(مجموعے ’تاروں کی آخری منزل‘ سے ماخوذ)
نیٹ پر پرچھائیاں جھلملا رہی تھیں۔ اچانک میرا چودہ سالہ بیٹا عظمیٰ کمرے میں داخل ہوا۔ رات کے 11 بج رہے تھے۔ سونے سے پہلے ہمیشہ کی طرح کچھ دیر نیٹ کی دنیا کا استقبال، پھر سونے کی تیاریاں— ان دنوں یہی زندگی کا اصول بن گیا تھا۔ بیٹا میری جانب دیکھ رہا تھا۔
’کیا کر رہی تھی اماں—؟‘
یکایک اس کے سوال سے چونک پڑی میں… ’کچھ نہیں‘۔
’چیٹ کر رہی تھی؟‘
’ہاں‘ کہتے ہوئے اس کی طرف مڑی… ’اماں چیٹ نہیں کر سکتی کیا؟‘
’کیوں نہیں… کوئی دوست؟‘
’اماں کے چیٹ فرینڈ نہیں ہوسکتے کیا؟‘
’کیوں نہیں…‘
کمرے سے باہر نکلتے ہی اس کے قدموں کو دیکھ کر یکایک ٹھٹھک گئی تھی میں— آخر مجھ پر صرف میرا حق کیوں نہیں ہو سکتا—؟ ذیشان اور عظمیٰ سے الگ— ذیشان نے تو کبھی اس طرح کا سوال نہیں پوچھا۔ پھر…؟ کیا باہر نکلتے عظمیٰ کے وجود میں کہیں کوئی ہلچل تھی—؟ کہ اماں کے دوست نہیں ہونے چاہئیں؟
لیکن کیوں؟
ابھی تو چالیس کی بھی نہیں ہوئی۔ ایک اچھی خاصی زندگی باقی ہے میرے پاس— پھر اس زندگی کو اپنی خواہش کے مطابق کیوں نہیں گزار سکتی؟ لگا… ایک لمبے جنگ سے نکلنے کے بعد بھی زندگی میں کتنی ہی جنگیں باقی رہ جاتی ہیں۔ آنکھوں کے آگے یادوں کی ایک ٹرین بھی چل پڑی تھی۔
٭٭
آنکھوں کے پردے پر ہنہناتے ہوئے گھوڑے۔
یہ گھوڑے بچپن سے دیکھتی آئی ہوں۔ تب جب پیدا بھی نہیں ہوئی تھی— خواب دیکھنے والی آنکھیں— تب بھی یہ گھوڑے تھے— جو آنکھوں کے پردے پر آتے تو دل کھول کر تالیاں بجانے کا دل کرتا۔ لیکن اچانک احساس ہوا ،بہت کچھ بدلتا جا رہا ہو۔
کیا کر رہی تھی…؟
کنچے کھیل رہی تھی۔
کنچے مت کھیلو…
کیا کر رہی تھی…؟
کبڈّی…
یہ لڑکی تو ناک کٹوائے گی۔
کیا کر رہی ہے زرینہ…؟
باہر بندر والے آئے تھے۔ کھیل دکھانے…
اور تو تماشہ دیکھ رہی تھی…
ہاں…
چل اندر۔ خبردار۔ اب جو اکیلے باہر گئی تو اور ہاں— یہ سر پر آنچل کیوں نہیں؟
پھسل جاتا ہے…
پھسل جاتا ہے تو برابر کر۔ دنیا والوں کی آنکھیں ٹھیک نہیں… بڑی ہو رہی ہے۔ اچھا برا سمجھا کر…
تو میں بڑی ہو رہی تھی… اور اس لیے مجھے قید کیا جا رہا تھا۔ مگر گھر میں مجھ سے بھی تو بڑے بھائی تھے… ان پر کوئی پابندیاں کیوں نہیں؟ تب وہی گھوڑے۔ آنکھوں کے پردے پر آ کر ہنہناتے تھے۔
زرینہ! تم لڑکی ہو…؟
تو؟ لڑکیاں کنچے نہیں کھیلتیں…؟
نا…
لڑکیاں تماشے نہیں دیکھتیں…؟
نا…
اور جو آنچل میں اپنے سر پر نہ رکھوں تو…؟ اف! مجھے پسند نہیں ہے… قید لگتی ہے مجھے۔ سارا جسم ایک قید خانہ لگتا ہے…
گھوڑے اس بار ہنہناتے ہوئے رک جاتے…
مسلمان لڑکی ہو تم …
تو کیا مسلمان لڑکیاں…؟
مسلم لڑکیاں بس پیدا ہوتے ہی ایک تنگ سے دربے میں بند کر دی جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک دربہ کبھی بڑے ابّا کے گھر دیکھا تھا۔ اس میں مرغیاں ٹھنسی رہتی تھیں۔ اسی گھر میں رہتی تھیں نجمہ باجی— بڑے ابا کی اکیلی لڑکی۔ لیکن جیسے بے نور چہرا۔ جیسے سہمی ہوئی گائیں ہوتی ہیں۔ بڑے ابّا ٹھہرے نمازی، پرہیز گار— گھر میں ایک لفظ اکثر سننے میں آتا تھا… تبلیغی جماعت— تو بڑے ابّا تبلیغی جماعت کے تھے۔ گھر میں بس انہیں کی چلتی تھی۔ میں اب بارہ کی ہو گئی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ راز کی پرتیں ایک ایک کر کے کھلتی جا رہی تھیں۔ بڑے ابّا اور ہمارا گھر بالکل پاس پاس تھا— ہم بھاگتے ہوئے نجمہ باجی کے پاس پہنچ جاتے۔ لیکن یہ کیا… ایسی سہمی ہوئی آنکھیں تو میں نے کبھی دیکھی نہیں… ہاں، اماں نے بہت مشکل سے ڈانٹتے ہوئے بتایا۔
’تیری باجی آگے پڑھنا چاہتی تھیں۔‘
پھر…
تیرے بڑے ابّا کو پسند نہیں تھا…
ارے واہ یہ کیا بات ہوئی—؟
چپ کر۔ لڑکیوں کو بھی سمجھنا چاہئے۔ زمانہ نازک ہے۔ آخر کالج جا کر پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے—؟ لڑکیاں اسکول سے فارغ ہوں تو شادی کر دو بس۔ اب ان کے میاں جانیں۔ کیا کرنا ہے کیا نہیں…
بڑے ابّا کے گھر دربے میں ٹھنسی مرغیوں کے بیچ، اس بار ایک سہما چہرہ نجمہ باجی کا بھی تھا۔
رات جب خواب میں ہنہناتے گھوڑے آئے تو خود کو روک نہ سکی…
نجمہ باجی کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ایسا تمہارے ساتھ بھی ہو گا۔
ان کی آنکھیں ہر وقت پھولی رہتی ہیں۔ جیسے روتی رہی ہوں۔
ایسا… تمہارے…
نہیں ہو گا…
میں زور سے چیخی تھی۔ آنکھیں ملتی اٹھی۔ سب سوئے پڑے تھے۔ چلتی ہوئی آئینے کے پاس گئی۔ گلے میں لپٹے آنچل کو دیکھا۔ لگا، آنچل نہیں، کوئی سانپ ہے جو میرے جسم سے لپٹا ہوا ہے۔ غصے میں آنچل کو گردن سے نکال کر میز پر ڈال دیا۔ میں غصے میں ہانپ رہی تھی۔ مگر یہ کیا… آئینے میں کوئی اور زرینہ تھی۔ بالغ ہوتی زرینہ۔ سینے کے پاس ابھرتے گوشت کے نازک حصوں کو دیکھنا اچھا لگا… شلوار اور قمیص میں پہلی بار اپنے سراپے کو دیکھتے ہوئے، کان میں گھوڑوں کے ہنہنانے کے منظر گونج رہے تھے۔
یہ ایک طرح سے میرا پہلا احتجاج تھا۔ اور ڈر کا احساس بھی جو جسم کے پھیلاؤ کے ساتھ پہلی بار میرے جسم میں پیدا ہوا تھا۔
صبح کی نماز پھر تلاوت، پھر اسکول —اسکول سے واپسی کے بعد اماں سے سوئی پرونے، کپڑا سلنے سے کھانا بنانے کے طریقے سیکھنے تک اماں کی بڑبڑاہٹ جاری رہتی…
’تو نجمہ مت بن۔ خدا جانے کیسی تربیت دی نجمہ کو۔ اسے تو ڈھنگ کا کھانا بنانا بھی نہیں آتا۔ اب ڈانٹنے اور روکنے سے کیا ہو گا۔ اماں سمجھاتیں— لڑکی کے لیے یہی اصل تعلیم ہے۔ امور خانہ داری میں ماہر ہونا— لڑکیاں گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ لڑکیاں نمائش کی چیز نہیں۔ اب بڑی ہو رہی ہو۔ کچھ دنوں بعد حجاب لگانا ہو گا…
’اف! وہ بھوتنیوں والا حجاب…‘
’پاگل‘
’ہم پر پردہ فرض کیا گیا ہے۔ غیر مردوں سے پردہ شریعت کا قانون ہے۔ بھائی اور والد کو چھوڑ کر سارے نا محرم ہیں۔ کس کی آنکھوں پر بھروسہ کیا جائے۔ زمانہ ٹھیک نہیں۔ ہم وہی کریں گے جو خدا اور رسول نے ہم پر واجب ٹھہرایا ہے۔‘
اس رات بھی سپنے میں گھوڑے ہنہنائے۔ یکایک ڈر گئی۔ لگا، میں نے حجاب باندھ لیا ہے۔ کالا کالا برقعہ۔ اف برقعہ گلے میں پھنس گیا ہے۔ میری سانس گھٹ رہی ہے۔ چونک کر اٹھ گئی۔ سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ ایک بار پھر آئینے کے سامنے تھی۔
مجھے نہیں پہننا حجاب وجاب…
پہننا تو پڑے گا۔
میں پہنوں گی ہی نہیں۔
پھر…
پھر کیا…؟
بغاوت کرو گی؟
بغاوت —پہلی بار یہ لفظ کانوں سے ٹکرایا تھا۔ بغاوت کرو گی زرینہ—؟ لیکن تب تک جیسے بغاوت کے ایندھن سے چولہے پر چڑھا چاول پوری طرح پک چکا تھا۔
بڑے ابا ان دنوں جماعت کے ساتھ گئے تھے۔ اور اچانک جیسے گھر میں جنگ کا بگل بج اٹھا۔ مجھے بار بار کمرے میں بند کیا جا رہا تھا۔ امی کی تاکید تھی، کسی بھی قیمت پر بڑے ابّا کے گھر کی ڈیوڑھی نہ پھلانگوں— کیوں؟ جواب میں امی کا تھپڑ ملا تھا۔ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں کے قطرے تھے۔ یہ آنسو سب کچھ بول گئے تھے— پہلی بار احساس ہوا، کیا مسلمان لڑکی کے طور پر پیدا ہو کر میں نے کوئی جرم کیا ہے—؟ یا نجمہ باجی نے پھر ایسا کیا کیا ہو گا؟ گھر جیسے زلزلے کے انجان جھٹکوں سے کانپ رہا تھا۔
اس رات گھوڑے خواب میں پھر آئے۔ ان کے پاس وہی قصے تھے، جو اس کان اس کان سنتے سنتے مجھ تک پہنچے تھے۔ پھر میں جیسے ساری باتوں کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھی۔
زلزلہ کیوں آیا…؟
گھوڑے چپ تھے…
نجمہ باجی کا قصور کیا تھا؟
وہ چھت پر گئی تھی…
چھت ہوتی کس لیے ہے…
پڑوس کے لڑکے ارشد نے چٹھی پھینکی تھی…
ارشد، بچپن میں نجمہ باجی کے ساتھ ہی تو کھیلتا تھا۔لیکن اب نہیں۔
’ اس میں برا کیا ہے؟‘
کیوں…؟
کیونکہ ارشد بڑا ہو گیا ہے۔ نا محرم۔
اور نجمہ باجی بھی۔
ہاں…
ارے واہ۔ پھر بچپن میں کھیلنے سے منع کیوں نہیں کیا؟
اب خود کو دیکھو۔ کیوں کہ یہی کہانی اب تمہارے ساتھ دہرائی جانے والی ہے…
گھوڑے غائب تھے۔ ہوش کے ناخن لیتے ہی جیسے راز کے سارے پردے ایک ایک کر کے ہٹتے جا رہے تھے۔ تہذیب، روایتیں، نیا زمانہ، اتنے سارے چینلس۔ نئی دنیا، نئے خواب… من گھوڑوں کی طرح اڑنے کو کرتا تھا۔ مگر شاید، محسوس کر رہی تھی۔ پنکھ کٹ رہے ہوں۔ اور اس پنکھ کے کٹنے میں نجمہ باجی کا بھی قصور تھا… جو آناً فاناً نکاح کے بعد شوہر کے ساتھ سعودی چلی گئی تھیں۔ بڑے ابّا کا گھر سنسان تھا۔ جائے نماز پر وظیفہ پڑھتے بڑے ابّا کو دیکھ کر ڈر سا ہوتا تھا۔ مگر اب میرے پر کترنے کی شروعات ہو چکی تھی… لیکن کیا میں اس کے لیے تیار تھی؟ رات ہوتے ہی جیسے میرے آگے ایک خوفناک رقص شروع ہو جاتا۔ نجمہ باجی— نکاح کے وقت ان کی ڈراؤنی آنکھیں— سعودیہ جاتے ہوئے وہ اپنے بڑے ابّا اور بڑی امی سے ایسی ملیں، جیسے کوئی رشتہ ہی نہ ہو— نہ اس گھر سے— نہ یہاں کے درو دیوار، یہاں کے آنگن سے— وہ کبھی یہاں پیدا ہی نہیں ہوئیں— یا جیسے کبھی کسی سے کوئی رشتہ نہیں رہا ہو۔ گھر کے ماحول کا سوناپن۔ عورتوں کی خوفزدہ آنکھیں—؟ کیا مذہب صرف مردوں کے لیے ہے؟ اور عورتوں کے لیے—؟ یہ خوفزدہ آنکھیں… کہ ایک دن نجمہ باجی کی طرح وہ بھی کسی بھی کھونٹ سے باندھ دی جائے گی۔ میں اب سولہ سال کی تھی۔ سچائی، سانپ کے پھن کی طرح اپنا شکنجہ کس رہی تھی… جیسے اس دن اماں نے بازار حجاب لگا کر چلنے کو کہا تو… مجھ پر پاگل پن کا دورہ پڑ گیا تھا۔
نہیں پہننا مجھے…
اب تو بڑی ہو گئی ہے۔ تیرا جسم… اماں کہتے کہتے ٹھہر گئی تھیں۔
’میرا جسم بھی بڑا ہو گیا ہے۔ ہے، نا؟ تو بڑا ہونے دیتے ہی کیوں ہیں آپ اسے—؟ بڑا ہونے سے پہلے ہی دفن کیوں نہیں کر دیتے اسے۔‘
’پاگل مت بن۔ تو اکیلی نہیں جو…‘
سامنے ابّا کھڑے تھے۔ بڑا بھائی جنید بھی۔ پہلی بار میں نے کسی کی پرواہ نہیں تھی… حجاب اماں کی طرف اچھال دیا تھا۔
’مجھے نجمہ باجی نہیں بننا ہے۔‘
ابا اور جنید کی غصے سے گھورتی آنکھوں کی مجھے ذرا بھی پرواہ نہیں تھی… شاید بکھرتے ہوئے، بڑے ہوتے ہوئے یہ پہلا فیصلہ تھا، جو میں نے اپنے پورے ہوش و حواس میں لیا تھا۔ میں یہ دیکھنے کے لیے بھی نہیں ٹھہری کہ اماں، ابا اور جنید میں کیا باتیں چل رہی تھیں۔ یا وہ مجھے لے کر کس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
لیکن پہلی بار سینے پر رکھا ہوا ’سلہٹ‘ مجھ سے الگ ہوا تھا…
کمرے میں آئی تو جیسے کانپ رہی تھی۔ آنکھ بند کرنی چاہی تو وہی گھوڑے سامنے تھے۔ لیکن یہ کیا… ایک دو نہیں۔ ایک قطار سے کئی گھوڑوں کو دیکھ رہی تھی… گھوڑوں کے چکنے بدن کو… گٹھیلے بدن کو… جیسے وہ راشد… جو اس کے چھت پر چڑھتے ہی، اپنے گھر کی چھت پر آ جاتا ہے۔ خدا معلوم۔ اس عمر میں آہٹوں کی کیسی ٹیلی پیتھی ہوتی ہے… وہ جانتی ہے… وہ اسے چھپ کر دیکھتا ہے۔ لیکن اسے بھی اچھا لگتا ہے۔ جیسے جسم کے حصوں پر ہزاروں چیونٹیاں پھسل رہی ہوں۔ تو کیا پھر اس گھر میں ایک نئی کہانی کی شروعات ہو رہی ہے— صرف چہرے بدل گئے ہیں۔ اس بار نجمہ باجی کی جگہ وہ ہے…
وہ گھوڑوں کو دیکھ رہی ہے۔ وہ تنے ہوئے کھڑے ہیں… تو تم سمجھتی ہو… بازی تم نے جیت لی؟
نہیں…
لڑکی سے عورت بھی بن جاؤ، تب بھی، کہیں بھی— عمر کے کسی بھی موڑ پر تمہاری مرضی نہیں چلنے والی…
اس بار میں ہنس دی تھی…
’ابھی تم مجھے نہیں جانتے۔ حجاب سے توبہ صرف میری نجی آزادی سے جڑے احساس تھے— لیکن یہ مہرا چلتے ہوئے شطرنج کی پوری بساط کو سمجھ گئی ہوں میں…
’مذہب کے خلاف جاؤ گی؟‘
’ان کے خلاف جو مذہب کو اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
میں اس جواب سے مطمئن تھی۔ اب گھوڑے نہیں تھے… ایک قطار سے وہ سارے گھوڑے غائب۔ اب نیند آ رہی تھی…
٭٭
آنکھوں میں یادوں کی ٹرین چھک چھک کرتے دوڑی چلی جا رہی ہے۔ وہ سارے نظارے مجھے ایک بار سے جکڑ رہے ہیں۔ میں اب بڑی ہو رہی تھی۔ اس لیے ان سارے رازوں کو سمجھنے لگی تھی، جو اب تک مجھ سے چھپائے جا رہے تھے۔ مجھے احساس تھا، بڑی ہونے کے ساتھ ہی اب میں گھر کے سارے بزرگوں کی بڑی بڑی آنکھوں کے قید خانے میں ہوں۔ میں کیا کرتی ہوں۔ چھت پر کتنی دیر کے لیے جاتی ہوں۔ کپڑے سکھانے میں کتنا وقت لگاتی ہوں۔ یا کبھی کوئی گانا گنگناتے ہوئے اچانک دل ہی دل میں مجرم بن جانے کا احساس— اماں شیر مال یا رمضان کی تیاریاں، یا شب برات میں بننے والے شیر اور حلووں میں میرا ساتھ اس لیے بھی چاہتی تھی، کہ کل کو مجھے پرائے گھر میں جانا ہے اور وہاں یہی کچھ کرنا ہے— لیکن یہی وہ وقت تھا، جب میں اڑنے لگی تھی یا میرے خواب مجھ سے بڑے ہو گئے تھے۔ یا پھر میں نجمہ باجی نہیں بننا چاہتی تھی، جن کی خواہشوں کا خاموشی کے ساتھ اس گھر نے قتل کر دیا تھا۔
لیکن شاید نجمہ باجی اتنی کمزور نہیں تھیں، جیسا کہ میں سمجھ رہی تھی۔ ان کے اندر کے جوالا مکھی کو تب پھٹتے ہوئے دیکھا تھا، جب یکایک ایک رات بڑے ابا کو دل کو دورا پڑا۔ اور اسپتال لے جانے سے پہلے ہی ان کی موت ہو گئی۔
سارا گھر سنّاٹے میں تھا۔ گھر کی منحوس دیواروں میں سو سو آنکھیں پیدا ہو گئی تھیں… بڑے ابّا کو غسل دینے، آخری سفر پر لے جانے تک اڑتی ہوئی صرف ایک بات میرے حصے میں آئی تھی۔ سعودیہ سے نجمہ اپیا کا کوئی فون آیا تھا۔ اس فون کے بعد سے ہی بڑے ابا چپ چپ سے رہنے لگے تھے اور پھر یہ ہارٹ اٹیک— اپیا اور نوشے بھائی کو اس حادثے کے ایک مہینے بعد آنے کا موقع ملا۔ اور سارا گھر جیسے ایک بار پھر زلزلے کے جھٹکوں کی زد میں تھا۔ اپیا کو جیسے برسوں بعد دیکھ رہی تھی۔ ڈراؤنی آنکھیں۔ بال بکھرے ہوئے— سہما چہرہ— بڑے ابّا کی سونی پلنگ کے پاس کچھ دیر تک ساکت کھڑی رہیں۔ پھر بڑی اماں کی طرف بڑھیں— ہم سب جیسے کسی تماشے کی طرح انہیں گھور رہے تھے۔ ان کے شوہر کرسی پر سر جھکائے بیٹھے تھے۔ بڑے ابا کی پلنگ کو کانپتے ہاتھوں سے چھوتے ہوئے آپا نے دھماکہ کیا۔
’میں نے ابا کو فون پر بتا دیا تھا۔ احمد میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ مجھ سے طلاق چاہتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ان کی باتیں بغیر کسی جرح کے قبول کر لی جائیں…‘
اس کے بعد وہ رکی نہیں۔ تیزی سے اندر چلی گئی تھیں…
٭٭
یادوں کی ٹرین چھک چھک کر کے دوڑ رہی تھی۔
اس رات… ہم چھت پر اکیلے تھے۔ آسمان میں دور تک تاروں کا قافلہ تھا۔ اچانک اپیا نے روتے ہوئے، مجھے بانہوں میں بھر لیا۔ اچانک جیسے اپنی غلطی کا احساس ہوا ہو۔ آنچل سے آنسو پوچھے اور مجھ سے مخاطب ہوئی۔
’سن زرینہ! اب بڑی ہو گئی ہو تم۔ اس لیے جو چیزیں تمہارے سامنے کل آئیں انہیں آج ہی سمجھنے کی عادت ڈال لو— اس گھر میں میرا کچھ بھی نہیں تھا— صرف پیدا ہوئی تھی میں— یہ بدن بھی میرا نہیں تھا— خواب بھی میرے نہیں تھے— ہاتھ میرے تھے، لیکن کرنا وہی تھا جو یہ چاہتے تھے— پاؤں میرے تھے۔ لیکن چلنا کیسے ہے، یہ بھی گھر والے ہی بتاتے تھے— میں پہلے بھی نہیں تھی— اب بھی کہیں نہیں ہوں۔ نہ شادی میری مرضی سے ہوئی نہ طلاق۔
’لیکن… اب… کیا کرو گی اپیا…؟‘
’کوئی کر بھی کیا سکتا ہے— جب زندگی موت سے بدتر ہو جائے؟ یہ لوگ مذہب کی باتیں کرتے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں، کیا مذہب اتنا ڈراؤنا ہوتا ہے؟ کیا مذہب میں عورتوں کی اپنی آزادی نہیں ہوتی؟ کیوں عورت کی جون میں پیدا ہوتے ہی اس کی خواہشوں، حقوق اور عصمت کی ذمہ داری صرف مردوں پر رہتی ہے—؟ میں تو کبھی جی ہی نہیں سکی نجمہ۔ اس لیے یہ بھی نہیں جانتی کہ تم بھی جی رہی ہو یا نہیں…
آسمان میں تاروں کے بیچ جھلمل کرتے چاند کے بیچ آج پہلی بار نجمہ اپیا کے چہرے میں زندگی پڑھ رہی تھی۔ ایک بار پھر انہوں نے مجھے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے لیا۔
’لیکن۔ سن… جینا ضرور… اور اپنی زندگی۔ تیری زندگی صرف تیری ہے— اس پر حق بھی صرف تیرا ہے— سوچتی ہوں۔ ابھی ایک زندگی میرے پاس بھی ہے…
اچانک وہ کہتے کہتے چپ ہو گئی تھی۔ لگا ایک لمحے کو زلزلہ آیا ہو— زمین ڈول گئی ہو… مگر شاید یہ میرا وہم تھا۔ اپیا کی آواز بار بار کانوں میں گونج رہی تھی… لگا، کچھ ہونے والا ہے۔ کچھ بے حد اچھا یا کچھ بے حد برا۔ مگر جو ہونے والا تھا… وہ بہت جلد سامنے آ گیا۔
طلاق نامے پر آسانی سے بغیر کسی شرط کے دستخط ہو گئے—اور طلاق ہونے کے ایک ہی ہفتے بعد اپیا گم ہو گئی تھیں۔ ایک چھوٹا سا خط چھوڑ کر… ’اب تک آپ کی زندگی جیتی آئی۔ اب اپنی زندگی جینا چاہتی ہوں۔ احساس ہے، ایک عمر کے بعد بھی خواب کہیں رہ جاتے ہیں— چھپے ہوئے۔ اس ایک ہفتے کے زلزلے میں ان بکھرے خوابوں کو بڑی مشکل سے نکالا ہے میں نے— دو راستے تھے۔ ایک موت کی طرف جاتا تھا۔ لیکن ہار کر موت نہیں چننا چاہتی تھی میں— یہ اب تک کی بزدلی کا سب سے خوفناک صفحہ ہوتا— دوسرے بجھے آتشدان سے خواب کی واپسی چاہتی تھی— مجھے دوسرا راستہ آسان لگایا۔ اس لیے خوابوں کے پیچھے جا رہی ہوں۔ کچھ زیورات، کچھ پیسے اسی دن کے لیے رکھے تھے۔ ایک بار اور— میں اس گھر میں تھی ہی نہیں۔ اس لیے جو تھا ہی نہیں، اس کے نام پر آنسو کیسا بہانا یا اسے تلاش کیا کرنا… لیکن آخر میں ایک بات گھر کی عورتوں کے لیے… وہ زندگی جو آپ جی رہی ہیں، جانور بھی اس سے اچھی زندگی جیتے ہیں— مجھے نہیں معلوم، آپ لوگ اپنی تقدیر کی چابیاں مردوں کے حوالے کیوں کرتی ہیں؟ کہا سنا… معاف … جو آپ کی کبھی تھی ہی نہیں…‘
گھر میں ایک بار پھر ہنگامہ برپا تھا۔ وہ گھر جو ابھی بڑے ابا کے صدمے سے باہر نہیں نکلا تھا۔ گھر کی چوکھٹ پر جیسے بڑے بڑے سانپوں کا آشیانہ تھا۔ بڑی امی کی آنکھیں رونا بھول گئی تھیں۔ سونی سی ان بے جان آنکھوں میں اب صرف آنے والی موت کا انتظار رہ گیا تھا۔
اب سوچتی ہوں تو لگتا ہے نجمہ اپیا کے فرار نے پہلی بار گھر کے مردوں کو کمزور کیا تھا۔ یا پہلی بار ان کی مردانہ وراثت میں کوئی سیندھ پڑی تھی۔ عمر کا گھوڑا پوری رفتار سے دوڑ رہا تھا۔ اسکول اور اسکول سے کالج ایڈمیشن تک میری شادی اور آگے نہ پڑھنے کی بات سامنے آئی تو میں نے پوری سمجھ داری سے اپنی بغاوت کا اعلان کر دیا۔
’اس گھر میں ایک اور نجمہ باجی پیدا مت کیجئے۔ میں بھی اللہ رسول کو مانتی ہوں اور اس کا خوف رکھتی ہوں۔ لیکن یہ بھی جانتی ہوں کہ پوری آزادی کے ساتھ ماں باپ سے اپنے حقوق کے لیے مکالمہ کیا جا سکتا ہے— پہلا مورچہ یہی ہے کہ مجھے کچھ بننا ہے تو آپ میری پڑھائی کو نہیں روک سکتے…‘
نجمہ آپا جب تک گھر میں رہیں، کمزور رہیں۔ لیکن گھر سے گم ہوتے ہی وہ گھر کے چپے چپے میں زندہ اور پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط دکھ رہی تھیں— ان کا نام آتے ہی گھر کے بزرگوں کو سانپ سونگھ جاتا اور زندگی کے انہیں پتھریلے راستوں پر چلتے ہوئے ذیشان ملے تھے— سلجھے ہوئے اور زندگی کی قدر کرنے والے— محبت کا ان چھوا احساس اپنی جگہ تھا، مگر میں کسی کے لیے اپنی پہچان کو مٹانے پر یقین نہیں کرنے والی تھی۔ اس لیے میں نے ذیشان سے صاف طور پر کہہ دیا تھا۔
’زندگی ایک ریس ہے تو ہم دونوں برابر ہیں کبھی مجھ پر حکم مت جتانا۔ بے مانگے کوئی صلاح مت دینا۔ کوئی اپ دیش یا کوئی ایسی بات، جہاں تم مجھے ’سرتاج‘ نظر آؤ۔ میں تمہارے سرتاج ہونے پر نہیں، ہمیشہ قائم رہنے والی محبت پر یقین رکھتی ہوں۔ ہاں، کبھی تمہیں یا مجھے ایسا نظر آیا کہ اب ساتھ ایک بوجھ ہو گیا ہے تو ہم خاموشی سے الگ ہو جائیں گے… دوستوں کی طرح۔ اور ذیشان نے شاید میرے اندر کی باغی عورت کو دیکھ لیا تھا۔ اس لیے ہم ہمیشہ دوست کی طرح رہے۔
آنکھوں کے آگے دوڑتی یادوں کی ریل ٹھہر گئی ہے— ذیشان اور مجھے ملنے میں ذرا بھی پیچیدگی نہیں آئی۔ وہ گھر جہاں ہر وقت ویرانیوں کا ڈیرا رہتا تھا، اب ذرا سا، ویرانیوں کے یہ جالے ہٹے تھے— سرنگ کے اندھیرے میں روشنی سی نظر آئی تھی۔ لیکن یہ روشنی نجمہ باجی کی دین تھی، جو کہاں گئی، کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ کسی پرندے کی طرح اڑتے میرے وجود کو گھر والوں نے یہ سوچ کر اپنی تسلی کے دھاگے سے باندھ لیا تھا، کہ اب زمانہ ہی ایسا ہے تو ہم بھی کیا کر سکتے ہیں— عظمیٰ کے آنے اور چودہ سالہ جوان بننے تک سب کچھ یکساں ہی رہا۔ ہاں، ایسے کئی موقع آئے جب ذیشان میں ایک مرد آتے آتے ٹھہر سا جاتا— کیونکہ ذیشان میرے احساس سے روشناس تھے۔ ہم دونوں جاب میں تھے، اور زندگی جینے کی ہم دونوں کے بیچ بس ایک ہی شرط تھی۔ برابری اور دوستی— اتنے برسوں میں کتنے ہی حادثات ہوئے، لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اچانک کوئی اخلاقیات کہیں سے مذہب کا کوئی اڑتا ہوا ٹکڑا سنبھال کر عظمیٰ بن جاتی ہے— ابھی ابھی کمرے سے باہر گیا ہے وہ… کیا اس میں ایک مرد جاگ گیا ہے؟ اچانک؟
نیٹ پر چلتے ہاتھ رک گئے ہیں… عظمیٰ نے یہ سوال کیوں کیا؟ کیا وہ اس کے جواب سے دکھی ہے؟ دکھی ہے تو کیوں؟
میں واپس اس جگہ کو دیکھتی ہوں، جہاں کچھ دیر پہلے عظمیٰ موجود تھا۔ اب وہاں کوئی نہیں ہے… لیکن اس کے لفظ مجھے ڈرا رہے ہیں…
اندر ایک ہلچل سی ہے۔ سائن آؤٹ کرتی ہوئی میں خاموشی سے ٹھہر جاتی ہوں— ایسا لگا جیسے برسوں بعد ایک بار پھر میرے بیٹے نے مجھے حجاب پہنا دیا ہو۔
٭٭٭
تشکر مشرف عالم ذوقی، جنہوں نے اس کے متن کی ان پیج فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید