ضمیر جعفری اردو کے ممتاز مزاح نگار اور شاعر ہیں۔ انکا پورا نام سید ضمیر حسین جعفری تھا۔ 1 جنوری 1916ء کو جہلم
کے ساتھ ایک گاؤں چک عبدالخالق میں پیدا ہوئے۔ تعلیم جہلم، اٹک اور لاہور سے حاصل کی۔
صحافت سے وابستہ ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں فوج میں شامل ہوئے۔ 1948ء میں اخبار نکالا۔ 1950ء میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا دوبارہ فوج میں آئے۔ سی ڈی اے اسلام آباد، نیشنل سنٹر اور اکادمی ادبیات پاکستان سے متعلق رہے۔ مافی الضمیر شعری مجموعہ ہے۔
وہ بیک وقت فوجی بھی تھے، صحافی بھی اور شاعر بھی۔ ان کے کئی ملی نغمے اب بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں بلکہ ان کا لکھا ہوا نغمہ ''میرا لونگ گواچہ'' مسرت نذیر کی آواز میں جب سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو جعفری صاحب کی شخصیت بے ساختہ سامنے گھومتی نظر آتی ہے۔ سید ضمیر جعفری کا اصل نام سید ضمیر حسین شاہ ہے۔ وہ ضلع جہلم کے گائوں چک عبدالخالق میں یکم جنوری 1916ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گائوں کے ٹاٹ مدرسہ میں حاصل کی۔ بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز کیا۔ لاہور سے روزنامہ ''احسان'' کے ذریعے صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ چراغ حسن حسرت کے رسالے ''شیرازہ'' کے مدیر بھی رہے بعد ازاں سرکاری ملازمت کے بعد فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ 1949ء میں فوجی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ''بادشمال''کے نام سے اپنا روزنامہ جاری کر دیا جو ناکام رہا پھر پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں پنجہ آزمائی کی وہ بھی ناکام رہی بعد ازاں پھر سے فوج میں واپسی ہو گئی۔ 1966 میں فوج سے سبکدوشی کے بعد سی ڈی اے کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر اور شمالی علاقہ جات کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ اکادمی ادبیات پاکستان سے بھی وابستہ رہے اور اخبارات کے لیے اور پی ٹی وی کے لیے پروگرام بھی کرتے رہے۔ انھیں ادبی خدمات کے طور پر تمغۂ قائد اعظم، صدارتی تمغۂ برائے حسن کارکردگی اور ہمایوں گولڈ میڈل کے انعامات سے نوازا گ
تفصیلی حالات
سید ضمیر حسین شاہ ضمیرؔ جعفری یکم جنوری 1916ء کو منگلا کے قریب ضلع جہلم کے چھوٹے سے گاؤں چک عبدالخالق میں سید حیدر شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے پرنانا سلطان العارفین حضرت پیر سید محمد شاہ پوٹھوہار اور آزاد کشمیر کے مقبول صوفی اور پنجابی کے یگانہ روزگار شاعر تھے،جو عارف کھڑی حضرت میاں محمد بخش قادریؒ کے ہم عصر تھے ۔ ’’ پیر دی ہیر‘‘ ان کی معروف تصنیف ہے۔ گورنمنٹ کالج کیمبل پور سے میٹرک اور انٹر کے امتحانات پاس کرنے کے بعد آپ نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1938ء میں بی ۔ اے کی سند حاصل کی۔ شعر و سخن کی کونپلیں ساتویں جماعت ہی سے پھوٹنے لگی تھیں، پنجاب یونیورسٹی کے طلباء کے ایک شہری مقابلے میں اپنی ایک نظم پر جسٹس سر شیخ عبدالقادر کے ہاتھوں پہلا ادبی اعزاز طلائی تمغہ حاصل کیا۔ جہلم کے علاوہ لاہور اور اٹک سے تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے35روپے ماہانہ پر روزنامہ’’ احسان،، کے نائب مدیر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی۔ اس دوران اردو کے معروف ادیب چراغ حسن حسرتؔ کے مقبول رسالے ’’شیرازہ،، کی ادارت میں معاونت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پھر کچھ عرصہ جہلم اوردہلی میں چھوٹی موٹی ملازمت کے بعد برطانوی ہند فوج میں شامل ہوگئے اور تین برس جنوب مشرقی ایشیاء کے محاذ پر فوج کے تعلقات عامہ کے شعبہ میں خدمات انجام دیں۔ فوج میں انہیں لاہور کے عہد ساز مجلے ’’کارواں،، کے مدیر کرنل مجید ملک ،کرنل فیض احمد فیض،کیپٹن ن، م راشد اور کمانڈر عسکری ( این سعید) جیسے شعراء اور ادیبوںکی رفاقت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ دوسری عالمی جنگ کے شعلے سرد ہوجانے پر 1948ء میں کیپٹن سید ضمیر جعفری آزاد وطن پاکستان آگئے اور انہیں کشمیر کی جنگ آزادی کے محاذ اوڑی کے مورچوں میں تعینات کردیاگیا۔ 1949ء میں فوجی ملازمت ترک کرکے دوبارہ صحافت کی وادی میں قدم دھرا کہ صحافت کہ ساتھ ان کا ازلی اور گہرا رشتہ تھا۔ روزنامہ’’ غالب ،، کے مدیر مقرر ہوئے۔ ’’غالب ،،کی مجلس ادارت میں مولانا نصر اللہ خان عزیز، شوکت تھانوی اور افضل صدیقی (بعد میں کراچی کے روزنامہ’’ امن ،،کے بانی مدیر) بھی شریک تھے۔ ’’غالب‘‘ کچھ ہی عرصہ بعد حالات سے مغلوب ہوگیا۔1950ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر اپنے دو عسکری دوستوں کرنل مسعود اور کیپٹن مسعود اللہ کے اشتراک سے آپ نے راولپنڈی کا پہلا روزنامہ’’ بادشمال،، جاری کیاجو ایک نئی روایت کا بانی تھا مگر مالی مشکلات نے ’’باد شمال‘‘ کو بھی ’’باد مخالف‘‘ کے حوالے کردیا۔سید ضمیر جعفری دل برداشتہ ہوکر اپنے گاؤں واپس چلے گئے اور 1975ء میں اپنے علاقے کی سیاسی نشست سے بطور آزاد امیدوار صوبائی اسمبلی کیلئے الیکشن لڑا اور اس لڑائی میں الیکشن جیت گیا اور ضمیر ہار گئے۔ اخبار کی بندش،انتخاب میں ناکامی ان کے معاشی حالات کیلئے ایک بحران ثابت ہوئے اور انہیں ایک مرتبہ پھر فوجی بیرکوں میں واپس جانا پڑا۔ فوجی ملازمت کے اس دوسرے دور میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول اور جنرل ہیڈکوارٹر میں شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ رہے ۔ پہلے ایوب خان مارشل لا کے دوران میجر ضیا الحق(بعد میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹراور صدر پاکستان )کے ساتھ ایک بر یگیڈ میں کچھ عرصہ کام کرتے رہے۔1959ء میں لاہور مارشل لا ہیڈ کوارٹر میں جنرل بختیار رانا کے پریس آفیسر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیے ۔وہیں سے ڈیپوٹیشن پر محکمہ دیہات سدھار کے ایڈیشنل ڈائر کٹر جنرل ہو کے کراچی وارد ہوئے ۔اس محکمے میں ممتاز مفتی، ابن انشاء ،احمد بشیر جیسے اہل قلم ان کے رفقائے کار تھے ۔ آپ کی پہلی شادی اپنی عم زاد سے لڑکپن میں ہوئی تھی مگریہ شادی دو چار ماہ بعد ہی ناکام ہو گئی۔ آپ نے دوسری شادی گجرات کے ایک معز ّز سید گھرانے اور اردو کے جید نا قد ،ممتاز شاعر، سید عابد علی عابد کے عزیزوں میں ہوئی۔ مگر یہ رفاقت بھی مختصر ثابت ہوئی۔ 1945 ء میں تیسری شادی ہوئی جس سے دو بیٹے سید احتشام ضمیر جعفری(لیفٹیننٹ جنرل) اور سید امتنان ضمیر جعفری ہیں۔ امتنان ضمیر 50کتب کے مصنف اور سابق کرکٹر ہیں۔سید احتشام کے بیٹے کا نام سید علی احتشام ہے۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں سیالکوٹ کے محاذ پر خدمت انجام دی۔ 1966ء میں فوج سے سبکدوشی کے بعد سول ملازمت کا سلسلہ قسط وار کئی برس تک جا ری رہا ۔کوئی ۱۴ برس اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کے پہلے ڈائر کٹر تعلقات عامہ رہے ۔چند برس وفاقی وزارت اطلاعات کے نیشنل سینٹر میں ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ کچھ عرصہ ایک دوسری وزارت میں افغان مہاجرین کے مشیر، پھر اکادمی ادبیات پاکستان کے جریدے’’ ادبیات،، کے مدیر اعلیٰ بھی رہے ۔1988 میں یہی ان کی آخری سرکاری ملازمت تھی۔وہ اردو کے فکاہی رسالے’’ اردو پنچ،، کی مجلس ادارت کے صدر نشیں اور ادبی رسالے چہار سو کے مدیر اعلی ٰ بھی رہے ۔ 1976ء میں ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ قائداعظم ،1985 ء میں صدارتی تمغہ حسن کاکردگی ملا ۔ شاہ صاحب کے کئی ملی ترانے ریڈیو اور ٹیلی وژن کا اثاثہ ہیں ۔کچھ عرصہ قبل پا کستان ٹیلی وژن نے طویل دورانیے کا ایک مقبول اسٹیج شو’’آپ کا ضمیر،، ان کے نام سے منسوب کیا تھا ۔ان کے گائوں کی سڑک ان کے نام سے موسوم ہے۔ قلم ان کے وجود کا جزوہے ۔پہلا شعری مجموعہ’’ کا رزار،، ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تھا۔ کل تصانیف کی تعداد۴۰ کے لگ بھگ ہے۔ مزاح نگار کی حیثیت سے مشہور ہوئے، لیکن سبھی اصناف میں خوب طبع آزمائی کی ، شعر و سخن اور مزاحیہ نثر پاروں کے علاوہ اخباری کالم نگاری میں بھی ضمیر جعفری کا اسلوب جداگانہ تھا، ان کے کالم کثیر اشاعت روزنامے ،جنگ ،غالب ،بادشمال ،خبریں، الاخبار ، ہفت روزہ اخبار جہاں، ماہانہ اردو ڈائجسٹ،سیارہ ڈائجسٹ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی مشہور کتابیںاُڑتے خاکے، ضمیریات، جہلم کے معروف پبلشنگ ادارے ’’ بک کارنر‘‘ کے زیر اہتمام دیدہ زیب طباعت سے شائع کی گئیں۔ شاہد حمید راوی ہیں کہ ایک روز ضمیر جعفری ، جنرل ضیاء الحق کے ساتھ موجود تھے۔ انھوں نے آپ سے اشعار سننے کی فرمائش کی۔ آپ نے اشعار سنائے تو خوب داد ملی۔ حفیظ جالندھری بھی وہیں موجود تھے کہنے لگے:’’ ضمیر جب ہمارے ساتھ ہوتے تھے تو اتنے عمدہ شعر نہیں کہتے تھے۔‘‘ ضمیر جعفری کہاں چوکنے والے تھے فوراً بولے: ’’ قبلہ یہ سب آپ کی دوری کا فیض ہے ‘‘ اور محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ ان کی دیگر کتب میں’ آگ اکتارا،ضمیر حاضر ضمیر غائب ،کتبے ،مافی الضمیراور نشاط تماشا،ولایتی زعفران، گورخند، مسدس بد حالی ہیں۔آپ کا انتقال 16مئی 1999ء کو ہوا۔آخری آرامگاہ کھنیارہ شریف میں اپنے نانا کے پہلو میں واقع ہے۔
نمونہ کلام
تیرے کوچے میں یوں کھڑا ہوں میں
جیسے ہاکی کا گول کیپر ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
لوکل مہاجرین پہ تازہ نکھار دیکھ
مونچھوں کے تاؤ دیکھ نظر کی بہار دیکھ
موٹر پہ اڑ رہا ہے وہ تلا کمہار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اِسے بار بار دیکھ
۔۔۔۔۔
بوا کو تو دیکھو نہ گہنانہ پاتا
فقط اک غرارہ فقط اک چھاتا
نہیںکچھ بھی نام خدا آتا جاتا
بجٹ ہاتھ میںجیسے دھوبن کا کھاتا
ادھر ممبری چھڑ گئی ممبری سے
ادھر طفل رونے لگے گیلری سے
بہ آواز شور و شغب بولتی ہیں
بہ انداز غیظ و غضب بولتی ہیں
نہیں بولتی، تو سب بولتی ہیں
پہ جب بولتی ہیں تو سب بولتی ہیں
شہادت کی انگشت اقبال پر ہے
کبھی ناک پر ہے کبھی گال پرہے
پیچوںمیں گوٹے کناری کی باتیں
بہو کی کفایت شعاری کی باتیں
پڑوسن کی پرہیزگاری کی باتیں
غرض ہر بیاہی کنواری کی باتیں
،،،،
بے شک کچھ ڈھل جائے گا کلچر ماحول کے سانچے میں
گھوڑے سے اترے گا توپھرسفرکرے گا موٹرسے
رنگ آہنگ کا سرچشمہ تو ما ں کی میٹھی لوری ہے
بچہ لے کرآتاہے کلچر بھی بطن مادرسے
.......
نہ گنجائش کو دیکھ اس میں نہ تو مردم شماری کر
لنگوٹی کس، خدا کا نام لے گھس جا،سواری کر
عبث گننے کی یہ کوشش کہ ہیں کتنے نفوس اس میں
کہ نکلے گابہر عنوان تیرا بھی جلوس اس میں
وہ کھڑکی سے کسی نے ’’مورچہ بندوں، کو للکارا
پھر اپنے سرکا گٹھڑ دوسروں کے سر پہ دے مارا
وہ سارے کھیت کے گنے کٹا لایا ہے ڈبے میں
وہ گھر کی چارپائی تک اٹھا لایاہے ڈبے میں
کھڑے حقے بمعہ مینار آتشدان تو دیکھو
یہ قوم بے سروسامان کا سامان تو دیکھو
صراحی سے گھڑا ’روٹی سے دسترخوان لڑتا ہے
مسافر خود نہیںلڑتا مگر سامان لڑتا ہے
......
جو نعمت چاہ سے جس بھائو بھی منگوائی جائے ہے
نہ کافر پھینکی جائے ہے نہ ظالم کھائی جائے ہے
وہ اک دانائے کل لوگوں میں گھل مل کے بیٹھے ہیں
رضائی میں جو یوں بیٹھے ہیں گویا سل کے بیٹھے ہیں
عوام الناس کو درس فلاح عام دتیے ہیں
بہر سو تھوکنے کا فرض بھی انجام دتیے ہیں
بہم جو گفتگو میں آشنائی ہوتی جاتی ہے
لڑائی ہوتی جاتی ہے صفائی ہوتی جاتی ہے
کس اطمینان سے لا لہ سمندر خان سوتے ہیں
لٹا کر ساتھ اپنے اپنا کل سامان سوتے ہیں
میاں رمضان یوںفٹ ہو گئے ہیں پیش منظر میں
سروشانہ ترازو میں ،بقایا دھڑ کنسترمیں
جناب ناز اپنے بھی آ غوش میں پھیلا کے بیٹھے ہیں
بیاض شعر بھی آغوش میں پھیلا کے بیٹھے ہیں
....
یہ بڑھاپا تو مجھ کو خدا نے دیا
ہے مٹاپا مگر میرا خود ساختہ ز چپکے چپکے اس نگر میں گھومنے آئوں گا میں
گل تو گل ہیں پتھروں کو چومنے آئوں گا میں
.....
ہم نے بچپن میں تجھے پالا وطن کے نام پر
بارک ﷲ آج دے ڈالا وطن کے نام پر
پاک لشکر کا جواں بننا مبارک ہو تجھے
اپنا پرچم تھا کر چلنا مبارک ہو تجھے
زندگی کا اس سے بڑھ کر با نکپن کوئی نہیں
تیری وردی سے مقدس پیرہن کوئی نہیں
... اپنی خبر نہیں ہے بجز اس قدر مجھے
اک شخص تھا کہ مل نہ سکا عمر بھر مجھے
.... یہ کس بازار میں بکنے کی خاطر آ گیا ہوں میں
جو ہر قیمت پہ گویا اپنی قیمت پا گیا ہوں میں .....
گمرہوں کا ہم سفر رہنا بھی اچھی بات ہے
راستے میں بے خبر رہنا بھی اچھی بات ہے
.... جب لفظ لبوں پہ سل جائیں
زنجیر بجائو پائوں سے
سمجھو کوئی طوفاں آئے گا
جب پیاس اٹھے دریائوں سے
.....
یہ بہت کم ہے جہاں کی تیرگی کے واسطے
کوئی سورج اور یارب روشنی کے واسطے
.......
پایان شب سراغ سحر بھی نہیں رہا
منزل تو کیا ملے گی سفر بھی نہیں رہا
یہ بے حسی کہ جیسے رگوں میں لہو نہ ہو
یہ بے دلی کہ موت کا ڈر بھی نہیں رہا
جس میں کبھی کبھی اتر آتی تھی چاندنی
دیوار میں وہ روزن در بھی نہیں رہا
تقدیس آرزو کے بغیر آرزو عبث
دستار گر گئی ہے تو سر بھی نہیں رہا
ورثے میں ملیں جتنی چیزیں
کچھ پی لی ہیں کچھ کھالی ہیں
گرد نے ملتان تک اس طرح گردانا مجھے
میری بیوی نے بڑی مشکل سے پہچانا مجھے
شوق سے لخت جگر نور نظر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
نظر کی عیب جوئی دل کی ویرانی نہیں جاتی
یہ دو صدیوں کی عادت ہے بہ آسانی نہیں جاتی
جہاں تک کثرت اولاد نے پہنچا دیا اس کو
وہاں تک بندہ پرور نسل انسانی نہیں جاتی
اقبال ؔسے مکالمہ
دل کے ٹیلی فون پر اک آسمانی کال سے
اتفاقًا ہوگئی ’’گل‘‘ حضرت اقبال سے
آپ نے فرمایا ’’کیا ارض وطن کا حال ہے؟‘‘
عرض کی ’’فی الحال تو ہڑبونگ ہے‘ ہڑتال ہے‘‘
پوچھا ’’وہ روش جو دی تھی شہپر شاہین کو‘‘
عرض کی ’’شاہیں ہے اب امریکنوں کی ’’جین‘‘ میں‘‘
بولے ’’ملی اتحاد اور نظم اور جہد و یقیں‘‘
عرض کی ’’علامہ صاحب اتنی چیزیں ہیں نہیں‘‘ ’’بولے میں نے حرمت آئین کی تلقین کی‘‘
’’عرض کی‘‘ ہم نے اسی شے کی بڑی توہین کی‘‘ ’’بولے‘‘ ماشائاﷲ اب افراط مال و زر میں ہے‘‘ ’’عرض کی‘‘ ہے تو مگر بس لیڈروں کے گھر میں‘‘ ’’بولے ’’سنتا ہوں مسلمان نا مساواتی ہوا‘‘
’’عرض کی‘‘ سر آپ کے بعد اور طبقاتی ہوا‘‘
’’بولے‘‘ صد افسوس ضرب قلیمانہ نہیں‘
’’عرض کی ’’مرشد ہمیں اب جنگ پر جانا نہیں‘‘
’’مرد مومن‘‘ کا بھی پوچھا ’’سبز ہے یا زرد ہے‘‘ ’’عرض کی‘‘ امریکہ کے نزدیک دہشت گرد ہے‘‘ ’’پوچھا ’’جذبہ جو جمال الدین افغانی میں تھا‘‘ ’’کچھ دن تو دیکھا سندھ کے پانی میں تھا‘‘
’’پوچھا کیا ہیں عالم اسلام کے شام و سحر‘‘
’’عرض کی‘‘ سارا علاقہ مضطرب تا کاشغر‘‘
’’پوچھا‘‘ ٹھوکر میں تو ہونگی چوٹیاں افلاک کی‘‘
’’عرض کی‘‘ اب تک تو بس اپنی قبا ہی چاک کی‘‘
’’منکشف کرنے ہی والے تھے وہ کچھ اسرار دین‘‘
’’گفتگو‘‘ میں دفعتاً گھس آیا سکسٹین‘‘
’’کہ گئے اک بات لیکن عارفانہ شان سے‘‘
’’کوئی انسان کم نہیں دوسرے انسان سے‘‘
تصانیف
ان کی شعری تصانیف یہ ہیں
جزیروں کے گیت،
کھلیان، ولایتی
زعفران،
لہو ترنگ،
مسدّس بے حالی،
گنرشیر خان،
من میلہ،
مافی الضمیر،
ضمیریات،
رموز وطن،
من کے تار،
متاع ضمیر،
قریۂ جاں،
نشاطِ تماشا (کلیات)
آگ(شعری مجموعہ)
ولایتی زعفران (انگریزی سے ترجمے)
اکتارہ
کارزار
ان کی نثری کتب حسب ذیل ہیں،
ہندوستان میں دو سال،
اڑتے خاکے،
کتابی چہرے،
جنگ کے رنگ،
حفیظ نامچہ،
آنریری خُسر (ناولٹ)،
گورے کالے سپاہی،
ضمیر حاضر ضمیر غائب،
خدوخال،
نظر غبارے وغیرہ۔
وفات
انھوں نے قلم سے رشتہ آخر دم تک برقرار رکھا۔ وہ 16 مئی 1999ء میں طویل علالت کے بعد دار فانی سے چل بسے۔ ان کی قبر مندرہ کے نزدیک ضلع راولپنڈی میں ہے،
نظم "عورتوں کی اسمبلی"
میاں اور بچے خدا کے حوالے
حسیں ہاتھ میں نرم فائل سنبھالے
کس انداز سے ناز فرما رہی ہے
کہ جیسے چمن میں بہار آ رہی ہے
مباحث میں یوں گرم گفتار ہیں سب
کہ بس لڑنے مرنے کو تیار ہیں سب
فسوں کار ہیں سب طرح دار ہیں سب
برابر برابر کی سرکار ہیں سب
ادھر اصغری بھڑک گئی اکبری سے
ادھر طفل رونے لگے گیلری سے
‘‘اسپیچوں’’ میں گوٹے کناری کی باتیں
بہو کی کفایت شعاری کی باتیں
پڑوسن کی پرہیزگاری کی باتیں
غرض ہر بیاہی کنواری کی باتیں
رواں ہیں ہجوم تجلی کے دھارے
یہ آنچل سمیٹے وہ گیسو سنوارے
دم گفتگو کوئی جیتے نہ ہارے
ستاروں سے ٹکرا رہے ہیں ستارے
بوا کو تو دیکھو نہ گہنا نہ پاتا
بجٹ ہاتھ میں جیسے دھوبن کا کھاتا
بہ انداز غیظ و غضب بولتی ہیں
بہ آواز شور و شغب بولتی ہیں
نہیں بولتی ہیں تو کب بولتی ہیں
یہ جب بولتی ہیں تو سب بولتی ہیں
معاً اپنے خوابوں میں گم ہو گئی ہیں
ابھی جاگتی تھیں ابھی سو گئی ہی