حسن منزل
گاڑی علی پورکے سٹیشن سے روانہ ہوئی توایلی نے شدت سے محسوس کیاکہ وہ جارہاہے۔شہزادسے دورجارہاہے۔اس کے گورے چٹے ہاتھوں سے دور۔اس کے لٹکتے ہوئے بازوؤں سے دور۔ناؤسی ڈولتی آنکھوں اورماتھے کے تلک سے دور۔پھراسے ان رنگین اورشوخ عہدوپیمان کاخیال آیاجوانہوں نے شریف کے روبرولطیف کنایوں اوررنگین اشارات کی مددسے ایک دوسرے سے کئے تھے۔اس کے دل میں اضطراب کھولنے لگا۔
کیامیں ان رنگینیوںسے محروم ہوجاؤں گا؟
کھڑکی سے باہرشہزادمسکرارہی تھی---“کیافرق پڑتاہے۔“وہ ہنس رہی تھی۔”چارگھنٹے کافرق“وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگی۔
ایلی کے چہرے پرمسرت کی لہردوڑگئی۔
”میری ہے توپھرکیاغم!“اس نے سوچا۔پھراسے شہزادکی وہ بات یادآگئی جب ایلی نے اکیلے میں شہزادسے کہاتھا۔
”شہزاداگرمیں وہاں سے نہ آسکاتوپھرمیں تمہیں کیسے دیکھوں گا۔اتنی دیردیکھے بناکیسے رہوں گا۔“
یہ سن کروہ ہنس پڑی تھی۔
”اتنی دیرنہ رہنادیکھے بنااورکیا۔“
اوراس نے جواب میں کہاتھا:”اگررہناپڑے تو؟“
تووہ بے پروائی سے بولی تھی:”توکیاہوا۔تم نہ آسکوتومیں آجاؤں گی۔“
”تم آؤگی لاہور۔“ایلی نے حیرت سی شہزادکی طرف دیکھاتھا۔
”کیوں۔“شہزادہنس کربولی تھی۔”اس میں کیامشکل ہے۔ایک گاڑی سے آؤں گی۔اوردوسری سے لوٹ آؤں گی۔تم دیکھ لیناجی بھرکے۔“
کتنی جرات تھی اس میں۔
ریلوے سٹیشن سے وہ سیدھاکالج پہنچااورعلی احمدکی ہدایات کے مطابق دفترمیں داخلہ اورفیس اداکرنے کے بعدحسن منزل کی طرف چل پڑاتھا۔جہاں اسے رہنے کی جگہ ملی تھی۔
اس نے کوشش سے حسن منزل میں جگہ لی تھی کیونکہ ریوازہوسٹل میں رہناپسندنہ تھا۔غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ریوازہوسٹل سے گزشتہ کئی ایک تلخ یادیں وابستہ تھیںاوروہاں اب بھی گاؤں کے چودھری بھرے پڑے تھے۔وہی چودھری جن کے ساتھ گاؤں کے کمیں نوکرہوتے۔حقہ اورتمباکوکی تھیلیاں ہوتیں اورجوشلوارکی جگہ چادریں باندھے یوں بورڈنگ میں گھومتے پھرتے جیسے ریوازہوسٹل ان کے گاؤں کاکھیت ہووہ چلاچلاکربات کرتے۔بات بات پرکھنکارتے۔بورڈنگ کے نوکروں کوگالیاں دیتے۔دھمکاتے اورہرنئے لڑکے کوگھورتے۔
اسلامیہ کالج کے اب تین بورڈنگ تھے۔ریوازہوسٹل اوررحیم بلڈنگ توکالج کی عمارت کے پہلومیں واقع تھے اورحسن منزل کافی فاصلہ پرتھی۔کالج والے حسن منزل کے قریب کوپرروڈپرایک نیابورڈنگ بنوارہے تھے لیکن یہ نیاکریسنٹ ہوسٹل ابھی زیرتعمیرتھا
تانگے میں بیٹھے ہوئے ایلی غورسے لاہورکے ان علاقوں کودیکھتارہا۔جنوب کی طرف ایک وسیع میدان تھاجس میں جگہ جگہ پانی کھڑاتھا۔اس وسیع میدان میں دوایک مکانات زیرتعمیرتھے۔بیڈن روڈپرچندٹوٹے پھوٹے ویران سے مکانات تھے۔میکلوڈروڈویران سڑک تھی جس کے دونوں طرف کوئی عمارت نہ تھی۔
میکلوڈروڈ‘کوپرروڈاوربیڈن روڈکے وسیع ویرانے کے عین درمیان میں حسن منزل واقع تھی۔اس وسیع اورویران علاقے میں وہ واحددومنزلہ بلڈنگ تھی۔میکلوڈروڈپرآبادی کاکوئی نشان نہ تھا۔صرف ایک سڑک جسکے غربی حصے میں یہاں وہاں اکادکاعمارت کھڑی تھی۔کوپرروڈاوربیڈن روڈکاتمامترعلاقہ ویران تھاجہاں رات کے وقت گزرناآسان نہ تھاکیونکہ اس علاقے میں چوری اورڈکیتی کی واردات عام تھیں۔میکلوڈروڈپرصرف ایک سینماہال تھاجس کانام ایمپرس سینماتھااورجہاں زیادہ ترٹامی فلم دیکھتے تھے۔فلم کے دوران میں وہ ایک دوسرے کوگالیاں بکتے ۔مونگ پھلی کھاتے اورمتحرک مگرخاموش تصاویرمیں ہیروئن کی ٹانگیں دیکھ کرچمگادڑوں کی طرح چیخیں مارتے تھے۔
حسن منزل ایک بڑی دومنزلہ عمارت تھی جس کی نچلی منزل میں ایک ہوٹل تھااوراوپرکی منزل کالج نے کرایہ پرلے رکھی تھی۔اس منزل کے پچھواڑے میں ایک پراناتکیہ اوراکھاڑہ تھا۔منزل کے عین مقابل میں ایک پرانی کوٹھی جس میںایک پارسی بیچتاتھا۔اس کے گاہک زیادہ ترٹامی تھے جوڈھائی آنے میں ڈرافٹ بیئرکاگلاس خریدتے تھے۔اورایک گلاس سے دوبوتل کانشہ حاصل کرنے کے لئے شورمچاتے دنگاکرتے اورسیٹیاں بجاتے تھے۔
حسن منزل کی اوپرکی منزل کالج والوں نے اس لئے کرایہ پرلے رکھی تھی تاکہ بورڈروں کی بڑھتی ہوئی تعدادکوجگہ دی جاسکے۔غالباً کالج کے ناظموں کوبورڈروں میں صرف اس حدتک دلچسپی تھی کہ ان کی وجہ سے کالج کی آمدنی میں اضافہ ہورہاتھاورنہ حسن منزل کوکالج کے نوجوانوں کی رہائش کے لئے موزوں نہ رہاتھاکیونکہ اس کے گردبہت سے مکانات تعمیرہوچکے تھے۔ریوازہوسٹل کے مقابل کالج کے مشرقی سرے پرجوعمارت بورڈنگ کے طورپرخریدی گئی تھی اس کی کھڑکیوں سے توگردونواح کے تمام مکانات کے اندرونی حصے تک دکھائی دیتے تھے۔
حسن منزل کے جس کمرے میں ایلی کوجگہ ملی وہاں کل تین سیٹیں تھیں۔ایلی کے علاوہ وہاں دولڑکے تھے ایک کانام جمال اوردوسرے کاریاضت تھا۔ریاضت ایک دبلاپتلاطالب علم تھاجس کی ناک چونچ کی طرح نکلی ہوئی تھی اورجس کی آنکھیں روئی سی تھی۔جب وہ چلتاتھاتواس کاسراجسم جھولتاتھا۔اعضاءاکھڑے اکھڑے معلوم ہوتے تھے جیسے وقتی طورپرگزارہ کرنے کے لئے فٹ کئے بغیرجوڑدئیے گئے ہوں۔وہ خودبات کرنے سے گریزکرتاتھالیکن کوئی بات کرتاتواس کے کان کھڑے ہوجاتے بلکہ یوں محسوس ہوتاتھاجیسے اس کے کانوں کے اوپرکے حصے ذراساخم کھالیتے تھے تاکہ بات کاکوئی حصہ کان سے ٹکراکرباہر نہ نکل جائے ۔بات سنتے وقت اس کی آنکھیں دیکھ کرمحسوس ہوتاتھاکہ وہ بات کوقطعی طورپرنہیں سمجھ رہا۔اس کے چہرے پرغمی ،خوشی غصہ یاشرارت کااظہارنہیں ہوتاتھابلکہ دائمی طورپراس کے چہرے پرایک کیفیت گویاکندہ کردی گئی تھی جیسے کہہ رہاہو۔”معاف کیجئے بات سمجھ میں نہیں آئی“---بات کوسننے اورسمجھنے کے باوجوداس کے چہرے پرلاعلمی اوربے بسی کے ملے جلے جذبات طاری رہتے تھے۔جمال اونچے لمبے قدکاخوب صورت جوان تھا۔رنگ گوراتھابال سنہرے تھے آنکھیں بھوری اورخدوخال ستواں ہونے کے باوجودمردانہ قسم کے تھے۔اس کاجسم بھراہوااوراعضاءمیں ایک لچک تھی۔
جمال لائلپورکے کسی چک کارہنے والاتھا۔اس کی عادات دیہاتی رنگ لئے ہوئے تھیں۔مثلاً وہ تہہ بندباندھنے،ململ کاکرتہ پہننے اورپھربھرپورقہقہے لگانے میں خاص مسرت محسوس کیاکرتااوراسے جسم کھجانے کی عادت تھی۔
چارایک روزوہ تینوں ایک دوسرے سے جھجک محسوس کرتے رہے اورتکلف برتتے رہے لیکن جلدہی جمال ایلی سے کھل کرباتیں کرنے لگا۔جمال اورایلی دونوں کومعلوم ہوگیاکہ ریاضت کے ان سے گھل مل جانے کی توقع بے سودہے کیونکہ وہ اپنی طبیعت کی وجہ سے مجبورہے۔
کالج سے واپسی پرایلی اپنی چارپائی پربیٹھ جاتااورخیالات کی دنیامیں کھوجاتا۔کمرے کی مشرقی دیوارآہستہ آہستہ سرکتی۔ایک زینہ نمودارہوتا۔پھراس زینے سے دھماچوکڑی کی آوازآتی اورچھن چھنانن سے کوئی اس کے روبروآکھڑی ہوتی---
”چلو:وہ چائے پرانتظارکررہے ہیں۔“
ایلی چونک پڑتااورگھبراکراپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتا۔ریاضت چپ چاپ دیوارسے ٹیک لگائے ہاتھ میں کتاب لئے چھت کی طرف گھوررہاہوتا۔جمال اپنے کپڑوں کی تہہ کرکے سرہانے تلے جمانے میں شدت سے مصروف ہوتا۔ایلی سوچنے لگتاشایدانہوںنے شہزادکے قدموں کی آوازسن پائی ہو۔شایدوہ اس کے رازسے واقف ہوگئے ہوںشاید---
پھروہ اپنے احمقانہ خدشات پرہنس دیتا”میں بھی پاگل ہوں۔“وہ سوچتا۔اپنے دونوں ساتھیوں کواپنے آپ میں کھوئے ہوئے دیکھ کراسے خیال آتا۔نہ جانے ان دونوں پرکیابیت رہی ہے۔اس کمرے میں ہوتے ہوئے نہ جانے یہ کہاں کہا ں گھوم رہے ہیں۔بیچاروں کو اپنی پڑی ہے۔
ٹامی
ریاضت کوچھت کی طرف گھورتے ہوئے دیکھ کراسے شریف یادآجاتاتھاشایدریاضت بھی ایک شریف ہوجوکسی انورکے خیال میں اپنی سدھ بدھ کھوچکاہو۔نہ جانے اس پرکیاافتادپڑی ہے۔اس کے محلے والوں نے اس کے ساتھ کیاسلوک کیاہے کہ یہ شریف بن گیاہے۔جمال کوریشمیں رومال سے منہ پونچھتے ہوئے دیکھ کراس کی نگاہ تلے ریشمیں رومال سے گورے چٹے ہاتھ نکلتے۔مخروطی انگلیاں اس کے گالوں کوسہلاتیں لیکن جلدہی جمال کابھونڈاقہقہہ اسے چونکادیتا۔
”ارے یار۔“وہ ہنستے ہوئے کہتا:”مجھے اچھے رومال کی پہچان نہیں۔“
ایلی کی نگاہوں میں وہ رومال پھیلناشروع ہوجاتا۔اس میں سوراخ ہوجاتے اوران سوراخوں سے کیپ اورکپ اس کی طرف جھانکنے لگتے اورارجمندمسکراکرکہتا:
”ہاں ۔اس کھیل میں یہ چیزبے حدضروری ہے ۔اسے تھامے رکھو۔یوں گال سہلاؤ۔ہوامیں اڑدویوں۔مطلب ہواآناذراادھربھی مری جان کبھی کبھی۔“
اورپھرشہزادچھن سے ادھرآجاتی اورارجمندکپ کیپ سب ماندپڑجاتے۔وہ مسکراکراسے کہتی۔:”صرف ساٹھ میل کافرق ہے صرف ساٹھ میل کا۔“
رومال کومنہ پررکھ کرجمال انگڑائی لیتااورپھرتہہ بندکھجاتااوردوایک گرم گرم آہیں بھرکرباہربرآمدے میں نکل جاتا۔چندایک منٹ کے بعدوہاں سے وہ ایلی کوپکارتا:
”اندرکیاکررہے ہوتم۔بے کاربیٹھ رہتے ہویار!یہاں آؤ۔یہاں نیچے اتنے سارے ٹامی اکٹھے ہورہے ہیں۔سالوں نے پی رکھی ہے اوردیکھوتوکیاکیاحرکتیں کررہے ہیں۔“وہ قہقہہ مارکرہنستااورجوش میں مٹھی بھرکرکھجاتا۔تہہ بندجھاڑتااورگرم گرم آہیں بھرتا۔
”وہ دیکھوسامنے---ارے ارے وہ بھاگے بھاگے سب کے سب بھاگ رہے ہیں۔بھاگ کیوں رہے ہیں سالے۔اس موٹرسائیکل کودیکھ کرڈرگئے ہیں کیا۔کیوں ایلی۔یہ ٹامی موٹرسائیکل کودیکھ کربھاگتے کیوں ہیں؟“
”جب بھی موٹرسائیکل آتاہے۔یہ سب یوں بھاگ لیتے ہیں جیسے---اوریہ ہوٹل والادیکھاتم نے۔جویہ نچلی منزل میں ہوٹل ہے۔گاہک آتے کبھی دیکھانہیں کسی نے یہاں ویسے سالوں نے ہوٹل کھول رکھاہے اورپھریہ ہوٹل کامالک شام کے وقت برآمدے میں ٹہلتارہتاہے اوراندرہوٹل خالی پڑارہتاہے۔اچھاکاروبارہے یہ یارمیں ذراموٹرسائیکل دیکھ آ ؤں۔“
یہ کہہ کرجمال کھجاتاہوااورتہہ بندجھاڑتاہوانیچے اترجاتااور---پھرسیڑھوں سے شہزادنکل آتی۔
”چلاگیاوہ۔ایلی تم ہروقت اسے کیوں پاس کھڑاکرلیتے ہو۔خواہ مخواہ بھیڑلگالیتے ہو۔کوئی بات بھی نہیں کرسکتا۔“
ایلی چونک کردیکھتا۔
شہزادہنس کرغائب ہوجاتی اوروہ پھرسے اندرچارپائی پرجابیٹھتا۔
پھروہ کرسی پرآبیٹھتی اوراپنے کام میں مصروف ہوجاتی اورایلی محسوس کرتاجیسے وہ دوربیٹھی ہو۔بہت دور۔جیسے وہ قریب آکربہت دورہوگئی ہو۔ساٹھ میل قریب آکرچھ ہزارمیل چھ لاکھ میل دورہوگئی ہو۔
ابھی انہیں اکٹھے رہتے چنددن ہوئے تھے کہ جمال نے اپناپٹارہ کھول لیا۔وہ ایلی کے پاس آکررازدارانہ اندازسے کہنے لگا:۔
”ایلی کچھ کرناہی پڑے گاورنہ یہاں اپنی زندگی کیسے بسرہوگی۔دن کیسے کٹیں گے۔“
”زندگی!“ایلی کواس کی بات سن کرحیرت ہوئی۔“زندگی توگزررہی ہے۔“اس نے سوچا۔”زندگی گزرنے میں دقت کیسی؟نہ جانے جمال کیاکہہ رہاتھا۔
”یہاں کس مصیبت میں آپڑے ہیں؟“جمال نے ہاتھ بھرکرکھجاتے ہوئے کہا۔“ہردوسرے دن کے بعداس کاخط آجاتاہے اورپھرٹرنک کھولتاہوں توہرچیزسے اس کی یادیں وابستہ ہیں۔اس کاریشمی رومال ہے۔آزاربندہے۔اس کاایک دوپٹہ بھی میں اٹھالایاتھا۔زبردستی اٹھالایاتھا۔وہ چیختی رہی اے ہے میراڈوپٹہ کیوں لے جارہے ہومیرے پاس پہلے ہی کم ہیں۔لیکن میں اٹھالایااوراس کی سرمہ دانی غلطی سے آگئی۔آؤ تمہیں دکھاؤں۔“
وہ ایلی کواپنے صندوق کے پاس لے گیا۔
”یہ دیکھو۔“اس نے ریشمی رومال کھولتے ہوئے گہا:“اسے سونگھوناذرا۔کیسی بھینی بھینی خوشبوآتی ہے اوردیکھویہ اس کاکلپ ہے۔سالی کلپ پہنتی ہے۔گاؤںوالوں سے چوری چوری۔کوئی دیکھ لے تونہ جانے کیافتوے صادرکردے اس لئے سوتے وقت پہنتی ہے اورصبح اتارکررکھ دیتی ہے۔کہ کوئی دیکھ نہ لے اوریہ دیکھویہ اس کے خط ہیں۔ایک دوتین۔یہاں آئے ابھی دس دن نہیں ہوئے ہیں اوردس دنوں میں تین خط لکھے ہیں اس نے---ارے نہ نہ نہ----“ایلی کوخط کھولتے دیکھ کروہ چلایا---”نہ یارپڑھنانہیں۔یہ پرائیویٹ خط ہیں۔آج تک ایک دن کے لئے مجھ سے جدانہیں ہوئی تھی۔اب بیٹھی روتی ہے۔ہرخط میں لکھتی ہے کسی اورکے پاس نہ جانا۔بھلاپوچھو۔یہاں کوئی ہوتوجاؤں نا“اس نے شدت سے جسم کھجایااورپھرتہہ بندجھاڑنے لگا۔
”توبہ کتنی گرمی ہے۔“
ریاضت کے آنے پرجمال خاموش ہوگیااس نے ایلی کوخاموش رہنے کااشارہ کیااورٹرنک میں رکھی ہوئی چیزوں کوسنوارے لگا۔پھراس نے ایلی کے ہاتھ میں ایک تصویرتھمادی!
”یہ دیکھو۔“وہ زیرلب بولا۔“یہ اس کی تصویرہے۔سالی ہروقت ہنستی ہے۔ہروقت دانت نکالے رکھتی ہے۔“
وہ ایک عام سی جوان لڑکی تھی۔چہرہ گول تھاجس پردوبڑے بڑے ابھرے ہوئے رخسارتھے اوردوگول آنکھیں ۔ناک بیٹھی ہوئی تھی یاشایداس لئے کہ منہ گوشت سے بھراہواتھا۔ناک بیٹھی بیٹھی دکھائی دے رہی تھی۔ہونٹ موٹے تھے اورآنکھوں کے قریب یوں لکیریں پڑی ہوئی تھیں جن سے ظاہرہوتاتھاکہ جیسے وہ ابھی ہنس پڑے گی۔یاجیسے ہنسی ضبط کرکے بیٹھی ہواورضبط کادامن ہاتھ سے چھوٹاجارہاہو۔
”اچھی ہے؟“جمال نے پوچھا۔
”ہاں۔“ایلی نے تکلفاً کہا”اچھی ہے۔“
حالانکہ ایلی محسوس کررہاتھاجیسے وہ محض گوشت کاایک لوتھڑاہو۔جوانی اورصحت کے سواوہاں کچھ بھی نہیں تھا۔نہ جانے کیوںایلی کوبھرپورجوانی اوربھرے بھرے جسم سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔اسے کتابی چہروں سے لگاؤتھا۔ایسے چہروں سے جن پرگوشت نہ ہو۔آنکھیں کشتیوں کی طرف ڈولتی ہوں۔ہونٹ خم آلودہوں۔آنکھوں میں چمک ہو۔
”باہر چلو۔“جمال نے آہستہ سے کہا”یہاں بات نہ ہوسکے گی۔“اس نے ریاضت کی طرف اشارہ کیا۔“باہربرآمدے میں کھڑے ہوں گے۔آؤ۔“
برآمدے میں جاکراس نے ایک ہاتھ میں وہ تصویرپکڑلی اوردوسرے ہاتھ سے کھجانے لگا۔دیرتک وہ تصویرکوگھورتااورکھجاتارہا۔پھرجوش میں کہنے لگا:
”میرے بغیرچین نہیں پڑتااسے دومنٹ کے لئے بھی ادھرادھرہوجاؤں توڈھونڈتی پھرے گی جیسے کچھ کھوگیاہواورچاہے کہیں بیٹھاہوں آکرایسی شرارت کرے گی۔چوری چوری چٹکی بھرے گی۔ایسی چھیڑخانی کرے گی کسی اورکوپتہ نہ چلے گالیکن اپنی حالت غیرہوجائے ۔اورپھرجب اپنابس چلتاہے توگن گن کربدلے لیتاہوں۔“اس نے تہہ بندجھاڑتے ہوئے کہا۔
اس وقت جمال کامنہ سرخ ہورہاتھا۔آنکھیں کوئلوں کی طرح دہک رہی تھیں اوروہ دیوانہ وارکھجائے جارہاتھا۔
”اب ہماراگزارہ کیسے ہوگایہاں۔“وہ چلانے لگا۔
”وہ دیکھو۔“اس نے شراب والی کوٹھی میں ٹامیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا”حرامی یوں کھڑے ہیں جیسے تاک لگائے ہوئے ہوں۔نہ جانے کس تاک میں ہیں۔نہ جانے ان کاگزارہ کیسے ہوتاہے۔بندر کہیں کے دیکھوتوکیسے منہ بناتے ہیں۔وہ سنا۔تم نے سالے چیخ رہے ہیں۔آنکھیں مٹکارہے ہیں۔یارمیں ابھی آیا۔“جمال نے چیخ کرکہا”ذراقریب سے دیکھوں“یہ کہتے ہوئے دیوانہ وارسیڑھیاں اترنے لگا۔
اس کے جان کے بعدایلی برآمدے میں کھڑاسوچتارہا۔اسے جمال اوران ٹامیوں میں ایک عجیب سی مناسبت دکھائی دے رہی تھی۔ان کے بال بھی سنہرے تھے۔ان کارنگ بھی گوراتھا۔ان کے قدبھی لمبے تھے۔اس کے علاوہ انکے لئے زندگی گزارنامشکل ہورہاتھا۔فرق یہ تھاکہ وہ کھجاتے نہیں تھے۔
نہ جانے وہ لڑکی کون تھی خالص گوشت کی بنی ہوئی معلوم ہوتی تھی اورجس کے بشرے سے معلوم ہوتاتھاکہ وہ صرف زندگی گزارنے کی خواہش مندہے۔
مردانہ جھپٹ
وہ جمال کودیکھ کررشک محسوس کیاکرتاتھا۔کس قدرحسین جوان تھاوہ جیسے سانچے میں ڈھلاہو۔اس کارنگ صرف سفیدہی نہیں تھابلکہ اس میں سرخی کی آمیزش تھی جیسے گلابی رنگ میں سنہرے کی جھال ہواوراس کے بال کتنے حسین تھے اوران میں وہ ہلکاساگھنگھریالہ پن اوروہ دورسے کس قدرچمکتے تھے۔ان باتوں کے علاوہ اس کامردانہ جوش ۔جب وہ کھجاتے ہوئے ہئے
ہے‘کہہ کرشانے ہلاتاتھاتوایلی کومحسوس ہوتاتھاجیسے وہ دھکادے کربرآمدے کے ستون کوگراسکتاہے اورجب جمال نے اس لڑکی کے متعلق باتیں کرتے ہوئے کہاتھا:
’’اورپھرجب اپنابس چلتاہے توگن گن کربدلے لیتاہوں۔‘‘
اس وقت اس کے چہرے پرعجیب وحشت ابھرآئی تھی جیسے واقعی گن گن کربدلہ لے رہاہو۔اس وقت ایلی کودکھ محسوس ہواتھا۔کاش وہ بھی گن گن کربدلہ لے سکتا۔کاش وہ بھی دیوانہ وارجھپٹ سکتا۔اس کے خیال میں مردانگی دیوانہ وارجھپٹنے کی صلاحیت کانام تھا۔
نہ جانے کیوںمگرایلی کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوچکاتھاکہ عورت صرف اس مردسے محبت کرتی ہے اورصرف اس کی عزت کرتی ہے جس میں جھپٹنے کی صلاحیت ہو۔ایساجھپٹناجس میں بے رحمی اورتشددکی جھلک ہو۔اسے علی احمدپربھی یہی گلہ تھاکہ اس میں جھپٹنے کی صلاحیت نہ تھی اوروہ صرف ٹین کاسپاہی بنناجانتے تھے اورجھوٹ موٹ کی لڑائی لڑکراپناکھویاہواوقارحاصل کرنے کی ناکام کوشش کیاکرتے تھے اوراس سعی لاحاصل سے الٹارہاسہاوقاربھی کھودیتے تھے۔
ایلی کواچھی طرح سے معلوم تھاکہ خصوصی قسم کی عورتیں علی احمدکی طرف کھینچی آتی تھیں۔علی احمدمیں ایک بے نام سی کشش تھی جس کی وجہ سے عورت ان کی جانب آنے پرخودکومجبورپاتی تھی۔ایلی اس اسرارکونہ سمجھ سکاتھاکہ آخرعلی احمدمیں وہ کیاخصوصیت تھی جوان کی بے پناہ کشش کی ذمہ دارتھی۔ان کے خدوخال میں کوئی خصوصی بات نہ تھی۔ان کے اندازمیں کوئی کشش نہ تھی۔ان کی باتیں بے حددلچسپ ہوتی تھیں۔لیکن باتیں توقرب حاصل ہونے کے بعداثراندازہوسکتی ہیں۔دورسے کھینچ کرقریب نہیں لاسکتیں۔اب البتہ ایلی کویہ احساس ہوچکاتھاکہ عورت کواپنی طرف متوجہ کرناایک بات ہے لیکن اسے اپنے زیراثررکھنادوسری بات۔۔۔اس کاخیال تھاکہ علی احمدمیں عورت کے لئے کشش توہے لیکن وہ اسے اپنے اثرمیں رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس کااندازہ تھاکہ ان کے کردارمیں مردانگی کودخل نہ تھا۔ان میں جھپٹ نہ تھی۔
جمال کودیکھ کروہ اس جھپٹ کااندازہ لگاتاتھا۔جمال میں کس قدراضطراب تھا۔جب اس نے ایلی سے کہاتھا:
’’یوں زندگی کیسے گزرے گی؟‘‘
تواس نے محسوس کیاتھاکہ جیسے جمال میں بے پناہ طاقت اپنااظہارکرنے کے لئے مضطرب ہو۔
اس وقت اسے شہزادکی بندبیٹھک کاخیال آگیا۔اس روزوہ کتنے جوش وخروش سے اٹھ کروہاں گیاتھا۔کس قدرخوساختہ دیوانگی سے اس نے جھپٹنے کی کوشش کی تھی۔شہزادکی منتوں نے گویااسے اورابھاراتھامگر۔۔۔ایلی کی آنکھوں تلے اندھیراآگیا۔۔۔اس نے وہ بیتی ہوئی بے عزتی پھرسے شدت سے محسوس کی۔اورپھرحسرت وتحسین بھری نظروں سے جمال کی طرف دیکھاجوبالکونی کے ستون کودونوں ہاتھوں سے تھامے یوں کھڑاتھاجیسے ایک ہی جھٹکادینے سے وہ بھاری ستون ٹوٹ کردوحصے ہوجائے گا۔
دیرتک وہ برآمدے میں کھڑاسوچتارہتا۔حتیٰ کہ شام کی شفق اندھیرے میں تبدیل ہوگئی اورننھی ننھی بتیاں ٹمٹانے لگیں۔
فری پاس
سیڑھیوں میں قدموں کی آوازسن کرایلی چونکاجمال فاتحانہ اندازسے برآمدہوا۔’’ارے ‘‘جمال نے ایلی کے گرداپنے بازوحمائل کردیئے’’علی ‘‘اس نے ایک نعرہ بلندکیا’’ایلی کمال ہوگیا‘‘وہ چلایا’’حدہوگئی ایلی حدہوگئی۔‘‘
جوش مسرت میں وہ پاگل ہورہاتھا۔جیسے بیٹھے بٹھائے کوئی خزانہ مل گیاہو۔’’میں نے کہاایلی کمال ہوگیاہم بھی پاگل رہے پاگل‘‘وہ اسے دوہتڑمارکربولا’’بے وقوف بے وقوف‘‘اس نے قہقہہ مارااورپھرکھجاتے ہوئے بولا’’کنوئیں کے کنارے پربیٹھ کرہم پانی کوترستے رہے ہیں۔کوئی اتنابڑااحمق۔حدہوگئی۔ایلی حدہوگئی۔ہم ایک تلاش کررہے تھے اوروہاں ایک نہیں پانچ چھ ہیں پوری پانچ چھ۔بہت اعلیٰ قسم کی چیزیں ہیں صرف گزارہ نہیں اورگزارہ کہاں یارایک کوتومیں خوددیکھ کرآیاہوں۔سالی کاجسم یوں تھاجیسے جیسے چکنی مٹی کابناہوااورزردرنگ جیسے بسنت بہارآئی ہوئی ہو۔یارحدہوگئی۔‘‘
ایلی کوجمال کی باتیں سمجھ میں نہیں آرہی تھیں اسے یوں محسوس ہورہاتھاجیسے سامنے کوٹھی سے پی کرآیاہو۔یوں بے کارمہمل قسم کی باتیں کرنااورپھردوہترچلانااورنعرے لگانا۔اس کی ہربات شرابی سی تھی۔ایلی نے دوایک باراس کے منہ کوسونگھنے کی کوشش کی لیکن بونہ آئی۔اس وجہ سے اس کی حیرانگی اوربھی بڑھ گئی۔
’’نہ جانے کیاکہہ رہے ہو‘‘ایلی نے جمال سے کہا’’میری سمجھ میں نہیں آیاکچھ بھی ضرورتم پی کرآئے ہو۔‘‘
’’لاحول ولاقوۃ جمال گویادفعتاًہوش میں آگیا’’ایساکام کبھی نہیں کیامیں نے لیکن لیکن ‘‘وہ پھربدمست ہوگیا۔’’سمجھ لوپی کرہی آیاہوں۔شراب نہیں پی ۔لیکن سمجھ لوپی کرآیاہوں۔بندبوتل تونہ تھی پربڑی نشیلی تھی۔‘‘وہ چلایا’’سمجھ لوکمال ہوگیا۔آؤمیں تمہیں ساراواقعہ سناؤں۔‘‘وہ ایلی کوگھسٹینے لگا۔‘‘’’یہاں نہیں یہاں بات کی توریاضت سن لے گا۔کوئی بات کرواس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘وہ رک کرجسم کھجانے لگااورپھربولا۔
’’ویسے یوں بیٹھارہتاہے جیسے بھس بھراہومجھے نہیں اچھالگتانہ۔‘‘
جمال اسے کھینچ کرنیچے سڑک پرلے گیا۔’’وہ دیکھووہ‘‘اس نے اشارہ کرکے کہا’’ہوٹل کامینجرٹہل رہاہے میں بھی سوچتاتھاکہ یہ کس قسم کابزنس ہے کہ کوئی گاہک آتانہیں ویسے سالاہوٹل کھولے بیٹھاہے۔اب تومیرادوست بن گیاہے۔‘‘وہ رک گیا۔
’’سلام علیکم‘‘ہوٹل کے مینجرنے پاس سے گزرنے ہوئے کہاجمال نے ہنس کراس کی طرف دیکھا۔
مینجرمسکرانے لگا’’سیرکررہے ہیں آپ‘‘اس نے جمال سے کہا۔
’’ہاں ذرایہاں تک جارہے ہیں۔‘‘جمال نے جواب دیا۔
مینجرسے دورنکل کرجمال پھرہنسنے لگا۔’’اب تومزے ہوگئے۔اب زندگی کٹے گی مزے میں۔‘‘
’’آخرکچھ پتہ بھی چلے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔’’اب کیاہوگیاہے۔‘‘
’’میں بھی روزسوچاکرتاتھا۔‘‘جمال نے کہا’’کہ جب موٹرسائیکل والاآتاہے ادھرچوک میں تویہ ٹامی بھاگتے کیوں ہیں۔‘‘
’’توکیاپتہ چلا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’موٹرسائیکل والاڈنڈاگوراہے۔‘‘جمال بولا
’’ڈنڈاگورا۔‘‘ایلی نے تعجب سے دہرایا۔
’’ہاں۔ان ٹامیوں کاسارجنٹ ہے وہ‘اسے ڈنڈاگوراکہتے ہیںیہ سالے اس پارسی سے شراب پیتے ہیں اورہوٹل والے نے اپنے ہاں پانچ چھ لال بیبیاں رکھی ہوئی ہیں۔‘‘
’’اہل بیبیاں؟‘‘ایلی نے تعجب سے جمال کی طرف دیکھا۔
’’ارے وہی۔ہیرامنڈی کی عورتیں اورکون‘‘جمال مسکرانے لگا۔
’’کیامطلب ۔‘‘ایلی نے حیرانی سے کہا۔’’اس ہوٹل مین جوبورڈنگ تلے واقع ہے۔‘‘
’’ہاں ۔یہ ہوٹل تومحض بہانہ ہے دراصل مینجرکاکاروبارہی یہی ہے۔‘‘
’’توپھر۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’پھرکیا‘‘جمال ہنسا۔‘‘میں نے گوروںسے کہامیں نے کہاسالوڈنڈاگوراآئے گاتوبتاؤں گامیں کہ تم بدمعاشی کرتے ہو۔پہلے تووہ بات کومذاق میں ٹالتے رہے پھرکہنے لگے اورٹم یہاں کیوں آتا۔تم بھی ٹولال بی بی بی کے لیے آٹاہوٹل میں۔‘‘جمال ہنسنے لگا۔’’میں نے کہا:’’ہم رپورٹ کرے گاکہ تم گندمچایاہے یہاں۔اورایلی کچھ دیرکے بعدایک جیب سے چاکلیٹ نکلااورمجھے دیکرکہنے لگااچھابٹاؤنہیں چاکلیٹ دیٹاہم ٹم کو۔میں نے کہانہیں سالوچاکلیٹ دے کرٹالتاہے ہمیں۔ہم رپورٹ کرے گاضرورکرے گا۔پھروہ بولاکیالے گا۔بس میں نے کہااب پھنسے سالے۔میں نے کہاہم کولال بی بی کے پاس لے چلو۔اس پروہ ہنسنے لگے بہت ہنسے بولے۔’’اچھاول ول ٹم بھی جانامانگٹا۔‘‘پھران میں سے دومینجرکے پاس گئے اورکچھ دیرتک اس سے باتیں کرتے رہے۔پھرانہوں نے اشارے سے مجھے بلایااورہوٹل والامجھے اندرلے گیا۔
’’ارے ایلی۔‘‘جمال نے تہہ بندجھاڑکرکہا۔’’سالی کاجسم یوں تھاجیسے گاچنی سے بنی ہوئی ہے۔زردزردجیسے زردے کی پلیٹ اتناگٹھاہواکہ انگلی نہ چھبے واہ واہ وہ ہنستی تھی مجھے دیکھ دیکھ کرمسکراتی تھی۔‘‘
’’اچھا۔اچھا۔‘‘ایلی کاحلق بندہواجارہاتھا۔
زردہ
اورجب میں باہرنکلاتومینجرنے سوچا۔شاید بخشیش دے گا۔میں نے الٹاجھاڑدی۔میں نے کہا’’لڑکوںکے بورڈنگ تلے تم ایساکام کرتاہے۔ہم رپورٹ کریں گے۔اس پروہ ڈرگیااورمنتیں کرنے لگا۔اورمالوم ہے اس نے کیاکہا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ایلی کی آوازبیٹھ چکی تھی۔
کہنے لگا’’نہیں جی رپورٹ نہ کرنا۔جب جی چاہے آجایاکرو۔‘‘اس نے قہقہہ مارا۔’’یعنی اب ہم کوفری پاس مل گیاہے۔اوراس کے پاس ایک نہیں چھ ہیں۔چھ۔‘‘اس نے تہہ بندکوجھاڑتے ہوئے کہا۔’’اب مزاآئے گا۔سمجھ لوزندگی بن گئی۔‘‘
’’اوراور۔۔۔وہ لڑکی‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کون لڑکی ۔‘‘
’’جس کی تصویرتم نے مجھے دکھائی تھی۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’لڑکی۔‘‘جمال نے ایک قہقہہ بلندکیا۔’’ارے ایلی وہ لڑکی نہیں وہ تومیری بیوی ہے۔ارے اس کی کیابات ہے۔اس کاجواب نہیں۔مگریہ زردہ بھی خاصی ہے۔بڑی اچھی ہے۔‘‘وہ پھرکھجانے لگا۔’’اگرچہ اس میں گڑکی آمیزش ہے۔لیکن ایلی اس میں کڑاکاہے۔یارکل شام کب پڑے گی۔دعامانگوکل شام ابھی ہوجائے۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔‘‘اوردیکھوایلی۔‘‘اس نے محبت سے ایلی کاہاتھ دباتے ہوئے کہا۔’’تمہیں بھی لے چلوں گاکسی روز۔ذرااپنے پاؤں جمالوں پھر۔چلوگے نا۔‘‘
’’لاحول ولاقوۃ‘‘ایلی چلایا
’’کیوں لاحول کی اس میں کیابات ہے ارے کیاتم بھی ریاضت کی طرح مولوی ہو۔ہائیں دکھنے میں تونظرنہیں آتے ۔ارے بے وقوف یہی توزندگی ہے۔‘‘
’’نہ نہ ‘‘ایلی بولا۔’’میں نہیں جاؤں گا۔تم جایاکرو۔‘‘
’’لیکن کیوں ؟‘‘جمال نے پوچھا
ویسے ایلی کوجی چاہتاتھاکہ وہ زبردستی اسے لے جائے اس کمرے میں بندکردے اورلال بی بی جس میں گڑکی آمیزش تھی چاروں طرف زبردستی اسے گھیرلے حتیٰ کہ فرارکی تمام راہیں بندہوجائیں۔۔۔لیکن دفعتاًاسے شہزادکی بندبیٹھک کاخیال آگیا۔۔۔لال بی بی قہقہہ مارکرہنسی۔بس بابو۔بس۔اس کی آوازمیں بلا کی تحقیر تھی۔
’’نہیں نہیں ۔‘‘ایلی چلاکربولا۔’’میں مجبورہوں‘بالکل مجبور۔‘‘
اگلے روزسارادن جمال بے تابی سے شام کاانتظارکرتارہا۔پھرجب سورج غروب ہوگیااورمیکلوڈروڈ کی بتیاں روشن ہوگئیں توجمال کھجاتاہواایلی کے پاس آیا۔
’’ایلی میں جارہاہوں۔اگرکوئی گڑبڑہوجائے توخیال رکھنا۔‘‘
اس کے بعدان کایہ معمول ہوگیا۔سارادن جمال بڑی بے تابی سے شام کاانتظارکرتا۔جوں جوں دن ڈھلتااس کے کھجانے کی شدت بڑھتی جاتی اورپھرجب شام کادھندلکاچھاجاتااورمیکلوڈروڈپربتیاں ٹمٹمانے لگتیں جمال کپڑے بدل کر تیارہوجاتااورمسکراتاہوانیچے اترجاتا۔اورایلی چپکے سے اپنی چارپائی پردرازہوکرآنکھیں بندکرلیتااسے یوں محسوس ہوتاجیسے وہ دولت پورمیں ہو۔اوربالاکی چارپائی اس کے قریب ہو۔اورپھربالاکے ہاتھ جنبش میں آجاتے۔
ایک روزجمال خوشی خوشی ایلی کے پاس آیا۔’’ایلی ۔‘‘وہ چلانے لگا۔’’ذراباہرآؤنا۔تمہیں کچھ بتاؤں۔باہربرآمدے میں۔‘‘اس نے ایک ریشمی رومال جیب سے نکالا۔’’یہ دیکھو۔‘‘وہ بولا
’’کتناخوبصورت ہے‘ہے نا۔یہ اس نے دیاہے۔
’’کس نے ؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’اسی نے جو زردرنگ کی ہے جسے میں پہلے روزملاتھا۔‘‘جمال بولا۔
’’اچھا۔‘‘
’’آج جب میں باہرآنے لگاتوبرآمدے میں اس نے مجھے پکڑلیا۔کہنے لگی آپ توملتے ہی نہیں۔اچھامیری نشانی تولیتے جاؤ۔کیابتاؤں تمہیں اس کی آنکھوں میں کیاعالم تھااس وقت جیسے بتیاں روشن ہوں۔کمبخت نے ایسی محبت بھری نظرڈالی کے میری ہڈیاں چٹخنے لگیں میں بتاؤں تمہیں۔‘‘۔۔۔جمال دفعتاًرک گیا۔
’’بتاؤنا‘‘ایلی نے کہا
’’اسے مجھ سے عشق ہوگیاہے۔‘‘جمال نے رومال لہراتے ہوئے کہا۔
’’ان کوبھی عشق ہوتاہے کیا۔‘‘ایلی نے حیرانی سے پوچھا۔
’’تمہیں نہیں معلوم۔‘‘جمال قہقہہ مارکرہنسا۔’’جب ان کوعشق ہوتاہے تومزہ آجاتاہے ۔جس سے عشق ہوجائے۔اپناآپ بیچ کراسے دے دیتی ہیں۔‘‘
’’کیاواقعی؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’تمہاری قسم‘‘جمال نے چھاتی نکال کرکہا’’ان کے عشق کی کیابات ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’ہاں۔یارکبھی تم بھی چلوتمہیں دکھاؤں ۔واقعی زردے کی پلیٹ ہے اتنی مٹھاس ہے اتنارس ہے کہ حدہوگئی یار‘‘وہ جوش سے کھجانے لگا۔’’کسی روزجب مینجرادھرادھرہوجائے گاتومیں تمہیں لے چلوں گا۔‘‘
’’نہیں نہیں‘‘ایلی چلایا۔
’’ویسے نہیں۔‘‘جمال نے کہا۔’’یونہی دکھانے کے لیے۔بڑی پیاری باتیں کرتی ہے وہ اورپھریہاں نہ لین نہ دین۔مجھ سے کیالالچ کرناہے اس نے ۔میں توفری پاس والاہوں۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔
جمال کی باتیں سن کرایلی کوخیال آتاکہ کاش وہ بھی فری پاس والاہوتا۔اسے بھی کوئی نشانی کے طورپررومال دیتا۔لیکن کس برتے پر۔وہ سوچتامجھ میں وہ جھپٹ بھی ہو۔وہ مردانہ جھپٹ‘وہ جوش جس کے بغیر عورت کسی کوپیارنہیں کرسکتی۔پھراسے شہزادکاخیال آجاتا۔
نہ جانے شہزادکیاکہہ رہی ہوگی۔نہ جانے شریف وہیں ہے یاکہ جاچکاہے۔اگرشریف وہیں ہے تووہ اسے لبھانے میں مصروف ہوگی۔آخروہ اس کاخاوندہے۔
’’نہیں نہیں‘‘وہ گھبراکرچلاتا’’شریف وہاں نہیں ہے۔وہ توکب کاجاچکاہوگااس کی چھٹی عرصہ درازسے ختم ہوچکی ہوگیآخرسرکاران گنت چھٹیاں تونہیں دیتی اپنے ملازمین کوکیسے دے سکتی ہے۔ورنہ کام کیسے چلے ۔‘‘اس خیال پراس کی تسکین سی ہوجاتی لیکن پھراس کے تخیل میں رضاسونٹاٹیکتے ہوئے آکرچلاتا۔
’’نیچ ۔۔۔نیچ۔‘‘
پھرارجمندکی آوازسنائی دیتی۔
’’ارے اندھے یہ دیوی ہے کہ جس کی طرف نگاہ بھرکردیکھ لے اس کاجی چاہتاہے کہ سب کچھ تیاگ کرسادھوبن جائے۔واہ واہ کیاجادوہے۔‘‘
پھرشہزادغفورکے ساتھ کوٹھے پرٹہلنے لگتی۔’’ہی ہی ہی ہی‘‘اس کے رنگین قہقہے گونجتے اورغفورکی بھدی آوازسنائی دیتی۔اورپھردفعتاً خاموشی چھاجاتی اورخاموشی معنی خیزبن جاتی۔
اوراس کامفہوم ایلی کی آنکھو ں کے سامنے کئی ایک منظرپیش کردیتا۔جنہیں دیکھ کراس پروہی دیوانگی طاری ہوجاتی۔وہ یوں کروٹیں بدلتاجیسے دارپرچڑھاہواہو۔اس وقت جمال آہستہ سے آوازدیتا۔
’’تم جاگ رہے ہوایلی۔مجھے بھی نیندنہیں آتی۔کمبخت کاخیال سونے نہیں دیتا۔لیکن تمہیں کیاہے تمہیں نیندکیوں نہیں آتی۔‘‘
’’مجھے توکچھ بھی نہیں‘‘ایلی جواب دیتا۔
’’کچھ بھی نہیں پھربھی نیندنہیں آتی۔‘‘جمال ہنستا‘‘وہ دیکھوریاضت یوں پڑاہے جیسے کل کامراہواہو۔‘‘
ہنگامہ
اسی طرح ان کی زندگی حسن منزل میں گزرتی رہی۔لیکن ایک روزجب شام کے وقت ایلی برآمدے میں گھوم رہاتھااورجمال بن سنورکرنیچے جاچکاتھاتوسڑک پرشوروغل ہوا۔بہت سے سپاہیوں نے ہوٹل پریورش کردی۔ایلی کومعلوم نہ تھاکہ آیاجمال ہوٹل میں ہے یاکہیں اوراسے یہ بھی معلوم نہ تھاکہ اگرہوٹل میں ہے توکس طرح اسے باہرنکال لائے۔اسے اس بات کے متعلق بھی علم نہ تھاکہ پولیس کے سپاہی وہاں کیوں کھڑے تھے۔اورگورے بھاگ کرپارسی کی کوٹھی میں کیوں داخل ہوگئے تھے۔وہ کچھ دیرتک وہاں کھڑارہاپھرجی کڑاکرکے نیچے اتراکیونکہ بورڈنگ کے تمام طلباء برآمدے میں آکھڑے ہوئے تھے اوروہاں پرایک بھیڑلگ گئی تھی۔
سڑک پرپہنچ کرپہلے تووہ سپاہیو ں کے طرف دیکھتارہاپھرہمت کرکے آگے بڑھالیکن ایک سپاہی نے اسے روک دیا۔’’اونہوں آگے جانے کاحکم بندہے۔‘‘
وہ ڈرکررک گیااوردیرتک وہاں کھڑارہا۔پھراس نے محسو س کیاسپاہی مشکوک نگاہوں اس کی طرف دیکھ رہاہے۔وہ گھبراگیااورکوپرروڈپرتکیے کی طرف چل پڑاابھی وہ دوچارایک قدم چلاتھاکہ تکیے کے قریب سے جمال نے سرنکلا۔
’’ارے ایلی ارے ایلی۔‘‘وہ آہستہ سے چلایا’’تم ہوکیا۔‘‘وہ رک گیا۔
’’شکرہے ‘‘جمال بولا’’تم آگئے ہو۔ارے یارمیں توپھنس گیا۔اوراگرپولیس پکڑلیتی تو۔۔۔میں غسل خانے میں تھاکہ وہ آگئے۔میں جوشورسناتوفوراً پچھواڑے کے دروازے کی طرف نکل کرتکیے میں آگیا۔وہ ادھرتونہیں آرہے ۔‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ایلی نے کہا۔’’وہ توادھرکھڑے ہیں۔آجاؤآجاؤ۔‘‘
’’یارحدہوگئی پولیس نے ریڈکردی شکرہے بچ گیامیں۔‘‘
وہ دونوںباہرنکل کرویران سڑک پریوں ٹہلنے لگے جیسے اتفاقاًسیرکرتے کرتے ادھرآنکلے ہوں۔
اس ڈرکے مارے کہ پولیس بورڈنگ میں آکرتفتیش نہ شروع کردے وہ دیرتک آوارہ گردی کرتے رہے۔اورآخرتھک ہارکراپنے کمرے میں جاپہنچے اوراپنی اپنی چارپائی پرپڑکرلیٹ گئے۔
اگلے روزکالج جاتے ہوئے انہوں نے ہوٹل کی طرف دیکھا۔وہاںتالہ پڑاہواتھا۔
’’ارے ‘‘جمال چلایا۔’’یہ لوگ کہاں گئے۔‘‘
’’جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے بابو۔اورکہاں جائیں گے۔‘‘گنڈیری والے نے کہا۔’’کہاں‘‘جمال نے پوچھا۔
’’وہیں ہیرامنڈی یاموتی بازارمیں اورکہاں جائیں گے۔کبھی دھندابھی چھٹاہے۔‘‘وہ بولا’’اوریہ جگہ؟‘‘جمال نے پوچھا۔
’’یہ جگہ‘‘گنڈیری والاہنسا۔’’یہ جگہ کسی تیل صابن والے نے لے لی ہے۔دکان کھولے گایہاں۔‘‘
راستے میں جمال باربارایلی سے کہتا۔’’اب کیاہوگاایلی ہم کیاکریں گے زردے کی پلیٹ کیسے ملے گی۔کیاخوب چیزتھی۔اب میں تمہیں کیابتاؤں اس کے گن تواب کھلنے لگے تھے مجھ پراب کیاکروں ایلی۔‘‘
وہ باربارایلی سے پوچھ رہاتھاجیسے ان معاملات میں ایلی سے بڑھ کرکوئی اتھارتی نہ ہو۔اورایلی چپ چاپ اس کی باتیں سنے جارہاتھا۔درحقیقت اسے خوددکھ محسوس ہورہاتھا۔اگرچہ زردہ کودیکھنے کی کوئی صورت نہ تھی۔پھربھی امکان توتھا۔اس نے کئی بارسوچاکہ کسی روزچپکے سے نیچے اترجائے اورپھرزردہ سے مل کرکہے‘‘نہیں نہیں میرایہاں آنے سے مقصدنہیں میں توصرف تمہیں دیکھنے کے لئے آیاہوں۔‘‘
اس وقت ایک زردرنگ کی نوجوان لڑکی اس کے روبروآکھڑی ہوتی۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایلی کی طرف دیکھتی جو صرف اسے دیکھنے کے لئے آیاتھا۔پھراس کی حیرت بھری نگاہیں احساس تحسین سے چھلکتیں اورایلی دفعتاً ہیروبن جاتااورروہ زردرولڑکی اس کی منتیں کرنے لگتی۔‘‘
’’لیکن ذرابیٹھئے تو۔صرف دیکھنے کے لیے ہے۔میرے لیے اتنی تکلیف نہ کروگے۔‘‘
صرف دیکھنے کے لئے اس کے بازوایلی کے گردحمائل ہوجاتے اس کی آنکھوں میں وہ نگاہ چمکتی وہی نگاہ جس کی وجہ سے وہ شہزادکوبھول نہ سکاتھا۔
ہوٹل کے بندہوجانے کے بعدجمال کی توجہ پھراسی تصویرپرمرکوزہوگئی جسے وہ ہوٹل میں جانے سے پہلے دیکھ دیکھ کروقت گزاراکرتاتھا۔
’’آج کوئی خط نہیں ایلی‘آج پھرکوئی خط نہیںآیا۔اس طرح زندگی کیسے کٹے گی میں نے کہامیں دوروزکی رخصت لے کرگھرسے نہ ہوآؤں۔یہاں اب میراجی نہیں لگتا۔اوروہ کیاکہے گی کہ اتنی دیرہوچکی ابھی تک مجھ سے ملنے نہیں آیا۔کیاسمجھے گی۔اسے کیامعلوم یہاں اس کے بغیروقت کاٹنامشکل ہورہاہے۔‘‘جمال شدت سے کھجاناشروع کردیتا۔’’دراصل ایلی مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے۔بے حد۔اس کے بغیرچلنادوبھرہوجاتاہے۔کیاکروں۔‘‘
پھروہ یکدم پنترہ بدل کرکہتا۔’’ایلی۔وہ زردہ کیاکہے گی کہ مجھے بھی نہیں ملنے کی کوشش بھی نہیں کی۔‘‘
’’لیکن وہ توچلی گئی یہاں سے ۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’لیکن وہیں گئی ہے ناہیرامنڈی میں۔اسے ڈھونڈناکیامشکل ہے۔یارمجھے اس کاشکریہ تواداکرناچاہیے کم ازکم۔‘‘
’’توپھر‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’تم مانوتودونوں چل کراسے ڈھونڈیں ۔‘‘
’’لیکن ڈھونڈیں گے کیسے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’لویہ بھی کیامشکل ہے کیااس کوچے سے گزرتے جائیں گے اوردیکھتے جائیں گے اگروہ وہیں ہے توکھڑکی یادروازے میں بیٹھی ہوگی۔چھپ کرتونہیں بیٹھتیں۔ان کاکام ہی ایساہے۔‘‘
ایلی کوپسینہ آگیا۔’’یار‘‘وہ بولا’’مجھے تونہ لے جاؤاپنے ساتھ۔‘‘
’’لواس میں کیاہے۔‘‘جمال کہنے لگا۔’’وہاں کوئی اپناجان پہنچان توہوگانہیں پھرڈرکیسا۔‘‘
’’مجھے توڈرآتاہے۔‘‘ایلی سے کہا۔
’’توپگڑی باندھ لیناتاکہ کوئی پہنچانے نہیں۔‘‘
اس روزوہ دونوں راستے میں اسی بحث میں الجھے رہے۔ایلی کواس کے کوچے میں جانے سے ڈرلگتاتھالیکن ساتھ ہی وہ چاہتاتھاکہ کسی طریقے سے جمال اسے زبردستی لے جائے اوروہ جاکردیکھے کہ وہاں کیاہوتاہے۔وہ کس طرح بیٹھتی ہیں۔کس طرح اپنی نمائش کرتی ہیں اورپھراگرزردہ مل جائے تووہ اس سے کہے گا۔میں توصرف تمہیں دیکھنے کے لیے آیاہوں لیکن جمال کونہ بتانا۔میں اب چلتاہوں صرف دیکھنے کے لئے ۔زردہ کی نگاہوں میں تحسین جھلکنے لگی۔اوروہ بڑھ کراسے اپنے بازوؤں میں لے لے گی اورکہے گی۔نہیں میں جمال کوکیوں بتانے لگی۔
اس کوچے میں
ہفتے کوشام ہی سے جمال نے تیاریاں شروع کردی تھیں۔پہلے اس نے ایک طویل غسل کیاپھرٹرنک کے پاس بیٹھ کردیرتک پہننے کے لیے کپڑوں کااتنخاب کرتارہا۔بالاخرکپڑے پہن کرخوشبولگائی۔سنہرے بالوں کوبڑے اہتمام سے بنایا۔منہ پرکریم کی مالش کی بوٹ چمکایااورپھریوں تیارہوبیٹھاجیسے عیدکی نمازپڑھنے جارہاہو۔
شام کے قریب وہ دونوں چل پڑے تھے۔بھاٹی دروازے پروہ تانگے سے اتر گئے‘تاکہ تانگے والے سے یہ کہناپڑے کہ انہیں کہاں جاناہے۔
اس علاقے میں گھومتے گھومتے انہیں کافی دیرہوگئی۔کیونکہ انہیں یہ معلوم نہ تھاکہ وہ کوچہ کہاں واقع ہے۔جہاں چوباروں میں راگ کی محفلیں ہورہی تھیں۔سازسرکیے جارہے تھے۔بائیاں تانیں اڑارہی تھیں لوگ یوں گھوم پھررہے تھے جیسے میلے پرآئے ہوئے ہوں۔کسی سے پوچھے بغیراس بازارمیں پہنچناآسان کام نہ تھا۔لیکن اس کوچے میں پہنچنابے حدمشکل تھا۔
دیرتک وہ چکرلگاتے رہے اوراس امرپربحث کرتے رہے کہ آخروہ وہاں کیسے پہنچ سکتے ہیں۔
اس کوچے کے متعلق کسی سے دریافت کرنے کی ان دونوں میں ہمت نہ تھی۔اوردریافت کیے بغیروہاں پہنچناناممکن ہورہاتھا۔آخرتھک کروہ ایک بائی کے چوبارے کے سامنے والے ہوٹل میں چائے پینے کے بہانے بیٹھ گئے لیکن چائے کاپیالہ لے وہاں دیرتک بیٹھناآسان نہ تھا۔
’’وہاں سبھی لوگ بلاتکلف بائیوں کے متعلق باتیں کررہے تھے۔
’’اس ننھی بائی کے متعلق سناتھاتم نے استاد۔کہتے ہیں سیٹھ جمناداس سے مینڈی کھلوانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔‘‘
’’اوربھئی اس نے بیس ہجاردیاہے بڑی بائی کومینڈی کھلوانے کے لیے۔‘‘
’’کیوں نہ لے بیس ہجارچیخ بھی توغضب کی ہے۔‘‘
’’پرگاناوانانہیں آوے ہے لڑخی کو۔‘‘
’’اجی قدرت بھی حساب سے دیتی ہے۔کسی کوگلادیوے توکسی کوجوبن‘کیوں بابو۔‘‘اس نے جمال کوکہنی مارکرپوچھا۔
ایلی اورجمال نے دانت نکالے’’ٹھیک ہے میرصاحب۔‘‘
’’بس کمالے دوایک سال پھروہاںگلی میں جاکربیٹھ جائے گی۔‘‘استادہنسنے لگا۔’’بازارمیں تواسی کاٹھکانہ رہ سکتاہے جس کاگلااچھاہے۔کیوں فضلے۔‘‘
فضلے ہنسنے لگا’’ٹھیک ہے استاد۔گلی میں بیٹھے گی اورکیا۔‘‘
’’کونسی گلی میں۔‘‘ایلی نے فضلے کے قریب ہوکرپوچھا۔
’’اجی اسی میں۔‘‘پھراس نے غورسے ایلی اورجمال کی طرف دیکھا۔’’تم پردیسی ہوبابو۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘جمال بولا۔’’امرتسرسے آئے ہیں۔‘‘
’’ہی ہی ہی ہی‘‘فضے ہنسنے لگاجبھی گلی کاپتہ نہیں۔‘‘
’’پھربھی کہاں ہے وہ‘‘جمال نے دوبارہ پوچھا۔
’’یہ تھانے کے سامنے جوہے۔پربابویہاں کامال اچھانہیں۔بس دوتین ہی کام کی ہیں باقی سب بھرتی کامال ہے۔‘‘
چائے ختم کرکے وہ پھراسی چکرمیں مصروف ہوگئے۔لیکن اب مشکل حل ہوچکی تھی۔اب وہ کسی راہ گیرسے پوچھ سکتے تھے کیوں میاں تھانہ کدھرہے اس علاقے کا۔‘‘
دفعتاً ایلی خوشی سے چلایا۔‘‘تھانے کابورڈتومیں نے پڑھاتھا۔کسی چوک کے قریب تھا۔یادنہیں رہاکس چوک کے قریب تھا۔‘‘
تھانہ تلاش کرنے میں انہیں چنداں دقت نہ ہوئی۔تھانے پہنچ کراس گلی کونہ دیکھناقطعی ناممکن تھاکیونکہ بہت سے لوگ ادھرسے آرہے تھے۔وہ قہقہے لگارہے تھے۔ایک دوسرے کوکہنیاں ماررہے تھے آنکھیں چمکارہے تھے۔کئی ایک توباآوازبلندگارہے تھے۔
وہاںپہنچ کرایلی کادل بیٹھنے لگا۔اس کی ہمت نہ پڑرہی تھی کہ گلی میں داخل ہوبازارکی بات اورتھی۔وہ تودوسرے بازاروں کی طرح ایک عام گزرگاہ تھی۔وہاں چلتے ہوئے لوگوں کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتاتھاکہ وہ رنڈیوں کودیکھنے کے لیے آئے ہیں یاانہوں نے چوبارے میں جاناہے۔
لیکن اس گلی میں جاناتواعلانیہ اس بات کااظہارتھاکہ وہ عورتوں کے لیے آئے ہیں۔اورپھرگانے والیوں کودیکھنایاان کاگاناسننابرانہ تھا۔گلی کی رنڈیوں کودیکھناایلی کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔لیکن اتنی دورآنے کے بعداب گلی میں جانے سے انکارکرنابھی ٹھیک نہ تھا۔
’’میں کہتاہوں۔‘‘اس نے جمال سے کہا۔’’میں اندرجاکرکیاکروں گا۔تم جاکرمل لو۔میں یہاں تمہاراانتظارکروں گا۔‘‘اسی جگہ۔‘‘
’’نہیں یار۔‘‘جمال نے اس کے کندھے پرہاتھ مارکرکہا’’اکٹھے چلتے ہیں۔‘‘
’’لیکن ‘‘ایلی نے کہا۔’’اگروہ مل گئی تومیں وہاں کیسے انتظارکروں گا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘جمال سوچ میں پڑگیا۔’’مل گئی۔‘‘اس نے کہا’’تم پھرتم یہاں آکرانتظارکرنا۔چلونا۔‘‘وہ اسے گھسیٹ کرلے چلا
گلی میں بے حدہجوم تھالوگ قہقہے لگارہے تھے ۔بھونڈے مذاق کررہے تھے۔رنڈیوں سے بحث کررہے تھے۔انہیں چھیڑرہے تھے۔یوں ہنس ہنس کرباتیں کررہے تھے جیسے وہ رنڈیاں ہی نہ ہوں۔ایلی یوں جمال کے ساتھ چل رہاتھاجیسے اس گلی سے قطعی طورپرکوئی دلچسپی نہ ہو۔جیسے وہ وہاں زبردستی لایاگیاہو۔ہرراہ گیرکی طرف وہ کچھ اس اندازسے دیکھتاجیسے اسے ذہن نشین کررہاہوکہ میں توویسے ہی آیاہوں ان کے ساتھ دلچسپی توصرف انہیں ہے مجھے نہیں۔
خودجمال وہاں پہنچ کربھول چکاتھاکہ وہ دوگھنٹے کی تیاری کے بعدآیاہے۔وہ یہ بھول چکاتھاکہ اس نے نئے کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہیں اوران پرخوشبولگارکھی ہے اسے وہ دونوں ریشمیں رومال بھی یادنہ رہے تھے جو وہ اپنے ساتھ لایاتھا۔
دراصل وہ بے حدگھبرایاہواتھا۔اس کی گردن جھکی ہوئی تھی۔اورنگاہوں میں گھبراہٹ تھی۔
کافی دیرتک توایلی نے آنکھیں اٹھاکران بیٹھی ہوئی عورتوں کی طرف دیکھنے کی جرأت نہ کی۔پھرجب اس نے محسوس کیاکوئی بھی اس کی طرف نہیں دیکھ رہاتواس نے ایک سرسری تحقیربھری نگاہ رنڈیوں پرڈالی۔انہیں دیکھ کراس کاجی متلانے لگا۔لاحول ولاقوۃ اس نے زیرلب کہا۔
اس تنگ وتاریک بل کھاتی ہوئی گلی میں وہ لالٹینوں کی بتیوں کے نیچے بن سنورکربیٹھی ہوئی تھیں۔ایلی نے محسوس کیاجیسے مویشیوں کی میلے میں بھینسیں دیکھ رہاہو۔ان کی جوانیاں لٹی ہوئی تھیں۔آنکھیں سوج رہی تھی ۔ہونٹ یوں لٹکے ہوئے تھے جیسے جونکیں ہوں۔چہروں پرتھپاہواپاؤڈراورسرخی انہیں اوربھی بھیانک بنارہاتھا۔ایلی نے جھرجھری لی۔وہ بازارحسن نہیں تھابلکہ سڑے ہوئے بدبودارگوشت کی منڈی تھی۔
رنڈیوں کے چہروں پرتروتازگی اورمعصومیت نہ تھی۔بلکہ حزن اورملال اوراداسی چھائی ہوئی تھی۔ان کی حرکات بھونڈی تھی۔آوازیں یوں سنائی دے رہی تھیں جیسے پھٹے ہوئے بانس بجھ رہے ہوںاوراعلانیہ لوگوں کوبلارہی تھیں۔یایوں بازواٹھاتیں جیسے کسی کوگلے لگنے کی خواہش میں بے قرارہورہی ہوں۔ایک انگڑائیاں لیے جارہی تھی۔لیکن اس کی انگڑائیوں میں اکتاہٹ اورحسرت تھی۔دوسری رونی لے میں کچھ گنگنارہی تھی۔اس کاگیت دکھ بھراتھا۔زیادہ ترعورتیں چپ چاپ بیٹھی انتظارکررہی تھیں کہ کب کوئی آکران سے سوداکرے۔
مردوں کے گروہ ان کے سامنے کھڑے انہیں گھوررہے تھے۔ان کی جسموں کوٹٹول رہے تھے ان کے ناک نقشے پرپھبتیاں اڑارہے تھے۔ان کی عمروں کے متعلق اندازے لگارہے تھے اوران سے فحش مذاق کررہے تھے۔وہ ان کی باتیں سنتی تھی لیکن انہیں ان سنی کردینے پرمجبورتھیں۔وہ ان کی مضحکہ خیزنگاہوں کوبرداشت کرنے پرمجبورتھیں۔ان کی نکتہ چینی کے جواب میں مسکرانے پرمجبورتھیں۔
دفعتاً ایلی نے محسو س کیاکہ عورت کے لیے اس سے بڑی بے عزتی کوئی نہیں ہوسکتی کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوکراس کے کولہوں‘چھاتیوں اورجسم کے نقائص گنیں یااس کے حسن وجمال یاعمرکے متعلق پھبتیاں اڑائیں ۔پھروہ وہاں کیوں بیٹھی تھیں۔‘‘
اس کاخیال تھاکہ جسمانی ہوس پوری کرنے کے لئے عورتیں اس کے لومیں جابیٹھتی ہیں۔جسمانی لذت ’’یہ بیچاریاں‘‘وہ سوچنے لگا’’ان کے چہرے تودکھ بھرے ہیں۔ان کے ہونٹ گویاصرف آہیں بھرنے کے لیے بنے ہیں۔اوران کے لٹے ہوئے اپاہج جسم‘جسمانی لذت کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔‘‘
ایک ضیعف عورت کووہاں بیٹھے دیکھ کروہ حیران ہوا’’یااللہ یہ عمرمیں یہاں بیٹھی ہے۔‘‘وہ رک گیا۔بڑھیاکے سامنے دوجوان مزدورکھڑے اس کامذاق اڑارہے تھے۔
ایک مزدوربڑھیاکے قریب ترہوگیااوراسے چھیڑنے لگا’’اماں تویہاں کس امیدپربیٹھی ہے۔‘‘
بڑھیانے کچھ جواب نہ دیااورویسے ہی بیٹھی حقہ پیتی رہی۔
مزدورکے ساتھی نے قہقہہ لگایا۔’’مائی تیرے پاس کوئی آتابھی ہے کیا۔‘‘
’’توہی آجابیٹاجوتجھے اتنادردہے میرا۔‘‘بڑھیانے نفرت سے کہا۔
ایلی نے محسوس کیاجیسے کسی نے اسے گندگی میں دھکادے کرگرادیاہو۔اس کادل مالش کررہاتھا۔سردردسے پھٹاجارہاتھااورسارے جسم میں جھن جھن سی ہورہی تھی۔جیسے اس کے جسم کابندبندکراہ رہاہو۔اس کے لیے اس کوچے میں رہناناممکن ہوگیا۔وہ چاہتاتھاکہ جمال سے کہہ دے میں جارہاہوں ۔میں اب یہاں نہیں ٹھہرسکتا۔
’’ایلی ایلی‘‘کسی نے اس کاشانہ پکڑکرکہا’’ایلی وہ مل گئی۔‘‘
ایلی نے مڑکردیکھا۔جمال کے چہرے پرمسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔’’وہ ایلی۔اس نے مجھے پہنچان لیاہے۔اوررومال سے اشارہ کرکے مجھے بلارہی ہے۔وہ دیکھو۔‘‘جمال نے ایک کوٹھڑی کی طرف اشارہ کیا۔’’وہ دیکھوجو سرخ قمیض پہنے ہوئے ہے۔جس کے ہاتھ میں سبزرومال ہے۔وہ دیکھاوہ مسکرارہی ہے۔ارے ‘‘وہ چلایا’’لووہ مجھے بوسے پھینک رہی ہے۔‘‘
ایلی نے اس طرف دیکھاایک تاریخ تنگ وتاریک کوٹھڑی کے دروازے میں سرخ قمیض پہنے ایک دبلی پتلی عورت بیٹھی تھی۔اس کے کلوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں۔ہاتھوں میں جھریاں پڑی تھیں۔اورآنکھیں یوں کھنچی ہوئی تھیں جیسے ان میں بندہونے کی صلاحیت ہی نہ رہی ہو۔
’’اچھاتومیں چلتاہوں۔۔۔‘‘وہ بولا۔’’گلی کے باہرتمہاراانتظارکروں گا۔‘‘
گلی کے باہر انتظارکرتے ہوئے وہ سوچتارہالیکن اس میں سوچنے کی صلاحیت نہ رہی تھی۔شدیدنفرت کی وجہ سے اس کے جسم کابندبندکانپ رہاتھا۔گلی کے بدصورت چہرے اس کے سامنے تھے۔ان کے سوجے ہوئے منہ۔پھٹی پھٹی آنکھیں اورمجروح جسم ایلی کے دل میں نفرت کی دھنکی بج رہی تھی۔اوریہ نفرت اس حدتک شدت اختیارکرچکی تھی کہ اس کاجی چاہتاتھاکہ بھاگ کردیوانہ وارگلی جاداخل ہو۔اورکسی بدصورت ڈائن کی کوٹھڑ ی میں داخل ہوکرکہے میں آگیاہوں میں آگیاہوں مجھے اپنی غلاظت سے بھردے۔مجھے اس گندگی سے شرابورکردے۔میرے ہڈیاں توڑدے‘مجھے فناکردے۔اورپھراس کے غلیظ جسم پر ڈھیر ہوجائے۔
ایلی کے دل میں عجیب متضادخواہشات پیداہوتی تھیں۔کسی وقت اس تضادکومحسو س کرکے گھبراجاتااوراسے خیال آتاکہ اس کی سرشت میں نہ جانے کیاخامی ہے کہ اس کے دل میں بیک وقت ایسی متضادخواہشات پیداہوتی تھیں۔بسااوقات اسے شک پڑتاکہ دیوانگی کا شکار ہے۔
ان خیالات سے بچنے کے لیے دیرتک وہ تھانے کی عمارت کاجائزہ لیتارہا۔بازارکوغورسے دیکھتارہا۔راہ گیروں کوجانچنے کی کوشش میں شدت سے مصروف رہا۔لیکن جب وہ ذرابے خبرہوتاتواس کی نگاہ کے تلے اسی گلی کے چہرے نمودارہوجاتے ان کی کریہہ مسکراہٹیں اسے چاروں طرف سے گھیرلیتیں۔ان کے تباہ شدہ لٹے ہوئے جسم اس کی طرف بڑھتے دل میں نفرت کی دھنکی بجناشروع ہوجاتی۔اورپھروہی دیوانہ پن اس پرمسلط ومحیط ہوجاتا۔
’’کس خیال میں پڑے ہو‘‘جمال نے اس کے قریب آکراسے جھنجوڑا۔’’سنتے ہی نہیں۔‘‘
’’اوہ تم آگئے‘‘وہ چونکا۔’’مل آئے زردہ سے ‘‘اس نے پوچھا۔
’’ارے نہیں وہ توکوئی اورہی نکلی لیکن اچھی تھی بیچاری۔اتنی اچھی تھی کہ میں تمہیں کیابتاؤں کہتی تھی مجھے تم سے پیارہوگیاہے۔ایمان سے یہی کہتی تھی دیکھتے ہی پیارہوگیااوراس قدرشوق محسو س کیامیں نے کہ اگرتم اشارے سے نہ آتے توخودآکرتمہارا ہاتھ پکڑلیتی۔‘‘
ایلی نے حیرانی سے جمال کی طرف دیکھا۔خوش قسمت تھاوہ جو اسے دیکھتی تھی اسے پیارکرنے لگتی تھی۔کاش ایلی نے آہ بھری۔
راستے میں جمال اسے اپنے اس نئے عشق کے قصے سنارہاتھا۔تفیصلات بتارہاتھالیکن ایلی اپنے ہی خیالات میں مگن چلاجارہاتھا۔وہ سوچ رہاتھاکہ جمال میں کون سی بات ہے جس کی وجہ سے وہ اس سے عشق کااظہارکرنے پرمجبورہوجاتی ہیں۔اس کاجی چاہتاتھاکہ اس میں بھی وہ مردانہ جھپٹ ہوتی۔کاش۔
چارایک روزکے بعدجمال بھاگابھاگاایلی کے پاس آیا۔’’ایلی!‘‘اس نے متفکرانہ اندازسے کہا‘‘یہ مجھے کیاہوگیاہے؟‘‘مجھے کچھ ہوگیاہے۔‘‘
’’کیاہوگیاہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کچھ پتہ نہیں چلتا۔مجھے ٹیس پڑتی ہے اورمیں نے ڈاکٹرکودکھایاتووہ کہتاہے کہ تمہیں بیماری ہوگئی ہے۔‘‘
’’بیماری کونسی بیماری‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’وہ بیماری‘‘جمال بولا۔اس کے چہرے پرتشویش کااظہارہورہاتھا۔’’اگرمیں یہاں رہاتوتمام لڑکوں کومعلوم ہوجائے گا۔مجھ سے چلاجونہیں جاتا۔اس لیے میں گاؤں جارہاہوں۔‘‘
’’گاؤں جارہے ہو۔‘‘
’’ہاں ہاں‘‘وہ بولا۔’’اس کے سوااب کوئی چارہ نہیں مجھے جاناہی ہوگا‘‘یہ کہہ کراس نے ایلی کے ہاتھ میں چھٹی کی عرضی تھمادی۔اوربات کی وضاحت کیے بغیراپنے ٹرنک میں کپڑے قرینے سے رکھنے لگا۔
’’لیکن ‘‘ایلی نے کہا’’آخربات کیاہے۔کچھ بتاؤبھی یار۔‘‘
’’ابھی اس نے جملہ مکمل نہ کیاتھاکہ ریاضت داخل ہوااورجمال نے اشارہ کرکے ایلی کوخاموش کردیا۔
اوٹ میں شانتی
جمال کے جانے کے بعدایلی بالکل ہی تنہارہ گیا۔دوپہرتک وہ کالج میں وقت کاٹتا۔اگرچہ وہ جماعت میں چلاجاتاتھالیکن ابھی تک اس نے ہم جماعتوں سے کوئی رسم وراہ پیدانہ کی تھی۔اکیلاہی برآمدوں میں گھومتارہتاخالی پیریڈ میں یاتوباہر لان میں ٹہلتااوریابازارکی طر ف نکل جاتااوران مقامات پرجانے سے احترازکرتاجہاں کالج کے لڑکے جمع ہوتے۔
جماعت میں وہ آخری بنچوں میں بیٹھ جاتااورجب پروفیسرلیکچرشروع کردیتاتووہ کسی قدآورلڑکے کے پیچھے ہوکرتخیلات کی دنیامیں کھوجاتا۔
انگلش ڈرامہ پڑھانے والے پروفیسرکی مونچھوں سے اسے ڈرآتاتھا۔اسے دیکھ کروہ محسوس کیاکرتاتھاکہ کسی سکو ل کے ماسٹر نے پروفیسر کاچغاپہن رکھاہو۔اس لیے ڈرامے کے پریڈمیں ایلی بیٹھنے کے لیے خاص طورپرایسے مقامات تلاش کرتاتھاجہاں پروفیسرکی نگاہ نہ پڑے۔ڈرامہ کے پروفیسرکے پڑھانے کااندازبھی توعجیب تھا۔سبق کی ابتدامیں توپروفیسرکی طرح بات شروع کرتا۔پھربتدریج جوں جوں وقت گزرتاپڑھانے کی بجائے پلیٹ فارم پرڈرامہ کھیلناشروع کردیتا۔
وہ ایکٹروں کی طرح ہاتھ چلاتا۔منہ بناتا۔پروفیسرکوایکٹنگ کرتے دیکھ کراسے علی پورکاوہ فراخ صحن یادآجاتاجہاں انہوں نے ڈرامہ کھیلاتھااورپھرسانوری اس کے سامنے آبیٹھتی اورزٹیک اسے دیکھ کرجوش میں آجاتااوراپناڈنڈابے پرواہی سے گھماتااورسٹیج پرکھڑے دیگرایکٹرزیرلب چلاتے۔’’ابے خیال سے بے کہیں زخمی نہ کردیناکسی کو۔‘‘اورناظرین زیٹک کی بھونڈی حرکات دیکھ کرتالیاں پیٹتے اورواہ واہ کاشورمچ جاتا۔
یاایلی کوامرتسرکی آم والی کوٹھی یادآجاتی اورنوراپنی تمام تررعنائی سے ٹہلتے ہوئے گانے لگتاپھرشبھ لگن سے بہارآجاتی۔ندی کاپانی رک جاتااورندی ایک وسیع نیلی جھیل میں تبدیل ہوجاتی اوردرختوں پرکوئل کوکتی ۔کھیتوں میں سرسوں لہلہاتی اورآصف مسکراکراس کی طرف دیکھتااورآہ بھرکرکہتاآجاؤں ایلی یہاں شبھ لگن ہے۔
کئی بارایسابھی ہواتھاکہ جب وہ جماعت میں اپنے تخیل میں کھویاہوتاتھاتواس کے ساتھ نے اس جھنجھوڑکرجگادیاتھااوراس نے دیکھاکہ جماعت کے تمام لڑکے کی نگاہیں اس پرمرکوزتھیں اورمونچھوں والاایکٹرپروفیسراس پرپھبتیاں کس رہاتھا۔
اکنامکس کے پیریڈ میں ایساحادثہ ہرلحظہ ہواتھا۔اسی لیے اکنامکس کے پیریڈمیں کبھی کسی کاڈرمحسو س نہ ہواتھا۔اکنامکس کے پروفیسر ہرلحاظ سے انگلینڈ ریٹرنڈقسم کی طبیعت کے مالک تھے۔اگرچہ وہ انگلستاں سے ڈگری لے کرواپس آچکے تھے۔مگرذہنی طورپرہمیشہ کے لیے انگلستاں ہی میں مقیم ہوچکے تھے ۔وہ خوبصورت لباس پہن کرجماعت میں داخل ہوتے تھے اورآتے ہی رجسٹرکھول کرحاضری لگانے میں مصروف ہوجاتے تھے۔حاضری لگاتے وقت انہوں نے کبھی سراٹھاکرلڑکوں کی طرف نہ دیکھاتھا۔حالانکہ انہیںاچھی طرح معلوم تھاکہ لڑکے یس سرکہنے کے بعدجماعت سے باہرنکلتے جارہے ہیں۔انہیں اس بات کی قطعاً پرواہ نہ تھی کہ آیالڑکے ان کے پیریڈمیں حاضررہناچاہتے ہیں یابھاگ جاناچاہتے ہیں۔الٹاوہ بھاگنے والوں کے لیے آسانیاں پیداکرنے کے قائل تھے۔انہیں اس کی بھی فکرنہ تھی کہ آیالڑکے ان کے لیکچرکوسمجھ رہے ہیںیانہیں۔آیاوہ اسے سمجھنابھی چاہتے ہیں یانہیں۔ان کااندازبالکل پروفیسرانہ تھاباقی پروفیسرتویوں بات بات پرکان کھڑے کرنے کے عادی تھے جیسے سکول ماسٹرہوں۔
بہرحال ایلی جماعت میں ضروربیٹھتاتھا۔وہ حاضری لگواکربھاگتا نہیں تھا۔اس لیے نہیں کہ اسے تعلیم سے دلچسپی تھی یالیکچرسننے کی خواہش تھی بلکہ صرف اس لیے جماعت کے باہرکوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں وہ بیٹھ سکتاہو۔جہاں اسے کالج کے لڑکوں سے پناہ مل سکتی ہو۔جماعت کاکونہ اس کے لیے بہترین پناہ گاہ تھی۔جہاں وہ اپنے تخیل سے کھیل سکتاتھا۔
کالج میں وہ ایک گمنام لڑکاتھا۔حتیٰ کہ جماعت کے پروفیسراورلڑکے اس سے وقف نہ تھے اگرتھے بھی توسرسری طورپرجب وہ ایلی کی طرف دیکھتے۔توان کی نگاہ میں تحقیربھری ہوتی جسے محسوس کرکے ایلی کوجھٹکاسالگتا۔اس کاجی چاہتاکہ وہ اس جگہ سے بھاگ جائے۔ان تمسخربھری کریدتی ہوئی نگاہوں سے دوربھاگ جائے اورپھرچھم سے شہزاداس کے روبروآکھڑی ہوتی اوراپنی دونوں بانہیں اٹھاتی اوروہ اس کی آغوش میں گرجاتا۔
ان دنوں حسن منزل کے قریب کالج والے ایک نیابورڈنگ تعمیرکررہے تھے جس میں صرف کیوبیکل بنے ہوئے تھے۔یہ خبرعام تھی کہ حسن منزل کوخالی کردیاجائے گا۔اورحسن منزل کے لڑکوں کوریوازیانئے بورڈنگ میں جگہ دی جائے گی۔جوکالج کی عمارت کے ساتھ ملحق تھے۔یہ خبرایلی کے لیے بڑی پریشان کن تھی کیونکہ ایلی کوحسن منزل کی تنہائی اورخاموشی بے حدپسندتھی ۔وہ ریوازہوسٹل میں جانانہیں چاہتاتھا۔جہاں لڑکے بے حدہنگامہ پسندتھے۔
ایلی کی خواہش تھی کہ اسے ایک کمرہ مل جائے جہاں وہ تنہائی میں اطمینان سے رہ سکے لیکن الگ کمرہ ملناآسان نہ تھا۔نئے ہوسٹل کے کیوبیکل خصوصی طورپرسکینڈاورفورتھ ائیرکے لڑکوں کے لیے بنائے گئے تھے ایلی توتھرڈائیرمیں تھااس کے لیے کیوبیکل حاصل کرناتقریباً ناممکن تھا۔اورپھریوسف اعظم سے جوکالج کے نئے پرنسپل بن کرآئے تھے اورجنہوں نے آتے ہی نظم ونسق کی وجہ سے کالج میں اپنی دھاک بٹھادی تھی۔
ایک روزجب ایلی اپنے کمرے میں بیٹھاجمال کی اس عجیب وغریب بیماری کے متعلق سوچ رہاتھاجوابھی تک ٹھیک نہ ہوئی تھی۔اورجس کی وجہ سے اس نے مزیدایک ہفتے کی چھٹی مانگی تھی توریاضت فاتحانہ اندازسے کمرے میں داخل ہوا۔آتے ہی کہنے لگا۔
’’میں نئے ہوسٹل میں جارہاہوں۔مجھے وہاں ایک کمرہ مل گیاہے۔‘‘
’’نئے ہوسٹل میں‘‘ایلی نے حیرانی سے پوچھا۔’’تھرڈائیرکونئے ہوسٹل میں کس طرح کمرہ مل گیا۔
ریاضت مسکراکرکہنے لگا’’میرے اباڈاکٹرہیں۔انہوں نے پرنسپل کولکھاہے۔اس لیے دراصل بات یہ ہے ۔‘‘وہ گھبراکربولا’’اگرمیں شوردشغب میں رہوں تومجھے قبض کاعارضہ ہوجاتاہے۔‘‘
ایلی نے حیرانی سے ریاضت کی بات سنی۔شوروشغب سے قبض‘یہ بات اس کے لیے انوکھی تھی۔سارادن وہ سوچتارہاکہ وہ بھی ایساہی کوئی بہانہ تراش لے توشایداسے بھی نئے ہوسٹل میں جگہ مل جائے اورریوازہوسٹل میں جانے سے بچ جائے۔
واٹ ناسن
دوروزکی مسلسل سوچ بچارکے بعداس نے ایک عرضی لکھی جس میں درج تھاکہ میں ذہنی انتشارکامریض ہوں اورشوروشغب میں تعلیم کی طرف توجہ دینے سے معذورہوں۔لہٰذاازراہ کرم مجھے ایک کیوبیکل میں رہنے کی اجازت دی جائے۔
عرضی ہاتھ میں پکڑے وہ دیرتک پرنسپل کے چپڑاسی کے ساتھ دفترکے باہر بیٹھارہا۔پھرپرنسپل نے اسے بلایا۔اندرداخل ہوکراس نے مؤدبانہ سلام کیااورعرضی پرنسپل کے سامنے رکھ دی۔
’’ول ول‘‘عرضی پڑ ھ کرپرنسپل غصے میں بولا۔’’تم نیوراسس کامریض ہے؟‘‘
’’جی ہاں جی ہاں۔‘‘’’ایلی نے نیوراسس کامطلب سمجھے بغیرسرہلایا
’’ول ول‘‘پرنسپل بولا۔’’توتمہیں کالج میں کس نے داخل کیا۔نیوراسس کے مریض کاکالج میں کیاکام۔‘‘
’’جی جی۔‘‘ایلی گھبراگیا۔اسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاجواب دے۔
’’ہم تمہیں کالج میں رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔جب تک تم فٹنس کاسارٹیفکیٹ نہ پیش کرو۔سمجھا۔‘‘
’’جی جی۔‘‘ایلی کی گھگھی بندھی ہوئی تھی۔
’’کیانام ہے تمہارا؟‘‘پرنسپل نے گھورا۔
’’جی جی۔ایلی ۔ایلی جی ہاںایلی۔‘‘
’’ایلی۔‘‘پرنسپل نے حیرانی سے دہرایا’’یہ کیسانام ہے۔‘‘
’’جی نام توالیاس ہے الیاس ویسے ایلی ایلی کہتے ہیں۔‘‘
اس پرپرنسپل نے نہ جانے کیوں ہنسنے لگا۔’’تم کالج میں پڑھتاہے۔اس کالج میں۔‘‘وہ بولاعین اس وقت چھت کے گارڈرپربیٹھے ہوئے کبوترنے بیٹ کی جوپرنسپل کے سرپرگری۔
’’ہے۔‘‘وہ چلانے ’’واٹ نان سینس۔اے چوکیدار۔چوکیدار۔‘‘اس نے گھنٹی بجانی شروع کردی۔اورپھرغصے میں کمرے میں ٹہلنے لگا۔
ایلی ڈرکردیوارسے لگ گیا۔چوکیداربھاگابھاگااندرداخل ہوا۔’’حضورحضور۔‘‘
کہاں تھاتم ۔کہاں تھا۔وائس پرنسپل کوبلاؤ۔وائس پرنسپل کوفوراً۔‘‘
چوکیدارباہربھاگاپرنسپل دیوانہ وارکمرے میں گھوم رہاتھا۔کبھی وہ چھت کی طرف دیکھتاکبھی اپنے سرپرہاتھ پھیرتاوہ مسلسل چلائے جارہاتھا۔’’واٹ نان سینس دس ازآفس آراے پجن ہول دس ازنوخانقاہ۔‘‘وہ کبوترکودیکھ کرکہتا۔
مونچھوں والاپروفیسرگھبراہٹ میں داخل ہوا۔
’’اے وائس پرنسپل ۔واٹ ازدس۔یہ کالج ہے خانقاہ ہے۔‘‘
’’خانقاہ۔‘‘وائس پرنسپل نے تعجب سے دہرایا۔
’’ول ول ووسچن دیکھو۔وہ چھت پروہ۔‘‘اس نے اشارہ کیا۔’’سی ویٹ اٹ ازریمووڈ۔‘‘
’’ابھی ابھی۔دس ازپرنسپل روم ناس سس اس نے چوکیداراوروائس پرنسپل کومخاطب کرکے کہاچوکیدارباہرسے ایک لمبابانس لے کرآیااوروائس پرنسپل اورچوکیدارکبوترکونکالنے میں مصروف ہوگئے۔
دفعتاً پرنسپل کی نظرایلی پرپڑی۔’’ول تم یہاں کیوں ہے۔‘‘
’’جی وہ عرضی۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’عرضی ۔کیسی عرضی۔‘‘وہ عرضی کی طرف لپکا۔
’’آپ نے کہاتھا۔آپ نے یعنی ۔‘‘ایلی گھبراہٹ میں بولا۔
’’ول ول چھٹی مانگتاہے۔‘‘
’’جی جی یعنی میرامطلب ہے۔‘‘ایلی کی گھبراہٹ اوربڑھ گئی۔
پرنسپل نے جیب سے پن نکالااورعرضی پرکچھ لکھ کرایلی کے ہاتھ میں عرضی تھمادی۔رن اوے رن اوے وہ ایلی اورکبوترسے مخاطب ہوکرچلانے لگا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کرایلی نے عرضی میز پرپھینک دی۔اورخودچارپائی پرپڑگیانہ جانے اب کیاہوگا۔وہ سوچ رہاتھا۔کہیں کالج سے نہ نکال دیں۔اسے پرنسپل نے کہہ جودیاتھاکہ تمہیں کالج میں کس نے داخل کیاتھا۔لیکن میں یہ عرضی پھاڑدوں گامجھے کیاپڑی ہے کہ کسی کودکھاؤں جویہ عرضی۔
وہ سوچنے لگاکیاکالج کے پرنسپل ایسے ہوتے ہیں اورپھریوسف اعظم کتنامشہورآدمی تھاوہ ساری دنیامیں اس کے علم کاچرچاتھا۔انگریزی کاعالم گناجاتاتھا۔کیابڑے آدمی اس طرح کے ہوتے ہیں۔اوروہ یوں کمروں میں کبوتراڑاتے ہیں۔
کمرے میں دوسری طرف ریاضت اپناسامان اکٹھاکررہاتھاکیونکہ اسی روزوہ نئے بورڈنگ میں جارہاتھا۔
’’یہ کاغذیہ کاغذ‘‘اس نے میزسے کاغذاٹھاتے ہوئے کہا۔یہ میراکاغذہے کیا؟‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘ایلی اس کی بات سمجھے بغیربولا۔
’’ارے ہائیں۔‘‘ریاضت چلایا۔’’یہ توتمہاری عرضی ہے۔‘‘
’’میری عرضی ‘‘ایلی نے اٹھ بیٹھا۔’’میری عرضی ۔ہاں ارے ‘‘اسے یادآیا۔’’اسے مجھے دے دواسے پڑھونہیں یہ توپرائیوٹ کاغذہے۔وہ ریاضت کی طرف لپکا۔
ریاضت گھبراکرپیچھے ہٹ گیا۔’’میں نے توپڑھ لی ہے۔‘‘وہ بولا’’مجھے معلوم نہ تھاکہ تمہیں بھی نئے بورڈنگ میں کمرہ دے دیاگیاہے۔‘‘
’’کمرہ دے دیاگیاہے۔‘‘ایلی نے حیرت سے ریاضت کی طرف دیکھا’’کس کوکمرہ دے دیاگیاہے۔
’’یہ دیکھولواس پرجولکھاہے۔‘‘ریاضت نے عرضی اس کی طرف بڑھادی۔
ایلی نے حیرانی سے عرضی کی طرف دیکھاتھا۔یس اوکے نیچے پرنسپل کے دستخط جوتھے۔خوشی سے ایلی کی چیخ نکل گئی۔’’ارے ۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنس پڑاارے وہ کبوتراڑانے والامسخرا۔حدہوگئی۔واٹ نان سنس وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگا۔
ابھی ایلی کونئے ہوسٹل میں کمرہ ملے صرف ایک دن ہواتھاکہ کالج دس روزکے لیے بندہوگیااوروہ اپناسوٹ کیس اٹھائے علی پورروانہ ہوگیا۔
جب وہ سٹیشن پرپہنچاتووہاں رضااسے ملا۔
’’ارے تم‘‘رضانے خوشی سے اپنی ہاکی کی سٹک گھمائی۔’’تم یہاں کیسے۔‘‘
’’چھٹیاں ہوگئی ہیں نااس لیے آگیاہوں۔‘‘
’’توبڑے وقت پرآتاہے ایلی۔بڑے وقت پرآتاہے۔میں سوچ رہاتھاکہ ان شادیوں میں اگرتونہ آیاتوکیامزاآئے گا۔بالکل بے کار۔‘‘
’’شادیاں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔’’کس کی شادی؟‘‘
’’ایک ارے بابووہاں توپوری چارشادیاں رچی ہیں اپنے محلے میں روزڈھولک بجتی ہے۔عورتیں گاتی ہیں میراثیوں کی بیٹھک ہوتی ہے۔وہ رنگ جماہے محلے میں دیکھوگے توآنکھیں کھل جائیں گی۔مندربناہواہے۔مندر۔اوروہ تمہاری۔‘‘رضارک گیا۔وہ آنکھیں پھاڑکراورزبان ہونٹوں میں لے کرکہنے لگا۔’’توبہ توبہ ہے۔وہ تو سچ مچ اس مندرکی دیوی ہے اورایلی گاتی ہے یہ وہ ہے کیاگاتی ہے کیاگلاپایاہے اورجوگاتے ہوئے دیکھ لوتوخداکی قسم آنکھیں ابل آتی ہیں۔پاگل ہوجاتاہے دیکھنے والاچلو۔محلے میں چلوتو۔۔۔لیکن ‘‘دفعتاًرضارک گیا۔’’تم وہاں جاکراس کے ہورہوگے تمہارے لیے تونیچے اترنامشکل ہوجائے گاہمارے لیے تمہاراآنانہ آنابرابرہوجائے گا۔‘‘’’پاگل ہوگئے ہو۔‘‘ایلی نے جھوٹ موٹ اسے ڈانٹا۔
’’تم چاہے ڈانٹ لو۔جوجی آئے کہہ لولیکن’’رضاکی آنکھیں بھرآئیں۔’’اس نے تمہیں ہم سے چھین لیاہے اوروہ ارجمند۔وہ بھی نہیں آرہااب کی بار۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’بیمارہے کھانسی بڑھ گئی ہے ۔سناہے اب توہروقت بخاررہتاہے۔وہاں گاؤں میں چارپائی پرپڑاہے۔‘‘
’’رضا‘‘ایلی نے اسے کہا۔’’چلوکبھی وہاں چلیں۔ارجمندسے مل آئیں۔تمہیں نہیں معلوم وہ بڑی منتیں کرتاتھاکہتاتھا۔دوایک بارمیرے پاس آؤصرف ایک بار۔‘‘ایلی پررقت طاری ہوگئی۔’’کہتاتھا‘‘اس سے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’مجھے صرف یہی حسرت ہے کہ تم اپن کی راجدھانی دیکھنے کے لیے نہ آئے۔کہتاتھا‘‘اسے بے اختیارہنسی آگئی۔’’گاؤں کی گوریاں جواپن کے چرن چھوچھوکرجیتی ہیں کب سے راہ دیکھ رہی ہیں تمہاری۔‘‘
وہ دونوں ہنسنے لگے۔
’’توپھرچلو۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’لومیراکیاہے۔‘‘رضانے کہا’’آج کہوتوآج ہی جانے کے لیے تیارہوں۔‘‘
’’ضرورچلیں گے ۔‘‘ایلی بولا۔
جب وہ محلے کے قریب پہنچے توایلی کہنے لگا’’لومیں ذراگھرہوآؤں مل آؤں پھرآؤں گا۔‘‘
’’کون سے گھرجاؤگے؟‘‘رضاہنسنے لگا۔
’’اپنے گھرجاؤں گااورکہاں ایلی نے منہ پکاکرلیا۔
’’تمہاری ماں اورفرحت توآٹھ دن سے کابل چلے گئے ہیں اورتمہارے ابااپنی نئی نویلی کولے کرواپس نوکری پرچلے گئے ہیں توکن سے ملنے جائے گاوہاں‘‘پھروہ خودہی بولا۔
’’تیرے توکئی گھرہیں اورتواتناخوش قسمت ہے کہ وہ تیری راہ دیکھتی ہے۔خداکی قسم ایلی اگروہ ایک بارمیری طرف پیارسے دیکھ لے توپاگل ہوجاؤں ۔سب کوچھوڑدوں ۔‘‘
ایلی پاگلوں کی طرح چلانے لگا’’تم فضول باتیں کرتے ہوبے کارباتیں ‘چھوڑومجھے۔‘‘وہ بناؤٹی غصے میں چیخنے لگا۔اورغصے کابہانہ بناکروہاں سے چل پڑا۔
محلے کاچوگان لوگوں سے بھراہواتھا۔عورتیں ادھرادھرگھوم رہی تھی۔بوڑھے کھانس رہے تھے۔بچے کھیل رہے تھے وہ رک گیا۔
کھلاڑی یابھکارن
محلے والیاں کی نگاہیں ایلی پرمرکوزہوگئیں۔
’’اپناایلی آیاہے۔‘‘ایک بولی
’’اے ہے کیوں نہ آئے۔اب بھی نہ آتاکیا۔‘‘
’’کیوں اب کیاہے ماں۔‘‘
’’اے ہے یہی توموقعہ تھا‘‘ماں ہنسنے لگی۔’’اللہ رکھے سیانالڑکاہے کوئی بیوقوف ہے کیا۔
آخرکس باپ کابیٹاہے۔‘‘
وہ سب قہقہہ مارکرہنسنے لگیں۔
’’آجاآجاتورک کیوں گیا۔ایلی اماں صدقے۔‘‘
’’پرماں توہے ہی نہیں جوصدقے ہو۔کیوں ماں‘‘ایک ہنس کربولی۔
’’اس کی تواللہ رکھے ان گنت مائیں ہیں کیوں ایلی۔‘‘
عین اس وقت کھڑکی میں سے شہزادنے سرنکال کرکہا’’کب آیاتوایلی۔‘‘
دوسری بولی’’ایک تویہ بولی۔‘‘
اس پرایک قہقہہ بلندہوا۔ایلی پسینے میں شرابورہوگیا۔
’’ہاں‘‘شہزادکھڑکی سے چلانے لگی’’جوبولنے میں مزاہے وہ چپکے چپکے چوری چوری میں ’’نہیں‘‘
’’ہائے ری لڑکی کیاکہہ رہی ہے تو‘‘ماں نے منہ میں انگلی ڈال لی۔’’جو منہ میں آتاہے کہہ دیتی ہے۔ذرانہیں جھجکتی۔‘‘
’’جھجکنے کازمانہ گزرگیا۔بات پرائی ہوجائے توجھجکناکیسا۔‘‘
’’لوسن لوبہن یہ لڑکی توبس حدہے۔‘‘وہ پھرسے ہنسنے لگیں لیکن یہ ہنسی سے کس قدرمختلف تھی۔ایلی کاپسینہ سوکھ گیا۔
’’آتجھے چائے پلاؤں۔بالکل تیارہے ایلی۔‘‘شہزادنے باآوازبلندکہا۔
’’جاجاپی اس کی تو۔‘‘ماں نے پھربات شرو ع کی ۔
’’اچھے موقعے پرآیاہے تومحلے میں ایک نہیں چارشادیاں‘‘ایک نے بات کارخ بدلنے کی کوشش کی۔ ’’اے بی بی‘‘ماں بولی’’اب تواس کی شادی کی فکرکرنی چاہیے۔‘‘
’’سن رہی تو’’ایک نے شہزادکی طرف مخاطب ہوکرکہا۔’’کوئی اس کے بارے میں بھی فکرکر۔‘‘
’’ایسی بیوی لاؤں گی اس کی ’’شہزادنے گھبراہٹ کے بغیرکہا‘‘کہ دیکھ کرحیران رہ جاؤگی۔‘‘
’’کوئی ایسی نہ لے آنا۔‘‘ماں نے شہزادکوطعنہ دیا۔’’جو اپنی ہی برات میں ناچناشروع کردے۔‘‘
’’اورکیامنہ میں گھنگھیاں ڈال کربیٹھ رہے۔نہ بھئی ایسی کس کام کی۔‘‘شہزادنے جواب دیا۔
’’بس کام کی توتوہی آئی محلے میں۔‘‘وہ ہنسنے لگیں۔
’’کیوں ماں دیکھ توکام کی نہیں ہوں کیا۔‘‘اس نے سینہ تان کرکہا۔
شہزادکی ہنس مکھ جرات اوربات کی رنگینی انہیں خاموش کردیتی تھی۔اور۔شہزادکی اس بات پروہ سب دل میں شہزاد کو برا سمجھنے کے باوجودداددینے پر مجبور ہو جاتی تھیں۔شہزادکی اس بات پروہ سب ہنسنے لگیں۔اورایلی کوموقعہ مل گیا۔انہیں مصروف دیکھ کروہ سیدھاشہزادکی طرف چل پڑا۔
نیچے ڈیوڑھی میں اسے مائی حاجاں مل گئی۔’’آجاکبھی ہماری طرف بھی آیاکرو۔‘‘اس نے ایلی کاہاتھ پکڑلیا۔’’کبھی ہم سے بھی کرلیاکربات۔اے ہے اتنی بے اعتنائی بھی اچھی نہیں ہوتی۔‘‘
وہ اسے پکڑکراپنے گھرلے گئی۔اورصحن میں چلاتی ہوئی کمرے کی طرف چلی۔صحن میں کئی ایک عورتیں بیٹھی تھیں۔دبلی پتلی‘زردرومیلی عورتیں۔
’’نہ لڑکی یہ خودتونہیں آیامیں زبردستی لائی ہوں اسے۔یہ کہاں آتاہے کسی کے ہاں یہ توصرف کوٹھے پرہی چڑھناجانتاہے چپکے سے سیڑھیاں چڑھ جاتاہے جیسے چوردبے پاؤں آتے ہیں۔‘‘
مائی حاجاں کاکمرہ بہت چھوتااورتاریک تھا۔اس میں ایک طرف ایک پراناپلنگ بچھاہواتھا۔
جس کے سرہانے مٹی کے برتن نیچے اوپررکھے ہوئے تھے۔ایک طرف ایک میلاساتخت پڑاتھا۔مائی حاجاں نے اسے پلنگ پربٹھادیا۔اورخودایک چوکی لے کربیٹھ گئی کہنے لگی’’اے ہے میں تودیرسے سوچ رہی تھی کہ کبھی تواکیلامل جائے توبات کروں۔آخرمیں نہ کروں تجھ سے بات بیٹاکون کرے گا۔‘‘
ایلی کاماتھاٹھنکانہ جانے کیاکہنے کے لیے وہ اسے وہاں کھینچ لائی تھی۔ضرورکوئی بات ہوگی۔وہ گھبراگیا۔
’’اے ہے۔‘‘وہ بولی’’لوگ توویسے ہی باتیں باتیں بناتے رہتے ہیں۔ان کے دل میں دردنہیں ہوتانالیکن میرے لیے توتواپناہے بلکہ اپنوں سے سے بھی بڑھ کرعزیز۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے ماں ۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’اے ہے۔برانہ مانیومیری بات کامیں توتیراہی بھلاچاہتی ہوں۔‘‘ماں نے تمہیدکے طورپرکہا۔
’’ہاں ہاں ہاں‘‘وہ بولا
’’اوردیکھویہ نہ سمجھناکہ میں کسی خیال سے کہتی ہوں ۔نہ بھئی مجھے کوئی خیال نہیں۔توخوش رہ میں صرف یہی چاہتی ہوں چاہے جہاں مرضی ہے رہ بس میری خوشی تواسی میں ہے۔پرلڑکے آخردنیادنیاہے۔دنیاکومنہ کون بندکرسکتاہے۔جب لوگ تیرے متعلق باتیں کرتے ہیںتودل دکھتاہے اوردیکھنا۔پھریہ لڑکی ہے کیانام ہے اس کاآج کل کے نام بھی توعجیب ہوتے ہیں۔میں اسے برانہیں کہتی بیچاری بڑی اچھی ہے ہنس مکھ ہے اورایمانداری سے کہتی ہوں کوئی چلاجائے۔اس قدرمحبت سے ملتی ہے اوراتنی خاطرتواضع کرتی ہے کہ میں کیابتاؤں۔‘‘ایک ساعت کے لیے وہ چپ ہوگئی پھر خودہی بولی’’لیکن جانتاہے کہ آخراصل اصل ہے اورنقل نقل ہاں خون خون کی بات ہوتی ہے۔ہم غریب سہی مگرہماراخاندان اصلی ہے۔اس میں کوئی ملاوٹ نہیں توجانتاہی ہے۔خاندان بڑی چیز ہوتی ہے۔ہاں اورسچ پوچھ تووہ کبھی چھپانہیں رہتا۔تم ہی کہوکیااپنے بیاہ پرکبھی کسی کوگاتے سناہے۔ایمان سے کہنا۔توبہ ہے آخرلاج بھی کوئی چیزہے۔ہے نااپنے ہی بیاہ پرگاتی رہی اورمحلے والیاں منہ میں انگلیاں ڈالے حیرت سے تک رہی تھیں۔‘‘وہ خاموش ہوگئی۔
’’سوبیٹا‘‘وہ بولی۔’’اس طرح آنکھوں پرپٹی باندھ کرچلتاگیاتوکیاہوگایہ راستہ اچھانہیں ۔اس کے لیے توگھڑی بھرکاتماشاہوجائے گا۔کھلاڑی کوتوکھیل چاہیے پرتیری ساری جندگی حرام ہوجائے گی ہاں کہے دیتی ہوں میں تجھے۔آگے توچاہے جوکرہماراکام توصرف تجھے بتادیناہے۔آخرتوہاجرہ کابیٹاہے اورہاجرہ سے بڑھ کرہمیں اورکون عزیزہے اورایلی دیکھوجومرضی ہے کرپراپنے اباکے قدموں پرنہ چلنانہ بیٹا۔یہ راستہ اچھانہیں۔نہ اللہ رسول کوپسندہے ۔اورنہ کسی اللہ کے بندے کوتوتوبڑاہی اچھالڑکاہے۔اب بتاکیابناؤں تیرے لئی۔لسی پئے گایاشربت؟‘‘
’’نہیں ماں میں کچھ نہیں پیوں گا۔توتکلیف نہ کر‘‘۔ایلی اٹھ بیٹھا۔
’’اے ہے بیٹھ توسہی کچھ دیرکے لیے۔‘‘
’’پھرآؤں گاماں۔‘‘وہ بولا
’’میری بات کابراتونہیں ماناتونے۔‘‘
’’نہیں ماں۔‘‘
’’مان بھی لے کیاہوا‘‘وہ بولی’’ہم توسچی بات کرنانہیں چھوڑیں گے چاہے توبراہی مانے۔ہماراتوکام ہے کہ اپنے بچوں کوبھلائی کاراستہ بتائیں۔ہاں۔‘‘
بھکارن سے دیا
ابھی وہ صحن میں ہی پہنچاتھاکہ چھن سے شہزادناچتی ہوئی آپہنچی۔
’’ہے میں نے کہا۔‘‘وہ بولی’’نہ جانے کہاں گم ہوگیاہے۔میرے سامنے توچل پڑاتھاچوگان سے پھرچلاکہاں گیا۔حیرت کی بات تھی‘کیوں ماں۔‘‘
’’توکیااس کے ایک ایک منٹ کاحساب رکھتی ہے لڑکی۔‘‘ماں نے ہنس کرطعنہ دیا۔
’’کیوں نہ رکھوں ماں‘‘وہ ہنسنے لگی’’رکھناپڑتاہے۔ذمہ داری کی بات جوہوئی۔‘‘
’’اب تومیراہی مہمان ہے یہ۔جب فرحت اورہاجرہ ہوتی تھیں جب اوربات تھی۔اب میں نہ دھیان رکھوں گی توآکرکیاکہیں گی۔‘‘
’’اب توان کابہانہ نہ بنا۔‘‘ماں بولی۔
’’بہانے بھی بنانے ہی پڑتے ہیں۔‘‘وہ رازدارانہ اندازسے کہنے لگی۔
’’ہائے ری کیاکہہ رہی ہے تو‘‘ماں نے انگلی منہ میں دبالی۔‘‘تیری یہ باتیں لے ڈوبیں محلے والوں کو۔‘‘
’’لوماں ‘‘وہ پھرہنسنے لگی۔’’فی الحال تومجھے ہی لے ڈوب رہی ہیں۔‘‘
’’تونہ ڈوب کس نے تجھ سے کہاہے کہ جو منہ میں آیابک دینا۔‘‘ماں نے ہنس کرکہا۔
’’چل اب جوچائے ٹھنڈی ہوگئی ہوگئی توپھرسے کون بنائے گاچائے تیرے لیے چل‘‘وہ ایلی سے کہنے لگی۔
’’بس تیری چائے پیتاہے یہ۔میں نے کتنی ہی منتیں کیں کہ یہاں پی لے ۔پراس لڑکے نے نہ کی رٹ لگائے رکھی۔‘‘
جب وہ سیڑھیاں چڑھنے لگے توایلی نے شہزادکاپلوپکڑلیا۔
’’ذرابات توسن‘‘وہ بھرائی ہوئی آوازمیں بولا۔
لیکن شہزادقہقہے لگاتی ہوائی ہوائی کی طرح اوپرچڑھ گئی۔
اوپرجاکروہ چیخنے لگی۔’’اب آؤگے بھی یادومزدوروں کوبلاؤں اٹھانے کے لیے‘‘۔اس کادوپٹہ ایلی کے ہاتھ میں رہ گیا۔
اس کی بات سن کر رابعہ اپنے کمرے سے نکل آئی۔’’کس کواٹھواناپڑے گا۔کس سے باتیں کررہی ہوتم۔‘‘
’’تمہاراہی بھائی بندہے کوئی۔اوپرچڑھنے کانام ہی نہیں لیتا‘‘شہزادہنسی۔
’’اوہ تمہارادوپٹہ کیاہوا۔‘‘رابعہ نے پوچھا۔
’’پوچھواسی سے ‘‘وہ بولی’’اس کاکیااعتبارہے آج میرادوپٹہ اتارلیاہے۔اس نے کل نہ جانے زیوراتارنے کے لیے کان مروڑلے۔ نہ بھائی یہ تمہارے رشتے دارمجھ سے نہیں سنبھالے جاتے۔‘‘
’’سلام کہتاہوں۔‘‘ایلی نے اوپرآکررابعہ سے کہا۔
’’توہے ایلی ‘‘وہ بولی’’میں سمجھی نہ جانے کس سے کشتی لڑتی ہوئی آتی ہے۔‘‘
’’یہ تیرابھائی بندکیالڑے گاکشتی۔‘‘شہزادہنسی۔’’اس کی صورت تودیکھو۔‘‘
’’صورت تواچھی بھلی ہے۔‘‘رابعہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’دیکھ لو۔‘‘وہ بولی’’یوں معلوم ہوتاہے جیسے ابھی رودے گا۔‘‘
ایلی کوشہزادپربے حدغصہ آرہاتھا۔لیکن اس کی باتیں سن کراوراس کی ہنسی دیکھ کروہ بھی ہنسنے لگا۔اوروہ دونوں ہنستے ہوئے اوپرچوبارے میں چلے گئے۔
چوبارے میں جانو کھڑی تھی۔
’’کیوں جانوچائے بھی بنائی یانہیں۔دیکھ تومہمان عین سرپرپہنچ گیاہے۔‘‘شہزادنے پوچھا۔
’’بڑامہمان تودیکھو۔‘‘جانو بولی۔’’ایسوں کوہم مہمان نہیں سمجھتے ۔‘‘
’’توکیاسمجھتے ہوہمیںبھی بتاؤبھئی۔‘‘اس نے جانو سے کہا۔
’’یہ بے ایمان ہے۔مہمان تودودن کاہوتاہے۔‘‘جانو نے کہا۔
’’کیوں تم سے کوئی بے ایمانی کی ہے اس نے ۔شرماتی کیوں ہوبتادے میں کسی کوبتاؤں گی تھوڑی۔‘‘
’’اے ہے مجھ سے کیوں کرے بے ایمانی تم جوہو۔‘‘جانو غصے میں آگئی۔
’’لے ایلی مجھ سے کراس سے نہ کریو۔یہ توروپڑی ۔‘‘شہزادنے کہا۔
جانونیچے چائے بنانے کے لیے گئی توایلی نے پھرسے ہاتھ پھیلادیئے۔
’’شہزاد‘‘وہ بولا’’شہزادمیری طرف دیکھو۔‘‘
’’بس تم توبھکاری ہی رہے۔‘‘وہ پھرہنسنے لگی’’ہاتھ پھیلانے کے علاوہ تمہیں کچھ سوجھتابھی ہے۔
’’نہیں کچھ نہیں سوجھتا۔کچھ مل جائے ہمیں۔‘‘ایلی نے پھرہاتھ بڑھایا۔
’’بھکارن سے دیامانگتے ہو۔اب یہاں رکھاہی کیاہے۔‘‘شہزادنے آہ بھری۔’’سبھی کچھ لٹ گیا۔اب بھکاری آیابھی توکیاآیا۔اب اسے کیادے‘کیادے۔‘‘شہزادنے بھرپورنگاہ سے ایلی کی طرف دیکھا۔
’’شہزاد‘‘ایلی دیوانہ واراس پرجھپٹا’’میں پاگل ہوجاؤں گا۔‘‘
’’ہوجاؤہوجاؤ۔جلدی کرو۔‘‘شہزادہنسنے لگی۔
ایلی نے اس کاہاتھ پکڑلیااوردیوانہ واراسے چومنے لگا۔اورشہزادیوں کھڑی میں کھڑی ہوکرباہردیکھنے لگی جیسے اس ہاتھ سے اسے کوئی تعلق نہ ہو۔
جانوچائے لائی تووہ چونکی۔ٹرے لے کرشہزادنے میزپررکھ دیا۔اورزبردستی ایلی کوکرسی میں بٹھاکرکہنے لگی’’لواب یہاں بیٹھ کرچائے پیو۔میرے سامنے بیٹھے رہواورمیں تم سے کچھ نہیں مانگتی۔‘‘اورپھراس کے سامنے تخت پربیٹھ کریوں سلائی کے کام میں مصروف ہوگئی جیسے اسے سے دورکاواسطہ بھی نہ ہو۔ایلی پاگلوں کی طرح اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کے ہاتھ پاؤں بازواورماتھے کے تل کاجائزہ لے رہاتھا۔اس کی چھوٹی سی چھوٹی حرکت پرنثارہوئے جارہاتھا۔
دورباہرصحن میں جانوبیٹھی ایلی کی طرف دیکھ کرمسکرارہی تھی۔
آخرجانوسے نہ رہاگیاوہیں سے چلاکربولی’’اے لڑکے کیاہوگیاہے تجھے‘یوں دیکھ رہاہے جیسے پاگل ہوگیاہو۔ہوش میں آ۔‘‘
’’اونہوں‘‘شہزادسراٹھائے بغیربولی۔’’سب بے کارہے جانو۔پاگل کبھی ہوش میں نہیں آیاکرتے۔تم کیوں اپناجی جلارہی ہو۔‘‘
’’تونے ہی اسے کردیاپاگل‘‘جانوغصے میں پھنکارنے لگی۔
”اونہوں۔“وہ ویسے ہی بے پرواہی سے بولی۔”میں کیاکروں گی پاگل جانو۔میں تواپنے میاں کوپاگل نہ کرسکی۔“
”وہ توپہلے ہی پاگل ہورہاتھا۔اس کی کیابات “جانوبولی۔
”توبہ پھر“شہزادنے ہنس کرکہا”یہ بھی پہلے ہی سے پاگل ہے۔“
”توبہ ہے۔“جانونے کانوں کوہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔”اب تجھ سے کون کرے بات۔“یہ کہہ کروہ غصے میں اٹھ کرنیچے چلی گئی۔
”تونے مجھے بدنام کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ہے نا“۔شہزادنے آنکھیں اٹھائے بغیرایلی کومخاطب کیے بغیرکہا۔
”سبھی مجھے طعنے دیتے ہیں میں سمجھتی نہیں۔سب سمجھتی ہوں میں لیکن کیاکروں میں ۔تونے مجھے یہاںرہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔“
”میں بہت براہوں۔“ایلی نے خلوس سے کہا۔
”ہوگا۔“شہزادنے بے پروائی سے کہا”لیکن مجھے نہ جانے کیوں اچھالگتاہے۔میراجی چاہتاہے تجھے سامنے بٹھائے رکھوں۔سمجھ میںنہیں آتا۔کیوں تیری خاطر میں ان کے ساتھ بھی نہیں گئی کتنی منتیں کی تھیںانہوں نے میری اب کی بارلیکن میراجی ہی نہیں چاہا۔میں نے کہاچلی گئی توپھرنہ جانے کب ملاقات ہوتم سے اورپھرتم نے آنے میں اتنے دن لگادیئے۔انتظارکرتے کرتے آنکھیں تھک گئیں۔“شہزادنے سراٹھایا۔اس کی آنکھیں چھلک رہی تھیں۔آوازبھرائی ہوئی تھی۔”نہ جانے کیاہوگیاایلی۔“وہ بولی”ہائے میں توانجانے ہی میں ماری گئی اوریہ سب محلے والیاں مجھے تمہارے طعنے دیتی ہیں۔جلی کٹی سناتی ہیں۔ہروقت
”شہزاد۔“ایلی اچھل کراس کے قریب آگیا۔
دفعتاً وہ طلسم ٹوٹااورشہزادگویاجاگ پڑی۔
”نہ “وہ بولی”ایسانہ کرایلی میری اپنی نگاہ میں تومیری عزت رہنے دے۔مجھے اپنی نگامیں نہ گراتمہاراتوکچھ نہیں بگڑے گاایلی میں اپنے آپ سے جاؤں گی۔“
”تومیں کیاکروں۔“ایلی نے گھبراکرکہا۔
”وہیں بیٹھ کرمجھ سے باتیںکر۔میری باتیں سن۔میں اپنی بات کسے سناؤں۔تونے ہی نہ سنی توکون سنے گا۔ایلی۔“وہ دوپٹے کے پلوسے آنسوپونچھنے لگی۔”لیکن تم نے مجھے سمجھاہی نہیں۔توتوصرف ہاتھ پھیلاناجانتاہے۔تجھے دینے کے لیے میرے پاس کیاہے۔کچھ بھی تونہیں کیامانگتاہے مجھ سے جس کے پاس دینے کوکچھ بھی نہ ہواس کے سامنے ہاتھ پھیلانے کافائدہ واہ ایلی۔“اس نے اپناسردوپٹے میں لپیٹ لیااورگٹھڑی بن کرپڑگئی۔
گوشت کالوتھڑا
شام کے وقت شہزادنے کپڑے بدلے اوربڑے اہتمام سے بناؤسنگارکرکے بیٹھ گئی۔ایلی کویہ خیال پیداہوگیاکہ یہ اہتمام اس کی آمدکی وجہ سے ہے ۔شہزادکے اس اہتمام کی وجہ سے بے خوش ہورہاتھا۔
شہزادکی طبیعت میں بلاکی بے نیازی تھی۔اس نے کبھی سنگارکے لیے سرخی یاپاؤڈراستعمال نہ کیاتھااس زمانے میں عورتیں سرخی پاؤڈراستعمال کرنے کوباعث عارسمجھتی تھیں۔کیونکہ بڑی بوڑھے اس بات کوپسندنہیں کرتے تھے کہ عورتیں سرخی پاؤڈرلگاکراپنی نمائش کریں۔اگرچہ خوبصورت کپڑے اورزیورپہننے کومعیوب نہ سمجھا جاتا۔ کپڑااور زیور پہننا توعورت کاازلی حق ہے۔
شہزادہمیشہ خوبصورت کپڑے پہنے رکھتی تھی اگرچہ اس کی پوشاک میں نمائش کی جگہ سادگی کاعنصرہوتاتھااس کی آنکھیں لمبی اورخوبصورت تھیں اوراس کے ماتھے پرقدرتی طورپرایسی مقام پرتل تھاجہاں ہندوعورتیں ٹیکایابندی لگاتی ہیں۔اس کی پیشانی اورآنکھیں اس قدرجاذب نظرتھیں۔کہ ہونٹوں کاموٹاپن اسکے حسن میں کبھی حارج نہیں ہواتھا۔
ایلی اس کے سیاہ جالی داردوپٹے جس پرسفیدپھول گاڑھے ہوئے تھے کودیکھ دیکھ کرحیران ہورہاتھا۔اسے یقین نہیں پڑتاتھاکہ شام کے وقت شہزادکاکپڑے بدل کربیٹھ جانا۔اس کی آمدکی وجہ سے تھا۔یہ کیسے ہوسکتاہے کہ کوئی میرے لیے اس قدرپرواکرے۔میرے لیے بنے سنورے۔پھربھی چوری چوری دل ہی دل میں وہ سمجھ رہاتھاکہ وہ اسی کے لیے ہے‘شام کے کھانے سے فارغ ہو کروہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ نیچے سے شوربلندہوا۔چھتی گلی سے عورتیں آوازیں دے رہی تھیں ۔بلارہی تھیں۔
”اب توجلدی بھی کرے گی یانہیں۔“جانونے شہزادسے کہا”تویہاں اپنی دھن میں لگی ہے اورسب نیچے تیراانتظارکررہی ہیں۔“
”انتظارکررہی ہیں۔کون انتظارکررہی ہیں۔“ایلی نے پوچھا۔
”اے ہے محلے کی عورتیں اورکون۔شادی والے گھرگانے کے لیے نہ جائے لگی کیا۔توسمجھتاہے یہاں تیرے سرہانے بیٹھ رہے گی کیا۔“
”شادی والے گھر۔“ایلی نے گھبراہٹ بھری شرمندگی سے کہا۔وہ شادیوں کی بات قطعی طورپربھول چکاتھا۔
”اورکہاں “جانو بولی۔”تیری شادی ہوگی توتجھے معلوم ہوگاناکہ شادی شادی والے گھرگانے کے لیے جاناضروری ہوتاہے۔ہاں۔“
”اے ہے کیوں خواہ مخواہ مغزچاٹ رہی ہو۔“شہزادجانوکوکوسنے لگی۔“جاتورہی ہوں۔جلدی آجاؤں گی میں۔“وہ ایلی سے کہنے لگی۔”توجب تک کوئی کتاب پڑھنا“اس نے ایلی پرایک نگاہ التفات ڈالی اورسیاہ پھولداردوپٹے کے سرپرلے یوں آنکھیں بناکرایلی کی طرف دیکھنے لگی کہ اس وقت اس کی قوت گویائی سلب ہوکررہ گئی۔اورپھرجب جانوسیڑھیوں میں داخل ہوگئی توشہزادنے چپکے سے ہاتھ بڑھاکراس کے منہ پرہاتھ رکھ دیا۔اوراس کے چہرے کوسہلاتے ہوئے بولی”سونہ جانا۔میں ابھی آئی۔“یہ کہہ کروہ سیڑھیوں میں داخل ہوگئی اورایلی تنہارہ گیا۔
دیرتک وہ چپ چاپ پڑارہا۔پھردفعتاً اسے خیال آیاکہ شادی والاگھرتووہی ہے جہاں غفوررہتاہے۔
اسے بچپن سے غفورسے نفرت تھی۔صرف غفورسے نہیں ان کے سارے گھرانے سے نفرت تھی۔اگرچہ وہ آصفی محلے میں رہتے تھے اورآصفیوں سے گہرے تعلقات تھے۔پھربھی غفوراوراس کے پانچوں بھائی آصفیوں کونفرت کی نظرسے دیکھاکرتے تھے اورخودکوقریشی کہلواتے تھے۔
وہ محلے سے قطعی طورپرمختلف تھے۔جسمانی لحاظ سے بھی ان کی ساخت الگ ہی تھی۔ان کے جسم بھرے ہوئے تھے قدچھوٹے اورچہر ے گول تھے انہیں دیکھ کرایلی محسوس کیاکرتاتھاجیسے وہ گوشت کے لوتھڑے ہوں ایسے غلیظ ننگے لوتھڑے جیسے علی پورکے بوچڑخانے میں اس نے بارہادیکھے تھے۔جہاں گائیاں اوربھینسیں ذبح کی جاتی تھیں۔حالانکہ غفورکے علاوہ اس کے باقی بھائی بہت شریف سمجھے جاتے تھے۔وہ چپ چاپ سرجھکائے محلے میں داخل ہوتے اورچپ چاپ سرجھکائے باہرنکل آتے۔اول تووہ محلے میں آتے ہی نہیں تھے کیونکہ ان کامکان محلے کے ایک کونے میں واقعہ تھا۔یہ کونہ بازارسے عین ملاہواتھااورانہوں نے براہ راست بازارسے آنے جانے کاراستہ بنارکھاتھاجومحلے کی ڈیوڑھی سے بھی ہٹ کرتھا۔لہٰذاانہیں گھرآنے جانے کے لیے محلے کی ڈیوڑھی میں داخل ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
انہیں دیکھ کرایلی محسوس کرتاتھاجیسے وہ سب ویسے نہ ہوں جیسے وہ دوسروں کے روبرودکھائی دیتے تھے جھکے ہوئے سرکے باوجودان کی نگاہوں میں محلے کے لیے تمسخرکی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ہونٹوں میں تحقیرکااحساس دباہوامحسوس ہوتاتھا۔جب وہ ادب واحترام سے کسی کوسلام علیکم کہتے تھے تومحسوس ہوتاجیسے محض دکھاوے کے لیے بات کررہے ہوںاوراگران کے ہاں کوئی محلے دارچلاجاتاتواس کی آمدپریوں خاموشی چھاجاتی جیسے نہ جانے کیاہوگیاہو۔حتیٰ کہ نوواردمحسوس ہونے لگتاکہ بگانوں کی محفل میں بیگانہ آگیاہے۔وہ سب کان سے منہ جوڑکربات کرنے والے تھے۔ان کی شکلیں دکھانے کی محسوس ہوتی تھیں اوران کی باتیں ہاتھ دانت۔ممکن ہے ایلی کے یہ احساسات دراصل ایلی کے من گھڑت بغض ہوں۔ممکن ہے کسی وجہ سے ایلی نے لاشعوری الجھن رکھی ہو۔اس کوجائزثابت کرنے کے لیے اس نے ایسے احساسات اختراع کررکھے ہوں۔بہرحال یہ ایک حقیقت تھی کہ ایلی کوغفوراوراس کے بھائیوں سے بغض تھا۔بھائیوں کی بات چھوڑئیے غفورکی ذات سے تواسے بے انتہاچڑتھی اورمحلہ میں ہرکوئی جانتاتھاکہ غفورکے رویے سے خوداس کے بھائی بھی نالاں تھے۔
عام طورپرایلی کی غفورسے ملاقات نہیں ہوتی تھی ۔اوراگرکبھی ہوتی تھی توکچی حویلی کے قریب چونکہ عام طورپرغفورمحلے کی مسجدمیں نہانے جایاکرتاتھانہانے کے لیے وہ اس راستے سے باہر نکلتاتھاجومحلے کے اندرکی چھوٹی گلی میں کھلتاتھا۔ایلی نے چھوٹی گلی میں ہاتھ میں صابن دانی اورتولیہ پکڑے اسے کئی باردیکھاتھا۔وہ بے تکلفی وہ ادھرادھردیکھتاہوابے حس اندازمیں آگے بڑھے چلاجاتا۔اورہرعورت اورلڑکی کی طرف ایسے بے باکانہ دیکھتاجیسے اس کے جسم کوجانچ رہاہو۔جیسے قصائی بوچڑخانے میں گایوں کی طرف دیکھاکرتے تھے۔ساتھ ہی وہ جسم کھجاتا۔اس وقت ایلی کو محسوس جیسے وہ کوئی بورابھالوہواوراوپرنیچے سے اپنے جسم کوتسکین دے رہاہو۔یاکسی کوکچھ سمجھارہاہو۔یہ محسوس کرکے ایلی کوبے حدغصہ آتاتھالیکن غفورطاقت میں ایلی کے مقابلے میں پہلوان کی حیثیت رکھتاتھا۔یہ بے بسی بھراغصہ ایلی کے احساس کمتری پرتازیانے کی حیثیت رکھتاوہ کھولتا۔اورپھربھاگ لیتا۔
اس روزشہزادکے انتظارمیں بیٹھے بیٹھے ایلی سوچ رہاتھاکہ وہ بیٹھی گارہی ہوگی۔گاتے وقت وہ کتنی پیاری لگتی ہے معلوم ہوتاہے جیسے اس سے اس کی آنکھوں میں ننھی قندیلیں روشن ہوجاتی ہیں اوران سے چھن چھن کرشعاعیں نکلتی ہیں۔عورتیں تعجب سے اس کی طرف دیکھتیں تھیں۔اس وقت رنگینی دوپٹوں کے اس ڈھیرکے قریب ایک بھورابھالوآکھڑاہوتا۔اس کی نگاہیں شہزادپرمرکوزہوجاتیں۔اورپھراس کاپنجہ اٹھتا۔اوروہ کھجانے لگتا۔اتنے زورسے کھجاتاکہ اس کے بال اکھڑجاتے اورنیچے سے ننگے غلیظ گوشت کالوتھڑانکل آتا۔
ایلی غصے سے کھولنے لگتا۔
پھروہ لاحول پڑھ کراپنی توجہ کسی اورطرف منعطف کرنے کی کوشش کرتامگرجلدہی پھراس گانے والیوں کے رنگین جھرمٹ سے وہی بھالوابھرتااوروہی بھیانک منظرحقیقت بن کراس کے روبروآکرکھڑاہوتا۔
ٹن---گھڑی نے ایک بجایا۔
ایک‘اس نے گھڑی کی طرف غورسے دیکھا۔ساڑھے بارہ ساڑھے بارہ بجے تک کون گاتاہے اس نے سوچا۔
عین اس وقت نیچے چوگان سے اسے عورتوں کی آوازیں سنائی دیں۔شکرہے اس نے سوچایقینا وہ بھی ان کے ساتھ ہی آرہی ہوگی۔بس پہنچاہی چاہتی ہوگی۔وہ منتظرہوکربیٹھ گیا۔ابھی وہ آکرآوازدے گی اورمیں جھٹ سے دروازہ کھول دوں گااورکہوں گادیکھایوں کیاکرتے ہیں انتظار۔آوازدیئے بغیردروازہ کھول دیا۔پاؤں کی چاپ سمجھتاہوں۔کیاسمجھاہے تم نے۔لیکن عورتوں کی آوازمدھم پڑگئی۔دروازوں پردستکیں دی گئیں۔دروازے کھلے اوربندہوگئے اورمحلے پرایک بارپھرسناٹاچھاگیالیکن شہزادکے پاؤں کی چاپ سنائی نہ دی۔
دفعتاً ایلی کی نگاہ سامنے وہ تنگ گلی آگئی جس میں غفورصابون دانی اورتولیہ تھامے ہوئے کھجاتاہواگزراکرتاتھا۔گلی میں ایک طرف شہزادسہمی ہوئی کھڑی تھی دوسری طرف ایک بھالوکھجاکھجاکرگوشت کے لوتھڑے بنائے جارہاتھا۔پھروہ شہزادکی طرف لپکااورگلی کے اس حصے پرتاریکی اوربھیانک خاموشی چھاگئی۔
ایلی پاگلوں کی طرح اٹھ بیٹھااوردیوانہ وارادھرادھرٹہلنے لگا۔بے بسی اورغصے میں اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔لیکن محلہ پرموت کی سی خاموشی طاری تھی۔
میں یہاں اس کے انتظارمیں پاگل ہورہاہوں ایلی نے سوچا۔جب جی چاہے آئے مجھے کیا۔چاہے ساری رات گلی کے تاریک کونے میں بسرکردے آخرمجھے اس سے کیاغرض یہ سوچ کروہ لیٹ گیا۔آنکھیں بندکرلیں۔اس کی نگاہوں تلے بھالوناچ رہاتھا۔قریب ہی ایک رنگین ڈھیرساپڑاتھااورگلی خوف کے مارے بھیانک اورسنسان ہورہی تھی۔
ہنستے روتے
دروازہ بجاتوچونکا۔بھاگ کراس نے کنڈی کھول دی اس وقت وہ بھو ل گیاکہ شہزادکے آنے یانہ آنے سے اسے کیاغرض تھی۔اسے یہ احساس بھی نہ ہواتھاکہ عرصہ درازتک اس نے یوں آنکھیں بندکررکھی تھیں جیسے مدت سے سوچکاہو۔
شہزادگھرپہنچتے ہی اپنی چارپائی پرڈھیرہوگئی۔”توبہ ہے۔“وہ بولی ”گاگاکرہلکان ہوگئی سریوں بھن بھن کررہاہے جیسے بھڑوں کاچھتہ ہو۔“
”لو“جانو”توکیاکپڑے بھی نہ بدلوگی۔“
”اپنی جان کھائیں کپڑے۔مجھ میں اٹھنے کی ہمت بھی ہو۔“یہ کہہ کروہ سرہانے تلے بازورکھ کرایلی کوہلائے بغیریوں سوگئی جیسے ایلی وہاں موجودہی نہ ہوجیسے ایلی نہ جانے کون ہو۔
اورایلی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس رنگین ڈھیرکودیکھتااورکمرے کے دروازے سے باہراندھیرے کونے میں بھالوناچتارہا۔اورسرخ گوشت کے لوتھڑے ابھرتے رہے۔حتیٰ کہ صبح کی سپیدی جھلکنے لگی اورتھک ہارکرایلی کی آنکھ لگ گئی۔
اگلے روزجاگتے ہی شہزادنے ایلی کے کان میں تنکے چبھونے شروع کردئیے۔
”گھوڑے بیچ کرسوئے ہوکیااب جاگوگے بھی یانہیں۔دیکھوتودن چڑھ آیاہے۔“شرم نہیں آتی“ایلی چلایا۔”ساری رات انتظارکرایااوراب تنگ کررہی ہے۔“توبہ ہے ۔“”وہ ہنسی“جب کوئی موجودنہ ہوبیٹھ کرانتظارکرتاہے اورجب موجودہو۔“وہ ہنستے ہنستے رک گئی۔”توپڑاخراٹے لے کرسوئے جاتاہے۔“
اس بات پرایلی کواورغصہ آیا۔شایدوہ سمجھتاتھاکہ شہزاداپنی غلطی تسلیم کرلے گی اوراس سے وعدہ کرے گی کہ آئندہ وہ کبھی اتنی دیرباہر نہ رہے گی۔لیکن شہزاداس معاملہ میں بالکل مجبورتھی۔نمائش کاجذبہ ۔آن کی آن میں اس میں یوں ابھرتا تھاجیسے بوتل سے جن نکلتاہے۔اورپھروہ اپناآپ بھول جاتی۔اوردیوانہ واراس جذبے کی تسکین کے لیے مضطرب ہوجاتی۔
اس روزجب وہ ایلی کوسمجھارہی تھی۔”نہ پیارے اس طرح بات بات پرنہیں بگڑاکرتے۔یہ کیابگڑنے کی بات ہے چلوتم برامانتے ہوتومیں آج سے گانے نہ جاؤں گی لیکن معلوم ہے میں نہ گئی تومحلے والیں کیاسمجھیں گی کیاکہیں گی۔ایک دوسری سے گاناتوکوئی بری چیزنہیں ذرادل لگارہتاہے۔ہم بھی دومنٹ کے لیے جی لیتے ہیں۔اگرتوبرامانتاہے تونہ سہی۔“
عین اس وقت نیچے ڈیوڑھی سے نائن کی آوازآئی۔”بی حسن دین کے گھرسے بلاواہے۔آکربری کی چیزیں دیکھ لو۔“
”بلاواہے۔“شہزاداپنے آپ بولی۔”بری کی چیزیں دیکھنے کابلاواہے ۔“
بری کی بات سن کرشہزادکی آنکھوں میں چمک لہرائی اورگردوپیش دھندلاکررہ گئے۔یکدم ایلی کاوجوداس کے لیے بے معنی ہوکررہ گیااوروہ ایلی سے کیے ہوئے تمام وعدے فراموش ہوگئے۔لپک کراٹھی اورٹرنک کھول کرکپڑے نکالنے لگی اورپھرآئینے کے سامنے سنگارمیں مصروف ہوگئی۔ایلی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔
آخروہ اس کے قریب جاکھڑاہوا۔”تم جارہی ہو۔“اس نے پوچھا۔
شہزادنے خالی نگاہوں سے ایلی کی طرف دیکھا۔”تم کہہ رہے ہوکچھ۔“اس نے ایلی سے پوچھا۔اس بے تعلقی کے اظہارپرایلی کامنہ غصے میں لال ہوگیا۔لیکن شہزادنے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔اس وقت وہ ٹرنک سے اپنامحبوب سوٹ نکال رہی تھی۔پھروہ بات کیے بغیرغسل خانے میں داخل ہوکرکپڑے بدلنے لگی۔
جلدی جلدی وہ تیارہوکریوں سیڑھیاں اترنے لگی ۔جیسے جانے کے سواکسی اوربات کی سدھ بدھ نہ ہو۔سیڑھیوں میں پہنچ کروہ چلائی۔”جانوتوہنڈیاچڑھادینامیں ابھی لوٹ آؤں گی۔“
شہزادکے جانے کے بعدایلی دیرتک غصے سے کھولتارہااسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ شہزادکوبیٹھے بٹھائے کیاہوجاتاتھا۔کہاں وہ محبت بھری باتیں کرنے والی شہزادجومحلے میں اس کی تلاش میں سرگردان پھرتی تھی اورکہاں یہ شہزادجواس کے وجودہی سے منکرتھی۔اسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ ان دونوں میں سے اصلی شہزادکون سی ہے۔
دیرتک وہ غصے میں کھولتارہااورپھراپنی حماقت پرقہقہہ مارکرہنسنے لگا۔جانواسے ہنستے دیکھ کرچلانے لگی۔”معلوم ہوتاہے تیرادماگ بھی چل گیاہے۔تم دونوں ہی کاپتہ نہیں چلتا۔“وہ بولی”بے وجہ ہنسے ہوبے وجہ روتے ہو۔“
ایلی اٹھ بیٹھا۔”اچھامیں ذراباہر جاؤں گا۔“
”ہاں ہاں۔“جانوگرائی”اب تویہاں کیوں بیٹھنے لگاجاجاکربری دیکھ تولوگ بری دیکھیں گے۔تواسے دیکھنایہاں بیٹھاکیاکری گا۔“
جب وہ سیڑھیاں اترنے لگا۔توجانواس کے پاس آئی اوردونوں ہاتھوں سے اس کامنہ پکڑکربولی۔”ماںواری کیوں اپنی جان ہلکان کررہاہے توتجھے کس چیزکی کمی ہے۔جیسی چاہے گاویسی مل جائے گی۔یہاں سے تجھے کیاحاصل ہوگا۔پھرکیوں اپناایمان گنوارہاہے تویہاں۔“
جلو
چوگان میں پہنچ کراس نے محسوس کیاجیسے خلامیں چل پھررہاہو۔اس کے لیے ساراعلی پورایک ویرانہ تھالق دق ویرانہ جس میں صرف ایک قندیل روشن تھی۔اورجب وہ رنگین قندیل نگاہ سے دورہوجاتی توگھٹاٹوپ اندھیراچھاجاتااورکچھ دکھائی نہ دیتا۔
”ابے توہے۔“رضااسے یوں کھڑے دیکھ کرچلایا۔”یہاں کیاکررہاہے توجیسے کوئی کھوگیاہو۔“
”کوئی نہیں “ایلی نے جواب دیا۔”میں خودکھوگیاہوں رضا۔“وہ پہلادن تھاجب اس نے رضاکے روبرواس بات کااقرارکیاتھا۔اگراس وقت رضااس کی بات نہ کاٹتاغالباًوہ اپناسراس کے کندھے پررکھ کررودیتا۔اورروروکراپنی داستان کہہ دیتا۔لیکن اس روزنہ جانے رضاخودکسی رنگین اضطراب میں کھویاہواتھا۔
”ارے یار“وہ بولا”آج وہ رونق ہے وہ مشغلے ہیں کہ حدہے۔ہرلڑکاکسی نہ کسی داؤپرلگاہے۔لڑکیوں کے جھنڈکے جھنڈآجارہے ہیں۔تانک جھانک ہورہی ہے۔لوگ ڈیوڑھیوں اورتنگ گلیوں میں گھوم پھررہے ہیں اورتو۔تویہاں کھڑاہے جیسے۔“
ایلی چپ کھڑارہا۔اس خاموش دیکھ کررضابولا”آئیں سائیں کے پیڑے کھلاؤں کیایادکرے گاتوچل اب۔“اوروہ دونوں سائیں کی دکان کی طرف چل پڑے۔دیرتک وہ دونوںچپ چاپ چلتے رہے ایلی اپنے خیال میں کھویاہواتھا۔اوررضاکسی اپنی ہی بات میں مگن تھا۔
فرق یہ تھاکہ ایلی کی خاموشی مایوسی بھری تھی اوررضامیں ایک امیدبھرااضطراب کروٹیں لے رہاتھا۔
دفعتاًایلی رک گیا۔”رضاایک بات کہوں۔“
”کہو۔“رضانے اپنا سونٹازمین پرٹیک کرلنگڑی ٹانگ اٹھائی”کہو۔“وہ بولا۔
اس وقت ایلی کواحساس ہواکہ اس نے رضاسے کچھ کہاہے۔شاید وہ اپنارازبتانے کے لیے مضطرب ہورہاتھا۔
”کہونا“رضابے تابانہ بولا۔
ایلی کوسمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاکہے۔وہ ایک ساعت کے لیے سوچتارہا۔پھربولا
”رضامیراجی نہیں لگتا۔“
”توپھر“وہ بولا
”پھر“ایلی نے دوہرایا۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھاکہ پھرکے جواب میں کیاکہے۔
”یہاںسے کہیں چلے جائیں؟“ایلی کے منہ سے نکل گیا۔
”لیکن جائیں کہاں۔“ایلی نے پوچھا
”ہاںیہ سوچنے کی بات ہے۔“رضابولاپھردفعتاًوہ چلایا”ارے وہ ارجمندجوہے بیچاراکب سے ہماری راہ دیکھ رہاہے۔بیمارپڑاہے۔کہتے ہیں دق ہے۔اس کابڑابھائی توجوانی میں دق سے مراتھا۔“
”ہاں ارجمندجوہے۔“ایلی نے محسوس کیاکہ علی پورسے جانے کاشوق مدھم پڑتاجارہاہے۔
”توکب چلیں؟“رضانے پوچھا۔”آج ہی سہی۔چاہے ابھی چلو۔“
ایلی سوچ میں پڑگیا۔
رضانے سونٹادونوں ہاتھوں میں تھام لیا”اب آپ ہی بات کرکے پیچھے ہٹتاہے بے۔“وہ اسے گھورنے لگا۔
ایلی بھی جوش میں آگیا”توچل ابھی سہی۔میں اپناسوٹ کیس اٹھالاؤں۔“”ہوں سوٹ کیس“رضاچلایااس کی کیاضرورت ہوگی۔بابوبناپھرتاہے۔“
”اچھاتوابھی لاسوٹ کیس اپنامیں انتظارکروں گا۔“
”تونہیں جائے گاگھراطلاع دینے۔“ایلی نے پوچھا۔
”اپناکیاہے۔“وہ بولا”کسی کے ہاتھ کہلابھیجوں گاکہ مال لینے جارہاہوں۔“توجا۔بھاگ۔“
جب ایلی گھرپہنچاتواس کادل دومتضادخواہشات میں بٹاہواتھا۔ایک لمحے میں اسے خیال آتااسے بتائے بغیرمیں کیسے جاسکتاہوں۔جب اسی معلوم ہوگاتووہ کیاکہے گا۔اورپھرآٹھ چھٹیاں ضائع کردیناپھرنہ جانے کب علی پورآنانصیب ہو۔
دوسرے لمحے وہ سوچتایہاں کیوں بیٹھااس کاانتظارکھینچتارہوں اوروہ یوں گانے میں اوربری جہیزدیکھنے میں مصروف رہے۔گاناتومحض بہانہ ہوتاہے۔مقصدتواپنی نمائش کرناہوتاہے۔اوراورپھراس وقت اس کی نگاہوں تلے وہ کھجاتاہوابھالوآکھڑاہوتا۔شہزاد ڈگڈگی بجابجاکرگاتی اس خیال پرایلی کوازسرنوغصہ آگیا۔اس نے لپک کرسوٹ کیس اٹھالیااورچپکے سے سیڑھیاں اترنے لگا۔راستے میں کئی بارجی چاہاکہ لوٹ جائے۔
علی پورسے نکلتے ہی ایلی کووہاں سے چلے آنے پرافسوس ہونے لگا۔دل میں دردہونے لگا۔گاڑی چھکاچھک چلے جارہی تھی۔دورہرے بھرے کھیتوں کے پرے شہزاداس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھی۔”نہ جاؤنہ جاؤتم کیوں چلے گئے ہوایلی کیاتم مجھ پراعتمادنہیں کرسکتے۔“
”ایلی ۔“شہزادچیخ رہی تھی چلارہی تھی۔
سٹیشن پراترنے کے بعدایلی سے ان چندکچے گھروندوں پرنگاہ ڈالی جوریلوے سٹیشن کے پاس ڈھیرہورہے تھے۔
چمارکی دوکان پرچارایک آدمی کھاٹ پربیٹھے حقہ پی رہے تھے۔
ان کے قریب ہی دوآدمی زمین پربیٹھے اونگھ رہے تھے۔بائیں ہاتھ کیکرکے درخت تلے ایک گدھاکھڑاتھاجس پرلکڑیاں لدی ہوئی تھیں اس کے قریب ہی کونیں پرچارایک بھدی اورمیلی عورتیں پانی بھررہی تھیں۔کچے گھروندوں کے چاروں طرف دوردورتک بنجرزمین کاوسیع پھیلاؤ۔
گاؤں دیکھ کرایلی گھبراگیا۔”کیایہی گاؤں ہے۔“اس نے رضاسے پوچھا۔”یہ محض ویرانہ ہے۔“
”اورکیاہوپیارے۔“رضاچلایا۔”گاؤں توایسے ہی ہوتے ہیں۔“
”لیکن لیکن ارجمندتوکہتاتھا۔“
رضانے قہقہہ لگایا”اسے توبکنے کی عادت ہے بکے جاتاہے۔“”وہ توبندرابن بنائے بیٹھاہے۔“ایلی نے کہا۔
”دیکھ لوبندرابن“رضاہنسنے لگا۔
”وہ توکارخانے میں کام کرتاہے نا۔“ایلی نے پوچھا۔
جلوکاتارپین کاکارخانہ گاؤں سے میل کے فاصلے پرتھا۔سٹیشن سے ایک چھوٹی سی لائن کارخانے کی طرف جاتی تھی جس پرچھوٹی چھوٹی ٹرالیاں چلتی تھیں۔
کارخانہ ایک وسیع چوگان میں تھاجس میں عمارتیں اورمشینیں توکافی تھیں لیکن بیشترعمارتیں ویران پڑی تھیںاوراکثرمشینیں بے کارکھڑی زنگ آلودہوچکی تھیں۔
کارخانے کے جنوبی حصے میں مزدوروں اورملازمین کے لیے کواٹروں کی چندقطاریں بنی ہوئی تھیں۔بہت دیرتلاش کے بعدانہیں ارجمندکاگھرملا۔
مرلی کارسیا
وہ ایک چھوٹاساکوارٹرتھا۔مختصرسے صحن میں ایک چھوٹاساباورچی خانہ اورغسل خانہ بناہواتھا۔دوسری طرف ایک کمرہ تھا۔
کمرے میں ایک طرف چارپائی پرارجمندلیٹاہواتھا۔چارپائی کے قریب اس کی ماں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔دوسری طرف ارجمندکی ہمشیرہ چپ چاپ بیٹھی رو رہی تھی۔
چارپائی پرارجمندکاڈھانچہ پڑاہواتھا۔چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں‘آنکھوں کے گردسیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ایلی نے گھبراکرچاروں طرف دیکھا”یااللہ یہ میں کہاں آگیاہوں۔“اس کے قریب رضالاٹھی زمین سے ٹیکے چپ چاپ کھڑاتھا۔
دفعتاً ارجمندکی ماں نے ان دونوں کودیکھا۔ایک ساعت کے لیے انہیں پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتی رہی پھرچونکی۔اس نے مسکرانے کی شدیدکوشش کی۔لیکن اس کی ہچکی نکل گئی۔اورپھرٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے۔
”دیکھ توبیٹا۔“وہ بھرائی ہوئی آوازمیں بولی۔”تیرے دوست تجھ سے ملنے آئے ہیں۔دیکھ توادھرآنکھیں توکھول۔“لیکن ارجمنداسی طرح آنکھیں بندکیے پڑارہا۔
وہ ایلی اوررضاسے مخاطب ہوکربولی”اسے تواپنی سدھ بھی نہیں رہی۔بس یوں ہی آنکھیں بندکیے پڑارہتاہے۔نہ خودبات کرتاہے۔نہ کسی کی بات سنتاہے۔آؤ بیٹھ جاؤ۔دیکھ لواپنے دوست کاحال۔“
وہ دونوں چپ چاپ چوکیوں پربیٹھ گئے ماں پھراپنے بیٹے کی طرف کی ٹکٹکی باندھ کردیکھنے میں کھوگئی اورکواٹرپرایک خوفناک خاموشی مسلط ہوگئی۔
نہ جانے کب تک وہ یوں ہی چپ چاپ بیٹھے رہے۔
رضانے اپناسرگھنٹوں میں دے رکھاتھا۔ایلی غورسے ارجمندکی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہاتھا۔پھراس کی نگاہ اس میزپرپڑی جوارجمندکے سرہانے پڑی تھی۔میزپرایک موتی سی مجلدکاپی تھی جس کے سرورق پرخوش خط حروف میں انکراینڈی ماباؤں لکھاہواتھا۔ایک طرف بانسری دیوارسے لگی کھڑی تھی۔اوراس کے قریب ہی سستی خوشبوکی چندخالی شیشیاں تھیں اوراشعارکی کئی ایک چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑی تھیں اپنی انکراینڈی پریم سندیس پریم پتراورپونم ٹوناسے بے نیازگوکل کے بن کاوہ کنہیاآنکھیں بندکیے ہوں بے حس لیتاہواتھاجیسے اس میں حرکت کی سکت نہ رہی ہو۔“
اس منظرکودیکھ کرایلی کاجی چاہتاتھاکہ چیخیں مارمارکررودے۔
دفعتاًارجمندکوکھانسی کادورہ شروع ہوگیااوراس کاساراجسم کھانسی کی شدت سے لرزنے لگا۔سینے میں دھنکی سی چل رہی تھی۔ہڈیاں چیختی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ماں نے بڑھ کراسے تھام لیا۔بہن چونے بھراپیالہ اٹھاکرپاس آکھڑی ہوئی تاکہ اسے تھوکنے میں دقت نہ ہو۔دیرتک ہڈیوں کاڈھانچہ یوں ہلتارہا۔جیسے روئی سے بناہواہو۔پھراس نے منہ کھول دیااوربستر پرخون کی پچکاری سی چل گئی۔ماں نے اسے لٹادیا۔اس کی آنکھیں کھلی تھیں لیکن ان میں دیکھنے کی سکت نہ تھی ماں چلانے لگی ”بیٹادیکھ توتیرے دوست آئے ہیں۔“مگروہ جوں کاتوں پڑارہا۔
پھرایلی اٹھ کراس کے سامنے چارپائی پرجابیٹھا۔“ارجمند”ا س نے اسے آوازدی۔”ارجمندارجمند۔“ارجمندکی نگاہ میں ایک چمک لہرائی۔
”میں ہوں ارجمند میں اوررضا بھی آیاہے۔“ایلی نے رضاکی طرف اشارہ کیا۔ ارجمندنے گردن موڑنے کی کوشش کی اپنی بے بسی محسوس کرکے اس کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔
”کوئی بات کران سے بیٹا۔“اس کی ماں آنسوپونچھتے ہوئے بولی۔
”کیاحال ہے تیرا۔“ایلی نے چلاکرکہا۔
ارجمندنے بعدمشکل اپناہاتھ اٹھایااوریوں اشارہ کیاجیسے کہہ رہاہو”ٹھیک ہوں میں۔“
”جلدجلدصحت یاب ہونا۔“وہ بولا۔
ارجمندمسکرادیا۔
دوروزانہوں نے وہاں قیام کیا۔پہلے دن توارجمندان سے کوئی بات نہ کرسکامگراگلی روزاس کی طبیعت بہترمعلوم ہوتی تھی۔
”تم اچھے ہونا۔“”ارجمندنے اشاروں کی مددسے ایلی سے پوچھا۔
”تم اپنی بات کرو۔“ایلی نے جواب دیا۔
”مزے میں ہوں۔“وہ بولا”لیکن تم دیرسے آئے ہو۔بہت دیرسے۔“ارجمندنے رک رک کرکہا۔
”کیوں اب کیاہے۔“رضانے پوچھا۔
”اب ۔اب۔“وہ سوچ میں پڑگیا۔”اب بھی ٹھیک ہے۔لیکن وہ تمہیں بندرابن کون دکھائے گا۔اوراوروہ۔“رک گیا۔
”ابے مسخرے یہ کیاڈھونگ رچایاہے تونے ۔“رضانے شرارت سے کہا۔
”ڈھونگ رچائے بنارہے ہیں کبھی۔“وہ بولا”اماں ڈھونگ بھی نہ ہوتوہوکیا۔“
”اب جلدٹھیک ہوجانا۔اورعلی پورآؤ۔بیاہ ہورہے وہاں۔“
”کپ کیپ کی سناؤ۔“ارجمندنے مسکراتے ہوئے کہا۔”مری تونہیں جارہی اپنے فراق میں۔“
”توشرارت سے کب بازآئے گا۔“رضاچلایا۔
”اونہوں“ارجمندبولا”بازآنااپن کاکام نہیں۔“
وہ دونوں ہنسنے لگے۔
”وہاں جاکریہی کام کروں گا۔“ارجمندنے کہا۔
”کہاں جاکر۔“ایلی نے پوچھا۔
”وہیں “وہ بولا”بڑامزارہے گاوہاں۔“
”بکواس نہ کر۔“رضاچلایا۔
”اونہوں “وہ ہنسا“یہ بندنہ ہوگی۔“
دیرتک وہ باتیں کرتے رہے۔پھرایلی اوررضااٹھ بیٹھے ”اچھااب ہم جاتے ہیں۔“
”اونہوں ۔“ارجمندنے سرہلایا۔
”پیچھے دوکان اکیلی ہے۔“رضابولا۔
”ہمیں اب اجازت ہی دو۔“ایلی نے کہا۔
ارجمندنے غورسے ان کی طرف دیکھا۔اورجب ایلی رضامصافحہ کرنے لگے۔ارجمندکاہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاماتواس کی آنکھ سے ایک آنسوڈھلک کررخسارپربہہ گیا۔
”دل برانہ کرو ارجی۔“ایلی نے کہا”پھرملیں گے۔“
ارجمندکی آنکھ میں عجیب سی مایوسی تھی۔بے بسی بھری مایوسی۔
”اچھاخداحافظ“رضانے کہا۔اوروہ دونوں چپ چاپ باہرنکل آئے۔
سٹیشن تک وہ دونوں چپ چاپ چلتے رہے۔ان کے دلوں پربوجھ پڑاہواتھا۔
چاروں طرف اداسی چھائی ہوئی تھی۔فضابوجھل محسوس ہورہی تھی۔اوروہ رینگتاہواویرانہ پھیل کرکیالامتناہی ہواجارہاتھا۔
گاؤں کے قریب پہنچ کروہ دونوں ر ک گئے۔
”کنویں سے پانی نہ پی لوں تھوڑاسا۔“رضانے کہا۔
”پی لو۔“اوروہ دونوں کنویں کے طرف چل پڑے۔
کنویں پرعورتیں پانی بھررہی تھیں۔
”بہن پانی پلانا ذرا۔”رضانے اپنے مخصوص اندازمیں کہا۔پانی پی کروہ دونوں چل پڑے۔
کنویں پرعورتیں ان کے متعلق باتیں کرنے لگیں۔
”کون تھے یہ؟“کوئی پوچھ رہی تھی۔
ایک مردکہہ رہاتھا۔”کارخانے میں کسی کے مہماں آئے تھے۔وہ پتلادبلاچھوکراسٹوروالا----“
”اچھاوہ سودائی سا“ایک ہنسنے لگی۔
”ہاں ہاں وہی۔“
”سناہے آج کل بیمارپڑاہے۔بڑاروگ کہتے ہیں۔“
”تت تت تت تت بیچارہ۔“
ایلی کے روبروارجمندکھڑامسکرارہاتھاسمجھے ہواس کے کہتے ہیں لاج گوکل کی دیویاں لاج پال ہیں۔جان جائے پرآن نہ جائے۔اندرہی اندرمحبت کی آگ سے پھلک مریں گی۔لیکن مکھ تک بات آجائے اونہوں۔دھنیاہے گوپیوں نے آج کرشن کنہیا کی بھی لاج رکھ لی۔کیاسمجھے۔یہ کہہ وہ مرلی کارسیابانسری بجانے لگا۔
کنویں پرکھڑی وہ مٹیارہنس رہی تھی۔”تیری طرف ہی دیکھ دیکھ کرآنکھیں مٹکایاکرتاتھااورپھریوں مرلی بجانے لگتاجیسے بڑابین کارہوپرخاک بھی نہ بجتی تھی اس سے۔“
کاکاکاکایں درخت سے بیٹھاہواکوابولنے لگاجیسے کسی مرلی کے رسیاکی نقل اتارہو۔دورگاؤں کی چکی ہونک رہی تھی۔اورکھیتوں میں کوئی ماہیاگارہاتھا۔
”اساں کل ترونجناں تساں راہ پئے تکنے نی۔“
انجانا تیاگ
دیرتک وہ دونون سٹیشن کے بنچ پراس رینگتے ہوئے ویرانے میں بیٹھے گاڑی کاانتظارکرتے رہے۔وہ دونوں خاموش بیٹھے تھے۔دوایک باررضانے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔لیکن وہ بات اس مسلط اورمحیط اداسی کے پھیلاؤمیں یوں بے کارہوکررہ گئی تھی جیسے ریگستان میں پانی کی ایک بوندگرگئی ہو۔
پھرجب گاڑی کی گھنٹی بجی تووہ چونکے ۔”میں ٹکٹ لے آؤں۔“رضانے کہا۔
”صرف ایک لانا۔“ایلی نے کہا۔
”ایک “رضانے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
”ہاں “ایلی نے رضاکی طرف دیکھے بغیرکہا”ایک۔“
”کیوں؟“
”بس۔“
”تم کیایہیں بیٹھے رہوگے باقی عمر“رضانے پوچھا۔
”نہیں ۔“ایلی بولا۔
”توپھر۔“
”میں علی پورنہیں جاؤں گا۔“ایلی نے جواب دیا۔
”توکہاں جاؤگے ؟“
”لاہور۔“ایلی سوچے سمجھے بغیربولا۔اس چھائی ہوئی اداسی اورویرانی نے نہ جانے ایلی پرکیاجادوکردیاتھا۔اس کی نگاہ میں شہزاداوراس کی تمام رنگینیاں عبث ہوکررہ گئی تھیں۔وہ محسوس کررہاتھاجیسے اس نے ساری دنیاکوتیاگ دیاہو۔اورسادھوبن کرباہر نکل آیاہو۔
”لیکن۔“رضابولا۔”محلے میں تواتنی شادیاں ہیں۔“
”شادیاں۔“ایلی نے براسامنہ بنایا”ہونے دو۔“
”اوراور۔“رضانے پوچھا“اوروہ۔“
”وہ “ایلی نے تعجب سے پوچھا”اوروہ۔“
”کیااسے نہ ملوگے؟“رضانے پوچھا۔
”کیافرق پڑتاہے۔“ایلی نے سمجھے بغیرآہ بھری۔
”اورتمہاری چھٹیاں۔“
”چھٹی ہی چھٹی ہے اب اورکیا۔“ایلی بولا۔
”اوہ۔“رضاخاموش ہوگیا۔دیرتک وہ خاموش بیٹھے رہے۔
جب گاڑی آئی تورضانے ایک مرتبہ پھرایلی کی منت کی ۔”چلواکٹھے چلتے ہیں۔“
”اوں ہوں۔“ایلی نے جواب دیا۔
”تومیں اسے کیاجواب دوں گا۔“رضانے پوچھا۔
”جوجی چاہے کہہ دینا۔“ایلی نے آہ بھری۔
”وہ مجھ سے ناراض ہوگی۔“
”مجھ سے کون سی خوشی ہے وہ۔“ایلی سوچے بغیرباتیں کیے جارہاتھا۔اس وقت وہ بھول چکاتھاکہ رضااس کے متعلق بات کررہاہے ۔جس کے متعلق وہ کسی سے بات کرنے کوتیارنہ تھا۔
لاہورپہنچ کرایلی یوں چارپائی پرلیٹ گیاجیسے اس وسیع دنیامیں اس کے لیے کوئی جگہ نہ ہوجیسے دنیامحض ایک ویرانہ ہولق ودق ویرانہ۔
نیا بورڈنک خالی پڑاتھا۔لڑکے اپنے اپنے گھرگئے ہوئے تھے۔صرف چند ایک نوکروہاں یوں گھومتے پھرتے دکھائی دیتے تھے جیسے کسی پرانے قلعے میں بھوت چل پھررہے ہوں۔
چارروزوہ چپ چاپ اپنے کمرے میں پڑارہا۔اس کاذہن ایک خلامیں تبدیل ہوچکاتھا۔علی پورشہزاد نیم نیم گویااس کی زندگی سے معدوم ہوچکے تھے۔
کریسنٹ ہوسٹل
پھرآہستہ آہستہ کریسنٹ ہوسٹل میں حرکت پیداہوئی اوروہ نئے ماحول میں کھوگیا۔ کریسنٹ ہوسٹل میں ریوازسے قطعی طورپرمختلف تھا۔اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہرشخص کوایک الگ کمراحاصل تھا۔جب بھی وہ چاہتااپنے کمرے میں جاکرلوگوں کواپنی زندگی سے خارج کرسکتاتھااورجب چاہتاکمرے سے باہر نکل کربھیڑمیں شامل ہوسکتاتھا۔اگرچہ بھیڑمیں شامل ہونے کی خواہش اس نے کبھی محسوس نہ کی تھی اس کے برعکس ریوازہوسٹل میں کمرے کے اندراورکمرے کے باہرہرجگہ بھیڑلگی رہتی تھی۔اس بھیڑسے بچناقطعی طورپرناممکن تھا۔لیکن یہاں اس نئے ہوسٹل میں کمرے سے باہر بھی بھیڑنہ تھی۔یہاں باہربھی افرادتھے ایسے افرادتھے جواس کی طرح ازلی طورپراکیلے تھے تنہاتھے۔
کریسنٹ ہوسٹل میں پہنچ کراس نے غالباً پہلی مرتبہ محسوس کیابیشترافراداکیلے اورتنہاہونے کی وجہ سے لوگوں کے شوروشغب سے دوربھاگتے ہیں۔اس احساس کوردکرنے کے لیے ہنگامہ پیدا کرتے ہیں اوربھیڑکی طرف بھاگتے ہیں یابھیڑلگالیتے ہیں۔
کریسنٹ ہوسٹل میں جاکراسے تسلی سی ہوگئی۔اب وہ دوسرے طالب علموں سے اس حدتک نہیں ڈرتاتھا۔شایداسے لیے کہ اس نے سمجھ لیاتھاکہ بھیڑلگانے والے خوداحساس تنہائی اوراحساس کمتری سے عاجزآئے ہوتے ہیں---اس کے علاوہ اب وہ فسٹ ائیرکانہیں بلکہ تھرڈائیرکاطالب علم تھا۔اگرچہ اس کے باوجودکالج کے بیشترپروفیسراورلڑکے اس سے قطعی طورپرناآشناتھے۔
بہرصورت اس نئے ہوسٹل میں اسے تنہائی میسرتھی اوراس لیے ہوسٹل کے لڑکوں کی نگاہیں اس کی آمدورفت میں دخل اندازنہیں ہوتی تھیں اسے چھیڑتی نہ تھیں اس پرتمسخرسے ہنستی نہ تھیں۔جب بھی ایلی پرشہزادطاری ہوجاتی تووہ اپنے کمرے میں جاگھستااوردروازہ بندکرکے چارپائی پرلیٹ کربیتی ہوئی باتیں ازسرنوبیتناشروع کردیتا۔یوں زندگی کی ویرانی کوبرطرف کرنے کے لئے تخیل کاسہارالیتا۔اورجب اس سے بھی تسکین نہ ہوتی توچپ چاپ اٹھ بیٹھتا‘اورکسی سینمامیں بیٹھ کرایلمواورپیڈروبہادرکے کارنامے دیکھتااورپھرواپس اپنے کمرے میں پہنچ کرچارپائی پرلیٹ کراپنی لیڈنگ لیڈی کواس قیدخانے سے چھڑانے کی تجاویزسوچتاتخیل میں ان تجاویزکوعملی صورت دیتا۔اس کی زندگی میں شہزادسے بڑھ کرکوئی عشرت نہ تھی۔
لیکن جب سے وہ ارجمندسے مل کرآیاتھا۔یہ خوش فہمی پیداکرنے کی کوشش میں شدت سے لگاہواتھاکہ شہزادکی بے پروائی کے پیش نظراسے اس سے چنداں دلچسپی نہیں رہی۔اسے اس پرغصہ آتاتھاکہ جب شہزاداس کی طرف سے اس حدتک بے پرواہ ہوسکتی ہے تووہ اس کامحتاج کیو ں ہے۔اس کے دل میں میں شہزادکے لیے اس حدتک نیازکیوں ہے۔اس خیال پراسے دکھ ہوتااوراس دکھ کی کسک سے مخلصی پانے کے لیے وہ یہ اعتبارپیداکرناچاہتاتھاکہ اسے بھی شہزادکی چنداں پروا نہیں پرواہ توتھی لیکن صرف اسی صورت میں کہ شہزادکوبھی اس کی چاہ ہو۔وہ بھی اس کاانتظارکھینچے۔وہ بھی اس کے بغیرنہ رہ سکے۔
کریسنٹ کے نئے ماحول میں اس نے اس اعتبارکوتقویت دینے کی کوشش کی۔جونہی اس کی توجہ شہزادکے بھنورسے نکلی تواس نے دیکھاکہ بھاہ اس کی طرف دیکھ دیکھ کرمسکرارہاہے۔
بھااورجاہ
بھاکی مسکراہٹ میں تمسخرنام کونہ تھا۔الٹااس میں توبلاکاخلوص ہمدردی اوراک ان جانی بے نام سی گرمی تھی۔محبت تھی۔ایسی محبت نہیں جیسی اسے شہزادسے تھی جوجلاکربھسم کردیتی تھی۔بلکہ ایک ایسی گرمی جس کے تحت سکون ملتاہے۔ٹھنڈی مٹھاس بھری مدھم گرمی۔بھادوسروں کوکڑی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔الٹاوہ تونگاہیں جھکالیتاتھااورپھربن دیکھے دوسرے کے قرب کومحسوس کرتااورمسکراتاجیسے کہہ رہاہومیں جانتاہوں۔میں تمہاری مشکلات کاحل ہوں۔میں تمہاری آماجگاہ بن سکتاہوں۔اگرتم چاہو۔ورنہ کوئی بات نہیں کوئی بات نہیں۔“
بھاہ کی عادت تھی کہ وہ ہروقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتاتھا۔دن میں کئی مرتبہ وضوکرتا۔اکثرنمازپڑھتانظرآتااورہاتھ دھوناتواس کامسلسل شغل تھا۔اسے ہاتھ دھوتے دیکھ کرایسامعلوم ہوتاتھاجیسے وہ سمجھتاہوکہ اس کے ہاتھ کبھی صاف نہیں ہوسکتے۔اگرچہ وہ دیکھنے میں شیشے کی طرح صاف اورچمکدارتھے پھرنہ جانے کیوں بارباربھاکی توجہ ہاتھوں کی طرف مبذول ہوجاتی اوروہ کہتا”اچھاتومیں ذراہاتھ دھولوں۔“ہاتھ دھونے کے بعددیرتک وہ اپنے صاف ستھرے ہاتھوں کوتولیے سے رگڑرگڑکرصاف کرتارہتا۔
بھاکی طبیعت میں مٹھاس کے علاوہ ایک نظم بھی تھا۔اس کی ہربات قاعدہ کے مطابق ہوتی۔ہرکام پروگرام کے تحت تکمیل پاتاتھا۔نظم کے اس شدیدجذبے کی وجہ سے لوگ اسے ایسے کام سونپ دیاکرتے جوباقاعدگی اورسلیقے کے بغیرسرانجام نہیں دیئے جاسکتے اورجومسلسل توجہ چاہتے ہیں۔اگرکسی کا پین خراب ہوجاتاتووہ اسے بھاہ کودے دیتا۔”بھایہ ذرادیکھناتواس قلم میں کیا گڑ بڑ ہے۔“اگرکسی کی گھڑی صیحح وقت نہ دیتی ہوتووہ بھی بھاہ کوسونپ دی جاتی۔
ایسی چیزبھاکودیتے ہوئے تاکیدتوجہ یااحتیاط سے متعلق ہدایات دینابالکل عبث تھا۔چیزبھاکودکھاناہی کافی تھا۔”بھایہ ذرادیکھنا۔ اورپھربھاکی تمام ترتوجہ اس پرمرکوزہوجاتی اس حدتک کہ وہ ہروقت اسے اٹھائے پھرتااورراہ چلتے یافرصت کے وقت بیٹھے ہوئے اسے ٹھیک کرنے میں شدت سے مصروف رہتااورجب وہ ٹھیک ہوجاتی تودفعتاً اس چیزسے بھاکی دلچسپی ختم ہوجاتی۔
بھاکوٹوٹی ہوئی اوربگڑی ہوئی چیزوں کوبنانے سنوارنے سے دلچسپی تھی۔لیکن ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے وہ خودایک ٹوٹی ہوئی چیزہو۔لیکن اپنے آپ کوبنانے سنوارنے کی اس نے کبھی کوشش نہ کی تھی۔اسے بننے سنورنے سے قطعی طورپردلچسپی نہ تھی۔اسے دیکھ کرمحسوس ہوتاتھاجیسے مٹی کادیاہوجومدھم لوجل رہاہو۔بھانے کی کبھی بھڑک کرجلنے کی کوشش نہ کی تھی۔اس کی شخصیت اس فروعی چمک سے عاری تھی جوکالج کے لڑکے اپنی طرف توجہ منعطف کرنے کے لیے پیداکرنے کے عادی ہوتے ہیں۔
ویسے بھڑک کرجلنے کی خواہش جاہ میں بھی نہ تھی بنیادی طورپروہ بھی جھونپڑے ہی کاچراغ تھا۔لیکن اس کے اندازمیں ایک عجیب سی جھجک تھی۔وہ ہرنواردکی آمدپرٹھٹھک کررہ جاتا۔پیشانی پرتیوری چڑھ جاتی ہونٹوں پرتحقیرکی ہلکی لرزش پیداہوتی۔اورپھروہ گویاریشم کے کپڑے کی طرح اپنے کوئے میں گھس جاتا لیکن اس عمل کی وجہ سے اسے کوئے میں لیٹے رہنے کی عادت ہوگئی تھی۔اوربسااوقات وہ تنہائی میں بھی بے حسی اوربے پرواہی کے خول میں دبکابیٹھارہتالیکن کبھی کبھااس کی حقیقی شخصیت کی مختصرسی جھلک ایک رنگین اوررنگین محبت بھری مسکراہٹ کی صورت میں ہویداہوتی جیسی برکھارت میں بادلوں میں سے سورج کی شعاعیں پھوٹ نکلتی ہیں اورایک ساعت کے لیے منظرپررنگین دھاریاں دکھائی دیتی ہیں۔
جاہ کے اس جھجک اورڈرکا بظاہرکوئی جوازدکھائی نہ دیتاتھا۔لیکن اس کی شدت سے ظاہرتھاکہ یہ نقوش کسی شدیدذہنی طوفان کے چھوڑے ہوئے ہیں۔جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کادھاراخارجی سمت کی طرف بہنے کی بجائے داخلیت کی طرف مڑگیاتھا۔اوراس طرح وہ اپنی ہی اناکابھنوربناکراس میں ڈبکیاں کھارہاتھا۔
کتابیں
خارجیت سے ہٹ کرجاہ کی توجہ کتابی دنیاکی طرف مبذول ہوگئی تھی۔اوراس کتابی دنیانے حقیقی دنیاکی حیثیت اختیارکرلی تھی جس میں وہ جیتاتھاکتابی کرداروں سے جھجھکے بغیرملتاتھا۔ان سے تعلقات پیداکرتاتھا۔اپنے اردگردان کی بھیڑلگاکربیٹھ رہتاتھاکریسنٹ ہوسٹل میں ایلی کے لیے بھااورجاہ دوپناہ گاہیں تھیں۔اس لیے روزبروزوہ ان دونوں بھائیوں کے قریب ترہوگیا۔ایک دن توان دونوں کے کیوبیکل ایلی کے کمرے کے پاس ہی واقع تھے۔دوسرے وہ دونوں طنزاورتمسخرسے عاری تھے اوران میں دوسروں کامذاق اڑانے کی عادت نہ تھی۔ان سے مل کرایلی کااحساس کمتری ابھرنے کی بجائے دب جاتاتھالیکن اس کے باوجودوہ جاہ سے ایک بعدسامحسوس کرتا۔جاہ کی بظاہرسردمہری ایلی میں جھجھک پیداکرتی تھی۔
جب بھی وہ جاہ کے کمرے میں جاتاتووہ یوں سراٹھاکراس کی طرف دیکھتاجیسے پوچھ رہاہو۔تمہارایہا ں آنے کامطلب؟جاہ کے ماتھے پرتیوری چڑھ جاتی۔ایک ساعت کے لیے وہ ایلی کی طرف دیکھ کرگھورتااورپھربات کیے بغیرمطالعہ میں کھوجاتااورایلی جاہ کے قریب بیٹھےہونے کے باوجودتنہارہ جاتا۔ابتدامیں توایلی جاہ کے اس رویے پرگھبراجاتاتھااورکچھ دیرجاہ کے کمرے میں بیٹھنے کے بعدچپکے سے وہاں سے کھسک آتا۔لیکن آہستہ آہستہ وہ جاہ کی اس عادت سے مانوس ہوتاگیا۔ماناکہ جاہ کی بے رخی اوربے پروائی وہ تھی لیکن دوسرے لڑکوں کی طرح اس کی نگاہیں ٹٹولتی تونہ تھیں۔اورجب بھی وہ جاہ کی بے حس سے گھبراجاتوآزادنہ طورپروہاں سے اٹھ کرآسکتاتھا۔جاہ نے کبھی اس سے نہ پوچھاتھاکہ تم جارہے ہوتم کیوں یاکہاں جارہے ہو۔
باہربرآمدے میں اس کی طرف آنکھ اٹھاکردیکھے بغیربھاگتا۔”ایلی ۔آؤیارمیں تواس گھڑی کے چکرمیں پڑاہوںنہ جانے کیاخرابی ہے۔یہ ٹھیک وقت نہیں دیتی۔وہ سعیدہے ناموٹا۔چوہدری کرم دین کابیٹااس کی ہے یہ گھڑی۔کیاوقت ہوگابھئی اوہ یہ توچاربج گئے۔اچھاتومیں وضوکرلوں“جاہ ٹھٹک کراس کی طرف دیکھتااس کی نگاہ میں شکوک اوراعتراض نمایاں ہوتے اورپھربات کیے بغیرمطالعہ میں کھوجاتاحتیٰ کہ اسے احساس ہی نہ رہتاکہ کوئی شخص کمرے میں بیٹھاہے۔
جاہ کاکمرہ کتابوں اوررسائل اورتصاویرسے بھرارہتاتھا۔ہرماہ کتابوں اوررسائل کاایک نیاگٹھاآجاتا۔اورجاہ اس کے مطالعہ میں کھوجاتا۔صبح سے شام تک جاہ کوان کتب اوررسائل کے علاوہ اورکسی چیزسے دلچسپی نہ تھی پڑھتے پڑھتے وہ آپ ہی آپ ہنسنے لگتا۔”خوب خوب“وہ گویااپنے آپ سے کہتا۔”یہ شخص بھی عجیب مسخراہے ہی ہی ہی ہی۔“
ایلی ہنسنے لگتا۔کون مسخرہ ہے ایلی کی موجودگی کومحسوس کرکے دفعتاً جاہ کااندازبدل جاتاکون مسخرہ ہے جاہ دہراتا”ہوں ہوں“اورپھرجواب کاانتظارکیے بغیروہ پھرسے کتاب میں کھوجاتااورپھرکچھ دیرکے بعدآپ ہنسنے لگتا۔”جروم کے جروم بھی عجیب‘عجیب ہے عجیب ہے“انگلیاں چٹخاتے ہوئے جاہ مدھم آوازمیں بولے جاتااورپھرسے بھول جاتاکہ اس کے کمرے میں کتابوں کے شلف کے قریب کوئی بیٹھاہے ایلی وہاں بیٹھ کرکوئی کتاب یارسالہ کھول کرتصویریں دیکھناشروع کردیتاتھا۔اورچپ چاپ ورق گردانی میں مصروف رہتا۔
اس سے پہلے ایلی کویہ احساس نہ تھاکہ کتاب کالج یاامتحان کے نقطہ نظرسے ہٹ کربھی پڑھاجاسکتاہے جاہ سے مل کراسے پہلی مرتبہ کتاب کااحساس ہوا۔پہلی مرتبہ اسے کتاب کی ورق گردانی کاموقعہ ملالیکن اس کے باوجودکتاب کے نفس مضمون کی اہمیت کااسے احساس نہ تھا۔
پھرکچھ دیرکے بعدآہستہ آہستہ جاہ اپنے کمرے میںایلی کی موجودگی کے احساس سے مانوس ہوتاگیالیکن اس کے باوجودطنزبھری نگاہ یوں کی توں قائم رہی اس کی بے اعتنائی کچھ بڑھ گئی لیکن اس کے ساتھ آشنائی اورمسرت کے ان لمحات کی تعدادبھی بڑھ گئی جب وہ اپنے کوئے سے باہرنکلتاتھا۔
رنگین بھنور
علی پورسے آنے کے بعدایک ہی بارایلی کے دل میں ایک عجیب سی خواہش ابھرآئی تھی۔وہ چاہتاتھاکہ شہزادکے خیال کے بھنورسے نکل جائے۔وہ خوب جانتاتھاکہ شہزادکاسحراس حدتک مسلط اورمحیط ہوچکاہے کہ اس سے بچاؤممکن نہیں لیکن شہزادکی بے پروائی کی وجہ سے اس کے دل میں ایک کرب پیداہوتاتھاایک ایساکرب جواس کی روح کویوں بلوتاجیسے دہی کاایک برتن ہوبسااوقات سوتے وقت جب اسے شہزادکاخیال آتاتواس کے ذہن میںشہزادکابھرے ہوئے تاروں سے بھرانقاب آجاتااوران ابھرے ہوئے تاروں کوگنتا۔اس وقت ایک گوشت کالوتھڑاغفورکی شکل اختیارکرلیتا۔”ہی ہی ہی ہی“وہ قہقہہ مارکرہنستاہنستے ہنستے اس منہ نبات کارنگ اختیارکرلیتا۔بازواورٹانگیں کٹ جاتی اوروہ چلاتا۔”ایلی تم ایلی۔“ایلی کی نگاہ تلے اس وقت وہ اندھیری بندبیٹھک ابھرآتی بیٹھک کے وسط میں آب زم زم کی ایک جھیل ابھرتی اورجھیل میں سے شہزادسرنکال کرکہتی ایلی تم۔اس وقت شہزادکے اندازمیں طنزیہ تمسخرکاایک طوفان کھولتااورایلی کواپنی لپیٹ میں لے لیتا۔پھرگوشت کاٹنڈمنڈلوتھڑاقہقہہ لگاتا”تم۔تم۔“
اس وقت مختلف شکلیں ایلی کے روبروآکرناچتیں گاتیں بھیڑئیے کی کھال اترجاتی اوراندرسے علی احمدہنستے شہزادیہ تم کیابچوں کواکٹھاکرکے بیٹھ رہتی ہوکبھی ہمارے ہاں بھی آؤناکیاکہتی ہے ۔ہی ہی ہی ہی۔“
تھیڑکاپردہ اٹھتااورصفدرایک ڈرامائی اندازسے داخل ہوکرکہتا۔”ایلی ایلی میری طرف دیکھومیں یہیں رہتاہوں اس رنگین چوبارے کے نیچے میں یہاں دہلیزپرپڑاہوں کبھی مجھے بھی مل لیاکرو۔کبھی مجھے بھی مل لیاکرو کبھی مجھے بھی مل لیا---“پھروہ گانے لگتا۔”اے دلبرہوں میں فدا۔“گاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں گلابی پھوارپڑنے لگتی پیشانی پردیاروشن ہوجاتا۔اورگاتے ہوئے شہزادکی طرف مسکرامسکراکردیکھتے ہوئے ہوسٹیج سے باہر نکل جاتا۔
پھرشہزاد اٹھ بیٹھتی اورٹرنک کھول کرسفیدپھول داردوپٹہ لے کرکہتی۔”ہاں ہاں مجھے جاناہے ۔مجھے جاناہی ہوگا۔میں جارہی ہوں۔“اورگوشت کالوتھڑاقہقہے لگاتا۔ایکٹرمسکراتااورعلی احمدہنستے ”ہی ہی ہی ہی۔“اورایلی محسوس ہوتاجیسے وہ سب اس پرہنس رہے ہوںاورشہزاددرپردہ ان کے ساتھ ملی ہو۔ساری رات کروٹیں بدلتاآہیں بھرتا۔وہ شدت سی کوشش کرتاکہ ان خیالات کواپنے دامن سے جھٹک دے لیکن ان خیالات سے مخلصی پانااس کے بس کاروگ نہ تھا۔اس روحانی کرب کی وجہ سے وہ چاہتاتھاکہ شہزادکی گرفت سے نکل جائے لیکن اس کے ساتھ ہی شہزادکے قصورکی رنگینی شہزادکی جاذیت اورشہزادکی تسخیرکی عظمت بے پناہ کیف کے حامل تھے۔
صبح کے وقت شہزادکے سحرسے بچنے کے لیے وہ جاہ کے کمرے میں جاپناہ لیتاتھا۔شایداسی وجہ سے اس نے جاہ کی سردمہری اوربے رخی کوگواراکرلیاتھا۔جاہ کی شکوک بھری نگاہوں سے بچنے کے لیے اس نے ان رسائل اخبارات اورکتابوں کی ورق گردانی شروع کردی تھی جن کاجاہ کے کمرے میں ڈھیرلگارہتاتھا۔ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاتھاکہ مطالعہ امتحان کے خیال سے ہٹ کربھی ممکن ہے پہلے پہل اس کی توجہ تصاویرکی طرف مبذول ہوئی تھی اورتصاویرکاتفصیلی مفہموم سمجھنے کے لیے اس نے ان کے نیچے لکھے اشارات پڑھنے شروع کردیئے تھے پھرآہستہ آہستہ اس کی توجہ رسائل کے مضامین کی طرف مبذول ہوگئی تھی۔
ایلی کوکتابوں اوررسالوں کی طرف متوجہ دیکھ کرجاہ کی سردمہری تمسخرمیں بدل گئی۔”تم یہ رسالہ پڑھ رہے ہوکیا۔اونہوںکتاب کویوں نہ موڑو۔پہلے کتاب پڑھنے کاسلیقہ سیکھویہاں اورجریدہ یہ دنیاکے عظیم نقوش کامجموعہ ہے اسے دیکھ کرتم کیاسمجھوگے۔“
لیکن ایلی کے لیے جاہ کی باتیں ہاتھی کے دانت کی حیثیت رکھتی تھیں۔اگرچہ وہ باتیں تلخ تھیںلیکن تلخ ترحقائق کی یادایلی کے دل سے محوکرنے کاذریعہ تھیں۔
پھر آہستہ آہستہ ایلی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے قرب کے لمحات بڑھتے گئے۔ کتاب کے مطالعہ سے تھک کر دفعتاً جاہ ایلی کی طرف دیکھتا ہے۔ "تو تم برٹرنڈر رسل کا مضمون پڑھ رہے ہو۔ اچھی چیز ہے۔ بڑی دیر کے بعد رسل نے اپنے انداز کی چیز لکھی ہے۔ معلومات کا ایک پٹارہ ہے یہ شخص حد ہو گئی۔" یہ کہہ کر وہ رسل کے متعلق ایک لمبی چوری تقریر جھاڑ دیتا جسے ایلی حیرت سے سنتا۔ وہ اس وقت یوں منہ کھولے بیٹھا ہوتا کہ دفعتاً جاہ رک جاتا۔ "اوہ تم۔۔۔؟" وہ انگلیاں جھٹکاتے ہوئے چلاتا اور پھر وہ گویا اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتا۔ "تم میاں کوئی سیدھی چیز شروع کرو کوئی داستان کوئی کہانی اور وہ بھی مینس فیلڈ کی نہیں وہ تو اشاروں میں بات سمجھاتی ہے پلو مار کے دیا بجھاتی ہے۔ کیا چیز لکھتی ہے۔ واہ واہ واہ اور پھر یوں ساکت و جامد ہو جاتا جیسے پتھر کا بنا ہو۔ اور ایلی حیرت سے اس کی طرف دیکھے جاتا جاہ کی باتیں سن کر ایلی کو دفعتاً یہ احساس ہوتا جیسے کوئی کنویں کا مینڈک پھدک کر سمندر میں جا گرا ہو۔ جاہ کی مینس فیلڈ رسل ولز فرائیڈ شا اور برگسان کی دنیا عجیب دنیا تھی اور ایلی کے لیے یہ دنیا جاہ کے مرکز کے گرد گھومتی تھی۔پھر جب ایلی واپس اپنے کمرے میں پہنچتا تو چھن سے شہزاد آسن جما کر سامنے آ کھڑی ہوتی۔ "کس بات پر بگڑے ہو مہاراج۔" وہ پوچھتی۔ "کب تک مانولزا میں کھوئے رہو گے میری طرف دیکھو مانو لزا میں ہوں میں۔"اس کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ جھلکتی "دیکھو نا۔ یلدرم نے میرے بارے میں لکھا ہے ماتھے پہ بندی اور آنکھ میں جادو" اس وقت شہزاد کے ماتھے کا تل ٹک سے یوں روشن ہو جاتا جیسے بجلی کا ہنڈا ہو۔ اور آنکھیں ناچتیں اور رسل ولزشا اور فیس فیلڈ از روئے ادب ایک طرف قطار لگا کر کھڑے ہو جاتے اور پھر چپکے چپکے سے ایک ایک کر کے کمرے سے باہر نکل جاتے اور شہزاد وہاں اکیلی رہ جاتی اور اس کی شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی۔ ایک طرف میڈونا کا جمال اس کے گرد ہالہ بنا دیتا اور دوسری جانب ڈائن کا خٰال۔ اس میں وقار بھر دیتا۔ اور ایلی محسوس کرتا جیسے وہ سگ لیلٰی ہو اور وہ دم ہلاتا ہوا ڈائنا کے قدموں میں جا بیٹھتا۔
رازی اور زو
ایک روز جاہ کے کمرے میں کیوپڈ اور سائیکی۔ بولا کڈ آؤٹ، رینس ڈی مائیلو کی تصاویر دیکھنے کے بعد جب ایلی اپنے کمرے میں پیہنچا اور لحاف لے کر لیٹا اور حسب معمول چھن سے شہزاد رو برو آ کھڑی ہوئی تو وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ ارے کیا شہزاد کے ناچ میں آواز پیدا ہو گئی۔ وہ اٹھ کر سننے لگا۔ چھن چھن گھنگھرو کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ کوئی واقعی ناچ رہا تھا۔ ایلی ڈر گیا۔ کیا اس کے حواس اس حد تک مفلوج ہو چکے تھے۔ اس کے تخیل کے ساتھ آواز کا عنصر کیسے شامل ہو گیا تھا۔ یا وہ ناچ کسی متکلم فلم کا ایک ٹکڑا تھا۔
اس زمانے میں متحرک تصاویر نے ایک نیا روپ بدلا تھا۔ انہی دنوں چند ایک ایسی نئی تصاویر کی نمائش ہو رہی تھی جو پرانی قسم کی سیریل قسم کی نہ تھیں بلکہ کہانی ایک ہی نشست میں ختم ہو جاتی تھی۔ یہ ایک انوکھی بات تھی کیونکہ اس سے پہلے فلمی کہانیاں اتنی لمبی ہوتی تھیں کہ ایک کہانی کئی ایک نشستوں میں ختم ہو جاتی تھی۔ ایک نشست میں کہانی کے صرف تین ایپی سوڈ دکھائے جاتے تھے اور ہر کہانی عموماً پندرہ یا بیس ایپی سوڈ پر مشتمل ہوتی تھی۔ ایک نشست میں کہانی ختم کرنے کی یہ نئی تحریک فلم دیکھنے والوں کے لیے ایک انوکھی بات تھی۔ اور فلم سازوں نے صرف اسی بات پر اکتفا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ان مختصر کہانیوں کے ساتھ ایسے ریکارڈ بھیجنا شروع کر دیئے تھے جو کہانی کے مناسب مقامات پر مناسب صوتی اثرات پیدا کرتے تھے۔ مثلاً بن حور فلم میں بحری لڑائیوں کے مناظر کے ساتھ ساتھ توپوں اور طبل جنگ کی آوازیں اور پس منظر موسیقی یہ صوتی کلیاں فلم دیکھنے والوں کے لیے عجیب تھیں۔ انہی دنوں میں جاہ کے ساتھ ایلی نے دو ایک ایسے فلم دیکھے تھے۔ فلم دیکھنے میں جاہ کو دلچسپی تھی لیکن جاہ چونکہ تمام زائد روپوں کی کتابیں اور رسائل خرید کر لیتا تھا اس لیے روز فلم چل رہا ہے اور میرے پاس صرف آٹھ آنے ہیں۔ وہ آٹھ آنے میز سے اٹھا کر کہتا "اگر دیکھنا ہو تو چلو میرے ساتھ۔"
اور وہ دونوں چپکے سے پیلس سینما کی طرف چل پڑتے جو میکلوڈ روڈ کے کونے پر نیا نیا بنا تھا۔ اکثر وہ دونوں بہت لیٹ پہنچتے جب کہ چار آنے والے درجے کی تمام تر سیٹیں بھر چکی ہوتیں۔ اور وہ حسب معمول اندھیرے میں چلتے چلتے ہال کی دوسری دیوار کے قریب پہنچ کر بند دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے تھے۔ اور انٹرول میں جب بتیاں جلی تھیں تو ایلی نے دیکھا کہ چار آنے کے درجے کی تمام سیٹیں خالی پڑی تھیں۔ اور ہال میں گنڈیریاں بیچنے والے انہیں سیڑھیوں پر بیٹھے دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے "ارے" ایلی چلاتا۔ "جاہ سیٹیں تو تمام کی تمام خالی پڑی ہیں۔" "اچھا۔" جاہ بے اعتنائی سے کہا تھا۔ اور پھر اپنے خیال میں کھو جاتا تھا۔ جیسے سیٹوں کا خالی ہونا اور ان کا سیڑھیوں پر بیٹھنا کوئی قابل توجہ یا غور طلب امر نہ ہو۔
"تو چلو وہاں چل بیٹھیں۔" ایلی نے کہا تھا اور اس نے منہ بنا کر شانے جھٹک دیئے تھے اور جوں کا توں بیٹھا رہا تھا۔
ہاں تو اس روز اپنے کمرے میں گھنگھروؤں کی آواز سن کر ایلی چونک پڑا اس نے محسوس کیا جیسے فلم کی طرح اس کے تخیل کے ساتھ بھی کوئی ایسا ریکارڈ چل رہ اہے۔ لیکن بورڈنگ میں گھنگھرو۔۔۔ وہ اٹھ بیٹھا اپنے کیوبیکل کا دروازہ کھولا۔ باہر ہوسٹل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی بتیاں بجھی ہوئی تھیں۔ لیکن گھنگھروؤں کی آواز وضاحت سے سنائی دے رہی تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی سریلا مگر مدھم ساز بج رہا تھا۔ دیر تک وہ کھڑا اس آواز کو سنتا رہا اور پھر اس کے کھوج میں چل پڑا۔
آواز کونے کے کمرے سے آ رہی تھی۔ وہ کونے کے کمرے کے قریب کھڑا ہوا اور باہر کھڑا آواز سنتا رہا۔ اس کا جی تو چاہتا تھا کہ دروازے کے شیشے سے جھانک کر اندر دیکھے یا دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہو جائے مگر اس میں ہمت نہ پڑی۔ اس لیے وہ وہیں بت بنا کھڑا رہا۔ وہ ساز کس قدر سریلا تھا اور دھن کس قدر جاذب پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ گھنگھرو۔
دفعتاً کمرے کا دروازہ کھلا کوئی شخص باہر نکلا۔
"کون ہو تم۔" وہ بولا۔
"میں میں۔" ایلی گھبرا گیا۔ "میرا نام الیاس ہے۔"
"اوہ" نووارد نے ماچس جلائی۔
روشنی میں ایلی نے اس کا چہرہ دیکھا اور سہم گیا۔ اس کا چہرہ کچھ ایسا تھا کہ اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے حبشی ہو۔
"یہیں کے ہو نا ہوسٹل کے۔"
"جی ہاں۔" ایلی نے جواب دیا۔
وہ قہقہہ مار کر ہنسا۔ "لو بھئی پھر اندر کیوں نہیں آجاتے۔ چلو۔" وہ ایلی کو گھورنے لگا۔ اس کا قہقہہ سن کر ساز اور گھنگھرو بجنا بند ہو گئے۔ "کون ہے بھئی ذو۔" اندر سے آواز سنائی دی۔ ذو نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔
"لڑکا ہے بورڈنگ کا۔" وہ بولا۔ "باہر کھڑا سن رہا ہے۔"
"کون ہے۔" پھر آواز آئی۔
ایلی مجرموں کی طرح کمرے میں جھانکنے لگا۔
"جی میں ہوں الیاس۔" وہ بولا۔
"تمہیں دیکھا نہیں کبھی میاں۔" اس نے پوچھا۔
"جی میرا نمبر سترہ ہے۔"
"سترہ۔" وہ ہنسنے لگا۔ "یہ ساتھ والا کمرہ۔"
"جی ہاں۔" الیاس بولا "یہ ساتھ والا چھوڑ کر دو سرا۔"
"اچھا" اس نے حیرانی سے کہا۔
"ارے یہ جاہ کے ساتھ پھرا کرتا ہے۔" ذو بولا۔
"تم چپ رہو جی۔" اندر والے نے پھر ذو کو ڈانٹا۔ "آجاؤ بیٹھ جاؤ۔ لیکن اب بات بتا دو میاں میاں کے سی آئی ڈی تو نہیں ہو۔"
"میاں میاں کے سی آئی ڈی۔" ایلی نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا "میں نہیں سمجھا۔"
"پھر ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔" اندر والے نے کہا "بیٹھ جاؤ۔" اور ایلی چپ چاپ کمرے میں بیٹھ گیا۔
"میرا نام رازی ہے۔" وہ بولا " اور یہ حضرت ذو ہیں۔"
رازی ایک دبلا پتلا خوبصورت لڑکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی جاذبیت تھی پیشانی فراغ تھی اور خدوخال نہایت موزوں اور تیکھے تھے اس کے سامنے ایک پاؤں کا ہارمونیم رکھا ہوا تھا۔ اور سامنے کونے میں بچھے ہوئے کمبل پر طبلوں کی جوڑی پڑی تھی۔
ایلی نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا لیکن کمرے میں ان دونوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ ایلی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ طبلہ اور ہارمونیم تو ٹھیک تھے لیکن وہ رقص وہ رقاصہ کیا ہوائی۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ اسی لیے جھجھک رہا تھا کہ نہ جانے اندر کون ہے اور اب اندر داخل ہونے کے بعد اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
رازی نے اطمینان سے باجہ بجانا شروع کر دیا تھا۔ وہ بڑی پیاری دھن بجا رہا تھا ذو طبلے کی جوڑی کے قریب کمبل پر چادر میں لپٹا ہوا جھول رہا تھا جیسے حال کھیل رہا ہو۔
چھن۔۔۔ دفعتاً گھنگھرو بجا۔ ارے ایلی کے دل سے گویا ایک چیخ سی نکل گئی۔ "یہ آواز کہاں سے آئی۔" چھن چھنا چھن۔ گھنگھرو پھر بجے۔ اس نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ لیکن وہاں رازی اور ذو کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ "شاید اسے چارپارئی تلے چھپا رکھا ہے۔" ایلی نے سوچا۔ "لیکن چارپائی تلے ناچنا کیسے ممکن ہے۔"
دفعتاً ذو نے گویا ایک چنگاڑ ماری۔ علی اور چادر پرے پھینک کر وہ طبلے کی جوڑی پر پل پڑا۔ دھا گدی گھنا دھا گدی گھنا دھا۔
ارے وہ چونکا۔ چھن چھنا نا نا چھن چھنا نا نا چھن رقاصہ گویا چارپائی تلے سے نکل کر میدان میں آگئی۔
"شاباش بیٹا۔" رازی ذو کی طرف دیکھ کر چلایا۔ کمرے میں موسیقی کی لہروں کا ایک طوفان امڈ آیا اور ایلی کے رہے سہے حواس بھی معطل ہو گئے۔
جی کے اور ایم کے
ذو اور رازی سے متعارف ہونے کے بعد ایلی کی زندگی میں ایک نئی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ سارا دن وہ جاہ کے کمرے میں رسائل اور کتابوں کے صفحات پلٹتا رہتا یا جاہ کے لیکچر سنتا یا شام کے وقت وہ دونوں سینما ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر فلم دیکھتے اور رات کے وقت چپکے سے رازی کے کمرے میں جا پہنچتا اور وہاں بیٹھ کر گانا سنتا رہتا۔
یہ مشاغل اسے اس لیے پسند تھے کہ ان میں مصروف ہوکر وہ شہزاد کی دسترس سے دور ہو جاتا تھا یا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ مشاغل شہزاد کو اس کے سامنے لا کھڑا کرتے تھے۔
جاہ کے کمرے میں رسائل کو دیکھتے ہوئے اس کی نگاہ کسی نہ کسی ایسے مشہور عمل پر پڑ جاتی جسے دیکھتے ہوئے انجانے میں شہزاد کےساتھ مناسبت کے اجرتی مونا لزا کو دیکھتا تو اس کے ہونٹوں کے کونوں میں شہزاد مسکراتی وینس کو دیکھ کر شہزاد کے جسم کے پیچ و خم ابھرتے۔ کیوپڈ اینڈ سائیکی کو دیکھ کر وہ محسوس کرتا جیسے شہزاد اپنی شریر آنکھیں موند کر بیٹھ گئی ہو۔ اور رازی کے کمرے پہنچ کر اسے محسوس ہوتا جیسے دھن کے ساتھ شہزاد ناچ رہی ہو۔
ان کے علاوہ اس کے دو نئے دوست بنے تھے ناک ہی ناک اور جلتی آنکھیں۔ ناک ہی ناک مشن کالج کا طالبعلم تھا۔ جو ان دنوں ایم اے ریاضی میں تعلیم پاتا تھا۔ ایلی کو اس سے جاہ نے متعارف کیا تھا۔ ایک روز جب وہ دونوں ورلڈ گریٹ پینٹنگنز کا نیا شمارہ دیکھنے میں شدت سے مصروف تھا۔ تو ایلی نے کہا۔
"یہ تصویر تو فریم کرنے کے قابل ہے۔"
اس پر جاہ بولا "ہاں ہو سکتا ہے ہو سکتا ہے۔" اور پھر وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔
اس روز شام کو سینما جانے کی بجائے وہ دونوں مشن کالج کے بورڈنگ میں جا پہنچے۔ اندر جا کر جاہ اسے ایک کمرے میں لے گیا جہاں ایک دبلا پتلا لڑکا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا۔ "یہ جی کے ہے۔" جاہ نے کہا "اور یہ ہمارے دوست الیاس صاحب ہیں۔" یہ کہہ کر وہ الیاس صاحب کی موجودگی کو قطعی طور پر بھول گیا۔ "ہم اس لیے آئے ہیں۔" جاہ بات کرتے ہوئے رک گیا۔ "دراصل میں سوچ رہا تھا کہ جو ورلڈ گریٹ پینٹنگز جریدے کی شکل میں آ رہی ہیں آج کل تم نے تو دیکھی ہی نہیں وہ۔"
"نہیں تو۔" جی کے جواب دیا۔
"میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہم انہیں فریم کرلیں تو کیسا رہے گا۔ بازار سے تو بات نہ بنے گی۔ خود کیوں نہ فریم بنائیں۔"
"ٹھہرو۔" جی کے نے گویا اپنی تمام تر توجہ ناک پر مرکوز کر دی۔ اس کی ناک لمبی اور چونچ دار تھی۔ انداز میں بلا کی پھرتی تھی اور ذہانت میں تیزی تھی۔
جی کے قاعدے اور اصول کا آدمی تھا۔ وہ قاعدوں اور اصول میں سوچتا تھا۔ خشک اور کوری دلیلیں دینے کا عادی تھا۔ دوسروں کو خشک اصولوں پر پرکھنے کا متوالہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں بنیادی طور پر حزن و ملال کی گہرائی جھلکتی تھی۔ چہرے سے غم خوری ٹپکتی تھی لیکن وہ اپنے آپ پر خوشی اور انبساط کے شدید لمحات طاری کر سکتا تھا۔ اور اپنی بے پناہ ذہانت کے بل بوتے پر نہایت چمکیلی اور جاذب توجہ باتیں کرنے کا اہل تھا۔
"ٹھہرو۔" کہہ کر جی کے یوں سوچ میں پڑ گیا جیسے کوئی بیوپاری لین دین کے حساب میں کھو گیا ہو۔ دیر تک اپنی ناک کو گھورتا رہا اور پھر سر اٹھا کر کہنے لگا۔ "ہاں چلے گا ضرور چلے گا۔ نو من تیل کے بغیر رادھا ناچے گی۔"
"اچھا" جاہ نے بچوں کی طرح تالی بجائی "کیسے۔"
"سانچہ ہم خود بنا لیں گے۔" وہ بولا۔ "آری مل جائے گی۔ بس فریم کی لکڑی شیشہ اور کیل خریدنے پڑیں گے۔"
"اگر کچھ خریدے بغیر فریم بنا سکیں ہم تو بہتر نہ ہوگا۔" جاہ نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جی کے کی ناک اور بھی کچھ لمبی ہو گئیں۔
"چلو یہ دھندا ابھی طے ہو جائے۔" جاہ اٹھ بیٹھا اور وہ تینوں انارکلی کی طرف چل پڑے۔ جب وہ واپس آئے تو جی کے کے کمرے سے باہر برآمدے میں ایک لڑکا بیٹھا تنہا شطرنج کھیل رہا تھا۔
"ارے۔" جی کے چلایا۔ "اپنے آپ ہی کھیل رہے ہو۔"
"تمہیں اعتراض ہے کیا۔" وہ چمک کر بولا۔
"ہم نے تو سنا تھا میاں۔" جاہ نے کہا "کہ یہ کھیل دو کے بغیر نہیں کھیلا جاتا۔"
"سنی سنائی بات کا کیا بھروسہ۔" لڑکا بولا۔
"یہ میرا دوست ایم کے ہے۔" جی کے نے ایلی سے کہا "بڑے معرکے کا آدمی ہے۔" دو کا کھیل اکیلا کھیلتا ہے۔ اکیلے کے کھیل کے لیے ساتھی ڈھونڈتا ہے۔" جی کے ہنسنے لگا۔
ایلی نے ایم کے کی طرف دیکھا وہ ایک اونچا دبلا پتلا نوجوان تھا اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ گویا ثبت ہو چکی تھی اور اس کی آنکھیں شرارت سے ابل رہی تھیں۔ "جو بھی آتا ہے اپنی بے عزتی کرتا ہے۔" ایم کے نے قہقہہ لگایا۔
"تمہیں کیا خطرہ" جی کے نے اپنی ناک کو گھورتے ہوئے کہا "تمہاری بے عزتی کیسے ہو سکتی ہے کوئی عزت ہو تو بے عزتی کا امکان ہوتا۔ لگاؤ یار اس سے کوئی بازی" جی کے نے ایلی اور جاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
"انہوں" جاہ نے انگلیاں ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ "اپنے بس کا روگ نہیں۔ اس کھیل کے لیے وقت کہاں سے آئے قانونی طور پر جوانوں کو یہ کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بوڑھوں کا کھیل ہے۔ جب انسان کو کوئی کام نہ ہو تب۔"
"اور تم کہاں کے جوان ہو۔" ایم کے نے جاہ سے کہا۔
"یہ تو ٹھیک ہے۔" جاہ بولا "جوان تو نہیں لیکن ابھی بوڑھا نہیں ہوا۔ تم خود کیوں نہیں کھیلتے اس کے ساتھ۔" اس نے جی کے سے پوچھا۔
"اونہوں۔" وہ بولا "مجھ سے تو روز پٹتا ہے۔"
ایم کے نے قہقہہ لگایا اور سر کھجانے لگا "بات توٹھیک ہے۔"
تصویریں
جی کے اور ایم کے سے ملاقات کے بعد ایلی کے مشاغل بڑھ گئے جاہ کی سردمہری سے اکتا کر وہ سیدھا نیوٹن ہال چلا جاتا جہاں وہ دونوں رہتے تھے۔ یا تو ایلی جی کے کے ساتھ بیٹھ کر تصاویر کے لیے فریم بناتا رہتا اور یا ایم کے کے ساتھ شطرنج کی بازی لگا لیتا۔ اسے ایم کے سے بے حد دلچسپی ہو گئی تھی۔ اس میں زندگی تھی جو ولولہ تھا جاہ کی طرح اس کی زندگی اصولوں کا سہارا نہیں ڈھونڈتی تھی۔
اس کے بعد کئی ایک دن وہ سب تصاویر فریم کرنے میں شدت سے مصروف رہے۔ فریم کی لکڑی کاٹنے اور اسے کیلوں سے جوڑنے کا کام جی-کے کے سپرد تھا۔ جی کے وزیر آباد کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو ٹیکنیکل کام کے لیے خصوصی صلاحیت رکھتا تھا۔
تصویر کی پیمائش کرنے کے بعد جی کے فریم کی لکڑی سانچے میں رکھ کر آری سے اسے کاٹتا اور پھر ان لکڑیوں کے سرے جوڑ کر ان میں کیل ٹھونک کر فریم تیار کرتا۔ جاہ اس دوران میں اس خصوصی تصویر اور تصویر کار کے متعلق معلومات بہم پہنچاتا اور تصویر کے خصوصی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا۔ ایلی مناسب سائز کے مطابق گتہ کاٹتا۔ ایم کے ہتھوڑی اور کیل اٹھائے رکھتا تا کہ مناسب وقت پر جی کے کہ بہم پہنچا سکے۔ اس کے علاوہ سرکس کے مسخرے کی طرح وہ الٹی سیدھی حرکات سے ان کا دل بہلاتا رہتا۔
تصاویر فریم کرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو خیال نہ آیا کہ ان میں بیشتر تصاویر برہنہ تھیں اور انہیں ہوسٹل کے کمرے میں آویزاں کرنا قابل اعتراض سمجھا جا سکتا ہے۔ جاہ کے متعدد لیکچر سننے کے بعد ان سب کی توجہ اس حد تک تصاویر کے معانی پر مرکوز ہو چکی تھی کہ انہیں یہ خیال بھی نہ آیا کہ بیشتر نقوش ملبوسات سے معرا تھے، حتٰی کہ بھا جب نماز پڑھنے کے بعد فریم بنانے کے کام کی رفتار کا جائزہ لینے کے لیے فریم شدہ تصاویر کر طرف دیکھتا تو اسے بھی لاحول پڑھنے کا خیال نہ آتا۔
پھر جب انہوں نے اپنے اپنے کمرے میں وہ تصاویر آویزاں کر دین اور ہوسٹل کے لڑکوں نے انہیں دیکھا اور ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ شدت سے جسم کھجانے لگے تو ایلی نے محسوس کیا کہ وہ تصاویر برہنہ تھیں۔ اس نے جاہ سے بات کی “ جاہ یہ تصاویر تو ۔۔۔۔۔ “ وہ رک گیا۔
“ ہوں۔“ جاہ نے تیوری چڑھا کر اس کی طرف دیکھا۔
“ میرا مطلب ہے۔“ ایلی گھبرا کر بولا “ یعنی۔۔۔۔“
“ ہوں۔“ جاہ نے گھور کر اس کی طرف دیکھا۔
“ یہ تصاویر تو برہنہ ہیں۔“ ایلی نے بعد مشکل جملہ مکمل کیا۔
“ تصاویر ۔۔۔۔۔“ اس نے کمرے میں ٹنگی ہوئی تصاویر کا جائزہ لیا۔ پھر اس کی نگاہ میں تمسخر جھلکا “ برہنہ “ اس نے حقارت بھری نگاہ ایلی پر ڈالی۔ جیسے اس کی نگاہ میں کمرے کی جملہ اشیاء میں سے صرف ایلی کا وجود عریانی اور برہنگی کا مظہر ہو۔ تمسخر اور نفرت کے اس اظہار پر ایلی وہاں سے بھاگا۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ برآمدے میں بھا وضو کر رہا تھا۔ ایلی کا جی چاہتا تھا کہ بھا کے گلے لگ کر رہ پڑے۔ لیکن بھا اپنی ہی دھن میں مگن تھا۔
“ بھا “ وہ بولا “ یہ تصویریں جو ہم نے کمروں میں آویزاں کی ہیں۔“
“ ہاں ہاں۔“ بھا پاؤں دھوتے ہوئے بولا۔
“ وہ عریاں ہیں۔ میرا مطلب ہے برہنہ ہیں۔“
بھا سوچ میں پڑ گیا۔ “ ہاں ہاں“ وہ بولا، “ مجھے بھی کئی بار شک سا پڑا ہے۔“
“ وہ انہیں دیکھ کر کھجاتے ہیں۔ “ ایلی بولا “ اور پھر کمرے سے باہر نکل کر چنگھاڑتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، اور ان کی آنکھیں۔“
“ ہاں ہاں۔“ بھا بولا۔ “ مجھے اب خیال آتا ہے کہ۔“
“ اور وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں ۔ میاں میاں۔“
میاں میاں سن کر بھا اچھل کر کھڑا ہو گیا “ ہاں۔“ وہ بولا “ میاں میاں مجھے خیال ہی نہیں آیا۔“
“ لیکن میاں میاں کا مطلب کیا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔
“ میاں میاں کا مطلب“ بھا نے تعجب سے ایلی کی طرف دیکھا۔
میاں - میاں
میاں میاں در حقیقت کالج میں فارسی پڑھانے والے مولانا کا تکیہ کلام تھا۔ مولانا کا نام محمد عمر تھا۔ وہ کالج میں فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ کالج میں وہ اپنی چار ایک خصوصیات کی وجہ سے مشہور تھے۔
ان کا حلق ایک ایسے وسیع ہال کی مانند تھا جہاں سے ہلکی سے ہلکی آواز گونج کر پھر گونجتی۔ اس لیے ان کی معمولی سے معمولی بات بھی یوں سنائی دیتی تھی جیسے کوئی مجاہد حملہ کرنے سے پہلے سپاہیوں کو جوش اور غیرت دلا رہا ہو۔
مسلسل طور پر جوش اور جذبہ محسوس کرتے رہنے کی وجہ سے مولانا کے خدوخال نے ایسی ترتیب اختیار کر لی تھی کہ ان کہ چہرہ احتجاج اور جذبے کی آمیزش بن کر رہ گیا تھا۔ ان کے چہرے کو دیکھ کر محسوس ہرتا تھا جیسے جملہ نامناسب باتوں کے خلاف ایک گھونسہ کسا ہوا ہو۔
مولانا کی تیسری خصوصیت یہ تھی کہ معمولی سے معمولی نامناسب بات پر وہ غضب میں آ جاتے اور اس شدت سے احتجاج کا اظہار کرتے کہ لڑکے محسوس کرتے کہ نہ جانے وہ کیا کر دیں گے۔ لیکن اس شدت بھرے احتجاج کے بعد وہ ہر نامناسب بات کو یوں برداشت کر لیتے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو، جیسے نامناسب باتوں کو برداشت کرنا ان کی عادت ہو۔ اور وہ اپنی اس عادت کی وجہ سے مجبور ہوں۔
مولانا کی آخری خصوصیت انکی تکیہ کلام تھا۔ وہ جماعت یا افراد سے میاں میاں کہہ کر مخاطب ہوتے۔ اسی وجہ سے لڑکوں میں وہ میاں میاں کے نام سے مشہور تھے۔ جماعت میں داخل ہوتے ہی وہ گونجتے “ میاں میاں یہ کیا شور ہے؟“ اس پر لڑکے خاموش ہر جاتے۔ پھر کوئی مسخرہ چپکے سے سیٹی بجاتا اور اس پر مولانا چونکتے “ لاحول ولا قوۃ “ سارا کالج مولانا کے اس مجاہدانہ نعرے سے گونجتا۔ پھر چاروں طرف سے پُراسرار آوازوں کی یورش شروع ہو جاتی۔ ایک کونے میں چکی ہونکتی۔ اور مولانا دفعتاً اس آوازوں کے وجود سے بے نیاز ہو کر صائب کے اشعار پڑھنے میں مصروف ہو جاتے۔
کریسنٹ ہوسٹل کے اجراء کے بعد وقتی طور پر مولانا کو ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ بنا دیا گیا تھا۔ وہ بورڈنگ کی مین بلڈنگ سے باہر ملحقہ عمارت کے ایک کمرے میں مقیم تھے جو کھانا کھانے کے کمرے کے قریب تھا۔
لڑکے ڈائننگ ہال کی طرف جاتے تو انہیں محسوس ہوتا کہ وہ بورڈنگ میں موجود ہیں، چونکہ عام طور پر مولانا نماز پڑھتے ہوئے یا وضو کرتے ہوئے دکھائی دیتے۔ البتہ کوئی غیرمناسب بات وقوع میں آتی تو مولانا کا لاحول ولا قوۃ ملحقہ بلڈنگ سے اُبھر کر ہوسٹل کی مین بلڈنگ میں آ کر گونجتا اور لڑکے چونک کر اٹھ بیٹھتے اور انہیں یہ امر یاد آتا کہ میاں میاں اس بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ ہیں اور ملحقہ بلڈنگ میں کوئی نامناسب بات وقوع میں آئی ہے۔ اس پر میں بلڈنگ میں ایک سرگوشی ابھرتی۔ “ میاں میاں “ اور ہر کمرے میں دہرائی جاتی۔ حتٰی کہ ساری بلڈنگ “ میاں میاں “ گونجنے لگتی۔
مولانا دن میں صرف ایک بار میں بلڈنگ میں آتے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر ساڑھے نو بجے کے قریب وہ حاضری کا رجسٹر بغل میں دبا کر میں بلڈنگ میں داخل ہو جاتے۔ اور ہر کھلے کمرے میں جھانکتے اور بند کمرے پر دستک دے کر کہتے “ میاں میاں “ جس پر لڑکے “ یس سر “ کہہ دیتے اور مولانا حاضری لگا کر دوسرے کمرے کی طرف چل پڑتے۔
لاحول ولا قوۃ
حاضری کے وقت کریسنٹ ہوسٹل میں خاصا ہنگامہ رہتا تھا۔ چونکہ کئی ایک حاضر لڑکوں کو کئی ایک غیرحاضر لڑکوں کی حاضریاں لگوانی ہوتی تھیں۔ مثلاً کمرہ نمبر ایک کا لڑکا پہلے اپنی حاضری لگواتا پھر باری باری کمرہ نمبر 14، 22 اور 56 میں داخل ہو کر یس سر بول کر اپنے دوستوں کی حاضری لگواتا۔ لڑکا چاہے موجود نہ ہو لیکن کمرہ ضرور اندر سے بند ہو۔ کمرے میں بتی جلائے رکھنا ضروری ہوتا۔ اور اس بات کی خیال رکھا جاتا کہ باہر تالا نہ پڑا ہو۔ جب مولانا سولہ نمبر پر دستک دیتے تو سولہ نمبر کا لڑکا اندر سے یس سر کہہ دیتا اور جب وہ سترہ نمبر پر دستک دیتے تو سولہ نمبر والا پھر سے یس سر چلا کر سترہ نمبر والے کی حاضری لگوا دیتا۔
ایک روز وہی ہوا جس کا ایلی کو ڈر تھا۔ جس وقت مولانا نے حاضری کے وقت جاہ کے دروازے پر دستک دے کر میاں میاں کہا، اس وقت جاہ نہ جانے داستووسکی یا ٹامس میں کے مطالعہ میں اس حد تک مصورف تھا کہ میاں میاں کے جواب میں یس سر کہنے کی بجائے بے خیالی میں اس نے کہا “ کم آن۔“
دستور کے مطابق مولانا کو چاہیے تھا کہ آواز سن کر رجسٹر میں حاضری لگائیں اور اگلے کمرے کی طرف چل پڑیں۔ چونکہ دستور کے مطابق اہم بات یہ تھی کہ اندر سے آواز آ جائے۔ یس سر، کم اِن یا گو آوے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے تھا لیکن جاہ کے کمرے کے دروازے پر کھڑے کھڑے نہ جانے مولانا کو کیا ہوا۔ وہ یہ بھول گئے کہ وہ حاضری کے لیے راؤنڈ کر رہے ہیں۔ ممکن ہے جاہ کے انگریزی لب و لہجہ کو بھی اس سے تعلق ہوتا۔ بہرحال مولانا سمجھ بیٹھے کہ وہ پرنسپل کے کمرے کے باہر کھڑے ہیں۔ لٰہذا جاہ کے کم اِن پر وہ انجانے میں پٹ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔
اس چھوٹے سے کیوبیکل میں ان اٹھائیس تصاویر کی طرف دیکھ کر مولانا لڑکھڑائے۔ ان کی آنکھیں گویا خانوں سے باہر نکل آئیں۔ ایک ہی جست میں وہ باہر برآمدے میں پہنچے اور پھر ان کا احتجاج اور غم و غصہ حسبِ معمول اس مجاہدانہ نعرے میں گونجا “ لاحول ولا قوۃ“۔
یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں بلڈنگ میں مولانا نے لاحول کی للکار لگائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس روز ہوسٹل کے کمروں میں میزوں پر پڑے ہوئے گلاس جل ترنگ کی طرح بجے تھے۔ اور لڑکے گھبرا کر کمروں سے باہر نکل آئے تھے۔ اس وقت وہ میاں میاں کہنا یا تمسخر سے چلانا بھول گئے تھے۔
باہر نکل کر لڑکوں نے دیکھا کہ مولانا ہوسٹل کے صدر دروازے کی طرف بھاگے جا رہے ہیں اور حاضری رجسٹر کے ورق ہوسٹل کے صحن میں اُڑ رہے ہیں۔ مولانا حاضری لگانا بھول گئے تھے۔ اور انہیں حاضری کے رجسٹر کا خیال بھی نہ رہا تھا۔ اس روز کریسنٹ ہوسٹل کے جملہ لڑکوں میں سے صرف جاہ واحد لڑکا تھا جو اس حادثہ سے بے خبر اپنے کمرے میں بیٹھا کتاب پڑھنے میں منہمک رہا تھا۔
اگلے روز نیوٹن ہال میں بیٹھے ہوئے جب بھا اور ایلی گزشتہ رات کے واقعہ پر تبصرہ کر رہے تھے تو جاہ حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
“ اچھا میں نے خیال نہیں کیا۔“ وہ انگلیوں سے کھیلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ایم کے نے قہقہہ لگایا “ اچھا ہوا “ وہ بولا “ اپنی بھی روز بے عزتی ہے۔“
“ تم چپ رہو جی‘ جی کے نے اسے ڈانٹا۔
“ اچھا بھئی۔“ وہ بولا “ تو کوئی اور بولے اب“
بھا نے کہا “ لیکن اب ہو گا کیا۔“
“ اللہ جانے کیا ہو گا۔“ ایلی نے کہا۔
وہ سب خاموش ہو گئے۔
دیر تک خاموشی چھائی رہی۔
پھر دفعتاً جاہ بڑبڑانے لگا “ نہیں نہیں ------ نہیں نہیں۔“
سب کی نگاہیں جاہ پر مرکوز ہو گئیں۔
جاہ انگلیوں ہی انگلیوں سے کھیلتے ہونے نہ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ دفعتاً اس نے اوپر دیکھا اور کہنے لگا “ کیا ہم ایسی جگہ نہیں رہ سکتے جہاں مائیکل اینجلو برنے جونز اور لارڈ لٹن پر لاحول نہ پڑھی جائے، ضرور رہ سکتے ہیں۔ بالکل“ وہ قطعی فیصلے کے انداز میں بولا۔
جاہ کے اس قطعی فیصلے کے بعد سب نے مل کر ایک پرائیویٹ لاج میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