صفحات

تلاش کریں

ناولٹ:یہ جو زندگی کی بساط ہے ازآمنہ احمد

فہرست



جا ہم نے تجھے آزاد کیا۔۔۔۔۔. 3

چلو کہیں دور۔۔۔۔۔۔. 8

یہ جو زندگی کی بساط ہے ۔۔۔۔. 12

سوچنا منع ہے ! 22

ذات کا یقین.... 28

ہار جیت.... 39

سوال؟. 41

ٹھہر جا اے پل، ٹھہر جا! 45


جا ہم نے تجھے آزاد کیا۔۔۔۔۔





"پتا ہے جس نے بھی سنا منہ میں انگلی دبا لی۔۔۔۔"

"ہاں بھئی بات ہی ایسی ہے ۔"

"دس سال بعد۔۔۔۔!"

"ہاں بھئی شادی کے دس سال بعد۔۔۔۔"

"ارے مگر وہ تو خوش نظر آتی تھی۔۔۔۔"

"آتی تھی، تھی نہیں بقول اس کے ۔۔۔۔"

"ارے یہ کیا ڈرامہ ہوا۔۔۔۔ خوش نظر آنا مگر ہونا نہ۔۔۔۔"

" بھئی یہ آج کل کی لڑکیوں کے تماشے ہیں۔۔۔۔"

"دیکھ لیا ہو گا کوئی اور۔۔۔۔"

"مگر بچے تو اس کے پاس ہیں۔۔۔۔"

"ہیں تو کیا وہ بچے لے نہیں گیا۔۔۔۔"

"بچوں کی کب پرواہ تھی اسے ۔۔۔۔ سال میں مہینے دو مہینے کے لئے تو آتا تھا۔"

"اب کیا کرے گی وہ۔۔۔۔"

"پہلے بھی یہاں نوکری کرتی تھی، اب بھی وہی کرے گی۔۔۔۔"

"رہے گی کہاں۔۔۔۔۔"

"جہاں پہلے رہتی تھی۔۔۔۔ماں باپ کے گھر۔۔۔۔!"

"کیوں سسرال میں نہیں رہتی تھی۔۔۔۔؟"

"سسرال میں کہاں رہتی۔۔۔۔ساس سسر تو خود باہر رہتے تھے ۔۔۔۔ "

"ارے تو کوٹھی میں کون ہوتا تھا؟"

" بھئی کبھی بیٹی داماد کو چھوڑ جاتے تھے اور کبھی کوئی دیور جیٹھ باہر سے آ کر رہ رہا ہوتا تھا۔۔۔۔"

" تو وہ خود باہر تھا کیا؟"

"ہاں بھئی۔۔۔۔۔اس یوسف زلیخا کے قصے میں یہ بھی نہیں پتا تمھیں۔۔۔۔۔"

"تو اسے کیوں نہیں لے گیا۔۔۔۔"

"ساس سسر کی مرضی نہیں تھی۔۔۔۔"

"لو اس میں ساس سسر کا کیا دخل۔۔۔۔۔!"

"دخل تھا نا۔۔۔۔"

"وہ کیسے ۔۔۔۔"

"وہ کہتے تھے پہلی بہویں جو باہر گئی ہیں وہ خراب ہو گئی ہیں۔۔۔۔اسے نہیں جانے دینا۔۔۔۔"

"لو پھر ماں باپ نے شادی کیوں کی اگر اپنے گھر میں رکھنا تھا۔۔۔۔"

" بھئی مجھے تو کوئی اور ہی چکر لگتا ہے ۔۔۔۔"

"لو یہ آ گئی۔۔۔۔ خود ہی پوچھ لو۔۔۔۔۔جو بھی چکر لگتا ہے ۔۔۔۔۔"

" وہ۔۔۔۔۔"

"کیا۔۔۔۔؟"

"برا نہ منانا۔۔۔۔"

"نہیں۔۔۔۔کیا؟"

"وہ سنا ہے ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔"

"کیا۔۔۔۔ میری علیحدگی کا۔۔۔۔"

" آ۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔"

"تو۔۔۔۔"

"تو آخر دس سال بعد کیا سوجھی۔۔۔۔"

"دس سال یا بیس سال۔۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔"

"پڑتا ہے نا۔۔۔۔"

"ہاں پڑتا ہے نا۔۔۔۔چھوڑنا تھا تو پہلے چھوڑ دینا تھا۔۔۔۔"

"ہاں کہا تو تم نے صحیح۔۔۔۔۔۔"

"پھر۔۔۔۔"

"پھر کیا۔۔۔۔؟"

"پھر پہلے کیوں نہیں چھوڑا۔۔۔۔؟"

" پہلے کیوں نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔۔سوال تو اچھا ہے !"

"وہ میری زندگی میں تئیس سال کی عمر میں آیا۔۔۔۔میری ماں نے کہا شادی کے بعد سیٹ ہونے میں دس سال لگ جاتے ہیں۔۔۔۔ میں نے سوچا۔۔۔۔"

" کیا۔۔۔۔؟"

"میں نے سوچا میں نئیس سال اپنے ساتھ رہی ہوں، مجھے اپنا آپ چھوڑنے میں پانچ دس سال تو لگ جائیں گے ۔۔۔۔"

"اپنا آپ چھوڑنے میں۔۔۔۔ کیا مطلب"

"اف ایک تو تمھاری باتیں۔۔۔۔"

"مگر پانچ سال گزر گئے ۔۔۔۔پھر دس سال بھی۔۔۔۔"

"پھر۔۔۔۔"

"پھر ایک دن صبح اٹھ کر میں نے آئینہ دیکھا۔۔۔۔"

"ہاں تم نے سوچا ہو گا کہ تم ابھی بھی جوان ہو خوبصورت ہو۔۔۔۔"

"اور وہ تمھارے لائق نہیں۔۔۔۔"

"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔۔"

"مڈل ایج کرائسس۔۔۔۔۔"

"پھر کیا کوئی اور مل گیا۔۔۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔!!!"

"میں اپنی شادی کی دسویں سالگرہ کی صبح اٹھی۔۔۔۔ میں نے اٹھ کر آئینہ دیکھا۔۔۔۔ میں نے سوچا تھا آج تو آئینے میں ضرور میرے عکس کی بجائے میری لاش ہو گی۔۔۔۔"

"ہیں۔۔۔۔"

"کیا دماغ چل گیا ہے ۔۔۔۔"

"۔۔۔۔۔ مگر آئینے میں میری لاش نہیں تھی۔۔۔۔ میری آنکھیں بھی زندہ تھیں اور ان میں میرا عکس بھی۔۔۔۔"

" دس سال کے زہر نے میرا کچھ نہیں بگاڑا۔۔۔ اس کا زہر میرے لئے تریاق تھا۔۔۔۔"

" میں زنداں میں تھی مگر قید میں نہیں،وہ قید میں تھا مگر زنداں میں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سوچا کہ اسے آزاد کر دوں۔"

" وہ زہر تو پل پل میری رگ رگ میں اتارتا تھا۔۔۔۔ مگر وجود اس کا نیل و نیل ہو چکا تھا۔۔۔۔ میری ذات کا ناگ زیادہ طاقتور تھا"

" اس سے پہلے کہ میں کہتی کہ وہ مجھے چھوڑ گیا۔۔۔۔۔میں نے اسے کہا، جا ہم نے تجھے آزاد کیا۔۔۔۔۔"

٭٭٭



چلو کہیں دور۔۔۔۔۔۔


(ماخوذ)



" دیکھو میں تمھیں بتا رہی ہوں کہ اگر تم نہ آئے تو بھی میں گھر سے بھاگ جاؤں گی۔۔۔ دیکھ لینا میں رکنے والی نہیں" اس نے حتمی انداز میں کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔ فون بند کرنے کے بعد وہ کچھ دیر کھڑکی میں کھڑی کچھ سوچتی رہی، پھر ایک ہینڈ بیگ نکال کر اس میں کچھ کپڑے اور ضرورت کی چیزیں رکھنے لگی۔

"اور اگر وہ نہ آیا۔۔۔۔۔" یہ سوچ کر ہی اس کے عصاب تن گئے ۔۔۔۔"نہیں اب میں رکنے والی نہیں۔۔۔۔ یہ دیواریں مجھے اب روک نہیں سکتیں۔۔۔۔ اگر وہ میرے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتا تو پھر ان محبت کے دعوؤں کا بھید آخر کھل ہی جائے ۔۔۔۔۔" وہ خود سے بہت دیر تک الجھتی رہی۔۔۔۔



"زارا، زارا بیٹے کدھر ہو۔۔۔۔" نیچے چاچا جی کی آواز آ رہی تھی۔۔۔۔ایک لمحے کو اسے اپنے فیصلے پر ندامت ہوئی۔۔۔۔ فیصلے کے نتائج کا سوچ کر گبھراہٹ ہوئی مگر پھر اس نے سر جھٹک دیا۔۔۔۔۔

"آئی چاچا جی۔۔۔۔" وہ سر پر دوپٹہ جماتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئی۔۔۔۔۔

٭٭



کرنل فضیل احمد کی آنکھ کسی آواز سے کھلی تھی۔۔۔۔ رات کے تین بج رہے تھے ۔۔۔۔ جب ذہن کے پردے سے نیند کچھ سرکی تو انہیں احساس ہوا "اوہ یہ تو کسی کے چیخنے کی آواز ہے ۔۔۔۔کون ہو سکتا ہے ۔۔۔۔؟" ابھی وہ اسی سوچ میں گم تھے کہ کچھ گرنے کی بھی آواز آئی۔۔۔۔۔کرنل فضیل نے سرہانے کے نیچے سے پسٹل نکالا اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئے ۔

"اوہ بھائی جان، وہ آواز آپ نے بھی سنی۔۔۔۔۔" صولت آپا متفکر سی ٹی وی لاؤنج میں کھڑی تھیں۔

"امی امی زارا کمرے میں نہیں ہے ۔۔۔۔" صبا نے باہر سے آتی آوازیں سن کر زارا کا کمرہ دیکھنا ضروری سمجھا تھا۔

"مگر تم آدھی رات تک کیوں جاگ رہی ہو۔۔۔۔" کرنل فضیل کو یکدم غصہ آ گیا۔

"اف بھائی جان اس وقت بھی آپ کو زاراکی بجائے اس بات کی فکر ہے کہ یہ کیوں جاگ رہی ہے ۔۔۔۔۔"صولت آپا کو کرنل صاحب کا رد عمل بالکل پسند نہ آیا۔ اب وہ کیا بتاتیں کہ صبا آدھی رات کو بیٹھی چیٹ کر رہی تھی۔

"ہونہہ۔۔۔۔" کرنل فضیل غصے سے ہنکارا بھر کر داخلی دروازے کی طرف بڑھے ۔۔۔۔ دروازہ ان کا ہاتھ لگتے ہی کھل گیا تھا۔۔۔۔کرنل فضیل ایک لمحے کو ساکت رہ گئے ۔۔۔۔مگر پھر باہر سے آنے والی آوازوں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا۔۔۔۔اب کے چیخ بہت سریلی تھی۔

٭٭



"ارے کون ہو تم بی بی اور یہاں کیا کرتی ہو۔۔۔۔" صاحب داد چادر میں لپٹے وجود سے مخاطب تھا۔

"ہائے ، اوں، اف۔۔۔۔۔" جواب کی بجائے صرف کراہوں کی آواز آ رہی تھی۔

"زارا تم یہاں کیا کر رہی ہو بیٹی۔۔۔۔" کرنل فضیل کی آواز میں حیرت کا عنصر شامل تھا۔ ابھی کرنل فضیل اپنی حیرانی پر پوری طرح قابو نہ پا پائے تھے کہ اکرم کسی کو جکڑے ہوئے گیٹ سے اندر داخل ہوا۔

"اوہ صاحب داد دیکھ یہ۔۔۔۔یہ تو پورا گروہ لگتا ہے ۔۔۔۔ یہ باہر دیوار کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔۔۔۔" اکرم جو کام سے فارغ ہو کر صاحب داد کے ساتھ گپیں مارنے بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔ شور سن کر اس نے گیٹ سے باہر جھانکا تھا اور اندھیرے میں اسے دیوار کے ساتھ لگا ایک سایہ نظر آیا۔۔۔۔ اکرم نے دبے پاؤں جا کر اپنی گرم چادر پیچھے سے ڈال کر اسے ایسے پکڑا کہ کوشش کے باوجود بھی وہ اکرم کی گرفت میں سے نکل نہیں پایا تھا۔۔۔۔ اب اپنے شکنجے میں دبوچے اسی لحیم شحیم وجود کو لا رہا تھا۔۔۔۔ ساتھ ہی اکرم نے ایک ہینڈ بیگ بھی زمین پر پٹخ دیا "چوری کا مال بھرا ہے اس میں۔۔۔۔ اوئے تیری تو۔۔۔۔ یہ ریٹائرڈ صوبیدار اکرم جٹ ہے کوئی ٹٹ پونجیا نہیں جو تجھے چھوڑ دے ۔" اکرم نے پیچھے سے ایک زور دار جھانپڑ رسید کی۔۔۔۔

"ارے اب بھی بیٹی۔۔۔۔ آیا ہو گا کوئی اسی سے ملنے ۔۔۔۔ کہتی تھی ناں میں کہ یہ زیادہ دن نہیں رکے گی یہاں۔۔۔۔ ہے ناں آخر فرنگن ماں کی بیٹی۔۔۔۔ آپ کو ہی جوش آ رہا تھا، بھائی کی نشانی ہے ۔۔۔۔ بہو بن کر آنکھوں کے سامنے رہے گی۔۔۔۔ چار دنوں کے لئے شوہر کیا گھر سے گیا یہ آپے سے باہر ہو گئی۔۔۔۔ " صولت آپا شروع ہوئیں تو ایک ہی سانس میں سب کچھ بول گئیں۔۔۔۔

"آپا کیا کرتی ہیں۔۔۔۔ہمسائے سنیں گے تو کیا سوچیں گے ۔۔۔۔" کرنل فضیل کا لہجہ شاید زندگی میں پہلی بار لڑکھڑایا تھا۔

"بھائی جان آپ۔۔۔۔ارے تم تو اٹھو۔۔۔۔ کر لئے بہت ڈرامے ، ابھی اسامہ کو فون کرتی ہوں۔۔۔۔ بتاتی ہوں تمھارے کرتوت۔۔۔۔!!!"

"او ابے ۔۔۔۔ چھوڑ۔۔۔۔۔ چھوڑوں گا نہیں اکرم چاچا تجھے تو۔۔۔۔" چادر کے اندر سے گھٹی گھٹی آوازیں نکل رہی تھیں۔۔۔۔پہلے ہینڈ بیگ سر پر پڑا اور اب یہ اکرم کی چارد کا شکنجہ۔۔۔۔۔

"ہیں یہ تو اسامہ۔۔۔۔۔۔"کرنل صاحب کا رخ اب ادھر تھا۔۔۔۔۔

زارا نے بھی ایک جھٹکے سے گھٹنوں پر دھرا سر اٹھایا۔۔۔۔اسامہ اکرم کی چادر جھٹک کر اب اپنے کپڑے جھاڑ رہا تھا۔۔۔۔

کرنل صاحب حیران ہو کر کبھی دیوار کے ساتھ لگے آم کے پرانے کریٹ کو دیکھ رہے تھے جس کی پھٹیاں زارا کا سوا سو پاؤنڈ کا نازک وجود برداشت نہ کر پائیں تھیں، اور کبھی پاس پڑے زارا کے ہینڈ بیگ کو جو وہ اپنے ساتھ امریکہ سے لائی تھی۔۔۔۔

اب ان کا رخ اسامہ اور زارا کی طرف تھا۔۔۔۔"تم تو صبح آنے والے تھے ۔۔۔۔" ان کا لہجہ سخت تھا۔۔۔۔۔

"بابا قسم سے میرا کوئی قصور نہیں۔۔۔۔یہ سب اس زارا کا کیا دھرا۔۔۔۔"

"بکواس نہیں چلے گی۔۔۔۔ بیوی کو سنبھال نہیں سکتے تھے تو شادی کی ضرورت کیا تھی۔۔۔۔"

"مگر بابا۔۔۔۔"

"اگر مگر کچھ نہیں۔۔۔۔"

"مگر آپ نے خود ہی تو کہا تھا زارا کے سب شوق اور فرمائشیں تم پورے کرو گے ۔۔۔۔"

"تو یہ کس قسم کا شوق تھا!"کرنل صاحب کو اب غصہ آنے لگا تھا۔۔۔۔ اکرم اور صاحب داد اس فلمی سی سچوئیشن کو سمجھنے کے بعد آہستہ آہستہ کھسکتے ہوئے غائب ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔صولت آپا آنکھیں گھما کر صبا کو ایسے فاتحانہ انداز سے دیکھ رہی تھیں جیسے واٹر لو کا میدان مار کر آئی ہوں۔۔۔۔۔

"تو پھر۔۔۔۔" کرنل صاحب دھاڑے ۔

"اب میں کیا کرتا، اسے بچپن سے ہی گھر سے بھاگنے کا شوق تھا۔۔۔۔ کہنے لگی کل مری تو جانا ہے تو کیوں نا رات کو ہی نکل لیں۔۔۔۔۔۔۔"۔

"ہائیں۔۔۔۔۔" صولت آپا اور صبا کی ہائیں بہت لمبی تھی۔۔۔۔۔ کرنل صاحب اپنی مونچھوں تلے مسکراہٹ چھپا کر اندر کی طرف چل دیئے ۔۔۔۔۔ صاحب داد اور اکرم نے گارڈینیہ کی باڑ کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنا رد عمل چھپایا۔

اور اسامہ نے زارا کا سہارے کے لئے بڑھا ہاتھ کچھ اس زور سے کھینچا ہے کہ لان میں ہائے میں مری وغیرہ کا ورد ایک بار پھر سے جاری ہو گیا۔۔۔۔

٭٭٭





یہ جو زندگی کی بساط ہے ۔۔۔۔



"ارے یہاں تمھارے باپ کا پولٹری فارم ہے جو تجھے روز روز انڈے کہلاؤں۔۔۔۔" فریدہ کی گھن گرج نے گھر میں داخل ہوتے پروفیسر انعام اللہ کے قدم روک دیئے تھے ۔ ایک لمحے کو اس نے سوچا کہ الٹے پیروں باہر نکل جائے ، مگر پھر ہمت کر کے موٹرسائیکل کو اندر گھسیٹا۔

"یہ کونسی نئی بات ہے ! اب تک تو مجھے عادی ہو جانا چاہئے ۔"۔ گھر میں ہر نعمت ہونے کے باوجود فریدہ بیٹیوں سے ایسے ہی مخاطب ہوتی تھی۔ وہ اب ہاتھ میں شاپر لئے برآمدے کے ایک سرے پر بنے کچن کی طرف دیکھ رہا تھا۔

"ابو جی!" صبح اُمید نے باپ کو دیکھتے ہی نعرہ لگایا۔ بہن کی آواز سن کر اندر سے قرۃالعین اور نورِسحر بھی دوڑی آئی تھی اور ان دونوں کے پیچھے کہکشاں بھی پاؤں پاؤں چلتی آ رہی تھی۔ تینوں بڑی بچیاں آ کر باپ سے لپٹ گئے تھیں۔ کہکشاں دور سے اسے دیکھ کر قلقاریاں مار رہی تھی۔ انعام کی ساری آزردگی سکون میں بدل گئی۔

٭٭



"بس بہت ہو گئے چونچلے ۔۔۔۔کوئی کام بھی کر لو!" فریدہ کا مخاطب انعام تھا جو بیٹی کو گود میں لئے کہانی سنا رہا تھا۔

"بیگم بس یہ کہانی ختم کر لوں۔۔۔۔" انعام کا لہجہ بہت دھیمہ تھا۔

"کونسی بیگم، کہاں کی بیگم۔۔۔۔بولتے تو ایسے ہو جیسے تم کسی ریاست کے نواب ہو اور میرے آگے پیچھے لونڈیوں کی قطاریں ہیں۔۔۔۔"

"ابو آپ بس کریں، امی ناراض ہو رہی ہیں۔" صبح اُمید نے آہستگی سے کہا۔

"آپ امی کی بات پہلے سن لیں۔" قرۃالعین نے بھی تائید میں سر ہلایا۔

"ارے ماں کی دشمنوں کیا کھسر پھسر کر رہی ہو۔۔۔۔ ارے ساری دنیا کو وعظ، نصیحت کرنے والے پروفیسر صاحب گھر میں نجانے کیا کیا سازشیں تیار کرتے رہتے ہیں۔ لوگ ان کی علمیت اور قابلیت کے گن گاتے ہیں اور یہ یہاں اپنی ہی اولاد کو خراب کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔۔۔۔" رات کے نو بجے ، سردیوں کی خاموش رات میں فریدہ بیگم کی آواز یقیناً دور تک جا رہی ہو گی۔

"بھلا آواز کی رفتار کیا ہے ۔۔۔۔ذہن سے ہی نکل گیا!" انعام نے پچھلے سات سال میں اپنی تفنن طبع کا سامان خود سے سوچ لیا تھا ورنہ کب کا ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو چکا ہوتا۔

"ارے لوگ پاگل کہتے ہیں خود سے باتیں کرنے اور ہنسنے والوں کو۔۔۔۔"ایک اور وار کیا گیا۔

"ارے ہم تو کب کے دیوانے ہو چکے ۔۔۔۔۔آپ کے !" انعام کے ہلکے پھلکے سے انداز پر فریدہ مزید بھڑک اٹھی تھی۔ بچیاں سہم کر اپنی اپنی رضائیوں میں گم ہو گئیں اور انعام کمرے کی لائٹ بند کر کے باہر نکل گیا۔ فریدہ دہلیز پر کھڑی کتنی دیر بولتی رہی۔

٭٭



"اماں مجھے کمیوں میں بیاہ کر اچھا نہیں کیا آپ نے ، صفیہ کمیوں میں سے آ کر زمیندارنی بن گئی اور میں چودھریوں کی بیٹی ہو کر بھی کمی کی بیوی بن گئی۔" زینت دو بچے ہونے کے باوجود وٹے سٹے کی ہوئی شادی میں اپنا نقصان نہیں بھولی تھی۔ ان کا زیادہ وقت میکے میں ہی گزرتا تھا اور آہستہ آہستہ انہوں نے میکے کو ہی مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ 1965 کی جنگ میں جب میجر اکرام اللہ کی شہادت ہوئی تو انعام تین سال کا تھا۔ جہاں زینت کو بھائی کے جانے کا غم تھا، وہاں اسے ایک کمینی سی خوشی بھی تھی۔

"اب بھابھی صفیہ کی اکڑی گردن سیدھی ہو جائے گی۔" مگر اسے ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب شہادت کے صلے میں صفیہ کو حکومت کی طرف سے زمین دیئے جانے کا اعلان ہوا۔

"اب تو کچھ کرنا ہی پڑے گا۔۔۔۔بابا تو پہلے ہی بہو اور پوتے کو زمین دیئے بیٹھے ہیں اوپر سے حکومت بھی اسی کے لئے من و سلوٰی اتار رہی ہے ۔۔۔۔ہونہہ بڑی آئی چودھرائن۔۔۔۔" حسد کی آگ دور اندر تک پھیل گئی تھی۔

"بس اب میں یہیں رہوں گی۔۔۔۔اماں، بابا کو میری ضرورت ہے ۔" زینت بیگم نے نئی حکمت عملی کو پایۂ تکمیل پہنچانے کے لئے بھائی کے جنازے کے تیسرے دن یہ اعلان کیا تھا اور اس کا شوہر ہمیشہ کی طرح بیوی کے آگے خاموش ہو گیا۔

آنے والے چند سالوں میں زینت بیگم میکے پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکی تھیں۔ انعام جب چھ سال کا ہوا تو صفیہ بیگم بھی ٹی بی کا شکار ہو کر چل بسیں اور اب وہ مکمل طور پر پھپھی کے زیر سایہ آگیا۔

"میرے راستے کا ہر کانٹا خود بخود دور ہوتا جا رہا ہے !" وہ اکثر اکیلے میں وہ ہنسا کرتیں۔

بچپن سے ہی انعام اپنی حساس طبیعت کی بنا پر زینت بیگم کی طبیعت کے کھوٹ کو سمجھتا تھا مگر منہ سے کچھ نہیں کہتا تھا۔ پہلے دادی اور پھر دادا اور ماموں کی وفات کے بعد یہی واحد رشتہ تھا جو بچا تھا۔ باقی چچا، پھپھی، اور خالائیں اپنی اپنی زندگی میں مصروف تھے ۔

٭٭



"ارے تو فوج میں جائے گا۔۔۔۔تو میری فریدہ کو وقت سے پہلے بیوہ کرے گا۔۔۔۔ارے نیچ ذات، جس تھالی میں کھا رہا ہے اس میں چھید کرے گا۔۔۔۔ارے تو کہیں کا نہ رہے ۔۔۔۔تیری ٹانگیں ٹوٹیں۔"بدعاؤں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ انعام کے اندر ہی اندر کہیں آنسو گر رہے تھے ۔۔۔۔بے بسی کے ، لاچاری کے ، مایوسی کے ۔۔۔۔

"اے اللہ! تو نے مجھے کس لئے پیدا کیا؟ ماں، باپ لے لئے ۔۔۔۔محبت کرنے والے دادا، دادی لے لئے ۔ بہن بھائی کوئی دیا نہیں۔۔۔۔کیا مصرف ہے میرا اس دنیا میں۔۔۔۔!" دکھ کی شدت سے اس کا دم گھٹنے لگا۔

اگلے جمعے زینت نے اس کا نکاح فریدہ سے کروا دیا تھا۔ اگرچہ اس کے چھوٹے چچا نے بہت واویلا کیا تھا کہ چچا ہونے کے ناطے اس کا پہلا حق ہے ، مگر زینت نے کسی کی نہیں سنی تھی۔

"ہر کوئی مجھ پر حق جتا رہا ہے ، محبت کوئی بھی نہیں۔۔۔۔"انعام نے حسرت سے سوچا تھا۔ وہ اپنے اندر ہی اندر بہت سے غم پال رہا تھا۔

٭٭



جب اس نے بی اے کیا تو اس کی شادی ہو گئی اور ایم اے کے آخری امتحان والے دن اس کی بیٹی قرۃالعین پیدا ہوئی۔ اس دن جب وہ گھر آیا تھا تو گھر سے زینت بیگم کے رونے پیٹنے کی آوازیں باہر تک آ رہی تھی۔

"یا اللہ خیر۔۔۔۔ کیا بات ہے !۔۔۔۔ پھپھو کو کیا ہوا؟" اس نے صحن میں کام نبٹاتی اپنی چچی سے پوچھا تھا۔

"ارے انعام!۔۔۔۔ شکر ہے تجھے گھر کا خیال آیا۔۔۔۔مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے ، ماشاء اللہ بڑی پیاری ہے ۔" چچی نے اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر کہا۔

"بیٹی۔۔۔۔ کہاں ہے !" وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف لپکا جہاں فریدہ سر پر پٹی باندھے ، دوپٹے میں منہ دیئے رو رہی تھی۔ انعام نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر پہلو میں سے بچی کو اٹھا لیا۔

"بسم اللہ۔۔۔!" وہ بچی کو یک ٹک دیکھے گیا۔ پھر اس نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور قبلہ رخ ہو کر اس کے کان میں اذان دینے لگ گیا۔ فریدہ اپنا رونا دھونا بھول کر اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔

"میری بیٹی کا نام قرۃالعین ہے کیونکہ یہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔" انعام کا لہجہ محبت میں ڈوبا ہوا تھا۔"میں ابھی مٹھائی لاتا ہوں اور عقیقے کے لئے بکرا بھی۔۔۔۔"وہ بچی کو اس کے پہلو میں لٹا کر باہر نکل گیا۔

انعام کی لائی مٹھائی کو ماں بیٹی، دونوں نے نہ ہاتھ لگایا اور نہ ہی رونا دھونا بند کیا۔ بلکہ عقیقے کا اہتمام کرنے سے بھی منع کر دیا مگر انعام اپنی خوشی میں ان کی ہر بات کو درگزر کرتا رہا۔

٭٭



قرۃالعین کے بعد صبح امید اور نورِ سحر جڑواں تھیں۔ ان کے بعد کہکشاں کی آمد نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ فریدہ اس کی پیدائش پر بیہوش ہو گئی تھی۔ اور جب ہوش میں آئی تو کئی گھنٹے روتی رہی تھی۔ آخر ڈاکٹر کو اسے نیند کا انجکشن دینا پڑا تھا۔

"کیسا منحوس دن تھا جب میں نے اپنی بچی کا ہاتھ تیرے ہاتھ میں دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، ایک لمحہ سکون کا نہیں گزرا اس بیچاری کا۔۔۔۔ تو خود ایسا منحوس تھا کہ پیدا ہوتے ہی ماں باپ کو کھا گیا۔۔۔۔اب تجھ سے میری بیٹی کو کیا خوشی ملنی ہے !!!" زینت بیگم انعام کی سگی پھپھی ہوتے ہوئے بھی اس کے لئے زہر اگل رہی تھیں۔ وہ سر جھکائے خاموشی سے سنتا رہا اور پھر باہر نکل گیا۔

٭٭



"کیا خزانہ ہاتھ لگ گیا؟" انعام کو خود سے مسکراتے دیکھ کر فریدہ سے رہا نہ گیا۔

"ہمیں جلانے کو ہنستا ہے یہ تو۔۔۔۔ارے دیا کیا ہے تجھے سوائے بیٹیوں کے جو تو اس کے آگے پیچھے پھرتی رہتی ہے ۔۔۔۔" زینت کے لہجے میں بلا کی کاٹ تھی۔ کہکشاں کی پیدائش کے ساتھ جمشید کے تیسرے بیٹے کی پیدائش کی خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ زینت بیگم ہر وقت فریدہ کو اس کمی کا احساس دلا کر ایک خودساختہ مظلومیت میں مبتلا رکھتی تھیں۔

"پھپھو آپ بھی خوب ہیں ویسے ۔۔۔۔ساری دنیا ایسے طعنے بہوؤں کو دیتی ہے ، آپ داماد کو دے رہی ہیں۔ لگتا ہے آپ نے سائنس پڑھی ہوئی ہے ۔"انعام نے ان کی بات کو مذاق میں اڑایا۔

"کمبخت، تو تو چاہتا ہی یہی ہے کہ میری بیٹی، بیٹے کو ترستی رہے ۔ تیرے تو دل کو ٹھنڈک ملتی ہے ہمیں جلا کر۔۔۔۔ ارے کیسی منحوس گھڑی۔۔۔۔"

"بس کریں پھپھو۔۔۔۔ ہاں فریدہ میں تمھیں بتانا بھول گیا۔۔۔۔ مجھے پی ایچ ڈی کے لئے سکالر شپ ملا رہا ہے ، چار سال کے لئے ۔۔۔۔" انعام اپنی خوشی میں پھپھی کی بات کاٹنے کی ہمت کر بیٹھا تھا۔ فریدہ جو کچھ دیر پہلے خوشگوار موڈ میں انعام کی طرف متوجہ تھی، اب ماں کی باتوں کے زیر اثر ماتھے پر بل ڈالے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔

"کیا۔۔۔۔۔کیا کہا؟ کہا جا رہا ہے تو۔۔۔۔۔ٹانگیں نا توڑ دیں تیری میں نے ۔۔۔۔"زینت بیگم کے اندر کوئی الاؤ تھا جو اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو نیست و نابود کرتا جاتا تھا۔ اس سے پہلے کہ فریدہ کوئی رد عمل ظاہر کرتی، زینت بیگم نے پھر سے اس کے ذہن کی طنابیں اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ انعام نے حیران ہو کر زینت بیگم کی شکل دیکھی اور پھر ان کے پیچھے کھڑی فریدہ کے چہرے پر ایک نظر ڈالی۔ "کٹھ پتلی!" آج بھی وہ خاموشی سے باہر نکل گیا تھا۔

٭٭



"انعام کیوں اپنے ساتھ ظلم کر رہے ہو۔۔۔۔فریدہ بھابھی جیسی عورتیں کبھی نہیں بدلتیں۔ وہ تمھاری بیٹیوں کو بھی اپنے جیسا بنا دیں گی۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی۔۔۔۔ راستہ بدل لو یا پھر انکو گاؤں میں بھیج دو اور خود یہاں اور۔۔۔۔"

"بس منظور بس۔۔۔۔وہ میری بچیوں کی ماں ہے ۔ میں جس دکھ سے گزرا ہوں، اس میں سے اپنی بیٹیوں کو کیسے گزاروں۔۔۔۔ اور پھر کیا گارنٹی ہے کہ اس بار زندگی کا ساتھی اچھا ملے گا!" انعام نے اپنے دوست کی بات درمیان میں کاٹ دی تھی۔

"حد ہو گئی ہے یار! کہاں تجھ جیسا نفیس آدمی، اور کہاں فریدہ بھابھی جیسی بد مزاج اور بد سلیقہ عورت۔۔۔۔ تم نا صرف خود قطرہ قطرہ زہر اپنے اندر اتار رہے ہو بلکہ بچیوں کا مستقبل بھی تباہ کر رہے ہو۔۔۔۔ " اپنی طرف سے منظور نے ایک اور کوشش ضروری سمجھی۔ وہ پچھلے سات سال سے دوستی کا حق ادا کر رہا تھا۔

ایسے میں جب انعام اپنے گھریلو حالات سے کچھ کچھ مایوس ہو چلا تھا تو بیٹے کی پیدائش نے اس کو ایک نئی امید دی تھی۔

"اس کا نام تو میں نوشیرواں رکھوں گی۔۔۔۔تم تو موسم کا حال سن کر اس کا نام بھی کچھ شہاب ثاقب جیسا رکھ دو گے ۔" انعام نے بیٹے میں مشغول فریدہ کو حیرت سے دیکھا تھا اور پھر ہنس پڑا تھا۔

٭٭



اگر انعام کا خیال تھا کہ فریدہ بیٹے کی پیدائش اور زینت بیگم کی وفات کے بعد بدل جائے گی تو یہ اس کی خام خیالی تھی۔ بس اب اتنا فرق پڑا تھا کہ نوشیرواں سے فراغت ملنے کے بعد ہی وہ سب پر چیختی چلاتی۔ بقیہ حالات پہلے جیسے تھے ۔ گھر میں فراوانی تھی مگر فریدہ نے آسودگی نہیں آنے دی،اپنا ذاتی مکان تھا مگر فریدہ نے اسے گھر نہیں بننے دیا، صاحب اولاد تھی مگر وہ بیٹے کے علاوہ کسی کی ماں بننے پر تیار نہیں تھی۔ اور انعام نے بہت سال پہلے اس سب کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ انعام نے مکان بیچ کر کوٹھی بنا لی اور موٹر سائیکل کے بعد کار بھی خرید لی۔ بچیاں پرائیویٹ سکولوں میں جا رہی تھی۔ بیٹا ایچ ای سن میں پڑھ رہا تھا۔ خود وہ ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی بھی کر چکا تھا۔ بیس سالوں میں وہ بیس کتابوں کا مصنف بھی بن چکا تھا۔ علمی اور ادبی حلقوں میں اس کا ایک خاص مقام تھا۔ یہاں تک کہ ایک عبوری حکومت میں اسے وزارت تعلیم کی بھی پیشکش ہوئی جو اس نے رد کر دی۔

"اماں ٹھیک کہتی تھیں کہ مجھے تم سے کوئی خوشی نہیں مل سکتی۔۔۔۔ارے میرے مقدر کی عزت تمھیں مل رہی تھی مگر تم میں تو کمیوں کا خون ہے نا۔۔۔۔اوپر کی طرف جانا تو کجا، تم تو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے !!!"

"فریدہ!" انعام کے لہجے اور نگاہ میں ایسا کچھ تھا کہ شاید زندگی میں پہلی بار فریدہ کی زبان لڑکھڑائی تھی۔

"ابو جان پانی لیں۔۔۔۔" نور سحر نا جانے کہاں سے پانی کے گلاس کے ساتھ آ موجود ہوئی تھی ورنہ شاید یہ فیصلے کی گھڑی ہوتی! دور بیٹھی قرۃالعین نے باپ کے خاموش ہو جانے پر سکون کا سانس لیا تھا۔

٭٭



انعام نے اپنی توجہ مکمل طور پر چاروں بیٹیوں کی تعلیم اور اپنے تحقیقی کام پر مرکوز کر دی تھی۔ اپنی سی کوشش تو وہ نوشیرواں کی لئے بھی کر رہا تھا مگر فریدہ اس کی چلنے نہیں دیتی تھی۔ قرۃالعین اس کے نقش قدم پر چل کر انگریزی ادب میں ایم اے کر رہی تھی۔ صبح امید نے میڈیکل کو چنا تھا۔ نور سحر کا رجحان فائن آرٹس کی طرف تھا اور کہکشاں کا خیال تھا کہ اگر وہ انجینئرنگ میں نہ گئی تو پھر کمپیوٹر سائنس کی طرف جائے گی۔

"امی میں ہائی سکول کے بعد آرمی جوائن کروں گا۔" ایسے میں نوشیرواں نے آرمی میں جانے کا اعلان کر کے انہیں چونکا دیا تھا۔ پہلی بار انہوں نے فریدہ کو کسی بات کے لئے مجبور ہوتے دیکھا تھا اور انہیں لگا تھا کہ نوشیرواں نے ان کی درینہ خواہش پوری کر دی ہو۔

انعام جہاں بیٹیوں کی تعلیم کی طرف سے مطمئن تھا، وہاں بیٹیوں کے رشتوں کے سلسلے میں اکثر پریشان رہتا۔ بنیادی طور پر اس کا تعلق ایک ایسے خاندان اور طبقے سے تھا جہاں اب بھی رشتہ کرتے وقت لڑکی کی ماں اور نانی کی عادات کو ذہن میں رکھا جاتا تھا۔

"میں کیسے لوگوں کو یقین دلواؤں گا کہ میری بیٹیاں تعلیم یافتہ اور سلجھی ہوئی ہیں۔۔۔۔!" ایسی سوچیں اکثر اسے پریشان رکھتی تھیں۔

فریدہ کے رویے کے باوجود جب جمشید نے اپنے بیٹے جنید کے لئے قرۃالعین کا رشتہ مانگا تو انعام کا حیرت میں مبتلا ہونا واجب تھا۔ جنید ایم بی اے کرنے کے بعد پولیس میں اے ایس پی لگا ہوا تھا اور اچھی عادات کا مالک تھا۔ فریدہ کو جہاں اپنی اہمیت دکھانے کا ایک اور موقع مل گیا وہاں اس نے اپنی بھابھی کو جتانا ضروری سمجھا تھا۔ "ہمیں تو رشتوں کی کوئی کمی ہی نہیں۔ لوگ تو انعام کے وزارت رد کر دینے کے بعد بھی جانتے ہیں کہ حکومت میں انکو کتنی اہمیت حاصل ہے ۔ کوئی کام ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا۔" انعام اپنا سر پیٹ لینے والا ہو گیا۔ دو تین تعلیمی کانفرسوں میں شمولیت اور ٹی وی پر آنے کو فریدہ جیسی کم عقل اور چھچھوری عورت اور کیا رنگ دے سکتی تھی!

سال بعد جب قرۃالعین کی شادی خیریت سے ہو گئی تو انعام نے سکون کا سانس لیا تھا گو کہ فریدہ بے اطمینانی کا شکار تھی۔ آخر وقت تک اسے اس سے بہتر اور کھاتے پیتے رشتے کا انتظار تھا۔ لیڈیز کلب کے توسط سے وہ برابر اس بات کی کوشش کرتی رہی کہ کسی بزنس مین یا سیاست سے وابستہ گھرانے میں بیٹی کا رشتہ ہو جائے مگر انعام نے اس کی کسی بات کو اہمیت نہ دی۔ اور سب سے بڑی اطمینان کی بات یہ تھی کہ بیٹی بیاہ کر دوسرے شہر جا رہی تھی جہاں فریدہ ہر وقت مداخلت نہیں کر سکتی تھی۔

٭٭



"اچھا واقعی۔۔۔۔خوش رہو،آباد رہو۔" انعام نے سلام دعا کے بعد فون بن کیا تو تینوں بہنیں باپ کے گرد ہو گئیں۔

"کیا کہہ رہی تھیں آپی؟"

"جنید کا ٹرانسفر یہاں ہو گیا ہے ۔ اگلے ماہ کی پندرہ کو چارج لینا ہے ۔" انعام چار سال بعد بیٹی کے پاس آ جانے پر خوش تھا۔ بہنیں خوش تھیں کہ صبح امید کی شادی پر آپی بھی ہر کام میں شامل ہوں گی۔

"یہ چار سال کس تیزی سے گزر گئے ۔۔۔۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب میں نے قرۃالعین کو رخصت کیا تھا اور اب اس کی بیٹی تین سال کی ہونے والی ہے ۔۔۔۔" انعام نے خوشی سے چہکتی بیٹیوں پر ایک نظر ڈال کر فریدہ کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ "اب کیا نیا گل کھلے گا!"

اور فریدہ سوچ رہی تھی، "اپنی بار تو میں ڈر گئی اور پیپل والی سرکار کا حکم نہ مانا، مگر عینی کے ساتھ میں ایسا کچھ نہیں ہونے دوں گی۔ ایک سے دوسری بیٹی ہوئی تو میں اس کا گلہ خود دبا دوں گی۔" وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ انعام اس کے چہرے کے تاثرات کا بغور جائزہ لے رہا ہے ۔

٭٭



صبح امید کی شادی کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں جب اچانک نوشیرواں نے دھماکہ کر دیا۔

"میں سونیا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ میرے کور کمانڈر کی بیٹی ہے ۔۔۔۔آپ کو آج ہی میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ امید کے ساتھ آپ میری بھی شادی کر دیں۔" وہ بتا نہیں رہا تھا بلکہ حکم دے رہا تھا۔ انعام جہاں حیرت سے اس کی شکل دیکھ رہا تھا، وہیں فریدہ کی پریشانی سے لطف اندوز بھی ہو رہا تھا۔

"ابھی تو تمھیں پاس آؤٹ ہوئے مہینہ نہیں ہوا۔۔۔۔کیسے ہو گا یہ سب کچھ۔۔۔۔!"فریدہ بیگم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔

"آپ لوگ نہیں کریں گے تو میں خود کر لوں گا۔" انداز ہٹ دھرمی لئے ہوئے تھا۔

"کیوں نہیں کریں گے ! بیگم آپ تیار ہوں، ہم ابھی چلتے ہیں۔"انعام نے بات سنبھال لی۔ یوں صبح امید کی شادی کے دن نوشیرواں کا ولیمہ بھی نبٹ گیا۔

٭٭



انعام ناشتے کے لئے میز پر بیٹھا تو نوشیرواں کے کان میں کھسر پھسر کرتی فریدہ ایک دم خاموش ہو گئی۔ وہ ایک نظر ان دونوں پر ڈال کر اخبار میں گم ہو گیا۔ چونکا تو تب جب ایکدم نوشیرواں نے سونیا پر چلانا شروع کر دیا۔

"احمق عورت چائے تک بنانی نہیں آتی تمھیں۔۔۔۔ ارے اپنے برگیڈئیر باپ سے کہو نوکر بھیج دے ، یا پھر باپ کے پاس واپس چلی جاؤ۔۔۔۔"

انعام نے چائے کا کپ اٹھا کر منہ سے لگا لیا۔ "ہوں چائے تو ٹھیک ہے !" اس نے سوچا۔ پھر ساری توجہ دونوں کی طرف ہو گئی۔

"میں نے تو۔۔۔۔" سونیا نے صفائی دینے کی کوشش کی مگر نوشیرواں آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے ہاتھ مارا اور پیالی فرش پر گر کر چکنا چور ہو گئی۔ سونیا روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ "چلو تم نے تو باپ سے کچھ سبق سیکھ ہی لیا!" انعام نے اک گونا سکون محسوس کیا تھا۔ وہ بیٹے کی دلیری کو دل ہی دل میں سراہ رہا تھا۔ جو وہ خود نہ کر سکا وہ سب اس کے بیٹے نے کر دکھایا تھا۔

" فریدہ اور زینت دونوں کو شکست فاش ہو گئی آج۔۔۔۔!" وہ بیٹے کا کندھا تھپتھپا کر باہر نکل آیا تھا۔ فریدہ کی آنکھوں کی چمک اس سے پوشیدہ رہی تھی۔

٭٭



"مظلوم کے ساتھ مل کر آپ رو تو سکتے ہیں مگر مظلوم بننا پسند نہیں کرتے ۔ آپ طاقتور کو گالی تو دیتے ہیں مگر آپ کا بس چلے تو ساری خدائی اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ دوسرے کو ظالم ترین انسان ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کرنے والے وقت آنے پر خود بھی وہی راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔۔۔۔اس لئے تبدیلی کا عمل اپنے اندر سے شروع ہونا چاہئے ، باہر سے نہیں۔۔۔۔۔ غیر متوازن زمین پر اعتدال کی عمارت

کیسے کھڑی ہو سکتی ہے ؟ بے انصافی کے بیج سے عدل کی فصل کیسے کاٹی جائے گی؟" پروفیسر انعام اپنے شاگرد کے سوال کا جواب دیتے دیتے جذباتی ہو گیا تھا۔ معاشرے میں عدم توازن اس کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک تھا۔۔۔۔ انسانی نفسیات کو اس سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا!

٭٭



انعام یونیورسٹی سے دن کا آخری لیکچر دے کر نکلا تو بہت خوشگوار موڈ میں تھا۔ صبح کا واقعہ اسے اب بھی مزہ دے رہا تھا۔ایسے میں بے اختیار اس کا دل اپنی نواسی نورالعین سے ملنے کو چاہنے لگا۔

"واقعی اصل سے سود پیارا ہوتا ہے ۔" وہ اپنی نواسی نورالعین کی باتیں یاد کر کے سارا راستہ مسکراتا رہا۔

اس نے گیٹ پر گاڑی روک کر دو تین بار ہارن دیا۔ جب اندر سے کوئی نہ نکلا تو گاڑی باہر کھڑی کر کے چھوٹے گیٹ سے اندر داخل ہو گیا۔

"کمال ہے ایس پی کا گھر اور گیٹ پر کوئی گارڈ کوئی چوکیدار ہی نہیں۔۔۔۔آج کل کے حالات بھی ایسے ہیں کہ۔۔۔۔!" جنید کی لا پرواہی پر حیران ہوتے ہوئے وہ برآمدے تک آ گیا۔ دروازہ کھولنے کے لئے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ ہوا میں ہی رک گیا تھا۔

"ارے یہاں تمھارے باپ کا میک ڈونلڈ ہے جو تجھے روز روز برگر کہلاؤں۔۔۔۔" قرۃالعین کی گھن گرج باہر تک صاف سنائی دے رہی تھی۔ انعام کو لگا وہ کئی سال پیچھے چلا گیا ہے ۔ اسے اندر جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ چند لمحے آہستگی سے سرکے ۔۔۔۔ پھر وہ خاموشی سے گیٹ کی طرف چل دیا۔ اندر سے اب بھی آوازیں آ رہی تھیں۔

وہ کار میں آ کر بیٹھ گیا اور سر سٹیرنگ ویل پر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے صبح کا منظر گھوم رہا تھا اور کانوں میں قرۃالعین کی آواز گونج رہی تھی۔ اچانک اسے لگا تھا کہ وہ خود سب محاذوں پر ہار گیا ہو۔ "میں بے خبری میں مارا گیا، میں زندگی سے ہار گیا۔۔۔۔!"سینے میں اٹھنے والے درد کی لہر بہت شدید تھی۔۔۔۔

٭٭٭



سوچنا منع ہے !



امی میری اس عادت سے نالاں تھی کہ میں ہر بات میں سے ایک نیا نقطہ نکال لیتی ہوں۔ اور مجھے یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ سامنے کی بات سب کو نظر کیوں نہیں آتی۔۔۔۔۔

ابھی پچھلے دنوں میرے بھائی نے عالیہ،جو کہ میری ماموں زاد ہے ، سے شادی سے انکار کر دیا۔ امی آنٹی شاہدہ کو بتا رہی تھی، " خالد کے انکار کے بعد میں کیا کر سکتی ہوں، اسے عالیہ پسند نہیں۔۔۔۔۔۔"

میں نے پاس سے ٹکڑا لگایا،" یا پھر انہیں کوئی اور پسند ہے جیسے سدرہ۔۔۔۔۔"۔ سدرہ میری پھپھی زاد تھی۔ بس پھر تو اللہ دے اور بندہ لے ۔ وہ گھمسان کا رن پڑا گھر میں الامان الحفیظ۔۔۔۔۔۔

امی ناراض، "تم پہلے سے جانتی تھیں مگر بھائی کی چمچہ گیری میں نہیں بتایا!" میں نے امی کو بتانے کی کوشش بھی کہ اگر وہ نند بھاوج کے رشتے کو نکال دیں تو سدرہ اور عالیہ میں کچھ خاص فرق نہیں جبکہ بھائی بھی چاہتے ہیں مگر نقار خانے میں طوطی یا طوطے کی آواز کون سنتا ہے ۔ "جی جی میں جانتی ہوں یہ کسی جانور کو لے کر محاورہ نہیں !"

بھائی ناراض،" تم میری جاسوسی کرتی ہو اور تم نے جان بوجھ کر امی کو وقت سے پہلے بتا دیا۔۔۔۔!"اصل میں وہ عالیہ کا اپنے ماموں کی طرف رشتہ طے ہونے کا انتظار کر رہے تھے ۔

اب اس میں میرا کیا قصور کے مجھے سدرہ کے آئے روز ایک نئی ڈش کے ساتھ چکر کچھ عجیب لگ رہے تھے ۔ اوپر سے بھائی کا ہر وقت پھپھو کی طرف جانے کو تیار رہنا بھی عام سے ہٹ کر تھا۔ میرے ذہن میں پہلے تو ایسا کوئی خیال نہیں آیا تھا مگر اس دن جب اماں اور آنٹی شاہدہ کا تبادلہ خیالات سنا تو بس زبان پھسل گئی۔۔۔۔بس یہ زبان کا پھسلنا۔۔۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔

٭٭



ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ میں نے ایک اور پھڈے میں ٹانگ اڑا لی۔۔۔۔۔۔

ہوا یوں کے خالہ رفعت کے دیور کا بیٹا سعد امریکہ سے کچھ دنوں کے لئے آیا تھا کسی کام کے سلسلے میں۔ میں نے اسے دیکھتے ہی اعلان کر دیا،" ہو نا ہو یہ یہاں سے ایک گھریلو نوکرانی مطلب ایک عدد بیوی کا انتظام کرنے آیا ہے ، انڈر ایف اے ۔۔۔۔انڈر بی اے چلے گی۔" میں نے یہ اعلان پنجابی میں اپنی کزنوں کے درمیان کیا تھا جب وہ کانوں میں ہیڈ فون ٹھونسے اور ہاتھ میں آئے پاڈ تھامے چلے جا رہے تھے ۔ حضرت ایک لمحے کو رکے ، سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور یہ جا وہ جا۔۔۔۔۔میں نے دل میں شکر ادا کیا کہ اس نے سنا نہیں ورنہ۔۔۔۔۔آگے آپ خود سمجھ لیں۔

مگر کچھ دن بعد خالہ کی زبانی میرے شک کی تائید ہو گئی کہ شاید آسیہ کا رشتہ وہاں ہو جائے ۔۔۔۔یعنی میرا ایک اور تکا صحیح بیٹھنے والا تھا۔ اب کیونکہ میں اس فن میں ماہر ہوتی جا رہی تھی تو جھجھک بھی کچھ کم ہوتی جا رہی تھی۔ میرے اندازوں میں درستگی اور سوچوں میں روانی آتی جا رہی تھی اور امی کے بقول "زبان کے آگے خندق۔۔۔۔۔"۔

انہی دنوں میں نے ایک اور اندازہ لگایا کہ امریکی اس بار بھی لارا ہی لگائیں گے ۔۔۔۔"دکھائیں گے سیدھی، اور ماریں گے الٹی!" اور پھر یہ سچ ہو گیا مگر خالہ کی زبانی بڑے نخوت بھرے لہجے میں کہا گیا، "بھئی افصل نہیں مانتے ۔ اکلوتی بیٹی ہے ہماری، ہزاروں میل دور کیسے بھیج دیں۔۔۔۔ہماری طرف سے تو انکار ہے ۔۔۔"۔

اور میرے منہ سے نکل گیا،" اگر وہ رشتہ ڈالیں گے تو انکار ہو گا ناں۔۔۔۔۔!" خالہ کے منہ سے ایک دم نکلا، "مگر تمھیں کیسے پتا کہ۔۔۔۔۔۔"۔ "ہائیں۔۔۔۔۔"، اب میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ خالہ تو چادر اٹھا امی سے سلام دعا لئے بغیر چلتی بنی مگر امی نے جو کچھ میری شان میں کہا وہ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل تھا۔

٭٭



ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ اپنی اس قیافہ شناسی کے ہنر کو کس کام لاؤں کہ مجھے ایم اے میں داخلہ مل گیا۔ امی سے زیادہ بابا خوش تھے اور ان سب سے زیادہ میں۔ اگلے دو سال بہت مصروفیت میں گزرے ۔ بھائی کی شادی سدرہ سے ہو گئی۔ سدرہ حیرت انگیز طور پر ہمارے گھر میں بہت اچھا اضافہ ثابت ہوئی۔میری وہ خاص طور پر احسان مند تھی۔ "عائشہ اگر تم وہ سب نہ کہتی تو تمھارے بھائی نے تو ابھی کئی اور سال لگانے تھے اپنی پسند کا اظہار کرنے میں۔" اور مجھے بھلا کیا تکلیف ہونی تھی مفت میں صلہ لینے میں۔۔۔۔

٭٭



امتحانوں سے فارغ ہوتے ہی مجھے اپنی ایک پروفیسر کی توسط سے ایک پرائیویٹ سکول میں جاب کی پیشکش ہوئی۔ ادارے کا نام ایسا تھا کہ بابا نے فوراً اجازت دے دی۔ جبکہ امی کا خیال تھا کہ اب میری شادی کر دی جائے فوراً سے بیشتر۔۔۔۔سن کر میں نے کہا تھا، " امی آپ کہیں تو میں گیٹ پر ہار لے کر کھڑی ہو جاؤں اور صبح سب سے پہلے اندر داخل ہونے والے کے گلے میں ڈال دوں۔۔۔۔۔"۔ امی نے جواب میں کہا تھا، " اس زبان کو نوکری پر لگام دیئے رکھنا ورنہ مشکل ہو جائے گی تمھارے لئے" امی کے سنجیدہ لہجے نے بھی کچھ خاص اثر نہیں کیا تھا مجھ پر۔۔۔۔

جاب کو شروع کیے چھ ماہ کا عرصہ ہوا تھا جب نئے داخلوں کے لئے انٹرویو اور ٹیسٹ شروع ہوئے ۔ پرنسپل کا طریقہ کار تھا کہ ہر کلاس ٹیچر کو اپنی کلاس میں داخلے کے لئے آنے والے بچوں کے انٹرویو میں بیٹھنے کو کہا جاتا تھا۔ انٹر ویو سے ایک رات پہلے چچا حامد نے بتایا کہ اس بار ذیشان بھی انٹر ویو کے لئے جا رہا ہے ۔دوسرے دن میں نے پرنسپل کو پہلے سے مطلع کر دیا مگر ان کو میرے انٹرویو لینے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بقول انکے ، "مجھے آپ پر اور آپ کی صلاحیتوں پر اعتماد ہے "۔

ذیشان کا انٹرویو اور ٹیسٹ بہت اچھا ہوا تھا مگر اس کی اپلیکیشن کا جائزہ لیتے ہوئے میرے منہ سے اچانک نکل گیا، " اس آمدنی میں فیس کیسے بھریں گے ۔۔۔"۔ شکر ہے کہ یہ چاچو کے سامنے نہیں کہا تھا مگر پرنسپل صاحب نے مسکرا کر سر ہلایا دیا تھا۔

گھر آنے تک میں یہی اندازے اور تخمینے لگاتی رہی، "چچا کی سرکاری نوکری میں آمدنی اتنی معمولی سی ہے ۔۔۔۔ان کے پاس امریکہ کے ڈالر اور سعودیہ کے ریال بھی نہیں تو پھر یہ ڈیفینس میں کوٹھی دس سال کی قلیل مدت میں کیسے بن گئی۔۔۔۔۔دو گاڑیاں کیسے آ گئیں۔۔۔۔ہر کمرے میں اے سی کیسے لگ گئے اور چاچی کے ڈائیمنڈ کے زیورات اور سلک شیفون کے ملبوسات کہاں سے آ رہے ہیں!"

شام کو جب چچا اور چچی انٹرویو کے متعلق جاننے کے لئے تشریف لائے تو میں نے اپنی الجھن ان کے سامنے رکھ دی۔ " چاچو انٹرویو اور ٹیسٹ تو ذیشان نے پاس کر لیا ہے اور وہ ٹاپ آف دا لسٹ ہے مگر ایک مسئلہ ہے ۔۔۔۔۔"۔

"ارے وہ کیا ؟"،چچا چچی کی خوشی دیدنی تھی۔میں ان کی خوشی ملیا میٹ نہیں کرنا چاہتی تھی مگر انہیں جھوٹی تسلی بھی تو نہیں دی جا سکتی تھی۔۔۔۔۔

" چاچو آپ سکول کی فیس نہیں افورڈ کر سکیں گے ۔۔۔۔۔"۔

"ارے عائشہ پتر یہ بھی کوئی مسئلہ ہے ۔۔۔۔تیرے چاچے پر اللہ کا بڑا فضل ہے "۔ چاچو اور چاچی دونوں نے قہقہہ لگایا تھا۔

" مگر آپ نے آمدنی تو بہت کم لکھی ہے ۔۔۔۔۔اگر آپ ساری آمدنی فیس میں لگا دیں گے تو کھائیں گے کہاں سے !" میں نے کمال معصومیت سے سوال کیا تھا۔

پہلے تو چاچو ہنسے مگر پھر ایک دم سنجیدہ ہو گئے ۔ "کیا مطلب ہے اس بات کا۔۔۔۔بھائی صاحب آپ یہ سب سن رہے ہیں۔ آپ کے سامنے آپ کی اولاد یہ سب کچھ کہہ رہی ہے ، ایسے سوال اٹھا رہی ہے ۔۔۔۔اور آپ خاموش ہیں؟" چاچو اب پوری طرح بھڑک چکے تھے ۔

" تم کیا چاہتے ہو، میں کیا کہوں اپنی اولاد کو۔۔۔۔شکر الحمد للہ ان میں سوال کرنے کا حوصلہ ہے ۔۔۔اور یہ حوصلہ اس لئے ہے کیونکہ ان میں جواب دینے کا بھی حوصلہ ہے !" بابا ایک لحظے کو رکے تھے ، " میری اولاد کو نا سہی مجھے تو تم سے سوال کا حق ہے نا۔۔۔۔۔تمھیں میں نے اولاد کی طرح پالا، تعلیم دلوائی، شادی کی۔۔۔تم مجھے جواب دے دو کہ تم فیس کہاں سے بھرو گے ۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کچھ انہونی، کچھ غلط ہوتا دیکھ کر سوال کریں نا کہ ریت میں سر دے لیں!" بابا کا انداز ایسا تھا کہ سب نے سانس روک لئے تھے اور خاموشی چھا گئی تھی۔

اس خاموشی کو چچی کی آواز نے توڑا تھا "کیا منہ اٹھا کر بیٹھے ہیں آپ اس عزت افزائی کے بعد۔۔۔۔چلیں اب۔ شکر ہے میں امی کے کہنے پر رفیع کا رشتہ نہیں ڈال بیٹھی۔۔۔۔ایسی بد زبان اور چلتر لڑکی۔۔۔۔اسی لئے تو اب تک کہیں رشتہ نہیں ہوا جبکہ اس کے ساتھ کی دو دو بچوں کی مائیں بن چکی ہیں"۔ چچی آگ لگا کر چاچو کو لے کر چلتی بنی۔

بابا میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کمرے کی طرف چل دیئے مگر امی کے لئے افسوس کا ایک موقع چھوڑ گئے ، "ہائے اتنا اچھا رشتہ تھا۔۔۔۔۔"۔ امی کا یہ دکھی پروگرام بہت دیر تک چلتا مگر سدرہ نے درمیان میں ٹوک دیا، "امی، بابا اور خالد نے تو ویسے بھی نہیں ماننا تھا ایسے راشی کے لئے ۔۔۔۔۔اور عائشہ کے لئے کونسی کمی ہے "۔ میں نے تشکر سے سدرہ کو دیکھا تھا۔ اللہ کی طرف سے ہر کام بہتر ہی ہوتا ہے ۔ میں نے سوچا تھا اور خاموشی سے کمرے کی طرف چلی آئی تھی۔

کتنی عجیب بات ہے کہ مجھ جیسے لوگوں پر بھی کبھی کبھی اچانک کچھ نا کچھ وارد ہو جاتا ہے ۔ اس دن مجھ پر اچانک انکشاف ہوا کہ ریت میں سر دینا زندگی کا اصول ہو تو زندگی بہترین گزرتی ہے ۔

پہلی بات تو یہ کہ ریت میں سر دینے سے کسی کو آپ کے سر میں خاک نہیں ڈالنی پڑتی، خود بخود ڈل جاتی ہے ! دوسرا اگر ذرا سی بے احتیاطی ہو جائے تو آنکھیں بھی ریت سے بھر جاتی ہیں۔ بس پھر سارا زور تو آنکھوں سے ریت نکالنے میں سرف ہو جاتا ہے ، ارد گرد کی خبر کسے ہو گی! اتنی تگ و دو کے بعد آنکھیں کھولنے کے بعد تو ویسے بھی دنیا خوبصورت ہی نظر آئے گی ناں۔

مجھ پر بھی اچانک انکشاف ہوا کہ میں اپنے دماغ کو کچھ ضرورت سے زیادہ استعمال کرتی ہوں۔ اس حیرت انگیز دریافت کے بعد اندازہ ہوا کہ لوگ زیادہ سوچ بچار کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے اور خاص طور پر اگر وہ لڑکیاں ہوں!!!

٭٭



خالہ رفعت نے ان دنوں اپنے بیٹے کی شادی طے کر دی جب میں اپنے ایم فل کے تھیسس کو فائنل کر رہی تھی۔ احسن بھائی کا رشتہ خالہ رفعت کے سسرال میں ہوا تھا۔ آسیہ کا رشتہ نا ہونے کا ملال انہیں اب بھی آ گھیرتا تھا جبکہ آسیہ دو بچوں کی ماں بھی بن چکی تھی۔ اور اسی وجہ سے میرے ذمہ بہت سے کام آ پڑے تھے ، ایم فل میں مصروف ہونے کے باوجود کیونکہ میں خاندان میں سب سے فارغ اور عقل مند تھی۔ باقی سب کم عقل لوگ کام سے لگ چکے تھے اور اپنے بال بچوں میں کافی مصروف تھے ۔

مہندی کے دن لڑکی والوں کے استقبال کے لئے بھی مجھے ہار دے کر آ گے بھیج دیا گیا۔ کم عمر بچیوں کے ساتھ پھولوں کی پتیوں اور ہاروں کے ساتھ کافی کوفت ہو رہی تھی مجھے مگر سدرہ،آسیہ، عالیہ سب ہی اپنے روتے دھوتوں کے ساتھ مصروف تھیں۔

پہلا بندہ اندر داخل ہونے والا مرد تھا۔۔۔" لاحول ولا قوۃ۔۔۔۔عورتوں کے فنکشن میں مردوں کا کیا کام۔۔۔۔لڑکیاں تاڑنے کے علاوہ کیا کام ہو گا۔۔۔۔"۔ میں نے حسب معمول بلند اواز میں اظہار خیال کیا تھا۔

"جو مرضی سمجھیں،ہار تو پہنا دیں۔۔۔آخر اس گیٹ سے داخل ہونے والا میں پہلا بندہ ہوں "۔ مجھے پتا نہیں کیوں یہ بندہ جانا پہچانا لگا تھا۔ میں نے اس کے ہاتھ میں ہار پکڑایا اور پھر خواتین کی طرف متوجہ ہو گئی۔رسموں کے دوران مجھے سعد بھی نظر آیا جو ایک نازک اندام، دلنشین سی لڑکی کے ساتھ ایک بچہ اٹھائے ہوئے تھا۔ مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھ آیا " السلام علیکم، کیسی ہیں آپ عائشہ؟"

"وعلیکم السلام اللہ کا شکر، میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں۔"

."الحمد للہ، یہ میری وائف ہیں ارم اور بیٹا فہد، اور ارم یہ عائشہ ہیں"

" میرا بھی تعارف کرواؤ۔۔۔۔۔" پیچھے سے کسی کی آواز آئی تھا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہی گیٹ والا بندہ تھا۔

"ضرور۔۔۔۔یہ عائشہ ہیں اور یہ میرا جڑواں بھائی معاذ ہے ۔" سعد کا انداز کچھ معنی خیز سا تھا مگر میں وجہ سمجھ نا سکی۔ مگر اب مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ یہ بندہ اتنا جانا پہچانا کیوں لگ رہا تھا۔

٭٭



چھ ماہ بعد میں نیویارک کے ایک دو بیڈ روم کے اپارٹمنٹ میں ایک ساتھ برتن مانجھتے ، کپڑے دھوتے اور کھانے پکاتے ہوئے اپنے قیافہ شناسی کے فن کو کوس رہی تھی۔

"کیا ہوا مسز موڈ بہت خراب ہے ؟" معاذ نے تولیے سے سر رگڑتے ہوئے کہا تھا۔

"خبردار جو مجھ سے بات کی۔۔۔۔۔!" میں نے ہوا میں مصنوعی غصے کے ساتھ کفگیر لہرائی تھی۔ معاذ قہقہہ لگا کر اچھل کر پیچھے ہوا تھا۔

میرا نکاح آج سے پانچ ماہ تین ہفتے پہلے ہوا تھا، معاذ سے ۔میرے اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے ۔ اسے ایک ایم فیل گھریلو ملازمہ مل گئی تھی میرے تمام احتجاج کے باوجود۔۔۔۔۔

٭٭٭



ذات کا یقین





نسرین اشرف کے ہاتھوں پاؤں کے ٹوٹے ہوئے ناخنوں اور ٹخنوں پر جمی میل کو اس نے کراہت سے دیکھا اور منہ پھر لیا۔

سٹاف روم میں آتی صائمہ نے اس کے بگڑے منہ کی طرف حیران ہو کر دیکھا۔

"تمھیں کیا ہوا؟"

"کچھ نہیں، چلو گراؤنڈ کا ایک چکر لگاتے ہیں۔" صبا نے بات ٹالتے ہوئے کہا۔

"چلو"۔ صائمہ نے اسے بغور دیکھتے ہوئے حامی بھری۔

"یار یہ نسرین کیا اپنے گھر میں خوش نہیں یا اس کے گھر والے اس پر بہت ظلم کرتے ہیں۔" صبا نے گراؤنڈ میں تیز تیز چلتے ہوئے صائمہ سے پوچھا۔

"ارے یہ خیال تمھیں کیسے آیا۔ کیا تمھیں پتا نہیں کہ نسرین کی پسند کی شادی ہے اور اس کا میاں تو اس کے آگے بول ہی نہیں سکتا۔ ہاں سسرال والے ذرا تیز مزاج کے ہیں مگر نسرین خود بھی کچھ کم نہیں۔" صائمہ نے تفصیلی جواب دیا۔

"یار اس کا حلیہ دیکھا ہے کبھی۔ پہلے کتنی سلم ہوتی تھی۔ نک سک سے درست۔۔۔۔۔۔"۔ صبا نے بات درمیان میں ہی چھوڑ دی۔

"یار شادی کے بعد ایسا ہو جاتا ہے ۔" صائمہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

"بابا میں تو باز آئی ایسی شادی سے ، اور اگر کی بھی تو میں تو کبھی اپنے آپ سے لا پرواہی نہیں برتوں گی۔" صبا نے اپنے ملائم ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"دیکھیں گے !" صائمہ نے قہقہہ لگایا۔

صبا نے جواب میں صرف گھورا۔۔۔۔

٭٭



صائمہ اسے دیکھ کر دور ہی سے بولی " یار کام تو کوئی صبا کی طرح کرے ، بس ایک بار کام کہہ دو تو سمجھو ہو گیا۔۔۔۔۔۔"۔

"بس بس زیادہ مسکا لگانے کی ضرورت نہیں،" صبا نے اسے درمیان میں ٹوک دیا۔ سٹاف روم میں بیٹھی تمام ٹیچرز ان کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں۔

صائمہ کی ڈرائنگ اتنی اچھی نہیں تھی اور اسے اپنی کلاس کے ٹیسٹ تیار کرنے تھے ۔ اس نے صبا سے ذکر کیا تو اس نے بریک کے دوران تصویریں بنا کر ٹیسٹ مکمل کر دیئے تھے ۔ اب صائمہ اسی کا ذکر کر رہی تھی اور صبا کو کام کر کے احسان چڑھانے کی عادت نہیں تھی۔

"ارے بھئی سالانہ ڈنر کے مینیو کا کیا بنا۔" مسز تنویر نے کونے سے آواز لگائی۔

"پرنسپل صاحب کو کوئی بھی سویٹ ڈش پسند نہیں آ رہی۔" مسز علوی نے جواب دیا۔

"اُف ان عورتوں کو کھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں سوجھتا۔۔۔" صبا نے دل میں سوچا۔

" صبا کی ٹرائیفل بہت اچھی ہوتی ہے ،" نسرین اشرف نے پیپر چیک کرتے ہوئے لقمہ دیا۔

"سچ، ٹرائیفل بنا لیتے ہیں،" صائمہ پھر جوش میں آ گئی۔

"اس کے لئے میں سفنج کیک گھر میں بیک کرتی ہوں، اتنے کیک کیسے بنیں گے۔" صبا نے اعتراض دیا۔

"تم بنانے پر تیار ہو جاؤ، باقی بندوبست ہو جائے گا۔" مسز علوی جو وائس ہیڈ مسٹرس بھی تھی اور ڈنر کی انچارج بھی، نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔

"اچھا اگر آپ سب کہتے ہیں تو مل کے بنا لیں گے ۔" صبا ہمیشہ کی طرح زیادہ دیر انکار نہ کر سکی۔

٭٭



واشنگ مشین میں سے کپڑے نکالتے ہوئے صبا کے منہ سے سی کی آواز نکلی۔ بھاری تولیہ نکالتے ہوئے ناخن ٹوٹ گیا تھا اور اب ایک طرف سے ماس کے ساتھ جڑا تکلیف دے رہا تھا۔

"صبح سے شام ہو گئی کپڑے نہیں دھلے " احسن کی آواز کچن کے دروازے سے آئی۔

اس نے ناخن کو ماس سے کھینچ کر الگ کر دیا۔

پچھلے صحن میں کپڑے دھوتی صبا نے سنی ان سنی کی مگر ساس کی کراری آواز پر کپڑے چھوڑ کر کھانا دینے آنا پڑا۔

"ایک سے دو کام ہو جائیں تو یہاں سب کچھ چوپٹ ہو جاتا ہے ۔ اے ہم بھی تو تھے جو دس دس بچوں کے ساتھ سارا گھر سنبھالتے تھے ۔"

"ہونہہ سارا گھر۔۔۔۔، کہاں وہ تین مرلے کا گھر (اس نے سسرال کا آبائی گھر ابھی پچھلے دنوں ہی دیکھا تھا) اور کہاں یہ تین کنال کی کوٹھی، جسے صاف رکھنے میں بندے کی عمر گزر جائے ۔"

"ماسی کو بھی کپڑے دھونے والے دن ہی چھٹی کرنی ہوتی ہے ۔" وہ بڑبڑاتی ہوئی اپنے بے ڈول وجود کے ساتھ کھانا بھی رکھ رہی تھی اور ساتھ میں تازہ روٹی بھی توے پر ڈال رہی تھی۔

"تم بھی کھا لو"۔ احسن کو آٹھ ماہ پہلے ہوئی شادی کے نئے پن کا کبھی کبھی احساس ہو جاتا تھا۔

وہ توے پر ڈلی روٹی کی جلدی میں جواب دیئے بغیر کچن کی طرف لپکی۔

"ہونہہ، بہو بیگم کے مزاج ہی نہیں ملتے ۔۔۔۔" ساس کی طنزیہ آواز کانوں مین پڑی۔

"ماڈرن ہوئی ہماری بھابھی، مااااااااااڈرن۔۔۔۔۔" چھوٹی نند نے ماڈرن پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔اس کے سٹیپس میں کٹے بال اس کے ماڈرن ہونے کی دلیل تھے نا۔

ٹی وی لاؤنج سے سب کے ہنسنے کی آواز آ رہی تھی۔

غصے اور رنج کی زیادتی سے یا پھر اپنی حالت کے پیش نظر بھوک کا ایک دم غلبہ ہوا۔ اس کے روٹی بنانے تک سب کھانا کھا چکے تھے ۔ سلاد کی پلیٹ میں پیاز بچے تھے اور چٹنی بھی ختم شد۔۔۔

"اب کون اور سلاد بنائے ۔۔۔" اسنے روٹی ہاتھ میں پکڑی اور جلدی جلدی کچن میں ہی کھانا کھانے لگی۔

"ہائے بھابھی ایسی بھی کیا بھوک۔۔۔۔چٹنی تو پسی پڑی ہے ، دہی میں ہی ملانی تھی۔"

"بات لگائے بغیر تو اس چھٹکی کو بھی کھانا ہضم نہیں ہوتاَ"۔ اس نے بد مزہ ہو کر سوچا اور ہاتھ دوسری روٹی کی طرف بڑھا دیا۔

٭٭



بیٹے کی پیدائش نے اسے سب کچھ بھلا دیا۔ چھلہ نہا کر جب وہ سسرال واپس آئی تو کام پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چکے تھے ۔

کام کے لئے ایک جز وقتی ملازمہ تھی مگر ساس کی اجازت کے بغیر وہ کسی اور کام کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی۔کام کا زور بڑھتا گیا اور اسے اندازہ بھی نا ہوا کہ کہاں اس کا اثر ہو رہا ہے ۔

سسرال کا ماحول میکے کے ماحول سے فرق تھا۔ اس کے میکہ میں سب جاب کرتے تھے اس لئے ایک روٹین کے ساتھ کام ہوتا تھا۔ سسرال کاروباری تھے اور مختلف پروڈکٹس کا سپلائی کا کام کرتے تھے ۔ دن بارہ بجے سے پہلے نہیں ہوتا تھا اور مردوں کی رات، خاص کر کے اس کے شوہر کی ایک بجے سے پہلے نہیں ہوتی تھی۔

پہلا ایک سال شوہر سے گھر جلدی آنے کی بحث کے بعد وہ اب سمجھوتہ کر چکی تھی۔

٭٭



آج وہ بہت دنوں کے بعد گھر سے نکلی تھی۔

" دو بچوں کے ساتھ زندگی اتنی بھی آسان نہیں۔" اس نے بمشکل اپنا وجود رکشہ سے باہر نکالا۔

ٹیلر کی دوکان پر پہنچ کر دونوں بچوں کو بینچ پر بیٹھا کر وہ ٹیلر کو ڈیزائن سمجانے لگی تبھی اس کی نظر ساتھ میں کھڑی خاتون پر پڑی۔

"نسرین، آپ۔۔۔"

" صبا تم۔۔۔۔۔"

دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کے ساتھ ملیں۔

"بھئی تم نے تو دنیا سے الگ ہی شادی کروائی، جاب بھی چھوڑ دی اور ملنا جلنا بھی۔"نسرین نے گلہ کیا۔

"ہاں بس ایسا ہی ہے ۔۔۔۔" صبا نے جھینپ کر کہا۔

" صائمہ وغیرہ تو سب ملتی ہیں، ایک تم ہی میاں بچوں کو پیاری ہو گئیں۔" نسرین جتنی دیر کھڑی رہی گلہ کرتی رہی۔

٭٭



صبا کا موڈ گھر آنے تک کافی خوشگوار رہا۔ واپسی پر بچوں کو آئس کریم بھی لے دی اور گھر کے لئے بھی خریداری کی۔ سارا راستہ وہ شادی سے پہلے جاب کے دنوں کو یاد کرتی رہی۔

پرانی یادوں کا سلسلہ کئی دن چلتا رہا کہ ایک دن اس کو نسرین کی کہی بات یاد آ گئی۔

"تم بہت بدل گئی ہو"۔

"بھلا کیسے ۔۔۔۔" اس نے سر جھٹکا۔

"آئینے سے پوچھو۔۔۔" اندر کہیں سے آواز آئی۔

آئینے کے آگے کھڑا ہونا قیامت ہو گیا۔ آئینے میں صبا نہیں نسرین کھڑی تھی۔ روکھے بال، بے رونق چہرہ، بے ہنگم وجود، ٹوٹے ناخن، پھٹے ہاتھ اور ایڑیاں۔۔۔۔۔

وہ کتنی ہی دیر گم صم کھڑی رہتی کہ پیچھے سے بیٹے کی آواز آئی۔

"امی یہ کمپیوٹر نہیں چل رہا۔۔۔۔"

٭٭



آج کل وہ ایک عجیب بے چینی سے دوچار تھی۔ حقیقت کا سامنا کرنا بہت تلخ تھا۔ کیسے وہ یہاں تک پہنچ گئی، کیسے وہ خود سے لا پرواہ ہو گئی۔ اپنے وجود سے الجھن ہونے لگی۔

چھوٹی چھوتی باتیں یاد آنے لگیں۔ کسی زمانے میں وہ ایکسرسائز اور یوگا کے بغیر اپنے کمرے سے نہیں نکلتی تھی اور کہاں شادی کے بعد اس سے وقت پر اٹھنا ہی محال ہو جاتا تھا۔ بھلا رات دو بجے سونے والا صبح چھ بجے کیسے اٹھے ۔۔۔۔۔

کوئی وقت تھا کہ وہ ہفتے میں ایک دن پراٹھا کھانے کے بعد سارا دن صرف سلاد پر ہی گزارا کرتی تھی مگر اب تو جو ہاتھ لگتا تھا کھا جاتی تھی۔بھوک تھی کہ ختم ہی نہیں ہوتی تھی، اطمینان تھا کہ میسر ہی نہیں آتا تھا۔۔۔۔

سارا گھر پراٹھوں کا شوقین تھا اس لئے ڈبل روٹی باقاعدہ آنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ وہ بھی ڈٹ کر کہاتی، شوہر کا بچا اس کی پلیٹ میں، بچوں کا بچا بھی اس کے مقدر میں۔۔۔۔

ساس کو فرج کو تالا لگانے کی عادت تھی۔ دودھ، دہی، پھل تالے میں رہتے تھے ۔ شروع شروع میں اس نے اپنے لئے تردد کیا پھر آہستہ آہستہ سب چھٹنے لگ گیا۔ اب اتنی پابندی نہیں تھی مگرعادتیں بدل چکی تھی۔

اب تو بچوں پر غصہ ہوتا تو وہ کھاتی، احسن سے جھگڑا تو وہ کھاتی، سسرال میں مسئلہ تو وہ کھاتی، آئینے میں اپنا آپ برا لگتا تو مزید کھاتی۔۔۔۔

٭٭



"شاید کھانے کا تعلق اندر کے اطمینان سے ہے ۔" اس نے فلسفیانہ انداز میں سوچا۔

" تم اتنی جاہل تو نہیں ہو جو یہ نا جانتی ہو کہ جو لوگ اپنے حالات، اور خود سے مطمئن ہوں انہیں خوراک سے مطمئن ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہم میں سے زیادہ تر عورتیں تو اسی لئے ہی زیادہ کھاتی ہیں کیونکہ ہم کمپلکس میں مبتلا ہوتی ہیں۔"

بیٹی کے رونے نے اس کی توجہ کھینچ لی۔دونوں بہن بھائی کمپیوٹر کے لئے لڑ رہے تھے ۔

اس نے دونوں کو الگ کیا اور ٹی وی کے آگے بٹھا دیا۔

اور خود کمپیوٹر پر آ کر بیٹھ گئی۔ پچھلے کچھ مہینوں سے اسے کمپیوٹر کا نیا چسکا لگا تھا۔بہن نے اسے ایک اردو ویب سائٹ بتائی تھی جہاں اردو افسانے اور ناول پڑھ سکتے تھے ۔اس کے سسرال میں کتاب کا تصور ایسے ہی تھا جیسے خلائی مخلوق کا۔۔۔

وہ پچھلے چھ ماہ سے اس ویب سائٹ پر جا رہی تھی۔ شروع میں تو وہ صرف ناول افسانے پڑھتی رہتی تھی مگر اب کچھ عرصے سے وہ گفتگو والے تھریڈ بھی دیکھنے لگ گئی تھی۔

"اُف یہ عورتیں ہر موضوع پر کیسے آرام سے بول لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان میں سے کچھ تو سب کو کھری کھری بھی سنا لیتی ہیں۔" اس نے رشک سے سوچا۔

"تم بھی ایسی تھی بلکہ ہو۔۔۔" اندر سے آواز آئی۔

"نہیں میں کہاں۔۔۔مجھ سے تو ایک جملہ بھی سیدھا نہیں لکھا جا سکتا۔۔۔"۔

"مگر وہ تم ہی تھی نا جو سب کے کام جھٹ پٹ کر دیتی تھیں۔۔تقریر لکھنی ہو تو تم۔۔۔۔ٹیسٹ بنانے ہو تو صبا۔۔ پچاس ساٹھ لوگوں کے لئے سوئیٹ ڈش بنائی تھی۔۔۔۔یاد ہے نا۔" کوئی کان کے قریب سرگوشی کر رہا تھا۔

اس نے خاموشی سے افسانہ پر تھینک یو کا ٹیب دبایا اور لاگ آف ہو گئی۔

٭٭



"اگر کام نا بنا تو۔۔۔۔" اس نے ٹائپ کرتے ہوئے رک کر سوچا۔

"تو پھر کیا۔۔۔۔۔ یہاں کونسا کسی کو پتا ہے ۔۔۔۔ بس ایک اور ناکامی میرا مقدر بن جائے گی۔۔۔"۔ اس نے کچھ آس، کچھ مایوسی سے سوچا اور ساتھ میں سینڈ کا بٹن دبا دیا۔

٭٭



"اُف یہ کیا۔۔۔۔ مجھے تو اس کی توقع نہیں تھی۔۔۔۔ واقعی۔۔۔ نہیں۔۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔" وہ ابھی تک حیران تھی۔

٭٭



احسن بہت دنوں سے اسے نوٹ کر رہا تھا۔ بہت پر سکون رہنے لگ گئی تھی وہ۔

"کیا چکر ہے بھئی۔۔۔۔" آخر اس سے رہا نا گیا تو اس نے پوچھ ہی لیا۔

وہ بے اختیار ہنس پڑی۔

"جب میں پریشان ہوں تو آپ نے کبھی نہیں پوچھا۔۔۔مگر میرا اطمینان آپ کو پریشان کر رہا ہے ۔" اس نے لا پرواہی سے کمپیوٹر بند کر دیا۔

جب صبا نیچے چلی گئی تو اس نے خاموشی سے کمپیوٹر آن کیا۔ ہسٹری چیک کی تو ایک ہی ویب سائٹ بار بار نظر آئی۔۔۔۔کوئی اردو کی ویب سائٹ تھی۔۔۔۔ اس نے اسپر کلک کیا۔ صبا لاگ آف ہو کر نہیں گئی تھی۔ وہ آدھے گھنٹے سے زیادہ ادھر ادھر دیکھتا رہا کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی۔ میسیج چیک کئے وہاں بھی کچھ نہیں تھا۔ پوسٹ چیک کیں۔۔۔کوئی پوسٹ نہیں تھی اور نا ہی تھریڈ۔

"یہ کیا مسئلہ ہے ۔" احسن الجھا۔ صبا کی آواز پر وہ جلدی سے بستر پر آگیا۔ صبا نے ایک نظر کمپیوٹر پر ڈالی اور پھر ہنس کر اس کی طرف دیکھا۔

"آپ رات کے دو دو بجے دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر آتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ مارکیٹوں کی نکڑوں پر کھڑے ہو کر ہر آتی جاتی عورت کو تاڑتے ہیں۔ میں نے تو کبھی شک نہیں کیا۔۔۔۔ مگر آپ کو کمرے میں پڑے کمپیوٹر پر اعتراض ہے ۔۔۔" وہ کھلکھلا کر ہنسی اور باتھ روم میں گھس گئی۔

٭٭



"میرا ڈیڑھ دو ماہ کا ٹیور ہے ۔۔۔۔"احسن نے ہمیشہ کی طرح سرسری انداز میں بتایا۔

"ٹھیک ہے ، میں پیکنگ کر دوں گی۔" اس نے مصروف سے انداز میں جواب دیا۔ نظریں اب بھی کمپیوٹر کی سکرین پر جمی تھیں۔ ساتھ جانے کا اصرار تو کب کا چھوڑ دیا تھا۔

"یہ ڈیڑھ دو ماہ کا عرصہ تو میرے لئے بہترین موقع ہو گا۔۔۔" اس نے دل میں سوچا، چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

احسن نے جل کر دوسری طرف کروٹ لے لی۔

٭٭



احسن نے دو ماہ بعد گھر میں قدم رکھا تھا۔ اس بار وہ بغیر بتائے آیا تھا۔ پتا نہیں وہ کیا دیکھنا چاہتا تھا۔ سہہ پہر کا وقت تھا۔ ڈرائینگ روم سے آہستہ آہستہ باتوں کی آواز آ رہی تھی۔

وہ دبے قدموں ٹی وی لاؤنج سے ہوتا ہوا ڈرائینگ روم کے دروازے میں آ کھڑا ہوا۔ ایک تیرہ چودہ سال کی لڑکی اس کو دیکھ کو بوکھلا کر کھڑی ہو گئی۔ باقی بھی چوکنا ہو گئی۔سب کے آگے کتابیں پڑی تھیں۔ "یہ تو محلے کی بچیاں ہیں"

" السلام علیکم احسن، آرام سے بیٹھو ارم، یہ آپ کے انکل احسن ہیں۔" صبا نے اسے سلام کرتے ہوئے بچی کو بیٹھنے کو کھا۔

سب بچیوں نے اسے یک آواز سلام کیا۔ بچیوں کی تعداد شاید پانچ تھی۔ اتنی دیر میں اس کے بچے اس سے آ کر لپٹ چکے تھے ۔

اس نے بے سمجھی کے ساتھ بیوی کو دیکھا پھر بیٹی کی طرف متوجہ ہو گیا۔

٭٭



اسے آئے ہفتہ گزر گیا تھا۔ سب کچھ بدلا بدلا تھا خاص طور پر صبا۔ بہت سوچ بچار کے بعد اسے احساس ہوا کہ صبا پہلے سے کافی پتلی لگ رہی ہے ۔اس کے لئے یہ حیرت کا ایک جھٹکا تھا۔

"ایک دوسرے کو دیکھنا تو شاید ہم نے برسوں سے چھوڑ دیا تھا۔۔۔" اس نے خود کو ملامت کی۔

اس رات بچوں کے سونے کے بعد اس نے صبا کو گھیر ہی لیا۔۔۔

" بس ہونا کیا تھا۔۔۔مجھے بس ایک دم سے احساس ہوا کہ میں گھر کے کاموں میں الجھ کر نا آپ کو ٹائم دے رہی ہوں اور نا ہی بچوں کو پوری توجہ دے پا رہی۔۔۔" صبا نے سرسری سا جواب دیا۔

" مگر تم نے تو ویٹ بھی لوز کیا ہے ۔۔۔" احسن کے لہجے میں کرید تھی۔

"اچھا۔۔۔واقعی۔۔۔ ارے وہ کچھ دن مجھے بخار رہا تو سب کھانا پینا چھوٹ گیا تھا نا۔۔۔ فون پر نہیں بتایا کہ آپ پریشان ہو ں گے "۔فاطمہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا، جانتی تھی کہ اس کو کبھی پرواہ نہیں رہی۔

"اور وہ بچیاں۔۔۔۔" احسن آنکھیں چراتے ہوئے بولا۔

"اصل میں ہمدانی بھائی کو بچیوں کو گھر سے باہر ٹیوشن کے لئے بھیجنا پسند نہیں۔۔۔ پہلے بھی ماہین تمکین مجھ سے میتھ اور انگلش کی مدد کے لئے آتی رہتی تھیں۔۔۔اس بار زیادہ مسئلہ ہوا تو باقاعدہ آنے لگ گئی۔ ان کی دیکھا دیکھی آصفہ بھابھی نے اپنی بیٹی اور بھانجی کو بھیج دیا۔ انکار کرنا اچھا نہیں لگا۔ سوچا آپ سے پوچھ کر باقاعدہ ٹیوشن کی حامی بھر لوں گی، نہیں تو امتحانوں کے بعد جواب دے دوں گی۔"

"ویسے ہمدانی بھائی تو ہزار دو ہزار کی بات کر رہے ہیں ایک بچی کے لئے ۔۔۔" صبا نے پیسوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھا، آخر کاروباری بندے کو پیسہ دیکھا کر ہی قائل کیا جا سکتا ہے ۔

" تمھارا کمپیوٹر کا شوق چل رہا ہے ابھی۔۔۔۔" احسن اب مطمئن ہو چلا تھا اس لئے لیٹتے ہوئے بولا۔

" میں کیا اور میرا شوق کیا۔۔۔۔بس مفت میں رسالے ناول مل جاتے ہیں تو پڑھ لیتی ہوں۔۔۔۔۔" صبا نے بھی اسی کے لہجے میں جواب دیا۔

٭٭



صبا نے ایک نظر ساتھ سوئے احسن پر ڈالی اور چپکے سے باہر نکل آئی۔ ابھی اسنے کل کا ڈائیٹ اور ایکسرسائز کا سکیجوئل پرنٹ کرنا تھا، ساتھ میں اس افسانہ بھی ای میل کرنا تھا۔ مہینہ پہلے اس نے ڈرتے ڈرتے ایک اردو ویب سائٹ کو ایک تحریر بھیجی تھی۔چند دن بعد جب اس کا افسانہ وہاں پوسٹ ہو گیا اور ساتھ میں ہی بیس پچیس لوگوں کے تھینکس اور آٹھ دس تبصرے آئے تو وہ کئی دن حیرت کے سمندر میں غوطہ زن رہی تھی۔ مگر اب وہ نا حیران تھی نا پریشان۔۔۔۔ اسے اپنی ذات کا یقین مل گیا تھا اور اب اس نے اک رسالے کے لئے بھی تحریر لکھنی تھی۔۔۔۔


ذات کا یقین



ذات کا یقین کیا ہے ؟ جب میرے ابو مجھے گود میں اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ "یہ تو میری جان ہے " اور جب امی کہا کرتی تھیں کہ " یہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے " تو مجھے لگتا تھا کہ یہ زمین آسمان میری دسترس میں ہیں۔

جب میرے اساتذہ میری کاپی پر سٹار بنا دیتے تھے تو مجھے لگتا تھا کہ میں نے دنیا فتح کر لی ہے ۔ جب میری دوستیں میری تعریف کرتی تھیں تو لگتا تھا کہ زندگی میں میرا کوئی مقصد ہے ۔

پھر میری ذات کا یہ یقین کہیں گم ہو نے لگا۔ لوگ مجھے کہنے لگے کہ عورت وہی اچھی جو اپنا آپ مار دے ۔۔۔ماں وہی لائق تحسین جو اپنی ذات کے آگے اپنے بچوں کو رکھے اور اپنے آپ کو ہار دے ، بیوی وہی بہترین جو اپنی وفا کو ثابت کرنے کے لئے اپنے آپ کو مٹا دے ۔

میں نے سوچا کہ میں ہر جگہ میدان مارتی آئی ہوں، یہاں کیسے پیچھے ہٹ جاؤں۔ مگر مجھے پیچھے ہٹنا پڑا۔۔۔۔۔۔کیونکہ میں نے اپنا آپ مار دیا، اپنا آپ ہار دیا، اور اپنا آپ مٹا دیا تھا۔

بھلا جب میری ذات ہی نا رہی تو میں جیت کیسے سکتی تھی، میں میدان کیسے مار سکتی تھی؟؟؟

مگر اس کا ادراک ہونے میں مجھے برسوں لگے ، مجھے آئینہ دیکھنا پڑا!

اب میں کہتی ہوں کہ عورت وہی اچھی جو سر اٹھا کر عزت اور آن کے ساتھ چلے ، ماں وہی اچھی جو اپنی ذات کا گمان اور اعتبار اپنے بچوں کو دے ، اور بیوی وہی بہترین جو اپنی ذات کے عزم سے شوہر کو مضبوط کرے ۔

مجھے اپنی ذات کا یقین مل گیا ہے اور یہی یقین میرے گھر کو گھر بنائے گا!

٭٭٭



ہار جیت



رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے جب میں نے گاڑی گھر کے باہر کھڑی کی- گھر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا- اس کا مطلب ہے سب سو گئے ، میں نے سوچا- لاک کھول کر اندر آئی- جب میں نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو دیکھا کہ میرا بیٹا،جو اس وقت پانچویں میں تھا، اپنے کپڑوں کا خانہ کھنگال رہا ہے - میں نے حیرت سے اسے دیکھا- اس نے مجھے سلام کیا- میں نے جواب کے بعد پوچھا،" ابھی تک کیوں جاگ رہے ہو آپ"-وہ اپنی مصروفیت میں گم ہو کر بولا" کل spelling bee ہے ، کپڑے ڈھونڈ رہا ہوں"۔" مگر آپ نے تو تیاری نہیں کی تھی"- میری بات کا جواب دینے کی بجائے وہ بولا کہ آپ نے ضرور آنا ہے - "آپ مجھے اس وقت بتا رہے ہو، مجھے اپنی باس کو فون کرنا پڑے گا"- اس کا چہرہ اور آواز رونے والی ہو گئی،"آپ نے ضرور آنا ہے مجھے نہیں پتا"۔

میں بہت دنوں سے اسے تیاری کا کہہ رہی تھی مگر وہ اپنے ازلی لا پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے نظر انداز کرتا آ رہا تھا- اور اب وہ جذباتی ہو رہا تھا اس بات کے لئے جس کی اسے پچھلے تین ہفتوں سے پرواہ بھی نہیں تھی- کھا نا کھاتے ہوئے میں اس کے بدلتے موڈ کے متعلق سوچتی رہی- یہ بچہ بھی مجھے کسی نا کسی مسئلے میں الجھائے رکھتا ہے - میں نے بستر پر لیٹتے ہوئے اس پر ایک نظر ڈالی- صبح کی صبح دیکھی جائے گی-

صبح وہ مجھ سے پہلے اٹھ کر تیار ہو چکا تھا اور کاغذ ہاتھ میں لے کر سپیلنگ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا- میں نے اسے کہنا چاہا کہ میرے کہنے پر تیاری نہیں کی تو اب اتنی تھوڑی سی دیر میں کیا ہو سکتا ہے - ٹپیکل ماؤں والا انداز، مگر میں اپنے طنزیہ فقرے کو اپنے اندر ضبط کرتے ہوئے تیار ہونے چلی گئی- دل میں اس کے جیتنے کی خواہش جاگ اٹھی تھی، جو کے نا ممکن نظر آ تا تھا- "اللہ میاں آج میرے بیٹے کو ایک چھوٹی سی کامیابی دے دے "، میں نے دل سے دعا کی-

باس کو فون کیا تو اس نے بغیر کسی اعتراض کے چھٹی دے دی-روز روز چھٹی نا کرنے کا فائدہ۔۔۔۔۔ بیٹی کو اس کے سکول چھوڑ کر گاڑی بیٹے کے سکول کی طرف موڑ دی- وہ اب بھی سپیلنگ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا- میرے دل میں عجیب سا احساس جاگا-کاش! پھر اسے ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے کہا کہ اگر وہ کامیاب نا ہو سکا تو کوئی بات نہیں- مقابلے میں حصہ لینا اہم ہے جیتنا نہیں- شاید میں خود کو تسلی دے رہی تھی-

اس نے حیران ہو کر مجھے دیکھا- "اماں میں تو alternate ہوں- اگر finalist کسی وجہ سے حصہ نہ لے سکا تو پھر میں اس کی جگہ حصہ لوں گا"- میرا دل کیا اپنا سر کسی چیز میں دے ماروں اور ساتھ میں اسے بھی دو لگا دوں- ضبط کرتے ہوئے میں نے اس سے کہا تو پھر مجھے چلنے کو کیوں کہا- اس نے جن نظروں سے میری طرف دیکھا، اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش نہ رہی- "یا اللہ کیا ہمیشہ ایسا ہوتا رہے گا کہ وہ کسی کے جگہ چھوڑنے کے انتظار میں رہے گا؟"

بیٹھنے کے لئے میں نے اپنے لئے پچھلی قطاروں میں سے ایک چنی- بچے سٹیج پر آنے لگے تو میری حیرت کی انتہا نا رہی جب میرا بیٹا سب کے ساتھ سٹیج پر آیا جبکہ alternates کو سائیڈ پر بٹھایا گیا تھا- پتا چلا کہ میرے بیٹے کی کلاس سے فائنلسٹ بیمار ہو گیا ہے اور اس کی جگہ میرا بیٹا حصہ لے رہا ہے - مزید حیران ہونے کا موقع نا ملا اور مقابلہ شروع ہو گیا-

پہلا راونڈ- میرے ہاتھ پسینے سے بھیگنے لگے - احمد جواب دے کر دوسرے راؤنڈ کے لئے کوالیفائی کر گیا- دوسرا راؤنڈ، اب میرے ماتھے پر بھی پسینہ آ گیا- تیسرا راؤنڈ، میرے ہونٹوں پر اس کے لئے دعائیں تھی- چوتھا راؤنڈ، ایک کے بعد ایک سٹوڈنٹ مقابلے سے باہر جانے لگا- پانچواں راؤنڈ، میری آنکھیں نم ہونے لگی- وہ اب تک مقابلے میں ہے -اب میں اسے نہیں سن رہی، بس دونوں ہاتھ آپس میں جکڑ کر اللہ سے دعا مانگ رہی ہوں- اندر ہال میں، میں نے سن گلاسز لگا لی ہیں- میری آنکھیں بار بار گیلی ہو رہی ہیں- وہ ایک لفظ پر لڑکھڑایا۔۔۔۔ میں پوری کی پوری ڈول گئی- وہ سنبھلا۔۔۔۔ میری سانس بحال ہوئی-

مقابلے میں شدت آ گئی ہے اور میری دعاؤں میں بھی- "اللہ میاں پلیز"، میں نے ہاتھ باندھ دیے ، "میں اسے جیتتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں"- میں یہ تو جانتی ہوں کہ جیتنا سب کچھ نہیں مگر میں یہ سمجھ نہیں رہی- میں مضطرب ہوں مگر وہ اطمینان سے ہے - وہ سکون سے ہر لفظ کے ہجے بتا رہا ہے ، میں بے سکونی سے پہلو بدل رہی ہوں-مجھے احساس بھی نہیں اور صرف دو بچے مقابلے میں رہ گئے ہیں-

آخری لفظ، آر یا پار!

میرے بیٹے نے مقابلہ جیت لیا!اٹھارہ راؤنڈ اٹھارہ صدیاں تھیں میرے لئے - سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا- میری آنکھوں سے نمکین پانی نکل کر میرے ہونٹوں پر رک گیا ہے -میں اسے فخر سے دیکھ رہی ہوں-

آہستہ آہستہ میں اور میرے احساسات نارمل حالت پر واپس آ رہے ہیں-حقیقت کا ادراک بہت جان لیوا ہوتا ہے -مجھ پر منکشف ہوا، یہ اہمیت اس کی جیت کی نہیں تھی- یہ میری جیت تھی جو اہم تھی-میں یہ سب دعائیں اس کے لئے نہیں مانگ رہی تھی- یہ سب دعائیں تو میرے اپنے لئے تھیں، ان مقابلوں کے لئے جو میں زندگی بھر ہارتی آئی تھی- میں نے اسے اپنی جگہ کھڑا کر دیا تھا، وہ میرے جوتوں میں کھڑا تھا، وہ میرے لئے لڑ رہا تھا-

مقابلہ اس نے نہیں میں نے جیتا تھا!

٭٭٭







سوال؟





کیا کبھی آپ سے کسی نے سوال کیا، کیا کبھی آپ نے کسی سے سوال کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جنوری کی ایک یخ بستہ صبح تھی-دھوپ میں تمازت نام کو نہیں تھی اور ویسے بھی ابھی صبح کے ساڑھے سات بجے تھے - میں نے اپنی عقل پر ماتم کرتے ہوئے گاڑی فری وے پر ڈالی- حسب معمول فری وے کہر کی لپیٹ میں تھی- یہاں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے ، شہر میں دھوپ بھی ہو تو سردیوں میں اکثر فری وے کہر میں لپٹا رہتا ہے - کوئی سائنسی وجہ ہو گی، میں نے کوفت سے سوچا-

ہفتے کا دن تھا- ابھی ٹریفک زیادہ نہیں تھی مگر کچھ میرے جیسے سرپھرے گھر سے نکلے ہوئے تھے - مجبور یا سر پھرے ! ایک نئی سوچ ذہن میں آئی کہ تم کونسا خوشی سے اس وقت گھر سے نکلی ہو- ہاں ابھی تو سکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں بھی ختم نہیں ہوئی- ابھی جب میں نے آنے سے پہلے اپنی سوئی ہوئی بیٹی کو خدا حافظ کہہ کر ماتھا چوما تو اس نے مجھے بہت خفا نظروں سے دیکھا، جیسے کہہ رہی ہو آج بھی جا رہی ہو- شکر ہے وہ نیند میں تھی ورنہ سوالوں کا لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا- بیٹے کو اس کا خیال رکھنے کا کہا، مگر وہ تو خود بچہ ہے ! کہر بڑھ رہا تھا- ذہن میں سے فضول خیالات کو جھٹکا اور سڑک پر توجہ دی- اب ریور سائیڈ کی فری وے میں ضم یعنی mergeہونا تھا-مجھے یہ بھی ایک مرحلہ لگتا ہے ،دیو ہیکل ٹرکوں کے درمیان سے جگہ بناتے ہوئے ٹریفک میں شامل ہونا-

یہ تو آپ کو بتایا نہیں کہ میں اس وقت گھر سے باہر کیوں نکلی-آج نیا سمسٹر شروع ہو رہا تھا- پہلے دن کمیونیٹی کالج میں پارکنگ ملنی بہت مشکل ہوتی ہے اور ویسے بھی یہ مین کیمپس تھا جہاں میں پہلی بار کلاس لے رہی تھی۔ پہلے دن کلاس ڈھونڈنے میں بھی کچھ ٹائم لگتا-

فری وے سے نکل کر جب مین روڈ پر آئی تو دھوپ چمک رہی تھی- پارکنگ بھی آسانی سے مل گئی- کار میں بیٹھنے سے بہتر ہے کے کلاس ڈھونڈ لی جائے - یہ سوچ کر میں کمپس کی طرف چل پڑی- کیمپس ڈئیریکٹری کے مطابق کلاس آس پاس ہی تھی- جب کلاس کے حدود اربع کی تسلی ہو گئی تو فوراَ خیال آیا کہ کیفیٹیریا سے کافی لی جائے - ساتھ میں ہنسی بھی آئی کہ جیسے ہی اور مسئلے ختم ہوتے ہیں بندے کو پیٹ کی فکر لگ جاتی ہے -

سیڑھیاں اتر کر آئی تو سامنے سنگی بنچ پر ایک عورت بیٹھی تھی،میرے جیسے ملگجے سے حلیے میں- اب اتنی صبح کپڑوں کی کسے فکر ہوتی ہے ، دیکھ کر اطمینان ہوا کے میرے جیسے اور بھی علم کے دلدادہ ہیں۔۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔ مجبوری کا نام شکریہ!

بظاہر اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بھی میں نے سر ہلا کر اس کی مسکراہٹ کا جواب دیا اور کیفے کی طرف رخ کیا۔ جب اچانک ہی اس عورت نے بڑی انہونی سی بات کی۔۔۔۔ یہ میرے ساتھ ایسی جگہ پر اس حلیے میں پہلی بار ہوا- اس نے مجھے سردی کی شدت سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا "do you have some change for coffee". اپنی حیرانی سے زیادہ غصے پر قابو پاتے ہوئے میں جلدی سے کیفے میں داخل ہو گئی-

ایسی جگہ بھی جان نہیں چھوڑتے - یہاں پڑھنے آئی ہے یا پیسے مانگنے ، پیسے لے کر ضرور نشہ کرے گی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سوچتے ہوئے میں کافی مشین کی طرف بڑھی-

مگر اب ذہن میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ ٹھنڈ تو بہت ہے ۔۔۔۔ شاید اس کی کوئی مجبوری ہو۔۔۔۔ کیا پتا صرف بس میں آنے جانے کے پیسے ہوں- کیا پتا۔۔۔۔۔۔۔؟ذہن میں بہت سے سوال ایک ساتھ دوڑے چلے آئے - ہمارے نبی پاک صلٰی اللہ والٰہ وسلم نے تو کہا تھا کہ سوالی کو کبھی خالی ہاتھ نہ واپس بھیجو چاہے وہ گھوڑے پر ہی کیوں نا سوار ہو- اور میں اس کی ایک ادنا امتی اتنی متکبر۔۔۔۔۔ مگر پتا نہیں وہ کون تھی؟ ایک اور سوال۔۔۔۔ تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے –اللہ تو اس کو عزیز رکھتا ہے جو اس کے بندوں سے پیار کرتا ہے - یہ تو کہیں نہیں کہا کے مسلمان ہی ہوں- ذہن اور دل دونوں میں کھلبلی مچ گئی- کاش کے وہ میرے باہر جانے تک وہاں بیٹھی ہو- اللہ ایک موقع اور دے دے ۔۔۔۔ میں نے بڑی عاجزی سے دعا کی-

کارڈ چارج کروا کر کیش بیک لیا اور جلدی سے باہر آئی- وہ وہیں بیٹھی تھی مگر اب اس نے مجھے نظر انداز کیا- میں نے مٹھی میں دو ڈالر دبائے اور جلدی سے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا- اس نے میری شکل دیکھی، میں نے اپنے جوگرز پر نظریں جمائیں اس سے کہا" اس وقت میرے پاس چینج نہیں تھا۔" اور پیسے دے کر جلدی سے وہاں سے ہٹ گئی- پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہیں تھی کہ کہیں اس کے چہرے پر تشکر کے جذبات میری انا کو بلند اور اس کی کو مجروح کر دیں- اپنے پیچھے مجھے کیفے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی-

کیا کبھی آپ سے کسی نے سوال کیا، کیا کبھی آپ نے کسی سے سوال کیا۔۔۔۔؟ مارچ کا دوسرا ہفتہ چل رہا ہے -آج موسم خوشگوار ہے اور ہوا اچھی لگ رہی ہے - سمسٹر ختم ہونے والا ہے مگر میری الجھن نہیں۔۔۔۔ لوگوں، چیزوں، واقعات اور اپنا تجزیہ کرتے رہنا بھی ایک بری عادت ہے ۔۔۔۔ ذہن میں وہ واقعہ اٹک کر رہ گیا ہے ۔کوئی بات بے مقصد نہیں کوئی واقعہ بے سبب نہیں۔ آخر کوئی تو توجیہ ہو گی اس بات کی۔

آج پھر ہفتے کا دن ہے اور مجھے جانے کی جلدی- فون کی گھنٹی بج رہی ہے - اماں پاکستان سے بول رہی ہیں اور بہت اداس ہیں- حال احوال کے بعد کہا " تم نے اس سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔"- میرا جواب حسب معمول" نہیں" تھا۔ "کیوں؟" سوال کیا گیا-" بس آپ کو پتا ہے مجھ سے زبردستی کسی سے کچھ کہا نہیں جاتا، آخر انہیں بھی تو نظر آتا ہے "۔ اماں ناراض ہو گئیں اور کچھ اور کہہ سن کر فون بند کر دیا۔ اماں اور میری بحث کئی مہینوں سے چل رہی ہے ۔ اب انہیں پتا تو ہے میری عادت کا، پھر بھی۔۔۔۔ میں نے لمبا سانس لیا۔ میں نے تو کبھی اماں سے پاکٹ منی نہیں مانگی تھی تو یہ تو پھر۔۔۔۔ بہت سے نا مکمل خیالات ذہن کو الجھا گئے ۔۔۔۔

گھر سے نکلی تو وہی فری وے ، وہی راستہ۔یہ میرا سوچنے کا ٹائم ہوتا ہے (جب میں فری وے پر ڈرائیو کرتی ہوں)، جاب، کالج، اور بچوں کی فکر سے آزاد،چند منٹوں کے لئے میں اپنے ساتھ تنہا وقت گزار پاتی ہوں۔۔۔۔ اپنے ساتھ تنہا وقت گزارنا کبھی میرا محبوب مشغلہ ہوتا تھا۔ اب اس عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اب اس دوران مجھے مسائل کا حل، سوالوں کے جواب،باس سے چھٹی کا کہنے کے لئے مناسب الفاظ، آگے کی پلیننگ، غرض ہر چیز کے بارے میں سوچنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ میں کار میں میوزک نہیں لگاتی، میری سوچ منتشر ہو جاتی ہے ۔

میری الجھن کی سلجھن بھی اسی فری وے پر ہی کہیں موجود ہے ، میں نے لین بدلتے ہوئے سوچا۔ میں چیزوں کے ہونے نا ہونے پر سوچ بچار کرنے لگی۔ واہ! اس فری وے نے مجھے فلاسفر بنا ڈالا۔۔۔۔ مجھے ہنسی آ گئی۔ کلاس کی طرف جاتے ہوئے کیفیٹیریا کے طرف چور نظروں سے دیکھنا میرا ہر ہفتے کا معمول ہے ۔ پچھلے کئی ہفتوں کی طرح آج بھی وہ بینچ خالی ہے ۔ اگر وہ سٹوڈنٹ تھی تو پھر نظر کیوں نہیں آئی۔ میں تو ہر ہفتہ کی صبح ایک مخصوص وقت پرہی یہاں سے گزرتی ہوں۔ آخر وہ کون تھی اور کہاں گئی؟ ہر بار کی طرح وہی ایک سوال میرے سامنے آ کھڑا ہوا!

"وہ میری آزمائش تھی، مجھے تنبیہ تھی"، ذہن میں جھماکا ہوا۔ پھر دوسرا موقع کیوں دیا گیا؟کہتے ہیں کبھی اللہ دے کر آزماتا ہے ، کبھی لیکر۔ مجھ پر اللہ مہربان ہے اس لئے دے کر آزما رہا ہے ، دکھا کر آزمایا رہا ہے ۔ مجھ پر رحم کیا گیا، مجھے دوسرا موقع دیا گیا!مجھے کہنے میں شرم آتی ہے ۔ مجھ سے مانگا نہیں جاتا۔۔۔۔کیا اماں ٹھیک کہتی ہیں کے مجھے اپنی انا کا علم بلند رکھنا پسند ہے ۔۔۔۔ مجھے جھکنا نہیں آتا۔۔۔۔مجھ میں اور اس عورت میں کیا فرق تھا؟میں نے خود سے سوال کیا۔ "صرف ایک کُن کا" جواب آیا!

صرف ایک کُن کی دیر ہوتی ہے جو انسان کو خود دار سے منگتا بنا دیتی ہے اور فخر کوشرمساری میں بدل دیتی ہے ۔ پھر عزت نفس، خود داری، انا، قابلیت، حسب نسب، سب پیچھے رہ جاتا ہے ۔ ضرورت سوال بن کر منہ پر آ جاتی ہے اور ہاتھ کٹورا بن جاتا ہے ۔ صرف ایک کُن کا فرق؟ نہ عقل، نہ شکل، نہ لباس، نہ ڈگریاں،نہ قومیت، نہ مذہب، یہ صرف اللہ کا کرم ہے جو میں یہاں کھڑی ہوں دینے والے ہاتھ کے ساتھ نہ کے لینے والے ہاتھ کے ساتھ۔۔۔۔۔ میں سنگی بینچ پر جا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ میں نے ہتھیلی پھیلا کر ہاتھ میں الجھی ہوئی لکیروں کے جال کو غور سے دیکھا اور سوچنے لگی ۔۔۔۔ کیا میں تقدیر کو مات دے سکتی ہوں۔۔۔۔ کیا میں مقدر بدل سکتی ہوں۔۔۔۔ کیا میں اس جگہ بیٹھ کر اپنا نفس اور انا مار سکتی ہوں کیا مجھے سوال کرنا آسکتا ہے !

٭٭٭

ٹھہر جا اے پل، ٹھہر جا!



"ابھی تو گھنٹہ ہے ۔" تیار ہونے کے بعد میں نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور مطمئن ہو کر چابی، پرس، اور راستے کی مفصل ہدایات اٹھا کر گھر سے باہر نکل آئی۔ کار میں بیٹھ کر میں نے ایک بار پھر سے بغور ہدایات کو پڑھا۔ گو کہ میں دو بار پہلے بھی وہاں جا چکی تھی مگر ابھی تک راستوں سے شناسائی نہیں ہو پا رہی تھی۔

"ابھی کافی وقت ہے ۔" گاڑی گھر سے نکالتے اور فری وے تک آتے آتے میں نے کوئی دس بار گھڑی پر نظر ڈالی۔ اوائل ستمبر کی یہ صبح قدرے خوشگوار تھی مگر دھوپ آنکھوں میں چبھ رہی تھی۔ میں نے دھوپ کا چشمہ سر سے اتار کر آنکھوں پر لگا لیا اور فری وے کی تیز رفتار ٹریفک میں ڈرتے ڈرتے شامل ہو گئی۔ پہلے تین میل کے سفر کے بعد اچانک ہی ٹریفک کی رفتار سست ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ تقریباً ساکن ہو گئی۔

"یہ تو یہاں کا معمول ہے اور میرے پاس وافر وقت۔۔۔۔صرف پچیس منٹ کا ہی تو راستہ ہے !" میں نے خود کو تسلی دی۔

پچھلے چار ماہ میں، میں نے کوئی کم و بیش چالیس سے پچاس خالی آسامیوں کے لئے درخواست بھر چکی تھی اور یہ دوسری بار مجھے کسی انٹرویو کے لئے بلایا گیا تھا۔

"یہاں اپنی مرضی کی پہلی نوکری ڈھونڈنا ایک بہت بڑا معرکہ ہے ۔ اس کے بعد سب کچھ آسان ہو جاتا ہے ۔" میرے کانوں میں سٹیفنی بریڈلی کی آواز گونجی۔ وہ ایک سوشل ورکر تھی۔

"صرف معرکہ۔ ہونہہ!۔۔۔۔یہ تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے !" میں نے تلخی سے سوچا۔میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں اپنے سابقہ تجربے کے پیش نظر کسی تعلیمی ادارے میں کام کرنا چاہتی تھی اور موجودہ حالات میں مجھے یہ ناممکن نظر آ رہا تھا۔

بہت کوشش کے بعد جب میں ہمت ہارنے لگی تو گلوریا ہرننڈز نے مجھے کہا، "جب تک ٹیچر کی جاب نہیں ملتی، ٹیچر اسسٹنٹ کی جاب کر لو۔ اس طرح تمھیں پاؤں رکھنے کی جگہ مل جائے گی،آگے قدم جمانا تمھارا کام ہے ۔" اس نے مزید اضافہ کیا "دیکھو جب کسی سکول ڈسٹرکٹ میں جاب کرنے لگو گی تو لوگ تمھیں پہچاننے لگ جائیں گے ، پھر آگے بڑھنا آسان ہو جائے گا۔۔۔۔افسوس کے اس وقت ہمارے پاس کوئی آسامی نہیں ہے ۔ تم صرف عارضی ٹیچر اسسٹنٹ کی جاب کر سکتی ہو یہاں۔" اور میں پچھلے چند ماہ سے وہی کر رہی تھی مگر اب مستقل نوکری ڈھونڈ رہی تھی۔ ایسے میں گلوریا کی راہنمائی نے مجھے ایک نیا راستہ دکھایا تھا۔

گلوریا جو ایک سکول ڈسٹرکٹ میں ہیومن رسورسز میں ایک اہم عہدے پر فائز تھی، نے میرے ایک فون کے بعد مجھ سے ملاقات کی تھی اور یہاں کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلی بتایا تھا۔ پہلی بار جب میں گلوریا سے ملی تو حیران رہ گئی۔ ایسے لگا جیسے ہمارے پنڈ کی کوئی عورت انگریزی بولنے لگ گئی ہو۔ دور سے دیکھنے والے شاید گلوریا کو میری ماسی یا پھپھی سمجھ رہے ہوں گے ۔ بڑی بڑی کتھئی آنکھوں اور سانولی رنگت والی گلوریا کے آباء و اجداد یقیناً ہسپانوی ہوں گے ، اور شاید میرے بھی۔۔۔۔کیا پتا!

"ابھی تو کافی وقت ہے ، مگر یہ ہوا کیا ہے ! رش آورز تو گزر چکے ، پھر اب کیا ہوا ہے ؟" میں نے جھنجھلا کر سوچا، جس کا جواب مجھے دور سے آتی سائرن کی آواز سے ملا۔ "یہ قوم بھی عجیب ہے ، فری وے کے ایک طرف حادثہ ہو تو دوسری طرف بھی ٹریفک رک جاتی ہے ۔" میں نے مخالف سمت میں گزرتی سست رفتار ٹریفک پر ایک نظر ڈالی۔ اب میں ریورسائیڈ کے اوپر سے گزرنے والے فلائی اوور تک پہنچ چکی تھی۔

"کیا تھا جو مجھے یہاں قریب ہی جاب مل جاتی!" میں نے مکانوں، دفتروں، اور دکانوں کی چھتوں پر ایک نظر ڈالی اور کھڑکی تھوڑی سی کھول دی۔ گاڑی اشتہا انگیز خوشبوؤں سے بھرنے لگی تھی۔ گیارہ بجے کے بعد لنچ آوورز شروع ہو چکے تھے ۔ میں نے توجہ ہٹانے کے لئے فری وے سے نیچے ، سڑکوں کے کناروں پر لگے درختوں کو گننا شروع کر دیا۔ ایک قطار میں کھڑے یہ پام کے درخت یہاں بدرجہ اتم موجود تھے ۔ پتا نہیں کیوں ان کی اونچائی دیکھ کر ہمیشہ مجھے رعونت اور کروفر کا ہی احساس ہوتا تھا جیسے انہیں اپنے ہونے کا احساس ہو!

اب ٹریفک مکمل طور پر رک چکی تھی اور مجھے اس سڑک کا سائن بھی دور سے نظر آ رہا تھا جہاں ریور سائیڈ کاؤنٹی آف ایجوکیشن کا آفس تھا اور جہاں میں نے پچھلے چار ماہ میں تقریباً پچیس کے قریب خالی آسامیوں پر درخواست دی تھی۔ جب مجھے وہاں سے کوئی جواب نہ ملا تو تین مہینے کے طویل انتظار کے بعد ایک دن میں نے وہاں فون کیا جس کا مجھے کوئی واضح جواب نہ ملا۔ پھر ایک دن تنگ آ کر میں ان کے آفس پہنچ گئی۔ رابطہ افسر ایک سفید فام عورت تھی۔ بظاہر وہ آرام سے میری بات سن رہی تھی مگر مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ مجھے سخت ناپسند کر رہی ہے ۔ مگر میری مجبوری نوکری تھی اور مجھے اس کے رویے کی قطعی پروا نہیں تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ "پچیس درخواستوں میں سے کسی ایک پر بھی غور کیوں نہیں کیا گیا جبکہ میری قابلیت کا معیار اس سے زیادہ ہی ہے جو آپ مانگ رہے ہیں۔"

"وہ بس، ہاں ابھی ہم غور کر رہے ہیں۔۔۔۔کچھ آسامیاں تو ختم کر دی گئی ہیں اور کچھ کے لئے پھر سے اشتہار دیا گیا ہے ۔۔۔۔تم پھر سے اپلائی کرو۔" یہ کہہ کر وہ فون اٹھا کر کسی سے بات کرنے لگ گئی تھی یعنی میرے جانے کا وقت ہو گیا تھا۔ میں وہاں سے مایوس ہو کر اٹھ آئی تھی۔

"تمھیں درخواست بھرتے وقت محتاط ہونا پڑے گا۔" بھائی نے مجھے دبے لفظوں میں کہا تھا۔ میں نے حیران ہو کر بھائی کی طرف دیکھا تھا اور ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی تھی۔

"اب تک دو ہی باتیں تو میرے لئے فخر کا باعث ہیں۔۔۔۔ایک میرا دین اور دوسرے میری قومیت۔" میں نے سر جھٹک کر سوچا تھا اور ہر درخواست کے قومیت کے خانے میں خود کو پاکستانی ایشئن لکھتی رہی جبکہ یہ ضروری بھی نہیں تھا۔

"اور شاید یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے میری راہ میں۔" میں کچھ مایوس ہونے لگی تھی کہ ریورسائیڈ سے مجھے انٹرویو کا بلاوا آگیا مگر وہاں جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے اس آسامی کے انٹرویو کے لئے بلایا گیا تھا جس پر مجھے ریجیکٹ کرنا سب سے آسان تھا۔

اور اس کے بعد مجھے اس دوسرے انٹرویو کی کال آئی تھی اور مجھے بارہ بجے سے پہلے پہلے وہاں پہنچنا تھا۔ یہ نوکری کم از کم تیس منٹ کے فاصلے پر تھی۔ یہاں میں نے چھ خالی آسامیوں کے لئے درخواست دی تھی اور مجھے پہلی درخواست کے جواب میں ہی کال آ گئی تھی۔ ہر کام صحیح ہونے کے باوجود بھی کسی احمق ڈرائیور کی لا پرواہی کی وجہ سے میں یہاں پھنسی بیٹھی تھی۔ میں نے اکتا کر گھڑی کی طرف دیکھا۔

"یہ کیا۔۔۔۔!" مجھے اپنا سانس اٹکتا ہوا محسوس ہوا۔ "انٹرویو میں صرف آٹھ منٹ ہیں اور ابھی کم از کم بیس منٹ کا راستہ پڑا ہے ۔۔۔۔اب کیا ہو گا؟ کیا کروں اب۔۔۔۔اتنی مشکلوں سے ایک موقع ملا اور وہ بھی صرف اس وجہ سے ضائع ہو جائے گا۔۔۔۔" میری آنکھوں سے نمی باہر نکلنے کو بے چین ہو گئی جسے میں نے بمشکل روکا۔ "نہیں مجھے رونا نہیں ہے ۔۔۔۔اگر کاجل پھیل گیا تو باقی کا تاثر بھی خراب ہو جائے گا۔" میں نے خود کو سرزنش کی۔

"مگر اب میں کیا کروں۔۔۔۔اب کیا ہو گا۔۔۔۔" میں نے بے بسی سے چیونٹی کی رفتار سے سرکتی ہوئی ٹریفک کو دیکھا۔

"یا اللہ تو وقت کی رفتار کو روک دے ۔۔۔۔تو اس پل، اس لمحے کو امر کر دے ۔۔۔۔"ایک آنسو چپکے سے گالوں پر لڑھک آیا تھا۔ مجھے نہ تو احساس ہوا نہ ہی پونچھنے کا وقت ملا۔ ٹریفک کی رفتار میں تیزی آ رہی تھی۔

"اب کیا فائدہ!" میں نے مایوسی سے سوچا اور جگہ بنا کر لین تبدیل کی۔

گاڑی کو پارکنگ میں روکتے ہی میں تیزی سے پرس اٹھا کر ہیومن ریسورسز کے آفس کی طرف بڑھی۔ ریسپشنسٹ نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بیٹھنے کو کہا۔ ابھی بیٹھے چند سیکنڈ ہی ہوئے تھے کہ ایک سفید بالوں والی اچھی عمر کی عورت مجھے انٹر ویو کے لئے لینے آ گئی۔ اس نے مسکرا کر اپنا تعارف کروایا۔

"مارے گئے ۔۔۔۔سفید فام اور وہ بھی جرمن نام کے ساتھ۔" قسمت کے اس مذاق پر مجھے ہنسی آئی۔ اندر کمرے میں ایک اور سفید فام خاتون موجود تھی۔ وہ اپنے نام سے آئرش لگ رہی تھی۔ آج کل میں ایسے تکے لگانے میں عبور حاصل کرتی جا رہی تھی۔ "شاید اسے ہی "racial profiling*" کہتے ہیں،" میں نے سوچا۔

"اپنے بارے میں کچھ بتاؤ؟" پہلا سوال پوچھا گیا۔ میں نے تعلیم سے لے کر اپنے مختلف تجربات کی تفصیل بتائی۔ دونوں مجھے مسکرا کر دیکھتی رہیں۔ دوسرا سوال بہت غیر متوقع تھا۔

"کیا تم ثمرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کی رشتہ دار ہو؟ میرا اور اس کا لاسٹ نیم ایک ہی تھا۔

"ثمرت کون؟" میں نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔

"ہمارے ہائی سکول میں انگریزی کی ٹیچر ہے !"

"نہیں وہ نام سے انڈین لگتی ہے ، ہمارے لاسٹ نیم اکثر ایک سے ہوتے ہیں۔" جواب دینے کے دوران ہی مجھے اپنی حماقت کا احساس ہو گیا تھا۔

"تم کہاں سے ہو؟"

"پاکستان سے ۔۔۔۔" میں نے خود کو پر سکون رکھتے ہوئے جواب دیا۔ اب وہ دونوں آپس میں کوئی بات کر رہی تھی۔

"کب سے کام شروع کر سکتی ہو؟" پھر پہلے والی نے مجھ سے سوال کیا۔

"جب آپ کہیں، اگلے ہفتے سے ۔۔۔۔" اگر میرے لہجے میں چھپی حیرت کو انہوں نے محسوس کیا بھی تھا تو چہروں سے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔

"اچھا تو ٹھیک ہے ۔۔۔۔تمھیں اگلے ہفتے تک لیٹر مل جائے گا، پھر ایک دن کی تعارفی ٹریننگ ہو گی اور اس کے بعد تم کام شروع کر سکو گی۔" پہلے والی نے اٹھتے ہوئے کہا اور ساتھ میں ہاتھ ملانے کے لئے بڑھایا۔ میں دونوں سے ہاتھ ملا کر باہر نکل آئی۔ فرنٹ آفس میں بیٹھی ریسیپشنسٹ نے مجھے مسکرا کر دیکھا۔ میں اپنی کیفیت کے زیر اثر اسے بمشکل خدا حافظ کہہ پائی۔ باہر نکلنے سے پہلے دیوار گیر آئینے پر میری نظر پڑی۔ میری ایک آنکھ کا کاجل پھیلا ہوا تھا، مگر شرمندہ ہونے کی بجائے میں ہنس پڑی۔ پھر آئینے کے اوپر لگی گھڑی کو حیرت سے دیکھا تھا میں نے ۔

"لگتا ہے بیٹری بدلنے والی ہے ۔" میں زیر لب کہہ کر باہر نکل آئی۔

سیڑھیوں پر ایک لمحے کو رک کر آسمان پر نظر ڈالی۔ اکا دکا بادل سورج کو ڈھانپنے کی ناکام سی کوشش کر رہے تھے مگر ہوا میں ٹھنڈک بڑھانے کا باعث ضرور تھے ۔ کیاری میں لگے کاسنی، سفید، اور پیلے پھول اس مٹیالی سی پرانی عمارت کو خوشگواریت عطا کر رہے تھے ۔ یہ پرانا سا شہر جدیدیت سے دور، وقت میں کہیں پیچھے رکا محسوس ہوا مجھے ۔ خاموش سڑک کا سکون اکا دکا گاڑیاں توڑ رہی تھی۔

میں سرشاری کے عالم میں گاڑی میں آ بیٹھی۔ ایک ہاتھ سے سیل فون کو آن کیا اور دوسرے سے گاڑی کو۔ سیل فون پر ٹائم دیکھ کر تعجب ہوا۔ اپنی حیرانی کو رفع کرنے کے لئے گاڑی کی گھڑی اور پھر کلائی پر بندھی گھڑی کو چیک کیا۔ میں سناٹے میں آ گئی۔ میں نے ایک پل کو آنکھیں بند کر کے کھولیں اور پھر سے وقت دیکھا۔ فری وے پر آخری بار گھڑی دیکھنے سے اب تک صرف پچیس منٹ کا وقت گزرا تھا۔ میں چند لمحے ساکت بیٹھی رہی، پھر کاجل پھیلنے لگا۔ میرا ہاتھ اپنی شہہ رگ پر آ کر رک گیا، جو پوری شدت سے اپنے ہونے کا پتادے رہی تھی!

٭٭

Racial profiling* کسی کے رنگ اور نسل کی بنیاد پر امریکہ میں پولیس ایک خاص رویہ اختیار کرتی ہے جسے غیر منصفانہ گردانا جاتا ہے ۔

٭٭٭



ماخذ:



https://amnasurdu.wordpress.com/category/%D8%A2%D9%BE-%D8%A8%DB%8C%D8%AA/

https://amnasurdu.wordpress.com/category/%da%a9%db%81%db%8c-%d8%a7%d9%86-%da%a9%db%81%db%8c/



تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید