صفحات

تلاش کریں

ناولٹ: بے سائیباں (ہالہ نور)

میرا تو تھا ہی کام آوارہ گردی کرنا مرد ذات جو ٹھہری اپنی مرضی کے مالک و مختار۔۔ ۔

میں ایک کامیاب بزنس مین،ایک حسین طرحدار بیوی کا شوہر اور دو پیارے سے بچوں کا باپ ہوں کیا نہیں ہے میرے پاس خدا کا دیا ہوا سب کچھ تو ہے میرے پاس۔

مگر پھر بھی وہی ازلی مردانہ خصلت مجھ میں بھی پائی جاتی تھی جو گمراہ مردوں کا شیوہ ہے عیاشی اور آوارگی کی ایسی لت آوارہ دوستوں سے لگی کہ پھر باوجود لاکھ کوششوں کے میں اس سے چھٹکارا نہ حاصل کر سکا مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے کئی عورتوں اور لڑکیوںسے مراسم بنتے رہتے تھے،

میں رات ہوتے ہی اپنے ایک چھوٹے سے لگثرری فلیٹ میں رنگ رلیاں منانے کے لیے نکل پڑتا تھا جو میں نے اپنی عیاشیوں کے لیے مختص کر رکھا تھا میری بیوی بیچاری کو مجھ پر ذرا بھر بھی شک نہیں تھا۔

وہ سمجھتی تھی کہ میں ایک وفادار اور مرید شوہر ہوں اور یوں رات کو باہر رہنا میرے بزنس کا ہی ایک حصہ ہے جس کی وجہ سے مجھے ڈے نائٹ بزنس میٹنگز کے لیے جانا پڑتا ہے اور میں ان میٹنگز کے نام پر کسی اور ہی دنیا میں مگن رہتا تھا شراب کباب اور شباب ان تینوں ہی چیزوں سے مجھے رغبت تھی میری زندگی میں بہت سی عورتیں آئی۔۔ ۔۔ ۔۔

اور گئی میں نے ان کے ساتھ time spendکیا اور پھر گڈ بائے کہہ دیا مگر۔۔ ۔۔ ۔۔

ایک عورت ایسی تھی جو آج تک مجھے نہیں بھولتی اور شاید نہ کبھی بھولے گی اور نہ ہی مجھے اس کا نام بھولا حالانکہ میں نے کبھی کسی کا نام یاد کرنے کی کوشش بھی نہیں کی مگر اس کا نام میرے حافظے میں محفوظ رہ گیا تھا۔۔ ۔

ثمرین۔۔ ۔ اس نام کو میں اپنے ذہن سے نہیں جھٹک سکا

کاش میں نے اسے اپنی نظروں کے سامنے سے جانے ہی نہ دیا ہوتا یہ خلش آج بھی مجھے بے چین رکھتی ہے کہ میں نے اس حرماں نصیب لڑکی کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا۔



سنیے۔۔ ۔ آپ؟؟؟

میں نے کار کا شیشہ نیچے کر کے اس لڑکی کو مخاطب کیا اس نے ہولے سے اثبات میں سر ہلایا۔۔ ۔

میں تین چار دن سے اسے مسلسل رات سے واچ کر رہا تھا وہ بارہ بجے کے بعد میرے آفس اور فلیٹ کے درمیان والی روڈ پہ کھڑی ہوتی تھی آج اس نے سفید سوٹ پہن رکھا تھا وہ خوب صورت تھی بھرا بھرا گداز جسم شاید بچوں کی ماں بھی تھی مگر عمر اتنی زیادہ نہ تھی لیکن جس چیز نے مجھے اس کی طرف متوجہ کیا وہ تھی اس کی چہرے کی معصومیت اس کے چہرے پر ایسا بھولپن تھا جیسے کسی معصوم بچے کہ چہرے پر نظر آتا ہے جسے زمانے کی ہوا نہ لگی ہو پہلے تو میں سمجھا کہ شاید وہ کوئی ورکنگ وومین ہے مگر جب چار را توں سے مسلسل اسے رات گئے کھڑے دیکھا تو پھر میں رہ نہیں سکا۔

بیٹھیئے۔۔ میں نے کار کا لاک کھول کر دروازہ پش کیا وہ بلا تامل بیٹھ گئی۔۔ ۔

آپ کو پہلے یہاں کبھی نہیں دیکھا؟

میں نے اس کا بغور جائزہ لیا وہ خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔۔ ۔

جی میں نئی ہوں اس نے مختصراً جواب دیا مجھے اس میں پروفیشنل والی کوئی بات نہ لگی۔۔ ۔

دوران ڈرائیونگ میں گاہے بگاہے اس پہ نظر ڈال لیتا وہ چپ چاپ بیٹھی تھی ایک لفظ نہ منہ سے نکالا وہ بھی دانستہ خاموش رہا۔



کچھ لو گی؟ میں نے بے تکلفی سے بولا اور فریج کھول کر جائزہ لینے لگا میرے مطلب کے تمام لوازمات موجود تھے اور جواب طلب نظروں سے اسے دیکھنے لگا وہ ہنوز نظریں جھکائے اپنے اطراف سے لاتعلق بنی بیٹھی تھی۔۔ ۔

یوں لگ رہا تھا جیسے اسے نہ تو مجھ میں کوئی انٹرسٹ تھا نہ ہی میرے فلیٹ کی آرائش سے کوئی دلچسپی وہ جیسے مارے باندھے بیٹھی تھی۔۔

جی ایک گلاس پانی اس نے لپ اسٹک لگے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ہوئے میری طرف دیکھا میں اس کی فرمائش پہ مسکرایا اوہ شیور میں نے فریج سے بوتل نکالی اور کچن سے گلاس لے کر آیا میں نے اپنا پسندیدہ مشروب بھی نکالا میں نے اسے پانی ڈال کر گلاس تھمایا جسے وہ ایک سانس میں غٹاغٹ چڑھا گئی۔

کچھ کھاؤ گی؟

میں نے پھر پوچھا اس نے نفی میں سرہلادیا۔۔ ۔

میں نے اپنے گلاس میں مشروب انڈیلا اور برف کی ٹکڑیاں ڈالی اور سپ لیا اس دوران اس نے ایک بار بھی مجھے لبھانے یا ناز و ادا دکھانے کی کوشش نہیں کی اس کا رویہ اس کے پروفیشن کے مخالف تھا میرے جی میں جانے کیا سمائی کہ میں نے گلاس ایک طرف رکھ دیا اور اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا مجھے لگا جیسے وہ کانپ گئی ہو۔

ڈرو نہیں کھا نہیں جاؤں گا میں ادھر میرے پاس آ کر بیٹھو مجھے تم سے باتیں کرنی ہے میرا ارادہ بدل چکا تھا وہ تھکے تھکے قدموں سے میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔۔

ادھر دیکھو میں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا

اس نے اپنی نگاہیں مجھ پہ ٹکا دی مجھے اس کی آنکھوں میں اپنا عکس نظر آنے کی بجائے درد ہی درد نظر آیا بے پناہ درد۔۔ ۔۔

مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اس کام میں تمہاری مرضی شامل نہیں کوئی مجبور کر رہا ہے نا؟

کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں میں نے جیسے اس کی آنکھوں کے ذریعے اس کی روح میں جھانکنے کی کوشش کی اس نے بے بسی سے مجھے دیکھا اور اچانک سے اس کی آنکھ میں موٹے موٹے آنسو آ گئے اس کی آنکھیں دیکھ کر مجھے شراب سے لبریز کٹورے یاد آ گئے۔

نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ میری مرضی شامل ہے وہ سفاک لہجے میں بولی اور آنسو جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہیں گم ہو گئے ۔

تم مجھے اپنا دوست سمجھ سکتی ہو میں نے اس کا اعتماد حاصل کرنا چاہا۔۔

میرا کوئی دوست نہیں ہے رشتے ہیں پر سب غرض کہ نفرت ہے مجھے ان سب چیزوں سے کوئی رشتہ کوئی تعلق میرے لیے کچھ حیثیت نہیں رکھتا اور نفرت ہے مجھے اپنے ارزاں وجود سے وہ تلخ لہجے میں بولتی چلی گئی۔

ٹھیک ہے ٹھیک ہے دوست نہ سہی ایک اجنبی سمجھ کر ہی بتادو؟

کیا تمہارے گھر والوں نے ؟

میں نے اس کے تیور دیکھ کر میٹھے لہجے میں کہا۔۔ ۔

صاحب آپ مجھے جس کام کے لیے لائے ہیں وہ کیجئے اور مجھے جانے دیجئے وہ سنجیدگی سے بولی۔

بھی مجھے تو تم سے کوئی کام نہیں ہے میں نے شانے اچکائے

تو پھر آپ اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہے ہیں میں چلی جاتی ہوں پھر۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی۔۔ ۔

بیٹھو آرام سے میں تمہیں چھوڑ آؤں گا۔ کتنے پیسے چارج کرتی ہو؟میں نے والٹ نکال کر کہا۔

صاحب بھیک نہیں چاہیے جسم کی کمائی کھاتی ہوں جسم بیچوں گی تو پیسے لوں گی اس نے بے رحم لہجے میں کہا۔

شادی شدہ ہو؟

میں نے والٹ واپس رکھا اور اس کا باقاعدہ انٹرویو لینے کا فیصلہ کر لیا وہ شکستگی سے واپس اپنی جگہ بیٹھ گئی

تھی۔ جی مختصر جواب آیا

بچے وغیرہ ہیں ؟شاید اب وہ تھوڑا کھل جائے ۔

بچے ؟اس نے ڈبڈبائی نظروں سے دیکھا

ہاں اس نے اثبات میں سر بھی ہلایا شاید میں نے اس کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا یکایک وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی میں ششدر رہ گیا۔

اس سے ایسے شدید ری ایکشن کی توقع نہیں تھی مجھے۔

پلیز چپ ہو جاؤ بخدا میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا آؤ تمہیں میں گھر چھوڑ آؤں میں نے گھبرا کر وضاحت دی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔۔ ۔

تھوڑی دیر رو کر اس نے دل کی بھڑاس نکالی اور پھر آنسوؤں کو بے دردی سے پونچھ ڈالا۔

پانی ؟

نہیں میں ٹھیک ہوں اس نے میرے کہنے پر نفی میں سرہلاکر کہا۔۔ ۔

میرا نام حسام ہے حسام احمد اور آپ کا ؟

میں نے بغور دیکھا

مجھے ثمرین کہتے ہیں وہ ہولے سے بولی

کہتے ہیں۔۔ ۔ مطلب ؟میں نے بھنویں اچکائیں

جی نام تو میرا صفیہ تھا مگر اب اسے ثمرین کر لیا ہے میں نے وہ صاف گوئی سے بولی۔۔ ۔

ایک بات کہوں حسام صاحب مجھے آپ کے رویے سے بڑی حیرت ہو رہی ہے جانے کیوں آپ نے میری دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا کیونکہ مرد کو غرض تو بکاؤ عورت کے جسم سے ہوتی ہے اس بکی ہوئی عورت کی روح کو کون جاننے کی کوشش کرتا ہے جانے پھر آپ نے کیوں میری روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا وہ پرسوچ نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولی۔

سب مردوں کی سوچ ایک جیسی نہیں ہوتی ثمرین میں نے مسکرا کر کہا۔

تم اس فیلڈ میں کیسے آئیں ؟

میں نے سیدھا ہوتے ہوئے کہا

بڑی لمبی داستان ہے میری اور آج کسے فرصت ہے کہ میری بے کار سی کہانی سنے ؟وہ تلخی سے ہنسی۔

مگر میں سننا چاہتا ہوں میں نے اس کی ہمت بندھائی۔

کیونکہ میرے پاس وقت ہی وقت ہے فرصت ہی فرصت ہے۔ میں نے مزید کہا۔۔ ۔۔

اگر آپ اتنا ہی بضد ہیں تو سنیے وہ ہتھیار ڈالتے ہوئے بولی۔

مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ میں نے کب ہوش سنبھالا مگر اتنا یاد ہے کہ آٹھ سال کی تھی تو گھر میں ظالم اور سفاک سوتیلی ماں کا وجود پایا جو جانے مجھے میرے کس ناکردہ گناہ کے صلے میں ملی تھی میری ماں تو مر چکی تھی پیچھے بچا تھا تو واحد میرا سگا باپ جو نہایت بزدل اور زن مرید آدمی تھا اس نے کبھی مجھے وہ پیار اور شفقت نہ دی جس کی میں حقدار تھی جو میری سوتیلی ماں کہتی وہ اسی کی بات پر آنکھیں بند کر کے یقین لے آتا۔

زندگی یونہی سوتیلے رشتے کی ٹھوکروں میں پل رہی تھی کوئی بھی پرسانِ حال نہیں تھا نہ ہی کوئی رشتے دار پوچھتا تھا جو ایک دو کے دل میں ہمدردی اور خوف خدا جاگا بھی تھا تو ان کا گھر میں داخلہ بند کر دیا تھا۔۔ ۔

ابا سارا دن کام پر گیا ہوتا اور پیچھے میں اپنی سوتیلی ماں کے رحم و کرم پہ ہوتی سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی اور رات کو روکھی سوکھی کھا کر ایک کونے میں پڑ جاتی۔ بس یہی تھی میری زندگی۔۔ ۔ اسکول کا منہ تک دیکھنا نصیب نہ ہوا۔۔



اری او کمبخت منہوس ماری کہاں مر گئی کب سے آوازیں دے رہی ہوں اپنی ماں کو تو کھا گئی ہے اب کیا مجھے کلپا کلپا کر مارے گی نامراد۔۔ ۔

اس طرح کے القاب تو جیسے میرے لیے روز کا معمول بن گئے ۔

جی اماں کچھ کام تھا ؟صفیہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا

کہاں مر جاتی ہے حرام خور مفت کا کھا کر پھٹتی جا رہی ہے پتہ نہیں یہ لالیاں کہاں سے پھوٹی پڑ رہی ہیں۔ کمینی کی۔ نصیبو کڑے تیوروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

اماں برتن دھو رہی تھی وہ اس کے عتاب سے بچنے کے لیے جلدی سے بولی۔

تو کون سا پہاڑ ڈھو رہی تھی ہڈ حرامی کرتی ہے کھانے کا پتہ ہے کام کرتے موت آتی چل آ میری ٹانگیں دبا۔ نصیبو نے زہر خند لہجے میں کہا اور پاؤں سیدھے کیے وہ بنا کچھ کہے خوفزدہ سی ٹانگیں دبانے لگی۔

ہاتھوں میں دم نہیں ہے زور سے دبا۔ نصیبو نے لیٹے لیٹے اسے لات رسید کی اس کے منہ سے سی بھی نہ نکل سکی۔

اسکے سفید ہاتھوں میں چھالے پڑ چکے تھے نرماہٹ تو نام کو بھی نہیں رہی تھی۔

جن کی مائیں مر جایا کرتی تھیں ان کو زندگی کسی قسم کی رعایت دینے کی روادار نہیں ہوتی ہے۔۔ ۔

منحوس ماری نے کیسی اٹھان نکالی ابھی پیٹ بھر کھانا بھی نہیں دیتی تھی تو بھی گال ٹماٹر کی طرح لال ہیں سنا تھا اس کی ماں بھی بڑی خوبصورت تھی۔

میرا خیال ہے کہ اب اس کو اس گھر سے جلد از جلد چلتا کر دوں کہیں اس کے باپ کا سویا ہوا پیار نہ جاگ جائے ویسے بھی سولہ سال تک برداشت کیا کافی ہے کل ہی صغراں سے بات کرتی ہوں نصیبو نے دل ہی دل میں طے کر کے چور نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔

ٹھیک سے ہاتھ چلا ری جنم جلی صفیہ کی خود سے نظر ملنے پر اس نے لتاڑا۔۔

جی جی وہ نظریں جھکا کر زور زور سے دبانے لگی



صفیہ ارے او صفیہ بیٹی۔۔ ۔ جلدی سے دو کپ چائے تو بنا کر لا اور سن یہ پکڑ پیسے گلی سے کسی بچے سے بسکٹ اور سموسے بھی منگوا لے نصیبو کی چاشنی بھری آواز پہ اس نے چونک کر سر اٹھایا وہ مسکرا کر اسی کی طرف دیکھ رہی تھی حیرانی کا جھٹکا لگا اس نے پیسے پکڑے اور اثبات میں سرہلاکر چائے کا پانی چولہے پہ چڑھانے لگی۔

لگتا ہے کوئی بہت ہی خاص مہمان آیا ہے صفیہ نے پرسوچ انداز میں ماں کو باورچی خانے سے نکلتے دیکھا۔

اماں چائے۔ اس نے دروازے سے ہی ماں کو پکارا

اندر آ جا ری۔۔ کوئی غیر نہیں ہے اپنا ہی بچہ ہے نصیبو کے اتنے لگاوٹ بھرے انداز میں پکارنے پر حیرانی سے جھجھکتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور لوازمات میز پر رکھ دئیے جسے اس کی ماں بچہ کہہ رہی تھی وہ ایک سانولے رنگ کا پکی عمر کا مرد تھا جو ندیدے پن سے صفیہ کو ہی دیکھ رہا تھا صفیہ کو الجھن ہونے لگی عجیب بے باک اور بیہودہ نظریں تھیں۔

اماں میں جاؤں وہ اجازت طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔

ارے نہیں ری ادھر آ کر بیٹھ میرے پاس تجھے شکور سے ملاؤں یہ میرا دور پرے کا بھانجا ہے اور شکور یہ میری پیاری اور سلیقہ مند بچی صفیہ نصیبو نے شہد آگیں لہجے میں دونوں کا تعارف کرایا۔

صفیہ تو آج ماں کے پل پل بدلتے رویے پہ ہی پریشان تھی۔

ارے خالہ تمہاری بیٹی تو بہت پیاری ہے وہ جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا اس کا جائزہ لے رہا تھا پہلی بار بڑی بے باکی سے بولا۔۔ ۔

پیاری کیوں نہ ہو گی بیٹی کس کی ہے آخر نصیبو نے مکاری سے کہا۔

اماں میں ذرا ہنڈیا دیکھ لوں اس سے مزید بیٹھنا مشکل ہو گیا وہ اٹھنے کے لیے پر تولنے لگی۔۔ ۔

ارے رہنے دے آج بازار سے منگوا کر کھائیں گے شکور ابھی کہہ ہی رہا تھا کہ یہ بازار سے کھانے کے لیے کچھ لاتا ہے نصیبو نے اس کا ہاتھ تھام کر پیار سے روکا۔

