حصہ اول ـــــــ 1905 تک
ہمالہ
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے
تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے
امتحان دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسباں اپنا ہے تو ، دیوار ہندستاں ہے تو
مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
سوئے خلوت گاہِ دل دامن کش انساں ہے تو
برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہِ مہر عالم تاب پر
تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن
وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن
چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن
تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن
چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیال ہے
دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے
ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے
تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے
اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی ، جسے
دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے
ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی
جھومتی ہے نشۂ ہستی میں ہر گل کی کلی
یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی
دست گلچیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا
کنج خلوت خانۂ قدرت ہے کاشانہ مرا
آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کی شرماتی ہوئی
آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگ رہ سے گاہ بچتی ، گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو
اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو
لیلی شب کھولتی ہے آ کے جب زلف رسا
دامن دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا
وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کہسار پر
خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر
اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
گل رنگیں
تو شناسائے خراش عقدۂ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے ، شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں مَیں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بیں نہیں
آہ! یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں
کام مجھ کو دیدۂ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا
دیدۂ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا
سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے
میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے
مطمئن ہے تو ، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں
زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں
یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو
رشک جام جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو
یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے
توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے
عہد طفلی
تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے
وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے
تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے
حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے
درد ، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے
شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے
تکتے رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سوئے قمر
وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر
پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر
اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر
آنکھ وقف دید تھی ، لب مائل گفتار تھا
دل نہ تھا میرا ، سراپا ذوق استفسار تھا
مرزا غالب
فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو ، بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار
تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار
زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلی گل شیراز پر
آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزیِ پروانہ ہے
اے جہان آباد ، اے گہوارۂ علم و ہنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟
ابر کوہسار
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
کبھی صحرا ، کبھی گلزار ہے مسکن میرا
شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے در افشاں ہونا
ناقۂ شاہد رحمت کا حدی خواں ہونا
غم زدائے دل افسردۂ دہقاں ہونا
رونق بزم جوانان گلستاں ہونا
بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں
شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں
دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
سیر کرتا ہوا جس دم لب جو آتا ہوں
بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں
سبزۂ مزرع نوخیز کی امید ہوں میں
زادۂ بحر ہوں پروردۂ خورشید ہوں میں
چشمۂ کوہ کو دی شورش قلزم میں نے
اور پرندوں کو کیا محو ترنم میں نے
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے
غنچۂ گل کو دیا ذوق تبسم میں نے
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے
جھونپڑے دامن کہسار میں دہقانوں کے
ایک مکڑا اور مکھی
ماخوذ – بچوں کے لیے
اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا
اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا ، پھر نہیں اترا
مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا
اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا!
اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا
مکھی نے کہا خیر ، یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں ، یہ امید نہ رکھنا
ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا
مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی !
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبا
ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
یہ حسن ، یہ پوشاک ، یہ خوبی ، یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا
ایک پہاڑ اور گلہری
(ماخوذ از ایمرسن)
(بچوں کے لیے)
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے ، اس پر غرور ، کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ ، یہ شعور ، کیا کہنا!
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے ، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!
کہا یہ سن کے گلہری نے ، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا ، یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے ، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
ایک گائے اور بکری
(ماخوذ )
بچوں کے لیے
اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
کسی ندی کے پاس اک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی
جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پایا
پہلے جھک کر اسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں
کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
جان پر آ بنی ہے ، کیا کہیے
اپنی قسمت بری ہے ، کیا کہیے
دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں
رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں
زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لکھا نصیبوں کا
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے ، خدا نہ کرے
دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کن فریبوں سے رام کرتا ہے
اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں
بدلے نیکی کے یہ برائی ہے
میرے اللہ! تری دہائی ہے
سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی ، ایسا گلہ نہیں اچھا
بات سچی ہے بے مزا لگتی
میں کہوں گی مگر خدا لگتی
یہ چراگہ ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں ، بے زباں غریب کہاں!
یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لطف سارے اسی کے دم سے ہیں
اس کے دم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی ، کہ آزادی!
سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گزران سے بچائے خدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا
ہم کو زیبا نہیں گلا اس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
بچے کی دعا
(ما خو ذ)
بچوں کے لیے
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
ہمدردی
( ماخوذ از ولیم کو پر )
بچوں کے لیے
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسرں کے
ماں کا خواب
(ماخوذ بچوں کے لیے )
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر ، میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں!
جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ ، اچھی وفا تم نے کی
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب
رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا
دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے؟
ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے
پرندے کی فریاد
بچو ں کے لیے
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت ، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں!
کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں ، میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے چمن چھٹا ہے ، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے ، او قید کرنے والے!
میں بے زباں ہوں قیدی ، تو چھوڑ کر دعا لے
خفتگان خاک سے استفسار
مہر روشن چھپ گیا ، اٹھی نقاب روئے شام
شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام
یہ سیہ پوشی کی تیاری کس کے غم میں ہے
محفل قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے
کر رہا ہے آسماں جادو لب گفتار پر
ساحر شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر
غوطہ زن دریاۓ خاموشی میں ہے موج ہوا
ہاں ، مگر اک دور سے آتی ہے آواز درا
دل کہ ہے بے تابئ الفت میں دنیا سے نفور
کھنچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دور
منظر حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں
ہم نشین خفتگان کنج تنہائی ہوں میں
تھم ذرا بے تابی دل! بیٹھ جانے دے مجھے
اور اس بستی پہ چار آ نسو گرانے دے مجھے
اے مے غفلت کے سر مستو ، کہاں رہتے ہو تم
کچھ کہو اس دیس کی آ خر ، جہاں رہتے ہو تم
وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟
اور پیکار عناصر کا تماشا ہے کوئی؟
آدمی واں بھی حصار غم میں ہے محصور کیا؟
اس ولایت میں بھی ہے انساں کا دل مجبور کیا؟
واں بھی جل مرتا ہے سوز شمع پر پروانہ کیا؟
اس چمن میں بھی گل و بلبل کا ہے افسانہ کیا؟
یاں تو اک مصرع میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل
شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگل جاتا ہے دل؟
رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں
اس گلستاں میں بھی کیا ایسے نکیلے خار ہیں؟
اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے
روح کیا اس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟
کیا وہاں بجلی بھی ہے ، دہقاں بھی ہے ، خرمن بھی ہے؟
قافلے والے بھی ہیں ، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟
تنکے چنتے ہیں و ہاں بھی آشیاں کے واسطے؟
خشت و گل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟
واں بھی انساں اپنی اصلیت سے بیگانے ہیں کیا؟
امتیاز ملت و آئیں کے دیوانے ہیں کیا؟
واں بھی کیا فریاد بلبل پر چمن روتا نہیں؟
اس جہاں کی طرح واں بھی درد دل ہوتا نہیں؟
باغ ہے فردوس یا اک منزل آرام ہے؟
یا رخ بے پردۂ حسن ازل کا نام ہے؟
کیا جہنم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟
آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصد تادیب ہے؟
کیا عوض رفتار کے اس دیس میں پرواز ہے؟
موت کہتے ہیں جسے اہل زمیں ، کیا راز ہے ؟
اضطراب دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے
علم انساں اس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟
دید سے تسکین پاتا ہے دل مہجور بھی؟
‘لن ترانی’ کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طور بھی؟
جستجو میں ہے وہاں بھی روح کو آرام کیا؟
واں بھی انساں ہے قتیل ذوق استفہام کیا؟
آہ! وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟
یا محبت کی تجلی سے سراپا نور ہے؟
تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے
شمع و پروانہ
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں
یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں
سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے
آداب عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟
کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا
پھونکا ہوا ہے کیا تری برق نگاہ کا؟
آزار موت میں اسے آرام جاں ہے کیا؟
شعلے میں تیرے زندگی جاوداں ہے کیا؟
غم خانۂ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو
اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہرا نہ ہو
گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے
کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے
پروانہ ، اور ذوق تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا ، اور تمنائے روشنی!
عقل و دل
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمیں پر ، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثل خضر خجستہ پا ہوں میں
ہوں مفسر کتاب ہستی کی
مظہر شان کبریا ہوں میں
بوند اک خون کی ہے تو لیکن
غیرت لعل بے بہا ہوں میں
دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ ، کیا ہوں میں
راز ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو ، خدا نما ہوں میں
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تو محفل صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش رب جلیل کا ہوں میں!
صدائے درد
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے
سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا ، یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے
بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں
لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں
اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں
دانۂ نم خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں
حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے!
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
آفتاب
(ترجمہ گایتری )
اے آفتاب! روح و روان جہاں ہے تو
شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو
باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا
قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے
ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے
تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے
دل ہے ، خرد ہے ، روح رواں ہے ، شعور ہے
اے آفتاب ، ہم کو ضیائے شعور دے
چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور دے
ہے محفل وجود کا ساماں طراز تو
یزدان ساکنان نشیب و فراز تو
تیرا کمال ہستی ہر جاندار میں
تیری نمود سلسلۂ کوہسار میں
ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو
زائیدگان نور کا ہے تاجدار تو
نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری
آزاد قید اول و آخر ضیا تری
شمع
بزم جہاں میں میں بھی ہوں اے شمع! دردمند
فریاد در گرہ صفت دانۂ سپند
دی عشق نے حرارت سوز دروں تجھے
اور گل فروش اشک شفق گوں کیا مجھے
ہو شمع بزم عیش کہ شمع مزار تو
ہر حال اشک غم سے رہی ہمکنار تو
یک بیں تری نظر صفت عاشقان راز
میری نگاہ مایۂ آشوب امتیاز
کعبے میں ، بت کدے میں ہے یکساں تری ضیا
میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا
ہے شان آہ کی ترے دود سیاہ میں
پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں؟
جلتی ہے تو کہ برق تجلی سے دور ہے
بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نور ہے
تو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں
بینا ہے اور سوز دروں پر نظر نہیں
میں جوش اضطراب سے سیماب وار بھی
آگاہ اضطراب دل بے قرار بھی
تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا
احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
یہ امتیاز رفعت و پستی اسی سے ہے
گل میں مہک ، شراب میں مستی اسی سے ہے
بستان و بلبل و گل و بو ہے یہ آگہی
اصل کشاکش من و تو ہے یہ آگہی
صبح ازل جو حسن ہوا دلستان عشق
آواز ‘کن’ ہوئی تپش آموز جان عشق
یہ حکم تھا کہ گلشن ‘کن’ کی بہار دیکھ
ایک آنکھ لے کے خواب پریشاں ہزار دیکھ
مجھ سے خبر نہ پوچھ حجاب وجود کی
شام فراق صبح تھی میری نمود کی
وہ دن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا
زیب درخت طور مرا آشیانہ تھا
قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوں میں
غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں
یاد وطن فسردگی بے سبب بنی
شوق نظر کبھی ، کبھی ذوق طلب بنی
اے شمع! انتہائے فریب خیال دیکھ
مسجود ساکنان فلک کا مآل دیکھ
مضموں فراق کا ہوں ، ثریا نشاں ہوں میں
آہنگ طبع ناظم کون و مکاں ہوں میں
باندھا مجھے جو اس نے تو چاہی مری نمود
تحریر کر دیا سر دیوان ہست و بود
گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے
بندش اگرچہ سست ہے ، مضموں بلند ہے
چشم غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے
عالم ظہور جلوۂ ذوق شعور ہے
یہ سلسلہ زمان و مکاں کا ، کمند ہے
طوق گلوئے حسن تماشا پسند ہے
منزل کا اشتیاق ہے ، گم کردہ راہ ہوں
اے شمع ! میں اسیر فریب نگاہ ہوں
صیاد آپ ، حلقۂ دام ستم بھی آپ
بام حرم بھی ، طائر بام حرم بھی آپ!
میں حسن ہوں کہ عشق سراپا گداز ہوں
کھلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں
ہاں ، آشنائے لب ہو نہ راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصۂ دار و رسن کہیں
ایک آرزو
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں ، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر ، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں ، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرھانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت ، خلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلھن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل ، وہ صبح کی مؤذن
میں اس کا ہم نوا ہوں ، وہ میری ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو ، نالہ مری دعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں ، شاید انھیں جگا دے
آفتاب صبح
شورش میخانۂ انساں سے بالاتر ہے تو
زینت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو
ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو
جس پہ سیمائے افق نازاں ہو وہ زیور ہے تو
صفحۂ ایام سے داغ مداد شب مٹا
آسماں سے نقش باطل کی طرح کوکب مٹا
حسن تیرا جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے اڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر
نور سے معمور ہو جاتا ہے دامان نظر
کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضیا تیری مگر
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے
چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہیے
شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی بھر قید زنجیر تعلق میں رہے
زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے
آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے
آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو
بستۂ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں
نوع انساں قوم ہو میری ، وطن میرا جہاں
دیدۂ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں
ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں
عقدۂ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے
صدمہ آ جائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر
اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر
دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے راز حقیقت کی خبر
شاہد قدرت کا آئینہ ہو ، دل میرا نہ ہو
سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو
تو اگر زحمت کش ہنگامۂ عالم نہیں
یہ فضیلت کا نشاں اے نیر اعظم نہیں
اپنے حسن عالم آرا سے جو تو محرم نہیں
ہمسر یک ذرۂ خاک در آدم نہیں
نور مسجود ملک گرم تماشا ہی رہا
اور تو منت پذیر صبح فردا ہی رہا
آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلی ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے
کس قدر لذت کشود عقدۂ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے
درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں
جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں
درد عشق
اے درد عشق! ہے گہر آب دار تو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے
آئی نئی ہوا چمن ہست و بود میں
اے درد عشق! اب نہیں لذت نمود میں
ہاں خود نمائیوں کی تجھے جستجو نہ ہو
منت پذیر نالۂ بلبل کا تو نہ ہو!
خالی شراب عشق سے لالے کا جام ہو
پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو
پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا
اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا
گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو
آواز نے میں شکوۂ فرقت نہاں نہ ہو
یہ دور نکتہ چیں ہے ، کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے، وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
غافل ہے تجھ سے حیرت علم آفریدہ دیکھ!
جویا نہیں تری نگہ نارسیدہ دیکھ
رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو
جس کی بہار تو ہو یہ ایسا چمن نہیں
قابل تری نمود کے یہ انجمن نہیں
یہ انجمن ہے کشتۂ نظارۂ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مے خیال کی مستی سے چور ہے
کچھ اور آجکل کے کلیموں کا طور ہے
گل پژمردہ
کس زباں سے اے گل پژمردہ تجھ کو گل کہوں
کس طرح تجھ کو تمنائے دل بلبل کہوں
تھی کبھی موج صبا گہوارۂ جنباں ترا
نام تھا صحن گلستاں میں گل خنداں ترا
تیرے احساں کا نسیم صبح کو اقرار تھا
باغ تیرے دم سے گویا طبلۂ عطار تھا
تجھ پہ برساتا ہے شبنم دیدۂ گریاں مرا
ہے نہاں تیری اداسی میں دل ویراں مرا
میری بربادی کی ہے چھوٹی سی اک تصویر تو
خوا ب میری زندگی تھی جس کی ہے تعبیر تو
ہمچو نے از نیستان خود حکایت می کنم
بشنو اے گل! از جدائی ہا شکایت می کنم
سیدکی لوح تربت
اے کہ تیرا مرغ جاں تار نفس میں ہے اسیر
اے کہ تیری روح کا طائر قفس میں ہے اسیر
اس چمن کے نغمہ پیراؤں کی آزادی تو دیکھ
شہر جو اجڑا ہوا تھا اس کی آبادی تو دیکھ
فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی
صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی
سنگ تربت ہے مرا گرویدہ تقریر دیکھ
چشم باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ
تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا
عرض مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم
شیشۂ دل ہو اگر تیرا مثال جام جم
پاک رکھ اپنی زباں ، تلمیذ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو!
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمن باطل جلا دے شعلۂ آواز سے
حصہ دوم ـ 1905 سے 1908 تک
محبت
عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے
قمر اپنے لباس نو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئین مسلم سے
ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا
مذاق زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے
کمال نظم ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشم خاتم سے
سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
صفا تھی جس کی خاک پا میں بڑھ کر ساغر جم سے
لکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسیر کا نسخہ
چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشم روح آدم سے
نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسم اعظم سے
بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب
تمنائے دلی آخر بر آئی سعی پیہم سے
پھرایا فکر اجزا نے اسے میدان امکاں میں
چھپے گی کیا کوئی شے بارگاہ حق کے محرم سے
چمک تارے سے مانگی ، چاند سے داغ جگر مانگا
اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلف برہم سے
تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفسہائے مسیح ابن مریم سے
ذرا سی پھر ربوبیت سے شان بے نیازی لی
ملک سے عاجزی ، افتادگی تقدیر شبنم سے
پھر ان اجزا کو گھولا چشمۂ حیواں کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے
مہوس نے یہ پانی ہستی نوخیز پر چھڑکا
گرہ کھولی ہنر نے اس کے گویا کار عالم سے
ہوئی جنبش عیاں ، ذروں نے لطف خواب کو چھوڑا
گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے
خرام ناز پایا آفتابوں نے ، ستاروں نے
چٹک غنچوں نے پائی ، داغ پائے لالہ زاروں نے
حقیقت حسن
خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا
ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
کہیں قریب تھا ، یہ گفتگو قمر نے سنی
فلک پہ عام ہوئی ، اختر سحر نے سنی
سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو
فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو
بھر آئے پھول کے آنسو پیام شبنم سے
کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا
شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا
سوامی رام تیر تھ
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بے تاب تو
پہلے گوہر تھا ، بنا اب گوہر نایاب تو
آہ کھولا کس ادا سے تو نے راز رنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو
مٹ کے غوغا زندگی کا شورش محشر بنا
یہ شرارہ بجھ کے آتش خانۂ آزر بنا
نفئ ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
‘لا’ کے دریا میں نہاں موتی ہے ‘الااللہ’ کا
چشم نابینا سے مخفی معنی انجام ہے
تھم گئی جس دم تڑپ ، سیماب سیم خام ہے
توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم عشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق
طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام
اوروں کا ہے پیام اور ، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے
طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
یہ بھی سنو کہ نالۂ طائر بام اور ہے
آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں
کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے ، اس کا نظام اور ہے
موت ہے عیش جاوداں ، ذوق طلب اگر نہ ہو
گردش آدمی ہے اور ، گردش جام اور ہے
شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز
غم کدۂ نمود میں شرط دوام اور ہے
بادہ ہے نیم رس ابھی ، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی
اختر صبح
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا
ملی نگاہ مگر فرصت نظر نہ ملی
ہوئی ہے زندہ دم آفتاب سے ہر شے
اماں مجھی کو تہ دامن سحر نہ ملی
بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی
نفس حباب کا ، تابندگی شرارے کی
کہا یہ میں نے کہ اے زیور جبین سحر!
غم فنا ہے تجھے! گنبد فلک سے اتر
ٹپک بلندی گردوں سے ہم رہِ شبنم
مرے ریاض سخن کی فضا ہے جاں پرور
میں باغباں ہوں ، محبت بہار ہے اس کی
بنا مثال ابد پائدار ہے اس کی
حسن و عشق
جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمین قمر
نور خورشید کے طوفان میں ہنگام سحر
جسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل
چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول
جلوۂ طور میں جیسے ید بیضائے کلیم
موجۂ نکہت گلزار میں غنچے کی شمیم
ہے ترے سیل محبت میں یونہی دل میرا
تو جو محفل ہے تو ہنگامۂ محفل ہوں میں
حسن کی برق ہے تو ، عشق کا حاصل ہوں میں
تو سحر ہے تو مرے اشک ہیں شبنم تیری
شام غربت ہوں اگر میں تو شفق تو میری
مرے دل میں تری زلفوں کی پریشانی ہے
تری تصویر سے پیدا مری حیرانی ہے
حسن کامل ہے ترا ، عشق ہے کامل میرا
ہے مرے باغ سخن کے لیے تو باد بہار
میرے بے تاب تخیل کو دیا تو نے قرار
جب سے آباد ترا عشق ہوا سینے میں
نئے جوہر ہوئے پیدا مرے آئینے میں
حسن سے عشق کی فطرت کو ہے تحریک کمال
تجھ سے سر سبز ہوئے میری امیدوں کے نہال
قافلہ ہو گیا آسودۂ منزل میرا
ــــــــ کی گود میں بلی دیکھ کر
تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے
رمز آغاز محبت کی بتا دی کس نے
ہر ادا سے تیری پیدا ہے محبت کیسی
نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی
دیکھتی ہے کبھی ان کو، کبھی شرماتی ہے
کبھی اٹھتی ہے ، کبھی لیٹ کے سو جاتی ہے
آنکھ تیری صفت آئنہ حیران ہے کیا
نور آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا
مارتی ہے انھیں پونہچوں سے، عجب ناز ہے یہ
چھیڑ ہے ، غصہ ہے یا پیار کا انداز ہے یہ؟
شوخ تو ہوگی تو گودی سے اتاریں گے تجھے
گر گیا پھول جو سینے کا تو ماریں گے تجھے
کیا تجسس ہے تجھے ، کس کی تمنائی ہے
آہ! کیا تو بھی اسی چیز کی سودائی ہے
خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں
شیشۂ دہر میں مانند مۓ ناب ہے عشق
روح خورشید ہے، خون رگ مہتاب ہے عشق
دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
کہیں سامان مسرت، کہیں ساز غم ہے
کہیں گوہر ہے ، کہیں اشک ، کہیں شبنم ہے
کلی
جب دکھاتی ہے سحر عارض رنگیں اپنا
کھول دیتی ہے کلی سینۂ زریں اپنا
جلوہ آشام ہے یہ صبح کے مے خانے میں
زندگی اس کی ہے خورشید کے پیمانے میں
سامنے مہر کے دل چیر کے رکھ دیتی ہے
کس قدر سینہ شگافی کے مزے لیتی ہے
مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب
بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بے تاب
تیرے جلوے کا نشیمن ہو مرے سینے میں
عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں
زندگی ہو ترا نظارہ مرے دل کے لیے
روشنی ہو تری گہوارہ مرے دل کے لیے
ذرہ ذرہ ہو مرا پھر طرب اندوز حیات
ہو عیاں جوہر اندیشہ میں پھر سوز حیات
اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں
صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں
جان مضطر کی حقیقت کو نمایاں کر دوں
دل کے پوشیدہ خیالوں کو بھی عریاں کر دوں
چاند اور تارے
ڈرتے ڈرتے دم سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے
نظارے رہے وہی فلک پر
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا چلنا ، مدام چلنا
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکوں، نہیں ہے
رہتے ہیں ستم کش سفر سب
تارے، انساں، شجر، حجر سب
ہوگا کبھی ختم یہ سفر کیا
منزل کبھی آئے گی نظر کیا
کہنے لگا چاند ، ہم نشینو
اے مزرع شب کے خوشہ چینو!
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتا اشہب زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں
انجام ہے اس خرام کا حسن
آغاز ہے عشق، انتہا حسن
وصال
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے
خوبئ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے
خود تڑپتا تھا ، چمن والوں کو تڑپاتا تھا میں
تجھ کو جب رنگیں نوا پاتا تھا ، شرماتا تھا میں
میرے پہلو میں دل مضطر نہ تھا ، سیماب تھا
ارتکاب جرم الفت کے لیے بے تاب تھا
نامرادی محفل گل میں مری مشہور تھی
صبح میری آئنہ دار شب دیجور تھی
از نفس در سینۂ خوں گشتہ نشتر داشتم
زیر خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم
اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں
اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں
عشق کی گرمی سے شعلے بن گئے چھالے مرے
کھلیتے ہیں بجلیوں کے ساتھ اب نالے مرے
غازۂ الفت سے یہ خاک سیہ آئینہ ہے
اور آئینے میں عکس ہمدم دیرینہ ہے
قید میں آیا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی
دل کے لٹ جانے سے میرے گھر کی آبادی ہوئی
ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے
چاندنی جس کے غبار راہ سے شرمندہ ہے
یک نظر کر دی و آداب فنا آموختی
اے خنک روزے کہ خاشاک مرا واسوختی
سلیمی
جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ بیں نے
خورشید میں ، قمر میں ، تاروں کی انجمن میں
صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا
شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں
جس کی چمک ہے پیدا ، جس کی مہک ہویدا
شبنم کے موتیوں میں ، پھولوں کے پیرہن میں
صحرا کو ہے بسایا جس نے سکوت بن کر
ہنگامہ جس کے دم سے کاشانۂ چمن میں
ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا
آنکھوں میں ہے سلیمی تیری کمال اس کا
عاشق ہر جائی
(1)
ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو
رونق ہنگامۂ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے
تیرے ہنگاموں سے اے دیوانۂ رنگیں نوا!
زینت گلشن بھی ہے ، آرائش صحرا بھی ہے
ہم نشیں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے
اے زمیں فرسا ، قدم تیرا فلک پیما بھی ہے
عین شغل میں پیشانی ہے تیری سجدہ ریز
کچھ ترے مسلک میں رنگ مشرب مینا بھی ہے
مثل بوئے گل لباس رنگ سے عریاں ہے تو
ہے تو حکمت آفریں ، لیکن تجھے سودا بھی ہے
جانب منزل رواں بے نقش پا مانند موج
اور پھر افتادہ مثل ساحل دریا بھی ہے
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے ؟
ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب
اے تلون کیش! تو مشہور بھی ، رسوا بھی ہے
لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو
تیری بے تابی کے صدقے، ہے عجب بے تاب تو
(2)
عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے
مشت خاک ایسی نہاں زیر قبا رکھتا ہوں میں
ہیں ہزاروں اس کے پہلو ، رنگ ہر پہلو کا اور
سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں
دل نہیں شاعر کا ، ہے کیفیتوں کی رستخیز
کیا خبر تجھ کو درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں
آرزو ہر کیفیت میں اک نئے جلوے کی ہے
مضطرب ہوں ، دل سکوں نا آشنا رکھتا ہوں میں
گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں
بے نیازی سے ہے پیدا میری فطرت کا نیاز
سوز و ساز جستجو مثل صبا رکھتا ہوں میں
موجب تسکیں تماشائے شرار جستہ اے
ہو نہیں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں میں
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں
جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے
حسن بے پایاں ہے ، درد لادوا رکھتا ہوں میں
زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری
عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں
سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا
دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں
فیض ساقی شبنم آسا ، ظرف دل دریا طلب
تشنۂ دائم ہوں آتش زیر پا رکھتا ہوں میں
مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا
نقش ہوں ، اپنے مصور سے گلا رکھتا ہوں میں
محفل ہستی میں جب ایسا تنک جلوہ تھا حسن
پھر تخیل کس لیے لا انتہا رکھتا ہوں میں
در بیابان طلب پیوستہ می کوشیم ما
موج بحریم و شکست خویش بر دوشیم ما
کوشش نا تمام
فرقت آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح
چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے
رہتی ہے قیس روز کو لیلی شام کی ہوس
اختر صبح مضطرب تاب دوام کے لیے
کہتا تھا قطب آسماں قافلۂ نجوم سے
ہمرہو ، میں ترس گیا لطف خرام کے لیے
سوتوں کو ندیوں کا شوق ، بحر کا ندیوں کو عشق
موجۂ بحر کو تپش ماہ تمام کے لیے
حسن ازل کہ پردۂ لالہ و گل میں ہے نہاں
کہتے ہیں بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے
راز حیات پو چھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے
نوائے غم
زندگانی ہے مری مثل رباب خاموش
جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش
بربط کون و مکاں جس کی خموشی پہ نثار
جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار
محشرستان نوا کا ہے امیں جس کا سکوت
اور منت کش ہنگامہ نہیں جس کا سکوت
آہ! امید محبت کی بر آئی نہ کبھی
چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی
مگر آتی ہے نسیم چمن طور کبھی
سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھی
چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مرا تار حیات
جس سے ہوتی ہے رہا روح گرفتار حیات
نغمہ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے
اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتی ہے
جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے
میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے
عشر ت امروز
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور
نہ کھینچ نقشۂ کیفیّتِ شراب طہور
فراق حور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تو
پری کو شیشۂ الفاظ میں اتار نہ تو
مجھے فریفتۂ ساقی جمیل نہ کر
بیان حور نہ کر ، ذکر سلسبیل نہ کر
مقام امن ہے جنت ، مجھے کلام نہیں
شباب کے لیے موزوں ترا پیام نہیں
شباب ، آہ! کہاں تک امیدوار رہے
وہ عیش ، عیش نہیں ، جس کا انتظار رہے
وہ حسن کیا جو محتاج چشم بینا ہو
نمود کے لیے منت پذیر فردا ہو
عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا
عقیدہ ‘عشرت امروز’ ہے جوانی کا
انسان
قدرت کا عجیب یہ ستم ہے!
انسان کو راز جو بنایا
راز اس کی نگاہ سے چھپایا
بے تاب ہے ذوق آگہی کا
کھلتا نہیں بھید زندگی کا
حیرت آغاز و انتہا ہے
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے
ہے گرم خرام موج دریا
دریا سوئے سجر جادہ پیما
بادل کو ہوا اڑا رہی ہے
شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے
تارے مست شراب تقدیر
زندان فلک میں پا بہ زنجیر
خورشید ، وہ عابد سحر خیز
لانے والا پیام بر خیز
مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ کر
پیتا ہے مے شفق کا ساغر
لذت گیر وجود ہر شے
سر مست مے نمود ہر شے
کوئی نہیں غم گسار انساں
کیا تلخ ہے روزگار انساں!
جلوۂ حسن
جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب
پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب
ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے
ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے
جو سکھاتا ہے ہمیں سر بہ گریباں ہونا
منظر عالم حاضر سے گریزاں ہونا
دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے
عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے
آہ! موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں
خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں
ایک شام
( دریائے نیکر ‘ہائیڈل برگ ‘ کے کنارے پر )
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش
کہسار کے سبز پوش خاموش
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے
آغوش میں شب کے سو گئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
تاروں کا خموش کارواں ہے
یہ قافلہ بے درا رواں ہے
خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا
قدرت ہے مراقبے میں گویا
اے دل! تو بھی خموش ہو جا
آغوش میں غم کو لے کے سو جا
تنہائی
تنہائی شب میں ہے حزیں کیا
انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا!
یہ رفعت آسمان خاموش
خوابیدہ زمیں ، جہان خاموش
یہ چاند ، یہ دشت و در ، یہ کہسار
فطرت ہے تمام نسترن زار
موتی خوش رنگ ، پیارے پیارے
یعنی ترے آنسوؤں کے تارے
کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل!
قدرت تری ہم نفس ہے اے دل!
پیام عشق
سن اے طلب گار درد پہلو! میں ناز ہوں ، تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومنات دل کا ، تو سراپا ایاز ہو جا
نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے
تمام ساماں ہے تیرے سینے میں ، تو بھی آئینہ ساز ہو جا
غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا
جہاں کا فرض قدیم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا
نہ ہو قناعت شعار گلچیں! اسی سے قائم ہے شان تیری
وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا
گئے وہ ایام ، اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا
وجود افراد کا مجازی ہے ، ہستی قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا
فراق
تلاش گوشۂ عزلت میں پھر رہا ہوں میں
یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہوں میں
شکستہ گیت میں چشموں کے دلبری ہے کمال
دعائے طفلک گفتار آزما کی مثال
ہے تخت لعل شفق پر جلوس اختر شام
بہشت دیدۂ بینا ہے حسن منظر شام
سکوت شام جدائی ہوا بہانہ مجھے
کسی کی یاد نے سکھلا دیا ترانہ مجھے
یہ کیفیت ہے مری جان نا شکیبا کی
مری مثال ہے طفل صغیر تنہا کی
اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز
صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز
یونہی میں دل کو پیام شکیب دیتا ہوں
شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں
عبد القادر کے نام
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط
اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں
اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق
سنگ امروز کو آئینۂ فردا کر دیں
جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو
تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں
اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
رخت جاں بت کدۂ چیں سے اٹھا لیں اپنا
سب کو محو رخ سعدی و سلیمی کر دیں
دیکھ! یثرب میں ہوا ناقۂ لیلی بیکار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
بادۂ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں
گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ
چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں
شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں
خود جلیں ، دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں
”ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع
سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع”
صقلیہ
( جزیرہ سسلی)
رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے
بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے
اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور
کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور
مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا
آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا
غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟
آہ اے سسلی! سمندرکی ہے تجھ سے آبرو
رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو
زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے
تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے
ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام
موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام
تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا
حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا
نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر
آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے انداز بیاں
درد اپنا مجھ سے کہہ ، میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی تو منزل تھا ، میں اس کارواں کی گرد ہوں
رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے
قصۂ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے
میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا
خود یہاں روتا ہوں ، اوروں کو وہاں رلواؤں گا
غزلیات
٭ ٭ ٭ ٭
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے ، رم کے سوا کچھ بھی نہیں
گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر
شمع بولی ، گریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو
کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں!
٭ ٭ ٭ ٭
الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے
اسے ہے سودائے بخیہ کاری ، مجھے سر پیرہن نہیں ہے
ملا محبت کا سوز مجھ کو تو بولے صبح ازل فرشتے
مثال شمع مزار ہے تو ، تری کوئی انجمن نہیں ہے
یہاں کہاں ہم نفس میسر ، یہ دیس نا آشنا ہے اے دل!
وہ چیز تو مانگتا ہے مجھ سے کہ زیر چرخ کہن نہیں ہے
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا ، کہاں کا جانا ، فریب ہے امتیاز عقبی
نمود ہر شے میں ہے ہماری ، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
مدیر ‘مخزن’ سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے
جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں ، انھیں مذاق سخن نہیں ہے
٭ ٭ ٭ ٭
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے ، گویا مزار ہے حرف آرزو کا
جو موج دریا لگی یہ کہنے ، سفر سے قائم ہے شان میری
گہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل ، وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا
کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنا
الہی تیرا جہان کیا ہے نگار خانہ ہے آرزو کا
کھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسم ہوس سراپا
جسے سمجھتے تھے جسم خاکی ، غبار تھا کوئے آرزو کا
اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں
نگہ کو نظارے کی تمنا ہے، دل کو سودا ہے جستجو کا
چمن میں گلچیں سے غنچہ کہتا تھا ، اتنا بیدرد کیوں ہے انساں
تری نگاہوں میں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا
ریاض ہستی کے ذرے ذرے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا
حقیقت گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا
تمام مضموں مرے پرانے ، کلام میرا خطا سراپا
ہنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جو کا
سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
ذرا سا اک دل دیا ہے ، وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا
کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
گیا ہے تقلید کا زمانہ ، مجاز رخت سفر اٹھائے
ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا
جو گھر سے اقبال دور ہوں میں ، تو ہوں نہ محزوں عزیز میرے
مثال گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا
٭ ٭ ٭ ٭
چمک تیری عیاں بجلی میں ، آتش میں ، شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں ،سورج میں ، تارے میں
بلندی آسمانوں میں ، زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں ، افتادگی تیری کنارے میں
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں ، پھول میں ، حیواں میں ، پتھر میں ، ستارے میں
مجھے پھونکا ہے سوز قطرۂ اشک محبت نے
غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں
نہیں جنس ثواب آخرت کی آرزو مجھ کو
وہ سوداگر ہوں ، میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں
سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے
تڑپ کس دل کی یا رب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں
صدائے لن ترانی سن کے اے اقبال میں چپ ہوں
تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے میں
٭ ٭ ٭ ٭
یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی
پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک
مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی
کس قدر اے مے! تجھے رسم حجاب آئی پسند
پردہ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی
حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی
میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث
بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی
٭ ٭ ٭ ٭
مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہیں
یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں
خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری
شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
نیا جہاں کوئی اے شمع ڈھونڈیے کہ یہاں
ستم کش تپش ناتمام کرتے ہیں
بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی
کہ خوشنواؤں کو پابند دام کرتے ہیں
غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کی
حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں
بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ!
کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں
الہی سحر ہے پیران خرقہ پوش میں کیا!
کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں
میں ان کی محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں
جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں
ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو!
جہاز پر سے تمھیں ہم سلام کرتے ہیں
جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال
بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں
مارچ 1907ء
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا ، وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے ، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا ، پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے ، خوار ہو گا
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہو گا
سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا
کہا جو قمری سے میں نے اک دن ، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ، ہمارے چمن کا یہ راز دار ہو گا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
یہ رسم بزم فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہو گا
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا