفریح کے وقت کچھ بھی نہیں چھپا پاتے۔ دل میں جو کچھ چھپا ہوتا ہے ظاہر کر دیتے ہیں۔

مولی اور جولی کو میں وقت گزاری کے لئے چھیڑتا رہتا تھا۔ مولی نے اس کا زیادہ اثر نہیں لیا لیکن جولی جو پہلے ہی ٹوٹ کر بکھری ہوئی تھی میرے قریب آتی چلی گئی۔ میرا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا۔ میں تو صرف ہنس کھیل کر اس تفریحی سفر کو خوشگوار بنانا چاہتا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ جولی میری باتوں کا غلط مطلب اخذ کر رہی ہے۔ اپنی دانست میں میرے اتنا نزدیک آ گئی ہے جو ہم دونوں کے لئے درست نہیں ہے تو میں نے دانستہ اس سے دور رہنا شروع کر دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ انہی دنوں میں مولی میرے ساتھ گھلنا ملنا شروع ہو گئی۔ اس سے مزید غلط فہمی پیدا ہوئی۔ پچھلے دو دنوں سے جولی نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ بہتر تھا لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ اس تفریحی سفر میں کسی کے دل میں بھی رنجش پیدا ہو۔ ابھی کچھ دن باقی تھے۔ مجھے امید تھی کہ جولی کے دل میں میرے بارے میں جو میل بھر گیا ہے وہ میں دھیرے دھیرے دھو ڈالوں گا۔

ایمسٹر ڈم مولی کا اپنا شہر تھا۔ یہاں اس کا گھر تھا۔ میں نے جب اُسے کہا ’’مولی! اب تو ہم تمھارے شہر میں آ گئے ہیں۔ کچھ تو خیال کرو ایک شام اس پردیسی کے نام کر دو‘‘

’’یہ ساری شام تو ہم نے اکٹھے گزاری ہے۔ چائنیز میں گئے ہیں اور تو اور ایمسٹرڈم کا سب سے دلچسپ علاقہ بھی آپ لوگوں کو دکھا دیا ہے۔ اور کیا چاہئیے اس پردیسی کو؟‘‘

’’مولی خدا کا خوف کرو۔ میں تمھارے ساتھ شام گزارنے کی بات کر رہا ہوں پورے گروپ کے ساتھ نہیں‘‘ میں نے گروپ کے ساتھ ریڈ لائٹ ایرئیے میں گھومتے ہوئے مولی سے کہا

مولی نے دوسرے ساتھیوں سے الگ ہوتے ہوئے کہا ’’طارق تم بہت ضدی ہو۔ ایسا کرو! کل شام سات بجے وہیں سنٹرل اسٹیشن کے سامنے واقع ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر میں آ جانا۔ میں تمھیں وہیں ملوں گی۔ پلیز کسی اور ساتھی سے ذکر نہیں کرنا کیونکہ یہ میرے لئے مناسب نہیں ہو گا‘‘

’’فکر نہ کرو۔ مجھے یہ خبر اخبار دینے میں دینے کا شوق نہیں ہے۔ لیکن تم آ ضرور جانا۔ ایسا نہ ہو میں وہاں بیٹھا سوکھتا رہا ہوں اور تم کہیں اور نکل جاؤ‘‘

’’ڈونٹ وری! کل سات بجے، سینٹرل اسٹیشن، ٹورسٹ انفارمیشن سینٹر! او کے۔ ابھی چلو! دوسرے ساتھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں‘‘

میں نے جب اظہر کو بتایا ’’سوری یار! آج تمھارے ساتھ گھومنے نہیں جا سکتا۔ میں نے اپنے ایک ساتھی کو وقت دے رکھا ہے۔ آج شام اس کے ساتھ جا رہا ہوں۔‘‘

’’کون سے ساتھی کے ساتھ؟‘‘ اظہر نے آنکھیں نکالیں

’’ہے ایک‘‘

’’مجھے معلوم ہے کون ہو گا تمھارے ساتھ۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ تم بگڑ چکے ہو‘‘

’’بھئی! اپنے گاؤں، اپنے ملک سے اتنا دور آ گئے ہیں تو تھوڑا بہت بگڑنے کا حق تو ہمیں ملنا چاہیے ورنہ یہاں آنے کا کیا فائدہ؟‘‘

اظہر مجھے سنٹرل اسٹیشن چھوڑنے جانا چاہتا تھا لیکن میں نے اسے منع کر دیا۔ میں نے معلومات حاصل کر لی تھیں۔ جہاں اس وقت ہم موجود تھے وہاں سے بذریعہ فیری آسانی سے میں سینٹرل اسٹیشن جا سکتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں دریا پر ہچکولے کھاتا سینٹرل اسٹیشن کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سینٹرل اسٹیشن کے پاس ٹورسٹ انفارمیشن سینٹر آسانی سے مل گیا۔ مولی ابھی تک نہیں آئی تھی۔ وقت گزارنے کے لیے میں انفارمیشن سینڑ کے اندر چلا گیا۔ ایک ہال نما کمرے میں اس وقت چار پانچ سیاح موجود تھے۔ کھلا بلاؤز پہنے صحت مند جسم والی ایک خوبصورت لڑکی سیاحوں کو ان کی مطلوبہ معلومات مہیا کر رہی تھی۔ میرا نمبر آیا تو اس نے بے حد مصروفیت کے باوجود مسکرا کر استقبال کیا اور کہنے لگی ’’میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں؟‘‘

’’خدمت تو آپ بہت کچھ کر سکتی ہیں لیکن یہاں نہیں۔ ویسے آپ کی چھٹی کس وقت ہو گی؟‘‘

اس نے میری بات کا بُرا نہیں منایا بلکہ ہنس کر بولی ’’چھٹی کے بعد میں صرف اپنے بوائے فرینڈ کی خدمت کرتی ہوں اور وہ مجھے لینے آنے والا ہے‘‘

اس نے خوبصورتی سے مجھے سرخ جھنڈی دکھا دی لیکن میرے پاس فالتو وقت تھا اس لئے جھک کر اس کے قریب ہوتے ہوئے کہا ’’اپنے مقامی بوائے فرینڈ سے تو تم روز ملتی ہو گی ہم اتنے دور دراز سے یہاں تمھارے ملک میں آئے ہیں۔ کچھ ہمارا بھی حق بنتا ہے۔ تمھیں بھی تبدیلی ملے گی آج آزما کر دیکھ لو‘‘

اس نے خوبصورت ہنسی کے بعد کہا ’’آپ بہت دلچسپ آدمی ہیں لیکن آپ کی معلومات کے لئے عرض کر دوں کہ میرا بوائے فرینڈ ڈچ نہیں ہے بلکہ انگریز ہے۔ لہذا میں پہلے ہی اس تبدیلی سے مستفیض ہو رہی ہوں مزید کی ضرورت نہیں‘‘

اس دوران کئی اور ٹورسٹ اندر آ کر اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اس لئے میں نے بات کو ختم کرتے ہوئے کہا ’’یہ سن کر مجھے مایوسی ہوئی۔ چلو تم نہ سہی کوئی اور سہی۔ ہم بھی مرد آدمی ہیں یہاں آئے ہیں تو کچھ دیکھ کر جائیں گے۔ ویسے کسی سیاح کے پاس اگر بہت زیادہ وقت نہ ہو۔ وہ صرف اہم قابلِ دید مقامات دیکھنا چاہتا ہو تو تمھارے خیال میں ایمسٹرڈم میں ایسی کون سی جگہیں ہیں؟‘‘

اس نے ٹرے سے بروشر نکالے اور مجھے دیتے ہوئے کہا ’’ان میں تمام عجائب گھروں اور دوسرے قابلِ دید مقامات کے متعلق معلومات موجود ہے۔ میرے خیال میں چند زیادہ قابلِ ذکر مقامات میں سے اینا فرینک ہاؤس، رجکس میوزیم، ایش میوزیم۔۔ ۔۔ ۔‘‘

وہ ابھی اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ میں نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا ’’میوزیمز کے علاوہ بھی کچھ قابلِ ذکر مقامات ہوں گے کچھ ان کے بارے میں بتا دو۔ کیونکہ اس پورے دورے میں عجائب خانے دیکھ دیکھ کر میں اکتا سا گیا ہوں‘‘

’’ہاں ہیں! آپ شاہی محل جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں ایک مشہور فلاور مارکیٹ ہے۔ وہ بھی سیاحوں کے لئے بہت پر کشش مقام ہے‘‘

’’پر کشش تو تم بھی ہو مگر ہر پر کشش چیز قابل رسائی نہیں ہوتی۔ ان تک رسائی کے ذرائع بھی بتا دو تو تمھاری کشش میں مزید اضافہ ہو گا‘‘

’’تمھارا سوال کرنے کا انداز بہت دلچسپ ہے۔ شاہی محل جانے کے لئے۔۔ ۔۔‘‘

ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی ’’ہمیں وہاں جانے کے لئے راستے کا علم ہے آپ کو زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں‘‘ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مولی نے کہا تو اس لڑکی کے چہرے پر پہلے سے موجود مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی ’’لیجئے آپ مقامی گرل فرینڈ سے لے کر مقامی گائیڈ تک ہر چیز میں پہلے ہی خود کفیل ہیں۔ میری آپ کو ضرورت نہیں ہے‘‘

’’اگر ضرورت ہوتی تو تم تو اُٹھ کر چل پڑتیں‘‘۔ مولی نے اسے تیکھی نظر سے دیکھتے ہوئے پہلے انگریزی میں کہا اور پھر ڈچ زبان میں کچھ پتھر لڑھکانے لگی۔

بھرے بھرے سرخ ہونٹوں والی اس ڈچ لڑکی کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ وہ پریشان نظر آ رہی تھی۔ پھر وہ بھی غصے میں کچھ کہنے لگی۔ مجھے دونوں حسیناؤں کی گفتگو تو سمجھ میں نہیں آ رہی تھی لیکن اتنا اندازہ ضرور ہو گیا تھا کہ یہ خوشگوار گفتگو ہرگز نہیں ہے۔ میں نے مولی کا ہاتھ پکڑ کر دبایا۔ اُس میزبان لڑکی کا شکریہ ادا کیا اور مولی کو لے کر باہر آ گیا۔ اس غریب لڑکی کے بعد اب میرا نمبر تھا۔ باہر آتے ہی مولی نے میری طرف خشمگیں نظروں سے دیکھا اور کہنے لگی ’’میرے ہوتے ہوئے اس لڑکی سے تمھیں کیسی معلومات درکار تھیں؟‘‘

میں نے معاملہ بگڑتے دیکھا تو مولی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’تمھارے ہوتے ہوئے مجھے کسی اور کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے محض وقت گزاری کے لئے اس سے بات کر رہا تھا‘‘

’’اس جیسی لڑکیوں کو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ ان کا اصل پیشہ کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسی جگہوں پر ملازمت کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہاں انہیں آسانی سے شکار مل جاتے ہیں۔ میں اگر نہ آتی تو اس نے تمھیں ڈیٹ دے دی ہوتی اور تم بھی یہی چاہتے تھے‘‘

’’مولی تم خواہ مخواہ کی غلط فہمی کا شکار ہو۔ وہ ایک اچھی لڑکی ہے اور مجھے تم نے کوئی ایسا ویسا آدمی سمجھ رکھا ہے؟‘‘ میں قدرے سنجیدہ ہو گیا۔

مولی بدستور سنجیدہ تھی ’’خیر تم ایسے ہو یا ویسے مجھے اس سے کیا غرض! میں تمھاری گرل فرینڈ تو ہوں نہیں لیکن بحیثیت گائیڈ تمھیں اس طرح کی لڑکیوں سے ہوشیار رہنے کے لئے آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ کیا خیال ہے اب چلیں؟‘‘

میں وہیں کھڑا رہا۔ مولی واپس میرے پاس آئی ’’اب کیا ہے؟ چلتے کیوں نہیں؟‘‘

’’تم محض میری گائیڈ ہو اور بس! گائیڈ تو تم سارے گروپ کی تھیں لیکن یہ شام تم نے میرے نام کی ہوئی ہے۔ کیا یہ محض گائیڈ اور سیاح کا تعلق ہے؟‘‘ میں نے اپنی سنجیدگی بر قرار رکھی۔

مولی کے چہرے پر اب مخصوص مسکراہٹ واپس آ گئی۔ یہ مسکراہٹ اس کے چہرے کو مزید حسین بنا دیتی تھی ’’نہیں! ہم اچھے دوست بھی ہیں۔ ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں اپنے گروپ کے سیاحوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسے الگ شام گزاروں۔ اچھا ا ب چلو بھی ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ ویسے تمھارے خیال میں کہاں چلنا چاہئے‘‘

’’کہیں بھی لے چلو! آج میں تمھارے رحم و کرم پر ہوں‘‘ میں نے اپنا موڈ بحال کرتے ہوئے کہا




اس کا اَنگ اَنگ شوخیوں پر اُترا ہوا تھا





تھوڑی دیر بعد ہم ایک دفعہ پھر کشتی میں سوار تھے۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ نرم سنہری دھوپ اور ہلکی خنک ہوا جسم کو راحت پہنچا رہی تھی۔ ہم فیری کی دوسری منزل پر بیٹھے اردگرد کے نظاروں اور موسم سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دریا کے ساتھ ساتھ پرانے مگر شاندار گھر تھے۔ ہر گھر کے سامنے مکینوں کی ذاتی لانچیں بندھی ہوئی تھیں۔ تقریباً ہر مکان تین منزلہ تھا۔ مولی نے بتایا کہ دریا کے کنارے واقع یہ مکانات انتہائی مہنگے ہیں اور صرف رؤسا ہی انہیں افورڈ کر سکتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مکانات کم از کم ایک صدی پرانے ہیں۔ کچھ مکانوں کی مخصوص وجوہات کی بنا پر خاص تاریخی حیثیت ہے۔ مثلاً ان میں ایک مکان کے بارے میں مولی نے بتایا کہ اس میں مشہور ڈکٹیٹر ہٹلر کا بھائی رہتا تھا جو خود بھی ہٹلر کے ساتھ جنگ میں شریک تھا اور مارا گیا۔ دریا کے ساتھ کچھ انتہائی تاریخی اہمیت کے گرجا گھر بھی واقع ہیں۔ علاوہ ازیں کئی واچ ٹاور بھی واقع ہیں جو دریا میں کشتیوں کی آمدورفت پر نظر رکھتے ہیں۔

اس فیری میں مختلف ممالک کے سیاح بیٹھے تھے۔ مقامی گائیڈ لڑکی چھوٹے سے اسپیکر پر مسلسل کمنٹری جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس لڑکی کی عمر اٹھارہ بیس سال سے زیادہ نہیں ہو گی مگر اس کی باتیں اور لطیفے اس کی عمر سے کہیں بڑھ کر تھے۔ لگتا تھا کہ اس عمر میں ہی وہ سیاہ اور سفید سب کچھ دیکھ چکی ہے۔ سیاحوں کو ایمسٹرڈم کے بارے میں معلومات پہچانے کی بجائے وہ سیکسی لطیفے زیادہ سنا رہی تھی۔ فیری میں امریکن سیاحوں کی کافی بڑی تعداد تھی۔ ان کو مد نظر رکھ کر لڑکی کہنے لگی ’’ایمسٹرڈم کا بازارِحسن یورپ بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں پر نہ صرف مقامی ڈچ لڑکیاں بلکہ یورپ اور امریکہ تک کے بہت سے ممالک کی لڑکیاں گاہکوں کا دل لبھانے کے لئے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ کالے اور گورے ہر قسم کے گاہک کو خوش آمدید کہتی ہیں لیکن وہ امریکنوں کو پسند نہیں کرتیں اور ان سے معاوضہ بھی دوسروں سے زیادہ طلب کرتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ امریکن مرد جتنا معاوضہ دیتے ہیں اس سے دو گنا وصول کرتے ہیں‘‘

سیاح جو ہر اچھی بری بات سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، لڑکی کی بات پر تالیاں بجانے لگے۔ یکایک ایک امریکن بوڑھا جوش میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ لڑکی کے پاس جا کر بولا ’’میں بھی امریکن ہوں۔ تم یہ بتاؤ کہ ایک رات کا کتنا معاوضہ لو گی؟‘‘

لڑکی نے آرام سے اپنا بازو چھڑایا اور اطمینان سے بولی ’’تم کس بات کا معاوضہ دو گے۔ لوری دے کر سلانے کا؟‘‘

بوڑھے کا چہرہ مزید سرخ ہو گیا ’’تم مجھے ایک موقع دے کر دیکھو۔ پھر تمھیں پتا چلے گا کہ میں سوتا ہوں یا کھیلتا ہوں‘‘

لڑکی نے اسی اطمینان سے کہا ’’جا کر آرام سے اپنی سیٹ پر بیٹھ جاؤ موقع دینے کے لئے میرے پاس تم سے بہتر لوگ موجود ہیں‘‘

اس امریکن بوڑھے کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی۔ اس نے اٹھ کر نشے میں دھت اپنے خاوند کو پکڑا اور اپنی سیٹ پر لے گئی۔ در اصل اس فیری پر مفت کی شراب بھی سیاحوں کو مہیا کی جا رہی تھی جس سے تقریباً ہر سیاح ہی مستفیض ہو رہا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں اسکاچ اور کوک کا گلاس تھا تو کوئی بئیر سے دل پشاوری کرنے میں مشغول تھا۔ یہ شراب فیری کے لئے خریدے گئے ٹکٹوں کی رقم سے ہی سیاحوں کو پلائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال۔ یہاں تو کوئی قاضی بھی نہیں تھا۔ اِس لئے فیری کے سبھی مسافر دل کھول کر پی رہے تھے۔

مولی نے اشارہ کیا اور ایک سٹاپ ہم فیری سے اتُر آئے۔ یہ علاقہ De Jordaan کہلاتا تھا۔ مولی مجھے اینی فرینک ہاؤس (Anne Frank House) لے گئی جو وہاں سے چند منٹوں کے فاصلے پر واقع تھا۔ ایمسٹرڈم جانے والا شاید ہی کوئی سیاح ہو جو اس چھوٹے سے گھر کی سیر نہ کرتا ہو۔ اس گھر کی خاص بات اس میں رکھی گئی اینی کی ڈائری ہے۔ اینی نامی چھوٹی سی یہودی لڑکی نے یہ ڈائری اس وقت لکھی تھی جب دوسری جنگِ عظیم میں جرمنوں نے ایمسٹرڈم پر ہلہ بول دیا تھا۔ ہٹلر کی فوج یہودیوں کو چن چن کر قتل کر رہی تھی۔ اس قتلِ عام سے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں سمجھا گیا۔ ہٹلر اور اس کے فوجی یہودیوں کی پوری نسل ختم کرنے کے در پے تھے۔ اینی اور اس کی فیملی ہٹلر کے فوجیوں سے بچنے کے لئے اس مکان میں چھپے ہوئے تھے۔ انہیں ڈھونڈ نکالا گیا اور پوری فیملی کو قتل کر دیا گیا۔ مرنے سے پہلے اینی نے جو ڈائری لکھی تھی وہ جرمنوں کے ہاتھ نہیں آئی یا اس وقت انہوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ یوں یہ ڈائری محفوظ رہی۔ جنگ کے بعد ہٹلر کے مظالم پر یہ ایک زبردست دستاویز ثابت ہوئی۔

اب تک اس ڈائری کی پچیس ملین سے زیادہ کاپیاں پوری دنیا میں فروخت ہو چکی ہیں۔ اصل ڈائری ایمسٹرڈم کے اس گھر میں محفوظ ہے اور ایمسٹرڈم آنے والے ہر سیاح کے لئے یہ گھر دیکھنے کا بہانہ بن گئی ہے۔ یوں اینی اور اس کی فیملی کا یہ گھر ایک میوزیم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اینی محض ایک نام ہے۔ در اصل یہودیوں نے باقاعدہ یہ ڈائری لکھوائی ہے جس میں ایک بچی کی طرف سے ایسی کہانی بنائی گئی ہے کہ پڑھنے والے کو ہٹلر کے مظالم اور یہودیوں کی مظلومیت نظر آئے۔ اس طرح پوری دنیا کے سامنے یہودیوں کو اپنی مظلومیت دکھانے کا بہانہ مل گیا ہے ورنہ جنگوں میں لوگ قتل ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اس میں بچے، بوڑھے اور عورتیں سبھی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی کہانی کی اس طرح تشہیر نہیں ہوئی جس طرح اینی کی کہانی کی باقاعدہ منصوبے کے تحت کی گئی۔ یہ رائے میری گائیڈ اور دوست مولی کی تھی۔ یہی بات میں نے کئی اور لوگوں سے بھی سُنی۔ اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ڈائری کی کہانی اور لوگوں کی رائے میں نے لکھ دی ہے۔ سچ جھوٹ کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔

آٹھ بجے اینی فرینک ہاؤس سے نکل کر ہم ایک بس میں بیٹھے تو میں نے مولی سے پوچھا ’’سرکار! اب کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میرا پیٹ دُہائیاں دے رہا ہے کچھ اس کا بھی خیال کرو‘‘

مولی جو آج خصوصی طور پر سجی دھجی اور عام دنوں سے الگ رہی تھی بولی ’’فکر نہ کرو! اب ہم کہیں اور نہیں بلکہ سیدھا کھانے کی میز پر جائیں گے‘‘

’’لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دو کہ کیا کھلوا رہی ہو۔ اگر پاکستانی کھانا مل جائے تو کیا بات ہے یا پھر جو مزاجِ یار میں آئے‘‘

مولی جس نے پورے سفر میں پینٹ اور کھلی سی شرٹ پہنے رکھی آج تنگ سی ٹی شرٹ اور جینز میں پورا جوبن دکھا رہی تھی۔ بس میں میرے ساتھ بیٹھی تو اس کے جسم سے پرفیوم کی بھینی بھینی خوشبو اور اس کی جوانی کی مہک ماحول کو مہکا رہی تھی۔ دورانِ سفر اس نے تمام سیاحوں سے ایک فاصلہ قائم رکھا تھا لیکن آج اس کا انداز جدا تھا۔ آج وہ بالکل الگ مولی نظر آ رہی تھی۔ جسم سے چپکے لباس میں اس کا انگ انگ شوخیوں پر اُترا ہوا تھا۔ ریستوران کے بارے میں میرے سوال کے جواب میں میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولی ’’تم بل ادا کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ کھانا تمھاری پسند کا مل جائے گا‘‘

میں نے سوچا کہ کل کی طرح آج پھر وہ کسی فلوٹنگ(Floating) ریسٹورنٹ میں لے گئی تو آج پھر لمبا چوڑا بل ادا کرنا پڑے گا۔ نہ صرف میری جیب اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی کہ روزانہ اس طرح کے مہنگے ریستورانوں میں جاؤں بلکہ وہاں اچھے طریقے سے کھانا بھی نہیں کھا پاتا تھا۔ تھری پیس سوٹ والے بیرے، لمبے لمبے مینوز اور انتہائی پر تکلف ماحول۔ میں ان چیزوں کا نہ اس وقت عادی تھا نہ اب ہوں۔ سادہ دیسی کھانے اور انہیں دیسی اسٹائل میں کھانے میں ہی مجھے لطف آتا ہے۔ لیکن اُس شام اپنے آپ کو مولی کے حوالے کر کے میں فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا تھا۔ اب جہاں وہ لے جاتی جانا پڑے گا اور جو ملے گا کھانا پڑے گا۔ اب پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ایسے معاملے میں کریڈٹ کارڈ بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ یہ فکر نہیں ہوتی کہ جیب میں اتنی رقم ہونی ضروری ہے۔ کریڈٹ کارڈ نے اس فکر سے آزاد کر دیا ہے۔ اس کا خمیازہ مہینے کے آخر میں جب بل آئے تو بھگتنا پڑتا ہے۔ خرچ کرتے وقت آساں لیکن بل ادا کرتے وقت یہ پلاسٹک کارڈ بہت گراں گزرتا ہے۔

انہی سوچوں میں غلطاں اور آنے والے وقت کے لئے قدرے پریشاں، ہم کسی انجانی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔ ایمسٹرڈم کی روشنیاں ہر طرف جلوہ افروز تھیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں بانہوں میں بانہیں ڈالے فٹ پاتھوں پر چلے جا رہے تھے۔ ریستورانوں کے سامنے لوگ بیٹھے خوردو نوش میں مصروف تھے۔ نائٹ کلبوں کی رنگ برنگی روشنیاں نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ سائیکلوں پر لڑکے، لڑکیاں، مرد اور عورتیں چلے جا رہے تھے۔ ہماری بس شہر کے مصروف علاقے سے نکل کر مضافاتی علاقے میں داخل ہو گئی۔ یہاں بڑی عمارتیں کم اور عام رہائشی مکانات زیادہ نظر آ رہے تھے۔ سڑکیں اور گلیاں یہاں بھی مصروف تھیں لیکن بہت زیادہ نہیں۔

بس رکی تو مولی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا۔ نیچے اُتر کر میں نے اردگرد نظر دوڑائی تو کوئی ریستوران اور دکان وغیرہ وہاں نظر نہیں آئی۔ یہ رہائشی علاقہ تھا۔ میں نے مولی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے میرے چہرے پر تحریر سوال پڑھ لیا تھا لیکن جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔ میں نے بھی اپنے سوال کا جواب مولی سے لینے کی بجائے آنے والے وقت پر چھوڑ دیا۔ مولی اسی طرح میرا ہاتھ پکڑے اس دو منزلہ عمارت کی سیڑھیوں چڑھنا شروع ہو گئی۔ اُوپر جا کر وہ ایک دروازے کے سامنے رکی اپنے پرس سے چابی نکالی دروازہ کھولا اور کورنش بجا لانے کے انداز میں مجھے اس فلیٹ میں خوش آمدید کہا۔

یہ دو کمروں کا خوبصورت فلیٹ تھا۔ باہر سے قدیم نظر آنے والی عمارت کے اندر واقع یہ فلیٹ تمام جدید سہولتوں سے آراستہ اور انتہائی صاف ستھرا تھا۔ لِونگ روم کافی وسیع اور قیمتی فرنیچر سے سجا ہوا تھا۔ لونگ روم کے ہی ایک حصے میں کچن واقع تھا۔ کچن کے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر مختلف قیمتی شرابوں کی بوتلیں ترتیب و تزئین سے رکھی تھیں۔ لِونگ روم کے دوسرے حصے میں صوفہ اور ٹی وی وغیرہ تھے۔ مولی نے مجھے براہِ راست ڈائننگ ٹیبل پر بٹھایا۔ وہاں پہلے سے رکھی موم بتیاں جلائیں اور لیمپ گُل کر دیے۔ ڈرائنگ روم میں خوابناک اور رومانٹک سی مدھم روشنی باقی رہ گئی۔ تاہم کچن کے ایک حصے میں لیمپ روشن تھا۔ مولی نے اپنے اور میرے لئے ڈرنک تیار کئے۔ مجھے ڈرنک تھمانے کے بعد خود کچن میں مصروف ہو گئی۔ اس دوران کمرے کے ایک کونے سے مدھم سی موسیقی بھی اُبھرتی رہی۔

صرف دس منٹ کے بعد میرے آگے چکن بریانی، قورمہ، کباب اور نان رکھے تھے۔ اس میں مسالے نہ صرف میرے ذوق کے مطابق تھے بلکہ کھانا انتہائی لذیذ تھا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ اب مولی نے بتایا کہ میری طرف جانے سے پہلے یہ کھانے وہ کسی پاکستانی ریسٹورنٹ سے لا کر گھر رکھ گئی تھی۔ اس وقت صرف انہیں گرم کیا تھا۔ وہ اس شہر کی باسی تھی اور اچھی طرح جانتی تھی کہ کون سی چیز کہاں سے ملتی ہے۔ دوسری طرف میری پسند سے بھی واقف تھی۔ اس لئے اسے یہ اہتمام کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ میرے لئے باعثِ مسرت و حیرت اس کا وہ جذبہ تھا جس کے تحت وہ یہ سب کچھ کر رہی تھی۔ یہ وہی مولی تھی جو سفر کے شروع میں مجھ سے غیر ضروری بات کرنا بھی گناہ تصور کرتی تھی۔ شاید ہم ایشیائی لوگوں کو نا پسند کرتی تھی اس لئے میرے اور بھارتی فیملیوں سے دور دور رہتی تھی۔ میرے مذاق کا جواب تک دینے میں عار محسوس کرتی تھی۔ مگر اب اُس کی کایا اتنی پلٹ چکی تھی کہ میں آج اس کے گھر میں بیٹھا تھا اور وہ میرے آگے کھانا لگا رہی تھی۔

میں جب شام کو مولی کے ساتھ نکلا تو مجھے اس بات کی ہر گز توقع نہیں تھی کہ وہ مجھے اپنے گھر لے جائے گی۔ میرے ذہن میں یہی تھا کہ وہ گھمائے پھرائے گی پھر کسی ریستوران میں کھانا کھائیں گے۔ اس کے بعد میں اپنے ہوٹل اور وہ اپنے گھر۔ اس سے زیادہ کی مجھے توقع بھی نہیں تھی۔ علاوہ ازیں جہاں تک مجھے یاد پڑتا تھا اس نے ہمیں یہی بتایا تھا کہ اس کا ایک بوائے فرینڈ ہے اور ایمسٹرڈم میں اس کا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن یہاں وہ لال جھنڈی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی بلکہ سب کچھ ہرا دکھائی دے رہا تھا۔ جب مولی کھانا لے کر میرے ساتھ آ کر بیٹھی تو یہی سوال میں نے اس سے کیا ’’مولی جہاں تک مجھے یاد آتا ہے تم نے بتایا تھا کہ بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی ہو لیکن یہاں تو کسی مرد کے رہنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے‘‘

مولی نے ہنستے ہوئے کہا ’’وہ تم جیسے مردوں سے بچنے کے لئے جھوٹ تھا۔ ورنہ تفریحی سفر پر نکلا ہر مرد سفر میں ملنے والی ہر خوبصورت عورت پر اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ کچھ سیاح تو انتہائی ڈھیٹ ہوتے ہیں۔ وہ ان پندرہ دنوں میں میرا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اس ایک جھوٹ سے ان سب سے جان چھوٹ جاتی ہے‘‘

میں نے مصنوعی خفگی سے اس کی طرف دیکھا ’’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تم ہمیں بے وقوف بناتی رہیں‘‘

’’تم کہاں بے وقوف بنے! اگر ایسا ہوتا تو آج اس طرح میرے گھر میں نہ بیٹھے ہوتے‘‘ مولی نے مسکراہٹ کی بجلیاں گراتے ہوئے کہا

’’میرے ذہن میں بھی یہی تھا کہ تمھارا بوائے فرینڈ ہے۔ ویسے تمھارا شکریہ کہ تم نے مجھے اِس قابل سمجھا۔ میں یہ سب کچھ توقع نہیں کر رہا تھا‘‘

مولی نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور ہولے سے کہا ’’میں نے وہی کیا جو میرے دل نے چاہا۔ ویسے ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے۔ میں سالہا سال سے گائیڈ کا کام کر رہی ہوں۔ آج تک اپنے گروپ کے کسی ایک ٹورسٹ کے ساتھ الگ سے شام نہیں گزاری۔ یہ میری جاب کے لئے بھی مناسب نہیں ہے لیکن کبھی کبھار روٹین سے ہٹ کر کوئی کام کرنے میں اتنا حرج بھی نہیں‘‘

مولی کا یہ دوستانہ انداز اور اس کی مہمان نوازی یہ سب کچھ میرے لئے غیر متوقع تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مولی کے گھر میں بیٹھ کر اپنا رد عمل کیسے ظاہر کروں۔ مولی کی ان مہربانیوں نے مجھے حیران بلکہ قدرے پریشان کر دیا تھا۔ مولی مرچوں والا پاکستانی کھانا خود بھی رغبت سے کھا رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ اکثر انڈین فوڈ کھاتی رہتی ہے اور ان مرچ مسالوں کی عادی ہے۔ تاہم پاکستانی ریستوران کا کھانا وہ پہلی دفعہ کھا رہی تھی۔ اس کے مطابق یہ کھانا انڈین کھانوں سے زیادہ لذیذ ہے مگر اس میں مسالے اور چکناہٹ قدرے زیادہ ہے جو شاید بعد میں اس کے معدے کے لئے گراں ثابت ہو۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ مسئلہ تو ہم سب پاکستانیوں کو درپیش ہے۔ ہم اپنے لذیذ کھانوں کو چھوڑ بھی نہیں سکتے اور ان کے بھاری پن کی وجہ سے کولیسٹرول، امراضِ قلب اور موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن ان سے فرار کی کوئی راہ بھی تو نہیں۔

کھانے کے بعد ہم نے اپنے ڈرنک اٹھائے اور صوفے پر آ بیٹھے۔ مولی نے وی سی آر میں ایک کیسٹ ڈالی۔ جب اسے آن کیا تو ایک اور حیرت کا سامنا ہوا۔ لگتا تھا آج حیرتیں سمیٹنے کا دن تھا۔ میرے سامنے اسکرین پر نصرت فتح علی خان کیف و جذب میں ڈوبا گا رہا تھا۔

یہ جو ہلکا سا سرور ہے۔ تیری نظر کا قصور ہے۔ تو نے شراب پینا سکھا دیا۔

ایک ڈچ لڑکی کے گھر میں نصرت فتح علی خان کی لازوال موسیقی کی تانیں اور اس کی سوز بھری آواز کی گونج ایک خوشگوار حیرت بن کر میرے سامنے آئی۔ میں اس مدھر موسیقی میں کھو سا گیا۔ مولی نے بتایا ’’نصرت فتح علی خان میرے پسندیدہ گلوکاروں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ میں زبان نہیں سمجھ سکتی لیکن موسیقی اور آواز کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتی ہوں‘‘

کافی دیر تک ہم آواز اور ساز کے سحر میں کھوئے رہے۔ اس دوران مولی نے اپنے بارے میں بہت سے باتیں بتائیں۔ میں بھی آسٹریلیا اور پاکستان کے بارے میں اس کی دلچسپی کی باتیں اُسے سناتا رہا۔ مولی کی معلومات اور اس کا حافظہ قابلِ رشک تھا۔ آج مولی کا انداز بالکل جدا تھا۔ جب وہ صرف گائیڈ تھی تو سیاحوں سے اس کا تعلق عموماً پیشہ ورانہ امور تک محدود رہتا تھا۔ کسی سے بھی زیادہ بے تکلف نہیں ہوتی ہوتی تھی۔ لیکن آج وہ ایک بے تکلف اور دلچسپ دوست تھی۔ نصف شب کے لگ بھگ مولی نے فون کر کے میرے لئے ٹیکسی منگوائی۔ جب ٹیکسی آ گئی تو وہ مجھے چھوڑنے نیچے تک آئی۔ میں نے اس کے تمام لطف و کرم کا شکریہ ادا کیا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنے ہوٹل روانہ ہو گیا۔




پھر تو لسی والا ساگ بھی بنتا ہو گا





دوسرے دن صبح ہوٹل کے ریسیپشن پر گیا تو اظہر کا پیغام میرا منتظر تھا۔ استقبالیہ کلرک نے نام کے ساتھ اظہر کا فون نمبر بھی درج کر لیا تھا۔ میں نے کاغذ کا وہ پرزہ لیا اور اپنے کمرے میں گیا۔ اظہر کو فون کیا۔ میری آواز پہچانتے ہی اس نے پوچھا ’’چناں کتھے گزاری آئی رات وے‘‘

رات میں دیر سے ہوٹل آیا تھا۔ اظہر نے میرے ہوٹل آنے سے قبل نصف شب کے لگ بھگ فون کیا تھا۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ میں رات بھر ہوٹل لوٹا ہی نہیں۔ میں نے بھی اس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش نہیں کی ’’میں پردیسی آدمی ہوں، مسافر ہوں، گھومتا رہتا ہوں، جہاں رات آ جاتی ہے سو جاتا ہوں۔ ایک دوست کے ہاں تھا‘‘

’’میں سب سمجھتا ہوں وہ کون سا دوست ہے۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ تم بگڑ چکے ہو۔ تمھارا کوئی علاج کرنا پڑے گا۔ ویسے آج تم نے کہیں نہیں جانا ہے۔ میں تھوڑی دیر بعد تمھیں لینے آ رہا ہوں۔ آج رات کا کھانا بھی تم نے گھر میں کھانا ہے۔ میں ابھی بتا رہا ہوں، کوئی اور پروگرام نہیں بنا لینا‘‘

’’جو حکم میرے آقا‘‘

’’تم گھر تو آؤ! آج کسی بڑے سے تمھیں جوتے لگواتا ہوں۔ غضب خدا کا! اب تم نے راتوں کو بھی باہر رہنا شروع کر دیا ہے‘‘ اظہر نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا

’’بھائی میرے! میرا گھر بہت دور ہے، ہر رات اپنے گھر جا کر تو نہیں سو سکتا‘‘

’’ہوٹل کا کمرہ کس لئے بک کرایا تھا‘‘

’’یار اس ہوٹل میں نیند نہیں آتی‘‘ مجھے بھی اظہر کو تنگ کرنے میں مزہ آ رہا تھا۔

’’کیونکہ وہاں کوئی لوری دینے والا جو نہیں۔ بچو میں تمھیں جانتا ہوں، آج تمھارا بندوبست کرا کے رہوں گا‘‘

’’اظہر کے بچے! اگر تم نے چاچا یا بھائی کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات کی تو میں تمھاری زبان کھینچ لوں گا۔‘‘میں اس دیوانے سے ڈر گیا

’’تم آ تو جاؤ پھر دیکھو کیا ہوتا ہے تمھارے ساتھ۔ ویسے میں ایک گھنٹے بعد تمھارے ہوٹل پہنچ رہا ہوں تیار رہنا‘‘

فون بند کرنے کے بعد میں شاور لینا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے سستانے کے لئے لیٹا تو چند منٹوں میں میری آنکھ لگ گئی۔ نہ جانے کتنی دیر سویا تھا کہ دروازہ کھٹکٹانے کی آواز سن کر جاگنا پڑا۔ گھڑی پر نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک سوتا رہا تھا۔ دن کے اوقات میں میں سونے کا عادی نہیں ہوں۔ اس طرح بغیر کسی پروگرام کے سو جانا میرے لئے خلافِ معمول بات تھی۔ دروازہ کھولا تو اظہر دندناتا ہوا اندر چلا آیا ’’تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے‘‘ آتے ہی وہ چلانے لگا

میں نے کہا ’’بیٹھو! ابھی تیار ہوتا ہوں، میری آنکھ لگ گئی تھی‘‘

وہ کچھ کہنے کے لئے پر تول ہی رہا تھا کہ میں شاور کرنے کے لئے باتھ روم میں گھس گیا۔

صرف آدھے گھنٹے بعد میں اظہر کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھا تھا۔ جتنی تیزی سے گاڑی چل رہی تھی اس سے زیادہ تیزی سے اس کی زبان چل رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہم ان کے اسٹور جا پہنچے۔ اظہر کے والد صاحب چاچا علی محمد بھی آج اسٹور میں موجود تھے۔ بہت پیار سے ملے۔ گلہ کرنے لگے کہ دو دن سے ہالینڈ میں ہوں اور ان سے ملنے نہیں آیا۔ میں نے معذرت کی اور بتایا ’’آج شام آپ کو ملنے کے لئے آنے والا تھا‘‘

چاچا علی محمد نے کہا ’’میں شام کا انتظار نہیں کر سکا۔ اظہر کے ساتھ اسی لئے اسٹور چلا آیا کہ یہاں تجھ سے ملاقات ہو سکے گی۔ سناؤ گاؤں کا کیا حال ہے‘‘

’’چاچا! گاؤں میں سب خیریت ہے۔ میں یہاں آنے سے پہلے چند دن گاؤں رہ کر آیا ہوں۔ ان دنوں اکثر بجلی غائب رہتی ہے۔ گرمی بھی بہت زیادہ ہے‘‘

بھئی! ہمیں تو وہ گرمی کچھ نہیں کہتی۔ بجلی اور پنکھے کی بھی زیادہ پرواہ نہیں ہوتی البتہ یہاں کی سردی زیادہ تنگ کرتی ہے۔ خدا کی پناہ! یہاں اتنی سردی پڑتی ہے کہ خون بھی رگوں میں جم جاتا ہے۔ سردیوں میں سورج بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ایک تو دن بہت چھوٹا ہوتا ہے اوپر سے ہر وقت بادل چھائے رہتے ہیں۔ اکثر بارش ہوتی رہتی ہے۔ پوریاں سردیاں گھر میں ہیٹر کے آگے بیٹھ کر گزارنی پڑتی ہیں‘‘

’’لگتا ہے چاچا! آپ کو گاؤں بہت یاد آتا ہے‘‘ میں نے چاچا محمد علی کے جذبات پڑھ لئے تھے

’’بیٹا ساری زندگی وہیں گزری ہے۔ وہاں سب اپنے ہیں۔ اُن گلیوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں زندگی کے ساٹھ ستر برس گزارے ہیں۔ اس عمر میں ان سب سے جدائی اور پردیس کے اجنبی ماحول میں رہنا بہت مشکل ہے لیکن کیا کریں میرے بیٹے مانتے ہی نہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم سارے بھائی یہاں ہیں تو آپ اکیلے وہاں کیوں رہیں۔ میں وہاں رہوں تو میرے لئے فکر مند رہتے ہیں۔ انہی کے خیال سے یہاں چلا آیا لیکن ان کے ہر طرح کا خیال رکھنے کے باوجود میرا دل یہاں نہیں لگتا۔ یہ اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور میں گھر میں

بیٹھا بور ہوتا رہتا ہوں‘‘

’’تو چاچا آپ یہاں اسٹور میں آ جایا کریں۔ یہاں اظہر بھی ہوتا ہے ویسے بھی یہاں کافی رونق لگی رہتی ہے‘‘

’’بیٹا! یہاں آ کر کیا کروں۔ ان گوروں کی زبان مجھے نہیں آتی۔ یہاں جو چیزیں بکتی ہیں ان کی بھی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ اس لئے کام میں تو ان کا ہاتھ نہیں بٹا سکتا۔ کبھی کبھار آتا ہوں تو یہاں بیٹھا رہتا ہوں یا باہر بازار کا چکر لگا آتا ہوں اور بس!‘‘

میں سوچ رہا تھا کہ چاچا علی محمد اور ان جیسے دوسرے بزرگوں کا بڑھاپے میں ایک یہ بھی مسئلہ ہے کہ ان کے سامنے زندگی کا کوئی نصب العین نہیں رہ جاتا۔ وہ زندگی برائے زندگی گزارتے ہیں۔ وہ جنہوں نے ساری زندگی جسمانی یا دماغی محنت کی ہوتی ہے۔ جن کے سامنے زندگی ہر روز نت نئے چیلنج لے کر آتی تھی اور وہ ہر روز ان چیلنجز سے اپنی محنت اور کوشش سے عہدہ برآ ہوتے تھے، اچانک انہیں ان سب ذمہ داریوں، خود مختاریوں اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہو کر ایک کونے میں بیٹھنا پڑتا ہے تو زندگی کا ہر رنگ ان کے لئے پھیکا پڑ جاتا ہے اور زندگی صرف شب و روز کا تسلسل بن کر رہ جاتی ہے۔ جس زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہو اور جس زندگی میں حصولِ مقصد کے لئے عملِ پیہم شامل نہ ہو اس زندگی اور موت کے درمیان فرق نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔

اس دن کا زیادہ حصہ میں نے اظہر کے اسٹور میں گزارا۔ دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھایا۔ یہ کھانا ان کے گھر سے بن کر آیا تھا۔ چاچا علی محمد سارا دن گاؤں کی باتیں کرتے رہے۔ اظہر بھی کام کے دوران وقفہ نکال کر ہمارے ساتھ آ بیٹھتا تھا۔ اظہر کا بڑا بھائی سعید بھی لنچ میں ہمارے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے ساتھ لسی دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ اظہر نے بتایا کہ اکثر وہ دہی سے لسی بنا لیتے ہیں کیونکہ چا چا علی محمد کو بہت پسند ہے۔ میں نے پوچھا ’’تو پھر تو لسی والا ساگ بھی بنتا ہو گا؟‘‘

’’ہاں کیوں نہیں! سرسوں کے پتے بازار سے آسانی سے مل جاتے ہیں۔ ہم ساگ بناتے رہتے ہیں۔ یہاں ہر چیز مل جاتی ہے۔ تمام مسالے، سرسوں کا تیل، گڑ، حتیٰ کہ حقہ اور تمباکو بھی دستیاب ہے‘‘

’’لیکن ایک چیز یہاں بالکل نہیں ملتی ہو گی۔ کالا لاچا باندھ کر اور سرخ قمیض پہن کر پنجابی فلموں کی مٹیار گندم اور سرسوں کے کھیتوں میں ناچتی کہیں نہیں دکھائی دیتی ہو گی‘‘ میں نے ہنستے ہوئے اظہر سے کہا

اظہر نے جواب دیا ’’ان لوگوں نے اپنی فصلیں برباد کروانی ہیں کہ پاکستانی ہیروئنوں کو اپنے کھیتوں میں نچائیں۔ جن کھیتوں میں وہ بھاری بھرکم ہیروئینیں ناچتی ہیں وہاں ہمیشہ کے لئے فصل نہیں اُگتی اور جہاں ہماری پنجابی فلموں کے ہیرو اور ولن بڑھک مارتے ہیں وہاں سے پرندے بھی اُڑ کر کسی دوسرے علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تو ہم پنجابیوں کی ہمت ہے کہ ان ہیروئینوں اور ان بڑھکوں کو برداشت کر لیتے ہیں بلکہ پسند کرتے ہیں‘‘

وہیں اسٹور میں بیٹھے ہم گپ شپ لگا رہے تھے کہ ایک صاحب اندر چلے آئے۔ ہم اسٹور کے پچھلے حصے میں واقع آفس میں تھے۔ اس لئے ہماری محفل کا گاہکوں اور باہر والوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑ سکتا تھا۔ ورنہ یورپ اور آسٹریلیا میں جہاں کہیں کسٹمر یا گاہک موجود ہو وہاں کا ماحول انتہائی سنجیدہ اور کسٹمر سروس کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ گاہکوں اور کسٹمرز کے سامنے مخصوص لباس صاف ستھرے حلئے اور پوری توجہ سے رہنا پڑتا ہے۔ وہاں نہ تو کھا پی سکتے ہیں، نہ دوسری زبانوں میں دوستوں سے فون پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ گاہک یا کسٹمر اگر کھڑا ہے تو کسٹمر سروس پر متعین شخص بھی کھڑا ہو کر یہ سروس مہیا کر رہا ہوتا ہے۔ اگر یہ سروس تفصیلی ہے اور بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے، جیسے بنک میں کوئی معاملہ ہے یا ڈاکٹر نے مریض کو دیکھنا ہے تو پہلے بینکر یا ڈاکٹر کسٹمر یا مریض کو باہر جا کر خود اندر لے کر آئے گا، اسے کرسی پیش کرے گا اور پھر خود جا کر سامنے بیٹھے گا۔ یہ کہیں نہیں ہوتا کہ کسٹمر کھڑا ہو اور سامنے والا کرسی پر بیٹھ کر اس سے ڈیل کر رہا ہو۔

بات ہو رہی تھی ان صاحب کی جو دروازہ کھول کر اسٹور کے پیچھے واقع آفس میں جمی ہماری محفل میں وارد ہوئے تھے۔ پختہ عمر کے اسمارٹ اور سوٹڈ بوٹڈ یہ صاحب مجھے شروع میں ڈچ ہی لگے لیکن جب انہوں نے اُردو میں بات کی تو پتا چلا کہ پاکستانی ہیں۔ اظہر نے میرا ان سے تعارف کروایا اور مجھے ان کے بارے میں بتایا ’’یہ گل خان ہیں۔ ان کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ یہ یہاں پر درجنوں اسٹوروں پر مشتمل ایک بڑے بزنس کے مالک ہیں۔ ان کے یہ اسٹور ایمسٹرڈم کے ساتھ ساتھ ہالینڈ کے دوسرے شہروں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا شمار ہالینڈ کے چند بڑے کاروباری حضرات میں ہوتا ہے۔ ہمارے فیملی فرینڈ ہیں اور ابا سے انہیں خصوصی لگاؤ ہے۔ اکثر انہیں ملنے چلے آتے ہیں‘‘

گل خان نے کرسی گھسیٹ کر میرے برابر رکھی اور بولے ’’اظہر کو زیادہ بولنے کا مرض ہے۔ میرا اتنا تعارف کافی تھا کہ پاکستانی ہوں اور ہم سب دوست ہیں۔ جہاں دوستی ہو وہاں بزنس کا ذکر نہیں ہوتا۔ آپ اظہر کے دوست ہیں تو میرے بھی دوست ہیں۔ کچھ وقت ہمارے لئے بھی نکالیں۔ کہیں بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور گپ شپ لگائیں گے۔ اسی بہانے مجھے بھی کام سے ہٹ کر کچھ تفریح کا موقع مل جائے گا‘‘

اظہر نے کہا ’’خان صاحب! آپ آج شام کو کھانا ہمارے گھر کیوں نہیں کھاتے۔ وہیں ان سے گپ شپ کر لینا۔ ہمیں بھی کبھی خدمت کا موقع دے دیا کریں‘‘

’’یار میں ضرور آ جاتا لیکن آج شام چھ بجے کی فلائٹ سے بون جا رہا ہوں۔ کل دوپہر تک واپس آ جاؤں گا۔ کل شام کا ڈنر میری طرف سے ہے۔ میری بیوی پاکستان گئی ہوئی ہے اس لئے کہیں باہر بیٹھیں گے۔ آپ بتائیں کل شام آپ فارغ ہیں نا؟‘‘ اس نے براہ راست مجھ سے پو چھا

اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، اظہر نے کہا ’’ہاں فارغ ہے! اس نے کون سا بھینسوں کا دودھ نکالنا ہے۔ کہیں الٹی سیدھی جگہ جانے کی بجائے ہمارے ساتھ تو رہے گا‘‘

میں نے اظہر کو آنکھیں دکھائیں۔ چاچا علی محمد اور گل خان کے سامنے بھی وہ میری ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں آیا تھا۔ میں نے گل خان سے کہا ’’آپ کو خواہ مخواہ زحمت ہو گی‘‘

’’اوہ جی! مرزا صاحب! اس میں زحمت والی کیا بات ہے۔ مہمان تو رحمت ہوتے ہیں۔ آپ کے ساتھ وقت گزار کر مجھے خوشی ہو گی۔ میں یہاں سے گزر رہا تھا تو سو چا چاچا کو سلام کرتا چلوں۔ اچھا ہو گیا آپ سے بھی ملاقات ہو گئی اب کل شام کو انشا اللہ تفصیل سے بات چیت ہو گی۔ مجھے اجازت دیں، ایک ضروری کام سے جانا ہے‘‘

گل خان رخصت ہوا تو ایسے لگا اس شخص کو میں کافی عرصے سے جانتا ہوں۔ اتنا بڑا بزنس مین لیکن طبیعت کا اتنا سادہ شخص کم ہی نظر آتا ہے۔




تہذیبِ مغرب میں گھر کا تصور وہ نہیں ہے





شام پانچ بجے اظہر مجھے گھمانے باہر لے گیا۔ ہم شہر کے مرکزی حصے میں پہنچے تو اظہر کو پارکنگ ڈھونڈنے میں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ کافی تگ و دو کے بعد اسے ایک ایسی پارکنگ لاٹ میں کار پارک کرنے کی جگہ ملی جہاں گھنٹوں کے حساب سے کرایہ چارج کیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں ریستوران، کلب، ہوٹل اور دوسری دکانوں کی بہتات تھی۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح ادھر اُدھر گھومتے دکھائی دے رہے تھے۔ سیاحوں اور مقامی لوگوں میں تمیز کرنا کہیں مشکل نہیں ہوتا۔ مقامی لوگوں نے جہاں جانا ہوتا ہے ناک کی سیدھ میں تیزی سے چلے جا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں پر حیرانی اور آنکھوں میں وہ تلاش نظر نہیں آتی جو سیاحوں کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ سیاح ہر چیز کو رک رک کر اور گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو جلدی ہوتی ہے اور نہ منزل کا مکمل علم کہ وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر سیدھے چلتے جائیں۔ سیاحوں کے چہروں پر فکر اور تلاش کو آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ فکر اور جستجو ہی سیاح کی پہچان ہوتی ہے ورنہ جو سب کچھ جانتا ہو اسے کچھ دیکھنے اور جاننے سے کیا دلچسپی ہو گی۔ یہ عدم دلچسپی اسے اِردگرد کے مناظر سے بے نیازی اور منزل تک جلد پہنچنے کے لئے ہر ممکنہ جلدی کرنے پر اُکساتی ہے۔ مقامی لوگوں کے چہروں پر یہ جذبات صاف پڑھے جا سکتے ہیں۔

اظہر کے بقول سیاحوں کی ایک پہچان اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ جس شخص کا چہرہ ہونق، انداز مستانہ اور نظریں ہر شے کو کھوج رہی ہوں وہ سیاح ہوتا ہے۔ اس کے بقول سیاح ہر عمارت ہر مرد و زن اور ہر شے کو ایسے دیکھتا ہے جیسے ابھی اس نے اس دنیا میں آنکھ کھولی ہے اور ہر چیز پہلی دفعہ دیکھ رہا ہے۔ اس نے مزید اضافہ کیا ’’پاکستانی سیاح دنیا بھر کے سیاحوں سے اس لئے مختلف ہیں کہ وہ عمارتوں، عجائب گھروں اور خوبصورت مقامات کی بجائے خوبصورت چہروں کو زیادہ غور سے دیکھتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان سے پہلی دفعہ یورپ جانے والے تو گوریوں کو ایسے گھورتے ہیں جیسے ان کا ایکسرے کر رہے ہوں۔ اس میں عمر کی تخصیص نہیں۔ ہر عمر کا مرد یہاں آ کر سب سے پہلی سیاحت انہی سے شروع کرتا ہے۔ یہ سیاحت اتنی توجہ طلب اور اتنی پر کشش ہوتی ہے کہ انہیں کچھ اور دیکھنے کی طلب باقی رہتی ہے نہ اس کے لئے وقت بچتا ہے۔ اگر یہ سیاحت چند دنوں یا ایک دو ہفتوں تک محدود ہو تو ان کا نقطۂ جستجو اس سے آگے بالکل نہیں بڑھتا۔ ہاں اگر ان کا قیام بڑھ کر مہینوں اور سالوں میں پھیل جائے تو پھر شاید انہیں ان چہروں پر سے نظریں ہٹا کر اِدھر اُدھر دیکھنے کا خیال بھی آ جائے‘‘

میں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ’’تم مبالغہ آرائی سے کام لے رہے۔ سارے پاکستانی تمھاری طرح نہیں ہوتے۔ اب مجھے ہی دیکھو! چند دنوں میں تمھارے اس شہر کے سب نہیں تو کئی اہم اور قابلِ ذکر مقامات، عمارات، میوزیم اور فیکٹریاں تک دیکھ ڈالی ہیں۔ اگر تمھاری بات درست ہوتی تو میں یہ سب کچھ کیسے دیکھ سکتا تھا؟‘‘

اظہر کہاں ہار ماننے والا تھا ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ تم پاکستان سے نہیں آسٹریلیا سے آئے ہو۔ شروع میں سڈنی میں جا کر تم نے بھی نہ جانے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں بھی تم زیادہ وقت انہی مصروفیات میں گزار رہے ہو جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ وہاں سے جو وقت بچتا ہے یا گروپ کے ساتھ پروگرام بنتا ہے تو کچھ اور بھی دیکھ لیتے ہو۔ تمھاری سیاحت تو دن سے بڑھ کر راتوں تک پھیل رہی ہے۔ اس لئے اتنا معصوم بننے کی کوشش نہ کرو۔ ابھی بھی تمھارا دھیان میری طرف کم اور سامنے والی لڑکیوں کے گروپ کی طرف زیادہ ہے‘‘

’’تم تو الزام تراشی پر اُتر آئے ہو۔ اب یہاں گھومنے آئے ہیں تو میں آنکھیں بند تو نہیں رکھ سکتا۔ اگر خوبصورت چیز نظر آتی ہے انسان کی نظریں خود بخود اس طرف اٹھ ہی جاتی ہیں۔ قدرت کے بنائے ہوئے خوبصورت نظاروں اور خوبصورت چہروں سے صرفِ نظر کرنا توہین قدرت ہے‘‘



اظہر کچھ کہنے والا تھا کہ میں نے اُسے آگے چلنے کے لئے کہا۔ دریا کے کنارے واقع ریستورانوں اور کافی شاپوں میں کافی رونق تھی۔ پھولوں کی کئی دکانیں دِل و دماغ میں فرحت اور آنکھوں میں رنگ بھرنے والے بے شمار رنگ برنگے پھولوں سے بھری ہوئی تھیں۔ لوگ پھولوں کے گلدستے اور گلاب کے اکیلے پھول خرید رہے تھے۔ یہ پھول وہ اپنے چاہنے والوں کی نذر کر کے اپنی محبت کا اظہار کریں گے۔ پھولوں کی جس دکان کے پاس ہم کھڑے قدرت کی صناعی کی داد رہے تھے اس کے ساتھ ایک کافی شاپ تھی۔ اس کافی شاپ کی رنگ برنگی خوبصورت کرسیاں دکان کے سامنے سجی ہوئی تھیں۔ ان کے اوپر مختلف رنگوں کی بڑی بڑی چھتریاں ایستادہ تھیں۔ ساتھ میں دریا کا پانی لہریں بکھیر رہا تھا۔ شام کے اس وقت ہلکی ہلکی خنک ہوا جیسے مشامِ جان کو معطر کر رہی تھی۔ ہم ان کرسیوں پر بیٹھ کر اردگرد کے دلکش نظاروں، پھولوں کی بہاروں اور دریا میں کشتیوں کی قطاروں کو دیکھنے لگے۔ کافی شاپ کی ویٹرس آرڈر لینے آئی تو اظہر نے اسے دو لاٹے کا آرڈر دیا۔ یہ ویٹرس بھولے بھالے خوبصورت چہرے اور پرکشش جسم والی سترہ اٹھارہ سال کی نو خیز دوشیزہ تھی۔ اس کا جوان اور سڈول جسم اُس کے مختصر اور تنگ لباس سے بغاوت پر آمادہ نظر آ رہا تھا۔ اُسے دیکھ کر مجھے ایک پنجابی گیت کا مصرعہ یاد آ گیا۔ ڈھائی دن نہ جوانی نال کڈ دی کُرتی ململ دی۔ شکر ہے اس دوشیزہ کو ململ کی کرتی نہیں پہننی پڑ رہی تھی۔ ورنہ ڈھائی دن کے بجائے ڈھائی گھنٹے بھی نہ نکالتی۔

قدرت بھی بعض علاقے کے لوگوں کو اپنی نعمتوں سے انتہائی فیاضی سے نوازتی ہے۔ یورپ کے ان علاقوں کو قدرت نے ہر نعمت سے دل کھول کر نوازا ہے۔ یہاں بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سے درخت، سبزہ، پھل، پھول، سبزیاں اور دیگر اجناس وافر ہیں۔ اس سے لوگ خوشحال، زمین خوبصورت، کثافت سے پاک اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ زمین سبزے اور پھولوں سے دلہن کی طرح سجی ہے۔ سبز چارے کی بہتات کی وجہ سے مویشیوں، گائیوں، گھوڑوں اور بھیڑوں کے بے شمار فارم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دودھ اور اس کی مصنوعات وافر مقدار میں ہیں۔ گوشت اور دودھ کی مصنوعات یہاں اتنی زیادہ ہیں کہ دنیا بھر کے لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں کے لوگوں کو بھی قدرت نے صاف رنگت، سڈول جسم اور اچھی صحتوں سے نوازا ہے۔ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے تمام مرد و زن کے قدو قامت ہمارے ہاں کے خواتین و حضرات سے اوسطاً دراز ہیں۔ پاکستان میں میری طرح چھ فٹ کے قد والا آدمی انتہائی دراز قد نظر آتا ہے۔ وہی شخص آسٹریلیا یا امریکہ میں ہو تو عام سے قد کا نظر آئے گا۔ کیونکہ یہاں عام لوگوں کے قد اس سے زیادہ طویل ہوتے ہیں۔ خصوصاً یہاں کی عورتیں اپنے ہاں کی خواتین سے خاصی دراز قد ہیں۔ ان کی صحتیں بھی مردوں سے کم نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں عورتیں ہر وہ کام کرتی نظر آتی ہیں جو پاکستان میں صرف مردوں کے لئے مخصوص ہے۔ فوج کی نوکری ہو یا بس اور ٹرک کی ڈرائیوری، سڑک اور عمارت بنانے کی مزدوری ہو یا کھیتوں میں ٹریکٹر چلانا ہو، دفتروں اور گھروں کا سامان شفٹ کرنا ہو یا کورئیر کا کام ہو، یہاں ہر کام عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کر رہی ہوتی ہیں۔ وہ دفتروں میں ایگزیکٹو بھی ہوتی ہیں اور کمپنیوں کی ڈائریکٹر بھی۔ بیورو کریٹ بھی اور وزیر اور سفیر بھی۔ غرضیکہ کوئی ایسا کام نہیں جو عورتیں یہاں نہ کرتی ہوں۔ یہاں کی عورت جسمانی اور ذہنی طور پر اتنی طاقتور ہے کہ کلبوں اور پبوں میں نشے میں دھت مرد بھی ان کے مرضی کے خلاف ان سے دست درازی کی جُرأت نہیں کر پاتے۔ گھر ہو یا باہر یہاں کی عورت آزاد اور خود مختار ہے۔

کافی شاپ میں اظہر کے ساتھ بیٹھے ہوئے میرے خیالات نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتے پھر رہے تھے۔ یکایک اظہر کی آواز پر میں چونکا۔ اس نے میری ران پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ’’کہاں کھو گئے ہو۔ وہ لڑکی آرڈر لے کر کب کی جا چکی ہے۔ لگتا ہے تمھاری نظریں اور سوچیں اب تک اس کا تعاقب کر رہی ہیں۔ فکر نہ کرو ابھی وہ کافی لے کر آتی ہو گی‘‘

’’میں اس لڑکی کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا بلکہ دو تہذیبوں کا تقابلی جائزہ لے رہا تھا۔ کتنا فرق ہے مشرق اور مغرب میں۔ مشرق کی عورت اپنی ساری زندگی دوسروں کے لئے قربان کر دیتی ہے۔ ہوش سنبھالتی ہے تو والدین اور بہن بھائیوں کی خدمت کا فریضہ سنبھال لیتی ہے۔ شادی کے بعد شوہر اور ساس سسر کے لئے سرا پاِ راحت بن جاتی ہے اور پھر اولاد کے لئے تو اپنا آپ تج دیتی ہے۔ بچپن سے بڑھاپے تک وہ صرف دوسروں کے لئے جیتی ہے۔ سب کو کھلا کر بعد میں کھاتی ہے۔ سب کو آرام میں رکھ کر خود بے آرام رہتی ہے۔ گھر میں کسی کو ذرہ برابر تکلیف ہو تو بے چین ہو جاتی ہے۔ دوسروں کو آرام اور سکون پہچانے کے لئے اپنے آرام اور سکون کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتی۔ سب دکھ، درد، ذمہ داریاں، کام کا بوجھ اور بے آرامی اپنوں کی خوشی کے لئے ہنس کر سہہ لیتی ہے۔ مشرق کی یہ عورت گھر کا چراغ، والدین کی آنکھوں کا نور، خاوند کی غیرت کی آمین اور اولاد کے لئے سراپا محبت و قربانی ہے۔ گھروں کی رونق انہی کے دم سے ہے۔ عورت کے بغیر مشرق کا ہر گھر ادھورا بلکہ گھر نہیں ہوتا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ کہ عورت کی ان قربانیوں سے گھر تو بسے رہتے ہیں۔ ان میں رونقیں بھی لگی رہتی ہیں لیکن خود مشرقی عورت کہاں کھڑی ہوتی ہے۔ کیا اُسے بھی وہ سب کچھ ملتا ہے جو اس کا حق ہے۔

دوسری جانب مغرب میں گھر کا وہ تصور ہی نہیں جو مشرق میں پایا جاتا ہے۔ یہاں گھر سے زیادہ فرد کو اہمیت دی جاتی ہے۔ شخصی آزادی زیادہ اہم ہے۔ والدین ہوں یا خاوند، بیٹا ہو یا بیٹی سب کو اپنا خیال خود رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ان کی بیٹی بیوی یا ماں ان کی خدمت کے لئے ہر وقت موجود نہیں ہوتی۔ اس کی اپنی زندگی ہوتی ہے۔ اپنی دلچسپیاں اور مشاغل ہوتے ہیں۔ اپنے وقت کو اپنی پسند کے مطابق گزارنے کا اسے پورا حق ہوتا ہے۔ وہ اس حق کا استعمال بھی کرتی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنے خاوند اور بچوں کا خیال نہیں کرتی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس کے لئے وہ اپنی دلچسبیوں، اپنے مشاغل اور اپنی تفریح کو ترک نہیں کرتی‘‘

اظہر نے میری طویل بات کو خلافِ توقع خاموشی اور سنجیدگی سے سنا اور اسی سنجیدگی سے کہنے لگا ’’ہاں دونوں تہذیبوں میں یہ واضح فرق تو ہے۔ لیکن دونوں میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہیں۔ کیونکہ دونوں انتہا پسندی پر مبنی ہیں۔ مشرق کی عورت ساری زندگی دوسروں کے لئے



جیتی ہے۔ اپنی ذات کے لئے کچھ نہیں کر پاتی۔ مردوں کا بچا کھچا کھانا کھا کر صبر و شکر کرتی ہے۔ سب کو آرام اور سکون پہنچا کر خود ہمیشہ بے آرام اور بے سکون رہتی ہے۔ مرد کے لئے وہاں ہر تفریح جائز ہے جبکہ عام عورت وہاں گھر میں ایک قیدی کی طرح پابند ہے۔ معاشرے کی ناروا رسمیں، عزت و غیرت کے نام پر عورت کو قربانی چڑھانے کا رواج، اوراس کی خاموشی کو اچھائی کا نام دے کر اسے بے زبان جانور کی طرح بلی چڑھا دیا جاتا ہے۔ اگر وہ حرفِ شکایت زبان پر لاتی ہے تو مردوں کی غیرت پر حرف آ جاتا ہے چاہے وہ خود جو مرضی کرتے پھریں۔

اس دہرے معیار کی وجہ سے وہاں عورت اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہے۔ گھر میں رہتی ہے تو صرف دوسروں کی خدمت کرنے کے لئے۔ باہر نکلتی ہے تو مردوں کی ہوس زدہ نظروں کا شکار بنتی ہے۔ گویا وہ چکی کے دو پاٹوں میں پستی رہتی ہے۔ لیکن حرف شکایت اپنی زبان پر نہیں لاتی۔ دوسری طرف یہاں مغرب میں عورت دوسری انتہا پر پہنچی ہوئی ہے‘‘ اظہر ڈچ دوشیزہ کی لائی ہوئی لذیذ کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا ’’یہاں گھر اور گھریلو عورت کا وہ تصور ہی نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ اس لئے یہاں کی عورت کو ہرگز موردِ الزام نہیں ٹھہرا یا جا سکتا کیونکہ انہوں نے جو کچھ دیکھا ہے اتنا ہی جانتی ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں جو مشاہدات و تجربات انہیں پیش آتے ہیں وہی کچھ وہ اپنی زندگی میں کرتی ہیں۔ یہاں گھر کا سربراہ مرد نہیں ہوتا بلکہ کوئی نہیں ہوتا۔ کیونکہ عورت مرد کی سربراہی قبول نہیں کرتی۔ وہ برابری کی نہ صرف دعوے دار ہے بلکہ عملی طور پر برابر ہے۔ جہاں دونوں ہی سوا سیر ہوں وہاں ازدواجی زندگی کی گاڑی کسی وقت بھی رُک سکتی ہے کیونکہ اونچ نیچ ہر گھر میں ہو ہی جاتی ہے۔ یہاں کوئی فریق دوسرے کی چودھراہٹ برداشت کرنے کا قائل نہیں۔ جب تک گاڑی میں پیار اور برداشت کا پیٹرول باقی رہتا ہے گاڑی چلتی رہتی ہے۔ جونہی دونوں میں سے کسی ایک میں کمی آتی ہے وہیں ان کے راستے الگ ہو جاتے ہیں کیونکہ کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ لوگ منافقت کی زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کی عورت مرد کی بالادستی کو تسلیم کرنے کی قائل نہیں۔ صرف عورت کو نہیں یہاں مرد کو بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔ مرد کو بہت سے کام اپنی مرضی کے خلاف بھی انجام دینے پڑتے ہیں۔ نہ صرف اسے گھر کے کاموں میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوتا ہے بلکہ کئی دفعہ نہ چاہتے ہوئے بھی شام کو بیوی کو باہر لے جانا ہوتا ہے۔ اس کی مرضی اور پسند پر سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔ ریستورانوں میں اکثر عورتیں اپنی پسند کا مینو منتخب کرتی ہیں۔ کسی تفریحی مقام پر جانا ہو تو اکثر عورت کی بات حرفِ آخر ہوتی ہے۔ جب یہ جوڑا تفریح کے لئے راتیں باہر گزارتا ہے تو بچے آیا کے زیرِ سایہ پرورش پاتے ہیں۔ یہ بچے دن میں بھی ماں باپ کی توجہ اور شفقت سے اس لئے محروم رہتے ہیں کہ دونوں ہی جاب پر ہوتے ہیں۔ اس طرح یہاں کی عورت اپنے ماں باپ، خاوند کے والدین اور خاوند کے رشتہ داروں کی خدمت سے بھی بچی رہتی ہے کہ اس کا یہاں رواج نہیں ہے۔ جاب، تفریح اور دوسرے مشاغل کی وجہ سے یہاں بچوں کو بھی اتنا وقت نہیں دیا جاتا جتنا ہمارے ہاں دیا جاتا ہے۔ یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کے والدین نے کیا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے اور چلتا رہے گا۔ یہ اسی میں خوش ہیں کیونکہ یہاں یہی رواج ہے۔ یہی دستور ہے اور یہی ان کا مزاج ہے‘‘

اظہر آج کچھ زیادہ ہی سنجیدہ گفتگو کر رہا تھا۔ اظہر کی گفتگو کے دوران ہم نے اس خوبصورت کافی شاپ کی ذائقے دار کافی بھی ختم کر لی تھی۔ اس لئے میں نے کہا ’’اب فلسفہ بگھارنا بند کرو اور مجھے اپنے شہر کی کچھ سیر بھی کراؤ ورنہ سڈنی واپس جا کر مجھے تمھارا یہ خشک فلسفہ ہی یاد رہے گا۔ جبکہ میں رنگین یادیں لے کر واپس جانا چاہتا ہوں خشک فلسفہ نہیں‘‘

اظہر نے اٹھتے ہوئے کہا ’’تمھیں جن رنگینیوں کی طلب ہے وہ یہاں ہر سو بکھری ہیں لیکن لگتا ہے کہ یہ تمھیں صرف قریب سے اچھی لگتی ہیں‘‘

’’تو اس میں غلط بات کیا ہے۔ انسان ہر اچھی اور خوبصورت چیز کے نزدیک جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے قریب سے دیکھنا چاہتا ہے، چھونا چاہتا ہے اور اسے اپنے دل اور دماغ میں اتارنا چاہتا ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’شکر کرو تم یہاں یورپ میں ہو۔ اگر یہی کوشش تم نے پاکستان میں کی ہوتی تو نتیجہ تمھارے سر پر گنج کی شکل میں نظر آتا‘‘ اظہر واپس اپنے جولی موڈ میں آ گیا تھا

’’تمھارا تو ذہن ہی خراب ہے‘‘ میں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ’’میرا مقصد وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔ یہ خوبصورتی دنیا میں ہر طرف اور ہر شے میں موجود ہے۔ اسی کی تلاش میں ہم گھر سے نکلے ہیں اور سورج کے ساتھ ساتھ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا سفر کر رہے ہیں۔ قدرت کی بنائی ہوئی اس دنیا میں رنگ برنگے لوگ، جدا جدا خطے، مختلف درخت اور پودے، الگ الگ زبانیں، مختلف تہذیب و تمدن، قدرتی حسن سے مالا مال دریا اور پہاڑ اپنے اندر بے پناہ حسن رکھتے ہیں۔ اسی حسن کی جستجو میں ہم گھر سے نکلے ہیں۔ انہی کو کھوجنا اور قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وجودِ زن کے علاوہ بھی دنیا میں حسن موجود ہے۔ شرط یہ ہے کہ دیکھنے والی نظر ہو۔ لیکن تمھارا دماغ اور تمھاری نظریں تو اس دائرے سے باہر نکلتی ہی نہیں اور نہ تمھیں کچھ اور نظر آتا ہے‘‘

اظہر کہاں ہار ماننے والا تھا ’’اپنی بے سری شاعری سے بات بدلنے کی کوشش نہ کرو۔ میں تمھیں جانتا ہوں اور تمھاری پسند اور نا پسند سے بھی واقف ہوں۔ اس لئے شعر و شاعری سے مجھے نہ بہلاؤ اور بتاؤ کیسی خوبصورتی کو اور کہاں تلاش کرنے جانا چاہتے ہو۔ وہیں ریڈ لائٹ ایریے میں جانا چاہتے ہو جہاں ایک رات پہلے گزار کر آئے ہو‘‘

’’لاحول ولا قوۃ! میں ریڈ لائٹ ایریے میں گیا تھا لیکن بٹ صاحب کے ریستوران میں وقت گزار کر واپس آ گیا تھا۔ شکر ہے کہ تم نیوز رپورٹر نہیں ہو ورنہ روزانہ شرفاء کی پگڑیاں اچھالتے رہتے‘‘ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا

اظہر نے کچھ اور کہنا چاہا لیکن میں اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے چل پڑا۔ کافی دیر تک ہم اس پر رونق علاقے میں گھومتے رہے۔ خوبصورتی سے سجی رنگا رنگ دکانیں، دنیا بھر سے آئے ہوئے بھانت بھانت کے سیاحوں کی ٹولیاں، ریستورانوں سے اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبو، دریا میں کشتیوں کی آمد و رفت اور سائیکل سواروں کی ٹولیوں کے مناظر ہمارے سامنے تھا۔ اتنے لوگ ہونے کے باوجود یہاں سکون ہی سکون محسوس ہو رہا تھا۔ نہ گاڑیوں کا شور اور نہ دکانوں پر بے ہنگم موسیقی۔ لوگ ایک دوسرے کے سامنے سے گزرتے تو مسکر اکر خیر سگالی کا اظہار کرتے تھے۔ اسی بازار میں گھومتے گھومتے ہم ایک گفٹ شاپ میں جا پہنچے۔




میں اظہر کی ماں ہوں





اس گفٹ شاپ کی مالک ایک بوڑھی ڈچ عورت مسز میری تھی۔ مسز میری نے جونہی اظہر کو دیکھا تو کاؤنٹرسے باہر نکل آئی۔ اظہر کو پکڑا اور چٹاخ پٹاخ دو بوسے اس کے گال پر داغ دیئے۔ اس کے بعد اس کا کان پکڑ کر ڈچ زبان میں پتہ نہیں کیا کہنا شروع کر دیا۔ کافی دیر تک کانوں کی کھنچائی اور نامانوس الفاظ کی بارش کے بعد اظہر کی جان چھوٹی۔ اس دوران وہ بھی ڈچ میں مسلسل کچھ بول رہا تھا۔ اس گفتگو کے دوران شاید اس نے بڑھیا سے میرا تعارف کرایا۔ بڑھیا نے مجھے بھی دو بوسوں سے نوازا۔ اس کے بعد وہ ہم دونوں کو پکڑ کر اندر لے گئی۔ کاؤنٹر کے پیچھے کافی کھلی جگہ تھی۔ جہاں ایک طرف میز اور چند کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف چھوٹا سا کچن بھی تھا۔ جہاں کافی وغیرہ بنانے اور ہلکا پھلکا کھانا پکانے کی گنجائش تھی۔ ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مجھے ابھی تک اظہر نے بڑھیا کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔ میں مسلسل اشاروں کنایوں میں اس سے پوچھ رہا تھا لیکن وہ حسبِ معمول مجھے زچ کر رہا تھا۔ اب بڑھیا کا روئے سخن میری طرف منتقل ہو گیا۔ وہ مجھے مخاطب کر کے کچھ کہہ رہی تھی جو ظاہر ہے ڈچ زبان میں ہونے کی وجہ سے میری سمجھ سے بالا تر تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اظہر دانستہ مجھے کانٹوں میں گھسیٹ رہا ہے۔ اس لئے میں نے خود ہی انگریزی میں کہا ’’آنٹی! میرا نام طارق مرزا ہے۔ میں اظہر کا دوست ہوں اور آسٹریلیا سے آیا ہوں۔ اس نالائق نے ابھی تک مجھے آپ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ آپ خود ہی اپنا تعارف کرا دیں۔‘‘

بڑھیا نے پھر اظہر کا کان پکڑ لیا۔ اسے ڈانٹنے کے انداز میں کچھ کہا جس کے جواب میں اظہر بتیسی دکھاتا رہا۔ اظہر کا کان چھوڑنے کے بعد بڑھیا نے ٹوٹی پھوٹی سی انگریزی میں کہا ’’یہ اظہر بہت شرارتی ہے۔ یہ اسی طرح مجھے بھی تنگ کرتا رہتا ہے۔ ویسے میر انام مسز میری ہے اور میں اظہر کی ماں ہوں۔ لیکن اسے میری ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے۔ آج ایک ہفتے کے بعد اس نے شکل دکھائی ہے۔ کسی دن بیمار پڑ کر مر گئی تو اسے پتا بھی نہیں چلے گا۔ بہت لا پرواہ ہے۔ اسے علم ہے کہ میں اس کی راہ دیکھتی رہتی ہوں لیکن آج کل کے نوجوانوں کو بوڑھے ماں باپ کی کہاں فکر ہوتی ہے۔ ویسے تم بھلے آدمی لگتے ہو۔ اظہر کے دوست ہو تو میرے بھی بیٹے ہوئے نا! آج شام تم دونوں ڈنر میرے ساتھ کرو گے۔ میں ابھی دکان بند کرنے والی ہوں۔ اس کے بعد گھر چلیں گے، میں اور اظہر مل کر کھانا بنائیں گے اور تم سے آسٹریلیا کی باتیں سنیں گے‘‘

میں کچھ کہنے والا تھا کہ اظہر نے ڈچ میں پتھر کھڑکانے شروع کر دیئے۔ جسے سن کر مسز میری کے چہرے پر ملال کی ہلکی سی لہر پھیلتی چلی گئی۔ اظہر نے اٹھ کے اسے گلے لگا لیا۔ ماں بیٹے کی گفتگو تھوڑی دیر تک جاری رہی۔ صاف نظر آتا تھا کہ مسز میری ناراض ہے اور اظہر اُسے منانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بالآخر مسز میری کے چہرے پر پہلے کی طرح شفقت بھری مسکراہٹ واپس آ گئی۔ اس نے فریج میں رکھا ہوا کیک نکالا، اسے کاٹ کر دو پلیٹوں میں رکھا، مالٹے کا جوس دو گلاسوں میں انڈیلا اور دونوں چیزیں ہمارے سامنے لا کر رکھ دیں۔ اس مرتبہ اس نے اظہر کو نظر انداز کر کے میرے برابر نشست سنبھال لی۔

مسز میری کی انگریزی کمزور تھی لیکن اپنا مدعا پھر بھی ظاہر کر سکتی تھی۔ وہ مجھ سے اپنی دکان، آنجہانی شوہر اور اظہر کے بارے میں باتیں کرتی رہی۔ ساتھ ساتھ ہمیں زیادہ سے زیادہ کیک کھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مسز میری کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اکیلی عورت ہے۔ اس کے خاوند کا چھ سات برس قبل انتقال ہو گیا ہے۔ اس کی اپنی اولاد کوئی نہیں ہے۔ اظہر پہلے اس کے پڑوس میں رہتا تھا اور اکثر اس کے چھوٹے موٹے کام کر دیتا تھا۔ (شاید اسے بھی اپنی مرحوم ماں کی کمی محسوس ہوتی ہو گی)۔ اس طرح مسز میری اسے بیٹوں کی طرح پیار کرنے لگی۔ اب اظہر اُس مکان میں نہیں رہتا بلکہ اس علاقے سے ہی شفٹ ہو گیا تھا لیکن مسز میری سے اس کا رابطہ نہیں ٹوٹا تھا۔ اگر وہ اس کے گھر نہ جا سکے تو یہیں دکان پر آ کر مل لیتا تھا۔ ہفتے میں ایک دو ملاقاتیں ضرور ہو جاتی تھیں۔ مسز میری اظہر کو سگے بیٹے کی طرح چاہتی تھیں۔ اظہر کے جذبات بھی وہی تھے لیکن کاروباری جھمیلوں اور اب شادی کے بندھن میں بندھنے کی وجہ سے وہ پہلے جتنا وقت اُسے نہیں دے پاتا تھا۔ اسی بات پر مسز میری اس سے شاکی تھیں لیکن اس شکایت میں اپنائیت اور پیار کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔

مجھے اظہر جیسے لا اُبالی اور لا پرواہ شخص سے ایسے جذباتی اور حساس رشتے پالنے کی قطعاً توقع نہیں تھی۔ لیکن شاید میں نے اس کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا۔ بعض لوگ بظاہر کھردرے اور لا پرواہ نظر آتے ہیں لیکن وہ اندر سے کومل جذبوں سے معمور اورپیار کی خوشبو میں رچے بسے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پوری طرح سمجھنے کے لئے وقت اور تجربہ درکار ہوتا ہے۔ اس لئے کسی کے بارے میں بغیر جانچے اور پرکھے حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔

مسز میری ان لوگوں میں شامل تھی، جو ساری زندگی یورپی دنیا میں گزرتے ہیں لیکن انہیں ایشیائی تہذیب و تمدن اور رشتوں میں پیار اور احترام زیادہ پسند ہوتا ہے۔ مسز میری نے بتایا ’’میں اسی شہر میں پیدا ہوئی ہوں یہیں پلی بڑھی، جوان ہوئی، شادی کی، لوگوں سے دوستیاں کیں، رشتہ داروں سے میل جول رکھنے کی ہر کوشش کی۔ جہاں بھی رہی لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے اور حسبِ مقدور سب کے دکھ درد میں شریک ہوتی رہی لیکن آج عمر کے اس آخری حصے میں میں اسی شہر میں بالکل تنہا ہوں۔ کوئی رشتہ دار، کوئی دوست اتنا قریب نہیں کہ برے وقت میں اس کا سہارا محسوس ہو۔ ایسے لگتا ہے کہ میں اپنے ہی شہر میں اجنبی ہوں۔ یہ دکان بھی محض اس لئے چلا رہی ہوں کہ گھر بیٹھے تنہائی اور بوریت سے بچ سکوں۔ زندگی کا کوئی مقصد اور دلچسپی تو رہے جس کے سہارے عمر کے یہ آخری سال سکون سے گزار سکوں۔ جب میرا خاوند زندہ تھا تو یہ دکان گفٹ شاپ نہیں بلکہ کافی شاپ تھی اور بہت اچھا بزنس کر رہی تھی۔ خاوند کے گزر جانے کے بعد کافی شاپ چلانا میرے بس سے باہر تھا۔ اس لئے میں نے وہ بند کر کے یہ گفٹ شاپ کھول لی۔ اس میں اتنا زیادہ فائدہ نہیں بعض اوقات تو بہت کم بچت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس مارکیٹ میں بہت ساری اور بڑی بڑی گفٹ شاپس کھل چکی ہیں۔ لیکن میں اس میں بھی مطمئن ہوں۔ دکان اپنی ہونے کی وجہ سے کرایہ نہیں دینا پڑتا۔ بس ایک پارٹ ٹائم ملازمہ کی تنخواہ اور یوٹیلٹی بلز وغیرہ ادا کرنے پڑتے ہیں جو آسانی سے نکل آتے ہیں۔ میرا گھر بھی اپنا ہے اور خاوند کی زندگی میں بچت کی ہوئی کچھ رقم بھی بنک میں محفوظ ہے۔ دیکھا جائے تو مجھے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس دکان کے کرائے اور بنک میں جمع شدہ رقم کی مدد سے میں اپنا گزارہ آسانی سے کر سکتی ہوں۔ لیکن بات وہیں آ جاتی ہے کہ گھر میں فالتو پڑے رہنے سے بہتر ہے کہ کچھ ہاتھ پیر ہلا کر زندگی کو زیادہ با مقصد اور صحتمندانہ طریقے سے گزاروں‘‘

ایک گاہک سے نمٹنے کے بعد مسز میری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’اظہر اور اس کی فیملی پہلے میرے پڑوس میں آباد تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ ملنے اور ان کے گھروں کا رہن سہن دیکھ کر مجھے پاکستانی کلچر پر رشک آتا ہے۔ اب اظہر کو ہی لے لیجئے، یہ تین بھائی یہاں ایمسٹرڈم میں رہتے ہیں۔ تینوں شادی شدہ اور بال بچے دار ہیں۔ اپنا اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان باہمی محبت کا ایسا سلسلہ قائم ہے کہ کاروباری مصروفیات اور گھریلو ذمہ داریوں کے باوجود اکثر یہ اکھٹے نظر آتے ہیں۔ اکٹھے کھاتے ہیں، پیتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور بہت اچھا وقت گزا رتے ہیں۔ ان کی بیویاں اور بچے بھی آپس میں اسی طرح گھلے ملے ہوئے ہیں۔ یہ پورا خاندان ایک خوبصورت زنجیر میں بندھا نظر آتا ہے۔ اب ان کے والد بھی پاکستان سے یہاں آ گئے ہیں۔ ان کو جو احترام، محبت اور حسن سلوک یہ تینوں بھائی اور ان کے بیوی بچے دیتے ہیں وہ ہم یورپین لوگوں کے لئے ناقابلِ یقین سی بات ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ آپ لوگ کسی دوسری ہی دنیا سے آئے ہیں۔ یہاں یورپ میں ایشین ممالک کو اکثر پس ماندہ اور غیر مہذب سمجھا جاتا ہے لیکن جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کے مطابق تو یہ تہذیب پوری دنیا کے لئے قابلِ تقلید ہے۔ ہمارے ہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نوجوانی میں قدم رکھتے ہی والدین کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس ناپسندیدگی کی سب سے بڑی وجہ عمروں میں فرق ہوتا ہے۔ بڑی عمر کے کسی شخص کے ساتھ وہ ایک لمحہ بھی بتانے کے قائل نہیں ہوتے چاہے وہ ان کے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن میں نے اظہر کی آنکھوں میں ہمیشہ پیار اور احترام دیکھا ہے۔ میرے کام آ کر اسے خوشی ہوتی ہے۔ فالتو وقت ہو تو اپنے دوستوں اور کلبوں میں گزارنے کی بجائے یہ میرے پاس گزارتا ہے۔ میرے گھر کے باغیچے کی باغبانی کرتا ہے۔ میری گاڑی کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ حتیٰ کہ کچن میں آ کر میرا ہاتھ بٹاتا ہے۔ یہ مثال شاید پورے یورپ کے کسی جوان میں نہیں ملے گی۔ اظہر کے اس حسنِ سلوک، پیار اور احترام کے جذبے کو دیکھ کر اور ان کی فیملی کا رہن سہن دیکھ کر کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں بھی پاکستان میں پیدا ہوئی ہوتی۔ میری بھی ایسی ہی فیملی ہوتی، میرا گھر، میرے بیٹے، بیٹیوں، پوتے، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں سے بھرا ہوتا۔ سب میرے ساتھ گھلے ملے ہوتے اور میں سب سے پیار کرتی۔ ہمارے گھر میں ویرانی اور خاموشی کے بجائے خوشیوں کے قہقہے لگتے۔ ہنسنے کھیلنے کی آوازیں آتیں اور باہمی پیار و محبت کی خوشبو سے میرا آنگن مہکا ہوتا۔ کاش ایسا ہوتا‘‘

گفتگو کے اس حصے پر آ کر مسز میری کی آواز گلو گیر ہو گئی اور ان کے شفیق چہرے پر جذبات کی سرخی اُمنڈ آئی۔ چند لمحوں بعد بعد ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اُن کے دکھوں، غمِ تنہائی اور سوز دل نے ہمیں بھی آبدیدہ کر دیا۔ ایک مرتبہ پھر اظہر اٹھا اور مسز میری کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ وہ ڈچ زبان میں کچھ شگفتہ باتیں کر کے انہیں نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ مسز میری نے بھی سنبھلنے میں دیر نہیں لگائی۔ انہوں نے مجھ سے اپنے جذباتی باتوں پر معذرت کی۔ ہم تھوڑی دیر مزید وہاں ٹھہرے پھر مسز میری سے اجازت لے کر واپسی کے لئے چل پڑے۔

باہر نکلے تو اظہر نے کہا ’’اب گھر چلنا چاہیے، سب لوگ کھانے پر انتظار کر رہے ہوں گے‘‘

میں نے اثبات میں جواب دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم اظہر کے گھر کے لئے روانہ ہو چکے تھے۔

اظہر کے گھر میں اس دن اس کی پوری فیملی جمع تھی۔ اس کے بھائی سعید کے علاوہ چا چا علی محمد، دوسرا بھائی مسعود، کزن افتخار سبھی ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ مسعود اور افتخار سے ہالینڈ میں یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ بہت تپاک سے ملے۔ اس پوری فیملی کی خاص بات یہ تھی کہ برسوں سے یورپ کے اس بڑے اور مصروف شہر میں رہنے اور اچھی طرح سیٹل ہونے کے باوجود ان میں پنجاب کا دیہی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ ان کی سوچوں اور خیالات کا مرکز اور موضوع گفتگو اپنا گاؤں اور اپنا ملک ہی رہتا تھا۔ ان کی زبان اور تہذیب پر مغربی تہذیب کا ذرہ برابر اثر نہیں پڑا تھا۔ ان کے گھروں کا رہن سہن اور طرزِ معاشرت مکمل طور پر پاکستانی تھا۔ گویا گھر سے باہر تلاش رزق کے لئے وہ کچھ بھی کرتے ہوں لیکن گھر آ کر وہ پکے اور کھرے پاکستانی کے اصل لبادے میں لوٹ آتے تھے۔ اظہر کے گھر میں اس رات کھانا کھاتے اور گپ شپ لگاتے محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم یورپ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے لگتا تھا کہ گاؤں کی کسی بیٹھک میں بیٹھے ہوں۔ کافی دنوں کے بعد ایساماحول ملا تو مجھے بھی بہت اچھا لگا۔ نت نئے لوگوں اور نت نئی زبانوں کے تجربوں سے گزرتے گزرتے کچھ اکتا سا گیا تھا۔ اب واپس اپنے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر، اپنی زبان میں، اپنے لوگوں کی باتیں کر کے جیسے دل میں ٹھنڈک سی محسوس ہونے لگی۔ دل و دماغ میں تازگی اور فرحت کا احساس ہونے لگا۔ آدھی رات کے بعد تک خورد و نوش اور خوش گپیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد میرے کہنے پر اظہر مجھے ہوٹل چھوڑ گیا۔




اُس کا چہرہ آنسوؤں میں بھیگنے لگا





ایمسٹرڈم میں ہمارا ایک دن کا قیام باقی تھا۔ اس کے بعد ہمارا واپسی کا سفر شروع ہو رہا تھا۔ ہمارا گروپ لندن سے روانہ ہوا تھا اور وہیں ہمارے سفر کا اختتام تھا۔ ایمسٹرڈم سے لندن واپسی کے سفر میں ہمارا کہیں قیام نہیں تھا۔ بلکہ اسی دن لندن پہنچ کر گروپ کے سب لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جانا تھا۔ ہمارے گروپ میں ایک جولی ہی تھی جو لندن میں رہتی تھی۔ باقی سب سیاحوں کا تعلق یورپ سے باہر کے براعظموں سے تھا۔ در حقیقت باقی تمام سیاحوں کا تعلق آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ساؤتھ افریقہ، امریکہ اور کینیڈا سے تھا۔ اس میں ہم چند ایشیائی بھی شامل تھے جس میں میرا قیام آسٹریلیا میں تھا۔ دوسری دو بھارتی نژاد فیملیوں کا تعلق امریکہ سے تھا۔

پچھلے دو ہفتے اکھٹے گزارنے کے بعد ہم ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہونے والے تھے۔ سفر کے ابتدائی اور زیادہ تر حصے میں جولی میرے ساتھ بہت زیادہ بے تکلف ہو چکی تھی۔ میرے ہنسی مذاق کو اس نے سنجیدہ لے لیا تھا جبکہ میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے میں اس سے دانستہ کھنچا کھنچا رہنے لگا۔ کچھ اس وجہ سے اور کچھ مولی کی وجہ سے جولی مجھ سے با قاعدہ ناراض ہو گئی۔ پچھلے دو دن سے اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اب جبکہ ہمارے سفر کا صرف ایک دن باقی تھا تو میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ جولی کی ناراضگی پر اختتام پذیر ہو۔ اس لئے اس رات اظہر کے گھر سے واپسی کے بعد اپنے کمرے میں جانے سے پہلے میں نے جولی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

اس وقت رات کے ڈیڑھ بجے تھے۔ اس پورے سفر میں میرے ہمسفروں کا ایک خاص گروپ روزانہ رات کو بہت دیر سے سوتا تھا۔ جولی بھی ان میں سے ایک تھی۔ علاوہ ازیں ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی تو تھی کہ اسے سوتے سے اٹھا سکوں۔ اس لئے میں نے بلا جھجھک دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ حسبِ توقع جولی نے دروازہ کھولنے میں تاخیر نہیں کی۔ اگلی بات خلافِ توقع تھی۔ وہ دروازے کے سامنے کھڑی ہو گئی اور بولی ’’کیا بات ہے۔ کچھ کام ہے کیا؟‘‘

اس کے انداز میں ناراضگی نمایاں تھی۔ میں نے کہا ’’ہاں کام ہے۔ اسی لئے تو رات کے اِس وقت تمھارے پاس آیا ہوں‘‘

اس نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر کہا ’’لیکن مجھے نیند آ رہی ہے۔ میں سونا چاہتی ہوں‘‘

’’آج تمہیں اتنی جلدی نیند کیسے آ گئی۔ پہلے تو نیند کی پرواہ نہیں کرتی تھیں۔ بہر حال مجھے اندر آنے دو۔ میں تمھارا زیادہ وقت نہیں لوں گا‘‘

جولی کے رویے اور انداز میں ذرہ بھی تبدیلی نہیں آئی ’’آج میں کچھ زیادہ تھکی ہوئی ہوں۔ جو بات کرنی ہے صبح کر لینا‘‘

میں جھنجلا گیا لیکن اپنے آپ کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا ’’کم آن جولی! دوستوں سے اس طرح ناراض نہیں ہوتے۔ میں اس خوشگوار سفر کا اختتام تمھاری ناراضگی کی حالت میں نہیں چاہتا، اس لئے چند باتیں کرنے آیا ہوں‘‘

جولی اس مرتبہ کافی دیر تک مجھے دیکھتی رہی اور پھر دروازہ کھلا چھوڑ کر واپس اندر چل دی۔ میں اس کے پیچھے پیچھے اس کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ اس نے میری طرف جیسے دیکھا ہی نہیں جا کر بستر پر بیٹھ گئی۔ میں اس کے بستر کے ساتھ لگے صوفے پر جا بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک ہم دونوں خاموش رہے۔ جولی اپنے بستر پر بیٹھی سامنے والی دیوار کو گھورتی رہی اور میں اُسے۔ بالآخر میں نے کہا ’’اپنے مہمان کو کافی نہیں پلاؤ گی‘‘

جولی نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر کہا ’’اس نے تمھیں کافی نہیں پلائی جس کے ساتھ رات گزار کر آئے ہو‘‘

’’کم آن جولی! معلوم نہیں تم کیا بات کر رہی ہو! میں اپنے ایک پاکستانی دوست کے گھر تھا۔ وہیں سے آ رہا ہوں‘‘

’’میں پہلے ہی بہت بے وقوف بن چکی ہوں، اب تمھاری باتوں پر یقین نہیں کروں گی۔ پچھلے دو دن تم نے مولی کے ساتھ گزارے ہیں۔ تم اتنی جلد بدل جاؤ گے مجھے یقین نہیں آتا۔ یہ میری بے وقوفی تھی کہ تمھاری باتوں میں آ گئی‘‘

’’جولی آخر تم کہنا کیا چاہتی ہو! میں نے تمھیں کبھی بے وقوف بنانے کی کوشش نہیں کی۔ میں تو محض اس تفریحی سفر کو خوشگوار انداز میں گزارنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ اس لئے سبھی ساتھیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہتا تھا‘‘

’’تو یہ سب مذاق تھا؟‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں ڈبڈبائی نظر آ رہی تھیں۔

’’جولی ہم سب مسافر ہیں۔ کوئی کس ملک سے آیا ہے اور کوئی کس سے۔ پرسوں سب نے ہمیشہ کے لئے الگ ہو جانا ہے۔ پھر شاید ہی زندگی میں ایک دوسرے سے مل پائیں۔ مسافروں کی دوستیاں ہمیشہ عارضی ہوتی ہیں۔ پھر بھی ہم نے اکھٹے بہت اچھا وقت گزارا ہے۔ اگر میری کسی بات یا عمل سے تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے یا نادانستگی میں تمھاری دلآزاری ہوئی ہے تو میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ لیکن میری نیت پر شک نہ کرو۔ میں تمھیں ایک اچھی دوست کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم بھی ہنسی خوشی مجھے الوداع کرو۔ تم خود ہی سوچو اس سفر کا اختتام تو ایک دن ہونا تھا۔ اس کے بعد ہم سب نے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جانا ہے‘‘

جولی کی غزالی آنکھوں میں رُکے موتی اس کے رخساروں پر ڈھلک آئے۔ اس کا سرخ و سپید حسین چہرہ آنسوؤں میں بھیگنے لگا۔ وہ بستر پر بیٹھی بیٹھی پہلے آنسوؤں سے اور پھر ہچکیوں سے رونے لگی۔ میں اس خلافِ توقع سچوایشن کے لئے تیار نہیں تھا۔ جولی جیسی کھلنڈری لڑکی سے مجھے اتنی زیادہ سنجیدگی کی توقع نہیں تھی۔ اس صورتِ حال میں مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرا رد عمل کیا ہونا چاہییے۔ جولی کے معاملے میں میراکوئی قصور نہیں تھا۔ ہمدردی کے چند بولوں اور ہنسی مذاق کے علاوہ میں نے اُس سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو۔ تاہم اس کے گھر یلو حالات ایسے تھے کہ وہ کٹی پتنگ کی طرح پہلے ہی ادھر اُدھر ڈول رہی تھی۔ میں نے اس کی طرف محض دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا، وہ نہ جانے کیا سمجھ بیٹھی تھی۔

آسٹریلیا کی بظاہر بہت تیز طرار نظر آنے والی لیکن در اصل اس بھولی بھالی لڑکی کے سامنے کوئی واضح مستقبل نہیں تھا۔ اس لئے وہ عارضی سہاروں پر تکیہ کرنے لگی تھی۔ اپنے ملک میں اس کے ساتھ نا خوشگوار واقعات پیش آئے تو وہ سکون اور اچھے ساتھی کی تلاش میں دنیا کے دوسرے سرے پر واقع یورپ کے سب سے بڑے شہر لندن میں پہنچ گئی۔ مگر وہاں بھی اسے تلخ تجربوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ شاید اسی غم کو غلط کرنے کے لئے وہ اس سفر پر نکلی تھی۔ یہاں بھی اس کی جلد باز طبیعت نے خود ہی فیصلے کئے اور خود ہی پچھتاوے کی آگ میں سلگنے لگی۔ مجھے غم اس بات کا تھا کہ وہ پہلے ہی ٹوٹی ہوئی تھی اور یہ نیا دھچکا اُسے میری ذات سے ملا تھا۔ میں جو سب کو خوش رکھنے کے چکر میں گھن چکر بنا رہتا تھاکسی کا دل ٹوٹنے کا باعث بن گیا تھا۔

میں کافی دیر تک اُسے سمجھاتا رہا۔ میری باتوں سے بظاہر وہ کچھ پر سکون ہو گئی۔

بعد میں اپنے کمرے میں آ کر سونے کی تیاری کرنے لگا۔ جولی کی وجہ سے میں پریشان ہو گیا تھا۔ اسی وجہ سے کافی دیر تک سو بھی نہیں سکا۔ صرف ایک بات مثبت تھی کہ جولی جتنی جلدی کسی سے رشتہ استوار کرتی تھی اتنی جلدی اسے توڑ بھی دیتی تھی۔ میں امید کر سکتا تھا کہ جلد اُسے کوئی اچھا ہمسفر مل جائے اور وہ پرانے دکھ بھلا کر خوشیوں کے نئے سفر پر چل پڑے۔ کافی دیر تک کروٹیں بدلنے کے بعد بالآخر نیند کی دیوی مجھ پر مہربان ہو گئی۔

آج ایمسٹرڈم میں ہمارا آخری دن تھا۔ رات بہت دیر سے سونے کے باوجود میں صبح دس بجے تیار ہو کر نکل پڑا۔ آج میری منزل ایمسٹرڈم کا سب سے بڑا میوزیم رجکس تھا۔ اس ہوٹل میں لنچ اور ڈنر تو نہیں لیکن ناشتہ مفت تھا۔ دوسرے لفظوں میں ناشتے کے لئے رقم ہوٹل کے کرائے میں شامل تھی۔ ناشتے کا وقت دس بجے تک تھا۔ دس بجے کے بعد ریسٹورنٹ بند ہو جاتا تھا اور عملہ لنچ کی تیاری کرنے لگتا تھا۔ میں جب ریسٹورنٹ میں پہنچا تو دس بجنے میں دو تین منٹ باقی تھے۔ ہمارے گروپ کے زیادہ تر لوگ ناشتے سے فارغ ہو چکے تھے۔ خلافِ توقع جولی بھی ان میں شامل تھی۔ حالانکہ وہ بھی بہت دیر سے سوئی تھی۔ مگر صبح سویرے اٹھ کر ناشتے سے فارغ ہو چکی تھی۔ گروپ کے سبھی ساتھیوں سے ہیلو ہائے ہوئی۔ وہ اپنے اپنے پروگرام کے مطابق گھومنے پھرنے نکل پڑے۔ جولی نے مجھے دیکھا تو کمرے میں جانے کی بجائے واپس میری میز پر آ بیٹھی۔ رات کے واقعے کے آثار اس کے چہرے پر نظر نہیں آ رہے تھے جو میرے لئے اطمینان بخش امر تھا۔ میں نے پوچھا ’’کچھ لو گی؟‘‘

’’ناشتہ تو میں کر چکی ہوں، تمھارا ساتھ دینے کے لئے کافی لے لیتی ہوں‘‘

میں نے میز پر رکھے کافی پاٹ سے کپ میں کافی انڈیلی۔ ایک چمچ چینی ڈالی اور تھوڑا سا دودھ ملا کر کپ اس کے آگے رکھ دیا۔ اس وقت ریستوران میں ہمارے علاوہ دوسرا کوئی مہمان نہیں تھا۔ صرف سٹاف تھا، جو ہمارے جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے جلدی جلدی سینڈوچ بنایا اور کافی کے گھونٹ لے کر اسے حلق میں اتارنے کی کوشش کرنے لگا۔ ناشتے کے دوران ہمارے درمیان خاموشی رہی۔ میں جب ناشتے سے فارغ ہو گیا اور سگریٹ سلگا کر کافی کی چسکیاں اور سگریٹ کے کش لینے لگا تو جولی نے آہستہ سے کہا ’’سوری طارق! مجھے اپنی گزشتہ رات والی باتوں پر شرمندگی ہے‘‘

تھوڑے وقفے کے بعد بولی ’’تم بالکل صحیح کہہ رہے تھے۔ ہم سب مسافر ہیں اور جلدی بچھڑ جائیں گے۔ ایسے میں کسی عارضی ہم سفر سے ایسی توقعات باندھنا سوائے نادانی کے کچھ نہیں۔ یہ محض میری نادانی اور جلد بازی تھی۔ اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے۔ تمھارے ساتھ ناراض ہونا بالکل غلط تھا۔ اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ رات میں نے پی ہوئی تھی، اس لئے جو منہ میں آیا کہتی چلی گئی۔ امید ہے کہ تم نے میری باتوں کا برا نہیں منایا ہو گا‘‘

’’ہرگز نہیں‘‘ میں نے جولی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’ہم دوست ہیں اور دوستوں میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ ایک دوسرے سے توقعات باندھنا اور بعض توقعات کا پورا نہ ہونا، یہ سب چلتا رہتا ہے۔ دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور رنجشوں سے درگزر کیا جائے۔ میں نے تمھاری باتوں کا بالکل برا نہیں منایا بلکہ مجھے خود اس بات کا دکھ ہے کہ میری ذات تمھاری دلآزاری کا باعث بنی‘‘

’’نہیں اس میں تمھارا قصور ہرگز نہیں ہے۔ میرے حالات ہی ایسے ہیں کہ عارضی سہاروں پر تکیہ کرنے لگ جاتی ہوں۔ مجھے اب احساس ہو گیا ہے کہ یہ طریقہ غلط ہے۔ رشتے اتنی جلدی اور یکطرفہ نہیں بنتے۔ اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ میری طبیعت میں جلد بازی بہت زیادہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مجھے ٹھنڈے دل سے اپنے حالات کا ماضی اور حال کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد مستقل کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کروں گی۔ مجھے ابھی یہ تک معلوم نہیں ہے کہ میرا مستقبل کیا اور کہاں ہے۔ جس مقصد کے لئے آسٹریلیا چھوڑا تھا وہ ختم ہو چکا ہے۔ اگرچہ لندن میرا پسندیدہ شہر ہے لیکن یہاں میرا کوئی مستقبل نہیں۔ کوئی اپنا نہیں ہے۔ اپنے آبائی وطن سے ہزاروں میل دور اس ملک میں نہ جانے کب تک اکیلی پڑی رہوں گی۔ مجھے سوچنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے۔ آج سے قبل کبھی میں نے ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے مستقبل کے بارے میں غور نہیں کیا۔ لیکن اب کروں گی۔ لائف پارٹنر کے بارے میں بھی جو جلد بازی پہلے کرتی آئی ہوں، اب ایسا نہیں ہو گا۔ اب مناسب وقت اور مناسب شخص کا انتظار کروں گی۔ شاید یہی مجھے کرنا چاہیے‘‘

جولی کی طویل بات کا میں نے مختصر جواب دیا ’’یہی مناسب ہے‘‘ پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’مجھے تمھاری باتیں سن کر خوشی ہو رہی ہے۔ تم اگر سنجیدگی اور تحمل سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرو تو وہی درست فیصلہ ہو گا۔ یہ امر میرے لئے باعثِ اطمینان و مسرت ہے کہ میری طرف سے تمھارا دل صاف ہے اور تمھارے دل میں میرے لئے کوئی رنجش باقی نہیں ہے۔ ہم پہلے کی طرح اچھے دوست ہیں اور رہیں گے۔‘‘

’’آف کورس‘‘جولی نے کہا ’’میں تم جیسے اچھے دوست کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ تم نے میری سوچ بدل کر میرے اندر خود اعتمادی اور قوت فیصلہ پیدا کرنے میں مدد کی ہے‘‘

میں نے اٹھتے ہوئے کہا ’’اب چلنا چاہیے۔ میرا دوست انتظار کر رہا ہو گا‘‘

جولی نے کہا ’’ہاں ضرور! میں ابھی تو کمرے میں جا رہی ہوں۔ رات کو نیند پوری نہیں ہوئی اس لئے تھوڑا آرام کروں گی۔ سہ پہر کو باہر نکلوں گی‘‘




ان ہاتھوں اور دماغوں پر رشک اور حیرت ہوتی ہے





جولی سے الگ ہو کر میں ہوٹل سے باہر نکلنے لگا تو استقبالیہ کلرک لڑکی نے ’’ایکسکیوز می سر‘‘ کہہ کر میرے بڑھتے قدموں کو روک دیا۔ میں واپس استقبالیہ کاؤنٹر کے پاس گیا اور اس فربہی مائل خوبصورت ڈچ لڑکی سے کہا ’’جی کہیے‘‘

’’سر! آپ کے لئے میسج ہے۔ آپ کی گائیڈ مولی نے صبح فون کیا تھا۔ انہوں نے یہ فون نمبر دیا ہے اور آپ کو رِنگ بیک کرنے کے لئے کہا ہے‘‘

میں نے اس سے فون نمبر لیا اور اس کا شکریہ ادا کر کے باہر آ گیا۔ جولی سے میں نے کہا تھا کہ میرا دوست انتظار کر رہا ہے۔ حالانکہ اظہر سے میرا شام کا وقت طے تھا۔ اس صبح میں اکیلا میوزیم جانا چاہتا تھا۔ جولی سے بمشکل معاملہ نمٹ پایا تھا۔ دوبارہ اس کے ساتھ دن گزارنا مناسب نہیں تھا۔ ان حالات میں احتیاط لازمی تھی۔ ورنہ جولی کو دوبارہ جذباتی پن کا دورہ پڑ سکتا تھا۔ جولی سے تو معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ گیا تھا۔ لیکن اس کی ہم قافیہ مولی سے کل سے بات نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اس کی دعوت کا شکریہ بھی ادا کرنا تھا۔ لیکن کل اظہر کے ساتھ اتنا مصروف رہا کہ وقت ہی نہیں مل سکا تھا۔ اب فون نمبر بھی مل گیا تھا اور مولی کا پیغام بھی۔ اب فون نہ کرنا بد اخلاقی تھی اور کسی حسینہ سے بد اخلاقی کا میں ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے جیب سے سکے نکالے اور ہوٹل کے باہر موجود پبلک فون سے مولی کا نمبر ملانے لگا۔ دو گھنٹیوں کے بعد ہی مولی نے فون اٹھا لیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد حسب توقع اس نے گلہ کیا ’’اس دن ہم نے اکٹھے اتنی اچھی شام گزاری لیکن اس کے بعد تم نے فون تک نہیں کیا۔ لگتا ہے وہ شام تمھیں اتنی پسند نہیں آئی‘‘

’’نہیں! یہ بات نہیں مولی! اُس شام کا خمار تو ابھی تک نہیں اُترا۔ وہ میری زندگی کی یادگار شاموں میں سے ایک تھی۔ اسے کیسے بھول سکتا ہوں۔ تاہم کل کا سارا دن ایک دوست کے ساتھ مصروفیت میں گزرا اس لئے تمھیں فون نہیں کر سکا‘‘

’’تو پھر آج کی شام کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ویسے بھی یہ تمھارے ٹور کی آخری شام ہے۔ کل کے بعد معلوم نہیں ہماری ملاقات کبھی ہو سکے گی یا نہیں۔ اگر تم فارغ ہو تو میں تمھیں گھمانے کے لئے کسی دوسری جگہ لے جا سکتی ہوں‘‘

میرے تصور میں مولی کے ساتھ گزری اس شام کا ہر لمحہ فلم کی طرح چلنے لگا۔ مولی نے اس دن مہمان نوازی کی حد کر دی تھی۔ دوسرے تمام سیاحوں کو نظر انداز کر کے اس نے میرے اوپر جو خصوصی مہربانی کی تھی وہ نہ صرف اس کے لئے نئی بات تھی بلکہ میرے لئے بھی سرپرائز تھا۔ مولی کے ساتھ گزری اُس شام کا خمار واقعی میرے دل و دماغ میں اب تک چھایا ہوا تھا۔ لیکن آج شام کے کھانے کی دعوت گل خان نے دی ہوئی تھی۔ اس مصروف کاروباری پاکستانی نے جس محبت اور خلوص سے بلایا تھا، میں اسے ٹھکرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ ویسے بھی وعدہ کر کے پیچھے ہٹنے کا میں قائل نہیں۔ حتی الامکان وقت کی پابندی کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ آسٹریلیا میں رہ کر کچھ اور سیکھا ہو یا نہیں، مقامی لوگوں سے وقت کی پابندی ضرور سیکھی ہے۔ حالانکہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کی اکثریت پر آسٹریلین لوگوں کی اس اچھی عادت کا زیادہ اثر نہیں ہو سکا۔ آسٹریلیا میں ہونے والی پاکستانی تقریبات ہمیشہ مہمانوں کے دیر سے آنے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات آسٹریلیا کے وفاقی اور صوبائی وزراء آ کر انتظار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے لوگ وقت پر نہیں آ پاتے اور تقریب دیر سے شروع ہوتی ہے۔ ان وزراء، پارلیمنٹ کے ممبران اور دیگر آسڑیلوی مہمانوں پر پاکستانیوں کے متعلق منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اور شاید آیندہ بھی رہے گا۔ شاید ہماری اگلی نسل ہم سے بہتر رویہ اور انداز اپنا سکے۔

مولی کی آفر سے شروع ہونے والے خیالات کا سلسلہ میرے دماغ میں آگے سے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے میرے خیالات کی اس رو کو روک دیا۔ وہ پوچھ رہی تھی ’’کیا سوچنے لگ گئے۔ لگتا ہے تمھیں میرے ساتھ جانا پسند نہیں ہے؟‘‘

’’نہیں مولی! تمھارے ساتھ جانا میری دِلی تمنا ہے۔ میری سوچنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ کیونکہ تم نے جس محبت سے بلایا ہے میرا دل اور میری زبان دونوں انکار کرنے سے قاصر ہیں۔ مجبوری یہ ہے کہ آج شام کا ڈنر ایک پاکستانی دوست کے ساتھ طے ہے۔ مجھے اگر پہلے معلوم ہوتا کہ آج تم فارغ ہو اور مجھے وقت دے سکتی ہو تو میں اس دوست سے وعدہ نہیں کرتا۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں۔ کیونکہ اس کے ساتھ اتنی بے تکلفی نہیں ہے کہ اسے منع کر سکوں۔ دوسری طرف مجھے تمھارا خیال بھی آ رہا ہے کہ میری معذرت پر تم ناراض نہ ہو جاؤ‘‘

مولی نے کہا ’’اگر تم مصروف ہو تو میں ہرگز ناراض نہیں ہوں گی۔ میں نے تو یہ سوچ کر فون کیا تھا کہ تمھیں کوئی نئی جگہ دکھا سکوں‘‘

’’تمھاری بہت مہربانی مولی! کاش کہ میں فارغ ہوتا‘‘ میرا رویہ معذرت خواہانہ تھا

’’تم ڈنر سے کس وقت فارغ ہو گے؟ میں تمھیں وہاں سے پک کر سکتی ہوں۔ ہم کہیں بیٹھ کر کافی پی سکتے ہیں۔ ویسے ایمسٹرڈم میں رات میں جانے والی بھی کئی جگہیں ہیں‘‘

’’مولی مجھے بہت افسوس ہے لیکن میں تمھیں وقت نہیں بتا سکتا۔ کیونکہ ہم پاکستانیوں کے کھانے اکثر گھنٹوں طویل ہو جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں وہاں مہمان ہوں۔ کھانا شروع کرنے اور ختم کرنے کا اختیار میزبان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس لئے رات وہاں سے کسی وقت فارغ ہوں گا، اس کا مجھے ہر گز علم نہیں ہے۔ ورنہ تمھیں ضرور بتا دیتا۔ تا ہم میرے پاس تمہارا فون نمبر ہے۔ اگر میں جلدی فارغ ہو گیا تو تمہیں فون کر کے بتا دوں گا۔ اگر بہت دیر ہو گئی تو پھر کل صبح ملاقات ہو گی‘‘

’’بالکل ٹھیک ہے‘‘ مولی نے کہا ’’تم اگر کسی کے ساتھ جا رہے ہو تو ظاہر ہے وقت تمہارے کنٹرول میں نہیں ہو گا۔ میں تمہاری مجبوری کو سمجھتی ہوں۔ تمہارے ساتھ یہ شام نہ گزار کر مجھے مایوسی تو ہو گی لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ اگر جلدی فارغ ہو جاؤ تو مجھے فون ضرور کرنا۔ میں رات کو ویسے بھی دیر سے سوتی ہوں‘‘

’’ضرور! میں ایسا ہی کروں گا۔ اب مجھے اجازت دو۔ پھر بات ہو گی‘‘

مولی نے خدا حافظ کہا تو میری جان میں جان آئی۔ کسی حسینہ کی ایسی دعوت کو ٹھکرانا آسان نہیں ہے۔ پھر مولی جیسی عورت جو بہت سمجھدار اور ہوشیار بھی تھی، اس سے نمٹنا اور بھی مشکل مرحلہ تھا۔ خدا خدا کر کے میں اس معاملے سے بھی خوش اسلوبی سے نمٹنے میں کامیاب رہا تھا۔

ہالینڈ میں عموماً اور ایمسٹرڈم میں خصوصاً بے شمار میوزیم ہیں۔ کسی بھی سیاح کے لئے سب عجائب گھروں کی سیر تقریباً نا ممکن ہے۔ اس لئے سیاحوں کو اس بات کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ کس عجائب گھر کو دیکھیں اور کسے چھوڑیں۔ رِجکس ((Rijks ہالینڈ کا سب سے بڑا اور مشہور ترین میوزیم ہے۔ تقریباً ایک ملین افراد سالانہا س کی سیر کرتے ہیں۔ میں اس دورے میں اتنے سارے میوزیم دیکھ چکا تھا کہ اب ان سے اکتا سا گیا تھا۔ تاہم ایمسٹرڈم میں رہ کر میں رجکس کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ میں اپنے قیام کے آخری دن میں اس شہرۂ آفاق میوزیم جا پہنچا۔ حسبِ توقع وہاں سیاحوں کا بہت زیادہ رش تھا۔ ٹکٹ لینے کے لئے ایک لمبی قطار میں کھڑے ہو کر تقریباً آدھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ میوزیم کے اندر جانے کے لئے انتظامیہ نے سیاحوں کے دس دس افراد پر مشتمل گروپ بنا کر ہر گروپ کے ساتھ ایک گائیڈ کو مختص کیا ہوا تھا۔ ہماری گائیڈ پکی عمر کی ایک خوش گفتار خاتون تھی۔ اسے نہ صرف اس میوزیم کے نوادرات کے بارے میں مکمل معلومات تھیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر متعلقہ فن کے علم پر بھی عبور حاصل تھا۔

رجکس اپنی بڑی بڑی نمائشوں، سکالرشپ اور ریسرچ کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ میوزیم میں مشہور ڈچ پینٹرز ریمبرائٹ، ورمیر، فرینئر ہال، جان اسٹین اور بیرسٹر کے شہ پارے موجود ہیں۔ یہ پینٹنگز فنِ مصوری کے گراں قدر شہ پارے ہیں۔ ان مشہور فن کاروں کا فن ایک ایک تصویر میں بولتا نظر آ رہا تھا۔ سیاح جس پینٹنگ کو بھی دیکھتے عش عش کر اٹھتے۔ ان تصاویر میں زیادہ تر مناظر قدیم ڈچ تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ تصاویر اتنے پرانے دور کو زندہ کر رہی تھیں جب انسان جدید سہولتوں سے بہرہ ور نہیں ہوا تھا۔ جب بجلی کی روشنی، برقی پنکھے، برقی یاگیس کے چولہے، جدید دور کی کاریں اور رسل وسائل کے جدید وسائل نہیں تھے تو اس وقت اس خطے کے لوگ کیسی زندگی بسر کرتے تھے، ان تصاویر کو دیکھ کر اس کا خوب اندازہ ہوتا تھا۔ بعض پینٹنگز ایسی تھیں کہ انہیں دیکھتے دیکھتے انسان خود ماضی میں پہنچ جائے۔ وہ لالٹین کی روشنی، ہاتھ سے جھلنے والے پنکھوں اور لکڑیاں جلا کر حرارت حاصل کرنے والے لوگوں کو دیکھ کر خود کو اس منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ تہذیب رفتہ کو تصورات کے سہارے کینوس پر اس طرح منتقل کرنا کہ دیکھنے والا خود کو اس منظر کا حصہ محسوس کرنے لگے، ان فن کاروں کا کمال تھا۔ دوسرے لوگوں کے برعکس میرے لئے اس میوزیم کی بہت سی چیزیں عجیب نہیں تھیں بلکہ یہ چیزیں میں نے وطنِ عزیز میں استعمال کی ہوئی تھیں۔ مثلاً لالٹین، دستی پنکھے، لکڑی کے ایندھن سے گرم ہونے والے تنور، کنوئیں میں لٹکانے والے مشکیزے، ہاتھ سے چلنے والی آٹا پیسنے والی چکی اور ایسی ہی کئی اور چیزیں پاکستان میں اب بھی استعمال ہو رہی ہیں جو یورپ میں صرف عجائب گھروں میں ملتی ہیں۔

اس میوزیم میں ان مشہور و معروف مصوروں کی پینٹنگز کے علاوہ دیگر بہت سے پرانے اور نئے فن کاروں کے ہاتھ کے بنے فن کے رنگا رنگ نمونے آنکھوں کو خیرہ اور دماغ کو حیرت زدہ کرنے کے لئے موجود تھے۔ اس میں پتھر اور لکڑی کے بے شمار مجسمے، دیدہ زیب فرنیچر، پرانے زمانے کے ہتھیار، بحری جہازوں کے نمونے اور بدھا کے مجسمے اور معلوم نہیں کیا کچھ تھا۔ اس میوزیم میں آ کر انسان خود کو دنیا سے الگ اور فن کے سمندر میں ڈوبا محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایک ایک فن پارہ نظروں سے دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں نہ وہ لب پر آ سکتا ہے اور نہ قلم اس کا ا حاطہ کر سکتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ہر فن پارے کو دیکھتے چلے جائیں۔ انہیں دیکھ کر حیرت کا ایک سمندر دماغ میں موجیں لینے لگتا ہے۔ ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جنہوں نے یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے۔ بعض فن پارے تو ایسا حیرت انگیز فن پیش کرتے ہیں کہ بنانے والا انسان نہیں بلکہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق محسوس ہوتا ہے۔

عجائب گھر اسی لئے عجائب گھر کہلاتے ہیں کیونکہ یہاں فن کار ہاتھوں کا ناقابل یقین اور حیرت انگیز کام محفوظ ہوتا ہے۔ یہ فن کارعام لوگوں سے مختلف، انتہائی حساس اور غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ روز روز نہیں پیدا ہوتے۔

رجکس سے نکلا تو شام کے چار بج چکے تھے۔ باہر بہت سہانا موسم تھا۔ بادلوں کے ٹکڑے فضا میں تیرتے کبھی نزدیک آتے اور کبھی دور چلے جا رہے تھے۔ ہوا میں خنکی خوشگوار محسوس ہو رہی تھی۔ یورپ کے اس دورے میں مجھے وہاں کے موسم کی تغیر پذیری عجیب محسوس ہوئی۔ وہاں موسم کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ کبھی سورج پوری آب و تاب سے چمکتا نظر آتا۔ صرف منٹوں کے وقفے کے بعد یہ ایسے غائب ہو جاتا ہے جیسے رات ہو گئی ہو۔ لمحوں میں بادل گھنگور گھٹا بن کر چھا جاتے ہیں۔ بارش شروع ہوتی اور منٹوں میں ختم بھی ہو جاتی ہے۔ سورج پھر کہیں سے نمودار ہو کر ضیاء پاشی کرنے لگتا۔ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ والا موسم ہے۔ خوش قسمتی سے میرے دورے کے دوران زیادہ وقتموسم خشک رہا۔ بارش ہوتی بھی تھی تو تھوڑے سے وقفے کے لئے۔ وہ بھی اتنی نرم کہ اس کی پرواہ نہ ہو۔ درجہ حرارت خوشگوار ہونے کی وجہ سے بارش اتنی بری محسوس نہیں ہوتی تھی۔

ایمسٹرڈم شہر کے اس مرکزی حصے میں گھومتے گھومتے میں نے موسم کے کئی رنگ دیکھ ڈالے۔ اس دوران ایک برگر شاپ سے برگر لے کر پیٹ کی آگ بجھائی اور پھر چلتا ہی چلا گیا۔ مجھے اس علاقے کا علم تھا اور نہ اپنی منزل کا پتا۔ موسم کی خوش مزاجی، نظاروں کی فراوانی اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نظاروں کو نظروں میں سمونے کی ہوس مجھے کشاں کشاں لئے چلی جار ہی تھی۔ گھنٹوں چلنے کے بعد بھی تھکن کا احساس نہ تھا۔ یکایک مجھے وہ علاقہ کچھ مانوس سا محسوس ہوا۔ دریا، اس کے اوپر بنا پل، اس کے سامنے ریستوران اور آراستہ دکانیں، ایسے لگا کہ جیسے میں نے انہیں دیکھ رکھا ہو۔




جہاں دِل کی صدا لے جائے





میرے دماغ میں یکایک ایک روشنی سی چمکی۔ مجھے یاد آ گیا کہ یہ ایمسٹرڈم کا بدنام زمانہ سرخ روشنی والا علاقہ ہے۔

میں اپنے گروپ کے ساتھ یہاں پہلے بھی آ چکا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس دن ہم رات کے اندھیرے اور مصنوعی روشنیوں میں یہاں آئے تھے اور آج سورج ہم رکاب تھا۔ اس دن ہم نے صرف ایک آدھ گلی کا چکر لگایا تھا۔ آج پل پار کر کے میں کسی دوسری گلی میں چلا جار ہا تھا۔ گلی الگ تھی لیکن مناظر وہی تھے۔ دن کی روشنی میں بھی عریاں عورتیں شیشے کی دیواروں کے پیچھے کھڑی اشاروں سے دعوتِ گناہ دے رہی تھیں۔ گلی کے دونوں جانب فٹ پاتھوں کے ساتھ لگے شیشے کے شو کیسوں میں قدرتی لباس میں ملبوس یہ عورتیں فحش حرکتیں کرتیں گاہکوں کو لبھاتی اور پھسلاتی نظر آ رہی تھیں۔ اس پورے علاقے میں جہاں تک جاؤ، جہاں تک نظر دوڑاؤ، یہی مناظر نظر آ رہے تھے۔ اس بازار میں راتیں اور دن سب برا بر ہیں۔ گاہک بھی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ انہیں عیاشی کے مواقع فراہم کرنے والی بے شمارحسین و جمیل عورتیں بانہیں پھیلائے ہر وقت محوِ انتظار رہتی ہیں۔ میں اس بازار میں آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ ایک جیسے مناظر دیکھ دیکھ آنکھیں اکتا سی گئیں۔ اشاروں اور زبان سے دعوتِ عشرت دینے والی عورتوں سے بچتا بچاتا اور مولی کی ہدایت کے مطابق اپنے بٹوے کا خاص خیال رکھتا ہوا میں خاصا دور نکل آیا۔

در اصل اس بازار میں آتے ہی مجھے بٹ صاحب کے ریسٹورنٹ کا خیال آ گیا تھا۔ وہ یہیں کہیں واقع تھا۔ میں نے سوچا کہ آج ایمسٹرڈم میں اپنے قیام کے آخری دن بٹ صاحب اور اگر ممکن ہو تو ان کے دوستوں سے بھی ملاقات کرتا چلوں۔ میرے پاس وقت بھی تھا اور دل بھی چاہ رہا تھا کہ ان بھولے بھالے اور پر خلوص پاکستانیوں کو آخری دفعہ مل لوں۔ پھر شاید زندگی میں کبھی ملاقات ہو یا نہ ہو۔ لیکن اس بازار میں خاصا گھومنے کے بعد بھی بٹ صاحب کا ریسٹورنٹ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ کئی گھنٹے چلنے کے بعد اب تھکن محسوس ہونے لگی تھی۔ یہ تھکاوٹ اس وجہ سے بھی محسوس ہونے لگی تھی کہ میں جن کی تلاش میں تھا اُن کا اتا پتا نہیں مل رہا تھا۔ میرے پاس بٹ صاحب کا فون نمبر بھی نہیں تھا ورنہ کہیں سے اُنہیں فون کر لیتا۔

اچانک میری نظر گھڑی کی طرف اُٹھی۔ ساڑھے سات بج چکے تھے۔ سات بجے اظہر نے مجھے ہوٹل سے پک کرنا تھا۔ وہاں سے ہم نے کسی ریستوران میں جانا تھا جہاں گل خان کے ساتھ ڈنر تھا۔ میں تشویش میں مبتلا ہو گیا۔ میرا ہوٹل یہاں سے خاصا دُور تھا اور راستے کا بھی علم نہیں تھا۔ میں پہلے ہی لیٹ ہو چکا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اظہر ہوٹل میں میرا انتظار کر رہا ہو گا۔ اظہر کا موبائل نمبر میرے پاس موجود تھا۔ میں نے ٹیکسی لے کر ہوٹل جانے کے بجائے اظہر کو فون کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ مجھے یہاں سے بھی پِک کر سکتا تھا۔

اظہر نے فوراً ہی فون اٹینڈ کیا۔ میری آواز سنتے ہی گرجتے ہوئے بولا ’’کہاں ہو تم؟ میں آدھے گھنٹے سے یہاں ہوٹل میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں‘‘

’’میں وہاں ہوں جہاں مجھ کو میری خبر نہیں‘‘

’’پہلیاں نہیں بجھواؤ اور بتاؤ کہاں ہو۔ وہاں گل خان ہمارا انتظار کر رہا ہو گا‘‘

میں نے معصومیت سے کہا۔ ’’میں سچ کہہ رہا ہوں! مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں ہوں۔ وہ تم نے فرازؔ صاحب کا شعر نہیں سنا؟

دشتِ غربت میں تمھیں کون پکارے گا فرازؔ

چل پڑو خود ہی جدھر دِل کی صدا لے جائے

مجھے علم تھا کہ اظہر کا پارہ چڑھ رہا ہو گا۔ وہی ہوا، وہ پھٹ پڑا ’’مجھے معلوم ہے تم کہاں ہو۔ تم جہنم میں ہو گے کیونکہ وہی تمھارا دائمی ٹھکانہ ہے۔ اب بتاؤ گے یا مار کھاؤ گے‘‘

’’دیکھ لو! تمہاری سنگت کی وجہ سے کہاں جانا پڑ گیا۔ ویسے یہ جگہ جہنم کی نشانیوں پر پوری نہیں اترتی۔ کیونکہ یہاں تو ہر جانب خوبصورت حوریں ہیں۔ اچھے اچھے پکوانوں کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ ہشاش بشاش ہیں اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں جسم و جاں کو فرحت پہنچا رہی ہیں۔ جہنم کی یہ نشانیاں تو ہرگز نہیں بتائی گئی تھیں۔ یہاں تو معاملہ اس کے برعکس محسوس ہو رہا ہے‘‘

میں آج اظہر کو چڑانے پر تلا ہوا تھا۔ وہ بھی سمجھ گیا کہ غصہ کرنے سے معاملہ سدھرے گا نہیں۔ اس لئے قدرے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے بولا ’’طارق! مذاق بند کرو۔ گل خان مصروف آدمی ہے۔ اُسے اس طرح انتظار کرا نا مناسب نہیں ہے۔ جلدی سے بتا دو کہاں ہو۔ اگر ہوٹل سے دور ہو تو بھی جگہ بتاؤ، میں وہیں سے پِک کر لیتا ہوں۔‘‘

’’یار! میری بات تمھیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔ جگہ کا ہی تو مجھے علم نہیں ہے۔ ہاں علاقہ تمھارا پسندیدہ ہے اور منظر تمھارے من پسند ہیں۔ ہر جانب حسینائیں راہوں میں آنکھیں بچھائے اور جسموں کو قدرتی لباس سے سجائے ہر خاص و عام کو دعوتِ نظارہ دے رہی ہیں۔ اس منظر میں بس ایک ہی کمی ہے کہ تم یہاں نہیں ہو۔ اور سب سے غلط بات یہ ہے کہ ایک شریف آدمی بھٹکتا بھٹکتا یہاں آ گیا ہے جسے واپسی کے راستے کا بھی علم نہیں ہے‘‘

’’او! شرافت کے ازلی دشمن! تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور دن کے اُجالے میں بھی وہاں پہنچ گئے۔ شرافت نام کی کوئی چیز ہے تمھارے اندر یا آسٹریلیا سے روانہ ہوتے وقت وہیں چھوڑ آئے تھے‘‘ اظہر کو موقع مل گیا تھا۔

میں نے کہا ’’ایک اجنبی ملک میں ایک اجنبی مسافر راستہ بھٹک کر کہیں پہنچ جاتا ہے تو اس کی شرافت پر شک نہیں کرنے لگتے بلکہ اس کی مدد کرتے ہیں‘‘

’’مدد تو میں تمھاری ایسی کروں گا کہ تم یاد رکھو گے۔ ایک دفعہ مجھے وہاں آ لینے دو۔ تمھیں ریستوران کے بجائے گھرا با جی کے پاس لے کر جاؤں گا۔ تمھاری وہ دُرگت بنواؤں گا کہ ساری شرافت ناک کے راستے باہر آ جائے گی۔ غضب خدا کا! ایک شریف خاندان کے لڑکے ہو کر یہاں کیا گل کھلا رہے ہو‘‘

’’کون سے گل کا ذکر کر رہے ہو؟ اپنے دوست کا، جس کے ساتھ ڈنر کرنا ہے۔ اس کو میں نے کیا کھلانا ہے، وہ خود کھیل اور کھا چکا ہے۔ ویسے بائی دا وے تم وہیں کھڑے باتیں بناتے رہو گے یا مجھے لینے کے لئے آ رہے ہو‘‘ میں نے اظہر سے پوچھا

’’میں اس علاقے کے نزدیک پہنچ گیا ہوں۔ اب ذرا سی تکلیف کرو اور گلی کا نام اور نزدیکی بلڈنگ کا نمبر بھی بتا دو اگر یہاں سے جانے کا دل کر رہا ہے تو۔ لگتا تو نہیں ہے کہ تم رات کو یہاں سے واپس جانا چاہو گے۔ تمھارا بس چلے تو وہیں ڈیرہ ڈال لو‘‘

اظہر کی بک بک کے دوران میں نے اردگرد نظر دوڑائی۔ گلی کا نام تو کہیں نظر نہیں آ یاتا ہم سامنے والی بلڈنگ پر 26 نمبر لکھا دکھائی دیا۔ فون بند کئے بغیر اپنے پاس سے گزرنے والے ایک سائیکل سوار کو روک کر میں نے گلی کا نام دریافت کیا۔ اس نے جو نام بتایا وہ مجھے بالکل سمجھ نہیں آیا۔ میری درخواست پر اس نے فون لے کر اظہر کو وہ نام بتا دیا۔ میں نے فون واپس لے کر اس شریف آدمی کا شکریہ ادا کیا اور اظہر سے پوچھا ’’کچھ سمجھ میں آیا یا میری طرح تمھارے سر سے بھی یہ نام گزر گیا ہے‘‘

اظہر نے کہا ’’میں سمجھ گیا ہوں۔ نزدیکی بلڈنگ کا نمبر بھی بتا دو تو میں جلدی وہاں پہنچ جاؤں گا‘‘

میں نے اسے نمبر بتا دیا اور فون بند کر کے اس کا انتظار کرنے لگا۔

پاک تندوری ریسٹورنٹ ایمسٹرڈم کا سب سے اچھا پاکستانی ریسٹورنٹ ہے۔ ریستوران کا ہال پاکستانی کلچر پر مبنی خوبصورت تصاویر سے سجا ہوا، کشادہ اور انتہائی صاف ستھرا ہے۔ ہم ہال کے اندر داخل ہوئے تو یکلخت جیسے ایک بالکل نئے ماحول کا حصہ بن گئے۔ باہر اگر یورپین کلچر تھا تو اندر پوری طرح پاکستانی تہذیب و تمدن جلوہ افروز تھی۔ پاکستانی موسیقی کی مدھر دھنیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ داتا دربار لاہور کی بڑی سی تصویر سامنے والی دیوار پر آویزاں تھی۔ ان کے علاوہ فیصل مسجد اسلام آباد کی تصویر، شمالی علاقہ جات کے قدرتی حسن سے مالا مال مناظر، دیہاتی میلوں کی چند تصاویر اور ایسے ہی کئی اور ہمہ جہت اور ہمہ رنگ مناظر ریستورانوں کی دیواروں پر خوبصورتی سے آویزاں تھے۔ ان مناظر کے درمیان بیٹھ کر اور پاکستان کی لوک موسیقی کی دھُنیں سن کر انسان خود کو یورپ کی بجائے پاکستان میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ پاک تندوری ریسٹورنٹ کے ویٹر تعلیم یافتہ اور انتہائی شائستہ واقع ہوئے۔ وہ اُردو، ڈچ اور انگریزی روانی سے بولنے پر قادر تھے۔

میں اور اظہر وہاں پہنچے تو گل خان ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے تاخیر پر معذرت کی تو اس نے خوش دلی سے کہا ’’کوئی بات نہیں، آپ زیادہ لیٹ نہیں ہوئے۔ ویسے بھی اس ریستوران کا مالک اور عملہ سب میرے واقف ہیں۔ آپ کے آنے تک میں ان سے گپ شپ کر رہا تھا۔ آپ سنائیں آپ کی سیر کیسی جا رہی ہے اور کیسا لگا ہمارا یہ شہر؟‘‘ گل خان نے موضوع بدلتے ہوئے کہا

’’بہت اچھا! بہت پسند آیا۔ جہاں تک سیر کا تعلق ہے، اس کی تو کوئی حد نہیں ہوتی۔ اتنے بڑے شہر کے لئے جتنے بھی دن ہوں، کم ہیں۔ پھر بھی کچھ خاص خاص مقامات اور علاقے میں نے دیکھے ہیں۔ ایمسٹرڈم میں بھی لندن کی طرح بہت سے تاریخی اور یادگار مقامات ہیں۔ صدیوں پرانے کلچر کو زندہ اور محفوظ رکھا ہوا ہے اس شہر نے۔ یہ یقیناً ان کی اپنے ماضی اور اپنے تاریخی ورثے سے محبت کا ثبوت ہے۔ اپنی روایات اور اپنے مشاہیر کو زندہ جاوید رکھنے کی بھرپور اور شعوری کوشش کی ہے ان لوگوں نے۔ یہ کام صرف زندہ قومیں کرتی ہیں۔ خود کو، اپنے ماضی کو، اپنی روایات کو، ماضی کے کارناموں کو اور اپنی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کو محفوظ رکھ کر بجا طور پر یہ قوم فخر کی مستحق ہے‘‘

میری باتیں گل خان غور سے سن رہا تھا۔ میری بات ختم ہوئی تو بولا ’’میں اپنے کاروبار میں الجھا رہتا ہوں۔ بڑے دنوں بعد اس قسم کی گفتگو سننے کا موقع مل رہا ہے اور بہت اچھا لگ رہا ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے۔ آج کے ڈچ کو اپنی قوم کے ماضی پر فخر ہے۔ اور کیوں نہ ہو۔ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ ڈرائیو کریں تو چند گھنٹوں میں آدمی پورے ملک میں گھوم لے۔ آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں ہے۔ لیکن اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کے تمام براعظموں پر اپنی فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ اُس دور کے ذرائع رسل وسائل اور ہالینڈ کے سائز کو مد نظر رکھیں تو ان کی کامیابیاں حیرت انگیز ہیں‘‘

’’وہ سب تو دُرست ہے۔ لیکن وہ گزری نسلوں کے کارنامے ہیں۔ آج کی ڈچ قوم کیا کر رہی ہے اور اقوامِ عالم میں وہ کہاں کھڑے ہیں؟‘‘ میں نے گل خان سے پوچھا

گل خان جس کا تعلق پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقے سے ہے۔ جس نے بچپن پہاڑوں کی گو دمیں بکریاں چراتے گزارا ہے اور جو آج یورپ کے اس ترقی یافتہ ملک کے مرکز میں بہت بڑے کاروبار کا مالک ہے، اس کے پاس میرے سوال کا جواب تیار تھا ’’آج کی ڈچ قوم بھی کچھ کم نہیں ہے۔ آجکل جنگوں اور ملکوں کو فتح کرنے اور وہاں پر اپنی کالونیاں بنانے کا رواج نہیں ہے۔ لیکن معاشی اور سیاسی طور پر دنیا میں اپنا سکہ جمانے کا رواج آج بھی قائم ہے۔ ڈچ معاشی طور پر مضبوط اور سیاسی طور پر آزاد قوم ہے۔ وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنے قومی مفاد کے مطابق فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ آزادی سے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے آزادانہ فیصلے کر کے اپنے قومی تشخص اور ایک آزاد اور خود مختار قوم کا کردار ادا کرتے ہیں‘‘ گل خان نے شستہ اور رواں اُردو میں اپنی بات جاری رکھی ’’اگر چہ آج بیسویں صدی کے خاتمے پر یورپ قریب سے قریب تر ہو رہا ہے لیکن ڈچ اپنی شناخت اور اپنے ثقافتی ورثے کو ہر صورت میں زندہ رکھنا چاہیں گے۔ وہ کسی بڑے سیٹ اپ میں شامل ہو کر بھی اپنی انفرادیت اور اپنی پہچان کو ختم کرنے پر کبھی تیار نہیں ہو گے۔ آج جب یورپ اکھٹا ہو رہا ہے، ہالینڈ بھی باقی اقوامِ یورپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ وہ کبھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد نہیں بنائیں گے اور نہ ہی ہٹ دھرمی سے خود کو یورپ سے الگ رکھیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی آزادانہ حیثیت کو ہر صورت میں برقرار رکھیں گے۔ دوسری طرف ہالینڈ معاشی طور پر انتہائی مضبوط ملک ہے۔ اس کی برآمدات کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ زرعی ترقی کے لئے یہ دنیا بھر کے لئے قابلِ تقلید ملک ہے۔ قدرت نے اس ملک کو ہر نعمت سے دل کھول کر نوازا ہے۔ ان قدرتی نعمتوں اور مضبوط معیشت کا ثمر ہر ڈچ تک پہنچ رہا ہے۔ دولت کی تقسیم منصفانہ ہے۔ یہاں رہنے والے ہر مرد و زن کو ملک کی معیشت سے اتنا حصہ مل رہا ہے کہ وہ بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک کا سیاسی اور حکومتی نظام بھی ایسا ہے کہ ہر فرد کی یہاں اہمیت ہے اور اس کی آواز سنی جاتی ہے۔ یورپ کے دوسرے جمہوری ممالک کی طرح عدلیہ اور پریس مکمل طور پر آزاد ہے۔ سیاست دان عوام کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں اور ان کی دسترس میں رہتے ہیں۔ لوگوں کے مسائل بہت کم ہیں اور جو ہیں حکومتی ادارے تن دہی سے انہیں حل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس لئے عوام کو شکایت کا زیادہ موقع نہیں ملتا‘‘

گل خان کی بات ختم ہوئی تو میں نے دوسرا سوال داغ دیا ’’ہالینڈ میں آپ جیسے تارکین وطن اور ہالینڈ میں آ کر بسنے والے نئے شہریوں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ حکومتی یا انفرادی سطح پر کسی تعصب کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا؟‘‘

’’حکومتی سطح پر تو ہمیں ہالینڈ کے پرانے شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ باہر سے آنے والے ہنر مند اور کاروباری افراد کو حکومت خوش آمدید کہتی ہے۔ تا ہم انفرادی سطح یا بعض اداروں کی جانب سے گاہے بگاہے تعصب کا مظاہرہ ہو جاتا ہے۔ مجموعی طور پر ڈچ ایک مہذب قوم ہے۔ اگر کوئی تعصب کا اظہار کرتا بھی ہے تو اس میں شدت پسندی ہر گز نہیں ہوتی۔ عمومی طور پر ان میں برداشت اور خوش اخلاقی پائی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو باہر سے آ کر یہاں بڑے بڑے کاروباروں کے مالک بن جانے والے لوگوں سے حسد تو ہوتی ہے لیکن وہ اس کا

اظہار کرنے میں احتیاط کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اتنی عصبیت نیچرل ہے اور کوئی بھی قوم اس سے مستشنیٰ قرار نہیں دی جا سکتی‘‘

گل خان سے گفتگو کے دوران اس ریستوران کے سمارٹ اور خوش لباس ویٹر ہمارے آگے مختلف ڈشیں سجاتے جا رہے تھے۔ گل خان نے ہمارے آنے سے پہلے آرڈر دے رکھا تھا۔ اس نے ہماری پسند کی ڈشیں معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میز پر ہر ڈش آ چکی تھی۔ یہ کھانا اتنا زیادہ تھا کہ تین کے بجائے تیرہ افراد کے لئے کافی تھا۔ جب ہم نے کھانا شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ کسی ماہر باورچی کے ہاتھوں کا کمال ہے۔ ہر ڈش لاجواب تھی۔ انتہائی لذیذ اور نفاست پر مبنی تازہ تازہ بنی ڈشیں اشتہا انگیز تھیں۔ لیکن ڈشیں اتنی زیادہ تھیں کہ ہم ان میں سے صرف چند کو چکھ سکے۔ گل خان کا اصرار تھا کہ ہر ڈش کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ہم اگر ایسا کرتے تو ہمارے پیٹ کے ساتھ بے انصافی ہو جاتی۔ سفر کے دوران طبیعت خراب ہو جائے تو وہ عذاب سے کم نہیں، اس لئے احتیاط لازم تھی۔ پھر بھی اس رات پاک تندوری میں ہم تینوں سے اتنی احتیاط روا نہیں رکھی جا سکی۔




ہمارا علاقہ پتھر کے دور کی عکاسی کرتا ہے





گل خان پیدائشی طور پر قبائلی علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ مہمان نوازی ان کی روایت کا حصہ ہے۔ اب تو اس پر خدا کا خصوصی فضل بھی تھا۔ لہذا اسے اپنی روایت نبھانے میں کوئی امر مانع نہیں تھا۔ کھانے کے دوران اور اس کے بعد ہمارے درمیان ہالینڈ اور آسٹریلیا کی باتیں ہوتی رہیں۔ گل خان اور اظہر مجھے ہالینڈ کے بارے میں بتاتے رہے۔ گل خان کے سوال پر میں نے انہیں آسٹریلیا کے بارے میں کچھ معلومات بہم پہچانے کی کوشش کی۔ کھانے اور سویٹ ڈش کے بعد پشاوری قہوے کا دور چلا۔ گل خان کے بارے میں کچھ مزید جاننے کے لئے میرے دل میں سوالات کلبلا رہے تھے۔ لیکن اس سنجیدہ مزاج بزنس مین سے میری اتنی بے تکلفی نہیں تھی کہ اس سے نجی نوعیت کے سوال کر سکوں۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اظہر نے گل خان سے پوچھ لیا ’’خان صاحب! آپ کے آبائی علاقے کے آج کل کیا حالات ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ وہاں لوگ کافی مشکل زندگی گزارتے ہیں۔ اب اس میں کچھ بہتری آ رہی ہے یا نہیں؟‘‘

گل خان یہ سوال سن کر سنجیدہ بلکہ اداس نظر آیا۔ اس اداسی کی وجہ اس کے جواب میں پنہاں تھی ’’پہلے سے یقیناً بہت بہتر ہے۔ لیکن اب بھی ہمارا علاقہ یورپ کے اس ترقی یافتہ معاشرے کے مقابلے میں پتھر کے دور کی عکاسی کرتا ہے۔ یورپ کو چھوڑیئے، پاکستان کے میدانی علاقوں کی نسبت بھی یہ علاقہ ترقی کی منزلوں میں بہت ہی پیچھے ہے۔ ابھی تک ہم بہت سی بنیادی سہولتوں سے آشنا تک نہیں ہوئے۔ بہت سارے گاؤں تعلیم، علاج معالجہ، بجلی اور رسل و رسائل کی بنیادی سہولتوں سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ سکول دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے جہالت کا اندھیرا آبادی کے وسیع حصے پر اب بھی سایہ فگن ہے۔ لوگ بیمار ہوتے ہیں تو دیسی ٹوٹکوں اور دم درود سے ہر مرض کو رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوائیں ہیں نہ ڈاکٹر، ہیلتھ سینٹر ہیں اور نہ اسپتال، سڑکیں ہیں اور نہ موٹر گاڑیاں۔ ان حالات میں لوگ کسمپرسی کی حالت میں بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ غربت اتنی ہے کہ وہاں اکثریت کودو وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں۔ پینے کے لئے صاف پانی نہیں۔ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے گاؤں سردیوں کے چھ چھ ماہ پوری دنیا سے کٹے رہتے ہیں۔ گویا وہاں بہت سے لوگ ابھی تک صدیوں پرانی سہولتوں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ان تک نئے زمانے کی روشنی پہنچی ہے اور نہ ہی جدید سہولتوں سے انہیں کوئی چھوٹا سا حصہ ملا ہے‘‘

گل خان نے اسکردو اور اس کے نواح میں پھیلے پہاڑی علاقے میں دیہات کے باسیوں کے طرزِ حیات اور مسائل پر جو روشنی ڈالی اس سے میں اور اظہر بھی اداس ہو گئے۔ اداسی کا یہ ماحول رفع کرنے اور گل خان کے بارے میں مزید جاننے کے لئے میں نے پوچھا ’’گل خان! جیسا کہ آپ نے بتایا کہ اس علاقے میں تعلیمی سہولیات اور ذرائع رسل و رسائل ناکافی ہیں۔ یہ سہولتیں آج سے بیس پچیس سال قبل جب آپ وہاں رہتے تھے تو مزید کم ہوں گی۔ ان حالت میں ان پہاڑوں کی گود میں پرورش پا کر بھی آپ جدید تعلیم کے حصول کی منزلوں تک کیسے پہنچ پائے اور پھر ان برف سے ڈھکے پہاڑوں سے نکل کر یورپ کے اس انتہائی ترقی یافتہ شہر میں ایک کامیاب بزنس مین کی منزل تک کیسے پہنچے۔ یہ یقیناً حیرت انگیز اور قابلِ رشک کامیابیاں ہیں۔ ہمیں ان کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟‘‘

میرا سوال سن کر گل خان کے چہرے سے اُداسی زائل ہو گئی اور وہ مسکرانے لگا۔ مسکراتے مسکراتے وہ کچھ سوچ بھی رہا تھا۔ شاید یہ سوچ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ اس کے بعد گل خان نے ہمیں اپنی پوری کہانی سنائی۔ یہ کہانی قدرے طویل ہے اور میرے سفر نامے سے براِ ہِ راست متعلق بھی نہیں۔ اس کے باوجود میں اسے احاطۂ تحریر میں لا کر اس سفر نامے کا حصہ بنا رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گل خان جیسے کردار خال خال ملتے ہیں۔ گل خان نے نا مساعد حالات کے باوجود اپنی ہمت، محنت اور جد و جہد سے جو مقام حاصل کیا وہ ہمارے نوجوانوں کے لئے ایک روشن مثال ہے۔ جو لوگ شارٹ کٹ کے ذریعے راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں، اُن کے کے لئے بھی گل خان کی کہانی سبق آموز ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ شارٹ کٹ کمزوروں اور بزدلوں کا طریقہ ہے۔ درست راستہ قدرے طویل اور صبر آزما ہو سکتا ہے، مگر اصل کامیابی اسی راستے سے ملتی ہے۔ اس کہانی سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ محنت کبھی رائے گاں نہیں جاتی۔ مصمم ارادے اور عملِ پیہم سے مشکل ترین منزل بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بالآخر گل خان نے اپنی کہانی شروع کی۔

’’گیارہ سال کی عمر تک میں ضلع لداخ میں واقع اپنے چھوٹے سے گاؤں سے باہر نہیں نکلا تھا۔ پچیس گھروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا گاؤں ہی میری دنیا تھی۔ اس کے باہر کوئی اور دنیا بھی ہے، اس کا مجھے بالکل علم نہیں تھا۔ ہمارا گاؤں لداخ کے قصبے اور سڑک سے دور پہاڑ پر واقع تھا۔ جدید سہولتوں کا وہاں نام و نشان تک نہیں تھا۔ گاؤں کے لوگ کھیتی باڑی کرتے اور مویشی پالتے تھے۔ انہی سے جو تھوڑی بہت آمدنی ہوتی تھی، ان کا گزارہ ہوتا تھا۔ مکئی کی روٹی، دالیں اور سبزیاں لوگوں کی خوراک تھی۔ اس کی بھی اتنی قلت تھی کہ بمشکل دو وقت کھا سکیں۔ حالانکہ ہم لوگ بھیڑ بکریاں پالتے تھے لیکن ان کا گوشت کھانے کی استعداد نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ وہ ہمارا ذریعہ معاش تھیں۔ ہاں کبھی کبھار کوئی بکری بیمار ہو جاتی یا کوئی جنگلی درندہ اسے زخمی کر دیتا تو اسے ذبح کیا جاتا۔ اس دن پورا گاؤں گوشت کی چند بوٹیوں سے ضیافت اڑاتا۔

گرمیاں تو پھر بھی آسانی سے گزر جاتیں، لیکن موسم سرما اس علاقے کے باشندوں کے لئے ایک طویل امتحان بن کر آتا۔ سردیوں میں برف باری سے راستے بند ہو جاتے۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹنا بھی دو بھر ہو جاتا۔ انسان تو انسان، ہماری بھیڑ بکریاں اور مویشی بھی قید ہو کر رہ جاتے۔ مہینوں تک ہم گھروں میں بند رہتے۔ گرمیوں میں جو کچھ کمایا ہوتا اور جو غلہ جمع ہوتا، اسی سے گھٹ گھٹ کر سردیوں کا پورا موسم گزارنا پڑتا تھا۔ کچے اور ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں سردی عذاب بن کر رگوں میں اترتی رہتی۔ لکڑیاں جلا جلا کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے۔ پہاڑوں کے باسی ہونے کے باوجود لکڑی بھی وافر مقدار میں ہمیں میسر نہیں تھی۔ اول تو ان سوکھے پہاڑوں پر درخت کچھ زیادہ نہیں تھے۔ جوتھے، وہ کچھ خانوں کی ملکیت تھے۔ ان سے لکڑی قیمتاً خریدنی پڑتی تھی۔ غریب لوگوں کے پاس اتنی رقم کہاں تھی کہ اپنی مرضی کی مقدار حاصل کر پائیں۔ اس لئے وہ جلانے کی یہ لکڑی سوچ سمجھ کر اور کفایت شعاری سے خرچ کرتے تھے۔ ورنہ عین سردیوں میں ختم ہونے کا اندیشہ رہتا تھا۔

پورے گاؤں میں ایک ہی دکان تھی اور وہ ہماری تھی۔ یہ دکان میرے دادا کے زمانے سے چلی آ رہی تھی۔ دادا کے گزرنے کے بعد میرے بابا نے اس کاروبار کو جاری رکھا۔ کاروبار کیا تھا، بمشکل دال روٹی حاصل کرنے کا ذریعہ تھا۔ کاروبار سے زیادہ بابا گاؤں کے لوگوں کی خدمت کی نیت سے یہ کام کر رہے تھے۔ کیونکہ اگر گاؤں میں یہ واحد دکان بھی نہ ہوتی تو لوگ اشیائے ضرورت کے لئے کہاں بھٹکتے پھرتے۔ ہمارے گاؤں کے لوگ ان پڑھ تو تھے ہی اس پر مستزاد انتہائی سادہ لوح اور تو ہم پرست بھی تھے۔ دکانداری ان میں سے کسی کے بس میں تھی نہ اُن کا مزاج اس کے لئے موافق تھا۔ آج بھی جب ہمارے علاقے میں سڑک بن گئی ہے۔ سڑک کے کنارے ہوٹل، چائے خانے اور دکانیں عام ہو گئی ہیں۔ ان دکانوں کے مالک ہزارہ، پشاور، مردان، صوابی اور پنجاب کے لوگ ہیں۔ دکانداری اور کاروبار ہمارے علاقے کے لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ علاوہ ازیں وہ اسے اتنا اچھا بھی نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں یہ ہندو بنئے کا کام ہے۔

اسی طرح موجودہ دور میں بھی وہاں اکثریت اپنے بچوں کو تعلیم دلانے اور زمانے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر چلنے کی قائل نہیں ہے۔ جہالت، توہم پرستی، دیرینہ دشمنیاں، قتل برائے انتقام، خواتین کے حقوق کی تلفی، بچیوں کی کم عمری میں شادی، بے تحاشا اولاد پیدا کرنا اور کام سے جی چرانا، یہ سب کچھ آج بھی وہاں ہو رہا ہے۔ اگرچہ گاہے گاہے اور کوئی کوئی اس دائرے سے باہر نکل رہا ہے لیکن یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

میں اپنے گاؤں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ جس طرح گاؤں کی واحد دکان ہماری تھی، اسی طرح گاؤں کا واحد فرد جو اُردو لکھ پڑھ سکتا تھا، وہ میرا بابا تھا۔ پورے گاؤں میں کسی نے خط لکھوانا یا پڑھوانا ہو، یہ کام میرے بابا سے لیا جاتا تھا۔ گویا گاؤں کے باہر کی دنیا سے رابطے کا ذریعہ میرا بابا تھا۔ ورنہ گاؤں کے لوگ تو مہینوں اور سالوں تک گاؤں سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ سال میں صرف چند مرتبہ گاؤں کے کچھ لوگ ہمارے نزدیک ترین قصبے (یا نسبتاً بڑے گاؤں) میں جاتے تھے۔ یہ قصبہ اگرچہ تقریباً تیرہ میل کے فاصلے پر واقع ہے لیکن دشوار گزار راستہ ہونے کی وجہ سے اس سے کہیں دور لگتا ہے۔

گاؤں سے باہر نکلنے کا ایک موقع تو سالانہ میلے کا ہے۔ یہ میلہ ہر سال جون میں اس قصبے سے ملحق واقع ایک بزرگ کے مزار پر منایا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ میلہ تین دن تک جاری رہتا ہے لیکن اصل اور بڑا میلہ آخری دن ہوتا ہے۔ اس میلے کی خاص بات یہ ہے کہ اس موقع پر نہ صرف اس قصبے کے تمام مرد و زن اور بچے یہاں جمع ہوتے ہیں بلکہ گرد و نواح کے متعدد دیہات کے سیکڑوں لوگ بھی جوق در جوق اس میں شرکت کرتے ہیں۔ یوں لوگ پہاڑوں میں گھرے اپنے اپنے گاؤں سے باہر نکل کر سال میں ایک مرتبہ دوسرے لوگوں سے مل پاتے ہیں۔

اس میلے میں مختلف کھیلوں کے مقابلے شائقین کی دلچسپی کے مرکز ہوتے ہیں۔ ان میں گھوڑ دوڑ، پولو، کتوں، مرغوں اور بٹیروں کی لڑائی، تیر اندازی اور اسی طرح کے دوسرے دیہی کھیل لوگوں کو پورے سال کی بوریت اور یکسانیت سے نکال کرتا زہ دم کر دیتے ہیں۔ اس میلے میں لوگ خرید و فروخت بھی کرتے ہیں۔ کپڑے، عورتوں کے نقلی زیورات اور چوڑیاں (اصل سونے کے زیورات وہاں شاذو نادر ہی لوگ خریدنے کے متحمل ہو سکتے ہیں) مٹھائیاں، مسالہ جات، جوتے، آلاتِ کاشتکاری، بھیڑوں کی اون کترنے کی قینچیاں اور دیگر متعدد اشیاء اس میلے میں لگے عارضی اسٹالوں پر سجی شائقین کی دلچسپی کا مرکز ہوتی ہیں۔ اس سالانہ میلے میں کاشتکاروں کی دلچسپی کا مرکز مویشیوں کی منڈی بھی ہوتی ہے جہاں لوگ اپنی بھیڑ بکریاں فروخت کرتے ہیں۔ کاروباری لوگ بھیڑ بکریاں خرید کر بڑے شہروں اور پنجاب میں پہنچاتے اور منافع کماتے ہیں۔ اس طرح یہ میلہ اس علاقے کے ہر فرد کے لئے انتہائی دلچسپی اور تفریح کا حامل ہوتا ہے۔ لوگ پورا سال اس کا انتظار کرتے ہیں۔

اس میلے کے علاوہ ہمارے گاؤں کے لوگ انتہائی مجبوری کے عالم میں شاذونادر گاؤں سے باہر اس قصبے تک جاتے ہیں۔ یہ مجبوری عموماً اس وقت پیش آتی ہے جب شدید بیمار لوگوں کو قصبے میں واقع اس سیکڑوں میل کے دائرے میں واحد ڈسپنسری تک پہچانا ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اگر مریض قدرے بہتر حالت میں ہوتا ہے تو اسے گدھے پر بٹھا کر وہاں لے جایا جاتا ہے۔ اونچا، نیچا اور انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ سفر بہت سست اور مریض کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر مریضوں کی اس مشکل سفر سے تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے۔ بارہ تیرہ میل کا یہ سفر پورے دن میں بمشکل مکمل ہوتا ہے۔ جس دن گاؤں کے کسی فرد یا مریض کو قصبے جانا ہوتا ہے وہ کئی دن پہلے سے تیاری شروع کر دیتا ہے۔

یہ سفر ہمیشہ منہ اندھیرے شروع ہوتا ہے اور گرمیوں کے طویل دنوں میں بھی بمشکل سورج ڈوبنے تک قصبے پہنچ پاتے ہیں۔ مناسب جوتے نہ ہونے اور پہاڑی پتھروں پر چلنے سے ان کے پاؤں زخمی اور جسم تھک کر چور ہو جاتا ہے۔ قصبے میں ایک مسافر خانہ ہے جو در اصل بڑی مسجد کا حصہ ہے۔ اس مسافر خانے میں مسافروں کی مفت رہائش اور طعام کا انتظام ہے۔ اس کا اہتمام علاقے کے امراء اور خانوں نے کیا ہے۔ اس مسافر خانے میں ایک رات قیام کے بعد لوگ قصبے میں درپیش اپنے کام نبٹاتے ہیں۔ خریداری وغیرہ کرتے ہیں۔ دوسری رات بھی مسافرخانے میں گزار کر علیٰ الصبح گاؤں واپسی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ قصبے میں واقع واحد سرکاری ڈسپنسری میں کوئی با قاعدہ ڈاکٹر نہیں ہے۔ وہاں صرف ایک کمپونڈر ہے جو اپنی سمجھ کے مطابق اور دستیاب دواؤں میں سے کچھ دے دیتا ہے۔

گاؤں کے مریضوں کی دوسری قسم کو قصبے لے جانے کا کام اس سے کہیں زیادہ مشکل، پُر خطر اور بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ یہ وہ مریض ہوتے ہیں جو زیادہ بیمار ہونے کی وجہ سے گدھے پر بیٹھ کر سفر نہیں کر سکتے۔ ایسے مریضوں کو قصبے لے جانے کا ذریعہ چارپائی ہوتی ہے۔ چارپائی کو اٹھانے کے لئے کم از کم چار صحتمند جوان درکار ہوتے ہیں۔ مریض کی چارپائی کو اٹھا کر پہاڑوں کی چٹانوں، ڈھلوانوں اور انتہائی دشوار گزار نشیب و فراز پر سفر کرنا دِل گردے کا کام ہے۔ چارپائی اٹھانے والوں میں سے ایک کا پاؤں پھسل جائے تو وہ دوسروں کو بھی سیکڑوں فٹ گہری کھائیوں میں دھکیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ سفر مشکل، تکلیف دہ اور انتہائی طویل ہوتا ہے۔ خصوصاً جان بلب مریض کے لئے مزید تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لیکن لوگ امید کے سہارے یہ سفر بھی کر گزرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امید کا یہ چراغ اکثر سحر ہونے سے پہلے ہی گُل ہو جاتا ہے۔

قصبے سے رابطے کے یہ ذرائع بھی گرمیوں کے موسم تک محدود ہیں۔ موسم سرما میں یہ سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے۔ خصوصاً برف باری کے مہینوں میں ہمارا رابطہ باقی پوری دنیا سے منقطع ہو جاتا ہے۔ ایسے میں لوگ بیمار ہوتے ہیں تو بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ گاؤں میں ٹونے ٹوٹکوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ گاؤں کے لوگ دواؤں کے نام اور اس کے استعمال سے ناواقف ہیں۔ ایسے میں درد کم کرنے والی دوائی بھی کسی سے نہیں ملتی۔ اس وقت مریضوں اور ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہے۔ یہ وہی لوگ جانتے ہیں جوان حالات سے گزرتے ہیں۔

میں نے اپنے گاؤں اور اس کے حالات پر یہ روشنی اس لئے ڈالی ہے تا کہ آپ کو بتا سکوں کہ میرا بچپن کس ماحول میں گزرا۔ گیارہ سال کی عمر تک میرے لئے کل کائنات یہ گاؤں ہی تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں میں پہلی مرتبہ اپنے بابا کے ساتھ میلے میں گیا تو حیران و پریشان رہ گیا کہ دنیا اس گاؤں سے باہر بھی واقع ہے۔ اتنے سارے لوگ ایک جگہ اکھٹے دیکھ کر میری عقل دنگ رہ گئی۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اور تعجب سے میلے اور لوگوں کے جم غفیر کو دیکھتا رہا۔ لوگوں نے اچھے اچھے ملبوسات پہنے تھے۔ سجی ہوئی بڑی بڑی دکانیں، رنگ برنگی مٹھائیاں اور کھیل تماشے۔ یہ سب میرے لئے خواب جیسا تھا۔ اس وقت مجھے یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ یہ میلہ اور یہ لوگ اتنی بڑی دنیا اور دنیا کے بڑے بڑے شہروں کے مقابلے میں ایک تنکے کے برابر بھی نہیں ہیں۔

یہ میرے ذہنی اور جسمانی سفر اور مشاہدے کی حیرت انگیز ابتدا تھی۔ اس کے بعد جو سفر شروع ہو وہ اب تک جاری ہے۔ کچھ دیکھا ہے اور بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔ لیکن میں اور میری بساط اس قابل کہاں کہ دنیا دیکھ سکوں۔ واپس اپنے گاؤں اور اس کے باسیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ لوگ اب بھی بقیہ دنیا سے سیکڑوں ہزاروں سال پیچھے ہیں۔ اگرچہ شاہراہ ریشم سے ہمارے علاقے میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ بقیہ دنیا سے رابطہ پہلے کی نسبت کہیں آسان ہو گیا ہے۔ سڑک کے کنارے واقع گاؤں، قصبے اور شہر کچھ ترقی کر گئے ہیں۔ لوگ بھی قدرے خوشحال ہو گئے ہیں۔ لیکن پہاڑوں پر واقع ہمارا گاؤں اور اس جیسے بے شمار دوسرے گاؤں اب بھی دئیے کی روشنی کے سہارے زندہ ہیں۔ وہاں نہ برقی روشنی اور نہ علم کی روشنی پہنچی ہے۔ اسپتال، دوائیں اور ڈاکٹر کچھ بھی نہیں۔ سکول اب بھی بارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش اب بھی وہی بھیڑ بکریاں اور ٹوٹی پھوٹی کاشتکاری ہے۔ غربت، جہالت، بیماریاں اور بے روزگاری لوگوں کی زندگی کا جزوِ لا ینفک ہیں۔ نہ جانے کب ان کی زندگی بدلے گی! بدلے گی بھی یا نہیں‘‘

گل خان اپنی کہانی بیان کرتے کرتے جذباتی ہو گیا۔ اس کی آواز بھرا گئی۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے رو مال سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ میز پر رکھے پانی کے گلاس سے چند گھونٹ لئے اور اپنی کہانی کو جاری رکھا ’’معاف کرنا! میں جذبات کی رو میں بہہ گیا۔ در اصل انسان چاہے ترقی کے جتنے زینے طے کر لے، کہاں سے کہاں پہنچ جائے، وہ اپنی اصل سے کبھی منہ نہیں موڑ سکتا۔ اپنی جائے پیدائش، اپنی زمین اور اپنے لوگوں کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔ میں نے آج کی ترقی یافتہ دنیا دیکھی ہے اور اپنے لوگوں کی کسمپرسی کو بھی اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان کی بے بسی، مجبوری اور لاچاری سے اچھی طرح واقف ہوں۔ ان کا خیال آتا تو میری طبیعت میں ایک ابال سا آ جاتا ہے۔ کاش کہ وہ بھی باقی دنیا کی مانند ایک اچھی، خوشحال اور پرسکون زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔




یقینِ محکم اور عملِ پیہم کی زندہ مثال





میں نے اسی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ بچپن اس کی گلیوں میں کھیلتے گزرا۔ گیارہ سال کی عمر تک میرے مشاغل میں بکریاں چرانا، ایندھن کی لکڑیاں اکھٹا کرنا اور دکان میں اپنے بابا کی مدد کرنا شامل تھا۔ اس دوران بابا نے مجھے قرآن پاک پڑھنا سکھادیا تھا۔ علاوہ ازیں گنتی اور پہاڑے بھی یاد کروا دیئے۔ تھوڑی بہت اُردو بھی سکھا دی۔ مجھے تھوڑا تھوڑا اُردو پڑھنا آیا تو میں نے بابا سے مزید کتابیں منگوا لیں۔ یہ ابتدائی جماعتوں کی اور آسان کتابیں تھیں۔ جو میں نے اپنی کوششوں سے پڑھنا سیکھ لیں۔ بابا کی اُردو اور عام تعلیم محدود تھی۔ مجھے اگر کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو کبھی تو وہ مجھے سمجھا دیتے اور کبھی ان کے لئے بھی یہ مشکل مسئلہ بن جاتا۔ در اصل بابا نے اسکردو کے ایک دینی تعلیم کے ادارے میں تین سال گزارے تھے۔ ان تین سالوں میں انہوں نے قرآن پاک کے ساتھ ساتھ ابتدائی اُردو بھی سیکھ لی تھی۔ بعد میں گاؤں کے ماحول میں وہ اُردو بہتر ہونے کی بجائے مزید کمزور ہو گئی۔

بابا نے جب دیکھا کہ مجھے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے تو انہوں نے مجھے لداخ کے ایک اسکول میں داخل کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں تھا۔ سب سے بڑی رکاوٹ ہماری روایتیں تھیں۔ گاؤں کے اکثر لوگ اسے غیر ضروری قرار دیتے تھے۔ دوسری مشکل معاشی تھی۔ دکان سے اور کاشتکاری سے ہماری اتنی آمدنی تھی کہ بمشکل دو وقت کا کھانا مہیا ہوتا تھا۔ ایسے میں دوسرے قصبے میں مجھے ٹھہرانے اور سکول کے اخراجات کہاں سے آتے۔ اللہ بھلا کرے، یہ مسئلہ بابا کے ایک دوست خان محمد نے حل کر دیا۔ چاچا خان محمد لداخ میں رہتے تھے۔ بابا دکان کے لئے سودا سلف لانے جاتے تو چاچا خان محمد سے ملاقات ہوتی تھی۔ یہ ملاقاتیں دوستی میں تبدیل ہو گئیں۔ ان کی یہ دوستی میرے لئے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ چا چا خان محمد نے نہ صرف مجھے اسکول میں داخل کروایا بلکہ اپنے گھر میں رکھا۔

سکول کے ہیڈ ماسٹرنے میری عمر اور ابتدائی علم دیکھ کر مجھے براہ راست پانچویں میں داخل کر لیا۔ اگلے چھ سال میں نے لداخ میں چاچا خان محمد کے گھر میں گزارے اور میٹرک پاس کر لیا۔ چاچا خان محمد کا ایک بیٹا جہانداد خان تقریباً میرا ہم عمر تھا۔ اس نے میرے ساتھ آٹھویں تک پڑھا اور پھر اسکول چھوڑ دیا۔ میرے بابا کی طرح چا چا خان محمد کی بھی دکان تھی لیکن خاصی بڑی تھی۔ پرچون خریدنے والے گاہکوں کے علاوہ چھوٹے دکاندار بھی چا چا سے مال خریدتے تھے۔ چا چا روز مرہ ضرورت کی اشیاء کے علاوہ کپڑے اور جوتے بھی فروخت کرتا تھا۔ یہ اشیاء وہ اسکردو اور دوسرے مقامی علاقوں سے لاتا تھا۔ کبھی کبھار وہ راولپنڈی سے بھی مال لاتا تھا۔ میں اور جہانداد اسکول کے بعد دکان میں چاچا خان محمد کی مدد کرتے تھے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ میں دکانداری کے امور سے بھی آشنا ہوتا چلا گیا۔ میٹرک کرنے کے بعد بھی میری حصولِ تعلیم کی پیاس نہیں بجھی تھی۔ اب یہ مسئلہ آڑے آ گیا کہ لداخ میں ان دنوں کالج نہیں تھا۔

ایک مرتبہ چاچا خان محمد کپڑا خریدنے پنڈی جانے لگا تومیں نے اس کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے کہا ’’بیٹا! یہ طویل اور دشوار گزارسفر ہے۔ جیپ اور پھر ٹرک کے ذریعے کئی دن کے سفر کے بعد پنڈی پہنچا جاتا ہے۔ یہ سفر مشکل اور تمھارے لئے غیر ضروری ہے‘‘

اس وقت میں نے اپنے دل میں چھپی خواہش چاچا پر ظاہر کر دی ’’چاچا! اگر آپ اجازت دیں تو میں پنڈی جا کر نوکری کے لئے قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہوں۔ اگر موقع ملا تو آگے پڑھائی بھی جاری رکھوں گا‘‘

چاچا نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’مگر بیٹا! اس کی اجازت تو تمھیں اپنے بابا سے لینی چاہیے‘‘

’’ان سے میں نے اجازت لے لی ہے۔ بابا نے کہہ دیا ہے کہ مزید تعلیم اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے تم جو کچھ بھی کرنا چاہو، کر سکتے ہو۔ ویسے بھی چاچا! میٹرک کرنے کے بعد میں اپنے گاؤں یا یہاں لداخ میں کیا کروں گا۔ میں اسی لئے یہاں رُکا ہوا ہوں کہ موقع ملے تو کہیں اور جا کر کوشش کر سکوں‘‘

چا چا خان محمد جو مجھے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتا تھا، کہنے لگا ’’اگر یہ بات ہے تو میں تمھیں پنڈی ضرور لے کر جاؤں گا۔ لیکن بیٹا پنڈی مہنگا شہر ہے اور وہاں میری جان پہچان بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ تم وہاں جا کر رہو گے کہاں؟ اور نوکری نہ ملی تو خرچہ کہاں سے پورا کرو گے؟‘‘

میں نے کہا ’’چاچا! اللہ مالک ہے۔ اللہ نے اگر آپ کو وسیلہ بنایا ہے تو وہ آگے بھی کوئی وسیلہ ضرور بنائے گا‘‘

چاچا خان محمد میرے نزدیک آیا۔ میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا ’’بیٹا! اگر تمھارا ارادہ اتنا پختہ اور خدا پر یقین اتنا کامل ہے تو میں کون ہوتا ہوں تمھیں روکنے والا۔ تم گاؤں جا کر اپنے بابا اور اماں سے مل کر آؤ۔ اس کے بعد میں تمھیں پنڈی ضرور لے کر جاؤں گا‘‘

چاچا کی ہدایت کے مطابق میں گاؤں گیا۔ بابا اور ماں سے ملا اور ان کی اجازت لے کر واپس لداخ آ گیا۔

چاچا پنڈی جانے کی اس طرح تیاری کر رہا تھا جیسے کوئی دوسرے دیس جاتا ہے۔ ان دنوں مخصوص قسم کی جیپیں اس راستے پر چل سکتی تھیں لیکن ان کا کرایہ ہمارے بس سے باہر تھا۔ اس لئے زیادہ تر سفر ہم نے گھوڑوں پر کیا۔ اس کے بعد مجبوراً جیپ اور آخر میں بس کا سہارا لینا پڑا۔ جس نے تیسرے دن ہمیں پنڈی پہنچایا۔ پنڈی اور راستے میں آنے والے بڑے بڑے شہر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ اچھے اچھے گھر، رنگ برنگی موٹر گاڑیاں، چمکتی سڑکیں، بڑی بڑی دکانیں اور بے شمار لوگ دیکھ کر مجھے ایسے لگا کہ میں کسی نئی دنیا میں آ گیا ہوں۔ پنڈی میں چاچا خان محمد راجہ بازار کی کچھ مخصوص دکانوں سے مال خریدتا تھا۔ ان میں سے کپڑے کی ایک بڑی دکان کے مالک صلاح الدین صاحب سے چا چا کی اچھی علیک سلیک تھی۔ چا چا نے صلاح الدین صاحب سے میرے متعلق بات کی۔ میری کہانی سن کر صلاح الدین صاحب خاصے متاثر ہوئے۔ در اصل وہ بہت خدا ترس انسان تھے۔ صلاح الدین صاحب نے مجھے اپنی دکان میں ملازمت دے دی اور اپنے چند دوسرے ملازموں کے ساتھ رہائش کا بندوبست بھی کر دیا۔

پنڈی کے علاقے ٹنچ بھاٹہ میں دو کمرے کے چھوٹے سے مکان میں شفٹ ہونے کے بعد میرے نئے سفر کا آغاز ہو گیا۔ پہلی تنخواہ ملتے ہی میں نے ایف اے کی کتابیں خرید لیں۔ اگلے ہی مہینے میں نے گورڈن کالج میں داخلہ بھی لے لیا۔ صلاح الدین نے کمال شفقت سے میری ڈیوٹی کے اوقات اس طرح مقرر کئے کہ میں روزانہ کالج جانے کے قابل ہو گیا۔ کالج کے بعد دکان پر جاتا، رات گئے تک دکان پر کام کرتا، رات گھر جا کر پہلے کھانا کھاتا اور دیر تک پڑھائی کرتا رہتا۔ اس طرح زندگی کے شب و روز ماہ و سال میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ چند سالوں میں میں نے بی اے اور پھر اکنامکس میں ایم اے کر لیا۔ اس دوران صلاح الدین صاحب میرے اوپر اتنا اعتماد کرنے لگے تھے کہ دکان میرے حوالے کر کے کہیں بھی چلے جاتے۔ میں نے نہ صرف دکانداری کے امور سیکھ لئے تھے بلکہ کاروبار کے باقی گر بھی جان گیا تھا۔ اب میر رول اس دکان کے عام ملازم کا نہیں بلکہ مینجر کا تھا۔

صلاح الدین صاحب کی ایک ہی اولاد ان کی بیٹی تھی جو شادی کر کے اپنے میاں کے ساتھ سعودی عرب چلی گئی۔ صلاح الدین نے اب تک جو کچھ کمایا تھا وہ ان کی بقیہ زندگی کے لئے کافی تھا۔ اس لئے وہ دکان ختم کر کے ریٹائر منٹ کی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ ان کی صحت بھی اب جواب دیتی جا رہی تھی۔ ان حالات میں کاروبار کو سنبھالنا ان کے لئے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ انہوں نے دکان بیچنے کا فیصلہ کیا تو سب سے بڑا دھچکا مجھے لگا۔ اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد بھی میں نے کسی اور نوکری کے لئے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ صلاح الدین صاحب کو میری ضرورت تھی اور میں انہیں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی میرا رجحان ہمیشہ بزنس کی طرف ہی رہا۔ میں نے جب بھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا تو اپنے کاروبار کے بارے میں ہی سوچا۔ شاید اس وجہ سے کہ کاروبار میرے خون میں شامل تھا اور میری پرورش کا حصہ تھا۔

صلاح الدین صاحب کی نوکری چھوڑنے کے بعد میں نے اپنی دکان کھولنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے راجہ بازار میں ہی دکان کرائے پر لینے کی تگ و دو شروع کر دی۔ اس کے لئے میں نے کچھ بچت بھی کر رکھی تھی۔ مگر جب وقت آیا تو معلوم ہوا ہے کہ یہ رقم اس مقصد کے لئے ناکافی ہے۔ جتنی رقم میرے پاس تھی اس سے مضافاتی علاقوں میں تو کوئی دکان لی جا سکتی تھی لیکن راجہ بازار جیسے مہنگے کاروباری علاقے میں ایسا ممکن نہیں تھا۔ صلاح الدین صاحب میرے ارادے اور میری تگ و دو سے واقف تھے۔ ایک دن کہنے لگے ’’گل خان! تم دکان لینا چاہتے ہو اور میں بیچنا چاہتا ہوں۔ ادھر اُدھر جانے کی بجائے تم یہی دکان کیوں نہیں لے لیتے‘‘

میں نے کہا ’’میاں صاحب! یہ دکان لینا میرے بس سے باہر ہے۔ میرے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے۔ میں چھوٹی اور نئی دکان ڈھونڈ رہا ہوں۔ آپ کی دکان بڑی اور چلتی ہوئی ہے۔ اس کی قیمت اور گُڈ وِل کا مجھے اندازہ ہے۔ اس لئے میں نے اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا‘‘

میاں صاحب نے کہا ’’گل خان! تم جانتے ہو کہ اس دکان کو نقد فروخت کرنا میرے لئے چنداں مشکل نہیں ہے لیکن اگر تم خریدو گے تو مجھے ایسا لگے گا کہ دکان میرے ہی پاس ہے۔ اس لئے میں نے سوچ لیا ہے کہ دکان تمھارے حوالے کر دوں گا۔ یہ چلتا ہوا منافع بخش کاروبار ہے۔ چند سالوں میں تھوڑی تھوڑی کر کے تم اس کی قیمت ادا کر دینا‘‘

صلاح الدین صاحب ایک نیک اور محبت کرنے والے انسان تھے، اس کا تو مجھے پہلے سے علم تھا۔ لیکن کاروباری آدمی ہونے کے باوجود اتنی دریا دلی کا مظاہرہ کریں گے، یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آج کے نفسانفسی والے دور میں جہاں ایک بھائی دوسرے بھائی پر اعتماد نہیں کرتا۔ اور اکثر ہم ایک دوسرے کے اعتبار پر پورے بھی نہیں اترتے۔ اس دور میں ایسے انسان کم ملیں گے۔ میں اس مہربان صفت انسان اور ان کے اہل خانہ کے دل میں اپنے بارے میں بدگمانی کا شائبہ تک آنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس لئے میں نے انہیں تجویز پیش کی ’’میاں صاحب! آپ میرے اوپر اتنا بڑا احسان کر رہے ہیں کہ میں ساری زندگی اس کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ کاروباری اصولوں سے ہٹ کر میرے ساتھ آپ کی خصوصی شفقت ہے۔ میں آپ کی پیشکش میں تھوڑی سی ترمیم کرنا چاہوں گا۔ ہم اس دکان کا آج کا مارکیٹ ریٹ طے کر لیتے ہیں۔ میں یہ رقم آپ کی آفر کے مطابق تھوڑی تھوڑی کر کے ادا کر دوں گا۔ جب تک یہ رقم مکمل طور پر ادا نہیں ہوتی، اس وقت تک میں اس کاروبار کے نصف کا مالک ہوں گا۔ بقیہ نصف آپ کے نام پر رہے گا۔ کاروبار کا پچاس فیصد منافع میں آپ کو ادا کرتا رہوں گا۔ میرے قیمت ادا کرنے کے بعد آپ دکان میرے نام کر سکتے ہیں‘‘

صلاح الدین صاحب نے احتجاج کیا ’’لیکن بیٹا! میں پچاس فیصد منافع کا حقدار نہیں ہوں کیونکہ دکان تو تم چلاؤ گے‘‘

’’میاں صاحب! یہ میری شرط ہے۔ اگر آپ کو منظور ہے تو میں دکان لوں گا ورنہ نہیں‘‘

بالآخر صلاح الدین صاحب کو میری شرط ماننی پڑی۔ اگلے تین سال میں میں نے صلاح الدین صاحب کو دکان کی پوری قیمت بمع پچاس فیصد منافع کے ادا کر دی۔ انہوں نے دکان میرے نام کر دی۔ میں نے اس دکان کے اوپر دو منزلیں مزید تعمیر کروائیں۔ ایک فلور پر مردانہ، دوسرے پر زنانہ اور تیسرے پر بچوں کے ملبوسات سجائے گئے۔ پاکستانی کپڑے کے علاوہ میں نے درآمد شدہ ملبوسات بھی بیچنے شروع کر دیئے۔ میرے اسٹور پر آنے والے ہر فرد کے لئے اتنی ورائٹی موجود ہوتی کہ کوئی شخص خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ ہر قیمت اور ہر کوالٹی کا لباس وہاں موجود تھا۔ آہستہ آہستہ یہ دکان مشہور ہوتی چلی گئی۔ صبح سے لے کر رات گئے تک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا۔ میر اکام دکان کے ملازمین کو کنٹرول کرنا اور اشیائے فروخت کا مناسب اسٹاک جمع رکھنا تھا۔ اس سلسلے میں میں کراچی اور لاہور تو اکثر جاتا ہی رہتا تھا، گاہے گاہے یورپ بھی جانا شروع کر دیا۔ وہاں سے جدید ترین فیشن کے ملبوسات خرید کر نہ صرف میں اپنے اسٹور پر رکھتا بلکہ شہر کے دیگر کئی دکانداروں کو بھی سپلائی کرتا۔

اب میں نہ صرف یورپ سے ملبوسات درآمد کرتا تھا بلکہ پاکستانی ملبوسات کو ان ممالک میں برآمد بھی کرنے لگا۔ میں جب بھی یورپ جاتا تو یہ محسوس کرتا کہ وہاں کاروبار کی بہت گنجائش ہے۔ یورپ کے لوگوں کا طرزِ زندگی اس طرح کا ہے کہ وہ کاروبار کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال پاتے۔ ایمسٹرڈم میں پنڈی کے میرے چند دوست موجود تھے۔ شروع میں ان کی وجہ سے میں نے یہاں کا رخ کیا تھا۔ پھر جب درآمد برآمد کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا تو میں نے یہاں اپنا آفس، اپنا ویئر ہاؤس اور اپنے نمائندے تعینات کر دیئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میں خود یہاں شفٹ ہو گیا۔ شروع میں چند سال ملبوسات کی درآمد اور برآمد کا کاروبار جاری رکھا۔ پھر ایک بڑے شاپنگ چین میں پارٹنر شپ کر لی۔ اب یہ شاپنگ چین سو فیصد میرے پاس ہے۔ اس کا سلسلہ نہ صرف پورے ہالینڈ میں بلکہ جرمنی، فرانس اور سوئٹزر لینڈ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ سبا للہ کا کرم اور والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ میں اپنے گاؤں کے لئے جو کچھ کر سکتا تھا، وہ کیا ہے۔ میرے گاؤں میں ایک ڈسپنسری اور سکول میرے خرچ پر چل رہا ہے۔ لیکن یہ ناکافی ہے۔ ابھی تک وہاں کوئی سڑک نہیں بنی۔ علاوہ ازیں یہ صرف میرے گاؤں کے مسائل نہیں ہیں، اس علاقے میں ایسے بے شمار گاؤں ہیں جو ان مسائل سے دوچار ہیں‘‘




آسٹریلیا بر اعظم افریقہ کا کوئی ملک ہے کیا؟





رات گیارہ بجے اظہر نے مجھے ہوٹل ڈراپ کیا۔ اس وقت بھی دن کی روشنی باقی تھی۔ یورپ میں سورج ڈوب جانے کے بعد بھی کافی دیر تک اس کی روشنی باقی رہتی ہے۔ اظہر نے بہت تپاک سے الوداعی معانقہ کیا۔ میں اسے خدا حافظ کہہ کر ہوٹل میں داخل ہو گیا۔ آج ہمارے گروپ ٹور کی آخری رات تھی۔ مجھے یقین تھا کہ گروپ کے لوگ بار میں بیٹھے الوداعی ڈرنک پی رہے ہوں گے۔ میں بار میں پہنچا تو توقع کے مطابق تقریباً سارے سیاح وہاں موجود تھے۔ مجھے دیکھا تو جسٹن نے نعرہ لگایا۔ دوسرے بھی میری طرف دیکھ رہے تھے۔ جسٹن اور جوزی کے ساتھ فرینک، مسز فرینک، جولی، جان اور خلاف توقع ہماری گائیڈ مولی بھی بیٹھی تھی۔ دوسروں کو ہیلو ہائے کہتا میں جسٹن اور جوزی کے ٹیبل پر جا بیٹھا۔ جوزی نے حسبِ معمول ہنستے ہوئے کہا ’’کہاں رہے ناٹی بوائے! تمھیں تو دو تین دن سے دیکھا ہی نہیں۔ لگتا ہے ہالینڈ میں تمھارے بہت سارے دوست ہیں‘‘

جولی نے کہا ’’ہاں! طارق کو نئے دوست بنانے کا شوق ہے۔ ایسے میں پرانے دوستوں کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو ہی جاتا ہے‘‘

میں نے کہا ’’ایسی بات نہیں ہے۔ ہم لوگ تو اکھٹے ہی ہیں لیکن ایمسڑڈم اور ان لوگوں سے پھر جانے کب ملنا ہو۔ ویسے بھی سیاح نئی جگہوں اور نئے لوگوں سے ملتے رہیں تو سیاحت کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اسی میں سفر کا حسن ہے‘‘

جوزی نے شرارت سے کہا ’’حسن تو تمھارے اردگرد بھی موجود ہے، اتنی تلاش کی کیا ضرورت ہے‘‘

جوزی کا اشارہ جولی کی جانب تھا۔

’’سفر میں ہر قدم اور ہر مقام پر ایک سے ایک حسین اور دلکش مقام آتا ہے۔ ہم اس سے آنکھیں پھیر تو نہیں سکتے‘‘میں نے بات بدلتے ہوئے کہا ’’ہاں تم اور جسٹن آپس میں اتنے گم رہتے ہو کہ ادھر اُدھر دیکھنے کے لئے تمھارے پاس فرصت نہیں‘‘

جسٹن جو لگتا تھا کہ اس وقت تک خاصا ڈرنک ہو چکا تھا، اس نے اٹھ کر جوزی کو گلے لگا لیا اور اُسے چومنا شروع کر دیا۔ کہنے لگا ’’میرے لئے تو ساری خوبصورتیاں اور سارے جہاں کا حسن جوزی کے بدن، اس کے ہونٹوں، اس کے گالوں اور اس کی آنکھوں میں ہے۔ مجھے کہیں اور دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘

میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو جانجی اور مشی کونے کی ایک میز پر بیٹھے جسٹن اور جوزی والا سین دُہرا رہے تھے۔ جوزی نے جسٹن کا گرمجوشی سے ساتھ دیا۔ تھوڑی دیر تک وہ خواب گاہ والے مناظر کی ریہرسل کرتے رہے۔ پھر انہوں نے اٹھ کر ناچنا شروع کر دیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ایسے چمٹایا ہوا تھا کہ یک جان و دو قالب ہو گئے تھے۔ بدن کے ساتھ بدن اور گال کے ساتھ گال چِپکے تھے۔ وہ ہم سب کو بھی ساتھ دینے کے لئے کہہ رہے تھے۔ کوئی اور نہیں اٹھا، خلافِ توقع جانحی اور مشی اٹھ کر ان کا ساتھ دینے لگے۔ یہ دونوں جوڑے ناچنے پر کم اور اپنے پارٹنرز پر زیادہ توجہ دے رہے تھے۔

اچانک ایک میز سے ڈاکٹر رمیش اور اس کی بیوی اٹھے۔ وہ بھی ان کے ساتھ آ کر ناچنے لگے۔ ڈاکٹر رمیش کے ساتھ بچے بھی تھے، اس لئے وہ رات کو ہمارے ساتھ کم ہی بیٹھتے تھے۔ آج آخری رات وہ بچوں کو کمرے میں چھوڑ کر ہمارے ساتھ موجود تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے کئی جوڑے ڈانسنگ فلور پر محو رقص ہو گئے۔ بار مین نے موسیقی کی لے تیز کر دی اور رنگ برنگی جلنے بجھنے والی روشنیاں آن کر دیں۔ تمام جوڑے اپنے اپنے انداز میں محوِ رقص تھے۔ کسی کے قدم موسیقی کی لے کے مطابق نہیں تھے سوائے ڈاکٹر رمیش اور اس کی بیوی کے۔ ڈاکٹر رمیش اور اس کی بیوی جوان تھے۔ خصوصاً مسز رمیش پتلی کمر اور نازک جسم کی مالک تھی۔ دوسروں کے برعکس اس جوڑے نے ایک دوسرے کو چمٹایا ہوا نہیں تھا بلکہ ایک دوسرے کے سامنے قدم سے قدم ملا کر اور تال سے تال ملا کر اس طرح رقص کر رہے تھے کہ ایک خاص رِدم سا پیدا ہو گیا۔ انہیں دیکھ کر باقی جوڑے سست پڑ گئے اور بالآخر کھڑے ہو کر انہیں دیکھنے لگے۔ ڈاکٹر رمیش اور مسز رمیش نے بھی محسوس کر لیا کہ وہ اس وقت سارے ہال کی نگاہوں کا مرکز ہیں، اس لئے ان کے رقص میں تیزی آتی چلی گئی۔ وہ آنکھوں میں آنکھوں ڈالے تیز موسیقی کی لے پر اس طرح تھرک رہے تھے کہ ان کی ٹانگیں بجلی کر طرح حرکت کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر رمیش نے اپنی بیوی کی نازک کمر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا جبکہ مسز رمیش نے رمیش کے کندھے پر ہاتھ جمایا ہوا تھا۔

کافی دیر تک یہ ماہر رقص جوڑا اپنے فن کا مظاہرہ کرتا رہا۔ باقی لوگ مبہوت ہو کر محوِ تماشا بنے رہے۔ جب وہ رُکے تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ میں اپنی سیٹ سے اٹھا، ڈاکٹر رمیش سے ہاتھ ملایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی میز پر لے آیا۔ پانڈے اور اس کی بیوی بھی ایک میز پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں انہیں بھی وہیں لے آیا۔ سوئٹزر لینڈ کے ہوٹل میں ہماری تلخ بحث کے بعد ڈاکٹر رمیش اور خصوصاً پانڈے مجھ سے کھینچے کھنچے رہتے تھے۔ میں نے کہا ’’مولی! سوئٹزر لینڈ میں اس دن تم نے ایسا موضوع چھیڑ دیا تھا کہ ہمارے درمیان تلخی سی آ گئی تھی۔ آج پھر تم ہمارے درمیان موجود ہو۔ سفر کے اس اختتام پر میں نہیں چاہتا کہ ہمارے دِلوں میں کوئی میل باقی رہے۔ یہ سفر رنگوں، روشنیوں، خوبصورتیوں اور محبتوں سے عبارت ہے۔ اس کے ماتھے پر نفرت کا ہلکا سا داغ بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ سیاست کی باتیں اہل سیاست پر چھوڑتے ہیں۔ ہمارا کام محبت کو عام کرنا ہے۔ اس محبت کا پیغام میں باقی سب ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رمیش اور مسٹر پانڈے کو بھی دیتا ہوں اور ان سے بھی کہتا ہوں کہ اپنے دل میں کوئی رنجش لے کر امریکہ نہ لوٹیں، بلکہ اچھی یادیں لے کر جائیں‘‘

پانڈے کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ اس کے چہرے سے خشونت غائب گئی اور اس کی جگہ نرمی سی پھیل گئی۔ اس کی آنکھیں بھی نم سی نظر آنے لگیں۔ اچانک اس نے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور اُردو میں بولا ’’آف کورس! ہم اچھے دوست ہیں۔ کوئی غلط فہمی نہیں ہے اور میرا دل بالکل صاف ہے‘‘

اس کی دیکھا دیکھی ڈاکٹر رمیش بھی اُٹھ کر گلے ملا ’’آئی ایم سوری! میرا اُردو اچھا نہیں۔ اینی وے وی آر فرینڈ اگین‘‘

مولی اور دوسرے ساتھیوں نے تالیاں بجا کر ہماری صلح کی داد دی۔ صلح کی خوشی میں ایک ایک ڈرنک سب کے لئے منگایا گیا۔ مولی نے کہا ’’یہ ڈرنک میری طرف سے ہے۔ آج آپ لوگوں کے سفر کی آخری رات ہے، اسے خوب انجوائے کریں۔ ہم میں سے زیادہ تر ایک دوسرے سے دوبارہ شاید نہ مل پائیں، اس لئے اس رات کو یادگار بناتے ہیں۔ میں بہت عرصے سے ٹور گائیڈ کا کام کر رہی ہوں۔ کسی بھی گروپ یا اس کے کسی ایک فرد سے میری کبھی اتنی وابستگی نہیں ہوئی جتنی آپ لوگوں سے ہوئی ہے۔ آپ لوگوں سے بچھڑنے کا مجھے بھی دکھ ہو گا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ یہ سفر انتہائی خوشگوار ماحول میں گزرا۔ اس کی وجہ آپ لوگ ہیں۔ آپ سب اتنے اچھے، ملنسار اور خوشگوار طبیعت کے مالک ہیں کہ اس سفر کا لمحہ لمحہ ایک یادگار بن گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب بھی اس سفر سے لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ ہماری کمپنی کے بے شمار ٹور پیکج ہیں جو سال کے بارہ ماہ جاری رہتے ہیں۔ آئندہ بھی اگر سیرو سیاحت کا ارادہ ہو تو ٹریفالگر کو یاد رکھئے۔ دوسری دفعہ ٹور پر آنے والے سیاحوں کو ہماری کمپنی دس فیصد کی رعایت دیتی ہے‘‘

مولی نے الوداعی تقریر میں کمپنی کی مشہوری کا فریضہ بھی ادا کر دیا تھا۔ جسٹن جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا، چپ نہ رہ سکا ’’مولی ہم نے آسٹریلیا سے آ کر یورپ کی سیر کر لی، اب تمھاری باری ہے۔ تم آسٹریلیا آؤ، ہم تمھیں وہاں کی سیر کرائیں گے‘‘

مولی نے کنکھیوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’جسٹن! آسٹریلیا سے تم اکیلے نہیں آئے ہو۔ کسی اور نے تو مجھے یہ دعوت نہیں دی۔ ویسے میں آسٹریلیا کبھی نہیں گئی۔ میری خواہش بھی ہے وہاں جانے کی۔ دیکھئے کب جانا ہوتا ہے‘‘

میں نے کہا ’’جب خواہش ہے تو اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اور جسٹن تمھیں سڈنی اور اس کے نواح کی سیر کروا دیں گے۔ جان ملبورن میں رہتا ہے، وہ تمھیں ملبورن دکھا دے گا۔ کوئنز لینڈ اکیلی چلی جانا۔ وہاں کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں، تمھارا پورا خیال رکھیں گے‘‘

مولی نے ہنستے ہوئے کہا ’’یہ تو زیادتی ہے۔ میں نے تم لوگوں کو آدھا یورپ دکھا دیا اور آپ صرف اپنا شہر دکھا کر مجھے اکیلا چھوڑ دیں گے‘‘

میں نے کہا ’’مولی! تم شاید آسٹریلیا کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔ آسٹریلیا یورپ کی طرح نہیں ہے۔ ہمارے شہر اور ریاستیں ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ جیسے ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا پڑ جائے۔ پرتھ کو ہی لے لو۔ سڈنی سے ہوائی جہاز پر چار پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ کینز جو کوئنز لینڈ کا مشہور تفریحی مقام ہے سڈنی سے چار گھنٹے کے ہوائی سفر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس لئے ہم میں سے زیادہ تر نے پورا آسٹریلیا نہیں دیکھ رکھا ہے۔ اس کے مقابلے میں یورپ کے ممالک ایک دوسرے سے اتنے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک ملک کے دار الحکومت سے پتھر پھینکیں تو دوسرے ملک کے دار الحکومت تک پہنچ جاتا ہے۔ صبح نکلو تو پانچ چھ ملکوں کی سیر کر کے شام کو گھر واپس آ جاؤ‘‘

ڈاکٹر رمیش نے کہا ’’یہی حال امریکہ کا ہے۔ اتنا بڑا ملک ہے کہ کسی بھی سیاح کے لئے پورا امریکہ دیکھنا تقریباً نا ممکن ہے۔ خود بے شمار امریکن ایسے ہوں گے جو امریکہ کی باون ریاستوں میں نہیں گئے۔ جو لوگ امریکہ کے ایک سرے میں پیدا ہوئے ہیں انہیں دوسرے سرے پر واقع ریاستوں کا علم بھی نہیں ہے‘‘

میں نے کہا ’’امریکنوں کو اپنے ملک کے بارے میں تو شاید علم ہو لیکن امریکہ سے باہر کے ممالک کے بارے میں ان کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرے ایک آسٹریلین دوست لاس اینجلس اولمپک کے دوران اپنے اخبار کی کوریج کے لئے وہاں گئے۔ ایک رات جب وہ دوسرے صحافیوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے تو ان کے ایک امریکن کولیگ نے ان سے پوچھا ’’تم امریکہ کی کس ریاست سے آئے ہو کیونکہ تمھارا تلفظ مختلف ہے‘‘

میرے آسٹریلین دوست نے کہا ’’میں امریکن نہیں ہوں بلکہ آسٹریلیا سے آیا ہوں‘‘

ان کے امریکن ساتھی نے کہا ’’آسٹریلیا بر اعظم افریقہ کا کوئی ملک ہے کیا؟‘‘

’’نہیں! آسٹریلیا بذاتِ خود براعظم ہے اور بہت بڑا ملک ہے‘‘

امریکن نے پوچھا ’’لیکن یہ کہاں واقع ہے؟‘‘

میرے دوست نے کہا ’’آپ اگر آسٹریلیا کے بارے میں نہیں جانتے تو اس کا حدود اربعہ کیا سمجھیں گے۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں اگلی اولمپک گیمز ہوں گی‘‘

امریکن صاحب بولے ’’اوہ اچھا! جہاں کینگرو ہوتے ہیں۔ سڈنی کا نام میں نے سنا ہے لیکن آج پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ وہ آسٹریلیا میں ہے‘‘

پانڈے نے بتایا ’’در اصل اس میں امریکنوں کا اتنا قصور نہیں ہے۔ وہاں کا میڈیا بین الاقوامی خبریں اور حالاتِ حاضرہ بالکل نہیں دکھاتا۔ امریکہ سے باہر بڑے سے بڑا واقعہ ہو جائے میڈیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اخبارات اور ٹی وی صرف امریکہ کے اندر کی خبریں دکھاتے ہیں۔ اس طرح عام امریکن امریکہ سے باہر کے حالات و واقعات جان ہی نہیں پاتا‘‘

میں نے کہا ’’یہ شکایت تو ہمیں اپنے آسٹریلین میڈیا سے بھی ہے۔ ایک تو وہاں ٹی وی چینل بہت زیادہ نہیں ہیں جو ہیں وہ بھی زیادہ تر مقامی خبروں تک محدود رہتے ہیں۔ اخبارات کا دائرہ بھی اپنے اپنے شہروں اور آسٹریلیا کے مقامی حالات تک محدود رہتا ہے۔ سوائے ایس بی ایس ٹی وی اور ریڈیو کے جو بین الاقوامی خبریں اور حالات کسی حد تک سناتے اور دکھاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں میں جب پاکستان میں رہتا تھا تو مجھے یاد ہے کہ ٹی وی اور اخبارات باقاعدگی سے بین الاقوامی خبریں اور حالاتِ حاضرہ دکھاتے اور شائع کرتے تھے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ یا آسٹریلیا کے عوام کو باہر کی خبروں سے اتنی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس لئے انہیں وہی کچھ مہیا کیا جاتا ہے جو وہ پڑھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اور بھارت کے عوام رہتے اپنے اپنے ملکوں میں ہیں لیکن وہ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے بارے میں اتنا جانتے ہیں کہ شاید مقامی لوگوں کو بھی اتنا علم نہ ہو۔ اس کی مثال میں اس طرح دیتا ہوں کہ آسٹریلیا جانے سے پہلے بھی مجھے علم تھا کے آسٹریلیا کے امیر ترین آدمی کا نام کیری پیکر ہے۔ وہ سڈنی میں رہتا ہے۔ وہ چینل نائن کا مالک ہے اور کھیلوں کا شوقین ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کے مختلف شہروں کے بارے میں مجھے اچھی خاصی معلومات تھیں‘‘

مسز مارگریٹ جو تھوڑی دیر پہلے آ کر ہمارے ساتھ بیٹھی تھیں، کہنے لگیں ’’پاکستان اور بھارت کے لوگوں کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بارے میں اتنا علم ہے کہ مجھے حیرانی ہوتی ہے۔ میں پاکستان اور ہندوستان کئی دفعہ گئی ہوں اور بہت سے لوگوں سے ملاقات رہی۔ کرکٹ میرا سب سے بڑا شوق ہے اور اس کے لئے میں نے لمبا عرصہ گھر سے باہر کرکٹ ٹیم کے ساتھ گزارا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے لوگوں سے جب میری ملاقات ہوتی ہے تو وہ کرکٹ اور کرکٹ کے پرانے کھلاڑیوں کے بارے میں ایسی ایسیباتیں بتاتے ہیں کہ میں دنگ رہ جاتی ہوں۔ وہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے پرانے کھلاڑیوں، ان کے ریکارڈز اور دیگر معلومات ایسے بتاتے ہیں جیسے یہ سب کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہو۔ اس کے مقابلے میں ہمارے نیوزی لینڈ کے عام لوگ اپنے سپر سٹارزسے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ دوسرے ممالک اور ان کے سٹار کھلاڑیوں کے بارے میں جاننا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ پاکستان اور بھارت کے اخبارات بین الاقوامی خبروں کی بہت اچھی کوریج دیتے ہیں۔ میں جب پاکستان اور انڈیا میں ہوتی تھی تو نیوزی لینڈ کی اہم خبریں باقاعدگی سے پڑھتی تھی‘‘

ڈاکٹر رمیش نے کہا ’’اب حالات بدل رہے ہیں۔ اب مقامی اخبارات اگر بین الاقوامی خبریں شائع نہ کریں تو ہم انٹر نیٹ سے انڈیا کے اخبارات پڑھ لیتے ہیں۔ اس طرح اخبارات کی کمی محسوس نہیں ہوتی‘‘ میں نے کہا ’’یہ بات کسی حد تک درست ہے۔ لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے عام لوگ تو ان خبروں سے مستفید نہیں ہوتے۔ وہ مختلف ممالک کی ویب سائٹ پر جا کر ان کے اخبارات پڑھنے سے تو رہے۔ یہی خبریں ان کے اپنے اخبارات اور ٹی وی پر نظر آئیں تو وہ ان سے ضرور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آج کے دور میں جب دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اپنے علاقوں سے باہر نکل کر پوری دنیا کے حالات و واقعات سے باخبر رہیں۔ اس طرح اگر ضرورت پڑے تو ان ممالک کے لوگوں کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو دنیا ایک عالمگیر برادری کی شکل اختیار کر لے گی۔ دنیا کے ایک خطے کے لوگ دوسرے خطے کے حالات واقعات سے واقف ہو کر ان کے درد آشنا بن سکتے ہیں۔ اگر کوئی ملک دوسرے ملک پر زیادتی کرے تو پوری دنیا اس پر اخلاقی اور معاشی دباؤ ڈال کر اسے اس کام سے باز رکھ سکتی ہے۔ بنیادی مسئلہ بین الاقوامی حالات سے مکمل واقفیت کا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ ضرورت امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے عوام کو ہے کیونکہ ان ملکوں کے بہت سے لوگ دوسرے کئی ملکوں کے نام تک نہیں جانتے‘‘

جب ہم گفتگو کر رہے تھے تو دوسری میزوں پر براجمان ہمارے زیادہ تر ساتھی بھی اٹھ کر ہماری میز کے اردگرد بیٹھ گئے تھے۔ رات کا ایک بجنے کو تھا لیکن کسی کا سونے کا موڈ نہیں تھا۔ سبھی کو ایک دوسرے سے بچھڑنے کا غم تھا۔ وہ اس آخری رات کے زیادہ سے زیادہ لمحات اکھٹے گزارنے کے خواہشمند تھے۔ ساؤتھ افریقن بوڑھا باب جو اکثر الگ تھلگ رہتا تھا آج وہ بھی ہمارے پاس بیٹھا تھا۔ اس نے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا ’’یہ مسئلہ صرف امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک محدود نہیں، ساؤتھ افریقہ میں بھی میڈیا کا رویہ اس سے ملتا جلتا ہی ہے۔ بقیہ دنیا اور ان کے اہم مسائل سے ہمارے عوام زیادہ باخبر نہیں ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی سب سے بڑی وجہ یعنی مسئلہ کشمیر سے میں بالکل بے خبر تھا۔ میں یہ تو جانتا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان چپقلش جاری رہتی ہے لیکن اس کی اصل وجہ اس دن آپ لوگوں کی بحث سے معلوم ہوئی۔ اگر اس عمر میں مجھے علم نہیں تھا تو نئی نسل تو ان بین الاقوامی مسائل سے بالکل لاعلم ہے‘‘




شاید یہ دُنیا ہی چھوڑنی پڑے





جولی جو اس سنجیدہ گفتگو سے کچھ بور سی ہونے لگی تھی، کہنے لگی ’’اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم لوگ اس مقولے پر عمل کرتے ہیں ’’نو نیوز از گڈ نیوز‘‘۔ جس طرح بے خبری بری ہے اسی طرح زیادہ باخبری بھی اچھی نہیں۔ دنیا میں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ آدمی اگر ہر ایک کے غم میں گھلنا شروع ہو جائے تو اس کی زندگی تو غموں سے عبارت ہو کر رہ جائے۔ یہ سنجیدہ گفتگو بہت ہو گئی، اب موضوع تبدیل کرنا چاہئے۔ مولی سے پوچھنا چاہیے کہ ہمارے گروپ میں کیا خاص بات ہے کہ ہم تمھارے لئے ناقابل فراموش بن گئے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ دوسرے گروپ اور اس میں شامل افراد بھی ہماری طرح ہی ہوں گے۔ پھر ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے کہ تمھیں ہمارے بچھڑنے کا اتنا دُکھ ہو رہا ہے‘‘

جولی کے سوال میں پوشیدہ طنز کو سمجھنا میرے اور مولی کے لئے مشکل نہیں تھا۔ باقی سیاح اسے ایک عام سوال ہی سمجھے۔ مولی گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے تھی۔ اس نے بلا تامل جواب دیا ’’ایک گائیڈ کی حیثیت سے سیاحوں کے تمام گروپ میرے لئے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ گائیڈ کی حیثیت سے ناپسندیدگی کے اظہار سے میں گریز کرتی ہوں۔ احترام اور عزت سب کی کرتی ہوں۔ تا ہم کسی گروپ میں ایک یا ایک سے زیادہ افراد کو اگر پسند کرتی ہوں تو اس کے اظہار میں مجھے کوئی جھجھک نہیں ہے۔ آپ کے گروپ میں بھی ایسے افراد ہیں جنہیں میں دوست کی حیثیت سے پسند کرنے لگی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اس گروپ سے میری وابستگی معمول سے ہٹ کر اور زیادہ ہو گئی ہے اور آپ لوگوں سے بچھڑنے کا دکھ بھی ہو گا۔ لیکن یہ زندگی ہے۔ اس میں یہ سب چلتا رہتا ہے‘‘

مولی کے بھرپور جواب سے جولی کو مزید سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی لیکن مولی کے لئے اس کے دل میں جو گرہ پڑی تھی وہ ختم نہیں ہوئی۔ جسٹن جو ہنسنے اور ہنسانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا تھا، کہنے لگا ’’لگتا ہے مولی مجھے پسند کرنے لگی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کے اظہار کے لئے یہ آخری موقع ہے۔ اسے ضائع نہ کرو اور مجھے بتا دو۔ کم از کم ایک رات تو اکھٹے گزار سکیں گے‘‘

سب مسکرانے لگے۔ مولی نے کہا ’’پہلے جوزی سے پوچھ لو! اگر وہ اجازت دیتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘

’’اگر جسٹن کو میرے ہاتھوں مرنے کا شوق ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے‘‘ جوزی نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا

جسٹن بولا ’’مولی میری جان! یہ ظالم زمانہ ہمیں ملنے نہیں دے گا۔ تم اپنے کمرے میں جا کر غمگین گیت سن کر میری کمی پوری کرنے کی کوشش کرنا اور میں بھی رات بھر ٹھنڈی آہیں بھرتا رہوں گا‘‘

جوزی نے ہاتھ اٹھا کر کہا ’’تم کمرے میں چلو تو سہی، میں تمھاری سانسیں ہی بند کر دوں گی۔ پھر نہ ٹھنڈی نہ گرم، سانس لینے کے قابل ہی نہیں رہو گے‘‘

میں نے روئے سخن مارگریٹ کی طرف کرتے ہوئے کہا ’’مارگریٹ اس گروپ میں باب کی طرح تمھارے کئی ہم عمر اولڈ بوائے ہیں۔ تم نے اب تک ان میں سے کسی کو پسند نہیں کیا؟‘‘

مارگریٹ نے ہنستے ہوئے کہا ’’باب اولڈ بوائے ہو سکتا ہے میں تو صرف گرل ہوں۔ ویسے تو تم بھی اکیلے ہو، میرے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

’’خیال بہت نیک ہے۔ میں تمھیں اکیلا دیکھتا ہوں تو میرا دل کڑھتا ہے۔ میں اپنے ہاتھوں سے تمھارے ہاتھ پیلے کرنا چاہتا ہوں اگر تم اجازت دو آنٹی!‘‘

’’آنٹی! یہ آنٹی کون ہے؟ مسز مارگریٹ نے اپنے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا ’’میں تمھیں پروپوز کر رہی ہوں اور تم مجھے آنٹی کہہ رہے ہو۔ تم ذرا بھی رومانٹک نہیں ہو طارق‘‘

’’تم نے نوٹ نہیں کیا! جب تم مجھے پروپوز کر رہی تھیں تو باب کے سینے پر چھریاں چل رہی تھیں۔ کیوں ایک بے گناہ کے خون سے ہاتھ رنگنا چاہتی ہو۔ یہ سفر ختم ہونے سے پہلے تم باب کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کیوں نہیں کر دیتیں‘‘

باب فوراً بولا ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اگر مارگریٹ ہاں کر دے تو میں ساؤتھ افریقہ چھوڑ کر نیوزی لینڈ آ کر رہنے کے لئے تیار ہوں۔ ویسے میں اتنا بوڑھا میں بھی نہیں ہوں۔ مارگریٹ اگر تم خود کو گرل سمجھتی ہے تو میں خود کو ٹین ایجر محسوس کرتا ہوں۔ اگر کوئی شک ہے تو آج کی رات آزما کر دیکھ لو‘‘

مارگریٹ نے ہنستے ہوئے کہا ’’میرے پاس کسی کی تجہیز و تکفین کے لئے پیسے نہیں ہیں اس لئے میں تمھیں آزمانے کا رسک نہیں لے سکتی‘‘

جسٹن نے کہا ’’مارگریٹ تم باب کے ساتھ زیادتی کر رہی ہو۔ وہ تمہارے لئے اپنا ملک تک چھوڑنے کے لئے تیار ہے اور تم ہو کہ اس کی قدر ہی نہیں کر رہیں۔ ویسے باب تم واقعی مارگریٹ کے لئے ساؤتھ افریقہ چھوڑ سکتے ہو؟‘‘

باب اس دفعہ بولا تو قدرے غمگین سا تھا ’’میں اگر ساؤتھ افریقہ میں رہا تو شاید یہ دنیا ہی چھوڑنی پڑے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بسوں۔ شاید چند سال اور جینے کے لئے مل جائیں۔ اگر مارگریٹ جیسی ساتھی ہو تو یہ چند سال خوشگوار بھی گزر سکتے ہیں‘‘

لگتا تھا کہ ہمارے مذاق میں باب سنجیدہ ہو گیا تھا۔ مارگریٹ سے اسے دلچسپی ہو یا نہ ہو لیکن ایک بات یقینی تھی کہ وہ اپنی اولاد کے ہاتھوں بہت دُکھی تھا۔ اس نے ایک روز مجھے بتایا تھا کہ اس کے بیٹے اس کے مرنے کا ایسے انتظار کر رہے ہیں جیسے گدھ قریب المرگ جانور کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اسے اندیشہ تھا کہ بیٹے اپنے ہاتھوں اسے موت کے منہ میں دھکیل سکتے ہیں۔ انہیں اپنے بوڑھے باپ سے زیادہ اس کی دولت سے دلچسپی تھی۔ یہ دولت انہیں اس وقت تک نہیں مل سکتی تھی جب تک ان کا باپ حیات تھا۔ اسی لئے وہ جلد از جلد باپ کا جنازہ اٹھتا دیکھنا چاہتے تھے۔ باپ کو بھی بیٹوں اور بہوؤں کی نیت کا علم تھا۔ وہ اپنی محنت کی کمائی ان سنپولیوں کو دینے کی بجائے خود پر خرچ کر کے مرنا چاہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ بیٹے اگر اس کی ذرا سی بھی قدر کرتے، اس کی خبر گیری رکھتے اور سب سے بڑھ کر اسے اپنا باپ سمجھتے تو وہ سب کچھ خوشی سے ان کے حوالے کر دیتا۔ لیکن جس طرح وہ اولاد کے بجائے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اس حالت میں انہیں اپنی جائیداد اور روپیہ پیسہ دینا مجھے ہرگز گوارا نہیں ہے۔ میں یہ جائیداد اپنی چھٹیوں، تفریحات اور دیگر مشاغل پر خرچ کر کے مروں گا۔ اگر پھر بھی یہ ختم نہ ہوئی تو کسی رفاعی ادارے کے نام کر دوں گا۔ لیکن اس نا خلف اولاد کو ہرگز نہیں دوں گا‘‘

جوزی نے ماحول کو رنجیدہ ہوتے دیکھا تو کہا ’’باب! اگر تم اپنی جائیداد اور روپیہ پیسہ کسی ادارے کو دینا چاہتے ہو تو ایک نہایت ہی مستحق ادارے کا پتا میں تمھیں بتا سکتی ہوں۔ اس کا نام ہے جسٹن اینڈ جوزی۔ اس نیک کام کا آغاز تم ابھی ہمارے لئے ڈرنک خرید کر کر سکتے ہو۔ اس کے علاوہ جب اور جتنا خرچ کرنا چاہو ہم تمھارا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آخر دوست ہی دوست کے کام آتا ہے‘‘

باب نے اٹھتے ہوئے کہا ’’تمھارے نام نہاد ادارے کے لئے میں ایک ڈرنک ضرور خرید سکتا ہوں بلکہ یہاں بیٹھے سب ساتھیوں کے لئے اگلا ڈرنک میری طرف سے ہے۔ جہاں تک جائیداد اور روپے پیسے کا تعلق ہے تو ایسے ادارے میرے بیٹے بھی کھول کر بیٹھے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں کچھ بہتر ادارے بھی ہیں جو تم لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں‘‘

باب جسٹن، جوزی اور دوسرے ساتھیوں کے لئے ڈرنک کے پیسے دے کر آ گیا۔ ڈرنک آ گئے۔ محفل پہلے کی طرح گرم رہی، ہنسی مذاق چلتا رہا، وقت گزرنے کا علم ہی نہیں ہوا، آخر مارگریٹ نے کہا ’’تین بج چکے ہیں۔ صبح آٹھ بجے ہم نے روانہ ہونا ہے۔ لندن پہنچ کر بہت سے ساتھی اپنا سفر جاری رکھیں گے۔ کیا خیال ہے ابھی چل کر تھوڑا آرام نہ کر لیں ورنہ کل سارا دن نیند ستاتی رہے گی‘‘

کسی کا اُٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ با دل نخواستہ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے کمروں کی طرف چل پڑے۔ کمرے میں پہنچ کر میں نے لباس تبدیل کیا، دانتوں پر برش کیا، ابھی سونے کے لئے لیٹا ہی تھا کہ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ اٹھ کر دروازہ کھولا تو مولی سامنے کھڑی تھی۔ اندر آتے ہی بولی ’’طارق! تم بہت بے مروت ہو۔ میں ساری شام تمھارا انتظار کرتی رہی لیکن تم نہیں آئے۔ تم نیچے سے اٹھ کر اوپر چلے آئے، یہ بھی نہیں پوچھا کہ میں یہاں کیوں آئی تھی۔ میرا آج یہاں کوئی کام نہیں تھا‘‘

’’آئی ایم سوری مولی! تم جانتی ہو میں دعوت سے بہت دیر سے فارغ ہوا تھا اس لئے تمھیں فون نہیں کیا۔ میرے خیال میں گروپ کے ساتھ ساتھ تمھارا بھی ہر ہوٹل میں کمرہ بک ہوتا ہے۔ کیا اس ہوٹل میں نہیں ہے؟‘‘

’’نہیں! دوسرے شہروں میں ہمارا قیام ہو تو وہاں میرا کمرہ بک ہوتا ہے، یہاں ایمسٹرڈم میں چونکہ میرا گھر ہے، یہاں نہیں ہے۔ لگتا ہے تم بہت تھکے ہوئے ہو۔ اب ہم کہیں جا بھی نہیں سکتے۔ میں ٹیکسی لے کر گھر چلی جاتی ہوں۔ صرف چار پانچ گھنٹے ہی تو باقی ہیں، وہ گزار کر صبح واپس آ جاؤں گی‘‘

’’مولی مجھے بہت افسوس ہے کہ تمھیں میرا اتنا انتظار کرنا پڑا۔ میں بھی مجبور تھا۔ ورنہ تمھارے ساتھ جا کر مجھے خوشی ہوتی‘‘

میں نے مولی کو گل خان اور اس کے ڈنر کے بارے میں بتایا تووہ کہنے لگی ’’میں نے گل خان کے بارے میں اخبار میں کئی آرٹیکل پڑھے ہیں۔ وہ ہالینڈ کا ایک بڑا بزنس مین ہے۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ تم اس Legend سے ملنے جا رہے ہو تو میں بھی تمھارے ساتھ چلتی۔ اس گریٹ آدمی سے مل مجھے بھی خوشی ہوتی۔ اینی وے اب میں چلتی ہوں، صبح ملاقات ہو گی‘‘

’’مولی کل ہم جدا ہو جائیں گے۔ پھر شاید کبھی ملاقات نہ ہو لیکن ایک بہت اچھی دوست کی حیثیت سے تم ہمیشہ میرے دل میں رہو گی۔ تم نے جو کچھ میرے لئے کیا ہے، اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں‘‘

’’طارق ایسے تو نہ کہو! دوستی میں تھینک یو اور پلیز کی گنجائش نہیں ہوتی۔ میں نے وہی کیا جو میرا دل چاہا، کسی پر احسان نہیں کیا‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا ’’کبھی سڈنی آئی تو تو تم بدلہ چکا لینا‘‘

’’ضرور! سڈنی میں تم میری مہمان ہو گی‘‘ میں نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا

رات بھیگ چلی تھی۔ میری آنکھوں سے نیند بھی چلی گئی۔ ایمسٹرڈم میں یہ میری آخری رات تھی۔ ہوٹل کی بارھویں منزل کی کھڑکی کے باہر مکمل سناٹا تھا۔ آسمان پر ستارے خاموشی سے زمین کو دیکھ رہے تھے۔ کبھی کبھار ائیر پورٹ سے جہاز اُڑتا تو میری کھڑکی کے سامنے رنگ برنگی روشنیاں بکھیرتا آسمان کی وسعتوں میں گم ہو جاتا۔ پورا ایمسٹرڈم سو رہا تھا۔ کھڑکی کے بالکل سامنے آسمان پر دو ستارے ایک دوسرے سے محو گفتگو نظر آ رہے تھے۔ جوں جوں رات بھیگتی جا رہی تھی ان کا درمیانی فاصلہ گھٹتا جا رہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ دو کی بجائے ایک نظر آنے لگے۔ بند آنکھوں میں کئی منظر دھندلانے لگے۔





واپسی کا سفر




میں دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا





صبح آٹھ بجے ناشتہ کر کے باہر نکلے تو ہمارا سامان بس میں رکھا جا چکا تھا۔ فشر بس کے پاس کھڑا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ بقیہ گروپ کے بر عکس وہ ہشاش بشاش نظر آ رہا تھا کیونکہ اس نے نیند پوری کی ہوئی تھی۔ گروپ کے باقی سیاح اونگھتے محسوس ہو رہے تھے۔ آج ہمارا یورپ کا مشترکہ سفر اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ دو ہفتوں پر محیط اس لمبے سفر سے اکثر سیاح اکتا سے گئے تھے۔ مسلسل سفر کی وجہ سے سب پر تھکن غالب آ چکی تھی۔ سب سے زیادہ مشکل اس وقت پیش آتی تھی جب با دلِ نخواستہ صبح سویرے اٹھ کر اگلی منزل کے لئے روانہ ہونا پڑتا تھا۔ اگر ہمارا بس چلتا تو دس گیارہ بجے سے پہلے ہرگز نہ روانہ ہوتے لیکن ٹریفالگر کا اپنا ٹائم ٹیبل تھا۔ مولی اور فشر کو اس ٹائم ٹیبل پر عمل کرنا پڑتا تھا۔ گروپ میں سفر کے جہاں بہت سے فائدے ہیں وہاں اس کا یہ نقصان ہے کہ گروپ کے ٹائم ٹیبل اور روٹ سے ہٹ کر اپنی صوابدید پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ایک شہر میں دو یا زیادہ دن قیام ہو تو درمیانی دنوں میں ہمیں آزادانہ تفریح اور سیر و سیاحت کا موقع دیا جاتا تھا۔ جس دن ایک شہر سے دوسرے شہر روانگی ہو اس دن صبح کے آٹھ بجے روانہ ہونا پڑتا تھا جو ہمیں بہت گراں گزرتا تھا۔

اس دن ایمسٹرڈم سے لندن واپسی کے لئے بھی ہم آٹھ بجے کوچ میں سوار ہوئے۔ چند منٹوں بعد ہماری کوچ ایمسٹرڈم کی مصروف سڑکوں پر دوڑی چلی جا رہی تھی۔ صبح کا مصروف وقت تھا۔ لوگ کام کاج پر جا رہے تھے۔ اس لئے سڑک، فٹ پاتھ اور دریا سبھی مصروف تھے۔ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ سائیکلوں کا جیسے سیلاب رواں دواں تھا۔ دونوں جانب رنگ برنگی سائیکلوں پر مرد اور عورتیں آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں گرمیوں کے اس موسم میں رنگ برنگی نیکریں اور ٹی شرٹیں پہنے ہنستے بولتے سائیکلوں پر سکولوں اور کالجوں میں جا رہے تھے۔ نہروں میں کشتیاں بھی حسبِ معمول مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں مصروف تھیں۔ سڑک پر ٹریفک کا خاصا دباؤ تھا۔ اس کے باوجود ہارن بجانے کا شور یا ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کا مظاہرہ کہیں نظر نہیں آتا تھا۔

ٹریفک کے قانون کی پابندی تو خیر پورے یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں اسی طرح ہوتی ہے۔ سڑکیں چاہے کتنی ہی مصروف ہوں، سگنل توڑنے، اوور سپیڈنگ کرنے، ہارن بجانے یا دوسرے ڈرائیوروں سے تلخ و ترش مکالموں کے تبادلے کا مظاہرہ یہاں آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ ان قواعد کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے۔ اگر ان کو موقع ملے تو وہ ہرگز نہیں ہچکچاتے۔ ان ملکوں میں قوانین پر عملدرآمد کرانے والے ادارے اس طریقے سے کام کرتے ہیں کہ قانون توڑنے والے ان کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتے۔ غلط پارکنگ ہو یا اوورسپیڈنگ، لا پرواہ ڈرائیونگ یا ٹریفک سگنل کو توڑنا، یہ سب ناقابلِ معافی جرم ہیں۔ پولیس بلا تخصیص ان لوگوں کو پکڑتی ہے۔ جرمانے کے ساتھ ساتھ سنگین غلطی کی صورت میں لائسنس ہی منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ان ممالک میں جہاں ہر شخص آسانی سے گاڑی خرید اور رکھ سکتا ہے، ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ لہذا لوگ قانون سے ڈرتے اور اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ جس سے معاشرہ بحیثیت مجموعی سہل، منظم اور رواں دواں زندگی گزراتا ہے۔

ایمسٹرڈم سے لندن واپسی کا ہمارا روٹ مختلف تھا۔ جاتے ہوئے ہم فرانس، سوئٹزر لینڈ اور جرمنی سے ہو کر ہالینڈ پہنچے تھے۔ جبکہ واپسی کا راستہ مختصر تھا۔ اس دفعہ ہم ایمسٹرڈم سے بلجئیم کے راستے فرانس کے ساحلی شہر Calais پہنچنے والے تھے۔ جہاں سے ہمیں بحری جہاز کے ذریعے انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ کے ساحل پر اُترنا تھا۔ آدھ گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہم ایمسٹرڈم کی شہری حدود سے نکل کر دیہی علاقے میں محوِ سفر تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ایمسٹرڈم سڈنی یا ملبورن کی طرح وسیع و عریض شہر نہیں ہے۔ سڈنی شہر کے مرکز سے نکل کر میٹروپولیٹن حدود پار کرنے کے لئے کسی بھی سمت میں ایک گھنٹے سے کم کا سفر نہیں ہے۔ اگر مصروف اوقات کار ہوں تو کئی گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایمسٹرڈم شہر زیادہ پھیلا ہوا نہیں ہے۔

ایمسٹرڈم شہر تو ایک طرف، پورا ہالینڈ ہم نے صرف دو گھنٹے میں پار کر لیا اور بلجیم کی حدود میں داخل ہو گئے۔ ہالینڈ اور بلجیم کے بارڈر پر کوئی عملہ نظر نہیں آیا اور نہ ہماری کوچ وہاں رُکی۔ صرف مولی کے بتانے پر ہمیں علم ہوا کہ یہاں سے بلجیم شروع ہو گیا ہے۔ بلجیم کے جس علاقے سے ہم گزر رہے تھے وہ جرمنی، سوئٹزر لینڈ اور ہالینڈ کے برعکس میدانی تھا۔ اس میں پہاڑ یا سطح مرتفع کم ہی نظر آئی۔ دور دور تک سرسبز و شاداب کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ جس میں کہیں کہیں کسان کام کر رہے تھے۔ ایمسٹرڈم کے باہر ڈچ علاقے میں اور یہاں بلجیم میں جگہ جگہ پن چکیاں نظر آئیں۔ جن کے پنکھے ہوا میں ہلکے ہلکے چل رہے تھے۔ گرمیوں کے اس موسم میں کھیتوں میں ٹیولپ کے پھولوں کے بہار آئی ہوئی تھی۔ حدِ نظر تک ٹیولپ کے یہ پھول قطار در قطار سراٹھائے جیسے ہمیں خدا حافظ کہہ رہے تھے۔

بلجیم کے اس میدانی علاقے میں نہروں اور نالیوں کا جال سا بچھا ہوا ہے۔ یہ پانی فصلوں کی جان ہے۔ ان کھیتوں میں اجناس، سبزیوں اور پھلوں کی اتنی مقدار پیدا ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف بلجیم کی اپنی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہے۔ مولی نے بتایا کہ نہروں اور نالیوں کا یہ پانی صرف گرمیوں میں ہی کھیتوں تک پہنچ پاتا ہے۔ کیونکہ سردیوں میں یہ جم کر برف بن جاتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کو قدرت نے ایسا موسم عطا کیا ہے کہ سردیوں گرمیوں میں پانی کی روانی متاثر نہیں ہوتی لیکن ہمارے دریاؤں کا پانی بغیر استعمال کے یا تو بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے یا کچی نہروں اور کچے نالوں میں جذب ہو کر ضائع ہو جاتا ہے۔ ہمارے کھیتوں اور باغوں تک بہت کم پہنچ پاتا ہے۔ اگر ایسا موسم ان یورپی اقوام کو ملے تو ان کے کھیتوں کی پیداوار جو پہلے ہی بے شمار ہے، مزید کئی گنا بڑھ جائے۔

قدرت نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ لیکن ان کے استعمال کا دار و مدار ہمارے اوپر ہے۔ قدرت نے ہمیں دریا، پہاڑ، سونا اگلنے والی زمین، زمین کی تہوں میں چھپے معدنیات کے خزانے، ساحل، سمندر، جنگلات، پہاڑوں سے پگھلنے والی برف کا پانی، جفا کش اور محنتی لوگ، زرخیز ذہن والے سائنسدان، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے جانباز سپاہی، بے شمار افرادی قوت، مقامی خام مال، بین الاقوامی تجارت کے لئے بہترین محل وقوع، ہزاروں ایکڑ پر پھیلے زرخیز میدان، ندی نالے، صحرا، چاروں موسم اور نہ جانے کن کن بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں سے استفادہ کرنا اور انہیں مناسب انداز میں استعمال کرنا ہمارا کام ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے اور اس کا ہر فرد خوشحال ہو سکتا ہے۔

ہالینڈ کے دار الخلافہ ایمسٹرڈم سے روانہ ہوئے تو خلافِ معمول جولی میرے برابر والی سیٹ پر نہیں بیٹھی۔ ہمارے پیچھے والی سیٹ پر ڈاکٹر رمیش کے دونوں بیٹے بیٹھتے آ رہے تھے۔ ان کی عمریں بالترتیب دس اور سات سال تھیں۔ دونوں بہت شرارتی تھے۔ سارے سفر میں دونوں شرارتوں اور خوش گپیوں میں مصروف نظر آئے۔ کبھی کبھار میں اور جولی بھی ان کے ساتھ شغل کرنے لگتے۔ وہ بلا جھجک ہمارے ساتھ شرارتیں کرتے، ہنستے اور اپنی عمر کے مطابق ہر چھوٹی بڑی بات سے لطف اندوز ہوتے۔ آج ان میں سے چھوٹا لڑکا میرے ساتھ بیٹھا تھا اور جولی اس کے بڑے بھائی کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ وہ خلافِ معمول کچھ خاموش خاموش سی تھی۔ سیٹ تبدیل کرنا ایسی بات نہیں تھی جو زیادہ قابل توجہ ہو لیکن آج جولی کا رویہ کچھ سرد سا تھا۔ حالانکہ صرف ایک دن پہلے میں نے اُسے سمجھایا تھا تو ایسا لگا تھا کہ اُسے سمجھ آ گئی ہے۔ اُسے میرا مولی کے ساتھ ملنا جلنا زیادہ نہیں بھایا تھا۔ کل کی گفتگو کے بعد میرے خیال میں وہ مسئلہ ختم ہو گیا تھا۔ مگر آج جولی کا بدلا ہوا موڈ کہہ رہا تھا کہ ابھی تک مطلع مکمل صاف نہیں ہوا ہے۔ کسی بھی وقت گھن گرج شروع ہو سکتی ہے۔ اب بھی اس کے دل میں کوئی پھانس باقی تھی۔

میں نہیں چاہتا تھا کہ اس خوشگوار سفر کا اختتام کسی کی دلآزاری کے ساتھ ہو۔ بلجیم کی سرحد سے تھوڑا ساپہلے ہماری کوچ ایک کیفے کے سامنے رُکی۔ سیاح حسبِ معمول اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ کوئی ٹوائلٹ کی طرف چلا گیا۔ کوئی کیفے سے کافی اور اسنیکس لے کر باہر رکھی کرسیوں پر جا بیٹھا۔ کچھ اِدھر اُدھر چہل قدمی کر کے ٹانگیں سیدھی کرنے لگے۔ میں کیفے سے کافی کے دو کپ لے آیا۔ ایک میز پر کافی رکھی۔ جولی واش رُوم سے نکلی تو میرے اشارے پر وہیں چلی آئی۔ میں نے اس کے آگے کافی کا کپ رکھا تو بولی ’’اس کی کیا ضرورت تھی، مجھے اس کی طلب نہیں تھی‘‘

میں نے کہا ’’تم نے مولی کی بات نہیں سنی تھی۔ اس نے کہا ہے کہ ہالینڈ کے سکے یہیں خرچ کر لیں، بعد میں ان کے استعمال کا موقع نہیں ملے گا۔ میرے پاس جو سکے بچے تھے، ان کی کافی لے آیا۔ تم نے آج منہ کیوں پھلایا ہوا ہے۔ اب کیا ہوا ہے؟‘‘

’’ایسی تو کوئی بات نہیں‘‘

میں نے کہا ’’باتھ روم میں لگے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے۔ اِس پر تمھاری ناراضگی کا اشتہار لگا ہوا ہے۔ اب کس بات پر ناراض ہو؟‘‘

جولی نے کہا ’’مجھے ناراض ہونے کا کیا حق ہے۔ میں کس رشتے سے اپنی ناراضگی ظاہر کر سکتی ہوں‘‘

’’جولی! ایسی بات نہیں کر و۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں۔ ہم نے اکھٹے بہت اچھا وقت گزارا ہے۔ اب جدا ہونے کے وقت ان خوشگوار لمحوں پر تلخیوں کا سایہ تو نہ ڈا لو۔ ہمیں ہنستے کھیلتے رخصت ہونا چاہیے اور اچھی یادوں کو ساتھ لے کر جانا چاہیے‘‘

جولی کا سر جھکا ہوا تھا۔ اس نے سر اٹھایا تو اس کی خوبصورت آنکھوں میں موتی سے جھلملا رہے تھے۔ ہمارے ارد گرد ہمارے ساتھی سیاح بکھرے ہوئے تھے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ان میں سے کوئی جولی کے آنسو دیکھے۔ اس لئے جولی سے کہا ’’جولی! اپنے آپ کو سنھالو۔ بتاؤ تو سہی اب کیا ہوا ہے؟‘‘

’’تم تو جیسے جانتے ہی نہیں کہ کیا ہوا ہے! تم کہہ رہے ہو کہ ہم اچھے دوست ہیں لیکن سفر کی اس آخری رات تمھارے کمرے میں کون تھا‘‘

’’اوہ!‘‘میں نے جولی کی ناراضگی کی وجہ جانتے ہوئے کہا ’’جولی! اس مسئلے پر کل تفصیل سے بات ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں تو تم سمجھ گئی تھیں۔ ہم دوست ہیں لیکن ہمارے درمیان ایسا کوئی معاہدہ، کوئی وعدہ اور کوئی ایسا قانونی اور اخلاقی بندھن نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم دونوں میں سے کسی پر کوئی پابندی ہو۔ اس دوستی کے باوجود ہم عارضی ساتھی تھے اور آج الگ ہو جائیں گے۔ ایسے میں اس طرح کی پابندی لگانا یا خواہ مخواہ ناراضگی کا اظہار کرنا مناسب نہیں ہے۔ آخر تمھیں یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی‘‘

’’میں تو سمجھتی ہوں لیکن تم مجھے نہیں سمجھے۔ مجھے بھی معلوم ہے آج ہم الگ ہو جائیں گے۔ میں تو آسٹریلیا واپس جانے کے لئے بھی تیار ہوں لیکن تم نے مجھے ایک دفعہ بھی ایسا نہیں کہا۔ تمھارے دل پر اس جدائی کا ذرہ بھی اثر نہیں ہے۔ میں اس بات پر حیران ہوں‘‘

’’جولی! تم بہت جذباتی ہو رہی ہو اور یہی تمھاری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ زندگی کے مسائل اتنے جذباتی انداز میں اور جلد بازی میں حل نہیں ہوتے۔ تم میرے بارے میں کیا اور کتنا جانتی ہو۔ سفر میں اس طرح کے فیصلے کر لینا اور ان کے لئے جذباتی ہو جانا غلط ہے۔ تمھیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘

’’تم صحیح کہہ رہے ہو۔ میں جذباتی ہوں لیکن یہ میرا مزاج ہے۔ میں اسے کیسے بدلوں۔ بہرحال تمھیں میرے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اچھا چلو! بس میں بیٹھتے ہیں، باقی باتیں وہیں ہوں گی یا پھر فیری میں بیٹھ کر تسلی سے بات کر سکیں گے‘‘

اس دفعہ جولی سیدھی میرے ساتھ آ کر بیٹھی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس پر نیند غالب آنے لگی اور وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر سو گئی۔ جولی کا نرم و نازک جسم سوتے میں بھی ہلکے ہلکے کانپ رہا تھا اور گھنی پلکوں کے نیچے نمی سی چمک رہی تھی۔ وہ کبھی سو جاتی، کبھی اُٹھ جاتی اور کبھی ویسے ہی آنکھیں بند کر کے سر میرے کاندھے پر رکھ دیتی۔

پھر وضع احتیاط سے دھُندلا گئی نظر

پھر ضبطِ آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا

میں نے بھی اس خاموشی کو غنیمت جانا اور زیادہ بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ مولی جب بھی میرے پاس سے گزرتی، ا س کی سانسوں میں پھنکار سی محسوس ہوتی۔ لیکن مولی کو اپنے جذبات پر کنٹرول تھا۔ اس سے مجھے کسی نادانی کی توقع نہیں تھی۔ ویسے بھی گائیڈ کی حیثیت سے وہ کسی غلط حرکت کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اپنے جذبات ظاہر کرنا اس کے لئے مناسب نہیں تھا۔ تا ہم اس کے چہرے پر ناگواری کی تحریر صاف پڑھی جا سکتی تھی۔

ایک دفعہ پھر ہماری کوچ ایک جگہ رکی۔ یہ بلجیم کا دیہی علاقہ تھا جہاں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ ایک خوبصورت کیفے میں سیاحوں نے کھانا یا کافی وغیرہ لی اور اپنے اپنے انداز میں اس وقفے کا استعمال کرنے لگے۔ میں جان کے پاس چلا آیا۔ جی ہاں وہی جان جس نے اپنی زندگی میں پانچ سو اکیس عورتوں سے تعلقات قائم کر کے ریکارڈ قائم کیا ہوا تھا۔ وہ اورنج جوس اور سینڈوچ سے پیٹ پوجا کر رہا تھا۔ میں نے کہا ’’جان! تمھارے اوپر میرا کچھ قرض باقی ہے۔ آج آخری دن اسے لوٹاؤ گے نہیں؟‘‘

کہنے لگا ’’مجھے معلوم ہے۔ بلکہ میں حیران تھا کہ پر تجسّس طبیعت کے باوجود اس سوال کا جواب تم نے پہلے کیوں نہیں مانگا۔ ویسے اس جواب سے تمھارا کوئی بھلا نہیں ہو گا۔ بلکہ تمھارے اس سفر کا مزہ کرکرا ہو سکتا ہے‘‘

’’جان میں جانتا ہوں کہ زندگی صرف ہنستے پھولوں کا نام نہیں، اس میں جا بجا کانٹے بھی ہیں۔ میری فکر نہیں کرو۔ ہاں البتہ تمھیں اگر کوئی پرابلم نہ ہو تو آج میرے سوال کا جواب دے دو‘‘

’’پھر پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘

’’میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ بظاہر تمھیں وہ سب کچھ حاصل ہے جس کی خواہش ایک انسان کر سکتا ہے۔ تمھارے پاس عقل، تعلیم، سمارٹ جسم، روپیہ، دولت، اچھی جاب، اچھا گھر سبھی کچھ ہے۔ اب تم دنیا کی سیر پر بھی نکلے ہوئے ہو۔ ان سب کے باوجود مجھے علم ہے کہ تم خوش نہیں ہو۔ کیا مجھے اس کی وجہ بتا سکتے ہو۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دو کہ تم شادی کیوں نہیں کرنا چاہتے۔‘‘

’’طارق تم نے وہ سوال کیا ہے جس سے میں رات دن بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اسی بات کی وجہ سے میں اکثر سو بھی نہیں سکتا۔ پوری رات کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہے۔ میں سولی پر لٹکنے والے اس قیدی کی طرح ہوں جسے اپنی موت کا دن اور وقت پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کی زندگی برف کے گولے کی طرح پگھل رہی ہوتی ہے۔ اسے علم ہوتا ہے کہ فلاں دن یہ برف پگھل کر پانی بن کر بہہ جائے گی اور اس کا وجود اس دنیا سے اس طرح مٹ جائے گا کہ اس کا کوئی نام لینے والا بھی باقی نہیں رہے گا۔ اسے اپنے سارے خواب، مستقبل کی ساری سوچیں اور امیدیں بکھرتی نظر آ رہی ہوتی ہیں۔ یہ احساس اسے تڑپاتا رہتا ہے کہ وہ اس رنگ و بو سے بھری دنیا سے منہ موڑ کر منوں مٹی تلے دفن ہونے جا رہا ہے۔ اندھیری قبر کا منظر بار بار اُس کی آنکھوں کے سامنے آتا رہتا ہے۔ یہ خوبصورت دنیا اوراس کی ساری رونقیں چند دنوں میں اس سے چھن جانی ہیں۔ یہ احساس اتنا زہریلا، اتنا کڑوا اور اتنا کریہہ الصورت ہے کہ اسے سوچ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

میری حالت موت کے اس قیدی سے بھی زیادہ بد تر ہے۔ کیونکہ ان قیدیوں نے تو کوئی جرم کیا ہوتا ہے جس کی انہیں سزا ملی ہوتی ہے۔ لیکن مجھے بغیر کسی جرم کے سزائے موت مل رہی ہے۔ اس کا وقت طے کر کے مجھے بتا دیا گیا ہے تاکہ میں رات دن اس سولی پر لٹکتا رہوں۔ ڈاکٹروں نے بتا دیا ہے کہ مجھے بلڈ کینسر ہے۔ میں دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہاں میرے پاس بہت پیسہ ہے، بہت دولت ہے، خوبصورت جسم ہے، اچھی نوکری ہے، اچھا گھر ہے، اچھی گاڑی ہے اور بیش قیمت لباس ہیں۔ لیکن ان سب کا کیا فائدہ؟ جب کل یہ سب کچھ چھوڑ کر مجھے چلے جانا ہے۔ میرا تو کوئی آگے پیچھے بھی نہیں۔ کوئی ایسا بھی نہیں جو میری قبر پر دو پھول چڑھا سکے۔ کوئی ایسا نہیں جو میری موت پر دو آنسو بہا سکے۔ میں نے اپنی تدفین کے لئے ایک فیونرل کمپنی (معاوضہ لے کر تجہیز و تکفین کا بندوبست کرنے والا ادارہ) کو پیشگی فیس ادا کر دی ہے۔ وہ میری لاش تو دفنا دیں گے۔ اس کے بعد اس قبر پر کبھی کوئی نہیں جائے گا۔ میری ساری دولت یہیں رہ جائے گی اور یہ خوبصورت جسم اگلے دو سال میں کیڑوں کی نذر ہو جائے گا‘‘

جان کی داستانِ الم سن کر میں کافی دیر تک سکتے کی سی کیفیت میں رہا۔ میرے پاس کہنے کے لئے کچھ تھا بھی نہیں۔ اب بھی صرف یہی کہوں گا کہ ہنستے چہروں کو دیکھ کر ہمیں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہو نا چاہئیے۔ اس لئے کہ ہر ہنسی کے پیچھے کوئی نہ کوئی آہ بھی چھپی ہوتی ہے۔

ہر دل میں ہیں حسرتوں کے مدفن بنے ہوئے

ہر شخص آپ اپنی اُمیدوں کی لاش ہے




کچھ کھایا نہ پیا، آدھا مال گنوایا





ہالینڈ، بلجیم اور پھر فرانس کی سرزمین پر ہماری کوچ دوڑتی جا رہی تھی۔ قدرتی حسن کے نظارے ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ زمین حدِ نگاہ تک سبزے کی چادر میں لپٹی تھی۔ اکثر مقامات پر سبزے کی اس چادر پر رنگ برنگے پھولوں کے زیور سجے دکھائی دے جاتے تھے۔ یورپ کے یہ مرغزار سبزے اور رنگین پھولوں سے دلہن کی طرح سجے، انتہائی صاف شفاف اور دیدہ زیب نظاروں سے عبارت ہیں۔ ان علاقوں کو قدرت نے دل کھول کر نوازا ہے۔ یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ سبزہ، درخت، پھل، پھول، پہاڑ، دریا، وافر بارشیں اور زمیں کی تہوں میں چھپی معدنیات۔ میں نے کچھ عرصہ گلف میں بھی گزارا ہے۔ جب ہم ایک طرف یورپ کے ان رنگین نظاروں کے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف عرب کے ان سوکھے صحراؤں کا خیال آتا ہے تو پھر اقبالؔ کے اس شعر کا مفہوم سمجھ آتا ہے۔

رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

جب ہم فرانس کے ساحل کی طرف بڑھ رہے تھے تو راستے میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا۔ ہلکی پھوار والی یہ بارش ان لہلہاتے کھیتوں کو چومتی اور رنگین گلوں کے گلے لگتی دکھائی دیتی تھی۔ کبھی تو یہ ایسے برسنا شروع ہو جاتی کہ دور دور تک آسمان بادلوں سے ڈھکا نظر آتا۔ تھوڑی ہی دیر میں نہ صرف بارش رک جاتی بلکہ آسمان کی نیلی چادر صاف نظر آنے لگتی۔ Callis پہنچنے تک یہ آنکھ مچولی جاری رہی۔ ٹریفک کا دباؤ زیادہ نہیں تھا۔ فشر مخصوص رفتار سے کوچ کو بھگاتا چلا جا رہا تھا۔ اس دوران مولی کبھی تو اردگرد کے علاقوں کی جغرافیائی اور تاریخی حیثیت پر لیکچر دینے لگ جاتی۔ جب تھک جاتی تو ہلکے سروں والی موسیقی لگا دیتی۔ کبھی کبھی لطیفوں والی کیسٹ لگا کر سیاحوں کو ہنسانے کی کوشش کرتی۔ ہمارے گروپ کے زیادہ تر سیاح گزشتہ رات بہت کم سو سکے تھے۔ اس کے باوجود ایک آدھ کو چھوڑ کر سبھی اردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ آپس میں خوش گپیاں کر رہے تھے۔ فون نمبر اور خط و کتابت کیلئے پتوں کے تبادلے ہو رہے تھے۔ گویا سفر میں پروان چڑھنے والی دوستیوں کو دوام دینے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ میں نے بھی کچھ دوستوں کے فون نمبرز اور ایڈریس لئے اور کچھ کو اپنا فون نمبر دیا۔ ان چند دنوں میں ہم ایک برادری کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ ما سوائے چند ایک سیاحوں کے جو شروع سے لے کر آخر تک جدا جدا سے رہے۔ جسٹن اور جوزی بلا شبہ ہمارے گروپ کا سب سے ہر دلعزیز جوڑا تھا۔ انہوں نے سڈنی کے تمام ساتھیوں کو اگلے اتوار بلیک ٹاؤن میں واقع اپنی رہائش گاہ میں مدعو کر لیا۔ میں نے شکرئیے کے ساتھ ان سے معذرت کر لی کیونکہ میرا پروگرام ایک ہفتہ پاکستان میں رکنے کا تھا۔تا ہم میں نے ان سے وعدہ کیا کہ سڈنی پہنچنے کے بعد ان سے رابطہ کروں گا۔ جسٹن اور جوزی سے تا دمِ تحریر میرا رابطہ ہے۔ فون پر اکثر گپ شپ ہوتی رہتی ہے۔ وہ اب بھی ویسے ہی خوش اخلاق، ملنسار اور خوش باش ہیں۔ ان کے پاس بیٹھ کر کوئی شخص بور نہیں ہو سکتا۔ ان میاں بیوی کو میں نے کبھی سنجیدہ نہیں دیکھا۔ ہر حال میں خوش رہنے والے اور ہر کام کے مثبت پہلو پر نظر رکھنے والے ایسے لوگ کم ہی ملیں گے۔

ہم آٹھ بجے صبح ایمسٹرڈم سے روانہ ہوئے تھے۔ ہالینڈ، بلجیم اور پھر فرانس کے علاقوں سے گزر کر دوپہر پونے ایک بجے ہم Calais پہنچ گئے۔ وہاں سے ہم اپنی دیو ہیکل کوچ سمیت فیری میں سوار ہوئے اور ایک بج کر پچیس منٹ تک انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ کے علاقے ڈوور Dover)) میں جا اُترے۔ اس طرح صرف چار پانچ گھنٹوں میں ہم چار ملکوں میں سے گزرے۔ یورپ کے یہ ممالک ایک دوسرے سے اتنے قریب واقع ہیں کہ یقین نہیں ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے قریب ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہیں کہ بہت سے لوگ ایک دوسرے کی زبان تک نہیں سمجھ سکتے۔ ان کی تہذیب و تمدن، زبان، لباس، خوراک اور ٹریفک کے قواعد سب مختلف ہیں۔

فرانس سے جہاز میں سوار ہونے سے پہلے ہمارے پاسپورٹ باقاعدگی سے چیک ہوئے۔ دوسرے کنارے پر برطانوی امیگریشن نے ان پاسپورٹوں کو دوبارہ اور بہت زیادہ باریک بینی سے چیک کیا۔ ویزے کی مہر لگائی اور برطانیہ میں داخلے کی اجازت دے دی۔ مولی نے بتایا ’’برطانوی امیگریشن اس معاملے میں کافی سخت واقع ہوئی ہے۔ اگر کسی سیاح کے سفری کاغذات درست نہ ہوں تو اسے برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔ بلکہ اسے اسی جہاز سے واپس کر دیا جاتا ہے اور اس کے سفر کا خرچ حکومت فرانس کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے حکومتِ فرانس ان کاغذات کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرتی ہے اور پھر مسافروں کو جہاز میں سوار ہونے دیتی ہے۔ فرانس اور برطانیہ کے درمیان اس چینل کے دونوں کناروں سے ہر آدھے گھنٹے بعد ایک فیری روانہ ہوتی ہے۔ یہ فیری بھی کیا بلا ہوتی ہے۔ بے شمار کاریں، بڑی بڑی بسیں، ٹرک اور بے شمار لوگ اس میں یوں سما جاتے ہیں جیسے کہانیوں والے اژدہے کے پیٹ میں پورے پورے شہر سما جاتے تھے۔ فیری پر بھی ایک شہر آباد ہوتا ہے۔

فیری کے اندر اپنی کوچ سے اتر کر ہم نے وہ فلور نمبر نوٹ کیا جہاں ہماری کوچ پارک تھی تا کہ واپسی میں اسے آسانی سے ڈھونڈ سکیں۔ اس کے بعد سیاح جہاز پر اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ جہاز پر مختلف کیفے، ریستوران، بار، ڈسکو، منی چینجرز، جواء خانے، سوئمنگ پول اور تفریح کی ساری سہولیات میسر تھیں۔ مسافر کسی کیبن یا ہال کے اندر بیٹھ کر کھانے پینے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو ڈیک پر بیٹھ کر خورد و نوش کے ساتھ سمندر کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ جولی میرے ساتھ تھی۔ میں منی چینجرز Money Changers)) میں گیا۔ انہیں فرانس، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ اور جرمنی کی بچی ہوئی کرنسی دی اور کہا ’’اسے برطانوی کرنسی میں تبدیل کر دیں‘‘

یورپ کے سفر میں ان دنوں کرنسی تبدیل کرنے کی فیس کی مد میں اچھی خاصی رقم ضائع ہو جاتی تھی۔ اگر ایک سو برطانوی پونڈ کو یکے بعد دیگرے چار پانچ ملکوں میں جا کر مقامی کرنسی میں تبدیل کراتے رہیں تو بالآخر آپ کے ہاتھ میں پچاس پونڈ ہی بچیں گے۔ گویا کچھ کھایا نہ پیا آدھا مال گنوایا۔ اس طرح بار بار تبدیلی کے عمل سے گزر کر آپ کی رقم آدھی رہ جاتی ہے۔ بقیہ رقم کرنسی تبدیل کرنے والوں کے کمیشن کی شکل میں ان کی جیبوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اب ان ملکوں نے مشترکہ کرنسی یعنی یورو رائج کر دی ہے جس سے یقیناً سیاحوں کو بہت فائدہ ہوتا ہو گا۔ کرنسی تبدیل کرنے کے بعد ہم ایک کیفے میں گئے۔ کھانا خریدا اور ڈیک پر آ کر نرم نرم دھوپ کے مزے لینے لگے۔

جولی اب کافی سنبھل چکی تھی۔ تاہم تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مستقبل کا خیال سوالیہ نشان کی طرح اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ کئی مرتبہ اس نے مجھ سے پوچھنے کی کوشش کی کہ اسے برطانیہ میں رہنا چاہیے یا آسٹریلیا واپس چلے جانا چاہیے۔ میں نے کسی سوال کا براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا اور فیصلہ اس کی صوابدید چھوڑ دیا۔ میں حیران ہوتا تھا اس نرم و نازک لڑکی پر، جو اتنی جذباتی اور قوت فیصلہ سے اتنی عاری تھی۔ اب تک کی بیس پچیس سالہ زندگی میں کتنے ہی تلخ تجربوں سے گزر چکی تھی۔ لیکن ابھی بھی اس نے کچھ زیادہ نہیں سیکھا تھا۔ جذباتی اتنی تھی کہ بلا سوچے سمجھے اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا بسی۔ اب برطانیہ میں اس کے لئے کچھ نہیں بچا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ والدین اور عزیز و اقارب کے ہوتے ہوئے بے سہارا تھی۔ جوان اور انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود اب تک کسی اچھے ساتھی سے محروم تھی۔ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود اچھی ملازمت سے محروم تھی۔ گویا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ محروم اور تنہا تھی۔ پاکستانی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو بے سہارا تھی۔

آج آخری دن بھی کبھی تو اُداسی اس کے چہرے پر ڈیرہ ڈال لیتی اور کبھی ایسے محسوس ہوتا کہ اسے کوئی غم نہیں، کوئی پرواہ نہیں۔ وہ ہنستی تو ہنستی چلی جاتی۔ لوگوں کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑاتی۔ اس کے قہقہے لوگوں کو ہماری طرف دیکھنے پر مجبور کر دیتے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھوں میں موتی سے چمکتے دکھائی دینے لگتے۔ یکایک وہ اُٹھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولی ’’میرے ساتھ آؤ‘‘

جواء خانے میں جا کر اس نے پوکر مشین میں دس پونڈ کا نوٹ ڈالا۔ ایک ایک پونڈ کی شرط کا بٹن دبانے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے دس پونڈ مشین کی نذر ہو گئے۔ اس نے کمر سے بندھے اپنے بٹوے سے مزید رقم نکالنا چاہی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کہنے لگی ’’مجھے کھیلنے دو۔ یہ رقم میں نے چھٹیوں کے لئے مختص کی ہوئی تھی۔ اسے میں واپس نہیں لے جانا چاہتی‘‘

میں نے کہا ’’یہاں سے تو چلو، لندن جا کر جہاں دل چاہے خرچ کر دینا‘‘

’’میں لندن نہیں جانا چاہتی، اگلے جہاز میں بیٹھ کر واپس فرانس چلی جاؤں گی۔ میں پیرس میں رہنا چاہتی ہوں‘‘

’’اچھا جہاں تمھارا دل چاہتا ہے، جا کر رہنا۔ یہاں سے تو چلو، ہمارا جہاز کنارے پر لگ رہا ہے۔ ہمیں نیچے اپنی کوچ کی طرف چلنا چاہیے‘‘

جولی پر الکحل بہت جلد اثر کرتی تھی۔ حالانکہ اس نے صرف دو ڈرِنک لئے تھے۔ لیکن ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اسے اپنے اوپر بالکل کنٹرول نہیں ہے۔ خدا خدا کر کے میں اسے کوچ میں واپس لے کر آیا۔ جہاز سے نکلنے کے بعد سامنے ہی چیک پوسٹ پر برطانوی امیگریشن کا عملہ پاسپورٹوں کے بال کی کھال اتار رہا تھا۔ ہمیں کوچ سے اُتر کر امیگریشن کے اس مرحلے سے گزرنا پڑا۔ پورے یورپ میں یہ واحد جگہ تھی جہاں اس طرح قطار میں کھڑے ہو کر ہم نے اپنے پاسپورٹ چیک کروائے اور امیگریشن افسروں کے سوالوں کے جواب دیئے۔ نہ جانے برطانوی امیگریشن کو کیا خطرہ ہے کہ وہ سیاحوں کو اس طرح شک و شبے کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مسز مارگریٹ نے کہا ’’چور کو ہر شخص چور نظر آتا ہے‘‘

وہ اس طرح قطار میں کھڑے ہو کر ویزا لگوانے اور امیگریشن آفیسر کے سوالوں سے برہم تھی۔ دوسرے سیاح بھی کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔ بہرحال خدا خدا کر کے ہم اس مرحلے سے نکلے اور ہماری کوچ برطانیہ کی سرزمین پر دوڑنے لگی۔ ایک مرتبہ پھر ہماری کوچ سڑک کے بائیں سمت آ گئی تھی۔




اُس کی پلکوں پر اَشکوں کے قطرے ڈھلک آئے





برطانیہ کا یہ حصہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ سڑک کے ہر دو جانب سبزے کی چادر اوڑھے زرعی فارم نویدِ بہار دے رہے تھے۔ برطانوی کسان مرد اور عورتیں کھیتوں میں کام کرتے نظر آ رہے تھے۔ گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں کھلے سرسبز میدانوں میں گھاس چر رہے تھے۔ خوب پلے ہوئے یہ جانور بغیر نگرانی کے کھلے فارموں میں آزادی سے گھوم رہے تھے۔

میں سوچ رہا تھا کہ انسانوں کی طرح یورپ میں پیدا ہونے والے مویشی بھی پاکستان جیسے غریب ملک کے مویشیوں سے کتنی مختلف قسمت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر جانور لاغر اور مریل سے دکھائی دیتے ہیں۔ بیلوں سے ہل چلانے کا کام لیا جاتا ہے۔ جس میں چابک یا سوٹی کا دل کھول کر استعمال کیا جاتا ہے۔ تانگے میں جتے گھوڑے پر جو گزر رہی ہوتی ہے اس سے سب واقف ہیں۔ بے چارے کو ٹوٹی پھوٹی اور کچی سڑکوں پر صبح سے شام تک اپنی استطاعت سے زیادہ وزن کھینچنا پڑتا ہے۔ ذرا سست پڑتا ہے تو کوچوان کا چابک اس کی کھال اُدھیڑ دیتا ہے۔ شام کو تھکا ہارا اپنے تھان پر پہنچتا ہے تو اسے صرف اتنی خوراک ملتی ہے جس سے اس کے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکتا ہے۔ اگلی صبح منہ اندھیرے پھر وہ ٹانگے کو کھینچتا ہوا مالک کی روزی تلاش کرنے سڑکوں پر نکل پڑتا ہے۔ گدھے پر جس طرح اور جتنا وزن لادا جاتا ہے اور صبح سے شام تک ڈنڈوں سے اس کی تواضع کی جاتی ہے وہ ہر کسی کے علم میں ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں گھومنے والے گدھے، گائیں اور دوسرے جانور بچوں کا نشانۂ ستم بنتے اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ لوگ گلی کے آوارہ کتوں کو مار کر خوش ہوتے ہیں۔

پا کستان میں مویشی کسانوں کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کسانوں کی روزی کا ذریعہ ہیں، ان کا اثاثہ ہیں لیکن ان مویشیوں کے لئے نہ تو مناسب اور وافر چارہ مہیا کیا جاتا ہے۔ نہ انہیں چرنے کے لئے کھلی اور گھاس سے بھری سرسبز چراگاہیں میسر ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان جانوروں کے لئے ہمارے اندر رحم کا جذبہ نہیں ہے۔ اگر غلطی سے ایک مویشی دوسرے کے کھیت میں گھس جائے تو اس کھیت کا مالک مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیتا ہے۔ اگر یہ کسان دوسرے کسان کا دشمن ہو تو پھر تو اس مویشی کی شامت ہی آ جاتی ہے۔ بیماری کی صورت میں علاج معالجے اور پیش بندی کے طور پر کسی دوا دارو کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ اس طرح یہ مویشی جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار کر سکتے ہیں، ہماری غفلت، لاپرواہی اور بد سلوکی کی وجہ سے وہ کردار ادا نہیں کر رہے جو برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں کرتے ہیں۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والا گوشت پوری دنیا میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ وہ اس سے کثیر زر مبادلہ حاصل کرتے ہیں جو کسانوں اور دیگر عوام کے لئے خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان میں ہم اگر وسائل کی کمی کی وجہ سے اتنے جانور پال نہیں سکتے تو کم از کم جو جانور یا مویشی ہمارے پاس ہیں ان کی مناسب دیکھ بھال تو کر سکتے ہیں۔ ان پر خواہ مخواہ کا ظلم تو روا نہ رکھیں۔ صلۂ رحمی کا اصول تو اسلام نے دیا ہے۔ کیا عملی زندگی میں ہم اس اصول کی پیروی کرتے ہیں؟

یورپ کی سیاحت کا احوال بیان کرتے کرتے میں پاکستان پہنچ گیا۔ اور یورپ اور پاکستان کی لائیو اسٹاک کا مختصر موازنہ آپ کی خدمت میں پیش کر ڈالا۔ در اصل سیاحت یا کسی قسم کا تجربہ اسی وقت کام آتا ہے جب اس سے کوئی سبق سیکھا جائے۔ اس تجربے سے اپنا یا دوسروں کا کوئی بھلا ہو۔ اگر صرف گھومنا مقصود ہو تو اس کے لئے پاکستان کے سرکاری افسر، سفارت کار اور سیاست دان کافی ہیں۔ وہ پاکستان کے خزانے سے یہ کہہ کر رقم حاصل کرتے ہیں کہ بیرون ملک سے تجربہ حاصل کر کے آئیں گے جو پاکستان کے کام آئے گا۔ جس قسم کے تجربے وہ یہاں آ کر کرتے ہیں اس سے ہر شریف آدمی کو اللہ محفوظ رکھے۔ میں نے سڈنی میں سرکاریا فسروں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو ایسے تجربے کرتے کئی بار دیکھا ہے۔ وہ واقعات لکھنا شروع کر دئیے تو اصل موضوع سے ہٹ جاؤں گا۔

ڈوور کے ساحلی علاقے سے نکل کر ہماری کوچ برطانیہ کے اس خوبصورت دیہی علاقے میں سے فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔ سیاح سفر کے ان آخری لمحات میں بیک وقت خوش اور اداس تھے۔ خوشی اس بات کی تھی کہ دو ہفتے کے لمبے اور تھکا دینے والے سفر کا آج خاتمہ ہو رہا تھا۔ آج وہ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ جہاں ان کے چاہنے والے ان کے منتظر تھے۔ اُداسی اس بات کی تھی کہ ان دو ہفتوں میں ہم ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے تھے۔ تمام گروپ ایک خاندان کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اتنے دن اکھٹے رہ کر ہمارے درمیان اُنس اور یگانگت پیدا ہو گئی تھی۔ اور آج ہمیشہ کے لئے ہم ایک دوسرے سے جدا ہو رہے تھے۔ آئندہ ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ یہ امر سب کے لئے اداسی کا سبب تھا۔

مولی ایک عرصے سے گائیڈ کا فریضہ انجام دے رہی تھی۔ وہ مسافروں اور سیاحوں کی نفسیات اور جذبات سے بخوبی آشنا تھی۔ ان لمحات میں وہ یہی باتیں کر رہی تھی۔ گروپ میں سیاحت کی خوبیاں اور خامیاں بیان کر رہی تھی۔ ایک خوبی جو اس نے بیان کی وہ مجھ جیسے اکیلے سیاح کے لئے تھی۔ وہ کہہ رہی تھی ’’گروپ میں سیاحت کے بہت سارے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے اس میں آدمی کبھی بھی تنہائی کا شکار نہیں ہوتا چاہے وہ گھر سے اکیلا ہی کیوں نہ آیا ہو۔ ایک گروپ میں سفر کرنے والے مختلف مزاج کے مالک، مختلف ممالک کے باشندے، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف دلچسپیوں کے حامل ہونے کے باوجود چند دنوں میں ایک دوسرے کے بہت قریب آ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاحت میں اکھٹے گزارنے کے لئے بہت سا وقت میسر ہوتا ہے۔ سیاح کسی دباؤ یا ذہنی پریشانی سے آزاد ہو کر نئی دنیا کو دریافت کرنے نکلتا ہے۔ اس وقت اس کا مزاج اور اس کی طبیعت خوشگوار ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت جلد ان کی آپس میں دوستیاں ہو جاتی ہیں۔ سیاح اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے بچھڑ جانا ہے۔ اس وقت یہ دوستی اور محبت دل کا بوجھ بن جاتی ہے اور عرصے تک یادوں کا نشتر دل میں چبھن پیدا کرتا رہتا ہے۔ اس وقت آپ لوگوں کی بھی یہ کیفیت ہے۔ ایک دوسرے کی عادت ہو چکی ہے اور ایک دوسرے سے بچھڑنا مشکل محسوس ہو رہا ہے۔ لیکن یہ دنیا کا دستور ہے۔ زندگی ملنے اور بچھڑنے ہی کا تو نام ہے۔ زمانے کی اس ریت کو یاد رکھنا چاہیے اور اسے زندہ دلی کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ جس طرح آپ لوگ اتنے دن تک اکھٹے ہنستے اور بولتے رہے، آج رخصت ہوتے وقت بھی اسی انداز میں ہنسی خوشی رخصت ہوں۔ تا کہ جب بھی ایک دوسرے کو یاد کریں تو ہنستا ہوا چہرہ یاد رکھیں نہ کہ آنسوؤں بھرا چہرہ۔ ویسے اس معاملے میں جانجی اور مشی خوش قسمت ہیں‘‘ مولی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’سارے سفر میں انہیں کسی دوسرے سیاح کی طرف دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا اور نہ ہی انہیں کسی اور سے دوستی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ زبان سے لاعلمی کا یہ فائدہ پہلی دفعہ سامنے آیا‘‘

جانحی اور مشی جو اس وقت بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے میں گم تھے اپنے نام پر چونکے، مسکرا کر مولی اور دوسرے سیاحوں کو دیکھا اور پھر اسی پوز میں چلے گئے۔ میرے خیال میں چوبیس میں تئیس گھنٹے وہ اسی کام میں صرف کرتے تھے۔ جگہ، مقام، سفر، ہوٹل، بس، گرمی، سردی، ماحول کچھ بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔ ایسے لگتا تھا وہ اسی کام کے لئے بنے ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد صرف پیار کرنا ہے۔ ان کی جنت ان کے پیار میں تھی۔ بقول شاعر

یہ دنیا ان کے لئے پیار کی جنت ہے

نظر جب کسی کی مہربان معلوم ہوتی ہے

ایمسڑڈم سے لندن میں داخل ہونے تک ہمارا سفر روانی اور تیزی سے جاری رہا۔ مگر لندن میں داخل ہوتے ہی اس روانی میں خلل پڑنا شروع ہو گیا۔ اس کی وجہ لندن کی بے تحاشا ٹریفک تھی۔ لندن کی سڑکوں پر ٹریفک کا ایک سیلاب سا حسبِ معمول جاری تھا۔ اس ٹریفک میں مجھے کبھی کمی نظر نہیں آئی۔ اہلِ لندن کو اگر کہیں جلدی پہنچنا ہو تو نہ جانے کیا کرتے ہوں گے۔ وہاں کی ٹریفک تو ہرگزاس قابل نہیں ہے کہ انسان جلد بازی کا مظاہرہ کر سکے۔ وہاں صبر اور سکون کے ساتھ ڈرائیونگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ سڑکیں زیادہ کشادہ نہیں ہیں۔ جتنی وہاں کی ٹریفک ہے، سڑکیں اس کے مقابلے میں انتہائی تنگ نظر آتی ہیں۔

لندن کی اس مصروف ٹریفک میں فشر کوچ کو آہستہ آہستہ آگے بڑھا رہا تھا۔ ساڑھے چار بجے ہم لندن میں داخل ہوئے تھے۔ وکٹوریہ اسٹیشن کے پاس پہنچتے پہنچتے چھ بج گئے۔ گویا جتنی دیر میں ہم بلجیم کراس کر کے دوسری طرف فرانس میں جا نکلے اتنی دیر لندن میں داخل ہونے کے بعد وکٹوریہ اسٹیشن تک پہنچنے میں لگ گئی۔

ہمارے کچھ ساتھی وکٹوریہ سے پہلے اُتر گئے۔ زیادہ تر نے اس یادگار مگر طویل اور تھکا دینے والے سفر کا اختتام وکٹوریہ اسٹیشن پر کیا۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ کوچ سے اتر کر سیاحوں نے پہلے سے لفافوں میں رکھی ٹپ کی رقم فشر اور مولی کے حوالے کی۔ سیاح گرمجوشی سے ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ قریبی عزیزوں سے جدا ہو رہے ہوں۔ میں نے مسز الزبتھ اور دوسرے کئی سیاحوں کی آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے۔ سبھی ساتھی ایک دوسرے سے بچھڑ کر رنجیدہ تھے۔ ایک دوسرے سے آخری بار مل کر سب اپنی اپنی منزلوں کی طرف چل پڑے۔ میں نے بھی اپنے سوٹ کیس سنبھالے اور ٹرین اسٹیشن کی عمارت کی طرف جانے لگا۔ جولی نے میرے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا ’’تم لندن میں کہاں قیام کرو گے؟‘‘

’’ایک دوست کے ہاں‘‘ میں نے مختصر جواب دیا

’’کب تک یہاں رُکو گے‘‘ اس کی آنکھوں میں پتا نہیں کیا کچھ سمٹ آیا

’’میں کل ہی پاکستان روانہ ہو جاؤں گا‘‘ میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔

یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا

کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے

’’ہماری ملاقات کا کوئی امکان ہے؟‘‘جولی نے آہستگی سے کہا

’’مشکل ہے جولی! میں کل ہی یہاں سے چلا جاؤں گا۔ یہ سفر میرے لئے یادگار رہے گا۔ خصوصاً اپنے ہم سفروں کو میں کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔ اس پورے سفر میں میرا سب سے زیادہ وقت تمھارے ساتھ گزرا۔ اگر نادانستگی میں، میں نے تمھارا دل دکھایا ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ میں صرف اس سفر کو ہنسی خوشی گزارنا چاہتا تھا۔ اس لئے سب کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہتا تھا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ یہ سب کسی کی دل آزاری کا سبب بن جائے گا۔ جولی! تم بہت اچھی لڑکی ہو۔ ایک اچھی دوست کی حیثیت سے میں تمھیں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ میں تمھارے جذبات کو سمجھتا ہوں اور ان کی قدر بھی کرتا ہوں۔ لیکن ہم سب مسافر ہیں۔ آج ہم نے بچھڑ کر اپنے اپنے ملکوں میں چلے جانا ہے۔ میری دِلی دعا ہے کہ خدا تمھیں زندگی میں ہر وہ خوشی دے جس کی تمنا تمھارے دل میں موجود ہے۔ امید ہے کہ تم میری بات سمجھ گئی ہو گی اور ہم اچھے دوستوں کی طرح جدا ہوں گے۔ ایک دوسرے کے لئے دل پر کوئی بوجھ لے کر نہیں جائیں گے‘‘

جولی نے میری باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اُس کی پلکوں پر دو موتی ڈھلک آئے۔ اس نے انہیں صاف کیا۔ کافی دیر تک خاموش کھڑی زمین کو گھورتی رہی اور پھر آہستہ سے گویا ہوئی ’’تمھیں معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لئے کہ تمھارا کوئی قصور نہیں ہے۔ تم بالکل ٹھیک کہتے ہو کہ ہم صرف چند دنوں کے عارضی ہمسفر تھے۔ مجھے شروع سے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے تھا کہ چند دنوں کے بعد ہم نے بچھڑ جانا ہے۔ بہر حال میں نے خود کو سمجھا لیا ہے۔ مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ دورانِ سفر میں نے تمھیں اپنی حرکتوں سے کئی بار پریشان کیا ہے۔ امید ہے ایک نادان لڑکی کی ان حرکتوں کا تم نے برا نہیں منایا ہو گا‘‘

’’ہرگز نہیں! جولی! اب مجھے اجازت دو۔ میرا دوست انتظار کر رہا ہو گا؟‘‘

جولی کو خدا حافظ کہہ کر میں اپنی ٹرین میں بیٹھا تو ایسے لگا کہ میرے دِل پر بھاری پتھر بندھا ہو۔ گھنی پلکوں پر رکھے دو موتی پھیلتے پھیلتے سمندر بن گئے تھے۔ اس سمندر کی لہریں مجھے بھی بھگو رہی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت اچھی، بہت خوبصورت اور بہت نرم و نازک سی لڑکی تھی لیکن زندگی نے اب تک اسے وہ خوشیاں نہیں دی تھیں جس کی وہ مستحق تھی۔ ملکوں ملک بھٹک کر بھی اس نے سکون نہیں پایا تھا۔ محبت کی تلاش میں کئی در کھٹکٹائے لیکن اس کی من چاہی محبت اُسے نہیں ملی۔ وفا اور محبت کی تلاش میں در سے بدر اور دیس سے بدیس کی ہو گئی تھی لیکن اب تک تہی دامن تھی۔

میری دُعا ہے کہ خدا اُسے خوشیاں اور سکون دے۔




پہاڑ نے کروٹ بدلی تو وہ صاحب کہیں غائب ہو گئے





وکٹوریہ اسٹیشن سے میں نے ٹیوب پکڑی اور بیز واٹر (Bays Water) کے اسٹیشن پر جا اُترا۔ وہاں سے میرا ہوٹل صرف دس منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔ سامان کی وجہ سے ٹیکسی لینا پڑی۔ ایک بار پھر اسی ہوٹل میں جا پہنچا جہاں پہلے ٹھہرا تھا۔ اس بار میرا کمرہ انڈر گراؤنڈ کی بجائے فرسٹ فلور پر تھا۔ ایک رات کی بات تھی۔ کل تیسرے پہر میں نے اس ہوٹل بلکہ اس شہر کو خیر باد کہہ دینا تھا۔ کمرے میں سامان رکھنے کے بعد میں نے لباس تبدیل کیا اور تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے بستر پر دراز ہو گیا۔ پچھلی رات کی شب بیداری اور پورے دن کے سفر کی تکان کی بدولت تھوڑی ہی دیر میں نیند مجھ پر غالب آتی چلی گئی۔

دروازہ کھٹکٹانے کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ گھڑی پر نظر دوڑائی تو شام کے نو بجے تھے۔ میں نے نیند میں بوجھل آنکھیں لئے دروازہ کھولا تو سامنے علی کھڑا تھا۔ علی کو میری واپسی کے پروگرام کا علم تھا۔ لیکن مجھے اس کے پروگرام کا پتا نہیں تھا اس لئے اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ مجھے لے کر باہر جانا چاہتا تھا۔ میں نے گرم پانی سے شاور لیا تو سفر کی تکان اور نیند کا احساس کافی کم ہو گیا۔ علی کے ہاتھ کی بنی کافی کے گھونٹ لئے تو جسم کو مزید تقویت ملی اور میں تازہ دم ہو کر علی کے ساتھ باہر نکل آیا۔

اس وقت رات کے دس بج رہے تھے۔ لیکن اسے رات کہنا شاید صحیح نہیں تھا کیونکہ سورج ابھی تک زمین پر ضیاء پاشی کر رہا تھا۔ ایک وقت تھا کہ انگریزوں کی سلطنت پر سورج کبھی غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ اب وہ سلطنت سمٹ کر برطانیہ تک محدود ہو گئی ہے لیکن سورج اب بھی وہاں اٹھارہ گھنٹے چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ گویا چوبیس گھنٹے نہیں تو اٹھارہ گھنٹے اب بھی سورج اس سلطنت سے غروب نہیں ہوتا۔ باقی کے چند گھنٹے انگریز شمسی توانائی سے حاصل کردہ مصنوعی روشنی سے گزارا کر لیتے ہیں۔ اس طرح ماضی کی سطوت اور شان و شوکت کو مصنوعی سائنسی ایجادات سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مگر وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔

رات کے دس بجے بھی لندن کی سڑکوں پر رش کم نہیں ہوا تھا۔ علی کی کار اس رش میں کبھی درمیانی رفتار اور کبھی سست روی سے چل رہی تھی۔ سورج اب لندن کی بلند و بالا عمارتوں کے پیچھے مختصر وقفے کے لئے چھپ گیا تھا۔ لیکن اُس کی شفق رنگ سرخی آسمان پر کافی دیر تک باقی رہی۔ لندن کے مرکزی علاقے ٹریفالگر اسکوائر کی جانب بڑھتے ہوئے گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس اور سڑک کے کنارے لگے کھمبوں پر لگی ٹیوب لائٹس روشن ہو گئی تھیں۔ دکانوں، ریستورانوں، کلبوں اور شاپنگ سینٹرز کی رنگ برنگی روشنیاں شب کی آمد کا اعلان کر رہی تھیں۔

ریستورانوں اور کافی شاپس کے آگے سجی کرسیوں پر جوڑے بیٹھے کافی کی پیالیوں سے کم اور ایک دوسرے کی آنکھوں سے زیادہ پی رہے تھے۔ دن بھر کے تھکے ہارے لوگ ریستورانوں، کافی شاپوں اور کلبوں میں اپنی تھکاوٹ دور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ جو دن میں آرام اور رات کو کام کرتے ہیں، ان تھکے ہارے لوگوں کی تھکاوٹ دُور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

یورپ، آسٹریلیا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں لوگ کام کے اوقات میں پوری تندہی، سنجیدگی اور محنت سے کام کرتے ہیں۔ دفتر میں کام کرنے والا ہو یا ریستوران میں ویٹر، بس ڈرائیور یا ڈلیوری ڈرائیور، کلرک یا کلینر، ڈاکٹر ہو یا اکاؤنٹنٹ، غرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ کام کے وقت میں انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کرتے ہیں۔ اس وقت وہ ہنسی مذاق، فضول باتوں، بلا ضرورت کھانے پینے، فون پر گپ شپ اور کاہلیسے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔ اس وقت ان لوگوں کا مقصد کام، کام اور صرف کام ہوتا ہے۔ ہر شخص جلدی میں نظر آتا ہے۔ گاہکوں اور کسٹمر سے خوش اخلاقی سے بات کرتا ہے۔ مجال ہے کہ کام کے علاوہ کوئی فالتو بات کر لیں۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ لوگ رو بوٹ بن جاتے ہیں۔ صبح کام پر نکلتے ہیں تو ان پر سنجیدگی طاری ہو جاتی ہے۔ ٹرین میں سفر کر رہے ہوں تو ہر شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت خاموش رہتا ہے۔ اخبار پڑھتے ہیں، کتاب پڑھتے ہیں، کانوں سے ہیڈ فون لگا کر میوزک سنتے ہیں یا اونگھتے رہتے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ چالیس پچاس افراد کی موجودگی میں پوری بو گی میں باتوں کی کہیں سے آواز آئے۔ پوری بو گی میں ایسے سناٹا ہوتا ہے کہ پن بھی نیچے گرے تو اس کی آواز صاف سنائی دے۔ ایک ہی ٹرین میں روزانہ اکھٹے سفر کرنے والے بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ لگتا ہے لوگوں میں ایک خاموش معاہدہ ہے کہ خاموشی کی اس چادر کو قائم رکھنا ہے۔ جو سونا چاہتے ہیں وہ آرام سے سو جاتے ہیں۔ جو پڑھنا چاہتے ہیں وہ بغیر کسی خلل اندازی کے پڑھتے رہتے ہیں۔

اپنے اپنے اسٹیشنوں پرا تر کر ہر شخص اتنی تیزی سے چلنے لگتا ہے جیسے کوئی اس کے پیچھے لگا ہوا ہو۔ اس تیز رفتاری میں خواتین بھی مردوں سے کم نہیں ہیں۔ اونچی ایڑھی والے سینڈل اور تنگ اسکرٹ کے باوجود وہ ٹک ٹک کرتی اتنی تیزی سے چلتی ہیں کہ سڈنی آمد کے شروع کے دنوں میں انہیں دیکھ کر میں حیران ہو جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کو اس تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہی لوگ جو پورا دن اپنے چہرے پر سنجیدگی کا دبیز نقاب چڑھا کر رکھتے ہیں شام ہوتے ہی یہ نقاب اتار کر دور پھینک دیتے ہیں۔ جو دن میں جتنا زیادہ کام کرتا ہے، شام کو اتنی ہی زیادہ بیئر پینے کا خود کو حقدار سمجھتا ہے۔ اس وقت ہر کوئی کھل کر باتیں کر رہا ہوتا ہے۔ وہ ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں، موسیقی کی لے پر ناچتے ہیں۔ بلیرڈ اور پوکر کھیلتے ہیں۔ کھیلوں کے دلچسپ مقابلے دیکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرتے وقت ان کے ہاتھ میں جھاگ اُڑاتی ٹھنڈی بیئر کا گلاس ضرور رہتا ہے۔ شام کے ان اوقات میں کسی بھی چہرے پر سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی شخص منہ بسورے نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ اس وقت یہ لوگ سنجیدہ گفتگو سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو کا موضوع کچھ بھی ہو اس میں ہنسی مذاق ضرور شامل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ جو دن میں انتہائی سنجیدہ نظر آتے ہیں انہیں شام کے ان اوقات میں دیکھو تو یقین نہیں آتا۔

لندن کی اس سنہری شام علی کی کار میں سفر کرتے اور مسرت نذیر کا گانا سنتے میں ہر جانب لوگوں کو زندگی کی خوشیاں سمیٹتے دیکھ رہا تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ڈسکو کلبوں اور نائٹ کلبوں کی جانب گامزن تھے تو دوسرے جوڑے کلبوں اور ریستورانوں میں دن کی تھکاوٹ دور کر رہے تھے۔ سڑک کے کنارے کئی جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ اور کئی کمر میں ہاتھ ڈالے اپنی شام کو رنگین بنانے میں مصروف نظر آئے۔ فٹ پاتھ کے کسی بھی حصے اور بعض اوقات سڑک کے درمیان بھی انہیں ایک دوسرے پر پیار آ جائے تو وہ جگہ اور مقام دیکھے بغیر اس پیار کا اظہار کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ اس کا مظاہرہ اس وقت لندن کی سڑکوں، فٹ پاتھوں، ٹیکسیوں اور پارکوں میں جا بجا نظر آیا۔ گویا اہلِ لندن اس وقت جانجی اور مشی بنے ہوئے تھے۔

ہم ایک پاکستانی ریستوران (جس کا نام غالباً لاہوری ریسٹورنٹ تھا) میں پہنچے تو دیکھا کہ ہال مہمانوں سے بھرا ہوا ہے۔ بلکہ ہال سے باہر بھی کچھ پاکستانی خواتین و حضرات کھڑے گپ شپ میں مصروف تھے۔ اندر ایک بھی میز خالی نہیں تھی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ریستوران اس پوری شام کے لئے کسی تقریب کے لئے بک ہے۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے معذرت کی اور بتایا کہ آج کی شام سیٹ ملنا مشکل ہے۔ تاہم اگر کھانا گھر لے جانا چاہیں تو ہم حاضر ہیں۔ علی کسی دوسرے ریستوران میں جانا چاہتا تھا لیکن میں نے کہا ’’کوئی حرج نہیں! کھانا یہیں سے خرید لیتے ہیں، باہر کسی مناسب جگہ پر بیٹھ کر کھالیں گے‘‘

بریانی، کباب اور نان وغیرہ خرید کر ہم وہاں سے نکل آئے۔ ڈرائیو کرتے ہوئے ہم ویسٹ منسٹر ایبے، ٹریفالگر اسکوائر سے ہوتے ہوئے لندن برج کے پاس جا کر رُکے۔ ایک مناسب جگہ ڈھونڈ کر ہم نے گاڑی پارک کی۔ کھانا لے کر دریائے ٹیمز کے کنارے لگے بنچوں میں سے ایک پر جا بیٹھے۔

وہاں اس وقت بہت اچھا منظر تھا۔ سڑک اور پل پر گاڑیاں رواں تھیں تو دریا کے اندر خوبصورت کشتیاں ادھر ادھر آ جا رہی تھیں۔ دریا کے دونوں سمت اتنی روشنیاں تھیں کہ دریا کا پانی چمکتا دکھائی دیتا تھا۔ ہمارے علاوہ دوسرے کئی لوگ بھی دریا کے کنارے موجود تھے۔ ان میں سے زیادہ تر جوڑے تھے جو اس خوبصورت اور رُومان پرور ماحول میں دل کی بات زبان، ہاتھوں، بانہوں اور ہونٹوں کے ذریعے بیان کر رہے تھے۔ دریا کے کنارے سبز گھاس پر لیٹے کئی جوڑے گھر اور باہر کا فرق بھولے ہوئے تھے۔ ایسا ہی ایک جوڑا ہماری بنچ کے سامنے پانی کے کنارے موجود تھا۔ وہ پہلے کھڑے ہو کر جسم سے جسم چپکائے اور ہونٹوں میں ہونٹ پیوست کئے اس شام کو امر کرنے میں مصروف تھے۔ جب تھک گئے تو بیٹھ گئے۔ کیونکہ پتلے اور دراز قد مرد کے مقابلے میں لڑکی پستہ قد اور کافی جسیم تھی۔ اس کے جسم کا ہر حصہ معمول سے زیادہ ضخیم نظر آتا تھا مگر چھاتیاں تو جیسے چھوٹی چھوٹی پہاڑ یوں کی طرح تھیں۔ طویل قامت مرد ان کی وجہ سے کچھ فاصلہ رکھنے پر مجبور تھا۔ اس کا حل انہوں نے اس طرح نکالا کہ وہ جسیم لڑکی گھاس پر دراز ہو گئی۔ وہ مرد اس پہاڑ کو نرم بستر سمجھ کر اس پر محوِ استراحت ہو گیا۔ لیکن اس پہاڑ نے جب کروٹ بدلی تو مرد کہیں غائب ہو گیا۔ دُور سے ہمیں وہ بالکل نظر نہیں آ رہا تھے۔ تاہم اُس کی گھٹی گھٹی آواز یں کہیں سے برآمد ہو رہی تھی۔

کچھ دیر کے بعد جب پہاڑ نے کروٹ بدلی تو وہ صاحب گھاس پر اِس طرح پڑے دکھائی دئیے جیسے ٹرک کے نیچے آنے والی لاش۔

کچھ دیر تک تو ایسے محسوس ہوا کہ ان کا نظامِ تنفس منقطع ہو چکا ہے۔ پہاڑ جیسی اس لڑکی کے چہرے پر بھی تشویش کے آثار نظر آئے۔ وہ ہولے ہولے اپنے بوائے فرینڈ کا چہرہ تھپکتی رہی۔ جب اس کا اثر نہیں ہوا تو اس نے پاس رکھے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور مرد کے چہرے پر انڈیل دی۔ مرد نے اپنی آنکھیں کھولیں، اپنی گرل فرینڈ کی طرف دیکھا اور گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ یکایک وہ تیز قدموں سے ایک سمت چل پڑا۔ لڑکی نے بیگ اٹھایا اور رچرڈ رچرڈ کہتی اس کے پیچھے لپکی۔ لیکن رچرڈ صاحب اب رُکنے والے نہیں لگتے تھے۔ تھوڑی دیر میں یہ عجیب الخلقت جوڑا ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا اور ہم لاہوری ریسٹورنٹ کی بریانی سے انصاف کرنے لگے۔

کھانا کھا کر کافی دیر تک ہم وہیں موجود رہے۔ در اصل وہاں اس وقت خوب رونق تھی۔ موسم صاف، ہوا میں خوشگوار سی خنکی اور دریائے ٹیمز میں میں روشنیوں کی چمک ماحول کو رومان پرور بنائے ہوئے تھی۔ لندن والوں کو ایسے دن اور راتیں کم ہی نصیب ہوتی ہیں جب بارش اور سردی نہ ہو۔ جب ایسے لمحات انہیں میسر آ جائیں تو اسے خوب انجوائے کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں اگرچہ موسم اس کے برعکس یعنی اکثر خوشگوار رہتا ہے۔ سال کے زیادہ تر دنوں میں دھوپ جلوہ افروز رہتی ہے۔ پھر بھی اکثر آسٹریلین مرد اور عورتیں اچھے موسم میں افسوس کرتے ہیں کہ اتنا اچھا موسم ہے اور ہمیں کام پر جانا پڑ رہا ہے۔ گویا جس دن موسم اچھا ہو اس دن چھٹی ہونی چاہیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں لوگ کبھی کبھی برسنے والے بارش کے پہلے قطرے کو دیکھ کر دفتر جانے کا ارادہ بدل دیتے ہیں اور بیگم کو پکوڑوں کی فرمائش کر کے ٹی وی کے سامنے براجمان ہو جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ صرف افسوس کرتے رہ جاتے ہیں اور ہم لوگ بلا تردد اپنی خواہش پر عمل کرتے ہوئے چھٹی کر لیتے ہیں۔ اگر چھٹی نہ بھی کریں تو ایسے موسم میں وہاں دفتروں میں بھی کام برائے نام ہی ہوتا ہے۔ چائے اور پکوڑے وہاں بھی منگوائے جا سکتے ہیں۔ دفتر میں بیٹھ کرکام کے بجائے موسم کا مزہ لیا جاتا ہے۔ میں نے خود ایک سرکاری دفتر میں کام کے اوقات میں مینگو پارٹی اٹینڈ کی۔ عین اس وقت جب اندر پورا دفتر چونسے آموں سے اور خوش گپیوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا دفتر کے باہر کام سے آئے ہوئے لوگ بے قراری سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا وہ پورا دن شاید انتظار میں ہی گزرا ہو کیونکہ اندر کسی پارٹی کے بھیجے ہوئے آموں کی بہت سی پیٹیاں رکھی تھیں۔

لندن برج سے چلے تو علی کی کار لندن کی روشن شاہراہوں پر تیزی سے دوڑنے لگی کیونکہ ٹریفک کا زور قدرے کم ہو گیا تھا۔ علی مجھے بتائے بغیر ایک ایسے کلب میں لے گیا جہاں صرف ایشیائی لڑکے اور لڑکیاں جاتے تھے۔ اس کا نام بھی ایشین کلب تھا۔ برطانیہ میں ایشین سے مراد پاکستانی اور بھارتی ہوتے ہیں۔ جبکہ آسٹریلیا میں ایشین اکثر چینی نسل کے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسٹریلیا میں کسی بھی ایشین ملک کے اتنے افراد نہیں رہتے جتنے چینی نسل کے ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی یہاں آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ انتہائی اقلیت میں ہونے کی وجہ سے نہ تو وہ انتخابات میں کوئی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور نہ بحیثیت مجموعی اس معاشرے میں ان کا کوئی بڑا رول ہے۔ لیکن آسٹریلیا میں بسنے والے ان پاکستانی اور بھارتی باشندوں کی یہ خاص بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ، محنتی اور پر امن شہری ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، اپنے خاندانوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور آسٹریلیا کی ترقی میں ایک خاموش مگر مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس ایشین کلب میں پاکستان اور ہندوستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کافی تعداد میں موجود تھے۔ زیادہ تر سکھ تھے۔ گانے بھی پنجابی تھے۔ تیز موسیقی کی لے پر لڑکیاں اور لڑکے زور و شور سے ناچ رہے تھے۔ ڈانسنگ فلور پر بارہ تیرہ جوڑے جلتی بجھتی روشنیوں میں بانہوں میں بانہیں ڈالے محوِ رقص تھے۔ بقیہ لوگ مختلف میزوں پر بیٹھے اس انتہائی پر شور ماحول میں باتوں سے ’’لطف اندوز ہونے‘‘ کی ناکام کوشش میں مصروف تھے۔ ناکام اس لئے کہ موسیقی کا شور اتنا تھا کہ اس میں کان پھٹتے محسوس ہوتے تھے۔ ایسے بھیانک شور میں ایک دوسرے کی بات سننا عملاً نا ممکن تھا۔ وہ ہونٹوں کی جنبش پر ہی سنے اور سمجھے بغیر قہقہے لگا رہے تھے۔ ہم تھوڑی دیر بیٹھے۔ کوک کا ایک ایک گلاس پینے اور سر میں درد لے کر وہاں سے اٹھ آئے۔ باہر نکلنے کے بعد بھی وہ بھیانک شور دماغ میں گونجتا محسوس ہو رہا تھا۔

میں کئی دنوں سے پوری نیند نہیں لے سکا تھا اس لئے نیند سے میری آنکھیں بوجھل اور جسم سست ہو رہا تھا۔ میں نے علی سے واپس ہوٹل چلنے کے لئے کہا۔ علی نے اپنی کار کا رخ بیز واٹر( Bays Water) کی طرف موڑ دیا۔ آدھے گھنٹے میں ہم ہوٹل کے سامنے موجود تھے۔ اس وقت دو بجے تھے۔ میں نے علی سے کہا ’’اندر چلو! کافی پی کر جانا‘‘

علی میرے گلے لگ گیا ’’یار! اب جانے کب ملاقات ہو گی۔ میرا دل یہاں سے جانے کو نہیں چاہ رہا لیکن کیا کروں صبح کام پر بھی جانا ہے۔ میرا کام بھی ایسا ہے کہ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرنا پڑتا ہے‘‘ میں نے کہا ’’علی! تم نے میرے لئے جو کچھ کیا، اس کے لئے شکریہ۔۔۔‘‘

’’یار! شرمندہ تو نہ کرو۔ مجھے شرم آ رہی ہے کہ میرا بچپن کا دوست اتنی دور سے آیا ہے اور میں اسے اپنے گھر بھی نہیں لے کر جا سکا‘‘

’’علی! خواہ مخواہ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان حالات میں تم نے میرا جتنا خیال رکھا میں اس کے لئے مشکور ہوں‘‘

علی بہت جذباتی انداز میں ملا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اس کی محبت اور اس کے دکھوں کی غمازی کر رہے تھے۔ اپنے گھر میں شہزادوں کی طرح لاڈ پیار سے پلنے والا علی اس وقت بالکل مختلف حالات سے نبرد آزما تھا۔ میں اس کے حالات اور اس کے دل پر گزرنے والے واقعات سے آشنا تھا، اس لئے میں بھی آبدیدہ ہو گیا۔ ہوٹل کے دروازے پر کھڑے کھڑے ہماری زبانیں کم اور آنکھیں زیادہ بول رہی تھیں۔ انہی آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ علی کار میں بیٹھا۔ اس کی کار رات کے سناٹے میں آگے بڑھتی چلی گئی۔ میں وہیں کھڑا کار کے پیچھے جلنے والی سرخ روشنیوں کو بڑے سے چھوٹا اور پھر غائب ہوتا دیکھتا رہا۔ اس وقت گلی میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کوئی اور کار یا کوئی شخص چلتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ پوری گلی میں سناٹا اور گھمبیر خاموشی تھی۔ صرف کھمبوں پر روشن بلب اس یخ بستہ اور تاریک ماحول میں گھورتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس سناٹے، نیم تاریکی اور سردی میں میں تنہا فٹ پاتھ پر کھڑا تنہائیوں اور اپنوں سے دور یوں کے درد کو اپنے دل پر بوجھ کی طرح محسوس کر رہا تھا۔

یہ تنہائیاں، یہ دوریاں اور پردیس کے یہ دکھ ہمارے شب و روز کے ساتھی ہیں، ہمارا زادِ سفر ہیں اور اب جسم کا جزوِ لاینفک بن چکے ہیں۔ ہم چاہیں بھی تو ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ کیونکہ اب ہمارا گھر نہ یہاں ہے نہ وہاں۔ ہم نہ اُن کے ہیں اور نہ اِن کے۔ بلکہ ہم کسی کے بھی نہیں۔ شاید اپنے بھی نہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

ہمارے بس میں اگر اپنے فیصلے ہوتے

تو ہم کبھی کے گھروں کو لوٹ گئے ہوتے




ٹیکسی کھمبے کے ساتھ بغلگیر ہو گئی





صبح دس بجے جاگا تو میں بالکل تر و تازہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت دنوں کے بعد الارم لگائے بغیر سویا تھا۔ آج میں لندن سے واپس کراچی جا رہا تھا۔ فلائٹ رات نو بجے تھی اس لئے پورا دن میرے پاس تھا۔ ناشتے کے بعد میں نے چیک آؤٹ کیا۔ کیونکہ ہوٹل کے قواعد کے مطابق بارہ بجے تک کمرہ خالی کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ اگلی رات کا بھی کرایہ دینا پڑ جاتا۔ چیک آؤٹ کے بعد میں نے اپنا سامان وہیں ہوٹل میں بطور امانت رکھوایا اور باہر آ کر بیز واٹر (Bays water) اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔ ہوٹل سے نکلتے وقت دھوپ چمک رہی تھی۔ صرف پانچ منٹ کے بعد جب میں اسٹیشن کے پاس تھا تو دھوپ کی بجائے بادل چھا گئے بلکہ باقاعدہ بارش شروع ہو گئی۔ بیز واٹر سے میں نے ویسٹ منسٹر ابیے (West Minister Abbey) کا ٹکٹ لیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں اس مصروف اور سیاحوں کے لئے پر کشش علاقے میں جا پہنچا۔ بارش اب بھی جاری تھی۔ جب کہ میرے پاس چھتری موجود نہیں تھی۔ میں صرف ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا جو تھوڑی دیر میں قدرے بھیگ گئی۔ اسی حالت میں چلتا ہوا دریائے ٹیمز کے کنارے واقع ملینیم ویل Millennium Wheel کے پاس جا پہنچا۔

وہاں حسبِ معمول لمبی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ بارش کبھی رکتی اور کبھی شروع ہو تی۔ وہیں سامنے ایک شاپ میں چھتریاں اور رین کوٹ فروخت ہو رہے تھے۔ میں بھی قطار میں کھڑا ہو گیا اور گرم پکوڑوں کی طرح بکنے والی چھتریوں میں سے ایک خرید کر باہر نکلا تو بارش غائب اور دھوپ حاضر ہو چکی تھی۔ چھتریاں اور رین کوٹ خریدنے والے سبھی سیاح تھے۔ مقامی لوگوں کے پاس پہلے سے چھتریاں موجود ہوتی ہیں۔ کیونکہ اہلیانِ لندن کے بیگ میں اور کچھ ہو نہ ہو ایک عدد چھتری ضرور رہتی ہے۔

میں سامنے ہی موجود کمیونٹی ہال میں چلا گیا۔ یہاں بے شمار ویڈیو گیمز، Amusement Games، کمپیوٹرائزڈ فٹ بال، بیس بال، موٹر سائیکلنگ اور دوسری بے شمار گیمیں تھیں۔ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے مصداق ہر مشین میں سکے ڈالنے پڑتے تھے جو تھوڑی دیر چل کر مزید رقم کے انتظار میں بند ہو جاتی تھیں۔ نچلی منزل صرف اٹھارہ سال سے زائد عمر کے افراد کے لئے تھی۔ وہاں شراب کا بار اور ایسی ہی بہت سی مشینیں وہاں بھی لگی تھیں۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور اندر سیاح ان مشینوں اور شراب پر پونڈ پر پونڈ لٹا رہے تھے۔ دو اسمگلر ٹائپ انگریز ایک پوکر مشین میں بیس بیس پونڈ کے نوٹ مسلسل ڈال اور ہار رہے تھے۔ مشین پہلے کریڈٹ نگل لیتی تو وہ ہمت ہارے بغیر مزید رقم مشین کے منہ میں ڈال دیتے۔ میرے کھڑے کھڑے انہوں نے سیکڑوں پونڈ اس مشین کی نذر کر دیئے۔ وہ جیتنے کی امید میں بٹن دباتے لیکن مشین ان کی انگلی کی ہر جنبش پر ایک پونڈ نگل لیتی۔ فرسٹریشن، پریشانی اور غصہ ان کے چہرے پر نمایاں تھا۔ وہ مشین کو مکے اور لاتیں مارتے، گالیاں بکتے، مزید نوٹ ڈالتے، بئیر کے گھونٹ بھرتے، سگریٹ کے کش لگاتے اور ہارتے چلے جاتے۔ لگتا تھا کہ وہ آج اپنی تمام جمع پونجی اس مشین کی نذر کر کے جائیں گے۔ یا پھر اگلی پچھلی ساری رقم جیت کر لوٹیں گے۔

باہر نکلا تو خلاف توقع دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ پانچ پونڈ یعنی تین سو بیس روپوں میں خریدی وہ چھتری کھولنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ یہ چھتری بند حالت میں ہی کراچی پہنچی۔ وہاں ایک دوست کو یہ کہہ کر تحفتاً دی کہ یہ خصوصی طور پر اسی کے لئے خریدی تھی۔ اس وقت دھوپ اس طرح چمک رہی تھی جیسے بارش نام کی کوئی چیز اس علاقے میں کبھی دیکھی ہی نہ گئی ہو۔ لندن میں موسم کی یہ آنکھ مچولی حیرت انگیز ہے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ والا موسم ہے۔ وہاں سال کا زیادہ حصہ بارشوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ سورج اکثر بادلوں کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔ کبھی کبھار جب یہ جلوہ گر ہوتا ہے تو اس دن لندن والوں کی عید ہو جاتی ہے۔ اس وقت ان کا دل چاہتا ہے کہ دفتروں اور گھروں سے بھاگ پڑیں اور اس نایاب شے (دھوپ) سے مستفید ہوں۔ ایسے وقت میں دفتر میں بیٹھنا لوگوں کو زہر لگتا ہے۔ اپنے ہاں کی عام اور لندن والوں کے لئے خاص اور نایاب شے سے لطف اندوز ہونے کے لئے میں وہیں پارلیمنٹ اسکوائر کے سامنے دریائے ٹیمز کے کنارے ایک بنچ پر بیٹھ کر ’’ہمہ یاراں دوزخ‘‘ کا مطالعہ کرنے لگا۔ یہ کتاب میں نے بہت پہلے پڑھ رکھی تھی۔ اس دفعہ پاکستان سے آتے ہوئے میں اِسے خرید لایا۔ سفر کے دوران جب بھی وقت ملتا میں اس کتاب کا مطالعہ کرتا۔ انتہائی سنجیدہ بلکہ رنجیدہ موضوع کو صدیق سالک مرحوم کے طرز تحریر نے انتہائی دلچسپ بنا دیا تھا۔ دریائے ٹیمز کے کنارے بارش کے فوراً بعد والی سنہری دھوپ میں بیٹھ کر کتاب نے بہت لطف دیا۔ اس سفر میں دو کتابیں میرے زیرِ مطالعہ رہیں۔ ایک ’’ہمہ یاراں دوزخ‘‘ اور ایک حافظ محمد ادریس کی ’’دریچۂ زنداں‘‘۔ اتفاق سے یہ دونوں کتابیں قصۂ اسیری تھیں۔ ایک سیاسی اسیری کی داستان اور ایک دشمنوں کی قید کا قصہ۔ دونوں کتابوں میں میرے لئے دلچسبی کا بہت سا ساماں موجود تھا۔ کیونکہ ان میں واقعات کی دلچسبی کے ساتھ ساتھ شوخیِ تحریر، سلاست، روانی اور خوبصورت جملوں کی چاشنی موجود ہے۔ ہمہ یاراں دوزخ تو ایک گراں قدر ادبی اور تاریخی شہ پارہ ہے۔

میں وہاں سے اٹھا اور چمکتی ہوئی دھوپ میں ٹریفالگر اسکوائر کی طرف چل پڑا۔ ٹریفالگر اسکوائر میں سیاحوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ یہ جیسے سیاحوں کے لئے مرکزی مقام تھا۔ دنیا بھر کے سیاح گلے میں کیمرے لٹکائے ادھر اُدھر گھومتے دکھائی دے رہے تھے۔ زیادہ تر فو ٹو گرافی اس چورا ہے پر مو جود بے شمار کبوتروں کے ساتھ ہو رہی تھی۔ یہ کبوتر سیاحوں اور کیمروں کی چکا چوند روشنی کے عادی تھے۔ وہ تمام چکا چوند اور رش سے بے نیاز دانہ چگتے رہتے۔ اُڑ کر سیاحوں کے کندھوں اور بازوؤں پر آ بیٹھتے۔ جیسے ان سے مطالبہ کر رہے ہوں کہ ہمارے لئے دانے کیوں نہیں لائے۔ اس کے جواب میں اکثر سیاح وہاں پر موجود دانے بیچنے والے سے دانے خریدتے اور ان کبوتروں کی نذر کرتے۔ وہاں بڑی تعداد میں پیشہ ور فوٹو گرافر بھی موجود تھے۔ وہ پل بھر میں فوٹو بنا کر سیاحوں کے حوالے کر دیتے تھے۔ تاہم ان کے فوٹو بہت گراں تھے۔ ان فوٹو گرافروں کے علا وہ بہت سے پینٹرز ایزل پر کینوس جمائے اور ہاتھوں میں رنگوں کے برش لئے سیاحوں کی پورٹریٹ بنا نے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ کچھ لوگ ان سے اپنی پورٹریٹ بنوا رہے تھے۔ زیادہ تر سیاح ان سے معذرت کر لیتے تھے۔ سیاحوں کی بہت بڑی تعداد روزانہ وہاں آتی ہے۔ ان کی وجہ سے ان فوٹو گرافروں اور فنکاروں کا کا روز گار خوب چلتا رہتا ہے۔

سیاحت یورپی ممالک کی ایک بہت بڑی صنعت اور آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ صرف ہوٹلنگ کو ہی لے لیجیے صرف لندن میں ہوٹلوں کی تعداد بلا مبالغہ ہزاروں کی تعداد میں ہو گی۔ ہر گلی ہر محلّے میں چھوٹے بڑے بے شمار ہوٹل، موٹیل اور کاروان پارک واقع ہیں جو اکثر بھرے رہتے ہیں۔ حالانکہ لندن میں ہوٹلوں کا کرایہ ہوش رُبا ہے۔ لیکن پھر بھی کمرے خالی کم ہی ملتے ہیں۔ ہوٹلنگ کے علاوہ سیاحوں سے ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹ، تفریحی مقامات، میوزیم اور تاریخی مقامات بھی بے شمار و بے حساب کماتے ہیں۔ لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ سے دنیا بھر کے لاکھوں سیاح روزانہ آتے جاتے ہیں، جو برطانیہ کے علاوہ یورپ کے دوسرے ممالک میں پھیل جاتے ہیں۔ جب وہ یورپ کی سیر کر کے وا پس جا رہے ہوتے ہیں تو ایک ایک سیاح بلا مبالغہ ہزاروں پونڈ یورپ کی معیشت کی نذر کر چکا ہوتا ہے۔ دوسرے ذرائع آمدنی کے علاوہ یورپی ممالک کا یہ بہت بڑا ذریعہ آمدنی ہے۔ کاش پاکستان بھی سیاحوں کے لئے اتنا ہی پُر کشش ملک بن جائے۔

ٹریفالگر اسکوائر اور اُس کے نواح میں گھومنے کے بعد میں نے وہیں ایک میکڈانلڈ سے لنچ کیا۔ پھر ٹرین میں بیٹھ کر اپنے ہو ٹل کے نزدیک واقع دوسرے اسٹیشن کوئینز وے (Queensway) جا ا ترا۔ اس وقت دوپہر کے تین بجے تھے۔ ہوٹل کے بجائے میں قریب ہی واقع ہائیڈ پا رک کی طرف چلا گیا۔ در اصل اس آخری دن گھومنے پھرنے کے لئے میں نے کوئی با قاعدہ پرو گرام ترتیب نہیں دیا تھا۔ بلکہ سفرِ یورپ کی تکان دور کرنے کے لئے آرام کرنے کا پروگرام تھا۔ لیکن میں اس دن بھی ہو ٹل میں نہ ٹھہر سکا اور بے قرار رُوح کی طرح لندن کی کوچہ نوردی کرتا رہا۔تا ہم میرا دھیان شام کو روانہ ہونے والی اپنی پرواز کی طرف تھا۔ اس سے پہلے صرف وقت گزارنا تھا، جو اب بہت کم رہ گیا تھا۔ اگلے دو گھنٹے میں نے کبھی پارک میں ٹہلتے اور کبھی نرم گھاس پر لیٹ کر گزارے۔ میلوں تک پھیلے اس پا رک میں ہر چہار جانب سبزہ ہی سبزہ، پودے، درخت اور بے شمار رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے۔ بے شمار لوگ وہاں ٹہلتے اور نرم گھاس پر لیٹے اور بیٹھے نظر آ رہے تھے۔ بہت سارے جوڑے پارک کے خوشگوار ماحول میں اپنے رُومان کو پروان چڑھا نے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں جس درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا اس کے سامنے ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی سکول کے یونیفارم میں غیر نصابی سر گرمیوں میں مصروف تھے۔ ظاہر ہے اس عمر میں انہیں خوابگاہ کی سہولت میّسر نہیں ہو گی۔ لہذا وہ سب کچھ اس پارک میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو عموماً صرف خوابگاہوں میں ہوتا ہے۔ لڑکے کے ہاتھ اور ہونٹ مسلسل مصروفِ عمل تھے۔ لڑکی بھی اس سے پورا تعاون کر رہی تھی۔ ان کے یونیفارم کے کوٹ، قمیصیں اور بستے اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے اور وہ دونوں قبل از وقت جوانی کا سبق سیکھنے اور سمجھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

آسٹریلین، یورپی اور امریکن کلچر میں ایسے منا ظر عام ہیں۔ عام لوگ ان کی طرف توجہ کم ہی دیتے ہیں لیکن کنکھیوں سے ہر کوئی دیکھتا ہے۔ پھر صرفِ نظر کر کے گزر جاتا ہے۔ اس کے بر عکس ایشیائیوں خصوصاً پاکستانیوں کے لئے ایسے مناظر انتہائی دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ بھی ان کے عادی ہو جاتے ہیں اور انہیں یہ سب کچھ عام سا لگنے لگتا ہے۔ شروع شروع میں ان منا ظر کو دیکھنے سے انہیں جس ہیجان انگیزی اور گرمیِ جذبات کا احساس ہوتا ہے آہستہ آہستہ وہ کم ہوتا جاتا ہے۔ پھر بھی پاکستان کے کلچر اور پابند ماحول سے نکل کر یہ سب کچھ ان کے لئے بہت مختلف ہوتا ہے۔ سڈنی میں ایک پاکستانی ڈرائیور نے رات کو ٹیکسی چلاتے ہوئے ٹیکسی کو ایک کھمبے میں دے مارا۔ خوش قسمتی سے ڈرائیور اور پچھلی سیٹ پر موجود جوڑا صحیح و سلامت رہا۔ بعد میں پو چھنے پر اس ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ میری ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر موجود جو ڑا ایسی حرکات کا مرتکب ہو رہا تھا کہ باوجود کوشش کے میرا دھیان سامنے کے بجائے بیک ویو مرّر کی طرف زیادہ ہو گیا۔ مجھے اس وقت ہوش آیا جب ٹیکسی کھمبے کے ساتھ جا کر بغلگیر ہو گئی۔ میرے خیال میں چا لان میرا نہیں اس جوڑے کا ہونا چاہیے تھا جو ٹیکسی کی سیٹ کو اپنے بیڈ روم کا بستر سمجھ کر ایسے مصروف ہو گئے تھے جیسے میں انسان نہیں بلکہ روبوٹ ہوں۔ آخر میرے بھی تو جذبات ہیں۔

اگلے دو گھنٹے میں نے اس پارک میں بیٹھتے، لیٹتے اور گھومتے گزارے۔ اس پارک کے ایک سرے پر کنسنگٹن پیلس اور کنسنگٹن پارک واقع ہے۔ ان کی سیر میں پہلے ہی کر چکا تھا۔ ہائیڈ پارک میں صرف پارک ہی نہیں کیفے، فلاور شاپ، ٹینس کورٹ، بڑے بڑے مجسّمے اور میوزیم بھی ہیں۔ اس پارک میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جو دنیا بھر میں آزادی تقریر کے لئے مشہور ہے۔ جہاں کوئی بھی شخص کسی بھی موضوع پر تقریر کر سکتا ہے۔ اسے نہ کوئی روکنے والا ہوتا ہے نہ کوئی ٹوکنے والا۔ اِسے کہتے ہیں مادر پدر آزادی۔




ہیتھرو ائر پورٹ، کھانا لاہور ریلوے اسٹیشن والا





پانچ بجے میں ہو ٹل واپس آیا۔ ریسیپشن پر جو صاحب براجمان تھے ان سے سفرِ یورپ پر روانگی سے پہلے بھی میری ملاقات ہو چکی تھی۔ ان کا نام نوید تھا اور پاکستان کے صوبہ سرحد سے ان کا تعلق تھا۔ نوید کے بڑے بھائی صوبائی اسمبلی کے رکن اور وزیر تھے۔ نوید برطانیہ میں پڑھنے کے لئے آیا تھا۔ وہ اس ہوٹل میں جزوقتی ملازمت کرتا تھا۔ میں ہوٹل کا کمرہ خالی کر چکا تھا لیکن میرا سامان بطورِ امانت وہیں رکھا ہوا تھا۔ ائیر پورٹ روانہ ہونے سے پہلے میں شاور کرنا چاہتا تھا جس کے لئے نوید نے میرے لئے ایک کمرہ کھول دیا۔ نہانے اور لباس تبدیل کرنے کے بعد میں ہوٹل کے لاؤنج میں آ گیا جہاں نوید نے میرے لئے کافی بنائی۔ ہم دونوں کافی پیتے رہے اور پاکستان کی باتیں کرتے رہے۔ نوید کو وطن کی یاد بہت ستاتی تھی۔ اسے برطانیہ زیادہ راس نہیں آیا تھا۔

نوید نے فون کر کے میرے لئے ٹیکسی بُک کرا دی تھی۔ چھ بجے ٹیکسی ڈرائیور ہوٹل کے اندر چلا آیا۔ نوید نے اُسے بتایا ’’یہ تمھارے پیسنجر ہیں اور یہ ان کا سامان ہے۔ انہیں پیڈنگٹن اسٹیشن پر لے کر جا نا ہے‘‘

ڈرائیور نے سامان اٹھایا اور نوید نے گلے لگ کر مجھے رخصت کیا۔ نوید کے مشورے پر میں نے ہیتھرو کے بجائے پیڈنگٹن اسٹیشن تک کے لئے ٹیکسی بُک کرائی تھی۔ نوید نے بتایا ’’پیڈنگٹن سے آپ کو آسانی سے ایئرپورٹ کے لئے ٹرین مل جائے گی جو بہت سستی پڑے گی۔ ورنہ ہیتھرو تک کا ٹیکسی کا کرایہ ساٹھ پونڈ سے کم نہیں ہے۔ جبکہ پیڈنگٹن تک کی یہ ٹیکسی صرف دس پونڈ میں بُک ہے‘‘

ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ باہر نکلا تو میں نے ٹیکسی کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ہو ٹل کے سامنے کھڑی ایک پرائیویٹ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یہی ٹیکسی ہے‘‘

لندن میں ٹیکسی عجیب الخلقت قسم کی کار ہوتی ہے جس کا رنگ سیاہ اور اونٹ کے کوہان کی طرح درمیان سے اٹھی ہوتی ہے۔ ان مینڈک نما ٹیکسیوں کے علا وہ لندن میں عام کاریں بھی ٹیکسی کے طور پر چلتی ہیں۔ ان کو بھی با قاعدہ لائسینس ملا ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ یہ عام کار والی ٹیکسیاں صرف فون بکنگ والے مسافروں کو لاتی اور لے جاتی ہیں۔ وہ سڑک پر کھڑے مسافروں کو نہیں اٹھا سکتیں۔ جبکہ باقاعدہ ٹیکسیاں دونوں طریقے سے حاصل کی جا سکتی ہیں اور ہر قسم کے مسافر کو اٹھانے کی اہل ہیں۔ آدھے گھنٹے میں ہم پیڈنگٹن اسٹیشن پہنچ گئے۔ وہاں سے ائیر پورٹ ایکسپریس پکڑی اور ہیتھرو ائیر پورٹ جا اُترا۔

یہ ائیر پورٹ بھی پورے شہر جیسا ہے۔ بہت ہی بڑا، بہت ہی مصروف اور پھیلا ہوا ہے۔ میں دنیا کے بہت سارے ائیر پورٹوں میں گیا لیکن اتنا بڑا ائیر پورٹ پہلے کہیں نہیں دیکھا تھا۔ مطلوبہ گیٹ تک جانے کے لئے سامان سمیت کبھی پیدل اور کبھی ایسکالیٹر ٹریک پر کافی لمبا سفر کرنا پڑا۔ ایک سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا ٹرمینل طے کرتا ہوا بالآخر میں مطلوبہ گیٹ میں جا کر داخل ہوا۔ ائیر پورٹ پر ہر طرف گہما گہمی تھی۔ دنیا بھر کے لوگ یہاں دیکھے جا سکتے تھے۔ مختلف لباس، مختلف عمروں اور مختلف جنسوں والے بے شمار لوگ اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ یہ ائیر پورٹ کیا ہے ایک بین الاقوامی شہر ہے۔ جہاں پر ہر کلچر، ہر تہذیب، ہر لبا س، ہر رنگ اور ہرنسل کے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ نہ صرف لوگ دکھائی دیتے ہیں بلکہ مختلف تہذیب کے افراد کے لئے مختلف قسم کے ریستوران اور دکا نیں بھی مو جود ہیں۔

پی آئی اے کے کاؤںٹر پر مسافروں کی طویل قطارچیکنگ کے انتظار میں کھڑی تھی۔ یہ لاؤنج پورے کا پورا پاکستانیوں سے بھرا نظر آ رہا تھا۔ ہر طرف پاکستانی چہرے، شلوار قمیص میں ملبوس پاکستانی خواتین اور اُردو اور پنجابی زبانوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ یہاں پاکستانیوں کے علاوہ بہت کم لوگ نظر آ رہے تھے۔ بورڈنگ کارڈ لینے کے بعد ویٹنگ لاؤنج میں گیا تو وہاں رنگا رنگ ڈیوٹی فری دُکانیں اور قسم قسم کے کھانوں والے ریستوران اور کھانوں سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خوشبوئیں اپنی جانب کھینچ رہی تھیں۔ انہی ریستورانوں میں ایک پاکستانی ریستوران نظر آیا تو میں وہاں چلا گیا۔ یہ ٹیک اوے (Take Away) کی طرح کا ریسٹورنٹ تھا۔ وہاں سے بریانی کی پلیٹ خرید کر ایک خالی سیٹ پر بیٹھ کر کھانے اور اِدھر اُدھر کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگا۔ لیکن لطف صرف مؤخر الذکر نے ہی دیا کیونکہ کھانا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے کھانوں سے مختلف نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے اس ریسٹورنٹ والے پہلے کسی پاکستانی ریلوے اسٹیشن پر یہ کاروبار کرتے رہے ہوں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہاں یہ کھانا پانچ دس روپوں میں بیچتے ہوں گے اور یہاں ہیتھرو میں دس پونڈ کا۔ ظاہر ہے اُن کی ترقی تو ہو گئی لیکن ان کے کھانوں نے ترقی نہیں کی اور ان کا معیار ریلوے اسٹیشن سے آگے نہ بڑھ سکا۔




پینا ہو تو پئیں، نہیں تو نہ سہی





کھانے کے بعد میں ڈیوٹی فری شاپ میں چلا گیا۔ وہاں سے اپنے دستی سامان میں ایک بیگ کا مزید اضافہ کر کے باہر نکلا تو دیکھا کہ ہمارے جہاز کے مسافر جہاز پر سوار ہونے کے لئے گیٹ سے نکل رہے تھے۔ اس وقت نو بج رہے تھے اور ہمارے جہاز نے ساڑھے نو بجے اُڑنا تھا۔ (کم از کم ہماری ٹکٹ پر یہی وقت درج تھا)۔ میں بھی دوسرے مسافروں کے ہمراہ جہاز میں سوار ہو گیا۔ یہ جہاز ساڑھے نو بجے کے بجائے ساڑھے گیارہ بجے وہاں سے روانہ ہوا۔ یہ دو گھنٹے انتہائی بوریت میں گزرے۔ جہاز کے انجن بند ہونے کی وجہ سے ایر کنڈیشنر بھی بند تھے۔ اس سے جہاز کے اندر خاصی گرمی، حبس اور آکسیجن کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ گر می سے گھبرا کر بچّے رو رہے تھے۔ لوگ اخباروں کو دستی پنکھا بنا کر جھل رہے تھے۔ بار بار گھڑیاں دیکھتے، اِدھر ادھر جاتے پی آئی اے کے عملے کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھتے، آنکھیں بند کر کے سو نے کی کوشش کرتے اور کبھی کھڑکی سے باہر روتے بسورتے مو سم کو دیکھ کر وقت گزارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے پاس سے گزرتے ہوئے پی آئی اے کے عملے کے ایک صاحب سے کہا ’’کیوں صاحب! کیا بات ہے یہ جہاز کیوں نہیں اُڑ رہا‘‘

بولے ’’مو سم کی خرابی کی وجہ سے تھوڑی سی تاخیر ہو گئی ہے۔ بس تھوڑی دیر میں چلنے والے ہیں‘‘

میں نے کہا ’’موسم تو اب بھی ویسا ہی ہے۔ اب کیسے اُڑیں گے؟ ویسے ہمارے سامنے دوسری ائیر لائنوں کے بے شمار جہاز ائیر پورٹ سے اُڑ رہے ہیں۔ آخر ان پر موسم کا اثر کیوں نہیں ہو رہا؟ کیا پی آئی اے کے جہاز ان کے مقابلے میں اتنے نازک ہیں کہ اس معمولی بارش میں اُڑنے کے قابل نہیں ہیں؟ اگر ایسا تھا تو ہمیں جلدی جلدی جہاز کے اندر لادنے اور اس گرمی میں بٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہاں لاؤںج میں کم از کم یہ حشر تو نہیں تھا‘‘

ان صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا یا ان کے پاس کوئی جواب تھا ہی نہیں۔ دوسرے لوگ بھی ایسے ہی سوال کر رہے تھے۔ انہوں نے عافیت اسی میں جانی کہ کاک پٹ میں جا کر چھپ جائیں۔ خدا خدا کر کے ساڑھے نو کی بجائے ساڑھے گیا رہ بجے یعنی دو گھنٹے کے بعد جہاز کے انجن بیدار ہوئے، رن وے پر تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد اس نے پر پھیلائے اور اُوپر سے اوپر اٹھتا ہوا آسمان کی وسعتوں میں محوِ پرواز ہو گیا۔ مسافروں نے سکون کی سانس لی۔ سب سے زیادہ اس بات پر کہ گرمی سے ان کی جان چھوٹی تھی۔ میری سیٹ جہاز کے پچھلے حصّے یعنی کچن کے پاس تھی۔ اس سیٹ میں کچھ خرابی تھی۔ اس کی پشت پیچھے کی جانب نہیں کھُل رہی تھی۔ میں نے ایک فضائی میزبان سے اس کی شکایت کی۔ اس نے بھی کوشش کی لیکن نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا۔ میرے آگے والی سیٹ پر بیٹھے صاحب نے اپنی سیٹ کی پشت پیچھے کر لی تھی۔ اس سے میں مزید پھنس کر رہ گیا۔ اپنے جسم اور قد کے لحاظ سے وہ جگہ میرے لیے نا کا فی تھی۔ میرے گھٹنے سامنے والی سیٹ کے ساتھ پھنس کر رہ گئے تھے۔ وہ ائیر ہو سٹس ’’کچھ کرنے‘‘ کا وعدہ کر کے چلی گئی۔ اس کا وعدہ بھی پانچویں دن والا وعدہ ثابت ہوا کیونکہ اگلے ایک گھنٹے تک اس کی شکل ہی دکھائی نہیں دی۔ اس دوران تک میرے گھٹنے درد کرنے لگے تھے۔ میں نے ایک دوسرے مرد سٹیورڈ سے شکایت کی تو اس نے ایک نوجوان لڑ کے سے میری سیٹ تبدیل کر دی۔ اس نوجوان نے رضاکارانہ طور پر اس تبدیلی پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا جس سے میرے گھٹنوں کو کچھ سکون ملا۔

سنگا پور اور بنکاک سے میں نے اکثر پی آئی اے پر سفر کیا تھا۔ ان روٹوں پر پی آئی اے کے جہاز اکثر خالی ہوتے ہیں۔ بہت ساری سیٹیں خالی پڑی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں لندن سے چلنے والی اس فلائٹ میں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ اس وجہ سے جہاز میں خوب گہما گہمی، باتوں کا شور اور بچوں کے رو نے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں چونکہ سب سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ وہاں جہاز کا میزبان عملہ بھی موجود تھا اور مسافروں کو مشروبات سرو کرنے کے لئے ٹرالیاں لے کر آگے جا رہا تھا۔ ایک صاحب نے دوسرے سے کہا ’’کون سی ڈرنک لے کر جاؤں؟ سپرائٹ اور کوک یا دوسری ڈرنکس بھی‘‘

دوسرے نے کہا ’’صرف سپرائٹ لے جاؤ، پینا ہو تو پئیں، نہیں تو نہ سہی‘‘

ائیر ہو سٹس ڈرنک لے کر چلی تو میرے سامنے والی سیٹ کے درمیان میں بیٹھے ہوئے صاحب نے ان سے کچھ کہنا چاہا لیکن اس نے سُنی ان سُنی کر دی۔ میں نے اس سے کہا ’’وہ صاحب آپ سے کچھ کہنا چاہ رہے ہیں‘‘

ان صاحبہ نے پہلے تو مجھے گھور کر دیکھا اور پھر اُس سے بھی درشت انداز میں ان صاحب کی طرف دیکھا لیکن زبان سے کچھ کہنا شایانِ شان نہیں سمجھا۔ ان صاحب نے کہا ’’میری ٹانگوں میں تکلیف ہے۔ براہ مہربانی مجھے ایک کمبل دے دیں‘‘

ائیر ہوسٹس صاحبہ نے اُسی دُرشت روّیے کے ساتھ جواب دیا ’’آپ دیکھ نہیں رہے کہ میں ڈرنک سرو کر رہی ہوں۔ آپ لوگ ابھی جہاز پر بیٹھتے نہیں کہ مسئلے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر سردی لگ رہی ہے تو گرم کپڑے پہن کر چلنا چاہیے تھا‘‘

ادھیڑ عمر کے ان صاحب نے کہا ’’دیکھئے مو سم کی مناسبت سے میں نے مناسب کپڑے پہن رکھے ہیں۔ لیکن ایک جگہ ساکن بیٹھنے اور ائیر کنڈیشنز کی ٹھنڈک کی وجہ سے یہ تکلیف شروع ہوئی ہے۔ میں نے ایک کمبل ہی مانگا ہے۔ آپ ناراض کیوں ہو رہی ہیں؟‘‘

’’ناراض نہ ہوں تو کیا کروں۔ آپ لوگ پی آئی اے کے جہاز پر بیٹھتے ہیں تو یہ سارے نخرے ہوتے ہیں۔ اگر کسی اور ائیر لائن میں بیٹھیں تو یہ سب کچھ نہیں ہو تا‘‘

وہ صاحب قدرے غصّے میں بو لے ’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ کیا یہی رویہ آپ کو مسافروں کے ساتھ رکھنا چاہیے؟ آپ کی سروس تو اچھی نہیں ہے اس کے ساتھ مسافروں کے ساتھ آپ کا رویہ اس سے بھی خراب ہے۔ جتنی دیر کھڑی ہو کر آپ بحث کر رہی ہیں اتنی دیر میں آپ کمبل لا کر دے بھی سکتی تھیں۔ پتا نہیں کس نے آپ لوگوں کو تربیت دی ہے۔ بین الاقوامی فلائٹوں پر ایسے بد تمیز عملے کو رکھ کر ملک کو بد نام کیا جا رہا ہے۔ آپ نے کمبل نہیں دینا نہ دیں۔ جائیں میری جان چھوڑیں‘‘

اتنی دیر میں دوسرے مرد اسٹیورڈ نے ایک کمبل لا کر ان صاحب کو دے دیا۔ بحث کرنے والی ائیر ہوسٹس زور سے ’’اونہہ‘‘ کر کے ٹرالی دھکیلتی ہوئی چلی گئی۔

تھوڑی ہی دیر میں جہاز کی روشنیاں گُل کر دی گئیں اور مسافر سونے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ میرے پاس تکیہ نہیں تھا۔ میں نے اسی مرد اسٹیورڈ سے کہا ’’برائے مہربانی مجھے ایک تکیہ دے دیں‘‘

وہ صاحب گئے اور تھوڑی دیر میں آ کر کہا ’’سوری تکیے ختم ہو گئے ہیں‘‘

نا چار تکیے کے بغیر ہی میں سونے کی کوشش کرنے لگا۔ جہاز کی تنگ سیٹوں اور سیٹوں کے درمیان تنگ جگہ کی وجہ سے سونا ہمیشہ میرے لئے مشکل ہوتا ہے۔ اوپر سے تکیہ نہ ہونے کی وجہ سے گردن بھی درد کرنے لگی۔

اس طرح کچھ سوتے، کچھ جاگتے، کچھ گردن اور گھٹنوں کو سہلاتے یہ چھ گھنٹے گزر گئے اور ہم برطانیہ کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے پانچ بجے اور دبئی کے وقت کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے دبئی ائیر پو رٹ پر جا اُترے۔ دبئی میں ہمارے جہاز نے ایک گھنٹے کے لئے رُکنا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر ہم چاہیں تو آدھے گھنٹے کے لئے باہر لاؤنج میں جا سکتے ہیں۔ دبئی ائیر پورٹ خاصا بڑا، مصروف اور انتہائی صاف ستھرا ہے۔ پوری عمارت اور عمارت کے اندر ہر چیز نئی نئی اور جدید تکنیک کی حا مل ہے۔ مثلاً ائیر پو رٹ پر واقع باتھ رومز میں میں نے پہلی دفعہ ایسی ٹونٹیاں دیکھیں جن کے قریب ہاتھ لے کر جاؤ تو ٹونٹی سے پانی آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہاتھ دور کرو تو پانی بند ہو جاتا ہے۔ بعد میں ایک صاحب نے بتایا کہ ایسی ٹیکنالوجی انتہائی گراں ہونے کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں کہیں بھی مستعمل نہیں ہے۔ لیکن ہمارے شیخ بھائیوں نے اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے یورپین کمپنیوں سے انتہائی مہنگے داموں خریدی ہے۔ اس کی مرمّت اور دیکھ بھال پر جتنا سرمایہ خرچ ہوتا ہے کوئی بھی سمجھ دار ملک اسے استعمال کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن شیخ صاحبان بزنس کی ان باریکیوں سے بالا تر ہیں۔ جب تک تیل کی آمدنی ہے دنیا لوٹنے پر اور وہ لٹُنے پر تیار رہتے ہیں۔ جب تک ان کو سمجھ آئے گی اس وقت تک چڑیاں کھیت چُگ چکی ہوں گی۔

دبئی سے کراچی تک کا سفر دو گھنٹوں میں گزر گیا اور میں تین ہفتے کے بعد پھر ارضِ وطن کی خوشبو کو جسم و جان میں سمیٹنے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈّے پر اترا۔




شام ہوتے ہی کراچی انگڑائی لے کر اُٹھتا ہے





دن کی روشنی میں کراچی اُوپر سے کچھ پھیکا پھیکا سا لگا۔ خصوصاً جب آپ دنیا کے بڑے بڑے اور ترقی یافتہ شہروں کی بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھ کر آئے ہوں تو کراچی کے مکانات چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ رات کے وقت کراچی فضا سے بہت حسین دکھائی دیتا ہے۔ اِس کی رنگا رنگ روشنیاں اس کے عروس البلاد ہونے کا ثبوت دیتی ہیں۔ یہ سب دور سے دیکھنے کی باتیں تھی۔ کراچی کا سحر اس کے اندر جا کر محسوس ہوتا ہے۔ ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو اس کی رونق، اپنے لوگ، اپنی زبان اور سب سے بڑھ کر اپنی مٹی کی خو شبو جیسے جادُو سا کرنے لگی اور مجھے ایسا لگا کہ آغوش مادر میں پہنچ گیا ہوں۔

کراچی میرا اپنا شہر ہے۔ میرا جنم پنجاب کا ہے لیکن میری پرورش کراچی نے کی ہے۔ میں نے زندگی کے بہت اہم سال کراچی میں گذارے ہیں۔ وہیں تعلیم حا صل کی۔ کراچی نے مجھے جسمانی اور ذہنی طور پر پروان چڑھایا ہے۔ کراچی سے مجھے محبت ہے۔ اس غریب پرور، روز گار فراہم کرنے والے، ہر زبان، ہر نسل اور ہر رنگ کے لوگوں کو اپنی مہر بان آغوش میں سمیٹ لینے والے شہر کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ یہاں کے دن سوتے اور راتیں جاگتی ہیں۔ جب شام ہوتی ہے تو کراچی جیسے انگڑائی لے کر اُٹھتا ہے۔ اس کی روشنیاں جاگ اٹھتی ہیں۔ دکانیں سج جاتی ہیں۔ گاہکوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ رنگا رنگ کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو بازاروں میں پھیل جاتی ہے۔ لوگ سج اور سنور کر بازاروں میں نکلتے ہیں۔ خواتین، بچے اور بڑے ہر عمر کے لوگ اپنی اپنی دلچسپی کے مطابق دکانوں اور ریستورانوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ قسم قسم کی گاڑیاں کراچی کی سڑکوں پر ایسے قبضہ کر لیتی ہیں کہ کوئی جگہ خالی دکھائی نہیں دیتی۔ بازاروں، سڑکوں، گلیوں، ہوٹلوں، دکانوں اور گاڑیوں میں لوگ ہی لوگ دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔

کراچی کے زندہ دل لوگ اس وقت مستی اور سر خوشی کے عالم میں ہوتے ہیں۔ ہر چہرے پر مسکراہٹ، ہر دل جوان اور ہر طرف نغمہ مسرت گونج رہا ہوتا ہے۔ کیماڑی سے نیو کراچی اور ماڑی پور سے لانڈھی تک انسان ہی انسان دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی انسانوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر بن جاتا ہے۔ کراچی کے علاوہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو یہ رونق نہیں ملے گی۔ بہت ہی دکھ ہوتا ہے جب کراچی کی ان رونقوں کو نظر لگ جاتی ہے۔ دشمنوں اور دہشت گردوں نے کراچی کو اتنے گھاؤ لگائے ہیں کہ اس کا کوئی نہ کوئی زخم ہر وقت رِستا رہتا ہے۔ ایک زخم مندمل ہو نا شروع ہوتا تو اس کے دشمن اسے ایک نیا زخم دے دیتے ہیں۔ میری دُعا ہے کہ کراچی کے یہ سارے زخم دھُل جائیں۔ اس دھُلے ہوئے چہرے کے ساتھ اس بلاد العروس کی رونقیں قابلِ دید ہو جائیں گی۔ اس کا حُسن ہر دیکھنے والی آنکھ کو خیرہ کر دے گا اور اس کے زندہ دل با سیوں کو امن اور چین کی زندگی نصیب ہو گی۔

کراچی میں ایک ہفتہ جیسے پلک جھپکتے میں گزر گیا۔ رشتہ داروں، دوستوں اور ہموطنوں میں وقت گزرنے کا احساس کب ہوتا ہے۔ اپنے لو گ، اپنا ماحول، اپنا لباس، اپنے کھانے اور اپنوں کی بے پناہ محبت۔ یہ سب ہم جیسے غریب الوطن لوگوں کے لئے بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ جو ہمارے اندر نئی رُوح پھونک کر ہمیں تازہ دم کر دیتی ہیں۔ اِن نعمتوں کی لذت مدتوں تک ہمارے ساتھ رہتی ہے اور ہمیں وطن کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ یہ نعمتیں ہمیں کہیں اور نہیں مل سکتیں۔ پیرس جیسے شہرہ آفاق شہر میں گھنٹوں گھوم کر بھی اپنی مرضی کا کھانا نہیں ملتا۔ لندن ہو یا ایمسٹرڈم، میونخ ہو یا سڈنی، کراچی کی طرح با نہیں کھول کر استقبال کرنے والا کوئی شہر نہیں ہے۔

ایک ہفتے بعد بوریا بستر باندھ کر پھر کراچی ائیر پورٹ جا پہنچا۔ اس دفعہ میری منزل سڈنی تھی جہاں میرا گھر ہے۔ کراچی ائیر پورٹ پر بہت سے عزیز و اقارب اور دوست احباب رخصت کرنے آئے۔ سب اپنے اپنے دامن میں پیار اور خلوص کی خوشبو سمیٹے ہوئے تھے۔ لیکن میں رخصتی کے ان لمحات میں اپنے وطن کی فضاؤں اور ہواؤں کو اپنے اندر سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ ہر جانب اپنے ہم وطنوں کو الوداعی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ دل نہیں چاہ رہا تھا کہ کوچۂ جاناں سے دور ہو جا ؤں۔ مگر ہم بے وطنوں کے پاؤں کے نیچے زمین کھسکتی رہتی ہے۔ آہستہ آہستہ ہمارے پاؤں اس مّٹی سے الگ ہوتے جاتے ہیں۔ دل وہیں رہ جاتا ہے اور جسم اجنبی منزلوں کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔

کراچی ائیر پورٹ پر ہمارے ساتھ پاکستان کی ہاکی ٹیم بھی مو جود تھی۔ میرے ساتھیوں میں سے کوئی پاکستان کے شہرہ آفاق فاروڈ کامران اشرف سے جا کر ملا تو معلوم ہوا کہ ہاکی ٹیم کی منزل بھی آسٹریلیا ہے۔ تا ہم وہ براہِ راست مغربی آسٹریلیا کے دارالحکومت پرتھ جا رہے تھے۔ جہاں تین میچ کھیلنے کے بعد وہ وا پس سڈنی آنے والے تھے۔ پاکستان کی ہاکی ٹیم نے اولمپک سے پہلے ایک ماہ سڈنی میں رہنا تھا تاکہ اولمپک سٹیڈیم میں پریکٹس کر سکیں۔ صرف ایک ماہ بعد سڈنی میں 2000 کی اولمپک گیمز ہونے والی تھیں۔ ہماری ہاکی ٹیم کا دورہ اسی سلسلے میں تھا۔ ائیر پورٹ کے اندر حسبِ معمول گہما گہمی تھی۔ لیکن میں صرف چند دن قبل ہیتھرو ائیر پورٹ دیکھ کر آیا تھا۔ اس کے مقابلے میں کراچی ائیر پورٹ کسی گاؤں کا ائیر پورٹ لگتا تھا۔ پھر بھی یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ اس میں جدید ائیر پورٹ کی بیشتر سہولتیں موجود ہیں۔ یہ اسلام آباد ائیر پورٹ کی طرح نہیں ہے جہاں آج کل کے دور میں بھی جہاز سے ٹرمنیل تک مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بس میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کراچی میں جدید ایسکالیٹر سسٹم موجود ہے جو اسے بین الاقوامی ائیر پورٹ ظاہر کرتا ہے۔

میں نے اپنا سامان چیکنگ کے لئے وزن کرنے والی مشین پر رکھا تو معلوم ہوا کہ میرا سامان مقررہ وزن سے قدرے زیادہ ہے۔ میں نے رحم طلب نظروں سے متعلقہ صاحب کی طرف دیکھا۔ لیکن میری نظروں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ کہنے لگے ’’آپ کے پاس سامان زیادہ ہے۔ اسے کم کر لیں یا پھر اس کا اضافی کرا یہ ادا کرنا پڑے گا‘‘

میں نے جب کرائے کی شرح دریافت کی تو معلوم ہوا کہ یہ آٹھ سو روپے فی کلو ہے۔ گویا جوتے کے ایک جوڑے کا کرایہ آٹھ سو روپے بنتا تھا۔ ممتاز مفتی کی کتاب ’’علی پور کا ایلی‘‘ دو ہزار روپے میں آسٹریلیا لے جائی جا سکتی تھی۔ میرے دوست اشرف شاد کا ناول ’’بے وطن‘‘ بھی سولہ سو روپے سے کم میں نہیں پہنچتا تھا۔ ملتان کا سوہن حلوہ جو دو سو روپے کلو کے حساب سے خریدا گیا تھا آسٹریلیا پہنچتے پہنچتے ہزار روپے کلو پڑتا تھا۔ میں نے کراچی کے ایک مشہور ٹیلر سے چار سوٹ بنوائے تھے۔ سب سے زیادہ وزن انہی کا تھا۔ ان میں سے کوئی سوٹ پانچ کلو سے کم نہیں تھا۔ اگرچہ اس بہترین کاریگر نے صرف دو ہزار میں ایک سوٹ سی دیا تھا۔ لیکن پی آئی اے کا کرا یہ دینے کے بعد اس سوٹ کی سلائی میں چار ہزار کا اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس طرح بہت سی اشیاء ایسی تھیں کی پاکستان میں آسٹریلیا کی نسبت سستی سمجھ کر خریدی گئی تھیں۔ لیکن کرایہ ادا کرنے کے بعد ان کی قیمت آسٹریلیا کی قیمت سے زیادہ ہی ہو جاتی تھی۔ اضافی کرایہ دے کر انہیں آسٹریلیا لے جا نے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ لہذا میں نے جما جمایا اور خوبصورتی سے تہہ کیا ہوا سوٹ کیس دوبارہ کھولا۔ کچھ کم ضروری اشیاء الگ کیں۔ کچھ اپنے ہینڈ بیگ میں منتقل کیں اور باقی باہر جا کر بھائی کو دے آیا۔ اس کے بعد کاؤنٹر کے عملے سے کہا ’’اب چیک کریں۔ اب بھی آپ کا جہاز اسے اٹھانے کا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں؟‘‘

وہ صاحب مسکرا کر کہنے لگے ’’اب بھی تھوڑا زیادہ ہے لیکن میں اسے چھوڑ رہا ہوں۔ ویسے ہمارا جہاز تو پہلے بھی اسے اُٹھانے کا متحمل ہو سکتا تھا بشرطیکہ آپ کی جیب اس کی متحمل ہو سکتی‘‘

ان صاحب کی بات مجھے اچھی لگی۔ میں نے کہا ’’صاحب! اس جیب کا حال نہ ہی پو چھیں تو بہتر ہے۔ بہت دنوں سے اس کی آمد بند اور رفت جاری ہے اور اب تو یہ صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے۔ ویسے میں بہت عرصے بعد پی آئی اے کے ایسے سٹاف سے ملا ہوں جو کسٹمر سے مُسکرا کر بات کرتا ہے۔ آپ تو ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ میری طرف سے آپ کو مبارک ہو‘‘

ان صاحب کی باچھیں مزید کھُل گئیں ’’لگتا ہے آپ پی آئی اے سے زیادہ خوش نہیں ہیں یا آپ کسی نا خوشگوار تجربے سے دو چار ہوئے ہیں‘‘

’’اپنی پسند کی شاپنگ کو اس طرح یہاں چھوڑنے کو آپ زیادہ خوشگوار تجربہ تو نہیں کہہ سکتے۔ ویسے میں تجربے ہی جمع کرنے نکلا ہوں۔ ہو سکتا ہے کسی دن آپ کی نظر سے بھی گذریں‘‘

ان صاحب نے نہ سمجھنے والے انداز میں گر دن ہلائی، میرا بورڈنگ کارڈ، ٹکٹ اور پاسپورٹ میرے حوالے کیا۔ میں نے دروازے کے باہر کھڑے عزیز و اقارب کی طرف الوداعی ہاتھ لہرایا اور دوسرے مرحلوں سے گزرتا ہوا ڈیپارچر لاؤنج میں جا پہنچا۔ ابھی فلائٹ میں کچھ وقت باقی تھا۔ اس لئے میں پبلک فون سے چند لوکل کالز کرنے چلا گیا۔ پی سی او پر موجود صاحب نے کہا ’’لوکل کال دس روپے کی ہے جس کا دورانیہ تین منٹ ہے یا پھر آپ سو روپے کا کارڈ خرید سکتے ہیں جس سے اپنی مرضی سے جتنی چا ہیں کال کر سکتے ہیں‘‘

میں نے سو روپے دے کر کارڈ خرید لیا۔ پہلی کال کراچی میں ہی کی۔ چند منٹ بات ہوئی۔ اس کے بعد میں نے دوسرا نمبر ملایا تو معلوم ہوا کہ کریڈٹ ختم ہو گئے ہیں۔ میں نے ان صاحب سے کہا ’’بھائی یہ سو روپے کا کارڈ تو ایک ہی کال سے ختم ہو گیا ہے۔ اس میں کیا واقعی سو روپے کا کریڈٹ تھا؟‘‘

’’جی ہاں! اس پر لکھا دیکھ لیں، یہ سو روپے کا کارڈ ہے‘‘

’’وہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں اس پر سو روپے لکھا ہوا ہے۔ لیکن ایک لو کل کال کے بعد یہ ختم کیسے ہو گیا‘‘

ان صاحب نے رکھائی سے کہا ’’مجھے کیا معلوم! آپ اس کمپنی کو فون کر کے شکایت کریں کہ ان کے کارڈ میں پورے کریڈٹ کیوں نہیں ہیں‘‘

میں نے کہا ’’آپ چا ہتے ہیں کہ ان کو فون کرنے لئے آپ سے مزید سو روپے کا کارڈ لوں اور شکایت کرنے پر یہ کمپنی کیا مجھے کریڈٹ لوٹا دے گی۔ کارڈ آپ بیچ رہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہو نا چاہیے کہ اس میں کریڈٹ کیوں کم ہیں‘‘

ان صاحب نے سُنی ان سُنی کر دی اور دوسرے کسٹمر کے ساتھ مصروف ہو گئے۔ میں واپس اپنی سیٹ پر آ بیٹھا۔ اس سے پہلے دورانِ قیام کراچی بھی میں نے دو دفعہ پانچ پانچ سو روپے کے کارڈ خریدے تھے۔ ایک دفعہ اسلام آباد فون کیا تقریباً ڈیڑھ سو روپے کے کریڈٹ خرچ ہوئے۔ جب یہ کارڈ دوبارہ استعمال کرنا چاہا تو اس میں کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ دوسری دفعہ لاہور فون کیا۔ اس کال پر بھی اندازاً سو روپے خرچ ہوئے ہوں گے لیکن دوسری دفعہ کال کرنے پر معلوم ہوا کہ کارڈ خالی ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ فراڈ وہ کیسے کرتے ہیں۔ کال ختم ہونے پر بقیہ کریڈٹ بتائے جاتے ہیں۔ لیکن دوسری دفعہ کال کرو تو اس وقت تک یہ کریڈٹ کارڈ سے ایسے دھُل چکے ہوتے ہیں جیسے وا شنگ مشین سے نکلنے والے کپڑوں سے میل۔




آہستہ مِس آہستہ! وہ پہلے کافی پئے گا





کراچی سے سنگا پور آنے والی پی آئی اے کی یہ فلائٹ حسبِ معمول آدھی سے زیادہ خالی تھی۔ جہاز کے پچھلے حصّے میں میری سیٹ پاکستانی ہاکی ٹیم کے گول کیپر کپتان احمد عالم کے ساتھ تھی۔ کامران اشرف جو احمد عالم کا دوست بھی ہے ہمارے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا۔ سیٹیں خالی ہونے کی وجہ سے دوسرے کھلاڑی ادھِر ادھر آ جا رہے تھے۔ اس ٹیم کے ساتھ سابق اولمپین اور چیمپین فارورڈ صلاح الدین بحیثیت کوچ اور بریگیڈئیر محمد اصغر بحیثیت منیجر جا رہے تھے۔ کوچ اور منیجر آگے کہیں فرسٹ کلاس میں بیٹھے تھے جبکہ کھلاڑی اکانومی کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ صلاح الدین دورانِ سفر کئی دفعہ اٹھ کر کھلاڑیوں کے پاس آئے۔ ان سے گپ شپ کی اور واپس اپنی سیٹ پر چلے گئے۔ تا ہم منیجر کو میں نے سنگا پور تک ایک دفعہ بھی کھلاڑیوں سے ملتے نہیں دیکھا۔ میں اس ٹیم کے کھلاڑیوں سے زیادہ تر کو نہیں جانتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آسٹریلیا میں رہتے ہوئے ہمیں ہاکی میچ کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تا ہم اصلاح الدین صاحب کے دور کی تمام ٹیم کو جانتا تھا۔ جو اس وقت دنیا کی بہترین ٹیم بھی تھی اور اس میں بڑے بڑے سٹار کھلاڑی موجود تھے۔ میں انہیں کھیلتے بارہا دیکھ چکا تھا۔

احمد عا لم نے دوسرے تمام کھلاڑیوں کے بارے میں مختصراً مجھے بتایا۔ اس سفر میں اور بعد کی ملاقاتوں میں ایک بات جو میں نے ان قومی ہیروز میں نوٹ کی، وہ ان کی طبیعت کی سادگی تھی۔ تقریباً تمام ہی کھلاڑی انتہائی سادہ طبیعت اور سادہ مزاج کے مالک نظر آئے۔ ان میں سے کسی میں بھی ہیرو پن کی نخوت اور بناوٹ نہیں تھی۔ وہ نہ صرف کھل کر باتیں کر رہے تھے بلکہ انتہائی سادہ سوال پو چھ رہے تھے۔ اس دفعہ وہ آسٹریلیا قدرے لمبے عرصے کے لئے جا رہے تھے۔ ان میں سے کئی کھلاڑی پہلی مرتبہ وہاں جا رہے تھے۔ اس لئے وہ مجھ سے آسٹریلیا کے بارے میں عمومی اور سڈنی کے بارے میں خصوصی طور پر مختلف باتیں پوچھ رہے تھے۔ ان سٹار کھلاڑیوں کے سوال کسی کلب، ریسٹورنٹ، شا پنگ سینٹرز، تفریحی اور قا بلِ دید مقام کے بارے میں نہیں تھے۔ بلکہ وہ مجھ سے یہ پو چھ رہے تھے کہ وہاں حلال کھانا ملتا ہے کہ نہیں؟ ہمارے ہوٹل کے قریب کوئی مسجد ہے کہ نہیں؟ پاکستان فون کرنا ہو تو کتنی رقم لگتی ہے؟ مو سم کیسا ہے؟ ہو ٹل میں نماز پڑھنے کی جگہ ہوتی ہے کہ نہیں؟ شلوار قمیص پہن سکتے ہیں یا نہیں؟ روز مرّہ استعمال کی عام اشیاء میں حرام شے تو شامل نہیں ہوتی؟ اگر ایسا ہے تو ہم ان چیزوں سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

اس طرح کے سوال ہمارے یہ ہیرو پوچھ رہے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کے ان ہیروز میں سے زیادہ تر متوسط گھروں سے آئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مذہبی جذبات و خیالات کے حا مل ہیں۔ وہ شہرت اور دولت کے بھوکے نہیں ہیں بلکہ صرف اپنے کھیل پر توجہ دیتے ہیں۔ منیجر اور کوچ ان کم عمر کھلاڑیوں کے ساتھ باپ اور بڑے بھائی کی طرح سلوک کرتے ہیں اور کھلاڑی ہر چھوٹی بڑی بات کے لئے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ جہاں منیجر اور کوچ لے جائیں، جاتے ہیں ورنہ خود سے کہیں نہیں جا تے۔ اس کا اندازہ مجھے بعد میں بھی ہوا۔ جب سڈنی میں قیام کے دوران کافی دنوں کے بعد ایک کھلاڑی نے مجھ سے پو چھا ’’طارق بھائی! یہاں ہمارے ہوٹل کے قریب کوئی دُکان ہے، میں نے شیو کے لئے کچھ چیزیں خریدنی ہیں‘‘

اس وقت تک میں کئی دفعہ ہوٹل جا کر ان کھلاڑیوں سے مل چکا تھا اور وہ بھی میرے گھر آ چکے تھے۔ نارتھ رائڈ کا سٹیمفورڈ ہو ٹل(Stamford, North Ryde) یوں تو سڈنی کے مرکزی شہری علاقے سے قدرے دور نیم صنعتی اور نیم رہائشی علاقے میں واقع ہے لیکن اس سے صرف پانچ سات منٹ کی مسافت پر ایک بہت بڑا شاپنگ سینٹر موجود ہے۔ ہاکی ٹیم ایک ہفتے سے وہاں مقیم تھی اور روزانہ ہوم بش اولمپک سٹیڈیم (Homebush Olympic Park) جا کر پریکٹس کرتی تھی۔ لیکن یہ کھلاڑی شہر تو در کنار اپنے ہو ٹل سے ملحقہ شاپنگ سینٹر سے بھی لا علم تھے۔ اس سے ہمارے قومی ہیروز کی سادگی کا اندازہ ہوتا ہے۔تا ہم یہ کھلاڑی جب میدان میں اُترتے ہیں تو پورے جوبن پر نظر آتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت نہ انہیں کوئی احساسِ کمتری ہوتا ہے اور نہ ان کی چال ڈھال میں کوئی کمزوری دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ اُن میں چیتے کی سی پھُرتی اور شیر کی سی دلیری نظر آتی ہے۔

میری دُعا ہے کہ پاکستان کی ہاکی ٹیم ماضی کی طرح پھر سے کامیابیوں کی معراج پر پہنچے۔ دنیا کی کوئی بھی ٹیم ان کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکے۔ اور وہ فتح و کامرانی حاصل کر کے دنیا کے ہر میدان میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو سر بلند کریں۔

یوں تو جہاز کا پورا عملہ کھلاڑیوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر رہا تھا (شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ساتھ کچھ پریس رپورٹر بھی تھے) لیکن ایک گداز بدن ائیر ہو سٹس احمد عالم پر خصوصی مہربان ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ خاتون ان کھلاڑیوں کی نسبت کہیں زیادہ ماڈرن اور فرینک تھی۔ اپنا کام کرنے کے بجائے وہ بار بار احمد عالم کے پاس آ جاتی اور خواہ مخواہ فری ہونے کی کوشش کرتی۔ ان کے پاس آ کر بیٹھ جاتی، ہنسی مذاق کرتی، کبھی ڈرنک لے کر آتی اور کبھی’ اخبارِ جہاں‘ اٹھا لاتی۔ احمد عالم کو ان صاحبہ کی جسارتیں کچھ زیادہ پسند نہیں آ رہی تھیں۔ وہ واضح طور پر مضطرب دکھائی دے رہے تھے۔ ائیر ہو سٹس کے لطیفوں اور ہنسی مذاق پر صرف سر ہلانے پر اکتفا کر رہے تھے۔ ناگواری ان کے چہرے سے عیاں تھی لیکن وہ مروّت اور اخلاق کی وجہ سے اُسے اس بے تکلّفی سے نہیں روک رہے تھے۔ تا ہم ان کے روّیے سے ان کی بے آرامی صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ پی آئی اے کے یونیفارم میں پھنسی اور میک اپ سے لتھڑی اس دوشیزہ کو احمد عالم کی نا گواری کا احساس نہیں تھا بلکہ اپنی دھن میں مگن تھی۔

اچانک اُس کا روئے سخُن میری طرف ہو گیا۔ میرے ہاتھ میں اس وقت کرنل محمد خان کی کتا ب ’’بزمِ آرائیاں‘‘ تھی۔ اُس نے احمد عالم کی جان پر رحم کرتے ہوئے مجھے مخاطب کر لیا اور کہنے لگی ’’یہ آپ کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں؟ ہمیں بھی سنائیں اس میں کیا لکھا ہے‘‘

مجھے موقع مل گیا ’’میں پوری کتاب کے بارے میں تو نہیں بتا سکتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ کیونکہ اس میں مختلف نوعیت کئی مضامین ہیں۔تا ہم ایک لطیفہ اس میں درج ہے۔ آپ چا ہیں تو وہ سنا سکتا ہوں‘‘

وہ بڑے ناز سے سر ہلاتے اور لپ اسٹک سے بھرے ہو نٹوں پر زبان سہلاتے ہوئے بو لی ’’اوہ جی ضرور سناؤ! ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں‘‘

میں نے کہا ’’لیکن آپ شائد یہ لطیفہ سُن کر نہ مسکرائیں‘‘

’’وہ کیوں جی! اگر اچھا لطیفہ ہے تو ہم ضرور مسکرائیں گے‘‘

’’وہ اس لیے کہ یہ لطیفہ ائیر ہو سٹس کے متعلق ہے‘‘

’’پھر تو میں ضرور سنوں گی۔ آخر یہ ہمارے متعلق ہی تو ہے‘‘

تو پھر سنیئے ’’ایک بین الاقوامی پرواز کے دوران ائیر ہوسٹس ہوائی جہاز میں مسا فروں میں مشروبات وغیرہ تقسیم کر رہی تھی کہ لاؤڈ اسپیکر پر کاک پٹ سے کیپٹن کی آواز گو نجی ’’خواتین و حضرات! ہم تیس ہزار کی فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہے ہیں۔ اس وقت دو بج رہے ہیں۔ انشاء اللہ سوا تین بجے ہم قاہرہ کے ہوائی اڈّے پر اتریں گے۔ امید ہے آپ کا سفر خوشگوار گزر رہا ہو گا‘‘ یہاں پہنچ کر کیپٹن لاؤڈ اسپیکر بند کرنا بھول گیا اور اپنے نائب پائلٹ سے باتیں کرنے لگا جو جہاز کے کیبن میں مسافروں کو سنائی دینے لگیں ’’پیٹر! آؤ اب تم ذرا ہوائی جہاز چلاؤ۔ میں ایک پیالی کافی پیوں گا۔ پھر ائیر ہوسٹس آتی ہے تو اُسے ذرا پیار کروں گا اور پھر کچھ دیر آرام کروں گا۔۔۔۔‘‘ جب ائیر ہوسٹس نے باقی مسافروں سمیت کیپٹن کی باتیں سُنیں تو کیپٹن کو بتانے کے لئے کہ لاؤڈ اسپیکر بند نہیں، کاک پٹ کی طرف لپکی۔ مگر تیزی میں ایک بوڑھے مسافر سے ٹکرا کر لڑکھڑا سی گئی۔ بوڑھے مسافر نے ائیر ہوسٹس کا بازو تھام کر کہا ’’آہستہ مِس آہستہ! وہ پہلے کا فی پئے گا‘‘

میں جب یہ لطیفہ کتاب سے پڑھ کر سنُا رہا تھا تو ائیر ہوسٹس کے چہرے کا رنگ تیزی سے بدل رہا تھا۔ لطیفہ ختم ہوتے ہی ائیر ہوسٹس تیزی سے اُٹھ کر پیچھے چل دی۔ اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا جہاں کامران اشرف اور احمد عالم مسکرا رہے تھے۔ احمد عا لم نے مسکرا کر تشکر بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور اخبار پڑھنے لگے۔ اس کے بعد سنگا پور تک وہ ائیر ہوسٹس ہمارے قریب نہیں پھٹکی۔ جہاز کا عملہ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ میری بھی آؤ بھگت کر رہا تھا۔ کھلاڑی تو قومی ہیرو تھے اور میں خوش قسمتی سے ان کے درمیان بیٹھا تھا۔ اس لئے وہ مجھے بھی برابر چائے پانی کا پوچھ رہے تھے۔ میں نے مسکرا کر احمد عالم سے کہا ’’بھئی! میری جتنی خاطر مدارت اس فلائٹ میں ہوئی ہے، پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ یہ سب آپ لوگوں کی وجہ سے ہے۔ آئندہ کہیں سفر کرنا ہو تو آپ کو ساتھ نہ لے لیا کروں‘‘

احمد عالم نے مسکرا کر کہا ’’کیوں نہیں! ٹکٹ کا بندوبست آپ کر دیا کریں۔ ویزے وغیرہ کا ہمیں ویسے بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں‘‘

سنگا پور تک کا سفر قومی ہیروز کے ساتھ اس طرح ہنستے مسکراتے گزرا۔ سنگا پور سے آگے ہم الگ الگ فلائٹوں پرسفر کر رہے تھے۔ ہاکی ٹیم نے پرتھ کے لئے فلائٹ لینی تھی۔ سڈنی کے لئے میری فلائٹ الگ تھی۔ سنگا پور سے سڈنی تک کا سفر میں نے زیادہ ترسو کر گزارا۔ کیونکہ اب نہ میرے ساتھ احمد عالم اور کامران اشرف تھے جن سے گپ شپ ہوتی، نہ پاکستانی ائیر ہوسٹس، جس سے اسٹرانگ چائے کی فرمائش کرتا۔ سڈنی کی اس فلائٹ میں زیادہ تر گورے سفر کر رہے تھے۔ کچھ میکے اور کچھ سسرال سے آ اور جا رہے تھے۔ جس سے بھی پو چھو کہ ’’کہاں گئے تھے‘‘ جواب ملتا ہے ’’یو کے‘‘ اس کے ساتھ یورپ کے کچھ اور ملک بھی دیکھے ہیں۔

آسٹریلیا اور برطانیہ کا جو چولی دامن کا ساتھ ہے، وہ ان آنے جانے والوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ جب ایشز( Ashes) کھیل رہے ہوتے ہیں تو دونوں ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کے اس طرح خلاف ہو جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایشز( Ashes) ختم ہوتے ہی حالات معمول پر آ جاتے ہیں۔ ایشز ( Ashes) دونوں ملکوں کے لئے انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس کا اثر نچلے طبقے سے لے کر وزیر اعظم تک ہوتا ہے۔ دو سال پہلے آسٹریلیا ایشز (Ashes) ہار گیا تو وزیر اعظم جان ہارورڈ نے کہا ’’یوں تو ہماری حکومت کے لئے یہ سال ہر لحاظ سے کامیاب گزرا لیکن ہمیں ایک بڑی ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا اور وہ تھی ایشز ( Ashes) کی ہار۔ اس لحاظ سے یہ سال ہمارے لئے اچھا نہیں تھا‘‘

کانٹس کی یہ فلائٹ آسمان کی وسعتوں کو چیرتی، براعظم ایشیا سے نکل کر براعظم آسٹریلیا کی فضاؤں میں سفر کرتی، اس عظیم جزیرے کے سب سے بڑے شہر سڈنی کے اُوپر جا پہنچی۔ سڈنی ہر لحاظ سے ایک خوبصورت شہر ہے۔ لیکن رات کے وقت اُوپر سے اس کا روشنیوں بھرا چہرہ مجھے ہر دفعہ مسحور کر دیتا ہے۔ سڑکوں پر ترتیب وار روشنیاں، روشن عمارتیں اور سڑک پر ما چس کی ڈبیوں کی طرح حرکت کرتی کا ریں اور شہر کے بیچوں بیچ سمندر کے نظارے، سمندر میں چلنے والے روشن جہا ز، شہرہ آفاق ہار بر برج اور آسمان سے باتیں کرتا ہوا سنٹر پوائنٹ ٹاور، سڈنی کے ماتھے کے ایسے جھومر ہیں کہ بے ذوق سے بے ذوق آدمی بھی ان نظاروں کو دیکھ کر مبہوت رہ جائے۔

میں بھی کھڑکی سے جھانک کر ان دلفریب نظاروں کو نظر سے دل میں سمیٹ رہا تھا اور دل تھا کہ ایک بار پھر کوئے جاناں کو سامنے دیکھ کر مچل رہا تھا۔ دل و دماغ کی اسی کیفیت کے دوران جہاز کے پہیوں نے زمین کو چھُوا۔ اور میں لمبے سفر کے بعد گھر کے خواب میں کھو گیا جو اب زیادہ دُور نہیں تھا۔

٭٭٭