صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ:سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات (قرۃ العین حیدر)

(مجموعے ’روشنی کی رفتار‘ سے)

سب سے پہلے میں ربّ الارباب اور عیسیٰ ابن اللہ کی حمد و ثنا کرتی ہوں جس نے مجھے مردوں میں سے جگایا اور اب دو بارہ روزِ محشر تک سُلانے والا ہے اور اپنے کردہ اور نا کردہ گناہوں کا اقرار کرتی ہوں اور بخشش کی طالب ہوں۔ خدائے قدوس تو خوب واقف ہے میں لاعلم تھی کہ یہ کون سی صدی ہے، کون سا سال۔ کون سا مہینہ اور دن۔ میں اپنے کھلے تابوت میں خوابیدہ تھی جب ترے کسی فرشتے کا روپہلا پر میری ہڈّیوں سے ٹکرایا اور میں اٹھ بیٹھی۔ میری کھوپڑی پائینتی پڑی تھی نیچے ہاتھ بڑھا کر اُسے اٹھایا۔ اس کی گرد جھاڑی اور گردن میں فٹ کیا۔

گھپ اندھیرا تھا۔ کھوپڑی غلط فٹ ہوئی تھی اور مجھے آگے کی بجائے پیچھے دکھائی دینے لگا۔ بہ مشکل اسے ٹھیک سے لگایا۔ الٰہی رب کریم میں اعتراف کرتی ہوں کہ اس لمحے میری اولین آرزو یہ تھی کہ آئینے میں دیکھوں کیسی لگتی ہوں۔ چاروں طرف نظر ڈالی۔ اس تاریک بوسیدہ زمین دوز حجرے میں سات آٹھ سنگی تابوت ہڈیوں اور کھوپڑیوں سے لبریز دیواروں سے لگے رکھے تھے۔ مجھے بہت ڈر لگا۔ میں اپنے تابوت کے کنارے بیٹھی خوفِ خدا سے لرز رہی تھی کہ اچانک کھڑکی روشن ہوئی اور وہ سیلانی فرشتہ پھر نمودار ہوا۔ کہنے لگا۔ ’’میں اپنی تسبیح یہاں بھول گیا۔ تم کون ہو؟‘‘

’’سینٹ فلورا سا بینا آف جارجیا۔‘‘

’’خدا کی برکت ہو تم پر۔‘‘ اس نے جواب دیا اور تسبیح ڈھونڈنے میں جُٹ گیا۔

کہکشاں کے ستاروں سے بنی وہ تسبیح مجھے ایک تابوت کے پیچھے پڑی نظر آ گئی۔ میں نے فوراً کہا ’’ضیاء گستر پیارے فرشتے۔ اگر وہ تسبیح ڈھونڈ دوں تو مجھے کیا دو گے؟‘‘ وہ بے حد پریشان اور سراسیمہ نظر آتا تھا۔ کم سن فرشتہ تھا۔ کہنے لگا۔ ’’مجھے سینٹ پیڑ کے دفتر میں ایک ایک دانے کا حساب دینا پڑتا ہے۔ میں ایک بھلکڑ فرشتہ ہوں۔ اسی بھلکڑ پن کی وجہ سے مجھے ستّر ہزار برس تک ایک Trainee فرشتہ رہنا پڑا۔ اب جا کر مجھے اپنا ہالہ عطا کیا گیا ہے۔‘‘ اس نے فخر و مسرت سے اپنے نور کے ہالے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’لیکن اب میں نے اپنی تسبیح گنوا دی۔‘‘

’’کیا دو گے؟‘‘

’’کیا چاہتی ہو؟‘‘

’’میں جواں سال مری تھی۔ انیس برس کی تھی جب میرے باپ نے مجھے سوریا کے ایک کانونٹ میں بند کر دیا۔ اگلے پچیس برس میں نے خانقاہوں میں محبوس رہ کر گزارے۔ میں ذرا دنیا دیکھنا چاہتی ہوں۔ اور اچھے کپڑے پہننے کی آرزو مند ہوں۔‘‘

’’میں تم کو گوشت پوست اور خون عطا کرنے کا مختار نہیں۔ ایسا صرف روزِ قیامت ہو گا۔ فقط ایک سال تک ذی روح رہنے کی اجازت دلوا سکتا ہوں۔ تسبیح لاؤ۔‘‘

’’پیارے کرم کار فرشتے۔ میرا خشک پنجر ایک سال تک اس اجنبی دنیا میں تنہا کس طرح اور کہاں مارا مارا پھرے گا۔ کسی دل چسپ مردے کو میری دوسراتھ کے لیے زندہ کر دو‘‘۔

’’دل چسپ مردہ کیسا ہوتا ہے؟‘‘

’’میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘

’’اچھا۔ پہلے تسبیح لاؤ۔‘‘

’’نہیں۔ پہلے ایک اور مردہ زندہ کرو۔ کہو قم باذن عیسیٰ۔۔۔‘‘

’’جب تم خود ولیہ ہو تو کیوں نہیں ایک عدد معجزہ دکھاتیں۔‘‘ اس نے جھنجھلا کر کہا۔

’’میں ایسا نہیں کر سکتی۔ اس کی ایک ٹیکنیکل وجہ ہے۔ کہو قم۔۔۔‘‘

فرشتہ دو زانو جھک کر مصروف دعا ہوا۔ دفعتاً میرے پہلو کے تابوت میں کھڑکھڑاہٹ شروع ہو گئی۔ اور دوسرا ڈھانچہ اٹھ بیٹھا۔ فرشتے نے مجھ سے کہا۔ ’’صرف سال بھر کے لیے آئندہ سال یہی مہینہ یہی تاریخ اور یہی وقت ساڑھے گیارہ بجے رات۔۔۔ اس کو بھی اچھی طرح سمجھا دینا۔ مجھے دیر ہو رہی ہے خدا حافظ۔۔۔‘‘

میں نے تسبیح اٹھا کر اسے دی اور وہ پھر سے غائب۔ زمین دوز ہڑواڑ میں اب پھر اندھیرا تھا۔ لیکن میں خوف زدہ نہیں تھی۔ دوسرے ڈھانچے نے تابوت میں بیٹھے بیٹھے دایاں پنجہ اس طرح بڑھا کر سرہانے کچھ ٹٹولا گویا عادتاً جاگنے کے بعد شمع جلا کر کتاب اٹھانا چاہتا ہو۔ میں نے جلدی سے اسے مخاطب کیا اور پورا واقعہ گوش گذار کیا اور اپنا نام بتایا۔ ’’سینٹ فلورا سابینا آف جارجیا۔۔۔‘‘

’’فادر گریگری اور بیلیانی آف جارجیا۔‘‘

’’خدا کی برکت ہو تم پر مقدس باپ۔‘‘

’’آپ ولیہ ہیں۔۔۔؟‘‘ فادر گریگری گھبرا کر تابوت سے نکلا اور میرے سامنے گھٹنے ٹیکنے چاہے۔ لیکن لڑکھڑا کر گر گیا۔ اس کے گھٹنوں کی چپنیاں بے انتہا بوسیدہ ہو چکی تھیں۔ میں نے خدایا تجھ سے دعا مانگی کہ اے دو جہاں کے مالک اگر تو نے مجھے ایک سال کے لیے یہ Escort عطا کیا ہے تو اسے ایک ثابت و سالم و معقول پنجر بنا دے۔ فادر گریگری فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ کھڑکی میں سے تیز سرد ہوا اندر آ کر ہماری ہڈیوں کو کاٹے ڈال رہی تھی۔

اس نے کہا۔ ’’بہت سردی ہے۔ پہلے الاؤ کا انتظام کیا چاہئے۔‘‘

’’اگر کہیں سے چقماق مل جائے۔‘‘ میں بولی۔ اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ جہاں پائن کے جھنڈ سائیں سائیں کر رہے تھے۔

’’فادر ادھر آ جاؤ۔ ورنہ کام ہو جائے گا۔‘‘ میں نے تشویش کے ساتھ کہا۔ وہ آ کر اپنے تابوت کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ میں کھڑکی بند کرنے کے لیے اٹھی۔

کھڑکی کا ایک پٹ ٹوٹ کر گر چکا تھا۔ دوسرے پٹ کی طرف ہاتھ بڑھانے کے لیے باہر جھانکا۔ پہاڑی کے عین نیچے چوڑا دریا بہہ رہا تھا۔ جو کوہستان قفقاز سے نکل کر بحیرہ اسود میں گرتا تھا۔ مجھے یاد آ گیا میں اس پہاڑی والی خانقاہ میں کئی برس رہ چکی تھی پھر اس دریا پر ایک شان دار چہار منزلہ سفید رنگ کا جگمگاتا محل نمودار ہوا۔ اور ایک مہیب آواز۔۔۔

صورِ اسرافیل۔۔۔

میں فوراً سجدے میں گر گئی۔ اور بہت افسوس ہوا کہ دنیا میں سال بھر رہنے کی بھی مہلت نہ ملی۔ دوبارہ صورِ اسرافیل۔۔۔

سہ بارہ۔۔۔

تب فادر گریگری کھڑکی میں آیا۔ اور باہر جھانک کر مجھ سے کہا۔ ’’مقدّس ولیہ۔۔۔ یہ ایک دخانی جہاز ہے۔ اور اپنا سائرن بجاتا ہے۔ اٹھو۔‘‘

میں کھڑی ہو گئی اور باہر جھانکا۔ نیچے دریا کے کنارے ایک خیمہ گاہ نظر آئی جس میں جگہ جگہ الاؤ جل رہے تھے اور ساز بجائے جا رہے تھے اور ہنسی اور قہقہوں کا شور۔ خداوندا میرا جی چاہا کہ میں بھی جا کر اس جشن میں شامل ہو جاؤں۔ تب فادر کی آواز نے مجھے چونکایا جو کہہ رہا تھا۔ ’’آؤ باہر چل کر آگ تلاش کریں۔‘‘

ہم دونوں ٹٹولتے ٹٹولتے اس سردابے سے نکل کر ایک سرنگ میں پہنچے جس کی سیڑھیاں اوپر باغ میں کھلتی تھیں۔ دروازے پر جھاڑیاں اور گھاس اگی ہوئی تھی۔ ڈیزی کے تختے لہلہا رہے تھے۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، درنٹے کی جھاڑیاں پھلانگتے باغ میں آئے جس کے سامنے ایک بڑا چرچ استادہ تھا اور اوک اور پائن کے جھرمٹ۔ ایک درخت کے نیچے کاغذی پلیٹیں گلاس اور نیپکن پڑے نظر آئے۔ میں لکڑیاں چُننے لگی۔ فادر نے اس کاٹھ کباڑ کو اکٹھا کیا۔

ایک ڈبیا ملی اس میں تیلیاں سی تھیں۔ فادر نے ایک تیلی ڈبیا پر رگڑی۔ آگ پیدا ہوئی۔ فادر نے کہا۔ ’’یہ ماچس ہے۔ کوئی پکنک منانے والی ٹولی یہاں چھوڑ گئی۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ ہم نے الاؤ جلا کر تاپنا شروع کیا۔

’’خدایا۔ میں چغلی نہیں کھاتی مگر ولی شمعون کی قسم۔ اس لمحے میں نے دیکھا فادر گریگری اور بیلیانی کے نتھنوں سے دھواں نکل رہا ہے۔ میں بے طرح گھبرائی۔ دھوئیں کے مرغولوں کے پیچھے ایک منّا سا انگارہ اس کے منہ میں روشن تھا۔ الٰہی۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ دھواں اور آگ کی لپٹیں صرف اخوان الشیاطین کے منہ سے نکلتی ہیں۔ میں نے فوراً تیری صلیب کا نشان بنایا اور سوچا کہ یقیناً کوئی بد روح اس کے پنجر میں آگھسی ہے۔ یا بھلکڑ فرشتے کی غلطی ہے جس نے کسی عابد و زاہد کے بجائے کسی خبیث۔۔۔ ۔۔۔

اچانک فادر ہنسنے لگا اور بولا۔ ’’ڈرو مت۔ یہ سگریٹ کہلاتا ہے۔ جو سیاح یہاں پکنک کے لیے آئے تھے ماچس کے ساتھ ایک پیکٹ سگریٹ بھی یہاں بھول گئے۔ مجھے ابھی پتّوں میں پڑا ملا۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ یہ شے سگریٹ کہلاتی ہے اور اسے جلا کر منہ سے دھواں اگلتے ہیں۔ یہ صریحاً ایک طاغوتی، ابلیسی فعل ہے۔۔۔‘‘

فادر نے نرمی سے سمجھایا۔ ’’بی بی فلورا۔۔۔ امریکن سائنسدانوں نے حال ہی میں ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جسے رات کو سر پر فٹ کر کے انسان سو جاتا ہے اور سوتے میں اس آلے کے ذریعے مختلف علوم ذہن نشین کر لیتا ہے۔ کیا تم اس قادر مطلق کی قدرت پر شک کر سکتی ہو جس نے ساڑھے تیرہ سو برس کی طویل نیند کے دوران اُس مردابے میں مجھے آج تک کے متعدد علوم اور جدید زبانوں اور دوسرے معاملات سے آگاہ کر دیا۔ ایک حد تک تم خود بہت سی باتوں سے واقف ہو چکی ہو۔ اس کا تجربہ تمہیں اس ایک برس میں خود ہو جائے گا بلکہ ابھی ابھی اسی لحظے سے ہوا جاتا ہے۔ ذرا کان لگا کر سنو۔‘‘

نیچے وادی میں جو ساز بج رہے تھے میں فوراً سمجھ گئی کہ وہ گٹار، بیلا لیکا، اکاڑ دین اور سیکسو فون کہلاتے ہیں اور وہ نوجوان روسی اور جارجین زبانوں کے گیت گا رہے تھے۔ پھر ہوا کے ریلے کے ساتھ وادی کی آوازیں ہمارے کانوں میں پہنچیں۔ نیچے خیمہ گاہ میں ایک نوجوان گٹار بجاتے بجاتے ایک لڑکی سے کہہ رہا تھا۔۔۔

’’نٹاشا! دیکھو اوپر بھی الاؤ جل رہا ہے۔ کچھ لوگ باگ وہاں پہلے سے کیمپنگ کر رہے ہیں۔‘‘ پھر ہوا کا رخ بدل گیا اور وہ آوازیں مدھم پڑ گئیں۔ تب فادر نے کہا۔ ’’مقدس ولیہ۔۔۔‘‘

’’اگر تم مجھے اس لقب سے مخاطب نہ کرو تو بہتر ہو گا۔ اس کی وجہ ابھی بتا دوں گی۔‘‘

’’کیا وجہ ہے؟ اچھا ٹھیک ہے۔ ہم دونوں کو سال بھر اکٹھے رہنا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ اپنا اپنا احوال ایک دوسرے کو بلا کم و کاست بتا دیا جائے۔ تاکہ آئندہ کسی غلط فہمی کا امکان نہ رہے۔ میں گرینڈ ڈیوک آف طفلس کا بیٹا تمہاری خدمت میں حاضر ہوں۔‘‘

’’الٰہی! میں One-Upmanship نہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن لا محالہ مجبوراً بتلانا پڑا کہ میرے والد سفیر بازنطیم برائے ایران ہیں۔‘‘

’’تھے۔۔۔‘‘

اس نے تصحیح کی ’’قسطنطنیہ سے شمالی گرجستان کے اس دور افتادہ پہاڑ پر کیسے آ پہنچیں۔۔۔‘‘

’’ہم جب باسفورس سے چلے‘‘ میں نے کہنا شروع کیا۔ ’’سمندر پر سکون تھا اور ہوا سازگار۔۔۔‘‘

’’لیکن باسفورس سے ایران جانے کے لیے بحیرہ اسود کا رخ کیوں۔۔۔؟ تمہارے جہاز کا کپتان پاگل تھا۔۔۔؟‘‘ فادر گریگری نے سگریٹ کا کش لگا کر میری بات کاٹی۔

’’نہیں، سنو تو، اچھا شروع سے بتاتی ہوں۔ تمہیں تو معلوم ہو گا۔ ہم بازنطینی کتنے شان دار لوگ تھے۔ قسطنطنیہ سرکاری طور پر روم ثانی کہلاتا تھا جسٹینن نے کلیسائے سانتا صوفیہ تعمیر کرنے کے بعد کہا تھا۔۔۔ خداوندا۔۔۔

میں تیرے بادشاہ سلیمان سے بازی لے گیا۔۔۔ جسٹنین، تھیوسوڈیس اور آر کیڈیس کے دور کے علوم و فنون، اولمپک کھیل۔۔۔ اور ہمارا لاثانی آرٹ۔۔۔‘‘

’’تھیوڈورا کو گول کر گئیں۔۔۔!‘‘ فادر نے چوٹ کی۔

’’خیر وہ بھی تھی۔۔۔ایک کلوپیڑا ایک تھیوڈورا۔۔۔ ان دونے ذرا علو ہمتی دکھائی تو وہ تم مردوں کے حلق سے آج تک نہ اتریں۔ خیر جب ساسانیوں نے زور پکڑا اور ہمارے صوبہ شام پر قبضہ کر کے یروشلم سے خداوند کا اصلی صلیب اٹھا کر تیسفون لے گئے ہمارا ہریکلیس ان سے لڑ بھڑ اسے یروشلم لے آیا۔۔۔ جب عربوں نے یروشلم فتح کیا تو وہ صلیب ہمارا ہریکلیس قسطنطنیہ لے آیا۔‘‘

’’طبلسی میں میں نے بھی اپنے والد کے ساتھ عرب لشکر کا مقابلہ کیا تھا۔ مگر ناکام۔ وہ دنیا کی نئی عالمگیر طاقت تھے۔۔۔ جیسے آج کل روس اور امریکہ‘‘۔۔۔ فادر اور بیلیانی نے خشکی سے کہا۔

’’ہم باز نطینی ریشہ دوانیوں کے بے حد شایق تھے اور ہمارے دربار کی سازشیں سیاسی قتل، شہزادیوں کے معاشقے، شہزادوں کے اسکینڈل، ساری دنیا میں مشہور تھے۔ عام دستور یہ تھا کہ ہمارے بادشاہوں کو ان کو ملکائیں یا بیٹے زہر دے کر مار ڈالتے تھے۔ کلیسا کا حکومت پر گہرا دباؤ تھا۔ مگر پادری لوگ خود آپس میں مذہبی مسائل میں بال کی کھال نکال کر سب کا وقت برباد کر رہے تھے۔ میرے والد اسٹیفن ہو نوریس حکومت کے ایک اہم وزیر تھے۔ والدہ آئرینا ماریا ملکہ کی خاص لیڈی ان ویٹنگ۔ بڑا بھائی الگزنڈر سلویر یس شاہی دستے کا افسر اعلیٰ۔ ہم لوگ ٹھاٹھ سے رہتے تھے۔ سارا کنبہ درباری سازشوں میں مشغول۔ بڑے مزے سے گذرتی تھی۔ تھیٹر۔ اولمپک کھیل۔ گلیڈی ایٹرز کے مقابلے۔ ہمارے پڑوسی سرجیس پیلا گیس ابّا کے گہرے دوست تھے۔ سالونیکا میں ان کے تاکستان تھے۔ بحیرہ اسود میں اپنے تجارتی جہاز چلتے تھے۔ ان کے لڑکے تھیوڈورک گیلاسس سے میری شادی ہونے والی تھی۔ وہ بے حد شکیل اور ہوش مند تھا۔ اس نے ایک دن مجھ سے کہا۔ میں بازنطیم ہائی سوسائٹی کی اس انتہائی کرپٹ زندگی میں شامل ہونا چاہتا ہوٕ۔ شادی کے بعد میرے ساتھ سالونیکا چل کر رہو۔ آرام سے اپنے تاکستان میں بیٹھ کر میں فلسفہ پڑھا کروں گا تم بربط بجانا اور کشیدہ کاری کرنا لیکن فادر میں اس ہائی لائف کی از حد شوقین تھی۔ روز شام کو والدین کے ساتھ درباری تقریبات میں جاتی۔ رقص کرتی۔ ایک سے ایک بڑھیا پوشاکیں پہنتی۔ اس وقت میری عمر صرف سولہ سال کی تھی۔ گلیڈی ایٹرز کے تماشوں پر میں جتنی عاشق تھی۔ تھیوڈورک ان سے اتنا ہی متنفر۔ کہتا ہم لوگ عیسائی ہو گئے۔ مگر رومنوں کو ان بے رحم وحشیانہ کھیل تماشوں کا شوق نہیں گیا۔ خود گلیڈی ایٹرز کے تماشائی دو مخالف فریقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ سبز پوش اور کبود پوش کہلاتے تھے اور ایک دوسرے سے کٹے مرتے تھے۔ میرے تینوں بھائی سبز پوش پارٹی میں شامل تھے۔‘‘

’’ہماری شادی سینٹ صوفیہ کے کلیسا میں بڑی دھوم دھام سے ہونے والی تھی۔ شہنشاہ میرا گوڈ فادر تھا۔ مہینوں پہلے سے میرے کپڑے سیے جا رہے تھے۔ بہترین زیورات تیار کیے گئے تھے۔ شادی سے چند دن قبل تھیوڈورک کے والد نے یہ خوش خبری سنائی کہ قیصر نے شادی کے تحفے کے طور پر تھیوڈورک کو اپنا حاجب خاص مقرر کر لیا ہے۔ یہ سنتے ہی تھیوڈورک گھبرایا ہوا میرے پاس آیا۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھی جہیز کی ایک Tapestry میں آخری ٹانکے لگا رہی تھی۔ اس نے کہا۔ غضب ہو گیا۔ میں اور قیصر کا حاجب؟ رات ہی کو بندرگاہ جا کر گال روانہ ہونے کا انتظام کرتا ہوں شادی کے فوراً بعد میرے ساتھ چپکے سے نکل چلنا۔۔۔ فادر۔۔۔ اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ تھیوڈورک ان نوجوانوں میں سے تھا جنہیں Agnostic اور ’’باغی‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘

’’فادر۔ میں ماں باپ اور بھائیوں کی لاڈلی اور بے حد ضدی لڑکی تھی۔ میں نے کہا وحشیوں کے ملک جاتی ہے میری پاپوش، میں تو یہیں رہوں گی اور تمہیں بھی یہیں رہنا ہو گا۔ اس نے کہا سنو: مجھے تمہارے شہنشاہ، اس کے خاندان، لاٹ پادری، ساری بازنطینی حکومت سے نفرت ہے۔ میں اور اس دربار کی ملازمت کروں؟ نا ممکن، ہم دونوں میں کافی تکرار ہوئی وہ بڑبڑاتا ہوا باغ کی دیوار پھلانگ کر اپنے گھر چلا گیا۔‘‘

’’فادر۔ اب خالص بازنطینی روایات کے مطابق میری والدہ کی ایک کنیز حریری پردے کے پیچھے چھپی یہ سارا مکالمہ سن رہی تھی۔ وہ بلغاری کنیز بھی در اصل حکومت کی جاسوسہ تھی اس نے جا کر سارا قصہ بادشاہ سے جڑ دیا۔ دوسرے دن تھیوڈورک کو گرفتار کرنے کا حکم خاص میرے بھائی الگزنڈر سلویریس ہی کو دیا گیا۔ ساتھ ہی تاکید کہ تھیوڈورک کو شراب میں زہر ملا کر پلا دیا جائے۔ میرا بھائی شاہی حکم کی تعمیل کے لیے تیار ہو گیا۔ ورنہ اس کو بھی قتل کر دیا جاتا۔ تب میں اسی رات کلوک اوڑھ، خنجر اور اشرفیوں کی تھیلی قباچے میں چھپا، تھیوڈورک کے مکان پر پہنچی۔

اس کے باغ کی دیوار کے عین نیچے سمندر تھا اور ہم لوگ عموماً یہیں ملا کرتے تھے۔ تھیوڈورک کو اس حکم کی اطلاع نہیں تھی، وہ خوش خوش گلاب کی کیاری پھلانگتا دیوار پر آیا۔ میں نے اسے اس منحوس خبر سے آگاہ کیا۔ وہ بھونچکا رہ گیا۔ میں نے کہا میں اپنی حماقت اور غلطی پر نادم ہوں۔ اب ساتھ چلنے کو تیار ہوں آؤ فوراً بھاگ چلیں ورنہ صبح ہوتے ہی میرا بھائی تمہیں گرفتار کر لے گا۔‘‘

’’فادر۔ جانتے ہو تھیوڈورک نے کیا کہا؟ وہ دیوار پر سے کود کر سمندر کے رخ کھڑا ہو گیا۔ بازو پھیلائے اور بولا۔۔۔ اے زر پرست، عیش پسند بازنطینی رئیس زادی۔۔۔ اس چال سے مجھے ابھی پکڑوانے آئی ہو۔۔۔؟ خدا حافظ۔۔۔‘‘

اور پانی میں کود گیا۔‘‘

’’میں ہکّا بکّا کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ اس وقت، حالانکہ میں کم عمر اور کم عقل تھی مجھے دفعتاً احساس ہوا کہ ایک فاسد، فسق پذیر معاشرے میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان کا انسان پر سے اعتبار مکمل طور سے اٹھ جاتا ہے۔ میں تھیوڈورک کے ساتھ اپنی جان پر کھیل کر بھاگنے کے لیے تیار تھی۔ ہم لوگ بلغاریہ جا سکتے تھے۔ کارپیتھین پہاڑوں میں چھپ سکتے تھے۔ کہیں بھی جا سکتے تھے۔ لیکن اس نے مجھ پر بھی شک کیا۔۔۔اور تنہا غائب ہو گیا۔‘‘

’’بعد میں سنا گیا کہ وہ گال پہنچا وہاں سے برطانیہ۔ وہ مجھے چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ خدا کرے اسے برطانوی وحشی کھا گئے ہوں۔۔۔‘‘

میں نے آنسو پونچھے۔ فادر گریگری نے نرمی سے کہا: ’’بی بی فلورا سابینا۔ برطانوی نیم وحشی ہیں۔ آدم خور نہیں۔ پھر کیا ہوا؟‘‘

’’خدا کا شکر ہے کہ والد پر عتاب قیصری نازل نہ ہوا۔ مگر حکم ملا کہ جلد از جلد قسطنطنیہ سے روانہ ہو کر تیسفون میں سفارت خانے کا چارج لیں۔ یہ بھی ایک قسم کی سزا تھی کیوں کہ شہنشاہ جانتا تھا کہ مدائن پر عنقریب عربوں کی وجہ سے آفت آنے والی ہے۔ اس میں ہم سب مارے جائیں گے۔‘‘

چنانچہ چند روز بعد ہمارے کنبے نے جہاز پر سوار ہو کر بحیرہ روم کا رخ کیا۔ سمندر پر سکون تھا اور ہوا ساز گار۔ ’’جہاز انطاکیہ کے کنارے لنگر انداز ہوا۔ ہم لوگ بندرگاہ کی مرمریں سیڑھیاں چڑھے۔ شہر کے میوزیم میں ملکہ مصر کا مرمریں پورٹریٹ دیکھا جو ایک رومن سنگ تراش نے کلوپٹرا کو اپنے سامنے بٹھا کر بنایا تھا۔ سچ کہتی ہوں فادر۔ اور میں ہرگز Catty نہیں ہوں۔ مگر کلوپٹرا قطعی حسین نہ تھی۔ نہ جانے اسے اس قدر خوب صورت کیوں مشہور کر دیا گیا ہے۔ خاصی موٹی بھدّی ناک۔ اوپر کا ہونٹ موٹا۔ نیچے کا پتلا۔ مردانہ کرخت چہرہ اسے وجیہہ اور قبول صورت ضرور کہہ سکتے ہیں۔ پری جمال ہرگز نہیں۔۔۔‘‘

’’ہم لوگ انطاکیہ سے Cyrphus وہاں سے ایڈیسہ اور نسی بس Nisibus کے راستے مدائن پہنچے۔ دجلہ کے کنارے جہاں والد نے چند روز بعد قصر خسروی میں سفارتی کاغذات شاہ دارا چشم کو پیش کیے۔ وہ تھا تو سائرس و دارا کا جانشین۔ مگر اب تک یہ لوگ بھی ہماری طرح بے حد ڈیکیڈنٹ ہو چکے تھے۔ یہاں بھی قسطنطنیہ کی طرح درباری سازشوں اور شاہی خاندان میں ایک دوسرے کے قتل خون کا بازار گرم تھا۔ اور عیش و عشرت کی فراوانی، شاہ کی گلشن سرائے میں روز جشن منعقد ہوتے۔‘‘

’’تیسفون میں ایک رومن جنرل گرویدہ ہوا۔ لیکن وہ کیتھولک۔ ہم لوگ گریگ اور تھوڈوکس۔ ابا اس سے شادی کے لیے راضی نہ ہوئے حالانکہ میں تیار تھی۔ قسطنطنیہ میں میں نے سنا تھا کہ عجمی گھنگھریالے داڑھیوں والے خشمناک آتش پرست اپنی عورتوں کو پردے میں مقید رکھتے ہیں اور بہت وحشی لوگ ہیں۔ مگر وہ ہم بازنطینوں سے بڑھ چڑھ کر مہذب، پر تکلف اور خوش ذوق نکلے۔ اور ہماری طرح خوش شکل اور وہ۔۔۔ موبدانِ موبد کافر زند۔۔۔ دستور زادہ منوچہر پیروز۔۔۔‘‘

میں کچھ یاد کر کے اداس ہو گئی۔ فادر گریگری نے کنفشن سننے والی آواز میں کہا ’’بی بی کہے جاؤ۔ میں سن رہا ہوں۔‘‘

’’فادر منوچہر۔۔۔ واقعی منوچہر تھا۔ اور اس نے میرے نام کا ترجمہ اپنی زبان میں گل بانو کیا تھا۔ وہ مجھ سے کہتا۔۔۔

گول بانو۔۔۔

گول چہرے۔۔۔

غونچے۔۔۔

گول بدون۔ پیغمبر مہ آباد کی قسم۔۔۔

’’تم نے مجھ سے شادی نہ کی تو میں دجلہ میں کود کر جان دے دوں گا۔ چلو ہم لوگ آتش بہرام کی گواہی میں چپکے سے بیاہ کر لیں۔ میں راضی ہو گئی۔ اس شام ہم دجلہ کے کنارے ایک کنج میں بیٹھے یہ اسکیم بنا رہے تھے۔ شومی قسمت۔ شاید یہاں ایک ساسانی جاسوس گلبن میں چھپا بیٹھا تھا۔ یا کیا۔ بجرے پر سوار ہو کر شام کو جب میں اپنے مکان پہنچی مجھے فوراً میری غنودگاہ میں مقفل کر دیا گیا۔ میں کبھی کم بخت تھیوڈورک کو یاد کر کے روتی کبھی رومن جنرل لوسی لیس اگینٹیس کو اور کبھی دستورزادہ منوچہر پیروز کو۔۔۔

’’تیسرے روز صبح والدہ سرخ آنکھیں لیے کمرے میں آئیں اور کہا بیٹی سفر کے لیے تیار ہو جاؤ۔ میں سمجھی شاید بازنطیم واپس جاتے ہیں۔ فوراً عرق گلاب سے منہ دھویا۔ گرمابہ میں جا کر نہائی، کپڑے بدلے۔ باہر آئی۔ لیکن مجھے دیکھ کر سب گھر والے بالکل خاموش۔ بلغاری غلام اور کنیزیں بھی۔ کچھ پتہ نہ چلا کہاں جا رہے ہیں۔ شاید سمندر میں ڈوبنے کو لیے جاتے ہوں۔ ابّا اپنی سخت گیری اور سنگ دلی کے لیے مشہور تھے۔ میں تھر تھر کانپتی دروازے سے نکلی۔ والدہ مجھ سے لپٹ کر خوب روئیں۔ مگر وہ بھی خاموش۔ کنیزوں نے مجھے کجاوے میں سوار کرایا۔ اونٹنی ہل جل کر اٹھی میں سمجھی زلزلہ آ گیا۔ چلنے لگی۔۔۔

’’ڈر لگا کہ اب گری اب گری۔ والد اور دونوں بھائی تازی گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ روز بانوں نے وہ چوبی صندوق جن میں میرے جہیز کا زر و جواہر اور طلائی اور نقرئی ظروف قسطنطنیہ سے ساتھ آئے تھے رواحل پر لادے۔ والدہ دروازے پر کھڑی روتی رہیں۔ کارواں روانہ ہوا۔ تیسفون کی شہر پناہ سے نکل کر شام کا رخ کیا۔ دمشق پہنچے۔ راستے میں جہاں جہاں فرود گاہوں میں قیام کیا والد اور بھائی چپ۔

’’مجھے اب اچھی طرح احساس ہو چکا تھا کہ ایک کافر مجوسی سے عشق کی سزا والد کے نزدیک موت سے کم تو کچھ ہو ہی نہیں سکتی۔

’’دمشق سے کافی دور جا کر ایک راس الجبل پر زیتون کے درختوں میں چھپی ایک گریک اور تھوڈوکس خانقاہ نظر آئی۔ اس کے پھاٹک پر پہنچ کر قافلہ رکا۔ ابّا نے گھوڑے سے اتر کر خانقاہ کے گھنٹے کا رسّہ تین مرتبہ ہلایا۔ کچھ دیر بعد مہیب چوبی پھاٹک چرچراتا ہوا کھلا اور ایک یونانی تارک الدنیا ضعیفہ نے جھانکا۔ چند منٹ بعد دوسری یونانی ضعیفہ ہم لوگوں کو اندر لے گئی۔ ایک بڑے کمرے میں سرد بھورے پتھروں کا فرش۔ سرد پتھریلی دیواریں۔ دیوار میں ایک چھوٹی سی کھڑکی۔ دو کھردری بنچیں۔ یہ ضعیفہ خانقاہ کی ایبس اور پہلے ایک بازنطینی شہزادی تھی۔ دوسرے کمرے میں جا کر والد نے اس سے بہت دیر تک باتیں کیں۔ پھر مجھے بلایا اور اتنے دنوں بعد پہلی مرتبہ بولے۔ کہنے لگے۔ ’’دیکھو بیٹی۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ میں تمہیں ہمیشہ کے لیے خداوند یسوع کی پناہ اور امان میں دے دوں۔‘‘

’’جی۔ ابّا۔‘‘ میں نے سر جھکا کر کہا۔ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ ’’والد دوسرے کمرے میں آئے۔ رُوز بانوں کو اشارہ کیا۔ انہوں نے اشرفیوں وغیرہ سے لبریز صندوق مدرسپریر کے سامنے رکھے۔ جو ابّا نے دستور کے مطابق بطور میرے ’’آسمانی جہیز‘‘ خانقاہ کی نذرکیے۔ اس کے بعد ابّا نے مجھے گلے لگا لیا۔ میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ آنسو ضبط کیے۔ بھائیوں نے بھی اپنی آنکھوں کی نمی خشک کی۔ اب میں یسوع کی دلہن بننے والی تھی۔ وہ تینوں، میرا باپ اور میرا بھائی میرے سامنے احتراماً دو زانو جھکے۔ اور کہا۔ ’’ہمارے لیے دعا کرنا۔‘‘ اور اٹھ کر باہر چلے گئے۔ میرا جی چاہا دھاڑیں مار مار روؤں۔ ہمت سے کام لے کر سلاخوں والی کھڑکی میں سے جھانکا۔ وہ تینوں پھاٹک سے نکلے۔ گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ سر جھکائے پہاڑی راستے پر اتر گئے۔ اور رات کے دھندلکے میں نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اور ان کے پیچھے پیچھے وہ کوتل اونٹ۔ ایک پر خالی محمل دوسرے بار برداری کے شتر جو میرے سابقہ دنیاوی جہیز کا مال متاع میرے مستقبل کی روحانی جائے پناہ میں لے کر آئے تھے اب خالی واپس جا رہے تھے۔ یونانی ضعیفہ نے باہر جا کر پھاٹک میں تالہ چڑھا دیا اور کنجیوں کا گچھا جھنجھناتی شمع ہاتھ میں لیے واپس آئی اور کہا۔۔۔

’’چلو۔۔۔‘‘

میں ایک تاریک سرد گیلری میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ وہ ایک حجرے میں داخل ہوئی۔ سرد پتھریلی دیواریں سرد فرش۔ ایک چھوٹی سی سلاخوں دار کھڑکی۔ مسہری کے بجائے چوبی تختہ جس پر بکری کی اون کا گلیم بچھا تھا۔ اس پر بھیڑ کی اون کا کھردرا لبادہ میرے لیے تیار رکھا تھا ایک تسبیح سیاہ سرہانے ایک شمع دان دیوار پر سیاہ صلیب اور موزیک کا ایک چھوٹا سا بازنطینی آئیکن۔ تپائی پر ایک سنگی پیالہ، ایک رکابی، لکڑی کا ایک چمچہ۔ بوڑھی راہبہ گیلری میں چلی گئی۔ میں نے مروارید سے مرصع ارغوانی طاس کا قباچہ اتارا۔ کھردری رِدا پہنی۔ قباچے کا بنڈل بنا کر راہبہ کو تھما دیا۔ دروازہ اندر سے بند کر کے یسوع کے آئیکن کے سامنے دو زانو جھک گئی۔‘‘ میں نے بات ختم کی۔ فادر اس اثنا میں سگرٹوں کا آدھا پیکٹ پھونک چکا تھا۔

’’اس کے بعد۔۔۔ ؟‘‘ اس نے چونک کر پوچھا۔

’’وہ بڑا پر آشوب زمانہ تھا۔ ہمارا شہنشاہ ہریکلیس مستقل عربوں سے جا بھڑتا۔ اور بری طرح ہار جاتا۔ ہمارے چند بزرگ پادریوں کا کہنا تھا کہ ہم لوگ اس قدر گمراہ اور گنہہ گار ہو چکے ہیں کہ خدا ہم سے خفا ہے۔ ہمارے تیسفون آنے سے چند سال قبل ہی وہ لرزہ خیز واقعہ ہوا تھا جب صحرائے عرب سے نکل کر دو فقیر نما ایلچی ایک بے انتہا اہم مراسلہ لے کر شاہ ایران کے پاس آئے تھے۔ جس طرح کا مراسلہ ایسے ہی درویش نما ایلچی ہمارے قیصر کے پاس لائے تھے۔ اور جیسا تحقیر آمیز سلوک اس نے ان کے ساتھ کیا تھا اسی طرح شہنشاہ خسرو پرویز نے استہزا کے ساتھ وہ خط پڑھا اور ایلچیوں کو دربار سے نکال دیا۔ اس کے چند برس بعد ہی دولت ساسانیہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہو گئی۔

’’جب ہم لوگ مدائن میں تھے وہ شاہ خسرو کے آخری جانشین کا دور تھا۔ وہ اب بھی اپنی طلائی کرسی پر پردے کے پیچھے اکڑا ہوا بیٹھا رہتا تھا۔ ’’خانقاہ میں محبوس، بیرونی دنیا سے میرا مکمل قطع تعلق ہو چکا تھا۔ کچھ عرصے بعد دمشق سے آنے والے چند پادری یہ خبر لائے کہ شاہ نے جو لشکر کچھ عرصے سے عربوں کے خلاف کلدانیہ بھیج رکھا تھا اس کے جوابی حملے میں کیلف کی فوجوں نے تیسفون ہی کا صفایا کر دیا۔ ابّا اس جنگ سے ذرا قبل قسطنطنیہ واپس بلا لیے تھے۔ شام و مصر ہمارے ہاتھوں سے نکلے۔ ایران آلِ ساسان نے کھویا۔ مجھے ابّا کی طرف سے بڑی فکر تھی۔ اور تینوں جوان فوجی بھائی۔ جانے اب ان کو کس کشتن گاہ میں بھیج دیا جائے۔ میں صبح شام دعائیں مانگا کرتی۔ عبادت کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں تھا۔

’’لیکن عجیب بات یہ تھی کہ نئی حکومت نے ہمارے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا۔ سنا گیا وہ کہتے تھے کہ وہ اپنے پروفٹ کے اس چار ٹر پرعمل کر رہے ہیں جو انہوں نے خانقاہ سنٹ کیتھرین کے راہبوں کو دیا تھا۔‘‘

’’غروب آفتاب کے بعد جب ہم میں سے کوئی راہبہ برجی کے چل چراغ میں قندیل روشن کرنے کے لیے اوپر جاتی تو لبنان اور فلسطین اور مصر کی سمت جانے والے کارواں گھنٹیاں بجاتے اپنے اپنے حدی خوانوں کی قیادت میں پہاڑی راستے پر سے گذرتے نظر آتے۔ کبھی کبھی ان میں سے کوئی آواز دیتا۔۔۔ بنی عیسیٰ روح اللہ کی امت والیو۔ تم پر سلامتی ہو۔ جواباً ہم دیر تک قندیل اٹھائے برجی میں کھڑے رہتے یہاں تک وہ ابن السبیل دھندلکے میں کھو جاتے۔

’’دمشق اور یروشلم کی عیسائی امیر زادیاں اپنی خواصوں اور غلاموں کے ساتھ ہمارے عیسیٰ کدے میں مدفون ولی شمعون کے مزار پر بیش قیمت چادریں (اولیا کے مزاروں پر چادریں چڑھانے کی رسم مسلمانوں نے قرون اولیٰ کے عیسائیوں سے سیکھی) چڑھانے آتیں اور میں بڑے رشک سے ان کی زرق برق پوشاکیں دیکھا کرتی۔ ’’ایک صبح میں چھت پر کبوتروں کو دانہ کھلا رہی تھی جب دور سے ایک قافلہ آتا دکھائی دیا۔ آگے آگے سفید گھوڑے پر ایک شہزادی سوار تھی۔ با قاعدہ سنہرا تاج سر پہ بائیں ہاتھ میں سینٹ جارج کا پرچم۔ گورنمنٹ کے دو عرب افسر گھوڑوں پر سوار اس کے دائیں بائیں آ رہے تھے۔ میں نے حیرت سے سوچا کہ کس ملک کی ملکہ ہے۔۔۔ وہ گرجستان کی شہزادی کا تنکا تناتن تھی۔‘‘

جوں ہی میں نے یہ نام لیا فادر گریگری چونک پڑا اور جلدی جلدی سگریٹ کا کش لگانے لگا۔ میں نے قصہ جاری رکھا۔

’’وہ اتنی دور دراز کی مسافت طے کر کے ولی شمعون کے مزار کی زیارت کرنے آئی تھی۔ امیر المومنین کے افسروں نے اس کو خانقاہ، تک احترام سے پہنچایا۔ بڑی البیلی شان دار، منچلی شہزادی تھی جو بانکے مسلمان شہسوار اسے پھاٹک تک چھوڑنے آئے تھے ان سے اتنی دیر تک میٹھی میٹھی باتیں کرتی رہی کہ ہم لوگ جو اس کے استقبال کے لیے نکلے تھے کھڑے کھڑے تھک گئے۔

’’ہم چار راہبات اس کی میز بانی پر مامور کی گئیں۔ شہزادی ہمارے ہاں ایک ماہ مہمان رہی۔ خانقاہ اور گرجا کو زر و جواہر نذر کیا۔ ولی کے مزار پر مشجر زربفت کی چادر چڑھائی جس کے کناروں پر یاقوت اور زمرد سے گلِ صنوبر کی بیل بنائی گئی تھی۔

’’چلتے وقت شہزادی نے ہماری ایبس سے درخواست کی کہ اس نے اپنی ریاست میں ایک نئی خانقاہ اور پرستش گاہ تعمیر کی ہے اس کی دیکھ بھال کے لیے چند تجربہ کار راہبات کو اس کے ساتھ بھیج دیں ایبس نے مجھے اور تین لڑکیوں کو حکم دیا کہ شہزادی کے ساتھ جارجیا روانہ ہوں۔ میں بہ خوشی تیار ہو گئی۔ باقی راہبات میں سے دو تو راستے میں ہی مر گئیں۔ وہ دونوں بے چاریاں قبطی لڑکیاں تھیں، راستے میں پہاڑوں کی شدید سردی برداشت نہ کر سکیں۔ تیسری لڑکی یونانی تھی۔ اس کے باپ نے اسے بھی زبردستی خانقاہ میں ٹھونس دیا تھا۔ وہ طربزون کے قریب قافلے سے بچھڑ گئی اور کہنے والے کہتے ہیں کسی عرب یا بازنطینی تاجر کے ساتھ بھاگ گئی۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔

’’اسی شہزادی نے اس پہاڑی پر یہ رباط تعمیر کروایا تھا۔ یہ سامنے والا گرجا بہت بعد میں بنا ہو گا۔ میں مرتے دم تک یہاں رہی۔ اکثر مجھے اپنے گھر والوں کی یاد آتی اور فکر ستاتی بازنطیم سے جارجیا تاجر اور پادری مستقل آیا جایا کرتے تھے۔ ان سے وہاں کی خبریں معلوم ہوتی رہتیں۔ ضوابط کے مطابق میں اپنے ماں باپ سے خط و کتابت نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ اب وہ سب میرے لیے اجنبی تھے۔ میرا رشتہ صرف خدا سے تھا۔ بازنطیم سے آنے والے پادری بتایا کرتے: قسطنطین دویم کو اس کے بیٹے تھیوڈوسیس نے قتل کیا۔ پھر اس کے بیٹے قسطنطین یوگو نے ٹس نے اپنے بھائیوں ہر قل اور ٹائی بیریس کی ناکیں ہی کاٹ ڈالی تھیں چھری سے۔ اور بے شمار پادری مصلوب کیے گئے۔

’’پھر ایک خانہ بر انداز نے جو نہ جانتا تھا کہ میں کون ہوں، باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ پچھلی خانہ جنگی میں جو قتل عام ہوا اس میں وزیر اسٹیفن ہونوریس اور اس کے تینوں بیٹے ہلاک ہوئے۔ لیڈی آئیرینا ماریہ بہت پہلے قضائے الٰہی سے گزر چکیں۔

’’اس رات میں اپنے حجرے میں رات بھر بلک بلک کر مسلسل زار و قطار روئی۔ برف کے پانی سے آنکھیں دھو کر فجر کی عبادت میں شامل ہوئی۔ اس کے بعد میں نے شجرستان اور گل کدے کے درختوں، پھول پتوں، چرندوں، پرندوں، تیتریوں سے بھی اپنا دل ہٹا لیا کہ یہ سب مظاہر قدرت کسی نہ کسی طور سے دل کو راحت بخشتے تھے۔ اور مسرت کی علامت تھے۔ محض الم۔۔۔ خالص اندوہ اور کرب میرا حصہ تھے۔ اور وہ مجھے پوری طرح ملا۔ میں گھنٹوں سجدے میں پڑی رہتی۔ مسلسل روزے رکھتی۔ ٹاٹ اوڑھ کر سر پر راکھ ڈال کر اپنے پچھلے کردہ اور نا کردہ دانستہ اور نا دانستہ گناہوں کی معافی چاہتی۔

لیکن فادر گریگری۔ ہم یونانیوں کے ہاں جو کتھارسس کا تصور ہے وہ بالکل لغو ہے۔ کتھارسس کوئی چیز نہیں۔ کرب پیہم ہے۔ خداوند مسیح کا صلیب پر سہا ہوا کرب حقیقت کی بنیادی حقیقت ہے۔‘‘

’’اب میرے زہد و تقویٰ، حلم و مسکینی و فروتنی کی شہرت کوہستان قفقار میں دور دور تک پھیل گئی۔ لوگ میرے پاس دعا درود کے لیے آنے لگے۔ اتفاق اور خدا کی رحمت سے ایسا ہوا کہ بہت سے مریضوں کے لیے میں نے دعا کی اور وہ اچھے ہو گئے۔ اپاہج اور بوڑھے ڈولیوں میں بیٹھ بیٹھ کر میرے پاس آنے لگے۔ پھر ایک چھوت لگنے والی خطرناک بیماری کا مریض آیا۔ میں نے اس کی تیمار داری میں دن رات ایک کر دیا۔ وہ تو اچھا ہو گیا میں اسی مرض میں مبتلا ہو کر مر گئی۔ اب مجھے یاد نہیں وہ کیا مرض تھا۔ مرتے وقت میری عمر ۵۴ برس کی تھی۔ میرا تابوت دستور کے مطابق اسی خانقاہ کے تہ خانہ میں رکھ دیا گیا۔‘‘

’’بہت حسین تھیں؟‘‘ فادر نے پوچھا۔

’’بے حد‘‘

’’میں بھی۔‘‘ اس وقت خدایا۔ معاف کرنا میرے دل میں خیال آیا۔۔۔ یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش، جب یہ زندہ تھا اور فادر نہیں تھا اور یہ گرینڈ ڈیوک آف طبلسی کا بیٹا تھا اور میں سفیر بازنطیم کی حور لقا لڑکی۔ اس وقت اگر ہماری ملاقات ہوتی۔۔۔ مگر تیری مصلحتیں تو ہی جانے۔۔۔ میں نے فادر کو اپنے قصے کے انجام سے آگاہ کیا۔

’’میرے مرنے کے بعد زائرین یہاں آنے لگے۔ چند معجزے مشہور ہو گئے۔ صدیاں گذرتی گئیں۔

۱۸۳۷ء میں کلیسا نے فیصلہ کیا کہ کسی برگزیدہ بندے یا بندی کو سینٹ قرار دینے کے لیے درجہ ولایت کی جن شرائط کو پورا کرنا لازم ہے مثلاً چند مصدقہ مستند معجزے۔ مستند حالات زندگی وغیرہ۔ اگر میرے کوائف ان شرائط کو پورا کرتے ہوں تو مجھے سینٹ بنا دیا جائے گا۔ برسوں یہ تحقیقات چلا کیں۔ حسب معمول میرا کیس ماس کو کے اسقفِ اعظم کے پاس بھیجا گیا۔ بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ ۲۵ نومبر ۱۹۲۱ء کے روز مجھے سینٹ فلورا سابینا بنا دیا جائے گا۔ اس روز میرا جشن منانے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ مگر اسی تاریخ سے چند روز قبل یہ چرچ اور خانقاہ بند کر دی گئی۔ لہٰذا آفیشیل طور پر میں سینٹ فلورا نہیں ہوں۔ ویسے شاید ہوں۔ فادر اب تم بتاؤ تم نے ترکِ علایق کیوں کیا؟ دنیا صرف مردوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ وہ خانہ فروشی کیوں کرتے ہیں؟ کیا وہی پرانا قصہ۔۔۔ محبوبہ کی بے وفائی۔۔۔؟‘‘

وہ چب رہا۔ خداوندا۔۔۔ میں انتہائی عجز سے اقرار کرتی ہوں کہ عورت کی فطرت۔۔۔ ساڑھے تیرہ سو برس موت کی نیند سونے کے بعد بھی نہیں بدلتی۔ میں نے بڑی دل چسپی سے کریدا۔

’’فادر گریگری۔۔۔ کیا شہزادی کا تنکا تناتن ہی تمہاری بے وفا محبوبہ تو نہیں تھی؟ کیوں کہ خدا بخشے وہ بڑی دل پھینک اور عاشق مزاج خاتون مشہور تھی۔۔۔ کیا اس کی وجہ سے تم خانہ بر انداز ہوئے؟‘‘

فادر نے ترشی سے جواب دیا۔ ’’لیڈی فلورا۔ کیوں تم گرے مردے اکھیڑتی ہو۔‘‘

’’ہا ہا ہا۔‘‘ میں نے اس کے سنس آف ہیؤمر کی داد دی۔ بلکہ بلیک ہیومر۔ اس نے مضطرب انداز سے ایک اور سگریٹ سلگایا۔ میں نے کہا۔۔۔

’’فادر۔۔۔ زیادہ تمباکو نوشی تمہارے پھیپھڑوں کے لیے نقصان دہ ہے‘‘۔۔۔

معاً خیال آیا۔۔۔ یہ بھی بلیک ہیومر ہے۔ ’’برسبیل تذکرہ۔ تمہاری اس بے حد دین دار تا تنکا نے جارجیا پر عرب تسلط کے فوراً بعد طفلس کے ایک عرب جنرل سے بیاہ رچا لیا تھا۔‘‘

فادر نے خشکی سے کہا۔ ’’ارے‘‘۔

میں بھونچکی رہ گئی۔

’’ظاہر ہے یہ تمہاری وفاتِ حسرت آیات کے بعد کا واقعہ ہے۔ میں لاکھ گرینڈ ڈیوک کا بیٹا سہی مگر عرب تسلط کے بعد میری کیا حیثیت تھی۔ میں تو اپنی جاگیر کے معاملات سے بھی بے نیاز سارا وقت طفلس کے دار المخطوطات میں گزارتا تھا۔ شہزادی تاتنکا ہوا کا رخ پہچانتی تھی۔ زمانہ اب عربوں کے ساتھ تھا۔ میں سیاست سے متنفر اور تاتنکا سیاسی داؤ پیچ کی استاد مجھے پہلے پہلے بہت صدمہ ہوا۔ جذباتی اور ذہنی۔ پھر میں نے سوچا میاں گریگری اور بیلیانی۔ عورت ذات اس لائق نہیں کہ اس کے لیے رویا دھویا جائے۔ تضیع اوقات۔ رہیں حسین لڑکیاں۔ تو ان کی کہیں کمی نہیں۔ وہ کون سی ناقابلِ حصول اشیاء ہیں؟ چنانچہ میں نے کتابوں میں جی لگایا۔ مگر طبلسی کے اسکرپٹوریم میں مستقل ریسرچ کے لیے ان راہبوں کے سلسلے میں شامل ہونا ضروری تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ راہب بھرتی ہو گیا۔ چند ماہ بعد قرطاجنہ چلا گیا اور خاص اس مدرسے میں کام کیا جہاں سینٹ آگسٹین نے پڑھا تھا۔ پھر روما گیا۔ ایتھنیز گیا، تمہارے وطن قسطنطنیہ گیا۔ نہیں۔ اپنی سیاحت کے دوران تمہارا تھیوڈورک گیلاسس مجھے کہیں نہیں ملا۔ کہیں مر مرا چکا ہو گا۔‘‘

’’خدا نہ کرے۔‘‘ میں بے ساختہ بول اٹھی۔

فادر ہنسنے لگا۔ ’’پھر بحیرہ اسود کے راستے گرجستان واپس آیا۔ نہیں۔ میں شہزادی کا تنکا کے کانونٹ بھی کبھی نہیں آیا۔ وہ سامنے جو نیلگوں سلسلہ کوہ دیکھتی ہونا۔۔۔ اس کے دامن میں ایک رباط خانہ فروشاں موجود تھا۔ حملہ آوروں کی وجہ سے اس کی قلعہ بندی کی گئی تھی۔ چند راہبوں نے فرازِ کوہ میں پتھر کاٹ کر اپنے پوشیدہ حجرے تعمیر کیے تھے۔ بہت سے نوجوان خانہ فروش غاروں میں رہتے تھے۔ میں نے ایک الگ تھلگ چوٹی کے غار میں اپنا مسکن بنایا۔ سامنے پتھروں کی دیوار چن کر اس پر خوش رنگ پھولوں کی بیلیں چڑھائیں۔ قداسن کے لیے ہم لوگ دادی کے کینسہ کبریٰ میں جایا کرتے تھے اور کھانا مل جل کر رباط کے ہال میں کھاتے تھے۔ ہم میں سے بہت سے خانہ بر انداز اسکالر رہ چکے تھے۔ رات کو اکثر علمی معاملات پر بحثیں ہوتیں۔ کوئی شامت کا مارا نسطوری ماور النہر سے آ نکلتا تو اس سے جھائیں جھائیں کرتے وہ کہتا عذرا مریم مادر یسوع ہیں۔ مادر خدا نہیں۔ ہم کہتے تمہارے پاس کیا ثبوت ہے۔ وہ کہتا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟۔۔۔

کوئی سیرین پادری آ پہنچتا اس سے جھڑپ رہتی۔ وہ کہتا مسیح کی وحدتِ فطرت کے قائل ہو جاؤ۔ ہم کہتے ہرگز نہیں ہوں گے۔ ان جھگڑوں سے تنگ آ کر کئی راہب طفلس پہنچے اور مسلمان ہو گئے۔

’’غرض یہ کہ بڑا اچھا وقت گزر رہا تھا۔ عید میلاد المسیح سے دو روز پہلے کی بات ہے میں صبح منہ اندھیرے باورچی خانے کے لیے لکڑیاں کاٹنے جنگل میں گیا۔ سارا جنگل برف پوش تھا۔ وادی میں کلیسا کے سریلے گھنٹے بج رہے تھے۔ اور خرگوش اور گلہریاں میرے چاروں طرف دوڑتی پھر رہی تھیں۔ سینٹ گریگری کی ایک کونٹا کیا گنگناتے گنگناتے میں نے زور سے کلہاڑی جو درخت کے تنے میں ماری وہ آ کر میرے پاؤں میں لگ گئی۔ میں نے فوراً تھوڑی سی برف سے زخم صاف کر کے ہرے پتوں کی پٹی باندھی۔ لکڑیاں کاٹ کر خانقاہ واپس آیا اور روز مرہ کے مشاغل میں مصروف ہو گیا۔ رات کو اپنے حجرے میں جا کر سونے سے پہلے حسب معمول موم بتی جلائی اور سینٹ آگسٹین کے اعترافات کا مطالعہ شروع کیا۔ کلہاڑی کے زہر باد سے صبح تک ختم ہو چکا تھا۔ وقت رحلت سن شریف ۵۴ سال تھا مجھے معلوم نہیں اس مرقد میں کب اور کیوں منتقل کیا گیا؟‘‘

شاید شہزادی کا تنکا نے تابوت یہاں منگوا لیا ہو۔ میں نے سوچا لیکن خاموش رہی۔ الاؤ بجھ چکا تھا۔ سرد ہوا میں ہمارے ڈھانچے کھڑکھڑانے لگے۔

فادر گریگری نے کہا: ’’آؤ چل کر کہیں سے گرم کپڑے تلاش کریں۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

صنوبروں کے جنگل سے گزر کر ہم دونوں تیرے ایک گرجا میں پہنچے جو نسبتاً بہت جدید تھا یعنی گرجستان کی ملکہ گوران دخت نے گیارہویں صدی میں بنوایا تھا۔ یہ شاید ایک ’’فنکشنگ چرچ‘‘ تھا کیوں کہ اندر تیرے مرصع طلائی آئیکنوں کے سامنے اونچے شمع دان روشن تھے اور معبد عذرا کا دروازہ کھلا پڑا تھا۔ ہم اندر گئے۔ گیلری میں ایک الماری نظر آئی جس میں پادریوں کے سیاہ چوغے لٹک رہے تھے۔ پادری شاید اپنے مکان میں محو خواب تھا۔ فادر گریگری نے الماری میں سے دو لبادے مع ہڈ چرائے جو ہم دونوں نے فوراً پہن لیے۔ جان میں جان آئی۔

عین اسی وقت الماری کے پیچھے ایک پرچھائیں دکھلائی دی۔ ایک شخص، چار خانہ کوٹ، براؤن پتلون، سرپر گھنے کھچڑی بال، موٹے شیشوں کی عینک۔ وہ بھی ایک چوغہ چرانے میں مصروف تھا۔ ہمیں دیکھ کر الماری کے پیچھے دبک گیا۔ ہم دونوں فوراً باہر آ گئے اور اس شخص کے ڈر سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ لڑکھڑاتے کھڑکھڑاتے پہاڑی اترنے لگے۔ چند منٹ بعد پلٹ کر دیکھا وہ شخص بھی ایک خانہ فروش کے سادے لبادے میں ملفوف ہمارے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ ہم نے جلدی سے خیمہ گاہ کا رخ کیا تاکہ وہاں کے مجمع میں کھو جائیں۔ لیکن وہاں سے لڑکے اور لڑکیاں اب اپنے اپنے بیگ اٹھائے جہاز کی سمت بڑھ رہے تھے جو نزدیک جیٹی پر کھڑا تھا۔ ایک لڑکا اور لڑکی باتوں میں محو ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ان کی پشت پر جو بیگ بندھے ہوئے تھے ان میں دو دو جوڑی چمڑے کے دستانے آویزاں تھے۔ فادر گریگری نے فوراً ہاتھ کی صفائی دکھائی۔

اس کے بعد وہ ایک خالی خیمہ میں گھس گیا اور وہاں سے دو جوڑ فل بوٹ اور دو مفلر اڑا لایا۔ ایک اور خیمے سے سیاہ چشمے دو عدد پار کیے اب ہم دونوں نے ایک درخت کے پیچھے جا کر فل بوٹ اور سموری استر والے چرمی دستانے پہنے گوگلز سے آنکھیں اور مفلر سے گردنیں چھپائیں اور بیسویں صدی کے پچھترویں سال کا مقابلہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے۔ اب ہمیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ دو مردے جا رہے ہیں۔ ہمارے چہرے ہُڈ میں چھپے ہوئے تھے۔ آنکھیں گوگلز میں۔ جیتے جاگتے راہب اور راہبہ معلوم ہو رہے تھے۔

اب پو پھٹنے والی تھی۔ دریا پر گہری دھند چھائی ہوئی تھی۔ جہاز نے روانگی کا پھونپو بجایا۔ لڑکوں اور لڑکیوں کا غول گاتا بجاتا گینگ وے چڑھنے لگا۔ وہ کئی سو طلباء تھے۔ ہم بھی ان کی بھیڑ میں جا گھسے اور جہاز پر چڑھ گئے۔ دھندلکے پر بھیڑ بھڑ کے میں ہمیں کسی نے نہیں دیکھا۔ جہاز پر پہنچ کر اب جو پلٹ کر دیکھتی ہوں تو وہ شخص پر اسرار موجود۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ لگا رہا۔ ہم پھرتی سے ایک اندھیرے کونے میں دبک گئے وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گیا۔ جہاز نے لنگر اٹھایا اور جنوب کی سمت روانہ ہوا۔

ہم دونوں بھوک پیاس اور نیند سے بے نیاز تھے۔ اس تیسرے پر کیا گذر رہی ہو گی اس کا اندازہ ہمیں نہیں ہوا۔ لیکن وہ بالکل چپکا بیٹھا رہا۔ دوسری رات جہاز باطومی پر لنگر انداز ہوا۔ خوش و خرم اور صحت مند، تر و تازہ، گاتے بجاتے نوجوانوں کے جم غفیر کے ساتھ ساتھ ہم تینوں جہاز سے اتر کر ساحل پر آ گئے اور جلدی جلدی ایک طرف کو چلنے لگے۔ پتہ ہی نہیں تھا کہ کدھر جا رہے ہیں۔ غرض محض بھاگنے سے تھی۔

سال بھر کے ایڈونچر کی خواہش جو تجھ سے کی تھی۔ چلتے چلتے ہم لوگ ایک جگہ پہنچے جہاں بہت ساری کشتیاں کھڑی تھیں۔ ابھی سورج نکلنے میں دیر تھی اور ساحل سنسان پڑا تھا۔ فادر گریگری نے ایک موٹر بوٹ کا رسّہ اس کے کھونٹے سے علاحدہ کیا اور تیرا نام لے کر اس میں کود گئے۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کرمجھے سوار کرایا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ وہ تیسرا کنارے پر موجود۔ یا اللہ۔ سنا تھا کہ موت زندگی کا تعاقب کرتی ہے۔ یہاں الٹا حساب تھا۔ اس نے ہاتھ ہلا ہلا کر زور سے کہا۔۔۔ مجھے بھی ساتھ لے چلو۔۔۔ مجھے بھی۔ اس نے پہلی دفعہ بات کی تھی۔ فادر نے اشارے سے اس کو بوٹ میں بلا لیا۔ اور انجن اسٹارٹ کیا۔ اس مہارت سے گویا ساتویں صدی عیسوی کے دریائے کر آ میں آپ موٹر بوٹ ہی پر طفلس آیا جایا کرتے تھے۔

وہ شخص نا معلوم آ کر ہمارے برابر بیٹھ گیا۔ فادر گریگری نے ایک دم پروفیشنل آواز میں دریافت کیا۔۔۔ ‘‘پیارے بیٹے تمہیں کیا تکلیف ہے۔ تم ملکہ گوران دخت کے گرجا سے لے کر یہاں تک ہمارا تعاقب کیوں کر رہے ہو۔۔۔؟‘‘

معاً مجھے مخاطب کیا۔۔۔ ’’یہ جیٹ کشتی ہے۔۔۔‘‘

پھر اس آدمی کی طرف متوجہ ہوئے ’’ہاں۔ تو پیارے بیٹے تمہیں کیا تکلیف ہے۔؟‘‘

اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر دھیرے سے کہا ’’فادر۔ میں ایک ڈسی ڈنٹ انٹلکچوئیل ہوں۔ ویسٹ کوڈی فیکٹ کر رہا ہوں۔ میری مدد کرو‘‘۔

’’ویسٹ۔۔۔؟‘‘ فادر نے فوراً کشتی کا رخ مغرب کی طرف کر دیا۔

’’بلغاریہ کی کون سی بندرگاہ جانا چاہتے ہو؟‘‘ اس لمحے فادر گریگری اور بیلیانی کی کھوپڑی سے علوم حاضرہ اور معلومات عامہ شاید عارضی طور پر غائب ہو چکی تھی۔ یا ان کی کھوپڑی اس وقت کہیں اور تھی۔ بہر حال۔ اس شخص نے گھبرا کر کہا۔۔۔ ’’فادر شاید آپ ۵۴ء کے بعد سے اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلے۔‘‘

’’۵۴ء میں طبلسی میں تھا‘‘۔۔۔

فادر بولا۔ مگر شکر ہے موٹرکے شور میں اس شخص نے یہ بات نہیں سنی۔ وہ کہتا رہا۔‘‘ فادر۔ ویسٹ اب دیوارِ برلن کے دوسری طرف سے شروع ہوتا ہے۔۔۔‘‘

خداوندا۔ میں بھولی بھالی حوّا کی ناقص العقل بیٹی۔

میں بول اٹھی: ’’دیوار چین تو میں نے بھی سنی ہے۔۔۔ سدِّ سکندری اور دربند ہمارے کوہستان قفقاز ہی میں موجود ہیں۔۔۔ یہ دیوار بر لن کہاں ہے؟‘‘

فادر نے مجھے ٹہوکا دیا کہ چپ رہوں۔ اس لحظے فادر گریگری کی ساری ’’عصری حسیت‘‘ واپس آ چکی تھی انہوں نے موٹر بوٹ کا رخ ترکی کی طرف کر دیا۔ کشتی کھلے سمندر میں فرّاٹے بھرتی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ فادر نے اس ڈسی ڈنٹ انٹلکچوئیل سے کہا ’’پیارے بیٹے۔ خدا کو یاد کرو۔ جس نے یونس پیغمبر کوبچایا۔ ہمارا بھی حافظ و ناصر ہے اورسمندروں کا ستارہ۔۔۔

عذرا مریم ہماری رہنمائی کرنے والی ہیں۔۔۔‘‘

’’آمین۔۔۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’پیارے بیٹے۔ خداوند کریم بادبانی جہازوں اور کاروانوں کے رہبر کو یاد کرو۔ میں امید کرتی ہوں کہ تم صحیفہ اولیاء اور مسیحی شہیدوں کے احوال، پابندی سے پڑھتے ہو گے۔‘‘

اس نے جواب دے دیا: ’’میں صرف ملارمے، کافکا، اور بودلیر کا مطالعہ کرتا ہوں۔‘‘ خدایا۔ میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں نے ان اولیاء کے نام پہلے نہ سنے تھے۔ رب العالمین۔۔۔ اس کے بعد کا سارا احوال تجھ پر روشن ہے۔ ہم کس طرح کن ایڈونچرز کا سامنا کر کے بالآخر وی آنا پہنچے۔ وہاں کس طرح ہمارا خیر مقدم ہوا۔ ڈسی ڈنٹ انٹلکچوئیل نے کس طرح پریس کانفرنس بلائی۔ ٹی وی اور پریس سے انٹرویو کتابوں کے کنٹریکٹ، دعوتیں اور عصرانے۔ میں اور فادر گریگری ہر جگہ ساتھ لیکن وی آنا پہنچتے ہی فادر نے ڈسی ڈنٹ انٹلکچوئیل سے کہہ دیا تھا کہ تم سب کو اچھی طرح سمجھا دو میں اور مدر فلورا دونوں کلیسائے گرجستان کے ایک ایسے قدیم ترین آرڈر سے تعلق رکھتے ہیں جس کے اراکین مرتے دم تک مکمل طور پر خاموش رہنے کا عہد کر چکے ہیں۔ لہٰذا ہم دونوں کو انٹرویو دینے سے معاف رکھا جائے۔ روز مرہ کی ضروریات کے متعلق ہم دونوں ایک پرچی پر چند الفاظ لکھ دیا کریں گے۔ علاوہ ازیں ہم تصویریں بھی نہیں کھنچوائیں گے کہ یہ اظہارِ خودستائی و خود نمائی ہے

انٹلکچوئیل نے یہ پیغام صحافیوں کو دے دیا۔ ایک تہلکہ مچ گیا۔ اب ورلڈ پریس میں سرخیاں چھپیں۔ ’’فادر گریگری اور مدر فلورا کا ہمیشہ کے لیے خاموش رہنے کا عہد۔‘‘ اس کے بعد پیرس میں ایک صحافی نے اصرار کیا: ’’میرے سوالات کا جواب پرچے پر لکھ کر دے دیجئے۔‘‘ فادر نے جواباً لکھا ’’میں بوجوہ کچھ نہیں کہنا چاہتا‘‘ چنانچہ مزید سرخیاں: ’’فادر گریگری کا بیان۔ وہ بوجوہ کچھ کہنا نہیں چاہتے۔‘‘

پیرس سے ہم لوگ لندن لے جائے گئے۔ وہاں بھی یہی ہنگامہ رہا۔ اب ہمارا معمول یہ تھا کہ انٹلکچوئیل میڈیا کے نمائندوں میں گھرا رہتا۔ فادر گریگری کتب خانوں میں وقت گزارتا میں ونڈو شاپنگ کرتی پھرتی۔ ہم لوگ بہترین ہوٹلوں میں ٹھہرائے گئے۔ پریس نے ہماری ’’خواہشات کا احترام‘‘ کر کے مجھے اور فادر کو بالکل تنہا چھوڑ دیا تھا۔ ہمارے میزبان بھی اگلے دن کے پروگرام کے متعلق جو کچھ کہنا ہوتا ڈسی ڈنٹ انٹلکچوئیل کو بتا دیتے تھے۔ ایک مہینے بعد، یا غفور و رحیم۔ تجھے بخوبی علم ہے کہ ہم تینوں امریکہ مدعو کیے گئے۔ جہاں پروگرام کے متعلق ہم تینوں مستقل سکونت اختیار کرنے والے تھے۔ انٹلکچوئیل اب بے طرح مصروف تھا۔ اپنی کتاب اور سلسلہ وار مضامین کے لیے نہایت کثیر رائلٹی پیشگی وصول کر چکا تھا اور عیش کر رہا تھا۔ ہم لوگ نیویارک ہلٹن میں ٹھہرائے گئے۔

اب یہاں مجھے اور فادر کو اسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا جس نے ہم کو مغربی یوروپ اور انگلینڈ کے ہوٹلوں میں پریشان کیا تھا۔ الٰہی تو واقف ہے کہ ہم دونوں بھوک، پیاس، نیند اور باتھ روم جانے کی حاجتوں سے بے نیاز تھے۔ لہٰذا ہم اپنے کمروں میں نہ بریک فاسٹ منگواتے۔ نہ کھانا کھانے کے لیے نیچے جاتے۔ نہ روم سروس کو کسی ضرورت کے لیے فون کرتے۔ لیکن سب سے بڑا معاملہ باتھ روم تھا۔ کموڈ پر بندھے کاغذی ربن جوں کے توں سلامت رہتے۔ تولیہ، صابن، واش بیسن ہر چیز Untouched صبح کو میڈ صفائی کے لیے آتی تو متحیر ہوتی۔ فادر سے اس سلسلے میں بات کرتے مجھے شرم آتی تھی۔ آخر ایک دن میں نے اس سے کہا، وہ بولا۔۔۔

’’عورت واقعی ناقص العقل ہے۔ یہ تو بڑی آسان ہے۔ میں کاغذی ربن علاحدہ کر دیتا ہوں۔ واش بیسن کے آس پاس پانی چھڑک دیتا ہوں۔ ذرا سا چھینٹا صابن پر ڈال دیتا ہوں۔ یہ کوئی پرابلم نہیں۔‘‘

کھانے پینے کے متعلق ہم نے دی آنا ہی میں اپنے میزبانوں سے کہہ دیا تھا کہ ہم دونوں مسلسل روزے رکھتے ہیں اور رات کو محض جو کی روٹی پیاز پنیر اور سادے پانی سے افطار کرتے ہیں۔

چنانچہ نہایت پر تکلف نقرئی کشتیوں اور بڑھیا برتنوں میں نیپکن سے ڈھکی ’’افطاری‘‘ ہمیں شام کے وقت ہمارے کمروں میں پہنچا دی جاتی تھی جسے ہم کاغذی بیگ میں رکھ کر صبح کو باہر لے جاتے اور سڑک کے کنارے ڈسٹ بن میں ڈال آتے۔ لیکن ہلٹن میں قیام کے چوتھے روز فادر نے مجھ سے کہا۔ ’’ہمارے میز بانوں نے ہمیں الاسک آکی گریک اورتھوڈوکس خانقاہوں میں بھیجنے کا انتظام کیا ہے۔ نیچے آؤ تو میں تم سے مشورہ کروں۔‘‘

میں گھبرائی ہوئی نیچے گئی۔ فادر نے کہا۔۔۔

’’میں نے ابھی ابھی کمیٹی کے سکریٹری سے بات کی ہے اور اس سے کہا ہے۔ ہم پہلے اپنے چند جارجین رشتے داروں سے ملنے فلاڈلفیا جائیں گے اس کے بعد کچھ عرصہ نیویارک ہی میں چند عزیزوں کے ساتھ قیام کریں گے کیوں کہ یہاں کتب خانوں میں تھوڑا سا کام کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے ایک خطیر رقم اس عرصے کے اخراجات کے لیے دے دی ہے۔ کل صبح یہاں سے چیک آؤٹ کر جائیں۔

لہٰذا دوسرے روز ہم ڈسی ڈنٹ انٹلکچوئیل اور اپنے میزبانوں کو خدا حافظ کہہ کر ہلٹن سے سٹک لیے۔ فادر نے ایک معمولی بورڈنگ ہاؤس میں دو کمرے کرائے پر لیے۔ پیسے کی کمی نہیں تھی۔ فادر سائنس اور ٹکنالوجی اور عالمی سیاست پر تازہ ترین کتابیں خریدتا، میں فیشن میگزین۔ وہ کتب خانوں میں وقت گزارتا۔ میں ونڈو شاپنگ کرتی۔

ایک روز، ایک بک شاپ میں میں نے کیا دیکھا کہ فادر پلے بوائے کا بغور مطالعہ کر رہا ہے مجھے دیکھ کر جھینپ گیا۔ بولا۔ اس رسالے میں انٹرویو بہت عمدہ چھپتے ہیں۔ میں سال بیلؤ پر ایک مضمون پڑھ رہا تھا۔ فادر کتب خانوں سے ایک آدھ کتاب چرا بھی لاتا تھا اور سگریٹ نوشی کی لت ایسی پڑی تھی کہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر مسلسل سگریٹ پیتا تھا۔ پبلک میں سگریٹ پی نہیں سکتا تھا کیوں کہ اس کے لیے ہڈ میں چھپا ہوا چہرہ کھولنا پڑتا۔ سال بھر کی مہلت تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ مہرگان آ چکا تھا۔ ہر طرف درختوں میں سرخ پتے جھلملا رہے تھے۔ میری بڑی تمنا تھی کہ کم از کم ایک خوب صورت لباس خرید کر اپنے کمرے میں اسے پہن لوں۔ فادر پکا میل شوونسٹ تھا، میری اس تمنا کو لاپروائی سے نظر انداز کرتا رہا۔ بلکہ میرے حصے کے ڈالر بھی اپنی کتابوں پر خرچ کر ڈالے۔ اکثر جا کر سنیما اور تھیٹر دیکھتا۔ مجھ سے کہہ جاتا۔ تمہارے کمرے میں ٹی وی ہے اسے دیکھو۔ اور پھر عبادت کرو۔

ہائے اللہ۔ میں یہ تو بتانا بھول ہی گئی۔ میں نے تیرے بھلکڑ فرشتے سے پوچھا تھا: فرض کرو ہم وقت مقررہ پر خاص اس مرقد میں نہ پہنچ سکے تو کیا ہو گا۔ اس نے جاتے جاتے جواب دیا تھا کہ تم جہاں بھی ہو کسی نزدیک ترین قبرستان چلے جانا اور دو خالی قبروں میں جا پڑنا۔ سال ختم ہونے والا تھا۔ خدایا تیری اتنی بڑی، اتنی دل چسپ پر کشش اور اتنی ترقی یافتہ دنیا میں ہم تو ابھی کچھ بھی نہ دیکھ پائے۔ فادر نے قبرستان تلاش کرنے کا کام بھی مجھ پر چھوڑ دیا تھا۔ خود سیر سپاٹے کے لیے نکل جاتا اور میں گورستانوں کے چکر لگاتی کہ کہیں دو خالی قبریں دکھلائی دے جائیں تو انہیں نظر میں رکھوں۔

واپسی کے لیے اب صرف چند روز باقی رہ گئے تھے۔ پیسہ قریب الختم تھا۔ فادر اس کے لیے تیار نہ تھا کہ میز بانوں کو فون کر کے مزید ڈالر مانگے۔ وہ پوچھتے تم لوگ اب تک یہاں کیا کر رہے ہو، الاسک آ کی خانقاہ کیوں نہیں گئے۔ باقی ماندہ ڈالر سے (جو میرے حصے ہی کے تھے) میں اپنی پہلی اور آخری خواہش۔۔۔ ایک گاؤن خریدنا چاہتی تھی۔ لیکن فادر اس رقم سے عرب آئل کی اقتصادیات اور یوروپین کامن مارکیٹ پر دو کتابیں اٹھا لایا۔ میں رو پڑی۔

اس نے کہا۔ ’’وقت بہت کم رہ گیا ہے دن رات لگ کر یہ پڑھوں گا‘‘۔ پھر مجھے بہلانے کے لیے بولا: ’’ذرا یہ تو سوچو ہمارے اندر گراؤنڈ ہو جانے پر ساری دنیا میں کس قدر تہلکہ مچے گا۔‘‘ (میں نے ’’انڈر گراؤنڈ کی فوراً داد دی)۔ امریکن اور روسی دونوں یہ سمجھیں گے کہ ہم ڈبل ایجنٹ تھے اور بے چارے ڈسی ڈنٹ انٹلکچوئیل پر آفت آئے گی۔ مگر صورتِ حال ایسی ہے کہ ہم اس غریب کی کسی طرح مدد نہیں کر سکتے۔ آؤ ذرا ٹہل آئیں۔‘‘

ہم گھومنے نکلے۔ ایک عالی شان دوکان میں کرسچین دیور کی تازہ ترین تخلیقات کی نمایش ہو رہی تھی۔ میں فادر کو دوکان میں گھسیٹ لے گئی۔ فیشن شو شروع ہو چکا تھا! اس دوکان کا مالک کوئی کیتھولک تھا۔ ہمارے سیاہ لبادے دیکھ کر کسی نے کچھ نہیں کہا۔ ہم جا کر ایک پچھلی قطار میں بیٹھ گئے۔ میں ملبوسات کو اور فادر گریگری ماڈل لڑکیوں کو دیکھتا رہا۔ اچانک میں حیرت زدہ رہ گئی۔ ایک ماڈل لڑکی ارغوانی اطلس کا گاؤن پہنے سامنے سے گزری جس کے کنارے اور پیٹی پر موتی ٹکے تھے۔ تقریباً اسی وضع کا بازنطینی قباچہ میں نے اس رات صحرائے سوریا کی خانقاہ کے حجرے میں آخری بار اتار کر راہبہ کی کھردری رِدا پہنی تھی۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔ نہایت بیش قیمت لباس تھا۔ فادر نے چپکے سے پوچھا۔ ’’لیڈی فلورا سابینا۔ کیا تم بھی وہی سوچ رہی ہو جو میں سوچ رہا ہوں؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’ہاں۔ فادر گریگری‘‘۔

وہ چپ رہا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا ’’تم اب گھر چلی جاؤ۔ میں رات کو آؤں گا۔‘‘ میں نے اس کے کہنے پر عمل کیا۔

رات کے دو بجے فادر بورڈنگ ہاؤس پہنچا۔ اس کا کمرہ میرے کمرے کے پہلو میں تھا۔ میں نے کھڑپڑ کی آواز سنی۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے کواڑ کھولا۔ اس نے اپنے کلوک کے اندر سے ایک پیکٹ نکال کر مجھے تھما دیا۔ اطمینان سے کہا۔۔۔ ’’بھیڑ بھڑکے میں ایک بیک روم میں جا گھسا۔ یہ گاؤن سامنے ہی ہینگر پر موجود تھا۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

وہ اپنے کمرے میں جا کر آئل گرائسسس پر کتاب پڑھنے میں مشغول ہوا میں نے گاؤن پہنا۔ اس میں Padding کی کافی سے زیادہ ضرورت تھی۔ دوسرے روز میں بازار سے مطلوبہ سامان خرید لائی۔ پھر دو دن کمرے میں بیٹھ کر سارا گاؤن کے نیچے روئی کا موٹا استر لگایا۔ اب جو پہنا تو معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ ایک ڈھانچے نے زیب تن کیا ہے۔ تیسرے پہر کو فادر میرے کمرے میں آیا، مجھے اس لباس میں دیکھ کر سیٹی بجائی۔ ہم لوگ پارک میں جا کر اپنی پسندیدہ بنچ پر بیٹھ گئے۔ فادر اداسی سے مجھے دیکھتا رہا۔

کچھ دیر بعد اس نے اپنے سیاہ لبادے کی جیب سے ایک کتاب برآمد کی اور آہستہ سے بولا۔ ’’آج میں لائبریری سے آئر لینڈ کے شاعر ڈبلیو، بی، ایٹس کی کتاب چرا لایا ہوں۔‘‘

ہمارے چاروں طرف شاہ بلوط کے خزاں زدہ سرخ پتوں کی بارش ہو رہی تھی۔ سورج ڈوبنے والا تھا اور تاریکی چھا رہی تھی۔

فادر گریگری اور بیلیانی نے کہا۔ ’’اس نظم کا عنوان ہے Sailing to Byzantium لو سنو۔‘‘ اس نے گمبھیر آواز میں آہستہ آہستہ پڑھنا شروع کیا۔

’’وہ سرزمین ضعفا کی نہیں۔

شادماں نوجواں، طائرانِ چمن۔

مرتے جاتے ہیں جو اور ہیں محو لحن۔

یم بہ یم مچھلیوں کے وہ سیمیں شنا،

مرغ و ماہی و انسان، ہر جاندار،

جشنِ جاں میں ہے مشغول وقتِ ثمر۔

جوشش دم کی رامشگری میں مگن،

بھول جاتے ہیں ہم نقش ہائے کہن۔

ذہن جاوید کے معجزاتِ جلیل۔

ہے حقیر و تہی ایک مرد کہن۔

چوب دستی پہ لٹکا ہوا پوستیں۔

اگر جوش سے روح نہ ہو نغمہ زن

فانی پوشن کے ہر خستہ جاں کے لیے۔

شعر و نغمہ کی کوئی روایت نہیں،

کاملوں سے کرے جو نہ کسب ہنر،

اپنی عظمت کی تعظیم خود نہ کرے۔

تو قلزم بہ قلزم میں بازنطیم کے

بلادِ مقدس میں وارد ہوا ہوں۔

نقش دیوار کی پچی کاری کے زر سے۔

شعلہ قدس میں مستمر عاقلو۔

آتشِ پاک سے باہر آؤ ذرا۔

وقت و تاریخ کی گردش مستعل۔۔۔

رقص اس میں کرو۔ پیر نغمہ بنو

تم مری روح کے پھونک ڈالو یہ دل۔

راکھ اس کو کرو۔

کثرتِ آرزو سے جو ہے مضمحل۔

جاں بلب جانور سے بندھا ہے

اور خود اپنی حالت سے واقف نہیں۔۔۔

مجھے ابدیت کی صنعت کی آغوش میں

کیوں نہ لے لو۔

اک بار فطرت سے ہو ماوراء میں،

پیکر میں اپنا پھر اس سے نہ لوں گا۔

مگر ایسا پیکر جو یونان کے

کسی استاگر نے ورق طلا سے

بنایا ہو ایسا،

غنودہ شہنشاہ جگائے جو رکھے۔

یا اک شجر زریں پہ میں بیٹھ جاؤں۔

اور بازنطیم کے امیروں کی خاطر،

فلک مرتبت مہ جبینوں کی خاطر

میں گیت گاؤں۔ گاؤں میں اس کا۔

گزر جو چکا ہے،

گذر اب رہا ہے،

یا ہونا ہے باقی۔‘‘

(ایٹس کا نظریہ تھا کہ انسان اگر تکمیل فن میں مصروف رہے تو اسے زندگی سے کنارہ کش ہونا پڑتا ہے۔ آرٹ اور زندگی Dicho Tomy ایٹس کا خاص کا مسئلہ ہے۔)

میں بھل بھل رورہی تھی۔ فادر نے کتاب بند کر کے ایک لمبی سانس لی اور کہا چلو آخری بار ڈاؤن ٹاؤن ہو آئیں۔

ہم دونوں پارک سے نکلے۔ ٹیکسی پر شہر پہنچے۔ راستے میں ایک شان دار ہوٹل پر لکھا نظر آیا ’’اسرائیل فنڈ کے لیے ماسک بال‘‘۔ فادر نے مجھے دیکھا۔ میں نے اسے۔۔۔ ہم ایک ڈپارٹمنٹ اسٹور پر اتر گئے۔ پارک سے چلتے وقت میں نے اپنا سیاہ لبادہ اپنے گاؤن کے اوپر پہن رکھا تھا۔ حسب معمول سیاہ چشمے، اور ہڈ میں رو پوش ہم نے دوکان میں جا کر دو ماسک خریدے اور سنہرے وگ۔ زنانے اور مردانے کلوک روم میں جا کر ہم دونوں تیار ہوئے۔ فادر چلتے چلتے اپنے لیے ایک بڑھیا اسکارف خریدنے لگا۔

تب میں نے اسے پھر یاد دلایا آج ہماری مہلت کا آخری دن بلکہ آخری شام ہے۔ ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے ہمیں انڈر گراؤنڈ ہونا ہے۔ جو قبرستان میں نے تلاش کیا ہے ہمارے جائے قیام سے کافی دور ہے۔ سارے پیسے مت خرچ کر دو۔ قبرستان جانے کے لیے ٹیکسی کرنی ہو گی۔‘‘

پھر بھی اس نے قیمتی سگریٹ کا ایک پیکٹ خرید لیا۔ ہم بھاگم بھاگ ہال میں پہنچے۔ داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا۔ ہم نے سب سے کم قیمت کے دو ٹکٹ خریدے۔ صدر دروازے پر فٹ مین نام اناؤنس کر رہا تھا۔ فادر نے (جو اپنے سیاہ لبادے میں تھا صرف چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا) متانت سے کہا: ’’پرنسس کا تنکا تناتن آف جارجیا، گرینڈ ڈیوک اور بیلیانی آف طبلسی‘‘۔

ہوٹل کا چوبدار ہمیں انقلاب کے بعد آئے ہوئے سفید روسی سمجھا۔ اندر جا کر ہم دیوار کے قریب ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ بڑا شان دار رنگا رنگ مجمع تھا۔ آرکیسٹرا ’’بلیو بازنطینی موزیک کی لازوال دیواری تصاویر جو گویا شاعری کی مثالی سامعین ہیں کیونکہ مرگ و فنا سے نا آشنا ہیں۔ ڈینوب‘‘ بجا رہا تھا۔

چند منٹ بعد فادر سگریٹ پینے کے لیے باتھ روم چلا گیا۔ میں وہاں چپ چاپ بیٹھی سوچتی رہی۔ اب صرف دو گھنٹے بعد قیامت تک قبر کی تنہائی اور تاریکی۔ تب دفعتاً مجھے وہ دکھلائی دے گیا۔ تھیوڈورک گیلاسس۔۔۔ وہی سنہرے گھنگریالے بال، لمبا، اونچا، پورا۔ یونانی ناک۔ وہ ایک رومن سینٹر کا بھیس بدلے ایک ’’ہسپانوی رقاصہ‘‘ کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ یہ کس طرح ممکن ہے۔ کیا یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ خدایا میں بالکل بوکھلا گئی۔

وہ کئی بار ناچتا ہوا میرے سامنے سے گذرا اور شاید مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر رقص کے بعد خود میرے پاس آیا اور اپنے ساتھ ناچنے کی درخواست کی۔ میں نے ہڑبڑا کر کہا: ’’میرے پاؤں میں موچ آ گئی ہے تھیوڈورک۔۔۔‘‘

اس نے صرف آنکھوں پر سیاہ ماسک پہن رکھا تھا۔ وہ اتارا۔ وہ کوئی اور تھا۔۔۔

میرے تھیوڈورک سے ہلکی سی مشابہت ضرور تھی۔ لیکن کوئی اور تھا۔ بھلا وہ کیسے ہو سکتا تھا۔ مگر مجھ سے رہا نہ گیا انتہائی حماقت سے پوچھا۔

’’معاف کیجئے کیا آپ کا نام تھیوڈورک گیلاسس تو نہیں ہے؟‘‘

اس نے کہا۔ ’’جی نہیں۔ میں رچرڈ کوہن ہوں۔ کولمبیا میں پڑھتا ہوں۔‘‘

پھر دو چار باتیں کر کے چلا گیا۔ چند منٹ بعد فادر سگریٹ پی کر واپس آیا۔ صوفے پر بیٹھتے ہی دیوار کے کلاک پر نظر ڈالی۔۔۔ اور کہا ’’لیڈی فلورا۔۔۔ اب چلنا چاہئے۔۔۔ دس بج چکے ہیں۔۔۔ چلو۔۔۔ اٹھو۔۔۔‘‘

تب اس وقت معاً ایک دہشت ناک خیال میری کھوپڑی میں آیا۔ میں نے بوکھلا کر کافی اونچی آواز میں بزبانِ انگریزی کہا۔۔۔

(ہم دونوں جب سے لندن پہنچے تھے اور وہاں سے امریکہ، اب مستقل انگریزی میں ایک دوسرے سے بات کرتے تھے۔ فادر کی تاکید تھی۔۔۔

کہ اس طرح ایک نئی زبان بولنے کی پریکٹس رہے گی۔ میں چڑ کر اس سے کہتی فادر ہمیں صرف چند مہینے اس دنیا میں اور رہنا ہے۔ میں کیوں اپنی کھوپڑی کھپاؤں تو وہ جواب دیتا لیڈی فلورا۔۔۔ انسان عام طور سے حد سے حد ساٹھ ستر سال دنیا میں زندہ رہتا ہے۔ بعض دفعہ اس سے بھی بہت کم۔ لیکن اس احساس کے باوجود کہ اس کی عمر کی مدت بہت مختصر ہے، وہ زندگی کا آدھا حصہ حصولِ علم میں صرف کرتا ہے دماغ کھپاتا ہے محنت کرتا ہے۔ اور اپنی ساری تعلیم، علمیت، تجربے خود آگہی کے باوجود۔۔۔ ایک روز پٹ سے مر جاتا ہے۔ اب چاہے ایک شخص کو دس سال اور جینا ہو یا ایک سال بات تو ایک ہی ہے‘‘۔ اللہ۔ فادر بڑا جھکی تھا۔۔۔)

بہر حال۔ تو ہم لوگ ہمیشہ سرگوشی میں گفتگو کرتے تھے لیکن اس وقت کلاک پر نظر پڑتے ہی میں گھبرا کر اونچی آواز میں بزبان انگریزی بول اٹھی‘‘۔ ہمیں جو وقت بتایا گیا تھا وہ گرینچ مین ٹائم تھا۔۔۔؟ روس کے اور یہاں کے وقت میں تو کم از کم اٹھارہ گھنٹے کا فرق ہو گا۔۔۔ اور۔۔۔ اس نے تو پرانے روسی کیلنڈر کے حساب سے ۲۳ ستمبر کہا تھا۔۔۔‘‘

اس پر فادر گریگری بھی ہڑبڑا کر بولا۔۔۔

’’ارے۔۔۔ اب کیا ہو گا۔۔۔؟‘‘

’’اب۔۔۔ یہ ہو گا۔۔۔‘‘

ایک پولس افسرنے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ ہم دونوں دہشت زدہ ہو کر صوفے سے کھڑے ہو گئے۔ ہمارے گرد ناچنے والوں کا مجمع لگ گیا۔ پولس افسر کے ساتھ دو سپاہی موجود تھے۔ اس نے فادر کو درشت آواز میں مخاطب کیا۔۔۔

’’فلاں ڈپارٹمنٹ اسٹور سے یہ گاؤن جو تمہاری گرل فرینڈ نے پہن رکھا ہے تم چرا کر بھاگے تھے۔ پولس اس رات سے تمہاری تلاش میں مصروف ہے۔ یہ گاؤن جیکلین اوناسس کی فرمائش پر خاص طور پر تیار کیا گیا تھا۔ مختلف لائبریریوں سے بھی ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ایک شخص راہب کے بھیس میں نادر کتابیں چراتا پھر رہا ہے۔ لیکن یہ بیش قیمت گاؤن۔۔۔ تم دونوں کو ہمارے ساتھ پولس اسٹیشن چلنا ہو گا۔‘‘

تب فادر گریگری اور بیلیانی نے مجھے دیکھا اور میں نے فادر گریگری اور بیلیانی کو۔ ہم دونوں نے پہلے اپنے دستانے اتارے۔ اپنے پنجے اپنے چہروں کی طرف لے گئے۔ سیاہ چشمے الگ کیے اور اپنے اپنے ماسک اتارے۔

٭٭٭

تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید