مولانا رومی اور هم عصر معاشره:
مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کالام دونوں هی کسی تعارف کے محتاج نهیں۔ چھبیس ھزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشهور زمانه مثنوی تصوف اور عشق الهٰی کے جمله موضوعات کو انتهائ سادگی روحانی اور عام فهم انداز مین بیان کرتی ھے۔ عشق الهٰی اور معرفت کے انتهائ مشکل و پیچیده نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کهانیوں سے مدد لی ھے جو بھی لکھا ھے قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی هے اس لیۓ آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اهمیت و افادیت میں کوئ کمی واقع نهین ھوئ۔
مولانا جلال الدین رومی الملقب به مولوی معنوی سن باره سو سات میں بلخ میں پیدا ھوۓ۔ آپ کے والد بزرگوار بهاء الدین اپنے دور کے مشهور علماء مین شمار کیۓ جاتے تھے، حتی کے ان حلقهء درس میں حاکم وقت خوارزم شاه بھی شرکت کیا کرتے تھا۔ وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر مولانا کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کها اور پناه کی تلاش مین انا طویه کی راه لی، راستے میں نیشاپور میں رکے جهاں مشهور صوفی بزرگ عطار نیشا پوری سے ملاقات کی۔ عطا بڑے قیافه شناس تھے۔ جلال الدین رومی کو دیکھ کر سمجھ گۓ که آگے چل کر یه بچه عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ چناں چه انهوں نے بهاء الدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجه دینے کی هدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے هوۓ بهاء الدین اناطولیه پهنچے جهاں کے سلجوتی حاکم علاءالدین کیقباد نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیه میں بهاء الدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بهت جلد مشهور ھوگۓ، ان کے انتقال کے بعد مولانا رومی نے والد کی گدی سنبھال لی۔ حلقهء درس میں شریک هونے والے حاکم وقت اور اعیان دولت ان سے بے انتها عقیدت رکھتے تھے۔
مولانا کی زندگی بڑے سکون سے گزررهی تھی، ایک دن گرمیوں کی صبح وه حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رهے تھے، ایک خوانچه فروش حلوه بیچتا ھوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بے پرواه اور بے خبر اس جگه جا کر کھڑا ھواگیا جهاں مولانا تدریس میں مشغول تھے۔ خوانچه فروش نے تعجب سے پوچھا که یه سب کیا ھے، کیا ھورھا هے۔ مولانا نے بڑے تحمل سے کها یه تم نهین جانتے جاؤ، اپنا کام کرو۔ وه آگے بڑھا اور کتاب مولانا کے هاتھ سے لے کر اٹھا اور حوض میں پھینک دی۔ مولانا نے کها یه تم نے کیا کیا۔ میں نے تو کچھ بھی نهیں کیا۔ یه کهه کر اس نے حوض سے کتاب نکال کر رومی نے حیرت سے پوچھا، یه کیا ھے، اب باری اس کی تھی، یه تم نهیں جانتے یه که کر اس نے اپنا خوانچه اٹھایا اور اسی طرح صدا لگاتا ھوا باهر چلا گیا۔ یه حضرت شمس تبریز تھے۔ مولانا رومی، شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے آۓ۔ انهوں نے علم کی انتھائ اعلیٰ منازل طے کررکھی تھین، اب عشق الهٰی و معرفت کے سفر کا آغاز کیا جس مین قدم قدم پر انهیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راه نمائ حاصل تھی۔ مولانا رومی نے رفته رفته اپنا رابطه اپنے ماحول اور گردو پیش سے منقطع کرلیا۔ بس وه تھے اور شمس تبریز کی صحبت۔ یه صورت حال ان کے شاگردوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نه تھی۔ چنانچه شمس تبریز انکے نزدیک متنازع شخصیت بن گۓ، شاگردوں و عقیدت مندوں کے بدلتے هوۓ تیور دیکھ کر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب ھوگۓ۔ بعض روایات کے مطابق انھیں شهید کردیا گیا۔
شمس تبریز کی جدائ مولانا رومی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں خود و ارفتگی کے عالم میں انهوں نے فی البدیهه شعر کهنا شروع کردیۓ۔ یوں عرفان و آگهی کی مضبوط ترین دستاویز مثنوی تخلیق ھوئ۔
اس مثنوی کے علاوه مولانا رومی کا دیوان کبیر، جو چالیس هزار اشعار پر مشتمل ھے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیه، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیں هیں جو ان کے نام کو صوفیانه ادب میں همیشه روشن اور تابنده رکھیں گی۔
هر سال ستره دسمبر کو مولانا کا عرس [شب عروس] کے نام سے قونیه میں منعقد کیا جاتا ھے۔
اس سال یعنی سن دوهزار سات کو ان کی ولادت کی آٹھ سو ساله تقریبات کے طور پر منایا جارها ھے۔ مئ کے مهینے میں یونیسکو نے استنبول میں ایک شاندار کانفرنس کا اهتمام کیا تھا، پچھلے سال اسی مهینے میں تهران مین بھی ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد ھوچکا ھے۔ قارئین مولانا سلوک کی اس منزل پر پهنچ چکے تھے که انهیں هر طرف الله هی کا جلوه نظر آتا تھا، جو قرآن کی آیت [الله نور السموات و الارض] کی گویا تفسیر ھے، وه حسن و زیبائ کے کائناتی، ملکاتی اور الهامی تصور کے علم بردار تھے۔ الله تعالی نے محبت رسول الله سے شیفتگی کے اس مرتبے پر پهنچ چکے تھے، جهاں ان کی اپنی هستی معدوم هوچکی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک اونٹ جنگل سے گزر رہا تھا اور اسکی مہار زمین پر گِھسٹ رہی تھی۔ ایک چوہے نے اسے دیکھا تو دل میں کہا کہ اسکو یوں کھلا چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسکی مہار تھام لینی چاہیے تاکہ یہ شِتر بے مہار نہ کہلاۓ۔ پھر اس نے دوڑ کر اسکی مہار منہ میں لے لی اور آگے آگے روانہ ہو پڑا۔ اونٹ نے بھی اس سے مذاق کیا اور بے تکلف ہو کر پیچھے پیچھے چل پڑا۔
کچھ دور چل کر اونٹ نے پوچھا ، اے میرے رہبر! تو اس قدر ڈر کیوں رہا ہے؟ چوہے نے شرمندگی سے کہا، بھائی یہ پانی دیکھ کر میرا دِل ڈر گیا ہے۔ اونٹ نے کہا تو نہ ڈر میں ابھی دیکھ کر بتاتا ہوں کہ پانی کتنا گہرا ہے۔ اور پھر بولا کہ آجا پانی تھوڑا ہے، دیکھ لے میرے زانوں تک نہیں ڈوبے تو کیسے ڈوب سکتا ہے۔ چوہے نے کہا واہ بھئ واہ، یعنی تم مجھے غرق کرنا چاہتے ہو، جو پانی تمہارے زانو تک گہرا ہے وہ میرے سر سے سو گز اونچا ہو گا۔
یہ سن کر اونٹ نے گہرا سانس لیا اور تحمل سے بولا کہ کیا تم اسی برتے پر میرے پیشوا بنے تھے؟ آئندہ دعویٰ ہمسری ٖصرف چوہوں کے ساتھ ہی کرنا کسی اونٹ کے منہ مت لگنا۔ چوہا بھی سٹپٹا گیا اور بولا میری توبہ آئندہ ایسی جرات نہیں کرونگا۔ اب خدا کے لئے مجھے پار اتار دے۔ اونٹ کو رحم آ گیا اور بولا کہ آ میری پیٹھ پر بیٹھ جا تیرے جیسے لاکھوں چاہوں کو پار اتار سکتا ہوں۔
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی اس حکایت کا مطلب صاف ہے کہ جب تم میں بادشاہ یا رہنما یا مُرشد بننے کی صلاحیت نہ ہو تو رعیت بن کر گزارا کرو اور خدمت گزاری سے عزت حاصل کرو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک چور ایک باغ میں گھس گیا اور آم کے درخت پر چڑھ کر آم کھانے لگا
اتفاقًا باغبان بھی وہاں آپہنچا اور چور سے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوبے شرم یہ کیا کر رہے ہو؟
چور مسکرایا اور بولا
ارے بے خبر یہ باغ اللہ کا ہے اور میں اللہ کا بندہ ہوں ، وہ مجھے کھلا رہا ہے اور میں کھا رہا ہوں ، میں تو اسکا حکم پورا کر رہا ہوں ، ورنہ تو پتہ بھی اس کے حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا
باغبان نے چور سے کہا
جناب! آپ کا یہ وعظ سن کر دل بہت خوش ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا نیچے تشریف لائیے تاکہ میں آپ جیسے مومن باللہ کی دست بوسی کرلوں ۔۔۔۔ سبحان اللہ اس جہالت کے دور میں آپ جیسے عارف کا دم غنیمت ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو مدت کے بعد توحید ومعرفت کا یہ نکتہ ملا ھے جو کرتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا ہی کرتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بندے کا کچھ بھی اختیار نہیں ۔۔۔۔۔۔ قبلہ ذرا نیچے تشریف لائیے ۔۔۔۔۔۔
چور اپنی تعریف سن کر پھولا نہ سمایا اور جھٹ سے نیچے اتر آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ نیچے آیا تو باغبان نے اسکو پکڑ لیا اور رسی کے ساتھ درخت سے باندھ دیا ۔ پھر خوب مرمت کی ، آخر میں جب ڈنڈا اٹھایا تو چور چلا اٹھا ، کے ظالم کچھ تو رحم کرو ، میرا اتنا جرم نہیں جتنا تو نے مجھے مار لیا ہے ۔ باغبان نے ہنس کر اس سے کہا کہ جناب ابھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے ، اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، اگر پھل کھانے والا اللہ کا بندہ تھا تو مارنے والا بھی تو اللہ کا بندہ ہے اور اللہ کے حکم سے ہی مار رہا ہے کیونکہ اس کے حکم کے بغیر تو پتہ بھی نہیں ہلتا
چور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدارا مجھے چھوڑ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل مسئلہ میری سمجھ میں آگیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ بندے کا بھی کچھ اختیار ھے
باغبان نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی اختیار کی وجہ سے اچھے یا برے کام کا ذمہ داربھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت یوسفؑ اور حسن کا نظارہ
حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک دوست بڑی مدت کے بعد ملا۔ وہ بڑے ملکوں کی سیر اور تجربہ حاصل کر آیا تھا۔ حضرت کے سامنے اس نے بحرو بر کے تمام عجائب و غرائب بیان کیے۔ جب باتیں ہو چکیں، تو آپؑ نے فرمایا کہ میرے لیے تم کیا سوغات لائے ہو؟ وہ بولا آپؑ دین ودنیا کے بادشاہ۔ میں آپؑ کے لیے کیا تحفہ لاتا۔ قطرہ دریا کے پاس اور ذرہ صحرا کے پاس کیا، ہدیہ پیش کر سکتا ہے۔ اے میرے صدیق یوسفؑ آپ کا حسن و جمال لاثانی ہے۔ ہر ایک اس کی دید سے بہرہ ور ہوتا ہے، مگر آپؑ خود اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ میں ایک ایسی چیز لایا ہوں، جس سے آپؑ اپنے حسن کا نظارہ کر سکیں گے۔یہ کہہ کر اس نے آئینہ نکال کر حضرت یوسفؑ کے سامنے کر دیا۔ آپؑ اپنے حسن کا جلوہ دیکھ کر گر پڑے۔ بی بی زلیخا نے سنا تو کہا:اب تو میری قدر پہچانے گا توعاشقوں کے درد کو جانے گا توتو کہا کرتا تھا سودائی مجھےمیں نظر آتی تھی دیوانی تجھےاب پتا تجھ کو لگا اے بے خبرحسن کا ہوتا ہے کیا دل پر اثر
************************
عذاب صحبت ناجنس
ایک شہری نے جال لگا کر جنگلی ہرن کو گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد یہ غذب کیا کہ اسے گدھوں کے ساتھ باندھ دیا۔ بدنصیب ہرن بدحواس ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگا۔ ان گدھوں کو دیکھ کر چوکڑیاں بھول گیا۔ کھانا پینا بھی یاد نہ رہا۔ گدھے مزے سے ساری رات گھاس چر گۓ۔ پھر وہ دولتیاں اچھال کر ساری دھول اڑاتے رہے۔ غرض ہرن کو کسی صورت چین نہ تھا۔ اے عزیز یاد رکھو کہ خلاف طبع غیر جنس کے ساتھ یکجائی کے عذاب سے موت بہتر ہے۔ غیر جنس کے ساتھ ایک ہی قفس میں قید ہونا بدترین عذاب ہے۔
************************************
موت سے ملاقات
ایک بوڑھے شخص کا دنیا میں کوئی سہارا نہ تھا۔ بڑھاپے میں وہ اس طرح گزارا کرتا کہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلا جاتا سارا دن لکڑیاں کاٹنے اور چننے میں گزر جاتا۔ شام ہونے سے پہلے لکڑیاں بیچنے کا چارا کرتا اور انہیں بیچ کر روٹی کھاتا۔ایک دن اس کی طبیعت ٹھیک نہ تھی ۔اتنی کمزوری محسوس کر رہا تھا کہ اس سے چلانہ جاتا تھا۔لیکن مرتا کیا نہ کرتا ۔
لکڑیاں جنگل سے نہ لاتا تو روٹی کہاں سے کھاتا۔ لکڑ ہارا گرتا پڑتا جنگل میں پہنچا۔ بڑی مشکل سے لکڑیاں کاٹیں ۔ اس کے بعد سانس لیا ۔پھر گٹھا جو اٹھایا تو سرسے پاؤں تک کانپنے لگا ۔ بڑی مشکل سے گٹھا اٹھایا ۔ کمزوری تو پہلے ہی سے تھی۔ گٹھا اٹھا کر ابھی سینے تک لایا تھا کہ بازو جواب دے گئے ۔
گٹھا زمین پر آرہا۔ تھوڑی دیر پھر سانس لیا۔ گٹھا اٹھایا جو پھر گر کر زمین پر آرہا۔ لکڑہارا سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا اور درد کی شدت سے ہانپتے ہوئے آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر کہنے لگا۔ ’’ خدا یا ! بڑھاپے میں کس طرح میں یہ مشقت کروں ۔مجھ سے تو اپنا آپ نہیں اٹھایا جاتا، بھاری گٹھا کیسے اٹھاؤں؟ میری قسمت کا ستارہ کب تک گردش میں رہے گا۔ اس جینے سے تو موت بہتر ہے۔ اے موت !مجھے اس دنیا سے اٹھالے۔‘‘ یہ سنتے ہی اچانک موت ایک طرف سے نمودار ہوئی۔ بولی مجھے کس واسطے جنگل میں پکارا ہے؟‘‘ موت کو دیکھ کر بوڑھے پر دہشت طاری ہو گئی ۔تھرتھر کانپنے لگا اور رک رک کر کہا ’’ میں نے تمہیں اس واسطے جنگل میں پکارا ہے کہ اس جنگل میں دور اور نزدیک کوئی نظر نہیں آرہا۔ یہ گٹھا اٹھا کر میرے سر پر ٹکا دو‘‘۔۔
*******************************
انا بشر مسلکم ۔ حکایت رومی
ایک عورت سخت پریشان، بدحواس، امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا "یا امیرالمومنین، میری مدد فرمایۓ۔ دنیا نیری نظروں میں اندھیر ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں؟"
آپ نے فرمایا "گھبرا مت۔ خدا پر بھروسا رکھ، اور بتا کیا مشکل ہے؟" عورت نے کہا "میرا کم سن بچہ نالے پر چڑھ گیا ہے۔ بہت بلایا، اشارے کیۓ، ڈرایا دھکمایا، پیار سے کہا، لیکن وہ ایک نہیں سنتا۔ اگر اسے وہیں چھوڑتی ہوں تو خدشہ ہے کیا یقین ہے کہ گر پڑے گا اور ہڈی پسلی برابر ہوجائیگی۔ میں نے بہترا، بہلایا، پھسلایا، مگر وہ خطرے ہی کی طرف بڑھا جارہا ہے آپ مشکل کشا ہیں، واسطے خدا کے مجھ غریب کی مدد فرمایئے۔ دل کانپتا ہے کہ یہ ثمر محبت کہیں ضائع نہ ہوجاۓ"۔
امیر المومنین نے ارشاد فرمایا کہ "آسان تدبیر یہ ہے کہ اس کے ہم سن کسی اور بچے کو کوٹھے پر کھڑا کردو تاکہ تمہارا بچہ اپنے ہم جنس کو دیکھے اور نالے سے ہٹ کر اس کی طرف آجاۓ۔ کیونکہ ہم جنس اپنے ہم جنس سے بے تکلف اور محبوب ہوتا ہے"۔
اس عورت نے ارشادِ عالی پر عمل کیا۔ جونہی اس کا ہم سن بچہ کوٹھے پر آیا عورت کا بچہ فوراً ہنسا اور خوش ہوتا ہوا نالے سے اتر آیا اور یوں اپنی جان گنوانے سے بچ گیا۔
اے عزیز دوستو! غور کرو کہ حق تعالی نے آدمی کی ہدایت کے لیے آدمیوں میں سے ہی رسولکیوں بھیجے۔ اس لیے کہ ہم جنسی کی کشش سے آدمی گمراہی اور کفر کے نالے میں گرنے سے بچے رہیں۔ نبی کریم (صلعم) اسی لیے خیر البشر ہیں اور آپ نے جو فرمایا کہ اے لوگو میں تمہاری ہی مثل ایک بشر ہوں۔ تو اس ارشاد کی حکمت بھی یہی ہے کہ لوگ رسول کو انسان اور آدمی دیکھ کر کھنچے چلے آئیں اور گمراہ نہ ہونے پائیں۔ آدمی کی جگہ اگر کوئی فرشتہ یا جن آتا تو یہ فریفتگی اور کشش نہ رہتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نماز میں بولنے والے
چار آدمي نماز پڑهنے کے ليے ايک مسجد ميں گۓ هر شخص نے الگ الگ تکبير کہي اور نہايت خشوع و خضوع سے نماز کي نيت باندهـ لي۔ اتنے ميں موﺋذن وهاں آيا پہلے نمازي نے اس سے کہا کہ ارے بهاﺋي آزان بهي دے دي تهي يا نہيں، اگر نہيں تو اب دے دو کچه وقت ہے۔ يه سنتے ہي دوسرا نمازي بولا مياں تم نے نماز ميں بات کي ہے اس ليے تمہاري نماز جاتي رهي اب دوباره نيت باندهو۔
تيسرے نے معاً دوسرے کي طرف منہ پهير کہا ابے او عقل کے اندهے اسے کيا الزام ديتا ہے تُو خود نماز ميں بول پڑا تيري نماز بهي باطل هوﺋي۔ چوتهے نے کہا خدا کا شکر ہے کہ ميں نہيں بولا۔ ورنہ ميري نماز بهي جاتي رہتي۔
اے عزيز، مقصد اس حکايت کے بيان کرنے کا يہ ہے کہ دوسروں کے عيبوں اور براﺋيوں پر نگاه ڈالنے والے گمراہ ہوجاتے ہيں۔ نيک بخت اور سعيد وه ہے جس نے اپنے عيب پر نظر کي اور اگر اس سے کسي نے دوسرے کا عيب بيان کيا تو اسے بهي اپني هي ذات سے منسوب کيا۔ کيونکه اگر وه عيب تجه ميں نہيں تب بهي بے فکر مت ہو۔ کيا خبر آينده کسي زمانے ميں وہي عيب تجه ميں پيدا ہوجاۓ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
باہم جنس پرواز ۔ حکایت رومی
ایک دن حکیم جالینوس گھبرایا ہوا اپنے شاگردوں کے پاس آیا اور کہنے لگا "فوراً میرے لیے فلاں دوا ڈھونڈ کر لاؤ۔ شدید ضرورت ہے"۔ شاگردوں نے حیرت سے استاد کی طرف دیکھا اور کہنے لگے "آخر آپ کو اس دوا کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ وہ تو سنتے ہیں پاگلوں اور فاترالعقل لوگوں کو دی جاتی ہے"۔
حکیم جالینوس نے جواب دیا "بحث مباحثے میں وقت ضائع نہ کرو۔جلد وہ دوا لاؤ۔ بات یہ ہے کہ ابھی ابھی ایک پاگل میری طرف متوجہ ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ مجھے پلک جھپکاۓ بغیر گھورتا رہا۔ پھر بدمعاشوں کی طرح آںکھ ماری۔ اس کے بعد بڑھ کر میرے کرتے کی آستین تار تار کردی۔
میں نے اس معاملے پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ شاید وہ مجھے اپنا ہم جنس جان کر ہی ملتفت ہوا تھا۔ ورنہ میری طرف کیوں متوجہ ہوتا۔ خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ جب دو آدمی آپس میں ملیں تو ان دونوں میں کوئی نہ کوئی صفت ضرور مشترک ہوگی۔ کند ہم جنس پرواز باہم جنس پرواز کا قول درست ہے۔ کوئی پرندہ دوسرے غیر پرندوں کے غول کے ساتھ کبھی اڑتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ایک صحرا میں کوے اور کلنگ (کوئل) کو بڑی محبت اور شوق سے پاس پاس یوں بیٹھے دیکھا جیسے وہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہوں۔ لیکن ان میں اس اعتبار سے بُعد المشرقین تھا۔ بہت دماغ لڑایا، مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ ان میں وجہ اشتراک کیا ہے۔ اسی عالم حیرت میں آہستہ آہستہ جب ان کے قریب پہنچا تو کیا دیکتا ہوں کہ وہ دونوں لنگڑے ہیں"۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بے سر بے دم کا شير
قزدين کے لوگوں ميں يه شوق عام ہے کہ جسم کے مختلف حصوں جيسے ہاته بازو پشت يا شانے پر پرندوں اور درندوں وغيره کي تصويريں گدوا کر خوش هوتے ہيں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ ايک حجام کے پاس کوﺋي قزديني گيا اور کہا کہ ميرے بدن پر شير کي تصوير گود دے اور منہ مانگي اجرت مجہ سے لے۔ ليکن يہ ديکه لے کہ شير نہايت ہيبتناک اور بپهري ہوﺋي صورت کا ہو۔ چونکہ ميرا بخت بهي شير کا ہے اس ليے نقش بهي شير ہي کا ہونا چاهيے۔ ديکه اس ميں نيلا رنگ بهي خوب گہرا بهر لے۔ حجام نے کہا بہت اچها پہلوان، جيسا تُو کہتا ہے ويسا ہي شير بنادوں گا ليکن يه تو بتا کہ شير کي تصوير تيرے جسم کے کس حصے پر گودوں۔ پہلوان بولا شانے پر گوددے تاکہ جنگ کے ميدان اور گانے بجانے کي محفلوں ميں ايسے ہيبتناک اور بپهرے ہوۓ شير کي تصوير سے ميرا حوصلہ بڑهے اور ارادے ميں پختگي پيدا ہو۔ حجام نے جهٹ پٹ اپنے اوزار سنبهالے اور باريک سوﺋي سے پہلوان کے سانے پر شير کي تصوير گودني شروع کي۔
سوﺋي بدن ميں چبهي تو پہلوان درد سے چيخا تو نے مجهے مارڈالا۔ يه تو سوﺋي گود رها ہے يا نشتر گهونپ رہا ہے۔ حجام نے جواب ديا پہلوان تم ہي نے تو کہا تها کہ شير کي تصوير بنا دو۔ پہلوان نے تکليف سے کراہتے ہوۓ کہا۔ ہاں بهيا کہا تو تہا۔ ليکن يه تو بتاٶ کہ تم بنا کيا رهے ہو۔ آخر شير کے بدن کا کونسا حصہ گود رہے ہو۔ حجام نے کہا ميں نے دم سے شير کي تصوير شروع کي ہے۔ پہلوان نے جهلا کر کہا دم رهنے دو کيا بے دم کے شير نہيں ہوتے۔ بہت اچها دم نہيں بناتا حجام نے کہا۔ دوبارہ سوﺋي چلاني شروع کي۔ پہلوان پهر تکليف سے چلايا۔ اب کيا بنا رہے ہو۔ تُو نے تو مجهے مار هي ڈالا ہے۔ حجام نے کہا شير کا کان بنا رہا ہوں۔ پہلوان نے ڈانٹا ارے کيا کان بنان ضروري ہے، ميں نے بغير کان کا شير بهي ديکها تہا۔ بس ويسا هي بنا دے۔ حجام نے اب تيسرے رُخ سے سوﺋي چلاني شروع کي۔ پہلوان پهر چيخا اب کيا بنا رہا ہے۔ يه شير کے بدن کا کونسا حصه ہے۔ حجام نے هاته روک کرکہا پيٹ بنا رہا ہوں۔
