صفحات

تلاش کریں

شخصیت: منیرنیازی

بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی کو منیر نیازی کا عہد کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی اردو اور پنجابی کی شاعری کے ذریعہ کم از کم تین نسلوں پر گہرے اثرات مرتب کئے اور اپنے وجود کے ایسے گہرے نقش بٹھائے کہ وہ اپنے عہد کے لیجنڈ بن گئے اور ان کی شاعری کلاسیک کا درجہ پا گئی۔ انھوں نے اردو کی کلاسیکی روا یت یا دبستان کا اثر نہیں قبول کیا بلکہ اک نئے دبستان کی طرح ڈالی جس کی تقلید تقریبا ’’ناممکن ہے کیونکہ وہ اک طلسماتی جزیرہ ہے جس کا نظارہ باہر سے ہی کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی اندر گیا تو اس میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کی شاعری اک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ ان کی شاعری پورے عہد کے احساس اور رویّوں کا عطر ہے۔ وہ اپنے عہد اور اس کے رویّوں کی تشریح نہیں کرتے بلکہ چند سطور اور چند لفظی تصویروں میں اپنے عہد اور اس میں جینے والے انسانوں کے احساسات اور رویوں کی اصل بنیاد کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں پھر ان سے معانی کی طویل داستانیں خود بخود مرتب ہوتی چلی جاتی ہیں۔ معانی کی ان ہی امکانی سطحوں کی بدولت منیر کی شاعری ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے اور ہر شخص اپنی توفیق و صلاحیت کے مطابق سمتیں تلاش کر سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں انسانی زندگی کے جہنم جیسا میدان بھی ہیں اور انسان کی کھوئی ہوئی جنّت بھی۔ منیرنیازی کی شاعری ان دونوں سے مل کر اک اکائی کی صورت اختیار کرتی ہے۔
منیر نیازی کی شاعری اک طویل جلاوطنی کی پہلی جھلک دیکھنے سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس شاعری میں حیران کر دینے والے، بھولے ہوئے، گمشدہ تجربوں کو زندہ کرنے کی ایسی غیر معمولی صلاحیت ہے جو دوسرے شاعروں میں نظر نہیں آتی۔ منیر کی شاعری کی وابستگی نظریات یا علوم کے ساتھ نہیں بلکہ شاعری کی اصل اور اس کے جوہر کے ساتھ ہے۔ خود کو بطور شاعر شناخت کر کے اپنے وجود کا بطور شاعر ادراک اور اس پر ایمان منیر نیازی کو اپنے عہد کے آدھے شاعروں میں پورے شاعر کا درجہ دیتا ہے۔
منیر نیازی 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے قصبہ خان پور کے اک پشتون گھرانے میں پپدا ہوئے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے لیکن خاندان کے باقی لوگ فوج یا ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ منیر ایک سال کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی پرورش ماں اور چچاؤں نے کی۔ ان کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ لڑکپن سے ہی منیر کو جب بھی کوئی چیز حیران کرتی تھی وہ اسے شعری واردات میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ شروع میں انھوں نے نظم اور غزل کے علاوہ کچھ افسانے بھی لکھے تھے جن کو بعد میں انھوں نے مسترد کر دیا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری(موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہاں کی ڈسپلن ان کے مزاج کے خلاف تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہونے والے سعادت حسن منٹو کے افسانے اور میرا جی کی نظمیں پڑھتے تھے۔ ان ہی دنوں میں ان کا ادبی شوق پروان چڑھا اور انھوں نے نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی تعلیم مکمل کی اور ساتھ ہی لکھنے لکھانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی ملک کا بٹوارہ ہوگیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا گیا۔ یہاں انھوں نے ساہیوال میں اک اشاعتی ادارہ قائم کیا جس میں خسارہ ہوا۔ چھوٹے موٹے ناکام کاروبار کرنے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ جہاں مجید امجد کے اشتراک سے انھوں نے ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا۔ انھوں نے مختلف اخباروں اور ریڈیو کے لئے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں انھوں نے فلموں کے لئے گانے لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ ان میں 1962 کی فلم ’’شہید‘‘ کے لئے نسیم بانو کا گایا ہوا گانا ’’آس بےوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘، اور اسی سال فلم ’’سسرال‘‘ کے لئے مہدی حسن کی آواز میں ’’جس نے مرے دل کو درد دیا‘‘ اس شخص کو میں نے بھلایا نہیں‘‘ اور اسی فلم میں نورجہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ 1976 کی فلم ’’خریدار‘‘ کے لئے ناہید اختر کی آواز میں ان کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ لیکن بعد میں وہ پوری طرح اپنی ادبی شاعری میں غرق ہو گئے۔
منیر اپنی جاذب شکل و صورت کے طفیل خواتین میں بہت پسند کئے جاتے تھے۔ انھوں نے خود اعتراف کیا کہ ان کو کم و بیش چالیس بار عارضہؐٔ عشق لاحق ہوا۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا ’’یہ لیلیٰ مجنوں کا زمانہ تو ہے نہیں کہ چلمن کی اوٹ سے محبوب کا رخ روشن دیکھ کر ساری عمر گنوا دی جائے۔ اب تو قدم قدم پر ہماری ہمدم و ہمراز عورت ہے پھر بھلا ایک کے پلّو سے بندھ کر کس طرح زندگی گزاری جا سکتی ہے۔‘‘ بہرحال 1958ء میں انھوں نے بیگم ناہید سے شادی کر لی تھی۔ منیر نیازی کے یہاں بے پناہ انانیت تھی وہ کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کو پسند تھے۔ اپنےعہد کے شاعروں کو زیادہ سے زیادہ وہ ٹھیک ٹھاک یا بعض کو اچھا کہہ دیتے تھے بڑا شاعر ان کی نظر میں کوئی نہیں تھا۔ کشور ناہید کو وہ اچھی شاعرہ اور پروین شاکر کو دوسرے درجہ کی شاعرہ کہتے تھے۔

منیر نیازی ان شاعروں میں ہیں جن پر دو مختلف زبانوں، اردو اور پنجابی کے ادب نواز اپنا بڑا شاعر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسی طرح منیرنیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم، میں بھی اپنی شاعری کے معیار کو یکساں طور پر بلند رکھا ہے۔ انھوں نے گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیرنیازی کثرت سے شراب نوشی کے عادی تھے اور شراب کو اپنے سوا سب کے لئے برا کہتے تھے۔ آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی اور اسی بیماری میں 26 دسمبر 2006ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں پہلے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے اور پھر ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ (کمال فن) کے تمغوں سے نوازا۔
منیر نیازی ایسے شعراء میں سے ہیں جنھوں نے اپنی پہچان کو اس فضا سے مستحکم کیا جو ان کی شاعری سے خود بخود مرتب ہوتی چلی گئی۔ اس فضا میں اسرار بھی ہے اور ملگجی روشنی بھی جو اسرار کو علامت اور استعارے کے ذریعہ کھولتی ہے اور اک انوکھی کیفیت قاری کو منتقل کر دتیی ہے۔انھوں نے سیدھے، سچّے جذبات، حسّی تجربات اور ماضی کے خوشگوار سپنوں اور یادوں کی شاعری کی ہے۔ ان میں بعض جذبے اور حسّی تجربے اردو شاعری کو خاص منیر نیازی کی دین ہیں۔

بانو قدسیہ کے الفاظ میں:

’میں منیرنیازی کو صرف اک بڑا شاعر تصوّر نیہں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیرکی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا‘‘
****************

کج اونج وہ راہواں اوکھیاں سَن

کج گل وچ غم دا طوق وی سی

کج شہر دے لوک وی ظالم سَن

کج مینوں مرن دا شوق وی سی

ایسے کتنے ہی شعروں اور ان گنت نظموں اور غزلوں کے خالق اردو اور پنجابی کے مقبول شاعر منیر نیازی 19 اپریل 1926 کو ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہوگئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آگئے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آگئے۔ وہ کئی اخبارات و ریڈیو اور بعد میں ٹیلیویژن سے وابستہ رہے۔  انہیں بہت جدو جہد بھری زندگی گزارنی پڑی ۔

وہ بیک وقت شاعر،  ادیب اور صحافی تھے۔  وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔  منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔ ان کے اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔

منیر نیازی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ لیکن اُن کے یہاں احتجاج کی آواز بہت بلند ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کی آواز اپنے ہم عصروں میں سب سے الگ سب سےجدا اور سب سے منفرد ہے جسے سینکڑوں صداﺅں کے درمیان بھی پہچاناجا سکتا ہے، کیونکہ اُن کی لفظیات سب سے جد ا ہیں ۔
منیر نیازی کی غزل روایت اور جدّت کے احساس سے مملو ہے۔ اُنھوں نے جہاں نئے موضوعات و اسالیب سے شاعری کو ہم کنار کیا وہیں فنّی سطح پر بھی تخلیقی قوت عطا کی۔ اُن کی غزل بیان و بدیع کے حسن سے مزین ہونے کی بنا پر ندرتِ فن، تازہ بیانی اور تازہ خیالی کی حامل ہے۔ منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

26 دسمبر 2006 کو لاہور میں اس البیلے شاعر کا انتقال ہوگیا۔