صفحات

تلاش کریں

ناولٹ:ایک، دو، تین، چار(اخلاق احمد)

سیٹھ لطیف کانجی کا نام اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔

کراچی کی پرانی تاریخ سے وابستہ کچھ لوگ شاید ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں کچھ نہ کچھ یاد آ جائے۔ مگر ایسے لوگ بھی اب کتنے رہ گئے ہیں۔ خود کراچی بھی اب وہ کراچی کہاں رہا ہے۔ یہاں کس کے پاس اتنی فرصت ہے کہ کوئی نام ذہن کے افق پر پل بھر کو چمکے تو وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کرے، کسی سے پوچھے، پرانے ریکارڈ ٹٹولے، یہ ساری محنت کر بھی لی جائے تو اس کا کیا حاصل؟ تحقیق بھی اس وقت کی جاتی ہے جب اس کے نتیجے میں چار پیسے ملنے کی توقع ہو۔

ایمانداری کی بات یہ ہے کہ میں خود بھی سیٹھ لطیف کانجی کے نام سے واقف نہیں تھا۔

ایک تقریب کے دوران کسی نے میرا تعارف رفیق کانجی سے کرایا جو سیٹھ لطیف کانجی کا بیٹا تھا۔ وہ ایک دبلا پتلا، گورا چٹّا آدمی تھا جس کے بال سفید ہوتے جا رہے تھے مگر ادھیڑ عمری کے باوجود اس کے چہرے پر لڑکپن تھا۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اس کی فیملی پہلے بمبئی میں اور پھر کراچی میں رہتی تھی لیکن پھر وہ لوگ بیس پچیس سال قبل امریکہ منتقل ہو گئے۔

وہ بڑی دلچسپ گفتگو کرتا تھا۔ عجیب و غریب، تقریباً غلط اردو اور رواں انگریزی کا ملغوبہ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ پہلے اپنے ذہن میں جملے کا ترجمہ کرتا ہو اور پھر جملہ ادا کرتا ہو۔ بات کرتے وقت اس کی آنکھیں شرارت سے چمکتی تھیں۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو محفل آرائی کے ماہر ہوتے ہیں۔

تقریب ختم ہوئی تو وہ میرے پاس آیا اور بولا۔ ’’کیا ہم بات کر سکتے ہیں؟‘‘

میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’کیوں نہیں۔‘‘

وہ مجھے ہال کے ایک کونے میں لے گیا جہاں ہم دو کرسیاں گھسیٹ کر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔

اس نے کہا۔ ’’بہت میری بدقسمتی ہے، آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔‘‘

میں ہکّا بکّا رہ گیا۔

اس نے میرے تاثرات دیکھ کر گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’نہیں، نہیں۔ میرا مطلب فرق تھا… یعنی آپ سے اتنی دیر بعد ملاقات ہوئی۔ یہ ہے بدقسمتی۔ آئی ایم سوری، میں اردو میں ذرا…‘‘

میں ہنس پڑا۔ ’’اس میں بد قسمتی کہاں سے آ گئی؟‘‘

اس نے سر جھٹک کر کہا۔ ’’بدقسمتی مسٹر احمد، کہ مجھے کل واپس امریکہ روانہ ہو جانا ہے۔ ڈیوٹی کالز۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’بزنس کا خیال کرنا ہوتا ہے، ورنہ بزنس تمہارا خیال نہیں رکھتا۔‘‘

میں اخلاقاً مسکرایا۔

وہ کچھ سوچ کر بولا۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک رائٹر ہیں۔ اینڈ اے جرنلسٹ ایز ویل؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’یس۔ مگر ایک تو میں صحافت چھوڑ چکا ہوں۔ اور دوسری بات یہ کہ میں اردو میں لکھتا ہوں۔‘‘

’’کوئی فرق نہیں اس سے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’ اگر میں آپ کو ایک اسٹوری دوں۔ اے ویری ڈفرنٹ اسٹوری۔ تو کیا آپ اتنے مہربان ہوں گے کہ اسے لکھ دیں؟ اپنے اسٹائل میں، آف کورس۔‘‘ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی اور اس کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔

مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس سے صاف صاف کہوں، میں فرمائشی کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا ہو، اگر آپ مجھے پوری بات بتا دیں۔ میرے لئے ممکن ہوا تو میں ضرور کوشش کروں گا۔ کیسی اسٹوری ہے آپ کے پاس؟ اور آپ یہ کہانی مجھ سے کیوں لکھوانا چاہتے ہیں؟‘‘

وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ڈیڈی کی اسٹوری ہے۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’سیٹھ لطیف کانجی کی؟‘‘

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

میں نے کہا۔ ’’آپ سوانحِ حیات لکھوانا چاہتے ہیں؟ بایوگرافی؟‘‘

’’نو، نو۔‘‘ اس نے تڑپ کر کہا۔ ’’بایو گرافی نہیں مانگتا ہوں۔ دیکھئے۔ میں کچھ اور کہہ رہا ہوں۔ یہ ان کی پوری لائف ہے جو ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ڈائریوں میں ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں؟ اور اس میں کچھ ایسا ہے جو کوئی بھی نہیں جانتا۔ کچھ بہت ہی امیزنگ۔ یقین نہیں آتا اس پر۔ لیکن امی کہتی تھیں، بالکل سچ ہے۔‘‘

میں خاموش رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔

اس نے کہا۔ ’’دیکھئے۔ میں آپ سے ڈیل کرتا ہوں۔ میں آپ کو وہ ڈائریاں بھیج دیتا ہوں۔ اگر آپ کو بھی وہی لگے جو مجھے لگتا ہے تو آپ اسٹوری لکھئے گا۔ نہیں لگے تو واپس۔ سینڈ می دی ڈائریز بیک۔ او کے؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘

وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ڈیڈی پارٹیشن کے وقت پاکستان آئے تو تیرہ چودہ سال کے تھے۔ اور پچاس کی عمر میں، ختم۔ کراچی ان کا سب کچھ تھا۔ ایوری تھنگ۔ میں نہیں جانتا کیوں، مگر میں چاہتا ہوں، کراچی ان کی اسٹوری جان لے۔ اگر کوئی رائٹر اردو میں وہ اسٹوری لکھ سکے۔ اور تھوڑی ریسرچ بھی کر سکے جرنلسٹ کی طرح۔ دیئر از نو وَن اِن مائی سرکل، جو ایسا کر سکے۔ اس لئے میں نے اتنی بدتمیزی سے آپ سے یہ ریکوئسٹ کی ہے۔ آئی ہوپ، آپ نے برا نہیں مانا ہو گا۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں رفیق صاحب۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی ذرا بد تہذیبی سے یہ پوچھ لوں کہ آپ اپنے ڈیڈی کی ڈائریوں کی مدد سے کہانی کیوں لکھوانا چاہتے ہیں؟ کیوں چاہتے ہیں کہ کراچی ان کی کہانی جان لے؟ ایسی ڈائریاں بالکل نجی… میرا مطلب ہے، بالکل پرائیویٹ ہوتی ہیں۔ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ ان ڈائریوں میں لکھی باتوں کو دنیا کے سامنے رکھ دیں؟‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنسا۔ ’’گڈ۔ ویری گڈ۔ اگر آپ نہ کرتے یہ سوال تو مجھے مایوسی ہوتی، تھوڑی تھوڑی۔‘‘

مجھے اندازہ ہوا کہ اس نے جان بوجھ کر اپنی ذہانت پر خوش مزاجی اور کھلنڈرے پن کا پردہ ڈال رکھا ہے۔

اس نے کہا۔ ’’یہ سوال میں نے خود سے بھی کیا۔ امی جب زندہ تھیں تو ان سے بھی بات کی تھی۔ میرا پرسنل خیال یہ ہے کہ جو پرانے لوگ ڈائریاں لکھتے تھے، یہ در اصل چاہتے تھے کہ جب وہ نہ رہیں تو کوئی نہ کوئی ان کی کہانی جان لے۔ آپ میرا پوائنٹ سمجھ رہے ہیں؟ یعنی کیوں لکھتا ہے کوئی ایسی باتیں؟ اتنی ڈی ٹیلز کے ساتھ؟ آئی ہوپ… بلکہ آئی ایم شیور کہ ڈیڈی بھی یہی چاہتے تھے۔‘‘

اس کی آنکھوں میں محبت تھی اور اس کے لہجے میں وہ اعتماد تھا جو اپنے باپ کی کرسی پر بیٹھنے والے ذمہ دار بیٹے کے لہجے میں ہوتا ہے۔

وہ مجھ سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو گیا۔

ایک، دو دن مجھے اس کی باتیں یاد آتی رہیں۔ پھر زندگی کی بھاگ دوڑ نے سب کچھ بھلا دیا۔

دو ہفتے بعد مجھے کوریئر کے ذریعے گتّے کے تین بڑے، مضبوط بکس موصول ہوئے۔

وہ سترہ ڈائریاں تھیں۔ کچھ پتلی، کچھ موٹی۔ کچھ خاصی خستہ ہو چکی تھیں اور ان کے کاغذوں کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔

سیٹھ لطیف کانجی کے بیٹے نے سچ کہا تھا۔ ان ڈائریوں میں پوری زندگی درج تھی۔ بلکہ یوں کہئے کہ دو زندگیاں۔ ایک تو وہ عام سی زندگی، جو کاروباری معاملات کے گرد گھومتی تھی۔ پیسوں کا لین دین، نفع اور نقصان کا حساب کتاب، تعمیری اخراجات کے گوشوارے، عمارتوں کی تفصیل،واجب الادا قرضے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور کہانی بھی چلتی تھی۔ بین السطور۔ خاموشی سے۔ جیسے سایہ، آدمی کے ساتھ چلتا ہے۔ پہلی نظر میں یہ بے سر و پا لگتی تھی۔ یعنی ایسی کہانی، جسے پڑھ کر آپ ہنسیں اور سر ہلا کر کہیں، کیا بکواس ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ مشتعل کرتی تھی۔ چیلنج کرتی تھی۔ تحقیق کرنے کی ترغیب دیتی تھی اور گزر جانے والے برسوں میں جا کر ریکارڈ چیک کرنے اور حقائق کی تصدیق کرنے پر اکساتی تھی۔

شاید یہ کہنا ضروری نہیں کہ مجھے اس جال میں پھنسنا ہی تھا۔

…٭٭…








سیٹھ لطیف کانجی کی ایک بیوی تھی۔ دو بیٹیاں تھیں۔ تین بیٹے تھے۔ چار فیکٹریاں تھیں۔ پانچ دوست تھے۔ چھ بنگلے تھے۔ سات شہروں میں دفاتر تھے۔ آٹھ بینک اکاؤنٹ تھے اور نو خاندانی ملازم تھے۔

اس ترتیب کا اہتمام خود لطیف کانجی نے کیا تھا۔

مگر یہ سب تو اس وقت کی بات ہے، جب وہ کامیاب ہو چکا تھا۔

اصل کہانی تو بہت پہلے بمبئی میں شروع ہوئی تھی جب گورے، مکھیوں اور مچھروں کی سرزمین چھوڑ کر واپس جانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور لطیف کانجی سفید نیکر، سفید قمیص پہن کر سالم تانگے میں مشنری اسکول جایا کرتا تھا اور راستے میں آنے والے سنیما گھروں پر آویزاں اشوک کمار اور لیلا چٹنس اور نرملا دیوی کی تصویریں دیکھ کر ایک انجانی خوشی محسوس کیا کرتا تھا۔

لطیف کانجی کی دسویں سالگرہ پر وہی مہمان آئے جو ہر سال چھ سات مرتبہ آتے تھے۔ اسے بہت سے تحفے ملے جو رنگ برنگے ڈبوں میں بند تھے۔

مہمان رخصت ہوئے تو لطیف کانجی فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور ایک ایک کر کے تحفے کھولنا شروع کئے۔

وہ تقریباً ایک ہی سائز کے دس ڈبے تھے۔ اور ان میں سے ایک ہی جیسی دس کھلونا کاریں نکلیں۔ 1944ء ماڈل کی نئی شیورلے کاریں۔ کچھ نیلی، بیشتر سرخ۔ لطیف کانجی اتنی بہت سی چمکتی دمکتی کھلونا کاریں پا کر اتنا خوش ہوا کہ اپنے ماں باپ کے چہروں پر چھائی مایوسی بھی نہ دیکھ سکا۔

دو تین ہفتے بعد، جب وہ ایک جیسی بہت سی کاروں سے کھیل کھیل کر بیزار ہو گیا تو اس نے پہلی بار سوچا، یہ سب لوگ ایک ہی جیسی کاریں کیوں لے آئے تھے؟

گیارہویں سالگرہ آئی تو حیرت کا ایک نیا باب کھلا۔

لطیف کانجی کو تحفے میں گیارہ سائیکلیں ملیں۔

’’گیارہ سائیکلیں!‘‘ اس کے والد سیٹھ حنیف کانجی نے مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد حسب معمول اپنی بیوی کو غصے سے مخاطب کر کے کہا۔ ’’ابھی یہ کیا کرے گا اتنی سائیکلوں کا؟ دوکان کھولے گا؟‘‘

’’میرے کو کیا پتا؟‘‘ ان کی بیوی نے کمرے میں ڈھیر سائیکلوں کو دیکھ کر بیزاری سے کہا۔

’’دماغ پھریلا ہے سب کا۔‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے کہا۔ ’’جس کو دیکھو سائیکل اٹھائے چلا آ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے سب سے آگے رکھی سائیکل کو لات رسید کی اور لنگڑاتے ہوئے کمرے سے رخصت ہو گئے۔

بارہویں سالگرہ پر لطیف کانجی کے سب سے قریبی دوست صفدر نے اسے جو کتاب تحفے میں دی اس کا نام تھا۔ ’’بارہ برجوں کی دنیا‘‘۔ یہ علم نجوم کے بارے میں ایک مشہور انگریزی کتاب کا ترجمہ تھا۔ لطیف کانجی رات بھر اور پھر اگلے روز دن بھر وہ کتاب پڑھتا رہا۔ مختلف برجوں کی خصوصیات، ان کے مزاج کا احوال، سیآروں کی چال۔ ایک پُراسرار دنیا تھی جو اس کے سامنے کسی کتاب کی طرح کھلتی جا رہی تھی۔

اپنے برج کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے اس نے پہلے اپنی والدہ سے استفسار کیا۔ پھر والد سے پوچھا۔ بالآخر وہ ماں کی الماری میں احتیاط سے رکھی پرانی دستاویزات میں اپنی پیدائش کا سرٹیفکیٹ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ ایک بڑے ہسپتال کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ تھا جس میں پیدائش کی تاریخ ہی نہیں، وقت بھی درج تھا۔

سرٹیفکیٹ دیکھ کر اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔

وہ یکم فروری 1934ء کو پیدا ہوا تھا۔ اس تاریخ کو انگریزی میں ایک دو تین چار لکھا گیا تھا۔ پہلی تاریخ، دوسرا مہینہ اور 1934ء کا تین چار!

اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس کی پیدائش کے وقت کے اعداد بھی یہی تھے۔ سرٹیفکیٹ کے مطابق وہ بارہ بج کر چونتیس منٹ پر پیدا ہوا تھا۔ بارہ چونتیس!۔ ایک دو تین چار!!

اس سرٹیفکیٹ نے لطیف کانجی کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ اعداد اس کے دماغ پر چھا گئے۔ اس کی عقل پر قابض ہو گئے۔ اس نے اپنے جگری دوست صفدر کو تمام باتیں بتائیں۔ اس کا خیال تھا کہ صفدر سخت حیران ہو گا۔ لیکن وہ قطعی حیران نہ ہوا۔ وہ خود جوتش اور علم نجوم پر اعتقاد رکھتا تھا۔ اس نے لطیف کانجی کو کئی قدیم شہنشاہوں اور مشہور لوگوں کے بارے میں بتایا جن کی زندگی ایسے ہی اتفاقات سے عبارت تھی۔ کوئی پانچویں مہینے کی پانچویں تاریخ کو پیدا ہوا تھا۔ پانچ شہزادے پیدا کرنے اور پانچ برس حکمرانی کرنے کے بعد پانچویں مہینے کی پانچویں تاریخ کو مرگیا تھا۔ کسی نے سات کتابیں لکھی تھیں، سات شادیاں کی تھیں، سات بڑے اعزاز حاصل کئے تھے اور ساتویں دل کے دورے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ ایک شہزادی ایسی تھی جس نے گیارہ شادیاں کی تھیں، اکیس جنگیں لڑی تھیں، اکتیس شہروں کو فتح کیا تھا اور اکتالیس سال کی عمر میں اکیاون باغیوں کے حملے میں ماری گئی تھی۔

لطیف کانجی، صفدر سے کئی کتابیں لے آیا۔ ان کتابوں میں ایسے ہی کئی واقعات تھے۔ اپنے نام کے اعداد معلوم کرنے کی ترکیبیں تھیں اور انسانی زندگی پر ستاروں کے اثرات کے بارے میں تفصیلات تھیں۔

ایک روز اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے والد سے اس بات کا ذکر کیا۔ پوری بات سن کر اور پیدائش کے وقت اور تاریخ کے بارے میں اپنے بیٹے کے خیالات سے آگاہ ہو کر انہوں نے کہا۔ ’’دیکھ لطیف۔ ہوش میں آ جا۔ اپنی پڑھائی پر توجہ دے۔ نئیں تو جانتا ہے میں کیا کروں گا؟ میں تیری اتنی ٹھکائی کروں گا کہ تو بھی ٹھیک ہو جائے گا اور تیری ماں بھی۔‘‘

’’ماں نے کیا کیا ہے؟‘‘ دوسرے کمرے سے اس کی ماں نے چلّا کر کہا۔

’’ماں نے ہی اسے بگاڑا ہے۔‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے گرج کر کہا۔ ’’سالے کا مغز خراب کیا ہے۔ کہتا ہے، میں ایک دو تین چار ہوں۔ آدمی نہیں ہوں، کیش رجسٹر ہوں!‘‘

وہ گھر میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران خاموشی سے فرار ہو گیا۔

رفتہ رفتہ اسے یقین ہو گیا کہ لوگ ایسی باتوں پر یقین نہیں کرتے۔ انہیں محض حماقت سمجھتے ہیں اور ان پر یقین رکھنے والوں کو بے وقوف۔ لیکن خود اسے یقین تھا کہ ان اعداد میں، ان علوم میں کوئی نہ کوئی راز ضرور تھا۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور پوشیدہ تھی۔ ہر چیز، ہر واقعہ اتفاق نہیں ہو سکتا۔

اپنی تیرہویں سالگرہ پر لطیف کانجی نے ایک بار پھر حیرت سے ان تیرہ تحائف کو دیکھا جو آنے والے مہمان لائے تھے۔ تیرہ کے تیرہ سوٹ تھے۔ پینٹ اور شرٹ!

’’ارے بابا۔‘‘ لطیف کانجی کی ماں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ ’’سارے ڈیزائن ایک ہیں۔ بس کلر الگ الگ ہیں۔‘‘

’’کلر!‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے دانت پیس کر کہا۔ ’’ابھی کلر کا کیا کرنا ہے۔ کیا لطیف پورے سال ایک ہی ڈیزائن کے کپڑے پہنے گا؟ سب بولیں گے، تھوک مارکیٹ سے درجن کے حساب سے لایا ہے! اکھّا بمبئی میں مذاق بن جائے گا۔ یہ سب تیری وجہ سے ہے۔ تیرے خاندان کی وجہ سے ہے۔‘‘

’’میرے خاندان نے کیا کیا ہے؟‘‘

’’تیرہ میں سے سات تیرے خاندان والوں نے دیئے ہیں۔‘‘

’’اور باقی چھ؟ وہ تو تیرے گھر والوں اور دوستوں نے دیئے ہیں۔‘‘

’’اچھا۔ بک بک نئیں کر۔‘‘

لطیف کانجی ایک بار پھر جنگ کے دوران فرار ہو گیا۔ اپنے کمرے میں جا کر اس نے دروازہ بند کیا اور بستر پر بیٹھ کر دیر تک صورتحال پر غور کرتا رہا۔ اعداد اسے اپنی اہمیت کا یقین دلا رہے تھے۔ گیارہ سائیکلیں۔ تیرہ سوٹ۔ پیدائش کا وقت، ایک دو تین چار۔ پیدائش کی تاریخ، ایک دو تین چار۔

اگلے روز وہ صفدر کے ساتھ ایک جوتشی کے پاس پہنچا جو بمبئی کے مرکزی بازار میں ٹراموں کے ٹرمینل کے پاس بیٹھتا تھا۔ صفدر اس جوتشی کی صلاحیتوں سے سخت مرعوب تھا۔

پورے ایک روپے کا نذرانہ لے کر گنجے جوتشی نے اپنا سر ہلایا اور پوچھا۔ ’’کتنی عمر ہے بالک؟‘‘

صفدر نے کہا۔ ’’پندرہ سال۔‘‘

جوتشی نے پھر سر ہلایا اور بولا۔ ’’میں تیری نہیں، اس کی عمر پوچھ رہا ہوں۔‘‘

لطیف کانجی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’تیرہ سال۔ کل میری تیرہویں سالگرہ تھی۔‘‘

’’ہوں۔‘‘ جوتشی غرایا۔ ’’ہاتھ دکھا۔‘‘

لطیف کانجی نے ہاتھ اس کے سامنے پھیلا دیا۔ جوتشی دیر تک اس کا ہاتھ دیکھتا رہا۔ ہتھیلی پر پھیلے لکیروں کے جال پر نظریں دوڑاتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ایک روپیہ اور دے۔‘‘

لطیف کانجی نے صفدر کی طرف دیکھا۔ صفدر نے سر کھجا کر کہا۔ ’’جوتشی جی۔ آپ تو ہاتھ دیکھنے کا ایک ہی روپیہ لیتے ہیں۔‘‘

جوتشی نے لطیف کانجی کا ہاتھ غصے سے جھٹک دیا۔ ’’یہ ایک روپے والا ہاتھ نہیں ہے۔ جا۔ کسی اور کو دکھا۔ یہاں تو اکنّی میں بھی ہاتھ دیکھنے والے ہیں۔ یہ بمبئی ہے بالک، بمبئی۔ یہاں ایک ہی جوتشی جیون رام ہے۔‘‘

لطیف کانجی نے جیب سے ایک روپیہ نکالا اور جوتشی کی میلی چٹائی پر رکھ دیا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو شاید وہ اتنی آسانی سے پورے دو روپوں کا خون نہ کرتا۔ لیکن اس وقت معاملہ مختلف تھا۔ صورتحال نازک تھی۔ جوتشی نے ہاتھ کے بارے میں ایک بات کہہ کر اس آتشِ شوق کو بھڑکا دیا تھا جو گزشتہ کئی مہینوں سے چنگاری بن کر سلگ رہی تھی۔

’’میری باتیں دھیان سے سن بالک۔‘‘ جوتشی نے بہت دیر تک ہاتھ دیکھنے اور خاموش رہنے کے بعد کہا۔ ’’پھر تجھے شاید کوئی جیون رام نہ ملے جو ریکھاؤں میں آنے والے سمے کو دیکھ سکے۔‘‘ وہ پھر خاموش ہو کر ہاتھ کی لکیروں کو دیکھنے لگا۔

صفدر اور لطیف کانجی دم سادھے بیٹھے تھے۔ ان کے گرد سائیکل رکشا چلانے والوں کی آوازیں تھیں، ٹرام کی گھنٹیاں تھیں، خوانچے والوں کے چلّانے کی آوازیں تھیں، ہنگامہ اور چیخ و پکار تھی لیکن وہ یہ سب کچھ نہیں سن رہے تھے۔ ساری دنیا ساکت تھی، بے صدا تھی اور اس گہرے سناٹے میں صرف جوتشی کی آواز کا انتظار تھا۔

’’تجھے بہت بڑا آدمی بننا ہے۔‘‘ جوتشی نے بالآخر کہا۔ ’’لوگ تجھے دیکھ کر رشک کریں گے۔ دھن دولت دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ تو خود اپنی دولت کا حساب نہیں رکھ سکے گا۔‘‘ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے اچانک پوچھا۔ ’’کل تیری کون سی سالگرہ تھی؟‘‘

’’تیرہویں۔‘‘ لطیف کانجی نے کسی سحر زدہ معمول کی طرح جواب دیا۔

’’تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد ہی تیری زندگی میں وہ موڑ آئے گا۔‘‘ جوتشی نے پھر سر ہلایا۔ ’’تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد تو کامیابی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھے گا۔ جا۔ چلا جا۔‘‘

جوتشی نے اچانک اس کا ہاتھ جھٹک کر دور کر دیا۔

لطیف کانجی نے وہ شام اپنے کمرے میں ہی گزاری۔ اس شام وہ معمول کے مطابق اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے بھی نہیں گیا۔ جوتشی کی باتیں بار بار اس کے ذہن میں گونج رہی تھیں۔ دھن دولت والی بات نے اسے قطعی حیران نہیں کیا تھا۔ سیٹھ حنیف کانجی جیسے تاجر کا بیٹا پیسے والا نہیں بنے گا تو کیا بنے گا؟ دولت تو اس کا ورثہ تھی۔ گھر کی باندی تھی۔ لیکن زیادہ حیران کن بات وہ تھی۔ تیرہ ہفتوں اور ایک ماہ والی بات۔ تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد کیا ہو گا؟ اس نے سوچنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ ایسا سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا۔ لطیف کانجی نے ایک بار پھر تحیّر کی اس سنسنی خیزی کو محسوس کیا جو پُراسرار علوم میں تھی، جوتشی کی باتوں میں تھی اور خود اس کی زندگی میں تھی۔

اس نے کاپی نکالی اور حساب لگانے بیٹھ گیا۔ تیرہویں سالگرہ یکم فروری کو تھی۔ اس نے حساب لگایا، تیرہ ہفتوں میں اکیانوے دن ہوتے ہیں۔ اٹھائیس دن فروری کے۔ اکتیس دن مارچ کے۔ اور تیس دن اپریل کے۔ یہ ہوئے نواسی دن۔ ذرا سی دیر میں نتیجہ اس کے سامنے آ گیا۔ تین جون تک کوئی نہ کوئی واقعہ ہونے والا تھا!

لطیف کانجی نے اگلے چار ماہ ایک عذاب میں گزارے۔ وہ راتوں کو دیر تک جاگتا رہتا تھا۔ اسکول میں اپنی بنچ پر بیٹھا بلیک بورڈ کو خالی خالی نظروں سے گھورتا رہتا تھا۔ اس کا واحد ہمدرد صفدر تھا لیکن اس کے پاس بھی لطیف کانجی کی پریشانی کا کوئی حل نہ تھا۔

دن دھیرے دھیرے گزرتے گئے۔ فروری گزر گیا۔ مارچ گزر گیا۔ اپریل گزر گیا۔ لطیف کانجی کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ مئی آ چکا تھا۔ تیرہ ہفتے گزر چکے تھے اور اب صرف ایک ماہ رہ گیا تھا۔

انہی دنوں ایک شام جب وہ گھر واپس لوٹ رہا تھا، اس نے راستے میں صفدر کو دیکھا۔ اس کے چہرے سے لگتا تھا کہ وہ کوئی خبر سنانے کے لئے بے قرار ہے۔ لطیف کانجی کے پاس پہنچتے ہی اس نے کہا۔ ’’یار، جوتشی جیون رام کو پولیس پکڑ کر لے گئی!‘‘

ایک لمحے کے لئے لطیف کانجی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ پُراسرار علوم جاننے والے کسی آدمی کو پولیس والے کیسے پکڑ سکتے ہیں!

’’میں نے خود ٹراموں کے اڈے کے پاس بھیڑ دیکھی تھی۔‘‘ صفدر کہہ رہا تھا۔ ’’لوگ کہہ رہے تھے، چرس بیچتا تھا۔ مجھے تو یقین نہیں آیا۔‘‘

لطیف کانجی نے کہا۔ ’’یقین تو مجھے بھی نہیں آ رہا ہے۔ یار، جوتشی کو تو ہر بات کا پتہ ہوتا ہے۔ جیون رام کو اپنی گرفتاری کے بارے میں معلوم نہیں تھا؟‘‘

پُراسرار علوم کے بارے میں اس کے اعتقادات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔ گھر پہنچ کر بھی وہ یہی سوچتا رہا۔ رفتہ رفتہ اسے یقین آنے لگا تھا کہ جوتشی جیون رام کی پیش گوئی غلط بھی ثابت ہو سکتی تھی۔ اسے جوتشی پر اور اپنے اوپر سخت غصہ آیا۔ تیرہ ہفتے گزر چکے تھے اور ایک ماہ باقی رہ گیا تھا۔ اتنے کٹھن انتظار کے بعد یہ صدمہ یقیناً بھاری تھا۔

دن پھر گزرنے لگے۔ رفتہ رفتہ مئی گزر گیا اور جون آ گیا۔

تین جون کو وہ اسکول نہیں گیا۔ طبیعت کی خرابی کا بہانہ اس نے رات کو ہی کر لیا تھا۔ پوری صبح گزر گئی، پہاڑ سا دن گزر گیا۔ لیکن کچھ نہ ہوا۔ تقدیر کا وہ موڑ کہیں نہ آیا جو اس کی کامیابی کا باعث بن سکتا تھا۔ شام گزر گئی لیکن کامیابی کی وہ سیڑھی نہ آئی جس پر اسے پہلا قدم رکھنا تھا۔

رات گئے اس نے اپنے والد کو گھر میں آتے دیکھا۔ سب سے پہلے اس کی نگاہ ان کے بکھرے بالوں پر پڑی۔ پھر اس نے ان کا پھٹا ہوا کوٹ دیکھا اور سوجا ہوا ہونٹ دیکھا۔ جب ماں رو چکی اور چیخ چیخ کر بے مقصد سوال کر چکی تو سیٹھ حنیف کانجی نے کہا۔ ’’تیاری کر لے روانہ ہونے کی!‘‘

’’روانہ ہونے کی! کہاں روانہ ہونے کی؟‘‘

’’اب یہاں بمبئی میں کچھ نہیں رہا۔ میرے ساتھی ڈائریکٹر دغا دے گئے۔ انہوں نے پورے بزنس پر قبضہ کر لیا ہے۔ میرے پاس اب صرف ایک لاکھ روپیہ رہ گیا ہے جو سال بھر پہلے میں نے الگ ٹرانسفر کرا لیا تھا۔‘‘

’’مگر… مگر کیوں؟‘‘ ماں کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اور صوفے کے ساتھ حیران، پریشان کھڑے لطیف کانجی کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آ رہا تھا۔

’’کیوں اور کیا چھوڑ دے؟‘‘ اس کے والد نے گرج کر کہا۔ ’’باہر سب بدل گیا ہے۔ پوری مارکیٹ بدل گئی ہے۔ تجھے پتہ نہیں چلا؟‘‘

’’کیا پتہ نہیں چلا؟‘‘ ماں نے چلّا کر پوچھا۔

’’پاکستان بن رہا ہے۔‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے اپنی ڈھیلی ٹائی اتار پھینکی۔ ’’فیصلہ ہو گیا ہے۔ ریڈیو پر تقریریں ہو گئی ہیں۔ میں نے ان سے بولا، ارے بابا ہم یہیں رہے گا۔ یہی بزنس کرے گا۔ اپنے فادر اور گرینڈ فادر کو قبروں میں چھوڑ کر کون جاتا ہے۔ لیکن وہ سالے ہندو ڈائریکٹر۔ چوٹ تو میرے بھی آئی پر میں نے بھی ایک کے تین دانت توڑ دیئے۔ ابھی پیتل کے دانت لگا کر پھرے گا ساری زندگی۔‘‘

ایک خواب کے سے عالم میں لطیف کانجی نے وہ پورا منظر دیکھا جو کئی ہفتوں پر محیط تھا۔ ماں قیمتی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔ گھر کا فالتو سامان اونے پونے داموں بیچ رہی تھی۔ سیٹھ حنیف کانجی وہ قرضے وصول کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے جو اچھے وقتوں میں انہوں نے لوگوں کو دیئے تھے۔ اس ایک لاکھ روپے کو حفاظت سے ٹرانسفر کرنے کا بندوبست کر رہے تھے جو اب ان کا کُل اثاثہ تھے۔ اس نے سڑکوں کی ویرانی دیکھی اور بازاروں کی بے رونقی دیکھی۔

حملے شروع ہو گئے تھے۔ انسان ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔ چھرے گھونپ کر زخمی کر رہے تھے۔ زندہ جلا رہے تھے۔ بار بار لطیف کانجی کے تصور میں اس جوتشی کا چہرہ آ جاتا تھا۔ تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد۔ اس نے کہا تھا۔ ٹھیک تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد زندگی نے ایک نیا رخ بدل لیا تھا۔ انسان، انسان نہ رہے تھے۔ ہندو اور مسلمان بن گئے تھے۔ سکھ اور عیسائی بن گئے تھے۔ وہ دن بھر گھر میں قید رہتا تھا۔ باہر ہنگامہ تھا۔ موت تھی۔ اپنے گھر کی پہلی منزل کی ایک کھڑکی سے ہی اس نے صفدر اور اس کے گھر والوں کو ایک ٹرک میں سامان چڑھاتے دیکھا۔

روانہ ہونے سے پہلے صفدر اس سے ملنے آیا۔

’’ رات کو ایک ٹرین روانہ ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے بتایا۔ ’’اسی سے روانہ ہوں گے۔ پہلے دلّی جائیں گے۔ پھر وہاں سے لاہور۔ یار،یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

وہ صفدر کو کیا بتاتا کہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ تو یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟ صفدر اس سے گلے مل کر، گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر اور پاکستان میں کبھی نہ کبھی ملنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد لطیف کانجی نے ایک بار پھر اس تنہائی کو شدت سے محسوس کیا جو گھر کی چار دیواری میں قید رہنے سے تھی۔

ایک شام جب وہ تنہا کیرم بورڈ کھیل رہا تھا، اس نے اپنے والد کو ماں سے باتیں کرتے سنا۔ وہ بہت دھیمی آواز میں بول رہے تھے۔ پہلی مرتبہ لطیف کانجی نے اپنے باپ کے لہجے میں محبت کی نرمی محسوس کی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ ’’تو بالکل پریشان نہ ہو۔ میں نے بندوبست کر لیا ہے۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے۔ بمبئی سے چھوٹا ہے، پھر بھی بہت بڑا ہے۔ میں وہاں نیا بزنس جماؤں گا۔ بالکل اپنا بزنس۔ کوئی لفڑا نہیں، کوئی پارٹنر نہیں۔ چار جولائی کو روانگی ہے۔ ٹرین سے جانا مشکل ہے، اپن پلین سے چلیں گے۔ کوئی سامان نہیں جائے گا۔ بس، تو زیور لے لے۔ سارا پیسہ کراچی پہنچ چکا ہے۔‘‘

لطیف کانجی نے کیرم بورڈ پر رکھی سرخ کوئن کو پاکٹ کیا اور سوچا۔ چار جولائی۔ چار جولائی سن سینتالیس۔ چار سات، چار سات! لیکن جب چار جولائی آئی تو روانہ ہونے اور جہاز میں سفر کرنے کی خوشی میں وہ اعداد کی اس عجیب و غریب ترتیب کو بھول گیا۔ جہاز کی کھڑکی سے پہلے زمین نظر آتی رہی۔ پھر سمندر آ گیا۔ لطیف کانجی کو اپنا دوست صفدر یاد آیا۔ نہ جانے وہ کس حال میں ہو گا۔ کسی کھڑکھڑاتی ٹرین میں اپنے گھر والوں کے ساتھ۔ یا کسی ویرانے میں کھلی، بے نور آنکھوں کے ساتھ۔ پھر اسے جوتشی جیون رام کا خیال آیا۔ جہاز کی آواز بہت تھی۔ لگتا تھا کسی کارخانے کی بہت بڑی مشین پوری قوت سے چل رہی ہو۔ اس کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات آتے رہے اور وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

اس کی آنکھ کھلی تو طیارہ کراچی پہنچ چکا تھا۔ مسافر سامان سمیٹ رہے تھے اور باہر نکلنے کے لئے تیار تھے۔ سیٹھ حنیف کانجی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اعتماد سے بھرپور مسکراہٹ۔ لطیف کانجی نے یہی مسکراہٹ اپنی ماں کے چہرے پر بھی دیکھی۔ بے اختیار، بے سبب وہ خود بھیمسکرایا۔

…٭٭…






کراچی میں لطیف کانجی نے زندگی کو اسی ڈھرے پر چلتا محسوس کیا۔ کچھ بھی نہ بدلا تھا۔ سیٹھ حنیف کانجی کا بزنس چل پڑا تھا۔ دن رات کی محنت کے ساتھ اس کا سرمایہ، کامیابی کے حصول کے لئے کافی تھا۔ کراچی نیا شہر تھا لیکن اجنبی نہیں لگتا تھا۔ اس کی ہوا میں ساحلوں کی وہی نمی تھی جو بمبئی میں تھی۔ لوگوں کا انداز وہی تھا۔ لہجے وہی تھے۔ لیکن لطیف کانجی کے لئے ان دو شہروں میں ایک اور بات بھی مشترک تھی۔ یہ بات اسے اپنی چودہویں سالگرہ پر معلوم ہوئی جب مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد اس کے والدین نے تحفے میں وصول ہونے والے چودہ سفید لفافوں کو کھولا۔ سب میں سو سو روپے کے نوٹ تھے!

’’فورٹین ہنڈریڈ۔‘‘ اس کی ماں نے حیرت سے کہا۔

سیٹھ حنیف کانجی مسکرارہے تھے۔ ’’بمبئی سے آنے کا ایک فائدہ تو ہوا ہے۔ ابھی یہاں ایک جیسی سائیکلیں اور ایک جیسے کپڑے تو نہیں ملتے!‘‘

’’فائدہ تو دیکھ لیا۔‘‘ ماں نے کہا۔ ’’یہ بھی سوچا کہ ہمیں بھی ہر برتھ ڈے پر پورے سو روپے دینے پڑیں گے۔‘‘

’’ایک تو میں تجھ سے بڑا تنگ ہوں۔‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے غصے سے کہا۔ ’’پرافٹ نہیں دیکھتی۔ ہمیشہ گھاٹے کا سوچتی ہے۔ ارے بابا، جب دینا ہو گا، دیکھا جائے گا۔ ابھی تو یہ دیکھ کہ تیرے بیٹے کو چودہ سو روپے ملے ہیں۔‘‘

وہ بحث کرتے رہے اور لطیف کانجی قدرت کے اس عجیب اتفاق کے بارے میں سوچتا رہا جو اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ صفدر ہوتا تو بہت لطف اندوز ہوتا۔ اسے نئی کتابیں دیتا۔ نئے واقعات سناتا۔ لیکن صفدر نہ جانے کہاں تھا۔ پاکستان پہنچا تھا یا راستے میں ہی مارا گیا تھا۔ اسی شہر میں تھا یا کسی دوسرے میں۔

دن گزرتے گئے، سال گزرتے گئے، لیکن اعداد لطیف کانجی کے ساتھ ساتھ رہے۔

وہ کالج میں چلا گیا۔

انٹر پاس کرنے کے بعد اس نے بی کام میں داخلہ لے لیا۔

اس کے دوستوں کا خیال تھا کہ تعلیم اس کے لئے بے معنی ہے۔ اسے لاکھوں میں کھیلنا ہے اور ایک کے دو، دو کے دس بنانے میں زندگی گزارنی ہے۔ لیکن خود لطیف کانجی جانتا تھا کہ یہ بے مقصد بات ہے۔ مارکیٹ پھیلتی جا رہی تھی۔ علم کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر جگہ حساب کتاب کی، آڈٹ کی، چیکنگ کی حکمرانی تھی۔ اتنے بڑے بزنس کو سنبھالنے کے لئے وہ علم کے ہتھیار سے لیس ہونا چاہتا تھا۔ کسی پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی مہارت پر اعتماد کرنا چاہتا تھا۔ بمبئی میں اس کے والد سیٹھ حنیف کانجی نے ہندو ڈائریکٹرز پر بھروسہ کیا تھا اور مات کھائی تھی۔ قسمت ساتھ نہ دیتی اور وہ ایک لاکھ روپیہ الگ محفوظ نہ ہوتا تو شاید آج وہ بھی کسی ریفیوجی کیمپ میں ہوتا، کسی شہر میں دھکّے کھا رہا ہوتا یا کلرکی کر رہا ہوتا۔ سیٹھ حنیف کانجی بھی شاید یہی چاہتے تھے۔ اسی لئے وہ خود دن رات اپنے کاروبار میں غرق رہتے تھے لیکن اپنے بیٹے کو انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کی، جو تقسیم پاک و ہند سے پہلے کے بمبئی میں تاجر پیشہ خاندانوں میں انتہائی فضول کام سمجھا جاتا تھا، اجازت دے رکھی تھی۔

لطیف کانجی بی کام کے دوسرے سال میں تھا جب وہ تاریخ آئی۔ تین اپریل، انیس سو چھپن۔ وہ اپنے والد کا ایک چیک کیش کرانے بینک گیا تو اچانک اس کی نظر چیک پر لکھی تاریخ پر پڑی۔ تین اپریل سن چھپن۔ تین چار پانچ چھ!!

ایک لمحے کو اس دل دھڑکنا بھول گیا۔

کیا ہونے والا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ بینک میں ہر جانب ہنگامہ تھا۔ لوگ پھٹے پرانے نوٹوں پر جھگڑ رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے۔ بینک کے عملے سے بحث کر رہے تھے اور اس سارے ہنگامے میں وہ پھٹی ہوئی آنکھوں سے چیک کو دیکھ رہا تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے بینک کے ایک کلرک نے کہا۔ ’’کیا سوچ رہے ہیں قبلہ۔ چیک دیجئے یا دوکان بڑھایئے۔‘‘ وہ اپنی بات پر خود ہی قہقہہ مار کر ہنسا۔ لطیف کانجی نے چیک دے کر ٹوکن لے لیا لیکن اس کی بے چینی برقرار رہی۔

چیک پانچ ہزار روپے کا تھا۔ وہ یہ رقم لے کر سیدھا اپنے والد کے دفتر پہنچا۔ کالج کی چھٹی تھی، اس لئے سیٹھ حنیف کانجی نے رقم لانے کی ذمہ داری اسے سونپ دی تھی۔

دفتر میں گھستے ہی اسے بے ترتیبی کا احساس ہوا۔ عملہ اپنی نشستوں پر نہیں تھا۔ اس کے والد کے کمرے کا دروازہ جو ہمیشہ بند رہتا تھا، آج کھلا ہوا تھا اور اندر ہجوم نظر آ رہا تھا۔

وہ اندر بھاگا۔ سیٹھ حنیف کانجی کی اینگلو انڈین سیکریٹری نے اسے دیکھا اور چیخیں مار مار کر رونے لگی۔

قالین پر سیٹھ حنیف کانجی پڑے تھے!

لطیف کانجی کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔ وہ لڑکھڑا کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ ایک ڈاکٹر اس کے والد پر جھکا ہوا تھا۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر اٹھ کھڑا ہو گیا۔ ’’نو چانس۔‘‘ اس نے اردگرد جمع لوگوں سے کہا۔ ’’ہاسپٹل لے جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہت سخت ہارٹ اٹیک تھا۔‘‘

’’نہیں۔‘‘ اس نے چیخ کر کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’ہاسپٹل لے چلو۔ ابھی۔ فوراً۔‘‘

اینگلو انڈین سیکریٹری چیخیں مار مار کر روتی رہی۔ وہ کار لے کر طوفانی رفتار سے ہسپتال کی جانب روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے کمپنی کے جنرل منیجر نے ایک دو دفعہ اسے ٹوکا اور پھر خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ پچھلی نشست پر سیٹھ لطیف کانجی اور ڈاکٹر تھے۔

ایمرجنسی کے لاؤنج میں وہ آدھے گھنٹے تک مسلسل ٹہلتا رہا۔ اس کے کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی۔ کمپنی کا جنرل منیجر تسلی آمیز لہجے میں اس سے جو کچھ کہتا رہا، اس کا ایک لفظ بھی لطیف کانجی کی سمجھ میں نہیں آیا۔

بالآخر دروازہ کھلا اور دو ڈاکٹر سفید اوور کوٹ پہنے نمودار ہوئے۔

’’ہمیں افسوس ہے۔‘‘ ایک ڈاکٹر نے اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔ ’’کولسٹرول لیول پہلے ہی بہت زیادہ تھا اور میرا خیال ہے کہ ان کا کام بھی بہت تھا۔ اس عمر میں …‘‘

’’کس عمر میں؟‘‘ لطیف کانجی نے چہرے پر بہنے والے آنسوؤں کو صاف کر کے تلخی سے کہا۔ ’’ان کی عمر صرف پچاس سال تھی۔‘‘

ڈاکٹر بہت متحمل مزاج اور شفیق تھا۔ لطیف کانجی نے چیخ چیخ کر جو کہا، اس کا اُس نے قطعی برا نہیں مانا۔ نرم لہجے میں اس نے صرف اتنا کہا۔ ’’یہ لاؤنج ذرا علیحدہ ہے۔ لیکن اگر آپ گیلری میں یا کمروں کے سامنے اس طرح چلّائیں گے تو مریضوں پر برا اثر پڑے گا۔ مجھے آپ کے صدمے کا اندازہ ہے۔ جب میرے والد کا انتقال ہوا تھا تو میری بھی یہی حالت تھی۔‘‘

لطیف کانجی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ پھر اس نے ڈاکٹرز کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا۔ اس کے بعد سارا کام کمپنی کے لوگوں نے کیا۔ گھر پر لطیف کانجی نے اپنی ماں کو پاگلوں کی طرح چیختے، بین کرتے دیکھا۔ اس کے لہولہان ہاتھوں کو دیکھا اور دہلیز پر بکھری چوڑیوں کی کرچیوں کو دیکھا۔ وہ گھر اس دن گھر نہیں تھا، ایک آسیب زدہ کھنڈر تھا جہاں چیخوں کی بازگشت تھی اور ویرانی تھی۔ وہ اپنی ماں کو تسلی دینا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس وہ لفظ نہ تھے جو اس کا مدعا بیان کر سکیں۔ وہ حوصلہ نہ تھا جو ماں کی دیوانگی کے مقابل ٹھہر سکے۔ وہ جذبہ نہ تھا جو ایک گہرے زخم کی مسیحائی کر سکے۔ گھر میں ہونے والی تکرار کے باوجود وہ جانتا تھا کہ اس کے ماں باپ ایک دوسرے کو دیوانگی کی حد تک چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت وہ بے بس تھا۔ ایک عمر کی رفاقت ختم ہونے کے اس دکھ کو وہ ہی نہیں، کوئی بھی نہیں بانٹ سکتا تھا۔

ایک ہفتے بعد اس نے اپنی ماں سے کہا۔ ’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑے گی۔ کاروبار کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا۔‘‘

اس کا خیال تھا کہ ماں اس کی مخالفت کرے گی۔ پڑھائی جاری رکھنے پر اصرار کرے گی اور اس دوران کاروبار کی نگرانی کمپنی کے جنرل مینجر کو سونپنے کی تجویز پیش کرے گی۔ لیکن ماں نے کہا۔ ’’تو ٹھیک کہتا ہے۔ امتحان پرائیویٹ بھی دیا جا سکتا ہے۔ تیرے باپ کی بڑی خواہش تھی کہ تو امتحان پاس کر لے۔ لیکن میں نہیں چاہتی کہ کاروبار کسی اور کے ہاتھ میں جائے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’میں پرائیویٹ امتحان دے دوں گا۔ کل سے میں دفتر جاؤں گا۔‘‘

اگلے روز وہ اپنے والد کی سیٹ پر بیٹھا تو ایک لمحے کو اسے جھرجھری سی آئی۔ اسی سیٹ پر بیٹھ کر سیٹھ حنیف کانجی نے کامیابی کے ستاروں پر کمند ڈالی تھی۔ یہیں سے انہوں نے اپنی بیوی کے لئے اور اپنے بیٹے کے لئے دنیا زمانے کی آسائشوں کا بندوبست کیا تھا۔ اسی مقام سے انہوں نے زندگی کے نئے چیلنج کو قبول کیا تھا اور ایک بار پھر عروج کی جانب گامزن ہوئے تھے۔ ایک لاکھ روپیہ اب پھیل کر نہ جانے کتنا ہو چکا تھا؟ لطیف کانجی نے ایک ماہ تک اس دیار کے کوچہ و بازار کی سیر کی، دن رات محنت کی اور ہر گُر سے واقفیت حاصل کی تو اس پر انکشاف ہوا کہ آٹھ سال کے عرصے میں وہ ایک لاکھ روپے تیس لاکھ بن چکے ہیں۔ یہ وہ تیس لاکھ تھے جو کمپنی کے پاس تھے، سرمایہ کاری کے لئے موجود تھے۔ اور وہ بارہ لاکھ الگ تھے جو منصوبوں میں لگے ہوئے تھے۔ بڑھتے جا رہے تھے، پھیلتے جا رہے تھے۔ ہر ماہ ہزاروں کا منافع بینکوں میں پھینکتے جا رہے تھے۔

وہ شب و روز کام کرتا رہا۔ سیٹھ لطیف کانجی۔ تاجروں کی صف میں شامل ہونے والا نوجوان۔ لوگ اس کا نام احترام سے لینے لگے تھے۔ اس کی ذہانت کی تعریف کرنے لگے تھے۔ اس دیوانہ وار محنت میں اسے احساس بھی نہ ہوا کہ کب ایک سال بیت گیا۔ محویت کا یہ عالم اس روز ختم ہوا جب ایک صبح اس نے بعض حسابات بے باق کرنے کے لئے چند تیار شدہ چیکوں پر دستخط کئے۔ دستخط کرانے کے لئے آنے والے نوجوان اسسٹنٹ منیجر نے حیرت سے اپنے باس کو دیکھا جو دستخط کرتے کرتے اچانک رک گیا تھا۔

’’آج پانچ تاریخ ہے سر۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’پانچ جولائی۔‘‘

لطیف کانجی نے اپنی آواز کو حتی الامکان نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’پانچ جولائی سن ستاون؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ اسسٹنٹ منیجر نے بھی حیرت ظاہر نہ کی۔

لطیف کانجی نے دستخطوں کے نیچے تاریخ درج کی اور اسے غور سے دیکھا۔ پانچواں دن۔ ساتواں مہینہ۔ سن ستاون۔ پانچ سات پانچ سات!!

اسسٹنٹ منیجر چیک لے کر چلا گیا، تب بھی وہ اسی طرح ساکت بیٹھا رہا۔ پانچ سات، پانچ سات۔

اعداد اس کے تصور میں گھوم رہے تھے۔ کچھ ہونے والا تھا۔ لیکن کیا ہونے والا تھا، یہ کسی کو پتہ نہ تھا۔ لطیف کانجی نے سر جھٹک کر اس خیال کو دل سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ خیال کسی شریر بچے کی طرح کسی کونے میں جا چھپا تھا۔ اس کا چہرہ نظر آتا تھا اور پھر غائب ہو جاتا تھا۔ تاریکی میں پل بھر کو روشنی ابھرتی تھی اور پھر گھپ اندھیرا چھا جاتا تھا۔ کیا ہونے والا ہے؟ اس نے سوچا۔ کوئی اچھی خبر آنے والی ہے یا صدمہ پہنچنے والا ہے؟ خوشی آنے والی ہے یا قیامت؟

قیامت نے ٹھیک ایک بج کر ایک منٹ پر اس کے کمرے میں قدم رکھا!

سیاہ چادر میں اس کا چہرہ چاند کی طرح روشن تھا، اسی طرح جیسے گھنی پلکوں کے پیچھے چمکتی سیاہ آنکھوں کے چراغ روشن تھے۔ لطیف کانجی مبہوت بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ اس کی محویت کا طلسم اس وقت ٹوٹا جب لڑکی نے کہا۔ ’’اگر آپ مجھے دیکھ چکے ہوں تو میں بیٹھ جاؤں!‘‘

بوکھلاہٹ اور شرمندگی سے دوچار لطیف کانجی نے کہا۔ ’’بیٹھئے …بیٹھئے … تشریف رکھئے …‘‘

اس نے لڑکی کو متانت کے ساتھ زیر لب مسکراتے اور اپنے روبرو بیٹھتے دیکھا۔

’’میرا نام زبیدہ ہے۔ زبیدہ مہر علی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں نے بی اے کیا ہے۔ میں اکاؤنٹس اور ٹائپنگ جانتی ہوں۔ شارٹ ہینڈ بھی تھوڑی بہت آتی ہے۔ مجھے آپ کے ایک جاننے والے نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ لیکن میں ان کا نام نہیں بتاؤں گی کیونکہ میں چاہتی ہوں، آپ اگر مجھے ملازمت دیں تو میری صلاحیت کی بنیاد پر۔ کسی کے حوالے یا سفارش سے نہیں۔ ویسے میں نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ آپ کے دفتر میں میرے لئے کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟‘‘

گنجائش دفتر میں نہیں تھی، لطیف کانجی کے دل میں تھی۔ سرسری نوعیت کے سوالات کرنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’دیکھئے مس زبیدہ۔ اس شہر میں اب تک لڑکیوں کی ملازمت کا سلسلہ عام نہیں ہوا ہے۔ عام طور پر عیسائی لڑکیاں ہی مختلف دفتروں میں کام کر رہی ہیں اور ان کے لئے ماحول کے مقابلے میں خود کو ایڈجسٹ کرنا ذرا آسان کام ہوتا ہے۔ آپ میری بات کا مطلب سمجھ رہی ہیں نا؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ زبیدہ مسکرائی۔ ’’آپ یہی کہنا چاہتے ہیں نا کہ مجھے مردوں کے دفتر میں کام کرنا ہو گا۔ میں پہلے بھی ایسے ہی دفتر میں کام کر چکی ہوں۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ لطیف کانجی نے اس کی آنکھوں میں براہ راست دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے کہا۔ ’’ کل سے آ جایئے۔ آج پانچ تاریخ ہے۔ اس مہینے کے ختم ہونے میں ابھی چھبیس دن باقی ہیں۔ یہ مہینہ ایک اعتبار سے آپ کی آزمائش کا اور تربیت کا مہینہ ہو گا۔ آپ کامیاب رہیں تو اگلے ماہ کی پہلی تاریخ سے آپ کو کنفرم کر دیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو ہماری کمپنی کی تنخواہ بھی معقول لگے گی اور دیگر سہولتیں بھی۔‘‘

زبیدہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے تشکر کی ایک نگاہ لطیف کانجی پر ڈالی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ جب شام گزر گئی اور رات ڈھلنے لگی تو لطیف کانجی نے جانا کہ اعداد کی کرشمہ سازی نے رونما ہونے والے جس حیرت انگیز واقعہ کی طرف اشارہ کیا تھا، وہ زبیدہ تھی! کوئی خودکار مشین سفید کاغذوں پر اعداد اور حروف چھاپتی جا رہی تھی۔ پانچ سات پانچ سات۔ زبیدہ مہر علی۔ پانچ سات پانچ سات۔ زبیدہ مہر علی۔ وہ رات نہیں تھی، ہزار جہتوں کا کوئی آئینہ تھا جس میں زبیدہ کا چہرہ ہزار زاویوں سے نظر آ رہا تھا۔

اگلی صبح لطیف کانجی کی آنکھ کھلی تو کھلی کھڑکی سے دھوپ اندر آ رہی تھی۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ساڑھے نو بج گئے تھے۔ ناشتہ کرنے اور تیار ہونے کے بعد دفتر پہنچنے میں پورا ایک گھنٹہ لگتا تھا۔ اسے اپنے اوپر سخت تاؤ آیا۔ کئی مہینوں سے وہ ہمیشہ بروقت دفتر پہنچتا تھا۔ عملے کو وقت کی پابندی کے اصول پر کاربند رکھنے کا اس سے اچھا کوئی طریقہ نہ تھا۔ جو دیر سے آتے تھے، وہ مالک کو اپنے کام میں منہمک دیکھ کر سخت پریشان ہوتے تھے اور ندامت کے سبب آئندہ بروقت آنے کا فیصلہ کرتے تھے۔ لیکن آج دیر ہو گئی تھی۔ آج ہی سے زبیدہ کو آنا تھا۔ وہ کیا سوچے گی؟ لطیف کانجی کو اپنے خیالات پر خود ہنسی آئی۔ کیا سوچے گی زبیدہ؟ اور اس کے سوچنے سے کیا فرق پڑے گا؟

پندرہ منٹ بعد وہ نہا دھو کر تیار ہو کر باہر نکلا تو ماں ناشتے کی میز پر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ملازم نے اسی وقت گرم چائے لا کر رکھی اور وہ ناشتے میں مصروف ہو گیا۔ ناشتے کے دوران اسے دوبارہ احساس ہوا کہ وہ ماں کی باتیں توجہ سے نہیں سن رہا ہے۔ ناشتہ ختم کرتے ہی وہ بریف کیس اٹھا کر تیزی سے روانہ ہوا۔ ابھی وہ دروازے پر بھی نہ پہنچا تھا کہ پیچھے سے ماں کی آواز آئی۔ وہ گڑ بڑا کر مڑا۔

’’کیا بات ہے بیٹا؟‘‘ ماں نے حیرت سے پوچھا۔

’’سوری ماں۔‘‘ وہ واپس آیا اور ماں کے پاس جھکا۔ ماں نے اس کا ما تھا چوما اور ہر روز کی طرح اسے دعا دی۔

’’کیا کام بہت ہے؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

’’ہاں ماں۔‘‘ لطیف کانجی نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ’’پھر آج دیر بھی ہو گئی ہے۔‘‘ وہ ہاتھ ہلاتا باہر نکل آیا۔

دفتر میں زبیدہ موجود تھی۔ جنرل منیجر نے اس کی میز لطیف کانجی کے کمرے کے دروازے کے پاس رکھوائی تھی۔ ایک سرسری نظر میں لطیف کانجی نے سب کچھ دیکھ لیا۔ اس کی سیاہ چادر سلیقے سے کرسی کی پشت پر لٹکی ہوئی تھی اور اس نے گلابی دوپٹے سے سر کو ڈھانپ رکھا تھا۔ لطیف کانجی سب کے سلام کا جواب دیتا کمرے میں چلا گیا۔

اس روز وہ دوپہر تک سخت مصروف رہا۔ اتنا مصروف کہ اسے زبیدہ کا خیال بھی نہیں آیا۔ پہلے سیٹھ دیوان مل کے منیجر سے وہ ٹیلیفون پر بات چیت کرتا رہا۔ پھر سیٹھ دیوان مل خود اس کے دفتر آ گئے۔ وہ شہر کے صف اول کے صنعت کار تھے۔ صنعتکاروں کی فیڈریشن کے سربراہ تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کروڑ پتی ہیں یا ارب پتی۔ لطیف کانجی نے کمرے سے باہر آ کر ان کا استقبال کیا اور ان کا ہاتھ تھام کر انہیں اندر لے گیا۔

اس وقت تک اسے اندازہ نہیں تھا کہ سیٹھ دیوان مل اس سے کیا کام لینے والے ہیں۔ لیکن جب سیٹھ دیوان مل نے اسے اپنے منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا تو اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ لطیف کانجی ان کے کئی صنعتی منصوبوں کے لئے ملک کے مختلف شہروں میں کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کا ٹھیکہ سنبھال لے۔ یہ عمارتیں مختلف اقسام کی تھیں۔ ان میں کارخانے بھی تھے، گودام بھی اور مخصوص اقسام کی فیکٹریاں بھی۔ لیکن ان کے ساتھ کئی ذیلی منصوبے بھی تھے۔ جگہ جگہ کارکنوں کے لئے چھوٹے مکانات بھی تعمیر کرنے تھے۔ بجلی اور پانی کی فراہمی کے ٹھیکے بھی تھے۔ سیوریج کا نظام بھی تھا۔ دفاتر بھی تعمیر ہونے تھے اور مصنوعات کی سپلائی کے مراکز بھی۔

’’سارا حساب لگا لیا ہے میں نے۔‘‘ سیٹھ دیوان مل نے اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی ڈیڑھ دو کروڑ کا پراجیکٹ ہے۔ لیکن میرے کو سارا کام اگلی جنوری کے اینڈ تک چاہئے۔ ایک دم کمپلیٹ۔‘‘

لطیف کانجی کو یوں لگا جیسے اس کا دل دھڑکنا بھول گیا ہو۔ ڈیڑھ دو کروڑ! اس نے ہی نہیں، اس کے والد نے بھی کبھی اتنے بڑے منصوبے میں ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔ کمپنی اس قابل ہی نہ تھی۔

’’آئی ایم سوری سیٹھ صاحب۔‘‘ اس نے ماتھے پر نمودار ہونے والے پسینے کو رو مال سے صاف کیا۔ ’’شاید میں اتنے بڑے منصوبے کو سنبھالنے کا… میرا مطلب ہے … اتنی بڑی رقم کے لئے …‘‘

سیٹھ دیوان مل نے غصے سے پہلو بدلا تو کرسی چرچرائی۔ ’’تیرے کو پتہ ہے لطیف کانجی۔‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’تو ایک عقلمند باپ کا اسٹوپڈ بیٹا ہے۔ اسٹوپڈ اور گدھا۔ ایسے کرتا ہے تو بزنس ڈیل؟ تیرا باپ ہوتا تو تجھے جوتے مار کر کمرے سے نکال دیتا۔ جانتا ہے، میں نے اور حنیف کانجی نے بمبئی میں گھی کی سپلائی کا بزنس مل کر شروع کیا تھا۔ ارے بابا، کس نے تیرے کو بولا ہے کہ اپنا پیسہ لگا اور میرا پراجیکٹ پورا کر۔ بس کام شروع کرا دے تھوڑے پیسے سے۔ کتنا پیسہ لگاسکتا ہے تو؟‘‘

’’بیس… بیس پچیس لاکھ۔‘‘ لطیف کانجی نے بمشکل کہا۔

’’کافی ہے۔‘‘ سیٹھ دیوان مل نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’کام شروع کرا دے۔ کام کراتا جا اور پچھلی پیمنٹ لیتا جا۔ ایک مہینے میں پیسہ رولنگ میں آ جائے گا۔ لیکن میں نے بولا نا، میرے کو جنوری کے اینڈ پر سارا کام چاہئے۔ تو باقی سارا کام روک دے۔ لپیٹ کے رکھ دے۔ دو کروڑ کے پراجیکٹ میں تیرے کو اتنا پرافٹ ضرور ہو جائے گا کہ اگلے سال تو اور بہت سے کام شروع کر سکے۔ اور میرا مشورہ یہ ہے کہ تو اب کنسٹرکشن کی لائن پکڑ لے۔ کراچی میں اب یہی بزنس چلے گا۔‘‘

اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور زبیدہ اندر داخل ہوئی۔ لطیف کانجی نے حیرت سے اس ٹرے کو دیکھا جو زبیدہ کے ہاتھ میں تھی۔ اس میں دو ٹھنڈی بوتلیں تھیں اور نمکین بسکٹ تھے۔ ایک لمحے کو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ یہ زبیدہ کا کام نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ خود کاروباری گفتگو میں الجھ کر سیٹھ دیوان مل کی خاطر تواضع کے فریضے سے غافل ہو گیا تھا۔ اس کے دل میں خوشی کی ایک لہر اٹھی۔

زبیدہ چلی گئی تو سیٹھ دیوان مل نے کہا۔ ’’یہ تو نے ان چیزوں کا آرڈر کب دیا تھا؟ میں تو دیکھ بھی نہیں سکا۔ اور تیرے کو کیسے پتہ چلا کہ میں چائے نہیں پیتا ہوں؟ خیر، چھوڑ۔ اب میں تیرے کو یہ بتا دوں کہ میں یہ پراجیکٹ تیرے سر کیوں ڈالنا چاہتا ہوں۔ ایک وجہ تو تیرا باپ ہے۔ میرے کو وہ آدمی پسند تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تو جوان آدمی ہے۔ کام صرف جوان آدمی کرتا ہے۔ باقی لوگ صرف ٹائم پاس کرتے ہیں۔ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ تیری شہرت اچھی ہے۔ میرے کو گھپلے والا آدمی نہیں چاہئے۔ اچھا کام کر، اچھا پرافٹ لے۔ بمبئی میں میری اور تیرے باپ کی پارٹنر شپ دو سال رہی لیکن ہم نے اس کے بعد بھی کبھی ایک دوسرے سے گھپلا نہیں کیا۔ ایک بار میرا پچاس ہزار روپیہ اس کے پاس چلا گیا۔ میرے کو پتہ بھی نہیں چلا۔ اور دو دن بعد ہی میرا کاروبار بیٹھ گیا۔ ایک جہاز سارے مال کے ساتھ سمندر میں غرق ہو گیا اور میرے کو بھی غرق کر گیا۔ ایک دم خلاص۔ حنیف کانجی میرا پچاس ہزار ایمانداری سے واپس نہ کرتا تو میں وہیں ختم ہو جاتا۔ اس ٹائم پچاس ہزار بڑا پیسہ ہوتا تھا۔ پھر پاکستان آنے سے پہلے حنیف کانجی نے میرے کو ایک لاکھ روپیہ دیا اور پوری اسٹوری سنائی۔ اس کے ہندو ڈائریکٹروں نے اس کو کنگال کر دیا تھا۔ اس نے میرے کو بولا، دیوان مل، یہ ایک لاکھ لے لے۔ میرے کو اب یہ کراچی میں چاہئے۔ اس نے بولا، میرے کو نہ بینک پر اعتبار ہے نہ کسی دوسرے سیٹھ پر۔ یہ روپیہ ٹرانسفر کرنا تیری ذمہ داری ہے۔ بھگوان کا بڑا کرم ہوا۔ میں نے کراچی میں اس کو روپیہ دے دیا۔ تیرے ساتھ ڈیل کرنے کی وجہ یہ ہے لطیف کانجی، کہ تو بھی مجھے حنیف کی طرح لگتا ہے۔‘‘

سیٹھ دیوان مل چلے گئے تب بھی لطیف کانجی اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ساکت بیٹھا رہا۔ یہ سارا منظر، گزشتہ چوبیس گھنٹے کے سارے واقعات اسے خواب لگ رہے تھے۔ پانچ جولائی سن ستاون۔ پانچ سات پانچ سات۔ اس کے بعد زبیدہ آ گئی تھی۔ اور زبیدہ کے ساتھ خوش قسمتی آ گئی تھی! کیسی حیرت انگیز باتیں علم میں آ رہی تھیں۔ سیٹھ دیوان مل اور سیٹھ حنیف کانجی نے اپنی اپنی ایمانداری کے ذریعے ایک دوسرے کے کاروبار کی بنیاد رکھی تھی۔ ایک نے پچاس ہزار روپیہ واپس کر دیا تھا۔ دوسرے نے ایک لاکھ روپیہ منزل مقصود تک پہنچا دیا تھا۔ پھر اسے زبیدہ کا خیال آیا۔

اس کے طلب کرنے پر جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس کے ہاتھ میں پینسل اور شارٹ ہینڈ بک تھی۔

’’بیٹھئے۔‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’میں نے آپ کو ڈکٹیشن دینے کے لئے نہیں بلایا۔ یہ پوچھنے کے لئے بلایا ہے کہ آپ نے بوتلیں خود لانے کی زحمت کیوں کی تھی؟ اور چائے کیوں نہیں بھیجی تھی؟‘‘

زبیدہ نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’در اصل چپراسی کو میں نے کسی کام سے بازار بھیجا تھا۔ اکاؤنٹس کے نئے رجسٹر لینے کے لئے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ گھنٹہ بھر تک نہیں آئے گا اس لئے میں خود آ گئی۔ چائے میں نے اس لئے نہیں بھیجی کیونکہ سیٹھ دیوان مل چائے نہیں پیتے!‘‘

لطیف کانجی ہکّا بکّا اسے دیکھتا رہا۔ ’’آپ کو کیسے پتہ؟‘‘

’’میں پہلے جس فرم میں کام کرتی تھی وہاں سیٹھ دیوان مل مہینے میں ایک دفعہ ضرور آتے تھے۔ میں چائے کے سلسلے میں ان کی ناپسندیدگی سے خوب واقف ہوں۔ میں معذرت خواہ ہوں۔ آئندہ آپ کو…‘‘

’’نہیں۔ نہیں‘‘ لطیف کانجی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’میں تو آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ کاروبار میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں بعض اوقات بہت بڑا فائدہ دے جاتی ہیں۔ ہاں۔ یہ نئے رجسٹر کیوں منگوائے ہیں آپ نے؟‘‘

’’آپ کے اکاؤنٹس کو ترتیب میں رکھنے کے لئے۔‘‘ زبیدہ نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کر کے کہا۔ ’’در اصل مختلف کاروباروں کے حسابات ایک ہی ہیڈ کے تحت موجود ہیں۔ میرا خیال ہے کہ امپورٹس اور ایکسپورٹ کے حسابات اور منافع یا خسارے کے کھاتے الگ ہونے چاہئیں۔ اسی طرح کنسٹرکشن اور کلیئرنگ فارورڈنگ کے شعبے کے اکاؤنٹس بھی علیحدہ ہونے چاہئیں۔ ورنہ آپ کیسے جان سکیں گے کہ کہاں آپ کو منافع ہوا ہے اور کہاں معاملہ بریک ایون کا ہے یا خسارے کا ہے؟‘‘

اگلے ایک ہفتے کے دوران زبیدہ نے اسی طرح لطیف کانجی کو بار بار حیران کیا۔ اپنے حسن سے کم، اپنی عقل کے ذریعے زیادہ۔ دفتر کا پورا عملہ اس کی باوقار شخصیت سے اور اس کی متانت سے متاثر تھا، مرعوب تھا۔ ایک ہفتے بعد لطیف کانجی نے اسے کنفرم کر دیا۔

سیٹھ دیوان مل کے منصوبے کے لئے اس نے ٹینڈر طلب کر لئے تھے۔ اس نے اپنے جنرل منیجر اور زبیدہ کے ساتھ مل کر ٹینڈر منظور کئے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ بہت بڑے کام میں ہاتھ ڈال رہا ہے۔ اگلے چھ ماہ تک اسے پاگلوں کی طرح دن رات کام کرنا ہے۔ شہر شہر کام کی نگرانی کرنی ہے۔ لیکن اسے معلوم تھا کہ اس دوران دوسرے کاروبار کی نگرانی کے لئے جنرل منیجر موجود ہے۔ اور زبیدہ موجود ہے جس کی نگاہ کبھی نہیں چوک سکتی۔

یہ دیوانہ وار محنت کے مہینے تھے۔ ایسی محنت اس نے زندگی میں کبھی نہیں کی تھی۔ لاہور، لائل پور، گجرات، گوجرانوالہ، کراچی۔ ہر جگہ کام بیک وقت شروع ہوا اور تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کرنے لگا۔ لطیف کانجی ہر جگہ موجود تھا۔ ہوائی جہاز کے ذریعے، کار کے ذریعے وہ ہر سائٹ پر پہنچتا تھا۔ سیٹھ دیوان مل نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ ابتدائی ایک ماہ میں اس نے اپنے پچیس لاکھ لگا دیئے اور اس کے ساتھ ہی سیٹھ دیوان مل کی جانب سے رقم کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جو کام مکمل ہو جاتا تھا، مرحلہ وار شیڈول کے تحت اس کی ادائیگی ہو جاتی تھی۔ بنجر زمینوں اور ویران میدانوں میں عمارتیں سر اٹھانے لگیں۔ سیٹھ دیوان مل نے جنوری تک کی ڈیڈ لائن مقر ر کی تھی۔ لطیف کانجی کو نومبر میں ہی اندازہ ہو گیا کہ اس کی محنت رنگ لا رہی ہے اور وہ جنوری کے پہلے ہفتے میں ہی اپنے ہدف تک پہنچ جائے گا۔ لیکن یہ جاننے کے باوجود اس نے شب و روز کی محنت میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں کام تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہو گیا۔ پہلی بار لطیف کانجی نے اطمینان کا سانس لیا۔

جنوری کے پہلے ہفتے میں اس نے لائل پور سے سیٹھ دیوان مل کو ٹیلیفون کیا۔

’’میرے کو پتہ ہے لطیف کانجی۔‘‘ دوسری طرف سے سیٹھ دیوان مل کی آواز آئی۔ ’’تو نے کس لئے فون کیا ہے۔ میں تیرے کو مبارکباد دیتا ہوں۔ تو نے میرے سارے اندازے غلط ثابت کر دیئے۔‘‘

لطیف کانجی حیران ہوا۔ ’’کیسے اندازے سیٹھ صاحب؟‘‘

سیٹھ دیوان مل نے کہا۔ ’’میرا اندازہ تھا کہ تو مارچ سے پہلے یہ کام پورا نہیں کر سکے گا۔ پر میرے جو لوگ کام کو اور تیرے کو واچ کر رہے تھے انہوں نے دو مہینے پہلے ہی بول دیا تھا کہ کام وقت سے پہلے ہی پورا ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے، تیرے کو یہ بات بری لگی ہو۔ پر میں نے تیری بڑی سخت چیکنگ کی ہے۔ تیری اور تیرے کام کی۔ میرے کو کئی لوگوں نے بولا تھا کہ یہ چھوکرا نہ ڈیڈ لائن تک کام پورا کرے گا اور نہ فیئر کام کرے گا۔ پر تو نے بڑا کمال کیا لطیف کانجی۔ باقی پیسہ ایک ہفتے میں تیرے دفتر پہنچ جائے گا۔ اب میں ایک مشورہ دیتا ہوں۔ دھیان سے سن۔ چھ مہینے سے تو کام کر رہا ہے، اب چھٹی کر۔ تھوڑا ریسٹ کر، عیش کر۔‘‘

لطیف کانجی ہنسا۔ ’’کاروبار میں ریسٹ کہاں ہوتا ہے سیٹھ صاحب۔‘‘

’’میں جو تجھ سے کہہ رہا ہوں۔‘‘ دوسری طرف سے سیٹھ دیوان مل نے تقریباً چلّا کر کہا۔ ’’چھٹی نہیں کرے گا تو مر جائے گا۔ جیسے تیرا باپ مرگیا تھا۔ جیسے کسی دن میں مر جاؤں گا۔ جو ریسٹ نہیں کرتا، عیش نہیں کرتا، مر جاتا ہے۔‘‘ سلسلہ منقطع ہو گیا۔

لطیف کانجی ریسیور تھامے خاموش کھڑا رہ گیا۔ سیٹھ دیوان مل نے بالکل صحیح کہا تھا۔ لطیف کانجی کو وہ دن یاد آیا جب اس نے اپنے والد سیٹھ حنیف کانجی کو قالین پر پڑے دیکھا تھا۔ اور وہ ڈاکٹر یاد آیا جس نے کہا تھا، میرا خیال ہے ان کا کام بھی بہت تھا۔

وہ لائل پور سے لاہور پہنچا۔ لاہور سے پنڈی اور پنڈی سے مری۔

مری میں سیزن ختم ہو رہا تھا۔ برف صرف پہاڑوں کی چوٹیوں پر نظر آتی تھی اور ہر جانب سبزہ پھوٹ رہا تھا۔ درختوں پر نئے پتے نکل رہے تھے۔ بہار آنے والی تھی۔

ایک مناسب ہوٹل میں کمرہ بک کرانے کے بعد وہ سیدھا بازار پہنچا۔ وہ صرف ایک بریف کیس اٹھا کر لائل پور سے مری آ پہنچا تھا اور اس کے پاس گرم کپڑے نہیں تھے۔ اس نے ایک اوور کوٹ خریدا۔ دو سوئیٹر اور ایک اونی کنٹوپ خریدا۔ ہوٹل واپس جاتے جاتے اسے کچھ اور یاد آیا۔ وہ واپس آیا اور ایک ٹھیلے سے چمڑے کے دستانے خریدے۔ وہ دستانے پہن کر دیکھ رہا تھا جب اس کی نظر ایک ہوٹل کی دوسری منزل پر لگے ہوئے بورڈ پڑی۔

جلی حروف میں بورڈ پر لکھا تھا۔ ’’جوتشی ایم ایس جیون رام۔‘‘

نیچے لکھا تھا۔ ’’بمبئی کے مشہور جوتشی۔ شادی، محبت، گھریلو الجھنوں اور کاروبار کے بارے میں اپنی قسمت کا حال دیکھئے۔ ستاروں کی چال دیکھئے۔‘‘

تیز تیز قدموں سے واپس اپنے ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے لطیف کانجی مسلسل اسی بورڈ کے بارے میں سوچتا رہا۔ جوتشی جیون رام یہاں مری میں کیا کر رہا تھا! گیارہ برس پہلے ہی وہ ساٹھ ستر برس کا لگتا تھا۔ اب تو وہ قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا ہو گا۔ لطیف کانجی نے قسمت کے اس کھیل پر حیرت کی نگاہ کی۔ بمبئی میں ٹراموں کے جنکشن پر بیٹھنے والا جوتشی جیون رام، جس نے گیارہ برس پہلے اس کی کامیابی کی پیش گوئی کی تھی، اتنی مدت کے بعد اسی چھوٹے سے شہر میں موجود تھا جہاں وہ خود آرام کرنے کے لئے آیا تھا۔ لیکن اس کے نام کے ساتھ یہ ’’ایم ایس‘‘ کیا ہے۔ ایم ایس جیون رام۔ شاید یہ قسمت کا حال جاننے کے خواہشمندوں کو متاثر کرنے کی ترکیب تھی۔

ہوٹل پہنچ کر اس نے روم سروس کے ذریعے کھانا منگوایا۔ پھر نیچے ڈائننگ ہال میں جا کر اس نے کافی پی۔ دوبارہ باہر نکلنے سے پہلے اس نے سوئیٹر پہن لیا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی جو سورج ڈھلنے کے بعد یقیناً سخت سردی میں بدلنے والی تھی۔

پندرہ منٹ بعد وہ اسی ہوٹل کے سامنے کھڑا تھا جس کی دوسری منزل پر جوتشی جیون رام بیٹھتا تھا۔ استقبالیہ کاؤنٹر پر سر رکھ کر سونے والے منیجر نے سر اٹھا کر لطیف کانجی کو اپنے سامنے سے گزرتے اور سیڑھیاں چڑھتے دیکھا اور پھر سو گیا۔

ہوٹل باہر سے جتنا بوسیدہ نظر آتا تھا، اندر اس سے بھی زیادہ خستہ حال تھا۔ دیواروں کا رنگ اکھڑ چکا تھا اور ہر جانب چھائی گہری خاموشی سے اندازہ ہوتا تھا کہ لوگ عام طور پر یہاں ٹھہرنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ دوسری منزل کے اسی کمرے میں ایک انگریز جوڑا پہلے سے بیٹھا ہوا تھا۔ کمرے کو لکڑی کی دیواروں کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک حصے میں جوتشی جیون رام بیٹھتا تھا اور دوسرا حصہ، جس میں لطیف کانجی اس وقت داخل ہوا تھا، گویا ویٹنگ روم تھا۔ دس بارہ برس کے ایک لڑکے نے لطیف کانجی سے بیس روپے لئے اور کاغذ کا ایک ٹوکن اسے تھما دیا۔ لطیف کانجی دیوار کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔

جوتشی جیون رام کے پاس یقیناً کوئی کلائنٹ تھا۔ اسی لئے وہ انگریز میاں بیوی بھی لطیف کانجی کی طرح وہاں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ بیوی انتہائی باتونی تھی اور شوہر انتہائی کم گو تھا۔ ان کی یکطرفہ گفتگو سے لطیف کانجی نے اندازہ لگایا کہ وہ سیاح ہیں اور اولاد نہ ہونے کے سبب جوتشی جیون رام کے پاس آئے ہیں۔ بیوی ہندو سادھوؤں اور جوتشیوں سے بہت متاثر نظر آتی تھی۔ اسے تقریباً یقین تھا کہ ایک ملاقات میں ہی کایا پلٹ جائے گی۔ شوہر قائل نہیں تھا لیکن قائل نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔

دروازہ کھلا اور ایک موٹا، سیاہ فام شخص مسکراتا ہوا باہر نکلا۔ اس نے جوتشی جیون رام کے نو عمر اسسٹنٹ کو دو روپے دیئے اور مسکراتا ہوا رخصت ہو گیا۔ انگریز میاں بیوی اندر گئے اور دروازہ بند ہو گیا۔

لطیف کانجی بیٹھا پہلو بدلتا رہا۔ دس منٹ بعد بالآخر دروازہ کھلا اور انگریز میاں بیوی باہر نکلے۔ بیوی کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا۔ ’’دو سال ہوتے ہی کتنے ہیں؟‘‘ وہ اپنے شوہر کی آستین گھسیٹ گھسیٹ کر کہہ رہی تھی۔ ’’اور تم نے دیکھا؟ جوتشی نے پہلے ہی جان لیا تھا کہ ہم بیٹا چاہتے ہیں۔ ہے نا حیرت انگیز؟ لیکن یہ پورا براعظم ہی حیرت انگیز ہے۔‘‘وہ مسلسل بولتی اپنے شوہر کے ساتھ باہر نکل گئی۔

لطیف کانجی نے کمرے میں داخل ہو کر نیم تاریکی میں ایک میز کے پیچھے بیٹھے جوتشی کو دیکھا اور اس کے قدم رک گئے۔

وہ جوتشی جیون رام نہیں تھا! جوتشی جیون رام اتنا نوجوان نہیں ہو سکتا تھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘ اس نے کہا۔

میز کے پیچھے بیٹھے جوتشی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ان لمبے بالوں میں، گھنی سیاہ داڑھی میں لطیف کانجی نے ان چمکدار آنکھوں کو دیکھا اور ایک لمحے میں اسے پہچان لیا۔

’’تم جوتشی جیون رام نہیں ہو۔‘‘ اس نے حیران بیٹھے جوتشی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’تم صفدر ہو!!‘‘

اس نے صفدر کو جست لگا کر میز پھلانگتے اور اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے لطیف کانجی کو بھینچ کر، لپٹا کر کہا۔ ’’تو کہاں سے آ گیا لطیف؟ میں تو سمجھ رہا تھا کہ تو بمبئی ہی میں ہو گا۔‘‘

’’میں کراچی میں ہوں۔‘‘ لطیف کانجی نے معانقہ سے فارغ ہو کر کہا۔ ’’لیکن تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ اور تو جیون رام کیسے بن گیا؟‘‘

صفدر ہنسا۔ ’’جیون رام نہیں۔ ایم ایس جیون رام۔ محمد صفدر جیون رام۔ جوتشی جیون رام تو مر کھپ گیا ہو گا۔‘‘

مال روڈ کے ایک سرے پر سڑک کے کنارے بنے چھوٹے سے ریستوران میں کشمیری چائے پیتے ہوئے صفدر نے اسے اپنی پوری کہانی سنائی۔ اس کے ماں باپ پاکستان آتے ہوئے مارے گئے تھے۔ ٹرین کی آخری بو گی میں وہ لاشوں کے ڈھیر کے نیچے چھپا رہا تھا اور حملہ کرنے والے مطمئن ہو کر چلے گئے تھے۔ مری میں اس نے چار سال پہلے یہ کاروبار شروع کیا تھا۔

’’بڑا مشکل کاروبار ہے بیٹا۔‘‘ صفدر نے کہا۔ ’’بہت پڑھنا پڑتا ہے۔ بڑے زائچے بنانے پڑتے ہیں۔ اس کاروبار میں فراڈ نہیں چلتا۔ اپنے علم کے زور پر ہی میں نے یہ کاروبار سیٹ کیا ہے۔ جانتا ہے میری ماہانہ آمدنی کتنی ہے؟‘‘

لطیف کانجی نے نفی میں سر ہلایا۔

’’ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ!‘‘ صفدر نے یوں کہا جیسے کوئی بڑا انکشاف کر رہا ہو۔ ’’حیران رہ گیا نا؟ بعض اوقات تو مہینے میں تین چار ہزار بھی ہو جاتے ہیں۔ جب سیزن ہوتا ہے تو کمرہ بھرا رہتا ہے۔ ہاں یار، چاچا اور چاچی کیسے ہیں؟‘‘

لطیف کانجی نے کہا۔ ’’چاچا کا انتقال ہو گیا۔ پچھلے سال۔ چاچی ٹھیک ہیں۔ وہیں کراچی میں ہیں۔‘‘

اسے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ صفدر نے اس کے والد کے انتقال کی خبر کو انتہائی سرسری انداز میں سنا تھا اور تسلی یا افسوس کا ایک لفظ بھی نہ کہا تھا۔ اسے یہ محسوس کر کے بھی حیرت ہوئی کہ صفدر اپنے ہی خیالوں میں گم تھا، اپنی ہی کامیابی سے سرشار تھا۔ اس کے لئے اگر کوئی بات اہم تھی تو یہ کہ وہ ڈیڑھ دو ہزار کما رہا ہے اور علم نجوم پر مکمل دسترس رکھتا ہے۔ لطیف کانجی کو دکھ ہوا۔ پاکستان آنے کے بعد کتنی ہی دفعہ اس کے دل میں صفدر سے ملنے کی خواہش ابھری تھی۔ کتنی ہی مرتبہ اس نے صفدر کو یاد کیا تھا لیکن اب جب صفدر اس کے روبرو تھا، مایوسی کی ایک لہر اس کے دل پر چھاتی جا رہی تھی۔ یہ وہ صفدر نہیں تھا۔ یہ کوئی اور تھا جس کے پاس اپنے بچپن کے دوست لطیف کانجی سے دل کی باتیں کرنے اور اس کے دل کی باتیں سننے کی فرصت نہ تھی۔ شاید لطیف کانجی کو اپنا دوست، اپنا یار صفدر ملتا تو وہ اسے اپنی کامیابی کی داستان سناتا۔ یہ بتاتا کہ چند دل پہلے ہی اس نے دیوانہ وار محنت کے ذریعے کتنی بڑی اور کیسی کڑی آزمائش میں خود کو سرخرو کیا ہے۔ لیکن جو صفدر اس کے سامنے بیٹھا تھا اس سے یہ سب کہنا فضول تھا، بے مقصد تھا۔

کشمیری چائے کا دوسرا پیالہ منگوانے کے بعد صفدر نے کہا۔ ’’لا اپنا ہاتھ دکھا۔ تجھے بھی تو اندازہ ہو کہ تیرا بچپن کا دوست اب کتنا بڑا جوتشی بن گیا ہے۔‘‘

لطیف کانجی نے بے دلی سے اپنا ہاتھ میز پر رکھ دیا۔ صفدر اسے مرعوب کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے زندگی میں ایسے لوگ کبھی اچھے نہیں لگے تھے۔ ۔ لیکن اس وقت کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔

صفدر دیر تک اس کے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اچانک پوچھا۔ ’’کہاں تک پڑھ ڈالا تو نے؟‘‘

’’بی کام پاس نہ کر سکا۔ فائنل ایئر میں چھوڑنا پڑا۔‘‘

صفدر پھر لکیروں کو دیکھنے میں محو ہو گیا۔ لطیف کانجی جانتا تھا کہ صفدر کیا سوچ رہا ہے۔ وہ یقیناً حساب لگا رہا تھا۔ تعلیم مکمل نہ ہو سکے، باپ کا انتقال ہو جائے، جسم پر ایک عام سا سوئیٹر ہو اور چہرے پر کئی ماہ کی تھکن ہو تو نتیجہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

’’تیرا مقدر بدلے گا لطیف۔‘‘ صفدر نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’پریشانیاں ختم ہونے والی ہیں۔ بہت جلد تیرا مقدر بدلے گا۔ دولت اتنی تیزی سے تیرے پاس آئے گی کہ تو خود حیران رہ جائے گا۔‘‘

لطیف کانجی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ ’’چھوڑ دولت کے قصے کو، یار۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’کوئی اور بات کر۔ دولت تو صرف پریشانی لاتی ہے۔ پریشانی اور تھکن۔‘‘

’’واہ بیٹے۔‘‘ صفدر نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ مار کر کہا۔ ’’فلسفہ بولتا ہے۔ ابے، تجھ سے کس نے کہہ دیا کہ دولت پریشانی لاتی ہے۔ مجھے دیکھ۔ کوئی پریشانی نظر آتی ہے تجھے؟ یہ سب کتابی باتیں ہیں بیٹا، اور یہ ان لوگوں نے ایجاد کی ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی دولت کا مزا نہیں چکھا۔ میں نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اتنی دولت کماؤں گا۔ ڈیڑھ دو ہزار روپے مہینہ معمولی رقم نہیں ہوتی۔ لیکن یوں کامیاب ہونے کے بعد ہی میں نے جانا ہے کہ سارا سکون دولت میں ہے۔ یہ پریشانی پیدا نہیں کرتی بیٹا، ختم کرتی ہے۔ سمجھا؟‘‘

لطیف کانجی سب کچھ سمجھ گیا تھا۔ صفدر اس کے بچپن کا سپنا تھا جسے ایک نہ ایک دن ٹوٹ ہی جانا تھا۔ وہ دن آج آ گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’خدا تجھے کامیاب کرے صفدر۔ میرا مطلب ہے، اور کامیاب کرے۔ کل مجھے کراچی لوٹ جانا ہے۔ اگلے سال میں آؤں گا تو پھر ملاقات ہو گی۔‘‘

انہوں نے ایک دوسرے کو اسی طرح گرمجوشی سے الوداع کہا جیسے برسوں تک بچھڑے رہنے کے بعد ملنے والے دوست ایک دوسرے کو کہتے ہیں۔ صرف لطیف کانجی جانتا تھا کہ یہ صفدر سے اس کی آخری ملاقات ہے۔ اس کے بعد انہیں کبھی نہیں ملنا تھا۔

وہ پندرہ دن تک مری میں ہی رہا۔ نتھیا گلی اور گھوڑا گلی کے سرسبز نشیب اور آسمان سے باتیں کرنے والے درختوں کے درمیان وہ میلوں پیدل چلتا رہا۔ مری میں اس نے اپنی زندگی کی پہلی برف باری بھی دیکھی۔ پنڈی دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ برفباری شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی سینکڑوں لوگ بسوں کے ذریعے مری پہنچ گئے۔ ویران سڑکوں اور بے رونق بازاروں میں اچانک زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ ہجوم کے درمیان ایک عام آدمی کی طرح گھومتے ہوئے لطیف کانجی نے کئی بار اس بورڈ کو دیکھا۔ جوتشی ایم ایس جیون رام کے بورڈ کو۔ لیکن اب اس کے دل میں کوئی افسوس، کوئی دکھ، کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔

وہ واپس کراچی پہنچا تو بہت پرسکون تھا۔ دو تین ہفتے کی بھرپور تفریح نے اس کے شکستہ اعصاب کو بہت سکون بخشا تھا اور اب وہ ایک بار پھر زندگی کی جد و جہد میں شامل ہونے کے لئے تازہ دم تھا۔ وہ ماں سے گھنٹوں باتیں کرتا رہا۔

پھر اسے گہری نیند آئی جو کئی مہینوں سے اسے نصیب نہ ہوئی تھی۔ اگلے دو دن اس نے اسی طرح گزارے۔ ماں سے باتیں کرتے ہوئے، سوتے ہوئے، ریڈیو پر گانے سنتے ہوئے، دوستوں کو ٹیلیفون کرتے ہوئے۔ فراغت کے ان دنوں میں اسے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ اس کی عمر صرف چوبیس سال ہے۔ یہ کھیلنے کے دن تھے جو کاروباری الجھنوں اور دولت کے حصول کی جد و جہد میں صرف ہو رہے تھے۔ لیکن یہ سب مقدر کے کھیل تھے۔ بمبئی میں بچپن اور لڑکپن کے دوران اور کراچی میں نوجوانی کی حدود میں قدم رکھتے ہوئے اس نے کبھی نہ سوچا تھا کہ زندگی یوں ہو گی۔ اس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے، تاجر اور امپورٹرز اور صنعتکار، سب اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ اس نے زندگی کے آغاز میں ہی وہ منزلیں تسخیر کر لی تھیں جن تک پہنچنا ایک عمر کی جد و جہد کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ لیکن اب، فراغت اور بے فکری کے ان چند دنوں میں لطیف کانجی کو احساس ہوا تھا کہ زندگی ایک بیزار کن معمول بنتی جا رہی ہے جس میں کسی آرزو کا انوکھا پن نہیں، کسی خواہش کا نیا ذائقہ نہیں اور کسی محبت کی تازہ خوشبو نہیں۔

وہ دفتر پہنچا تو ایک خوشگوار تبدیلی نے اس کا استقبال کیا۔ دروازوں اور کھڑکیوں پر نئے پردے تھے اور دیواروں پر نیا، چمکتا رنگ تھا۔ بے ترتیب میزیں اب ایک دائرے میں تھیں۔ پالش نے تمام فرنیچر کو ایک نیا روپ بخش دیا تھا۔ اس کے اپنے کمرے میں میز پر شیشہ لگا دیا گیا تھا۔ سامنے والی دیوار پر ایک خوبصورت پینٹنگ تھی اور پیچھے والی دیوار پر اس کے والد سیٹھ حنیف کانجی کا ایک پینسل اس کیچ منقش لکڑی کے فریم میں آویزاں تھا۔ کسی سے پوچھے بغیر، کوئی سوال کئے بنا اس نے سمجھ لیا کہ یہ سب زبیدہ نے کیا ہے۔

کچھ دیر بعد کمپنی کے جنرل منیجر نے اس کے دفتر میں قدم رکھا۔

’’کیا آپ کچھ وقت نکال سکتے ہیں سر؟‘‘ جنرل منیجر نے اپنے سفید بالوں کو ایک ہاتھ سے سنوارتے ہوئے کہا۔ ’’بیس پچیس منٹ یا آدھا گھنٹہ؟‘‘

لطیف کانجی نے گھڑی دیکھ کر کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ میٹنگ شام کے وقت رکھیں۔‘‘

’’یہ میٹنگ نہیں ہے۔ کچھ اور سلسلہ ہے۔‘‘ جنرل منیجر کے لہجے میں تحکم تھا۔ وہ تیس سال سے کمپنی کے ساتھ تھا۔ یہاں اس نے پہلے سیٹھ حنیف کانجی کے ساتھ اور پھر لطیف کانجی کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ لطیف کانجی کو اس نے گھٹنوں چلتے اور توتلی زبان میں گفتگو کرتے دیکھا تھا۔ اس کے لہجے میں یہ تحکم اسی وقت آتا تھا جب وہ خود کو کمپنی کا ملازم نہیں، لطیف کانجی کے والد کا دوست سمجھتا تھا۔ لطیف کانجی ایسے وقت اس کا حکم کبھی نہ ٹالتا تھا۔

وہ جنرل منیجر کے ساتھ اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اس نے ہال کے وسط میں سب لوگوں کو ایک چھوٹی سی میز کے گرد جمع دیکھا۔ کلرک اور سپروائزر اور چپراسی اور سینئر ایگزیکٹوز۔ سب موجود تھے۔ اور میز پر ایک کیک رکھا ہوا تھا جس پر ایک بہت بڑی موم بتی جل رہی تھی۔

’’سالگرہ مبارک سر!‘‘ جنرل منیجر نے مسکرا کر کہا۔

اور حیران کھڑے لطیف کانجی کو اچانک یاد آیا کہ آج یکم فروری ہے۔ اس کا جنم دن!

اس نے تالیوں اور مبارکباد کے شور میں کیک کاٹا۔ فرداً فرداً ہر ایک کا شکریہ ادا کیا۔ دفتر کے چھوٹے سے کچن میں چائے بن چکی تھی۔ وہ سب چائے پیتے رہے اور گزشتہ چھ ماہ کی باتیں ایک دوسرے کو بتاتے رہے۔ پھر جنرل منیجر نے ایک بہت بڑا سا ڈبہ اسے دیا۔ یہ کمپنی کے کارکنوں کی جانب سے سالگرہ کا تحفہ تھا۔

اس کے بعد زبیدہ نے اسے ایک بڑا سا سفید لفافہ دیا اور کہا۔ ’’اس میں سیٹھ دیوان مل والے پراجیکٹ کی بیلنس شیٹ ہے۔ تمام اخراجات اور کمپنی کو حاصل ہونے والے منافع کا حساب ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک کروڑ ستر لاکھ کے اس پراجیکٹ میں کمپنی کو کتنا منافع ہوا ہے؟‘‘

لطیف کانجی نے زبیدہ کی جھیل سی آنکھوں میں دیکھا اور اس کے چہرے پر بکھری ملاحت کو دیکھا۔ وہ کہنا چاہتا تھا، نہیں۔ مجھے منافع کا کوئی اندازہ نہیں۔ لیکن اسی وقت ایک خیال ہوا کے نرم جھونکے کی طرح اس کے پاس پہنچا۔ گیارہویں سالگرہ پر گیارہ سائیکلیں۔ اسے اچانک یاد آیا۔ تیرہویں سالگرہ پر تیرہ سوٹ۔ ایک لمحے کے لئے سامنے کھڑے لوگ دھندلے ہوئے اور پھر گویا فوکس میں آ گئے۔ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ آج چوبیسویں سالگرہ تھی۔

اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’کیا منافع چوبیس لاکھ ہے؟‘‘

اس نے زبیدہ اور جنرل منیجر کی اور دوسرے سینئر ایگزیکٹوز کی آنکھوں میں حیرت کو ڈولتے دیکھا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھا، یہ کیسے ممکن ہے؟

’’آپ کا اندازہ سو فیصد درست ہے۔‘‘ زبیدہ نے کہا۔ ’’سیٹھ دیوان مل نے مکمل ادائیگی کر دی ہے۔ ہم سب آپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔‘‘

وہ اپنے کمرے میں پہنچا تو اس کے ہاتھ میں وہ سفید لفافہ تھا جس میں چوبیس لاکھ کی خوشخبری بند تھی اور ماتھے پر پسینہ تھا۔ نہ جانے یہ کیسے ہوتا تھا لیکن ہر مرتبہ ہو جاتا تھا۔ یہ اتفاق نہیں تھا۔ قسمت نہیں تھی۔ یہ اس کی زندگی کا حصہ تھا۔ ہر مرتبہ اعداد اس کے لئے کوئی خبر لاتے تھے۔ یہ بڑی عجیب بات تھی لیکن اعداد ہمیشہ یہی کمال دکھاتے تھے۔

کمرے کی تنہائی میں وہ بہت دیر یہی سوچتا رہا۔

پھر ایک عجیب خیال اس کے ذہن میں آیا!

اعداد کی کرشمہ سازی اپنی جگہ۔ اس نے سوچا۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں اعداد کے اعتبار سے واقعات کو خود ترتیب دوں۔ مستقبل کو ہاتھ میں بھی تو لیا جا سکتا ہے۔ اس بے یقینی کو ختم بھی تو کیا جا سکتا ہے جو اعداد کو دیکھ کر آنے والے واقعات کے سلسلے میں پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً کیا ہو سکتا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ پچیسویں سالگرہ کے لئے میں خود اس طرح کاروبار کروں کہ عین پچیسویں سالگرہ والے دن مجھے پچیس لاکھ کا منافع ہو! اعداد کے حساب سے خوشگوار واقعات کا اہتمام بھی ہو سکتا ہے!!

وہ سوچتا رہا اور زندگی کے بارے میں، مستقبل کے بارے ایک نئی حکمت عملی اس کی نظروں کے سامنے واضح ہوتی گئی۔ یس۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ یہ ٹھیک ہے۔ اعداد مجھ پر کیوں حکومت کریں؟ میں ان پر حکمرانی کروں گا!!

اگلے چند روز اس نے اسی کام میں صرف کئے۔ اس نے سارا پچھلا ریکارڈ مرتب کیا۔ ہر واقعہ کی تاریخ اور تفصیل لکھی۔ اعداد کی معجزہ آرائی کو ترتیب سے سفید کاغذوں پر لکھا۔ پیدائش کا وقت اور تاریخ، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں سالگرہ، جوتشی جیون رام، تیرہ ہفتے اور ایک ماہ والی پیشین گوئی، پاکستان روانگی چار سات چار سات، سیٹھ حنیف کانجی کا انتقال تین چار، پانچ چھ، زبیدہ مہر علی کی آمد پانچ سات پانچ سات، چوبیسویں سالگرہ، چوبیس لاکھ۔ وہ سفید کاغذوں پر ان تمام واقعات کو درج کرتا گیا جنہوں نے برسوں سے اسے تحیر کی دنیا میں رکھا تھا۔

اس کے بعد لطیف کانجی نے آنے والے دنوں کا حساب کیا۔ ان تاریخوں کا حساب لگایا جو اعداد کے اعتبار سے عجیب و غریب تھیں۔ اگلے چند برسوں میں ایسی چند ہی تاریخیں تھیں۔ ہر سال آنے والی سالگرہ تھی۔ پانچ اگست سن اٹھاون تھی۔ پانچ آٹھ پانچ آٹھ۔ پانچ ستمبر سن انسٹھ تھی۔ پانچ نو پانچ نو۔ چھ جنوری سن اکسٹھ تھی۔ چھ ایک چھ ایک۔ ان کے سوا کوئی عجیب و غریب تاریخ نہ تھی۔

تاریخوں کا حساب لگانے کے بعد کام بہت آسان تھا۔ اسے ہر تاریخ کے لئے ایک واقعے کا بندوبست کرنا تھا۔ اسے سخت حیرت ہوئی اور اپنے آپ پر سخت غصہ آیا۔ یہ کام وہ بہت پہلے کر سکتا تھا۔ اعداد کے اعتبار سے واقعات کا اہتمام تو کبھی بھی کیا جا سکتا تھا۔ کیا ضروری تھا کہ تاریخ اور واقعہ کا انتظار کیا جاتا؟

وہ مطمئن ہو کر پھر کاروبار کی طرف متوجہ ہو گیا۔ کلیئرنگ اور فارورڈنگ کے معاملات میں بہت زیادہ منافع نہیں تھا۔ خود لطیف کانجی بھی کاروبار کو مختلف سمتوں میں پھیلانے کے بجائے کسی ایک سمت کا انتخاب کرنا چاہتا تھا۔ اگلے چند ماہ کے دوران سیٹھ دیوان مل نے اسے پھر ایک اور بہت بڑا منصوبہ سونپ دیا۔ اب اسے پھر کئی شہروں میں کئی عمارتیں تعمیر کرنی تھیں۔ لطیف کانجی اس عظیم الشان منصوبے کی تفصیلات اور مالیت جان کر سمجھ گیا تھا کہ ایک بار خوش قسمتی نے اس کے دروازے پر دستک دی ہے۔

وہ ایک بار پھر شہر شہر کی خاک چھاننے اور سیٹھ دیوان مل کے نئے تعمیراتی منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ زیادہ تر کام پنجاب کے ان شہروں میں تھا جو دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ واقع تھے۔ تونسہ اور مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان۔ یہ شہر بھی نہیں تھے، قصبے تھے۔ وہ جنون کے عالم میں کام کرتا رہا۔ دن رات محنت کرتا رہا۔ ان نئی بستیوں میں سب اسے پہچاننے لگے تھے۔ اس کا احترام کرنے لگے تھے۔ لطیف کانجی نے ان کے پسماندہ علاقوں میں مزدوری کے نئے مواقع فراہم کئے تھے، ان کو خوشحالی کا نیا خواب دیا تھا۔

ایک شب جب وہ کام کرنے والوں کے درمیان بیٹھا ایک نوجوان سے گیت سن رہا تھا، اسے بے اختیار زبیدہ یاد آئی۔ رات کی تاریکی میں دور تک خاموشی اور لالٹین کی روشنی تھی اور نوجوان مزدور کے گیت میں محبت کا ذکر تھا۔ اس محبت کا جو لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی، جو دل میں خاموشی سے بسیرا کرتی ہے اور زندگی کی کڑی دھوپ میں آنچل کا سایہ فراہم کرتی ہے۔ اس ایک لمحے میں لطیف کانجی نے اپنے دل کی ہر دھڑکن کو زبیدہ کے نام بنتے دیکھا اور اپنی رگوں میں اس کی محبت کو لہو کی طرح گردش کرتے محسوس کیا۔ پھر اچانک، کسی سبب کے بغیر، اسے یاد آیا کہ دو دن بعد وہ تاریخ ہے ! پانچ اگست سن اٹھاون۔ پانچ آٹھ پانچ آٹھ!!

دو دن بعد دفتر میں اسے دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔

کمپنی کے جنرل منیجر کے سوال کے جواب میں لطیف کانجی نے کہا۔ ’’بالکل خیریت ہے منیجر صاحب۔ در اصل ماں جی سے ملنے کو دل چاہ رہا تھا اس لئے کراچی چلا آیا۔ یہاں آ کر سوچا، دفتر کا چکر بھی لگا لوں۔‘‘

جنرل منیجر کے جانے کے بعد اس نے زبیدہ کو طلب کیا۔

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو لطیف کانجی نے ایک بار پھر خود کو اس کے حسن بے مثال کے سامنے حیران پایا۔ یہ نہ جانے نظروں کا دھوکہ تھا یا حقیقت تھی کہ ہر لباس اس پر سجتا تھا، ہر رنگ اُس پر کھلتا تھا۔

’’تشریف رکھئے مس زبیدہ۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’مجھے آپ کے بارے میں اور اپنے بارے میں ایک ضروری بات کرنی ہے۔‘‘

زبیدہ کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔ یوں جیسے پانی کی پُرسکون سطح پر اچانک لہریں نمودار ہوں۔

’’آپ کو پتہ ہے؟‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’میں صرف آپ کے لئے آیا ہوں۔ صرف ایک بات کرنے کے لئے!‘‘

زبیدہ نے نظریں جھکا لیں اور کہا۔ ’’جی۔‘‘

لطیف کانجی نے آگے جھک کر کہا۔ ’’اس ایک بات پر میری زندگی کا انحصار ہے!‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ زبیدہ نے نظریں جھکائے جھکائے کہا۔ ’’اس ایک بات پر ہم دونوں کی زندگیوں کا انحصار ہے!!‘‘

اسی شام وہ اپنی ماں کو کار میں بٹھا کر کلیٹن کوارٹرز پہنچا۔ جمشید روڈ سے کلیٹن کوارٹرز تک جانے والی سڑک کچی تھی اور جگہ جگہ کیچڑ تھا۔ گلیوں میں ننگ دھڑنگ بچے کھیل رہے تھے۔ یہاں چھوٹے درجے کے سرکاری ملازمین رہتے تھے۔ ایک جیسے بنے ہوئے پیلے رنگ کے کوارٹروں میں ایک سبز رنگ کے دروازے کے سامنے اس نے کار روک دی۔

لطیف کانجی کو سخت حیرانی ہوئی جب دروازہ خود زبیدہ نے کھولا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ روایتی طور پر کسی کونے میں بیٹھی شرما رہی ہو گی۔ زبیدہ نے ماں جی کو سلام کیا اور کہا۔ ’’امی کی طبیعت پھر خراب ہو گئی ہے۔ آیئے۔ اس طرف آیئے۔‘‘

وہ ماں جی کو اندر کمرے میں لے گئی۔ لطیف کانجی صحن میں پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ اسے ندامت ہو رہی تھی۔ زبیدہ نے اسے بتا دیا تھا کہ اس کی ماں کی طبیعت خراب ہے لیکن لطیف کانجی سب کچھ آج ہی کرنا چاہتا تھا۔ آج پانچ اگست تھی۔ پانچ آٹھ پانچ آٹھ! آج کوئی بات ٹالی نہ جا سکتی تھی۔ کوئی تاخیر نہ کی جا سکتی تھی۔

واپس گھر آتے ہوئے ماں جی کی خاموشی لطیف کانجی کو پریشان کرتی رہی۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ روانہ ہوتے وقت ماں جی نے بہت محبت سے زبیدہ کو پیار کیا تھا اور اسے دعا دی تھی۔ لیکن راستے بھر وہ خاموش بیٹھی رہیں۔

گھر آ کر انہوں نے کہا۔ ’’زبیدہ بہت پیاری لڑکی ہے لطیف۔ لیکن میرے کو ایک مسئلہ نظر آتا ہے۔‘‘

لطیف کانجی کا دل ڈوبنے لگا۔

’’کیسا مسئلہ، ماں جی؟‘‘

’’اس کی ماں کو ٹی بی ہے!‘‘ ماں جی نے کہا۔ ’’یہ بات زبیدہ کو نئیں بولنا۔ اس کی ماں نے میرے کو بتایا ہے کہ ڈاکٹروں نے اس کو بول دیا ہے، اب صرف دعا کرو۔ میرے کو اس بیماری سے بڑا ڈر لگتا ہے لطیف۔ تیرا ایک چاچا جوانی میں چلا گیا تھا۔‘‘

’’حد ہو گئی ماں جی۔‘‘ لطیف کانجی نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔ ’’اب اس بیماری کا علاج ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بیماری ورثے میں منتقل نہیں ہوتی۔‘‘

’’اچھا، اچھا۔‘‘ ماں جی نے مسکرا کر کہا۔ ’’تو فکر نئیں کر۔ لیکن یاد رکھ، یہ ڈاکٹروں والی، دعا کرنے والی بات زبیدہ کے سامنے نئیں بولنی ہے۔ اس کی ماں نے میرے کو قسم دی ہے۔‘‘

’’نہیں بتاؤں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔ شادی کی بات ہوئی؟‘‘

’’ہاں۔ اس کی ماں نے بولا ہے، شادی ایک دم جلدی چاہئے۔ بولی، میری زندگانی کا کچھ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

لطیف کانجی کو اچانک اعداد یاد آئے۔ اعداد، جو سفید کاغذوں پر لکھے تھے۔ جو اس کی زندگی کا آئینہ تھے۔

’’شادی اتنی جلدی نہیں ہو سکتی ماں جی۔‘‘ اس نے کہا۔

’’کیوں؟‘‘ ماں جی نے تیکھے لہجے میں کہا۔ ’’کیوں نئیں ہو سکتی؟ کیا کرنا ہے تیرے کو؟‘‘

’’بہت کام ہے ماں جی۔‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔ ’’ بہت بڑا پراجیکٹ ہاتھ میں ہے۔ جنوری تک ختم ہو گا۔‘‘ اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا لیکن ماں سے یہ جھوٹ بولے بنا چارہ نہ تھا۔

ماں جی نے کہا۔ ’’سوچ لے لطیف۔ میرے کو اس کی ماں کی حالت ٹھیک نئیں لگتی۔‘‘

’’سب ٹھیک ہو جائے گا ماں جی۔‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’آپ جنرل منیجر صاحب سے کہہ دیں، وہ ان کا خود علاج کرائیں۔ میں کل صبح چلا جاؤں گا۔ کام اتنا ہے کہ ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں۔ میں اب شاید جنوری سے پہلے کراچی آ بھی نہ سکوں۔‘‘

اگلی صبح وہ واپس روانہ ہو گیا۔ اعداد کے مقابلے میں پہلی جنگ اس نے جیت لی تھی۔ اس کامیابی نے لطیف کانجی کو نیا اعتماد بخشا تھا۔ وہ ایک بار پھر سیٹھ دیوان مل کے منصوبوں میں منہمک ہو گیا۔ قسمت اس پر مہربان تھی۔ نئی عمارتیں تعمیر ہوتی جا رہی تھیں۔ کام اتنا تیز تھا کہ لطیف کانجی کو لگتا تھا، سارا کام نومبر میں ہی ختم ہو جائے گا اور منافع پہلے سے بہت زیادہ ہو گا۔ لیکن پھر اسے اعداد کا خیال آتا تھا۔ منافع زیادہ کیسے ہو سکتا تھا؟ یہ سوال اسے دن رات پریشان رکھتا تھا۔

یہ پریشانی اس روز ختم ہوئی جب سائٹ پر کام کرنے والے ایک انجینئر نے اس سے کہا۔ ’’دریا کے قریب ہم نے جو تین بلڈنگز بنائی ہیں، ان میں پرابلم ہے سر!‘‘

’’پرابلم!‘‘ لطیف کانجی نے حیرت سے کہا۔ ’’کیسا پرابلم؟‘‘

’’تینوں بلڈنگز بیٹھ رہی ہیں۔ زمین میں پانی ہے اور سیلے نٹی ہے۔ بنیادیں کنکریٹ کا وزن برداشت نہیں کر پا رہی ہیں۔ کل رات میں نے دوسرے انجینئرز سے بھی بات کی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ متوازی بنیادیں بنا کر پرانے ستونوں کے ساتھ نئے ستون تعمیر کئے جائیں اور ہر بیم کا وزن…‘‘

’’نہیں۔‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’میں کچا کام نہیں چاہتا۔‘‘

’’اس کے سوا کوئی راستہ نہیں سر۔‘‘

’’راستہ ہے مسٹر انجینئر۔‘‘ لطیف کانجی نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔ ’’تینوں عمارتوں کو گرا دو!‘‘

انجینئر نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا اور کچھ کہتے کہتے رک گیا۔

’’نئے سرے سے تعمیر شروع کرو۔‘‘ لطیف کانجی نے اس کی حیرت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’نیچے کنکریٹ اور پتھر کی لیئرز بچھاؤ۔ رافٹ بناؤ پوری۔ میں تمہیں باہر کا سیمنٹ منگوا دیتا ہوں سیلے نٹی کے لئے۔ بلڈنگ کو مضبوط بنیاد چاہئے۔ نیچے پورا پلیٹ فارم بنا دو کنکریٹ اور لوہے کا۔ سمجھ گئے؟‘‘

انجینئر کچھ نہ سمجھا تھا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ کوئی سیٹھ دس بارہ لاکھ کا نقصان برداشت کرنے کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟ یہ ٹھیک تھا کہ بلڈنگ کو مضبوط بنیاد کی ضرورت تھی۔ لیکن آدھا کام ہو جانے کے بعد غلطی دریافت ہونے کی صورت میں صرف ازالے کی کوئی ترکیب ہی ڈھونڈی جاتی تھی۔ بنی ہوئی عمارت نہیں گرائی جاتی تھی۔ لیکن یہ نوجوان سیٹھ اسے تھوڑا سا پاگل لگتا تھا۔ آج اس بات کا ثبوت بھی مل گیا تھا۔ انجینئر نے سر ہلایا اور احکامات پر عمل درآمد کرنے کے لئے چل پڑا۔

بنی ہوئی عمارتوں کے زمیں بوس ہونے کا منظر سب کے لئے تکلیف دہ تھا۔ ان کے لئے بھی جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اسے تخلیق کیا تھا اور ان کے لئے بھی جنہوں نے اس پسماندہ علاقے میں ان عمارتوں کو بلند ہوتے دیکھ کر خوشی محسوس کی تھی۔ سینکڑوں مایوس اور دل گرفتہ لوگوں کے درمیان صرف لطیف کانجی مطمئن نظر آتا تھا۔ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب اعداد کی بازیگری تھی… منافع، جو پینتیس چالیس لاکھ ہو سکتا تھا! اب پچیس لاکھ سے زیادہ نہ ہو سکتا تھا۔ اور کام جو نومبر میں ختم ہو سکتا تھا، اب اس کی پچیسویں سالگرہ تک ختم ہوتا نظر آ رہا تھا۔

ایک بار پھر وہی ہوا جس کی لطیف کانجی کو توقع تھی۔ دفتر میں اسی طرح سالگرہ ہوئی۔ عملے نے اسی طرح تحفہ دیا۔ اور زبیدہ نے پھر نئی بیلنس شیٹ دی۔ دو کروڑ تین لاکھ کے تعمیراتی منصوبے کے اخراجات اور منافع کی بیلنس شیٹ جس سے پتہ چلتا تھا کہ منافع پچیس لاکھ ہے! پچیسویں سالگرہ پر پچیس لاکھ!! لطیف کانجی نے خود کو بے انتہا مطمئن اور مسرور پایا۔ زبیدہ نے اسی صبح جو تجاویز تنہائی میں پیش کی تھیں ان پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے لطیف کانجی نے تمام عملے کی تنخواہوں میں چالیس فیصد اضافے اور تنخواہوں کے مساوی بونس دینے کا اعلان کر دیا۔ اسی روز لطیف کانجی نے سینئر ایگزیکٹوز کی میٹنگ طلب کی اور انہیں اپنے دو اہم فیصلوں سے آگاہ کیا۔ کمپنی کے صدر دفتر کے لئے شہر کے مرکزی علاقے میں نئی چار منزلہ عمارت تعمیر کرنا ناگزیر ہو گیا تھا۔ اور اسی طرح ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ذیلی دفتر کھولنا ضروری تھا۔ میٹنگ میں اسے یقین دلایا گیا کہ صدر دفتر کی عمارت کے لئے زمین جلد ہی خرید لی جائے گی اور لاہور میں ذیلی دفتر ایک ماہ کے اندر قائم کر دیا جائے گا۔

اگلے تین ماہ اس نے پشاور اور راولپنڈی میں گزارے۔ پشاور میں اسے دو بڑے سرکاری ٹھیکے ملے تھے۔ ایک کارپوریشن کا ہیڈ آفس تعمیر کرنا تھا اور دو بڑے تعلیمی اداروں کی عمارتیں، ہاسٹل اور اسٹاف کوارٹرز بنانے تھے۔ راولپنڈی میں اسے صدر کے علاقے میں ایک چھوٹا ہوٹل بنانے کا ٹھیکہ ملا تھا۔ یہ منصوبے سیٹھ دیوان مل کے منصوبوں کے مقابلے میں چھوٹے تھے لیکن لطیف کانجی اب صرف تعمیرات کے شعبے میں کام کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ ہر طرح کی عمارتیں بنا کر مارکیٹ میں اپنی ساکھ قائم کرے۔ تین چار سال کے مختصر سے عرصے میں اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ کاروبار میں سارا کھیل ساکھ کا ہوتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے والد نے اپنی ساکھ کے بل بوتے پر ہی ایک نئے شہر میں آٹھ نو برس کی قلیل مدت کے دوران کمپنی کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کیا تھا۔

وہ پشاور میں ہی تھا جب اسے جنرل منیجر کا وہ خط ملا جس میں زبیدہ کی والدہ کے انتقال کی اطلاع تھی!

وہ رات لطیف کانجی نے جاگ کر گزاری۔ کوئی بوجھ تھا جو اس کے دل پر اچانک آ گیا تھا۔ جرم کا احساس تھا جو کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا تھا۔ زبیدہ کی ماں اپنی بیٹی کو دلہن کے روپ میں دیکھنے کی آرزو لئے رخصت ہو گئی تھی۔ آٹھ ماہ پہلے اس نے زبیدہ کی فوری شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور لطیف کانجی نے صرف اعداد کی خاطر اس مطالبے کو ٹال دیا تھا۔ وہ جاگتا رہا اور زبیدہ کو یاد کرتا رہا جس کے ساتھ ایک زیادتی ہو گئی تھی۔ زبیدہ کو خود شاید اس کی خبر بھی نہ ہو گی کہ اس کی ماں نے شادی جلد کرنے پر زور دیا تھا۔ لیکن لطیف کانجی کو خبر تھی۔ ماں جی کو خبر تھی۔ جنرل منیجر کا جو خط آیا تھا وہ مختصر تھا لیکن اس میں تمام ضروری باتیں موجود تھیں۔ ماں جی خود تدفین کے وقت موجود رہی تھیں۔ اور تدفین کے بعد وہ زبیدہ کو اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔ یہ تقدیر کی ستم ظریفی ہی تو تھی کہ زبیدہ کو عروسی جوڑے کے بغیر، کسی شان و شوکت کے بغیر اس کے گھر میں پناہ لینے کے لئے جانا پڑا تھا جہاں اسے ایک عمر گزارنی تھی، بہو بن کر جانا تھا اور حکمراں بن کر رہنا تھا۔

زبیدہ کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا ازالہ کرنے کی ایک ہی صورت تھی۔ لطیف کانجی نے اگلے ہی روز ایک خط ماں جی کو لکھا اور دوسرا کمپنی کے جنرل منیجر کو۔ وقت بہت کم تھا۔ جون سر پر آ چکا تھا اور صرف تین ماہ باقی رہ گئے تھے۔ ایک ہفتے میں اسے ماں جی اور جنرل منیجر کے جوابات موصول ہو گئے۔ وہ دونوں اس کے شیڈول سے متفق تھے۔

ستمبر کے پہلے ہفتے میں اس نے زبیدہ سے شادی کر لی! کسی نے اس بات کو اہمیت نہ دی کہ شادی پانچ ستمبر سن انسٹھ کو ہوئی ہے۔ پانچ نو پانچ نو!

لطیف کانجی نے سرخ جوڑے میں زبیدہ کے حسن کو دہکتا دیکھا اور اس کی آنکھوں میں آنے والے دنوں کے خوبصورت خوابوں کو دیکھا۔ وہ رات لطیف کانجی کی زندگی کی خوبصورت ترین رات ہی نہیں تھی۔ فیصلہ کن رات بھی تھی۔ اس رات لطیف کانجی نے زبیدہ کو اعداد کی کہانی سنائی! چودہ برس پہلے اس نے پہلی بار اپنے والد کو اس راز میں شریک کیا تھا اور ڈانٹ کھائی تھی۔ لیکن اس رات قسمت بھی اس پر زبیدہ کی طرح مہربان تھی۔ زبیدہ نے اس کی زندگی کے ہر باب کو یوں دیکھا جیسے کسی طلسماتی دنیا میں سیر کر رہی ہو۔ ہر واقعے کو یوں سنا جیسے اپنی آنکھوں سے سب کچھ رونما ہوتے دیکھ رہی ہو۔

اس رات کے بعد زبیدہ ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہی۔ زندگی میں، محبت میں، کاروبار میں۔ اور اعداد میں!!

لطیف کانجی کی باقی زندگی اعداد کی اسی ترتیب کے ساتھ گزری۔

کوئی اس کے راز سے واقف نہ تھا۔ صرف زبیدہ تھی جو کمپنی کے تمام معاملات خوش اسلوبی سے سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اہم تاریخوں کا بھی حساب رکھتی تھی۔ لطیف کانجی اس کے ساتھ مل کر زندگی کو ترتیب دیتا گیا۔ جہاں وہ خود کچھ نہ کر سکتے تھے، وہاں تقدیر کام سنبھال لیتی تھی۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد ان کے گھر میں پہلا بیٹا آیا۔ چھ جنوری انیس سو اکسٹھ۔ چھ ایک چھ ایک!! ٹھیک ایک سال ایک ماہ بعد بیٹی آئی۔ چھ فروری سن باسٹھ۔ چھ دو چھ دو!! لطیف کانجی کی تیسویں سالگرہ پر کمپنی کے مجموعی سرمائے کی بیلنس شیٹ ان دونوں نے حیرت اور خوشی سے دیکھی۔ تین کروڑ۔ تیسویں سالگرہ پر تیس ملین!! کاروبار پھیلتا گیا۔ کام بڑھتا گیا۔ شہرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ لیکن لطیف کانجی اور زبیدہ نے زندگی کے کسی لمحے میں بھی اعداد کو فراموش نہ کیا۔ اعداد جو رہنما تھے۔ اعداد جو منزل تھے۔ اعداد جو زندگی کے طویل سفر میں راستوں کا نشاں تھے۔ انہیں فراموش کرنا، راہ کھو دینے کے برابر تھا۔

لیکن پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب تقدیر نے لطیف کانجی کے ارادوں کو شکست دے دی۔

سات جنوری سن اکہتر۔ سات ایک سات ایک۔ زبیدہ بہت پہلے لطیف کانجی کو اس تاریخ کے بارے میں بتا چکی تھی۔ اور لطیف کانجی نے فیصلہ کیا تھا کہ اس روز کمپنی کے پہلے ٹیکسٹائل مل کا افتتاح ہو گا۔ الیکشن ہو چکے تھے مگر ابھی فوجی حکومت ہی برسراقتدار تھی۔ مشرقی پاکستان میں بے چینی تھی مگر باقی ملک نارمل تھا۔ یہ پہلا منصوبہ تھا جس میں لطیف کانجی نے اپنے پاس سے ایک کروڑ ستر لاکھ روپے لگائے تھے۔ چند برس قبل سیٹھ دیوان مل نے اسے اتنی ہی مالیت کے منصوبے کا پہلا ٹھیکہ دیا تھا۔ آج وہ خود اتنے بڑے منصوبے کو ذاتی سرمائے سے شروع کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔

سات جنوری کو ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ کمپنی کے جنرل منیجر نے کارکنوں کی فوج کی مدد سے صنعتی علاقے میں، جہاں ٹیکسٹائل مل تعمیر ہوا تھا، تقریب کے لئے بھرپور انتظامات کر لئے تھے۔

لطیف کانجی صبح انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے پہنچا۔ وہاں سے وہ گیارہ بجے کے قریب دفتر پہنچا تاکہ جنرل منیجر سے حتمی تفصیلات طے کر سکے اور اس تقریر پر نظر ڈال سکے جو اسے کرنی تھی۔ وہ ابھی اپنے کمرے میں گھسا ہی تھا کہ اس کے نجی ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے لگی۔

دراز میں سے تقریر کا مسودہ نکال کر اپنے سامنے رکھتے ہوئے اس نے ریسیور اٹھایا اور کہا۔ ’’یس۔‘‘

دوسری طرف زبیدہ تھی۔ ’’فوراً گھر آ جاؤ۔‘‘اس نے کہا۔ ’’سارے کام چھوڑ دو۔‘‘

زندگی میں کبھی اس نے زبیدہ کی اتنی گھبرائی ہوئی آواز نہیں سنی تھی۔

بیس منٹ بعد شوفر نے کوٹھی کے پورچ میں کار روکی تو اس نے زبیدہ کو دروازے پر منتظر کھڑا دیکھا۔ وہ ننگے پیر بھاگتی ہوئی، لان عبور کر کے اس تک آئی۔ اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا اور آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔

اندر لاؤنج میں ایک کوچ پر ماں جی کا بے جان بدن پڑا تھا!!

وہ بے یقینی سے ماں کی بند آنکھوں کو دیکھتا رہا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ سات ایک سات ایک۔ آج تو ٹیکسٹائل مل کا افتتاح ہونا تھا۔ ہر چیز طے تھی۔ حتمی تھی۔ اس نے اپنے چہرے پر بہنے والے آنسوؤں کی نمی کو محسوس کیا اور دھندلائی ہوئی نظروں سے شہر کے ان بڑے ڈاکٹروں کو دیکھا جو ماں جی کے گرد بے بس، لاچار کھڑے تھے۔ تقدیر کے وار کو کوئی بھی نہ روک سکا تھا۔ ڈاکٹروں کی مسیحائی بھی۔ اور اعداد کی معجزہ آرائی بھی۔ اس مقام پر سب بے اختیار ہو گئے تھے۔

اور اس روز زبیدہ کے ساتھ ساتھ لطیف کانجی پر بھی یہ کھلا کہ اعداد پر یا اعداد کے ذریعے تقدیر پر مکمل حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ وہ بھی دنیا کے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی طرح بندگانِ بے بس تھے۔ وہ صرف کوشش کر سکتے تھے، فیصلہ نہیں۔

سو انہوں نے کوشش جاری رکھی!

کامیابی کی کوشش، خوشیوں کے حصول کی کوشش، زندگی کو خوبصورت بنائے رکھنے کی کوشش۔

…٭٭…




اگر آپ اس گمان میں ہیں کہ سیٹھ لطیف کانجی کی اس کہانی کو ابھی کچھ اور حیرت انگیز موڑ کاٹنے ہیں، کسی اور انوکھے اور ہلا ڈالنے والے کلائمکس کی طرف جانا ہے، تو سمجھ لیجئے کہ آپ بالکل غلط ہیں۔

کہانیاں تو بس، کہانیاں ہوتی ہیں۔ کسی بھی سانچے میں ڈھل جاتی ہیں، کوئی بھی صورت اختیار کر لیتی ہیں، کسی بھی راہ پر چل نکلتی ہیں۔

سیٹھ لطیف کانجی کی ڈائریوں میں جو داستان بکھری ہوئی تھی، وہ یہی تھی۔ پراسرار۔ عجیب و غریب۔ تقریباً ناقابل یقین۔

مگر کیونکہ یہ اتنی زیادہ عجیب و غریب تھی اور کیونکہ برسوں کی صحافتی تربیت نے مجھے بے حد شکّی اور کسی بھی بات پر آسانی سے یقین نہ کرنے والا بنا دیا ہے اور کیونکہ کراچی کے تاریخی ریکارڈ کو چیک کرنا میرے لئے کچھ زیادہ مشکل نہ تھا لہٰذا میں نے یہ عجیب و غریب کہانی لکھنے سے پہلے واقعات کو تاریخ وار چیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسے معمر کاروباری لوگ بھی ڈھونڈ نکالے جو سیٹھ لطیف کانجی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ بورڈ آف ریونیو کے ریکارڈ اور بلدیہ کی پرانی فائلوں تک رسائی حاصل کی۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں نے یہ سب کیوں کیا تو میں شاید کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکوں گا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں نے یہ ساری بھاگ دوڑ اس لئے کی کیونکہ میں ایسی پراسرار قسم کی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ علم نجوم، اعداد، دست شناسی،یہ سب مجھے مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ لہٰذا میں چاہتا تھا کہ مجھے کچھ ایسے سراغ مل جائیں جن کی وجہ سے سیٹھ لطیف کانجی کی کہانی کا سارا تانا بانا بکھر جائے۔

میری بھاگ دوڑ بے سود رہی۔ بیشتر واقعات انہی تاریخوں کو رونما ہوئے تھے جو ان بوسیدہ ڈائریوں میں درج تھیں۔ کچھ نئی باتیں ضرور معلوم ہوئیں مگر ان کا تعلق اعداد سے نہیں، خود سیٹھ لطیف کانجی کی شخصیت سے تھا۔ ہر سیٹھ کی طرح اس نے بھی بہت سے گھپلے کئے تھے۔ زمینوں کے غیر قانونی الاٹمنٹ، ٹیکس چوری، ناقص تعمیرات، سرکاری قرضے ہڑپ کر جانا۔، ڈائریوں میں اس کا کوئی ذکر نہ تھا۔ دو تین عورتیں بھی اس کی زندگی میں آتی جاتی رہی تھیں۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ان میں سے ایک عورت کو اس نے گارڈن ایسٹ کے علاقے میں مکان بھی لے کر دیا تھا۔ مگر ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کے ثبوت بھی اب وقت کی گرد میں دفن ہو چکے تھے اور ان کی کوئی اہمیت بھی نہیں رہی تھی۔

مجھے سب سے بڑا صدمہ اس وقت پہنچا جب میں نے تیس برس پرانے اخبارات کی فائلوں میں اس کی موت کی خبر تلاش کرنا شروع کی۔ پیر 9 اپریل کے تین اردو روزناموں اور شام کے ایک انگریزی اخبار میں وہ خبر موجود تھی۔ شام کے انگریزی اخبار نے خبر کے ساتھ سیٹھ لطیف کانجی کی سنگل کالم تصویر بھی شائع کی تھی۔ وہ اپنے باپ کی طرح پچاس سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر گیا تھا۔ ان خبروں کو دیکھتے دیکھتے مجھے یاد آیا کہ اگر یہ خبر پیر کو شائع ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ سیٹھ لطیف کانجی کا انتقال اتوار کو ہوا ہو گا۔ یعنی 8 اپریل کو۔ 8 اپریل 1984ء کو۔

لمحہ بھر کو سب خبریں دھندلا گئیں اور جیسے کسی نے آہستہ سے سرگوشی کی۔ آٹھ چار آٹھ چار!

میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ کہانیاں تو بس، کہانیاں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی صورت اختیار کر لیتی ہیں، کسی بھی راہ پر چل نکلتی ہیں۔ بس کبھی کبھی کوئی سیٹھ لطیف کانجی ٹکرا جاتا ہے اور لکھنے والے کے اعتماد کی دیوار میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ ٭٭٭

ماخذ:ادب سلسلہ ۲، تشکر: تبسم فاطمہ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید