عرضِ مرتب
انسانی زندگی میں مختلف قسم کے نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ دکھ درد اور آرام و آسایش سبھی کچھ سے انسان گذرتا رہتا ہے۔ جب اسے پریشانیوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے حوصلے پست ہونے لگتے ہیں اور جب آرام و اطمینان کا دَور ہوتا ہے تو اس کے اندر خود اعتمادی کی زیادتی ہونے لگتی ہے، یہ دونوں ہی باتیں اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ایسے حالات میں بزرگوں کے اقوال اور ان کی پیاری پیاری باتیں ہمیں صحیح راستہ دکھاتی ہیں۔
اقوالِ زرین کی اہمیت سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کے اندر موٹی موٹی کتابوں کے مطالعہ کے بعد بھی کبھی کبھی وہ انقلابات نہیں پیدا ہو پاتے جیسا کہ ان اقوال کو پڑھ اور سُن کر پیدا ہوتے ہیں۔اقوالِ زرین کی ان ہی اہمیت کے پیشِ نظر دورانِ مطالعہ ایسے گراں قدر جواہر پاروں کو جو کہ ذہن و دل کو براہِ راست متاثر کرتے تھے مرتب اپنی ذاتی ڈائری میں نقل کر لیا کرتا تھا۔ اب جب کہ ایک اچھا خاصا ذخیرہ ان اقوال کا جمع ہو گیا تو لوگوں کے استفادہ کے لیے اسے کتابی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
جاننا چاہیے کہ یہ اقوال قرآنی آیات، احادیثِ طیبہ، انبیائے کرام علیہم السلام، صحابۂ عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، ائمۂ دین، اولیا، صوفیہ اور علما کے علاوہ دنیا کی مختلف مشہور و معروف شخصیات پر مشتمل ہیں۔ چوں کہ دورانِ مطالعہ مختلف کتب و رسائل سے ناچیز نے ان کو قلم بند کیا ہے جس میں ایک کمی یہ ہوئی کہ مَیں نے اقوال کے ساتھ اُن افراد کے نام نہیں درج کر پائے تھے جن کی فکر و نظر کے یہ شہ پارے ہیں۔ بہ ہر حال ! پھر بھی ان کی افادیت اور اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ایک ہزار سے زائد اقوال کے اس دل کش خزانے کو ’’گلشنِ اقوال ‘‘ کے نام سے محترم رحمانی سلیم احمد صاحب نے اپنے منفرد اور عظیم اشاعتی مرکز رحمانی پبلی کیشنز سے منصۂ شہود پر لایا ہے میں ان کا ممنون و متشکر ہوں۔
قارئین سے التماس ہے کہ مرتب اور ناشر کو اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔
(ڈاکٹر) محمد حسین مُشاہدؔ رضوی، مالیگاؤں
٭ آخرت میں کسی عمل کے قبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمل ایمان کے ساتھ کیا جائے۔
٭ اپنی زبان سے وہی بات کہو جو تمہارے دل میں ہے اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
٭ جو شخص کل اپنی موت کا دن سمجھتا ہے اسے موت آنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
٭ جب مسلمان کا دل اللہ کے ڈر سے کانپتا ہے تو اس کے گنا ہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے درختوں کے پتے۔
٭ انسان گنا ہ کرنے کی وجہ سے جہنم میں نہیں جاتا، بل کہ گناہ پر مطمئن رہنے اور توبہ نہ کرنے کی وجہ سے جہنم میں جاتا ہے۔
٭ بے شک صدقہ کے ذریعہ سے اللہ عمر بڑھا دیتا ہے اور بری موت کو دفع فرماتا ہے۔
٭ آپ کے لیے جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے ساتھ ہمیشہ احسان کرو اور ان کے ساتھ اچھے سے رہو۔
٭ کھانے کو ٹھنڈا کر لیا کرو کہ گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی۔
٭ سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور دوزخ میں لے جاتا ہے۔
٭ جو شخص نرمی سے محروم کر دیا گیا وہ بھلائی سے محروم کر دیا گیا۔
٭ جو کھانے کے بعد برتن کو چاٹ لے گا وہ برتن اس کے لیے استغفار کرے گا۔
٭ کھاؤ اور پیو اور صدقہ کرو اور پہنو جب تک اسراف(فضول خرچی) اور تکبر کی آمیزش نہ ہو۔
٭ کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرنا محتاجی کو دور کرتا ہے اور یہ انبیائے کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ایک پاکیزہ سنت ہے۔
٭ دو چیزیں منافق میں نہیں ہوتیں (۱) نیک اَخلاق اور (۲) دین کی صحیح سمجھ۔
٭ انسان زبان کے پردے میں چھپا ہے۔
٭ ہمیشہ سچ بولو تاکہ تمہیں قسم کھانے کی ضرورت نہ پڑے۔
٭ جو شخص جھوٹ بولتا ہے تو رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
٭ وہ شخص کیسے تکبر کرسکتا ہے جو مٹی سے بنا ہو، مٹی میں ملنے والا ہو اور مٹی میں کیڑے مکوڑوں کی غذا بننے والا ہو۔
٭ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن کی تعلیم حاصل کرے اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دے۔
٭ خاموشی ہر مصیبت کا علاج ہے لیکن ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بہترین عمل ہے۔
٭ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
٭ عقل مند اپنے آپ کو پست کر کے بلندی حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے آپ کو بڑھا کر ذلّت اٹھاتا ہے۔
٭ محتاج اور مسکین کی پرورش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
٭ دنیا کی ہر چیز کی حفاظت کرنی پڑتی ہے مگر علم ایک ایسی چیز ہے کہ وہ تمہاری حفاظت کرتا ہے۔
٭ آپس میں مصافحہ کرو دل کا کینہ جاتا رہے گا۔ تحفہ دیا لیا کرو محبت پیدا ہو گی عداوت نکل جائے گی۔
٭ بے شک دلوں میں برے خیالات آتے ہیں مگر عقل و دانش اور اللہ کا فضل و کرم انسان کو ان سے دور رکھتے ہیں۔
٭ جس چیز کو زیادہ پینے سے نشہ پیدا ہوتا ہے اسے تھوڑا پینا بھی حرام ہے۔
٭ جسے یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ تنگ دستی کے وقت اس کی دعا قبول کرے تو وہ خوش حالی میں دعا کی کثرت کرے۔
٭ کھڑے ہو کر ہرگز کوئی پانی نہ پیے اور جو بھول کر ایسا کر گذرے تو وہ قَے کرے۔
٭ جس کے سینے میں کچھ قرآن نہیں وہ ویرانے مکان کی مانند ہے۔
٭ دنیا کا غم دل میں تاریکی لاتا ہے اور آخرت کی فکر دل میں نور پیدا کرتی ہے۔
٭ دنیا میں عزت کا سبب مال ہے اور آخرت میں عز ت کا مدار اعمال پر ہے۔
٭ عورت کا گھر سے باہر جانا شوہر کو پسند نہیں تو آسمان کے سارے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
٭ جو شخص پہلے سلا م کرتا ہے وہ تکبر سے پاک ہوتا ہے۔
٭ جو قبر میں بغیر اعمالِ خیر کے گیا گویا وہ سمندر میں بغیر کشتی کے گیا۔
٭ جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ سنی سنائی باتیں لوگوں سے کہتا پھرے۔
٭ حلال کاموں میں سب سے ناپسندیدہ کام طلاق کا کام ہے۔
٭ غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا اُس چیز کے ساتھ ذکر کرے جو اسے بُری لگے۔
٭ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت چیز ہے۔
٭ جو مصیبت اللہ سے دور کر دے و ہ سزا اور جو قریب کر دے آزمایش ہے۔
٭ جو شخص اللہ سے نہیں ڈرتا اس کے لیے دونوں جہاں میں امان نہیں۔
٭ تکبر کرنے والے کا سر ہمیشہ نیچا رہے گا۔
٭ جب کسی کو جماہی آئے تو اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے کہ شیطان منہ میں گھس جاتا ہے۔
٭ رشوت انصاف کو، توبہ گناہ کو، غیبت اعمال کو، نیکی بدی کو، غصہ عقل کو اور صدقہ بلا کو کھا جاتی ہے۔
٭ اگر تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ پھیرا تو تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔
٭ ذکرِ الٰہی کے لیے لمبی عمر پانا خوش قسمتی ہے۔
٭ ہر علم کے ساتھ عمل چاہیے کہ بے عمل عالم بے جان جسم کے مانند ہے۔
٭ جنت دو قدم پر ہے پہلا قدم نفس پر رکھ دوسرا قدم جنت میں ہو گا۔
٭ جہالت جیسی کوئی غربت نہیں۔
٭ غصے کے وقت عقل کی پہچان ہوتی ہے۔
٭ نیک گمان رکھنا عبادتِ حسنہ میں سے ہے۔
٭ علم مال سے بہتر ہے کیوں کہ مال فرعون اور قارون کی میراث ہے اور علم انبیا کی۔
٭ حرام کمائی کے مال سے صدقہ دینا پاک کپڑوں کو پیشاب سے دھونے کے برابر ہے۔
٭ جس طرح بغیر صبر کے جسم بے کار ہے اسی طرح بغیر صبر کے ایمان۔
٭ اور جب کسی سے کوئی بری بات سنو تو اس سے کنارا کر لو۔
٭ بدبختی یہ ہے کہ گناہ کرتے رہیں اور مقبولِ بارگاہ ہونے کی امید بھی رکھیں۔
٭ اگر مال دار بننا چاہتے ہو تو ضرورت سے زیادہ طلب نہ کر و یہی سب سے عمدہ دولت ہے۔
٭ ادب کے ذریعہ اپنی عزت اور علم کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت کرو۔
٭ اللہ سے ہر حال میں ڈرتے رہو بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے آگاہ اور باخبر ہے۔
٭ تمہاری جیسی نیت ہو گی ویسا ہی تم کو پھل ملے گا۔
٭ سچا تاجر ایمان داروں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ جنت میں رہے گا۔
٭ حیا اور کم بولنا ایمان کی شاخیں ہیں، دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔
٭ جب کوئی قبر کے پاس سے گذرنے والا سلام کرتا ہے تب اہلِ قبور سُن کر جواب دیتے ہیں۔
٭ عملِ صالح وہ ہے جس پر لوگوں سے تعریف کی امید نہ کی جائے۔
٭ یقین ہی پورا ایمان ہے تو دین کی تمام باتوں میں یقین کی کفایت پیدا کرو۔
٭ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
٭ جو ایمان لائیں اور نیک کام کریں وہ جنت کے مالک ہوں گے۔
٭ اگر رزق عقل و دانش سے ملتا تو اجڈ اور بے وقوف لوگ زندہ ہی نہ رہتے۔
٭ خیرات کو نہ روکو ورنہ تمہارا رزق بھی روک دیا جائے گا۔
٭ بے شک اللہ اِترانے والوں اور برائی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
٭ ٹخنوں سے نیچے جو حصہ تہبند کا ہے وہ جہنم میں ہے۔
٭ دل کا سکون صرف اور صرف سچائی سے ملتا ہے۔
٭ منافق کی چار نشانیاں ہیں … (۱) وعدہ خلافی (۲) امانت میں خیانت(۳) گالی دینا (۴) جھوٹ بولنا۔
٭ کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمہیں روزی دی اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔
٭ اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور پوشیدگی سے یاد کرو۔
٭ غافلوں میں ذکرِ خدا کرنے والے کی مثال سوکھے پودے میں سبز گھاس کی ہے۔
٭ وہ شخص جس کے دل میں برائی ہے وہ بھلا ئی نہ پائے گا اور جس کی زبان نکتہ چینی ہے وہ کبھی آزاد نہ ہو گا۔
٭ جو شخص ہر جانے اَن جانے سے دوستی رکھتا ہے وہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔
٭ اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔
٭ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دعا: خدا اس شخص پر رحمت نازل کرے جو میرے عیبوں سے مجھے خبردار کرتا ہے۔
٭ تمہیں جو بھی مصیبت پہنچی اس سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی۔
٭ عورت کی بے پردگی مرد کی بے حیائی کا ثبوت ہے۔
٭ بے پردہ عورت اللہ کے نزدیک کو ئی عزت نہیں رکھتی۔
٭ جھوٹے کی سب سے بڑی سز ا یہ ہے کہ لوگ اس کے سچ کا بھی اعتبار نہیں کرتے۔
٭ جاہلوں کی صحبت سے پرہیز کرو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں بھی اپنے جیسا بنا لیں۔
٭ جو اللہ کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
٭ خوشی انسان کو اتنا نہیں سکھاتی جتنا کہ غم سکھاتا ہے۔
٭ حسنِ اخلاق مومن کا زیور ہے اور حسنِ نیت اعمالِ حسنہ کی اساس ہے جس نے ان دونوں کو پا لیا وہ کامیاب ہے۔
٭ اچھے منتظم میں تین خوبیاں ضروری ہیں،تحمل،تدبّر اور حسنِ تکلم۔
٭ شریعت پر استقامت اور معصیت پر ندامت مومن کا اصلی جوہر ہے۔
٭ خدمتِ خلق عقل مندی ہے،غفلت شرمندگی ہے۔
٭ بزرگوں کا ادب زندگی کا سرور اور ایمان کا نور ہے۔
٭ انسان کی اچھائی کا مدار مال و دولت اور عیش و عشرت پر نہیں بل کہ دل کی سچائی،ذہن کی صفائی اور کردار کی اچھائی پر ہے۔
٭ بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا رحمت کو اپنے اوپر واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے۔
٭ جس معاشرہ میں نیک نیتی،روشن خیالی اور حسنِ عمل کی توانائی کی نورانی فضا چھائی ہوئی ہو گی اسی کو اچھا معاشرہ کہا جائے گا۔
٭ متقی اور پرہیز گار اللہ و رسول کے قریبی ہیں۔
٭ لوگوں کو ایسے معاف کرو جیسے تم اللہ سے امید رکھتے ہو کہ وہ تم کو معاف کر دے۔
٭ وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کے تکلیف دینے سے محفوظ نہ ہو۔
٭ جس طرح بدن کی بقا اور اس کی توانائی و طاقت کے لیے اس کو کھلا یا پلایا جاتا ہے،اس کے راحت و آرام کا بھر پور خیال رکھا جاتا ہے اور اس کے دکھ درد کو دور کرنے کی فکر کی جاتی ہے اسی طرح آپ کو اپنی روح کی بھی حفاظت کرنی ہے،طریقت کا سلسلہ دراصل روحانی تربیت اور روح کی طاقت و قوت کی حفاظت و بالیدگی کا ایک پاکیزہ و مقدس سلسلہ ہے۔
٭ علم انسان کا جوہرِ اوّل ہے،اس لیے روٹی بوٹی کپڑا،مکان سے پہلے علم کی دولت سے نوازا گیا، کیوں کہ فضیلت کا مدارِ اوّل علم اور صرف علم ہے خواہ اوّلین کا علم ہو یا آخرین کا علم ہو۔
٭ سچائی ایک ایسی دوا ہے جس کی لذّت کڑوی مگر تاثیر میٹھی ہے۔
٭ جن کے پاس علم ِ نافع ہے وہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
٭ اگر تمہیں ایک دوسرے کی نیتوں کا علم ہوتا تو تم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کرتے۔
٭ جو رسوائی اور بدنامی سے لذّت حاصل کرے وہ شخص کس طرح نصیحت سے ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔
٭ ہر ایک چیز کے لیے صفائی کی چیز ہوتی ہے، دل کی صفائی کی چیز اللہ کا ذکر ہے۔
٭ جسے کوئی ایذا اور تکلیف نہ پہنچے اس میں کوئی خوبی نہیں۔
٭ جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ مہمان کی عزت کرے۔
٭ عبادت ایک تجارت ہے جس کی دکان - تنہائی، مال - پرہیزگاری اور نفع - جنت ہے۔
٭ ریا کاری اور دکھاوا ثواب کو غارت کر دیتے ہیں۔
٭ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نہ جھگڑو کہ بکھر کر کم زور ہو جا ؤ گے۔
٭ دنیا کا عذاب یہ ہے کہ تیرا دل مردہ ہو جائے۔
٭ آدمی کے چھپے ہوئے دشمن بہت ہیں سمجھ دار آدمی وہ ہے جو دشمنوں کے مکر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
٭ لوگوں کے دلوں کا زنگ تین چیزوں سے صاف ہو جاتا ہے … (۱) تلاوتِ قرآن کی کثرت (۲)ذکرِ الٰہی کی کثرت(۳) موت کے ذکر کی کثرت۔
٭ تمام گناہوں کی اصل تین چیزیں ہیں (۱) حرص(۲) حسداور (۳) تکبر۔
٭ حرص، حسد اور تکبر سے یہ چھ برائیاں پیدا ہوتی ہیں … (۱) پیٹ بھر کر کھانا(۲)نیند بہت کرنا (۳) دنیاوی آسایش سے الفت(۴) حبِ مال(۵) حصولِ منصب کی لالچ(۶) حبِ حکومت۔
٭ خوشیاں بانٹنے ہی سے سچی خوشی حاصل ہوتی ہے۔
٭ ضروریاتِ زندگی کو محدود رکھو گے تو ہمیشہ خوش و خرم رہو گے۔
٭ پڑوسی کی خوشی اور ضروریات کا خیال رکھنا ثوابِ عظیم ہے۔
٭ انسانوں میں سب سے اچھا انسان وہ ہے جس کے اَخلاق اچھے ہوں۔
٭ عقل مند وہ ہے جو اپنے بڑوں کے ساتھ عاجزی سے پیش آئے۔
٭ حاسد کو کبھی خوشی اور بد خُلق کو کبھی سرداری نہیں ملتی۔
٭ ایسے شخص سے دوستی کرو جو نیکی کر کے بھول جائے۔
٭ اپنی جوانی کے دھوکے میں مت آؤ کہ یہ عنقریب ہم سے لے لی جائے گی۔
٭ گناہ گار جب توبہ کے لیے اللہ کو پکارتا ہے تو اس سے پیاری کوئی آواز نہیں ہوتی۔
٭ اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی کوئی حیثیت رکھتی تو اس میں سے کافر کو ایک گھونٹ بھی نہ ملتا۔
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :مجھے جنت سے زیادہ مسجد میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے کیوں کہ جنت میں میرا نفس خوش ہو گا جب کہ مسجد میں میر ارب خوش ہو گا۔
٭ بے نمازی کو قرض نہ دو کیوں کہ جو اللہ کا قرض ادا نہیں کرتا وہ تمہارا کیسے کرے گا۔
٭ اگر اللہ سے بات کرنا چاہتے ہو تو نماز پڑھو اور اگر چاہتے ہو کہ اللہ تم سے بات کرے تو قرآن پڑھو۔
٭ نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے۔
٭ جس نے آرام پسند کیا وہ جلد ہی تباہ ہوا۔
٭ تین رشتے تین وقتوں میں پہچانے جاتے ہیں … (۱)اولاد - بڑھاپے میں (۲) دوست- مصیبت میں (۳) بیوی - غربت میں۔
٭ جو حلال کھائے، سنت پر چلے، لوگ اس کی شرارتوں سے بے خوف ہو جائیں تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
٭ حرام چیزوں سے بچنے والا سب سے بڑا عبادت گزار ہے۔
٭ دو عقل مندوں میں کینہ اور جھگڑا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی عقل مند کسی بے وقوف سے الجھتا ہے۔
٭ جس نے ایک بالشت زمین ظلم کے طور پر لے لی قیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اتنا ہی حصہ طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔
٭ جس نے اپنی ماں کا پیر چوما گویا اس نے جنت کی چوکھٹ کو بوسا دیا۔
٭ حجاب ایک عورت کی عظمت کو اس طرح بڑھاتا ہے جس طرح غلاف کعبے کی شان کو دوبالا کرتا ہے۔
٭ توکل ایک ایسی شَے ہے جس میں سوائے اچھائی کے برائی کا کوئی پہلو نہیں ہوتا۔
٭ رشوت انصاف کو، توبہ گناہ کو، غیبت عمل کو، نیکی بدی کو، جھوٹ رزق کو اور صدقہ بلا کو کھا جاتا ہے۔
٭ خدا کے دشمنوں کے ساتھ محبت کرنا خدا سے دشمنی رکھنے کے برابر ہے۔
٭ عشقِ رسول ﷺ ایک ایسی دولت ہے جس سے ایمان کو تازگی ملتی ہے۔
٭ دُرود شریف کا وِرد مومن کے گناہوں کو اس طرح مٹا تا ہے کہ اتنی تیزی سے پانی بھی آگ کو نہیں بجھا پاتا۔
٭ مطلبی دوست کوئلے کی طرح ہوتا ہے جب کوئلہ گرم ہوتا ہے تو ہاتھ جلا دیتا ہے اور جب ٹھنڈا ہوتا ہے تو کالا کر دیتا ہے۔
٭ محتاج اور مسکین کی پرورش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
٭ دنیا میں نیک کام کر کے مر جانا آبِ حیات پینے سے بہتر ہے، دنیا کی محبت اندھیرا ہے اور جس کا چراغ پرہیزگاری ہے۔
٭ غیبت کی وجہ سے چہرے کی نورانیت اور روزی کی برکت چلی جاتی ہے۔
٭ ہر وہ دن ہمارے لیے عید کا دن ہے جس دن ہم اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی نہ کریں۔
٭ قیامت کے دن تین آدمی عرش کے سایے میں ہوں گے … (۱) وقت پر نماز ادا کرنے والے (۲) رمضان کے روزے رکھنے والے(۳)ماں باپ کی خدمت کرنے والے۔
٭ ضمیر صاف ہو تو غیر ممکن ہے کہ کسی کے آئینۂ قلب پر غبار آئے۔
٭ دل و دماغ کو خدا کے لیے صرف کرنا ہی زندگی کی بہترین صورت ہے۔
٭ فقیر کی شان یہ ہے کہ خدا دے تو دوسرے حاجت مندوں میں تقسیم کر دے اور خدا نہ دے تو شکر ادا کرے۔
٭ اگر دانستہ کسی قسم کا گناہ کرو تو خدا کی زمین چھوڑ کر کرو۔
٭ وہ شخص جنتی ہے جس نے اپنے گناہوں سے سچی تو بہ کر لی۔
٭ کم بولنے میں حکمت، کم کھانے میں صحت اور لوگوں سے کم ملنے جلنے میں عافیت ہے۔
٭ لالچ سے زیادہ عقل کو برباد کرنے والی کوئی چیز نہیں۔
٭ کسی کے لیے یہ زیبا نہیں دیتا کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور دعا کر کے کہ اللہ اسے رزق دے، اللہ آسمان سے دولت کی بارش نہیں کرتا۔
٭ ایمان کے بعد نیک بخت بیوی بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
٭ جو تجھے تیرے عیب سے آگاہ کرے سمجھ لے وہ تیرا سچا دوست ہے۔
٭ وہ بات جو تو دشمن کو بھی نہیں کہتا دوست سے بھی پوشیدہ رکھ کہ اسی میں بھلائی ہے۔
٭ اگر کوئی کا م کسی کے ذمہ کرنا ہے تو عقل مند کے سپرد کر اگر عقل مند نہ ملے تو خود کر ورنہ چھوڑ دے۔
٭ دنیا کے تھوڑے مال پر راضی رہ، جتنا رزق مقدر میں ہے اسی پر قناعت کر دوسروں کی روزی پر آنکھ مت ڈال تاکہ رنج و غم اور نفس کی شرارت سے محفوظ رہے۔
٭ خاموشی کو اپنی عادت بنا تاکہ زبان کے شر سے محفوظ رہے۔
٭ دنیا میں ہر آدمی سچا دوست تلاش کرتا ہے لیکن خود سچا دوست بننا گوارا نہیں کرتا۔
٭ دنیا کی محبت دل سے باہر رہے تو بہتر ہے ورنہ یہ تباہ کر دیتی ہے۔
٭ یاد ِ الٰہی تمام بلاؤں سے نجات دلا دیتی ہے۔
٭ دنیا گندگی کا ڈھیر اور کتّوں کے جمع ہونے کی جگہ ہے اور وہ شخص کتّوں سے بھی کم تر ہے جو دنیا کے مال پر جم کر بیٹھ جائے۔
٭ اپنے آپ کو مصروف رکھو، ورنہ غم اور مایوسی تمہیں فنا کر دے گی۔
٭ اپنے گھر کی باتیں باہر کے لوگوں کو نہ بتاؤ، تمہاری غیر موجودگی میں لوگ تمہارا مذاق اُڑائیں گے۔
٭ نصیحت ایک سچائی اور خوشامد ایک دھوکہ ہے۔
٭ درست بات کو درست سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنا بدترین قسم کی اَخلاقی بزدلی ہے۔
٭ خدا کی خوش نودی حاصل کرو، تاکہ تمہارے لیے خوش نودی کے وسائل کشادہ ہو جائیں۔
٭ اہلِ درد کی باتیں سنو تاکہ تمہیں بھی دردِ دل میسر آئے۔
٭ کھانے کے لیے زندہ نہ رہو بل کہ زندہ رہنے کے لیے کھاؤ۔
٭ ہر ناکامی کے دامن میں کام یابی کے پھول ہوتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ہم کانٹوں میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔
٭ وہ گھر جس میں کتابیں نہ ہو ں وہ اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔
٭ اعلا ظرف انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ دشمن کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرے۔
٭ اختیار، طاقت اور دولت ایسی چیزیں ہیں جن کے ملنے سے لوگ بدلتے نہیں بل کہ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔
٭ دوزخ سے دور نہ بھاگو بل کہ ایسے کام کرو کہ دوزخ تم سے دور بھا گ جائے۔
٭ عذابِ قبر پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے پر ہوتا ہے۔
٭ حسد کر نے والے کے لیے یہی سزا کافی ہے کہ جب تم خوش ہوتے ہو تو وہ اُداس ہو جاتا ہے۔
٭ مومن ہمیشہ معاف کرنے کے لیے مواقع ڈھونڈتا ہے جب کہ منافق ہمیشہ عیب ڈھونڈتا ہے۔
٭ جو دنیا میں ہنستے ہنستے گناہ کرے گا وہ دوزخ میں روتے روتے چلا جائے گا۔
٭ جو اپنے اعمال کا چرچا کرے گا تو اللہ اس کی ریاکاری کو مشہور کر دے گا اور اسے ذلیل و رسوا کر دے گا۔
٭ ہر بات میں تقوا اور امانت کو پیشِ نظر رکھو۔
٭ اپنی اولاد کی تکریم کرو اور انھیں حُسنِ اَخلاق سے آراستہ کرو۔
٭ جو شخص قرض لے اور دینے کی نیت نہ ہو وہ چور ہے۔
٭ جب تم کسی کو اپنا دوست بناؤ تو اپنے دل میں ایک قبرستان بنا لو جہاں تم اس کی برائیاں دفن کر سکو۔
٭ مسلمان کو نماز کے مسائل بتانا روئے زمین کی تمام دولت صدقہ کرنے سے افضل ہے۔
٭ والدین کو پریشان کرنا اور رلانا گناہِ کبیرہ ہے۔
٭ زبان کی تیزی اس ماں پر نہ آزماؤ جس نے تمہیں بولنا سکھایا۔
٭ خاموشی غصے کا بہترین علاج ہے۔
٭ سب سے وزنی چیز جو مومن کی میزان پر رکھی جائے گی وہ اس کا حُسنِ اَخلاق ہے۔
٭ دن کو رزق تلاش کرو اور رات کو اسے تلاش کرو جو تمہیں رزق دیتا ہے۔
٭ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ الگ الگ نہ کھاؤ کیوں کہ جماعت میں برکت ہے۔
٭ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں وہ لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔
٭ اچھا دوست حاصل کرنے کے لیے خود اچھا دوست بنو۔
٭ برے دوست سے بچو کیوں کہ وہ تمہارا تعارف بن جائے گا۔
٭ حقیقی لطف دوسروں کی دل جوئی سے ہے، وہ ذاتی مفاد میں ہر گز نہیں۔
٭ جسم ظاہر ی کی کثافت علم کے نور سے ہی صاف ہوتی ہے، اور باطنی کثافت علم پر عمل کرنے سے صاف ہوتی ہے۔
٭ دوسروں کے عیوب پوشیدہ رکھو گے تو خدا تمہارے عیوب بھی چھپائے گا۔
٭ مسکراہٹ ایک ایسا تحفہ ہے جو دینے والے کو مفلس کیے بغیر پانے والے کو بھی بہت کچھ دیتی ہے۔
٭ محنت رزقِ حلال کمانے کا بہترین ذریعہ ہے۔
٭ محنت انسان کو خود اعتمادی اور قوتِ ارادی سکھاتی ہے۔
٭ اللہ اس شخص سے خوش ہوتا ہے جو محنت سے روزی کماتا ہے۔
٭ سچی توبہ کرنے والے کا ایک آنسو دوزخ کی آگ کو بجھانے کی طاقت رکھتا ہے۔
٭ وہ آنسو بڑا قیمتی ہے جو خدا کے حضور گناہوں کی معافی کے لیے بہے۔
٭ نصیحت سنو اور سن کر آگے کسی اور کو سنادو تاکہ اِس سے نصیحت کا حق ادا ہو جائے۔
٭ صرف خاموشی کے مفہوم کو نہ سمجھو بل کہ کب خاموشی اختیار کرنا چاہیے یہ بھی سمجھو۔
٭ اگر تم چاہو تو اپنے خیالات بدل کر اپنی زندگی بدل سکتے ہو۔
٭ برے اعمال سے زیادہ برے، برے خیالات ہیں کہ پہلے خیالات پیدا ہوتے ہیں پھر اعمال۔
٭ دوست کی کام یابی پر مغموم ہونا اتنا دشوار نہیں جتنا اس کی کام یابی پر مسرور ہونا مشکل ہے۔
٭ عقل مند اس وقت تک کچھ نہیں بولتا جب تک سب خاموش نہیں ہو جاتے۔
٭ مصیبت کو پسند رکھنا جواں مردی ہے۔
٭ اچھی کتابوں کا مطالعہ اُداسی اور غم کا بہترین علاج ہے۔
٭ بری کتابوں کا مطالعہ روح کو مار ڈالتا ہے۔
٭ بھوک اور مسکینی میں زندگی گذارناکسی کمینے کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے بہتر ہے۔
٭ خدا کے دوستوں کی اندھیری رات بھی روزِ روشن کی طرح چمکتی ہے۔
٭ سب سے بڑی فتح اپنے آپ کو فتح کرنا ہے۔
٭ معاشرے میں رہنے والے ہر شخص سے اس کی اہلیت، صلاحیت اور طاقت کے مطابق کام لیا جائے تاکہ ہر شخص کو خوشیاں نصیب ہو اور خوش حالی قائم رہے۔
٭ انسان کی فطرت اس کے چھوٹے چھوٹے کاموں سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ بڑے کام بڑی سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔
٭ ہر شخص کچھ نہ کچھ عقل و فراست رکھتا ہے جب کہ اس کا ستعمال بہت کم لوگ کرتے ہیں۔
٭ جس شخص کا غور و فکر بڑھ جاتا ہے اسے علم عطا ہوتا ہے اور جسے علم ملتا ہے اسے چاہیے کہ عمل بھی کرے۔
٭ نیکیوں پر غور و فکر نیکیوں کی ترغیب دیتا ہے اور گناہوں پر پشیمانی گناہ چھوڑنے پر آمادہ کرتی ہے۔
٭ وہ دل جس میں اللہ کا ڈر نہیں وہ ویران قبرستان کی مانند ہے۔
٭ انسان کے گناہ گار ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جب اسے گناہوں سے بچنے کے لیے کہا جائے تو وہ کہہ کہ تم اپنا خیال رکھو۔
٭ اپنے جسم کو معمولی گزر بسر پر قناعت کرنے والا بناؤ ورنہ یہ تم سے اپنی ضرورت سے زیادہ مال و دولت مانگے گا۔
٭ سکھ اور مسرت ایسے عطر ہیں جنہیں جتنا زیادہ دوسروں پر چھڑکیں گے اتنی ہی زیادہ خو ش بو تمہارے اندر آئے گی۔
٭ عقل کی حد ہوسکتی ہے لیکن بے عقل کی کوئی حد نہیں۔
٭ زندگی کی مصیبتیں کم کرنا چاہتے ہو تو زیادہ سے زیادہ مصروف رہو۔
٭ روزی بڑھنے کی دعا نہ مانگو بل کہ رزق میں برکت کی دعا مانگو۔
٭ انسان کے اندر اتنی عقل ہوناضروری ہے کہ وہ سعادت و شقاوت او ر ہدایت و ضلالت کا فرق سمجھ سکے۔
٭ انسان اپنے احساسات کو کسی نہ کسی کے نام کرنا چاہتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اسے اللہ کے نام کر دے۔
٭ وہ علم بے کار ہے جو انسان کو کام کرنا تو سکھا دے لیکن زندگی گزارنا نہ سکھائے۔
٭ جو لوگ اپنے فیصلے بدلتے رہتے ہیں وہ زندگی میں کبھی کام یاب نہیں ہوتے۔
٭ نام کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے کام کرو گے تو نام ہوہی جائے گا۔
٭ انسانوں کی بے غرض خدمت کرنا انسانیت کی معراج ہے۔
٭ بدگمانی تمام فائدوں کو ختم کر دیتی ہے۔
٭ اپنے کام حسیٖن انداز میں کرو کہ اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
٭ قابلیت اور کام یابی سکے کے دو رخ ہیں اس لیے کام یابی کے پیچھے نہ دوڑو قابل بنو کام یابی تمہارے پیچھے دوڑے گی۔
٭ جس نے کسی بد مذہب کی تعظیم کی تو اس نے اسلا م کو ڈھانے میں مدد کی۔
٭ ایمان اور شراب کی عادت دونوں ایک مرد کے سینے میں جمع نہیں ہوسکتے۔
٭ تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کو فانی جانتا ہے اور اس کی رغبت بھی رکھتا ہے۔
٭ تم میں اچھا وہ ہے جس سے بھلائی کی امید ہو اور اس کی شرارت سے لوگ محفوظ ہوں۔
٭ کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا ایسا ہے جیسے روزہ رکھ کر صبر کرنے والا۔
٭ جب تین شخص ساتھ میں بیٹھتے ہیں تو دو شخص کان میں بات نہ کریں اس سے تیسرے کو تکلیف ہو گی۔
٭ اللہ کو راضی کرو اس کے احکام پر عمل کر کے، رسول کو راضی کرو ان کی اطاعت سے اور مخلوق کو راضی کرو ان کے حقو ق ادا کر کے۔
٭ جو شخص تمہاری نگاہوں سے تمہاری ضرورت کو سمجھ نہیں سکتا اسے کچھ کہہ کر خود کو شرمندہ نہ کرو۔
٭ اگر تم موت کی رفتار کو دیکھ لیتے تو یقیناً تم امیدوں اور امنگوں سے نفرت کرتے اور ہرگز ان میں مغرور نہ ہوتے۔
٭ اے لوگو! تم کس دنیا پر فخر کرتے ہو؟ جہاں بہترین مشروب مکھی کا تھوک(شہد) اور بہترین کپڑا کیڑے کا تھوک (ریشم) ہے۔
٭ جنت میں مومن کا زیور وہاں تک ہو گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچتا ہے۔
٭ تم میں سے جب کوئی جنازہ دیکھے اور اس کے ساتھ نہ جا سکے تو اس وقت تک کھڑا رہے جب تک وہ آگے نہ بڑھ جائے۔
٭ عقل مند و ہ ہے جو گناہوں سے نفرت کرنے والا اور پرہیز گار ہے۔
٭ دعا ایمان دار کا ہتھیار، دین کاستون اور زمین و آسمان کا نور ہے۔
٭ تم مریض کے پاس جاؤ تو اس سے اپنے لیے دعا کراؤ بے شک ان کی دعا فرشتوں کی دعا جیسی ہے۔
٭ گانے سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے جس طرح پانی سے کھیتی اُگتی ہے۔
٭ جو عیب سے آگاہ کرے وہ دوست اور جو منہ پر تعریف کے پُل باندھے وہ دشمن ہے۔
٭ اپنی حفاظت اللہ کے نام کر دو وہ تمہیں شکست اور وباؤں سے محفوظ رکھے گا۔
٭ بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے سو تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو۔
٭ وہ لوگ جو مسلمانوں میں بُرے رسم و رواج کو عام کرتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
٭ جب کوئی اللہ کی نعمت پر الحمد للہ کہتا ہے تو اللہ اُس کو اُس سے بھی افضل نعمت سے نوازتا ہے۔
٭ بندہ جب ماں باپ کے لیے دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اُس کا رزق قطع کر دیا جاتا ہے۔
٭ قرض لینے سے بچنے کی کوشش کرو کیوں کہ مومن کی روح قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے۔
٭ چار چیزیں سب ہی نبیوں کی سنت ہیں … (۱) نکاح (۲)حیا(۳) مسواک اور (۴) خوشبو لگانا۔
٭ اپنی جان اولاد، خادموں اور مال پر بددعا نہ کرو کیوں کہ کیا پتا قبولیت کا وقت ہو۔
٭ مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرے والا نہ فحش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے۔
٭ مومن کی ذلّت اپنے مذہب سے غافل ہو جانے میں ہے،نہ کہ غریب اور مفلس ہو جانے میں۔
٭ کنجوس آدمی دنیا میں فقیروں کی طرح زندگی گذارے گا لیکن آخرت میں امیروں کی طرح حساب دے گا۔
٭ جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی اس کو بھی اُتنا ہی اجر ملے گا جتنا کہ مصیبت زدہ کو۔
٭ تنگ لباس اس حصے پر پہننا جس کو شریعت نے چھپانے کا حکم دیا ہے سخت منع اور نقصان دہ بھی ہے۔
٭ کسی چیز کی خریدی کے لیے دیا گیا ایثار ضبط کر لینا حرام ہے۔
٭ اللہ کے نزدیک بندے کی یہ حالت سب سے زیادہ پسند ہے کہ وہ اس کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے۔
٭ اس شخص پر لعنت ہے جو کسی مسلمان کو نقصان پہنچائے یا اسے دھوکا دے۔
٭ شریف آدمی ترقی پا کر نرم ہو جاتا ہے اور کمینے کا معاملہ اس سے اُلٹ ہے۔
٭ منافق سے سانپ کی دوستی اچھی کہ سانپ کاٹے گا تو جان جائے گی اور منافق کاٹے گا تو ایمان جائے گا۔
٭ نکتہ چینی کرنے والا طرح طرح کی آفات میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔
٭ کسی بھی نیکی کو معمولی نہ سمجھو خواہ یہی ہو کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے خوشی خوشی ملو۔
٭ تین چیزوں کو معمولی درجے کی نہ سمجھو… (۱) قرض(۲)فرض(۳) مرض
٭ جس نے مومن کو دنیا کی کسی سخت مصیبت سے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ہولناک مصیبت سے نکالے گا۔
٭ اگر انسانوں کے دلوں کو شیطان نے گھیرا تو وہ اللہ کی بادشاہی کی طرف دیکھے۔
٭ دنیا کی محبت سب گناہوں کی سردار ہے اور اس کی محبت تمہیں اندھا اور گونگا کر دیتی ہے۔
٭ اطمینانِ قلب چاہتے ہو تو حسد سے دور رہو۔
٭ جس نے آرام کو پسند کیا وہ جلد تباہ ہوا۔
٭ بہترین عمل دوسروں کو کچھ دینا ہے، سنت کی پیروی کرنا بدعت سے بچنا ہے۔
٭ ۴؍ رحمتیں ایسی ہیں جو انسان سے برداشت نہیں ہوتی ( ۱ ) بیٹی ( ۲ ) مہمان ( ۳ ) بارش (۴) بیماری
٭ لوگوں کے خوف سے حق بات کہنے سے نہ رکو کیوں کہ نہ تو کوئی موت کو قریب کرسکتے ہیں نہ کوئی رزق کو دور کرسکتے ہیں۔
٭ جب کوئی شَے اپنے والدین کو دو تو اس طرح دو جس طرح کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
٭ جس کا رابطہ اللہ کے ساتھ ہو وہ ناکام نہیں ہوتا،ناکام وہ ہوتا ہے جس کی امید دنیا سے وابستہ ہو۔
٭ جب تم کو کوئی دعا دے تو اُس سے بہتر کلمہ سے دعا دو یا انھیں لفظوں سے دعا دو بے شک خدا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
٭ جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بد ل دے گا۔
٭ لوگ پیار کے لیے ہوتے ہیں اور چیزیں استعمال کے لیے، بات تب بگڑتی ہے جب چیزوں سے پیار اور لوگوں کو استعما ل کیا جاتا ہے۔
٭ تکبر کرنے والے سے اللہ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ اس کی طرف نظرِ رحمت کرے گا اس کے لیے درد ناک عذاب ہیں۔
٭ جس طرح جہالت کی بات کہنے میں خوبی نہیں اسی طرح حق بات میں چپ رہنے میں بھلائی نہیں۔
٭ میں اس شخص کو جنت میں گھر دلوانے کی ضمانت دیتا ہوں جو جھگڑا چھوڑ دے چاہے حق پہ ہو۔
٭ اللہ کے خاص بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلیں اور جب جاہل ان سے جہالت کی بات کریں تو کہیں تم کو سلام۔
٭ مصیبت کو پوشیدہ رکھنا جواں مردی ہے۔
٭ بری بات کہنے والے تین لوگوں کو زخمی کرتے ہیں … (۱) خود کو(۲) جس کی برائی کی اس کو (۳) بری بات سننے والے کو۔
٭ جس قوم میں تین لوگ ہوں وہ قوم برباد ہو گی (۱) ظالم حکمراں (۲) جاہل درویش (۳) بے عمل عالم
٭ پرہیزگاری اختیار کرو عبادات میں اخلاص پیدا ہو گا۔
٭ اللہ اس کو پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں بھی۔
٭ ظلم قیامت کے دن تاریکیاں ہے یعنی ظلم کرنا والا قیامت کے دن سخت اندھیروں اور مصیبت میں گھرا ہو گا۔
٭ دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں …(۱) نغمہ کے وقت باجے کی آواز(۲) مصیبت اور غم کے وقت رونے کی آواز۔
٭ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔
٭ جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہے اور چغلی سے قبر کا عذاب ملے گا۔
٭ جو شخص دوسروں پر فسق اور کفر کی تہمت لگائے اور وہ ایسا نہ ہو تو اس کہنے والے پر واپس ہوتا ہے۔
٭ جس نے اپنے بھائی کو ایسے گناہ پر شرمندہ کیا جس سے وہ توبہ کر چکا ہے تو مرنے سے پہلے وہ خود اس گناہ میں مبتلا ہو گا۔
٭ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو برباد کرنا چاہتا ہے تو اس سے شرم و حیا نکل جاتی ہے اور اللہ کا غصہ اس پر مسلط ہو جاتا ہے۔
٭ عقل مندانسان وہ ہے جو اپنے حق سے کام لینے پر راضی رہے اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے کے لیے تیار رہے۔
٭ جب تم کسی صاحبِ تواضع کو دیکھو تو اس کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ اور تکبر کرنے والے سے تکبر سے کہ وہ ذلیل و خوار ہو۔
٭ جو باتیں زیادہ کرتے ہیں ان کی خطائیں زیادہ ہو جا تی ہی، جن کی خطائیں زیادہ ہو جاتی ہیں ان کی حیا کم ہو جاتی ہے،جن کی حیا کم ہو جاتی ہے ان کی پرہیزگاری کم ہو جاتی ہے، جن کی پرہیز گاری کم ہو جاتی ہے ان کا دل مردہ ہو جاتا ہے۔
٭ پیٹ( بھوک) ہاتھ کی ہتھکڑی اور پیر کی بیڑی ہے، پیٹ کا غلام خدا کو کم پوجتا ہے۔
٭ مومن پر تین احسان کرو… (۱) نفع نہیں دے سکتے تو نقصان نہ کرو(۲) خوش نہیں کرسکتے تو رنجیدہ نہ کرو (۳) تعریف نہیں کرسکتے تو برائی نہ کرو۔
٭ دنیا اور اس کی دل فریبی پر فریفتہ نہ ہو جاؤ اس لیے کہ دنیا کی خو ش نمائی گندگی اور دست یابی جدائی ہے۔
٭ زند گی میں میں دو لوگوں کا بہت خیال رکھو(۱) ایک وہ جس نے تمہاری جیت کے لیے بہت کچھ ہارا ہو-باپ(۲) دوسرے وہ جس نے تمہاری ہار کو جیت کہا ہو-ماں۔
٭ لالچی ایک دنیا حاصل کر کے بھی بھوکا ہے اور قناعت کرنے والا ایک روٹی سے پیٹ بھرتا ہے۔
٭ تیری تعریف کرنے والے سے غرور نہ خرید کیوں کہ اس نے مکر کا جال بچھایا اور لالچ کا دامن پسارا ہے۔
٭ دعا دروازے پر دستک کی طرح ہے، دعا ہمیشہ مانگتا رہ کیوں کہ بار بار دستک سے دروازہ کھل ہی جاتا ہے۔
٭ حق پرست اگرچہ تعداد میں کم ہوتے ہیں لیکن ان کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے۔
٭ خدا نے انسان کو اپنے لیے پیدا کیا اس لیے اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کا نہ بنے۔
٭ تنگ دستی پر صبر کرنے سے خدا کی طرف سے فراخ دستی حاصل ہوتی ہے
٭ اپنے آپ کو دانا سمجھنے والو! اس بات کا بھی اندازہ لگاؤ کہ تم نے کتنی نادانیاں کی ہیں۔
٭ پرہیزگاری کی نشانی یہ ہے کہ دوسروں کے بارے میں خیال کرے کہ وہ نجات حاصل کر لے گا اور خود کو گناہ گار تصور کرے۔
٭ جس طرح شبنم کے قطرے مرجھائے ہوئے پھولوں کو تازگی دیتے ہیں اسی طرح اچھے الفاظ مایوس دلوں کو روشنی عطا کرتے ہیں۔
٭ بحث و مباحثہ ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے اس سے اکثر سرد مہری اور غلط فہمی بڑھتی ہے،ممکن ہے کہ تم اپنے دوست سے جیت جاؤ مگر ساتھ ہی اپنے دوست کو کھو بھی دو۔
٭ ہمیشہ انھیں نظر انداز مت کرو جو تمہاری پروا کرتے ہیں ورنہ ایک دن تمہیں احساس ہو گا کہ پتھر جمع کرتے کرتے تم نے ہیرا کھو دیا۔
٭ خزاں کے گرتے پتوں کو حقیر مت سمجھنا کیوں کہ ان ہی پتوں کے گرنے سے بہار آتی ہے۔
٭ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ کبھی بدلہ نہیں لیتا۔
٭ حسد کرنے والا موت سے پہلے مر جاتا ہے۔
٭ موت کو یاد کرنا نفس کی تمام بیماریوں کی شفا ہے۔
٭ حلال اشیا میں سے جو چاہے کھاؤ اور پہنو، لیکن اس میں دو چیزیں نہ ہوں … (۱) اسراف (فضول خرچی) اور (۲) تکبر۔
٭ اس دنیا میں نیک چلنی کا راستہ دوسری دنیا میں نجات کی سڑک ہے۔
٭ طالبِ دنیا کو دین کا علم پڑھانا راہ زن کے ہاتھ میں تلوار دینے کے مترادف ہے۔
٭ خدا کی فرماں برداری کے بغیر اس کی رحمت کا امیدوار ہونا جہالت اور حماقت ہے بغیر سنتِ رسول کی پیروی کے شفاعت کی امید فریب ہے۔
٭ بری خصلتوں میں سب سے بری خصلتیں دو ہیں …(۱) انتہائی کنجوسی (۲) انتہائی بزدلی۔
٭ جس پر نصیحت اثر نہ کرے اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے۔
٭ تعجب ہے اس شخص پر جو جہنم کے بارے میں جانتا ہے پھر بھی گناہ کرتا ہے۔
٭ کسی کے ایمان کا اندازہ اس کے وعدوں سے لگاؤ۔
٭ عقل کو زائل کرنے والی شراب سے بری کوئی اور چیز نہیں۔
٭ جب جنازہ کے ہمراہ جاؤ تو میت کے غم سے زیادہ اپنا غم کرو اور خیال کرو کہ وہ ملک الموت کا منہ دیکھ چکا ہے اور مجھے ابھی اسے دیکھنا ہے۔
٭ شراب ایک ایسا زہر ہے جس سے پہلے اَخلاقی اور پھر بہت جلد جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے۔
٭ زاہد وہ ہے جو دنیا سے احتراز رکھے، اپنی قسمت پر رضامند رہے اور مقدارِ عمل سے زیادہ بات نہ کہے۔
٭ روح کی پاکیزگی کے لیے زبان اور دل کا پاکیزہ ہونا بے حد ضروری ہے۔
٭ مخلص دوست وہی ہے جو آپ کے احساسات اور جذبات سے پیار کرے سکھ اور دکھ میں ساتھ دے۔
٭ نیکی اور تقوا کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
٭ دنیا کی محبت سے فقر و زہد کا نور دل سے جاتا رہتا ہے۔
٭ پاؤں پھسل جائے تو پھسل جائے مگر زبان کو پھسلنے نہ دو۔
٭ خواہشات کی تابع داری ایک لاعلاج مرض ہے، خواہشات پر قابو پانا ایک طرح کا جہاد ہے۔
٭ بے عمل عالم، شہد نہ دینے والی مکھی کی طرح ہے۔
٭ ظالموں کو معاف کر دینا مظلوموں پر ظلم ہے۔
٭ زندگی ایک شمع کی مانند ہے جو ہوا میں رکھی گئی ہے۔
٭ عدل و انصاف ایک ایسا عمل ہے جس میں بے پناہ خوبیاں ہیں۔
٭ دولت سے آدمی خوشامد تو خرید سکتا ہے لیکن محبت نہیں۔
٭ لگن اور اعتماد انسان کو کام یابی کی طرف لے جاتے ہیں۔
٭ جس گناہ سے قبل انسان میں خوف پیدا ہو وہ اگر توبہ کر لے تو اس کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
٭ جس عبادت کی ابتدا مامون رہنا اور آخر میں خود بینی پیدا ہونا شروع ہو تو اس کا نتیجہ اللہ سے دوری کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔
٭ جو شخص عبادت پر فخر کرے وہ گناہ گار ہے اور جو معصیت پر اظہارِ ندامت کرے وہ فرماں بردار ہے۔
٭ مومن کی تعریف یہ ہے کہ نفس کی سرکشی کا مقابلہ کرتا رہے اور عارف کی تعریف یہ ہے کہ وہ اپنے مولا کی طاعت میں ہمہ تن مشغول رہے۔
٭ صاحبِ کرامت وہ ہے جو اپنی ذات کے لیے نفس سے ہر لمحہ جنگ کرتا رہے کیوں کہ نفس سے جنگ کرنا اللہ تعالی تک رسائی کا سبب ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جتنا کہ رات کی تاریکی میں سیاہ پتھر پر چیونٹی رینگتی ہے۔
٭ نیک بختی کی علامت یہ بھی ہے کہ عقل مند دشمن سے واسطہ پڑ جائے۔
٭ پانچ لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرنا چاہیے… (۱) جھوٹے سے، کیو ں کہ اس کی قربت فریب میں مبتلا کر دیتی ہے(۲) بے وقوف سے، کیوں کہ جس قدر وہ تمہارا فائدہ چاہے گا اسی قدر نقصان پہنچے گا(۳) کنجوس سے، کیوں کہ اس کی صحبت سے بہترین وقت رایگاں ہو جاتا ہے(۴) بزدل سے، کیوں کہ یہ وقت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دیتا ہے(۵) فاسق سے، کیوں کہ ایک نوالے کی لالچ میں کنارہ کش ہو کر مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
٭ جنت کا حق دار صرف وہی ہے جو اپنے تمام امور اللہ تعالیٰ کو سونپ دے اور دوزخ اس کا مقدر ہے جو اپنے امورسرکش نفس کے حوالے کر دے۔
٭ تقوا دین کی اساس ہے اور لالچ تقوے کو ضائع کر دیتی ہے۔
٭ تم دنیا میں ڈرانے والوں ہی کی صحبت اختیار کرو، تاکہ روزِ حشر رحمتِ خداوندی تمہارے قریب تر ہو۔
٭ دوسروں کو نصیحت اس وقت کرنی چاہیے جب خود بھی تمام برائیوں سے پاک ہو جائے۔
٭ تباہی مردہ دلی میں پوشیدہ ہے، اور مردہ دلی دنیا کی محبت میں ڈوب جانا ہے۔
٭ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نافع علم،عمل کی دولت، اخلاص و قناعت اور صبرِ جمیل حاصل کرتا رہے، کیوں کہ ان چیزوں سے آخرت میں سرخ روئی ملے گی۔
٭ بھیڑ بکریاں انسانوں سے زیادہ باخبر ہوتی ہیں کیوں کہ چرواہے کی ایک آواز پر چرنا چھوڑ دیتی ہے اور انسان اپنی خواہشات کی خاطر احکامِ الٰہی کی بھی پروا نہیں کرتا اور بری صحبت انسان کو نیک لوگوں سے دور کر دیتی ہے۔
٭ فکر ایک ایسا آئینہ ہے جس میں نیک و بد کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
٭ منافقت ظاہر و باطن میں خلوصِ نیت کے فقدان کا نام ہے۔
٭ تقوا کے تین مدارج ہیں … (۱) غصے کے عالم میں بھی سچی بات کہنا(۲) ان چیزوں سے بچنا جن سے اللہ نے اجتناب کا حکم دیا ہے (۳) احکامِ الٰہی پر راضی بہ رضا ہونا۔
٭ جس نے حسد سے اجتناب کیا اس نے محبت حاصل کر لی، جس نے صبر وسکون کے ساتھ زندگی گذاری و ہ سربلند ہو گیا۔
٭ تین افراد کی غیبت درست ہے … (۱) لالچی کی (۲) فاسق کی (۳) ظالم بادشاہ کی۔
٭ انسان کو ایک ایسے مکان میں بھیجا گیا ہے جہاں کے تمام حلال و حرام کا محاسبہ کیا جائے گا۔
٭ جو دنیا سے محبت نہیں کرتے نجات ان ہی کا حصہ ہے،جو دنیا کے اسیر ہوئے انھوں نے خود کو ہلاکت میں ڈالا۔
٭ نفس سے زیادہ دنیا میں کوئی شَے سرکش نہیں اور اگر تم یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ تمہارے بعد دنیا کی کیا کیفیت ہو گی تو یہ دیکھ لو کہ دوسرے لوگوں کے جانے کے بعد کیا نوعیت ر ہی۔
٭ جو شخص تمہارے سامنے دوسروں کے عیوب بیان کرتا ہے وہ یقیناً دوسروں کے سامنے تمہاری برائی بھی کرتا ہو گا۔
٭ جس سے قیامت کے دن کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اس کی صحبت سے کیا فائدہ ؟
٭ اہلِ دنیا فالودہ کی طرح ہیں جو ظاہر میں تو خوش رنگ ہوتا ہے مگر باطن میں بدمزہ ہوتا ہے۔
٭ جو عبادت کم اور لغو باتیں زیادہ کرتا ہے اس کا علم تھوڑا، قلب اندھا اور عمر رایگاں ہے، کیوں کہ اخلاص سے بہتر کوئی عمل نہیں۔
٭ دنیا میں رہتے ہوئے زہد اختیار کرو اور حرص و طمع کو ترک کر دو اور پوری مخلوق کو محتاج تصور کر کے کبھی کسی سے اپنی حاجت کا ذکر نہ کرو اگر تم ان چیزوں کی پابندی کرو گے تو بے نیاز ہو جاؤ گے۔
٭ سیم و زر اور درہم و دینار پر نظر ڈالنے سے یہ چیز زیادہ دشوار ہے کہ انسان اپنی زبان پر نگاہ رکھے اور کبھی کسی کو بُرا نہ کہے۔
٭ جس کا دل اللہ کے ڈر سے لبریز ہوتا ہے اُس سے دنیا کی ہر چیز خوف زدہ رہتی ہے۔
٭ صرف زبانی توبہ کرنا جھوٹوں کا کام ہے کیوں کہ اگرسچے دل سے توبہ کی گئی تو دوبارہ توبہ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
٭ جس طرح جنت میں رونا عجیب سی بات ہے اسی طرح دنیا میں ہنسنا بھی تعجب انگیز ہے کیوں نہ تو جنت رونے کی جگہ ہے اور نہ دنیا ہنسنے کی جگہ۔
٭ تین چیزوں کا حصول ناممکن ہے اس لیے ان کی جستجو نہ کرو… (۱) ایسا عالم جو مکمل طور پر اپنے علم پر عمل پیرا ہو(۲) ایسا عامل جس میں اخلاص بھی ہو (۳) ایسا بھائی جو عیوب سے پاک ہو۔ کیوں کہ جو فرد اپنے بھائی کا ظاہری دوست اور باطنی دشمن ہو اس پر ہمیشہ اللہ کی لعنت رہتی ہے۔
٭ دو خصلتیں حماقت پر مبنی ہیں … (۱) بلاوجہ ہنسنا(۲) دن رات کی بیداری سے گریز کرنا اور خود عمل نہ کرتے ہوئے دوسروں کو نصیحت کرنا۔
٭ جس کو تین باتوں میں دل جمعی حاصل نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس کے اوپر بابِ رحمت بند ہو چکا ہے۔ (۱) تلاوتِ قرآن مجید کے وقت(۲) نماز کی حالت میں (۳) ذکر و شغل کے وقت۔
٭ خواہشات کا بندہ کبھی سچا نہیں ہوسکتا کیوں کہ خدا کے ساتھ اخلاص کا تعلق سچائی اور خلوص نیتی سے ہے۔
٭ جو دنیاوی عزت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ تین چیزوں سے کنارہ کش ہو جائے … (۱) مخلوق سے اظہارِ حاجت کرنا(۲) دوسروں میں عیب نکالنا(۳) کسی کے مہمان کے ساتھ جانا۔
٭ دنیاوی نام و نمود کا خواہش مند آخرت کی لذت سے محروم رہتا ہے۔
٭ یہ تصور کرنا کہ لوگ ہمیں بہتر سمجھیں محض دنیا کی محبت کا مظہر ہے جب تک بندہ اپنے نفس کے سامنے فولادی دیوار نہ کھڑی کر لے اسے عبادت میں لذّت و حلاوت نہیں مل سکتی۔
٭ تین کام بہت مشکل ہیں (۱) مفلسی میں سخاوت(۲) خوف میں صداقت(۳) خلوت میں تقوا۔
٭ جو بہت زیادہ کھاتا ہے اسے حکمت سے حصہ نہیں ملتا۔
٭ گناہوں سے توبہ کرنے کے بعد دوبارہ گنا ہ کرنا دروغ گوئی ہے۔
٭ سب سے بڑا دولت مند وہ ہے جو تقوا کی دولت سے مالامال ہو۔
٭ ہم جنت میں جانے کی تمنا تو کرتے ہیں لیکن جنت میں لے جانے والے کام نہیں کرتے۔
٭ مصائب میں صبر کرنا قابلِ تعریف نہیں بل کہ مصائب پر خوش اور شاکر رہنا قابلِ تعریف ہے۔
٭ خدا سے خوف کرنے والے ہدایت پاتے ہیں اور درویشی سے ڈرنے والے قہرِ الٰہی میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
٭ انسان پر چھ چیزوں کی وجہ سے تباہی آتی ہے…(۱)اعمالِ صالحہ سے کوتاہی(۲) ابلیس کی فرماں برداری(۳) موت کا قریب نہ سمجھنا(۴) رضائے الٰہی کو چھوڑ کر لوگوں کی رضامندی حاصل کرنا(۵) تقاضائے نفس پر سنت کو چھوڑ دینا(۶) بزرگوں کی غلطی کو سند بنا کر ان کے فضائل سے صرفِ نظر کرنا اور اپنی غلطی کو ان کے سر تھوپنا۔
٭ دوست ایسے بناؤ جو تمہاری ناراضگی سے ناراض نہ ہوں اور تمہاری غلطیوں کو بتا کر ان کی اصلاح کریں۔
٭ جس پر دنیا کا نشّہ سوار ہو تو اسے نصیحت کرنا بے سوٗد ہے۔
٭ اہلِ معرفت کے نزدیک اخلاص کے راستے کی طرف لے جانے والی خلوت سے بہتر کوئی شَے نہیں۔
٭ جس طرح ہر جرم کی سزا ہوتی ہے اسی طرح ذکرِ الٰہی سے غفلت کی سزا دنیا کی محبت ہے۔
٭ اللہ کی محبت کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیزیں اس سے دور کرے ان سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرو۔
٭ مریضِ قلب کی چار علامتیں ہیں …(۱) عبادت میں لذّت کا فقدان(۲) خدا سے خوف زدہ نہ ہونا(۳ ) دنیاوی امور سے عبرت حاصل نہ کرنا(۴) علم کی باتیں سننے کے بعد اس پر عمل نہ کرنا۔
٭ دل اور روح کی گہرائیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بن جانے کو بندگی کہتے ہیں۔
٭ دل کی توبہ یہ ہے کہ حرام چیزوں کو چھوڑ دے، آنکھ کی توبہ یہ ہے کہ حرام چیز کی جانب نہ اٹھے، کان کی توبہ یہ ہے کہ غیبت اور بد گوئی سننے کی نیت بھی نہ کرے، ہاتھ کی توبہ یہ ہے کہ غیر شرعی چیزوں کی طرف نہ اٹھے، شرم گاہ کی توبہ یہ ہے کہ بدکاری سے کنارہ کش رہے
٭ ندامت کا مفہوم یہ ہے کہ گناہ کرنے کے بعد خوفِ سزا باقی رہے اور تقوا یہ ہے کہ اپنے ظاہر کو گناہ اور نافرمانی میں مبتلا نہ کرے اور اپنے باطن کو لغویات سے محفوظ رکھتے ہوئے ہمیشہ یہ تصور رکھے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام افعال کی نگرانی کر رہا ہے اور ہم اس کے سامنے ہیں۔
٭ تدبر و تفکر عبادات کی چابی ہے اور خواہشاتِ نفس کی مخالفت اللہ تعالیٰ کے قرب کی آئینہ دار ہے۔
٭ اخلاص میں جب تک صدق اور صبر کی شمولیت نہ ہو اس وقت تک اخلاص مکمل نہیں ہوسکتا۔
٭ خدا سے خوف رکھنے والا اسی جانب متوجہ رہتا ہے اور جو اس کی جانب متوجہ ہو جائے اسے نجات حاصل ہو گئی۔
٭ قناعت پسند بندہ لذّت و کیف کا سردار بن جاتا ہے اور جو لغو کاموں میں مصروف رہتا ہے اسی ذلّت و خواری ملتی ہے۔
٭ اللہ سے مسلسل ڈرتے رہنے والے بندے کے دل میں اللہ کی محبت اس طرح بس جاتی ہے کہ اس کو عقلِ کامل عطا کر دی جاتی ہے۔
٭ جو بے سود شَے کے حصول کی کوشش کرتا ہے وہ اس شَے کو کھو دیتا ہے جس سے اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔
٭ جس کا ظاہر،باطن کا آئینہ دار نہ ہو اس کی صحبت سے پرہیز کرو۔
٭ اخلاص کے ساتھ ذکرِ الٰہی کرنے والا اللہ کے سوا ہر شَے خود بہ خود بھولتا چلا جاتا ہے۔
٭ خود کو اپنے مرتبہ کے مطابق ہی ظاہر کرنا چاہیے یا جس قدر خود کو ظاہر کرتا ہے ویسا بننا چاہیے۔
٭ بھوک ایک ایسا ابر ہے جس سے رحمت کی بارش ہوتی رہتی ہے۔
٭ جو تکبر کی وجہ سے لوگوں پر رعب جماتا ہے وہ خدا سے دور ہے اور جو مخلوق کی اذیت رسانی کو برداشت کرتا ہے اور مخلوق سے خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے وہ خدا سے قریب ہے۔
٭ تمہیں کسی بُری عادت سے واسطہ پڑ جائے تو اس کو اچھی عادت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرو اور جب تمہیں کوئی کچھ دینا چاہے تو پہلے اللہ کا شکر ادا کرو پھر دینے والے کا۔
٭ جب تم مخلوق سے کنارہ کش ہو کر اپنے عیوب پر نظر ڈالنے لگو تو سمجھو کہ اللہ کا قرب حاصل ہوسکتا ہے۔
٭ تم عزت کی انتہا حاصل کرنے کی فکر میں ہو جب کہ وہ باریِ تعالیٰ کی صفت ہے جس کو کوئی مخلوق حاصل ہی نہیں کرسکتی۔
٭ ایک درہم قرضِ حسنہ دینا ایک درہم خیرات کر دینے سے زیادہ باعثِ ثواب ہے۔
٭ اگر صاحبِ اولاد اپنے بچوں کی نگرانی اور پرورش کے ساتھ علمِ دین بھی سکھائے تو یہ جہاد میں شرکت سے افضل ہے۔
٭ جس کو دنیا والے عزت و وقعت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اسے چاہیے کہ وہ خود کو بے وقعت تصور کرے تاکہ خود فریبی میں مبتلا نہ ہو۔
٭ قربِ الٰہی اور مخلوق سے کنارہ کشی کر کے دل کی بیماری کا علاج ممکن ہے۔
٭ تواضع کا مفہوم یہ ہے کہ انسان امیروں سے غرور اور فقیروں سے عاجزی کے ساتھ پیش آئے۔اور جو دنیاوی مراتب کے اعتبار سے تم سے برتر ہو اس کے ساتھ تکبر سے پیش آؤ اور جو تم سے کم تر ہو اس کے ساتھ عاجزی اختیار کرو۔
٭ اگر خدا کے ڈر سے ایک آنسو بھی نکل پڑے تو وہ عمر بھر کے اس رونے سے بہتر ہے جس میں خوفِ الٰہی شامل نہ ہو،خدا کا خوف رکھنے والوں کو گذر بسر کا ڈر نہیں رہتا۔
٭ اس سے پہلے کہ جھگڑا بڑھنے لگے تم اس سے الگ ہو جاؤ۔
٭ ان لوگوں سے رشک و حسد مت کرو جن کے پاس تم سے زیادہ علم ہے بل کہ ان پر رحم کرو جن کے پاس تم سے کم علم ہے۔
٭ کوئی کم زور شخص تمہاری بے عزتی کرے تو تم اسے بخش دو کہ بہادرو ں کا کام معاف کر دینا ہے۔
٭ بانٹنے سے خوشی اس طرح بڑھتی ہے جس طرح زمین میں بویا ہوا بیج فصل بنتا ہے۔
٭ زیادہ علم والوں سے علم سیکھو اور کم علم والوں کو علم سکھاؤ۔
٭ اگر تم کم زور کو کچھ دے نہیں سکتے تو اس کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ۔
٭ غیبت سننے والا غیبت کرنے والوں میں داخل ہے۔
٭ گناہ پر ندامت گناہ کو مٹا دیتی ہے، نیکی میں غرور نیکی کو تباہ کر دیتا ہے۔
٭ سب سے بہترین لقمہ وہ ہوتا ہے، جو اپنی محنت سے حاصل کیا جائے۔
٭ بخیل سے بچو، کیوں کہ وہ تمہاری حاجتوں میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
٭ انصاف کی گھڑی عمر بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔
٭ جہنمی لوگ خود پسند، خود پرست، متکبر، حریص اور بخیل ہوتے ہیں۔
٭ اس دن پر آنسو بہاؤ جو تمہاری عمر سے کم ہو گیا اور اس میں تم نے کوئی نیکی نہ کی۔
٭ مرض یا مصیبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مومن کے گناہوں کواس طرح کم کر دیتا ہے جس طرح خزاں میں درختوں کے پتے گرتے ہیں۔
٭ جس پر نصیحت اثر نہ کرے وہ جانے کہ میرا دل ایمان سے خالی ہے۔
٭ وہ عمل جو بغیر علم کے ہو، اسے بیمار جانو اور وہ علم جو بغیر عمل کے ہو اسے بے کار جانو۔
٭ بد بخت ہے وہ شخص جو مر جائے مگر اس کا گناہ نہ مرے، یعنی وہ کوئی ایسا بُرا کام چھوڑ جائے جواس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے۔
٭ خوش بخت ہے وہ شخص جو مر جائے مگر اس کی نیکی نہ مرے، یعنی وہ کوئی ایسا نیک کام چھوڑ جائے جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے۔
٭ حقیقی سخاوت یہ ہے کہ مخلوقِ خدا کو تکلیف سے بچانے کے لیے خود تکلیف اٹھا لو۔
٭ عبادت ایک پیشہ ہے، اس کی دکان خلوت، راس المال تقوا، اور نفع جنت ہے۔
٭ جب تم سکون کی کمی محسوس کرو تو اپنے رب کے حضور توبہ کرو کیوں کہ انسان کے گناہ ہی ہیں جو دل کو بے چین رکھتے ہیں۔
٭ اپنے نفس کو قابو میں رکھو، اسے من مانی نہ کرنے دو، ورنہ وہ زیادہ سے زیادہ خواہشات پیدا کرے گا۔
٭ جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں،خیانت منافق کی نشانی ہے، امانت ختم ہونا قیامت کی نشانی ہے۔
٭ تین چیزیں اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں (۱) سردی کا وضو(۲) گرمی کا روزہ(۳) جوانی کی عبادت۔
٭ تم کسی انسان کو بُرا نہ سمجھو، شاید وہ ویسا نہ ہو جیسا تم سمجھتے ہو، حقیقی علم تو اللہ کے پاس ہے، تم تو لا علم ہو۔
٭ جو چیزیں دنیا داروں کے نزدیک پسندیدہ ہیں وہ چیزیں ہرگز پسندیدگی کے قابل نہیں ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ اس مومن سے خوش ہوتا ہے جو کسی مومن کی ضرورت کو پورا کرے اس کا مقام جنت ہے۔
٭ اہلِ خیر کی صحبت سے دل میں بھلائی پیدا ہوتی ہے اور اہلِ شر کی صحبت دل کو فتنہ و فساد کی جانب مائل کر دیتی ہے۔
٭ خدا سے دور کر دینے والی تمام اشیا سے کنارہ کشی زہد ہے، اور زہد کی علامت یہ ہے کہ کم قیمتی اشیا کے مقابلہ میں زیادہ قیمتی اشیا کی طلب نہ کرے۔
٭ دنیاوی امور میں غور و فکر کرنا آخرت کے لیے حجاب بن جاتا ہے۔
٭ اپنی زندگی فضول اور بے کار نہ بسر کرو کیوں کہ عمر رائیگاں گذرنے کا غم اتنا اہم ہے کہ اگر انسان اس پر تمام عمر بھی روتا رہے تو کم ہے۔
٭ مومن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دل سے دنیا کے غم خالی کر کے عبادتِ الٰہی اور خوفِ الٰہی میں روتا رہے۔
٭ صدق دل کے ساتھ نفسانی خواہشات کو ترک کر دینے والا اللہ تعالیٰ کے اجرِ عظیم کا مستحق ہوتا ہے۔
٭ ہر شَے کے لیے ایک زیبایش ہے، اور عبادت کی زیبایش خوفِ خدا ہے۔
٭ پیٹ بھر کھانے سے خواہشاتِ نفسانی عروج پر پہنچ جاتی ہے اور نفس اپنی مرادیں مانگنے لگتا ہے۔
٭ حرام رزق سے دنیا کی رغبت اور گناہوں سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
٭ افضل انسان وہی ہے جو بد خصلتی کو ترک کر کے نیک خصلت بن جائے۔
٭ دنیا میں سنّت ایک ایسی شَے ہے جیسے آخرت میں جنّت اور جس کو جنت حاصل ہو گئی اس سے غم و اندوہ کا خاتمہ ہو گیا۔
٭ تقوے سے افضل کوئی زادِ راہ نہیں اور صبر کا کوئی نعم البدل نہیں۔
٭ اعمالِ صالحہ کے بغیر جنت کی طلب، اتباعِ سنت کے بغیر شفاعت کی امید اور اور نافرمانی کے بعد رحمت کی تمنا حماقت ہے۔
٭ جو خود اپنے نفس کو آراستہ نہیں کرسکتا وہ دوسروں کے نفس کی اصلاح کیسے کرسکتا ہے؟
٭ عمر کی درازی کا راز صبر میں پوشیدہ ہے، صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے۔
٭ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا نام باقی رہے تو اپنی اولاد کو اچھے اخلاق سے آراستہ کرو۔
٭ یہ سچ ہے کہ انسان کو اس کے مقدر سے زیادہ رزق نہیں ملتا لیکن تلاشِ رزق کے لیے سُستی کرنا اچھی بات نہیں۔
٭ دشمن سے ہمیشہ بچو اور دوست سے اس وقت جب وہ تمہاری تعریف کرنے لگے۔
٭ اپنے دوست کی سچائی کا امتحان نہ لو کیا پتا اس وقت وہ مجبور ہو اور تم غلط فہمی میں ایک اچھا دوست کھو دو۔
٭ نیت کتنی بھی اچھی ہو دنیا آپ کو آپ کے دکھاوے سے جانتی ہے، اور دکھاوا کتنا بھی اچھا ہو اللہ آپ کو آپ کی نیت سے اجر دیتا ہے۔
٭ رزق کی بہت زیادہ کمی اور بہت زیادتی دونوں ہی برائی کی طرف لے جاتی ہے۔
٭ دنیاداری اللہ کی یادسے غافل اور دین سے دور کر دیتی ہے۔
٭ مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیوں کو اس طرح چھپائے جیسے برائیوں کو چھپاتا ہے۔
٭ جب تمہارے دل میں کسی کے لیے نفرت پیدا ہونے لگے تو تم اس کی اچھائیوں کو دیکھنے لگو۔
٭ خوش نصیب شخص وہ نہیں جس کا نصیب اچھا ہو، بل کہ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہو۔
٭ صرف اتناسوؤ کہ غافل نہ ہوسکواور صرف اتنا کھاؤ کہ بیماری لاحق نہ ہوسکے۔
٭ ہمیشہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والوں کی زندگی ایک خواب بن جاتی ہے۔
٭ وہ طالبِ علم جو اپنے استاد کی سختیاں نہیں جھیل پاتا اسے زندگی میں بہت سختیاں جھیلنا پڑتی ہیں۔
٭ بندہ جس چیز سے ڈرتا ہے تو اس سے دور بھاگتا ہے، لیکن بندہ اللہ سے ڈرتا ہے تو اس کے قریب آتا ہے۔
٭ مومن کے شایانِ شان یہ ہے کہ علم و عمل کے زیور سے آراستہ ہو اور خطاؤں سے کنارہ کش رہے۔
٭ اس آدمی کی کیا قدر ہے جو ریاکاری کا لباس پہنے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے لباس کے نیچے کئی جسم رکھتا ہے۔
٭ جس کے دماغ میں غرور ہوتا ہے اس کے متعلق خیال نہ کرو کہ وہ سچی بات سنے گا اسے علم سے ملال پیدا ہو گا اور اسے وعظ سے بد نامی پیدا ہو گی۔
٭ ہوش مند اور عقل مند انسان عاجزی کو اختیار کیے ہوئے ہوتا ہے کیوں کہ پھل سے بھری ہوئی ٹہنی زمین کی طرف جھکی ہوتی ہے۔
٭ جب لوگ اپنا علم - ظاہر اور عمل -ضائع کریں اور زبان سے الفت کا اظہار اور دل میں بغض و عداوت اور قطع رحمی کریں تو اللہ ان پر لعنت بھیجتا ہے۔
٭ سچ بولنے والا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں اور صدیقوں کے ساتھ ہو گا۔
٭ مصیبت کے وقت صبر نہ کرنا مصیبت سے زیادہ بڑی مصیبت ہے۔
٭ حسد ایک ایسی بُری چیز ہے جو ایمان کو کھوکھلا اور اللہ کی رحمت سے محروم کر دیتی ہے۔
٭ جو شخص مخلص اور وفادار دوست رکھتا ہے وہ دنیا کا امیر ترین آدمی ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کے دل میں خوشی کا داخل کرنا ہے۔
٭ اپنے دین میں اخلاص پیدا کرو تمہیں تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔
٭ جو بچپن میں ادب کرنا نہیں سیکھتا بڑی عمر میں بھی اس سے بھلائی کی کوئی امید نہیں۔
٭ چار شخصوں کے پاس خالی ہاتھ نہ جاؤ… (۱) فقیر(۲) عیال(۳) بیمار(۴) بادشاہ۔
٭ مبارک ہیں وہ لوگ جن کے پاس نصیحت کرنے کے الفاظ نہیں اعمال ہوتے ہیں۔
٭ دوسروں کے ساتھ زیادہ نیک سلوک وہی شخص کرسکتا ہے جو خود زیادہ مصیبتوں میں مبتلا رہ چکا ہو۔
٭ بُرے کاموں کے کرنے سے جو ڈرے وہ سب سے بڑا بہادر ہے۔
٭ ایسا کام کبھی نہ کرو کہ اس کے بدلے تمہیں سزا دی جائے تو تم رنجیدہ ہو جاؤ۔
٭ بزدل انسان موت آنے سے پہلے کئی بار مرتا ہے لیکن بہادر آدمی صرف ایک ہی بار مرتا ہے۔
٭ علم رکھنے والا اگر اس پر عمل نہ کرے تو ایک بیمار کی مانند ہے جس کے پاس دوا ہے لیکن وہ استعمال نہیں کرتا۔
٭ دو بھائیوں میں دشمنی نہ ڈالو کیوں کہ ان میں تو صلح ہوہی جائے گی اور پھر تمہیں بُرا ٹھہرایا جائے گا۔
٭ جو اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر سمجھے وہ بہت بڑا عارف ہے۔
٭ بے عمل عالم اور بے معرفت عارف اُس چکّی کی مانند ہیں جو روز و شب چلے، لیکن یہ نہ جانے کہ کس حال میں ہے۔
٭ تُو کتنا بھی علم سیکھے تجھ میں عمل نہیں تو تُو نادان ہے تُو وہ جانور ہے جسے یہ پتا نہیں کہ اس کی پیٹھ پر کیا رکھا ہوا ہے۔
٭ مو ت سے نہ ڈر بل کہ زندگی سے ڈر کیوں کہ زندگی میں ہزاروں آفتیں پوشیدہ ہیں۔
٭ استاد کا حق یہ ہے کہ اسے عزت دی جائے اور اس کی باتوں کو بہ غور سن کر اس پر عمل کیا جائے۔
٭ اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں جس کو اپنے ہاتھوں سے کام کر کے حاصل کیا جائے۔
٭ مالِ غنیمت کی امید پر کسی کی جان زبردستی جوکھوں میں مت ڈالو۔
٭ اپنا شعار خوفِ خدا کو بناؤ اور اس مالک سے ڈرتے رہو جو تمہارے ظاہر و باطن کا حال یک ساں جانتا ہے۔
٭ اپنی عقلوں کو ناقص سمجھتے رہو کہ عقل پر یقین کرنے سے ضرور غلطی سرزد ہوتی ہے۔
٭ جب گناہوں کے باوجود تجھے اللہ کی نعمتیں ملتی رہیں تو سمجھ لینا کہ تیرا حساب قریب اور سخت ہے۔
٭ گناہوں کو پھیلانے کا ذریعہ مت بنو کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ تم توبہ کر لو، لیکن جس کو تم نے گناہ پر لگایا ہے وہ تمہاری آخرت کی تباہی کا سبب بن جائے۔
٭ دنیا میں ہزاروں دوست بناؤ لیکن ایک دوست ایسابھی بناؤ، جب ہزاروں لوگ آپ کے خلاف ہوں تو وہ آپ کے ساتھ ہو۔
٭ ہمیشہ اتنی توبہ کرتے رہو کہ ایسا معلوم ہو کہ توبہ ہی عبادت ہے۔
٭ بے کاری اور کاہلی یہ بہت مہلک چیز ہے جو انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔
٭ وہ غم جس کے ملنے پر تیری توجہ اللہ کی طرف ہو جائے اس خوشی سے بہتر ہے جس کے ملنے پر تو اپنے رب کو بھول جائے۔
٭ اچھی تربیت اور آداب سے بڑھ کر والدین کا ا پنی اولاد کو کوئی تحفہ نہیں۔
٭ جو شخص اپنے مولا کی محبت کا دم بھرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بلاؤں سے اس کا امتحان لیتا ہے۔
٭ تم ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتے لہٰذا ہر کام میں خلوصِ دل پیشِ نظر رکھو۔
٭ جو شخص گناہ اور برائی پر شرم کرے وہ فرماں بردار ہے۔
٭ نیک وہ ہے جو اپنا مال دوسروں پر خرچ کرے غریبوں پر رحم کرے ان کے پاس اٹھے بیٹھے عالموں کی ہم نشینی اختیار کرے۔
٭ اچھا دوست وہی ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد اور اللہ کا خوف یاد دلائے۔
٭ جو کسی سے قرض لے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اسے واپس نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے مال کو برباد کر دیتا ہے۔
٭ جو بروں سے محبت کرے اور یہ یقین کرے کہ وہ مطمئن ہے تو گویا وہ آستین میں سانپ لے کر سوتا ہے۔
٭ جو ہر معاملے میں نرمی اور مہربانی کا برتاؤ کرتا ہے اسے شرمندگی اور کسی بھی برائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
٭ خوشی کا دروازہ اس گھر پر بند ہے جہاں سے عورت کی آواز زور زور سے آتی ہے۔
٭ بری عادتیں خوب صورت انسان کو بد صورت بنا دیتی ہے۔
٭ خوش نصیب وہ نہیں جس کا نصیب اچھا ہو بل کہ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔
٭ مومنوں پر تین احسان کرو… (۱) نفع نہیں دے سکتے تو نقصان نہ کرو (۲) خوش نہیں کرسکتے تو رنجیدہ نہ کرو (۳) تعریف نہیں کرسکتے تو برائی نہ کرو۔
٭ شرم و حیا عورت کا زیور ہے جو اس کی فطرت ہے، جو اِس کی حفاظت کرتی ہے تو معاشرے میں امن و سکون رہتا ہے۔
٭ لوگوں کو ستانے والے سے زیادہ بد نصیب کوئی نہیں اس لیے کہ مصیبت کے وقت اس کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔
٭ چار بدترین گناہ یہ ہیں … (۱) گناہ کو معمولی جاننا(۲) گناہ کر کے خوش ہونا(۳) گناہ پر اصرار کرنا (۴) گناہ پر فخر کرنا۔
٭ عقل مند انسان وہ ہے جو اپنے حق سے کام لینے پر راضی رہے اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے کے لیے تیار رہے۔
٭ بچے کو بار بار ٹوکنے اور زیادہ سزا دینے سے وہ بے شرم بن جاتے ہیں اور ان کی حیا بھی ختم ہو جاتی ہے۔
٭ جو پاک دامنی کی زندگی جیتے ہیں ان کے پورے خاندان کو اللہ تعالیٰ پاک دامنی کی عزت سے سرفراز فرما دیتا ہے۔
٭ محتاجوں سے مال مہنگے داموں میں خریدنا احسان میں داخل ہے۔
٭ انسان اپنا چہرہ تو خوب سجاتا ہے جس پر لوگوں کی نظر ہوتی ہے مگر دل سجانے کی کوشش نہیں کرتا جس پر اللہ تعالیٰ کی نظر ہوتی ہے۔
٭ اپنے دلوں کو بہت زیادہ کھانے پینے سے مردہ نہ بناؤ کہ وہ کھیت کی طرح ہے جو زیادہ پانی دینے سے پژمردہ ہو جاتا ہے۔
٭ کسی کا عیب تلاش کرنے والے کی مثال اس مکھی کی سی ہے جو سارا خوب صورت جسم چھوڑ کر صرف زخم پر بیٹھتی ہے۔
٭ زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے بعد یا باپ کے کہیں چلے جانے پر اس کے دوستوں کے ساتھ احسان کرے۔
٭ جس سے تم ناراض ہو جاؤ پھر بھی وہ تم سے ناراض نہ ہو تو ایسوں کی صحبت اختیار کرو۔
٭ انسان کا فضول کاموں میں وقت گنوا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے۔
٭ اس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کر کے حاصل کیا ہو۔
٭ کسی کے پوشیدہ عیب کو اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا غیبت ہے۔
٭ صوفی زمین کی مانند ہے جس پر نیک اور بد ہر ایک دوڑتا ہے اور وہ بادل کی طرح ہر ایک پر سایا کرتا ہے۔
٭ ان لوگوں کو سلام نہ کرو جو ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دے کر خوش ہوتے ہیں۔
٭ علم دین کی برکت سے پل صراط پر گذرنے میں آسانی ہو گی جب کہ مال کی وجہ سے پل صراط پر گذرنے میں رکاوٹ ہو گی۔
٭ ہر عمل کی قبولیت کی تین شرائط ہیں (۱) ایمان کے ساتھ ہو(۲) اخلاص کے ساتھ ہو (۳)سنت کے موافق ہو۔
٭ جو چاہتے ہو کہ خوشیاں تمہارے گھروں کو دستک دے تو یتیم اور بے سہاروں کا سہار ابن جاؤ نا ختم ہونے والی خوشیاں ملیں گی۔
٭ سکون حاصل کرنے کی فکر چھوڑ دو سکون دینے کی فکر کرو تو سکون خود بہ خود مل جائے گا۔
٭ مومن کی مثال ترازو کے پلّے جیسی ہے جس قدر اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اسی قدر اس کی آزمایش بڑھتی جاتی ہے۔
٭ علم کا تقاضا عمل ہے، اگر تم علم پر عمل کرتے تو دنیا سے بھاگتے، کیوں کہ علم میں کوئی چیز نہیں جو حبِ دنیا پر دلالت کرے۔
٭ عالم اگر زاہد نہ ہو تو وہ اپنے زمانے والوں پر عذاب سے کم نہیں۔
٭ مخلوق تین طرح کی ہے … (۱) فرشتہ(۲) شیطان(۳) انسان… فرشتہ خیر ہی خیر ہے اور شیطان شر ہی شر، انسان مخلوط ہے جس میں خیر بھی ہے شر بھی، جس پر خیر کا غلبہ ہوتا ہے وہ فرشتوں سے مل جاتا ہے اور جس پر شر کا غلبہ ہوتا ہے وہ شیطان سے مل جاتا ہے۔
٭ مومن اپنے اہل و عیال کو اللہ کے نام پر چھوڑتا ہے اور منافق زر و مال پر۔
٭ اپنی مصیبتوں کو چھپاؤ اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہو گی۔
٭ ذکر جب قلب میں جگہ بنا لیتا ہے تو بندے کا اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا دائمی بن جاتا ہے، چاہے اس کی زبان خاموش ہو۔
٭ تنہائی میں خاموش رہنا بہادری نہیں، مجلس میں خاموش رہنے کی کوشش کرو۔
٭ رہنے کے لیے مکان، پہننے کے لیے کپڑا، پیٹ بھرنے کے لیے روٹی اور بیوی دنیا داری نہیں بل کہ دنیا داری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف پیٹھ کر کے صرف دنیا ہی کی طرف منہ ہو۔
٭ بہترین عمل لوگوں کو دینا ہے، لوگوں سے لینا نہیں۔
٭ مخلوق سے محبت مخلوق کی خیر خواہی ہے، اور یہ دونوں جہاں میں سرخ روئی کا سبب ہے۔
٭ لوگوں کے سامنے معزز بنے رہو، اگر اپنا اَفلاس ظاہر کرو گے تو لوگوں کی نگاہوں سے گر جاؤ گے۔
٭ جب تک تم اپنی خوراک میں اپنے پڑوسی کو خود پر ترجیح نہ دو گے طالبِ صادق نہیں بن سکتے۔
٭ اپنے ماحول سے ڈرتے رہو، کیوں کہ جدھر تم دیکھو گے تمہارے ارد گرد درندے ہی درندے ہیں۔
٭ میانہ روی نصف رزق ہے اور اچھے اَخلاق نصف دین۔
٭ خاموشی کو عادت، گم نامی کولباس، اور مخلوق سے دوری کو مقصود بنا لو بھلائی قدم چومے گی۔
٭ کوئی اگر تجھ سے، تیرے کسی غیبت کرنے والے کی بات کہے تو اسے جھڑک دے اور کہہ کہ تُو تو اس سے بد تر ہے جو اس نے پسِ پُشت کہی تُو منہ پر کہہ رہا ہے۔
٭ وہ انسان کتنا بدنصیب ہے جس کے دل میں جان داروں پر رحم کی عادت نہیں۔
٭ تیرے سب سے بڑے دشمن تیرے بُرے ہم نشین ہیں۔
٭ تمام اچھائیوں کا مجموعہ علم سیکھنا، عمل کرنا اور دوسروں کو سکھانا ہے۔
٭ جو اللہ تعالیٰ سے آشنا ہو، اس نے خلقِ خدا کے ساتھ نرمی اور تواضع کا برتاؤ کیا۔
٭ جس عمل(عبادت، ریاضت، نیکی) میں تجھے حلاوت نہ ملے یوں سمجھ کہ تو نے وہ عمل کیا ہی نہیں۔
٭ گم نامی اختیار کرو کیوں کہ شہرت کے مقابل اس میں زیادہ امن و سکون ہے۔
٭ جب تک تیرا اِترانا اور غصہ کرنا باقی ہے تو خود کو اہلِ علم میں شمار مت کر۔
٭ فتنہ ہے وہ روزی جس پر شکر نہ ہو، اور وہ تنگی جس پر صبر نہ ہو۔
٭ بدگمانی تمام تر فوائد و ثمرات کے راستوں کو بند کر دیتی ہے۔
٭ عوام کے سامنے صرف اسی بارے میں بات کرو جس کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے، ان کے سامنے نہ ہنسو نہ مسکراؤ۔
٭ بازاروں میں زیادہ نہ جاؤ، اور دکانوں میں نہ بیٹھو، اور نہ راستوں میں ٹھہرو۔گھر کے علاوہ اگر کسی جگہ بیٹھنا چاہو تو مسجد میں بیٹھو۔
٭ راستہ چلنے میں وقار و طمانیت اختیار کرو، کاموں میں جلدی نہ کرو، اور جو شخص تمہیں پیچھے سے پکارے اس پر توجہ نہ دو۔
٭ کنجوسی سے گریز کرو کیوں کہ کنجوسی انسان کو رسوا کرتی ہے اور نہ لالچی اور جھوٹا بنو، بل کہ اپنی مروت ہر معاملے میں محفوظ رکھو۔
٭ بڑوں کے ہوتے ہوئے اس وقت تک اپنی نشست میں برتری اختیار نہ کرو جب تک وہ تمہیں خود پیش کش نہ کریں۔
٭ کسی حریص کو اپنا مشیر نہ بناؤ کیوں کہ وہ تم سے وسعتِ قلب اور استغنا چھین لے گا۔
٭ کسی بزدل کو اپنا مشیر نہ بناؤ کیوں کہ وہ تمہارے دلوں اور حوصلوں کو پست کر دے۔
٭ کسی جاہ پسند کو اپنا مشیر نہ بناؤ کیوں کہ وہ تمہارے اندر حرص و لالچ پیدا کر کے تمہیں ظالم بنا دے گا۔
٭ تنگ دلی، بزدلی اور لالچ انسان سے اس کا ایمان سلب کر لیتی ہے۔
٭ ایسے مشیر بہتر ہیں جنہیں خدا نے ذہانت و بصیرت دی، جن کے دامن داغِ گناہ اور کسی ظلم کی اعانت سے پاک ہوں۔
٭ زمانے کے ایک ایک لمحے میں آفات اور بلیات پوشیدہ ہیں، موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔
٭ ندامت گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور غرور نیکیوں کو۔
٭ کسی منافق اور فاسق کی برائی بیان کرنا غیبت میں داخل نہیں ہے۔
٭ جلد معاف کرنا شرافت اور بدلہ لینے میں جلد بازی کرنا انتہائی رذالت ہے۔
٭ بُرا آدمی کسی کے ساتھ نیک گمان نہیں کرتا کیوں کہ وہ ہر ایک کو اپنی ہی طرح سمجھتا ہے۔
٭ پڑوسی کی بد خواہی اور نیکوں کے ساتھ برائی بد ترین ظلم ہے۔
٭ جو شخص نیک سلوک کرنے سے درست نہ ہو وہ بد سلوکی سے درست ہو جاتا ہے۔
٭ شریفوں کو جلدی غصہ نہیں آتا اور جب آتا ہے تو اگلی پچھلی سب قضائیں ادا کر دیتے ہیں۔
٭ جو شخص اپنے اقوا ل میں حیا دار ہے وہ افعال میں بھی حیا دار ہو گا۔
٭ جس کے خیالات خراب ہوتے ہیں وہ دوسروں کے حق میں زیادہ بد ظن ہوتا ہے۔
٭ حکمت کی بات گویا مومن کی گم شدہ چیز ہے جسے وہ جہاں دیکھتا ہے لے لیتا ہے۔
٭ بصارت کا چلے جانا چشمِ بصیرت کے اندھا ہونے سے اچھا ہے۔
٭ جو شخص مال دینے میں سب سے زیادہ بخیل ہو وہ اپنی عزت دینے میں سب سے زیادہ سخی ہوتا ہے۔
٭ جو شخص اپنے دشمن کے قریب رہتا ہے اس کا جسم غم سے گھل کر لاغر ہو جاتا ہے۔
٭ دین کی درستی دنیا کے نقصان کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
٭ سچائی ایک نہایت زبردست مددگار ہے جب کہ جھوٹ بہت کم زور معاون ہے۔
٭ صبر ایک ایسی سواری ہے جو کبھی ٹھوکر نہیں کھاتی۔
٭ دشمن کے حسنِ سلوک پر بھروسہ مت کرو کیوں کہ پانی کو آگ سے کتنا ہی گرم کیا جائے پھر بھی وہ اس کے بجھانے کے لیے کافی ہے۔
٭ شریف عالم تواضع اور عاجزی اختیار کرتا ہے اور جب کمینہ با علم ہو جاتا ہے تو غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
٭ شرافت اپنی بلند ہمتی سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ باپ دادا پر فخر کرنے سے۔
٭ جس شخص کا راز اس کے سینے میں نہیں سما سکتا اس کے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہیں۔
٭ بے شک دنیا و آخرت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کی دو بیویاں ہوں کہ جب ایک کو راضی کرتا ہے تو دوسری ناراض ہوتی ہے۔
٭ برائیوں سے پرہیز کرنا نیکیاں کمانے سے بہتر ہے۔
٭ کمال اور بزرگی کو غنیمت جانو اور اس کو حاصل کرنے میں جلدی کرو۔
٭ حاجت مندوں کا تمہارے پاس آنا انعاماتِ الٰہیہ سے ہے تو اس کو غنیمت جانو اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے رہو۔
٭ جو سخاوت کرے گا وہ سردار ہو گا، جو بخل کرے گا وہ ذلیل و خوار ہو گا۔
٭ دنیا کو ایک منزل سمجھو کہ وہاں اترے اور کوچ کیے یا وہ دولت سمجھو جو خواب میں ملے اور بیداری کے بعد کچھ ہاتھ نہ آئے۔
٭ جو شخص ہر کس وناکس کے پاس اٹھتا بیٹھتا ہے وہ سلامت نہیں رہتا،اچھوں کی صحبت اختیار کرنے میں ہی سلامتی ہے۔
٭ جو بنیاد کبھی ویران نہ ہو عدل ہے، تلخی جس کا آخر شیریں ہو صبر ہے، اور وہ شیریں جس کا آخری تلخ ہو شہوت ہے اور وہ بلا جس سے لوگوں کو بھاگنا چاہیے و ہ عیش ہے۔
٭ رنج و مصیبت آئے تو اس کا بہترین علاج ان کو چھپانے ہی میں ہے۔
٭ مومنِ کامل اپنی صفات و حسنات میں آفتاب کی طرح ہے جو سب پر روشنی ڈالتا ہے، وہ زمین کی مانند ہے جو تمام مخلوقات کا بار اٹھاتا ہے، وہ پانی کی طرح ہے جس سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے۔
٭ امیر ہم سایوں، بازاری قاریوں اور دولت مند عالموں سے ہمیشہ دور رہو۔
٭ جس شخص کو نعمت کی قدر نہیں ہوتی اس کی نعمت وہاں سے زوال پذیر ہونا شروع ہوتی ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔
٭ جو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ بن جاتا ہے لوگ اس کے فرماں بردار بن جاتے ہیں۔
٭ وہ لوگ نہایت قابلِ افسوس ہیں جو اپنے اَخلاق سے لوگوں کے دلوں کو خوش نہیں رکھتے حال آں کہ دلوں کا خوش رکھنا خدا کی خوش نودی کی دلیل ہے۔
٭ دوسروں کی عیب جوئی کرنے سے پہلے اپنے عیبوں پر نظر کرو۔
٭ عقل مند وہ ہے جو غذا کی لذت کے وقت دوا کی کڑواہٹ کو محسوس کرے۔
٭ غلطی انسان کی سرشت میں ہے اس کی معافی چاہنا مومنوں کا شیوہ ہے اور اس پر اصرار کرنا شیطان کا کام ہے۔
٭ ہر قوم کی عزت اور ذلت کا دارومدار اس قوم کے علما اور امرا پر ہے۔
٭ جب عفت اور عصمت کے آئینہ کو ٹھیس لگ جاتی ہے تو اس کو کوئی کاریگر درست نہیں کر سکتا۔
٭ رعب و دبدبہ سے وہ کام نہیں نکل پاتا جو عاجزی اور انکساری سے ہو جاتا ہے۔
٭ مخلوق میں بد ترین شخص وہ ہے جس سے لوگ پناہ مانگتے ہوں۔
٭ تم عالمِ با عمل کی ہم نشینی اختیار کرو اور حکمت کی باتیں غور سے سنو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ مردہ دلوں کو حکمت سے اس طرح زندگی بخشتا ہے جس طرح مردہ زمین کو بارش سے شاداب کرتا ہے۔
٭ علم آنکھوں کی روشنی، دلوں کی زندگی، سینوں کی تابندگی اور لازوال دولت ہے۔
٭ جو شخص اعمالِ خیر کے بغیر قبر میں داخل ہوا اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو سمندر میں بغیر کشتی کے داخل ہوا۔
٭ جو چیز انسان کو سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والی ہے وہ تقوا اور حُسنِ اَخلاق ہے۔
٭ جو یہ سمجھے کہ اس کے نفس سے بڑھ کر کوئی اور بھی اس کا دشمن ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے اپنے نفس کو نہیں پہچانا۔
٭ جب زبان بگڑ جاتی ہے تو دنیا میں لوگ واویلا مچاتے ہیں لیکن جب دل بگڑ جاتا ہے تو فرشتے اس پر آنسو بہاتے ہیں۔
٭ اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر اور بری بات بولنے سے چپ رہنا بہتر ہے۔
٭ خواہشِ نفس کی پیروی بادشاہوں کو غلام بنا دیتی ہے اور ضبط و برداشت کی قوت غلاموں کو منصبِ شاہی تک پہنچا دیتی ہے۔
٭ جس نے گناہوں کو چھوڑا اس کا دل نرم و گداز ہو جاتا ہے اور جو حرام سے بچے اور رزقِ حلال کھائے، اس کی فکر میں پاکیزگی اور طہارت پیدا ہو جاتی ہے۔
٭ عقل کی تکمیل دو باتوں پر عمل کرنے سے ہوتی ہے … (۱) رضائے الٰہی کا حصول (۲) اللہ کی ناراضگی سے ڈرتے رہنا۔
٭ اپنی کوتاہی اور غلطی کو مان لینے والا ہمیشہ ہر دل عزیز اور لوگوں کی نگاہوں میں لائقِ تحسین رہتا ہے۔
٭ تین چیزیں تین چیزوں سے حاصل نہیں کی جا سکتیں …(۱) دولت، تمنا سے (۲) جوانی، خضاب سے (۳) تندرستی، صرف دواؤں سے۔
٭ کام یاب اشخاص کی پیروی کرنے سے آدمی کام یاب ہوتا ہے۔
٭ مخالفتِ نفس تمام عبادتوں کا سرچشمہ ہے۔
٭ بدن کی سلامتی کم کھانے میں اور روح کی سلامتی ترکِ گناہ اور دین کی سلامتی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود بھیجنے میں ہے۔
٭ اگر کوئی تمہارا عیب ظاہر کرے تو دیکھو کہ وہ عیب تم میں پایا جاتا ہے تو اس سے باز آؤ اور عیب ظاہر کرنے والے سے کہو کہ تم نے مجھ پر کرم کیا کہ میرا عیب مجھ کو بتا دیا۔
٭ ہر اس بات سے یک لخت پرہیز ہونا چاہیے جس سے انسان کے دل میں کسی طرح کی اخلاقی گراوٹ کا شائبہ بھی گذرے۔
٭ یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں مگر یہ بڑی بد نصیبی ہے کہ ہم اس کی ایک بھی نہیں مانتے۔
٭ انسان کی خوش قسمتی دین و ایمان کی حفاظت اور آخرت کے لیے اعمالِ خیر انجام دینے میں ہے۔
٭ جو شخص اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رکھتا وہ معراجِ انسانی سے گرا ہوا ہے۔
٭ دنیا میں ان ہی لوگوں کی عزت ہوتی ہے جنھوں نے اپنے استاذ کا احترام کیا۔
٭ استاذ کی ہمیشہ عزت کرنی چاہیے، استاذ استاذ ہی رہتے ہیں، ہوسکتا ہے آگے چل کر تم علم و فضل میں ان سے آگے نکل جاؤ لیکن پھر بھی ان کا رتبہ کم نہیں ہو گا۔
٭ شہرت اور نام وری کی خواہش معمولی ذہن رکھنے والوں کی ایک کھلی ہوئی کم زوری ہے اور بڑے ذہن رکھنے والوں کی پوشیدہ کم زوری۔
٭ کسی کو نصیحت نہ کرو کیوں کہ بے وقوف سنتا نہیں اور عقل مند کو اس کی ضرورت نہیں۔
٭ حُسنِ سیرت برائیوں سے پرہیز کرنے کا نام نہیں، بل کہ ذہن میں برائی کے ارتکاب کی خواہش نہ پیدا ہونے کا نام ہے۔
٭ خاموشی اظہارِ نفرت کا سب سے بہتر طریقہ ہے۔
٭ خاموش اور کم گو آدمی کا ہر جگہ استقبال ہوتا ہے۔
٭ اپنے دلوں کو عداوت اور نفرت کے جذبات سے پاک کرو اور محبت کا مسکن بناؤ۔
٭ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ دولت ہے جس سے ایمان کی بقا اوراسلام کا وقار قائم ہے، صحنِ چمن میں اسی کی بہاریں ہیں۔
٭ پیار ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے آگے ہر دیوار منہدم ہو جاتی ہے۔
٭ خوش آمد کی چھری، عقل و فہم کے پروں کو کاٹ کر ذہن کو پروا ز کی آزادی سے محروم کر دیتی ہے۔
٭ لمبی لمبی آرزوئیں کرنے والے انسان کی جیبیں بھرتی ہیں دل نہیں بھرتا۔
٭ دنیا میں ہر طرف فساد صرف اپنے حق کو پانے کے لیے ہوتا ہے اس لیے اپنے حقوق کو معاف کرنا سیکھو، امن و شانتی کی فضا قائم ہو جائے گی۔
٭ کوشش کرو کہ تم دنیا میں رہو دنیا تم میں نہ رہے، کیوں کہ کشتی جب پانی میں رہتی ہے خوب تیرتی ہے اور جب پانی کشتی میں آ جاتا ہے تو وہ ڈوب جاتی ہے۔
٭ تین انسان تین چیزوں سے محروم رہیں گے… (۱) غصے والا- صحیح فیصلہ کرنے سے (۲) جھوٹا - عزت سے (۳) جلد باز - کام یابی سے۔
٭ عبادت میں دکھا وا نہ کرو اس لیے کہ دکھاوے سے عمل برباد ہو جاتے ہیں، کسی کے دیکھنے نہ دیکھنے کی طرف توجہ ہی نہ دو۔
٭ کسی کی مدد کرتے وقت اس کے چہرے کی طرف مت دیکھو، ہوسکتا ہے کہ اس کی شرمندہ آنکھیں تمہارے دل میں غرور کا بیج نہ بودے۔
٭ وہ علم دل میں گھر کرتا ہے جس کے سکھانے میں دنیا وی لالچ نہ ہو۔
٭ لالچ کرنا مفلسی ہے بے غرض بن جاؤ امیر ہو جاؤ گے۔
٭ تم ہر انسان کے ساتھ نیکی ہی کرو خواہ تمہارے ساتھ کوئی نیکی نہ کرے۔
٭ اتنی دھیمی آواز میں بھی نہ بولو کہ سننے والا تمہاری بات نہ سمجھ سکے اور اتنی بلند آواز میں بھی نہ بولو، جس سے سننے والا سمجھے کہ تم اسے بہرا سمجھتے ہو۔
٭ دوستی ضرور اختیار کرو مگر اپنی عزت و آبرو ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دو۔
٭ جس دل میں قوتِ برداشت نہ ہو وہ کبھی کام یاب نہیں ہوسکتا۔
٭ جو آدمی کوئی بات جانتا ہے وہ اس کے لیے مشکل نہیں ہوتی، جس آدمی کو وہ بات نہیں معلوم ہوتی وہ اسے مشکل معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر آدمی گھبرائے نہیں اور معلوم کرنے کی کوشش کرے تو وہ آسان ہو جاتی ہے۔
٭ جس چیز کا یقین نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، کیوں کہ قیامت کے دن کان، آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا۔
٭ کم بولنا شرافت اور عقل مندی کی دلیل ہے، زیادہ بولنے والا طرح طرح کی آفات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے سوائے ماں باپ کی نا فرمانی کے۔
٭ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور دولت کو نہیں دیکھتا بل کہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
٭ اللہ ظالم کو مہلت دیتا ہے مگر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں۔
٭ جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں کشادگی اور عمر میں زیادتی ہو تو اسے اپنے رشتہ داروں اور اہل و عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔
٭ کسی کو پچھاڑ دینا بہادری نہیں، بہادر تو وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔
٭ صالح ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال ایسی ہے جیسے خوش بو بیچنے والا عطار اور بھٹی پھونکنے والا لوہار۔
٭ اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر باطل نہ کرو۔
٭ جو اپنے بھائی سے دنیا کا غم دور کرتا ہے اللہ قیامت کے دن اس کے غم دور کرے گا۔
٭ بدوں سے نیکی کرنا نیکوں کا کام ہے اور نیکوں سے بدی کرنا بدوں کا کام ہے۔
٭ جس کسی نے ظالم کی مدد کی اس نے گویا غضبِ الٰہی کو خود اپنے سر لے لیا۔
٭ تم نیکی کے قابل بن جاؤ کہ بد بختی کا دسترخوان کوئی کھانا نہیں دیتا، اگر تم خود نیک نہیں تو تمہیں نیک نسبت بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
٭ بُروں کے ساتھ کم بیٹھو کہ بُری صحبت اگرچہ تُو پاک ہے تجھے گندہ کر دے گی جیسے چمکتے ہوئے سورج کو بھی ایک ذرا سا بادل چھپا دیتا ہے۔
٭ اس خشکی اور تری کی دنیا میں کسی کے لیے قناعت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں، قناعت پسند اگر گدا گری بھی کرے تو وہ حقیقت میں بادشاہی کر رہا ہے۔
٭ اگر تم لذتوں کو چھوڑنے کی لذت جان لو تو پھر نفس کی لذت کو لذت نہ جانو۔
٭ انسان کی شرافت ا سی میں ہے کہ آدمی تقوا اور پرہیزگاری حاصل کرے اور عبادت میں مصروف رہے۔
٭ صبر مصیبتوں اور پریشانیوں کا اخلاقی مقابلہ ہے، انسان عدل اور حق پرستی پر اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔
٭ انسان کو تیر مارنا اس کو زبان سے طعن و تشنیع کرنے سے کم ہے کیوں کہ زبان کے نشان کبھی ختم نہیں ہوتے۔
٭ مومن بات کم اور کام زیادہ کرتا ہے اور منافق بات زیادہ اور کام کم کرتا ہے۔
٭ جو ایمان ہمیں بستر سے اٹھا کر مسجد یا مصلے تک نہیں لے جا سکتا وہ جنت تک کیسے لے جائے گا۔
٭ جو مومن ہے وہ نہ تو اس دنیا کی طرف سکون کرتا ہے اور نہ اس چیز کی طرف جو دنیا میں ہے۔
٭ علم سیکھنا بغیر عمل کے مخلوق کی طرف لوٹائے گا اور تمہارا علم پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچائے گا۔
٭ تم لوگوں سے علم و عمل اور اَخلاق کی زبان میں بات چیت کیا کرو، ایسی زبان سے بات نہ کرو جو کہ بلا عمل اور اَخلاق سے عاری ہو کیوں کہ وہ تجھے اور تیرے پاس بیٹھنے والوں کو نفع نہ دے گی۔
٭ لوگوں کی اولین نیکی زہد اور یقینِ کامل ہے اور ان کی ہلاکت کا آخری سبب بخل اور جھوٹی امیدیں ہیں۔
٭ جو شخص اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے وہ اس شخص سے زیادہ طاقت ور ہے جو تنِ تنہا ایک شہر کو فتح کر لیتا ہے۔
٭ جس انسان پر اس کا نفس غالب آ جاتا ہے وہ شہوات کا قیدی ہو جاتا ہے اور بے ہودگی کا تابع بن جاتا ہے، اس کا دل تمام فوائد سے خالی ہو جاتا ہے۔
٭ جنگ کے دوران جس کا گھوڑا بھاگ جاتا ہے وہ دشمنوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے لیکن جس کا ایمان بھاگ جاتا ہے وہ غضبِ الٰہی میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
٭ غفلت سے شرمندگی بڑھتی ہے اور نعمت زائل ہوتی ہے، خدمت کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔
٭ ہر وہ گناہ جس کی بنیاد تکبر اور خود بینی ہے اس کی مغفرت ناممکن ہے۔
٭ سب سے بڑی بے وقوفی یہ ہے کہ کام دوزخ کے لیے کیے جائیں اور توقع جنت کی کی جائے۔
٭ سب سے بڑا عیب وہ ہے جو اپنے آپ کو محسوس نہ ہو۔
٭ اپنے دوست کو خالص ترین محبت دے دو لیکن راز نہ دو کہیں یہ اندھا اعتقاد تمہیں ناگ کی طرح ڈس نہ لے۔
٭ دنیا ایک مردا کی طرح ہے جو لوگ اس کی بہ دولت بھائی بند بنے رہتے ہیں ان کے بھائی اس کی لالچ میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے مانع نہیں ہوتے۔
٭ بوڑھے کی رائے جوان کی قوت و طاقت سے زیادہ اچھی ہوتی ہے۔
٭ جس بات کو تم اچھا سمجھتے ہو اسے مختصر کر دو کہ یہ تمہارے حق میں نہایت بہتر ہے اور تمہارے فضل و کمال کی نشانی ہے۔
٭ بہترین بات وہ ہے جس سے سننے والے کو گرانی اور ملال نہ پیدا ہو۔
٭ شریر کی کوئی اچھی بات دیکھو تو اس سے دھوکہ نہ کھاؤ اور شریف سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس سے نفرت نہ کرو۔
٭ صبر اور شکر دنیا کی میٹھی چیزوں میں سے زیادہ شیریں ہیں۔
٭ چھوٹے اور تاریک گھر قبول کر لو مگر چھوٹے اور تاریک ذہن کا ساتھ قبول مت کرو۔
٭ کوئی ایسا دروازہ نہ کھولو جسے تم بعد میں بند نہ کرسکو۔
٭ رشتوں اور انسانوں سے بڑھ کر کچھ بھی اہم نہیں بہ شرط یہ کہ وہ ہمارے ساتھ نیک اور پُر خلوص ہوں۔
٭ نام اور کردار کواس حد تک مضبوط کریں کہ لوگ آپ کی شرافت کی مثالیں دیں۔
٭ زبان ایک عضوئے بے استخوان (ہڈی)ہے اگر یہ درست ہے تو زبان ہے نہیں تو زیان ہے۔
٭ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تو رہتے ہیں مگر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
٭ جسے رشتوں کا پاس نہیں وہ کسی سے محبت نہیں کرسکتا۔
٭ دوسروں کی خامیاں تلاش کرنے سے پہلے اپنی خامیاں تلاش کرو۔
٭ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ رکھنے اور مایوسی کو اپنے اوپر غالب نہ ہونے دینے سے کام یابی تمہارے قدم چومے گی۔
٭ کام یابی چاہتے ہو تو عظیم شخصیات کی زندگی کا مطالعہ کرو، جاہل لوگوں کی محفل میں بیٹھنے سے پرہیز کرو۔
٭ پیار دل میں ہونا چاہیے لفظوں میں نہیں اور ناراضگی لفظوں میں ہونی چاہیے دل میں نہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ وہ مانگو جو تمہارے حق میں بہتر ہو نہ کہ جو تم چاہتے ہو، ہوسکتا ہے تمہاری چاہت بہت کم اور تمہارا حق زیادہ ہو۔
٭ زندگی ہمارے بس میں نہیں مگر دوسروں کو خوش رکھنا تو ہمارے اختیار میں ہے، خوشیاں بانٹتے رہو سرخ رو ہو جاؤ گے۔
٭ اعتدال بہترین راہ ہے کیوں کہ پاؤں آگ کے الاؤ میں ہو یا برف کی سِل پر دونوں صورتوں میں تپش ہمارا مقدر ہے۔
٭ اہمیت دکھ کی نہیں دکھ دینے والے کی ہوتی ہے، ایسے دوستوں سے دور ہونا زیادہ اچھا ہے جو کھیل کھیل میں زندگی سے کھیل جاتا ہے۔
٭ نگاہیں نیچی رکھنے سے دل میں قوت اور دلیری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
٭ زندگی دوسروں سے قرض نہیں لی جا سکتی اسے خود ہی اپنے اندر روشن کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ عمل دل کو اس طرح زندہ رکھتا ہے جیسے کہ بارش زمین کو۔
٭ جو شخص علم کی مصیبت نہیں جھیلتا اسے ہمیشہ جہالت کی ذلّت جھیلنا پڑتی ہے۔
٭ جب تک تم کوشش نہ کرو تم نہیں جان سکتے کہ تم کیا کچھ کرسکتے ہو۔
٭ کام یابی کا سب سے بڑا راز خود اعتمادی اور مستقل مزاجی ہے۔
٭ کسی کا دل مت دکھاؤ کیوں کہ کوئی تمہارا دل بھی دکھا سکتا ہے۔
٭ اَخلاقی اور مذہبی اقدار کی پاس داری سے انکار کا نام آزادی نہیں ہے۔
٭ حق کا پرستار کبھی ذلیل و رسو انہیں ہوسکتا چاہے ساری دنیا اس کی دشمن ہو جائے۔
٭ ہمیں خوشی سے وہ رواج چھوڑ دینا چاہیے جو انصاف اور مذہب کے خلاف ہو۔
٭ آپس میں سلام کا رواج عام کرنے سے محبت بڑھتی ہے۔
٭ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینا چاہیے کہ اس سے عداوت اور کینہ دور ہوتا ہے۔
٭ اچھے لوگوں کے درمیان دوستی جلدی قائم ہو جاتی ہے اور ٹوٹتی دیر سے ہے، اس کی مثال سونے کے پیالے جیسی ہے۔
٭ محبت ہر قسم کی قربانی مانگتی ہے اور قربانی صرف سچی محبت کرنے والے ہی دیتے ہیں۔
٭ مسکراہٹ خوب صورتی کی علامت ہے اور خوب صورتی زندگی کی علامت ہے۔
٭ دل آئینہ کی طرح صاف رکھو اور زبان شہد کی طرح میٹھی۔
٭ کسی بھی کام میں جلد بازی کرنے والا خود بھی برباد ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی برباد کرتا ہے۔
٭ حرص سے روزی نہیں بڑھتی لیکن آدمی کی قدر و منزلت گھٹ جاتی ہے۔
٭ عیاری اور مکاری اس چھوٹے کمبل کی مانند ہے جس سے سر چھپاؤ تو پیر ننگے ہو جاتے ہیں۔
٭ اچھی سوچ اچھے ذہن کی عکاسی کرتی ہے۔
٭ مصروفیت اور اداسی کبھی ایک ساتھ نہیں رہتیں۔
٭ محبت اور نفرت کے لیے انسان کا وجود سمندر سے بھی گہرا ہوتا ہے۔
٭ وہ آنسو بڑے مقدس ہیں جو دوسروں کے دکھ میں نکلیں۔
٭ ایسے آنسو روک لو جو کسی کی خوشی میں رکاوٹ بنیں چاہے وہ ہمیں اسی سے ملے ہوں۔
٭ زبان کی لغزش قدم کی لغزش سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
٭ غریب کے ساتھ ہم دردی سے پیش آؤ تاکہ اس کی زبان کھلے اور ہمت بڑھے۔
٭ خدا جسے ذلیل کرنا چاہے وہ دولت کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔
٭ ایسا اشارا کرنا بھی حرام ہے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔
٭ جو شخص اپنے نفس کا معلم نہیں بن سکتا وہ دوسروں کو کیا درسِ ہدایت دے گا۔
٭ اگر کچھ لوگ ساتھ چھوڑ دیں تو ان لوگوں کو سفر نہیں چھوڑنا چاہیے جنہیں راستہ معلوم ہے۔
٭ محبت کی عمارت میں شک کی دراڑ پڑ جائے تو وہ معذرت کے گارے سے بھر تو جاتی ہے مگر اس کا نشان باقی رہ جاتا ہے۔
٭ نئی بنیادیں وہی لوگ بھر سکتے ہیں جو اس راز سے واقف ہوں کہ پرانی بنیادیں کیوں بیٹھ گئیں۔
٭ رزق ہی نہیں کچھ کتابیں بھی ایسی ہوتی ہیں جس کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آ جاتی ہے۔
٭ افراد اور اَقوا م، واقعات سے ہمیشہ اپنے مزاج کے مطابق سبق حاصل کرتے ہیں۔
٭ جو مخلوق سے دوری اختیار کرے اور انھیں رنج دے وہ خالق سے کیسے قریب ہوسکتا ہے؟
٭ کتنے افسو س کی بات ہے کہ ہمارے اٹھنے سے پہلے پرندے اٹھ جاتے ہیں۔
٭ کسی شخصیت کو پرکھنا اتنا مشکل نہیں جتنی وقت کی شناخت۔
٭ کسی پر کیچڑ مت اچھالو، کیوں کہ اس تک کیچڑ بعد میں پہنچے گا پہلے تمہارے ہاتھ گندے ہوں گے۔
٭ انسانیت ایک مشترکہ دولت ہے جس کی حفاظت ہر انسان پر فرض ہے۔
٭ دوسروں کے جذبات اور احساسات کا احترام کرو کیوں کہ یہی وہ مقام ہے جہاں انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے۔
٭ عظمت اور بزرگی ایک پھول کی مانند ہے جسے حاصل کرنے کے لیے کانٹوں سے گذرنا پڑتا ہے۔
٭ فقیر وہ ہے جس کی خاموشی فکر کے ساتھ اور گفتگو ذکر کے ساتھ ہو۔
٭ حکمت ایک درخت ہے جو دل سے اگتا ہے اور زبان پر پھل دیتا ہے۔
٭ سخاوت یہ ہے کہ اپنی استطاعت سے زیادہ دو اور قناعت یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے کم لو۔
٭ مرض کا باپ کوئی بھی ہو، خراب غذا اس کی ماں ضرور ہوتی ہے۔
٭ تلوار سے اتنے آدمی نہیں مارے جاتے جتنے بسیار خوری سے مارے جاتے ہیں۔
٭ تم جہاں چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور ملے گا شرط صرف یہ ہے کہ زمین کام یابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔
٭ جو شخص دوا کھاتا ہے لیکن غذا کا خیال نہیں رکھتا وہ اپنے معالج کی قابلیت خاک میں ملا تا ہے۔
٭ قلتِ عقل کا اندازہ کثرتِ کلام سے ہوتا ہے۔
٭ دونوں طرف کا جھگڑا سننے سے پہلے فیصلہ کرنا انصاف کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے۔
٭ جو انسان اپنی نگاہ میں معتبر نہ ہو اس پر کون اعتبار کرے۔
٭ باتیں اور صرف باتیں عمل کے پاؤں میں بھاری زنجیریں ہیں۔
٭ انسان فیصلہ ایک لمحے میں کرتا ہے اور پھر اس فیصلے کا نتیجہ ساری عمر ساتھ رہتا ہے۔
٭ ہم یادیں لے کر چلتے ہیں اور یادیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
٭ جن لوگوں کے دلوں میں محبتوں کی کونپلیں بغیر کسی صلے یا تمنا کے پھوٹیں وہ بے حس نہیں بے غرض ہوتے ہیں۔
٭ دل کے البم میں دل لگی کے لیے تصویریں نہ لگائیں بل کہ ایسی تصویریں لگائیں جو دل کو لگیں۔
٭ وہ شخص عقل مند نہیں جو دنیا کی لذتوں سے خوشی اور مصائب سے پریشان ہوتا ہے۔
٭ اپنے لفظوں کو قابو میں رکھو اور بات کرنے سے پہلے اس کے نتائج کے بارے میں غور و فکر کر لو کیوں کہ الفاظ تمہیں عزت اور ذلت دینے پر قادر ہیں۔
٭ دنیا میں ان ہی لوگوں کی عزت ہوتی ہے جو اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں۔
٭ صاف گوئی سے نقصان بہت کم مگر فائدہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
٭ مستحق سائل اللہ کا عطیہ ہے جو بندے کی طرف بھیجا جاتا ہے۔
٭ جب حلال و حرام جمع ہوں تو حرام غالب ہوتا ہے چاہے وہ تھوڑا ہی ہو۔
٭ علمِ دین وہ ہے جو خدائے تعالیٰ کا خوف پیدا کرے اور اپنے دل کو دین کی طرف لگائے اور بُرے افعال سے اجتناب کرے۔
٭ جو دین سے دور اور شریعت سے نفور ہیں ان سے میل جول نہ رکھو۔
٭ دعوت بہ نیت ِسنت اور فقیروں کی راحت کے لیے کرنی چاہیے نہ کہ بڑائی اور شہرت کے لیے۔
٭ جس کا لباس باریک اور ہلکا ہو گا اس کا دین بھی ضعیف ہو گا۔
٭ علمائے بے عمل پارس پتھر کی طرح ہیں جو دوسروں کو تو سونا بناتا ہے مگر خود پتھر کا پتھر ہی رہتا ہے۔
٭ زندگی کی فرصت بہت کم ہے اور ہمیشہ کا عذاب یا راحت اسی پر مرتب ہے۔
٭ دنیا کی محبت آخرت کی رغبت سے دور ہوتی ہے اور آخرت کی رغبت اعمالِ صالحہ کے بجا لانے پر وابستہ ہے۔
٭ دنیا کاشت کاری اور تخم ریزی کا مقام ہے نہ کہ کھانے پینے اور سونے کا۔
٭ دوسروں کا حق یہیں دنیا میں دے دو یا معاف کرالو ورنہ آخرت میں نیکیاں دینی پڑیں گی۔
٭ جو درخت جتنا زیادہ پھل دیتا ہے اس پر اتنے زیادہ پتھر آتے ہیں۔
٭ جس گناہ کے بعد ندامت کا احساس نہ جاگے، اندیشہ ہے کہ وہ تجھے اسلا م سے باہر کرنے کا سبب نہ بن جائے۔
٭ اپنی زندگی کو پھولوں کی طرح گذارو تاکہ کچلنے والوں کے ہاتھ بھی تم سے مہک اٹھیں۔
٭ جسے پسند کرتے ہو اسے حاصل کر لو یا پھر جو حاصل ہے اسے پسند کر لو۔
٭ اگر کوئی آپ کو یاد نہیں کرتا تو کوئی بات نہیں اصل چیز تو یہ ہے کہ وہ آپ کو فراموش نہ کر دے۔
٭ بازار کی مجلسیں شیطانوں کی جگہیں اور فتنوں کے تیر ہیں، ان سے دور رہو۔
٭ احسان کا بدلہ اتارنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے شکریہ ادا کرو۔
٭ وہ گناہ سب گناہوں سے سخت ہے جو کرنے والے کے نزدیک معمولی ہو۔
٭ شرافت مال اور نسب سے نہیں بل کہ عقل و ادب اور تقوا و پرہیزگاری سے ہے۔
٭ جس نے اپنے ہر کا م کو اچھا سمجھا، اس کی عقل میں لازمی خلل آیا۔
٭ دل کا سکون خواہشات کی تکمیل میں نہیں بل کہ خواہشات کو روکنے میں پنہاں ہے۔
٭ انسان کو دریا کی طرح سخی اور سوج کی طرح شفیق اور زمین کی طرح نرم ہونا چاہیے۔
٭ کتنا اچھا ہوتا کہ ہم نیک بننے کی بھی ویسی ہی کوشش کریں جیسی خوب صورت بننے کے لیے کرتے ہیں۔
٭ کام سے غلطی، غلطی سے تجربہ، تجربے سے عقل، عقل سے خیال اور خیال سے نئی نئی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔
٭ اچھے اَخلاق کو پردے سے باہر نکالو اور بُرے اَخلاق کو پردے میں رکھو۔
٭ جس کے دل میں احساس نہیں وہ اس اندھیرے غار کی طرح ہے جوسورج کی کرنوں سے محروم رہتا ہے۔
٭ بد خصلت وہ ہے جو لوگوں کی برائیاں ظاہر کرے اور نیکیاں چھپائے۔
٭ اگر کوئی شخص نیک کام کرے تو صرف گھر والوں کو معلوم ہوتا ہے مگر بُرے کام دور دراز تک پہنچ جاتے ہیں۔
٭ اگر تندرستی چاہتے ہو تو نیک بنو، نیک بننا چاہتے ہو تو دانا بنو، دانا بننا چاہتے ہو تو اسلام کا مطالعہ کرو اور خوفِ خدا اختیار کرو کیوں کہ اللہ کا خوف ہی دانائی کی بنیاد ہے۔
٭ پیشہ انسان کو ذلیل نہیں کرتا بل کہ انسان پیشے کو ذلیل کرتا ہے۔
٭ شکستہ قبروں پر غور کرو کہ کیسے کیسے لوگوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے۔
٭ اگر تم گناہ پر آمادہ ہو تو ایسی جگہ تلاش کرو جہاں خدا نہ ہو۔
٭ فضول امیدوں پر بھروسہ کرنے سے بچے رہو کہ یہ احمقوں کا سرمایا ہے۔
٭ ظلم کی رات خواہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، سویرا ضرور ہوتا ہے۔
٭ آدمی اچھی کتابوں کے مطالعہ سے بیدار ہوتا ہے، مکالمہ سے تمیز پیدا ہوتی ہے اور لکھنے سے صحیح المزاج بنتا ہے۔
٭ دنیا سوچنے والوں کے لیے طربیہ اور جذبات میں بہہ جانے والوں کے لیے المیہ ہے۔
٭ پہلے عقل و علم سے لیاقت پیدا کی جائے کہ خوبیوں اور برائیوں میں باریک بینی سے فرق معلوم کر کے صرف نیکیوں پر عمل کیا جائے گا۔
٭ دل کو قابو میں رکھنا اور اختیار ہونے کے باوجود ناجائز خواہشات پر عمل نہ کرنا ہی اصل مردانگی ہے۔
٭ قلم، قسم اور قدم ہمیشہ سوچ سمجھ کر اٹھاؤ۔
٭ الفاظ سوچ سمجھ کر استعما ل کرو کیوں کہ آپ کے الفاظ کسی کی زندگی کا انداز بدل سکتے ہیں۔
٭ کسی کے ساتھ اتنا بُرا نہ کرو کہ اس کے ساتھ اچھا کرنے کی خواہش پر عمل نہ کرسکو۔
٭ پھولوں کی طرح مسکراؤ کہ پھول مسکراتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔
٭ خوش کلامی ایک ایسا پھول ہے جو کبھی نہیں مرجھاتا۔
٭ دنیا کی سب سے بڑی غریبی بے عقلی ہے۔
٭ شک ایک ایسا کانٹا ہے جس کا زخم براہِ راست دل پر لگتا ہے، اور جس کا علاج ممکن نہیں۔
٭ بہترین آنسو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور گناہوں کی بخشش کے لیے بہائے جائیں۔
٭ گالی کا جواب نہ دو کیوں کہ کبوتر کوّے کی بولی نہیں جانتا۔
٭ زندگی بغیر محنت اور بغیر عقل کے مصیبتوں اور پریشانیوں کا پیش خیمہ ہے۔
٭ عزت ایک ایسا کورا کاغذ ہے جس پر ایک مرتبہ تہمت کی سیاہی لگ جائے تو وہ کبھی بھی صاف نہیں ہوسکتا۔
٭ حوصلہ ایک ایسی طاقت ہے جوسخت چٹانوں کو بھی توڑ سکتی ہے۔
٭ زندگی مختلف رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے اگر ایک رنگ بھی کم ہو جائے تو زندگی کا منظر ہی بدل جاتا ہے۔
٭ زندگی ایک امانت ہے اور اسے اچھے طریقے سے واپس کرو، گناہوں کے دلدل میں پھنس کر اسے برباد نہ کرو۔
٭ یہ دنیا مکافاتِ عمل کا نام ہے آج کسی کی راہ میں تم پتھر رکھو گے تو آنے والا وقت تمہاری راہ میں پہاڑ بن جائے گا۔
٭ خاموشی ایک ایسے پردے کا نام ہے جس کے پیچھے لیاقت بھی ہوسکتی ہے اور حماقت بھی ہوسکتی ہے۔
٭ وہ بات اکثر اَن مول ہوتی ہے جس میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں۔
٭ پریشانی حالات کی وجہ سے نہیں بل کہ خیالات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
٭ پیپل کے پتوں جیسا نہ بنو جو وقت آنے پر سوکھ کر گر جاتے ہیں بنو تو مہندی کے پتوں کی طرح جو خود پِس کر بھی دوسروں کی زندگی میں رنگ بھر دیتے ہیں۔
٭ اصل کمال، علم اور عمل کو جمع کرنے میں ہے۔
٭ عورتوں کے ساتھ زیادہ بات چیت کرنے اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنے سے بچو کیوں کہ یہ دل کے مردہ ہونے کا سبب ہے۔
٭ شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اس لیے اس کے گردشی راستوں کو بھوک کی مدد سے بند کرو۔
٭ جس علم سے دل میں ہم دردی،سوز، رقّت، رنگینی و تابانی پیدا نہ ہو اس کا مطالعہ بے کار ہے۔
٭ دنیا میں زندگی کی سانسیں بہت کم ہیں اور قبر کی زندگی طویل ہے۔
٭ سانس ایک خزانے کے مانند ہے، تمہارا کوئی سانس بے کار نہ جائے، ورنہ قیامت کے دن تمہیں اپنا خزانا خالی دیکھ کر ندامت ہو گی۔
٭ اپنے کاموں کی بنیاد قہر و غضب کی بجائے محبت و آشتی پر رکھو۔
٭ ایسی راستی سے پرہیز کرو جو کسی کو فائدہ نہ پہنچائے اور لوگوں کا دل دکھائے۔
٭ ماتحتوں پر کم جفا کرو ہوسکتا ہے کل وہ مالک ہوں اور تم ماتحت۔
٭ اچھے اَخلاق اور شیریں کلا م والے سے خود بہ خود محبت ہو جاتی ہے۔
٭ جس شخص کو دوسروں کی عیب جوئی کرتے پاؤ اسے اپنے دوستوں کے حلقے سے خارج کر دو۔
٭ حسن سلوک یہ ہے کہ اگر کوئی تم سے تعلق ختم کر دے، تکلیف پہنچائے پھر بھی تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرو۔
٭ اس بات سے ہمیشہ ڈرتے رہو کہ خاتمہ بُرا نہ ہو، خاتمے کی بُرائی دو طرح کی ہوتی ہے،ایک تو یہ کہ معاذاللہ ایمان ہی سلب ہو جائے اور دوسرے یہ کہ دنیا کے خیال اور محبت میں موت آئے۔
٭ اپنا اَخلاق سنوارو آپ کا اَخلاق دیکھ کر لوگ تمہارے دوست بنتے جائیں گے۔
٭ ہر انسان اچھا نہیں ہوتا اور ہر انسان بُرا بھی نہیں ہوتا بل کہ ہمیں خود اپنے آپ کو بدلنا چاہیے۔
٭ مسکراہٹ روح کا دروازہ کھول دیتی ہے۔
٭ کفر کے بعد سب سے بڑا گناہ کسی مسلمان بھائی کی دل شکنی ہے۔
٭ محبت اور عداوت کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہتی۔
٭ یہ ضروری نہیں کہ جو خوب صورت ہو وہ نیک سیرت بھی ہو، کام کی چیز اندر ہوتی ہے باہر نہیں۔
٭ عادات مختلف جذبات و احساسات سے ترتیب پاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب ہم انہیں ترک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اکثر ناکام رہتے ہیں۔
٭ کسی کام کا بہترین آغاز اس کی نصف کام یابی ہوتی ہے، بغیر مقصد کے زندگی پایدار نہیں گذرتی، سو آغاز بہتر اور مقصد بہترین ہونا چاہیے۔
٭ ہمیشہ حق میں آگے بڑھتے جاؤ یہ نہ دیکھو کہ آگے بلندی ہے یا پستی، کہیں تم کم زور نہ پڑ جاؤ۔
٭ زندگی ایک ایسی ٹرین ہے جو ہمیشہ اسٹیشن پر رُکتی ہے جہاں ہم اترنا نہیں چاہتے مگر پھر بھی ہمیں اترنا پڑتا ہے۔
٭ علم تنہائی میں مونس، پردیس میں رفیق، خلوت میں ندیم، دوستوں میں زینت اور دشمنوں میں بہترین ہتھیار ہے۔
٭ خندہ پیشانی سے پیش آنا سب سے بڑی نیکی ہے۔
٭ انسان کی بزرگی کم گفتاری میں اور فضیلت تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرنے میں ہے۔
٭ ادب بہترین کمالات اور خیرات افضل عبادات میں سے ہے۔
٭ اضطراب بے سبب نہیں ہوتا بل کہ یہ بھولا ہوا سبق، چھوڑی ہوئی منزل اور نظرانداز کیے ہوئے فرائض یاد دلاتا ہے۔
٭ بعض اوقات سچ کا بیان بے ربط ہونے کی وجہ سے بے معنی ہو کر اپنا اصل مفہوم بھی کھو دیتا ہے۔
٭ امن کی فاختہ وہیں اترتی ہے جہاں صلح و آشتی کی دھوپ ہوتی ہے۔
٭ سُن لو جنت خلافِ نفس کام کرنے سے حاصل ہو گی اور دوزخ میں لوگ شہوات کی پیروی کی وجہ سے جائیں گے۔
٭ زندگی ایک سفر ہے انسان کو پتا ہونا چاہیے کہ اس خطرناک اور ضروری سفر کا توشہ صرف عبادت ہے۔
٭ خدائے تعالیٰ نے جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو اس میں خدا کا ایک نور پیدا ہو جاتا ہے۔
٭ جب بندے کے دل میں خدائے تعالیٰ کا نور داخل ہو جاتا ہے تو دل میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ ٭ موت کب آ جائے اس کا کوئی بھروسہ نہیں کیوں کہ زندگی بہت مختصر ہے تو جو شخص اس تھوڑے سے وقت میں زادِ آخرت تیار کرنے میں کام یاب ہو گیا سمجھووہ نجات پا گیا اور ہمیشہ کی سعادت اس کو مل گئی۔
٭ دل میں اللہ کا نور پیدا ہونے کے تین اسباب ہیں (۱) فانی دنیا سے کنارہ کشی (۲) آخرت کی طرف رجوع (۳) موت کی تیاری۔
٭ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی خدمت و طاعت کرے گا وہ آخرت میں اسے غیر فانی صلہ اور بدلہ عنایت فرمائے گا اور جو نافرمانی اور سرکشی کرے گا تو اسے دائمی عذاب میں مبتلا کر دے گا۔
٭ عبادت کی طرف توجہ کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ سچی توبہ کر لیں تاکہ گناہوں کی نجاست سے پاک ہو جائیں۔
٭ بندہ جب خلوصِ دل سے عبادت کی طرف راغب ہوتا ہے تو چاروں طرف سے دنیوی مصائب و تکالیف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔
٭ خیالات و تفکرات کے ہجوم کے وقت اپنے معاملات کو رب کے حوالے کر دو۔
٭ بندے پر اپنے رب کی بندگی لازم ہے تو اسے علم اور عبادت کو ہی سب سے عظمت والی چیز تصور کرنا چاہیے کیوں کہ مخلوق کی پیدایش سے مقصود یہی دو چیزیں ہیں۔
٭ عبادت سے علم افضل ہے لیکن علم کے ساتھ ساتھ عبادت بھی ضروری ہے، بغیر عبادت علم کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ علم درخت کی مانند ہے اور عبادت پھل کی طرح اور درخت کی قدر پھل سے ہی ہوتی ہے۔
٭ علم کو اس طرح حاصل کرو کہ عبادت کو نقصان نہ دے،ا ور عبادت اس طرح کرو کہ علم کو نقصان نہ ہو۔
٭ ظاہری عبادات و طاعات کی قبولیت کا دارومدار باطنی اَخلاق پر ہے جو دل سے تعلق رکھتے ہیں۔
٭ اگر باطن حسد، ریا اور تکبر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں، اگر دل میں اخلاص ہو گا تو ظاہری عمل بھی ٹھیک ہو گا اور باطن میں ریا ہو تو ظاہری عمل بھی نادرست ہو گا۔
٭ علم کے بغیر عمل کرنے والے اعمال بسا اوقات بجائے ثواب کے باعثِ عذاب بن جاتے ہیں۔
٭ علم سعادت مندوں کو نصیب ہوتا ہے اور شقی لوگ اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔
٭ بے علم کی محرومی یہ ہے کہ اس نے علم تو سیکھا نہیں ہوتا، خالی عبادت کی مشقت اور دِقّت اٹھا تا ہے، تو ایسی عبادت سے سوائے جسمانی مشقت کے کچھ ثواب نہیں ملتا۔
٭ جاہل کو خدائے تعالیٰ کی معرفت نہیں ہوتی اس کے دل میں اللہ کا خوف نہیں پیدا ہوتا اور نہ ہی ایسا شخص صحیح معنوں میں رب تعالیٰ کی تعظیم و طاعت بجا لا سکتا۔
٭ جس شخص پر خدائے تعالیٰ کا احسان ہوتا اسے ہی دینی علوم کا معلم بنے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔
٭ علم حاصل کرتے وقت سب سے زیادہ خلوص کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
٭ جو شخص اس لیے علم حاصل کرے تاکہ علما کے سامنے فخر کرے، یا بے وقوفوں سے جھگڑے، یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف پھیرے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ میں ڈالے گا۔
٭ زندگی میں کام یابی کا راز عزم و حوصلے پر ہے نہ کہ عقل و دانش پر۔
٭ تاریخ ایک طرح کا گرامو فون ہے جس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔
٭ بلند حوصلگی، عالی ظرفی، سخاوت اور اپنی روایات و قوت پر جائز فخر ایسی باتیں ہیں جو شخصیت کے احساس کو مستحکم کرتی ہیں۔
٭ کسی معاشرے میں مذہب کا سب سے بڑا امین و محافظ عورت ہوتی ہے۔
٭ جس قوم کو برباد کرنا ہو اس قوم کی عورتوں اور لڑکیوں کو بے پردا کر دو۔
٭ اپنی حدود کو پہچانیے اور اپنی صلاحیتوں کو پرکھیے پھر زندگی میں آپ کی کام یابی یقینی ہے۔
٭ کبھی کبھی تھوڑی غلط فہمی اور غلطی رشتوں میں دراڑ ڈالتی ہے اس لیے یہ غلط فہمی دور کرنا ضروری ہے کیوں کہ دوستی اور دل کے رشتے کبھی نہیں ٹوٹا کرتے۔
٭ ایسے فائدے سے در گزر کرو جو دوسروں کے نقصان کا باعث بنے۔
٭ موت کو یاد رکھنا نفس کی تمام بیماریوں کا علاج ہے۔
٭ انسان جو کچھ ہوتا ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا لیکن فطرتاً اپنے علاوہ کچھ اور ہونا چاہتا ہے۔
٭ ترقی کا زینا چڑھتے ہوئے لوگوں سے اچھا سلوک کرو نیچے اترتے ہوئے تمہیں اس کی ضرورت پڑے گی۔
٭ جو لوگ اونچی جگہ کھڑے ہوتے ہیں انہیں گرانے کے لیے تند ہوائیں چلتی ہیں، اگر وہ گر پڑیں تو ان کا جسم کرچیوں کی طرح بکھر جاتا ہے۔
٭ جو جانے والوں سے عبرت نہیں حاصل کرتا وہ آنے والوں کے لیے عبرت بن جاتا ہے۔
٭ دل پر زیادہ تر مصیبتیں آنکھوں کی وجہ سے آتی ہیں۔
٭ زیورِ ادب سے آراستہ بچہ والدین کی خوش سلیقگی کا اشتہار ہے۔
٭ وہ انسان کام یاب ہوتا ہے جس نے بلاؤں کی تاریکیوں میں امید کا چراغ روشن رکھا ہو۔
٭ عافیت اس میں نہیں کہ ہم معلوم کریں کہ کشتی میں سوراخ کون کر رہا ہے عافیت اس میں ہے کہ کشتی کنارے لگے۔
٭ خدا جس قوم کی تباہی چاہتا ہے اس کی قیادت عیاش اور اوباش لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے۔
٭ جب کوئی اپنی بد قسمتی کا رونا روئے تو اسے یہ مشورہ دو کہ وہ محنت کے نسخے آزمائے۔
٭ زبان کو شکایتوں سے روکو خوشی و شادمانی کی زندگی حاصل ہو گی۔
٭ اِسراف اس کا بھی نام ہے کہ جس چیز کو انسان کی طبیعت چاہے کھائے۔
٭ تعجب ہے اس شخص پر جو موت کو حق جانتا ہے پھر بھی اس پر ہنستا ہے۔
٭ خو ش خُلقی اور خاموشی پیٹھ پر ہلکی ہے اور میزان پر بھاری ہے۔
٭ جس معاشرے میں سچ کو خطرے کی علامت بنا دیا جائے وہاں آسمان سروں سے کھینچ لیا جاتا ہے۔
٭ اگر فکریں لوگوں کی پریشانی پر لکھی ہوتیں تو وہ لوگ جو دوسروں پر شک کرتے ہیں ان پر رحم کھاتے۔
٭ خوب صورتی کی تلاش میں اگر ہم ساری دنیا کی خاک چھان لیں، اگر وہ ہمارے دل میں نہیں تو ہم کہیں بھی خوب صورتی نہیں پا سکتے۔
٭ رشتے جب اذیت کے سوا کچھ نہ دے سکیں تو ان سے کنارہ کشی ہی بہتر ہے خواہ وقتی ہی سہی۔
٭ منزل کے تعین کے بغیر اگر سفر شروع کر دیا جائے تو ہر اٹھتا قدم تھکن بڑھانے اور حوصلہ پست کرنے لگتا ہے۔
٭ اپنی طاقت سے زیادہ اپنے آپ پر بوجھ نہ ڈالو، ایسا نہ ہو کہ ہمت ہار بیٹھو۔
٭ اپنی عقل کو ناقص سمجھتے رہو، اپنی عقل پر بھروسہ کرنے سے غلطی سرزد ہو جاتی ہے۔
٭ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے سروں کو اتنا بلند کر لیتے ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں نیچے رہ جاتی ہیں لیکن ان کی روحوں کی پیمایش کرو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ وہ ابھی بھی تاریک غاروں میں رینگ رہے ہیں۔
٭ محبت کرنے والے شیشوں کے گھروں میں رہتے ہیں جہاں اندر سے تو کچھ نظر نہیں آتا مگر باہر والے اندر سب دیکھ لیتے ہیں۔
٭ اطاعت صرف اس کی کرو جس سے بڑا کوئی نہیں۔
٭ حکومت اپنے حواس پر کرو تاکہ انسانی عظمت نصیب ہو۔
٭ ایسا قدم مت اٹھاؤ جو آنے والے کل میں تمہارے لیے دیوار بن جائے۔
٭ ماں کی قدر کرو، کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا انسان کے لیے اَن مول تحفہ ہے اور زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔
٭ اس بات پر کبھی غم نہ کرو کہ تم غریب ہو کیوں کہ پھول بھی تو کانٹوں کے ساتھ زندہ ہیں۔
٭ کام یابی دوراندیشی پر مبنی ہے اور دور اندیشی دانش مندی سے کام لینے پر منحصر ہے اور دانش مندی بھیدوں کی حفاظت سے وابستہ ہے۔
٭ در گزر کرنے میں اس کا درجہ بلند ہے جو سزا دینے میں سب سے زیادہ قدرت رکھتا ہے۔
٭ عقل مند چپ ہوتا ہے تو خدا کی قدرت کا مظاہرہ کرتا ہے، بولتا ہے تو خدا کو یاد کرتا ہے اور دیکھتا ہے تو عبرت حاصل کرتا ہے۔
٭ صبر مصیبت کے مطابق ملتا ہے جس نے اپنی مصیبت کے وقت زانو پیٹا اس کا ثواب ضبط ہو گیا۔
٭ جو شخص اپنے آپ سے راضی رہتا ہے اس پر ناراض ہونے والے لوگ بڑھ جاتے ہیں۔
٭ جس نے لالچ کو شعار بنایا اس نے اپنی بد اعمالی کا پردا کھولا وہ اپنی خوشی سے ذلیل ہوا اور جس نے زبان کو اپنا فرماں بردا ر بنا لیا اس نے دل کو کم زور کر دیا۔
٭ بخل عار ہے اور بزدلی عیب، اور ناداری ذہین آدمی کو ایسا گونگا بنا دیتی ہے کہ وہ اپنی حجت پیش نہیں کرسکتا اور مفلس آدمی اپنے شہر میں بھی پردیسی ہوتا ہے۔
٭ بے چارگی ایک آفت ہے اور صبر شجاعت ہے، زہد دولت ہے اور پرہیزگاری ڈھال ہے۔
٭ بہترین ہم نشین رضا ہے اور علم ایک با عزت وراثت ہے، آداب نئے نویلے جوڑے ہیں اور سوچ ایک صاف آئینہ ہے۔
٭ جب دنیا کسی کی طرف رخ کرتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں اسے ادھار دے دیتی ہے اور جب کسی سے پیٹھ پھیر تی ہے تو اس کی اپنی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے۔
٭ لوگوں سے ایسا میل جول رکھو کہ تم اگر مر جاؤ تو وہ تم پر روئیں، اور اگر جیتے رہو تو تمہاری طرف مائل ہو جائیں۔
٭ میزانِ اعمال کو خیرات اور صدقات کے وزن سے بھاری کرو۔
٭ جو تمہارے ساتھ سختی کرے تم اس کے ساتھ نرمی کرو، تمہاری نرمی اس کی سختی کو آخرکار نرم کر دے گی۔
٭ جب تمہارا کوئی دشمن تمہارے قابو میں آ جائے تو اس کے ساتھ احسان اور نیکی سے پیش آؤ۔
٭ کسی دوست کی حق تلفی اس کی دوستی کے اعتبار سے نہ کرو کیو ں کہ جس دوست کی حق تلفی کی جائے گی وہ تمہارا دوست نہ رہے گا۔
٭ اپنے دوست کو دوستانہ اور خیر خواہانہ نصیحت کرنے سے دریغ نہ کرو، خواہ تمہاری نصیحت اس کو بُری لگے یا اچھی، تم کو جو کہنا ہو کہہ دو مگر اس کے منہ پر۔ غصہ پی جاؤ اور ضبط سے کام لو۔
٭ عقل مند آدمی کے دماغ میں بھی ایک ایسا گوشہ ہوتا ہے جس میں بے وقوفی رہتی ہے۔
٭ جو کچھ تم نیکی کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمہارا توشۂ آخرت بن جائے گا اور جو کچھ جمع کرو گے تمہارے بعد کوئی اور اس سے فائدہ اٹھا لے گا۔
٭ گناہوں کی نحوست بندے کو عبادات بجا لانے سے محروم کر دیتی ہے اور اس پر ذلّت و رسوائی مسلط کر دیتی ہے۔
٭ گناہوں کا بوجھ نیکیوں کے سکون کو پیدا نہیں ہونے دیتا اور نہ ہی طاعات میں نشاط و خوشی احساس ہونے دیتا ہے۔
٭ تو بہ میں تاخیر کرنا سخت نقصان دہ ہے کیوں کہ ابتداء ً دل میں قساوت پیدا ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ انسان کفر و گم راہی کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔
٭ اگر تم توبہ میں جلدی کرو گے تو امید ہے کہ عنقریب گناہوں پر اصرار کرنے کا مرض تمہارے دل سے دور ہو جائے اور گناہوں کی نحوست کا بوجھ تمہاری گردن سے اتر جائے۔
٭ بے شک گناہ کرنے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے، اور دل کی سیاہی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ گناہوں سے گھبراہٹ نہیں ہوتی اور فرماں برداری و طاعت کے لیے موقع نہیں ملتا۔
٭ اگر تم اپنے اندر بزرگوں کی سیرت پیدا کرنے کے آرزومند ہو تو زمانے کے مصائب و حوادث برداشت کر کے اپنے اندر نرمی اور تواضع کو مضبوط کرو۔
٭ یہ دنیا در حقیقت میلے کچیلے مردار کی مانند ہے، تم دیکھتے نہیں کہ اس کے لذیذ کھانے تھوڑی دیر میں بدبو دار گندگی بن جاتے ہیں اور انجام کار اس کی زیب و زینت والی چیزیں خراب، پژمردہ اور فنا ہو جاتی ہیں۔
٭ اس نازک دور میں اپنی زبان کی حفاطت کرو، اپنے مکان کو مستور رکھو، اپنے دل کی اصلاح کرو، نیک کام اختیار کرو اور برائی سے اجتناب کرو دونوں جہاں میں سرخ روئی نصیب ہو گی۔
٭ ہر تکلیف کے وقت نفس میں سنجیدگی اور قوتِ برداشت پیدا کرو، دل کو صابر بناؤ اگرچہ وہ اس میں رکاوٹ پیدا کرے۔
٭ تمہاری زبان منہ میں بند رہنی چاہیے اور تمہاری آنکھیں لگام میں رہنی چاہئیں، تمہارا معاملہ لوگوں سے چھپا ہو اور اس کا علم صرف خدائے تعالیٰ کو ہو۔
٭ شیطان کے لیے خدائے تعالیٰ کا ذکر اتنا تکلیف دہ ہے جس طرح انسان کے لیے خارش۔
٭ عبادت میں ترقی اور کام یابی حاصل کرنے کے لیے شیطان سے جنگ اور اس پر سختی کرنا بھی لازم اور ضروری ہے۔
٭ نفس گھر کا چور ہے اور جب چور گھر میں ہی چھپا ہو تو اس سے محفوظ رہنا بہت مشکل ہوتا ہے اور بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔
٭ اگر تم تقوا اور صبر اختیار کرو گے تو تمہیں مخالفوں کے مکر و فریب کچھ نقصان نہ دے سکیں گے۔
٭ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی نفع والی شَے حاصل کرتا ہے۔
٭ قبر میں انسان کے ساتھ صرف تقوا اور عملِ صالح ہی جاتے ہیں۔
٭ افراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راہ چلنے کی کوشش کرو اور شبہے والی جانب سے دور رہو۔
٭ تقوا کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی اطاعت کرنا کہ پھر نافرمانی نہ ہو اور اس کی یاد کا ایسا نقشہ دل میں جمانا کہ پھر وہ بھلائے ہی نہ اور اس کی اس طرح شکر گزاری کرنا کہ ناشکری کا صدور ہی نہ ہو۔
٭ تقوا کے تین مراتب ہیں …(۱) شرک سے بچنا(۲) بدعت سے بچنا(۳) گناہوں سے بچنا۔
٭ اگر تم اپنی آنکھ کو یوں ہی کھلا چھوڑ دو گے تو رنگارنگ نظارے ایک روز تمہیں سخت مشقت اور مصیبت میں ڈال دیں گے۔
٭ اپنے کان کو بُری باتیں سننے سے روکے رکھو، جس طرح زبان کو بُری گفتگو سے روکتے ہو۔
٭ زبان گھات میں چھپے ہوئے شیر کی مانند ہے جو موقع پانے پر غارت گری کرتا ہے، اس لیے اسے خاموشی کی لگام دے کر لغویات سے بند رکھو اس طرح تم بہت ساری آفات سے بچ جاؤ گے۔
٭ دل ایک بادشاہ کی مانند ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور باقی اعضا رعایا کی طرح ہیں کہ سب اس کی پیروی کرتے ہیں، تو اگر سردار درست ہو تواس کے تابع بھی درست ہوتے ہیں اسی طرح اگر بادشاہ درست ہو تو رعایا بھی درست اور ٹھیک ہوتی ہے۔
٭ فسادِ قلب کا باعث یہ چار چیزیں ہیں … (۱) دنیا کی امیدیں (۲) عبادات میں جلد بازی (۳) حسد (۴) تکبر۔
٭ تحریر ایک خاموش آواز ہے اور قلم ہاتھ کی زبان، علم جوانی کا زیور اور بڑھاپے کا سہارا ہے۔
٭ لمبی امیدیں اور بے جا خواہشات نیکی اور اطاعت کے راستے میں رکاوٹ ہیں نیز ہر فتنے اور شَر کا باعث ہیں۔
٭ دنیا کی امیدیں انسان کو ہر نیک کام سے کاٹ دیتی ہے اور لالچ ہر حق سے انسان کو روک دیتی ہے اور صبر ہر بھلائی کی طرف رہِ نمائی کرتا ہے اور نفسِ امّارہ ہر شَر اور برائی کی طرف بلاتا ہے۔
٭ حسد سے دل اندھا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
٭ اگر جاننا چاہتے ہو کہ تم سے تمہارا رب کتنی محبت کرتا ہے تو اس کے قریب آ کے دیکھو تمہیں اندازہ ہو جائے گا۔
٭ دنیا کی رنگینیوں میں کھو جانے والا شخص ہمیشہ بزدل اور کم زور ہوتا ہے کیوں کہ اسے خدا کا نہیں بل کہ لوگوں کا ڈر ہوتا ہے۔
٭ دنیا دریا ہے، ایمان کشتی، عبادت ملاح اور آخرت کنارا ہے۔
٭ خوف سے محبت درست ہوتی ہے اور ادب سے رعایت مستحکم ہوتی ہے۔
٭ طنز عینک کی مانند ہے جس کے ذریعہ اپنے چہرے کے سوا ہر چیز نظر آتی ہے۔
٭ دنیا کے ساتھ اتنا نرم نہ ہو کہ وہ تمہیں نچوڑ کر رکھ دے اور نہ ہی اتنا خشک بن جاؤ کہ وہ تمہیں نچوڑ کر رکھ دے۔
٭ اگر دشمن پر قدرت مل جائے تو اس قدرت کا شکر اس طرح ادا کرو کہ اسے معاف کر دو۔
٭ تواضع اور نرم روی ہی انسان کو بلندی پر پہنچاتی ہے،جو شخص اپنی بڑائی ہانکتا ہے وہ کبھی عظیم نہیں بن سکتا۔
٭ اپنے آپ کو بے جا لالچ اور طمع سے بچاؤ کیوں کہ وہ تنگ دستی اور محتاجی کا پیش خیمہ ہے۔
٭ جو شخص اپنی آنکھ کی حفاظت نہیں کرتا اس کا دل بے قیمت ہو جاتا ہے۔
٭ زیادہ کھانے سے اعضا میں فتنہ پیدا ہوتا ہے، فساد برپا کرنے اور بے ہودہ کاموں کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے کیوں کہ جب انسان خوب پیٹ بھر کر کھاتا ہے تو اس کے جسم میں تکبر اور آنکھوں میں بد نظری کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
٭ عبادت ایک ایسا فن ہے جس کے سیکھنے جگہ تنہائی اور اس کا ہتھیار بھوک ہے۔
٭ کینہ پرور دین دار نہیں ہوتا، لوگوں کا عیب نکالنے والا عبادت گزار نہیں بن سکتا، چغل خور کو امن نصیب نہیں ہوتا اور حاسد شخص نصرتِ خداوندی سے محروم رہتا ہے۔
٭ حسد ایک ایسی بیماری ہے جو عبادات کے اجر و ثواب کو تباہ کر دیتی ہے، شر اور معصیت کی تخم ریزی کرتی ہے،آرام او رسکون کو ختم کر دیتی ہے اور دین کی سمجھ سے محروم کر دیتی ہے۔
٭ بردبار شخص اپنے مقاصد کو بہ آسانی پا لیتا ہے جب کہ جلد باز اکثر اوقات پھسل کر گر جاتا ہے۔
٭ تکبر ایک ایسی آفت ہے جو نیکی کا نام و نشان مٹا دیتی ہے۔
٭ ہر بیماری کی اصل بد ہضمی اور ہر علاج کی اصل بھوک اور کم کھانا ہے۔
٭ دنیا ایک خواب کی طرح ہے یا زائل اور فنا ہو جانے والے سایے کی طرح، اور بے شک عقل مند ایسی ناپایدار شَے سے دھوکا نہیں کھاتے۔
٭ بزرگوں کا ہمیشہ ادب کرو کیوں کہ بے ادبی ایک ایسا شجر ہے جس کا ثمر مردود ہوتا ہے۔
٭ جو دین کو برباد کر کے دنیا سنوارتے ہیں ان کا نہ تو دین رہتا ہے اور نہ ہی دنیا سنور پاتی ہے۔
٭ اپنے نفس کی عیاریوں سے ہوشیار اور اس کی دھوکا بازیوں سے بے خوف نہ ہو کیوں کہ نفس کی خباثت ستر شیطانوں کی خباثت سے زیادہ ہے۔
٭ ایمان کی سلامتی کے بعد تقوا اور پرہیزگاری ہی اصل جوہر اور نجاتِ آخرت کا ذریعہ ہے انسانوں میں متقی لوگوں کا درجہ ہی سب سے اونچا اور بلند ہے۔
٭ طالبِ آخرت سخت آزمایا جاتا ہے اوراسے شدید محنت میں مبتلا کیا جاتا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہو گا اتنا ہی مصائب بھی دنیا میں زیادہ در پیش ہوں گے۔
٭ صبر ایک کڑوی دوا ہے اور ایک نا خوشگوار شربت، لیکن نہایت بابرکت اور ہر طرح کی منفعت کا سبب اور ذریعہ ہے جو کہ جملہ پریشانیوں کو دور کرتا ہے۔
٭ جو صبر کرتا ہے اس کو دنیا میں گناہوں اور گناہوں کے برے نتائج سے حفاظت نصیب ہو جاتی ہے اور وہ آخرت میں گناہوں کے وبال سے بچ جاتا ہے۔
٭ صبر کے طفیل انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے کرامت اور عزت کا مستحق ہو جاتا ہے۔
٭ ریاکاری اور دکھاوے کے میل کچیل سے اعمال کو پاک و صاف رکھنے کا نام اخلاص ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ ریاکار کو ناکام و نامراد کرتا ہے اس کی کوشش اور مشقت کو بے کار کر دیتا ہے۔
٭ ہر شَے کو اس کی ضد سے پہچانا جاتا ہے جب تک صاحبِ اخلاص، ریا کی بُرائی سے واقف نہ ہو، اخلاص کی اچھائی کو کبھی بھی نہیں سمجھ سکتا۔
٭ ظاہر و باطن کو ہر قسم کے گناہوں سے دور کرنا اور تمام اعضا سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کرنے کا نام شکر ہے۔
٭ جس نے خود کو خدائے تعالیٰ کے ساتھ وابستہ کر لیا وہ فتنہ و فساد اور شیطان کے وسوسوں سے نجات پا گیا اور جس میں خدائے تعالیٰ کو یاد رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ کبھی پریشان نہیں ہوتا۔
٭ جو شخص اعمال و افعال کی درستگی اور اتباعِ سنت کا طلب گار ہے اس کے لیے باطنی خلوص کا حصول بہت ضروری ہے۔
٭ مومن ہر طرح کی خصلت پر پیدا کیا جاتا ہے لیکن خیانت اور جھوٹ پر پیدا نہیں کیا جاتا۔
٭ اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہیں ہوتا۔
٭ کوئی اتنا امیر نہیں ہوتا کہ وہ اپنا ماضی خرید سکے اور کوئی اتنا غریب نہیں ہوتا کہ وہ اپنا مستقبل بدل سکے۔اس لئے حال کو غنیمت جانو مستقبل روشن ہو جائے گا۔
٭٭٭