افوہ پيٹ بنانے کي کيا ضرورت ہے کيا يه شير گوشت کهاۓ گا۔ بهيا تُو تو بغير پيٹ کا ہي بنا دے۔ درد سے ميري جان نکلي جارهي ہے۔ حجام نے طيش ميں آکر اپنے اوزار پهينک ديے اور کہا پہلوان يه کام مجه سے نہيں ہوتا۔ جاٶ کسي اور سے جا کر بے دم بے سر بے کان اور بے دهڑ کا شير بنوالو۔ لاحول ولا قوة کبهي ايسا شير بهي ديکها ہے۔ مياں ايسا شير تو خدا نے بهي نہيں بنايا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چڑيا کی تين نصيحتيں
ايک چڑي مار نے بڑي ترکيبوں سے جال بچها کر نہايت نادر خوب صورت چڑيا پکڑي۔ جب وه چڑيا جال ميں پهنس گﺋي تو اور آزاد هونے کي کوﺋي صورت نه پاﺋي تب چڑي مار سے کنے لگي۔ اے عقل مند شخص فرض کر تُو مجہ جيسي ننهي چڑيا کو پکڑ کر کها بهي گيا، تو اس سے کيا حاصل؟ خدا جانےتُو اب تک کتني گاﺋيں دنبے اور بکرے بلکه اونٹ تک هڑپ کرچکا ہے، جب اتنے جانوروں کو کها کر بهي پيٹ نہيں بهرا تو ميرے ذرا سے گوشت اور گنتي کي چند نرم و نازک هڈيوں سے بهلا کيا بهرے گا۔ اس ليے تيري داناﺋي جواں مردي اور بلند نگہي کا تقاضا ہے که تو مجهے آزاد کردے۔ چڑي مار نے کہا کہ اگر ميں تيري بات مان کر تجهے چهوڑ دوں تو مجهے کيا ملے گا۔ ميں نے تجهے پکڑنے ميں دن رات ايک کرديے۔ تب کہيں تُو هاته آﺋي ہے۔ فرض کرو ميں تجهے نہ کهاٶں اور کسي کے هاته بيچ دوں۔ پهر بهي مجهے کچه نہ کچه تو مل هي جاۓ گا۔ چڑيا نے کہا مجهے فروخت کرکے بهلا تجهے کتنا مال ملے گا۔ يہي دو چار دس درهم اور وه کتنے دن چليں گے۔ لہٰذا يہ بات دماغ سے نکال دے، ميري بات سن اگر تو مجهے آزاد کردے گا۔ تو تين ايسي بيش بہا نصيحتيں تجهے کروں گي جو هميشہ تيرے کام آﺋيں گي۔
ان ميں سے پہلي نصيحت تو ميں تيرے ہاته پر بيٹه کر کروں گي۔ دوسري ديوار پر بيٹه کر اور وه ايسي ہوگي کہ مارے خوشي کے تيرا خون چلوٶں بڑهـ جاۓ گا۔ تيسري نصيحت جو اعليٰ درجے کي ہوگي وه درخت کي اونچي شاخ پر بيٹهـ کر کروں گي۔ ان تينوں پر عمل کرکے تو بڑا نام پاۓ گا۔ چڑي مار کچه دير غور کرنے کے بعد راضي ہوگيا۔ جال ڈهيلا کرديا اور چڑيا پهدک کر اسکے هاته پر آن بيٹهي۔ بولي سن پہلي نصيحت تو يہ ہے کہ ناممکن بات خواہ کيسا هي آدمي تجہ دے کہے اس پر يقين نہ کرو۔ يہ کہہ کر وه اڑي اور ديوار پر جابيٹهي۔ دوسري نصيحت يه کي کہ اے شخص گزري هوﺋي مصيبت کا غم مت کيجيو۔ گزري هوﺋي آساﺋش کي مسرت فضول هے۔ چڑي مار نے کہا کہ اس دوسري نصيحت کا مطلب ميں نہيں سمجها۔ ذرا کهل کر بيان کر۔ چڑي بولي ميرے پوٹے ميں دس درہم وزن کا ايک ايسا قيمتي موتي چهپا ہوا ہے جس کي قيمت هفت اقليم ميں کہيں نہيں۔ تُو يه موتي پا کر زندگي بهر کے ليے نہال ہوجاتا۔ تيرے بال بچے شهزادوں کي سي عيش عشرت ميں دن بسر کرتے۔ مگر افسوس کہ تو نے مجهے آزاد کرکے يہ قيمتي موتي هاته سے کهو ديا۔ يہ تحفه تيري تقدير ميں نہ تها۔
اتنا سننا تہا کہ چڑي مار يوں رونے اور ماتم کرنے لگا۔ جيسے اس کا بچہ مر گيا ہو۔ بار بار ٹهنڈي آهيں بهرتا سينہ پيٹ کر کہتا کہ ہاۓ ميں تو برباد هوگيا۔ مجہ جيسے بے وقوف نے اس نادر چڑيا کو کيوں آزاد کرديا۔ ہاۓ وہ بهي کيسي منحوس گهڑي تهي، جب يہ چڑيا آزاد ہوﺋي۔ جب خوب رو چکا تو چڑيا نے کہا ارے احمق ميں نے تجهے پہلي نصيحت کردي تهي کہ گزري ہوﺋي بات کا غم مت کيجيو۔ جب وه بات هوچکي تو رونا پيٹنا بند کر۔ تُو نے ميري نصيحت کو سمجها ہي نہيں۔ ميں نے پہلي نصيحت هي يه کي تهي کہ ناممکن بات کا يقين مت کر۔ خواه وه بات کيسا هي آدمي تجه سے کہے۔ ورنه گمراه ہوگا۔ ذرا سوچ مجہ جيسي کا وزن تين درہم سے زياده نہيں۔ بهلا دس درہم کا وزن کا موتي ميرے پوٹے ميں کہاں سے آيا۔ يہ سن کر چڑي مار رونا دهونا بهول گيا۔ حيرت سے چڑيا کو تکنے لگا۔ سمجها کہ شايد ٹهيک کہتي ہے۔ ميں نے پہلے اس طرف غور نہ کيا۔
بولا اے نازک بدن چڑيا اب مہرباني کرکے وه تيسري نصيحت بهي کرتي جا جس کا تو نے وعده کيا تہا۔ چڑيا نے کہا اچهي کہي ارے بے وقوف تو نے ميري دو نصيحتوں پر تو عمل کيا هي نہيں تيسري کيوں سننا چاهتا ہے۔ وه قيمتي نصيحت تجه جيسے بے مغذ کے ليے نہيں۔ يہ کہہ کر وه خوشي سے چہچہاتي ہوﺋي جنگل کي طرف اڑ گئي۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چھ درہم میں دو چانٹے
ايک شخص مدتوں کا بيمار زندگي سے لاچار و بيزار طبيب کے پاس گيا اور کہنے لگا جناب مجهے کوﺋي دوا ديں تاکه صحت پاٶں اور آپ کي جان و مال کو دعاﺋيں دوں۔ طبيب نے نبض پر انگلياں رکهيں اور سمجہ گيا کہ اس کے بدن سے جان نکل چکي ہے اب محض چلتي پهرتي لاش ہے۔ صحت کي اميد زره برابر نہيں۔ دوا دارو کر کے مفت ميں اس غريب کو اور ہلکان کرنا ہے لہٰذا اس نے کہا مياں تم يہ سب دوا دارو ايک قلم موقوف کرو انہي کي وجہ سے تمهاري صحت برباد ہورهي ہے۔ جو تمہارے جي ميں آۓ وه کرو۔ ہرگز ہرگز اپني خواہش کو مت کچلو۔ آہسته آہسته تمام بيمارياں جاتي رہيں گي۔ طبيب کي يہ بات سن کر مريض نے کہا اللہ آپ کو سلامت رکهے کيا خوب مشوره عطا هوا ہے۔ آج سے اس مشورے پر دل و جان سے عمل کروں گا۔ طبيب کے مطب سے نکل کر مريض ٹہلتا ٹہلتا ايک نہر کے کنارے جانکلا وہاں ايک صوفي بيٹها منہ دهو رہا تها اس نے اس روز سر پر تازه تازه استرا پهروايا تها۔ دهوپ ميں چنديا خوب چمک رہي تهي۔ مريض کي ہتهيلي کهجلاﺋى اور بے اختيار جي چاها کہ صوفي کي چاند پر ايک زور دار چپت مارے۔ دل ميں کہا اس وقت مجهے اپني اس خواہش کو دبانا نہ چاهيے۔ ورنه مجهے صحت نہ ہوگي۔ اور طبيب کي بهي يہي ہدايت ہے کہ جو جي ميں آۓ وه کرو۔
يہ خيال آتے ہي بے تکلفي سے آگے بڑها اور تڑاخ سے ايک زناٹے دار تهپڑ صوفي کي کهوپڑي پر رسيد کي۔ اس غريب کا دماغ بهنا گيا۔ تڑپ کر اٹها اور اراده کيا که چانٹا مارنے والے کے دو تين گهونسے اس زور سے لگاۓ کہ سب کهايا پيا بهول جاۓ۔ ليکن نظر جو اٹهاﺋي تو سامنے ايک نحيف و نزار شخص کو پايا جس کي ايک ايک پسلي نماياں تهي۔ صوفي نے ہاته روک کر جي ميں کہا اگر ميں اس کے ايک گهونسا بهي ماروں تو يہ اسي وقت ملک عدم کا رسته لے گا۔ مرض الموت نے تو اس بے چارے کا پہلے ہي کام تمام کررکها هے۔ مرتے کو کيا ماروں۔ لوگ سارا الزام مجہ پر ديں گے۔ ليکن اسے يوں چهوڑ دينا بهي ٹهيک نه ہوگا۔ نہ جانے کس کس کو چپت مارتا پهرے گا۔ غرض اس بيمار کا بازو پکڑا اور کهينچتا هوا قاضي شہر کي عدالت ميں لے گيا۔ دہاﺋي دي کہ حضور اس بدنصيب شخص کو گدهے کي سواري کراﺋي جاۓ يا دروں کي سزا هو۔ اس نے بلا وجہ مجهے چانٹا مارا ہے۔
قاضي نے کہا کيا بکتا ہے؟ يہ سزا آخر اسے کيوں دي جاۓ تيرا يہ دعويٰ تو ابهي ثابت ہي نہيں ہوا۔ پهر يه تو ديکه کہ شروع کے احکام زندوں اور سرکشوں کے ليے ہيں مردوں اور بے کسوں کے ليے نہيں۔ اس شخص کو گدهے پر بٹهانے سے کيا حاصل ارے کبهي سوکهي خشک چوب کو بهي کسي نے گدهے پر سوار کيا هے۔ ہاں لکڑي کا تابوت اس کي سواري کے ليے بہترين چيز ہے۔ قاضي کي يه بات سن کر صوفي کو جلال آيا۔ تڑخ کر بولا واه صاحب واه يه عجب منطق ہے۔ يہ شخص مجهے چپت بهي مارے اور اس بے هوده حرکت کي کوﺋي سزا بهي نہ پاۓ۔ کيا آپ کي شريعت ميں يہ جاﺋز ہے کہ هر راستہ ناپتا بازاري لفنگا ہم جيسے صوفيوں کو خواهي نخواهي چپتياتا پهرے۔ اور کوﺋي اس کا هاته پکڑنے والا نہ ہو؟ قاضي نے نرمي سے کہا تيري يہ بات درست ہے۔ ايسے شخص کو ضرور سزا ملني چاهيے ليکن يہ تو ديکه کہ وه بے چاره زندگي کے آخري دن پورے کررها ہے۔ خون کا ايک قطره اس کے بدن ميں نہيں ہے۔ بجاۓ سزا کے يه تو همدردي اور رحم کے لاﺋق ہے۔ اچها يہ بتا کہ اس وقت تيري جيب ميں کتنے درهم ہيں۔ صوفي نے جيب ٹٹول کر جواب ديا کہ کوﺋي چه ساته هوں گے۔
قاضي کہنے لگا کہ ايسا کر کہ تين درہم ان ميں سے اسے دے دے يہ بے حد کمزور بيمار اور مسکين غريب ہے۔ تين درہم کي روٹي کها کر تجهے دعاﺋيں دے گا۔ يہ سن کر صوفي بہت آتش زيرپا ہوا اور قاضي سے تلخ کلامي کرنے لگا کہ سبحان اللہ اچها انصاف فرمايا ہے۔ چپت بهي ہم کهاﺋيں اور چپت مارنے والے کو تين درہم بهي ہم اپني جيب سے ادا کريں۔ يه کے نفلوں کا ثواب ہے۔ غرض قاضي اور صوفي ميں تکرار هونے لگي۔ ادهر اس بيمار کي عجب کيفيت تهي جب سے قاضي کا شہر کا گهٹا ہوا سر ديکها تها۔ اس وقت سے هاته ميں چُل هورہي تهي۔ اس کي چاند صوفي کي چاند سے بهي زياده چکني اور صاف تهي۔ آخر دل کي بات مانني پڑي ايک ضروري بات قاضي کے کان ميں کہنے کے بہانے سے مسند کے نزديک آيا اور اس زور سے قاضي کي چنديا پر چپت رسيد کي کہ اس کا منہ پهر گيا۔ پهر بولا وه چه درهم تم دونوں آپس ميں بانٹ لو اور مجهے اس مخمصے سے رہاﺋي دلاٶ۔ يه کہ کر وهاں سے چلا گيا۔ قاضي مارے غصے سے ديوانہ ہوگيا۔ چاها کہ اس کو پکڑ کر غلاموں سے درے لگواۓ که صوفي چلايا ہاﺋيں ہاﺋيں يہ کيا غضب کرتے ہو جي حضرت آپ کا حکم تو عين انصاف ہے اس ميں شک و شبہ کي کہاں گنجاﺋش ہے۔ جو بات آپ اپنے ليے پسند نہيں فرماتے وہي ميرے حق ميں کيسے پسند فرما رہے ہيں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بدآواز ملا
دوستو ايک حکايت بيان کرتا ہوں اسے گوش ہوش سے سنو ليکن اس کے ظاہر پر نہ جانا باطن پر غور کرنا۔ ايک موﺋذن نہايت بد آواز تها۔ ليکن اسے يہ خوش فہمي تهي کہ اس کي آواز بے حد سريلي اور ميٹهي ہے۔ هر صبح ہر رات حلق پهاڑ پهاڑ اذان ديتا يہاں تک کہ سننے والے متوحش ہو ہو کر اپنا سر تهام ليتے بچے بستروں ميں اس کي کرخت آواز سن کر مارے ڈر کے اچهل اچهل پڑتے۔ اور راہ گير کانوں ميں انگلياں دے ليتے۔ غرض مرد، عورت، بڈهے، جوان سب کي جان ضيق ميں تهي۔ بارہا اسے لوگوں نے نرمي سے سمجهايا که تيري آواز اس قابل نهيں که تُو آزان دے۔ايسي کرخت اور بهيانک آواز سے ازان دينا شريعت ميں منع کيا گيا ہے۔ مگر وه بے وقوف ايک نہ سنتا۔ برابر لوگوں کو اپني کريہيه آواز سے پريشاں دماغ کيے جاتا۔ آخر تنگ آکر ان لوگوں نے طے کيا کہ کچھ رقم چندہ کرکے موﺋذن کے حوالے کرديں اور درخواست کريں کہ يه مال لے لے اور يہاں سے چلا جا۔
چنانچه محلے والوں نے ايک بڑي رقم کي تهيلي اسکے حوالے کي اور کہا کہ اے موﺋذن ہم سب نے بہت دن تيري آواز سے راحت اور آرام پايا۔ اب تيري مہرباني اور کرم کا ہميں تحمل نہيں رها۔ يہ حقير مال حاضر ہے اسے قبول کر اور ہمارا پيچها چهوڑ۔ انہي دنوں ايک قافله حج کو جارها تہا۔ موﺋذن بهي رقم کي تهيلي لے کر کمر سے باندھ کر اس قافلے ميں شامل هوگيا۔ اتفاق سے سفر کي پہلي منزل ہي ميں قافلہ ايک ايسي بستي ميں رکا جہاں کوﺋى مسلمان نہ تها۔ عشاء کا وقت ہوا تو اس موﺋذن نے جو اپني آواز پر والا و شيدا تها يکايک ازان ديني شروع کي۔ لوگوں نے اسے منع بهي کيا که يہ کافروں کي بستي ہے، يہاں آزان دينا ٹهيک نہيں۔ مبادا وہ فساد پر آماده ہوں۔ ليکن حسب عادت اس خر دماغ نے ايک نہ سني اور ايسي کرخت آواز ميں آزان دي کہ قبروں سے مردے بهي اٹھ کهڑے ہوں۔ قافلے والے ڈر رہے تهے کہ اب ضرور کوﺋي فتنہ برپا ہوا چاهتا ہے۔ که اتنے ميں ايک کافر ہاتھ ميں شمع ليے حلوے کا طبق اور نفيس کپڑے کا جوڑا لے آيا۔ اور قافلے کے اندر آتے هي پوچها کہ وه خوش آواز ملا کہاں ہے؟ ميں اس کي ملاقات کو آيا ہوں اور يہ حقير تحفہ اسکے ليے ہے۔
قافلے والوں کو اس کي يہ بات سن کر حيرت ہوﺋى پوچهنے لگے کہ جناب اسکي آواز تو بڑي بهيانک ہے ہمارے منع کرنے کے باوجود اس نے آزان دے دي، ہميں اس کا افسوس ہے۔ کافر مسکرا کر کہنے لگا نہيں مجهے خوشي ہے، اب اصل قصہ سنو۔ ميري اکلوتي لڑکي ہے نہايت حسين و جميل اور نازک دماغ۔ بہت مدت سے اس کے دماغ ميں يہ سودا تها که مسلمان ہوجاۓ۔ ميں نے هزار کوشش کي که وه اس ارادے سے باز رہے۔ ليکن کوﺋي کوشش کامياب نہ ہوﺋي۔ اسلام لانے کي خواہش روز بروز بڑهتي چلي گﺋي۔ اس سبب سے ميں هميشه پريشان اور خوف زده رهتا تها۔ کہ اگر يہ لڑکي ہاتھ سے نکل گﺋي تو کيا ہوگا۔ مگر آج اس موﺋذن نے وه کام کردکهايا جو ہزار نصيحتيں بهي نہ دکها سکي تهيں۔ لڑکي نے آزان کي آواز سن کر پوچہا کہ يہ مکروہ آواز کيسي ہے۔ جو چاروں طرف سے کانوں ميں آرہي ہيں۔ اور دماغ پر ہتهوڑے کي طرح بج رہي ہے۔؟ اس کي ماں نے جواب ديا يہ آزان کي آواز ہے۔ مسلمانوں ميں نماز کي اطلاع دينے کا يہي طريقه ہے۔ ميري لڑکي کو اپني ماں کي بات کا يقين نہ آيا تو اس نے مجھ سے پوچها۔ ميں نے اس بات کي تصديق کي، تب کہيں لڑکي کو يقين ہوا۔ يه واقعي مسلمانوں کي آزان کي آواز ہے۔
يہ يقين آتے ہي خوف سے اسکا رنگ زرد پڑ گيا۔ اس نے اسي وقت طے کرليا که وه اسلام قبول نہيں کرے گي اب ميں اس موﺋذن کا احسان مند هوں۔ شکريے کے طور پر نذرانہ اس کے ليے لايا ہوں۔ اتنے ميں وه بد آواز موﺋذن بهي آگيا کافر نے اس سے کہا جناب آپ تو ميرے محسن ہيں آج وه احسان مجھ پر کيا ہے کہ ساري زندگي کو آپ کا غلام ہوگيا ہوں۔ اگر ميري قسمت ميں کسي ملک کي بادشاهت هوتي تو آپ کو اشرفيوں ميں تول ديتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شيخى خورے کى مونچهيں
ايک سفلے اور کمينے آدمي کو اتفاق سے دبنے کي چکتي کا ٹکڑا مل گيا۔ اس نے يه حرکت کي که روزانه صبح اٹهتے ہي اس سے اپني مونچهيں چکني کرکے تاﺋو ديتا۔ پہر اکڑتا ہوا دولت مندوں اور اميروں ميں جا بيٹهتا۔ سينه پهلا کر اور مونچهوں کو تاﺋو دے کر باربار کہتا که آج تو بڑے مرغن کهانے کهاۓ هيں۔ مزا آگيا۔ وه لوگ اس کي چکني مونچهيں ديکهتے اور سمجهتے کہ واقعي سچ کہتا ہے۔ يہ کمينه يوں اپني اميري کا ڈهنڈورا پيٹتا۔ ليکن اس کا معده اندر سے مونچهوں پر لعن طعن کرتا اور خدا سے دعا کرتا کہ اے اللہ اس کمينے شيخي خورے کي قلعي کهول دے تاکه ميري بهوک دور ہو۔ آخر کار اللہ نے اس کے معدے کي فرياد سن ہي لي۔ ايک روز کوﺋي فاقه زده بلي اس کمينے کے مکان ميں گهس آﺋي سامنے هي طاقچے پر دبنے کي چکتي کا وه ٹکڑا نظر آيا چهلانگ لگا کر بلي نے وه ٹکڑا منہ ميں دبايا اور بهاگي۔ گهر والوں نے هر چند بلي کا پيچها کيا ليکن وه کب هاتھ آتي تهي۔
اس شيخي خورے کا بچہ اس حادثہ سے اپنے باپ کو آگاہ کرنے کے ليے گهر سے نکلا بچے کو معلوم تها که اس کا باپ اس وقت کہاں ہو گا۔ سيدها دولت مندوں کي اس محفل ميں پہنچا جہاں اس کا باپ بيٹها چکني چکني مونچهوں کو تاٶ دے رہا تها۔ بچے نے باپ کو ديکهتے ہي کہا ابا غضب هوگيا، دبنے کي چکتي کا وه ٹکڑا جس سے آپ هر صبح اپنے هونٹ اور مونچهيں چکني کيا کرتے تهے بلي اٹها کر لے بهاگي۔ هم سب نے بلي کا پيچها کيا ليکن وه هاتھ نه آﺋي۔
بچے کي زبان سے يه کملہ سنتے ہي شيخي خورے کا رنگ اڑ گيا سکتے کے عالم ميں بيٹها کا بيٹها ره گيا۔ بهري محفل ميں ايسي رسواﺋي هوﺋي که بيان سے باهر۔ گردن اٹها کر کسي سے نگاہيں چار کرنے کي همت نه ہوتي تهي۔ اس کا يه حال ديکھ محفل والوں کو بڑا تعجب هوا۔ بعض بے اختيار کهل کهلا کر ہنس پڑے۔ ليکن وه دولت مند بهي اعليٰ ظرف رکهتے تهے، کسي نے اسے کچھ نہ کہا۔ اس شيخي خورے کے حال پر ترس کهايا۔ اس کي ندامت دور کرنے کے ليے دعوتيں کرکر کے اس کا پيٹ بهرنے لگے۔ جب اس نے اہل فضل و کرم کے اس اونچے برتاٶ سے سچاﺋي کي لذت پاﺋي تب شيخي ترک سچاﺋي کا بندهء بے دام بن گيا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مردہ شير زندہ آدمى
ايک مرتبہ حضرت عيسىٰ ۴ جنگل ميں جارہے تهے کہ ايک بے وقوف شخص ان کے ساته ہوليا۔ جنگل ميں ايک جگہ گڑهے ميں ہڈيوں کا ڈهير پڑا تها۔ وہ بے وقوف ہڈيوں کا ڈهير ديکه کر رک گيا اور حضرت عيسىٰ۴ سے کہنے لگا کہ اے روح اللہ وه کيا اسم اعظم ہے جسے پڑھ کر آپ مردوں کو زندہ فرماتے ہيں؟ مجهے بهى اسم اعظم سکها ديجيے تاکہ ان بوسيدہ ہڈيوں ميں جان ڈال دوں۔ اس احمق کى يہ بات سن کر عيسىٰ۴ نے کہا کہ خاموش ہو جا تيرى زبان اس اسم اعظم کے لاﺋق نہيں۔ وہ بضد ہوا اور کہنے لگا بہت اچہا، اگر ميرى زبان اسم اعظم کے لاﺋق نہيں تو پهر آپ ہى ان ہڈيوں ميں جان ڈال ديں۔ اس نے يہاں تک اپنى بات پر اصرار کيا کہ حضرت عيسىٰ۴ سخت متعجب هوۓ اور دل ميں کہا کہ يہ کيا بهيد ہے اس احمق کو اتنى ضد آخر کس ليے ہے۔اپنے مردے کو بهلا کر دوسرے مردے کو زندہ کرنے کى فکر ميں ہے۔
حق تعالىٰ نے حضرت عيسىٰ۴ پر وحى نازل کى کہ اس ميں حيرت کى کيا بات ہے حماقت کو حماقت ہى کى تلاش ہوتى ہے۔ اور بدنصيبى بدنصيبى هى کا گہر ڈهونڈتى هے۔ کانٹوں کا اگنا ان کے بوۓ جانے کا عوض ہے۔
اتنے ميں اس بے وقوف نے پهر ان ہڈيوں پر اسم اعظم پڑھ کر دم کرنے کا تقاضا کيا۔ جب انہوں نے اسے سمجهانے کى کوشش کى تو ناراض ہو کر بولا کہ اے روح اللہ اب آپ بهى اپنا معجزه دکهانے ميں بُخل سے کام لينے لگے۔ شايد آپ کى زبان مبارک ميں تاثير نه رهى هوگى۔
يہ سن کر حضرت عيسىٰ۴ نے ان ہڈيوں پر پڑھ کر دم کيا۔ آن کى آن ميں ہڈيوں کے اندر حرکت ہوﺋى کيا ديکها که ايک ہيبت ناک شکل کا قوى احبثه شير ہے۔ اسنے گرج کر جست کى اور اس بے وقوف شخص کو لمحه بهر ميں چير پهاڑ کر برابر کرديا۔ يہاں تک کہ کهوپڑى بهى پاش پاش کردى۔ اس کا خول ايسا خالي هوا جيسے اس ميں کبهي بهيجا تها ہي نہيں۔ حضرت عيسىٰ۴ يہ تماشا ديکھ کر حيران هوۓ اور شير سے پوچها که اے جنگل کے درندے تو نے اس شخص کو اتني تيزي سے کيوں پهاڑ ڈالا؟ شير نے جواب ديا که اس وجہ سے کہ اس احمق نے آپ کو خفا کرديا تها اور آپ کي توہين پر اتر آيا تها۔ حضرت عيسىٰ۴ نے پوچها تُو نے اس کا گوشت کيوں نہ کهايا، اور خون کيوں نه پيا؟ شير نے کہا اے پيغمبر خدا ميري قسمت ميں اب رزق نہيں ہے اگر اس جہاں ميں ميرا رزق باقي هوتا تو مجهے مردوں ميں داخل هي کيوں کيا جاتا؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نفس امارہ کی دیوار
===============.
کسی ندی کے کنارے ایک اونچی دیوار بنی ھوئی تھی اس دیوار پر ایک پیاسا آدمی بیٹھا ھوا تھا پیاس کے مارے اس کی جان لبوں پر آگئی تھی وہ دیوار اس پیاسے انسان اور اس کی پیاس کے درمیان حائل تھی اسے جب اور کچھ نہ سوجھا تو اس شخص نے دیوار سے اینٹیں اکھیٹر کر ندی کے پانی میں پھینکنی شروع کردی تھیں اینٹ پانی میں گرتی تو ایک آواز پیدا ھوتی جس سے وہ پیاسا انسان لطف اندوز ھو رھا تھا وہ تو اس سریلی آواز پر عاشق ھوگیا تھا وہ مسلسل اینٹیں پھنیکتا جارھا تھا اور اس سے اسے ایک خاص نشے کی سی کیفیت محسوس ھورھی تھی
ندی کے پانی اس شخص سے مخاطب ھو کر کہا
اے بندہ خدا تو مجھے اینٹیں کیوں مارے جارھا ھے تجھے اس سے کیا حاصل ھورھا ھے میں نے تیرا کیا بگاڑا ھے
پیاسے انسان نے جواب دیا
اے ندی کے ٹھنڈے میٹھے پانی ایسا کرنے میں میرے دو فائدے ھیں
پہلا فائدہ تو یہ ھے کہ اینٹ پھنکنے کے بعد جو آواز آتی ھے اس سے میرے مردہ جسم میں جان پڑ جاتی ھے میرے لے یہ دنیا کی سب سے سریلی آواز بن گئی ھے پیاسوں کو اس آواز سے بڑا سرور ملتا ھے دوسرا فائدہ یہ ھے کہ جتنی زیادہ اینٹیں اس ندی میں گرتی جارھی ھیں اتنا ھی ندی کا پانی میرے قریب آتا جا رھا ھے گویا محبوب کے وصل کا لمحہ قریب سے قریب تر ھوتا جارھاھے
غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں جو پوشیدہ نکتہ ھے وہ یہ ھے کہ نفس امارہ کی دیوار جب تک سر اٹھا کر کھڑکی رھے گی وہ سجدہ کرنے میں رکاوٹ بنی رھے گی
سبق
عزیز از جاں
جوانی کو ضائع مت کر اپنے اللہ کے حضور جھک جا اور نفس امارہ کی دیوار کو اکھیٹر کر پھینک دے.
آج کے مسلمان نفس کے غلام ھیں اور جسکی وجہ آج ھم ذلیل و خوار ھو رھے.
زمانے میں بلند مقام حاصل کرنے کے ھم کو اللہ کے احکامات پر عمل کرنا ھو گا.
اللہ ھم کو سیدھا رستہ دکھادے
(امین)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک عورت کو اللّٰہ ہر بار اولادِ نرینہ سے نوازتا مگر چند ماہ بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا۔ لیکن وہ عورت ہر بار صبر کرتی اور اللّٰہ کی حکمت سے راضی رہتی تھی۔ مگر اُس کے صبر کا امتحان طویل ہوتا گیا اور اسی طرح ایک کے بعد ایک اُس عورت کے بیس بچّے فوت ہوئے۔ آخری بچّے کے فوت ہونے پر اُس کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ آدھی رات کو زندہ لاش کی طرح اُٹھی اور اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سر سجدے میں رکھ کر خوب روئی اور اپنا غم بیان کرتے ہوئے کہا "اے کون و مکاں کے مالک.! تیری اِس گناہگار بندی سے کیا تقصیر ہوئی کہ سال میں نو مہینے خونِ جگر دے کر اِس بچّے کی تکلیف اُٹھاتی ہوں اور جب اُمید کا درخت پھل لاتا ہے تو صرف چند ماہ اُس کی بہار دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ آئے دن میرا دل غم کے حول کا شکار رہتا ہے کہ میرا بچّہ پروان چڑھے گا بھی کہ نہیں۔ اے دُکھی دلوں کے بھید جاننے والے.! مجھ بےنوا پر اپنا لطف و کرم فرما دے۔" روتے روتے اُسے اونگھ آ گئی۔ خواب میں ایک شگفتہ پُربہار باغ دیکھا جس میں وہ سیر کر رہی تھی کہ سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ایک محل نظر آیا جس کے اوپر اُس عورت کا نام لکھا ہُوا تھا۔ باغات اور تجلیات دیکھ کر وہ عورت خوشی سے بیخود ہو گئی۔ محل کے اندر جا کر دیکھا تو اُس میں ہر طرح کی نعمت موجود تھی اور اُس کے تمام بچّے بھی اُسی محل میں موجود تھے جو اُسے وہاں دیکھ کے خوشی سے جھُوم اُٹھے تھے۔ پھر اُس عورت نے ایک غیبی آواز سُنی کہ "تُو نے اپنے بچّوں کے مرنے پر جو صبر کیا تھا, یہ سب اُس کا اجر ہے۔" خوشی کی اِس لہر سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئی تو اُس کا سارا ملال جاتا رہا اور اُس نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے عرض کیا "یا الہٰی اب اگر تُو اِس سے بھی زیادہ میرا خُون بہا دے تو میں راضی ہوں۔ اب اگر تُو سینکڑوں سال بھی مجھے اِسی طرح رکھے تو مجھے کوئی غم نہیں۔ یہ انعامات تو میرے صبر سے کہیں زیادہ ہیں۔"
درسِ حیات: انسان کو ہر حال میں صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے کیونکہ یہی چیز انسان کو اللّٰہ کے قریب کرتی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بےوقوف
مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بے وقوف شخص کی آنکھ خراب ہو گئی اور وہ جانوروں کے معالج کے پاس چلا گیا جانوروں کے معالج نے اس کی آنکھ میں وہ دوا ڈال دی جو وہ جانوروں کی آنکھوں میں ڈالتا تھا دوا ڈالنے کی دیر تھی کہ اس کی آنکھیں خراب ہو گئیں وہ بے وقوف شخص حاکم وقت کے پاس چلا گیا اور اپنا مدعا بیان کیا حاکم وقت نے فیصلہ سنایا کہ اس معالج پر کوئی جرمانہ عائد نہ ہوگا اگر تو بے وقوف نہ ہوتا اور تو جانوروں کے معالج کے پاس نہ جاتا تو تیری آنکھ ہرگز ضائع نہ ہوتی۔ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سمجھ دار شخص کبھی بھی اپنا کام کسی بے وقوف کے ذمہ نہیں لگاتا اور بوریاوٹاٹ بننے والا اگرچہ کاریگر ہی کیوں نہ ہو وہ ریشم نہیں بن سکتا۔مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ جس کاکام اسی کو ساجھے اگر کوئی دانا شخص اپنا کام کسی بے وقوف کے ذمہ لگائے تو وہ کیوں امید رکھتا ہے کہ وہ بے وقوف اس کا کام صحیح کرے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دستار فقیہ
ایک دفعہ کسی فقیہ نے بہت سے چیتھڑے دھوئے اور پاک صاف کرکے انہیں اپنے سر پر عمامے کے نیچے باندھ لیا تاکہ جب وہ کسی اعلیٰ محفل میں ادنیٰ مقام پر بیٹھے تو عمامہ وزنی دکھائی دے اور لوگ سمجھیں کہ بڑا عالم فاضل ہے بلاشبہ ان حقیر اور بے قیمت دھجیوں سے دستار کا وزن دگنا تگنا ضرور ہوگیا، لیکن قلب منافق کی طرف وہ اندر سے ذلیل اور کم حیثیت تھی، فقیروں کی گدڑیوں کے ٹکڑے بوسیدہ اور سڑی ہوئی روئی گائے اور گدا گروں کی پوستین کی دھجیاں اس عمامے کی بنیاد تھیں وہ فقیہ یہ وزنی عمامہ سر پر باندھ کر اگلے روز منہ اندھیرے مدرسے میں پہنچا کہ اس وزنی دستار سے جِسے عزت و عظمت کا سبب خیال کرتا تھا کچھ حاصل کرے، دور سے ایک چورنے تاڑا کہ ایک قیمتی دستار والا چلا آتا ہے جوں ہی وہ فقیہ نزدیک آیا اُچکے نے جھپٹ کر دستار سر سے اُتارلی تاکہ اسے بازار میں بیچ کر ٹکے کھرے کرے۔ فقیہ نے اُسے آواز دی کہ ارے بھائی! یہ دستار کدھر لیے جاتا ہے اور کس دھوکے میں ہے؟ ذرا اسے کھول کر بھی دیکھ لے اس کے بعد جی چاہے تو بڑے شوق سے لے جائیو میں نے تجھے عطا کی۔ فقیہ کی یہ آواز سن کر اُچکے نے دوڑتے دورتے وہ وزنی دستار کھولی اس کے پر پیچ خم کھولتا جاتا تھا اور اس میںسے رنگ برنگ چیتھڑے اور دھجیاں نکل نکل کر زمین پر گرتی جاتی تھیں، یہاں تک کہ اُچکے کے ہاتھ میں ہاتھ بھر کا بوسیدہ کپڑا رہ گیا اُس نے جھلا کر اسے بھی زمین پر پھینکا اور کہنے لگا۔ اے او ہلکے شخص تو نے اس دغابازی سے خواہ مخواہ میری محنت برباد کی یہ کیا مکر تھا کہ ایسی عمدہ دستار بنا کر مجھے اس پر ہاتھ ڈالنے اور اُڑالے جانے کا لالچ دیا؟ تجھے ذرا حیا نہ آئی ایسا مکرتے ہوئے مجھے بیٹھے بٹھائے ایک گناہ بے لذت میں مبتلا کردیا۔ فقیہ نے جواب دیا تو سچ کہتا ہے بے شک میں نے دھوکا دیا لیکن یہ سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کردیا تھا کہ لے جانے سے پہلے اسے کھول کر دیکھ لے اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ! کچھ میرا قصور ہو تو بتا: اے عزیز! فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے اس کا بھی اس نے سب پر اظہار کردیا ہے اور سب سے کہہ دیا ہے کہ اسے اچھی طرح جانچ اور پھنک کر دیکھ لو بعد میں گلہ شکوہ نہ کرنا۔ اے عزیز‘ بہاروں کی دل فریبی اور نرماہٹ پر زیادہ مت اچھل خزاں کی سردی اور زردی بھی دھیان میں رکھ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
طوطے کا پیغام
تصویر سے پیوستہ: سوداگر ہندوستان پہنچا اور دورانِ سفر جب اس کا گزر ایک جنگل سے ہوا اور اس کے کانوں میں طوطوں کی آواز آئی تو اسے اپنے پالتو طوطے کا پیغام یاد آیا۔ اس نے طوطوں کے سامنے جا کر اس کا پیغام سنا ڈالا۔ پیغام کا سننا تھا کہ ایک طوطا تھر تھرا تا ہوا نیچے گرا اور پھر بے جان ہو گیا۔ سوداگر بہت حیران ہوا اور اس واقعے سے یہی اخذ کیا کہ ضرور یہ طوطا میرے طوطے کا قریبی عزیز ہو گا جو اس کی قید کی خبر سن کر اس کی تاب نہ لا یا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ سوداگر کو بے حد افسوس ہوا۔
قصہ مختصر! جب سوداگر اپنے وطن واپس آیا تو اپنے سارے نوکروں کی فرمائش کردہ چیزیں اُن کے سپرد کر دیں جس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ طوطے نے بھی پنجرے سے اپنے پیغام کا جواب طلب کیا۔ سوداگر کے چہرے پر غم کے سائے لہراگئے۔ اُس نے طوطے کو جواب نہ سننے کی تاکید کی لیکن طوطے کا اصرار بڑھتا گیا آخر سوداگر نے کہا: میں نے تیری حالت اور تیرا پیغام دونوں تیرے جنگل کے طوطوں کے سامنے گوش کیا۔ اُن میں سے ایک طوطا جو شاید تیرا قریبی عزیز تھا وہ نیچے گرا اور اُس نے پھڑ پھڑا کر اپنی جان دے دی۔ اتنا سننا تھا کہ قیدی طوطے کی بھی آنکھیں پتھرا گئیں۔ تھر تھری چھوٹ گئی اور وہ پنجرے کے اند ہی قلا بازی کھا کر بے جان ہو گیا۔ سوداگر نے جب اپنے سامنے اپنے پیارے طوطے کو یوں مرتے ہوئے دیکھا تو غم و اندوہ سے بدحواس ہوگیا۔ بار بار سینہ کوبی کرتا کہ میں نے یہ پیغام تجھے کیوں دے دیا؟ اب تیرے جیسا طوطی خوش بیاں کہاں سے لاؤں گا؟ ہائے میں نے کیا کردیا!
جب اُس نے خوب رو دھو کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو مرے ہوئے طوطے کو نہایت پیار سے پنجرے سے نکالا اور دیوار کے باہر پھینک دیا۔ باہر پھینکنا تھا کہ فوراً وہ طوطا اُڑ کر سامنے والے درخت کی شاخ پر بیٹھ گیا۔ سوداگر ششدر رہ گیا۔ ایک ذرا سے طوطے نے اسے بے وقوف بنا کر رکھ دیا۔ وہ چلاکر بولا: “ اے چالاک و عیار طوطے یہ کیا قصہ ہے؟” طوطے نے جواب دیا “اے شخص! اگر سننا ہی چاہتا ہے تو سن اُس طوطے نے مجھے پیغام دیا تھا کہ تُو اپنی میٹھی بول چال ترک کر اور نغمہ سرائی بند کر۔ انہی اوصاف نے تجھے قیدی بنا دیا اور پھر خود بے جان ہو کر گرا تو مجھے یہ اشارہ دیا کہ تُو بھی خود کو بے جان ظاہر کر کے اس اسیری سے چھٹکارہ پا سکتا ہے۔ تیرا بہت شکریہ تُو نے میرا پیغام میرے ہم وطنوں کو دے کر اور مجھے اُن کا اشارہ بتا کر اس اندھی قید سے رہائی دلائی۔” سوداگر نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا: “ جا! خدا تیری حفاظت کرے جاتے جاتے بھی تو مجھے ایک نیا راستہ دکھا گیا۔” طوطا سفر کی صعوبتیں برداشت کرتا آخر کار اپنے ہم جنسوں سے آملا اور آزادی کی نعمت سے لطف اندوز ہونے لگا۔
میرے دوست! دراصل اس حکایت میں طوطے سے مراد نفس ہے۔ جب تک ہمارا نفس دلفریبیوں میں مبتلا رہتا ہےاپنی خواہشات کا قیدی رہتا ہے۔ جہاں یہ مردہ بن جاتا ہے تو ہمیں ان ذہنی آلائشوں سے نجات مل جاتی ہے۔ ہمارا نفس اُس پتھر کی مانند ہے جو بہار آنے پر بھی سرسبزو شاداب نہیں ہوتااس لیے خوُد کو بھول کر خاک ہو جا تا کہ تجھ سے نت نئے پھول اُگیں اور تُو زندگی کا اصل مقصد سمجھ سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حکم سلطانی
ایک دن سلطان محمود غزنوی دربا ر میں آیا۔ تمام مصاحب اور وزراء حاضرِ خدمت تھے۔ تخت پر تشریف فرما ہونے کے بعد بادشاہ نے اپنے چوغے میں سے ایک نایا ب و بیش قیمت موتی نکالا اور وزیر اعظم سے اس کی قیمت دریافت کی۔ وزیر نے کہا یہ تو بہت نایاب موتی لگتا ہے اور میرے خیال میں کچھ نہیں تو ایک من سونے کے برابر تو اس کی قیمت ہو گی۔ سلطان نے وزیر کی تعریف کی اور پھر اُسے حکم دیا کہ آپ اِس موتی کو توڑ ڈالیے۔ وزیر دست بستہ ہو کر بولا کہ جہاں پناہ! میں تو آپ کے خزانوں کا محافظ ہوں اور آپ کا خیر خواہ ہوں ۔ میں اس قیمتی موتی کو توڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سلطان نے خوش ہو کر اُسے خلعت عطا کی اور پھر وہی موتی نائب وزیر کو دے دیا اور اُس سے بھی قیمت لگانے کو کہا۔ نائب وزیر کہنے لگا کہ حضور! یہ تو میری سوچ سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ سلطان نے کہا بہت خوب اور پھر نائب وزیر کو بھی موتی توڑنے کا حکم دیا۔ نائب وزیر بولا کہ عالم پناہ ! آپ ایسے لاثانی موتی کو کیوں تڑوا رہے ہیں؟ ذرا اس کی شان و شوکت اور آب و تاب تو ملاحضہ فرمائیں؟ سورج کی روشنی بھی اس کے آگے ہیچ ہوتی ہے۔ میرے ہاتھ تو اسے زک پہنچانے کا حوصلہ ہی نہیں کر سکتے۔ میں تو خزانے کا نگہبان ہوں دشمن تو نہیں۔ اللہ آپ کے مال و منال میں اضافہ کرے۔ سلطان نے نائب وزیر کو بھی انعام و اکرام سے نوازا او ر اس کی سمجھ بوجھ کی تعریف کی۔
پھر اسے امیر الامراء کے سامنے رکھا اور توڑنے کا حکم دیا تو اُس نے بھی معذرت کر لی۔ بادشاہ جیسے جیسے درباریوں کی تعریف کر کے ان کے منصب اور مرتبے میں اضافہ کرتا گیا ویسے ویسے وہ کم تر درجے کے لوگ سیدھے راستے کو نہ پہچان کر اندھے کنویں میں گرتے گئے۔ سب وزیر اعظم کی پیروی میں اپنے آپ کو بادشاہ کا بڑھ چڑھ کر خیر خواہ ثابت کر کے انعام و اکرام پاتے رہے۔ بے شک تقلید اس دُنیا کا ایک ستون ہے مگر آزمائش کے لمحات میں جو لوگ اپنی انفرادیت قائم نہیں رکھتے وہ ذلیل و رُسوا ہو جاتے ہیں۔
جب سلطان نے سب اُمراء کی آزمائش کر ڈالی تو پھر وہ موتی ایاز کو دیا اور پرکھنے کو کہا۔ ایاز نے کہا کہ عالم پناہ! میرا ہر اندازہ اس موتی کی قیمت سے کم ہو گا۔ سلطان نے کہا بہت خوب ! اب اسے توڑ دو۔ ایاز نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس موتی کو ایک پتھر سے توڑ ڈالا۔ موتی پتھر کی چوٹ سے چورہ چورہ ہو گیا۔ وہ غلام اپنے آقا کی آزمائش کے طریقوں سے واقف تھا اس لیے کسی انعام یا لالچ کے دھوکے میں نہیں آیا۔ اپنے مالک کا حکم اس کی پہلی ترجیح تھی اس وجہ سے اس نے بلا چون و چرا اس حکم پر عمل کر ڈالا۔
موتی کا ریزہ ریزہ ہونا تھا سب درباری ششدر رہ گئے۔ پھر زور سے چلاّ اُٹھے کہ ارے نادان! تیری یہ ہمت کہ ایسا نادر و نایاب موتی توڑ کر پاش پاش کر دیا اور بادشاہ کے نقصان کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں کی؟ یہ سن کر ایاز بولا کہ اے عقلمند صاحبو! ذرا غور کرو اور دل پر ہاتھ دھر کر بتاؤ کہ موتی کی قیمت زیادہ ہے یا حکم شاہی؟ تمہاری نظر سلطانی فرمان پر ہونی چاہیے یا اس حقیر موتی پر؟ افسوس تم نے ظاہر پر نگاہ رکھی اور باطن کو فراموش کر دیا۔ پس معلوم ہو کہ تمہارا پیر و مُرشد شیطان ہے۔ تم صراط مستقیم سے بھٹک گئے۔ میرے نزدیک سلطان کے ابرو کا اشارہ کافی ہے اور وہ روح ناپاک ہے جو ایک حقیر پتھر کو حکم شاہی سے زیادہ قابل احترام سمجھے۔
جب ایاز نے یہ راز سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا تو سب درباری جیسے کسی گہری نیند سے جاگے اور لگے بغلیں جھانکنے۔ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اور بادشاہ نے کسی بات پرکان نہ دھرا اور غضب ناک ہو کر بولا: تم سب قابل تعزیر ہو اور تم میں سے ایک بھی اس دربار کے لائق نہیں۔ اس معمولی پتھر کے سامنے تم نے میرے حکم کی تذلیل کی ہے۔ اور پھر جلاد کو حکم دیا کہ ان سب ناحلف افراد کی گردنیں مار دو۔ جلاّد تلوار لہراتا ہوا آگے بڑھا تو ارکان دولت و حشمت خوف سے کانپنے لگے۔ موت سامنے کھڑی تھی۔ مفر کی کوئی راہ نہیں تھی۔ اس وقت ایاز کو وزراء کی یہ ابتر حالت دیکھ کر ترس آیا تو وہ ہاتھ باندھ کر سلطان محمود سے عرض گزار ہوا کہ اے آقا! تیری مہربانیاں ہم سب پر غالب ہیں۔ ہم ان کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ میری کیا اوقات کہ تجھے تیری مہربانیاں اور نوازشات یاد دلاؤں اور کوئی مشورہ دوں لیکن ان سب نادانوں اور مجرموں کی گردنیں بھی تیری ہی دیوار پر ٹکی ہوئی ہیں۔ بے شک یہ شکست کھا گئے مگر اتنا تو ہوا کہ اپنی غلطی اور جرم سے باخبر ہو گئے۔ اب اس گمراہی سے لوٹ کر تیری طرف آنا چاہتے ہیں تو توُ انہیں معاف کر دے۔ کیونکہ تیرا کرم ہی ان کی آخری اُمید ہے۔ یوں بادشاہ نے ایاز کی سفارش کو قبولیت بخشی اور خطا کاروں کو معافی دے دی۔
میرے دوستو! اس حکایت میں ہم سب کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ اس حکایت سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ ہماری دنیاوی آسائشیں ہمیں بہت عزیز ہیں اور جب اللہ ہمیں اپنے راستے کی طرف بلاتا ہے تو ہم طرح طرح کی توجیہات پیش کر کے اس کے حکم سے سرتابی کرتے ہیں۔ خود اپنے آپ کو اللہ کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم وہی کچھ کر رہے ہیں جو اللہ ہم سے چاہتا ہے۔ ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ آرام وآ سائش کی یہ زندگی دینے والا بھی تو اللہ ہے تو اگر وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں تو ہم آنا کانی کیوں کرتے ہیں اور فوراً اُس کے حکم پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ اللہ کا حکم من و عن ماننے میں ہی ہم سب کی عافیت ہے۔ کسی لیت و لعل سے کام لینا درست نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