صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ:زندگی کا سفر (قرۃ العین حیدر)

پائین کے درختوں کے لمبے لمبے سائے ایک دوسرے کا پیچھا کرتے دور پہاڑوں کے پیچھے جا کر چھپ چکے تھے۔ سرچ لائٹ کی تیز نیلگوں روشنی کی ایک چوڑی سی دھار سیاہ اور پر سکون آسمان کی وسعتوں کو کاٹتی ہوئی وادی کے اس سرے سے اس سرے تک پھیل گئی۔ بھیگتی رات کی خوشبوؤں سے بوجھل ہوائیں۔ درختوں میں جھلملاتے ہوئے قمقموں، جاپانی قندیلوں اور ریشمی پرچموں کو ہلائے جا رہی تھیں۔ وہ رنگیں کپڑوں کے ٹکڑے۔۔۔

نیلی سرخ سفید دھاریاں، اور ستارے، نارنجی سورج مکھی کے پھول سرخ ہتوڑے۔۔۔

وہ سرسراتے ہوئے، انسان کی خود فریبی اور خود ستائی کے اشتہار جو اوڈین، بیڈنند، ہوٹل رائیل، ہر پھاٹک، ہر چھت پر لہرا رہے تھے۔ اُن کے نیچے، پریڈ کے وسیع سبزہ زاروں پر کلیمنٹ ٹاؤن کے کیمپوں کی دنیا میں، رقص گاہوں کی کھلی چھتوں کے اوپر، نغموں اور قہقہوں کی موجیں لہریں مار رہی تھیں۔۔۔

انسان کس قدر جلد پچھلی تمام مصیبتیں ساری تکلیفیں بھول کر قہقہے لگانے پر تیار ہو جاتا ہے۔ سرچ لائٹ کی سفید لکیریں آسمان میں تیرتی رہیں۔۔۔

باہر سبزے پر رات کی دعوت کا انتظام ہو رہا تھا۔ تاروں کی دھیمی روشنی جو سرچ لائٹ کی جگمگاہٹ سے بالکل پھیکی پڑ چکی تھی۔ خاموشی سے آڑو کے شگوفوں اور خوابیدہ پھولوں پر اپنی کرنیں برساتی رہیں۔۔۔

ناچے جاؤ دنیا والو ہم اپنی بلندی پر سے ایسی بہت سی راتوں کا نظارہ کر چکے ہیں۔ آج کی رات تم آسمانوں کے سارے چاند ستارے توڑ کر اپنے ایوانوں میں سجالو چیخ چیخ کر اتنا گاؤ اپنی ہم رقصوں کو مضبوطی سے پکڑ کر اتنا ناچو کہ رقص گاہوں کے فرش گھس جائیں۔ ارغوانی پانیوں کے سیلرز خشک ہو جائیں اور تم تھک کے چور چور ہو کے گر پڑو۔۔۔

پر ہم یوں ہی جھلملاتے رہیں گے وہ اندھیری راتیں جب تم اپنے دریچوں پر سیاہ پردے گرا کے آتش دان کے پاس دھڑکتے دلوں سے سمندر پار کی باتیں کرتے تھے۔ جب تمہارے چاہنے والے اور چاہے جانے والے تمہاری مسہریوں کے سرہانے سے تمہاری سنگھار میزوں اور آتش دانوں کے اوپر سے اپنی تصویروں کے شیشوں میں سے جھانک کر خاموشی سے التجا کرتے تھے۔ ہمیں یاد کرتے ہوئے ہمارے لیے دعائیں مانگتے رہو، شاید ہم تمہارے پاس واپس آ کر پرانی خوشیوں میں شریک ہو سکیں، پھر وہ لمحات، جن کی ہیبت ناک، گونجتی ہوئی تاریکی میں تمہارے دل خوف اور جذبات کی نامعلوم گہرائیوں میں ڈوب جاتے تھے۔ او بلند و برتر خدا وند، ہماری مدد کو آ۔۔۔

اور آج جبکہ تم ایک بے بنیاد اور نا پائیدار وقتی جذبے کے ریلے میں بہے جا رہے ہو اور بڑے غرور سے اپنی مصنوعی روشنیاں ہماری طرف پھینک کر خوش ہو رہے ہو۔ ہم اسی طرح زندگی کے راستوں پر جھلملاتے رہیں گے۔ ممی بے حد مصروفیت سے کمر پہ ہاتھ رکھے سبزے سے باورچی خانے اور باورچی خانے سے کھانے کے کمرے تک ٹہل ٹہل کر نوکروں کو ہدایات دے رہی تھیں اور بلا چیخے جا رہا تھا۔ ڈیش اِٹ اولڈ گرلز۔ چیخ ہی نہیں چکتیں۔۔۔

خرگوشنیاں۔۔۔

افوہ۔۔۔

ادھر اُدھر ٹہل کر اور چیخ چلا کر وہ پھر غسل خانے میں گھس گیا۔۔۔

اور زبیدہ کپڑوں کا انبار قالین پر لگا کر کچھ فیصلہ نہ کر سکی کہ آخر کون سی ساڑی پہنے۔۔۔

اُس نے میری طرف امداد طلب نگاہوں سے دیکھا۔ میں خود پریشان تھی۔ بھئی میرا تو ارادہ سیاہ جالی والی ساڑی کا ہے وہی جس کی نقرئی پائیپنگ۔۔۔

واہ جناب وہ تو میں پہنوں گی۔ میں نے بہت پہلے سے طے کر رکھا ہے۔ جہنم میں جاؤ تم۔۔۔

ہم دونوں میں پھر جنگ شروع ہو گئی۔ بلا غسل خانے میں سے للکارا۔۔۔

ٹروس ٹروس۔۔۔ میں فیصلہ کر دوں بچیو۔

بھاگ جاؤ تم سے کون درخواست کر رہا ہے۔ ایک اپنا اکلوتا ڈریس سوٹ پہن کر اترائے جا رہے ہیں وہ بھی پیا سے مانگا ہوا۔۔۔

زبیدہ نے الماری کا دروازہ زور سے بند کر دیا گویا وہ اس زیر غور سیاہ ساڑی کو ضرور پہنے گی۔ میں اپنی آخری تنقید کے لیے آئینے پر جھک گئی، یعنی میں زبیدہ کے حق میں دستبردار ہوئی ہوں۔ وہ خوش ہو گئی اور اونچے سروں میں گنگنانے لگی۔ ایک بے حد فضول سا گیت جس کا مطلب تھا کہ ممّا سڑک کے کورنر پر تو پولس میں کھڑا ہے۔ بھلا میں ہال میں کیسے جاؤں، برف گر رہی ہے، اور روبن ریڈ بریسٹ اپنے گھونسلوں میں جا چھپے ہیں ممّا۔۔۔

بھئی واللہ۔۔۔

زبیدہ ناچ گا کر ساڑی کا طویل آنچل فرش پر گراتی ہوئی باہر چلی گئی۔ برساتی اور سڑک کی بجری پر ٹائیروں کی رگڑ کی آوازیں آنی شروع ہو چکی تھیں۔ پلم اور لیچیوں کے جھنڈوں کے اس پار سیٹیاں بجاتے، گالیاں دیتے اور قسمیں کھاتے امریکن اور کینڈین دستے مارچ کرتے ہوئے پریڈ گراؤنڈ کی طرف بہتے چلے جا رہے تھے کہیں دور ہائی لینڈرز کی ایک ٹولی اونچی آواز میں "بونی اسکاٹ لینڈ" الاپ رہی تھی۔

اپنے گھروں سے دور ایک اجنبی سرزمین کی وادی میں جو ان کے بھاری بوٹوں کے تلے روندی جا رہی تھی وہ اپنے محبوب گیت گائے بغیر اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کر سکتے تھے، وہ گیت جو ان کے دادا پر دادا ہر پلاسی ہر واٹرلؤ کے بعد یوں ہی گاتے چلے آئے تھے۔ "بونی اسکاٹ لینڈ" اور "ڈوئی کِن جون پیل" اور "یانکی ڈو ڈل ڈینڈی"۔۔۔

کیونکہ یہ جشنِ فتح کی رات تھی۔۔۔

وی۔ ای۔ ڈے!۔۔۔

یقیناً__!! میں نے سنگھار میز کے سامنے سے ہٹ کر دریچے کا سہارا لے لیا۔۔۔

سامنے، خوبانیوں کی دوسری جانب، کانونٹ والا پرانا راستہ تاروں کے دھندلکوں میں کتنا خاموش اور کتنا طویل معلوم ہو رہا تھا۔۔۔

یہ چھ سال۔۔۔

یہ چھ سال۔۔۔

میرے اللہ۔۔۔

میرے اللہ۔۔۔

اچانک ایک بے انتہا مضحکہ انگیز، حماقت آفریں بات معلوم ہوئی۔۔۔

میری مسکرا سے سنواری ہوئی پلکیں بھیگی جا رہی تھیں۔۔۔

یوں ہی۔۔۔

یعنی بالکل خواہ مخواہ۔۔۔

لیکن دیکھئے تو چھ سال کے اس ننھے سے عرصے میں زندگیوں میں، خیالات میں، دنیا میں کتنی ساری تبدیلیاں ہوئیں، کتنی بہت سی ایسی باتیں ہو گئیں جو اگر نہ ہوئی ہوتیں تو زیادہ اچھا رہتا۔۔۔

بہت ہی اچھا رہتا۔۔۔

یعنی، بھئی، اصل میں میں اپنے آپ کو ٹھیک سے ایکسپریس نہیں کر سکتی، انگریزی الفاظ کی اس ٹھونس ٹھانس کو آپ معاف فرمائیں گے۔۔۔

میرا مطلب ہے کہ _

افوہ ڈکلی تم میں کتنا چینج ہو گیا ہے۔ مائی ڈیر۔۔۔

اولڈ اگلی ڈکلنگ۔۔۔

کتنی خوب صورت کتنی سمجھ دار کتنی لیڈی لائیک۔۔۔

کاش میں بیس سال بعد پیدا ہوا ہوتا۔۔۔

اکرم چچا جو بہت دنوں بعد اٹلی سے واپس آئے تھے۔ اس روز والتس کرتے ہوئے مجھ سے کہہ رہے تھے میں نے Blush کرنے کی کوشش کی تھی کہ واہ سمجھ دار تو ہمیشہ کی ہوں اور خوب صورت بھی۔ لیکن تبدیلی؟ واقعی اگر آپ مجھے دیکھیں تو قطعی نہ سمجھ سکیں گے کہ میں ڈکلی ہوں، یعنی۔ ڈک۔۔۔لی۔۔۔

اور پھر وہیں دریچے میں کھڑے کھڑے مجھے یاد آیا۔ اپنے برف جیسے بستر میں گھس کر سوتے وقت میں کس قدر سچے دل سے دعا مانگا کرتی تھی یا میرے اللہ تو ایک بڑا سا دیو ہی بھیج دے جو آ کر ہم سب کو کھا جائے یا کم از کم ایک سبک اور لطیف سا زلزلہ یعنی کچھ تو ہو آخر۔ زندگی فربزیڈر کی پر سکون گھوں گھوں کی رفتار کے ساتھ یکسانیت سے گذرے چلی جا رہی تھی۔ کچھ اس قدر سکون اور اطمینان برستا تھا ہمارے گھر پہ کہ کیا بتاؤں اور پھر میری وہ بھوری آنکھوں والی پھوپی زاد بہن حمیدہ خدا کی قسم کتنے ٹھاٹھ سے وہ صبح سے شام تک رولنگ چیئر پر جھول جھول کر قناعت کے ساتھ "پکچر گوئر" پڑھتی رہتی تھی اور چاء کی میز پر بے حد معصومیت سے بالکل جیسے میڈونا کی تصویر میں جان پڑ جائے، وہ اپنی بڑی بڑی بھوری آنکھیں بچوں کی طرح گھما کر بلّے سے پوچھتی" اور ٹوس لو گے؟" اور پھر ایسے سرسری طریقے سے فیلڈ مارشل کی طرف پلیٹ سرکاتی ہوئی اپنی پیالی پر یوں مصروف ہو جاتی کہ مجھے اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے دل میں بے انتہا احمق بننا پڑتا۔ (فیلڈ مارشل اور بلّا دونوں میرے چھوٹے بھائی تھے بے چارے) پھر جب میں بہت چھوٹی تھی، یعنی اتنی چھوٹی کہ بھائی جان کے رائیل ملٹری اکیڈمی اور علی گڑھ میں پڑھنے والے گورے گورے شور مچاتے ہوئے دوستوں کی آمد پر مجھے بلے اور فیلڈر مارشل سمیت کان پکڑ کر ڈرائنگ روم یا بھائی جان کے کمرے سے باہر نکال دیا جاتا تھا، ایک دن بھائی جان کے بہت سے بالکل نئے نئے دوست اخباروں اور کتابوں کے بیگ لیے ہوئے آئے۔ ان سب کے چہروں سے اتنی سنجیدگی اور قابلیت ٹپک رہی تھی کہ مجھے بے حد مرعوب ہو جانا پڑا۔ بھائی جان نے اُن کے لیے قہوہ تیار کروایا اور مجھ سے کہا "جانتی بھی ہو ہم لوگ کمیونسٹ ہیں اور اس وقت ایک بے حد اہم خفیہ میٹنگ کرنے والے ہیں۔ اب تم بھاگو یہاں سے" پھر رات گئے تک ڈرائنگ روم کے دروازے بند کر کے اور فرش پر بیٹھ کر وہ اہم میٹنگ ہوتی رہی بلّے کی مدد سے میں نے باغ والی کھڑکی میں سے جھانک کر اندر دیکھا افوہ کس قدر تاریخی منظر تھا۔ میں بے حد خوش تھی کہ اب ضرور کوئی نہ کوئی نئی بات ہو گی۔ وہ لوگ بالکل جولیس سیرز اور بُروٹس کے سے انداز سے کہہ رہے تھے "ہم ملک کی قسمت کا فیصلہ کر دیں گے ہم اپنی تقدیریں بدل ڈالیں گے، "انگارے" ہندوستان میں آگ لگا دیں گے کامریڈز۔۔۔

افوہ کس قدر اس وقت میرے دل میں اُن کے لیے عقیدت کا دریا لہریں مارنے لگا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا، اور پھر یہ لفظ کمیونسٹ مجھے بہت پسند آیا، کتنا اسمارٹ سا لفظ تھا۔ لیکن افسوس کہ میں بہت دنوں تک دنیا یا کم از کم اپنے ماحول میں کسی سخت تبدیلی کا انتظار کرتی رہی، پر کچھ بھی نہ ہوا۔ ہال کا گرینڈ فادر کلاک اسی طرح ٹک ٹک کرتا رہا۔ پائین اور لیچیوں کے درخت یوں ہی جھومتے رہے وکٹورین عہد کی تصویریں اور پیانو جو مجھ آفت کی ماری کو سکھانے کی غرض سے کسی زمانے میں نیلام میں سے خریدا گیا تھا، روز ہمیشہ کی طرح جھاڑا پونچھا جاتا رہا۔ پھر ایک روز شام بھائی جان تھکے ہارے اور بے حد خفا اور رنجیدہ گھر آ کر صوفے پر گر گئے اور کہنے لگے۔ "ڈکلی "انگارے" ضبط کر لی گئی۔" میں نے قطعی کچھ نہ سمجھتے ہوئے بے انتہا افسوس کے لہجے میں کہا "اچھا؟ چچ چچ چچ۔"

اس کے چند سال بعد جنگ شروع ہو گئی۔ قوموں کی لڑائی۔ ناتسیت اور فسطائیت۔ امریکن لینڈ اینڈ لیز۔ چھوٹے ملکوں کی آزادی، جمہوریت کے اصول۔ اٹلانٹک چارٹر۔ عالمگیر گرانی، قحط سالی اور جانے کیا کیا۔ لیکن یقین جانئے میری زندگی میں تو وہی یک رنگی چلی جا رہی تھی۔ بس جانے کیسی کیسی سی، سوائے اس کے بھائی جان محاذ پر چلے گئے۔ فیلڈ مارشل نیوی میں اور ساتھ کی بہت سی اینگلو اور انگریز لڑکیاں جو نیر کیمبرج سے اسکول چھوڑ چھوڑ کر عورتوں کے امدادی دستے میں شامل ہو گئیں۔ پھر وہی بوریت (دیکھئے Boredom کا ہم نے ترجمہ کیا ہے) خدا کی قسم کاش بمباری ہی ہو جاتی، ہم خندقوں میں گھستے، کیلوں پر گھاس کے میدانوں میں راتیں گزارتے، سینکڑوں میل کا پیدل سفر کرتے، خوب مزا آتا۔ ڈسٹرکٹ وار کمیٹی کی موٹی موٹی فارغ البال اور مطمئن انگریز اور ہندستانی خواتین نے ممّی سمیت اے۔ آر۔ پی کے زمانے میں ایٹ ہوم کے بعد ایک لمبی چوڑی انتظامات کی اسکیم بھی تو بنائی تھی۔ پھر جب عابدہ آپا کی منگنی ہوئی تو رات تک لڑکیاں ڈھولک بجاتی اور گاتی رہیں۔

مگر ان سب فضولیات کے باوجود ذرا دیکھئے تو کس قدر پر لطف بات ہوئی۔ خالو میاں کا تبادلہ ناگپور سے یہاں ہو گیا۔ ممّی بے حد خوش کہ دونوں بہنیں ایک جگہ رہیں گی۔ کچھ عرصہ خالو میاں ہمارے ساتھ رہے پھر ان کے لیے کوٹھی کی تلاش بڑے زوروں میں شروع ہو گئی۔ دُنیا جہان میں کوٹھیاں ڈھونڈ ڈالی گئیں، ہر ممکن مقام پر پہنچ کر استفسار کیا جاتا، لیکن کہیں سے کوئی انگریز سیٹی بجاتا ہوا نکلتا کہیں سے کوئی سردار صاحب اپنے تازہ ترین ٹھیکے کا حساب جوڑتے بر آمد ہوتے اور جواب ایک ہی یعنی جناب افسوس ہے کہ ایک کمرہ بھی خالی نہیں۔

خالو میاں کی کوٹھی ایک مستقل پروبلم بنتی جا رہی تھی۔ کھانے کی میز پر، لیچیوں کے نیچے، شام کی چاء کے بعد، گفتگو کا یہی ایک موضوع رہ گیا تھا، یعنی برمی پناہ گزینوں کی فراوانی، کوٹھیوں اور نوکروں کی نایابی، شکر اور کوئلے کی گرانی، ممّی اور خالہ بیگم کے لیے اس سے زیادہ دلچسپ باتیں اور کیا ہو سکتی تھیں۔ ایک روز صبح صبح ہم بہن بھائی سائیکلیں لے کر کلیمنٹ ٹاؤن کی طرف نکل گئے۔ فیلڈ مارشل بھی رخصت پر گھر آیا ہوا تھا۔ کوٹھی کی تلاش میں ڈھلان پر چلے جا رہے تھے بہتے ہوئے کہ جناب دور سے یوکلپٹس کے درختوں میں ایک سرخ چھت جھلکتی نظر آئی۔ طے ہوا کہ چلو اس پر دھاوا بولیں۔ ہم نے سائیکلیں اس یوکلپٹس والی سڑک پر ڈال دیں۔ قریب پہنچے تو اوفوہ پھاٹک کے ستون کے بورڈ پر پیتل کے بڑے بڑے حرفوں میں چمکتا ہوا آئی۔ سی۔ ایس۔ خرمن ہوش پر بجلیاں گرانے لگا۔۔۔

ارے بھائی اس میں تو کوئی آئی۔ سی۔ ایس رہتا ہے بھاگو واپس ہم نے فی الفور پسپائی کی ٹھانی۔

در اصل آئی۔ سی۔ ایس کے متعلق ہمارا بہت ہی خوفناک تجربہ تھا۔ کیونکہ جتنے بھی ہمارے کزن اس امپیریل سروس میں شامل ہوئے تھے۔ ہر وقت خالص ولایتی قسم کی انگریزی بولنے "اور کوئی ہاے" ٹائپ کی اُردو۔ بونڈ اسٹریٹ، مے مینٹر، سو ہو، کرا کا، ہمایوں کبیر وغیرہ کا تذکرہ اس طرح کرتے جیسے ہم آپ چاندنی چوک حضرت گنج، بھائی چھمّن یا منجھلے چچا کی باتیں کرتے ہیں۔ غرض کہ ہماری بہنوں کے قبیلے میں سے کوئی بھی ان لوگوں سے شادی کرنے پر تیار نہیں تھا۔ اس قدر بے تحاشا احساسِ برتری ان پر ٹپکتا ہے کہ کیا بتاؤں چنانچہ ایک بھائی نے ہماری ایک رشتے کی جرمن چچی فریڈا کی صاحبزادی سے شادی کر لی۔ دوسرے نے منیکا کے ٹروپ کی ایک فن کار کو اپنا جیون ساتھی مقرر کیا، نہ معلوم اُن کا کیا انجام ہوا، سنا تھا کہ اونیلا بھابی طلاق کی فکر میں ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ہم نے بورڈ پڑھ کر فوراً اس بے حد رومینٹک باغ سے واپس بھاگنے کی فکر کی۔ حالانکہ ہمارے اپنے باغ میں اتنے اچھے یوکلپٹس موجود تھے، اونچے اونچے، ہوا میں فلسفیوں کی طرح غور و فکر میں محو جھومتے ہوئے۔ مگر بھئی کیا بات تھی اس سرخ چھت والی چھوٹی سی کوٹھی کی۔ گویا راستہ بھول کر پریوں کے ملک میں پیٹرپین کے چاکلیٹ سے بنے ہوئے کاٹج کے قریب آنکلے ہیں (یہ تشبیہ حمیدہ نے دی تھی اسی وقت جسے سب نے خاصا پسند کیا) اس سے پہلے کہ کوئی کتا باہر نکلے اور ہم واپس ہوں (اور ایک کتا واقعی باہر نکلا جو ہمارے فیڈؤ سے زیادہ مہذب اور لائق قطعی نہ تھا۔ لیکن حمیدہ نے کہا کہ وہ دنیا کا بہترین کتا ہے۔)

فیلڈ مارشل بولا کہ "آپا کیوں نہ اندر جا کر پوچھا جائے کہ اس کوٹھی کے خالی ہونے کا امکان ہو سکتا ہے؟ ممکن ہے کہ صاحب بہادر کا تبادلہ ہونے والا ہو" لہٰذا ہم سائیکلیں روش کے کنارے لٹا کر اندر بڑھے اور ہماری رفتار کی مناسبت سے اسی وقت ایک صاحب بہادر باہر نکلے جو قطعی آئی۔ سی۔ ایس لگ رہے تھے انہوں نے کہا۔ "غالباً آپ حضرات اس طرف پک نک کے لیے آئے ہیں۔ کوئی خدمت؟" ہم نے سوچا کہ او ہو یہ تو اُردو بولتے ہیں چنانچہ فیلڈ مارشل نے اردو میں کہا۔ "جی نہیں ہم نے سنا تھا کہ یہ کوٹھی خالی ہونے والی ہے۔" انہوں نے جواب دیا کہ "جی نہیں فی الحال تو خالی نہیں ہو رہی۔" پھر تھوڑی سی اسی قسم کی جنرل اور بے معنی باتیں ہوئیں اور یہاں تک سلسلہ پہنچا کہ موسم کس قدر خوشگوار ہے اور آپ نے چارلس بوایر کا "کارواں" دیکھا ہرگز مس نہ کیجئے وغیرہ پھر دفعتاً انہوں نے بہت عمدہ لہجے کی انگریزی میں کہا کہ Don't you come in, young ladies۔۔۔

اور ہم نے اسی اخلاق سے جواب دیا کہ We must buzz now غرض کہ تھوڑے سے تکلفات کے بعد ہم اندر گئے۔ کس قدر ٹیسٹ سے اس کا مختصر سا ڈرائنگ روم سج رہا تھا Posh بالکل، ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ اب خواب گاہ کے دروازے کا پردہ اُٹھے اور ایک سوئیٹ سی بیوی داخل ہو اور ہم اس کے مذاق کی تعریف کریں کہ آپ نے ضرور لیڈی ارون کالج میں پڑھا ہے، اپنے یہاں کی چائے کی دعوت دے ڈالیں، اپنے باغ کی لیچیاں اسے بھیجوائیں لیکن پردے ہوا سے یوں ہی ہلتے رہے اور کوئی بھی اندر نہ آیا۔ حمیدہ نے قدرے اطمینان کا سانس لیا۔ صاحب بہادر بولے۔ "دیکھئے اگر آپ کے خالو جان کو تکلیف نہ ہو تو وہ بڑی خوشی سے یہاں آ سکتے ہیں۔ ایک طرف کا موٹ بالکل خالی پڑا ہے۔"

"لیکن آپ کی بیگم صاحبہ کو دقت تو نہ ہو گی۔۔۔ _؟" بلّے نے پوچھا۔

"بیگم۔۔۔ _؟ اوہ۔۔۔ وہ آج کل چند ماہ کے لیے گھر گئی ہوئی ہیں۔" صاحب بہادر نے کہا، اور حمیدہ کی بھوری آنکھوں سے اطمینان کی جھلک فوراً رخصت ہو گئی۔ "دیکھئے جب تک بیگم آئیں گی غالباً میرا تبادلہ بھی یہاں سے ہو جائے گا اس وقت آپ کے خالو جان پوری کوٹھی لے سکتے ہیں" صاحب بہادر نے بہت اخلاق سے کہا۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور طے ہوا کہ وہ اگلے روز دفتر سے سیدھے ہمارے یہاں آئیں گے۔ وہ کلیمنٹ ٹاؤن میں اطالوی نظر بندوں کی کسی علت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ ہم نے خوش خوش گھر پہنچ کر بتایا کہ خالو میاں کے لیے کوٹھی مل بھی گئی۔ "ایں؟" سب اچھل پڑے "کوٹھی؟ واقعی؟ کہاں؟" ہم نے بڑی بے نیازی سے پتہ بتایا اور یہ بھی کہ اس میں ایک آئی۔ سی۔ ایس رہتا ہے۔

"آئی۔ سی۔ ایس؟ یہ تم لوگ کہاں پہنچ گئے تھے؟"

"ہاں بالکل سچ مچ کا آئی۔ سی۔ ایس انور بھائی جیسا۔ وہ کل آئے گا ملنے۔" چنانچہ دوسرے روز سہ پہر کو کلیمنٹ ٹاؤن سے فون آیا کہ "میں آ رہا ہوں۔ اپنی کوٹھی کا نمبر تو آپ نے بتایا ہی نہیں تھا۔ راجپور روڈ پر کس طرف ہے۔ پریڈ گراؤنڈز سے آتے میں یا جاتے میں۔" تفصیل سے ان کو پتہ بتایا گیا اور کہا گیا کہ جلدی آئیے، چاء پر آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ وہ بالکل لارنس اولیور کے ہم شکل صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے ہمارے گرینڈ پیانو کو دیکھا دیواروں پر لٹکی ہوئی بڑی بڑی Paintings پر نظر کی فیلڈؤ کی تہذیب و اخلاق کا غور سے مطالعہ کیا اور یقیناً دل میں وہ مرعوب ہو گئے کہ بقول شخصے یہ بھی معقول لوگ ہیں۔ چائے کی میز پر باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ "ارے یہ تو تارے بھائی ہیں بڑے پرانے دوست نکلے۔ ہمارے ابّا اور ان کے ابا گورکھ پور، بنارس اور جانے کہاں کہاں ساتھ تھے۔ جب ہمارے ابّا کلکٹر تھے تو ان کے ابّا ڈپٹی کلکٹر جب ہمارے ابّا ریٹائر ہوئے تو ان کے ابّا کلکٹر ہو گئے اور پھر مر گئے۔ اس کے بعد تارے بھائی ولایت جا کر آئی۔ سی۔ ایس بن گئے۔ یہ دہرہ دون گروپ کے بقول ہمارے جاپانی آئی۔ سی۔ ایسوں میں سے نہیں تھے بلکہ خالص ولایت سے بن کر آئے تھے پھر جناب باتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ ختم ہی ہونے میں نہ آیا۔ بچپن کی باتیں یاد کی گئیں۔ یوپی کے ان دور افتادہ ضلعوں کی ان خاموش دوپہروں کا ذرا رومانٹک طریقے سے ذکر کیا گیا جب بڑوں کی آنکھ بچا کے باغ میں جا کر ہری ہری کیریاں کھائی جاتی تھیں۔ پپیہا چلاتا تھا۔ آم کے کنجوں میں چھپی ہوئی کوئلیں برہا گاتی تھیں، مہوے کے درختوں کے نیچے نرم نرم زمین پر ریلوے اسٹیشن تیار کیے جاتے تھے اور سرنگیں کھودی جاتی تھی اور کس طرح تارے بھائی کی ٹرائیسکل پر زبیدہ کے گڈے کی برات نکلی تھی اور کس طرح تارے بھائی نے حمیدہ کی اس بڑی سی گڑیا کے سنہری بال کتر ڈالے تھے جو چچی فریڈا اس کے لیے برلن سے لائی تھیں۔ شام پڑے تک اسی قسم کی بے تکی باتیں ہوتی رہیں اور ہنسی آتی رہی۔ اور تارے بھائی جب چلنے لگے تو دونوں طرف سے بڑے زوروں میں یہ محسوس کیا گیا کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے بہترین دوست ہیں اور خالو میاں قطعی اُن کی کوٹھی میں جا کر رہیں گے بلکہ اگر خالو میاں کو الگ سے کوٹھی مل بھی گئی تب بھی تارے بھائی انہیں کہیں اور نہ جانے دیں گے۔ کتنے دلچسپ نکلے تارے بھائی رات کو دنیا جہان کے مزے دار قصے اور لطیفے سنا رہے ہیں۔ پنگ پونگ کھیل رہے ہیں۔ میں تصویریں بناتی تو رنگوں کے متعلق مشورے دیتے رہتے۔ ہم بہنوں کو ہنگیرین اور اسپینش والز کے اسٹیپس سکھائے۔ بلّے سے بہت دوستی تھی۔ ٹینس میں حمیدہ یا مجھ سے ہار جاتے لیکن اسپورٹنگ اتنے کہ ذرا بھی پرواہ نہیں۔ دیکھنے والے کہتے طارق ڈوب جاؤ۔ لڑکیوں سے ہار رہے ہو۔ اور وہ ایک بھوں اونچی کر کے ذرا سنجیدگی سے مسکرا دیتے۔ بالکل ایسا لگتا کہ لارنس اولیوئیر آ کر جالی کے پاس کھڑا ہو گیا ہے۔ لیکن صرف تارے بھائی ہمارے گھر آتے تھے۔ ہم دو تین مرتبہ خالہ بی سے ملنے کے علاوہ کبھی خاص طور پر تارے بھائی کے وہاں نہیں گئے تھے۔ ہماری ممی کے اور بہت سے اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ صرف اس شخص سے ملاقات کی جاتی ہے جو اپنی بیوی کو ہمارے گھر والوں سے ملواتا ہے۔ اور ویسے بھی یہ قاعدے کی بات ہے کہ عام طور پر غیر شادی شدہ لوگوں کے یہاں یا بیویوں کی غیر موجودگی میں خواتین ان کی پارٹیوں میں نہیں جاتیں بشرطیکہ کوئی اور خاتون رشتہ دار بطور میزبان موجود نہ ہو۔ اسی اصول کے ماتحت، جب تارے بھائی نے ہم لوگوں کی دعوت کی تو ممّی نے کہہ دیا کہ "جب اللہ رکھے تمہاری دلہن میکے سے آ جائیں گی، تب ہم آئیں گے تمہارے گھر، لڑکیوں کو بھی اس سے ملنے کا بہت شوق ہے" تارے بھائی منہ لٹکا کر خاموش ہو گئے۔ پھر یہ ہوا کہ اتفاق سے دو تین مہینے بعد ہی خالو میاں کا تبادلہ راولپنڈی کا ہو گیا۔ تارے بھائی نے اپنے یوکلپٹس کے باغ میں اُن کے لیے ایک بڑا شان دار رخصتی بُغے دیا۔ اس میں مسوری کا ایک خاندان بھی مدعو تھا جس کی لڑکیوں کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ اور وہ لڑکیاں واقعی تھیں بھی کچھ عجب سی بے تحاشا الٹرا ماڈرن۔ الٹرا ماڈرن تو خیر بھئی ہم بھی ہیں۔ لیکن ایک حد کے اندر، یہ تھوڑا ہی ہے کہ بالکل ہی فاروٹ۔ مثلاً سنا گیا تھا کہ ایک بہن جتنے پرنس مسوری آتے ہیں ان کے ساتھ ہیک منیز میں نظر آتی ہے۔ دوسری ایک دفعہ گھر سے بھاگ چکی تھی اور اب دوسری بار لاہور جا کر فلم جوائن کرنے کی فکر میں تھی۔ ٹامیوں کے ساتھ بھی یہ لوگ گھومتی رہتی تھیں تو ان لوگوں کو اس وقت وہاں دیکھ کر ہم کو بے حد تعجب ہوا اور تھوڑا سا افسوس بھی کیا کہ تارے بھائی اس قسم کے ہیں۔ پھر جبکہ انہوں نے اپنی بیوی کو (جو یقیناً بہت سوئیٹ سی ہو گی) میکے بھیج رکھا ہے۔ پھر جب میں اپنی پلیٹ میں کباب لینے کے لیے ایک میز کی طرف گئی تو تارے بھائی وہاں مل گئے جو ان ہی خان سسٹرز میں سے ایک کے لیے ان کی پلیٹ میں کچھ لے رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح انہوں نے کوئی دلچسپ بات شروع کرنی چاہی لیکن میں بالکل غیر ارادی طور پر ان کی طرف سے مڑ کر دوسری میز پر جھک گئی اور وجے شنکر کو Help کرنے میں مصروف ہو گئی۔ تارے بھائی نے شاید اس بات کو اچھی طرح محسوس کیا تھا۔ کھانے کے بعد Consequences کھیلنے کے لیے کاغذ پنسل تقسیم کرتے ہوئے وہ میرے قریب آئے۔ ڈکلی بھئی ہماری پارٹنر بن جاؤ۔ انہوں نے کہا "سوری تارے بھائی۔ وجے شنکر نے مجھ سے پہلے سے کہہ رکھا ہے۔" میں نے جواب دیا "اچھا" وہ منہ لٹکا کر آگے بڑھ گئے: رات گئے گھر لوٹتے وقت جب میں نے انہیں خان سسٹرز کو اپنی کار میں سوار کروا کے واپس آتے دیکھا تو میں نے سچ مچ جھنجھلا کر پو چھا "آخر آپ بیگم طارق کو کیوں نہیں بلاتے۔" اس وقت میں نے محسوس کیا کہ یقیناً مجھے تارے بھائی سے اتنی محبت نہیں ہے کہ میں لاڈ میں آ کر ان کی بیوی کو "بھابھی" کے رومانٹک نام سے یاد کروں۔ اُن کی بیوی کے متعلق اس اوّلین ملاقات کے بعد یہ پہلی گفتگو تھی اور تارے بھائی کی کالی آنکھوں میں ایک بے حد عجیب سا بھیگا بھیگا پن جھلملا اٹھا اور انہوں نے ایک بہت ہی خاص انداز سے کار کا دروازہ بند کرتے ہوئے جھک کر کہا۔ "اچھا شب بخیر۔ کل خالو میاں کو رخصت کرنے تم سب اسٹیشن آؤ گی نا۔" اس کے بعد بہت دنوں تک تارے بھائی سے ملنا نہ ہو سکا۔ ایک روز علی گڑھ سے ہمارے بہت سارے بہن بھائی آئے ہوئے تھے اور ہم سب "اورینٹ" میں "واٹر لو برج" دیکھ رہے تھے۔ آؤ اس لڑکی کو چلائیں۔ ہماری سامنے کی نشستیں بالکل خالی پڑی تھیں اور کونے پر صرف ایک اینگلو انڈین لڑکی سگریٹ پی رہی تھی۔ ہم اپنے پیروں سے اگلی نشستوں کو آگے ڈھکیلنے کے پسندیدہ شغل میں مصروف ہو گئے (دہرہ دون کے سنیما ہاؤسوں میں کرسیاں فرش میں جڑی ہوئی نہیں ہوتی ہیں) انٹرویل کے بعد، سگریٹ لائیٹر کی روشنی بھڑکی اور میں نے تارے بھائی کو برابر والی کرسی پر بیٹھا پایا۔۔۔

"ارے ڈکلی۔۔۔ تم تو بھئی اس وقت بہت متاثر نظر آ رہی ہو، مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنی نرم دل ہو"۔۔۔

انہوں نے کہا۔ لیکن اس وقت ہم سب روبرٹ ٹائیلر کو ایڈمائر کرنے میں حد سے زیادہ مصروف تھے۔ میں خاموش رہی پھر جب روشنی ہوئی اور گوڈ سیو دی کنگ بجنے سے پہلے ہی ہمیشہ کی طرح ہم لوگ باہر نکل آئے تو میں نے حمیدہ کی بھوری آنکھوں میں پانی جگمگاتا دیکھا اور مجھے حیرت ہوئی کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ اس روز بھی اور آج بھی میں ضرور تارے بھائی سے اپنے اس رویے کی معافی مانگوں گی۔

کچھ عرصے بعد دسمبر میں ہمارے فائنل امتحان نازل ہو گئے۔ میں اس روز شام پڑے اپنے بستر میں کمبلوں میں ملفوف جغرافیہ کی تیاری کر رہی تھی اتنے میں دریچے کے راستے بلّا بے تحاشا تیزی سے بھاگا ہوا اندر آیا، اس کا سانس چڑھا ہوا تھا اور بال پیشانی پر بکھر گئے تھے۔ "ڈکلی۔۔۔ تارے بھائی۔۔۔"وہ جیسے کوئی بے انتہا بری خبر سناتے سناتے رک کر صوفے پر گرگیا۔۔۔

میرا دل لرز اٹھا۔۔۔ _"تارے بھائی!۔۔۔

کیا ہوا اُن کو۔۔۔ _"

"ڈکلی۔۔۔ تارے بھائی۔۔۔ اور حمّی۔۔۔ بھگ۔۔۔ بھاگ گئے دونوں۔۔۔ تارے بھائی حمّی کو لے کر چلے گئے۔۔۔ سچ مچ بھاگ گئے۔۔۔ _"

سچ بتائیے آپ میری جگہ اس وقت ہوتے تو آپ کا رد عمل کیا ہوتا۔ "حمّی اوپر دریچے میں کھڑی تھی۔ نیچے تارے بھائی اس وقت کلیمنٹ ٹاؤن سے چلے آ رہے تھے۔ بیگم ارشاد اللہ کے ہاں۔۔۔

اور نجانے کیسے حمّی کسی دھکے کی وجہ سے۔۔۔ اپنا وزن نہ سنبھال سکی۔۔۔ اور گر پڑی۔۔۔ تارے بھائی نے اُسے سنبھال لیا۔۔۔ اور سیدھے گئے اپنی۔۔۔ موٹر کی طرف۔۔۔"

بلّا صوفے پر پڑے پڑے کہہ رہا تھا۔ زبیدہ ششدر رہ گئی۔۔۔

ہمارے گھر پر سکوت چھا گیا۔ ڈنکرک کے بعد فیلڈ مارشل زخمی ہو کر ہندستان واپس بھیج دیا گیا تھا۔ بمبئی سے صحت یاب ہونے کے بعد وہ گھر آیا۔۔۔

اس وقت وہ کیسا اچھا کتنا پیارا معلوم ہو رہا تھا "حمّی کہاں ہے؟" اس نے چاروں طرف دیکھ کر پوچھا۔ "مر گئی تمہاری حمّی" ممی نے چائے بناتے ہوئے اتنے رنج اتنے صدمے کو ضبط کرتے ہوئے کہا۔۔۔

پھر ایک اور، اس سے بھی زیادہ عجیب بات ہوئی۔۔۔

فیلڈ مارشل میرے صوفے پر بیٹھا۔ ڈنکرک کی لڑائی کی تصویریں دکھا رہا تھا۔ ایک دم سے میں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھیں گرم گرم اور بھیگی جا رہی ہیں "ہش احمق مت بنو" میں نے آہستہ سے اس کو ڈانٹا۔" ڈکلی۔۔۔ حمّی جانتی ہے، تمہیں بھی معلوم ہے اور زبیدہ کو بھی، کہ مجھے۔۔۔ اس سے کتنی شدید محبت تھی۔۔۔ میں نے دور اُن سیاہ چیختے ہوئے سمندروں میں، جلتے ہوئے جہازوں، پھٹتی ہوئی سرنگوں پر ہسپتال میں، ہر جگہ، ہر لحظہ موت کا کس امید پر مقابلہ کیا کن خوابوں کے سہارے لڑا۔۔۔ اور۔۔۔ اب۔۔۔ اور اب۔۔۔"

میرا پیارا چھوٹا بھائی بچوں کی طرح رونے لگا۔۔۔

باہر اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ امتحانات ختم ہونے کے بعد ہم بہت ہی خاموش رہنے لگے۔ سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ کیا کریں، فیلڈ مارشل بمبئی واپس جا چکا تھا۔

"ممّی ہمیں الموڑے بھیج دو، دسمبر سے لے کر جولائی میں کالج کے داخلے تک کا جو لمبا وقفہ ہے کیوں نہ اسے کلچر سنٹر میں رقص کر کے کار آمد بنا لیا جائے۔" سینئر کیمبرج کے امتحان کے فوراً بعد صرف آخری ٹرم کے لیے فرسٹ ایر میں داخل ہونے کے ہم قائل نہ تھے۔ ممّی مان گئیں۔ لیکن سوسائٹی کی دوسری خواتین۔۔۔

ان کی دماغی صلاحیتوں نے اس خبر کی اصلیت کو قبول کرنے سے قطعی انکار کر دیا کہ بیگم اعجاز کی لڑکیاں ناچ سیکھنے کے لیے الموڑے جا رہی ہیں حمیدہ کے سنسنی خیز واقعے کو ابھی اچھی طرح فراموش بھی نہیں کیا جا چکا تھا کہ ان کے Gossip کے لیے ایک اور موضوع تیار ہو گیا۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ٹی پارٹیوں اور دوسرے سوشل مجمعوں میں جن اہم باتوں پر تبادلہ خیالات کیا جاتا ہے وہ کس قدر بے معنی ہوتی ہیں ارے بہن تم نے کچھ اور بھی سنا زہرہ نے کسی ہندو سے شادی کر لی۔۔۔

ہونہہ اور وہ ذکیہ جو میاں کے مرنے کے ایک سال کے اندر ہی کسی موئے انگریز سے بیاہ رچا کر بیٹھی ہیں تو انہیں کیا نتیجہ ملا۔۔۔

شاہدہ کو تو طلاق مل ہی گئی آخر۔۔۔

شاہدہ کا تو پتہ نہیں لیکن زہرہ تو کب کی طلاق دے چکی اپنے میاں کو۔۔۔

ہاجرہ نے بھی بھئی خوب مزا چکھایا بے چارے کو۔۔۔

سچ نہ جانے دنیا کہاں جا رہی ہے۔۔۔

اور یہ بیگم اعجاز کے میاں کی بھانجی ابھی سب کو آزادی کا اچھا سبق پڑھا چکی ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے ناچ گانا سیکھنے کے لیے بھیج دیا لڑکیوں کو اپنی۔۔۔

شابش ہے بھئی۔۔۔

اور سنا مسز بھنڈاری نے کیا حرکت کی۔۔۔

ممی نے یہ پسند نہیں کیا تھا کہ ہم سنٹر کے ہوسٹل میں رہیں کیونکہ وہاں ہندوستان بھر کے بھانت بھانت کے بنگالی، مدراسی، مرہٹے لڑکے اور لڑکیاں موجود تھیں کم از کم ہمیں اس ماحول سے مانوس ہونے میں بڑی مشکل پڑتی۔ چنانچہ ممّی کی دور دراز کے رشتے کی بہن تحقیق کر کے دریافت کی گئیں۔ بہنوئی ایک بہت بڑے ملٹری کنٹریکٹر۔ خالہ جان، خدا انہیں سمجھے، اپنے چھوٹے بچوں کی تعلیم کی وجہ سے وہاں رہتی تھیں۔ نلنی ہوسٹل میں چلی گئی اور ہم دونوں بہنیں خالہ جان کے گھر۔ افوہ کتنا بے تحاشا روپیہ اُن کے یہاں بہہ رہا تھا۔ اس قدر دنیا جہان کے ٹھیکے ان کے پاس تھے۔ نینی تال کے جنگی نظر بندوں کے کیمپ کا کنٹریکٹ، چھاؤنیوں کا کنٹریکٹ، فوجی بارکوں کا کنٹریکٹ، زمین کا کنٹریکٹ آسمان کا کنٹریکٹ۔ ان کے یہاں رہ کر مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ موجودہ جنگ کی Boon کے کیا معنی ہیں۔ اس وقت محسوس ہوا کہ یہ طرح طرح کی نئی نئی بے تکی نظمیں اور افسانے جو اضطراب، نیا ادب، اور ادب لطیف وغیرہ میں چھپتی تھیں جو راتوں کو آتش داں میں روشن ہیڈ کے سامنے بیٹھ کر پڑھتے ہوئے بے حد مضحکہ خیز اور اپنی زندگی سے دور اور بے معنی معلوم ہوا کرتے تھے، واقعی کس قدر وزن رکھتے ہیں۔ ذرا جذباتی طریقے سے یہ باتیں سوچتے ہوئے میں نے اپنے کمرے کے دریچے سے باہر دیکھا۔۔۔

ایک نیلی سی چٹان کے کنارے لالہ کے پھول اور نیلوفر کے پودے ہوا میں جھوم رہے تھے۔۔۔

مجھے یاد آیا۔۔۔

تارے بھائی کہا کرتے تھے "ڈکلی مجھے لالہ کے پھولوں سے عشق ہے۔ میرے چاروں طرف لالہ کے پھول ہوں اور فضا میں موزارٹ کے نغمے، پھر مجھے زندگی میں کسی چیز کی خواہش نہ رہے۔۔۔"

موسیقی اور کتابیں اور پھول۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔

میں جیسے کسی نرم نرم گھاس سے چھپی ہوئی پگڈنڈی پر چلتے چلتے الجھ کر گر پڑی۔۔۔

تارے بھائی اتنے دور ہو چکے تھے۔۔۔

اتنے دور۔۔۔

ارے ڈکلی یہ تو آوا گڑھ ہاؤس ہے۔۔۔

زبیدہ اُچھل پڑی۔۔۔

ہا آواگڑھ ہاؤس۔۔۔

گیلری میں جا کر میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔۔۔

خوشی کی ایک ہلکی سی چیخ میرے منہ سے نکل گئی۔ جب ابّا الموڑے میں تعینات تھے تو ہم اس کوٹھی میں رہا کرتے تھے۔۔۔

برسوں پہلے۔۔۔

"دیکھو ڈکلی وہ سیڑھیاں جہاں ہم نے اسنو میں بنایا تھا اور وہ الائچی کا درخت، دیکھنا انگور کی بیلیں اب بھی باقی ہیں یا جل جلا گئیں۔ اور ہم اپنا تکلف اور اجنبیت چھوڑ چھاڑ کر بچوں کی طرح سارے میں بھاگنے دوڑنے لگے۔ جیسے ہمیں فردوس گمشدہ مل گئی تھی۔ چلو وہ کمرہ ڈھونڈیں جس میں فیلڈ مارشل کو بند کیا تھا۔۔۔

اور ہم اچھلتے کودتے گیلری کے سرے والے پہاڑی سے ملے ہوئے شیشے کے کمرے میں جا پہنچے۔۔۔

اور۔۔۔

"او ہو۔۔۔ واللہ۔۔۔"

"ہلّو۔۔۔"

"السلام علیکم۔۔۔ بہت خوش نظر آتی ہیں آپ"۔۔۔

"ہلو۔۔۔ وعلیکم السلام۔۔۔ _" ہم نے اپنی آواز اتنی مری ہوئی پائی کہ یقین ہو گیا کہ اب اس سرائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف سفر آخرت کرنے والے ہیں۔

"مجھے آپ سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے یقین فرمائیے بے حد مسرت ہو رہی ہے۔ میں ہوں آپ کا مخلص حمید الرحمن۔۔۔ ریل میں وہ چاء میں نے آپ کو قطعی نہیں بھیجوائی تھی۔ بیرہ غلطی سے دے آیا تھا۔ یہ صاحب اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کاروبار کے سلسلے میں نینی تال، دہلی شملے وغیرہ چلے جایا کرتے اور گھر پر بھی اپنے دفتر کے کمرے میں حد سے زیادہ مصروف۔ اس روز شام کو اپنے کمرے کے فرش پہ ان نئے Steps کی مشق کرتے کرتے تھک کر جو اسی دن سیکھے تھے، میں پلنگ کے کنارے پر بیٹھ کر تسنیم کا خط دوبارہ پڑھنے لگی۔ اُس نے لکھا تھا ڈکلی امید ہے کلچر سنٹر تم خوب Enjoy کر رہی ہو گی اور میرا یہ خط تمہیں بشاش پائے گا آج کل یہاں بھی خاصی دلچسپ Date rights اور Dances رہتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔۔۔

ہاں تم کو شاید یہ معلوم نہیں کہ عارف نے امینہ سے شادی کر لی۔۔۔

شاید تم میرے خیال سے سنجیدہ ہو جاؤ لیکن بھئی میں تو بہت خوش ہوں۔۔۔

اس دنیا میں بعض باتیں کتنی عجیب سی ہو جاتی ہیں نا۔۔۔

"واقعی میں سوچتی رہی، عارف شملے میں تسنیم سے ملا تھا اور اس وقت سے وہ دونوں کتنی ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے تھے۔ عارف فلائنگ آفیسر تھا اور بے حد شرمیلا۔ دوستوں کی موجودگی میں دونوں اوروں سے خوب باتیں کرتے تھے اور جہاں تنہائی ہوئی اور بالکل خاموش بس چپ چاپ بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور شرمائے جا رہے ہیں۔ جب تسنیم کے والد کا تبادلہ کوئٹہ کا ہو گیا تب بھی عارف اور تسنیم میں خط و کتابت رہی، وہ بے حد دلچسپ خطوط لکھا کرتا تھا۔ شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی تھی۔۔۔

اور اب۔۔۔

یا اللہ دنیا کتنی عجیب ہے۔۔۔ _کس قدر عجیب۔۔۔

اسے کیا کہئے۔۔۔

سلیم جہانگیر تصویر کے شیشے میں آ کر پھر کھڑا ہو گیا۔۔۔

دوسری منزل پر اس شام پیانو پر Bass کے سروں میں کوئی غمگین سا گیت گایا جا رہا تھا۔ آنے جانے والوں کے خاموش اور مدھم سے سائے گیلریوں میں ادھر سے اُدھر حرکت کر رہے تھے اور میں امرتا شیر گل کی ایک تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر نلنی پر اپنی قابلیت کا رعب ڈالنے میں مصروف تھی کہ تم کیا جانو بے چاری۔ ان لکیروں اور ان سیاہ سفید دھبوں کے معنی تو صرف فن کار ہی سمجھ سکتے ہیں اب مثلاً یہ امپریشن اور ایکسپریشن۔۔۔

فش۔۔۔

نلنی اتنی دیر تک تصویروں کے نقوش پر میرا عالمانہ تبصرہ سنتے سنتے عاجز آ کر دوسری طرف مڑ گئی۔۔۔

اوہو۔۔۔

میں نے غصہ میں آ کر اُسے ڈھکیل دیا۔۔۔

اوہو۔۔۔

ہلو۔۔۔

آداب عرض۔۔۔

ستون کے پیچھے سلیم جہانگیر کھڑا تھا ہمیشہ کی طرح اُس کی لمبی لمبی پتلی اور بے چین سی انگلیوں میں اٹکے ہوئے سگریٹ کے دھوئیں کی دو باریک سی لکیریں بل کھاتی ہوئی اوپر کو اُٹھ رہی تھیں وہ انگلیاں جن کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ بس اب وہ کائنات کی ساری خوب صورتی اور ساری لطافتیں اپنی طرف کھینچ کر کینوس پر بکھیر دیں گی۔۔۔

وہ ذرا لمبے سے بے پرواہی سے پیچھے کو الٹے ہوئے بال جن میں اماوس کی کالی راتوں کی سیاہی بھی تھی۔ اور ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں پر جھلملانے والی کرنوں کا سنہرا پن بھی۔۔۔

پھر وہ آنکھیں۔۔۔

سمندروں کی طرح گہری اور نیلی۔۔۔

کتنا ایکسپریشن تھا۔ ان آنکھوں میں۔۔۔

ایک عجیب Vacant سا لُک معصوم اور گھبرایا گھبرایا سا۔ جیسے اونچے قرمزی بادلوں سے پرے پرواز کرنے والے کسی فرشتے کو دنیا کی پستیوں میں ڈھکیل دیا گیا ہو۔ اور وہ اپنا گرد و پیش دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہا ہو۔ معاف فرمائیے گا۔ جب کبھی سلیم جہانگیر تصور میں آ کر کھڑا ہوتا ہے تو میں ضرورت سے زیادہ شاعری کرنے لگتی ہوں۔ مصیبت یہ ہے کہ آپ لوگ تو اپنی ہیروئن کو Describe کرنے کے لیے دنیا جہاں کے اچھے اچھے الفاظ استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی لڑکی کسی آدمی کا ذرا خوب صورت طریقے سے ذکر کرنا چاہے تو بڑا Awkward سا لگتا ہے۔

"آپ دونوں کیوں لڑ رہی تھیں؟" اس نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا۔ جب وہ بات کرتا تھا تو اُس کی نظریں جانے کہاں ہوتی تھیں دیواروں پر دریچے سے باہر، پہاڑوں سے پرے۔ بعض مرتبہ تو بڑی الجھن ہونے لگتی تھی۔ یعنی آپ کتنا ہی سوئیٹ ایکسپریشن بنائیں بات کرتے میں۔ لیکن وہ خدا کا بندہ آپ کے چہرے ہی کو نہیں دیکھے گا۔ ویسے اس کی نگاہیں ساری فضا میں تیرتی پھریں گی۔ سمندروں کی نیلی موجوں کی طرح۔۔۔

"یہ ڈکلی مجھ پر شان جھاڑ رہی تھی۔" نلنی نے کہا۔ سگریٹ کا دھواں اُسی طرح اوپر کو لہراتا رہا۔ جب کوئی خاص بات کرنے کو نہ ہو اور ایٹی کیٹ کا تقاضا ہو کہ کوئی بات ضرور کی جائے، تو وہ وقت بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔

"کورس ختم کرنے کے بعد آپ کا ارادہ۔ ٹروپ میں شامل ہونے کا ہے؟۔"اس نے یوں ہی پوچھا۔

"ٹروپ میں؟ نہیں تو۔ ہم تو صرف جولائی تک رہیں گے۔ پھر لکھنؤ چلے جائیں گے۔" اور نلنی نے بالکل بلا ضرورت محض اخلاقاً ہنسنا شروع کر دیا۔ بھلا ہنسی کی کیا بات تھی۔

"امریتا شیر گل آپ کو کیسی لگتی ہے۔"

پھر نلنی نے بڑے تنقیدی لہجے میں ایسا احمقانہ سوال کیا جیسے وہ بڑی ماہر نقاد ہے امریتا شیر گل کی۔ سلیم جہانگیر ایسی گہری شیریں آواز میں اتنی مختصر باتیں کرتا تھا جیسے آپ اورینج اسکوائش آہستہ آہستہ پی رہی ہوں۔ اتنے میں اوپر سے راجندر بھائی صاحب آ گئے۔ نلنی کے بڑے بھائی۔ انہوں نے آتے ہی زور سے کہا، چلو تسی اوپر چل کے کچھ ٹی ٹُو پی لو۔ کچھ ٹھنڈا پانی شانی" سلیم جہانگیر سے انہوں نے پھر کہا "آپ بھی کچھ چائے شائے ہمارے ساتھ پیو جی۔" اور ہم سب دوسری منزل پر چلے گئے۔

اسی رات کھانے کی میز پر میرے مقابل میں بیٹھے ہوئے رحمان بھائی نے زبیدہ کو دیکھا۔ "آج ہم ہوٹل ریجنٹ میں ایک خالص بوہیمین قسم کے آرٹسٹ سے ملے۔" زبیدہ نے جھک کر کہا۔

"کون وہ سلیم جہانگیر؟ جانتا ہوں اُسے۔"

رحمان بھائی نے بے پرواہی سے جواب دیا۔ اور ابّا سے اپنے تازہ کنٹریکٹ کے متعلق باتوں میں مصروف ہو گئے۔ انہیں دنوں زبیدہ کے سامنے ایک فضول سی تجویز پیش کی گئی کہ کیوں نہ تم بھائی عبد الرحمن سے کر لو شادی۔ رات کو زبیدہ مجھ سے خوب لڑی اور صبح تک اتنا غصہ سوار رہا کہ ہم پف آستینوں کی بلاؤزیں پہنے پہنے سنٹر چلے گئے۔ بالکل یاد نہ رہا کہ دادا اس قسم کی پھولی پھولی آستینوں کو سخت نا پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ اُن کی وجہ سے رقص میں شانوں کی صحیح موومنٹ کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔

"کیا بات ہے ایرانی بلیو۔۔۔ _؟" نلنی نے پریشان ہو کر پوچھا۔ کلاس شروع ہو چکی تھی۔ لکڑی کے فرش پر اُکھڑے اُکھڑے نپے تُلے قدم رکھے جانے لگے۔ دوسری صبح میں پہاڑی پر سے ذرا تیزی کے ساتھ نیچے مال کی طرف اتر رہی تھی۔ دور سے سلیم جہانگیر اوپر آتا نظر آیا۔ قریب پہنچ کر اخلاقاً مجھے اپنی چھتری نیچی کر لینی پڑی۔ اُس نے میرے ہاتھ سے پارسلیں اور پیکٹ جو میں پوسٹ کرنے کے لیے لے جا رہی تھی لینے چاہے۔

"افوہ، شکریہ۔ لیکن مجھے بہت جلدی ہے۔" میں نے زیادہ تیزی سے نیچے اُترنا شروع کر دیا۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ میں بہت خاصی ترش روئی سے پیش آئی ہوں۔ اُس نے آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے بہت رنجیدہ ہو کر کہا۔ "میں نے تو سنا تھا کہ آپ بہت خلیق ہیں۔"

"بالکل غلط سنا تھا۔ آپ نے۔" واپس اپنے لان کی سیڑھیوں پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ سلیم جہانگیر اور رحمن بھائی برآمدے میں ٹہل ٹہل کر باتیں کر رہے ہیں۔ زبیدہ اپنے کمرے میں سنگھار میز کے بلور پر جھکی ہوئی ناخنوں پر بادامی پولش کر رہی تھی۔ "فرمائیے جناب" اس نے سر اٹھا کے اپنی لمبی لمبی آنکھیں چیرتے ہوئے یوں ہی بے معنی سی کوئی بات شروع کرنی چاہی۔ "اخوہ اترا کتنا گئیں۔" میں نے جل کر کہا۔

شام کو بسنت کا جشن منانے کے لیے جو ٹیلبو ہو رہا تھا اُس کی ہیروین کے لیے "املا" دیدی نے زبیدہ کو منتخب کیا تھا۔ کیونکہ انہیں لمبی لمبی نوکیلی اور ترچھی سی چغتائی آرٹ کی قسم کی آنکھوں والی زرد رو لڑکی کی ضرورت تھی۔ اور ایسی آنکھیں سارے سنٹر میں سوائے زبیدہ کے اور کسی کی نہ تھیں۔ حالانکہ میں یقین دلاتی ہوں آپ کو کہ میں اس پارٹ کو کہیں بہتر طریقے سے ادا کر سکتی تھی۔ کیونکہ مجھے مانی پوری اسٹائل اس وقت تک بہت اچھی طرح سے آ گیا تھا۔ ’’ہئی۔ چوئنگ گم کھاؤ۔ راستے میں کیا۔ سلیم جہانگیر ملا تھا؟ مبارک ہو۔‘‘ "شیطان کی پر نانی۔۔۔ _" میں نے خود کو رونے پر آمادہ پایا

"اچھا نہیں۔ کیا باتیں ہوئیں۔"

"آرٹ اور زندگی وغیرہ۔"

"ہیں میں نے ضرورت سے زیادہ Rudely behave کیا۔

"فون پر معذرت کر لینا اور رات کے جشن پر مدعو بھی۔" دوپہر کو میں نے ہوٹل ریجنٹ کا نمبر ڈائیل کر کے ذرا جھجھکتے ہوئے ریسیور اٹھایا "ہلو"۔۔۔

کیا آوا گڈھ ہاؤس سے بول رہے ہیں۔ کیا رحمان صاحب؟"

"جی نہیں میں۔۔۔ ڈکلی۔۔۔آئی مین۔۔۔ _"

’’اوہو ڈگ۔۔۔ بی۔۔۔ مس اعجاز۔۔۔ _"

"جی ہاں۔۔۔ سلیم صاحب مجھے بے حد افسوس ہے کہ صبح میں اتنی یعنی ذرا Hurt سی ہو رہی تھی۔۔۔ اُمید ہے آپ Rude نہیں ہوئے ہوں گے۔"

"Hurt جی قطعی نہیں۔۔۔ میں ایسی باتیں بہت جلد بھلا دیا کرتا ہوں۔۔۔ کوئی خدمت؟" اس کا مطلب تھا کہ اب فون بند کر دیجئے تو کیسا رہے؟ کمبخت ایکسچینج والا بیچ میں نہایت بدتمیزی سے بول اٹھا Be brief please یہ گدھا شاید میری اور زبیدہ کی آواز پہچان گیا تھا۔ اور ہمیشہ اسی طرح ٹپک پڑتا تھا۔ ریسیور زور سے پٹخ کر میں نے ارادہ کر لیا کہ غسل خانے میں جا کر خوب روؤں گی۔۔۔

اُسی وقت رحمان بھائی گیلری میں آ گئے۔ ان کے ہاتھ میں تازہ اخبار تھا۔ "ارے بھئی ڈکلی کوئی طارق احمد سید تمہارے کزن تھے۔۔۔ یا اسی قسم کی کوئی چیز۔۔۔ آئی میں وہی جنہوں نے تمہارے ایک کزن سے ذرا دلچسپ طریقے سے شادی وادی کر لی تھی۔۔۔

بڑا لمبا ہاتھ مارا میرے یار نے۔۔۔

برطانوی سفارت خانے کا اتاشی ہو کر ایران پہنچ گیا۔ یعنی تارے بھائی پہلے تو حمّی کو لے کر بھاگے، کس صفائی سے اور پھر۔۔۔"

یا اللہ میں زبیدہ کو یہ زبردست خبر سنانے کے لیے تیر کی طرح بھاگی۔ وہ غسل خانے میں تھی میں اپنے دریچے کے قریب جا کر ٹھٹھک گئی اور اس وقت مجھے بے انتہا شدت، حد سے زیادہ تلخی کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ۔۔۔ یہ ساری باتیں۔۔۔ یہ تمام حماقتیں کس قدر فضول ہیں۔۔۔

باہر پہاڑیوں پر بہار کے پہلے بادل بکھر رہے تھے۔ غسل خانے میں سے زور زور سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔ زبیدہ نہاتے ہوئے۔ سردی کو کم کرنے کے لیے بالکل مجاز کے انداز میں گا رہی تھی۔۔۔

جوانی کی اندھیری رات ہے۔۔۔

سوں سوں۔۔۔

مگر میں اپنی منزل۔۔۔

سوں۔۔۔

کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں۔۔۔

میں ذرا۔۔۔ فلسفیانہ طریقے سے سوچنے لگی کہ ہم سب آخر کس چیز کی تلاش میں اتنے سرگرداں ہیں۔ اتنے پریشان۔ میں نے دریچے کی سفید چوکھٹ پر اپنا سر ٹیک کر اپنی چھوٹی سی ناک ٹھنڈے برف جیسے شیشوں سے چپکا دی۔ ہلکے ہلکے بادل بسنت کی ہواؤں میں اڑتے پھر رہے تھے۔۔۔

میں سوچتی رہی کہ بھئی آخر ان سب باتوں کے معنی کیا ہیں؟ (بڑا پرانا اور احمقانہ سا سوال ہے) اور اس وقت نہ جانے کہاں سے میرے سر میں یہ خیال آ گیا کہ اگر سلیم جہانگیر، وہ جس نے اس روکھے پن سے فون بند کر دیا تھا، اس دریچے میں میرے قریب کھڑا ہوتا اور اس کی مخروطی بچپن سی انگلیاں تیزی سے کاغذوں پر سامنے کا منظر اُتارنے میں مصروف ہوتیں۔ پھر میں اُسے بتاتی کہ دیکھو واقعی دنیا کتنی خوب صورت ہے اور زندگی اور اس کا احساس، کس قدر شیریں کیسا سکون بخش۔۔۔

پائن کے درختوں کے پیچھے سے کرنیں پھینکتا ہوا گرم، روشن آفتاب، نیلے پتھروں پر گرنے والے پر شور نالے، خوبانی کی جھکی جھکی ڈالیاں، چائے دانی کی بھاپ خنک ہوائیں۔۔۔

سلیم جہانگیر کاش تم ان بظاہر بالکل معمولی اور بے معنی لذتوں کو میرے ساتھ ساتھ محسوس کر سکتے۔ جن کے سہارے میں زندگی کو دلچسپ سمجھنے پر مجبور تھی۔۔۔

لیکن اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کیا ہوتا کچھ بھی تو نہیں۔۔۔

یہ بے کار تخیل پرستیاں۔ ہوا کے ایک جھونکے سے لالہ کے پھول تیزی سے جھولنے لگے۔۔۔

تارے بھائی۔۔۔

غلط۔۔۔

سلیم جہانگیر۔۔۔

شاید یہ بھی غلط۔۔۔

پر کیا کہئے اسے۔۔۔

زبیدہ چلائے جا رہی تھی۔۔۔

"بڑھتا ہی جاتا ہوں۔۔۔

مگر میں اجی اپنی منزل کی طرف۔۔۔

پانی گرتا رہا۔ ہوائیں اڑتی رہیں۔۔۔

تو کیا تارے بھائی کو اپنی منزل مل گئی تھی۔۔۔

اور حمیدہ کو۔۔۔

میرے تصور میں یونی ورسٹی کے لڑکوں کے وہ جلوس آ کھڑے ہوئے جو حضرت گنج کی چمکیلی سڑک پر "سیاسی قیدی آزاد کرو، ہم اپنا حق لے کر رہیں گے؟ مزدور ایک ہو جاؤ" کے نعرے لگاتے ہوئے ہجوم کی وجہ سے ہماری کار کو رکنے پر مجبور کر دیتے تھے۔۔۔

پھر وہ لوگ جو کافی ہاؤس میں، یونیورسٹی یونین کی اسٹیج پر، آم کے درختوں کے نیچے ہر جگہ، ہمیشہ، ایک ہی قسم کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ عجیب عجیب باتیں۔ ہنسی آتی تھی۔ ان بے چاروں پر۔۔۔

اکثر رشیدہ آپا اپنے کھدر پوش رفیقوں کے ہمراہ امین آباد کی گنجان سڑکوں پر پیدل جاتی نظر آتی تھیں۔ حیرت ہوتی تھی کہ کیا ہو گیا ہے گڈّو رشید آپا کو کون جانے اُن کا سفر کب ختم ہو گا کب منزل ملے گی۔ اُنہیں۔۔۔

سلیم جہانگیر کہاں تک یوں ہی اپنا تصویروں کا بیگ اُٹھائے مارا مارا پھرے گا۔ مگر یہ چاند اور ستارے اور یہ قرمزی بادل بکھرے بکھرے، الگ الگ ہی اچھے لگتے ہیں اور یہ گاتے ہوئے جھرنے۔۔۔

پھر مجھے بڑے زور کی ہنسی آ گئی۔ سب غلط، بالکل غلط یہ ساری باتیں ایک بہت ہی دلچسپ، بے انتہا حماقت انگیز، حد سے زیادہ فضول اور بے کار جھوٹ تھیں۔۔۔

بڑا ہی زبردست اور عظیم الشان جھوٹ۔۔۔

کبھی آپ نے سوڈا بائی کارب کی تلخ بے مزگی کا احساس کیا ہے؟ راز بھائی اپنا ایک پسندیدہ شعر اکثر گنگنایا کرتے تھے۔۔۔

عشق وفا کی موت ہے تکمیل آرزو۔۔۔

اور جانے کیا۔۔۔

بڑی سادہ اور معمولی سی بات ہے لیکن کس قدر صحیح۔ میں سوچتی رہی۔۔۔

نفاست سے جھوٹ بولنا، سمجھنا اور اُس کو Appreciate کرنا دو سال پہلے مسوری میں ہیک منیز سے اُترتے ہوئے۔۔۔ ایک شام مجھے یکایک بے حد عمدہ طریقے سے آ گیا تھا۔۔۔

ہم دونوں اس وقت اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ دونوں صاف جھوٹ بول رہی ہیں۔ لیکن اس احساس کے اظہار کی قطعی ضرورت نہ تھی۔ اُس کا خاندان، لارنس ٹیریس پر ٹھیرا ہوا تھا۔ ہم لوگ اس سال گلن مائیر میں تھے۔ رنک جاتے ہوئے راستے میں اُس سے ٹکر ہو جاتی۔ وہ کہتا گڈ گوڈ ڈکلی رانی رات پھر مجھے تمہارا ہی خیال رہا۔ یقین جانو اب تمہارا زکام کیسا ہے۔ پکچرز چلتی ہو۔۔۔ _؟ میں فوراً اس سے بھی زیادہ شیرینی سے جواب دیتی So Sweet of you سچ مچ اس وقت تو میں تم کو ہی یاد کر رہی تھی۔۔۔

رینک نہیں چلو گے؟ موسم کتنا بہترین ہو رہا ہے۔۔۔

"بہت بہترین۔۔۔

واقعی۔۔۔

پھر دونوں اپنے اپنے راستے چلے جاتے کیونکہ دونوں کو معلوم تھا کہ بادام پولوا کے یہاں جینٹ سسٹرز آئی ہوئی ہیں اور رینک میں آج روبن سے ملنا زیادہ ضروری ہے۔۔۔

نیچے جاتے وقت اُس نے کہا یقین جانو ڈکلی مسوری میں تمہارے ساتھ بہترین وقت گزرا

Exactly یہی میں تم سے کہنے والی تھی۔ یہ لمحات مجھے کبھی نہ بھول سکیں گے۔۔۔

کبھی نہیں۔۔۔

اچھا بائی بائی ڈکلی۔۔۔

ٹی ڈل اُو۔۔۔

اولڈ بوائے۔۔۔

یہ زندگی اس طرح گزرتی ہے۔ پھر مجھے خیال آیا۔ لکھنؤ کی چاندنی راتوں میں جب ہم سب کار کی چھت اُتار کر سکندر باغ یا دلکشا کی خاموش سڑکوں پر سفیدے کے درختوں کے نیچے نیچے ڈرائیو کو جایا کرتے تھے اس وقت باتیں کرتے کرتے یک لخت ایک عجیب حساس سی خاموشی چھا جاتی تھی۔۔۔

ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے چاند، ستارے، ہوائیں، ساری کائنات اپنی جگہ پر رُک کر کچھ سوچنے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا کہ ہمارے دلوں میں جانے کیسے کیسے، انوکھے خیالات تیزی سے رقصاں ہیں۔ جن کا اظہار کرتے اپنی کمزوری اور حماقت کا احساس ہو گا۔ پھر ہم سب جھوٹ بولنا شروع کر دیتے۔ گویا مقابلہ ہوتا کہ دیکھو ہمیں تم سے زیادہ صفائی اور خوب صورتی سے فریب دینا آتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ تم بھی اس فن میں ماہر ہو اور پھر اُس وقت وہ سفیدے کے اونچے اونچے درخت وہ محمد باغ کلب سے آتی ہوئی پیانو کی آواز۔۔۔

وہ چاند کے نیچے بہتی ہوئی چمکیلی اور خاموش پیکارڈ۔۔۔

یہ سب ایک بہت ہی مضحکہ انگیز دھوکا اور جھوٹ معلوم ہوتا تھا۔ پھر ایک دن زبیدہ نے چہک کر بتایا۔ ڈکلی میں تو سلیم جہانگیر سے شادی کر رہی ہوں۔ "لیکن ابھی وہ اُسے اپنے ارادے سے مطلع بھی نہ کر پائی تھی کہ وہ الموڑے سے چلا گیا۔۔۔

جانے کہاں کو۔۔۔

شاید اپنی منزل کی تلاش میں۔۔۔

یہ منزلیں۔۔۔

یہ راستے۔۔۔

کبھی نہ ختم ہونے والے۔۔۔

اجنبی۔۔۔

اکیلے۔۔۔

بہت دن گزر گئے۔ زندگی پر کہرہ چھا رہا تھا۔ مدھم کہرہ اور اندھیری وادیوں پر برستی ہوئی غروبِ آفتاب کی خاموشی۔ شام ہو چکی تھی۔ دور، دور دھندلکوں میں چھپی ہوئی سرخ اور زرد روشنیاں جھلملائے جا رہی تھیں۔ ٹرین۔ دیودار کے جنگلوں اور اونچے پہاڑوں میں گونجنے والی طویل سرنگوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی سبزہ زاروں میں نکل آئی۔ برابر کے کمپارٹمنٹ میں کچھ شوقین کسی فلم کی نقل میں گا رہے تھے۔ "سانجھ کی بیرا۔۔۔ یہ پنچھی اکیلا۔ پنچھی اکیلا میں نے پیچھے کی طرف دیکھا۔۔۔"

یہ چھ سال۔۔۔

جو زندگی کی پگڈنڈی پر سے گرتے پڑتے گزر چکے تھے۔۔۔

یہ پنچھی۔۔۔

ٹوٹے ہوئے پروں والے۔۔۔

جنہوں نے اپنی اپنی جگہ سے پرواز کرنا چاہی تھی۔ اپنے خول چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتے تھے فیلڈ مارشل جو دور سمندروں کی لڑائی میں اپنے خوابوں کی کشتی کھیتے کھیتے مارا گیا تھا۔۔۔

سلیم جہانگیر جسے حیدر آباد میں بے حد عزت کی نوکری مل گئی تھی۔ زبیدہ جو بیگم حمید الرحمن کی حیثیت سے گلمن مائیر کے ڈیکوریشن میں تندھی سے مصروف تھی۔۔۔

اور میں جو جرنلزم کی اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ کا Passage حاصل کر کے بمبئی سے واپس آ رہی تھی۔ شمال کے ایک چھوٹے سے خاموش اسٹیشن پر مجھے ٹرین تبدیل کرنی تھی۔ کہرا گہرا ہو چکا تھا۔ مجھے یاد آیا حمّی کہر آلود راتیں کس قدر پسند کرتی تھی۔۔۔

کاش حمّی اس وقت میرے ساتھ ہوتی۔ حمّی۔۔۔ تارے بھائی۔۔۔ کہرے میں نہاتے ہوئے لالہ کے پھول۔۔۔ یا اللہ۔۔۔

میں اسکارف سے بالوں کو اچھی طرح لپیٹ کر تیزی سے سنسان پلیٹ فارم طے کر کے دوسری جانب کھڑے ہوئے اُس ڈبّے کی طرف بڑھی جس پر میرے نام کا کارڈ لگا ہوا تھا۔ میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔۔۔

اندر بیڈ لائیٹ جل رہی تھی۔ کوئی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ایک برتھ پر لیٹا تھا۔۔۔

"معاف کیجئے گا آپ روشنی Mind تو نہیں کریں گے؟ روشنی جگمگا اٹھی۔ لیمپ کا رخ آپ کی طرف کر دوں۔۔۔ یہ برتھ باہر کھینچ دی جائے۔۔۔ یا آپ اوپر سونا زیادہ پسند کریں گی۔۔۔"

یہ تارے بھائی تھے۔ ہمیشہ کی طرح اخلاق اور شیرینی کا مجسمہ۔ پھر ہم دونوں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ گویا کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا۔۔۔

کیونکہ ہم دونوں نے جھوٹ کے مصنوعی چہرے لگا رکھّے تھے۔۔۔

"مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کو Passage مل گیا۔ کمال ہے۔"

"واقعی آپ کو ایران کیسا لگتا ہے؟"

"بے حد دلچسپ۔۔۔ _؟"

"بے حد۔۔۔ _"

"افوہ کس قدر غضب کا کہرہ پڑ رہا ہے۔۔۔

اب سونا چاہئے ہیں نا؟"

"میرا بھی یہی خیال ہے۔ روشنی بجھا دوں۔ آپ Mind کریں گی؟"

"یقیناً نہیں۔۔۔"

"اچھا شب بخیر۔۔۔ _"

"شب بخیر ڈک لی" اور پھر صبح کے کہر آلود دھندلکے میں ٹرین اپنی چنگھاڑتی گرجتی ہوئی رفتار مدھم کر کے ایک بڑے جنکشن میں داخل ہو رہی تھی۔ میں نے کھڑکی میں سے باہر دیکھا۔۔۔ دور دور حد نظر تک ریل کی خاموش اور طویل پٹریاں بل کھاتی ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی دھند میں گم ہوتی جا رہی تھیں۔ کمپارٹمنٹ رات کی سبز روشنی میں چپ چاپ سو رہا تھا تارے بھائی رات ہی میں کہیں اُتر چکے تھے۔۔۔

پھر ٹرین پلیٹ فارم میں داخل ہوئی۔ دوسری گاڑی کے انتظار میں مجھے وہاں کچھ دیر ٹھہرنا تھا۔ ویٹنگ روم تک جانا طوالت تھی۔ میں وہیں ٹہلتی رہی۔ کچھ فاصلے پر۔۔۔ ایک لوہے کے ستون کے قریب بجلی کی دھندلی روشنی کے نیچے چند لوگ کمبلوں میں لیٹے پائپ کا دھواں اڑا رہے تھے۔ اسٹیشن کے گونجتے ہوئے سناٹے میں ان کی آوازیں بہت مدھم اور بہت صاف معلوم ہو رہی تھیں شاید یہ پھر بھی زندگی کے اجنبی، نا معلوم راستے کے مسافر تھے۔۔۔ اور خود کو خوش محسوس کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔

میں خاموشی سے ٹہلتی رہی۔۔۔

"کامریڈ ہتھی چند۔"

"ہاں بھئی ابھی صبح نہیں ہوئی۔۔۔ _؟ نہیں ارے۔۔۔ دیکھو۔۔۔

"وہ کون ہے۔۔۔ _؟ یہ کون آج آیا سویرے سویرے"

"ایک عورت یہاں کیا کر رہی ہے۔۔۔

اس وقت۔۔۔ _؟"

"کسی امریکن کا انتظار ہنہ۔۔۔ ذلیل سرمایہ دار۔۔۔"

"فرسٹ کلاس ویٹنگ روم کے سامنے ٹہل رہی ہے۔۔۔ جب کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔۔۔ اس ٹھنڈے کھمبے کے نیچے۔"

"اسے یہاں بلاؤ۔ غریب بہت افسردہ معلوم ہوتی ہے۔ ہم اسے چائے پلائیں گے۔۔۔:

"اور "ہمارا لینن" کی ایک کاپی پڑھنے کو دیں گے۔ اور اُس کے ساتھ مل کر گائیں گے۔ "یہ جنگ ہے جنگِ آزادی۔" پھر سب یہی آہستہ آہستہ گنگنانے لگے۔ یہ اڑوسن پڑوسن کہے جو کہے۔ میں تو چھورے کو بھرتی کرائی آئی رے۔ ہاہ۔۔۔

تم نے سنا قومی جنگ پر Ban ہو گیا ہاہ۔۔۔ ہائے۔۔۔"

تیرہ ہزار ارے تیرہ ہزار کو بھول جاؤ۔۔۔

سامنے دیکھو بنتِ مہتاب ہو تیزی سے آنے والی ٹرین کے گونجتے ہوئے شور میں یہ آوازیں آہستہ آہستہ ڈوبتی چلی گئیں۔ یہ زندگی کا سفر۔۔۔ _! پھر اس گہرے کہرے کو چیرتا نیا سورج نکلا اور فتح کے دن پر جگمگانے لگا۔ اور پھر جشن کی شام آئی۔ پائن کے درختوں کے سائے اورطویل ہو گئے۔

٭٭٭





دوسرا کنارہ





اندھیرا۔ بہت گہرا اندھیرا۔ خوابوں کا شہر، پرانے نغموں، پرانی یادوں کاچھوٹا سا ویرانہ، اس پر اندھیرا چھا گیا۔ سارے ایک دوسرے سے مل کر روتے ہوئے آگے روانہ ہو گئے۔ تاریک راستوں پر سے گزرتے ہوئے۔ سب امیدیں، سارے سپنے ان تاریک راستوں کے کنارے تھک کر گر پڑے۔ اور روحیں آئیں۔ تاریکی، وحشت اور ویرانی کی روحیں۔ چیختی چلاتی اور سائیں سائیں کرتی ہوائیں چلیں۔ اور آہستہ آہستہ بہنے والے سرخ دریا کے ساحل پر دھواں اٹھا اور احمق خداؤں کے سیاہ معبدوں میں جلنے والے چراغ روتے رہے۔ اور خوابوں کے اس ویران شہر میں رہنے والے شکست خوردہ انسان آگے بڑھے۔ ان کے دکھ بہت تھے۔ ان کے راز بے حد چھوٹے چھوٹے، بے بس، مجبور اور حماقت خیز۔ اور تاریکی چھا گئی۔ خاموش، ستاروں اور خوشبوؤں والی رات کی تاریکی۔ گہری۔ اور گہری۔ سناٹا۔ اکیلا اور ابدی اور لازوال۔ اور تھکے ہوئے وقت کے اس ریگستان کے پرے سے، اس کی عمیق وسعتوں کو کاٹتی ہوئی، ایک تیز، گمبھیر آواز تیر کی طرح نکلی اور بلند ہوئی۔ میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔ اور دھواں اوپر اٹھتا رہا۔ شعلوں کی سرخ اور زرد رقصاں پرچھائیوں نے پانی کی سطح کو اور سرخ کر دیا۔ اور چاند ڈوب گیا۔ پرانے درختوں کی شاخیں آگے جھک آئیں۔ آبشار ٹوٹ کر چٹانوں پر بکھر گئے۔ چاند ٹوٹ پھوٹ کر، تھک کر، نیچے گر پڑا۔ اور ہوائیں روتی رہیں۔ پھر یہ اندھیرا کم ہوا۔ اور صبح ہوئی۔ ایک اور صبح۔ اور چھاؤنی کا بگل بج اٹھا۔ صبح، دوپہر، شام، رات، وہ بگل ہمیشہ اسی طرح بجا کرتا۔ ٹھنڈی اور سہانی صبح۔ اور دریچے کے باہر سوئیٹ پی کی خوشبوئیں اڑنے لگیں۔ اور گوبھی کے پتوں پر شبنم کے قطرے جھلملا اٹھے۔ دور پریڈ گراؤنڈز میں بگل بجتا رہا۔ پھر سورج نکلا۔ پھر بادل چھٹے۔ پھر روشنی پھیل گئی۔ پر وہ وہاں نہیں تھا۔ وہ بہت دور تھا۔ بہت دور۔ لا پرواہ، مذاق اڑاتا ہوا، خود پسند، مغرور۔ اور کرائیسٹ چرچ کے گھنٹے بجنے لگے۔ اور بہت سے شور بہت سی آوازیں۔ سب نے مل کر چاروں طرف سے جیسے اس کو دبا دیا۔ وہ بہت اکتا کر، بہت تھک کر اپنی بڑی بڑی آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ بیٹا صاحب جگ گئیں۔ مہریوں نے ایک دوسرے سے سرگوشی میں کہا اور دوڑ بھاگ مچا کر اس کے کام میں مصروف ہو گئیں۔ اس کا کتا اچھلتا کودتا آ کر مسہری کے قریب صوفے پر پیر لٹکا کر کھڑا ہو گیا۔ کھانے کے کمرے میں صبح کی چائے کی گھنٹی تھرانے لگی۔ اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے اپنی آنکھیں آہستہ آہستہ بند کر لیں۔ سرخ اندھیرا اور زیادہ گہرا ہوتا گیا۔ اس نے کسی چیز کو دیکھنا نہ چاہا۔ ہر چیز سے۔ ہر ذرے سے اس کا خیال وابستہ تھا۔ وہ دریچے کے نیچے اس روش پر سے گزر کر اپنی کار میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہ گیلری میں رکھے ہوئے ریک پر اپنی ہیٹ پھینکتا ہوا پردہ اٹھا کر اندر بڑے بھیا کے کمرے میں چلا جاتا تھا۔ وہ ٹیلیفون کی میز پر جھک کر ڈائریکٹری کے ورق پلٹتا تھا۔ وہ اسی نیلے آسمان کے نیچے، ان ہی فضاؤں میں اب بھی سانس لے رہا ہے۔ کاش۔ کاش۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ کچھ نہ ہوتا۔ پر ایسا نہیں تھا۔ اور اس کا کتا مسہری کے نیچے کھڑا چوکلیٹ کے انتظار میں دم ہلا رہا تھا۔ وہ اس کمبخت کتے کو بھی چھو چکا تھا۔ اسے اپنے ہاتھ سے چوکلیٹ کھلا چکا تھا۔ اس نے مسہری پر سے جھک کے کتے کے ریشمی بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اور ایسا کرتے ہوئے اسے انتہائی تکلیف محسوس ہوئی۔ باہر برآمدے میں آیا بڑے بھیا کے بچے کو ڈانٹ رہی تھی۔ اگر تم نے پھر شرارت کی تو انکل جمیل نہیں آیا کریں گے۔ وہ تمہیں کبھی اپنی موٹر سائیکل پر نہیں بٹھائیں گے۔ وہ کہہ رہے تھے ٹونی بڑا برا ہے۔ ہم اس سے خفا ہو کر جا رہے ہیں۔ آیا برابر ٹونی سے باتیں کرتی رہی۔ کتا برابر دم ہلاتا رہا۔ اب وہ پاگل ہو جائے گی۔ قطعی پاگل۔ بالکل باؤلی ایسی۔ پھر وہ مسہری پر سے اتری۔ ایک مہری روز کی طرح اس کو صبح کا اخبار دے گئی۔ وہ صوبے کا گزٹ کبھی نہیں دیکھتی تھی۔ پر اس وقت اس کی نظریں پانیئر کے گزٹ کے کالم پر پڑ گئیں۔ اس کا تبادلہ کہیں بہت دور ہو گیا تھا۔ اس نے اخبار قالین پر پھینک دیا۔ کمبخت گدھا کہیں کا۔ گدھا۔ الو۔ چھاؤنی کے بگل بجتے رہے۔ صبح، شام، رات، صبح، شام، رات۔ رنگ برنگی روشنیاں اور لرزاں سائے اس کے چاروں طرف ناچا کیے۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے بھولنا چاہا۔ ہمیشہ کے لیے بھول جانا چاہا۔ وہ لمحے۔ وہ ساعتیں۔ وہ انتہائی تکلیف دہ ساعتیں۔ ان کی انتہائی کرب انگیز یاد۔ جب اس کی بہن کی شادی کے ڈنر کی رات وہاں پر خوب تیز روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ اور دور دور تک پھیلے ہوئے یوکلپٹس اور پام کے درختوں کے پتے رات کی ہواؤں میں سرسرا رہے تھے، اور "شرارت" اور "صندل" اور "پیرس کی شام" کی خوشبوئیں رات کی رانی کی مہک میں مل جل کر ہوا میں اڑ رہی تھیں۔ اور لا تعداد چمک دار طویل کاروں کی قطاریں برآمدوں، درختوں اور شہ نشینوں میں سے جھانکتی ہوئی برقی روشنیوں میں جگمگاتی تھیں اور سبزے پر ملٹری بینڈ بجایا جا رہا تھا۔ اور مہمانوں کے گروپ گھاس کے قطعوں پر، جگمگاتے درختوں کے نیچے، برآمدوں اور شہ نشینوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ اور اندر آرکیسٹرا بج رہا تھا۔ اور اس وقت وہ تھوڑی دیر کے لیے گل مہر کے پیڑ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کی انگلیوں میں سگریٹ جل رہا تھا۔ اور اس نے ٹوٹو سے کہا تھا۔ میرا عزیز ترین دوست لیفٹننٹ کمانڈر رحمن کراچی سے آیا ہوا ہے۔ وہ راج کماری صاحبہ سے شادی کرنا چاہتا ہے میں بھی اس کی پر زور سفارش کرتا ہوں۔ راج کماری سے پوچھنا کیا وہ اسے پسند کر لیں گی مجھے تو وہ بے حد پسند ہے۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔ پھر وہ ٹوٹو سے باتیں کرتا ہوا دوسرے مہمانوں کی طرف چلا گیا تھا۔ اور سبز درختوں اور سرخ شہ نشینوں میں نارنجی اور نیلے برقی قمقمے جل رہے تھے اور وہ قمقمے سب کے سب ایک دم سے بجھ گئے۔ آرکیسٹرا کی موسیقی بجتی رہی۔ اور دریا کے سرخ پانیوں کے کنارے دھواں بل کھاتا ہوا اوپر اٹھا۔ اٹھتا گیا۔ اور اس کے پپوٹوں کی جلن زیادہ ہو گئی۔ اور رات کے گہرے اندھیرے میں ریڈیو گرام چلاتا رہا۔ تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم۔ میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔ اگر نامہ بر ملے۔ پھر وہ وہاں سے چلا گیا۔ اس وقت وہ سب بالکونی کے نیچے باتوں میں مصروف تھے۔ گل مہر کی شاخوں کے پرے اس کی ٹرک کھڑی تھی۔ اور درختوں میں بڑے بڑے سرخ پھولوں سے جیسے آگ لگ رہی تھی۔ وہ اپنی بہن کی شادی میں آئے ہوئے مہمانوں کو اپنے ساتھ پکنک اور مچھلی کے شکار پر لے جانے کے پروگرام بنا رہا تھا۔ اور اس نے بڑے بے تکلفی سے اس کی طرف مڑ کر اسماء سے کہا آپ کی ممی بھی ہمارے ساتھ جاویں گی؟ آپ کے لیے کل صبح پانچ بجے تک اسٹیشن ویگن اور ٹرک بھجوا دیئے جاویں گے۔ پھر اس نے سب کو اپنی مترنم آواز میں خدا حافظ کہا اور اس کی ٹرک سرخ بجری والی سڑک پر سے گزرتی صنوبر کے درختوں کے پرے جا کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ پھر وہ اسماء کے لیے جس کے شوہر کا تبادلہ ان ہی دنوں پونا سے وہاں کا ہوا تھا، کوٹھی کے متعلق طے کرنے کے لیے اس راستے پر سے گزری جس کے دونوں طرف جامن کے سایہ دار درخت تھے۔ اس نے اس گھر کے آگے کار روک لی جس کی روشوں کے ساتھ ساتھ چنار اور صنوبر کے درخت کھڑے تھے۔ جہاں چاروں طرف سبز گھاس کے وسیع قطعوں میں جن کے کنارے کنارے تیز سرخ، کاسنی اور سفید پھول لہلہا رہے تھے، پانی دیا جا رہا تھا۔ گھاس پر پانی کے ٹیوب دور دور تک بکھرے پڑے تھے ان میں سے بہہ بہہ کر پانی آہستہ آہستہ گھاس میں جذب ہو رہا تھا۔ سرد پر سکون۔ خاموش۔ وہ اس کا گھر تھا۔ اس کا ہو سکتا تھا۔ پر اس کا نہیں تھا۔ مالی اپنا برہا ختم کر کے لمبے لمبے قدم رکھتا پھاٹک تک آیا۔ کوٹھی ابھی خالی نہیں ہو گی مس صاب۔ صاحب بہادر سرکاری کام سے تھوڑے دن کے لیے ولایت جانے والا ہے۔ اس لیے پوری کوٹھی بند کر دی جائے گی خالی دفتر کے کمرے کھلے رہیں گے۔ اپنا کارڈ چھور جائیے مس صاحب۔ اس کی کار ایک جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھی اور دوسرے پھاٹک سے نکل کر خاموش، سایہ دار سڑک پر آ گئی۔ اور وہ اندر سو رہا تھا۔ وہ باہر ہی سے واپس چلی گئی۔ اور وہ اندر سو رہا تھا۔ پھر وہ جاگ کر اپنی ساگوان کی مسہری پر سے اٹھا۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ اس نے سگریٹ جلایا۔ اس نے ڈریسنگ گاؤن پہنا۔ اور وہ اپنے پرانے ووڈ اسٹاک اسکول کا ایک پرانا گیت گنگناتا ہوا غسل خانے میں گیا، وہاں نہاتے میں اس کی ناک میں صابن گھسا اور اسے خوب چھینکیں آئیں۔ اور اس نے چپکے سے کہا لاحول و لا قوۃ۔ پھر وہ ٹینس کے لیے تیار ہونے لگا۔ اور چائے پیتے پیتے اس نے ریڈیو گرام پر اپنا پسندیدہ ریکارڈ لگا دیا۔ تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم۔ میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔ جبکہ وہ اس سایہ دار سڑک پر سے واپس جا رہی تھی۔ پھر اندھیرے میں دو کاریں آمنے سامنے مخالف سمتوں سے ایک دوسرے کی طرف بڑھیں۔ پہلی کار نے قریب پہنچ کر اپنی سامنے کی روشنیاں مدھم کر دیں۔ اور دوسری کار زناٹے کے ساتھ برابر سے نکل گئی۔ وہ کلب سے واپس آ رہا تھا۔ اور وہ اسی وقت کلب جا رہی تھی۔ وہ چلتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ دریا کے آخری پل تک پہنچ گئی۔ اس نے کار روک لی۔ وہ اسے بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ اور خوابوں، امیدوں کا ایک روتا ہوا ہجوم اندھیرے میں آگے بڑھتا گیا۔ اس کے پپوٹے یوں ہی جلتے رہے۔ چھاؤنی کا بگل بجا اور آدھی رات کے پرند باغ کی تاریک جھاڑیوں میں شور مچانے لگے۔ اللہ۔ اللہ میرے۔ میں کس قدر کی احمق ہوں۔ اُلو۔ وہ جتنی مرتبہ اب تک اس سے ملی تھی۔ کلب کے بال روم میں، ٹینس کورٹ پر، سال نو کی پریڈ کے موقع پر، ٹی پارٹیوں میں، اس کو ایک ایک منظر، ایک ایک لفظ، ایک ایک بات یاد تھی۔ وہ کس کس سے باتیں کرتا رہا تھا۔ اس نے کیا کیا کہا تھا۔ وہ کس کس موقع پر ہنسا تھا۔ اس نے کب اپنے مخصوص انداز میں اپنی سیاہ آنکھیں جھپکائی تھیں اور اس کو یہ بھی یاد تھا کہ اتنے سارے موقعوں پر اس نے کبھی اس سے ایک بات بھی نہیں کی تھی۔ وہ ہمیشہ دوسری لڑکیوں کا پارٹنر بنتا۔ کھیلوں میں، رقص میں، بحثوں میں، وہ کبھی اس گروپ میں شامل نہیں ہوا جس میں وہ موجود رہی ہو۔ سال نو پر اس نے سب کو اپنے ضلع کے جنگلوں میں شکار کے لیے مدعو کیا۔ پر اس کی طرف مڑ کر دیکھا بھی نہیں۔ وہ جب بھی کسی جگہ جاتی ہمیشہ ایسا اتفاق ہوتا کہ وہ چند لمحے قبل وہاں سے جا چکا ہوتا یا پھر اس کے جانے کے بعد وہاں پہنچتا۔ اس ساری بے تعلقی اور بے نیازی کے باوجود وہ بڑے بھیا کا بہت گہرا دوست تھا، اور ٹوٹو کا، اور اس کی ممی بڑی کنور رانی صاحبہ کا۔ بڑی کنور رانی صاحبہ کو وہ ہمیشہ ان کی ریاست کے مقدموں کے متعلق طرح طرح کے دل چسپ مشورے دیا کرتا۔ ان کے اختلاج قلب کے وہمی عارضے کے لیے نئے نئے معالج تجویز کرتا۔ بڑے بھیا کو گھوڑوں، کتوں اور موٹروں کی خریداری میں ان کی مدد کرتا۔ بڑے بھیا کی ولایتی بیوی یعنی چھوٹی کنور رانی صاحبہ کے ساتھ ان کے پسندیدہ رقص کرتا۔ ٹونی سے کھیلتا۔ ٹوٹو سے اس کی فزکس اور ہوائی جہازوں کی باتیں کرتا۔ پھر اس کا تبادلہ ہو گیا اور وہ وہاں سے بہت دور چلا گیا۔ اور اس نے یوپی گزٹ کا پرچہ آتش دان میں پھینک دیا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں کے پپوٹے اسی شدت سے جلا کیے۔ وہ اپنی اس بے کار، بے مصرف، احمق زندگی سے عاجز آ گئی۔ پھر وہ جاڑوں کے سرد، اکتائے ہوئے بے رنگ دن گزارنے کے لیے اپنے تعلقے پر چلی گئی۔ اس نے اپنے پرانے قصباتی محل کی ایک ایک چیز کو چھوا۔ شہ نشین، دالان، گیلریاں، کمرے، وہ پھاٹک جن کی محرابوں پر اودھ کی سلطنت کا پرانا نشان آمنے سامنے دو بڑی بڑی مچھلیاں سرخ پتھر سے بنی ہوئی تھیں۔ وہ درخت جن کی شاخوں پر بیٹھ کر وہ ٹوٹو کے ساتھ بچپن میں اسکول کا ہوم ورک ختم کیا کرتی تھی۔ اور باغ کے نشیب میں بانس کے ہرے جھنڈ کے نیچے بڑے حوض کے جنگلے کی جالی کے کچھ حصے شکستہ ہو کر پانی میں گر چکے تھے۔ آم کے سائے میں سرخ پتھر کے چبوترے کے چاروں طرف اونچی اونچی گھاس اور خود رو پودے اگ آئے تھے۔ اور چبوترے کی سیڑھیوں کے کونے ٹوٹ گئے تھے۔ موٹر خانے اور اصطبل کی چھت کے بھاری شہتیر بہت نیچے جھک آئے تھے۔ اور اس کا دل جیسے بیٹھا جا رہا تھا۔ اور سارے قصبے میں شور مچ رہا تھا۔ بٹیا صاحب واپس آ گئیں۔ بٹیا صاحب اب بہت بڑی ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کالج، ولایت سب پاس کر لیا ہے۔ بڑے بھیا صاحب اتنا پڑھ گئی ہیں۔ پر اب ان کو گھوڑوں کا شوق نہیں رہا۔ ان کے دونوں گھوڑے اصطبل میں اکتائے ہوئے کھڑے ہیں پر بٹیا صاحب نے بھول کر بھی رام آسرے سے ان کے لیے کچھ نہیں پوچھا۔ وہ اب موٹر بھی اتنی تیزی سے نہیں چلاتیں۔ بس دن بھر اکیلی اکیلی باغ میں گھوما کرتی ہیں یا بڑے چودھری صاحب کے مزار کی سیڑھیوں پر بیٹھی جانے کیا کیا لکھا کرتی ہیں۔ پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں۔ بٹیا صاحب کی بڑے بھیا صاحب سے لڑائی ہو گئی ہے۔ چھوٹے کنور صاحب ٹوٹو میاں تو گزارے دار ہیں ان سے بڑے بھیا سے کوئی مطلب نہیں لیکن بڑے چودھری صاحب بٹیا صاحب کو بہت چہیتے تھے وہ بٹیا صاحب کے نام بہت سے گاؤں لکھ گئے ہیں۔ ویسے تعلقداری کے قانون کے لحاظ سے لڑکی کو وراثت میں کچھ نہیں ملتا۔ اسی لیے بڑے بھیا اب ان سے جلتے ہیں۔ بڑے بھیا اپنی ریاست میں بہت ہر دلعزیز تھے۔ انہیں ٹینس، کتوں، گھوڑوں اور موٹروں کا بے حد شوق تھا۔ وہ ہر سال نئی موٹریں خریدتے اور عمدہ گھوڑے اور کتے۔ لیکن وہ کبھی ریس میں نہیں جاتے تھے۔ کبھی ڈرنک نہیں کرتے تھے۔ چھتر منزل اور دل کشا کلب میں رات رات بھر ڈانس میں نہیں گزارتے تھے۔ ان کے تعلقے کو کورٹ آف وارڈ سے چھٹکارا حاصل کیے بہت کم عرصہ ہوا تھا لیکن اتنے دنوں میں انہوں نے اپنی رعایا کے دلوں میں بہت جلد جگہ بنا لی تھی۔ ان کی ولایتی میم صاحب کبھی پتلون یا اونچی اونچی اسکرٹ پہن کر باہر نہیں گھومتی تھیں جیسا کہ سنا گیا تھا کہ وہ لکھنؤ، نینی تال اور مسوری میں کرتی ہیں۔ بلکہ ہمیشہ بڑی کنور رانی صاحب اور بٹیا صاحب کی طرح ساڑی پہن کر اور آنچل سے سر ڈھک کر باہر نکلتی تھیں۔ پر اتنے اچھے بھیا صاحب کو جانے کیا ہوا کہ اپنی اکلوتی بہن سے لڑ بیٹھے۔ اور پرانی محل سرائے کی ساری مہریاں، مغلانیاں، سائیس، رکاب دار اور دوسرے ملازمین سائے کی طرح جیسے چپکے ادھر ادھر سرگوشیاں کرتے پھرتے۔ بٹیا صاحب کو دیکھ کر انہیں بڑے چودھری صاحب کا زمانہ یاد آ رہا تھا۔ ان کو مرے کتنے کم دن ہوئے تھے پر لگتا تھا جیسے مدتیں گزر گئیں۔ وہ دن جب بٹیا صاحب اسکول بند ہونے پر چھٹیوں میں نینی تال سے آتی تھیں اور چھوٹے بھیا کے ساتھ دور دور تک گھوڑا دوڑاتی چلی جاتی تھیں اور جب گرمیوں میں آم کھانے کے لیے لکھنؤ سے بھیا صاحب کے دوستوں اور ان کی سہیلیوں کی پارٹیوں کے ٹرک اور اسٹیشن ویگنیں خوب دھول اڑاتے قصبے کی سڑک پر داخل ہوتے تھے۔ وہ سب زمانے گزر گئے۔ اور بڑے چودھری صاحب سفید جالی والے سنگ مرمر کے مزار پر موتیا اور بیلے کے جھاڑ جھک آئے اور ان کے گھوڑے اصطبل میں کھڑے کھڑے بوڑھے ہو چلے۔ اور بٹیا صاحب اکیلی اکیلی دن بھر آم کے باغوں میں گھوما کرتیں۔ پھر وہ اپنے باغوں سے بھی اکتا گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کرے۔ اور ایک روز لکھنؤ سے آنے والی سیمنٹ کی چوڑی سڑک پر سے گرد اڑاتی ہوئی ایک سفید اسٹیشن ویگن آم کے ان ہرے کنجوں میں داخل ہوئی اور سرجو کے کنارے آ کر رک گئی۔ اور سارے میں کھلبلی مچ گئی۔ کیونکہ بڑے بھیا صاحب اور چھوٹے کنور صاحب کی غیر موجودگی میں بڑے صاحب ضلع کا دورہ کرتے ہوئے وہاں آن پہنچے تھے۔ اور بٹیا صاحب کو یہ خبر سنانے کے لیے مہریاں سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھیر دار سرخ اور اودے لہنگے سمیٹتی اور پیروں کے کڑے اور جھاجن بجاتی محل سرا کے اندر بھاگیں۔ اور ڈیوڑھیوں میں بیٹھ کر شطرنج کھیلنے اور حقہ پینے والے منشی اور لالہ اور بھیا صاحب کا سارا عملہ ہڑبڑا کر اپنے اپنے کاغذات اور رجسٹروں کی طرف لپکا۔ اور قیامت کی طرح وہ اپنی سفید اسٹیشن ویگن میں سے اترا۔ اور اپنے گوگلز اتار کر اس نے چاروں طرف کی ہریالی، اور سرجؤ کے پگھلی ہوئی چاندی جیسے پانی پر نظر ڈالی۔ اور پھر وہ اپنے عملے کے ساتھ جانچ پڑتال کے لیے آگے روانہ ہو گیا۔ اور بٹیا صاحب پرانی محل سرا کے اندر اپنے وکٹورین طرز کے سجے ہوئے کمرے میں بیٹھی پیانو بجاتی رہیں۔ اور سرجؤ کے کنارے آم کے باغ میں بڑے صاحب کا پڑاؤ کئی دن تک رہا۔ اور ایکا ایکی بٹیا صاحب اپنی بیوک میں بیٹھ کر لکھنؤ واپس جانے لگیں۔ ان کا سارا عملہ او سارے رشتے دار انہیں خدا حافظ کہنے باغ کے بڑے پھاٹک تک آئے جس کی محرابوں پر سرخ پتھروں کی دو مچھلیاں بنی ہوئی تھیں۔ اور پھر دو موٹریں اسی ٹرک پر جامنوں کی چھاؤں میں آگے پیچھے دوڑنے لگیں۔ ایک سفید اسٹیشن ویگن۔ اور ایک گہری سرمئی بیوک ایک جھٹکے کے ساتھ نیلے دھوئیں کے بادل چھوڑتی ہوئی آگے نکل گئی اور اسٹیشن ویگن سیمنٹ کی سفید ویران سڑک پر رینگتی رہی۔ اس کی آنکھوں کے پپوٹے یوں ہی چلتے رہے۔ اور چھاؤنی کے بگل اسی طرح بجا کیے۔ اور کرائیسٹ چرچ کے گھنٹے۔ پھر گرمیاں آئیں۔ اور مسوری کا سیزن… وہ ایک انگریز پولیس آفیسر تھا۔ جو صرف تین سال قبل انگلستان سے آیا تھا اور کہتے ہیں اس سیزن میں وہ اس پر بالکل مر مٹا۔ اور قصبے میں پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں۔ بٹیا صاحب کو کیا ہو گیا جو انگریز سے شادی کیے لے رہی ہیں۔ اور مسوری کی روایت ہے کہ ایلمر بریڈلے تو چٹان پر سے کود کر خود کشی کے لیے تیار تھا۔ ٹوٹو کا بمبئی سے تار آیا۔ کیا یہ افواہ صحیح ہے۔ کاش وہ صرف یہ محسوس کر لیتا۔ کاش اس کا اندازہ ہو جاتا کہ وہ یہ کچھ محض انتقاماً کرنا چاہ رہی ہے۔ بے بسی کا انتقام۔ لیکن وہ بہت دور تھا اور ہمیشہ کی طرح سب بے نیاز اور بے تعلق۔ چاہے وہ اس سے بھی زیادہ کوئی انتہائی حماقت انگیز حرکت کر بیٹھتی تب بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ اس کے متعلق کچھ سوچتا بھی نہیں۔ اور بریڈلے کی چھٹی ختم ہو رہی تھی اور وہ الٰہ آباد واپس جا رہا تھا جہاں کا وہ ایس پی تھا۔ اور جب وہ رنک سے نکل کر ایلمر بریڈلے کے ساتھ رکشا میں بیٹھ رہی تھی اسی وقت وہ لیڈی اعجاز کے خاندان کے ساتھ اس طرف آتا نظر آیا۔ اس کی سیاہ آنکھوں کی گہرائیاں بہت خاموش تھیں۔ ہمیشہ کی طرح بہت خاموش لیکن متبسم۔ رکشا کے قریب سے گزرتے ہوئے انہیں دیکھ کر وہ بریڈلے سے باتیں کرنے لگا۔ ادھر ادھر کی باتیں۔ اپنے اپنے محکموں کے واقعات۔ اور پھر قہقہے، مترنم قہقہے۔ اور مسوری کی ساری روشنیاں چکر کھاتی، گھومتی ہوئی نیچے ڈوبی جا رہی تھیں۔ اور جس چٹان پر اس کی رکشا کھڑی تھی وہ ٹوٹ کر تیزی سے نیچے کھڈ میں گر رہی تھی۔ پھر وہ اس کو سلام کیے بغیر، اس کو دیکھے بغیر لیڈی اعجاز کی چھوٹی لڑکی اور دونوں بڑے بیٹوں کے ساتھ وادی کی طرف اتر گیا۔ شاید وہ سب چاندنی رات کی پکنک کے لیے جا رہے تھے۔ یہ راج کماری جہاں آرا بیگم اس انگریز شخص سے کیوں شادی کر رہی ہیں۔ اس سے تو ہمارا لیفٹنٹ کمانڈر حفیظ الرحمن ہی کہیں بہتر تھا جو میں نے تجویز کیا تھا۔ اس نے دور سے اسے کہتے سنا پھر وہ سب وادی میں اترتے ہوئے چاندنی کے دھندلکے میں کھو گئے۔ اور اس شام، واپس سوائے پہنچ کر اس نے رات بھر میں اپنا سارا سامان پیک کر لیا۔ ٹوٹو بمبئی سے آ چکا تھا۔ بڑی کنور رانی صاحبہ کی دیکھ بھال اس کے سپرد کر کے وہ صبح پہلے گیٹ سے دہرہ دون آ گئی۔ راجپور سے اس نے ایلمر بریڈلے کو فون کیا کہ وہ جا رہی ہے اور افسوس ہے کہ اب اس سے کبھی نہیں مل سکے گی کیونکہ اس نے اپنا شادی کا ارادہ تبدیل کر دیا ہے۔ وہ گھر واپس پہنچی اور کار سے اترنے کے بعد سیدھی اپنے کمرے میں جا کر مسہری پر گر گئی۔ اور خوب خوب رونے سے زیادہ مناسب کام اس کی سمجھ میں اس وقت اور کوئی نہ آیا۔ وہ خوب روئی۔ یہاں تک کہ شام کا اندھیرا چھا گیا اور مال پر قمقمے جگمگا اٹھے۔ پھر چھاؤنی کا رات کا بگل بجا۔ اور باغ میں رات کے پرند چیخنے لگے۔ پھر صبح ہوئی۔ ایک اور صبح۔ اور وہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی۔ اور مسہری کے سرہانے کی میز پر اس کی غیر موجودگی میں جمع شدہ ڈاک کے ایک نقرئی لفافے پر اس کی نظر پڑی۔ وہ سَر احمد و لیڈی اعجاز کی چھوٹی لڑکی کی شادی کا دعوت نامہ تھا۔ اور کھانے کے کمرے میں چھوٹی کنور رانی صاحبہ اپنے بچے کو اوولٹین پلانے کے مرحلے میں مصروف اسے طرح طرح سے بہلا پھسلا رہی تھیں ٹونی اب کے سے تمہارے انکل جمیل تمہارے لیے اسکوٹر لائیں گے۔ اور اچھا تم اپنی نئی آنٹی کو دیکھو گے؟ انکل جمیل تمہارے لیے ایک پیاری سی آنٹی لینے گئے ہیں۔ تم نے اوولٹین نہیں پیا تو ریحانہ آنٹی تم سے کبھی نہیں بولیں گی۔ اور ٹونی نے فوراً اوولٹین پینا شروع کر دیا۔ اور رات آئی۔ ایک اور رات۔ جبکہ ہوائیں چل رہی تھیں اور بارش ہو رہی تھی۔ بڑے بھیا اور چھوٹی کنور رانی صاحب گورنمنٹ ہاؤس کے ڈنر میں گئے ہوئے تھے۔ اور وہ اکیلی تھی۔ اتنے بڑے گھر میں اکیلی۔ بالکل تنہا۔ اور اس وقت اس نے سوچا۔ وہ کیوں پیدا ہوئی۔ کیوں بڑی ہوئی۔ اس نے کیوں اتنا پڑھا لکھا۔ وہ مسوری کے مقابلۂ حسن میں کیوں ہمیشہ فرسٹ آئی۔ اس نے شہسواری اور پیانو میں مہارت کس لیے حاصل کی۔ کس لیے انسان اتنا مجبور اور بے بس ہے۔ اتنا بے بس۔ پھر ٹوٹو نے بمبئی سے لکھا۔ بٹیا۔ لفٹنٹ کمانڈر رحمن سے اب بھی شادی کر لو۔ وہ تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔ لیکن وہ خاموش رہی، جن باتوں کا وہ مذاق اڑایا کرتی تھی وہی سب باتیں ایک ایک کر کے اس کے ساتھ ہو رہی تھیں۔ قسمت کتنی ستم ظریف ہے۔ اور روایت ہے کہ ایلمر بریڈلے اس قدر دل شکستہ ہوا کہ اس نے آئی سی ایس اور آئی پی والوں کے لیے (Compensation) کی تجویز منظور کر لی اور اگلے جہاز سے ولایت واپس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ اور پھر بڑے بھیا نے کہلوایا۔ میں ہرگز یہ پسند نہیں کر سکتا کہ تم اس طرح بے کار بے کار ادھر ادھر گھوما کرو۔ تمہیں اب کسی نہ کسی سے شادی ضرور کرنا پڑے گی۔ بڑی کنور رانی صاحبہ پر اختلاج قلب کا بہت سخت دورہ پڑنے والا تھا لیکن اس کی شادی کی خوشی میں وہ اچھی ہونے لگیں۔ اور پھر اسی طرح شہ نشینوں اور درختوں میں برقی قمقمے جگمگائے۔ اسی طرح ملٹری بینڈ اور آرکیسٹرا چیخا۔ اور اس کی شادی ہو گئی۔ اس نے اپنے شوہر کو ایک آدھ مرتبہ پہلے کبھی مسوری میں دیکھا تھا۔ وہ ایک چھوٹاسا تعلقہ دار تھا۔ اس کی تعلیم لکھنؤ کے لامارٹنیز اور کالون تعلقہ دارز کالج سے آگے نہ تھی۔ لیکن وہ اچھا ڈانسر تھا اور ٹینس کا اچھا کھلاڑی۔ اور اچھا فلرٹ۔ مسوری آئی ہوئی ہندوستان کی ساری راج کماریوں اور بیگمات سے فلرٹ کرنا اس کا دل چسپ ترین مشغلہ تھا۔ اور اس کی شادی ہو گئی اور وہ اس زندگی میں زبردستی دل چسپی لینے لگی جو اسے کبھی بھی زیادہ پسند نہ تھی۔ وہ گرمیوں کے چار مہینے پہاڑ پر اور سال کا باقی حصہ اپنے شوہر کے تعلقے پر بارہ بنکی یا سیتا پور میں گزارتی جہاں روز کسی نہ کسی انگریز یا ہندوستانی افسر کی آمد پر دعوتیں ہوتیں اور اکثر اسے رات گئے تک رقص میں جاگنا پڑتا۔ لیکن وہ خاموش رہی۔ وہ اپنی آنکھوں کے پپوٹوں کی جلن کو بھلانے میں خاصی کامیاب ہو چکی تھی۔ اور چھاؤنی کے بگل کی آواز کو۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اپنے بچے کی دیکھ بھال میں مصروف رہنے لگی۔ اور پھر ایسا ہوا کہ اس کا تبادلہ اسی ضلع کا ہو گیا جہاں اس کے شوہر کی ریاست تھی۔ اس کی بیوی ان دنوں اپنی ممی لیڈی اعجاز کے وہاں شملے گئی ہوئی تھی۔ کاش کوئی آ کر اس سے کہتا کہ وہ بالکل اپنی بیوی سے خوش نہیں ہے۔ وہ بہت رنجیدہ رہتا ہے۔ وہ اکثر افسوس کیا کرتا ہے کہ اس نے ریحانہ اعجاز سے کیوں شادی کر لی۔ لیکن وہ تو ہمیشہ کی طرح بہت خوش اور بشاش تھا۔ اس کی سیاہ آنکھیں ویسے ہی متبسم تھیں اور اس کے قہقہے ویسے ہی مترنم۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔ کاش ایسا نہ ہوتا۔ اور اس سال مسوری میں اس کا شوہر جس کی اپنے مخصوص مشغلہ میں دل چسپی ایسی ہی برقرار تھی، سوسائٹی کے ایک بہت زبردست اسکینڈل میں انوولو (Involve) ہو گیا اور نئی دہلی کے ایک "نائٹ" کی لڑکی نے اسے کورٹ تک پہچانے کی دھمکی دی وہ یہ سب باتیں برداشت نہیں کر سکی۔ اس نے خاموشی سے طلاق لے لی اور ایک بار پھر لکھنؤ واپس آ گئی۔ اس کا بچہ اسے نہیں مل سکا بڑی کنور رانی صاحبہ نے اس سے بولنا چھوڑ دیا۔ بڑے بھیا نے اس سے قطع تعلق کر لیا ٹوٹو کسی ٹریننگ کے لیے امریکہ جا چکا تھا۔ اور اس وقت اسے ایلمر بریڈلے کا خیال آیا۔ وہ ابھی ہندوستان ہی میں تھا اور اسے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے چکی ہے۔ وہ اپنے بچے کو کسی طرح نہ چھوڑنا چاہتی تھی۔ وہ اس کو نہیں مل سکتا تھا کیونکہ وہ اپنے باپ کی ریاست کا ولی عہد تھا۔ اس کے لیے اس نے خود تلاش کر ایک عمدہ سی کورنس بھجوائی اور اس کے پہلے شوہر نے وعدہ کر لیا کہ وہ جب چاہے بچے کو آ کر دیکھ سکتی ہے۔ وہ کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ اور اس کے چاروں طرف اتنا گہرا، اتنا سرخ، اتنا بھاری اندھیرا چھا گیا کہ وہ اپنی آنکھیں نہ کھول سکی۔ فضاؤں میں وحشت اور ویرانی کی تاریک روحیں زور سے چیخیں مارنے لگیں۔ ہوائیں روتی رہیں۔ سرخ دریا کے کنارے دھواں بلند ہوتا گیا یہاں تک کہ وہ ساری کائنات پر چھا گیا۔ پر شور طوفان کی زد میں آ کر تیزی سے گھومتے ہوئے نڈھال چاند کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، ستارے ٹوٹ ٹوٹ کرا تھاہ تاریکی میں گم ہونے لگے۔ اور ایلمر بریڈ لے سے اس کی سول میرج ہو گئی۔ سارے صوبے کی سوسائٹی میں اچھا خاصا تہلکہ مچ گیا۔ انڈین پولیس کے ایک یورپین آفیسر نے ایک ہندوستانی تعلقہ دار کی لڑکی سے شادی کر لی۔ گورنر سمیت سارا یورپین طبقہ تلملا اٹھا۔ لیکن ایلمر بریڈلے خاموشی سے اسے اپنے ساتھ لے کر چند ہفتوں کے لیے کشمیر چلا گیا۔ اور اس کے کچھ عرصے بعد اس کے پہلے شوہر نے اپنے خاندان کی ایک پردہ نشین لڑکی سے دوسری شادی کر لی جو اس کی تفریحات میں قطعی مداخلت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ کشمیر سے الٰہ آباد آئی دن تیزی سے پرواز کرنے لگے۔ اس کا دل بے انتہا چاہ رہا تھا کہ اپنے بچے کو دیکھے لیکن ایلمر بریڈلے کو قطعی گوارا نہیں تھا کہ وہ اپنی گزشتہ زندگی سے کسی قسم کا تعلق بھی قائم رکھے۔ پھر اس سال مسوری میں ایسا اتفاق ہوا کہ سوائے میں اپنے برابر والے سوٹ میں اس کا پہلا شوہر مع اپنی بیوی اور اس کے بچے کے آ کر ٹھیرا۔ اکثر لان پر اس کو اپنا بچہ کھیلتا ہوا نظر پڑ جاتا۔ وہ دوڑ کر اس کے پاس جاتی اسے چوکلیٹ اور کھلونے دیتی۔ بچہ ممی ممی کہہ کر اس کی ساری کے آنچل یا دوپٹے کے پلو کو اپنی طرف کھینچتا لیکن وہ جی پر جبر کر کے اسے گورنس کے پاس چھوڑ کر اپنے کمروں کی طرف چلی آتی۔ اس کے پہلے شوہر کا حکم تھا کہ بچے کو تو یہ بالکل معلوم نہ ہونے پائے کہ اس کی ماں کا دوسرا شوہر ایک انگریز ہے اور اس کے سوتیلے بہن بھائی اینگلو انڈین ہوں گے۔ اور مسوری کا سارا سیزن اسی طرح گزرا اور وہ چپکے چپکے خدا سے دعا مانگتی رہی کہ وہ مر جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور اس وقت وہ ایک چٹان پر کھڑی تھی۔ اس کے سیاہ لہروں والے بال اسکارف میں سے نکل نکل کر ہوا میں اڑ رہے تھے، اس کی ساڑی ہوا کے تھپیڑوں سے مخالف سمت میں اڑی جا رہی تھی۔ اور وہ اکتا کر دور بین کے ذریعے وادی کا نظارہ کر رہی تھی۔ چٹان کے نیچے بل کھاتی ہوئی سڑک پر موٹریں اور بسیں کھنکھجوروں کی طرح ایک دوسرے کا پیچھا کرتی ہوئی اوپر چڑھ رہی تھیں یا نیچے اتر رہی تھیں۔ ایلمر کیمرہ لے کر پہاڑی کی چوٹی کی طرف چڑھ گیا تھا اور وہاں سے اس کو آواز دے رہا تھا اور اسے ایک طویل سفید اسٹیشن ویگن نظر آئی جو لہراتی ہوئی سڑک پر اوپر چڑھ رہی تھی۔ اور اس نے دور بین اپنی آنکھوں پر سے ہٹا دی۔ پھر وہ ایلمر کا سہارا لے کر چٹان سے نیچے اتر آئی۔ اور ایلمر نے اس سے کہا تھا کہ وہ اب سرکاری معاوضہ لے کر ولایت واپس جانا چاہتا ہے اور اس نے یقین دلایا تھا کہ وہ اس کے انگلستان کے خوب صورت پر سکون قصباتی مکان میں اور سیب اور چیری کے شگوفوں کے درمیان پہلے سے کہیں زیادہ خوش رہ سکے گی۔ اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ قسمت۔ قسمت کی ستم ظریفیاں۔ کم از کم اس کو اب تک یہ اطمینان تھا کہ وہ اپنے پیارے بچے کو جس سے اسے بے حد محبت تھی کبھی کبھی دیکھ سکتی تھی۔ پر اب وہ بھی اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹ رہا تھا۔ وہ انتقاماً اپنی پہلی شادی کے لیے راضی ہو گئی تھی، پھر انتقاماً اس نے اپنے پہلے شوہر کو طلاق دے دی تھی۔ اب اس تیسرے شخص سے انتقام لے کر وہ کہاں جا سکتی تھی۔ اور رات ہو رہی تھی۔ وہ سب تاج کے ٹیرس پر بیٹھے تھے۔ ایلمر وطن جانے کی خوشی میں سیٹیاں بجا رہا تھا اور اپنے دوستوں سے کہتا پھر رہا تھا کہ وہ مشرق کی الف لیلوی سرزمین میں آ کر یہاں سے ایک سچ مچ کی چھوٹی سی سوتی جاگتی گڑیا ایسی "پرنسس" کو اپنے ساتھ لیے جا رہا ہے۔ وہ ریلنگ پر جھک گئی۔ اس نے دیکھا۔ نچلی منزل سے وہ لفٹ کے ذریعے نیچے اتر رہا تھا۔ وہ جو کسی سرکاری کام سے انگلستان بھیجا جا رہا تھا اور وہ ان ہی کے جہاز میں سفر کرنے والا تھا۔ وہ سب ایک ساتھ ٹہلتے ہوئے گیٹ وے آف انڈیا تک گئے۔ گرین فر کے قریب تیزی سے بینڈ بج رہا تھا اور سمندر کی سیاہی مائل گہری سبز موجیں گیٹ وے کی سڑھیوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس جا رہی تھیں۔ تھکا ہوا، اکتایا ہوا چاند ناریل کے درختوں کے پیچھے سے طلوع ہو رہا تھا۔ اور کولابہ کی طرف سے ہوا کے خنک اور نم جھونکے آ رہے تھے۔ پھر اس لمبے، سفید جہاز نے سیٹی دی۔ وہ عرشے پر کھڑی رہی۔ ساحل آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتا گیا۔ شام ہوئی عرشے پر ڈانس شروع ہو گیا۔ وہ تھک کر اپنے کیبن میں آ کر سو گئی۔ اور سمندر اور آسمان کی تاریکی گھل مل کر سب گہری ہو گئی۔ موجوں کی سطح پر بہت سی آوازیں تیر رہی تھیں۔ مانوس، پرانی آوازیں۔ اور وہ آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔ لائٹ ہاؤس کی سرخ روشنیاں رفتہ رفتہ افق میں کھو کر اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ دور۔ سب دور۔ لیکن وہ اس سے دور نہیں تھا۔ وہ جو اس وقت اس کے برابر والے کیبن میں سو رہا تھا۔ اور وہ خود ایک غیر ملکی شخص کے ساتھ ایک اجنبی سرزمین کی طرف جا رہی تھی۔ ہمیشہ کے لیے، ایک نامعلوم منزل کی طرف۔ اور بڑے بڑے چینی کے گل دانوں کے سائے دیوار پر پھیل گئے۔ اور ایلمر بریڈلے اپنی برف جیسی سفید برتھ پر لیٹا خالص انگریزی اور امپریلسٹک انداز سے خراٹے لے رہا تھا۔ اور برابر والے کیبن میں دوسرا شخص بھی سو رہا تھا۔ وہ کم بخت دوسرا شخص۔ سفید پردوں کی دوسری جانب۔ سفید ریشمی پر دے جو آدھی رات کی سمندری ہوا میں آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ جہاز موجوں کے سفید جھاگ کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا گیا اور اندھیرا گہرا ہو گیا۔

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید