سناٹے کو چیرتی فائر کی آواز گونجی تھی اور ساتھ ہی کسی جانور کی خوفناک سی چنگھاڑ بھی سنائی دی تھی۔ وہ جو پہلے ہی حواس باختہ سی ڈری سہمی نظروں سے اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی اس اچانک افتاد پر بے ساختہ بوکھلا کر ایک طویل و عریض چیخ اس کے منہ سے برآمد ہوئی۔
پھر اس چیخ کا گلا بڑی بے دردی اس کے منہ پر ہاتھ
رکھ کر گھونٹ دیا گیا اور ساتھ ہی انگریزی میں نہایت سفاک لہجے میں کہا گیا۔
خبردار کوئی حرکت کی یا آواز نکالی تو جان سے مار
دوں گا
اور وہ بے چاری تو پہلے ہی اتنی سہمی ہوئی تھی۔ باقی کسر اس کے سفاک لہجے نے نکال دی۔ اس سے تو خوف کے مارے پیچھے مڑ کر یہ تک نہ دیکھا
گیا کہ اسے دھمکانے والا جلاد آخر ہے کون۔
وہ بدستور اس کے منہ پر ہاتھ رکھے اسے گھسیٹتا چند
قدم پیچھے ہٹا اور پھر دور لا کر زور سے زمین پر پٹختا ہوا بولا۔
بغیر کوئی آواز نکالے یہاں لیٹی رہو۔ پہلے ہی میرا سارا پلان چوپٹ کر دیا ہے اگر ذرا
سی بھی آواز نکالی تو چھوڑوں گا نہیں۔
آئلہ بیچاری تو اتنی پتھریلی اور کھردری زمین پر
پٹخے جانے پر اپنی بازو سے نکلتا خون ہی دیکھتی رہ گئی اور وہ دوبارہ آگے بڑھ گیا۔
اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکلے۔
یا اللہ! یہ کس جرم کی سزا ہے اتنے ویران اور خوفناک
جنگل میں اتنے ہی خوفناک آدمی سے پالا پڑا ہے یا اللہ مدد فرما
وہ خاموشی
سے آنسو بہاتی اپنی چوٹیں سہلا رہی تھی جب وہ واپس آتا دکھائی دیا۔
آئلہ نے دور سے اسے اپنی سمت آتے دیکھا تو نئے سرے
سے سہم گئی اس کی خوفناک سی دھمکی اسے بری طرح خوفزدہ کر گئی۔
تمہاری وجہ سے میری اتنے دنوں کی محنت ضائع ہو گئی
اسٹوپڈ لڑکی میرا دل کر رہا ہے تمہارا گلا دبا دوں تمہیں اتنی بے تکی سی چیخ مارنے
کی کیا ضرورت تھی اگر اتنی ہی بے ڈرپوک ہو تو اس جنگل میں کیا کر رہی ہو۔ جا کر اپنے گھر بیٹھو آرام سے۔
وہ اس کے
اوپر کھڑا اسے گھورتا ہوا بول رہا تھا انداز ایسا تھا جیسے اسے کچا چبا جانا چاہتا
ہو۔
تین دن سے اس کی تاک میں تھا آج جا کر یہ سنہری
موقع میرے ہاتھ آیا تھا پر تم پتا نہیں کہاں سے نازل ہو گئیں نہ یوں فضول طریقے سے
چیختیں نہ وہ چونکتا صرف تمہاری وجہ سے میرا نشانہ چونک گیا اور گولی اس کی ٹانگ میں
لگی۔
وہ بری
طرح اس پر برس رہا تھا اور وہ خاموشی سے آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
پتا نہیں وہ جھاڑیوں میں کہاں چھپ گیا ہے زخمی شیر
کو تو یوں چھوڑا بھی نہیں جا سکتا اب تو میری بجائے وہ میری تاک میں ہو گا آخر اسے
اپنے زخمی کیے جانے کا انتقام بھی تو لینا ہے۔
وہ خود کلامی کرنے میں مصروف تھا وہ کچھ سوچتے اپنے
آپ سے باتیں کر رہا تھا۔
اور وہ رونا دھونا بھول کر بس زخمی شیر کے نام پر
دہل گئی اس کی خوف سے پھیلی آنکھوں پر نظر پڑی تو طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا۔
تم تو اپنی خیر مناؤ کیا پتا میری بجائے تم ہی اس
کے ہتھے چڑھ جاؤ بڑا عیار ہے تین دن سے مجھے نچا کر رکھا ہوا ہے کچھ تمہیں بھی سزا
ملے یوں بے موقع چیخنے کی۔
اور پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بنا وہ آگے بڑھ
گیا۔۔
٭٭
یہ تو شاید واپس جا رہا ہے! اوہ مجھے اسی سے ہیلپ
مانگنی چاہئے جیسا بھی آخر ہے تو انسان نا! چاہے جلاد نما ہی سہی۔ اس زخمی شیر سے تو
بہتر ہے نا! اگر یہ بھی چلا گیا تو میرا کیا بنے گا۔
اس سوچ
کا ذہن میں آنا تھا کہ وہ جو اتنی دیر سے مستقل ایک ہی اینگل میں بیٹھی تھی اٹھ کر
اس کے پیچھے بھاگی۔
چیخ کر اسے قصداً آواز نہیں دی کہ وہ پہلے ہی اس
کے چیخنے سے چڑا ہوا تھا۔
وہ بڑی سست روی سے چل رہا تھا اس لیے آئلہ نے دو
چار سیکنڈ میں ہی اسے جا لیا اور پھولی ہوئی سانس سے اس سے مخاطب ہوئی۔
دیکھئے میں یہاں راستہ بھول کر آ گئی ہوں آپ کی
بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ میری مدد کر دیں تو۔
وہ جو اس کے بھاگ کر اپنے پیچھے آنے پر حیران تھا
اس کی بات سن کر بے نیازی سے بولا۔
اول تو مجھے خدمت خلق کا کوئی شوق نہیں دوئم اگر
ہوتا بھی تو تمہاری تو ہرگز نہ کرتا میری طرف سے معذرت۔
اس پر ایک سخت غصے سے بھرپور نگاہ ڈال کر جیسے ہی
آگے بڑھا، آئلہ اس کے سامنے آ گئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی۔
پلیز آپ میری مدد کریں آپ کو انسانیت کا واسطہ دیکھیں
میں جان بوجھ کر نہیں چیخی تھی آپ مجھے معاف کر دیں میں اس خوفناک جنگل میں خوف اور
دہشت سے ہی مر جاؤں گی۔
اس کے سامنے وہ ہاتھ جوڑے کھڑی تھی آنکھوں میں التجا
تھی۔
وہ دو چار منٹ اسے گھورتا رہا پھر آگے بڑھتا ہوا
بولا آؤ۔
وہ جو اتنی دیر سے امید و بیم کی کیفیت میں کھڑی
تھی ایک دم پر سکون ہو کر اس کے پیچھے چل پڑی۔
جب کہ وہ اس بات سے قطعاً بے نیاز نظر آ رہا تھا
کہ وہ اس کے پیچھے آ رہی ہے یا نہیں آئلہ تقریباً بھاگ رہی تھی لیکن پھر بھی اس سے
کافی پیچھے تھی بھاگتے بھاگتے اس کی ٹانگیں بری طرح شل ہو گئی تھیں۔ سانس پھول گیا تھا۔ لیکن وہ پھر بھی بھاگ رہی تھی
یوں جیسے اسے خوف ہو کہ وہ اسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ اسے شاید ایسے بھاگتے دوڑتے آدھا گھنٹہ گزر گیا
تھا۔ جب وہ ایک جیپ کے پاس جا کر رک گیا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے ساتھ والی سیٹ کا
دروازہ کھول دیا۔ آئلہ کے بیٹھتے ہی اس نے
جیپ فل سپیڈ میں دوڑانا شروع کر دی۔
اسے شاید ہر کام تیز رفتار کرنا پسند تھا۔
تیز چلنا 'تیز گاڑی چلانا اور تیز آواز میں بول
کر سامنے والے کو دہلانا۔
اس کی طرف تو اس نے سرسری نظر سے بھی نہیں دیکھا
تھا جبکہ وہ چوری چوری کتنی بار اس کی طرف دیکھ چکی تھی۔
بلیک جینز بلیک ہی جیکٹ لانگ شوز کندھے سے لٹکتی
رائفل جیکٹ کی جیب میں ٹھونسا ریوالور اور پینٹ کی جیب میں اڑسا خنجر۔
وہ شاید کوئی پروفیشنل شکاری تھا اس لیے جیپ چلانے
کا انداز اور اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے وہ اس جگہ اور یہاں کے حالات سے مکمل
آگاہی رکھتا ہے آئلہ کے دل کو کچھ اطمینان ہوا۔
شکر ہے درست بندے کے پاس پہنچ گئی اگر یہ بھی میری
طرح انجان آدمی ہوتا تو میں تو گئی تھی کام سے۔
وہ اس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد سوچ رہی تھی اسی
وقت جیپ ایک جھٹکے سے رکی۔
اس سے کچھ بھی کہے بغیر وہ ایک جھٹکے سے جیپ سے
نیچے اترا اور سامنے نسب خیمے کا پردہ اٹھا کر اندر چلا گیا۔
وہ اس کی بد تمیزی پر کھول کر رہ گئی۔
اتنا بے ہودہ اور بد تمیز انسان ہے نا اگر مدد کر
ہی دی تھی تو کچھ انسانیت کا ثبوت تو دے دے وہ وہی جیپ میں بیٹھی جل رہی تھی۔
٭٭
جب یونہی بیٹھے بیٹھے دس پندرہ منٹ گزر گئے اور
وہ دوبارہ باہر نہ نکلا تو مجبوراً وہ خود جیپ سے نیچے اتری اور بن بلائے مہمان کی
طرح خیمے میں داخل ہو گئئ اسے اپنی اس بے شرمی پر سخت تاؤ آ رہا تھا لیکن حالات کا
تقاضا تھا کہ گدھے کو باپ بنا لیا جائے اس لیے اس نے چہرے کے تاثرات بھی دوستانہ رکھے۔ اس کا خیمہ کیا تھا پورا لگژری بیڈ روم تھا۔ کم از کم اس نے زندگی میں جتنے خیمے دیکھے تھے،
ان سب سے مختلف تھا۔ پورا خیمہ تو وال ٹو وال
کارپٹڈ تھا میرون کلر کا دبیز اور آرام دہ قالین جس پر سبز اور سنہری پرنٹ تھا سنگل
فولڈنگ بیڈ جس پر ہلکے نیلے رنگ کی چادر بچھی تھی اور سائیڈ پر فولڈنگ چیئر رکھی تھی
ذرا آگے ایک میز تھی جس پر ٹائم پیس، ٹیپ ریکارڈر، دو چار کتابیں اور سگریٹ کی ڈبیا
رکھی تھی۔ بیڈ کے سامنے یعنی خیمے کی دوسری
دیوار کے ساتھ دو فلور کشن رکھے تھے ایک عدد ڈسٹ بن بھی تھا اور ساتھ ہی ایک میز پر
چولہا رکھا تھا اسی میز پر دوچار برتن اور کچھ کھانے پینے کا سامان بھی نظر آ رہا تھا۔
یا الٰہی
یہ کوئی نواب صاحب ہیں یا شکاری؟ اتنے شاہانہ انداز میں تو کسی کو شکار کرتے نہیں دیکھا
یہ صاحب تو لگتا ہے یہاں مستقل قیام فرماتے ہیں۔
وہ اس کی
آمد کا نوٹس لیے بنا اپنے لیے چائے بنانے میں مصروف تھا جب چائے بن گئی تو آرام سے
فلورکشن پر ٹانگیں پسار کر بیٹھ گیا اور سپ لینے لگا۔
اپنی اتنی انسلٹ پہ اسے سخت غصہ آ رہا تھا لیکن
کوئی اور جائے پناہ نہیں تھی اس لیے مجبوراً خود کو گھسیٹتی وہی قالین پر سمٹ سمٹا
کر بیٹھ گئی وہ بڑی مشکل سے خود کو سمجھا رہی تھی اور اپنی انا اور اونچی ناک کو تھپک
تھپک کر سلا رہی تھی۔
ذرا سوچو اگر یہ نہ ملتا تو کیا ہوتا وہ زخمی شیر
تو کب کا مجھے چیر پھاڑ چکا ہوتا ان حالات میں اس کا ملنا بھی غنیمت ہے وہ مسلسل خود
کو سمجھا رہی تھی اور وہ بڑی خاموشی کے ساتھ اسے خود سے جنگ کرتے دیکھ رہا تھا۔ جب چائے پی چکا تو وہی فلورکشن پر سر رکھ کر لیٹ
گیا۔
آئلہ نے دوچار بار سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا لیکن
اس کی بند آنکھوں سے پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ سو رہا ہے یا جاگ رہا ہے کافی دیر گزر
گئی۔
وہ جب اس کے ساتھ آئی تھی تو ساڑھے چار بج رہے تھے
اور اب چھ ہو رہے تھے صبح سے وہ جتنے مشکل حالات کا سامنا کر رہی تھی اب تھک کر نڈھال
ہو چکی تھی اور کچھ غنودگی بھی طاری ہو رہی تھی۔
وہ نیند کو بھگانے کی پوری کوشش کر رہی تھی لیکن
اس خیمے کا آرام دہ ماحول اسے کامیاب نہیں ہونے رہا تھا۔
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ایک کپ چائے بنا کر
پی لے لیکن ایسا کرنا اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
اس لیے
خود پر ضبط کیے بیٹھی رہی اور پھر نہ جانے کب بیٹھے بیٹھے ہی سوگئی۔
٭٭
گھٹنوں میں منہ دیے وہ گہری نیند سو رہی تھی جب
اچانک کسی چیز کے گرنے سے اس کی آنکھ کھل گئی۔
اک دم ہر بڑا کر سر اوپر اٹھایا اور نیند سے بوجھل
آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ چولہے کے پاس کھڑا نظر آیا۔
شاید اس کے ہاتھ سے کوئی برتن گرا تھا آئلہ نے گھڑی
کی طرف دیکھا تو وہ نو بجا رہی تھی۔
وہ جب سے آئی تھی اسی زاوئے پر بیٹھی تھی۔ ٹانگیں بری طرح اکڑ گئی تھیں۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے برف ہو رہے تھے۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اسے شدید قسم کا چکر آ رہا
ہے۔ وہ جو ٹانگیں سیدھی کرنا چاہ رہی تھی شدید
کمزوری کے باعث ایسا بھی نہ کر پائی۔ اسے خیال
آیا کہ اس نے صبح سے ایک قطرہ پانی کا نہیں پیا اور اگر تھوڑی دیر اور کچھ نہ کھایا
پیا تو وہ بے ہوش ہو جائے گی۔ اتنی سخت بھاگ
دوڑ اس نے کب کی تھی زندگی میں! وہ بھی خالی پیٹ۔
لہذا اس کا نڈھال ہو جانا فطری تھا۔
وہ اوپنر سے ٹن ڈبہ کھول رہا تھا پھر شاید اس نے اس میں سے خشک مچھلی کے ٹکڑے
نکالے اور فرائئ کرنے لگا۔
بھوکے پیٹ کو کھانے کی خوشبو نے پاگل کر دیا وہ
ندیدوں کی طرح اس کی طرف دیکھتی رہی۔
وہ تو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ یہاں اکیلا ہو اسے
اس کے وجود سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ شاید
اپنے خیال میں وہ اسے اپنے ساتھ لا کر کافی سے زیادہ احسان کر چکا تھا۔ لہذا مزید کسی مروت اور مہمان داری کی ضرورت نہیں
تھی اس لیے اس کی طرف ایک دوستانہ مسکراہٹ تک نہ پھینکی اور اپنے کام میں مصروف رہا۔
مچھلی فرائی ہو گئی تو بریڈ کے ایک سلائس پر مچھلی
اور دوسرے پر چیز سلائس رکھ کر تین سیندوچز تیار کیے۔
انہیں بہت پیار سے پلیٹ میں رکھا اور اپنے لیے کپ
میں کافی مکس کرنے لگا۔ جب کافی تیار ہو گئی
تو دونوں چیزیں لے کر وہی اس کی پاس فلورکشن پر آ بیٹھا اور بولا۔
تم کھاؤ گی۔
اور اس
کی تو یہ حالت تھی کہ اس سے چھین کر کھا جاتی خالی پیٹ ساری انا ونا بھول گئی۔ آج اس نے جانا کہ بھوک کتنی بڑی بلا ہے۔ شاید اسی لیے لوگ پیٹ کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار
ہو جاتے ہیں۔
بمشکل اپنے لڑکھڑاتے اور چکراتے وجود کو سنبھالتے
ہوئے آگے بڑھی اور اس کی آفر کے جواب میں بغیر کسی تکلف کے پلیٹ سے ایک سینڈوچ اٹھایا
اور یوں کھانے لگی جیسے اس کے چھن جانے کا خطرہ ہو۔
وہ اپنا کھانا چھوڑ کر بہت غور سے اسے دیکھنے لگا۔ جو ایتھوپیا کی قحط زدگان میں سے کوئی لگ رہی تھی۔ دو تین نوالوں میں اس نے اپنا سینڈوچ ختم کر لیا۔ مگر ایک سینڈوچ سے تو اس کا آدھا پیٹ بھی نہیں بھرا
تھا اس نے پلیٹ اس کے آگے کی تو اس نے فوراً دوسرا سینڈوچ اٹھا کر کھانا شروع کر دیا۔ اس وقت بھوک کے سوا کوئی بات یاد نہ رہی وہ بے چارہ
جو اپنے سینڈوچ میں سے ایک نوالہ لے چکا تھا وہ بھی اس کے سامنے رکھی پلیٹ میں رکھ
دیا اور اپنے بیگ سے بسکٹوں کا ایک پیکٹ نکال لایا۔
جب تک اس نے پیکٹ کھولا وہ بڑے اطمینان سے تین سیندوچز
کھا چکی تھی۔ اس نے پیکٹ سامنے کیا تو وہ شرمندہ
سی ہو گئی پیٹ میں اناج گیا تو ساری شرم بھی یاد آ گئی۔ اسے اپنے ندیدے پن اور بے اختیاری پر افسوس بھی
ہوا۔
بسکٹوں کی طرف ہاتھ بڑھائے بغیر وہ یونہی سر جکھائے
بیٹھی رہی تو وہ بولا۔
اگر کافی پینی ہے تو خود اٹھ کر بنا لو مجھ سے یہ
امید مت رکھنا کہ میں تمہاری مہمان داری کروں گا۔
لہجہ اچھا خاصا اکھڑ اور روڈ قسم کا تھا۔ لیکن اس کے لہجے پر ناراض ہونے کی بجائے وہ اس کی
بات پر حیران رہ گئی کہ وہ اس سے اردو میں بات کر رہا تھا۔
آپ پاکستانی ہیں وہ کچھ جوش اور خوشی سے بھرپور
لہجے میں بولی تو وہ اپنے مخصوص اکھڑ لہجے میں بولا۔
کیوں تمہیں جاپانی نظر آتا ہوں؟ کیا فضول اور احمقانہ
سوالات سے مجھے سخت چڑ ہوتی ہے۔
وہ بسکٹ کھاتا ہوا بد تمیزی سے بولا تو وہ کھول
کر رہ گئی۔
اس جنگلی کو تو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں اسے تو
یہ بھی نہیں معلوم کہ خواتین کا احترام بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
وہ سوچتی رہی اور وہ کافی پیتے ہوئے دوبارہ اس سے
لاتعلق ہو چکا تھا۔ اس نے تو اس سے یہ بھی
نہیں پوچھا کہ وہ کون ہے اور اتنے خوفناک جنگل میں کیا کر رہی ہے۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ قطعاً لاپرواہ ہو۔ اگر وہ ہے تو ٹھیک اگر وہ نہیں ہے تو بہت اچھی بات
ہے۔
پھر وہ اٹھا پلیٹ اور کپ وہیں چولہے کے پاس رکھا
اور باہر چلا گیا۔ کافی دیر ہو گئی اور وہ
واپس نہ آیا تو آئلہ کو گھبراہٹ شروع ہو گئی وہ بے اختیار خیمے سے باہر نکل آئی۔
ارد گرد پھیلا اندھیرا خوف کو دو چند کر گیا۔ سوائے دور دراز سے آتی چیخوں کے کچھ سنائی نہیں
دے رہا تھا۔ عجیب و غریب آوازیں جانے کسی جانور
کی تھیں یا کسی اور چیز کی وہ خوف سے سن کھڑی رہ گئی۔
چاروں طرف پھیلی تاریکی اور گھنا جنگل جس میں وہ
اس وقت اکیلی تھی اس نے خوف زدہ ہو کر رونا شروع کر دیا۔
تبھی اسے اپنے نزدیک قدموں کی چاپ سنائی دی تو اس
کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔
کیا مصیبت ہے؟ تمہیں چیخنے چلانے کے علاوہ کچھ نہیں
آتا عجیب قسم کی لڑکی ہو۔
وہ اسے
بری طرح ڈانٹتا چلاتا خیمے میں گھس گیا اور وہ آنسو پونچھتی اس کے پیچھے چلی آئی۔
اس کے تمام تر بد تمیزی کے اس کے ہونے سے ایک عجیب
تحفظ کا احساس ہو رہا تھا ایک دم سارا خوف زائل ہو گیا۔
اس نے اندر آ کر ایمرجنسی لائٹ آف کر دی۔
اور کمبل تان کے لیٹ گیا۔
وہ کچھ دیر تو کھڑی اسے دیکھتی رہی پھر وہی قالین
پر دونوں فلور کشن ملا کر ان کے اوپر لیٹ گئی اور دوپٹہ پورا کھول کر خود اپنے اوپر
ڈال لیا۔ بھلا ہو اس فیشن کا اس نے خود سے
کہا۔۔ ورنہ ٹھنڈی زمین میں ٹھٹھر کے مر جاتی۔
لیٹے ہوئے
ابھی دو چار منٹ ہی ہوئے ہوں گے وہ آس پاس آتے جانوروں کی آوازیں اسے خوفزدہ کر رہی
تھی۔
اسے لگ رہا تھا سب جنگل کے جانور مل کر رو رہے ہیں۔
گھپ اندھیرا ویران جنگل اس کے ذہن میں عجیب سے وسوسے
آنے لگے۔۔
سنیں آپ سو گئے ہیں کیا؟۔
اپنے خوف کو کم کرنے کے لیے بے اختیار پوچھ بیٹھی۔
وہ جو منہ دوسری طرف کیے نیم غنودگی میں تھا، جھنجھلا
گیا۔
آپ سونے دیں گی تو سوؤں گا۔ فرمائیں اب کیا تکلیف ہے؟۔
منہ دوسری طرف کیے وہ جل کر بولا۔
وہ اس کا لہجہ نظرانداز کر کے اپنی پریشانی بتانے
لگی۔
ہم یہاں محفوظ تو ہیں نا ایسا نہ ہو ہم سو رہے ہوں
اور کوئی جانور درندہ اندر گھس آئے۔
کوئی سانپ بچھو ہی اندر گھس آئیں۔
جواب میں
اس نے آہستگی سے اپنے منہ کو اس کی طرف موڑا۔
اور مسکراہٹ سے بولا۔
جانور اندر کیوں آئیں گے؟ انھیں اپنی زندگی عزیز
نہیں! آخر ملکۂ عالیہ یہاں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں۔ میڈم، آپ چاروں طرف سے محفوظ ہیں۔ کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ آپ آرام فرمائیں۔
اس کے طنزیہ لہجے پر بری طرح تڑپ گئی۔ جبکہ وہ اپنا منہ دوبارہ دوسری طرف کر کے سو گیا۔
اس نے آنکھیں بند کر کے جتنی بھی سورتیں تھی یاد
پڑھنے لگی اچھی طرح پڑھ کے خود پر دم کرنے لگی۔
اس وقت اسے دھیان آیا لیلی اور دانش کا سارا دن اپنی الجھن پریشانی میں گزرنے
کے باوجود ان کا خیال برابر اسے پریشان کرتا رہا۔
پتہ نہیں ان کا کیا ہوا ہو گا۔ یا اللہ ان کی حفاظت کرنا وہ جہاں بھی ہوں خیریت
سے ہوں۔ کتنے خوش باش ہم گھر سے چلے تھے، کیا
پتہ تھا ہماری تفریح یہ کرے گی!
تو وہ کل رات کے سب مناظر سوچ کے اور خوف زدہ ہو
رہی تھی۔
لیلی اس کی چچا زاد بہترین دوست تھی جو ان کی پر
زور دعوت پر آئی تھی۔ چچا کی اکلوتی بیٹی،
بیٹی کیا، چچا کے بقول ان کا بیٹا تھا۔ وہ
تھی بھی مست ملنگ، لا پرواہ۔ اس کے نزدیک ایسی
زندگی کوئی زندگی نہیں تھی جس میں ایڈونچر نہ ہو۔
وہ گھوڑے سے لے کر جہاز تک چلا لیتی تھی۔
ایک چاچی جان کے علاوہ سب اس کی حرکتوں سے خوش تھے۔ ان کو مردانہ انداز بے تکی حرکتیں اٹھے بیٹھے اسے
آئلہ کی مثالیں دیتی تھیں۔ لڑکیوں کو لڑکیوں
والے کام کرنے چاہئے آئلہ کو دیکھ لو۔ کوکنگ
کتنی اچھی کرتی ہے۔ بولتی بھی نرم تمہاری طرح
نہیں۔ اور دیکھو اس کے اندر کتنا دھیما پن
اور شائستگی ہے۔
مگر وہ لیلی ہی کیا جس پر کوئی بات اثر کر جائے۔ وہ چچی کی بات ایک کان سے سنتی دوسرے سے نکال دیتی۔ دونوں کی شخصیت میں بہت فرق تھا پھر بھی بہت اچھی
دوست تھی ہر سال وہ پاکستان آتے سال کی باتیں ایک ساتھ کرنے بیٹھ جاتی۔ سارے خاندان میں ان کی دوستی کو حیرانی سے دیکھا
جاتا۔ کہاں لیلی جینز شرٹ پہننے والی منہ پھٹ
سی لڑکی۔ اور کہاں آئلہ شلوار قمیص کے اوپر
دوپٹہ پھیلا کر کرتی، سنجیدہ، خاموش طبع، سب حیران۔ بچپن سے آج تک بیسٹ فرینڈ تھیں۔۔
پچھلے سال جب لیلی کراچی آئی تو کہہ گئ تھی۔ اگلے سال تم کینیا آؤ گی۔ یہ کیا بات ہوئی ہمیشہ میں ہی آؤں۔
اب جب یہ پڑھائی سے فارغ ہوئی تو اسے بار بار آنے
کا کہتی۔
وہ تو جانے کے لئے بے چین تھی اصل مسئلہ اجازت کا
ملنا تھا۔ ابو تو خیر مان بھی جاتے۔ مسئلہ بھابھی کا تھا۔ جن کا خیال تھا اس کے جانے سے گھر سونا ہو جائے
گا۔
گھر میں افراد ہی کتنے تھے اگر تم بھی چلی گئیں،
امی کو گھر کاٹ کھانے کو دوڑے گا۔
اس نے لیلی کے تنگ کرنے پر سب بتا دیا کہ وہ کیا
کوئی اس مسئلے کا حل نکال سکتی ہے۔ ورنہ چپ
چاپ بیٹھ جائے۔
دل اس کا بھی بہت تھا جانے کا پر کیا کرتی۔
میرے اکلوتے چچا کا گھر آج تک میں نے نہیں دیکھا
وہ خود سے افسوس کرتے۔ پتہ نہیں لیلی نے کیسے
کن الفاظ میں چچا کو منایا ان کا فون آیا مجھے آئلہ کی بہت یاد آ رہی ہے۔
اس کو یہاں بھیجا جائے ٹکٹ وغیرہ سب بھیج دیا۔ کل تک آپ کو موصول ہو جائے گا۔ چچا کی خواہش کے اگے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا۔ جو اب تک اپنے نہ جانے کی فاتحہ پڑھ چکی تھی خوشی
سے جھوم اٹھی۔
نیز وہاں پہنچے پر سب نے پر زور استقبال کیا لیلی
نے ایک ماہ تک اسے بھرپور کمپنی دی۔ ان کی ہر آوٹنگ میں دانش بھی ضرور تھا لیلی کا
تو دانش کے بغیر کھانا بھی ہضم نہیں ہوتا۔
دانی ہم فلاں جگہ جا رہے تم آ جاؤ دانش حکم کا غلام مریضوں کو چھوڑ کر فوراً
حاضر ہو جاتا۔
لیلی کا پچھلے سال دانش سے نکاح ہو گیا تھا۔ رخصتی ابھی نہیں ہوئی تھی لیلی صاحبہ M.S. کرنے میں مصروف تھی۔
چچا کی طرح دانش لوگوں کی فیملی یہی سیٹل تھی۔ دانش بھی لیلی کی طرح یہیں پیدا ہوا تھا۔ دونوں بچپن کے دوست تھے۔ کبھی کبھی دونوں کی ہم آہنگی آئلہ کو حیران کر دیتی۔ دونوں کی پسند نا پسند سب ایک جیسا تھا۔
ایک جیسا رنگ، ایک جیسا میوزک۔ ایک جیسا موسم، کتابیں فلمیں سب کچھ ملتا۔ شروع میں آئلہ کو ان کے ساتھ گھومنا عجیب سا لگتا۔ ایسے ہی کباب میں ہڈی۔۔ ۔ لیکن جلد ہی اسے غلط فہمی دور ہو گئی۔ اس نے دیکھ لیا یہ عام جوڑوں کی طرح رومینٹک جملوں
کا استعمال نہیں کرتے نہ دانش ایسی بات کرتا جس سے وہ لال پیلی ہوتی۔ اتنا نرالا کپل اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا۔ حالانکہ دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ شاید ان کی محبت کا انداز دوسرے لوگوں سے مختلف
تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے۔ اس کے ساتھ وہ پڑھائی میں بھی مصروف۔ پھر بھی آئلہ کو مکمل وقت دیتی۔
اس کے تھیسس کا موضوع تھا جنگلی حیاتیات کا تحفظ
اس نے نیا شوشہ چھوڑا جس سے چچی کا غصہ ساتویں آسمان تک۔
آئلہ تم
بھی اس سے دور رہو اس کا سایہ تم پر نہ پڑ جائے۔
لیلی بھی اپنے ارادوں میں اٹل تھی۔ دونوں ماں بیٹی میں زبردست ٹھنی۔ آئلہ بے چاری پریشان کس کے حق میں بولے۔
چچا خاموش تماشائی تھے۔ بیٹی کی حمایت پر چچی۔ انھیں بھی کھری کھری سنا دیتی۔ آپ رہنے دیں آپکی شہہ پر الٹی سیدھی حرکتیں کرتی
ہے۔ سسرال میں ساس خوش نہیں ہو گی کہ میری
بہو گھوڑا اچھا دوڑاتی ہے۔ اچھی سائکلنگ کرتی
ہے۔ شریف گھروں کی بہو بیٹیوں کے لچھن یہ نہیں
ہوتے۔ مگر یہاں میری سنتا کون ہے۔ چچا اس دن بیٹی کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ جب منٹ سماجت کچھ کام نہ آیا لیلی نے بھوک ہڑتال
کر دی، کمرے میں بند ہو گئی۔
ایک دن تو چچی نے پرواہ نہیں کی۔ دوسرے دن فکر مند ہوئیں۔ مگر لیلی اپنی ضد کی پکی۔ اس وقت تک کمرے سے نہیں نکلی جب تک اجازت نہیں ملی۔ پھر آخر چچی نے دے دی اجازت۔ وہ خوشی سے کمرے سے نکل کر امی کے گلے میں بانہیں
ڈال کر شکریہ ادا کیا۔ پھر اس تمام قصے کے
بعد لیلی نے نیا جھگڑا نکالا۔
آئلہ بھی میرے ساتھ جائے گی۔
چچی پہلے ہی خفا تھیں۔ مزید ہو گئیں۔
ممی ناراضگی بالکل فضول ہے میں تفریح کرنے نہیں
جا رہی یہ میرا ریسرچ ورک ہے جنگلی حیات کا تحفظ میرا موضوع ہے گھر بیٹھے یہ پاس نہیں
کر سکتی مجھے اس کے لیے پراپر ریسرچ کرنا ہو گا۔
میں مشاہدہ کروں گی انسان کی لا پرواہی سے جنگل کیسے تباہ ہو رہا ہے۔ یہ بہت سنجیدہ موضوع ہے۔ میرے ساتھ والے سب کا یہی خیال ہے۔ یہ کام مجھے سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا میری تیار
کردہ رپورٹس پوری دنیا میں دھوم مچا دیں گی، آپ کو خوش ہونا چاہئے۔ اللہ نے بہت ذہین بیٹی دی ہے۔ ایک آپ ہیں ہر ٹائم بد گمان ناراض رہتی ہیں۔ آئلہ کا ساتھ اس لیے کے مجھے دو تین دن لگ جائیں
گے یہ گھر بور ہو گی اسی بہانے تفریح ہو جائے گی۔
یہ اور دانش بھی گھوم پھر لیں گے۔ افریقہ
کے جنگلات کی پوری دنیا میں شہرت ہے۔ آخر کار
اجازت مل گئی۔ دانش بھی ساتھ ملا ہوا تھا۔ بغیر پریشانی کے اسے جانے دیں کیونکہ وہ اکیلی نہیں
ہو گی، وہ بھی ساتھ ہو گا۔ وہ کوئی خوفناک
جنگل کا دورہ نہیں کرنے جا رہے تھے، وہاں خرگوش جنگلی بلیوں چوہوں پرندوں کے علاوہ
ہرن ہوں گے چچی جان اپنے اکلوتے داماد کو کیسے ناراض کر سکتی تھیں۔ لہذا چہرے سے ناراضگی کے آثار مٹا کر آئلہ اور لیلی
کو جانے کی اجازت دے دی۔۔
٭٭
وہ تو خود پہلے ہی لیلی کے ساتھ جانا چاہ رہی تھی
چچی کے خوف سے شوق کا اظہار نہیں کیا۔ اجازت ملنے کی دیر تھی اس نے خوشی خوشی شال سوئٹر
رکھ لیے، سرِ شام وہ روانہ ہو گئے۔ دانش اور
لیلی اگلی نشست پر تھے وہ پیچھے ان کی باتوں میں شریک تھی لیلی سارا وقت ان لوگوں کو
برا بھلا کہتی رہی جو جنگل اجاڑ کے قدرت کے نظام میں خلل ڈالتے ہیں۔ اس کا بس چلتا
شکاریوں اور سوداگروں کو پھانسی دلوا دیتی۔
عام آدمی اس بارے میں سوچ نہیں سکتا درخت پہاڑ جانور سب مل کر جنگل بناتے ہیں
شاید ہم اپنے بچوں کو بتائیں بیٹا ہمارے زمانے میں ایسا جانور ہوتا تھا چیتا کہلاتا
تھا جیسے ہم آج ڈائنوسور کے بارے میں پڑھے سنتے ہیں۔ اس کو آج جنگل کے جانوروں کے علاوہ
کسی ٹاپک پر بات کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا دانش بھی پتہ نہیں اس کا دل رکھنے یا سچ
میں دلچسپی لے رہا تھا۔ پوری رات سفر کرتے رہے کبھی دانش ڈرائیو کرتا کبھی لیلی۔۔
وہ تھوڑی دیر سو کر تازہ دم ہو چکی تھی پھر ان دونوں
کے ساتھ گفتگو میں شریک ہو گئی۔ لیلی کی کسی بات پر قہقہہ لگاتے ہوئے اسے لگا جیسے
گاڑی پوری قوت سے کسی چیز سے ٹکرائی۔ لیلی اور اس کے منہ سے بلند چیخ نکلی۔ اس سے پہلے
کہ وہ سنبھلتے گاڑی نے دو تین قلابازیاں کھائی۔ ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ گاڑی کے قلابازی
سے دروازہ کھل گیا اور وہ کسی بال کی طرح اچھلتی ہوئی جا کر زمین پر گری۔ بے ہوش ہونے سے پہلے اس نے جو منظر دیکھا تھا گاڑی
موجود کسی کھائی میں جا گری تھی۔ اس کے بعد
اسے ہوش نہیں رہا دماغ مکمل تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔
اسے ہوش آیا تو کتنی دیر پتھریلی زمین پر پڑی رہی۔
اس کے سر کے عین اوپر سورج اپنی شعاعیں بکھیر رہا
تھا۔
وہ دس پندرہ منٹ یونہی پڑی رہی پھر اچانک یاد آیا
کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا گزری تھی وہ ایک دم اٹھ بیٹھ گئی۔
پتہ نہیں کسی کی دعا لگی یا معجزہ ہوا تھا اتنے
بری طرح گرنے کے باوجود کوئی زیادہ چوٹیں نہیں آئی تھیں۔ کہنیاں تھوڑی چھل گئ تھی۔ ابھی بھی خون رس رہا تھا۔
گھٹنے معمولی زخمی ہوئے۔
وہ اپنی چوٹیں نظر انداز کر کے بھاگتی ہوئی اس کھائی
کی طرف آئی جہاں گاڑی گری تھی۔۔
نیچے جھک کر دیکھا رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ کھائی تو اس کے تصور سے بھی گہری تھی۔ اچھی طرح نظریں دوڑائیں کہ گاڑی کے ہی کوئی آثار
ملیں۔ نہ گاڑی نہ ان دونوں کا کچھ پتہ۔ بہت فکر مندی کے ساتھ سوچتے ہوئے تھوڑی دیر
گزری ہو گی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ خود
کہاں اس وقت موجود ہے؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ واپسی
کا کون سا راستہ ہے؟ ان سوالات کا آنا تھا،
وہ ان کو بھول بھال کر خود کی فکر میں پڑ گئی۔
ایک ماہ میں تو اسے وہاں کے بارے میں کوئی پتہ نہیں تھا وہ کسی طرح بھی شہری
آبادی میں پہنچ جانا چاہتی تھی۔ وہ نہیں جانتی
تھی پوری رات سفر کر کے وہ کس قصبے میں ہیں۔
اٹکل سے چلتی رہی چلتے چلتے اس کے پاؤں شل ہو گئے۔
یہاں تک کہ شام کے آثار ہونے لگے۔ وہ بری طرح بے بس ہو کر وہی بیٹھ کر رونے لگی۔ اسے لگ رہا تھا وہ یونہی جنگل میں بھٹکتی رہے گی
واپسی کا راستہ نہیں ملے گا۔ شاید اب کبھی
اپنے گھر والوں سے مل نہیں پائے گی۔
وہ بہت رو رہی تھی جنگل میں جہاں نہ آدم تھا نہ
آدم زاد۔
یہ سوچ کر ہی وحشت ہو رہی تھی کہ یہاں رات کیسے
گزارے گی۔ رات تو خود ہی خوفناک ہوتی ہے اوپر
سے جنگل۔
وہ تو بہت ڈرپوک سی لڑکی تھی۔ جو کتے بلیوں سے ڈرتی تھی۔ ہر جانور سے ڈرتی تھی۔ وہ تو اکیلے کمرے میں سونے سے ڈرتی تھی۔ عین اسی وقت اس نے ایک فائر کی آواز سنی وہ بری
طرح خوف زدہ ہو کر چیخ پڑی پھر اسے وہ مل گیا جو کم سے کم انسان تو تھا۔ وہ اپنی خوش قسمتی پر خدا کا شکر ادا کر رہی تھی۔ جس نے اتنے ویرانے میں ایک جیتا جاگتا انسان ملا
دیا۔ تمام رات اس نے عجیب کیفیت میں گزاری۔ کبھی آنکھ لگ جاتی کبھی کھلتی کبھی اچانک خوفزدہ
ہو کر بیٹھ جاتی۔ رات کا جانے کون سا پہر تھا۔۔
جب اس کی آنکھ گاڑی کے اسٹارٹ ہونے سے کھلی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا مگر اندھیرا پھیلا ہوا
تھا۔۔
ابھی صبح نہیں ہوئی تھی وہ بد حواس ہو کر بغیر دوپٹہ
اوڑھے باہر نکل آئی۔ سناٹے کو چیرتی گاڑی دور
جا رہی تھی۔۔
وہ پوری رفتار سے گاڑی کے پیچھے بھاگی۔
سنیں پلیز رک جائیں۔
میری بات سن لیں پلیز۔
وہ چیخ کر آوازیں دینے لگیں اس وقت جب سارا جنگل
سویا ہوا تھا۔ کوئی آواز کوئی آہٹ نہ تھی۔ اس کی آواز کسی بازگشت کی طرح جنگل میں پھیل رہی
تھی۔ اس نے گاڑی روک لی تھی۔ مگر واپس نہیں آیا تھا۔ وہ خود بھاگی ہوئی گاڑی تک پہنچی۔۔
آپ اتنی رات کو مجھے اکیلا چھوڑ کر کہاں جا رہے
ہیں۔ وہ اسٹرینگ پر ہاتھ رکھے بیزار بیٹھا
تھا۔ محترمہ صبح کے چار بجے ہیں رات کب کی
ختم ہو گئی۔۔
اور جہاں تک اکیلے چھوڑ کر جانے کا سوال ہے میں
نہیں سمجھتا کہ میں نے ایسا کوئی وعدہ کیا تھا۔
کہ آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ کے جاؤں گا۔
اتنی بزدل کم ہمت تھی تو اس جنگل میں کیا کرنے آئی تھی۔ وہ کپڑے نکھرے پہنے کل کی نسبت کافی فریش لگ رہا
تھا۔ پتہ نہیں چار بجے نکلنے کے لیے وہ خود
کب جاگا۔۔
آپ میری مدد کریں پلیز۔
آپ مجھے یہاں کے کسی بھی شہر قصبے میں پہنچا دیں۔۔
میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔
وہ اکھڑے پن کو کچھ کم کرتے ہوئے بولا۔
اس وقت تو مجھے جانا ہے واپس آؤں گا تو تمہیں اس
مسئلے پر بات کریں گے وہ جیپ اسٹارٹ کرنے لگا۔
وہ اس کے اداس چہرے پر سرسری سی نگاہ ڈال کر اس
سے مخاطب ہوا۔ کچھ کھا پی لینا وہاں اندر کالے
کلر کا بیگ رکھا ہے اس میں کھانے پینے کا سامان ہے۔۔
اور اس کے علاوہ میری کسی چیز کو چھڑنے یا گھسنے
کی ضرورت نہیں۔ ہاتھ منہ دھونا ہوا تو ہمارا شاہی حمام۔
اس نے اشارے سے نظر آتی جھیل دکھائی۔
اور یہ جا وہ جا ہوا۔ وہ کچھ دیر جیپ دیکھتی رہی۔ جب نظروں سے اوجھل ہو
گئی تو واپس خیمے میں آ گئی۔ کچھ دیر یونہی
پریشان بیٹھی رہی۔۔
اس نے کہا تو ہے مدد کرے گا۔ پریشانی سے کچھ نہیں ہو گا، بہتر ہے ہاتھ منہ دھو
کر کھا پی لوں۔ خود کو سمجھاتی ہوئی اٹھ کھڑی
ہوئی۔ اور جھیل کی طرف آ گئ صبح کا اجالا ہلکا
ہلکا پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ
ٹھنڈی پرسکون ہوا۔ اسے کچھ دیر تمام فکروں سے غافل کر گئے۔
اللہ نے دنیا کتنی خوبصورت پیدا کی ہے۔
درخت پھل پھول بہتا صاف پانی، وہ کتنی دیر کھڑی
وہاں کا حسن دیکھتی رہی۔ چرند پرند خدا کی
حمد و ثنا میں مصروف تھے۔ وہ جھیل کے ٹھنڈے
پانی سے منہ ہاتھ دھونے لگی اس کی طبیعت ایک دم بشاش سی ہو گئی۔
وضو کر کے خیمے میں آ گئی۔ نہ قبلے کا پتہ نہ نماز
کے ٹائم کا۔
لیکن وہ اللہ کے حضور نیت کر کے کھڑی ہو گئی۔
نماز پڑھ کے اللہ سے اپنی پریشانی سے نجات کی دعا
کی۔
اپنے لئے چائے کا بنانے کا سوچا اور چولہے کے پاس
گئی۔
وہ شاید جلدی میں اپنے لئے چائے بنا کر گیا تھا۔
اسی لیے چائے کے کپ سب ایسے ہی پڑے تھے۔
برتن دھونے کا تو کوئی انتظام نہیں تھا وہ اس کے
بتائے ہوئے کالے بیگ کی طرف بڑھی۔ تا کے کپ
اور پتی وغیرہ نکال سکے۔۔
بیگ میں خشک میوہ جات کافی تھے چینی پتی خشک دودھ۔
بھی تھا مگر کپ اور نہ تھا۔ مجبوراً وہ واپس
جھیل تک گئی اور کپ وہاں سے دھو کر لائی۔ چائے
کے ساتھ اس نے رات کا کھلا بسکٹ کا پیکٹ اٹھا لیا۔ چار بسکٹ اور چائے کا کپ پی کر اس نے اللہ کا شکر
ادا کیا۔ جس نے ویرانے میں اس کی خوراک کا
بندوبست کر دیا۔۔
ناشتے سے فارغ ہو کر اس نے برتن دھو کر واپس رکھ
دیے۔
اس کے بعد بستر کی چادریں جھاڑیں۔ کمبل تہہ کیے۔
وہ شاید اس کے بے آرام ہونے کے خیال سے سب کچھ ایسے
ہی چھوڑ گیا تھا سب کام کر کے دیکھا، گھڑی کی سوئیاں آدھا گھنٹہ آگے ہوئی تھیں۔ وہ منع کر کے گیا تھا مگر اکیلے ایسے کیسے رہتی۔
میز پر پڑی کتاب اٹھا کر پڑھنے لگی۔
شکاریات کے متعلق وہ مشکل سے دس منٹ پڑھ پائی۔
اس کے بعد ٹیپ ریکارڈر آن کر لیا اس میں بولے جانے
والی زبان سے وہ قطعی نا آشنا تھی۔
باہر نکل کر آس پاس تفریح کا لطف نہیں لے سکتی تھی۔
اگر رستہ بھول گئی تو کیا ہو گا۔ ساتھ جنگل
ہے۔ کوئی جانور ٹکرا گیا تو کیا ہو گا۔ جانوروں
کا خیال آیا تو دوسری دل دہلا دینے والی سوچ بھی زہین میں آ گئی۔
اگر اس وقت کوئی جانور گھس آئے تو میں کیا کروں
گی۔
وہ دل کو ہر طرح بہلانے لگی کہ وہ شکاری ہے اسے
یہ محفوظ جگہ لگی تو خیمہ لگایا یہاں یقیناً کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو درود کا ورد کرنے لگی۔
صبح سے دو پہر، دو پہر سے شام، وہ وہیں بیٹھی رہی۔
ناشتے کے بعد اس نے پانی تک نہ پیا۔
گھڑی نے چار بجائے اس نے شکر کیا کہ اب وہ آنے والا
ہو گا۔
کل بھی ہم لوگ اسی وقت آئے تھے مگر چار تو کیا ساڑھے
چھے ہو گئے اور وہ واپس نہیں آیا تو اسے عجیب و غریب وہم ستانے لگا۔
وہ اسی شیر کا شکار کرنے گیا ہے اس نے خود سے کہا۔
اگر وہ خود اس شیر کا شکار بن گیا تو کیا ہو گا۔
میں یہاں بیٹھی اس کا انتظار کرتی رہوں گی اس خیال
کا آنا تھا کہ وہ پورے خشوع و خضوع سے اس کی سلامتی کی دعا مانگنے لگی۔
دو نفل پڑھ کر اس کے لوٹنے کی دعا مانگ رہی تھی
کہ جیپ کے رکنے کی آواز آئی۔
شکر ہے خدایا وہ اپنی دعاؤں کی قبولیت پر خوش ہوئی۔
وہ اندر آیا تو اس نے دوپٹہ نماز کے اسٹائل سے اوڑھا
ہوا تھا اور اس پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔ شکر ہے آپ واپس آ گئے، میں تو بہت پریشان
ہو گئی تھی۔ وہ خوشی اور مسرت سے اس سے مخاطب ہوئی۔ وہ اس کو گھورتا ہوا بیڈ پر بیٹھ
گیا۔
سامنے کارپٹ پر پھینک دی اس کے بعد اپنے شوز بڑے
بے رحم انداز میں اتارے اور انھیں بھی دور پھینک دیا۔ وہ جو اپنی بات کا جواب نہ ملنے
پر شرمندہ سی ہو گئی۔ اس کے غصے اور ناراضگی والے انداز سے ڈر گئی۔ شرٹ کے بٹن کھول
کر شاید شرٹ بھی پھینکنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
مگر اس کو دیکھ کر رک گیا۔ کیا مصیبت
ہے میرے سر پر کیوں کھڑی ہو؟ پتہ نہیں کون سی منحوس گھڑی تھی تم جیسی بلا نازل ہو گئی۔ وہ اس بے وجہ کی پھٹکار پر کھول کر رہ گئی مگر حالات
ایسے نہیں تھے کہ اسے کھری کھری سنا دے۔
اسی لیے چہرے کو دوستانہ ہی رکھا جیسے وہ کسی اور
پر برس رہا ہو۔
اس کی طرف دیکھے بنا وہ سگریٹ اور لائیڑ اٹھا کر
واپس بیڈ پر بیٹھ گیا۔ ایک کے بعد دوسری دوسری کے بعد تیسری سلگاتا رہا وہ اس کو خاموشی
سے کھڑی دیکھتی رہی۔
اس وقت تو اتنے جلال میں لگ رہا تھا ان سے بات کیسے
کی جائے وہ اپنے آپ سے بولی وہ تھوک نگلتی ہمت کر کے اس کے سامنے آ گئی۔
سنیں آپ نے کہا تھا آپ میری مدد کریں گے۔ دیکھیں میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہو گے۔ آپ یہاں
جو بھی قریب ترین شہر ہے وہاں تک مجھے پہنچا دیں۔ پلیز ڈرتے ڈرتے اس نے مشکل سے اپنی
بات مکمل کی۔ جو اس کے وجود سے بیگانہ غصے سے بولا۔
میں نے کوئی تمھارا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا! کیا بات
ہے، گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے۔ اکیلے جنگل کی سیر کرنے بھیج دیا۔ تب پریشان نہیں
ہوئے؟ لا کے مصیبت میرے سر پر ڈال دی دیکھو بی بی تم یہاں سے چلی جاؤ میں اس ٹائم بہت
غصے میں ہوں، تمہارا سر ور پھاڑ دوں گا۔ مجھ سے بات نہ ہی کرو تو بہتر ہے۔
میں اکیلی نہیں تھی۔ ہم لوگوں کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ وہ تو۔۔
۔۔ وہ یہاں اپنی موجودگی کی وضاحت کرنے لگی
اس نے بیزاری سے ٹوک دیا۔۔
مجھے تمہاری غم زدہ داستان میں کوئی دلچسپی نہیں
ہے۔ مہربانی مجھے معاف ہی رکھو۔ یہاں رہنا
ہے تو خاموشی سے رہو۔ ورنہ جہاں مرضی چلی جاؤ۔
میں جب تک اپنا ٹارگٹ اچیو نہیں کروں گا میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ تمھارے اوپر
میرا یہی احسان کافی ہے۔ تمہیں یہاں رہنے دیا۔ اس سے زیادہ مجھ سے توقع نہیں رکھنا۔
وہ جو اتنی دیر سے بلاوجہ ڈانٹ سن رہی تھی، اس کے
اس طرح بات کرنے سے غصے سے پاگل ہو گئی۔ یہ جنگلی خود کو سمجھتا کیا ہے اتنی باتیں
تو پوری زندگی کسی سے نہیں سنیں۔
رکھئے اپنا احسان سنبھال کر مجھے ضرورت نہیں اتنے
بد تمیز انسان کا احسان لینے کی۔
جیسے زرا بھی حساس نہیں۔ میں کمزور بے بس پریشان
لڑکی ہوں آپ کی ہم وطن ہم مزہب بھی ہوں۔ آپ
کے لئے درندے انسانی جان سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ جا رہی ہوں میں یہاں سے۔
بھرائی ہوئی آواز میں بولتی باہر کی طرف قدم بڑھانے
لگی وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں میں حیرانی بھی تھی۔ اب میں چاہئے سسک سسک کے مر جاؤں،
آپ سے مدد نہیں مانگوں گی۔ اتنی انا مجھ میں بھی ہے۔ مگر جاتے جاتے بتا دوں آپ ایک
بدتمیز جنگلی اور بداخلاق انسان ہیں۔ جو کسی کو تکلیف پہچانے کے کچھ نہیں کرتے۔ میں
مر گئی تو میرا خون آپ کے سر ہو گا۔ آنسو صاف
کرتے ہوئے باہر نکل گئی۔ اسے اپنا رونا اچھا
نہیں لگ رہا تھا اب وہاں سے آ گئی تو رونا کیوں؟ غصے سے نکل تو آئی تھی اب عجیب آوازیں
آ رہی تھیں تو ڈر رہی تھی۔ شام کے ٹائم ہی
ایسا عالم تھا جیسے آدھی رات ہو۔ ٹھیک ہے اگر
میرے نصیب میں ایسے مرنا لکھا تو میں بدل نہیں سکتی۔ اپنی بے بسی پر آنسو بہاتی ایک
پتھر پر بیٹھ گئی۔
چاروں طرف اونچے اونچے درخت تھے ویرانی تھی ایسا
لگ رہا تھا ابھی کئ سے بھوت نکل آئے گا۔
ایسی جگہوں پر تو بد روح بھی بسیرا کرتے ہیں کوئی
چڑیل نوچ کر خون پی جائے گی۔ وہ بلک بلک کر
رونے لگی ہے آوازوں میں اب اس کے رونے کی آواز بھی شامل ہو گئی تھی۔ وہ خود کو سمجھتا کیا ہے نواب کہیں کا۔ اللہ کرے
اسے وہی شیر چیر پھاڑ کر رکھ دے۔ روتے ہوئے بد دعا دے رہی تھی۔
پیٹھ پیچھے کسی کو بد دعا دینا اچھی بات نہیں۔
جانی پہچانی آواز سن کر سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ سامنے
مسکراہٹ لئے کھڑا تھا۔ اس نے نفرت سے منہ پھیر لیا۔ چلو وہ اسے چلنے کا کہہ کر خود چل پڑا، مڑ کر اس
کی طرف دیکھا، وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
چلو بھئ، اچھا میری غلطی تھی، سوری اب کیا تمھارے
سامنے ہاتھ جوڑوں! وہ منا بھی یوں رہا تھا جیسے اس کی دس نسلوں پر احسان کر رہا ہو۔
نہیں جاؤں
گی، کبھی نہیں جاؤں گی، چاہئے کچھ بھی ہو جائے۔
میں بے غیرت نہیں ہوں۔ اتنا ذلیل کیا ہے پھر بھی چلی جاؤں۔ اتنی دیر سے رو رو
کر آواز بیٹھ گئی تھی جبکہ آنسو دوبارہ بہنے کو تیار تھے۔۔
سوچ لو جہاں تم اس وقت بیٹھی ہو یہ جگہ سانپوں کے
گڑھ ہے۔
رات کے وقت درختوں سے اتر کر زمین پر چہل قدمی کرتے
ہیں۔
اور وہ بھی کوبرا سانپ۔ ویسے تو یہاں اڑنے والے سانپ بھی ہوتے ہیں۔
خیر تمہاری مرضی۔ اپنی بات ختم کر کے وہ اپنے قدم آگے بڑھانے لگا۔
جبکہ وہ سانپوں کی وادی میں بیٹھی رہی اسے انا کا
مسئلہ تھا۔
اچانک وہ چیخا ارے تمہارے پیچھے سانپ۔ ہلنا مت۔
جواب میں وہ اس سے بھی بلند چیخیں مارنے لگی۔ ایک دم کھڑی ہو گئی اور بھاگ کر اس کے
پیچھے آ کر چھپ گئی۔ مضبوطی سے اس کی قمیض پکڑ کر اس پتھر کو دیکھنے لگی جس پر وہ بیٹھی
ہوئی تھی۔
ککک کہاں ہے سانپ؟ مجھے نہیں نظر آ رہا۔
پتہ نہیں کہاں گیا ابھی تو یہی تھا۔ خیر جانے دو۔
ہمیں کیا! چلو چلیں، آئلہ نے اس کی قمیض چھوڑ دی۔
دوبارہ اس کی طرف دیکھا وہاں سانپ تو کیا چھپکلی
بھی نہیں تھی۔
چلنا ہے کہ نہیں تم مجھے کوس رہی تھی پھر بھی لینے
آ گیا۔ وہ ابھی تک سانپوں کے ڈر میں تھی۔
کیا واقعی میرے پیچھے سانپ تھا؟۔
اس وقت بھی تمہارے پیچھے درخت پر ایک سانپ جھول
رہا ہے وہ بڑی بے نیازی سے بولا وہ پھر چیخ مار کر اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولی
جلدی چلیں یہاں سے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے اس نے
اپنی مسکراہٹ دبائی، دھیرے سے بڑبڑایا۔
اگر یہ نہیں آتا تو دنیا سے کوچ کر جاتی۔
اچانک اس نے چیخ ماری۔ وہ جھنجھلا گیا۔
تمہیں کیا تکلیف ہے بات بے بات چیخیں مارتی ہو۔
تمہارے گلے میں خراشیں نہیں پڑتی۔ میرے تو کان کے پردے پھٹے معلوم ہو ہیں۔
وہ چڑ کر بولا۔ ابھی ابھی میرے پاؤں سے کوئی چیز
ٹکرائی تھی۔
کوئی چوہا ہو گا اچھلتے سانپ کبھی دیکھا وہ اس کے
چہرے کی سفیدی سے متاثر ہو کر دلاسا دے رہا تھا۔ کیا پتہ تھا محترمہ سانپ کے نام سے
اتنا خوف زدہ ہو جاتی ہوں۔ اگر سچ کا سامنے آ جائے تو۔۔
اس نے اس کے پاؤں کی طرف دیکھا تم ننگے پاؤں کیوں
ہو؟
آپ نے اتنی بدتمیزی کی،۔ میں غصے میں ننگے پاؤں
ہی آ گئی تھی۔
میں نے بدتمیزی کی تھی؟ وہ حیران ہو کو بولا۔ لڑکی جھوٹ مت بولو، الٹا تم مجھے جنگلی بیہودہ کیا
کیا بولی تھیں۔ یہ میری اعلی ظرفی ہے۔ میں پھر بھی تمہیں لینے آ گیا۔
وہ نئے
سرے سے تپ گئی۔ اچھا پہلے مجھے منحوس مصیبت بلا کس نے کہا تھا۔
اچھا چلو حساب برابر، کسی کا کسی ادھار نہیں رہا۔
میرا خیال ہے اب جھگڑا ختم کر دینا چاہیے۔ تشریف لائیں میری نہایت قابلِ احترام اور
معزز مہمان۔ اگر آپ اندر آ کر میرے غریب خانے کو رونق بخشیں تو میں اپنی خوش قسمتی
سمجھوں گا۔ وہ عاجزی سے بول رہا تھا۔
وہ اندر داخل ہوئی تو وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے
اندر آ گیا۔۔
میرے خیال سے بات بات پر ایسے چڑ جانا، اسی لیے
اپنی صحت کا یہ حال کیا ہوا ہے۔
خوش رہا کرو۔
ورنہ کچھ عرصے بعد لوگ تمھارا نام چڑچڑی رکھ دیں گے۔
وہ چولہے کی طرف بڑھا اور اس سے بولا
کچھ کھایا تھا دوپہر کو؟
جواب میں اس نے نفی میں سر ہلا دیا صبح چائے اور
بسکٹ کھائے تھے۔
دیکھو اگر تم بیمار پڑ گئی نا تو مجھ سے توقع مت
کرنا۔ میں تیمار داری کروں گا۔ میں تو چلو کام کی دھن میں کھانے پینے سے غافل رہا
لیکن تم۔۔ ۔۔ ۔
وہ اسے ڈانٹ رہا تھا جبکہ وہ خاموش تھی۔ چلو تم بھی کیا یاد کرو گی۔ میں آج تمہیں مزے دار
پاسٹا بنا کر کھلاتا ہوں وہ اچانک ہی مہربان ہو گیا۔ وہ اس کے بدلنے پر بھی حیران تھی
اس نے بیگ سے پاسٹے کا پیکٹ نکالا چھوٹی سی پتیلی نکال کر وہاں پاس پڑے کین سے پانی
ڈال کر ابلنے کے لیے رکھ دیا وہ اسے دیکھ رہی تھی اس کے کام کرنے کا اندر اناڑی تھا
وہ سگھڑ اس کے پھوہڑ پن کو برداشت نہیں کر سکی اس کے پاس آ گئی۔ اور بولی۔
آپ رہنے دیں میں بنا دیتی ہوں جواب میں اس نے کندھے
اچکائے موسٹ ویلکم۔
یہ کام بھی میرے لیے دنیا کا مشکل ترین کام ہے اگر
عبداللہ یہاں ہوتا آپ اس کے ہاتھ کا کھانا کھا کر خوش ہو جاتی۔ مگر افسوس وہ چولہے سے ہٹ گیا تھوڑے سے پانی میں
پاسٹا بھرا ہوا تھا بیچاروں کو ڈوبنے کے لئے چلو بھر پانی بھی نصیب نہیں ہوا وہ بول
کے ہنس رہی تھی وہ اسے ہنستا دیکھ کر حیران تھا۔
کیا ہوا؟
کچھ نہیں پھر اس نے اوپر اوپر سے تھوڑا پاسٹا نکال
دیا اور بولی اگر آپ کی اجازت ہو تو آپ کے بیگ سے نمک لے سکتی ہوں۔
جو چاہے لے لو کھانا جلدی کھلا دو۔ تمہیں بھی ثواب ملے گا پورے دن کا پیاسا بھوکا ہوں
مزید کسر تم نے منتیں کروانے میں کر دی وہ خود ہی بیگ سے نمک نکال کر لے آیا اور پوچھنے
لگا اور کچھ چاہئے؟۔
ہاں ایسا کریں مچھلی اور مشرومز کا ایک ایک ڈبہ
لے آئیں۔ سامان کا تفصیلی جائزہ تو وہ صبح لے چکی تھی وہ بڑی سعادت مندی سے دونوں چیزیں
لے آیا اور خود ہی کھول کر اسے دی۔ پاسٹا بوائل
ہو گیا ہے اس کا پانی کہاں پھینکوں؟ تو وہ بولا۔
لاؤ میں باہر پھینک آؤں وہ اس ٹائم بڑا ہی اچھا
بچہ بنا ہوا تھا۔
اسے شدید بھوک لگی تھی اس ڈر سے اسے نہیں دیا پانی
کے ساتھ سب پھینک نہ دے وہ خود ہی اٹھا کر باہر لے گئی وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے پھر
وہ جیتنی دیر مشروم اور مچھلی کو بھون رہی تھی وہ بھی ساتھ کھڑا دیکھ رہا تھا فرائی
کے بعد اس نے چیزیں مکس کی پتیلی میں اور پلیٹ میں نکالنے لگی تو وہ گہری سانس لیتا
ہوا بولا۔
خوشبو تو زبردست آ رہی ہے پلیٹ اس کے ہاتھ میں پکڑا
کر اپنے لئے ڈالنے لگی فرہنگ پین میں کیونکہ یہاں سب چیزیں ایک ایک تھی چمچ بھی ایک
وہ اپنی پلیٹ پکڑ کر کارپٹ پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا اپنے لئے پتی کے ڈبے سے
چمچ نکال کر اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ گئی وہ بڑی رغبت سے کھانے لگا بڑے دنوں بعد اسے
کوئی ڈھنگ کا کھانا ملا تھا وہ کھانے کی تعریف کر رہا تھا خالی پلیٹ کر کے اور نکال
کے لے آیا جب کہ وہ کھا پی کے فارغ ہو گئی تھی۔
کیا ہوا تم اتنی جلدی کھا چکیں؟
وہ حیران ہوا کل اس کا ندیدہ پن اپنی آنکھوں سے
دیکھ چکا تھا۔ اور لو نا اتنا تھوڑا سا کھایا
ہے وہ شاید خلوص سے بول رہا تھا مگر آئلہ کو لگا کل کے حوالے سے طنز کر رہا ہے۔
میں اتنا ہی کھاتی ہوں۔ شکریہ۔
اس کے جواب میں وہ خاموش ہو کر کھانا کھانے لگا اس نے سوچا اسے اپنے حالات اب
تفصیل سے سنا دینے چاہیے تاکہ اسے پتہ چلے میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں۔
کل تو میں پورا دن بھوکی پیاسی جنگل میں بھٹکتی
رہی لیلی کے نیچر نے سب کو مروا دیا وہ ابھی ٹھیک سے بات کر نہیں پائی اس نے بوریت
سے ٹوک دیا ظاہر ہے کوئی ایکسیڈنٹ ہی ہوا ہو گا شوق میں تو تم یہاں نہیں پھر رہی تھی۔ اس ذکر کو رہنے دو وہ دوسری بار اس کے اوپر گزی
بات سننے سے روک دیا اس کا پھولا منہ دیکھ کر وہ ہنس دیا دیکھو اس میں ناراض ہونے کی
کوئی بات نہیں ہے۔ میں تھوڑا عجیب ہوں کسی کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔ آپ کی بھی کہانی
درد ناک آہوں سسکیوں والی ہو گی اس وقت میرا رونے کا موڈ نہیں اور اس وقت تم سناؤ گی
تو خود بھی رو گی پہلے بھی بیس پچیس لیٹر پانی آپ کی آنکھوں سے بہا گیا۔
عجیب آدمی ہیں آپ۔۔ آپ کو میرے بارے میں کوئی تجسس ہی نہیں ہے میں کون
ہوں کہاں سے آئی ہوں وہ پلیٹ رکھنے کھڑا ہوا اور بولا۔
اچھا یہ بتاؤ کافی میں بناؤں یا تم؟ اس نے بات ہی
بدل دی۔
وہ فوراً کھڑی ہو گئی میرے لیے بغیر شکر کے بلیک
کافی۔
کپ اس کے ہاتھ سے لے کر وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
وہ گلاس میں اپنے لیے ڈال کے دوسرا کشن گھسیٹ کے بیٹھ گئی کافی کا پہلا گھونٹ لے کر
وہ بولا۔
لڑکی اس میں کوئی شک نہیں تم کھانا اور کافی بہت
اچھے بناتی ہو میرا نام لڑکی نہیں ہے میں آئلہ ہوں وہ بار بار لڑکی سن کر تنگ آ کر
ٹوک دیا۔
اوہ آئلہ اکرام میں بھی کتنا بھلکڑ ہوں اخبارات
میں آئے دن آپ کی نیوز چل رہی بس ذہن سے نکل گیا اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ آئلہ نے اس کے بعد اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کی
کافی پی کر گلاس اٹھا کر میز پر رکھا اور واپس کشن پر بیٹھ گئی وہ اس کی خاموشی کو
انجوائے کر رہا تھا۔۔
میرا خیال ہے اب سونا چاہئے وہ کھڑا ہو کے جمائی
لیتے بولا پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر بیڈ پر لیٹ گیا اور ہاتھ بڑھا کر لائٹ
بھی بند کر دی ایمرجنسی لائٹ جیسے چارجنگ کی شدید ضرورت تھی جیسے گل ہوئی گھپ اندھیرا
چھا گیا اس نے کوئی چیز اس کی طرف اچھالی اور بولا یہ لے لو۔۔
وہ جو ابھی وہی بیٹھی تھی ہاتھ لگا کر دیکھا تو
اس نے کمبل دیا تھا اسے دن موسم اچھا تھا مگر رات کو سردی تھی کل رات بھی وہ ٹھٹھرتی
رہی تھی پہلے اسے دل تھا انکار کر در پھر خیال آیا کے یہ تکلف اسے سردی میں مارے گا
اس نے چپ کر کے کمبل اپنے گرد لپیٹ لیا۔ اس
کے کمبل میں سے پیاری اور سانسوں کو تازہ کرنے والی خوشبو آ رہی تھی نہ جانے کون سا
پرفیوم استعمال کرتا تھا مگر خوشبو لا جواب تھی وہ خوشبو محسوس کرتے ہوئے آنکھیں بند
کر کے سونے لگی تو اس کی آواز آئی۔
میں تمہیں کل صبح ہی چھوڑ آتا ہوں اپنے دوستوں سے
لگائی شرط اور اپنی شکست کو بھول گیا مگر یہاں مسئلہ یہ ہے اس کا شکار اب میری ضد کا
مسئلہ نہیں رہا۔ بلکہ کئ انسانی جانوں کے تحفظ
کا بھی سوال ہے ہم تو بس شکار کرنے چلے آئے تھے اس کی چالاکی سے میرے سب دوستوں نے
سرنڈر کر دیا اور چلے گئے مگر میں نے ہار نہیں مانی مجھے ہار سے نفرت ہے ان کے جانے
کے بعد میں مشن میں ڈٹ گیا۔
پاس والے گاؤں گیا تو پتہ چلا ایک عورت اور دو بچے
اس کا لقمہ بن چکے ہیں۔ وہ سب لوگوں کے لئے
شدید خطرہ ہے اس کو ختم کرنا بہت ضروری ہے اس روز وہ میرے شکنجے میں آ گیا تھا تم نے
چیخ مار کر کھیل بگاڑ دیا تھا۔ آج بھی سارا
دن اسی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا مایوس ہو کر آ گیا امید ہے تم میری بات سمجھ
گئ ہو گی آئلہ جواب میں خاموش رہی تو وہ بولا۔
کچھ تو فرمائیں آئلہ اکرام صاحبہ اس کے نام پر زور
ڈال کر بولا۔ میں نے آپ کی تمام تقریر سن لی
محترم وقار احمد صاحب وہ ہنس پڑا اتنے اندھیرے میں دیکھائی نہیں دیا آواز ہنسی کی آئی۔ بہت خوب ویسے تم نے میرا نام کیسے معلوم کر لیا۔
؟
آپ کا تازہ انٹرویو سنا تھا وہی سے اسے ادھار رکھنا
نہیں آتا تھا اس لیے بولتی گئی۔ وہ بے ساختہ
بولا۔
تم نے پڑھا تھا میرا انٹرویو؟۔
تبھی میں سوچ رہا تھا تم مجھ سے ایمپریس کیوں ہو۔
ویسے آپ سڈنی آ کر دیکھو میں واقعی کتنا مشہور ہوں
وہاں کی میگزین میں میرے مکالمے چھپتے ہیں۔
لوگ میرے آگے پیچھے رہتے ہیں۔
ہاں آپ کو میاں مٹھو بننے کا بہت شوق ہے وہ چڑ گئی۔۔
آئلہ خاتون اسے میاں مٹھو نہیں خود شناسی کہتے ہیں۔
صرف آئلہ ہوں میں وہ چڑ گئی۔
خود شناسی نہیں خود پسندی کہتے ہیں۔ گڈ نائٹ وہ کروٹ بدل کے سو گئی۔ وہ بولا۔
صرف آئلہ اگر یہ خود پسندی ہے تب بھی کچھ غلط نہیں
آج دن کے تمام واقعات سوچ کر نہ جانے کب اسے نیند آ گئی اس کی آنکھ کھولی تو وہ چولہے
کے پاس کھڑا تھا چائے پی رہا تھا میز پر موم بتی جلا رکھی تھی گردن موڑ کے اسے دیکھا
جو چائے اور سلائیس تیز تیز کھا رہا تھا۔ گیلے
بکھرے بال بتا رہے تھے صبح نہایا ہے گھڑی آج بھی کل کی طرح چار بجا رہی تھی ہلکی نیلی
جینز پر سلور ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔
اسے اپنی طرف دیکھتے پایا مسکرا کے بولا سو جاؤ
ابھی بہت صبح ہے وہ خاموش پڑی رہی کپ رکھ کے وہ اپنے بیگ سے رائفل ریوالور نکالنے لگا
اس کے بعد شوز پہنے گھڑی باندھی نکلنے لگا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور بولی۔
اگر وہ ایک ہفتہ آپ کے قابو میں نہیں آیا تو آپ
یہیں رہو گے ہفتہ کیا سال بھی نہ آیا تو میں یہی رہوں گا وہ پریشان ہو کر بولی۔ کچھ میرے حال پر رحم کریں میرا کیا قصور ہے۔
رہنا یہاں مزے سے کھاؤ پیو مجھے بھی کھلاؤ ثواب
کماؤ۔
اچھا باقی باتیں رات کو ہوں گی اللہ حافظ۔
وہ اس کے پریشان چہرے پر نگاہ ڈال کر نکل گیا اس
کے جانے سے نیند کہاں آتی اس کے ہونے سے عجیب سا تحفظ ملتا اس کے جاتے ہی وہ ختم ہو
جاتا۔۔
وضو کر کے نماز پڑھی ناشتہ کیا۔ سارا پھیلاؤ سمیٹا۔
کارپٹ پر بیٹھ کر ٹائم گزارنے لگی کتنا گندا حلیہ میرا ہو رہا ہے کاش کوئی دوسرے کپڑے
ہوتے بدل لیتی اس کی نفاست پسند طبیعت کو گراں گزرا۔ اچانک اس کو خیال آیا اٹھ کھڑی ہوئی۔
اسے کیا پتہ چلے گا وہ تو شام کو آئے گا تب تک میرے
کپڑے سوکھ بھی گئے ہوں گے اور میں اسی حلیے میں نظر آؤں گی وہ اپنے آپ کو سمجھتی ہوئی
شجر ممنوعہ کی طرف بڑھی۔
پہلے بیگ میں تو شکار کا سارا سامان تھا دوسرے بیگ
میں کپڑے دیکھ کر ایکسایٹڈ ہو گئی۔
کپڑے ایسے نکالے کے اسے پتہ بھی نہ چلے کہ کوئی
اس کے بیگ میں گھسا تھا۔ بڑی احتیاط سے صابن
شیمپو نکال کر جھیل کی طرف آ گئی۔
خوب اچھی طرح گھٹنوں تک پیردھوئے۔ دو مرتبہ بالوں میں شیمپو کیا کہاں وہ روز نہانے
والی اور کہاں یہ حال۔ خوب اچھی طرح منہ ہاتھ
دھو کر وہ خیمے میں آئی کپڑے بدلے اس کے برش سے بال سلجھائے اور واپس جھیل پر اپنے
کپڑے دھوئے خوب نچوڑ کرتا کہ جلدی سوکھ جائیں۔
اور وہی خیمے کے پاس پتھر پر ڈال دیے۔۔
دھوپ خاصی تیز تھی آدھے گھنٹے میں سوکھ جائیں گے
اس نے خود کو تسلی دی اور خیمے میں آ کر بیٹھ گئی۔ کپڑوں کے سوکھنے کا انتظار کرنے لگی۔ بے شک وہ موجود نہیں تھا اس کی چیزیں استعمال کر
کے خود کو چور محسوس کر رہی تھی۔ عین اسی وقت
جیپ کے روکنے کی آواز آئی۔ اس کی سانس نیچے
اوپر ہو گئی اس کا دل کئ چھپ جائے غائب ہو جائے۔
اسے بھی آج ہی جلدی آنا تھا۔ وہ جیسے
اپنے چھپنے کی جگہ تلاش کرنے لگی۔ وہ جیسے
اندر داخل ہوا ظاہری بات تھی چھوٹی سی جھونپڑی میں آتے ہی پہلی نظر اسی پر پڑی۔۔
وہ بالکل سامنے کھڑی تھی اتنے قد آور انسان کے کپڑے
اس کے جسم پر کیسے سما سکتے تھے۔ جینز کے پنچوں
کو پتہ نہیں کتنی بار فولڈ کر کے پوری کی۔
کندھے بھی کہاں کے کہاں پہنچے ہوئے تھے۔
وہ اتنی بری طرح اپنی زندگی میں کبھی شرمندہ نہیں ہوئی تھی جتنا اب ہونا پڑ
رہا تھا۔۔
اندر داخل ہوتے ہی حیرانی سے اسے دیکھا جو سر جھکائے
شرمندہ کھڑی تھی۔ اتنی سکت بھی نہیں تھی کے
نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتی۔ وہ اسے نظر
انداز کرتا اندر بڑھا بیگ سے ریوالور اور دوسری چیزیں نکالنے لگا دو تین منٹ میں وہ
اپنا کام کر کے پلٹا وہ ابھی تک بت بنی کھڑی تھی۔
تمہیں کس نے سزا میں کھڑا کیا بیٹھ جاؤ آرام سے۔ میرا ریوالور تنگ کر رہا تھا تو دوسرا لینے آیا
ہوں۔ وہ باہر جانے لگا پھر رک کر بولا۔
کل کی طرح بھوکی مت رہنا کچھ کھا لینا۔ اسنے سر اٹھا کر دیکھا وہ اسے دیکھ رہا تھا عام
سا جیسے کوئی بات ہی نہیں ہے۔ بڑی مشکل سے
سر کو ہلایا وہ بس جواب کا منتظر تھا۔ جواب
ملتے ہی ہارون جا چکا تھا۔۔
وہ خود کو کوسنے لگی کیا سوچا ہو گا اس نے میرے
بارے میں۔
اسے رہ رہ کر افسوس ہو رہا تھا۔
اس سے تو اچھا تھا میں پوچھ کر اس کے کپڑے لے لیتی۔۔
شرمندگی سے تو وہ بات بہتر تھی مگر عقل کس کو ہے۔۔
اس کے کہنے کے باوجود وہ غصے سے بھوکی رہی۔ اس کے کپڑے جیسے سوکھے اپنے پہن کر اس کے اتارے
جیسے بڑا گناہ کر دیا ہو۔۔
اپنے ریڈ اور بلیک سوٹ پہن کر اس کی جان میں جان
آئی۔
اگرچہ آئلہ نے اس کے کپڑے تھوڑی دیر ہی پہنے اخلاق
کا تقاضا تھا دھو کے رکھے جائیں۔ اس لیے دھو
کر سکھائے پھر اسی طرح طے کر کے بیگ میں رکھ دیے۔
آج سارا دن یہی کام کبھی ایک جوڑا دھل رہا کبھی دوسرا۔ پھر سکون کا سانس لیا پھر بالوں کو سلیقے سے باندھا
اور کارپٹ پر بیٹھ گئی۔ چھ بجے اس کی واپسی
ہوئی تو وہ ابھی وہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اندر
آتے ہی اس نے بڑی بھرپور نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔ آئلہ نے اسے دیکھا تو وہ گہری نظروں سے اسے دیکھ
رہا تھا نگاہوں کا زاویہ بدلتے ہوئے بولا۔
کیا حال چال ہے صرف آئلہ آپ کے؟ آج کا دن کیسا گزرا؟
وہ اس کی مخصوص بات سے چڑ کر کچھ بھی نہیں بولی۔
وہ بیڈ پر بیٹھ کر شوز اتارنے لگا اور خود پر افسوس کرنے لگا۔ میں بھی کتنا پاگل ہوں اس نے واپس شوز پہننے شروع
کر دیئے۔ وہ حیران ہو کے دیکھ رہی تھی۔
باہر زبردست قسم کے تیتروں کا شکار کر کے لایا ہوں
بھون کر کھائیں گے۔ سوچا تم کوکنگ میں ایکسپرٹ
ہو پوچھ لوں کیا ضرورت پڑے گا پاس ہی دیہات ہے کھانے پینے کا سامان مل جاتا ہے۔ اپنی بات ختم کر کے اسے سوالی نظروں سے دیکھ رہا
تھا۔ آئلہ نے دو تین چیزیں بتائی آتا ہوں کہہ
کر چلا گیا۔ وہ واپس آیا چیزیں اسے پکڑا کر
واپس پھر باہر چلا گیا۔ وہ اس کے پیچھے آئی
تو بیٹھا بڑے اچھے طریقے سے تیتر صاف کر رہا تھا۔
اسے دیکھ کر بولا۔۔
اندر سے کوئی برتن لے آؤ انہیں دھو لیا جائے اس
نے حکم کی تکمیل کی۔ میرا خیال ہے آپ اچھے
دھو گئی اور ہی کرو۔ اس نے برتن پکڑایا تو
وہ خاموشی سے جھیل کی طرف جانے لگی اسے ہمت نہیں ہو رہی تھی بول سکے کہ مجھے اکیلے
جاتے اس ٹائم ڈر لگتا ہے۔ اسے عجیب خوف آ رہا
تھا پیچھے دیکھا تو وہ خیمے میں جا چکا تھا۔
اس کا ڈر اور بھی بڑھ گیا۔ وہ کہاں
دیکھ رہی ہو میں یہاں ہوں اپنے بالکل قریب سرگوشی سنائی دی تو وہ چیخ پڑی۔ آئندہ اگر تم میرے سامنے چیخی نا تو میں نے تمہارا
گلا دبا دینا ہے۔۔
آپ کہاں سے آ گئے میں نے آپ کو آتا نہیں دیکھا وہ
اب تک حیران تھی۔ انہیں پتھروں پر چل کے آیا
ہوں۔ آپ کے گھر کے رستے میں کوئی کہکشاں نہیں
ہے۔
آپ کو ڈر سے فرصت ملے تو دیکھیں نا وہ آرام سے شعر
کو بے محل استعمال کر کے مسکرا رہا تھا۔ مجھے
پتہ ہے ڈر کے مارے تمہاری حالت خراب ہے۔ اسی
لئے آ گیا۔ اب جلدی سے کچھ ہاتھ چلاؤ۔
بھوک لگی ہے اس کی بات پر جلدی کرنے لگی جبکہ وہ
اس کے برابر بیٹھ کر جھیل میں پتھر پھینکنے لگا۔
دھلائی کا کام مکمل ہوا تو دونوں خیمے میں آ گئے۔ آئلہ نے جلدی سے مسالہ لگانا شروع کر دیا تیتروں
پر۔ وہ پتہ نہیں دوبارہ کہاں چلا گیا تھا وہ
آدھا گھنٹہ بیٹھ کر اس کا انتظار کرتی رہی۔
آپ کہاں چلے گئے تھے اس نے بڑی فکر مندی سے پوچھا تو وہ پتا نہیں کس بات پر
ہنس پڑا۔ اپنی بات کے جواب میں ہنسی آئلہ کو
زہر لگی۔ ایسا کون سا لطیفہ سنا دیا جو اتنی
ہنسی آ رہی ہے۔ وہ اس کے ناراض چہرے پر ایک
نظر ڈالتے ہوئے بولا۔۔
ایک دوست کے کہنے پر پہلی اور آخری بار انڈین مووی
دیکھی وہ پھر ہنسا اور کارپٹ پر بیٹھ گیا۔
اس فلم میں ہیرو ہیروئین ایک دوسرے سے بڑی شدید قسم کی محبت کرتے تھے۔ مگر ظالم سماج نے ان کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ آخر تنگ آ کر دونوں اپنا گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ جنگل میں آ جاتے ہیں ہیرو صاحب جو کے لا پڑھ رہے
تھے اچانک ایک آرکیٹیکٹ بن جاتے ہیں لکڑیوں کو کاٹ کر گھر بناتا ہے۔ دونوں نے وہاں رہنا شروع کر دیا۔ ہیرو جنگل میں شکار اور لکڑیاں لینے جاتا ہیروئن
دکھی گانے گاتی اور اچھے اچھے کھانے تیار کرتی۔
میں نے دوست سے کہا کہ جنگل میں کیسے رہ رہے نہ بندا نہ بندے کی ذات بے تکی
فلم ہے۔
اس نے اپنی بات ختم کی تو آئلہ کو اپنا چہرہ تپتا
محسوس ہوا۔ وہ اتنا آوٹ اسپوکن ہو گا اس کے
وہم و گمان میں نہیں تھا۔ گوشت کو کیا چولہے
پر تل لوں؟ وہ اس کی بات کو بدلتے دیکھ کر پوچھا۔
کیا تم ان فلموں کی باتوں پر یقین کرتی ہو؟
میں فلمیں نہیں دیکھتی۔ بغیر دیکھے آگے بڑھ گئی
اور خواہ مخواہ تیتروں کو الٹ پلٹ کرنے لگی۔۔
ابھی جب تم میرا یہاں بیٹھی انتظار کر رہی تھی تو
برسوں پہلے دیکھی فلم یاد آ گئی۔ وہ بھی اس
کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا جی نہیں میں آپ کا انتظار نہیں کر رہی تھی۔۔
حد ہوتی ہے خوش فہمی کی وہ زبردستی ہنسی۔
تمہیں نہیں لگتا ہم گھر سے بھاگے ہوں جیسے ہیرو
ہیروئن کی طرح۔ وہ اس کی بات پر چڑ گئی۔۔
لگتا ہے آپ بہت خوش ہو۔۔
ارے تمہیں کیسے پتہ چلا وہ حیران ہوا۔ وہ اس کی حیرت کو نظر انداز کر کے سنجیدگی سے بولی۔۔
عام لوگ خوشی میں بے تحاشا اور بے تکی بھی کرتے
ہیں۔۔
اسی لیے۔
وہ برا منائے بغیر مسکرا دیا۔ تمہارا
خیال بالکل ٹھیک ہے اب جلدی سے بتاؤ میں کیوں خوش ہوں۔۔
آپ کی خوشی غالباً چیتوں شیروں تک محدود ہے۔ ان کے ہی مطابق کوئی بات ہو گی۔۔
مان گئے بھئ تمہاری دہانت کو۔ اب جلدی سے یہ اٹھا کر باہر چلو وہاں میں نے تمھاری
دعوت کا انتظام کیا ہے۔۔
وہ مسالہ لگے تیتروں کو اٹھا کر اس کے پیچھے باہر
آ گئی۔ خیمے سے کچھ فاصلے پر اس نے لکڑیاں
جلا دی تھیں۔۔
سیخوں سے ملتی جلتی چیز پتہ نہیں کہاں سے لایا ہو
گا وہ سیخوں پر تیتر چڑھاتے بولا تم نے کبھی ایسا ڈینر کیا؟۔
آئلہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ بھی اس کی مدد کرنے لگی گوشت کے بھوننے کی اور
لکڑیوں کے جلنے کی خوشبو ماحول کو خوبصورت بنا رہے تھے ایسے لگ رہا تھا جیسے دونوں
پیکنگ منا رہے ہوں۔ کچھ دیر کو تو وہ بھول
ہی گئ کے وہ کن حالات کا شکار ہوئی تھی گھر والے کیسے پریشان ہو رہے ہوں گے۔ چاند نے جیسے اپنی ساری چاندنی یہی نچھاور کر دی
ہو۔ ماحول کا اثر تھا یا تیتر واقعی ہی مزے
دار تھے وہ اس سے بولی اتنا شاندار ڈینر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ ڈینر مجھے ساری زندگی یاد رہے گا۔
وہ گرم گرم سیخ سے بوٹی اتارے ہوئے بولا ہمارے ساتھ
رہو گی تو اسے مزے آئیں گے۔ پھر بولا۔
آج میں نے اس کا کام تمام کر دیا۔ بہت چالاک بنتا تھا۔۔
اس کو مارنے کے لئے بہت بڑے شکاری ناکام لوٹ گئے
یہ میرا زندگی کا شاندار کارنامہ ہے میرے دوست تو خوشی سے پاگل ہو جائیں گے۔ وہ بے حد خوش تھا۔ اس کی بات سن کر وہ بھی اچھل پڑی۔ اس کا مطلب آپ اب مجھے چھوڑ آئیں گے وہ اس پر تفصیلی
نگاہ ڈالتے بولا۔۔
تمہیں چھوڑنے کا کیا مطلب تمہیں لگتا ہے میں یہاں
مزید قیام کروں گا۔ میں تو رات میں ہی چلا
جاتا مگر مسئلہ تمھارا ہے۔ میرا کیا مسئلہ؟۔
ابھی چلیں نا آپ کو میری وجہ سے کوئی پرابلم نہیں
ہو گی۔۔
میں وعدہ کرتی ہوں آپ کو بالکل پریشان نہیں کروں
گی۔۔
وہ گہری سانس لے کر بولا۔ پاگل ہو تم پتہ نہیں تمہارے گھر والوں نے اتنے خطرناک
جنگل کیسے آنے دیا۔ اس کی بات پر چڑ کے بولی۔ میری ساری بات کبھی سنی ہی نہیں تو مہربانی کر کے
خاموش ہی رہیں وہ اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسا۔
اچھا دل چھوٹا نہ کرو آج سناؤ میں خاموشی سے سنوں
گا۔۔
وہ اس کے شرارتی لہجے سے چڑ گئی اور اٹھ کر چل پڑی۔
دیکھو ابھی اتنا اچھا کھلایا کھانا اسے غصے میں
ضائع مت کرو۔ ورنہ تمہارے گھر والے سوچیں گے
میں نے کچھ کھلایا پلایا نہیں۔ وہ بنا کچھ
کہے خیمے میں آ گئی۔ کچھ دیر میں وہ بھی اندر
آ گیا آئلہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔
اٹھو یہاں سے۔
اسے اٹھنے کو کہا وہ چپ چاپ اٹھ گئی۔
اس نے اپنے سنگل بیڈ جو صوفے کا کام بھی دیتا تھا فولڈ کرناشروع کر دیا۔
بیڈ فولڈ ہو کے چھوٹے سے سوٹ کیس جیسا ہو گیا۔۔
وہ سب دیکھ رہی تھی۔ میرا خیال ہے تم مہمان بن کر کھڑی ہونے سے میرا
ہاتھ بٹاؤ۔ تاکہ جلدی روانہ ہو سکیں۔ آئلہ سن کر کچن کی طرف آ گئی۔ اور سب برتن سمیٹنے لگی۔ اس نے سب کھانے کا سامان اور برتن بیگ میں بھر دیے۔ اور میز کی طرف آئی کتابیں اٹھاتے پوچھا یہ کہاں
رکھوں؟۔
یہ سامنے والے بیگ میں ڈال دو۔ سب سامان باندھ گیا تو وہ اٹھا اٹھا کر جیپ میں
رکھنے لگا۔ تیسرا چکر لگا کر آیا تو یہ شرٹ
ہاتھ میں لئے کھڑی تھی۔
کیا ہوا؟ اس نے جواب دینے کے بجائے دونوں چیزیں
اس کی طرف بڑھا دی۔ یہ رکھ لیں تم خود ہی رکھ
دو۔ تو وہ بیگ میں رکھنے لگی۔ سب رکھ کے وہ اب خیمہ اکھاڑ رہا تھا۔
جیپ میں رکھ کر ہر جگہ نظریں دوڑائیں کچھ رہ نہ
جائے تو آئلہ ایک درخت کے پاس کھڑی کچھ کر رہی تھی۔۔
ہارون اس کے پاس آ گیا وہ اس کی آمد سے بے خبر تھی۔
درخت پر اپنا نام کھود رہی تھی۔ تمہارا کیا دوبارہ کبھی یہاں آنے کا ارادہ ہے۔ پتہ نہیں لیکن میرا دل چاہ رہا تھا۔۔
بہت سالوں بعد جب کوئی یہاں سے گزرنے تو میرا نام
دیکھ کر سوچے وہ نام کو گہرا کرتی ہوئی بولی۔
بڑے رومینٹک خیال ہیں۔ میں نے آج تک
ایسا نہیں سوچا ورنہ کس کس جنگل میرا نام نہ ہوتا۔ ویسے آیڈیا برا نہیں میں بھی لکھ دیتا ہوں۔ اسی کے نام کے نیچے اپنا بڑا بڑا نام کھود ڈالا
اور ہاتھ جھاڑتا ہوا بولا اب چلیں؟۔
ہاں چلیں۔۔ ۔۔
جیپ کے پاس پہنچ کر موٹے تازے شیر کو پڑا دیکھ کر چیخ نکل گئی۔۔
میں نے منع کیا تھا پھر چیخیں وہ ناراض ہوا۔۔
یہ بھی ہمارے ساتھ جائے گا نہیں میں اس کے ساتھ
سفر نہیں کر سکتی۔ نہیں جاتی تو مت جاؤ۔
رہو یہیں میں تو جا رہا ہوں وہ جیپ اسٹارٹ کرنے
لگا۔
آپ مجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں جو بھی اس منحوس کی
خاطر۔ لگتا تھا بہت مشکل سے گھسا کیونکہ آدھا
سیٹ پر آدھا نیچے تھا۔ تمہیں آنا ہے تو آؤ
ورنہ میں جا رہا ہوں۔
آئلہ نے بڑی مشکل سے قدم جیپ کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولنے لگی اور ہارون کو
بے بسی سے دیکھنے لگی اور بولی۔
یہ مر گیا آپ نے ٹھیک سے چیک کر لیا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو مکاری کر رہا ہو۔ وہ تھر تھر کانپ رہی تھی وہ غصے میں تو ہو گیا مگر
بہت آرام سے بولا آئلہ کیوں ٹائم ضائع کر رہی ہو بیٹھ جاؤ نا۔ وہ بہت مشکل سے اندر گھسی تو ہارون نے بلند آواز
میں شکر ادا کیا وہ اس کی بات سے بے نیاز پیچھے دیکھ رہی تھی دیکھنے کا انداز ایسے
جیسے اسے دیکھنا نہ چاہ رہی ہو۔ وہ اس کے اتنے
خوف زدہ ہونے پر رحم کی نظروں سے دیکھنے لگا۔
اب کیا میں حلف اٹھا کر کہوں کہ یہ مر گیا ہے۔۔
وہ ناراض انداز میں بولی آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں
کیا۔
شیر کو میرے اوپر ترجیح دے کر میری انسلٹ کی ہے۔
یہ بات اگر جانور معصوم کے بجائے کسی خاتون کے لیے
بولی ہوتی تو میں آپ سے معذرت کرتا۔ آئلہ نے
چونک کر اسے دیکھا وہ مسکرانے لگا۔ مجھے بڑی
جلدی ہے اپنے ٹھکانے پہنچنے کی اس کی لاش سڑے نہیں میں نے کچھ طریقے کیے محفوظ رہے۔ تم یہ بتاؤ تمہیں جانا کہاں ہے؟۔
اسکی بات کے جواب میں وہ بولی۔
ویسے مجھے نیروبی جانا ہے مگر آپ کو جہاں سہولت
ہو چھوڑ دیں تو وہ ہنس کر بولا۔
اچھا تو آپ نیروبی میں رہتی ہیں وہ اس کی ہنسی پر
حیران تھی۔
آپ کچھ عجیب سے ہیں میری سمجھ میں نہیں آتے شاید
لیلی ہوتی بہت انجوائے کرتی۔ وہ تو سب گھر
والوں کو بھول بھال کے آپ کے ساتھ شکار پر نکل پڑتی۔۔
لیلی کے ذکر کے ساتھ ہی اسے ان دونوں کی فکر ستانے
لگی۔۔
یا اللہ وہ لوگ بخیریت ہوں وہ بغور اس کے چہرے کی
اداسی کو دیکھنے لگا وہ اس کا موڈ بدلنے کے لئے بولا اتنی خوبیوں کی مالک لڑکی سے آپ
کا کیا تعلق آپ کی دوست آپ کی طرح بزدل ہونی چاہیے۔ وہ اپنے بارے میں کمینٹس سے برا ماننے کے بجائے
لیلی کا بتانے لگی وہ ہوتی سب سے پہلے شیر پر پاؤں رکھ کر تصویر بنواتی پھر اس کا تفصیل
سے جائزہ لیتی۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتی بہت بلند
ارادے ہیں اس کے۔۔ وہ خلا باز بننا چاہتی تھی
چچی نے نہیں کرنے دیا اسے یہ شوق پورا۔۔ ۔
وہ مسکرا کر بولا کہاں پائی جاتی ہے یہ لیلی کسی
جنگل میں ہونی چاہئے۔ ویسے اسے اب تک فیس مل
چکا کہ نہیں مجھے تو سن کر ہی ملنے کا شدید شوق ہو گیا۔
وہ بولی منہ دھو رکھئے اس کا نکاح ہو چکا ہے وہ
اس کے لہجے پر ہنس پڑا اور اپنے لہجے میں افسوس شامل کرتے بولا۔
افسوس میں لیٹ ہو گیا۔ کچھ دیر دونوں میں خاموشی چھائی رہی۔ باتوں میں لگ کے اس کا دھیان شیر سے ہٹ چکا تھا
نیند آ رہی ہے تو سو جاؤ اپنے لئے اس کے لہجے میں موجود خلوص پر اس کا دل خوش ہو گیا۔
نہیں ابھی تو نیند نہیں آئی تھوڑی خاموشی کے بعد
پھر اس سے مخاطب ہوئی۔ آپ کے گھر والے آپ کو
اتنے خطرناک کام کے لیے اجازت کیسے دیتے ہیں۔
ایسا شکار جس میں جان کو خطرہ میرے بھائی نے آرمی
جوائن کی اس دن امی نے رو رو کے گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔۔
جیسے ابھی جنگ چھڑنے والی ہو۔ اس کے جواب میں وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
میرے پیچھے کوئی رونے والا نہیں ہے۔ اسی لئے میں جو جی میں آتا کر سکتا ہوں۔ وہ اسے دیکھنے لگی۔
شاید میں نے کوئی غلط بات کر دی جس سے یہ ہرٹ ہوا
وہ خود ہی قیاس آرائیاں کرنے لگی۔۔
وہ تیز رفتاری سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ شاید وہ اس کی ذمہ داری سے بری ہونا چاہتا تھا۔۔ آئلہ چاروں طرف سناٹا چھائے ماحول سے نظریں چرائے
اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔ کتنی ویرانی
اور دہشت ہے اس جگہ پر اگر یہ ساتھ نہ ہوتا تو میں کب کی اللہ کو پیاری ہو جاتی۔۔ وہ خود سے باتیں کر رہی تھی۔۔ اسی وقت جیپ زور دار جھٹکے سے روکی۔ اس کا سر سامنے ٹکراتے ٹکراتے بچا اسے دروازہ کھول
کر باہر نکلتے دیکھ کر پوچھنے لگی۔
کیا ہوا؟۔
شاید جیپ میں کچھ پرابلم ہو گئی ہے اس سے پہلے کہ
مکمل جواب دے جائے میں چیک کر لیتا ہوں۔
ایک ہاتھ میں ٹارچ پکڑے وہ انجن میں کچھ دیکھ رہا
تھا۔
آئلہ اس کی مدد کے خیال سے باہر نکل آئی۔ اور بغیر کچھ بولے ٹارچ اس کے ہاتھ سے لے لی۔ وہ کیا کر رہا کیا چیک کر رہا نہیں جانتی تھی نہ
دلچسپی تھی بس یہ تھا جیپ جلدی سہی ہو اور اس ویران جگہ سے نکلیں۔ اپنے خیالات اس سے شیئر بھی نہیں کر سکتی تھی کے
ایسی جگہ پر روحیں بھڑک رہی ہوتی ہیں۔ آپ بے
شک بہت بہادر ہو پر روح سے کیسے مقابلہ کرو گے۔۔
اسی ڈر سے وہ اس کے اور بھی قریب ہو گئی تو وہ چڑ کے بولا کہاں گھس رہی ہو دور
ہو تھوڑا وہ اس کے ناراض لہجے سے ڈر کر فوراً دور ہو گئی۔۔ وہ پندرہ منٹ تک مغز ماری کے بعد بولا ٹھیک تو ہو
گئی تھوڑا سا پانی چاہئے۔۔ چلتے وقت خیال نہیں
رہا چیک کر لوں فکر کی بات نہیں پاس ہی ایک چشمہ ہے۔۔ ۔ میں وہاں سے لے کر آتا تم جیپ میں بیٹھو۔ وہ کین پکڑ کر جانے لگا تھا تو فوراً بولی۔
میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی مجھے یہاں اکیلے ڈر
لگتا ہے۔
بیوقوفوں کی باتیں نہیں کرو پاس ہی جا رہا ہوں نہیں
میں آپ کے ساتھ ہی جاؤں گی ضد کرتی وہ اسے زہر لگ رہی تھی۔
یہاں خطرناک راہ ہموار ہیں میں پانی سنبھالوں گا
یا تم کو۔
میں نے منع کر دیا تو کر دیا۔ سمجھیں۔
جیپ میں بیٹھ جاؤ اس کے غصے اور ناراضگی سے سہم
کر۔
جیپ میں بیٹھ گئی تو وہ اس کے پاس آ کر بولا۔
دروازہ لاک کر کے شیشے چڑھا کر بیٹھو۔
جب تک میں واپس نہیں آتا باہر مت نکلنا۔ کسی بھی صورت سمجھیں آرام سے بیٹھو خطرے کی بات
نہیں ہے۔۔ ۔
وہ سامنے ڈھلوانی رستہ ہے وہی سے پانی لے کر آتا
ہوں۔۔ وہ اسے تسلی دیتا ہوا تیز قدموں سے اگے
بڑھ گیا جیسے جلد لوٹنا چاہتا ہو۔ آئلہ نے
پیچھے پڑے درندے کو دیکھا اسے ایسا لگا جیسے لال آنکھوں سے اسے دیکھ رہا ہے اس کی طرف
سے ذہن ہٹایا اس کو لگا ڈرائیو سیٹ پر کوئی بھوت آ کر بیٹھ گیا ہے وہ اس کی ہدایت نظرانداز
کرتے نیچے اتار آئی۔
چاہئے کچھ ہو جائے میں اکیلے یہاں نہیں بیٹھ سکتی۔۔ وہ اس طرف بڑھ گئیں جہاں اسے جاتے دیکھا تھا۔ دو چار قدم چلنے سے اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ ساتھ
چلنے سے کیوں منع کر رہا تھا۔۔ اونچا نیچا
مکمل اندھیرے میں ڈوبا۔ چاند کی تھوڑی بہت
روشنی رہنمائی کر رہی تھی دو تین دفعہ ٹھوکر کھا کر گرتے گرتے بچی۔ مزید چلنا مشکل لگا تو وہی بیٹھ کر اس کے آنے کا
انتظار کرنے لگی۔ اچانک اسے اپنے پیچھے قدموں
کی چاپ سنائی دی۔۔
ایسا لگا جیسے بہت سے لوگ چل رہے ہوں اس نے خوفزدہ
ہو کر مڑ کر دیکھا تو دھنگ رہ گئی وہ چار حبشی نما انسان تھے شاید افریقی تھے ان کے
لمبے مضبوط جسم بتا رہے تھے کوئی شکاری ہیں۔
وہ اس کی طرف بڑھے وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں لالٹین تھی چاروں کے
چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی وہ جیسے اپنی جگہ سے جانے لگی ایک تیزی سے اس کی طرف بڑھا
اس کے جسم سے تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ اس کے
وہم وگمان میں بھی نہیں تھا یہ وہ جیسے نہ ایک قدم اگے جا سکتی ہے نہ اسے آواز دے سکتی
ہے وہ پتہ نہیں کون سی زبان میں کیا بولا اور اسے اپنے طرف گھسیٹا اس نے پوری طاقت
سے خود کو چھڑوانا چاہا مگر بے سود پتہ نہیں کہاں سے اس میں طاقت آئی بلند آواز میں
چیخنے لگی ہارون ہارون بچاؤ ساتھ ہی اس سے خود کو چھڑا رہی تھی۔ وہ جو پانی لے کر واپس آ رہا تھا اس کی آواز پر
کین وہی پھینک کر بھاگتا ہوا اوپر چڑھا۔ جو
رستہ اس نے پانچ منٹ میں کیا تھا وہ چند سیکنڈ میں عبور کر کے اوپر آیا تو یہاں کا
منظر دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا۔ تیز قدموں
سے وہ بڑھا تو حبشی نے آئلہ کو چھوڑ دیا یوں جیسے تم سے بعد میں بات کرتے پہلے اس سے
نپٹ لیں۔ اس کے ایک دم چھوڑنے سے وہ زمین پر
گر پڑی۔ فوراً اٹھ کر دیکھا ہارون سامنے کھڑا
تھا وہ بھاگ کر اس کے پاس آ گئی۔
اور اس کے پیچھے کھڑی ہو کر چھپ گئی۔ چاروں اسے ہاتھ سے اشارہ دے رہے تھے کے ہمت ہے تو
مقابلہ کرو آئلہ کو اس نے دور ہٹایا اتنے زور سے جھٹکے جانے سے جیسے اس کے حواس جاگ
اٹھے۔۔ اسے لگا وہ بھی ان کے حوالے کر کے ہاتھ
جھاڑ کر چلا جائے گا۔۔ اسے آخر کیا ضرورت ہے۔ نہ یہ کوئی فلمی ہیرو ہے کہ دس غنڈوں کو جہنم واصل
کر دے گا۔ وہ ان میں سے کسی پر بھی نظر ڈالے
اندھا دھند بھاگنے لگی۔۔
اس کے کان اس وقت کچھ نہیں سن رہے تھے اسے نہیں
پتہ تھا وہ لوگ آپس میں کیا باتیں کر رہے ہیں اسے بس خود کو بچانا تھا۔ ہر قیمت پر دو تین مرتبہ ٹھوکر کھا کر گری مگر پرواہ
نہیں کی۔ وہ بھاگتے پتہ نہیں کتنی دور نکل
آئی زخمی بھی ہوئی پاؤں شل ہو گئے تھے سانس بھی پھول رہی تھی۔۔ ۔
وہ ایک اونچے ٹیلے کے پیچھے چھپ گئی۔ اور بڑی شدتوں کے ساتھ اپنے رب کو پکارنے لگی۔۔
۔۔
یا اللہ عزت سے بڑ کر کوئی چیز نہیں ان درندوں سے
مجھے بچا لے۔ وہ سانس تک روک بیٹھی تھی۔ پھر اس نے دو چار انسانی چیخ کی آواز سنی ساتھ ہی
فائر کی بھی۔۔
کیا وہ مجھے چھوڑ کر نہیں گیا کیا میری عزت بچانے
کے لئے رک گیا۔ اس نے ایک لمحے سوچا پھر مایوسی
میں گھر گئی۔
اگر وہ رک بھی گیا ہوا تو ہار گیا ہو گا وہ تو زیادہ
لوگ تھے۔ اسے پھر چیخوں کی آواز سنی اس کے
بعد گہرا سکوت چھا گیا۔ اسے لگ رہا تھا اس
ویرانے میں اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ کتنی عجیب
بات ہے کچھ دیر پہلے وہ اس ویرانے سے ڈر رہی تھی ابھی بالکل ڈر نہیں رہا تھا۔۔
اس نے اپنے پاس قدموں کی آواز سنی تو پتہ چلا امتحان
ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ نہیں میں اس کھائی
سے کود کر جان دے دوں گی مگر یہ رسوائی برداشت نہیں کر سکتی۔
وہ یہ سوچ کر اٹھی اور آنے والے کو دیکھے بنا بھاگ
کر اگے بڑھنا چاہتی تھی مگر ہارون نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر روک لیا۔ اسے سنبھلنے کا موقع دیے زور سے اس کے منہ پر تھپڑ
مارا۔ جب میں نے منع کیا تھا تو گاڑی سے کیوں
اتری۔ بولو۔۔ ۔۔
وہ جیسے بالکل آوٹ آف کنٹرول ہو رہا تھا۔۔ تمھاری سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی۔ اسی لئے تمہارے ساتھ رات کا سفر کرنے سے ڈر رہا
تھا۔۔ مگر تمہیں نہ اپنی پرواہ ہے نہ کسی اور
کی۔ اسے شدید غصے میں ایسا پہلے نہیں دیکھا
تھا۔ وہ بالکل نڈھال ہو چکی تھی وہ بے اختیار
آگے بڑھی اس کے کندھے پر سر دکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تو وہ چپ سا ہو گیا۔۔
اس نے نہ تسلی دی نہ رونے سے روکا نہ خود سے الگ
کیا۔۔
وہ خاموش کھڑا رہا وہ نجانے کتنی دیر روتی رہی۔۔
اسے سسکیاں بند گئی تب بھی وہ چپ کھڑا رہا۔ پھر آئلہ نے تھوڑا ہٹ کے اسے دیکھا ہارون نے ہاتھ
پکڑ کر تیز قدموں سے واپس اسی راستے پر جانے لگا۔
اس کے وجود کا سارا بوجھ جیسے اس نے اٹھایا ہوا تھا وہ ساتھ گسٹ رہی تھی۔ پتھر میں اڑا دوپٹہ اس نے جھک کر اٹھایا۔۔
اس نے سر جھکا کر اس سے دوپٹہ لے کے لپیٹ لیا۔۔
کچھ آگے بڑھے تو چاروں وہ زخمی پڑے تھے۔ ایک کراہ رہا تھا باقی تین شاید بے ہوش تھے۔ ان پر نظر ڈال کے اگے بڑھ گئے۔ جیپ کا دروازہ کھولا اسے اندر دھکیلا وہ آنسو پیتی
بیٹھ گئی۔ جب جیپ اسٹاٹ ہونے پر اس نے اپنا
سر اٹھایا۔ وہ پہلے سے بھی تیز رفتاری سے چلا
رہا تھا۔۔ اچانک اس کی نظریں ہارون کے بازوؤں
پر پڑی جو خون میں بھیگی ہوئی تھی۔۔
وہ جھجھک کے بولی آپ کا بازو زخمی ہو گیا۔ اس پر کچھ باندھ لیں اس نے اس کی ایک نہیں سنی اسی
رفتار سے چلاتا رہا۔ وہ اس کے بازوؤں پر ہاتھ
رکھ کر بولی۔۔
آپ کو خون نکل رہا گاڑی روک کر مرہم پٹی کر لیں
اس نے ہاتھ جھٹکتا ہوا پھنکارا۔ تم مجھ سے
کوئی بات مت کرو تمارا احسان ہو گا۔ وہ اس
ردعمل سے چپ کر کے بیٹھ گئی۔۔
مگر نظریں اس کے بازوؤں پر ہی تھیں۔ اسے پتہ تھا یہاں پڑے بیگ میں سامان کے ساتھ فرسٹ
ایڈ بکس بھی تھا۔ وہ تیزی سے جھکی اور فرسٹ
ایڈ بکس نکال لیا۔ وہ اس کی تمام کاروائی سے
لا تعلق تھا۔ باکس سے کاٹن نکال کر اس نے اپنا
ہاتھ ہارون کے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔ وہ ایک جھٹکے
سے جیپ روک کر بولا۔ اب تم نے مجھ سے بات کی
یا میرے قریب آئی تو میں تمہیں قتل کر دوں گا۔
وہ جواب میں رونے لگی۔۔
میرے ہاتھ سے نہیں تو خود کر لیں اتنا خون نکل رہا
ہے اس نے ڈر سے بکس اس کی گود میں رکھ دیا وہ غصے سے اٹھا کر بینڈیج کرنے لگا۔ وہ آنسو بہاتی اس کی طرف دیکھتی رہی۔
پٹی باندھ کر اس نے پھر جیپ اسٹارٹ کر دی۔ بغیر کسی تکلیف کا اظہار کیے پہلے کی طرح گاڑی چلا
رہا تھا۔۔
آئلہ نے دو چار بار سر اٹھا کر دیکھا مگر وہ شاید
اس وقت اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا اس کو جب بات کی ہمت نہ ہوئی تو گردن جھکا
کر بیٹھ گئی۔
کافی دیر بعد اس نے سر گھما کے دیکھا تو وہ سر جھکائے
چپ بیٹھی تھی۔ اور چہرہ آنسووں سے بھگا ہوا
تھا۔۔
بائیں گال پر اب تک اس کی انگلیوں کے نشان موجود
تھے۔۔
ہاتھوں
اور چہرے پر خراشیں پڑی تھی۔ جن سے خون رسنا
بند ہو گیا تھا۔ اس کا دل چاہا ہاتھ بڑھا کر
اس کے آنسو صاف کر دے۔ اور کوئی ایسی بات کرے
کہ وہ ہنسے۔ دل کی بات رد کر کے وہ پھر سے
سامنے دیکھنے لگا۔ اپنے آس پاس گاڑیوں کی آوازیں
سنائی دی تو سر اٹھا کر باہر دیکھنا شروع کر دیا۔
وہ جنگل سے نکل کر شہر کی حدود میں پہنچ گئے تھے۔۔
پتہ نہیں کیا وقت ہو رہا تھا شاید ابھی رات ہی تھی۔ پورا شہر سویا ہوا محسوس ہوا۔ اس ویرانے سے گاڑیوں کا شور اس وقت با رونق لگا
رہا تھا۔ اسے ایسا لگا صدیوں کی مسافت طے کر
کے یہاں تک پہنچی۔ جیپ ایک ہوٹل کے آگے روک
کر وہ بغر کچھ بتائے چلا گیا۔ وہ ایک شاندار
ہوٹل تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آتا دکھائی دیا
لیکن اکیلے نہیں تھا وہ دونوں بڑی پر جوش باتیں کرتے آ رہے تھے۔ ساتھ والا خوش اور تیز چل رہا تھا جیسے کچھ دیکھنے
کی جلدی میں ہے۔ وہ تیز قدم اٹھاتا جیپ کی
طرف آیا. تو ایک دم ٹھٹھک گیا چہرے پر حیرانی اور بے یقینی ملے جلے ہارون نے آتے متعجب
انداز میں بولا۔ .۔
یہ آئلہ ہے۔۔
ہاں وہ اتنی معروف کہ بس اتنا کافی تھا کہ یہ آئلہ
ہے۔
سامنے والا بھی اسی کا دوست تھا بغیر حیرانی شائستگی
سے مسکرا کر بولا۔
بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر جواب میں اخلاقاً مسکرانا
پڑا۔ اس کی طرف سے توجہ ہٹاتے ہی سیٹ پر دیکھنے
لگے دونوں وہ بڑی بڑی الفاظ میں اسے خراجِ تحسین پیش کر رہا تھا۔ بہادری کو سراہا پھر دونوں جیپ سے تھوڑا ہٹ کے بات
کرنے لگے آئلہ نے سننا چاہا۔
تم اس کا انتظام کرو مجھے ابھی نیروبی جانا ہے آگے
کا پروگرام بعد میں طے کریں گے۔ پاگل ہو گئے
ہو تم اتنی لمبی ڈرائیو کر کے آئے ہو تھوڑا سا ریسٹ کرو۔ کم سے کم کچھ کھا پی لو۔ کتنے تھکے لگ رہے ہو کتنے بجے چلے تھے وہاں سے؟۔
وہ شاید اس سے بہت محبت کرتا تھا بالکل ماؤں کی
طرح فکر سے سب پوچھ رہا تھا۔ اس کی بات پر
وہ مسکرا کر بولا۔
کھانے پینے کو بالکل ٹائم نہیں مجھے جلد نیروبی
پہنچنا ہے۔
ویسے 11بجے چلے تھے ہم وہاں سے۔ ہم کے الفاظ سے اس نے بے ساختہ اسے دیکھا اور بولا
بہت دیر نہیں لگی پہنچنے میں کس طرف سے آئے ہو۔
وہ اس کے لئے فکر مند لگ رہا تھا۔۔
بس جیپ رستے میں خراب ہو گئی تھی۔ وہاں دیر لگ گئی وہ بہت لا پرواہ انداز میں بولا۔۔
خیر جو بھی ہو میں تمہیں ایسے نہیں جانے دوں گا۔۔
نیروبی کہیں بھاگا نہیں جا رہا۔ کچھ کھا پی لو آرام سے جانا۔ وہ بے بس نظروں سے دیکھتے بولا پیٹر دیر ہو جائے
گی۔
ہو جائے میری بلا سے۔ تم اندر چلو۔ اسے مکمل نظر انداز کیے دونوں مصروف تھے۔ وہ اس کے مجبور کرنے پر وہاں رکنے پر رضا مند ہو
گیا۔۔
ہارون آئلہ کے پاس آ کے بولا آؤ اندر جبکہ اس کا
دوست وہی کھڑا رہا وہ بنا چوں چراں کے جیپ سے نکل آئی۔۔
ان دونوں کے ساتھ شاندار ہوٹل میں زخمی پاؤں الجھی
لٹیں وہ خواہ مخواہ بالوں پر ہاتھ پھر کر سنوارنے کی کوشش۔۔
وہ دونوں مسلسل شکار اور جنگل کی باتیں کر رہے تھے۔۔
وہ خاموشی سے اپنے ساتھ والے شخص کے جوتوں پر نظریں
جمائے تھی۔ وہ جو بظاہر اس سے لاتعلق نظر آ
رہا تھا اس کے آہستہ قدم دیکھ کر سست رفتار ہو گیا اس کا دوست بھی اس کی وجہ سے سست
چلنے لگا۔ لفٹ میں آ کر دونوں بالکل خاموش
تھے۔ اسے ایسا لگا اس کا دوست گہری نگاہ سے
اس کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا
تو وہ ہارون سے مخاطب تھا۔ ایک بہت عمدہ کمرے
میں داخل ہو کر پیٹر سے بولا تم دونوں بیٹھوں میں دونوں کو بلا کر لاتا ہوں۔ وہ ہنسا باہر نکلنے لگا تو ہارون بولا۔
بھائی عبداللہ کو جگانا کسی مردے کو اٹھانے کے مترادف
ہے یہ نہ ہو ہم یہیں بیٹھے رہیں۔ وہ اچھے موڈ
میں تھا۔۔
بیٹھ جاؤ اس کی آواز پر آئلہ نے اس کی طرف دیکھا
وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ خاموشی سے صوفے پر ٹک گئی۔۔
تو وہ ایک نظر اس پر ڈال کے کھڑا ہو گیا۔۔
کپڑے نکال کر باتھ روم گھس گیا۔ اسی وقت پیٹر اندر آیا اس کو اکیلا دیکھ کر پوچھا۔
ہارون کہاں ہے؟۔
وہ شاید نہا رہے ہیں۔ اس نے مختصر جواب دیا۔ آپ بھی فریش ہو جائیں۔ ابھی آپ کو باقی دوستوں سے ملوانا ہے۔۔
ہمارے چار دوستوں کا گروپ ہے۔ میں اور ہارون بچپن کے دوست ہیں۔ عبداللہ اور مائکل سے شکار کے دوران دوستی ہوئی۔ دوستی بھی عجیب ہے سال سال نہیں ملتے۔ سب الگ الگ دیسوں کے باسی ہیں سال کے ان دنوں ہم
ملتے اور شکار کھلتے ہیں۔۔ باقی سال فون پر
رابطہ رہتا ہے۔ وہ بہت شائستہ اندر میں باتیں
کر رہا تھا۔۔ اتنے میں ہارون سر رگڑتا باہر
آیا پیٹر سے بولا۔
اب اگر روک ہی لیا ہے تو جلدی کھانے پینے کا انتظام
کرو۔ بہت بھوک لگی ہے۔ وہ ہنستا ہوا کھڑا ہو گیا اور بولا۔
بڑا احسان کیا ہے مجھ پر ایک تو تمہاری محبت میں
بول رہا تھا۔ اتنی تمھاری سلامتی کی دعا کی۔ جواب میں وہ بھی ہنسنے لگا۔۔ ۔ آئلہ خاموشی سے ان کا آپس میں پیار دیکھ رہی تھی
وہ باہر نکل گیا ہارون ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑا ہو کر بال بنانے لگا۔۔ ۔۔ ۔۔
میرا خیال ہے آپ بھی منہ ہاتھ دھو لیجئے شیشے سے
اسے دیکھتا ہوا بولا۔
تو اسے بھی اپنے بے تکے حلیے کا خیال آیا۔ خاموشی سے اٹھ کر باتھ روم کی طرف بڑھی۔ وہ جو بڑی بے تکلفی سے باتیں کرتی اب عجیب سی جھجھک
محسوس کر رہی تھی۔
اتنے بڑے شیشے میں نجانے کتنے دنوں بعد دیکھ کر
خود کو نہیں پہچان پائی۔ وہ ہر وقت تیار رہنے
والی اس وقت عجیب مخلوق لگ رہی تھی۔۔
خوب اچھے سے چہرے کو دھویا اصلی حالت میں لانے کے
لئے۔ وہیں پڑے برش سے بال بھی بنائے 15 منٹ
کی کوشش سے چہرہ اسے اپنا اپنا لگا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔۔
اس کے دوستوں سے بھوت بن کر ملنے کا کوئی شوق نہیں
تھا۔
اتنے بڑے صاف ستھرے نہانے والے ٹب دیکھ کر اس کو
نہانے کو دل چاہ رہا تھا۔۔ اس خواہش کو دبا
کر باہر نکلی۔۔
تو ہارون آنکھیں بند کیے بیڈ پر لیٹا تھا۔۔ وہ خاموشی سے دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کی آمد سے بے نیاز وہی پڑا رہا۔۔
اسی وقت پیٹر اور اس کے دو دوست ہلکی سی دستک دے
کر اندر داخل ہوئے۔ وہ ساری بے نیازی بھول
کر دوستوں سے ملنے لگا۔ مل کر ان دونوں کی
نظریں اس پر پڑی۔ ان کی نگاہ میں پیٹر کی طرح
حیرانی تھی۔ پیٹر نے اچھے میزبان کی طرح تعارف
کی رسم ادا کی۔ یہ عبداللہ ہے پیشے کے لحاظ
سے معروف کاروباری شخصیت۔ شکار شوق ہے شام
ان کا اصل وطن ہے۔ اور ان کی اچھی بات کک بھی
بہترین ہیں۔۔ شکار کے دوران ہمیں اچھے کھانے
بنا کر کھلاتے ہیں۔۔
اور یہ ہیں جناب سائکل انگلینڈ کے رہنے والے ہم
سب میں یہی پروفیشنل شکاری ہیں۔۔ جنگلات میں
ان کا علم ہماری رہنمائی کرتا ہے ہارون ان کے تعارفی پروگرام سے لاتعلق پھر بیڈ پر
بیٹھ گیا۔ جبکہ باقی افراد اب تک کھڑے تھے۔۔
اس وقت بیرا خوب لدا پھندا اندر چلا آیا اور ٹیبل
پر مختلف اقسام کے کھانے سجا دیئے وہ تینوں سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گئے۔ پیٹر ہارون سے بولا تم وہاں کہاں پڑے ہو۔ ادھر آؤ۔
اس کے بلانے پر وہ لمبی سے سی جمائی لیتا اٹھ کر
یہی آ گیا۔۔ ۔
آئلہ نے ایک لمبی سانس لی اور چہرہ دوپٹے سے صاف
کرنے لگی۔۔ آئلہ کے پاس کچھ فاصلے پر بیٹھ
گیا۔۔ درمیان میں رکھی ٹیبل پر ڈھیروں کھانے
سجے۔
وہ شرم و حیا دبو قسم کی لڑکی نہیں تھی مگر اتنے
مردوں میں اسے اپنا آپ عجیب لگ رہا تھا۔ اپنے
اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی اتنے میں پیٹر کی آواز سنی۔
آپ لیجئیے نا۔۔
وہ اس کے ہاتھ میں پلیٹ پکڑا رہا تھا۔ آئلہ نے شکریہ کے ساتھ تھام لی۔ ہارون پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔۔
اس نے تکلفاً تھوڑا سے آملیٹ پلیٹ میں نکال کر کانٹے
سے ٹکڑے کرنے لگی۔۔ ۔ وہ تینوں بھی کھانے لگے۔۔ آپ نے میرے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں۔۔ پیٹر نے اس سے کہا۔۔ اس کے بولنے سے پہلے عبداللہ بول پڑا۔۔
تم بولنے کا موقع دو تو کوئی پوچھے تم سے بہتر تمہارا
تعارف میں کروا سکتا ہوں۔ وہ آئلہ کی طرف متوجہ
ہوا۔
مس آئلہ یہ ہیں پیٹر سویٹزرلینڈ کے خاصے معروف انجینئر۔
اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں۔۔ اس کی منگنی ہو چکی ہے۔۔ جولی ان کی منگیتر نے فی الحال شادی کرنے کی قسم
کھا رکھی ہے۔ کہ جب تک یہ شکار نہ چھوڑے وہ
بڑا ہنس مکھ سا تھا۔ پیٹر کے گھورنے کے باوجود
اس نے اپنی بات مکمل کی۔ ہلکی سی مسکراہٹ اس
کے لبوں کو چھو گئی۔۔ ۔۔ ۔۔
اسی وقت بیرا چائے کی ٹرے اٹھا کر اندر چلا آیا۔ عبداللہ نے ٹرے اس کے ہاتھ سے لے کر آئلہ کے سامنے
رکھ دی۔۔
میرے خیال سے کسی خاتون کا یہ حق ہے اس کی موجودگی
میں اور کوئی کیوں بنائے چائے۔ وہ بڑی بے تکلفی
سے بولا شاید اس کی جھجک کم کرنا چاہتا ہو۔
آئلہ کو سب ہی بہت اچھے لگے۔ وہ اپنی
پلیٹ رکھ کر کپوں میں چائے ڈالنے لگی۔۔
عبداللہ اب کسی بات سے بحث کر رہا تھا۔ ایک تو مجھے آدھی رات سونے سے اٹھا دیا۔ اوپر سے برا بھی میں ہوا وہ پتہ نہیں کس موضوع پر
بات کر رہے تھے۔۔
ساڑھے چار کو تم آدھی رات کہہ رہے ہو۔ مائکل اسے گھورا تو وہ آئلہ کی طرف دیکھتے ہوئے
بولا۔
آپ کا کیا خیال ہے ساڑھے چار بجے صبح ہو جاتی ہے۔ وہ سونے کا بہت شوقین لگ رہا تھا۔ جواب میں وہ صرف مسکرا دی۔۔
ان سب سے چینی پوچھ کر کپوں میں ڈالی سب سروے کرنے
لگے۔ ساتھ بیٹھے شخص کو بغیر چینی کے اس کی
طرف کپ سرکا دیا اور خود بھی پینے لگی۔ سب
کا تعارف تو ہو گیا آپ نے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔۔
پیٹر نے اس سے کہا تو سب متوجہ ہو گئے۔ سوائے اس کے جو اسے ساتھ لایا تھا۔۔
میرا نام آئلہ ہے میں پاکستانی ہوں۔ میں نے ٹیکسٹائل انجینیرنگ کی ہے۔ پڑھائی سے فارغ ہو کر اپنے چچا کے پاس کینیا گھومنے
پھرنے آئی ہوں۔ وہ اتنی دیر میں پہلی بار اتنا
طویل جملہ بولی تھی سب غور سے سن رہے تھے۔
اچھا تو شکار آپ کا شوق ہے مائکل جو کم گو تھا پہلی
بار مخاطب ہوا۔ ہارون نے اپنی بے ساختہ مسکراہٹ
چھپانے کے لیے کپ سے منہ لگا لیا۔ وہ بنا دیکھے
ہی سمجھ گئی تھی کہ وہ اس بات پر مسکرایا ہے۔
اس کے جواب سے پہلے ہی مائکل دوبارہ بولنے لگا۔ اچھی بات ہے لڑکیوں کو بھی اس طرف آنا چاہئے۔ پھر اس نے دوستوں سے پوچھا وہ انڑی والا قصہ یاد
ہے سب کچھ یاد کر کے ہنسنے لگے۔ شاید کوئی
پرانی بات کا حوالہ دے رہا تھا۔ عبداللہ اس
کی طرف دیکھ کر بولا۔
آئلہ شاید بور ہو رہی ہے۔ ہارون نے ان کی بات پر توجہ دیے بغیر مائکل کی بات
کو جاری رکھا۔ آئلہ مسکرا کر بولی میں بور
نہیں ہو رہی۔۔
چلیں پھر اچھا ہے آپ بور نہیں ہو رہی تو۔
وہ قصہ میں سنتا ہوں آپ کو جو مائکل بتا رہا تھا
ہم شکار پر تھے تین لڑکیاں وہاں رستہ بھٹک گئیں سب ہی بہت ڈرپوک ہم نے انہیں لفٹ دے
دی وہاں خوب ہی تماشے ہوئے۔ یہ ہارون صاحب
ان کے دشمن بن گئے۔ ہم سے الگ ناراض ہوتا کہ
انہیں لفٹ کیوں دی۔ ان میں ایک کچھ زیادہ ہی
بزدل تھی۔ اسی کے ساتھ سب سے زیادہ حادثے ہوتے
تھے۔
ایک بار اس کے پاؤں پر بچھو چڑھ گیا یہ ہارون مدد
کے بجائے غصہ ہوتا رہا اصل میں اسے ڈرپوک لڑکیاں نہیں پسند۔۔
پھر ایک بار اس کے کمیرے کو اٹھا لیا اس نے تو اس
کی شامت آ گئی۔ عبداللہ بڑے مزے سے تمام قصہ
سنا رہا تھا۔۔
سب یاد کر کے مسکرا رہے تھے۔۔
ہارون نے اسے اردو میں کہا۔
تمہیں چلنا نہیں ہے جلدی ناشتہ ختم کرو۔۔
وہ اس کے بے وجہ ناراض پر حیران ہوئی۔ ناشتہ تو وہ کب کا کر چکی تھی۔ اور اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے اردو بولنے پر تینوں چیخ اٹھے۔
یہ فاؤل ہے بتاؤ ہمیں کیا بولا ہے۔۔ ۔
تم لوگوں کے کام کی بات نہیں ہے۔۔
دیکھا اس غدار کو عبداللہ نے دانت پیس کر بولا۔
ہم وطن ملا تو آنکھیں پھیر لی۔۔
آئلہ آپ بتائیں ابھی اس نے کیا کہا مجھے یقین ہے
اس نے ہماری برائی کی۔ اس نے پریشان ہو کر
بتایا ایسی کوئی بات نہیں بس چلنے کا بول رہے تھے۔ اس نے جھگڑا ختم کر دیا۔
تو وہ آپس میں پروگرام طے کرنے لگے۔ وہ خاموش بیٹھی دیواروں کو تکتی رہی۔ ان کے مذاکرات ختم ہوئے چاروں کھڑے ہوئے تو آئلہ
بھی کھڑی ہو گئی۔ وہ ان کے پیچھے چلتی ہوئی
خاموشی سے باتیں سنتی رہی کب اس نے پیٹر کی آواز سنی۔ وہ اپنے دوستوں کو چھوڑ کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔ میں اگر آپ سے کچھ کہوں میری بات کا برا تو نہ منائیں
گی۔ نہ جانے کیا کہنا چاہ رہا اس لیے اجازت
کا طلب۔ اس نے حیرت سے بولا جی کہیے؟۔
آپ کو کو شاید خود بھی نہیں معلوم کے آپ بغیر ہتھیار
کے بہت بڑی جنگ جیت چکی ہیں۔ وہ سمجھ نہیں
آنے پر اسے دیکھنے لگی تو وہ رک گیا اور بولا۔
یہ جو میرا دوست ہے نا اسے فتح کرنا معمولی کام
نہیں وہ انگلیاں چٹخنے لگی۔ وہ اس کے گھبرائے
چہرے کو دیکھ کر ہنس پڑا۔ میں آپ سے اس لیے
کہہ رہا ہوں مجھے معلوم ہے وہ آپ سے یہ کبھی نہیں کہہ پائے گا۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ بہت گہرا ہے اسے سمجھنا آسان کام نہیں۔ وہ یہ کبھی میرے سامنے بھی نہیں کھولے گا حالانکہ
اسے پتہ ہے ہم جان چکے مگر کبھی قبول نہیں کرے گا اس سے سر اٹھا کر پیٹر کی طرف دیکھا
بھی نہ جا سکا۔ جھکے سر کے ساتھ بولی۔ آپ غلط
سمجھ رہے ہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ اس کی
طرف دیکھ کر بولا۔۔
آپ ایک اچھی لڑکی ہیں۔ اگر آپ اسے جانبداری نہ سمجھیں تو میں کہوں گا کہ
میرے دوست کی پسند بری نہیں ہو سکتی۔ ایک لڑکی
خاموشی سے اس کا خیال رکھتی ہو اس سے پوچھے بغیر چینی کے اسے چائے دیتی ہے۔ وہ یقیناً بہت اچھی ہے اس کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ
کر بولا۔
میرا دوست بہت اچھا ہے جو اسے سمجھ لے اسی کا ہو
جاتا ہے۔ آپ اس بات کو مسئلہ بنا کر اپنے لئے
اور اس کے لئے پریشانی مت کھڑی کرنا۔ کہ وہ
اظہار کرے۔ ابھی وہ تمہیں چھوڑنے جائے گا۔ تو میری خاطر آپ پہل کر دینا پلیز۔ وہ اس بتانا چاہتی تھی کہ وہ بالکل غلط سمجھ رہا
ہے۔ وہ اس کے تاثرات کو دیکھ کر بولا۔
میں صرف اس کا نہیں تمھارا بھی دوست ہوں۔۔
وہ لوگ جو مرکزی دروازے تک پہنچ چکے تھے۔ ان دونوں کو سست قدموں سے آتا دیکھ کر رک گئے۔ قریب پہنچے تو مائکل بولا۔۔
کیا ہوا کہاں رہ گئے تھے پیٹر نے مسکرا کر جواب
دیا آئلہ کو یہاں کے بارے میں بتا رہا تھا۔
عبداللہ نے ہارون سے بولا جو آئلہ اور پیڑ پر ایک نظر ڈال کر لاپرواہی سے کھڑا
تھا۔ اس کے جواب میں سر ہلا دیا۔ آئلہ سب کو الوداع الفاظ کہتے ہوئے جیپ میں بیٹھ
گئی۔ پیٹر کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔ وہ بھی بڑی گرم جوشی سے الوداع کہہ رہے تھے۔ جیپ اسٹارٹ ہوئی ہارون مکمل دھیان ڈرائیونگ پر آئلہ
نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ لوگ ابھی تک کھڑے تھے۔
وہ اب کھڑکی کے باہر چہل پہل اور رونق دیکھ رہی تھی۔۔
ڈرائیو کرتے اتنا وقت گزر گیا۔ مگر دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ اپنی منزل کے قریب پہنچ گئی۔۔
ایڈریس بتاؤ۔
بڑی دیر بعد خاموشی کو چاک کرتی اس کی آواز سنائی دی۔ وہ اسے ایڈریس بتانے لگی۔ گھر پہنچنے کی خوشی میں وہ دیگر تمام باتوں کو بھول
گئی۔ زندگی کے کتنے عجیب و غریب تجربات سے
گزرتی وہ واپس اپنے اصل کی طرف لوٹ آئی۔۔ ۔
٭٭
جیپ اس کے بتائے ہوئے مطلوسبہ مکان کے سامنے رکی
تو وہ تیزی سے دروازہ کھول کر باہر آئی۔ اور
بھاگ کر بیل پر جو ہاتھ رکھا تو ہٹانا بھول گئی۔
وہ جیپ میں بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔
گیٹ کھول کر رحمت اسے دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑی۔۔
بیٹا آپ آ گئی شکر ہے خدا کا۔ سب کس قدر پریشان تھے۔ آپ ٹھیک تو ہو نا۔ وہ ایک ہی سانس میں کتنی باتیں کر گیا۔ اس نے سکون کا سانس لیا اور بولی۔۔
میں ٹھیک ہوں لیلی اور دانش کیسے ہیں؟۔
اس کے چہرے کے تاثرات نے حوصلہ بخشا تھا وہ دو دونوں
ہسپتال میں داخل ہیں۔ بی بی اور صاحب دونوں
وہیں گئے ہوئے ہیں۔۔
ویسے وہ دونوں ٹھیک ہیں۔ اسے ہسپتال کے نام پر پریشان ہوتا دیکھ کر وضاحت
کی۔ اسے جب یہاں سے حوصلہ ہوا تو اچانک خیال
آیا۔ جیپ میں بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے اپنی بدتمیزی پر بہت افسوس ہوا کے کیا سوچ رہا
ہو گا۔ کتنی احسان فراموش مطلبی لڑکی ہے۔۔
وہ تیزی سے اس کی طرف آئی اور بولی۔
آپ اندر آئیے نا۔
تمہیں پتہ تو ہے وہاں میرا کیسے وہ لوگ انتظار کر
رہے ہیں۔ وہ دوستانہ انداز میں مسکرا کر بولا۔
آئلہ نے اس کی مسکراہٹ کو بغور دیکھا وہ کتنی دیر
اس سے معمول کی طرح بات کر رہا تھا۔۔
اچھا ٹھیک ہے پھر اللہ حافظ۔ وہ جیپ اسٹاٹ کرنے لگا تو اسے روکنے لگی۔
اتنی لمبی ڈرائیو کے بعد آپ بغیر رسٹ کیے جا رہے
ہیں آ جائیں پلیز۔ وہ اس کے اصرار پر نفی میں
سر ہلاتا بولا۔
ابھی مجھے واپس جا کے بہت کام کرنا ہے۔ تمہیں سب پتہ ہے وہ اندر آنے پر آمادہ نہیں ہو رہا
تھا۔ پھر اس کے چہرے پر گہری نظر ڈال کر بولا۔
تم میری بنائی ویڈیو رپورٹ جیوگرافی پر ضرور دیکھنا۔ اس کے گلے پڑی ذمہ داری ادا کر کے بہت خوش تھا۔ وہ اس کے خوش چہرے کو دیکھ کر چپ کھڑی تھی۔ تمہارے لیے دعا کروں گا تم ٹیکسٹائل میں بہت اونچا
مقام حاصل کرو۔ وہ یوں بول رہا تھا آئندہ کبھی
ملنے کا امکان نہیں۔ یہ ان کی آخری ملاقات
ہے۔ جس میں ایک دوسرے کے لئے نیک خواہشات کا
اظہار کیا جاتا ہے۔ اسے اپنی آنکھوں میں کچھ
چبھتا محسوس ہوا وہ بمشکل مسکرائی۔۔
میں نے اتنے دن آپ کو ستایا تنگ کیا آپ نے مجھے
برداشت کیا۔ میرا اتنا خیال رکھا وہ رسمی فقرے
ارا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ تو وہ بول پڑا۔
اپنا خیال رکھنا اور آئندہ تفریح کے لیے وقت جگہ
کا انتخاب سوچ کر کرنا۔ خدا حافظ۔
اس کا جواب سنے بغیر وہ جیپ اسٹارٹ کر کے آگے بڑھنا۔
وہ کھڑی لمحہ بہ لمحہ جیپ کے دور جاتا دیکھ رہی
تھی۔۔
تو پھر یہ طے ہے کے وہ اب مجھے عمر بھر نظر نہیں
آئے گا۔۔
ہر چہرے میں اس کا چہرہ تلاش کروں گی دنیا کے ہجوم
میں کھو جائے گا۔ میں اسے کبھی تلاش نہ کر
پاؤں گی۔
وہ تھکے قدموں سے اندر چلی آئی۔
اس کا صدقہ اتارا گیا۔ شکر کے نفل ادا کیے گئے۔ خاص کر چچی کو پرائی بچی کی بہت فکر کھا رہی تھی۔ اپنی بیٹی اور داماد سے زیادہ اس کی فکر تھی۔ وہ تو اچھا ہوا اتنے دن سے پاکستان سے کوئی فون
نہیں آیا۔ ورنہ تمہارے بارے میں کیا کہتی۔ چچی جان گزرے واقعات پر اب تک شاک میں تھی۔۔
لیلی اور دانش کو کافی چوٹیں آئی تھی۔ چچی نے بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر فی الحال ڈانٹ
کا کام ملتوی کر دیا۔ یہ بات آئلہ جانتی تھی۔۔
بہت ہو گئی اس لڑکی کی بے سر و پا حرکتیں خود تو
خود سری دکھائی ہی دوسروں کو بھی اپنے ساتھ مروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ بس اب میں اس کی رخصتی کر رہی ہوں میں۔۔
پھر یہ جانے اور اس کے سسرال والے۔ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ہم بھائی بھابھی کو کیا
منہ دکھاتے۔ وہ لیلی کی حمایت میں بول کر انہیں
اور غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی چپ رہی۔۔
پندرہ بیس دن بعد وہ دونوں گھر آئے۔ تو اس نے واپسی کا سفر باندھا۔
تمہارے بغیر دل نہیں لگتا جلدی آ جاؤ مونی کی برتھ
ڑے بھی دو ماہ بعد ہے۔ جانے کی تیاری دیکھ
کر لیلی اس سے لڑنے لگی۔۔
اتنی جلدی واپس جا رہی ہو۔ ابھی تو ہم نے ساری باتیں بھی نہیں کی۔
میں نے تم سے تمہارے اوپر گزرنے والے حالات بھی
نہیں سنے۔
چچی نے اتنے دن بعد اس کو گھورتے ہوئے کہا۔ پہلے ہی تمہاری کرم نوازی کے مزے اٹھا چکی ہے۔ اسے جانے دو میں نہیں چاہتی اس کے اوپر تمہارا سایہ
پڑے۔ یہ تمہاری طرح خود سر ضدی نہیں ہے۔۔
روانگی سے قبل چچی نے اسے اکیلے میں سمجھایا تھا۔۔
ہمارے ہاں لوگوں کی ذہنیت بہت خراب ہے۔ ان تمام باتوں کا ذکر کسی سے نہیں کرنا۔ لڑکیوں کے لئے کہیں کوئی معافی نہیں ہے۔۔
ذرا سی بات ان کے کردار کو دھبہ لگا دیتی ہے۔
اپنی امی کو دل ہوا تو بتا دینا باقی کسی دوسرے
کو مت بتانا۔
وہ پہلے روز ہی ہارون کے جنگل کے بارے میں سب بتا
چکی تھی۔۔
اس نے ان کی بات پلے باندھ لی کسی سے ذکر نہیں کیا
امی سے بھی۔۔
وہ واپس آ گئی تھی ایک بدلی ہوئی شخصیت بن کر۔
لیلی کی طرح وہ پہلے بھی نہیں تھی۔ مگر اپنے قریب ترین لوگوں میں خوش دل اور خوش مزاج
لڑکی تھی۔۔
اس کی اس تبدیلی کو سب نے محسوس کیا۔ سب کے اصرار پر بس اتنا کہہ پائی۔ میرے خیال ہے میں اب بڑی ہو گئی ہوں۔ اس کی واپسی کے دو ماہ بعد لیلی کی رخصتی کر دی
گئی۔ اس کے لاکھ بولنے پر کسی نے اس کی ایک
نہ سنی۔ وہ دلہن بنی لیلی کی روتی تصویروں
کو تو ہنستی رہی۔ امی ابو کے ہاتھ اس نے طویل
ناراضگی کا خط لکھا۔ جس میں شادی میں شرکت
نہ کرنے کی دھمکیاں اور گالیاں سے نوازا گیا۔
بیٹی کی رخصتی چچا کو بہت پریشان کرنے لگی تو انہوں نے پاکستان آنے کی ٹھان
لی۔۔
دن اتنے تیزی سے گزر رہے تھے اسے لگتا تھا جیسے
اس نے وہ سب خواب دیکھا۔ ہارون کہیں اسے خوابوں
میں ملا تھا۔ آنکھ کھولنے پر اس نے اسے کھو
دیا۔ رات کی تہنائی میں اکثر سوچتی تو آنسو
نکل آتے وہ کوئی اور ہی دنیا کا انسان تھا۔
کچھ دیر اس کی دنیا میں آیا تھا اور پھر واپس لوٹ گیا۔ کیا کبھی اس نے سوچا ہو گا وہ پاگل لڑکی آج بھی
اس کے لئے آنسو بہاتی ہے۔
وہ تو اب تک بھول بھی گیا ہو گا۔ اگر دوستوں میں کبھی کسی بات میں میری یاد آ بھی
گئی تو سر جھکا کر سوچتا ہو گا کتنی بے وقوف اور بزدل لڑکی تھی جو خوامخواہ میرے گلے
پڑ گئی تھا۔۔
اور پیٹر پتہ نہیں میرے بارے میں کیا سوچتا ہو گا
وہ اکثر خود سے سوال کرتی۔ تمہاری طرح مجھے
بھی یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے وہ ان لوگوں میں سے تھا جو ساری
زندگی بھی ساتھ رہیں تو اجنبیت برقرار رکھتے ہیں۔
وہ اپنے اور دوسرے لوگوں میں ایک دیوار قائم رکھتا تھا۔ کسی کو اجازت نہیں دیتا تھا کے وہ دیوار پار کر
جائے۔۔ کاش میں چچا گھر نہ جاتی اگر گئی تو
لیلی کے ساتھ نہ جاتی تو یہ درد میرے ساتھ نہ ہوتا۔ امی اسے ساتھ لے جانے کے لئے بضد اور وہ سو بہانے
نہ جانے کے آخر ہار مان کر کپڑے نکال کر پوچھنے لگی وہاں کیا کوئی فینسی شو ہے یہ ڈریس
کیسا ہے وہاں جانے کے لئے۔ اس کی بات پر بھابی
ہنس پڑی میری جان فینسی ڈریس شو، ہی سمجھو آج تو وہاں پریاں جلوہ فروز، ہو رہی ہیں۔ سچ میں اس کی تیاریاں تو ہفتے بھر سے جاری ہیں۔ وہ ایسے کہہ رہی تھی جیسے کسی کی شادی میں جانا
ہے۔ وہ بغیر موڈ کے جا رہی تھی اسی لئے تیار
ہونے کو بالکل دل نہیں تھا اسے۔ وہاں جا کر
اس کا موڈ مزید خراب ہو گیا اس کی کزنز کی گٹھیا حرکتیں اسے ناگوار گزر رہی تھی۔ لڑکیوں کو کم سے کم اپنے نسوانیت کا خیال رکھنا
چاہئے وہ ایک کونے میں بیٹھ گئی امی بھابھی سب سے ملنے ملانے لگے۔ ساحرہ پھوپھو جو ابو کی فرسٹ کزن تھی بہت عرصےبعد
پاکستان آئی تھی۔ تو پورا خاندان ان کی خدمت
میں لگا ہوا تھا۔۔
جن جن گھروں میں کنواری تھی وہ ایک دوسرے سے سبقت
لینے کی کوشش میں تھے۔ اس خدمت کی بڑی وجہ
پھوپھو کا بیٹا تیمور تھا۔ جو ساری زندگی لندن
رہا ہے۔ پہلی بار پاکستان آیا تھا۔ پھوپھو نے آتے ہی بتایا تھا کہ وہ اس کی شادی کرنا
چاہتی ہیں۔ آج انھوں نے ہی تمام فیملی والوں
کو پی سی میں ڈینر دیا تھا۔ اسی لیے ایک سے
بڑ کے ایک تیار ہو کے آئی تھی۔ لڑکیاں ساری
تیمور کے اگے پیچھے منڈلا رہی تھی۔ اور ان
کی امیاں پھوپھو کے گلے کا ہار بنی ہوئی تھی۔
ان لوگوں کی باتوں اور حلیے سے بے زار امی کے پاس آ کر چلنے کا کہنے لگی تو
وہ انکار میں سر ہلاتی بولیں۔
کھانا کھاتے ہی چلیں غزلوں کا پروگرام ہے سن کر
چلیں گے۔ امی اور غزلیں وہ سمجھ گئی کہ امی
بھی اپنی بیٹی کو مقابلے میں لائی ہے۔ بے زار
ہو کر پیچھے کونے میں جا بیٹھی۔ کوئی اس کے
برابر والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ کیا
میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟۔
آئلہ نے اپنی کسی سوچ سے چونک کر دیکھا۔ تو تمام لڑکیوں کا سورج اس کے پاس آ بیٹھا۔ جہاں غزل اپنا جادو جگا رہی تھی۔۔
ہاتھ دیا اس نے میرے ہاتھ میں۔
میں تو ولی بن گیا ایک ہی رات میں۔
وہ غزل کے بولوں کی طرف متوجہ ہوئی تو وہ پھر سے
مخاطب ہوا۔ آپ کو شاید غزلیں پسند نہیں اسی
لیے بور ہو رہی ہیں۔ اسے خوامخواہ اس سے چڑ
ہونے لگی جو سر پر سوار ہو گیا۔ غزلوں سے سب
کی توجہ ہٹ گئی محفل کی جان ایک اندھیرے کونے میں عام سی لڑکی کے پاس لوگوں کی امیدوں
پر پانی پھر گیا۔ اس کے جواب نہ دینے پر خود
بولا مجھے بھی غزلیں نہیں پسند۔ مجھے فوک میوزک
پسند ہے۔ اگر غزلیں پسند ہوتی تو شاید فوک
سنتے۔ وہ طنزیہ انداز میں بولی۔ واہ بھئ جیتنی خوبصورت ہو اتنی ذہین بھی اور ذہین
لڑکیاں مجھے بہت پسند ہیں۔ وہ جہاں سے آیا
تھا اس کے لیے عام سی بات تھی آئلہ ایک دم کھڑی ہو گئی تو وہ بھی کھڑا ہو گیا۔ اس کے چہرے کی ناراضگی دیکھ کر کچھ کہنا ہی چاہتا
تھا۔ تو وہ فوراً اگلی نشستوں کی طرف بڑھ گئی
جہاں امی لوگ بیٹھے تھے۔۔
تمام لوگوں کے چہرے بجھے نظر آ رہے تھے۔ تو وہ امی سے ضد کر کے جانے کو راضی کر لیا۔ اگلا دن پورے خاندان کی لڑکیوں کے لئے صدمہ لے کر
آیا تھا۔ پھوپھو اپنے لاڑ لے کے لئے آئلہ کا
رشتہ مانگنے آئی۔
امی کے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے لاڈ لی بیٹی
کے لیے جیسا سوچا تھا لڑکا اس سے بڑھ کے تھا۔
اچھا تو جان کے سادے حلیے میں گئی تھی تاکہ دوسروں سے الگ لگو بھابھی نے اسے
چھڑا۔۔
امی ابو نے رسمی سا سوچنے کو بولا سب کو یقین تھا
مان جائیں گے۔ اس نے بھابھی سے اس رشتے سے
انکار کر دیا تو وہ ایسے دیکھنے لگی جیسے اس کے دماغی حالت پر شک ہو۔۔
پاگل ہو کیا ایسے رشتے نصیب سے ملتے ہیں۔ ایسا شاندار بندہ ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے۔ کوئی پاگل ہی انکار کرے گی۔۔
اس کے انکار کی وہاں کوئی حیثیت نہیں تھی سب خوش
تھے۔ اس کے چہرے کی اداسی سب کے بے تحاشا خوشی
میں کسی کو نظر نہیں آئی۔۔
ان ہی دنوں لیلی اور دانش شادی کے بعد پہلی بار
پاکستان آئے تھے۔ لیلی یہ خبر سنتے ہی سب سے
پہلے اس سے ملنے چلی آئی۔۔
وہ اپنے کمرے میں تکیے میں منہ چھپا کر لیٹی تھی
لیلی نے آتے ہی تکیہ کھنچ لیا۔ بہت خوب ساری
دنیا کو بے آرام کر کے خود آرام فرما رہی ہو۔
وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ تم نے پورے
خاندان کی لڑکیوں میں مقابلہ جیتا ہے سب کی امیاں بد دعائیں دے رہی ہوں گی۔ وہ اپنی بات تو انجوائے کر کے خود ہنسنے لگی۔ پھر بولی۔
آج کل تمہیں ہچکی ضرور آتی ہو گی۔
اچانک اس کی نظر اس کے روئے ہوئے چہرے پر پڑی تو
وہ چپ ہو کر اسے دیکھنے لگی کیا بات ہے تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو اس نے کوئی جواب
نہیں دیا اور سر جھکا کر بیٹھی رہی۔ تو اس
نے اس کا چہرہ اوپر کرتے بولی۔
تم روئی تھی؟۔
وہ اپنے آنسو اس وقت لیلی سے بھی چھپانا چاہتی تھی۔ اس لئے اس کا ہاتھ جھٹک کر کھڑی ہو گئی۔ بڑے افسوس کی بات ہے میں نے آج تک تمہیں اپنی سب
سے اچھی دوست سمجھا اور اپنی ہر ہر بات تم سے شئیر کی اور تم نے میرے ساتھ کیا کیا
جلدی بتاؤ مجھے سے کیا کیا چھپایا ہے۔ ورنہ
ابھی اور اسی وقت دوستی ختم کر کے یہاں سے چلی جاؤں گی۔ آئلہ بھی کب سے کسی کے کندھے کی متلاشی تھی اس کے
کندھے سر رکھ کر روتی ہوئی بولی۔
لیلی میں یہ منگنی نہیں کرنا چاہتی پلیز اسے رکوا
دو۔ تم تو کچھ بھی کر سکتی ہو۔ اس نے اسے رونے دیا جب دل کا غبار ہلکا ہوا تو خاموشی سے اس کے کندھے پر سر رکھے رہی وہ بالوں
میں ہاتھ پھرتے ہوئے بڑے پیار سے بولی۔۔
آئلہ تم مجھ سے شئیر نہیں کرو گی جو تمہارے دل میں
ہے۔۔
لیلی وہ بہت اچھا تھا اس کے جیسا کوئی نہیں ہو سکتا
وہ جیسے سرگوشی میں بول رہی تھی۔ جواب میں
اس نے گہری سانس لی اور بولی۔
ظاہر ہے اچھا ہو گا تو تمہیں پسند آیا۔۔
وہ تیمور کی طرح ہینڈ سم نہیں تھا شاید دولت مند
بھی نہ ہو مگر میرے لیے دنیا کا سب سے اچھا انسان تھا۔۔
محبت یہ نہیں ہوتی شکل دولت دیکھو وہ دھیرے دھیرے
سب بتا رہی تھی اور وہ غور سے سن رہی تھی۔۔
میں تین دن اس کے ساتھ رہی وہی مجھے زندگی لگتی
ہے یہ تو جیسے کوئی سزا ہے۔۔ وہ جیسے کہیں
کھو گئی تھی۔ لیلی نے ایک بار بھی ٹوکا نہیں
بس چپ چاپ سنتی رہی۔ وہ بظاہر بہت اکھڑا سا
مگر حساس ہمدرد عام لوگوں جیسا نہیں تھا وہ۔
میں تہنا جنگل میں روکنے والا کوئی نہیں تھا اس
نے ایک بار بھی غلط نظر سے نہیں دیکھا۔ اس
کی نگاہوں میں پاکیزگی تھی۔ کیا کوئی اور ایسا
ہو سکتا ہے۔ اتنا با کردار کون لگتی تھی میں
اس کی اپنی جان پر کھیل کر میری عزت بچائی اس نے اسے کیا جیسے میں اس کی ذمہ داری ہوں۔ میرے لئے اس نے اپنا قیمتی لہو پانی کی طرح بہایا
مگر مجھ پر انچ نہیں آنے دی۔ لیلی نے پوچھا
تو پھر کیا وہ اچانک بچھڑ گیا تھا۔ بچھڑا تو
تھا مگر اچانک نہیں۔۔
ہم نے باقاعدہ ایک دوسرے کو الوداع کیا تھا۔ وہ بڑے دکھ سے بولی تو لیلی حیران نگاہوں سے دیکھنے
لگی۔ وہ میرے ساتھ ہمدردی اور خلوص سے خیال
رکھتا تھا اسے تم جیسی بہادر لڑکیاں پسند تھی۔۔
کبھی کبھی سوچتی ہوں کتنی خوش قسمت ہو گی وہ لڑکی
جیسے اس کی رفاقت ملے گی۔ میں اس کے مقدر پر
رشک کرتی ہوں۔۔
اور اس کی بات پر لیلی نے اپنا سر پیٹ لیا۔ یعنی تم یہاں بیٹھی یکطرفہ محبت کا سوگ مناتی رہو
گی۔ اکیسویں صدی ہے یار۔
انسان بھی وہی ہیں ان کے جذبات بھی اکیسویں صدی
ہو یا بائیسویں۔
وہ ہنس پڑی اور بولی۔
اچھا سہی ہے مگر تم یہ تو کر سکتی تھی اپنی محبت
کا اظہار ہی کر لیتی۔
میں اگر بول بھی دیتی تو وہ یہی کہتا کے میں نے
جو کیا اس کی امید آپ نے یہ لگا لی میں اس میں پورا نہیں اتر سکتا، تو میں اپنی نظروں
میں گرتی۔ لیلی اس کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے
بولی۔
ایک ایسا شخص جس کا تمہیں پتہ نہیں کہ محبت کرتا
بھی تھا کہ نہیں اور تم سے کھو گیا۔ تو کیا
اس سے بہتر نہیں جو بہت خلوص سے تمھاری طرف بڑھ رہا ہے۔ جس نے تم تک آنے کے لئے درست رستے کا انتخاب کیا۔ ہمیں زندگی میں بہت سی چیزیں بہت لوگ اچھے لگتے
ضروری نہیں وہ مل بھی جائیں۔ زندگی اسی کا
نام ہے۔ ہمیں اکثر وہ زندگی گزارنی پڑتی ہے
جو ہم نہیں چاہتے۔ تم تو بہت خوش قسمت ہو اس
نے کتنی لڑکیوں میں تمہارا انتخاب کیا۔ تمہارا
ساتھ مانگا۔
یقین کرو چاہنے سے چاہئے جانے کا احساس خوش کن ہوتا
ہے۔ آپ کس کے لئے بہت اہم ہیں۔ اس کی خوشیاں اور غم آپ سے وابستہ ہیں۔ یہ بات تم جانو گی تو میری ساری باتیں تمہیں صحیح
لگیں گی۔۔
وہ اس کی راز دار اسے بہت آرام سے سمجھا رہی تھی۔
وہ اسے بہت دیر سمجھاتی رہی اس کے جانے کے بعد اس نے دل ٹٹولا تو اس میں کسی کے لیے
کوئی جگہ نہیں تھی پھر سوچا زندگی ایسے ہے تو ایسے ہی سہی۔ عزیز دوست کے لئے لیلی نے بہت دل سے دعا دی ماتھا
چوما اس کے ساتھ بیٹھا بہت خوش نظر آ رہا تھا۔
ہر کوئی رشک کی نظر سے دیکھ رہے کوئی حسد کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ وہ ان تمام باتوں سے بے نیاز سر جھکائے بیٹھی تھی۔ ساتھ بیٹھا انسان اتنا خوش جیسے کوئی خزانہ مل گیا
ہے پھر اس نے اسے ڈائمنڈ رنگ ہاتھ دبا کر پہنائی۔
محبت کی نظروں سے جھک کر اسے دیکھا۔
رات کو اس نے فون کیا اسے اور کہا کے میں اتنا خوش ہوں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب
سمجھتا ہوں جو زندگی میں چاہا مل گیا پر آج مجھے واقعی ہی احساس ہو رہا ہے میں بہت
لکی ہوں۔ ادھر اس کا یہ حال تھا جیسے اس کے
اندر کوئی بین کر رہا ہو۔ زندگی نے کتنا عجیب
مذاق کیا۔ یہ بات جن لبوں سے سننا چاہتی تھی
کبھی سن نہیں پائی۔۔
تم مجھے پہلی نظر میں ہی اچھی لگی تھی۔ تم اس روز ڈنر میں ایسے بیٹھی تھی۔ تمھارا وہ انداز مجھے اتنا متاثر کر گیا۔ اور میں کھنچا تمہارے پاس چلا آیا۔ مگر تم ایسے مجھے نظر انداز کر کے چلی گئی میرے
اگے پیچھے سب لڑکیاں مجھے کسی میں کوئی کشش نہیں لگی تم نے ایسا کیا کہ میں نے اسی
وقت فیصلہ کر لیا کہ یہی وہ ہے جسے اللہ نے میرے لئے بھیجا ہے۔۔
وہ جب تک کراچی رہا اسے گھومنے لے جاتا شاپنگ کرواتا
اگر اس کے گفٹ سے وہ کچھ پہن لیتی ایسے خوش ہوتا جیسے اسے خزانہ مل گیا۔ اس نے جاتے ہوئے اس سے کہا میں سب کام جلدی مکمل
کر کے پھر شادی کے لئے آؤں گا تاکہ ہم دنیا گھومے اور پیچھے کام کی فکر نہ ہو اس نے
بہت قیمتی نیکلس اسے پہناتے ہوئے سب کہا۔ اس
نے تیمور سے اپنی جاب کو ذکر کیا اسے کوئی اعتراض نہیں تھا مگر پھوپھو ناراض ہوئی۔ میری ہونے والی بہو ٹکے ٹکے کی نوکری کرے۔ جیتنی تمہیں وہ تنخواہ دیں گے اس سے دوگنی تو میں
اپنے نوکر کو دیتی ہوں۔ جیتنے پیسے چاہیئے
ہم سے لے لو۔ ماں کی باتوں کی ہر بار تیمور
نے آئلہ سے معافی مانگی۔ میں وعدہ کرتا ہوں
شادی کے بعد جو بھی کرنا چاہو گئی میں پورا ساتھ دوں گا۔۔ ۔ وہ پھوپھو کی باتوں سے ہرٹ ہوئی تھی کہ نہیں مگر
اس انسان کے انداز سے خود پر شرمندہ تھی کے اتنے اچھے انسان سے وہ منافقت کر رہی تھی۔۔
پھوپھو کا اعلیٰ دماغ اور ان کا گھر اسے ڈربے کی
طرح لگتا جب تک پاکستان رہی آئلہ کی زندگی عذاب میں کی۔ یہ کیوں پہنا یہ اتنی ہلکی جیولری کیوں استعمال
کی کپڑے اس کلر کے کیوں پہنے ہماری بہو ہو اب ہمارے جیسی بنو۔ فلاں سے اردو میں کیوں بات کی۔ وغیرہ وغیرہ۔
وہ شاید بیٹے کی ضد سے مجبور تھی ورنہ عام سی لڑکی کو اپنے گھر کی اکلوتی بہو
کا اعزاز دیتی۔ لندن جا کر بھی تیمور میں کوئی
تبدیلی نہیں آئی ویسے فون کرتا تحائف بھی بھیجتا۔
اب وہ بھی اس سے بہت اچھی طرح سب کرتی۔
چھ ماہ بعد آئلہ کی سالگرہ تھی تیمور نے خاص طریقے سے منانے کا سوچا اور اچانک
پاکستان آ کر سب کو سرپرائز دے دیا۔ لیلی اور
دانش چچی کی طبعیت خراب کی وجہ سے آئے ہوئے تھے تیمور کے آنے پر اسے چھیڑنے لگے۔۔
تم نے کیا جادو کیا اس پر مجھے بھی بتاؤ دانش پر
کروں یہ تو ساتھ رہ کر بھی میری سالگرہ بھول جاتا ہے۔ یاد آ جائے تو احسان کر کے گفت سے نوازا جاتا ہے۔ تیمور بہت مصروف ہو کر بھی تین دن کے لئے آیا تھا۔ اور آج اس کو واپس جانا تھا۔ اور تیمور اس کو ایک سیمینار میں لے گیا اس کا کوئی
دل نہیں تھا مگر تیمور کو خوش کرنے کے لئے اس کے ساتھ چلی گئی وہاں ایسی باتیں کے اس
کا دم گھٹتا محسوس ہوا اس نے تیمور سے کہا میں تھوڑا باہر جانا چاہتی ہوں اجازت ملنے
کی دیر تھی۔۔ وہاں سے بھاگ نکلی۔ ادھر اُدھر ٹہلنے لگی۔۔
سامنے آتے شخص کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی اس سے نظریں
چرا کر جانا چاہتی تھی وہاں سے مگر قدم رک گئے ایک ہی لمحے میں وہ بھی اس کے سامنے
تھا۔ وہ اسے دیکھ کر بے حد خوش لگ رہا تھا۔ صرف تمہاری وجہ سے روز بی بی سی دیکھتا ہوں کہ شاید
محترمہ نے کوئی تیر مارا ہو مگر افسوس۔۔
وہ پتہ نہیں کس بات پر بہت خوش لگ رہا تھا۔ کچھ تو بولو یہی کہہ دو کہ میں نے تمیں پہچانا نہیں۔ وہ بمشکل بولی۔
کیسے ہیں آپ؟ وہ اس کے فارمل انداز پر حیرت سے بولا۔
میں تو خیر ٹھیک ہی ہوں تم اپنی سناؤ اس کے جواب
سے پہلے ہی بولا۔ میرا خیال ہے کہیں بیٹھ کر
بات کر لیتے ہیں۔ اور چلنے کے لئے قدم یوں
بڑھائے جیسے اسے یقین تھا وہ ساتھ چل پڑے گی۔۔
وہ اپنے آپ کو اس کے ساتھ جانے سے روکنا چاہتی تھی
مگر اس کے قدم خود بخود اس کے پیچھے چل پڑے۔
اسے سست چلتا دیکھ کر وہ بھی آہستہ چلنے لگا۔ پھر ایک جگہ اس بیٹھنے کا بولا وہ بیٹھ گئی۔۔
وہ بہت ایکسائیٹڈ لگ رہا تھا زمین کی سطح کو گھورتے
ہوئے بولا کے اب پتہ چلا دنیا اتنی وسیع نہیں کہ جو کھو جائے پھر ملے نہ۔۔
تمہیں یقین تھا ہم کبھی دوبارہ ملیں گے۔ وہ عجیب باتیں کر رہا تھا اپنے ملنے پر اسے خوش
دیکھ کر تعجب تھا کچھ دیر جواب نہ ملنے پر خود ہی بولا۔ تمہیں نہیں لگتا ہم فیلمی انداز میں اچانک مل جاتے
ہیں۔ میں نے تو اب سوچ لیا فیلموں کا اب مذاق
نہیں اڑاوں گا وہ اپنی بات پر خود ہی ہنسا۔
وہ جواب میں مسکرا بھی نہ سکی۔۔
وہ اسے خاموش دیکھ کر خاموش ہو کر بولا۔۔
دو سال وقت اتنا طویل نہیں ہوتا کہ کوئی پورے کا
پورا بدل جائے مگر تم مجھے بہت بدلی لگ رہی ہو۔
ارے لڑکی کچھ تو بولو۔ اتنی دیر سے
میں ہی بولے جا رہا ہوں۔ وہ خود کو سنبھالتی
ہوئی بولی۔۔
آپ یہاں کیسے آئے کوئی مہم تھی۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا ابھی روٹھے انداز میں بولے گی
میرا نام لڑکی نہیں آئلہ ہے۔ اس کے غیر متوقع
جواب پر وہ کچھ چپ بیٹھا رہا۔ کافی دیر بعد
گم صم لہجے میں بولا مہم ہی سمجھ لو۔ وہ اب
کچھ سرد پڑ گیا تھا۔ آئلہ تمہیں مجھ سے مل
کے کوئی خوشی نہیں ہوئی وہ اس کے تاثرات سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ جیسے وہ خوش ہونا بھی چاہتی ہے اور نہیں بھی۔ جیسے کوئی بات کوئی چیز اسے روک رہی ہو۔ وہ اس کا چہرہ آسانی سے پڑھ لیا کرتا تھا اس کا
چہرہ سچا منافقت سے پاک تھا۔ مگر آج حیران
کر رہی تھی ایسے کر کے۔ میں آپ سے مل کر خوش
کیوں نہیں ہوں گی آپ تو میرے محسن ہیں۔ آپ
کے بہت احسانات ہیں مجھ پر۔ وہ اوپر دیکھو
کر بات نہیں کر رہی تھی اپنی آنکھوں کا بھید نہیں دینا چاہتی تھی۔ تم مجھ سے ناراض ہو نا۔ کتنا سمجھایا تھا پیٹر نے مجھے وہ دوست میرا تھا
فیور تمہاری کرتا تھا۔ پتہ نہیں وہ کس غلطی
کا اعتراف کر رہا تھا۔۔ ۔ آئلہ مجھے اپنی خوش
قسمتی پر یقین نہیں آ رہا۔ میں سوچ بھی نہیں
سکتا تھا ہم پھر کبھی ملیں گے۔ اپنے خیال سے
میں نے تمہیں ہمیشہ کے لئے کھو دیا تھا۔ جب
میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا تمہاری ناراض اور شکایت کرتی نظریں میرے ساتھ ہی تھی۔ ان نظروں نے ہمیشہ میرا پیچھا کیا۔ وہ جیسے پتہ نہیں کون سی زبان بول رہا تھا جیسے
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ مگر اسے اچانک محسوس
ہوا اس کے ہاتھ میں پہنی قیمتی انگوٹھی اسے چبھنے لگی ہے۔ اپنی کیفیت سے گھبرا کر وہ کچھ کہنا چاہتی تھی کہ
وہ بول پڑا۔۔
کچھ مت کہو۔
صرف مجھے سنو۔ میں تم سے سچ بولنا چاہتا
ہوں۔ صرف تمہارے ساتھ بولنا چاہتا ہوں جو میرے
دل میں ہے۔ مجھے یہ بات قبول کرنے میں کوئی
عار نہیں ہے تم دنیا کی پہلی لڑکی ہو جو میرے دل کے دروازے پار کر گئی وہاں منع کا
بورڈ بھی نظر انداز کر میرے دل میں داخل ہو گئی اور میں تمہیں کبھی دل سے نکال نہیں
پایا۔ میں ایک کمزور سی لڑکی سے ہار گیا۔ تمہیں یاد ہے نا مجھے ہارنے سے نفرت ہے۔ میں تم سے ہار گیا۔ مجھے نہیں معلوم تم مجھے کب پہلی بار اچھی لگی۔ شاید تب جب بہت بے چینی سے میرا انتظار کر رہی تھی
میں آیا تو بولی شکر آپ آ گئے۔ میں بہت پریشان
ہو گئی تھی یا شاید اس وقت جب لڑ کر خیمے سے نکل کر پتھروں پر بیٹھ کر بد دعا دے رہی
تھی۔ مگر اتنا تو مجھے پتہ تھا کہ میں اپنی
عادت کے خلاف تم پر بہت رعایت برت رہا ہوں۔
مگر یہ بات قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔
مجھے لگا شاید ماحول کا اثر ہے کہ میں تم میں اتنی دلچسپی لے رہا ہوں۔ اس کے منہ سے یہ باتیں سن کے وہ کچھ دیر کے لئے
سب بھول گئی تھی۔ اپنی انگلی میں موجودہ انگوٹھی
بھی اسے یاد نہ رہی۔ بس سر جھکائے اسے سنتی
رہی۔۔
وہ لوگ جو تمہیں رات تنگ کر رہے تھے دل تھا ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں ٹھیک
ہے تمہاری حفاظت کی تھی مگر میرا رویہ محض ذمہ داری والا نہیں تھا میری کیفیت نے مجھے
خود سے خفا کر دیا تھا اسی لیے میں تمہیں جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اپنی اس کیفیت سے چھٹکارہ پانا چاہتا تھا۔ مجھے لگا وقتی ابال ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ختم
ہو جائے گا۔۔
مگر تم سے دور جا کے جانا وہ بزدل اور ڈرپوک لڑکی
میرے ہاتھ سے تھپڑ کھا کر میرے ہی گلے لگ کے روتی تھی۔ اسے میں کبھی بھی بھولا نہیں سکا۔ خود سے بہت جنگ کرتا رہا آخر ہار کر تمہاری تلاش
میں یہاں آیا تو لگا کہ میں نے تمہیں ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے جن حرکتوں کو میں چیپ
سمجھتا تھا خود کہاں کہاں تمہیں نہیں ڈھونڈا۔
تم نے کتنی بار مجھے اپنے بارے میں بتانے کی کوشش کی میں نے سننا گوارا نہیں
کیا وہ بات بھی میرے لیے بہت تکلیف کا باعث بنی۔
مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ پاکستان میں کہاں رہتی ہو۔ اس درخت کو گھنٹوں بیٹھ کر دیکھتا رہتا جہاں میرا
اور تمہارا نام لکھا تھا۔ آئلہ کیا وہ دن زندگی
میں واپس آ سکتے ہیں تم کافی بنا کے لاؤ ہم جھیل کنارے بیٹھے ہوں۔ وہ وقت بہت خوبصورت تھا کہیں کھو گیا۔ وہ جیسے کسی خواب سے جاگی تھی ایک دم سے اٹھ کھڑی
ہوئی۔ جیسے بھاگ جانا چاہتی ہے۔ پلیز بیٹھ جاؤ آئلہ میری پوری بات سن لو۔ میں تمہیں مجبور نہیں کر رہا مگر کم سے کم میری
بات تو سن سکتی ہو نا۔ میں نے آج تک اپنا آپ
کسی کے سامنے نہیں کھولا آج تم سے سب کہنا چاہتا ہوں پلیز سن لو۔ وہ عاجزی سے بول رہا تھا وہ پھر سے بیٹھ گئی۔ محبتوں پر سے میرا دل اٹھ گیا تھا کے یہ بکواس ہے
سب ان کا دنیا میں کوئی وجود نہیں۔ ماں باپ
نے محبت سے یقین اٹھا دیا تھا۔ انہوں نے زمانے
سے ٹکر لے کر شادی کی تھی مگر میں نے ہوش سنبھالا تو کہیں محبت نظر نہیں آئی۔ جاہلوں کی طرح لڑتے دیکھا۔ جب میں سولہ سال کا ہوا تو دونوں نے علیحدگی اختیار
کر لی۔ اور اپنی اپنی نئی دنیا آباد کر لی
اور میں اکیلا رہ گیا۔ باپ امریکہ میں نیو
بیوی بچوں میں مصروف مجھے پڑھنے کے پیسے بھج دیتے ماں کو تو وقت نہیں ملا۔ میں ساری دنیا میں اکیلا آہستہ آہستہ میں بدل گیا
تمہیں اتنی شدت سے رد کر کے بے کار کی خود سے ضد کی۔ مجھے آج قدرت نے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کا موقع
دیا تو سب کہہ دینا چاہتا ہوں۔ آئلہ میری زندگی
میں آ جاؤ ہم بہت خوش رہیں گے۔ میں سڈنی میں
چھوٹا سا کاروبار کرتا ہوں اپنا مکان ہے میرے مکان کو گھر بنا دو۔۔
اتنی سی بات کہنے میں اتنی دیر لگا دی جب سب ختم
ہو گیا۔ اب آئے ہو۔ وہ چپ اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو دیکھ رہا تھا۔۔
وہ اسے سب بتانے والی تھی آنکھیں خشک کر کے دیکھا
تو تیمور اس کی طرف آتا نظر آیا۔ اسے نہیں
پتہ تھا وہ کہاں سے غلط ہے کس جگہ اس سے بھول ہوئی۔ مگر اس وقت وہ خود کو ان دونوں کا مجرم سمجھ رہی
تھی۔۔
تمہاری فکر میں تو مجھ سے وہاں تقریر بھی نہیں سننے
ہوئی۔ پھر اچانک اس کی نظر اس شخص پر پڑی جیسے
آئلہ کی فکر میں دیکھ نہیں پایا تھا۔ ہیلو۔ اس سے بہت خوش دلی سے ملا کے آئلہ کا دوست یا کلاس
فیلو ہو گا۔ اتنی دیر میں لیلی اور دانش بھی
آ گئے۔ لیلی آتے ہی شروع ہو گئی۔ تمہاری وجہ سے ہم بھی سن نہیں سکے کے محترمہ بور
ہو رہی ہو گی۔ جب کہ دانش اس اجنبی کو دیکھ
رہا تھا لیلی نے بھی دانش کی نظروں کا تعاقب کیا۔
قیامت کی گھڑی آخر آ ہی گئی خود کو حوصلہ دیتی مسکرائی بولی۔۔
یہ ہارون ہیں۔
اور یہ میری کزن ہیں لیلی۔ یہ ان کے
شوہر دانش اور یہ میرے فیانسی تیمور لیلی نے بے ساختگی سے دیکھا جس شخص کا روشن چہرہ
ایک دم بجھ گیا۔ اور وہ جو اس کی پیاری دوست
تھی۔ کون کہتا ہے یہ لڑکی بزدل ہے۔ آؤ دیکھو اس سے بہادر کوئی ہو نہیں سکتا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ بظاہر مسکراتی لڑکی کا
دل اس وقت دھاڑیں مار کر رو رہا ہے۔ اس کی
جگہ میں ہوتی تو حوصلہ ہار جاتی۔ آئلہ میری
جان اس وقت زندگی کے پل صراط کا سفر طے کر رہی ہے۔ تیمور ہارون سے بہت خوش دلی سے مخاطب تھا۔ اور ہارون صاحب آپ کی کیا مصروفیات ہیں۔ ؟
اگر وہ کمزور لڑکی بہادری کا مظاہرہ کر سکتی تھی
تو یہ بہادر آدمی تھا مسکراتے ہوئے بولا۔
مصروفیات کیا ہیں سڈنی میں ایک فرم چلاتا ہوں آرٹسٹ
آدمی ہوں جو زہین میں آتا ہے پیپر پر اتار لیتا ہوں اس پر تیمور اور دانش ہنس پڑے۔ آپ آئلہ کے دوست ہیں تو ہمارے بھی ہوئے۔ بس یہ بات ابھی طے ہو گئی ہے کہ ہم لوگ شادی کے
بعد آپ کے پاس سڈنی آئیں گے۔
مجھے ویسے بھی ساحل بہت پسند ہے ہم گھر بھی وہی
بنائیں گے اس کا نقشہ آپ بنا کر دو گے منظور ہے۔
بالکل منظور جناب۔
لیلی اس شخص کے صبر کو دیکھ رہی تھی۔ جب کہ آئلہ ان کی آرام سے باتیں سن رہی تھی۔ کچھ دیر باتیں کر کے وہ بڑی گرم جوشی سے کھڑا ہو
کر خدا حافظ کہنے لگا۔ ایک آخری نگاہ اس پر
ڈالی جو شاید اس کا تھا ہی نہیں اور وہ وہاں سے چلا گیا۔ اس نے اسے جاتے دیکھنے کی زحمت کیے بغیر تیمور سے
باتیں کرنے لیلی کو اچانک کوئی کام یاد آیا وہ وہاں سے چلی گئی۔ کچھ دیر میں آئی تو وہ کسی بات پر سب ہنس رہے تھے۔ رات تیمور کو ایئر پورٹ چھوڑنے کے بعد لیلی اس کے
ساتھ ہی آ گئی۔ اور اس کے کمرے میں آ کر جو
بول رہی تھی وہ قابلِ فہم تھا۔۔
لیلی تم کس قسم کی باتیں کر رہی ہو وہ آخر تنگ آ
کر بولی۔۔
آئلہ وہ تمہیں بہت چاہتا ہے اس کی آنکھوں میں تمہارے
لیے بے لوث محبت دیکھی ہے۔ اسے مایوس مت لوٹاؤ
اسے روک لو۔ اس کی بات سن کر آئلہ آپے سے باہر
ہو گئی۔ وہ مجھے بہت چاہتا ہے میں اس کے ساتھ
ہو لوں کل کوئی اور مجھ سے محبت کے دعوے کرے تو اس کو چھوڑ کر اس کے ساتھ ہو لوں۔
کیوں خود کو اذیت دے رہی ہو تیمور بہت آزاد خیال
ہے میں اس سے بات کروں گی۔ تمہارے اوپر کوئی
آنچ نہیں آئے گی۔ میں سب ہنڈل کر لو گی دیکھ
زندگی ایک بار ملتی ہے۔ وہ اتنی دور سے تمہاری
تلاش میں آیا تھا میں اس وقت اسی کے پیچھے گئی تھی۔ وہ کتنا تھکا نڈھال لگ رہا تھا میں اس کا فون نمبر
اور اڈریس لے آئی ہوں۔ تم دیکھنا سب ٹھیک ہو
جائے گا۔ آئلہ نے لیلی کا ہاتھ بہت نفرت سے
جھٹک دیا۔ تم میری دوست نہ ہوتی تو اس بات
پر تمہیں تھپڑ مار دیتی۔ دوبارہ مجھ سے ایسی
بات مت کرنا بات اگر محبت کی ہے تو تیمور بھی بہت کرتا ہے۔ اس رستے پر تمہارے سمجھانے پر آئی تھی اب پلٹنے
کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ کوئی یورپ نہیں
جہاں شادی مذاق ہوتی ہے۔ آج ایک سے کل دوسرے
سے۔ میں مشرقی لڑکی ہوں جس کے ساتھ باندھ گئی
مرتے دم تک نبھاؤں گی۔۔
٭٭
تو میں نے تمہیں کھو دیا ہمیشہ کے لئے مجھ جیسے
لوگوں کا یہی انجام ہونا چاہیے۔ جو درست وقت
پر درست بات نہیں کر پائے۔ کیوں میں نے زندگی
کے سب سے اہم معاملے میں غفلت کی۔ میرا خیال
تھا درد دل پر دستک دیتی ساری زندگی میرے انتظار میں رہے گی۔۔ ۔
آج سوچوں تو دل میں آتا ہے میں ہی ایسا تھا حالات
نے مجھے ایسا کر دیا ماما بابا کی وجہ سے محبتوں سے دل اٹھ چکا تھا اتنی اچھی لڑکی
کو زد کرتا رہا بری طرح۔ ماں باپ نے تو اپنے
زندگی نئے سرے سے شروع کر دی میں ساری زندگی پیار کو ترستا رہا والدین کو بھی خیال
نہ آیا سولہ سال کا بچہ گھر بکھرنے پر ٹوٹ چکا ہے وہ اسے بھول ہی گئے۔ میں تنہا رہ گیا۔ ساری محبتوں سے نفرت کر کے ہوسٹل میں بے زار زندگی
گزاری۔ یہی سوچتا کے کبھی شادی کرنی پڑی تو
ضرورت کے لیے رشتہ ہو گا محبت کا گزر بھی نہیں ہو گا۔ اسی لئے اتنی اچھی لڑکی کو بری طرح رد کرتا رہا۔۔ کیا پتہ تھا ایسا کر کے خود کو دکھی کر لوں گا۔ اور تیمور خوش بختی کا تاج سر سجا لیا۔
اللہ کرے تمہیں کبھی بھولے سے بھی میری یاد نہ آئے۔ تم بھول جاؤ کے دنیا میں کوئی ہارون بھی تھا جو
شاید اپنی زندگی سے بڑھ کر چاہتا ہے۔۔
٭٭
تیمور اور وہ جیولری پسند کر کے ڈینر کرنے آ گئے۔ تیمور بہت خوش تھا بہت باتیں کرنا چاہتا تھا اسی
لئے وہاں کافی دیر لگ گئی سردیوں میں رات 10 بھی آدھی رات ہوتی ہے۔۔ شادی کی تاریخ طے ہو چکی تھی اسی لیے ان کا ساتھ
جیولری پسند کرنے گئی تھی۔ سردیوں کی راتیں
اوپر سے موسلا دھار بارش۔ روڈ پر سناٹا۔ گاڑی میں ہلکا سا میوزک اور مستقبل کے خواب دکھائے
جا رہے تھے۔ آئلہ مسکرا رہی تھی۔ کے اچانک جھٹکے سے گاڑی روکی تو اس کا سر ڈیش بوڑ
سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ سامنے کا منظر دیکھ
کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔
تین مسلح نقاب پوش جنہوں نے روڈ پر شاید کوئی رکاوٹ
کھڑی کی ان کی گاڑی روکنے پر مجبور کیا۔ ہاتھوں
میں گن لیے بڑے سفاک لہجے میں انہیں اترنے کا کہا۔ وہ دونوں گاڑی سے باہر آ گئے۔ تیمور سے گاڑی کی چابیاں چھینیں اور اپنے ساتھیوں
سے بولا۔۔
چلو جلدی بیٹھو۔ اس کا لہجہ بہت سرد تھا۔ اس کی بات سن کر ایک آگے بڑھا تیمور کے ساتھ کھڑی
کو بہت غور سے دیکھا۔ اپنے ساتھیوں سے بولا۔۔
یار خالی کیا جائیں یہ سامی بڑی تگڑی لگ رہی ہے۔ چیز بری نہیں ہے۔ کیا خیال ہے تاوان کا بھی کوئی چکر چلا لیں۔ اس نے آئلہ کو گن سے اشارہ کرتے ہوئے بولا چلو گاڑی
میں بیٹھو۔ آئلہ نے تیمور کی طرف مدد کے لیے
دیکھا۔ تو لاشعوری طور پر وہ پیچھے ہٹ گیا۔ وہ خود خوف سے کانپ رہا تھا۔ آئلہ کے دل پر جیسے بجلی گری آئلہ بھاگ کر تیمور
کی طرف جانا چاہتی تھی مگر انہوں نے دھکا دے کر اسے گاڑی میں بٹھا دیا۔ وہ مچل مچل کر خود کو چھوڑا رہی تھی اور تیمور خاموشی
سے سب دیکھ رہا تھا۔ ان میں سے ایک نے تیمور
کو ایک پنچ مارا وہ گر گیا۔ اگر خیریت چاہتے
ہو تو فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ اگر مرنے کا
اتنا شوق ہے اس آدمی نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
پھر جو آئلہ کا رکھوالا تھا وہ اسے دیکھے بنا اندھا دھند بھاگنے لگا۔ وہ کچھ دیر پہلے کانپ رہی تھی مگر اتنی تسلی تھی
کہ میرا محافظ ساتھ ہے۔ اسے جاتا دیکھ کر گنگ
ہو گئی۔ اگلے ہی پل نہ جانے اس میں اتنی طاقت
کہاں سے آ گئی۔ اپنی پوری قوت سے اسے دھکا
دے کر آزاد ہو گئی۔ وہ شاید اس کے نازک سراپے
سے بہادری کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ وہ سوچ
رہا ہو گا مرد اتنا ڈرپوک تھا تو اس کا کیا حال ہو گا اس لیے مار کھا گیا اور وہ پوری
طاقت سے بھاگنے لگی۔ وہ شاید اسے مارنا نہیں
چاہتے تھے۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر اس کے پیچھے
آنے لگے۔ وہ ایک تنگ سی گلی میں گھس گئی۔ قدرت اس پر شاید مہربان تھی۔ اس وقت وہ تمام علاقہ بجلی جانے کی وجہ سے تاریک
تھا۔۔
وہ اسے اس گلی مڑتا نہیں دیکھ سکے یا پھر خدا نے
اس لمحے ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا تھا۔
وہ گاڑی آگے لے گئے۔ اندھیری گلی میں
ایک درخت کے نیچے سخت بارش میں پتہ نہیں کتنی دیر وہاں چھپی رہی وہ جا چکے تھے مگر
وہ احتیاطاً نہیں نکلی کہ کہیں ابھی تک میری گھات میں نہ بیٹھے ہوں جب بہت دیر کسی
گاڑی کی آواز نہیں آئی تو دوڑتے ہوئے اس گلی سے باہر آئی۔ پورا علاقہ اب بھی تاریکی میں تھا۔ اندھیرے میں اکیلی سڑک پر زور سے بجلی چمکی ڈر سے
اس کی چیخ نکل گئی۔ پھر اس نے دیکھا ایک شخص
اس کی طرف بڑھ کر آیا اسے مشکلوں سے بانہوں میں لے کر آنچل سر پر ڈالا۔ بہت مشکل سے خود پر ضبط کیا دل تو چاہتا تھا ان
کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔ اور وہ سنسان سڑک پر
پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ رات کے بارہ بج گئے
تھے بھابھی ان کے انتظار میں جاگ رہی تھی وہ پریشان تھی کہ اتنے لیٹ کیوں ہو گئے۔ اتنے میں گیٹ پر بیل نے انہیں اطمینان دلایا آئلہ
اور تیمور کو سنانے کے موڈ میں گیٹ کھولا تو اکیلی بارش میں بھیگی باہر کھڑی تھی۔ کیا ہوا تیمور کہاں ہے؟
وہ اس کے اس حلیے سے خوفزدہ ہو کر پوچھنے لگی۔ وہ کچھ بولے بغیر اندر داخل ہو گئی۔ آئلہ کچھ بتاتی کیوں نہیں میرا پریشانی سے برا حال
ہو رہا تھا۔ شکر امی ابو کی آنکھ نہیں کھولی
ورنہ اب تک نہ آنے پر مجھ سے بھی زیادہ پریشان ہوتے۔۔ وہ بت کی طرح کھڑی بھابی نہ جانے کیا کیا پوچھ رہی
تھی۔ بھابھی نے چیخ کر پوچھا کہ تمہارے ساتھ
کیا ہوا بتاؤ میرا نروس بریک ڈاون ہو جائے گا۔
آئلہ نے انہیں چیختے سنا تو اپنے حواس میں آنے لگی اور بڑے سکون سے ہاتھ سے
ہیرے کی انگوٹھی اتار کر بھابھی کے ہاتھ رکھ دی۔
بھابھی اسے پھوپھو کے پاس بھجوا دیں۔
پھر ان کے مزید پوچھنے پر اپنے کمرے میں گھس گئی۔ بھابھی وہیں گم صم کھڑی رہی۔ پھر وہ اس کے ساتھ بات کے لئے اس کے کمرے میں آ
گئی۔ تو انہوں نے سنا کسی سے فون پر کہہ رہی
تھی۔ ہارون میں تمہاری بانہوں میں آنا چاہتی
ہوں زندگی بھر کے لئے۔ میرے محافظ بن جاؤ دیکھو
اس بار آنے میں دیر مت کرنا۔ میں تمہارا انتظار
کر رہی ہوں۔ فون رکھ کر مڑی تو بھابھی سخت
ناراضگی سے کھڑی تھی۔ وہ اطمینان سے ان کی
طرف بڑھی اپنے فیصلے پر نہ پچھتاوا تھا نہ شرمندگی یہ فیصلہ محبت بھرے دل کا تھا جو
تڑپتا مچلتا آخر کار دنیا کی رسم و رواج سے ٹکرا گیا۔
یہ فیصلہ اس لڑکی کا نہیں تھا جو اپنی خواہش مرضی
کرنے والی تھی یہ اس لڑکی کا فیصلہ تھا جو مشرق کی بیٹی تھی دولت گاڑی نہیں اسے عزت
تحفظ درکار تھی۔ جو اس کا سائبان ہو وہ خود
پر سب برداشت کر کے اس پر آنچ نہیں آنے دے۔
جو کڑی دھوپ میں اس کا سایہ دار شجر بنے۔
جو اسے کسی کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دے۔ وہ ایسے شخص کے ساتھ کسی جنگل میں بھی رہنا پڑے
رہ لے گی۔ کسی جھونپڑی میں بھی رہ لے گی مگر
کسی بے غیرت آدمی کا ساتھ اس مشرقی لڑکی کو قبول نہیں۔ وہ اپنے فیصلے پر بہت مطمئن تھی۔ اور اس کا رکھوالا، اس کا سائبان صبح ہوتے ہی آ
گیا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا جیسے جان میں جان آ
گئی ہو۔۔
٭٭٭
ماخذ: کنواس ڈائجسٹ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید