فہرست
مردانگی
کوٹھی کے آہنی گیٹ کی کھڑکی میں اندر قدم رکھتے ہی اسے سلمان کی گاڑی نظر آ گئی۔ اس کی رگوں میں جیسے سنسنی سی دوڑ گئی۔ کئی ہفتوں کی منصوبہ بندی حقیقت کا روپ دھارنے لگی تو اسے خوف محسوس ہوا اور اس کے قدم ڈگمگانے لگے لیکن یہ کیفیت صرف چند لمحوں کی تھی۔
اس نے سر جھٹکا اور پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھی۔ پورچ عبور کر کے رہائشی عمارت کے قریب پہنچی تو سلمان دروازے سے باہر نکل رہا تھا۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مسکرادی۔ سلمان جو اس کی غیر متوقع آمد پر گڑبڑا سا گیا تھا، سکون کا سانس بھر کر مسکرایا۔
کہیں جا رہے تھے کیا۔۔۔۔؟ اس کے انداز میں مایوسی کی جھلک تھی۔
ناٹ اینی مورnot any more) ) آؤ۔۔۔۔۔۔ سلمان نے اسے راستہ دیا۔ اس کی آنکھوں میں ہوس کی چمک عود کر آئی تھی۔
دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئے۔
لگتا ہے کالج سے آ رہی ہو؟ سلمان کا انداز استفہامیہ تھا۔
ہاں کالج سے سیدھا ادھر ہی آئی ہوں اس امید پر کہ تم گھر میں مل جاؤ گے، اس نے مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
دوبئی کی فلائٹ کب ہے؟ اس نے سلمان کو بولنے کا موقع نہیں دیا۔
پرسوں صبح کی فلائٹ ہے۔ کیا لاؤں تمھارے لئے؟ سلمان کا انداز رومینٹک تھا۔
سرپرائز می ( surprise me)۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی ادائے دلربائی کے ساتھ جواب دیا۔
اوو کے۔۔۔ اِٹس اے ڈیل (it's a deal )۔۔۔۔۔ اس کے رویئے سے سلمان کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس نے آگے بڑھ کر اسے باہوں میں بھرنے کی کوشش کی لیکن گڑیا نے دونوں ہتھیلیاں اس کے سینے پر رکھ کر اسے روک دیا۔
بے صبرے نہ بنو۔۔۔۔ نیچے چلو۔ میں چائے لے کر آتی ہوں۔ اس کے لہجے میں دعوت اور آنکھوں میں خمار تھا۔
اوکے۔۔۔۔۔ سلمان نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں دونوں ہاتھ ہوا میں لہرائے اور مسکراتے ہوئے تہہ خانے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
کچن کی طرف جاتے ہوئے اسے اپنی بے خوفی کے ساتھ ساتھ اپنی اداکاری پر بھی حیرت ہو رہی تھی۔
چائے بنانے کے دوران نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تین ماہ پیچھے چلی گئی۔
یہ کیسا عجیب اتفاق تھا کہ وہ بھی بدھ کا دن تھا اور یہی وقت تھا۔ اس دن بھی وہ کالج سے آئی تھی اور اس دن بھی سلمان گھر میں اکیلا تھا۔ اس دن بھی اس نے چائے بنائی تھی لیکن سلمان کی خواہش پر۔ آج بھی وہ چائے بنا رہی تھی لیکن اپنی ضرورت کے لئے۔
بدھ کا وہ دن اس کی انیس سالہ زندگی کا سیاہ ترین دن تھا جسے وہ تا دم مرگ نہیں بھلا سکتی تھی۔ اس دن سلمان نے اس کی زندگی اندھیر کر دی تھی۔
آج وہ سلمان کی دنیا تاریک کرنے والی تھی۔
وہ اسی گھر میں پلی بڑھی تھی اور اس کے مکین اس کی اپنی فیملی ہی کی طرح تھے۔
باپ کی اچانک موت کے بعد سال بھر میں جمع پونجی ختم ہونے لگی تو ماں نے ایک بڑے آدمی کے ہاں رسوئی سمبھالنے کی نوکری کر لی تھی۔ اس وقت وہ چار برس کی تھی۔
منور صاحب ملک کی بڑی سیاسی شخصیت تھے اور ان کی محل نما کوٹھی میں آئے دن دعوتیں ہوتی رہتی تھیں ایسے موقعوں پر سارا دن کام کرنا پڑتا تو ماں اسے سکول کے بعد وہیں لے جاتی تھی۔ وہ بچوں کے ساتھ مل کر خوب اودھم مچاتی اور ماں کو ذرا بھی تنگ نہ کرتی۔ ماں بھی مطمئن رہتی کہ بیٹی آنکھوں کے سامنے ہوتی۔
ماں نے اس کی پرورش روایات سے ہٹ کر بلکہ ان سے بغاوت کر کے کی تھی اور اس پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی تھی۔ اسے بلا امتیاز لڑکے لڑکیاں سب کے ساتھ گھل مل کر کھیلنے کی کھلی چھٹی تھی۔ چھوٹے بال رکھنے کی عادت بھی اسے لڑکوں کی صحبت میں پڑی تھی۔ بوائے کٹ اب اس کی شخصیت کا حصّہ بن چکا تھا اور جس پر ماں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اس طرح کے آزادانہ ماحول میں پروان چڑھنے کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ اس میں بلا کی خود اعتمادی اور جرات مندانہ بے باکی پیدا ہو گئی تھی۔ اور اب جب کہ وہ انیس برس کی ایک خوبصورت دوشیزہ تھی اس کی شخصیت میں نسوانی نزاکت اور فطری معصومیت کے ساتھ ساتھ مردانہ دلیری اور جسارت بھی رچ بس گئی تھی۔
دوسال پہلے کالج میں داخلہ ملتے ہی اسے سلمان بھائی کے دو بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کا کام مل گیا تھا جس سے اس کا کالج کا کچھ خرچہ نکل آتا تھا۔ منور صاحب کے دو ہی اولادیں تھیں، سلمان بھائی اور صائمہ۔
سلمان کے دونوں بچے جو ابھی کے ۔ جی اور پہلی کلاس میں تھے، اس کے ساتھ مانوس تھے۔ وہ صبح کالج چلی جاتی اور ماں منور صاحب کے ہاں نوکری پر۔ جس وقت ماں کام سے فارغ ہو کر گھر جاتی اسی وقت وہ کالج سے فارغ ہو کر ٹیوشن پڑھانے پہنچ جاتی۔
اس بدھ کو بھی وہ معمول کے مطابق ٹیوشن پڑھانے پہنچی تھی۔۔
منور صاحب کا شمار ملک کے سینئر اور تجربہ کار سیاسی شخصیات میں ہوتا تھا اور ان کے ہاں ملاقاتیوں کی آمد و رفت لگی رہتی تھی۔ ان کی کوٹھی کے باہر اکثر و بیشتر دو تین گاڑیاں نظر آتیں لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے خاموشی تھی کہ منور صاحب معہ بیگم ملک سے باہر تھے۔
وہ مین گیٹ میں داخل ہوئی تو گارڈ نے اسے بتا دیا تھا کہ چھوٹی بیگم اور بچے تھوڑی دیر پہلے باہر گئے تھے۔ پہلے معلوم ہوتا تو ادھر آنے کی زحمت سے بچ جاتی۔ کتنا وقت ضائع ہو گیا۔ اس نے تاسف سے سوچا تھا۔ لیکن ابھی وہ مڑ کر واپس جانے والی تھی کہ گیٹ میں سلمان کی گاڑی داخل ہوئی۔ وہ رک گئی۔ پھر جتنی دیر میں سلمان پورچ میں گاڑی پارک کر کے باہر نکلا وہ بھی پورچ میں پہنچ چکی تھی۔
سوری گڑیا۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں اطلاع دینا بھول گیا کہ مہوش اور بچے نانی کے گھر گئے ہیں۔ اسے دیکھتے ہی سلمان نے معذرت کی۔
اس کو غصّہ تو تھا لیکن پھر سلمان کی معذرت پر اس نے درگزر سے کام لیا۔
چلو۔۔۔۔ معاف کیا۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو سلمان بھی مسکرایا۔
اچھا اب آ ہی گئی ہو تو ایک کپ چائے ہی پلا دو۔ سر میں شدید درد ہے۔۔۔۔ سلمان نے لجاجت بھرے لہجے میں کہا تو وہ مان گئی۔
اسی بہانے وہ بھی ایک کپ چائے پی لے گی۔۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے وہ سلمان کے پیچھے پیچھے عمارت کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی۔
گڑیا۔۔۔۔ میں کپڑے بدل کر بیس منٹ (Basement) میں جا رہا ہوں، چائے وہیں لے آنا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے آواز دے کر اسے اطلاع دی۔
او کے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مختصر جواب دیا اور باورچی خانے کی جانب بڑھ گئی۔
گھر کی بیس منٹ سلمان، بچوں اور خود اس کی بھی پسندیدہ جگہ تھی کہ اس میں دنیا بھر کی گیمز اور انٹر ٹینمنٹ کا سامان موجود تھا۔
سلمان اس سے عمر میں دس سال بڑا تھا۔ چھوٹی سی جب ماں کے ساتھ آتی تھی تو سارا سارا دن اس کے اور اس کی بہن صائمہ جو بھائی سے آٹھ برس چھوٹی تھی کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔ دونوں کے ساتھ اس کی مانوس بے تکلفی تھی۔ صائمہ تو کب کی شادی کر کے بیرون ملک جا چکی تھی۔ اس کے جانے کے بعد گھر سونا پڑ گیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی سلمان کو شادی کرنا پڑی تھی۔ یہ شادی اس کے لئے نیک فال ثابت ہوئی۔ بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین تھی۔ تھوڑے عرصے میں اس نے سلمان کو اوباش رئیس زادوں کی صحبت سے دور کر دیا۔ سسر نے اپنے ساتھ کاروبار میں لگا دیا۔ اب وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا۔
اس دن چائے کے دو کپ اور بسکٹ ٹرے میں سجا کر وہ نیچے بیس منٹ میں پہنچی تو سلمان ریموٹ لئے ٹی وی چینل بدل رہا تھا۔ ٹرے ٹیبل پر رکھ کر وہ اس کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔۔۔۔ سلمان نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
رات کو نیند پوری نہیں ہوئی۔۔۔۔ اس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے تھکی تھکی آواز میں کہا
اس عمر میں نیند نہ آئے تو شادی کر لینا چاہیے۔۔۔۔۔۔ سلمان نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا
اسنے عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہی تھی۔
چند لمحے دونوں کے درمیان خاموشی رہی اور دونوں کی نظریں ٹی وی سکرین پر رہیں۔
امی ابو نے جلد بازی سے کام لیا ورنہ میں تو تم سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سلمان خود کلامی کے سے انداز سے بولا۔
سلمان بھائی۔۔۔۔۔۔ اس نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
یہ مذاق نہیں۔۔۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ چائے کا کپ ٹیبل پر دھرتے ہوئے سلمان نے کہا تو اسے غصہ آ گیا۔
لگتا ہے آج کچھ پی رکھا ہے تبھی یوں بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ اس کا لہجہ قدرے سخت تھا۔
تمہیں دیکھ کر تو ویسے ہی نشہ چڑھ جاتا ہے۔ سلمان نے اس کے لہجے کی پرواہ کئے بغیر کہا تو وہ ایکدم سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
اب میرا یہاں رکنا مناسب نہیں۔۔۔۔ کہتے ہوئے اس نے قدم اٹھائے تو سلمان بھی کھڑا ہو گیا۔
ناراض کیوں ہوتی ہو گڑیا۔۔۔۔ میں تو مذاق کر رہا تھا، سلمان نے آگے بڑھ کر اسے دونوں کندھوں سے پکڑا تو وہ مزید بپھر گئی۔
ڈونٹ یو ڈیر ٹچ می (don’t you dare touch me) اس نے سلمان کے ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے غصے میں کہا تو سلمان جیسے ہتھے ہی سے اکھڑ گیا اور اس کی نازک کلائیوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں لے کر اس کی کمر کے پیچھے مروڑ دیا اور اسے اپنی طرف کھینچ کر سینے سے لگا لیا۔
سلمان بھائی۔۔۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو، چھوڑیں۔۔۔۔۔ میری کلائیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ سلمان کی اس بے باک حرکت پر وہ تلملا اٹھی اور اس کی چیخیں نکل گئیں۔
لیکن سلمان کے سر پر شیطان سوار ہو چکا تھا۔ اسنے گڑیا کو اسی طرح سینے سے بھینچتے ہوئے اٹھایا اور صوفے پر پٹخ دیا۔ سلمان کی گرفت سے نکلتے ہی اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی لیکن چھ فٹ لمبے اور ڈھائی سو پونڈ وزنی مرد کا جسم اس کے اوپر گرا تو وہ ہلنے کے بھی قابل نہیں رہی تھی۔ اس کی چیخ پکار تہہ خانے کے اندر ہی گھٹ کر رہ گئی تھی۔ پھر جب وہ اٹھنے کے قابل ہوئی تو کسی قابل نہیں رہی تھی۔
اس دن وہ گھر واپس کیسے پہنچی تھی۔۔۔۔ اسے یاد نہیں لیکن اپنے کمرے میں پہنچتے ہی وہ شاور میں گھس گئی تھی اور ایک لمبی شاور لیتے ہوئے وہ اس قدر روئی کہ اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ رات بھر بخار میں جلتی رہی۔ ماں اس کی حالت دیکھ کر گھبرا گئی تھی اور اسے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتی تھی لیکن اس نے ماں کو یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ اس کی دائمی الرجی اور موسمی وائرس نے مل کر اسے ادھ موا کر دیا تھا۔ لیکن اسے ماں کے گھریلو ٹوٹکوں کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔
اگلے دو دن وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔ اپنے اوپر گزرے سانحے کو یاد کر کر کے کبھی روتی اور کبھی خاموش سر گھٹنوں میں دیئے سوچتی کہ اب کیا ہو گا۔ سلمان نے اس کی اناء کو چکنا چور کر دیا تھا۔ اس کی خود اعتمادی ریزہ ریزہ ہو گئی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کس سے فریاد کرے۔
کیا اسے ماں کو بتا دینا چاہیئے یا منور صاحب کی واپسی کا انتظار کرے اور انھیں بتائے یا پھر پولیس میں رپورٹ لکھوائے۔ وہ ساری رات انہی باتوں پر غور کرتی رہی لیکن کسی ایک بات پر اپنے آپ کو آمادہ نہ کر سکی تھی۔ منور صاحب گو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خدا ترس انسان تھے لیکن سلمان ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بیٹے کا جیل جانا انھیں کبھی گوارا نہ ہوتا اور پھر اپنے نام اور عزت کی نیلامی بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ بلکہ بہت ممکن تھا کہ وہ خود اسے ہی خریدنے کی کوشش کرتے اور اسے خاموش رہنے کی تلقین کرتے۔ اور اگر وہ خود پولیس میں رپورٹ درج کرواتی تو تب بھی اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کا امکان نہیں تھا کہ منور صاحب بڑے طاقتور اور با اثر سیاست دان تھے۔ اسے ایسے کئی واقعات یاد آئے جب با اثر لوگوں کے ہاتھوں ریپ (rape) ہونے والی غریب لڑکیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا الٹا انہی مظلوموں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا اور ان پر طرح طرح کی تہمتیں لگائی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی صدمے سے پاگل ہو گئی اور کسی نے سر عام خود سوزی کر کے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا۔ قصور شہر میں سیکڑوں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات بھی ابھی اس کے ذہن میں تازہ تھے۔
لیکن وہ جو دوسروں کی حق تلفی پر بپھر جاتی اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر خاموش کیسے بیٹھ سکتی تھی۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کر سکتی تھی۔
اسی کشمکش میں اس نے ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی تھی۔
وہ سارا دن بھی وہ برائے نام ہی سوئی۔ ذرا آنکھ لگتی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی۔ سر تھا کہ درد کے مارے پھٹا جا رہا تھا۔ شام ہوتے ہی اس کی بے چینی و بے قراری مزید بڑھ گئی۔ اسے اپنے کمرے میں گھسے چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔ رات کو ماں گرم دودھ لائی تو دیر تک اس کے سرہانے بیٹھی اس کا سر دباتی رہی۔ ماں کی موجودگی میں اسے سکون رہا لیکن ماں کے جاتے ہی اس کی بے چینی پھر شروع ہو گئی اور وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ رک جاتی یوں جیسے کسی نتیجے پر پہنچ گئی ہو لیکن پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے ٹہلنے لگتی۔
رات کا دوسرا پہر تھا جب وہ تھک ہار کر بستر پر دراز ہوئی تھی۔ سوچتے سوچتے شاید اس کی آنکھ لگ گئی تھی لیکن وہ اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس کی پیشانی پسینے سے تر تھی۔
اللہ جانے یہ خواب تھا یا اس کی سوچ، جو بھی تھا اسے خوف زدہ کر گیا تھا۔ سر جھٹک کر اس نے اس خیال کو ذہن سے نکالنا چاہا لیکن ناکام رہی۔ اس نے زبردستی آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی غیر مرئی قوت اسے یہ آئیڈیا قبول کرنے پر اکسا رہی ہو۔ جس قدر اس نے مزاحمت کی، اسی قدر وہ آئیڈیا اس کے دل و دماغ میں راسخ ہوتا گیا۔ اور پھر صبح پو پھٹنے سے پہلے نہ صرف یہ کہ وہ دلی اور ذہنی طور پر اس آئیڈیے کو قبول کر چکی تھی بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی بھی کر چکی تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ سلمان ایسی ہی سزا کا مستحق تھا۔ یہ فیصلہ کرتے ہی اسے گہری طمانیت کا احساس ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ گہری نیند سو گئی تھی۔
گزشتہ ڈھائی تین ماہ سے وہ اسی دن کی منصوبہ بندی کرتی رہی۔ ٹیوشن پر تو اس نے تیسرے دن ہی سے جانا شروع کر دیا تھا۔ وہ ہر لحاظ سے اپنے آپ کو نارمل دکھانا چاہتی تھی۔
