سرکاری بینچ پہ بیٹھ کے کام کرتے ہوئے دو سال ہو گئے تھے۔۔ اور جب کام ہی کرنا ہو تو سال کون گنتا ہے لیکن میری اماں ایک ایک دن گنتی تھی کہ کب میری بڑی بہن کا رشتہ طے پائے اور میری باری آئے۔
میں عمر کے 24 ویں سال میں تھی۔۔ آنکھیں 16 کی بیقرار۔۔ اور روح صدیوں پرانی تھی۔۔ اور اب چٹخ رہی تھی۔۔ جذبات 45 پلس سے منجمد۔۔ ویسے بہتوں کے 45 پلس میں بھی منجمد نہیں ہوتے لیکن مثال کونسی دوں اس کے علاوہ۔ خیر اور لہجہ سرکاری نوکر کی طرح سپاٹ۔
سارا دن میرے ڈیسک پہ مرد آتے جاتے رہتے۔۔ کچھ آتے تو جانے کی ضرورت گھر چھوڑ کر آتے۔۔ پھر ایسوں کو بھیجنا پڑتا۔۔ کچھ کو میں بھگتاتی اور کچھ مجھے بھگتانے کی چاہ رکھتے۔۔ اور میں نقاب کے نیچے اپنا ستواں نشیب کی طرف جاتا پل اور گلابوں کی دو پنکھڑیاں چھپائے کاغذوں میں الجھی رہتی۔۔ جب تک میں الجھی رہتی۔۔ میری نیت سلجھی رہتی۔۔ ورنہ نفس کا کیا بھروسہ۔۔ کب ضمیر کو سلا دے، عشق کو ہوا دے اور آنکھ کو سلا دے۔۔
میٹرک کے بعد سے گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانی شروع کر دی تھی
۔ وجہ کمائی کر کے لبرل کے ٹیگ کا شوق نہیں۔۔ روٹی اور گوشت کی کمی تھی۔۔ استانی بننے کے بعد انکشاف ہوا کہ استانی واقعی ماں کی طرح ہوتی ہے۔ اور ماں بن جانے کے بعد محبوبہ بننے والی رگ تھوڑی سن سی ہو جاتی ہے۔ یعنی خالی چھونے سے بے قابو نہیں ہوتی۔۔ دبا کر رکھنی پڑتی ہے۔۔ یہی حال میرا ہو چکا تھا کہ مرد کے دیکھنے سے سگنل ملنے والا پراسیس شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا تھا۔ اب آنکھوں سے چاہے کوئی کاٹ بھی ڈالے تو مجھے وہ بھونکنے والا کتا ہی لگتا تھا۔۔
نہ کبھی کالج یونیورسٹی گئی۔۔ نہ کبھی وہاں کی راہداریوں کے ستون پیچھے کسی نے ہاتھ پکڑا۔۔ لیکن سنا تھا یونیورسٹی محبت کی جگہ ہے۔۔ اور یونیورسٹی والے مانتے نہیں۔۔ کہتے ہیں پڑھائی کی جگہ ہے۔
میں تجربے کے بغیر کس پر یقین کروں اب؟ میری بلا سے۔ محبت کی ہو یا پڑھائی کی۔۔
میرے انگور تو کھٹے ہی تھے۔۔ پڑھائی کا معاملہ میں پرائیویٹ یعنی ذاتی طور پر نپٹا لیتی تھی۔ اور محبت کا معاملہ میں کیوں پہل کروں؟ میں کیوں خود کو تیاگوں؟ میں دیکھ کر کیوں مسکراوں۔ کی سوچ میں لپیٹ کر دراز میں رکھتی اور سوچتی کہ ہو گئی یونیورسٹی کی کمی پوری۔۔
اور ویسے بھی کیا ضرورت تھی اس بیکار جھنجھنے کی۔۔ کیونکہ وقت کی شدید کمی تھی میرے پاس۔ اور تصور جاناں جتنا بھی خود مختار ہو جائے۔۔ فرصت کا محتاج ضرور رہا ہے۔
بڑی بہن اعلی تعلیم یافتہ اور گھریلو امور میں ماہر تھی۔۔ یہ تو ہو گیا بہن کی نظر سے تجزیہ۔ رشتے والی خالہ کی زبان بولے تو "ائے ہئے۔۔ یہ کیا توے جیسا رنگ ہے تیرا کوئی کریم وریم لگایا کر۔۔ کھانے سے فرصت ملے تو لگائے گی نا۔۔ ہائے اوئے میریا ربا۔۔ یہ تری کمر ہے کہ کمرا۔۔ "
اتنا تو نہیں کھاتی جسم پتہ نہیں کیوں پھیلتا جا رہا ہے۔۔ بائی چائے لیں نا آپ۔۔ اماں اسے جانے کا اشارہ کر کے بات بدلنے کی کوشش کرتی۔۔
چائے تو لے لیتی ہوں نسیم لیکن تو خود سوچ۔ حسن ہے نا داج کے ٹرک۔۔ کون آئے گا بیاہنے۔۔ عمر بھی 28 ہو گئی ہے اور لوگ 22 کے بعد ویسے ہی بیزار ہو جاتے ہیں کہ نئے ماحول میں رچنے بسنے جو گی نہیں رہی۔۔
میں دوسرے کمرے کی کھڑکی سے کان لگائے سنتی رہتی اور ہنستی۔۔
رچنا بسنا
۔۔ نیا ماحول۔۔ ہونہہ۔۔
عورت کی تو کھال بھی قدرت نے ایسی بنائی ہے کہ جہاں موجود ہو، وہیں کی ہو جائے۔۔
سنا ہے سائنسدان ماحول سے مطابقت کو ذہانت کہتے ہیں۔
اور میں اس کنفیوژن میں ہوں کہ ماحول سے مطابقت ذہانت ہے تو عورت کائنات کی سب سے ذہین مخلوق ہوئی۔۔ پھر بھی اسے ناقص العقل کیوں کہا جاتا ہے۔ اور پھر میں سر جھٹک دیتی کیونکہ سوچنے کی تنخواہ نہیں ملا کرتی۔۔
کھڑکی کا یہ کونا میرا ہمراز اس لئے بھی تھا کہ جب بھی اس کے رشتے والے آتے مجھے یہیں بٹھایا جاتا یا شاید چھپایا جاتا۔۔ پتہ نہیں۔۔
مجھے وجوہات معلوم کرنے کا کبھی بھی تجسس نہیں رہا۔۔ اس کی وجہ شاید بے نیازی تھی یا اپنے حسن کا غرور
محلے کی عورتیں جب ٹیوشن کیلئے بچے چھوڑنے آتیں تو میری ماں سے کہا کرتیں۔
باجی! بانو کو میری بھابھی بنا دے۔۔ کوئی کہتی
بڑی کے انتظار میں کب تک چھوٹی کو بٹھاؤ گی؟
اور ادھر سے آواز آتی۔
میں بھی اپنے اسلم کیلئے لڑکی دیکھ رہی ہوں۔۔
کپڑے لتے داج کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ بس دو جوڑوں میں کوئی بانو جیسی سبز آنکھوں والی پریا جائے تو میرے گھر اجالا ہو جائے۔۔ اور
اماں مسکرا کر "باجی جو نصیباں۔!"
کہہ کر ہاتھ جھٹکتی اور جان چھڑوا لیتی۔۔ وجہ صاف تھی۔۔ ابا اپنے رب کے پاس چلا گیا تھا۔۔
بھائی ہم دونوں بہنوں سے چھوٹا تھا اور آپا اپنے رنگ اور جسامت کی وجہ سے نوکری والے اعتماد سے عاری تھیں۔
پہلے میں ٹیوشن پڑھاتی۔۔ اماں سلائی مشین پہ بیٹھتی اور آپا چولہا چوکا دیکھتی۔۔
جب سے مجھے نوکری ملی تھی، ٹیوشن کی ذمہ داری بھی ان پرا گئی تھی۔۔
وہ مجھ سے جانے کیوں مرعوب رہتیں اور میں ان سے شرمندہ۔۔
میں خود سے اکتائی رہتی اور خود سے شرمائے رہتیں۔۔ عجیب تھا۔۔ لیکن ہوا یہ
کہ ان کے جسم میں بھری جانے والی ہوا لاشعوری طور پر میرے غرور اور ڈپریشن میں بھی بھرتی جا رہی تھی۔۔ لیکن ڈپریشن کبھی میری سبز آنکھوں۔ کو نم نہ کر پایا۔۔ اماں!
بول پتر۔ اللہ تری حیاتی کرے۔۔ صحت دیوے۔۔
بات بات پہ دعاؤں کی پٹاری مجھے بیزار کر دیتی۔۔
میری پیدائش سے پہلے کیا غربت اسقدر تھی کہ تمہیں گھاس کھانی پڑتی تھی۔۔
دیکھو نا۔۔ تمہاری، آپا کی۔۔ منے کی۔۔
کسی کی آنکھیں سبز نہیں ہیں تو میری کیوں؟
وہ فوراً سر جھکا کے 16 سالہ الہڑ مٹیار ہو جاتی۔۔
اور بھیگی آواز میں کہتی۔۔ ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتا۔۔ آنسو کیا تیار بیٹھے ہوتے ہیں اماں کے،
ترے ابا کی آنکھیں سبز تھیں۔۔ رب جنتوں میں کار کرے۔۔ سارے پنڈ کی زنانیاں دیوانی تھیں ترے ابا کی۔۔
ابا کا ذکر کرتے ہوئے اماں کا جھریوں بھرا چیچک سے داغی چہرہ پرمسرت اور مغرور ہو جاتا تھا۔
مجھے اس بڈھی گھوڑی کے سبز چارے کے ساتھ رومان پر جی بھر کے کوفت ہوتی اور میں آنکھیں پھیر کر وہاں سے اٹھ جاتی۔۔
کام پہ جاتے ہوئے خوب سجتی سنورتی۔۔ مگر وہاں نقاب ہی میں بیٹھی رہتی۔۔ لاشعور میں کوئی مذہبی وجہ ہو تو ہو۔۔
لیکن شعوری طور پر غرور ہی تھا کہ ہر چوڑا چمار مجھے کیوں دیکھے؟۔۔ حالانکہ جانتی بھی تھی کہ دیکھنے والی چیز میری آنکھوں کا سبزہ ہی ہے۔۔ ورنہ ہونٹ تو کوئی بھی میراثن 20 روپے والی لالی سے رنگ کر گلاب کی پنکھڑی بنا سکتی ہے۔۔
میرا ماننا تھا کہ عورت کی انفرادیت پیشانی اور آنکھ میں ہوتی ہے۔۔ باقی سر کے بال سے پیر کے ناخن تک جسمانی فرق ہو تو ہو،
انفرادیت۔ نہیں ہوتی۔۔
میرا نقاب کنٹین میں اترتا تھا۔۔ جب میں ہاتھ میں کاغذ قلم تھامے چائے پینے وہاں جاتی تھی۔۔ کاغذ اسلئے لے جاتی کہ چائے تو پینی ہے، وقت کیوں ضائع کرنا۔۔ اور پھر چائے پیتے ہوئے ہنستی۔۔ ہنستی اسلئے کہ کنٹین والے کا وقت ضائع ہو رہا ہوتا۔۔ وہ مجھ سے سال دو ہی بڑا ہو گا۔۔ پتہ نہیں اس کے بال بے طرح بڑھے تھے یا اس نے جان بوجھ کر بڑھائے ہوئے تھے مگر اس پر جچتے بہت تھے۔۔ جب میں چائے کے کپ کے اندر نظر جما کر چسکی لیتی تو جانتی ہوتی کہ وہ مجھے ہی دیکھ رہا ہے اور گھونٹ بھر کر آنکھیں اور چہرہ لمحہ بھر کو اوپر اٹھاتی تو وہ نظریں پھیر لیتا۔۔ پھر میں چسکی لیتی اور وہ نظر اٹھا لیتا اور یہ سلسلہ کپ ختم ہونے تک چلتا۔
پھر ایسا مرد کتنا ہی خوبرو کیوں نہ ہو۔۔ میں اسے جوتی سے اوپر آنے نہیں دے سکتی۔۔
بزدل۔ ہونہہ
میں چائے پینے کے دورانیہ تک اپنی دانست میں خیرات پھینک کر خود کو سخی سمجھتی رہتی اور چائے ختم کر کے کاغذ قلم اٹھا کر اپنے خزانے کے تھیلے کو سبز دھاگے کی گرہ باندھتی اور پھر اپنے ڈیسک پر پہنچ جاتی۔۔ اور جیسے جیسے کاغذوں میں الجھتی جاتی۔۔ میری نیت سلجھتی جاتی۔۔
کبھی کبھی سوچتی کہ میری کرسی کے سامنے کھڑے ہونے والے مردوں میں سے پچانوے فیصد سوچتے تو ضرور ہوں گے کہ آخر کیا ہے جس کی پردہ داری ہے؟ کئی کو تو میں نے سبز آنکھیں دیکھ کے چونکتے بھی محسوس کیا ہے۔۔ کچھ آنکھیں سکیڑ کر واہیات انداز میں دیکھنے لگتے۔۔ اور کچھ کا بس نہیں چلتا تھا کہ آنکھوں کے اندر ڈبکی لگا کر باہر تبھی نکلیں جب نشیب و فراز کا عکس چھو لیں۔۔ کچھ بیزار انداز میں کھڑے رہتے۔۔ کچھ جلدی میں ہوتے اور کچھ ایسے کہ مانو زندگی کے سارے کام نپٹا کر باقی کے سال اس کرسی کے سامنے گزارنے کا ارادہ کے کر آئے ہو۔
شاید یہ میری نہیں سب عورتوں کی فطرت ہو کہ۔۔ اصل میں عورتوں سے اتنا واسطہ رہا ہی نہیں کہ ان کی فطرت جان سکتی۔۔ اماں پیٹ سے سوچتی تھی اور آپا رنگ سے۔ اور محلے والیاں مطلب سے ملتی تھیں اور مطلب سے ملنے والے بھلا فطرت کب پرکھنے دیتے ہیں۔ لیکن مجھے لگتا تھا کہ ہر عورت کی فطرت ہی ایسی ہے کہ اسے مرد جتنا بے باک ہو اتنا اچھا لگتا ہے۔۔
چھین لینے کی جرات نہ ہو تو مرد اور تیسری جنس میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا۔۔
دن ہفتے اور مہینے خوابوں اور خواہشوں کی گود میں اونگھتے گزرتے گئے۔
تقریباً سال ہونے کو آیا تھا جب ایک دسمبر میری کرسی کے سامنے والا دروازہ کھلا اور ایک مرد داخل ہوا۔۔ اب پتہ نہیں وہ مرد نما لڑکا تھا یا لڑکا نما مرد۔۔ یا ان دونوں کا کوئی درمیانی لیول۔۔ گہرے سلیٹی رنگ کی شرٹ کے اوپر۔۔ سفید اور کالی دھاریاں تھیں۔۔ عجیب سے رنگ کے ڈھیلے ٹراوزر کے ساتھ بالوں کی پونی بنائے پہلی نظر میں مجھے وہ کوئی شیطان نما چھچھورا لگا تھا۔۔ اندر داخل ہونے کے بعد اس نے جیب سے موبائل نکالا اور کوئی فون سننے لگا۔۔ وزن ایک ٹانگ پر ڈال کر دوسری ٹانگ ڈھیلی چھوڑ کر وہ بے ڈھنگے انداز میں کچھ فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔۔ لیکن جس چیز نے مجھے متوجہ کیا وہ اس کا بد رنگ حلیے پر لا پرواہ انداز اپنا کر سامنے والے کو دانستہ زچ کر کے اس سے لطف اندوز ہونا تھا۔ یہ چیز اس کال سے پتہ چلی جسے سنتے ہوئے اس کے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا ٹراوزر کی جیب میں تھا اور باقی چار انگلیاں باہر تھرتھرا رہی تھیں۔۔
گفتگو کا لہجہ مہاجروی تھا۔۔ جیسے کراچی والوں کا ہوتا ہے۔۔ پتہ نہیں کراچی والوں کا لہجہ ہم پنجاب والوں کو بناوٹی کیوں لگتا ہے۔۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں۔۔ لیکن مجھے ضرور لگتا ہے۔۔ اس کے نین نقش سے مجھے وہ پنجابی۔۔ بلکہ دیہاتی سا لگا۔۔ لیکن اس کی آواز اس کے کراچی سے تعلق کی چغلی کھا رہی تھی۔۔ ٹپوری انداز میں بات کرتا ہوا مجھے وہ کراچی کی کسی کچی آبادی کا کوئی سستا سا ٹارگٹ کلر لگا۔۔ جو پانچ سو ہزار کیلئے گلی میں جاتا بندہ اڑا دیتا ہے۔
اس کے تجزیے سے فرصت ملی تو میں اس کی باتیں سننی لگی۔۔
ہاں! یار۔۔ میں عورت پرست آدمی ہوں۔۔ پتہ تو ہے تجھے۔۔ میں مکمل ہمہ تن گوش تھی۔۔
میرا شک یقین میں بدل رہا تھا۔۔
اس کے ساتھ ایک نسبتا شریف النفس تھا جو کہ آگے بڑھا اور مجھے ایکسکیوز می کہا۔۔
میں فی الحال ان کے سرکاری معاملات نپٹانے کے موڈ میں نہ تھی۔۔ میں نے ساتھ والی میز کی طرف اشارہ کیا۔۔
On that table sir
اور پھر سے اس کی طرف متوجہ ہو گئی
میری توجہ مکمل طور پر اس کی جانب مرکوز تھی حالانکہ میں شعوری طور پر خود کو ڈانٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ لیکن لاشعوری طور پر مجھے اچھا لگ رہا تھا۔۔
"بھائی تو عقل استعمال کرنے کے پیسے مجھ سے کے لیا کر"
یہ اس کا اگلا حملہ تھا۔۔ اس کی نظریں گھوم رہی تھیں۔۔ مگر ابھی وہ مجھ تک نہیں پہنچی تھیں۔۔ کیونکہ میری طرف وہ اپنا داہنا رخ کئے کھڑا تھا۔۔ سیدھ میں آتے ہوئے جب اس نے موبائل کان سے لگایا تو لاشعوری طور پر تھوڑا سا مڑ گیا اور تب سے اب تک اسی پوزیشن میں تھا۔
او بھئی چل ایسا کر کہ میرا حساب کر دے۔۔ بس یہی کوئی دو تین عورتیں اور جتنے پیسے تو دے سکے۔۔ اسے پتہ نہیں کیا کہا گیا تھا جس کے جواب میں وہ بولا۔۔
بڑا منہ پھٹ ہے۔ میں متاثر ہوتے ہوئے جان بوجھ کر غصہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔ مگر دل ہی دل میں مرنے والی ہو رہی تھی۔۔ عجیب فطرت ہے عورت کی۔۔
میں نے چاہا کاش میں دو طرفہ گفتگو سن سکتی۔
جی بہتر کہہ کر اس نے فون رکھ دیا اور اپنے ساتھ موجود شخص کو ڈھونڈنے کی غرض سے نظر دوڑائی۔ میں سر مئی رنگ کے سکارف کا نقاب کئے اسے ہی دیکھ رہی تھی جب اس نے میری طرف دیکھا۔۔
میں فوراً نظریں جھکا لینا چاہتی تھی مگر جھکا نہ پائی۔۔ لگا جیسے اس کی نظروں سے نکل کر کچھ لہریں میرے اطراف میں گھومنے لگی ہیں۔۔ وہ میری سبز آنکھیں دیکھ کر بالکل نہیں چونکا تھا۔ اور اس کے نہ چونکنے نے مجھے آگ بگولا کر دیا تھا۔ لیکن وہ یک ٹک ایک عام انداز میں مجھے ایسی یکسوئی سے دیکھ رہا تھا کہ مجھے لگا ہم میں سے جو نظر ہٹائے گا وہ پتھر بھی ہو سکتا ہے۔۔
اس کی آنکھوں میں مقناطیسی جاذبیت تھی جو دیکھنے والے کو اپنے حصار میں لے لیتی تھی۔۔ وہ آنکھیں مسلسل کمیں گیوں کے تجربے سے لیس تھی۔۔ حسن میری نگاہوں میں بھی کم نہ تھا۔۔ لیکن بات حسن کی نہیں تھی۔۔ بلکہ میرے اناڑی پن کی تھی
تصورات کا ایسا خمار کبھی پہلے نہیں چھایا تھا کہ مجھے لگا کہ میرا عبایا عروسی لباس بن گیا ہے اور نقاب گھونگھٹ۔۔ میں نے سوچ جھٹکی۔۔
اگلے تصور میں ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے کسی ہوٹل میں کھانے کی میز پر بیٹھے تھے اور کھانا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔۔ میری سبز آنکھیں تپنے لگی تھیں۔۔ میں نے اس سوچ کو بھی دھکا دیا۔ اگلے لمحے میں نے خود کو پہاڑوں کے درمیان بھاگتے دیکھا۔۔
اس شخص کو مجھے تلاشتے سوچا۔۔
برسات میں جھگڑے۔
سودے کی فہرست تھماتے۔۔
اس کی جرابیں سنبھالتے۔ افف افف اففف۔۔
کاش میں اپنے منہ پر تھپڑ مار سکتی۔۔
مجھے اپنے رخسار نقاب میں سے دہکتے ہوئے محسوس ہوئے۔ شاید میں مزاحمت کی گرم سلاخ پر ننگے پاوں چل رہی تھی
میرے دماغ میں اماں، آپا، کھڑکی کا وہ کونا۔۔ ہر چیز ایک محور کے گرد گھوم رہی تھی اور محور تھا وہ نظریں۔
میں نے چاہا کہ وہ میرے سامنے آئے اور مجھے بولے کہ نقاب اتار دو۔۔ اور میں فوراً اتار دوں۔۔ اور پھر وہ مجھے ہاتھ تھام کر کہیں دور لے چلے۔۔ یا میرے اندر یہ خواہش ابھری کہ وہ خود میرا نقاب سرکا دے اور نہ۔ غصہ کرنے کے بجائے حیرانی سے ہی مر جاؤں۔۔
اور کچھ نہیں تو کوئی امید افزاء جملہ۔۔ اوہ خدایا کیسی امید۔۔ کونسی امید۔۔
پتہ نہیں میں کیا چاہ رہی تھی۔۔
کیا سوچ رہی تھی لیکن میرے بازوؤں پر موجود بالوں کا ہلکا سا رواں سرسرا رہا تھا
وہ اب بھی میری طرف یک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔۔ فرق یہ تھا کہ اب اس کے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ در آئی تھی۔۔ میں اس مسکراہٹ کو خاک مطلب پہناتی۔۔! اسلئے نظریں جھکا لیں اور اپنے سامنے پڑے کاغذوں سے پلندے کو بلاوجہ ہی الٹ پلٹ کرنے لگی۔۔
میں محسوس کر پا رہی تھی کہ وہ میری ہی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کا ہاتھ سرک کر کوٹ کی اندرونی طرف جا رہا تھا۔۔ مجھے لگا وہ اندرونی جیب سے پستول نکالے گا اور مجھے شوٹ کر دے گا۔۔ عجیب خیالات نے ڈیرہ جما لیا تھا دل و دماغ میں۔۔
ایسا خیال پتہ نہیں کیوں آیا؟ لیکن اس خیال میں پچھلے ہر تصور سے زیادہ لذت تھی۔ وہ مجھے مار ڈالے گا اور پھر بھاگا بھاگا آ کر میرا سر اپنی گود میں رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔۔ میں مسکراوں گی۔ جاں کنی کے عالم کی زخمی مسکراہٹ اس کے لئے کتنی تکلیف دہ ہو گی۔ آخری مسکراہٹ۔ وہ میرا نام پکارے گا!۔۔
لیکن۔! نام؟؟؟؟
میری سوچ کے راستے میں رکاوٹ آئی۔۔
اسے تو میرا نام ہی نہیں پتہ۔۔ کیا نام ہے میرا۔ مجھے اپنا نام دہرانے میں دشواری ہوئی۔
اور اس چیز نے مجھے سخت بد مزہ سا کر دیا۔۔ اسے نام کیسے بتاؤں اپنا؟ کیا کروں۔۔
لیکن اس نہج پہ تفصیلی سوچنے کا مطلب دماغ کا ذائقہ خراب کرنے والی بات تھی۔ اسوقت میرے لئے اہم تھا کہ اس کا ہاتھ جیب سے باہر نہیں آیا ابھی! لاشعوری طور پر میں نے پہلے کلمے کا ورد کیا اور اپنے بائیں طرف بیٹھی کولیگ کو چور نظر سے دیکھا۔۔ جو پوری تندہی سے کاغذات میں مصروف اور سامنے کھڑے انسان سے معروف ہو رہی تھی
مجھے لگا اس کی نظروں کا حصار میرے اردگرد پھیلا ہوا تھا اور میرے اپنے وجود سے گھبراہٹ کا دائرہ نکل کراس مقناطیسی حصار سے الجھ رہا تھا۔۔
میری گھبراہٹ اس کی کشش سے لڑ لڑ کر بے حال ہو رہی تھی اس لڑائی نے سارا ماحول مسحور کن کر دیا تھا۔۔
اس کی شرٹ کی نیلاہٹ اور آنکھوں کی سفید اور کالی پتلیاں ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی تھیں یا شاید میرا دماغ چکرا رہا تھا۔۔
اس کا ہاتھ کوٹ کی اندرونی جیب سے نکلا اور اس میں سگرٹ کی ایک ڈبی تھی۔۔ اس کی نظریں ابھی بھی مجھ پر مرکوز تھیں۔ لیکن میری گھبراہٹ ختم ہو چکی تھی اور اب مجھے شاید اس کا دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔
شاید اسلئے کہ عورت کی ساری زندگی۔۔ لفظ شاید کے گرد گھومتی ہے۔۔
سگرٹ ہونٹوں میں دبا کر اس نے ذرا سا جھک کر اسے لائٹر کا شعلہ دکھایا اور اس لمحے اس نے اپنی نظریں مجھ سے ہٹائیں۔۔ سگرٹ جلا کر ایک کش لیا اور دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے میری کرسی کی طرف بڑھنے لگا۔۔
ایک لمحے میں ہی میرے مساموں سے پسینہ بہہ نکلا تھا۔۔ اسے آگے بڑھتے دیکھ کر میں تذبذب کی حالت میں اپنی کرسی پر سے کھڑی ہو گئی۔۔
میرے کھڑے ہونے پر میری کولیگ نے مجھے اور اس کے سامنے کھڑے شریف النفس انسان نے۔ اپنے ساتھ آئے اس عورت پرست انسان کو دیکھا۔
مجھے لگا ان دونوں نے ہم دونوں کا مذاق اڑایا ہے۔۔ یا شاید صرف میرا کیونکہ بظاہر میرے کھڑے ہونے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ درپردہ کوئی وجہ ہو تو ہو۔۔
میں کیوں کھڑی ہوئی؟ اففف
اس عمل پر مجھے پیٹ بھر کر کراہت ہوئی۔۔ یہ کیا کر چکی تھی میں۔
وہ میری کرسی کے عین سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور سگرٹ کے کش لگا کر مجھے دیکھنے لگا۔
میں حجاب میں ہونے کے باوجود خود کو برہنہ محسوس کر رہی۔۔
گلے میں اٹکا تھوک اور سانس اندر کی طرف دھکیل کر میں نے بمشکل اسے مخاطب کیا۔۔
"سر! یہاں سگرٹ پینے کی اجازت نہیں ہے" میں نے لفظ “سر" پہ توقف کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔۔ اور اس طرح میں نے اپنے کھڑے ہونے کے عمل کو وجہ دینے کی ایک بھونڈی کوشش کی اور بیٹھ گئی۔۔
مجھے نہیں یاد تھا کہ اس کرسی پر بیٹھ کر کبھی اس سے زیادہ ہڑبڑاہٹ والے لمحات مجھ پہ گزرے ہو۔
بیٹھ کر میں نے دائیں آبرو اٹھا کر اسے طنزیہ انداز میں دیکھا کیونکہ مجھے یقین تھا میں اسے شرمندہ کر چکی ہوں اور اب اس شرمندگی سے لطف اندوز ہونے کیلئے میں نے نظریں اٹھائیں۔۔ وہ اب سگرٹ بجھا دے گا اور معذرت کرے گا، میں نے سوچا!
لیکن اس نے بجائے سگرٹ بجھانے کے اپنی نظریں اپنے ساتھ آئے شریف النفس انسان کی طرف پھیر لیں۔۔ اور اسے آنکھ سے کچھ اشارہ کیا۔
میں نے بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں اس کو دیکھا،
اس شخص نے عورت پرست کے اشارے کے رد عمل میں اپنا بایاں ہاتھ اوپر اٹھایا جو کہ میز کے دوسری طرف ہونے کی وجہ سے مجھے نظر نہیں آ رہا تھا۔۔ اس کے ہاتھ میں سگرٹ دبا ہوا تھا جس کی عمر سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کافی دیر سے جل رہا ہے۔
میری کولیگ نے کوفت زدہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔ کیونکہ سگرٹ کے ممنوع ہونے کے اصول کو کچھ ہی عرصہ پہلے ختم کیا گیا تھا۔۔ مجھے دیکھنے کے بعد اس نے شریف النفس کا کام مزید تیزی سے نپٹانا شروع کیا کیونکہ شاید وہ چاہ رہی تھی کہ میری اگلی اوٹ پٹانگ حرکت سے پہلے وہ لوگ چلے جائیں۔
عورت پرست نے سگرٹ کا تیسرا کش لگا کر دھواں سامنے کی طرف چھوڑا اور باقی سگرٹ نیچے پھینک کر مسل دی۔۔
اوفو! جب اسے پتہ چل چکا ہے کہ سگرٹ پینا منع نہیں ہے تو کیا مقصد ہے بجھانے کا۔۔؟
میں نے سوچا۔۔
بلاوجہ کی رومانیت۔۔ ہونہہ
استغفراللہ۔ میں نے آہستہ آواز میں کہا
رومانیت؟ مجھے خود پہ حیرت و غصہ بیک وقت آیا کہ آخر مجھے غصہ آ کیوں نہیں رہا۔
وہ میری میز پر جھکا تو میری آنکھیں حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساس سے پھیل گئیں۔ اور میں ساری دنیا کی معصومیت آنکھوں میں بھر کے اسے دیکھنے لگی۔۔
الفاظ کی ادائیگی ہونے والی تھی۔۔ میں نے اس کے نچلے ہونٹ کو دیکھا جو اوپری لب سے جدا ہو رہا تھا۔۔ یعنی میں کچھ سننے والی ہوں۔
میرا سراپا کانوں میں تبدیل ہو گیا۔۔ اور ہر حس سماعت بن گئی!
"تمہارا چہرہ ایک بار دیکھ لوں تو ساری زندگی شکر کرتے گزار دوں۔
شکر کے لمحے ایسے ہی ودیعت ہوا کرتے ہیں"
اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں سرگوشی کی۔۔ اور میں سانس لینا بھول گئی۔
الفاظ با وضو ہو کر اس کے ہونٹوں سے نکلے اور میری سماعتوں پہ جا کر سجدہ ریز ہوئے۔
اس کے بعد وہ میری طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا۔۔ میری سبز آنکھیں اسے الوداع کہہ کے واپس پلٹ رہی تھیں جب ایک کاغذ پہ نظر پڑی۔۔ وہ کاغذ وہاں پڑا تھا جہاں کھڑے ہو کر اس نے اپنی جیب سے سگرٹ نکالے تھے۔
گھر جاتے ہوئے وہ کاغذ میرے پرس میں تھا اور میں خود وہاں جہاں وہ کاغذ گرا ہوا تھا۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید