صفحات

تلاش کریں

ناول- توبتہ النصوح-مولوی نذیر احمد

دیباچہ

الٰہی، خلعت صفت پارچہ، خمسہ و عقل و روح سے سرفرازی دی ہے تو منصب ایمان داری بھی عطا کر کہ خطاب اشرف المخلوقات میری حالت کے مناسب ہو۔ خداوند اپنے حبیب کا امتی بنانے سے امتیاز بخشا ہے تو تقریب بھی نصیب کر کہ الطاف کریمانہ شفاعت اور عواطف خسروانہ رحمت کی مجھ کو قابلیت ہو۔
آدمی اگر اپنی حالت میں تامل صحیح کرے تو اس سے زیادہ عاجز و در ماندہ مبتلا کوئی مخلوق نہیں۔
گرت چشم خدا بینی بہ بخشندنہ بینی سچ کس عاجز تر از خویش
کلہم ساٹھ یا ستر توبہ اعتبار اوسط اس کی میعاد حیات اور اس کی مدت قیام و ثبات ہے۔ وہ بھی شروع سے آخر تک ہر لحظہ عرصہ، خطر، ہر لمحہ ہدف آفت۔ آدھی عمر تو سونے اور کاہل اور بے کار پڑے رہنے میں ضائع کر دیتا ہے۔ باقی بچے تیس یا پینتیس برس، اسی میں اس کی طفولیت ہے اور اسی میں اس کی جوانی اور پیری، کم سے کم دس برس طفلی اور درماندگی، علالت و پیری کے بھی سمجھ لینے چاہیں۔ غرض ساری زندگی میں بیس یا پچیس برس کام کاج کے دن ہیں۔ مگر کتنے کام، کتنی ضرورتیں، کس قدر بکیھڑے، کتنے مخمصے، خدا کی پرستش، مذہب کی تلاش، کسب کمال، فکر معاش، بزرگوں کی خدمت، اولاد کی تربیت، بیماروں کی عیادت، احباب کی زیارت، تقریبات کی شرکت، شہروں کی سیر، ملکوں کی سیاحت، مردوں کا رونا، جدائی کا ماتم، مولد کی خوشی، ملاقات کی فرحت، فع مضرت، جلب منفعت، گزشتہ کا احتساب، آئندہ کا انتظام، مسرت بے ہودہ، ہوس نام و نمود، تاسف نقصان، حسرت زیان، تلافی مافات، پیش بینی ماہوات، دوستوں سے ارتباط، دشمنوں سے احتیاط، آبرو کا حفظ، ناموس کا پاس، مال کی نگہداشت، محاصل کا احراز۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
اس ضیق فرصت پر کاموں کا اتنا ہجوم، یعنی فراغ دل مفقود و اطمینان کاطرز معدوم۔
فکر معاش، ذ کر خدا، یاد رفتگان!دو دن کی زندگی میں بھلا کوئی کیا کرے
ایک عقل اور دنیا بھر کی ذمہ داری۔ سچ کہا ہے :
یک عشق و ہزار گونہ خواری
اناعرضنا الامانتہ علی السموات والارض والجبال قابین ان یحملنہا اشفقن مہا و حملہا الانس ان انہ کان ظلوما جہولاط اس کتاب میں انسان کے اس فرض کا مذکور ہے جو تربیت اولاد کے نام سے مشہور ہے۔ اس کتاب کے تصنیف کرنے کا مقصود اصلی یہ ہے کہ اس فرض کے بارے میں جو غلط فہمی عموماً لوگوں سے واقع ہو رہی ہے اور اس کی اصلاح ہو، اور ان کے ذہن نشین کر دیا جائے کہ تربیت اولاد صرف اسی کا نام نہیں کہ پال پوس کر اولاد کو بڑا کر دیا، روٹی کمانے کھانے کا کوئی ہنر ان کو سکھا دیا، ان کا بیاہ برات کر دیا، بلکہ ان کے اخلاق کی تہذیب، ان کے مزاج کی اصلاح، ان کی عادات کی درستی، ان کے خیالات اور معتقدات کی تصحیح بھی ماں باپ پر فرض ہے۔ افسوس ہے کہ کتنے لوگ اس فرض سے غافل ہیں۔ کوئی شخص تربیت اولاد کے فرض کو پورا پورا ادا نہیں کر سکتا، تاوقتیکہ وہ خود اپنی شائستگی کا نمونہ ان کو نہیں دکھاتا اور اولاد کے ساتھ اپنا برتاؤ محتسبانہ طور پر نہیں رکھتا۔ پرلے درجے کی بے وقوفی ہے، اولاد کو اپنے کردار ناسزا کی بری مثالیں دکھانا اور ان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ لوگ بڑے ہو کر زبانی پند یا کتابی نصیحت پر کار بند ہو کر صالح اور نیک وضع ہوں گے۔ بہت لوگ اولاد کے ساتھ غایت درجے کی شیفتگی پیدا کر لیتے ہیں اور بہ مصداق "حبک الشی یعمی و بصم" اولاد کے عیوب پر آگہی نہیں ہوتی اور ہوتی بھی ہے تو عیب کو عیب سمجھ کر نہیں، بلکہ مقتضائے عمر یا نتیجہ ذہانت یا دوسرے طور پر اس کی تاویل کر کے ان کی خرابیوں سے درگزر اور چشم پوشی کیا کرتے ہیں۔
اس کتاب میں یہ خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ اس طرح کی غلطیوں پر لوگوں کو تنبیہ ہو۔ یہ کتاب لوگوں کو اس بات کا اچھی طرح یقین کرا دے گی کہ تربیت اولاد ایک فرض موقف ہے، یعنی لڑ کے جب تک کم سن ہیں تربیت پذیر ہیں اور بڑے ہوئے پیچھے ان کی اصلاح مشکل یا متعذر بلکہ محال ہو جاتی ہے۔
ارادہ یہی تھا کہ بلا تخصیص مذہب، تلقین حسن معاشرت اور تعلیم نیک کرداری اور اخلاق کی ضرورت لوگوں پر ثابت کی جائے، لیکن نیکی کو مذہب سے جدا کرنا ایسا ہے جیسے کوئی شخص روح کو جسد سے یا بو کو گل سے یا نور کو آفتاب یا عرض کو جوہر سے یا ناخن کو گوشت سے علیحدہ اور منفک کرنے کا قصد کرے۔ انتظام مذہب ایک امر نا گزیر ہے، اور ادھر اختلاف مذہب جو اس ملک میں اس کثرت سے پھیلا ہوا ہے کہ گویا ہر کوڑی آدمی ایک جدا مذہب رکھتے ہیں، ہر شخص آنکھیں دکھا رہا ہے۔ لوگوں میں بلا کا تعصب آ گیا ہے کہ کیسی ہی اچھی بات کیوں نہ کی جائے، دوسرے مذہب والے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ جعلو اصابعہم فی اذانہم مضمون جس کو میں نے ایک فرضی قصے اور بات چیت کے طرز پر لکھا ہے، مذہبی پیرائے سے تو خالی نہیں اور خالی ہونا ممکن نہ تھا، لیکن تمام کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو دوسرے مذہب والوں کی دل شکنی اور نفرت کا موجب ہو۔ بلکہ جہاں جہاں ضرورت مذہبی کا تذکرہ آ گیا ہے وہ ایسے طور کا ہے کہ دوسرے مذہب والے بھی اس طرح عقیدے رکھتے ہیں۔ صرف اصطلاح و عبادت کا تفرقہ ہے۔ ولا مشاحتہ فی الاصلاح۔ مثلاً مسلمانوں کا روزہ، ہندوؤں کا برت۔ مسلمانوں کی زکٰوۃ، ہندوؤں کا دان پن و قس علیٰ ہذا۔ پس یہ قصہ اگرچہ ایک مسلمان خاندان کا ہے مگر بہ تغیر الفاظ ہندو خاندان بھی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
خاندان جو فرض کیا گیا ہے، اس میں دو میاں بیوی ہیں، تین بیٹے اور تین بیٹیاں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی تو پکی عمر کے ہیں اور بیاھے جا چکے ہیں، اور لا جرم ان کی عادتیں راسخ، ان کی خصلتیں کا لطیفہ ہیں۔ منجھلا بیٹا، اگرچہ عمر اس کا بھی کم نہیں ہے لیکن اس نے مدرسے میں تعلیم پائی ہے اور وہ صرف، صرف توجہ کا محتاج ہے، جیسے گھوڑا کہ بے راہ چلا جا رہا ہے، اس میں رفتار پیدا کرنے کی ضرورت نہیں، فقط باگ کا موڑ دینا کافی ہے۔ منجھلی لڑکی کم سن ہے۔ وہ عمر کے اس درجے میں ہے جب کہ بچوں کی قوت تفتیش و تلاش بہت تیز ہوتی ہے، اور نقل کرنے کی امنگ برسر ترقی ہوتی ہے۔ وہ بھولے پن سے اس طرح کے سوالات کرتی ہے اور سادہ دلی سے ایسی ایسی باتیں پوچھتی ہے کہ ماں قائل ہو جاتی ہے۔ جس طرح پر اس خاندان کے لوگ زندگی بسر کرتے ہوئے فرض کئے گئے ہیں، وہ ایک سچا بلا تصنع نمونہ ہے جو اس زمانے کے ہر ایک خاندان مدعی شرافت کے طرز ماند و بود کا فرض کیا گیا ہے۔
رئیس البیت یعنی خاندان کا سرگروہ جس کا نام نصوح ہے، ایک وبائی ہیضے میں مبتلا ہوا اور اس کی حالت اس قدر ردی ہوتی گئی کہ اس کو اپنے مرنے کا تیقن کرنا پڑا اور چونکہ اسی وباء میں چند روز پہلے اسی گھر کے تین آدمی مر چکے تھے اور شہر میں موت کی گرم بازاری تھی تو ایسی حالت میں نصوح کا اپنی نسبت تیقن ایک معمولی بلکہ ضروری بات ہے۔ نصوح کو ڈاکٹر نے جو اس کا معالج تھا، خواب آور دوا دی تھی۔
وہ سو گیا اور اس کے اگلے پچھلے خیالات ایک خواب بن کر اس کے سامنے آ موجود ہوئے۔ خواب جو نصوح نے دیکھا تمام قصہ کی جان ہے۔ حشر اور اعمال نامہ اور حساب قبر کی تکلیف اور دوزخ کا عذاب یعنی قیامت کے حالات جن کا وہ مذہب اسلام کے مطابق معتقد تھا، خواب میں اس کو واقعات نفس الامری دکھائی دئیے۔ جاگا تو خائف و ہراساں، بیدار ہوا تو ترساں ولرزاں۔ خوف کا نتیجہ و ہراس کا اثر جو نصوح پر مترتب ہوا قصے کے پڑھنے سے ظاہر ہو گا۔ اس نے نہ صرف اپنے نفس کی اصلاح کی بلکہ سارے خاندان کی اصلاح کو اپنے ذمے فرض و واجب سمجھا۔ چونکہ خاندان کے سب چھوٹے بڑے اس طرز جدید سے نا آشنا تھے، کنفس واحدہ نصوح کے مقابلے پر کمر بستہ ہو گئے اور اس کو بڑی بڑی دقتیں پیش آئیں۔ چوں کہ نصوح کے ارادے میں استحکام تھا اور وہ حق کی جانب داری کرتا تھا، وہ غالب آیا، مگر مشکل سے، اس کو ظفر ہو، مگر دشواری سے۔ اولاد میں جو جتنا عمر رسیدہ تھا اسی قدر عسیرالانقیاد تھا۔
تربیت اولاد، جس پر یہ کتاب لکھی گئی، ایک شعبہ ہے اس عام انسانی ہمدردی اور نفع رسانی کا جوہر فرد بشر پر، اس کی استطاعت کی قدر واجب ہے۔ اس خصوص میں جتنی غفلت اور بے پروائی ہمارے ہم وطنوں سے ہوتی ہے، اصلی بات اس ملک کے تنزل کا ہے۔ لوگ مضمون ہم دردی سے اس قدر نا واقف ہیں کہ اس خصوص میں ان کو بچوں کی طرح تعلیم کی حاجت ہے۔ یہ کتاب اس تعلیم کی ابجد ہے۔ اس واسطے کہ ایک انگریزی مثل کے مطابق، خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے، اگر اولاد اور خاندان کی اصلاح انسان کے ذمے واجب ہے تو ضرور ان لوگوں کی اصلاح کا بھی وہ ذمہ دار ہے جو بہ تعلق خدمت اس کی نگرانی و حکومت میں ہیں۔ پھر خدم و عبید کے بعد “الاقرب فالا قرب“ کے لحاظ سے ہمسائے، پھر اہل محلہ، پھر ہم وطن اور ہم ملک، پھر مطلق ابنائے جنس۔
بنی آدم اعضائے یک دیگر اندکہ در آفرینش زیک جوہر اند
غرض ہمدردی کا ایک بڑا وسیع مضمون ہے۔ مگر بالفعل اس کے ابتدائی اور ضروری حصے سے آغاز کیا گیا ہے۔
واللہ ولی اللتوفیق

فصل اوّل

ایک برس دہلی میں ہیضے کی بڑی سخت وبا آئی۔ نصوح نے ہیضہ کیا اور سمجھا کہ مرا چاہتا ہے۔ یاس کے عالم میں اس کو مواخذہ عاقبت کا تصور بندھا۔ ڈاکٹر نے اس کو خواب آور دوا دی تھی۔ سو گیا تو وہی تصوّر اس کو خوابِ موحش بن کر نظر آیا
اب سے دور ایک سال دہلی میں ہیضے کا اتنا زور ہوا کہ ایک حکیم بقا کے کوچے سے ہر روز تیس تیس چالیس چالیس آدمی بھیجنے لگے۔ ایک بازار موت تو البتہ گرم تھا، ورنہ جدھر جاؤ سناٹا اور ویرانی، جس طرف نگاہ کرو وحشت و پریشانی۔ جن بازاروں میں آدھی آدھی رات تک کھوے سے کھوا چھلتا تھا ایسے اجڑے پڑے تھے کہ دن دوپہر کو بھی جاتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا تھا۔ کٹوروں کی جھنکار موقوف، سودے والوں کی پکار بند۔ ملنا جلنا، اختلاط و ملاقات، آمد و شد، بیمار پرسی و عبادت، باز دید زیارت، مہمان داری و ضیافت کی کل رسمیں لوگوں نے اٹھا دیں۔ ہر شخص اپنی حالت میں مبتلا، مصیبت میں گرفتار، زندگی سے مایوس۔ کہنے کو زندہ پر مردہ سے بدتر۔ دل میں ہمت نہ ہاتھ پاؤں میں سکت۔ یا تو گھر میں اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پر رہا یا کسی تیمار داری کی یا کسی یار آشنا کا مرنا یاد کر کے کچھ رو پیٹ لیا۔ مرگِ مفاجات حقیقت میں انہیں دنوں کی موت تھی، نہ سان نہ گمان، اچھے ے خاصے چلتے پھرتے، یکایک طبیعت نا مالش کی، پہلی ہی کلی میں حواس خمسہ مختل ہو گئے۔ الا ماشاء اللہ کوئی جزئی بچ گیا تو بچ گیا، ورنہ جی متلانا اور قضائے مبرم کا آ جانا۔ پھر وصیت کرنے تک کی مہلت نہ تھی۔ ایک پاؤ گھنٹے میں تو بیماری، دوا، دعا جان کنی اور مرنا سب ہو چکتا تھا۔
غرض کچھ اس طرح کی عالم گیر وبا تھی کہ گھر گھر اس کا رونا پڑا تھا۔ دو پونے دو مہینے کے قریب وہ آفت شہر میں رہی مگر اتنے ہی دنوں میں شہر کچھ ادھیا سا گیا۔
صد ہا عورتیں بیوہ ہو گئیں، ہزاروں بچے یتیم بن گئے۔ جس سے پوچھو شکایت، جس سے سنو فریاد۔ مگر ایک نصوح جس کا قصہ ہم اس کتاب میں لکھنے والے ہیں کہ عالم شاکی تھا، اور وہ اکیلا شکرگزار۔ دنیا فریادی تھی اور وہ تنہا مداح۔
نہ اس سبب سے کہ اس کو اس آفت سے گزند نہیں پہنچا۔ خود اس گھر میں بھی اکٹھے تین آدمی اس وبا میں تلف ہوئے۔ اچھی خاصی طرح گھر بھر رات کو سو کر اٹھے۔ نصوح نماز صبح کی نیت باندھ چکا تھا۔ باپ بیٹے وضو کر رہے تھے۔ مسواک کرتے کرتے ابکائی آئی۔ ابھی نصوح دو گانہ فرض ادا نہیں کر چکا تھا، سلام پھیر کر کیا دیکھتا ہے کہ باپ نے قضا کی۔ ان کو مٹی دے کر آیا تو رشتے کی ایک خالی تھی، ان کو جاں بحق پایا۔ تیسرے دن گھر کی ماما رخصت ہوئیں۔ مگر نصوح کی شکر گزاری کا کچھ اور ہی سبب تھا۔ اس کا مقولہ یہ تھا کہ ان دنوں لوگوں کی طبیعتیں بہت کچھ درستی پر آ گئی تھیں۔ دلوں میں رقت و انکسار کی وہ کیفیت تھی کہ عمر بھر کی ریاضت سے پیدا ہونی دشوار ہے۔ غفلت کو ایسا کاری تازیانہ لگا تھا کہ ہر شخص اپنے فرائض مذہبی کے ادا کرنے سے سرگرم تھا۔ جن لوگوں نے رمضان میں بھی نماز نہیں پڑھی تھی، وہ بھی پانچوں وقت سب سے پہلے مسجد آ موجود ہوتے تھے۔ جنہوں نے کبھی بھول کر سجدہ نہیں کیا تھا، ان کا اشراق و تہجد تک بھی قضا نہیں ہونے پاتا تھا۔ دنیا کی بے ثباتی، تعلقات زندگی کی نا پائداری، سب کے دل پر منقش تھی۔ لوگوں کے سینے صلح کاری کے نور سے معمور تھے۔ غرض ان دنوں کی زندگی اس پاکیزہ اور مقدس اور بے لوث زندگی کا نمونہ تھی، جو نہ مذہب تعلیم کرتا ہے۔
نصوح یوں بھی دل کا کچا تھا۔ جب اس نے اول اول ننانوے کی گرم بازاری سنی تو سرد ہو گیا اور رنگت زرد پڑ گئی۔ بہ اسباب ظاہری جو تدبیریں انسداد کی تھیں سب کیں۔ مکان میں نئی قلعی پھروا دی۔
پاس پڑوس والوں کو صفائی کی تاکید کی۔ گھر کے کونوں ‌میں لبان دھونی دے دی۔ طاقوں میں کافور رکھوا دیا۔ جا بجا کوئلہ رکھوا دیا۔ باورچی سے کہہ دیا کہ کھانے میں نمک تیز رہا کرے۔ پیاز اور سرکہ دونوں وقت دسترخوان پر آیا کرے۔ گلاب، نارجیل دریائی، بادیان، تمر ہندی، سکنجبین وغیرہ وغیرہ جو جو دوائیں یونانی طبیب اس مرض میں استعمال کرتے ہیں، تھوڑی تھوڑی سب بہم پہنچا لیں۔ نصوح نے یہاں تک اہتمام کیا کہ انگریزی دوائیاں بھی فراہم کیں۔ کالر اپل کی گولیاں تو وہیں کو توالی سے لے لیں۔ کالر ا ٹنکچر الہ آباد میڈیکل ہال سے روپیہ بھیج کو منگوا کر رکھا۔ آگے سے ایک دوست کی معرفت کلوروڈائن کی دو شیشیاں خرید لیں۔ ایک اخبار میں لکھا دیکھا کہ بنارس میں ایک بنگالی حکیم علاج کرتا ھے، اور اس کی دوا بھی طلب کی۔ نصوح کو ایک وجہ تسلی یہ تھی کہ ایک طبیب حاذق اسی کے ہمسائے میں ‌رہتا تھا۔
گورو سیاہ ہیضے کے توڑ کے واسطے اتنا سامان وافر موجود تھا، مگر آخر نصوح کا گھر بھی فرشتوں کی نظر سے نہ بچا۔ باپ کی اجل آئی تو دوائیں رکھی ہی رہیں۔ دینے اور پلانے کی نوبت بھی نہ پہنچی کہ بڑے میاں سبکیاں لینے لگے۔ وہ رشتے کی خالہ تھوڑی دیر سنبھلی تھیں۔ لیکن وہ کچھ ایسی زندگی سے سیر تھیں کہ انہوں نے خود خبر کرنے میں ‌دیر کی۔ غرض دوا ان کو بھی نصیب نہ ہوئی۔ ماما نے البتہ انگریزی یونانی سب طرح کی دوائیں ڈھکوسیں۔ مگر اس کی عمر ختم ہو چکی تھی۔ اول اول نصوح کو اپنی احتیاط پر کچھ یوں ہی سا تکیہ ہوا تھا، مگر جب وبا کا بہت زور ہوا اور اس کے گھر میں تابڑ توڑ ایک چھوڑ تین موتیں ہو گئیں، تو نا چار تن بہ تقدیر صبر و شکر کر کے بیٹھ رہا۔
غرض پورا ایک چلہ شہر پر سختی اور مصیبت کا گزرا۔ نہیں معلوم کتنے گھر غارت ہوئے، کس قدر خاندان تباہی میں ‌آ گئے، یہاں تک کہ نواب عمدہ الملک نے ہیضہ کیا۔ کوئی دو تین گھڑی دن چڑھتے چڑھتے شہر میں ‌یہ خبر مشہور ہوئی اور نماز جمعہ کے بعد دیکھتے ہیں جنازہ جامع مسجد کے صحن میں ‌رکھا ھے۔ یوں تو ہزار ہا آدمی شہر میں تلف ہوئے مگر عمدہ الملک کی موت سب پر بھاری تھی۔ اول تو ان کی ٹ کر کا شہر میں ‌کوئی رئیس نہ تھا، دوسرے ان کی ذات سے غریبوں کو بہت کچھ فائدہ پہنچا تھا۔ گو ان کے مرنے کا گھر ماتم تھا، لیکن لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ بس اب خدا نے ٹھنڈک ڈالی، کیوں کہ معتقدات عوام میں یہ بھی ھے کہ وبا بے کسی بڑے رئیس کے بھینٹ لئے نہیں جاتی۔ خیر لوگوں نے کچھ سمجھا ہو، یوں بھی شورش بہت کچھ فرو ہو چکی تھی اور امن و امان ہو جاتا تھا۔ لوگوں نے دکانیں بھی کھولنی شروع کر دیں اور دنیا کا کاروبار پھر جاری ہو چلا۔
انہی دنوں نصوح نے اپنی بیوی سے کہا کہ دو مہینے سے چاولوں کو ترس گئے۔ اب خدا نے اپنا فضل کیا۔ آج زردہ پکواؤ، مگر تاکید کرنا چاول کھڑے نہ رہین۔ شام کو زردہ پکا اور گھر کے چھوٹے بڑے سب نے کھایا اور حسبِ عادت سو رہے۔ کوئی پہر رات باقی رہی ہو گی کہ دفعتہً نصوح کی آنکھ کھل گئی۔ جاگا تو پیٹ میں ‌آگ پھنکی ہوئی تھی۔ اٹھتے اٹھتے طبیعت نے کئی مرتبہ مالش کی۔ اس نے ننگے سر جلدی سے صحن میں نکل کر ٹہلنا شروع کیا۔ خوب کس کے دونوں بازو باندھے۔ گلے میں توے کی سیاہی تھوپی۔ عطر کا پھویا ناک میں رکھا اور طبیعت کو دوسری طرح مصروف کیا۔ مگر معلوم ہوتا تھا کہ حلق تک کوئی چیز بھری ہوئی ہے۔ بہتیرا ضبط کیا، بہتیرا ٹالا، آخر بڑے زور سے استفراغ ہوا۔ گھر والے سب جاگ اٹھے۔ نصوح کو اس حالت میں ‌بیٹھے ہوئے دیکھ کر سب کے کلیجے دھک سے رہ گئے۔ کوئی پانی اور بیسن لے کر دوڑا۔ کوئی الائچی ڈال پان بنا پاس آ کھڑا ہوا۔ کوئی پنکھا جھلنے لگا۔ نصوح کو تو لا کر چار پائی پر لٹا دیا اور اب سب لوگ لگے اپنی اپنی تجویزیں کرنے۔
کسی نے کہا خیریت ہے غذا تھی۔ کوئی بولا زردے میں گھی بُرا تھا۔ کوئی کہنے لگا کھر چن کا فساد ہے۔ غرض یہ صلاح ہوئی کہ ہیضہ وبائی نہیں ہے۔ گلاب اور سونف کا عرق دیا جائے اور گھبرانے کی بات نہیں۔ صبح تک طبیعت صاف ہو جائے گی۔
پر یہ تو تیمار داروں کا حال تھا۔ نصوح اگرچہ تکان کی وجہ سے مضمحل ہو گیا تھا، مگر ہوش و حواس سب خدا کے فضل سے برجا تھے۔ سب کی صلاحیں اور تجویزیں سنتا تھا اور دوا جو لوگ پلاتے تھے پی لیتا تھا، لیکن استفراغ ہونے کے ساتھ ہی اس نے کہہ دیا تھا کہ لو صاحب خدا حافظ، ہم بھی رخصت ہوتے ہیں۔ استفراغ امتلائی مجھ کو بارہا ہوئے ہیں مگر کچھ میرا جی اندر سے بیٹھا جا تا ہے اور ہاتھوں میں سنسنی سی چلی آ رہی ھے۔ اتنا کہنے کے بعد تو نصوح دوسری ہی ادھیڑ بن میں لگ گیا اور سمجھا کہ بس اب دنیا سے چلا۔ صبح ہوتے ہوتے روایت کے کل آثار پیدا ہو گئے۔ برداطراف، تشنج و ضعف، متلی، اسہال، تشنگی، ہر ایک کیفیت اشتداد پر تھی۔ منہ اندھیرے آدمی حکیم کے پاس دوڑا گیا۔ حکیم صاحب خود خفقانی المزاج، ہیضے کے نام سے کوسوں بھاگتے تھے۔ مگر ہمسائیگی، مدت کی راہ و رسم، طوعاً و و کرہاً آئے اور کھڑے کھڑے چھدا سا اتار کر چلے گئے۔ بیماری میں تو بولنے اور بات کرنے کی بھی طاقت نہ تھی۔ ایک پہر ہی بھر کی بیماری میں چار پائی سے لگ گیا تھا۔ عور توں نے پردے میں سے جہاں تک اس گھبراہٹ میں زبان نے یاری دی، کہا۔ لیکن حکیم صاحب یہی کہے چلے گئے کہ برف کے پانی میں نارجیل دریائی گھس گھس کر پلائے جاؤ۔
تیمارداروں کو ایسی سرسری اور رواداری کی تحقیق سے کیا خاک تسلی ہوتی۔ فوراً آدمی کو شفا خانے دوڑایا اور دوا لئے صدا کی طرح آ موجود ہوا۔ اوپر تلے چار پڑیاں تو اس نے اپنے سامنے پلائیں۔ چلتے ہوئے ایک عرق دیتا گیا کہ پاؤ گھنے میں پلا کر مریض کو علیحدہ مکان میں اکیلا لٹا دینا۔ کوئی آدمی اس کے پاس نہ رہے تاکہ اس کو نیند آ جائے۔ اگر سو گیا تو جاننا کہ بچ گیا۔ فوراً ہم کو خبر دینا۔
ڈاکٹر کے حکم کے مطابق نصوح کو اکیلے دالان میں سلا کر لوگ ادھر اُدھر ٹل گئے۔ مگر دبے پاؤں، آ کر دیکھ ایکھ جاتے تھے۔ نصوح کے دل کی جو کیفیت تھی وہ البتہ عبرت انگیز تھی۔ یہ کچھ تو بیماری کا اشتداد ہوا۔ مگر ہوش و ہواس سب بدستور تھے۔ وہ اپنے خیال میں ڈوبا ہوا تھا، لوگ جانتے تھے کہ غش میں پڑا ہے۔ ابتدا میں نصوح بھی اپنی نسبت مرنے کا تصور کرنے سے گریز کرتا تھا اور انہیں چاہتا تھا کہ اپنے تئیں مرنے والا سمجھے، بلکہ جو لوگ اس کی علالت کو سؤ ہضم اور امتلا کی وجہ سے تجوز کرتے تھے، دل میں ان کی رائے کی تحسین کرتا تھا۔ لیکن افسوس یہ مسرت نصوح کو بہت ہی ذرا سی دیر تک نصیب ہوئی۔ دم بہ دم اس کی حالت ایسی ردی ہوتی جا رہی تھی کہ زندگی کے تمام تر احتمالات ضعیف تھے۔ آخر چار و نا چار اس کو سمجھنا پڑا کہ اب دنیا میں چند ساعت کا مہمان اور ہوں۔ ادغان مرگ کے ساتھ پہلا قلق اس کو دنیا کی مفارقت کا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مرنا وہ سفر ہے جس کا انقطاع نہیں، وہ جدائی ہے کہ جس کے بعد وصال نہیں، وہ گمشدگی ہے جس کی کبھی بازیافت نہیں، وہ غشی ہے جس سے افاقہ نہیں، وہ بے گانگی ہے جس کے پیچھے کچھ تعلق نہیں۔ کبھی وہ بیوی بچوں کو دیکھ کر روتا اور کبھی سازو سامانِ دنیا پر نظر کر کے سر کو دھنتا اور کہتا:
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شدروئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
جس جس پہلو سے غور کرتا، اس کو اپنا مرنا بے وقت معلوم ہوتا تھا۔ بیوی کو دیکھ کر اپنے جی میں سوچتا تھا کہ بھلا کوئی اس کی عمر بیوہ ہونے کی ہے۔ نہ تو کوئی اس کے میکے میں اتنا ہے اس کا متکفل ہو، نہ بیٹوں میں کوئی اس قابل ہے کہ گھر کو سنبھال لے۔ اندوختہ جو ہے سو واجبی ہی واجبی ہے۔
کب تک اکتفا کرے گا۔ دونا کد خدا بیٹیاں اس کے آگے ہیں۔ کچا ساتھ خالی ہاتھ، بچوں کی پرورش، کہیں سے کوڑی کی آمد کا آسرا نہیں۔ کیا ہو گا اور کیوں کر یہ پہاڑ زندگی اس کے کاٹے کٹے گی۔ بڑا لڑکا تو پہلے ہی گویا ہاتھ سے جا چکا ہے۔ رہا منجھلا، امسال انٹرنس پاس کرنے کو تھا اور امید تھی یہ کچھ ہو گا مگر اب وہ تمام منصوبہ بھی غلط ہوا چاہتا ہے۔ میری آنکھ بند ہوئی تو کیسا پڑھنا اور کس کا امتحان۔ یہ دو لڑکیوں کا فرض کیسے میں اپنی گردن پر لے چلا۔ بڑی کی نسبت کن کن مصیبتوں سے ٹھہری تھی اور جب میرے رہتے یہ دقت تھی تو اب ان بچیوں کا دیکھیئے کیا ہو۔ پیش بینی اور مال اندیشی کر کے پارسال گاؤں ‌لیا تھا۔ ابھی تک پٹی داروں نے اس میں اچھی طرح تسلط نہیں بیٹھنے دیا۔ اب جو چالیس پچاس بیگھ سیر کر کے نیل بو لیا ہے وہ سب گیا گزرا ہوا۔ گودام پر جو روپیہ لگا دیا تھا وہ بھی ڈوبا۔ رہنے کے مکان میں کس قدر تنگی سے بسر ہوتی ہے۔ کوئی مہمان آ نکلتا ہے تو شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ شمال رویہ دالان در دالان بنوانے کا ارادہ تھا۔ ڈیرہ دون لکڑی کا روپیہ بھیج چکا ہوں، وہ نہیں آئی۔ پزاوے والوں کو اینٹوں کی دادنی دی تھی، وہ نہیں پٹی۔ افسوس کہ موت نے مجھے مہلت نہ دی۔ لوگوں کا لینا دینا، حساب کتاب، بڑے بکھیڑے ہیں۔ آج سمجھانے بیٹھوں تو مہینوں میں جا کر طے ہوں تو ہوں۔ اجل سر آ پہنچی۔ تمام لینا لوانا مارا پڑا۔ اے کاش کچھ نہیں تو میں دس بارہ برس ہی اور جی جاتا تو یہی سب انتظام اپنی خواوہی کے مطابق درست کر لیتا۔ بال بچے بھ ذرا اور سیانے ہو جاتے، کھانے کمانے لگتے۔ ادھر ان کی شادی بیاہ کر چکتا۔ گاؤں کا معاملہ بھی رو براہ ہو جاتا، مکان کو اپنے طور پر بنا لیتا، لوگوں کا حساب کتاب سب صاف کر دیتا، گھر والی کے واسطے کچھ ذخیرہ وافر فراہم کر جاتا، تب فراغت سے مرتا۔ کیا مرنے میں مجھ کو کچھ عذر یا خدانخواستہ کسی طرح کا انکار تھا، یا میں اتنی ذرا سی بات نہیں سمجھتا کہ دنیا میں آ کر مرنا ضرور ہے۔
مگر ہر چیز ایک وقت مناسب پر ٹھیک ہوتی ہے۔ یہ بھی کوئی مرنا ہے کہ ہر ایک کام کو ادھورا، ہر ایک انتظام کو ناقص و ناتمام چھوڑ کر چلا جاؤں۔ ایسا بے ہنگام مرنا نہ صرف میرے لئے بلکہ میرے تمام متعلقین اور وابستگان کے لئے موجبِ زیاں اور باعثِ نقصان ہے۔
اگرچہ نصوح بہ نظر ظاہر ایک آزاد اور بے گانہ وار زندگی بسر کرتا تھا۔ نہ تو ہر وقت گھر میں گھسے رہنے کی اس کو خو تھی، نہ بال بچوں ہی سے کچھ بہت اختلاط کرنے کی عادت۔ انتظامِ خانہ داری میں بھی بی بی کے تقاضے اور اصرار سے بہ قدرِ ضرورت کچھ دخل دیا تو دیا، ورنہ اس کو بھی چنداں پرواہ نہ تھی اور یہی سبب تھا کہ جب بھی سننے کا اتفاق ہوتا کہ فلاں شخص نے بڑی حسرت کے ساتھ جان دے دی، تو نصوح کو تعجب ہوتا اور کہتا کہ خدا کی شان ہے، ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ دنیا سے نکلنے کو ان کا جی ہی نہیں چاہتا۔ نہیں معلوم کہ دنیا کی کونسی ادا ان کو پسند ہوتی ہے، ورنہ استغفراللہ، یہ دارالمحسن انسان کے رہنے کے لائق ہے؟ صدہا بکھیڑے، ہزار ہا مخمصے، روز کے جھگڑے، آئے دن کی مصیبت۔ سچ ہے، خدا تعالیٰ کا کوئی فعل حکمت اور بندوں کی مصلحت سے خالی نہیں۔ ظاہر میں تو موت سب کو بری معلوم ہوتی ہے اور اس سے لوگ ایسے ڈرتے ہیں جیسے مجرم سزا سے، لیکن غور کر کے دیکھو تو مرنا بھی ایک نعمت ہے۔ انسان کی طبیعت تازگی پسند واقع ہوئی ہے۔ جہاں ایک حالت سال ہا سال رہی، گو وہ حالت کیسی ہی عمدہ اور پسندیدہ کیوں نہ ہو، خواہ مخواہ آدمی اس سے ملول ہو جاتا ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے ہمراہی من و سلوا کھاتے کھاتے ایسے اکتائے کہ آخر کو ان کے دل لہسن و پیاز پر للچائے۔ اگر دنیا میں ‌موت نہ ہوتی تو آدمی کنوؤں میں کود کود کر اور درختوں سے گر گر کر جان دیتے اور حیات دراز کو عذاب مقیم سمجھتے۔ میرے دل کی تو یہ کیفیت ہے کہ مجھ کو یہاں سے چلے جانے کی مطلق پرواہ نہیں اور کسی چیز کو میں نہیں سمجھتا کہ مجھ کو اس کی مفارقت کا قلق ہو۔ لیکن بڑا فرق ہے، فرض اور واقعات میں۔
یہ بھی نصوح کے نفس کا م کر تھا کہ وہ اپنے تئیں دنیا سے بے تعلق اور اپنی زندگی کو بے ہمہ و با ہمہ سمجھتا تھا۔ جب تک وہ دوسروں کو مرتا دیکھتا تھا اپنے تئیں مرنے پر دلیر پاتا تھا۔ لیکن جب خود اپنے سر پر آن بنی تو سب سے زیادہ بودا نکلا۔ وہ اپنے تعلقات سے واقع میں اب تک بے خبر تھا۔ جب موت سامنے آ موجود ہوئی اور چلنا ٹھہر گیا تو حقیقت کھیل کہ ادھر زن و فرزند کا فریفتہ ہے اُدھر مال و متاع کا دل دادہ۔ اتنا بڑا تو سفر اس کو در پیش، مگر بار علائق کی وجہ سے پہلے ہی قدم پر اس کے پاؤں ہزار ہزار من کے ہو رہے تھے۔ ریل کی سیٹی بج چکی تھی، مگر یہ ابھی اسٹیشن کے باہر اسباب سنبھالنے میں مصروف تھا۔ اگر اسی حالت میں، کہ اس کی روح تعلقات دینوی میں ڈانوا ڈول بھٹکتی ہوئی پھر رہی تھی، کہیں خدانخواستہ اس کی جان نکل جاتی تو بس دونوں جہان سے گیا گزرا تھا۔ ازیں سُو راندہ و ازیں سُو درماندہ۔ مگر خدا نے بڑا ہی فضل کیا کہ نا امیدی نے اس کی ہمت بندھائی اور اپنے دل میں سوچا کہ چلنا تو اب ٹلتا نہیں، پھر قلق سے فائدہ اور اضطراب سے حاصل۔ مرتا ہوں تو مردانہ وار کیوں نہ مروں اور استقلال کے ساتھ جان کیوں نہ دوں۔ اس بات کا ذہن میں آنا تھا کہ دنیا کی تمام چیزوں پر ایک اداسی چھا گئی۔ اب جس چیز کو دیکھتا ہے میچ اور بے وقعت نظر آتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا کہ ڈاکٹر نے اس کو دوا پلوا کر تنہا لٹوا دیا تھا۔ استغنا سے ایک اطمینان دل کو پہنچا اور ادھر علالت کے اشتداد کا تکان تھا ہی، اوپر سے پہنچی دوا جو بالخاصہ خواب آور تھی اور تیمار داروں کا ہجوم کم ہوا، لیٹا تو نیند کی ایک جھپکی سی آ گئی۔
آنکھ کا بند ہونا تھا کہ نصوح ایک دوسری دنیا میں تھا۔ جو خیالات تھوڑی دیر ہوئی اس کے پیشِ نظر تھے، سب اس کے دماغ میں بھرے ہوئے تھے۔ اب متخیلہ نے ان کو اگلے پچھلے تصورات سے گڈ مڈ کر کے ایک نئے پیرائے میں لا سامنے کھڑا کیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک بڑی عمدہ اور عالیشان عمارت ہے اور چونکہ نصوح خود بھی کبھی ڈپٹی مجسٹریٹ حاکم فوجداری رہ چکا تھا، تو اس کو یہ تصور بندھا کہ یہ گویا ہائی کورٹ کی کچہری ہے۔ لیکن حاکم کچہری کچھ اس طرح کا رعب دار ہے کہ باوجود یہ کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں کا اجتماع ہے مگر یہ شخص سکوت کے عالم میں ایسا دم بخود بیٹھا ہے کہ گویا کسی کے منہ میں زبان نہیں اور جو کوئی بہ ضرورت بولتا اور بات بھی کرتا تھا تو اس قدر آہستہ کہ کانوں کان خبر نہ ہو۔ اتنی بڑی تو کچہری ہے مگر مختار اور وکیل کسی طرف دیکھنے میں نہیں آتے۔ کچہری کے عملے اس طرح کے کھرے اور اپنے حاکم سے اتنا ڈرتے ہیں کہ کسی اہل معاملہ اور مقدمے والے کے اپنے پاس تک آنے کے روادار نہیں۔ غرض کیا مجال کہ کوئی اپنے بارے میں ناجائز پیروی کر سکے یا روپے پیسے کا لالچ دیکھا کر یا سعی سفارش بہم پہنچا کر کار بر آری کر سکے۔ اگرچہ انصاف اور معاملہ فہمی اور ہمہ دانی کی وجہ سے حاکم کی ہیبت ادنٰی اعلیٰ سب پر چھائی ہوئی ہے، مگر جتنے مجرم ہیں، کیا خفیف کیا سنگین، کوئی اس کے رحم سے نا امید نہیں۔ اختیارات اس کے اس قدر وسیع ہیں کہ نہ اس کے فیصلے کی اپیل ہے، نہ اس کے حکم کا مرافعہ۔ کام کرنے کا ایسا اچھا ڈھنگ ہے کہ کام زور کا زور صاف۔ کتنے ہی مقدمے پیشی میں کیوں نہ ہوں، ممکن نہیں ‌کہ تاریخ مقررہ پر فیصل نہ ہو جائیں۔ پھر یہ نہیں کسی قدمے کو روا روی اور سرسری طور پر تجویز کر کے ٹال دیا جائے۔ نہیں۔ جو حکم صادر کیا جاتا ہے، ہر عذر کو رفع، ہر جہت کو قطع، خود مجرم کو قائل معقول کر کے اور گناہگار کے منہ سے اس کی خطا تسلیم کرانے کے بعد۔ غرض جو تجویز ہے مؤجہ، جو فیصلہ ہے مدلل، جو رائے ہے حتمی و ادغانی، جو حکم ہے دودھ کا دودھ، پانی کا پانی۔ گواہوں کے باب میں ایسی احتیاط ملحوظ ہے کہ صرف عادل، ثقہ اور راست گو کی گواہی ہی لی جاتی ہے اور وہ بھی ایسے کہ واقف الحال چشم دید، بلکہ ملزم کے رفیق و ہمنشین، کہ اس کے راز دار و معین اور مدد گار ہوں۔ پھر کیا دیکھتا ہے کہ ہر مجرم کو فرداً فرداً فردِ قراردادِ جرم کی ایک نقل دی گئی ہے کہ وہ اس کو پڑھ رہا ہے، اور جتنے الزام اس پر لگائے گئے ہیں سب کو سمجھتا ہے اور اپنی برات کی وجوہات کو سوچتا ہے۔
کچہری کا خیال نصوح کو حوالات کی طرف لے گیا، تو دیکھا ہر شخص ایک علیحدہ جگہ میں نظر بند ہے۔ جیسا مجرم ہے اس کے مناسب حالت اس کو حوالات میں سختی یا سہولت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ حوالات کے برابر جیل خانہ ہے، مگر بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ محنت کڑی، مشقت سخت، جو اس میں گرفتار ہیں، سولی کے متمنی اور پھانسی کے خواستگار ہیں۔ نصوح یہ مقامِ ہولناک دیکھتے ہی الٹے پاؤں پھرا۔ باہر آیا تو پھر حوالاتیوں اور زیر تجویزوں میں تھا۔ ان لوگوں میں ہزار ہا آدمی تو اجنبی تھے لیکن جا بجا شہر اور محلے کے آدمی بھی نظر آتے تھے، مگر وہ جو مر چکے تھے۔ نصوح کو یہی سب سامان دیکھ کر اسی خواب کی حالت میں ایک حیرت تھی کہ الٰہی یہ کون سا شہر ہے؟ کس کی کچہری ہے؟ یہ اتنے مجرم کہاں سے پکڑے ہوئے آئے ہیں؟ اور یہ میرے ہم وطنوں نے کیا جرم کیا کہ ماخوذ ہیں؟ اور یہ کیسے مرے تھے کہ میں ان کو یہاں جواب دہی میں دیکھتا ہوں؟ اسی حیرت میں لوگوں کو دیکھتا بھالتا چلا جاتا تھا کہ دور سے اسکو اپنے والد بزرگوار انہی حوالاتیوں میں بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ پہلے تو سمجھا کہ نظر غلطی کرتی ہے۔ مگر غور کیا تو پہچانا کہ نہیں، واقع میں وہی ہیں۔ دوڑ کر قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا کہ حضرت ہم آپ کی مفارقت میں تباہ ہیں۔ آپ یہاں کہاں؟
باپ: “میں اپنے گناہوں کی جواب دہی میں ماخوذ ہوں۔ یہ مقام جو تم دیکھتے ہو دارالجزا ہے۔ خداوند جلّ و علیٰ شانہ اس محکمے کا حاکم ہے۔ “
بیٹا: “ یا حضرت آپ بڑے متقی، پرہیزگار، خدا پرست، نیکوکار تھے۔ آپ پر، اور گناہوں کا الزام؟“
باپ: “گناہ بھی ایک دو نہیں، سینکڑوں ہزاروں۔ دیکھو میرا نامہ اعمال کیسی رسوائی اور فضیحت سے بھرا ہوا ہے اور میں ‌اس کو دیکھ دیکھ کر سخت پریشان ہوں کہ کیا جواب دوں گا اور کون سی اپنی برات کی پیش کروں گا۔ “
یہ وہ کاغذ تھا جو نصوح نے ہر شخص کے ہاتھ میں دیکھا تھا اور اس کو دنیا کے خیالات کے مطابق فردِ قراردادِ جرم سمجھا تھا۔ باپ کا نامہ اعمال دیکھ کر تو تھرّا اُٹھا۔ شرک اور کفر اور نافرمانی، نا شکری اور بغاوت اور بے ایمانی، کبر و نخوت، دروغ و غیبت، طمع و حسد، مردم آزادی، نفاق دریا، حسبِ دنیا، کوئی الزام نہ تھا کہ اس میں نہ ہو۔ چوں کہ نصوح کے دماغ میں خیالاتِ دینوی گونج رہے تھے، لگا باپ کے نامہ اعمال میں تعزیرات ہند کے، قرآن کی صور توں اور آیتوں کا حوالہ تھا۔ متعجب ہو کر باپ سے پوچھا کہ حضرت پھر کیا آپ ان تمام جرموں کے مرتکب ہوئے ہیں؟
باپ: “سب کا۔ “
بیٹا: “کیا آپ حضور حاکم اقرار کر چکے ہیں؟“
باپ: “ انکار کی گنجائش ہی نہیں۔ میری مخالفت میں گواہی اتنی وافر ہے کہ اگر میں انکار بھی کروں تو پذیرا نہیں ہو سکتا۔ “
بیٹا:‌ اول تو دو شخص کرام کاتبین اس بلا کے ہیں کہ میرا کوئی فعل ان سے مخفی نہیں۔ باتیں کہتے ہیں پتے کی اور کہتے کیا ہیں، میرا روزنامچہ عمری لکھتے گئے ہیں۔ اب جو میں اس کو دیکھتا ہوں، حرف بہ حرف صحیح اور درست پاتا ہوں۔ دوسرے، میرے اعضا: ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان، کوئی میرے کہنے کا نہیں۔ سب کے سب مجھ سے منحرف، سب کے سب مجھ سے برگشتہ، میری مخالفت پر آمادہ، میری تذلیل پر کمر بستہ ہو رہے ہیں۔ “
بیٹا:‌ آخر آپ کچھ اس کی وجہ بھی سمجھتے ہیں؟
باپ: میں ان کو غلطی سے اعوان و انصار، بھیدی اور رازدار سمجھتا تھا، مگر واقع میں ‌یہ سب جاسوسِ ایزدی تھے۔ انہوں نے وہ وہ سلوک میرے ساتھ کیے کہ تسمہ لگا نہیں رکھا۔
بیٹا: پھر آپ کا کیا حال ہے۔
باپ: جب سے دنیا کو چھوڑا، قبر کی حوالات میں ہوں۔ تنہائی سے جی گھبراتا ہے۔ انجام کار معلوم نہیں۔ شبانہ روز اسی اندیشے میں پڑا گھلتا ہوں۔ حوالات میں مجھ کو اس قدر ایذا ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ مگر صبح و شام، ہر روز آتے جاتے جیل خانے کے پاس ہو کر گزرنا ہوتا ہے۔ دوزخ وہی ہے۔ وہاں کی تکلیفات دیکھ کر اور بھی ہوش اُڑ جاتے ہیں اور غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ اے کاش ہمیشہ کے واسطے اسی حوالات میں رہنے کا حکم ہو جاتا۔
بیٹا: پھر ہنوز آپ کا مقدمہ پیش نہیں ہوا۔
باپ: خدا نہ کرے کہ پیش ہو۔ جو دن حوالات میں ‌گزر جاتا بہت غنیمت ہے۔ اول اول جب میں ‌حوالات آیا تو اعمال نامہ مجھ کو حوالے کر دیا گیا۔ بس اسی کو دیکھا کرتا ہوں اور انجامِ کار سے ڈرا کرتا ہوں۔ نجات کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔
بیٹا:‌ بھلا کسی طرح ہم لوگ آپ کی اس مصیبت میں ‌کام آ سکتے ہیں؟
باپ: اگر میرے لئے عاجزی اور خلوص کے ساتھ دعا کرو تو کیا عجب کہ مفید ہو۔ ابھی میرے ہمسائے میں ایک شخص کی رہائی ہوئی ہے۔ اس پر بھی بہت سے الزام تھے۔ مگر جہاں ‌اللہ تعالیٰ میں کامل انصاف ہے، رحم بھی پر لے ہی سرے کا ہے۔
اس شخص کے پس ماندوں نے اس کے واسطے بہت زار نالی کی، تو پرسوں یا اترسوں اس کو بلا کر ارشاد فرمایا کہ تیرے افعال جیسے تھے، وہ اب تجھ پر مخفی نہیں رہے۔ مگر ہمارے کئی بندے تیری معافی کے واسطے ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں اور وہ تیرے ہی زن و فرزند ہیں۔ ہم کو تیری یہی ایک بات بھلی معلوم ہوتی ہے کہ تو نے اپنی خاندان میں نیکی اور دین داری کا بیج بویا۔ جا، ہم نے تیری خطا معاف کی۔ بیٹا! سچ کہنا کہ تم لوگوں نے بھی کبھی میرے حق میں دعائے خیر کی ہے؟
بیٹا : جناب آپ کے انتقال کے بعد رونا پیٹنا تو بہت کچھ ہوا اور اب تک اس شد و مد کے ساتھ ہوتا ہے کہ گویا آپ نے ابھی انتقال فرمایا ہے۔ اور یہ رونا تو ہم لوگوں کے دم کے ساتھ ہے۔ آپ کی عنایتیں، آپ کی شفقتیں، جب تک جئیں گے یاد کریں گے۔ رسم دنیا کے مطابق آپ کا کھانا بھی برادری میں تقسیم کر دیا ہے۔ لوگ شاید میرے منہ پر خوشامد سے کہتے ہوں، مگر کہتے تھے کہ اس مہنگے سمے میں باپ کا کھانا اچھا کیا۔ دعا کے بارے میں، غلط بات کیوں کر عرض کروں، اہتمام نہیں ہوا۔ آپ کے میراث کے ایسے جھگڑے پڑ گئے کہ آج تک نہیں سلجھے۔ مگر یہ تو فرمائیے کہ آپ تو صوم و صلوۃ کے بڑے پابند تھے۔کیا اعمال و افعال کچھ بھی کام نہ آئے؟
باپ : کیوں نہیں۔ یہ انہی اعمال کی بدولت ہے کہ تم مجھ کو اس حالت میں دیکھتے ہو، ورنہ بہتیرے مجھ سے زیادہ تکلیف میں ہیں۔ حوالات میں جیل خانے کی سی ایذا ہے۔ مگر یہاں ہمارے اعمال میں خلوص نیت شرط ہے۔ میں نے اعمال کو آ کر دیکھا تو اکثر جیسے جھوٹے موتی، کھوٹے روپے، نمازیں بے حضور قلب اکارت گئیں اور روزے چونکہ پابندی رسم کے طور پر رکھنے کا اتفاق ہوتا تھا، خالی فاقے شمار میں آئے۔
بیٹا : پھر اس دربار میں کچھ سعی و سفارش کا دخل نہیں؟
باپ : استغفر اللہ! کوئی کسی کی بات تو پوچھتا ہی نہیں۔ نفسی نفسی پڑی ہے۔ ہر شخص اپنی بلا میں مبتلا اور اپنی مصیبت میں گرفتار ہے۔ دوسرے کی نجات تو کیا کرائے گا، پہلے آپ تو سرخرو ہو لے۔
بیٹا : کیوں جناب، معاذ اللہ یہ شرک و کفر کا الزام آپ پر کیسا ہے؟ ہم لوت تو خیر، سارا شہر آپ کے اتقا کا معتقد تھا۔ کیا آپ خدا کے قائل نہ تھے؟
باپ : قائل تو تھا مگر دل سے معتقد نہ تھا۔
بیٹا : جناب، آپ کے تمام اعمال ظاہر سے مسسط ہوتا تھا کہ آپ کو خدائے کریم کے ساتھ بڑی راسخ عقیدت ہے۔
باپ : وہ تمام عقیدت معلوم ہوا کہ اوپری دل سے تھی۔ جب اول اول میرا اظہار لیا گیا تو پہلا سوال مجھ سے یہی پوچھا گیا کہ تیرا رب کون ہے؟ چونکہ مرتے وقت مجھ کو ایمان کی تلقین کی گئی تھی، میں نے جواب دیا اللہ وحدہ لا شریک لہ، تب اس پر جرح کی گئی کہ بھلا جب تو دکھن کی نوکری سے برخاست ہو کر گھر آیا اور مدت تک خانہ نشین رہا اور جو کچھ تو نوکری پر سے کما کر لایا، سب صرف ہو گیا اور تو نان شبینہ کو محتاج ہو کر نوکری کی جستجو میں ادھر ادھر پھرتا تھا اور مضطر ہو ہو کر ہم سے کرنے کو کافی تھی۔ ہم حفاظت نہ کرتے تو خود تیرے جسم میں فساد کا مادہ ایسا تھا کہ ایک ذرا سا روگ تیرے فنا کر دینے کو بہت تھا۔ مگر ہم تجھ سے دوستی کرتے تھے اور تو ہم سے عداوت۔ ہم عنایت کرتے تھے اور تو بغاوت۔ کیا یہی تھا بدلہ جو تو نے ہمکو دیا؟ کیا یہی تھا صلہ جو تجھ سے ہم کو ملا؟
ہم نے تجھ کو دنیا میں بھیجتے وقت کیا تاکید کی تھی کہ دیکھ، روح ایک جوہر لطیف ہے اور مجھ کو بہت ہی عزیز ہے، ایسا نہ کرنا کہ اس کو دنیا میں جا کر بگاڑ لائے۔ یہ میری عمدہ امانت اور نفیس ودیعت ہے۔ دیکھ اس کی احتیاط کما ینبغی اور حفاظت کماحقہ کیجیو۔ جیسا اجلا، شفاف، براق، روشن، یہاں سے لیے جاتا ہے ایسا ہی دیکھ لوں گا۔ آج تو اے روسیاہ، اس کو لایا ہے پوتھ سے بدتر اور ٹھیکری سے کم تر بنا کر، نجس، نا پاک، تیرہ، بے آب، بد رونق، خراب۔ ہم نے تو چلتے چلتے تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو دنیا میں دل مت لگائیو اور اس طرح رہیو جیسے سرائے میں مسافر۔ تو وہاں گیا تو بس وہیں کا ہو رہا اور ایسی لمبی تان کر سویا کہ قبر میں آ کر جاگا۔ تھا تو مسافر اور بن بیٹھا مقیم۔ تھا تو سیاح اور ہو گیا متوطن۔ کیا تو تمام عمر دنیا میں مال نہیں جمع کرتا رہا اور کیا تو نے پکی پکی عمارتیں اس خیال سے نہیں بنوائیں کہ مدتوں ان میں رہے گا؟ مسافر کا یہی کام ہے؟ سیاح کا یہی شیوہ ہے؟ تو تو جانتا تھا کہ تجھ کو یہاں لوٹ کر آنا ہے، پھر مرنے کے نام سے تجھ کو موت کیوں آتی تھی اور چلنے کی خبر سنکر تو مچلتا کیوں تھا؟
اول تو تجھ کو ہماری عبادت کا اتفاق ہی نہیں ہوا۔لیکن جب کبھی تو لوگوں کی شرم حضور یا دکھاوے یا اتباع رسم کی وجہ سے مصروف عبادت ہوا بھی ہو، تو کس طرح، کہ دل کہیں تھا اور تو کہیں۔ کوئی نماز بھی تیری سجدہ سہو سے خالی تھی؟ دنیا کی بھولی بسری باتیں تجھ کو نماز میں یاد آتی تھیں، اور نماز تو کیا پڑھتا تھا، گھاس کاٹتا تھا۔ نہ تعدیل ارکان ٹھیک، نہ قومہ درست، نہ قعدہ صحیح۔ برس بھر تو دوزخ شکم کو اناپ شناپ بھرتا رہتا تھا۔ برسویں دن صرف ایک مہینے کے روزے رکھنے کا ہم نے تجھ کو حکم دیا تھا۔ کہ تجھ کو ہماری نعمتوں کی قدر ہو، تجھ کو اپنے ابنائے جنس پر، جو مبتلائے مصیبت ہیں، رحم آئے اور تیری صحت بدنی کو بھی نفع پہنچے۔ تیرے مزاج میں فروتنی اور انکسار کی صفتِ محمود، کہ یہ ادا ہم کو بہت بھاتی ہے، پیدا ہو۔ لیکن یوں دنیا کے کام دھندے میں تو تو دن بھر بے آب و دانہ مصروف رہا، نہ شکوہ، نہ گلہ، تازہ دم، ہشاش بشاش، پھر کھانا تھوڑے کو موجود۔ مگر روزہ چوں کہ ہمارے حکم سے تھا، دن میں سینکڑوں مرتبہ پیاس کی شکایت اور جو آیا اس سے ضعف و نا توانی کی حکایت۔ " العطش " اور " الجوع " یہی تیرے دو وظیفے تھے۔ روزہ افطار کیا اور تو بدحواس ہو کر چار پائی پر ایسا گرا کہ گویا جان نہیں۔ باوجودیکہ تو دو دن کا کھانا ایک ہی رات میں کھا لیتا تھا، پھر بھی اس تصور سےکہ کل پھر روزہ رکھنا ہے، تیری جوع البقر کو کسی چیز سے سیری نہیں ہوتی تھی۔ تُو عید کا اس طرح منتظر رہتا تھا جیسے کوئی قیدی تاریخ رہائی کا۔ تیرا بس چلتا تو 29 کیا 19 کی عید کرتا۔ کیا ایسے ہی روزوں کے ثواب کا تو امیدوار اور اجر کا متوقع ہے؟
ہم نے تجھ کو انسان بنا کر بھیجا تھا تاکہ مصیبت زدوں کی ہمدردی کرے۔مگر تو نے ایسی تن آسانی اختیار کی کہ راحت پہنچانا تو در کنار دوسروں کو تکلیف دے کر بھی اپنی آسائش حاصل کرنے میں تجھ کو بات نہ تھا۔ تیرے ہمسائے میں ہمارے بندے رات کو فاقے سے سوتے تھے اور تجھ کو سوء ہضم کے علاج سے ان کی پرداخت کی پروا نہ تھی۔ تیرے پڑوس میں ایسے لوگ بھی تھے کہ جاڑے کی لمبی راتیں آگ تاپ تاپ کر سحر کرتے اور تُو دَھرے دَھرے لحاف اور بھاری بھاری توشکوں میں چین سے پاؤں پھیلا کر سوتا۔ نعمت مال و دولت جو ہم نے تجھ کو عطا کی تھی، تو نے تکلفات لا یعنی اور نمود و نمائش کی غیر ضروری چیزوں میں بہت کچھ تلف کی اور جو لوگ اس کے سخت حاجت مند تھے، ترستے کے ترستے رہ گئے۔ تیری سب خباثتیں ہم کو معلوم ہیں۔ تو نے درماندگی کا نام خدا رکھ چھوڑا تھا۔ جب تک سعی و تدبیر سے تجھ کو کار برآری کی امید ہوتی تھی، تجھ کو ہر گز پروا نہیں ہوتی تھی کہ خدا بھی کوئی چیز ہے اور انتظام دنیا میں اس کو بھی کچھ دخل ہے۔ مگر جب تو عاجز اور درماندہ ہوتا تھا، تب تو خدا کو یاد کرتا تھا۔ اگر ہماری خدائی اور سلطنت تیری فرماں برداری کی محتاج ہوتی، تو تو نے اس کے اٹھا دینے میں کچھ کوتاہی نہیں کی۔ تو نے ہمارے فرمان واجب الاذعان کی بے حرمتی اور احکام لازم الاحترام میں بے توقیری کی اور تو نے اپنا برا نمونہ دکھا کر میرے دوسرے بندوں یعنی اپنے فرزندوں کو بھی گمراہ کیا۔ ہر روز تو لوگوں کو مرتے دیکھتا اور سنتا تھا، کیا تجھ کو نہیں سمجھنا چاہیے تھا کہ ایک دن تو بھی مرے گا۔ خود تیری حالت میں کتنے کتنے انقلاب واقع ہوئے۔ لڑکے سے جوان ہوا، جوان سے بڈھا ناتواں۔ بال تیرے سفید ہوئے، دانت تیرے ٹوٹے، کمر تیری جھکی، قوتوں میں تیری فتور آیا۔ غرض ہم نے تجھ کو سوتا دیکھ کر بہتیرا جھنجھوڑا، بہتیرے پانی کے چھینتے دیے، کئی بار اٹھا اٹھا کر بٹھا بٹھا دیا، مگر تیرے نصیب کچھ ایسے سوتے تھے کہ تو نے ہی کروٹ نہ لی۔
تمامی عمر تُو غفلت میں سویاہمارا کیا گیا اپنا ہی کھویا
سخت گیری خود ہماری عادت نہیں اور سخت گیری ہم کریں بھی تو کس پر؟ اپنے بندوں، جن کا مارنا اور جلانا ہر وقت ہمارے اختیار میں ہے۔ مگر جب بندہ بندہ ہو اور ہم کو اپنا مِلک سمجھے، نہ خرنا شخص کو ہم تو دیں نون اور وہ کہیے کہ میری آنکھیں پھوٹیں۔ ہم سے زیادہ بھی کوئی درگزر کرنے والا ہو گا کہ ایک معذرت پر عمر بھر کے گناہوں کو ہم نے قلبتہً بھلا بھلا دیا ہے۔ لیکن توبہ استغفار، ندامت و حسرت کا اظہار بھی تو کوئی کرے۔ ہماری رحمت حیلہ جُو، ہماری رافت بہانہ طلب، کتنی کتنی بار جوش میں آئی۔ مگر ہم نے اس کو صرف کرنے کا موقع نہ پایا۔ اگر بندہ ہمارے ساتھ نسبت عبودیت صحیح رکھتا تو ہم اس کی لاکھ برائیوں پر خاک ڈالتے۔ ہم کو تو بڑی شکایت یہی ہے کہ اس نے ہم کو معبود ہی نہ گردانا۔ عالم اسباب میں رہ کر اسباب پرست ہو گیا۔
پھر ہم جو دیکھتے ہیں تو ہمارے تو ہمارے احکام بھی کچھ سخت نہ تھے۔ کھانے کو ہم نے نہیں روکا، سونے کو ہم نے منع نہیں کیا، متمتعات دنیوی سے باز نہیں رکھا۔ پھر جو تو نے ان کی بجا آوری نہ کی، تو سوائے تیری بدنفسی کے اور تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ اے شخص، نجات جس کا تو نہایت آرزو مندی کے ساتھ خواہاں ہے، اے کاش زندگی میں تجھ کو اسکی اتنی بھی پرواہ ہوتی جیسے ارد پر سفیدی، دنیا کے چھوٹے چھوٹے نقصان اور ذرا ذرا سے زیان تجھ کو مضطر اور بے چین کر دیا کرتے تھے، اگرچہ کیا دنیا اور کیا دنیا کا خسارہ، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا، لیکن تباہیِ دین کی تجھ کو خبر تک بھی تو نہیں ہوئی۔ اے کاش تجھ کو نماز کے قضا ہونے کا اتنا ہی رنج ہوتا جتنا ایک مٹی کے پرانے آب خورے کے ٹوٹ جانے کا ہوتا تھا۔ ہم جاتے ہیں کہ اب تجھ کو بہت ہی ندامت ہے لیکن اس ندامت کا ماحصل نہیں، اس واسطے کہ یہ دار الجزا ہے، دار العمل نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تو ایک بات کا جواب نہیں دے سکتا لیکن حجت تمام کرنے کی نظر سے ہم تجھ کو مہلت دیتے ہیں، جا، اپنے نامۂ اعمال کو دیکھ اور اچھی طرح سوچ سمجھ کر کوئی بات ہم سے بیان کر، بشرطیکہ معقول اور قابلِ قبول ہو۔

فصل دوم

خواب سے بیدار ہو کر نصوح کو اپنی اور اپنے خاندان کی لا یعنی زندگی پر سخت تاسف ہوا اور اس نے تلافی مافات کا عہد کر کے فہمیدہ اپنی بی بی سے ماجرائے خواب بیان کیا اور اصلاحِ خاندان کے لیے اس کو اپنا مدد گار بنایا۔
باپ نے جو یہ اپنی رام کہانی سنائی، بیٹے پر اسطرح کی ہیبت چھائی کہ چونک پڑا، جاگا تو پھر وہی دالان تھا اور وہی تیمارداریوں کا سامان۔ بی بی پاس بیٹھی آہستہ آہستہ پنکھا جھل رہی تھی۔ میاں کی آنکھ کھلی ہوئی دیکھ کر اسکی جان میں جان آئی ورنہ جس گھڑی سے میاں نے جی برا کیا تھا، سہموں کے مارے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں تھا۔ نصوح آٹھ بجے ڈاکٹر کی دوا پی کر جو پڑا تھا تو اس وقت کا سویا سویا اب کہیں دو بجے جا کر ہوشیار ہوا، چونکہ ڈاکٹر کہہ گیا تھا کہ نیند اگر آ گئی تو جاننا کہ بیمار بچ گیا، اس کے سو جانے سے سب کو تسلی سی ہو گئی تھی مگر جب زیادہ دیر ہوئی تو عورتیں پھر گھبرانے لگیں کہ نہیں معلوم کم بخت ڈاکٹر کیسی دوا پلا گیا ہے کہ دوپہر پڑے پڑے گزر گئی، کروٹ تک نہیں بدلی۔ خدا جانے اندر سے جی کیسا ہے اور دل پر ایسی کیا آن بنی ہے، کیوں کر ہوش آئے گا، دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ نصوح بیدار ہوا تو بی بی نے پوچھا، کسی طبیعت ہے؟ اچھے سوئے کہ گھر میں رونا پیٹنا ہوا کیا اور تم کو خبر نہیں۔ بولو، بات کرو کہ اوپر والوں کو تسلی ہو۔ کسی بچے کے منہ میں دانہ تک گیا ہو تو حرام۔ چھوٹے بڑے کل کا کھائے ہوئے ہیں۔ روتے روتے لڑکیوں کی آنکھیں سوج گئی ہیں۔ لڑ کے ہیں کہ مضطر اور پریشان پھرتے ہیں۔
بی بی نے ہر چند دل جوئی کی باتیں کی، مگر نصوح کو خواب کا سارا ماجرا پیشِ نظر تھا، مطلق جواب نہ دیا۔ بی بی سمجھی کہ بیماری کی وجہ سے بولنے کو جی نہ چاہتا ہو گا مگر وہ خدشہ سب کے دل سے رفع ہو گیا۔ مبارک سلامت ہونے لگی اور گھر بھر نے بے رمضان کی عید منائی، گو دیر ہو گئی تھی مگر لوگ بھو کے تھے، بازار سے حلوہ پوری منگوا کر سب نے تھوڑا بہت کھایا پیا۔ کھانے ہی میں کسی نے یہ بات بھی چھیڑ دی کہ مریض کا غسل صحت ہو تو ایک رت جگا بڑی دھوم سے کیا جائے اور اچھے ہونے کی شادی کریں۔
یہ لوگ تو شادی اور رت جگے کے ارادے کر رہے تھے اور نصوح اپنے خواب کے تصور میں غلطاں و پیچاں تھا، اسکا دل مان گیا تھا کہ یہ خواب میرے وہم و خیال کا بنایا ہوا تو ہر گز نہیں ہے، ہو نہ ہو یہ ایک امر من جانب اللہ ہے، خواب کیا ہے رویائے صادقہ اور الہام الٰہی ہے۔ باپ کا اظہار اس نے ایسی توجہ سے سنا تھا کہ حرف بہ حرف نوک زبان یاد تھا۔ جتنے الزام باپ پر لگائے گئے تھے، غور کرتا تھا تو سب اپنے میں پاتا تھا بلکہ باپ کی حالت سے اپنی حالت کو مقابلہ کرتا تھا تو کچھ نسبت نہ تھی۔ ان مرحوم کا یہ حال تھا کہ نماز روزے کے پابند، ورد و وظائف کے مقید، معاملے کے صاف، بیوپار کے کھرے، لوگوں کے دیکھنے سے محتاط، پرہیز گار، متقی، دین دار اور یہاں نماز بھی تھی تو گنڈے دار۔ عیدیں تو ضرور، اس واسطے کہ عید سے بڑھ کر مسلمانوں کا کوئی تہوار نہیں، اس سے بھاری کوئی میلہ نہیں۔ برس روز میں یہی دو دن تو ساز و سامان کی نمائش کے ہوتے ہیں۔ کوئی اپنے نئے شاندار کپڑوں میں اکڑ رہا ہے، کوئی گھوڑے کو چھیڑ چھیڑ کر کداتا ہوا، قصداً لوگوں کی بھیڑ کو چیرتا پھاڑتا چلا جا رہا ہے۔ کوئی نو کروں کی ہٹو بڑھو سن کر پھولا ہوا ہے، کوئی کرائے یا مانگے کے تانگے پر سوار، گاڑی بان سے کہتا" "چوہدری کیسا سڑیل تانگہ بنا رکھا ہے، گدا ہے تو میلا، پوشش ہے تو پھٹی۔ نہ بیلوں کے گلے میں گھونگرو، نہ پہیوں میں جانجھ۔ خیر اب عید گاہ کا وقت قریب ہے اتنا تو کر کہ وہ آگے یکہ جا رہا ہے اس کے برابر لگائے چل، مرد آدمی تجھ کو انعام لینے کا بھی سلیقہ نہیں۔ "
رہا جمعہ، اگر کپڑے خوب صاف ہوئے اور دھوپ بھی ایسی سخت نہ ہوئی، دن ابر و باد سے پاک ہوا، دوست آشناؤں سے ملنے کو جی چاہا تو جامع مسجد چلے گئے ورنہ محلے ہی کی مسجد میں ٹرخا لی۔ یا دل میں تاویل کر لی کہ شرائطِ جمعہ میں اختلاف ہے۔ پنج وقتی کو تو کبھی فرض، واجب کیا مستحب بھی نہیں سمجھا۔ صبح اور ظہر اور عشاء تو عمر بھر پڑھی نہیں کیونکہ عین سونے کے وقت تھے۔ رہی عصر سو ہوا خوری اور سیرِ بازار، خرید و فروخت، دوست آشناؤں کی ملاقات، دنیا بھر کی ضرور توں کو بالائے طاق رکھتے تو ایک نماز پڑھتے۔ مغرب کے واسطے تو عذر ظاہر تھا، وقت کی تنگی۔ جب تک پھر پھرا کر آتے حمرتِ شفق زائل ہو جاتی تھی۔
یہ تو اس عبادت کا حال تھا جس کو ثواب بے زحمت و اجرِ بے تکان کہنا چاہیئے اور جس عبادت میں ذرا سی تکلیف بھی تھی جیسے روزہ یا زکوۃ، حتی الوسع کوئی نہ کوئی حیلہ شرعی اس سے معاف رہنے کا سوچ لیا جاتا تھا۔ رجب کا مہینہ آیا اور روزوں کے ڈر کے مارے ایک عجیب طرح کا سہم چڑھا۔ سب سے آسان نسخہ یہ کہ کسی طبیب کے یہاں آنا جانا شروع کیا۔ انہوں نے چند روزہ زندگی کے واسطے وہ بکھیڑے کھڑے کر رکھے ہیں کہ روئے زمین پر ان کے نزدیک کوئی تندرست ہی نہیں۔ یوں ملنے یا ملاقات کرنے جاؤ تو پان کے عوض نسخہ حوالے کر دیتے ہیں اور جہاں ایک دفعہ دوا لی اور روگ لگا۔ رمضان آتے آتے طبعیت خاصی محتاجِ مسہل ہو گئی اور حکیم صاحب کی بدولت روزوں سے بچ گئے۔ زکوۃ کا ٹال دینا کچھ بڑی بات نہ تھی۔ نصاب پر حولِ کامل کیوں گزرنے دیں کہ زکوۃ دینی پڑے، جب دیکھا کہ برس پورا ہونے آیا، بی بی کے نام زبانی ہبہ کر دیا، گھی کہاں گیا کھچڑی میں۔ جب بی بی پر وجوبِ زکوٰۃ کا وقت آیا تو پھر اپنے نام ہبہ کرا لیا اور ٹھٹھیرا بدلائی کر کے حکم خدا کو بالا بتایا۔ مال کو ایسے پیرائے میں رکھا کہ زکوٰۃ سے بری رہے، خاصی طرح دکانیں مول لیں، مکان بنوائے، ان میں کرائے دار بسائے کہ مال نامی آپ نامی زکوٰۃ ندارد۔
غرض جہاں تک نصوح احتساب کرتا تھا، اپنے تئیں دین سے بے بہرہ، ایمان سے بے نصیب، نجات سے دور، ہلاکت و تباہی سے قریب پاتا تھا۔ جس عملِ نیک پر نظر کرتا، یا تو سرے سے اس کے اعمال نامے میں تھا ہی نہیں اور تھا بھی تو ایک عمل اور سینکڑوں رخنے، ہزاروں فساد۔ دو چار نمازیں بھی تو کاہلی اور بے دلی و ریا سے خالی نہیں۔ کبھی جاڑے کے دنوں میں یا افطار و سحور میں شریک ہونے کی نظر سے جو روزے رکھنے کا اتفاق ہوا تھا تو ان میں دکھاوے اور ظاہر داری کا نقص تو تھا ہی، تکلیف کی شکایت سے نیکی برباد گناہ لازم۔ کبھی کسی بھو کے ننگے کو وہ چیز جو اپنے مصرف کی نہ تھی، دی تو اس کو یوں اکارت کیا کہ ایک دفعہ دے کر سو سو بار احسان جتایا اور یہ سمجھے کہ بے چارے محتاج کو عمر بھر کے واسطے مول لے لیا۔ خلاصہ یہ کہ کوئی عمل نیک نہ تھا جو خاصۃ للہ ہو اور انصافاً اس کے ثواب کی توقع، اس کے اجر کی امید کی جائے۔
ان خیالات نے نصوح کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ بے اختیار ہو کر رویا اور کہنے لگا کہ الٰہی مجھ سے زیادہ نا لائق، نابکار، ناکس، نا ہنجار بھی کوئی شخص ہو گا کہ میں نے اپنی ساری عمر تیری نا فرمانی میں کاٹی۔ کاش میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا، یا پیدا ہوا تھا تو معصیت پر قدرت نہ رکھتا۔ کوئی ایسی سخت مصیبت مجھ پر پڑتی کہ سر کھجانے کی فرصت نہ دیتی، مجھ پر بجلی نہ گری، آسمان نہ ٹوٹ پڑا، مجھ کو سانپ نہ سونگھ گیا، ہیضہ کر کرا کے میں بے حیا پھر اٹھ بیٹھا۔ لعنت ہو مجھ پر اگر اب مدت العمر گناہ کے پاس پھٹکوں۔ تف ہے میری زندگی پر اگر پھرمعصیت پر اقدام کروں۔ یہ عہد اپنے جی میں استوار کر کے اس کو پھر اپنی عمر تلف شدہ کا خیال آ گیا اور دل میں کہنے لگا کہ میں نے ساری عمر جو اس تباہ حالت میں غارت کی، اسکی تلافی کچھ بھی میرے اختیار میں نہیں اور بڑی بے انصافی ہے کہ میں جرم کروں اور سزا نہ پاؤں، گناہ کروں اور اسکا پاداش نہ بھگتوں۔ نصوح کو اپنے گناہوں پر اس وقت اتنی ندامت تھی کہ مرنے کو وہ اپنی ایک ادنٰی سی سزا سمجھتا تھا۔ گھر بھر اس کے جانبر ہونے کی خوشی منا رہا تھا اور اس کو افسوس تھا کہ میں مر کیوں نہ گیا۔ علالت کی وجہ سے اٹھنے سے معذور تھا مگر تکیے پر اوندھا سر کیے ہوئے پڑا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدایا میں تو اس قابل ہوں کہ دوزخ میں جھونک دیا جاؤں مگر جو تو نے اپنے فضل سے پھر چند روز کے واسطے مجھ کو دنیا میں رکھ لیا ہے تو ایسی توفیق عطا کر کہ نیکو کاری اور تیری اطاعت اور فرمانبرداری میں رہوں اور میری زندگی دین دارانہ زندگی کا نمونہ ہو۔
اپنے نفس کے احتساب سے فارغ ہوا تو نصوح کو خاندان کا خیال آیا۔ دیکھا تو بی بی بچے سب ایک رنگ میں ہیں : دنیا میں منہمک، دین سے بے خبر۔ تب یہ دوسرا صدمہ نصوح کے دل پر ہوا کہ واحسرتا میں تو تباہ ہوا ہی تھا، میں نے ان تمام بندگانِ خدا کی پاٹ ماری۔ اپنی شامتِ اعمال کیا کم تھی کہ میں نے ان سب کا وبال سمیٹا۔ مجھ کو خدا نے اس گھر کا مالک اور سردار بنایا تھا اور اتنی روحیں مجھ کو سپرد کی تھیں۔ افسوس میں نے ودیعتِ ایزدی کو تلف کیا اور امانتِ الٰہی کی نگہداشت میں مجھ سے اس قدر سخت غفلت ہوئی۔ یہ سب لوگ میرے حکم کے مطیع اور میری مرضی کے تابع تھے۔ میں نے اپنا برا نمونہ دکھا کر ان سب کو گمراہ کیا، اگر میں قدغن رکھتا تو یہ کیوں بگڑتے اور یہ بگڑے تو آخر ان سے جو نسل چلے گی اور بھی بگڑے گی۔ غرض دنیا میں بدی کا بیج بو چلا۔ جو لوگ خدا کے اچھے بندے ہوتے ہیں، باقیات الصالحات اور یادگارِ نیک دنیا میں چھوڑ جاتے ہیں، میں ایسا بدبخت ہوا کہ مجھ سے یادگار بھی ہے تو بدی۔ جب تک میری نسل رہے گی بدی بڑھتی اور پھیلتی جائے گی، جب یہ لوگ خدا کے روبرو جواب دہی کے واسطے حاضر ہونگے تو آخر کہیں گے کہ ہم کو کسی نے راہِ نیک بتائی ہی نہیں، تو میں کیا جواب دونگا؟ یہ خیال کر کے نصوح پھر ایک مرتبہ پکار کر رویا اور دوسرا عہد اس نے یہ کیا کہ جتنے لوگ میرے خاندان میں ہیں سب کی اصلاحِ وضع کرونگا اور پھر اس نے خدا سے دعا کی کہ اے الہ العالمین، تو اس ارادے میں میری مد د کر، جو مشکل پیش آئے آسان ہو جائے، میری بات میں اثر دے اور میرے عزم میں استحکام۔
نصوح کو ایسی ٹھو کر نہیں لگی تھی کہ وہ اس کو بھول جاتا، تنبہ ہوئے پیچھے اسکو اپنی اصلاح دشوار نہ تھی مگر اصلاحِ خاندان ایک بڑا مشکل کام تھا۔ وہ بخوبی واقف تھا کہ دینداری اور خدا پرستی میرے خاندان کے لیے بالکل نئے الفاظ ہیں جن سے چھوٹے بڑے کسی کے کان آشنا نہیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ گھر بھر ایک طرف ہو گا اور میں اکیلا ایک طرف۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا اور میں ایک سورما چنا بن کر کیوں کر معصیت کے بھاڑ کو توڑ ڈالوں گا۔ پس وہ غور کرنے لگا کہ کس کو اپنا مددگار بنائے، کس کو صلاح کار قرار دے۔ آخر یہی دل میں آیا کہ صلاح کے لیے بی بی سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں اور خدا کو کچھ اس خاندان کی فلاح ہی منظور تھی کہ نصوح نے بی بی کو پڑھا لکھا بھی لیا تھا۔ جب نصوح کا نیا نیا بیاہ ہوا انہی دنوں تعلیمِ نسواں کا چرچا شروع ہوا تھا، نئی نئی کتابیں جو عور توں کے واسطے جاری ہوئی تھیں نصوح نے سب کو بہت شوق سے دیکھا تھا اور اسکا دل اس بات کو مان گیا تھا کہ عور توں کو لکھانے پڑھانے میں چند در چند فوائدِ دینی و دنیوی مضمر ہیں۔ چنانچہ اس نے بعض کتابوں میں سے بعض مقاماتِ دلچسپ بی بی کو پڑھ کر سنائے۔ بھلائی کی بات سبھی کو بھلی معلوم ہوتی ہے، بی بی نے بھی اس کو تسلیم کیا کہ عور توں کے لیے پڑھنا بہت مفید ہے۔ بال بچوں کا کچھ بکھیڑا نہ تھا، میاں سے پڑھنا شروع کیا تو چار پانچ مہینے میں اردو لکھنے پڑھنے لگی، تب سے اب تک تھوڑا مشغلہ چلا ہی جاتا تھا۔
نصوح کو اس وقت بی بی کا پڑھا ہوا ہونا بہت ہی غنیمت معلوم ہوا اور سمجھا کہ بی بی یوں ہی خدا کے فضل سے اسمِ با مسمٰی فہمیدہ ہے، اس کا سمجھ لینا تو چنداں دشوار نہیں۔ رہے بچے جن کی عمر چھوٹی ہے وہ بھی اصلاح پذیر ہیں۔ بڑی دقت تو بڑی عمر والوں کی ہے۔ ایک بیٹا، ایک بیٹی بیا ہے جا چکے تھے۔ سمجھا کہ دونوں اپنے اپنے گھر کے ہیں کسی پر میرا اختیار باقی نہیں اور ہو بھی تو جوان بیٹا، جوان بیٹی۔ مار میں نہیں سکتا، گھرک میں نہیں سکتا، نرا سمجھانا اور وہ بھی اس عمر میں بڈھے طوطوں کو پڑھانا ہے۔ آخر وہ کہیں گے نہیں کہ برے ہیں اور بے دین ہیں، تمھی نے ہم کو ایسا اٹھایا اور جب ہماری عادتیں راسخ اور خصلتیں طبیعت ہو گئیں تو اب ہم کو انکا ترک کرنا تعلیم کرتے ہو اور ہم کو ناحق ملزم بناتے ہو۔ یہ سوچنا تھا کہ نصوح کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور سمجھا کہ ان دو کی اصلاح محال ہے۔ اسکو زیادہ تر افسوس اس بات کا تھا کہ خدا کے فضل سے دونوں کے آگے اولاد ہے، جسطرح میری بدی نے میری اولاد میں اثر کیا، کیا انکی بدی انکی اولاد میں سرایت نہ کرے گی؟ مگر پھر بھی نصوح نے مصمم ارادہ کر لیا کہ انشاءاللہ اپنے مقدور بھر تو کوشش کروں گا۔ یا تو راہِ راست ہی پر آئیں گے یا جیتے جی چھوڑ دوں گا۔ جو خدا کا نہیں وہ میرا پہلے نہیں۔ منجھلے بیٹے اور منجھلی بیٹی کی طرف سے بھی نصوح کو خوب اطمینان نہ تھا اور جانتا تھا کہ ان کے ساتھ بھی دقت پڑے گی۔ لیکن اسکا ارادہ ایسا مستحکم تھا کہ کوئی مشکل اسکو روک نہیں سکتی اور وہ مضطرب اور مستعجل اس قدر تھا کہ چاہتا تھا کہ ہتھیلی پر سرسوں جما لوں۔ ابھی اچھی طرح بدن میں اٹھنے بیٹھنے کی طاقت بھی نہیں آئی تھی کہ اس نے بی بی سے کہا۔ "تھوڑا سا پانی گرم کرا دو تو میں نہا لوں۔ "
بیوی: "کیا غضب کرتے ہو، ہاتھ پاؤں میں ذرا دم تو آنے دو۔ نہانے کی ایسی کونسی ساعت ماری جاتی ہے۔ جب اصل خیر سے چلنے پھرنے لگو گے، خاصی طرح حمام میں جا کر غسل کرنا۔ "
میاں۔ "میں نماز پڑھنی چاہتا ہوں، علالت میں طرح طرح کی بے احتیاطی ہوئی ہے، جی قبول نہیں کرتا کہ اسی حالت سے نیت باندھ لوں۔ "
بیوی۔ "کیا اچھے ہونے کے نفل مانے تھے؟"
بیوی نے جو نماز سن کر ایسا تعجب ظاہر کیا تو نصوح پر گھڑوں پانی پڑ گیا اور جی میں کہنے لگا کہ اللہ اللہ مجھ میں اور نماز میں اتنی دوری ہے کہ گھر والی بی بی سن کر تعجب کرتی ہے۔
وائے بر من، وائے بر انجامِ منعار دارَد کفر بر اسلامِ من
اور ایک آہ سرد کھینچ کر بی بی سے کہا کہ میں نفلیں پڑھنے والا ہوتا تو بھلے ہی دن نہ ہوتے۔
بیوی۔ "منّت نہیں، نیاز نہیں تو پھر کیا جلدی ہے۔ نماز کہیں بھاگی نہیں جاتی۔ اچھی طرح تندرست ہو جاؤ گے تو بہتیری نمازیں پڑھ لینا۔ "
اب نصوح وہ نصوح نہیں رہا تھا کہ بی بی کو ایسی بے وقعتی کے ساتھ نماز کا تذکرہ کرتے ہوئے سنتا اور اسکو ناگوار نہ ہوتا۔ غصہ تو آیا مگر پھر اپنے جی میں سمجھا کہ بی بی کا کچھ قصور نہیں، جسکا شوہر بے دین ہو اس کے ایسے ہی خیالات ہونے چاہئیں۔ تمام تر میری ہی خطا ہے اور ایک میری بے دینی نے سارے گھر کو تباہ کر رکھا ہے۔ بی بی سے اس وقت رد و کد کرنا مناسب نہ سمجھ کر اتنا ہی کہا کہ افسوس میری ناکارہ صحبت نے تم کو کس قدر گمراہ کر دیا ہے، فرضِ خدا کو تم نے ایک سرسری کام سمجھ لیا۔
غرض بی بی کے منع کرتے کرتے نصوح نے غسل کر، کپڑے بدل، نماز پڑھی۔ آج نصوح کی یہ پہلی نماز تھی کہ اسکو داخلِ عبادت کہہ سکتے ہیں، وہ اسطرح ہاتھ باندھے ہوئے مؤدب کھڑا تھا جیسے کسی بادشاہ عالی جاہ کے روبرو کوئی خونی کھڑا ہوتا ہے۔ آنکھیں زمین میں سی ہوئی تھیں، ہیبتِ سلطانی اس پر ایسی چھا رہی تھی کہ نہ ہلتا تھا نہ جلتا تھا بس ایک بت کی طرح بے حس و حرکت کھڑا ہوا تھا، عاجزی اور فروتنی اس کے چہرے سے ظاہر تھی۔ حکم کے مطابق کھڑا تھا لیکن جھک جھک جاتا تھا اور گر گر پڑتا تھا، غرض ایسی ایسی حرکتیں اس سے سر زد ہوتی تھیں کہ خواہ مخواہ دیکھنے والے کو رحم آئے۔
ہفتے عشرے تک علالت کا کسل رہا، پھر تو خدا کے فضل سے نصوح بدستور توانا و تندرست ہو گیا مگر بیماری کے بعد اسکی عادتیں اکثر بدل گئی تھیں، ہر وقت تو وہ کچھ سوچ میں رہتا تھا، بے ضرورت بکنا، بد تمیزی کے ساتھ ہنسنا، لا یعنی با توں میں شریک ہونا اس نے مطلقاً چھوڑ دیا تھا لیکن اس کے ساتھ لئینت، تواضع، وسعتِ اخلاق، انکسار، یہ صفتیں بھی اس میں آ گئی تھیں۔ بیماری سے پہلے اسکی بد مزاجی اس درجے کی تھی کہ گھر والے اس کو ہوا سمجھتے تھے، دروازے کے اندر اس نے قدم رکھا اور کیا چھوٹے بڑے سب پر ایک سہم چڑھا۔ اگر بھولے سے کوئی چیز بے موقع پڑی رہ گئی اور اس نے دیکھ پائی، سب پر ایک آفت توڑ ماری۔ کھانے میں، اٹکل ہی تو ہے، ذرا نمک زیادہ ہو گیا یا مٹھلونا رہ گیا، بس اسی روز جانو کہ گھر میں فاقہ ہوا۔ کتنے تو پیالے شہید ہوئے، کتنی رکابیوں کا خون ہوا، سارے محلے میں خبر ہوئی کہ آج کھانا بگڑا۔ بچوں کو بات بات میں جھڑکی، بات بات میں گھرکی، یا اب نصوح کے سر پر ڈھول بجاؤ، کچھ خبر نہیں بلکہ فہمیدہ بچوں کو شوخی کرتے دیکھ کر خفا ہوتی اور کہتی۔ "کیسے ناہموار بچے ہیں، باپ کا تو یہ حال ہے اور یہ انہی کے کان میں جا کر شور مچاتے ہیں، ذرا ڈر نہیں، دیکھو اکٹھی ہی کسر نکلے گی۔ "
شروع میں نصوح کے یہ انداز دیکھ کر گھر والوں کو بڑا کھٹکا تھا، وہ جانتے تھے کہ بیماری سے اٹھے ہیں ضرور ہے کہ پہلے سے زیادہ نازک مزاج ہو گئے ہونگے، اس بلا کا غصہ چڑھا ہے کہ کسی سے بولتے ہی نہیں، دیکھیئے یہ قہر کس پر ٹوٹتا ہے، کس کی شامت آتی ہے۔ مگر نصوح نے ایسا جلاب نہیں لیا تھا کہ اس نے خون میں ذرا سی گرمی بھی لگی رہنے دی ہو۔ لوگ بیماری سے اٹھ کر چڑچڑے اور بد مزاج ہو جاتے ہیں اور نصوح حلیم اور بردبار، نرم دل اور خاکسار ہو کر اٹھا تھا۔ معاملاتِ روزمرہ میں اسکی یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ جو رکھ دیا سو چاؤ سے کھا لیا، جو دے دیا سو خوشی سے پہن لیا، نہ حجت نہ ت کرار نہ غل نہ غپاڑا۔ نصوح کی عادت بدلی تو لوگوں کی مدارت بھی اس کے ساتھ بدل چلی، جو پہلے ڈرتے تھے وہ اب اسکا ادب ملحوظ رکھتے۔ جن کو وحشت و نفرت تھی وہ اب اس کے ساتھ انس و محبت کرتے، تھوڑے ہی دنوں میں گھر شور و شغب سے پاک اور لڑائی جھگڑے سے صاف ہو گیا۔
ابتداءً نصوح کو نماز وغیرہ کا اہتمام کرتے دیکھ کر گھر والوں نے اچنبھا کیا تھا لیکن پھر تو بے کہے دوسروں پر خود بخود ایک اثر سا ہونے لگا اور نصوح اسی کا منتظر تھا کہ لوگ اس طرزِ اجنبی سے کسی قدر مانوس اور خوگر ہو لیں تو اپنا انتظام شروع کروں۔ نصوح کی جہاں اور عادتیں بدلی تھیں وہاں ایک یہ بھی تھی کہ وہ خلوت پسند ہو گیا تھا، تمام تمام دن اکیلا بالا خانے پر بیٹھا رہتا، بے بلائے اگر کوئی جاتا تو یہ بھی نہ تھا کہ اس سے بات چیت نہ کرے مگر حتی الوسع مجمع سے الگ تھلگ رہتا تھا۔ بعض کو یہ خیال ہوتا تھا کہ شاید نیند بڑھ گئی ہے، کوئی یہ سمجھتا تھا کہ اترنے چڑھنے کی توانائی نہیں آئی مگر فہمیدہ کو اکثر جانے کا اتفاق ہوتا تھا، کبھی نماز پڑھتے دیکھا کبھی چپ بیٹھے ہوئے۔ آخر ایک روز پوچھا کہ "اکیلے چپ چاپ بیٹھے ہوئے تمھارا جی نہیں گھبراتا، تھوڑی دیر کو نیچے ہی اتر آیا کرو کہ بال بچوں کی با توں میں دل بہلے، مجھ کو گھر کے کام دھندے سے فرصت نہیں ملتی۔ "
نصوح۔ "میں تم سے اس بات کی شکایت کرنے والا تھا کہ جب سے میں بیمار ہو کر اٹھا ہوں تم نے اتنا بھی نہ پوچھا کیا ہوا، کیوں ہوا۔ کیا تم کو میری عادات میں فرق معلوم نہیں ہوتا؟"
فہمیدہ۔ "رات دن کا تفاوت، زمین و آسمان کا فرق اور پوچھنے کو تمھارے سر کی قسم کئی بار منہ تک بات آئی مگر تمھارا ڈھنگ دیکھ کر جرأت نہ ہوئی کہ پوچھوں۔ "
نصوح۔ "ڈھنگ کیسا؟"
فہمیدہ۔ "برا ماننے کی بات نہیں، مزاج تمھارا سدا کا تیز ہے، یونہی سب لوگ تم سے ڈرتے رہتے ہیں، جب سے بیمار ہو کر اٹھے ہو سب کو خوف تھا کہ ایک تو کریلا دوسرے نیم چڑھا۔ پہلے ہی سے بلا کا غصہ ہے اب بیماری کے بعد کیا ٹھکانہ ہے۔ ادھر تم کو دیکھا تو کسی کی طرف ملتفت نہ پایا، سمجھے کہ ضرور طبیعت برہم اور مزاج نادرست ہے۔ پھر کس کی جرأت، کس کو اتنی ہمت جو پوچھے، دریافت کرے؟"
نصوح۔ "کیوں صاحب، کبھی تم نے مجھ کو میرے مزاج کی خرابی پر متنبہ نہ کیا؟"
فہمیدہ۔ "تنبیہ کرنا در کنار، بات کرنے کا تو یارا نہ تھا۔ "
نصوح۔ "لیکن ان دنوں تو میں کسی پر نا خوش نہیں ہوا۔ "
فہمیدہ۔ "گھر بھر کو اس کا تعجب ہے۔ "
نصوح۔ "آخر لوگ اس کا کیا سبب قرار دیتے ہیں؟"
فہمیدہ۔ "لوگ یہ کہتے ہیں کہ وبا میں کثرت سے لوگوں کو مرتے دیکھا، اپنے گھر میں تین موتیں ہو گئیں، خود بیمار پڑے اور خدا کے گھر سے پھر کر آئے، دل میں ڈر بیٹھ گیا ہے۔ تمھارے بڑے صاحبزادے یہ تجویز کرتے ہیں کہ ڈاکٹر نے جو اسہال بند کرنے کی دوا دی، دماغ میں گرمی چڑھ گئی ہے، بہر کیف سب کی یہی رائے ہے کہ علاج کرنا چاہیئے۔ "
نصوح۔ "نہ گرمی ہے، نہ خللِ دماغ، خوف البتہ ہے۔ "
فہمیدہ۔ "مرد ہو کر اتنے ڈر گئے، آخر ہم سب بھی تو اس آفت میں تھے۔ "
نصوح۔ "تم ہر گز اس آفت میں نہ تھیں۔ "
فہمیدہ۔ "یعنی یہ کہ میں نے ہیضہ نہیں کیا، لیکن تمھارا ہیضہ کرنا مجھ کو اپنے مرنے سے زیادہ شاق تھا۔"
نصوح۔ "نہیں ہیضہ کرنے کی بات نہیں، بیماری اگرچہ ظاہر میں سخت تھی مگر میں تم سے کہتا ہوں کہ شروع سے آخر تک میرے ہوش و حواس درست تھے۔ تمھاری ساری باتیں میں سنتا اور سمجھتا تھا۔ ابتدائے علالت میں جو تم لوگوں نے ہیضہ امتلائی تجویز کیا، پھر صبح کو حکیم صاحب تشریف لائے اور میری کیفیت تم نے ان سے بیان کی، پھر ڈاکٹر آئے اور انہوں نے دوا پلائی، مجھ کو سب خبر ہے۔ جب تم لوگوں نے ڈاکٹر کے کہنے سے مجھ کو علیحدہ دالان میں لٹایا تو مجھ کو غنودگی سی آ گئی اور میں نے اپنے تئیں دوسرے جہان میں دیکھا۔ "
اس کے بعد نصوح نے خواب کا سارا ماجرا حرف بحرف بی بی سے بیان کیا، مردوں کی نسبت عور توں کے دلوں میں نرمی اور رقت زیادہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذہبی تعلیم عور توں میں جلد اثر کرتی ہے۔ فہمیدہ نے جو میاں کا خواب سنا، اس قدر خوف اس پر طاری ہوا کہ قریب تھا کہ غش آ جائے۔ نصوح اگرچہ تنہائی میں اپنے گناہوں پر تاسف کر کے ہر روز دو چار مرتبہ رو لیا کرتا تھا اور ظاہر میں نہیں بھی روتا تھا تو اندر سے اسکا دل ہر وقت روتا رہتا تھا، اب بی بی کی ہمدردی اور ہمدمی کا سہارا پا کر تو اتنا رویا کہ گھگھی بندھ گئی۔ فہمیدہ پہلے ہی خوفزدہ تھی، میاں کا رونا اس کے حق میں اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہوا، اس نے بھی بلبلا کر رونا شروع کر دیا۔ پھر تو میاں بی بی ایسا روئے کہ ساون بھادوں کا سماں بندھ گیا۔ وہ بھی ایک عجیب وقت تھا کہ دو میاں بی بی اپنے گناہوں کو یاد کر کے رو رہے تھے۔
آخر نصوح نے اپنے تئیں سنبھالا اور بی بی سے کہا کہ دنیا میں اگر کوئی چیز رونے کے قابل ہے تو میرے نزدیک گناہ اور خدا کی نا فرمانی ہے اور بس، کیونکہ کوئی معصیت، کوئی آفت، گناہ سے بڑھ کر نہیں۔ دنیا کے نقصانوں پر رونا بے فائدہ دیدے کھونا ہے مگر گناہ پر رونا گویا داغِ الزام کو دھونا ہے۔ رونا کفارۂ معصیت ہے، رونا گنہگار کیلئے بہترین معذرت ہے، رونا رحمت کی دلیل اور مغفرت کا کفیل ہے۔ لیکن ہم کو اپنی آئندہ زندگی کا انتظام بھی کرنا ضرور ہے۔ ندامت وہی سند ہے کہ افعالِ ما بعد میں اسکا اثر ظاہر ہو۔ توبہ وہی پکی ہے کہ آدمی جو دل سے سوچے یا منہ سے کہے ویسا ہی کر دکھائے۔
فہمیدہ۔ "لیکن اتنی عمر اس خرابی میں بسر کی اب نجات اور مغفرت کی کیا امید ہے، میں تو جانتی ہونکہ ہمارا مرض علاج سے در گزرا۔ "
نصوح۔ "خدا کی رحمت سے مایوس ہونا بھی کفر ہے۔ وہ بڑا بے نیاز، بڑا غفور الرحیم ہے۔ کچھ اسکو ہماری عبادت کی پرواہ نہیں، اگر روئے زمین کے تمام آدمی اسکی نا فرمانی کریں تو اسکی ابدی اور دائمی سلطنت میں ایک سر مو برابر بھی فرق نہیں آئے گا اور اسطرح اگر تمام زمانہ فرشتہ سیرت ہو جائے اور عبادت ہی کرانی منظور ہوتی تو وہ نافرمان، گنہگار، سرکش، متمرو انسان کی جگہ فرشتے پیدا کرسکتا تھا۔ پھر یہ باتیں جو ہم پر فرض و واجب کی گئی ہیں ہماری ہی اصلاح و بہبود کیلئے اور اس میں شک نہیں کہ اس میں پرلے سرے کا رحم اور غایت درجے کا حلم ہے۔ لاکھ گناہ کرو، جہاں عجز و الحاح کیا، منت سماجت سے پیش آئے، بس پھر کچھ نہیں۔
اگر خشم گیر و بہ کردار زشت
چو باز آمدی ماجرا در نوشت
وہ معبود جابر نہیں، سخت گیر نہیں، کینہ ور نہیں۔ مگر ہے کیا کہ غیور بڑا ہے، اسکی مطلق برداشت نہیں کہ کس کو اسکا شریکِ خدائی گردانا جائے۔ "
فہمیدہ۔ "کتنا ہی عفو و درگزر کیوں نہ ہو، مگر اپنے گناہوں کی بھی کچھ انتہا ہے۔ ماں باپ کو جیسی اولاد کی مامتا ہوتی ہے، ظاہر۔ مگر دیکھو کلیم کی حرکتوں سے میرا تمھارا دونوں کا جی آخر کھٹا ہو ہی گیا، کتنی برداشت، کہاں تک چشم پوشی؟"
نصوح۔ "خدا کی پاکیزہ اور کامل صفتوں کو آدمی کی ناقص و ناتمام عاد توں پر قیاس کرنا بڑی غلطی ہے۔ تمام دنیا کے ماں باپوں کو جو اولاد کی محبت ہے، وہ ایک کرشمہ ہے اس عنایتِ بے غایت اور لطف و شفقتِ بے منت کا جو خداوند کریم ہر حال میں اپنے بندوں پر فرماتا ہے۔ گناہ اور نا فرمانی انسان کے خمیر میں ہے، اگر بندوں کے گناہ پر اسکی نطر ہوتی تو ہر متنفس کشتنی اور گردن زنی تھا، دنیا کا ہے کو بستی، لیکن اللہ رے در گزر، گناہ بھی ہو رہے ہیں اور رزق کا راتب جو سرکار سے بندھا ہوا ہے موقوف ہونا کیسا، کبھی ناغہ بھی تو نہیں ہوتا۔ سانس لینے کو ہوا تیار، پینے کا پانی موجود، آرام کرنے کو رات، کام کرنے کو دن، رہنے کو مکان، وہی چاند، وہی سورج، وہی آسمان، وہی زمین، وہی برسات، وہی فواکہہ و نباتات۔ جملہ اعضاء، ہاتھ پاؤں، آنکھ کان اپنی اپنی خدمت پر مستعد، نہ ماندگی، نہ کسل، نہ تکان۔ پس جبکہ خدا ایسے ایسے گناہ اور ایسی ایسی نا فرمانیوں پر نیکی سے نہیں چوکتا تو یہ بات اسکی ذات ستودہ صفات سے بہت ہی مستبعد معلوم ہوتی ہے کہ اسکی درگاہ میں معذرت کی جائے اور نہ بخشے، توبہ کی جائے اور قبول نہ کرے۔ "
اسی وقت میاں بی بی دونوں نے دعا کے واسطے ہاتھ پھیلا دیے اور گڑگڑا گڑگڑا کر اپنے اور ایک دوسرے کے گناہوں کی مغفرت چاہی۔ اس کے بعد فہمیدہ مسرت و اطمینان کی سی باتیں کرنے لگی مگر نصوح کی افسردہ دلی بدستور باقی تھی۔ تب فہمیدہ نے پوچھا کہ جب توبہ کرنے سے گناہوں کا معاف ہو جانا یقینی ہے اور آئندہ کے واسطے ہم عہد کرتے ہیں کہ پھر ایسا نہ کرینگے تو کیا وجہ ہے کہ تم اداس ہو؟
نصوح۔ "ایمان خوف و رجا کا نام ہے، توبہ کا قبول کیا جانا کچھ ہمارا استحقاق نہیں، خدائے تعالیٰ قبول کرے تو اسکی عنایت اور قبول نہ کرے تو ہم کو نہ گلہ ہے نہ محلِ شکایت۔ آئندہ کے عہد پر کیا بھروسا ہو سکتا ہے، انسان مخلوق ضعیف البنیان ہے، غفلت اسکی طینت ہے اور نا فرمانی اسکی طبیعت۔ خدا ہی توفیق خیر دے تو عہد کا نباہ اور وعدے کا ایفا ممکن ہے، ورنہ آدمی سے کیا ہو سکتا ہے۔
کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہو گا
ہم کیا ہیں کہ کوئی کام ہم سے ہو گا
جو کچھ کہ ہوا، ہوا کرم سے تیرے
جو کچھ کہ ہو گا، تیرے کرم سے ہو گا
اور میری افسردگی کی ایک وجہ اور ہے کہ اسطرح اس سے میرا قلب مطمئن نہیں ہوتا۔ "
فہمیدہ۔ "وہ کیا؟"
نصوح۔ "وہ یہ ہے کہ میں تو بگڑا ہی تھا، میں نے ان بچوں کو کیسا غارت کیا، میری دیکھا دیکھی یہ بھی گئے گزرے ہوئے۔ تم دیکھتی ہو کہ چھوٹے بڑے سب ایک رنگ میں ہیں، کسی کو بھی دینداری سے مس ہے؟ کوئی بھی خدا پرستی کی رغبت رکھتا ہے؟ اور رغبت ہو تو کہاں سے، نہ تو گھر میں دین و مذہب کا چرچا کہ خیر دوسروں کو دیکھ کر آدمی نصیحت پکڑے، نہ کوئی کہنے اور سمجھانے والا کہ نیک و بد کا امتیاز سکھائے بلکہ حق تو یہ ہے کہ میں انکی تباہی اور خرابی میں ہر طرح کی مد د کرتا رہا۔ افسوس کہ میں نے ان کے حق میں کانٹے بوئے، ان کے ساتھ دشمنی کرتا رہا اور جانا کہ میں انکی بہتری چاہتا ہوں۔ میں جو غور کرتا ہوں تو کھیل کود کی جتنی عادتیں خراب ہیں، حقیقت میں انکا بانی اور معلم میں ہوں۔ میں نے انکا جی بہلانے کو کھلونے اور کنکوّے لے دیے ہیں، میں انکو خوش کرنے کی نظر سے بازار ساتھ لے لے گیا۔ میں نے انکو دام دے دے کر بازاری سودوں کی چاٹ لگائی، مور پالنے میں نے انکو سکھائے، میلے تماشے انکو میں نے دکھائے، خوش وضعی، خوش لباسی کی لت انکو میں نے ڈلوائی۔ میں خود عیبِ مجسم کا ایک بڑا نمونہ ان کے پیشِ نظر تھا، جو جو کچھ یہ کرتے ہیں، ماں کے پیٹ سے لی کر نہیں آئے، مجھ سے سیکھا، میری تقلید کی۔ میں ہر گز اس نعمت کے لائق نہ تھا کہ مجھ کو بچوں کا باپ بنایا جائے، میں کسی طرح اس عنایت کے شایاں نہ تھا کہ مجھ کو ایک بھرے کنبے کی سرداری ملے۔ یہ بھی میرے نصیبوں کی شامت اور انکی بدقسمتی تھی کہ انکی پرداخت مجھ کو سپرد ہوئی۔ افسوس، سنِ تمیز کو پہنچنے سے پہلے یہ یتیم کیوں نہ ہو گئے۔ شیر خوارگی ہی میں میرا سایۂ زبوں ان کے سر پر سے کیوں نہیں اٹھا لیا گیا کہ دوسرا انکی تربیت کا متکفل ہوتا جو اپنی خدمت کو مجھ سے بدرجہا بہتر انجام دیتا۔ غضب ہے کہ یہ اشراف کے بچے کہلائیں اور پاجیوں کی عادتیں رکھیں۔ مجھ کو اب انکی شکل زہر معلوم ہوتی ہے، صورت، سیرت، ظاہر، باطن ایک سے ایک خراب، ایک سے ایک بد تر۔
ایک نابکار کو دیکھو کہ وہ ماش کے آٹے کی طرح ہر وقت اینٹھا ہی رہتا ہے، کبھی سینے پر نظر ہے کبھی بازؤوں پر نگاہ ہے، آدم زاد ہو کر لقّا کبوتر کا پٹھا بنا پھرتا ہے۔ اتنا اکڑتا ہے، اتنا اکڑتا ہے کہ گردن گدی میں جا لگی ہے۔ کپڑے ایسے چست کہ گویا بدن پر سیے گئے ہیں۔ چھاتی پر انگرکھے کے بند ہیں، گھٹنوں تک پائجامے کی چوڑیاں ہیں، ایک دیوالی برابر ٹوپی ہے کہ خود بہ خود گری پڑتی ہے۔ دوسرا ناہنجار، صبح اٹھا اور کبوتر کھول باپ دادے کا نام اچھالنے کو کوٹھے پر چڑھا، پہر سوا پہر دن چڑھے تک کوٹھے پر دھما چوکڑی مچائی، مارے باندھے مدرسے گیا، عصر کے بعد پھر کوٹھا ہے اور کنکوا ہے، شام ہوئی اور شطرنج بچھا۔ ا توار کو مدرسے سے چھٹی ملی تو بٹیریں لڑائیں۔ تیسرے نالائق، بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ، محلّہ نالاں، ہمسائے عاجز، اس کو مار اس کو چھیڑ، چاروں طرف ایک تراہ تراہ مچ رہی ہے۔ غرض کچھ اسطرح کے بے سرے بچے ہیں، ناہموار، آوارہ، بے ادب، بے تمیز، بے حیا، بے غیرت، بے ہنر، بد مزاج، بد زبان، بد وضع کہ چند روز سے دیکھ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اترتا ہے۔ انکی حرکات و سکنات، نشست و برخاست کوئی بھی تو بھلے مانسوں کی سی نہیں۔ گالی دینے میں ان کو باک نہیں، فحش بکنے میں ان کو تامل نہیں، سم ان کا تکیہ کلام ہے، نہ زبان کو روک ہے نہ منہ کو لگام ہے۔ انکی چال ہی کچھ عجیب طرح کی اکھڑی اکھڑی ہے کہ بے تہذیبی انکی رفتار سے ظاہر ہے۔
رہیں لڑکیاں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان میں اسطرح کے عیوب نہ ہونگے جو لڑکوں میں ہیں، لیکن ساتھ ہی مجھ کو اسکا تیقن ہے کہ دیندارانہ زندگی تو کسی کی بھی نہیں۔ انکو بھی اکثر گڑیوں میں مصروف پاتا ہوں یا کنبے میں کوئی تقریب ہوتی ہے تو کپڑوں کا اہتمام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، لڑ کے گالیاں بہت بکتے ہیں، لڑکیاں کوسنے کثرت سے دیا کرتی ہیں۔ قسم کھانے میں جیسے وہ بیباک ہیں یہ بھی بے دھڑک ہیں، بہر کیف کیا لڑ کے کیا لڑکیاں، میرے نزدیک تو دونوں ایک ہی طرح کے ہیں۔ ان سب کی یہ تباہ حالت دیکھ کر میں زہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہوں مگر پھر دیکھتا ہوں تو انکا کچھ بھی قصور نہیں، خطا اگر ہے تو میرا اور تمھاری، ان کے عیوب پر جھڑکنا اور ملامت کرنا کیسا، ہم نے کبھی انکو روکا تک بھی تو نہیں۔ "
فہمیدہ۔ "تم تو باہر کے اٹھنے بیٹھنے والے ٹھہرے، اس میں تو میرا سراسر قصور ہے، بچے ابتداء میں ماؤں ہی سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں اور ماؤں ہی کی خو بو پکڑتے ہیں، بلکہ تم جب کبھی انکو نصیحت کرتے اور کسی بات پر گھرکتے تو میں الٹی انکی حمایت لیتی تھی، ان سب کو میں نے خراب کیا اور اسکا الزام بالکل میری گردن پر ہے۔ "
نصوح۔ "بیشک تم نے بھی ان کی اصلاح میں کوشش نہیں کی لیکن پھر بھی میں باپ تھا، تم سے انکی پرورش متعلق تھی اور مجھ سے انکی صلاح و تہذیب۔
فہمیدہ۔ "ہاں میں نے ان کے بدنوں کو پالا اور انکی روحوں کو تباہ اور ہلاک کیا، میری ہی بیہودہ محبت نے انکی عادتیں بگاڑیں۔ میرے ہی نا معقول لاڈ پیار نے ان کے مزاجوں کو گندہ، انکی طبیعتوں کو بے قابو بنایا۔ "
نصوح۔ "لیکن اگر میں اپنے کام پر آمادہ سرگرم ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ میں کہوں اور نہ سنیں، میں چاہوں اور نہ کریں، آخر میں ان پر ضابطہ تھا، میں ان پر ہر طرح کی قدرت رکھتا تھا اور نہ صرف ان پر بلکہ تم پر اور سارے گھر پر "
فہمیدہ۔ "پھر بھی جس قدر برائیاں مجھ پر ظاہر ہوتی رہتی تھیں انکا شاید دسواں حصہ بھی تم پر منکشف نہ ہوتا ہو گا۔ جان بوجھ کر میری عقل پر پردہ پڑ گیا، دیکھتے بھالتے میں اندھی بنی رہی۔ اب بھی جو جو خرابیاں انکی میں جانتی ہوں تم کو معلوم نہیں۔ دیکھو لڑکیاں ہی ہیں کہ تم گڑیاں کھیلنے اور کپڑوں کا اہتمام کرنے کے سوا ان کے حالات سے محض بے خبر ہو، میں جانتی ہوں کہ ان کے مزاجوں میں کیا خرابیاں ہیں، انکی عاد توں میں کیسے بگاڑ ہیں۔ "
نصوح۔ "پھر آخر کیا کرنا ہو گا۔ "
فہمیدہ۔ "میرے گمان میں ان بچوں کی اصلاح تو اب ہمارے امکان سے خارج ہے۔ "
نصوح۔ "البتہ ناممکن نہیں تو نہایت دشوار ہونے میں بھی کچھ شک نہیں۔ "
فہمیدہ۔ "دشوار تم ہی کہو، آسمان میں تھگلی کا لگانا ممکن ہے اور انکی اصلاح ممکن نہیں، ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے مگر یہ درست ہونے والے نہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کلیم ایک بات کے سو سو جواب دینے کو موجود ہے اور ایک کلیم پر کیا الزام ہے، جتنے بڑے وتنے کڑے، جتنے چھوٹے وتنے کھوٹے۔ "
نصوح۔ "تو کیا انکو اسی گمراہی میں رہنے دیں کہ اور بدتر ہوں، انکو بہ اختیار خود چھوڑ دیں کہ پیٹ بھر کر خراب ہوں۔ "
فہمیدہ۔ "بڈھے طوطوں کا پڑھانا، پکی لکڑی کا لچکانا تم سے ہو سکے تو بسم اللہ۔ کیا خدانخواستہ میں مانع و مزاحم ہوں، مگر میں ایسی انہونی کا بیڑا نہیں اٹھاتی، ایاز قدرِ خود بشناس۔ میں خود جانتی ہوں کہ بیٹوں کی نظروں میں میرا کتنا وقار ہے، بیٹیاں کتنا میرا ادب لحاظ کرتی ہیں، رشتے میں ماں ضرور ہوں مگر افتاد سے مجبور ہوں، کوئی میرے بس کا نہیں۔ "
نصوح۔ "لیکن تم خود کہتی تھیں کہ بچوں کی اصلاح تم پر فرض تھی اور جب تک مادری و فرزندی تعلق باقی ہے وہ فرض تمھاری گردن پر لدا ہے۔ میں نے ایک دن بڑے سویرے نہیں معلوم کس بچے کو چاہا کہ باہر حکیم کو لے جا کر دکھا دوں، تم اس وقت اسکا منہ دھلانے کو اٹھیں، میں جلدی کرتا تھا اور تم کہتی تھیں کہ ذرا صبر کرو، منہ دھلا دوں، کرتا بدل دوں، اس حالت سے لے جاؤ گے تو حکیم صاحب کیا کہیں گے کہ گھر والی کیسی پھوہڑ ہے کہ بچوں کو ایسا نا صاف رکھتی ہے، بیشک وہ بات تمھاری بہت معقول تھی لیکن جب یہ تمھارے بچے گندی روح اور نا پاک دل لے کر خدا کے حضور میں جائیں گے تو کیا تم پھوہڑ نہیں بنو گی۔ وہاں یہ معذوری، یہ مجبوری کچھ نہیں سنی جائے گی۔ علاوہ اس کے، کیوں کر تمھاری محبت اقتضا کرتی ہے کہ تم اپنے فرزندوں کو مبتلائے مصیبت دیکھو اور انکو اس مصیبت سے نکالنے کی کچھ تدبیر نہ کرو، اس واسطے کہ وہ مصیبت ان پر بہت دنوں سے ہے اور میرے اور تمھارے سبب سے ہے۔ کیا مدت کے بیمار کو دوا نہیں دیتے، پرانے ناسوروں کا علاج نہیں کرتے؟ اولاد کی اصلاح ماں باپ پر فرض ہے، اگر اس فرض کو ہم نے غفلت اور بیوقوفی سے اب تک ادا نہیں کیا تو کیا ضرور ہے کہ آئندہ بھی معصیتِ ترکِ فرض میں گرفتار رہیں۔ "
فہمیدہ۔ "کچھ مجھ کو انکار نہیں، گریز نہیں، نہ میں یہ کہتی ہونکہ بچوں کی اصلاح ہم پر فرض نہ تھی یا اب نہیں ہے، بلکہ مجھ کو انکی اصلاح سے یاسِ کلی ہے اور میں جانتی ہوں کہ انکی اصلاح و تہذیب اور تادیب و تعلیم میں کوشش فضول ہے، سعی عبث ہے، تدبیر بے سود، محنت رائگاں، بھلا کہیں ٹھنڈے لوہے بھی پیٹنے سے درست ہوئے ہیں۔ "
نصوح۔ "آدھا، لیکن ہم پر اسی قدر لازم ہے کہ کوشش کریں اور نتیجے کا مرتب ہونا، اثر کا پیدا کر دینا ہمارا کام نہیں، یہ خدا کے اختیار میں ہے اور کون جانے کہ خدا ہمارے ارادے میں برکت، ہماری تدبیر میں تاثیر دے اور یہ درست ہو جائیں تو کیا تم کو مسرت نہ ہو گی۔ کوشش میں ناکام رہنا اور مطلقاً کوشش نہ کرنا، ان دو با توں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انجام دونوں کا ایک ہو مگر کوشش کرنا ہمارے لیے ایک وجہِ برأت ہے۔"
فہمیدہ۔ "اس بات کا فیصلہ میرے اور تمھارے درمیان میں ہونا ممکن نہیں، اس واسطے کہ میری حالت اور ہے، تمھاری حالت اور۔ اول تو بچوں پر تمھارا رعب داب ہے، تم سے پھر بھی ڈرتے ہیں اور میرے ساتھ تو سب کے سب اس قدر گستاخ ہیں کہ بیٹیاں تو خیر مجھ کو برابر کی سہیلی سمجھتی ہیں، بیٹے تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ یہ کون بلا ہے اور کیا بکتی ہے۔ دوسرے، تم کو اپنے بچوں کی یہ کیفیت بہ خوبی معلوم نہیں اور میں ان کے رگ و ریشے سے واقف ہوں۔ "
نصوح۔ "یہ سب سچ ہے، لیکن تمھاری با توں کا خلاصہ یہ ہے کہ اب انکی اصلاح بڑا مشکل کام ہے۔ "
فہمیدہ۔ "پھر تم نے بات کو بدلا، میں نے اپنے منہ سے مشکل ہر گز نہیں کہا، میں تو شروع سے ناممکن اور محال ہی کہے جاتی ہوں۔ "
نصوح۔ "بڑے افسوس کی بات ہے کہ اتنی دیر سے میں تمھارے ساتھ بک رہا ہوں اور تم نہیں سمجھتیں۔ کیوں صاحب، ناممکن اور محال کیوں ہے؟"
فہمیدہ۔ "اگر تم کہو تو میں خاطر سے مان لوں لیکن چونکہ تم میری رائے پوچھتے ہو تو میں بیشک ناممکن اور محال ہی سمجھتی ہوں اور وجہ یہ ہے کہ انکی عادتیں راسخ ہوتے ہوتے طبیعت ہو گئی ہیں، برابر کے بیٹے، برابر کی بیٹیاں، مار ہم نہیں سکتے، گھرک ہم نہیں سکتے، جبر ہم نہیں کر سکتے، بھلا پھر ان عاد توں کو جن کے وہ مد توں سے خوگر ہیں، کیوں کر چھڑا دیں گے؟"
نصوح۔ "تو تمھارا مطلب یہ ہے کہ کوئی تدبیرِ کارگر سمجھ نہیں آتی اور جو سمجھ میں آتی ہے وہ کارگر نہیں معلوم ہوتی۔ "
فہمیدہ۔ "وہ ایک ہی بات ہے۔ "
نصوح۔ "اس سے مجھکو انکار نہیں کہ معمولی تدبیریں اب محض بے سود ہیں، مادہ سخت ہے تو جلاب بھی کوئی بڑا ہی کڑا دینا ہو گا، جو کام پہلے ایک بات سے نکلتا اب جوتی لات سے بھی نکلنے کی امید نہیں۔ "
فہمیدہ۔ "لیکن اگر بچوں کے ساتھ تم اسطرح کی سختی بر تو گے تو تمام دنیا تھڑی تھڑی کریگی اور سختی سے بچوں کے دلوں میں دونی ضد اور نفرت پیدا ہو گی۔
نصوح۔ "اگر میں یہ سمجھوں کہ میں اپنے ذمے ایک فرض ادا کرتا ہوں تو دنیا کے کہنے کی انشاءاللہ مجھکو مطلق پروا نہ ہو گی۔ لوگوں کو اختیار ہے جو چاہیں سمجھیں اور جو چاہیں سو کہیں لیکن سختی میرے نزدیک ایک تدبیرِ نامناسب ہے اور میں خوب سمجھتا ہونکہ بڑے لڑ کے کسی طرح سختی کی برداشت نہیں کر سکتے اور اگر ان کے ساتھ خشونت اور درشتی سے پیش آؤنگا تو الٹا اثر ہو گا اور جبکہ میں خود انکی خرابی کا باعث ہوا ہوں تو سختی کا میں سزاوار ہوں نہ کہ وہ۔ "
فہمیدہ۔ "بھلا پھر سختی کرو گے نہیں اور نرمی سے کام نکلتا نہیں، اسی نرمی نے تو انکو اس ھڈرے تک پہنچایا تو آخر وہی بات ہوئی کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں، ناحق کا دردِ سر ہے۔ "
نصوح۔ "میں تو اس شعر پر عمل کرونگا،
درشتی و نرمی بہم در بہ ست
چو رگ زن کہ جراح و مرہم نہ ست
نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کے محل پر سختی اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ انشاءاللہ میں اپنے ارادے میں کامیاب ہونگا، آخر آدمی کے بچے ہیں، بات کو سمجھتے ہیں، عقل رکھتے ہیں، جب ان ہی کے فائدے کی بات میں انسے کہونگا تو کب نہ سمجھیں گے اور سختی تو بس اسی قدر عمل میں لاؤنگا کہ یہ بات بخوبی ان کے ذہن نشین کر دونگا کہ جو میرے کہنے کا نہیں، میں اسکا اور وہ میرا شریکِ رنج و راحت نہیں، یہ کہونگا اور انشاءاللہ یہ کر دکھاؤنگا، مگر بے تمھاری مد د کے یہ ارادہ پورا نہیں ہو سکتا۔ "
فہمیدہ۔ "میں دل و جان سے مد د کرنے کو موجود ہوں، میں جانتی ہوں کہ تم انہی کی بہتری کے واسطے کہتے اور کرتے ہو، اپنی اولاد کا فائدہ ہوتے ساتے اگر میں کوتاہی کروں تو ماں کا ہے کی ہوئی کوئی ڈائن ہوئی۔ "
نصوح۔ "تم میرے شریکِ حال رہو تو مجھکو ہر طرح کی تقویت ہے، میں جانتا ہوں کہ بچے بات بات میں تمھارا آسرا، تمھارا سہارا پکڑتے ہیں، ہو میری بیوی مگر معاملاتِ خانہ داری میں میرے کل فیصلوں کی اپیل تمھارے یہاں ہوتی ہے، میں تم کو الزام نہیں دیتا، اس واسطے کہ تم سے زیادہ میں خود ملزم ہوں لیکن بچوں میں سے کس کو تم نے زیادہ پیار کیا وہی زیادہ خوار ہوا۔ ہر چند میں نے کوشش کی، کسی امرِ دینی کے واسطے نہیں بلکہ معمولی پڑھنے لکھنے کے واسطے مگر جب تک تمھاری تائید نہیں ہوئی ایک نہیں چلی۔"
فہمیدہ۔ "لیکن اب وہ کیفیت نہیں ہے، جب تک چھوٹے تھے مجھکو ماں سمجھتے تھے اور میں انکی فریاد سنتی تھی، حمایت کرتی تھی۔ اب ہر ایک اپنے دل کا بادشاہ ہے، لڑکوں سے تو کچھ تعلق ہی نہیں رہا، ہفتوں بات چیت کرنے کا اتفاق بھی نہیں ہوتا، پکارتی پکارتی رہ جاتی ہوں، منہ پھیر کر بھی نہیں دیکھتے، لڑکیاں البتہ کہاں جائیں اور کس کے پاس جائیں، گھر ہی میں بیٹھی کھیلا کرتی ہیں، میں گھر کے کام دھندے میں لگی رہی ہوں لیکن پھر بھی جب تک تمھارے نیک ارادے میں کہ خدا ان کو پورا کرے، مجھ سے مد د مل سکتی ہے تو تم دیکھ لینا، انشاءاللہ، اپنے مقدور بھر اٹھا نہ رکھوں گی۔ "
نصوح۔ "بھلا چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنبھال لو گی؟"
فہمیدہ۔ "انکا درست کر لینا کیا مشکل ہے، یہ تو موم کی ناک ہیں جدھر کو پھیر دو پھر گئے بلکہ شاید انکو منہ سے کہنے کی بھی ضرورت نہ ہو، بچوں کا قاعدہ ہے جیسا بڑوں کو کرتے دیکھتے ہیں خواہ مخواہ اسکی نقل کرنے لگتے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی حمیدہ نے مجھکو رلا رلا دیا ہے، کیا تو اسکی چھ برس کی بساط ہے مگر ماشاءاللہ میرے منہ میں خاک، مغز سے اتار کر بڑے بوڑھوں کی باتیں کرتی ہے۔ "
نصوح۔ "کیا ہوا تھا؟"

فصل سوم

فہمیدہ اور منجھلی بیٹی حمیدہ کی گفتگو




فہمیدہ: تم کو جواب چند روز سے نماز پڑھتے دیکھتی ہے تو پرسوں مجھ سے پوچھنے لگی کہ اماں جان دن میں کئی مرتبہ ابا جان ہاتھ منہ دھو کر یہ کیا کیا کرتے ہیں؟ پہلے دیر تک بڑے ادب سے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ چپ کے چپ کے کچھ باتیں کرتے جاتے ہیں۔ پھر جھکتے ہیں۔ پھر منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔




میں : بیٹی نماز پڑھتے ہیں۔

حمیدہ: اماں جان نماز کیا؟

اس استعجاب کے ساتھ پوچھنا، یہ پہلی چٹکی تھی کہ اس نے میرے دل میں لی۔

میں : بیٹی، خدا کی عبادت کو نماز کہتے ہیں۔

حمیدہ: اماں جان خدا کیا چیز ہے اور عبادت اس کی کون ہے؟

اس کا بھولے پن سے یہ پوچھنا تھا کہ خدا کیا چیز ہے اور عبادت اس کی کون ہے کہ میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

میں : کیوں، کیا تم خدا کو نہیں جانتیں؟

حمیدہ: میں سب لوگوں کو خدا کی قسم کھاتے تو سنتی ہوں اور جب کبھی اماں جان، تم خفا ہوتی ہو تو کہا کرتی ہو خدا کی مار، اور تجھ سے خدا سمجھے۔ شاید خدا بیچا کو کہتے ہیں مگر بیچا ہوتی تو اس کی قسم نہ کھاتے۔

میں : حمیدہ توبہ کرو توبہ، خدا بیچا نہیں ہے۔ خدا وہ ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔ وہی روزی دیتا ہے، وہی مارتا ہے، وہی جلاتا ہے، وہی پالتا ہے۔

حمیدہ: کیا اماں جان تم کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے؟

میں : ہاں مجھ کو بھی۔

حمیدہ: اور ابا جان کو بھی؟

میں : ہاں تمہارے ابا جان کو بھی۔

حمیدہ: اور ننھی بوا کو بھی؟

میں : ہاں ننھی بوا کو بھی۔

حمیدہ: اماں جان، کیا ہر روز ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکتا؟

میں : کیوں نہیں پکتا۔

حمیدہ: پھر تم تو کہتی ہو کہ خدا سب کو کھانے کو دیتا ہے۔

میں : اللہ تعالیٰ پانی برساتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ غلّے اور میوے اور ترکاریاں ہم لوگوں کے واسطے زمین میں اگاتے ہیں۔

وہی ہم سب لوگ کھاتے ہیں۔

حمیدہ: ننھی بوا کو تو اماں جان تم دودھ پلاتی ہو۔

میں : دودھ بھی اللہ تعالیٰ ہی اتارتے ہیں۔ تمہاری ہی دفعہ اسی دودھ کے پیچھے برسوں مصیبت اٹھائی۔ چھٹی تک الغاروں دودھ تھا۔ چھٹی نہا کر اٹھی کہ یکایک جاڑا چڑھا۔ بخار آیا تو کس شدت کا کہ الامان۔ تمام بدن سے آنچ نکلتی تھی۔ وہ پہر پھر کا بخار آنا اور دودھ کا تاؤ کھا جانا۔ پھر بہتیری ستاول پھانکی، زیرہ پیا، حکیم کا علاج کیا۔ تمہارے دادا جان، خدا جنت نصیب کرے، ہر روز صبح کو طشتری لکھ دیا کرتے تھے۔ مگر دودھ کچھ ایسی گھڑی کا سوکھا تھا کہ پھر نہ اترا پر نہ اترا۔ جب دیکھا کہ بچی بھوک کے مارے پھڑ کی چلی جاتی ہے، چار و نا چار انار گھی اور وہ عذاب اٹھائے کہ خدا دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ خدا نے زندگی بخشی تھی کہ تم پل گئیں۔

حمیدہ: تو اللہ تعالیٰ بڑے اچھے ہیں۔ ہم سب کو کھانے کو دیتے ہیں۔ ہماری ننھی بوا کے واسطے دودھ اتارتے ہیں۔ لیکن اماں جان، اللہ میاں سے ہمارا کچھ رشتہ ناتا ہے کہ انتے سلوک کرتے ہیں؟

میں : رشتہ ناتا یہ کہ ہم ان کے بندے ہیں۔ مرد ان کے غلام ہیں، عورتیں ان کی لونڈیاں ہیں۔

حمیدہ: لونڈی غلاموں کے ساتھ اتنا سلوک کوئی اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ لیکن لونڈی غلام تو اپنے مالک کی خدمت کرتے ہیں، تہل کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کا کون سا کام کرتے ہیں؟

میں : یہی نماز جو تم نے اپنے باپ کو پڑھتے دیکھی اور جس کو عبادت کہتے ہیں۔

حمیدہ: ہاں ! تمان اللہ تعالیٰ کا کام ہے تو سب ہی کو نہ پڑھنے چاہئے، کیوں کہ لونڈی غلام سب ہیں، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روٹی سب کھاتے ہیں۔

میں : بے شک خدا کی عبادت سب پر فرض ہے۔

حمیدہ: اماں جان تم نماز نہیں پڑھتیں۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کی لونڈی نہیں ہو اور کیا تم اس کی دی ہوئی روٹی نہیں کھاتیں؟ حمیدہ نے جو سادہ دلی اور بھولے پن سے یہ الزام دیا، مجھ کو اس قدر شرم آئی کہ زمین پھٹ گئی ہوتی تو میں سما جاتی۔

میں : میں لونڈی بے شک ہوں اور خدا ہی کی دی ہوئی روٹی کھاتی ہوں لیکن بعضی لونڈیاں نکمی، کام چور، نمک حرام اور بے غیرت نہیں ہوتیں۔ ویسی ہی اللہ تعالیٰ کی ایک لونڈی ہوں۔

حمیدہ: ابا جان بھی تو اب بیماری سے اٹھ کر نماز پڑھنے لگے ہیں۔ کیا اس سے پہلے وہ خدا کی دی ہوئی روٹی نہیں کھاتے تھے۔

یہ سب کر نصوح کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔

میں : وہ بھی برا کرتے تھے۔

حمیدہ: اچھی اماں جان! اللہ تعالیٰ خفا ہوئے ہوں گے۔

میں : خفا ہونے کی تو بات ہی ہے۔

حمیدہ: ایسا نہ ہو کہ روٹی بند کر دیں تو پھر ہم کہاں سے کھائیں گے اور اگر ننھی بوا کا دودھ سوکھ گیا تو ہماری ننھی روئے گی۔ یہ کہہ کر حمیدہ رونے لگی۔ میں نے اٹھا کر گلے سے لگا لیا اور پیار کیا۔ لیکن جس قدر میں اس کی تسلی دیتی تھی وہ اور دگنا روتی تھی۔ مجھ سے بھی ضبط نہ ہو سکا اور مجھ کو روتے دیکھ کر اور بھی بے تاب ہو گئی۔ آخر بڑی مشکلوں سے میں نے اس کو سنبھالا اور کہا کہ حمیدہ تم ڈرو مت۔ اللہ میاں کا یہ دستور نہیں ہے کہ جو لونڈی غلام کام نہ کریں ان کا کھانا بند کر دیں۔

حمیدہ: سچ؟

میں : ہاں ہاں۔ تم گھبراؤ مت۔

حمیدہ: اچھی اماں جان! ننھی کو پلا کر دیکھو دودھ ہے یا نہیں۔

میں : بیٹی، ننھی کو سونے دو اور دودھ سے اطمینان رکھو۔ دودھ خدا کا دیا ہوا بہت ہے۔

حمیدہ: ہمارے گھر میں تو لونڈی غلام نہیں، نو کر چاکر ہیں مگر کام نہیں کرتے تو تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ ابا جان جرمانہ کر دیتے ہیں۔ گھر سے نکال دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے لونڈی غلاموں پر بھی خفا نہیں ہوتے تو ایسے مالک کا کام تو اور بھی جی لگا کر کرنا چاہیے۔ کیا کام نہ کرنا اور کھانا بے غیرتی نہیں ہے؟

میں : بڑی بے غیرتی کی بات ہے۔

حمیدہ: اماں جان، میں نے تو آج تک نماز نہیں پڑھی اور نہ مجھ کو نماز پڑھنی آتی ہے اور تم تو دن رات میں دو ہی مرتبہ کھانا کھاتی ہو، میں نہیں معلوم کتنی دفعہ کھاتی ہوں۔ مجھ پر اللہ تعالیٰ ضرور خفا ہوں گے۔ یہ کہہ کر پھر میں نے سمجھایا کہ حمیدہ ڈرو مت۔ اللہ تعالیٰ تم سے نا خوش نہیں ہیں۔ ابھی تم بچی ہو۔ تم کو نماز معاف ہے۔

حمیدہ: کھانا تو مجھ کو بھی سب کے برابر بلکہ سب سے اچھا اور زیادہ ملتا ہے۔

میں : ہاں ملتا ہے اور یہ بھی خدا کی مہربانی ہے کہ تم کو کام معاف کر رکھا ہے۔

حمیدہ: پھر اللہ تعالیٰ مجھ کو کیوں کھانا دیتے ہیں؟




میں : اس واسطے کہ جب بڑی ہو جاؤ تو اس کے بدلے کا بہت سا کام کرو۔




حمیدہ: لیکن کیا اب میں کام نہیں کر سکتی؟ دیکھو، میں تم کو پان بنا دیتی ہوں، ابا جان کو پانی پلا دیتی ہوں، ننھی بوا کو بہلا لیتی ہوں۔ کیوں اماں جان کرتی ہوں؟




میں : ہاں بوا ہاں، تم تو میرے بہت کام کرتی ہو۔ پنکھا جھل دیتی ہو، دھاگا بٹ دیتی ہو، سوئی میں دھاگا پرو دیتی ہو، جو چیز مجھ کو درکار ہوتی ہے، لے آتی ہو۔




حمیدہ: تو کیا میں اللہ تعالیٰ کا کوئی چھوٹا سا کام بھی نہیں کر سکتی؟ کیا نماز پڑھنا مشکل کام ہے؟ میں تو دیکھتی ہوں، ابا جان ہاتھ منہ دھو کر ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ کیا تنا مجھ سے نہیں ہو سکتا؟




میں : اس کے سوا کچھ پڑھنا بھی ہوتا ہے، جس کو تم کہتی تھیں کہ چپکے چپکے باتیں کرتے جاتے ہیں۔




حمیدہ: وہ کیا باتیں ہیں؟




میں : خدا کی تعریف اور اس کے احسانوں کا شُکریہ، اپنے گناہوں کا اقرار اور ان کی معافی کی درخواست، اس کے رحم کی تمنا، اس کے فضل کی آرزو، بس یہی نماز ہے۔




حمیدہ: یہ سب باتیں اسی طرح نہ کرتے ہوں گے، جیسے ہم لوگ آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔




میں : اور کیا۔




حمیدہ: مگر ابا جان تو کچھ اور ہی طرح کی بولی بولنے لگتے ہیں۔




میں : وہ عربی زبان ہے۔




حمیدہ: وہ تو میری سمجھ میں نہیں آتی۔ اماں جان تم جانتی ہو؟




میں : نہیں میں بھی نہیں جانتی۔




حمیدہ: تو کیا خدا سے عربی ہی زبان میں باتیں کرنی ہوتی ہیں؟




میں : نہیں وہ سب کی بولی سمجھتا ہے۔ بلکہ وہ دلوں کے ارادوں اور طبیعتوں کے منصوبوں سے واقف ہے۔




حمیدہ: یہ کیوں کر؟




میں : اس واسطے کہ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے۔ کوئی چیز، کوئی بات اس سے مخفی نہیں۔ سب کو دیکھتا ہے، سب کو سنتا ہے، اگلے پچھلے کل حالات اس کو معلوم ہیں۔




حمیدہ: (گھبرا کر) کیا اللہ تعالیٰ یہاں ہمارے گھر میں بھی بیٹھے ہیں؟




میں : گھر میں کیا ہمارے پاس بیٹھے ہیں مگر ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے۔




یہ سن کر حمیدہ نے جلدی سے اوڑھنی اوڑھ لی اور سنبھل کر مودب ہو بیٹھی اور مجھ سے آہستہ سے کہا، "اماں جان سر ڈھک لو۔ اس کے بعد حمیدہ پر کچھ ایسی ہیبت غالب آئی کہ میری گود میں تھوڑی دیر تک چپ پڑی رہی۔ آخر آنکھ لگی، سو گئی۔ میری ٹانگیں سُن ہونے لگیں، تو میں نے آہستہ سے چار پائی پر لٹا کر بیدار کو پاس بٹھا دیا کہ دیکھ ہاتھ رکھے رہیو، ایسا نہ ہو لڑکی سوتے سوتے ڈر کر چونک پڑے اور میں یہاں چلی آئی۔ مجھ کو حمیدہ کی با توں سے ڈر لگا کہ اندر سے کلیجہ تھر تھر کانپا جاتا تھا۔










نصوح: کیوں، ڈر کی اس میں کیا بات تھی؟




فہمیدہ: میں کہتی تھی کہ ایسی چھوٹی سی لڑکی اور ایسی باتیں۔ کچھ اس کو ہو تو نہیں گیا۔




نصوح: مذہب میں بڑی خوبی اور عمدگی تو یہی ہے کہ وہ ایسی با توں کی تعلیم کرتا ہے جن کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ مسائل دینی آدمیوں کے بنائے ہوئے معمے اور لوگوں کی گھڑی ہوئی پہیلیاں نہیں ہیں کہ اب کے حل کرنے اور بوجھنے کو بڑا غور و خوض درکار ہو، بلکہ اس حکیم بر حق کے باندھے ہوئے اصول اور ٹھہرائے ہوئے ضابطے ہیں اور اصول بھی کیسے سلیس اور آسان، ضابطے سہل اور بدیہی۔ نہیں معلوم انسان کی عقل پر کیا پتھر پڑے ہیں کہ اتنی موٹی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی کہ زمین آسمان، چاند، سورج، ستارے، انواع و اقسام کے حیوانات، رنگ برنگی کے نباتات، ساری دنیا، تمام زمانہ، اتنا بڑا کارخانہ س میں ایک پتا اٹھا کر دیکھو تو ہزارھا صنعتوں سے بھرا ہوا ہے، آخر خود بہ خود تو نہیں ہو گیا ضرور کوئی اس کا بنانے والا ہے اور پھر اس نے جو انسان کو ایک خاص صفت عقل عطا کی ہے، کچھ تو اس تخصیص کا مطلب ہے۔ مگر ہے کیا انسان اس تصور کو اپنے ذہن میں آنے ہی نہیں دیتا، ورنہ ساری خدائی خدا کی گواہی دے رہی ہے :




برگِ درختان سبز در نظر ہوشیار




ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار




حمیدہ نے کوئی بات اچنبھے کی نہیں کہی۔ اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ ہم میں نادان بچوں کے برابر بھی عقل نہیں۔ ڈوب مرنے کی جگہ، زمین میں، گڑ جانے کا مقام ہے۔ بلکہ حمیدہ کی با توں کو میں ایک نیک فال اپنی کامیابی کی سمجھتا ہوں۔ افسوس ہے، تم اس کو میرے پاس نہ لے آئیں۔ اس کی ہر ہر بات لوح دل پر کندہ کرنے ے لائق ہے اور یہ باتیں اس نے کیا کہیں، خدا نے اس کے منہ سے کہلوائیں۔ بیٹی کیا ہے، سچ پوچھو تو ہمارے لئے ہدایت کا فرشتہ ہے اور بچے جو معصوم کہلاتے ہیں، اسی سبب سے کہ ان کے دل لوث دنیا سے پاک اور تیرگی، گناہ سے صاف ہوتے ہیں۔ الحمد للہ کہ ایک سے تو اطمینان ہوا۔ اب یہ بتاؤ کہ اوروں کے واسطے کیا انتظام کرنا ہو گا؟




فہمیدہ: تم ہی کوئی تجویز سوچو۔




نصوح: میں نے تو یہ سوچاہے کہ لڑکیوں کو تو تم سنبھالو اور لڑکوں کو میں سمجھ لوں گا۔




فہمیدہ: بھلا میں بھی تو سمجھوں کیوں کر سمجھ لو گے، کہ وہی تدبیر میں بھی کروں۔




نصوح: میں پہلے چھوٹوں سے شروع کروں گا۔ امید ہے کہ جلد راہ پر آ جائیں۔ بڑوں کا مجھ کو بڑا کھٹکا ہے۔ یہ تو میں خوب جانتا ہوں کہ یہ نیا ڈھنگ دیکھ کر ان کے کان کھڑے ہوں گے مگر نہیں معلوم کس سے کیا معاملہ پیش آئے۔ تم اتنا کرو کہ ایک تو میرا تمہارا دونوں کا کام ایک ساتھ شروع ہو۔ جب اندر باہر دونوں جگہ ایک ہی بات کا چرچا ہو گا تو کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ دیکھو، خاص کر ہمارے پیچھے پڑے ہیں۔ اولاد اولاد سب برابر، ان سے کچھ تعرض نہیں کرتے۔ دوسرے یہ کہ تمہاری ہر ادا سے یہ بات پیدا ہو کہ اس معاملے میں ہم دونوں کو ایک اہتمام خاص ہے۔ کیوں کہ ذرا سا ضعف بھی ظاہر ہو گا، تو تمام تر انتظام درہم برہم ہو جائے گا۔




فہمیدہ: انشاء اللہ اس کے خلاف نہ ہو گا۔

فصل چہارم

نصوح اور چھوٹے بیٹے سلیم کی گفتگو




آج تو میاں بیوی میں یہ قول و اقرار ہوا۔ اگلے دن چھوٹا بیٹا سلیم ابھی سو کر نہیں اٹھا تھا کہ بیدارا نے آ جگایا کہ صاحب زادے اٹھیے، بالا خانے پر میاں بلاتے ہیں۔ سلیم کی عمر اس وقت کچھ کم دس برس کی تھی۔ سلیم نے جو طلب کی خبر سنی، گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا اور جلدی سے ہاتھ منہ دھو، ماں سے آ کر پوچھنے لگا: "اماں جان، تم کو معلوم ہے ابا جان نے کیوں بلایا ہے؟"




ماں : بھائی، مجھ کو تو کچھ خبر نہیں۔




سلیم: کچھ خفا تو نہیں ہیں؟

ماں ابھی تو کوٹھے پر سے بھی نہیں اترے۔

سلیم: بیدارا، تجھ کو کچھ معلوم ہے؟

بیدارا: میاں، میں اوپر لوٹا لینے گئی تھی۔ میاں اکیلے بیٹھے ہوئے کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں آنے لگی تو میاں نے آپ کا نام لیا اور کہا کہ ان کو بھیج دیجیو۔




سلیم: صورت سے کچھ غصہ تو نہیں معلوم ہوتا تھا؟




بیدارا: نہیں تو۔




سلیم: تو اماں جان، ذرا تم بھی میرے ساتھ چلو۔




ماں : میری گود میں لڑکی سوتی ہے۔ تم اتنا ڈرتے کیوں ہو، جاتے کیوں نہیں؟




سلیم: کچھ پوچھیں گے۔




ماں : جو کچھ پوچھیں گے تم اس کو معقول طور پر جواب دینا۔




غرض سلیم ڈرتا ڈرتا اوپر گیا اور سلام کر کے الگ جا کھڑا ہوا۔ باپ نے پیار سے بلا کر پاس بٹھا لیا اور پوچھا: کیوں صاحب، ابھی مدرسے نہیں گئے؟




بیٹا: جی، بس جاتا ہوں۔ ابھی کوئی گھنٹے بھر کی دیر اور ہے۔




باپ: تم اپنے بھائی جان کے ساتھ مدرسے جاتے ہو یا الگ؟




بیٹا: کبھی کبھار بھائی جان کے ساتھ چلا جاتا ہوں، ورنہ اکثر اکیلا جاتا ہوں۔




باپ: کیوں؟




بیٹا: اگلے مہینے امتحان ہونے والا ہے۔ چھوٹے بھائی جان اسی کے واسطے تیاری کر رہے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر کسی ہم جماعت کے یہاں چلے جاتے ہیں۔ وہاں ان کو دیر ہو جاتی ہے، تو پھر گھر بھی نہیں آتے۔ میں جاتا ہوں تو ان کو مدرسے میں پاتا ہوں۔




باپ: کیا اپنے گھر میں جگہ نہیں ہے کہ دوسروں کے یہاں جاتے ہیں؟




بیٹا: جگہ تو ہے، مگر وہ کہتے تھے کہ یہاں بڑے بھائی جان کے پاس ہر وقت گنجفہ اور شطرنج ہوا کرتا ہے، اطمینان کے ساتھ پڑھنا نہیں ہو سکتا۔




باپ: تم بھی شطرنج کھیلنی جانتے ہو؟




بیٹا: مہرے پہچانتا ہوں، چالیں جانتا ہوں، مگر کبھی خود کھیلنے کا اتفاق نہیں ہوا۔




باپ: مگر زیادہ دنوں تک دیکھتے دیکھتے یقین ہے کہ تم بھی کھیلنے لگو گے۔




بیٹا: شاید مجھ کو عمر بھر بھی شطرنج کھیلنی نہ آئے گی۔




باپ: کیوں کیا ایسی مشکل ہے؟




بیٹا: مشکل ہو یا نہ، میرا جی ہی نہیں لگتا۔




باپ: سبب؟




بیٹا: میں پسند نہیں کرتا۔










باپ: چوں کہ مشکل ہے اکثر مبتدی گھبرایا کرتے ہیں۔ مجھ کو یقین ہے کہ گنجفہ میں تمہاری طبیعت خوب لگتی ہو گی۔ وہ بہ نسبت شطرنج کے بہت آسان ہے۔




بیٹا: میں شطرنج کی نسبت کر گنجفہ کو زیادہ تر نا پسند کرتا ہوں۔




باپ: وہاں شطرنج میں طبیعت پر زور پڑتا ہے اور گنجفہ میں حافظہ پر۔




بیٹا: میری ناپسندیدگی کا کچھ خاص کر یہی سبب نہیں ہے، بلکہ مجھ کو سارے کھیل بُرے معلوم ہوتے ہیں۔




باپ: تمہاری اس بات سے مجھ کو تعجب ہوتا ہے اور میں تم سے تمہاری ناپسندیدگی کا اصلی سبب سننا چاہتا ہوں، کیوں کہ شاید اب سے پانچ یا چھ مہینے پہلے، جن دنوں میں باہر کے مکان میں بیٹھا کرتا تھا، میں نے خود تم کو ہر طرح کے کھیلوں میں نہایت شوق کے ساتھ شریک ہوتے دیکھا تھا۔




بیٹا: آپ درست فرماتے ہیں۔ میں ہمیشہ کھیل کے پیچھے دیوانہ بنا رہتا تھا، مگر اب تو مجھ کو ایک دلی نفرت ہو گئی ہے۔




باپ: آخر اس کا کوئی سبب خاص ہو گا۔




بیٹا: آپ نے اکثر چار لڑکوں کو کتابیں بغل میں دابے گلی میں آتے جاتے دیکھا ہو گا۔




باپ: وہی جو گورے گورے چار لڑ کے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ پھڈی جونتیاں پہنے، منڈے ہوئے سر، اونچے پاجامے، نیچی چولیاں۔




بیٹا: ہاں جناب وہی چار لڑ کے۔




باپ: پھر؟




بیٹا: بھلا آپ نے کبھی ان کو کسی قسم کی شرارت کرتے بھی دیکھا ہے؟




باپ: کبھی نہیں۔




بیٹا: جناب کچھ عجب عادت ان لڑکوں کی ہے۔ راہ چلتے ہیں تو گردن نیچی کیے ہوئے۔ اپنے سے بڑا مل جائے، جان پہچان ہو یا نہ ہو، ان کو سلام کر لینا ضرور، کئی برس سے اس محلے میں رہتے ہیں، مگر کانوں کان خبر نہیں۔ محلے میں کوڑیوں لڑ کے بھرے پڑے ہیں، لیکن ان کو کسی سے کچھ واسطہ نہیں۔




آپس میں اوپر تلے کے چاروں بھائی ہیں۔ نہ کچھ لڑتے، نہ کبھی جھگڑتے، نہ گالی بکتے، نہ قسم کھاتے، نہ جھوٹ بولتے، نہ کسی کو چھیڑتے، نہ کسی پر آواز کستے۔ ہمارے ہی مدرسے میں پڑھتے ہیں، وہاں بھی ان کا یہی حال ہے۔ کبھی کسی نے ان کو جھوٹی شکایت بھی تو نہیں کی۔ ڈیڑھ بجے ایک گھنٹے کی چھٹی ہوا کرتی ہے۔ لڑ کے کھیل کود میں لگ جاتے ہیں۔ یہ چاروں بھائی ایک پاس کی مسجد میں نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔




باپ: بھلا پھر؟




بیٹا: منجھلا لڑکا میرا ہم جماعت ہے۔ ایک دن میرا آموختہ یاد نہ تھا۔ مولوی صاحب نہایت ناخوش ہوئے اور اس کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے فرمایا کہ کم بخت گھر سے گھر ملا ہے۔ اسی کے پاس جا کر یاد کر لیا کر۔ میں نے جو پوچھا: "کیوں صاحب یاد کرا دیا کرو گے؟" تو کہا "یہ سرو چشم۔ " غرض میں اگلے دن ان کے گھر گیا، آواز دی۔ انہوں نے مجھ کو اندر بلا لیا۔ دیکھا کہ ایک بہت بوڑھی سی عورت تخت پر جائے نماز بچھائے قبلہ رو بیٹھی ہوئی کچھ پڑھ رہی ہیں۔ وہ ان لڑکوں کی نانی ہیں۔ لوگ ان کو حضرت بی کہتے ہیں۔ میں سیدھا سامنے دالان میں اپنے ہم جماعت کے پاس جا بیٹھا۔ جب حضرت بی اپنے پڑھنے سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹا، گو تم نے مجھ کو سلام نہیں کیا لیکن ضرور ہے کہ میں تم کو دعا دوں۔ جیتے رہو، عمر دراز، خدا نیک ہدایت دے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ میں غیرت کے مارے زمین میں گڑ گیا اور فوراً میں نے اٹھ کر نہایت ادب کے ساتھ سلام کیا۔ تب حضرت بی نے فرمایا کہ بیٹا، برا مت ماننا، یہ بھلے مانسوں کا دستور ہے کہ اپنے سے جو بڑا ہوتا ہے اس کو سلام کر لیا کرتے ہیں اور میں تم کو نہ ٹوکتی لیکن چوں کہ تم میرے بچوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو، اس سبب سے مجھ کو جتا دینا ضرور تھا۔ اس کے بعد حضرت بی نے مجھ کو مٹھائی دی اور بڑا اصرار کر کے کھلائی۔ مد توں میں ان کے گھر جاتا رہا۔ حضرت بی بھی مجھ کو اپنے نواسوں کی طرح چاہنے اور پیار کرنے لگیں اور مجھ کو ہمیشہ نصیحت کیا کرتی تھیں۔ تبھی سے میرا سل تمام کھیل کی با توں سے کھٹا ہو گیا۔




باپ: یہ تو تم نے اچھا اختصار کیا۔ اجی، سب باتیں مجھ کو سناؤ۔ کیا کیا تم سے حضرت بی نے کہا۔




بیٹا: ہر روز آنے جانے میں ان لوگوں کے ساتھ خوب بے تکلف ہو گیا۔ مگر حضرت بی نے بس پہلے دن سلام نہ کرنے پر ٹوکا تھا پھر کوئی گرفت نہیں کی۔ باجودے کہ میں شوخی بھی کرتا تھا لیکن وہ خبر نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن مجھ سے اور ایک ہمسائے کے لڑ کے سے، باہر گلی میں کھیلتے کھیلتے، عین انہی کے دروازے پر لڑائی ہو پڑی۔ سخت کلامی کے بعد گالی گلوچ کی نوبت پہنچی۔ پھر مار کٹائی ہونے لگی۔ لڑکا مجھ سے تھا کمزور۔ ذرا اڑنگے پر چڑھا کو ایک پٹخنی دیتا ہوں، چاروں شانے چت۔ پھر تو میں اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹا اور بچا کو ایسے گھسے دیے کہ یاد ہی کیے ہوں گے اور لوگ چھڑا نہ دیتے تو میں اس کو ادھ موا کر ہی چکا تھا۔ بارے دو چار آدمیوں نے مجھ کو اس پر سے اتارا اور دو ایک نے میری پیٹھ بھی ٹھوکی کہ شاباش پٹھے شاباش۔ لیکن وہ لڑکا ایسا چیند باز تھا کہ پھر خم ٹھوک کر سامنے آ کھڑا ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ پھر گتھ جاؤ، اتنے میں اندر سے اسی میرے ہم جماعت نے پوچھا: "کیوں جی، کس سے لڑ رہے تھے؟" میں نے کہا: "میاں ہی کنجڑے والا رمضانی، کمزور، مار کھانے کی نشانی۔ لیکن خدا کی قسم میں نے بھی آج اس کو ایسا رگڑا ہے کہ یاد ہی تو کرے گا۔ " اس وقت تک غصہ اور طیش تو فرو ہوا ہی نہ تھا، نہیں معلوم کیا کیا میں نے بکا کہ سب گھر والوں نے سن کر آنکھیں نیچی کر لیں اور بڑی دیر تک سرنگوں بیٹھے رہے۔ آخر حضرت بی بولیں کہ سلیم، بڑے افسوس کی بات ہے کہ تو ایسا پیارا لڑکا اور گن تیرے ایسے خراب۔ اس منہ سے ایسی باتیں ! آج کئی دن سے میں تجھ کو سمجھانے والی تھی۔ مگر اس وقت جو میں نے تیری گفتگو سنی، مجھ کو یقین ہو گیا کہ تجھ کو سمجھانا بے سود ہے۔ بڑا رنج تو مجھ کو اسی بات کا ہے کہ تو ہاتھ سے گیا گزرا ہوا۔ دوسرا کھٹکا یہ ہے کہ تو میرے لڑکوں کے پاس آتا جاتا ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ تیری خو بو کا ایک شمہ انہوں نے اختیار کیا تو میری طرف سے یہ جیتے جی مر لیے۔ ملنا جلنا تو بڑی بات ہے، اب محلہ مجھ کو چھوڑنا پڑا۔ اتنی بے حیائی ایسی بدزبانی! اول تو لڑنا اور پھر گلی کوچے میں اس پر ایسی موٹی موٹی گالیاں !"




میں : جناب خدا کی قسم، ہر گز میں نے پہل نہیں کی۔ وہ سر پر چڑھ کے مجھ سے لڑا۔




حضرت بی: بس اپنی قسموں کو بند کرو۔ میں قسم اور گالی دونوں کو برا سمجھتی ہوں۔ جس کو بے موقع بے محل خدا کا نام لینے میں باک نہیں، اس کو کسی بات کے بک دینے میں تامل نہیں۔




میں : گالی بھی پہلے اس نے دی۔




حضرت بی: تم نے کیوں گالی کھانے کی بات کی؟




میں : یہی تو میں عرض کرتا ہوں کہ میرا مطلق قصور نہ تھا۔




حضرت بی: کیا ایسے بیہودہ لڑکوں سے ملاقات رکھنا تمہارا قصور نہیں ہے؟




میں : جناب آپ کو معلوم نہیں، وہ لڑکا راہ چلتوں کے سر ہوتا ہے۔










حضرت بی: یک نہ شد دو شد۔ دروغ گویم بر روئے تو۔ میرے لڑکوں کے تو کوئی بھی سر نہیں ہوتا؟




میں : ان سے تو سرے سے جان پہچان ہی نہیں۔




حضرت بی: اور تم سے ہے۔




میں : کیوں کر کہوں کہ نہیں ہے۔




حضرت بی: ہے تو وہی تمہارا قصور ہے اور اسی کی یہ سزا ہے کہ تم نے بازار میں گالیاں گائیں۔




میں : لیکن میں نے بھی خوب بدلا لیا۔




حضرت بی: بس یہی تو تمہاری خرابی کے لچھن ہیں کہ اس کو تم بدلا سمجھتے ہو۔ اگر ایک شخص تمہارے ساتھ برائی کرے تو اس کو لوگ بڑا کہیں گے؟




میں : ضرور کہیں گے۔




حضرت بی: اور جب تم اس کے ساتھ برائی کرو تو کیا زیادہ برے نہ کہلاؤ گے؟ گالی بکنا ایک زبوں بات ہے۔ اس نے بکیں تو جھک مارا اور تم نے زیادہ بکیں تو زیادہ جھک مارا۔ سلیم، تو اپنے میں اور اس کنجڑے کے چھوکرے میں کچھ فرق سمجھتے ہو؟




یہ سن کر مجھ کو ندامت شروع ہوئی اور میں نے کہا کہ واقع میں اس وقت تو مجھ میں اور اس میں کچھ فرق نہ تھا۔




حضرت بی: لیکن وہ ایک بازاری آدمی کا بیٹا ہے اور تم ایک بڑے عزت دار کے لڑ کے ہو۔ تمہارے دادا کا شہر میں وہ شہر ہے کہ ان کے نام کی لوگ تعظیم کرتے ہیں۔ انہی کے پوتے تم ہو، جھوٹ بولنے پر دلیر، قسم کھانے میں بے باک، فحش بکنے میں بے دھڑک۔ سلیم، کوئی شخص دین اور دنیا دونوں میں اس وجہ سے عزت نہیں پا سکتا کہ اس کے باپ دادا عزت دار تھے۔ آدمی کی عزت اس کی عادت اور مزاج سے ہے۔ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ یہ عادتیں جو تم نے سیکھی ہیں، عزت حاصل کرنے کی ہیں؟ ہر گز نہیں۔




یہ سب کر مجھ کو اس قدر شرمندگی ہوئی کہ میں رونے لگا۔ حضرت بی بھی آب دیدہ ہوئیں اور مجھ کو پاس بٹھا کر پیار کیا اور کہا کہ بیٹا، میں تمہارے ہی فائدے کے لئے کہتی ہوں۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ لیکن چند روز بعد تم کو ان عاد توں کا چھوڑنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ میں نے اسی وقت توبہ کی اور کہا کہ اگر اب سے آپ مجھ کو قسم کھاتے یا حش بکتے یا جھوٹ بولتے یا بازاری لڑکوں میں کھیلتے سنیں تو مجھ کو اپنے میں نہ آنے دیجیے گا۔










باپ: کیا بس اسی دن سے تم کو کھیلنے سے نفرت ہو گئی؟




بیٹا: جناب نہیں۔ مہینوں میں حضرت بی کے یہاں جاتا رہا اور ہر روز نصیحت کی دو چار باتیں وہ مجھ کو بتایا کرتی تھیں۔ ایک روز انہوں نے مجھ سے میرے وقت کا حساب پوچھا۔ میں نے سونا اور کھانا اور کھیلنا اور تھوڑی دیر لکھنا پڑھنا بہتیرے کام گنوائے۔ مگر انہوں نے سن کر ایک ایسی آہ کھینچی کہ آج تک اس کی چوٹ میں اپنے دل میں پاتا ہوں اور کہا: "سلیم، آٹھ پہر میں خدا کا ایک کام بھی نہیں۔ خدا نے تم کو آدمی بنایا، کیا ممکن نہیں تھا کہ وہ تم کو بلی یا کتا بنا دیتا؟ پھر آدمی بھی بنایا تو ایسے خاندان کا جو عزت دار اور خوش حال ہے۔ ہو سکتا تھا کہ تم مزدور یا لکڑہار کے گھر پیدا ہوتے اور ایسی چھوٹی سی عمر میں تم کو پیٹ پورا کرنے کے واسطے محنت کرنی پڑتی اور پھر بھی سوائے چنے کے اور کچھ نہ پاتے اور وہ بھی پیٹ بھر کر نہیں۔ ایک لنگوٹی تم باندھے پھرتے۔ نہ پاؤں میں جوتی، نہ سر پر ٹوپی، نہ گلے میں انگرکھا۔ جہاں جاتے در در۔ جس کے پاس کھڑے ہوتے، پھٹ پھٹ۔ پھر صورت تم کو ایسی پاکیزہ دی کہ جو دیکھے پیار کرے۔ کیا تم کو کالا بھٹ، کانڑا، لنگڑا، کوڑھی بنا دینا اس کو مشکل تھا۔ جس خدا کے تم پر اتنے سلوک اور اتنے احسان ہیں، ستم ہے کہ دن رات میں ایک دفعہ بھی اس کے آگے سر نہ جھکاؤ، غضب ہے کہ ایک لمحہ بھی اس کو یاد نہ کرو۔ " تب حضرت بی نے مجھ کو نماز سکھائی، اس کے معنی سمجھائے اور اسی طرح انہوں نے مجھ کو ہزار ہا نصیحتیں کیں کہ بر زبان یاد نہیں رہیں۔ مگر افسوس ہے کہ کئی مہینے سے ان کے گھر میرا جانا چھوٹ گیا۔ یہ کہہ کر سلیم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔




باپ: کیوں، تم نے کس لیے ان کے یہاں جانا ترک کیا؟ کیا ان کے نواسوں سے لڑائی ہو گئی؟




بیٹا: جناب ان کے نواسے مجھ کو بھائیوں سے کہیں زیادہ عزیز ہیں۔ اگر میں ان سے لڑتا تو دنیا میں مجھ سے زیادہ نا لائق کوئی نہ تھا۔




باپ: پھر کیا حضرت بی تم سے نا خوش ہو گئیں؟




بیٹا: استغفراللہ۔ وہ تو خود درجے کی نیک ہیں کہ غصہ ان کو چھو ہی نہیں گیا۔




باپ: تو کیا تم آپ سے بیٹھ رہے؟




بیٹا: میں تو ہر روز وہاں جانے کے واسطے تڑپتا ہوں۔




باپ: تو کیا یہاں تم کو کسی نے منع کر دیا ہے؟




بیٹا: نہیں کسی نے منع بھی نہیں کیا۔




باپ: پھر کیاسبب ہوا؟




بیٹا: اگر آپ مجھ کو اس کا سبب بیان کرنے سے معاف رکھتے تو بہتر تھا۔




باپ: نہیں ضرور ہے کہ میں تمہارے نہ جانے کا سبب معلوم کروں۔




بیٹا: اس میں ایک شخص کی شکایت ہو گی اور حضرت بی نے مجھ کو غیبت اور چغلی کی ممانعت کی ہے۔




باپ: لیکن کیا وہاں نہ جانے سے تمہارا نقصان نہیں؟




بیٹا: اے جناب، نقصان سا نقصان! مگر میرے اختیار کی بات نہیں۔




باپ: تو میں تم کو اپنے منصب پدری کی رو سے حکم دیتا ہوں کہ تم سارا حال بوست کندہ بیان کرو۔




بیٹا: حضرت بی نے ایک مرتبہ مجھ کو یہ تاکید کہا تھا کہ تم اپنے سر کے بال منڈوا ڈالو۔ اگرچہ مجھ کو بال بہت عزیز تھے اور میں ان کی خدمت بھی بہت کرتا تھا لیکن چوں کہ مجھ کو یقین تھا کہ حضرت بی جو بات کہتی ہیں ضرور میری منفعت کے واسطے کہتی ہیں، میں نے کہا بہت خوب۔ حضرت بی نے اور تو کچھ سبب نہیں بیان کیا مگر اتنا کہا کہ بالوں کی بزرگ داشت میں تمہارا بہت سا وقت صرف ہوتا ہے اور وقت ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کو ایسی فضول با توں میں صرف کیا جائے اور تم کو بڑے بال رکھنے کی کچھ ضرورت بھی نہیں ہے۔ اگلے دن جو حجام بڑے بھائی جان کا خط بنانے آیا، میں نے اس سے کہا کہ خلیفہ میرے بال بھی مونڈ دینا۔ بالوں کو مونڈنا سن کر بڑے بھائی جان اس قدر خفا ہوئے کہ میں عرض نہیں کر سکتا۔ مجھ کو جو چاہتے کہہ لیتے۔ حضرت بی اور ان کے نواسوں کو بھی بہت برا بھلا کہا۔ یہ کہہ کر سلیم کی آنکھوں میں پھر آنسو بھر آئے۔




باپ: تمہارے بڑے بھائی سے اور حضرت بی سے کیا واسطہ اور ان کو تمہارے افعال میں میرے ہوتے کیا دخل؟




بیٹا: جناب، نہیں معلوم ان کو کس طرح معلوم ہو گیا تھا کہ میں ان کے گھر آتا جاتا ہوں۔ دو ایک مرتبہ مجھ سے پہلے بھی کہا تھا کہ تو ان مرد و شو قلاؤذیوں کے ساتھ اکثر رہتا ہے، کیا تو بھی ملانا اور مسجد کا ٹکڑگدا بنے گا؟ اس دن بالوں پر کہنے لگے : دیکھا، آخر ان نابکاروں کی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ آپ اچھے خاصے سر کو چھلا ہوا کسیرو بنانے چلے ہیں کہ دیکھتے ہی ہتھیلی کھجلائے، چانٹا مارنے کو جی چاہے۔ ایسے اکیلے سر منڈانے سے کیا ہوتا ہے۔ گھٹنوں تک کا کرتہ پہن، ٹخنوں تک کا پائجامہ بنا، پیج آیت کے واسطے دو چار سورتیں یاد کر اور چاہے کہ فقط انگی کو خون لگا کر شہیدوں میں داخل اور نراسر منڈا کر بریانی کی دعوتوں میں شامل ہو جاؤں، تو بچا ہاتھ دھو رکھو، گھسنا تو ملنے ہی کا نہیں۔




باپ: تم نے کچھ جواب نہیں دیا؟




بیٹا: جناب، اول تو بڑے بھائی کو جواب دینا خلاف شیوہ ادب تھا اور اگر دیتا تو مجھ کو جیتا بھی نہ چھوڑتے۔ جب تک میں سامنے سے ٹل نہیں گیا، انہوں نے زبان بند نہیں کی، اور ناحق حضرت بی کے نواسوں کی شان میں بری بری باتیں کہیں۔ غرض ڈر کے مارے پھر میں نے بال منڈوانے کا نام نہیں لیا اور تب ہی سے مجھ کو ایک حجاب سا پیدا ہوا کہ کئی بار مجھ سے کہہ چکی ہیں، اپنے دل میں کیا کہتی ہوں گی کہ کیسا خود سر لڑکا ہے۔ لیکن پھر انہوں نے کچھ تذکرہ نہیں کیا۔ معلوم نہیں بھول گئیں یا کہنے سے کچھ فائدہ نہ دیکھ کر چپ ہو رہیں۔ ابھی تک میں نے جانا نہیں چھوڑا، اگرچہ میرا جانا داخل بے غیرتی تھا۔ جب انہوں نے مجھ کو نماز سکھائی اور نماز کی تاکید کی تو میں نے ایک دن گھر میں نماز پڑھنی چاہی۔ بڑے بھائی جان اور ان کے یار دوست برابر ہنسائے جاتے تھی اور میں نہیں ہنستا تھا، تو جا نماز الٹ الٹ دیتے۔ سجدے میں جاتا تو اوپر بیٹھ بیٹھ جاتے تھے۔ ایسی حالت میں ممکن نہ تھا کہ میں نماز پڑھ سکوں اور حضرت بی سچ بولنے کا مجھ سے عہد لے ہی چکی تھیں۔ میں نے سوچا کہ جاؤں گا تو نماز کو پوچھیں گی، تو کیا کہوں گا۔ بالوں کی شرمندگی اور نماز کی ندامت، غرض اعمال کی شامت کہ میں نے جانا چھوڑ دیا۔ اب وہاں گئے مجھ کو تین ساڑھے تین مہینے ہو گئے۔ میری اس نا اہلی کو دیکھیے کہ تب ہی سے وہ میرے ہم جماعت بیمار پڑے ہیں، میں ان کی عیادت کو بھی نہیں جا سکا۔




باپ: لیکن تم نے اپنی مجبوری کا حال مجھ پر کیوں نہیں ظاہر کیا؟




بیٹا: اس خوف سے کہ غیبت ہو گی۔




باپ: تم نے اپنے بڑے بھائی کے رودر رو کہا ہوتا۔




بیٹا: اتنی مجال نہ مجھ میں کبھی تھی، نہ اب ہے۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ ہر وقت آپ کے پاس رہنے سے رہا۔ جب اکیلا پائیں گے، مجھ کو ٹھیک بنائیں گے۔




باپ: تم کو خوف ہی خوف تھا یا تم کو بڑے بھائی نے کبھی مارا بھی تھا۔




بیٹا: اس کی گنتی نہ میں بتا سکتا ہوں اور نہ بڑے بھائی جان بتا سکتے ہیں۔




باپ: کس بات پر؟




بیٹا: میں تو ہمیشہ ان کے مارنے کو ناحق، بے سبب، بے قصور، بے خطا ہی سمجھا۔




باپ: تم نے اپنی ماں سے بھی کبھی تذکرہ نہ کیا۔




بیٹا: جو وجہ آپ کی خدمت میں عرض کرنے کی مانع تھی، وہ ہی والدہ سے بھی کہنے کو روکتی تھی۔ دوسرے میں دیکھتا تھا کہ گھر میں نماز روزے کا مطلق چرچا نہیں۔ یہ بھی خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو، کہوں اور جس طرح بڑے بھائی جان نا خوش ہوتے ہیں اور لوگ بھی نا رضامند ہوں۔




باپ: تو یہ چند مہینے تمہارے نہایت ہی بری طرح گزرے۔




بیٹا: کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ ایک حضرت بی کی خدمت سے محروم رہنے کا صدمہ، دوسرے اپنی مجبوری کا رنج۔ میں نے لوگوں سے سنا تھا کہ سگ باش برادر خورد مباش سو مجھ کو ہر روز اس کی تصدیق ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر تو اس بات کا قلق تھا کہ میں اپنے گھر میں سب چھوٹے بڑوں کی عاد توں کو ناپسند کرتا ہوں اور اپنے جی میں سوچا کرتا ہوں کہ جس گھر میں رہتا ہوں اس سے مجھ کو وحشت ہوتی ہے تو میں کہاں جاؤں گا اور کیا کروں گا۔




باپ: لیکن اگر اب تم کو حضرت بی کے گھر جانا ملے؟










بیٹا: سبحان اللہ۔ اس سے بڑھ کر کوئی خوشی کی بات نہیں۔ لیکن جب تک کہ میں سر کے بال نہ منڈا لوں اور نماز نہ پڑھوں میں ان کو منہ نہیں دکھا سکتا۔




باپ: اور اگر یہ بھی ہو؟




بیٹا: تو پھر یہ بھی ہو کہ ہمارے گھر بھر کی عادتیں وہیں کی سی ہو جائیں۔




باپ: بھلا اگر یہ دونوں ہوں؟




بیٹا: تو پھر مجھ کو اور کچھ درکار نہیں۔




باپ: اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے اس تمام گھر پر ایک بربادی اور تباہی چھا رہی ہے اور سارا خاندان گناہ اور بے دینی کی آفت میں مبتلا ہے۔ آوے کا آوا خراب، کنبے کا کنبہ گمراہ۔ تعجب ہے کہ اب تک کوئی عذاب الٰہی ہم پر نازل نہیں ہوا۔ حیرت ہے کہ قہر خدا ہم پر کیوں نہیں ٹوٹ پڑا اور خدا کا الزام اور تم سب کا اولاھنا تمام تر مجھ پر ہے۔ میں تم لوگوں کے جسموں کی پرداخت و پرورش کرتا رہا لیکن تمہاری روحوں کو میں نے ہلاک اور تمہاری جانوں کو میں نے تلف کیا۔ کتنے دن میری گردن پر ہیں اور کتنے وبال میرے سر پر۔




بحیر تم کہ سر انجام من چہ خواہد بود




سلیم! آج تم خوش ہو جاؤ کہ تمہاری آرزو بر آئی اور تمہارا مطلب خدا نے پورا کیا۔ شوق سے اپنا سر منڈاؤ اور نماز پڑھو اور حضرت بی کی خدمت میں جاؤ۔ آج سے حضرت بی میری دینی ماں اور ان کے نواسے میرے دینی فرزند ہیں اور میں خود تمہارے ساتھ چلوں گا اور حضرت بی کا شکریہ ادا کروں گا کہ انہوں نے حسبۃًللہ تمہارے اور میرے دونوں کے ساتھ سلوک کیا۔ تمہارے ساتھ یہ کہ تم کو نیک صلاح دی اور میرے ساتھ یہ کہ جو کم میرے کرنے کا تھا وہ انہوں نے کیا۔ آج کے بعد انشاءاللہ تم اس گھر کو حضرت بی کے گھر کی طرح دیکھو گے۔ کوئی تفرقہ تم میں اور ان کے نواسوں میں باقی نہ رہے گا۔ سلیم! تمہاری آج کی گفتگو سن کر میرا جی بہت ہی خوش ہوا اور تم مجھ کو ساری اولاد میں سب سے زیادہ عزیز رہو گے۔ تم کو میں دوسروں کے لیے نمونہ اور مثال بناؤں گا اور ان کو جو تم سے بڑے ہیں، تمہاری تقلید پر مجبور کروں گا۔

فصل پنجم

فہمیدہ اور بڑی بیٹی نعیمہ کی لڑائی




ادھر تو نصوح اور سلیم دونوں باپ بیٹیوں میں یہ گفتگو ہو رہی تھی، ادھر اتنی ہی دیر میں فہمیدہ اور بڑی بیٹی نعیمہ میں خاصی ایک جھوٹ ہو گئی۔ نعیمہ اس وقت دو برس کی بیاہی ہوئی تھی۔ پانچ مہینے کا پہلونٹی کا لڑکا گود میں تھا۔ ناز و نعمت میں پلی، نانی کی چہیتی، ماں کی لاڈو۔ مزاج کچھ تو قدرتی تیز، ماں باپ کے لاڈ پیار سے وہی کہاوت ہوئی، " کریلا اور نیم چڑھا" اور بھی چڑ چڑا ہو گیا تھا۔ ساس نندوں میں بھلا اس مزاج کی عورت کا کیوں گزر ہونے لگا تھا۔ گھونگھٹ کے ساتھ منہ کھلا کا کھلا تھا کہ سسرال کا آنا جانا بند ہو گیا۔ اب چھ مہینے سے ماں کے گھر بیٹھی ہوئی تھی۔ مگر رسی جلی پر بل نہ گیا۔ باوجودے کہ اجڑی ہوئی میکے میں پڑی تھی، مزاج میں وہی طنطنہ تھا۔ کنوارے پن ہی میں سوا گز کی زبان تھی۔ کچھ یوں ہی سا لحاظ بڑی بوڑھیوں کا تھا، سو بیا ہے سے ان کو بھی دھتکار بتائی۔ جنے پیچھے تو اور بھی کھل کھیلی۔ مردوں تک لحاظ اٹھا دیا۔

فہمیدہ نے میاں کے رو برو بیٹیوں کا بیڑا اٹھانے کو اٹھا لیا تھا، لیکن نعیمہ کے تصور سے رونگٹے بدن پر کھڑے ہو ہو جاتے تھے اور جی ہی جی میں کہتی کہ ذرا بھی میں اس بھڑوں کے چھتے کو چھیڑوں گی تو میرا سر مونڈ کر ہی بس نہیں کرے گی۔ سوسو منصوبے ذہن میں باندھتی تھی، مگر نعیمہ کی شکل نظر پڑی اور سب غلط ہو گئے۔ ماں تو موقع اور محل ہی سوچتی رہی، نعیمہ نے خود ہی ابتدا کی۔ بڑے سویرے بچہ حمیدہ کو دے کر خود ہاتھ منہ دھونے میں مصروف ہوئی۔ جب حمیدہ نے دیکھا کہ نماز کا وقت ہاتھ سے نکلا جاتا ہے، بچے کو بٹھا نماز پڑھنے لگی۔ بچہ کسی اکھل کھری ماں کا تھا، بٹھانا تھا کہ بلبلا اٹھا۔ آواز سن کر ماں دوڑی آئی۔ دیکھا کہ بچہ اکیلا پڑا رو رہا ہے اور حمیدہ کھڑی نماز پڑھ رہی ہے۔ دور سے دوڑ، پیچھے سے حمیدہ کے ایسی دو ہتھڑ مارے کہ حمیدہ رکوع سے پہلے سجدے میں جا گری۔

اس وقت فہمیدہ کسی ضرورت سے دوسرے قطعے میں گئی تھی۔ پھر کر آئی تو دیکھا کہ حمیدہ چبوترے پر پانی کا لوٹا لیے ہوئے سر جھکائے بیٹھی ہے اور ناک سے خون کی تللّی جاری ہے۔ گھبرا کر پوچھا کہ ابھی تو میں تم کو نماز پڑھتی چھوٹ گئی تھی۔ اتنی ہی دیر میں یہ ہو کیا؟ دیکھوں کہیں نکسیر تو نہیں پھوٹی۔

حمیدہ بے چاری نے ابھی کچھ جواب بھی نہیں دیا تھا کہ نعیمہ خود بول اٹھی: "اے بی ہوا کیا۔ ذرا کی ذرا لڑ کے کو دے کر میں منہ دھونے چلی گئی۔ اس نکمی سے اتنا نہ ہو سکا کہ ذرا لڑ کے کو لیے رہے۔ آخر میں کہیں کنویں میں گرنے تو نہیں چلی گئی تھی۔ لڑ کے کو بلکتا ہوا لٹا، نیت باندھ، نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی۔ میں جو آئی تو ذرا ہولے سے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا کہ آپ دھڑام سے گر پڑی۔ کہیں تخت کی کیل لگ لگا گئی ہو گی۔

ماں : اچھا تم نے ہولے سے ہاتھ رکھا تھا کہ نگوڑی لڑکی کے فصد کے برابر خون نکلا؟ کیسے دنیا میں لہو سفید ہو گئے ہیں۔

نعیمہ: لہو سفید نہ ہو گئے ہوتے تو کیا یوں بھانجے کو روتا ہوا چھوڑ دیتی؟

ماں : لیکن اس نے بے سبب نہیں چھوڑا۔ اس کی نماز چلی جا رہی تھی۔

نعیمہ: بلا سے صدقے سے نماز کو جانے دیا ہوتا۔ نماز پیاری تھی یا بھانجا؟

ماں : لڑکی، ڈر خدا کے غضب سے۔ کیا کفر بک رہی ہے۔ اس حالت کو پہنچ چکی اور پھر بھی درست نہ ہوئی۔

نعیمہ: خدا نہ کرے میری کون سی حالت تم نے بُری دیکھی؟

ماں : اس سے بد تر حالت اور کیا ہو گی کہ تین برس بیاہ کو ہوئے اور ڈھنگ سے ایک دن اپنے گھر میں رہنا نصیب نہیں ہوا۔

نعیمہ: وہ جنم جلا گھر ہی ایسا دیکھ کر دیا ہو تو کوئی کیا کرے۔

ماں : وہاں بیٹی سچ ہے۔ میں تو تیری ایسی ہی دشمن تھی۔ مائیں بیٹیوں کو اسی واسطے بیاہا کرتی ہوں گی کہ بیٹیاں اجڑی ہوئی ان کے گھٹنے لگی بیٹھی رہیں۔

نعیمہ: کیا جانیں۔ ہم کو تو آنکھیں میچ کر کنویں میں دھکیل دیا تھا، سو پڑے ڈبکیاں کھا رہے ہیں۔

ماں : خیر بیٹی، اللہ رکھے تمہارے آگے بھی اولاد ہے۔ اب تم سمجھ بوجھ کر ان کی شادی بیاہ کرنا۔

نعیمہ: کریں ہی گے۔ نہ کریں گے تو کیا تمہارے بھروسے بیٹھے رہیں گے۔

ماں : میں کیا کہتی ہوں کہ میرے بھروسے بیٹھی رہنا۔ بڑا بھروسا خدا کا ہے۔

نعیمہ: کیسا خدا۔ بھروسا اپنے دم قدم کا۔

ماں : یہ دوسری دفعہ ہے کہ تو خدا کی شان میں بے ادبی کر چکی ہے۔ اب کی تو نے اس طرح کی بات منہ سے نکالی اور بے تامل تڑ سے طمانچہ تیرے منہ پر کھینچ ماروں گی۔

نعیمہ: سچ کہنا۔ بڑی بے چاری مارنے والی۔ مار اپنی چہیتی کو، مار اپنی لاڈو کو۔

ماں : کیسی چہیتی، کیسی لاڈو۔ قربان کی تھی وہ اولاد جو خدا کو نہ مانے۔

نعیمہ: یہ کب سے؟

ماں : جب سے خدا نے ہدایت دی۔

نعیمہ: چلو خیر جب ہم بھی تمہاری عمر کو پہنچیں گے تو بہتیرا خدا کا ادب کر لیں گے۔

ماں : آپ کو خیر سے غیب دانی میں دخل ہے کہ بارے میری عمر تک پہنچنے کا یقین ہے۔

نعیمہ : اب تم میرے مرنے کی فال نکالو۔

ماں : نہ کوئی کسی کی فال سے مرتا اور نہ کوئی کسی کی فال سے جیتا۔ جس کی جتنی خدا نے لکھ دی۔

نعیمہ : ورنہ تم مجھ کو کا ہے کو جینے دیتیں۔

ماں : اتنا ہی اختیار رکھتی ہوتی تو تجھ کو آدمی ہی نہ بنا لیتی۔

نعیمہ : نوج تو کیا میں حیوان ہوں۔

ماں : جو خدا کو نہیں جانتا وہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔

نعیمہ : اب تو ایک حمیدہ تمہارے نزدیک انسان ہے۔ باقی سب گدھے ہیں۔

ماں : حمیدہ کا تجھ کو کیا جلاپا پڑ گیا۔ تو اس کی جوتی کی برابری تو کر لے۔

نعیمہ : خدا کی شان، یہ اٹھک بیٹھک کر لینے سے حمیدہ کو ایسے بھاگ لگ گئے !

فہمیدہ دو مرتبہ بیٹی کو منع کر چکی تھی اور سمجھا دیا تھا کہ اگر پھر دین کی با توں میں بے ادبانہ کلام کرے گی تو میں بے تامل منہ پر طمانچہ ماروں گی۔ اس مرتبہ جو نعیمہ نے نماز کو اٹھک بیٹھک کہا تو حرارت دین داری نے فہمیدہ کو بے اختیار کیا اور اس نے واقع میں جیسا کہا تھا، نعیمہ کے منہ پر ایک طمانچہ ایسے زور کا مارا کہ منہ ہی تو پھر گیا۔ طمانچے کا لگنا تھا کہ نعیمہ نے ایک آفت توڑ ماری۔ سب سے پہلے تو اس نے " دے دھواں دھواں، دے دھواں دھواں " اپنے بے زبان معصوم بچے کو پیٹ ڈالا۔ اگر لوگ اس کی گود سے بچے کو نہ چھین لیں تو لڑ کے کا خون ہی کر چکی تھی۔ اس کے بعد تو اس نے عجب عجب فیل مچائے۔ گھنٹوں تک تو پٹخیاں کھایا کی۔ کپڑوں کا ایک تار باقی نہ رکھا۔ نہیں معلوم اس کا سر تھا یا لوہے کا گولا تھا کہ ہزاروں دو ہتھڑیں اس پر پڑیں، آدھے سے زیادہ کھسوٹ ڈالے، سینکڑوں ٹ کریں دیواروں میں ماریں۔ حیرت ہے کہ وہ سر بچا تو کیوں کر بچا۔ اس کے پاکھنڈ دیکھ کر سارا گھر تھرا اٹھا اور لوگ ڈرنے لگے کہ ایسا نہ ہو تھانے والے غل سن کر اندر گھس آئیں۔ بارے بہ مشکل پکڑ دھکڑ کر کوٹھڑی کے اندر دھکیل اوپر سے کنڈی لگا دی۔

نیچے گھر میں اتنا غل ہوا مگر بالا خانہ کچھ ایسا الگ سا تھا کہ نصوح کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ جب سلیم باپ سے باتیں کر کے نیچے اترا تو فہمیدہ اوپر گئی۔ اس وقت تک غیظ و غضب اور رنج و تعجب کے آثار اس کے چہرے سے نمودار تھا۔ دور ہی سے نصوح نے پوچھا : " خیریت تو ہے؟"

فہمیدہ : اللہ تعالیٰ خیریت ہی رکھے۔ کیوں تم نے کیا سمجھ کر پوچھا؟

نصوح : تمہارے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ ہونٹھ خشک ہو رہے ہیں۔ سر سے پاؤں تک کھڑی کانپ رہی ہو۔ آخر یہ سب بے سبب تو نہیں ہیں۔

فہمیدہ نے نعیمہ کی اور اپنی تمام سرگزشت بیان کی۔ نصوح یہ ماجرا سن کر دم بہ خود ہو گیا۔ آدھے گھنٹے کے قریب دونوں میاں بیوی چپ سناٹے میں بیٹھے رہ گئے۔ آخر فہمیدہ نے کہا : " پھر اب کیا صلاح؟"

نصوح : صلاح یہی ہے کہ جو ہونی ہو سو ہو، اب نرمی اور لیعت؟؟ نہیں کرنی چاہیے۔ معاذ اللہ ایسا برا عقیدہ! بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی اہل اسلام کے خاندان کی لڑکی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا اس کے نزدیک کوئی چیز نہیں۔ مجھ کو تو اس کے ساتھ کھانا حرام ہے۔ بڑی خیریت گزری کہ میں وہاں موجود نہ تھا ورنہ میرے روبرو ایسا کلمہ اس کے منہ نکلا ہوتا تو شاید میں تلوار کھینچ مارتا۔ ایسی اولاد کے ہونے سے نہ ہونا اچھا۔ بہتر ہو گا کہ ابھی پالکی منگا کر اس کو سسرال پہنچا دو۔

فہمیدہ : بھلا کیسی باتیں کہتے ہو۔ بے طلب بے تقریب بھیج دیں تو ایک تو پہلے ہی سے اس نے اپنی عزت کو خاک میں ملا رکھا ہے، رہی سہی اور بھی غارت ہو۔ مجھ کو کیا خبر تھی، ورنہ تمہاری عیادت کی تقریب سے عورت مرد سارا سمدھیانا آیا تھا اور اس کے لے جانے کے لیے منتیں کرتے تھے۔

نصوح : جو کم بخت عورت خدا کی عزت و حرمت نہ رکھے، وہ دنیا کی ہر طرح کی بے عزتی اور بے حرمتی کی سزاوار ہے۔ جب اس کو خدا کا پاس نہیں، مجھ کو ہرگز ہرگز اس کا پاس محبت نہیں۔

فہمیدہ : میں کہتی ہوں شاید اب بھی یہ درست ہو جائے۔

نصوح : توبہ توبہ! اس کے دل میں مطلق نور ایمان نہیں۔ وہ توسرے سے خدا ہی کی قائل نہیں، پھر کیا درستی کی امید۔

فہمیدہ : سسرال بھیج دینا تو ٹھیک نہیں۔

نصوح : پھر مجھ سے کیا صلاح پوچھتی ہو، جو تمہارے جی میں آئے سو کرو۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس کے ایسے خیالات ہوں اور میں اس کو اپنے گھر میں رہنے دوں۔ اور وہ رزق جو ہم کو خدائے تعالیٰ اپنی مہربانی اور عنایت سے دیتا ہے، وہ شخص اس میں کیوں شریک ہو جو خدا ہی کو نہیں مانتا۔

فہمیدہ : لیکن خدائے تعالیٰ اپنا رزق کسی سے دریغ نہیں رکھتا۔ برے بھلے سب اس کے یہاں سے روزی پاتے ہیں۔

نصوح : میں اس کے رزق کا انسداد نہیں کرتا لیکن میں اپنے رزق میں من کر خدا کو شریک نہیں کرنا چاہتا۔

فہمیدہ : ایسی سختی سے گھر میں کوئی کا ہے کو رہنے لگا۔

نصوح : میں اس گھر کی فکر میں ہوں جہاں مجھ کو ہمیشہ رہنا ہے۔ دنیا کا گھر چند روزہ گھر ہے۔ آج اجڑا تو اور کل اجڑا تو، ایک نہ ایک دن اجڑے گا ضرور۔ میرے آباد کرنے سے آباد رہ سکتا ہے۔

فہمیدہ : ہاں لیکن ایک مرے پیچھے اجڑنا اور ایک جیتے جی اجڑنا، ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔

نصوح : لیکن تم دل کی ایسی کچی تھیں تو تم نے ہامی کیوں بھری اور تمہارا یہ حال ہے تو واقع میں خاندان کی اصلاح ہو نہیں سکتی۔

فہمیدہ : کیا اولاد کے واسطے جی نہیں کُڑھتا۔ میں نے ان کو اسی دن کے واسطے پالا تھا کہ یہ بڑے ہو کر مجھے سے چھوٹ جائیں۔ بے شک مجھ سے تو اتنا صبر نہیں ہو سکتا۔

اتنا کہہ کر فہمیدہ کا جی بھر آیا اور وہ رونے لگی۔

نصوح : میں نہیں کہتا کہ تمہارا جی نہیں کڑھتا اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ مجھ کو تمہارے برابر ان کی محبت ہے۔ لیکن میں نے یہ بھی تو نہیں کہا کہ تم ان کو چھوڑ دو۔

فہمیدہ : کیوں، ابھی تم نے نعیمہ کو سسرال بھیج دینے کے لیے نہیں کہا؟

نصوح : کیا نعیمہ کبھی سسرال نہیں گئی، اور سسرال بھیج دینا اور چھوڑ دینا ایک ہی بات ہے؟

فہمیدہ : لیکن ایک ہنسی خوشی جانا، جس طرح دنیا جہان کی بیٹیاں می کے سے جایا کرتی ہیں اور ایک لڑ کر جانا اور لڑائی بھی ایسی کہ لڑائی کہ عمر بھر ایسی نہیں ہوئی۔ مجھ کو یاد نہیں کہ میں نے نعیمہ کو کبھی ہاتھ بھی لگایا ہو۔ جواب اس سے زیادہ سخت سخت اس نے دیے۔ مگر جب وہ جوان تھی، میں ہنس دیا کرتی۔ اس مرتبہ نہیں معلوم میں کچھ ایسی آپے سے باہر ہو گئی کہ تھپڑ کھینچ مارا۔ اتنا بھی مجھ کو خیال نہ رہا کہ یہ بیاہی ہوئی ہے، صاحب اولاد ہے۔

نصوح : اگر تم نے اس کو تھپڑ مارا ہوتا تو میں تم سے پوچھتا کہ تم کیسی دین دار تھیں کہ ایک شخص نے جس کے دفع کرنے پر تم کو قدرت حاصل تھی، تمہارے منہ پر خدا کی شان میں بے ادبی کی اور استخفاف و استہزاء کے ساتھ اس کا نام لیا اور مطلق تم کو برا نہ لگا۔

فہمیدہ : برا نہ لگتا تو میں مارتی ہی کیوں؟

نصوح : بے شک تم نے مارا تو بہت بجا کیا۔ لیکن اب اس پر افسوس کرنا، اپنے تئیں ملزم بنانا ہے۔

فہمیدہ : لیکن لڑکی جو ہاتھ سے جاتی ہے۔

نصوح : یہ حالت تمہارے لیے ایک امتحان کی حالت ہے۔ ایمان اور اولاد دو چیزیں ہیں اور سخت افسوس کی بات ہے کہ دونوں کو اکٹھا ہونا ممکن نہیں معلوم ہوتا، اس واسطے کہ ہمارے اولاد دین کی عدو اور ایمان کی دشمن ہے۔ اگر اولاد کا منہ کریں تو دین و ایمان ہاتھ سے جاتا ہے اور اگر ایمان کا حفظ کریں تو اولاد چھوٹتی ہے پس تم کو اختیار ہے دونوں میں سے جس کو چاہو لو۔

فہمیدہ : میں ایمان لوں گی، میں ایمان لوں گی جو عاقبت میں میرے کام آئے گا۔

نصوح : جزاک اللہ۔ صد آفرین ہے تمہاری فہم پر۔ بے شک ایمان بڑی چیز ہے۔

فہمیدہ : رہی اولاد، کیا کروں چھاتی پر پتھر رکھوں گی۔ مجھ کو کیا خبر تھی کہ اس پیٹ کم بخت کو یوں آگ لگے گی اور اس ناشاد کوکھ میں ایسے کیڑے پڑیں گے۔

فہمیدہ یہ کہہ کر بڑے درد و حسرت کے ساتھ روئی کہ اس کو دیکھ کر نصوح بھی بے قرار ہو گیا۔

تھوڑی دیر کے بعد نصوح بولا : " دل کو مضبوط رکھو اور اللہ کو یاد کرو۔ جب تمہاری نیت بخیر ہے تو سب انشاء اللہ بہتر ہی ہو گا۔ وہ بڑا قادر ہے، چاہے تو دم کے دم میں ہمارے ساری اولاد کو ولی کر دے۔ دعا کرو کہ اللہ ان کو نیک راہ دکھائے۔

فہمیدہ : رواں دواں دعا کر رہا ہے۔ اللہ ہی قبول کرے اور اسی سے لو لگی ہے۔

نصوح : بھلا نعیمہ کوٹھری کے اندر کیا کر رہی تھی۔

فہمیدہ : رو رہی تھی اور کیا کر رہی تھی۔ میں چلتے ہوئے کہتی آئی تھی کو کواڑ کھول کر اس کو پانی وانی پلا دینا۔

نصوح : اور کھانا؟

فہمیدہ : کیا خوب۔ نہ ابھی دو دن، نہ چار دن، ابھی سے کھانا۔

نصوح : یہ تو بڑی خرابی کی بات ہے۔

فہمیدہ : اور کیا، رونا تو کھانے ہی کا ہے۔ وہ مجھ سے چاہے مہینوں نہ بولتی، مگر کھانا کھا لیتی تو کچھ اندیشے کی بات نہ تھی۔ ادھر اس کو تکلیف ہو گی، ادھر بچہ دودھ کو پھڑ کے گا۔

نصوح : تم اپنا دودھ پلا دینا۔

فہمیدہ : میں تو اس کو سو دفعہ پلاؤں مگر اللہ رکھے سیانہ بچہ ہے، ماں کو گود پہچانتا ہے۔ کہتے ہیں کہ چالیس دن کا بچہ ماں کی پرچھائیں دیکھنے لگتا ہے۔ اب تو سوتے کو ایک دفعہ میں پلا آئی ہوں، جاگتے میں پئے تو جانوں کہ پیا۔

نصوح : کھانا کھانے کی تدبیر ضرور کرنی چاہیے۔ میں جا کہوں؟

فہمیدہ : نہ، خدا کے لیے تم اترنا ہی مت۔

نصوح : میں آہستگی سے سمجھا دوں گا۔

فہمیدہ : مردوں کی آہستگی کا کچھ اعتبار نہیں، اور تمہاری آہستگی کہ ابھی با توں ہی با توں میں تم تلوار کھینچنے لگے تھے۔

نصوح : میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ کسی طرح کی سختی نہیں کروں گا۔

فہمیدہ : پھر بھی کیا ہوا۔ تمہارا دخل دینا مناسب نہیں۔ آخر ایک آدمی گھر میں ایسا بھی ہونا چاہیے کہ چھوٹے بڑے سب اسکا لحاظ کریں اور فرض کرو کہ تم گئے اور رنج اس کا تازہ ہے، اس نے نہ مانا تو پھر بڑی دشواری پڑے گی اور اس کو یہ شرم دامن گیر ہو گی کہ دیکھو، باپ تک مجھ کو سمجھا کر ہار گئے اور میں نے کسی کا کہنا نہ مانا، اب جو من جاؤں گی، تو باپ جی میں کیا کہیں گے۔

نصوح : اچھا تم ایک تدبیر کرو۔ اس کہ سہیلیوں میں سے کوئی سمجھ دار ہے، تو اس کو بلا بھیجو۔ وہ سمجھا بجھا کر راضی کر لے گی۔

فہمیدہ : ہاں یہ ایک معقول تدبیر ہے۔ میں اپنی بھانجی صالحہ کو بلاتی ہوں۔ دونوں ہم عمر ہیں اور دونوں کی ملی بھگت بھی بہت ہے۔

نصوح : بس تمہارے انتخاب پر میرا صاد ہے۔ تمہاری بہن کے گھر نماز روزے کا بھی خوب چرچا رہا کرتا ہے۔ جمعے کے جمعے وعظ ہوتا ہے۔ صالحہ کے خیالات ضرور دین دارانہ خیالات ہوں گے۔

فہمیدہ : اللہ اکبر! ان کے گھر کی دین داری ضرب المثل ہے۔ ہماری بہن، اللہ رکھے، اتنی بڑی نمازن ہیں کہ انہوں نے اپنے ہوش میں تو کسی وقت کی نماز قضا نہیں کی۔ اتنا تو بال بچوں کو بکھیڑا ان کے ساتھ ہے اور خدا کی مرضی گھر میں سدا تنگی رہتی ہے، سب کام کاج بے چاری کو اپنے ہی ہاتھوں سے کرنا پڑتا ہے، لیکن پنج وقتی نماز اور فمی بشوق کی منزل کیا امکان کہ قضا ہو۔

نصوح : سبحان اللہ۔ وہی لوگ بڑے خوش قسمت ہیں۔ دنیا کے فقیر دین کے امیر۔

فہمیدہ : اور لطف یہ کہ ہر وقت ہشاش بشاش۔ کبھی عسرت کی شکایت یا تنگ دستی کا گلہ کرتے ہم نے ان کو سنا نہیں اور چھوٹے بڑے سب مستغنی اور سیر چشم۔ ہم کو اتنا تو خدا نے دے رکھا ہے لیکن میں سچ کہتی ہوں، کہیں شادی بیاہ میں کسی بیوی کو اپنے سے بہتر زیور یا کپڑا پہنے دیکھتی ہوں تو ضرور میرا جی کڑھتا ہے اور بچوں کا بھی یہی حال ہے۔ کوئی چیز کسی کے پاس ذرا دیکھ پائیں، جب تک ویسی ہی موجود نہ ہو جائے میری جان کھا جائیں۔ لیکن ہماری بہن کے دل میں کبھی ایسا خیال ہی نہیں آیا۔ اگر ان کو مجھ پر حسد ہوتا تو موقع تھا۔ لیکن میرے اور میرے بچوں کے زیور اور کپڑے دیکھ کر باغ باغ ہو جاتی ہیں اور ہر چیز پر کہے جاتی ہیں۔ ماشاء اللہ، چشم بد دور، اللہ زیادہ دے، اللہ نصیب کرے۔ بچے ہیں، کہ دنیا کی نعمت ان کے سامنے رکھ دو، آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔

نصوح : سچ ہے، " الغنی غنی النفس۔ " " تونگری بہ دل است نہ بہ مال۔ " دنیا کے مال و حشمت کی ان کی نظروں میں وقعت ہی نہیں تو پھر حسد کیوں کریں۔ "

فہمیدہ : اور مجھ سے اور میرے بچوں سے اس قدر محبت کرتی ہیں کہ ڈولی سے اترتی ہیں تو اوپر تلے بلائیں لیے چلی جاتی ہیں۔ بلکہ مجھ کو ان کے بچوں سے ذرا بھی انس نہیں۔




نصوح : ان کی یہ محبت و ہمدردی خدا پرستی کی وجہ سے ہے اور کچھ تمہاری تخصیص نہیں، سب کے ساتھ ان کی یہی کیفیت ہو گی۔




فہمیدہ : بچوں کو ایسا سدھار رکھا ہے کہ کبھی آپس میں لڑتے ہی نہیں۔ ایک ہمارے بچے ہیں کہ ایک دم کو ایک کی ایک سے نہیں بنتی۔




نصوح : یہ ان کی تعلیم و تلقین کا نتیجہ اور ان کے اپنے عمدہ نمونے کا اثر ہے۔ مگر تم ان کو اکثر مہمان بلا کر اپنے یہاں رکھا کرو کہ ہمارے گھر پر بھی ان کا پرتو پڑے۔




فہمیدہ : ہماری بہن غیرت مند بڑی ہیں۔ میں نے کئی بار ان سے کہا تو یہی جواب دیا کہ میرے ساتھ بکھیڑا بہت ہے۔ تمہارے سسرال والے نہیں معلوم دل میں کیا سمجھیں، کیا کہیں، اس سے میرا آنا نہیں ہو سکتا۔ خدا کرے کہ تم بیٹے بیٹیوں کی شادیاں کرو، بیاہ کرو تو دیکھو بے بلائے پہنچتی ہوں یا نہیں۔




نصوح : کوئی سامان ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کو فکر معاش سے فارغ البالی ہو۔




فہمیدہ : وہ ہمارے بہنوئی صاحب کچھ اس کی پیروی ہی نہیں کرتے۔ ان کا یہ مقولہ ہے کہ جتنا ہم کو اب ملتا ہے بس دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے کافی ہے۔




نصوح : گھر میں تکلیف رہا کرتی ہو گی۔










فہمیدہ : تکلیف ہونی ہی چاہیے۔ بیس روپے مہینے کی نو کری اور ہمارے بہنوئی کی سی احتیاط۔ اللہ رکھے، اتنا بڑا کنبہ، مگر جیسا میں نے تم کو کہا، جب سنا ان کو شکر گزاری ہی کرتے سنا اور کچھ خدا نے برکت بھی ایسی دی ہے کہ کپڑا لتا، گہنا پاتا، سامان، ظاہر حیثیت کے موافق کچھ برا نہیں۔ کسی کے قرض دار نہیں۔ نیوتا بیوہار کے ایسے کھرے کہ اگر کسی نے ان کے گھر ایک روپیہ دیا ہو گا تو انہوں نے دو ضرور دیئے ہوں گے۔ غرض کنبے اور برادری میں بھی کسی سے شرمندہ نہیں۔




نصوح : بڑی ہی اچھی زندگی ہے۔




فہمیدہ : اس میں شک نہیں۔ کیسی ہی مصیبت ہو، میں نے ان کو مضطر اور بے قرار نہیں دیکھا۔ ہر بات میں اللہ پر توکل، خدا پر بھروسا۔




نصوح : مجھ کو حیرت ہے کہ تم دونوں سگی بہنیں اور عاد توں میں اتنا تفاوت۔




فہمیدہ : ماں کے گھر تک تو میرا بھی یہی حال تھا۔ انہوں نے ہم دونوں کو یکساں کھایا، برابر پڑھایا۔ مگر برا مت ماننا، جب میں تمہارے پلے بندھی، تمہارے گھر میں آ کر جو دیکھا تو دین کا کچھ تذکرہ نہ کیا۔ رفتہ رفتہ نماز وغیرہ کی سب عادتیں چھوٹ گئیں۔ ہماری ماں، خدا جنت نصیب کرے، بڑی دین دار تھیں۔ جب دلہن کو رخصت کرتے ہیں تو دستور ہے کہ بیٹی کی ماں، بیٹے کی ماں سے کہا کرتی ہے کہ میں تمہاری خدمت کو یہ لونڈی دیتی ہوں۔ ہماری ماں نے، مجھ کو اب تک یاد ہے، رخصت کرتے وقت اماں جان سے کہا کہ دیکھو بوا، میری لڑکی نے آج تک نماز قضا نہیں کی۔ اب میں اس کو تمہارے سپرد کرتی ہوں۔ اتنا خیال رکھنا کہ اس کی نماز قضا نہ ہو، ورنہ میں بری الذمہ ہوں۔ اس کا وبال اس پر ہو گا یا تمہاری گردن پر۔ جب میں نئی نئی بیاہ کر آئی تو شرم کے مارے اٹھتی میں نہ تھی، چلتی پھرتی میں نہ تھی۔ تمام کنبے کی عورتیں ایک دم کو مجھ سے الگ نہ ہوتی تھیں کہ میں تنہائی پا کر دو رکعت نماز پڑھ لیتی اور باوجودے کہ میری ماں نے چلتے چلتے اماں جان سے کہہ دیا تھا مگر انہوں نے بھی کچھ خیال نہ کیا۔ بس اسی دن سے میری نماز جانی شروع ہوئی۔ دو چار دن تو دل کو افسوس رہا۔ ہوتے ہوتے عادت چھوٹ گئی اور ایسی شامت کی مار آئی کہ پھر مجھ کو نماز نہ پڑھنے کا رنج بھی نہیں ہوتا تھا۔ غرض دنیا کی چند روزہ شرم نے مجھ کو پکی بے دین بنا دیا۔ اور میری وہی کہاوت ہوئی کہ جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم۔ لیکن چوں کہ نماز کی خوبی بچپن سے ذہن میں بیٹھ چکی تھی، اب بھی اتنا تھا کہ جس دن سر دھویا، دو چار وقت کی نماز ضرور پڑھ لیا کرتی تھی۔ یا کوئی بال بچہ بیمار ہوا تو نماز پڑھنے لگی۔ جب خدا نے اس ترد د کو رفع کر دیا، پھر چھوڑ دی۔ اب البتہ میں نے مصمم عہد کر لیا ہے کہ برابر نماز پڑھوں گی۔ خدا میرے قول کو پورا کرے۔




نصوح : آمین، ثم آمین۔




اس کے بعد فہمیدہ نے نیچے اتر کر فوراً صالحہ کے واسطے ڈولی بھیجی اور لونڈیوں سے کہہ دیا کہ کہار سواری لے آئیں تو چپ کے سے مجھ کو خبر کر دینا۔

فصل ششم










نصوح اور منجھلے بیٹے علیم کی گفتگو




نصوح نے نماز عصر سے فارغ ہو کر منجھلے بیٹے علیم کو پچھوایا کہ دیکھو مدرسے سے آئے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ ابھی آئے ہیں اور کپڑے اتار رہے ہیں۔ تو کہلا بھیجا کہ اپنی ضرور توں سے فارغ ہو کر ذرا میرے پاس ہو جائیں۔ تھوڑی دیر میں علیم مدرسے کا لباس اتار کتابیں ٹھکانے سے رکھ باپ کی خدمت میں جا حاضر ہوا۔ دیکھتے ہی باپ نے کہا : " آؤ صاحب آج کل تو میں نے سنا ہے کہ تم کو بہت ہی محنت کرنی پڑتی ہے۔ "




بیٹا : ششماہی امتحان قریب ہے، اسی کے واسطے کچھ تیاری کر رہا ہوں۔ دن تھوڑے سے رہ گئے ہیں اور کتابیں دیکھنے کو بہت باقی ہیں۔ ہر چند ارادہ کرتا ہوں کہ رات کو گھر پر کتاب دیکھا کروں۔ مگر بن نہیں پڑتا۔ لوگ جو بھائی جان کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں، ایسی اودھم مچاتے ہیں کہ طبیعت اچاٹ ہوئی چلی جاتی ہے۔










باپ : پھر تم کچھ اس کا انسداد نہیں کرتے؟




بیٹا : اس کا انسداد میرے اختیار سے خارج ہے اور رات رائیگاں جاتی ہے۔ دن کو البتہ میں نے مکان کا رہنا ہی چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی اور اپنے کسی ہم جماعت کے یہاں چلا گیا۔




باپ : اور بڑے امتحان کے واسطے بھی کچھ تیاری کر رہے ہو؟




بیٹا : ابھی اس کے بہت دن پڑے ہیں۔ اس سے فارغ ہو کر دیکھا جائے گا۔




باپ : کیا اس کا کوئی وقت مقرر ہے؟




بیٹا : جناب، ہاں۔ بڑے دن کی تعطیل کے قریب ہوا کرتا ہے۔




باپ : نہیں نہیں، تم نے میری مراد کو نہیں سمجھا۔ میں حسابِ آخرت کو بڑا امتحان کہتا ہوں۔ کیا وہ بڑا امتحان نہیں ہے؟




بیٹا : کیوں نہیں۔ سچ پوچھئے تو سب سے بڑا امتحان وہی ہے۔




باپ : تو میں جب تمہارے ان دنیاوی چھوٹے چھوٹے امتحانوں کی خبر رکھتا ہوں، تو کیا اس بڑے سخت امتحان کی نسبت میں نے تم سے پوچھا تو کچھ بے جا کیا؟




بیٹا : جناب میں نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ نے بے جا کیا۔ ایسا کہنا میرے نزدیک گستاخی اور گناہ دونوں ہے۔




باپ : اچھا تو میں سننا چاہتا ہوں کہ تم اس بڑے سخت امتحان کے واسطے کیا تیاری کر رہے ہو؟




بیٹا : جناب، سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس امتحان کے واسطے مطلق تیاری نہیں کی۔




باپ : کیا یہ غفلت نہیں ہے؟




بیٹا : جناب، غفلت بھی پرلے درجے کی غفلت ہے۔




باپ : لیکن جب تم ایسے دانش مند ہو کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے امتحانوں کے لیے مہینوں اور برسوں پہلے سے تیاری کرتے ہو تو اس سخت امتحان سے غافل رہنا بڑے تعجب کی بات ہے۔




بیٹا : شامت نفس۔




باپ : لیکن تمہاری غفلت کا کچھ اور بھی سبب ضرور ہو گا۔




بیٹا : سبب یہی ہے، میری سہل انگاری۔




باپ : تم جواب دیتے ہو لیکن صرف لفظوں کو پھیر پھار کر۔ میں نے تم سے غفلت کا سبب پوچھا اور تم نے کہا کہ سہل انگاری اور سہل انگاری اور غفلت ایک ہی چیز ہے۔ تو گویا تم نے غفلت کو غفلت کا سبب کہا۔




بیٹا : شاید گھر میں دین داری کا چرچا ہونے سے میری غفلت کو ترقی ہوئی ہو۔




باپ : بے شک، یہی سبب ہے تمہاری غفلت کا اور میں نے تم سے کھود کھود کر اسی لیے دریافت کیا کہ جہاں تک تمہاری غفلت میری بے پرواہی کی وجہ سے ہے اس کا الزام مجھ پر ہے اور ضرور ہے کہ میں تمہارے روبرو اس کا اقرار کروں اور تم چھوٹے ہو کر مجھ کو ملامت کرو۔




بیٹا : نہیں جناب قصور سراسر میرا ہے۔ مجھ کو خدا نے اتنی موٹی بات کے سمجھنے کی عقل دی تھی کہ مجھ کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے اور میرے پیدا کرنے سے صرف یہی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ میں جانوروں کی طرح کھانے اور پانی سے اپنا پیٹ بھر کر سو رہا کروں۔




باپ : تمہاری با توں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمہاری دینی معلومات بھی کم درجے کی نہیں ہیں۔ لیکن نہ تو میں نے دین کے مسائل تم کو خود سکھائے اور ان کے سیکھنے کی کبھی تاکید کی۔ مدرسے میں تاریخ و جغرافیہ اور ہندسہ و ریاضی کے سوائے کوئی دوسری چیز پڑھاتے نہیں۔ پھر دینی معلومات حاصل کیں تو کہاں سے کیں؟




بیٹا : اس میں شک نہیں کہ میں نے چھوٹی سی عمر میں قرآن پڑھا تھا لیکن وہ دوسرے ملک کی زبان میں ہے۔ طوطے کی طرح اول سے آخر تک پڑھ گیا، مطلق سمجھ میں نہیں آیا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ اور کیا اس کا مطلب ہے۔ پھر مکتب میں گیا تو وہاں بھی کوئی دین کی کتاب پڑھنے کا اتفاق نہ ہوا، قصے کہانی، ان میں بھی اکثر بری بری باتیں۔ یہاں تک کہ جن دنوں میں بہار دانش پڑھتا تھا، ایک پادری صاحب چاندنی چوک میں سر بازار وعظ کہا کرتے تھے، مکتب سے آتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر میں بھی کھڑا ہو جاتا تھا۔ پادری صاحب کے ساتھ کتابوں کا بھی ایک بڑا ذخیرہ تھا اور اکثر لوگوں کو اس میں سے کتابیں دیا کرتے تھے۔ ہمارے مکتب کے کئی لڑ کے بھی کتابیں لائے تھے۔ انہوں نے کتاب کی جلد تو اکھاڑ لی، اور ورقوں کو یا تو پھاڑ کر پھینک دیا یا پٹھے بنائے۔ کتابوں کی عمدہ عمدہ جلدیں دیکھ کر مجھ کو بھی لالچ آیا اور میں نے کہا، چلو ہم بھی پادری صاحب سے کتاب مانگیں۔ مکتب سے اٹھ میں سیدھا پادری صاحب کے پاس چلا گیا۔ بہت سے لوگ ان کو گھیرے ہوئے تھے۔ ان میں ہمارے مکتب کے بھی دو چار لڑ کے تھے۔ لوگ ان کے ساتھ کچھ مذہبی بحث کر رہے تھے۔ اس کو میں نے خوب نہیں سمجھا۔ مگر ایک بات تھی کہ اکیلے پادری صاحب ایک طرف تھے اور ہندو، مسلمان، سینکڑوں آدمی ایک طرف۔ لوگ ان کو بہت سخت سخت باتیں بھی کہتے تھے۔ کوئی دوسرا ہوتا تو ضرور لڑ پڑتا مگر پادری صاحب کی پیشانی پر چیں بھی تو نہیں آتی تھی۔ سخت بات سن کر الٹے مسکرا دیتے تھے۔ لڑ کے ایک شیطان ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر تک تو کھڑے سنتے رہے، چلنے لگے تو ان میں ایک نے کہا : " لولو ہے بے، لولو ہے۔ " اس کی یہ بات سب لوگوں کو ناگوار ہوئی اور دو چار آدمیوں نے اس کو مارنے کے لیے تھپڑ بھی اٹھائے۔ پادری صاحب نے روکا اور منع کیا کہ خبردار! اس سے کچھ مت بولو۔ لولو موتی کو بھی کہتے ہیں۔ شاید اس نے یہ سمجھ کر کہا ہو تو اس کو انعام دینا چاہیے۔ پادری صاحب کی اس بات نے مجھ کیا، شاید سب لوگوں کے دل پر بڑا ہی اثر کیا اور جب شام ہوئی، لوگ رخصت ہوئے تو کئی آدمی آپس میں کہتے جاتے تھے کہ بھائی اس شخص کا عقیدہ چاہے کیسا ہی ہو لیکن حلم اور بردباری، یہ صفت اس میں اولیاء اللہ کی سی ہے۔




غرض پادری صاحب تو وعظ میں مصروف تھے اور میں اپنی تاک میں تھا کہ بھیڑ ذرا کم ہو یا پادری صاحب کا سلسلہ سخن منقطع ہو تو کتاب مانگوں۔ لیکن نہیں معلوم پادری صاحب کو میرے قیافے سے یا کسی طرح معلوم ہو گیا کہ میں کچھ ان سے کہنا چاہتا ہوں۔ آپ ہی پوچھا کہ صاحب زادے تم کچھ مجھ سے کہو گے؟ میں نے کہا کہ آپ سب کو کتابیں دیتے ہیں، ایک کتاب مجھ کو بھی دیجیئے۔




پادری صاحب : " بہت خوب اس الماری میں سے تم ایک کتاب پسند کر لو۔ " میں نے سنہری جلد کی ایک بڑی موٹی سی کتاب چھانٹی تو پادری صاحب نے کہا کہ مجھ کو اس کے دینے میں کچھ عذر نہیں۔ لیکن تم اس کو پڑھ بھی سکو گے۔ کون سی کتاب تم پڑھتے ہو؟ میں نے کہا : " بہار دانش۔ "




پادری صاحب : بھلا تمہارا آج کا سبق میں بھی سنوں۔




میں نے جز دان سے کتاب نکال پڑھنا شروع کیا۔ اس دن کا سبق بھی کم بخت ایسا فحش اور بے ہودہ تھا کہ لوگوں کے مجمع میں مجھ کو اس کا پڑھنا دشوار تھا۔ بہ مشکل کوئی دو تین سطریں میں نے پڑھی ہوں گی کہ پادری صاحب نے فرمایا، بے شک تم نے جو کتاب پسند کی ہے اس کو بہ خوبی پڑھ سکو گے اور وہ کتاب میں تم کو بخوشی دیتا ہوں۔ لیکن میں افسوس کرتا ہوں کہ کیوں میں نے تم کو ایسی کتاب کے پڑھنے کو کہا جس کے پڑھنے سے تم اور سننے سے میں اور یہ سب صاحب جو کھڑے ہوئے ہیں، خدا کے گنہ گار ہوئے۔ خدا ہم سب کی خطا معاف کرے اور تم چاہے میری دوسری بات مانو یا نہ مانو لیکن اس کتاب کو چھوڑ دو کہ اس کا مطلب تمہارے مذہب کے بھی بالکل خلاف ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایسے پڑھنے سے نہ پڑھنا تمہارے حق میں بہت بہتر ہے۔ یہ کتاب جو تم پڑھتے ہو، تم کو گناہ اور برائی سکھاتی اور بد اخلاقی اور بے حیائی کی خراب راہ دکھاتی ہے۔ باوجودے کہ لوگ پادری صاحب کی ہر ہر بات کو کاٹتے تھے مگر اس کو سب نے تسلیم کیا۔




پادری صاحب سے جو کتاب میں مانگ کر لایا تھا اس کا نام تو مجھ کو معلوم نہیں مگر سلیس اردو میں کسی خدا پرست اور پارسا آدمی کے حالات تھے۔ اگرچہ فی الواقع میں اس کتاب کو جلد ہی کے لالچ سے لایا تھا، لیکن میں نے کہا لاؤ میں دیکھوں تو اس میں کیا لکھا ہے۔ چناں چہ میں نے اس کو دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں میں اس کتاب کو پڑھتا جاتا تھا، میرا دل اس میں لگتا تھا اور اس کی باتیں مجھ کو بھلی معلوم ہوتی جاتی تھیں۔ اس کتاب کے پڑھنے سے مجھ کو معلوم ہوا کہ میرا طرز زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ اور میں روئے زمین پر بدترین مخلوقات ہوں۔ اکثر اوقات مجھ کو اپنی حالت پر رونا آتا تھا اور گھر والوں کا وتیرہ دیکھ دیکھ کر مجھ کو ایک وحشت ہوتی تھی۔ یا تو میری یہ کیفیت تھی کہ مصیبت مند لوگوں کو دیکھ کر ہنسا کرتا تھا یا اس کتاب کی برکت سے دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے لگا۔




مکتب اور بہارِ دانش دونوں کو میں نے اسی دن سلام کیا تھا جس روز کہ پادری صاحب نے مجھ کو نصحیت کی۔ گھر میں اکیلا پڑا ہوا دن بھر اسی کتاب کو دیکھا کرتا۔ مکتب کے لڑ کے چند بار مجھ کو بلانے آئے مگر میں نہ گیا۔ آخر خود میاں جی صاحب تشریف لائے اور میں نے جی کو مضبوط کر ان سے صاف کہہ دیا کہ مجھ کو پڑھنا منظور نہیں۔ آپ ان دنوں دکن میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک روز نصیبوں کی شامت، میں نہیں معلوم کہاں چلا گیا۔ میری غیبت میں وہ کتاب بھائی جان کی نظر پڑ گئی اور شب برات کے کوئی چار یا پانچ دن باقی تھے۔ بھائی جان کو پٹاخوں کے واسطے ردی درکار تھی۔ بے تامل کتاب کو چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ میں نے آ کر دیکھا، بہتیرا سر پٹکا، کیا ہوتا تھا۔ دوڑا ہوا چوک گیا کہ پادری صاحب ہوں تو دوسرا نسخہ لاؤں۔ مگر معلوم ہوا کہ صاحب آگرے چلے گئے ہیں۔ کف افسوس مل کر رہ گیا۔ بھائی صاحب کے دوستوں سے شکایت کی، تو انہوں نے کہا : " میاں شکر کرو کہ وہ کتاب پھٹ گئی، نہیں تو تم کرشٹان ہی ہو گئے ہوتے۔ " یہ جواب سن کر تو مجھ کو ایک نئی حیرت پیدا ہوئی کہ اگر کرشٹان ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کا حال میں نے اس کتاب میں پڑھا، تو ان کو برا سمجھنا کیا معنی۔ خیر چندے خیالات رہے۔ اس کے بعد تو میں مدرسے میں داخل ہوا اور دوسرے طرف متوجہ ہو گیا۔ اگر اب میرے خیالات دین و مذہب سے کچھ علاقہ رکھتے ہیں تو یہ صرف اس کتاب کا اثر ہے، ورنہ دین کا کوئی رسالہ مجھ کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔




باپ : اہل اسلام اور عیسائیوں کے معتقدات میں کچھ اختلاف ہے۔ مگر پھر بھی جس قدر کہ عیسائیوں کا مذہب اسلام سے ملتا ہوا ہے، اتنا کوئی دوسرا مذہب نہیں ملتا۔ قرآن میں کئی جگہ عیسائیوں اور ان کے بزرگان دین قسیسوں اور راہبوں کی تعریف آئی ہے۔ عیسائیوں کی نرم دلی اور خاکساری کی مدح کی ہے۔ ان کی انجیل کلام الہٰی ہے۔ عیسائیوں کے ساتھ برتتے ہیں، ایک نام نا مشروع ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے مذہب کی عمدہ کتابیں تمہارے دل پر پادری صاحب کی کتاب سے بہتر اثر کرتیں۔ خصوصاً جو ضرورت کہ مجھ کو در پیش ہے مجھ کو یقین ہے کہ تمہارا اس کتاب کو دیکھ لینا اس میں بہت کام آئے گا۔ ہم دردی کی جیسی کچھ تاکید ہے، تم نے اس کتاب میں دیکھا ہو گا۔




بیٹا : اگر وہ مذہبی کتاب تھی، تو میں جانتا ہوں کہ خاکساری و ہمدردی شرط عیسائیت ہے۔




باپ : شرط عیسائیت، بلکہ شرط انسانیت ہے۔




درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو




ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں




لیکن میں تم سے سننا چاہتا ہوں کہ تم اس فرض کی تعمیل کہاں تک کرتے ہو۔




بیٹا : جناب شاید اگر میں اس کو ہمدردی کہہ سکوں تو مدرسے کا جو لڑکا مجھ سے کچھ پوچھنا یا پڑھنا چاہتا ہے، میں اس میں مطلق دریغ نہیں کرتا، گو میرا ذاتی حرج بھی ہوتا ہو۔ امتحان سالانہ میں مجھ کو نقد روپے ملتے تھے، میں نے ایک پیسہ اپنے اوپر خرچ نہیں کیا۔ محلے میں چند آدمی رہتے ہیں، جن کو میں محتاج سمجھتا ہوں۔ وقتاً فوقتاً انکو اس میں سے دیتا رہا۔ بلکہ ایک مرتبہ میں ایک دقت میں بھی مبتلا ہو گیا تھا۔










باپ : وہ کیا؟




ایک مرتبہ عید کو ایک بڑی بھاری ٹوپی مجھ کو اماں جان نے بنا دی تھی۔ وہی ٹوپی اوڑھے ہوئے میں خالہ جان کے یہاں جاتا تھا۔ میاں مسکین کے کوچے میں پہنچا تو بہت سے چپڑاسی پیادے ایک گھر کو گھیرے ہوئے تھے اور بہت سے تماشائی بھی وہاں جمع تھے۔ یہ دیکھ کر میں بھی لوگوں میں جا گھسا تو معلوم ہوا کہ ایک نہایت غریب بوڑھی سی عورت ہے اور چھوٹے چھوٹے کئی بچے ہیں۔ سرکاری پیادے اس کے میاں کو پکڑے لیے جاتے تھے۔ اس واسطے کہ اس نے کسی بنیے کے یہاں سے ادھار کھایا تھا اور بنیے نے اس پر ڈگری جاری کرائی تھی۔ وہ مرد مانتا تھا کہ قرضہ واجب ہے، مگر کہتا تھا کہ میں کیا کروں، اس وقت بالکل تہی دست ہوں۔ ہر چند اس بے چارے نے بنیے کی اور سرکاری پیادوں کی بہتری ہی خوشامد کی، مگر نہ بنیا مانتا تھا، نہ پیادے باز آتے تھے اور پکڑے لیے جاتے تھے۔ لوگ جو وہاں کھڑے تھے، انہوں نے بھی کہا : " لالہ، جہاں تم نے اتنے دنوں صبر کیا، دس پانچ روز اور صبر جاؤ۔ " تو بنیا بولا : " اچھی کہی میاں جی، اچھی کہی! برسوں کا نانواں اور درج کی ٹال مٹول۔ بھگوان جانے ابھی تو کھان صاحب کی اجت اتروائے لیتا ہوں۔










وہ شخص جس پر ڈگری جاری تھی، غریب تو تھا، لیکن غیرت مند بھی تھا۔ بنئے نے جو عزت اتروانے کا نام لیا، سرخ ہو گیا اور گھر میں گھس، تلوار میان سے نکال چاہتا تھا کہ بنئے کا سر الگ کر دے کہ اس کی بیوی اس کے پیروں میں لپٹ گئی اور رو کر کہنے لگی : " خدا کے لیے کیا غضب کرتے ہو۔ یہی تمہارا غصہ ہے تو پہلے مجھ پر اور بچوں پر ہاتھ صاف کرو۔ کیوں کہ تمہارے بعد ہمارا تو کہیں بھی ٹھکانا نہیں۔ " ماں کو روتا دیکھ بچے اس طرح دھاڑیں مار کر روئے کہ میرا دل ہل گیا اور دوڑ کر سب کے سب باپ کو لپٹ گئے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر خان صاحب بھی ٹھنڈے ہوئے اور تلوار کو میان کر کھونٹی سے لٹکا دیا اور بی بی سے کہا : "اچھا تو نیک بخت، پھر مجھ کو اس بے عزتی سے بچنے کی کوئی تدبیر بتا۔ " بی بی نے کہا : " بلا سے جو چیز گھر میں ہے، اس کو دے کر کسی طرح اپنا پنڈ چھڑاؤ۔ تم کسی طرح رہ جاؤ تو پھر جیسی ہو گی دیکھی جائے گی۔




توا، چکی، پانی پینے کا کٹورا، نہیں معلوم کن کن وقتوں کی ہلکی ہلکی بے قلعی دو پتیلیاں، بس یہی اس گھر کی کل کائنات تھی۔ چاندی کی دو چوڑیاں، لیکن ایسی جیسے تار، اس نیک بخت کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہ سب سامان خان صاحب نے باہر لا کر اس بنئے کے رو بہ رو رکھ دیا۔ اول تو بنیا ان چیزوں کو ہاتھ ہی نہیں لگاتا تھا۔ لوگوں نے بہت کچھ کہا سنا۔ یہاں تک کہ ان سرکاری پیادوں کو بھی رحم آیا، انہوں نے بھی بنئے کو سمجھایا۔ بارے خدا خدا کر کے وہ اس بات پر رضا مند ہوا کہ پانچ روپے اصل، دو روپے سود، سا توں کے سا توں دے دیں تو فارغ خطی لکھ دے۔ لیکن خان صاحب کا کل اثاثہ چار ساڑھے چار سے زیادہ کا نہ تھا۔ تب پھر گھر میں گئے اور بی بی سے کہا ڈھائی روپے کی کسر رہ گئی ہے۔ تو بی بی نے کہا : اب تو کوئی چیز بھی میرے پاس نہیں، ہاں لڑکی کے کانوں میں چاندی کی بالیاں ہیں۔ دیکھو جو ان کو ملا کر پوری پڑے۔




وہ لڑکی کوئی چھ برس کی تھی۔ بس بعینہ جتنی ہماری حمیدہ۔ ماں جو لگی اس کی بالیاں اتارنے تو وہ لڑکی اس حسرت کے ساتھ روئی کہ مجھ سے ضبط نہ ہو سکا اور میں نے دل میں کہا کہ الہٰی اس وقت مجھ سے کچھ بھی اس کی مد د نہیں ہو سکتی۔ فوراً خیال آیا کہ ایک روپیہ اور کوئی دو آنے کے پیسے تو نقد میرے پاس ہیں۔ دیکھوں ٹوپی بک جائے تو شاید خاں صاحب کا سارا قرضہ چک جائے۔ بازار تو قریب تھا ہی، فوراً گلی کے باہر نکل آیا۔ رومال تو سر سے لپیٹ لیا اور ٹوپی ہاتھ میں لے کر ایک گوٹے والے کو دکھائی۔ اس نے چھ کی آنکی۔ میں نے بھی چھوٹتے ہی کہا : لا بلا سے چھ ہی دے۔ " غرض چھ وہ، ایک میرے پاس نقد تھا، سا توں روپے لے کر میں نے چپ کے سے اس عورت کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ تب تک پیادے خاں صاحب کو گرفتار کر کے لے جا چکے تھے اور گھر میں رونا پیٹنا مچ رہا تھا۔ دفعتہً پورے سات روپے ہاتھ میں دیکھ کر اس عورت پر شادی مرگ کی سی کیفیات طاری ہو گئی۔ اور اس خوشی میں اس نے کچھ نہیں سوچا کہ یہ روپیہ کیسا ہے اور کس نے دیا۔ فوراً اپنے ہمسائے کو روپیہ دے کر دوڑایا اور خود بچوں سمیت دروازے میں آ کھڑی ہوئی۔ بات کی بات میں خاں صاحب چھوٹ آئے تو بچوں کو کیسی خوشی کہ کودیں اور اُچھلیں، کبھی باپ کے کندھے پر، کبھی ماں کی گود میں اور کبھی ایک پر ایک۔




اب اس عورت کو میرا خیال آیا اور بچوں سے بولی : کم بختو، کیا اودھم مچائی ہے۔ (اور میری طرف اشارہ کر کے کہا) دعا دو اس اللہ کے بندے کی جان و مال کو جس نے آج باپ کی اور تم سب کی جانیں رکھ لیں، نہیں تو ٹکڑا بھی مانگا نہ ملتا۔ کوئی چچا یا ماموں بیٹھا تھا کہ اس کو تمہارا درد ہوتا اور اس مصیبت کے وقت تمہاری دست گیری کرتا۔ صرف ایک باپ کے دم کا سہارا کہ اللہ رکھے، اس کے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں تو محنت سے مزدوری سے، خدا کی شکر ہے، روکھی سوکھی روز کے روز، دو وقت نہیں تو ایک ہی وقت ملے تو جاتی ہے۔ ہمارے حق میں تو یہ لڑکا کیا ہے رحمت کا فرشتہ ہے۔ نہ جان نہ پہچان، نہ رشتہ نہ ناتا اور اس اللہ کے بندے نے مٹھی بھر روپے دے کر آج ہم سب کو نئے سرے سے زندہ کیا۔




وہ بچے جس شکر گزاری کی نظر سے مجھ کو دیکھتے تھے، اس کی مسرت اب تک میں اپنے دل میں پاتا ہوں۔ روپیہ خرچ کرنے کے بعد مجھ کو عمر بھر ایسی خوشی نہیں ہوئی، جیسی کہ اس دن تھی۔ مگر دونوں میاں بیوی کے ذہن میں اس وقت یہ بات نہیں آئی تھی کہ میں نے روپیہ ان کو دے دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ قرض کے طور پر دیا ہے۔ وہ عورت مجھ کو اپنے گھر میں لے گئی اور ٹوٹی سی ایک چوکی پڑی تھی، میں ہر چند منع کرتا رہا، جلدی سے اس کو اپنے ڈوپٹے سے جھاڑ مجھ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میاں سے بولی : "نوج کوئی تم جیسا بے خبر ہو۔ کھڑے کیا ہو۔ جاؤ، ایک گلوری بازار سے میاں کے لیے بنوا لاؤ۔ "




میں : نہیں میں پان نہیں کھاتا۔ تکلیف مت کرو۔




عورت : بیٹا تمہاری خدمت میں اور ہم کو تکلیف؟ جی چاہتا ہے کہ آنکھیں تمہارے تلووں میں بچھا دوں۔ قربان اس پیاری پیاری صورت کے۔ نثار اس بھولی بھالی شکل کے۔ بیٹا! تم یہ بتاؤ کہ تم ہو کون؟










میں : میری خالہ، میاں صابر بخش کی سرائے میں رہتی ہیں۔




عورت : پھر بیٹا یہ اپنا روپیہ تم ہم سے کب لو گے؟ ہم اپنا اور بچوں کو پیٹ کاٹیں گے اور تمہارا قرضہ سب سے پہلے ادا کریں گے، مگر کام ان دنوں مندا ہے۔ دیں گے تو ہم جس طرح بن پڑے گا وہ ہی مہینے میں، مگر جہاں تم نے اتنی مہربانی کی ہے، للہ اتنا سلوک اور کرو کہ دو روپے مہینہ قسط کا لے لیا کرو۔




میں : آپ روپے ادا کرنے کی فکر نہ کیجئے۔ میں نے لینے کی نیت سے نہیں دیے۔




یہ سن کر تمام خاندان کا خاندان اتنا خوش ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا اور میں ان میں وقعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جیسے خوش دل اور شکر گزار رعایا میں کوئی بادشاہ یا حلقہ مریدان ارادت مند میں کوئی پیر و مرشد۔ اس عورت کے منہ سے مارے خوشی اور شکر گزاری کے بات نہیں نکلتی تھی۔ بار بار میری بلائیں میں رومال سر سے کھسک گیا تو اس نے دیکھا کہ میرے سر پر ٹوپی نہیں پوچھا تو مجھ کو کہنا پڑا کہ وہی ٹوپی بیچ کر میں نے روپیہ دیا۔ پھر تو اس کا یہ حال تھا کہ بچھی جاتی تھی۔ سات روپیہ کی بھی کچھ حقیقت تھی مگر اس نے مجھ کو سینکڑوں ہزاروں ہی دعائیں دی ہوں گی۔ اس نے جو اتنی احسان مندی ظاہر کی تو میں الٹا اسی کا ممنون ہوا۔ جس قدر خوشامد کرتی تھی، میں شرمندہ ہوتا تھا اور جتنا وہ عاجزی سے پیش آتی تھی، میں زمین میں گڑا جاتا تھا۔




غرض میں وہاں سے رخصت ہوا تو ٹوپی نہ ہونے کی وجہ سے سیدھا گھر لوٹ آیا۔ عین گلی میں بھائی جان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے میری ہیئت کذائی دیکھ کر تعجب کیا اور بولے : " ایں کیا ٹوپی کے بدلے چنے لے کھائے؟" میں نے کچھ جواب نہیں دیا، اس واسطے کہ مجھ کو اس بات کا ظاہر کرنا منظور نہ تھا۔ شام کو بھائی جان سے اور اماں جان سے ت کرار ہوئی۔ بھائی جان کچھ روپے مانگتے تھے اور اماں جان کہتی تھیں : بیٹا اس فضول خرچیوں سے گھر کے دن چلے گا؟ لو پرسوں میں نے تم کو چار روپے دیے تم نے چاروں کے چاروں برابر کیے۔ ناخن بھر چیز تم گھر میں لائے ہو تو بتا دو۔ اتنا چٹور پن، ایسا اسراف!" بھائی جان نے کہا : " میں چٹورا نہیں ہوں، چٹورے تمہارے منجھلے صاحبزادے ہیں۔ جن کو تم بڑا مولوی سمجھتی ہو کہ سر کی ٹوپی تک بیچ کر کھا گئے۔




اماں جان نے مجھ کو بلا کر پوچھا : میں نے کہا : "اگر بیچ کھانا ثابت ہو جائے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ "




اماں جان : پھر کہیں کھو دی؟




میں : کھوئی بھی نہیں۔




اماں جان : بھائی تو تو عجب تماشے کا لڑکا ہے۔ بیچی نہیں، کھوئی نہیں، پھر ٹوپی گئی تو کہاں گئی؟




میں : اگر آپ کو میری بات کا اعتبار ہے تو بس سمجھ لیجئے کہ میں نے کہیں اس کو بے جا طور پر صرف نہیں کیا۔




اماں جان : اگر یہی تمہارے لچھن ہیں تو تم نے پڑھ لکھ کر ڈبو دیا۔




میں اس وقت عجب مشکل میں مبتلا تھا۔ ظاہر کرنے کو جہ نہ چاہتا تھا اور بے ظاہر کیے بن نہ پڑتی تھی۔




گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل




مگر مجھ کو یقین تھا کہ جب میرا معاملہ پاک صاف ہے تو بالفعل بھائی جان کے کہنے اور میرے چپ رہنے سے اماں جان کو ایک بدگمانی سی ہو گئی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ضرور ان کے دل سے خدشہ رفع ہو ہی جائے گا اور کچھ نہ ہو گا تو میرے اگلے پچھلے فعلوں کو دیکھ کر اتنا تو سمجھ لیں گی کہ بیٹا بد راہ نہیں ہے، نہیں معلوم ٹوپی کا کیا بھید ہے۔ سو خدا کی قدرت، ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ صالحہ بیمار پڑی تو اماں جان اس کی عیادت کو گئیں۔ میں ان کے ساتھ تھا۔ ابھی اماں جان سواری سے نہیں اتری تھیں کہ ادھر سے وہی خان صاحب چلے آ رہے تھے۔ مجھ کو دیکھ کر دور ہی سے دعائیں دینے لگے اور ایسے تپاک اور دل سوزی کے ساتھ میری خیر و عافیت پوچھی کہ جیسے کوئی اپنا بزرگ اور عزیز دریافت حال کرتا ہے۔ خیر میں نے مناسب حالت جواب دیا۔ اماں جان آخر یہ سب باتیں پردے کے اندر بیٹھی ہوئی سن رہی تھیں۔ اترتے کے ساتھ ہی مجھ سے پوچھا : " علیم، یہ کون شخص تھا جو تم سے باتیں کرتا تھا؟"




میں : یہ ایک خان صاحب ہیں اور میاں مسکین کے کوچے میں رہتے ہیں۔ بس میں اسی قدر جانتا ہوں۔




اماں جان : لیکن باتیں تو تم سے ایسے گرویدہ ہو کر کرتے تھے کہ گویا برسوں کی پہچان ہے۔




میں : نہیں شاید ان کو میرا نام بھی معلوم نہیں۔




اماں جان : پھر تمہارے ساتھ ایسے خلوص سے کیوں پیش آئے؟




میں : بعض لوگوں کا دستور ہوتا ہے کہ ذرا سے تعارف سے بھی بڑے تپاک کے ساتھ پیش آیا کرتے ہیں۔




اگرچہ میرے جواب سے اماں جان کی تشفی نہیں ہوئی مگر ان کو اندر جانے کی جلدی تھی، چلی گئیں۔ خان صاحب نے کہیں اپنے گھر میں میرا تذ کرہ کیا۔ میں تو گھر چلا آیا۔ مگر گمان غالب ہے کہ ان کی بیوی اماں جان کے پاس گئیں اور میرے اس ٹوپی بیچنے اور روپیہ دینے کا تمام ماجرا بیان کیا۔ پھر جو اماں جان آتئیں تو مجھ سے کہنے لگیں : " علیم ہم نے تمہاری چوری آخر پکڑی پر پکڑی۔ " میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ " میری چوری؟"




اماں جان : ہاں تمہاری چوری۔




میں : بھلا میں بھی تو سنوں۔




اماں جان : کیوں؟ تم پہلے ٹوپی کا حال بتاؤ تب مجھ سے اپنی چوری کی حقیقت سنو۔




اتنا کہنے سے میں سمجھ گیا اور ہنس کر چپ ہو رہا۔




باپ : بے شک، جتنی باتیں تم نے بیان کیں، داخل ہمدردی ہیں۔ خصوصاً خان صاحب کا قصہ ہمدردی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ لیکن چشمے سے وہ مقامات سیراب ہونے چاہئیں جہاں سے وہ چشمہ نکلا ہے۔ اسی طرح پہلے اپنے عزیز و اقارب، نیکی اور سلوک کے مستحق ہیں۔




بیٹا : میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میرے قریب کے رشتہ دار میرے سلوک کے حاجت مند نہیں ہیں اور خدا نے ان کو مجھ سے بے نیاز اور مستغنی کیا ہے۔




باپ : کیا سلوک صرف روپے پیسے کے دینے سے ہی ہوتا ہے۔




بیٹا : میں تو ایسا ہی سمجھتا تھا۔




باپ : نہیں، جو جس چیز کا حاجت مند ہے اس کا رفع حاجت کرنا ہمدردی اور نفع رسانی ہے۔ ہمارا خاندان دین داری سے بے بہرہ اور خدا شناسی سے بے نصیب ہے اور شیوہ خدا پرستی میں ہر ہر متنفس کو تعلیم و تلقین کی حاجت اور وعظ و نصیحت کی ضرورت ہے۔ تم نے اس فرض کو ادا کرنا تو در کنار ابھی تک فرض ہی نہیں سمجھا۔




بیٹا : آپ بجا فرماتے ہیں، مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔




باپ : اور تم سے کہیں زیادہ غلطی میری ہے۔ بہر کیف، اب بھی تلافی مافات کرنی ضرور ہے اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اپنے گھر میں کسی کو لا یعنی طور پر زندگی نہ بسر کرنے دوں۔ اگرچہ اس بات کو نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ تسلیم کرتا ہوں کہ اب اصلاح کا وقت باقی نہیں اور میرا عزم، عزم بے ہنگام ہے۔ لیکن اگر تم میری مد د کرو تو میں کامیابی کی بہت کچھ امید کر سکتا ہوں۔




بیٹا : انشاء اللہ آپ مجھ کو نافرمان بیٹا اور نا خلف فرزند نہیں پائیں گے۔ مگر مجھ کو حیرت ہے کہ میں آپ کی کیا مد د کر سکوں گا۔




باپ : تمہارا یہی مد د کرنا کہ بس تم دین داری کا نمونہ بن جاؤ اور اگرچہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں تم نے بہ ضرورت امتحان، موسمی توبہ کر رکھی ہے لیکن مناسب یہ ہے کہ گنجفہ، شطرنج، کنکوا، بٹیریں، مرغ، تمام مشاغل لا یعنی کے ترک کا عہد واثق کرو۔




بیٹا: یہ تو سراسر میری منفعت کی بات ہے اور میں اس میں کسی طرح کا انکار کروں تو آپ کی نا فرمانی، اپنی خرابی خدا کا گناہ، دنیا کی بدنامی، عاقبت کی رسوائی، کوئی پہلو بھی تو اچھا نہیں اور اگر بالفرض آپ کوئی ایسی بات بھی فرماتے جس میں میرا نقصان ہوتا، تاہم مجھ کو سوائے تعمیل ارشاد کیا چارہ تھا۔ بندہ اور خدا، غلام اور مالک، رعیت اور بادشاہ، نو کر اور آقا، بیوی اور شوہر، شاگرد اور استاد، بیٹا اور باپ، میں تو جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ ایک ہی طرح کی نسبتیں ہیں اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ میرا طرز زندگی آئندہ ایسا ہی ہو گا جیسا آپ کو منظور ہے۔




باپ: بارک اللہ و جزاک اللہ۔ بس تم نے آج مجھ کو مطمئن کر دیا۔ خدا تم کو دین اور دنیا دونوں میں سرخرو رکھے۔ اچھا اب جاؤ اپنا کام کرو۔ ذرا اپنے بڑے بھائی کو میرے پاس بھیج دینا۔




بیٹا: شاید آپ یہی گفتگو ان سے کرنی چاہتے ہیں۔




باپ: ضرور۔




بیٹا: اگر بالمشافہ ان سے گفتگو نہ ہوتی تو میرے نزدیک بہتر تھا۔




باپ: تمہارا خوف بے جا نہیں۔ میں کئی کئی دن سے اس بات پر غور کر رہا ہوں۔ آخر کار یہی تجویز ٹھہری کہ ایک دفعہ مجھ کو رو در رو اتمام حجت کر دینا ضرور ہے۔

فصل ہفتم



















نصوح نے بڑے بیٹے کلیم کو بلایا اور ہر چند فہمیدہ اور علیم دونوں نے سمجھایا مگر وہ نہ آیا پر نہ آیا




غرض علیم رخصت ہو کر مردانے مکان میں گیا تو میاں کلیم کو پیام طلب جا سنایا۔




کلیم: کیا ہے۔ خیریت تو ہے؟ آج کل تو ہم لوگوں پر بڑی عنایت ہے۔




علیم: بھلا کبھی عنایت نہیں بھی تھی؟




کلیم: اس کو کوئی سلیم سے پوچھے۔




اتنے میں سلیم بھی دروازے سے نمودار ہوا۔ مگر اس سے پہلے وہ اپنا سر منڈوا چکا تھا اور اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو بڑے بھائی جان دیکھ لیں، چاہتا تھا کہ چپ کے چپ کے دبے پاؤں گھر میں گھس جائے۔ لیکن جوں ہی بیچارے نے گھر کے اندر قدم رکھا کہ کلیم نے آواز دی۔ سلیم تو بھائی کی آواز سن کر کانپ اٹھا اور سمجھا کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ مگر منجھلے بھائی کو بیٹھا ہوا دیکھ کر کسی قدر دم میں آیا اور پاس آ کر بے پوچھے کہنے لگا کہ ابا جان کے حکم سے میں نے آج بال منڈا دیے۔




بڑا بھائی (منجھلے کی طرف مخاطب ہو کر): "دیکھئے صورت بیس حالش مپرس۔ " ایک شفقت پدری تو یہ ہے کہ بیچارے کی اچھی خاصی صورت کو لے کر بگاڑ دیا اور برسوں کی کمائی خاک میں ملوا دی۔




ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ




ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنانا آتی ہے




کیوں سلیم، تمہارا دل تو بالوں کے واسطے بہت کُڑھا ہو گا؟




چھوٹا بھائی: میں تو خود ایک مدت سے بالوں کو منڈوا دینے کی فکر میں تھا۔ بلکہ شاید آپ کو یاد ہو، ایک مرتبہ سر کھول کر حجام کے روبرو بیٹھ گیا تھا۔ آپ خفا ہونے لگے تو اٹھ کھڑا ہوا۔




بڑا بھائی: آہا! اب مجھ کو یاد آیا کہ تمہارے ان چار یاروں نے جن کو میں مکر و فریب کے عناصر اربعہ سمجھتا ہوں، تم کو بہکا دیا تھا۔ بھلا ان کوڑھ مغزوں کو کالج میں پڑھنے سے فائدہ؟
















صحبت عیسٰی بنائے خرد کو انسان کس طرح




تربیت سے ہے واقعی نا اہل دانا کب بنے




چھوٹا بھائی: آپ ناحق ان بیچاروں کو برا کہتے ہیں۔ وہی بات تو ابا جان نے بھی کہی۔




بڑا بھائی: ابا جان نے ابھی بیماری سے اٹھ کر کہی یا کبھی پہلے بھی کہی تھی۔




چھوٹا بھائی: نہیں پہلے تو کبھی کچھ نہ کہا۔




بڑا بھائی: پھر سمجھ لو کہ ابا جان کو خلل دماغ ہے۔ میں نے تو شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ ڈاکٹر نے جو اسہال بند کر نے کی دوا دی ہے، ابخرے دماغ کو چڑھ گئے ہیں۔




منجھلا بھائی: یہ کیسی بات آپ کہتے ہیں۔ ابھی میں ابا جان کے پاس سے چلا آتا ہوں۔ دو گھنٹے تک متواتر مجھ سے گفتگو کرتے رہے۔ میرے نزدیک تو ان کے خیالات پہلے سے کہیں عمدہ اور معقول ہو گئے ہیں۔




بڑا بھائی: سنتا ہوں کہ ان دنوں نماز بہت پڑھا کرتے ہیں۔




منجھلا بھائی: تو کیا اس کو آپ نے خلل دماغ قرار دیا۔




بڑا بھائی: کیا خلل دماغ کے سر میں سینگ لگے ہوتے ہیں۔ بیمار ہو کر اٹھے تھے، کوئی بڑا بھاری جلسہ کرتے کہ شہر میں نام ہوتا۔ اٹھے بھی تو اونگھتے ہوئے۔ دو چار مرتبہ میں نے ان کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ نوری جولاہا تو امام بنتا ہے اور محلے کے سقے، حجام، کنجڑے، مسجد کے مسافر، اس قسم کے لوگ اس کے مقتدی ہوتے ہیں اور ان ہی میں یہ حضرت بھی جا کر شریک نماز ہوتے ہیں۔ بھائی میں تو تم سے سچ کہوں، یہ دیکھ کر مجھ کو اس قدر شرم آتی ہے کہ میں نے ادھر کا راستہ چلنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ ملا نے، جو خدا کی قدرت، ہمارے ابا جان کے ہم نشین بنے ہیں، اس قدر تو ذلیل اوقات ہیں کہ دعوت کے لقموں اور مسجد کی روٹیوں پرتو ان کی گزر ہے مگر مغرور بھی پرلے ہی سرے کے ہوتے ہیں۔ کبھی راہ میں مڈ بھیڑ ہو جاتی ہے، تو خیر یہ تو مجال نہیں کہ سلام نہ کریں لیکن اتنے بڑے ٹرے کی بندگی، نہ آداب، نہ تسلیم، دور ہی سے السلام علیکم کا پتھر کھینچ مارتے ہیں۔ ہاتھ یہ نہیں اٹھاتے، سر یہ نہیں جھکاتے اور اس پر طرہ یہ کہ سو قدم سے مصافحے کو ہاتھ پھیلا کر لپکتے ہیں۔




دراز دستی ایں کوتہ آستیناں بیں










سلیم! تم کو صرف سر ہی منڈانے کا حکم تھا یا نماز کی بھی ہدایت ہوئی ہے۔




چھوٹا بھائی: جناب نماز کے لئے تو سخت تاکید کی ہے کہ خبردار کسی وقت کی قضا نہ ہونے پائے اور اس کے علاوہ کنکوا اڑانا، شطرنج کھیلنا، جانوروں کی لڑائی میں شریک ہونا، جھوٹ بولنا، قسم کھانا، بے ہودہ بات بکنا، بڑے لڑکوں میں بیٹھنا، ان سب با توں سے منع کیا ہے۔




بڑا بھائی: کیوں نہیں تم سے ایک ہی بات کہہ دی کہ مر رہو۔




منجھلا بھائی: (یہ جملہ سن کر بے اختیار ہنس پڑا اور کہنے لگا) کیا آپ کے نزدیک ان شرطوں کی تعمیل کرنا اور مرنا دونوں برابر ہیں؟




بڑا بھائی: جب تمام کھیلوں کی ممانعت اور لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کی بندی ہوئی تو تم ہی انصاف کرو کہ ایسے جینے اور مرنے میں کیا امتیاز ہو سکتا ہے۔




زندگی زندہ دلی کا ہے نام




مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں




منجھلا بھائی: میں تو سمجھتا ہوں کہ ہماری بالفعل کی زندگی کی نسبت اس طرح کی زندگی جو ابا جان تعلیم کرتے ہیں، روحی مسرت زیادہ ہے۔ اگرچہ میں کھیل کود کی چیزوں میں خصوصاً ان دنوں کم مصروف ہوتا ہوں، اس واسطے کہ مدرسے کے کام سے فرصت نہیں ملتی مگر جتنا مصروف ہوتا ہوں، اس سے سوائے کوفت اور کبیدگی کے میں تو کوئی نتیجہ نہیں دیکھتا۔ رہا یار دوستوں کا مشغلہ، سو میں ان میں سے کس کو دوست نہیں سمجھتا۔ بھلا کوئی سے ایسے دو بتائیے جن سے ہر روز تو تو میں میں کی نوبت نہ پہنچتی ہو۔




بڑا بھائی: پھر بھی یہ لوگ ان حجاموں، کنجڑوں اور مسجد کے مسافروں سے بہتر ہیں جو نمازیں پڑھ پڑھ کر شریف بننا چاہتے ہیں۔










زنہار ازاں قوم نہ باشی کہ فریبند




حق را بسجودے و نبی را بہ درودے










منجھلا بھائی: اگر ایسے شریف ہوتے تو جیسے ہم اور ہمارے یار دوست ہیں تو میرے نزدیک ایسی شرافت پر کوئی معقول آدمی ناز نہیں کر سکتا۔ کون سی بے ہودگی ہے جو ہم لوگ نہیں کرتے۔ خصوصاً جب کہ اکٹھے ہوں۔ کون سی بے تہذیبی ہے جس کے مرتکب ہم نہیں ہوتے، خاص کر اس وقت کہ ایک دوسرے سے ملیں۔ دھول دھپا، لام کاف، چھیڑ چھاڑ، مار کٹائی، دھینگا مشتی، ہاتھا پائی، کس خاص چیز کا نام لوں۔ ایک جلسہ اور دنیا بھر کی تفضیح، ایک مجمع اور زمانے بھر کی رسوائی۔ نام کے شریف اور پاجیوں کی سی عادت، کہنے کو بھلے مانس اور بازاریوں جیسی طبعیت۔




بڑا بھائی: چلو خیر معلوم ہوتا ہے کہ تم تو بیعت کرنے کو تیار بیٹھے ہو۔




منجھلا بھائی: تیار کیسا ابھی تو بیعت کئے چلا آ رہا ہوں۔




بڑا بھائی: سلیم تم اپنی کہو۔




چھوٹا بھائی: جناب، میں ان سے پہلے منڈ چکا ہوں۔




بڑا بھائی: تمہارا منڈنا سند نہیں۔ تمہارا معاملہ ؂




ورنہ ستانی بہ ستم می رسد




کا معاملہ ہے۔ مگر (منجھلے کی طرف اشارہ کر کے ) ان کو توڑا تو انہوں نے اپنے نزدیک بڑا کفر توڑا۔ رہ گیا اکیلا میں۔




منجھلا بھائی: آپ اسی وقت تک اکیلے ہیں کہ ابا جان تک نہیں پہنچے۔گئے اور داخل حلقہ ہوئے۔




بڑا بھائی: اجی بس اس کو دل سے دور رکھیں۔ ؂




یاں وہ نشے نہیں جنہیں ترشی اتار دے










منجھلا بھائی: ابا جان سے ملنا شرط ہے۔




بڑا بھائی: آخر کریں گے کیا؟




منجھلا بھائی: سمجھائیں گے۔




بڑا بھائی:؂




میں نہ سمجھوں تو بھلا کیا کوئی سمجھائے مجھے




منجھلا بھائی: وہ باتیں ہی اس طرح کی کہتے ہیں کہ لوہے کو پگھلائیں، پتھر کو موم بنائیں۔




بڑا بھائی: تو بس میں بھی جا چکا۔




منجھلا بھائی: یہ بات تو آپ کی بالکل نا مناسب ہے۔




بڑا بھائی: ہو




"رند عالم سوز را با مصلحت بینی چہ کار"




منجھلا بھائی: لیکن شاید ابا جان نے آپ کو کچھ اور ہی بات کے لئے بلایا ہو۔




بڑا بھائی: اجی تانت باجی راگ پایا۔ اس کے سوا اور کوئی بات نہیں۔




منجھلا بھائی: اگر ابا جان نے دوبارہ بلوا بھیجا؟




بڑا بھائی: میں جانوں کہ ضرور ان کو خلل دماغ ہے۔










منجھلا بھائی: والد، جیسے میرے ویسے آپ کے۔ آپ کو اختیار ہے ان کی شان میں جو چاہیں سو کہیں۔ لیکن اتنا میں آپ سے کہے دیتا ہوں کہ اس اصرار کا انجام اچھا نہیں۔




بڑا بھائی: اتنا میں بھی سمجھتا ہوں لیکن میں اس انجام کی کچھ پروا نہیں کرتا۔




منجھلا بھائی: لیکن اس بگاڑ میں آپ فائدہ کیا سمجھتے ہیں؟




بڑا بھائی: اور میرا نقصان ہی کیا ہے؟




منجھلا بھائی: اگر اور کچھ نقصان نہ بھی ہو تو ابا جان کی نا خوشی کیا کچھ تھوڑا نقصان ہے؟




بڑا بھائی:




"رنج و آزردگی غیر سبب را چہ علاج"




منجھلا بھائی: اول تو ابھی آزردگی کی نوبت نہیں آئی لیکن اگر خدانخواستہ آئے گی تو لوگ اس کو بے سبب نہیں کہیں گے اور سبب کی ابتدا آپ کی طرف سے ہوتی ہے کہ انہوں نے بلایا ہے اور آپ نہیں جاتے۔ بھلا دنیا میں کوئی باپ ایسا ہو گا کہ فرزند اس کی نا فرمانی کرے اور وہ نا خوش نہ ہو۔




بڑا بھائی: ان کو میرے افعال سے بحث کیا اور میرے اعمال سے تعرض کیوں؟




منجھلا بھائی: اول تو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ آپ سے کیا کہیں گے۔ لیکن مانا کہ وہی کہیں جو مجھ سے اور سلیم سے کہا، تو کیا ان کو نصیحت کا اختیار اور ہدایت کا منصب نہیں ہے؟




بڑا بھائی: ہے، لیکن حمیدہ پر، سلیم پر اور تم پر، کیوں کہ تم لوگ بہ طوع خاطر ان کی نصیحت سننی چاہتے ہو۔




منجھلا بھائی: کیوں؟ جیسے ہم ان کے فرزند ویسے آپ۔




بڑا بھائی: میں فرزند کبھی تھا، اب سینگ کٹا کر بچھڑوں میں ملنا میرے لئے عار ہے اور میں اپنے تئیں ان کی حکومت سے مستثنٰی اور ان کے اختیارات سے آزاد سمجھتا ہوں۔




منجھلا بھائی: لیکن شریفوں میں یہ دستور نہیں ہے کہ اولاد بڑی ہو جائے تو ماں باپ کا ادب و لحاظ اٹھا دے۔ میں دیکھتا تھا کہ ابا جان اس قدر جد مرحوم کا پاس کرتے تھے کہ ان کے سامنے حقہ پینا کیسا، پان کھانے میں بھی ان کو تامل ہوتا تھا۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا؟










بڑا بھائی: لیکن میں نے بھی اس وقت تک ابا جان کو الٹ کر جواب نہیں دیا۔




منجھلا بھائی: درست ہے لیکن یا بہ آن شورا شوری یا بہ ایں بے نمکی؟




بڑا بھائی: تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ اب بھی اگر ابا جان میرے حال پر تعرض نہ کریں تو میں کسی طرح کی نا فرمانی یا گستاخی کرنی نہیں چاہتا۔




منجھلا بھائی: تو اس صورت میں کچھ آپ کی اطاعت بھی محمود نہیں ہے۔




بڑا بھائی: میں مدح سے باز آیا۔ مجھ کو میرے حال پر رہنے دیں اور میرے نیک و بد سے معترض نہ ہوں۔




رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو




تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو




منجھلا بھائی: اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ ان سے قطع تعلق کر چکے۔




بڑا بھائی: کیا ضرور ہے کہ جب میں پھر لڑکوں کی طرح مکتب میں پڑھوں اور تب ہی بیٹا کہلاؤں، ورنہ فرزندی سے عاق کیا جاؤں؟




منجھلا بھائی: کوئی آپ سے مکتب میں پڑھنے کے لئے نہیں کہتا اور یہ بھی امید نہیں ہے کہ ابا جان آپ کی بڑائی کا پاس نہ کریں۔




بڑا بھائی: جب کہ مجھ کو اپنا نیک و بد اور نفع و نقصان میں امتیاز کی عقل ہے تو مجھ سے یہ کہنا کہ یہ کرو اور یہ مت کرو گویا مجھ کو بد تمیز لڑکا بنانا ہے۔




منجھلا بھائی: کیا انسان کی رائے غلطی نہیں کرتی؟




بڑا بھائی: ایسا احتمال ان کی رائے پر بھی ہو سکتا ہے۔




منجھلا بھائی: تو کیوں نہیں آپ انہی سے جا کر گفتگو کرتے کہ بحث ہو ہوا کر ایک بات قرار پا جائے۔




بڑا بھائی: مجھ کو گفتگو کرنے کی کچھ ضرورت نہیں؂




ہر کسے مصلحت خویش نکو می داند




منجھلا بھائی: انہی کی ضرورت سہی اور جب کہ آپ کو اپنی رائے پر وثوق ہے پھر آپ بالمشافہ گفتگو کرنے سے گریز کیوں کرتے ہیں؟




بڑا بھائی: دنیا میں کوئی مباحثہ طے ہوا ہے جو یہ ہو گا۔




منجھلا بھائی: ہٹ دھرمی اور تعصب اور سخن پروری نہ ہو تو پھر ہر بحث کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔




بڑا بھائی: ہمارے ابا جان کو بھی ایک بات کی زڑ لگ جاتی ہے۔ اب نماز روزے کا خیال آ گیا ہے تو بس اسی کی دھن ہے۔ چند روز بعد دیکھ لینا، وہی ابا جان ہیں وہی ہم ہیں اور وہی کھیل تماشے ہیں۔




منجھلا بھائی: آپ چوں کہ مجھ سے بڑے ہیں، بے شک زیادہ واقفیت رکھتے ہیں لیکن میں ابا جان کے مزاج سے نا آشنا نہیں ہوں۔ اصلاح خاندان کا ان کو تہہ دل سے خیال ہے اور اس خصوص میں ان کو ایک اہتمام خاص ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کا ارادہ متزلزل اور عزم نا پائیدار ہو اور آپ کے بارے میں جو کچھ ان کو منظور ہو، مگر آپ کے سوا، میں تو گھر بھر میں کسی کو نہیں دیکھتا کہ وہ گھر میں رہے اور اپنا پرانا ڈھرا نہ چھوڑے۔




بڑا بھائی: ذرا اماں جان سے اور مجھ سے دو دو باتیں ہو جائیں تو تم کو ارادے کا استحکام اور عزم کا استقلال خود بہ خود معلوم ہو جائے گا۔




چھوٹا بھائی: اماں جان تو آج بڑی خفا بیٹھی ہیں۔




بڑا بھائی: کیوں؟




چھوٹا بھائی: آپ کو نہیں معلوم، آپا جان سے اور ان سے آج بڑی لڑائی ہوئی۔










بڑا بھائی: کس بات پر؟




چھوٹا بھائی: آپ اجان، لڑکا حمیدہ کو دے کر ہاتھ منہ دھونے چلی گئی۔ حمیدہ، لڑ کے کو بٹھا کر نماز پڑھنے لگی۔ آپا جان نے نماز پڑھتی کو دھکیل دیا۔ اس کی ناک میں تخت کی کیل لگ گئی۔ ڈھیر سا خون نکلا۔ اسی پر ت کرار ہونے لگی۔ آپا جان نے کئی مرتبہ، توبہ توبہ، نماز کو برا کہا۔ اماں جان نے بار بار منع کیا، نہ مانا۔ آخر اماں جان نے تھپڑ کھینچ مارا۔




بڑا بھائی: سچ کہو۔




چھوٹا بھائی: آپ چل کر دیکھ لیجئے۔ آپا جان کوٹھری میں پڑی رو رہی ہیں۔ صبح سے کھانا نہیں کھایا۔




منجھلا بھائی: واقعی کچھ لڑائی تو ضرور ہوئی ہے۔ میں جو ابا جان کے پاس گیا تو آتے جاتے سب کو چپ دیکھا اور سمجھا کہ بے سبب نہیں ہے۔




بڑا بھائی: کہیں گھر بھر نے متوالی کودوں تو نہیں کھا لی؟ ابھی سے جہاد بھی شروع ہو گیا۔ حمیدہ کا نماز پڑھنا دیکھو اور ذرا سی بات پر بے چاری نعیمہ کے مار کھانے پر خیال کرو۔




منجھلا بھائی: میرے نزدیک تو ان میں کوئی بات بھی تعجب کی نہیں۔ حمیدہ نے نماز پڑھی تو کیا کمال کیا۔ باتیں تو بڑی بوڑھیوں کی سی کرتی ہے۔




بڑا بھائی: تو کیا ضرور ہے کہ باتیں بڑی بوڑھیوں کی سی کرے تو نماز بھی بوڑھیوں کی سی پڑھے۔ اس کی عمر گڑیاں کھیلنے اور ہنڈ کلھیاں پکانے کی ہے، نہ زہد و مراقبے کی۔




منجھلا بھائی: کیا یہ ایسی مشکل بات ہے کہ حمیدہ اس کو نہیں سمجھ سکتی۔




بڑا بھائی: مار مار کر سمجھایا جائے تو شاید صدرہ اور سمس بازغہ کو بھی کہہ دے گی کہ ہاں سمجھ گئی۔




منجھلا بھائی: لیکن اس کو تو مار نہیں پٹی۔




بڑا بھائی: ایک کو پٹی تو گویا سب ہی کو پٹی۔ جب نعیمہ ہی کو اماں جان نے تھپڑ کھینچ مارا تو اب کس کی عزت رہ گئی۔ بڑی بیٹی، بیاہی ہوئی، صاحب اولا دکو مارنا، یہ شرافت دین دارانہ ہے۔ ؂




نے کعبے نے دیر کے قابل




مذہب ان کا سیر کے قابل




سلام ہے ایسے دین پر کہ انسان اپنے آپے سے باہر ہو جائے اور دنیا کے نیک و بد پر کچھ نظر نہ کرے۔ آخر یہ خبر ممکن نہیں کہ اس کے سسرال نہ پہنچے۔ سمدھیانے والے کیا کہیں گے۔ غیرت ہو تو گھر بھر چلو بھر پانی میں ڈوب مریں حیا ہو تو کنبے میں منہ نہ دکھائیں۔ اسی پر تم مجھ کو ابا جان کے پاس جانے کی رائے دیتے ہو۔ اگر کہیں مجھ پر بھی ایسا ہی دست شفقت پھر دیا تو پھر؂




ایں منم کارند میان خاک و خوں بینی سرے




اور مجھ کو نعیمہ کے جاں بر ہونے کی بھی امید نہیں




سن لیجیو کہ آج اگر ہے تو کل نہیں




منجھلا بھائی: اس بات کا مجھ کو بھی تعجب ہے۔ لیکن جب تک اماں جان کے منہ سے کیفیت نہ سن لو، میں نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے بے جا کیا یا بجا کیا۔




بڑا بھائی: تمہارے ساتھ یہ معاملہ ہوا تھا اور پھر تم بے جا اور بجا کا تردّد رکھتے تو میں تم کو خلف الرشید اور فرزند سعادت مند جانتا۔




جس پہ بیتی ہو یہ وہی جانے




جو کہ بے درد ہو وہ کیا جانے










منجھلا بھائی: شاید وقت پر طبیعت کا حال دگرگوں ہو جائے تو خبر نہیں، ورنہ میں تو ماں باپ کی تادیب کو موجب بے حرمتی نہیں سمجھتا۔




بڑا بھائی: شاید ایسی ہی با توں نے ان کو دلیر کر دیا ہے




منجھلا بھائی: جس کو خدا ماں باپ بناتا ہے تو اس کو اتنی بات سمجھنے کی عقل بھی دیتا ہے کہ اولاد پر اس کو کیسے کیسے اختیار حاصل ہیں۔




بڑا بھائی: غرض تمہارے نزدیک ماں باپ کو اختیار ہے کہ اولاد گو بڑی بھی ہو جائے مگر ان کو بے تمیز بچوں کی طرح ماریں پیٹیں تو کچھ الزام نہیں۔




منجھلا بھائی: مجھ سے فتویٰ طلب نہیں ہے کہ ایک عام رائے دوں۔ البتہ اپنے گھر کے اس خاص معاملے میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اماں جان نے جب بہت ہی ضرورت سمجھی ہو گی تو آپا جان پر ہاتھ اٹھایا ہو گا اور فرض کیا کہ اماں جان کی زیادتی سہی، تو کیا ایک طمانچے کے مارنے سے ان کو عمر بھر کی شفقتیں اکارت اور سال ہا سال کی نیکی برباد؂




آں را کہ بجائے تست ہر دم کرمے




عذرش بنہ ارکند بہ عمرے ستمے




اب بھی آپا جان کی محبت اماں جان کو ہو گی، مجھ کو اور آپ کو اس کا ایک شمہ تو ہولے




بڑا بھائی: غرض جو کچھ ہو:؂




میرے وحشت خانے میں جوش و جنوں کی دھوم ہے




عافیت مقصود اور آسودگی معدوم ہے




بھائی بھائی یہی باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں رسولن نامی لونڈی دوڑی آئی اور علیم سے کہا کہ میاں پوچھتے ہیں، میرے بات کا جواب تم نے ہست نیست کچھ نہیں دیا۔




رسولن کو تو علیم نے یہ کہہ کر رخصت کیا کہ تو چل کر کہہ ابھی آتے ہیں اور بڑے بھائی سے کہا کہ ابا جان آپ کے منتظر بیٹھے ہیں، جائیے کھڑے کھڑے ہو آئیے۔




بڑا بھائی: اگر مجھ کو یہ یقین ہوتا کہ میرا جانا اور چلا آنا ایک سرسری بات ہے تو میں اب تک جا کر کبھی کا چلا آیا ہوتا۔




منجھلا بھائی: آپ نے یہ کیوں تجویز کر لیا کہ سرسری نہیں ہے۔




بڑا بھائی: خدا کو دیکھا نہیں تو عقل سے پہچانا۔










منجھلا بھائی: بس شاید ابا جان کو اتنی ہی بات آپ کے منہ سے سننی منظور ہے۔




بڑا بھائی:




ہر سخن موقع اور ہر نکتہ مکانے دارد




منجھلا بھائی: مجھ کو حیرت ہے کہ آپ کو تردد کس بات کا ہے۔




بڑا بھائی: میں ان کے مزاج سے خائف اور اپنی عادت سے مجبور ہوں۔




منجھلا بھائی: لیکن جانے میں جس بات کا احتمال ہے، نہ جانے میں اس کا تیقن ہے۔




بڑا بھائی: احتمال تم کو ہے، نہ مجھ کو۔ میں سمجھے بیٹھا ہوں کہ بالا خانے پر چڑھا اور آفت نازل ہوئی۔




منجھلا بھائی: میں زیادہ اصرار کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ آپ کو اختیار ہے جو چاہے سو کیجئے۔ لیکن اتنا پھر کہے دیتا ہوں کہ اس کا انجام بہ خیر نہیں معلوم ہوتا۔




بڑا بھائی:




ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم




منجھلا بھائی: تو پھر میں ابا جان سے کہلائے بھیجتا ہوں۔










بڑا بھائی: یہ تم کو اختیار ہے۔ میں جب ان کے بلانے سے جانا لابد نہیں سمجھا تو ان کے پوچھنے سے جواب دینے کو کب ضروری جانتا ہوں۔




منجھلا بھائی مایوس ہو کر اٹھا اور تھوڑی دور جا کر پھر لوٹ آیا اور کہنے لگا کہ میرا پاؤں آگے نہیں پڑتا اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہوں تو کیا کہوں۔ یہ میں خوب جانتا ہوں کہ آپ کا نہ جانا بڑی ہی خرابی پیدا کرے گا۔ نہیں معلوم اس وقت آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ آپ جاتے اور ان کی بات مانتے تاہم چنداں قباحت نہ تھی۔ لیکن نہ جانے میں بگاڑ کی ابتداء، فساد کا آغاز، نافرمانی کا شروع آپ کی طرف سے ہوتا ہے۔ تمام دنیا آپ کو اس کا الزام دے گی اور سارا جہان آپ پر قصور عائد کرے گا اور چوں کہ میں اس کا نتیجہ سر تا سر آپ کے حق میں زبوں سمجھتا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ میری اس میں شرکت ہو۔ آپ کا جانا منظور نہیں تو بہتر ہو گا کہ آپ کسی دوسرے کے ہاتھ کہلا بھیجئے۔




بڑا بھائی: لیکن مجھ سے انہوں نے پوچھا نہیں تو میں کیوں کہلا بھیجوں۔




منجھلا بھائی: ایسا روکھا جواب سن کر پھر چلا۔ بے چارہ عجیب مخمصے میں تھا کہ ادھر باپ نے بہ تاکید پوچھ بھیجا ہے تو جواب میں کچھ ہاں یا نہیں کہنا چاہیے اور چوں کہ سمجھ چکا تھا کہ نہ جانا بھائی کی ہمیشہ ہمیشہ کی تباہی کا موجب ہو گا، اندر سے جی نہیں مانتا تھا کہ اس کی بربادی کی بات منہ سے نکالے۔ اسی گھبراہٹ میں دوڑا ہوا ماں کے پاس گیا اور کہا کہ اماں جان غضب ہوا چاہتا ہے۔ ماں بے چاری نعیمہ کے سوچ میں بیٹھی ہوئی تھی، کیوں کہ کوٹھری میں فرش پر ایک حالت سے پڑے نعیمہ کو سارا دن گزرا۔ نہ تو اس نے سر اٹھایا، نہ کوئی چیز اس کے منہ میں گئی ماں نے گلوریاں خاص دان میں بھروا کر پاس رکھوا دی تھیں، بھی سب اسی طرح رکھی رکھی سوکھا کیں، پانی اور کھانے کا کیا مذکور۔ لڑکا گھڑی دو گھڑی تو چپکا رہا پھر اس نے الگ رونا شروع کر دیا۔ سارا گھر اس کو سنبھالتا تھا مگر اس نے تالو سے زبان نہ لگائی۔ بہتیرا نانی بہلا پھسلا کر دودھ دیتی تھی مگر گود سے نکل نکل پڑتا تھا۔ نہ اٹھے سکھ، نہ بیٹھے چین۔ سب کو حیران کر مارا۔ دن تو خیر بری بھلی طرح گزر بھی گیا۔ اب




رات آئی تو یہ جانا کہ قیامت آئی




صالحہ کو جو بلوایا تھا تو ایک یوں ہی پیام کہلا بھیجا تھا۔ وہاں سے جواب آیا کہ آج شام کو گھر میں مولوی صاحب کا وعظ ہے۔ انشاء اللہ کل بڑے تڑ کے صبح نماز پڑھ کر میں پہنچوں گی۔ اسی اضطراب میں میاں علیم نے جو ایک دم سے جا کر کہا کہ غضب ہوا چاہتا ہے، ماں کا کلیجہ دھک سے ہو گیا اور سمجھی کہ نعیمہ کی خیر نہیں۔ گھبرا کر پوچھا: "کیا۔ "




بیٹا: بھائی جان کو ابا جان چار گھڑی سے بلا رہے ہیں۔ یہ وقت ہونے آیا، نہیں جاتے ہیں۔ مردانے میں پردہ کرا دوں، آپ ذرا چل کر سمجھا دیجئے۔ شاید مان جائیں۔ میں تو کہہ کر تھک گیا۔




فہمیدہ کا یہ حال تھا کہ نعیمہ سے بدتر اس کی کیفیت تھی۔ لوگوں کو دکھانے کو دسترخوان پر بیٹھ تو گئی تھی، مگر ایک دانہ حلق سے نہیں اترا۔ جیسی بیٹھی تھی ویسی ہی منہ جھٹلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ بار بار کسی نہ کسی بہانے سے کوٹھری کے پاس جاتی۔ کواڑوں کے پاس کھڑے ہو کر درزوں میں جھانکتی اور نعیمہ کے رونے کی آہٹ لیتی۔ گھر والوں میں سے جو سامنے آ نکلتا اس کو بھیجتی کہ جاؤ ہو سکے تو مناؤ، لیکن کسی کو اتنا جبہا نہ تھا کہ کوٹھری کے اندر قدم رکھتا۔ بیدارا جس نے نعیمہ کو پالا تھا اور ہر طرح کا دعوٰی رکھتی تھی، لڑ کے کو لے کر دودھ پلوانے کے بہانے سے پاس جا بیٹھی۔ ابھی منہ سے بات بھی نہ کہنے پائی تھی کہ نعیمہ نے ایسی دو لتی چلائی کہ بیدارا کئی لڑھکنیاں کھاتی گیند کی طرح لڑھکتی لڑھکاتی باہر آ کر گری۔ خدا نے خیر کی کہ لڑکا نہالچے سمیت گود سے نکل پڑا ورنہ اتنی دور میں نہیں معلوم کہ کیا سے کیا ہو جاتا۔ بیدارا کی مدارت دیکھ کر پھر تو جس سے فہمیدہ کوٹھری میں جانے کا نام لیتی، وہ کانوں پر ہاتھ دھرتی کہ نہ بیوی، میری ہڈیوں میں تو خدا کی لاٹھی سہارنے کا بوتا نہیں ہے۔ چاہتے سب تھے کہ نعیمہ کو منائیں مگر کوٹھری میں جانے سے ایسے ڈرتے تھے کہ گویا اندر کالی ناگن بیٹھی ہے۔ پاؤں رکھا اور اس نے ڈس لیا۔




باہر اس ذرا سے فتنے یعنی نعیمہ کے بچے نے آفت توڑ رکھی تھی۔ اگال دان، پان دان، سینیاں بجاتے، کنڈیاں کھڑکاتے، مگر اس عزیز کے کان پر جوں نہ چلتی تھی۔ گود میں لٹاؤ، جھولے میں سلاؤ، کندھے لگاؤ، لیے لیے پھرو مگر کسی طرح اس کو قرار نہ تھا۔ بے زبان بچہ منہ سے بولتا نہیں، چالتا نہیں، برابر روئے جاتا ہے۔ کوئی کیا جانے کہ اس کو کس بات کی تکلیف ہے۔ پہلے تو خیال ہوا کہ کہیں افیم تو نہیں تھوک دی۔ مسور برابر چھوڑ خاصی مٹر جتنی گولی دی، مطلق اثر نہیں۔ جانا کہ ہنسلی جاتی رہی، وہ بھی ملوائی اور دونا چلایا۔ سمجھے کہ پیٹ میں درد ہے۔ دودھ میں سہاگہ گھس کر دیا، پھر بھی نہ چپ ہوا۔ آخر جب خوب ہلاک ہو لیا تو ہار کر، کوئی دو گھڑی دن رہے، نانی کے کندھے سے لگ کر سو گیا۔ یہ بے چاری بھی دن بھر کی تھکی ماندی، نہار منہ، اس پر اداس، طبعیت مغموم، بت کی طرح ایک دیوار سے لگی بیٹھی اونگھ رہی تھی کہ پہلے صالحہ کا جواب آیا۔ اوپر سے میاں علیم، بھائی کا مژدہ لے کر پہنچے۔ سن کر رہی سہی عقل بھی کوئی گئی۔ تھوڑی دیر تک چپ سناٹے میں بیٹھی رہی۔ اس کے بعد اپنے آپ میں آئی اور علیم سے کہا، پھر بیٹا تم نے بڑے بھائی کو کچھ نہ سمجھایا۔




بیٹا: میں نے کتنا کتنا سمجھایا۔




ماں : نعیمہ کا حال تم نے کچھ سنا۔




بیٹا: جی ہاں سنا۔




ماں : بس خدا نے دونوں کو ایک ہی سانچے میں ڈھالا ہے۔ مجھ کو تو امید نہیں کہ کلیم روبرو ہو۔ جب اس کو خدا ہی کا خوف اور باپ ہی کا ڈر نہ ہو تو بھلا میں کون بلا ہوں۔ یوں تو کہتے ہو، چلو میں کہہ سن بہتیرا کچھ دوں گی۔ کیوں علیم، بھلا تمہارے نزدیک میری زیادتی تھی یا نعیمہ کی؟




بیٹا: میں نے مفصل حال تو سنا نہیں لیکن جس قدر سنا اس سے سر تا سر آپا کا قصور معلوم ہوتا ہے اور مجھ کو زیادہ تحقیقات کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ میں نے سنتے کے ساتھ ہی کہہ دیا تھا کہ اماں جان نے جب ایسی ہی سخت ضرورت سمجھی ہو گی تو آپا پر ہاتھ اٹھایا ہو گا۔




ماں : علیم، کیا تم سے کہوں۔ خدا کی شان میں ایک ایک بے ادبی کہ معاذ اللہ! میں تو تھرا اٹھی کہ ایسا نہ ہو کہیں چھت گر پڑے اور جان جان کر، منع کرتے کرتے۔




بیٹا: بے شک آپ نے مارا تو بہت واجب کیا۔ خیر آپ کا چنداں اندیشہ نہیں۔ آپ ہی غصہ اتر جائے گا۔ بڑے بھائی کا کھٹکا ہے۔ یہاں کل تک وارا نیارا ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔




ماں : دونوں ایک دوسرے کے قدم بر قدم ہیں۔ اس نعیمہ نے کیا وارا نیارا کرنے میں کچھ اٹھا رکھا ہے۔ سارا دن گزر گیا، نہ پانی پیا، نہ کھانا کھایا، نہ بچے کو دودھ پلایا۔




بیٹا: بچے کو دودھ نہیں پلایا؟ بھلا اس بے چارے کا کیا قصور؟




ماں : بیدارا ایک بار لے کر گئی تھی۔ بے چاری کے ایسی لات ماری کہ صحنچی میں ہلدی تھوپے پڑی کراہ رہی ہے۔




بیٹا: میں چلوں اور سمجھاؤں؟










ماں : نہ بیٹا، اپنی عزت اپنے ہاتھ۔ تم گئے اور چھوٹے تو ہو ہی، کچھ جا بے جا کہہ بیٹھی تو ناحق تم کو برا لگے، کیا فائدہ۔




بیٹا: جب وہ میری بڑی بہن ہیں تو مجھ کو ان کا کہنا برا کیوں لگنے لگا۔




ماں : تو بھی تمہارے جانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ میں نے صالحہ کو بلا بھیجا ہے وہ آئے گی تو اس کو اپنے طور پر ٹھیک ٹھاک کرے گی۔




بیٹا: واقعی یہ آپ نے خوب تجویز کی۔ مگر اب رات ہو گئی، کب آئیں گی؟




ماں : ان کے یہاں اس وقت وعظ ہے۔ اس کا کہلا بھیجا ہے کہ کل بڑے سویرے پہنچوں گی۔ خیر، جوں توں رات کٹ ہی جائے گی۔




بیٹا: میں صالحہ کو جا کر لے نہ آؤں؟ اتنے میں آپ بھائی جان سے باتیں کیجئے۔




ماں : ہاں بہتر تو ہو گا۔ میں نے اس کو یہ حال کہلا نہیں بھیجا ورنہ وہ تو سنتے کے ساتھ ہی دوڑی آتی۔




غرض علیم تو صالحہ کو لینے گیا اور فہمیدہ پردہ کرا کر مردانے میں پہنچی۔ اتنی ہی دیر میں یہاں تاش کھیلنے شروع ہو گئے تھے۔ فہمیدہ جو گئی تو چاندنی پر تاش کے ورق بکھرے ہوئے پڑے تھے۔ فہمیدہ نے دیکھ کر کہا آگ لگے اس کھیل کو۔ کھیل نہ ہوا بلائے جان ہوا کہ رات کو بھی بند نہیں ہوتا۔










بیٹا: نکما بیٹھا ہوا آدمی کچھ کرے یا نہ کرے۔




بے کار مباش کچھ کیا کر




ماں : بیٹا، خدا نہ کرے کہ تم نکمے ہو۔ کرنے والا ہو تو کام بہتیرے۔ باپ نے تم کو کئی دفعہ بلایا، نکمے تو تھے، تم سے اتنا نہ ہو سکا کہ جاؤں سن تو آؤں کیا کہتے ہیں۔




بیٹا: بس میں نے یہیں بیٹھے بیٹھے سن لیا۔




ماں : کچھ نہ سنا نہ سنایا۔ جاؤ ہو آؤ۔ یہ اچھی بات نہیں۔




بیٹا: اچھی بات کیا نہیں؟ میں جانتا ہوں جو وہ کہیں گے۔




ماں : تم جانتے سہی، مگر جا کر سن لینے میں بیٹا کچھ قباحت ہے؟




بیٹا:




قباحت سی قباحت ہے، خرابی سی خرابی ہے۔




ماں : میں بھی سنوں؟




بیٹا: اب مجھی سے کہلواتی ہو۔ تم آپ سمجھ جاؤ۔




ماں : میں تو تمہاری پہیلی نہیں سمجھتی۔




بیٹا: ایسی پہیلیاں نعیمہ خوب بوجھتی ہے۔










ماں : خدا کسی کو ایسی الٹی سمجھ نہ دے جیسی نعیمہ کی ہے۔ تم اس کی زبان سنتے ہو کہ خدا تک کا لحاظ اس نے اٹھا دیا۔ نماز کو اٹھک بیٹھک، خدا کی شان میں توبہ توبہ، یہ کلمہ کہ کیسا خدا۔ بے دین سے بے دین بھی ایسی بات منہ سے نہیں نکالتا۔ ابھی ایک آفت گھر پر آ چکی ہے کہ ایک چھوڑ تین تین مردے اسی گھر سے اٹھے مگر خوف مطلق نہیں، ذرا سا ڈر نہیں۔




بیٹا: وبا بھی ایک مرگ انبوہ تھا۔ اچھے برے سب ہی قسم کے لوگ مرے۔




ماں : تو کیا اچھوں کو مرتا دیکھ کر آدمی برا بن جائے۔




بیٹا: نہیں، میں تو یہ نہیں کہتا کہ برا ہونا اچھا ہے۔




ماں : اس سے بڑھ کر اور کیا برائی ہو گی کہ آدمی خدا کو خدا نہ سمجھے۔




بیٹا: اچھی کہی۔ خدا کو خدا کون نہیں سمجھتا۔ نعیمہ کے منہ سے نہیں معلوم کیوں کر ایک بات نکل گئی ہو گی۔




ماں : پھر تم کو باپ کے پاس میں کیا تامل ہے؟




بیٹا: میں نے سنا ہے کہ نماز پڑھنے کا قول کراتے ہیں۔ کھیل کود سے منع کرتے ہیں۔




ماں : ابھی تو تم نے کہا کہ میں خدا کو خدا سمجھتا ہوں۔ تو کیا نماز اس کا حکم نہیں ہے؟




بیٹا: میں یہ بھی نہیں کہتا کہ نماز اس کا حکم نہیں ہے لیکن مجھ سے ایسے حکم کی تعمیل نہیں ہو سکتی۔




ماں : تو تم نے یہ ناحق کہا کہ میں خدا کو خدا سمجھتا ہوں۔ اگر تم خدا کو خدا سمجھتے تو ضرور اس کا حکم مانتے۔ چلو بیٹا، دنیا اور دین دونوں سے آزاد ہوئی۔ ادھر باپ بلائے اور نہ جاؤ تو گویا باپ کو باپ نہ جانا۔ ادھر خدا فرمائے اور نماز نہ پڑھو، یعنی خدا کو خدا نہ سمجھا۔




بیٹا: مجھ کو حیرت ہے کہ گھر میں کیوں یہ نئے نئے دستور اور قاعدے جاری کیے جاتے ہیں۔ وہی خدا ہے اور وہی ہم سب، تو جس طرح پہلے سے رہتے سہتے چلے آئے ہیں، اب بھی رہنے دیں۔ دوسرے کے افعال سے کیا بحث اور کسی کے اعمال سے کیا سروکار؟ اگر کوئی بے دین ہے تو اپنے لئے اور کوئی زاہد اور پرہیز گار ہے تو اپنے واسطے۔




ماں : سروکار کیوں نہیں۔ اولاد کی تعلیم ماں باپ پر فرض ہے۔




بیٹا: پہلے سے فرض تھی یا اب علالت میں کوئی خاص وحی نازل ہوئی ہے۔










ماں : اگر تم ایسی حقارت سے ماں با پ کا ذ کر کرتے ہو تو یہ تمہاری سعادت مندی کی دلیل ہے ! تم تو کتابیں پڑھتے ہو، ماں باپ کا کیسا کچھ ادب لکھا ہے؟ لوگوں میں بھی اس کی ایک کہاوت مشہور ہے َ با ادب با نصیب۔ بیٹے ! تمہارے باپ بے چارے نے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مجھ کو الہام ہوتا ہے یا مجھ پر آسمان سے وحی اترتی ہے۔




بیٹا: اگر وحی نہیں ہے تو اسی علالت کا اثر ہے۔




ماں : تم باپ تک گئے ہوتے تو کبھی ایسے احتمالات نہ کرتے۔ یہ تمہاری نئی تجویز نہیں ہے۔ تم تو ابتدائے علالت سے باپ کو جنون اور سرسام بتاتے ہو۔ لیکن کیا مجنوں کا یہی کام ہے کہ عاقبت تک کی مال اندیشی کرے؟ دیوانے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ آخرت تک کا سوچیں؟ ایک مرتبہ ذرا کی ذرا چل کر ان کی باتیں سنو اور پھر ان کو مجنوں سمجھو تو البتہ میں قائل ہو جاؤں گی۔




بیٹا: کیا میں بھی سلیم ہوں کہ ان کی با توں میں آ جاؤں گا؟




ماں : ہماری نظروں میں تو تم سلیم سے بھی چھوٹے ہو۔




بیٹا: بس یہ مہربانی نعیمہ کے ساتھ خاص رہے۔




ماں : اگر مہربانی ہی مہربانی ہوتی تو شاید تم کو اس کے کہنے کی نوبت ہی نہ آتی، کیوں کہ مہربانی اسی کے ساتھ کی جاتی ہے جو اس کی قدر کرے اور مہربانی کرنے والے کا احسان مانے۔ مجبوری تو یہی ہے کہ نری مہربانی نہیں ہے بلکہ اپنی گردن کا بوجھ اور اپنے سر کا فرض اتارنا ہے۔




بیٹا: یہ نیا مسئلہ ہے کہ بڈھے طوطوں کو مار مار کر پڑھایا جائے۔




ماں : تم اپنے تئیں بڈھا سمجھتے ہو؟




بیٹا: میں دودھ پیتا ہوا بے تمیز بچہ ہی سہی، لیکن میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے افعال سے تعرض کرے۔ میں اپنا برا بھلا آپ سمجھ سکتا ہوں۔




ماں : ماں باپ اولاد کے بدخواہ نہیں ہوتے۔ ہم لوگ بھی تمہاری ہی بہتری کے لئے کہتے ہیں۔




بیٹا: مجھ کو اپنی بہتری منظور نہیں ہے۔




ماں : میں جانتی ہوں کہ یہ بات تم اس وقت ضد سے کہہ رہے ہو۔ بھلا دنیا میں کوئی ایسا بھی ہے جو اپنی بہتری نہیں چاہتا۔




بیٹا: جب میں تمہاری مداخلت اپنے افعال میں جائز نہیں رکھتا تو تم بیٹھے بٹھائے مجھ کو چھیڑنے والی کون؟




ماں : میں تمہاری ماں، وہ تمہارے باپ۔




بیٹا: یہ بھی اچھی زبردستی ہے۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔ مجھ کو تمہارے ماں باپ ہونے سے انکار نہیں۔ گفتگو اس بار میں ہے کہ تم کو میرے افعال میں زبردستی دخل دینے کا اختیار ہے یا نہیں، سو میں سمجھتا ہوں کہ نہیں۔ تم کہتی ہو کہ ہم بہ مجبوری دخل دیتے ہیں، اس واسطے کہ ماں باپ کا اولاد کا تعلیم کرنا فرض ہے۔ سو اول تو میں اس کو داخل تعلیم ہی نہیں سمجھتا اور مانا کہ داخل تعلیم ہو تو میرے نزدیک صرف دس بارہ برس تک اولاد محتاج تعلیم ہے۔ اس کے بعد ماں باپ کو ان کی رائے میں کچھ دخل نہیں۔ وہ اپنا نفع نقصان خود سمجھ سکتے ہیں۔ اگر یہی منظور تھا کہ میں بڑا ہو کر مسجد کا ملا یا قبرستان کا قرآن خواں یا لنگر خانہ کا خیراتی کا ٹکڑ گدا بنوں، تو شروع سے مجھ کو ایسی تعلیم کی ہوتی کہ اب تک بھلا کچھ نہیں تو میں دو چار حج بھی کر آیا ہوتا۔ پنچ آیت میں میری قرأت کی دھوم ہوتی، تراویح میں میرے لہجہ قرآن خوانی کی شہرت۔ کہیں مردہ مرتا جائے نماز مجھ کو ملتی۔ کہیں قربانی ہوتی، کھال میرے پاس آتی۔ صدقے کا میں آڑھتیا ہوتا، زکوٰۃ کا ٹھی کے دار، دعوتوں کا مستحق، خیرات کا حق دار۔ نہ یہ کہ پڑھاؤ کچھ، پوچھو کچھ۔ سکھاؤ اور چیز اور امتحان لو دوسری چیز میں۔ دنیا میں جیسے اور شریف اور معز ز خاندانوں کے بیٹے ہیں، اگر میں سب اچھا نہیں تو کسی سے برا بھی نہیں۔ مشاعرے میں میری غزل ساتھ مشق کرنے والوں میں سب سے بڑھی چڑھی ہوتی ہے۔ شطرنج میں، مرزا شاہ رخ تو خیر پرانے کھیلنے والوں میں ہیں اور حق یہ ہے کہ اچھی شطرنج کھیلتے ہیں، دوسرا کوئی مجھ کو مات کر دے تو البتہ میں اس کی ٹانگ تلے سے نکل جاؤں۔ ہمارے محلے میں میاں وزیر، بادشاہی پیادوں کے جمعدار، بڑے شاطروں میں مشہور ہیں۔ میں فرزیں اٹھا کر ان کے ساتھ کھیلتا ہوں۔ گنجفہ اگرچہ میں کم کھیلتا ہوں لیکن بیٹھ جاؤں تو ایسا بھی نہیں کہ کوئی صفو پر نادری چڑھائے۔ اور قریب قریب یہی حال تاش اور چوسر کا ہے۔ کبوتر جیسے آج ہماری چھتری کے دم دار ہیں، شہر میں شاید دو جگہ اور ہوں گے۔ پتنگ میں ایسی اڑاتا ہوں کہ ایک دھیلچے سے دو ٹھڈے کی نکل ایک نہیں تو سینکڑوں کاٹی ہوں گی۔ لکھنے سے عار میں نہیں، پڑھنے سے عاجز میں نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ امیروں اور امیر زادوں کا وہ کون سا ہنر ہے جو مجھ کو نہیں آتا۔




قسمت سے تو ناچار ہوں اے ذوق وگرنہ




سب فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا










کل کی بات ہے کہ میری مدح ہوتی تھی اور مجھ کو ہر بات پر شاباش ملتی تھی۔ اب دفعتاًً میں ایسا بے ہنر ہو گیا کہ مجھ کو سیکھنے اور تعلیم پانے کی ضرورت ہے




ہائے ہم کیا کہیں گے کیا ہو گئے کیا کیا ہو کر




میرا کون سا فعل ہے جو تم کو ابا جان کو معلوم نہیں؟ کیا ابا جان نے میرے غزلیں نہیں سنیں؟ میں ان کے ہاتھ کے صاد کیے ہوئے شعر دکھا سکتا ہوں۔ ابھی پورا ایک مہینہ بھی نہیں گزرا کہ شطرنج کا ایک بڑا مشکل نقشہ ابا جان نے کسی اخبار میں دیکھا تھا، اس کو میں نے حل کیا۔ کبوتر اڑاتے ہوئے تم نے نہیں دیکھے، یا پتنگوں کی لڑائی انہوں نے نہیں سنی؟ کبھی تم نے روکا یا انہوں نے ٹوکا؟ اب یہ نئی بات البتہ سننے میں آئی ہے کہ نماز پڑھو۔ مسجد میں معتکف بن کر بیٹھو۔ کھیلو مت۔ کسی یار آشنا سے ملو مت۔ بازار مت جاؤ۔ میلے تماشے میں مت شریک ہو۔ بھلا کوئی مجھ سے یہ باتیں ہونے والی ہیں۔




جو دل قمار خانے میں بت سے لگا چکے




وہ کعبتین چھوڑ کر کعبے کو جا چکے




ماں : میں سچ کہتی ہوں کہ جتنی باتیں تم نے کہیں، تمہارے باپ، جن کو تم مجنوں اور مختل الحواس تجویز کرتے ہو، سب پہلے سے سمجھ ہوئے بیٹھے ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ تم سے ان عاد توں کا ترک ہونا دشوار ہے اور ابتدا میں تم کو تعلیم نہ کرنے کا تذکرہ کر کے اس حسرت کے ساتھ روتے ہیں کہ دیکھنے والا تاب نہیں لا سکتا۔ غضب تو یہی ہے کہ تم ان تک چلتے نہیں، ورنہ تم کو معلوم ہو جاتا کہ باپ کے دل کی کیا کیفیت ہے۔ وہ خود قائل ہیں کہ اولاد کا کچھ قصور نہیں۔ ان کے بگاڑ کا وبال، ان کی خرابی کا الزام سب میری گردن پر ہے۔ اپنے تئیں کوستے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں ان کا باپ تھا عدو تھا کہ میں نے جان بوجھ کر ان کا ستیا ناس کیا، دیدہ دانستہ ان کو غارت کیا۔ اب کس منہ سے ان کو سمجھاؤں اور کیوں کر ان سے آنکھیں ملاؤں۔ مگر پھر آپ ہی کہتے ہیں کہ اگر میں نے اپنے فرض کے ادا کرنے میں اب تک کوتاہی کی تو کیا تلافیِ مافات سے غافل رہنا ترک فرض سے کچھ کم ہے۔ ناچار، اپنے مقدور بھر کوشش کروں گا، مجبور، حتی الوسیع زحمت اٹھاؤں گا۔




بیٹا: خیر، ایسا ہی فرض کا خیال ہے تو دوسرے بچوں کو اپنی رائے کے مطابق تعلیم کریں، مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیں۔




ماں : کیا خدا نخواستہ تم اولاد نہیں ہو؟




بیٹا: ہوں لیکن مجھ سے بھی آخر کہہ نہ چکے۔ بس ان کے ذمے کا فرض ساقط ہو گیا۔




ماں : یہی حجت دوسرے بھی پیش کر سکتے ہیں۔




بیٹا: جھک مارنے کی بات ہے۔ چھوٹوں کو ماننا چاہئے۔




ماں : کیا چھوٹے سدا چھوٹے ہی رہیں گے۔




بیٹا: بڑے ہوئے پیچھے بے شک ان کو بھی آزادی ہونی چاہیے۔




ماں : گھر میں اگر کوئی انتظام کرنا منظور ہو تو جب تک چھوٹے بڑے سب اس کی تعمیل نہ کریں وہ انتظام چل نہیں سکتا۔




بیٹا: چلے یا نہ چلے، بی، میں تم سے صاف کہوں، مجھ سے تو یہ نماز روزے کا کھڑاک سنبھلنے والا نہیں۔ یہ سر حاضر ہے، نعیمہ کی طرح چاہے تو مجھ کو بھی دو چار جوتیاں مار لو۔




ماں : الہٰی! نماز کچھ ایسی مشکل ہے کہ جوتیاں کھانی قبول پر نماز پڑھنی منظور نہیں۔




بیٹا: مجھ کو تو ایسی ہی مشکل معلوم ہوتی ہے۔




ماں : خیر، تم میری اور باپ کی خاطر پڑھ لیا کرنا۔










بیٹا: مجھ سے ہو ہی نہیں سکتی۔




ماں : تو یوں کہو، تم کو باپ کے کہنے کی ضد ہے۔




بیٹا: جو کچھ سمجھو۔




ماں : بھلا پھر اس کا انجام کیا ہو گا؟




بیٹا: ہو گا کیا۔ بہت کریں گے خفا ہوں گے۔ دو چار دن میں سامنے نہ جاؤں گا۔ آخر تم کہہ سن کر بات کو رفت و گزشت کرا ہی دو گی۔ کیوں بی اماں کرا دو گی نا؟




ماں : اگر یہی انجام ہوتا تو میں تم سے اتنا اصرار ہرگز نہ کرتی۔




بیٹا: پھر کیا مجھے پھانسی دلوا دیں گے، مار ڈالیں گے، کیا کریں گے؟




ماں : بھلا بیٹا کوئی کسی کو مار سکتا ہے؟ ایک ذرا ہاتھ لگانے پرتو نعیمہ نے یہ آفت توڑ رکھی ہے کہ اللہ پناہ دے۔ جان سے مارنا تو خدا کا گناہ اور حاکم کا جرم۔




بیٹا: شاید یہ کریں کہ گھر سے نکال دیں۔




ماں : شاید۔ تم تو بیٹے ہو، ان کو اس بلا کا اہتمام ہے کہ اگر میں بھی ان کی رائے کے خلاف کروں تو تیس برس کا گھر خاک میں ملانے کو تیار ہیں۔




بیٹا: شاید اسی ڈر سے تم سب کے سب انہی کی سی کہنے لگے۔










ماں : اس وقت تک تو کسی کے ساتھ کسی طرح کی زبردستی کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ باتیں ہی وہ اس غضب کی کرتے ہیں کہ گنجائش انکار باقی نہیں رہتی۔ لیکن ہاں جو تمہاری طرح کوئی کٹ حجتی کرتا تو ضرور بگڑتے۔




بیٹا: میں ان کی خفگی سے تو خیر کسی قدر ڈرتا بھی تھا لیکن گھر سے نکلنے کی بندہ درگاہ ذرا بھی پروا نہیں کرتے اور گھر کی طمع سے جو نماز پڑھتے ہیں ان کو ہی کچھ کہتا ہوں۔ اپنے کھانے پینے پر گھمنڈ کرتے ہوں گے۔ میں ان جیسے دس کو کھانا کپڑا دے سکتا ہوں۔




ماں : باپ بیچارے نے تو یہ بات بھی منہ سے نہیں نکالی۔ تم اپنے دل سے جو چاہو سو کہو۔




بیٹا: نہیں ان کے اصرار سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کپڑے کا ڈراوا دے کر وہ چاہتے ہیں کہ دین کا ٹو کرا زبردستی ہم لوگوں کے سر پر لادیں، سو یہ دل سے دور رکھیں۔ میں خود گھر سے دل برداشتہ ہو رہا ہوں۔ نہیں معلوم کہ کیا سبب تھا کہ میں اب تک رہ گیا۔ اگر پہلے ذرا بھی مجھ کو معلوم ہوا ہوتا تو خدا کی قسم، کب کا گھر سے ایسا گیا ہوتا جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور اب دیکھ لینا، دیوانہ را ہوئے بس است۔










ماں : بیٹا، تم کیسی باتیں کرتے ہو۔ باپ تک تم گئے نہیں۔ نہ اپنی کہی نہ ان کی سنی۔ آپ ہی آپ تم نے ایک با ت فرض کر لی اور اس پر غصہ کرنے لگے۔




بیٹا: درست۔ چھیڑ چھاڑ میری طرف سے شروع ہوئی یا ان کی طرف سے؟




ماں : اپنی بہتری کی بات کو تم نے چھیڑ چھاڑ سمجھا اور مانا کہ انہی کی طرف سے چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی سہی تو تم کو گھر سے ناراض ہونے کا سبب؟ گھر میں تو میں بھی ہوں، اللہ رکھے تمہارے بھائی ہیں، بہنیں ہیں، ہم سب نے تمہارا کیا قصور کیا؟




بیٹا: تم سب تو انہی سے ملے ہوئے ہو۔ اچھا، اگر تم کو میرا پاس ہے تو میرا ساتھ دو۔




ماں : اگر تمہارے باپ کی زیادتی ہوتی تو بے شک میں تمہاری طرف داری کرتی۔ انسان وہ کام کرے کہ دس بھلے آدمیوں میں بات آ پڑے تو لوگ اس کو الزام نہ دیں۔ فرض کیا کہ تم اتنی ہی بات پر گھر سے خفا ہو کر چلے گئے تو لوگ تم ہی کو قصور وار ٹھہرائیں گے۔




بیٹا: لوگ میرے قاضی نہیں، مفتی نہیں۔ میں کسی کی رعیت نہیں۔ جب میں اپنے سگے باپ کے کہنے کی پروا نہیں کرتا تو لگ پڑے بھونکا کریں۔




ماں : بیٹا، دنیا میں رہ کر تو ایسی آزادی نبھی نہیں سکتی۔




بیٹا: اجی ایسے نبھے کہ جیسے کہتے ہیں۔




کیسا اس کو نباہتا ہوں




انشاء اللہ دیکھئے گا!




ماں : کیا تم گھر سے چلے جاؤ گے؟




بیٹا: تو کوئی مجھ کو روک بھی سکتا ہے؟




مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں




ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں




ماں : کیوں، رکھنے والی میں بیٹھی ہوں۔ کیا تم پر اپنا بھی حق نہیں ہے؟




یہ کہہ کر فہمیدہ کا دل بھر آیا اور اس پر رقت طاری ہو گئی۔۔۔ "میں نے تم کو نو مہینے اسی دن کے واسطے پیٹ میں رکھا تھا اور اسی لئے تمہارے پالنے کی مصیبتیں اٹھائی تھیں کہ جب بہار دیکھنے کے دن آئیں تو تم مجھ سے الگ ہو جاؤ۔ کلیم! سچ کہتی ہوں، ذرا جا دیکھ، قیامت تک دودھ بخشنے ہی کی نہیں۔










بیٹا: "ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر"




ماں : بھلا ایسے جانے میں کیا فلاح و برکت ہو گی کہ باپ کو نا رضا مند کر کے جاؤ اور ماں کو نا خوش، اور بے وجہ، بے سبب۔




بیٹا: خیر، اب تو یہ دل پر ٹھنی ہے :




سر جائے پہ درد سر نہ جائے




اور کچھ خاص کر یہی سبب نہیں۔ مد توں سے گھر میں بیٹھے بیٹھے میرا دل اکتا گیا تھا اور ہمیشہ یہی خیال آیا کرتا تھا کہ چلو ذرا باہر کی بھی ہوا کھاؤں۔




چل در مے کدہ تک




ہے حرکت میں برکت




ماں : گھر سے ناراض ہو کر جاؤ گے تو اچھا باپ دادے کا نام شہر میں اچھلے گا۔




بیٹا: جب باپ نے میرا پاس آبرو نہ کیا تو خاندان کی عزت رہے تو بلا سے اور جائے تو بلا سے۔




ماں : باپ دادوں کی عزت تو رہے یا جائے، تم نے گھر سے باہر قدم رکھا اور تمہاری بات دو کوڑی کی ہوئی۔ یہی تمہارے دوست آشنا جو رات دن تمہاری للو پتو میں لگے رہتے ہیں، سلام تک کے روادار تو ہونے ہی کے نہیں، ہمدردی اور غمگساری کا تو کیا مذکور ہے۔




بیٹا: گھر سے نکل کر کیا میں نے دلی میں رہنے کی قسم کھائی ہے۔




ملک خدا تنگ نیست




پائے مرا لنگ نیست




جدھر کو منہ اٹھ گیا۔ چل کھڑے ہوئے۔




ماں : بھلا میں بھی تو سنوں کہ تم نے کون سا ٹھکانا سوچاہے۔




بیٹا:




جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید




مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو




ماں : بھلا پھر اس میں خوبی کیا نکلی کہ تم نے عیش چھوڑا، آرام چھوڑا، گھر چھوڑا، عزیز و اقارب چھوڑے اور ان سب کے بدلے ملا تو کیا ملا:




بدنامی کا خلعت، رسوائی کا خطاب، مفلسی اور محتاجی کا انعام، تکلیف و مصیبت کا پروانہ، تردد و پریشانی کا فرمان۔ موٹی سی موٹی سمجھ اور چھوٹی سے چھوٹی عقل بھی اس کو جائز نہیں رکھتی۔










بیٹا:




عقل چہ کتی است کہ پیش مرداں بیاید




ماں : تم تو باپ کو باؤلا اور مجنوں بتاتے تھے، مگر باؤلوں کی سی باتیں، دیوانوں کی سی حرکتیں تم خود کرتے ہو۔ دیکھو کہے دیتی ہوں، بہت پچھتاؤ گے، بہت افسوس کرو گے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ تم میری بات مانو لیکن جس کو تم اپنے نزدیک معقول پسند اور دانش مند سمجھتے ہو اسے پوچھو، صلاح لو، مشورہ کرو، دیکھ تو کیا کہتا ہے۔




بیٹا:




رائے اپنی صلاح ہے اپنی




ماں : بھلا اتنا تو تم سمجھو کہ میں جو تم سے اتنا اصرار کر رہی ہوں اور اتنی دیر سے تمہارے پیچھے سر کھپا رہی ہوں، اس میں کچھ میرا نفع یا تمہارے باپ کا فائدہ ہے؟ اگر تم نیک بنو گے تو کچھ ہم کو بخش دو گے، یا کراہ کر چلو گے تو کچھ ہم سے چھین لو گے؟ مگر خدا نے یہ اولاد کی مامتا کم بخت ایسی ہمارے پیچھے لگا دی ہے کہ جی نہیں مانتا اور دل صبر نہیں کرتا کہ تم کو بگڑے دیکھیں اور نہ روکیں، تم اپنی خرابی کے لچھن اختیار کرو اور ہم منع نہ کریں۔










ماں اور بیٹے میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ بیدارا اندر سے ایک خط لیے ہوئے نکلی اور خط اس نے لا کر کلیم کے ہاتھ میں دیا۔ رات کا وقت اور بیدارا کا اندر سے خط لے کر نکلنا۔ فہمیدہ سمجھ گئی کہ ضرور کلیم کے باپ کا خط ہے۔ جب تک کلیم خط پڑھتا رہا، فہمیدہ چپ بیٹھی دیکھا کی۔ خط پڑھ چکنے کے بعد کلیم چاہتا تھا کہ پھر وہی بات شروع کرے۔ اتنے میں فہمیدہ نے پوچھا "باپ نے کیا لکھا ہے؟"




بیٹا: ان کو تو جانتی ہو، جس بات کے پیچھے پڑتے ہیں، پہروں کی خبر لاتے ہیں۔ پھر بلایا ہے۔




ماں : صرف بلاوے کا اتنا بڑا بھاری خط۔ ذرا میں بھی دیکھوں۔




فہمیدہ نے خط لے کر پڑھا۔ اس میں لکھا تھا: (خط)




اے جان پدر! ارشدک اللہ تعالیٰ۔ میں نے پہلے تم کو علیم اور پھر رسولن کے ہاتھ بلوایا اور تم نہ تو آئے اور نہ معذوری و معذرت کہلا بھیجی، جس سے ظاہر ہے کہ تم نے مجھ کو ہیچ اور میرے حکم کو بے وقعت محض سمجھا۔ اگرچہ میرے نزدیک دنیا کا ضروری سے ضروری کام بھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ باپ بلائے اور بیٹا اس کام کے حیلے سے باپ کے پاس حاضر ہونے میں مکث کرے، لیکن اگر کوئی ایسی صورت در پیش تھی کہ تم اس کو میری طلب پر مقدم رکھنا چاہتے تھے تو اس کو مجھ پر ظاہر اور اپنی مجبوری سے مجھ کو مطمئن کرنا بھی تم پر لازم تھا۔




نہ صرف اس نظر کہ میں تمہارا باپ ہوں اور تم میرے بیٹے ہو بلکہ آداب تمدن اور اخلاق معاشرت بھی اسی طرح کے برتاؤ کے مقتضی ہیں۔ دنیا کا انتظام جس قاعدے اور دستور سے چلتا ہے، تم اپنے تئیں اس سے بے خبر اور نا واقف نہیں کہہ سکتے۔ ہر گھر میں ایک مالک، ہر محلے میں ایک رئیس، ہر بازار میں ایک چودھری، ہر شہر میں ایک حاکم، ہر ملک میں ایک بادشاہ، ہر فوج میں ایک سپہ سالار، ہر ایک کام کا ایک افسر، ہر فرقے کا ایک سر کردہ ہوتا ہے۔ الغرض ہر گھر ایک چھوٹی سی سلطنت ہے اور جو شخص اس گھر میں بڑا بوڑھا ہے، وہ اس میں بہ منزلہ بادشاہ کے ہے اور گھر کے دوسرے لوگ بطور رعایا اس کے محکوم ہیں۔ اگر ملک کی بدنظمی حاکم ملک کی غفلت اور بے عنوانی سے ہوتی ہے تو ضرور اس گھر میں جو خرابی ہے، اس کا الزام مجھ پر ہے اور میں نہایت ندامت اور حسرت کے ساتھ تسلیم کرتا ہوں کہ اب تک میں بہت ہی غافل بادشاہ اور بڑا ہی بے خبر حاکم رہا ہوں۔ میری غفلت نے میرے ملک کو غارت اور میری سلطنت کو تباہ کر دیا۔ میری بے خبری نے نہ صرف مجھ کو ضعیف الاختیار بنایا بلکہ رعیت کو بھی ایسا سقیم الحال کر دیا کہ اب ان کے پنپنے کی کوئی امید نہیں۔ جس طرح چھوٹے چھوٹے نواب اور رجواڑے سلطان وقت کے حضور میں اپنے ملکوں کی بدنظمی کے واسطے جواب دہی کیا کرتے ہیں اور ان کی غفلت اور بے عنوانی کی سزا ملتی ہے۔ واجد علی شاہ سے سلطنت منتزع ہوئی۔ والی ٹونک مسند حکومت سے اتار دیئے گئے۔ میں بھی بادشاہ دو جہاں کے حضور میں اپنے گھر کی خرابی کا جواب دہ ہوں اور دوسروں کو سزا یاب ہوتے دیکھ کر اب مجھ کو سچا اور پورا تنبہ ہوا ہے اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آئندہ سے میری خانہ داری کے ملک میں جتنے رخنے ہیں بند اور جتنے خلل ہیں مسدود، جتنے نقص ہیں پورے، جتنے سقم ہیں دفع کیے جائیں۔ بڑی خطرناک قباحت جو میں اپنے ملک خانہ داری میں پاتا ہوں، یہ ہے کہ میں اور میری رعایا یعنی تم لوگ شاہنشاہ دو جہاں سے سرکشی و بغاوت پر آمادہ و کمربستہ ہو اور خراج عبادت جو ہم کو وقت مقرر پر ادا کرنا چاہیے بالکل باقی پڑا ہے۔ خراج جو ہم پر عائد کیا گیا ہے، میں دیکھتا ہوں تو نہایت ہی ہلکا اور نرم اور رعایتی ہے۔ اگر ہم چاہتے تو کوئی قسط بھی باقی نہ رہتی اور جو مطالبہ شاہی تھا، بے زحمت، اپنے وقت پر خزانہ عامرہ سرکاری میں داخل ہو جایا کرتا۔ با ایں ہمہ جو کوتاہی ہماری طرف سے ہوئی ظاہر ہے۔ اس نا دہندی کی کوئی معقول تاویل بھی تو ہم نہیں کر سکتے۔




اب معاملہ دو حال سے خالی نہیں : یا تو پچھلا خراج تمام و کمال بے باق کریں اور اپنا قصور معاف کرائیں اور آئندہ کو عہد کریں کہ کبھی باقی نہ رکھیں گے، یا بادشاہ کے ساتھ لڑیں اور مقابلہ کریں اور ہو سکے تو اپنے تئیں اس کے رقبہ اطاعت سے آزاد کر لیں۔ شاہی قوت اور ہمارا ضعف تو ظاہر ہے۔ بھلا ہماری تو کیا ہستی، فرعون اور نمرود اور شداد اور ہامان اور قارون، کیسے کیسے جابر اور مقتدر ہو گزرے ہیں، باغی ہوئے تو کسی کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ پس سوائے اطاعت و مشورے کے لئے بلایا تھا۔ تمہارے نہ آنے سے ثابت ہوا کہ تم کو سرکار کا ذرا سا بھی خوف نہیں۔




اب تک میں نے تشبیہ و تمثیل میں تم سے گفتگو کی اور اس سے تم کو معلوم ہو جائے گا کہ کس مجبوری سے میں تمہارے معاملات میں دخل دیتا اور تمہارے افعال سمیت غرض کرتا ہوں۔ میرا دخل و تعرض بے شک تم کو دخل بے جا اور تعرض ناروا معلوم ہوتا ہو گا لیکن ذرا اپنی اور میری ذمہ داری کو انصاف کے ساتھ موازنہ کرو گے، تو سمجھ لو گے کہ اس کو بے جا اور ناروا سمجھنا بڑی غلطی ہے۔ جن شرطوں کا میں تم کو پابند کرنا چاہتا ہوں، میں اپنے تئیں اور کسے کے تئیں ان سے مستثنٰی نہیں کرتا۔ پھر شکایت کیا اور گلہ کیوں؟




تم جیسے نوجوان آدمیوں کو مذہب کے بارے میں کبھی کبھی خدشات بھی واقع ہوا کرتے ہیں اور یہ کچھ عیب کی بات نہیں۔ خدشے کا واقع ہونا دلیل جستجو ہے اور جستجو کا انجام ہے حصول۔ جوئندہ یا بندہ۔ اگر تم میں سے کوئی ایسا خدشہ پیش کرنا چاہے تو میں اس کا جواب دینے کو موجود ہوں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، مذہب کے اصول ایسے سچے اور یقینی اور بدیہی اصول ہیں کہ ان میں تردد و انکار کا دخل ہو ہی نہیں سکتا۔ چوں کہ ابتدائے شعور سے اب تک ہم لوگ غفلت اور سستی اور بے پروائی اور خداوند جل و علا شانہ کی مخالفت اور حکم عدولی اور نا فرمانی میں زندگی بسر کرتے رہے ہیں، البتہ میں جانتا اور مانتا ہوں کہ ایک مدت میں زنگ معصیت ہمارے اسی قدر تھا کہ ہر شخص مناسب حالت میں اپنا اپنا فکر کر چلے۔




جب میں اپنی اور تم سب کی پچھلی زندگی پر نظر کرتا ہوں تو اپنی بوٹیاں توڑ توڑ کر کھاتا ہوں، کیوں کہ اس ساری خرابی کا بانی اور اس تمام تر بدی کا موجب میں ہوں۔ اے کاش! میرا اتنا ہی قصور ہوتا کہ میں اپنی ذات سے گنہگار قرار دیا جاتا۔ نہیں، تم سب کے گناہوں میں میرا سانجھا اور تم سب کی خطاؤں میں میری شرکت ہے۔ میں خدا کا گنہگار الگ ہوں اور تمہارا قصوروار الگ۔ لیکن افسوس ہے کہ اس گناہ کا کفارہ اور اس قصور کی تلافی میرے اختیار سے خارج ہے۔ ہاں، مگر یہ کہ تم مجھ پر رحم کر کے اپنی اصلاح وضع کرو۔ کیا تمہاری سعادت مندی اس بات کو جائز رکھتی ہے کہ تمہارے سبب قیامت میں میری رسوائی ہو؟ کیا تمہاری حمیت اس بات کو پسند کرتی ہے کہ تمہاری وجہ سے میں حشر کے دن میں خدا کے غضب میں پکڑا جاؤں؟ چوں کہ تم میرے بڑے بیٹے ہو، مجھ کو سب سے زیادہ تمہارا بھروسہ تھا کہ تم اس مشکل میں میرا ساتھ دو گے، میری مد د کرو گے، نہ کہ تم نے ملنے سے بھی کنارہ کیا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میری آس ٹوٹ گئی اور میری ذہنی منصوبے تمام بگڑ گئے۔ اتنی بڑی مہم اور میں اکیلا! اتنا مشکل کام اور میں تنہا!










تم جانتے ہو کہ تمہارا انحراف میرے انتظام میں کتنا خلل ڈالے گا۔ چھوٹے بڑے سب تم کو سند گردانیں گے اور بات بات میں تمہارا حوالہ دیں گے۔ اگر تم اسی مصلحت سے میری شرائط کو قبول کر لیتے تو تمہارا کیا بگڑ جاتا؟ تم نے ابتداء ہی سے وہ سختی اختیار کی جس کی مجھ کو انجام میں بھی تم سے توقع نہ تھی۔ جتنی مشکلیں مجھ کو پیش آنے والی ہیں میں ان سے بے خبر نہیں ہوں اور اگر اس ارادے کا ترک کر دینا میرے اختیار میں ہوتا تو میں تم کو سچ کہتا ہوں، میں اس بات کو منہ ہی سے نہ نکالتا۔ لیکن میں خوب جانتا ہوں کہ میں کوئی انوکھا آدمی نہیں ہوں۔ آخر مجھ کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے۔ ابھی جب میں نے ہیضہ کیا تو کیا مرنے میں کچھ باقی رہ گیا تھا؟ خدا کی قدرت تھی کہ اس نے مجھ کو از سر نو پھر جلا دیا۔ لیکن ب کرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔




رہا گر کوئی تا قیامت سلامت




پھر آخر کو مرنا ہے حضرت سلامت




اور جس طرح مرنا یقینی ہے یہ بھی یقینی ہے کہ مجھ کو اپنے اعمال و افعال کے واسطے خدا کے حضور میں جواب دہی کرنی پڑے گی اور نہ صرف اپنے اعمال و افعال کے واسطے بلکہ تم سب کے اعمال و افعال کے واسطے بھی۔ پس سوائے اس کے کہ میں اپنا اور تم سب کا طرز زندگی بدل دوں اور کچھ چارہ نہیں۔ اگر تم میرے پاس آئے ہوتے تو مجھ سے اور تم سے بات چیت ہوئی ہوتی تو میں تمہاری رائے دریافت کر کے ایک خاص طور پر تم سے گفتگو کرتا۔ اب مجھ کو نہیں معلوم کہ جتنی باتیں میں نے کہیں ان میں سے کون سی تم کو تسلیم ہیں اور کس کس سے تم کو انکار ہے؟




اب زیادہ لکھنا فضول و عبث سمجھتا ہوں، لیکن جو میرے ذہن میں تھا، لکھ چکا۔ میں تم سے اس کے جواب کا متقاضی نہیں اور اس کے دو سبب ہیں۔ اول یہ کہ میں اپنے تقاضے کا لا حاصل اور بے اثر ہونا دیکھ نہیں سکتا۔ دوسرے، صرف ایک ہی جواب ہے کہ اس کو میں بطیّب خاطر سن سکتا ہوں، وہ یہ کہ تم میری شرطوں کو منظور کرو۔ ورنہ میں اپنے تئیں مواخذہ عاقبت سے بچانے کے لئے البتہ ان چند روزہ رشتوں کا پاس اور ان عارضی قرابتوں کی پروا نہیں کر سکتا اور یہ میری ہارے درجے کی تدبیر ہے اور میں خدا سے گڑگڑا کر دعا مانگتا ہوں کہ مجھ کو اس کے اختیار کرنے کی ضرورت واقع نہ ہو۔ والدعا۔




خط پڑھ کر فہمیدہ بیٹے سے کہنے لگی "دیکھا؟"




بیٹا:




جو کچھ خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا؟"




ماں : کیا اب بھی تم کو باپ کی نسبت جنون کا احتمال ہے؟




بیٹا: احتمال کیسا، اب تو یقین کامل ہے۔ بہ قول شخصے










دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں




اپنے تئیں بادشاہ سمجھنا جنوں نہیں تو کیا ہے؟




ماں : "انا للہ و انا الیہ راجعون"




بیٹا: کیوں، آپ نے انا للہ کس بات پر کہا؟




ماں : تمہاری الٹی سمجھ اور تمہاری بدقسمتی پر۔




بیٹا:




بہتر ہے وہی جو کچھ بدی ہے




ماں : تو کیا سچ مچ تم باپ کے پاس نہ جاؤ گے؟




بیٹا: اب تو میرا نہ جانا ان پر بھی ظاہر ہو گیا ہے، پھر کیا ضرورت ہے۔ کل جیسی ہو گی دیکھی جائے گی۔




ماں : دیکھو پھر میں تم سے کہے دیتی ہوں کہ رات کو اطمینان سے تم اس خط کے مطلب پر غور کرو۔ تمہارے باپ نے کوئی بات بے جا نہیں لکھی۔ جو شخص اس خط کو دیکھے گا، تم کو قائل معقول کرے گا۔

فصل ہشتم










نعیمہ کی خالہ زاد بہن صالحہ نے اس کو آ کر منایا، کھانا کھلایا اور اسی کے ساتھ نعیمہ خالہ کے یہاں چلی گئی




ابھی فہمیدہ یہ بات پوری بھی نہیں کرنے پائی تھی کہ صالحہ کی ڈولی آ پہنچی۔ اترتے کے ساتھ خالہ سے پہلے یہی پوچھا: "کہو آپا نے کچھ کھایا پیا نہیں؟"

خالہ: کچھ بھی نہیں۔

صالحہ: ہیں کہاں؟

خالہ: درے کے اندر کوٹھری میں۔

صالحہ: آخر بات کیا ہوئی تھی؟

خالہ: کیا علیم نے تم سے کچھ نہیں کہا؟

صالحہ: اتنا ہی کہا کہ لڑائی ہوئی ہے، صبح سے کھانا نہیں کھایا۔ میں ہر چند پوچھتی رہی، کچھ نہیں بتایا اور کہا کہ بھائی وہاں چل کر پوچھ گچھ لینا۔

تب خالہ نے شروع سے آخر تک سب ماجرا کہہ سنایا۔

صالحہ بڑی دانش مند لڑکی تھی اور اگرچہ نعیمہ سے عمر میں کچھ چھوٹی تھی مگر دونوں میں بڑا میل ملاپ تھا۔ صالحہ کو جو دقت پیش آنے والی تھی اس کو سوچ کر اس نے خالہ سے کہا: "انشاء اللہ آپا کو میں راضی کر لوں گی، مگر میرے سوائے اس گھر میں دوسرا آدمی کوئی نہ رہے۔ کیوں کہ گھر میں جتنے آدمی ہیں، آخر سب اس حال سے واقف ہیں، ان میں سے کوئی سامنے جائے گا، تو آپ کو ضرور حجاب ہو گا۔

بات صالحہ نے معقول سوچی تھی، کیوں کہ جب ایک مجمع میں کسی آدمی کی بے عزتی ہوتی ہے تو جو لوگ اس کی تفضیح دیکھ چکے ہیں، وہ سب کو اپنا دشمن ٹھہرا لیتا ہے۔ شاید اس خیال سے کہ یہ سب کھڑے دیکھتے رہے اور انہوں نے میری کچھ مد د نہ کی اور ان میں سے جب کوئی شخص سامنے آتا ہے تو اس ستم رسیدہ کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اسی نے مجھ کو فضیحت کرایا تھا۔ پس ضرور اس کے غصے کو ترقی اور اس کے غضب کو زیادتی ہوتی ہے اور اس بے چاری بیدارا نے جو ناحق ایک دولتی کھائی تو اسی وجہ سے، ورنہ اس کا کیا قصور تھا۔ وہ ماں بیٹیوں کے بیچ میں کچھ بولی نہیں چالی نہیں، نہ کسی طرح کا دخل دیا، نہ کسی کی طرف داری کی اور دخل دینے کی فرصت کس کو ملی۔ ماں بیٹیوں میں ایک بات پر رد و کد شروع ہوئی، جیسے ہمیشہ ہوا کرتی ہے۔ ماں نے دفعتا بیٹی کو طمانچہ کھینچ مارا۔ غرض بات کی بات میں تو تیاری، سامان، ارادے، چڑھائی، مار کٹائی، ہار جیت، سب کچھ ہو گیا۔ گھر والے دیکھتے کے دیکھتے رہے۔




صالحہ نے جو اپنا انتظام خالہ کو سنایا۔ انہوں نے بھی پسند کیا اور سب لوگوں سے کہہ دیا کہ اس قطعے میں کوئی نہ جائے۔ ہر ایک کو سونے بیٹھنے کا ٹھکانہ بتا دیا اور اپنے واسطے یہ تجویز کی کہ ہم گھر والے سب مردانے میں پردہ کرا کر سو رہیں گے۔ بلکہ صالحہ نے کہا بھی کہ آپ کوٹھے پر سوئیں، خالہ نے جواب دیا کہ ابھی مجھ کو ان بڑے حضرت، میاں کلیم کے ساتھ سر مارنا ہے۔




صالحہ: کیا ان سے بھی لڑائی ہوئی ہے؟




خالہ: لڑائی کیسی ان سے چھٹم چھٹا ہو رہی ہے۔




صالحہ: کس بات پر؟




خالہ: بات تو اتنی سی ہے کہ باپ نے ان کو نماز روزے کے واسطے نصیحت کرنے کو اپنے پاس اوپر بلوایا، یہ نہیں گئے۔




صالحہ: خالو جان نے بلوایا اور یہ نہیں گئے؟










خالہ: تم کو نہ جانے پر تعجب ہوتا ہے، باتیں سنو تو حیران ہو جاؤ۔ باپ کو دیوانہ اور مجنوں، نماز کو کھڑاگ، دین کے پیشواؤں کو ملانے، قلاؤذے، مردہ شو، ٹکڑ گدے، بھک منگے بتاتے ہیں۔




صالحہ: کسی نے آپ سے غلط کہہ دیا ہو گا۔




خالہ: میرے رو در رو۔




صالحہ: پھر کسی نے ان کو سمجھایا ہوتا۔




خالہ: ایک سمجھانا۔ علیم نے بہتیرا سر مارا۔ میں شام سے اب تک کہتے کہتے تھک گئی۔ جن مصیبتوں سے آج کا دن کٹا ہے، خدا ہی جانتا ہے۔ دانہ تک میرے یا حمیدہ کے منہ میں گیا ہو تو جس طرح کی چاہو قسم لے لو۔ اس نعیمہ کا فکر، کلیم کا تردد اور سب سے بڑھ کر نعیمہ کے بچے کو سنبھالنا، کہ آج اس کو دن بھر روتے گزرا ہے۔




صالحہ: آپ کھانا کھائیے۔ دوسرا وقت بھی نا وقت ہو گیا ہے۔ یقین ہے کہ آپ کے کھاتے کھاتے میں آپا کے واسطے کھانا منگواتی ہوں۔




خالہ: میری کیا جلدی ہے، میں کھا ہی لوں گی۔ حمیدہ بے چاری کے صبر کو دیکھو کہ اس نے کھانے کا نام بھی نہیں لیا۔ کل اسی وقت کا کھائے ہوئے ہے۔ خالی پیٹ میں دن بھر پانی انڈیلتی رہی ہے۔ میں نے ہرچند کہا نہ مانا۔ آخر بھوکی سو رہی۔




صالحہ: کیا آپ حمیدہ پر بھی کچھ خفا ہوئی تھیں؟




خالہ: مطلق نہیں۔ اس نے بہن کے افسوس میں کھانا نہیں کھایا۔ بہن کا وہ حال کہ بس چلے تو جان سے مار ڈالنے میں تامل نہیں اور اس کی یہ کیفیت کہ بہن پر اپنا دم دیتی ہے۔ بھانجے کو اس قدر چاہتی ہے کہ رات کو بھی ساتھ لے کر سوتی ہے۔




صالحہ: حمیدہ کو آپ جگائیے اور اطمینان سے آپ بھی کھانا کھائیے اور اس کو بھی کھلائیے۔ آپا کی اب کچھ فکر نہ کیجئے۔




یہ کہہ کر صالحہ اندر مکان میں گھستے ہی پکاری: "کیوں بی، میری آپا کہاں ہیں؟" گھر میں کوئی ہو تو جواب دے۔ سب سے پہلے باورچی خانے میں گئی، وہاں نہ دیکھا تو دالان میں آئی، وہاں بھی نہ پایا تو سہ درے میں ڈھونڈتی پھری۔ غرض ٹال مٹول کرتے کرتے آخر کار درے والی کوٹھری کے پاس آ کر جھانکنے لگی، جہاں نعیمہ تھی۔ نعیمہ دن بھر تو فرش پر پڑی رہی مگر صالحہ کی آواز سنتے کے ساتھ جلدی سے اٹھ منہ لپیٹ پلنگ پر جا لیٹی اور دروازے کی طرف پیٹھ کر لی۔ صالحہ نے پہلے تو انجان بن کر پوچھا: "یہ پلنگ پر کون لیٹا ہے؟" پھر آپ ہی کہنے لگی: "آہا آپا ہیں۔ ایں، اکیلی کوٹھری میں اور ایسے سویرے !" اتنا کہا تو دوڑ کر نعیمہ کو لپٹ گئی۔




نعیمہ نے جب سے صالحہ کی آواز سنی، اس کو ایک طرح کی حیرت تھی کہ سان نہ گمان دفعتاًً یہ کہاں سے آ موجود ہوئیں۔ مگر یہ بات اس کے ذہن میں بھی نہیں گزری کہ بلوائی ہوئی آئی ہے۔ نعیمہ نے اس وقت اپنے تئیں ایسا بنا لیا کہ گویا دیر سے پڑی سوتی ہے اور بھاری سی آواز بنا کر بولی: "اے ہے، بھائی ہم کو دق نہ کرو، ہم کو سونے دو۔ "




صالحہ: ہائے بی آپا! میں ہوں صالحہ۔ اٹھو منہ کھولو، ابھی سے کیوں سو رہیں، جی کیسا ہے؟"




اگرچہ نعیمہ نے چاہا کہ صالحہ پر اپنی کیفیت ظاہر نہ کرے مگر اس نے ایسی ہمدردی سے پوچھا کہ نعیمہ ضبط نہ کر سکی اور رونے لگی۔ اس کو روتا دیکھ کر صالحہ نے اصرار سے پوچھنا شروع کیا: "کیا سر دکھتا ہے؟ پیٹ میں درد ہے؟ بچے کا جی کیسا ہے؟ سسرال والوں نے کچھ کہلا بھیجا ہے؟ گھر میں کسی سے لڑائی ہوئی ہے؟" صالحہ بہتیرا پوچھتی تھی مگر نعیمہ ہاتھوں سے پرے دھکیلتی جاتی تھی اور کچھ جواب نہیں دیتی تھی۔ آخر صالحہ نے کہا: "نہ بتاؤ تو مجھ کو کھاؤ۔ " تب نعیمہ خفا ہو کر بولی: "چل مکارہ، مجھی سے باتیں بنانے آئی ہے۔ کیا تجھ کو خبر نہیں؟"




صالحہ: ابھی مولوی ہدایت اللہ صاحب کے وعظ سے اٹھی چلی آتی ہوں۔ یہاں آئی تو خالہ اماں اور گھر والے سب مردانے مکان میں ہیں۔ اتنا سنا کہ بڑے بھائی خفا ہو کر گھر سے جا رہے ہیں۔ مجھ کو تم سے ملنے کی جلدی تھی، اماں کو سلام کر سیدھی اندر چلی آئی۔ یہاں آ کر دیکھا تو نہ آدم نہ آدم زاد۔ تم کو سارے گھر میں ڈھونڈتی پھری۔




نعیمہ: کیوں، بڑے بھائی کس بات پر گھر سے نکل رہے ہیں؟




صالحہ: لوگ آپس میں کہہ رہے تھے کہ خالو ابا نے کہلا بھیجا ہے، نماز پڑھیں تو میرے گھر میں رہیں ورنہ جہاں چاہیں چلے جائیں۔




نعیمہ: آگ لگے اس نماز کو۔ یہ کیا اب گھر میں کسی کو تھوڑا ہی رہنے دے گی۔ یہ تو حمیدہ کے سواے سبھی کو نکلوائے گی۔










صالحہ: تو کیا آپا تم بڑے بھائی ہی کے واسطے پڑی رو رہی تھیں؟










نعیمہ: مجھ کو تو بے چارے بڑے بھائی کی خبر بھی نہیں۔ ان سے پہلے میں خود آپ نکلنے کو بیٹھی ہوں۔










صالحہ: توبہ آپا توبہ۔ کیسی بد فال منہ سے نکالتی ہو کہ خدا پناہ میں رکھے۔ اللہ نہ کرے کہ کسی بھلے مانس اشراف کی بہو بیٹی گھر سے نکلے۔










نعیمہ: جب سے اس نماز روزے کا چرچا ہمارے گھر میں ہوا ہے، بھلمنساہٹ اور شرافت سب گئی گزری ہوئی۔ اب آئی تو دو چار دن رہ کر ہر ایک کا رنگ ڈھنگ دیکھنا۔ نہ وہ زمین رہی نہ آسمان۔ گھر کا باوا آدم ہی کچھ بدل سا گیا ہے۔ نہ وہ ہنسی ہے، نہ وہ دل لگی ہے، نہ چرچے ہیں، نہ وہ مذاق ہے، نہ وہ چہچہے ہیں۔ گھر میں ایک اداسی سی چھائی رہتی ہے۔ ورنہ ابھی ایک مہینے کا مذکور ہے کہ محلے کی عورتیں تمام تمام دن بھری رہتی تھیں۔ کوئی گیت گا رہی ہے، کوئی کہانی کہہ رہی ہے۔ یہ ہمسائی عجوبہ، کچھ اس طرح کی زندہ دل ہیں کہ ہر روز نئی نئی نقلیں کر کر کے سب کو ہنساتے ہنساتے لٹا لٹا دیتی تھیں۔ اب کوئی گھر میں آ کر تھوکتا بھی نہیں۔ گھر ہے کہ کم بخت اکیلا پڑا بھائیں بھائیں کیا کرتا ہے۔










صالحہ: آخر اس کا سبب کیا؟




نعیمہ: سبب تمہاری خالہ جان اور حمیدہ کے ابا جان کی بد مزاجی۔ کسی کو کیا غرض، کیا مطلب کہ اپنے کام کاج کا حرج کرے اور پرائے گھر میں آ کر بیٹھے۔ کیا لوگوں کے گھروں میں بیٹھنے کی جگہ نہیں؟ لوگوں کی خاطر داری ہوتی تھی، محبت سے ان کے ساتھ پیش آتی تھیں، لوگ دوڑے آتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ ہر وقت منہ کپے کی طرح پھولا رہتا ہے۔ غیر آدمی کیوں برداشت کرنے لگے۔ سب کے سب چلتے پھرتے نظر آئے۔ ابا جان کے اچھے ہونے پر ڈومنیوں نے سینکڑوں ہی پھیرے کئے۔ سب ہی نے کہا۔ ہمسائی عجوبہ نے منتیں کیں، ہاتھ جوڑے، ایک نہ مانی۔ آخر رہ رت جگا تو خاک بھی نہ ہوا، نگوڑے مسجد کے ملاؤں کو بلا کر کھلا دیا۔ اب تو بوا، دن رات نماز کا وظیفہ ہے۔ وہ دیکھو تخت پر نماز کا چیتھڑا بچھا رہتا ہے۔ وضو کا کلہڑا کیا مجال کہ کسی وقت پاس سے الگ ہو جائے۔ کام کاج سے فارغ ہوئیں تو یا نماز پڑھنے کھڑی ہوئی گئیں یا کتاب پڑھنے بیٹھ گئیں۔ ایک حمیدہ کٹنی ان کو ایسی مل گئی ہے کہ اور ان کو اکسایا کرتی ہے۔ میرا بس چلے تو کتیا کو ایسا ماروں ایسا ماروں کہ یاد کرے۔










صالحہ: اے ہے، حمیدہ تو نگوڑی ایسی غریب اور بھولی لڑکی ہے کہ میں نے آج تک کوئی اس کی شرارت کی بات دیکھی کیا سنی بھی نہیں اور تم کو تو اتنا چاہتی ہے کہ کا ہے کو کوئی بہن کسی بہن کو چاہے گی۔ رمضان کی بات مجھ کو اب تک نہیں بھولی۔ تم کو تو یاد ہو گا کہ اخیر عشرے میں میں نے اس کو بلوا بھیجا تھا۔ گھر میں سبھی کو افطاری تقسیم ہوتی تھی، اس کو بھی حصہ ملتا تھا۔ بچہ سمجھ کر ہر چیز میں سے کچھ کچھ زیادہ دے دیتے تھے مگر اس کو منہ پر رکھنا قسم تھا۔ لوگ کھاتے اور یہ منہ دیکھتی۔ بہتیرا سمجھاتے کہ بھائی یہ کیا بری عادت ہے۔ چیز ہوتے سہاتے تم نہیں کھاتیں۔ مگر یہ اللہ کی بندی چکھتی تک بھی تو نہیں تھی۔ پہلے مجھ کو خیال ہوا کہ شاید خست کی وجہ سے نہیں کھاتی۔ مگر میں نے پوچھا تو کہنے لگی: "آپا بغیر کوئی چیز میرے حلق سے نہیں اترتی۔ " دیکھو، دن بھر تمہارے لڑکے کے لئے رہتی ہے اور لڑ کے کو بھی کچھ ایسا آرام ملتا ہے کہ کیسا ہی پھڑکتا ہو، اس کی گود میں گیا اور چپ اور تمہاری کیا خصوصیت ہے، ہر ایک سے اسی طرح محبت سے ملتی ہے۔ میں تو تم سے سچ کہوں، مجھ کو تو بہت ہی پیار آتا ہے۔ جب آتی ہوں خوب بھینچ بھینچ کر کئی دفعہ گلے لگاتی ہوں۔










نعیمہ: جس کو دیکھتی ہوں، حمیدہ کا ہی کلمہ بھرتا ہے اور میری یہ کیفیت ہے کہ اس کو دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اترتا ہے۔










صالحہ: اچھی، کیوں؟




نعیمہ: مجھ کو اماں جان سے اسی نے برا بنوایا۔ ورنہ آج تک تو کبھی ہوں بھی نہیں کہا تھا، یا آج چھوٹتے کے ساتھ، نہ بات نہ چیت، مجھ کو تھپڑ کھینچ مارا۔ خیر الٰہی، حمیدہ بندی، تجھ کو انہی ہاتھوں سے اماں جوتیاں ماریں تب میرے کلیجے میں ٹھنڈک پڑے اور جیسی تو آج کل سر چڑھی ہے، ویسی ہی نظروں سے گرے تب میرے دل کی مراد بر آئے۔




صالحہ: خالہ اماں نے تم کو تھپڑ مارا؟ یہ کب اور کیوں؟




نعیمہ: آج صبح ذرا کی ذرا لڑکا حمیدہ کو دے کر میں ہاتھ منہ دھونے چلی گئی۔ تم کہتی ہو کہ بھانجے پر فدا ہے۔ لڑ کے کو روتا ہوا زمین پر پٹک دیا۔ اس کو اتنا بھی ترس نہ آیا کہ ابھی پسلی کے دکھ سے مر مر کے بچا ہے، یوں جو زمین پر بٹھائے دیتی ہوں، ایسا نہ ہو کہ اس کی صبح کی ٹھنڈی ہوا لگ جائے اور پھر بیمار پڑے۔ پس اتنا قصور میرا ضرور ہے کہ میں نے ہولے سے حمیدہ کو ہاتھ لگایا۔ ہاتھ کا لگانا تھا کہ وہ فیل پائی دھڑام سے تخت پر گر پڑی۔ کہیں ذرا سی خراش آ گئی۔




صالحہ: کیا کہوں، مجھ کو تو یقین نہیں آتا کہ حمیدہ اور بھانجے کو بے سبب روتا ہوا زمین پر بٹھا دے اور خالہ جان حمیدہ کی طرف ہو کر تم کو ماریں۔ بھلا جاؤں خالہ جان سے پوچھوں؟




نعیمہ: حمیدہ کے بٹھا دینے کا سبب میں بتاؤں۔ ان کی نماز قضا ہوتی تھی اور ان کی اماں جان اس بات پر بگڑیں کہ میں نے نماز کو کیوں برا کہا۔




صالحہ: پھر تم نے نماز کو برا کہا تھا؟




نعیمہ: کہا تھا اور اب بھی کہتی ہوں۔ اماں کو تو کچھ نہیں کہا۔ نماز کو برا کہنا ان کو برا کیوں لگا؟




صالحہ: بھلا کوئی آدمی تمہارے ماں باپ کو برا کہے تو تم کو برا لگے یا نہ لگے؟




نعیمہ: اماں جان کو کوئی شوق سے برا کہے، مجھ کو ذرا برا لگنے ہی کا نہیں۔




صالحہ: آج سے یا سدا سے؟




نعیمہ: (مس کرانے لگی اور بولی) کم بخت بے حیا ہنسی کو دیکھو کہ خود بہ خود چلی آتی ہے۔ نہ بوا، ایسی باتیں ہم سے نہ کرو۔










صالحہ: کیا خوب۔ میں تمہارے غصے سے نہیں ڈرتی۔ بہت کرو گی تو خالہ جان نے تم کو ایک طمانچہ مارا ہے، تم مجھ کو دو طمانچے مار لینا۔ لیکن اماں باوا کا اتنا پاس نہیں تھا کہ تو سسرال والوں سے لڑیں کیوں؟




نعیمہ: بات بات میں ناحق کوئی برا کہا کرے تو جی نہ جلے؟




صالحہ: میں یہ کب کہتی ہوں کہ نہ جلے۔ لیکن خالہ جان نے نماز کا پاس کیا اور ان کو تمہاری بات بری لگی تو بے جا کیا ہوا؟




نعیمہ: تو کیا نماز ان کی اماں ہے یا نانی ہے؟




صالحہ: جن کو ایمان ہے ان کو ماں سے بڑھ کر پیاری اور نانی سے زیادہ عزیز ہے۔




نعیمہ: تو کیا میں تمہارے نزدیک بے ایمان ہوں؟




صالحہ: خدا کے فضل سے میں تو بے ایمان نہیں ہوں مگر رہتے سہتے کون ہوئے۔۔۔ تم؟




نعیمہ: بھلا ایمان سے کہنا، تم نے میری کون سی بات بے ایمانوں کی سی دیکھی؟




صالحہ: ایمان سے مت کہلواؤ۔










نعیمہ: نہیں، تمہیں خدا کی قسم، بھلا کوئی بات تو بتاؤ۔




صالحہ: پھر برا تو نہیں مانو گی؟




نعیمہ: سچی بات میں برا ماننے کی کیا وجہ؟




صالحہ: سچ اور ایمان کی بات تو یہ ہے کہ تمہارے قول و فعل کوئی بھی ایمان داروں کے سے نہیں اور مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تم خود ہی بتا دو کہ میں فلانا کام ایمان والوں کا سا کرتی ہوں۔ کھانا، پینا، سونا، گھر کا کام دھندا، بچوں کا پالنا، یہ تو دنیا میں برے بھلے سب ہی کیا کرتے ہیں۔ بھلا ایک کام تو ایسا بتاؤ جس سے تمہارا ایمان دار ہونا پہچانا جائے۔




نعیمہ: بھلا دنیا میں تمہارے نزدیک کوئی بھی ایمان دار ہے یا نہیں؟




صالحہ: کیوں نہیں۔ اللہ کے بندے سینکڑوں ہزاروں۔




نعیمہ: بھلا میں بھی کسی کا نام سنوں۔




صالحہ: دو کیوں جاؤ، یہ تمہاری ہی گلی میں ایک حضرت بی رہتی ہیں، جن کے نواسے بھائی علیم کے ساتھ مدرسے میں پڑھنے جاتے ہیں۔ بس ایمان دار ان کو کہتے ہیں۔ دیکھو تو، کیا نیک زندگی ہے۔




نعیمہ: میں تو ان کو دن بھر سیتے ہی دیکھتی ہوں۔










صالحہ: سچ ہے، مگر خدا کے واسطے غریب غربا کے کپڑے مفت اور امیروں کے مزدوری پر۔ لیکن جتنی سلائی ہوتی ہے سب اللہ کے نام پر دے دیتی ہیں، ایک پیسہ اپنے اوپر خرچ نہیں کرتیں۔ یہ عمر اور کڑاکے کے جاڑوں میں پہر رات رہے سے اٹھ کر خدا کی عبادت۔ گھر میں نو کر نہیں چاکر نہیں، اپنے ہاتھوں سارے گھر کا کام کاج اور اس پر نماز کی یہ پابندی کہ نماز تہجد تک قضا نہیں ہونے پاتی۔ محلے میں کتنی لڑکیوں کو انہوں نے پڑھنا لکھنا سکھایا، کتنوں کو حیوان سے آدمی بنایا اور حسبۃ اللہ، بے غرض، بے مطلب۔




میں نے اپنی آنکھوں دیکھا ہے کہ مسجد کے کوئی پندرہ بیس مسافر دونوں وقت روٹی پکوانے کو آٹا بھیج دیتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے سب کا آٹا گوندھنا، گھر سے دال سالن جو کچھ وقت پر موجود ہو، دینا۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ سالن نہیں بچا آپ روکھی ہی روٹی کھا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ بے چارے مسافر اکثر جوار باجرے کا آٹا لے آتے ہیں، وہ تو آپ رکھ لیتی ہیں اور اپنے گھر سے ان کو گیہوں کی روٹی بھیج دیتی ہیں۔ ایک دن باجرے کی روٹی، وہ بھی روکھی، بیٹھی کھا رہی تھیں۔ نوالہ حلق سے نہیں اترتا تھا۔ ہر ہر لقمے کے بعد پانی پینے کی ضرورت ہوتی تھی۔ میں جو جا نکلی تو مجھ کو دیکھ کر کہنے لگیں : "بیٹا مجھ کو باجرے کی روٹی بہت بھاتی ہے۔ کچھ ایسی سوندھی میٹھی اور خستہ ہوتی ہے کہ سبحان اللہ۔




ایک طالب علم نے ان سے گاڑھے کی مرزائی سلوائی اور شاید وہ پہلا ہی کپڑا تھا کہ اس بے چارے کو سلوانے کا اتفاق ہوا۔ اس واسطے کہ جب وہ شخص کپڑے لے کر دروازے پر آیا تو حضرت بی صاحب نے اس سے کہا کہ بیٹا اپنی پرانی مرزائی بھیج دو کہ اس کو دیکھ کر قطر کر لوں، تو اس نے نہایت حسرت کے ساتھ کہا کہ مائی صاحب، میرے پاس مرزائی نہیں ہے۔ حضرت بی صاحب: "بیٹا، مرزائی نہ ہو تو انگرکھا ہی سہی۔ خیر، کچھ اٹکل تو مل جائے گی۔ " طالب علم: انگرکھا بھی نہیں۔ مجبوراً اندر پردے میں حضرت بی صاحب نے اس سے پوچھ لیا کہ کمر کتنی ہے، چولی کتنی نیچی رہے گی، آستین کس قدر لمبی ہو گی۔ طالب علم نے بتایا۔ لیکن دیکھا تو کپڑا کمی کرتا تھا۔ تب طالب علم نے کہا کہ مائی صاحب جس طرح ہو سکے کھینچ تان کر اسی میں بنا دو اور آج نماز جمعہ سے پہلے ہی سی دو کہ الوداع کا دن ہے، میں جامع مسجد میں پہن کر جاؤں۔ غرض مرزائی سی گئی تو اس کے بدن پر ٹھیک نہ آئی۔ وہ بے چارہ مایوس ہو کر رو دیا اور اس نا امیدی میں حضرت بی پر انتا خفا ہوا کہ شاید گھر کی کوئی لونڈی پر بھی نہیں ہوتا۔ اندھی، بے وقوف، بے تمیز، پھوہڑ، بدسلیقہ، بے رحم، جو جو کچھ اس کے منہ میں آیا، بے دریغ کہہ ڈالا۔ باوجود یہ کہ گھر میں سب کو برا معلوم ہوا لیکن حضرت بی روتی جاتی تھیں اور الٹی اس کی استمالت کرتی تھیں۔ بڑے نواسے کا نیا تہ دوز چکن کا کرتہ اس کو دیا۔ لیکن اس نے اٹھا کر دور پھینک دیا اور کہا کہ مجھ کو بدن ڈھکنے کے واسطے کپڑے کی ضرورت ہے، یہ واہیات کپڑا میرے کس کام کا ہے، جس کو پہن کر آدمی ننگے کا ننگا۔ حضرت بی نے اپنے نواسوں کی تمام گٹھڑیاں کھول ڈالیں۔ خاصہ، تن زیب، ململ ڈھاکہ، پاٹن، ڈوریہ، رینگ، شبنم، نینوں، سینوں، سوزن کار، طرح طرح کے خوش وضع اور طرح دار کپڑے اس کو دکھائے اور ایک اس کو پسند نہ ہوا۔ کسی کو تو اس نے کہا: "مردوں کے استعمال کے قابل نہیں۔ " کسی کی نسبت تجویز کیا کہ یہ متکبروں کی پوشاک ہے۔ آخر حضرت بی نے بازار سے کورا لٹھا منگوا، نماز جمعہ سے پہلے اس کی مرزائی تیار کی، تب وہ طالب علم ٹلا۔ حضرت بی کی طرح کوئی اپنا پتا مار لے تب ایمان کا دعوٰیٰ کرے۔ اب تم خود غور کر لو کہ دن رات میں تم ایمان داروں کیسے کتنے کام کرتی ہو۔




نعیمہ: ایک حضرت بی ایسی ہوئیں۔ بھلا کوئی دوسری عورت بھی اس مزاج کی اس شہر میں ہے؟




صالحہ: چوں کہ تم اس طرح کے لوگوں سے نفرت رکھتی ہو، اس واسطے تم کو معلوم نہیں ورنہ شہر میں بہتیرے خدا کے نیک بندے پڑے ہیں۔ کہاں تک ان کے نام گنواؤں۔ ہے کیا، کوئی کم کوئی زیادہ۔ ایک میری ہی اماں ہیں، وہ بھی اپنے محلے کی حضرت بی ہیں۔




نعیمہ: دو چار آدمی اس طرح کے ہوئے سہی۔ میں تو اپنی ہی جیسی عورتیں اکثر دیکھتی ہوں۔




صالحہ: بے شک، دنیا میں نیک کم ہیں اور برے بہت۔




نعیمہ: میں جانتی ہوں کہ عور توں کے واسطے بہت نماز روزے کی کچھ ضرورت نہیں۔ بس ان کی یہی عبادت ہے کہ گھر کے کام کاج دیکھیں، بچوں کی خبر گیری کریں۔ ان کو خانہ داری کے بکھیڑوں سے اتنی فرصت کہاں ملتی ہے کہ نمازیں پڑھا کریں۔ مرد البتہ، نہ کھانے پکانے کی فکر، نہ بچوں کا جھگڑا، جتنی چاہیں عبادت کر لیں۔




صالحہ: مردوں کو کمانے کا تھوڑا کام ہے کہ بے چارے دن دن بھر اسی میں لگے رہتے ہیں۔ محلے کے ڈبکیوں کو دیکھو کہ منہ اندھیرے جو کھٹا کھٹ شروع کرتے ہیں تو آدھی آدھی رات تک کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی۔ پھر بھی جتنا خدا کا خیال مرد رکھتے ہیں، عورتیں کم بخت اس کا آدھا، پاؤ بھی نہیں رکھتیں۔




نعیمہ: چاہے تم کچھ ہی کہو، عورت مرد کی برابری تو ہرگز نہ ہو گی۔ ضرور اللہ میاں نے عور توں کے حق میں کچھ نہ کچھ آسانی رکھی ہو گی۔




صالحہ: سبب؟




نعیمہ: بھلا کہیں نگوڑی عور توں سے محنت ہو سکتی ہے؟




صالحہ: عبادت میں نہ چھپر اٹھانا ہے نہ لکڑیاں ڈھونی ہیں، کہ عورتیں کمزوری کا عذر اور نزاک کا حیلہ پیش کریں۔ بلکہ ایک حساب سے عور توں کو زیادہ عبادت کرنی چاہیئے۔ کیوں کہ اول تو عور توں کو عبادت کی فرصت زیادہ ملتی ہے، دوسرے خدا کی نعمتوں سے عورتیں زیادہ حصہ پاتی ہیں۔ کھانے پینے میں مرد عورت سب برابر۔ کپڑے میں مرد بیچارے ایک حصہ تو عورتیں ویسے دس۔ نہ عور توں کا ایک پائجامہ نہ مردوں کا ایک برس کا سارا برس اور یوں بھی عور توں کی پوشاک عموماً عمدہ اور بیش قیمت ہوتی ہے بہ نسبت مردوں کے۔ بڑی رقم ہے زیور۔ عور توں کو سونے کی کان میں قبر کھود کر گاڑ دو، تب بھی بس نہیں۔ مرد بے چارے، جو ثقہ اور وضع دار ہیں، چاندی کا چھلا تک بھی نہیں پہنتے۔ اس پر بھی عورتیں عبادت میں کمی کریں تو ان کی وہی کہاوت ہے، کھانے کو چچا اور کام کو ننھا بچہ۔




نعیمہ: تم تو اچھی میری قسمت کی سچ مچ مولودی صاحب بن کر آئیں۔




صالحہ: مولویوں کے درجے مولویوں کے ساتھ ہیں۔ میں بے چاری کس لائق ہوں۔ مولویوں کی جوتیوں کی برابری بھی نہیں کر سکتی۔




نعیمہ: افسوس ہے کہ تم ہماری اماں کے یہاں پیدا نہ ہوئیں۔




صالحہ: افسوس کی کیا بات ہے؟ بلکہ میں تو سمجھتی ہوں شکر کا مقام ہے۔




نعیمہ: کیوں؟




صالحہ: تم بتاؤ کہ تم نے کیا سمجھ کر افسوس کیا۔




نعیمہ: میں نے تو یہ سمجھ کر افسوس کیا کہ تم ہماری اماں کے یہاں ہوئی ہوتیں تو دونوں کو اچھا تھا۔ ہماری اماں تمہی جیسی بیٹی ڈھونڈھتی ہیں اور تم بھی امیر گھر پاتیں تو کھانا، کپڑا، زیور، نو کر، سبھی طرح کی خوشی تھی۔










صالحہ: اگر اس خوشی کا یہی نتیجہ ہے کہ آدمی خدا کو بھول جائے تو میرے نزدیک یہ تمام فراغت، دنیا کا جنجال اور آخرت کا وبال ہے۔ کون چار دن کی خوشی کے واسطے ہمیشہ ہمیشہ کی مصیبت مول ہے۔ مجھ کو خدا کے فضل سے پیٹ بھر روٹی اور تن بدن ڈھانک لینے کو کپڑا، رہنے کو مکان، لیٹنے کو چار پائی، پینے کو پانی، دم لینے کو ہوا، سب کچھ میسر ہے۔ میں نہیں جانتی کہ مجھ کو دنیا کی کوئی اور چیز بھی درکار ہے۔ سوائے اس کے تم نے پتھر یعنی سونا چاندی مجھ سے زیادہ اپنے اوپر لاد لئے ہیں اور بوجھ کے صدمے سے کان تمہارے کٹے پڑتے ہیں، ناک تمہاری چھے گئی ہے اور تو کوئی فرق میں تم میں اور اپنے میں نہیں پاتی۔ میں یہ نہیں کہتی کہ خدا نہ خواستہ تم کو کھانے کی تکلیف ہے، مگر صورت تمہاری یہ ہے کہ بدن پر بوٹی نہیں، ہاتھ پاؤں میں جان نہیں، ہر سال جلاب، ہر مہینے فصد، آئے دن دوا۔ مجھ کو دیکھو کہ خدا کے فضل سے تم سے دونی نہیں تو ڈیوڑھی میں شک بھی نہیں۔ ایک ہاتھ سے تمہارے دونوں ہاتھ پکڑ لوں تو بیوی صاحب سے ہلا بھی نہ جائے۔




نعیمہ: بیماری بھی امیری کا تمغہ ہے۔ نگوڑے بھو کے، جن کے پیٹ کو روٹی میسر نہیں، وہ کیا بیمار پڑیں گے۔










صالحہ: یہاں تمغے اور خلعت کا مذکور نہیں ہے، تکلیف اور آرام میں گفتگو ہے۔




نعیمہ: جی تو خوش کر لو۔ لومڑی کو جب انگور نہیں ملتے تو وہ ان کو کھٹا کہا کرتی ہے۔




صالحہ: اپنی اپنی سمجھ ہی تو ہے۔ تم میرے تئیں جانتی ہو کہ یہ تکلیف میں ہے اور میں کہتی ہوں کہ تم ایسے عذاب میں مبتلا ہو کہ خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔ کھانے پینے کے عیش آرام جو تم کو میسر ہیں، ان کا نتیجہ تو یہ ہے کہ تم سدا کی دکھیا اور ہمیشہ کی روگی بن رہی ہو۔ رہا کپڑا، کچھ تم ہی اس کو پہن کر اپنے جی میں خوش ہوتی ہو گی۔ ابھی خالو جان یا بڑے بھائی آ جائیں تو سوائے اس کے کہ تم ان کے سامنے سے ہٹ کر بیٹھو اور کیا تدبیر ہے۔ رہا زیور جس کی زکوٰۃ نہ خیرات، اس سے بیڑیاں بہتر، طوق اور ہتھکڑی اچھی۔ بڑی خوشی محبت اور میل ملاپ کی ہوتی ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ تم ماں سے بری، حمیدہ کی دشمن، ساس سسروں سے بگاڑ، میاں سے نا موافقت، نو کر شاہی، لونڈیاں نالاں۔ اسی پر تم اپنے تئیں سمجھتی ہو کہ میں خوش ہوں۔ ابھی تم پڑی رو رہی تھیں یا ہنس رہی تھیں؟




نعیمہ: سبحان اللہ آپ کیا آدمی ہیں۔ کیا گھروں میں کبھی لڑائی نہیں ہوتی؟ چار برتن پاس رکھ دیتے ہیں تو وہ بھی کبھی نہ کبھی کھڑکھڑا اٹھتے ہیں۔




صالحہ: اگر ایسا ہی سمجھتیں تو اتنی بات کا بتنگڑ نہ بناتیں۔




نعیمہ: میں نے کیا بات کا بتنگڑ بنایا؟




صالحہ: تمہی اپنے دل میں سوچو۔ ماں کے ہاتھ لگانے پر یہ آفت۔ صبح سے اب تک آپ بھوکی مریں، سارے گھر کو بھوکا مارا۔ شاباش بوا، شاباش! لڑو ماں سے، روٹھو خدا سے۔




نعیمہ: ہر پھر کر تم کو خدا کا تذکرہ کرنا ضرور۔ بھلا میں کب خدا سے روٹھی؟




صالحہ: رزق خدا کا یا ماں باپ کا؟




نعیمہ: اللہ رہی علامہ! دیکھو تو، کسی ایچ پیچ کی باتیں کرنی آتی ہیں۔




صالحہ: تم کو پیچ و تاب کی باتیں آتی ہیں تو مجھ کو ایچ پیچ کی۔




نعیمہ: غصہ ہی تو ہے۔




صالحہ: اچھا غصہ ہے، باؤلا غیظ، دیوانہ غضب، ادھر بے جان پر اور ادھر بے زبان پر۔




نعیمہ: بے جان اور بے زبان کیا؟










صالحہ: کھانا بے جان اور بے زبان تمہارا بچہ نادان۔ میں نے سنا ہے کہ تم نے اس کو بھی خوب کچلا کیا۔




نعیمہ: کیا تو کسی کو کیا؟ اپنا بچہ شوق سے مارا، خوشی سے کچلا۔




صالحہ: تم اپنے بچے کو شوق سے مارو اور خوشی سے کچلا کرو، پھر خالہ جان نے تم کو ایک تھپڑ ہولے سے مارا تو کیا غضب ہوا؟ جیسی تم اپنے بچے کی ماں، وہ تمہاری ماں۔




نعیمہ: ماں ماں برابر لیکن بچہ بچہ برابر نہیں۔




صالحہ: لیکن تم دونوں میں زیادہ تر واجب الرعایت کون ہے؟




نعیمہ: میں




صالحہ: میں کے گلے پر چھری۔ کیا واجب الرعایت نکلی، میں۔ ذرا منہ تو دھو کر رکھو۔




نعیمہ: دیکھو بڑوں کے ساتھ بے ادبی۔




صالحہ: بڑوں نے کی تو چھوٹوں نے سیکھی۔




نعیمہ: اجی وہ کچھ بھی رعایت میرے ساتھ نہ کریں۔ اللہ مالک ہے۔




صالحہ: کیوں جھوٹ بولتی ہو۔










نعیمہ: بس سب کچھ کہنا، جھوٹی نہ کہنا۔ اس کی مجھ کو بڑی چڑ ہے۔ جو کوئی مجھ کو جھوٹی کہتا ہے تو میرے تن بدن میں آگ ہی تو پھک جاتی ہے۔




صالحہ: بھلا پھر تم اللہ کو مالک سمجھتی ہو جو کہتی ہو؟




نعیمہ: کوئی ایسا بھی بندہ بشر ہے جو اللہ کو مالک نہیں سمجھتا؟




صالحہ: اللہ کو مالک سمجھتیں تو ایسی بے جا بات بول اٹھتیں جس پر خالہ جان خفا ہوئیں اور بجا خفا ہوئیں۔




نعیمہ: لیکن کبھی خالو جان کی شان میں تو ایسی تمہارے منہ سے نہیں نکلتی۔ بلکہ خالو جان تو خیر، شاید بڑے بھائی جان کو بھی ایسا سخت کلمہ کہو تو ان کو کتنا برا لگے گا۔ کیا خدا کو برا نہ لگا ہو گا؟




یہ سن کر نعیمہ کسی قدر ڈری اور اس نے ہولے ہولے اپنے کلّوں پر طمانچے مارے اور منہ سے بھی توبہ توبہ کہا۔




صالحہ: بس سمجھ لو کہ ایسا ہی ایک طمانچہ خالہ جان نے مارا سہی۔




نعیمہ: تو میں کیا کچھ کہتی ہوں یا میں نے کچھ کہا؟




صالحہ: اے کاش تم سب کچھ کر لیتیں اور یہ ستم نہ کرتیں۔




نعیمہ: کیا؟




صالحہ: سارے دن گھر بھر کو بھوکا مارا۔ بچہ تمام دن دودھ کو پھڑکا۔ بیدارا بے چاری، وہ سہ درے میں پڑی پڑی ہائے ہائے کر رہی ہے۔ نہیں معلوم کہاں اس کے بے موقع لات لگی ہے کہ اب تک اس کا سانس پیٹ میں نہیں سمایا اور پھر کہتی ہو کیا کیا۔




نعیمہ: خیر اب تو جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔




صالحہ: ہو نہیں چکا، ہو رہا ہے۔ لوگ بھو کے بیٹھے ہیں۔ بچہ پھڑ کے چلا جاتا ہے۔




نعیمہ: اچھی، کچھ یہ بھی زبردستی ہے۔ ماروں اور رونے نہ دوں۔




صالحہ: تم کو اتنی بڑی ہو کر رونے کا نام لیتے ہوئے شرم نہیں آتی؟




نعیمہ: جب مار کھانے کی غیرت نہ ہوئی تو رونے میں کیا شرم تھی۔




صالحہ: ماں ہوئی، استانی ہوئی، اگر ان کو مار کھانا بے عزتی ہے تو دنیا بے عزت ہے۔




نعیمہ: تم کو مار پڑی ہوتی تو جانتیں کہ عزت کی بات ہے یا بے عزتی کی۔




صالحہ: استانی جی کی مار کی تو کوئی گنتی ہی نہیں۔ اماں جان نے بھی مجھ کو کوئی بیسیوں ہی دفعہ مارا ہو گا۔










نعیمہ: اب بڑے ہوئے پر؟




صالحہ: اب میں کوئی بات ہی ایسی نہیں کرتی کہ ان کے خلاف مزاج ہو۔




نعیمہ: میں نے بھی تو یہ سمجھ کر نہیں کہا تھا کہ اماں جان کو اتنا برا لگے گا اور نہ کبھی پہلے اماں جان کو نماز روزے کا ایسا خیال ہوا جیسا کہ اب ہے۔




صالحہ: لیکن جب تم کو خالہ جان کئی مرتبہ روک چکی تھیں تو تم کو ان کی ممانعت کے خلاف پھر وہی بات نہیں کہنی چاہئے تھی۔




نعیمہ: کیوں جی، خدا کو میری بات بری لگتی تو جو کچھ ہونا تھا اسی وقت نہ ہو چکتا؟




صالحہ: پہلے یہ تو بتاؤ کہ بات بے جا اور بری تھی یا نہیں؟




نعیمہ: خیر بری ہی سہی۔




صالحہ: سہی کیا معنی، شدت سے بری اور بے جا تھی کہ تم اپنے بھائی تک کو ایسا کلمہ نہیں کہہ سکتیں۔ ایسی ہی با توں کا نام کفر اور شرک ہے۔ مگر اس سے کہ تم کو فوراً سزا نہیں ملی، خوش نہیں ہونا چاہیئے۔ خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ عجب کیا ہے کہ ایسی با توں کا وبال تم کو گھر میں بسنے نہیں دیتا۔




نعیمہ: اماں مجھ کو تنہائی میں مار لیتیں تو مجھ کو اتنا رنج نہ ہوتا۔










صالحہ: سبحان اللہ۔ خطا بہ بازار و سزاوار پس دیوار۔




نعیمہ: اچھا پھر اب تمہاری مرضی کیا ہے؟




صالحہ: مرضی یہ ہے کہ چل کر خالہ جان کے روبرو ہاتھ جوڑو۔ ان کے پاؤں پڑو۔ اپنا قصور معاف کراؤ۔ کھانا آپ کھاؤ، دوسروں کو کھانے دو۔ بچے کو دودھ پلاؤ۔ حمیدہ کو بلا کر گلے لگاؤ۔ بیدارا کی دل دہی اور تشفی کرو۔




نعیمہ: لو اور سنو۔ الٹا چور کو توال کو ڈانٹے۔ میں ہی پٹوں اور میں ہی ہاتھ بھی جوڑوں اور اگر میرا قصور ہوتا بھی تاہم ہاتھ تو بندی نے نہ آج تک کسی کے آگے جوڑے اور نہ اب مجھ سے جوڑے جائیں۔ رہی حمیدہ، تم کہتی ہو کہ گلے لگاؤ اور میرا بس چلے تو اس کو جیتا نہ چھوڑوں اور کھانے کی بات جو تم نے کہی تو مجھ کو اب اس گھر کا نمک تک چکھنا حرام ہے۔ غرض جتنی باتیں تم نے کہیں، سوچ کر ایسی ہی کہیں کہ ایک بھی مجھ سے شدنی نہیں۔ خیر، تمہاری خاطر سے ننھے کو دودھ پلائیں گی۔ جاؤ کہیں سے لے آؤ۔ ورنہ ارادہ تو یہی تھا کہ اس کا اور اپنا دونوں کا خون کر دوں۔




صالحہ: اللہ اکبر بی آپا، میں نہیں جانتی تھی کہ تمہارا غصہ اس قدر غضب کا بجھا ہوا ہے۔




نعیمہ: میرا مزاج تو سدا سے اسی طرح کا ہے۔ مجھ سے کسی کی بات کی برداشت نہیں ہوتی۔




صالحہ: اب تم سے زیادہ کہنا لا حاصل ہے۔ بس معلوم ہو گیا کہ تم اپنی خوشی کی ہو۔




نعیمہ: جو بات کرنے کی تھی وہ تو میں نے پہلے ہی کہہ دی، کہ ننھے کو دودھ پلاؤں گی۔




صالحہ: تمام دن تو تم کو بے آب و دانہ گزر گیا اور عمر بھر کے بدلے کا تم نے ایسا لمبا روزہ رکھا ہے کہ پہر رات گزری مگر افطار ہونے نہیں آیا اور نہ ابھی کچھ اس کے افطار ہونے کی امید ہے۔ تو وہ دودھ رہا کہاں ہو گا کہ تم ننھے کو پلاؤ گی۔




نعیمہ: رہے یا نہ رہے مگر میں اس گھر کا کھانا کھاؤں تو حرام کھاؤں، مردار کھاؤں۔




صالحہ: پھر آخر کرو گی کیا؟ یہ تو ممکن نہیں کہ بے کھائے گزر ہو۔ ایک ہی وقت میں، دیکھو، تمہارا کیا حال ہو گیا ہے۔ اب رات کو خالی پیٹ نیند بھی نہیں آئے گی۔




نعیمہ: میں تو جانے کو تیار بیٹھی ہوں۔ تم نہ آ جاتیں تو اب تک کبھی کی چلی بھی گئی ہوتی۔




صالحہ: کہاں، سسرال؟




نعیمہ: اگر میں سسرال جاؤں تو گڑھے سے نکلوں اور کنوئیں میں گروں۔




صالحہ: پھر کہاں؟




نعیمہ: جہاں سینگ سمائیں۔




صالحہ: باؤلی ہوئی ہو۔ کیسی باتیں کرتی ہو۔ اگر خالو جان یہ بات سن پائیں، نہیں معلوم کیا آفت برپا کریں اور گھر سے باہر قدم نکالنا تو بڑی بات ہے۔




نعیمہ: تم کیا سمجھیں؟ میں اس ہمسائی کے یہاں جانے کو کہہ رہی ہوں۔ کیا یوں ہر روز میں ہمسائی کے گھر نہیں جاتی ہوں؟




صالحہ: وہ جانا اور ہے اور گھر سے لڑ کر بے حکم پاؤں باہر نکالنا دوسری بات ہے۔ خبردار، ایسا بھول کر بھی منہ سے مت نکالنا، نہیں معلوم کیا سے کیا ہو جائے گا اور خود ہمسائی، جن کے برتے پر بھولی ہو، تم کو اپنے دروازے کے اندر قدم تو رکھنے دینے ہی کی نہیں، چاہو جا دیکھو اور فرض کیا کہ تم یہاں سے نکلنے پائیں اور ہمسائی کی بھی ایسی ہی شامت آئی اور انہوں نے تم کو گھر میں آنے دیا تو ان کو خود دو دو وقت کھانا میسر نہیں آتا، تم کو کہاں سے کھلائیں گی؟




نعیمہ: نوج میں ان کے یہاں کیوں کھانے لگی۔ کیا میرے پاس زیور نہیں؟ ابھی تو پٹاری میں کچھ نہ کچھ تو نقد چالیس پچاس روپے پڑے ہوں گے۔




صالحہ: گڑ کھاؤ گلگلوں سے پرہیز۔ جن کا کھانا انہیں کا بنوایا زیور، انہیں کے دیے ہوئے روپے۔ آن تو جب جانیں کہ ان کی چیز بھی صرف نہ کرو اور ہمسائی، اول تو میں حیران ہوں، تم کو بٹھائیں تو کہاں بٹھائیں۔ کلھیا جتنا گھر، اس میں بھی ایک آپ، ایک میاں، تین بیٹے، بہوئیں، ان کے بچے، دو بیٹیاں مہمان آئی ہوئی ہیں وہ ان کے گھر میں تل رکھنے کی جگہ تو ہے ہی نہیں۔ بے چاری آپ تو ڈیوڑھی میں چار پائی بچھا کر سوتی ہیں، تم کو رات کے وقت کہاں لٹاتیں اور کہاں سلاتیں؟ اور تم کو غیر مردوں میں جاتے ہوئے شرم نہ آتی؟ اور پھر ہمسائی تم کو پناہ دیتیں بھی تو خالہ جان ہی کا پاس کر کے۔ غرض قربان جاؤں تمہاری عقل کے، تدبیر بھی سوچی تو اوندھی، علاج بھی تجویز کیا تو الٹا۔ اس سے بہتر تھا کہ تم سسرال چلی جاتیں۔




نعیمہ: نہ سسرال جاؤں، نہ یہاں کھاؤں۔










صالحہ: تم کو اختیار ہے، جو چاہو سو کرو۔ لیکن کیا لڑائی تمہارے کھانے پر ہوئی ہے؟




نعیمہ: کھانے پرتو لڑائی نہیں ہوئی لیکن میں ان کے گھر پر یوں نہ پڑی ہوتی تو مجال تھی کہ کوئی مجھ کو ہاتھ لگا لیتا۔




صالحہ: کرتیں کیا؟




نعیمہ: برابر سے میں بھی مارتی۔




صالحہ: برا مت ماننا، یہی نیت ہے تو تم گھر میں بس چکیں۔ ماں کا یہ وقر، یہ ادب! مجھ کو تو اگر میری اماں جان بے خطا، بے قصور، جوتیوں پر جوتیاں بھی مار لیں تو انشاء اللہ آنکھ بھی ان کے سامنے نہ کروں اور دنیا جہاں کی بیٹیوں کا یہی قاعدہ، یہی دستور ہے۔ تم ان کی بیٹی، وہ تمہاری ماں، کسی کو تمہارے معاملے میں کیا دخل۔ مگر آپا جان، دین تو گیا ہی گزرا ہوا، یہ لچھن دنیا میں بھی خوش اور آباد رہنے کے نہیں اور خدا تم کو اتنی سمجھ دے کہ تم انہیں با توں کو اپنی خانہ ویرانی کا سبب سمجھو۔ مجھ کو حیرت ہے کہ کیوں کر یہ بات تمہارے دل نے تسلیم کی کہ خالہ جان کو تمہارا رہنا ناگوار ہے اور انہوں نے اس وجہ سے تمہارے ساتھ سختی کی کہ وہ تم کو اپنے پاس نہیں دیکھ سکتیں۔ بھلا دنیا میں کوئی ماں بھی اس طرح کی ہو گی؟ تمہاری خانہ ویرانی کا رنج تم سے زیادہ ان کو ہے۔ ذرا اس کا مذکور آ جاتا ہے تو ان کے آنسو نکل پڑتے ہیں اور حاضر غائب دعا کیا کرتی ہیں کہ الٰہی میری نعیمہ کو اس کے گھر آباد کر۔ بھلا تم ہی انصاف کرو کہ سوائے اس بات کے، تم نے ان کی کسی بات سے بھی ان کا رخ بدلا ہوا پایا۔ کھانے میں ان کو یہ اہتمام رہتا ہے کہ پہلے تم اور پیچھے وہ اور میں نے ہفتوں رہ کر دیکھا ہے، خالو جان اور بڑے بھائی تک کو سادی چپاتیاں ملتی ہیں اور تمہارے دو پراٹھے انہوں نے ناغہ نہیں ہونے دیے۔ چار پیسے روز کا سودا جو تمہارا سدا کا معمول ہے، تمہی بتاؤ، کبھی نہیں بھی دیا؟ ایک دن حمیدہ نے ضد کی تھی اور کہا تھا کہ میں بھی چار پیسے لوں گی، تو جھڑک دیا کہ ہاں اب تو بڑی بہن کی برابری کرے گی۔ آٹھویں دن کی مہندی، مہینے کے مہینے کی چوڑیاں، تم ہی بولو، یہ دستور کبھی قضا ہوا ہے؟ کپڑے لوگ ایسے جہیز میں بھی نہیں دیتے جو وہ تم کو گھر میں پہناتی ہیں۔ بھلا بے گوٹے کا دوپٹہ بے پیمک کا پائجامہ، کبھی تم کو پہننا یاد ہے؟ تیل، عطر، پھول، مہندی، سرمہ، مسی، لاکھا، مجشن اور ابٹنا، یہی عور توں کی ضرورت کی چیزیں ہیں۔ سچ کہنا، تم کو کبھی ان میں سے کسی چیز کے مانگنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ خدمت کی لونڈی جدا، لڑ کے کی کھلائی الگ۔ بلکہ سچ پوچھو تو کنوار پنے سے کہیں زیادہ قدر ہوتی ہے۔ خالہ جان ایک دن تمہارے دوپٹے میں بیٹھی توئی ٹانک رہی تھیں۔ خالو جان کی قبا میں ٹانکنے تھے۔ کچہری جانے کو دیر ہوتی تھی۔ اس پر خالو جان نے کہا بھی کہ لڑکی کا دوپٹہ رہنے دو پھر ہو رہے گا، پہلے میری قبا میں بند ٹانک دو۔




خالہ جان: واہ لڑکی سر کھولے بیٹھی ہے، تم کو ایسی جلدی کیا ہے۔ ابھی تو دھوپ بھی چبوترے سے نہیں اتری۔




خالو جان: کیا سادہ دوپٹہ اوڑھنا منع ہے؟




خالہ جان: وہ بے چاری کیا کچھ کہتی ہے۔




خالو جان:تو تم اپنی طرف سے خیر خواہی کے اہتمام میں لگی رہتی ہو۔




خالہ جان: میں ہوں کس قابل، مگر خیر جو کچھ ہو سکتا ہے کئے جاتی ہوں۔ مجھ کو ہر وقت اس بات کا خیال لگا رہتا ہے کہ اس کا دل ہے غمزدہ، ایسا نہ ہو کہ کسی چیز کو اس کی طبیعت چاہے اور یہ لحاظ کے مارے منہ سے نہ کہہ سکے اور ارمان جی کا جی ہی میں رہ جائے۔




اگر خالہ جان کو تمہارے ساتھ عداوت ہوتی تو خود کھانا کھا لیتیں۔ دشمن کا یہی کام ہے کہ فاقے میں ساتھ دے اور شریک مصیبت ہو؟ وہ حمیدہ، جس کو تم کہتی ہو کہ پاؤں تو مار مار کر پرزے اڑاؤں، آج دن بھر اس کو تمہارے واسطے روتے گزرا۔ یہ عمر اور اتنا صبر کہ صبح سے اب تک دانہ اس کے منہ میں نہیں گیا۔ نگوڑی ایسی بے سدھ پڑی ہے کہ گویا جان نہیں۔ ان لوگوں کا وہ حال اور تمہاری یہ کیفیت۔ ایک ذرا سی بات میں تمہارا دل اس قدر بھر گیا کہ ساری نیکی برباد، کل سلوک اکارت، تمام احسان غارت۔ پھر بھلا تم سے کوئی کیا توقع رکھے اور کس امید پر تم سے ملے؟




نعیمہ: بھائی یہ بات تو تمہاری واجبی ہے کہ ہمیشہ سے اماں جان مجھ کو بہت چاہتی ہیں لیکن خدا جانے کہ ان کو کیا ہو گیا تھا کہ بے تحاشہ مار بیٹھیں۔




صالحہ: اچھا پھر یوں ہی سمجھو کہ آدمی ہی تو ہیں، انہی سے زیادتی ہو گئی سہی۔ لیکن کیا انصاف ہے کہ اس ایک زیادتی کی وجہ سے ان کی عمر بھر کی مہربانی اور شفقت اور عنایت اور رعایت اور دل سوزی اور ہمدردی اور خیر خواہی اور پرورش اور نفع رسانی، ایک دم سے سب پر پانی پھیر دیا جائے۔




نعیمہ: مجھ کو رہ رہ کر ان کا تھپڑ کم بخت یاد آتا ہے۔




صالحہ: اس واسطے کہ تم نے ان کے حقوق بھلا رکھے ہیں۔




نعیمہ: کیا اماں جان نے تم سے کہا ہے کہ سمجھا بجھا کر نعیمہ کو خطا معاف کرانے کے لئے بلوا لاؤ۔




صالحہ: ہرگز نہیں۔ ان کو تمہاری خطا معاف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ نقصان تمہارا ہے یا ان کا؟ اور شاید ان کے دل میں یہ بات آئی بھی ہو تو تمہارے مزاج کو دیکھ کر بھلا ان کو یہ توقع ہو سکتی ہے کہ تم خطا کا اقرار اور معافی کی درخواست کرو گی؟




نعیمہ: بھلا اور جو میں گئی اور اماں جان منہ سے نہ بولیں تو مجھ کو اور شرمندگی ہو گی۔




صالحہ: ممکن ہے نہ بولیں، کیوں کہ تمہاری خطا معمولی طور کی خطا نہیں ہے۔ مگر پھر وہ ماں ہیں اور ماں بھی کیسی، بچوں پر اور خصوصاً تم پر دل سے فدا، جان سے قربان۔ شاید تم کو کوٹھری سے نکلتا ہوا دیکھ، عجب نہیں کہ دوڑ کر خود لپٹ جائیں اور تم کو منہ سے کہنے کی نوبت بھی نہ آئے۔




نعیمہ: جی تو چاہتا ہے کہ جاؤں چلی بھی جاؤں مگر شرم آتی ہے۔ بھلا کل پر رکھتیں تو کیسا؟




صالحہ: تم کو خدا کا ترس نہیں آتا کہ سارا گھر فاقے سے ہے۔ رات بھر میں تمہارا اور ان سب کا کیا حال ہو گا۔




نعیمہ: بھائی ہاتھ جوڑنے کو تو رہنے دو، کھانا اپنے نام سے منگوا بھیجو۔




صالحہ: اجی مجھ سے کہو تو میں کھانے کو بھی رہنے دوں۔ بھوکی مرو گی تم یا تمہاری ماں بہنیں۔ مگر بے صفائی کھانے کا لطف نہیں۔ ادھر تم افسردہ، ادھر وہ آر زدہ، کھانا کیا خاک کھایا جائے گا۔ بس اتنی دیر کی بات ہے کہ تم کوٹھری کے باہر تک چلو۔




نعیمہ: بھائی بس، زیادہ ہم کو دق نہ کرو۔ کھانا منگواؤ، میں کھا لوں گی۔




صالحہ: ہو تم اپنی ضد کی۔ کھانا کھاؤ گی تو کس پر احسان کرو گی۔ کوٹھری کے باہر تک چلو تو البتہ میں جانوں کہ تم کو میری خاطر عزیز تھی۔




نعیمہ: چلو بس، مجھ کو بچوں کی طرح مت پھسلاؤ۔ یہ بھی تمہاری خاطر ہے کہ میں منجھلا بھائی: گئی۔ ورنہ نعیمہ بندی، ادھر کی دنیا ادھر ہو جاتی، ایک کی تو سنتی ہی نہیں۔




صالحہ: خاک من گئیں، پتھر من گئیں۔ میں اس کو مننا نہیں سمجھتی۔ کیا کروں، رات زیادہ گزر گئی اور لوگ بھوک سے بدحواس ہیں ورنہ تم کو یہ دعوٰی ہے کہ میں کسی کی نہیں سنتی اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ بات واجبی ہو تو کیا معنی کہ سننے والا اس کو تسلیم نہ کرے اور دیکھو، میری اس وقت کی بات یاد رکھنا کہ تم کو خالہ جان کے آگے ہاتھ جوڑنے پڑیں گے۔




نعیمہ: خیر جب پڑیں گے تب جوڑ بھی لیں گے۔




اس کے بعد صالحہ کوٹھری سے نکل کر دوسرے قطعے میں خالہ کے پاس گئی۔ بہت سے لوگ سو گئے تھے، کچھ اونگھ رہے تھے۔ فہمیدہ اکیلی بیٹھی ہوئی دل ہی دل میں نہیں معلوم کیا کیا باتیں کر رہی تھی کہ صالحہ جاتے کے ساتھ ہی بولی: "خالہ جان، مبارک۔ میرا اور آپا جان کا کھانا دیجئے۔




فہمیدہ سنتے کے ساتھ ہی چونک سی پڑی اور کہنے لگی سچ کہو!




بھانجی: آپ خود ان کو کھاتے ہوئے دیکھ لیں تب تو سہی۔




خالہ: بھائی، تم نے تو کمال ہی کیا۔ کیوں کر منایا، کس طرح سمجھایا؟ مجھ کو تو امید نہ تھی کہ وہ کسی ڈھب سے سیدھی ہو گی۔ اس کا غصہ ہے، خدا کی پناہ، جیسے کسی کو جن چڑھتا ہے۔ نہیں معلوم تم نے کیا سحر کیا کہا ایسے بھوت کو اتارا۔ ہم سب لوگ تو دن بھر ہلاک ہوئے، کوئی حکمت نہ چلی، کوئی تدبیر پیش رفت نہ ہوئی۔










صالحہ: میں تو ان کو یہاں آپ کے پاس لاتی اور آپ کے پاؤں پر ان کا سر دیکھ لیتی، لیکن کیا کروں رات زیادہ گئی اور لوگ بھوک سے بے تاب ہیں۔ خیر انشاء اللہ بشرط خیریت پھر دیکھا جائے گا۔ لایئے کھانا نکالیے اور جاؤں حمیدہ کو بھی جگاؤں، ہشیار کروں، کہ اس کا تو اور بھی برا حال ہو گا۔




خالہ نے کھانا نکالا اور صالحہ نے جا حمیدہ کو جگایا۔ حمیدہ سوتی کیا تھی، ضعف اور نا توانی کی غفلت میں پڑی ہاتھ پاؤں توڑ رہی تھی۔ صالحہ کی آواز سنتے ہی آنکھو کھولنے سے پہلے کھڑی ہو گئی اور بڑی بہن کو سلام کیا۔ صالحہ نے پیار سے گلے لگا کر گودی میں لیا اور کہا: "حمیدہ، اس قدر سویرے تم ہو رہا کرتی ہو؟"




حمیدہ: اماں جان سے پوچھ لیتی ہوں اور جب وہ کہہ دیتی ہیں کہ ہاں وقت آ گیا تو نماز عشاء پڑھ کر سو رہتی ہوں۔




صالحہ: تم نے کچھ کھانے کو بھی کھایا؟




حمیدہ شرمندہ ہو کر چپ ہو رہی۔




صالحہ: بھوک لگی ہے؟




حمیدہ نے اس کا بھی کچھ جواب نہ دیا۔




صالحہ: چلو ہم تم کھانا کھائیں۔




حمیدہ: ہماری اماں جان نے کھانا کھایا؟




صالحہ: اماں جان بھی تمہارے ساتھ کھائیں گی۔




حمیدہ: اور ہماری آپا جان؟




صالحہ: تم کو دنیا جہان سے کیا مطلب۔ جس کو بھوک لگی ہو گی آپ کھائے گا۔




حمیدہ: ہے ہے، آپا جان نہ کھائیں اور میں کھا لوں؟ اچھی! خدا کے لئے تم کسی طرح آپا جان کو سمجھاؤ۔ آج انہوں نے دن بھر کچھ نہیں کھایا۔ ننھا دودھ کے لئے پھڑک پھڑک کر آخر سو گیا۔ یہ کہہ کر حمیدہ رونے لگی تو صالحہ نے اس کو تشفی کی کہ حمیدہ روؤ مت، آپا بھی کھائیں گی۔




غرض کوئی ڈیڑھ پہر رات گئے سب نے کھایا کھایا، صالحہ اور نعیمہ نے ایک ساتھ کوٹھری میں اور باقی سب لوگوں نے اپنے اپنے دستور کے مطابق۔ کھانا کھانے کے بعد سو سلا رہے۔ مگر صالحہ اور نعیمہ میں کچھ گفتگو کھانے کے بعد بھی ہوئی۔ خود ہی نعیمہ بولی: کیوں صاحب، اب تو آپ خوش ہوئیں۔ جو کچھ تم نے کہا، میں نے کیا۔




صالحہ: خوش تو میں تب ہوتی کہ جب صفائی ہو گئی ہوتی۔




نعیمہ: اچھی، اب بھی صفائی میں کچھ باقی رہ گیا۔ رفتہ رفتہ دس پانچ دن میں بول چال بھی ہونے لگے گی۔




صالحہ: دس پانچ دن؟




نعیمہ: اور کیا کل؟




صالحہ: ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہ تم نے خود کہا تھا کہ کل پر رکھو۔




نعیمہ: میں نے تو یہ نہیں کہا تھا کہ کل بولنے بھی لگوں گی۔




صالحہ: تو خاک بھی صفائی نہیں ہوئی۔




نعیمہ: کھانا میں نے کھایا، اماں جان نے کھایا، حمیدہ نے کھایا۔ ننھا دیکھو دودھ پی رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر صفائی کیا ہو گی؟




صالحہ: خیر، میری زبردستی سے تم سب نے ایک دو دو نوالے کھا لیے۔ میں اس کو کھانا نہیں سمجھتی۔ دودھ پلانے والی عورت، بھلا کچھ نہ کھائے تب بھی چار چپاتیاں تو کھائے۔ تم نے پاؤ ٹکڑا بھی نہیں کھایا، چاولوں کو ہاتھ نہ لگایا۔ تمہارے سبب میں بھی بھوکی اٹھ کھڑی ہوئی۔ سمجھتی تھی کہ خیر صبح کو اس کی کسر نکل جائے گی، سو تم نے ابھی سے امید توڑ دی۔










نعیمہ: سچ تو یہ ہے کہ اب گھر میں مجھ کو اپنا گزارا ہوتا ہوا معلوم نہیں ہوتا اور اب میرا جی لگنا بھی مشکل ہے۔




صالحہ: کیوں؟




نعیمہ: میں نے تم سے کہا نہیں کہ یہاں تو ایک مہینے پہلے سے ابا کا مزاج، اماں کے تیور، گھر کا رنگ ڈھنگ، سب کچھ بدلا ہوا ہے۔ گو مجھ سے ابھی تک نماز روزے کا تذکرہ نہیں کیا لیکن ب کرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ جب بڑے بھائی تک نوبت پہنچ گئی تو بھلا میں بے چاری کس گنتی میں ہوں۔ وہ، اللہ رکھے، اول تو مرد، دوسرے سب میں بڑے، تیسرے خدا کے فضل سے چنداں ان کے محتاج و دست نگر نہیں۔ آج الگ ہو جائیں تو ان کی پلاؤ کی رکابی کہیں نہیں گئی۔ جس رجواڑے میں جا کھڑے ہوں گے، اپنی شاعری کے ہنر سے مصاحب یا ناظم یا چکلہ دار ہو جائیں گے۔ میں بدنصیب ایک تو پردے میں بیٹھنے والی، دوسرے ایسا کوئی ہنر نہیں آتا کہ چار پیسے کا سہارا ہو۔ اس روز بد کی بدولت گھر بیٹھے بادشاہت کر رہی ہیں۔ مجھ کو کہیں اپنا ٹھکانا نظر نہیں آتا۔ ماں باپ کے گھر ایسی پڑی ہوں جیسے گلی میں کتا۔ خدا واسطے کو کسی نے ٹکڑا ڈال دیا تو کھا لیا ورنہ میرا کیا زور اور کون دعویٰ۔ ابا جان تو پہلے ہی سے کچھ واسطہ و سروکار نہیں رکھتے۔ لڑکیوں سے بولنے اور بات کرنے کی ان کی عادت نہیں۔ اماں جان ایک سہارا تھا، سو انہوں نے ایسی دست درازی شروع کی کہ اب تو خدا ہی ان کے ہاتھ کو رو کے تو ر کے گا، ورنہ چھوٹا تو ہے ہی۔




صالحہ: آپا تم اس قدر بے دل کیوں ہوتی ہو۔ کیا نماز روزہ کچھ ایسا بڑا مشکل کام ہے کہ اس کی وجہ سے یہ تمام دقتیں تم کو پیش آتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں؟




نعیمہ: بوا، میں تو ہنسی دل لگی کی آدمی ہوں، بھلا مجھ سے یہ اونگھتی، اداس زندگی کا ہے کو نبھے گی۔ لڑائی تو خیر آج ہوئی ہے، میرا تو کئی دن سے جی گھبرا رہا تھا۔




صالحہ: پھر آخر تم نے تدبیر کیا سوچی ہے؟




نعیمہ: ایک بات میری سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ تمہارے یہاں چلی جاؤں۔




صالحہ یہ سن کر چپکی ہوئی اور دیر تک چپ رہی، تو نعیمہ بولی: "تم سن کر ایسا دم بخود ہوئیں کہ گویا میں سچ مچ تمہارے گھر جا رہی ہوں۔ ڈرو مت۔ میں نے تو تمہاری محبت آزمانے کے لئے ایک بات کہی، ورنہ میں کہیں آؤں نہ جاؤں۔ یہ تو کیا اس سے بھی زیادہ مصیبت ہو تو میں دوسروں کا احسان نہ اٹھاؤں۔




صالحہ: یہ تو تم نے کوئی نرالی ادا سیکھی ہے : چھیڑ چھاڑ کر لڑنا۔ گھر جیسے میرا، ویسے تمہارا۔ جن کا گھر ہے میں ان کی بیٹی اور تم بیٹیوں سے بڑھ کر۔ جاؤ گی تو اپنی خالہ کے گھر جاؤ گی اور احسان اٹھاؤ گی تو اپنی خالہ کا اٹھاؤ گی۔ میں تم کو لے جانے والی کون اور منع کرنے والی کون؟




نعیمہ: اچھا تو میں پوچھتی ہوں، اگر میں چلی جاؤں تو خالہ جان کیا کہیں گی؟




صالحہ: جو میں کہتی ہوں، جو تمہاری اماں کہتی ہیں، وہی تمہاری خالہ جان کہیں گی، وہی ہر شخص کہے گا جو سنے گا۔ کیا خالہ جان دنیا جہان سے باہر یا انوکھی ہیں؟




نعیمہ: اجی گھر سے تو نہ نکال دیں گی؟




صالحہ: یہاں تم کو گھر سے کوئی نکال رہا ہے۔ جو وہاں سے خدا نہ خواستہ نکال دے گا۔ آپا، نہیں معلوم تم اب کیسی باتیں کرنے لگی ہو۔ ایک اماں سے کیا لڑیں، سارے کنبے کو دشمن ٹھہرا لیا۔




نعیمہ: لیکن خالہ جان بے چاری غریب آدمی ہیں، کہاں سے میرا خرچ اٹھائیں گی؟




صالحہ: اب ایسی بھی گئی گزری ہوئی نہیں ہیں کہ مہینے بیس دن تم کو نہیں رکھ سکتیں۔




نعیمہ: مہینہ بیس دن کیسا، میں تو ساری عمر کے لئے جاتی ہوں۔




صالحہ: خدا نہ کرے کہ ساری عمر خالہ کے یہاں پڑی رہو۔ اللہ تم کو اپنے گھر آباد کرے اور تمہاری ماں کا کلیجہ تم سے ٹھنڈا ہو۔




نعیمہ: میں بھی یہی سوچ کر جاتی ہوں کہ چند روز وہاں رہوں گی تو اماں جان کو بھی لڑائی جھگڑے کی باتیں بھول بسر جائیں گی۔ پھر بلوا بھیجیں گی تو چلی آؤں گی۔




صالحہ: میرے نزدیک بھی جانے میں کوئی قباحت کی بات نہیں مگر اپنی اماں جان سے اجازت لے لو۔




نعیمہ: کیوں کر پوچھوں؟




صالحہ: یہ بھی کوئی بڑا کام ہے۔ ابھی ان کے پاس چلی جاؤ اور جا کر کہو کہ میں خالہ جان کے یہاں جاتی ہوں۔ وہ کہہ دیں گی "اچھا"۔




نعیمہ: سچ کہنا، کہیں چلی نہ جاؤں۔ اتنا کام تم نہیں کر دیتیں؟




صالحہ: نعیمہ: نہیں، میں نہیں کرتی۔




نعیمہ: ہماری بہن نہیں؟




صالحہ: نہیں، میں بہن نہیں بنتی۔ بیوی صاحب کو اتنا سمجھایا، خاک بھی اثر نہ ہوا۔




نعیمہ: نوج کوئی ایسا بھی بے مروت ہو۔




صالحہ: تم سے بھی بڑھ کر۔




نعیمہ: میری اچھی بہن!




صالحہ: خیر میں پوچھ دوں گی۔ لیکن کیا تم خالہ جان سے رخصت ہو کر نہ چلو گی اور چلتے وقت ان سے نہ ملو گی؟




صالحہ: اس وقت جیسی ہو گی، دیکھی جائے گی۔




صالحہ: سنو بوا، اگر تمہارے دل میں دغا ہو تو پہلے سے کہہ دو۔ ایسا نہ ہو، میں پوچھنے جاؤں اور تم بے ملے چل دو تو ناحق مجھ کو شرمندگی ہو۔




نعیمہ: نہیں، میں نے تمہارے چھیڑنے کو کہا تھا۔ بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ چلتے وقت میں اماں جان سے نہ ملوں۔ تو جاؤ پوچھ آؤ۔




صالحہ: میں وقت رات زیادہ ہو گئی ہے۔ آخر صبح کی نماز خالہ جان کے ساتھ پڑھوں گی، اسی وقت پوچھ دوں گی۔










نعیمہ: اچھا پھر تو ڈولیوں کو تو اڈے پر اسی وقت کہلوا بھیجو ورنہ شاید وقت پر نہ ملیں۔




صالحہ: نہ ملیں گی تو ہمارے محلے سے آ جائیں گی۔




نعیمہ: اس میں دیر ہو گی۔




صالحہ: کیا شادی میں جا رہے ہیں کہ دیر ہو گی تو دلہن رخصت ہو جائے گی؟




نعیمہ: نہیں، چلنا ہے تو اس منہ اندھیرے میں چل دیں۔ ننھا ڈولی میں ڈرتا ہے۔




صالحہ: خیر اسی وقت کہلا دیا جائے گا۔




اس کے بعد نعیمہ اور صالحہ دونوں سو رہیں۔ ابھی تارے چھٹ کے ہوئے تھے کہ صالحہ اپنے معمول پر نماز صبح کے وقت اٹھی اور نعیمہ اس وقت غفلت کی نیند میں پڑی سو رہی تھی۔ نماز سے فارغ ہو کر صالحہ خالہ کے پاس جا کر کھڑی ہوئی اور کہا: "بس خالہ جان، اب جاؤں گی۔ "




خالہ: ایں ! ایسی جلدی؟




تم آگ لینے آئی تھیں




کیا آئیں کیا چلیں










صالحہ: دس پندرہ دن بعد پھر آ جاؤں گی۔




خالہ: ذرا نعیمہ کے مزاج کو ٹھکانے لگنے دیا ہوتا۔




صالحہ: وہ بھی تو میرے ساتھ جانے کو کہتی ہیں۔




خالہ: سچ کہو۔




صالحہ: مجھ سے کہہ بھی دیا کہ تم پوچھ لو۔




خالہ: اس کی مرضی ہے یا تم نے صلاح دی ہے؟




صالحہ: خود انہی کی مرضی ہے۔




خالہ: بھلا کچھ یہ بھی کہتی تھیں، کتنے دن کے واسطے؟




صالحہ: دنوں کی تعین تو مجھ سے بیان نہیں کی۔




خالہ: خیر اس نے دنوں کی تعین نہیں کی تو میں تم سے کہے دیتی ہوں کہ آٹھ دن سے زیادہ مت رکھنا۔ ہماری بہن بے چاری غریب آدمی ہیں، ان کو تکلیف ہو گی۔




صالحہ: اب تو جب تک ان کا جی چاہے۔




خالہ: تم لئے تو جاتی ہو مگر اتنا تو کرنا کہ اس کو بھی نیک ہدایت دینا۔




صالحہ: جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا سمجھاؤں گی اور ان کو مولویوں کے وعظ سنواؤں گی۔ خدا کی ذات سے امید تو ہے کہ ضرور اثر ہو گا۔




اس کے بعد صالحہ نے گھر کے نو کر سے پوچھا کہ ڈولیوں کے واسطے رات کو جو کہلا بھیجا تھا، آئیں یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ ڈولیاں توپ سے پہلی کی دروازے پر لگی ہوئی ہیں۔ تب صالحہ کوٹھری کی طرف چلی، اس غرض سے کہ نعیمہ کو جگائے اور اجازت کی خوش خبری سنائے۔ دیکھا تو نعیمہ پلنگ پر نہیں۔ سمجھی کہ دوسرے قطعے میں بچے کو ہاتھ منہ دھلاتی ہوں گی۔ مگر وہاں بھی نعیمہ کو نہ پایا۔ معلوم ہوا کہ جب صالحہ خالہ کے ساتھ باتیں کر رہی تھی، نعیمہ چپ کے سے اٹھ بچے کو لے کر کھڑکی کی راہ ہو کر ڈیوڑھی میں جا سوار ہو، بے رخصت چل دیں۔ اب یہ کیا موقع تھا کہ ڈولی واپس منگوائی جائے۔ نا چار صالحہ اکیلی، خالہ کو سلام کرنے گئی تو خالہ نے کہا: "اے لڑکی، ایسی کیا بھاگڑ مچی ہے۔ نعیمہ کو اٹھنے دو، ناشتہ کھا پی لو، تب جانا۔ "




صالحہ: آپا تو گئیں بھی۔




خالہ: یہ کب؟




صالحہ: جس وقت میں نماز کے بعد آپ سے باتیں کر رہی تھی، اس وقت وہ سوار ہو گئیں۔




خالہ: کیسی چپ کے سے نکل گئی کہ میں نے اسے جاتے کو بھی نہ دیکھا۔




صالحہ: کھڑکی کی راہ سے گئیں۔




خالہ: تبھی۔ مگر صالحہ تم نے دیکھا اس کا غصہ! کتنا تم نے اس کے ساتھ سر مارا۔ میں باہر کھڑی ہوئی تمہاری ساری باتیں سنتی تھی۔ لیکن اس کا یہ اثر ہوا کہ بے ملے چل دیں۔ بھلا کہیں ایسا بھی غضب ہوا ہے کہ بیٹی ماں کے گھر سے یوں چلی جائے۔ اگر میں اس کی با توں پر جاؤں تو جیتے جی صورت نہ دیکھوں۔ لیکن کیا کروں، یہ دل کم بخت مانتا نہیں۔ اس مزاج کی بدولت ان حالوں کو تو یہ پہنچ گئی مگر ذرا اس کو خیال نہیں، مطلق اس کو پروا نہیں۔ دیکھیے کیا اس کی تقدیر میں لکھا ہے، کیا اس کو نصیب میں بدا ہے۔ اس کے غم نے تو مجھ کو کھا لیا اور میں اس کے سوچ میں تمام ہو گئی۔




صالحہ: آپ رنج نہ کیجئے اور دل کو سنبھالئے۔ اب آپ نے ان با توں کا خیال کیا ہے تو انشاء اللہ رفتہ رفتہ سب درست ہو جائیں گے۔ یہی ہے کہ کوئی دیر کوئی سویر۔










اب ہم نعیمہ کو اسی جگہ چھوڑتے ہیں۔ جو اس کو پیش آیا اور جیسا اس کا انجام ہوا، پھر بیان کریں گے۔

فصل نہم



















کلیم باپ سے نا خوش ہو کر گھر سے نکل گیا۔ نصوح نے کلیم کا تکلف خانہ اور بیہودہ کتاب خانہ جلا دیا۔







نعیمہ تو صبح ہوتے گئی مگر کلیم رات ہی کو گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ جب صالحہ ڈولی سے اتری، لوگ تو اس سے ملنے ملانے میں مصروف ہوئے، کلیم، آنکھ بچی تو دروازہ کھول باہر۔ اتنا بھی تو نہ کیا کہ رات کا وقت ہے، لاؤ کسی سے دروازے کے واسطے کہتا جاؤں۔ جب نعیمہ کو کھانا جا لیا، سب گھر والے کھا پی کے فارغ ہو گئے اور فہمیدہ سونے کے ارادے سے مکان میں آئی، تو دیکھا کہ باہر کا دروازہ چوپٹ کھلا پڑا ہے۔ کلیم کو ادھر ادھر دیکھا، کہیں پتا نہیں۔ سمجھی کہ موقع پا کر چل دیا۔ لیکن اس وقت نہ تو کلیم اس ارادے سے گیا تھا کہ پھر نہ آئے، اور نہ فہمیدہ کو ایسا گمان ہوا۔ رات گئی تھی زیادہ، بات کا چرچا کرنا مناسب نہ جان کر سب لوگ سو سلا رہے۔ نصوح نماز صبح پڑھ کر مسجد سے واپس آ رہا تھا کہ اس کو گلی کی نکڑ پر نعیمہ کی اور ڈیوڑھی سے نکلتی ہوئی صالحہ کی ڈولی ملی۔ کلیم کی نا فرمانیوں پر غصہ تو اسے رات ہی بہتیرا کچھ آیا اور بار بار اس کے دل نے چاہا کہ اسی وقت ادھر یا ادھر جو کچھ ہو فیصلہ کر دے۔ لیکن چند در چند با توں کے لحاظ سے وہ زہر کا سا گھونٹ پی کر چپ ہو رہا اور مشکل سے اپنی طبیعت کو اس بات پر رضامند کیا کہ پیام زبانی کا اثر اور تحریری کا نتیجہ تو معلوم ہو، ایک مرتبہ رو در رو کہہ کر بھی دیکھ لو۔ اس پر بھی نہ سمجھے تو اپنا سر کھائے۔ اس ارادے سے وہ پہلے مردانے مکان میں آ کر ٹھہرا اور جب کلیم اس کو نظر نہ آیا، اس نے نو کروں سے پوچھا مگر کسی نے صاف جواب نہ دیا۔ تب وہ نو کروں پر خفا ہوا کہ تم لوگ کیسے نا لائق ہو کہ مجھ کو اس بدبخت کا ٹھیک پتا نہیں دیتے۔ تم اپنے پندار میں اس کے حق میں خیر خواہی کر رہے ہو، مگر میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمہاری راز داری نہ صرف اس کم نصیب کے حق میں زبوں ہے بلکہ تمہارے حق میں بھی اس کا نتیجہ اچھا نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس کی عادت اس قدر سویرے اٹھنے کی نہیں۔ ضرور ہے کہ تم نے اس کو جگا کر کہیں ٹال دیا ہے۔ میں نے تم کو اپنی آسائشوں کے لئے خاص خاص خدمتوں پر مامور کر رکھا ہے۔ اگر تمہاری وجہ سے میری انتظام خانہ داری میں خلل واقع ہو تو تم میرے نو کر نہیں ہو، بلکہ دشمن ہو، ملازم نہیں ہو بلکہ بد خواہ ہو۔ اگر میں اس نا شدنی کو فرزندی سے عاق کروں گا تو تم سب کو بھی اس کے ساتھ نو کری سے بر طرف۔




نصوح کا یہ کلام سن کر اعلیٰ ادنٰی سب نو کر تھرا اٹھے اور جو ان میں سب سے زیادہ سلیقہ مند تھا، دست بستہ ہو کر بولا کہ حضور کا عتاب غلاموں کے سر و چشم پر۔ مگر شب کو مکان پر زنانہ رہا اور خانہ زادوں کو اجازت ہوئی کہ اپنے اپنے گھر جا کر سوئیں۔ اس وقت صاحب زادے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ نمک خواروں نے صبح کو آ کر ان کا جمال نہیں دیکھا۔ جناب بیگم صاحب سے حضور اس کا حال دریافت فرمائیں۔ خانہ زادوں سے ایسی کور نمکی نہ ہو گی کہ حضور سے کوئی بات مخفی رکھیں۔




یہ سن کر نصوح اندر گیا اور حسب عادت سب لوگ سلام صبح کرنے کے واسطے جمع ہو گئے۔ فہمیدہ اس وقت تک تلاوت میں مصروف تھی۔ مگر تھوڑی دیر میں فارغ ہو گئی تو نصوح نے کہا: کیوں صاحب، بی صالحہ گئیں؟




فہمیدہ: کبھی کی گئیں۔ اب تک تو وہ گھر بھی پہنچ گئی ہوں گی۔




نصوح: اور دوسری ڈولی کس کی تھی؟




فہمیدہ: تمہاری بڑی صاحب زادی کی۔










نصوح: مان کر گئیں یا بگڑ کر۔




فہمیدہ: کچھ مان کر کچھ بگڑ کر۔




نصوح: یہ کیا؟




فہمیدہ: صالحہ نے، خدا اس کو جزائے خیر دے، بہت کچھ سمجھایا اور آدھی رات تک اپنا سر خالی کیا۔ بارے اس کے کہنے سے انہوں نے اپنا قہری روزہ تو افطار کیا، لڑ کے کو بھی دودھ پلایا، یہ تو ان کا مننا تھا۔ بگڑنا یہ کہ صبح کو بے ملے، بے رخصت ہوئے، ڈولی میں بیٹھ چل دیں۔ میں صالحہ سے باتیں کرتی رہی۔ میں نے اس کو جاتے کو بھی نہ دیکھا۔




نصوح: خیر، ان سے تو خدا نے سبک دوش کیا۔ اب صاحب زادے صاحب کی کہو، وہ کہاں ہیں؟




سب چھوٹے بڑوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے کہ ہم کو مطلق خبر نہیں۔




نصوح: کب سے غائب ہیں؟




فہمیدہ: مغرب کے بعد سے برابر میرے پاس بیٹھا تھا، میں اس کو سمجھاتی رہی۔ تمہارا خط آیا، اس کو پڑھا۔ اتنے میں صالحہ کی ڈولی آ پہنچی، میں اس سے باتیں کرنے لگی۔ پھر لوگوں کو کھانا دیا دلایا۔ اس میں کوئی پہر ڈیڑھ پہر رات چلی گئی۔ سونے کو جو گئی تو دیکھا کہ مکان خالی پڑا ہے۔




نصوح: الحمد للہ، خس کم جہاں پاک۔ لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ اس میں کس کی خطا ہے، میری یا اس کی؟




فہمیدہ: خطا صریح اسی کی ہے۔ میں خواہ مخواہ کو بھی تمہاری خطا بتا دوں۔ تم نے اس کو ایک دفعہ چھوڑ دو دفعہ بلایا، خط لکھا، بس حد ہو گئی۔ علیم نے بہتیرا سمجھایا، میں نے بھی کچھ کہا سنا۔ وہ اپنی شاعری کے آگے کس کی سنتا ہے؟ تم تک جانے ہی کی اس نے ہامی نہ بھری۔ میں نے کہا تھا کہ کھانے پینے سے فراغت پا کر پھر اس کے ساتھ سر ماروں گی۔ اسی غرض سے مردانے مکان میں پردہ کرایا، مگر وہ پہلے ہی نکل گیا۔ کوئی کیا کرے، اپنی اپنی قسمت، اپنی اپنی تقدیر۔




نصوح: جس طرح یہ نا لائق میرے ساتھ پیش آیا، نعیمہ نے تمہارے ساتھ اس کا دسواں حصہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بعد نصوح نے منجھلے بیٹے علیم سے کہا: "بھلا تم نے اس کے بچھونے یا کتابوں میں تو دیکھا ہوتا، شاید وہ کچھ لکھ کر رکھ گیا ہو۔ افسوس ہے کہ اس کے نفس سرکش نے اس کو مجھ تک نہ آنے دیا، ورنہ میں تو ہر طرح سے اس کے عذرات کو سننے اور اس کے وجوہات پر لحاظ کرنے اور معقولیت کے ساتھ اس کو سمجھانے کے لئے موجود تھا۔




علیم: یہ بات میرے ذہن میں نہیں گزری، مگر میں اب ان کی چیزوں میں دیکھے لیتا ہوں، اگرچہ مجھ کو اب بھی ایسی امید نہیں ہے کہ وہ کچھ لکھ کر گئے ہوں۔ کیوں کہ اگر لکھنا بھی منظور ہوتا تو وہ آپ کے خط کا جواب نہ ہی دیتے۔ دوسرے، ان کو اتنی فرصت کہاں ملی۔ کل شام کو اس بات کا چرچا شروع ہوا اور میں جانتا ہوں کہ صالحہ کے آتے ہی وہ تشریف لے گئے۔ اسی اثنا میں برابر میں ان کے پاس تھا اور میرے چلے جانے کے بعد اماں جان۔




نصوح: پھر بھی میں اس کو داخل اتمام حجت سمجھ کر چاہتا ہوں کہ احتیاطاً اس کی چیزوں میں دیکھ لیا جائے۔ چلو میں بھی تمہارا شریک رہوں گا۔




ہرچند علیم کو منظور نہ تھا کہ بھائی کی چیزوں پر باپ کی نظر پڑے مگر باپ کو منع بھی نہ کر سکتا تھا۔ آخر باہر مردانے میں آ کر نصوح نے نو کروں سے پوچھا کہ کلیم کا اسباب کس جگہ رہتا ہے؟




نو کر: حضور، صاحب زادے نے دو کمرے لے رکھے ہیں۔ اس دکھن والے کمرے کا نام انہوں نے (بچے ہی تو ہیں ) "عشرت منزل" رکھ چھوڑا ہے۔ جب ان کے ہمجولی آتے ہیں تو سب اسی کمرے میں بیٹھ کر کھیلا اور باتیں کیا کرتے ہیں۔ اتر والے کمرے کو "خلوت خانہ" فرمایا کرتے ہیں۔ اس میں ان کے پڑھنے لکھنے کی کتابیں وغیرہ ہیں۔




نصوح عشرت منزل اور خلوت خانہ کا نام سن کر چوکنا ہوا اور اس نے نو کروں سے کہا کہ اچھا پہلے اس عشرت منزل کو کھولو۔ چنانچہ جب عشرت منزل کو کھولا گیا تو ایک تکلف خانہ تھا۔ کمرے بیچ میں چوکیوں کا فرش، اس پر دری، اس پر سفید چاندنی اس خوش سلیقگی کے ساتھ تنی ہوئی کہ کہیں دھبے یا سلوٹ کا نام نہیں۔ صدر کی جانب گجرات کا نفیس قالین بچھا ہوا، گاؤ تکیہ لگا ہوا۔ سامنے اگال دان، لب قالین پیچوان۔ چوکیوں کے گردا گرد کرسیاں، تھیں تو لکڑی کی لیکن آئینے کی طرح صاف اور چمکتی ہوئی۔ چھت میں پٹا پٹی کی گوٹ کا پنکھا لٹکا ہوا، ہلانے کے واسطے نہیں، بلکہ دکھانے کے لئے۔ اس کے پہلوؤں میں جھاڑ۔ جھاڑوں کے بیچ بیچ میں رنگ بہ رنگ کی ہانڈیاں۔ چھت کیا تھی بلا مبالغہ آسمان کا نمونہ تھا جس میں پنکھا بجائے کہکشاں کے تھا، جھاڑ بہ منزلہ آفتاب اور ماہتاب اور ہانڈیاں ہو بہو جیسے ستارے۔ چھت کے مناسب حالت، دیواریں، تصویریں اور قطعات اور دیوار گیریوں سے آراستہ تھیں۔










نصوح اس ساز و سامان کو تھوڑی دیر ایک سکتے کے عالم میں کھڑا دیکھتا رہا۔ اس کے بعد ایک آہ کھینچ کر بولا کہ افسوس کتنی دولت خدا داد اس بیہودہ نمائش اور تکلف اور آرائش میں ضائع کی گئی ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ یہ روپیہ محتاجوں کی امداد اور غریبوں کی کار برآری میں صرف کیا جاتا۔




اس کے بعد اس کی نگاہ مقابل صدر جا پڑی۔ کیا دیکھتا ہے کہ آمنے سامنے دو میزیں لگی ہوئی ہیں۔ ایک پر گنجفہ، شطرنج، چوسر، تاش، کھیل کی چیزیں اور ارگن باجے رکھے تھے۔ دوسری پر گلدان اور عطردان وغیرہ کے علاوہ ایک نہایت عمدہ طلائی جلد کی موٹی سی کتاب۔ نصوح نے نہایت شوق سے اس کتاب کو کھولا تو وہ تصویروں کا البم تھا۔ مگر تصویریں کسی عالم، حافظ اور درویش خدا پرست کی نہیں، مکھوا پکھاوجی، تان سین خاں گویا، میر ناصر احمد بین و ناز، صمد خان پہلوان، کھلونا بھانڈ، حیدر علی قوال، نتھو ہیجڑا، قاری علی محمد پھکڑ، عدو جواری، اس قسم کے لوگوں کی۔۔۔ شیشہ آلات کی وجہ سے نصوح نے دیوار والی تصویروں کو بہ غور نہیں دیکھا تھا۔ اب البم کو دیکھ کر اسے خیال آیا۔ آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے تو وہ تصویریں اور بھی بے ہودہ تھیں۔ قطعے اور طغرے، اگرچہ ان کا سواد خط پاکیزہ تھا مگر مضمون و مطلب دین کے خلاف، مذہب کے برعکس۔ نصوح نے وہیں سے ایک میر فرش اٹھا کر ان سب کی خبر لینی شروع کی اور بات کی بات میں کل چیزوں کو توڑ پھوڑ برابر کیا اور جو کچھ بھی باقی رہا اس کو صحن میں رکھ کر آگ لگا دی اور نو کروں کو حکم دیا کہ اچھا اب خلوت خانہ کھولو۔




اس میں تکلف کے معمولی ساز و سامان کے علاوہ کتابوں کی الماری تھی۔ دیکھنے میں تو اتنی جلدیں کہ انسان ان کی فہرست لکھنی چاہے تو سارے دن میں بھی تمام نہ ہو لیکن کیا اردو کیا فارسی سب کی سب کچھ ایک ہی طرح کی تھیں : جھوٹے قصے، بے ہودہ باتیں، فحش مطلب، لچے مضمون، اخلاق سے بعید، حیا سے دور۔ نصوح ان کتابوں کی جلد کی عمدگی، خط کی پاکیزگی، کاغذ کی صفائی، عبارت کی خوبی، طرز ادا کی برجستگی پر نظر کرتا تھا تو کلیم کا کتاب خانہ اس کو ذخیرہ بے بہا معلوم ہوتا تھا۔ مگر معنی و مطلب کے اعتبار سے ہر ایک جلد سوختنی اور دریدنی تھی۔ اسی تردد میں اس کو دوپہر ہو گئی۔ کئی مرتبہ کھانے کے لئے گھر سے اس کو طلب ہوئی مگر اس کو فرصت نہ تھی۔ بار ہا کتابوں کو الٹ الٹ کر دیکھتا تھا اور رکھ رکھ دیتا تھا۔ آخر کار یہی رائے قرار پائی کہ ان کا جلا دینا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ بھری الماری کتابیں، لکڑی کنڈے کی طرح اوپر تلے رکھ کر آگ لگا دی۔




نصوح کا یہ برتاؤ دیکھ کر اندر سے باہر تک تہلکہ اور زلزلہ پڑ گیا۔ علیم دوڑا دوڑا جا، اپنا کلیات آتش اور دیوان شر ر اٹھا لایا اور باپ سے کہا کہ جناب میرے پاس بھی یہ دو کتابیں اسی طرح کی ہیں۔ نصوح نے ان کتابوں کو بھی دو چار نگہ سے کھول کر دیکھا اور کہا کہ واقع میں ان کے مضامین بھی جہاں تک میں دیکھتا ہوں برے اور بے ہودہ ہیں لیکن تمہارے نسبت سے مجھ کو خدا کے فضل سے اطمینان ہے۔ چاہو تو اپنی کتابوں کو رہنے دو۔ اگرچہ ان کا مطالعہ میرے نزدیک خالی از معصیت نہیں ہے۔




علیم: کتاب جب تک دیکھنے اور پڑھنے کے لائق نہیں تو اس کا رکھنا بے سود بلکہ خطرناک ہے۔ بہتر ہو گا کہ ان کو بھی جلا دیا جائے۔




نصوح: شاید تم میری خاطر کو کہہ رہے ہو اور تم کو پیچھے تاسف ہو۔




علیم: مجھ کو ہرگز تاسف نہ ہو گا بلکہ خوشی ہو گی۔ جلائی جائے وہ عمدہ نصیحت کی کتاب جو مجھ کو پادری صاحب نے دی تھی اور رہیں یہ خرافات! میں جانتا ہوں کہ بھائی جان کی کتابوں پر یہ اسی پادری والی کتاب کا وبال پڑا۔ ڈرنے کا مقام اور عبرت کی جگہ ہے۔




نصوح: لیکن کیا ضرور ہے کہ تمہاری کتابیں بھی اس وبال میں داخل ہوں؟




علیم: ان کے نام بھی جلنا جلنا پکارتے ہیں۔ ارشاد ہو تو جھونک دوں؟




نصوح: تمہاری یہی مرضی ہے تو بسم اللہ۔




علیم نے "آتش" کو دھکتی آگ اور "شر ر" کو جلتے انگاروں پر پھینک دیا۔ علیم کی دیکھا دیکھی میاں سلیم نے بھی "واسوخت امانت" لا باپ کے حوالے کی اور کہا کہ ایک دن کوئی کتاب فروش کتابیں بیچنے لایا تھا۔ بڑے بھائی صاحب نے فسانہ عجائب، قصہ گل بکاؤلی، آرائش محفل، مثنوی میر حسن، مضحکات نعمت خان عالی، منتخب غزلیات چرکیں، ہزلیات جعفر زٹلی، قصائد ہجویہ مرزا رفیع السودا، دیوان جان صاحب، بہار دانش باتصویر، اندر سبھا، دریائے لطافت میر انشاء اللہ خان، کلیات رند وغیرہ بہت سی کتابیں اس سے لی تھیں۔ میں بھی بیٹھا تھا۔ مجھ کو دیکھ کر بولے : "کیوں سلیم، تم بھی کوئی کتاب لو گے؟"




میں : جو آپ تجویز فرمائیں۔










بھائی جان: کون سی کتاب تم کو لے دوں؟ یہ کتابیں جو میں نے لی ہیں، اول تو میرے شوق کی ہیں، دوسرے تم کو ان کا مزہ نہیں ملے گا۔




کتاب والے نے ساری گٹھری سے یہ "واسوخت" اور دیوان نظیر اکبر آبادی، دو کتابیں انہوں نے میرے لئے نکالیں اور کہا کہ "واسوخت" تو خیر مگر یہ دیوان بڑی عمدہ کتاب ہے۔ میاں ہدہد کے اشعار آج تک کسی نے جمع نہیں کئے تھے، اس کے حاشیے پر وہ بھی ہیں۔




چوں کہ بھائی جان نے دیوان کی بہت تعریف کی تھی، میں نے اس کو نہایت شوق سے کھولا تو پہلے ہی چوہوں کا انبار نکلا۔ اس کے مضمون سے میری طبیعت کچھ ایسی کھٹی ہوئی کہ میں نے دونوں کتابیں پھیر دیں۔ مگر بھائی جان نے یہ "واسوخت" زبردستی میرے سر مڑھی۔ ایک دن اتفاق سے حضرت بی کے بڑے نواسے نے اس کو میرے جز دان میں دیکھ کر پوچھا آہا میاں سلیم، تم تو بڑے چھپے رستم نکلے۔




میں : کیوں؟




حضرت بی کا نواسہ: تم کو ایسی کتابوں کا بھی شوق ہے؟




میں : مجھ کو بھائی جان نے لے دی ہے۔ کیوں کیا، یہ کتاب اچھی نہیں؟










حضرت بی کا نواسہ: اچھی بری تو میں نہیں جانتا لیکن اگر نانی اماں دیکھ پائیں گی تو شاید ہم لوگوں کو تمہارے پاس اٹھنے بیٹھنے کی ممانعت کریں۔ بھلا کوئی ایسی گندی با توں کی کتاب بھی پڑھتا ہے۔




تب سے میں نے اس کتاب کو لا کر ردی میں ڈال دیا تھا۔ آج مجھ کو یاد آ گئی تو میں نے کہا یہ بھی اپنی مراد کو پہنچ جائے۔




جب کلیم کا خرمن عیش و عشرت جل بھن کر خاک سیاہ ہو لیا تو نصوح گھر میں گیا اور بیوی نے اس سے پوچھا: "کیوں، جس پرچے کی جستجو تھی ملا؟"




نصوح: نہیں پرچہ تو نہیں ملا لیکن میرا مطلب حاصل ہو گیا۔




فہمیدہ: وہ کیا؟




نصوح: وجہ کیا دریافت کی، اس کی ساری حقیقت معلوم ہو گئی۔ بلکہ شاید رو در رو گفتگو کرنے سے بھی یہ بات پیدا نہ ہوتی جو مجھ کو اب حاصل ہے۔




فہمیدہ: آخر کچھ میں بھی توسنوں۔




نصوح: میں نے اس کے "عشرت منزل" اور "خلوت خانے " کو دیکھا اور اس کے کتاب خانے کی سیر کی۔




فہمیدہ: عشرت منزل، اور خلوت خانہ، کیسا؟










نصوح: تم تو مجھ سے بھی زیادہ بے خبر۔ آج تک تم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ صاحب زادہ بلند اقبال نے دو کمرے اپنے واسطے خاص کر رکھے ہیں۔ ایک کا نام "عشرت منزل" رکھ چھوڑا ہے اور دوسرے کا "خلوت خانہ" جس کمرے میں ان کے شیاطین الانس جمع ہوتے ہیں وہ "عشرت منزل" ہے اور جہاں استراحت فرماتے ہیں اور وہ "خلوت خانہ" اور اسی خلوت خانے میں کتاب خانہ بھی ہے۔




فہمیدہ: اتنی بات تو میں بھی جانتی ہوں کہ کلیم نے دو کمرے لے رکھے ہیں مگر "عشرت منزل" اور "خلوت خانہ" میں نے آج ہی سنا ہے۔




نصوح: تم نے ان کمروں کو اندر سے بھی دیکھا؟




فہمیدہ: نہیں۔ مردانے میں کبھی کا ہے کو جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ کل رات البتہ علیم کے اصرار سے پردہ کروا کے گئی تھی۔




نصوح: خوب ہوا کہ تم نے ان کمروں کو نہ دیکھا۔




فہمیدہ: کیوں؟




نصوح: اب میں ان کمروں کی تمام تر تفضیح تم سے کیا بیان کروں۔ بس مولانا روم قدس اللہ سرہ العزیز کا شعر:










از بروں چوں گور کافر پر حلل




اندر قہر خدائے عز و جل




گویا انہیں کمروں کی شان میں ہے۔ ظاہر آبا، باطن خراب۔




فہمیدہ: کوئی کہتا تھا کہ تم نے غصے میں آ کر دیوان خانے میں آگ لگا دی۔




نصوح: اگرچہ وہ مکان جس میں وحشیوں کے سے کام ہوتے ہیں اسی قابل ہے، مگر میں نے مکان میں تو آگ نہیں لگائی۔




فہمیدہ: کچھ دھواں سا تو مردانے میں ضرور اٹھ رہا تھا۔




نصوح: وہ تو چند کتابیں تھیں جن کو میں نے بے ہودہ سمجھ کر جلا دیا۔




فہمیدہ: ایسے غصے سے بھی خدا پناہ میں رکھے۔




نصوح: غصے کی تو اس میں کوئی بات نہ تھی۔




فہمیدہ: کتاب کا جلانا غصے کی بات نہیں تو عقل کی بات ہے؟ میں نے سنا ہے کہ کاغذ کا جلانا بڑا گناہ ہے نہ کہ کتاب۔ لوگ کہیں ذرا سا پرزہ پڑا پاتے ہیں تو اٹھا کر آنکھوں سے لگاتے ہیں۔ کتاب کو بھولے سے ٹھو کر لگ جاتی ہے تو توبہ توبہ کر کے چومتے اور ماتھے چڑھاتے ہیں۔




نصوح: تم سچ کہتی ہو مگر یہ لوگوں کی زیادتی ہے۔ کاغذ بھی کپڑے کی طرح ایک بے جان چیز ہے۔ کتاب کے عمدہ مضامین، جن میں دین داری اور خدا پرستی اور نیکو کاری کا بیان ہوتا ہے، وہ البتہ قابل ادب ہیں۔




فہمیدہ: خیر کچھ ہی سہی مگر کتاب ہے تو ادب کی چیز۔ پھر تم نے جلائی کیوں؟




نصوح: جن کتابوں کو میں نے جلایا، ان کے مضامین کفر اور شرک اور بے دینی اور بے حیائی اور فحش اور بد گوئی اور جھوٹے سے بھرے ہوئے تھے۔




فہمیدہ: کتابوں میں ایسی بری باتیں بھی ہوتی ہیں؟




نصوح: کتابیں بھی آدمی بناتے ہیں اور آدمی ایسا مخلوق سرکش ہے کہ اس نے تمام دنیا میں بدی اور نا فرمانی پھیلا رکھی ہے۔ کیا تم شعر اور شاعری کے نام سے واقف نہیں ہو؟




فہمیدہ: واقف کیوں نہیں۔ کتابوں میں اکثر شعر ہوتے ہیں، مگر ان میں تو کوئی بری بات دیکھنے میں آئی۔ سنتی ہوں کہ کلیم کو شعر بنانے کا بڑا شوق ہے اور مردوں میں یہ بڑی تعریف کی بات گنی جاتی ہے۔




نصوح: شاعری اپنی ذات سے بری نہیں بلکہ اس اعتبار سے کہ زبان دانی کی عمدہ لیاقت کا نام شاعری ہے، ضرور تعریف کی بات ہے۔ لیکن لوگوں نے ایک عام دستور قرار دے رکھا ہے کہ اس لیاقت کو ہمیشہ برے اور بے ہودہ خیالات میں صرف کرتے ہیں۔ اس وجہ سے دین داروں کی نظر میں شاعری عیب و گناہ ہے۔ اب شاعری اسی کا نام ہے کہ کسی کی ہجو کہے کہ وہ داخل غیبت ہے، یا مدح بے جا لکھے کہ وہ کذب و بطالت ہے، یا عشق و عیاشی کے نا پاک خیالات میں کوئی مضمون سوچے کہ وہ خلاف شریعت ہے، یا مسائل دین اور اہل دین کے ساتھ تمسخر و استہزاء کیجئے کہ وہ کفر و معصیت ہے۔




فہمیدہ: یہ مجھ کو آج معلوم ہوا کہ پڑھنے لکھنے کی چیزوں میں بھی لوگوں نے خرابیاں پیدا کی ہیں۔




نصوح: کیا تم کو اپنا "گلستاں " پڑھنا یاد نہیں؟




فہمیدہ: یاد کیوں نہیں۔ جس دن حمیدہ کا دودھ چھڑایا ہے، اس کے اگلے دن میں نے "گلستاں " شروع کی تھی۔




نصوح: بھلا تم کو یہ بھی یاد ہے کہ تمہارے سبق سے آگے آگے میں جا بجا سطروں کی سطروں پر سیاہی پھیر دیا کرتا تھا؟ بلکہ بعض دفعہ صفحے کے صفحے ایسے آ پڑے تھے کہ مجھ کو اوپر سے سادہ کاغذ لگا کر ان کو چُھپانے کی ضرورت ہوئی۔










فہمیدہ: خوب اچھی طرح یاد ہے۔ چوتھائی کتاب سے کم نہ کٹی ہو گی۔




نصوح: تم پڑھتی تھیں تب چوتھائی بھی کٹی، اگر کوئی دوسری عورت یا لڑکی پڑھتی ہوتی تو میں آدھی کی خبر لیتا۔ وہ تمام بے ہودہ باتیں تھیں جن کو میں کاٹتا اور چھپاتا پھرتا تھا۔




فہمیدہ: سچ کہو۔ لو میں تو سمجھی کہ مشکل جان کر چھڑوا دیتے ہیں۔




نصوح: بڑی مشکل یہ تھی کہ میں ان واہیات اور فحش با توں کو تمہارے رو بہ رو بیان نہیں کر سکتا تھا۔ پھر یہ اس کتاب کا حال ہے جو پند و اخلاق میں ہے اور تصنیف بھی ایسے بزرگ کی ہے کہ کوئی مسلمان ایسا کمتر نکلے گا جو ان کا نام لے اور شروع میں حضرت اور آخر میں رحمۃ اللہ علیہ یا قدس اللہ سرہ العزیز نہ کہے، یعنی ان کا اعتداد اولیاء اللہ میں ہے اور جو کتابیں میں نے جلائیں، کتابیں کا ہے کو تھیں، پھکڑ، گالی، ہزلیات، بڑ، بکواس، ہذیان، خرافات، میں نہیں جانتا کہ جہان میں سے کون سا نام ان کے لئے زیادہ زیبا ہے۔




فہمیدہ: جلانا کیا ضرور تھا، پڑی رہنے دی ہوتیں یا بک بکا جاتیں۔ آخر داموں کی چیز تھی۔




نصوح: شاید اگلی گرمیوں کا ذ کر ہے کہ بدرو میں سانپ نکلا تھا اور اس کو دیکھ کر چھوٹے بڑے سب ایسے خوف زدہ ہو گئے تھے کہ صحن میں نکلنا چھوڑ دیا تھا اور کیسا کچھ تقاضا تھا کہ جس طرح ہو سکے سانپ کو پکڑوا کر مار ڈالنا چاہیے۔ سانپ کی نسبت تم نے ہرگز نہیں کہا کہ پڑا بھی رہنے دو، شاید کوئی سپیرا دو چار ٹ کے پیسے دے کر مول لے جائے گا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ کتابیں اس سانپ سے زیادہ موذی اور اس سے کہیں زیادہ خطرناک تھیں اور ان کی قیمت چوری اور ٹھگی کے مال سے بڑھ کر حرام۔ کلیم کو اور پھٹکار کیا ہے؟ اسی سانپ کا زہر اس کو چڑھا ہوا ہے اور شیطان نے یہی منتر اس پر پڑھ کر پھونک دیا ہے۔




فہمیدہ: پھر آخر اس زہر کا تریاق اور اس منتر کا توڑ بھی کچھ ہے یا نہیں؟




نصوح: کیوں نہیں، دین و اخلاق کی کتابیں۔ مگر کوئی ان کو دیکھنے والا بھی تو ہو۔ نہ یہ کہ ہر روز نئے سانپ سے کٹواتے جاؤ اور تریاق سے بھاگو اور نفرت رکھو تو انجام کیا ہو گا، ہلاکت۔

فصل دہم

کلیم کا جا کر پہلے اپنے دوست مرزا ظاہر دار بیگ،اور پھر اپنے ایک قرابت دار، فطرت کے یہاں

جا کر رہنا، اور دونوں مرتبہ زک اٹھانا اور قید ہونا،اور آخر کار باپ ہی کی سفارش پر رہائی پانا




اب ہم کو کلیم اور نعیمہ، دونوں بھائی بہنوں کا حال بیان کرنا چاہیئے کہ باپ کے گھر سے نکل کر ان پر کیا بیتی۔ سو، چوں کہ کلیم پہلے نکلا، پہلے اسی کا حال بیان کرتے ہیں۔

کئی بار اس کو باپ نے بلوا بھیجا، یہاں تک کہ ہار کر واقعہ لکھا۔ ماں نے بہتیرا سمجھایا، بھائی نے بہت کچھ کہا سنا لیکن وہ رو بہ راہ ہوا اور جب دیکھا کہ فہمیدہ، صالحہ کے اتروانے میں مصروف ہے، آنکھ بچا، بے پوچھے، بے کہے گھر سے اس طرح نکل کھڑا ہوا کہ گویا اس کو کچھ تعلق ہی نہ تھا۔ شاید اس کے ذہن میں بھی یہ بات اس وقت نہ گزری ہو گی کہ وہ عمر بھر کے واسطے گھر سے جا رہا ہے اور عزیز و اقارب جن سے وہ ایسے سرسری طور پر جدا ہوتا ہے، جیتے جی ان کو نہ دیکھ سکے گا۔ یہ نکلنا اس کا کچھ نیا نکلنا نہ تھا بلکہ معمولی عادت اور ہمیشہ کی خصلت تھی۔ گھر سے نکل جانے کی اس نے یہاں تک مشق بہم پہنچائی تھی کہ ذرا ذرا سی ادعائی نا خوشی پر وہ آئے دن بھاگا کرتا تھا۔ مگر ادھر اس کا نکلنا معلوم ہوا اور ادھر نو کروں کے جاسوس اس کی جستجو میں دوڑنے شروع ہوئے۔ شروع شروع میں تو نو کروں ہی کے بلانے سے چلا آتا تھا۔ پھر چندے یہ معمول رہا کہ خود میاں نصوح جاتے تو صاحب زادہ بلند اقبال کو منا لاتے۔ اب تھوڑے دنوں سے نصوح کے عمل میں بھی تاثیر گھٹ گئی تھی تو بی فہمیدہ کی ڈولی در بدر پھرا کرتی تھی۔




اس دفعہ بھی وہ ضرور یہ توقع جی میں لے کر نکلا تھا کہ گلی سے نکلتے نکلتے نو کر اس کے پیچھے دوڑیں گے اور اس امید میں اس نے اپنے دوست مرزا ظاہر دار بیگ کے گھر پہنچے پہنچے کوئی سینکڑوں ہی مرتبہ پیچھے پھر پھر کر دیکھا۔ مگر واقع میں یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ اب کلیم کے سوا، بہ قول نعیمہ کے، گھر کا باوا آدم بدلا ہوا تھا۔ نہ پہلی سی ماں، نہ اگلا سا باپ، نو کر ڈھونڈھیں تو کیوں اور دوڑیں تو کس لئے؟ پھر بھی کلیم اس سے بے خبر نہ تھا کہ اس مرتبہ ایک خاص طرح کا بگاڑ ہے۔ وہ جانتا تھا کہ دین داری کا چرچا گھر میں ہو رہا ہے۔ خلاف توقع نعیمہ ایک تھپڑ کھا چکی ہے۔ سلیم اور حمیدہ جو گھر میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے کلیم اور نعیمہ کے تختہ مشق تھے، اب سب سے زیادہ باپ اور ماں دونوں کے چہیتے ہو رہے ہیں۔ یعنی جن کی لمبی چوڑی عزت تھی، وہ ذلیل ہیں اور جو بے وقعت تھے، ان کا طوطی بول رہا ہے۔ پہلے جب کبھی کلیم گھر سے نا خوش ہر کر نکلا تو کھانے کھڑے، روپے پیسے کے لین دین پر، ماں یا بھائی بہنوں سے لڑائی جھگڑے کے سبب۔ لیکن اس دفعہ دین کی بحث تھی، نہ لین دین کی، باپ سے لڑائی تھی، نہ بھائی بہنوں سے۔ ذرا سی عقل معاملہ فہم بھی کلیم کو ہوتی تو وہ ایسی حالت میں گھر سے نکلنے پر دلیری نہ کرتا۔ لیکن، جیسا کہ نصوح نے تجویز کیا تھا، اس پر شاعری کی پھٹکار تھی اور سر پر شامت اعمال سوار اور واقع میں جب انسان شبانہ روز داد و تحسین کی فکر میں منہمک رہے گا تو ضرور ہے کہ خود پسندی، خود بینی، خود ستائی کے عیوب اس کی طبیعت میں راسخ ہوں۔




شعر و سخن کے اعتبار سے ہم بھی کلیم کو شاباش دیتے ہیں، کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معاملہ اچھا باندھتا ہے، تضمین میں گرہ خوب لگاتا ہے، بندش بھی خاصی ہوتی ہے، قصیدہ بھی برا نہیں، طبعیت مضمون آفرینی پر بھی مائل ہے۔ مثنوی تو خیر، مگر رباعی اس کی لا جواب ہوتی ہے۔ مقطع میں تخلص کے اتنے التزام پر بے ساختگی کی ادا قابل آفریں ہے۔ اب قصیدے کی تشبیب بعد چندے سودا کے لگ بھگ ہونے والی ہے۔ چشم بد دور، چھ برس کی مشق میں دو دیوانوں کا مرتب ہو جانا کچھ تھوڑی بات نہیں۔ شہر میں بھلا کچھ نہیں تو سو دو سو غزلیں لوگوں کے زبان زد ہوں گی۔ سچ ہے، قبول سخن خدا داد بات ہے۔ الغرض شاعری میں کلیم کی لن ترانیاں چنداں بے جا نہ تھیں۔ لیکن دنیا کے معاملات میں از بس کہ اس کو غور اور خوض کرنے کی عادت نہ تھی، اسی وجہ سے اکثر اس کی رائے غلطی پر ہوتی تھی۔




وہ گھر سے نکل کر ایسا بے تکلف مرزا ظاہر دار بیگ کی طرف کو مڑا، جیسے مطلق العنان گھوڑا تھان کی طرف رخ کرتا ہے۔ مرزا کی ظاہر داری نے اس کو اس قدر دھوکہ دے رکھا تھا کہ وہ ان کو ماں، باپ، بھائی، بہن، خویش و اقارب، سب سے بڑھ کر اپنا خیر خواہ، سب سے زیادہ اپنا دوست سمجھتا تھا اور بے امتحان، بے آزمائش، اس کو مرزا پر ایسا تکیہ و اعتماد تھا کہ شاید دانش مند آدمی کو، متواتر تجربوں کے بعد بھی، کسی دوست پر نہیں ہو سکتا۔ بات اصل یہ ہے کہ مردم شناسی کی جو ایک صفت ہے، کلیم میں مطلق نہ تھی۔ مرزا سے زیادہ اس کو اپنی نسبت مغالطہ تھا اور اس نے اپنے تیئں ایسا عزیز الوجود فرض کر رکھا تھا کہ ایک سے ایک لائق نو کری کی جستجو میں مارے مارے پھرتے ہیں اور نہیں ملتی اور کلیم کے ذہن میں از خود یہ خناس سمایا ہوا تھا کہ گویا تمام ہندوستانی سرکاریں اس کے قدوم میمنت لزوم کی متمنی اور منتظر ہیں اور جس طرف کو چل کھڑا ہو گا، وہاں کا والی ملک اس کی تشریف آوری کو بس غنیمت جانے گا۔ گھر سے نکلا تو محض تہی دست، لیکن اس خیال میں مگن کہ اب کوئی دم جاتا ہے کہ مالک خزائن الارض بننے جا رہا ہوں۔ چلا جوتیاں چٹخاتا ہوا مگر اس تصور میں مست کہ فیل کوہ پی کر مع ہودج زر اس کی سواری کے لئے آ رہا ہے۔ باوجودیکہ شب خوابی کے کپڑوں کے سوا بدن پر کچھ نہ تھا، تاہم خلعت ہفت پارچہ کی امید میں




نظر اس کی نخوت کے زینے پہ تھی




کہ شانوں سے اتری تو سینے پہ تھی




قصہ کوتاہ، کلیم شیخ چلی کے سی منصوبے سوچتا ہوا اپنے دوست مرزا کے مکان پر پہنچا۔ ہر چند ابھی کچھ ایسی بہت رات نہیں گئی تھی لیکن مرزا جیسے نکمے، بے فکرے کبھی کی لمبی تاک کر سو چکے تھے۔ کلیم نے دروازے پر دستک دی تو جواب ندارد۔ اس مقام پر مرزا کا تھوڑا سا حال لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس شخص کی کیفیت یہ تھی کہ شاید اس کا نانا، وہ بھی حقیقی نہیں، ابتدائے عمل داری سرکار میں صاحب ریزیڈنٹ کی اردلی کا جمعدار تھا۔ اول تو ایسی عالی جاہ سرکار، دوسرے با اعتبار منصب اردلی کا جمعدار، تیسرے ان دنوں کی بے عنوانی، اس پر خود اس کی رشوت ستانی، بہت کچھ کمایا۔ یہاں تک کہ اس کا اعتداد دلی کی روداروں میں ہو گیا۔ مرزا کی ماں اوائل عمر میں بیوہ ہو گئی۔ جمعدار نے با وجودے کہ دور کی قرابت تھی، حسبتہ للہ، اس کا تکفل اپنے ذمے لیا۔ جمعدار اپنی حیات میں اتنا سلوک کرتا رہا کہ مرزا کو یتیمی اور کی ماں کو بیوگی بھول کر بھی یاد نہ آئی ہو گی لیکن جمعدار کے مرنے پر اس کے بیٹے، پوتے، نواسے کثرت سے تھے، انہوں نے بے اعتنائی کی اور اگرچہ جمعدار بہت کچھ وصیت کر مرے تھے مگر ان کے ورثا نے بہ ہزار دقت، محل سرا کے پہلو میں ایک بہت چھوٹا سا قطعہ ان کے رہنے کو دیا، اور سات روپے مہینے کے کرائے کی دوکانیں مرزا کے نام کرا دیں۔ یہ تو حال تھا کہ مرزا مرزا کی ماں، مرزا کی بیوی، تین تین آدمی اور سات روپے کل کی کائنات، اس پر مرزا کی شیخی اور نمود۔ یہ مسخرہ اس ہستی پر چاہتا تھا کہ جمعدار کے بیٹوں کی برابری کرے، جن کو صد ہا روپے ماہوار کی آمدنی تھی۔ اگرچہ جمعدار والے اس کو منہ نہیں لگاتے تھے مگر یہ بے غیرت زبردستی ان میں گھستا تھا۔ کسی کو ماموں جان، کسی کو بھائی جان، کسی کو خالو جان بناتا اور وہ لوگ اس کے ادعائی رشتوں نا توں سے جلتے اور دق ہوتے۔ اونچی حیثیت کے لوگوں میں بیٹھنا اس کے حق میں اور بھی زبوں تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی اس نے تمام عادتیں امیر زادوں کی سی اختیار کر رکھی تھیں، مگر امیر زادگی نہ تھی تو کیسے نبھے۔ دوکانیں گروی ہوتی جاتی تھیں۔ ماں بے چاری بہتیرا بکتی مگر کون سنتا تھا۔




مرزا کو جب دیکھو، پاؤں میں ڈیڑھ حاشیے کی جوتی، سر پر دہری بیل کی بھاری کام دار ٹوپی، بدن میں ایک چھوڑ دو دو انگرکھے : اوپر شبنم یا ہلکی سی تن زیب، نیچے کوئی طرح دار سا ڈھا کے کا نینو۔ جاڑا ہوا تو بانات مگر سات روپے گز سے کم کی نہیں۔ خیر، یہ تو صبح شام، اور تیسرے پہر کا شانی مخمل کی آصف خانی جس میں حریر کی سنجاف کے علاوہ گنگا جمنی کم خواب کی عمدہ بیل ٹنکی ہوئی۔ سرخ نیفہ۔ پائجامہ اگر ڈھیلے پائنچوں کا ہوا تو کلی دار اور اس قدر نیچا کہ ٹھوکر کے اشارے سے دو دو قدم آگے، اور اگر تنگ مہری کا ہوا تو نصف ساق تک چوڑیاں، اور اوپر جلد بدن کی طرح مڑھا ہوا۔ ریشمی ازار بند، گھٹنوں میں لٹکتا ہوا۔ اس میں بے قفل کی کنجیوں کا گچھا۔ غرض دیکھا تو مرزا صاحب اس ہیئت کذائی سے چھیلا بنے ہوئے، سر بازار، چھم چھم کرتے چلے جا رہے ہیں۔










کلیم سے مرزا سے محفل مشاعرہ میں تعارف پیدا ہوا۔ شدہ شدہ مرزا صاحب کلیم کے مکان پر تشریف لانے لگے۔ یہاں تک کہ اب چند روز سے تو دونوں میں ایسی گاڑھی چھننے لگی تھی کہ گویا یک جان و دو قالب تھے۔ کلیم کو تو مرزا کے مکان پر جانے کا کبھی بھی اتفاق نہیں ہوا مگر مرزا، شام کو تو کبھی کبھی، لیکن صبح کو بلا ناغہ آتے اور تمام تمام دن کلیم کے پاس رہتے۔ مرزا نے اپنا حال اصلی کلیم پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ کلیم یہی جانتا تھا کہ جمعدار کا تمام ترکہ مرزا کو ملا اور وہ جمعدار کی محل سرا کو مرزا کی محل سرا اور جمعدار کے دیوان خانے کو مرزا کا دیوان خانہ اور جمعدار کے بیٹے پو توں کے نو کروں کو مرزا کے نو کر سمجھتا اور اسی غلط فہمی میں وہ گھر سے نکلا تو سیدھا جمعدار کے محل سرا کی ڈیوڑھی پر جا موجود ہوا۔ بار بار کے پکارنے اور کنڈی کھڑکھڑانے سے دو لونڈیاں چراغ لئے ہوئے اندر سے نکلیں، اور ان میں سے ایک نے پوچھا: "کون صاحب ہیں اور اتنی رات گئے کیا کام ہے؟"




کلیم: جاؤ مرزا کو بھیج دو۔




لونڈی: کون مرزا؟




کلیم: مرزا ظاہر دار بیگ جن کا مکان ہے اور کون مرزا۔










لونڈی: یہاں کوئی ظاہر دار بیگ نہیں ہے۔




اتنا کہہ کر قریب تھا کہ لونڈی پھر کواڑ بند کر لے کہ کلیم نے کہا: "کیوں جی کیا یہ جمعدار صاحب کی محل سرا نہیں ہے؟"




لونڈی: ہے کیوں نہیں۔




کلیم: پھر تم نے یہ کیا کہا کہ یہاں کوئی ظاہر دار بیگ نہیں۔ کیا ظاہر دار بیگ جمعدار کے وارث اور جانشین نہیں ہیں؟




لونڈی: جمعدار کے وارثوں کو خدا سلامت رکھے، مُوا ظاہر دار بیگ جمعدار کا وارث بننے والا کون ہوتا ہے۔




دوسری لونڈی: اری کم بخت! یہ کہیں مرزا بانکے کے بیٹے کو نہ پوچھتے ہوں۔ وہ ہر جگہ اپنے تئیں جمعدار کا بیٹا بنایا کرتا ہے۔ (کلیم سے مخاطب ہو کر) "کیوں میاں ! وہی ظاہر دار بیگ نا، جن کی رنگ زرد زرد ہے، آنکھیں کرنجی، چھوٹا قد، دبلا ڈیل، اپنے تئیں بہت بنائے سنوارے رہا کرتے ہیں۔




کلیم: ہاں ہاں، وہی ظاہر دار بیگ۔




لونڈی: تو میاں، اس مکان کے پچھواڑے، اپلوں کی ٹال کے برابر ایک چھوٹا سا کچا مکان ہے، وہ اس میں رہتے ہیں۔










کلیم نے وہاں جا آواز دی تو کچھ دیر بعد مرزا صاحب ننگ دھڑنگ، جانگیہ پہنے ہوئے باہر تشریف لائے اور کلیم کو دیکھ کر شرمائے اور بولے : آہا! آپ ہیں۔ معاف کیجئے گا، میں نے سمجھا کوئی اور صاحب ہیں۔ بندے کو کپڑا پہن کر سونے کی عادت نہیں۔ میں ذرا کپڑے پہن آؤں تو آپ کے ہم رکاب چلوں۔




کلیم: چلئے گا کہاں؟ میں آپ ہی کے پاس تک آیا تھا۔




مرزا: پھر اگر کچھ دیر تشریف رکھنا منظور ہو تو میں اندر پردہ کرا دوں۔




کلیم: میں آج شب کو آپ ہی کے یہاں رہنے کی نیت سے آیا ہوں۔




مرزا: بسم اللہ، تو چلیے اسی مسجد میں تشریف رکھیے، بڑی فضا کی جگہ ہے۔ میں ابھی آیا۔




کلیم نے جو مسجد میں آ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک نہایت پرانی چھوٹی سی مسجد ہے، وہ بھی مسجد ضرار کی طرح ویران، وحشت ناک، نہ کوئی حافظ ہے، نہ کوئی طالب علم، نہ کوئی مسافر۔ ہزار ہا چمگادڑیں اس میں رہتی ہیں کہ ان کی تسبیح بے ہنگام سے کان کے پردے پھٹے جاتے ہیں۔ فرش پر اس قدر بیٹ پڑی ہے کہ بجائے خود کھرنجے کا فرش بن گیا ہے۔










مرزا کے انتظام میں کلیم کو چار و نا چار اسی مسجد میں ٹھہرنا پڑا۔ مرزا آئے بھی تو اتنی دیر کے بعد کہ کلیم مایوس ہو چکا تھا۔ قبل اس کے کہ کلیم شکایت کرے، مرزا صاحب، بطور دفع دخل مقدر، فرمانے لگے کہ بندے کے گھر میں کئی دن سے طبیعت علیل ہے، خفقان کا عارضہ، اختلاج قلب کا روگ ہے۔ اب جو میں آپ کے پاس سے گیا تو ان کو غشی میں پایا، اسی وجہ سے دیر ہوئی۔ پہلے تو یہ بتائیے کہ اس وقت بندہ نوازی فرمانے کی کیا وجہ ہے؟




کلیم نے باپ کی طلب، اپنا انکار، بھائی کی التجا، ماں کا اصرار، تمام ماجرا کہہ سنایا۔




مرزا: پھر اب کیا ارادہ ہے؟




کلیم: سوائے اس کے کہ اب گھر لوٹ کر جانے کا ارادہ نہیں ہے، اور جو آپ کی صلاح ہو۔




مرزا: خیر، نیت شب حرام، صبح تو ہو۔ آپ بے تکلف استراحت فرمایئے۔ میں جا کر بچھونا وغیرہ بھیجے دیتا ہوں اور مجھ کو مریضہ کی تیمار داری کے لئے اجازت دیجئے کہ آج اس کی علالت میں اشتداد ہے۔




کلیم: یہ کیا ماجرا ہے؟ تم تو کہا کرتے تھے کہ ہمارے یہاں دوہری محل سرائیں، متعدد دیوان خانے، کئی پائیں باغ ہیں۔ حوض اور حمام اور کٹرے اور گنج اور دوکانیں اور سرائیں، میں تو جانتا ہوں کہ عمارت کی قسم کی کوئی چیز ایسی نہ ہو گی جس کو تم نے اپنی ملک نہ بتایا ہو، یا یہ حال ہے کہ ایک متنفس کے واسطے ایک شب کے لیے تم کو جگہ میسر نہیں۔ جو جو حالات تم نے اپنی زبان سے بیان کئے، ان سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ جمعدار کے تمام تر کے پر تم قابض اور متصرف ہو۔ لیکن میں اس جاہ و حشمت کا ایک شمہ بھی نہیں دیکھتا۔




مرزا: آپ کو میری نسبت سخن سازی کا احتمال ہونا سخت تعجب کی بات ہے۔ اتنی مدت مجھ سے آپ سے صحبت رہی، مگر افسوس ہے کہ آپ نے میری طبیعت اور میری عادت کو نہ پہچانا۔ یہ اختلاف حالت جو آپ دیکھتے ہیں، اس کی ایک وجہ ہے۔ بندے کو جمعدار صاحب مرحوم و مغفور نے متبنٰی کیا تھا اور اپنا جانشین کر مرے تھے۔ شہر کے کل رؤسا اس سے واقف اور آگاہ ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس میں رخنہ اندازیاں کیں۔ بندے کو آپ جانتے ہیں کہ بکھیڑے سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ صحبت نا ملائم دیکھ کر کنارا کش ہو گیا۔ لیکن کسی کو انتظام کا سلیقہ، بندوبست کا حوصلہ نہیں۔ اسی روز سے اندر باہر واویلا مچی ہوئی ہے اور اس بات کے مشورے ہو رہے ہیں کہ بندے کو منانے جائیں۔










کلیم: لیکن آپ نے اس کا تذکرہ کبھی نہیں کیا۔




مرزا: اگر میں آپ سے یا کسی سے تذکرہ رتا تو استقلال مزاج سے بے بہرہ اور غیرت و حمیت سے بے نصیب ٹھہرتا۔ اب آپ کو کھڑے رہنے میں تکلیف ہوتی ہے، اجازت دیجئے کہ میں جا کر بچھونا بھجوا دوں اور مریضہ کی تیمار داری کروں۔




کلیم: خیر، مقام مجبوری ہے۔ لیکن پہلے ایک چراغ تو بھیج دیجئے، تاریکی کی وجہ سے طبیعت اور بھی گھبراتی ہے۔




مرزا: چراغ کیا میں نے تو لمپ روشن کرانے کا ارادہ کیا تھا لیکن گرمی کے دن ہیں، پروانے بہت جمع ہو جائیں گے اور آپ زیادہ پریشان ہو جیے گا اور اس مکان میں ابابیلوں کی کثرت ہے، روشنی دیکھ کر گرنے شروع ہو جائیں گے اور آپ کا بیٹھنا دشوار کر دیں گے۔ تھوڑی دیر صبر کیجئے کہ ماہتاب نکلا آتا ہے۔




کلیم جب گھر سے نکلا تو کھانا تیار تھا لیکن وہ اس قدر طیش میں تھا کہ اس نے کھانے کی مطلق پروا نہ کی اور بے کھائے نکل کھڑا ہوا۔ مرزا سے ملنے کے بعد وہ منتظر تھا کہ آخر مرزا خود پوچھیں ہی گے تو کہہ دوں گا۔ مرزا کو ہر چند کھانے کی نسبت پوچھنا ضرور تھا، کیوں کہ اول تو کچھ ایسی رات زیادہ نہیں گئی تھی، دوسرے یہ اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ کلیم گھر سے لڑ کر نکلا ہے، تیسرے دونوں میں بے تکلفی غایت درجے کی تھی۔ لیکن مرزا قصداً اس بات سے معترض نہ ہوا اور کلیم بے چارے کا بھوک کے مارے یہ حال کہ مسجد میں آنے سے پہلے اس کی انتڑیوں نے قل ہو اللہ پڑھنی شروع کر دی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ مرزا کسی طرح اس پہلو پر نہیں آتا اور عن قریب تمام شب کے واسطے رخصت ہوا چاہتا ہے، تو بے چارے نے بے غیرت بن کر خود ہی کہہ دیا کہ سنو یار، میں نے کھانا بھی نہیں کھایا۔




مرزا: سچ کہو! نہیں جھوٹ، بہکاتے ہو۔




کلیم: تمہارے سر کی قسم، میں بھوکا ہوں۔




مرزا: تو مرد خدا، آتے ہی کیوں نہ کہا؟ اب اتنی رات گئے کیا ہو سکتا ہے۔ دوکانیں سب بند ہو گئیں اور جو دو ایک کھلی بھی ہیں تو باسی چیزیں رہ گئی ہوں گی، جس کے کھانے سے فاقہ بہتر ہے۔ گھر میں آج آگ تک نہیں سلگی۔ مگر ظاہراً تم سے بھوک کی سہار ہونی مشکل معلوم ہوتی ہے۔ دیو اشتہا کو زیر کرنا بڑی ہمت والوں کا کام ہے۔ ایک تدبیر سمجھ میں آتی ہے کہ جاؤں چھدامی بھڑ بھونجے کے یہاں سے گرم گرم خستہ چنے کی دل بنوا لاؤں۔ بس ایک دھیلے کی مجھ کو تم کو دونوں کو کافی ہو گی، رات کا وقت ہے۔




ابھی کلیم کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ مرزا جلدی سے اٹھ باہر گئے اور چشم زدن میں چنے بھنوا لائے۔ مگر دھیلے کا کہہ کر گئے تھے، یا تو کم کے لائے یا راہ میں دو چار پھن کے لگا لیے، اس واسطے کہ کلیم کے روبرو دو تین مٹھی چنے سے زیادہ نہ تھے۔




مرزا: یار، ہو تم بڑے خوش قسمت کہ اس وقت بھاڑ مل گیا۔ ذرا، واللہ ہاتھ تو لگاؤ، دیکھو تو کیسے بھلس رہے ہیں اور سوندھی سوندھی خوش بو بھی عجب ہی دلفریب ہے کہ بس بیان نہیں ہو سکتا۔ تعجب ہے کہ لوگوں نے خس اور مٹی کا عطر نکالا مگر بھنے ہوئے چنوں کی طرف کسی کا ذہن منتقل نہیں ہوا۔ کوئی فن ہو، کمال بھی کیا چیز ہے۔ دیکھیئے، اتنی تو رات گئی ہے مگر چھدامی کی دکان پر بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ بندے نے تحقیق سے سنا ہے کہ حضور والا کے خاصے میں چھدامی کی دوکان کا چنا بلا ناغہ لگ کر جاتا ہے۔ اور واقعی میں آپ ذرا غور سے دیکھئے، کیا کمال کرتا ہے کہ بھوننے میں چنوں کو سڈول بنا دیتا ہے۔ بھئی تمہیں میرے سر کی قسم سچ کہنا، ایسے خوب صورت، خوش قطع، سڈول چنے تم نے پہلے بھی کبھی دیکھے تھے؟ دال بنانے میں اس کو یہ کمال حاصل ہے کہ کسی دانے پر خراش تک نہیں، ٹوٹنے پھوٹنے کا کیا مذکور اور دانوں کی رنگت دیکھیے۔ کوئی بسنتی ہے، کوئی پستئی غرض دونوں رنگ خوش نما۔ یوں تو صد ہا قسم کے غلے اور پھل زمین سے اگتے ہیں لیکن چنے کی لذت کو کوئی نہیں پاتا۔ آپ نے وہ ایک ظریف کی حکایت سنی ہے؟




کلیم: فرمائیے۔




مرزا: چنا ایک بار حضرت میکائیل کی خدمت میں جن کو ارزاق عباد کا اہتمام سپرد ہے فریاد لے کر گیا کہ یا حضرت میں نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ جوں میں نے سر زمین سے نکالا تیر ستم چلنے لگا۔ ماکولات اور بھی ہیں، مگر جیسے جیسے ظلم مجھ پر ہوتے ہیں کسی اور پر نہیں ہوتے۔ نشو و نما کے ساتھ تو میری قطع و برید ہونے لگتی ہے۔ میری کونپلوں کو توڑ کر آدمی ساگ بناتے اور مجھے کچے کو کھا جاتے ہیں۔ جب ذرا بار آور ہوا تو خدا جھوٹ نہ بلوائے، آدمی بکری بن کر لاکھوں من بونٹ چر جاتے ہیں۔ اس سے نجات ملی تو ہولے کرنے شروع کیے۔ پکا تو شاخ و برگ، بھس بن کر بیلوں اور بھینسوں کے دوزخ شکم کا ایندھن ہوا۔ رہا دانہ، اس کو چکی میں دلیں، گھوڑوں کو کھلائیں، بھاڑ میں بھونیں، بیسن بنائیں، کھولتے ہوئے پانی میں ابالیں، گھنگھنیاں پسائیں۔ غرض شروع سے آخر تک مجھ پر طرح طرح کی آفتیں نازل رہتی ہیں۔ چنے کا حضرت میکائیل کے دربار میں اس طرح پر بے باکانہ چپڑ چپڑ بولنا سن کر حاضرین دربار اس قدر نا خوش ہوئے کہ ہر شخص اسے کھانے کو دوڑا۔ چنانچہ یہ ماجرا دیکھ کر بے انتظام حکم اخیر رخصت ہوا۔ سو حضرت، یہ چنے ایسے لذت کے بنے ہیں کہ فرشتوں کے دندان آز بھی ان پر تیز ہیں۔ افسوس ہے کہ اس وقت نمک مرچ بہم نہیں پہنچ سکتا، ورنہ میر مدن کے کبابوں میں یہ خستگی اور یہ سوندھا پن کہاں؟




غرض، مرزا نے اپنی چرب زبانی سے چنوں کو گھی کی تلی دال بنا کر اپنے دوست کلیم کو کھلایا۔ کلیم بھوکا تو تھا ہی، اس کو بھی ہمیشہ سے کچھ زیادہ مزے دار معلوم ہوئے۔ مرزا نے گھر جا کر ایک میلی دری ایک کثیف سا تکیہ بھیج دیا۔ دو ہی گھڑی میں کلیم کی حالت کا اس قدر متغیر ہونا عبرت کا مقام ہے۔ یا تو خلوت خانہ اور عشرت منزل میں تھا یا اب ایک مسجد میں آ کر پڑا اور مسجد بھی ایسی جس کا تھوڑا سا حال ہم نے اوپر بیان کیا۔ گھر کے الوان نعمت کو لات مار کر نکلا تھا تو پہلی ہی وقت چنے چبانے پڑے۔ نہ چراغ نہ چار پائی، نہ بہن نہ بھائی، نہ مونس نہ غم خوار، نہ نو کر نہ خدمت گار۔ مسجد میں اکیلا ایسا بیٹھا تھا جیسے قید خانے میں حاکم کا گنہگار، یا قفس میں مرغ نو گرفتار اور کوئی ہوتا تو اس حالت پر نظر کر کے تنبیہ پکڑتا، اپنی حرکت سے توبہ اور اپنے افعال سے استغفار کرتا، اور اسی وقت نہیں تو سویرے گجر دم باپ کے ساتھ نماز صبح میں جا شریک ہوتا۔ لیکن کلیم کو اور بہت مضمون سوچنے کو تھے۔ اس نے رات بھر میں ایک قصیدہ تو مسجد کی ہجو میں تیار کیا اور ایک مثنوی مرزا کی شان میں۔




صبح ہوتے آنکھ لگ گئی، تو معلوم نہیں مرزا یا محلے کا کوئی اور عیار، ٹوپی، جوتی، رومال، چھڑی، تکیہ، دری، یعنی جو چیز کلیم کے بدن سے منفک اور اس کے جسم سے جدا تھی، لے کر چمپت ہوا۔ یوں بھی کلیم بہت دیر کو سو کے اٹھتا تھا اور آج تو ایک وجہ خاص تھی۔ کوئی پہر سوا پہر دن چڑھے جاگا تو دیکھتا کیا ہے کہ فرش مسجد پر پڑا ہے اور نیند کی حالت میں جو کروٹیں لی ہیں تو سیروں گرد کا بھبھوت اور چمگادڑوں کی بیٹ کا ضماد بدن پر تھپا ہوا ہے۔ حیران ہوا کہ قلب ماہیت ہو کر میں کہیں بھتنا تو نہیں بن گیا۔ مرزا کو ادھر دیکھا ادھر دیکھا، کہیں پتا نہیں۔ مسجد تھی ویران، اس میں پانی کہاں۔ صبر کر کے بیٹھ رہا کہ کوئی اللہ کا بندہ ادھر کو آ نکلے تو اس کے ہاتھ مرزا کو بلواؤں اور یا منہ ہاتھ دھو کر خود مرزا تک جاؤں۔ ا س میں دوپہر ہونے کو آئی۔ بارے ایک لڑکا کھیلتا ہوا آیا۔ جونہی زینے پر چڑھا کہ کلیم اس سے عرض مطلب کرنے کے لئے لپکا۔ وہ لڑکا اس کی ہیئت کذائی دیکھ ڈر کر بھاگا۔ خدا جانے اس نے اس کو بھوت سمجھا یا سڑی خیال کیا۔ کلیم نے بہتیرا پکارا اس لڑ کے نے پیٹھ پھیر کر نہ دیکھا۔




نا چار کلیم نے بہ ہزار مصیبت دوسرے فاقے سے شام پکڑی اور جب اندھیرا ہوا تو الو کی طرح اپنے نشیمن سے نکلا۔ سیدھا مرزا کے مکان پر گیا اور آواز دی تو یہ جواب ملا کہ وہ تو بڑے سویرے کے قطب صاحب سدھارے ہیں۔ کلیم نے چاہا کہ اپنا تعارف ظاہر کر کے ممکن ہو تو منہ ہاتھ دھونے کو پانی مانگے اور مرزا کی پھٹی پرانی جوتی اور ٹوپی، تاکہ کسی طرح گلی کوچے میں چلنے کے قابل ہو جائے۔ یہ سوچ کر اس نے کہا: "کیوں حضرت، آپ مجھ سے بھی واقف ہیں؟"




اندر سے آواز آئی: "ہم تمہاری آواز تو نہیں پہچانتے، اپنا نام نشان بتاؤ تو معلوم ہو۔




کلیم: میرا نام کلیم ہے، اور مجھ سے اور مرزا ظاہر دار بیگ سے بڑی دوستی ہے۔ بلکہ شب کو میں مرزا صاحب ہی کی وجہ سے مسجد میں تھا۔




گھر والے : وہ دری اور تکیہ کہاں ہے جو تمہارے سونے کے لئے بھیجا گیا تھا؟




تکیہ اور دری کا نام سن کر تو کلیم بہت چکرایا اور ابھی جواب دینے میں متامل تھا کہ اندر سے آواز آئی: "مرزا زبردست بیگ! دیکھنا، یہ مردوا کہیں چل نہ دے۔ دوڑ کر تکیہ دری تو اس سے لو۔ "




کلیم یہ سن کر بھاگا۔ ابھی گلی کی نکڑ تک نہیں پہنچا تھا کہ زبردست نے "چور چور" کر کے جا لیا۔ ہر چند کلیم نے مرزا ظاہر دار بیگ کے ساتھ اپنے حقوق معرفت ثابت کیے مگر زبردست کا ٹھینگا سر پر، اس نے ایک نہ مانی اور پکڑ کر کو توالی لے گیا۔ کو توال نے سرسری طور پر دونوں کا بیان سنا اور کلیم سے اس کا حسب نسب پوچھا۔ ہرچند، کلیم اپنا پتا بتانے میں جھینپتا تھا مگر چار و نا چار اس کو بتانا پڑا۔ لیکن اس کی حالت ظاہری ایسی ابتر ہو رہی تھی کہ اس کا سچ بھی جھوٹ معلوم ہوتا تھا۔ کو توال نے سن کر یہی کہا کہ میاں نصوح جن کو تم اپنا والد بتاتے ہو، میں ان کو خوب جانتا ہوں اور یہ بھی مجھ کو معلوم ہے کہ ان کے بڑے بیٹے کا یہی نام ہے جو تم نے اپنا بیان کیا ہے۔ محلے کا پتا، گھر کا نشان بھی جوتم نے کہا، سب ٹھیک ہے۔ مگر کلیم تو ایک مشہور و معروف آدمی ہے۔ آج شہر میں اس کی شاعری کی دھوم ہے۔ تمہاری یہ حیثیت کہ ننگے سر، ننگے پاؤں، بدن پر کیچڑ تھپی ہوئی۔ مجھ کو باور نہیں ہوتا۔ ان کو حوالات میں رکھو۔ صبح ہو تو میں ان کے والد کو بلواؤں تو ان کے بیان کی تصدیق ہو۔




کلیم یہ سن کر رو دیا اور کہا کہ میں وہی بدنصیب ہوں جس کی شعر گوئی کا شہرہ آپ نے سنا ہے۔ آپ کو یقین نہ ہو تو میں اپنے افکار تازہ سناؤں۔ چنانچہ کل شب کو جو کچھ مسجد و مرزا کی شان میں کہا تھا، سنایا۔ اس پر کو توال نے اتنی رعایت کی کہ دو سپاہی کلیم کے ساتھ کیے اور ان کو حکم دیا کہ ان کو میاں نصوح کے پاس لے جاؤ۔ اگر وہ ان کو اپنا فرزند بتائیں تو چھوڑ دینا، ورنہ واپس لا کر حوالات میں رکھنا۔




کلیم پر اس کیفیت سے باپ کے روبرو آنا جیسا کچھ شاق گزرا ہو گا، ظاہر ہے، مگر کیا کر سکتا تھا۔ سپاہی اس کو کشاں کشاں لے ہی گئے۔ محلے کی مسجد، جس میں نصوح نماز پڑھا کرتا تھا، اس کے گھر سے بہت ہی قریب تھی۔ صحن مسجد میں ایک شاداب چمن تھا اور چمن کے بیچوں بیچ، ایک پکا، مرتفع چبوترا۔ عجب تفریح کا مقام تھا۔ نصوح، بیش تر نماز عشاء کے بعد، خصوصاً چاندنی راتوں میں، اس چبوترے پر بیٹھ کر پھول بوٹوں میں خداوند تعالیٰ کی صنعت کا ملاحظہ کیا کرتا تھا۔ اس کو بیٹھا دیکھ کر دوسرے نمازی بھی جمع ہو جاتے تھے اور نصوح کو وعظ پند کے طور پر ان کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع ملتا تھا۔




نصوح اور اس کے مستمعین، مسجد کے چبوترے پر جمع ہوتے جاتے تھے، کہ کو توالی کے سپاہی کلیم کو لیے آن پہنچے۔ یہ اتفاق من جانب اللہ شاید اسی وجہ سے پیش آیا کہ جو لوگ کلیم کی نظر میں صرف اس وجہ سے ذلیل تھے کہ وہ اپنے خالق کی پرستش کرتے تھے، یا اپنے اور بال بچوں کے پیٹ بھرنے کے لئے محنت مزدوری کر کے بہ وجہ حلال روزی پیدا کرتے تھے، ان کے سامنے اس کی گردن نخوت نیچی ہو۔ اب وہ انہیں قل اعوذیوں اور مردہ شویوں، اور بھک منگوں، اور ٹکر گداؤں کے روبرو اس حیثیت سے کھڑا تھا کہ من کر نکیر کی طرح دو سپاہی اس کی گردن پر سوار تھے۔ نہ سر پر ٹوپی، نہ پاؤں میں جوتی۔ دو وقت کے فاقے سے منہ سوکھ کر ذری سا نکل آیا تھا، آنکھوں میں حلقے پڑ گئے تھے، ہونٹوں پر پپڑیاں جم رہی تھیں۔ کپڑوں کا وہ حال تھا کہ ایسے لباس سے ننگا ہوتا تو بہتر تھا۔




جوں نصوح کی نظر بیٹے پر پڑی گویا ایک تیر سا کلیجے میں لگ گیا۔ اگر پہلا سا نصوح ہوتا تو نہیں معلوم عور توں کی طرح دھاڑیں مار کر روتا، یا سر پیٹنے لگتا، یا دوڑ کر بیٹے کو لپٹ جاتا، یا سپاہیوں سے بے پوچھے گچھے دست و گریبان ہو پڑتا، یا خدا جانے اضطراب جاہلانہ میں کیا کرتا۔ مگر اب اس کی جملہ حرکات و سکنات، معلم دین داری کی مطیع، اور مؤدب خدا پرستی کی تابع تھیں۔ اس نے ایک دم آہ سرد بھر کر "انا للہ و انا الیہ راجعون" تو کہا اور اف بھی نہ کی۔ سپاہیوں نے اس سے کلیم کی نسبت پوچھا تو اس نے آنکھیں نیچی کر کے کہا کہ جب حضرت نوح اپنے بیٹے کو ڈوبتے دم تک "بیٹا بیٹا" پکارتے گئے تو میں اس کے فرزند ہونے سے کیوں کر انکار کر سکتا ہوں۔ سپاہی تو اتنا سن کر رخصت ہوئے اور کلیم کو رفقائے نصوح میں سے کسی نے ہاتھ پکڑ کر اپنے پہلو میں بٹھایا۔ نصوح بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر بولا: "کیوں کلیم، میں نے ایسا کون سا قصور کیا تھا کہ تم کو میری طلعت منحوس تک دیکھنی وارا نہ ہوئی؟ تم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ شفقت اولاد، ماں باپ کی طینت میں مضمر اور ان کی جبلت میں داخل ہے۔ وہ شفقت جو اس وقت مجھ کو اس بات کی محرک ہوئی کہ میں سپاہیوں کے پنجے سے تمہاری نجات کا باعث ہوا، وہی شفقت مجھ کو اس بات پر بھی مجبور کرتی ہے اور کرے گی کہ میں تم کو ایسی راہ نہ چلنے دوں، جو تمہاری ابدی ہلاکت کا باعث اور دائمی تباہی کا موجب ہو۔ میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ میرے لئے کمائی کرو، میری آسائش کے واسطے اپنے اوپر تکلیف اٹھاؤ، اور اگر میں ایسا کہتا تو مجھ کو اس کا منصب اور حق تھا۔ میں نے جس کمائی کو کہا وہ تمہارے ہی کام آئے گی، اور جس محنت کی تم کو تکلیف دی، وہ تمہی کو آرام دے گی۔ اگر کسی بیمار کا طبیب مہربان سے پرہیز کرنا، کسی سیاح کا بدرقہ خیر خواہ سے گریز کرنا، روا ہے تو بے شک تم بھی مجھ سے نفرت رکھ سکتے ہو۔ کیوں کلیم، کیا ہمیشہ تمہاری خوشی مجھ کو منظور، تمہاری رضا جوئی مجھ کو ملحوظ نہیں رہی؟ اب جو تم نے مجھ کو اپنا دشمن قرار دے دیا، اپنا عدو ٹھہرایا، تو دشمنی کا سبب، عداوت کا موجب؟




میں نے سنا ہے کہ تم مجھ کو دیوانہ، مجنون اور مختل الحواس تجویز کرتے ہو۔ سو میں تمہاری اس تشخیص صحیح اور تجویز درست اور اس فراست صائب پر جرح نہیں کرتا۔ میں باؤلا اور سڑی اور پاگل سہی، لیکن اگر کوئی باؤلا تمہاری راہ میں کانٹے پڑے دیکھ کر تم کو آگاہ کرے تو کیا اس کی بات نہ سننا، اس کی نصیحت کو نہ ماننا، اس کی فریاد کی طرف ملتفت نہ ہونا، شیوہ دانش مندی ہے؟ پھر تم کو یہ بھی سوچنا چاہیئے تھا، اور چاہیے کہ آیا میں اکیلا اس جنون میں مبتلا ہوں یا اور بندگان خدا بھی میری ہی سی رائے، میرے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ کلیم! میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جتنے بزرگان دین ہو گزرے ہیں (خدا ان کی پاکیزہ اور مطہر روحوں پر رحمت کاملہ نازل کرے ) اور جتنے نیک بندے اب موجود ہیں (خدا ان کی حیات میں برکت دے ) کوئی اس جنون سے خالی نہیں۔ بلکہ جس کو جتنا یہ جنون زیادہ، اسی قدر وہ برگزیدہ اور خدا رسیدہ زیادہ۔




کیا اس بات کا اقرار کرنا جنون ہے، کہ ہم بندے ہیں، اور اس کا بھی ہم پر کچھ حق ہے جس نے ہم کو پیدا کیا، جو ہم کو روزی دیتا ہے، جو ہم کو جلاتا ہے اور مارتا ہے، جو پانی برساتا اور زمین سے ہمارے لئے سرمایہ حیات اگاتا ہے، جس نے ہماری جانوں کی شادابی اور تازگی کے لئے آب شیریں و خوش گوار کے سوتے زمین میں جاری کر رکھے ہیں اور ہماری روحوں کے انبساط کے لئے ہوا کا ذخیرہ کافی مہیا فرما دیا ہے (جس کے حکم سے چاند سورج اپنے معمول سے نکلتے اور غروب ہوتے ہیں تاکہ کام کرنے کے لئے دن ہو اور آرام لینے کے لئے رات، جس نے دنیا کے قوی ہیکل اور زبردست جانوروں کو ہمارا مطیع و منقاد بنا دیا ہے کہ ان سے ہم سواری لیتے، ان پر اپنا بوجھ لادتے اور ان کے گوشت پوست اور دودھ سے مستفید ہوتے ہیں، جس نے انسان کو گویائی و بیان کی قوت عطا کی ہے جس کے ذریعے وہ اپنا ما فی الضمیر ابنائے جنس پر ظاہر کر سکتا ہے، جس نے انسان ضعیف البنیان کو عقل کی قوت اور دانش کی طاقت دے کر روئے زمین کا بادشاہ اور مخلوق کا حاکم بنایا ہے، جس نے کائنات میں سے ہر موجود کو اس کی مناسب حالت پر خلق کیا ہے۔ اگر دنیا کے سارے درخت قلموں پر صرف کر دیے جائیں، اور سا توں سمندر کا پانی سیاہی کی جگہ کام میں لایا جائے، اور پڑھے لکھے لوگ جتنے ابتدائے آفرینش سے اب تک ہو چکے اور اب موجود ہیں اور آئندہ پیدا ہونے والے ہیں، سب کے سب مل کر اس کی تعریف، اس کے احسانات، اس کے انعامات، روز قیامت تک بیٹھے لکھا کریں، تو گھستے گھستے درخت ہو چکیں، سمندر سوکھ جائیں، لکھنے والے تھک کر بیٹھ رہیں، مگر اس کے حق واجب کا ایک عشر عشیر بھی ادا نہ ہو۔




کلیم! فنا ایک ایسی بدیہی بات ہے کہ دنیا میں کوئی اس کا من کر نہیں اور نہ اس سے انکار ممکن ہے۔ ہیضے کی وبا کو دفع ہوئے برس نہیں گزرے، تمہارے دیکھتے کیسے کیسے لوگ، ہٹے کٹے، توانا، اچھے بھلے، چلتے پھرتے، امیر غریب، عالم جاہل، بھلے اور برے، سبھی طرح کے صد ہا ہزار ہا، ہدف تیر قضا ہو گئے۔ سدا رہے نام اللہ کا۔ وبا پر کیا منحصر ہے، وعدے سے دم زیادہ نہ کم، مرنا بر حق۔ اچھا، مرے پیچھے کیا ہو گا؟ وہی عقیل ہے، وہی فہیم، وہی زیرک، وہی دانش مند، جو اس سوال کا معقول جواب دے، جو اس معمے کو حل کرے، جو یہ پہیلی بوجھے۔




کلیم! انسان کی خاص طرح کی خلقت یعنی اس کا وجود عاقل ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ ضرور اس سے کوئی بڑی خدمت متعلق اور اس کے ذمے زیادہ جواب دہی ہے۔ اگر اس کا صرف یہی کام ہوتا کہ پیٹ بھر لے اور سو رہے، اور گرمی سردی سے اپنے تئیں بچائے، تو اس کے لئے زیادہ عقل کی ضرورت نہ تھی۔ جانور اپنے بڑے بڑے جثوں کی پرداخت کرنے پر بخوبی قادر ہیں، حالاں کہ عقل سے بے بہرہ اور دانش سے بے نصیب ہیں۔ پس اس خدمت اور اس ذمہ داری کو دریافت کرنا شرط انسانیت ہے۔




نصوح کا وعظ سن کر اس کے ہم راہیوں کے دلوں میں دین داری کے ولولے اور خدا پرستی کے جوش تازہ ہو گئے۔ حاضرین میں کلیم کے سوا کوئی متنفس نہ تھا جس پر تھوڑی یا بہت رقت طاری نہ ہوئی ہو۔ لیکن کلیم، بہ قول سعدی شیرازی،

باسیہ دل چہ سود گفتن وعظنہ رود میخ آہنی در سنگ




سکوت کی حالت میں سرنگوں تھا۔ اس کا سکوت یا تو اس وجہ سے تھا کہ نصوح کا سلسلہ سخن بلا فصل تھا

اور اس کو بیچ میں بات کہنے کا موقع نہیں ملتا تھا، یا دوسرے منصوبے سوچ رہا تھا۔ اس کا سرنگوں ہونا بھی کچھ گناہ کی ندامت سے نہ تھا، بلکہ حالت کی شناخت سے۔ جب نصوح نے دیکھا کہ وہ ہاں یا نہیں کچھ بھی نہیں کہتا، تو اس نے ذرا گرم ہو کر اتنی بات کہی کہ بڑی دقت تمہارے معاملے میں مجھ کو یہ در پیش ہے کہ تمہاری ما فی الضمیر مجھ پر منکشف نہیں ہوتا۔ شروع میں تم نے میرے سامنے آنے سے گریز کیا اور اب مواجہ بھی ہوا تو بے سود۔




ابھی تک کلیم نے کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا، کہ نصوح کے ہمراہی جو کلیم کے حالات سے واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ وہ دین داری کی تاکید پر گھر سے نکل گیا ہے، بول اٹھے کہ اے حضرت، میاں کلیم ماشا اللہ بڑے ذہین اور زیرک اور عاقل ہیں، جو آپ نے فرمایا انہوں نے گرہ باندھا۔ اگرچہ باقتضائے سن، اب تک لہو و لعب کی طرف متوجہ تھے مگر اب آپ دیکھیے گا کہ انشا اللہ جوانِ صالح اور متشرع اور متقی بنیں گے کہ اپنے ہم عمروں کے لیے نمونہ ہوں گے۔ اپ گھر میں تشریف لے جایئے۔ یہ بھی آپ کے ساتھ جائیں، کپڑے بدلیں اور آپ کی نصیحت پر عمل کریں، جس میں دنیا اور دین دونوں کا فائدہ ہے۔ "




نصوح نے پھر کلیم کی طرف مخاطب ہو کر کہا : " کیوں صاحب، کچھ تم بھی تو اپنے دل کا ارادہ بیان کرو۔ "




کلیم : " مجھ کو آپ اتنی اجازت دیجئے کہ گھر سے اپنی ضرورت کی چند چیزیں منگوا لوں۔




نصوح : "سخت افسوس کہ تم دنیا کی چند روزہ اور عارضی ضرور توں کا اہتمام کرتے ہو اور دین کی بڑی ضرورت سے غافل ہو۔




غم دیں خور کہ غم غم دین ست




ہمہ غم ہا فرو تر از ایں ست




ضرورت کی چیزیں منگوا لینا کیا معنی، تم شوق سے گھر میں چلو۔ غالباً میری نسبت کر تم کو اس گھر میں زیادہ دنوں رہتا ہے، بس وہ گھر میرا کیوں فرض کر لیا گیا ہے۔ تمہاری ماں بہت بے تاب ہے۔ چھوٹے بڑے سب فکر مند ہیں۔ میرے جرم کی سزا دوسروں کو دینا شیوہ انصاف سے بعید ہے۔ "




کلیم : " مجھ کو معلوم ہے کہ آپ چند روز سے دین داری اور خدا پرستی کے نام سے نئے نئے دستور، نئے نئے طریقے، نئے نئے قاعدے گھر میں جاری کرنے چاہتے ہیں اور اس جدید انتظام میں جیسا کچھ اہتمام آپ کو منظور ہے، میں کیا گھر میں کوئی متنفس اس سے بے خبر نہیں۔ ہر شخص اس بات کو اچھی طرح سے جان چکا ہے کہ وہ اس انتظامِ جدید کی مخالفت کے ساتھ گھر میں رہ نہیں سکتا۔ پس میں نے اپنی طرف بہتیری کوشش کی کہ مجھ کو اپنی مخالفت آپ کے رو در رو ظاہر کرنے کی ضرورت نہ ہو، مگر آپ کے اصرار نے مجھ کو مجبور کر دیا اور اب نا چار مجھ کو کہنا پڑا کہ میں شروع سے اس انتظام کا مخالف ہوں، اور میرا گریز میری رائے ظاہر کر دینے کے لیے کافی تھا۔ میں ایک بال کے برابر اپنی طرز زندگی کو نہیں بدل سکتا اور اگر جبر اور سخت گیری کے خوف سے میں اپنی رائے کی آزادی نہ رکھ سکوں تو تف ہے میری ہمت پر اور نفرین ہے میری غیرت پر اور میں اس میں کلام نہیں کرتا کہ آپ کو اپنے گھر میں ہر طرح کے انتظام کا اختیار حاصل ہے، مگر اس جبری انتظام کے وہی لوگ پابند ہو سکتے ہیں جن کو اس کی واجبیت تسلیم ہو یا جو اس کی مخالفت پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔ اور چوں کہ میں دونوں شقوں سے خارج ہوں، میں نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ گھر سے الگ ہو جاؤں اور اگرچہ میری اس وقت کی حالت پر یہ کہنا زیب نہیں دیتا لیکن ذرا مجھ کو دہلی سے نکلنے دیجئے، تو پھر آپ اور سب لوگ دیکھ لیں گے کہ میں کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ قاعدہ ہے کہ وطن میں آدمی بے قدر ہوتا ہے، چنانچہ آپ کے نزدیک بھی یہ بات ثابت ہے کہ مجھ کو گھر سے نکلنے پر بھیک مانگی نہیں ملے گی۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہی آپ کا فرزند نا لائق و نا خلف ہو گا اور کسی امیر کی مصاحبت ہو گی، یا کسی ریاست کی مسندِ وزارت۔ میں ایسا بھی احمق نہیں ہوں کہ آپ پر مہربانی کی تہمت لگاؤں۔ آپ وہی بات فرماتے ہیں جو آپ میرے حق میں بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن میری بے ادبی اور گستاخی معاف، میں اپنے تئیں محتاج تعلیم و ہدایت نہیں سمجھتا۔ رہا گھر، سو اس میں صرف اس شرط سے چل سکتا ہوں کہ آپ میرے نیک و بد سے بحث، میرے بھلے برے سے تعرض نہ کرنے کا قول واثق اور وعدہ حتمی کریں۔ "




نصوح : اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے مجھ کو منصب پدری سے معزول کیا۔




کلیم : نہیں۔ آپ نے مجھ کو فرزندی سے عاق فرمایا۔




اس کے بعد نصوح گھر میں آنے کی نیت سے اٹھا اور اس کا ارادہ تھا کہ طوعاً و کرہاً جس طرح ممکن ہو، کلیم کو ساتھ لوا جائے۔ مگر کلیم، نہیں معلوم کیوں کر، نصوح کے بطون کو تاڑ گیا کہ اس کو اٹھتا دیکھ چبوترے سے جست کی تو صحن میں تھا اور صحن سے تڑپا تو احاطے کے باہر۔ لوگوں نے دوڑ کر دیکھا تو وہ بازار کے پرلے سرے جا چکا تھا۔ یہ دیکھ کر نصوح ہکا بکا سا ہو کر رہ گیا اور جس طرح اس نے بیٹے کو سپاہیوں کے ہاتھوں میں گرفتار دیکھ کر " انا للہ " کہا تھا، اب بیٹے سے جدا ہوتے وقت بھی وہ " انا للہ " کہہ کر چپ ہو رہا۔




غرض کلیم نہ گھر گیا اور نہ گھر سے اس کو کوئی چیز لینی نصیب ہوئی۔ اسی طرح الٹے پاؤں پھر کر چلا گیا۔ نصوح کے پہنچتے پہنچتے یہ تمام ماجرا کسی نے گھر میں جا کہا اور مستورات میں بیٹھے بٹھائے ایک کہرام مچ گیا۔ فہمیدہ بے تاب ہو کر بادلوں کی طرح دروازے میں آ کھڑی ہوئی اور قریب تھا کہ پردے سے باہر نکل آئے، کہ نصوح جا پہنچا۔ بی بی کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر حیران ہو کر پوچھا کہ خیر تو ہے، کہاں کھڑی ہو؟ فہمیدہ میاں کو دیکھ کر بلک گئی اور گھبرا کر پوچھا کہ میرا کلیم کہاں ہے؟




نصوح : میرا کلیم؟ اگر تمہارا کلیم ہوتا تو تمہارے گھر میں ہوتا۔ اور تمہارے اور باپ اور بھائی کے اتنے اصرار اور اتنے سمجھانے اور اتنی منت اور اتنی خوشامد پر، بے پوچھے، بے کہے، گھر سے نہ چلا جاتا۔




فہمیدہ : اچھے، خدا کے لیے مجھ کو اس کی صورت دیکھا دو۔ میں نے سنا ہے کہ سر سے ننگا ہے، پاؤں میں جوتی نہیں۔ اس نے کا ہے کو کبھی زمین پر پاؤں رکھا تھا، کن کر تلووں میں چبھتے ہوں گے۔ کون سے وہ مولے سپاہی تھے، میرے بچے کے پکڑنے والے۔ گھورا ہو تو الہٰی دیدے پھوٹیں۔ ہاتھ لگایا ہو تو خدا کرے پور پور سے کوڑھ ٹپ کے۔ وارے تھے وہ سپاہی اور قربان کیا تھا وہ کو توال۔ میرا بچہ اور چوری کرنے کے قابل؟




نصوح : کیسی بد عقلی کی باتیں کرتی ہو۔ چلو گھر میں چل کر بیٹھو۔ باہر گلی میں تمہاری آواز جاتی ہے۔ تمہاری اس بے تابی کی محبت نے اولاد کو دنیا اور دین دونوں سے تو کھو دیا، اب دیکھیے کیا کرے گی۔










فہمیدہ : اچھا تو پھر کلیم گیا تو کہاں گیا؟




نصوح : جانے میری جوتی کہاں گیا۔ مجھ سے پوچھ کر گیا ہو تو بتاؤں۔ نہیں معلوم خدائی خوار کہاں تھا، اور کیسے لوگوں میں تھا کہ جو رسوائی ہفتاد پشت سے نہ ہوئی تھی وہ اس مردک کی وجہ سے ہوئی۔ اب مجھ کو شہر میں منہ دکھانا مشکل ہے۔ یا تو خدا اس کو نیک ہدایت دے، یا میں اس کو تو کیا بد دعا دوں، مجھ کو ایمان سے اٹھا لے کہ ان تکلیفوں سے مجھ کو نجات ہو۔




فہمیدہ : کیوں کر تمہارے دل نے صبر کیا اور کن آنکھوں سے تم نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا۔ ؟




نصوح : جس طرح اس کی گستاخی پر صبر کیا تھا کہ میں نے بار بار بلایا اور وہ نہ آیا، اسی طرح میں نے اس کی وہ حالت دیکھ کر صبر کیا اور جن آنکھوں سے اس کے خلوت خانے، عشرت منزل اور کتب خانے کی رسوائی اور خرابی اور تفضیح کو دیکھا تھا، انہی آنکھوں سے اس کو کھلے سر، ننگے پاؤں، چور بنا ہوا، سپاہیوں کی حراست میں دیکھا۔




ع :




جو کچھ خدا دکھائے سو نا چار دیکھنا










فہمیدہ : تم سے اتنا نہ ہو سکا کہ اس کو مجھ تک لے آتے۔




نصوح : اگر میں اس کو تم تک نہ لا سکا تو مجھ سے پہلے تم اس کو مجھ تک نہیں لا سکیں اور نہ تم اس کو جانے سے روک سکیں۔




فہمیدہ : کہاں تم مرد، کہاں میں عورت۔




نصوح : تو کیا تمہاری مرضی تھی کہ میں اس سے کشتی لڑتا؟ بس ایسے اخلاص سے مجھ معاف رکھیے۔




غرض نصوح سمجھا بجھا کر بی بی کو گھر میں لے گیا اور یہ بات اس کے ذہن نشین کر دی کہ رونے سے مطلق فائدہ نہیں۔ البتہ خدا سے اس کے حق میں زار نالی کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ با مراد اس کو واپس لائے۔




ادھر کلیم نے خالہ کے جانے کا ارادہ کیا مگر اس وقت تک اس کو نعیمہ کا حال معلوم نہ تھا۔ اگر کہیں خالہ کے یہاں چلا گیا ہوتا تو سب سے بہتر تھا۔ سرِ دست اس کی ہمدردی کرنے کو نعیمہ وہاں موجود تھی اور چوں کہ اس کی خالہ کا سارا خاندان نیک اور دین دار تھا، کلیم کو نصوح کے خیالات سے مانوس کرنے کے لیے وہاں ہر طرح کا موقع تھا۔ لیکن عصیانِ خدا کا وبال اور حقوق والدین کی شامت، ابھی بہت سی گردشیں اس کی تقدیر میں تھیں۔ جوں ہی گلی کے باہر نکلا کہ میاں فطرت اس کو مل گئے۔ یہ حضرت، نصوح کے چچا زاد بھائیوں میں تھے اور ان سے اور نصوح سے موروثی عداوت تھی، جیسی کہ دنیا دار خاندانوں میں اکثر ہوا کرتی ہے۔ رشتہ داری کی وجہ سے ایک کے حالات دوسرے سے مخفی نہ تھے۔ فطرت سن چکا تھا کہ نصوح کو دین داری کا نیا خبط اچھلا ہے، جس کی وجہ سے اس کے تمام خاندان میں کھلبلی مچ رہی ہے۔ جو دقتیں بیچارے نصوح کو اصلاح خاندان میں پیش آتی تھیں، فطرت کو سب کی خبر لگتی تھی اور یہاں کے تذکروں کا ایک مضحکہ ہوتا تھا۔ کلیم کی عادت سے تو واقف تھا ہی، فطرت اپنے یہاں خود کہا کرتا تھا کہ میاں نصوح لاکھ دین داری جتائیں مگر جب جانیں کہ بڑے بیٹے کو اپنی راہ پر لائیں۔ کلیم کو جو ننگے سر ننگے پاؤں سر بازار جاتے ہوئے دیکھا تو فطرت نے چھیڑ کر پوچھا کہ میاں




کلیم، تم نے ابھی سے احرام حج باندھ لیا؟




کلیم : احرام حج نہیں، احرام ہجرت۔




فطرت : وہی تو کہوں، مجھ کو تمہاری وضع داری اور دانش مندی سے شیخ وقت کی تقلید نہایت مستبعد معلوم ہوتی تھی۔




کلیم : جی نہیں، شیخ کی خدمت میں جیسی ارادت شاعروں کو ہے، معلوم۔










فطرت : بس یہی دیکھ لو کہ بھائی نصوح کا اپنی اولاد کے ساتھ اور اولاد میں بھی تمہارے ساتھ، کہ آج ماشا اللہ فخر خاندان ہو، یہ طرز مدارت ہے۔ ہم لوگ تو خیر کہنے کو اجنبی اور غیر ہیں۔ ایسی ہی بد مزاجیوں نے کنبہ والوں سے میل ملاپ چھڑایا، ورنہ انصاف شرط ہے، ہمارا ان کا کیا بانٹیے؟ اپنا کھانا، اپنا پہننا، لڑائی کس لیے اور جھگڑا کیوں؟ اور طرہ یہ ہے کہ جس قدر حضرت سن رسیدہ ہوتے جاتے ہیں، مزاج جوان ہوتا جاتا ہے۔ بھائی، صد آفرین ہے تمہاری والدہ کو۔ نہیں معلوم ایسے آتش مزاج، بے مروت آدمی کے ساتھ اس نیک بخت نے کیوں کر نباہ کیا۔ مگر عورت ذات، موذی کے پنجہ غضب میں گرفتار ہے، کرے تو کیا کرے۔ میاں کلیم، تم اس کو سچ جاننا، تم لوگوں کی مصیبت کا خیال کر کر کے، بھائی، ہمارا تو گھر بھر بے چین رہتا ہے۔ یہ خون کا جوش ہے ورنہ ملنا ملانا ترک، آنا جانا موقوف، سلام پیام مسدود۔ کیا کریں، کچھ بس نہیں چلتا۔ بھلا پھر اس حالت میں تم جاتے کہاں ہو؟




کلیم : خالہ جان کے یہاں جانے کا ارادہ ہے۔




فطرت : تمہارے باپ کے ڈر سے، دیکھا ہی چاہیے کہ گھر میں گھسنے دیں۔




کلیم : نہیں، ان سے تو ایسی توقع نہیں ہے۔




فطرت : مگر ذات شریف خود نہ تشریف لے جائیں، اس کی کیا روک ہے؟




کلیم : اس کا خدشہ تو ضرور ہے۔




دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا




جب دھم سے آ کہوں گا حضرت سلام میرا




فطرت : میں کہہ تو نہیں سکتا، لیکن سمجھو تو ہم بھی، خدا نہ خواستہ، کوئی تمہارے یا بھائی نصوح کے دشمن نہیں ہیں۔ ارے میاں، رشتہ داروں ہی میں کھٹ پٹ بھی ہوا کرتی ہے۔ شکوہ غیر کا نہیں کرتے۔ گلہ اوپری سے نہیں ہوتا۔ جو ہم کو تمہارا اور تم کو ہمارا درد ہو گا، وہ خالہ خالو کو نہیں ہو سکتا۔ بھائی نصوح ابھی جب وبا میں بیمار پڑے، خدا شاہد ہے، دونوں وقت میں خود محلے میں آ کر خبر لے جاتا تھا۔ ہماری اماں جان ہمیشہ حلال خوری سے تمہارے یہاں کے حالات پوچھا کرتی ہیں۔ مجھ سے تو یہ رسوائی گوارا نہیں ہو سکتی کہ تم اس حالت سے، ایسے بے وقت خالہ کے یہاں جاؤ۔ چلو شب کو ہمارے یہاں آرام کرو۔ ایسا ہی ہو گا تو صبح کو خالہ کے یہاں بھی ہو آنا۔ لو یہ میرا دوپٹہ تو سر کو لپیٹ لو، لوگ آتے جاتے ہیں اور چلو پاس کے پاس اسی چھتے سے ہر کر نکل چلیں۔










غرض میاں فطرت للو پتو کر کے کلیم کو اپنے گھر لے گئے اور نصوح کے جلن سے اس کی ایسی بزرگداشت کی کہ کسی کے گھر والے بھی نہ کرتے ہوں گے۔ کلیم نے جب سے دین داری اور اصلاح وضع کی چھیڑ چھاڑ سنی تھی، کیا ماں، کیا باپ، کیا بھائی، سب کو اپنی رائے سے برخلاف پایا۔ اب جو فطرت نے بغرض اس کی دلجوئی اور خاطر داری کی اور اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور نصوح کو مجنوں اور بد مزاج اور سخت گیر ٹھہرایا، یہ احمق سمجھا کہ بس فطرت اور اس کے گھر والوں سے بڑھ کر کوئی اس کا خیر خواہ نہیں۔ اب تک وہ باپ سے صرف اختلاف رائے رکھتا تھا، اب اس کو باپ سے ایک نفرت و عداوت پیدا ہوئی۔ فطرت نے جلی کٹی باتیں لگا کر یہ خیال اس کے دل سے بالکل دور کر دیا کہ نصوح کو اس کے تدین نے اولاد کے ساتھ روک ٹوک کرنے پر مجبور کیا ہے اور چوں کہ کلیم اپنی پندار میں یہی سمجھتا تھا کہ اس وقت تک میں ہی اکیلا گھر سے نکلا ہوں، فطرت کے بہکا دینے سے اس کو یقین ہو گیا کہ دین داری اور خدا پرستی کا حیلہ تھا، ورنہ فی الاصل باپ کو اس کا گھر سے نکال دینا مرکوز خاطر تھا۔




کلیم اس وقت دو مخالفوں کی کشمکش میں تھا۔ باپ اس کو صراطِ مستقیم کی طرف کھینچتا تھا، فطرت گمراہی اور ضلالت کی طرف۔ لیکن فطرت حریف غالب تھا، اس واسطے کہ اول تو خود کلیم کا میلانِ طبع اس کی جانب تھا، دوسرے، نصوح ایک نئی اور نامانوس اور دشوار گزار راہ پر اس کو لے جانا چاہتا تھا، جس میں زہد و ریاضت اور اِتقا اور نفس کشی اور انکسار اور فروتنی اور خوفِ عاقبت کی چند در چند تکلیفیں اور مصیبتیں در پیش تھیں۔ اس راہ میں کلیم کو بدرقہ و راہ نما تو خیر، رفیق و ہمسفر کا ملنا بھی مشکل تھا۔ برخلاف اس کے فطرت اس کو ایک شارع عام دکھاتا تھا، ایسا آباد کہ گویا اس سرے سے اس سرے تک بازار لگا ہے اور نہ صرف منزل بہ منزل، بلکہ قدم بہ قدم، تن آسانی اور عیاشی اور خود پسندی اور کبر اور بے فکری اور مطلق العنانی، طرح طرح کی آسائشیں اور انواع و اقسام کی راحتیں موجود و مہیا تھیں۔ اس راہ میں کلیم کو میلے کا حظ یعنی سفر میں حضر کا لطف حاصل تھا۔




غرض کلیم، میاں فطرت سے شیر و شکر کی طرح ملا۔ نصوح نے جب یہ خبر سنی تو سخت افسوس کیا، نہ اس وجہ سے کہ وہ فطرت سے عداوت رکھتا تھا کیوں کہ عداوت تو دین عاری کے اعتبار سے بڑا گناہ ہے اور نصوح سے اس کے ارتکاب کی امید نہیں کی جا سکتی تھی لیکن اس کا یہ خدشہ کچھ بے جا نہ تھا کہ فطرت اصلاح میں کوشش نہیں کرے گا۔ فطرت کے یہاں کلیم کو اور توکسی طرح کی تکلیف نہ تھی، مگر اس کی مرضی کی کتابیں یہاں نہیں ملتی تھیں۔ تب اس نے فطرت سے بیان کیا کہ دن بھر خالی بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبرایا کرتی ہے۔ اگرچہ میں نے اپنے حالات میں ایک مثنوی کہنی شروع کر دی ہے اور سو، سوا سو شعر بھی ہو گئے ہیں، مگر فکرِ سخن بے اطمینان خاطر بن نہیں پڑتا۔ اگر آپ صلاح دیں تو میں اپنی چند کتابیں گھر سے منگوا بھیجوں۔




فطرت : مجھ کو بھائی نصوح سے توقع نہیں کہ وہ اتنی رعایت بھی تمہارے حق میں جائز رکھیں، خصوصاً اس حال میں کہ تم میرے گھر ہو۔ میرے نزدیک تمہارا یہ جرم ان کے مذہب میں تکفیر کے لیے کافی ہے۔ مگر ہاں، اپنی والدہ سے کہلا بھیجو۔ ان کا قابو چلے گا تو البتہ دریغ نہ کریں گی۔




کلیم تو متردد تھا کسی سبیل سے کتابیں منگوائے مگر فطرت، از بس کہ عیاری اور چالاکی کے موکل اس کے مطیع تھے، خود بول اٹھا کہ جی، یہ کون سی بری بات ہے؟ مجھ سے کہیے تو بھائی نصوح کی چار پائی اٹھوا منگواؤں اور ان کے فرشتوں کو خبر نہ ہو۔










غرض فطرت نصوح کے گھر گیا اور کسی ڈھب سے اس نے سارا حال معلوم کیا، اور وہ آگ جو نصوح نے کلیم کی کتابوں میں لگائی تھی، فطرت نے کلیم سے جا لگائی۔ ایک تو خانہ ویرانی اس پر فطرت کی آتش بیانی۔ کلیم پر اس آتش زنی کی خبر نے وہ اثر کیا کہ جو حضرت مُوسیٰ علیہ السلام پر آتشِ طور نے کیا تھا۔ سنتے کے ساتھ ایسا بے خود ہو گیا کہ گویا بجلی گری۔ آپے میں آیا تو مزاج ایسا بر افروختہ تھا کہ شاید نصوح اس وقت موجود ہوتا تو یہ مردک دست و گریباں ہو کر لپٹ جاتا۔ کوئی نا گفتنی، جل کٹی بات اس نے اٹھا نہیں رکھی۔ مگر لال پیلا ہو کر خاموش ہو رہا اور اس بات کے درپے ہوا کہ باپ سے انتقام لے۔ کلیم نے جو طریقے انتقام کے سوچے تھے، وہ سخت بے ہودہ تھے۔ جب اس نے اپنی تدبیروں کو فطرت پر عرض کیا تو اس نے سب کی تحقیق کی اور کہا کہ ابھی تم نرے صاحب زادے ہو۔ میں تم کو ایسی تدبیر بتاؤں کہ " ہم کینہ و ہم خزینہ۔ "




کلیم : وہ کیا؟




فطرت : گاؤں پر آخر تمہارا نام چڑھا ہوا ہے، اس پر دخل کرو۔




کلیم : " این خیال است و محال است و جنون"










ان کے متعدد کارندے اور نو کر چاکر اس پر مسلط ہیں۔




فطرت : گاؤں تمہارا تو نو کر اور کارندے تمہارے یا ان کے؟




کلیم : لیکن میں صرف اسم فرضی ہوں۔




فطرت : اس کا ثبوت؟




کلیم : ثبوت کا قبض و دخل، اور ان کے روپے سے گاؤں کا خرید ہونا۔




فطرت : ان کا قبض و دخل عین تمہارا قبض و دخل اور ان کا روپیہ عین تمہارا روپیہ ہے۔ بائع نے تمہارے نام سے رسید دی۔ گاؤں میں پٹہ قبولیت تمہارے نام سے ہوتا ہے۔ خزانہ سرکاری میں مال گزاری تمہارے نام سے سیاہہ ہوتی ہے۔




کلیم : جب میں سرے سے اسم فرضی ہوں تو نام کا ہونا میرے حق میں کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتا۔




فطرت : لیکن اگر اسم فرضی ہونے سے انکار کیا جائے تو اس کی تردید کچھ آسان نہیں ہے۔




کلیم : میری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ کیوں کر ایک امر واقعی کی تکذیب ہو سکتی ہے۔










فطرت : ہاں یہ شاعری نہیں ہے، دین داری ہے۔ اس کو ایک خاص سلیقہ درکار ہے۔




کلیم : غرض اس تدبیر کا پیش رفت ہونا تو ممکن نہیں معلوم ہوتا، کوئی اور بات سوچیے۔




فطرت : جب تم سے ایسے سہل کام کا سرانجام نہیں ہو سکتا تو گھر سے نکلنے کا حوصلہ تم نے ناحق کیا۔ یہی اسم فرضی کا حق مجھ کو حاصل ہوتا تو سیر دکھاتا۔




کلیم : فرض کر لیجئے کہ آپ کو حاصل ہے۔




فطرت : کیوں کر فرض کر لوں؟ جیسے تم اسم فرضی مالک ہو ویسا ہی ایک فرضی بیع نامہ میرے نام کر دو تو البتہ فرض کر سکتا ہوں۔




کلیم : اگر ملکیت فرضی کا بیع نامہ کچھ بکار آمد ہو سکتا ہے تو گاؤں کی کیا حقیقت ہے، میں تو سلطنت روم کا بیع نامہ آپ کے نام لکھ دوں۔




ع :




بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را




فطرت : بھلا گاؤں کتنے پر بیع کرو گے؟




کلیم : کسی فرضی قیمت پر۔










فطرت : بھلا اس کا اندازہ بھی؟




کلیم : فرض کیجئے کہ سو روپے




فطرت : مجھ سے ہزار نقد لیجئے۔




کلیم : سچ




فطرت : سچ




کلیم : واللہ بیچا۔




فطرت : واللہ لیا۔




کلیم کو فطرت کی قسم پر بھی اعتبار نہ ہوتا تھا۔ فطرت نے گھر میں جا، ہزار روپے کا توڑا لا کر سامنے رکھ دیا۔ ادھر روپے گنے گئے اور ادھر بیع نامہ لکھ پڑھ کر تیار ہو گیا۔




کلیم نے سوچا کہ میں نے یہ سودا کیا کیا، ایک غنیمت باردہ مفت ہاتھ آئی۔ اس وقت تو بات کی پچ کر کے فطرت نے روپیہ دے دیا، ایسا نہ ہو پھر چنید کرے۔ بہتر ہے کہ چل دیجئے۔ یہ سوچ، روپیہ کا توڑا بغل میں داب، کلیم رخصت ہوا تو سیدھا چاندنی چوک میں آیا۔ محل دار خان کا کمرہ اسی روز خالی ہوا تھا کہ اس نے سر قفلی جا دی۔










دہلی جیسا شہر اور کلیم جیسا نا عاقبت اندیش اور مسرف اور اس طرح کا مال مفت، بات کی بات میں، فرش و فروش، جھاڑ فانوس، ساز و سامان، نو کر چاکر، سب کچھ موجود ہو گیا۔ یہاں تک کہ اگلے ہی دن، پہلے مشاعرے کی محفل، اس کے بعد ناچ کا جلسہ ٹھہر ٹھہرا، جتنے یار آشنا تھے، سب کے نام رقعے تقسیم ہوئے اور کلیم کے سارے شیاطین الانس پھر بہ دستور جمع ہو گئے۔ حتی کہ وہ مرزا ظاہر دار بیگ بھی اتنے بڑے بے غیرت کہ خبر سن کر دوڑے آئے اور کلیم اتنا بڑا احمق کہ ایسا دھوکہ کھا کر پھر ان سے صاف ہو گیا۔




جس کیفیت سے کلیم نے دو مہینے گزارے، نا گفتہ بہ ہے۔ وہ بد کرداری کا تپ کہنہ رکھتا تھا، اب یہ دن گویا بحران کے تھے۔ ہزار روپے کی کل جمع پونجی اور ایسا بے دریغ خرچ، تیسرا مہینہ شروع نہیں ہوا تھا کہ ہزار تمام ہوئے۔ پہلے سے ہی بزاز، درزی، حلوائی، کبابی، نانوائی، میوہ فروش، گندھی، بساطی وغیرہ کا حساب باقی تھا۔ نو کروں کا دو ماہہ چڑھ چکا تھا، اب آٹا دال تک ادھار آنے لگا۔ شدہ شدہ ہر طرف سے طلب و تقاضا شروع ہوا۔ استعمال سے پہلے اسباب خانہ داری کے بکنے کی نوبت پہنچی تو کلیم خواب غفلت سے بیدار ہوا۔ لیکن اب اس کا تنبہ کچھ چنداں سود مند نہ تھا۔ اس کے یار دوست، دستور کے موافق اس کے پاس آنا جانا قاطبتہً ترک کر چکے تھے۔ نو کر چاکر بھی گھر بیٹھ رہے تھے اور جو تھے وہ تنخواہ کے نہ ملنے سے ایسے گستاخ ہو گئے تھے کہ کار خدمت تو در کنار، رو در رو جواب دیتے تھے۔ جو چیز جس کی تحویل میں تھی، وہ ہیکڑی سے اس کو اپنا مال سمجھتا تھا۔ کوئی وقت ایسا نہ تھا کہ دو چار قرض خواہ اس کے در دولت پر نہ ہوں۔ کلیم نے چاہا کہ چپ کے سے چل دے، مگر اس کے بغلی دشمنوں یعنی نو کروں کی وجہ سے اس کا منصوبہ فاش ہو گیا اور جوں پہر رات گئے وہ نو کروں کا لباس بدل کر باہر نکلا تھا کہ سر ہنگاں دیوانی کے پنجۂ غضب میں گرفتار ہو گیا۔ اس غفلت شعار کو اب معلوم ہوا کہ کئی ڈگریاں یک طرف اس پر جاری ہیں۔




ان پیادوں کی حراست میں جس کیفیت سے کلیم نے رات گزاری وہ ایسی سخت و ناگوار تھی کہ اس کو بار بار ظاہر دار بیگ کی مسجد کا اعتکاف شبینہ حسرت کے ساتھ یاد آتا تھا۔ اگلے دن کچہری کے پیادوں نے کلیم کو لے جا کر حاکم عدالت کے روبرو حاضر کیا۔ احاطہ کچہری میں پہنچتے ہی پہلے نصوح سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ کلیم باپ کو دیکھ کر بے اختیار رو دیا، مگر پیادوں کے خوف اور اپنی ندامت کے سبب کچھ نہ کہہ سکا۔ نصوح کا کچہری میں آنا بھی انہی حضرت کی وجہ سے تھا۔ فطرت نے اس بیع نامہ فرضی کا ایک طومار بنا کھڑا کیا اور دو چار نمک حرام کارندوں کا گانٹھا اور چند کاشت کاروں کو بیگھہ پیچھے دو دو چار چار آنے کمی کر کے استماری پٹے کر دیے۔ دلی شہر کے چند آبرو باختہ غنڈے ساتھ لے، گاؤں پر زبردستی دخل کر لیا۔ نوبت بہ عدالت پہنچی۔ مقدمے میں کچھ ایسے پیچ پڑتے گئے کہ دروغ کو فروغ ہو گیا۔ کلیم نے تو اپنے نزدیک ایک کھیل کیا تھا، نصوح بے چارے کو مفت میں پانچ چھ ہزار کا گاؤں ہارنا پڑا۔










اسی تقریب سے نصوح کچہری تھا کہ کلیم اس کو دوسرے مرتبہ سرکاری پیادوں کے ہاتھ میں گرفتار نظر آیا۔ گو باپ بیٹے میں بالمشافہ بات چیت تو در کنار دعا سلام کا بھی اتفاق نہیں ہوا، لیکن ایک دوسرے کی کیفیت معلوم ہو گئی۔ باپ نے ابھی کچہری کے احاطے سے پاؤں باہر نہیں رکھا تھا کہ بیٹا جیل خانے جا داخل ہوا۔ کلیم نے ہر چند شاعری اور امیر زادگی کے چند در چند استحقاق ثابت کئے، مگر مالکان مجس نے ایک نہ مانی اور اس کو ایسا ایسا رگیدا کہ دوسرے ہی دن چیں بول گیا۔ اس بے کسی میں کلیم کو باپ یاد آ گیا اور اگرچہ اپنی حرکات پر نظر کرنے سے بالکل نا امیدی تھی مگر الفریق ینشبت بالحشیش مرتا کیا نہ کرتا۔ بے غیرتی کا ٹھی کرا آنکھوں پر رکھ کر باپ کو ایک خط لکھا۔ وہ یہ تھا : مجھ کو حیرت ہے کہ میں کون ہوں اور کس کو یہ خط لکھتا ہوں اور یقین ہے کہ اس خط کے پہنچنے پر مجھ سے زیادہ حیرت آپ کو ہو گی۔ اتنی گستاخی، اتنی نا فرمانی، اتنی بے حیائی، اتنی مخالفت پر جو مجھ نا لائق، نابکار، نا ہنجار، کشتنی، گردن زدنی، ننگ خاندان،




ع :




بد نام کنندہ نکو نامے چند




سے سر زد ہوئی، میں کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو آپ کے ساتھ نسبت فرزندی باقی رہی۔ پس نہ تو یہ خط خط ہے، اور نہ بیٹے کی طرف سے ہے، اور نہ باپ کے نام ہے۔ بلکہ یہ معذرت نامہ ہے، عرضی اعتراف ہے، توبہ کا وثیقہ اور استغفار کی دستاویز، ندامت کا اقرار اور حاجت مندی کا اظہار ہے، گنہگار، روسیاہ و شرمسار، ظالم، جفا کار، تبہ روزگار کلیم کی طرف سے، صاحب کرم عمیم و خلق عظیم، برد بار و حلیم، رؤف و رحیم، محسن ولی نعمت، مہربان سراپا شفقت، نیکو کار، کم آزار، خیر خواہ بلا اشتباہ کے نام۔ ہر چند میری رسوائی یہاں تک پہنچی کہ جب سے مردود و مطرود ہوا، طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا اور انواع و اقسام کی ذلتوں میں گرفتار ہوں، لیکن یہ سمجھنا کہ میں جیسا کیا ویسا پایا بے جا اور غلط ہے، کہ کیا ہزار تو پایا ایک، کیا من تو بھگتا چھٹانک۔ بلکہ ایک اور چھٹانک بھی نہیں، حاشا نہیں، زینہار نہیں۔ ہر چند میں معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ میرے دل میں ہے وہ کہیں زیادہ ہے اس سے جو عبارت میں ہے لیکن خود مجھ کو اپنی توبہ سے تشفی اور ندامت سے تسلی نہیں، اس واسطے کہ میری توبہ درماندگی کی توبہ اور ندامت حالت ابتلا کی ندامت ہے۔ تو طیہ برطرف، تمہید یک سو۔ نہ مجھ کو توبہ پر تکیہ، نہ ندامت پر ناز۔ خدا کو، جس کا میں آپ سے بڑھ کر گنہگار ہوں، اپنا شفیع قرار دیتا ہوں،




ع :




اور دیکھتا ہوں تا کرم اور چہا کند۔ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یُحِبُ المحسنین۔




قطعہ




شاہا ز کرم بر من درویش نگر




بر حال من خستہ و دلریش نگر




ہر چند نیم لائق بخشائش تو




بر من منگر بر کرم خویش نگر










علیم کسی پادری سے ایک مذہبی کتاب لے آیا تھا۔ اس میں اتفاق سے ایک جملہ مجھ کو نظر پڑا اور پسند آیا۔ وہ یہ تھا کہ توبہ ربڑ ہے اور گناہ پنسل کی تحریر۔ پس جب کہ توبہ و ندامت نے مجھ کو آلودگی گناہ سے پاک کر دیا تو پھر میں آپ کا برخور دار ہوں اور آپ میرے والد بزرگوار، مجھ کو آپ سے ہر طرح کا دعوی اور آپ کو مجھ سے ہر قسم کی توقع ہے۔ سات سو کے عوض میں اس وقت میری جان پر بنی ہے۔ آپ مجھ کو اگر للہ، صدقہ، زکوٰۃ، خیرات جان کر نہ دیں تو قرض حسنہ دیں۔ قیدی کے چھڑانے، غلام کے آزاد کرنے کا ثواب آپ پر مخفی نہیں ہے۔ اگر روپیہ کل تک نہیں آیا تو میری زندگی دشوار ہے۔ کلیم شاعر تو تھا ہی با توں کا جادو بنانے کی اس نے یہاں تک مشق بہم پہنچائی تھی کہ اس کے جھوٹے ڈھکوسلوں پر تمام مجلس کو وجد ہوتا تھا۔ باپ کے اس نے توبہ ریائی کا ایسا مضمون سوچا کہ اس کا خط گویا سات سو روپیہ کی درشنی ہنڈی تھی۔ جانے کی دیر تھی اور روپیہ ملنے کی دیر نہ تھی۔ لیکن مشکل یہ در پیش تھی کہ قاصد نہیں، نامہ بر نہیں، خط جائے توکیسے جائے۔ ہانسی حصار کی طرف کا ایک سپاہی کچھ حرف آشنا سا تھا، اور جب اس کو پہرے وغیرہ سے فراغت ہوتی تو وہ قصہ شام روم و سپاہی زادہ، بنجارہ نامہ، کنز المصلیٰ منظوم، اس قسم کے اردو رسالے، نثر کو پریشان، نظم کو نا موزوں کر کے اپنی کرخت سنگلاخ بولی میں پڑھا کرتا تھا۔ کلیم کو شاعری کے ذریعے سے اس سپاہی کے ساتھ تعارف پیدا کر لینا کچھ دشوار نہ تھا۔ منت سماجت سے کلیم نے اس کو خط پہنچا دینے پر آمادہ کیا اور اجرت یہ ٹھہری کہ کلیم، اس کے اور اس کے دو بیٹوں کے نام کے سجع بنا دے۔ نام ان کم بختوں کے، اتفاق سے ایسے ٹیڑھے تھے کہ بے چارہ کلیم بہتیرا غور کرتا تھا، کسی ڈھب سے نہیں کھپتے تھے اور واقع میں نتھے خاں، جمن خان، جاہل کندہ نا تراش، پسند کرنے والا سخن فہم۔ کلیم بہتر سے بہتر سجع کہہ کر لے جاتا، وہ سن کر ہنس دیتا اور کہتا کہ بھائی جی، یہ تو ٹھیک نہیں بیٹھا۔ بڑی بڑی خرابیوں سے کوئی چھ سات دن میں کلیم نے نتھے خاں کی فرمائش پوری کی۔




غرض کلیم کا خط باپ تک پہنچا۔ وہ اس طرح کی طلب نہ تھی اس میں امروز و فردا کی گنجائش ہو۔ نصوح مے خط پڑھتے کے ساتھ، سا توں کے سا توں سو روپے بے عذر گن دیے۔ کلیم اس مرتبہ بھی باپ سے نہ چوکا۔ ضرورت تھی پانسو کی اور منگوائے سات سو۔ پانسو دے کر تو رہائی پائی۔ باقی بچے دو سو، اس میں کھڑے کھڑے سامان سفر درست کر اسی وقت دولت آباد کا راستہ لیا۔

فصل یازدہم

کلیم نو کری کی جستجو میں دولت آباد گیا اور فوج میں بھرتی ہو گیا، لڑائی میں زخمی ہوا اور مردونکی طرح چار کہاروں پر لد کر دہلی آیا۔

یہ ایک چھوٹی ہندوستانی ریاست ہے۔ البتہ کوئی پانچ چھ لاکھ روپیہ سال کا محاصل اس میں ہو سکتا تھا۔ لیکن ایک نوجوان نا تجربہ کار مسند نشین ہوا۔ خوشامدی صلاح کار، لچے مصاحب، موقع پا کر آ جمع ہوئے اور دولت آباد کو چھوٹا لکھنؤ بنا دیا۔ جہاں جہاں اس مذاق کے لوگ تھے سب کو فری میسن کی طرح ریاست دولت آباد کے حالات معلوم تھے۔ کلیم بھی سن سن کر دولت آباد کا ایسا مشتاق تھا، جیسے زاہد مرتاض جنت کا۔

غرض کلیم دو منزلہ طے کرتا ہوا دولت آباد پہنچا اور قبل اس کے کہ کسی سے تعارف پیدا کرے، اس نے اپنا سامان ظاہر درست کر پھر ایک مرتبہ سرائے میں امیری ٹھاٹھ لگا دیے۔ مدح رئیس میں قصیدہ تو اس نے سفر ہی میں کہنا شروع کر دیا تھا۔ صرف عرض حال اور قطعہ دعائیہ باقی تھا۔ جلدی جلدی تمام کر، اسی قصیدے کو ذریعہ تقریب قرار دے، درِ دولت پر جا کر حاضر ہوا۔ مگر شامتِ اعمال اور باپ کی نا خوشی کا وبال، اس کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس کے دولت پور پہنچنے سے چند روز پہلے یہاں بساط الٹ چکی تھی۔ بدنظمی ریاست کی خبریں صاحب ریذیڈنٹ کو پہنچیں، اور انہوں نے بہ ذات خاص دولت آباد پہنچ کر رئیس سے کل اختیارات متنازع کر، امور ریاست کا اہتمام ایک کمیٹی کو تفویض کیا، جس میں ریاست کے چند قدیم نمک خوار تھے، کہ وہ رئیس کی بے اعتدالیاں دیکھ کر ترکِ خدمت کر کے گھر بیٹھ رہے تھے۔ اور اس کمیٹی کے میر مجلس، انتظام الدولہ مدبر الملک نواب بیدار دل خاں بہادر، والی عافیت نگر، قرار دیئے گئے، کہ وہ رشتے میں رئیس دولت آباد کے ماموں بھی تھے اور ان کا حسنِ انتظام ان اطراف میں ضرب المثل تھا اور خود صاحب رزیڈنٹ بہادر بھی بلا ناغہ ماہ بہ ماہ اپنی شرکت سے کمیٹی کی آبرو افزائی کیا کرتے تھے۔ رئیس کو مصارف ضروری کے لیے کمیٹی سے دست برداشتہ کچھ روپیہ ملتا تھا۔ نابکار مصاحب ایک ایک کر کے نکالے جا چکے تھے۔ غرض جس چاٹ پر کلیم دوڑا آیا تھا وہ بات اب باقی نہ تھی۔




نا واقفیت کی وجہ سے کلیم نے اطلاع کرائی تو فوراً قاصد کی طرح طلبی آئی۔ یہ تو اس توقع سے خوشی خوشی اندر گیا کہ بان کے ٹیڑھے، رنگیلے سجیلے، وضع دار لوگ دیکھنے میں آئیں گے مگر جا کر دیکھتا ہے تو بڑے بڑے ریشائیل مولوی، پگڑ اور عمامے باندھے بیٹھے ہیں۔ کوئی درس دے رہا ہے، کوئی کتاب دیکھ رہا ہے کوئی اور اد میں مصروف ہے۔ اندر قدم رکھتے ہی کلیم نے یہ برجستہ مطلع پڑھا :

جاتے تھے جستجوئے بت خانہ و صنم میں

بہ کے تو جا کے نکلے ہم بھی کہاں حرم میں




مولویوں کی شکل دیکھ کر قریب تھا کہ کلیم اس طرح بھاگ کھڑا ہو جیسے لا حول سے شیطان مگر اس کو خیال ہوا کہ امیروں کے کارخانے ہیں، عجب کیا ہے کہ یہ کوئی خانقاہ ہو۔




ع :




مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے




چلو ذرا احوال تو دریافت کریں۔ بارے قریب جا کر اس نے ایک پیر مرد کو " مجرا عرض کرتا ہوں " کہہ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔




لفظ " مجرا" سن کر ان حضرت کے کان کھڑے ہوئے اور فورا آنکھ سے عینک اتار سیدھے ہو کر کلیم کو دیکھنے لگے۔ تب اس نے زائد از رکوع جھک کر ان کو سلام کیا، یعنی اپنا مجرا دکھایا۔ اس بزرگ نے فرمایا۔




" وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ من ابن انت فی ارفالک احسن اللہ بحالک۔




کلیم : حضرت قبلہ، میں فہم عربی سے قاصر ہوں۔




مولوی صاحب : کہاں سے اتفاقِ محبی ہوا؟




کلیم : دہلی سے۔




مولوی صاحب : تقریب؟




کلیم : مدحت طرازی اربابِ دول




مولوی صاحب : غرض و غایت؟




کلیم : تحصیل جاہ و ثروت




تب اس بزرگ نے مختصر طور پر کلیم کو وہاں کے حالات سے مطلع کر دیا اور کہا کہ رئیس لاشے محض ہے، وہ بھی لا بشرط شے نہیں بلکہ شرط لا شے اور بے اجازت خاص حضرت مولانا صدر اعظم کے کسی کو اس تک پہنچنے کا امکان نہیں۔




کلیم : صدر اعظم صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں؟




مولوی صاحب : دیکھو یہیں کہیں ہوں گے۔




کلیم : ان کی شناخت؟




مولوی صاحب : سیما ھُم فی وُجُوبھم من اثر السُجُود۔




کلیم : میں نہیں سمجھا۔




مولوی صاحب : ایک بڈھے منحنی سے آدمی ہیں۔ نیلی لنگی اوڑھے ہوئے حجرہ شمالی کے صحن میں طلبہ کو درس دے رہے ہوں گے، یا فصلِ خصومات میں مصروف ہوں گے۔




کلیم : ان کو کیا خدمت سپرد ہے؟




مولوی صاحب : جیسے حرفِ ندا، اللفظ ادعوا، کا قائم مقام ہوتا ہے، اسی طرح مولانا صاحب ادام اللہ فیوضہم نائب الرئیس ہیں۔




کلیم : میں ان کی خدمت میں جا سکتا ہوں؟




مولوی صاحب : لاباس بہہ۔




غرض کلیم صدر اعظم کی خدمت میں گیا تو وہ اس کی نظر میں کچھ بھی نہ جچے۔ یہ سمجھا تھا کہ وزیر اعظم اور نائب الرئیس ہیں تو بڑے کروفر کے ساتھ ہوں گے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ ولایتی نما ایکقے بڈھے سے مولوی ہیں، وراثت کا ایک جھگڑا ان کے روبرو در پیش ہے اور بیٹھے اپنے ہاتھ سے حساب مناسخہ لگا رہے ہیں۔ کلیم کو ایک اجنبی صورت دیکھ کر انہوں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں سے فارغ ہوں تو آپ سے بات کروں۔ جب تم مقدمہ پیش رہا، کلیم غور سے دیکھتا اور سنتا رہا۔ مولوی صاحب بلا کی مو شگافیاں کر رہے تھے۔ تب تو کلیم نے سمجھا کہ واقع میں یہ شخص بڑی پائے گاہ کا آدمی ہے اور منصب وزارت کے قابل ہے۔ بارے جب مقدمہ طے ہو چکا تو صدر اعظم صاحب کلیم کی طرف مخاطب ہوئے کہ ہاں حضرت فرمائیے۔




کلیم : بندہ ایک غریب الوطن ہے۔ رئیس کی جود و سخا کا شہرہ سن کر مدت سے مشتاق تھا۔ یہ حال ہے، باقی میری صورت سوال ہے۔




صدر اعظم : آپ کی سماعت صحیح لیکن اگرچہ جود صفتِ محمود ہے مگر اعتدال شرط ہے۔ شامتِ اسراف سے ٹنی باقی نہ رہا۔ فرنگیوں نے حفظِ ریاست کی نظر سے رئیس کو ممنوع التصرفات، مسلوب الاختیارات کر رکھا ہے۔










کلیم : میں طالبِ گنجینہ نہیں، سائلِ خزینہ۔




صدف کو چاہیے کیا ایک قطرہ چشمہ یم سے




بجھا لیتا ہے اپنی پیاس کام غنچہ شبنم سے




کلیم نے اس طرح کڑک کر بے دھڑک شعر پڑھا کہ تمام حاضرین اس کی یہ حرکت خارج از سیاق ادب دیکھ کر متعجب ہوئے۔ صدر اعظم صاحب ما منصب، ان کا علم و فضل اور ان کی پیری اور وہ ہیبت جو ان کی تہذیب کو لازم تھی، یعنی صدر اعظم کی حالت مجموعی اور اس سے قطع نظر خود کلیم کی حالت، اس کی مقتضی تھی کہ وہ پاسِ ادب ملحوظ رکھتا۔ مگر وہ ایسی ہی بے باکی کو ہنر لسانی اور صفت حاضر جوابی سمجھتا تھا۔ شعر اس کا تکیہ کلام تھا۔ بات کہتا تو مقفّیٰ، کلام کرتا تو موزوں۔ گفتگوئے روز مرہ میں بھی اس کی یہی کیفیت تھی اور جو کوئی کبھی اس کو ٹوکتا تو وہ جواب دیتا کہ




ع :




شاعری تو شعار ہے اپنا




کلیم کو صدر اعظم کے حضور بے باکانہ شعر پڑھتے ہوئے دیکھ کر لوگوں کو حیرت ہوئی۔ لیکن جو امر ان کی حیرت کا موجب تھا، وہی ان کو کلیم کے روکنے اور باز رکھنے سے بھی مانع تھا، یعنی صدر اعظم کی ہیبت۔ لوگوں سے زیادہ صدر اعظم کو حیرت ہوئی ہو گی مگر ان کی تہذیب اس درجے کی تھی کہ انہوں نے کلیم کو نظر بھر کر بھی تو نہیں دیکھا، اظہار نا خوشی و ناپسندیدگی تو بڑی بات ہے۔




صدر اعظم : رئیس سے تو توقع عبث ہے۔ مگر انتظامِ جدید در پیش ہے۔ اگر میں سمجھوں کو کوئی خدمت آپ انجام دے سکیں گے تو انشا اللہ مجلسِ شوریٰ میں، جس کو لوگ کمیٹی منتظم ریاست کہتے ہیں، آپ کے استحقاق پیش کر دیئے جائیں گے اور غالب ہے کہ کوئی خدمت آپ کو مفوض ہو جائے۔ متعدد مناصب خالی ہیں، خصوصاً انتظام فوج داری حدودِ ریاست میں۔




کلیم : چندے حضور مجھ کو اپنی خدمت خاص میں رکھیں اور اس نا لائق کی ہنر مندی اور بے ہنری حضور پر منکشف ہو جائے، تو پھر جس خدمت کے لیے ارشاد ہو گا بسر و چشم اس کو بجا لائے گا، اگرچہ خدمت فوج داری ہی کیوں نہ ہو۔




طالب ہوں علم کا کہ علم سے ہے ہم رقم




نیز سمجھ کے لیتا ہوں میں ہاتھ میں قلم










صدر اعظم : فرنگیوں نے جو انتظام کیا ہے وہ ایسی تنگ درزی کے ساتھ کیا ہے کہ اس میں بہت تھوڑی گنجائش ہے۔ پس قبل اس کے کہ میں آپ کو اپنے پاس کی کوئی خدمت دوں مجھ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کس کام کی انجام دہی پر قدرت رکھتے ہیں۔




کلیم : بقول غالب




آج مجھ سا نہیں زمانے میں




شاعر نغز گو و خوش گفتار




صدر اعظم : لیکن انتظام جدید کے مطابق ریاست میں کوئی خدمت شاعری باقی نہیں




کلیم :




" گر سخن گو نہیں تو خاک نہیں




سلطنت ہے عروسِ بے زینت "




صدر اعظم : جو کچھ آپ سمجھیں۔




کلیم : لیکن ریاست پر کیا منحصر ہے، حضور بھی تو وزیر اعظم اور نائب الرئیس ہیں۔ آپ کی سرکار میں کیا کمی ہے۔




ع :




بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر




صدر اعظم : " نعوذ باللہ المنان من فات اللسان۔ "




میں بے چارہ نام کا نائب الرئیس اور وزیر ہوں، ورنہ فی الحقیقت ایک ذرہ حقیر ہوں۔




کلیم : یہ حضور کا کسر نفس ہے۔ بقول ظہوری :




سر خدمت بر آستاں دارد




پائے رفعت بر آسماں دارد




میں بھی اس بلاد دور دست اور دیار اجنبی میں اتفاق سے آ نکلا ہوں اور میں دیکھتا ہوں تو آپ کی سرکار با اقتدار میں ایک شاعر کی ضرورت بھی ہے، جو آپ کے محامد اوصاف کو مشتہر کر کے خیر خواہان دولت کو راسخ العقیدت اور دشمنان رو سیاہ کو مبتلائے ہیبت کرتا رہے۔




صدر اعظم : یہ آپ کی کریم النفسی ہے ورنہ " من آنم کہ من دانم۔ " مجھ کو اگر ضرورت ہے تو ایسے شخص کی ہے جو مجھ کو میرے عیوب پر مطلع کیا کرے۔




کلیم : اگر مدح و ستائش پسند نہیں ہے تو بندہ وصل و ہجر و شوق و انتظار و ناز و نیاز و واسوخت و رباعی و تاریخ و سجع و چیستان و معاملہ بندی و تضمین و محاکمہ و بزم و تشبیہ و استعارات و تجنیس و تمثیلات و سراپا، ہر طرح کے مضامین پر قادر ہے۔ جو طرز مرغوب طبع ہو اسی میں طبع آزمائی کرے گا۔




رکھتا ہوں اگرچہ عیب تعلیٰ سے عار ہوں




بس مغتنم ہوں منتخب روزگار ہوں




صدر اعظم : آپ کے ہنر مند بے نظیر بے مانند ہونے میں شک نہیں لیکن افسوس ہے کہ مجھ کو اس فن کی طرف رغبت نہیں۔




کلیم : حضور جیسے عالمِ با کمال کا ایسے فن شریف سے




(ع) کہ ہم خط نفس ست و ہم قوت روح، رغبت نہ رکھنا




(ع) میری قسمت کی نارسائی ہے۔




صدر اعظم : اگرچہ میں اپنے نفس میں انواع و اقسام کی خباثتیں پاتا ہوں لیکن خداوند کریم کا شکر گزار ہوں کہ اب تو خیر ایسی با توں سے محترز رہنے کی میری عمر ہی ہے، عنفوان شباب میں بھی خدا کے فضل سے میں ایسی با توں کو نہایت ناپسند کرتا تھا۔










کلیم :




ع۔




سبب کیا وجہ کیا موجب جہت کیا؟




صدر اعظم : جہاں تم میں سمجھتا ہوں ایسے مضامین میں اشغال و انہماک رکھنے سے ذہول و غفلت، استخفاف معصیت، استحسان لہو و لہب، اختیار مالا یعنی کے سوائے کچھ اور بھی حاصل ہے؟




کلیم : اب اس خصوص میں کچھ عرض کرنا سواء ادب ہے۔ وہی خدمت فوج داری مجھ کو تفویض فرمائی جائے۔




صدر اعظم : مجھ کو کچھ عذر نہیں۔ مگر آپ مجھ سے استشارہ کریں تو یہ حکم المستشار موتمن، میں صلاح نہیں دے سکتا۔ اس واسطے کہ رئیس کے ضعف حکومت نے ان ٹھا کروں کو جو مستقر الریاست سے دور رہتے ہیں، ایسا عسیر الانقیاد کر دیا ہے کہ کوئی قسط بے جنگ و جدال وصول نہیں ہوتی اور ملازمان فوج داری کو ہمیشہ ان کے ساتھ معرکہ آرائی کرنی پڑتی ہے۔ آپ کے ذمے ریاست کے حقوق سوابق نعمت ثابت نہیں۔ کیا ضرورت ہے کہ ابتدا ایسی خطرناک خدمت اختیار کی جائے۔










کلیم : حالت اضطرار کو کیا کیا جائے؟




صدر اعظم : اگر اضطرار ہے تو بیس روپیہ ماہانہ کا جمع خرچ نوپس مداخل، ایک منصب جدید ہونے والا ہے، چندے آپ اس پر قناعت کریں۔ میرے نزدیک کنجِ عافیت کے یہ بیس، فوج داری کے پچاس پر ترجیح رکھتے ہیں۔




کلیم : یہ حضور کی مسافر نوازی ہے لیکن بندہ اس خدمت سے معاف رکھا جائے۔




ع :




ہر کسے را بہر کارے ساخستد




یہ کچھ لالہ بھائیوں ہی کو زیبا ہے۔




صدر اعظم : میں اتماماً للحجت پھر آپ سے کہتا ہوں کہ جس خدمت کے آپ خواستگار ہیں فی نفسہ، خصوصاً اس وقت میں محل خطر ہے۔




کلیم :




ع




" از خطر نیندیشد ہر کہ ہمتش عالی ست۔ "




صدر اعظم : اچھا تو آپ مال کار کی نسبت تامل صحیح کر لیجئے، پھر دیکھا جائے گا۔




غرض کلیم، صدر اعظم سے رخصت ہو کر اپنی جگہ واپس آیا، مگر حصول مطلب سے مایوس، صدر اعظم سے بد عقیدت، یہاں سرائے میں بعض لوگوں نے اس سے صدر اعظم کی ملاقات کی کیفیت پوچھی تو اس نے نہایت حقارت سے کہا : " اجی بس، شعر فہمی عالم بالا معلوم شد۔ آواز دہل از دور۔ چوں دم بر داشتم مادہ خر برآمد۔ کوڑ مغز، جسد بے روح، جماد بے حس، افسردہ، دل مردہ۔




ع :




سگ نشیند بجائے گیپائی




زمانہ ناہنجار کے انقلاب دیکھیے، ایوان ریاست کیا ہے، فتح پوری کی مسجد ہے۔




اگرچہ کلیم کو ایسی دل برداشتگی بہم پہنچی تھی کہ وہ کسی طرح ایسی ریاست کی نو کری پسند نہیں کرتا تھا، مگر مجبوری یہ تھی کہ اس کے پاس اتنا خرچ نہیں تھا کہ کسی دوسری جگہ کا قصد کرے۔ حاجت اس کو صدر اعظم کے پاس جانے پر مجبور کرتی تھی، مگر مخالفت رائے اس کو مانع ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ اسی حیض بیض میں پورے دن گزر گئے اور کمیٹی منتظم ریاست کے انعقاد کا وقت آ پہنچا، لیکن اس بندہ خدا نے صدا اعظم کی طرف رخ نہ کیا۔ بارے یکایک نہیں معلوم کیا خیال اس کے دل میں آیا کہ سپاہیانہ لباس پہن، ہتھیار لگا، مونچھوں پر تاؤ دے، خدمت فوج داری میں امیدوار بن کر کمیتی کے روبرو جا کھڑا ہوا۔ آدمی تھا ماشاء اللہ وجیہ اور اس پر کسان، ایک دم سے فوج میں کپتان مقرر ہو گیا۔ شاعروں کو ایک پھٹکار یہ ہوتی ہے کہ اکثر خود پسند ہوتے ہیں، کیوں کہ ہمیشہ تعریف و آفرین اور داد و تحسین کے امیدوار رہتے ہیں۔ کلیم بھی اس مرض میں مبتلا تھا۔ اب جو اس کو دفعتاً منصب کپتانی مل گیا تو اس کی نخوت کو تائید مزید پہنچ۔ بقول میر،




ع :




سمند ناز پہ اک اور تازیانہ ہوا




جب دیکھو، اردلی میں دس پندرہ سوار، شہر میں گھوڑے کداتے پھر رہے ہیں۔




چار پانچ مہینے کلیم نے بڑے چین سے گزارے اور چوں کہ باپ کو چھیڑنا منظور تھا، دہلی میں دوست آشناؤں کے پاس کپتان صاحب کے خط پر خط چلے آتے تھے۔ یہاں تک کہ زور آور سنگھ، ایک ٹھا کر نے اپنے علاقے کی قسط وقت پر ادا نہ کی۔ تنگ طلبی ہوئی تو وہ پھر بیٹھا۔ اس کو سرکوبی کے واسطے دولت آباد سے فوج روانہ ہوئی۔ اس میں کلیم بھی تھا۔ جوانی کی عمر، نئی نئی نو کری، مزاج میں بے باکی و تہور۔ پہلے ہی حملے میں میاں زخمی ہوئے تو کیسے سخت کہ دست بخیر، گھٹنے کی چپنی پر گولی بیٹھی تو اندر ہی اندر بن ران تک تیر گئی۔ معلوم نہیں نسوں میں کس طرح کا تعلق خدا تعالیٰ نے رکھا ہے کہ ایک پاؤں کے مجروح ہونے سے سارے کا سارا دھڑ بے کار ہو گیا۔




قاعدہ فوج کے مطابق میدان جنگ سے لوتھ کر اٹھا کر دار الشفا میں پہنچایا۔ جراحوں نے زخم کو دیکھا تو ایسا کاری پایا کہ فورا پاؤں کاٹنا لازم آیا۔ اگرچہ اس وقت تک جراحوں نے پاؤں کو جان کا فدیہ تجویز کیا لیکن کلیم بے چارہ، ناز و نعمت کا پلا ہوا تھا، اس صدمہ کا متحمل نہ ہو سکا اور روز بہ روز اس کی حالت ردی ہوتی گئی۔ تپ آنے لگی، زخم بگڑا، ناسور پڑے۔ اتنا بڑا ڈھو جوان، ایک ہی مہینے میں گھل گھل کر پلنگ سے لگ گیا۔ جب پاؤں کی طرح اس کی زیست کی امید منقطع ہو گئی تو نا چار لوگوں نے اس کو دہلی میں پہنچانے کی صلاح کی اور یہ بھی خیال ہوا کہ گھر کے جانے کی مسرت اور تبدیلی آب و ہوا کی فرحت سے عجب نہیں کہ اس کے دل کو تقویت پہنچے۔ صدر اعظم صاحب حسبتہ للہ مصارف ہوئے اور دولت آباد سے دہلی تک برابر کہاروں کی ڈاک بیٹھ گئی۔




کلیم دہلی میں پہنچا تو راہ میں انیس بیس کا فرق اس کی حالت میں ہو گیا تھا، مگر نا توانی اس درجے کی تھی دن رات میں سات پہر بے ہوشی میں گزرتے تھے۔ جب کہاروں نے اس کی ڈولی نصوح کے دروازے پر جا اتاری تو اس پر غشی طاری تھی۔ نصوح بالا خانے پر مصروف عبادت تھا۔ پہلے زنان خانے میں خبر ہوئی۔ فہمیدہ بے تاب ہو کر بے حجاب باہر نکل آئی۔ جو پالکی کے پت کھول کر دیکھا تو بیٹے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اس طرح بلک کر روئی کہ سننے والوں کے کلیجے ہل گئے۔ فہمیدہ نے اس بے قراری میں جو بین کئے، ان کے لکھنے سے پہلے قلم کا سینہ شق ہے، اور چشم دوات سے اشک جاری ہیں۔ خلاصہ یہ کہ فہمیدہ کے قلق و اضطراب نے محلے میں حشر برپا کر دیا۔




اگرچہ نصوح گریہ و بکا کی آواز سن کر کھٹکا تھا مگر اس طرح کا مستقل مزاج، ضابطہ آدمی تھا کہ اسی ترتیل کے ساتھ معمولی تلاوت کو پورا کیا اور اس کے بعد نیچے اتر کر پالکی کے پاس آیا۔ فہمیدہ کا رونا سن کر اور بیٹے کی ردی حالت دیکھ کر بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو چلے آتے تھے اور بار بار ٹھنڈی سانسیں بھرتا تھا، مگر کچھ بولتا نہ چالتا تھا۔ آدھ گھنٹے کامل اس کی یہی کیفیت رہی۔ اس کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا :




انا للہ و انا الیہ راجعون۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ انما اشکو ابثی و حرنی الی اللہ۔ اللھم افرغ علینا صبراً و ثبت اقدامنا۔ اللھم بون علیہ سکراتہ و کفر عنہ سیاتہ۔




اس کے بعد بی بی کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں تم کو رنج کرنے سے منع نہیں کرتا۔ تمہارا رنج ایک اقتضائے طبیعت ہے کہ انسان اس میں مجبور ہے۔ لیکن مجھ کو تمہارا اضطرار دیکھ کر اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ مبادا تمہارے خیالات مبخر بہ کفران ہو جائیں۔ اگر مصیبت کے وقت انسان کے دل میں، نعوذ باللہ، بوئے نا رضامندی بھی خواند بے نیاز کی طرف سے پیدا ہو تو پھر کہیں اس کا ٹھکانا نہیں۔ خسر الدنیا و الاآخرۃ۔ ذالک ہو الخسران المبین۔ کیا ہم نئے آدمی اور یہ انوکھی مصیبت ہے؟ بزرگان دین پر اس سے کہیں زیادہ مصیبتیں نازل ہوئیں۔ زندہ دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیے گئے، سر پر آرے چلے، سولی چڑھے، قتل ہوئے، قید رہے، ماریں پڑیں، کوڑے سہے، گالیاں کھائیں، بیگاریں بھگتیں، ذلتیں اٹھائیں، رسوائیاں جھیلیں۔ مگر خدا ان کو جزائے خیر دے، کیسے سچے بندے تھے کہ رضا و تسلیم کے حبلِ متین کو ہاتھ سے نہ دیا۔ یہ کچھ مصیبت اور دل بہ رضا جوئی حضرت ربوبیت۔ یہ کچھ ایذا اور زبان سپاس گزار منت۔ شکر کا مقام ہے کہ خداوند کریم نے ہمارے ضعف پر رحم فرما کر امتحان سخت میں مبتلا نہیں کیا۔ اگر بندہ صوف یسر و رفاہ کی حالت میں خدا سے راضی ہے اور تکلیف و اذیت میں شاکی، تو وہ بندہ، بندہ خدا نہیں، بلکہ بندہ غرض اور مطلب پرست ہے۔ اے بی بی رنج کرو لیکن صبر کے ساتھ اور مصیبت پر روؤ مگر شان عبودیت لیے ہوئے۔ دنیا میں جتنی ایذا اور جتنی مصیبت ہے، پاداشِ گناہ و وبال معصیت ہے۔ اسی واسطے توبہ و استغفار کو لکھا ہے کہ اس سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں۔ سب سے بہتر ہمدردی جو ہم اس شخص کی اس تباہ حالت میں کر سکتے ہیں، یہ ہے کہ ہم اس کے گناہوں کی معافی کے لیے خداوند کریم کے حضور میں بہ منت و سماجت دعا کریں۔ یہ شخص تم بھی اس بات کو تسلیم کرو گی، اپنے ہاتھوں اس نوبت کو پہنچا کہ جو اس کو دیکھے گا، بہ اقتضائے انسانیت تاسف کرے گا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں، تمام دنیا کا رحم، خدا کی رحمت کاملہ کے آگے ہزارواں لاکھواں حصہ بھی نہیں ہے۔ اگرچہ ہم لوگوں کے دیکھنے میں اس کی حالت ہی زبوں ہے لیکن کوئی شخص اس سے بڑھ کر خوش قسمت نہیں، اگر اس کی یہ تکلیفیں، عند اللہ، اس کے گناہوں کا کفارہ سمجھی جائیں۔




نصوح کے وعظ کا سحر حلال ایسا نہ تھا کہ کوئی اس کو سنے اور متاثر نہ ہو۔ فہمیدہ فورا منہ پوچھ، سیدھی ہو بیٹھی اور اب میاں بی بی لگے آپس میں صلاح کرنے کیا کیا جائے۔




نصوح : اس کو محلے کے شفا خانے میں پہنچا دینا چاہیے۔ ہر وقت ڈاکٹر کے پیش نظر رہے گا۔




مکان بہت پر فضا ہے، اس کی طبیعت کو بھی تفریح ہو گی۔




فہمیدہ : ہے ہے ! اور میرا دل کیوں کر صبر کرے گا؟




نصوح : تمہارا یہ کہنا بھی واجب مگر بیمار کی حالت ایسی ردی ہے کہ کسی وقت اس سے طبیعت کا مفارقت کرنا مناسب نہیں۔




فہمیدہ : حکیم جی شوق سے آئیں جائیں، مگر سہ دری میں پردہ کیے بیٹھی رہوں گی۔




نصوح : زخموں کا علاج کچھ ڈاکٹروں ہی سے خوب بن پڑتا ہے۔ یونانی طبیب تو اس کوچے سے محض نابلد ہیں۔ رہے جراح، ان کو دوچار مرہم ضرور معلوم ہیں مگر تشریح سے جیسے یونانی طبیب بے خبر، ویسے ہی جراح نا واقف۔ بہتر ہو گا کہ اس کو نعیمہ کے گھر لے چلیں۔ سرکاری شفا خانہ بھی قریب ہے اور میاں عیسٰی کہ اس وقت ہندوستانی جراحوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، دیوار بیچ ان کا گھر ہے۔




فہمیدہ نے بھی اس صلاح کو پسند کیا اور کیسا سامان، کس کی تیاری، گھر کا گھر کلیم کی پالکی کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ یہاں سے کوئی چھ سات پیسے ڈولی نعیمہ کی سسرال تھی۔ کہاروں نے پالکی اٹھائی تو کہیں کاندھا تک نہیں بدلا، دھر نعیمہ کے گھر جا اتاری۔




یاد ہو گا کہ نعیمہ ماں سے لڑ کر، بے ملے، صالحہ کے ساتھ خالہ کے یہاں چلی گئی تھی۔ پھر چار مہینے وہاں رہی۔ نیک لوگوں کے ساتھ رہنے کی برکت، خدا نے اس کو ہدایت دی اور وہ بھی نیک بن گئی :




سگ اصحاب کہف روزے چند




پئے نیکاں گرفت و مردم شد




نیک بنے پیچھے ممکن نہ تھا کہ ماں باپ کی نا رضا مندی گوارا کرتی۔ اس نے ماں باپ کو شاد اور خدا نے اس کو اپنے گھر میں آباد کیا۔ اس کو سسرال گئے دوسرا مہینہ تھا کہ کلیم کو چار کہاروں کے کندھے پر لاد کر اس کے گھر لے گئے۔ چوں کہ نعیمہ کے گھر آباد ہونے کا تذکرہ آ گیا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نعیمہ کا حال لکھا جائے اور کلیم کو، جو دنیا میں اب مہمان چند روزہ ہے، پیچھے دیکھ لیا جائے گا۔

فصل دوازدھم

نعیمہ خالہ کے یہاں رہ کر خود بہ خود درست ہو گئی۔ اس نے ماں باپ سے اپنی خطا معاف کرائی اور خدا نے اس کا مدتوں کا اجڑا ہوا گھر پھر آباد کیا۔ کلیم نے بہن کے گھر وفات پائی۔ قصے کا خاتمہ




نعیمہ اور کلیم، اس اعتبار سے دونوں کی کچھ ایک ہی سی کیفیت تھی، کہ زیادہ عمر ہو جانے کی وجہ سے عادتیں دونوں کی راسخ ہو چکی تھیں۔ بیاہے ہوئے اور صاحبِ اولاد دونوں تھے۔ کلیم کو بی بی سے کچھ انس نہ تھا تو نعیمہ کا شوہر سے بگاڑ تھا۔ نعیمہ اگرچہ کلیم کی طرح سب میں بڑی نہ تھی مگر بڑی بیٹی تھی۔ لیکن پھر بھی کلیم فولاد تھا تو نعیمہ اس کے مقابلے میں سیسا، بلکہ رانگا سمجھنا چاہیے۔ کلیم مرد تھا، قسی القلب نعیمہ عورت، نرم دل۔ کلیم باہر کا چلنے پھرنے والا سینکڑوں آدمیوں سے تعارف، ہزاروں سے جان پہچان۔ نعیمہ بے چاری پردے کی رہنے والی۔ میل ملاپ سمجھو تو اور پیار اخلاص سمجھو تو، ماں، بہن، خالہ، نانی، کنبے، کی عور توں سے وہ بھی گنتی کی۔ کلیم اور نعیمہ، دل دونوں کے بیمار تھے۔ لیکن کلیم کے دل کو ذاتی روگ کے علاوہ صد ہا بیماریاں اس قسم کی تھیں جو متعدی کہلاتی ہیں، یعنی ایک سے اڑ کر دوسرے کو لگ جاتی ہیں۔ اس کلیم کے مزاج میں چند در چند خرابیاں تھیں جو اس نے بری صحبتوں میں بیٹھ کر اپنے پیچھے لگا لی تھیں۔ نعیمہ میں جو کچھ برائی تھی، وہ ماں باپ کے لاڈ پیار، علم کی ناداری اور عقل کی کوتاہی کی وجہ سے تھی۔ کلیم دلیر و بے باک اور عیار و چالاک تھا۔ نعیمہ بے وقوف، بھولی اور ڈرپوک، دل کی بودی۔ کلیم کے سر پر ایک سخت بلا مسلط تھی یعنی اس کے جلیس و ہم نشیں، اور نعیمہ اس سے بالکل محفوظ تھی۔ کلیم میں اس قسم کے بے ہودہ عیوب تھے جن میں آج کل کے کم بخت نوجوان شریف زادے کثرت سے مبتلا پائے جاتے ہیں، یعنی عور توں کی طرح درپے تزئین رہنا اور بناؤ سنگھار رکھنا۔ پہر دن چڑھے سو کر اٹھے۔ ضرور توں سے فارغ ہو کر آئینے کی تلاوت شروع ہوئی تو دوپہر کر دیا۔ اگرچہ رات کو مانگ اور پٹیوں کے لحاظ سے رومال باندھ کر اور سر کو الگ تھلگ رکھ کر سوئے تھے، مگر آئینے میں منہ دیکھا تو زلف کی پریشانی پر اس قدر تاسف کیا کہ سر اسحاق نیوٹن صاحب، نے بھی اپنے اوراق کی ابتری پر اتنا افسوس نہ کیا ہو گا۔ بارے اگر اصلاح کا دن نہ ہوا تو گھنٹوں کی محنت میں، وہ بھی اپنے اکیلے کی نہیں، بال ٹھکانے لگے اور مانگ درست ہوئی، اور اگر کہیں اصلاح کا زور منحوس ہوا تو سارا دن گزر گیا۔ ایک وضع خاص پر سر جھکائے جھکائے گردن شل ہو گئی۔ داڑھی اور مونچھوں کے ترشوانے میں منہ کو لقوہ مار گیا۔ حجام کی آنکھوں کے تلے اندھیرا آنے لگا مگر پھر بھی ان کا خط خاطر خواہ نہ بنا۔ کپڑے بدلنے کی نوبت پہنچی۔ ٹوپی قالب سے اتر کر آئی تو سر پیٹ لیا، مگر ایسی احتیاط سے کہ بال نہ بگڑیں۔ اس کے بعد انگرکھے کی چنٹ پر چیں بہ جبیں ہوئے۔ پھر تو ادھر انگرکھے کی آستینوں اور ادھر پائجامہ کی تنگ مہریوں کے ساتھ ہاتھ پائی شروع ہوئی۔ مشکل یہ آ کر پڑی کہ کپڑا کشاکش کا متحمل نہیں، ذرا زور پڑا اور مسکا اور ہاتھ پاؤں کہتے ہیں کہ ہم ان چیونٹی کے بلوں میں گھسنے کے نہیں۔ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔ بارے کاغذ کے سہارے سے ہولے ہولے پھسلاتے پھسلاتے کہیں پہروں میں جا کر مشکل آسان ہوئی۔ اب ملبوس خاص زیب تن تو ہوا، مگر کس کیفیت سے کہ تنگی اور چستی کے مارے مشکیں الگ کسی ہوئی ہیں، پاؤں علیحدہ جکڑے ہوئے ہیں اور سارا بدن گویا شکنجے میں ہے۔ کھانسنا، چھینکنا، جمائی، انگڑائی تو در کنار، گھنڈی تکمے کے لحاظ اور بندوں کے پاسِ خاطر سے اچھی طرح سانس بھی نہیں لے سکتے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ لباس سے غرض اصلی بدن ڈھانکنا اور آسائش پہنچانا ہے۔ اس میں کبر و نخوت کو دخل دے کر کیا ناس مارا ہے کہ غرض اصلی گئی گزری ہوئی، اور تکلیف و ایذا الٹی گلے مڑھی گئی۔ مقصود تھی پردہ پوشی، ان بزرگ ذات نے اس میں تراش خراش اور وضع داری کو ایسا شامل کیا کہ کپڑوں نے اندرون دل تک کا لفافہ ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اب ان کے حالات لکھنے کی ضرورت نہیں۔ صورت ببیں حالش مپرس۔

کلیم بھی ایک اس طرح کا چھیلا تھا، بد وضع، آوارہ، جس کے اطوار و عادات جا بہ جا لکھے جا چکے ہیں۔ اس خصوص میں نعیمہ شرفا کی بہو بیٹیوں کی طرح کالدُر المکنُون، محفوظ و مصئون تھی۔ اس میں اور کلیم میں بے مبالغہ فرشتہ اور شیطان کی نسبت سمجھنی چاہیے۔ غرض نعیمہ کا رو براہ ہونا دشوار مگر نہ کلیم کی طرح محال : مشکل البتہ تھا، لیکن نہ کلیم کی مانند متعذر۔ خالہ کے یہاں ڈولی سے اتری تو جوں خالہ کی شکل دور سے نظر پڑی کہ بھوں بھوں رونا شروع کیا۔ دیہات کی مستورات کا تو یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی مہمان یا مسافر بہت دنوں کے بعد آتا ہے تو اس مل کر رونے لگتی ہیں، اس واسطے کہ اس وقت ان کو مفارقت کی سختیاں اور تکلیفیں اور یادگاری و انتظار کی زحمتیں یاد آتی ہیں۔ مگر دہلی کا یہ دستور نہیں ہے۔ یہاں کی عورتیں اسی حالت میں روتی ہیں جب کہ طرفین میں سے کسی کا کوئی عزیز و قریب زمان جدائی میں مر گیا ہو۔ ورنہ یوں مہمان و مسافر کے آنے پر رونا دلی والیاں منحوس سمجھتی ہیں۔ گو خالہ کو دیکھ کر نعیمہ کے دل میں جوش پیدا ہوا تھا مگر اس کو ضبط کرنا چاہیے تھا۔ لیکن نہ تو نعیمہ کو اتنی عقل تھی کہ اتنی بات سمجتھی، اور شاید سمجھتی بھی ہو تا ہم وہ دل پر اس قدر ضابطہ نہ تھی۔ خالہ نے جو اس کو روتے دیکھا سخت تعجب کیا۔ بھانجی کی عادت سے واقف تھیں۔ سمجھ تو گئیں کہ ماں سے روٹھ کر آئی ہے، اسی کا یہ رونا ہے۔ لیکن جلدی سے دوڑ کر بھانجی کو گلے سے لگا لیا اور پیار چمکار کر بہت کچھ تسلی دی اور سمجھایا کہ اللہ رکھے بیٹے کی ماں ہوئیں، اب تمہاری عمر بچوں کی طرح رونے کی نہیں ہے۔ ہمسایے کی عورتیں سنیں گی تو کیا کہیں گی؟ جانے دو بس کرو، طبیعت کو سنبھالو، جی کو مضبوط رکھو۔




نعیمہ : اماں جان نے مجھے مارا، اوں اوں۔




خالہ : مارا تو کیا ہوا؟ ماں باپ ہزار بار لاڈ کرتے ہیں تو نصیحت کے واسطے مار بھی بیٹھتے ہیں۔ ماں باپ کی مار، مار نہیں سنوار ہے۔ تمہاری نانی، خدا جنت نصیب کرے ہ بڑی ہتھ چھٹ تھیں۔ تم اس بات کو سچ ماننا کہ اب ہم ان کی مار کو ترستے ہیں۔ ماں باپ کی مار کیا ہر ایک کو نصیب ہوتی ہے۔ جنہیں خدا کو بہتر کرنا منظور ہوتا ہے، وہ ماں باپ کی مار کھاتے ہیں۔ بھلا تم نے اس بات کا خیال کیا۔ ہوش میں آؤ تو دیکھو کہ تمہارا بیٹا بھی تمہارے رونے پر ہنستا ہے۔ (ننھے بچے کی طرف مخاطب ہو کر) کیوں جی بڑے میاں ! تم کچھ اپنی اماں جان کو نہیں سمجھاتے؟




بچہ : آغوں !




خالہ : آغوں غوٹے، دودھ پی پی کر میاں ہوئے موٹے۔




غرض خالہ نے نعیمہ کے رونے کو با توں میں ٹال دیا۔ نعیمہ چندے جھینپتی سی رہی۔ مگر پھر تو ہنسی خوشی رہنے لگی۔ اگرچہ خالہ نے بھانجی سے رونے کا سبب مصلحتاً دریافت نہیں کیا، مگر موقع سے صالحہ کو الگ لے جا کر ساری حقیقت پوچھی اور جب اس کو بہن کے گھر دین داری کی چھیڑ چھاڑ کا ہونا معلوم ہوا تو اس کو اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان نہیں آ سکتی اور اس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جب تک نعیمہ کو پکی دین دار نہ بنا دے، گھر سے رخصت نہ کرے۔ خالہ کے گھر رہ کر نعیمہ کی عاد توں کا خود بہ خود درست ہو جانا، عمدہ مثال ہے۔ اس کی صحبت سے بڑھ کر تعلیم کو کائی اچھا طریقہ نہیں، ماں کے گھر چند خاص باتیں نعیمہ کی اصلاح میں خلل انداز تھیں۔ اول تو اس نے ماں اور تمام خاندان کو بے دینی کی حالت میں مد توں زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھا، بس بالضرور ان کی نصیحت کو وہ وقعت نہیں ہو سکتی تھی جو یہاں خالہ کی با توں کی تھی۔ دوسرے، ماں کے گھر بھائی بہن نو کر چاکر پاس پڑوس والے، کتنے لوگ تھے جو نعیمہ کو ابتدائے عمر سے ایک طرز خاص پر دیکھ چکے تھے۔ نعیمہ کو ان کے روبرو طرز جدید اور جدید بھی کیسا کہ طرز سابق سے مخالف، اختیار کرتے ہوئے، عار آتی تھی۔ تیسرے، ماں کے یہاں اتفاق سے اس کو ایک سختی بھی پیش آ گئی تھی اور وہ سختی اس کی حالت کو کسی طرح مناسب نہ تھی۔ چوتھے، اس کو ماں پر بڑا ناز تھا، یعنی ان کی خدمت میں شدت سے گستاخ تھی اور ان کے کہنے کی مطلق پروا نہ کرتی تھی۔ خالہ کے یہاں آ کر رہی تو کسی نے بھول کر بھی اس سے تذکرہ نہ کیا کہ دین داری بھی کوئی چیز ہے، یا خدا کی پرستش بھی انسان کا ایک فرض ہے۔ مگر تھا کیا، کہ چھوٹے بڑے سب ایک رنگ میں رنگے تھے۔ صبغۃ اللہ و من احسنُ من اللہ صبغۃ اور ان کی تمام حرکات و سکنات شان دین داری لیے ہوئے تھیں۔ ان کی نشست و برخاست، ان کی رفتار و گفتار، ان کا قول، ان کی بات چیت، ان کا میل جول، ان کا لڑائی جھگڑا، ان کا کھانا پینا، ان کی خوشی، ان کا رنج، کوئی ادا ہو، وہ ایک نرالی دین دارانہ ادا تھی۔ نعیمہ کو خالہ کا گھر ایک نئی دنیا معلوم ہوتا تھا۔ اگرچہ ابتداً وہ یہاں کے اوضاع کو حقارت سے دیکھتی تھی، لیکن جوں جوں وہ ان دستورات سے مانوس ہوتی گئی، ان کی عمدگی اور بہتری اس کے ذہن میں بیٹھتی گئی اور آخر اس کو ثابت ہوا کہ بے دین زندگی، محض ایک بے اطمینان، بے سہارے زندگی ہے۔ اگر رنج و ایذا ہے، تو کوئی وجہ تسلی، کوئی ذریعہ تشفی نہیں اور اگر آرام و خوشی ہے تو اس کو ثبات پائیداری و قرار نہیں۔ فاقہ ہے تو صبر نہیں، کھانا ہے تو سیری نہیں۔ بدی کو سزا نہیں، نیکی کی جزا نہیں ہے۔ بے دین آدمی ایسا ہے، جیسے بے نکیل کا اونٹ، بے ناتھ کا بیل، بے لگام کا گھوڑا، بے ملاح کی ناؤ، بے ریگولیٹر کی گھری، بے شوہر کی عورت، بے باپ کا بچہ، بے تھیوے کی انگوٹھی، بے لالی کی مہندی، بے خوشبو کا عطر، بے باس کا پھول، بے طبیب کا بیمار، بے آئینے کا سنگھار، یعنی دین نہیں تو دنیا و مافیہا سب ہیچ اور عبث اور فضول اور پوچ اور لچر ہے۔




نعیمہ نے رفتہ رفتہ خود بہ خود خالہ کی تقلید شروع کی۔ وہ ہمیشہ پہر سوا پہر دن چڑھے سو کر اٹھتی تھی اور یہاں گھر بھر، چھوٹے بڑے، منہ اندھیرے اٹھ، ضرور توں سے فارغ ہو، عبادت الہٰی میں مصروف ہوتے تھے۔ گھر بھر کا اٹھنا اور وہ بھی نرا اٹھنا اور چار پائیوں پر لدے بیٹھے رہنا نہیں بلکہ چلنا پھرنا، کام کاج کرنا ہر چند نعیمہ کی وجہ سے احتیاط کی جاتی تھی مگر کہاں تک، کچھ نہ کچھ آہٹ آواز ہوتی ہی تھی۔ بعد چندے نعیمہ کی آنکھ بھی سب کے ساتھ کھلنے لگی، اور جاگی تو ممکن نہ تھا کہ اس کو اپنی حالت پر تنبہ نہ ہو۔ اس واسطے کہ وہ اپنے تئیں دیکھتی تھی کہ بچے کی نجاست میں لتھڑی ہوئی پڑی انگڑائیاں لے رہی ہے مست، اداس، مضمحل، نیند کے خمار سے کسل مند، اور دوسرے ہیں کہ چاق و چوبند، چست و چالاک، تازہ دم، پاک صاف، خدا کی درگاہ میں شکر کے سجدے کر رہے ہیں۔ کہ رات امن چین سے کٹی اور دعائیں مانگ رہے ہیں کہ بارِ الہٰا ! ہم کو روزی دے، اتنی کہ فراغت سے کھائیں اور رزق دے، ایسا کہ دوسرے کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں، حاجت نہ لے جائیں۔ بارِ خدایا ! بیماروں کو شفا، گم راہوں کو ہدایت، قیدیوں کو رہائی، مسافروں کو امن، بھوکوں کو روزی، قحط زدوں کو ارزانیِ رزق، تشنہ کاموں کو پانی، مایوسوں کو امید، ناکاموں کو کام یابی کو نوید، مفلسوں کو قناعت، تونگروں امیر کو سخاوت، بے اولادوں کو اولاد، نا مرادوں کو مراد، جاہلوں کو علم، عالموں کو عمل، زاہدوں نیک کو اخلاص، حاکم وقت کو توفیقِ عدل و داد، رعیت شاد، ملک آباد، کیا اپنے کیا غیر، جل جہان کی خیر۔




متنبہ ہوئے پیچھے نعیمہ کی اصلاح ہوئی ہوائی تھی۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ دین دار خدا پرست بن گئی۔ نماز روزے کی پابند، واعظ و نصیحت کی دلدادہ، منکسر، متواضع، ملن سار، صلح جو، نیک خو شائستہ باوجودے کہ نعیمہ ایک آسودہ حال گھر کی بیٹی تھی اور اس نے ناز و نعمت میں پرورش پائی تھی اور ماں باپ کو اس کی دل جوئی اور خاطر داری ہمیشہ ملحوظ رہتی تھی، بایں ہمہ وہ اپنے مزاج، اپنی عادات، اپنے خیالات کے پیچھے سدا نا خوش رہا کرتی تھی۔ اور چوں کہ طبیعت میں برداشت مطلق نہ تھی، ذرا سی تکلیف کو وہ مصیبت کا پہاڑ بنا لیتی۔ اگر کسی نو کر نے مرضی کے مطابق کوئی چھوٹا سا کام نہ کیا، یا مثلاً کھانے میں نمک پھیکا یا تیز ہو گیا، یا روٹی کو چتی لگ گئی۔ یا کپڑے کی سلائی اس کی خاطر خواہ نہ ہوئی، یا بچہ کسی وقت رونے لگا، ان میں سے ایک ایک بات کا سارے سارے دن اس کو جھگڑا لگ جاتا تھا۔ اور جو کہیں خدانخواستہ خود اس کی طبیعت یونہی سے علیل ہو گئی، یا اس کو اپنی خانہ ویرانی کا کبھی خیال آ گیا تو ہفتوں گھر کا عیش منغض ہوا۔ اب خیالات دین داری کے ساتھ اس کو عافیت اور اطمینان کا مزہ ملا۔ دنیوی کوئی تکلیف نہ تھی جو اس کو ایذا دیتی ہو۔ مگر ہاں ماں باپ کی نا رضامندی اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور ایک ایک لمحہ اس پر شاق تھا۔




اسی اثنا میں خدا نے اپنے فضل سے نعیمہ کی خانہ آبادی کی صورت بھی نکال دی۔ نعیمہ کا شوہر بڑا دین دار تھا اور اس کو بی بی ملی نعیمہ جو ان دنوں دین سے مطلق بے بہرہ اور خدا پرستی سے کلیتہً بے نصیب تھی۔ ہر چند وہ نعیمہ کے حسن صورت پر فریفتہ تھا مگر اختلافِ عادات، اختلافِ عقائد ایک ایسا پردہ تھا کہ وہ دونوں میں اتحاد کے پیدا ہونے کا مانع تھا۔ ساس نندیں، میاں بی بی کی اتنی نا موافقت کا سہارا پا کر ایسے بے رخ ہوئیں کہ نعیمہ کا رہنا دشوار کر دیا۔ اب نعیمہ کی تبدیل حالت کے تھوڑے ہی دن بعد صالحہ کے چچا کے گھر شادی کی تقریب پیش آئی۔ نعیمہ کو دہرا بلاوا آیا۔ ایک تو صالحہ کے رشتے سے، دوسرا سسرال کی طرف سے، صالحہ کی چچا زاد بہن اور نعیمہ، دیورانی جٹھانی بھی تھیں۔ شادی کے مجمع میں اور عور توں نے تو اپنی رات گیت گانے اور لا یعنی باتیں بنانے میں ضائع کی، اور نعیمہ نے نماز عشا سے فارغ ہو کر صلواۃ التسبیح کی نیت باندھی تو آدھی رات ہو گئی۔ پھر تھوڑی دیر سو کر تہجد پڑھنے کھڑی ہوئی تو صبح کر دی۔ نعیمہ کی شب بیداری اور تہجد گزاری کی کبر جب اس کے شوہر نے سنی تو غایت درجہ محظوظ ہوا۔ اور اگرچہ وہ کبھی کبھی سسرال آتا جاتا تھا اور اپنی ذات سے بی بی کا بڑا خیال رکھتا تھا، لیکن بی بی کے بے دین ہونے کی وجہ سے، اس کو، اپنی ماں بہنوں کے مقابلے میں، اس کی طرف داری کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ اب جو اس نے بی بی کا دین دار ہونا سنا، تو ڈولی لے کر دوڑا ہوا سسرال آیا۔




نعیمہ ماں کے رضا مند کرنے کے لیے بیتاب تو تھی ہی، شادی میں جو دونوں ایک جگہ جمع ہوئیں تو نعیمہ دور سے ماں کو دیکھ دوڑ کر قدموں پر گر پڑی۔ ادھر فہمیدہ " باقتضائے مہر مادری " من جانے کے لیے بہانہ ڈھونڈھتی تھی۔ بیٹی کو جھکتے دیکھ کر جلدی سے اٹھ، گلے لگا لیا۔ اور جب بہن اور بھانجی سے نعیمہ کا حال اور رات کے وقت اس کو خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت الہٰی کرتے دیکھا، تو اس نے نہ صرف بیٹی کی خطا سے درگزر کی، بلکہ پہلے سے زیادہ ریجھ ریجھ کر اس کو پیار کیا۔ اور جب شادی کے مہمان رخصت ہوئے تو بہن بھانجی کا بہت بہت شکریہ ادا کر کے بیٹی کو اپنے ساتھ گھر لوا لائی، اور محلے کی بیبیوں کو جمع کر کے ایک ایک سے اس کو ملوایا۔ ادھر نعیمہ، ساری بیبیوں میں کشادہ پیشانی سے اپنے قصور کا اظہار کر کے، کبھی تو ماں کے پاؤں سر رکھ رکھ دیتی تھی اور کبھی حمیدہ کو گود میں لے لے کر پیار کرتی تھی، اور اس کی پیشانی پر جہاں کیل کا داغ تھا، بوسے دیتی تھی۔ کبھی بیدارا کو بلا بلا کر پاس بٹھاتی اور دولتی کے بدلے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑتی تھی۔ آج شام کو تو نعیمہ ماں کے گھر آئی، اگلے دن بڑے سویرے اس کا میاں ڈولی لے آ موجود ہوا۔ نعیمہ چندے سسرال جا کر رہی تو نہ صرف میاں بلکہ ساس، نندیں، سارے کا سارا کنبہ، اس کی نیکی کا مرید و معتقد تھا۔




نعیمہ کو اپنے گھر آئے دوسرا مہینہ تھا کہ کلیم، اس حالت سے کہ اوپر بیان کی گئی، بہن کے یہاں پہنچا۔ بھائی کی ایسی ردی حالت دیکھ کر بہن پر اور بہن بھی کیسی خدا ترس، جو صدمہ ہوا قابل بیان نہیں۔ کلیم اسی کیفیت سے بہن کے گھر رہا۔ ایک چھوڑ دو دو ڈاکٹر، شہر کے نامی جراح، مل کر اس کا علاج کرتے تھے مگر اس کے زخموں کا بگاڑ کم نہ ہوتا تھا۔ صبح و شام تھوڑی دیر کے لیے کبھی کبھی اس کو ہوش آ جاتا تھا، اور ضرور اس نے سمجھا ہو گا کہ کہاں ہے اور کون لوگ اس کی تیمار داری کر رہے ہیں۔ لیکن اس کی نا توانی اور نقاہت دیکھ کر کوئی اس سے کسی قسم کا تذکرہ نہیں کرتا تھا۔ باتیں کرتے بھی تھے تو تسلی و تشفی کی۔ یہاں تک کہ زخموں کا فساد انتہا کر پہنچ گیا، اور اس کی مدت حیات پوری ہو چکی۔ مرنے سے پہلے یکایک ایسی اس کی حالت بہتر ہو گئی کہ وہ اچھی خاصی طرح آپ سے آپ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور خلاف عادت اس نے فرمائش کر کے دو گوشتہ پلاؤ پکوایا اور تندرستوں کی طرح وہ گھر والوں کے ساتھ بہت دیر تک پکار پکار کر باتیں کرتا رہا۔ اس نے اپنے تمام حالات، جب سے کہ وہ گھر سے نکلا اور جب تک کہ وہ مجروح ہو کر پھر دہلی آیا، ذرا ذرا بیان کیے اور بھائی بہن، ایک ایک کر کے سب کا حال پوچھا۔ اس وقت وہ اپنے افعال پر تاسف کر کے اتنا رویا اتنا رویا کہ اس کو غش آ گیا۔




بڑی دیر کے بعد ہوش میں آیا تو اس نے ماں سے کہا کہ آج کی غیر معمولی توانائی جو تم مجھ میں دیکھتی ہو، میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ میری آخری توانائی ہے۔ خون جو مدارِ حیات ہے، مطلق میرے بدن میں باقی نہیں رہا۔ بلکہ میں جانتا ہوں کہ شاید میری ہڈیوں کے اندر کا گودا بھی پگھل پگھل کر فنا ہو چکا ہے۔ گو تم لوگ میری تقویت کی نظر سے تسلی و تشفی کی باتیں کرتے ہو مگر میں سمجھ چکا ہوں کہ میں اس مرض سے جاں بر ہونے والا نہیں۔ میں اپنے مرنے کو ترجیح دیتا ہوں، اس نا لائق زندگی پر جو میں نے بسر کی۔ اگرچہ میں نے اپنی زندگی، خرابی اور رسوائی اور فضیحت اور والدین کی نا رضا مندی اور خدا کی نا فرمانی میں کاتی، اور ایسی ایسی ہزاروں لاکھوں زندگیاں ہوں تو بھی اس نقصان کی تلافی کی امید نہیں، جو اس چند روزہ زندگی میں، مجھ کو اپنی بد کرداری سے پہنچا، مگر مجھ کو تین طرح کی تسلی ہے۔ اول یہ کہ میں مرتا ہوں نادم، پشیمان، خجل، متاسف، دوسرے یہ کہ سفر عاقبت شروع کرتے وقت ایسے لوگوں میں ہوں جو اس راہ کے منزل شناس اور میرے دل سوز اور ہم درد اور شفیق اور مہربان حال ہیں۔ تیسرے یہ کہ غالباً میری زندگی دوسروں کے لیے نمونہ عبرت ہو گی، کہ اس صورت میں، گو اپنی زندگی سے میں خود مستفید نہیں ہوا لیکن اگر دوسروں کو کچھ نفع پہنچے تو میں ایسی زندگی کو رائیگاں اور عبث نہیں کہہ سکتا۔




ع :




من نہ کر دم شما حذر بہ کنید




اب مجھ کو دنیا میں سوائے اس کے اور کوئی آرزو باقی نہیں کہ میں ابا جان سے اپنا قصور معاف کرا لوں۔




یہ کہہ کر اس پر بڑے زور کی رقت طاری ہوئی۔ بے چارے کی طاقت تو مد توں سے سلب ہو ہی چکی تھی، رونا تھا کہ بے ہوش ہو گیا، اور اسی بے ہوشی میں اس کا سانس اکھڑ گیا اور لگا ہاتھ پاؤں توڑنے۔ نبضیں چھوٹ گئیں، ہچکیاں لینے لگا، ناک کا بانسہ پھر گیا۔ عورتیں تو یہ حالت دیکھ کر رونے پیٹنے لگیں۔ باہر مردانے سے نصوح دوڑا آیا اور عور توں کو علیحدہ کر کے جزع و فزع نا مشروع سے منع کیا اور صبر جمیل کی تلقین کی اور بیٹے کے سرہانے بیٹھ کر یاسین پڑھنی شروع کی۔ منہ میں شربت ٹپکایا، اور اس کو قبلہ رو لٹایا۔ کلمہ پڑھ کر سنایا۔ شربت کا حلق سے اترنا تھا کہ کلیم نے آنکھیں کھول دیں اور باپ کو نگاہِ حسرت آلود سے دیکھ کر اس نے ہاتھ جوڑے، اور اسی حالت میں اس نے جاں بہ حق تسلیم کی۔




ع :




حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا




اس میں شک نہیں کہ اگر کلیم بچ جاتا تو وہ نیکی اور دین داری میں اپنے سب بھائی بہنوں پر سبقت لے جاتا۔ اس نے مصیبتیں اٹھا کر اپنی رائے کو بدا تھا، اور آفتیں جھیل کر تنبہ حاصل کیا تھا۔ پس وہ مجتہد تھا اور دوسرے مقلد، وہ محقق تھا اور دوسرے ناقل۔ اس کا سا انجام خدا سب کو نصیب کرے۔




کلیم کا جوان مرنا ایک ایسی بھاری موت تھی کہ ماں باپ تو دونوں گویا اس کے ساتھ زندہ درگور ہو گئے۔ بھائیوں کا بازو ٹوٹ گیا۔ بہنوں کے سر سے ایک بڑا سرپرست اٹھ گیا۔ لیکن بہ تقاضائے دین داری سب نے صبر جمیل کیا اور ہر شخص نے بجائے خود عبرت پکڑی۔ کلیم کے ساتھ نصوح کی وہ تمام کوششیں بھی تمام ہوئیں جو اس کو اصلاحِ خاندان کے لیے کرنی پڑتی تھیں۔ کیوں کہ کلیم مرحوم کے سوا سب چھوٹے بڑے اس کی رائے میں آ چکے تھے۔ یا تو ابتدا علیم کے انٹرنس پاس کرنے کے لالے پڑے تھے، یا اس نے بی۔ اے پاس کیا۔ ایک سے ایک عمدہ نو کری گھر میں بیٹھے اس کے لیے چلی آتی تھی، مگر اس نے نیک نہادی کی وجہ سے، سر رشتہ تعلیم کو یہ سمجھ کر پسند کیا کہ ہم وطنوں کو نفع پہنچانے کا قابو ملے۔ سلیم بڑا ہو کر طبیب ہوا تو کیسا کہ آج جو دلی کے بڑے نامی طبیب ہیں وہ اسی کی بیاض کے نسخوں سے مطب کرتے ہیں۔ ولیۂ مادر زاد حمیدہ، قرآن اس نے حفظ کیا، حدیث اس نے پڑھی۔ اور اگر سچ پوچھئے، تو شہر کی مستورات میں جو کہیں کہیں لکھنے پڑھنے کا چرچا ہے، یا عورتیں خدا اور رسول کے نام سے واقف ہیں، یہ سب بی حمیدہ کی بدولت۔




جزاہا اللہ عنا خیر الجزا۔