ہاں خالہ میں ابھی جاتا ہوں بولو کیا کیا لانا ہے۔ وہ صفیہ کی طرف بے تکلفی سے دیکھ کر بولا۔۔

ارے میرا بچہ میں تو چکن کڑھائی کھاؤں گی ساتھ خمیری روٹی لے آنا اور سن کالی والی بوتل ضرور لانا صفیہ سے بھی پوچھ لے اس نے کیا کھانا وہ اپنا فرمائشی پروگرام ختم کر کے آخر میں صفیہ کی طرف دیکھنے لگی۔

صفیہ تم کیا کھاؤ گی؟

شکور تقریباً نثار ہوتے ہوئے بولا

جی۔ جی مجھے۔۔ ۔ کک۔ کچھ نہیں کھانا وہ ان دونوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز دیکھ کر گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔



ارے اسے چھوڑ یہ تو شرماتی رہے گی تو اس کے لیے بروسٹ اور آئسکریم لے آنا میں بھی چکھ لوں گی نصیبو نے ندیدے پن سے کہہ کر قہقہہ لگایا اور ساتھ ہی اس کی طرف دیکھ کر بے حیائی سے آنکھ ماری

میں برتن نکالتی ہوں وہ سٹپٹاکر باہر نکل گئی۔

شکور نے نصیبو کو دیکھ کر اوکے کا سگنل دیا اور نصیبو مطمئن ہو گئی۔

ارے اپنا کام ہے اس کا راج کرے گی اور مرد کی شکل و صورت اور عمر بھلا کون دیکھتا ہے کمائی دیکھی جاتی ہے کمائی نصیبو صفیہ کے باپ کو ہمیشہ کی طرح اپنے ٹریک پہ لا رہی تھی۔

وہ تو ٹھیک ہے پر دیکھ لے ابھی چھوٹی نہیں ہے اپنی صفو؟بشیر نے دبی ہوئی آواز میں کہا۔

آئے ہائے اب اتنی بھی چھوٹی نہیں ہے اس کی عمر کی لڑکیاں دو دو بچوں کی مائیں بن چکی ہیں شبیر کو بیٹی کی فکر کرتے دیکھ کر نصیبو کو تو جیسے پتنگے لگ گئے۔

اچھا ٹھیک ہے پر چھان بین تو کروا لی ہے نا تو نے شبیر نے نیم رضامندی ظاہر کرتے ہوئے پوچھا۔

ہاں ہاں سب تسلی کر لی ہے چھڑا چھانٹ ہے شریف انسان ہے گھر میں کوئی بڑا تو ہے نہیں تھا جو اس کے بارے سوچتا تبھی تو شادی کی عمر نکل گئی بیچارے کی نصیبو خاوند کو مطمئن کرنے کے لیے جلدی سے تفصیل بتانے لگی۔

چل پھر ٹھیک ہے بسم اللہ کرتے ہیں آگے جو خدا کو منظور بشیر نے جواب دیا۔

خدا کو تو جو منظور ہونا تھا سو ہونا تھا مگر جو نصیبو کو منظور ہونا تھا وہ ہو گیا۔



شکور نے صفیہ کے لیے کافی کچھ لا کر دیا جس میں سے کچھ نصیبو نے بھی اینٹھ لیا اس نے بے زبان جانور کی طرح اپنے گھر والوں کے آگے سر جھکا دیا۔

اور پھر ایک شام سادگی سے اس کا نکاح کر دیا گیا لال عروسی جوڑے میں ہر وقت میلی کچیلی رہنے والی صفیہ پر ٹوٹ کے ایسا روپ آیا کہ ایک لمحے کو وہ آئینہ دیکھ کر خود بھی ششدر رہ گئی۔

کہتے ہیں کہ عورت کی خوبصورتی اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے مگر یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہی خوبصورتی اس کے اچھے نصیب کی ضامن کبھی نہیں ہو سکتی۔

اور صفیہ کی خوبصورتی بھی اس کے بد نصیبی کے زنگ کو کھرچ کے اس کی زندگی سے نہ نکال سکی۔

صفیہ اپنی قسمت کی مالک نہ تو پہلے تھی نہ اب رہی پہلے وہ اپنی سوتیلی ماں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی تھی اب اپنے خاوند کے ہاتھ کا کھلونا بن گئی تھی۔

کرایے کے تنگ سے مکان میں رہائش پذیر اس کا مجازی خدا شکور ایک نہایت ہی آوارہ اور عیاش طبیعت کا مالک تھا صفیہ بھی اس کے لیے عیاشی کا سامان تھی حسین اور کم عمر نئی نویلی دلہن کے ابتدائی دن ناز اٹھانے کے بعد وہ اپنی اصلیت پہ اتر آیا تھا صفیہ بیچاری تو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر ہی گئی تھی مگر قسمت کو اس کا صبر ایک آنکھ نہ بھایا۔

شکور میری طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے الٹیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی ڈاکٹر پہ لے چلیں مجھے وہ نقاہت زدہ آواز میں شوہر سے مخاطب ہوئی۔

کیا ہوا ہے تمہیں وہ کرختگی سے بولا۔

پتہ نہیں صبح سے الٹیاں آ رہی ہیں کچھ کھایا پیا بھی نہیں جا رہا وہ بمشکل بولی۔

پتہ نہیں کیا الٹا سیدھا کھاتی رہتی ہے اپنے گھر تو جڑتا نہ تھا یہاں ضرورت سے زیادہ مل گیا تو پچ نہیں رہا وہ کٹیلے لہجے میں بولا۔

چل اٹھ کہیں مر مرا گئی تو مصیبت میرے گلے پڑ جانی ہے اس نے غصے اور بے زاری کے ملے جلے تاثرات سے دیکھا۔

وہ تکلیف کے ساتھ ساتھ آنسو بھی ضبط کرتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔



آپ کے لیے خوشخبری ہے آپ کی بیوی ماں بننے والی ہے آپ ان کی صحت اور غذا کا خاص خیال رکھیں ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اور یہ کچھ طاقت کی میڈیسن ہیں یہ بھی انہیں دیتے رہیے گا لیڈی ڈاکٹر نے ایک پرچی بھی تھمائی جسے شکور نے تنے ہوئے چہرے کے ساتھ بادل ناخواستہ تھاما صفیہ یہ خبر سن کر جتنی خوش تھی شکور اتنا ناخوش اس کے چہرے پر ہلکی سی بھی خوشی کی رمق نہ تھی صفیہ شکور کے رویے سے پریشان ہو گئی۔

مبارک ہو آپ باپ بننے والے ہیں گھر آ کر اس نے خوشی سے نہال ہوتے ہوئے کہا۔

بات سنو۔۔ ۔ مجھے اس بچے کی طلب نہیں ہے تم اسے گرا دو میں ایک آزاد زندگی گزارنے والا بندہ ہوں ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا آگے ہی تمہاری ذمہ داری اٹھا کر پچھتا رہا ہوں اور ویسے بھی میری کونسی ایسی جائیدادیں رل رہی ہیں کہ مجھے ان کے لیے کوئی والی وارث کی ضرورت ہو۔

یہ سب کہتے ہوئے وہ کتنا سفاک لگ رہا تھا صفیہ نے تڑپ کر دیکھا نہیں شکور یہ ہماری اولاد ہے میں اسے نہیں گراؤں گی اور آنے والا بچہ اپنے نصیب کا رزق ساتھ لاتا ہے اس نے صاف انکار کر دیا۔

مجھے کچھ نہیں سننا تمہیں وہ ہی کرنا ہو گا جو میں کہوں گا ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہو گا سمجھی شکور نے اس کی چٹیا پکڑتے ہوئے واضح طور پہ دھمکی دی۔

نہیں ہرگز نہیں وہ بپھر کے بولی اور اپنی چٹیا چھڑانے لگی۔

تو نہیں مانے گی ہاں ؟شکور نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

نہیں وہ حتمی انداز میں بولی۔

انجام کی تو خود ذمہ دار ہو گی اب وہ اس کی چٹیا چھوڑ کر میز کو ٹھوکر مارتا ہوا باہر نکل گیا۔

اور وہ صدمے سے ڈھے سی گئی۔

پھر ایک بار نہیں کئی بار شکور نے کوشش کی کہ صفیہ اس کی بات مان جائے مگر وہ ایسا نہ کر سکی۔

تجھے میں نے بہت دفع کہا پر تو میری بات نہیں سمجھی شکور کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوئے بولا

لہذا میں تجھے طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق ۔۔۔وہ یک لخت بولا اور صفیہ تو جیسے پتھرا کر رہ گئی۔

نہیں اس کے ہونٹ کپکپائے اور وہ چکرا کر بستر پہ گر گئی۔

یہ کیا ہو گیا میرے خدا میں نے کونسا ایسا گناہ کیا تھا وہ بے بسی سے اشک بہانے لگی۔

بابا۔۔ ۔ وہ سفید پڑتے چہرے کے ساتھ لٹی پٹی اپنے باپ کے گھر کی دہلیز میں کھڑی تھی اس کا ابا تو اسے چھوڑ کر بہت دور جا چکا تھا صحن میں جم غفیر جمع ہوا تھا اور سامنے ہی چارپائی پر اس کا باپ اس کی حالت سے بے خبر آنکھیں بند کیے پڑا تھا نصیبو پاس بیٹھی سینہ کوبی کر رہی تھی وہ بھی ایک کونے میں بیٹھ کر آنسو بہانے لگی۔

چل تو یہاں پڑی کیا کر رہی ہے ؟نصیبو نے جنازے کے اٹھتے ہی اسے کہا۔

اماں مجھے شکور نے طلاق دے دی وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھ کر بولی۔

تو؟میں کیا کروں میں نے تو تیرا فرض ادا کر دیا تھا اب میں مزید تیرا بوجھ نہیں ڈھو سکتی چل نکل یہاں سے نصیبو نے طوطا چشمی کا عظیم الشان مظاہرہ کیا۔

اماں میں کہاں جاؤں گی وہ صدمے میں گھر کر بولی۔

میری بلا سے جہاں مرضی جا پر میں اب تجھے اپنے پاس نہیں رکھوں گی اور ویسے بھی شکور نے مجھ سے تیرا سودا کیا تھا تھوڑے عرصہ رکھنے کے لیے نصیبو نے بے رحمی سے انکشاف کیا۔

کیا ؟وہ بری طرح سے چونکی۔

ہاں شکور نے تیرے بدلے 80ہزار دیے تھے وہ صاف گوئی سے بولی۔

تو تو نے میرا سودا کیا تھا ؟صفیہ پتھرائے ہوئے لہجے میں بولی۔

تو اور کیا کرتی تیرے باپ کو پان سگریٹ کی ہٹی(دوکان )کھولنی تھی ہم کیا بے وقوف تھے جو مفتی میں تجھے بیاہ کے ہتھل(خالی ہاتھ )ہو کر بیٹھ جاتے نصیبو ہاتھ نچا کر بولی۔

وہ تو اس کی سوتیلی تھی تو کیا اس کا سگا باپ بھی اس سب میں شامل تھا اس نے دکھ سے سوچا۔

سوچا تھا کہ باپ ہی آخری سہارا ثابت ہو گا مگر وہ تو خود دنیا سے منہ موڑ کر جا چکا تھا اور کیا پتہ نصیبو سچ بھی کہہ رہی تھی یا جھوٹ یہ راز تو قبر میں اس کے ساتھ ہی گیا۔

چلو اپنی راہ لو نصیبو نے اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر دھکیلا۔

اماں میں کہاں جاؤں گی؟وہ بھی اس حالت میں خدا کے لیے مجھے یہاں رہنے دو صفیہ منت سماجت پہ اتر آئی

نہیں تو یہاں نہیں رہ سکتی میں یہ گھر بیچ کر اپنی بہن کے پاس جا رہی ہوں میرا کون والی وارث ایک تھا وہ اب چلا گیا نصیبو اس کی منت و سماجت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بولی۔

نہیں اماں خدا کے لیے میرے حال پہ رحم کھاؤ مجھے اپنے ساتھ رکھ لو میں تمہاری خدمت کروں گی تم جو کہو گی میں کروں گی وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔

تو اب میرے کسی کام کی نہیں اکیلی ہوتی تو بھی ٹھیک تھا اب ساتھ ایک اور مصیبت لے کر آئی میں کہاں اتنا وختہ پال سکتی نا بابا نا چل نکل بڑی مشکل سے تو تجھ سے پیچھا چھڑایا ہے اب کیا پھر سے مصیبت مول لے لوں اس نے اسے باہر نکال کر دروازہ بند کر لیا۔

وہ کتنی دیر تک دروازہ بجاتی رہی روتی رہی واسطے دیتی رہی مگر نصیبو کے کان پہ جوں تک نہ رینگی وہ دروازہ بجاتی رہی یہاں تک کہ سارے محلے کے لوگ اپنے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں سے جھانکنے لگے اور ترس بھری نظریں اس پر جمنے لگیں۔

ناچار وہ اٹھی اور خاموشی سے واپس چل دی لوگوں کے قریب سے گزرنے پر مختلف جملے سننے کو ملے مگر وہ نظر انداز کرتی ہوئی نکلتی چلی گئی۔

ہائے بیچاری کتنی اکیلی رہ گئی سوتیلی ماں تھی نا۔۔ سوتیلاپن آخر دکھا ہی دیا۔

ہائے غریب اس حالت میں اب کہاں جائے گی وغیرہ وغیرہ۔

کچھ آوارہ اور منچلے بھی آوازیں کسنے لگے ۔

ارے رانی کہیں ٹھکانہ نہیں تو ہمارے پاس آ جا۔ وہ کان لپیٹ کر وہاں سے نکلتی چلی گئی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کسی ایسی جگہ چلی جائے جہاں کوئی نہ ہو۔

وہ واپس گھر آئی شکور اپنا سامان لے کر جا چکا تھا وہ مالک مکان کے پاس گئی وہ خدا ترس عورت تھی اسنے صفیہ کو تسلی و تشفی دی اور کہا وہ جب تک چاہے اس کے پاس رہ سکتی ہے صفیہ کو یقین ہونے لگا کہ دنیا میں برے ہی لوگ نہیں موجود یہاں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی۔

صفیہ تجھے کپڑے سینے آتے ہیں ؟رجو اس کی مالک مکان نے اس سے پوچھا جو سچ میں اس کی ہمدرد تھی

ہاں آپا سی ہی لیتی ہوں وہ بولی۔

تو پھر ایسا کر میں جس فیکٹری میں کام کرتی تھی تجھے وہاں لگوا دیتی ہوں بچوں کے ریڈی میڈ کپڑوں کی فیکٹری ہے جو تھوڑی بہت خامی ہو گی وہ میں سمجھا سکھا دوں گی اچھی تنخواہ مل جائے گی اور تیری گزر بسر بھی ہو جائے گی کیوں کیا کہتی ہو ؟رجو سوالیہ نگاہیں اس پہ جمائے بولی۔

آپا آپ ٹھیک کہہ رہی ہو آخر کب تک ایسا چلے گا اب تک تو جو جمع پونجی تھی وہ استعمال ہو کر ختم ہونے والی ہے بھلا ہو شکور کا جس نے کچھ پیسے دے رکھے تھے اب بس بچہ ہو جائے تو کام پہ لگ جاؤں گی وہ تائیدی انداز میں سرہلاکر بولی۔

تو کتنی بھولی ہے نا تیرا مرد تجھے ناحق چھوڑ کر چلا گیا تو پھر بھی اس کی لیے دعا کرتی ہے تیری جگہ گر میں ہوتی تو بد دعائیں دیتی بد دعائیں رجو کو اس کی معصومیت پہ بڑا ترس آیا۔

آپا دوش اس کا نہیں دوش تو میری تقدیر کا تھا جو تقدیر میں لکھا ہو اسے کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے اسی لیے میں اسے قصوروار نہیں مانتی وہ بجھے ہوئے لہجے میں بولی۔

سچ کہتی ہے پر اللہ آگے بہتر کرے گا اچھا میں چلتی ہوں تجھے کسی چیز کی ضرورت پڑے تو آواز دے لینا اور سن یہی دن ہیں احتیاط سے رجو نے تاکید کی۔

جی بہتر آپا وہ سعادت مندی سے سرہلاکر بولی۔

اب تو آرام کر تیرا ویر آنے والے ہے ان کو روٹی ٹکر بھی دینا ہے رجو نے چپل پیر میں اڑسائے اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

ماں بننا کسے کہتے ہیں اور کیسے بنا جاتا ہے یہ تو وہی جان سکتی ہے جسے یہ مقام حاصل ہوتا ہے صفیہ کے پاؤں تلے بھی بالآخر جنت آ ہی گئی اس کے گھر چاند سی بیٹی ہوئی تھی۔

جو ہو بہو صفیہ کا عکس تھی وہ اسے پا کر اتنی خوش ہوئی کہ اپنے سارے دکھ بھول گئی کوئی تو اس کا اپنا ہے یہ سوچ سوچ کر ہی دل کو سکون مل رہا تھا۔

رجو آپا آج مجھے میری سہیلی مل گئی اب مجھے خدا سے کوئی گلہ نہیں کوئی شکوہ نہیں وہ ننھی سی جان کو دیوانہ وار چومتے ہوئے بولی۔

چل مبارک ہو تجھے بہت بہت تیرے جینے کا کوئی تو جواز بنا رجو مسکراتے ہوئے بولی۔

خیر مبارک صفیہ کا چہرہ حقیقی مسرت سے دمک رہا تھا۔

اسکا نام کیا رکھنا ہے رجو نے پوچھا۔

اسکا نام میں نے کائنات رکھا ہے یہ میری کل کائنات جو ہے صفیہ جھٹ سے بولی۔

یہ تو بہت پیارا نام ہے چل پکڑا اپنی کائنات مجھے اور کھانا کھا لے رجو نے ہاتھ آگے کیے۔

ہاں آپا آج بڑے دنوں بعد مجھے بھوک لگی ہے صفیہ کی آواز خوشی سے کپکپا رہی تھی اور آنکھوں میں نمی بھی تھی۔

کیسا بدنصیب باپ ہے اتنی پیاری بیٹی کو دھتکار گیا رجو نے دل میں کہا اور کائنات کو گود میں لے کر پیار کرنے لگی۔

وقت تھوڑا اور سرکا اور مقدس تین سال کی ہو گئی رجو نے صفیہ کو دوسری شادی کے لیے بہتیرا زور دیا مگر وہ نہ مانی وہ باقاعدگی سے فیکٹری میں کام کر رہی تھی اور اپنے حال پہ مطمئن نظر آنے کی کوشش بھی رجو آپا کی کوئی اولاد نہ تھی سو وہ کائنات کو ہی پالتی سنبھالتی تھی صفیہ کبھی کبھی سوچتی اگر رجو آپا اس کو سہارا نہ دیتی تو جانے اس کا کیا بنتا۔



صفیہ ایک بات کہوں جو میں پہلے بھی کہتی ہوتی ہوں تجھ سے اگر تو دوسری شادی کر لیتی تو تیرے لیے اچھا ہوتا ابھی تیری عمر ہی کیا ہے ؟اس دن رجو نے پھر صفیہ کی شادی کا تذکرہ چھیڑا۔

آپا میں تو شادی کر لوں گی پر میری بچی کا کیا ہو گا میں اس پر سوتیلا رشتہ مسلط نہیں کر سکتی آپا میں سوتیلا رشتہ بھگت چکی ہوں اور اپنی بیٹی پہ ویسا وقت نہیں لانا چاہتی جو مجھ پہ گزرا ایک اور صفیہ کو جنم نہیں لینے دوں گی میری کائنات کسی سوتیلے رشتے کے زیرِ سایہ نہیں پلے گی میں اسے ہر وہ خوشی دوں گی جس کی وہ حقدار ہے میں اسے کبھی بھی اس کے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گی میں اس کی ماں اور باپ دونوں بن کر دکھاؤں گی یہ میرا مجھ سے وعدہ ہے وہ فیصلہ کن انداز میں بولتی چلی گئی۔

جیسے تیری مرضی بہن میں تو اس خیال سے کہہ رہی تھی کہ تو ابھی کم عمر ہے جوان ہے پھر بھلا یہ پہاڑ جیسی زندگی اکیلے کیسے گزرے گی چھوٹی سی جان کے ساتھ رجو نے ترحم بھری نظریں ڈالی۔

جیسے اب تک گزری ویسے مزید بھی گزر جائے گی اللہ مالک ہے صفیہ نے بے تاثر لہجے میں کہا۔

ہاں اللہ تو مالک ہے رجو سرد آہ بھر کر بولی اور کائنات کو دیکھنے لگی۔

اور وہ خالی خالی نظروں سے دونوں کو دیکھنے لگی۔

رجو آپا۔۔ ۔ رجو آپا جلدی دروازہ کھولو صفیہ نے رات گئے رجو کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

کیا ہوا صفیہ اتنی رات گئے رجو دروازہ اپنے پیچھے بند کرتی باہر نکلی اور صفیہ کو پریشان حال کھڑے پایا۔

آپا کائنات کی طبیعت نہیں ٹھیک ہے تھوڑے پیسے چاہیے وہ تیزی سے بولی۔

کیا ہوا صبح تو ٹھیک تھی وہ تشویش سے بولی۔

پتہ نہیں آپا پلیز پیسے دے مجھے ہسپتال لے کر جانا ہے اسے بہت تیز بخار ہے وہ تقریباً روتے ہوئے بولی۔

ارے کچھ نہیں ہوتا بچے بیمار ہو جایا کرتے ہیں رجو نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے تسلی دی۔

نہیں آپا کائنات کو کچھ نہیں ہونا چاہئیے اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں کیسے جی پاؤں گی وہ تڑپ کر بولی۔

حوصلہ کر صفیہ تو تو بڑی ہمت والی ہے ٹھہر میں بھی تیرے ساتھ چلتی ہوں رجو نے کہا۔

نہیں آپا تم بس مجھے کچھ پیسے دے دو وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔

پیسے ؟اچھا ٹھہر میرے پاس تو صرف پانچ سو روپے ہی ہیں صفیہ نے الماری سے پیسے نکال کر دیے۔

شکریہ آپا میں چلتی ہوں وہ ممنون نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی۔

جھلی ہوئی ہے اتنی رات گئے اکیلی جائے گی چل میں بھی ساتھ چلتی ہوں تو اکیلی کیسے سنبھالے گی رجو نے گھرکا۔

ٹھیک ہے آپا آپ چادر اوڑھ کر آؤ میں کائنات کو لاتی ہوں وہ عجلت میں کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف مڑی۔

دونوں رکشہ پکڑ کر کائنات کو لے کر ہسپتال پہنچیں کائنات کی حالت ٹھیک نہیں تھی ڈاکٹرز نے اسے ایڈمیٹ کر لیا مگر اس کی حالت ٹھیک نہیں ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی اسے چھٹی کرنی پڑ گئی وہ پریشان حال بیٹھی کائنات کی صحت و تندرستی کی دعا مانگ رہی تھی رجو مسلسل اس کی دلجوئی میں لگی تھی

سنیں آپ کائنات کے ساتھ ہیں یہ کچھ میڈیسن ہیں یہ فوراً لے کر آئیں ایک نرس نے اس کے قریب آتے ہوئے ایک بڑی سی لسٹ اس کے ہاتھ میں پکڑائی۔

آپا آپ یہی بیٹھو میں دوائیاں لے کر آتی ہوں وہ لسٹ پکڑ کر تیزی سے نیچے جانے والی سیڑھیاں اتر گئی۔

کتنے پیسے ہوئے بھائی وہ پریشانی سے ڈرپ اور دوسری دوائیوں کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جی تین ہزار ہو گئے میڈیکل والے نے مستعدی سے میڈیسن کی اماؤنٹ کیلکولیٹ کرتے ہوئے جواب دیا۔

تین ہزار۔۔ ۔ پر میرے پاس تو صرف ایک ہزار ہیں اس نے بے چارگی سے اپنی مٹھی میں پکڑے ہوئے مڑے تڑے نوٹ دیکھے۔

اچھا بھائی یہ آپ ہزار روپے پکڑ لیں میں باقی پیسے لے کر آتی ہوں تھوڑی دیر تک اس نے پیسے آگے کیے۔

معاف کرنا بی بی ہم ادھار نہیں دیتے دوکاندار نے روکھے لہجے میں معذرت کرتے ہوئے کہا۔

آپ باقی کے پیسے لے آؤ آپ کی دوا یہی پڑی ہے پورے پیسے دے کر دوائی لے جانا اس کے چہرے پہ بے حسی سی بے حسی تھی اور صفیہ کے چہرے پہ بے بسی سی بے بسی۔۔ ۔ اور بے حسی بے بسی کو منہ نہ لگا رہی تھی بے حس جو ٹھہری۔

اوہ میرے خدا میں کہاں جاؤں کس سے فریاد کروں میرا ہے کون تیرے سوا رجو آپا خود سفید پوش عورت ہے کروں تو کیا کروں ؟وہ سوچوں میں غلطاں تھی کہ یکایک اس کے ذہن میں جھماکہ سا ہوا

یاسر صاحب۔۔ ۔

ہاں وہی ایک امید کی کرن ہیں میں ان سے ایڈوانس میں اپنی تنخواہ میں سے لے لیتی ہوں صفیہ کو اپنے فیکٹری اونر کا خیال آیا۔

سر میں اندر آ سکتی ہوں وہ اجازت طلب کر کے اندر داخل ہوئی۔

اوہ صفیہ آپ آؤ آؤ یاسر تو اسے دیکھ کے جیسے کھل اٹھا۔

سر میں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آئی ہوں پلیز رد نہ کیجئے گا اس نے التجائیہ انداز میں تمہید باندھی۔

ارے بیٹھو تو سہی درخواست کیوں حکم کرو حکم بندہ حاضر ہے یاسر کی باچھیں چر کر کانوں سے جا لگی۔

سر میرے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں ہے میں آپ سے اگلے مہینے کی تنخواہ میں سے دو ہزار ایڈوانس لینے آئی ہوں میری بچی ہسپتال میں ہے وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔

اوہ تو یہ بات ہے وہ سنجیدہ ہوا۔

سوری مس صفیہ یہ ہماری فیکٹری کے رولز اینڈ ریگولیشن کے خلاف ہے کہ ہم ور کر کو ایڈوانس میں کچھ رقم دیں اب وہ رکھائی سے بولا۔

میں جانتی ہوں سرپر اس وقت مجھے ان پیسوں کی اشد ضرورت ہے اگر میری بچی کی طبیعت زیادہ خراب نہ ہوتی تو میں کبھی نہ مانگتی خدا کے لیے مجھے پیسے دے دیں نا آپ کا احسان ہو گا مجھ پہ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے رو پڑی۔

دیکھو میں نے کہا نا ہمارے کچھ اصول ہیں ہم ان اصولوں کے خلاف نہیں جا سکتے اسطرح تو سب ور کرز ایڈوانس مانگنے لگیں گے تم سمجھ رہی ہو نا؟ اب کے یاسر نے نرم لہجے میں کہا۔

سر پلیز میری بچی مر جائے گی وہ بلکنے لگی۔

ٹھیک ہے۔۔ ۔ میں تمہیں ایک شرط پر پیسے دے سکتا ہوں وہ مکاری سے مسکرایا۔

کیسی شرط وہ آنسوؤں کے درمیان بولی۔

اگر تم میرے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے تیار ہو تو میں تمہیں دو ہزار کیا پانچ ہزار تک دینے کو تیار ہوں وہ للچائی ہوئی حریص نظروں سے اس کے سراپے کو دیکھتے ہوئے بولا۔

یہ موقع پرست مرد بھی نا موقعے سے فائدہ اٹھانا خوب اچھی طرح جانتا ہے ۔

اے میرے خدا میرے لیے ہی ہر آزمائش رہ گئی ہے ایک طرف میری بیٹی تو دوسری طرف میری عزت بیٹی کو بچاؤں تو عزت داؤ پہ لگ جائے گی عزت بچاؤں تو بیٹی داؤ پہ میں اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوں میرے اللہ مجھے معاف کرنا وقت کم تھا فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی۔

ٹھیک ہے سر مجھے منظور ہے وہ سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی اس کی آنکھوں میں مجبوری ہی مجبوری تھی اور مقابل کی آنکھوں میں خود غرضی ہی خود غرضی۔

خود غرضی بھی مجبوری کا فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں کرتی خود غرض جو ٹھہری۔

ویری گڈ یہ ہوئی نا بات آؤ یاسر اپنی فتح پر سرشار ساہوا۔

سر بعد میں ابھی مجھے ہسپتال پہنچنا ہے وہ رقت آمیز لہجے میں بولی۔

بعد میں وہ استہزائیہ ہنسا۔

اگلا پل کس نے دیکھا ہے جو ہے ابھی ہے چلو وقت ضائع نہ کرو اس نے آفس سے ملحقہ دروازے کا لاک کھولا اور وہ بوجھل قدموں سے اندر داخل ہو گئی۔

دو گھنٹوں بعد جب وہ وہاں سے نکلی ہاتھ پیسوں سے بھرے ہوئے تھے مگر دل خالی اور جسم داغدار ہو چکا تھا وہ شکستہ قدموں سے چلتی ہوئی آئی اور رکشہ میں بیٹھ گئی۔

بی بی کہاں جانا ہے رکشے والا بولا۔

ہیں وہ چونکی اور خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگی۔

جلدی دسو بی بی جی رکشہ والا جھنجھلا کر بولا۔

جنرل ہسپتال وہ اتنا ہی بولی۔

اس نے کاونٹر پہ بل پے کیا اور دوائیاں لے کر تقریباً بھاگتی ہوئی ایمرجنسی کے باہر پہنچی۔

یہ لیجئے ڈاکٹر صاحب میں دوائیاں لے آئی وہ تیزی سے باہر نکلتے ڈاکٹر کے پاس لپکی۔

بی بی کہاں تھی تم اتنی دیر لگا دی ڈاکٹر غصے سے بولا۔

وہ۔۔ ۔ میں۔ وہ ہکلائی۔

رجو بھی اسے آتے دیکھ کر پاس آ گئی۔

لے جاؤ انہیں یہ اب ہمارے کسی کام کی نہیں رہی تمہاری بیٹی مر چکی ہے اگر بروقت دوائیاں آ جاتی تو شاید ہم کچھ کر سکتے الفاظ تھے کہ پتھر جو اس کی سماعتوں پر آ کر لگے ڈاکٹر سفاکی سے کہہ کر نکل گیا۔

نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔

وہ چیخی تڑپی دوائیوں کا شاپر ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا۔

صفیہ کہاں اتنی دیر لگا کے آئی ہماری کائنات ہم سے دور چلی گئی رجو آپا اسے بری طرح جھنجوڑ رہی تھی۔

نہیں آپا میری گڑیا اتنی جلدی مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی وہ بے یقینی سے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

صبر کر صفیہ صبر کر اللہ کو یہی منظور تھا اب تو ہم صرف صبر ہی کر سکتے ہیں رجو نے کندھے پہ تھپکی دیتے ہوئے کہا نہیں آپا وہ کیسے جا سکتی ہے اس کو بچانے کی خاطر میں نے اتنی بڑی قیمت چکائی ہے وہ لرز رہی تھی۔

کیا؟رجو آپا لمحوں میں سمجھ گئی۔

صدمہ تو بہت بڑا تھا وہ کائنات کی تصویر لے کر پہلے پہل تو روتی رہتی تھی لیکن وقت بہت بڑا مرہم ہے سو وہ بھی تھوڑا سا سنبھل گئی نوکری اس نے اسی دن سے چھوڑ دی تھی جینے کی وجہ ہی چھن گئی تھی تو جینا بے کار سا لگنے لگا تھا/

صفیہ۔۔ ۔ وہ کائنات کی تصویر دیکھ رہی تھی کہ رجو آپا نے ہولے سے پکارا۔

جی آپا؟ وہ تصویر کو سینے سے لگا کر رجو کی طرف متوجہ ہوئی۔

کیا کر رہی ہے وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔

کچھ بھی تو نہیں اب کرنے کو رہ ہی کیا گیا ہے وہ آزردہ سی بولی۔

اب تو تو بالکل اکیلی ہو گئی ہے آگے تو بچی کا آسرا تھا پر اب ایسے گزارا مشکل ہے میری بات مان شادی کر لے رجو ہولے سے بولی اس نے جیسے سنا ہی نہیں۔

ہاں آپا رات کو بہت ڈر لگتا ہے کبھی کائنات مجھے یہاں نظر آتی ہے کبھی وہاں کبھی آواز دے کر بلاتی ہے جب پاس جاؤں تو غائب ہو جاتی ہے کبھی ہنستی ہے کبھی رونے لگ جاتی ہے ۔

وہ وحشت زدہ سی ادھر ادھر ہاتھ کے اشارے کرتی ہوئی بولی۔

اکیلا پن بڑی بری بلا ہے زندگی اس طرح نہیں گزرتی صفیہ عورت کو قدم قدم پر مرد کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ۔

میں کرتی ہوں کسی سے تیرے بارے میں بات نوکری بھی چھوڑ چکی ہے تو رجو فیصلہ کن انداز میں بولی۔

وہ خاموش رہی۔

ریاض اچھا آدمی ہے بیچارا رنڈوا ہے بیوی تھوڑا عرصہ ہوا فوت ہو گئی سیدھا سادہ شریف آدمی ہے تیری ساری کہانی بتا دی ہے اس نے حامی بھی بھر لی ہے کوئی اولاد بھی نہیں ہے اچھا رشتہ ہے اب تو بھی ہاں کر دے صفیہ رجو نے تفصیل بتا کر اس کا مدعا جاننا چاہا۔

ٹھیک ہے آپا مجھے یہ رشتہ منظور ہے میں تجھ پہ مزید بوجھ بن کر نہیں رہنا چاہتی وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی۔

ایسا نہ سوچ میں صرف تیرا بھلا چاہتی ہوں تیری خیر خواہ ہوں رجو نے نرمی سے سمجھایا۔

جی آپا جو آپ کہو میں اب آپ کا کہا نہیں ٹالوں گی۔

جیتی رہ اللہ تجھے خوش رکھے شاد و آباد رکھے رجو نے اس کا ما تھا چومتے ہوئے کہا اور دو آنسو اس کی آنکھوں سے چھلک گئے ۔

دیکھو صفیہ میں کوئی بڑے بڑے دعوے تو نہیں کروں گا لیکن میری پوری کوشش ہو گی کہ میں تمہاری ہر ممکن خواہش کو پورا کروں میں سیدھا سا بندہ ہوں میری زیادہ ترجیحات نہیں ہیں میری کوئی ڈیمانڈ نہیں لیکن تمہیں خوش رکھنے کی پوری کوشش کروں گا ریاض نے اس کا ہاتھ تھام کر گرمجوشی سے دبایا اور وہ اپنی جگہ شرم سے سمٹ گئی۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی زندگی اس پر اتنی مہربان بھی ہو سکتی ہے ریاض اس کی توقع سے بڑھ کر اچھا شوہر ثابت ہوا وہ ایک محنتی حلال رزق کمانے والا نیک انسان تھا صفیہ اپنے سارے دکھ بھول گئی بیٹی کی یاد تو بے چین کرتی تھی اشک بھی بہہ نکلتے تھے پر ریاض اس کی ہمت بندھاتا اور اسے ڈھارس مل جاتی۔

ریاض چلیں نا آئسکریم کھانے چلتے ہیں صفیہ نے لاڈ سے فرمائش کی۔

کیوں نہیں ابھی چلتے ہیں ریاض نے مسکرا کر خندہ پیشانی سے کہا۔

میڈم ریڈی ہو جاؤ میں پانچ منٹ تک میں بائیک نکالتا ہوں تب تک وہ کہتے ہوئے باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ صفیہ کو چکر سا آیا۔

کیا ہوا ؟ریاض پریشانی سے اس کی جانب لپکا۔

کچھ نہیں بس ذراسا چکر آ گیا تھا وہ اس کا ہاتھ تھام کر سنھبلتے ہوئے بولی۔

چلیں ؟وہ بولا۔

جی وہ دو قدم آگے بڑھی تو تیورا کر گر گئی ریاض بری طرح سے گھبرا گیا وہ اسے پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لایا اور سیدھا ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔

مبارک ہو آپ باپ بننے والے ہیں وہ سن کر جھوم اٹھا جبکہ وہ شرما گئی۔

مبارک ہو آپ کو بہت۔ وہ شرمیلی سی مسکان ہونٹوں پہ لا کر بولی۔

اور تمہیں بھی تم پھر سے ماں بننے والی ہو۔ آج میں بہت خوش ہوں ۔ریاض کی خوشی اس کے چہرے سے جھلکی پڑی تھی۔

ہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ میری اجڑی ہوئی گود کو ایک بار پھر سے بسارہا ہے میں تو خواہ مخواہ اپنے رب سے شکوہ کناں رہتی تھی وہ دل میں بولی۔



دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے ریاض اس کا بہت خیال رکھتا تھا اسے چوتھا مہینہ چل رہا تھا الٹراساونڈ رپورٹ میں بیٹے کی خوشخبری ملی اس نے ریاض سے ابھی یہ بات نہیں بتائی تھی۔

ریاض ذرا سامنے پارک تک چکر لگا کر آتے ہیں اس نے ریاض سے فرمائش کی۔

ہاں ڈاکٹر نے تمہیں ہلکی پھلکی واک کا بھی کہا ہے ریاض تابعداری سے بولا وہ تو صفیہ کے نخرے اٹھا اٹھا نہیں تھک رہا تھا۔

وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے مسکراتے چلے جا رہے تھے اور تقدیر ان کے اوپر مسکرا رہی تھی

ارے ارے یہ ہنسوں کا جوڑا کہاں جا رہا ہے رجو آپا راستے میں ہی مل گئی۔

کیسی ہیں آپا آپ صفیہ انہیں اچانک سامنے پا کر بے ساختہ گلے لگ گئی۔

میں ٹھیک ٹھاک تو سنا کبھی لگاؤ نا میرے گھرکا چکر وہ دونوں کی طرف باری باری دیکھ کر بولی۔

جی کیوں نہیں ضرور ریاض مودب لہجے میں بولا/

اچھا ٹھیک ہے جاؤ جہاں جا رہے تھے کہہ رہے ہو گے کیا راستہ روک کر کھڑی ہو گئ ہے۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔

آپا ایسا بالکل نہیں ہے۔ صفیہ منہ بنا کر بولی۔

ہاہاہاہا ہاں ہاں پتہ ہے یونہی مخول کر رہی ہوں ۔

وہ سلام کر کے آگے بڑھ گئے ۔

خدا کرے ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر نہ لگے رجو نے دل سے دعا دی۔

پر ان کی خوشیوں کو نظر لگ چکی تھی۔

ارے یہ صفیہ ہے نا؟وہ دونوں پارک میں خوش گپیاں کرتے ہوئے ٹہل رہے تھے کہ جسم سے روح کھینچ دینے والی آواز ابھری۔

ہاں یار لگ تو صفیہ ہی رہی ہے دوسری آواز ابھری۔

پر اس کے ساتھ کون ہے ؟پہلی آواز ابھری۔

ہو گا اس کا کوئی نیا یار پرانے یارو کو بھول کر اب نت نئے یار بناتی ہو گی۔

دوسرا تمسخر سے ہنسا۔

زہر اگلتے الفاظوں کی بمباری اس زور و شور سے ان کی سماعتوں پر گری کہ وجود کے پرخچے اڑ گئے ۔

ریاض اور صفیہ نے مڑ کر دیکھا اور صفیہ اپنی جگہ جم کر رہ گئی۔

خباثت سے مسکراتے چہرے کسی اور کے نہیں اس کے فیکٹری مالک اور منیجر کے تھے ۔

وہ فق ہوتے چہرے سے انہیں دیکھ رہی تھی۔

ارے تمہیں تو اچھی طرح سے یاد ہو گی آخر تمہارا تو بستر گرم کیا تھا یہ کہہ کر وہ دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے ۔

آخری الفاظ تھے کہ پگھلا ہوا سیسہ جو صفیہ کے کانوں میں کسی نے انڈیل دیا تھا اس نے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیے لیکن بازگشت اب بھی باقی تھی۔

اس سے زیادہ سننے کی نہ ریاض میں تاب تھی نہ ہی حوصلہ وہ ان دونوں پہ پل پڑا اور دو گھونسے یاسر کے جڑے ۔

کیا بکواس کر رہے ہو بیوی ہے میری۔ وہ قہر آلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے جیسے دھاڑا۔

اوہ سوری انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ تیزی سے وہاں سے نکل گئے اور وہ یوں کھڑی تھی جیسے سر بازار کسی نے اس کے سر سے چادر کھینچ دی ہو۔



ریاض نے حقارت بھری نگاہ اس پر ڈالی اسے جھرجھری سی آ گئی ریاض کی آنکھوں میں کیا نہیں تھا اس کے لیے نفرت حقارت اور سب سے بڑھ کر اجنبیت ریاض نے زمین پر تھوکا اور وہاں سے چلا گیا وہ پیچھے لپکی۔

ریاض یہ آپ کیا کر رہے ہیں خدا کے لیے میری بات سنیے میں آپ کو سب بتاتی ہوں۔ وہ رو رو کر دہائیاں دے رہی تھی مگر وہ کان لپیٹے کپڑے بیگ میں ٹھونستا جا رہا تھا وہ اس کے پاؤں میں گر پڑی اس نے جھٹک کر پاؤں چھڑایا۔

صفیہ نے رو رو اپنی بپتا سنائی جب وہ بول بول کر تھک گئی تب تک ریاض اپنی آخری چیز بھی سمیٹ چکا تھا وہ بے دم سی پڑی تھی۔

وہ اس کے قریب آیا۔

آخر کچھ تو سچائی ہو گی نا ہو سکتا ہے تمہارے ابھی بھی دوسرے مردوں سے ناجائز مراسم ہوں میں کونسا سارا دن گھر ہوتا ہوں جو عورت ایک بار بک جاتی ہے نا وہ پھر بار بار بکتی ہے اور تم تو پہلے بھی دو بار بک چکی تھی ایک بار اپنی ماں کی مرضی سے دوسری بار اپنی مرضی سے وہ سنگدلی کا بھرپور مظاہرہ کر رہا تھا۔

نہیں نہیں وہ لرز کر رہ گئی۔

اور کیا پتہ یہ بچہ بھی میرا ہے یا پھر کسی اور کا؟الزام کا آخری کنکر بھی بالآخر مار ہی دیا تھا۔

جو اس کی زخمی روح میں اذیت کا آخری شگاف ڈالنے کے لیے کافی تھا۔

نہیں خدا کی قسم میں نے تمہاری امانت میں کبھی خیانت نہیں کی میرا یقین کرو میں سچ کہہ رہی ہوں۔ وہ چیختے ہوئے بولی۔

نہیں تم ایک بے اعتبار عورت ہو آج ایک نے انگلی اٹھائی کل دوسروں کی زبانیں بھی کھلیں گی مجھے اپنی عزت بہت پیاری ہے اور میں اسے بدکردار عورت کے ساتھ رہ کر نہیں گنوا سکتا طلاق تمہیں مل جائے گی۔ وہ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے بیگ کی زپ بند کرنے لگا۔

نہیں نہیں ریاض میرے ساتھ ایسا نہ کرو مجھے طلاق نہ دینا میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں وہ ہاتھ جوڑنے کے ساتھ ساتھ پاؤں پڑنے لگی۔

خدا حافظ اگلے مہینے یہ مکان خالی کر دینا میں مالک مکان سے کہہ دوں گا وہ سردمہری سے کہتا ہوا باہر نکلنے لگا۔ صفیہ نے اس کی ٹانگ پکڑ لی اور لگی منت سماجت کرنے۔ مگر وہ اس کی ایک نہیں سن رہا تھا وہ اپنا آپ چھڑاتا ہوا باہر جا رہا تھا وہ اس کے ساتھ دور تک گھسیٹتی چلی گئی مگر ریاض کو ذرا ترس نہ آیا۔ صفیہ کی آنکھوں میں بے کسی سی بے کسی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے رحمی سی بے رحمی تھی۔ بے کسی پہ بے رحمی کیسے رحم کھاتی بے رحم جو ٹھہری۔

وہ بے دردی سے اسے پرے دھکا دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

کیوں ہر بار میرے ساتھ ہی کیوں ایسا ہوتا ہے۔ وہ چیختی چلاتی لٹی پٹی رجو آپا کے سامنے کھڑی تھی۔

کیا ہوا صفیہ کیوں ایسے بدحال ہوئی ہے ریاض کہاں ہے ؟رجو نے صفیہ کو جھنجھوڑا۔

چھوڑ گیا آپا ریاض بھی مجھے چھوڑ گیا۔ وہ سینہ پیٹتے ہوئے بولی۔

وہ گلی میں ہی بیٹھ گئی زار و قطار روتی ہوئی۔

کیا ؟رجو بری طرح چونکی۔

اچھا اٹھ اندر چل پہلے وہ اسے اٹھا کر کھینچ کر اپنے ساتھ اندر لے آئی۔

بہت برا ہوا تیرے ساتھ خدا تو بندے کا گناہ معاف کر دیتا ہے اس کے عیبوں کی پردہ پوشی فرمایا دیتا ہے مگر انسان بہت ظالم ہے وہ نہ کسی کا گناہ معاف کرتا ہے نہ ہی کسی کی پردہ پوشی۔ رجو ساری بات سننے کے بعد ٹھنڈی سانس بھر کر بولی۔

سچ تیرا نصیب ہی کھوٹا ہے وہ ترحم بھری نظریں اس پہ ڈال کر بولی۔

اب جو ہونا تھا ہو گیا لیٹ جا تیری حالت بھی ویسی ہے ۔

رجو کے کہنے پہ وہ خاموشی سے لیٹ گئی ایک بار پھر اس کے وجود میں موت کا سا سناٹا چھا گیا تھا۔

اے میرے خدا میں نے کیا قصور کیا تھا کیوں تو نے میرے وجود کو اتنی نحوست بخشی پہلے میری سگی ماں سے محروم کیا اور سوتیلی ماں کے ظلم کا نشانہ بنی۔ شکور جیسے انسان کے ہاتھوں بے جان چیز کی طرح فروخت ہوئی۔ یاسر جیسے غلیظ شخص کے ہاتھوں بے آبرو ہوئی۔ میری پیاری بیٹی چھین لی اور آج ریاض جیسا اچھا شوہر بھی چھن گیا۔

اور اے خدا تو نے میری دونوں اولادوں کا مقدر بھی ایک جیسا بنایا کائنات کا باپ بھی اسے دیکھے بغیر چھوڑ گیا اور آج میرے دوسرے بدنصیب بچے کا باپ بھی اس سے منہ موڑ گیا۔

میں گناہ کے راستے پہ گئی صرف اپنی بیٹی کو بچانے کی خاطر جس کا ٹائیفائڈ بگڑ گیا تھا وہ میری کل کائنات تھی جسے میں کھونا نہیں چاہتی تھی۔

میں گناہ کے رستے پر ایک بار ضرور گئی لیکن اس کے بعد میں نے اس راستے پر قدم رکھنا تو دور کی بات سوچنا بھی گوارا نہ کیا۔ مگر تجھے میری کوئی ادا نہ پسند آئی ذرا سا بھی رحم نہ آیا۔

وہ رب سے شکوے شکایتوں پہ اتری ہوئی تھی۔

لیکن اب بس بہت ہو گیا جب میرے نصیب میں یہی لکھا ہے تو میں کیوں بھاگوں اس سے تو ٹھیک ہے پھر ایسا ہی سہی جو گناہ مجھ سے مجبوری میں سر زد ہوا تھا اب میں اس گناہ کی دلدل میں خود دھنسوں گی۔ گندی تو میں ہو ہی چکی ہوں تو کیا فائدہ خود کو پارسا رکھنے کا؟شاید میرے مقدر میں غلاظت ہی لکھی ہے۔ جس سے میں بچنے کی عبث سی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے اپنے آنسو بے دردی سے پونچھے اور مطمئن ہو کر آنکھیں موند لیں۔

آپا میں جا رہی ہوں فہد سورہا ہے آپ اس کا دھیان رکھنا اٹھ نہ جائے وہ اپنے بالوں کو سیٹ کرتے ہوئے بولی اور جھلملاتے ہوئے پرس کو اک ادا سے کندھے پہ لٹکایا تیز میک اپ میں شوخ و شنگ لباس سے آراستہ گہرے گلے کی قمیض سے نمایاں ہوتے ہوئے جسم کے نشیب و فراز ہر خاص و عام کو دعوت گناہ دینے کے لیے کافی تھے۔ اس نے سیاہ چادر لپیٹی اور چہرہ بھی ڈھانپ لیا۔ اس نے اپنے پلید وجود کو سیاہ چادر میں یوں چھپا لیا جیسے تاریک اندھیری رات اپنی آغوش میں ہر گناہ کو پناہ دے کر چھپا لیتی ہے ۔

وہ تو میں رکھوں گی ہی پر جب یہ بے قابو ہوتا ہے تو مجھ سے سنبھالا نہیں جاتا بس اس وقت اسے ماں چاہیے ہوتی ہے۔ آپا رجو اثبات میں سر ہلا کر بولی۔

وہ تو ٹھیک ہے آپا پر اب چوبیس گھنٹے تو اس کے ساتھ لگی نہیں رہ سکتی نا۔ کمائی بھی کرنی ہوتی ہے کماؤں گی نہیں تو کھائیں گے کہاں سے اسی خاطر تو کر رہی ہوں سب۔ وہ اپنا قیمتی موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھنے لگی۔

صفیہ اسے تھوڑی پتہ ہے کہ اس کی ماں کن عذابوں میں ہے یہ معصوم تو ابھی ایک سال کا ہے رجو نے ترس بھری نگاہ بے خبر سوئے ہوئے فہد پر ڈال کر کہا۔

ہاں آپا اسے کیا پتہ وہ سرد آہ بھر کر بولی۔

اچھا آپا یاد آیا یہ کچھ پیسے رکھ لو بھائی جی کی دوائی لے آنا طبیعت نہیں ہے ٹھیک ان کی وہ کچھ نوٹ ان کی مٹھی میں دباتے ہوئے بولی۔

نہیں نہیں یہ رکھ لو واپس۔ وہ تردد سے بولی۔

رکھ لے نا آپا آپ کو اپنی بڑی بہن سمجھتی ہوں جانتی ہوں نہیں پسند تجھے ایسی کمائی پر مجبوری میں سب جائز ہے ایک تو ہی تو میری واحد ہمدرد وغمگسار ہے ۔

یہی پس منظر ہی بنیاد ہے میرے گناہوں کی دلدل میں ڈوبنے کی اصل وجہ اور پھر میں اس میں غرق ہوتی چلی گئی۔

میں یہ نہیں کہتی کہ میں پہلے بھی کوئی اللہ والی ہستی تھی مگر ایسی غلیظ بھی نہ تھی کہ جتنی آج سر سے پاؤں تک غلاظت میں لتھڑ چکی ہوں وہ گہری سانس بھر کر بولی۔

اذان ہو رہی ہے صاحب وضو کرنا ہے، دور سے ہلکی سی اذان کی آواز پہ وہ چونک کر بولی۔

میں نے اشارے سے واش روم کی طرف اشارہ کیا اس نے مصلا بچھا کر نماز پڑھی اور دعا کے لیے ہاتھ بلند کر لیے۔

نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو بولی۔

صاحب صبح ہونے کو ہے مجھے اب گھر جانا ہو گا۔

تم نماز بھی پڑھتی ہو میں نے بے ساختہ پوچھا۔

جی صاحب گناہ اپنی جگہ نماز اپنی جگہ وہ سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے بولی۔

تم شادی کیوں نہیں کر لیتی مشورہ دینا آسان ہوتا ہے نا۔ سو میں نے بھی دے دیا۔

شادی وہ طنز سے مسکرائی۔

دو شادیوں سے مجھے کیا مل گیا جو تیسری بھی کر لوں تیسرا شخص شکور جیسا نکل آیا یا ریاض کی طرح تو ؟

ہو سکتا ہے اب کی بار تمہاری تقدیر بدل جائے میں نے پھر کہا ہو سکتا ہے اب جو شخص ملے وہ ان جیسا نہ ہو۔

ٹھیک کہا آپ نے پر ایسا شخص ملے گا کہاں جو سب جان کر بھی مجھے قبول کر لے کیا آپ کریں گے وہ میری طرف ایک ٹک دیکھتی ہوئی آخر میں اچانک سے بولی۔

میں ؟میں کیسے میری تو مکمل لائف ہے خوب صورت بیوی بچے سب کچھ ہے میرے پاس میں نے شانے اچکا کر کہا۔

یہی بات۔۔ ۔۔ ۔ رہنے دیجئے ہمدردی جتانے کا شکریہ مگر اس طرح کا مشورہ بھی نہ دیجئے کہ جس پر خود عمل کرنے سے قاصر ہوں وہ ہلکا سا ہنسی۔

دوسرے مرد بھی آپ جیسے ہی ہیں وہ چنداں مختلف تو نہیں ہوں گے نا خیر۔

وہ اپنا ڈوپٹہ اچھی طرح پھیلا کر اور اپنا پرس پکڑ کر بولی۔

آپ بہت اچھے انسان ہیں مجھے آپ سے مل کر سچ میں بڑی خوشی ہوئی لیکن کوشش کیجئے گا کہ دوبارہ ملاقات نہ ہونے پائے کیونکہ مطلبی اور خود غرض لوگوں سے مل مل کر اب اچھے اور پر خلوص انسانوں سے ملنے کی تمنا نہیں رہی عجیب سا لگتا ہے خدا حافظ۔

جانے کیوں دل چاہا اسے روک لوں مجھے اس پہ بے حد ترس بھی آیا سوچا کیا برا ہے اگر میں اسے عزت کی چادر اوڑھا دوں نیکی کی نیکی ثواب کا ثواب بھی ہے۔۔ ۔ مگر ہائے رے یہ اسٹیٹس یہ بیوی بچے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

سنو میں نے اتنی آہستہ پکارا کہ خود مجھے بھی سنائی نہیں دیا تو اسے کیسے سنائی دیتا۔ وہ چلی گئی مگر میرے دل پہ گہرے نقوش چھوڑ گئی۔ پھر میں کئی بار اس جگہ گیا کہ شاید وہ مل جائے مگر وہ اپنا ٹھکانہ بدل چکی تھی تبھی کبھی نہ نظر آ سکی پھر عمر بھر یہی پچھتاوا ہی دامن گیر رہا کہ کیا تھا گر میں سے عزت دے دیتا اور وہ آج با عزت زندگی گزار رہی ہوتی۔ بس بار بار یہی سوچ آتی ہے کہ مجھ سمیت اگر کوئی بھی مرد اپنا ظرف وسیع کر لے تو صفیہ اور اس جیسی کئی عورتیں بے سائبان نہ رہیں .

٭٭٭

ماخذ:فیس بک، صفحہ ناول ہی ناول

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید