صفحات

تلاش کریں

حکایاتِ سعدی

بادشاہ اور قیدی

کہتے ہیں۔ ایک بادشاہ کی عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ بادشاہ کے حکم پر پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لے چلے تو اس نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا کسی شخص کے لیے بڑی سے بڑی سزا یہی ہوسکتی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے اور چونکہ اس شخص کو یہ سزا سنائی جا چکی تھی اس لیے اس کے دل سے یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ بادشاہ ناراض ہو کر درپے آزار ہو گا۔بادشاہ نے یہ دیکھا کہ قیدی کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا ''یہ کیا کہہ رہا ہے؟'' بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا س نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصےّ سے دیوانہ ہو جائے گا اور ہوسکتا ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو اور عذاب میں مبتلا کرے۔ اس نے جواب دیا جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں''۔وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔بادشاہ کا ایک اور وزیر پہلے وزیر کا مخالف اور تنگ دل تھا وہ خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا''یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں اور سچ یہ ہے کہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ غصہّ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہ کر رہا تھا''۔وزیر کی یہ بات سن کر نیک دل بادشاہ نے کہا '' اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔ یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہوئےوہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے نہ وہ زباں پہ آئےاچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو آگ فساد کی بجھائےحاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ بادشاہ نے قیدی کو آزاد کر دینے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ وزیروں کا فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکالیں جس میں کوئی بھلائی نہ ہو۔ اس نے مزید کہا''یہ دنیاوی زندگی بہرحال ختم ہونے والی ہے۔ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر، سب کا انجام موت ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کی روح تخت پر قبض کی جاتی ہے یا فرش خاک پر''۔
وضاحت
حضرت سعدیؒ کی یہ حکایت پڑھ کر سطحی سوچ رکھنے والے لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ مصلحت کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔ لیکن یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔ حکایت کی اصل روح یہ ہے کہ خلق خدا کی بھلائی کا جذبہ انسان کے تمام جذبوں پر غالب رہنا چاہیے اور جب یہ اعلیٰ د ارفع مقصد سامنے ہو تو مصلحت کے مطابق روّیہ اختیار کرنے میں مضائقہ نہیں۔ جیسے جراح کو یہ اجازت ہے کہ فاسد مواد خارج کرنے کے لیے اپنا نشتر استعمال کرے۔ کسی انسان کے جسم کو نشتر سے کاٹنا بذات خود کوئی اچھی بات ہر گز نہیں ہے لیکن جب جرّاح یہ عمل کرتا ہے تو اسے اس کی قابلیت سمجھا جاتا ہے۔٭٭٭
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ کسی بات پر اپنے وزیرسے ناراض ہو گیا اور اس نے اسے اس کے عہدے سے ہٹا دیا۔ وزیر بہت دانا نیک دل تھا بادشاہ کے دربار سے نکل کر وہ اللہ والوں کی مجلس میں شامل ہو گیا اور ان نیک لوگوں کی صحبت میں اسے ایسی خوشی اور ایسااطمینان ملا جو پہلے کبھی حاصل نہ ہوا تھا۔
بادشاہ نے کچھ دن بعد محسوس کیا کہ جس وزیر کو اس نے معزول کیا ہے وہ تو اس عہدے کے لیے بہت موزوں تھا۔ سچا اور وفادار ہونے کے ساتھ وہ ایسا عقل مند تھا کہ اس کا مشورہ ہمیشہ مفید ثابت ہوتا تھا۔ چنانچہ اس نے وزیر سے کہا کہ وہ اپنی کرسی پھر سنبھا ل لے اور سلطنت کے معزز عہد ے دار کی حیثیت سے خدمات انجام دے
وزیر نے جواب دیا کہ حضور والا، سلطنت کے کاروبار میں مشغول ہونے کے مقابلے میں میرے لیے معزول رہنا زیادہ اچھا ہے۔ اب میں ہر طرح آرام میں ہوں کتوں جسی فطرت رکھنے والے لوگوں کی شرارتوں سے مجھے نجات مل گئی ہے اور خدا کے فضل سے میرا وقت بہت اچھا گزار رہا ہے۔
بادشاہ نے بہت زور دیا لیکن اس نے وزارت کا عہدہ قبول نہ کیا
ہما کو یوں شرف حاصل ہوا سارے پرندوں پر
گزر اوقات کرتا ہے پرانی ہڈیاں کھا کر
قناعت نے عطا کی ہے اسے خوئے جہانداری
معزز ہے وہی بس جس کا شیوہ ہو کم آزادی
وضاحت
حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ انسان کو سچھی راحت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اپنے دل کو لالچ اور حرص جیسی برائیوں سے پاک کر لیتا ہے یہ مقام حاصل ہو جائے تو دولت اور عہدوں کے لیے مارے مارے پھر نے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ یہ چیزیں بغیر طلب کے اس کے قدموں میں آ گرتی ہیں۔
٭٭٭

بادشاہ کا خواب

بیان کیا جاتا ہے، ملک خراسان کے ایک بادشاہ نے سلطان محمود کو سبکتگین کو خواب میں اس حالت میں دیکھا کہ وہ قبر میں پڑا ہے۔ اور اس کا پورا وجود گل سڑکر خاک میں مل چکا ہے۔ لیکن حلقہ ہائے چشم میں اس کی آنکھیں سلامت ہیں اور وہ زندہ انسانوں کی آنکھوں کی طرح ادھر اُدھر دیکھ رہی ہیں۔
یہ عجیب خواب دیکھ کر بادشاہ بیدار ہوا تو اس نے اپنے امیروں اور وزیروں سے اس کی تعبیر پوچھی سب نے عجز کا اظہار کیا۔ اسی دوران میں ایک درویش بادشاہ کے دربار میں آیا اور اس نے کہا۔ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ سلطان محمود سبکتگین اس بات کو حیران ہو کر دیکھ رہا ہے کہ جو سلطنت اس نے بہت تگ دور کے بعد حاصل کی تھی، اب اس پر غیر قابض ہو گئے ہیں۔
کتنے ہی نامدار زمیں میں سماگئے دنیا میں آج ایک بھی ان کا نشاں بنیں
جو لاش قبر میں گئی گل سڑکے مٹ گئی اپنے حقیقی روپ میں استخواں نہیں
البتہ عدل سے رہا نوشیرواں کا نام گو بزم ہست و نابود میں نوشیرواں نہیں
لازم ہے اس سے پہلے کرے کوئی نیک کام جب لوگ یہ کہیں گے جہاں میں فلاں نہیں
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں جمال و جاہ رکھنے والے لوگوں کو ان کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ انسان کیسا بھی اقتدار حاصل کر لے ایک دن موت اسے قبر کی تاریکیوں میں اتار دیتی ہے۔ البتہ اگر اس نے نیک عمل کیے ہوں تو اسے حیات جاودانی حاصل ہو جاتی ہے۔ جیسے نوشیرواں عادل کو اس کی انصاف پروری کے باعث ناموری حاصل ہوئی کہ قیامت تک اس کا ذکر بھلائی سے کیا جائے گا۔
٭٭٭

بے تدبیر بادشاہ

کہتے ہیں، پچھلے زمانے میں ایک بادشاہ نہ اپنے ملک کے انتظام والنصرام کی طرف توجہ دیتا تھا اور نہ لشکریوں کی دلجوئی اور خبر گیری کرتا تھا۔ چنانچہ نتیجہ اس کا یہ تھا کہ رعایا بد دل اور سپاہی خستہ حال تھے۔ ظاہر ہے ایسی باتیں دشمنوں سے چھپی نہیں رہتیں۔ بادشاہ کے ایک حریف نے ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہا اور اس کے ملک پر حملہ کر دیا۔ یہ بادشاہ اپنی فوج آراستہ کر کے مقابلے پر آیا۔ پہلی ہی جھڑپ میں اس کے سپاہیوں کی بہت بڑی تعداد اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ کتنے ہی سپاہی اور افسر دشمن سے جا ملے۔
سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے غداری اور بے وفائی کی تھی ان میں سے ایک شخص میرا واقف تھا۔ وہ مجھے ملا تو میں نے ملامت کی کہ اے شخص، یہ بات تو شرافت اور مردانگی کے خلاف ہے کہ تو اس بادشاہ کو چھوڑ کر جس کا تو نے نمک کھایا ہے اور جس کے سائے میں اتنا عرصہ اطمینان اور امن کی زندگی بسر کی ہے، اس کے دشمن سے جا ملا ہے۔
اس شخص نے میری بات سن کر کہا، بے شک یہ فعل پسندیدہ نہیں لیکن انصاف شرط ہے۔ میں نے ایسی حالت میں بادشاہ کا ساتھ چھوڑا ہے کہ میرا گھوڑا بھوکا اور زین کا نمدہ گروی رکھا ہوا تھا۔ تم ہی بتاؤ ایسی حالت میں میں کیا کرتا ہے۔
جو محبوب ہو دولت و عز و جاہ کر ے فوج کو مطمئن بادشاہ
سپاہی اگر ہوں پریشان حال تو چستی سے تلوار اٹھے نہ ڈھال
وضاحت
سعدیؒ نے اس حکایت میں جہاندانی کا یہ زرّین اصول بتا یا ہے کہ ملک میں امن و امان کی فضا پیدا کرنے اور آزادی کی حفاطت کرنے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ اپنے لشکریوں کی مالی حالات اچھی رکھی جائے اور حکمران اپنے سپاہیوں کو روپے سے زیادہ عزیز رکھے تنگ دستی اور غربت ایسی بری چیز ہے کہ انتہائی نیک نیت اور وفا دار لوگوں کو بھی مختلف انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
٭٭٭

بیوقوف بادشاہ

کہتے ہیں، ایک بادشاہ رعیت کی نگہداری سے بے پروا اور بے انصافی اور ظلم پر دلیر تھا اور ان دونوں باتوں کا یہ نتیجہ بر آمد ہو رہا تھا کہ اس کے ملک کے لوگ اپنے گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ ایک دن یہ کم فہم اور ظالم بادشاہ اپنے دربار میں عہدے داروں اور ندیموں کے درمیان بیٹھا فردوسی کی مشہور رزمیہ نظم شاہنامہ سن رہا تھا۔ بادشاہ ضحاک اور فریدوں کا ذکر آیا تو اس نے اپنے وزیر سے سوال کیا کہ آخر ایسا کیوں ہوا کہ ضحاک جیسا بڑا بادشاہ اپنی سلطنت گنوا بیٹھا۔ اور فریدوں ایک بڑا بادشاہ بن گیا۔ جب کہ اس کے پاس نہ لاؤ لشکر تھا اور نہ بڑا خزانہ ؟
اس کا وزیر بہت دانا تھا۔ اس نے ادب سے جواب دیا کہ حضور والا اس کی وجہ یہ تھی کہ فریدوں خلق خدا کا بہی خواہ اور ضحاک لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف سے بے پروا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ضحاک کو چھوڑ کر فریدوں کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور وہ بادشاہ بن گیا۔ بادشاہی لشکر اور عوام کی مدد سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ پھر وزیر نے بادشاہ کو نصیحت کی کہ سلطنت قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور اپنا رویہّ بدلیں۔ لوگوں کو پریشان اور ہر اساں کرنے کی جگہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ احسان اور انصاف کرنے سے بادشاہ کی محبت دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ فوج کے سپاہی وفادار اور جاں نثار بن جاتے ہیں۔
یہ باتیں خیر خواہی کے جذبے سے کہی گئی تھیں لیکن بادشاہ وزیر سے ناراض ہو گیا اور اسے جیل خانے بھجوا دیا۔ اس نے اپنا رویہّ بدلنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ کچھ ہی دن بعد، کرنا خدا کا کیا ہوا کہ بادشاہ کے بھائی بھتیجوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور رعایا ان کی طرف دار ہو گئی۔ کیونکہ ہر شخص بے تدبیر بادشاہ کے ظلم سے پریشان تھا۔
سلطنت اور ظلم یک جاہو نہیں سکتے کبھی
بھیڑیا بھیڑوں کی رکھوالی پہ کب رکھا گیا
ظلم سفا کی پہ جو حاکم بھی ہو جائے دلیر
جان لو قصر حکومت اس نے خود ہی ڈھا دیا
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں جہاندانی کا یہ زرین اصول بیان کیا ہے کہ بادشاہ کی اصل قوت رعایا کی خیر خواہی اور محبت ہے اور یہ قوت احسان اور انصاف کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ بصورت دیگر انتہائی قریب کے لوگ بھی مخالف بن جاتے ہیں۔ اور ظلم اور بے انصافی پر دلیر ہو جانے والا حاکم تنہا رہ جاتا ہے ایسی حالت میں اس کے دشمن اسے آسانی سے ختم کر دیتے ہیں
٭٭٭

بزدل غلام

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا اس لیے وہ بہت خوفزدہ تھا اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزر رہا تھا لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے کا بالکل اثر نہ ہوتا تھا۔
کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے فوراً اجازت دے دی اور دانشمند شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اس شخص کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔
غلاموں نے حکم کی تعمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا کے اندر پھینک دیا۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکلا کر کشتی میں سوار کر لوَ چنانچہ غلاموں نے اس کے سر کے بال پکڑ کر کشتی میں گھسیٹ لیا اور وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بڑی طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔
بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟
دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی اور خاموش ہو گیا۔
جس نے دیکھی نہ ہو کو ئی تکلیف قدر آرام کی وہ کیا جانے
نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ جو کی روٹی کو کب غذا مانے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسان کی یہ نفساتی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس کی قدر و قیمت سے آگاہ نہیں ہوتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایساشخص جسارت اور قوت برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ مسرت اور کامیاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جو رنج و راحت دونوں سے بخوبی آگاہ ہو
٭٭٭

فتح کی خوشخبری

کہتے ہیں۔ ملک عرب کا ایک بادشاہ بڑھا پے کی عمر کو پہنچ گیا تھا۔ اسی زمانے میں اسے ایک سخت مرض نے آ پکڑا جس کے باعث وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو گیا اور یہ تمناّ کرنے لگا کہ موت کا فرشتہ جلد آئے اور اسے ان تکلیفوں سے چھڑوا لے۔
انھی ایام میں میدان جنگ سے ایک سپاہی نے اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے یہ خوشخبری سنائی کہ حضور کے اقبال کی یاوری سے ہماری فوج نے دشمن کو شکست دے کر فلاں علاقے پر قبضہ کر لیا اور اس علاقے کے باشندے سچے دل سے حضور کے فرمانبردار بن گئے۔
بادشاہ نے یہ خوشخبری افسردہ ہو کر سنی اور پھر آہ کھینچ کر بولا، یہ خوشخبری میرے لیے نہیں بلکہ میرے دشمنوں کے لیے ہے۔ یعنی ان کے لیے جو میری جگہ زمام اقتدار سنبھالنے کے لیے میرے مرنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔
تمام عمر اس امید میں گزاری ہے
کبھی تو پورا میرے دل کا مدّعا ہو گا
ہوئی ہے آج اگر آرزو میری پوری
تو دیکھتا ہوں کہ یہ سازبے صدا ہو گا
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسان کو اس کی آرزوؤں کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ انسان کیسا بھی صاحب اقتدار بن جائے اس کا انجام فنا ہے۔ موت مقرہ وقت پر اس کے دروازے پر دستک دے گئی اور اسے اپنا تمام سازو سامان چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہونا پڑے گا اور اس وقت وہ محسوس کرے گا کہ جن آرزوؤں اور تمنّاؤں کو اس نے زندگی کا مقصد وحید بنا لیا تھا ان کی حیثیت کم قیمت کھلونوں سے زیادہ نہیں۔
٭٭٭

فضول خرچ فقیر

کہتے ہیں، ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں کے درمیان خوش و خرم بیٹھا اس مطلب کے شعر پڑھ رہا تھا کہ آج دنیا میں مجھ جیساخوش بخت کوئی نہیں، کیونکہ مجھے کسی طرف سے کوئی فکر نہیں ہے۔ اتفاقاً ایک ننگ دھڑنگ فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اونچی آواز میں اس مطلب کا شعر پڑھا کہ اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں؟
بادشاہ نے فقیر کی آواز سنی تو اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس کی حالت سے آگاہ ہو کر کہا کہ سائیں جی، دامن پھیلائیے۔ ہم آپ کو کچھ اشرفیاں دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا کہ بابا، میں تو دامن بھی نہیں رکھتا۔ بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخشا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر صدا لگائی۔
بادشاہ نے فقیر کی آواز سنی تو اسے بہت غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ جو شخص فضول کاموں میں روپیہ خرچ کرتا ہے وہ سچی راحت نہیں پاسکتا
جو شخص دن میں جلاتا ہے شمع کا فوری
نہ ہو گا اس کے چراغوں میں تیل رات کے وقت
بادشاہ کا ایک وزیر بہت دانا اور غریبوں کا ہمدرد تھا۔ اس نے بادشاہ کی یہ بات سنی تو ادب سے کہا کہ حضور والا نے بالکل بجا فرمایا ہے اس نادان نے فضول خرچی کی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بس ان کی ضرورت کے مطابق امداد دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی مروّت اور عالی ظرفی کے خلاف ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔ حضور۔ اس کی بے تدبیری کو نظر انداز فرما کر کچھ نہ کچھ امداد ضرور کریں۔
دیکھا نہیں کسی نے پیا سے حجاز کے
ہوں جمع آبِ تلخ پہ زمزم کو چھوڑ کر
آتے ہیں سب ہی چشمۂ شیریں ہو جس جگہ
پیا سے کبھی نہ جائیں گے دریائے شور پر
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے خیر اور بخشش کے بارے میں اہم نکات بیان فرمایئے ہیں۔ (۱) جو لوگ صاحب اقتدار او آسودہ حال ہیں انھیں زیر دستوں کی امداد سے غافل نہ رہنا چاہیے (۲) یہ خیال رکھنا چاہیے کہ امداد سائل کے ظرف اور ضرورت سے زیادہ نہ ہو کہ وہ فضول خرچی کے گناہ سے بچا رہے (۳) جس شخص کو خدا نے اپنی نعمتوں سے نواز ہوا سے غیر مستحق لوگوں کےسوال پر بھی بر ہم نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ان کی شہرت کے باعث ضرورت مندوں کا ان کے پاس آنا ایک ضروری بات ہے بالکل یوں جسے شیریں پانی کے چشمے پر چرند پرند اور انسان سب جمع ہوتے ہیں (۴) سائل کو چاہیے کہ جب وہ صاحب اقتدار لوگوں سے سوال کرے تو اس بات پر ضرور غور کر لے کے اس کا مزاج برہم تو نہیں، کیونکہ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ کبھی اچھی بات پر ناراض اور کبھی بری بات پر خوش ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭

حق گو درویش

بیان کیا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں ایک ایسے بزرگ تھے جن کی دعا قبول ہوتی تھی۔ ایک دن حجاج نے ان بزرگ کی خدمت میں درخواست کی کہ میرے حق میں دعا فرمائیے۔ حجاج کی یہ بات سن کر بزرگ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا، اے اللہ ! اس شخص کو موت دے دے۔
حجاج یہ دعا سن کر بہت حیران ہوا اور شکایت کے لہجے میں بولا، آپ نے میرے حق میں یہ کیس دعا مانگی ؟ بزرگ نے فرمایا، تیرے اور مسلمانوں کے لیے یہی دعا سب سے اچھی ہے۔ وہ اس لیے کہ جلد موت آ جائے گی تو تیرا نامہ اعمال مزید سیا ہ نہ ہو گا اور عام مسلمانوں کے لیے یوں کہ تو مر جائے گا تو انھیں ظلم وستم سے نجات مل جائے گی
اے زبردست ستاتا ہے جو کمزوروں کو
کیا ہی اچھا ہو کہ اس ظلم سے تو باز آئے
لائق فخر نہیں تیر ی یہ شان و شوکت
ایسے جینے سے تو اچھا ہے کہ تو مر جائے
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے مردان خدا کا پاکیزہ کردار پیش کیا ہے۔ تقویٰ اور نیکی کا یہ تصور کہ انسان گوشہ عافیت میں بیٹھ جائے بالکل غلط ہے۔ ایک سچے مومن کا عمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہے
٭٭٭

جوہر اصلی

کہتے ہیں، ایک بادشاہ کے کئی بیٹے تھے۔ اُن میں ایک کو تاہ قد اور معمولی شکل و صورت کا تھا اور اس وجہ سے اسے اپنے باپ کی ویسی توجہ اور شفقت حاصل نہ تھی جیسی اس کے دوسرے بھائیوں کو حاصل تھی۔
ایک دن بادشاہ نے اس پر نظر حقارت ڈالی تو شہزادے کا دل بے قرار ہو گیا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا۔ بے شک انسان کی شکل صورت بھی لائق توجہ ہوتی ہے لیکن۔ سچ یہ ہے کہ انسانیت کا اصلی جو ہر انسان کی ذاتی خوبیاں اور حسن سیر ت ہے۔
آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
پست ہمت یہ نہ ہو گو پست قامت ہو تو ہو
پس اے والد محترم، حقیر جان کر مجھے نظر انداز نہ فرمائیے بلکہ میری ان خوبیوں پر نظر ڈالیے جو اللہ پاک نے مجھے بخشی ہیں۔ اپنے بھائیوں کے مقابلے میں بیشک میں کم رو اور پست قامت ہوں، لیکن خدا نے اپنے خاص فضل سے مجھے شجاعت کا جو ہر بخشا ہے۔ دشمن مقابلے پر آئے تو اس پر شیر کی طرح جھپٹتا ہوں اور اس وقت تک میدان جنگ سے باہر قدم نہیں نکالتا جب تک دشمن کو بالکل تباہ نہ کر دوں۔
بادشاہ نے اپنے بیٹے کی ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی وہ یوں مسکرایا جیسے کسی نادان کی بات سن کر مسکراتے ہیں۔ اس کے بھائیوں نے کھلم کھلا اس کا مذاق اڑایا۔
خیر بات آئی گئی۔ یہ شہزادہ پہلے کی طرح زندگی گزارتا رہا۔ لیکن پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ طاقت ور پڑوسی بادشاہ نے اس بادشاہ کے ملک پر حملہ کر دیا۔ عیش و عشرت میں زندگی گزارنے والے شہزادے تو اس فکر میں پڑ گئے کہ اب ان کی جانیں کسی طرح بچیں گی۔ لیکن چھوٹے قد والا شہزادہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کے لشکر میں جا گھسا اور اپنی تیز تلوار سے کتنے ہی سپاہیوں کو قتل کر دیا۔ بادشاہ کو اس کی شجاعت کا حال معلوم ہوا تو اس کا بھی حوصلہ بڑھ اور وہ مقابلے کے لیے نکلا۔ بیان کیا جاتا ہے۔ کہ حملہ کرنے والے بادشاہ کے سپاہیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ گھمسان کی لڑائی شروع ہونے کے بعد دشمن کا دباؤ بڑھنے لگا اور بادشاہ کی فوج کے سپاہی اپنی صفیں توڑ کر بھاگنے لگے شہزادے نے یہ حالت دیکھی تو وہ گھوڑا بڑھا کر آگے آیا اور بھاگنے والوں کو غیرت دلائی بہادرو! ہمت سے کام لو دشمن کا خاتمہ کر دو۔ یاد رکھو! میدان جنگ سے بھاگنے والے مرد کہلانے کے حق دار نہیں۔ انھیں عورتوں کا لباس پہن کر گھروں میں بیٹھ جانا چاہیے۔ ''
شہزادے کی تقریر سن کر بھاگتے ہوئے سپاہی پلٹ آئے اور غصے میں بھر کر انھوں نے ایسا زور دار حملہ کیا کہ دشمن فوج میدان جنگ سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئی۔ بادشاہ اپنے بیٹے کی بہادری دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اس کی خوب تعریف کی اور اعلان کر دیا کہ ہمارے بعد ہمارا یہی بیٹا تاج اور تخت کا ملک ہو گا۔ شہزادے کے دلی عہد بن جانے کی سب کو خوشی ہوئی لیکن اس کے بھائی حسدکی آگ میں جلنے لگے۔ اور انھوں نے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ فیصلہ کرنے کے بعد انھوں نے بہادر شہزادے کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا۔ اتفاق سے یہ بات شہزادی کو معلوم ہو گئی۔ جب شہزادہ کھانا کھانے لگا تو شہزادی نے زور سے کھڑکی بند کر کے یہ اشارہ دیا کہ یہ کھانا نہ کھانا صورت حال سے آگاہ ہو کر بہادر شہزادے نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور اپنے حاسد بھائیوں سے کہا، مجھے یہ عزت میری خوبیوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ اگر میں مر بھی جاؤں تو تم میری جگہ نہ لے سکو گے کیونکہ تمھارے اندر کوئی بھلائی نہیں۔ اگر ہما دنیا سے نابود بھی ہو جائے پھر بھی کوئی الّو کے سائے کو پسند نہ کرے گا۔
بادشاہ کو اس بات پتا چلا تو اس نے حاسد شہزادوں کو بہت ڈانٹا اور پھر اس فساد کو ختم کرنے کے لیے، جو سلطنت کی وجہ سے ان بھائیوں کے درمیان پیدا ہو گیا تھا، یہ تدبیر کی کہ شہزادوں کی تعداد کے مطابق ملک کو حصوں میں بانٹ کر ایک ایک شہزادے کو ایک ایک حصے کا مالک بنا دیا۔ بہادر شہزادے نے اس فیصلے کو دل سے قبول کر لیا۔
ایک نان خشک بھی پائے اگر مرد خدا بانٹ کر کھائے اسے، یہ ہو گی اسکے دل میں چاہ
اوڑھ لیں گے ایک گدڑی ملک کے کتنے ہی فقیر رہ نہیں سکتے مگر اک ملک میں دو بادشاہ
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے سچی کامیابی اور حقیقی مسرت حاصل کرنے کے دو اہم گر بتائے ہیں۔ پہلا یہ کہ صحیح معنوں میں کامیابی کامرانی انسان کی اعلیٰ ذاتی صفات سے حاصل ہوتی ہے پست قدر شہزادہ اپنے گرانڈیل بھائیوں کے مقابلے میں وصف شجاعت کے باعث کامیاب ہو گیا۔ دوسرے یہ کہ سچی راحت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب انسان اپنے حق کی حفاظت کرنے کے ساتھ دوسروں کے حقوق بھی تسلیم کرے اور اپنے دل د وماغ کر حرص سے پاک کرے، جیسا کہ درویشوں کا دستور ہے۔ بادشاہوں میں چونکہ یہ خوبی نہیں ہوتی اس لیے ان کی ذات زیادہ تر فساد اور خونریزی کا باعث بنتی رہی۔
٭٭٭

کوتوال کا بیٹا

کہتے ہیں، بادشاہ اغلمش نے ایک بار کوتوال کے بیٹے کو دیکھا تو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مترادف، اسے اپنے مصاحبین میں شامل کر لیا
یہ نیک فطرت نوجوان دانا بادشاہ کی توقعات کے عین مطابق ثابت ہوا وفاشعاری اور دیانت داری و شرافت میں وہ اپنی مثال آپ تھا۔ جو کام بھی اس کے سپرد کیا جاتا وہ اسے بحسن و خوبی انجام دیتا تھا۔
اس کی قابلیت اور شرافت کے باعث جہاں بادشاہ کی نظروں میں اس کی قدر منزلت زیادہ ہوتی چلی جا رہی تھی وہاں حاسدوں کی پریشانیوں اور دکھوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر انھوں نے صلاح مشورہ کر کے نوجوان کے سر ایک تہمت دھری اور بادشاہ کے کانوں تک یہ بات پہنچائی کہ حضور جس شخص کو ہر لحاظ سے قابل اعتبار خیال فرماتے ہیں وہ حد درجہ بد فطرت اور بدخواہ ہے۔
اگرچہ حاسدوں نے یہ سازش بہت خوبی سے تیار کی تھی اور انھیں یقین تھا کہ بادشاہ نوجوان کو قتل کروا دے گا لیکن دانا بادشاہ نے یہ بات محسوس کر لی کہ قصور نوجوان کا نہیں بلکہ حاسدوں کا ہے۔ چنانچہ اس نے جوان کو بلایا اور اس سے پوچھا، کیا وجہ سے کہ لوگ تمہارے متعلق ایسی خراب رائے رکھتے ہیں۔
نوجوان نے جواب دیا، اس کا باعث اس کے سواکچھ نہیں کہ حضور اس خاکسار پر نوازش فرماتے ہیں۔ بس یہی بات ان کے لیے باعث حسد ہے
ہے ازل سے یہ حاسدوں کا چلن خوش نصیبوں کا چاہتے زوال
کیا قصور اس میں آفتاب کا ہے کہ کوئی کر سکے نہ کسب کمال
دیکھے اس کو اگر نہ چمگادڑ منبع نور کیوں ہو رو بہ زوال
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ درس دیا ہے کہ انسان میں اگر واقعی کوئی گن ہو تو وہ قدر دانی سے محروم نہیں رہتا ع
نگاہیں کا ملوں پر پڑ ہی جاتی ہیں زمانے میں
دوسرے یہ کہ اگر خوش بختی سے کسی کو عروج حاصل ہو تو اسے بد خواہوں اور حاسدوں کی طرف سے بے پروا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ تیسری بات یہ کہ اگر کسی کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ اس نے یہ جرائم کیے ہیں تو تحقیق کیے بغیر رائے قائم نہں کرنی چاہیے۔
٭٭٭

نوعمر ڈاکو

بیان کیا جاتا ہے، ملک عرب میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر محفوظ ٹھکانا بنا لیا تھا۔ وہ اپنی کمین گاہ میں بیٹھے رہتے اور جیسے ہی کوئی قافلہ ادھر سے گزرتا پہاڑسے اتر کر اسے لوٹ لیتے خلق خدا ان کے ہاتھوں بہت پریشان تھی۔
ڈاکوؤں کا یہ ٹھکانا کچھ ایسا محفوظ تھا کہ انھیں پکڑنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوتی تھی۔ جو بھی ان کی طرف آتا تھا، وہ دور ہی سے دیکھ کر چھپ جاتے تھے۔ جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو بادشاہ نے ایک ہوشیار جاسوس کو ان کی گرفتاری کے کام پر مقرر کیا۔ یہ جاسوس ایک جگہ چھپ گیا اور جب یہ خطرناک ڈاکو ڈاکا ڈا لنے کے لیے چلے گئے تو اس نے شاہی فوج کو خبر دے دی۔ فوج کے جوان پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر چھپ گئے۔
ڈاکو ڈاکا ڈال کر واپس آئے تو لمبی تان کر سوگئے۔ ان میں سے کسی کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ ہم موت کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ فوج کے جوانوں کو جب اطمینان ہو گیا کہ ڈاکو سوگئے ہیں تو انھوں نے سب ڈاکوؤں کو مضبوط رسیوں سے جکڑ کر بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا اور بادشاہ نے فوراً ہی حکم سنادیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے۔
ان ڈاکوؤں میں ایک نوجوان بھی تھا جس کی شکل بہت بھولی بھالی تھی۔ بادشاہ کے وزیر نے اس نوجوان کو دیکھا تو اسے اس کے اوپر بہت ترس آیا۔ اس نے سوچا، کیا اچھی بات ہو جو اس نوجوان کی جان بچ جائے۔ یہ سوچ کر اس نے بادشاہ سے سفارش کی کہ حضور والا، اس نوجوان پر رحم فرمائیں اور اس کی جان بخشی کر دیں۔ ابھی تو اس نے زندگی کی چند بہاریں ہی دیکھی ہیں۔ اس کی تعلیم و تربیت کا اچھا انتظام کر دیا جائے تو امید ہے۔ یہ ایک اچھا انسان بن جائے گا۔
بادشاہ کو اپنے وزیر کی یہ بات پسند نہ آئی۔ اس نے کہا، تعلیم و تربیت سے انسان کی فطرت نہیں بدلا کرتی۔ یہ ڈاکوؤں کے خطرناک گروہ میں شامل تھا اس لیے یہ ضروری ہے کہ ڈاکوؤں کےساتھ اسے بھی قتل کر دیا جائے۔ یہ عقلمندی نہیں کہ انسان آگ بجھائے اور انگار ے کو چھوڑ دے یا سانپ کو مارے اور سپولیے کو زندہ رہنے دے۔
وزیر نے بادشاہ کی اس بات کی تائید کی اور کہا، بے شک حضور نے بجا فرمایا۔ لیکن موقع دیکھ کر ایک بار پھر نوجوان کی سفارش کی اور کہا۔ اس نوجوان کی عادتیں واقعی اچھی نہیں۔ لیکن یہ بُری عادتیں اس نے بُرے لوگوں میں رہنے کی وجہ سے اپنائی ہیں۔ اب اچھے لوگوں کے ساتھ رہے گا تو اچھا بن جائے گا۔
بادشاہ اپنے وزیر کی یہ بات سن کر خاموش ہو گیا اور وزیر نے ڈاکو نوجوان کو آزاد کر کے اس کی تعلیم و تربیت کا بہت اچھا انتظام کر دیا۔
کہتے ہیں، یہ نوجوان کچھ دن تو ٹھیک رہا لیکن پھر اوباش لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا اور ایک دن نیک دل وزیر اور اس کے بیٹوں کو قتل کر کے اور اس کے گھر کا مال متاع لوٹ کر بھاگ گیا اور اسی پہاڑی چوٹی کو اپنا مسکن بنا لیا جس پر اس کے ساتھیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔
بادشاہ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو اس نے بہت افسوس کیا اور کہا جو برے ہیں، بہترین تربیت سے بھی ان کی اصلاح نہیں ہوتی۔ اچھے سے اچھے کاریگر بھی برے لوہے سے عمدہ تلوار نہیں بنا سکتا۔
بادل سے برستا ہے جو پانی، وہ ایک ہے
لیکن زمیں کو ایک سا دیتا نہیں لباس
برسے جو باغ پر تو اگیں لالہ دشمن
بنجر زمیں پہ اگتی ہے لے دے کے صرف گھاس
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بد اصل سے بھلائی کی توقع نہ رکھنی چاہیے۔ مشہور مقولہ ہے اصل سے خطا نہیں، کم اصل سے وفا نہیں۔ مزید یہ کہ کتے کی دم کو سوبرس بھی نلکی میں رکھا جائے، جب نکالیں گے ٹیڑھی ہو گی۔ یہاں یہ بات بطور خاص سمجھنے کے قابل ہے کہ مشرق کا یہ نامور مفکر اس بات کا ہر گز قائل نہیں کہ انسانوں کی کچھ نسلیں شریف اور کچھ ذلیل ہیں، جیسا کہ عام نسل پرست لوگ خیال کرتے ہیں۔ بلکہ اس کا اشارہ انسانوں یا افراد کے شریف اور خبیث ہونے کی طرف ہے جیسا کہ ہم اپنی دنیا میں دیکھتے ہیَ ایک شخص بے گناہوں کو ستا کر خوش ہوتا ہے اور دوسرا مظلوموں کی اعانت میں اپنی جان قربان کر دینے کو بھی ایک معمولی بات خیال کرتا ہے۔
انسانوں کی فطرتیں ایسی متضاد اور متصادم کیوں ہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایسا ہے او ر سعدی یہی کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنی خباثتوں میں پختہ ہو چکے ہیں، انتہائی کوشش اور حسن سلوک سے بھی ان کی اصلاح ممکن نہیں۔
٭٭٭

رموز مملکت

کہتے ہیں، شاہ ایران ہر مز تخت حکومت پر بیٹھا تو اس نے اپنے باپ کے زمانے کے امیروں، وزیروں کو قید کر دیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر بادشاہ کے ایک معتمد نے سوال کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟بظاہر ان کی کوئی خطا نہ تھی !
ہر مز نے جواب دیا کہ بے شک ان سے کسی نے بھی ایسا کوئی کام نہ کیا تھا کہ اسے جرم قرار دیا جاسکتا لیکن میں نے یہ بات محسوس کی کہ وہ مجھ سے بہت خوف کھاتے تھے اور جو کچھ میں کہتا تھا اس پر پوری طرح یقین نہ کرتے تھے۔ میں نے ان کی اس حالت کو اپنے لیے خطرہ خیال کیا۔ گمان گزرا کہ کہیں مل کر میرے قتل پر آمادہ نہ ہو جائیں۔ چنانچہ میں نے فوراً دانشمندوں کے اس اصول پر عمل کیا کہ جو تجھ سے ڈرتا ہے، تو بھی اس سے خوف کھا۔ نہیں کہا جاسکتا کہ اپنے دل میں سمائے ہوئے خوف کی وجہ سے وہ تیرے ساتھ کیا سلوک کر گزرے
اک حقیر و ناتواں بھی تجھ سے گر کھاتا ہے خوف
اے بر ادر مرد دانا ہے تو تو بھی اس سے ڈر
کہتے ہیں اس خوف سے ڈستا ہے چروا ہے کو سانپ
جیسے ہی دیکھا کچل ڈالے گا ظالم میرا سر
تو یہ دیکھے گا کہ ایک بلی بھی آ جائے جو تنگ
نوچ لے گی شیر کی آنکھیں وہ پنجے مار کر
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں سیاست کا ایک اہم اصول بیان کیا ہے۔ حکمران کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کو معتمد بنائے جو اس سے محبت کرتے ہوں یہ نظر یہ بہت ہی ناقص ہے کہ رعب میں رہنے والے اور دب جانے والے لوگ زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں بے شک ایسے لوگ اپنی ریاکارانہ اطاعت شعاری اور مدح سرائی کے باعث بہت بھلے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی موقع پاتے ہیں، اپنی اہانت کا بدلہ لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭

ظالم بادشاہ کو نصیحت

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں، میں دمشق کی جامع مسجد میں حضرت یحیٰ علیہ السلام کے مزار پر اعتکاف میں بیٹھا تھا کہ ایک دن عرب کا بادشاہ وہاں آیا اور نماز ادا کرنے کے بعد دعا میں مشغول ہو گیا۔
اس بادشاہ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ رعایا کے ساتھ بہت سخت کا برتاؤ کرتا ہے۔ دعا سے فارغ ہو کر وہ میری طرف متوجہ ہو اور کہا کہ ایک دشمن کی طرف سے مجھے بہت خطرہ ہے آپ میرے حق میں دعا فرمائیے کہ بزرگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
میں نے بادشاہ کی بات سنی تو اس سے کہا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ ایک طاقت در شخص کسی کمزور غریب کا پنجہ مروڑے جو شخص عاجزوں پر رحم نہیں کرتا کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کبھی اس پر بھی برا وقت آسکتا ہے اور اگر ایسا وقت آ جائے تو اس کے ظلم کی وجہ سے کوئی بھی اس کی مدد کر نہ آئے گا۔ جس نے بیج تو بدی کا بویا اور امید باندھی اور اپنے دماغ میں ایک بیہودہ خیال بسایا۔ اسے بادشاہ! اپنے کانوں سے غفلت کی روٹی نکال اور اپنی رعایا کے ساتھ انصاف کر یاد رکھ اگر تو نے انصاف نہ کیا تو انصاف کا ایک دن مقرر ہے تو اپنے اعمال کی پاداش سے بچ نہ سکے گا۔
نسل آدم ؑ کے سب افراد ہیں بھائی بھائی
ایک جو ہر ہی سے تخلیق ہوئی ہے سب کی
بدنصیبی سے جو ایک عضو ہو وقف آزار
ہو نہیں سکتا کہ باقی رہے اوروں کا قرار
تو اگر اوروں کی زحمت پہ پریشاں نہ رہے
صاحب خیرو شرف، بندۂ یزداں نہ رہے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں مصائب سے نجات حاصل کرنے کا زرین اصول بتایا ہے اور وہ یہ کہ جو شخص عافیت کا خواہاں ہے وہ رحم و کرم اور انصاف کو اپنا شیوہ بنائے اور اس بات کو سچے دل سے تسلیم کرے کہ انسان خواہ زمیں کے کسی بھی حصے میں آباد ہوں اور رنگ و نسل میں چاہے کتنا بھی اختلاف نظر آئے سب آدم کی اولاد اور بھائی بھائی ہیں۔
٭٭٭

عقلمند شہزادہ

کہتے ہیں، ایک شہزادہ اپنے باپ کے مرنے کے بعد تخت حکومت پر بیٹھا تو اس نے حاجت مندوں کی امداد کے لیے اپنے خزانے کے دروازے کھلوا دیے جو شخص بھی سوالی بن کر آتا، شہزادہ اس کی ضرورت کے مطابق اس کی امداد کرتا، نئے بادشاہ کا یہ رویہ دیکھا تو ایک روز وزیر نے مناسب موقع دیکھ کر خیر خواہی جتا نے کے انداز میں کہا کہ حضور والا پہلے بادشاہوں نے یہ خزانہ بہت توجہ اور دانشمندی سے جمع کیا ہے۔ اسے یوں لٹا دینا مناسب نہیں۔
بادشاہ کو کسی وقت بھی خطرات سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ آیندہ کیا واقعات پیش آئیں۔ اگر حضور والا اپنا سارا خزانہ بھی تقسیم کر دیں تو رعایا کے حصے میں ایک ایک جو کے برابر آئے گا لیکن۔ اگر حضور رعایا کے لوگوں سے ایک ایک جو کے برابر سونا لیں تو حضور کا خزانہ بھر جائے گا۔
بظاہر یہ بات بہت خیرخواہی کی تھی لیک شہزادے کو بالکل پسند نہ آئی اس نے کہا خدا نے مجھے اپنے فضل سے ایک بڑی سلطنت کا وارث بنا یا ہے میرا یہ کام نہیں کہ مال جمع کرنے کی دھن میں لگ جاؤں بادشاہ کا فرض رعایا کو خوشحال بنانا ہے۔ خزانے پر سانپ بن کر بیٹھنا نہیں ہے۔
قارون ہوا ہلاک خزانوں کے باوجود
نوشیرواں ہے زندہ و جاوید عدل سے
ڈبّے میں ہے گر بند تو بے فیض ہے عود
خوشبو اڑے جب آتش سوزاں میں جلائیں
ملتی ہے بزرگی تو فقط جو دوسخا سے
دانہ ہو اگر کاشت تو کھلیان سجائیں
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ سلطنت اور اقتدار کو دوام خزانوں سے نہیں بلکہ لوگوں کو خوشحال بنانے سے ملتا ہے۔ یہ سراسر سطحی سوچ ہے کہ زیادہ مال دار لوگ زیادہ عزت پاتے ہیں اور مال کی قوت سے ان کا اقتدار مستحکم ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سخاوت اور عدل و انصاف کے باعث دلوں میں جو محبت پیدا ہوتی ہے وہ اقدار اور عزت کو دوام بخشتی ہے۔
٭٭٭

عقلمند سیاح

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ سیاحوں کی ایک جماعت سفر پر روانہ ہو رہی تھی۔ میں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ انھوں نے انکار کیا۔ میں نے انھیں یقین دلا یا میں آپ حضرات کے لیے مصیبت اور پریشانی کا باعث نہ بنو ں گا بلکہ جہاں تک ہوسکے گا خدمت کروں گا لیکن وہ پھر بھی رضا مند نہ ہوئے۔
سیاحوں میں سے ایک شخص نے کہا بھائی ہمیں معاف ہی رکھو۔ اس سے پہلے رحم دلی کے باعث ہم سخت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تمھاری طرح ایک شخص ہمارے پاس آیا اور ساتھ سفر کر نے کی اجازت مانگی کیا اور ساتھی بنا لیا۔ سفر کرتے کرتے ہم لوگ ایک قلعے کے پاس پہنچے تو آرام کرنے کے لیے ایک موزوں جگہ ٹھہر گئے اور جب سونے کے لیے اپنے بستروں پر لیٹے تو اس شخص نے یہ کہہ کر ایک سیاح سے پانی کی چھا گل لی کہ میں پیشاب پاخانے کے لیے جانا چاہتا ہوں چھاگل لے کر وہ قلعے میں جا گھسا اور وہاں سے قیمتی سامان چرا کر رفو چکر ہو گیا۔ قلعے والوں کو چوری کا پتا چلا تو انھوں نے ہم لوگوں پر شک کیا اور پکڑ کر قید کر دیا۔ بڑی مشکل سے نجات ملی۔ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سیاح کا شکریہ ادا کر کے کہا کہ اگر چہ مجھے آپ کا ہمسفر بننے کی عزت حاصل نہیں ہوسکی لیکن آپ نے جو اچھی باتیں سنائیں ان سے مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا سچ ہے ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔
سب کو افسردہ کریں پوچ خیالات اس کے
سگ ناپاک اگر حوض میں گر جائے کبھی
اس کی ناپاکی بدل دینی ہے حالات اس کے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں ایک نہایت ہی لطیف نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ گناہ کرنے والے کا فعل صرف اسی کی ذات تک محدود نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کو وہ براہ راست نقصان پہنچاتا ہے، ان کے علاوہ نہ جانے اور کتنے لوگ اس کی غلط کاری کے باعث جائز فائدوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لوگ کسی فریب کار کے ہاتھوں نقصان اٹھا کر شریف اور مستحق لوگوں کا بھی اعتبار نہیں کرتے۔
٭٭٭

اچھا مشورہ

بیان کیا جات ہے کہ ملک مصر کے شہر سکندریہ میں ایک بار بہت سخت قحط پڑا۔ کافی عرصہ بارش نہ ہونے سے زمیں جھلس گئی اور فصلیں بر باد ہو گئیں۔ لوگ پانی کے ایک گھونٹ اور روٹی کے ایک نوالے کے لیے بارے مارے پھرنے لگے۔ 
ایسے سختی کے دنوں میں شہر کے ایک ہیجڑے نے لنگر جاری کر دیا۔ بھوکے اس کے دروازے پر جاتے تھے اور پیٹ بھر کر لوٹتے تھے۔ ایسے حالات میں درویشوں کی حالت تو اور بھی خراب تھی۔ چنانچہ رزق کی تنگی سے گھبرا کر خدا رسیدہ بزرگوں کے ایک گروہ نے اس ہیجڑے سے امداد لینے کا ارادہ کیا اور سعدیؒ سے مشورہ طلب کیا کہ حضرت ہمیں بتائیے کہ اس ہیجڑے سے امداد لینا موزوں رہے گا نہیں ؟
سعدیؒ فرماتے ہیں، نے زوردار لفظوں میں کہا کہ آپ حضرات دل میں اس قسم کا خیال بھی نہ لائیے۔
ہو نحیف و ناتواں، اور جاں بلب گو بھوک سے
شیر کتے کا جھوٹا کھا نہیں سکتا کبھی
گندگی کے ڈھیر سے لیتے نہیں خوددار رزق
متقی سلفےکے در پر جا نہیں سکتا کبھی
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات واضح کر دی ہے۔ کہ حصول رزق اور حاجات پوری کرنے کے سلسلے میں شرفا کو وہ پستی ہر گز اختیار نہیں کرنی چاہیے جو جانوروں کا خاصہ ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انتہائی ضرورت اور تکلیف کے وقت بھی وہ جائز اور ناجائز اور حلال اور حرام کا خیال رکھتا ہے۔ جو لوگ یہ احتیاط نہیں کرتے، جانوروں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭

عجمی طبیب

روایت ہے، عجم کے ایک عیسائی بادشاہ نے عقیدت ظاہر کرنے کے خیال سے اپنے ملک کے ایک نامور طبیب کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں اس خیال سے بھیجا کہ وہ مدینہ شریف میں رہ کر بیمار مسلمانوں کا علاج معالجہ کر سے۔
اس طبیب کو مدینہ شریف میں رہنے کی اجازت مل گئی اور وہ مطب کھول کر وہاں رہنے لگا لیکن کتے نے ہی دن گزر گئے ایک مسلمان بھی علاج کرانے کے خیال سے اس کے مطب میں نہ آیا۔ طبیب نے اپنے طور پر خیال کیا کہ شاید یہ لوگ میرے عیسائی ہونے کی وجہ سے مجھ سے علاج نہیں کراتے۔چنانچہ وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بات کی شکایت کی کہ مسلمان مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور اس وجہ سے علاج نہیں کراتے۔ حضرت رسول اللہ صلی علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا، ایسی بات ہر گز نہیں بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ لوگ بیماری نہیں ہوتے اور ان کے تندرست رہنے کی خاص وجہ یہ ے کہ جب تک خوب بھک نہ لگے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے اور جب کچھ بھو ک باقی ہوتی ہے تو د ستر خوان سے اٹھ جاتے ہیں۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کہ یہ ارشاد مبارک سن کر طبیب مطمئن ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ مدینہ شریف کے مسلمان علاج کی غرض سے اس کے مطب میں کیوں نہیں آتے۔
بولنے میں اور کھانے میں اگر ہو اعتدال
معتبر بنتا ہے انساں، محترم رہتی ہے جان
خیق میں پھنستے ہیں ہم بے اعتدالی کے سبب
ہوا گر محتاط تو گھٹتی نہیں انساں کی شان
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں با عزت اور تندرست رہنے کا زریں گر بتا یا ہے۔ دنیا کے تمام دانشمند اس بات پر متفق ہیں کہ کم کھانے کم بولنے اور کم سفر کرنے والے لوگ فائدے میں رہتے ہیں۔یہ سب باتیں یقیناً ضروری ہیں لیکن ان کا اصل فائدہ اس وقت پہنچتا ہے جب اعتدال اور احتیاط کا راستہ اختیار کیا جائے۔
٭٭٭

اپنا محاسبہ آپ

بیان کیا جاتا ہے، ایک مسافر اتفاقاً خدا رسیدہ لوگوں کے حلقے میں پہنچ گیا اور ان کی اچھی صحبت سے اسے بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔ اس کی بُری عادتیں چھوٹ گئیں اور نیکی میں لذت محسوس کرنے لگا۔
یہ انقلاب یقیناً بے حد خوش گوار تھا۔ لیکن حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کو کون بدل سکتا ہے۔ اس شخص کے مخالفوں نے اس کے بارے میں مشہور کر دیا کہ اس کا نیکی کی طرف راغب ہو جانا تو محض دنیا کو دکھا نے کے لیے ہے۔ اس بات سے اسے بہت صدمہ پہنچا چنانچہ وہ ایک دن اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا مرشد نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تیرے مخالف تجھے جیسا بتاتے ہیں، تو ویسانہیں۔ صدمے کی بات تو یہ ہوتی کہ تو اصلا برا ہوتا اور لوگ تجھے نیک اور شریف بتائے۔
شکر اس نعمت کا اس حال سے بہت ہے تو
مبتلا جس میں بناتے ہیں تجھے تیرے حریف
یہ کہیں بہتر ہے نیکی کر کے بد مشہور ہو
یہ تباہی ہے کہ بد ہو اور تجھے سمجھیں شریف
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے نہایت لطیف پیرائے میں اپنا محاسبہ آپ کرتے رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اپنے بارے میں اہل دنیا کی رائے کو ہر گز قابل اعتبار نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہاں تو اچھوں کو بڑا اور بڑوں کو اچھا کہنے کا رواج ہے اس کے علاوہ دوسری بہت ہی عمدہ بات یہ بتائی ہے کہ برائی کر کے اچھا مشہور کرنے کی خواہش کے مقابلے میں یہ بات ہر لحاظ سے مستحسن ہے کہ انسان اچھا ہو اور لوگ اسے برا خیال کریں۔
٭٭٭
باپ کی نصیحت
بیان کیا جاتا ہے، ایک فقیہہ نے اپنے باپ سے کہا یہ متکلم باتیں تو ہت لچھے دار کرتے ہیں لیکن ان کا عمل ان کے قول کے مطابق نہیں ہوتا۔ دوسروں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ دنیا سے دل نہیں لگانا چاہیے لیکن خود مال و دولت جمع کرنے کی فکر سے فارغ نہیں ہوتے۔ ان کا حال تو قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق ہے ( تم لوگوں کو تو بھلائی اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہو لیکن اس سلسلے میں اپنی حالت پر کبھی غور نہیں کرتے)۔
باپ نے کہا۔اے بیٹے ! اس خیال کو ذہن سے نکال دے کہ جب تک کوئی عالم با عمل نہیں ملے گا تو نصیحت پر کان نہ دھرے گا بھلائی اور نیکی کی بات جہاں سے بھی سنے اسے قبول کر۔ اس نابینا شخص جیسا بن جانا مناسب نہیں جو کیچڑ میں پھنس گیا تھا اور کہہ رہا تھا کہا اے برادران اسلام ! جلد سے میرے لیے ایک چراغ روشن کر دو۔ اس کی یہ بات سنی تو ایک خاتون نے کہا کہ جب تجھے چراغ ہی دکھائی نہیں دیتا تو اس کی روشنی سے کسی طرح فائدہ حاصل کرے گا؟ اسے بیٹے ! واعظ کی محفل بازار کی دکان کی طرح ہے کہ جب تک نقد قیمت ادانہ کی جائے جنس ہاتھ نہیں آتی۔ اسی طرح عالم کے ساتھ عقیدت شرط اوّل ہے۔ دل میں عقیدت نہ ہو گی تو اس کی بات دل پر اثر نھ کرے گی۔ نصیحت تو دیوار پر بھی لکھی ہوئی ہو تو قابل قبول ہوتی ہے۔
ہر نصیحت بگوش ہوش سنو
دیکھو دیوار پر لکھا کیا ہے
یہ نہ دیکھو کہ کون کہتا ہے
غور اس پر کرو کہا کیا ہے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں اصلاح نفس کے لیے یہ زریں گر بتایا ہے کہ جن لوگوں سے کچھ حاصل کرنا ہوا ان میں عیب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے علم حاصل کرنے کا انحصار تو کلیہ عقیدت اور ادب پر ہی ہے۔ نصیحت بھی اس وقت تک دل پر اثر نہیں کرتی جب تک سننے والا عقیدت سے نہ سنے اس کے علاوہ یہ بات بھی ہمہ وقت ذہن میں رکھنے کے قابل ہے کہ بے نیت ذات تو صرف اللہ پاک کی ہے۔ عیب ڈھونڈ نے کی نظر سے دیکھا جائے تو اچھے اچھے آدمی میں بھی کوئی خامی نکل آئے گی۔
٭٭٭
بد آواز قوال
حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ میرے استاد حضرت ابوالفرج بن جوزی رحمۃ اللہ علیہ قوالی سننے کے خلاف تھے، جسے صوفی لوگ سماع کہتے ہیں اور روحانی ترقی کے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ ادھر نو عمری کے جذبات کی وجہ سے مجھے ایسی محفلوں میں جانے کا بہت شوق تھا ور میں اپنے استادکی نصیحت کو نظر انداز کر کے چوری چھپے ایسی محفلوں میں شریک ہوتا رہتا تھا۔
ایک رات کا ذکر، میں ایک محفل میں شریک ہو ا تو وہاں ایک ایسا گویا گا رہا تھا جس کی آواز بہت خراب تھی اور جو گانے کے فن سے بھی آشنا نہ تھا۔ حاضرین میں سے ہر شخص اس کا گانا سن کر بیزار ہو رہا تھا۔ خود میرا بھی یہی حال تھا: دل چاہتا تھا کہ محفل سے نکل بھاگوں لیکن محفل کے آداب کا خیال کر کے بیٹھا تھا۔
خدا خدا کر کے اس بد آواز گویے نے گانا ختم کیا اور لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انعام و اکرام دینے کا معاملہ تو رہا ایک طرف، کسی کے منھ سے تعریف کا ایک لفظ نہ نکلا۔ لیکن میں جلد ی سے آگے بڑھا، اپنا عمامہ اتار کر اس کے سر پر رکھ دیا۔ کمر سے دینا ر نکال کر اسے دیے اور پھر نہایت گرم جوشی سے اس سے بغل گیر ہو گیا۔
حاضرین نے میری اس حرکت کو بہت حیرت سے دیکھا۔ ایک صاحب نے پوچھا، بھلا آپ کو اس شخص کے گانے میں کون سی خوبی دکھائی دی جو اس کی عزت بڑھائی؟ ہم نے اج تک نہی دیکھا کہ کسی محفل سے اسے چاندی کا ایک ٹکڑا بھی ملا ہو۔
میں نے کہا، جو کچھ بھی ہو، مجھ پر تو اس شخص کی کرامت ظاہر ہو گئی۔ سوال کیا گیا۔ وہ کیا؟ میں نے جواب دیا، میرے استاد محترم علامہ ابن جوزیؒ نے مجھے بار ہا منع کیا ہے کہ میں سماع کی محفلوں میں شریک نہ ہوا کروں لیکن اس حکم پر عمل نہ کرتا تھا۔ الحمد اللہ آج اس شخص کا گانا سن کر میرے دل کی حالت بدل گنی اور آیندہ میں سماع کی محفلوں میں کبھی شامل نہ ہو گا۔
اچھی آواز بھی انعام ہے اس خالق کی
جب بھی کانوں میں پڑے دل کو لبھا لیتی ہے
گانے والا جو برا ہو تو حجازی لے بھی
سننے والے کی سماعت پہ گراں ہوتی ہے
٭٭٭
بد مست شرابی
بیان کیا جاتا ہے۔ ایک مرد دانا کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک جگہ ایک شرابی کو دیکھا جو زمیں پر بے سدھ پڑا تھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر وہ شخص بہت متاسف ہوا اور اس کے قریب رک کر اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا
اتفاق سے اس وقت وہ بد مست بھی کسی قدر ہوش میں آیا۔ ایک شخص کو اپنی طرف نفرت سے دیکھتے پایا تو بولا (جب وہ کسی ایسے مقام سے گزرتے ہیں جہاں بے ہودگی کی کوئی بات ہو تو دامن بچا کر شائستگی سے گزر جاتے ہیں)
تو جو اچھا ہے تو نفرت سے نہ دیکھ ان کو
کبھی اپنی جانوں پہ کیا کرتے ہیں جو ظلم مدام
فرض تو یہ ہے کہ ایسوں کی کرے کچھ امداد
یہ نہ ممکن ہو تو کر دور سے ان کو سلام
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں معاشرے کی اصلاح اور بری عادتوں میں مبتلا لوگوں کو راہ راست پر لانے کا بہت ہی گہرا اصول بتایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی برائی میں گرفتار نظر آئے تو اس طبیب کی طرح جو مریض سے نہیں ایسے لوگوں کو برا بھلا کہتا اور لعن طعن کرتا جو انھیں برائیوں میں اور پختہ کر دیتا ہے اس کے مقابلے میں حسن سلوک ان پر شرمندگی کی کیفیت طاری کر دیتا ہے جو پانی حالت کو اچھا بنانے کے عزم کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
٭٭٭

بہادر لڑکا
بیان کیا جاتا ہے۔ ایک بادشاہ کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو گیا کافی دن علاج کرنے کے باوجود جب اسے آرام نہ آیا تو طبیبوں نے صلاح مشورہ کر کے کہا کہ اس بیماری کا علاج صرف انسان کے پتے سے کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی ایسے انسان کے پتے سے جس میں یہ یہ خاص نشانیاں ہوں۔ یہ کہہ کر حکیموں نے وہ نشانیاں بتائیں اور بادشاہ نے حکم دے دیا کہ شاہی پیادے سارے ملک میں پھر کر تلاش کریں اور جس شخص میں یہ نشانیاں ہوں اسے لے آئیں۔ پیادوں نے فوراً تلاش شروع کر دی۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ وہ ساری نشانیاں ایک غریب کسان کے بیٹے میں مل گئیں۔ پیادوں نے کسان کو ساری بات بتائی کہ بادشاہ کے علاج کے لیے تیرے بیٹے کے پتے کی ضرورت ہے۔ اسے ہمارے ساتھ بھیج دے اور اس کے بدلے جتنا چاہے روپیہ لے لے کسان بہت غریب تھا۔ ڈھیر سارا روپیہ ملنے کی بات سن کر وہ اس بات پر آمادہ ہو گیا کہ سپاہی اس کے بیٹے کو لے جائیں۔ چنانچہ وہ اسے بادشاہ کے پاس لے آئے۔
خاص نشانیوں والا لڑکا مل گیا تو اب قاضی سے پوچھا گیا کہ اسے قتل کر کے اس کے جسم سے پتا نکالنا جائز ہو گا یا نہیں!قاضی صاحب نے فتویٰ دے دیا کہ بادشاہ کی جان بچانے کے لیے ایک جان کو قربان کر دینا جائز ہے
قاضی کے فتوے کے بعد لڑے کو جلاّد کے حوالے کر دیا گیا کہ وہ اسے قتل کر کے اس کا پتا نکال لے لڑکا بالکل بے بس تھا۔ وہ اپنے قتل کی تیاریاں دیکھ رہا تھا اور خاموش تھا۔ زبان سے کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ لیکن جب جلاد تلوار لے کر اس کے سر پر کھڑا ہو گیا تو اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
بادشاہ خود اس جگہ موجود تھا۔ اس نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ جلاّد کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر تو بڑے بڑے بہادر خوف سے کانپنے لگتے ہیں۔ اس نے جلاّد کو ر کنے کا اشارہ کر کے لڑکے کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا لڑکے۔ یہ تو بتا، اس وقت مسکرانے کا کون سا موقع تھا؟
لڑکے نے فوراً جواب دیا، حضور والا دنیا میں انسان کا سب سے بڑا سہارا اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ لیکن میں نے دیکھا کہ میرے ماں باپ نے روپے کے لالچ میں مجھے حضور کے سپرد کر دیا۔ ماں باپ کے بعد دوسرا سہارا انصاف کرنے والا قاضی اور بادشاہ ہوتا ہے۔ کہ اگر کوئی ظالم کسی کو ستائے تو وہ اسے روکیں۔ لیکن قاضی اور بادشاہ نے بھی میرے ساتھ انصاف نہ کیا اب میرا آخر ی سہار خدا کی ذات تھی اور میں دیکھ رہا تھا کہ جلاّد ننگی تلوار لے کر میرے سرپر پہنچ گیا اور خدا کا انصاف بھی ظاہر نہیں ہو رہا۔ بس یہ بات سوچ کر مجھے ہنسی آ گئی
لڑکے کی یہ بات سنی تو بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے حکم دیا کہ لڑکے کو چھوڑ دو۔ ہم یہ بات پسند نہیں کرتے کہ ہماری جان بچانے کے لیے ایک بے گناہ کی جان لی جائے۔
لڑکے کو اُسی وقت چھوڑ دیا گیا۔ بادشاہ نے بہت محبت سے اسے اپنی گود میں بٹھا کر پیار کیا۔ اور قیمتی تحفے دے کر رخصت کیا۔ کہتے ہیں۔ اسی وقت سے بادشاہ کی بیماری گھٹنی شروع ہو گئی اور چند دن میں ہی وہ بالکل تندرست ہو گیا۔
میں نے دیکھا بر لب دریائے نیل اک فیل باں
اپنی دھن میں زیر لب کرتا تھا کچھ ایسا بیاں
غور کر ہاتھی کے پیروں میں جو ہو گا تیرا حال
ہو گی تیرے پاؤں میں بس یونہی مور ناتواں
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے یہ نکتہ بیان کیا ہے۔ کہ جان خواہ بادشاہ کی ہو یا غریب کی، قدر و قیمت میں دونوں برابر ہیں۔ نیز یہ کہ خود غرض بن کر دوسروں کی جانیں پامال کرنے والے دنیاوی لحاظ سے بھی اتنے فائدے میں میں رہتے جس قدر نفع میں خلق خدا پر رحم کرنے والے رہتے ہیں
٭٭٭
بزرگ کی کرامت
بیان کیا جاتا ہے کہ کو ہستان لبنان کے رہنے والے ایک بزرگ ایک دن مشق کی جامع مسجد میں حوض کے کنارے بیٹھے وضو کر رہے تھے اتفاق سے ان کا پاؤں کچھ اس طرح پھسلا کہ وہ حوض میں گر گئے اور لوگوں نے انھیں بصد دشواری پانی سے نکالا۔
بعد ایک شخص ان بزرگ کے پاس آیا اور بہت ادب کے ساتھ سوال کیا کہ حضر، مہربانی فرما کر یہ تو بتائیے کہ جناب کی آج کی پہلی حالت میں اس قدر فرق کیوں نظر آیا ؟ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک بار میں جناب کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ ہمارے راستے میں ایک دریا آیا تو جناب نے بغیر کشتی اور پل کے اس دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ جناب کے پیروں کے پنجے بھی پوری طرح نہ بھیگے تھے، جب کہ آج یہ حالت دیکھی گئی کہ جناب ایک معمولی حوض میں گر گئے اور خود باہر نہ نکل سکے ؟
بزرگ نے یہ سوال سن کر کچھ دیر غور کیا اور پھر فرمایا، اے عزیز! اس سلسے میں پیغمبر بر حق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا فرمان قابل غور ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ کبھی میری یہ حالت ہوتی ہے کہ براہ راست اللہ پاک کی قربت کا شرف حاصل ہوتا ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی واسطہ نہیں بتے۔ اس فرمان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ''کبھی'' ارشاد فرما کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا۔
اس طرح حضرت یعقوبؑ کے بارے میں تم نے سنا ہو گا کہ ایک وقت تو وہ تھا کہ جب حضرت یوسف کے بھائیوں نے انھیں کنویں میں گرا دیا تھا اور حضرت یعقوبؑ کو معلوم نہ ہوسکا تھا کہ ان کا پیارا بیٹا کہاں ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھوں نے سینکڑوں کوس دور سے حضرت یوسفؑ کے کرتے کی خوشبو سونگھ لی۔ ان کا ارشاد ہے۔
حالت ہماری برق ضیا بار کی سی ہے
ظاہر ہوئی کبھی، کبھی رو پوش ہو گئی
کھلتے ہیں لوح دل پہ کبھی آسماں کے راز
ہوتی نہیں کبھی ہمیں خود سے بھی آگہی
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے یہ بات بتائی ہے کہ انبیا اور اولیا سے جو معجزات اور کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں ان کا انحصار ان کی ذاتی کوششوں یا اپنے کمالات پر نہیں بلکہ یہ سب کچھ اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے۔ منعم کمالا ت خدا ہی کی مقدس ذات ہے۔
٭٭٭
بزرجمہر کی نصیحت
کہتے ہیں، ایران کا مشہور بادشاہ نوشیروان عادل ایک دن کسی مسئلے پر اپنے وزیروں سے مشورہ کر رہا تھا۔ اس بادشاہ کا سب سے زیادہ دانا وزیر بزر جمہر بھی اس مجلس مشاورت میں شامل تھا۔
ہر وزیر نے اپنی فہم کے مطابق اس معاملے میں اپنی رائے پیش کی لیکن بزر جمہر نے اس تدبیر کو ٹھیک بتایا جو خود نوشیرواں نے بیان کی تھی جب مجلس بر خاست ہو گئی تو دوسرے وزیروں نے بزر جمہر سے کہا کہ ہم نے بڑی بڑی عمدہ تدبیریں بتائی تھیں
بزرجمہر نے نے کہا، دانائی کی بات یہی ہے کہ اگر کسی معاملے میں بادشاہ نے خود بھی کوئی تدبیر بتائی ہو تو اسی کی تائید کی جائے ایسا کرنے کا فائدہ یہ وہ کسی اور کو مورد الزام نہ ٹھہرا سکے گا۔ اور اگر کامیابی حاصل ہو تو تائید کرنے کی وجہ سے اس کی خوشنودی حاصل ہو گئی اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ صاحب اختیار لوگ اپنی رائے کے خلاف کوئی بات سن کر خوش نہیں ہوتے
خلاف رائے سلطاں کچھ بھی کہنا
ہے اپنے خون میں اپنے ہاتھ رنگنا
خلاف رائے سلطان کچھ نہ کہیے
مناسب یہ ہے اپنی حد میں رہیے
اگر سلطان کہے دن کو یہ ہے رات
تو فوراً کہیے بیشک ہے یہی بات
وہ بالکل وہ رہا پردیں کا جھومر
سر کامل ہے روشن آسمان پر
وضاحت
یہ حکایت پڑھ کر ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت سعدیؒ نے خوشامدی اور جی حضوری بننے کی ترغیب دی ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہے۔ انھوں نے یہ نہایت ہی اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ صاحب اختیار لوگوں کے شر سے بچنا بھی دانشمندی کا حصہ ہے جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ دیوانہ کتا کھلا پھر رہا ہو تو انسان حفاظت کی جگہ بیٹھے۔ اسی طرح صاحب اختیار حاکم کے سامنے دانائی کی زرہ پہنے بغیر نہیں جانا چاہیے۔
٭٭٭
بے اولاد بادشاہ
بیان کیا جاتا ہے، ایک بادشاہ لا ولد تھا۔ جب اس کی موت کا وقت نزدیک آیا تو اس نے وصیت کی کہ میری موت کے دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، میری جگہ اسے بادشاہ بنا دیا جائے۔ خدا کی قدرت کا تماشا دیکھے کہ دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ ایک فقیر تھا جس کی ساری زندگی در در بھیک مانگتے اور اپنی گدڑی میں پیوند پر پوند لگانے میں گزری تھی۔
امیروں، وزیروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق اسے بادشاہ بنا دیا اور وہ تاج و تخت اور خزانوں کا مالک بن کر بہت شان سے زندگی گزارنے لگا قاعدہ ہے کہ حاسدا اور کم ظرف لوگ کسی کو آرام میں دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں۔ اس فقیر کے ساتھ بھی یہی ہوا جواب بادشاہ بن گیا تھا۔ اس کے دربار کے کچھ امرا نے آس پاس کے حکمرانوں سے سازباز کر کے ملک پر حملہ کر وا دیا اور بہت سا علاقہ حملہ آوروں نے فتح کر لیا۔
اس حاد ثے کی وجہ سے فقیر بادشاہ بہت افسردہ رہنے لگا۔ انھی دنوں اس کا ایک ساتھی فقیر ادھر آ نکلا اور اپنے یار کوایسی حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوا اس نے اسے مبارک باد دی کہ خدا نے تیرا مقدر سنوارا اور فرش خاک سے اٹھا کر تخت افلاک پر بٹھا دیا۔
فقیر کی یہ بات بالکل درست تھی۔ کہاں در در کی بھک مانگنا اور کہاں تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہونا۔ لیکن اس شخص کو تواب بادشاہ بن جانے کی خوشی سے زیادہ ملک کا کچھ حصہ چھن جانے کا غم تھا۔ غم بھری آواز میں بولو، ہاں دوست تیری یہ بات تو غلط نہیں لیکن تجھے کیا معلوم کہ میں کیسی فکروں میں گھرا ہوا ہوں۔ تجھے تو صرف اپنی دو روٹیوں کی فکر ہو گئی، لیکن مجھے ساری رعایا کی فکر ہے۔
دنیا کا تو یہ حال ہے کہ اگر یہ ہمیں حاصل نہ ہو تو مفلس ہونے کا غم کرتے ہیں اور جب حاصل ہو جاتی ہے تو اس کی محبت میں ہر چیز کو بھلا دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا سے بڑھ کر کوئی بلا نہیں
تونگری کی تمنا ہے گر تو لازم ہے
خدا سے کچھ نہ طلب کر بجز قناعت کے
یہ بات سچ ہے کہ افضل ہے صبر مفلس کا
کسی غنی کی شب و روز کی سخاوت سے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ سچائی بیان فرمائی ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا اعزاز پا کر بھی انسان کو سچا اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ اپنے طالبوں کو مسلسل کرب میں مبتلا رکھنا دنیا کی ایسی عادت ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا۔ اگر کوئی شخص اس بات کا طالب ہے کہ اسے سچی راحت اور حقیقی اطمینان نصیب ہو تو اسے چاہیے دنیا کی ہوس ترک کر کے قناعت اختیار کرے۔
٭٭٭

بےخوف درویش
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا ہوا تھا۔ وہ جنگل سے گزر رہا تھا۔ کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔ بادشاہ اس درویش کے قریب سے گزرا لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ بھک منگے بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔
بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟
درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، با با، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دوکہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تو نے سنانہیں۔ بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یاد رکھے ! بادشاہی بھی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کر سکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔
وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے ان سے نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس سے کہا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی
فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔ بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔ درویش بولا، میرے نصیحت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب تو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئی گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا۔ جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا
نیکیاں کر لے اگر تو صاحب ثروت ہے آج
کل نہ جانے کس کے ہاتھ آئے ترایہ تخت و تاج
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے دل کو حرص اور لالچ سے پاک کر لینے کے بعد ہی انسان کو سچی راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو خدا ایسی جرأت بخش دیتا ہے کہ وہ لاؤ لشکر رکھنے والے بادشاہوں سے بھی خوف نہیں کھاتا نیز یہ کہ مال دار شخص کے لیے سب سے زیادہ نفع کا سودا نیکیاں کرنا ہے۔ اخروی زندگی میں اس کے کام اس کا یہی سرمایہ آئے گا۔ جس مال پر دنیا میں غرور کرتا تھا، اس میں سے کفن کے سوا کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے جاسکے گا۔
٭٭٭
بنیے کا ادھار
بیان کیا جاتا ہے کہ چند صوفیوں نے ایک بنیے سے ادھار لے لیا لیکن بر وقت رقم ادا نہ کر سکے۔ بنیا ہر روز تقاضا کرتا اور انھیں سخت سست کہتا تھا۔ صوفیوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ بنیے کی تلخ باتیں سنیں اور خاموش رہیں۔
ایک دانشمند نے انھیں اس ذلت میں مبتلا دیکھا تو کہا کہ آج جس طرح تم لوگ بنیے کا تقاضا سنتے اور اسے ٹال دیتے ہو، اگر اسی طرح اپنی خواہشوں کو ٹال دیتے۔
یعنی اپنے نفس کا کہا مان کر ادھار کر
ذلت نہ اٹھاتے تو تمھارے حق میں بہتر ہوتاْ
دست سوال غیر کے آگے نہ کر دراز
بہتر ہے اس سے بھوک کی سختی ہزار بار
مفلس ہے گر تو گوشت کی حسرت کبھی نہ کر
اک دن عذاب بنتا ہے قصاب کا ادھار
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں قرض لینے کی مذمت کی ہے اور اس سے بچنے کا نہایت آسان اور عمدہ طریقہ بتایا ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ جس طرح ایک مفلس شخص قرض خواہ کا تقاضا سن کر خاموش رہتا ہے۔ اور اس کی تلخ باتوں کو بھی برداشت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ اپنے نفس کے تقاضے پر خاموش رہے اور نفس کی ترغیب کا شکار نہ ہو تو ہر طرح کی ذلت سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
٭٭٭
برائی کا سد باب
کہتے ہیں ایران کا مشہور بادشاہ نوشیرواں، جو اپنے عدل و انصاف کے باعث نوشیروان عادل کہلاتا تھا۔ ایک بار شکار کے لیے گیا شکار گاہ میں اس کے لیے کباب تیار کیے جار ہے تھے۔ کہ اتفاق سے نمک ختم ہو گیا شاہی باورچی نے ایک غلام سے کہا کہ قریب کی بستی میں جا اور وہاں سے نمک لے آ۔
بادشاہ نے یہ بات سن لی۔ اس نے غلام کو قریب بلایا اور سے تاکید کی کہ قیمت ادا کیے بغیر نمک ہر گز نہ لانا۔ غلام بولا، حضور والا! ایک ذرا سے نمک کی کیا بات ہے۔ کسی سے مفت لے لوں گا تو کیا فرق پڑے گا۔
نوشیرواں نے کہا ضرور فرق پڑے گا۔ یاد رکھو! ہر برائی ابتدا میں ایسی ہی معمولی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن پھر وہ بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی بن جاتی ہے کہ اسے مٹانا آسان نہیں ہوتا ہے۔
بغیر حق کے جو سلطاں کرے وصول اک سیب
غلام اس کے جڑوں سے اکھیڑ لیں گے درخت
جو بادشاہ کبھی مفت پانچ انڈے لے
سپاہی اس کے کریں گے ہزار مرغ دولخت
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ درس دیا ہے کہ کسی بھی برائی کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہیے۔ معمولی برائی ہی بڑھ کر بہت بڑی برائی بن جاتی ہے۔ خاص طور پر حکمرانوں کو تو اس سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط بر تنی چاہیے۔ کیونکہ ان کے ماتحت برائی میں ان کی تقلید زیادہ کرتے ہیں۔
٭٭٭
بروں سے اچھا سلوک
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شب ایک چور ایک نیک لیکن غریب شخص کے گھر میں داخل ہو گیا۔ اس نے ادھر ادھر بہت ہاتھ مارے لیکن وہاں کچھ ہوتا تو اسے ملتا اتفاق سے اس دوران میں نیک مرد بھی جاگ گیا اور آہٹ کی آواز سن کر سمجھ گیا کہ گھر میں چور گھسا ہوا ہے اور وہ میرے گھر سے خالی ہاتھ جائے گا۔ اس نے جلد سے وہ کمبل اتارا جو خود اوڑھے ہوئے تھا اور چور کے راستے میں پھینک دیا۔
سچ ہے اللہ والوں کے دلوں میں اپنے دشمنوں کے لیے بھی خیرخواہی کا جذبہ ہوتا ہے وہ کسی کو بھی رنجیدہ کرنا نہیں چاہتے۔
سنا ہے خدا کے جو بن جائیں دوست
وہ کرتے نہیں دشمنوں کو بھی تنگ
کمینے کو کیسے ملے یہ مقام
کہ وہ دوستوں سے بھی کرتا ہے جنگ
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں احسان کی طرف توجہ دلائی ہے۔ احسان کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کے ساتھ اس کے حق سے زیادہ سلوک کیا جائے۔ مثال کے طور پر یہ حسن سلوک ہے کہ اگر کوئی شخص قصور کرے تو اسے معاف کر دیا جائے۔ لیکن اگر معاف کر نے کے علاوہ اسے کچھ دے بھی دیا جائے تو یہ احسان ہو گا اور محسنین ہو گا کا بہت بڑا درجہ ہے۔
٭٭٭
درویش اور ظالم سپاہی
کہتے ہیں، ایک ظالم اور بے رحم سپاہی نے ایک درویش کے سر پر پتھر مارا۔ درویش نے اس کی طرف دیکھا اور اسے صاحب اختیار اور طاقت ور پایا تو خاموش ہو رہا۔ لیکن وہ پتھر سنبھال لیا جو سپاہی نے اس کےسر پر مارا تھا۔
بیان کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد اس ظالم سپاہی پر خدا کا قہر نازل ہوا۔بادشاہ کسی بات پر اس سے ناراض ہو گیا اور اس نے اسے ایک کنویں میں قید کر دیا اتفاق سے ایک دن وہی درویش اس کنویں کے قریب سے گزرا جس میں سپاہی کو قید کیا گیا تھا۔ درویش نے اپنے دشمن کو اس حالت میں دیکھا تو وہی پتھر اپنی جھولی سے نکالا اور سپاہی کے سر پردے مارا۔
سپاہی دردسے بلبلا اٹھا اور اوپر منھ اٹھا کر درویش سے کہا۔ بندہ خدا تو نے ناحق مجھے کیوں مارا؟ درویش نے جواب دیا، میں نے تجھے ناحق ہر گز نہیں مارا مجھے پہچان میں وہی ہوں جس کے سر پر تو نے بے وجہ پتھر مارا تھا۔ اور یہ پتھر بھی وہی ہے جو میرے سر پر لگا تھا۔ اس وقت تو صاحب اختیار تھا اور میں مجبور تھا۔ اب خدا نے تجھے اس حالت کو پہنچایا تو بدلہ اتارنے کا موقع ملا۔
ہاتھ میں نااہل کے گرہو زمانہ اقتدار
تو اگر عاقل ہے شیوہ صبر کا کر اختیار
پنجہ، فولاد اگر رکھتا نہیں خاموش
عافیت بے ظلم سہنے میں، بروں کو کچھ نہ کہہ
ہاں اگر تقدیر ظالم کو کرے خوارو زبوں
توڑ اس کی ہڈیاں بڑھ کر بہا دے اس کا خوں
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انتقام کی اہمیت ظاہر کی ہے۔ اگرچہ درگزر اور معاف کر دینے کی برکتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ازروئے اخلاق بھی یہ بات ضروری ہے کہ دشمن سے انتقام لیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے ظالم کی حوصلہ شکنی اور دیکھنے والوں کو عبرت حاصل ہوتی ہے کہ برے کا انجام خراب ہوتا ہے۔ ہاں اس سلسلے میں یہ بات ضروری ہے کہ طاقت فراہم کیے بغیر دشمن کو نہیں للکارنا چاہیے۔
٭٭٭
دوگنی تنخواہ
کہتے ہیں۔ ملک عرب کا ایک بادشاہ ایک دن دربار میں آیا تو اس نے اپنے ایک خدمت گا رکے بارے میں حکم دیا کہ یہ جتنی تنخواہ لیتا ہے، آج سے اسے اس سے دوگنی تنخواہ دی جائے کیونکہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ یہ دلی شوق اور پوری محنت ہے ہماری خدمت کرتا ہے۔ جب کہ اس کے ساتھیوں کا یہ حال ہے کہ وہ کام سے جی چراتے ہیں اور سارا وقت کھیل کود میں برباد کر دیتے ہیں۔
اس وقت بادشاہ کے دربار میں ایک دانا شخص بھی موجود تھا جو ہر بات کی اصلیت اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے بادشاہ کی زبان سے یہ بات سنی تو اس پر بے خودی طاری ہو گئی۔ اس نے ایک نعرہ بلند کیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے شخص ! تجھے کیا ہوا جو یوں بے خود ہو گیا؟
اس نے جواب دیا، میری یہ حالت یہ سوچ کر ہوئی کہ اللہ پاک بھی اپنے بندوں کے درجے اسی طرح مقرر کرتا ہے جس طرح ہمارے بادشاہ نے اپنے خدمت گاروں کے درجے مقرر کیے ہیں جو اپنے کام میں مستعد تھا اسے ترقی دی جو غافل اور کاہل تھے انھیں نظر اندار کر دیا۔ بس یوں ہی جو خدا کے اطاعت گزار میں انعام پائیں گے، جو غافل ہیں محروم رہیں گے۔
خدمت مخلوق پر ہے سروری کا انحصار
مرد دانا بن، یہ طرز زندگی کر اختیار
یونہی جو دنیا میں ہیں روشن جبیں، روشن دماغ
ان کے ہاتھوں پر ہیں خالق کیلئے سجدوں کے دل
وضاحت : اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے خدمت خلق کی اہمیت واضح کر کے اطاعت خالق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور مدلل انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ جو لوگ دنیاوی زندگی میں اپنے مالک اور خالق خدا کو راضی کرنے کے لیے مشقت اٹھائیں گے، بادشاہ کے فرض شناس نوکر کی طرح ضرور انعامات سے نواز سے جائیں گے۔
٭٭٭
دوست کے گھر چوری
بیان کیا جاتا ہے، ایک درویش تنگ دستی میں مبتلا ہوا تو اس نے اپنے ایک دوست کے گھر سے کمبل چرا لیا اور اسے فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کر لی۔ لیکن اس کا یہ گناہ ظاہر ہو گیا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور قاضی نے مقدمے کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد اسلامی شریعت کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ ڈالنے کی سزا سنادی۔
جس شخص کا کمبل چریا گیا تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ میرے دوست کا ہاتھ کاٹا جائے گا تو وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہوا اور سفارش کی کہ قاضی صاحب ! مہربانی کر کے اسے سزانہ دیجیے۔ اس نے میرا کمبل چرایا تھا۔ میں اسے معاف کرتا ہوں۔
قاضی نے جواب دیا، تیرے معاف کر دینے سے بھی یہ شخص سزا سے نہ بچ سکے گا۔ کیوں کہ چور کو سزا دینا اسلامی شریعت کا منشا ہے۔ اس شخص نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ اسلامی شریعت میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا لیکن اگر چوری کیا جانے والا مال وقف ہو تو پھر یہ سزا نہیں دی جاسکتی ہے ہم جیسے درویشوں کا مال وقف ہوتا ہے۔ ہم اپنی کسی چیز کو بھی اپنی ملکیت نہیں سمجھتے۔
قاضی نے اس بات سے اتفاق کیا اور چور کو معاف کر دیا۔ لیکن اسے ملامت کی کہ تو نے چوری بھی کی تو اپنے ایسے شریف دوست کے گھر جس نے تجھے سزا سے بچا لیا۔
اس شخص نے فوراً جواب دیا، قاضی صاحب! آپ نے بزرگوں کا یہ قول سنا ہو گا کہ دوست کا گھر صاف کر دو لیکن دشمن کا دروازہ اس خیال سے نہ کھٹکھٹاؤ کہ وہ تمھاری مدد کرے گا۔
بُرا وقت آ پڑے تو اہل ہمت کا طریقہ ہے
اترواتے ہیں کپڑے دوستوں کے کھال دشمن کی
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ قارئین کو ایک ایسے نتیجے کی طرف لے گئے ہیں جو بظاہر اسلامی فلسفہ حیات سے ٹکراتا ہے۔ یعنی اگر انسان کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو دوستوں کے کپڑے اتروا لے اور دشمن کی کھال لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی بات اسلام فلسفہ اخلاق سے متصادم نہیں۔ دراصل انھوں نے اس حکایت میں سوالی بن کر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی مذمت کی ہے جو فلسفہ اسلام کے عین مطابق ہے۔ بہ الفاظ دیگر خود دار اور شریف لوگوں کے نزدیک بھکاری بن کر ہاتھ پھیلانا چوری کے گناہ سے بھی برا ہے۔
٭٭٭
دنیا پرست عابد
بیان کیا جاتا ہے، ایک شخص کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ بہت زیادہ نیک ہے، ہر وقت اللہ پاک کی عبادت کرتا رہتا ہے۔ بادشاہ نے اس کی شہرت سنی تو اس کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمارا دل چاہتا ہے آپ کی زیارت کریں۔ ہوسکے تو کسی دن ہماری یہ خواہش پوری کیجئے اور ہمارے دربار میں تشریف لائیے۔
یہ شخص عبادت گزار تو واقعی تھا لیکن اس کی یہ ساری محنت صرف لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے تھی۔ بادشاہ کا پیغام ملا تو دل میں بہت خوش ہوا۔ سوچا، بادشاہ ضرور انعام و اکرام سے نوازے گا۔ یہ سوچ کر اس نے فیصلہ کیا کہ بادشاہ کے پاس جانے سے پہلے کوئی ایسی دوا پی لینی چاہیے جس سے کسی قد ر کمزور ہو جاؤں۔ مجھے نحیف و نزار دیکھ کر بادشاہ کو یقین آ جائے گا کہ میں واقعی بہت زیادہ عبادت کرتا ہوں۔
اپنے دل میں فیصلہ کر کے اس نے ایک دوا پی لی۔ لیکن اس سلسلے میں اس غلطی یہ ہوئی کہ کمزور کر دینے کی دوا کی جگہ ایسا زہر پی لیا جو آدمی کو فوراً ہلاک کر دیتا ہے۔ چنانچہ وہ ریاکار زاہد فوراً ہلاک ہو گیا۔
نظر جو آتا تھا پستے کی طرح ٹھوس اور سخت
وہ نکلا پیاز کی مانند صرف چھلکا ہی
خدا کو چھوڑ کے مخلوق کی رضا چاہی
خدا کا گھر نہیں پیش نظر تھی دنیا ہی
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے حکایت میں دنیا پرست عابدوں کی مذمت کی ہے اور ایک ریا کار کی مثال دے کر یہ بتایا ہے کہ ایسی ہر ایک بات جو صرف مخلوق کو خوش کرنے کے لیے ہو زہر پینے کی مانند ہے کہ اس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے۔ عبادت کی اصل روح اور اصل مقصد تو یہ ہے کہ خدا کے ساتھ انسان کا رشتہ اس طرح استوار ہو جائے کہ کوئی اور رشتہ ویسا مضبوط نہ ہو۔
٭٭٭

دنیا پرست درویش
بیان کیا جاتا ہے۔ ایک درویش با خدا بستیوں سے کنارہ کش ہو کر جنگل میں آباد ہو گیا تھا۔ درختوں کے پتے کھا کر چشمے کا پانی پیتا اور ہر وقت یاد خدا میں مصروف رہتا بزرگی کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر تھے۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ملک کا بادشاہ شکار کھیلتا ہوا اس طرف آ نکلا۔ اس کی نگاہ اس بزرگ پر پڑی تو اس کے پاس گیا اور اس کے احوال سے آگاہ ہونے کے بعد اس سے درخواست کی کہ آپ ہمارے ساتھ دارالحکومت چیلے، ہم آپ کے لیے بہت عمدہ انتظام کر دیں گے وہاں آپ کو ہر طرح کا آرام ملے گا۔
درویش نے بادشاہ کی یہ بات ماننے سے انکار کیا اور کہا، میں یہیں ٹھیک ہوں۔ ایک وزیر بولا، حضور، بادشاہ سلامت کی یہ بات ماننے میں کوئی حرج تو نہیں اگر شہر میں آپ کا دل نہ لگے تو پھر یہیں آسکتے ہیں۔ یہ بات درویش کی سمجھ میں آ گئی اور وہ بادشاہ کے ساتھ آگیا۔
بادشاہ نے درویش کے رہنے کے لیے ایک شاندار مکان دے دیا جس میں باغ بھی تھا۔ خدمت کے لیے ایک لونڈی اور ایک غلام مقرر کر دیا اور درویش نہایت عزت اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگا۔
کچھ عرصے بعد بادشاہ کو درویش کا خیال آیا تو وہ ملاقات کے لیے آیا۔ دیکھا وہ تخت پر گاؤتیکےسے کمر لگائے بہت آرام میں رہنے اور اچھی غذا کھانے سے درویش موٹا تازہ ہو گیا تھا اور اس کا رنگ نکھر آیا تھا۔
بادشاہ نے اسے اس اچھی حالت میں دیکھا تو بہت خوشی ظاہر کی اور کہا، آپ جیسے بزرگوں کی خدمت کر کے مجھے دلی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ دانا وزیر ساتھ تھا اس نے کہا، عالی جاہ! درویشوں کو عیش و آرام کا عادی بنا دینا ان کی خدمت نہیں ہے ایسا کرنے سے ان کی روحانی ترقی رک جاتی ہے اور وہ دوسرے دنیا داروں کی طرح دینا دار بن جاتے ہیں البتہ عالموں کو ضرور مالی امداد دینی چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کے لیے فارغ ہو جائیں۔
وضاحت : حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں نہایت خوب صورت انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ خدا خواہی اور دنیا بالیقین الگ الگ دائر ے ہیں ان دونوں کی سمتیں واضح طور پر الگ الگ ہیں۔ اگر خدا پر ست دنیاوی راحتوں کی تمنا کر ے گا تو بالآخر دنیا ہی میں پھنس جائے گا۔ ویسے یہ بات ممکن تو ہے کہ ایک شخص دنیاوی سازو سامان بھی رکھتا ہو اور با خدا بھی ہو۔ جیسا کہ خود حضرت سعدیؒ نے ایک حکایت میں یہ بات تسلیم کی ہے لیکن اس امتحان میں ہر شخص پورا نہیں اتر سکتا کہ اسے ہر طرح کی آسائش بھی حاصل ہوا اور خدا کے راستے میں جان قربان کرنے کے لیے تیار بھی رہتا ہو جو درویش کی اصل روح ہے۔
٭٭٭
فرنگیوں کی قید
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار مجھے اپنے دوستوں سے کچھ ایسا رنج پہنچا کہ میں دمشق سے نکل کر صحرا کی طرف روانہ ہو گیا۔ بیابان میں چند دن تو اطمینان سے گزر گئے۔ جنگل کے جانوروں سے انس کی بو آتی تھی اور میں دوستوں کی جدائی کا غم بھولتا جاتا تھا۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ فرنگیوں کے ایک گر وہ نے مجھے گرفتار کر لیا اور طرابلس کے علاقے میں لے جا کر خندق کھودنے کے کام پر لگا دیا۔ بہت سے یہودی پہلے سے یہ مصیبت جھیل رہے تھے۔
میں اس مصیبت سے بہت زیادہ پریشان تھا شاید خدا کو میرے حال پر رحم آگیا۔ ایک د ن حلب کا ایک امیر ادھر سے گزرا۔ اس شخص سے میری شناسائی تھی۔ مجھے اس مصیبت میں گرفتار دیکھا تو دس دینا ر فدیہ دے کر آزادی دلوا دی اور اپنے ساتھ حلب لے گیا۔
حلب لے جا کر اس نے میری شادی اپنی بیٹی سے کر دی۔ سودینا مہر مقرر ہوا۔ اس شادی کو میں نے خدا کا انعام جانا اور اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگا۔ لیکن خدا جانے کیا بات ہوئی کہ پھر وہ عورت بہت بد تمیز یکا برتاؤ کرنے لگی۔ بات بات پر طعنے دیتی کہ کیا تو وہی نہیں ہے جسے میرے باپ نے دس دینار دے کر فرنگیوں کی قید سے چھڑایا تھا؟
ایک دن اس نے یہ طعنہ دیا تو میں نے کہا، بے شک میں وہی ہوں جسے تیرے باپ نے دس دینار دے کر آزادی دلوائی اور سودینار کے عوض فروخت کر دیا
ایک شخص نے چھڑا یا بکری کو بھیڑیے سے
لیکن گلے پہ اس کے پھر خود چھری چلانی
مغموم ہو کر بکری کہنے لگی کہ ظالم
میرے لیے تو تو بھی ہے بھڑیے کا بھائی
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے تین باتیں بیان فرمائی ہیں(۱) معمولی بخش پر اپنوں سے قطع تعلق شد ید نقصان کا باعث بنتا ہے (۲) احسان حقیقی معنوں میں وہی ہے جس میں اپنی غرض شامل نہ ہو(۳) ایسی جگہ شادی کرنا جہا ں خاوند کو بالا دستی حاصل نہ ہو، عزت کے نقصان کا باعث بنتا ہے، بیوی اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی، جو گھریلو زندگی میں خوشگواری پیدا کرنے کے لیے شرط اوّل ہے
٭٭٭
ہارون الرشید کا انصاف
بیان کیا جاتا ہے۔ بنو عباس کے مشہور خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا ایک دن اس کے پاس ایسی حالت میں آیا کہ غصے اور رنج سے اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ خلیفہ نے بیٹے کی یہ حالت دیکھ تو اس سے پوچھا جان پدر! کیا بات ہے ؟ تم پریشان کیوں نظر آرہے ہو؟ شہزادے نے کہا، فلاں سپاہی کے بیٹے نے مجھے ماں کی گالی دی ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر خلیفہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا، بتاؤ ایسے مجرم کو کیا سزادی جائے؟
ایک نے کہا، ایسے ناہنجار کو قتل کر دینا چاہیے، دوسرا بولا، اس کی زبان کٹوا دینی چاہیے، تیسرے نے مشورہ دیا کہ اس سے باپ کی ساری جائیداد ضبط کر لی جائے، ہارون نے سب کے مشورے پوری توجہ سے سنے پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر بولا، بیٹا! خدا نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزادے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تم اسے معاف کر دو۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کرو کہ تم بھی اسے ماں کی گالی دے دو، لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اس سلسلے میں معمولی سی زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ خدا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرتے ہیں۔
مرد اس کو نہیں کہتے جو لڑے ہاتھی سے
یہ بڑی بات خرد مندوں کے نزدیک نہیں
ہاں مگر طیش میں رکھے جو حواس اپنے درست
اس کی عزت کرو مل جائے اگر تم کو کہیں
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں نہایت دلکش اور موثر انداز میں صاحب اقتدار طبقے کو یہ بات سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر کمزوروں اور زیردستوں سے کسی قسم کی خطا سرزد ہو جائے تو عفو و درگزر ان کے شایان شان ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سپاہی زادے نے شہزادے کو ماں کی گالی دی تھی جسے سن کر غریب اور کمزور شخص بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے لیکن ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا کہ وہ مجرم کو معاف کر دے۔
٭٭٭
حاتم سے بڑا رتبہ
بیان کیا جاتا ہے، کسی نے حاتم طائی سے سوال کیا کہ آپ نے دنیا میں کسی کو اپنے آپ سے بھی زیادہ سخی پایا؟ حاتم نے جواب دیا، ہاں۔ ایک لکڑہارے کو، ایک بار میں نے اپنے مہمانوں کے لیے چالیس اونٹ ذبح کیے، دعوت عام تھی جو آتا تھا، پیٹ بھر کر جاتا تھا۔ اس دن میں کسی ضرورت سے جنگل کی طرف گیا تو وہاں ایک لکڑہارے کو دیکھا جو خشک لکڑیاں اکٹھی کر رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ تو آج یہ مشقت کیوں اٹھا رہا ہے۔ ؟ حاتم کے گھر کیوں نہیں جاتا؟ وہاں تجھے بہترین کھانا ملے گا۔
لکڑہارے نے میری یہ بات سنی تو بے پروائی سے جواب دیا، جو شخص اپنی محنت سے پانی خوراک حاصل کر سکتا ہے، وہ حاتم طائی کا احسان کیوں اٹھائے
اپنی محنت سے کما سکتا ہے جو نان جویں
اس کو حاتم کی سخوات سے سرو کار نہیں
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں محنت اور خود داری کی عظمت ظاہر کی ہے۔ حاتم طائی جو ہر دل عزیزی اور کار خیر میں بہت بڑا اور درجہ رکھتا تھا اور اپنی عظمت سے آگاہ بھی تھا، جب خوددار اور محنتی لکڑہارے سے ملا تو اسے اس کا مقابلے میں اپنی ذات حقیر نظر آئی۔
٭٭٭
حاضر دماغ غلام
بیان کیا جاتا ہے۔ ایران کے مشہور بادشاہ عمر دلیث کا ایک غلام موقع پاکر بھاگ گیا۔ لیکن لوگوں کو فوراً ہی معلوم ہو گیا اور وہ اسے گرفتار کر کے لے آئے۔
بادشاہ کا ایک وزیر کسی وجہ سے اس غلام سے بہت ناراض تھا۔ غلام کے بھاگنے اور گرفتار ہو کر آنے کا حال معلوم ہوا تو اس وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس گستاخ غلام کو فوراً قتل کرا دینا چاہیے۔ اگر اسے سخت سزا نہ دی گئی تو اور غلاموں کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ بھاگنا شروع کر دیں گے۔
غلام نے وزیر کی یہ بات سنی تو سمجھ گیا یہ ظالم دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرانا چاہتا ہے۔ اس نے بہت ادب سے کہا کہ یہ غلام حضور بادشاہ سلامت کا نمک خوار ہے۔ بے شک مجھ سے ایک گناہ ہوا ہے لیکن میرے دل سے حضور کی خیر خواہی اور محبت کم نہیں ہوئی اور محبت اور خیر خواہی کی وجہ سے یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ مجھے قتل کرا کے حضور میرا خون ناحق اپنی گردن پر نہ لیں۔ ایسا نہ ہو کہ جب قیامت کے دن میرے قتل کے بارے میں پوچھا جائے تو حضور جواب نہ دے سکیں۔ اگر مجھے قتل ہی کرانا چاہتے ہیں۔ تو پہلے اس کا جواز پیدا کر لیں۔
بادشاہ نے سوال کیا، وہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ؟غلام فوراً بولا کہ حضور اجازت دیں تو میں اس وزیر کو قتل کر دوں اور پھر اس گناہ میں حضور مجھے قتل کر دیں۔ غلام کی یہ بات سن کر بادشاہ کو ہنسی آ گئی۔ اس نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا۔ بتا اب تیرا کیا مشورہ ہے؟
وزیر خوف سے کانپتے ہوئے بولا، حضور اس فتنے کو اپنے بزرگوں کے صدقے آزاد ہی کر دیں تو اچھا ہے۔ ایسا نہ ہو یہ سچ مچ مجھے کسی آفت میں پھنسا دے قصور میرا ہے کہ میں نے عقلمندوں کی یہ بات یاد نہ رکھی۔
گو حقیر آئے نظر پھر بھی حقیر اس کو نہ جان
اپنے دشمن کی طرف ہاتھ بڑھانے والے
تیرے دشمن کے نشانے پہ بھی ہے تیر سر
خوب یہ بات سمجھ تیر چلانے والے
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے جرأت اور ہوشمندی کی برکات اور فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے اور حاسدوں اور دوسروں کا برا چاہئے والوں کو ان کے انجام سے ڈرایا ہے۔ غلام نے انتہائی خوف کی حالت میں بھی حواس بجار کھے تو ایک بڑی مصیبت سر سے ٹل گئی اور وزیر نے اس کا برا چاہا تو ایسا بلند مرتبہ رکھتے ہوئے بھی ذلیل ہو گیا۔
٭٭٭
حضرت پیران پیر کی دعا
حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں لوگوں نے پیران پیر سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو حرم کعبہ میں اس حالت میں دیکھا کہ آپ نے اپنا مبارک چہرہ فرش خاک پر رکھا ہوا تھا اور گریہ و زاری کرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے:
ارے اللہ مجھے بخش دے اور اگر میں بخش دیے جانے کے قابل نہیں ہوں تو قیامت کے دن مجھے اندھا اٹھا تا کہ میں اس احساس سے شرمندہ نہ ہوں کہ نیک لوگ مجھے اس حالت میں دیکھ رہے ہیں۔
میں فرش خاک پر منھ رکھ کے تجھ سے عرض کرتا ہوں
نسیم صبح جب گلشن میں کلیوں کو جگاتی ہے
مرے معبود میں رہتا ہوں تیری یاد میں ہر دم
تجھے بھی اپنے عاجز، بے نوا کی یاد آتی ہے ؟
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں رب ذو الجلال کی شان اورمسئلہ توحید بیان کیا ہے۔ حکایت سے پتا چلتا ہے کہ حضرت پیران پیر جیسے عظیم بزرگ اللہ پاک کی بے نیازی سے لرزاں رہتے تھے اور نہایت عاجزی سے عرض کرتے تھے کہ قیامت کے دن ان کی بخشش ہو جائے ایسی صورت میں یہ بات دانائی کے مطابق نہیں ہے کہ ہم جیسے گنہگار بندے اللہ کے غضب سے بے پروا ہو جائیں یا حقیقی مالک اور خالق کو چھوڑ کر کسی اور آستانے پر سر جھکائیں
٭٭٭
علم کی عظمت
بیان کیا جاتا ہے، ملک مصر میں دو امیر زاد ے رہتے تھے۔ ایک نے دنیاوی علوم و فنون حاصل کیے اور ملک کا حاکم اعلیٰ بن گیا۔ دوسرے نے علم دین کی طرف رغبت کی اور ایک بڑا عالم بن گیا۔ جو بھائی حاکم تھا وہ دوسرے بھائی کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا کرتا تھا۔ ایک دن ملاقات ہوئی تو کہنے لگا، اگر تو بھی میری پیروی کر تا تو ایسی پست حالت میں نہ ہوتا۔ مجھے دیکھ، کیسی عزت اور شان کا مالک ہوں۔
دوسرا بھائی بولا، اے برادر! یہ تیری غلط فہمی ہے کہ حکومت حاصل کر کے تو زیادہ عزت کا مالک بن گیا ہے خدا کا شکر ہے عزت اور اطمینان کے معاملے میں میں تجھ سے بڑھا ہوا ہوں کہ پیغمبروں کی میراث علم کا مالک ہوں اور تو فرعون اور ہامان کا وارث بنا ہے۔
خدا کا شکر لازم ہے کہ اس نے
مجھے زنبور کی صورت نہیں دی
وہ چیونٹی ہوں جو خود ہوتی ہے پامال
میں دوں تکلیف، یہ قدرت نہیں دی
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں علم کی فضلیت ظاہر کی ہے۔ اگرچہ ایک سطح بیں شخص دولت کو ہر چیز سے افضل خیال کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دولت کی حیثیت ہاتھوں کے میل اور دنیاوی شان و شوکت کی حیثیت ڈھلتی پھرتی چھاؤں سے زیادہ نہیں۔ جس چیز کو زوال نہیں اور جو چیز ہمیشہ بڑھتی ہی رہتی ہے، وہ علم ہے انسانیت کی پوری تاریخ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی کہ حقیقی اقتدار صاحبان علم ہی کو حاصل رہا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ دلوں پر حکومت کی ہے۔
٭٭٭
جنتی بادشاہ
بیان کیا جاتا ہے، ایک خدا رسیدہ بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ بادشاہ تو جنت کے باغوں میں سیر کر رہا ہے۔ ا ور ایک ایسا شخص جسے بہت نیک خیال کیا جاتا تھا، دوزخ کی آگ میں جل رہا ہے۔ بزرگ نے حیران ہو کر پوچھا، کسیا عجیب ماجرا ہے۔ لوگ تو یہ خیال کرتے تھے کہ بادشاہ دوزخ کا ایندھن بنے گا اور پرہیز گار جنت میں جائے گا لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ بادشاہ جنت میں اور پرہیزگار دوزخ میں ہے۔
صدا آئی، اس کا باعث یہ ہے کہ بادشاہ ہمیشہ درویشوں کی عزت کرتا تھا اور انھیں اپنے پاس بٹھا کر خوش ہوتا تھا لیکن یہ نیک آدمی ہمیشہ اسی فکر میں رہتا تھا کہ کسی طرح بادشاہ کے دربار میں رسائی ہو جائے اور اس کا مقرب بن جائے پس یہی سبب پہلے کے انعام پانے اور دوسرے کا عذاب میں مبتلا ہونے کا ہے۔
خدا محبوب رکھتا ہے نہ گدڑی کو نہ کمبلی کو
اسے محبوب رکھتا ہے جو اچھے کام کرتا ہے
ضروری یہ نہیں سر پر فقیروں جیسی ٹوپی ہو
نہیں معیوب یہ گر تو لباس اچھا پہنتا ہے
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اس حدیث شریف کی تشریح کی ہے کہ خدا تمھارے چہروں کو نہیں بلکہ تمھارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ اگر کوئی صاحب ثروت بڑھیا لباس پہن کر اچھے کام کرتا ہے تو وہ اس درویش سے اچھا جو لباس تو فقیرانہ پہنتا ہے لیکن اس کا دل دنیاوی لذتوں میں پھنسا ہوا ہے۔
٭٭٭
جوٹھوں کا بادشاہ
کہتے ہیں، ایک جھوٹا مکار شخص پارساؤں کا ساحلیہ بنا کر بادشاہ کے دربار میں گیا اور کہا، میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی نسل سے ہوں اور حج کے سفر سے واپس آ رہا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے بادشاہ کی شان میں ایک بہت ہی اچھا قصیدہ پڑھا۔
بادشاہ قصیدہ سن کر اور اسے عالی نسب اور حاجی یقین کر کے بہت خوش ہوا، اور خلعت کے علاوہ اسے بہت سا روپیہ بخشا۔ لیکن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اس مکار کے رخصت ہونے سے پہلے ایک درباری جو سمندری سفر سے واپس آیا تھا۔ دربار میں داخل ہوا اور اس شخص کو پہچان کر کہا۔ یہ ہر گز حاجی نہیں ہے۔ اس کی بات کا اعتبار نہ کیا جائے۔ اسے تو حج کے دن میں نے بصرے کے بازار میں دیکھا تھا۔
جب اس کے بارے میں شک پڑا تو معلوم ہوا کہ عالی نسب ہونا تو بڑی بات ہے، یہ تو سرے سے مسلمان ہی نہیں ہے روم کے شہر ملاطبہ کا رہنے والا عیسائی ہے اور اس نے جو قصیدہ پڑھا ہے۔ وہ مشہور شاعر انوری کا لکھا ہوا ہے۔
یہ حالات جان کر بادشاہ بہت غضب ناک ہوا۔ اس نے حکم دیا کہ اس سے انعامات چھین لیے جائیں اور ذلیل کر کے شہر سے نکال دیا جائے چور کی چوری اور جھوٹے کا جھوٹ ظاہر ہو جائے تو وہ ڈر جاتا ہے۔ لیکن اس مکار شخص نے اپنے حواس درست رکھے۔ جلد سے بولا۔ حضور والا! مجھے اپنی غلطی کا اعتراف ہے۔ میں نے جھوٹ پر جھوٹ بولا۔ لیکن اب حضور کی خدمت میں ایک ایسا سچ بیان کرنا چاہتا ہوں جس بڑھ کر کوئی بات سچ نہ ہو گی۔
بادشاہ نے اس کی یہ بات سن کر کہا، اچھا کہہ، کیا کہتا ہے ؟ وہ بولا حضور والا! وہ سچی بات یہ ہے کہ جھوٹ سے خالی کوئی بھی نہیں، بلکہ جو جتنا زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے۔ اتنا ہی بڑا جھوٹ بولتا ہے۔
مرے جھوٹ پر کس لیے ہے ملال ملاوٹ سے خالی نہیں کوئی مال
دہی بھی اگر کوئی لائے حضور تو دو حصے پانی ملے گا ضرور
اگر سچ کہوں جھوٹ کی ہے یہ بات بڑے اس میں دیتے ہیں چھوٹوں کو مات
بادشاہ یہ بات سن کر ہنس پڑا اور کہا، بے شک یہ بات ٹھیک ہے تو نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ سچی بات کبھی نہ کہی ہو گی۔ یہ کہہ کر حکم دیا کہ اس کے انعامات لوٹا دیے جائیں اور اسے عزت کے ساتھ رخصت کر دیا جائے۔
وضاحت
اس حکایت سعدیؒ نے جھوٹ کو انسان کی ایک ایسی ضرورت نہیں بتایا کہ اس کے بغیر گزارہ ہی نہ ہوسکے۔ بلکہ بگڑے ہوئے معاشرے کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے کہ جب لوگ اخلاقی زوال میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ بڑے سے بڑا جھوٹ بولتے ہوئے بھی خوف نہی کھاتے بلکہ۔ جو شخص جتنا زیادہ عقل مند اور با اختیار ہوتا ہے۔ اتنا ہی بڑا جھوٹ بولتا ہے۔ غور کریں تو حکایت میں یہ کنایہ بھی موجود ہے کہ خود بادشاہ کی ذات کذب بیانی سے پاک نہ تھی۔ اس لیے وہ بڑوں کے بڑا جھوٹ بولنے کی بات سن کر ہنسا اور اسے نصرانی کا جھوٹ قابل معافی نظر آیا۔
٭٭٭
کعبے کا مسافر
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار میں مکہ معظمہ کی طرف سفر کر رہا تھا۔ مسلسل سفر کرتا ہوا۔ جب وادی مکہ میں داخل ہوا تو اس قدر تھک چکا تھا کہ ایک قدم آگے بڑھنا دشوار تھا۔ چنانچہ میں نے شتر بان سے کہا۔ بھائی ! میری حالت تو بہت خراب ہے۔ تو جانتا ہے۔ کہ میں نے اس سفر میں کتنی تکلیف اٹھائی ہے۔ میں تو کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں
شتر بان نے جواب دیا کہ مکہ تیرے سامنے ہے اور ڈاکو تیرے پیچھے۔ تو کسی درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سوگیا تو کہا نہیں جاسکتا تیرا انجام کیا ہو۔ سفر کی تھوڑی سی تکلیف اور اٹھا لے گا تو اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔ ہمت ہار دے گا تو تباہی کا خطرہ ہے۔ تو نے سنا نہیں۔
خنک سائے میں پڑوں کے بہت آرام ملتا ہے
مگر پوشیدہ اس آرام میں جاں کا خطرہ بھی ہے
وضاحت حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں جہد مسلسل کی برکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ انھوں نے نہایت دلنشیں انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے آرام و راحت کا خیال انسان کو محرومیوں سے دوچار کر دیتا ہے۔
٭٭٭
کمزوروں پر ظلم
بیان کیا جاتا ہے۔ کہ ایک بے رحم شخص، جسے خدا نے قوت اور اختیار دے دکھا تھا، غریبوں سے وہ لکڑیاں چھین کر جو وہ جلانے کے لیے لاتے تھے۔ امیروں کے ہاتھ فروخت کر دیا کرتا تھا۔ غریب اس کی زیادتی پر بہت واویلا کرتے تھے لیکن وہ پروانہ کرتا تھا۔
اسے یہ ظلم کرتے دیکھا تو ایک دن اس کے ایک دوست نے اس سے کہا کہ تجھے چاہیے کہ غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ یہ ظلم نہ کرے۔ لیکن اس نے اپنی اس دوست کی نصیحت پر کان نہ دھرا۔ بدستور اپنے دھند ے میں لگا رہا ایک دن اس کے گھر اچانک آگ اٹھی اور چشم زدن میں اس کا سارا گھر جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے سامنے بیٹھا آہ و بکا کر رہا تھا کہ اتفاق سے اس کا وہی شناسا ادھر سے گزرا جس نے اسے غریبوں کو نہ ستانے کی نصیحت کی تھی۔ اس نے اپنے اس دوست کو دیکھا تو کہنے لگا، معلوم نہیں میرا گھر کس طرح جل گیا ؟ اس نے فورا جواب دیا۔ یہ غریبوں کی آہوں کے دھوئیں سے جل گیا ہے کیا میں نے تجھے منع نہیں کیا تھا کہ غریبوں کو ستا کر ان کی بد دعائیں نہ لے۔
اس دھوئیں سے بچ جو اٹھتا ہے دل مجروح سے
دل سے اٹھے یہ دھواں تو رنگ لاتا ہے ضرور
اس نصیحت کو نہ مانے گا تو آخر ایک دن
ہو گا رسوا، خاک میں مل جائے گا تیرا غرور
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ غریبوں اور کمزوروں کو ستانا جس قدر آسان نظر آتا ہے۔ اس گناہ کی پاداش سے بچنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اے شکستہ دل لوگ جب دنیاوی سہاروں سے مایوس ہو کر آنسو بھری آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو ان کی یہ دعا قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔
٭٭٭
خدا کی یاد
حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا صحرا میں سفر کرنے والے قافلوں کی روایت کے مطابق ہمارا کا رواں ساری رات سفر کرتا رہا اور جب صبح کے آثار ظاہر ہوئے تو آرام کرنے کے لیے ایک مناسب مقام پر پڑاؤ کیا۔ سب مسافر سونے کی تیاری کرنے لگے لیکن ایک شخص نے اچانک نعرہ مارا اور تیزی سے صحرا کی طرف روانہ ہو گیا۔ دن چڑھے وہ واپس آیا تو میں نے پوچھا کہ میاں یہ تیرا کیا حال ہوا؟ مجھے تو تیری یہ حرکت بہت ہی عجیب لگی۔
اس شخص نے جواب دیا، تم نے نہیں دیکھا کہ سپیدہ صبح نمودار ہوتے ہی چرند پرند خدا کی حمد و ثنا میں نغمہ سرا ہو گئے ہیں۔ بلبلیں باغوں میں، چکور پہاڑوں پڑ مینڈک پانی میں اور چوپائے جنگل میں شور کر رہے پس مجھے یہ بات مروّت سے بعید معلوم ہوئی کہ جانور تو خدا کی یاد میں مشغول ہوں اور میں پڑ کر سور ہوں۔
پنچھیوں کی صدا نے صبح کے وقت کر دیا مجھے کو بے خود و مد ہوش
شر مسار اس خیال سے میں ہوا مر غ تسبیح خواں ہیں، میں خاموش
وضاحت
اس حکایت میں سعدی علیہ الرحمہ نے ابنائے آدم کو ان کے اصل مقصد حیات کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ بلاشبہ یہ ہے کہ وہ خلوص دل سے اپنے رب کی عبادت کریں۔ پنچھیوں اور دوسرے جانداروں کے تسبیح خواں ہونے کا ذکر کر کے اپنی دلیل کو مضبوط بنایا اوراس شخص کی بے قراری کا نقشہ کھینچ کر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہہ ہر ذی شعور کو اپنے خالق کی یاد میں اسی طرح سر گرم اور بے قرار ہونا چاہیے۔
٭٭٭
کوشش کا اجر
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار میں شہر بعلبک کی جامع مسجد میں قرآن پاک کی آیت عن اقرب الیہ من جل الورید کی تفسیر بیان کر رہا تھا اور سامعین کو اس آیہ مارک کے مفہوم سے آشنا کرنے کے لیے فصاحت و بلاغت کی پوری صلاحیت سے کام لے رہا تھا۔ لیکن حاضرین کچھ ایسے بے جس اور علم سے ناآشنا تھے کہ پتھر بنے بیٹھے تھے۔ کسی پر میری بات کا اثر ہی نہ ہو رہا تھا۔ میں مجمع کی اس حالت سے دل برداشتہ تھا لیکن اپنے بیان کو ادھورا نہ چھوڑنا چاہتا تھا۔ اس لیے سلسلہ تقریر جاری رکھے ہوئے تھا۔ اتنے میں ایک شخص قریب سے گزرا اور میری تقریر کے چند جملے سن کر ہی خوشی کا اظہار کیا۔ اب تو مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی چونکے اور پسند یدگی کا اظہار کرنے لگے۔
یہ حالت دیکھ کر میری زبان سے بے اختیار نکلا کہ سبحان اللہ ! دور رہنے والے باخبر شخص نے کلام سے فائدہ اٹھایا اور نزدیک بیٹھے ہوئے جاہل محروم رہے۔
کب اثر کرتا ہے اس پر متکلم کا کلام
واسطہ جس کو رہا ہو نہ فراست سے کبھی
سننے والے میں بھی جو ہر ہو تو بن جاتی ہے بات
کام چل سکتا نہیں صرف وضاحت سے کبھی
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اگرچہ صاف طور پر یہ بات بتائی ہے کہ بات اس پر اثر کرتی ہے جس میں بات سمجھنے کی صلاحیت بھی ہو، پتھروں کو مسائل حیات سنانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا، لیکن ساتھ ہی یہ نکتہ بھی بیان فرما دیا ہے کہ خلوص دل سے کی گئی کوشش کا کچھ نہ کچھ نتیجہ ضرور نکلتا ہے اس لیے کسی حالت میں بھی کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے۔
٭٭٭
لقمان اور دانائی
بیان کیا جاتا ہے، کسی نے مشہور فلسفی اور معلم اخلاق حکیم لقمان سے پوچھا کہ آپ نے دانائی کی یہ باتیں کیسے حاصل کیں۔ لقمان نے جواب دیا، نادانوں سے وہ اس طرح کہ جب وہ کوئی حماقت کرتے ہیں تو میں ان کے انجام سے عبرت حاصل کرتا ہوں اور ویسی برائی کبھی نہیں کرتا۔
جو دانا ہیں وہ کرتے ہیں سبق ہر بات سے حاصل
ہنسی کی بات بھی ان کے لیے اک درس عبرت ہے
مگر حکمت کی سوباتیں بھی ناداں کے لئے مہمل
کہ اس کے خانہ دل میں حماقت ہی حماقت ہے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں غور فکر کی برکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جو شخص دنیا اور کار دنیا کو محض کھیل تماشا نہیں سمجھتا، ہر بات توجہ سے سنتا اور معاملے پر پوری طرح غور کرتا ہے، اس کا ذہن نور معرفت سے دمک اٹھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بے پروا شخص واضح سچائیوں سے بھی فائدہ حاصل نہیں کرتا۔ ٭٭٭

مرد آزاد
بیان کیا جاتا ہے کہ دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک بادشاہ کی سرکار میں ملازم تھا اور دوسرا محنت مزدوری کر کے آزادی سے اپنی روزی کماتا تھا۔ ایک دن امیر بھائی اپنے غریب بھائی سے ملنے آیا تو گفتگو کے دوران کہنے لگا بھائی ! میں تو کہتا ہوں کہ تم بھی بادشاہ کی ملازمت اختیار کر لو۔ محنت مزدوری کر کے تو تمھارا گزار بھی نہیں ہوتا۔ مشکل سےدو وقت روکھی سوکھی ملتی ہے۔
اپنے امیر بھائی کی بات سن کر غریب بھائی نے کہا، تم مجھے بادشاہ کی نوکری اختیار کرنے کی ترغیب دے رہے ہو اور میں یہ کہتا ہوں تم پرائی تابعداری ترک کر کے آزادی کی زندگی اختیار کیوں نہیں کرتے۔ عقلمندوں نے کہا ہے جو کی سوکھی روٹی کھا کر آزاد زندگی بسر کرنا اس سے لاکھ درجے بہتر ہے کہ سنہری پٹکا کمر سے باندھ کر بادشاہ کی خدمت کرے
تمام عمر اسی فکر میں ہوئی برباد
ملے گا کیا تجھے آج اور کھائے گا کل کیا
کمر جھکاتا ہے ذلت سے بادشاہ کے حضور
ہوس کو دل سے نکال اور صبر کو اپنا
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں بندگی، بے چارگی کی برائیوں اور آزاد زندگی کی برکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ملازمت خواہ بادشاہ ہی کی کیوں نہ ہو باعث ذلت ہے۔
٭٭٭

مرد شجاع
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرد شجاع تاتاریوں کے ساتھ لڑتے ہوئے زخمی ہو گیا۔ زخم کاری تھا۔ معمولی علاج سے افاقہ نہ ہوا تو اس کے ایک دوست نے کہا کہ فلاں سودا گر کے پاس نوش دارو ہے۔ مناسب ہے اس سے سوال کر۔ یہ دوا مل گئی تو امید ہے تو جلد شفا یاب ہو جائے گا۔
جس سوداگر کےپاس نوش دارو تھی وہ بہت کنجوس تھا۔ اس کی یہ حال تھا کہ آفتاب ایک روٹی ہوتا اور اس کے دستر خوان پر رکھ دیا جاتا تو دنیا قیامت تک روشنی کو تر ستی رہتی۔ زخمی سپاہی نے اپنے دوست سے کہا کہ بھائی اگر میں اس کنجوس مکھی چوس سے سوال کروں تو معلوم نہیں وہ نوش دارو دے گا بھی یا نہیں اور اگر دے بھی دے گا تو معلوم نہیں کہ مجھے شفا بھی ہو گئی یا نہیں۔ میں تو خیال کرتا ہوں کہ کمینے شخص کے سامنے ہاتھ پھیلانا بہت بڑی ذلت ہے۔
کمینے سے نہ رکھ امید ہرگز چارہ سازی کی
ترے حصے میں آئے گا نہ ہرگز التفات اس کا
اگر کچھ مل بھی جائے پھر بھی رسوائی کا ساماں ہے
تری جاں کا زیاں ہے تحفہ قند و نبات اس کا
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں سوال کرنے کا ایک بڑی کمزوری ثابت کیا ہے۔ اور ان کی یہ بات دراصل اسلامی فلسفہ اخلاق کی تشریح ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوا ل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں۔ کہ سوال کرنا یوں بھی غلط ہے اور کمینے کے آگے ہاتھ پھیلانا تو بہت ہی بڑی ذلت ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ اسلامی فلسفہ اخلاق میں کمینے اور شریف کا وہ تصور ہر گز نہیں ہے جو دیگر اقوام بالخصوص ہندوؤں میں ہے کہ ایک طبقہ نسلی اور خلقی طور پر شریف اور دوسرا طبقہ کمین ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تخصیص انسانوں کے اعمال و افعال کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے سود اگر کو اس کے کنجوس ہونے کی بنا پر کمینہ کہا گیا ہے۔
٭٭٭

نادان منشی
حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں، میرے جاننے والوں میں ایک منشی روز گار نہ ملنے سے بہت پریشان تھا۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا اور اپنا حال بیان کرنے کے بعد کہا کہ بادشاہ کے دربار میں آپ کی رسائی ہے۔ کسی عہدیدار سے کہہ سن کر کوئی کام دلوا دیں۔ اس کی بات سن کر میں نے کہا، بھائی، بادشاہوں کی ملازمت خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔ نان ہاتھ آنے کی امید کے ساتھ جان جانے کا امکان بھی ہوتا۔
میں نے یہ نصیحت اس کی بھلائی کے خیال سے کی تھی لیکن اس نے خیال کیا کہ میں اسے ٹالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کہنے لگا،یہ بات ٹھیک ہو گئی لیکن جو لوگ ایمانداری اور محنت سے اپنا کام کریں انھیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے !آپ نے سنا ہو گا کہ میلے کپڑے ہی کو دھوبی پٹرے پر مارتا ہے۔
میں نے اسے پھر سمجھایا کہ تو ٹھیک کہتا ہے۔ سانچ کو آنچ نہیں، بہت مشہور بات ہے۔ لیکن بادشاہوں اور حاکموں کے بارے میں لومڑی کی سی احتیاط برتنی چاہیے جو گرتی پڑتی بھاگتی چلی جاتی تھی۔کسی نے پوچھا کہ خالہ لومڑی کیا مصیبت پڑی ہے جو یوں بھاگی چلی جا رہی ہو؟ لومڑی بولی، میں نے سنا ہے بادشاہ کے سپاہی اونٹ بیگار میں پکڑ رہے ہیں۔ اس نے ہنس کر کہا عجب بے وقوف ہے ! اگر اونٹ پکڑے جا رہے ہیں تو تجھے کیا ڈر؟ تو تو لومڑی ہے لومڑی نے جواب دیا، تیری بات ٹھیک ہے لیکن اگر کسی دشمن نے کہہ دیا کہ یہ اونٹ کا بچہ ہے، اسے بھی پکڑ لو تو میں کیا کروں گی؟ جب تک یہ تحقیق ہو گئی کہ میں لومڑی ہوں یا اونٹ کا بچہ، میرا کام تمام ہو چکا ہو گا مثل مشہور ہے کہ جب تک عراق سے تریاق آئے گا، وہ بیمار چل بسا ہو گا جس کے لیے تریاق منگوایا گیا ہو گا۔
میر ی بات بالکل درست تھی لیکن وہ اپنے خیال پر قائم رہا اور میں نے اس کی حالت کا اندازہ کر کے اسے بادشاہ کے دربار میں ملازمت دلوا دی شروع شروع تو اسے ایک معمولی ساکام ملا لیکن چونکہ آدمی قابل تھا اس لیے بہت ترقی کر گیا اور عزت و آرام کے ساتھ زندگی گزارنے لگا۔
کچھ دن بعد میں ایک قافلے کے ساتھ حج کے سفر پر روانہ ہو گیا اور جب اس مبارک سفر سے واپس آیا تو وہ شخص کئی منزل چل کر میرے استقبال کے لیے آیا لیکن میں نے دیکھا کہ اس کی حالت سے پریشانی ظاہر ہوتی تھی حالات پوچھے تو اس نے بتایا کہ مجھے اب معلوم ہوا کہ آپ نے جو بات کہی تھی وہ بالکل ٹھیک تھی۔ میں نے اپنی قابلیت اور محنت سے ترقی کی تو حسد کرنے والوں کو یہ بات بری لگی اور انھوں نے مجھ پر الزام لگا کر قید کر دیا۔ اب حاجیوں کے قافلے کی خیریت سے لوٹنے کی خوشی میں قیدیوں کو آزاد کیا گیا ہے۔ تو مجھے بھی رہائی نصیب ہوئی۔ ورنہ بادشاہ نے تو یہ تحقیق کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی تھی کہ میں گناہ گار ہوں یا بے گناہ۔
میں نے کہا، افسوس !تو نے میری بات نہ مانی میں نے تو تجھے پہلے ہی سمجھایا تھا کہ بادشاہ کا قرب سمندر کے سفر کی مانند ہوتا ہے کہ اس سے انسان کو بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں لیکن ساتھ جان جانے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔
ہوش مندوں کی نصیحت پر نہیں دھرتا جو کان
آخر اک دن بیڑیاں ہوتی ہیں اسکے پاؤں میں
زہر کا آزاد سہنے سہی اگر طاقت نہ ہو
مرد ناداں ہے جو آئے بچھوؤں کے گاؤں میں
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں بھی بادشاہوں کا قرب حاصل کرنے کی جگہ قناعت اور صبر کی زندگی بسرکرنے کا فضل بتایا ہے ان کے اپنے زمانے کے مطلق العنان بادشاہوں کے انداز فکر و عمل کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کی ہر الٹی سیدھی بات قانون کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ بات آج کے صاحب اختیار لوگوں کے بارے میں بھی بالکل درست ہے کہ جب تک پوری صلاحیت اور اہلیت حاصل نہ ہو ان کا قرب خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔
٭٭٭
نیکی کا انعام
بیان کیا جاتا ہے کہ زوازان نامی بادشاہ کا ایک وزیر بہت ہی وفادار، نیک اور دانشمند تھا۔ اس کی ان خوبیوں کے باعث بادشاہ بھی اس کی بہت قدر کرتا تھا۔ لیکن تقدیر الٰہی سے کچھ ایسا ہوا کہ اس دانا وزیر سے کوئی غلطی ہو گئی کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔
بادشاہ کو وزیر کی اس لغزش کا حال معلوم ہوا تو وہ اس قدر ناراض ہوا کہ اس کی ساری جائیداد ضبط کر کے اسے قید خانے میں ڈال دیا۔ یہ بہت بڑی افتاد تھی جو اس وزیر پر آ پڑی تھی۔ لیکن اس مصیبت کے زمانے میں اس کی وہ نیکیاں اس کے کام آئیں جو اس نے اقتدار کے دنوں میں لوگوں سے کی تھیں۔ اس کا قاعدہ تھا کہ وہ ادنی لوگوں سے بھی میٹھی زبان میں بات کرتا تھا۔ جہاں تک ہوسکتا تھا لوگوں کو فائدہ پہنچاتا تھا۔ اب وہ مصیبت میں مبتلا ہوا تو وہ سپاہی اور اہل کار اس کے مددگار بن گئے جنہیں اس نے کوئی نہ کوئی فائدہ پہنچایا تھا اور یوں اسے محسوس بھی نہ ہوا کہ وہ قید خانے میں ہے۔
اس دوران میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ پڑوسی ملک سے بادشاہ نے اپنے ایک خاص آدمی کے ہاتھ اس وزیر کے نام ایک خط بھیجا اور اس میں لکھا کہ یہ جان کر ہمیں بہت زیادہ افسوس ہوا ہے کہ تم جیسے قابل قدر اور نیک وزیر کو تمھارے بادشاہ نے ذلیل کیا ہے۔ اگر تم پسند کرو تو ہم تمھاری رہائی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ اور اس بات پر آمادہ ہیں کہ اپنے دربار میں وزارت کی کرسی عنایت کریں۔ اگر تمہیں یہ بات منظور ہے تو فوراً ہمیں آگاہ کرو۔
دانا وزیر نے پڑوسی بادشاہ کا یہ خط پڑھا تو اس کی پشت پر یہ لکھ دیا کہ حضور نے میرے حال پر مہربانی فرمائی، میں اس کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ بات منظور نہیں کہ معمولی سی تکلیف سے گھبرا کر اپنے آقا سے بے وفائی کروں۔
پڑوسی بادشاہ کے قاصد کے آنے کا حال اتفاق سے ایک ایسے شخص کو بھی معلوم ہو گیا جو اس وزیر کا دشمن تھا۔ اس نے فوراً بادشاہ کو اطلاع دی کہ قیدی وزیر فلاں بادشاہ سے مل کر حضور کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ بادشاہ نے سپاہی بھیج کر اس قاصد کو گرفتار کرا لیا جو وزیر کا جواب لے کر جا رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اگر ی بات سچ نکلی تو وزیر کو فوراً قتل کر ا دوں گا۔ لیکن جب دوسرے بادشاہ کا خط اور اپنے وزیر کا جواب پڑھا تو سار غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس پر وزیر کی وفاداری پوری طرح ظاہر ہو گئی اور اس نے اسی وقت اس کی آزادی کا حکم لکھ دیا۔
وزیر قید خانے سے رہا ہو کر آیا تو بادشاہ نے پہلے سے زیادہ اس کی عزت کی اور خلعت عطا کرنے کے علاوہ اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ غلط فہمی کی وجہ سے اسے ناحق تکلیف پہنچائی۔ وزیر نے کہا کہ حضور خیال نہ فرمائیں۔ مجھے جو تکلیف پہنچی ہے۔ میری تقدیر میں لکھی تھی۔ خدا کی مرضی اور مشیت کے بغیر تو پتا بھی نہیں ہلتا ہے۔
رنج مخلوق سے اگر پہنچے
ایسی حالت میں رکھ خدا پہ نظر
بالیقیں ہے اسی کا سب یہ نظام
وہی دیتا ہے رنج، راحت، ڈر
تیر اگرچہ کماں سے چلتا ہے
ہے کماندار کا مگر یہ ہنر
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے کامیاب زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہر قسم کی برائیوں سے پاک رکھے اور جہاں تک ہوسکے خلق خدا کا خیر خواہ بن کر رہے۔ ایسی زندگی گزارتے ہوئے اگر کسی قسم کی افتاد بھی آ پڑے تو جن لوگوں کے ساتھ احسان کیا ہو وہ اسے تنہا نہیں چھوڑتے۔
٭٭٭
نالائق شاگرد کا انجام
بیان کیا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں ایک پہلوان اپنے فن میں بہت ماہر تھا۔ جو پہلوان بھی اس کے مقابلے پر آتا تھا، وہ اسے مار گراتا تھا۔چنانچہ اس کی اس قابلیت اور مہارت کی وجہ سے بادشاہ اس کی بہت عزت کرتا تھا۔ یہ نامی پہلوان بہت سے نوجوانوں کو کشتی لڑنے کا فن سکھا یا کرتا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان کو اس نے اپنا شاگرد خاص بنایا تھا اور اسے وہ سارے داؤ پیچ سکھا دبے تھے جو اسے آتے تھے۔ احتیاط کے طور پر بس ایک داؤ نہ سکھایا تھا۔
زمانہ اسی طرح گزرتا رہا۔ نامی گرامی پہلوان بوڑھا ہو گا اور اس کا چہیتا شاگرد اپنے وقت کا سب سے بڑا پہلوان بن گیا۔ شرافت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے استا د کا یہ احسان مانتا کہ اس نے اسے اپنا ہنر سکھا کر ایسا قابل بنا دیا لیکن وہ کچھ ایسا بد فطرت تھا کہ ایک دن اس نے بادشاہ کے دربار میں یہ بڑ ہانکی کہ بے شک میرا استاد بزرگی میں مجھ سے زیادہ ہے لیکن طاقت اور کشتی لڑنے کے فن میں اب میں اس سے بڑھ کر ہوں۔
بادشاہ کو اس کی یہ بات بہت ناگوار گزری۔ اس نے حکم دیا کہ استاد اور شاگرد کشتی لڑیں تاکہ یہ فیصلہ ہوسکے کہ ان دونوں میں کون بڑا ہے۔ چنانچہ ایک میدان میں اکھاڑا تیار کیا گیا۔ اور استاد اور اس کا شاگرد کشتی لڑنے کے لیے اکھاڑے میں اترے نوجوان شاگرد اپنی طاقت کے نشے جھومتا ہوا استاد کے سامنے آیا۔ یوں لگتا تھا کہ اگر لوہے کہ پہاڑ بھی اس کے سامنے ہو تو وہ اسے اکھاڑ کر پھینک دے گا لیکن جب اس نے استاد سے ہاتھ ملایا اور کشتی شروع ہوئی تو استاد نے اپنا وہی داؤ آزمایا جو اس نے نالائق شاگرد کو نہ سکھایا تھا اور اسے سرسے اونچا اٹھا کر زمیں پر پٹخ دیا۔
ہر طرف سے واہ وا کے نعرے بلند ہوئے بادشاہ نے بوڑھے پہلوان کو خلعت اور بھاری انعام دیا اور نا خلف شاگرد کو خوب لعنت ملامت کی۔ وہ کہنے لگا کہ استاد صاحب صرف اس وجہ سے جیت گئے ہیں کہ انھوں نے مجھے یہ داؤ نہ سکھایا تھا جسے استعمال کر کے مجھے گرایا ہے۔
استاد صاحب نے فوراً جواب دیا، اور یہ داؤ میں نے تجھے اسی خیال سے نہ سکھایا تھا کہ اگر کبھی تو میرے مقابلے پر آ جائے تو میں اپنا بچاؤ کر سکوں دانشمندوں نے بالکل سچ کہا ہے کہ اپنے بہترین دوست کو بھی اس قابل نہیں بنانا چاہیے کہ اگر وہ کبھی مقابلے پر آ جائے تو تمہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔
یہ زمانے کا عجب دستور ہے
با وفاؤں پر جفا کرتے ہیں لوگ
جن سے سیکھیں تیر اندازی کا فن
نوک خنجر پر انھیں دھرتے ہیں لوگ
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں اس سچائی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح انسانوں میں اہلیت اور نااہلیت کا فرق ہے۔ اسی طرح کمینگی اور شرافت کا فرق ہے اور کمینے سے کچھ بعید نہیں ہوتا کہ اپنے استاد بلکہ اپنے سگے باپ کے سر پاؤں رکھنے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس لیے دانائی کا تقاضا یہ ہے علم اور ہنر سکھاتے ہوئے بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنی حفاظت کے خیال سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ٭٭٭

نقد بالہ
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار میں کشتی کے ذریعے دریا میں سفر کر رہا تھا۔ ہماری کشتی کے پیچھے ایک چھوٹی کشتی آ رہی تھی جس میں کچھ مسافر بیٹھے ہوئے تے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ چھوٹی کشتی بھنور میں پھنس کر الٹ گئی اور اسمیں جو مسافر سوار تھے وہ غوطے کھانے لگے۔ میں نے دیکھا کہ اس کشتی کے مسافروں میں دو حقیقی بھائی بھی تھے۔ میں ان کے حالت پر افسوس کر رہا تھا کہ ایک امیر آدمی نے اس کشتی کے ملاح سے جس میں ہم سوار تھے کہا، اگر تو ڈوبتے مسافروں کو بچا لے تو میں تجھے بھاری انعام دوں گا۔
یہ بات سن کر ملاح فورا!دریا میں کود گیا اور دونوں بھائیوں میں سے ایک کو بچا لایا۔ دوسرا دریا میں ڈوب گیا۔ میں نے ملاح سے کہا کہ تو نے اپنی طرف سے ان دونوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ ڈوبنے والے کی زندگی ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس وجہ سے تیری کوشش کامیاب نہ ہوئی۔
ملاح میری یہ بات سن کر مسکرایا اور پھریوں بالو ''بے شک یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس مسافر کے ڈوبنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایک بار مجھے کوڑے سے پیٹا تھا۔ میں اس سے بدلہ نہ لے سکا تھا لیکن وہ بات میرے دل میں کھٹکتی رہتی تھی۔ آج مجھے وہی بات یاد آ گئی اور میں نے اسے بچانے کے لیے ویسی کوشش نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ رہا اس مسافر کا معاملہ جسے میں بچا کر لایا ہوں تو اس نے ایک بار مصیبت کے وقت میری امداد کی تھی۔ میں صحرا میں پیدل سفر کر رہا تھا اور بری طرح تھک چکا تھا۔ یہ ادھر سے گزار تو اس نے مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا۔ بس اس کی وہ بات مجھے اس وقت یاد آ گئی اور میں نے اپنی جان کی پروانہ کرتے ہوئے اسے بچا لیا۔
ملاح کی یہ بات سن کر میں نے دل میں کہا، سچ ہے۔ انسان جو عمل بھی کرتا ہے، اسی کے مطابق اسے پھل ملتا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے:
ترجمہ : جس نے نیک عمل کیا وہ اپنے نفس کے لیے کیا اور جس نے برائی کی، اپنے نفس کے لیے کی۔
جہاں تک ہو سکے حاجت روائی کر غریبوں کی
دل آزادی سے بچ، زخمی دلوں کی آہ پیکاں ہے
سنبھل کر چل بہت کانٹے ہیں راہ زند گانی میں
نہ جانے کل ترا کیا حال ہو تو بھی تو انسان ہے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بتایا ہے کہ روز جزا تو ہر انسا ن اپنے اچھے یا برے اعمال کا نتیجہ دیکھے گا ہی، اس دنیا میں بھی اسے اس کے اچھے کام کا اجر اور برے فعل کی سزا ملتی ہے۔
٭٭٭

نور معرفت
بیان کیا جاتا ہے، ایک عابد و زاہد اور شب بیدار شخص کئی من غذا کھاتا اور ہر شب ایک قرآن پاک ختم کرتا تھا۔ کسی دانا نے اس کا حال سنا تو کہا، کاش وہ آدھی روٹی کھایا کرتا اور ساری رات سویا کرتا!
پیٹ خالی ہو تو حاصل ہو گا نور معرفت
ہو گی پرواز تخیل منزل افلاک تک
حکمت و دانائی سے اس وسطے خالی ہے تو
پیٹ کو اپنے غذا سے بھر لیا ہے ناک تک
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں عبادت و ریاضت کے اصل مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے، اور وہ ہے تزکیہ نفس۔ اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو، انسان کا دل بد ستور دنیاوی لذتوں اور مادّی فائدوں کی طرف راغب رہے تو ہر شب پورا قرآن ختم کرنا بھی بے فائدہ ہو گا۔ اس کے علاوہ نفس پر بسیار خوری کے نقصانات اور کم خوری کے فائدے بیان فرمائے ہیں۔ ٭٭٭

روئی کی جگہ اون
بیان کیا جاتا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید عباسی نے جب ملک مصر کا انتظام سنبھالا تو اسے خیال آیا کہ یہی وہ ملک ہے جس کے تخت پر بیٹھ کر فرعون نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا چنانچہ اس نے یہ ظاہر کر نا چاہا کہ مصر کی حکومت کوئی بڑی چیز نہیں اور اپنے ایک ایسے غلام کو مصر کا سب سے بڑا حکم بنا دیا جو بہت ہی کم عقل اور بدصورت تھا۔
اس غلام کا نام خصیب تھا۔ وہ کیسا کم عقل اور جاہل تھا، اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ایک بار جب مصر کے کسانوں نے اس کے دربار میں حاضر ہو کر فریاد کی کہ دریائے نیل میں سیلا ب آ جانے کی وجہ سے ان کے کپاس کے سارے کھیت برباد ہو گئے ہیں تو اس نے کہا کہ تم لوگوں کو چاہیے تھا کہ روٹی کے پودوں کی جگہ اپنے کھیتوں میں اون بوتے۔ اون پانی میں خراب نہیں ہوتی۔
یہ واقعہ ایک دانشمند نے سناتو کہا، سچ ہے، خدا بڑا بے نیاز ہے، عزت اور رزق کا انحصار عقل پر نہیں بلکہ صرف خدا کی مہر بانی پر ہے
اگر روزی ملا کرتی ہماری عقل و دانش سے
تو نادانوں کے حصے جو کا ایک دانہ بھی کب آتا
مگر رزاق مطلق ان کو پہنچاتا ہے یوں روزی
کہ اس افراط ارزانی سے رانی بھر نہیں پاتا
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں دو بہت ہی اہم باتیں بیان کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ صاحب فہم لوگوں کے لیے دنیا دی مال دولت اور تاج و تخت بہت ہی معمولی چیزیں ہیں۔ ہارون الرشید نے اتنا بڑا اور ایسا زرخیز ملک ایک حبشی غلام کے حوالے کر دیا۔ دوسرے یہ کہ دنیاوی عزت اور مال انسان کی اپنی کوشش سے حاصل نہیں ہوتا۔ اگرچہ معلوم ایسا ہی ہوتا ہے لیکن اگر فی الواقع ایساہی ہوتا تو نادان تو سب بھو کے مر جاتے۔
٭٭٭


روٹی کی فکر اول
بیان کیا جاتا ہے۔ ایک عابد و زاہد لیکن عیال دار شخص سے بادشاہ نے سوال کیا، کہیے آپ کی زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ اس نے جواب دیا، حضور والا ساری رات مناجات میں مشغول رہتا ہوں، صبح دعائیں مانگتا ہوں اور دن اس فکر و تردّدمیں گزر جاتا ہے کہ میری اور بال بچوں کی گزر بسر کیسے ہو گی۔
رات اس فکر میں گزرتی ہے
دن اسی جستجو میں کٹتا ہے
ہے فزوں بوجھ زندگانی کا
عمر کا آفتاب گھٹتا ہے
بادشاہ دانا تھا۔ سمجھ گیا روزی کی تنگی کے باعث یہ شخص سخت مصیبت میں مبتلا ہے۔ اپنے وزیر خزانہ کو اشارہ کیا کہ اس کا وظیفہ مقرر کر دو۔ چنانچہ اسے شاہی خزانے سے وظیفہ ملنے لگا اور اس کی بے اطمینانی ختم ہوئی۔
وضاحت اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اس سچائی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ با عزت اور مطمئن زندگی گزارنے کے لیے مادی وسائل کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے فکر معاش سے غافل ہو جاتے ہیں۔ وہ اطمینان کے ساتھ عبادت بھی نہیں کر سکتے۔ انھیں دوسروں کا محتاج بننا پڑتا ہے۔
٭٭٭

سچا درویش
بیان کیا جاتا ہے کچھ اوباش ایک درویش کے درپے آزاد ہو گئے جب بھی ملتا وہ اس کی توہین کر تے اور آزار پہنچاتے۔ ایک دن تو انھوں نے حد ہی کر دی درویش کر خوب برا بھلا کہا اور پکڑ کر پیٹا۔ درویش ان اوباشوں کی اس حرکت سے بہت دل برداشت ہوا۔ وہ اسی وقت اپنے مرشد کے پاس پہنچا اور اسے سارا حال سنایا۔ مرشد نے کہا سن اے عزیز ! جو درویش دنیاوی تکلیفوں اور دنیا والوں کے برے سلوک سے بے حوصلہ ہوتا ہے اس کے جسم پر درویشوں کا لباس نہیں سجتا'' تکلیفوں پر صبر کر نا اور برائی کے بدلے بھلائی کر نا ہمارا دستور ہے۔
بڑے دریا میں کوئی پھینکے پتھر
کبھی گدلا نہ ہو گا اس کا پانی
نہیں آتے یونہی غصے میں درویش
یہ ہے ان پر خدا کی مہربانی
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں اپنی اصلاح اور معاشرے کی اصلاح کا وہ بہترین طریقہ بیان کیا ہے جو ابتدائے آفرینش سے رسولوں اور نبیوں کا دستور رہا ہے۔ یعنی غصے پر قابو پانا اور انتقام لینے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی دشمن کو معاف کر دینا۔ یہاں یہ بات بطور خاص سمجھنے کے قابل ہے کہ سعدیؒ جب لفظ درویش استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد مومن کامل ہوتی ہے تارک الدنیا خانقاہ نشین نہیں۔ یہ اسی لفظ کا بگڑا ہوا مفہوم ہے۔
٭٭٭

سچی بادشاہت
بیان کیا جاتا ہے۔ ایک بدعقیدہ اور مغرور بادشاہ درویشوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ایک درویش خدامت نے قرآن سے یہ بات جان لی اور بادشاہ کو مخاطب کر کے کہا، اے بادشاہ ! لا و لشکر اور دنیاوی سازو سامان میں بے شک تو ہم سے زیادہ ہے لیکن آرام اور طمانیت قلب میں ہم تجھ سے بڑھے ہوئے ہیں۔ موت ہم سب کو برابر کر دے گی اور انشا اللہ قیامت کے دن ہمارا حال تجھ سے بہتر ہو گا۔ اے بادشاہ درویشوں کا ظاہر ی حال تو بے شک خراب وحستہ ہے لیکن ان کا دل روشن اور گناہوں پر آمادہ کرنے والا نفس مردہ ہے۔ درویشوں کا طریقہ ذکر خدا، شکر ادا کرنا، ایثار قناعت تو حید(خدا کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک نہ سمجھنا ) تو کل اور تحمل ہے۔ اگر کسی میں یہ صفات نہ ہوں تو اسے درویش خیال نہ کرنا چاہیے۔
جو نماز کا تارک، عیش و عشرت کا خواہشمند، آوارہ پھرنے والا، راتوں کا غفلت کی نیند سونے والا، جو سامنے آئے کھا لینے والا اور جو منھ میں آئے کہہ گزرنے والا ہو تو وہ درویش نہیں ہے۔ خواہ اس نے درویشوں جیسا لباس پہن رکھا ہو
ہے وہی درویش جس کے دل میں ہو خوف خدا
تیرا دل تقوے سے خالی ہے تو دنیا دار ہے
دل کے داغوں کو چھپا سکتا نہیں رنگیں نقاب
تجھ پہ تو یہ بات روشن ہے کہ تو مکار ہے
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے یہ اہم بات بیان کی ہے کہ دنیاوی بادشاہت کے مقابلے میں اقلیم دل کی بادشاہت زیادہ دقیق ہے اور یہ بادشاہت اعمال صالح کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔
٭٭٭
سخاوت اور درگزر
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں میرے چند دوست ہر لحاظ سے نیک اور قابل تھے، یہ بات نہ تھی کہ وہ ظاہر میں کچھ نظر آتے اور اندر سے ان کی حالت کچھ اور ہوتی۔ چنانچہ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ایک نیک دل امیر نے ان کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ وہ روزی حاصل کرنے کے جھگڑوں سے بچے ہوئے تھے اور نہایت آرام اور عزت کی زندگی گزار رہے تھے۔
قسمت کی خرابی سے پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان میں سے ایک کوئی ایسی لغزش کر بیٹھا جس کی وجہ سے وہ امیر ان کی طرف سے بد ظن ہو گیا۔ ان کے نیک اور شریف ہونے کا گمان اس کے دل سے جاتا رہا اور اس نے ان کا وظیفہ بند کر دیا۔
مجھے یہ حالات معلوم ہوئے تو میں نے یہ بات ضروری سمجھی کہ امیر کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ان دوستوں کی صفائی پیش کروں اور ان کا وظیفہ جاری کرا دوں۔ چنانچہ میں ایک دن امیر کے در دولت پر پہنچ گیا۔ لیکن دربان مجھے نہ جانتا تھا۔ اس نے دروازے ہی سے لوٹا دیا۔
دربان سے جھگڑنا بے سود تھا۔ اگر ایسے لوگ جن کی ظاہر ی حالت سے شان و شوکت ظاہر نہ ہوتی ہو، امرا کے دروازوں پر چائیں تو دربان اور کتے ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں لیکن حسن اتفاق سے ایک شخص نے مجھے پہچان لیا اور وہ مجھے امیر کے دیوان خانے میں لے گیا۔
امیر نے مجھے دیکھا تو خوشی ظاہر کی اور عزت کی جگہ بیٹھنے کو کہا۔ لیکن میں معمولی آدمیوں کی صف میں بیٹھ گیا اور اس کی عنایتوں کا شکریہ ادا کر کے اپنے دوستوں کے وظیفے کا ذکر چھڑا۔ اس گفتگو میں جب میں نے یہ کہا کہ اللہ پاک ہی رزاق حقیقی ہے کہ وہ اپنے نافرمان بندوں کا رزق بھی بند نہیں کرتا تو امیر کا دل لپسیج گیا اور اس نے نہ صرف ان کا وظیفہ جاری کر دیا بلکہ پچھلے جتنے دنوں کا وظیفہ انھیں نہیں ملا تھا وہ بھی ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ میں نے اس عالی ظرف کی بخشش کا شکر یہ ادا کیا۔
کعبے میں ہوتی ہیں ہر ایک کی مرادیں پوری
لو یوں اس کی زیارت کے لیے جاتے ہیں
درگزر کر کہ نہیں تیرے تحمل سے بعید
بے ثمر پیڑ پہ پتھر کہاں برساتے ہیں
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں امرا کو اُن کے صحیح مرتبے و منصب اور ذمے داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور نہایت موثر انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ مستحق لوگوں کی امداد ایک ایسا فرض ہے کہ امرا کو یہ فرض بہرحال پورا کرنا چاہیے۔ نیز یہ کہ امداد اس شرط کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے کہ امداد لینے والا شخص ضرور ولی اللہ ہو، یعنی اس سے کسی قسم کی لغزش صادر ہی نہ ہو۔ اس سلسلے میں سنت اللہ ان کے پشی نظر رہنی چاہیے کہ خداوند ذوالجلال اپنے باغیوں اور نافرمانوں کو بھی برابر روزی پہنچاتا ہے۔
٭٭٭
سنگدل ڈاکو
بیان کیا جاتا ہے، ایک قافلہ سر زمیں یونان میں سفر کر رہا تھا۔ ایک جگہ ڈاکوؤں کے ایک زبردست گروہ نے حملہ کر کے قافلے والوں کا سارا سامان لوٹ لیا۔ قافلے والوں نے بہت منت سماجت کی۔ خدا رسول کا واسطہ دیا۔ لیکن ڈاکوؤں پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اس قافلے میں حکیم لقمان بھی شامل تھا۔ مسافروں نے اس سے کہا کہ ہماری آہ و زاری کا تو ان ظالموں پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ آپ ہی انھیں سمجھائیے۔ شاید آپ کی نصیحت کا کچھ اثر ہو۔
لقمان نے جواب دیا، میں انھیں ہر گز نصیحت نہیں کروں گا۔ نصیحت کرنا وہاں مناسب ہوتا ہے جہاں نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت معلوم ہو۔
کھا لیا ہو زنگ نے لوہے کو جب پوری طرح
اس کو صیقل کر کے چمکا دیں، یہ ممکن ہی نہیں
سنگ دل پر ہو نہیں سکتا نصیحت کا اثر
کچھ بھی کیجئے کیل گڑ سکتی ہے پتھر میں کہیں
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے یہ بتایا ہے کہ گناہ کرتے کرتے انسان کا دل بالآ خر ایسا سخت اور سیاہ ہو جاتا ہے کہ اس پر نصیحت کا بالکل اثر نہیں ہوتا قرآن مجید کی اس آیت میں کھل کر یہ بات بیان کی گئی ہے۔
ترجمہ : مہر کر دی اللہ نے ان کو دلوں پر اور کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ۔ ان کے لئے ہے بہت بڑا عذاب ہے۔
٭٭٭
سیاح گوش کا جواب
بیان کیا جاتا ہے، کسی نے سیاہ گوش سے سوال کیا کہ تو ہر وقت جنگل کے بادشاہ شیر کے گرد منڈلاتا رہتا ہے۔ پھر اس کے مصاحبوں میں شامل کیوں نہیں ہو جاتا کہ اس کی عنایتوں اور نواز شوں کا حق دار بن جائے اور جنگل کے جانور تجھے عزت کی نظروں سے دیکھیں؟
سیاہ گوش نے جواب دیا، میں شیر کے اردگرد تو اس لیے رہتا ہوں کہ اس کے بچے کھچے شکار سے اپنا پیٹ بھرتا ہوں اور قریب اس لیے نہیں جاتا کہ اس کے مزاج کے تلوّن سے خوف کھاتا ہوں۔ طاقت ورکسی قاعدے قانون کے پابند نہیں ہوتے۔ نہ ان کی طبیعت کا رنگ ایک جیسا رہتا ہے۔ تم نے بادشاہوں کے بارے میں یہ بات ضرور سنی ہو گی کہ کبھی وہ تعریف کرنے والے کو دیتے ہیں۔ چنانچہ اسی لیے دانشمندوں نے کہا ہے کہ ان سے دور رہنا ہی دانشمندی ہے۔ بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے ہنسی مذاق کی باتیں کرنا اس کے ندیموں کے لیے تو شاید بہتر ہو لیکن عقلمندوں کے لیے عیب ہے۔
آگ کی تاثیر میں فرق آ نہیں سکتا کبھی
چاہے اس کو عمر بھر پوجا کرے آتش پرست
جل کے مر جائے اگر آتش کدے میں جا گرے
ہے یونہی روز ازل سے اس جہاں کا بندوبست
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ ہم مرتبہ لوگوں کی ہم نشینی ہی موزوں رہتی ہے۔ کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لیے عزت میں اضافہ ہونے کے خیال سے صاحب اختیار لوگوں کے قریب ہونے کی خواہش بالعموم مہنگی پڑتی ہے، کیونکہ اقتدار کا نشہ ایسے لوگوں کے مزاج کو اعتدال پر نہیں رہنے دیتا ان لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ کبھی تو گالیاں سن کر انعام دینے پر تیار ہو جاتے ہیں اور کبھی سلام کرنے پر ناراض ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭
شتر سوار کی موت
بیان کیا جاتا ہے، ایک شخص جو ننگے سر اور ننگے پاؤں تھا اور جس کے پاس سواری کا کوئی جانور بھی نہ تھا، حجاز جانے والے ایک قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ اپنی دھن میں کہتا جاتا تھا کہ نہ میں اونٹ پر سوار ہوں اور نہ اونٹ کی طرح بوجھ میری پشت پر لدا ہوا ہے۔ نہ کسی ملک کا بادشاہ ہوں اور نہ کسی بادشاہ کا غلام نہ مجھے کوئی غم ستاتا ہے نہ فکر۔ آرام اور آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوں
ایک شتر سوار نے اسے دیکھا تو کہا، اسے شخص تو اس حالت میں ہمارے ساتھ کہاں جا رہا ہے؟تیرے بھلے کی کہتا ہوں لوٹ جا راستے کی سختیاں تجھے ہلاک کر دیں گی۔ اس شخص نے شتر سوار کی بات پر کچھ توجہ نہ دی اور برابر سفر کر تا رہا۔
جب قافلہ نخلۂ محمود نامی مقام پر پہنچا تو اچانک اس شتر سوار کو معمولی سی تکلیف ہوئی اور وہ مرگیا۔ اس کی موت کی خبر مشہور ہوئی تو وہی بے نوامسافر اس کی میت کے سرہانے آیا اور کہا، ہم تو اس سختی میں زندہ ہیں لیکن تو ہر طرح کی آسائش میں رہتے ہوئے مرگیا۔
رک گیا تھک کے تیز رو گھوڑا
پہنچا منزل پہ اپنی، لنگڑا گدھا
مر گئے تندرست، طاقت ور
ٹل گئی زخمیوں کے سر سے قضا
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ جن لوگوں کو سختیاں برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ خوش و خرم رہتے ہیں۔ موت بھی ان کے پاس آتے ہوئے گھبراتی ہے۔ ان کے مقابلے میں لاڈ کے پلے ہوئے فکروں اور غموں میں بھی گھرے رہتے ہیں اور ان کی عمریں بھی کم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس حکایت میں یہ سبق بھی ہے کہ دنیاوی اسباب کی بنا پر کوئی رائے قائم کر لینا مناسب بات نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حفاظت کا معقول سامان رکھنے والا تباہ ہو جاتا ہے اور بے نوا محفوظ رہتا ہے۔
٭٭٭
سکندر رومی کا جواب
بیان کیا جاتا ہے کہ کسی نے سکندر اعظم سے پوچھا کہ آپ نے دنیا کے اتنے ملک کسی طرح فتح کر لیے ؟ آپ سے پہلے جو بادشاہ گزرے ہیں ان کے پاس بھی خزانوں اور لشکروں کی کمی نہ تھی لیکن ایسی شاندار فتوحات ان میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئیں۔
یہ سوال سن کر سکندر نے جواب دیا، اللہ پاک کی مہربانی سے اس کے بعد یہ کامیابی مجھے اس وجہ سے بھی حاصل ہوئی کہ میں نے جن ملکوں کو فتح کیا ان سے عزت والے لوگوں کی عزت کی اور وہاں کے اچھے لوگ جو کارنامے انجام دے گئے تھے انھیں باقی رکھا اور ان کا نام ہمیشہ عزت سے لیا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ رعایا کو نہیں ستایا
جو معزز تھے اس زمانے میں
یاد عزت سے تو مادام کرے
کامیابی ہے منحصر اس پر
اچھے لوگوں کا احترام کرے
وضاحت
فتح و نصرت کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہ بہترین فوجی صلاحیتوں سے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن حضرت سعدیؒ نے سکندر اعظم جسے فاتح کی مثال دے کر یہ بات بتائی ہے کہ حقیقی فتح مندی حسن سلوک اور اعلیٰ اخلاق سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ ایسا شخص لوگوں کے دل جیت کر انھیں۔ اپنا ہمدرد اور بہی خواہ بنا لیتا ہے۔ بصورت دیگر شکتست کھانے والے لوگ بے بس تو ہو جاتے ہیں لیکن جیسے ہی انھیں موقع ملتا ہے۔ بغاوت کا جھنڈا بلند کر دیتے ہیں۔
٭٭٭
صوفی کون ہے
بیان کیا جاتا ہے، کسی نے ملک شام کے ایک بزرگ سے سوال کیا کہ تصوّف کی کیا حقیقت ہے بزرگ نے جواب دیا پہلے وقت میں ایسے بزرگ دیکھے جاتے تھے جن کا ظاہر ی حال اطمینان کے قابل نہیں ہوتا تھا۔ نہ اچھا لباس ہوتا تھا۔ نہ کھانے پینے کا بہتر انتظام رکھتے تھے اور نہ ان کے پاس مال و دولت ہی ہوتا تھا۔ لیکن ان کے دل نیکی اور اطمینان کے نور سے بھرے ہوئے تھے۔ اس کے مقابلے میں اب یہ حالت دیکھی جاتی ہے کہ لوگوں کا ظاہری حال تو اچھا نظر آتا ہے لیکن ان کے دل پراگندہ ہیں۔
جو دل دنیا کی باتوں میں پھنسا ہے پھر کہاں راحت
ہو نفرت دل میں دنیا کی تو پھر راحت ہے
نہیں کچھ فرق پڑتا مال، کھیتی اور تجارت سے
اگر یاد خدا ہو دل میں پھر خلوت ہی خلوت ہے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں تصوّف کی حقیقت بیان فرمائی ہے خاص نکتہ یہ بتایا کہ ظاہر حالت کا اچھا یا خراب ہونا بے حقیقت ہے اصل چیز تو انسان کے باطن کا درست ہونا ہے اور باطن کو درست رکھنا ہی تصوّف کو اپنا نا ہے، اگر کسی کے پاس وافر مقدار میں دنیاوی سازو سامان ہو لیکن اس کا دل اللہ پاک کی محبت میں ڈوبا ہو تو اسے دنیا دار نہ کہا جائے گا۔
٭٭٭
تکبر کا انجام
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں۔ کہ بچپن میں مجھے عبادت کا بہت شوق تھا۔ میں اپنے والد محترم کے ساتھ ساری ساری رات جاگ کر قرآن مجید کی تلاوت اور نماز میں مشغول رہتا تھا۔ ایک رات والد محترم اور میں حسب عبادت میں مشغول تھے اور ہمارے قریب ہی کچھ لوگ فرش پر پڑے غافل سور ہے تھے میں نے ان کی یہ حالت دیکھی تو اپنے والد صاحب سے کہا کہ ان لوگوں کی حالت پر افسوس ہے ! ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ اٹھ کر تہجد کی نفلیں ہی ادا کر لیتے۔
والد محترم نے میری یہ بات سنی نے تو فرمایا۔ بیٹا !دوسروں کو کم درجہ خیال کرنے اور ان کی برائی کرنے سے تو بہتر تھا کہ تو بھی پڑ کر سوجاتا۔
غرور نادان کی آنکھوں پہ پردہ ڈال دیتا ہے
وہ اوروں میں سوائے معصیت کچھ بھی نہیں پاتا
اگر اللہ بخشے دیدہ حق نظر تو انساں کو
نظر اپنی برائی کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں غرور پار سائی کی خرابی بیان کی ہے۔ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے محتاط لوگوں میں سے بھی کم بی بچ پاتے ہیں۔ جب ایک شخص خود کو اطاعت حق میں مشغول پاتا ہے۔ اور دوسروں کو اس طرف سے بے پروا پاتا ہے تو غیر محسوس طور پر اس کے دل میں یہ غرور کہ میں نیک ہوں۔ اور اگر ایسا شخص اپنی غلطی سے آگاہ ہو کر فوراً توبہ نہ کر لے تو عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے کیونکہ غرور کو مٹانا عبادت کا اولین مقصد ہے۔
٭٭٭
تن پرور اور تن ساز
بیان کیا جاتا ہے خراسان کے رہنے والے دو درویش کا فی عرصے سے اکٹھے رہتے تھے۔ ان میں سےایک صابر و شاکر اور کم خورد و نوش تھا بھوک سے کم کھاتا اور اپنا زیادہ وقت عبادت د ریاضت میں گزارتا، دوسرے کی حالت اس سے بالکل مختلف تھی۔ وہ خوب کھاتا اور خوب آرام کرتا۔ زندگی گزارنے کے ان الگ الگ طریقوں کی وجہ سے ایک کمزور و لاغر اور دوسرا خوب فربہ تھا۔
ایک بار دونوں درویش ایک شہر میں پہنچے تو وہاں کی پولیس نے انھیں اس شبہے میں گرفتار کر لیا کہ وہ دشمن کے جاسوس ہیں۔ دونوں کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور حاکم نے سرسری طور پر مقدمہ سننے کے بعد دونوں کو مجرم قرار دے کر جیل خانے بجھوا دیا اور حکم دیا کہ ایک کوٹھڑی میں دونوں کو بند کر کے اس کا دروازہ اینٹوں سے چن دیا جائے۔
حاکم کے حکم کے مطابق دونوں درویشوں کو کال کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ حاکم کو ان کے حالات پر دوبارہ غور کر نے کا یاد آیا اور جب پوری طرح تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ دونوں درویش بے گناہ ہیں۔ چنانچہ انھیں آزاد کر دینے کا حکم جاری ہو گیا۔
کال کوٹھڑی کا دروازہ کھولا گیا تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پتلا دبلا کمزور درویش زندہ تھا لیکن موٹا تازہ دنیا سے کوچ کر چکا تھا۔
اگر عادت ہوسختی جھیلنے کی
تو کمزوری میں بھی رہتی ہے ہمت
مگر تن پرور و پر خوار انساں
نہیں سہہ سکتا اک لمحے کی زحمت
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں سخت گو شی کی زندگی بسر کرنے کے فائدے سے بیان کیے ہیں یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ جب تک کسی قوم کے افراد سخت کوش اور جفا کش رہتے ہیں ان میں شجاعت اور اولی العزمی باقی رہتی ہے اور وہ زندگی کے ہر میدان میں فتح مند یاں حاصل کرتے ہیں۔ لیکن وہی اعلیٰ و افضل لوگ بند ہ حرص بن جاتے ہیں۔ تو غیر محسوس طور پر ان کی ساری توانائیاں ختم ہو جاتی ہیں قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو گھن کھائی ہوئی لکڑی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
٭٭٭
زخمی درویش
بیان کیا جاتا ہے، ایک درویش سمندر کے کنارے اس حالت میں زندگی گزار رہا تھا کہ اس کے جسم پر چیتے کے ناخنوں کا لگا ہوا ایک زخم ناسور بن چکا تھا۔ اس ناسور کی وجہ سے درویش بہت تکلیف میں مبتلا تھا۔ مگر اس حالت میں بھی وہ اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔اس سے سوال کیا گیا کہ اے مرد خدا! یہ شکر کرنے کا کون سا موقع ہے؟ درویش نے جواب دیا، میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مصیبت میں مبتلا ہوں معصیت میں نہیں۔ تو نے سنا نہیں کہ اللہ والے گناہ کے مقابلے میں مصائب کو پسند کرتے ہیں۔ جب عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے حضر یوسف علیہ السلام کو انھیں جیل خانے میں ڈلوا دینے کی دھمکی دی تو انھوں نے فرمایا تھا کہ اے اللہ، مجھے قید کی مصیبت اس گناہ کے مقابلے میں قبول ہےجس کی طرف مجھے ہلایا جا رہا ہے۔ درویش نے مزید کہ اللہ والوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب کو راضی رکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔
مجھے قتل کرنے کا دیں حکم اگر
نہ ہو گا مجھے اپنی جاں کا ملال
میں سوچوں گا کیوں مجھ سے ناراض ہیں
ستائے گا ہر وقت بس یہ خیال
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے انسان کے اس بلند مرتبے کا حال بیان کیا ہے جب وہ ہر بات کو من جانب اللہ خیال کرتا ہے اور ہر وقت اس خیال میں رہتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے کس طرح راضی ہو گا، یہی وہ روحانی منزل ہے جب انسان کو سچااطمینان اور سچی راحت حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
ظالم وزیر کا انجام
کہتے ہیں، ایک بادشاہ کا وزیر بہت لالچی اور سنگ دل تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر بادشاہ کو خوش رکھا جائے تو ہر طرح کے نقصان سے بچار ہوں گا چنانچہ اپنے اس خیال کی بنا پر وہ رعایا کو حق ناحق ستاتا اور لوٹتا تھا اور سونا چاندی اکٹھا کر کے بادشاہ کا خزانہ بھرتا رہتا تھا۔
بزرگوں نے کہا ہے کہ جو شخص سچے خدا کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا خدا بنا لے، خدا اسے اسکے ہاتھوں سزا دلواتا ہے۔ اس وزیر بے تدبیر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ اتفاق سے بادشاہ کو اسکی کسی غلطی بارے پتا چل گیا اور وہ اس سے اس قدر ناراض ہوا کہ اسے شکنجے میں کسوا کر ہلاک کروا دیا۔
اگر وہ یہ بات سمجہ لیتا تو اس انجام کو نہ پہنچتا کہ بادشاہ کو خوش کرنے کی سب سے اچھی تدبیر یہ ہے کہ غریب رعایا کو خوش کیا جائے اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ خدا اس سے راضی ہو جائے تو اسے چاہیے کہ خلق خدا کو خو ش کرے۔
جس وقت ظالم وزیر کو سزادی جا رہی تھی، ایک شخص اس طرف سے گزرا جسے اس نے ستایا تھا اس نے اسے اس حال میں دیکھا تو کہا۔
جو ستاتا ہے غریبوں کو برا کرتا ہے
ظلم کی شاخ کو بدبخت ہر اکرتا ہے
کوئی چاہیے تو نگل سکتا ہے ہڈی لیکن
معدہ اس فعل سے انساں کا پھٹا کرتا ہے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں مشرک کے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مخلوق میں سے کسی کو خدا ئی صفات کا حامل سمجھ لیا جائے تو ظلم عظیم ہے۔ ایسا شخص دائمی جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔ اور دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوتا ہے، جیا کہ ظلام وزیر اس بادشاہ کے ہاتھوں تباہ ہوا جسے خوش کرنے کے لیے وہ غریبوں کو ستاتا اور لوٹتا تھا۔
٭٭٭
بد آواز خطیب
بیان کیا جاتا ہے۔ ایک خطیب بہت بد آواز تھا اور مزے کی بات یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو بہت خوش آواز سمجھتا تھا، چنانچہ اپنی اس غلط فہمی کی بنا پر خوب چلا چلا کر خطبہ دیا کرتا تھا۔ لوگ اس کا چیخنا چلانا سن سن کر تنگ آ چکے تھے لیکن اس کو کچھ پروانہ تھی۔ وہ تو اپنی طرف سے بستی والوں پر احسان کرتا تھا۔
اتفاق سے ایک دن خطیب کے گھر ایک ایسا شخص مہمان بن کر آیا جو منھ پر تو اسے اچھا کہتا تھا لیکن در پردہ اس کا برا چاہتا تھا۔ اس مہمان کو خطیب کے حالات معلوم ہوئے تو ایک دن کہنے لگا، آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی آواز بہت اچھی ہو گئی ہے۔ آپ خطبہ دے رہے ہیں۔ اور سننے والے خوش ہو رہے ہیں۔ مہمان کی یہ بات سن کر خطیب نے اس پر غور کیا اور یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ میر آواز بہت خراب ہے جس کی وجہ سے بستی کے لوگ پریشانی محسوس کرتے ہیں۔ اس نے اپنے دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ آیندہ کبھی اونچی آواز میں خطبہ نہ دوں گا اور یوں بستی والوں کی پریشانی کا خاتمہ ہو گیا۔
جس قدر بھی ممکن ہے تو خوشامدی سے بچ
یہ خوشامدی پٹھودوست ہے نہ بھائی ہے
حق دوستی یہ ہے عیب سے کرے آگاہ
عیب کو ہنر کہنا سخت بے وفائی ہے۔
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے عیوب اور اپنی خوبیوں کا بالکل درست اندازہ کر لینا انسان کی بہت بڑی سعادت ہے ایسا شخص دشمن کی ایسی بات سے بھی اچھا نتیجہ اخذکر لیتا ہے جوا س کا دل دکھانے کے لیے کہی گئی ہو۔
٭٭٭
بد آواز قاری
بیان کیا جاتا ہے، ایک ایسا شخص جس کی آواز اچھی نہ تھی بہت بلند آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ ایک دن ایک دانشمند شخص اس طرف سے گزار تو اس نے پوچھا، بھائی ! تجھے اس کام کا کیا معاوضہ ملتا ہے۔ ؟ اس نے جواب دیا، کچھ بھی نہیں۔ دانشمند نے کہا، پھر اس قدر مشقت کیوں اٹھا تا ہے؟ وہ بولا، خدا کے لے پڑھتا ہوں۔دانشمند نے کہا، خدا کے لیے مت پڑھا کر
تو اسی صورت سے گر پڑھتا رہا قرآن پاک
دیکھ لینا رونق اسلام کم ہو جائے گی
وضاحت
اس حکایت حضرت سعدیؒنے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بھی شائستگی اور احسن طریقے کر اپنا نا ضروری ہے۔ مخاطب پر ایسے ہی انداز کا خوشگوار اثر ہوتا ہے۔ بصورت دیگر اصلاح پر آمادہ لوگ بھی بدک جاتے ہیں اور ان کی طبیعت اپنے حال میں مست رہنے کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ دین کو مشکل بنا کر پیش کر نا بھی اسی نوعیت کی بات ہے۔ ایسا کرنے سے اسلام کی رونق زیادہ نہیں کم ہو جاتی ہے۔
٭٭٭
بہترین تدبیر
بیان کیا جاتا ہے، کسی نے ایک عالم سے پوچھا کہ یہ بتائیے ایک جوان صحت مند آدمی ایک خوبصورت عورت کے ساتھ ایسے مکان میں ہو جس میں ان دونوں کے سواکوئی نہ ہو ما نہ اسے یہ خوف ہو کہ کوئی اسے گناہ سے روکے گا اور نہ یہ ڈر ہو کہ اس کا گناہ ظاہر ہو جائے گا، تو کیا ایس حالت میں وہ گناہ سے بچ سکتا ہے۔
عالم نے جواب دیا، ہاں بچ سکتا ہے۔ لیکن خلق خد اکی الزام تراشی سے نہیں بچ سکتا ہے۔
یہ نا ممکن نہیں انساں کے شرسے بچ سکے انساں
مگر بد خواہ انسانوں سے بچنا غیر ممکن ہے
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدی ؒ نے یہ زریں نکتہ بیان کیا ہے کہ جس طرح گناہ سے سخت نفرت کرنا اور خود پاک رکھنے کی کوشش ضروری ہے، بالکل اسی طرح ایسے مقامات سے بھی دور رہنا چاہیے جہاں گناہ ہو جانے کا احتمال ہو۔ انسان اپنی نیک نفسی کے باعث پاک بھی رہے، پھر بھی لوگ طرح طرح کی باتیں بنائیں گے اور شک کا اظہار کریں گے۔ ٭٭٭
٭٭٭٭٭٭
بے ہنر پہلوان
بیان کیا جاتا ہے،ایک پہلوان اپنی شہ زوری کے باوجود مفلسی کا شکار تھا۔ اپنے وطن میں باعز ت روزی حاصل کرنے میں اسے ناکامی ہوئی تو ایک دن اس نے اپنے باپ سے پردیس جانے کی اجازت مانگی۔ باپ نے اسے سمجھایا کہ صرف طاقتور ہونا ایسی بات نہیں ہے جس کے باعث تو پردیس میں کامیابی حاصل کر سکے۔ پانچ افراد ایسے ہیں۔ جنھیں سفر راس آتا ہے۔ ایک امیر کبیر سوداگر۔ دوسراخوش آواز مغنی تیسرا عالم۔ چوتھا خوب رو اور پانچواں وہ شخص جو کوئی ہنر جانتا ہو۔
پہلوان نے باپ کی نصیحت کو بے دلی سے سنا اس نے سفر کرنے کے فوائد بیان کیے، اپنی مجبور یوں اور محرومیوں کا حال سنایا اور دعا کرتے رہنے کی درخواست کر کے روانہ ہو گیا۔
چلتے چلتے یہ پہلوان ایک بڑے دریا کے کنارے پہنچا۔ دوسری طر ف جانے والے مسافر کرایہ ادا کر کے کشتی میں سوار ہو رہے تھے۔مفلس پہلوان نے خوشامد اور ملاحوں کی تعریف کر کے کشتی میں سوار ہونا چاہا لیکن وہ مفت کا بوجھ کشتی پر لادنے کے لیے راضی نہ ہوئے اور اسے کنارے پر چھوڑ کر لنگر اٹھا دیا۔
کشتی زیادہ دور نہ گئی تھی کہ پہلوان کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے ملاحوں سے کہا، اگر تم مجھے دریا کے پار پہنچا دو تو میں تمھیں اپنی یہ پوشاک دے دوں گا جو پہنے ہوئے ہوں۔ ملاح لالچ میں آ گئے اور کشتی کا رخ موڑ کر کنارے پر لے آئے۔ پہلوان نے آگے بڑھ کر ایک ملاح کا گر بیان پکڑ لیا اور پیٹنا شروع کر دیا اس کا ساتھی اسے چھڑانے آیا تو اس کی بھی خوب مرمت کی اور یوں انھیں مجبور کر دیا کہ وہ اسے کشتی میں سوار کر لیں۔
ملاحوں نے پہلوان کو کشتی میں بٹھا تو لیا لیکن اس سے بدلہ لینے کی فکر میں رہے۔ دوسری طرف پہلوان اپنے زعم میں یہ بات بھول گیا کہ اگر کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ موقع ملے تو ایسا شخص بدلہ لیے بغیر نہیں رہتا چنانچہ اسے اپنی غفلت کا خمیازہ بھگتنا پرا۔
ہوا یہ کہ کشتی قدیم زمانے کی ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت کے قریب سے گزری تو ملاحوں نے چپو روک لیے اور مسافروں سے کہا کہ کشتی میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ اگر کوئی شہ زور شخص عمارت کے منارے پر چڑھ کر کشتی کا لنگر تھامے رکھے تو ہم مرمت کر لیں۔
پہلوان نے خیال کیا کہ اپنی شہ زوری دکھانے کا یہ نادر موقع ہے۔ وہ لنگر کارساہاتھ پر لپیٹ کر فوراً منارے پر چڑھ گیا۔ ملاحوں نے جھٹکا مار کر رسا اس کے ہاتھ سے چھڑایا اور کشتی کو تیزی سے آگے لے گئے۔ پہلوان منھ دیکھتا رہ گیا۔
دو دن اور دو راتیں بے چارہ اسی منارے پر بھوکا پیاسا بیٹھا رہا۔ پھر کچھ نقاہت اور کچھ نیند کے غلبے سے دریا میں گر پڑا۔ یہ موت کا سمان تھا۔ لیکن ابھی زندگی باقی تھی۔ دریا کی لہروں نے اچھال کر کنارے پر پھینک دیا اور یوں اس کی جان بچ گئی۔
اللہ پاک کی خاص مہربانی سے پہلوان صاحب ڈوب کر مچھلیوں کی خوراک بننے سے تو بچ گئے لیکن بھوک پیاس اور بے چارگی کا عالم جوں کاتوں رہا۔ قدرت نے یہ مسئلہ یوں حل کیا کہ اتفاق سے سواد گروں کا ایک قافلہ ادھر سے گزرا اور اس نے خاص اس جگہ قیام کیا جہاں پہلوان موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھا۔
یہ جگہ ایسی ویران، سنسان تھی کہ قافلے والے ڈاکا پڑنے کے اندیشے میں مبتلا ہو گئے۔ پہلوان نے قرائن سے یہ بات معلوم کر لی اور ان سے کہا کہ '' اگر تم لوگ مجھے اپنے ساتھ لے لو تو میں تمہاری حفاظت کا فرض انجام دوں گا۔ قافلے والوں کو یہ موٹا تازہ شخص اس کام کے لیے موزوں نظر آیا۔ چنانچہ انھوں نے اسے ساتھ لے لی اس کی معقول تنخواہ مقرر کر دی اور کھانے پینے کو عمدہ عمدہ چیزیں دیں
پہلوان نے خیال کیا کہ قدرت مہربان ہوئی اور اس کی بے روز گاری کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو گیا۔ لیکن یہ قافلہ جب اگلے پڑاؤ پر رکا تو ایک بوڑھے سوداگرنے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بھائیو! مجھے تو یہ شخص ڈاکوؤں کا ہمراہی لگتا ہے۔ لازمی طور پر یہ اس لیے ہمارے ساتھ ہوا کہ موقع پاتے ہی اپنے ساتھیوں کو بلا لے اور وہ ہمارا سامان لوٹ کر لے جائیں۔
جس وقت بوڑھا سوداگریہ باتیں کر رہا تھا، پہلوان غفلت کی نیند سویا ہوا تھا، قافلے والوں نے اپنے بزرگ کی رائے کو درست قرار دیا اور اپنا سامان سمیٹ کر روانہ ہو گئے۔ پہلوان دوسرے دن اس وقت بیدار ہوا جب مصیبت کا آفتاب سوانیزہ بلند ہو چکا تھا۔
اب وہ پھر پہلی سی پریشانی کا شکار تھا۔ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ مصیبت میں گھر گیا تھا۔ اسے اب یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اپنے وطن سے کتنی دور اور کس علاقے کے دشت غربت میں ہے۔ لیکن زندگی باقی ہو تو غیب سے سامان پیدا ہو جاتا ہے اس بار پہلوان کی جان اس طرح بچی کہ ایک شہزادہ شکار کھیلتا ہوا اس طرف آ نکلا اور اس کی پریشانیوں سے آگاہ ہو کر انعام و اکرام سے اس کی دلجوئی کی اور اپنے لشکر کا ایک آدمی اس کے ساتھ بھیج دیا کہ اسے اس کے وطن پہنچا دے اور یوں پہلوان صاحب جان بچی سو لاکھوں پائے خیر سے بدھو گھر کو آئے کے مصداق اپنے وطن پہنچے۔
باپ سے ملاقات ہوئی تو اس نے اپنی نصیحت یاد دلائی لیکن چونکہ شہزادے کی مہربانی سے پہلوان کے پلے میں تھوڑی بہت پونجی تھی اس لیے اس نے ڈینگ ماری کہ میں ناکام نہیں کامیاب لوٹا ہوں۔
باپ نے کہا بیٹے! تیر ی یہ کامیابی محض حسن اتفاق ہے ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ پردیس میں انسان کا اصل جو ہر ہی کام آتا ہے۔ پھر اس نے ایران کے بادشاہ کا ذکر کر کے یہ قصہ سنایا۔
بیٹے! تو نے سنا ہو گا کہ ایران کا ایک بادشاہ جس کے پاس بہت ہی قیمتی نگینے والی ایک انگوٹھی تھی، ایک با سیر کے لیے نکلا تو اس نے عضد الدولہ کے مقبرے کے گنبد سے وہ انگوٹھی لٹکا دی اور اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ جو شخص اس انگوٹھی میں سے تیر گزار دے گا اسے انعام و کرام کے علاوہ یہ انگوٹھی بخش دی جائے گی۔
لشکر میں نامی گرامی تیرا انداز موجود تھے۔ سب نے اپنی سی کر دیکھی لیکن کسی کا تیر بھی انگشتر ی میں سے نہ گزرا۔ ذرا فاصلے پر ایک بچہ تیر کمان سے کھیل رہا تھا۔ اس نے جو شرفا کو نشانہ بازی کرتے دیکھا تو یونہی تفریح کے طور پر نشانہ باندھ کر تیر چلایا اور اس کا تیر انگوٹھی میں سے گزر گیا۔ سو اے پسر، اس کامیابی کو پانی کامیابی خیال نہ کر۔
کبھی اک مرد دانا بھی غلط بیر کرتا ہے نہ
کام آتا ہے علم اس کا نہ کام آتی ہے عقل اس کی
کبھی ایک طفل ناداں پیش کرتا ہے ہنرایسا
کہ کر سکتے نہیں وہ کام مل کر سارے دانا بھی
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے گلستاں کی اس طویل حکایت میں یہ سبق دیا ہے کہ خدا کی عطا کردہ کسی خاص سفت یا علم و ہنر کے بغیر سچی کامیابی ممکن نہیں انھوں نے صرف طاقت اور ہونے کو رد کر دیا ہے اور یہ ایک ایسا لطیف نکتہ ہے کہ اگر اسے زندگی کے تمام پہلوؤں پر پھیلا دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ صرف طاقت کو کامیابی کی ضمانت خیال کرنا دراصل ایک وحشیانہ اور جاہلانہ نظریہ ہے۔
٭٭٭
بیٹے کی تمنا
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ میں دیار بکر میں ایک امیر آدمی کے گھر مہمان تھا۔ مال و دولت کے علاوہ خدا نے اس شخص کو ایک خوبرو بیٹا بھی دیا تھا ایک رات وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ سعدیؒ، شاید تمھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ میرے گھر یہ بیٹا ایک مدت کی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہوا ہے۔ فلا ں مقام پر ایک بابرکت درخت ہے لوگ۔ اس درخت کے قریب جا کر دعائیں مانگتے ہیں اور ان کی مرادیں مل جاتی ہیں۔ میں نے اس بابرکت درخت کے پاس جا کر دعا مانگی اور اللہ نے میر مراد پوری کر دی
سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جس وقت امیر باپ اپنے بیٹے کے بارے میں یہ باتیں کر رہا تھا بیٹا اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہوا یہ کہ رہا تھا۔ کہ اے کاش !مجھے معلوم ہو جائے کہ وہ بابرکت درخت کس جگہ ہے۔ میں آج ہی وہاں جاؤں اور یہ دعا مانگوں کہ میرا باپ جلد مر جائے تاکہ سارا مال اور جائیداد میرے قبضے میں آئے۔
گزر جاتی ہے مدت تجھ سے اتنا بھی نہیں ہوتا
سمجھ لے تیر ا بیٹا بھی یونہی اغماض برتے گا
کہ اپنے باپ کی تربت پہ بہر فاتحہ جائے
یہی قانون قدرت ہے کہ جو بوئے دی پائے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسانی زندگی کے ا المیے کے طرف اشارہ کیا ہے کہ جس اولاد کے لیے انسان اتنے پاپڑ بیلتا ہے اور رنگارنگ تمنائیں سینے میں بساتا ہے وہ اس کی ذات کے مقابلے میں اس کے مال کو زیادہ عزیز رکھتی ہے اور بالعموم یہ تمنا کرتی ہے کہ بڑے میاں کل کی جگہ آج ہی دنیا سے سدھار جائیں تاکہ اسے کھل کھیلنے کا موقع ملے۔ اس حکایت میں اولاد کے لیے یہ سبق ہے کہ آج جیسا سلوک وہ اپنے ماں باپ سے کر رہے ہیں، کل دیساہی سلوک ان کی اولاد ان کے ساتھ کرے گی۔
٭٭٭
برا ہمسایہ
حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں۔ ایک بار میں نے ایک مکان خریدنے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں بات چیت ہو رہی تھی کہ ایک یہودی مجھ سے ملا اور کہتے لگا آپ وہ مکان ضرور خرید لیں۔ میں اسی محلے میں بلکہ اس مکان کے بالکل پاس والے مکان میں رہتا ہوں۔ اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ یہودی کی بات سن کر میں نے کہا کہ ہاں، کوئی عیب نہیں سوائے اس عیب کے کہ تو اس کا ہمسایہ ہے۔
بات تو جس گھر کی کرتا ہے نہیں کچھ اس میں عیب
ہاں مگر ایک عیب یہ ہے اس کا ہمسایہ ہے تو
جس کی تاریکی سواہوتی ہے وہ سایہ ہے تو
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے یہودی سے انتہائی کراہت ظاہر کی ہے جو یقیناً ان کے مشاہد ے اور تجربے پر مبنی ہے۔ انسانی نسل کی موجودہ تاریخ میں ہم یہ بات نمایاں طور پر دیکھتے ہیں کہ دنیا کے تمام دانشوروں نے اس قوم سے انتہائی نفرت ظاہر کی ہے۔ یہ نفرت دراصل کسی تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ اس فلسفہ زندگی کے باعث ہے جواس قوم نے اپنا رکھا ہے۔ اگرچہ یہود نسلی طور پر حضرت یعقوب ؐ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں سے ہم رشتہ ہیں لیکن انھوں نے اپنے مذہب اور اپنے کلچر کو کچھ اس طرح مسخ کر لیا ہے کہ پیغمبروں کی تعلیمات سے ان کا ادنی سارشتہ بھی باقی نہیں رہا۔ روپیہ ان کا دین ایمان ہے اور روپے سے ان کی محبت نے قریب قریب پوری دنیا کو جہنم کی بھٹی بنا دیا ہے۔ وہ کسی حیلے اور کسی فریب کو برا نہیں جانتے اور نہ بڑی سے بڑی سفا کی سس خود کو روکتے ہیں۔
٭٭٭
بوڑھا شوہر
بیان کیا جاتا ہے، ایک بوڑھے آدمی نے نوجوان لڑکی سے شادی کر لی۔ اس نے اپنی اس بیوی کے رہنے سہنے کا بہت اچھا انتظام کیا۔ شاندار سجا ہوا مکان رہنے کے لیے دیا۔ اس کے لیے عمدہ کھانے پکواتا اور اس کے پاس بیٹھ کر گھنٹوں میٹھی میٹھی باتیں کرتا اور اسے یہ سمجھاتا کہ جوان آدمی کے مقابلے میں بوڑھا آدمی بہت اچھا شوہر ثابت ہوتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ ان باتوں سے اس کی بیوی خوش ہوتی ہو گی لیکن ایسا نہ تھا وہ عورت ہر وقت غمگین رہتی تھی۔
ایک دن بوڑھے نے اس کے آزردہ رہنے کی وجہ پوچھی اور بوڑھے شوہر کی خوبیاں بیان کرنی شروع کیں تو بیوی نے صاف لفظوں میں اسے بتا دیا کہ وہ اس زندگی سے مطمئن نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ کسی جوان عورت کی شادی بوڑھے آدمی سے ہو جانے کے مقابلے میں یہ بات کہیں اچھی ہے کہ عورت کو پہلو میں تیر لگے اور وہ ہلاک ہو جائے۔
بوڑھا سمجھ گیا کہ وہ اپنی بیوی کو خوش نہ رکھ سکے گا۔ چنانچہ اس نے اسے طلاق دے دی اور جب عدت کا زمانہ ختم ہو گیا تو عورت کی شادی ایک غریب مگر اکھڑ مزاج نوجوان کے ساتھ کر دی گئی، جوا سے جھڑکتا تھا اور مارتا تھا۔ لیکن وہ اپنے اس شوہر کے ساتھ خوش رہتی تھی۔
جو عورت مرد کے پہلو سے خوش ہو کر نہ اٹھے گی
ہمیشہ اس کے گھر میں تلخی گفتار پاؤ گے
جو نا ہموار ہو گی عمر بیوی اور شوہر کی
گھریلو زندگی کو ان کے ناہموار پاؤ گے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ سبق دیا ہے کہ جو بوڑھے ہوس پوری کونے کے لے جوان عورتوں سے شادی کر لیتے ہیں وہ نہ صرف ان عورتوں کے ساتھ بلکہ خود اپنے ساتھ بھی ظلم کرتے ہیں۔ ان کی گھریلو زندگی ہر گز خوشگوار نہیں ہوسکتی۔
٭٭٭
چیونٹی کے پر
بیان کیا جاتا، ایک شخص اس قدر مفلس اور نادار تھا کہ تن ڈھانکنے کے لیے اس کے پاس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا۔ وہ اپنا جسم ریت میں چھپا نے رکھتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرف سے گزر سے تو اس شخص نے درخواست کی کہ یا حضرت میرے لیے اللہ پاک سے دعا فرمائیے کہ وہ میری غربت دور فرما دے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس پر رحم آگیا۔ آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی اور اللہ رب العزت نے چند دنوں ہی میں اس کی غربت کو خوشحالی میں بدل دیا۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرف گزرسے تو آپ نے دیکھا کہ اس شخص کو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے اوراسے برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ حضرت فوراً وہاں پہنچے اور لوگوں پوچھا کہ تم اسے کیوں ستار ہے ہو، کیا اس نے کوئی خطا کی ہے؟
لوگوں نے جواب دیا، یہ بہت خراب اور آوارہ آدمی ہے۔ پہلے تو شراب پی کر غل غپاڑا ہی کرتا تھا۔ آج اس نے ایک بے گناہ عورت کو قتل کر دیا۔ اب اسے قاضی کے پاس لے جائیں گے ار وہ اس کے اس سنگین جرم کی سزادے گا۔
لوگوں نے بتایا کہ جب سے خوشحالی ہوا، لوگوں کے لیے مصیبت بن گیا۔ تھا اس کی خوشحالی اس کے لیے عذاب ثابت ہوئی۔ کم ظرف کو طاقت حاصل ہوتی ہے تو وہ ایسا ہی کرتا ہے۔ خدا نے سب کی حالت ایک جیسی نہیں رکھی یہ عین حکمت کے مطابق ہے۔
مل جاتا اگر بلی کو اڑنے کا ہنر تو
اک آن میں کر دیتی وہ چڑیوں کا صفایا
پا لیتا اگرسینگ گدھا گائے کی مانند
پاس اپنے کسی کو وہ پھٹکنے بھی نہ دیتا
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اس فرق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جو کم ظرف اور عالی، شریف اور غیر شریف لوگوں کے مابین دیکھا جاتا ہے۔ کسی کے شریف اور غیر شریف بن جانے کے اسباب خواہ کچھ بھی ہوں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ فرق موجود ہے۔ اسی طرح یہ بھی ناقابل تردید سچائی ہے کہ اگر بد فطرت انسان کسی طرح طاقت حاصل کر لیتا ہے تو وہ دنیا کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات خاص طور پر سمجھنے کے قابل ہے کہ اللہ پاک نے جبر سے کسی کو شریف اور کسی کو کمین نہیں بنایا۔ بلکہ یہ دونوں حالتیں انسانوں کے اپنے کیے کی بنا پر ہیں۔ ایک بد فطرت شخص شریف اور بری عادات میں پھنس کر ایک شریف آدمی رذیل بن جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر، اگرچہ دنیا کا نظام چلانے کے لیے انسانوں کا مختلف حیثیتوں میں ہونا فطرت کا تقاضا تو ضرور ہے لیکن یہ بات انسانوں کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ زندگی کے سٹیج پر اپنے لیے کون ساکردار پسند کرتے ہیں۔ اور ان کا یہی اختیار انھیں نباتات، جمادات اور حیوانات سے ممتاز کرتا ہے۔
٭٭٭
فقیر کی دولت
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک فقیر نے کوڑی کوڑی اکٹھی کر کے کا فی مال جمع کر لیا تھا۔ اتفاقاً یہ بات ملک کے بادشاہ کو بھی معلوم ہو گئی۔ اس نے فقیر کو بلوایا اور اس سے کہا کہ جنگی اخراجات کے لیے ان دنوں ہمیں روپے کی بہت ضرورت ہے۔ مناسب ہو گا کہ اپنی جمع ٍپونجی ہمیں دے دو۔ ہم بعد میں ادا کر دیں گے۔
فقیر نے کہا، عالی جاہ ! یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ ملک کا بادشاہ ایک ایسے فقیر کے مال پر نظر رکھے جس نے در در پھر کر خیرات مانگی ہے۔ بادشاہ نے کہا۔ کوئی بات نہیں تیرا یہ ناپاک مال ہم ناپاک جگہ ہی خرچ کریں گے۔ فقیر پھر بھی مال دینے پر رضامند نہ ہوا۔ اب بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کا سارا مال زبردستی چھین لیا جانے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
گر نہ نکلے کام نرمی سے تو نازیبا نہیں
ایسے ناداں کو سزا دیجیے ملامت کیجیے
صرف جو کرتا نہیں مال اپنا اپنی ذات پر
لازمی یہ ہے اسے محروم نعمت کیجیے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں دو باتیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ روپیہ جائز طریقے سے حاصل کیا ہوا ہویا ناجائز طریقے سے، بہر حال اپنی مادی قیمت رکھتا ہے اور کسی برائی کے خاتمے کی کوشش میں مشکوک مال خرچ کرنا خلاف عقل نہیں دوسرے یہ کو جو لوگ مال کو صرف سنبھا ل کر رکھنے کی چیز سمجھتے ہیں اس سے فائدہ نہیں اٹھا تے ان سے ان کا مال زبردستی چھین لیا جاتا ہے۔
٭٭٭
حریص سوداگر
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار ملک ایران کے جزیرہ کیش میں میری ملاقات ایک مال دار سودا گر سے ہوئی اس کا سامان تجارت چالیس اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔
کارواں سرائے میں یہ سوداگر آرام کرنے کے لیے ٹھہرا تو مجھے اپنے ساتھ اپنی کوٹھڑی میں لے گیا اور ساری رات باتوں کا چرخہ چلائے رکھا۔ کبھی کہتا میرا ایسامال ترکستان میں ہے۔ فلاں شے ہندوستان میں ہے۔ میں نے اتنی زمیں اسکندر یہ میں خریدی ہے اور فلاں شخص کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔
پھر بولا، اے سعدی ان دنوں تو مغربی سمندروں میں طوفان ہے۔ موسم ٹھیک ہو گا تو میں اپنی زندگی میں بس ایک سفر اور کروں گا۔ اس کے بعد اطمینان سے اپنی دکان پر بیٹھ جاؤں گا اور باقی عمر یا د خدا میں گزار دوں گا۔
میں نے پوچھا۔ وہ کون ساسفر ہے جس کا تو نے ارادہ کر رکھا ہے ؟ اس نے جواب دیا، میں ایران کی گندھک چین لے جاؤ گا۔ وہاں سے چینی کے برتن خرید کر روم پہنچاؤں گا۔ روم کا ریشہ ہندوستان اور ہندوستان کا کوئلا حلب لے جانے کا ارادہ ہے۔ حلب کا شیشہ یمن اور یمن کی چادریں ایران میں فروخت کروں گا
اس حریص سوداگر کے لیے لمبے چوڑے ارادے سن کر میں تو حیراں رہ گیاسچ ہے۔
مال کتنا بھی ملے ہوتا نہیں یہ مطمئن
اپنی محرومی کا سوتے جاگتے کرتا ہے شور
کچھ بھی کر لیں چشم دنیا دار رہتی ہے حریص
یا قناعت اس کو پر کرتی ہے یا پھر خاص گور
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں اس سچائی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مال کی حرص میں مبتلا ہو جانے والا شخص کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔اس کی حالت استقسا کے مریض کی سی ہوتی ہے کہ وہ خواہ کتنا بھی پانی پی نے اس کی پیاس نہیں بجھتی۔
٭٭٭
حسد کی آگ
بیان کرتا ہے کہ ایک سوداگر بچے کو ایک بار تجارت میں کافی گھاٹا ہو گیا اس نے اپنے بیٹے کو پاس بلا کر نصیحت کی کہ اے پسر ! اپنے اس نقصان کا حال اپنے دشمنوں پر ظاہر نہ ہونے دینا بیٹے نے سوال کیا، اس میں کیا مصلحت ہے۔ سوداگرنے کہا، مصلحت یہ ہے کہ ہماری مصیبت دوہری نہ ہو جائے۔ ایک تو اپنے مال کا نقصان، دوسرے مخالفوں کا طنز وا ستہزا ہے۔
تو جو غمگیں ہو تو دشمن سے نہ کر حال بیان
تیر ے رونے کو بنائے گا ہنسی کا سامان
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسانی نفسیات کے ایک ایسے پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے زہر ناک ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور وہ یہ ہے کہ کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھ کر مدد کرنے والوں کے مقابلے میں خوش ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اظہار ہمدردی بھی ایسے انداز میں کرتے ہیں کہ نقصان اٹھانے والے کی ذہنی اذیت زیادہ ہو جاتی ہے بلبل شیراز کی اس حکایت کا آخری جملہ ضرب المثل بن گیا ہے۔
یکے نقصان مایہ و دگر شماتت ہمسایہ
٭٭٭
جال میں مچھلی
بیان کیا جاتا ہے، ایک مچھیرے نے دریا میں جال ڈالا تو ایک بہت بڑی مچھلی اس کے جال میں پھنس گئی۔ ماہی گیر بہت خوش ہوا۔ لیکن ہوا یہ کہ جب وہ جال کھینچنے لگا تو طاقت در مچھلی جال گھسیٹ کر لے گئی اور مچھلی ہاتھ آنے کی جگہ وہ بے چارہ جال سے بھی محروم ہو گیا۔
ساتھی ماہی گیر ا سے ملامت کرنے لگے کہ خوش قسمتی سے ایسا اچھا شکار تیرے جال میں آیا اور تو نے یونہی گنوا دیا۔ مچھیرے نے کہا، اے بھائیو! اس معاملے میں مجھے ملامت نہ کرو۔ اصل بات یہ ہے کہ میری قسمت میں روزی نہ تھی اور اس مچھلی کا رزق ابھی پانی میں باقی تھا۔ شکاری کی قسمت میں روزی نہ ہو تو وہ دریائے دجلہ میں شکار نہیں کر سکتا۔ اور مچھلی کی زندگی باقی ہوتا اسے خشکی پر موت نہیں آتی۔
نہر پر آیا تھا پانی کے لیے ایک غلام
جو ش طوفاں سے ہوا موت کے پنجے میں اسیر
جان مچھلی کے لیے دام اجل ہے یہ کبھی
لقمہ موج اجل ہوتا ہے خود ماہی گیر
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اس حقیقت سے روشناس کرایا ہے کہ انسان بہرحال تقدیر الٰہی کا پابند ہے۔ اگرچہ روزی کا انحصار بظاہر ہماری کوشش پر ہے لیکن اس سلسلے میں سمجھنے کے قابل بات یہ ہے کہ ایسی کوشش کو نتیجہ خیز بنانے کا انحصار اوّل و آخر اللہ پاک کی ذات پر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ ارشاد اس طرف اشارہ کرتا ہے:
'' میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہنچانا''
٭٭٭
جواب جاہلاں
بیان کیا جاتا ہے، یونان کے مشہور حکیم جالینوس نے دیکھا کہ ایک ایساشخص جسے لوگ دانشمند خیال کرتے تھے، ایک جاہل کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ اور برا بھلا کہہ کر اسے خاموش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، یہ حالت دیکھ کر جالینوس نے کہا کہ اگر یہ شخص دانا ہوتا تو اس نادان کے ساتھ ہر گزدست و گریبان نہ ہوتا۔
دو عقل مندوں میں ہوسکتا نہیں جنگ و جدال سامنے ہو جہل تو برداشت ہے عاقل کی ڈھال
کوئی جاہل بد زبانی پر اتر آئے اگر
اہل دانش اس حماقت پر کریں گے درگزر
بال کو بھی لوٹنے دیتے نہیں دو ہوشمند
بے خبر زبخیر کا بھی توڑ دیں گے بند بند
جاہلوں نے گلیاں دیں ایک خوش اطوار کو
ختم اس نے کر دیا یہ کہہ کر اس تکرار کو
دوستو! تم نے مرے بارے میں جو کچھ بھی کہا
منکشف ہے مجھ پہ یہ میں کہوں اس سے بھی برا
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے علم و عقل کی فضلیت کو ظاہر کرنے اور رفع شر کے لیے نہایت موثر اور آزمودہ اصول بیان کیا ہے۔ جواب جاہلاں باشد خموشی، داناؤں کا ہمیشہ سے دستور رہا ہے۔ یہ بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ کتا انسانوں کو اکثر کاٹتا ہے۔ لیکن جواب میں انسان کتے کو کبھی نہیں کاٹتا۔
٭٭٭
جینے کی ہوس
حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں، دمشق کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا کسی علمی مسئلے پر دوستوں سے گفتگو کر رہا تھا کہ ایک نوجوان آیا اور اس نے پوچھا کہ آپ لوگوں میں سے کوئی شخص فارسی زبان بھی جانتا ہے۔
میں نے سوال کیا، تم یہ بات کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کیا، ایک بوڑھا جس کی عمر ڈیڑھ سوسال ہے۔، جاں بلب ہے اور فارسی زبان میں کچھ کہہ رہا ہے۔ ممکن ہے وصیت کر رہا ہو۔ یہ سن کر میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ جا کر دیکھا تو ایک بوڑھا مرض الموت میں بڑبڑا رہا تھا۔
تمنا تھی کچھ اور جیتا ابھی
مگر حیف پہنچا پیام اصل
میں بیٹھا ہی تھا عمر کے خوان پر
ہوا حکم اٹھ اور یہاں سے نکل
میں نے بوڑھے کی باتوں کا مطلب سمجھایا تو جوان بہت حیران ہوا کہ اتنی عمر پاکر بھی اس کے دل میں زندہ رہنے کی ہوس ہے۔
بوڑھا بولا، تم اس شخص کی تکلیف سے آگاہ نہیں ہوسکتے جس کا دانت اکھاڑا جا رہا ہوا اور نہ اس شخص کی تکلیف کا اندازہ کر سکتے ہو جس کی جان نکل رہی ہو میں نے کہا، اسے بزرگ آپ اپنے روبرو اس موت کا احساس طاری نہ ہونے دیں۔ دیکھا گیا ہے کہ موت کے قریب پہنچ جانے والے صحبت یاب ہو جاتے ہیں آپ کی منشا ہو تو کسی طبیب کو بلایا جائے۔
بوڑھا بولا، طبیب بوڑھے مریض کو دیکھ کر علاج سے ہا تھ اٹھا لیتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ مالک مکان کوٹھڑیوں کی آرائش کی فکر میں ہے اور سیلاب پشتوں کو کھو کھلا کر رہا ہے۔ ایک بوڑھا نزع کے عالم میں رو رہا تھا اور اس کی بیوی اس کے صندل لگا رہی تھی۔ جب مزاج کا اعتدال قائم نہیں رہتا تو ہر تدبیر ناکام ہو جاتی ہے۔
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسان کی اس کمزوری یا نادانی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ خواہ کتنی لمبی عمر بھی پائے زندگی سے اس کی طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ اپنے خاص رنگ میں انھوں نے یہ حقیقت بھی بیان کی ہے کہ موت امر رہی ہے جسے ٹالا نہیں جاسکتا۔
٭٭٭
کنجوس کا مال
بیان کیا جاتا ہے، ایک مال دار سوداگر اس قدر کنجوس تھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بلی بھی اس کے گھر آتی تو اسے بھی روٹی کا ایک ٹکڑا نہ ڈالتا اور اگر اصحاب کہف کا کتا بھی آتا تو چچوڑی ہوئی ہڈی اس کے آگے نہ ڈالتا۔ مہانوں کے لیے اس کا دروازہ ہمیشہ بند اور دستر خوان لپٹا ہوا رہتا تھا۔
ایک بار اس نے سامان تجارت جہاز پر لادا اور ملک مصر کی طرف روانہ ہوا۔ غرور سے اس کی گردن یوں اکڑی ہوئی تھی کہ گویا اس زمانے کا فرعون ہو۔ اسے یقین تھا یہ تجارتی سفر اس کے لیے بہت زیادہ نفع رساں ثابت ہو گا لیکن ہوا۔ یہ کہ جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو سمندر میں طوفان آگیا اور اس بخیل کا جہاز غرق ہو گیا۔ طوفان کے آثار دیکھ کر اس بخیل نے بہت دعائیں مانگیں۔ لیکن دعاؤں سے اسے کچھ فائدہ نہ پہنچا۔ ایسے شخص کی دعا کب قبول ہوتی ہے جس کے ہاتھ مانگنے کے لیے تو خدا کے سامنے پھیل جائیں لیکن کسی کو کچھ دینا پڑتا ہو تو بغلوں میں چھپا لیے جاتے ہوں۔
اس بخیل کا چھوڑا ہوا مال اور جائیداد اس کے ان غریب رشتے داروں کے ہاتھ آئی جنھیں اس نے زندگی میں کبھی نہ پوچھا تھا اور وہ خوب شان و شوکت سے زندگی گزارنے لگے۔
گر خدا نے مال بخشا ہے تو اس کو خرچ کر
خود بھی راحت اس کی پا اوروں کو بھی آرام دے
یاد رکھ اک روز یہ گھر چھوڑنا ہو گا تجھے
جمع جس میں کر رہا ہے سونے چاندی کے ڈلے
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں بخیلوں کے حسرت ناک انجام سے آگاہ کیا ہے اور وہ بلا شبہ یہ ہے کہ ایک دن موت اچانک انھیں آلتی ہے اور وہ مال جسے انھوں نے بصد دشواری فراہم کیا تھا۔ دوسروں کو مل جا تا ہے جو خوب عیش کرتے ہیں۔
٭٭٭
خوش بخت کسان
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ کو شکار کھیلتے ہوئے جنگل میں رات ہو گئی سخت سردی کا موسم تھا۔ اس لیے جستجو ہوئی کہ دات گزارنے کے لیے کوئی مکان مل جائے اتفاق سے ایک کسان کا مکان نظر آیا۔ بادشاہ نے کہا کہ شب گزارنے کے لیے یہ مکاں ناموزوں نہیں۔ لیکن اس کے وزیر نے اتفاق نہ کیا اس نے کہا کہ عالی جاہ، یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ بادشاہ ایک کسان کا مہمان بنے اور اس سے رات بسر کرنے کی اجازت لے۔ ہمارے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ کھلے میدان میں خیمے گاڑ کر آگ روشن کریں اور مشکل کی یہ گھڑی گزار دیں۔
بادشاہ نے اس بات سے اتفاق کیا لیکن کسی طرح کسان کو بھی اس گفتگوسے آگاہی ہو گئی۔ اس نے اپنی حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا کچھ سامان لیا اور بادشاہ کی خد مت میں حاضر ہو کر بہت ادب سے بولا، حضور والا کی شان اس بات سے ہر گز کم نہ ہوتی کہ ایک دہقان کے گھر کو اپنے قدموں سے عزت بخشتے لیکن۔ یہ ناچیز اس عنایت سے ضرور سرفراز ہو جاتا۔
بادشاہ نے اس کے خلوص اور ادب کی قدر کی، رات اس کے مکان میں بسر کی اور صبح کے وقت جب اپنے دارالحکومت کی طرف روانہ ہوا تو دیہاتی کو خلعت اور انعام و اکرام سے نوازا۔دیہاتی کی خوشی اور عقیدت قابل دید تھی۔ وہ بادشاہ کے گھوڑے کے ساتھ چل رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔
شان کچھ بادشاہ کی نہ گھٹے
وہ اگر مہماں ہو دہقاں کا
ہاں مگر وہ ہو آفتاب نصیب
سایہ اس پر پڑے جو سلطاں کا
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ ہم مرتبہ لوگوں کے مقابلے میں کم حیثیت لوگوں کے ساتھ معمولی سلوک بھی بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ کیونکہ وہ اسے اپنی خوش نصیبی خیال کر کے زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ بات ذی حیثیت لوگوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ غریبوں اور کمزوروں کو حقیر جان کر ان سے بے اعتنائی برتیں بلکہ یہ بات تسلیم کریں کہ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ بھی بلند درجہ رکھتے ہیں۔
٭٭٭
شاعر چوروں کی بستی میں
بیان کیا جاتا ہے، ایک شاعر انعام و کرام حاصل کرنے کی توقع لے کر چوروں کے سردار کے پاس گیا۔ اس نے شاعر کا قصیدہ سن کر حکم دیا کہ اس کے کپڑے اتار لو اور بستی سے باہر نکال دو چنانچہ چوروں نے ایسا ہی کیا۔
ننگ دھڑنگ شاعر مکان سے باہر نکلا تو گلی کے کتے بھونکتے ہوئی اس کی طرف لپکے۔ اس نے انھیں ڈرانے کے لیے پتھر اٹھانا چاہا، لیکن برف باری سے پتھر جمے ہوئے تھے۔ یہ حالت دیکھ کر شاعر چلا یا، یہ کیسے ظالموں کی بستی ہے کہ انھوں نے کتوں کو کھول رکھا ہے اور پتھروں کو باندھ دیا ہے۔ ؎
چوروں کا سردار کھڑکی سے یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ اس نے شاعر کی یہ بات سنی تو کہا، مجھ سے کچھ مانگ شاعر نے کہا، میرے لیے یہی مہربانی کافی ہے کہ تو میرے کپڑے لوٹا دے۔
انسان کو انساں سے بھلائی کی ہے امید
گریہ نہیں ممکن تو نہ پہنچا مجھے آزار
٭٭٭
شکر گزار بندہ
حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں، میں ہمیشہ اللہ کا شکر گزار بندہ بن کر رہا کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ مصیبت کے زمانے میں میری زبان پر حرف شکایت آیا ہو۔ لیکن ایک بار ایسا ہوا کہ میرے قلب کی یہ حالت بدل گئی۔ بات یہ ہوئی کہ میرا جوتا ٹوٹ گیا اور نیا جوتا خریدنے کے لیے میرے پاس دام نہ تھے۔ ننگے پیر ہو جانے کی وجہ سے میں بہت ملول تھا۔
اس حالت میں کوفے کی مسجد میں گیا تو وہاں میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو دونوں پیروں سے محروم تھا۔ اسے دیکھ کر میری زبان پر بے اختیار کلمات شکر آ گئے کہ میرے پیر تو سلامت ہیں یہ بے چارہ تو پیروں سے ہی محروم ہے
شکر کرے ہر حال میں جس کی اچھی ہے تقدیر
نا شکرا ہے غافل۔ جاہل۔ احمق اور نادان
پیٹ بھر کو مرغ مسلم بھی معمولی چیز
بھوک میں گولر بھی لگے ہیں انساں کو پکوان
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اخلاق سنوار نے اور مطمئن زندگی گزارنے کا زریں اصول بتایا ہے اور وہ ہر حال میں شکر گزار بندہ بن کر رہتا ہے۔ کیونکہ انسان کیسی بھی خراب حالت میں ہو، غور کرے گا تو ایسی حالت میں بھی اپنے آپ کو ہزاروں سے بہتر پائے گا۔ ہمارے آقا اور اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس سلسلے میں کیسی پیاری بات ارشاد فرمائی ہے
''بھلائی کے کاموں میں ان لوگوں کو دیکھا کر جوتم سے کبھی زیادہ اچھے ہیں اور دنیاوی معاملات میں ان لوگوں کی حالت پر غور کر و جو تم سے درجے اور آسائش میں کم ہیں''
٭٭٭
صحبت نا جنس
بیان کیا جا تا ہے، کسی صیاد نے ایک کوّے اور ایک طوطی کو ایک ہی پنجرے میں بند کر دیا۔ طوطی کے لیے کّوا اور کوّے کے لیے طوطی اجنبی تھے۔ طوطی کّوے کو دیکھتی او دل ہی دل میں کڑھتی کہ تقدیر نے مجھے کس عذاب میں پھنسا دیا۔ یہ موا کالا کلوٹا ہر وقت نگاہوں کے سامنے رہتا ہے۔ اس کی شکل تو ایسی منحوس ہے کہ اگر کسی دیوار پر اس کی تصویر بنی ہو تو کوئی اس کے سائے میں آرام کرنے بھی پسند نہ کرے۔
جو حال طوطی کا تھا، وہی حال کّوے کا بھی تھا۔ وہ ہر وقت اس خیال سے پریشان رہتا تھا کہ کاتب تقدیر نے کس کی ہم نشینی مقدر میں لکھ دی بکواسن ہر وقت بکواس کرتی رہتی ہے۔ اگر تقدیر میں قید ہونا ہی لکھا تھا تو کوئی خاندانی کّوا ساتھی ہوتا۔ اس کی تو صورت دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔
نیک ہوں یا بد ہوں نا جنسوں میں رہتے میں ملول
صحبت ناجنس سے بڑھ کر نہیں کوئی عذاب
اپنے ہم مسلک کو بخشو ہم نشینی کو شرف
غیر کی محفل میں جا کر حالت ہوتا ہے خراب
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدی نے یہ نصیحت کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم مسلک اور ہم مشرب لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھنا چاہیے۔ اسی حکایت میں اس دانا حکیم نے ایک زاہد بلخی مغنیہ کا قصہ بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جس طرح ایک پار سا رندوں کی محفل میں پریشان ہوتا ہے اس طرح رند پارساؤں سے وحشت زدہ ہوتے ہیں۔
٭٭٭