ارے میں لُٹ گیا۔ گھر اجڑ گیا میرا۔ کیسا ظلم ہو گیا۔۔۔ میری عابدہ مجھے چھوڑ گئی مار دیا ظالم نے۔۔
ایسا چھرا مارا۔ سب لے گیا چھین کے۔۔ اب کیا ہو گا؟۔
نعیم نے مصنوعی بناوٹی اندازسے چیخ چیخ کر دہائی دی۔۔ ساتھ اپنے گرد و پیش پہ کنکھیوں سے ایسے دیکھا جیسے اسے یقین ہو کہ، کسی کو اس کی بات پہ اعتبار نہ آیا ہو گا۔۔۔ سو وہ بڑبڑاتا ہوا اپنا منہ گھٹنوں میں داب کر اُکڑوں بیٹھ گیا۔ اور یہی ہوا۔ محلے داروں میں سے کسی نے نہ تو اس کی بات سننے کے لئے سر اٹھایا نہ اس کے مگرمچھ کے آنسوؤں سے متوجہ ہوئے۔ کسی نے دلاسا تک نہ دیا۔۔ سب بت بنے میلی کچیلی سی دری پہ افسردہ بیٹھے مرنے والی پہ کف افسوس بھر رہے تھے۔ یہ جنازے میں شرکت کی خانہ پوری بھی تھی اور بے بسی بھی۔ بے بسی بھی کیا چیز ہے کب انسان کو بے حسی تک لے آتی ہے اسے خبر ہی نہیں لگتی۔ یہ محلہ محنت مزدوری کرنے والوں سے آباد تھا۔ گو کہ شہر کے سب سے مہنگے علاقے سے متصل تھا لیکن اُدھڑی ہوئی سڑکوں اور جا بجا کوڑا کرکٹ کے ڈھیر نے اس علاقے کی شکل بگاڑ کر بالکل کچی بستی کی سی کر دی تھی۔ وہاں مقیم لوگوں کو اب عادت پڑ گئی تھی یا پھر پیٹ بھرنے کی فکر نے ان سے باقی کی حسیات چھین لی تھیں وہ بھول چکے تھے کہ وہ بھی شہری ہیں کسی گاؤں گوٹھ کے باسی نہیں۔ گوٹھ جو کسی جاگیردار کے استحصالی نظام پہ کھڑا ہوا ہوتا ہے۔ اور شہر جہاں بلدیہ ہوتی ہے لیکن اب ایک ڈگر پہ چل پڑے تھے۔۔ یوں تو بنیادی ضروریات پر سب کا حق ہے اس میں تفریق کیا۔ مگر تفریق تو انگریز کے وقتوں سے پڑ چکی تھی، امیر اور غریب کی تفریق۔ اور اب یہی تفریق تمام طریق پہ بھاری ہو گئی تھی۔ بنیادی سہولیات کے فقدان اور حصول نے ان شہریوں کی سوچ روٹی، کپڑے تک محدود کر دی تھی۔ اور بعض تو صرف روٹی تک محدود تھے۔
نعیم اور عابدہ کا حال بھی یہی ہو چلا تھا۔ بلکہ اکثر کا حال یہی تھا۔ لیکن عابدہ کے گھر کی بدحالی نعیم کے نشہ کرنے کے باعث ابتر تھی۔ اس پر وہ خود کسی گھریلو، علمی ہنر سے عاری تھی کہ کچھ اپنا بہتر انتظام کر لیتی۔ غریب کے ہاں لڑکی کے لئے سب سے بہترین سوچ بس یہی ہے کہ برسر روزگار لڑکے کا رشتہ مل جائے۔ اور وہ اپنے گھر کی ہو جائے۔ عابدہ بھی ایسے ہی گھر کی لڑکی تھی۔ اگر چہ چند جماعتیں پڑھی تھی۔ لیکن وہ اس معاشی بدحالی سے نکلنے کے لئے نا کافی تھیں۔ یہ بدحالی بیچارگی، افلاس اور بھوک بھی کھینچ لائی تھی۔ جہاں لڑکوں کی تعلیم اور روزگار کے مواقع معدوم ہوں وہاں لڑکی کے لئے کچھ ہونا بعید از قیاس کیا نا ممکن ہے۔ اس کا حق یہ بنتا ہے کہ، زیادہ نہ سہی کم از کم برابری کی تعلیم تو ہو۔ لیکن نہیں، ان بستیوں میں یہ بھی نہیں۔۔ ایسے میں شادی، غریب ذہن میں لڑکی کی بہترین منزل ہے۔ کچھ بہتر سوچ کے بجائے یہی تخصیص و تخفیف سوچ کا عمل رائج العام ہو چلا تھا۔ اس بستی میں بھی یہی کچھ تھا۔ ہاں اگر کچھ باقی تھا تو محلے داری۔ دو وقت کی روٹی کا حصول ان کا معمول تھا اور کام بھی۔ ایسے میں کسی کا روزگار چھوٹتا تو محلے والے سر جوڑ کے بیٹھتے، آپس میں صلاح مشورہ کرتے جس سے جو بن پڑتا وہ کرتا۔ مگر چند دن۔ اس کے بعد مدد محض زبانی کلامی رہ جاتی۔ اسی کو یہ لوگ بہترین محلے داری سمجھتے تھے۔ عابدہ کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا تھا۔ اس کے حالات سے سب محلے والوں کو ہمدردی تھی لیکن سات آٹھ سال کے طویل عرصے میں عابدہ بہت اکیلی ہو گئی تھی۔ نعیم اس کے سرپرست، اس کے مجازی خدا کی نشے کی لت شدید سے شدید تر اور گھریلو زندگی تلخ سے تلخ۔ ایسے میں وہ بھول چکی تھی کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے۔ وہ اپنے دونوں بیٹوں کے لئے ہمت پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اپنے بیٹوں کو وہ معاشرے کا اچھا، پڑھا لکھا شہری بنا نا چاہتی تھی۔ جیسا کہ ان کا باپ تھا، نشے کی لت سے پہلے۔ اسے نعیم سے نہ صرف محبت تھی بلکہ وہ اس کی تعلیم کی وجہ سے قدر بھی کرتی تھی۔ یہ اچھا وقت اس سے جلد چھن گیا۔ کئی سال برداشت اور ہمت کے بعد اب حالات میں تنگی آ رہی تھی۔ چند سال پہلے نعیم نے نشہ پورا کرنے کے لئے بھیک مانگنی شروع کی۔ تب سے عابدہ کو نعیم کی بھیک مانگ کر نشہ کرنے کی عادت نے توڑ کے رکھ دیا تھا۔۔ وہ نعیم کے اچھا ہونے اور علاج کرانے کی ہر امید ختم کر چکی تھی۔ اسے بھی کسی طور برداشت کر گئی۔ لیکن جب چند دن قبل نعیم نے بچوں کو بھیک مانگنے کے لئے چورا ہے پہ کھڑا کیا تو گویا عابدہ پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔ اسی حرکت کے بعد عابدہ نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے نعیم کو پہلی بار کوسا، برا بھلا کہا، جو دل میں آئی سنائ، پولیس کی دھمکی دی اور پھر آخر میں نعیم کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیا تھا۔ عابدہ کے حالات وقت کی دھول سےا ٹ کر معمولات کے پہیے میں یوں گھوم گئے تھے۔۔۔ جیسے کبھی اچھے ہی نہ تھے۔۔۔۔ جیسے بستی میں پڑا کوڑا کرکٹ یا ادھڑی ہوئی سڑکیں۔۔ جو شہری زندگی کا بد نما اور لازمی جز بن گئی تھیں۔ اس کی زندگی بھی معاشی بدحالی کے پہیے میں گھوم رہی تھی روز بہ روز گھرہستی کی بنیادیں ادھڑ رہی تھیں۔ وہ بھی اچھے دن بھول چکی تھی۔ کچھ یاد تھا تو بچوں کا مستقبل۔ ایسے میں اسے نعیم کو گھر سے نکالنے کے بعد انجانی خوشی کا احساس ہوا تھا، جیسے وہ اپنے بچوں کے ساتھ جلتی دھوپ سے کسی سایہ دار درخت کے نیچے آ کھڑی ہوئی ہو، جیسے اس نے اپنے بچوں کو کسی پیشہ ور گداگر، نشئی یا کسی جرائم پیشہ سے محفوظ کر لیا ہو۔ بچوں کے مستقبل کے لئے جو اسے ٹھیک لگا اس نے کر لیا۔ لیکن کتنے دن۔ محض چند دن۔۔
دیکھو تو کیسا رونا ڈالا ہوا ہے جیسے خود تو اسے پھولوں کی طرح رکھتا تھا۔ بیچاری روز مار کھاتی تھی۔ اور اب ٹسوے بہانا دیکھو۔
کسی محلے دار کی آواز ابھری۔
ہاں بھئ!! کیا ظلم ہے رات بھر بیچاری گھر کے دروازے پہ پڑی رہی۔
کسی طرف سے دوسرے محلے دار نے اپنے قریب بیٹھے شخص کے کان میں سرگوشی کی۔ کچھ اور چہ مہ گوئیاں شروع ہوئیں۔۔
جب سے اس نے نشہ کرنا شروع کیا سمجھو سب ڈوب گیا۔۔ بس اللہ سب کو محفوظ رکھے۔
لیکن ہوا کیا تھا؟ اس ہیرونچی کی بات کا کیا اعتبار۔ یہ تو صبحے سے اول فول بک رہا ہے۔
کسی نے با آواز بلند کہا۔۔
پولیس کیس ہے، قتل ہوا ہے۔ میں تو کہتا ہوں پولیس کو خبر کرو وہی سچ اگلوائے گی اس نشئی سے۔
نعیم نے پولیس کا نام سنتے ہی رونا دھونا بند کیا۔۔ ویسے تو اسے نشئی کا لفظ سنتے ہی طیش چڑھ جاتا تھا۔ جیسے وہ نشئی نہ ہو بلکہ کوئی اور اسپر اپنا الزام دھرتا ہو۔ لیکن اسوقت پولیس کا نام سنکر اس کا رہا سہا نشہ بھی ٹوٹ گیا۔ نشہ ٹوٹنے کی اس کیفیت میں اگر اس کے سامنے اسوقت جیتی جاگتی عابدہ ہوتی تو خوب پٹتی۔ اسوقت تک گالیاں کھاتی رہتی جب تک نعیم کی زبان نہ تھکتی۔ اور پھر مار پیٹ لڑائی جھگڑا شروع ہوتا جو اس وقت تک جاری رہتا جب تک نعیم کے ہاتھ پیسے نہ لگ جاتے یا وہ نشہ نہ کر لیتا۔ یہ اس کا کم و بیش روز کا قصہ تھا۔ نعیم کے ساتھ عابدہ کی زندگی بس یہی تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔۔
اس وقت بھی نعیم بہت بپھر گیا
پولیس۔۔ ایں۔ ں۔۔ مجھ سے۔ مجھ سے کیوں پوچھے گی۔۔۔ وہ کیوں آئے گی۔ اے۔۔ کچھ تو شرم کرو۔ حیا کرو۔۔ بیوی میری قتل ہوئی ہے۔۔ یہ کام پہلوان کے بیٹے کا ہے اور کون ہے اس محلے میں غنڈہ بدمعاش۔ بتاؤ؟۔ وہی سارے روپے بھی چھین کر لے گیا۔
سچی یا جھوٹی کہانی گھڑتے ہوئے نعیم کھسیانا سا ہو کر رہ گیا۔ پھر آہستہ سے بولا۔۔
پیسے بھی گئے۔ ہائے۔۔۔ اب کیا کروں گا۔ کب سے نشہ نہیں کیا۔
رقم جانے کا ہی افسوس اسے سب سے زیادہ تھا۔ عابدہ کی موت سے بھی زیادہ۔ لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا کہ پیسوں کا ذکر اس کو مصیبت میں ڈال سکتا ہے۔۔ سو وہ گاہے گاہے پہلوان کے بیٹے کو کوس رہا تھا۔ جس نے نعیم سے روپے چھین لئے تھے وہ روپے جو رات کو نعیم نے عابدہ سے زور زبردستی، مار پیٹ، اور گھر سے دھکے دیتے ہوئے چھینے تھے۔ بعد میں باورچی خانے سے چاقو اٹھا لایا تھا۔ اسے یقین تھا کہ، اگر آج عابدہ کو نہ ڈرایا تو وہ پھر ہمیشہ کے لئے نعیم کو گھر سے، اپنی زندگی سے بے دخل کر دے گی۔ اور پھر آگے اس کے نشے کے لئے نہ روپے کا کوئی ذریعہ ہو گا نہ کوئی بیچنے کے لئے سامان۔ کیوں نہ وہ عابدہ کو ہی نکال باہر کرے۔ نعیم یہی کر رہا تھا۔ بچوں کو سوتا دیکھ کر وہ اور مستعد ہو گیا تھا۔ محتاط تھا کہ محلے والے نہ آ جائیں۔ ہاتھ لگے روپے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کہیں کوئی صورت نہیں تھی کہ بیٹھے بیٹھے رقم ملتی۔۔ سو اس کی گالم گلوچ بھی اتنی آہستہ تھی کہ، عابدہ اس کی حرکت سمجھ نہ پائی۔ کرے تو کیا کرے۔۔ وہ مدد کے لئے بلانا، چلانا بھی جیسے بھول گئی۔ عابدہ کو شاید نعیم سے اب اس پھرتی اور طاقت کی امید نہیں رہی تھی۔ اب نعیم تھا بھی تو کیا۔ ہڈیوں کا پنجر۔ مشکل ہی سیدھا کھڑا رہ پاتا تھا کہیں کے قدم کہیں پڑتے تھے۔ لیکن اس وقت اس کا نشہ گویا اندر ہی اندر اس کو للکار رہا تھا۔۔۔ غیرت دلا رہا تھا۔۔ سو وہ اس قدر پھرتی سے عابدہ کو گرفت میں لے رہا تھا کے عابدہ نہ سنبھل پائی نہ مدد کے لئے کسی کو پکار سکی۔ سب انا فانا ہوا۔ اس نے مزاحمت کی لیکن بے سود رہی۔ روپے محفوظ رکھنے، خود کو بچانے میں وہ اپنا توازن نہ رکھ سکی اور گر پڑی۔ نعیم نے پھرتی سے روپے چھینے یہ جا وہ جا۔۔۔۔ اسی چھینا جھپٹی میں کب عابدہ کے چاقو لگا وہ جان نہیں سکی۔ وہیں دم توڑ گئی۔ نعیم کے سامنے رات کا واقعہ چھپا کے، کی طرح نظر سے گزرا۔۔۔ وہ ادھر ادھر ہاتھ چلاتے بولا۔۔۔ جیسے سب ابھی ہو رہا ہو۔
اے۔۔ اے۔۔ ہٹ پرے۔۔۔ اے۔ اس کے علاوہ اور کون چھرا گھونپے گا۔ وہ ہے ہی بذات۔ اس کو جیل کراؤ۔۔۔ لے گیا سب لے گیا۔۔۔۔۔ ہائے۔۔۔ میں رنڈوا ہو گیا۔ میرے بچے تو ماں کی ممتا کو ترسیں گے۔ موت آئی تھی مر گئی۔۔۔ مجھے تو سالی نے گھر سے نکال دیا تھا۔ سر پرست ہوں۔ جوتیوں میں پہننے لگی تھی مجھے۔ کام کیا کرنے لگی تھی جوتیوں میں پہن رہی تھی۔ اتنے دن کھلایا پلایا سب بھول گئی۔ تو آوارہ پھرے گی تو یہی ہو گا۔ اب چاہتے ہو میرے بچے میرے سائے سے بھی محروم ہوں۔
نہ چاہتے ہوئے بھی معمولات کی خرافات اس کے منہ سے نکل گئیں۔ بمشکل خود کو روکتے ہوئے بولا۔۔
صبح دروازے پہ مری پڑی تھی۔۔۔ میں تو بچوں کو دیکھنے آیا تھا۔۔ سچ بول رہا ہوں۔۔
محلے والوں نے اس کی ہر بات پہ اس بے چینی سے پہلو بدلا اگر کوئی اور دن ہوتا تو وہ اس کی ٹھکائی کر دیتے۔ لیکن وہ مصلحتاً خاموش رہے۔۔
میں نے صبر کر لیا۔ ان بچوں کو۔۔ کون۔۔ سمجھائے گا کون سنبھالے گا۔ بتاؤ۔ آئے ہمدرد۔ محلے والوں کے کان نہ دھرنے پر نعیم کو طیش تو بڑا آیا وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا کے رہ گیا۔
اتنے روپیے تھے۔۔ سب گئے۔۔۔ دھت پرے۔ اے ہو گی کسی یار کے ساتھ۔۔۔ نعیم کی کہانی من گھڑت، کچی پکی سہی لیکن عابدہ کی موت ایک بھیانک حقیقت تھی۔ محلے والے چاہ کر بھی اس بھیانک حقیقت سے خود کو الگ نہیں کر پا رہے تھے۔ لیکن سانحے سے لا علم اندھیرے میں تھے، سو اس نشئی سے بھی الجھ گئے۔
یہ تو تمھارے سوچنے کی بات تھی کہ بچے کون سنبھالے گا۔ اب بھی وقت ہے علاج کرواؤ اپنا۔ نشہ چھوڑ دو تو، محلے والے تمھارا ساتھ دیں گے نعیم بھائی۔ اپنے بچوں کا سوچواب عابدہ بھابھی بھی نہیں رہی۔۔۔ بے چاری ان کو کسی طرح پال پوس رہی تھی۔
نعیم نے عجیب انداز سے سر کھجانا شروع کر دیا۔
ورنہ تمھیں پولیس کو دے دیں گے سب محلے والے۔
کسی نے پھر پولیس کا ڈراوا دیا۔۔
تم تو میرے بچوں کو بالکل لا وارث کرنا چاہتے ہو۔ نشہ کرتا ہوں اپنے پیسے سے کرتا ہوں تمھاری کیا دشمنی ہے مجھ سے۔ جو میرے بچوں کو باپ کی شفقت سے محروم کرنا چاہتے ہو۔
باپ کی شفقت ہونہہ۔۔ اپنے نشے کی لت پوری کرنے کے لئے تم نے کتنی بار اپنے بچوں کو بھیک مانگنے کے لئے چورا ہے پہ کھڑا کیا ہے۔ تمھاری یہی گھناؤنی حرکت عابدہ بھابھی سے برداشت نہیں ہوئی۔ اسی لئے عابدہ بہن اب تم کو گھر میں گھسنے نہیں دے رہی تھی۔ یہ تو ہم سب کو پتہ ہے۔
ایک اور پڑوسی نے نفرت سے نعیم کو حقیقت کا آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔ نعیم ایک طرف دبک رہا۔
یہ کب کیا اس نے؟ عابدہ بہن تو بھیک مانگنے کو لعنت سمجھتی تھی۔ یاد نہیں جب یہ خود بھیک مانگ مانگ کر نشہ کرنے لگا تھا تو عابدہ بہن ایک ایک کے گھر جا کر روئی تھی۔ اس سے قطع تعلق کرنے کی بات کی تھی۔ کاش اس وقت ہم نے بیچاری کی بات سمجھی ہوتی اس کی مجبوری سمجھی ہوتی۔
ایک اور پڑوسی نے دکھ اور پشیمانی سے کہا۔ جو اپنی دانست میں نعیم اور اس کے گھر کے معاملات سے قطع تعلق ہو کر اپنے تئیں بری ذمہ ہو چکا تھا۔ اب محلے داری کے فرائض پھر نبھانے آیا تھا۔
بھائی اب یہ پچھلے تین چار دن سے بچوں کو بھیک منگوانے لے جاتا رہا ہے۔ عابدہ بہن دن میں ہوتی نہیں تھی رات میں یہ گھر سے غائب۔ محلے والوں نے عابدہ بہن کو خبر کری۔ تب سے اُس دکھیا نے ٹھان لی تھی کہ اب اس نشئی کو کو گھر میں گھسنے نہیں دے گی۔
ایک اور پڑوسی نے بات کو جاری رکھتے ہوئے تازہ ترین معلومات فراہم کیں۔
عابدہ بہن کوی ہ کام بہت دن کے بعد ملا تھا۔ اس کا نشہ پورا نہیں ہو رہا ہو گا نا۔ تو یوں کیا اس نے۔ نامعلوم کون لوگ یوں کھلے عام موت بیچتے پھر رہے ہیں۔ نشہ کرنے والے مریں یا نہ مریں لیکن ان کے گھر والے بیوی بچے زندہ درگور ہو جاتے ہیں جیتے جی مر جاتے ہیں۔
ہاں بھئی۔
دوسرے نے ہاں میں ہاں ملائی۔
ہاں میرے مرنے کی دعا مانگو۔۔ کہہ رہا ہوں رات گھر پہ آ گیا تھا۔ توبہ کر لی تھی میں نے۔۔۔ اب نشہ نہیں کروں گا۔ لیکن نکال دیا منحوس نے۔ سرپرست تھا اس کا۔ کتنی خود مختار ہو گئی تھی۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہا۔ سب چلے ہمدرد بننے۔
نعیم نے اپنے بچھے کھچے حواس سے بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن محلے داروں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا رکھا۔ ان میں سے ایک زچ ہو کر بولا۔
تم نے صبح آ کر اس کی موت کی خبر دی نشے کے بعد تو تم کو ہوش بھی نہیں ہوتا کئی کئی دن کچرا کونڈی پہ پڑے رہتے ہو۔ یا گھر پہ سوئے پڑے رہتے ہو۔ لیکن جب عابدہ بہن نے تم کو گھر سے نکال دیا تھا تم رات کو گھر آ ہی نہیں آ رہے تھے۔ لیکن کل آئے۔
نعیم کی گہری خاموشی دیکھ کر ایک اور پڑوسی نے اور بات جوڑی۔
کل تم پیسے ہتھیانے آئے تھے نا۔۔۔!!! پیسے تم نے اس بار اپنی بیوی کو مار کے ہتھیائے اور چلتے بنے۔ سات آٹھ سالوں سے تم کو نشہ کرتے دیکھ رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں۔ تم کیا کیا کرتے ہو۔ سارا محلہ گواہ ہے۔ تم کیا کیا کر سکتے ہوسب کو پتہ ہے۔ تم کو پولیس کوہی دینا چاہئے۔ تم اب اس محلے میں رہنے کے لائق نہیں ہو۔ بلکہ کسی محلے میں رہنے کے قابل نہیں رہے۔ تم نے اپنی بیوی کا قتل کیا ہے۔ لیکن محلے والے نہیں چاہتے پولیس کیس ہو۔ میں بھی یہی چاہتا ہوں تم سے ہماری جان چھوٹے۔۔
پڑوسی ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ جنازے میں شامل ہونے والے چند محلے دار جمع تھے سب ہی گاہے گاہے بول پڑے
ہاں صحیح کہہ رہے ہو بھئی۔
لیکن کریم چاچا محلے کا بڑا ہے وہ یہی چاہتا ہے۔۔ کہ محلے میں پولیس نہ آئے خواہ مخواہ محلے والے تھانے میں خواری بھگتے پھریں گے۔
اسے تو سزا بھی نہیں ہو گی۔ کہیں علاج کے لئے پڑا ہو گا۔ ہم رہ جائیں گے پیچھے پولیس کو بھگتے رہیں گے۔ کیوں بھائی۔
ہاں ہاں۔۔ ہم روز کی دھاڑی پہ کام کرنے والے لوگ ہیں پولیس کیس ہو گیا تو مفت میں پسائی میں آئیں گے۔ پولیس سے جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی۔ اس کا کیا کہیں بھی پڑ جائے گا۔
سب ہی بول پڑے۔ سب نے آپس میں ہاں میں ہاں ملائی۔ نعیم ڈھٹائی سے اس پڑوسی سے بولا جو پولیس بلانے کے حق میں تھا۔
سن لو۔ جیل کرائے گا آیا بڑا۔ جب میں نے کچھ کیا نہیں۔۔۔۔ میت اندر رکھی ہے۔۔ بجائے اس کے کہ، میرے ساتھ کفن دفن کا انتظام کرو۔۔ میری دل جوئی کرو۔۔ کچھ روپے ہاتھ پہ رکھو۔ چلے پولیس لانے۔۔۔۔۔ کوئی دعا ہی کرو۔
اپنی قمیض کا پچھلا دامن سر پہ کھینچنے کی کوشش کرتا ہے گلی ہوئی قمیض کا دامن سر تک آنے سے پہلے ہی پھٹ جاتا ہے وہ دامن کے چیتھڑے سے سر ڈھانپ کر دعا کرنے لگتا ہے۔ اس کی اس حالت پہ چند لوگ کف افسوس ملتے ہیں
کیا حالت ہو گئی۔ رحم کھانے جیسا، ہے بھی اور نہیں بھی۔ ا
یک اور محلے دار بولا
کپڑوں تک پہ خون لگا ہوا ہے لیکن کیسی کہانیاں بنا رہا ہے یہ دیکھو۔
پھر کچھ نے آپس میں سرگوشی کی۔
روپے اس کے پاس سے نہیں نکلے ورنہ یہ ابھی ہوتا نہیں یہاں۔ اس کے لئے کیا مرنا کیا جینا۔
صحیح بات ہے۔ ممکن ہے عابدہ بہن کے پاس پیسے ہوں ہی نہیں؟ اور غصے میں اس نے ان کو مار ڈالا۔
نہیں نہیں۔ رات کریم چاچا کی دکان پہ گاڑی سے اتری تھی۔ ناشتہ کا سامان لینے۔ تب ہی اس نے چاچا کا ادھار بھی چکایا۔ اور چاچا کو بتایا کہ اس کو صدقے کے اتنے روپے مل گئے ہیں کہ آرام سے مہینے دو مہینے گزر جائیں گے۔ بڑے اونچے گھر کی شادی تھی چاچا کے پاس سامان ختم ہو گیا تھا انھوں نے کہا صبح پہنچا دیں گے یہ وہیں ان کی نکڑ والی دکان پہ بنا پڑا ہوا تھا۔ چاچا نے اسے پیچھے جاتے دیکھا ہے۔ اور بیچاری کو صبح ہی نصیب نہیں ہوئی۔ توبہ توبہ۔
کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔
لیکن اس کا بندوبست کرنا پڑے گا؟۔
ہاں!مگرسچ تو پتہ چلے کہ ہوا کیا تھا؟ اب قاتل کوتو ایسے نہیں چھوڑ سکتے۔
عابدہ کے گھر سے ایک خاتون کی آواز ابھری۔۔
آپ میں سے کوئی قرآن شریف یا چییے پڑھے گا تو اندر سے بھیج دوں؟۔
مردانے میں سب کو چپکی سی لگ گئی۔ سب اپنی بغلیں جھانکنے لگے جیسے کسی نے جنازے میں فلم دیکھنے کی بات کر دی ہو۔ گہری خاموشی پہ وہ خاتون دروازے سے جھانکی کہ ممکن ہے ان کی آواز نہ پہنچی ہو۔
یہاں بے ادبی ہو گی بہن ہم مسجد میں پڑھ لیں گے۔
ان کو جھانکتا۔ دیکھ کر مردانے سے آواز ابھری۔ وقت ایسے گزر رہا تھا جیسے ایک ایک لمحہ سو سو سال کا ہو گیا ہو۔ اب بھی آدھا گھنٹہ باقی ہے ظہر کی نماز میں۔ کریم چاچا کفن دفن کا انتظام کرنے گئے ہیں دعا کرو سب کچھ خیر و خیریت اور خاموشی سے ہو جائے۔
کہنے والا یہ بات کہہ کر ادھر اُدھر ہو گیا۔ اندر سے پھر ایک عورت کی آواز آئی۔ کب اٹھائیں گے؟ ظہر کی نماز کے بعد۔
مردانے میں سے آواز آئی۔
میرے میاں شبیر صاب کہہ رہے ہیں فاتحہ کا کھانا آج ان کی یعنی ہماری طرف سے ہو گا۔ وہ کہہ رہے ہیں کل کے لئے آپ لوگ دیکھ لیں ابھی گھر پہ فون آیا بچے نے آ کر بتایا۔
ہمدردی کے لئے آنے والوں کو سانپ سونگھ گیا ہو لیکن دنیا داری اور پھر محلے داری۔ کچھ نے اس حد تک گردن جھکا لی کہ گویا ان کی موجودگی نہ ہونے جیسی معلوم ہو۔ سب ایک دوسرے سے اشارے کرنے لگے۔ چہ مہ گوئیوں میں طے پایا۔ دو تین دن دو وقت کی روٹی تین افراد کے لئے بھیج دیں گے۔ صورتحال بھانپ کر نعیم نے اپنا اصل مقصد بیان کیا۔۔
کفن دفن کا انتظام ہو گیا اور مجھے خبر بھی نہیں کی۔ دیکھ لے عابدہ ہر جگہ مجھے بدنام کرتی پھرتی تھی تو کہ، میں نشہ کرنے میں پیسے اڑا دیتا ہوں دیکھ لے۔۔ کسی نے میرے ہاتھ پر کھوٹا سکہ تک نہ دھرا۔۔ ارے اب میں بچوں کو کیا کھلاؤں گا کوئی نوکری بھی نہیں دیتا مجھے۔ ہم تو بھوکے مر جائیں گے۔۔ ارے میں کیوں نہ تیری جگہ مر گیا۔ ن
نعیم اس بار ایسے رویا جیسے پہلی بار کہیں دل سے سمجھ پایا ہو، واقعی برا ہوا۔ آس پاس میں بیٹھے لوگ پہلو بدلنے لگے جیسے بہت کچھ کہنا چاہتے ہوں، اسی لمحے سلمان، عابدہ کا بڑا بیٹا زور زور سے روتا ہوا گھر سے باہر آیا۔ لمحہ بھر رک کر ایک نظر باہر بیٹھے سوگوار محلے والوں پہ ڈال کر آنکھیں ملنے لگا۔ شاید اسے کسی سے ہمدردی کی امید بھی نہیں تھی لیکن اپنے آنسوؤں پہ قابو بھی نہ ہوا اور رو پڑا۔ محلے والے سلمان کی آہ و زاری سنکر اس سے نظریں چرانے لگے۔۔ مبادا کہیں وہ ان سے کچھ مانگ نہ لے اور انھیں منہ رکھنے کے لئے کچھ دینا ہی نہ پڑ جائے۔ انھیں منہ بولی ہمدردی بھی مہنگی لگنے لگی سو سب چپ سادھے بیٹھے رہے۔ سلمان ٹھنڈی سانس بھر کر آستین سے آنسو پونچھ کر اپنے باپ کے سہارے ٹک کر آزردہ بیٹھ گیا۔۔ نعیم نے اس کو دھکا دے کر پرے کیا۔
چل ہٹ، اماں کا حمایتی۔ مار دے مجھے۔ نشہ ٹوٹ رہا ہے میرا۔ میں کام کاج کرنے جیسا بھی نہیں ہوں۔ ظالم باپ ہوں۔ یہی بتایا ہے نا تیری ماں نے تجھے۔ تجھے سرپرست کی ضرورت نہیں۔ مار دے مجھے۔ نکال دے۔۔ تو بھی مجھے گھر سے۔۔۔ یہی سکھا رہی تھی نا۔۔
نہیں ابا نہیں۔۔۔ اب تو اماں بھی نہیں ہے۔ تم گھر چھوڑ کے نہ جانا اب۔ ابا۔
سلمان سسکیوں کے ساتھ ایسے دل سوز لہجے میں بولا کے سننے والوں کو اس معصوم پہ بہت ترس آیا۔ عابدہ نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کو باپ سے دور رکھنے کی کوشش میں یہی سب کہتی تھی۔ شروع میں اس نے اپنے بچوں سے کئی سال جھوٹ بولا کہ ان کا باپ بیروزگاری کی وجہ سے پریشان رہتا ہے۔ بس اسی لئے مار پیٹ کر لیتا ہے۔ مجھے تو لگتی بھی نہیں۔
لیکن جوں جوں سلمان بڑا ہوتا گیا۔ محلے سے آس پڑوس سے اسے حقیقت کا علم ہونے لگا تھا۔ اور اب عابدہ کے لئے جھوٹ بولنا اتنا آسان بھی نہیں رہا تھا۔ اس نے بچوں کو حقیقت سے آگاہ کیا کہ مناسب ذرائع آمدن نہ ہونے پر اس کے باپ نے قرضے پر ٹیکسی لی تھی۔ اچانک ہی شہر کے ہنگاموں میں کسی شر پسند نے اس کی ٹیکسی کو آگ لگا دی تھی۔ اور پھر معاشی حالات کبھی ان کے باپ نعیم کے قابو میں نہ آ سکے۔ پھر وہ نشہ کرنے لگا۔ لیکن تم نہ کرنا۔ تم میرا سہارا بننا۔ تم کو تو میں پڑھا لکھا کر آفس میں بٹھاؤں گی چا چا سے کہہ کر۔ تمھارا باپ ایسا تھا نہیں ہو گیا ہے۔ عابدہ اپنے تئیں ان کو کو مدرسے تک تو بھیج دیتی تھی۔ لیکن اسکول کا خرچہ نہ اٹھا سکی۔ یوں بھی نعیم اس کے ہاتھ میں پیسے رہنے دیتا تو ہی وہ کچھ کر سکتی تھی۔ تم اپنی ماں کا سہارا بنو گے نا۔۔۔۔ دونوں بچے کچھ سمجھتے کچھ نہ سمجھتے سر ہلا دیتے تھے۔ لیکن سلمان جیسے جیسے بڑا ہو رہا تھا اکثر ماں کے سامنے ڈھال بنکر کھڑا ہو جاتا تھا باپ سے لڑ پڑتا تھا۔ اکثر ماں پہ بگڑتا کہ وہ اس کے باپ کو کچھ کہتی کیوں نہیں۔ لیکن ایک دن نعیم نے سلمان کی وہ ٹھکائی کی کہ پھر سلمان کی ہمت نہیں پڑی۔ پھر اس کے بعد عابدہ نے بھی نعیم سے خوب جی بھر کے لڑائی کی اور نعیم نے اس کی جی بھر کے پٹائی کی۔ لیکن اس کا ایک نتیجہ نکلا نعیم نے پھر کبھی بچوں پہ ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ بچوں نے کبھی باپ کو پھر کچھ کہا۔ شاید اس ڈر سے کہ اس دن ان کی پٹائی تو ہوتی ہی ہوتی ہے لیکن ان کی ماں کی پٹائی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اس کے بعد سے عابدہ نعیم پہ بگڑنے لگی تھی۔ دونوں بچوں نے تب ہی سے چپ سادھ لی تھی۔ نعیم عابدہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر گھر کا کونا کونا چھان مارتا۔ روپے نہ ملنے پر وہ گھر کا جو سامان ہاتھ لگتا یا اٹھا سکتا، لے جا کر اونے پونے بیچ دیتا۔ پھر جو گھٹیا اور سستا نشہ ملتا، کر کے سکون سے پڑا رہتا۔ عابدہ اور محلے والوں نے اس ایک عرصے میں سب سے بڑا کام یہی کیا کہ نعیم کو مکان نہیں بیچنے دیا۔ یہی چھت عابدہ کا بہترین سہارا تھی اور اب یہی سہارا عابدہ کے بعد اس کے بچوں کا واحد سہارا تھی۔ سلمان کے باپ سے جذباتی لگاؤ پہ کچھ کی آنکھیں پر نم ہو گئیں تھیں۔ اور جو محلے والے تجربے کار، پختہ عمر کے تھے۔ جانتے تھے کہ نعیم کا اس گھر میں ہونا ا سکے بچوں کے لئے کسی سکون کا نہیں بلکہ زیادہ مصیبت کا باعث ہو گا۔ لیکن وہ باپ بیٹا تھے۔ خون کا رشتہ تھا۔ نعیم باپ تھا اس کا۔ کیا کہتے۔ پھر بھی دبے لفظوں میں ایک جذباتی بول ہی اٹھا۔۔
سرپرست ہونے کا مطلب پتہ ہے تم کو۔ وہ جو اپنے بچوں کو ہر ضرورت کا سامان مہیا کرے۔ جیسے تمھاری ماں کر رہی تھی سلمان۔ یہ تو تم کو بھی بیچ کے کھا جائے گا۔ چلا لیا گھر کا خرچ۔
نعیم اس پھرتی سے اٹھا، کہ لوگ دیکھتے رہ گئے۔ قریب تھا کے نعیم اس پڑوسی کو کچھ پھینک کے مار دے۔ لڑ پڑے۔ محلے والوں نے اشارے سے اس شخص کو منہ بند رکھنے کا مشورہ دیا۔ سلمان اپنے باپ کو غصہ میں لرزتا اور محلے والوں کی طرف بڑھتا دیکھ کر اس سے لپٹ گیا۔
ابا۔۔ ہوش کر۔۔ ابا۔ تم ہمارے پاس رہو۔ ہمارے ساتھ۔ میں تمھارے لئے پیسے کماؤں گا۔ میں کام کروں گا۔ بس تم کامران کا خیال رکھنا۔ گھر پہ رہنا۔ میں کام کاج کروں گا گھر کا خرچ چلاؤں گا تمھارے لئے ابا۔۔ روپے لاؤں گا ابا۔
سلمان نعیم سے لپٹا رہا۔ نعیم غصہ سے لرزتا رہا۔ اس کے منہ سے غصہ کے باعث عجیب و غریب آوازیں نکلنے لگیں لیکن پھر بھی وہ سلمان کے لئے بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ نہ کوئی شفقت کا ہاتھ رکھا نہ اس بار دھتکارا۔ شاید وہ سلمان سے یہی سننا چاہتا تھا۔ جو اس نے اپنی ناسمجھی میں ابھی ابھی محلے والوں کے سامنے کہا تھا۔ محلے والے سر جھکائے، نظریں نیچی کئے دانستہ خاموش رہے۔ تماشہ تھا نہیں لیکن تماشہ معلوم ہو رہا تھا۔
اماں۔۔ اماں۔۔ اُٹھ نا اماں۔۔
کامران نے نہ چاہتے ہوئے بھی عابدہ کی چادر پکڑ کے ہلانے کی کوشش کی۔ محلے کی ایک عورت نے اس کو پکڑ کر اپنے پاس بیٹھا لیا۔
نہ میرے بچے۔۔ مرنے والے کو تکلیف ہوتی ہے۔۔
یہ میری اماں ہیں۔ مجھ سے بولتی کیوں نہیں۔۔ کوئی اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر چلو۔۔ پہلوان کے بیٹے نے چھرا مار دیا ہے۔ صبح۔ ابا نے بتایا ہے مجھے۔ چلو اماں اٹھو۔۔ ڈاکٹر کے پاس چلو نا۔ اماں کیوں مر گئی اسما خالہ۔۔ بولتی کیوں نہیں۔ پہلوان چاچا کا بیٹا گندا ہے اماں تم ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔ بولو نا سلمان بھائی۔ چلو نا لے کے اماں کو کامران نے اپنی دانست میں سب سے فریاد کر ڈالی۔ سلمان جو چھ سات سال کا تھا دو سال کامران سے بڑا تھا۔۔ اپنی ماں کی میت کے سرہانے گھٹنوں میں منہ دیئے ہچکیاں لے رہا تھا۔ اس سے کامران کا سوال برداشت نہ ہوا تیزی سے اٹھ کر باہر کی طرف نکل گیا۔
پڑوسن نے دوسری پڑوسن سے کہا۔۔
کوئی بیچارے بچوں کو تسلی دینے والا بھی نہیں۔ باپ نہ ہونے جیسا۔ مجھ سے تو اس کی باتیں سنی نہیں جاتیں۔۔ کلیجہ کٹا جا رہا ہے۔
دوپٹہ سے آنسو اور ناک پونچھتے ہوئے اس کی آواز رندھ گئی۔
عابدہ کی طرف دیکھو تو ہول اٹھ رہا ہے۔ کل تک کیسی جیتی جاگتی بچوں کی فکر میں گھلی جا رہی تھی آج دیکھو خون میں لتھڑی پڑی ہے۔
ایک اور پڑوسن بولی۔
ہاں بہن بس موت یہی ہے۔۔۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ موت تو سب کو آنی ہے جلدی یا دیر سے۔ بس ناگہانی نہ آئے۔ ہائے۔۔
ان کی باتیں سنکر پاس بیٹھی ایک اور عورت ٹھنڈی سانس کھینچتی ہے۔
نہلا دھلا دیا پر ایسا گہرا۔۔۔ کٹا ہوا ہے۔ پتہ نہیں کیسے چاقو گھونپا ہے خبیث نے۔ کہ خون بند ہی نہیں ہو رہا۔ پورے تکیے بھر کی روئی لگا دی۔۔ اتنا گہرا اور بڑا گھاؤ ہے۔ اگر بر وقت اسپتال بھی چلی جاتی تو نہ بچتی۔
ان دونوں کی باتوں پر باقی محلے والیوں کے بھی کان لگ گئے۔ سب کی سب یوں تن کر بیٹھ گئی جیسے کہیں کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے۔
اتنا بڑا گھاؤ۔
اس بار بتانے والی نے ہاتھ کے اشارہ سے بھی بتایا۔ جیسے اس نے جو دیکھا تھا اس پہ بے اعتباری ہو۔ یقین کرنا چاہتی ہو۔ ہائے۔۔
وہی پڑوسن جو گاہے گاہے آہ بھرتی ہے۔ زور سے چیخ کر رو پڑتی ہے۔ اس کے نزدیک بیٹھی ایک دوسری عورت اس کو صبر دلاتی ہے۔
صبر کرو بہن۔۔ صبر۔
ذرا سی خاموشی ہوتی ہے پھر ساریاں آپس میں باتیں کرنے لگتی ہیں۔
بس جو خدا کو منظور ہو۔۔ بیچاری کی موت ایسے ہی لکھی تھی۔
میت کی سمت دیکھتی ہے۔
نیل ہی نیل پڑے تھے جسم پہ۔ دیکھو تو خون اب بھی نکل رہا ہے۔ چٹائی تک آ گیا ہے۔
ہاں بہن سنا ہے یہ نیک لوگوں کی پہچان ہے۔ میت پہ خون ہو تو مرنے والے کو شہادت کا درجہ ملتا ہے۔
مجھے تو یہ سوچ سوچ کے ہول ہو رہا ہے کہ اگر پولیس آ گئی تو بیٹھے بٹھائے سب کی شامت آئے گی۔ ہماری تو خیر ہے مگر محلے کے مردوں کی خیر نہیں۔
جب ہی تو کریم چاچا خاموشی سے کفن دفن کرنے کا کہہ رہے تھے مجھے تو انھوں نے بتایا۔ صبحے ہی سارے مردوں میں بات ہو گئی تھی۔
اچھا۔ بیچاری۔ اب کوئی رشتے دار بھی نہیں۔
سنا تھا بہت تھے لیکن نشے کی لت کی وجہ سے سب نے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔
اس میں بیچاری عابدہ کا کیا قصور تھا اگر اس کا میاں نشہ کرنے لگا تھا۔
ہاں بھئی مرد کے کئے کی سزا بھی بیچاری عورت بھگتے۔ بہت نا انصافی ہے۔ بہت ظلم ہے۔
عابدہ کو بھی نعیم کو چھوڑ دینا چاہیے تھا۔
ان میں ایک سیانی نے صلاح دی جو کم از کم اب عابدہ کے لئے بے معنی تھی۔
صئی کہہ رہی ہو۔ محلے والوں سے عابدہ نے خلعے کی بات کی تھی۔ سب نے یہی کہا مرد سے عزت ہے گھر بار لے کے بیٹھی ہو۔ کہاں در بدر ہو گی۔ بیٹھی رہو۔ یہ مرد ایسی ہی بکواس کرتے ہیں۔ خاص طور سے جب عورت کسی مشکل میں ہو عورت کی پریشانی ان کو پریشانی نہیں لگتی۔ عورت کیوں دربدر ہو، ارے نکال باہر کرتی نعیم جیسے بے حس شوہر کو۔ نہ سرپرستی نہ کوئی حق ادا کرنے جیسا۔ خواہ مخواہ میں سرپرست۔۔ سربراہ۔ ہونہہ۔ یہی نشہ نعیم کی جگہ اگر عابدہ بہن کرتی تو یہ مرد۔ نعیم کمبخت کو یہی صلاح دیتے؟۔۔ وہ کب کا دوسری شادی کر چکا ہوتا۔ یا الگ ہو گیا ہوتا۔
بات سچی ہے۔ مرد اپنے اوپر آئی پریشانی کو طول نہیں دیتے۔ پھر عورت کیوں بھگتتی رہے۔ پر صلاح تو میں نے بھی بیچاری کو یہی دی تھی۔ سچ پوچھو توسنتے یہی چلے آئے ہیں بہن عورت کی عزت مرد سے ہے عورت کا کیا مقام ہے مرد کے بغیر۔
اے ہے۔۔ جس پہ گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ جیسے حالات ہوں صلاح بھی ویسی دینی چاہئے۔ عورت کو کہیں تو خود مختاری کا حق ملنا چاہئے۔ شادی کے بعد ہی سہی۔ یہ کیا بھگت وہ رہی ہے اور صلاح ان سے لے جو اپنے گھروں میں خوش باش بیٹھے ہیں۔ کس نے سمجھا بیچاری کو۔ کون جھیل رہا تھا مصیبت۔ میں ذرا دور رہتی ہوں۔۔۔۔ پر صلاح تو لے سکتی تھی۔ کسی اور سے تو کہتی۔ ناسمجھیوں سے کیا خاک صلاح ملتی۔
ارے رہنے دو۔ سب کو سارے حالات پتہ تھے۔ تم خود آ جاتی۔ تم کو کسی نے روکا تو نہیں تھا۔ مجھ کو کیوں باتیں سنا رہی ہو۔
کامران آہ و بکا چھوڑ کے ساری عورتوں کے باری باری منہ تکنے لگا۔ جیسے ذہن نشین کر رہا ہو۔ ان کی باتوں کو سمجھنے کے لئے وہ معصوم بچہ سہی، لیکن باتیں ذہن نشین ہونے کے لئے اس کی یہ عمر کافی تھی۔ عورتوں کی بلند ہوتی آوازوں پہ وہ سہم کر عابدہ کو آوازیں دینے لگا۔
اماں۔ اب نہیں مانگو گا کچھ۔ اماں مان جاؤ۔ اٹھ جاؤ۔ اماں۔۔ ارے چھوڑو۔ اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا آپس میں اب کیا بحث کیا لڑائی جھگڑا کرنا۔ بچہ بھی سہم گیا۔ اب بیچاری اچھی جگہ ہے اس کی مغفرت کی دعا کرو۔
سیانی کی بات کو، غصے میں بھڑکتاسمجھ کر ایک اور پڑوسن نے اپنی دانست میں گویا دانشمندانہ بیچ بچاؤ کرا دیا۔
دعا کرو۔۔ دعا۔
لیکن یہ ہیرونچی تو ہمارے سر پہ عذاب بنا ہوا ہے نا۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے ہمارے بچے اس کے نشے کی وجہ سے نشے کا شکار نہ ہو جائیں۔ اس کی وجہ سے نشہ آور چیزیں بیچنے والے اسی محلے کے اریب قریب منڈلاتے ہیں۔ کتنے ہی میں نے دیکھے۔
بس اللہ سب کو محفوظ رکھے۔ ہاں بھئی۔ ویسے مرنا تو اسے چاہیئے تھا۔
آہ۔۔ ہ۔۔۔
اسی عورت نے پھر آہ بھری۔۔
عابدہ کے چلانے کی آواز تو مجھے آئی تھی رات کا ایک یا ڈیڑھ بج رہا ہو گا۔ بس میں سمجھی کہ روز کا لڑائی جھگڑا مار پیٹ ہے۔ لگ تو یہی رہا تھا کہ نعیم نشئی سے لڑائی ہو رہی ہے۔ لیکن وہ تو پورا محلہ سر پہ اٹھا لیتا ہے۔ پھر عابدہ نے گھر سے بھی نکال دیا تھا۔ میں سمجھی آیا ہو گا معافی وافی مانگنے۔۔ یا ہو گا کچھ۔۔ اب روز کا معمول تھا کہاں تک کوئی خبر رکھتا۔ پھر ان کے سر میں درد تھا۔ صبح سلمان نے آ کر دروازہ پیٹا۔ ان کو بتایا کہ اماں کو پہلوان کے بیٹے نے چھرا مار دیا ہے۔ سنتے ہی میں اور یہ ساتھ ہی نکلے، اے کلیجہ منہ کو آ گیا۔۔ سامنے دروازے کے باہر عابدہ کی لاش۔۔ خون میں لت پت پڑی تھی۔ اللہ توبہ۔۔
بس خدا سب کو محفوظ رکھے۔ ایسا منظر نہ دکھائے۔ پہلوان کا بیٹا لاکھ غنڈہ سہی لیکن کبھی محلے میں کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا۔ بچے کو نعیم نشئی نے یہی بولا ہو گا۔ یہ دونوں تو سو رہے ہوں گے ورنہ رات کو نہ آ جاتے یا ماں کو بچاتے۔۔۔
ارےے۔۔ ہاں۔ اور کیا۔۔ چھرا مارنے کا تومیں پہلی بارسن رہی ہوں۔ ہاں البتہ محلے والوں سے آتے جاتے وہ سو پچاس ضرور بٹورتا تھا۔ کبھی نہیں سنا کہ انور نے کسی کو چاقو دکھایا ہو۔
صئی کہہ رہی ہو۔ پہلوان کے بیٹے انور کے بارے میں، میں نے بھی یہی سنا ہے۔ عورتوں سے کبھی نظر بھی نہیں ملائی اس نے۔ روپے چھیننا اور قتل کرنا۔۔ نہ بابا یقین نہیں ہوتا۔ پیسے کی خاطر کوئی اس حد تک گر جائے گا۔ پیسہ بری چیز ہے۔ بڑا اچھا کام لگا تھا اس بار عابدہ کا۔ دبئی سے لوگ آئے ہیں اپنی بیٹی کی شادی کرنے۔ چار دن ہوئے تھے کل کیسی خوش تھی۔ مجھ سے روز کہہ کر جاتی تھی بچوں کا خیال رکھوں۔ یوں مجھے پتہ تھا۔ تدفین کے بعد سب محلے والوں کو مل کر کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ سچ تو پتہ چلے۔ سچ پوچھو تو مجھے تو کمبخت اس خبیث نعیم کی کارستانی لگتی ہے الزام پہلوان کے بیٹے انور پہ لگا رہا ہے۔ خدا جانے کیا ہوا کیا نہیں کوئی تو چکر ہے۔ اس نشئی کا دماغ اتنا نہیں چلتا۔ کہ یہ ایویں میں بکے۔
ارے رہنے دو بہن جب نشہ ٹوٹتا تھا کیا واہی تباہی بکتا تھا۔ توبہ۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہی نعیم بھائی ہیں جو ٹیکسی چلایا کرتے تھے۔ میرے میاں کے بچپن کے دوست تھے۔ بی اے پاس ہو کر ٹیکسی چلانے پر اکثر میرے میاں چھیڑا کرتے تھے۔۔ کہ تم سے ہم اچھے۔ ہم آٹھ جماعتیں پڑھ کے ٹیکسی چلاتے ہیں تم بی اے پاس ہو کر یہی کام کرتے ہو۔ نعیم اور عابدہ کی زندگی ہم سے بہت اچھی تھی اور دیکھو تو آٹھ سال میں کیا سے کیا ہو گیا۔
خدا غارت کرے ان نشہ ہیروئین بیچنے والے کو۔۔ منشیات فروشوں کو۔ نہ معلوم ان کا کوئی ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ ان کا اپنا کوئی نشہ کرنے سے مرتا ہے یا نہیں۔ کیسی لت لگی برباد ہو گیا پر نشہ نہیں چھوڑ سکا۔
کیسی قیامت ٹوٹ گئی اس گھر پہ۔ ہنستا بستا گھر اجڑ گیا۔ یہ نشہ بیچنے والے ضمیر فروش ہوتے ہیں ان کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا سوائے روپے پیسے کے۔ خدا ان پر اپنا قہر نازل کرے۔۔ تباہ و برباد ہوں ان کا گھر بھی ایسے برباد ہو۔۔۔۔
نازنین ہمدانی ملک سے اس سے زیادہ پڑھا نہ جا سکا۔۔ اس نے کہانی ادھوری چھوڑ دی۔۔ کتاب کو بند کر کے کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ کہانی ابھی باقی تھی اسے اس بات سے غرض بھی کیا تھی کہ عابدہ کا قتل کس نے کیا؟ کیسے ہوا؟۔ اسے تو نشے کرنے والوں کے گھروں کی اندوہناک زندگی کا پہلی بار پتہ چلا تھا۔ کہانی اصل میں نشے کا شکار ہونے والے متاثرہ گھروں کی ہولناک آب بیتیاں تھیں۔ اسی میں پہلی کہانی سلمان نعیم نام کے کسی پیشہ ور گدا گر کی تھی۔ جو اس نے کسی این جی او کے ور کر کوسنائی تھی۔ کچھ عرصے پہلے حکومت نے بڑھتے ہوئے پیشہ ور گداگروں کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا اسی میں سلمان نعیم پکڑا گیا تھا۔ یہ تیس اکتیس سال کا نوجوان گداگروں کا سرغنہ تھا۔ عابدہ کا بڑا بیٹا۔ وہ عابدہ جسے گداگری سے نفرت تھی۔ وہ اپنے بچوں کی خاطر گھروں میں کام کاج کرنے لگی تھی۔ لیکن ایک دن ناگہانی موت کا شکار ہو گی تھی۔ اس کی موت کے بعد حالات نے جو بھی پلٹا کھایا ہو لیکن یہ ایک حقیقت تھی کہ اس کے بچے باپ کے ہوتے ہوئے لا وارث ہو چکے تھے۔ ممکن ہے نعیم کے نشے کی لت نے ان کو گدا گری پہ لگایا ہو۔ نشئی باپ تھا بھی کس کام کا۔ نشے کی لت نے ایک گھر کو، نہ صرف اجاڑا تھا بلکہ اس کے متاثرین کوا تھاہ گہرائی میں دھکیل کر معاشرے کا ناسور بنا دیا تھا۔ یہ شہر کی جیتی جاگتی کہانیاں تھیں۔ لوگوں کی زندگی تھی۔ ایسے لوگوں کی زندگی کی کہانی جو اپنے بچپن سے ماضی کی تلخیوں کے ساتھ کبھی اپنا مستقبل روشن نہ کر سکے تھے۔ نازنین کی اس رسالے پر توجہ نشہ کا لفظ پڑھتے ہی ہو گئی تھی۔ اس نے بیڈ پہ لیٹے لیٹے سگریٹ کا کش لگایا۔ اس کا ڈپریشن اسوقت اتنا زیادہ بڑھ چکا تھا۔ اس کے کندھے اتنے بوجھل تھے کہ جیسے اسپر کسی نے سمینٹ سے پلستر پھیر دیا ہو۔ سگریٹ کے کش پہ کش لگانے کے ساتھ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی پوری کہانی ختم کی۔ شاید وہ بھی کسی نتیجے پہ پہنچنا چاہتی تھی۔ یا شاید کوئی بھلی بات پڑھنے کی امید میں دوبارہ پڑھنے لگی تھی۔ بہرحال جو بھی تھا وہ اس سوچ سے باہر نکل نہیں پا رہی تھی کہ دولت کی خواہش اور اس کے حصول میں لوگ دوسروں کی زندگیوں سے کھیل جاتے ہیں۔ اور پھر اسی دولت سے وہ اپنی زندگی میں ہر آسائش مہیا کرتے ہیں۔ اور مزے سے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ بھی اوروں کی طرح نشہ کرنے والوں کو کم ہمت، کم حوصلہ اور جاہل سمجھتی آئی تھی۔ جو حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرنے کے بجائے نشہ کرنے لگتے ہیں۔ جو نشہ نہیں کرتے اگر ان کے گھر میں ان کا سرپرست نشہ کرنے لگے تو مصائب کی نہ ختم ہونے والی قیامت ان نہ نشہ کرنے والوں کی زندگی پہ بھی روز ٹوٹتی ہے۔ اس گھرانے کا مستقبلا تھاہ گہرائیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ اس پریہ حقیقت سلمان نعیم کی ہولناک آپ بیتی پڑھنے کے بعد پہلی بار آشکار ہوئی تھی۔ اور سچ پوچھیں تو یہی بات اس کے دل میں چبھ رہی تھی کہ کسی اور کے کئے کی سزا کسی اور کو کیوں مل رہی ہے۔ لاکھ وہ ان کے اپنے سہی۔ لیکن پھر اندر ہی اندر یہ احساس اسے جھنجھلا رہا تھا کہ آسائیشوں کے شریک اپنے ہوتے ہیں تب انسان کو لمحہ بھر بھی اس کی جانچ کی ضرورت محسوس نہیں رہتی کہ، آسائش آئی کہاں سے اور کیسے۔۔؟ اور اگر یہی غم ہو، افلاس ہو تو انسان پل پل دوسرے کے عمل کی جانچ کرتا ہے۔ اسے بھی یہ غم اپنے شوہر شہریار کی وجہ سے لگا تھا، وہ بھی یہی کر رہی تھی۔ اب اس کی آسائشیں اسے ہیچ معلوم ہو رہی تھیں۔ جیسے کسی سے چھینی ہوئی ہوں۔ یا کسی کو محروم رکھ کے ان آسائشوں کو اس کے اور اس کے بچوں کے گرد بنا گیا ہو۔ وہ ایک بار پھر بد دعاؤں کی بازگشت میں کھو گئی۔ بد دعائیں۔۔۔ نشے کا کاروبار کرنے والوں کو، موت بیچنے والوں کو خدا غارت کرے۔۔ وہ برباد ہوں۔ بد دعائیں پڑھ کر اس کا دل دہل گیا۔ وہ اپنے قیمتی ریشمی کمفرٹر میں منہ دے کر سوچتے سوچتے رو پڑی۔۔ اس کے رنگے ہوئے سنہری بال شانوں سے بکھر کر منہ پہ آ گئے۔
نشہ بیچنے والے۔۔ نا جائز ذرائع آمدنی سے دوسروں کو موت سے بدتر زندگی دینے والے۔۔ سنگدل۔۔۔۔
ایک سسکی سی ابھری۔
چند دن پہلے کی بات ہے۔ جب نازنین ہمدانی ملک۔ کے اعزاز میں ایک تقریب رکھی گئی تھی جس میں معززین اور پریس کو مدعو کیا تھا۔ یہ پارٹی شہر کی سب سے بڑی این جی او نے شہر کا سب سے بڑا ڈونیشن دینے والی نازنین ہمدانی کے اعزاز میں منعقد کی تھی۔ پارٹی خوب رہی۔ پارٹی کے اختتام پر چلتے چلتے کسی ادارے کے نمائندے نے نازنین کے ہاتھ میں ایک رسالہ پکڑا دیا تھا۔ اور سرسری لیکن تاکیداً کہا تھا۔
پڑھیئے گا ضرور۔
دینے والے نے اپنی دانست میں پڑھنے پہ زور دے کر گویا پوری کوشش کر ڈالی تھی کہ نازنین یہ رسالہ کسی طرح پڑھ لے۔ اور آنکھوں ہی آنکھوں میں نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ جیسے پریس سے بچنا چاہتا ہو۔ نازنین نے دینے والے کی اس بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی رسالہ اپنے قیمتی ہینڈ بیگ میں ڈال لیا تھا۔ گھر آ کر اس کا ڈپریشن تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ شاید نیکی کے کام میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ یہ بڑے سے بڑے دکھ پر مرہم کا کام کرتی ہے۔ نازنین کو تو محض ڈیپریشن تھا۔ وہ اب بہت مطمئن تھی۔ اس کو خوش دیکھ کر اس کے شوہر شہریار کی جان میں جان آئی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اب نازنین جلد سے جلد بچوں کے پاس کینیڈا چلی جائے۔ شہریار کا کینیڈا جانے کا اصرار کرنا گویا نازنین پہ پھر بھاری پڑ گیا تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اخبار کا وہ تراشہ دیکھنے لگی جواس نے پھاڑ کر اپنی جیولری کی دراز میں چھپا دیا تھا۔ یہ خبر دیکھتے ہوئے اسے اپنی آنکھوں پہ بے یقینی سی ہوتی تھی۔ خبر شہر کے کامیاب تاجروں کے بارے میں تھی۔ جس میں اس کے شوہر شہریار کا نام بھی تھا۔ خبر کے آخری حصہ پہ نازنین کی نظریں جم کے رہ گئی تھیں۔ خبر کچھ یوں تھی۔
شہر کے امیر ترین کامیاب بزنس میں میں شہریار ملک کا نام سرفہرست ہے۔ واضح رہے کہ تیس سال پہلے انھوں نے اپنے کاروبار کی ابتدا ڈرگ ڈیلنگ سے کی۔ بعد میں شہریار ملک نے اسوقت کی مشہور ماڈل نازنین سے شادی کی۔ یوں وہ ممتاز صنعت کار خورشید ہمدانی کے داماد بھی ہیں۔
ظاہر ہے یہ خبر شہریار نے بھی پڑھی تھی۔ نازنین کے پوچھنے پر پہلے شہریار مکرتا رہا کہ یہ خبر اس کے بارے میں نہیں ہے۔ جھوٹ ہے۔ لیکن نازنین صاف صاف اس کے اور اس کے والد خورشید ہمدانی کے نام پہ اسے بھلی بری سناتی رہی۔ زچ ہو کر شہریار نے اقرار تو کیا۔ لیکن اس طرح کے اس خبر کو اپنے خلاف گھناؤنی سازش، اپنی بزنس کی بڑھتی ہوئی ساکھ پر دوسرے بزنس میں کی گھٹیا چال، اور مستقبل کے لئے کاری ضرب قرار دیا۔ بظاہر ان دونوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہو گیا لیکن نازنین کی شہریار سے اسطرح باز پرس شہریار کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ شہریار کا رویہ نازنین کے ساتھ جب ہی سے تلخ تھا اور وہ نازنین پہ تقریباً روز دباؤ ڈالنے لگا کہ وہ بچوں کے پاس کینیڈا چلی جائے۔ نازنین کا ڈیپریشن انہی دنوں شروع ہوا تھا۔ اسے اپنا شوہر منشیات فروش لگنے لگا تھا۔ اور شہریار کے تلخ رویئے نے نازنین کا یہ احساس یہ شبہہ دوگنا کر دیا تھا۔ شہریار ملک جاگنگ سے واپس آئے ایک نظر نازنین پہ ڈالی جو تکیے میں منہ دیئے آنسو بہا رہی تھی۔
سوئمنگ کے لئے چلو۔ کیا حالت بنا لی ہے کیا بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگی ہو۔
نازنین نے سر اٹھا کر سرد لہجے میں کہا۔
کاش میں نے تم سے شادی نہ کی ہوتی۔ کاش۔ میں اکیلی ہوتی۔۔ کسی شہریار ملک کا نام۔۔۔ نازنین ہمدانی سے نہ جڑا ہوتا۔۔ مجھے کس چیز کی کمی تھی۔ کیوں میں نے تم سے شادی کی۔
ہیل آف اٹ۔۔ نانسینس۔
شہریار منہ منہ میں انگریزی میں کئی گالیاں دے گئے۔ لیکن چند لمحے بعد اس نے جذبات پہ کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔
اینٹی ڈپریشن کی ٹیبلٹس لی تم نے۔ پھر وہی دورہ پڑ رہا ہے۔
تم نے کتنے گھروں کو اجاڑا ہے شہریار کچھ اندازہ ہے تم کو۔ عابدہ، سلمان، کامران، نعیم ان جیسے کئ، کتنے گھر۔ ان کے ہنستے بستے گھرسب تمھارے دھندے کی نظر ہو گئے۔۔ ان سب کو تباہ کرنے والے تم ہو شہریار ۔۔۔ ڈرگ ڈیلر
کیا بکواس کر رہی ہو۔ کیا بکواس پڑھ رہی ہو۔ ادھر دکھاؤ۔۔۔
اس کے ہاتھ سے میگزین چھین کے دیکھتے ہیں۔ سچی کہانیاں۔۔ نشے سے تباہ حال سلمان کے گھر کا سچا واقعہ۔۔۔ ربش۔۔ بکواس یہ دو دو ٹکے کے ادب کے نام پہ بکنے والے یہ میگزین۔ پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ ایسے ربش اردو رسالے پڑھو گی تو ایسی مڈل کلاس عورتوں والی باتیں کرو گی۔ اس نے نہایت نفرت سے میگزین کو پھاڑ کے پھینک دیا۔۔ نازنین چھینتی رہ گئی۔ شہریار نے غصہ کو کنٹرول کر کے محبت سے نازنین سے کہا۔
شادی کے بیس بائیس سال بعد اس قسم کی باتیں کرنے کا مطلب۔ این جی او۔ کو ڈونیشن دو اور خوش رہو۔ یہ اُسی این جی او سے ملا تھا تمھیں۔ اس این جی او کو تو میں دیکھ لوں گا، ٹکے ٹکے کے یہ رسالے سب فضول ہوتے ہیں۔۔ ان میں لکھا سچ تھوڑی ہوتا ہے۔ دل بہلانے کے لئے کوئی انگریزی میگزین پڑھ لو۔
میں نے اپنی مرضی سے خریدا ہے۔
نازنین نے صفائی سے جھوٹ بولا۔ شاید جھوٹ کا سہارا اس وقت اس کا بہترین سہارا تھا۔
پپا ہوتے تو تم کو دیکھتے۔ کیسے تم نے ان کے بزنس کو آگ میں جھونک دیا ہے۔
تمھاری ان باتوں سے نقصان صرف ہماری اولاد کو ہو گا۔۔۔۔ جان میں نے کاروبار جیسے بھی شروع کیا تھا وہ شادی سے پہلے تھا۔ انجانے میں غلطی ہو جاتی ہے میں نہیں جانتا تھا وہ لوگ کون ہیں جو کاروبار کے لئے پیسہ دے رہے ہیں۔ میں سچ کہہ رہا ہوں میں جب اس شہر میں نیا نیا آیا تھا۔ افف میں سب تم کو کیوں بتا رہا ہوں۔۔ دیکھو نازنین میں اس گھر کا سرپرست ہوں۔ اور اب شہر کا معزز اور کامیاب بزنس میں ہوں۔ سالوں پہلے کی بات ہے یہ۔۔ ڈارلنگ۔۔۔ ان ٹکے ٹکے کی کہانیوں میں کوئی صداقت نہیں ہے یہ جذباتی باتیں، کہانیاں لکھتے ہی اسی لئے ہیں کہ ان کا مال بک جائے۔ تم جیسی مشہور اور امیر عورتیں ان کا ٹارگٹ ہوتی ہیں ناز۔۔ میری جان۔۔ تم گرامر اسکول سے پڑھ کر یہ کریپ پڑھنے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہو۔۔ دیس از فار دی مڈل کلاس ڈارلنگ۔۔
نازنین کی طویل خاموشی پہ شہریار نے پیچ تاب تو بہت کھایا لیکن لہجہ مدھم رکھا۔
یہ سب منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ پہلے خبر دی۔ اور پھر یہ کریپ تمھارے ہاتھوں میں پکڑا دیا۔ تاکہ تمھارے جذبات سے کھیلیں۔ یہ سب مجھے کمزور کرنے کی سازش ہے۔ اٹ از ویری کلیئر ڈارلنگ۔
پھر مجھے کینیڈا ملک سے باہر کیوں بھیج رہے ہو۔ تم کیوں اتنے بضد ہو۔۔ بولو۔۔ بتاؤ۔۔
شہریار اس سوال پہ گھبرا سا گیا۔۔
وہ تو۔۔ وہ میں تمھاری صحت کی وجہ سے کہہ رہا تھا۔ نا جاؤ۔۔ میرے پاس رہو۔۔ میرے قریب۔۔
شہریار نے نازنین کو بازوؤں میں بھرنے کی کوشش کی جو بے سود ثابت ہوئی۔ اس سے پہلے نازنین کو صرف موقع چاہئے ہوتا تھا کہ وہ کسی طرح شہریار سے لگی بیٹھی رہے۔ دونوں کی پسند اور محبت کی شادی ایک کامیاب شادی تھی۔ جو شادی کے کئی سالوں بعد بھی ان کے لئے کل کی سی بات تھی اب کسی اندوہناک انجام کی طرف انجانے میں یا آجکل کے میڈیا کے دور میں پھل پھول رہی تھی۔
شہریار مجھے تمھارے ساتھ نہیں رہنا۔ چند دن پہلے تمھارا نام انٹرنیشنل میگزین میں بھی تھا۔ ان لوگو کی لسٹ میں تھا جنھوں نے اپنے بڑے بڑے کاروبار کالے دھندوں سے شروع کئے۔ پپا سے تم نے جھوٹ بولا تھا کہ تم نے دن رات محنت کی ہے۔ لاکھ یہ دیسی رسالہ جھوٹ بولتا ہو۔ کریپ چھاپتا ہو۔ لیکن وہ انٹر نیشنل ٹائمز تو سچ لکھتا ہے نا۔ اس نے کیوں لکھا۔ ان لائن اپنا نام لکھ کر چیک تو کرو۔۔۔
شہریار اپنے ہی داؤ میں خود پھنس گئے۔ سمجھانے کے انداز سے بولے۔
تمھیں اپنے بچوں کے مستقبل کی کوئی پرواہ ہے کہ نہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو اچھا مستقبل دینے کی خاطر کیا کیا نہیں کرتے۔ ہمارے بچوں کے پاس تو سب ہے۔ وہ تباہ ہو جائیں گے۔ وہ اپنی عمر کے بہترین حصے میں ہیں۔ جوان ہو رہے ہیں۔ ناز اپنے بچوں کے لئے ہوش کے ناخن لو۔
نازنین بے اثر کھڑی رہتی ہے۔ جیسے کسی موقعے کی منتظر ہو کہ شہریار کو کہیں دھکیل دے۔
بچے تمھاری گرتی ہوئی صحت سے پریشان ہیں کینڈا سے روز فون کر رہے ہیں کہ مما کو کیا ہوا ہے۔ پلیز۔ شہرت کو بدنامی دولت کو داغ میں نہ بدلو۔۔ ناز۔ اپنے بچوں کے لئے سہی۔
بچوں کو میں اچھا مسقبل اپنے اکاؤنٹ اپنے باپ کے کاروبار سے دے سکتی ہوں۔ اس کے لئے مجھے تمھارے پیسے کی کالے دھندے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔
نازنین نے نفرت سے شہریار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے مستحکم لہجے میں کہا۔
اور میں۔ میں کیا محض بدنامی اٹھاؤں۔ چلو میں بھی عطیات دے دیتا ہوں۔ کتنا بولو۔۔ کس کو۔۔ کسی غریب بستی میں جا کر دے آتے ہیں۔ تمھاری تسلی کے لئے۔ یہ بھی کروں گا۔ بٹ آئی ڈن نتھینگ۔ مجھے تمھاری خوشی بہت عزیز ہے تم میں اور میرے بچوں میں میری جان ہے ناز۔۔۔ تم جانتی ہو۔۔ جس کی جو مدد کرنی ہو گی کروں گا۔ بتاؤ۔ یہ رسالے پڑھنے ہیں پڑھو۔۔ اس رسالے کو دے دیتا ہوں جتنی رقم بولو اتنی۔۔ کسی متاثرین میں سے۔۔ اب یہی تلافی بہت ہے یا جو تم کہو۔ سزا بھی دے دو۔۔ لیکن خود کو مجھ سے دور مت کرو۔ اپنی گھر ہستی اپنے ہاتھوں سے برباد نہ کرو۔
شہریار نے اپنے گناہوں کا کچا پکا اقرار کر کے اسے سمجھانے کی کوشش کی جو بے سود رہی۔
تمھیں پتہ ہے نعیم تو نشہ سے تباہ ہوا۔ اس کی بیوی اس کے ہاتھوں ناگہانی موت کا شکار ہو گئی۔ کامران کہیں لا پتہ ہو گیا۔ اور سلمان گدا گری کرنے لگا۔ وہ پیشہ ور گدا گر ہے۔ اس کے پاس سب کچھ ہے۔ جو اس نے بھیک سے جمع کیا۔ بھیک جس سے اس کی ماں کو نفرت تھی۔ پولیس آئے دن اسے پکڑتی رہتی ہے۔۔ وہ اپنے گھر کی تباہی کا ذمہ دار منشیات فروشوں کو سمجھتا ہے۔ اس کی تلافی کیسے کرو گے؟ اس کا گھر اس کا مستقبل سب کیسے واپس لاؤ گے جو تباہ ہو گیا۔ چوری۔ بھیک، جرائم اس سے زیادہ کہیں اسے جگہ نہیں ملی۔ وہ تو بے قصور تھا۔ ایک ڈرگ ڈیلر تو تم بھی رہے ہو۔ پھر تم معزز کیسے ہو گئے؟ وہ معزز کیوں نہیں بن سکا۔ تمھارے حصے میں بھی بدنامی آئی ہے۔ تمھاری دولت داغ ہی ہے جو برائی بن کر تمھارے ماتھے پہ بھی سجے گی۔ مجرموں کی طرح۔ تم نے کتنے بچوں کا مستقبل تباہ کیا ہے۔
نازنین بھڑک کر نہ جانے کیا کیا کہتی گئی۔
تم ناقابل برداشت حد تک وہ زبان استعمال کر رہی ہو جس کا میں سننے کا عادی نہیں ہوں۔ مجھ پہ نہ صرف الزام لگا رہی ہو بلکہ اپنی دانست میں مجرم بنا کر سزا بھی تجویز کر چکی ہو۔ یہ میں نہیں ہونے دوں گا نازنین۔
شہریار کسی اندازے پہ پہنچ کر اب بات کو کسی ڈگر بٹھانا چاہتے تھے۔ آخر آگے ہونا کیا ہے۔ تمھاری غیر شفاف دولت اور بدنامی سے تمھارے بچوں کا مستبقل بھی تباہ ہو کے رہے گا۔ شہریار ملک۔۔۔۔ اور وہ میں بھی نہیں چاہتی کہ ہو۔ لیکن مجھے تم سے علیحدگی چاہئے۔ مجھے تمھاری ضرورت ہے نا تمھاری دولت کی۔ بچوں کو بھی نہیں۔ سب سے دور رہو۔ بچے میرا ساتھ دیں گے وہ آجکل کے سمجھدار، سلجھے ہوئے با شعور بچے ہیں۔ میں آج ہی تمھاری حقیقت بچوں کو بتاؤں گی۔
نازنین۔۔۔
شہریار غصے سے دھاڑا۔ اس سے آگے شہر یار سن نہ سکا۔ شہریار نے اسے غصے سے بیڈ پر دھکیل دیا۔۔۔
یو آر آوٹ آف یور مائینڈ۔۔ میں کیوں تمھیں سمجھا رہا ہوں۔ ایک عورت کو۔ ایک بد دماغ، سر پھری عورت کو۔ جس کو شہرت کا پتہ اور نا بدنامی کا پتہ۔ کیا عزت تھی تمھاری اس ملک میں۔ کیا عزت ہے ماڈل کی اس ملک میں۔ ہونہہ۔ باپ کا پیسہ نہ ہوتا تو لوگ روند کے رکھ دیتے۔
اینف از اینف شہریار ۔ میں بچوں کو فون کرتی ہوں۔ اس وقت ان کا یہاں ہونا بہت ضروری ہے۔
نازنین نے فون اُٹھانے کی کوشش کی جو بے سود ثابت ہوئی۔ شہریار اس کا فون لے کر غصہ سے بولتا کمرے سے نکل جاتا ہے۔
مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا۔ میں تمھاری اس بکواس پہ اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پہ نہیں لگا سکتا۔ ہو سکتا ہے سب معاف کر دیں لیکن لوگ معاف نہیں کرتے۔ لوگوں کی مجھے پرواہ بھی نہیں۔ لیکن میرا اٹھنا بیٹھنا شہر کے معززین میں ہے۔۔ میں نہ اپنی ساکھ اور نہ اپنی دولت تمھارے کسی حواس باختہ عمل پہ برباد نہیں کروں گا۔ کان کھول کے سن لو۔ میں اس گھر کا سرپرست ہوں میں ہی کچھ کروں گا۔
شہر یار کمرے کا دروازہ باہر سے لاک کر جاتے ہیں۔
چند دن بعد اخبارات میں آدھے صفحہ پر نازنین ہمدانی ملک کی سوئم کی اطلاع تھی۔ جس میں شہریار ملک نے انتہائی دکھ کے ساتھ فاتحہ کی درخواست کی تھی۔ کئی اخبارات نے موت کی خبر بھی چھاپی تھی جس میں لکھا تھا کہ، ان کے شوہر شہریار ملک کے مطابق نازنین ہمدانی ملک کی ناگہانی موت خواب آور ادویات کی زیادہ مقدار لینے سے ہوئی۔ واضح رہے کہ وہ نشہ آور ادویات کا استعمال اس وقت سے کرتی تھیں جب وہ فیشن کی دنیا کا جانا مانا نام تھیں۔
٭٭٭
تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید