صفحات

تلاش کریں

ناولٹ: پت جھڑ سنگ بہار (سمیرا گل عثمان)

سہاگ کی سیج پر بیٹھی دلہنیں آنکھیں میں ہزاروں خواب سجائے امنگوں بھرا دل لئے کتنی چاہت اور ارمان کے ساتھ اپنے ہمسفر کا انتظار کرتی ہیں۔

مگر وہ شاید پہلی دلہن تھی جو انتہائی کوفت اور بیزاری کے عالم میں بیٹھی آنے والے لمحوں کے متعلق سوچ رہی تھی۔

اس کے پاس بیٹھی نو عمر لڑکی جو شاید اس کی کوئی سسرالی عزیز تھی اس کی خاموشی پر اکتا کر باہر چلی گئی، اریب نے اس کے ہر سوال کا جواب کچھ اتنی برہمی سے دیا تھا کہ بیچاری کتنی ہی دیر ہونق پن سے اس کی شکل دیکھتی رہی تھی، اس کے جاتے ہی کمرے کی خاموش فضا میں مہیب سی آہٹ کا احساس جاگا تھا۔

اس نے اپنی بڑی بڑی سحر زدہ کالی آنکھوں سے مقابل کھڑے شخص کو دیکھا تو اندر کہیں دل کے سنگھاسن پر بیٹھے وجاہت سے بھرپور شخص کی شبیہ چکنا چور ہو کر بکھر گئی۔

اریب کو آج وہ پہلے سے بھی زیادہ برا لگا تھا، زیان نے محبت پاش نظروں سے اپنی جانب اٹھی اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں جھانکا تو ایسا لگا جیسے کسی مقناطیسی طاقت نے اس کی نگاہوں کو جکڑ لیا ہو اور وہ شاکنگ پنک عروسی غرارے میں ملبوس اس کے تصور سے بھی زیادہ حسین لگ رہی تھی۔

’’السلام علیکم؟‘‘ مدھم لہجے میں سلام کرتا وہ اس کے پہلو میں ٹک گیا اریب بے اختیار کچھ دور ہوئی سلام کا جواب دینا بھی گوارہ نہ کیا۔

کھڑکی میں پورے دنوں کا چاند کچھ افسردہ ہوا۔

’’جانتی ہو تم آج چاند سے بھی زیادہ روشن اور حسین لگ رہی ہو۔‘‘ زیان نے اس کی تھوڑی کو نرمی سے چھوتے ہوئے اس کا رخ اپنی جانب موڑا تو وہ ناگواری سے ’’اور تم چاند پر گرہن‘‘ سوچتے ہوئے اس کا ہاتھ جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئی، زیان نے تعجب سے کا انداز نوٹ کیا تھا۔

’’مجھے چینج کرنا ہے۔‘‘ آنکھوں میں استفسار تھا زیان نے ڈریسنگ کی سمت اس کی رہنمائی کر دی وہ کہہ بھی نہ سکا کہ ابھی رک جاؤ ابھی مجھے تمہیں اس روپ میں جی بھر کر دیکھ تو لینے دو۔

آئینے کے سامنے جاتے ہی اس نے سارا زیور نوچ نوچ کر اتار پھینکا اور الماری سے سادہ سا کاٹن کا سوٹ نکال کر واش روم میں گھس گئی۔

پورا گھنٹہ واش روم میں صرف کرنے کے بعد جب باہر نکلی تو زیان کو اپنا منتظر دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اس کا خیال تھا کہ وہ اب تک سوچکا ہو گا مگر اس کی بلا سے کوئی سوئے یا جاگے اسے کیا، اس نے نظریں گھما کر بیڈ روم کا جائزہ لیا بیڈ روم کافی کشادہ تھا اسی لیے بیڈ کے دوسری جانب صوفہ رکھ کر اس جگہ کور گیا تھا۔

وہ بیڈ سے تکیہ اٹھا کر صوفے کی سمت مڑنے ہی والی تھی جب زیان نے اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے اس کی نازک کلائی تھام کر اپنے قریب بٹھا لیا۔

’’رابی تم اس طرح کیوں کر رہی ہو۔‘‘

’’جب میں نے کہا تھا کہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی تو آپ نے انکار کیوں نہیں کیا تھا۔‘‘ اس کی معصومیت پر وہ خوب لفظوں کو چبا چبا کر بولی تھی۔

’’مگر تمہیں مجھ سے شادی پر اعتراض کیا تھا۔‘‘ وہ بے بسی سے بولا۔

’’وہ میں آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔‘‘ کہتے ہی اس نے سر پہ چادر تان لی، اندر سے اس کا دل کھول کر رہ گیا تھا۔

’’اونہوں اعتراض، موصوف نے شاید کبھی آئینے کو غور سے نہیں دیکھا۔‘‘ اس کی آنکھیں بھر آئیں دل کے آئینے پر اس کا عکس پھر سے جھلملانے لگا تھا، وہ مردانہ وجاہت سے بھرپور شخص کسی پل نظروں سے اوجھل ہی نہیں ہوتا تھا۔

٭٭٭

پچھلے دو گھنٹوں سے وہ بالکونی میں کھڑا سگریٹ پہ سگریٹ پھونکے جا رہا تھا آسمان کی بانہوں میں اونگھتا چاند بھی اسے خود پر ہنستا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی حالت سے حظ اٹھا کر اپنی توہین کا بدلہ لے رہا ہو ابھی کچھ دیر قبل اس نے اپنے محبوب کو چاند سے زیادہ روشن اور حسین جو کہا تھا۔

’’آہ۔‘‘ محبوب کے نام پر دل میں ہوک سی اٹھی تھی، اریب اس کے ماموں کی بیٹی تھی ان کے خاندان میں کزنز سے زیادہ بے تکلف ہونے کا رواج نہیں تھا سو ایک گریز اور فاصلہ ہمیشہ دونوں کے درمیان حائل رہا مگر اریب کو جب بھی دیکھا اس کا دل عجب ہی لے پر دھڑکنے لگتا تھا یہی وجہ تھی گھر میں جب اس کی شادی کا تذکرہ چلا تو اس نے بلا جھجک اریب کا نام لے لیا، سب نے لاکھ سمجھایا کہ تم دونوں کا جوڑ مناسب نہیں تم دھیمے مزاج اور خاصی سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہو جبکہ وہ تمہارے بالکل برعکس منہ پھٹ، ضدی، مغرور اور خود پرست قسم کی لڑکی ہے اور ایک حد تک یہ سچ بھی تھا۔

وہ تین بہنیں تھیں روشنی اور جالا اس سے دو سال بڑی تھیں وہ دونوں جڑواں تھیں پھر ان کے بعد اریب کا نمبر آتا تھا اللہ نے اسے غیر معمولی حسن سے نوازا تھا جہاں جاتی مرکز نگاہ بن جاتی لوگوں کی رشک بھری ستائشی نگاہیں قدم قدم اس کا پیچھا کرتیں اور ان کے توصیفی کلمات اپنے بے مثال حسن کا حق سمجھ کر وصول کرتے ہوئے اس کی گردن مزید تن جاتی تھی۔

آئینہ دیکھ کر اسے ایک ہی خیال آتا، ’’اس چہرے کو چاہنے والا خود بھی کسی شہزادے سے کم نہیں ہو گا۔‘‘ اور پھر ایک روز وہ شہزادہ اسے مل گیا جو اس کے متعین کردہ معیار حسن کے پیمانے پر ہر لحاظ سے فٹ آتا تھا۔

وہ بدھ کا دن تھا وہ گھر میں اکیلی تھی موسم بے حد خوشگوار اور آسمان پر چھائے بادل برسنے کو بے تاب تھے ٹھنڈی خوشگوار ہوا چل رہی تھی اس کا دل پکوڑوں کے لیے للچایا تو اس نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا کہ شاید کوئی مل جائے۔

اس کے خرگوش موقع غنیمت جانتے ہوئے اس کے پیروں کے قریب سے اچھلتے ہوئے باہر لپکے ایک کو اس نے بھاگ کر پکڑ لیا تھا دوسرا قلانچیں بھرتا دور نکل گیا وہ اسے پکڑنے کو لپکی اور پھر ٹھٹک کر رک گئی، سامنے لینڈ کروزر سے نکلنے والا شخص، وہ پلکیں جھپکنا بھول گئی تھی اس نے آج تک کسی مرد کو اتنا خوبرو نہیں دیکھا تھا۔

’’آپ کا خرگوش۔‘‘ دوسرے والا خرگوش وہ اسے پکڑا رہا تھا وہ تھامتے ہوئے بھی اسے دیکھتی رہی اس کے یاقوتی لب باہم پیوست ہی رہے وہ شکریہ ادا کرنا بھی بھول گئی، وہ واپس پلٹا وہ کھڑی دیکھتی رہی۔

یہاں تک کہ بارش کی تیز بوندوں نے اسے احساس دلایا کہ وہ جا چکا ہے، انہی دنوں پھپھو اپنے ڈاکٹر بیٹے کے لئے اس کا پرپوزل لے کر چلیں آئیں تھیں اب بھلا ابا اپنی بہن کو کیسے مایوس کرتے، جھٹ ہاں کر دی۔

زیان ہنڈسم تھا مگر اسے تو وہ بلیک لینڈ کروزر والا چاہیے تھا وہ اس سے کم پر راضی ہی نہیں تھی۔

بہت ہنگامہ مچایا مگر کسی نے ایک نہ سنی تو زیان کا نمبر گھما ڈالا اور وہ اس کی فرمائش سن کر عجیب سیچویشن میں الجھ گیا تھا پہلے ہی گھر والوں کو بمشکل رضا مند کیا تھا اور اب جبکہ شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں تو انکار … کیسا مضحکہ خیز اور فلمی سا لگ رہا تھا اسے سوچ کر ہی جھرجھری آ گئی، اس رشتے سے اب انکار کا مطلب تھا کہ اماں بھی اپنے بھائی کو ہمیشہ کیلئے کھودیں اور پھر اس کی موہنی صورت اس سے دستبرداری کا تو تصور ہی محال تھا۔

وہ اس امید پر شاد ہو گئی کہ دوسری جانب سے انکار ہو جائے گا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے جسے زیان نے تو دل کی تمام تر گہرائیوں سے قبول کیا تھا مگر وہ ایسا کوئی تعلق نبھانے کے موڈ میں بالکل ہی نہیں تھی۔

٭٭٭

شادی کی اگلی صبح دروازے پر ہونے والی مسلسل دستک پر اس کی آنکھ کھلی تو اس نے آنکھیں مسلتے ہوئے وال کلاک کی سمت دیکھا گھڑی گیارہ کا الٹی میٹم دے رہی تھی وہ ہڑبڑا کر اٹھا تو نظریں صوفے پر نیم دراز وجود سے الجھ گئیں وہ بے خبر سو رہی تھی۔

’’رابی۔‘‘ زیان نے قریب آ کر اسے پکارا۔

’کیا ہے ؟‘‘ وہ اسے سر پہ سوار دیکھ کر جھنجھلائی۔

’’اٹھو اور بیڈ پر جا کر سوؤ میں سب کے سامنے کوئی حرکت نہ دیکھوں۔‘‘ عجیب تنبیہ بھر انداز تھا وہ شرافت سے اٹھ گئی مگر زیان کا درشت لہجہ اسے بے حد برا لگا تھا، بھابھی ان کے لئے ناشتہ لائی تھیں وہ فریش ہو کر میز پر آ بیٹھا۔

’’ناشتے میں کیا لو گی۔‘‘ اس نے خاموش بیٹھی اریب سے پوچھا تھا۔

’’زہر۔‘‘ وہ کاٹ کھانے کو دوڑی۔

’’وہ اس وقت دستیاب نہیں ہے فی الحال بریڈ اور بٹر سے کام چلاؤ، حلوہ پوری بھی اگر کھانا چاہو تو کوئی پابندی نہیں اور اگر ’’اس‘‘ زہر کے سوا کچھ اور کھانے کو دل چاہے تو بندہ حاضر ہے۔‘‘ وہ مسکرایا، جبکہ اریب کے لب بھینچ گئے، مگر مزید بھوکے رہنا بھی ناقابل برداشت تھا۔

’’اریب میں نے تمہارا سوٹ نکال دیا ہے تم تیار ہو جاؤ پھر تمہارے گھر والے آتے ہی ہوں گے۔‘‘ آپا اس کے لئے بھاری کام والا سوٹ اٹھائے چلی آئیں۔

’’سوری آپا آپ نے ناحق زحمت کی ورنہ میں دوسروں کی پسند کی ہوئی چیزیں استعمال نہیں کرتی۔‘‘ ناک سکوڑتے ہوئے اس نے باور کروایا اور اٹھ کر الماری کی سمت بڑھ گئی اپنے لئے جوڑا وہ خود منتخب کرنے والی تھی۔

آپا کے چہرے کی رنگت ایک لمحے کو متغیر ہوئی اور پھر وہ ایک جتائی ہوئی سی نگاہ زیان پر ڈال کر چلی گئیں زیان نے سرزش کرنا چاہا تھا۔

’’اریب تمہیں آپا سے ایسے بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔‘‘

’’ایسے سے کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ اس نے پلٹ کر تیکھی نظروں سے اسے گھورا۔

’’تم اچھی طرح جانتی ہو اپنے انداز کو بھی اور میرے مطلب کو بھی۔‘‘

’’دیکھو مجھے اپنی پرسنل لائف میں دوسروں کی مداخلت قطعی پسند نہیں۔‘‘

’’وہ دوسرے نہیں میرے گھر والے ہیں۔‘‘

’’تو پھر آپ تک محدود رہیں۔‘‘ واش روم میں گھس کر اس نے ٹھک سے دروازہ بند کیا تھا زیان کے کان جھنجھنا اٹھے۔

٭٭٭

بڑی پھپھو کے گھر دعوت تھی زیان شیو کر کے باہر نکلا تو وہ بلیک سوٹ میں ملبوس بالکل تیار کھڑی تھی زیان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ آج کالا لباس پہنے مگر جب اس نے فرمائش کی تو سفید لباس کی، جانتا تھا وہ بالکل الٹ کرے گی اور اب حسب منشاء رزلٹ سامنے تھا اس کے لبوں پر مسکراہٹ امڈ آئی۔

’’اچھی لگ رہی ہو۔‘‘ وہ اسے چڑاتا ہوا اب بالوں میں برش کر رہا تھا خلاف توقع وہ خاموش رہی تھی مگر دل ہی دل میں اچھی خاصی جزبز ہوئی تھی، سگنل پہ گاڑی رکی زیان نے دو گجرے لے کر اس کی سمت بڑھائے مگر وہ رخ موڑے بیٹھی رہی۔

’’اریب مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے تھوڑا وقت چاہیے ہم دوستوں کی طرح بھی تو بی ہیو کر سکتے ہیں نا۔‘‘

’’تھوڑا وقت ساتھ گزارنے سے کیا مجھے تم سے محبت ہو جائے گی۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر طنزیہ انداز میں گویا ہوئی۔

’’آئی تھینک۔‘‘ وہ گاڑی کا موڑ کاٹتے ہوئے مسکرایا۔

’’نیور۔‘‘ وہ اس کی مسکراہٹ سے چڑ گئی۔

’’چلو میں دعا کروں گا کہ تمہیں مجھ سے محبت ہو جائے، دعاؤں میں بڑا اثر ہوتا ہے۔‘‘

’’خوابوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔‘‘

’’خواب بھی تو تمہارے ہیں۔‘‘ وہ کہاں خاموش رہنے والا تھا اریب نے جھنجھلا کر سیل نکال لیا اور ایس ایم ایس چیک کرنے لگی۔

’’کاش میں موبائل ہوتا، وہ اپنے نازک سے ہاتھوں میں چلاتی مجھ کو، میں اس کی پوروں کی خوشبو سے مہک سا جاتا۔‘‘

پھر وہ راستہ بھر اس نظم کی ٹانگ، ہاتھ، پاؤں توڑ توڑ کر جوڑتا رہا۔

٭٭٭

وہ ملٹری ہاسپٹل میں ڈاکٹر تھا شادی سے دو ماہ قبل اس کی پوسٹنگ مری میں ہوئی تھی رہائش کے لئے انہیں ایک کاٹیج دیا گیا تھا چھٹیاں ختم ہوتے ہی وہ دونوں لاہور سے مری شفٹ ہو گئے تھے، آج ان کا اس گھر میں پہلا دن تھا۔

رات ہو چکی تھی صبح ڈیوٹی پر بھی جانا تھا اسے کسی کتاب میں گم دیکھ کر وہ سونے کے ارادے سے بیڈ روم میں چلا آیا تھا نیند کی وادیوں میں سفر کرتے ہوئے کوئی چیز ٹھک سے اس کے سر پہ لگی تھی، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا کشن اب زمین بوس ہو چکا تھا اور وہ آفت کی پرکالہ اس کے سر پر کھڑی تھی۔

’’اپنا بستر زمین پر لگاؤ۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘ اس کا معنی خیز سا سوال اریب کو سرتاپا سلگا گیا۔

’’کیونکہ اس گھر میں ایک ہی بیڈ روم ہے۔‘‘

’’ہاں اور تمہیں اس بیڈ پہ سونا پسند نہیں تو فرشی نشست تم لگاؤ ورنہ اگر چاہو تو یہاں بھی سو سکتی ہو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘‘ اس نے کہہ کر سرتاپا چادر تان لی وہ کچھ دیر تو کھڑی اسے گھورتی رہی پھر جا کر ساری کھڑکیاں کھول دی کاٹیج کے عقب میں جھرنا تھا پانی کا شور۔

’’کھڑکی بند کرو میں ڈسٹرب ہو رہا ہوں۔‘‘ چادر پھر سے اتارنا پڑی۔

’’تم ڈسٹرب ہو رہے ہو تو لاؤنج میں سوجاؤ مجھے پانی کی آواز سننا اچھا لگتا ہے۔‘‘ ٹانگیں جھلاتے ہوئے وہ مزے سے بولی تھی، زیان نے دونوں کشن اٹھا کر کانوں پہ رکھ لئے۔

٭٭٭

’’اب اٹھ بھی جاؤ میں لیٹ ہو رہا ہوں ناشتہ نہیں ملے گا۔‘‘ اس نے بالوں میں برش کرتے ہوئے ٹائی کی ناٹ لگاتے ہوئے پرفیوم اسپرے کرنے کے دوران کوئی دسویں بار کہا تھا۔

’’دیکھو میں صبح دس بجے سے قبل اٹھنے کی عادی نہیں ہوں اور اپنے یہ سجنے سنورنے کے امور لاؤنج میں سرانجام دیا کرو ساری نیند خراب کر دی۔‘‘ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کروٹ بدل کر آنکھیں موند لیں، زیان نے اسے کلائی سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے کچن میں لا کھڑا کیا، اس کی کتنی ہی چوڑیاں ٹوٹ کر بکھر گئی تھیں۔

’’اگلے دس منٹ تک ناشتہ ریڈی ہونا چاہیے۔‘‘

’’جاہل آوارہ جنگلی۔‘‘ وہ اپنا غصہ برتنوں کو پٹخ پٹخ کر نکالتی رہی، چائے کا ایک گھونٹ بھرتے ہی اسے اچھو لگا تھا، بریڈ الگ جلے ہوئے تھے۔

’’کیا بدتمیزی ہے یہ۔‘‘ اس کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔

’’مجھے ایسا ہی ناشتہ بنانا آتا ہے کہو تو کل سے بنا دیا کروں۔‘‘ اس کی اداکاری قابل دید تھی۔

’’نوازش ہے جناب کی۔‘‘ وہ وہی جلے ہوئے بریڈ اور نمک والی چائے پی کر چلا گیا تھا اور اس کا دن بہت بور گزرا، آخر اب کتنا بھی سوتی، ریلنگ سے ٹیک لگائے جھیل میں بنتی، بگڑتی لہروں کو دیکھتی رہی پھر شاپنگ کا موڈ ہوا تو مال روڈ چلی آئی یہاں اس وقت کافی رش تھا سارے ٹورسٹ ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے، وہ بھی اسٹال میں لگی رنگرز اور بینڈ دیکھ رہی تھی۔

’’ہیلو۔‘‘ تبھی عقب سے کسی نے پکارا تھا وہ پلٹی اور پھر گویا اپنی جگہ مسمرائز ہو کر رہ گئی۔

’’ہیلو مس!‘‘ کیا وہ ایک بار پھر سے اس کے سامنے کھڑا تھا حقیقت تھی یا خیال لیکن نہیں وہ سچ میں سامنے ہی تھا اپنی سیاہ کالی گھورسی آنکھیں اس پہ جمائے۔

’’ہم پہلے بھی مل چکے ہیں شاید، آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘

’’اور آپ نے پہچان لیا مجھے ؟‘‘ اس کے لبوں سے بے ساختہ ہی پھسلا۔

’’بھلا آپ کوئی بھولنے والی چیز تھی۔‘‘ وہ مسکرایا تھا۔

’’چیز۔‘‘ اریب نے آبرو اچکائے۔

’’سوری خاتون۔‘‘ وہ ایک بار پھر ہنسا۔

’’ویل میرا نام اریب ہے۔‘‘

’’اور میں شہروز حیدر۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ اریب کی سمت بڑھایا تھا جسے ہلکا سا تھام کر اس نے چھوڑ دیا۔

’’اگر میں آپ کو ایک کپ کافی کی آفر کرواؤں تو؟‘‘ وہ اتنا ہی مہذب تھا یا بن رہا تھا۔

’’تو میں انکار کر دوں گی۔‘‘ وہ شرارت سے بولی اور پھر دونوں ہی ہنسنے لگے تھے۔

’’فیملی کے ساتھ آئی ہیں۔‘‘

’’نہیں دوستوں کے ساتھ۔‘‘ اس نے روانی سے جھوٹ بولا اور پھر دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے چلی آئی۔

’’کیا قسمت اس پر اتنی ہی مہربان تھی جو اسے وہ نہ صرف دوبارہ مل گیا تھا بلکہ پہچان بھی چکا تھا اور اس کی آنکھوں میں چاہت کے وہ سارے رنگ بھی تھے جنہیں وہ اپنے خوابوں پر اوڑھ لینا چاہتی تھی۔‘‘ وہ خوش تھی بہت خوش۔

گھر میں قدم رکھتے ہی اس کا پہلا سامنا زیان سے ہوا تھا، وہ ڈائیننگ ہال میں بیٹھا اس کا منتظر تھا۔

’’کب سے تمہارا ویٹ کر رہا ہوں کہاں گئی تھی؟‘‘ اس کا انداز تفتیشی نہیں تھا مگر وہ خائف ہو گئی تھی وہ زیان سے خائف ہو گئی تھی بھلا کیوں۔

’’یہیں تھی مال روڈ پر۔‘‘ اسے لگا وہ جیسے کوئی چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی ہے۔

’’اچھا آؤ کھانا کھالو تمہاری فیورٹ ڈش ہے۔‘‘ وہ محبت سے بولا۔

’’مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘ اس نے سیڑھیوں کی جانب قدم بڑھا دئیے۔

’’اریب میرا ساتھ دینے کی خاطر ہی رک جاؤ۔‘‘ زیان نے پکارا مگر وہ اس کا ساتھ دینے کی خاطر نہیں رک سکتی تھی اسے زیان کا ساتھ قبول ہی نہیں تھا۔

٭٭٭

’’شام میں میرے کچھ دوست ڈنر پر مدعو ہیں ایک تو شادی کی ٹریٹ اور دوسرا تم سے ملنے کی خواہش میں یہ دعوت ارینج کی ہے میں نے۔‘‘ ناشتے کے دوران زیان نے اسے مطلع کیا تھا۔

’’تو میں کیا کروں ؟‘‘

’’تم بس ان کے سامنے اپنے منہ کے زاویے سیدھے رکھنا۔‘‘ وہ تپ کر رہ گیا اس کی بے نیازی پر۔

’’کوشش کروں گی۔‘‘ اس نے شانے اچکائے۔

’’گڈ، کوشش ہی منزل کی پہلی سیڑھی ہے۔‘‘ وہ متاثر ہوا اور اریب بدمزہ۔

کچھ ڈشز اس نے ہوٹل سے منگوا لی تھیں باقی لان میں باربی کیو کا پروگرام تھا پنک شفون کی ساڑھی میں ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورت لگ رہی تھی وہ کوئی ساتویں بار اندر آیا تھا اور وہ ہنوز اپنے بالوں کے ساتھ نبرد آزما تھی۔

’’جلدی کرو اریب۔‘‘ اب کی بار اس نے ٹوک دیا۔

’’تم بس کھڑے حکم چلا سکتے ہو کہاں بنانے آتے ہیں مجھے بال، گھر میں اماں بنایا کرتی تھیں اور شادی کے بعد بھابھی؟ دو دن سے یونہی لپیٹ کر رکھے تھے اب سلجھے تو بھلا کیسے …‘‘ تیز لہجے میں بولتی وہ آخر میں روہانسی ہو گئی تھی بال تھے یا مصیبت پھر تھے بھی گھنگھریالے، وہ بمشکل اپنی مسکراہٹ چھپاتا قریب چلا آیا۔

’’اچھا میں کوشش کرتا ہوں۔‘‘ خلاف توقع وہ خاموشی سے اچھے بچوں کی طرح اس کے آگے اسٹول پر بیٹھ گئی زیان نے پوروں سے پہلے اس کی الجھنیں سلجھائی تھیں اریب کو عجیب سالمس اپنی گردن اور شانوں پر محسوس ہو رہا تھا، ذرا سی گردن موڑی، وہ قریب تھا اتنے قریب اس کا دل دھک سے رہ گیا زیان کا انداز بدل گیا تھا، چند لمحوں کی قربت اسے مد ہوش کر گئی تھی۔

’’اچھے میزبان ہو تم، ہمیں بلا کر خود غائب۔‘‘ وہ سب ایک ساتھ اندر آئے تھے ماحول پہ چھایا فسوں ٹوٹ گیا، زیان نے مسکراتے ہوئے سب کا تعارف کروایا۔

ماریا، کاشف، عرفان اور زوہیب؟ وہ سب کلاس فیلو بھی رہ چکے تھے ماریہ اور کاشف کی پچھلے سال شادی ہوئی تھی، ماریہ کو کاشف سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی شکایت رہتی تھی آج بھی وہ اس کے لئے گجرے لانا بھول گیا تھا، جس پر وہ خفا خفا سی تھی۔

’’یار تم تو جانتی ہو میری آج نائیٹ ڈیوٹی تھی کتنی مشکل سے اپنی ڈیوٹی ڈاکٹر وصی کو سونپ کر آیا ہوں کہ عجلت میں کچھ یاد ہی نہیں رہا۔‘‘ وہ اسے منانے کو بولا۔

’’دیکھنا ماریا ایک دن یہ عجلت میں تمہیں بھی بھول جائے گا۔‘‘ زوہیب نے مزید اس کے غصے کو ہوا دی تھی کاشف نے اٹھ کر اس کی گردن دبوچ لی۔

’’ایک بار تیری شادی تو ہو جانے دے تیرے کارناموں کی فہرست تو بمعہ ثبوت بھابھی کو رونمائی میں پیش کروں گا۔‘‘

’’کوئی بچائے۔‘‘ وہ نیچے سے دہائیاں دے رہا تھا، عرفان اور زیان نے بیچ بچاؤ کرایا۔

دہکتے الاؤ کے گرد بیٹھے وہ سب خوش گپیوں میں مشغول تھے باربی کیو پروگرام عروج پر تھا۔

’’یار جلدی کرو تمہارے ڈنر کے چکر میں آج میں لنچ بھی گول کر چکا ہوں۔‘‘ عرفان بھوک کا کچا تھا لوگ دن میں تین بار کھاتے تھے وہ چھ بار کھاتا تھا۔

’’میرے بھائی تم نے یہ فاقہ کیوں کاٹا تمہارا پیٹ تو زوہیب کے سیل بیلنس کی طرح ہمیشہ خالی ہی رہتا ہے۔‘‘ کاشف نے ہمدردی جتائی، اریب ان کی نوک جھونک کو انجوائے کر رہی تھی، عرفان نے اٹھ کر گٹار اٹھا لیا۔

’’زیان کوئی رنگ ہی جماؤ تو مزہ نہیں آ رہا۔‘‘

’’ہاں اس کا وقت کٹ جائے گا۔‘‘ کاشف نے پھر مذاق اڑایا، زیان کی نظریں اریب پہ جمی تھی اور اب سب اصرار کرنے لگے تھے بمشکل وہ ایک نظم پر مان گیا تھا۔

وہ سب اس کی شاعری کے دیوانے تھے پھر آواز اچھی تھی تو اکثر وہ گھیر گھار کر گیت نظمیں اور غزلیں سنا کرتے تھے کبھی تووہ اکتا کر کہتا۔

’’میں کیا تم لوگوں کا ریڈیو ہوں۔‘‘

’’تمہیں کوئی شک ہے۔‘‘ زوہیب ڈھٹائی سے ہنسا۔

’’گھٹار کی مدھم دھن پر وہ دھیرے دھیرے گنگنانے لگا تھا۔

محبت تم بھی کرتی ہو

محبت میں بھی کرتا ہوں

مگر بس فرق اتنا ہے

کہ میں تم سے ایسی محبت کرتا ہوں

کہ اپنے آپ کو بھی بھول بیٹھا ہوں

مجھے تم سے فقط تم سے محبت ہے

اور ایسی ہے

کہ میری چاہتوں میں کوئی اور بھی نہیں شامل

تمہارے واسطے بس تمہارے واسطے

ایسی محبت ایسی چاہت ہے

اور اس چاہت میں کچھ اتنا جنون

کچھ ایسی شدت ہے

کہ میری ذات بھی مجھ سے منہا ہو گئی ہے

جیسے کہ اپنی ذات کی خاطر بھی

میں نے کچھ نہیں چھوڑا

مجھے تم سے فقط تم سے محبت ہے

اور اس میں ایسی شدت ہے

کہ میری دھڑکنیں ہر لحظ کہتی ہیں

مجھے تم سے محبت ہے

محبت تم بھی کرتی ہو

مگر بس فرق اتنا ہے

تمہیں تو صرف اپنے آپ سے ایسی محبت ہے

تمہیں تو صرف اپنی ذات سے اتنی محبت ہے

ذرا فرصت نہیں ملتی تمہیں

میری محبت میری چاہت

میری شدت کی طرف

بس اک نظر بھی ڈال لینے کی

سو میری جان محبت تم بھی کرتی ہو

مگر بس فرق اتنا ہے

اریب سمیت سب اس کی آواز کے سحر میں گم ہو چکے تھے۔

٭٭٭

’’کہاں تھی تم پچھلے دو روز سے مال روڈ کے چکر کاٹ رہا ہوں۔‘‘ وہ خفا خفا سا اس کے سامنے کھڑا تھا۔

’’کیوں ؟‘‘ عجیب سوال تھا شہروز کھڑا اسے دیکھتا رہا۔

’’کیوں تم میرے لئے دو دن سے خوار ہو رہے ہو کیا لگتی ہوں میں تمہاری کیا تعلق ہے مجھ سے۔‘‘ وہ اپنا سوال دوہرا رہی تھی، شہروز نے اس کے دونوں بازو تھام لئے، پاس سے گزرتے من چلو نے زور سے سیٹی بجائی تھی۔

’’آئی لو یو۔‘‘ اس نے کہہ دیا وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر گھر چلی آئی راستے میں بارش ہو گئی تھی اس کا لباس بھیگ گیا، کمرے میں زیان تھا۔

’’تم؟‘‘ وہ دم بخود رہ گئی۔

’’میں ایک فائل بھول گیا تھا وہی لینے آیا ہوں۔‘‘ کہہ کر وہ اس کے بے حد قریب آن کھڑا ہوا تھا اریب بے ساختہ ایک قدم پیچھے ہٹی تھی زیان نے اس کی کلائی تھام لی۔

’’تم شاید بارش کی وجہ سے رکے تھے وہ تھم چکی ہے۔‘‘ ہکلاتے ہوئے اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا زیان کی نظریں ہنوز اس کے سراپے سے الجھ رہی تھی جو بھیگ کر اور بھی دلنشین ہو گیا تھا۔

’’اریب تم مجھ پہ اتنا ستم کیوں کر رہی ہو بہت محبت کرتا ہوں تم سے، دل کیا تھاہ گہرائیوں سے میں نے تمہیں چاہا ہے تم میری چاہتوں کی انتہا ہو میرے پاس ہو کر بھی تم میلوں دور کھڑی ہو تمہیں اتنے پاس دیکھتا ہوں تو میرے لئے فاصلے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے میں اب تم سے دور نہیں رہ سکتا۔‘‘ اریب کی دھڑکنیں منتشر ہوتی جا رہی تھیں، کیا دونوں کو آج ہی اظہار کرنا تھا۔

’’چھوڑو مجھے۔‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اپنی کلائی چھڑوا کر دور چلی گئی۔

’’تم زبردستی مجھے حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘

’’زبردستی میں تمہیں حاصل کر سکتا ہوں رابی، مگر کیا تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ میں تمہیں زبردستی اپنانا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ ایک پر شکوہ سی نگاہ اس پر ڈالتا باہر نکل گیا۔

’’میرے خدا۔‘‘ اس نے اپنا سر تھام لیا تھا۔

٭٭٭

صبح سے اس کے کئی مسیج آ چکے تھے۔

’’گڈ مارننگ۔‘‘

’’اب اٹھ بھی جاؤ۔‘‘

’’کوئی تمہارا منتظر ہے۔‘‘

’’بس مجھے ابھی کہ ابھی نظر آؤ میں اتنی خوبصورت صبح کو تمہارے ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اور کچھ ہی دیر میں اس کے سامنے تھی۔

’’تم اب سے پہلے کہاں تھی اریب۔‘‘ وہ پہاڑ کی اونچی ڈھلوان پر بیٹھے تھے۔ اور وہ اس کے قدموں میں بیٹھا اس کا ہاتھ تھامے پوچھ رہا تھا۔

’’ستاروں میں۔‘‘ وہ کھلکھلائی۔

’’اب سوچتا ہوں کیسے تمہارے بغیر برسوں سے جی رہا تھا اب تو تمہارے بغیر ایک پل نہیں گزرتا دل چاہتا ہے بس ہر پل ہر لمحہ تم ساتھ رہو۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ وہ یکدم اداس ہو گئی کیا وہ اسے بتا دے کہ وہ شادی شدہ ہے اس نے سوچا ضرور مگر زبان ساتھ نہ دے سکتی۔

’’ہاتھ دکھاؤ۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’دکھاؤ تو سہی۔‘‘ وہ بضد تھا، اریب نے دایاں ہاتھ بڑھا دیا۔

شہروز نے اپنے ہاتھوں سے اس کی کلائی پر ایک خوبصورت سا وائیٹ گولڈ بریسلٹ سجا دیا تھا جس کے پھولوں میں ہیرے دمک رہے تھے۔

’’ہماری محبت کا پہلا تحفہ۔‘‘

’’یہ تو بہت مہنگا ہے میں نہیں لے سکتی۔‘‘

’’محبت سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا۔‘‘ وہ گھر آئی تو روشنی اور اجالا کاٹیج کے باہر منہ پھلائے بیٹھی تھیں۔

’’کہاں تھی تم، جانتی ہو دو گھنٹے سے یہاں بیٹھے سوکھ رہے ہیں۔‘‘

’’اچھا اندر تو آؤ۔‘‘ دونوں سے مل کر وہ دروازہ کھولنے لگی تھی۔

٭٭٭

آج اس کا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا لاہور سے کال آئی تھی امی، آپا اور بھابھی کا ہر بار ایک ہی سوال ہوتا تھا۔

’’ہے کوئی خوشخبری۔‘‘ اسے خود بھی بچے کتنے پسند تھے، مگر اریب کا رویہ، وہ تو سیدھے منہ بات کرنے کی بھی روادار نہیں تھی۔

’’بس بس بات مت کرو مجھ سے روز کے بہانے۔‘‘ ڈاکٹر ماریہ با آواز بلند بولتے ہوئے اندر آئی تو اس کی الجھی بکھری منتشر سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔

’’ماریا میری بات تو سنو۔‘‘ پیچھے پیچھے ڈاکٹر کاشف تھا اس کو مناتا ہوا۔

’’مجھے تمہاری کوئی وضاحت بھری بکواس نہیں سننی۔‘‘ وہ تڑخ کر کہتے ہوئے اپنی سیٹ سنبھال چکی تھی، کاشف نے مدد طلب نظروں سے اسے دیکھا۔

’’کیا ہوا ماریا؟‘‘ زیان کو مداخلت کرنا پڑی۔

’’اب تم ہی بتاؤ یہ جھوٹا مکار، فریبی شخص معافی کے قابل ہے کہ نہیں۔‘‘

’’حد ادب لڑکی شوہر ہوں تمہارا۔‘‘

’’پتہ تو چلے ہوا کیا ہے۔‘‘ عرفان نے کاشف کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے استفسار کیا وہ ابھی ان کے پیچھے ہی آیا تھا۔

’’تم تو خاموش رہو، ہماری ناک کے نیچے عشق لڑایا اس ڈاکٹر احسان رضا کی نک چڑھی بیٹی کے ساتھ اور اب آئے ہیں منگنی کا دعوت نامہ لے کر۔‘‘ توپوں کا رخ عرفان کی سمت مڑ چکا تھا۔

’’اب کوئی الف لیلیٰ تو تھی نہیں جو …‘‘

’’لیلیٰ مجنوں کہو نکمے لڑکے سب خبر ہے مجھے۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر بولی اب کی بار عرفان کان کھجانے لگا، زیان کو ہنسی آ گئی۔

’’اس کو چھوڑو اپنی بتاؤ۔‘‘

’’کل رات مجھے فون کیا تیار رہنا ڈنر باہر کریں گے میں گیارہ بجے تک انتظار کرتی رہی موصوف بارہ بجے تشریف لائے اور آتے ہی ’’میں بہت تھک گیا ہوں‘‘ کہہ کر جا سوئے اتنا خراب موڈ تھا میرا اور اس نے منایا بھی نہیں۔‘‘

’’ہاں تو رات کے اس وقت تم سے بات کرنا بھیڑوں کے چھتوں کو چھیڑنے کے مترادف تھا اور میں یہ رسک نہیں لے سکتا تھا۔‘‘

کتنی محبت ہے دونوں میں زندگی سے بھرپور نوک جھونک، کبھی روٹھنا کبھی منانا ہیپی فیملی، اس نے رشک بھری نظروں سے دونوں کو دیکھا۔

کاشف نے اس کے بالوں سے کیچڑ اتار دیا تھا جس پر وہ ہاتھ میں پکڑی فائل اسے مار رہی تھی۔

’’میں تو کہتا ہوں ماریہ اب کبھی اس سے بات مت کرنا قدر ہی نہیں ہے اسے تمہاری، ذرا جو احساس ذمہ داری نام کی چیز ہو جانتی ہو رات دس بجے میں نے اسے کسی لڑکی کے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے کیفے میں دیکھا تھا مجھے تو لگا تھا کہ تم ہو مگر …‘‘

یہ کیسے ممکن تھا دونوں کی جنگ میں زوہیب اپنا حصہ ڈالنے سے محروم رہ جائے ماریہ آنکھیں پھیلائے اسے سن رہی تھی۔

’’زوہیب کے بچے۔‘‘ کاشف نے کرسٹل کا گلدان اٹھایا ہی تھا کہ وہ اٹھ کر بھاگ گیا، ڈاکٹر عرفان کو ایمرجنسی کیس آ گیا تھا، جبکہ کاشف اور ماریہ کی نوک جھونک ابھی بھی جاری تھی، زیان کا دل مزید اداس ہو گیا۔

٭٭٭

’’السلام علیکم!‘‘ گھر میں اجالا اور روشنی آئی ہوئی تھیں، لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس نے با آواز بلند سلام کیا تھا۔

’’وعلیکم السلام!‘‘ دونوں احتراماً اٹھ کھڑی ہوئیں۔

’’اور سناؤ کیا حال ہے ؟‘‘ وہ وہیں ان کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا، اریب انہیں باتوں میں مشغول چھوڑ کر کچن میں چلی آئی تھی۔

کھانا بنانے اور میز پر لگانے کے بعد اس نے دونوں کو پکارا تھا۔

’’اٹھ جاؤ بھئی وہ دوسری بار آواز دینے کی بجائے کھانا اٹھا دے گی۔‘‘ اجالا نے اٹھتے ہوئے روشنی اور زیان سے کہا تو وہ دونوں فوراً اٹھ گئے۔

’’اللہ، اریب آج تم ہماری میزبان ہو یقین نہیں آ رہا۔‘‘ روشنی نے اسے چھیڑا تھا وہ مسکرا دی۔

’’کیوں تمہیں میرا یہ سب کرنا اچھا نہیں لگ رہا۔‘‘

’’مجھے تو روحانی خوشی ہو رہی ہے تمہیں یہ سب کرتے دیکھ کر، پتہ ہے زیان بھائی اس نے کالج جانا ہوتا تھا اور پریڈ پورے گھر میں ہماری لگوایا کرتی تھی، اجالا میرے کپڑے استری کر دو، امی میرے بال بنا دو، روشنی میرا ناشتہ لاؤ، ابو اب جلدی اٹھ جائیں مجھے دیر ہو جائے گی۔‘‘ روشنی باقاعدہ اس کی نقلیں اتار رہی تھی۔

اریب نے چور نظروں سے زیان کو دیکھا وہ ان کی باتوں پر محض مسکرا رہا تھا، وہ مطمئن سی ہو کر کھانے سے انصاف کرنے لگی، ورنہ خدشہ تھا زیان کوئی شکایت نہ کر دے۔

’’مگر سچ پوچھو نا اریب تو ساری رونق تمہارے ہی دم سے تھی، تم ہر وقت کسی نہ کسی بات پر امی کا میٹر گھمائے رکھتی تھی اب تو وہ کسی کو ڈانٹتی بھی نہیں اور ابا بھی تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘ اجالا نے بڑی محبت سے اسے دیکھا تھا اسے بھی ابا بہت یاد آتے تھے۔

٭٭٭

آج اس کا آف تھا سو وہ ایک لمبی بھرپور نیند لے کر صبح گیارہ بجے کے قریب بیدار ہوا تھا کھڑکیوں سے پردے ہٹا کر باہر جھانکا تو موسم کی دلفریبی عروج پر تھی مطلع آج صاف تھا ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔

اس کی نظریں آسمان سے بھٹکتی ہوئیں لان میں کھڑی اریب سے جا ٹکرائیں پہاڑ، وادیاں، جھرنے، پھول، جھیلیں وہ سب سے زیادہ خوبصورت تھی آج اس نے پہلی بار ڈیپ فیروزی رنگ پہنا تھا جس میں اس کی دودھیا شفاف رنگت سونے کی مانند دمک رہی تھی، لمبے گھنگھریالے بالوں سے بوند بوند برستا ساون گھاس کی لڑیوں میں جیسے موتی ٹانک رہا تھا۔

تم جو رنگ پہنو

وہ موسم کا رنگ

تم جس پھول کو دیکھو

وہ کبھی نہ مرجھائے

تم جس لفظ پہ ہاتھ رکھ دو

وہ روشن ہو جائے

تم ایک بار مجھے ہنس کر پکارو

میری زندگی میں سحر ہو جائے

وہ مبہوت سا اسے دیکھے جا رہا تھا۔

’’اٹھ گئے آپ۔‘‘ اس کے ساتھ اجالا کھڑی تھی۔

’’صبح سے آپ کا ہی انتظار تھا جلدی سے تیار ہو جائیں اور ہمیں اپنا شہر دکھائیں۔‘‘ اور زیان فوراً گاڑی نکال لایا تھا، مگر عین وقت پہ اریب نے انکار کر دیا۔

’’ہیں کیوں بھئی۔‘‘ سب پوچھتے ہی رہ گئے۔

’’سر میں درد ہے۔‘‘ وہ بہانہ بنا کر لیٹ گئی اسے خدشہ تھا کہیں شہروز نہ مل جائے۔

’’کہاں ہو تم؟‘‘ اور کچھ دیر بعد اس کا میسج چلا آیا۔

’’میں آج نہیں آ سکتی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

’’ٹمپریچر ہو رہا ہے۔‘‘

’’اچھا مجھے اپنے کاٹیج کا پتہ بتاؤ میں آ رہا ہوں۔‘‘ اس کے استفسار پر وہ اچھل کر رہ گئی۔

’’نہیں نہیں تم یہاں مت آنا میرے ساتھ اور بھی لڑکیاں رہتی ہیں۔‘‘

’’تو کیا ہوا؟‘‘ وہ برا مان گیا تھا۔

’’نہیں تم نہیں آؤ گے بس۔‘‘ وہ قطعیت سے بولی۔

’’اچھا دو روز بعد میرا برتھ ڈے تب میں کوئی بہانہ نہ سنوں۔‘‘

’’دو روز بعد۔‘‘ اس نے دل میں سوچا تب تک تو اجالا اور روشنی جا چکی ہوں گی۔

’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے کہہ کر فون رکھ دیا اور پھر بیٹھ کر ان پیسوں کا جوڑ توڑ کرنے لگی جو زیان ہر مہینے اسے دیا کرتا تھا۔

’’اریب یہ بریسلیٹ کس کا ہے۔‘‘ میز پہ برتن سیٹ کرتے ہوئے اچانک ہی زیان کی نگاہ اس کی کلائی سے ٹکرائی تھی اور وہ ہیروں کا چمکتا دمکتا بریسلیٹ دیکھ کر ٹھٹک گیا تھا۔

’’میرا ہے۔‘‘ وہ یکدم گھبرا گئی تھی۔

’’ڈائمنڈ ہے۔‘‘ وہ مزید حیران ہوا۔

’’نہیں یہ تو امیٹیٹز ہے۔‘‘ خود کو لا پرواہ ظاہر کرتے ہوئے وہ اب پلیٹ میں سالن نکال رہی تھی۔

’’لگتا تو نہیں۔‘‘ زیان کا دھیان ہنوز بریسلیٹ میں اٹکا ہوا تھا۔

دو روز بعد اس نے مال روڈ سے شہروز کے لئے ایک شرٹ اور D&J کا پرفیوم خریدا تھا اور اب اس کے ساتھ اس کی گاڑی میں موجود تھی۔

’’پورے تین دن بعد کہیں جا کر اپنی جھلک دکھائی ہے۔‘‘ وہ وارفتگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا، اریب کی نظریں جھک گئیں۔

جانے کیسا عجیب سا احساس تھا شہروز کی آنکھوں میں جیسے دل میں کہیں چٹکیاں لیتا ہوا دھمکاتا ہوا یا پھر یہ باور کرواتا ہوا کہ کہاں کس کی گاڑی میں بیٹھ گئی ہو اور پھر خالی لاؤنج دیکھ کر وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔

’’باقی سب مہمان کہاں ہیں ؟‘‘

’’میں اپنی برتھ ڈے صرف تمہارے ساتھ انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ شہروز نے اسے شانوں سے تھام لیا تھا وہ گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹی۔

’’کیا ہوا ڈر کیوں رہی ہو۔‘‘

’’میں کیوں ڈروں گی۔‘‘ دل و دماغ میں جیسے کوئی سائرن بجنے لگا تھا اس نے خود کو بہادر ثابت کرنے کے لئے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے استفسار کیا۔

’’ہاں وہی تو میں کوئی ڈریکولا تھوڑی ہوں۔‘‘ وہ خوامخواہ میں ہنسا۔

’’مجھے یہاں کا ماحول اچھا نہیں لگ رہا کہیں اور چلتے ہیں۔‘‘ اس نے کہہ کر دروازے کی سمت قدم بڑھا دیے تھے شہروز نے اچک کر اس کی کلائی تھام لی۔

’’چلی جانا ابھی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔‘‘ وہ اس کے مزید قریب ہوا تھا اریب نے جھٹکے سے اپنی کلائی چھڑوانا چاہی مگر اس کی گرفت مضبوط تھی۔

’’تم اتنے نخرے کیوں دکھا رہی ہو یہی تو ہوتا ہے پیار، اس کے لئے تو تم میرے قریب آئی تھی میری قربت کی کشش نے ہی تو تمہیں میری جانب متوجہ کیا تھا پھر اب کیا پرابلم ہے۔‘‘

’’شہروز۔‘‘ وہ محض اتنا ہی بول پائی تھی۔

’’یار شادی تو ہمیں کرنی ہے تو پھر …‘‘ اگلے ہی لمحے اریب نے ایک زناٹے دار تھپڑ اسے رسید کیا تھا۔

’’گھٹیا انسان۔‘‘ ساتھ ہی قریب پڑا کرسٹل کا گلدان بھی وہ اسے مار چکی تھی، شہروز کے ہاتھ سے اس کی کلائی چھوٹ گئی اور یہی ایک لمحہ اس کے فرار کا سبب بن گیا تھا۔

لیکن راستے سمجھ میں نہیں آ رہے تھے، جلد بازی میں بھاگتے دوڑتے وہ بہت دور نکل آئی تھی جانے یہ کون سا علاقہ تھا، سانپ کی مانند بل کھاتے راستے، سنسان سڑکیں، پہاڑ، گھاٹیاں، اس پر اندھیرے قدم بہ قدم اجالوں کو نگلتے جا رہے تھے شام سے رات ہونے والی تھی، وہ جب تھک گئی تو وہیں ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر رونے لگی۔

’’زیان مجھے لے جاؤ واپس۔‘‘ آخری بار وہی شخص یاد آیا تھا اور پھر وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو کر گر گئی تھی۔

٭٭٭

’’اریب اٹھو۔‘‘ عالم غنودگی میں اسے احساس ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی اس پر جھکا اسے پکار رہا ہو، چند لمحوں میں اس کا ذہن بیدار ہوا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔

’’شکر ہے تمہیں ہوش آ گیا۔‘‘ سامنے زیان تھا۔

’’بخار ابھی باقی ہے۔‘‘ تھرمامیٹر اس کے منہ میں ڈالنے کے بعد اب وہ اسے چیک کر رہا تھا۔

’’یہی تو ہے پیار جس کے لئے تم میرے قریب آئی تھی۔‘‘ لفظوں کی بازگشت پورے وجود پر ہتھوڑوں کی مانند برس رہی تھی وہ بے کل سی ہو کر اٹھ بیٹھی۔

’’تو مس اریب یہ تھا تمہارا آئیڈیل۔‘‘ کوئی اس پر زور سے ہنسا تھا اریب نے ہاتھ کانوں پر رکھ لئے اور زور سے آنکھیں میچ لیں۔

’’اب جلدی سے یہ سوپ پیو پھر تمہیں زبردست قسم کا ناشتہ بھی کراؤں گا۔‘‘ زیان نے گرم گرم سوپ اس کی جانب بڑھایا تو وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی کتنی شرافت و پاکیزگی اور چاہت جھلکتی تھی ان میں، اس نے وحشت زدہ سا ہو کر پلکیں جھکا لیں دل کی دنیا میں ایک تلاطم برپا ہو چکا تھا، شہروز کے ساتھ گزرا ہر لمحہ اذیت دینے لگا تھا۔

’’یہ بہت اچھا نہیں ہے لیکن میں نے کوشش کی ہے۔‘‘ زیان نے ایک چمچ اس کی جانب بڑھایا، اریب کی آنکھوں میں سنگریزے چبھنے لگے۔

’’تم ہاسپٹل نہیں گے۔‘‘ وہ اپنی توجہ ہٹانے کو بولی۔

’’اب تمہیں اس حالت میں چھوڑ کر چلا جاتا۔‘‘ وہ برا مان گیا اور اس کا یہ اپنائیت بھرا التفات اریب کی بے حسی کے احساس کو جھنجھوڑ کر رکھ گیا تھا، گود میں رکھا باؤل پوری قوت سے فرش پر مارتے ہوئے وہ جیسے پھٹ پڑی۔

’’مت کرو مجھ سے اتنی محبت، اس کے قابل نہیں ہوں میں۔‘‘ زیان اپنی جگہ ساکت رہ گیا اسے لگا وہ اس وقت اپنے حواسوں میں نہیں ہے۔

٭٭٭

شام میں ماریہ اور کاشف آئے تھے اس کی خیریت معلوم کرنے، انہیں ہی وہ کل رات سڑک کنارے بے ہوش ملی تھی۔

ماریہ کچھ دنوں سے میکے میں تھی کاشف اسے لے کر واپس آ رہا تھا دونوں میں حسب معمول جھگڑا چل رہا تھا۔

وہ خفا ہو رہی تھی، کہ ابھی اسے کچھ دن مزید رہنا ہے وہ اتنی جلدی کیوں لینے آیا ہے کاشف کی وضاحتیں۔

’’اتنے دنوں سے میں نے ڈھنگ کا کھانا نہیں کھایا، کپڑے روز اٹھ کر خود استری کرو، کبھی شوز نہیں ملتے کبھی ٹائی غائب، جانتی ہو ایک فائل ڈھونڈنے کے چکر میں ساری کتابیں بکھر گئی تھیں چائے چولہے پہ چڑھاؤ تو بریڈ جلنے لگتا ہے اسے ٹوسٹر سے نکالا چائے ابل کر رہ گئی آملیٹ میں نمک تیز … اف تم سوچ نہیں سکتی پوری لائف ڈسٹرب ہو کر رہ گئی تھی۔‘‘ کاشف نے بے ساختہ اس کے آگے ہاتھ جوڑے تو اس نے مسکراہٹ ضبط کرنے کی کوشش میں منہ گھما لیا تبھی اس کی نگاہ اس وجود سے ٹکرائی تھی۔

’’کاشف گاڑی روکو۔‘‘ عجلت میں اس نے اسٹیرنگ پہ ہاتھ مارا۔

’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ وہ گاڑی روکے بغیر اطمینان سے بولا۔

’’وہاں سڑک پر کوئی تھا۔‘‘

’’دیکھ چکا ہوں اور تم جانتی ہو یہ علاقہ کتنا خطرناک ہے۔‘‘

’’ہمیں اس کی ہیلپ کرنی چاہیے۔‘‘

’’مجھے ایسی نیکی کا کوئی شوق نہیں جو الٹا گلے پڑ جائے۔‘‘

’’شرم کرو ڈاکٹر ہو تم۔‘‘ وہ ذرا جو متاثر ہوئی ہو اس کے مصنوعی رعب سے۔

’’پتہ ہے مجھے۔‘‘ وہ بھی گاڑی چلاتا رہا۔

’’کاشی پلیز۔‘‘ وہ اب منت پر اتر آئی تھی۔

’’افوہ۔‘‘ اسے ریورس گھمانا ہی پڑا۔

’’یہ تو اریب ہے زیان کی بیوی۔‘‘ ٹارچ سے اس کی شناخت کرنے کے بعد وہ واپس گاڑی میں آیا تھا۔

’’اریب اور یہاں۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے فوراً گاڑی سے اتری پھر کاشف کے ساتھ مل کر اسے گاڑی میں بٹھایا۔

’’بی پی لو ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی ہے زیادہ فکر مندی والی بات نہیں ہے تم زیان کے گھر کی سمت چلو۔‘‘ ماریہ نے اسے چیک کرنے کے بعد کاشف کو ہدایات دیں تو اس نے سر ہلاتے ہوئے گاڑی زیان کے گھر کی جانب موڑ دی۔

وہ گھر کی دہلیز پہ بیٹھا اسی کا منتظر تھا آج سے قبل وہ اتنا لیٹ کبھی نہیں ہوئی تھی۔

اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ آج اس کا بالکل لحاظ نہیں کرے گا وہ اس کی دی ہوئی آزادی کا کچھ زیادہ ہی ناجائز فائدہ اٹھا رہی تھی لیکن اسے کاشف اور ماریہ کے ساتھ یوں ہوش و خرد سے بیگانہ دیکھ کر وہ اپنا سارا غصہ بھول گیا تھا وہ بخار میں پھنک رہی تھی اور وہ رات بھر اس کی پٹی سے لگ کر بیٹھا رہا تھا۔

لیکن اریب کی باؤل پھینکنے والی حرکت نے جیسے اسے کنگ سا کر دیا تھا اور اب تو اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ اس کے ساتھ بالکل بھی خوش نہیں ہے اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے آزاد کر دے گا۔

٭٭٭

ڈھلتے سورج کی لالیاں شفق میں گھلی رو پہلے سنہری دن کو خیرباد کہہ رہی تھی وہ کھڑکی سے سر ٹکائے اپنے اپنے آشیانوں کو لوٹتے پرندوں کی قطاریں دیکھنے لگی۔

’’مجھے بھی اب لوٹنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت اندھیرا ہو جائے اور اس اندھیری رات کی سیاہی میرے وجود کو چھولے پھر اس کالک کے ساتھ بھلا کون مجھے قبول کرے گا مگر میں اس سے کیا کہوں۔‘‘ وہ بے بسی سے اسٹڈی کے بند دروازے کو دیکھنے لگی اس کے دل کے تمام تر دروازے کھول کر اب خود دروازہ بند کیے بیٹھا تھا۔

اس کا جی چاہا وہ دو کپ چائے بنائے اور زیان کے ساتھ اس کھڑکی میں کھڑے ہو کر وہ ساری باتیں سنے جو وہ اسے سنانا چاہتا تھا۔

کچھ سوچ کر اس نے سر جھٹکا اور دروازہ کھول کر اندر چلی آئی، وہ کسی بک کے مطالعے میں محو تھا۔

’’کچھ چاہیے۔‘‘ اس نے کتاب کا صفحہ موڑ کر ایک جانب رکھ دی اور مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہو گیا۔

’’میرا دل نہیں لگ رہا کہیں باہر چلیں۔‘‘

’’پہلے تو اکیلے ہی جاتی تھی۔‘‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جتا گیا۔

’’ہاں مگر اکیلے مجھے راستہ بھول جاتا ہے اور میں اب بھٹکنا نہیں چاہتی۔‘‘ اور وہ اٹھ ہی گیا۔

’’باہر بہت سردی ہے کوئی شال اوڑھ لو۔‘‘ ریڈ کلر کے سوٹ میں وہ زیان کو اتنی کیوٹ لگی تھی کہ اس کا دل نہیں چاہا تھا کہ اس ریشمی لباس اور شفون کے باریک دوپٹے میں اس کے سوا کوئی اور اسے دیکھے، اریب نے خاموشی کے ساتھ اس کی بات مان لی تھی، وہ حیران تو ہوا تھا مگر خوش فہم نہیں۔

راستہ بھر دونوں کے مابین خاموشی کا طویل وقفہ حائل رہا تھا جسے سگنل پہ کھڑے اس معصوم بچے نے توڑا۔

’’صاحب! میڈم کے لئے پھول لے لو۔‘‘ اس کے ہاتھوں میں تازہ کھلے ہوئے موتیے کے گجرے تھے کچھ ادھ کھلے گلابوں کی کلیاں تھیں، زیان مبہم سا مسکرادیا۔

’’چھوڑو یار تمہاری میم صاحب کو پھول پسند نہیں ہیں۔‘‘

’’پسند گزرتے وقت کے ساتھ بدل بھی تو جاتی ہے۔‘‘ وہ اسے ٹوکتے ہوئے بولی تو زیان نے سارے پھول خرید کر اس کا دامن بھر دیا تھا۔

اریب کو لگا وہ دن دور نہیں جب ان کی خوشبو سے زندگی کا ہر پل مہکے گا اور ساری آرزوئیں بکھر جائیں گی۔

کے ایف سی کے شاندار ماحول میں وہ مینیو کارڈ ہاتھوں میں لئے، لسٹ پہ نظر دوڑا رہی تھی، جب ’’السلام علیکم ڈاکٹر صاحب!‘‘ کی آواز اس کے کہیں بہت قریب سے ابھری نظریں اٹھا کر دیکھا تو اپنی جگہ پتھر ہو کر رہی گئی، وہ زیان سے مصافحہ کرتا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

’’یہ آپ کی …‘‘

’’میری مسز ہیں۔‘‘ زیان کو نہ چاہتے بھی تعارف کروانا پڑا اریب کی رنگت پل میں ہلدی کی مانند زرد ہو چکی تھی وہ دو چار باتیں کرنے کے بعد چلا گیا لیکن دھیان اریب میں ہی اٹکا رہا تھا۔

’’کون تھا یہ۔‘‘ اسے اپنی ہی آواز اجنبی سی لگی۔

’’اس علاقے کا جاگیردار خان ولی احمد کا اکلوتا عیاش رئیس زادہ ہے اور کیا منگواؤں۔‘‘ وہ شاید کچھ اور بھی کہنے والا تھا جب اریب نے ٹوک دیا۔

’’گھر چلیں۔‘‘ اور وہ حیرانی سے اسے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔

٭٭٭

اگلی صبح وہ اٹھا تو سب کام ریڈی تھے استری شدہ کپڑے، پالش جوتے اور ناشتہ تیار، یہاں سے وہاں گھومتی وہ تمام کام جلدی جلدی نمٹا رہی تھی وہ کسی خواب میں گھرنا نہیں چاہتا تھا مگر اسے یہ سب اچھا لگ رہا تھا بہت اچھا۔

پراٹھا کچھ کچا پکا سا تھا آملیٹ ٹھیک ہاں چائے اچھی تھی وہ منہ کے زاویے بگاڑے بغیر کھا کر چلا گیا۔

اور وہ کتنی ہی دیر بیٹھی اس کی سعادت مندی پر ہنستی رہی برتن اور صفائی سے فراغت کے بعد وہ لاؤنج کی ڈسٹنگ کر رہی تھی جب فون کی بیل نے اس کی توجہ کھینچی۔

’’ہیلو۔‘‘ اس نے ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا اور دوسری جانب کی آواز سن کر اس کے ہاتھ سے کرسٹل کا گلدان گر گیا۔

’’کیسی ہیں مسز زیان ملک۔‘‘ وہ ریسیور کریڈل پہ رکھ کر وہیں صوفے پر ڈھیر ہو گئی دل معمول سے ہٹ کر دھڑکنے لگا تھا

کل رات بھی اس کے سیل فون میں کال آئی تھی اس نے سم نکال کر موبائل لاکر میں رکھ دیا تھا۔

اور اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس طرح، فون کی بیل پھر سے بجنے لگی تھی اور پھر وہ وقفے وقفے سے سارا دن بجتا ہی رہا آج اسے اپنی حماقت کا احساس ہو رہا تھا، آنے والے لمحوں میں چھپے طوفان کی آہٹیں اس کا دل ہولا رہی تھی اب جانے کیا کچھ بکھرنے والا تھا۔

٭٭٭

’’کیا چاہتے ہو تم آخر مجھ سے۔‘‘ تین روز سے یہ بلی چوہے کا کھیل جاری تھا کبھی آنسرنگ پر پیغامات آ رہے تھے تو کبھی دن بھر فون کرتا رہتا وہ تنگ آ کر لیڈ نکال دیتی پھر زیان کا مسئلہ ہوتا کہ اگر اس نے گھر فون کر دیا تو اپنی اس حرکت کا کیا جواز دے گی۔

اب بھی وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی اور مسلسل چنگھاڑتی اس بیل نے اس کا خون کھولا دیا تھا۔

’’میں تو بس تمہیں چاہتا ہوں۔‘‘ دوسری جانب اس کی بے بسی کا مزہ لیتے ہوئے وہ خوب والہانہ انداز میں بولا تھا۔

’’بند کرو بکواس۔‘‘ وہ درشتی سے چلائی۔

’’کبھی تو اس بکواس کے لئے دوڑی چلی آتی تھی۔‘‘ اس کا طنزیہ چبھتا ہوا سا لہجہ، اریب نے دانت پیستے ہوئے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کی۔

’’تم جیسے آوارہ راہ چلتے پر اعتماد کرنے کی سزا بھگت رہی ہوں۔‘‘

’’سزا تو ابھی باقی ہے میری جان۔‘‘

’’دیکھو میرا پیچھا چھوڑ دو۔‘‘

’’چھوڑ دوں گا مگر اک شرط ہے۔‘‘

’’مجھے تمہاری کسی شرط سے غرض نہیں۔‘‘

’’جو لمحہ ادھورا چھوڑ گئی ہو بس اسے مکمل کر دو۔‘‘ اس کی ڈیمانڈ، اریب سرتاپا سلگ اٹھی۔

’’میں کیا تمہیں راستے میں پڑی نظر آتی ہوں۔‘‘

’’تمہیں راستے میں لانا میرے لئے مشکل بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر خباثت سے مسکرایا۔

’’تم مجھے بلیک میل کر رہے ہو۔‘‘

’’نہیں میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ تمہارے پاس انکار کی گنجائش نہیں ہے اب بتاؤ کب آؤ گی یا پھر میں آ جاؤں ڈاکٹر صاحب تو آج گھر آنے والے نہیں ہیں۔‘‘ اور اریب کا سانس گویا اندر ہی کہیں رک گیا وہ اتنا باخبر تھا کیسے۔

اس نے بھاگ کر ساری کھڑکیاں، دروازے بند کیے اسی وقت لائیٹ چلی گئی تھی وہ سکڑ سمٹ کر لاؤنج کے صوفے پہ بیٹھ گئی، کئی بار زیان کا نمبر ٹرائی کیا۔

ہر بار اپنی مخصوص ٹون میں آپریٹر اپنا پیغام سنانے لگتی تھی۔

’’اف میرے خدا۔‘‘ اس نے سر تھام لیا۔

فون پھر سے بجنے لگا تھا اس نے لیڈ نکال کر پھینک دی، کچھ ہی لمحوں بعد، دروازے پر بڑی زور سے دستک ہوئی تھی اس نے سراسیمہ سا ہو کر دونوں کانوں پہ ہاتھ رکھ لئے، دستک لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی، پھر اس کے ساتھ اک صدا بھی بلند ہوئی۔

’’اریب کہاں ہو تم۔‘‘ اس سے ہلا تک نہ گیا۔

’’رابی میں ہوں زیان۔‘‘

’’زیان!‘‘ اس کے لب دھیرے سے ہلے وہ اٹھی اور بھاگ کر دروازہ کھول دیا وہ ٹارچ ہاتھ میں لئے کھڑا تھا۔

’’کہاں تھی تم کب سے، دروازہ بجا …‘‘ دھیان اس کی متورم آنکھوں اور بھیگی بھیگی پلکوں پہ پڑا تو ٹھٹک گیا۔

’’کیا ہوا ہے ؟‘‘

’’زیان وہ …‘‘ اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا بے اختیار اس کے سینے سے جا لگی اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔

اس وقت لائیٹ بھی آ گئی تھی پورا لاؤنج روشنیوں میں نہا گیا وہ اسے ساتھ لگائے لاؤنج میں لے آیا صوفے پر بٹھا کر پہلے اس کے آنسو صاف کیے اور پھر پانی کا گلاس بھر لایا۔

’’اب بتاؤ کیا ہوا؟‘‘

’’میں ڈر گئی تھی۔‘‘ اتنے میں اسے بھی خود کو سنبھالنے کا موقع مل گیا تو کسی حد تک سچ بتا دیا زیان نے بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔

’’کاش یہ ڈر تمہیں میری موجودگی میں بھی لگا کرے اسی بہانے پاس تو رہا کرو گی۔‘‘

’’زیان۔‘‘ وہ روہانسی ہو گئی۔

’’اچھا بھئی اپنے گھر میں ڈرتے نہیں دروازہ لاک کر لو میں ایک فائل لینے آیا تھا شب بخیر۔‘‘ بروقت اسے احساس ہوا کہ وہ لیٹ ہو رہا ہے سو فوراً اٹھ گیا۔

’’نہیں پلیز تم مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔‘‘ وہ اس کے راستے میں حائل ہو چکی تھی۔

پہلے تو بڑی خوش ہوتی تھی میری غیر موجودگی سے، اب ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ اکیلے نہیں رہ سکتی۔‘‘ وہ زچ ہو اٹھا تھا اس کے پل پل بدلتے رنگوں سے۔

’’مجھے ڈر لگ رہا ہے بس۔‘‘

’’ضروری کیس ہے میں لیو نہیں لے سکتا، چلو تمہیں ماریہ کے ہاں ڈراپ کر دوں ڈاکٹر کاشف بھی آج نائیٹ ڈیوٹی پر ہے تمہیں صبح واپس پک کر لوں گا۔‘‘

٭٭٭

ماریہ کے گھر وہ آج پہلی بار آئی تھی وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی ویسے بھی وہ مزاجاً کافی باتونی اور خوش اخلاق لڑکی تھی۔

اریب کا دل بہل سا گیا مگر فرار اس مسئلے کا حل نہیں تھا وہ کب تک خود کو یوں بچا سکتی تھی۔

اس نے اپنا سیل فون چیک کیا رات سے اب تک کوئی فون یا ایس ایم ایس نہیں آیا تھا۔

شدید حیرت کے ساتھ ساتھ اک اطمینان سا اس کے اندر اترتا یکدم اسے پرسکون سا کر گیا تھا اسی طرح دو دن گزر گئے اور پھر ایک ہفتہ، شہروز نے دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا تھا اسے لگا وہ اسے بھول چکا ہے، مگر یہ اس کی بھول تھی۔

٭٭٭

’’کھانا تو دھیان سے کھاؤ۔‘‘ زیان کب سے اسے دیکھ رہا تھا وہ بے دھیانی سے پلیٹ میں چمچ چلاتی جانے کن خیالوں میں گم تھی جن کا محور کم از کم وہ تو نہیں تھا یہی سوچ کر وہ چڑ گیا۔

’’ہاں … اچھا۔‘‘ وہ چونک کر سیدھی ہوئی کھانے سے اس کا من اچاٹ سا ہو گیا، وال کلاک کی جانب نظر اٹھی تو دوپہر میں شہروز سے ہونے والی مڈبھیڑ یاد آ گئی۔

’’گاڑی میں بیٹھو۔‘‘ وہ اسٹور سے کچھ ضروری اشیاء لے کر باہر نکلی ہی تھی جب بلیک لینڈ کروزر کے ٹائر اس کے قریب آ کر چڑچڑائے اور اس کے لئے فرنٹ ڈور کھول کر وہ جس استحقاق بھرے انداز میں بولا تھا اس پر وہ اپنی جگہ کھول کر رہ گئی تھی، پھر لب کچلتے ہوئے قدرے رسان سے بولی۔

’’دیکھو میں مانتی ہوں میری غلطی ہے مجھے تم سے دوستی نہیں کرنی چاہیے تھی مجھے اپنے اس عمل پر افسوس ہے اب تم پلیز میرا پیچھا چھوڑ دو۔‘‘

’’تمہارے افسوس کرنے سے اب کیا ہوتا ہے جو بھول تم کر چکی ہو اس کا خمیازہ تو اب بھگتنا ہی پڑے گا آج شام آٹھ بجے مال روڈ پہ تمہارا ویٹ کروں گا اگر تم نہ آئی تو یاد رکھنا پھر میں آؤں گا۔‘‘ کہہ کر وہ زن سے گاڑی بھگا لے گیا تھا۔

سات بج کر پچاس منٹ ہو چکے تھے وہ برتن اٹھا رہی تھی مگر اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور جسم بالکل ٹھنڈا پڑا ہوا تھا وہ برتن واپس میز پر رکھ کر بیٹھ گئی۔

بس چند لمحے اور پھر گویا کہ قیامت آنے والی تھی وہ بیٹھ کر دس منٹ گزرنے کا انتظار کرنے لگی، پھر زیان کو دیکھا وہ کوئی فائل کھولے بیٹھا تھا ٹک، ٹک کی آواز کے ساتھ وقت گزر رہا تھا اور پھر یہ مسافت بھی سمٹ ہی گئی، آٹھ بج کر پانچ منٹ پر ڈور بیل بج اٹھی تھی زیان اٹھ کر بیرونی دروازے کی جانب بڑھ چکا تھا وہ اٹھی اور زیان کے پیچھے ہی چلی آئی، زیان نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور اس کے بدترین خدشوں کی تصدیق ہو گئی سامنے شہروز کھڑا تھا۔

’’تم یہاں۔‘‘ زیان نے حیرت بھری سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

’’ہاں میں تمہاری بیوی کا یہ بریسلیٹ لوٹانے آیا ہوں جو وہ غلطی سے میرے بیڈ روم میں بھول آئی تھی۔‘‘ اریب کی جانب استہزائیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ زیان سے مخاطب ہوا اور پھر خود ہی اس کا ہاتھ کھول کر اس پر بریسلیٹ رکھا اور چلا گیا۔

’’گڈ نائیٹ اریب! تمہارے ساتھ گزرا وقت ہمیشہ یاد رہے گا۔‘‘ جانے سے پہلے وہ پھر پلٹا اور جیسے اس کی بے بسی کا مکمل لطف لیتے ہوئے بولا۔

زیان ساکت سا کھڑا بے یقین نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا، اریب کا جی چاہا کاش زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے نظروں سے گرنے کا احساس کس قدر جان لیوا ہوتا ہے وہ بھی اس وقت جب نظروں میں بسے رہنے کا ارمان دل میں جاگزین ہو جائے، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے قریب سے گزرتا چلا گیا۔

’’زیان!‘‘ اریب نے پکارنا چاہا مگر الفاظ حلق میں ہی کہیں گھٹ کر رہ گئے۔

٭٭٭

وہ رات بھر گھر نہیں آیا تھا اریب کی نظریں دروازے پر ٹکی رہیں رات بھر وہ لفظوں کو توڑ توڑ کر جوڑتی رہی مگر ایسا کوئی متن وضاحت دلیل تیار نہ کر پائی جس سے زیان کی بدگمانی دور کر پاتی۔

اگلے روز وہ آیا اور آتے ہی بیڈ روم میں چلا گیا وہ اٹھ کر اس کے لئے ناشتہ بنانے لگی دس منٹ میں تیار ہو کر نیچے آیا تھا اریب کو اسے مخاطب کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

وہ اس پر اس میز پر سجے لوازمات پر اک نگاہ غلط ڈالے بغیر باہر نکل گیا۔

زیان کے نکلتے ہی دس منٹ بعد ماریہ چلی آئی تھی اریب اسے اتنی صبح صبح دیکھ کر حیران تو ہوئی مگر ظاہر نہ کیا۔

’’آؤ ماریہ بیٹھو۔‘‘ اریب نے اسے لاؤنج میں بٹھایا۔

’’ناشتہ کرو گی۔‘‘ برتن اٹھانے سے قبل اس نے ماریہ کو دعوت دی اور پھر اس کے انکار پر بغیر ناشتہ کیے پھیلاوا سمیٹنے لگی۔

’’یہ سب بعد میں کرنا پہلے یہاں آؤ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے۔‘‘ اس کا غیر معمولی انداز اریب کو چونکا گیا تھا، وہ برتن وہیں چھوڑ کر اس کے قریب آن بیٹھی، ماریہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

’’اریب کیا تم زیان کے ساتھ خوش نہیں ہو۔‘‘ وہ بغیر کسی تمہید کے گویا ہوئی، جبکہ اس اچانک اور قدرے غیر متوقع سوال پر وہ الٹا سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

’’آج صبح زیان آیا تھا ہاسپٹل، بہت ڈسٹرب لگا مجھے، میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتا دیا کہ تم اس کے ساتھ خوش نہیں ہو اور وہ تمہیں چھوڑنے کا فیصلہ کر چکا ہے وہ طلاق کے کاغذات تیار کروانے گیا ہے۔‘‘ ماریہ کے انکشاف پر وہ بے ساختہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس کی سیاہ آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔

’’ماریہ کیا تم اس کے وکیل کو جانتی ہو۔‘‘

’’میں وثوق سے تو نہیں کہہ سکتی مگر ایڈوکیٹ احتشام رضا میر کے ساتھ اس کی اچھی علیک سلیک ہے شاید وہ اسی کے پاس گیا ہو۔‘‘

’’تم میرے ساتھ چلو گی۔‘‘ اس نے کچھ جھجکتے ہوئے ہی کہا تھا۔

’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘

٭٭٭

’’یہ رہے تمہارے کاغذات۔‘‘ احتشام نے کاغذات اس کے سامنے رکھتے ہوئے اس کا شانہ ہولے سے دبایا۔

’’زیان ایک بار پھر سوچ لو۔‘‘ اور وہ اب سوچنا ہی تو نہیں چاہتا تھا اس نے خاموشی سے پن نکالا اور کاغذات کا رخ اپنی جانب موڑتے ہوئے پہلے صفحے پر سائن کر دئیے پھر دوسرے اور تیسرے پر اس کا قلم چلنے ہی والا تھا جب دروازہ ایک دھاڑے سے کھلا اور اریب کو دیکھ کر وہ حیران ہی تو رہ گیا تھا۔

اس نے آتے ہی طلاق نامہ اس کے ہاتھ سے لے کر ٹکڑے ٹکڑے کر کہ ہوا میں اچھال دیا۔

احتشام رضا میر اٹھ کر چیمبر سے باہر چلا گیا، اب کمرے میں دونوں اکیلے تھے۔

زیان خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا اور وہ ایکدم بھڑک کر اٹھی تھی۔

’’پہلے میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی تم نے زبردستی مجھے اپنایا اور اب جب میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں تو تم مجھے چھوڑنا چاہتے ہو سمجھتے کیا ہو تم خود کو جو تمہارے دل میں آئے گا تم کرتے پھرو گے ہر بار تمہاری من مانی نہیں چلے گی کچھ فیصلے میری مرضی سے ہوں گے۔‘‘ طیش کے مارے اس نے زیان کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا وہ اسے اس وقت اپنے حواس میں نہیں لگ رہی تھی، زیان نے نرمی سے اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹا کر جھٹک دئیے۔

’’تم نے جو کیا وہ قابل معافی نہیں ہے۔‘‘

’’میں تو بس اتنا جانتی ہوں کہ میں نے تم سے محبت کیا ہے باقی جو سب تھا وہ ایک سراب تھا جس نے مجھے اپنے فریب میں الجھا لیا تھا مجھے پلیز معاف کر دو میرے قدم بھٹکے ضرور تھے مگر لڑکھڑائے نہیں، وہ شخص مجھ سے بدلہ لینے کی خاطر جھوٹ بول رہا تھا وہ بریسلٹ میں خود اس کے منہ پر مار کر آئی تھی اس سے قبل کہ میں تمہاری جانب لوٹ پاتی اس نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ دھیرے دھیرے اس نے زیان کو سب بتا دیا تھا زیان نے خفگی سے بھرپور نگاہ اس پر ڈالی۔

’’اور تم نے یہ سب مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا جب وہ بریسلٹ لوٹانے آیا تھا تو میں کتنے ہی پل تمہارے سامنے منتظر کھڑا رہا کہ تم اس کی بکواس کو جھٹلاؤ گی، اپنی صفائی میں کچھ کہو گی مگر تمہاری خاموشی …‘‘ اس نے ایک پل کو توقف میں اس کے حلیے کا جائزہ لیا متورم آنکھیں زرد پڑتا چہرہ الجھے بکھرے بال اس کا دل کٹنے لگا تھا۔

’’تمہاری خاموشی نے ہی مجھے یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا تھا مجھے لگا تم میرے ساتھ خوش نہیں ہو میں تمہاری خوشی چاہتا ہوں رابی، تم مجھے اداس اچھی نہیں لگتی۔‘‘ اس نے بے ساختہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اس کی آنکھوں میں جھانکا تو وہ رو پڑی۔

’’بہت بری ہوں نا میں۔‘‘

’’نہیں بہت زیادہ تو نہیں ہاں مگر تھوڑی سی وہ بھی روتے ہوئے۔‘‘ وہ مصنوعی سنجیدہ تھا اریب روتے ہوئے ہنسنے لگی واپسی کا سفر بے حد خوشگوار تھا اور کیوں نہ ہوتا پت جھڑ نے آتی ہوئی بہار کو خوش آمدید کہا تھا، اب خزاں ان کی زندگی سے رخصت ہو رہی تھی۔

٭٭٭