سلمان مہینہ بھر اس سے کتراتا رہا اور کبھی اتفاق سے آمنا سامنا ہوا بھی تو اس سے آنکھ ملانے کی جرأت نہ کی اور حیلے بہانے سے پہلو بچاتا رہا۔ پھر ایک دن اچانک ان کی آنکھیں چار ہوئیں تو گڑیا مسکرا دی۔ یہ سلمان کے لئے بڑی حوصلہ افزا بات تھی۔ دونوں کے درمیان برف پگھلی اور پھر ہفتے بھر میں نہ صرف یہ کہ سلمان نے اس سے آنکھیں چرانا بند کر دیا بلکہ ایک آدھ بات بھی کر لیتا۔ پھر مزید ایک مہینہ گزرا تو دونوں کے درمیان پہلے والے تعلقات بحال ہو چکے تھے۔
اتنے عرصے میں وہ گاہے گاہے اپنے اندر اٹھنے والے خوف اور وسوسوں پر بھی مکمل طور پر حاوی ہو چکی تھی۔ اب اسے صرف انتظار تھا تو اس سنہری موقعے کا جب وہ اپنے منصوبے کو عملی جامعہ پہنا سکتی تھی۔
اور پھر اس سانحے کے لگ بھگ تین ماہ بعد اسے وہ موقع میسر آ گیا۔ منور صاحب مع اپنی بیگم، بہو اور بچوں کے ایک شادی میں شرکت کے لئے دوبئی سدھارے۔ سلمان ایک میٹنگ کے سلسلے میں دو دنوں کے لئے رک گیا تھا۔ یہ اس کے لئے بہترین موقع تھا۔
آج وہ اسی منصوبے کی تکمیل کے لئے یہاں موجود تھی۔
چائے کا ٹرے اٹھانے سے پہلے اس نے اپنا پرس کھول کر اندر کا جائزہ لیا اور پھر پرس کندھے پر لٹکا کر اس نے ٹرے اٹھایا اور بیس منٹ کی سڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
سلمان حسب معمول ٹی وی ریموٹ کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اسے آتے دیکھ کر مسکرایا اور صوفے پر ایک طرف ہو کر گویا اسے اپنے قریب بیٹھنے کی دعوت دی۔ جواب میں وہ بھی مسکرائی اور صوفے پر اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ ٹرے کافی ٹیبل پر سجا کر اس نے سلمان کا مخصوص چائے کا مگ اس کے آگے رکھا اور اپنا کپ اپنے قریب کر لیا۔ بسکٹ کی پلیٹ بھی اس نے سلمان کے قریب رکھی۔
چند لمحے ان دونوں کے درمیان خاموشی رہی جو خاصی عجیب اور تکلیف دہ تھی۔ گڑیا نے اس خاموشی کو اپنا کپ اٹھا کر توڑا۔
مجھے اس وقت چائے کی شدید طلب ہو رہی ہے۔ اس نے سلمان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
طلب تو مجھے بھی ہے۔۔۔ کہتے ہوئے سلمان نے بھی اپنا مگ اٹھایا۔
چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دونوں خاموشی سے ٹی وی کی سکرین کو گھورتے رہے۔ خاموشی کے یہ چند منٹ گڑیا کو نروس کر رہے تھے۔ اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی۔ چائے کا کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے وہ اٹھی۔
میں ذرا ریفریش ہوتی ہوں۔ تم اتنی دیر میں جلدی سے چائے ختم کر لو۔۔۔ کہتے ہوئے اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔
سلمان کو گڑیا کا کھلی دعوت دینے والا یہ انداز بہت بھایا اور وہ جلدی جلدی چائے کے گھونٹ لینے لگا۔
گڑیا پورے دس منٹ کے بعد باہر نکلی تو سلمان صوفے پر بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ اس کی گردن ایک طرف کو ڈھلکی ہوئی تھی۔
گڈ۔۔۔۔ گولی نے کام دکھایا۔ گڑیا نے سوچا
قریب آ کر اس نے سلمان کو پکارا۔ اس کے گالوں کو تھپتھپایا۔
سلمان بے ہوش ہو چکا تھا۔
گڑیا نے پرس کھول کر اس میں سے تیز دھار استرا نکالا۔ ربر کے دستانے نکال کر پہنے۔ اور پھر اوپر کچن سے لائی ہوئی پلاسٹک کی ایپرن پہنی۔
دل مضبوط کر کے اس نے قدم اٹھایا۔ ہاتھ آگے بڑھائے تو اس کے دونوں ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ اس وقت اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ وہ خوفزدہ بھی تھی لیکن اس نے ہاتھ بھی نہیں روکا اور یونہی روتے ہوئے اس نے کام تمام کیا۔
فارغ ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے باتھ روم میں جا کر خون میں لتھڑا استرا بڑی احتیاط کے ساتھ دھویا۔ پھر خون میں لت پت دستانے دھوئے۔ ایپرن پر سے خون کی چھینٹیں صاف کیں۔ استرا اور دستانے اپنے پرس میں رکھے اور باہر نکل آئی۔ ایپرن اتار کر اس نے وہی چھوڑ دی تھی۔ سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے ایک اچٹتی سی نظر سلمان پر ڈالی۔
صوفے کے ساتھ جڑی کافی ٹیبل پر رکھی پلیٹ میں دھری سلمان کی مردانگی اس کے ہوش میں آنے کی منتظر تھی۔ وہ جلدی سی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
٭٭٭
منصف
کچہری کی گہماگہمی عروج پر تھی۔ بھانت بھانت کے لوگ با گ کچہریوں کی پر شکوہ عمارتوں کے برآمدوں، سیڑھیوں اور درمیانی راستوں میں آ جا رہے تھے۔ جگہ جگہ وکلاء بھی اپنے روایتی کالے کوٹوں میں ملبوس بغلوں میں فائلیں دابے عدالتوں کی سیڑھیاں ناپ رہے تھے۔ پولیس اور گاہے گاہے پیشیاں بھگتنے کے لئے آنے والے ہتھکڑیوں میں جکڑے پریشان حال مبّینہ ملزمان کی بھی آمدورفت جاری تھی۔ جا بجا لگے کھوکھوں اور ٹھیلوں کے ساتھ ساتھ کندھوں اور بازوؤں پر بنیانیں، جرابیں اور ازار بند لٹکائے چلتے پھرتے دوکاندار بھی اس میں افراتفری میں شامل تھے۔
عزت مآب جج خواجہ اظہار الحق کی عدالت کے باہر لوگوں کا خاصا ہجوم تھا۔ ہائی پروفائل (High Profile)مقدمات کی سماعت کے دوران بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی ایک معمول تھا لیکن عدالت کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری اور میڈیا کا میلہ خلاف معمول تھا جس سے اس کیس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا تھا۔
کیس کا فیصلہ ہونے والا تھا لیکن مٹھائیاں پہلے ہی سے بانٹی جا رہی تھیں۔ کچھ لوگ پھولوں سے بھی لدے ہوئے تھے یوں جیسے انھیں حسب منشاء فیصلہ ہونے کا یقین ہو۔ لیکن ابھی کافی تعداد میں لوگ پھولوں کے ہار اٹھائے بے چینی کے ساتھ بار بار کمرہ عدالت کی طرف دیکھ رہے تھے۔
نواب بہادر حاکم الملک بھی اپنے محافظوں اور وفاداروں کے جلو میں کمرہ عدالت میں موجود تھے اور بڑی بے قراری کے ساتھ اپنے اکلوتے بیٹے نواب زادہ مظفر الملک کا انتظار کر رہے تھے۔ دراز قد، ترشی ہوئی سفید داڑھی، سرخ و سفید رنگت ، ستر کے پیٹے میں بھی انکی صحت قابلِ رشک تھی۔ وہ بلاشبہ ایک دبنگ شخصیت کے مالک تھے اور بھری عدالت میں کرسی پر بیٹھے ہوئے بھی سب سے نمایاں لگ رہے تھے۔ گاہے گاہے ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہو جاتی۔
یوں تو یہ ایک سیدھا سادھا قتل کا کیس تھا اور چشم دید گواہان کے بیانات کی روشنی میں قاتل پر جرم بھی ثابت ہو چکا تھا لیکن اسکے باوجود کیس کا فیصلہ ہونے میں کئی سال بیت گئے اور اس تاخیر کی وجہ وہ تنازعات تھے جو ابتدا ہی سے مقدمے کا مقدر رہے۔ پہلے تو یکے بعد دیگرے دو ججوں نے اس وقت ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا جب مقدمہ آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا۔ دوئم نواب صاحب نے دارالحکومت کی عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس دوسرے شہر میں ٹرانسفرکروالیا تھا۔ تیسرا اہم واقعہ ایک جج کی اس وقت اچانک موت تھی جب وہ فیصلہ دینے والا تھا۔۔ عام تاثر یہی تھا کہ ان سارے حالات کے پیچھے نواب صاحب بہادر کا ہی ہاتھ تھا، واللہ عالم بالصواب۔
نواب صاحب کی زندگی کا کوئی بدترین دور تھا تو وہ یہی چند سال تھے۔ بیٹے کی ایک چھوٹی سی غلطی نے انھیں ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ اس بات سے انھیں انکار نہیں تھا کہ ان کے بیٹے نے غلط کیا تھا۔ لیکن اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی اور وہ ناسمجھ تھا۔ اور پھر قتل تو آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تو کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ اور اگر وہ مزارعے کا بیٹا جو کہ ان کے بیٹے کا ہی ہم عمر تھا اور جوانی کی اکڑ اس میں بھی تھی ، بد تمیزی پر نہ اتر آتا اور بھری محفل میں ان کے بیٹے کے منہ نہ لگتا تو ان کا بیٹا کوئی پاگل تھوڑے تھا جو اس پر کتے چھوڑ دیتا۔ نواب صاحب نے اپنا نوابی اثر رسوخ استعمال کر کے اور بے تحاشا دولت لگا کر ایڑی چوٹی کا زور لگا یا کہ ان کا بیٹا بری ہو جائے لیکن بات بڑھتی ہی گئی۔
گزشتہ کئی سالوں کے دوران رونما ہونے والے دہشت گردی کے پے در پے واقعات ا ور اس پر نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کی بد انتظامی اور لوٹ مارنے عوام الناس کی نفسیات ہی بدل کر رکھ دی تھی اور لوگوں میں قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی۔ ان کا سیاسی شعور اور قومی احساس ذمہ داری اس عروج کو پہنچ چکا تھا کہ کیا مجال جو کوئی سرکاری ملازم اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرسکے۔ اب وہ جاگیردارانہ اور نوابانہ ٹھاٹھ باٹھ بھی قصہ پارینہ بن چکے تھے۔ رہی سہی کسر سپریم کورٹ نے پوری کر دی جب کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات ثابت ہونے پر ملک کے طاقتور لیڈروں کو جیلوں میں ڈال دیا۔ ان حالات میں نواب بہادر کو سخت مشکلات کا سامنا ہو رہا تھا۔ مقدمہ جس قدر طول پکڑتا گیا ، نواب صاحب نروس ہوتے گئے۔ آخر میں جب کیس عزت مآب جج خواجہ اظہار الحق کی عدالت میں پہنچا تو نواب صاحب حقیقتاً خوفزدہ ہو گئے اور اس کی وجہ جج کی شہرت تھی۔ یہ جج نہ صرف یہ کہ بکاؤ نہیں تھا بلکہ کسی کو خاطر میں بھی نہیں لاتا تھا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ فاضل جج ریٹائر ہونے والا تھا اور کیس ملتے ہی جج نے عندیہ دے دیا تھا کہ وہ اس کیس کا فیصلہ ریٹائرمنٹ سے پہلے کر دیں گے۔
اب صورت حال نہایت گھمبیر ہو چکی تھی۔ نواب صاحب کے پاس بیٹے کی زندگی بچانے کا یہ آخری موقعہ تھا۔ انھوں نے بھی سب کچھ داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا اور بہت سوچ بچار کے بعد آنر ایبل جج کو پہلا اور آخری پیغام بھیج کر مزید گفت و شنید کے دروازے بند کر دیئے تھے۔ انھوں نے جج صاحب کو کھلے اور واشگاف الفاظ میں پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ بیٹے کی جان بخشی کے عوض تین ارب روپے کا نظرانہ پیش کرنے پر تیار تھے لیکن اگر ان کے بیٹے کو سزا ہوئی تو اس کو تو وہ کسی نہ کسی طور بچا ہی لیں گے لیکن جج کا پورا خاندان جن میں ان کی بیوی، بیٹا ، بہو اور پوتا شامل تھے ، زندہ جلا دیا جائے گا۔ نواب صاحب یہ پیغام بھیج کر خاصے مطمئن ہو گئے تھے اور انھیں پورا یقین تھا کہ جج چاہے کتنا بھی ایماندار کیوں نہ ہو اپنے پورے خاندان کی بربادی نہیں چاہے گا لیکن اس وقت نواب صاحب کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی تھی جب انہیں اطلاع ملی کہ جج صاحب کا پورا خاندان اچانک انگلینڈ چلا گیا تھا۔ اور یہ سب کچھ مقدمے کا فیصلہ ہونے سے تین دن پہلے ہوا۔ نواب صاحب جنہیں ساری زندگی خدا یاد نہ آیا اچانک اس کے وجود کا احساس ہو گیا اور وہ سجدے میں گر کر گڑگڑائے اور اللہ سے اپنے اکلوتے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگی۔
اور پھر آج کمرہ عدالت میں چند منٹ پہلے فاضل جج نے ایک ایسا غیر معمولی اور غیر متوقع قدم اٹھایا جس نے جہاں نواب صاحب کو حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیات سے دوچار کر دیا تھا وہی اس اقدام نے استغاثہ اور دفاع کی پوری ٹیم کو بھی حیرت کے سمندر میں دھکیل دیا تھا۔ عدالت کے باہر موجود میڈیا اور وہ سب جن تک خبر پہنچ چکی تھی الگ سے انگشت بدنداں تھے۔ عزت مآب جج خواجہ اظہار الحق نے مجرم کو فیصلہ صادر کرنے سے پہلے اپنے چیمبر میں آنے کی دعوت دی اور اس کے لئے محترم جج نے نواب صاحب بہادرسے بھی اجازت چاہی۔ نواب بہادر کو اس میں اپنے بیٹے کی عافیت نظر آئی اور انھوں نے بغیر کسی حیل و حجت بیٹے کو جج سے ملاقات کی اجازت دے دی۔
اور اس وقت جب کمرہ عدالت میں موجود باقی لوگ چہ میگوئیوں میں مصروف تھے نواب صاحب سر جھکائے گہری سوچوں میں گم تھے۔ نواب صاحب دراصل اپنا آئندہ کا لائحہ عمل سوچ رہے تھے کیونکہ جج کی ان کے بیٹے سے اپنے چیمبر میں ملاقات سے وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جج اب ان کے بیٹے سے ان کی دی ہوئی آفر کی ادائیگی کے معاملات طے کریں گے۔ اب نواب صاحب کو ان کے خاندان کی انگلینڈ نقل مکانی بھی سمجھ میں آ رہی تھی کہ جج صاحب جو ریٹائر ہونے والے تھے انگلینڈ میں آباد ہونا چاہتے تھے۔
نواب بہادر انہی تانوں بانوں میں الجھے ہوئے تھے کہ اچانک ان کے آس پاس ایک عجیب شور شرابہ اٹھا۔ عدالت کے اندر اور باہر تعینات پولیس میں بھگدڑ مچ گئی۔ عدالت میں موجود لوگوں میں بھی افراتفری کا سا عالم پیدا ہو گیا۔ نواب بہادر چند لمحوں کے لئے کچھ سمجھنے سے قاصر رہے لیکن پھر اچانک ان کے بوڑھے لیکن تنومند جسم میں جیسے بجلی بھر گئی۔ وہ اپنے جوان بیٹے کی سر تیزی سے بخوبی واقف تھے۔ وہ ایکدم سے اٹھے اور بڑی تیزی کے ساتھ جج کے چیمبر کی طرف بڑھے لیکن پولیس نے انھیں نہ صرف آگے بڑھنے سے روک دیا بلکہ عدالت میں موجود سب لوگوں کے ساتھ انھیں بھی باہر دھکیل کر عدالت کا دروازہ محفوظ کر لیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کی کئی گاڑیاں عدالت کی سیڑھیوں کے ساتھ آ کر رکیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران بڑی عجلت میں گاڑیوں سے نکلے اور کمرہ عدالت میں داخل ہو گئے اور اس سے پہلے کہ کوئی اس ہنگامے کی تہہ تک پہنچ سکتا ، پولیس کے اعلیٰ افسران اور بھاری نفری کے درمیان جج اکرام الحق ہتھ کڑیوں میں جکڑے کمرہ عدالت سے برآمد ہوئے اور گاڑیوں میں سواریہ جا ۔۔۔۔۔ وہ جا۔ یہ سب کچھ اس قدر آناً فاناً میں ہوا کہ کسی کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ لوگ حیرت اور الجھن کا شکار ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے کہ کمرہ عدالت سے آنے والی خبر سے پریشان ہجوم پر موت کا سا سناٹا چھا گیا۔
عزت مآب جج خواجہ اکرام الحق نے نے اپنے چیمبر میں نہ صرف یہ کہ نواب زادہ مظفر الملک کو سزائے موت سنائی بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کر دیا تھا۔
٭٭٭
خوف
اسے ہوش آیا تو چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ اس نے خاموشی سے کچھ سن گن لینے کی کوشش کی لیکن مکمل سناٹا تھا یہاں تک کہ زمینی حشرات بھی خاموش تھے۔ ہاں، البتہ دل دھڑکنے کی دھم دھم ضرور محسوس ہو رہی تھی۔ وہ یکسوئی کے ساتھ کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک اٹھنے والی ٹیسوں نے اس کے بدن میں بجلیاں بھر دیں اور وہ تلملا اٹھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ رسیوں میں جکڑا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اس احساس نے اس کا خون خشک کر دیا۔ بیتے واقعات ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔
یہ شام سے ذرا پہلے کا وقت تھا جب وہ ایک گاؤں میں چند زعماء سے ملاقات کے بعد اپنے بیس (Base) کی طرف واپس جا رہے تھے جو چند ہی میل دور تھا۔ افغانستان میں نیٹو کے یونٹ کے ساتھ بطورِ مترجم یہ اس کا پہلا مشن تھا۔ ابھی وہ گاؤں کی حدود سے نکلے ہی تھے کہ زمین میں دفن بارودی مواد پھٹا اور ان کی ٹنوں وزنی فوجی گاڑی ہوا میں اچھلی اور پوری قوت کے ساتھ زمین سے ٹکرائی۔ وہ گاڑی کے پچھلے اور بغیر چھت کے حصے میں گَنر (Gunner) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ گاڑی کے ہوا میں اچھلتے ہی وہ دونوں بھی ہوا میں اچھلے۔ گنر کا تو اسے پتہ نہ چلا لیکن وہ اچھل کر کئی گز دور ایک خشک نالے میں جا گرا تھا اور اسی لمحے اسے تابڑ توڑ گولیاں چلنے کی بھی آوازیں آئیں تھیں جو یقیناً گھات میں بیٹھے طالبان کی طرف سے آ رہی تھیں اور پھر اسے ہوش نہ رہا۔
اب کیا ہو گا۔۔۔؟ حالات کی نزاکت کا احساس ہوتے ہی اس کے وجود میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اسے یقین تھا کہ اس کے یونٹ کا کوئی فرد بھی زندہ نہ بچا ہو گا اور جو دھماکے میں بچ گیا ہو گا طالبان کی گولیوں کا نشانہ بن چکا ہو گا۔ وہ مترجم تھا اور طالبان کے ہاتھوں مترجموں کی اذیت ناک موت کی وہ ساری کہانیاں اسے یاد آ گئیں جو اس نے ٹریننگ کے دوران سنی تھیں۔ طالبان کی دانست میں اتحادی فوجوں کے ساتھ کام کرنے والے مترجم غدّار تھے اور ہر غدّار کو عبرت ناک انجام تک پہچانے کے لیئے وہ ہر قسم کی اذّیت جائز سمجھتے تھے۔ قیدی کی آنکھیں نکالنا اور ہاتھ پاؤں الگ کر دینا تو نہایت عام سی بات تھی طالبان تو قیدی کا چہرہ اتارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اسلام اور جہاد کے نام پر مر مٹنے کا دعویٰ کرنے والے مذہب کے یہ ٹھیکیدار لاش کی بے حرمتی کرنے سے بھی نہیں گھبراتے تھے۔
اس کے لئے یہ احساس ہی روح فرسا تھا کہ وہ طالبان کے ہتھے چڑھ چکا تھا اور لمحہ بہ لمحہ اس خوف میں اضافہ ہو رہا تھا کہ اچانک اسے یوں لگا جیسے کسی نے اسے پکارا ہو۔ اس نے غور کیا تو کوئی واقعی اس کا نام لے کر اسے پکار رہا تھا اور پھر کسی نے اس کے چہرے پر سے کمبل کھینچ لیا۔
اٹھو یار! ہم افغانستان میں لینڈ کر چکے ہیں۔
٭٭٭
تاخیر
گھنٹی بجانے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو اس کی نظر دروازے کی بائیں جانب آویزاں باپ کے نام کی تختی پر پڑ گئی ‘ماسٹر عنایت اللہ’ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل گئی۔ اسے وہ دن کل کی طرح یاد تھا جب اس کے باپ نے وہ تختی اس جگہ پر لگائی تھی۔ اس دن اس کا باپ کتنا خوش تھا۔ اس کی نئی نئی ترقی ہوئی تھی اور تنخواہ بھی بڑھ گئی تھی۔ اسے اپنی وہ معصوم خواہش بھی یاد تھی جب اس نے باپ سے ضد کر کے اپنے نام کی بھی تختی لگوا دی تھی ‘ہدایت اللہ منزل’ وہ تختی بھی اپنی جگہ پر جوں کی توں موجود تھی۔
برخوردار! ماسٹر جی تو گاؤں شفٹ ہو چکے ہیں۔ اس نے چونک کر نظر نیچے کی تو دروازے پر بڑا قفل لگا ہوا تھا۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے قریب کھڑے سفید ریش کی طرف دیکھا جو ہاتھ میں تسبی اٹھائے اسے بڑے تجسّس سے دیکھ رہا تھا۔
کب گئے یہاں سے۔۔۔۔۔۔؟ اس کی آواز میں مایوسی تھی۔
لگ بھگ دو سال تو ہو ہی گئے ہوں گے۔
شاگرد لگتے ہو ان کے ۔۔۔۔ سفید ریش نے کریدا
جی۔۔ آپ ٹھیک سمجھے۔ بہت شکریہ آپ کا۔۔۔۔۔۔ ہدایت اللہ نے وہاں سے نکل جانے میں عافیت سمجھی مبادا کہ وہ یا محلے کا کوئی اور شخص اسے پہچان لے۔
گاؤں شہر سے کوئی چالیس کلو میٹر دور تھا۔ اماں کی اچانک موت کے بعد اس کے باپ کا دل شہر میں نہ لگا اور وہ اس ننھی سی جان کو لے کر گاؤں چلا گیا تھا۔ پہلی تین کلاسیں اس نے گاؤں کے اسکول میں پڑھی تھیں۔ پھر جب اس کے باپ کی ترقی ہو گئی تو اسے شہر جا کر چارج سمبھالنا پڑا۔ یوں وہ واپس شہر آ گئے تھے۔
اس کے باپ نے دوسری شادی نہیں کی اور ساری توجہ ہدایت اللہ کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کر دی تھی۔ اس کی پرورش میں اس کی غیر شادی شدہ پھوپھو کا بھی بڑا ہاتھ تھا جو اس کے باپ کی خواہش پر ان کے ساتھ مستقل طور پر شہر منتقل ہو گئی تھی. یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ اس کی پھوپھو بھی ہائی اسکول ٹیچر تھی۔ گھر میں دو اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت نے اس کی خداداد ذہانت اور صلاحیتوں کو جلا بخشی اور وہ تعلیمی میدان میں اس قدر آگے بڑھا کہ کالج کے ابتدائی سالوں ہی میں اسے حکومتی وظیفے پر چند دوسرے طلباء کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھیج دیا گیا۔
معاشی، سیاسی اور اخلاقی طور پر پسماندہ ماحول سے نکل کر شفاف، مستحکم اور منصفانہ ماحول میں پہنچا تو اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ تنگ نظری اور گھٹن کی جگہ ذہنی کشادگی اور آزاد منشی نے لے لی. وہ نئے ماحول میں بڑی آسانی کے ساتھ رچ بس گیا۔
شروع کے چند برس تو وہ سٹڈی اور کالج کی مصروفیات میں گم رہا۔ پھر گریجوایشن سے پہلے ہی اسے جاب کی آفر مل گئی اور یوں کالج سے نکلتے ہی وہ عملی زندگی میں آ گیا۔ کالج کے دور میں سنہری بالوں کا اسیر ہو چکا تھا۔ جاب شروع کرتے ہی شادی کر لی۔
امریکہ پہنچ کر پہلے سال کے دوران باقاعدگی کے ساتھ ہر ہفتے باپ کو خط لکھتا تھا۔ سٹڈی کا دباؤ بڑھا تو خط و کتابت میں کمی آ گئی۔ جاب، شادی اور پھر بچوں نے اسے دنیا مافیہا سے بے خبر کر دیا۔ آسودہ حالی میں وقت گزرنے کا احساسں ہیں رہتا۔ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ بچے بڑے ہوئے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگے تو ایک دن اچانک اسے اپنا باپ یاد آ گیا جس کو چھوڑے اسے بیس برس ہو چکے تھے اور جس کی خبر لئے بھی اسے سالہا سال گزر چکے تھے۔ باپ کی محبت نے ایسا جوش مارا کہ چند ہی دنوں میں وہ پاکستان پہنچ گیا۔
اس وقت وہ ٹیکسی میں سوار گاؤں کی طرف رواں دواں تھا۔ یہ رستے اس کے دیکھے بھالے تھے لیکن گزشتہ بیس برسوں میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ گاؤں کے راستے میں آنے والے سارے ویرانے آباد ہو چکے تھے۔
ٹیکسی سے اترا تو اس نے اپنے آپ کو ایک اجنبی مقام پر پایا۔ اس کا گاؤں بھی اب ایک شہر کا روپ دھار چکا تھا۔ وہ تو بھلا ہو کہ اس کے دادا نے مکان گاؤں کی سب سے پرانی مسجد سے متصل بنوایا تھا ورنہ تو گھر پہنچنا مشکل ہو جاتا اس کے لئے۔
اپنے آبائی مکان کی کشادہ گلی میں پہنچ کر وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ لمبی گلی میں دونوں اطراف کے مکانات تین تین منزلہ اور پکے ہو چکے تھے سوائے ایک مکان کے، مسجد کی دیوار کے ساتھ ننگی اینٹوں والا ایک بوسیدہ سا مکان، اسے شدید شرمندگی کا احساس ہوا۔
اتفاق سے گلی میں کوئی نہیں تھا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر کنڈی ہلانے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ یہ خوشی تھی، پشیمانی تھی، کوئی انجانا ساخوف تھا یا پھران ساری کیفیات کا ملا جلا ردّ عمل، اسے کوئی اندازہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ اس کے بارے میں سوچتا۔ اس وقت تو وہ فوراً سے پیشتر اپنے باپ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے گلے لگنا چاہتا تھا اور رو روکر اس سے گذشتہ بیس برسوں کی غیر حاضری کی معافی مانگنا چاہتا تھا۔
دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے کنڈی ہلائی۔
خاموشی۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دوبارہ قدرے زور سے کنڈی دروازے کے ساتھ بجائی۔
قدموں کی ہلکی چاپ سنائی دی تو جیسے اس کا دل دھڑک کر سینے سے باہر آ گیا۔ آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
دروازہ بڑی آہستگی کے ساتھ کھلا اور ایک بوڑھی اور لاغر خاتون کا چہرہ اس کے سامنے نمودار ہوا۔
پھوپھو۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ ہدایت۔۔۔۔۔ اس کا گلا رندھ گیا اور حیران و ششدر پھوپھو کی چیخ نکل گئی۔ آگے بڑھ کر وہ پھوپھو کو باہوں میں نہ بھر لیتا تو وہ زمین پر گر چکی ہوتی۔
میرا پتر۔۔۔۔۔ میرا لال۔۔۔۔۔ کہاں چلا گیا تھا میرا ہدایت۔۔۔۔ پھوپھو کی تو سانسیں اوپر تلے ہونے لگیں۔ اس کی آنکھوں میں بھی برسات لگ چکی تھی لیکن ابھی اس کا ایک اور امتحان باقی تھا۔
ابا کہاں ہیں پھوپھو ۔۔۔۔۔ ابا جی کہاں ہیں؟ اس نے بے قراری سے پوچھا۔
اندر ہے پتر۔۔۔ اندر ہے ابا۔۔۔ آ جا۔۔۔ آ جا۔۔۔۔
پھوپھو کو اپنی باہوں میں لئے وہ دونوں کمرے کی طرف بڑھے۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے ڈرتے ڈرتے نظر اٹھائی۔ کمرے میں بلب کی ہلکی زرد روشنی میں اسے سامنے چارپائی پر ایک دھان پان سا اور کھچڑی سی سفید داڑھی والا شخص بیٹھا نظر آیا۔ اس کی نظریں دروازے پر ہی تھیں۔ باپ کو اس حالت میں دیکھ کر اس کا جیسے دل پھٹ گیا۔ آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر سارے بندھ توڑ کر باہر نکل آیا۔
ابا جی۔۔۔۔۔ وہ بھاگا اور باپ کی گود میں سر رکھ کر اس قدر زار و قطار رویا کہ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ پھوپھو خود بھی روتی رہی اور مسلسل اس کی کمر اور اس کے بالوں کو سہلاتی رہی۔ بس کر میرا بچہ۔۔۔ بس کر۔۔۔۔۔
اچانک اسے کچھ احساس ہوا اور اس نے سر اٹھا کر باپ کی طرف دیکھا تو وہ اب بھی اسی کیفیت میں دروازے پر نظریں جمائے منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا تھا۔
٭٭٭
پیرا نویا
یہ ایک عام سی رات تھی۔ کبھی کبھی سونے سے پہلے وہ ایک آدھ کپ کافی کا زیادہ پی لیتی تو رات کے کسی پہر باتھ روم جانے کے لئے اس کی آنکھ ضرور کھلتی۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس وقت صبح کے تین بجے تھے جب وہ اچانک جاگ گئی تھی۔ باتھ روم سے فارغ ہو کر وہ بستر پر دراز ہوئی لیکن نیند نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔ کروٹیں بدل بدل کر تھک گئی تو نچلی منزل پر جا کر کچھ دیر ٹی وی واچ کرنے کے ارادے سے وہ بستر سے اٹھی۔ سیڑھیوں کی جانب بڑھتے ہوئے اسے اچانک کچھ کھسر پھسرکی آوازیں محسوس ہوئیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے نچلی منزل پر کوئی ہو۔
چور ۔۔۔۔۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس کی ٹانگوں نے اچانک اس کا دھان پان سا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا اور وہ گرنے کی حد تک نیچے بیٹھ گئی۔ جِمی کو بھی آج ہی ٹور پر جانا تھا۔ قالین پر اپنا بیلنس برقرار رکھتے ہوئے اس نے اپنے خاوند جِمی کے بارے میں سوچا جس کی اس وقت اسے اشد ضرورت تھی۔ وہ گھر میں اکیلی تھی۔
اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔۔۔۔ اب میں کیا کروں؟ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ اپنی ساری قوتیں مجتمع کرتے ہوئے اس نے دوبارہ کچھ سننے کی کوشش کی تو اسے یوں لگا جیسے آوازیں گھر کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے آ رہی تھیں۔ اس بات کا احساس ہوتے ہی جیسے اس کی جان میں جان آ گئی . وہ بڑی آہستگی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس آ گئی۔ پھر اسے اچانک خیال آیا تو اس نے ہال وے میں لگی نائٹ لائٹ کو آف کر دیا اور دوبارہ کھڑکی کے پاس پہنچ گئی۔ دو انگلیوں سے بلائنڈز کو تھوڑا سا کھول کر اس نے باہر نظر ڈالی تو اس کے گھر کے سامنے دائیں طرف والے گھر کا گیراج کھلا ہوا تھا اور رات کے اس پہر گیراج میں چار پانچ مرد کھڑے ہوئے تھے جن میں اس گھر کے مکینوں کا ٹین ایجر لڑکا بھی تھا۔ گھر کے باہر دو گاڑیاں بھی کھڑی تھیں اور لگتا تھا کہ دونوں کے انجن آن تھے۔ اور پھر اچانک اس گھر کا مکین اندر سے نمودار ہوا جسے دیکھتے ہی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ اس نے بندوق گیراج میں کھڑے افراد میں سے ایک کو دے دی۔
اس نے سانس روک کر ان کی باتیں سننے کی کوشش کی لیکن ایک تو وہ سب دھیمے انداز میں بات کر رہے تھے۔ دوسرے فاصلہ بھی زیادہ تھا۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ اگر ان کی گفتگو سن بھی لیتی تو شاید سمجھ نہ پاتی کہ وہ لوگ یقیناً اپنی زبان میں بول رہے تھے۔ اس کے ہمسائے مسلم تھے۔ کس ملک سے تھے یہ اسے معلوم نہیں تھا۔ ان کی باتیں سننے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اس نے اب ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اب کی بار جو اس نے نظر بھر کر دیکھا تو پہلے تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا اور جب یقین آ گیا تو اگر وہ اپنا ہاتھ منہ پر نہ رکھتی تو اس کی چیخ ان لوگوں تک پہنچ جاتی۔ اس نے دیکھا کہ ان سب کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔
دہشت گرد ۔۔۔۔۔۔ اس کے دماغ میں ایک دھماکہ ہوا۔ اسے احساس ہوا بلکہ یقین ہو گیا کہ وہ لوگ دہشت گردی کا کوئی بہت بڑا پلان بنا رہے تھے۔ مزید ایک سیکنڈ ضائع کئے بغیر وہ اپنے فون کی طرف بھاگی اور بغیر کسی جھجک کے 911 ملا دیا۔ کال ملتے ہی اس نے لرزتی ہوئی آواز میں آپریٹر کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ آپریٹر نے اس کی ہمت بندھاتے ہوئے اسے فون پر رہنے کی تلقین کی۔ آپریٹر نے اسے بتایا کہ پولیس بس دو منٹ میں وہاں پہنچنے والی تھی اور اسے ہدایت کی کہ وہ گھر کی بیسمنٹ (basement) میں چلی جائے اور اس وقت تک اوپر نہ آئے جب تک وہ اسے کال کر کے سب اچھا کی خبر نہ دے۔ اس نے آپریٹر کی ہدایت پر عمل کیا اور سیدھا بیس منٹ میں پہنچ کر دم لیا۔ اگلا آدھا گھنٹہ اس پر بڑا بھاری تھا اور طرح طرح کے برے خیالات اسے پریشان کرتے رہے۔ لاشعوری طور پر وہ گولیاں چلنے کی آوازوں کی منتظر رہی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ آدھے گھنٹے کے بعد فون کی گھنٹی بجی۔ آپریٹر نے اسے سب اچھا ہونے کی اطلاع دی اور اس کے استفسار پر بتایا کہ گیراج میں اکٹھے ہونے والے لوگ در اصل ہنٹرز(hunters) تھے اور شکار پر جانے کے لئے اکھٹے ہوئے تھے۔
٭٭٭
پھانسی
عزت مآب جج مظہر علی کے کرسی سمبھالتے ہی کمرہ عدالت میں قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی۔ دس سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کا کیس جس نے سال بھر سے پوری قوم کو لپیٹ میں لے رکھا تھا اس کے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔
ابتدا سے لے کر اب تک مقدمہ طرح طرح کے متنازعات کی زد میں رہا جن میں سب سے زیادہ اہم مجرم کا اقبال جرم کے بعد اپنی بے گناہی پر اڑ جانا اور گواہان کا اپنے بیانات سے منحرف ہونا تھا۔ رہی سہی کسر آنرایبل جج نے اس وقت پوری کر دی جب انھوں نے میڈیا کی دوران سماعت حاضری پر پابندی لگا دی۔ جج کی پہلے سے مشکوک شہرت کچھ مزید مشکوک ہو گئی اور ڈھکے چھپے الفاظ میں ان پر رشوت لینے کے الزامات گردش کرنے لگے تھے۔ لیکن ان تمام مسائل کے باوجود کسی کو بھی صحت جرم اور مجرم کے گناہگار ہونے میں کوئی شک نہیں تھا۔ ہاں۔۔۔۔ فاضل جج سزا کیا تجویز کرتے ہیں؟ یہ بات البتہ خاص و عام کے لئے باعث تجسّس تھی۔ مجرم کو پھانسی کی سزا ملنا چاہیئے۔۔۔ اس پر اکثریت کا اتفاق تھا لیکن عوام الناس کا ایک بڑا حصہ سزائے موت کے سرا سر خلاف تھا۔ ان کی رائے میں مجرم کو بقیہ زندگی قید و بند کی سختیوں اور صعوبتوں میں گزارنا چاہیئے کہ وہ اسی قابل تھا۔
کٹہرے میں کھڑے مجرم کا چہرہ کسی بھی قسم کے تاثر سے یکسر خالی تھا۔ وکلا اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان تھے۔ آنرایبل جج مظہر علی نے آج میڈیا کو بھی اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ کمرہ عدالت میں مظلوم بچی کی بیوہ ماں اپنے بھائی کے ساتھ حاضر تھی جبکہ مجرم کے با اثر والدین بھی اپنے حواریوں کے ساتھ موجود تھے۔
جج نے سر اٹھا کر ایک سرسری نظر کمرہ عدالت میں دوڑائی اور پھر مختصر الفاظ میں فیصلہ صادر کر دیا۔
مجرم کو عدالت میں پیش کئے گئے دلائل و شواہد میں شک و شبہات کی بنیاد پر بری کر دیا گیا۔
خبر آناً فاناً میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پورے ملک میں ایک ماتم کا سا عالم چھا گیا۔ میڈیا کے لئے یہ ‘بریکنگ نیوز’ تھی سو سب نے روایتی انداز میں اور ریٹنگ کی ریس جیتنے کے لئے خوب ہنگامہ کیا لیکن عوام و خاص میں زیادہ تر مایوسی اور خاموشی کا عالم طاری رہا اور سارا دن پورے ملک کا ماحول سوگوار رہا۔
اگلی صبح شہر کے بڑے چوک میں الیکٹرک پول پر پھانسی پر لٹکی لاش کو اتار کر اس کی چہرہ کشائی کی گئی تو وہ لاش جج مظہر علی کی تھی۔
٭٭٭
انتہاری
................................................................................................................................................................................................................................................................................................................................................
طورخم پہنچ کر سرحد پار کرتے ہی اس نے اطمینان کا سانس لیا حالانکہ ابھی اسے زُرمت میں واقع اپنے آبائی گاؤں تک پہنچنے کے لیئے مزید کئی گھنٹے سفر کرنا باقی تھا لیکن طور خم ایک بڑا مر حلہ تھا جو خلاف توقع بآسانی طے ہو گیا۔
وہ طورخم کا بارڈر بیسیوں مرتبہ پار کر چکا تھا اور اسے کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی لیکن پچھلے چند سالوں سے حالات کچھ بدل گئے تھے اور اس کی وجہ پاکستان میں خود کش حملہ آوروں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں تھیں۔ وہ بھی پورے سال کے بعد ادھر آیا تھا۔ اتفاق سے اسے افغان بارڈر پر ایک جان پہچان والا مل گیا یوں سرحد پار کرنے میں اسے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔
آگے کا سفر چونکہ بہت لمبا تھا اور گاؤں پہاڑی علاقے میں تھا اور وہ شام پڑنے سے پہلے پہلے گاؤں پہنچنا چاہتا تھا لہٰذا وقت ضائع کئے بغیر کابل جانے والی بس میں سوار ہو گیا۔ افغانستان کے حالات اور اپنی حفاظت کے پیشِ نظر اسے لمبا راستہ اختیار کرنا پڑ رہا تھا لیکن وہ اس لمبے سفر پر خوش تھا کیونکہ جب تک بس روانہ ہوئی وہ اندیشہ کے تصورات میں کھو چکا تھا۔ اندیشہ اس کی چچازاد اور اس کے بچپن کا پیار تھی۔
1979 میں روسیوں نے ہندوؤں کی درِ پردہ شہہ اور گٹھ جوڑ کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا تو ملک سے ہجرت کرنے والے لاکھوں کروڑوں کی مخلوق میں اس کے باپ کا خاندان بھی شامل تھا۔ دادا کی شہادت کے بعد اس کا باپ زرین گل نہ صرف گھر کا واحد کفیل تھا بلکہ خاندان بھر کا واحد پڑھا لکھا فرد بھی تھا اس لیے ماں اور دو بیٹوں کے اس چھوٹے سے کنبے کو اس کسمپرسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو ہجرت کے بعد کروڑوں انسانوں کا مقدر بن گیا تھا۔ سال بھر کی محنت نے انہیں خیموں سے کرائے کے مکان میں پہنچا دیا تھا۔ زرین گل کی شادی بھی پشاور ہی کی ایک فیملی میں ہو گئی۔ شادی کے بعد زرین گل تو وہی کا ہو رہا لیکن اس کا چچا امین گل جو زرین گل سے چھوٹا تھا اور واجبی سا پڑھا لکھا تھا چند سالوں بعد ماں کو لے کر افغانستان اپنے گاؤں واپس چلا گیا۔ ضلع زُرمت میں ان کی کافی زمینیں تھیں لہٰذا وہاں اسے قدم جمانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ماں نے اس کی شادی بھی کر دی اور پھر بڑی منتوں کے بعد اس کی کزن اندیشہ پیدا ہوئی۔
دونوں بھائیوں کا آپس میں مسلسل رابطہ رہا۔ سال بھر میں زرین گل افغانستان کا ایک چکر ضرور لگاتا اور منصور خان ہمیشہ باپ کے ساتھ آتا۔ جب تک وہ سکول میں تھا تو گرمی کی چھٹیوں میں مہینہ بھر اپنی دادی اور چچا کی فیملی کے ساتھ گزارتا۔ کالج کا آغاز ہوا تو آمد و رفت کا یہ سلسلہ جیسے ٹوٹ سا گیا۔ پھر اچانک رونما ہونے والے ایک سانحے نے اس کی زندگی کیا اس کی شخصیت ہی بدل کر رکھ دی۔ چند برس پہلے اس کا باپ زرین گل پشاور میں ہونے والے ایک خود کش حملے میں شہید ہو گیا۔ یہ سانحہ ماں بیٹا دونوں کے لیے تو قیامت تھا ہی، اس کی دادی کے لئے بھی جان لیوا ثابت ہوا اور وہ مہینہ بھر ہی میں انہی کے گھر میں چل بسی۔ منصور خان پر ان واقعات کا گہرا اثر ہوا اور وہ ایکدم سے عمر کی کئی منزلیں طے کر گیا۔ ایسے موقعے پر جہاں اس کے چچا امین گل اور چاچی نے ماں بیٹا کی دلجوئی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی وہاں اندیشہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہی اور منصور خان کے زخموں پر اپنی معصوم اور بے لوث محبت کا مرہم رکھ دیا۔ بچپن کا پیاراس مختصر سے عرصے میں اس قدر پروان چڑھا کہ وہ یک جان دو قالب ہو گئے۔ منصور خان کو اندیشہ کی صورت میں نئی زندگی مل گئی۔
اندیشہ بلا کی حسین اور سگھڑ لڑکی تھی۔ اگر اس کے ماں باپ نے بچپن ہی میں اس کے لئے اندیشہ کی بات نہ کی ہوتی تو اب تک شاید وہ کسی اور کی ہو چکی ہوتی۔ بس ایک بات تھی کہ اس کے ان پڑھ چچا نے بیٹی کو بھی تعلیم جیسی نعمت سے محروم رکھا کیونکہ کہ وہ لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے سراسر خلاف تھا نتیجتاً وہ چار کلاسوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ منصور خان اپنے باپ کی طرح پڑھا لکھا تھا۔ اندیشہ سے اٹوٹ پیار کی وجہ سے وہ یہ گوارا کر رہا تھا لیکن شادی کے بعد اندیشہ کو پڑھانے کا اس نے مضبوط ارادہ کر رکھا تھا۔
چچا کی فیملی کے واپس جانے کے کچھ عرصہ بعد آمد و رفت کا یہ سلسلہ اس نے پھر سے جوڑ دیا تھا۔ ڈیڑھ برس پہلے اندیشہ اپنے والدین کے ساتھ پشاور کا ایک چکر لگا چکی تھی لیکن سال بھر پہلے جب وہ آیا تو اندیشہ اپنی خالہ کے گھر قندھار گئی ہوئی تھی اس لئے آج کا یہ سفر اس کے لئے کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا۔ ایک تو وہ اندیشہ کو مدت کے بعد دیکھنے والا تھا۔ دوسرے کل اس کی سترویں سالگرہ تھی اور تیسری اور سب سے اہم بات وہ پیغام تھا جو اس کی ماں نے چاچی کے لئے بھیجا تھا۔ اب ان کے ایک ہونے میں زیادہ عرصہ نہیں تھا۔
کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد وہ کابل پہنچا تو اسے زُرمت جانے کے لئے سواری ملنے میں ذرا وقت لگا۔ گاؤں پہنچا تو مغرب کی اذانیں ہو چکی تھیں اور ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل چکا تھا۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ حجرے کے دروازے سے داخل ہوا تھا۔ حجرے کا احاطہ کافی بڑا تھا اور گھر کے اندرونی دروازے تک پہنچنے کے لئے لمبا صحن عبور کرنا پڑتا تھا۔ حجرہ تھا تو بالکل خالی لیکن اس نے چند تبدیلیاں واضح طور پر محسوس کیں۔ پہلے حجرے میں صرف ایک بڑا کمرہ ہوا کرتا تھا اب اس نے دیکھا کہ دو مزید کمرے بھی ایستادہ تھے۔ کمروں کے اختتام پر بیرونی دیوار تک کی خالی جگہ پر چھپر ڈال کر خاصا بڑا کچن بھی بنا ہوا تھا۔ مٹی کے بنے تین بڑے چولہے اور کونے میں مٹی ہی کا ایک تنور بھی ایستادہ تھا۔ ایک طرف ایندھن کیلئے استعمال ہونے والی لکڑیوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ چولہوں کی حالت سے عیاں تھا کہ وہ استعمال بھی ہوتے تھے۔ اور دوسری بات کہ حجرے میں چارپائیوں کی بہتات ہو گئی تھی۔ گو حجرہ صاف ستھرا تھا لیکن منصور خان کو اس میں زندگی کے آثار واضح طور پر محسوس ہو رہے تھے۔ اپنے چچا امین گل کی مالی خوشحالی سے وہ باخبر تھا لیکن حجرے میں یہ توسیع اور لوازمات اس کی سمجھ سے باہر تھے۔ اس کا چچا اب ایسا سوشل بھی نہیں تھا۔ یہی کچھ سوچتے ہوئے وہ حجرے کا طویل صحن عبور کر کے اس لمبی دیوار کے پیچھے پہنچ گیا جو گھر کے داخلی دروازے کے آگے پردے کا کام دیتی تھی۔ حسب معمول دروازے کا کنڈا گھر کے اندر کی طرف سے لگا ہوا تھا جو اس نے بآسانی کھول لیا تھا۔ یہ طریقہ اسے اندیشہ نے سکھایا تھا۔
اسلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔ اندر داخل ہوا تو چاچی کو دیکھتے ہی اس نے حسب عادت دور ہی سے نعرہ لگایا۔ اس کی چاچی نے پہلے تو اسے حیرت بھری خوشی کے ساتھ دیکھا اور اس کا ما تھا چوما لیکن پھر اس کے چہرے پر پریشانی اور فکر مندی کے آثار نمایاں ہو گئے۔
خیریت تو ہے نا چاچی، سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔؟ منصور خان سے چاچی کی یہ پریشانی چھپ نہ سکی اور رسمی حال احوال کے بعد اس نے پوچھ لیا۔
ہاں۔۔۔۔ ہاں زَویاسب ٹھیک ہے۔ بس تم جو اچانک آ گئے ہو تو سمجھ نہیں آ رہی۔ چاچی نے فوراً جواب دیا لیکن اسے صاف محسوس ہو گیا کہ وہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اندیشہ کہاں ہے؟ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
وہ۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔۔ وہ تو خالہ کے گھر گئی ہوئی ہے اس کی چاچی گڑبڑا سی گئی اور منصور خان پر جیسے منوں اوس پڑ گئی۔ سال بھر پہلے بھی وہ آیا تھا تو اندیشہ خالہ کے گھر گئی ہوئی تھی۔ تب بھی وہ زیادہ دن نہیں رک سکا تھا اور اب بھی اس کے پاس کل تین دن تھے۔ اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔
واپس کب آ رہی ہے؟ اس نے بے چینی سے سوال کیا۔
معلوم نہیں زَویا۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔ ابھی چند دن ہوئے گئی ہے۔ چاچی نے بے یقینی کے ساتھ لیکن سوچتے ہوئے جواب دیا۔ اس کی خالہ بیمار تھی تو اس نے بلا بھیجا تھا۔ تمہیں تو پتہ ہے زَویا کہ وہ بے چاری بے اولاد ہے۔ چاچی نے اندیشہ کے جانے کا جواز پیش کیا۔
اس نے تذبذب کی سی کیفیت میں چاچی کی طرف دیکھا۔
چلو آؤ۔۔۔۔ سارے دن کے سفر سے تم تھک گئے ہو گے۔۔۔۔ جلدی سے منہ ہاتھ دھو لو میں تمہارے لئے گرم گرم چائے بناتی ہوں۔ ابھی عشاء کی نماز کے بعد تمہارے کاکا جی بھی آ جائیں گے۔ چاچی نے گڑبڑاتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر اندر کمرے کی طرف دھکیلا۔
چائے پیتے ہوئے وہ عجیب سی کشمکش میں مبتلا رہا۔ سارے دن کی تکان اور اوپر سے اندیشہ کی غیر موجودگی اور اس پر مستزاد چاچی کا سمجھ میں نہ آنے والا رویہ۔۔۔۔ اس کے سر میں درد شروع ہو گیا۔ چائے کے دوران اس نے محسوس کیا کہ چاچی اس سے پہلو تہی کر رہی تھی ورنہ وہ تو جب بھی آتا چاچی گھنٹوں اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کے گھر اور شہر کی باتیں کرتی۔ اس کی ماں اور چاچی آپس میں بہترین سہیلیاں تھیں۔
وہ چائے پی کر وہی چارپائی پر دراز ہو گیا۔ سارے دن کی تھکاوٹ نے کام دکھایا اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ لیکن وہ گھنٹہ بھر سے زیادہ نہ سو سکا کہ کاکا جی نے اسے جگا دیا تھا۔
بیٹے کھانا کھا لو پھر سو جانا ویسے بھی مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ امین گل نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے ایک ہی سانس میں اور ایسے لہجے میں کہا جیسے انہیں کہیں جانے کی جلدی ہو۔
جی کاکا جی۔۔۔۔۔ منصور خان نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے تابعداری سے کہا اور ساتھ کھڑی چاچی کے ہاتھ سے گرم پانی کا لوٹا لے کر جو وہ اسی کے لئے لائی تھی، منہ ہاتھ دھونے کے لئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
کھانے کے دوران کاکا جی زیادہ تراس کی روزمرہ کی مصروفیات سے متعلق باتیں کرتے رہے لیکن چاچی خلاف معمول خاموش رہی۔ خود منصور خان اس دوران اندر ہی اندر ایک نامعلوم خوف کا شکار رہا اور بھوک کے با وجود پیٹ بھر کر کھانا نہ کھا سکا۔ کھانے کے اختتام پر کاکا جی نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی جس میں ان دونوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور جب سامان سمیٹنے کے بعد چاچی چائے بنانے کے لئے باورچی خانے میں چلی گئی تو کاکا جی نے گفتگو کا آغاز کیا۔
منصور خان تمھیں گھر آتے ہوئے راستے میں کوئی واقف کار تو نہیں ملا؟
نہیں کاکا جی میں تو مغرب کے بعد پہنچا اس وقت تک اندھیرا ہو چکا تھا۔ کم از کم میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے کاکا جی کی طرف دیکھا۔
اور تم حجرے کی طرف سے آئے ہو نا؟ کاکا جی نے فوراً دوسرا سوال کر دیا۔
جی۔۔۔۔۔ منصور خان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔
حجرے میں کوئی تھا؟
جی نہیں۔۔۔۔۔ اس کا جواب سنتے ہی کاکا جی نے دونوں ہاتھ دعائیہ انداز میں اوپر اٹھائے اور بلند آوازسے کہا ’شکر ہے اللہ پاک تیرا اور پھر منصور خان کا سر تھام کر اسے والہانہ انداز میں چوم لیا۔ اللہ تمہیں لمبی زندگی دے بیٹے۔۔۔۔۔‘ کاکا جی نے اسے دعا دی۔
کاکا جی کیا بات ہے؟ منصور خان سے زیادہ صبر نہ ہو سکا۔
کاکا جی نے ایک لمحہ غور سے اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کے بولے۔ بتاتا ہوں بیٹے۔۔۔۔ سب کچھ بتاتا ہوں اور ایک ٹھنڈی سانس بھری۔
منصور خان بیٹے! تمہیں تو معلوم ہے کہ میری ہمدردیاں طالبان کے ساتھ شروع ہی سے تھیں۔ کاکا جی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بات شروع کی اور اس نے اثبات میں محض سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
کبھی کبھی میں ان کی تھوڑی بہت مالی امداد بھی کر دیا کرتا تھا۔ ان کے ساتھ میرے ہمیشہ سے بہت اچھے تعلقات رہے۔ لیکن بیٹے ابھی پچھلے چند سالوں سے ان کے رویوں میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں اور اس کی وجہ نئے لوگوں کی طالبان میں شمولیت ہے۔ پرانے کمانڈر جن کے ساتھ میرے برسوں سے بھائیوں جیسے تعلقات تھے ان میں اکثر تو شہید ہو چکے ہیں اور جو زندہ ہیں وہ دوبئی اور سعودیہ یا مغربی ممالک میں آباد ہو چکے ہیں۔ نئے کمانڈر جنگ کے دوران پیدا ہوئے اور اسی میں پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ ان کا گذر بسریہی جنگ و جدل ہے۔ اکثر کے سامنے کوئی واضع منزل نہیں۔ ان لوگوں میں عزت و احترام والے وہ طور طریقے نہیں جو ان سے پہلے والے طالبان میں تھے۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو طالبان لگتے ہی نہیں بلکہ وادی سوات کے حالیہ واقعات کے دوران ہندو طالبان کی لاشوں کے سامنے آنے کے بعد تو اکثر لوگ ان کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ ان کے رکھ رکھاؤ طالبان جیسے ہیں لیکن مجھے اور میری عمر کے لوگوں کو یہ پرائے پرائے سے لگتے ہیں لیکن کوئی سوال کرنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ گولی چلانے سے دریغ نہیں کرتے۔ انسان کی کوئی وقعت نہیں ان کے سامنے۔ منصور خان بڑے غور سے کاکا جی کی باتیں سن رہا تھا۔
اب یہ لوگ طالبان کم اور بدمعاش زیادہ ہیں۔ بہت سالوں پہلے طالبان کو ضرورت پڑتی تو میں خود ہی کبھی کبھی اپنا حجرہ ان لوگوں کو دے دیا کرتا تھا لیکن بیٹے اب یہ حجرہ مستقل طور پر انہی کے استعمال میں ہے اور یہ سب کچھ زبردستی کا ہے اور اکثر روپے پیسہ مانگنے میں بھی شرم نہیں کرتے۔ اب ان کی خواتین بھی ہمارے گھر آنے سے دریغ نہیں کرتیں۔
کاکا جی نے ایک لمحہ توقف کیا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ گویا ہوئے۔
منصور خان بیٹے! حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہم ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان لوگوں کو میری مصروفیات کا نہ صرف پوری طرح سے علم ہے بلکہ مجھ پر پوری نظر ہے۔ بس یوں سمجھ لو کہ ہم لوگ اپنے ہی گھر میں ان کے قیدی ہیں۔
منصور خان کا پیمانہ صبر اب تک لبریز ہو چکا تھا چچا کے اس آخری جملے پر ایک دم سے بھڑک اٹھا۔
کاکا جی! پھراس بات کا کوئی حل ہونا چاہیے آپ کب تک ان جاہلوں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ منصور خان کو اپنے کاکا جی کی بے بسی کا پوری طرح سے احساس تھا اسی لیئے اس کا جوان خون جوش مار رہا تھا۔
ہاں بیٹے اس مسئلے کا حل ہے جو میں نے اپنے دو ست دلاور کے ساتھ مل کر اور بڑی سوچ بچار کے بعد نکالا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان ہجرت کر جائیں۔ کاکا جی نے جیسے اس کے دل کی بات کہہ دی۔
تو پھر دیر کس بات کی ہے کاکا جی، یہ کام تو آپ کو بہت پہلے کر دینا چاہئے تھا۔ اس کے لہجے میں خوشی عیاں تھی۔
ہاں بیٹے یہ کام مجھے سالوں پہلے کر لینا چاہیئے تھا جب میرا باپ برابر بھائی میری منتیں کرتا تھا۔ بھائی کو یاد کر کے کاکا جی کی آنکھیں بھر آئیں۔
بس کاکا جی آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ اب آپ کا ارادہ بن چکا ہے تو انشاء اللہ آپ لوگ ضرور پاکستان نقل مکانی کر لیں گے۔ منصور خان نے کاکا جی کا ہاتھ گرم جوشی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے ان کی ہمت بندھائی۔ اس کی چاچی جو ابھی ابھی چائے لے کر آئی تھی خاوند کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر خود بھی رو پڑی۔
میرے بس ایک دو کام رہتے ہیں جو نمٹانے ضروری ہیں۔ ایک مرتبہ ہم لوگ یہاں سے نکل گئے تو اللہ جانے کبھی واپس بھی آ سکیں گے کہ نہیں لیکن بیٹے۔۔۔۔ کاکا جی کو اچانک جیسے کچھ یاد آ گیا ہو، اس وقت سب سے زیادہ اہم کام تم نے کرنا ہے۔ کاکا جی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑے رازدارانہ انداز میں کہا تو منصور خان چونکا۔
آپ حکم کریں کاکا جی۔۔ وہ پوری طرح سے ان کی طرف متوجہ تھا۔
حکم نہیں بیٹے درخواست ہے اور وہ یہ کہ تم صبح فجرسے پہلے یہاں سے نکل جاؤ۔ کاکا جی نے لجاجت بھرے لہجے میں کہا تو منصور خان نے حیرت سے پہلے چچا اور پھر چاچی کو دیکھا اور ابھی اس نے کچھ کہنے کے لیئے منہ کھولا ہی تھا کہ کاکا جی نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے منع کر دیا۔
میں بتاتا ہوں بیٹے۔۔۔ طالبان کا جو گروہ ہمارے حجرے پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے وہ ہمارے بارے میں صرف اتنا جانتا ہے کہ میرا ایک بھائی تھا پشاور میں جو مر چکا ہے اور اس کے بیوی بچوں کا مجھے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں کیونکہ بھائی کے مرنے کے بعد میں ان کے ساتھ تعلقات منقطع کر چکا ہوں۔ اور بیٹے ان کو یہ بات باور کرانے کے لیئے مجھے بہت وقت لگا اور یہ سب کچھ میں نے تمھاری اور بھابھی کی حفاظت کے لیئے کیا ہے ورنہ یہ لوگ پشاور میں بھی ایسے ہی دندناتے پھرتے ہیں جیسے یہاں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ابھی کسی کو تمھارے آنے کی اطلاع نہیں ہے اسی لیئے تمھارا صبح اندھیرے میں نکل جانا مناسب ہو گا کیونکہ یہ لوگ کل شام تک واپس آ جائیں گے اور پھر ہمارے لیئے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ کاکا جی نے جیسے ایک ہی سانس میں ساری بات کہہ ڈالی۔
جی کاکا جی۔۔۔۔۔ جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ منصور خان نے پوری بات سمجھتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ لیکن کاکا جی آپ کب آئیں گے؟ اس نے فوراً سوال بھی کر دیا۔
ہمیں دس پندرہ دن بھی لگ سکتے ہیں اور ایک مہینہ بھی۔ میرا کام تو ختم ہو جائے گا بس موقعے کی بات ہے جونہی موقع ملا ہم لوگ نکل جائیں گے اور ہاں۔۔۔۔ صبح کی اذان ساڑھے پانچ بجے ہوتی ہے اور کابل جانے والی واحد بس پانچ بجے نکلتی ہے جس میں زیادہ لوگ نہیں ہوتے۔ میں تمھیں چار بجے جگادوں گا۔ کاکا جی نے بات ختم کر کے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ منصور خان کے لیئے ایک پکول اور پٹو نکال لے۔
بیٹے! اس حلیے میں تو تم خالص پاکستانی لگتے ہو۔ کاکا جی نے منصور خان کی طرف دیکھتے ہوئے بات جاری رکھی۔ پکول اور پٹو میں تمہارے کپڑے اور کوٹ چھپ جائیں گے۔ ویسے بھی صبح سردی بہت ہوتی ہے تم آسانی سے سر پر پٹو ڈال کر آدھے سے زیادہ چہرہ بھی چھپا سکتے ہو۔
جی اچھا۔۔۔ منصور خان نے ہاں میں ہاں ملائی۔
کاکا جی نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی اور اٹھ کھڑے ہو گئے۔ نو بجنے والے ہیں میں باہر کا ایک جائزہ لے کر آتا ہوں۔ منصور خان بیٹے! اچھا ہو گا کہ تم ابھی سے سو جاؤ کہ کل کا پھر لمبا سفر ہے۔
جی کا کاجی ۔۔۔۔ اس نے تابعداری سے کہا۔
میرے واپس آنے تک چاچی سے گپ لگاؤ، یہ کہہ کر کاکا جی کمرے سے باہر نکل گئے۔
چاچی! یہاں تو ایک سال میں دنیا ہی بدل گئی ہے۔ آپ نے تو کبھی فون پر بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا۔ اکیلے ہوتے ہی اس نے چاچی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اور نہ ہی اندیشہ نے کبھی بات کی۔ اس کا لہجہ شکایتی تھا۔
تمھارے کاکا نے بڑی سختی سے ہم دونوں کو منع کر رکھا تھا۔ وہ تم ماں بیٹا کو اس پریشانی سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ چاچی نے جلدی سے صفائی پیش کی۔ لیکن بیٹے! اب اچھی بات یہ ہے کہ تمھارے کاکا یہاں سے جانے اور پاکستان میں آباد ہونے پر راضی ہو گئے ہیں جس پر میں بہت خوش ہوں۔
اور اندیشہ۔۔۔۔؟ اس نے فوراً سوال کیا۔
ہاں۔۔۔ ہاں کیوں نہیں۔ وہ بھی خوش ہے۔ اندیشہ کے ذکر پر چاچی ایک مرتبہ پھر گڑبڑا سی گئی۔
چاچی سچ بتائیں اندیشہ ٹھیک تو ہے نا۔۔۔۔؟ منصور خان کو جیسے کوئی شک سا ہو گیا تھا۔
ہاں بیٹا۔۔۔ اللہ کا شکر ہے وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ چاچی نے پورے یقین کے ساتھ کہا تو وہ خاموش تو ہو گیا لیکن اس کا دل مطمئن نہیں تھا۔
اوہ۔۔ ہاں۔۔۔ تمھاری ماں کا ٹیلیفون آیا تھا۔ چاچی کو اچانک یاد آیا۔
کب۔۔۔ کب۔۔۔ مجھے تو یاد ہی نہیں رہا کہ امی کو یہاں پہنچنے کی اطلاع دیتا۔ وہ پریشان سا ہو گیا۔
میں نے بتا دیا تھا کہ تم چائے پیتے ہی سو گئے تھے۔ چاچی نے اسے تسلی دی تو اسے قدرے اطمینان ہوا۔
جب وہ سونے کے لیئے بستر پر دراز ہوا تو اندیشہ کے علاوہ اس کے ذہن میں اور کوئی الجھن نہیں تھی۔ آج وہ خلاف معمول اس کمرے میں نہیں تھا جہاں وہ ہمیشہ ٹھہرتا تھا اور جو اندیشہ نے صرف اس کے لیئے سجایا ہوا تھا۔ آج کاکا جی نے چاچی سے کہہ کر اس کے لئے تحویل خانہ میں بستر لگوا لیا تھا اور ایسا انھوں نے اس کی حفاظت کے پیش نظر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرف کسی کی توجہ نہیں جائے گی۔ یہ کمرہ رہائشی کمروں کی رو سے ہٹ کر ذرا فاصلے پر اور ایک کونے میں تھا۔ یوں تو گھر کا فالتو سامان ہی اس میں رکھا تھا لیکن قرینے سے۔ چاچی نے اس کے لیئے پانی وغیرہ بھی رکھ دیا تھا۔
وہ کافی دیر تک الجھا الجھا سا کروٹیں بدلتا رہا۔ گزرے چند گھنٹوں کے دوران سامنے آنے والے حالات و واقعات نے اسے ذہنی خلجان میں مبتلا رکھا حالانکہ دن بھر کے سفر کی تھکاوٹ سے چور بدن آرام چاہتا تھا۔ بڑی سعی کے بعد وہ ذہن کو آنے والے سہانے دنوں کے خواب دکھانے میں کامیاب ہو گیا اور سو گیا اس بات سے بے خبر کہ وہ زندگی کے ایک انتہائی نازک موڑ پر کھڑا تھا۔
اچانک اس کی آنکھ کھلی اور وہ ہڑ بڑا کر بستر پر اکڑوں بیٹھ گیا۔ کلائی کی گھڑی کے روشن ہندسوں کو دیکھا تو رات کے ایک بجے کے بعد کا عمل تھا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے جاگ کیوں آئی کہ دروازے کے کواڑ بجے اور اس کا دل زور سے دھڑکا۔ وہ ایک ہی جست میں بستر سے نیچے اتر آیا اور دبے پاؤں دروازے کی طرف بڑھا۔ پورے چاند کی روشنی چھن چھن کر دروازے کے روزن سے اندر آ رہی تھی اور اس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ باہر کوئی کھڑا تھا اور دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کاکا جی کی ہدایت کے مطابق اس نے دروازے کا کنڈا اندر سے لگایا ہوا تھا۔ اس نے روزن سے آنکھ لگا کر باہر دیکھنے کی کوشش کی اور عین اسی لمحے کسی نے روزن کے ساتھ منہ لگا کر دبی دبی آواز میں اس کا نام پکارا۔
منصور۔۔۔۔! اور وہ چونک اٹھا۔ یہ آواز۔۔۔۔ اندیشہ۔۔۔۔! اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور یہ کہتے ہوئے اس نے دروازہ کھول دیا۔ چاندنی میں نہائی اندیشہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے اندر آنے میں دیر نہیں کی۔ منصور نے جلدی سے کنڈا بھی لگا دیا اور پھر کتنی ہی دیر تک وہ خاموش گلے سے لگے وہیں کھڑے رہے۔ منصور کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اندیشہ رو رہی تھی۔
مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب ہماری ملاقات جنت میں ہو گی۔ اندیشہ نے رندھی ہوئی آواز میں خاموشی توڑی تو منصور چونک اٹھا۔
کیوں۔۔۔۔ ایسا کیوں سوچا تم نے؟
بات ہی کچھ ایسی ہے۔۔۔۔ اندیشہ نے اسے بھینچتے ہوئے کہا۔
چلو آؤ۔۔۔ سردی ہے۔ منصور نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اسے بستر کی طرف دھکیلا۔
تم اپنے کمرے میں کیوں نہیں گئے۔۔۔ یہاں تحویل خانے میں کیوں ہو۔۔۔؟
کاکا جی نے ایسا کیا ہے۔ انھوں نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے کہ تم لوگ کس قدر مشکل حالات سے گزر رہے ہو۔ لیکن انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بس تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ منصور نے پر امید لہجے میں کہا۔
انشاءاللہ۔۔۔۔ اندیشہ کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔
اب ان کی آنکھیں کمرے کے اکلوتے روشن دان اور دروازے کے روزن سے اندر آنے والی دودھیا چاندنی میں دیکھنے کی عادی ہو چکی تھیں اور وہ دونوں ایک دوسرے کو وارفتگی سے دیکھ رہے تھے۔
تمہیں کس نے بتایا کہ میں تحویل خانے میں ہوں؟ منصور نے پوچھا۔
مجھے نغمہ نے میسیج کر کے بتایا تھا۔ جب تم آئے تو ابئی یہیں تھی ماں نے تمہارا بستر ابئی کے ساتھ مل کر لگایا تھا۔ جب وہ گھر گئی تو اس نے نغمہ کو بتا دیا اور نغمہ تو میری سہیلی ہے اس نے جلدی سے مجھے بتا دیا۔ اندیشہ نے اسے پوری تفصیل سنا دی۔
اوہ اچھا۔۔۔ تو تم لوگ پھر راستے ہی میں ہو گے جب نغمہ نے تمہیں میسیج بھیجا۔ منصور خان جیسے سب کچھ سمجھتے ہوئے بولا
یہ بتاؤ کہ کاکا جی نے تمہیں کیا بتایا ہے؟ اندیشہ کے انداز میں تجسس تھا۔
یہی کہ کیسے طالبان نے حجرے پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے اور تم سب کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور یہ کہ اب تم لوگ جلد ہی پشاور چلے آؤ گے۔ منصور خان نے کاکا جی سے ہونے والی بات چیت اس کے گوش گزار کر دی۔
اور میرے بارے میں کیا بتایا؟ اندیشہ نے پھر سوال کیا
تمھارا تو مجھے چاچی نے بتا دیا تھا کہ تم اپنی خالہ کے ہاں قندھار میں تھیں۔ تم ابھی وہیں سے آئی ہو نا۔۔۔۔؟ منصور کو اندیشہ کے ذکر پر چاچی کا رویّہ یاد آ گیا۔
اندیشہ نے نفی میں سر ہلایا تو جیسے اس کا صبر جواب دے گیا۔
کیا مطلب اندیشہ! کہاں تھیں تم۔۔۔۔۔؟ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ چاچی مجھ سے کچھ چھپا رہی تھیں۔ منصور نے حیرت اور خفگی کا بیک وقت اظہار کیا
اچھا بتاتی ہوں لیکن تم صبر کے ساتھ میری بات سنو گے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ اور منصور نے اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے سر ہلا دیا۔
میں خالہ کے گھر نہیں گئی تھی بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مولئی صیب سے ملنے ان کے گاؤں گئی تھی اس نے ایک لمحہ توقف کیا۔
میں۔۔۔۔ طالبان کے ساتھ مل چکی ہوں۔ اندیشہ نے جیسے ایک دھماکہ کیا اور منصور خان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اور۔۔۔ اندیشہ نے بات جاری رکھی، میں نے انتہاری کی ٹریننگ مکمل کر لی ہے۔
کیا بک رہی ہو تم۔۔۔ منصور جیسے پھٹ پڑا اور اندیشہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔۔ آ۔۔۔۔۔ ہستہ بولو کوئی جاگ نہ جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے منصور کے گلے میں باہیں ڈال کر اس کے گال پر اپنا گال رکھ دیا۔ آئی لو یو۔۔۔۔ اس نے منصور کے کان میں اسی کے رٹائے ہوئے جملے کی سرگوشی کی۔
ہٹو۔۔۔ اور میرے ساتھ سیدھی طرح سے بات کرو۔ منصور خان نے اسے اپنے سے الگ کرنے کی کوشش کی لیکن اندیشہ کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی تھی۔۔ آئی لو یو۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔ اندیشہ نے اسی طرح سر گوشی کرتے ہوئے تکرار کی۔
اندیشہ! میں تمہاری اس بات کا جواب تب تک نہیں دے سکتاجب تک تو مجھے اصل بات بتا نہیں دیتی۔ منصور خان نے دو ٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے اسے اپنے سے الگ کرنے کی کوشش کی تو وہ آرام سے الگ ہو گئی لیکن اب وہ رو رہی تھی۔ منصور خان کی سمجھ میں اور کچھ نہیں آیا تو اس نے اندیشہ کو کھینچ کر دوبارہ گلے سے لگا لیا۔
آئی لو یو منصور۔۔۔ اندیشہ اب باقاعدہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔
آئی لو یو ٹو۔۔۔۔ وہ جیسے موم کی طرح پگھل گیا۔
مجھے معاف کر دینا منصور۔۔۔ میں اس عارضی دنیا میں تمہاری نہیں ہو سکی لیکن جنّت میں ہم ہمیشہ کے لیئے اکٹھے ہوں گے۔ اندیشہ نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا تو منصور خان نے ایک جھٹکے اسے الگ کر دیا۔
اوکے۔۔۔ اوکے۔۔۔ بہت ہو چکا۔ اب مجھے سچ سچ بتاؤ کہ کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔ وہ ایکدم سے چارپائی سے نیچے اتر گیا لیکن پھر اسی تیزی کے ساتھ چارپائی پر واپس آ کر دراز ہو گیا اور اندیشہ اس کے پہلو میں گھس کر سکڑ سی گئی۔ منصور نے جلدی سے کمبل اوپر کھینچ لیا۔ انہیں کاکا جی کے کھانسنے کی آواز آئی تھی۔ وہ دونوں سانسیں روکے پڑے رہے۔ ان کے دل بری طرح سے دھڑک رہے تھے۔
کاکا جی دروازے کے قریب آئے اور اسے اندر کی طرف دھکیلا لیکن دروازہ بند پا کر یقیناً ان کی تسلّی ہو گئی تھی کیونکہ وہ فوراً ہی واپس چلے گئے تھے۔
دونوں تھوڑی دیر تک یونہی خاموش پڑے رہے لیکن یہ خاموشی منصور خان کے لئے جہاں تکلیف دہ تھی وہی سرور انگیز بھی تھی۔ پہلو سے چپکی اندیشہ کے نرم سینوں کا زیر و بم اور اس کی گرم گرم سانسیں منصور خان کی گردن سے ٹکرا کر اس کے تن بدن میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر رہے تھے۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس پر اک نشہ سا طاری ہو رہا ہو اور وہ آہستہ آہستہ کہیں گہرائی میں اتر رہا ہو لیکن منصور خان بڑے مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ وہ ایکدم سے لاحول پڑھتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اندیشہ بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس کے کندھے پر سر ٹکا دیا۔
ہم صبح فجر کی نماز کے بعد کابل جا رہے ہیں۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اندیشہ بولی۔ کل میں نے شہادت کا درجہ پانا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
میرا خیال ہے کہ اب مجھے خود ہی کاکا جی کے پاس جانا چاہیئے۔۔۔۔ کہتے ہوئے منصور خان نے دوبارہ چارپائی سے اترنے کی کوشش کی تو اندیشہ نے اسے بازو سے پکڑ کر روک لیا۔ ایسی غلطی کی تو ہم سب مارے جائیں گے، میں، تم ماں اور بابا جی۔ اس کے لہجے میں خوف صاف عیاں تھا۔
لگتا ہے تم پوری طرح سے برین واشڈ ہو چکی ہو۔ منصور خان جیسے بے بسی سے بولا۔
وہ کیا ہوتا ہے۔۔۔ بران وش؟ اندیشہ کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
نیور مائنڈ۔۔۔۔ منصور خان نے جھلّاتے ہوئے کہا۔
یہ تم کیا کرنے جا رہی ہو اندیشہ۔۔۔۔ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے؟ اب اس کا لہجہ نرم تھا۔
ہاں منصور مجھے پتہ ہے میں کیا کر رہی ہوں۔ پہلے مجھے بھی یہ سب غلط لگتا تھالیکن مولئی صیب نے ہمیں قرآن اور حدیث کے ذریعے یہ ثابت کر کے دکھایا ہے کہ یہ حق کا راستہ ہے اور بڑے خوش نصیبوں کو ایسے موقعے ملتے ہیں۔ ہمیں اپنے دینِ مامدی کی حفاظت کا پورا پورا حق ہے بلکہ ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن مسلمان دنیاوی عیاشیوں میں اس قدر غرق ہے کہ اسے آخرت کی کوئی فکر نہیں۔
کون مولوی صاحب۔۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں لکھا قرآن اور حدیث میں۔ خود کشی حرام ہے چاہے وجہ کوئی بھی ہو۔ منصور خان کو غصّہ آ گیا۔ نہ صرف تم خود کشی کرو گی بلکہ بے گناہ اور معصوم لوگوں کا قتل بھی کرو گی اور ایسے لوگوں کے لیئے کوئی جنت ونت نہیں بلکہ ایسے لوگوں کے لیئے کوئی معافی بھی نہیں۔
سب سے پہلے تو ہم نے کسی بے گناہ کو نہیں مارنا لیکن اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو وہ بے گناہ بڑا خوش نصیب ہو گا کہ اسے مفت میں جنت مل جائے گی۔ اندیشہ کے لہجے میں اعتماد تھا۔ منصور! زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر کوئی دھماکے میں مرتا ہے تو اللہ نے اس کی موت ایسی ہی لکھی ہو گی۔
منصور خان حیرت سے اندیشہ کو گھور رہا تھا۔ اندیشہ اسے کوئی اجنبی لگ رہی تھی۔ ایک ان پڑھ لڑکی کے منہ سے ایسی باتیں نکلنا نہ صرف عجیب تھا بلکہ خطرناک بھی تھا کہ اسے ان باتوں کی نزاکت کا اندازہ نہیں تھا۔ سال بھر میں اندیشہ کی کایا ہی پلٹ گئی تھی اور وہ مکمل طور پر طالبان کے جال میں پھنس چکی تھی جو اس کی نظر میں طالبان ہو ہی نہیں سکتے تھے کہ مسلمان کے دل میں خوف خدا ہوتا ہے۔ اسے کاکا جی کی بات یاد آ گئی کہ سوات میں طالبان کے بہروپ میں ہندوؤں کی لاشیں سامنے آئی تھیں۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ان حالات سے کیسے نبرد آزما ہو۔
چلو تم میرے ساتھ یہاں سے نکل چلو۔ ہم شام تک انشاء اللہ پشاور پہنچ جائیں گے۔ منصور خان کو جیسے کوئی حل سوجھا۔
منصور! اس وقت حجرے کے ایک کمرے میں تین طالبان اور دوسرے میں ترور جان سو رہی ہے۔ صبح وہ مجھے نہیں پائیں گے تو ماں اور بابا جی کو تو اسی وقت قتل کر دیں گے اور پھر ہمارے پشاور پہنچنے سے پہلے ہمیں بھی ختم کر دیں گے۔ ان کے لوگ ہر طرف موجود ہیں۔
لیکن میں تمہیں بے گناہ لوگوں کے قتل کی اجازت نہیں دے سکتا چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ منصور خان کا لہجہ سخت اور فیصلہ کن تھا۔
اللہ نہ کرے کہ تمہیں کچھ ہو منصور! اندیشہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ہمارا ہدف کوئی بہت بڑا قاتل ہے جس نے سیکڑوں بے گناہوں کو شہید کیا ہے اور مجھے یہ کام ہر صورت میں کرنا ہے ورنہ وہ مزید لوگوں کا قتل کرے گا۔ اندیشہ نے دلیل پیش کی۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ مجھے ابھی نہا کر نفل بھی پڑھنے ہیں اور ابھی ایک گھنٹے میں بابا جی بھی تمہیں جگانے آ جائیں گے۔ اندیشہ نے منصور کی بات کا انتظار کیئے بغیر اپنی بات جاری رکھی۔ میں تمہیں ایک چیز دکھانا چاہتی ہوں۔ یہ کہہ کر اندیشہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
منصور خان کی بے بسی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ایک ان پڑھ لڑکی اس کے لیئے ناقابل حل معمہ بن گئی تھی۔ اندیشہ کو اس نے ہر صورت میں اس انتہائی خوفناک اقدام سے باز رکھنا تھا لیکن کیسے۔۔۔۔۔؟ یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ خدا نخواستہ اگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بھی اس گھناؤنے جرم میں اس کا شریک ہو گا کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ اسے روک نہ سکا۔ منصور خان بے چینی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ اس کے تصور میں پشاور میں ہونے والے اس خود کش دھماکے کا منظر ابھر آیا جب اس نے معصوم اور بے گناہ انسانوں کے چیتھڑے چاروں طرف بکھرے دیکھے تھے اور وہ خود اپنے باپ کی ٹکڑوں میں بٹی لاش کیسے بھول سکتا تھا جو اس کے دل و دماغ میں چپک کر رہ گئی تھی۔ اس کی بے قراری بڑھنے لگی۔ اس کو احساس ہی نہ ہوا کہ اندیشہ کب کمرے سے باہر گئی اور کب واپس آئی۔ اسے ہوش تب آیا جب اندیشہ نے اسے بازو سے پکڑ کر چارپائی پر بٹھایا۔ چارپائی پر بیٹھتے ہی اس نے خالی خالی نظروں سے اندیشہ کی طرف دیکھا تو جیسے اس کے ہوش اڑ گئے اور وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ اندیشہ اس کے سامنے بارود سے لدھی واسکٹ پہنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ منصور خان نے کچھ کہنے کے لیئے ہاتھ اٹھایا لیکن آواز اس کے حلق میں اٹک کر رہ گئی۔
گھبراؤ مت۔۔۔ یہ آن نہیں ہے۔ اندیشہ اس کا خوف بھانپ گئی اور پھر اس کے رد عمل کا انتظار کیئے بغیر اسے واسکٹ کو آن کرنے اور ایک عام سے موبائل فون کا بطور ریموٹ کنٹرول استعمال کرنے کا طریقہ بتانے لگی۔ اس نے اس قدر مختصر انداز میں نہایت اہم نکات بیان کیئے کہ منصور خان اس کی معلومات پر نہ صرف حیرت زدہ تھا بلکہ متاثر بھی لگ رہا تھا اور چند لمحوں کے لیئے وہ حالات کی نزاکت بھول گیا تھا۔ اندیشہ کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کوئی انتہائی تجربہ کار واسکٹ بنانے والی ہو اور پھر جب اس نے منصور خان کو بتایا کہ وہ کئی واسکٹوں کے بنانے میں مدد بھی کر چکی ہے تو وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ جس جوش اور جذبہ کے ساتھ اندیشہ نے بارودی واسکٹ کی تفصیل بتائی اس سے یہ بات آشکارا ہو چکی تھی کہ اسے اس کام سے باز رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ میں کیا کروں اور اندیشہ کو کیسے باور کراؤں کہ یہ کام اجتماعی قتل ہے جو لاتعداد گھر برباد کر دے گا۔ عورتیں بیوہ ہو جائیں گی اور خدا جانے کتنے بچے یتیم ہو جائیں گے۔ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔
منصور! باتیں کرو نا۔۔۔۔ میرے پاس وقت کم ہے۔ اندیشہ اس کے پہلو میں بیٹھی تو وہ جیسے گہری نیند سے جاگ اٹھا۔ اس نے سر اٹھا کر اندیشہ کی طرف دیکھا جو ہلکی ہلکی روشنی میں اس کے چہرے کو گھور رہی تھی۔
اندیشہ! ہمارے پاس اب بھی وقت ہے۔ چلو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اور تمھارے ماں باپ کو لے کر نکل جاتے ہیں۔ اس کے لہجے میں التجا تھی۔
منصور! یہ لوگ ابھی ملا بانگ پر اٹھ جائیں گے جس میں زیادہ وقت نہیں ہے۔ ان کو میری غیر موجودگی کا اسی وقت پتہ چل جائے گا اور ہم کابل پہنچنے سے پہلے ہی پکڑے جائیں گے اور اسی وقت مارے جائیں گے۔ تمہیں کچھ اندازہ نہیں کہ ان لوگوں کے رابطے کس کس سے اور کہاں کہاں تک ہیں۔ اندیشہ نے دلیل پیش کی اور منصور خان بس اسے تکتا رہ گیا۔
منصور! مولئی صیب نے کہا ہے کہ میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ میرا منگیتر یا جسے بھی میں دل و جان سے پیار کرتی ہوں وہ بھی جنت میں میرے ساتھ ہو گا، انشاء اللہ۔ ہماری یہ جدائی عارضی ہے۔ مرنا تو ایک دن سب نے ہوتا ہے۔ میں جنت میں تمھارا انتظار کروں گی۔ اندیشہ بولے جا رہی تھی اور منصور خان خالی خالی نظروں سے اسے تکے جا رہا تھا۔ اندیشہ کے منہ سے نکلتے الفاظ اس کے کانوں سے ٹکرا تو رہے تھے لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہے تھے وہ نم ہو چکا تھا۔ وہ چونکا اس وقت جب اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور خوف کے مارے اندیشہ اس سے لپٹ گئی تھی۔ چند لمحوں کے لیئے وہ کچھ نہ سمجھ سکا لیکن پھر جب دوبارہ دستک ہوئی تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ جی کاکا جی۔۔۔۔ میں جاگ رہا ہوں۔ اس نے وہی کھڑے کھڑے کہا تو کاکا جی ’ٹھیک ہے‘ کہہ کر واپس چلے گئے۔ کاکا جی کے قدموں کی چاپ دور ہوئی تو اندیشہ باہیں پھیلا کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اس نے اندیشہ کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیئے دیکھا اور پھر اسے کندھوں سے پکڑ کر گھما دیا۔ اندیشہ کی کمر اس کی طرف ہوئی تو اس نے احتیاط کے ساتھ اس کی واسکٹ اتار کر اسے چارپائی پر رکھ دیا۔ اندیشہ وارفتگی سے اس سے لپٹ گئی۔ منصور خان نے بھی اسے باہوں میں بھر لیا تھا۔ دونوں میں چند لمحوں کی خاموشی رہی لیکن اندیشہ کے ساتھ ساتھ اب منصور کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
آئی لو یو منصور۔۔۔۔ اندیشہ کی آواز تھرا رہی تھی۔
آئی لو یو ٹو۔۔۔ آئی لو یو ٹو۔۔۔۔ منصور نے اسے خوب بھینچ لیا۔ پھر اچانک اندیشہ نے اس کے ہونٹوں کو چوما اور اس سے الگ ہو کر واسکٹ اٹھائی اور بغیر کچھ کہے تیزی کے ساتھ دروازے سے باہر نکل گئی۔ منصور خان وہی کھڑا ادھ کھلے دروازے کے باہر اندھیروں کو گھورتے رہ گیا۔
جب وہ گھر کے بڑے کمرے میں پہنچا تو اس کی چچی اس کے لیئے ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ کاکا جی بھی قریب ہی چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی خاموشی سے جا کر چچا کے قریب چارپائی پر بیٹھ گیا۔
آرام سے سو گئے تھے؟ کاکا جی نے پوچھا
جی کاکا جی۔ اس نے مختصر جواب دیا۔
اسے بھوک قطعی نہیں تھی لیکن ناشتہ تو بہرحال اسے کرنا ہی تھا لہٰذا جتنی دیر وہ ناشتہ کرتا رہا، کاکا جی اسے سمجھاتے رہے کہ کیسے اپنی شناخت کو چھپانے کے لیئے اسے سب سے الگ تھلگ بس کی آخری سیٹوں پر بیٹھنا ہو گا اور کیسے خولے اور پٹو میں اپنا آدھے سے زیادہ چہرہ چھپانا ہو گا وغیرہ وغیرہ جو اس نے کچھ سنا اور کچھ نہ سنا کہ اس کا ذہن اندیشہ ہی میں الجھا ہوا تھا۔
کاکا جی اور چچی نے اسے دروازے پر ہی رخصت کیا۔ باہر گھپ اندھیرا اور خاموشی تھی۔ بسوں کا اڈا چند منٹوں کے فاصلے پر تھا۔ دروازے سے نکل کر وہ بائیں طرف مڑا اور گھر کی بیرونی دیوار جو گاؤں کی اکلوتی پکی سڑک کے کنارے پر واقع تھی کے سائے میں چلنے لگا۔ چند قدموں کے بعد حجرے کی حدود شروع ہو گئی۔ دیوار کافی اونچی تھی لیکن اسے احساس تھا کہ دیوار کی دوسری جانب اس کا پیار اندیشہ اپنے طالبان ساتھیوں کے ساتھ موجود تھی۔ حجرے کے اختتام پر ایک کھلا اور وسیع میدان شروع ہو جاتا تھا۔ اسی میدان کی جانب حجرے کے تینوں کمرے اور کچن تھا۔ حجرے کا بیرونی دروازہ بھی اسی میدان سے تھا۔ اسی مقام سے اس نے سڑک پار کی اور قدموں کی رفتار تیز کر دی۔۔ بسوں کے اڈے کے قریب پہنچ کر وہ ذرا فاصلے پر رک گیا۔ کاکا جی کی ہدایت کے مطابق اس نے اڈے کے اندر جانے سے اجتناب کیا کہ مبادا کوئی اسے پہچان نہ لے۔ اسے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اور شاید چار پانچ منٹوں ہی میں اس نے دور سے بس کو اڈے سے نکلتے دیکھ لیا۔ پھر جتنی دیر میں اس نے اپنا پٹو صحیح کیا بس اس کے قریب پہنچ کر رک چکی تھی۔ وہ جلدی سے بس میں سوار ہوا اور دروازے کے سامنے ہی سیٹوں کی آخری رو چھوڑ کر اگلی والی رو میں کھڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔ بس روانہ ہوئی تو اس نے قریب کھڑے کنڈیکٹر کے ہاتھ میں پیسے پکڑا دیئے جو وہ پہلے ہی سے مٹھی میں دبائے ہوئے تھا۔ کنڈیکٹر نے کرایہ لیا اور آگے جا کر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس نے ایک طائرانہ نظر بس میں ڈالی تو دس بارہ لوگ ہی تھے جو زیادہ تر اگلی سیٹوں پر ہی براجمان تھے۔ اس کے آگے کی تین روز مکمل طور پر خالی تھیں۔ منصور خان نے سردی کے باوجود کھڑکی کھول دی تھی کہ اس کا بدن جل رہا تھا۔ اور پھر جب بس اس کے چچا کے گھر کے آگے سے گزری تو اس نے حجرے کے اندر جھانکنے کی کوشش کی لیکن دیوار کی اونچائی مانع آئی۔ گھر کے گزرتے ہی وہ سیٹ پر سمبھل کر بیٹھ گیا۔ اسے احساس ہوا کہ اس کا ما ھا پسینے سے بھیگ چکا تھا۔ پٹو سے پسینہ صاف کرتے ہوئے اس نے بس میں بیٹھے مسافروں پر ایک نظر ڈالی۔ سردی کی وجہ سے سبھی اپنے اپنے پٹوؤں میں کانوں تک لپٹے ہوئے تھے۔ اس وقت بس پہاڑی سلسلے کی طرف جانے کے لیئے پہلا موڑ کاٹ رہی تھی بس عین اسی لمحے ایک زور دار دھماکے نے خاموشی کا سینہ چیرا اور بس چند فیٹ تک پھسلتی چلی گئی لیکن رکی نہیں۔ سب مسافروں نے سیٹوں سے اٹھ اٹھ کر باہر کچھ دیکھنے کی کوشش کی لیکن اندھیرے اور گھروں کی اونچی دیواروں کی وجہ سے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ چند موڑ کاٹنے کے بعد بس ذرا اونچائی پر پہنچی تو نیچے گاؤں میں دھماکے سے متاثرہ مقام واضع ہو گیا۔ اس کے کاکا جی کے حجرے سے آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ مسافروں نے ایک دوسرے کے ساتھ روایتی انداز میں افسوس کا اظہار کیا۔ اگلا موڑ آیا تو گاؤں کا منظر اوجھل ہو گیا تھا۔ اسی موڑ پر منصور خان نے اپنا دایاں ہاتھ جیب سے نکالا اور کھڑکی سے باہر نکال کر ریموٹ کنٹرول گہری کھائی میں اچھال دیا تھا اور اپنا چہرہ پٹو میں چھپا لیا تھا۔
٭٭٭
انار گلی
ٹیکسی باغِ بالا کی سڑکوں پر اس کی خواہش کے مطابق ہلکی رفتار سے رواں دواں تھی۔ جاتی روشنی اور بڑھتے اندھیروں کے اس سنگھم پرسٹریٹ لائٹس کے امتزاج نے فضا میں ایک عجیب سی اداسی گھول دی تھی۔ ہوا میں خنکی تھی۔ اس نے کھڑکی کا شیشہ آدھے سے زیادہ نیچے کیا ہوا تھا۔ تیز ہوا سے اس کا آنچل سر سے ڈھلک گیا تھا اور اس کا خوبصورت سرخ و سفید چہرہ ہوا کے تھپیڑوں سے قندھاری انار بن گیا تھا۔
ارمغان۔۔۔۔۔۔۔ شیشہ بند کر دو سردی لگ جائے گی۔ اس نے چونک کر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ کی طرف دیکھا لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ یہ اس کی بچپن کی عادت تھی کہ گاڑی میں بیٹھتے ہی کھڑکی کا شیشہ نیچے کر دیتی تھی اور اگلی سیٹ پر بیٹھی اس کی ماں ہمیشہ اسے ٹوک دیتی تھی لیکن باپ کبھی کچھ نہ کہتا بلکہ ڈرائیو کرتے ہوئے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیتا۔ اسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بہت اچھے لگتے تھے۔ وہ آج پندرہ برس کے بعد اپنے وطن اور اپنے آبائی شہر کابل آئی تھی اور وہ اس فضا اور اس ہوا کو پوری طرح سے اپنے اندر سمو لینا چاہتی تھی۔
اس کی نظریں اطراف کا جائزہ لے رہی تھیں لیکن اسے یہ کابل کا وہ والا پوش علاقہ کسی صورت نہیں لگ رہا تھا جو اس نے بچپن میں دیکھا تھا۔ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ روسیوں کے جانے کے بعد کابل شہر اقتدار اور دولت کے ہوس کاروں کے درمیان کھیل کا میدان بن گیا تھا۔ یوں تو افغانستان صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں اجڑتا چلا آ رہا تھا لیکن کابل خود اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں برباد ہوا۔ افغان اپنی ناخواندگی اور سادہ لوئی کے باعث اقتدار کے حصول کے لیئے آپس میں نبرد آزما لیڈروں کے ہاتھوں میں چابی کا کھلونا بن گئے۔ جو پڑھے لکھے تھے وہ سرحدیں پار کر گئے۔ کوئی اِس گروہ میں شامل ہو گیا اور کسی نے اٌس گروہ کے ساتھ اتحاد کر لیا اور کچھ بآسانی چند ٹکوں میں بک گئے۔ یوں ٹولیوں میں بٹے تو آسانی سے گاجر مولیوں کی طرح آپس ہی میں کٹ گئے۔ رہی سہی کسر طالبان نے پوری کر دی۔ طالبان اور ان کے درپردہ بربریت کی حدوں کو تجاوز کرنے والے راء کے آلہ کار مقامی ہندوؤں نے کابل کی نہ صرف اینٹ سے اینٹ بجا دی بلکہ مقامی آبادی کی عزت و عصمت کو بے دردی سے روندا۔ ممبئی میں اس کا ایک ہندو کلائنٹ تھا جو جنگجو کتے پالتا تھا اس نے اپنے کتوں کے نام اس دور کے جانے پہچانے افغانی راہنماؤں کے ناموں پر رکھے ہوئے تھے۔
بھائی یہ تو بڑا خوبصورت علاقہ تھا اور انتہائی خوبصورت مکانات اور بازار اور پارک وغیرہ ہوتے تھے کیا ہوا یہاں؟ اس سے پوچھے بنا رہا نہ گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور کی عمر کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے اندازہ تھا کہ اسے وہ سب کچھ یاد ہو گا۔
بی بی آپ لگتا ہے بہت زمانے بعد اس طرف آئی ہیں۔ ڈرائیور نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ یہ علاقہ تو طالبان کے آتے ہی اجڑ گیا تھا۔ معلوم نہیں آپ کو یاد ہے کہ نہیں لیکن یہاں کابل کے بڑے بڑے مشہور ہندو اور سکھ بیوپاری اور عطّاری رہتے تھے جن کی زیورات، خشک میوہ جات وغیرہ کی بڑی بڑی دکانیں تھیں۔ یہ سب لوگ طالبان کے آتے ہی ہند کی طرف بھاگ گئے تھے۔ ان میں سے صرف وہی لوگ اب واپس آ چکے ہیں جن کی بہت سی جائدادیں تھیں۔
اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری، ڈرائیور بیچارا کیا جانے کہ میں بھی اسی دور کی بربادی کا حصہ ہوں۔ اس نے دکھ کے ساتھ سوچا۔ طالبان کی آمد پر اس کے والدین کتنے خوش تھے بلکہ سارے کابل میں ایک جشن کا سا سما تھا۔ لوگوں نے دل اور گھروں کے دروازے کھول کر طالبان کا استقبال کیا تھا اس حقیقت سے بے خبر کہ طالبان کے روپ میں راء کے بھیڑیئے بھی ان کے گھروں میں در آئیں گے۔ دکھ کی بات یہ تھی کہ راء کے ہندو ایجنٹ مقامی آبادی کا حصّہ تھے اور گذشتہ کئی دہائیوں سے کابل کی روزمرہ زندگی کا اہم سماجی اور معاشی پہلو تھے۔ ان کا کاروباری لین دین اور دوستیاں بلا امتیاز مذہب و فرقہ ہر ایک سے تھیں۔ اس کی کلاس میں دو ہندو لڑکیاں تھیں جن میں سے ایک اس کی بہترین دوست تھی اور ان کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا۔ اسے وہ منحوس دن گزرے کل کی طرح یاد تھا جب شام کے وقت اچانک ان کی گلی میں شور اٹھا تھا کہ طالبان آ گئے ہیں۔ تب تک طالبان کے ھاتھوں وقوع پذیر ہونے والے چند ناخوشگوار واقعات لوگوں تک پہنچ چکے تھے اور لوگ ان کی طرف سے بدگمانی کا شکار ہو چکے تھے۔ گھر میں صرف وہ اور اس کی ماں تھی۔ اس کی ماں نے گھر کا بیرونی دروازہ محفوظ کر لیا تھا اور اسے لے کر ایک کمرے میں بند ہو گئ تھی لیکن طالبان اوپر کی منزل سے آئے اور کمرے کا دروازہ توڑ کر اسے اس کی ماں کی باہوں سے چھین کر لے گئے تھے۔ کسی نے اس کے منہ پر کپڑا رکھا اور پھر اسے ہوش نہ رہا۔ اس کے بعد کے چند دن اس پر قیامت بن کر ٹوٹے۔ وہ روتی پیٹتی رہی، چیختی چلاتی رہی اور طالبان کے بہروپ میں ہندو اسے بھنبھوڑتے رہے اور اس کا دامنِ عصمت تار تار کرتے رہے۔ وہی پر اس پر یہ بھی آشکار ہو چکا تھا کہ وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ ان لوگوں نے کئی معصوموں کو اغوا کر رکھا تھا اور وہ سب مختلف مقامات پر ایسی ہی درندگی کا شکار ہو رہی تھیں۔ اسے یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ مقامی ہندوؤں کا ایک بڑا گروہ طالبان کے روپ میں کابل شہر میں مصروف عمل تھا۔ اور پھر ایک دن اسے نیند کا انجکشن دے کر سلا دیا گیا اور جب وہ ہوش و حواس میں واپس آئی تو وہ ممبئی شہر پہنچ چکی تھی۔ یہ اسے بہت بعد میں معلوم ہوا تھا کہ وہ اور لاتعداد دوسری لڑکیاں بیہوشی کی حالت میں افغانی قالینوں میں لپیٹ کر سمگل کی گئیں تھیں۔ سرحدیں عبور کرتے ہوئے قالینوں کی قیمت کے مطابق رشوتیں دی گئیں۔ نقل مکانی کا یہ لمبا سفر چند لڑکیوں کے لیئے آخری ثابت ہوا اور وہ دم گھٹنے سے چل بسیں۔
ممبئی میں اس کی زندگی کا وہ دور شروع ہوا جس کا تصّور بھی اس کے لیئے محال تھا۔ اس کی کم عمری اور بلاخیزحسن کے پیش نظر اسے ہائی سوسائٹی کی کال گرل بنا دیا گیا اور یہی اس پر کھلا کہ کابل شہر سے اٹھنے والی پندرہ برس کی وہ اکیلی لڑکی نہیں تھی جواس پیشے میں جھونک دی گئی تھی بلکہ سات آٹھ برس سے لے کر پچیس چھبیس برس کی بے شمار لڑکیاں اور شادی شدہ عورتیں تک شامل تھیں جو ہائی سوسائٹی کی کال گرلز سے لے کر ایشیا کے سب سے بڑے چکلوں ممبئی اور کولکتہ کے مشہورِ زمانہ کماٹھی پورہ اور سوناگاچی کی زینت بن چکی تھیں۔ پھر لگ بھگ دو برس کے بعد ان کی تعداد میں اس وقت خاطر خواہ اضافہ ہوا جب مزارِ شریف سے اغوا شدہ لڑکیوں کی تازہ کھیپ مارکیٹ پہنچا دی گئی۔
وہ سالہا سال تک ممبئی شہر اور اکثر و بیشتر خاص اسائنمنٹ پر شہر سے باہر بھی بڑے بڑے شرفاء اور زعماء کی خدمت میں مصروف رہی۔ یہاں تک کہ اسے بیرونی ممالک سے آئے ہوئے وی آئی پیز کے دل بہلاوے کے لیئے بھی بھیجا جاتا تھا جن میں مسلمانوں کی زیادہ تعداد ہوتی تھی۔ اس کی نقل و حرکت پر ہمیشہ کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور کوئی ایک فرد سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا تھا۔ چند سالوں میں جب وہ پوری طرح سے جوان ہو گئی تو پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی قدر و قیمت مزید بڑھ گئی اور وہ بھڑووں اور دلالوں کے لیئے ایک ایسا چلتا پھرتا بنک بن گئی جس میں سے جب جی کرتا پیسے کیش کرا لیئے جاتے۔ گاہکوں نے اسے اور دَلّوں نے دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ جب جب جی کرتا تو بھڑوے بھی گھٹیا شراب پی کر اسے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے۔
ٹیکسی کے اچانک رکنے سے وہ چونک اٹھی۔ وہ اپنے مطلوبہ ہوٹل کی حدود میں تھی۔ کمرے میں پہنچ کر اس میں دم نہیں تھا۔ پشاور سے کابل تک بس کا سفر طویل اور تھکا دینے والا تھا۔ بستر پر نیم دراز ہوئی تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھ لگ گئی اور جب آنکھ کھلی تو صبح کے تین بج رہے تھے۔ اس کی نیند شاید سردی کی وجہ سے ٹوٹی تھی۔ اس نے کمبل اوپر کھینچا اور کروٹ بدل کر پھر سو گئی لیکن اب گھنٹہ بھر سے زیادہ نہ سو سکی کہ نیند بھی پوری ہو چکی تھی اور اسے زوروں کی بھوک بھی لگی ہوئی تھی لیکن رات کے اس پہر میں ہوٹل میں کھانے کی کسی چیز کے مہیا ہونے کی اسے امید نہیں تھی۔ وہ یونہی بستر میں پڑی سوچتی رہی اور کروٹیں بدلتی رہی۔ اسے اپنے ہی شہر میں اجنبی ہونے کا احساس عجیب بھی لگ رہا تھا اور رلا بھی رہا تھا۔
ممبئی میں کئی برس تک کال گرل کے طور پر کام کرتے ہوئے جب ایک دن اچانک اسے ہائی سوسائٹی کی کال گرل سے کماتھی پورہ کے بدنام زمانہ چکلے میں پھینک دیا گیا تو وہیں اس کی ملاقات اپنے ہی محلے کی میمونہ سے ہو گئی تھی جس سے اسے اپنے والدین کی وفات کا پتہ چل گیا تھا۔ بقول میمونہ اس کی ماں کو تو اسی دن مزاحمت کے دوران مار دیا گیا تھا۔ اس کا باپ بعد میں اس کی تلاش میں سرگرداں طالبان سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔ اس دن وہ بے تحاشا روئی تھی۔
آج وہ اسی شہر میں جہاں وہ پیدا ہوئی اور اپنی زندگی کے پندرہ خوبصورت برس گزارے تھے ایک اجنبی مسافر کی طرح تنہا ہوٹل میں پڑی ہوئی تھی اگر وہ چاہتی تو اس کے کئی جاننے والے اور رشتہ دار کابل میں رہتے تھے وہ انھیں ڈھونڈ نکالتی لیکن اب تو وہ چاہتے ہوئے بھی کسی جان پہچان والے کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ ہوٹل میں چیک ان کرتے ہوئے بھی اس نے اپنی اصلیت ظاہر نہیں کی اور اپنے آپ کو ہندستانی بتاتے ہوئے ہندی زبان کا سہارا لیا تھا اور اپنا نام بھی انار جان بتایا تھا۔
یہ نام انار بھی کماتھی پورہ کی دین تھا۔ اپنی سرخ و سفید رنگت کی وجہ سے وہ بہت جلد پہلے قندھاری انار اور پھر صرف انار کے نام سے مشہور ہو گئی تھی اور سال بھر میں کماتھی پورہ کی بدنام زمانہ گلیوں میں سے وہ گلی جس میں وہ ‘پیشہ’ کرتی تھی ‘انارگلی’ کے نام سے جانی جانے لگی تھی۔ انسان ذِلّت کی اس پستی تک گر سکتا ہے اس کا اندازہ اسے کماتھی پورہ پہنچ کر تھوڑے عرصے میں ہو گیا تھا۔ غلاظت اور گندگی کے اس ڈھیر میں بہت ممکن تھا کہ وہ اپنی جان لے لیتی اگر اس کی جان پہچان کریم سے نہ ہوتی۔ کریم جو ایک صحافی تھا اور ھندوستان کے چکلوں میں افغانستان سے اغوا ہو کر لائی جانے والی لڑکیوں کی کھوج میں اس تک پہنچ گیا تھا۔
اور یہ کریم ہی تھا جس کی شرافت اور ہمدردی نے اسے بھاگنے کی تحریک دی تھی اور جس کے لیئے اس نے کریم ہی سے مدد مانگی تھی۔ کریم تو اس خیال ہی سے لرز اٹھا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کماتھی پورہ کے پیچھے دلالوں کا ایک بڑا طاقتور مافیا تھا جس کی پشت پناہی قوم کے نیتا کرتے تھے لیکن وہ ایک حساس اور دردمند انسان تھا۔ کچھ عرصے میں اس نے ایک ایسے شخص کو ڈھونڈ نکالا تھا جو ایک کثیر رقم کے عوض اسے نہ صرف اس ذلّت سے نکال سکتا تھا بلکہ اس کی خواہش کے مطابق اسے سرحد پار کرنے میں بھی مدد دے سکتا تھا۔ کال گرل کے طور پر کام کرتے ہوئے بخشش میں ملنے والی خاصی رقم اس نے پس انداز کر رکھی تھی جو اس نے انتہائی مشکلوں کے ساتھ دلالوں سے چھپا رکھی تھی۔
ایڈز کو قابو میں رکھنے کے لیئے ہر پیشہ کرنے والی کا قانون کے مطابق مہینے میں ایک مرتبہ بلڈ ٹیسٹ ہوتا تھا۔ ’ایچ آئی وی‘ پازیٹیو ہوتا بھی تو کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلتا۔ اکثر و بیشتر یہ سب کچھ کاغذی کاروائی تک محدود تھا۔ پیشہ کرنے والی کو مار پیٹ کر زبردستی اسی جہنم میں دوبارہ جھونک دیا جاتا تھا۔ بس یہی ایک راستہ تھا جو اسے آزادی سے ہمکنار کر سکتا تھا۔ اور پھر ایک دن جب وہ بلڈ ٹیسٹ کے لیئے کلینک گئی تو واپس نہیں گئی تھی۔ جان جوکھوں کا کام تھا لیکن کریم کے دوست مستری نے بھی بڑی ہوشیاری کے ساتھ اسے اس دلدل سے نکال لیا تھا۔ وہ پورا ایک مہینہ شہر سے باہر کریم کے ایک دوست کے گھر میں رہی کہ کماتھی پورہ کے دَلّوں کا مافیا شکاری کتوں کی طرح اس کی تلاش میں تھا۔ پھرجس دن مستری اسے ممبئی سے نکال کر سرحد پار کروانے کے لیئے آیا تو اسے کریم کی موت کی اندوہناک خبر سنائی۔ مستری کے مطابق اس کی موت موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اس دن وہ ایسے روئی تھی جیسے اس کا اپنا بھائی مر گیا ہو۔
اس کے خیالات کا تانا بانا اچانک کسی وجہ سے ٹوٹا تو ہلکی ہلکی روشنی پھیل چکی تھی۔ ناشتہ اس نے کمرے ہی میں منگوالیا تھا۔ اخبار مانگا تو ایک دن پرانا اخبار ملا لیکن اس کے لیئے کارآمد ثابت ہوا۔ اخبار دو زبانوں پشتو اور دَری میں تھا جن سے وہ بخوبی واقف تو تھی لیکن سالوں کے بعد پڑھنے میں اسے دقت محسوس ہوئی۔ چند ہی صفحات تھے جو اس نے ناشتے کے دوران سرسری طور پر دیکھ لیئے تھے لیکن جب وہ اخبار ایک طرف رکھ رہی تھی تو اس کی نظر اچانک ایک اشتہار پر پڑ گئی تو اس نے اخبار دوبارہ اٹھا لیا اور اشتہار کو غور سے پڑھا۔ ’جڑی بوٹیوں کا آزمودہ علاج، ہر مرض سے شرطیہ نجات‘ لیکن اس کی توجہ کا مرکز اس سے نیچے لکھی لائن تھی ’نامور عطار۔ سریش کمار‘۔ اس نے دوکان کا پتہ اور اوقات کار پر ایک نظر ڈالی اور پھر چائے کا کپ اٹھا کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا دی۔ جس مقصد کے لیئے وہ کابل آئی تھی اس کے اس قدر جلد پورے ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے یہ اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔
ٹیکسی ڈرائیور کابل شہر سے بخوبی واقف تھا۔ وہ اسے دوا خانے کے عین سامنے لے آیا۔ اس نے وقت دیکھا تو دوا خانے کے بند ہونے میں صرف پندرہ منٹ باقی تھے اور یہی وہ چاہتی بھی تھی۔ ٹیکسی رخصت کرنے کے بعد اس نے آس پاس نظر دوڑائی۔ شام ہونے میں تھوڑا وقت تھا اور سڑک سے ذرا ہٹ کر واقع اس بڑے بازار میں خاصی چہل پہل تھی۔ دوکانیں بھی خوب روشن اور سجی سجائی ہوئی تھیں ٹیکسی ڈرائیور نے بالکل صحیح کہا تھا کہ یہ آج کے کابل کا خاصا پوش علاقہ تھا۔
وہ دوا خانے کے اندر داخل ہوئی تو کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے شخص کو پہچاننے میں اسے زیادہ دقت نہ ہوئی۔ اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر اسی شخص نے اسے پردے کے پیچھے چلے جانے کا اشارہ کیا کہ اس کے سامنے ایک مریض بیٹھا ہوا تھا۔ انتظار گاہ صاف ستھری اور کشادہ تھی۔ چند کرسیاں اور ایک معائنے کی لمبی ٹیبل سے آراستہ یہ دوا خانے سے زیادہ کسی ڈاکٹر کا کلینک لگ رہا تھا۔ اس نے غور کیا تو عطار اور مریض پشتو میں گفتگو کر رہے تھے۔
عطار چند منٹوں میں مریض کو رخصت کر کے انتظار گاہ میں آیا۔ وہ اس کے ساتھ بڑے اخلاق سے ملا اور اس سے آنے کی وجہ پوچھی۔
مجھے کچھ عرصہ سے بے ہوشی کے دورے پڑ رہے ہیں جو ڈاکٹروں کی سمجھ سے باہر ہیں۔ ارمغان نے چہرے پر نقاب درست کرتے ہوئے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاتھوں میں بہت شفا ہے۔ بات پوری کرتے ہوئے اس نے اپنے سینے پر سے شال یوں گرائی جیسے بے خیالی میں کیا ہو۔ قمیص کے کشادہ گلے میں سے اس کے بدن کا کندن جیسے چھلک پڑا اور اس نے عطار کی آنکھوں میں ہوس کی چمک صاف دیکھ لی۔
مجھے اپنا ہاتھ دکھائیے۔ عطار نے اس کے قریب آتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کر دیا۔ وہ اس کے بائیں طرف کھڑا تھا دایاں ہاتھ آگے بڑھانے سے قمیص کا گلا مزید وا ہو گیا اور عطار کے لیئے نظارہ اور بھی واضح ہو گیا۔ اس نے اپنی انگلیاں اس کی نبض پر رکھیں اور چند لمحوں تک بظاہر کلائی کی گھڑی کو دیکھتا رہا لیکن ارمغان جو سارا وقت جان بوجھ کر نظریں دروازے پر لٹکے پردے کے اس پار دیکھنے میں مصروف رہیں اس کی نظروں کی گرمی اپنے کھلے گریبان کے اندر محسوس کرتی رہی۔
آپ کا یہ دورہ کتنی دیر تک رہتا ہے۔ عطار نے اس کی کلائی چھوڑتے ہوئے سوال کیا۔
میں کم از کم بیس منٹ تک بے ہوشی کے عالم میں رہتی ہوں۔ ارمغان نے پہلے سے سوچا ہوا جواب دیا۔
پھر اس نے مزید چند سوالات کیئے جن کا تعلق اس کی بھوک، پیاس اور نیند وغیرہ سے تھا۔ مجھے آپ کا خون ٹیسٹ کرنا پڑے گا۔ ارمغان کے جوابات سننے کے بعد اس نے کہا تو اس نے اثبات میں محض سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
آپ یہاں ٹیبل پر آ جائیے۔ عطار نے کہا تو وہ اٹھ کر ٹیبل پر آ گئی۔ اب اس کی شال اس کے شانوں پر تھی اور اس کا بیٹھنے کا انداز ایسا تھا کہ کھلے گلے کی تنگ قمیض میں سے اس کے گورے سینے ابلے پڑ رہے تھے۔ پندرہ برس تک پیشہ کرتے ہوئے اس کا واسطہ ہر قماش کے مرد کے ساتھ پڑا تھا اور وہ مرد کی رگ رگ سے واقف ہو گئی تھی۔ عطار جو اس کے پہلو میں ٹیبل کے پاس کھڑا تھا جب اس کی انگلی اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اس میں سوئی چبھوئی تو اس نے ایک سسکی بھری اور عطار کا ہاتھ پکڑتے ہوئے جیسے اپنے آپ کو اس کے اوپر گرا دیا۔ عطار اگر اپنی جگہ پر جما نہ رہتا تو شاید وہ ٹیبل سے نیچے گر پڑتی۔ اچانک پڑنے والی اس افتاد سے پہلے تو عطار گڑبڑایا اور پھر جیسے اسے سمجھ پڑ گئی ہو کیونکہ اس نے بڑے آرام سے اسے ٹیبل پر لٹا دیا اور پہلے اس کی نقاب اتار کر اسے بھر پور نظروں سے دیکھا پھر اس کے گالوں پر ہلکی ہلکی تھپکیاں دے کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے بھی مارے لیکن اس پر بے ہوشی کا دورہ پڑ چکا تھا۔ اس بات کا یقین ہوتے ہی سب سے پہلے عطار نے باہر جا کر دوا خانے کا دروازہ لاک کیا اور لائٹ بند کر دی۔ پوری طرح سے اطمینان کر کے وہ انتظار گاہ میں واپس آیا اور اندر کی لائٹ بھی بند کر دی سوائے ایک کم روشنی والے بلب کے جو دوا خانے کی پچھلی دیوار کے پاس نسخے تیار کرنے والے کاؤنٹر کے اوپر تھا۔ اس کا ہاتھ پہلے اس کے گریبان کے اندراس کے سینے پر پڑا اور پھر اس نے اس کے پورے بدن کو ٹٹولا۔ ارمغان بے سدھ اور بے بس پڑی رہی اور اس کی توقع کے عین مطابق اس کی اسی بے بسی اور لاچاری نے عطار کی شہوت کو مہمیز دی جس کا اس نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔
عطار کو فارغ ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ اس نے فارغ ہوتے ہی سب سے پہلے اس کے کپڑے درست کیئے اور اس کی شال اس کے پورے بدن پر پھیلا دی۔ اس نے لائٹ جلائی اور خود نسخہ جات کے کاؤنٹر کے پیچھے چلا گیا۔ ارمغان نے چند منٹ کے انتظار کے بعد کسمسانا شروع کیا اور ایسی آوازیں نکالیں جیسے وہ ہوش میں آ رہی ہو۔ اس کا اندازہ صحیح ثابت ہوا اور عطار اس وقت تک انتظار گاہ میں واپس نہیں آیا جب تک وہ مکمل طور پر ہوش میں آ کر اور اٹھ کر بیٹھ نہیں گئی۔
اوہ شکر ہے آپ ہوش میں آ گئیں۔۔ انتظار گاہ میں داخل ہوتے ہی اس نے اطمینان کا اظہار کیا۔
میں معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو پریشان کیا۔ ارمغان نے گویا پشیمانی کا اظہار کیا۔
نہیں نہیں۔۔ آپ ایسا بالکل نہ سوچیں مجھے تو ویسے بھی آپ کے لیئے دوا تیار کرنا تھی جس پر اتنا وقت تو لگنا ہی تھا۔ عطار نے دو عدد کاغذ کے لفافے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے اسے دونوں دواؤں کا استعمال سمجھایا۔
اگلی صبح ٹیکسی تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھی۔ فجر کے فوراً بعد کا وقت تھا اور ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ ارمغان پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہاتھ میں پکڑے لفافے پر نظریں جمائے پرسکون لگ رہی تھی۔ ہوٹل سے اس نے فجر کے فوراً بعد چیک آؤٹ کر لیا تھا جس کی تیاری وہ رات کو سونے سے پہلے کر چکی تھی۔ چند اشیاء تھیں جو سمیٹ کر اس نے لمبی شاور لی تھی اور پھر سونے سے پہلے اس نے وہ خط لکھا جو اس وقت اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ بڑے عرصے کے بعد گہری اور پر سکون نیند سوئی تھی۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے لفافہ کھول کر تہہ کیا ہوا کاغذ نکالا اور ایک تنقیدی نظر اس کے متن پر ڈالی اور دل ہی دل میں مختصر سا پیغام پڑھا۔
‘‘سریش کمار! پندرہ سال پہلے جب طالبان نے مجھے میرے گھر سے اٹھایا تھا تو تمھارے نقاب کے پیچھے چھپے چہرے میں سے جھانکتی آنکھوں پر مجھے شک گزرا تھا لیکن میں نے یہ سوچ کر کہ تم تو میری بہترین دوست سندر کے بھائی ہو اور میرے بھائی جیسے ہو یہ خیال ذہن سے جھٹک دیا تھا لیکن تم ہی نے سب سے پہلے میری عزت لوٹ کر جیسے میرے اعتماد کے منہ پر طمانچہ مار دیا تھا۔ میں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ اگر زندہ رہی تو تم سے بدلہ ضرور لوں گی۔ آج میرے اللہ نے میری وہ آرزو پوری کر دی ہے۔ سریش کمار! ایچ آئی وی مبارک ہو جسے تم تک پہچانے کے لیئے میں نے خاص طور سے ممبئی سے کابل تک کا سفر کیا۔ میری بچپن کی دوست سندر کو میرا نمسکار ضرور دینا اور ہاں! مجھے کبھی بے ہوشی کا دورہ نہیں پڑا ’’
ارمغان ........................................................................................................................................................................................................................................................................................
اس نے کاغذ تہہ کر کے واپس لفافے میں ڈالا اور اسے بند کر دیا۔ ٹیکسی دوا خانے کے پاس رکی تو اس نے باہر نکل کر لفافہ دوا خانے کے دروازے کے نیچے سے اندر ڈال دیا اور پھر اس کے بیٹھتے ہی ٹیکسی تورخم جانے والی بسوں کے اڈے کی طرف روانہ ہو گئی۔ ارمغان نے سر سیٹ کی پشت پر ٹیک دیا۔ اس کے چہرے پر اطمینان بھرا سکون تھا۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید