صفحات

تلاش کریں

آپ بیتیاں-محی الدین نواب



محی الدین نواب کہتے ہیں

حامد مشہود

س:اپنی اولین زندگی کے بارے کچھ بتائیے؟

ج: میں ۴ ستمبر ۱۹۳۰ء کو بنگال کے شہر کھڑگ پور میں پیدا ہوا۔ نسلی طور پر ہم بنگالی ہیں، مگر اُردو بولنے والے بنگالی۔ میرے دادا مصور تھے اور والد ریلوے میں انٹیریئر ڈیکوریٹر ۔ وہ بھی کمال کے فن کار تھے۔ ریل میں جب کسی راجا، مہاراجا، وائسرائے گورنر یا اور بڑی شخصیت وغیرہ نے سفر کرنا ہوتا تو انھیں مامور کر دیا جاتا۔ وہ ریل کا ایک ڈبا سجاتے اوراُسے متعدد ایسی سفری سہولیات سے مزین کرتے جو ریل میں میسر نہ ہوتیں۔ میرے والد نے ایک بار ریل کا نام ’’انڈین ریلوے‘‘ دو شفاف شیشوں کے اندر نقش کر کے انھیں آپس میں یوں جوڑا کہ ایک ہی شیشہ بن گیا۔ یہ شیشہ پھر ایک اے کلاس ڈبے کی کھڑکی میں جوڑا گیا۔ اس شیشے کا بڑا ڈنکا بجا ،مگر کوشش کے باوجود میں کوئی اور ایسا شیشہ تیار نہ کر سکا۔

س:گویا مصوری اور ہنر مندی آپ کو میراث میں ملی، ایسی میراث کے حامل انسان کا بچپن کیسا رہا؟

ج:معصوم رہا۔ تعلیم حاصل کرنا، کھیلنا کودنا، کھانا پینا اور پھر لمبی تان کے سو جانا۔ میں شرارتی ہرگز نہیں تھا بلکہ دوسرے بچوں کی شرارتوں کا نشانہ بنتا۔ وہ بڑا سنہرا دور تھا،نہ جانے کہاں جا چھپا؟ تب ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بڑی خوشیاں پاتے تھے۔ ایک بار میں شام کو گھر پہ تھا کہ میرے سنگی ساتھی مجھے کھیل کے لیے بلانے آئے۔ انھوں نے آواز دی ’’نواب!‘‘ میری والدہ ناراض ہوئی، انھوں نے بچوں سے کہا کہ آپ اسے’’ نواب صاحب‘‘ کہہ کر کیوں نہیں پکارتے؟

س: لڑکپن میں تو سنا ہے کہ آپ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے؟

ج: روس میں انقلاب برپا ہو چکا تھا اور کمیونزم برصغیر میں سخت یلغار کر رہا تھا۔ میں بھی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا کہ وسائل کی مساوی تقسیم اور سرمایہ داری کی بیخ کنی ہی میںانسان کی بقا ہے۔ تاہم میری واپسی جلد ہو گئی کہ میری تعلیمات میں دینِ اسلام بہت راسخ ہے۔ اسلام نے جب آجر اور اجیر، مالک اور ملازم کے رشتوں کے حقوق و فرائض بیان کیے تو صاف ظاہر ہے کہ وسائل کی ناہمواری بھی سماجی بقا کا حصہ ہے۔

س: آپ کے دوستوں میں دیگر مذاہب کے لوگ شامل تھے؟

ج: بالکل تھے۔ وہاں مسلم، ہندو، عیسائی اور بدھ مت کی کھچڑی پکی ہوئی تھی۔ غیر مسلم ہمارے ساتھ نماز عید ادا کرتے۔ میں ان کے مندروں ،گرجا گھروں میں جاتا رہا۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ ہمارے ساتھ رکوع و سجود کرتے تھے مگر میں ان کی عبادت گاہ میں خاموش کھڑا ہو کر لوٹ آتا۔ پھر میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ تب تقسیمِ ہند ہو گئی اور بنگال کا وہ حصہ جس میں ہم مقیم تھے، بھارت کے حصے میں آیا۔ سو ہمیں وہاں سے بے سروسامانی کے عالم میں نکلنا پڑا۔ ہم آگ اور خون کے دریا میں تیر کر مشرقی پاکستان چلے گئے۔ میں ۲۰ سال کا تھا کہ میری پیاری والدہ انتقال کر گئیں۔ میری شادی بھی جلد ہو گئی تھی۔ اب تو اکثر نوجوان ۳۰ سال یا اس سے زیادہ عمر میں بیاہے جاتے ہیں۔میرے وہ جگری یار اسی بنگال میں کھو گئے، مجھے ان کے بارے کچھ معلوم نہیں۔

س: قلم کب اور کیوں کر سنبھالا؟

ج: قلم سنبھالنے کی وجہ ایک تو بنگالی خون تھا۔ بنگال بڑا فن پرور علاقہ ہے۔ بنگالی نسل بڑی ذہین اور آرٹ کی عاشق ہے۔ دوسری وجہ ہمارے آباء میں فن ایک میراث تھا۔ تیسری وجہ ادب سے میری دل چسپی تھی۔ میں کئی زبانیں جانتا ہوں۔ اُردو میں نے گھر سے سیکھی، فارسی اور عربی مسجد سے، پھر سکول گیا تو ہندی اور انگریزی سے آشنا ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد خالص بنگالی علاقے میں جا کر بنگلا بھاشا بھی سیکھی۔ یوں میں بھانت بھانت کا ادب پڑھتا رہا۔ کرشن چندر، منٹو، پریم چند اور اگاتھا کرسٹی پھر… ٹیگور، قاسمی، اقبال اور غالب… تب عمر خیام، ایچ جی ویلز اور اوہنری۔ ادب نے مجھے لکھنے کی طرف راغب کیا۔

س: پہلی تحریر کا معاوضہ کتنا ملا تھا اور اب کتنا ہے؟

ج: کراچی کے بڑے رسالے ’’رومان‘‘میں چھپنے والی پہلی تحریر تھی: ’’ایک دیوار، ایک شگاف‘‘۔ افسوس یہ میرے پاس موجود نہیں۔ اگر کسی کے پاس ہو تومیں معاوضہ دے کر بھی خریدنے کو تیار ہوں۔ اس کا معاوضہ ۶۰ روپے تھا۔ اس دور میں بکرے کا اچھا گوشت چار آنے کلو تھا۔ اب بکرے کا اچھا گوشت ۶۰۰ روپے کلو ہے۔گویا آج کے ۲۰ ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔ اس وقت میں ۲۳ برس کا تھا۔ اب میں ناول کا فی قسط معاوضہ ۴۰ ہزار روپے اور داستان کا ۵۰ ہزار روپے وصول کرتا ہوں۔ پھر یہ کتابی شکل میں چھپتے ہیں تو ناشر سے ۱۰ سالہ معاہدہ مزید کرتا ہوں۔

س: آپ نے کرشن چندر کو بہت پڑھا؟

ج:کرشن چندر کے فن میںگہرائی بہت ہے۔ زرگائوں کی رانی، شکست، کالو بھنگی، جوتا، کارا سورج، اُلٹا درخت…کرشن کو میں کئی ناول اور افسانہ نگاروں پر فوقیت دیتا ہوں۔ نمبر ون اور ٹو والا معاملہ فلمی لڑکیوں جیسا ہے، اسے چھوڑ دیں۔

س: بنگال میں اپنی سرگرمیوں کے متعلق کچھ بتائیں۔ کیاکِیا؟

ج: میں وہاں لکھتا بھی رہا اور فلمی صنعت میں ملازم بھی رہا۔ یوں مجھے لکھنے اور فلم ڈائریکشن سیکھنے کا موقع ملا۔ میںنے وہاں دو فلمیں لکھی تھیں:’’جنم جنم کی پیاسی‘‘ اور ’’باون پتے‘‘۔ بنگال میں حالات بگڑ رہے تھے وہاں، اُردو جرم بن رہی تھی۔ میں نے آخر کار لاہور آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں ۱۹۷۰ء میں فلم سٹار دیبا کی مدد سے، ہوائی جہاز میں ڈھاکے سے لاہور آ گیا۔ وہاں اس وقت ۱۹۴۷ء سے بھی بدتر حالات تھے۔ دیبا نے مجھے بہت دلاسا دیا۔

میں دیباخانم کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری دامے، درمے قدمے، سُخنے بہت مدد کی۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ بنگال کے وقت میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہت پریشان تھا۔ میں لاہور میں تھا اور وہ بنگال میں تھے، میں روز گار کی وجہ سے مجبور تھا۔ اہلِ خانہ بھی آخر کار لاہور آ گئے۔ میں نے بڑا کڑا وقت گزارا۔ بڑے رسالے نئے ادیب کو کس طرح قبول کرتے ہیں، سب لوگ جانتے ہیں۔ تب میں نے ’’دیبا خانم‘‘ کے نام سے بہت سے ناول لکھے اور بہت مقبول ہوئے۔ ابنِ صفی کے کرداروں پر ’’عمران بٹا عمران‘‘ بھی لکھا جو اچھا رہا۔

س: ۱۹۷۱ء کے سانحے پر آپ نے ایک شاہ کار ناول ’’جرم وفا‘‘ لکھا اور ایک ناولٹ ’’مجھے حیا آتی ہے‘‘بھی تحریر کیا۔ سقوطِ بنگال پر کچھ کہیں گے؟

ج: بالکل نہیں… یہ دونوں قلم پارے میں نے رو رو کر لکھے ہیں، تمام وجوہ ان میں درج ہیں۔

س:پھر آپ کراچی کیسے پہنچے؟

ج: کراچی کے ایک مشہور ناشر نے میری تحریر پڑھی۔ وہ جہاز میں بیٹھ کر اخبار مارکیٹ لاہور آئے جہاں اس رسالے کا سول ڈسٹری بیوٹر موجود تھا، جس میں میری تحریر شائع ہوتی تھی۔ وہ مارکیٹ سے اُردو بازار پہنچے پھر میرے گھر آئے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ اپنا سامان باندھ لیں، کراچی چلتے ہیں، پہلی پرواز سے۔ شرما کر میں نے کہا ’’میں ریل میں آ جاتا ہوں۔‘‘ انھوں نے مجھے اہلِ خانہ سمیت اسی دن جہاز میں بٹھایا اور کراچی لے گئے۔ میں پھر وہیں کا ہو رہا۔

س: آپ پر الزام ہے کہ آپ کمرشل ادیب ہیں؟

ج: کمرشل ادب اورکلاسیکل، یہ بحث موجود رہنے دیں مگر ادب کو آگے بڑھنے دیں، اس ادب کو جو زندگی کا غماز ہے۔ ادب پر درجات کا پہرا نہ بٹھائیں۔ میرا کمرشل ادب ہزاروں کے کلاسیکل ادب سے کہیں بڑھ کر کلاسیکل ادب ہوتا ہے الحمدللہ! ورنہ ایک قسط کے ۵۰ ہزار روپے کون ادا کرتا؟ میرا ناول ’’اندھیر نگری‘‘ بڑے لوگوں کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مجھے اس پر روکا گیا۔ اس کمرشل کا ہی کارنامہ تھا کہ لوگ محی الدین نواب سے زیادہ فرہاد علی تیمور سے آشنا ہو گئے۔

میں نے یہ داستان اُٹھا کر روٹی بنا ڈالی تھی۔ لوگ روٹی کے ساتھ ساتھ اسے بھی مانگتے تھے۔ ہزاروں افراد نے ہر سال خطوط لکھے کہ فرہاد کا پتا بتائو۔ فون آتے تھے کہ فرہاد دفتر کب آتا ہے؟ اسے رشتے بھی آتے تھے۔

س: آپ کے قلم میں اتنی کاٹ کہاں سے آئی؟

ج: میں دوبار آگ اور خون کے دریا میں سے گزرا ہوں۔ ۴۰ برس میں نے کوچہ گردی میں بِتائے۔ بڑے بڑے قلم کاروں کو پڑھا اور سر جھکا کر سوچا، تب میرا اسلوب پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا گیا۔ میں نے ۳۳ برس تک ایک ہی داستان بڑھا کر دورِ حاضر کی اچھوتی الف لیلیٰ لکھی ہے۔ آج ۸۲ برس کی عمر میں بھی رات بھر لکھتا ہوں۔ میں بہت سوچ سوچ کر لکھتا اور ۳۶۱ واں زاویہ تلاش کرتا ہوں اور وہی قارئین کو بھاتا ہے۔ ایک کہانی لکھتے ہوئے میں دوسری کو چھوتا بھی نہیں۔ باقی وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ کہانی کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں، انھیں اپنانا چاہیے۔

س:کہانی ’’لکھنا‘‘ تو آپ محاورہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ناں!

ج: بالکل، میں کوئی ۳۴ برس سے کہانی ریکارڈ کرا رہا ہوں۔ میں رات کے اندھیرے میں، جب سب دنیا سو جاتی ہے، کہانی ٹیپ ریکارڈر میں سوچ سوچ کر ریکارڈ کرتا ہوں۔ خیال کی روتھم جاتی ہے تو ریکارڈرذرا بند کرتا ہوں پھر مزید کام کرتا ہوں۔

س: آپ کی تین بیویاں اور تین گھر ہیں، یہ تین حادثات کیسے رونما ہوئے؟

ج: کراچی جا کر مالی آسودگی سے یہ حسین حادثات رونما ہوئے۔

س: یہ تجربات کامیاب رہے؟

ج: سو فی صد ناکام …ایسا کبھی نہ کریں۔ یہ شادیاں ہی میری سوانح عمری ’’نواب بیتی‘‘ میں سدِراہ ہیں کہ تمام بچے اپنی اپنی نانی دادی کا تذکرہ شاملِ حال نہیں کرانا چاہتے۔

س:آپ کی تحریریں بتاتی ہیں کہ آپ بیرون ملک بہت جاتے ہیں؟

ج: یہ صرف میری عقل جاتی ہے۔ سقوطِ بنگال کے بعد میں صرف ایک بار بنگلہ دیش گیا اور ایک بار بھارت۔ اب ان ممالک میں بھی نہیں جائوں گا کہ میرے وہ عزیز بوڑھے ہو کر دنیا چھوڑ چکے جو وہاں مقیم تھے۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں کسی دستاویزی فلم میں یورپ کے کسی محلے میں موجود ایک وسیع گلی کا نام اگر دیکھتا ہوں تو فوری طور پر اس کا نام جیسے ’’ہارڈچیمبر لین‘‘ لکھ لیتا ہوں۔ پھر کہانی میں اس گلی کا یوں تذکرہ کرتا ہوں کہ لوگ کئی ممالک سے خطوط لکھتے ہیں میں فلاں علاقے میں رہتا ہوں، آپ یہاںکب آئے تھے؟ پھر کب آنا ہے؟ مجھ سے مل کراور کھانا کھا کر جائیں۔

س: عمدہ کہانی لکھنے کا طریقہ بتا دیں؟

جہاں تک ہو سکے اپنی روش کو
طریقِ عام سے ملنے نہ دینا
کہانی کی اسی میں آبرو ہے
اسے انجام سے ملنے نہ دینا

س:اگر آپ کہانی کار نہ بنتے تو کیا ہوتے؟

ج: میں پھر بھی کہانی کار ہی ہوتا۔ کہانی میری رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے، مجھے بھی دوڑاتی ہے۔

س: کہانی کے علاوہ آپ اور کس فن سے وابستہ ہیں؟

ج: زیادہ لوگ مجھے صرف کہانی کار ہی گردانتے ہیں۔ بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ میں داستان گو، شاعر اور مصور ہوں۔ میں نے سونے کی ہڈی چبانے والوں پر بڑی شاعری کی ہے کہ وہ ہڈی ان کے گلے میں کیسے پھنسی ہے۔ بنگال میں میرا ذریعہ معاش مصوری بھی رہا۔ میں فلموں کے پوسٹر بھی بناتا رہا۔ میں دیگر فنونِ لطیفہ پر بھی ایک دم حاوی ہوں، موسیقی، رقصِ لطیف اور مجسمہ سازی۔ میں ’’مٹی‘‘ کی مدد سے مجسمے بناتا ہوں۔

س:آپ نے زندگی کیسے گزا ری، عملی یا خیالی؟

ج:خیالی! عملی گزارتا تو آج اس ڈائجسٹ یا میگزین کا مالک ہوتا جو ہر ماہ ایک لاکھ کی تعداد میں چھپتا ہے۔ میرے کردار اور کہانیاں میرے اردگرد رہے۔ عرصہ ہوا اپنی خیالی دنیا کے خوف سے گاڑی نہیں چلا سکتا۔ ایک دفعہ میں اپنے خواب و خیال میں گاڑی کہیں لے جا رہا تھا۔ بیگم نے اس دن گھر جاتے ہی مجھ سے گاڑی کی چابی لے لی کہ آپ ایکسیڈنٹ کر دیں گے۔

س:آج کل عورتوں کے ناول بکتے ہیں، پھر ان کے ڈرامے بنتے ہیں۔

ج:میں نے بھی عورتوں کے ناول لکھے ہیں مگر میں سستا پیار، نالائق انتظار اور ہزار مربع گز کے بنگلے سے خواتین کو پاگل نہیں کرتا۔ میں ان کے مسائل پر لکھتا ہوں، مسائل پیدا نہیں کرتا۔ گھٹیا رومانوی ناول پڑھ کر میں نے لڑکیوں کو گھروں سے بھاگتے اور گولی کا نشانہ بنتے دیکھا ہے۔ میں ناشرین اور قارئین کو اپنے اسلوب سے مناتا ہوں۔ میں دوسروں پر تکیہ کرنے والا شخص نہیں کہ لڑکیاں اندھی محبت کے سستے جذبات پر مبنی ناول طلب کریں تو میں لکھوں اور انھیں خود کشی پر اکسائوں۔ میں نے عورتوں، لڑکیوں کے لیے بھی صحت مند محبت کا تصور پیش کیا۔ اگرچہ یہ آج کل نہیں لکھا جا رہا۔ اگر ہے تو بہت ہی کم۔ باقی رہی ڈرامے کی بات تو میں کب کا خود اس کا پیچھا نہیں کرتا۔ آج کسی بڑے ادارے میں جائوں تو ۵۲ اقساط کا ڈراما لے کر اٹھوں مگر میر تقی میر کی بات کہ

؎کیوں کریں کسو کے سامنے دستِ طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے

والا معاملہ ہے۔ میری کہانیاں چوری کرکے کچھ توڑ پھوڑ کے ساتھ ڈراموں میں آتی رہتی ہیں۔

س:آپ نے انتقالِ روح پر کہانیاں لکھیں جو اجسام بدلتی ہیں۔ آپ نے آسیب زدہ لڑکیوں کے ناول لکھے جو جنات سے لیس ہیں۔ آپ انھیں سچ تسلیم کرتے ہیں؟

ج:محیرالعقول واقعات دنیا میں ہوتے ہیں مگر میرے سامنے کبھی نہیں ہوئے۔ اگرچہ میری عمر ۸۶ برس ہے اور میں نے جان بچانے کے لیے مرگھٹ، قبرستان اور مندر میں راتیں گزاری ہیں۔ میں کبھی خالص ادب بھی لکھتا ہوں۔ ’’انتقالِ روح‘‘ اور ’’آسیب زدہ لڑکی‘‘، یہ فکشن ورک ہے۔

س:اس وقت تک آپ کی کل کتنی کتب آ چکی ہیں؟

ج:قریباً ۲ سو۔

س:آپ موت سے خائف ہیں؟

ج:میں موت سے بالکل خائف نہیں، کراچی کے ہنگامے میں گولی نے میری ٹانگ چھیل ڈالی تھی اور میں بال بال بچا۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے تو خوف کاہے کا؟

س:زندگی کی تعریف کریں؟

ج:زندگی ایک جھولا ہے جو ہمیں جھلاتا ہے، کبھی خوشی کی طرف تو کبھی غمی کی طرف۔

س:کیا مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کبھی پھر متحد ہو سکیں گے؟

ج:سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ مغربی پاکستان کی غلطیوں سے تو یہ بات بڑھی۔ ہماری قیادت کی فاش غلطیاںہی ہیں۔ زبان کا مسئلہ، بنگلا بھاشا کی حمایت والوں پر فائرنگ، جانب داری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم۔ بنگلہ دیش ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اپنا یومِ آزادی کہتا ہے، اس سے زیادہ کیا بتائوں۔وہاں کا ماحول آب و ہوا، مزاج سب مختلف ہے۔ بنگال پانی سے بھرا ہوا ہے ، اسی لیے وہاں مچھلی بہت سستی اور عام ہے۔ وہاں سانپ بھی پانی کی وجہ سے عام پائے جاتے ہیں۔ دھان بھی پانی کا ہی دوست ہوتا ہے۔ بارش وہاں دوسرے تیسرے دن ہوتی رہتی ہے۔ دریا ہر ۳۰،۴۰ میل کے فاصلے پر ملتا ہے۔ اب آپ کو بنگال کا تصور سمجھ آیا ہو گا۔ مکتی باہنی نے دریائوں کے پُل جو کشتیاں جوڑ کر بنائے گئے تھے، ہٹا دیے۔ انھوں نے لمبے درخت کاٹ کر سڑکوں پر گرا دیے۔ یوں مغربی پاکستان کی فوج نہ نقل و حرکت کر سکی نہ اس طرح کی کارروائی کا توڑ کر سکی۔

س:بنگالی جادو میں کیوں بہت مشہور ہیں؟

ج:کالا جادو تو ہر ملک میں کیا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنگالی جادو بنگال کی لڑکیوں، عورتوں میں ہے کہ وہ اپنے میاں کو باندھے رکھتی ہیں۔ یہ ان کی وفا اور محبت ہے، جادو تو محاورہ بن گیا۔ بنگالی لڑکیاں اور عورتیں سانولی اور دبلی پتلی ہوتی ہیں۔ سیاہ آنکھیں اور گھٹا بھری لمبی لمبی زلفیں۔ آپ ان کی وفا اور محبت کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ وہاں میاں اکثر دوسری شادی نہیں کر سکتا۔

س:پاکستان میں آپ فلم کے میڈیم کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

ج:فلم ہمارے ہاں اپنی موت آپ مر چکی۔ بے شک فلم بہت بڑا میڈیا ہے مگر ہمارے ہاں یہ اس وقت تک زندہ نہیں ہو گی جب تک ’’گجر اور بدمعاش‘‘ جیسی فلموں پر سرکاری قدغن نہ عائد کی جائے۔ دنیا نے فلم سے بہت فائدہ اٹھایا، اسے تفریحی، معلوماتی اور تعلیمی مقاصد کے علاوہ سماجی تہذیب کے لیے استعمال کیا مگر ہم اسے کھو چکے۔ ’’میسیج‘‘ پوری دنیا میں دیکھی گئی اور اس کے تراجم ہوئے۔ بھارت فلمی تفریح کی آڑ میں اپنے نظریات پھیلاتا ہے۔

وہاں فلم باقاعدہ انڈسٹری ہے، اس کے حصص سٹاک ایکس چینج میں بکتے ہیں۔ ہم ابھی وہی گنڈا سا، خون اور چیخ و پکار کے نمائندے بنے بیٹھے ہیں۔ ہماری فلم دنیا سے ۷۰ سال پیچھے ہے۔ وہی زمانہ قبل مسیح کی کہانیاں اور موضوعات۔ ہالی وڈ فلم کا دامن بہت وسیع ہے۔ زہریلے کتے، خلائی مخلوق، زلزلہ، محبت، نفرت، میچ فکسنگ، ٹیکنالوجی، سائنس اور ناول افسانے… ہالی وڈ نے ہر موضوع پر فلم بنا ڈالی۔

ہمارا فلم میکر فارمولا کے فریب میں مبتلا ہے، وہ یہ نہیں جانتے کہ فلم ٹرینڈ خود سیٹ کیا جاتا ہے۔ ماضی میں پاکستان نے فلم پر کام کیا اور کامیاب رہا۔ نذرالاسلام بہت بڑا ہدایت کار تھا، انتہا درجے کا ذہین۔ حسن طارق اور فضلی کے علاوہ ایس ایم یوسف نے بہت اچھی فلمیں دیں۔ ریاض شاہد انقلابی کہانی کار اور فلم میکرتھا۔ اب ہم شعیب منصور کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ شعیب کہانی میں موڑ اور سنسنی پیدا کرنا جانتا ہے۔ اس نے کم بجٹ میں بڑی فلمیں بنا ڈالیں۔

میں اس کی کہانی کی تعریف کرتا ہوں۔ بھارت میں سارے مسلمان پٹھان فلموں پرراج کرتے ہیں۔ ان کے بغیر بھارتی فلم کی کہانی رہ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہم بھی اچھی فلمیں بنا سکتے ہیں۔ گجر بدمعاش، وحشی ڈوگر اور ضدی راجپوت گھٹیا موضوعات ہیں۔ یہ عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں، فحاشی پھیلاتے مگر سوچ اور تفریح نہیں دے پاتے۔ میں نے خود برصغیر کے نامور فلم ڈائریکٹرز کے ساتھ فلم سکرپٹ لکھے۔

پاکستان میں میری فلمیں بلاک بسٹر رہیں۔ اب بھی میں فلم لکھ سکتا ہوں مگر معاوضہ اڑھائی لاکھ روپے لوں گا۔ جس بندے کو ’’جٹ دا کھڑاک‘‘ لکھنے والے ۲۰ ہزار روپے میں مل جائیں، وہ میرے پاس کیا لینے آئے گا؟ بالکل اسی طرح میں ٹی وی ڈراما کے لیے بھی ایک منٹ کے ایک ہزار روپے وصول کرتا ہوں۔ پھر میرے سکرپٹ پر کوئی کہیں انگلی نہیں رکھ پاتا۔ ارفع و اعلیٰ کے لیے دام تو خرچ کرنا ہوں گے۔

س:کبھی آپ کی کہانی کہیں اٹک جائے، پھر کیا کرتے ہیں؟

ج:ایسا ہوتا ہے مگر میں گھبراتا نہیں۔ ہر انسان شش پہلو ہے، آگے پیچھے، اوپر نیچے، دائیں بائیں، چھ پہلو سے کوئی ایک پہلو اٹھا لائیں اور کہانی بڑھا دیں۔ کہانی ایک دقت طلب مشکل فن ہے، یہ بھی موسیقی کی طرح روزانہ کی ریاضت مانگتی ہے۔

س:کہانی طویل ہو تو کئی ادبا کا فن جھول کھا جاتا ہے؟

ج: میرے ساتھ ایسا نہیں ہوتا، طوالت کو میں کہانی کی اٹھان بناتا ہوں۔ کہانی کی بنیاد ہمیشہ کشادہ رکھتا ہوں، اس پر پتھر جوڑتے جانا میرا کام ہے۔ چار صفحات کی تمہید، چار صفحات کا تعارفی حصہ پھر کہانی چلتی جاتی ہے۔ کہانی میں آپ جب چاہیں نیا موڑ پیدا کر دیں۔

س:آپ نے اپنے بیٹے کے نام ایک انتساب لکھا ہے؟

ج:اس وقت میری حالت بہت خراب تھی۔ میں جنازے کو بمشکل چند قدم تک کندھا دے پایا کہ کسی نے پکڑ کر مجھے پرے کر دیا۔ جمیل ۲۵ برس کا کڑیل جوان تھا۔ اس باصلاحیت جوان کی کچھ دن بعد شادی ہونا تھی کہ پاکستان سٹیل ملز کے پاس ایک آئل ٹینکر نے اس کی گاڑی کو ٹکر دے ماری۔ اس سانحے سے میں بہت عرصہ رنجیدہ رہا۔ ۱۹۸۰ء میں میری ایک کتاب کا انتساب یوں تھا:

’’اپنے جواں مرگ بیٹے جمیل الدین نواب کے نام!
بیٹے!
تمھاری ماں اپنی مردہ کوکھ کے کتبے سے سر ٹیکے ابھی تک رو رہی ہے۔ وہ تخلیق کے کرب کو نہیں بھولے گی، روتے روتے ایک دن مر جائے گی۔مگر میرے پاس آنسوئوں کے لیے زیادہ جگہ نہیں۔ میں تمھارے بعد بھی زندہ رہوں گا۔ اس بڑھاپے میں ان سے لڑتا رہوگا جو تمھاری چھوڑی ہوئی دنیا کی خوب صورتی کو مٹانا چاہتے ہیں۔‘‘

س:کراچی اُردو کتاب کا بڑا پلیٹ فارم ہے یا لاہور؟

ج:کراچی صرف اُردو رسائل کا بڑا پلیٹ فارم ہے۔ لاہور کتاب کا پلیٹ فارم ہے۔ اُردو بازار لاہور کی نمبر ون اُردو بک مارکیٹ ہے۔ بھارت ہم سے کئی گنا بڑا ہے مگر دلی کا اُردو بازار لاہور کے مقابلے میں محض بچہ ہے۔

س:علی سفیان آفاقی نے کہانی، خط دار ناول اور فلم لکھنے میں بڑا نام پایا۔ آپ کے تو ہم عصر ہیں۔ ان کا اسلوب کیا ہے؟

ج:بہت اچھا ہے، اب آفاقی کا تعلق فلم سے سو فی صد کٹ چکا، صرف قلم کتاب سے رابطہ ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اتنا دھان پان سا شخص اتنا محنتی قلم کار بھی ہے۔

س: ’’آگ کا دریا‘‘ ایک اچھا ناول ہے؟

ج:قرۃ العین حیدر بہت ذہین اور پڑھی لکھی تھی۔ میںاس سے مل چکا ہوں۔ وہ جتنی حسین تھی، اس کا انداز تحریر بھی اتنا ہی جاذب نظر ہے۔ وہ عوام کی رائٹر نہیں، عقل و فہم

اس کی تحریر کے ساتھ ساتھ بروئے کار لائی جائے تو ہائی کلاس ناول سمجھ آتا ہے۔

س:یہ قرۃ العین کے حُسن کا خصوصی تذکرہ آپ نے کیوں کیا ہے؟

ج:یہ نعمت اسے خدا نے دی تھی۔ وہ اگر مقابلہ حسن میں حصہ لیتی تو عالمی سطح پر اول درجہ پاتی۔

س:کیا یوگا سے آپ کے فن پر مثبت اثرات مرتب ہوئے؟

ج:میں یوگی رہا ہوں… اب سانس کمزور ہو چکا، اکھڑبھی جاتا ہے۔ یوگا سے اب بھی سانس کو سہارا مل جاتا ہے۔ یوگا نے مجھے بہت لمبے عرصے تک شاداب رکھا۔ یوگا جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی طاقت کا ایک موثر سرچشمہ ہے۔ ظاہر ہے جسم اور ذہن ساتھ دیں گے تو بڑھیا کہانی جنم لے گی۔

س:پاک سر زمین نہ ملے تو دو گز زمیں بھی نہ ملے؟ یہ آپ کے ایک ناول کا مکالمہ ہے۔

ج:ہاں یہ بہت اذیت ناک صورت حال ہے۔ کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ… ہر جگہ آگ جل رہی ہے۔ ہمیں اپنی نفرتیں مٹا کر ایک پُرامن معاشرہ تشکیل دینا ہو گا۔ گوادر پر اب تک اربوں روپے خرچ ہوئے مگر بدامنی اور غلط پالیسیوں کے باعث وہ مٹی بن کر رہ گیا۔ غلامی،اچھی تعلیم کی کمی، گندی غلیظ سیاست، حب الوطنی سے دوری اور مذہب سے روگردانی! ہماری سیاست اور قوم، دونوں اسلام سے بہت دور جا چکی۔ ہمارا اقتصادی، سماجی اور حکومتی نظام اسلام کے برعکس ہے۔ ہم نسل در نسل ذہنی غلام ہیں، ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

غریب صرف اپنے بچے کو قرآن پڑھوا سکتا ہے یا پھر سرکاری سکولوں میں اُردو پڑھوا لے گا۔ امیر اپنے بچے کو تھرو آئوٹ انگلش میڈیم سکولنگ کے بعد کیمبرج بھیجے گا۔ پھر وہی بچے غربا پر راج کریں گے۔ تعلیم یہاں بکتی ہے، لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق خرید لیتے ہیں۔ اغراض سے بھری سیاست کے نتائج کراچی نے ۳۰ سال بھگتے۔ اب خیبر، بلوچستان میں بھی روزانہ دس، دس افراد اوسطاً مارے جاتے ہیں۔ یہ غلط سیاسی حکمتِ عملی کاشاخسانہ ہے۔

ہم حب الوطنی سے دور ہیں۔ اڑھائی بندے مل بیٹھتے ہی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لیتے ہیں۔ رنگ، نسل، قوم، ذات، زبان اور فرقہ… دنیا کے کئی ممالک متعدد اقوام، نسلوں، رنگوں، ذاتوں، زبانوں اور فرقوں کے علاوہ مذاہب کے فرق کو اپنے اندر سمو کر بڑے زبردست انداز میں چل رہے ہیں۔ہم سے یہ بھی نہیں ہوتا۔
لکھنے والے لکھتے اور کہنے والے کہتے رہیں گے، شاید کبھی کسی دل پہ خیراترے اور پاکستان میں وہ سب کچھ ہونے لگے جس کی ہمیں آرزو ہے۔