صفحات

تلاش کریں

شخصیت: امرتا پریتم

تقسیم ہند سے پہلے والے پنجاب چلیے اور ملتے ہیں ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ والی امرتا سے!
31 اگست، 1919 میں گجرانوالہ کی سرزمین پر امرتا کور نامی پہلی اور اکلوتی اولاد نے راج کور اور کرتار سنگھ کے یہاں قدم رکھا۔ والدہ استانی اور والد صاحب بنیادی طور پر شاعر تھے لیکن پیشے کی مناسبت سے وہ بھی استاد تھے۔ دونوں ایک سکول میں پڑھاتے تھے۔ امرتا نے بھی جلد ہی پڑھنا لکھنا شروع کر دیا، امرتا جب گیارہ سال کی ہوئی تو اس کی ماں کا انتقال ہوگیا ،باپ بیٹی گوجرانوالہ چھوڑ کر لاہور آ بسے۔
امرتا نے نظمیں لکھنا شروع کر دیں، اس کی نظمیں کرتار سنگھ کے ایک دوست جگت سنگھ کو بہت پسند آئیں، جس پر اس نے اپنے بیٹے پریتم کے لئے امرتا کا ہاتھ مانگ لیا۔ کرتار سنگھ نے بھی فوراً ہاں کر دی اور یوں 16 سال کی عمر میں امرتا کی شادی ہو گئی اور وہ امرتا پریتم بن گئی۔ اسی سال ہی اس کی نظموں کی پہلی کتاب بھی شائع ہو گئی تھی۔
 تقسیم ہند کے بعد دہلی میں رہائش پذیر ہوگئی لیکن تقسیم پنجاب کے وقت ہونے والے خونی واقعات نے امرتا پریتم کے دل ودماغ پر قبضہ جمائے رکھا ، خون کی بہنے والی ندیاں پار کرتے ہوئے اس نے خواتین اور معصوم بچوں کی چیخ و پکار جس طرح سنی اور اسی طرح سپرد قلم کردی ۔
امرتا پریتم کی شاعری میں مشرقی عورت ظلم و جبر سفاکیت و بربریت کی چکی میں پستی ہو ئی نظرآتی ہے ،امرتا پریتم کی سب سے زیادہ شہرہ آفاق نظم اج آکھاں وارث شاہ نوں ہے۔ اس میں امرتا  وارث شاہ کودہائی دیتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ، اے دکھی انسایت کے ہمدرد تو نے پنجاب کی ایک بیٹی کے المیے پر پوری داستانِ غم رقم کر دی تھی، آج تو ہیر جیسی لاکھوں دُخترانِ پنجاب آنسوؤں کے دریا بہا رہی ہیں۔ اُٹھ اور اپنے مرقد سے باہر نکل!
اصل پنجابی متن کچھ اس طرح سے ہے۔

اَج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لِکھ لِکھ مارے وين
اج لکھاں دھي آں روندياں تينوں وارث شاہ نوں کیہن
اٹھ دردمنداں دیا درديا اٹھ تک اپنا پنجاب
اج بيلے لاشاں وِچھياں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دِتّی زہر رلا
تے اوہناں پانیاں دھرتی نوں دِتّا پانی لا
ایس زرخیز زمین دے لوں لوں پھٹیا زہر
گِٹھ گِٹھ چڑھیاں لالیاں، فٹ فٹ چڑھیا قہر
ویہو ولسی وا فیر ون ون وگی جا
اوہنے ہر اک بانس دی ونجلی دتی ناگ بنا
ناگاں کِیلے لوک منہ، بس فر ڈنگ ہی ڈنگ
پلو پلی پنجاب دے نیلے پے گئے انگ
گلیوں ٹٹے گیت فیر ترکلیوں ٹٹی تند
ترنجنوں ٹٹیاں سہیلیاں چرَخڑے کوکر بند
سنے سیج دی بیڑیاں لُڈن دِتیاں روڑ
سنے ڈالیاں پینگھ اج پپلاں دتی توڑ
جتھے وجدی سی پھوک پیار دی اوہ ونجھلی گئی گواچ
رانجھے دے سبھ ویر اج بھل گئے اُس دی جاچ
دھرتی تے لہو وسیا قبراں پئیاں چون
پریت دیاں شاہ زادیاں اج وچ مزاراں رون
اج سبھے کيدو بن گئے ، حُسن عشق دے چور
اج کتھوں ليائیے لبھ کے وارث شاہ اک ہور
اج آکھاں وراث شاہ نوں کِتوں قَوّراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول


امرتا پریتم نے سو سے زائد کتابیں لکھیں، جن میں شاعری کے علاوہ کہانیوں کے مجموعے، ناول اور تنقیدی مضامین کے انتخابات بھی شامل ہیں۔ کاغذ اور کینوس، خاموشی سے پہلے، ستاروں کے لفظ اور کرنوں کی زبان، کچے ریشم کی لڑکی، رنگ کا پتہ، چک نمبر چھتیس، ایک تھی سارا، من مرزا تن صاحباں، لال دھاگے کا رشتہ، لفظوں کے سائے، درویشوں کی مہندی، حجرے کی مٹی، چراغوں کی رات، پنجر، کورے کاغذ ،انچاس دن ،ساگر اور سپیاں ،ناگ منی ،دل کی گلیاں ،تیراہوں سورج ، نویں رت ،چنی ہوئی کویتائیں ، رسیدی ٹکٹ (آپ بیتی) وغیرہ۔ آخری کتاب، میں تمہیں پھر ملوں گی، نظموں کا مجموعہ تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم پر ان کے ایک ناول پنجر پر اسی نام سے فلم بھی بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تخلیقات پر 9 سے زائد فلمیں اور سیریل بن چکے ہیں۔
امرتا پریتم کی تمام تحریریں شاہ مکھی (اُردو رسم الخط کی پنجابی) میں شائع ہوچکی ہیں ۔ وہ اس بات کی خواہش رکھتی تھیں کہ دونوں ممالک کے پنجابی ادب کو شہ مکھی اور گور مکھی میں منتقل کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کی نئی نسل کو ادب کو جاننے کا موقع مل سکے ۔ ان کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش، مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں کیا گیا۔ پاکستانی پنجاب کے ادیبوں، شاعروں سے بھی امرتا پریتم کی گہری دوستی تھی۔ 
امرتا پریتم بھارتی ایوان کی رکن بھی رہی ،دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی تین اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982ء میں انہیں پنجابی ادب کی عمر بھر کی خدمات کے اعتراف پر اعلیٰ ترین گیان پیتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔وہ ساہتیہ اکیڈمی ایورڈ پانے والی اورصدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی پہلی پنجابی بھارتی خاتون تھیں۔ انہیں پدم شری کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ پنجابی زبان کی صدی کی شاعرہ کا ایوارڈ دیا گیا۔ امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامہ میگزین محفل نے امرتا پریتم پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا۔ 1948ء سے 1959ء تک آل انڈیا ریڈیو میں بطور پنجابی اناؤنسر کام کیا۔ مئی 1966ء سے 2001ء تک پنجابی رسالے۔۔ ناگ منی، کی ادارت کی ذمہ داری سر انجام دیتی رہی ہیں۔
امرتا پریتم کا ساحر لدھیانوی کے ساتھ معاشقہ ادبی دنیا کے مشہور معاشقوں میں شمار ہوتا ہے، جس کے بارے میں ان کی کتاب رسیدی ٹکٹ میں موجود ہے۔ امرتا ہندو تھیں اور ساحر مسلمان ۔ امرتا ساحر کے عشق میں گرفتار ،خوابوں خیالوں میں کھوئی اس کا انتظار کرتی رہی، لیکن ساحر نے فیروزہ سے شادی کر لی مگر امرتا ساحر کے سحر میں ڈوبی رہی۔ امرتا اور پریتم کی شادی زیادہ عرصہ نا چل سکی ۔ اور اس کی وجہ ساحر بنا تھا مگر امرتا نے بعد ازاں آرٹسٹ امروز سے شادی کر لی تھی۔
 تاعمر انہوں نے اپنے نام کے آگے کور کی جگہ پریتم لگا ئے رکھا۔ جچتا بھی تھا، آخر امرتا پریتم کی زندگی پریت ہی پر تو مبنی تھی۔  کم عمری میں رشتہ جڑنے اور ختم ہونے کی چھوٹی سی داستان امرتا پریتم نے اپنی کتاب رسیدی ٹکٹ میں لکھی ہے۔ پرانے وقتوں میں اپنے شوہر سے الگ ہوجانا اور وہ بھی دوستانہ طریقے سے، ایک طرح کا سوال تھا۔ اس سوال کو بغیر امرتا پریتم اور پریتم سنگھ سے پوچھے، کئی لوگوں نے خود سو طرح جواب دینے کی کوشش کی۔ جب کہ بات بڑی معمولی مگر گہری تھی۔ امرتا پریتم اپنے شوہر کے ساتھ تو تھیں، پاس نہیں تھیں۔ ان کی نظر میں یہ پریتم سنگھ کی حق تلفی تھی۔

 امروز امرتا پریتم کی زندگی کا وہ کردار ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جب آپ کسی سے عشق کرتے ہیں تو اس کے عشق سمیت اس کو اپناتے ہیں۔ بقول امروز
"مجھے افسوس رہے گا کہ امرتا پریتم میری زندگی میں بہت دیر سے داخل ہوئیں۔"

امرتا پریتم کا 86 سال کی عمر میں 31 اکتوبر 2005ء میں انتقال ہوا