صفحات

تلاش کریں

افسانوی مجموعہ:ٹُک ٹُک دیدم (سعید نقوی)

ماخذ: کتاب ایپ

www.idealideaz.com


فہرست
































سعید نقوی کی افسانہ نگاری۔ نصرت انور





شاعر یا ادیب ایک انسان ہے، وہ باخبر انسان جو خواب دیکھتا ہے۔ اور انہی خوابوں کی ترغیب پر وہ کسی ادب پارے کو تخلیق کرتا ہے۔

سعید نقوی کہانی کاروں اور شاعروں کی صف میں داخل ہوا ہے، پیشے کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹری کے اس ہنر کے سبب اس کا واسطہ بہت سے لوگوں سے پڑتا ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے ساتھ اس کا تعلق نہ صرف خارجی ہے بلکہ بہت حد تک داخلی بھی ہوتا ہے۔ اس طرح اس کو ہر فرد کو اس کے حالات کے مطابق جاننے کا تجربہ حاصل ہوتا ہے، وہ ان تجربات کو اپنے اندر اتارتا رہتا ہے، اور پھر وہ اپنے فہم و بصیرت سے کہانی باہر نکالتا ہے۔

چیخوف نے کہا تھا کہ میڈیکل کی مشق نے اس کی بصیرت میں بہت اضافہ کیا اور اس چیز نے اس کو لکھنے میں مدد دی۔ اس کو مردوں اور عورتوں کے اندر جھانکنے سے جو علم و ادراک حاصل ہوا اس کی بدولت وہ subjectivity (موضوعیت) کے گڑھے میں گرنے سے بچ گیا۔

آج کی کہانی میں پہلے کی نسبت زیادہ موضوعات پر تجربات کئے جا رہے ہیں۔

Marinetti (اطالوی) نے جب مستقبلیت (Futurism) کا ضابطہ پیش کیا تو اس کی ایک شق میں لکھنے والوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے اندر کے جوش، لگن، حرارت اور تپش کی شاہ خرچی کریں کہ اس سے پیدا شدہ ولو، پہلے سے موجود عناصر کو صیقل کر کے تابناک بنا دے۔

سعید بھی اپنی فکری استعداد میں ایک ولولہ انگیز تازگی لے کر کہانی کے افق پر ابھرا ہے۔ اور لمحہ موجود میں موجود اپنے حصے کی توانائی کو بروئے کار لا کر ان سوزش زدہ مسائل کو کہانیوں کا موضوع بنایا ہے جس سے عہدِ حاضر گزر رہا ہے۔ اس کی ہر کہانی کسی نہ کسی سماجی مسئلے کو منعکس کرتی ہے۔

ایک سچا کہانی کار سماجی انصاف کی جستجو کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سعید کی کہانی کی سطح کو چھو کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ لکھنے والے کا رویہ انسانیت کی طرف دردمند ہے۔

زیادہ تر کہانیاں علامتی ہیں۔ علامت ہمیشہ قاری کے سوال پوچھنے پر ہی اپنا دروازہ کھولتی ہے۔ سوال کی کمند جس قدر بلند ہو گی، علامت کا جلوہ یا نظارہ اتنا ہی واضح اور شفاف ہو گا۔ سعید کے کرداروں کی نفسیات اور ان کے رویوں کے اظہار سے کہانی زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے۔

سعید کی کہانی ‘‘جنگل کا قانون‘‘ ایک علامتی کہانی ہے۔ جس میں مصنف نے جنگل کے سماج کے پیکر میں انسانوں کا سماج دکھایا ہے۔ جنگل کی مورنی، انسانوں کی دنیا کی عورت ہے۔ وہ عورت جو صدیاں گزرنے پر بھی زمین کے اوپر ہونے کے باوجود زیرِ زمین رکھی جاتی ہے، تاکہ روشنی سے دور رہے۔ مورنی کو جنگل کے جانور بے عزت کرتے ہیں۔ مگر عورت کی بے حرمتی تو اشرف المخلوقات کے ہاتھوں روزانہ ہو تی ہے۔ کبھی ننگا کر کے جلوس نکالنا، کبھی گینگ ریپ تو کبھی زندہ دفنانے کا بہیمانہ عمل۔ یہ سب کام طاقت کے زور پر انجام پاتے ہیں، اتنی طاقت کہ سرکار اور عدالتیں بھی مجبور ہیں۔

قاری کو کہانی میں مورنی کی دہلا دینے والی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ مگر وہ خاموش چیخیں زیادہ دردناک اور بلند ہیں اور تا دیر سنائی دیتی ہیں، جو وہ اپنوں سے رد کئے جانے پر چپ چاپ خود کو موت کے حوالے کر کے پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔

سمرسٹ ماہم نے اپنی کہانیوں کی کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ موپاساں پڑھنے والے کے دماغ کو تیار کرنے کے لئے کہانی کو ہمیشہ ایک تعارف کے ساتھ شروع کرتا ہے، جب کہ چیخوف ایک دم حقائق سے شروع کر دیتا ہے۔ سعید اپنے شعور کے جس تہہ خانے کی ورکشاپ میں ایک کہانی تیار کرتا ہے وہ اس مدھم روشنی میں دھیرے دھیرے باہر نہیں آتی، بلکہ اچانک چھم سے خود کو فاش کر دیتی ہے۔ گو ایسا کرنا افسانہ نگار کے لئے ایک آزمائش ہوتی ہے کہ آیا وہ قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھ سکے گا یا نہیں۔ لیکن سعید بڑی فنکارانہ مہارت سے کہانی کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں میں عادتیں، رویے، احساسات، بولنے کا طریقہ جس ہنر مندی سے بھرتا ہے، اس سے وہ قاری کو اپنی جانب بلا لیتا ہے۔

سعید حال کے زیاں پر کڑھتا ہے۔ لمحوں کے بے ثمر گزر جانے پر شاکی ہے۔ ‘‘ٹک ٹک دیدم‘‘ اسی احساس کا اظہار ہے۔ کہانی میں شہر کا گھنٹا رک جاتا ہے۔ کاروبارِ زندگی رک جاتا ہے۔ کلاک کا رک جانا جمود کی علامت ہے۔ امریکی شاعر W.C.W کہتا ہے کہ ‘‘وقت حرکت نہیں کرتا، صرف حماقت اور جہالت چلتی ہے ‘‘ ۔ مصنف اشارے کر رہا ہے کہ ہمارے معاشرے کو آمادۂ عمل کرنے والی کوئی پر جوش طاقت ملک میں موجود نہیں۔ ملک مفاد پرست عناصر کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حال کو بنا استعمال کئے ماضی میں گرتا دیکھ کر پریشان ہے کہ جس جگہ خود فریبی کی شکار قومیں نیستی بنتی ہوں، من و سلویٰ کے انتظار میں تسبیح چلتی ہو، تعصبات کی ہوا ہو، ملک میں جمہوریت کی جگہ بوٹ والوں کا راج ہو وہاں وقت رک جاتا ہے۔ سوئیاں تب چلتی ہیں جب لوگ کام کی لگن میں جد و جہد کرتے ہیں، کہانی میں عمدہ اور شستہ نثر نگاری کے نمونے ملتے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے ‘‘جوتوں کی آوازیں اور سنگینوں کے سر کیا نظر آئے، تبدیلیِ اوقات کے امکانات معدوم ہو گئے۔ بھاری جوتوں، باریش جنت کے طلب گاروں اور وقت کے آگے بھاگتے کمشنروں کے درمیان منجمد وقت کو دوبارہ چلانے کی کیا امید رہ گئی تھی؟‘‘

‘‘دامِ آگہی‘‘ امریکہ بہادر کی عراق اور افغانستان پر تھوپی ہوئی خونی جنگ کی کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے۔ دنیا کی اس چھ فیصدی سپر طاقت کے عزائم کے شکار لاکھوں انسانوں کی کہانیوں میں سے یہ کہانی دو امریکی فوجی جوانوں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ ڈیوڈ اپنے ملک کی ہلاکت آمیز پالیسی کا نکتہ چیں ہے۔ مگر جم حکومت کا ایک ایسا ملازم ہے جو حکم کا بندہ ہے۔ ایک فوجی چوکی پر تعیناتی کے دوران وہ ایک مقامی کار کے نہ رکنے پر جم ایک بارہ سالہ مسافر بچے کو گولی مار کے ہلاک کر دیتا ہے۔ مصنف یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسانی رویوں میں سب سے طاقتور احساس وہ ہوتا ہے جسے ضمیر کہتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ ہلا دینے والا جرم قتل کا ہوتا ہے۔ قتل کا پچھتاوا سب سے زیادہ قاتل کو ہوتا ہے۔ اس کا جرم اسے خوابوں اور خیالوں میں بھی ڈراتا ہے۔ ‘‘دامِ آگہی‘‘ میں بھی جم تمام وقت اس عذاب میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ وہ عورت کے خود کش حملے میں زخمی ہو کر گھر واپس آتا ہے۔ مگر احساسِ جرم برداشت نہ کرنے کی صورت میں خود کشی کر لیتا ہے۔ امریکی عموماً کسی بڑے مقصد کے لئے فوج میں بھرتی نہیں ہوتے۔ شماریات کے مطابق ۵۲ فیصد تک فوجی جوان خودکشی کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کے بعض جملے بہت اثر انگیز ہیں۔ مثلاً ‘‘مشین گن کی آواز سے سلامتی کا سناٹا ٹوٹ گیا، اور اس کی جگہ آہوں اور سسکیوں نے لے لی۔ بارود کی بو نے انصاف اور رواداری کے حواس مختل کر دئیے۔ ‘‘

ایک اور کہانی ‘‘پرایا جرم‘‘ بہت حساس موضوع پر لکھی گئی ہے۔ کہانی ایک Autistic بچے کی کہانی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں ایسے بچوں کے بارے میں لوگوں کی معلومات بہت ناقص ہیں۔ ایسے بچوں کے ماں باپ ان کو اپنانے میں ہچکچاتے ہیں۔ بلکہ کچھ دہائیوں پہلے تک تو کچھ والدین ایسے بچوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے انہیں مزار وغیرہ پر چھوڑ دیتے تھے۔ ڈاکٹر سعید نے کہانی میں Autistic بچے کی کہانی اس کی اپنی زبانی بیان کی ہے۔ Autisitc بچے اندرونِ ذات میں گم رہتے ہیں اور شاید جتنی دیر جیتے ہیں اپنی ہی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ سعید نے اس کہانی کے کرداروں کے ردِ عمل کو گہرے مشاہدے کے بعد تحریر کیا ہے، مثلاً ‘‘اب پڑوسی ہر سیکنڈ کے بعد دزدیدہ نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگا جیسے مجھ سے خوفزدہ ہو‘‘ ۔ ‘‘مجھے اجنبیوں سے آنکھیں ملانا پسند نہیں ‘‘ ۔ ایک Autisitc بچہ کس حد تک سوچ سکتا ہے کہا نہیں جا سکتا۔ سعید نے بچے کی اپنی دنیا میں اترنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک محنت طلب کام ہے۔ بیک وقت وہ خود کو بچے کی جگہ کھڑا کرتا ہے اور والدین کے احساسات کو بھی محسوس کرتا ہے۔ کسی درد یا دکھ کو آرٹ کی شکل دینا آسان نہیں ہوتا۔ روز افزوں بڑھتے ہوئے اس مسئلے پر قلم اٹھا کر سعید نے ایک اچھا کام کیا ہے۔

کہانی ‘‘بے دخلی‘‘ بھی ایک علامتی کہانی ہے۔ کہانی کا سامنے کا چہرا بظاہر ایک مقروض فرد کا ہے، جو مڈل کلاس غیر ذمہ دار رویے کا مالک اور non productive کردار ہے۔ اور دوسرا کردار قرض دینے والے کا جو طاقت اور سرمائے کی علامت ہے۔ مگر پسِ پردہ ایک مقروض ملک کی کہانی ہے جہاں خرچہ آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ جو ملک اپنی پیداواری صلاحیتوں کو نہیں بڑھاتے وہ بڑی طاقتوں سے مالی امداد لے کر خود کو گروی رکھنے کے مقام پر لے آتے ہیں۔ امریکہ دنیا کی تیس فیصد انرجی کے حقوق قبضائے بیٹھا ہے۔ چھوٹے ملک ان کی بے عملی کے باعث امریکہ کی مٹھی میں ہیں۔ کہانی کا اختتامی جملہ بہت معنی خیز ہے ‘‘گھر اس کا ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے، ورنہ ملکیت بدل جاتی ہے ‘‘ ۔

کہانی ‘‘سخت جانی ہائے تنہائی‘‘ کوئلے کی کان کے حادثے میں کان کنوں کے دب جانے کی کہانی ہے۔ افسانہ نگار نے یقیناً فنی کاری گری سے کان کے اندر اور کان کے باہر کی مشاقانہ تصویر کھینچی ہے۔ کرداروں کے تضادات کو بہت نمایاں کیا ہے۔ نور الدین کا کردار ایک اہم کردار ہے، جس کے اندر عناد بھی ہے اور ہمدردی بھی۔ اس کے اندر قائدانہ صلاحیت بھی ہے مگر اس کے پاس اخلاقیات کو ناپنے کا اپنا ہی پیمانہ ہے۔ کہانی میں جو ہلچل ہے وہ قاری کو اختتام تک مضطرب رکھتی ہے۔ کہانی کا اختتام خوشگوار ہے اور افسانہ نگار نے بڑے لطیف انداز میں بیان کیا ہے ‘‘سوراخ کے ذریعے ایک پرچہ اوپر آتا ہے جس میں درج ہے کہ کچھ دوائیوں کی سخت ضرورت ہے، ساتھ کچھ تاش کے پتے بھیج دو اور یہ سوپ ٹھنڈا ہے اسے گرم کرا کے دوبارہ بھیجو‘‘ ۔

ایک نہایت شگفتہ پیرائے میں لکھی ہوئی بہت بامعنی کہانی ‘‘رعنائی خیال‘‘ ہے۔ یہ ایک مردے کی روح کا عالمِ بالا کے سفر کی روداد ہے۔ یہ کہانی مذہبی ٹھیکیداروں کی دینی تشریحات اور تاویلوں پر ایک طنز ہے۔

Henri Michux (بلجیم) کہتا ہے ‘‘ وہ جو شیطان کو رد کر چکا ہو وہ اپنے فرشتوں سے ہماری جان کھاتا رہتا ہے ‘‘ ۔ سعید کی یہ کہانی بھی یادگار جملوں سے مزین ہے، مثلاً ‘‘پانچ فیصد انتہا پسندی نے پچانوے فیصد میانہ روی کی روح قبض کر رکھی ہے ‘‘ ، یا یہ جملہ دیکھئے کہ فرشتے نے پوچھا ‘‘لکھتے تھے تو کیا پڑھتے نہیں تھے ؟ لکھنے کے لئے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، مجھے اس کی منطق سمجھ نہیں آئی‘‘ ۔ یا یہ کہ ‘‘سیاہ سیاہ ہے اور سفید سفید ہے۔ درمیان کا راستہ دین کا رستہ نہیں ‘‘ ۔ افسانہ نگار جو خواب دیکھتا ہے اپنی حسِ ذکاوت، حسیاتی تجربے اور خیالات سے کہانی کی صورت میں اس خواب کو زندہ کر دیتا ہے۔ Aaron Williamson کہتا ہے کہ صفحے اور آواز کے باہمی عمل سے عبارت اپنے آپ زندہ ہو جاتی ہے۔

سعید کی ایک کہانی ‘‘راہزنِ ایماں ‘‘ فرقوں کے آپسی بعد کا قبرستان میں منظر نامہ ہے۔ جنازے میں شرکت کرنے والوں کی درجہ بندی اور تقسیم کا منظر افسانہ نگار کے مشاہدے کا پتہ دیتا ہے۔ مردے کو سپردِ خاک کرتے وقت، اور مٹی کو مٹی میں ملانے کے بعد بھی لواحقین کے تضادات اپنی جگہ اٹل ہیں۔ کہانی کا دلچسپ حصہ گورکن ہیں جو ہر عقیدے سے مبرا، ہر فرقے کے لوگوں کو دفنائے جا رہے ہیں اور خود گناہ و ثواب کے بوجھ سے آزاد ہیں۔

سعید کی تین کہانیاں انسانی رشتوں کے بارے میں ہیں۔ جہاں کچھ رشتوں کے باہمی تعلقات میں گرم جوشی ہے تو کچھ میں ٹھنڈک اور بے التفاتی۔ کہانی ‘‘دھوپ کی تپش‘‘ باپ بیٹے کی ملاقات کی سادہ سی کہانی ہے۔ مگر قاری کے اندر احساسِ تحفظ کی ایک لہر چھوڑ جاتی ہے۔ قاری خود کو کہانی کے اندر موجود اور ایک دستِ شفقت کے لمس کو محسوس کرتا ہے۔ یہ کہانی پڑھنے سے زیادہ محسوس ہونے والی کہانی ہے۔ مجھے ایک دم ایک چینی شاعر Shikawa Takubuko کی اپنی بیٹی کے بارے میں ایک چھوٹی سی نظم یاد آ گئی:

جانے کیا تھا جس نے اس کو اکسایا

اپنا کھلونا پھینک کے اک جانب

آرام سے میرے پاس وہ آ کر بیٹھ گئی

کہانی کو پڑھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ ماں باپ کی موجودگی جیسے آسمانی سخاوت ہو۔ پوری کہانی تعلق کی خاموش حرارت سے دہکتی ہے۔ پیلے ربن کو درخت سے باندھنا بیٹے کے کسی مسئلے یا الجھن کی علامت ہے۔ اور جس کو والد سے ملاقات کے بعد وہ کھول دیتا ہے۔ گویا باپ کی موجودگی سے ساری تاریکی چھٹ گئی۔ اس کہانی کی بنت بہت خوبصورت ہے اور جملوں کا استعمال جو اس مصنف کا خاصہ ہے ‘‘ بڑھ کر ان سے بغل گیر ہوا تو لگا اپنے آپ سے مل رہا ہوں ‘‘ ، یا یہ کہ ‘‘شاید ان کی آواز میں اپنی آواز کی بازگشت سنائی دی‘‘ ۔ اس مجموعے میں سعید کی اور بھی بہت سی کہانیاں شامل ہیں، جس میں اس نے انسانی مسائل اور مصائب کے مضامین باندھے ہیں جو نوعِ انسانی کو سہنے پڑ رہے ہیں۔ اس نے وہ لکھا ہے جس کو لکھنے کے لئے جرات چاہیے، اور ایسی باتوں پر قلم اٹھایا ہے جو کہنا مشکل ہیں۔

سعید کے اندر ایک جوت ہے۔ بقول Robin Dario ‘‘وہ حساس دل جو دنیا کے لئے دھڑکتا ہے، وہ انسانیت کا بیمار ہے ‘‘ ۔ سعید کے پاس ابھی کہنے کو بہت کچھ ہے۔ بہت سارے بند اسرار کے ڈاٹ کھلنا باقی ہیں۔ ابھی کئی جزیروں کو سمندروں سے باہر نکال کر لانا ہے، کئی حیرتیں صفحوں پر آنے کے لئے کسمسا رہی ہیں۔

٭٭٭







ٹک ٹک دیدم



بڑا گھنٹا گھر شہر کے بالکل وسط میں تھا۔ شروع میں شاید اس کا رنگ سرخ رہا ہو مگر اب وقت کی گرد نے اسے ایک ایسا رنگ دے دیا تھا جو صرف وقت ہی چن سکتا ہے۔ بلند اتنا کہ میلوں دور سے نظر آ جائے۔ چوکور مینار کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی ہر سمت پر لگی گھڑی بلکہ گھڑیال ہی کہیئے، بھی جہازی تھے۔ اہلیانِ شہر کے لئے فخر کی بات تھی کہ کوئی سو سالہ پرانے اس گھنٹا گھر کی سوئیاں کبھی نہیں رکی تھیں۔ اور پابند ایسی کی جب چاہیں سوئیاں ملا لیں۔ کہنے والے تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ جب گورے یہاں سے گئے تو انہوں نے بی بی سی کی سوئیاں اس سے ملا لی تھیں اور اب بھی ہر سال موازنہ کر لیتے ہیں کہ کہیں ان کا وقت پیچھے نہ رہ جائے۔ حالانکہ ذرا سوچئیے اس بات کا کتنا امکان ہے۔ تو خیر، اس گھنٹا گھر کے اطراف کی عمارتیں بھی ذرا جگہ چھوڑ کر تعمیر کی گئی تھیں۔ شہر کی شان و شوکت بڑھانے لئے کچھ ایسی پلاننگ کی گئی تھی کہ کسی بھی وقت یہاں ہزاروں شہری جمع ہو سکتے ہیں یوں اسے مرکزیت سی حاصل ہو گئی تھی۔ آپ اسے قاہرہ کا طاہری چوک یا چین کا تیانامن چوک کہہ سکتے ہیں، لیکن جو تاریخ زمین کے ان گول ٹکڑوں میں لکھی گئی تھی یہ گھنٹا گھر چوک ہنوز اس سے محروم تھا۔ حالانکہ لوگ اکثر آس لگا لیتے تھے کہ بھئی چوک تو مل گیا ہے اب ذرا سی ہی آنچ کی کسر باقی ہے۔ نادان یہ نہیں جانتے کہ اس ذرا سی آنچ کو خون جگر درکار ہوتا ہے۔

عموماً گھنٹا گھر چوک پر چند درجن افراد موجود ہوتے تھے۔ چند ہاکر حضرات، کچھ بے فکرے، اور کچھ لوگ اپنی جلدی میں ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف نکلنے کی فکر میں۔ روز کے معمول کے بر خلاف اس وقت گھنٹا گھر چوک شہریوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دائرے کی شکل کے چوک میں لوگ قطار اندر قطار کھڑے تھے۔ دائرے کے اندرونی حصے میں جو لوگ تھے وہ سب ٹکٹکی لگائے بڑے گھڑیال کو دیکھ رہے تھے، جیسے ابھی اس میں سے کوئی پرندہ نکل کر تبدیلی کی نوید دے گا۔ جب کہ بیرونی دائروں میں جمع لوگ اندرونی دائرے والوں کی پشت پر نظریں جمائے تھے، کہ اس بات کا علم کسی کو نہیں تھا کہ یہ سب لوگ یہاں کیوں جمع ہیں۔ یہ بھی عام سے انسانوں کا اجتماع تھا اور وہی انسانی نفسیات یہاں بھی کارگر تھی۔ چند لوگ ٹکٹکی باندھے ایک سمت میں دیکھنے لگیں تو تھوڑی سی دیر میں ایک اجتماعی تجسس وہاں جمع ہو کر اسی سمت دیکھنے لگتا ہے۔ بلکہ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو سب مل کر آسمان پر تلوار دیکھ سکتے ہیں، گزرتے رتھ بھی دیکھے گئے ہیں اور چرخہ کاٹتی بڑھیا بھی، یہ سب دیکھنے والوں کے حسنِ ظن پر ہے اور کچھ اس ضرورت پر کہ آسمان پر اس وقت کس معجزے کے نظر آنے کی ضرورت ہے۔ کچھ بیو وقوف اسے اجتماعی نظر بندی کا نام دیتے ہیں مگر کہنے والوں کی زبان کس نے روکی ہے اور ہمارے ہاں تو ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں۔

یہ گھنٹا چوک میری روزانہ کی گزرگاہ ہے۔ یہاں سے کوئی چوتھائی میل کے فاصلے پر ایک بلند قامت عمارت کی بائیسویں منزل پر ایک دفتر میں کام کرتا ہوں۔ دوپہر کے کھانے کے لئے تقریباً روز ہی یہاں آ جاتا۔ اور گھنٹا گھر چورا ہے کے اطراف کسی ریسٹورانٹ میں کھانا کھا لیتا۔ باہر کی تازہ ہوا مل جاتی اور ذرا چہل قدمی بھی ہو جاتی۔ آج جو یہاں پہنچا ہوں تو یہ چوراہا ایسا کھچا کھچ بھرا ہوا ہے کہ دوسری طرف پہنچنا نا ممکن ہو گیا۔

‘‘کیا قصہ ہے بھائی یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہیں ‘‘ میں نے اپنے سامنے کھڑے ایک شخص سے دریافت کیا۔

‘‘پتہ نہیں میں خود بھی یہی معلوم کرنے کے لئے رک گیا ہوں ‘‘ ۔

جب معلوم نہیں تو یہاں رک کر کیوں اپنا وقت برباد کر رہے ہو۔ میں نے اپنا سوال زبان تک نہیں آنے دیا۔ ہمارے شہر میں لوگوں کے پاس ایک ہی چیز کی فراوانی ہے اور وہ ہے وقت۔ دن کے کسی بھی وقت اگر آپ اپنے گھر، دکان یا دفترسے باہر نکلیں تو ایسے سینکڑوں لوگ جنہیں کسی کام میں مصروف ہونا چاہئیے تھا، آپ کو بیکار اور بے مصرف بیٹھے، کھڑے یا لیٹے ملیں گے۔ وقت ان کے دائیں بائیں تیزی سے گزر رہا ہو گا، مگر وقت کی پر واہ وہی کرے جس کی پرواہ خود وقت کر رہا ہو۔

‘‘ارے صاحب لگتا ہے گھنٹا گھر خراب ہو گیا ہے، وقت رک گیا ہے ‘‘ میرے دائیں ہاتھ پر موجود ایک صاحب بولے

‘‘وقت رک گیا ہے، کیا مطلب؟‘‘

‘‘یہی کئی کئی گھنٹوں سے یہ گھنٹا گھر کام نہیں کر رہا‘‘

‘‘ارے تو گھنٹا گھر خراب ہو گیا ہو گا، انتظامیہ ٹھیک کروا دے گی، یہاں لوگوں کو تو بس مجمع لگانے کے لئے بہانہ چاہئیے ‘‘ ۔

‘‘نہیں جناب گھنٹا گھر خراب نہیں ہوا۔ وقت رک گیا ہے، شہر کی تمام گھڑیاں رک گئی ہیں۔ وقت آگے نہیں بڑھ رہا‘‘

‘‘یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘ میری نظر فوراً اپنی کلائی پر پڑی۔ واقعی میری گھڑی رکی ہوئی تھی اور دو گھنٹے پہلے کا وقت بتا رہی تھی۔

‘‘لیکن‘‘

‘‘لیکن کیا؟‘‘

‘‘لیکن وقت رک گیا ہے کا مطلب ہے۔ اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ رک گیا ہے تو رک جائے ؟‘‘ میرے سامنے کھڑے ایک شخص نے الجھ کر کہا۔

‘‘یہی کہ اب ہم انسانی اور تہذیبی تاریخ میں جمود کا شکار ہو گئے ہیں۔ جب تک وقت کا پہئیہ دوبارہ اپنی گردش شروع نہیں کرے گا، ہم تاریخ کے اسی گوشے میں پھنسے رہیں گے !‘‘

‘‘لیکن میرا کیا ہو گا؟ میری تو آج چھ بجے شادی ہے۔ گھڑی کی سوئی تو بارہ پرہی اٹکی ہوئی ہے۔ بارہ بج کر ایک سیکنڈ ہونے سے انکاری ہے۔ اگر چھ نہیں بجیں گے تو میری شادی کیسے ہو گی‘‘ ایک طرف سے روہانسی آواز آئی۔

‘‘ارے میاں اسے عطیۂ خداوندی سمجھو کہ تمھیں بیوی سے بچا لیا ‘‘ کسی بیوی جلے کی آواز آئی۔

‘‘اور مجھے اپنے بچوں کو چار بجے ہی اسکول سے لینا ہے۔ کیا وہ اسکول میں ہی رہیں گے، نہ چار بجے گا نہ بچوں کو اسکول سے لے سکوں گا۔ ‘‘ ایک اور آواز ابھری۔ اب سارے مجمع کو پتہ چل گیا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ ہر طرف سے قسم قسم کی بولیاں سنائی دے رہیں تھیں۔ خلقت کو سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ وقت نے ہمسفری سے انکار کر دیا تو وہ تاریخ کے اس موڑ سے کیسے آگے بڑھیں گے۔

‘‘یہ وقت رک گیا ہے یا ہم اس کی مخالف سمت میں جا رہے ہیں ‘‘ کسی دیوانے نے آگ لگائی۔

‘‘کیا مطلب ہم پیچھے کی سمت کیسے لوٹ سکتے ہیں ؟‘‘

‘‘بھئی اگر وقت ایک گھنٹہ آگے جا رہا ہو، لیکن ہم اس سے ایک گھنٹہ پیچھے، تو ان دونوں سمتوں کی کشمکش میں ہمیں تو یہی لگے گا کہ وقت جیسے رک گیا ہو‘‘ میرے دائیں جانب جو صاحب کھڑے تھے وہ کافی ذہین معلوم ہوتے تھے۔

‘‘یعنی وقت کو دوبارہ چلانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم واپسی کا سفر روک دیں ‘‘ کسی اور فرزانے نے آواز لگائی۔

اب چورا ہے پر کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، جتنے منہ اتنے مشورے۔ کہنا تو یہ چاہئیے کہ جتنے ذہن اتنے مشورے مگر اس کے لئے ذہن اور زبان میں ربط درکار ہو گا جو کچھ اتنا عام بھی نہیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ اگر وقت رک گیا ہے تو مجھے اب بھوک کیوں محسوس ہو رہی ہے، صبح کا کھایا ہوا کھانا معدے میں ہی رک کیوں نہیں گیا۔ شاید بھوک وقت کی قید سے آزاد ہے۔ بھوک نے کتنی ہی بار ثابت کیا ہے کہ وہ زمان و مکان، جن اور عمر کی قید سے بالاتر ہے۔ میں نے بے چارگی سے پیٹ پر ہاتھ پھیرا، اس جمِ غفیر کو چیر کر اس وقت کسی غذا کی توقع رکھنا معجزے سے کم نہ ہوتا۔ میں نے بیچارگی سے کندھے اچکائے۔ وقت سے انسان کا رشتہ تو بڑے بڑے فلسفیوں کی سمجھ میں نہیں آیا، میں کیوں اپنے آپ کو ہلکان کر رہا ہوں، میں نے اپنے آپ کو سمجھالیا۔ مجھے اب نوکری کے لئے واپس لوٹنا چاہئیے۔ لیکن وقت اگر تھم گیا ہے تو مجھے واپس جانے کی کیا ضرورت ہے، جس وقت میں کھانے کے وقفے کے لئے نکلا تھا، وقت تو اس سے آگے بڑھا ہی نہیں ہے۔ جب جانے کا وقت آئے گا تو چلا جاؤں گا اور جانے کا وقت اب آئے گا نہیں۔ لیکن اگر مینیجر کی گھڑی چل رہی ہوئی تو کیا ہو گا؟

‘‘ارے جناب یہ زمان و مکان کا مسئلہ تو آئن اسٹائن سے بھی حل نہیں ہوا تھا۔ آپ کیوں فکر کر رہے ہیں، سارے شہر کی گھڑیاں بند ہیں ‘‘ میرے برابر میں کھڑے ہوئے صاحب واقعی بہت ذہین تھے، مجھے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی جانب بار بار دیکھنے سے وہ میری بے چینی کو بھانپ گئے تھے۔ گھنٹا گھر کے اطراف مجمع اب زمین پر بیٹھ گیا تھا، لگتا تھا سارا شہر امڈ آیا ہے۔

‘‘ان لوگوں کو ویسے بھی کہاں جانا ہے ؟‘‘ میرے پڑوسی نے زہر خند لہجے میں طنز کیا۔ ‘‘گھر گئے تو بھوک منہ پھاڑے کھڑی ہو گی۔ ان کے لئے وقت کا منجمد ہونا تو گویا آسمانی تحفہ ہے۔ شام ہو گی تب ہی تو اگلے وقت کی بھوک کا انتظام کرنا ہو گا۔ آنے والے کل کی مصیبتوں اور صعوبتوں سے بھی محفوظ ہو گئے۔ ‘‘

میں اس قنوطیت کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔

‘‘ارے صاحب یہ کیا بات ہوئی۔ آنے والے کل میں کسی کی شادی، کسی کی پیدائش، کسی کی نئی نوکری، کسی کی پہلی تنخواہ، آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ کل تو اتنا دلفریب، اتنا پر امید،

اتنا پر کشش ہوتا ہے۔ کل کی آس ہی تو ہمیں رواں رکھتی ہے۔ ‘‘ میں نے احتجاج کیا۔

‘‘میاں، کیا مریخ سے اترے ہو؟‘‘ میرا پڑوسی اب مڑ کر پوری طرح میری طرف متوجہ ہو چکا تھا۔

‘‘ کیا مطلب؟‘‘

‘‘بھائی، بہت سیدھا سادھا سا سوال ہے، کیا مریخ سے اترے ہو؟‘‘

‘‘ارے مریخ سے کیوں اترتا؟ اسی شہر کی پیدائش ہے میری۔لیکن اس شہر میں بھی لوگ کل کے انتظار میں جیتے ہیں کہ شاید، شاید۔۔ ‘‘ میری آواز میں ناراضگی تھی

‘‘تو کیا اس شہر کے کسی کنویں میں رہائش ہے آپ کی جو اس قسم کی گفتگو کر رہے ہو۔ مستقبل میں بہتری۔ لگتا ہے تمھارے گھر میں لغت نہیں۔ جا کر دیکھ لینا۔ م سے مستقبل ضرور ہوتا ہے لیکن ب سے بہتری نہیں۔ ‘‘ ۔ پھر وہ اچانک ہنس پڑا۔ ‘‘تم یقیناً گرامر اسکول میں پڑھے ہو گے، مجھے یاد ہے آکسفورڈ کی انگریزی لغت میں ایف سے فیوچر اور بی سے بیٹرمینٹ کے الفاظ موجود ہیں۔ ‘‘

میں منہ کھولے پڑوسی کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اسے کیسے پتہ چلا کہ میں گرامر اسکول میں پڑھا ہوں۔

‘‘ارے میاں بقراط اب اس وقت کو کیسے چلایا جائے ؟‘‘ بہت سے لوگ اب ہماری گفتگو کی جانب متوجہ ہو گئے تھے، ان ہی میں سے ایک نے طنزیہ انداز میں آواز اٹھائی۔ باقی مجمع تو اب بھی گھنٹا گھر کی جانب متوجہ تھا لیکن ہمارے اطراف میں ایک بڑھتا ہوا مجمع ہم دونوں کے ساتھ گفتگو میں شریک ہو گیا تھا۔

‘‘بھئی جس خدا نے ہر چیز بنائی ہے، اسی نے وقت بھی۔ استخارہ کر لیں وہی یقیناً راہ بھی سجھا دے گا۔ ‘‘ کسی صاحب نے صلاح دی۔

میرے پڑوس میں کھڑے شخص کی حیثیت اب ایک لیڈر کی سی ہو گئی تھی۔ لوگ جو جملے اچھال رہے تھے، سوال کر رہے تھے، حل بتا رہے تھے، ان سب کا رخ خود بخود اس کی طرف ہو گیا تھا۔ وہ بھی اس غیر متوقع سر افرازی پر بہت خوش نظر آتا تھا۔ جو ساری عمر محنت کر کے لیڈری کماتے ہیں ان کی مسرت تو چھپائے نہیں چھپتی، یہاں تو حادثاتاً مل گئی تھی۔ اس نے ایک غیر محسوس طریقے سے یہ مرکزیت قبول کر لی تھی۔ اس نے اس جملے کا جواب نہیں دیا صرف مسکرا کر نفی میں سر ہلا دیا۔

‘‘کیا مطلب آپ نفی میں کیوں سر ہلا رہے ہیں، کیا خدا کے پاس اس کا حل نہیں ؟ کسی اور سمت سے آواز آئی۔

‘‘بھئی دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں خدا بھی نہیں چھیڑتا، ایک تاریخ اور دوسرا وقت‘‘ میں اپنے پڑوسی کی مدد کو آیا۔

‘‘نہیں چھیڑتا یا نہیں چھیڑ سکتا‘‘ کہیں سے چیلنج کیا گیا۔

اب لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہماری طرف متوجہ ہو چکی تھی۔

‘‘یہ آپ کی ذہنی کیمیا پر منحصر ہے ‘‘ میں نے اطمینان سے جواب دیا۔ میں اس خطرے سے بے خبر تھا جو مجھے گھیر رہا تھا۔ اپنے لئے یہ خندق کھودتے دیکھ کر، میرا پڑوسی جیسے سرگوشی میں بولا:

‘‘میاں مریخ سے نہیں تو باہر سے ضرور آئے ہو۔ ذرا دور ہٹ کے کھڑے ہو ورنہ اپنے ساتھ مجھے بھی مروا دو گے۔ اب اپنی یہ سیکولر چونچ بند رکھنا اور مجمعے کے کسی سوال کا جواب مت دینا۔ ‘‘

‘‘کیوں مرواؤں گا، کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ مجھے اپنی خوفزدہ سی آواز سنائی دی۔

‘‘ہائے گرامر اسکول کے یہ گھامڑ۔ بند ذہنوں سے آزاد خیالی کی امید رکھتے ہیں۔ بھئی بند کمرے میں تو گھٹن ہی رہے گی ناں، تازہ ہوا کے لئے کوئی کھڑکی یا دروازہ تو کھولنا ہی پڑے گا۔ یہاں تو معمار یہ کہہ گئے ہیں کہ دروازہ یا کھڑکی کھولی تو گھر مسمار۔ ‘‘

میرے چہرے پر شاید حماقت منجمد دیکھ کر وہ بے بسی سے بولا:

‘‘بھائی کسی نادیدہ سمت سے کوئی گولی، کوئی جنت کا دلدادہ خود کش تمھاری سوچ کے پر کتر دے گا، چپ رہو یا پرے ہٹ کے کھڑے ہو۔ میں ابھی جینا چاہتا ہوں۔ وقت جاری ہو یا ساکت میں نے ابھی جینے کی آس نہیں چھوڑی، اور ہاں جینے کے گر بھی سیکھ گیا ہوں ‘‘ مجھے لگا اس نے مجھے آنکھ ماری ہے۔

‘‘ارے بھئی آپ لوگ کس بحث میں پڑ گئے ہیں۔ اس امتحان میں ہمیں جب اللہ نے ڈالا ہے، تو وہ خود کیوں نکالے گا۔ وہ تو غالباً یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی دی ہوئی عقل ہم کیسے استعمال کرتے ہیں اور ہم کیا سبب پیدا کرتے ہیں ‘‘ اس نے مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے کہا۔

‘‘تو بقراط تم ہی کوئی ترکیب نکالو‘‘ اس طنزیہ جملے میں بھی ایک التجا ایک امید ضرور تھی۔

‘‘ارے صاحب کمشنر صاحب کے انتظار میں ہی تو یہ مجمع جمع ہے، وہ ہی آ کر کوئی صورت نکالیں گے ‘‘ کسی اور صاحب نے آواز بلند کی۔

‘‘کمشنر صاحب‘‘ اب میرے پڑوسی سے بھی چپ نہ رہا گیا ‘‘بلی سے دودھ کی رکھوالی کی امید کی جا رہی ہے ‘‘ ۔

مجمع یہ سن کر ہنس پڑا۔ اب قسم قسم کی آوازیں آنے لگیں۔ کچھ زندہ باد مردہ باد کے نعرے بھی لگنے لگے۔ لوگوں میں دبا دبا سا جوش با آسانی محسوس کیا جا سکتا تھا۔

‘‘بقراط اپنی بات واضح کرو‘‘ ایک آواز آئی۔ اب مجمع کا موڈ ذرا سا بہتر ہو چکا تھا، توجہ مجھ پر سے ہٹ چکی تھی۔

‘‘بھئی ان ہی لوگوں کی وجہ سے تو وقت رک گیا ہے۔ یہ وقت سے آگے آگے بھاگ رہے تھے۔ ان کے تعاقب میں تو وقت بھی ہانپ جاتا ہے۔ دوسری سمت بہت سے لوگ وقت کو گویا پیچھے کھینچ رہے ہیں۔ اس کھینچا تانی میں اور کیا ہوتا۔ حکمراں آگے بھاگ رہے ہوں اور وقت ان کے تعاقب میں۔ دوسری طرف ایک طبقہ وقت کو پیچھے کھینچ رہا ہو۔ تو وقت کا انجماد کیوں کر حیرت کا باعث ہے۔ ‘‘ بقراط واقعی بقراط تھا۔

‘‘پھر اس کا حل تو بہت دشوار نہ ہوا‘‘ میرے ذہن میں ذہانت کی ایک بجلی سی کوندی۔ لوگ فوراً مڑ کر میری طرف متوجہ ہو گئے۔ پڑوسی نے غیر محسوس طریقے سے میرا ہاتھ دبایا، گویا میری گرامر اسکول کی اپج کو وارننگ دے رہا ہو۔ حدِ ادب یہاں زبان سینے، کاٹنے اور کھینچنے کے ماہرین جمع ہیں۔

‘‘یا تو وقت کے آگے بھاگنے والوں کی طنابیں کاٹ دو تاکہ یہ وقت کے آگے بھاگنا بند کر دیں۔ نہ بھی بند کریں تو ہماری اوقات کا ان کے وقت سے رشتہ ٹوٹ جائے، وہ اپنے وقت کی لہر میں رہیں ہم اپنے وقت کی۔ انہیں قابو نہ کر سکیں تو آزاد کر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وقت کو پیچھے کی سمت کھینچنے والوں کو ماضی سے حال میں لے آئیں۔ صدیوں کی محرومیاں۔۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ میری بات مکمل ہوتی میرے بقراط پڑوسی نے میرا ہاتھ اس سختی سے دبایا کہ درد سے میرا منہ بند ہو گیا۔ کیا کہا آپ نے، درد سے منہ بند نہیں ہوتا بلکہ تکلیف کی شدت سے چیخ نکل جاتی ہے۔ آپ درست کہہ رہے ہیں مگر اس کے چیخ کے بعد کا مرحلہ بھول رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو اپنے اطراف کی خاموشی پر کان دھریے۔

‘‘تجویز تو گرامر کی اچھی ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟‘‘ بقراط نے میرا مذاق اڑا کر گویا میری بات کی تمام تلخیوں کو مزاح کے مصالحہ تشرف سے دھو دیا۔

‘‘بھئی بقراط اپنے دوست کو تو خاموش ہی رکھو‘‘ نہ جانے کیوں مجھے یہ آواز جانی پہچانی سی لگی۔ پیروں کے بل اچک کر دیکھا تو اپنے مینیجر کی شکل نظر آئی، نظریں ملتے ہی اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔

‘‘بقراط تم بولتے رہو، ان صاحب کی باتیں تو احمقانہ ہیں ‘‘ مینیجر نے پھر آواز لگائی۔

اب گویا خاموشی میرے ذاتی مفاد میں تھی۔ مینیجر کی ناراضگی مول لینا وقت کو کھو دینے کے مترادف تھا انجماد کو تو جانے ہی دیجئیے۔

‘‘وقت کو پیچھے کھینچ لینے میں حرج ہی کیا ہے، صرف آگے بھاگنے والوں کی طنابیں کاٹ دو۔ صدیوں پہلے بھی تو وقت چلتا ہی تھا، اسی رفتار سے چلتا رہے گا، ذرا نیکیوں کے امکانات کا تصور کیجئیے۔ جو لوگ ہمارے شاندار ماضی، ہمارے نظامِ راشدین سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ان کا وقت آ گیا ہے ‘‘ ایک باریش نوجوان جس کے کاندھے پر ایک انگوچھا پڑا تھا مجمعے کو کہنیوں سے ہٹا تا آگے بڑھنے لگا، اس کی نگاہیں مجھ پر پیوست تھیں۔

‘‘ہاں بھئی بقراط کیا طریقہ نکالیں کہ وقت کا پہیہ دوبارہ گھومنے لگے ‘‘ مجھے تو لگتا تھا جیسے اب سارا مجمع اپنا رخ گھنٹا گھر سے موڑ کر ہماری طرف متوجہ ہو چکا ہے۔ ہزاروں کے اس مجمعے میں ہماری معمول کی آواز کی بحث کیسے ان تک پہنچ رہی تھی۔ یہ بہت حیرت انگیز بات تھی۔ شاید سارا مجمع ہی اپنے آپ سے اس بحث میں الجھا ہوا تھا۔ ہماری گفتگو تو بس ایک بازگشت تھی۔ ابھی بقراط نے کوئی جواب دیا بھی نہیں تھا کہ مجمع میں ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی۔

‘‘کمشنر صاحب آ گئے، کمشنر صاحب آ گئے ‘‘ لوگوں میں ایک دبا دبا جوش تھا۔ آنکھوں میں امید کے دیپ جل اٹھے تھے۔ گھنٹا گھر کی منجمد سوئیاں مذاق اڑا رہی تھیں۔

بائیں جانب کا مجمع کائی کی طرح پھٹنے لگا۔ انسانوں کا سمندر حکمرانی کے لئے پھٹنے لگا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ موسیٰ اکیلے ہی اس راستے پر چل کر اپنی کھال بچا لیتے ہیں۔ درمیان میں جو جگہ بنی تو کمشنر صاحب اس سے گزرتے گھنٹا گھر کی جانب بڑھنے لگے، لیکن ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے بہت سے بھاری بوٹ چل رہے تھے۔ مجمعے میں جو انبساط کی لہر سی دوڑی تھی وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ جوتوں کی آواز اور سنگینوں کے سر کیا نظر آئے، تبدیلیِ اوقات کے امکانات معدوم ہونے لگے۔

‘‘ابھی تو پچھلے قدموں کی دھول بھی نہیں جمی تھی کہ پھر‘‘ بقراط نے شاید اپنے آپ سے کہا تھا۔ وہ زور سے کہتا تب بھی شاید کوئی نہ سنتا۔ سب آوازیں بھاری جوتوں کی دھمک میں دب گئی تھیں۔ ان جوتوں کی بناوٹ میں اس خوبی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ باقی سب آوازیں دب جائیں۔ میں نے داہنی جانب دیکھا تو وہ انگوچھا بردار جوان مجمعے کو کہنیوں سے ہٹاتا، اس سمندر میں خود اپنی جگہ بناتا تیزی سے ہماری سمت بڑھ رہا تھا۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو ایسے کئی نوجوان ہماری طرف بڑھتے نظر آئے۔

‘‘ہاں بھئی بقراط کیا حل نکالیں ‘‘ ہمارے اطراف کا مجمع ان تبدیلیوں سے جیسے ناواقف بقراط سے حل طلب کرہا تھا۔ لوگ جیسے ایک مسیحا کے انتظار میں خود اپنی ذہنی سوجھ بوجھ کھو بیٹھے تھے۔

بھاری جوتوں، باریش جنت کے طلب گاروں اور وقت کے آگے بھاگتے کمشنروں کے درمیان منجمد وقت کو دوبارہ چلانے کی کیا امید رہ گئی تھی۔ بقراط، اسے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ اس کی گرفت میں میرا ہاتھ بہت تکلیف میں تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکال کر بھاگنا چاہا، تو اس نے پکڑ کر کھینچ لیا اور ہم دونوں نیچے بیٹھ گئے۔ نہ چیونٹی دیکھو گے نہ کچلنے کو دل چاہے گا۔

٭٭٭







دامِ آگہی



تیزی سے پیچھے کی سمت بھاگتے درختوں کا درمیانی فاصلہ بڑھنے لگا، ٹرین کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے اب تھمنے کو تھی۔ پہیوں کی پٹری پر گرفت مضبوط ہو گئی اور ایک سیٹی کے ساتھ ٹرین رک گئی۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا مگر صبح کے دھندلکے میں اسٹیشن کا نام صاف پڑھا نہ جا سکا۔ کیا یہی میرا آخری اسٹیشن ہے، کیا میری منزل آ گئی۔ میں عجیب تذبذب میں تھا اتروں کہ نہیں اتروں۔ اگر ہمیں اسٹیشن آنے سے پہلے معلوم ہو جائے کہ یہی ہمارا آخری اسٹیشن ہے تو آدمی اپنا زادِ راہ سمیٹ لے اور اترنے کا انتظام کرے۔ سفر میں کتنی بار ٹرین آہستہ ہوتی ہے اور پانی لینے، دم بھرنے یا ہمسفر لینے کو سواری رکتی ہے مگر اترتا تو آدمی اپنے اسٹیشن پر ہی ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ پورے پیٹ کی گندمی رنگ کی حاملہ سامنے آ گئی۔ چہرے پر مسکان سجائے جیسے مجھ پر ہنس رہی ہو۔ مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہہ رہی ہے کہ اتر جاؤ یہی تمھارا اسٹیشن ہے۔ مگر مجھے پتہ ہے وہ جھوٹ بول رہی ہے، مجھے وقت سے پہلے اتار دینا چاہتی ہے۔ دشمن کی سچی بات بھی جھوٹی لگتی ہے، اگر یہ واقعی میرا اسٹیشن ہوتا بھی تو بھی شاید میں نہ اترتا۔ کوئی فیصلہ ہو نہ پایا تھا کہ ٹرین ایک جھٹکے سے پھر چل پڑی، وہ حاملہ عورت ایسی غائب ہوئی جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ ٹرین کے جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔ یہ خواب مجھے اب ایک سال سے متواتر تنگ کر رہا ہے، گھر واپس آ گیا ہوں مگر اس سے جان نہیں چھوٹی۔ ذہن بیدار ہوا تو تقریباً سال بھر پیچھے چلا گیا:

پہلا ریڈار چوکی سے کوئی آدھے میل کے فاصلے پر تھا، پھر دوسرا کوئی پانچ سو گز کے فاصلے پر۔ نیلے رنگ کی یہ پرانی سی ٹیوٹا بہت تیزی سے چوکی کی طرف آ رہی تھی۔ ڈیوڈ نے آدھے میل کے ریڈار پر اس کی رفتار دیکھی تو چلا کر مجھے باخبر کیا۔ قصبے سے شہر کی سمت کئی سڑکیں آتی تھیں، یہ سب سے چھوٹی سڑک تھی اور شاذ و نادر ہی استعمال ہوتی تھی۔ نیم پختہ مٹی کی یہ سڑک کثرت آمد و رفت سے شاید خود ہی بن گئی تھی۔ دھول اور مٹی اتنی کہ گرد کا ایک بگولہ کار کے ساتھ ساتھ رقص کرتا آگے بڑھ رہا تھا لیکن کار سے آگے نہیں نکل پاتا تھا۔ دور دور تک میدانی زمین تھی اور کسی شے کا مستور رہنا نا ممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا۔ اسی لئے صرف میں اور ڈیوڈ ہی اس پر معمور تھے۔ چوکی کے قریب آنے سے پہلے غالباً اس کی رفتار آہستہ ہو گئی تھی۔ کم از کم ڈیوڈ نے بعد میں مجھے یہی بتایا۔ شاید اس نے چیخ کر مجھے کہا تھا کہ اب کار آہستہ ہو رہی ہے مگر میری سماعت پرتو طاقت کا پہرہ بیٹھا ہوا تھا۔ کار چوکی کے نزدیک ہوئی تو میں چوکی سے باہر آ کر خود کار مشین گن اس کی سمت میں تان کر کھڑا تھا۔ دونوں پاؤں کے درمیان تقریباً تین فٹ کا فاصلہ، آنکھ شست پر اور انگلی لبلبی پر۔ خون میری کنپٹیوں میں رگوں سے باہر آیا چاہتا تھا۔ میرا خیال ہے میں نے کار کو رکنے کا اشارہ کیا تھا۔ آپ کو میری بات ماننی چاہئیے، میں جھوٹ کیوں بولوں گا۔ مجھے لگا جیسے کار کے ڈرائیور نے حکم ماننے میں چند ساعتوں کی تاخیر کی ہو، یہ گندمی رنگ کے جاہل اور نافرمان لوگ بات سمجھتے کیوں نہیں۔ اس شبہ میں کہ گاڑی رک نہیں رہی اور میرے لئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے، لبلبے پر دبی انگلی حرکت میں آ گئی۔ فضا میں مشین گن کی آواز سے سلامتی کا سناٹا ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ آہوں اور سسکیوں نے لے لی۔ بارود کی بو نے انصاف اور رواداری کے حواس مختل کر دئیے۔ ایک ادھیڑ شکل کا انسانی ڈھیر کار سے نکل کر کچی سڑک پر لڑھک گیا۔ پچھلا دروازہ کھلا اس میں سے ایک پورے پیٹ کی حاملہ بلند آواز سے نوحہ کرتی اور اپنا سینہ کوٹتی برآمد ہوئی اور کار کی اگلی مسافر نشست والے دروازے کی جانب لپکی۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ اس میں سے کوئی ہتھیار نکالے گی، ابھی میں نے اپنی مشین گن بلند کی ہی تھی کہ ڈیوڈ نے ’شٹِ‘ کہہ کر میری مشین گن کا رخ نیچے کر دیا۔ عورت نے مسافر سمت کا دروازہ کھولا تو اس کے منہ سے ایک طویل چیخ نکلی جو گھٹ کر ایک ناقابلِ بیان فریاد میں بدل گئی۔ کار میں سے ایک لڑکا لڑھک کر سڑک پر گرنا ہی چاہتا تھا کہہ عورت دھب سے زمین پر بیٹھ گئی اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ لڑکے کی عمر کوئی بارہ سال کے قریب رہی ہو گی۔ اس کی منہ اور ناک سے خون جاری تھا اور وہ کسی قسم کی مدد سے بے گانہ ہو چکا تھا۔

’یہ تم نے کیا کیا جم ؟‘ ڈیوڈ کی آنکھوں میں وحشت تھی۔

’کیا کیا، ‘ مجھے اپنی آواز کسی کنویں سے آتی سنائی دی۔ ’اس سے پہلے کہہ یہ دہشت گرد ہمیں مار سکتے، میں نے اس کا سدِ باب کر دیا‘

’ لیکن یہ تو ایک حاملہ عورت غالباً اپنے خاندان کے ساتھ اپنے ڈاکٹر کے پاس جا رہی تھی۔ اور اس لڑکے کا کیا قصور تھا؟‘

’احمقانہ باتیں مت کرو۔ اگر ان کی نیت صاف تھی تو رک کیوں نہیں رہے تھے ؟‘

’ رک تو رہے تھے، میں تمھیں چیخ کر بتایا بھی تھا کہ کار آہستہ ہو رہی ہے، اور یہ بارہ سالہ لڑکا‘

’سنپولیا ہے یہ بھی۔ میں نے اچھا کیا ابھی سے اس کا سر کچل دیا‘۔

’ اب کیا کریں، انکوئری ہوئی تو دونوں پھنسیں گے۔ میں اس کار کے پیچھے جا کر دو چار فائر تمھاری سمت میں کروں گا جس سے لگے کہ گاڑی ہم لوگوں پر فائر کر رہی تھی۔ ‘

’لیکن اس کی کیا ضرورت ہے، ہمارا فرض ہے یہاں قانون نافذ کریں اگر کوئی اس سے روگردانی کرے تو اس کو قرار واقعی سزا دیں ‘

’ہاں لیکن اگر روگردانی کرے تو ناں ‘ یہ کہہ کر ڈیوڈ کار کے پیچھے چلا گیا اور چوکی کی سمت دو فائر کئیے۔ پھر بھاگتا ہوا آیا اور اس حاملہ عورت کا وزن ہلکا کرنا چاہا۔ اس عورت نے حقارت سے ہماری جانب دیکھ کر زمین پر تھوک دیا اور لڑکے کا سرگود میں رکھے بیٹھی رہی۔ پھر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ کر زمین پر لیٹ گئی۔ مکر کر رہی ہے یقیناً۔ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، جیسے ہی میں اس کے قریب جاؤں گا یہ شاید خود کش حملہ کر دے۔ ابھی میں اس ادھیڑ بن میں ہی تھا ڈیوڈ مجھے دھکا دے کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

’جم فوراً جا کر ایمبولنس کے لئے وائرلیس کرو، مجھے بچے کا سر نظر آ رہا ہے ‘۔ مجھے تذبذب میں دیکھ کر گویا بے بسی سے بولا۔ مجھے ہچکچاتا دیکھ کر پھر گویا ہوا۔

’اگر ان سب کو مار دیا تو جمہوریت کس کو سکھائیں گے ‘۔

جتنی دیر میں ایمبولنس پہنچتی قدرت نے مزید انتظار سے انکار کر دیا۔ ایک نومولود زندگی نے اپنی آمد کا اعلان کیا تو ڈیوڈ نے مجھے اس کی ناف کاٹنے پر مجبور کیا۔ ہر نئی زندگی دنیا میں اپنی آمد کا اعلان رو کر کیوں کرتی ہے، کبھی ہنستے گاتے کیوں نہیں آتی۔ ایمبولنس آ کر اسے لے گئی، مجھے اور ڈیوڈ کو شام میں سارجنٹ میجر کے پاس اپنے بیان قلم بند کرانے کی ہدایت مل گئی۔

’ میری سمجھ میں نہیں آتا تم ان لوگوں سے کس چیز کا انتقام لے رہے ہو‘ ڈیوڈ نے ایمبولنس جانے کے بعد مجھے گھیر لیا۔

’ انتقام کس چیز کا لینا ہے، کوئی تمھارے گھر پتھر پھینکے تو تم اس کا جواب دو گے یا نہیں ؟‘

’ضرور دوں گا لیکن یہ خیال ضرور رکھوں گا کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی نہ پس جائے ‘

’دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے ‘ میں نے ہنس کر جواب دیا۔

’تمھاری سوچ میں طاقت زہر گھول رہی ہے ‘ ڈیوڈ نہ جانے کس کی حمایت کر رہا تھا

’طاقت سے لہجے نہیں بدلا کرتے۔ ہم یہاں اپنے ملک سے اتنی دور ان جانوروں کو جمہوریت اور تہذیب سکھا رہے ہیں، انہیں تو ہمارا شکر گذار ہونا چاہئیے ‘

’طاقت اور دولت دونوں سے لہجے بدل جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی ایک کا نشہ ہو اور گفتگو میں نہیں جھلکے اس کے لئے بہت ظرف بہت وسعت درکار ہوتی ہے۔ اور جہاں تک ان کے جانور ہونے کا تعلق ہے تو جانور بھی بہت سی قسموں کے ہوتے ہیں۔ کچھ وہ جو پالتو ہوتے ہیں، دوسرے وہ جنگل میں راج کرتے ہیں اور جنہیں سدھایا نہیں جا سکتا۔ ایک قسم وہ ہے جو کانچ کی دکان میں توڑ پھوڑ مچا دے تو اک وہ جن کی دلچسپ حرکتوں سے ہم اپنے بچوں کا دل بہلاتے ہیں۔ جنگل میں راج کرنے والوں کو سدھانے کی کوشش خطرناک بھی ہو سکتی ہے ‘ ڈیوڈ کا لہجہ معنی خیز تھا، مجھے لگتا تھا اس نے بات غیر مکمل چھوڑ دی ہے۔

’ڈیوڈ تم آخر کس کی طرفداری کر رہے ہو‘ مجھ سے رہا نہیں گیا۔

’تمھاری طرف نہیں ہوتا تو ٹیوٹا کی سمت سے فائرنگ کر کے تمھارے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتا‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولا

اس کی بات نے مجھے ایک لمحے کے لئے لاجواب سا کر دیا، پھر اچانک مجھے خیال آیا تو میں نے پوچھا ’میرے جرم پر، میں نے کیا جرم کیا ہے ؟

’اس بارہ سالہ لڑکے اور اس کے باپ کی ہلاکت کو کس کھاتے میں ڈالو گے جم؟‘

’اگر وہ وقت پر کار روک لیتے تو میں کیوں اپنی گولیاں برباد کرتا‘۔

ڈیوڈ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ ہماری شفٹ ختم ہونے کا وقت آ رہا تھا۔ کمپنی ہیڈ کوارٹر کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔ عموماً گشت پر جانے والی ٹولیاں اٹھارہ سے بیس جوانوں کی ہوتیں، بڑی چوکیوں پر پانچ سے چھ فوجیوں کی ضرورت ہوتی۔ یہ چوکی کیوں کہ چھوٹی تھی اس لئے یہاں صرف دو ہی جوانوں کی ضرورت تھی۔ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد سائمن اور جیسن مجھے اور ڈیوڈ کو فارغ کر دیتے۔ ڈیوڈ ایسے منہ بنائے پھرتا رہا جیسے کوئی بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہو۔ یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہوا تھا۔ ظاہر ہے جنگ میں جانیں نہیں جائیں گی تو اور کیا ہو گا۔ پھر شاید اس نے دیکھا ہی نہیں ایک سنپولئے کے مرنے سے پہلے ہی ایک اور وہیں سڑک پر پیدا ہو گیا تھا، قدرت کہاں تک حساب برابر کرے گی۔

شام میں ہم دونوں کا بیان لیا گیا۔ میں نے شکر کا سانس لیا جب ڈیوڈ نے بھی وہی بیان دیا جو میں نے دیا تھا۔

ٹرین اب پھر آہستہ تو ہو رہی تھی مگر لگتا تھا رکے گی نہیں۔ کھڑکی سے باہر اکا دکا گھر نظر آ رہے تھے، جن میں چراغ جل اٹھے تھے۔ میں اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ چھوٹے اسٹیشن پر گاڑی بہت تھوڑی ہی دیر رکتی ہے۔ مگر دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ پھر میرا راستہ روکے کھڑی تھی۔ پورے دنوں سے، لگتا تھا اس کا پیٹ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔

ہونٹوں پر وہی تاؤ دلانے والی مسکراہٹ۔ انگوٹھے کے اشارے سے دروازے کی طرف اشارہ ہے کہ اتر جاؤ۔ مگر ٹرین بجائے رکنے کے اب دوبارہ تیز ہو گئی، میں نے طنزیہ اس کی جانب مڑ کر دیکھا مگر وہ اب کہاں تھی۔

دوسرے دن ہم دونوں کی ڈیوٹی گشت پر تھی۔ بازار میں جانے والی گشتی پارٹی میں آج نو جوان شامل تھے۔ دو، دو کی ٹولیوں میں آگے پیچھے دائیں بائیں۔ بازار کھل چکا تھا۔ یہ علاقہ فتح ہوئے اب تقریباً آٹھ ماہ ہو چکے تھے اور ہماری کمپنی کا ایک دستہ روز گشت کرتا تھا لیکن پھر بھی وہ لوگ ہمارے عادی نہیں ہوئے تھے۔ اب بھی ہمارے داخل ہوتے ہی بازار کا ماحول تناؤ کا شکار ہو جاتا۔ لوگ کام کاج چھوڑ کر دکانوں کے سامنے آ کھڑے ہوتے۔ بازار کا بھاؤ تاؤ رک جاتا۔ مقامی لوگ اب بھی ہم سے بیماری کی طرح بچتے تھے۔ بازار میں ڈیوڈ بلاوجہ لوگوں سے گھلنے ملنے کی کوشش کرتا۔ اس سے بول اس سے ہنس۔ بلاوجہ کی چھیڑ چھاڑ۔ میری سمجھ میں نہیں آتاکہ وہ ان سے فاصلہ کیوں نہیں رکھتا۔

’ڈیوڈ تم ان لوگوں سے بلاوجہ اتنا گھلنا ملنا کیوں چاہتے ہو‘

’بھئی ان کے دل و دماغ جیتیں گے تب ہی کوئی تبدیلی لا سکیں گے۔ زبردستی کی لائی تبدیلی تو عارضی ہو گی‘ ڈیوڈ ہمیشہ کا فلاسفر تھا نہ جانے فوج میں کہاں سے گھس آیا تھا۔

’لیکن ہمیں دل و دماغ جیتنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ فاتح اور مفتوح میں کچھ تو فاصلہ ہونا چاہئیے۔ انہیں خود سمجھ میں نہیں آتا ہم جو انہیں سمجھا رہے ہیں ان ہی کے بھلے کے لئے ہے۔ بالکل گنوارو لوگ ہیں۔ دیکھا ہے کیسے سڑپ سڑپ آواز نکال کر طشتری میں چائے پیتے ہیں ؟‘

’تو طشتری میں چائے پینے میں کیا حرج ہے، ہو سکتا ہے یہی چائے پینے کا صحیح طریقہ ہو۔ بھئی چائے جلدی ٹھنڈی ہو جاتی ہے، منہ نہیں جلتا۔ آخر ہم بھی تو چائے دانی میں چائے نہیں پیتے، اسے پیالی میں نکال کر پیتے ہیں، یہ پیالی میں نہیں پیتے اسے طشتری میں نکال کر پیتے ہیں ‘ ڈیوڈ کی ایسی بے تکی منطق ہوا کرتی تھی۔

گشت کے دوران ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور اچانک ہمارے سامنے سے راستہ کاٹ کر گذر گیا، ابھی یہ فیصلہ کر ہی رہے تھے کہ اس خطرے کی نوعیت کیا ہے کہ ایک اور سر پھرا اس کے تعاقب کرتے سامنے سے دوڑا۔ جیکب نے بندوق سیدھی کر کے چلا کے کہا رکو، ورنہ گولی مار دوں گا۔ پیچھے بھاگنے والا بچہ ٹھٹک کر رکا، جب اسے سمجھ ہی نہیں آیا ہو کہ اپنے دوست کے پیچھے بھاگنے میں حرج ہی کیا ہے۔ بچوں کو ایک دو منزلہ عمارت میں غائب ہوتے دیکھا تو ڈیوڈ نے بندوق کا نشانہ تان لیا، فائر کرنا ہی چاہتا تھا کہ کپتان نے آرڈر دے کر اسے روک لیا۔ اس قسم کی چالبازی اکثر خطرے کا سائرن ہوتی ہے۔ سپاہیوں کو اپنے تعاقب میں الجھا کر بھاگتے اور پھر کسی ویران یا سنسان جگہ باقی پارٹی سے علیحدہ رہ جانے والے سپاہیوں کو اپنی بقا کی جنگ کرنی پڑتی۔ کپتان کے اشارے پر سپاہیوں نے مورچے بنا لئے، پھر کپتان کے حکم پر میں اور ڈیوڈ ان کے تعاقب میں سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ لینڈنگ پر وہ دونوں بچے ایک عورت کے عقب میں چھپ رہے تھے۔ عورت خاصی ہراساں نظر آ رہی تھی۔ مرغی کی طرح دونوں بچوں کو اپنے پروں میں سنبھال کسی بھی ممکنہ صورتِ احوال سے نبٹنے کو لئے تیار۔ پانی کی ایک دھار بچے کی نیکر کو گیلا کر کے پیر سے ہوتی، اس کے جوتے سے بہہ کر فرش کو گیلا کر رہی تھی۔ ڈیوڈ نے مجھے کور دینے کا اشارہ دیا اور سامنے والی فلیٹ کے دروازے کے ٹھوکر سے کھالا۔ نیچے بازار میں اب سناٹے کا راج تھا حالانکہ لوگوں کی تعداد اب یقیناً پہلے سے زیادہ ہو گئی تھی۔

ڈیوڈ نے عورت کو ایک طرف دھکا دیا کہ سیڑھی پر راستہ صاف ہو سکے تو وہ فلیٹ کی تلاشی لے سکے۔ عورت بچے کی حفاظت کے لئے کچھ ایسے بے ڈھنگے پن سے کھڑی تھی کہ اپنا توازن نہ سنبھال سکی۔ بچہ جو عورت کی گھیر دار شلوار پیچھے سے تھامے تھا، بروقت خود کو علیحدہ نہ کر سکا اور سیڑھیوں پر لڑھکنے لگا۔ اس کا سر ایک دیوار کو ٹکرایا اور اس کی گردن عجیب غیر فطری سے انداز میں ایک طرف کو ڈھلک گئی۔ ڈیوڈ بہت دور اندیش تھا، اس نے فوراً نیچے واکی ٹاکی پر بات کر کے کیپٹن سے کمک طلب کر لی۔ بچے پر دھیان دینے کا اب وقت نہیں تھا، سب سے پہلے یہ ضروری تھا کہ فلیٹ کی تلاشی لے کر عمارت کو محفوظ کیا جائے۔ ڈیوڈ ایک اور سپاہی کے ساتھ فلیٹ میں داخل ہوا تو وہاں صرف ماتمی سناٹا تھا۔ پہلا بچہ ہاتھ میں ٹینس کی گیند لئے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سپاہیوں کو دیکھ کر اس نے ہاتھ بڑھا کے ٹینس کی گیند ان کی طرف پھینکنا چاہی تو ڈیوڈ نے چیخ کر سب کو زمین پر لیٹنے کا اشارہ کیا اور بندوق بچے کی سمت تان لی۔ اپنے دوسرے بچے کو سیڑھیوں پر چھوڑ کر وہ عورت لپک کر فلیٹ میں داخل ہوئی اور گیند بچے کے ہاتھ سے نکال اپنے ہاتھوں میں پکڑی اور سر سے اوپر بلند کر کے کھڑی ہو گئی۔ ڈیوڈ کی درخواست پر نیچے سے ایک بم کو ناکارہ بنانے والا ماہر آیا۔ وہ گیند واقعی صرف گیند ہی نکلی۔ سپاہیوں نے وقت کے زیاں پر بچے کو گھورا اور ایک کے پیچھے ایک اتر گئے۔ سیڑھیوں پر گرا بچہ اب کسی مدد سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ چلو ایک سنپولیا اور گیا۔

یہ شاید کوئی بڑا جنکشن تھا۔ کافی لوگ اتر اور چڑھ رہے تھے۔ شاید یہی میری منزل ہے۔ میں تیزی سے دروازے کی سمت بڑھا مگر اندر آنے والے مسافروں کے ریلے نے واپس اندر دھکیل دیا۔ ’مجھے یہاں اترنا ہے میں نے چیخ کر کہا مگر لگتا تھا سب مسافر جیسے بہرے ہو گئے ہوں یا میں انہیں نظر ہی نہیں آ رہا ہوں۔ ان سب آنے والے مسافروں کے اوپر وہ ایسے تیر رہی تھی جیسے کوئی بادل اپنے پانی کے بوجھ کے باوجود اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سبب کرتا ٹرین پھر چل پڑی اور وہ حاملہ بھی نہ جانے کہاں اُڑ گئی۔ میں تھک کر بنچ پر کیا بیٹھا میرا ذہن پھر ماضی میں بھٹکنے لگا۔

گھر سے دور صحرا میں رات کا وقت بہت دشوار ہوتا تھا۔ دن بھر میں کچھ سوچنے کا موقع ملتا تو شاید دن بھی طویل ہو جاتے۔ لیکن دن بھر تو فوجی مشغولیات میں آناً فاناً گزر جاتا، رات کاٹنی مشکل ہو جاتی۔ دن کاتپتا رتیلہ صحرا رات میں ٹھنڈا ہو جاتا تو چاروں سمت سناٹے کا راج دل میں اتھل پتھل مچا دیتا۔ میں نے سرہانے سے لوسی کی تصویر نکالی اور ہونٹوں سے لگا لی۔ ابھی ہماری شادی کو چار ہی سال ہوئے تھے۔ میری پہلی بیوی سے ایک لڑکا تھا جو تقریباً بارہ سال کا تھا۔ پہلی بیوی کینسر سے کیا مری کہ لڑکے کیذ مہ داری بھی میرے کاندھوں پر آن پڑی۔ لوسی سے ملاقات ہوئی تو لگا قدرت نے یہ ملاقات کسی مقصد سے ہی کروائی ہے۔ لوسی کے اپنے پہلے شوہر سے دو بچے تھے۔ یوں چار سال میں اب ہم تین بچوں کے والدین تھے۔ لوسی کی یاد کیا آئی میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میں نے خفت سے دائیں بائیں دیکھا اور کمبل منہ کے اوپر کر لیا۔ سپاہی رویا نہیں کرتے۔ اور وہ بھی فاتح سپاہی۔ کیا ہم کبھی یہ جنگ جیت بھی سکیں گے۔ اس قسم کے سوالات ہمیں اپنے خیال و خواب میں کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ فتح تو ہمارا مقدر ہے۔ ہم ایک بہتر تہذیب، بہتر مذہب اور بہت زیادہ بہتر فوجی طاقت کے حامل تھے۔ کیا لوسی اب سو گئی ہو گی۔ میرے اپنے شہر میں اس وقت شام کے چار بج رہے ہیں۔ ہفتے میں تین فون کالوں کی اجازت تھی۔ ایک کال میں پرسوں اتوار کو کر چکا تھا، اب دونوں کالیں بچا کر رکھ رہا تھا، غالباً جمعہ اورا توار کو کروں گا۔ ا توار کو چرچ سے آ کر لوسی سے بات ہوتی تو وہ سب کا مختصر احوال بھی بتا دیتی۔ میں خود تو شاذونادر ہی چرچ جاتا تھا لیکن اب یہاں صحرا میں گھر سے دور خیال آتا کہ کتنا وقت ضائع کیا ہے میں نے۔ واپس جا کر باقاعدگی سے چرچ جاؤں گا۔ لوسی اب کیا کر رہی ہو گی۔ ہمارے سامنے والے گھر میں جان اکیلا رہتا ہے۔ اس نے کبھی شادی کی ہی نہیں۔ کہتا ہے جب اس کے بغیر کام چل رہا ہے تو یہ جنجال کیوں پالوں۔ لوسی ہے بہت خوبصورت اور تھوڑی سی فلرٹ بھی۔ پب میں وہ خود ہی میری طرف متوجہ ہوئی تھی اور اس ہی نے مجھ سے ڈانس کی فرمائش بھی کی تھی۔ میں اسے پہلی رات ہی گھر لانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ لیکن میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں، اب تو لوسی بہت خوش ہے میرے ساتھ۔ اس وقت تو تنہا تھی، اب وہ تنہا نہیں ہے، اب یقیناً اس میں ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ نہیں لوسی غالباًاس وقت بچوں کو باغ میں لے گئی ہو گی۔ میرے بیٹے کو بیس بال کا بہت شوق ہے وہ بیس بال کے کھیل میں گیا ہو گا۔ لوسی میرے ساتھ بہت خوش ہے، لیکن مجھے یہاں آئے بھی تو آٹھ مہینے گذر چکے ہیں۔ میں نے آتے وقت جان سے کیوں کہا تھا کہ وہ لوسی کا خیال رکھے ؟

آج کا دن کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ آج پھر ایک چوکی پر پوسٹنگ ہے۔ آج میرے ساتھ ڈیوڈ تعینات ہے۔ میری ڈیوڈ سے زیادہ بنتی ہے۔ وہ بھی مقامیوں کو ان کے مقام پر رکھنا پسند کرتا ہے۔ ہم دونوں آج تک یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ قبائلی بدو ہمارے شکر گزار کیوں نہیں۔ انہیں تو ہمارا بہت مشکور ہونا چاہئیے کہ ہم انہیں کمپیوٹر دور میں لے جائیں گے۔ یہ احمق سمجھتے ہیں ہم ان کی معدنی دولت کے لئے یہاں آئے ہیں۔ وہ خود اتنے پیچھے ہیں کہ اس سے استفادہ کر بھی نہیں سکتے تھے، پھر اگر یہ معدنیات نکال بھی لی جائیں تو اس سے مقامی لوگوں کو ہی تو روزگار ملے گا۔ ان کی ترقی اور بہتری کے لئے یہ سارے اقدامات ہیں۔ اور یہ اپنی پہلی فرصت میں ہمیں نقصان پہچانے کے درپے رہتے ہیں جیسے ہم کوئی بیرونی حملہ آور ہیں کہ جس نے ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان کو بے دخل کر دیا ہو۔

پچھلے چند دنوں کے واقعات سے فضا کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ ایک باہمی خوف سے امن قائم ہے۔ ہم نے جنگجو قبائلیوں کو عبرتناک سزائیں دے کر جتا دیا ہے کہ ہم یہاں کھیلے نہیں آئے اور سرکشی برداشت نہیں کی جائے گی۔ لیکن سرکشی ان کی سرشت میں شامل ہے۔ اپنے آگے کسی کو گردانتے ہی نہیں، صرف وقت کی بات ہے یہ پھر جمع ہو کر اپنی سی کوشش کریں گے۔ چوکسی اور بے رحمی سے ہی ان سے نبٹا جا سکتا ہے۔ نہ معلوم کیوں مجھے ہمیشہ یہاں چوکی کی ڈیوٹی پر بھیج دیتے ہیں۔ ہر آنے والی گاڑی سے خطرہ ہوتا ہے کہ چلتا پھرتا میزائل ہی نہ ہو۔ وہ کپتان ہے بھی تو بہت متعصب۔ ایک تو کمبخت جنوب کا ہے اور پھر ہے بھی یہودی۔ میرے خیال میں یہ عیسائیوں سے پرخاش رکھتا ہے۔ جم بھی یہودی ہے اسے اکثر کیوں ہیڈ کوارٹر میں ہی ڈیوٹی ملتی ہے۔ میں یقیناً واپس جا کر کمانڈنٹ کو ایک مراسلہ بھیجوں گا، وہ شمال کا ہے اور پروٹسٹنٹ بھی، وہ سمجھے گا میری بات کو۔

آج کا دن بھی روز جیسا ہی ہے۔ حالتِ جنگ میں ہر روز ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ خواہ یہ جنگ ایک طرفہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اپنے خودساختہ خطرات سے ہوشیار، خوفزدہ، تنہا، مقامی آبادی کو سرنگوں کرنے کا عزم لئے روز صبح اٹھتے اور رات گئے اپنے زخم اور دشمن کی لاشیں گن کر اطمینان سے سو جاتے۔ یہی روز مرہ کا معمور رہا۔ خود اپنی طاقت اور فراست سے آگاہی ہے ادھر دشمن تقریباً غاروں کے زمانے کے ہتھیاروں سے لیس ہے۔ لیکن ڈر اس کے ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اس کے جذبوں سے ہے۔ اسی طاقت کے زعم اور جذبوں کے خوف کی ملی جلی کیفیت میں پھر گشت کی تیاری ہے۔ آج کی گشت نسبتاً آسان ہونی چاہئیے۔ یہ علاقہ اتنا گنجان نہیں اور پچھلے کئی دنوں سے اس علاقے سے اچھی رپورٹیں آ رہی تھیں۔ لگتا ہے لوگوں نے مطیع ہو کر اب سرگرانی چھوڑ دی تھی۔ سارا ملک اسی عقلمندانہ روئیے کو اختیار کرے تو کتنا اچھا ہو۔ میں واپس جا سکوں لوسی اور اپنے بیٹے تھامس کے پاس۔ آج کل ان کی یاد کچھ زیادہ ہی تنگ کر رہی ہے۔ نہ معلوم یہ لوسی کی یاد ہے یا میری محبت کی بے یقینی۔ میں واپس جاؤں گا تو وہ یقیناً میرا انتظار کر رہی ہو گی۔ گشت پارٹی گیارہ سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ چار، تین چار کی فارمیشن میں۔ میں درمیان میں تین کی قطار میں تھا۔ ہم نسبتاً مطمئن تھے لیکن پھر بھی پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے بڑھتے رہے۔ دائیں ہاتھ کی ایک دو منزلہ عمارت سے ایک عورت پیٹ پکڑے باہر آئی۔ سب کی بندوقیں تن گئیں، عورت درد کی شدت سے کراہ رہی تھی۔ ’یہ پورے دنوں سے ہے، وقت ہو گیا ہے ‘ اس کے پیچھے ایک نسبتاً بڑی عمر کی عورت نے کہا۔ غالباً اس کی ماں ہو گی۔

’جم تم دیکھو، باقی لوگ اپنی جگہ پر رہیں لیکن کور کریں ‘ سارجنٹ نے ہدایت کی۔

میں جانا نہیں چاہتا تھا لیکن ایک تو سارجنٹ کا حکم ٹالنا ممکن نہیں تھا، دوسرے سب کو میرے ماضی میں نرس ٹریننگ کا علم تھا۔ عورت اب درد کی شدت سے وہیں سڑک کے کنارے لیٹ چکی تھی۔ بڑی عمر کی عورت بھی وہیں پھسکڑ مار کے بیٹھ گئی اور حاملہ عورت کا سر گود میں رکھ کر رونے لگی۔ میری ہچکچاہٹ دیکھ کر سارجنٹ نے پھر آواز دی۔ ’جم کس بات کا انتظار ہے ؟‘

آس پاس کی عمارتوں سے کچھ سر باہر جھانکنے لگے تھے۔ یہ بات یقینی تھی کہ کئی لوگ پردے کے عقب سے ہمارا ردِ عمل دیکھ رہے تھے۔ اس بات نے سارجنٹ پر دباؤ بڑھا دیا تھا کہ وہ کوئی عملی قدم اٹھائے۔ اب مزید تاخیر سے میرے ساتھیوں کو پتہ چل جاتا کہ میں کتنا خوفزدہ ہوں۔ میں نے اپنی خودکار بندوق اپنے ساتھی کو پکڑائی اور اس عورت کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔ جس لمحے مجھے احساس ہوا کہ اس عورت کی شکل دیکھی بھالی ہے، اس عورت سے کتنا ملتی ہے جو اس دن چیک پوسٹ پر ملی تھی، اسی لمحے میرے داہنے ہاتھ کو پتہ چل گیا کہ اس کے پیٹ کا ابھار مصنوعی ہے۔ اس کے انتقام کی رفتار میری حفاظتی پسپائی سے زیادہ تیز نکلی۔ اس کا جسم ایک دھماکے سے پھٹ گیا، مجھے لگا میرے دماغ میں کسی نے ہتھوڑا دے مارا ہو، آنکھوں کے سامنے ایک سفید پردہ آ گیا پھر میں ہر احساس سے بے گانہ ہو گیا۔ میری آنکھ فیلڈ ہسپتال میں کھلی۔ سارا جسم پٹیوں میں بندھا ہوا تھا۔ جسم کے ہر انچ پر لگتا تھا کوئی ہتھوڑے مار رہا ہو۔ پپوٹوں کی دراز سے کچھ ہیولے سے نظر آئے اور بس۔

’جم کو ہوش آ گیا ہے ‘ آواز کچھ مانوس سی تھی لیکن کس کی تھی یہ میں اندازہ نہیں کر سکا۔

’بھئی اب تو معجزوں پر یقین کرنا پڑے گا‘ ایک سفید کوٹ میں ملبوس شخص نے مجھ پر جھک کر اپنا اسٹیتھسکوپ میرے سینے پر رکھ دیا۔

’ڈاکٹر‘ میرے حواس تیزی سے واپس آ رہے تھے۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر اس سے مصافحہ کرنے کی کوشش کی تو بھک سے فیوز اڑ گیا۔ داہنا ہاتھ محسوس تو ہو رہا تھا مگر وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ کہنی سے نیچے جہاں کبھی، میرا ہاتھ تھا وہاں صرف ایک خلا تھی۔ فوراً تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ مگر ڈاکٹر میری ذہنی کیفیت کو بھانپ گیا۔

’معاف کرنا جم، تمھارا بچ جانا ایک معجزہ ہے، تمھیں یاد ہے تمھارے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘

میرے ذہن میں ایک حاملہ عورت کی شبیہ اتر آئی۔ وہ شاید مجھ پر ہنس رہی تھی۔ دل تو چاہا ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے یہ ہنسی اڑانے والی مسکراہٹ چھین لوں، مگر جتنی تیزی سے اس کی تصویر بنی تھی اتنی ہی تیزی سے غائب بھی ہو گئی۔ ’وہ ایک حاملہ عورت۔۔ ۔ ‘

’ہاں وہ کتیا حاملہ نہیں تھی‘ ڈاکٹر کا لہجہ زہر آلود تھا۔ ’اس نے اپنے آپ کو اڑا کے تمھیں مار ڈالنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہی، مجھے افسوس ہے کہ ہمیں تمھارا داہنا ہاتھ اور داہنا پیر کاٹنا پڑا، مگر تم کو بچانے میں کامیاب ہو گئے ‘۔

’آجکل تو ایسے مصنوعی اعضا نکل آئے ہیں کہ تم بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ گے۔ میرا مطلب ہے بیساکھی کے سہارے چل سکو گے ‘ اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری نے اسے واپس حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا۔ تمھارے معدے کا آپریشن کر کے وہاں ایک نالی لگا دی ہے جس کے سہارے تمھاری خوراک چلتی رہے گی۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ پیشاب کی نلکی بھی فی الحال ایک دو سال رہے گی پھر دوبارہ صورتِ احوال کا جائزہ لیں گے ‘۔ اسے ساری تفصیل بتانے کی اتنی جلدی کیا تھی۔

’تم تو کہہ رہے تھے تم نے مجھے بچا لیا؟‘ میرا دماغ پوری طور پر کام کر رہا تھا۔

’ہاں، ہمیں امید تو نہیں تھی‘ ڈاکٹر کا دماغ شاید پوری طرح کام نہیں کر رہا تھا۔

اس رات وہ پہلی بار مجھے خواب میں نظر آئی تھی۔ میں ٹرین میں واپس گھر کی طرف رواں دواں تھا، اپنی معذوری سے بے خبر۔ یونیفارم پہنے، ہولڈال اٹھائے خوش خوش ٹرین میں جا بیٹھا ہوں میں نے اپنے حصے کی ڈیوٹی جو پوری کر لی ہے۔ لوسی سے ملنے کا اشتیاق، وطن کی بوباس۔ ایسے میں وہ دونوں ہاتھ پھیلائے اس تیزی سے میری سمت آئی تھی کہ میں ڈر کے پیچھے ہو گیا۔ مجھے ڈرتا دیکھ کر وہ ہنس پڑی، میری سامنے والی برتھ پر بیٹھ کر اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ نہ جانے میں اس سے کیوں اتنا خوفزدہ ہوا تھا کہ چیخ کر اٹھ بیٹھا۔ نرس دوڑتی ہوئی آئی اور میں سمجھا اس نے شاید کہا تھا Post Traumatic Stress پھر بازو میں ایک انجکشن کی چبھن یاد ہے۔

اس کے بعد کی کہانی ایک معذور و مفلوج کی کہانی ہے۔ نرسوں نے میرا بہت خیال رکھا۔ دن میں تین وقت میرے معدے کی نالی میں مائع خوراک انڈیل دی جاتی۔ کھانا تو سامنے تھا مگر میرا منہ اس کی لذت کو ترستا تھا۔ مجھے دو فزیو تھیراپسٹ اٹھا کر وہیل چئیر میں بٹھا دیتے، جیسے آپ کسی بھاری بوری کو ادھر سے ادھر منتقل کر دیں۔ ڈاکٹر کی امید کے برخلاف جہاں سے پیر کٹا تھا وہاں زخم میں پس پڑ گئی تھی اور میں مصنوعی پیر نہیں لگوا سکا۔ نہ معلوم کیوں مجھے ہر لحظہ یہی لگتا کہ حاملہ میری طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ ایک دفعہ میں نے اسے وہیل چئیر سے جھپٹ کر پکڑنا چاہا تو وہ غائب ہو گئی اور میں منہ کے بل زمین پر گرا۔ ڈاکٹر نے البتہ مجھے ڈپریشن کی دوائیں شروع کر وا دیں، اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ فیلڈ ہسپتال کے علاج سے اتنا ہوا کہ میری حالت ’نازک‘ سے ’خطرناک‘ پھر ’اطمینان بخش‘ ہو گئی۔

’اب تمھیں واپس بھیجا جا رہا ہے۔ باقی کا علاج گھر کے پاس فوجیوں کے ہسپتال میں ہوتا رہے گا‘ ڈاکٹر نے اپنے تئیں مجھے خوش خبری دی۔ لوسی کو میری حالت کے بارے میں اطلاع پہلے ہی دیجا چکی تھی۔ کیا ساری زندگی لوسی مجھے وہیل چئیر پر سنبھال پائے گی۔ وہ تو صفائی ستھرائی کی اتنی عادی ہے، ذرا سی بو اسے ناگوار گذرتی ہے، میرے مستقل پیشاب کی نالی سے کیسے سمجھوتا کرے گی۔ وہ حاملہ عورت پھر مجھے چڑانے آ گئی۔ کاش میں اسے مار سکتا۔ کیسے ہوتے ہیں یہ لوگ، اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں۔ کوئی مہذب آدمی بھلا کیسے خود کش بمبار بن سکتا ہے۔ یہ کیوں اپنا اچھا برا نہیں پہچانتے۔ ہم انہیں جمہوریت دیں گے، بہتر تہذیب اور تمدن دیں گے۔ انہیں نہ جانے خود مختاری اور آزادی کی ایسی کیا مار ہے کہ اس کے لئے اپنے آپ کو اڑا دیں۔

ایرپورٹ پر لوسی میری منتظر تھی۔ مجھے وہیل چئیر پر آتے دیکھا تو بھاگ کر پاس آ گئی۔

’آ گیا میرا بہادر شوہر۔ مجھے تم پر کتنا فخر ہے جم، تم جیسے سپاہیوں کی قربانی سے ہی ہماری آزادی بر قرار ہے ‘، اس کی آواز میں کپکپاہٹ تھی، آنکھوں میں آنسو۔ پھر بھی مجھے لگا وہ یہ جملے میرے لئے نہیں اپنی تسلی کے لئے بول رہی ہے۔ ’میرے جسم سے آتی پیشاب کی بو کے باوجود وہ میرے جسم سے لپٹ گئی۔ میرا منہ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بے تحاشہ چومنے لگی۔ ’ذرا فکر مت کرو میں نے گھر پر سب انتظام کر لیا ہے، تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی‘۔ اس نے میرا ہاتھ دبایا۔ میرے سارے خدشات دور ہو گئے۔ مجھے لوسی پر پیار بھی آیا اور فخر بھی محسوس ہوا۔ اس نے اپنا آپ میرے لئے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اگلے کئی روز مجھے نہ ٹرین کا سفر ملا نہ ہی وہ حاملہ مجھے پریشان کرنے آئی۔ زندگی بیساکھیوں کے سہارے پہر چل پڑی۔ ایک اپاہج کی زندگی، کھانے، پینے، رفع حاجت کے لئے کسی کی محتاج زندگی۔ مجھے لگا جیسے گزرتے دنوں کے ساتھ لوسی کی تندہی میں کمی آ رہی ہے۔

’جم تمھاری پیشاب کی نالی بدلنے کا وقت ہو گیا ہے ‘ اس نے نلکی مجھے پکڑا دی۔ اس سے پہلے ہمیشہ نلکی لوسی نے خود بدلی تھی نلکی بدلتے وقت مذاق بھی کرتی، ایک بار تو اس نے سہلا نا شروع کیا مگر میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بات بدل دی۔

’ نلکی بدل لو تو مجھے آواز دے دینا‘ شاید مصروف ہو گی میں نے اپنے آپ کو تسلی دی۔ اس رات وہ حاملہ پھر آ دھمکی۔ گندمی رنگ، بڑی بڑی روشن آنکھیں، جن میں اداسی گھُلی ہوئی تھی۔ میں اس سے نگاہیں ملا نہیں پاتا تھا۔ اس بار ٹرین اسٹیشن پر رکی تو وہ باقاعدہ مجھے کھینچنے لگی کہ گو یا ٹرین سے نیچے کھینچ لے گی۔ وہ تو میری چیخوں کی آواز سن کر لوسی نے مجھے اٹھا دیا ورنہ آج شاید کچھ ہو جاتا۔

میرے پیر کے زخم میں ابھی تک پس پڑی ہوئی تھی۔ ہر تیسرے روز پٹی تبدیل کی جاتی۔ آج تیسرا روز تھا۔ شروع شروع میں ایک نرس آ کر گھر پر پٹی بدل جاتی پھر اس نے لوسی کو سکھا دیا کہ زخم پر پٹی کیسے بدلی جائے گی۔ حکومت ایک اپاہج پر اب مزید اخراجات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ’ میں آ رہی ہوں گرم پانی لے کر جم، پٹی بدلوانے کے لئے تیار ہو جاؤ‘ مجھے لوسی کی آواز سنائی دی۔ مجھے کیا تیاری کرنی تھی بس ذہنی طور پر اس درد کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو گیا جو پٹی بدلنے سے ہوتی تھی۔ لوسی کا شاید مقصد بھی یہی تھا۔ وہ پانی کا تسلہ، قینچی، پٹی اور مرہم لے کر آئی تو میں اسے دیکھ کر پہلے تو بھونچکا رہ گیا پھر ہنس پڑا، اس نے چہرے پر ڈھاٹا باندھ رکھا تھا۔

’یہ تم نے کیا حلیہ بنایا ہوا ہے ‘ میں نے پوچھا

’وہ در اصل، جم‘ اس کی آواز میں ہچکچاہٹ تھی۔ ’در اصل زخم سے بہت بدبو آتی ہے ‘ اس نے بالآخر جملہ پورا کیا۔ میری آنکھوں میں آنسو سے بے خبر وہ پٹی بدلنے میں مصروف ہو گئی۔ درد کی شدت سے میری تو چیخیں ہی بدل گئیں۔ ’بس ذرا صبر ابھی تمھیں درد کا انجکشن دے دوں گی‘ اس نے مجھے پچکارا۔ پٹی بدل کر اس نیک بخت نے واقعی مجھے انجکشن لگا دیا۔ میں درد کے اندھیرے سے نکل کر خواب کی وادی میں کیا گھسا کہ ٹرین کا سفر دوبارہ شروع ہو گیا۔ ٹرین پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی، میں نے قریبی ڈنڈا پکڑ لیا کہ گر نہ پڑوں۔ ’یہ بیت الخلا کے نزدیک کیوں بیٹھے ہو، یہاں سیٹ خالی ہے یہاں آ جاؤ‘ کسی نے آواز دی۔ بیت الخلا کی بو میں میری بو دب جائے گی، اب میں اسے کیا بتاتا ’بس یہیں ٹھیک ہوں ‘ بس اتنا ہی کہہ سکا۔ وہ حاملہ آج نہیں نظر آ رہی۔ میں نے چاروں طرف مڑ مڑ کر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تو اچانک لوسی سامنے آ گئی۔

’جم تمھارا اسٹیشن آ گیا ہے ‘ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر پیار سے مجھے سمجھایا۔

’واقعی، لیکن میرے خیال میں تو ابھی بہت دور ہے، یہ اسٹیشن تو میرا نہیں ‘، اس سے پہلے کہ میں اس سے مزید الجھتا وہ غائب ہو چکی تھی۔ پٹی والا پیر شاید مسہری کے پائے سے ٹکرایا کہ درد کی شدت سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنی پتلون سے بیلٹ کھینچی اور پنکھے سے باندھ کر اس کی مضبوطی کا اندازہ کرنے لگا کہ انسانی وزن سے کہیں ٹوٹ تو نہیں جائے گی۔ میرا اسٹیشن آ گیا تھا۔

٭٭٭







بے دخلی



کسی آواز سے میری آنکھ کھلی تو میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا، وہ باہر برآمدے میں کھڑا تھا۔ یقیناً میری آنکھ اس کی موجودگی سے ہی کھلی تھی۔ پہلے تو میں اسے پہچان نہیں سکا۔ آنکھ کھلتے ہی ہر چیز ایک سی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ذہن کے کسی گوشے میں شناسائی کے خلئے بیدار ہوتے ہیں تو شکل کے ساتھ ذہن میں ایک نام ابھر آتا ہے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ آنکھیں مل کر دیکھا تو جیبوں میں ہاتھ ڈالے برآمدے میں کھڑا ہے۔ بہت سارے سوال بیک وقت ہی ذہن میں ابھرے۔ یہ کیسے گھر کے اندر گھس آیا، بیچ رات میں کیوں آیا ہے اور سب سے اہم یہ کہ اب میں اس کو ٹالوں کیسے۔

’ یہ کیا طریقہ ہے جناب آپ گھر میں کیسے گھس آئے، مجھے یاد ہے سونے سے پہلے میں نے صدر دروازہ تو بند کر دیا تھا‘ میں نے ناگواری سے سوال کیا۔

’ صدر دروازہ بند کرنے سے گھر محفوظ ہو جاتا ہے کیا؟ ہلکے سے دباؤ سے پچھلا دروازہ کھل گیا اور میں اندر آ گیا‘ اس نے ایسی لاپروائی سے کہا جیسے یہ ایک فطری عمل ہے جو اس کو کرنا ہی چاہئے تھا۔

’ اب آ ہی گئے ہیں تو فرمائیے کیسے زحمت کی دن کی روشنی شاید آپ کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ‘ میں ذرا طنز سے کہا۔ نیک بخت جو اس کی آواز سن کر لحاف میں کچھ اور نیچے دبک گئی تھی اس نے ہلکے سے میری ران پر چٹکی بھری گویا انتباہ کر رہی ہو۔

’ نہیں میاں دن کی روشنی مجھے تو نہیں کھلتی، لیکن آپ ضرور مجھے پہچان کر دروازہ بند کر لیتے یا آپ کو کوئی ضروری کام یاد آ جاتا۔ رات کی تاریکی میں آپ کی مدافعت پر بھی ذرا غنودگی سی طاری ہو جاتی ہے، پھر یہ کہ ملنا بھی ضروری تھا۔ آپ سے آخر ہمارے بہت دیرینہ تعلقات ہیں، بیٹھنے کو نہیں کہیں گی؟‘

’ اب آپ اندر آ ہی گئے ہیں، چور دروازے سے اور وہ بھی رات کی تاریکی میں تو ذرا بتائیے میں اس وقت آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟‘اس کو بیٹھنے کی دعوت دینا ایسا ہی تھا گویا کوئی عرب اونٹ کو خیمے میں گردن گھسانے کی اجازت دے دے۔ وہ وہیں برآمدے میں کھڑا رہا اور میں کمرے کی کھڑکی کے اس پار۔

’ آپ کو بخوبی علم ہے کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں ‘

’ مجھے واقعی نہیں معلوم، سب خیریت تو ہے آپ کے گھر میں ‘ میں انجان بنا رہا۔

’ جی میرے گھر میں تو سب خیریت ہے، یوں کہئے آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتا ہوں ‘ لگتا تھا اشاروں کنائے میں یہ بھی پی ایچ ڈی کر کے آیا ہے۔

’ میں سمجھا نہیں ؟‘ میں بھی ڈھیٹ بنا رہا۔

میں اپنا قرضہ واپس لینے آیا ہوں ‘۔

اس کے منہ سے وہی نکلا جس کا مجھے ڈر تھا۔ بیچ رات میں بلا بلائے کوئی اپنے گھر کے برآمدے میں کھڑا ملتا تو بقول پطرس بخاری، میں بھی عدم تشدد کو خیر آباد کہہ دیتا۔ مگر یہاں دو مسائل ذرا گھمبیر تھے، ایک تو یہ جسمانی طور پر وہ مجھ سے بہت زیادہ طاقتور تھا، دوسرے میں اس کا مقروض تھا۔ لفظ مقروض شاید اس دلدل کو بیان نہ کر سکے جس میں گھرا تھا۔ میرا بال بال نہیں بلکہ یوں کہئیے میرا رواں رواں قرض میں جکڑا ہوا تھا۔ یہ کیا ہوا، کیوں ہوا، معاملہ اس حد تک کیسے پہنچا فی الوقت یہ بحث فضول ہے۔ میں نے لفظ فی الوقت بہت سوچ سمجھ کر اور ارادتاً استعمال کیا ہے۔ دیکھئیے جب کہیں آگ لگی ہو تو فوری مسئلہ آگ بجھانے کا ہے۔ آگ کیوں لگی یہ تحقیق بعد کی بات ہیں۔ اس تحقیق کی اہمیت سے انکار نہیں کہ بہتری ابتری سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ تو فوری مسلہ آگ پر قابو پانے کا ہے۔ یہ قرضہ بیوی کی شاہ خرچی کی وجہ سے ہوا ہے یا میری جمع تفریق میں نالائقی کی وجہ سے، فی الوقت یہ بات خارج از بحث ہے۔ دوسرے یہ کہ اس بحث سے میرے اور اس نیک بخت کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کا اندیشہ ہے۔ سب سے آسان حل یہ ہو گا کہ ہم ایک دوسرے کو الزام دیں، تم یہ نہ کرتیں تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا وغیرہ، وغیرہ۔ جب کہ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر اس بری گھڑی کو ٹالیں۔

لیکن سیٹھ صاحب یہ تو بیچ رات ہے اور اس وقت تو میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں، ابھی فوراً کہاں سے دوں کچھ وقت کی مہلت اور دے دیں ‘۔

’کچھ روز کی مہلت، یہ جملہ تو سمجھئے پارلیمانی لہجے سے باہر ہو گیا ہے، اس نکتے پر مذاکرات اب نہیں ہوں گے۔ سیٹھ کی اپنی ایک الگ بھاشا تھی۔ اتنے سالوں اس سے معاملہ کرنے کے بعد میں یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ نکتہ اب مزید کام نہیں آئے گا۔

’ اگر مہلت ممکن نہیں اور میرے پاس پیسے بھی نہیں تو پھر کیا ہو سکتا ہے ‘ عجیب سادیت پسند طبعیت تھی میری۔

’ ایک صورت ضرور ممکن ہے اور وہ ہے قرقی۔ وہ پھر اپنی سرمایہ دارانہ لہجے میں بولا۔ اس کی زبان سے وہ الفاظ نکل رہے تھے جن سے میرے کان یا تو نا آشنا تھے یا اس وقت ایسے بن گئے تھے جیسے کسی اسکیمو کان میں عبرانی انڈیلی جا رہی ہو۔

’قرقی؟‘ میرا لہجہ سوالیہ تھا۔

’ جی قرقی کوئی نیا قانون تو نہیں ہے۔ صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ جب لوگ اپنی اوقات سے زیادہ خرچ کرنے لگتے ہیں تو اکثر ان کی جائیداد اور وراثت قرق ہو جاتی ہے ‘۔

’آپ کون ہوتے ہیں مجھے اوقات یاد دلانے والے ‘ میں نے ایک بے تیغ سپاہی کی طرح جوابی حملہ کیا۔

’ اگر آدمی خود اپنی اوقات نہ بھولے تو دوسروں کو اسے اوقات یاد دلانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘۔ طاقت اور دولت نے اس کے لہجے میں خوداعتمادی، طنز، کنایہ، ٹھہراؤ سب ہی تو بھر دیا تھا۔ کیا کوئی طاقتور، امیر آدمی حلیم الطبع ہو سکتا ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ شکر ہے رات کی تاریکی میں وہ انہیں دیکھنے سے قاصر تھا۔ یا صرف یہ کمزور کی زود رنجی ہوتی ہے کہ طاقت کا لہجہ کھل جاتا ہے۔ گفت و شنید یا مذاکرات تب ہی متوازن ہو سکتے ہیں جو برابری کی بنیاد پر ہوں۔ اگر ایک فریق بہت زیادہ طاقتور ہو یا دولت مند ہو تو توازن نہ بگڑنا باعثِ حیرت ہو گا۔

’کیا آپ مجھے بے گھر کر دیں گے ‘ مجھے لگا جیسے نیک بخت نے لحاف کے اندر کروٹ لی ہو۔

’ اس کے علاوہ کیا چارہ ہے۔ اگر اس وقت مجھے پیسوں کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو میں یہ انتہائی قدم کبھی نہ اٹھاتا۔ آپ خود ہی سوچئیے سارے دروازے تو آپ نے خود ہی بند کر دئیے۔ اب میں خود اپنے مفادات کو تباہ کر لوں یا آپ کے مکان کی فروخت سے ان کا تحفظ کر سکوں، آپ کسی چھوٹی جگہ منتقل ہو جائیے ‘ اس نے ہمدردی سے کہا۔ مجھے پتہ تھا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ برآمدے تک آنے والی چاندنی میں اس کے سامنے کے دو دانت اچانک لمبے ہو کر اس کے بند منہ سے باہر نکل آئے تھے۔ خون آشام نے تازہ شکار کی بو سونگھ لی تھی۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کی اپنی جائداد ایک وسیع اراضی پر پھیلی ہے۔ میرے مکان پر اس کی نظر صرف اس کی توسیع پسندی کے پیٹ کا ایندھن ہے۔ شکاری کا پیٹ بھرا ہوا بھی ہو تو بھی وہ عادتاً ہراس ہرنی پر تیر چلانے سے باز نہیں آتا۔ لیکن اس سے کیا بحث کروں، قصور میرا اپنا ہے۔ اپنے آپ کو اس گرداب میں پھنسانے کا ذمہ دار میں خود ہی تو ہوں۔ عدالت کا رخ کروں تو کس برتے پر۔ میرا مقدمہ اتنا کمزور ہے کہ سمجھئے ہے ہی نہیں، جگ ہنسائی کا سبب بنوں گا۔ بچت کا صرف یہی طریقہ تھا کہ اس کی کسی نیک خصلت کو ابھاروں۔ اس کو جذباتی ہیجان اور پشیمانی میں مبتلا کروں شاید مہلت دے دے۔

’ آپ میرا گھر قرق کر کے کیا حاصل کریں گے۔ کوئی اور راستہ سوچتے ہیں ادائیگی کی قسطوں میں اضافہ کر دیجئیے۔ شرحِ سود بڑھا لیں، میں ہر صورت میں راضی ہوں، خدارا ہم کو بے گھر تو نہ کیجئے ‘۔ میری آواز میں بے چارگی تھی۔ مجھے لگا لحاف میں گھسی نیک بخت نے بھی ایک سسکی بھری ہے۔ شاید یہ سسکی اس نے بھی سن لی تھی۔ اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے ایک توقف کے بد جواب دیا۔

’ ایک صورت اور ہو سکتی ہے ‘

’ وہ کیا صورت ہے ؟‘ امید کی کرن پھوٹ پڑی۔ انسانیت اور شرافت پر پھر میرا اعتماد بحال ہونے لگا۔ وہ دوسرا حل بتانے سے ہچکچا رہا تھا۔

’بتائیں تو جناب وہ دوسرا حل کیا ہے ؟‘

’دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنے بچے مجھے دیدیں، میں انہیں پال لوں گا۔ لکھاؤں گا، پڑھاؤں گا، میرے کام آئیں گے، میرے بھروسے کے آدمی بنیں گے ‘۔ میری امیدوں پر پانی پڑ گیا۔ جہاں معاملہ ہوس اور توسیع پسندی سے ہو وہاں شرافت اور انسانیت کی امید کرنا، شرافت اور انسانیت کی توہین ہے۔

’ نہیں ‘ اس سے پہلے کہ میں اسے کوئی جواب دیتا، نیک بخت نے لحاف پھینک کر دوسری پلنگ پر لیٹے دونوں بچوں کو سینے سے لپٹا لیا۔ ’ نہیں آپ یہ بچے ہم سے نہیں لے سکتے، یہی تو ہمارا مستقبل، یہی تو سہارا ہیں ‘۔

’ بھابی جان قرضہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ یہ بچے بڑے ہو کر بھی میرے مقروض رہیں گے۔ انہیں وہی کرنا ہو گا جو میں کہوں گا۔ ابھی سے میرے حوالے کر دیں تو میں قرض معاف کرنے کو تیار ہوں۔ ذرا دور اندیشی سے کام لیجئیے ‘ اس نے نہایت سلاست سے سمجھایا۔

’ بھابی جان ‘ کمبخت کیسی شرافت اور اپنائیت سے مخاطب تھا۔ میں بالکل نہیں چاہتا کہ یہ میری بیوی کو بھابی جان کہے۔ بہتر یہ ہے کہ اسے اس کے نام سے پکارے۔ اپنے خون آشام

لہجے میں، بڑے بڑے دانتوں، لمبی سی ناک اور ڈراؤنے چہرے کے ساتھ۔ کم از کم پتہ تو ہو گا کہ ہم کس سے معاملہ کر رہے ہیں، چھری کس سمت سے آ رہی ہے۔ ’بھابی جان‘ سے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مغل دربار میں کوئی فرنگی تاجر بادشاہ سلامت کو مخمل میں لپٹا خنجر پیش کر رہا ہے۔ شیطان اصلی شکل میں ہو تو پہچان کر اس سے بچا جا سکتا ہے۔ یہاں معاملہ ایسے موذی سے تھاجس کے چہرے پر معصومیت اور زبان میں شیرینی تھی۔

’نہیں میں اپنے بچے کسی قیمت پر نہیں دوں گی، مر جاؤں گی مگر نہیں دوں گی‘ نیک بخت کسی شیرنی کی طرح دونوں بچوں پر سایہ کئے تھی۔

’آپ کی اولاد ہے، آپ کو پورا حق ہے جو چاہے فیصلہ کریں۔ میں تو صرف زمینی حقائق کی نشاندہی کر رہا ہوں۔ ساری عمر مقروض رہنے والی اولاد میری غلام نہیں رہے گی اور کیا ہو گی۔ اور اگر میرا حساب اتنا کمزور نہیں ہے تو، یہ تو کیا آپ کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی انشاء اللہ میرے بچوں اور پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو بٹھا کر کھلائیں گے۔ میں تو آپ کو گلو خلاصی کا راستہ دکھا رہا ہوں۔ یہ حل قبول نہیں ہے تو قرقی کا راستہ کھلا ہی ہے ‘۔

نیک بخت کچھ کہتی یا نہیں یہ راستہ خود مجھے بھی قبول نہیں تھا۔ ذہن بالکل ماؤف تھا۔ اب مجھے سمجھ آ رہا تھا لوگ خود کشی کیوں کر لیتے ہیں۔ لیکن میرے خود کشی کر لینے سے نیک بخت اور میرے نام لیوا بھی سکون نہ پاتے، یہ مسئلہ جوں کا توں رہتا، کوئی اور حل نکالنا پڑے گا۔

’ کوئی اور حل سوچئے، کوئی اور طریقہ ضرور ہو گا۔ آپ جو کہیں گے وہ میں کرنے کو تیار ہوں ‘ میں نے کہہ تو دیا مگر ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں تو کیا گھنٹا گھر پورے زور سے بج رہے تھے، گویا کسی ہونے والی فوتگی کا اعلان کر رہے ہوں۔

’جو میں کہوں گا وہ تو آپ کریں گے ہی لیکن اس سے میرا قرض تو ادا نہیں ہو گا۔ اب اس قرض کی ادائیگی کسی طرح تو آپ کریں گے یا نہیں ؟‘ اس کے لہجے میں تیزی تھی۔ ’یوں سمجھئیے کہ یہ مکان قرق کر کے بھی مجھے گھاٹے کا سودا ہی رہے گا‘۔

’ وہ کیسے، میں پوچھے بنا نہ رہ سکا۔

’ وہ ایسے کہ اب اس مکان میں بچا کیا ہے، کوئی اس کی کیا قیمت دے گا‘، میری آنکھوں میں بے یقینی دیکھی تو اس نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی زور سے کھڑکی پر ماری تو اس کا پٹ نیچے آ گرا۔

’ دیکھا کس قدر سالخوردہ ہے، آپ میری بات پر یقین نہیں کر رہے تھے ‘

’ معاف کیجئے گا، کمبخت دیمک چاٹ گئی اس کو، بس میں بدلوانے ہی والا تھا کھڑکیاں ‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔

’ اور بدلوانے کے پیسے کہاں سے آتے، مجھ سے ہی مزید ادھار مانگتے ‘

اس کا یقیناً مذہب مختلف ہے کہ گرے ہوئے کو اس وقت تک مارتے رہو جب تک کہ وہ دم نہ دے دے۔ وہ پورے پندرہ راؤنڈ کا قائل نہیں تھا، غالباً کہیں اور بھی جانا تھا وصولی کے لئے۔

آپ کہیں تو مزید نمونے پیش کروں۔ اس کی منحوس آواز کانوں میں گونجی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہ سکتا، اس نے چھڑی دیوار میں گھسا دی۔ چھڑی دیوار کے آر پار ہو گئی۔ میری آنکھیں تقریباً باہر نکل آئیں۔ میری دیواریں اتنی بوسیدہ ہو چکی ہیں، ابھی کچھ زیادہ دن تو نہیں ہوئے اس گھر کو بنے۔ معمار بھی بہت دیکھے بھالے تھے، بہت خون پسینے کا گارا لگا تھا، پھر یہ حال کیے ہو گیا۔ کیا موسم بہت نا موافق تھا، میں نے متوحش نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ فاتحانہ نظروں سے مجھے ہی دیکھ رہا تھاجیسے چیلنج کر رہا ہو، اب بھی یقین نہ آیا ہو تو اور مثالیں پیش کروں۔

’ یہ کیسے ہو سکتا ہے ‘ میں نے بے اعتباری سے پوچھا

’ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو۔ اپنے آپ سے پوچھو۔ یہ سب ایک دن میں تو نہیں ہو گیا۔ لگتا ہے بہت محنت کی ہے تم نے اسے بگاڑنے میں۔ یقین جانو تو مجھے بھی اس قدر بری حالت کی امید نہیں تھی، لگتا ہے میرا تو سارا پیسہ ڈوب گیا‘۔

’ نہیں، نہیں میں نے تو بہت خیال رکھا تھا‘ مجھے خود اپنی بات جھوٹ لگی۔

’ کیا خیال رکھا تھا بتاؤ، ذرا پیچھے مڑ کر دیکھو، سوچو، بتاؤ کیا خیال رکھا تھا؟‘

’ ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے، کیا رکھا ہے اس میں۔ ہم آگے بھی نہیں دیکھتے۔ بھئی حال میں زندہ رہنے میں جو مزا ہے وہ کہیں اور ممکن نہیں ‘ میں نے اسے فخر سے سمجھایا۔

’ صحیح کہہ رہے ہو، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئیے لیکن اگلا پچھلا حساب تو رکھنا چاہئیے۔ کبھی مرمت بھی کی تھی اس کی۔ کہیں کا پلستر ادھڑ جائے تو اسے فوراً رفو کرنا پڑتا ہے، نیا پلستر لگانا پڑتا

ہے، ورنہ بارش رس رس کر ساری دیوار خراب کر دیتی ہے۔ تمھارے پاس کوئی کاپی، کوئی رجسٹر کوئی رسیدیں ہیں کہ تم نے کہاں کہاں درستگی کرائی تھی‘

’ نہیں میں نے حساب تو نہیں رکھا، زیادہ ضرورت پڑی ہی نہیں ‘ میں نے ذرا شرمندگی سے کہا۔

’ ضرورت نہیں پڑی، تو وقتاً فوقتاً جو تم مکان کے نام پر قرض لیتے رہے ہو مجھ سے اس کا کیا کیا؟‘ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔ میں نے اور نیک بخت نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور شرمندگی سے ہماری آنکھیں ایک ساتھ جھک گئیں۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اور دیتا بھی تو کیا۔ پیسے لئے تو ضرور تھے لیکن کبھی کہیں سیاحت کے لئے نکل گئے، کچھ نیک بخت کو زیور کا شوق بھی زیادہ ہے۔ پھر یہ کہ میں بھی ذرا نئی گاڑی اور ٹیپ ٹاپ کا خیال رکھتا ہوں۔ آدمی اپنی ظاہری حیثیت سے ہی پہچانا جاتا ہے، بہت خیال رکھنا پڑتا ہے اپنی ظاہری حالت کا۔ ہیرے کو ٹاٹ کے ٹکڑے میں لپیٹ کر رکھ دیجئے کوئی دوسری نظر نہیں ڈالے گا۔ کچھ پیسہ پرانے قرضے اتارنے میں خرچ ہو گیا۔ ہزار خرچے ہوتے ہیں کوئی ایک خرچ ہو تو بتاؤں۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ بجٹ کے وقت اخراجات منہ پھاڑے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب میں اسے کیا سمجھاؤں، مجھ پر جھنجلاہٹ طاری ہونے لگی۔

’ تم نہیں سمجھو گے، تم کبھی ان حالات سے گذرے ہی نہیں، منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہو گے ‘ میں نے اپنی بے بسی کا انتقام گویا لہجے کی کاٹ سے لیا۔

’ نہیں ایسا تو نہیں۔ ہمارا گھر بھی ایک بار دھوئیں سے بھر گیا تھا۔ مگر ہم گھر کو چھوڑ کر بھاگے نہیں، سب نے مل کر آگ بجھائی، پھر جہاں جہاں آگ سے نقصان ہوا تھا اس جگہ کو دوبارہ تعمیر کیا۔ بس ذرا خیال رکھا تھا کہ چولہا اور باورچی خانہ ذرا دور ایک کونے میں تعمیر کریں کہ اگر آگ لگے بھی تو پھیلے نہیں۔ مقامی آگ پر نسبتاً آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے، پھر یہ بھی کوشش کی کہ چولہے کو ہوا کے رخ سے ذرا دور رکھیں۔ بھئی چولہا تو ہر گھر میں ہوتا ہے اس سے تو مفر نہیں لیکن ہوا کے رخ سے اسے الگ کر دیا تو یہ آگ دوبارہ پھیلی نہیں ‘ وہ اپنی سوچ میں بہت دور نکل گیا تھا۔

’نقصان تو بہت ہوا ہو گا‘

’ ہاں نقصان تو بہت ہوا تھا۔ جانیں بھی بہت ضائع ہوئی تھیں۔ لیکن اس سے ہمیں سبق ملا۔ مکان کے نقشے کا دوبارہ جائزہ لیا، چہار دیواری دوبارہ مضبوط کی، دیواریں کھڑکیاں ٹھوک بجا کر دیکھیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ اپنا گھر مضبوط کر لیا ہے۔ اب ہم دوسری سالخوردہ یا خطرے میں گھری عمارتیں خرید کر یا تو انہیں مسمار کر دیتے ہیں۔ اگر زمین اچھی جگہ اور مہنگی ہو تو اس پر نیا ڈھانچہ کھڑا کر لیتے ہیں۔ ورنہ پرانا فرنیچر، لکڑی وغیرہ بیچ کر اچھے پیسے بن جاتے ہیں۔ اکثر تو اس کباڑ سے ایسی ایسی نادر چیزیں ملتی ہیں کہ ساری محنت وصول ہو جائے ‘۔ وہ اپنے جذب کے عالم میں مجھے اتنا کچھ بتا گیا جو شاید ویسے نہ بتاتا، اسے شاید خود بھی اس بات کا احساس ہو گیا۔

’ اس وقت بات میری نہیں آپ کی ہو رہی ہے ‘اس نے لہجے میں تلخی کے باوجود طرزِ تخاطب شائستہ ہی رکھا۔

’ بھئی کچھ کوشش تو میں نے اپنے مکان کو اچھا رکھنے کی ضرور کی تھی لیکن یہاں شب خون اتنی بار پڑا کہ دیواریں ہمیشہ کے لئے شکستہ ہو گئیں۔ یہ جو تم نے اپنی چھڑی دیوار میں گھسائی تھی یہیں ایک بار نقب لگ چکی ہے۔ ایک بار نقب لگ جائے تو پھر دیوار میں وہ مضبوطی کہاں سے آتی؟‘

’ لیکن تمھارے محلے میں تو اتنی چوریاں نہیں ہوتیں۔ تمھارے پڑوسی بھی میرے مقروض ہیں، ان کے احوال سے میں واقف ہوں، کبھی نقب زنی کی اطلاع تو نہیں آئی‘

’ بس اب کیا بتاؤں ‘ میں شرمندگی سے اپنی بات مکمل نہ کر سکا۔

’ نہیں بتاؤ، بتاؤ، میرے لئے جاننا بہت ضروری ہے۔ جانکاری اور معلومات میرے کاروبار میں سمجھو کامیابی کی کلید ہیں ‘ اس نے میرا حوصلہ بڑھایا۔

’ بھئی اندر سے ہی نقب لگتی رہی۔ میرے کچھ سسرالی رشتہ دار ایسے نکلے کہ یہاں رہتے اور نقب لگاتے رہے۔ ہم نے تنگ آ کر کئی دفعہ چوکیدار بھی رکھا۔ قسمت کی خوبی دیکھئیے کہ وہ ان سب سے بڑے چور نکلے ‘ وہ میری داستان بہت دلچسپی سے سن رہا تھا۔

’ اب جو بھی ہے، قرضے کی واپسی کی طرف آؤ، مجھے پیسے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ میں دو حل تجویز کر چکا ہوں، لگتا ہے قرقی ہی ہو گی۔ یہ نقب کی کہانی میں کئی گھرانوں میں سن چکا ہوں، تم لوگوں کو سبق سیکھنا چاہئیے تھا۔ اب اس مکان کو دیکھ کر اپنی حماقت پر افسوس ہو رہا ہے۔ معلوم نہیں میرے آدمیوں نے اس جائداد کے عوض اتنی رقم کیسے دیدی۔ بھئی یہاں تو بنیادی ڈھانچے میں بھی مسائل ہیں ‘۔

’نہیں ڈھانچہ بہت مضبوط ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ‘ میں نے زرا ناگواری سے کہا۔

’ یہ چھت اتنی نیچی کیوں ہے، آجکل تو اونچی چھتوں کا فیشن ہے ‘

’ بھئی کیا بتاؤں اونچی چھتوں میں آواز گونجتی ہے۔ میری بیوی کے کچھ رشتہ دار یہاں رہتے ہیں وہ اپنی آواز سنننا نہیں چاہتے، تمھیں تو معلوم ہی ہے اونچی چھت سے بازگشت پیدا ہوتی ہے اور ہم اپنی بازگشت برداشت نہیں کر پاتے۔ ویسے آپ صحیح کہہ رہے ہیں، چھت اونچی ہی رکھوانی چاہئیے تھی۔ اب نیچی چھت ہونے کی وجہ سے سیدھا کھڑا ہونے میں دشواری ہوتی ہے، فوراً سر ٹکرا جاتا ہے۔

’ اور خرابیاں گنواؤں ڈھانچے کی؟‘

’ بھئی جیسا بھی ہے میرا گھر ہے۔ تمھیں کچھ پتہ ہے نہیں بلا وجہ خرابیاں گنوا رہے ہو۔ در اصل ابا میاں کو ان کے خالو نے پالا تھا۔ جب خالو کا انتقال ہوا تو ابا میاں کو وہ گھر مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ بیوی بچوں کے ساتھ سر پر چھت تھی نہیں، جلدی میں جو نقشہ بن سکا بن گیا، اس پر فوراً تعمیر شروع ہو گئی۔ میری غلطی یہ ہے کہ میں اس کی مرمت اور مضبوطی پر توجہ نہیں دے سکا۔ بس بیرونی آرائش و رنگ و روغن سے کام چلا لیا۔ لگتا ہے اندر سے یہ کھوکھلا ہوتا رہا اور باہر سے دیکھنے والے اسے مضبوط سمجھتے رہے، قصور میرا اپنا ہے ‘۔

’ مجھے انگلیاں اٹھانے اور الزام تراشی کی نہ فرصت ہے نہ عادت۔ تم میاں بیوی یہ کام کرتے رہو۔ قصور کس کس کا ہے، یہ سب کیوں ہوا، اب عذر تراشنے بند کرو۔ مجھے اپنا قرضہ واپس چاہئے۔ اتنی لمبی بحث اور کہانی سے کیا فائدہ۔ میں نے حجت تمام کر لی، میرا ضمیر مطمئن ہے۔ میرا قرض واپس کر دو، تم اپنے گھر خوش میں اپنے گھر خوش۔ نہیں واپس کر سکتے تو اپنی نسل مجھے دے دو، یہ بھی نہیں کرنا چاہتے تو مکان قرق تو ہو گا اور ہو گا بھی آج ہی کی تاریخ میں۔ شکر ہے تم مجھے اس سے نہیں روک سکتے۔ قانون میرا ساتھ دے گا، یہ تو تمھیں بھی علم ہے۔ اگر تم نے قانون سے آنکھ بند کر لی ہے تو قانون تو تمھاری طرف سے اندھا نہیں ہو گیا ‘ اس نے گویا بات تمام کر دی۔

’ جب تم نے ٹھان ہی لی ہے تو پھر جو چاہو کرو، لیکن اب یہاں سے دفعان ہو‘ شکست خوردہ لہجہ جارحانہ ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ صبح سے پہلے تو یہ کچھ کر نہیں سکتا، صبح ہو گی عدالت کھلے گی، یہ قرق نامہ حاصل کرے گا پھر آئے گا۔ ان چھ آٹھ گھنٹوں میں کوئی ترکیب ذہن میں آ جائے گی۔ مجھے اپنی ہشیاری پر پورا بھروسہ تھا، یہ نوبت اس سے پہلے بھی کئی بار آ چکی تھی۔ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا تھا۔

’ چلو اب نکلو یہاں سے ‘، میں نے اسے باہر نکال کر اندر سے چٹخنی لگا لی۔ حالات نے ثابت کیا کہ میں اپنے آپ کو جتنا عقلمند سمجھتا تھا، اتنا میں تھا نہیں۔ صبح سے شام ہو گئی کوئی صورت نہیں بنی۔ دوسرے ساہوکاروں نے بھی قرضہ دینے سے انکار کر دیا۔ کچھ میرے حالات سے واقف تھے اور کچھ بڑے سیٹھ سے خوفزدہ۔ میں مرتے قدموں گھر واپس لوٹا کہ پھر اس سے خوشامد کروں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جہاں میرا گھر تھا وہاں اب صرف ملبے کا ڈھیر ہے۔ ایک بلڈوزر بچے کچے گھر کو مسمار کر رہا ہے۔ وہ بد بخت اس ملبے پر اکڑوں بیٹھا ہے۔ ملبے پر ایک بورڈ لگا دیا ہے جس پر جلی حروف میں لکھا ہے ’نئی ملکیت‘۔

’یہ میرا گھر تھا، یہ تم نے کیا کیا؟‘ میرے منہ سے بین کی سی آواز نکلی

’گھر اس کا ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کر سکے، ورنہ ملکیت بدل جاتی ہے۔ اب میں یہاں جو نیا مکان بناؤں گا تم چاہو تو بحیثیت کرائے دار اس میں رہ لینا‘ اس نے بہت رسانیتے مجھے سمجھایا، میرا بریف کیس ہاتھ سے لے کر رکھا اور مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔

٭٭٭





پرایا جرم



میں کمرے میں داخل ہوا تو گفتگو ایک لمحے کے لئے رک گئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، ہمیشہ یہی ہوتا آیا تھا۔ جہاں میں کسی کمرے، برآمدے، صحن میں داخل ہوا ایک لمحے کے لئے گویا وقت رک جاتا تھا۔ پھر ایک لحظہ ٹھٹک کر جیسے دوبارہ چل پڑتا۔ یہ لحظہ اتنا مختصر بھی ہو سکتا تھا کہ اگر آپ کو معلوم نہ ہو کہ یہ ہونے والا ہے تو آپ اسے محسوس بھی نہ کر سکیں اور بعض اوقات اتنا طویل ضرور ہوتا کہ کوئی کہہ دیتا ‘‘تو میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ دیکھئے میرے سر پر سینگ نہیں ہیں، میں بھی دوسروں کی مانند ایک ناک اور دو کان رکھتا ہوں، اپنے پیروں پر چلتا ہوں، سر پر بال بھی ہیں، مگر نجانے وہ کون سی بات ہے کہ میں محفل میں داخل ہوا اور گفتگو ایک شرمندہ سے لمحے کے لئے رک گئی۔ شروع میں تو مجھے کئی سال اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوا، پھر مجھے یہ بات بہت دلچسپ لگی، میں بار بار کمرے میں جاتا، لوگوں کے منع کرنے سے اور زیادہ جاتا کہ دیکھوں کیا اب پھر، اور یقین کیجئیے مجھے کبھی ناکامی نہیں ہوئی۔ رفتہ رفتہ مجھے اس بات سے بہت کوفت ہونے لگی۔ میرے دل میں ایک خلش سی بیٹھ گئی، مجھ میں کیا کمی ہے ؟

اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ صاحب ہمارے پڑوس میں نئے آئے تھے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تھا کہ ان کے بھی دو بچے میری ہی عمر کے ہیں۔ جب وہ ہمارے گھر آئے تو میں صحن میں اپنے بھائی کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا۔ صمد مجھ سے صرف ایک ہی سال بڑا ہے۔ ہاں میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ جب صمد کمرے میں داخل ہوتا ہے تو وقت ٹھہرتا نہیں، وقت پہچان جاتا ہے۔ نہیں پہچانے تو ہم اس کی یقین دہانی کرا دیتے ہیں کہ ہم وقت کو پہچانیں یا نہ پہچانیں وقت ہمیں ضرور پہچان لے، اور ہمارے ساتھ وہی سلوک کرے جو ہمارے ہم جنسوں نے ہمارے لئے طے کیا ہے۔ میں اپنے نئے پڑوسیوں سے ملنے کے لئے بے چین تھا۔ یہ نئے پڑوسی اپنے ساتھ اپنے بیٹے کو بھی لائے تھے، تقریباً میری ہی عمر کا تھا، جب کہ اس دن کھڑکی سے جو لڑکی نظر آئی تھی وہ آج ان کے ساتھ نہیں آئی تھی۔ صمد مجھے ان لوگوں کے پاس نہیں جانے دے رہا تھا۔ کسی نہ کسی بہانے روک لیتا۔ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ نہیں چاہ رہا میں اندر کمرے میں ان لوگوں کے پاس جاؤں۔ اس سے میرا شوق اور تیز ہو رہا تھا۔ ہاں یہ ایک اور بات ہے۔ میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ جب کوئی ہمارے گھر آتا ہے تو صمد اچانک میرے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتا ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں اندر کمرے میں نہ جاؤں۔ اگر آنے والا نیا ہے اور پہلے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا تو یہ کوشش اور زیادہ شدید ہوتی ہے، جتنا میرا اشتیاق بڑھتا ہے اتنا ہی صمد کا اضطرار۔ لیکن زیادہ تر جیت میری ہی ہوتی ہے، میں ہوں بھی بہت پھرتیلا، کسی نہ کسی طرح اسے غچہ دے کر کمرے میں گھس ہی جاتا ہوں۔ آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں کبھی کبھی تو بیچارے کی پٹائی بھی ہو جاتی ہے کہ اس نے مجھے کیوں جانے دیا۔

خیر تو میں نے جان بوجھ کر اسے معمول سے زیادہ تیز گیند پھینی، ظاہر ہے وہ سنبھال نہیں سکا۔ گیند اس کے پیچھے گئی تو وہ اسے پکڑنے دوڑا۔ وہ ادھر مڑا اور میں ادھر پڑوسی سے ملنے کے اشتیاق میں کمرے میں جا گھسا۔ تو جیسے کہ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں گفتگو ایک لمحے کے لئے ٹھٹھر گئی۔ پڑوسی نے مجھ پر نظر ڈالی اور غیر ارادی طور پر اس کی گرفت اپنے بیٹے کی کمر کے گرد سخت ہو گئی، میں کچھ سمجھ نہ سکا۔

‘‘آؤ بیٹا، بھئی یہ ہمارا چھوٹا بیٹا ارشد ہے۔ ‘‘

نہ جانے کیوں مجھے ابو کا لہجہ شکایتی سا لگا۔ میں اپنے والد کے پاس زمین پر بیٹھ گیا اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے۔ یہ میرا پسندیدہ وقت ہے کہ میں نیچے بیٹھا ہوں اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رہے ہوں۔ لیکن ایسا اکثر نہیں ہوتا، میری کسی نہ کسی بات پر انہیں غصہ آ جاتا اور شفقت کا یہ لمحہ بہت عارضی ثابت ہوتا۔ نئے پڑوسی کی نظریں مجھ پر پڑیں پھر ہٹ گئیں دوبارہ مجھ پر پڑنے کے لئے۔ ایک خفیف سے توقف کے بعد گفتگو کا سلسلہ پھر بحال ہو گیا لیکن اب پڑوسی ہر ایک سیکنڈ کے بعد دزدیدہ نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ جیسے مجھ سے خوفزدہ ہو۔ ہاں آپ یقین کیجئیے وہ مجھ سے خوفزدہ تھا۔ اتنا بڑا لحیم شحیم آدمی بھلا مجھ سے خوفزدہ کیوں ہے ؟وہ گاہے گاہے میری طرف دیکھتا رہا۔ مجھے پتہ ہے میری وجہ سے اس کا دھیان بٹ گیا تھا لیکن میں نے اس سے آنکھیں نہیں ملائیں۔ مجھے اجنبیوں سے آنکھیں ملانا پسند نہیں ہے۔ میں نے ان کے بیٹے کو انگلی سے اشارہ کیا لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھا۔ میں نے اسے اتنی دفعہ آؤ آؤ آؤ آؤ کہا لیکن مجھے لگا کہ وہ اگر اٹھنے بھی چاہتا تو اپنی کمر کے اطراف اپنے والد کی سخت گرفت میں گرفتار بیٹھا تھا۔ میں اٹھ کر ان کے قریب چلا گیا کہ اس کا ہاتھ پکڑ اسے اٹھا لوں۔

‘‘نہیں بیٹا یہ بہت تھکا ہوا ہے۔ ابھی سامان کھول رہے تھے اس میں بہت تھک گیا، پھر کسی وقت کھیلے گا‘‘ ۔ مجھے پتہ تھا وہ جھوٹ بول رہے ہیں، بہانے بنا رہے ہیں۔

میں نے ہاتھ بڑھایا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھا لوں تو میرے پڑوسی نے نرمی سے میرا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک دیا۔ اب یہ فعل ایسے کیا گیا تھا کہ کمرے میں موجود دوسرے لوگوں کو لگا کہ جیسے نرمی سے میرا ہاتھ ہٹا دیا ہو۔ لیکن اصل بات فعل کی نہیں، فعل تو کیا فاعل کی بھی نہیں، بات تو نیت کی ہے۔ میں نے بھی بلبلا کر ان کی کلائی پر کاٹ کھایا۔ پڑوسی نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑایا اور شکایتی نظروں سے میرے والد کی جانب دیکھا۔ وہ پہلے ہی ‘‘ہائیں ہائیں ‘‘ کی آوازیں نکالتے مجھے پشت سے اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔ میرے والد کے بہت معذرت کے باوجود، پڑوسی پھر نہ بیٹھے اور فوراً چلے گئے۔ ہاں میں یہ تو آپ کو بتانا بھول ہی گیا کہ اس دن پھر صمد کی بہت پٹائی ہوئی۔ یہ سین ہمارے گھر میں بہت بار دہرایا جا چکا ہے۔

آپ کا تو مجھے نہیں معلوم لیکن میری اپنی یاد داشت تقریباً چار، پانچ سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ میرے خیال میں تو اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ لوگ ہمارے یہاں آتے، ہم لوگوں کے یہاں جاتے، میں سب بچوں کے ساتھ کھیلتا، بہت ہلکا ہلکا یاد ہے۔ یا شاید سنُ سنُ کر ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے مجھے یاد ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس وقت بھی یہ جملہ ضرور کان میں پڑتا رہتا کہ:

‘‘ بہت شریر بچہ ہی، بھئی‘‘ ، یا یہ کہ

‘‘آپ کا یہ بیٹا بہت شیطان ہے، ماشا اللہ۔ ‘‘

یہ شاید کسی ڈاکٹر کے مطب کی بات ہے کہ جب میرے کان سب سے پہلے اس لفظ "autistic" سے مانوس ہوئے، پھر تو یہ گویا میرے نام کا ایک حصہ ہی بن گیا۔ میرے نام کے ساتھ جیسے وہ قابلیت لکھی جانے لگی جس میں میرا اپنا کوئی دخل نہیں تھا، قدرت کی مہربانی تھی۔ مجھے وہ دن تو خیر خوب یاد ہے جب ابا مجھے اسکول میں داخل کرانے لے گئے۔ میرا حساب غیر معمولی طور پر اچھا ہے، یہ شہر کا ایک پرائیوٹ اور اچھا اسکول ہے۔ مجھے پوری گنتی اور انگریزی کی اے بی سی یاد تھی۔ بلکہ حساب میں تو میں پہاڑے بھی سنا لیتا تھا۔ سب کو یقین تھا کہ میں آسانی سے پہلی جماعت میں داخل ہو جاؤں گا۔ لیکن میرے ٹیسٹ کے بعد نہ جانے کیا ہوا کہ ابا نے مجھے اور صمد کو کمرے سے باہر بھیج دیا، پھر کمرے سے ان کے زور زور سے غصہ کرنے کی آوازیں آتی رہیں، اس میں صرف یہی لفظ "autistic" بار بار دہرایا جاتا رہا۔ ہم لوگ گھر واپس آ گئے تو کسی طرح مجھے یہ پتہ چل گیا کہ صرف صمد اس اسکول میں پڑھے گا۔

‘‘ بیٹا تمھیں ایک خاص، اچھے اسکول میں داخل کرائیں گے ‘‘ ۔ میں اس دن بہت رویا تھا۔ مجھے تو یہ دکھ تھا کہ صمد اس اچھے اسکول میں نہیں جا سکے گا۔ وائے نادانی، کاش میں اس دن ہی آئینہ دیکھ لیتا تو آئندہ آنے والے کئی صدموں سے جانبر ہونے میں اتنا وقت نہ لگتا۔ میں واقعی صمد کے اسکول میں ہی پڑھنا چاہتا تھا۔ اس دن ابا بہت دیر تک میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے رہے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ مجھے اس میں کتنا مزہ آتا ہے۔ اس دن بھی بہت مزا آیا۔ دل چاہتا تھا بس وہ انگلیاں پھیرتے رہیں۔ یوں اس دن میں بہل گیا اور اس دن کیا اس قسم کے کئی دن زندگی میں ایسے آئے جب سر سہلا کر ابا نے مجھے بہلا لیا۔ نیا اسکول بہت خراب تھا۔ میری دوسرے بچوں سے بہت جنگیں ہوتیں۔ اس اسکول کے تو دروازے پر ہی وہ لفظ "Autistic" کندہ تھا۔

کچھ دن تو ایسے ہوتے ہیں کہ آپ کی یادداشت میں نقش ہو جاتے ہیں، کوشش کے باوجود و یادیں دفن ہونے سے انکاری رہتی ہیں۔ میری کتابِ زندگی تو ایسے ایام سے بھری ہوئی ہے۔ اسی اسکول میں میری ناصر سے دوستی ہو گئی۔ میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں میری کبھی کسی سے دوستی نہیں ہو پاتی۔ صمد کے تو بہت دوست ہیں۔ وہ ان کے ساتھ باہر کھیلتا بھی ہے۔ میں نے آج تک باہر جا کر نہیں کھیلا۔ جہاں ہم رہتے ہیں وہاں گھر کے پیچھے گلی میں بہت کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ صمد بھی خوب کھیلتا ہے۔ میں نے اکثر کھڑکی سے دیکھا ہے۔ مگر میں نے آج تک باہر جا کر نہیں کھیلا، معلوم نہیں کیوں۔ ہاں میں اور صمد اکثر اپنے صحن میں کھیلتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی اکثر صمد کا کھیل باہر شروع ہو جائے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔ کتنی بری بات ہے ناں ؟ تو خیر ناصر سے میری دوستی ہو گئی۔ وہ اس طرح کہ ایک دن میری برابر والی کرسی پر جمیل بیٹھتا تھا، میں نے غلطی سے اس کی پنسل لے لی۔ اس کو تو اتنا برا لگا کہ اس نے وہی پنسل بس میرے بازو میں گھونپ دی۔ وہ تو ناصر ہمارے پیچھے بیٹھا تھا اس نے اچانک رونا شروع کر دیا، اس کے زور زور سے رونے سے ٹیچر کی توجہ ہماری طرف ہوئی تو ناصر میرے بازو کی طرف اشارہ کر کے اور زیادہ رونے لگا۔ ٹیچر نے اس دن جمیل کی خوب پٹائی کی۔ ساتھ ساتھ وہ اسے جنگلی بھی کہتے جاتے تھے۔ یہ جنگلی کیا ہوتا ہے ؟ بہت سے لوگ مجھے بھی اس نام سے بلاتے ہیں یوں آٹسٹک اور جنگلی ساتھ ساتھ میری بھی پہچان بن گئے۔ شاید یہ پیار کے نام ہیں، اسی لئے تو ارشد اور ناصر کی جگہ لوگ ہمیں اسی نام سے بلاتے ہیں۔ صرف امی ابا نے کبھی ان ناموں سے نہیں بلایا، وہ ہمیشہ ارشد یا میرا ارشد کہتے ہیں۔ ویسے میں ان کا بہت لاڈلا ہوں۔ نہ ہوتا تو وہ میرے لئے الگ سے آیا کیوں رکھتے۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب امی رو رہی تھیں اور ابا سے کہتی تھیں ‘‘بس اب مجھ سے نہیں ہوتا، بہت تھک گئی ہوں۔ ‘‘ پھر ابا نے میرے لئے آیا رکھ دی۔ نہیں نہیں، امی اب بھی میرا بہت خیال کرتی ہیں، لیکن اب آیا میرا اور بھی زیادہ خیال رکھتی ہے۔

ہمارے اس نئے اسکول میں بہت سے لوگ آتے تھے۔ ہمیں سب کے سامنے نعت، گیت یا قومی ترانہ سنانا پڑتا۔ اس روز ٹیچر ہمیں پہلے سے سمجھا دیتے کہ آج بہت اچھا بچہ بننا ہے۔

بالکل جنگلی نہیں۔ میں اور ناصر تو بہت خوش ہوتے، اس دن ٹیچر ہماری ہر بات مان لیتے۔ کسی بچے کی پٹائی بھی نہیں ہوتی۔ اور یہ بہت خاص بات تھی کہ کسی بچے کی پٹائی نہ ہو۔ ناصر کو ویسے بھی اسکول میں کبھی سزا نہیں ملتی، وہ تو بس چپ ہی رہتا ہے۔ میری طرح ہر چیز کی ضد نہیں کرتا۔ ضد تو میں بھی بس تھوڑی دیر کے لئے ہی کرتا ہوں۔ اصل میں جب مجھے کوئی چیز بہت عجیب لگتی ہے تو میں اسے بہت قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ بس اس کے پاس لھڑا رہتا ہوں، اس میں حرج بھی کیا ہے۔ میں لوگوں سے آنکھیں ملانا پسند نہیں کرتا۔ بس مجھے شرم آتی ہے۔ صرف ناصر سے بات کرنے میں مجھے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔

اب میں دسویں جماعت میں آ گیا ہوں۔ صمد نے کچھ سال پہلے دسویں کا امتحان پاس کیا تھا، تو گھر میں بہت ہنگامہ ہوا تھا، سب کتنا خوش تھے۔ ہر وقت صمد کے کالج کی باتیں ہو رہی تھیں۔ صمد کو اس کالج میں جانا چاہئیے یا اس کالج میں، صمد انجینئیر بنے، نہیں صمد کو ڈاکٹر بننا چاہئیے۔ اس دن ہمارے پڑوسی بھی مبارکباد دینے آئے تھے۔ ان کا ایک سال کا بچہ بھی ساتھ تھا۔ اتنا خوبصورت بچہ تھا۔ مجھے تو بہت پیارا لگا۔ میں تو بس قریب جا کر اسے دیکھتا ہی رہا۔ میں نے چاہا اسے گود میں لے کر دیکھوں مگر اس کی امی کہنے لگیں ابھی دودھ پی کر سویا ہے، اٹھ جائے گا۔ پچھلی بار بھی انہوں نے بتایا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اور اس سے پچھلی بار کچھ اور۔ میں تو بس اس بچے کو تھوڑی دیر اپنی گود میں لینا چاہتا تھا، مگر شاید وہ بھی مجھ سے ڈرتی ہیں۔ مگر میں نے اس بچے کے چٹکی بھی نہیں کاٹی۔ امی اس وقت باورچی خانے میں چائے بنا رہی تھیں۔ جب میں کمرے سے نکلنے لگا تو وہ پڑوسن کہنے لگیں ‘‘جنگلی‘‘ ۔ پتہ نہیں کیوں، حالانکہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا۔

صمد اب میرے ساتھ کم سے کم وقت گزارتا تھا۔ مجھ سے اتنی ہی محبت کرتا تھا، یہ مجھے اچھی طرح پتہ تھا۔ لیکن جب سے کالج گیا تھا اس کی پڑھائی بہت بڑھ گئی تھی۔ اس لئے اب وہ اکثر ہمارے پڑوس میں رہنے والی حمیرا کے ساتھ پڑھنے لگا تھا۔ وہ اکثر اس کے ساتھ رات میں پڑھتا، امی ابو کے سو جانے کے بعد۔

‘‘ارشد، یہ بات امی ابو کو نہیں بتانا‘‘ صمد نے مجھ سے لجاجت سے کہا

‘‘کیوں ‘‘ میں کچھ الجھ سا گیا

‘‘پھر میں تمھارے ساتھ کبھی نہیں کھیلوں گا‘‘

اس کی یہ دھمکی ایسی تھی کہ میں نے اپنا منہ بند ہی رکھا۔ یہاں تک کہ جب میں نے صمد کو حمیرا کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے دیکھا، گو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا لیکن میں نے امی ابو سے کچھ نہیں کہا، صمد بہت عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگا تھا، حمیرا کا سینہ ایسے ٹٹول رہا تھا جیسے کوئی گیند کو چھو کر دیکھ رہا تھا کہ کتنی سخت ہے، چوٹ تو نہیں آئے گی۔

پہلے تو ندا بھی کبھی کبھی اپنی امی کے ساتھ آ جاتی تھی، اب بالکل نہیں آتی۔ ندا مجھ سے صرف ایک سال ہی چھوٹی تھی۔ نہ جانے کیوں ندا آتی تو میرے دل میں عجیب سے جذبات جاگنے لگتے۔ جی چاہتا اسے ہی دیکھتا رہوں۔ وہ بھی دوسروں کے مقابلے میں مجھ سے تھوڑی دیر کھیلنے کے لئے تیار ہو جاتی۔ میں بالنگ کرتا تو وہ صمد کے پیچھے کھڑی ہو جاتی وکٹ کیپنگ کرنے۔ گیند لیتے ہوئے میری انگلیاں اس کی انگلیوں کو چھو جاتیں تو مجھے بہت اچھا محسوس ہوتا۔ جتنی دیر وہ ہمارے گھر رہتی، اس کی امی بھی وہیں برآمدے میں بیٹھی رہتیں۔ مجھے بالکل برا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ اگر وہ اٹھیں تو ندا کو بھی جانا ہو گا۔ اب تو اس کو ہمارے گھر آئے تقریباً ایک سال ہو گیا۔ اس دن بھی ہم تینوں کرکٹ ہی کھیل رہے تھے۔ ندا مجھے گیند کرا رہی تھی اور صمد پیچھے وکٹ کیپنگ کر رہا تھا۔ میں رن بنانے کے لئے دوڑا تو ندا سے ٹکرا گیا۔ میرا ہاتھ غیر ارادی طور پر اس کے سینے سے ٹکرایا تو تو اس نے بہت غور سے مجھے دیکھا۔ مجھے بہت عجیب سا لگا۔ جیسے کوئی بہت نرم سی گیند پکڑ لی ہو۔ انگلی کی پور سے شعلہ سا اٹھا جو پورے جسم میں ایک عجیب آگ سی بھر گیا۔ خواہش کے باوجود میں اس گیند کو چھونے اپنا ہاتھ نہیں بڑھا سکا۔ ندا مجھے بہت عجیب طرح سے دیکھ رہی تھی، پھر جیسے مطمئن ہو کر گیند کرانے دوبارہ پلٹ گئی۔ میری اب یہی کوشش تھی کہ کسی طرح گیند ندا کے پاس جائے تو میں بھاگتا ہوا اس سے ٹکرا جاؤں۔ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، میں نے گیند کو ایسی ہٹ لگائی کہ وہ ندا سے تھوڑی دور جا گری، میں نے دوڑ لگائی تو ندا سے ٹکرا گیا۔ گیند چھو لینے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ میں اپنی انگلیوں پر قابو نہ پا سکا۔ جستجو، احتیاط پر غالب آ گئی۔ میں بھول گیا کہ صمد اور ندا کی امی بھی کمرے میں موجود ہیں۔ میری انگلیاں اس گیند کی طرف ایسے بڑھ رہی تھیں جیسے کوئی بچہ پہلی بار انگلی سے بجلی کا پلگ چھو رہا ہو، دل میں یقین ہو کہ کرنٹ لگ جائے گا، لیکن لمس کی حسئیت، لمس سے ہی مکمل ہو سکتی تھی۔ ندا کی امی بجلی کی سی تیزی سے اٹھیں، اور ندا کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتی باہر لے گئیں۔

‘‘جنگلی، سور‘‘ ندا کی امی کے صرف یہی دو الفاظ ہوا میں تیرتے میرے کانوں میں سوراخ کر گئے۔ اس دن نہ جانے صمد نے ابو سے کیا کہا کہ انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ وہ تو اور مارتے اگر امی مجھے نہ بچا لیتیں:

‘‘اب اس کی وجہ سے کیا گھر میں بچیاں آنا بند کر دیں گی‘‘ ابو نے ہانپتے ہوئے کہا

‘‘ اس میں اس کا کیا قصور ہے، اسے کس نے بٹھا کر سمجھایا ہے، آپ کو سمجھانا چاہئیے تھا‘‘ امی نے میرا دفاع کیا۔

‘‘ پھر بھی صمد اس سے بڑا ہے، اس کی وجہ سے تو کبھی کوئی شکایت نہیں آئی‘‘

‘‘تو کیا مجھے خود شرمندگی نہیں ہے ؟‘‘ امی نہ جانے کیوں رو پڑیں۔ میں جو سر جھکائے خود رو رہا تھا، ایک دم سے ان سے لپٹ گیا۔ انہوں نے مجھے خود سے علیحدہ نہیں تھا، وہ میرے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔

‘‘میں اسے کیسے سمجھاؤں ؟‘‘ ابو کے لہجے میں بے بسی تھی

‘‘خود بات نہیں کر سکتے تو صمد سے کہیں آہستہ آہستہ سمجھائے ‘‘ ۔

اس دن کے بعد سے ندا ہمارے گھر نہیں آئی۔ سامنے ہی تو گھر تھا۔ اس کے اسکول آنے یا جانے کا وقت ہوتا تو میں چپکے سے کھڑکی میں اسے دیکھتا رہتا۔ اس کی امی اس وقت تک دروازے پر کھڑی رہتیں جب تک اس کی وین نہ آ جاتی۔ آج بھی جمعرات تھی، مجھے پتہ ہے وہ صبح اسکول گئی تھی۔ میں نے خود اسے وین میں جاتے دیکھا تھا۔ مجھے پتہ تھا اب اس کے آنے کا وقت ہونے والا ہے۔ میں چھپ کر کھڑکی کے پردے کے پیچھے سے اسے دیکھنے لگا۔ مجھے پتہ ہے کہ امی میری اس تانک جھانک سے واقف تھیں۔ وہ آس پاس منڈلاتی رہتیں۔ شوق کیوں کہ بے ضرر تھا، شاید اس لئے انہوں نے ابھی تک دخل اندازی نہیں کی تھی۔ ندا کی وین آتی نظر آئی، لیکن اس کی امی ابھی تک دروازے پر نہیں آئی تھیں۔ میرے دل میں ایک تمنا سی اٹھی کہ ان کے آنے میں دیر ہو جائے۔ جیسے ہی ندا کی وین رکی، وہ اتر کر اندر جانے لگی، میں نے اسے تنہا دیکھا تو آواز دینے کی کوشش کی، لیکن آواز نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ میں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر اسے ہاتھ ہلایا، اسی لمحے اس کی امی بھی دروازے پر آ گئیں۔ انہوں نے بھنویں اچکا کر میری جانب دیکھا تو ندا سے استفسار کیا۔

‘‘امی وہی جنگلی ہے، پاگل روز کھڑا رہتا ہے۔ سمجھتا ہے مجھے پتہ ہی نہیں ‘‘ ندا کی آوازسے میرا ہاتھ فضا میں ہی جم گیا، میں کھڑکی سے ہٹ آیا۔ جنگلی، پاگل، جنگلی پاگل یہ الفاظ میرے لئے نئے تو نہیں تھے، لیکن نہ جانے کیوں آج درد کچھ زیادہ محسوس ہوتا تھا۔ اب صمد بھی کالج سے آ گیا تھا۔ اس نے میرا لمبا چہرا دیکھا تو پوچھنے لگا ‘‘کرکٹ کھیلو گے ‘‘ ۔ مجھے لگا جیسے پوچھ رہا ہو ‘‘ جنگلی، پاگل تم کیا کرکٹ کھیلو گے ‘‘ ۔ ابو نے کھانے پر آواز دی تو نہ جانے کیوں آج پہلی بار انہوں نے بھی یہی کہا ‘‘جنگلی، پاگل آ کر کھانا کھالو۔ ‘‘ یہ آوازیں اتنی بڑھیں کہ میں نے کانوں میں انگلیاں گڑو لیں، مگر پھر بھی بند نہ ہوئیں۔ مجھے کچھ نہ سوجھا تو قریب ہی پڑی اون کی سلائی اٹھائی اور کان میں گھسا لی۔ درد کی شدت سے میری چیخ نکل گئی۔ میری چیخ سن کر امی، ابو، صمد تینوں ہی دوڑے آئے۔ میرے کان سے خون بہتا دیکھ کر، امی نے تو خود ہی رونا شروع کر دیا۔ صمد نے میرے ہاتھ سے اون کی سلائی لے لی، ابو نے مجھے لپٹا لیا، مجھے پتہ ہے وہ خود بھی بمشکل آنسو روک رہے تھے، درد سے میری چیخیں نکل رہی تھیں۔

‘‘یہ کیا کیا بیٹا، کیا ہو گیا تھا‘‘ مجھے ابو کے ہونٹوں سے لگا کہ شاید وہ یہی کہہ رہے تھے، لیکن مجھے ان کی آواز بہت مدھم سنائی دے رہی تھی۔ اب تمام ناگوار آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں، میرے ہونٹوں پر اس تکلیف کے باوجود مسکراہٹ سی دوڑ گئی، میں نے اپنا گوشۂ عافیت ڈھونڈ لیا تھا، ابو میری مسکراہٹ سے نہ جانے کیا سمجھے، انہوں نے مجھے اور زیادہ سختی سے لپٹا لیا۔

اب میری زندگی نارمل ہو گئی تھی۔ میں نے جنگلی اور پاگل کو شکست دے دی تھی۔ اگر مخاطب کی بات سننی ہوتی تو میں اس کے ہونٹوں کی جنبش سے بات سمجھ لیتا۔ اگر نہ سننی ہو تو مخاطب کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اب سننا میرے اختیار میں تھا۔ آپ نہیں سمجھ سکتے یہ میرے لئے کتنی بڑی تبدیلی تھی۔ اب میں نے ضد کر کے کالج کی کلاسیں لینا بھی شروع کر دیں۔ خدا بھلا کرے انٹر نیٹ کا کہ میں اکثر کورس کمپیوٹر پر ہی پڑھ لیتا۔ ان آوازوں نے کیا پیچھا چھوڑا کہ میرے ذہن نے دوسری آوازوں کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ خواہ یہ آوازیں آنکھوں کے راستے ہی ذہن تک پہنچ رہی ہوں۔ امی، ابو اور صمد بھی میری اس تبدیلی سے بہت خوش تھے۔

میں نے پرائیوٹ بی اے کیا تو مجھے لگا امی، ابو اتنے ہی خوش ہوئے جتنا وہ صمد کے پاس ہونے پر خوش ہوئے تھے۔ اب صمد کی بات پکی ہو چکی تھی اور اگلے ماہ ہی اس کی شادی تھی۔ پھر شہناز بھابھی گھر آ گئیں۔ مجھے لگا کہ شروع میں وہ مجھ سے کچھ خوفزدہ تھیں مگر اب میں وہ پہلے والا ارشد نہیں تھا۔ مجھے بے ضرر اور محبت کا بھوکا پا کر، شہناز بھابھی نے بھی مجھے بھائیوں جیسا ہی پیار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب شہناز بھابی ننھے خالد کو لے کر گھر آئیں تو مجھے اس سے حسد محسوس ہوا۔ مگر جب شہناز بھابھی نے اسے میری گود میں ڈال دیا تو میرا دل محبت سے بھر گیا۔ یہ پہلا بچہ تھا جو کسی نے مجھے چھونے دیا تھا، مجھے اپنی گود میں لینے دیا تھا۔

میرا دل خالد کے لئے محبت سے بھر گیا اور میں ڈرے ڈرتے اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے، سب اسی طرح تو پیار کرتے ہیں بچوں کو۔

بھابی خالد کو ڈاکٹر کے مطب سے لے کر آئیں تو رو رہی تھیں۔ صمد کا منہ بھی لٹکا ہوا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر خالد کو گود میں لے لیا۔

‘‘کیا ہوا بیٹا‘‘ خیریت تو ہے ‘‘ امی نے گھبرا کر پوچھا

صمد نے کوئی جواب نہ دیا، بھابی اور رونے لگیں ۔

‘‘ارے بیٹا، کیا کہا ڈاکٹر نے ‘‘ ابو بھی گھبرا گئے

‘‘ابو ڈاکٹر نے خالد کو autisticبتایا ہے۔ ‘‘

میں جو صمد کے ہونٹ پڑھ رہا تھا، اچانک شدید خواہش ہوئی کہ کاش مجھ میں لبوں کی حرکت سے بات سمجھ میں آنے کی صلاحیت نہ ہوتی۔ بچپن سے اب تک کا تمام سفر میری نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔ میں خالد کو لے کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ سب باتوں میں ایسے مصروف تھے کہ کسی نے توجہ ہی نہ دی۔ ابھی میں اون کی سلائی خالد کے کان میں گھسانا چاہتا ہی تھا کہ صمد نے پیچھے سے میرے ہاتھ سے سلائی چھین لی۔

‘‘جنگلی، نجانے کیا کرنے جا رہا تھا‘‘ کاش میں نے اس کے لبوں کی جنبش نہ دیکھی ہوتی، ذات کا ایک سراب تو باقی رہتا۔ قدرت کے کھیل میں بے ایمانی ضرور کی تھی لیکن پھر بھی ہار گیا۔

٭٭٭







رہزنِ ایماں



ادھیڑ عمر کا گورکن پیٹ پکڑے ہنسے جا رہا تھا۔ جب بھی ان دو مخصوص قبروں کے عزیز و اقارب فاتحہ پڑھنے آتے، اس کا یہی حال ہوتا۔ دوسرے نسبتاً کم عمر گورکن نے اسے حیرت سے دیکھا لیکن یہ عقدہ نہ پہلے کھلا تھا نہ آج یہ معمہ حل ہوتا نظر آتا تھا۔

‘‘کیا ہو گیا اتنا کیوں ہنس رہے ہو، مجھے بھی بتاؤ؟‘‘ وہ پوچھ ہی بیٹھا

‘‘ تو نہیں سمجھے گا، نہیں سمجھے گا، رہنے دے ‘‘

‘‘ ارے بتا ؤ تو سہی، میں بھی تو مزے لوں۔ ہمیشہ ان ہی دو قبروں کے عزیزوں کے آنے پر تم کیوں اتنا ہنستے ہو؟‘‘

ادھیڑ عمر کے گورکن نے فقط نفی میں سر ہلا دیا۔ زیادہ ہنسنے سے اس کی آنکھ میں آنسو آ گئے تھے، انہیں پونچھتا جاتا اور دائیں بائیں نفی میں سر ہلا جاتا۔ اس ہنسی کے دورے میں بولنا شاید اس کے لئے ممکن بھی نہ تھا۔ نسبتاً کم عمر گورکن کو کئی موسموں کا انتظار کرنا پڑا کہ ان قبروں کا راز بہہ کر باہر آ جائے۔۔

" کلمہ پڑھتے رہئیے، کلمہ پڑھتے رہئیے، ذرا بلند آواز سے، شاباش"۔ ادھیڑ عمر کے ایک صاحب، چہرے پر خشخشی داڑھی، سر پر رو مال کو پشت کی جانب سے گرہ لگا کر باندھے ہوئے، جنازے کے آگے آگے چل رہے تھے۔ کبھی کبھی آہستہ ہو کر دانستہ جنازے کے پیچھے ہو جاتے کہ پیچھے آنے والے افراد کی ایمان کی تازگی بڑھا سکیں۔ خود بلند آواز سے کلمہ پڑھتے اور دائیں، بائیں لوگوں کو ٹھہوکا دیتے کہ کلمہ پڑھتے رہئیے، کلمہ پڑھتے رہئیے۔ قبرستان کیوں کہ مرحوم کے گھر سے میلوں دور تھا، اس لئے پہلے تو اسے میت گاڑی میں قبرستان کے قریب پہنچایا گیا۔ پھر یہاں سے مرحوم کے دوست، رشتہ دار اور لواحقین آخری چوتھائی میل کا فاصلہ شانہ بہ شانہ طے کروا رہے تھے۔

جنازے میں تین قسم کے افراد شامل تھے۔ سب سے آگے آگے وہ گروہ تھا جو مرحوم کے قریبی عزیزوں پر مشتمل تھا۔ ان کے چہروں پر غم کے آثار ہویدا تھے۔ اکثر نے سروں پر رو مال باندھ رکھے تھے، زیادہ تر کاندھا دینے کا فریضہ بھی یہی لوگ انجام دے رہے تھے۔ دو نوجوان جو غم سے ذرا زیادہ ہی نڈھال نظر آ رہے تھے انہیں لوگوں نے کمر میں ہاتھ ڈال کر سہارا دیا ہوا تھا۔ ان سب کے لبوں پر کلمہ تھا، چہروں پر غم و اندوہ کی تصویر اور قدم ایک مقصدیت کے ساتھ تیزی سے قبرستان کی جانب اٹھ رہے تھے۔ دوسرا گروہ ان افراد کے پیچھے تھا۔ اس گروہ کے افراد ہلکی آواز میں آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ان کے سروں پر رو مال تھے نہ چہروں پر غم کے بادل سایہ دار تھے۔ لیکن چہروں پر مسکراہٹ یا ہنسی ٹھٹھا بھی نہیں تھا۔ یہ شاید جنازے میں ایک فرض کی خاطر شامل تھے، یا لاشعور میں یہ خوف جاگزیں تھا کہ عدم شرکت سے ان کے یا ان کے لواحقین کے جنازوں پر کون آئے گا۔ عموماً یہ مرحوم کے نزدیکی ہمسایوں اور دور دراز کے رشتہ داروں پر مشتمل گروہ تھا۔ جنازے میں شامل تیسرے گروہ کے افراد سب سے آخر میں چل رہے تھے۔ ان شرکاء کے درمیان سے کچھ دبی دبی ہنسی کی آوازیں بھی آ جاتیں۔ کچھ کے ہاتھوں میں سگریٹ بھی دبی تھی۔ اکثر اپنی باتوں کے جوش میں جب یہ بھول جاتے کہ وہ جنازے کے ساتھ آئے ہیں تو ان کے اور جنازے کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہو جاتا۔ پھر کسی کے توجہ لانے پر اچانک سنجیدہ شکل بنائے تیز تیز قدموں سے باقی جنازے کو جا لیتے۔ کلمے یا درود کا اس گروہ میں کوئی سوال ہی نہیں تھا۔

یہ قبرستان بھی شہر کے دوسرے قبرستانوں کی مانند تھا۔ کوئی کمر بھر اونچی چہار دیواری قبرستان کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ ہزار کوشش اور احتیاط کے باوجود قبروں کی ترتیب بے ترتیب سی ہو گئی تھی۔ جا بجا خود رو جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔ کچھ قبریں پکی سیمنٹ کی تھیں، ان کے سرہانے لگے کتبے اس قبر کے مکین کے نام و نسب کی گواہی دے رہے تھے، کچھ کچی قبریں ایسی دب گئی تھیں کہ زمین پر محض ایک ابھار سا محسوس ہوتا تھا۔ چلنے والا تذبذب میں رہتا کہ اسے پھلانگ کر جائے یا یہ ایک سادہ مٹی کا تودہ ہے اور اس پر سے چل کر گزرا جا سکتا ہے۔ کچھ کچی قبروں میں باقاعدہ سوراخ تھے۔ گزرنے والے ان سوراخوں سے ایسے نظر چرا کر گزرتے کہ کہیں اندر کے مکین پر نظر پڑ گئی تو وہ اپنی حالتِ زار کا شکوہ نہ کر بیٹھے۔ غرض جس شہر میں زندوں کی رہائش ایک معجزہ تھی وہاں مردوں کی رکھوالی کون کرتا۔ قبرستان کا حال ایسا آئینہ ہے کہ جس میں شہر کے زندوں کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔

جنازہ ایک تازہ کھدی ہوئی قبر کے نزدیک پہنچ کر رک گیا۔ دو گورکن کدال اور بیلچے سے اس کے مستطیل کو آخری شکل دے رہے تھے۔ چھ فٹ لمبی اور تین فٹ چوڑی یہ خندق اب مردے کی آخری پناہ گاہ بننے والی تھی۔ جنازے کو قبلہ رخ قبر کے نزدیک رکھ کر، قریبی اعزاء اور گروہ نمبر ایک کے غمخوار قبر کا عمومی جائزہ لینے لگے۔ گروہ نمبر دو کے افراد غیر متعلق سے آس پاس کی قبروں پر نصب کتبے پڑھنے لگے۔ جبکہ گروہ نمبر تین کے کچھ افراد کہیں پکی سیمنٹ کی قبروں پر بیٹھ کر سستانے لگے تو کچھ مختلف ٹولیوں میں بٹ کر سیاست، معیشت،

ٹی وی ڈرامے یا باہمی دلچسپی کے کسی اور عنوان پر بات کرنے لگے۔ فضا میں ایک ایسا ماحول تھا جس میں سب کو پتہ تھا کہ اگلے اقدامات کیا ہونے ہیں، سب منتظر تھے کہ یہ انجام کو پہنچیں تو یہ باب بند ہو سکے۔ ایک صاحب جو کافی دیر سے دوسری قبروں پر نصب کتبے پڑھ رہے تھے، اچانک مڑے اور خشخشی داڑھی والے ادھیڑ عمر کے صاحب کے پاس آ کر بولے:

" جناب یہاں اطراف میں تو سب اہلِ سنت افراد کی قبریں ہیں "

یہ بات گو انہوں نے سرگوشی میں ہی کہی تھی، لیکن شادی اور غم کے موقعوں پر سرگوشیوں کو گویا بھونپو لگ جاتے ہیں۔ تماش بین مسئلے کوجیسے سنتے نہیں بلکہ سونگھ لیتے ہیں۔ اطراف میں کھڑے کچھ افراد دوسری قبروں کے کتبوں کی سمت لپکے، باقی مجمع اب جیسے سانس روکے ان کے فیصلے کا منتظر ہو گیا۔ کئی چہرے تعجب سجائے واپس لوٹ آئے۔

" کہہ تو یہ صاحب صحیح رہے ہیں، آس پاس تو واقعی سب سنیوں کی قبریں ہیں "

"ارے تو کیا ہو گیا، اب یہاں دفنانے میں کیا تفریق کرنا"

"ارے واہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ آپ کیسی عجیب باتیں کر رہے ہیں۔ مرحوم تمام عمر خادمِ اہلِ بیت رہے، اور اب مرنے کے بعد دشمنانِ اہل بیت کے درمیان دفنائے جائیں، کیسی احمقانہ بات کر رہے ہیں آپ"

"تو اب کیا ہو سکتا ہے، اب تو قبر بھی کھد گئی، جنازہ تیار ہے "

"ایسے دفنانے سے نہ دفنانا بہتر ہے۔ آپ عجیب باتیں کر رہے ہیں۔ جنابِ امیر ان کی شفاعت کو آئیں گے تو اطراف میں یہ ماحول ہو گا۔ میرے چچا ہوتے تو میں کبھی نہ دفناتا" ادھیڑ عمر کے خشخشی داڑھی والے صاحب نے انتہائی قطعیت سے گویا فیصلہ صادر کر دیا،

" بات تو صحیح ہے لیکن یہ سب اتنا اچانک اور غیر متوقع ہوا کہ ہماری تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی گویا ختم ہو گئی۔ ابھی کل تک بھلے چنگے تھے۔ تین میل روزانہ چہل قدمی کر تے تھے۔ آج بس سینے میں اچانک ایسا درد اٹھا کہ منٹوں میں مٹی ہو گئے۔ مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا۔ ایسے میں آپ ہی لوگ سوچ لیتے کہ کہاں دفنانا ہے۔ گھر والے تو غم سے نڈھال تھے۔ طویل بیماری ہو تو موت متوقع ہوتی ہے۔ ہر باریکی سوچنے کا وقت مل جاتا ہے۔ اچانک موت اپنے ساتھ اتنی ناگہانی مصیبتیں لاتی ہے کہ سنبھلتے سنبھلتے وقت لگتا ہے۔ مرحوم کی بیوہ تو ابھی تک پچھاڑیں کھا رہی تھی، دونوں بیٹوں کا بھی غم سے برا حال ہے، یہ سب تفصیل سوچے تو کون؟"

"ارے میاں اسی قبرستان کے ایک حصے میں جعفری صاحب نے پورا چار ایکڑ کا پلاٹ مومنین کے لئے وقف کر دیا ہے۔ اللہ انہیں جزا دے اور کربلائے معلیٰ میں دفن ہونے کی توفیق عطا کرے۔ آپ وہاں تازہ قبر کھدوائیے "

اور اس دوسری قبر کا کیا کریں۔ اب یہ گورکن فوراً دوسری قبر تو کھودیں گے نہیں ؟ یہ سوال حاضرین سے زیادہ گورکنوں کے کی سمت اچھالا گیا تھا۔

ارے بھاڑ میں گئی یہ قبر۔ اس کے وارث تو اکثریت میں ہیں جلد ہی کوئی نہ کوئی دعویدار آ جائے گا" انہوں نے معنی خیز انداز میں یہ بات کچھ ایسے کہی کہ چند لوگ ہنس پڑے۔ کیونکہ اس میں دشمنانِ اہلِ بیت کی تذلیل کا پہلو نکلتا تھا لہذا کسی نے برا نہیں منایا۔

"کھودیں گے کیسے نہیں۔ نہیں کھودیں گے تو یہی قبر ان کے کام آئے گی" وہی صاحب آستینیں چڑھا کر بولے۔

دور کھڑے دوسرے اور تیسرے گروہ کے لوگ اب نزدیک آ چکے تھے۔ اس دلچسپ لیکن اہم مذہبی بحث میں سب اپنی اپنی رائے دے رہے تھے۔ مرحوم کے لواحقین کی اکثریت اب اس بات پر مصر تھی کہ انہیں اس قبر میں دفنا کر ان کی عاقبت خراب کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ گورکن کسی طرح بھی دوسری قبر کھودنے پر تیار نہیں تھے۔ مرحوم کے قرابتداروں کے چہرے اب غصے اور اشتعال سے تمتما رہے تھے۔ اس خوف سے ہی سب پر لرزہ طاری تھا کہ خدا نخواستہ غلطی سے یہاں دفن ہو جاتے تو نجانے کیسے عذاب میں گرفتار رہتے۔ قریب تھا کہ گورکن تشدد کا شکار ہوتے کہ اچانک دور سے تین افراد آتے نظر آئے۔ ان کے چہروں پر حزن و ملال اور سروں پر رو مال بندھے تھے۔

"ارے میاں گورکن تم یہاں ہو اور وہاں ابا میاں کا جنازہ تیار ہے۔ تمھیں تو اب سے ڈیڑھ گھنٹے پہلے فارغ ہو کر وہاں آ جانا چاہئیے تھا۔ اور یہ کیا غضب کہ تم نے ان کی قبر رافضیوں کے ٹکڑے میں کھود دی۔ ارے کم بخت تمھیں کیا معلوم کہ والد صاحب ناموسِ صحابہ پر جان دیتے تھے۔ اور اب دفنائے جائیں ان بے دینوں کے درمیان۔ حالانکہ تمھیں بتا بھی دیا تھا کہ پشتوں سے دیو بندی ہیں "

کیا مطلب ہے آپ کا، اور یہ بے دین کس کو کہہ رہے ہیں، پہلے جنازے کے شرکاء میں سے ایک صاحب گرجے ۔

"صاحب آپ لوگ ہم کو معاف کر دیں۔ غلطی ہو گئی۔ اب آپ ایسا کریں کہ قبریں بدل لیں۔ یہ لوگ آپ کی قبر لے لیں اور آپ اپنا مردہ ان کی قبر میں دفنا دیں۔ جو قبر دیوبندی کے لئے کھدی تھی اس میں ایک مومن دفن ہو جائے تو شاید بچت کا ایک اضافی پہلو نکل آئے "

شدتِ غم میں لوگ ایسے نڈھال تھے کہ گورکن کی بات سمجھ نہیں سکے۔

" غلطی ہو گئی۔ پاجی۔ ابھی دوں یہ الٹا ہاتھ گھما کر " خشخشی داڑھی والے ادھیڑ عمر والے صاحب نے نسبتاً عمر رسیدہ گورکن کا گریبان پکڑ کر اسے جھنجھوڑا۔

" نامعقول میں اپنے والد کے غم میں نڈھال نہ ہوتا تو اس وقت تیری خیریت نہیں تھی۔ دوسرے جنازے میں سے آنے والے تین آدمیوں میں سے ایک نے دوسرے گورکن کے ایک دھموکا جڑ دیا۔

"چلو بھئی چلو، قبرستان کا احترام کرو۔ یہ جنازہ اٹھا کر وہاں لے چلو۔ یہ گورکن کم بخت آگے آگے چلے تو راستہ سمجھ میں آئے۔ کلمہ پڑھتے رہئے صاحب، کلمہ پڑھتے رہئے۔ ذرا آہستہ اٹھاؤ میاں، میت کو دھکہ نہ لگے۔ لا الہ الا اللہ محمد ارسول اللہ، کلمہ پڑھتے رہئے صاحب"

جنازہ جعفری صاحب کے پلاٹ پر پہنچا اور وہاں کھدی تازہ قبر کے متوازی قبلہ رخ پر رکھ دیا گیا۔ دوسرے جنازہ والوں نے اپنا مردہ اٹھایا اور پہلی قبر کی طرف چل پڑے۔

" چلو میاں جلدی کرو پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ عصر سے پہلے پہلے اس کی امانت اس کے حوالے کر دو۔ ہاں بھئی آپ ہی اتر جائیں اور لیٹ کر دیکھ لیں، اللہ سب کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ ٹھیک ہے قبر کی لمبائی چوڑائی مناسب ہے، لگتا ان کا مردہ بھی ہمارے جیسا ہی تھا۔ ہاں میاں منہ قبلے رخ کر دیجئیے، شاباش کفن کے بند کھول دیں، اللہ مغفرت کرے، ہٹو بیٹا اب علامہ صاحب تلقین پڑھیں گے "

ارے بھئی وہ آبِ زم زم کس کے پاس ہے، میاں کر چکو چھڑکا ؤ، کیا واپس لے جانے کا ارادہ ہے۔ سب صاحبان مٹی دے دیں، باری باری بھیا، گر ہی مت پڑنا، جی جی ایسے مٹی اٹھائیں، ایسے نہیں، ایسے، ہاں مٹھی بھر کے اٹھاؤ اور کلمہ پڑھ کر ڈال دو"۔ ایک ہی آواز مستقل اس عمل کے مختلف مراحل کو طے کرا رہی تھی۔

‘‘جاؤ بس مٹی میں مٹی مل گئی‘‘ ، مردہ دفنا دیا گیا۔ قبر پاٹ کر گورکن دوسرے جنازے کو دفنانے چل دئے۔ لوگوں نے تازہ قبر میں پانچوں انگلیاں گاڑ کر درود بھیجنے شروع کر دئیے۔

" نہ بیٹا نہ قبر پر پھول نہ چڑھاؤ، ہمارے ہاں پھول نہیں چڑھاتے۔ ہاں یہ تینوں اگر بتیاں سلگا کر سرہانے گاڑ دو، دونوں جنازوں کے لواحقین اپنا اپنا مردہ دفنا کر لوٹ گئے۔ قبرستان کی وہ فضا جس میں ایک وقتی بھونچال آ گیا تھا، ان دو مکینوں کے اضافے کے بعد پھر پر سکون ہو گئی۔ نئے مکینوں کے استقبال میں خاموشی نے اپنی چادر بچھا دی۔ سورج بھی جب زمین کو تکتے تکتے تھک گیا اور اس کی آنکھوں میں نیند اترنے لگی تو وہ بھی اپنی کھولی میں چھپ گیا اور رات کی سیاہی نے زندوں، مردوں دونوں کے عیب چھپا لئے۔ چند دنوں کے بعد دونوں مکینوں کی قبروں پر ان کے ناموں کی تختی لگ گئی۔ ایک ہفتے تک تواتر سے دونوں کی قبروں پر روزانہ کوئی نہ کوئی آتا رہا۔ دوسرے ہفتے یہ آمد و رفت نسبتاً کم ہو گئی اور تیسرے ہفتے تک یہ قبریں بھی سنسان ہو چکی تھیں۔ ہفتے مہینوں میں بدل گئے، وقت کا پہیہ بھلا کس کے لئے رکا ہے۔ جون کی سخت گرمی اب جولائی کی آمد کے ساتھ اپنی شدت کھو رہی تھی۔ کسی کسی دن بوندیں پڑ جاتیں تو موسم ذرا ہلکا ہو جاتا۔ آج صبح سے ہی آسمان سیاہ بادلوں سںے ڈھکا ہوا تھا۔ گرمی کے مارے اور ستائے لوگ بارش کی تمنا میں اس چرخ کہن کی جانب حسرت سے دیکھتے جو اپنے دامن میں کتنے ہی ساون بھادوں چھپائے لیٹا تھا۔ بارش کا امکان نظر آیا تو تمنا اور بڑھ گئی۔ یہ لوگوں کی تمناؤں کا اثر تھا یا کچھ اور، یہ تو نہیں معلوم لیکن اس روز ایسی جھڑی لگی کہ رکنے کا نام نہیں لیا۔ بجلی کی چمک کے ساتھ بادلوں کی گرج سنائی دی تو لونڈے لپاڑے سڑکوں پر نکل آئے۔ مگر اس پرانے اور فرسودہ شہر میں جہاں نکاسئی آب کا مناسب نظام بھی نہ تھا یہ رحمت جلد ہی زحمت میں بدل گئی۔ شہر کی کم ظرف زمین کا دم پھول گیا اور پانی ہر طرف کھڑا ہو گیا۔ مینہ تھا کہ رکنے کا نام نہ لیتا تھا، اب پانی گھٹنوں گھٹنوں کھڑا ہو چکا تھا۔ قبرستان کی زبوں حالی دیدنی تھی۔ پکی قبریں تو کھڑی رہ گئی تھیں لیکن اکثر کچی قبریں دھنس گئی تھیں۔ کئی قبروں سے ہڈیاں بہہ کر باہر نکل آئی تھیں۔ چند ماہ پہلے بننے والی دونوں قبریں بھی کچی ہونے کے سبب اس طوفانِ باد و باراں کو نہ سہہ سکیں، دونوں اب پانی بھرے گڑھوں کی مانند تھیں، جن کا سرمایہ ہڈیوں کی صورت پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ دونوں گورکن حتی المقدور ہڈیوں کو جمع کر رہے تھے:

" احمق یہ تو نے ران کی تین ہڈیاں ایک ساتھ رکھ دیں یہ تین ٹانگوں والا بندہ تھا کیا؟" ذرا عمر رسیدہ اور زیادہ تجربہ کار گورکن نے اپنے ساتھی گورکن کو ڈانٹا۔

چاچا تمھیں بہت پہچان ہے کہ کون سی ہڈی کہاں کی ہے " نوجوان گورکن نے توصیفی لہجے میں کہا۔

"ابے اب گورکن ہڈیاں بھی نہ پہچانے تو پھر درزی کا کام کر لے۔ منکر نکیر بھی مشکل میں پڑ جائیں تو مجھ سے آ کر پوچھ لیتے ہیں " تجربہ کار گورکن نے ہنس کر کہا۔

‘‘ چا چا صحیح صحیح بتا۔ ایک بار مردہ دفنا دیا تو پھر ہڈیوں کی کیا پہچان؟" نوجوان گورکن کے لہجے میں شک بھی تھا اور تجسس بھی۔

"وہ میڈیکل کالج کے لونڈے تیرے پاس آئیں گے تو تجھے بھی پہچان ہو ہی جائے گی، ذرا تسلی رکھ۔ وہ کھوپڑی مجھے پکڑا دے، شاباش"

" چلو اب انہیں ان کی قبروں میں لٹا دیں، آخر ہم نے بھی ایک دن لیٹنا ہے۔ لیکن چاچا کس کی قبر کون سی ہے اب یہ ہمیں کیا پتہ"

"خود ہی تو کہہ رہا ہے ہمیں کیا پتہ۔ کوئی کام تو اللہ کے خود کرنے کے لئے بھی چھوڑ دے۔ تو کیا بنانے والا نہیں پہچانے گا کہ یہ دھڑ جن ٹانگوں پر کھڑا ہے وہ اسی کا ہے یا غیر کا۔ کسی دھڑ پر لگی کھوپڑی اگر بدل جائے تو بھی جس نے بنایا ہے وہ تو جان ہی لے گا۔ سب آسانیاں ہم ہی پیدا کریں گے کیا، جہاں جہاں سمجھ آئے وہیں لٹا کر مٹی ڈال دے "

"ہاں چاچا لیکن تو نے یہ سب بدل دیا تو حساب کس کا ہو گا۔ سر کا یا دھڑ کا"

"میری کھوپڑی تو کہتی ہے کہ سارا فتور سر کا ہے۔ نیچے کیا ہو رہا ہے، سب کھوپڑی سے ہی تو شروع ہوتا ہے".

نوجوان گورکن اچانک کسی خیال سے ہنس پڑا تو بڑے گورکن نے سوالیہ انداز میں بھنویں اچکائیں:

" چاچا وہ پچھلے ماہ جو دو مردے دفنائے تھے، ان کے جنازے کے ساتھ آنے والے بہت لڑ رہے تھے کہ یہاں نہیں دفنانا ہے۔ اب کیا معلوم کس کی ران کس کی کھوپڑی کے ساتھ دفنا دی جائے ؟"

" ابے ان کا تو میں نے پہلی رات ہی انتظام کر دیا تھا" تجربہ کار گورکن اطمینان سے بولا۔

‘‘انتظام کر دیا تھا، تو مجھ سے کچھ چھپا رہا ہے‘‘ نوجوان گورکن اشتیاق میں کچھ نزدیک کھسک آیا۔

" میں نے تو اسی رات قبریں کھود کر دونوں کے مردے بدل دئیے تھے " تجربہ کار گورکن کے لہجے میں استہزا تھا۔

" تو نے مردے بدل دئیے، وہ کیوں ؟"

" ابے میں نہ کرتا تو یہ بارش کر دیتی۔ پر وہ جو میرا گریبان پکڑ رہے تھے اور ایک نے تو تیرے اوپر ہاتھ بھی اٹھایا تھا، انہوں نے مجھے اتنا تپا دیا تھا کہ میں نے سوچا بارش کا انتظار کون کرے۔ وہ اپنے غم کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے۔ بس میں نے ایسا انتظام کر دیا کہ دونوں ایک دوسرے کے مردے کو دعائیں دیتے رہے، ایک دوسرے کے مردے کی بخشش کے وظیفے پر وظیفے پڑھتے رہے۔ باہر ایک دوسرے کو مار دیتے ہیں، مسجد میں گھس کر مار دیتے ہیں، پھر یہاں آ کر ان کی مغفرت کے لئے فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔۔ " تجربہ کار گورکن کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

٭٭٭





سخت جانی ہائے تنہائی



‘‘ہائے میری ٹانگ‘‘ احمد کی سسکی میں درد کی شدت نمایاں تھی۔

ارے کوئی ہے جو میری مدد کرے۔ احمد کا بدن کمر سے نیچے بالکل مفلوج ہو چکا تھا۔ کاش درد کا احساس بھی مفلوج ہو جائے، مٹ جائے۔ درد رہے یا نہ رہے بس محسوس نہ ہو۔ اس درد سے چھٹکارا پانے کے لئے اس وقت وہ سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھا۔ ارے کوئی میری مدد کرے۔ اس نے چاہا کہ ذرا کروٹ لے لے تو شاید آرام آ جائے، مگر جسم نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ درد کی ٹیسیں اب صرف جسم میں نہیں بلکہ جسم سے آگے کہیں روح تک میں کچوکے لگا رہی تھیں۔

کان کا یہ حصہ تقریباً بارہ فٹ چوڑائی اور سولہ فٹ لمبائی کا ایک ہال سا تھا۔ فرش پر چھت سے گرنے والے کچھ چھوٹے بڑے پتھر پڑے تھے۔ دیوار پر لگا بلب معجزانہ طور پر ابھی تک جل رہا تھا، گویا زندگی کے ہونے کی یاددہانی کرا رہا ہو۔ سولہ کان کن بالکل ٹھیک تھے، خراش تک نہیں آئی تھی، بارہ کان کنوں کی ہلکی پھلکی چوٹیں تھیں۔ تین کان کن زیادہ زخمی تھے۔ چھت سے گرنے والے پتھر سے ایک کان کن کے سر پر شدید ضرب آئی تھی اور وہ بے ہوش تھا ایک کان کن کے اعضا پر ضرب آئی تھی اس کا ایک بازو اور پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ کچھ جسمانی چوٹوں سے بے خبر تھے، کچھ درد سے کراہ رہے تھے، سب کے چہروں پر ہراس تھا۔ سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا جو کوئی زبان پر لانے کو تیار نہیں تھا۔ ٹمٹماتا بلب سامنے کی دیوار پر گھٹتے بڑھتے سایوں سے ایسی شکلیں بنا رہا تھا جس سے ماحول ڈراؤنا اور بوجھل ہو گیا تھا۔ کسی نے کھنکار کر گلا صاف کیا تو جیسے تمام کارکن کسی نیند سے بیدار ہو گئے۔ سب کو اپنی چوٹیں یاد آنے لگیں، ہر طرف سے کراہنے کی آوازیں آنے لگیں۔ دو کارکن باقاعدہ آواز سے رو رہے تھے۔ احمد کی آواز ان کی آواز میں دب گئی تھی۔ جو کم زخمی تھے وہ زیادہ آواز سے شور کر رہے تھے۔ گاؤں کا مولوی نور الدین بھی ان دبے ہوئے کان کنوں میں شامل تھا۔ شومیِ قسمت وہ ان سولہ کان کنوں میں شامل تھا جن کا بال بھی بیکا نہیں ہوا تھا۔ جبار نے لپک کر احمد کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا۔

‘‘سب مل کر زور لگائیں تو یہ بڑا تودہ ہٹ جائے اور احمد اس کے نیچے سے نکل آئے ‘‘ جبار نے ساتھی کان کنوں کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا

نور الدین اس وقت تک دوسرے زخمی کے پاس پہنچ گیا تھا اور اس کے گال پر ہلکے ہلکے تھپڑ لگا کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔

‘‘ذرا سا پانی ہوتا تو اسے ہوش میں آنے میں آسانی ہو تی‘‘ نور الدین نے بے بسی سے کہا۔ جواب سب کو معلوم تھا لیکن کسی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔

جن کان کنوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں ان کے سر کے نیچے قمیضوں کا تکیہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ یہ تو اچھا ہوا کسی کے بھی خون جاری نہیں تھا۔

‘‘اب کیا ہو گا‘‘ یہ سوال جو اکتیس ذہنوں کے ہر خلیے میں موجود تھا۔مزید دبا نہ رہ سکا۔ ایک کان کن نے روتے ہوئے یہ سوال کیا داغا، وہ جو ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے سب اچانک ایک ساتھ بولنے لگے۔

‘‘ہونا کیا ہے زندہ دفن ہوں گے ‘‘

‘‘مجھے تو بہت پیاس لگ رہی ہے ‘‘

‘‘میں ایسے زندہ دفن ہونے کو تیار نہیں ‘‘

‘‘مجھے سانس نہیں آ رہی‘‘ ایک کان کن سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔

یہ جملے آپس میں ایسے ہی گڈمڈ ہو کر معنی کھو رہے تھے، جیسے اکلوتے بلب کے پیدا کردہ سامنے دیوار پر رقص کرتے کالے دیو۔

‘‘اللہ کی ذات سے اتنا مایوس بھی نہیں ہونا چاہئیے ‘‘ نور الدین کی آواز میں چھپی امید نے باقی آوازوں کا گلا گھونٹ دیا۔ بے یقینی اور ہراس کے ماحول میں امید کا صور ایسا ہی جادو اثر ہوتا ہے۔ سب بانسری بجانے والے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔

‘‘مجھے نہیں معلوم ہم کب تک قید میں رہیں گے ‘‘ نور الدین کی تقریر جاری تھی ‘‘لیکن میں اس کی ذات سے مایوس نہیں ہوں۔ وہ لوگ یقیناً ہمیں کھود نکالنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ میرا تجربہ بتاتا ہے کہ یہاں ہفتوں کے لئے آکسیجن موجود ہے ‘‘ نورالدین نے جیسے خود بخود کنٹرول سنبھال لیا۔ ‘‘سب سے پہلے اپنی جیبوں، کونے کھدروں میں دیکھئیے کچھ کھانے کے لئے موجود تو نہیں ؟‘‘

‘‘ہاں اگر ہے تو کچھ کھا پی لیں تاکہ سوچنے سمجھنے کی قوت بحال ہو‘‘ ایک کان کن نے رائے دی

‘‘بے وقوف، اگر کچھ نکل بھی آئے تو اسے بہت سنبھال کر خرچ کرو، کیا معلوم یہاں کب تک قید رہنا پڑے ‘‘ دوسرے کان کن نے مشورہ دیا۔

ایک بار پھر مختلف آوازیں گونجنے لگیں ۔

‘‘میرے خیال میں ہمیں ایک لیڈر چن لینا چاہئیے، تاکہ آپس میں اختلاف نہ ہو‘‘ نور الدین اجتماعی بے چینیوں سے نبٹنے کے ہنر سے واقف تھا۔

‘‘ارے احمد کو اس تودے سے نکالنے میں کوئی مدد کرو‘‘ اس سے پہلے کہ کوئی نور الدین کی بات کا جواب دیتا، جبار کی ملامتی آواز آئی۔ اپنی بے حسی سے شرمندہ کئی کان کن اٹھ کر لپکے۔

‘‘ ٹھہرو، یہ بے وقوفی نہ کرنا‘‘ نور الدین اطمینان سے بیٹھا رہا، اس نے اٹھنے کی کوئی کوشش نہیں کی

‘‘کیا مطلب، احمد کو ایسے ہی تودے کے نیچے دبے رہنے دیں، درد سے تڑپ رہا ہے ‘‘ اب جبار چیخ پڑا۔ دیگر کان کنوں نے بھی حیرت سے نور الدین کو دیکھا۔

‘‘ بھئی کان میں حادثہ ہو تو اندر بغیر سوچے سمجھے ایسے دیواریں اور تودے ادھر سے ادھر نہیں کرتے، ہو سکتا ہے مزید مٹی اور چھت سر پر آن پڑے، نکاسی کا راستہ نہ بند ہو جائے۔ ‘‘ نور الدین نے سمجھایا

‘‘جو ہو گا دیکھا جائے گا، ابھی کم از کم اسے تو درد سے نجات دلائیں، اللہ سے امید رکھیں اچھا ہی ہو گا‘‘ جبار نے تودے کو اکیلے ہی ہلانے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

‘‘احتیاط لازم ہے، تودے کو ہٹانے میں بہت خطرہ ہے ‘‘ نور الدین نے ساتھی کان کنوں کو سمجھایا۔ جبار نے سب کی طرف طائرانہ نظر ڈالی، سب کان کن تودے سے پیچھے ہٹ گئے، لیڈر کا انتخاب خود بخود ہو گیا تھا۔

‘‘میں تو کہتا ہوں یہ عذاب ہم پر آیا بھی احمد کی وجہ ہی سے ہے ‘‘ نور الدین جیسے اپنے آپ سے بولا

‘‘کیا مطلب ‘‘ جبار زخمی آواز میں بولا

‘‘تمھیں اپنے یار کی حرکتیں نہیں معلوم‘‘ نور الدین زہر خند لہجے میں بولا۔

‘‘کیا کہنا چاہ رہے ہو‘‘ جبار اس جال میں پھنس چکا تھا پیچھے ہٹنا ممکن نہیں تھا۔

‘‘اپنی کان کے مالک خرم صاحب کی بیوی سے اس کا تعلق سب ہی جانتے ہیں، جلد یا بدیر سزا تو ملنی ہی تھی‘‘ نور الدین کی آواز زہر میں بجھی تھی۔

‘‘بکواس بند کر نور الدین‘‘ جبار غصے سے نور الدین کی طرف بڑھا تو کئی کان کن بیچ میں آ گئے۔ ‘‘ہوش کر جبار، نور الدین صحیح کہہ رہا ہے، کیسی شیخی مارتا تھا احمد‘‘

‘‘لیکن احمد کے ساتھ ہمیں کس چیز کی سزا مل رہی ہے ‘‘ ایک اور کان کن کے سوال کا نور الدین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ احمد اب درد کی شدت سے نکل کر نیم بیہوشی کی وادیوں میں بھٹک رہا تھا۔

دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ میلوں دور ملک برادرز کے دفتر میں کھڑکی کے شیشے بجنے لگے۔ خرم کچھ ہی دیر پہلے دفتر پہنچا تھا۔ آبائی ملکیت تھی کانوں کی۔ یہ بات تو قدرتی تھی کہ وقار ملک کے بعد علی احمد ملک اور اب خرم ملک ہی اس کاروبار کو سنبھالے گا۔ یہ ملکیت صرف تین پشتوں تک ہی محدود نہیں تھی، لیکن صرف اتنی موروثیت ہی خرم ملک کو زبانی یاد تھی۔ ان تین پشتوں کے نفع سے اب کاروبار دوسری شاخوں میں بھی پھیل گیا تھا، چمڑے کا کام، ملبوسات کا کام، اب تو سیمنٹ کی فیکٹری بھی لگی ہوئی تھی۔ لیکن اس دولت کا اصل ماخذ تو یہی کانیں تھیں۔ معدنیات کے علاوہ، سنگِ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھر ملک برادرز کی تجوریوں کا پیٹ بھر رہے تھے۔ خرم ملک آکسفورڈ سے کان کنی میں ماسٹرز کی ڈگری لے کر آئے تھے۔ فیشن تو یہی تھا کہ خاندان کے چشم و چراغ سمندر پار کسی معروف یونی ورسٹی سے ڈگری لے آئیں۔ گو عموماً یہ ڈگری ان کی سوچ، فکر یا علمیت کا کچھ نہیں بگاڑ پاتی تھی۔ پشتوں سے یہ شہسوار ڈگری تو لے آتے مگر تعلیم یافتہ ہونا ان کی سرشت میں نہیں ہوتا۔ یونیورسٹی بھی مطمئن رہتی کہ بیرونِ ملک کے طلبہ ایک سے بھاری فیس موصول ہو جاتی۔ یہ گریجویٹ اپنے گھر جا کر ہی لنکا ڈھاتے۔ مگر خرم ملک کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ انہوں نے تو تعلیم کو سنجیدگی سے لے لیا تھا، ذہنی طور پر بن سنور کر واپس لوٹے تھے۔ کان کنی میں ماسٹر ڈگری کے دوران کان میں ہونے والے حادثے، اس کے اثرات، اس کے بچاؤ اور سدباب سب کے متعلق کتنا ہی تو پڑھا تھا۔ ذہنی طور پر ہر وقت وہ اس حادثے کے لئے تیار تھے، پلان بنے ہوئے تھے، مگر یہ قیامت واقعی آ بھی جائے گی، یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اب جو زور دار دھماکے کی آواز سنی تو اس کا دل بیٹھ گیا۔ کھڑکی میں لگے شیشے اپنی اپنی جگہ اچھل کود کر واپس جم گئے۔ خرم ملک کے دل کا بھی شاید یہی حال ہوا۔ ابھی یہ حقیقت ذہن میں بیٹھی بھی نہیں تھی کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔

‘‘کیا ہوا سر؟‘‘ عالیہ گھبرائی ہوئی دفتر میں داخل ہوئی۔

خرم اس کی بات ان سنی کر کے فون کا چونگا اٹھا چکے تھے۔ دوسری طرف سے وہی خبر ملی جس سے وہ لاشعوری طور پر پہلے ہی واقف تھا۔

فون رکھ کر وہ دھم سے کرسی پر سا گیا۔

‘‘کیا ہوا سر‘‘ عالیہ نے اب نزدیک آ کر خرم ملک کے شانوں پر ہلکا مساج شروع کر دیا۔ خرم برطانیہ سے شادی کر کے لوٹے تھے لیکن عالیہ کے سحر سے نہیں بچ سکے تھے۔ پہلی غلطی تو اس وقت ہوئی جب عالیہ کو اس کی شکل و صورت دیکھ کر اپنی سیکریڑی کے طور پر ملازم رکھ لیا۔ عالیہ پڑھی لکھی تھی اور سابقہ تجربہ بھی تھا، لیکن خرم نے یہ فیصلہ دماغ سے نہیں دل سے کیا تھا۔ اس غلطی کے بعد پھر دوسری غلطیاں ہوتی چلی گئیں۔ اس پر طرہ یہ کہ عالیہ نے اپنی حیثیت سے زیادہ کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا۔ اب اس دہرے رشتے کی مقناطیسیت چاہنے کے باوجود انہیں آزاد نہیں ہونے دیتی تھی۔

خرم نے کرسی سے اٹھ کر کوٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو عالیہ اسے پہلے ہی وا کئے تیار تھی کہ وہ اپنے بازو اس میں ڈال دے۔

‘‘کان میں دھماکہ ہو گیا ہے ‘‘ ابھی تفصیلات کا نہیں پتہ۔ الماری میں سے ‘‘حادثے کے بعد ‘‘ کے عنوان کا فولڈر نکالو اور اس پر عمل شروع کراؤ۔ انجینئر سے کہو فوراً مجھ سے کان پر ملے۔ سب ملازمین سے کہو چھٹی کے بعد بھی موجود رہیں کہ کوئی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ‘‘ خرم تقریباً بھاگتے ہوئے دفتر سے نکل رہے تھے، ساتھ ہی ہدایات کا سلسلہ جاری تھا۔ حادثے کی مختلف جہتیں ذہن میں گھوم رہی تھیں۔ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے تک عالیہ کو ہدایات دیتے رہے۔ ڈرائیور کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دھماکے کی آواز نے ایک غیر محسوس طور پر مالک اور مزدور سب کی حسیت کو ایک خاص سطح پر ہموار کر دیا تھا۔ خرم کے دروازہ بند کرتے ہی ڈرائیور نے تیزی سے کار کان کی طرف بڑھا دی۔

کان میں وقت جیسے ٹھہر گیا تھا۔ ٹھٹکا ہوا، سہما ہوا وقت، جیسے کوئی جانور اچانک کار کے سامنے آ جائے اور شش و پنج میں رہے کہ آگے بھاگنا بہتر ہے یا واپس لوٹنا۔ وقت بھی ایسے ہی منجمد ہو گیا تھا۔ زخمی کان کن اپنی اپنی جیبوں، اوور آل، اوزار کے تھیلوں اور بکسوں کی تلاشی لے کر سامان جمع کر رہے تھے۔ ٹارچ، ماچس، پانی، پٹی کرنے کے قابل کوئی سامان، غذا یا پینے کے قابل کوئی شے۔ یہ سب چیزیں ایمانداری سے ایک ہی جگہ جمع کی جا رہی تھیں۔ یہ سارا کام ایسی خاموشی سے ہو رہا تھا جیسے آواز نکلی تو کوئی اور دیوار گر پڑے گی۔ احمد کی درد بھری آواز بھی اب بند ہو گئی تھی، درد شاید مایوس ہو گیا تھا یا بے ہوش کی وادی میں پناہ مل گئی تھی۔ مشکل یہ تھی کہ یہ کام فوراً ہی ختم ہو گیا۔ کون سا ایسا لق و دق میدان تھا۔ چاروں طرف کان کی دیواریں، نیچی چھت، گنے چنے اوزاروں اور غذا کے تھیلے، سب کی تلاشی فوراً ہی مکمل ہو گئی۔ اب وہ سب پھر اضطراب میں تھے کہ اب کیا کریں۔ نور الدین بھی اتنی جلد فراغت پر مضطرب تھا مگر اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ وہ جانتا تھا انہیں مصروف رکھنا کتنا اشد ضروری ہے۔ جیسے ہی فارغ ہوں گے اپنی صورت حال کے متعلق سوچنے کا موقع ملے گا، اور مایوسی، نا امیدی انہیں گھیر لے گی۔ امید ان کی مشترکہ دوست تھی، جس نے سب کو ایک بندھن میں باندھ دیا تھا۔ مایوسی اور نا امیدی ان کان کنوں کی حیوانی جبلتوں کو بیدار کرتی، زندہ رہنے کی تڑپ ایک دوسرے کے مقابل صف آرا کر دیتی۔ انہیں مصروف رکھنا کتنا ضروری لیکن کتنا دشوار ہو گا، نور الدین اس خیال سے ہی سہما جاتا تھا۔

‘‘اب جتنی بھی غذا ہے اسے فی کس کے حساب سے تقسیم کر دو۔ لیکن ایسے خرچ کریں گے کہ کم از کم یہ تین دن تک تو چل سکے۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں پڑے گی، پھر ہم آزاد ہوں گے ‘‘ ۔

نور الدین کو خود بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ تین دن کا دورانیہ کہاں سے اس کے ذہن میں آیا۔ لیکن اتنا ضرور تھا کہ اب کم از کم اسے اتنا وقت ضرور مل گیا تھا۔

‘‘تین دن؟‘‘ کسی سمت سے آواز آئی۔

تین دن ہی تو ہیں، تین ماہ تو نہیں۔ آرام سے گزر جائیں گے۔ اپنے رب کو یاد کرو اور آپس میں اخلاص سے رہو۔ اس وقت ہمیں سخت ضرورت ہے۔

‘‘نور الدین، احمد کو بھی ذرا دیکھ لے ‘‘ کسی نے رائے دی

‘‘خود کیوں نہیں دیکھ لیتے ‘‘ نور الدین ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ‘‘سزا دینا اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، بچانا چاہے گا بچا لے گا، مالک کی عورت پر نظر رکھنے والے کا مر جانا بہتر ہے ‘‘ ۔

اتنے میں عقب سے ایک کراہ کی آواز آئی۔ ایک بیہوش مریض ہوش کی وادی میں واپس قدم رکھ رہا تھا۔ نور الدین نے لپک کے اس کا سرہانا اپنی گود میں رکھ لیا۔ چند سال ایک کمپونڈر کا کام کرنے کا تجربہ تھا۔ سر گود میں رکھنے میں پوری احتیاط برتی تھی کہ سر سیدھا رہے۔ گردن کی ہڈی پر ضرب ہوئی تو بے توجہی سے بات خراب بھی ہو سکتی ہے۔

‘‘پانی‘‘ زخمی کے منہ سے نکلا

‘‘ذرا سا اس کے منہ میں پانی تو ٹپکا دو‘‘ نور الدین نے ایک کان کن سے کہا

‘‘لیکن ابھی تقسیم مکمل نہیں ہوئی‘‘

‘‘کوئی بات نہیں، بعد میں اس کے حصے میں سے یا میرے حصے میں سے کم کر لینا، لیکن ابھی تو اس کو پانی دے دو۔ ‘‘ نور الدین نے بڑے رسان سے کہا۔

اس سے نبٹ کر، وہ دوبارہ اپنی جگہ بیٹھنے سے پہلے دوسرے زخمیوں پر نظر ڈالنا نہیں بھولا تھا۔ احمد کے پاس جبار تھا، نور الدین نے اس کی طرف جانے کی زحمت نہیں کی۔ ایک چادر نما کپڑا بچھا کر اب اس پر خورد و نوش کی جو اشیا مل سکی تھیں انہیں اکتیس حصوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا۔

‘‘اگر جلد ہی کوئی آسرا نہیں بنا تو کیا ہو گا‘‘ نورالدین نے دل میں سوچا۔ ‘‘جب تک امید باقی ہے، یہ سب کان کن مہذب ہیں، بلکہ اس مصیبت میں گرفتار ہونے کے سبب باہمی تعاون بڑھ گیا ہے۔ کسی ایسی حرکت کا امکان نہیں جس سے بچانے والا اپنا ارادہ بدل دے۔

ڈرائیور نے گاڑی حادثے والی کان سے تھوڑے فاصلے پر روکی تو خرم فوراً باہر آ گئے۔ لوگوں کی ایک بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔ عورتوں کے بین کرنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ لوگوں کی پریشانی ابھی اشتعال میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ پھر بھی کان کے دو حفاظتی گارڈ خرم کے نزدیک آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ مایوس اور غمگین آدمی اپنا غصہ کسی پر بھی نکال سکتا ہے۔

‘‘اطلاع یہ ہے کہ حادثے کے وقت کان میں کوئی نوے مزدور تھے۔ ان میں سے انسٹھ باہر نکل آنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اکتیس کان کن لا پتہ ہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ کان میں پھنسے ہوئے ہیں ‘‘ انجینئر نے خرم کو رپورٹ دی۔

‘‘ ان کے زندہ رہنے کا کیا امکان ہے ‘‘ خرم کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ انجینئیر کو قریب آ کر سننا پڑا۔ لیکن وہ اس سوال کے لئے تیار تھا۔

‘‘جہاں چھت گری ہے اس کے پیچھے ایک ہال نما جگہ ہے جہاں اس وقت کھدائی ہو رہی ہے، امکان ہے کہ یہ وہاں موجود ہوں گے۔ اگر کسی بھاری پتھر یا تودے کے نیچے نہیں دب گئے تو فوری خطرہ نہیں ہے ‘‘ انجینئیر کی آواز بھی اتنی ہی دھیمی تھی۔

‘‘ہمارے پاس کتنا وقت ہے ‘‘ کیا ڈاکٹر کیا انجینئر اس سوال سے سب ہی گھبراتے ہیں۔ کتنا وقت باقی ہے، سارے عمل اور کردار کا دارومدار اسی کے گرد گھومتا۔ اسی لئے اپنی تمام سائنسی تربیت کے باوجود انجینئیر کے لئے یہ سوال سب سے ٹیڑھا تھا۔

‘‘شاید چند دن، سارا انحصار غذا اور زخمیوں کی حالت پر ہے ‘‘ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا

اب خرم نے مجمعے کی طرف رخ کیا۔ اس کی پیشہ ورانہ تربیت یہی کہہ رہی تھی کہ صورت حال کا قرار واقعی جائزہ پیش کر دے۔ اچھے برے سارے عوامل۔

‘‘آپ سب کو معلوم ہے کہ کان نمبر سولہ کی چھت گر گئی ہے۔ ‘‘ خرم نے مضطرب چہروں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ ہمارے اکتیس دوست لاپتہ ہیں۔ امید ہے کہ یہ ملبے کے پیچھے ایک ہال نما کمرے میں قید ہو گئے ہیں۔ ‘‘ مجمعے نے واضح طور پر سکون کا ایک مشترکہ سانس لیا۔

‘‘لیکن، لیکن اب اس ملبے کو بہت احتیاط سے اٹھانا ہے کہ جہاں وہ سب مقید ہیں، اس حصے پر دباؤ نہیں پڑے۔ فیصل آباد سے بڑی کرینیں پہلے ہی چل پڑی ہیں۔ لیکن ملبہ ہٹا کر راستہ بنانے میں چند دن بھی لگ سکتے ہیں۔ ‘‘ اب مجمعے کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ ‘‘میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انتظامیہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گی‘‘ ۔ لوگ شاید اس سے بھی زیادہ بری خبر کے منتظر تھے کہ وہ اس سہارے سے اپنی امیدیں باندھ کر وہیں بیٹھ گئے۔

‘‘عارضی خیمے لگوا کر، کچھ یہاں روشنی کا انتظام کریں ‘‘ خرم نے ہدایات دیں ‘‘ پھنسے ہوئے کانکنوں کے جو اعزا یہاں رہ کر انتظار کر رہے ہیں انہیں خیموں میں جگہ دیں، ان کے کھانے پانی کا میری طرف سے انتظام ہو گا۔ انجینیر صاحب آپ اپنی ساری توجہ ملبے کے پار راستہ بنانے پر مرکوز رکھیں ‘‘ ۔

‘‘ملک صاحب یہ کان کنوں کی آج کی شفٹ کی فہرست ہے ‘‘ ایک اوورسیر نے خرم کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھما دیا۔ ‘‘جو لوگ باہر آ گئے ہیں ان کے نام پر میں نے ایک لکیر کھینچ دی ہے ‘‘ ۔

خرم پھنسے ہوئے کانکنوں کی فہرست پڑھنے لگا۔ انگلستان سے آنے کے بعد اس نے کوشش کی تھی کہ اپنی کانوں میں کام کرنے والے تقریباً دو سو کان کنوں کو وہ نام سے جان سکے۔ فہرست پر نظر دوڑاتے ہوئے

اس کی نظر احمد کے نام پر آ کر رک گئی۔ احمد پہلے اس کے گھر میں ڈرائیور تھا۔ اپنی بیوی کا ڈرائیور کی طرف التفات کا معاملہ کچھ زیادہ چھپ نہ سکا تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد خرم کو ایسی چہ می گوئیاں سننے کو ملیں کہ اسے یقین نہ آیا۔ اپنا دامن خود صاف نہ ہونے کی بنا پر اس میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ بیوی سے پوچھ گچھ کرتا۔ شکر ہے اوورسئیر نے احمد کو گھر کی ڈرائیوری سے ہٹا کر کان میں لگا دیا تھا، یہ مسئلے کا قابلِ قبول حل تو نہ تھا مگر اس سے خرم کو وقت مل گیا تھا کہ اپنے معاملات پر نظر ثانی کر سکے۔ اب جو فہرست میں احمد کا نام دیکھا تو دل میں عجیب عجیب خیال آنے لگے۔ شاید قدرت نے یہ موقع اسے جان بوجھ کر دیا ہے۔ ایک قدرتی حادثے کے باعث اس عذاب سے چھٹکارا مل جائے تو کیا اچھا ہے۔

اوورسئیر خرم کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا دزدیدہ نگاہوں سے جائزہ لے رہا تھا گویا اس کے دل میں جاری جنگ سے واقف ہو۔

کان میں اب انتظار کا موسم شروع ہو گیا تھا۔ اشیاء کی تقسیم مکمل ہو چکی تھی۔ زخمیوں کی حتی الامکان مرہم پٹی کر دی گئی تھی۔ اب انتظار تھا کسی آواز کا، کسی اجنبی روشنی یا سائے کا۔ پژمردہ چہرے، ایک دوسرے سے آنکھیں ملانے سے گریزاں۔ فضا میں اب ایک بساند سی شامل ہو گئی تھی۔ حادثے کو کئی گھنٹے ہو چکے تھے۔ دو کان کن مزید برداشت نہیں کر سکے تھے اور ایک کونے میں جا کر پیشاب کر آئے تھے۔

‘‘نور الدین، ایک بات مجھے تنگ کر رہی ہے ‘‘ ایک کان کن اپنا منہ نور الدین کے کان کے پاس لا کر بولا۔

‘‘وہ کیا ہے میاں ؟‘‘

‘‘نورالدین وہ، وہ ملک صاحب بھی تو اس احمد سے واقف ہیں ‘‘

‘‘تو؟‘‘

‘‘تو یہ کہ‘‘ ایک توقف آ گیا، کان کن کچھ سوچ رہا تھا لیکن کہہ نہیں پا رہا تھا۔

‘‘ابے تو کیا؟‘‘

‘‘تو ملک کے لئے اس سے بہتر موقع کیا آئے گا‘‘

‘‘نہیں ‘‘ نور الدین سناٹے میں آ گیا۔ ‘‘ایسا کیسے ممکن ہے، اور ہم سب‘‘ لیکن اس کی آواز میں ایک بے یقینی تھی۔

‘‘تیرے ذہن میں یہ وسوسہ آ بھی گیا تھا تو اپنے تک نہیں رکھ سکتا تھا؟‘‘ نور الدین الٹ پڑا۔ لیکن آواز دھیمی ہی رکھی تھی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ لاعلمی ایک نعمت بھی ہو سکتی ہے، آج ثبوت بھی مل گیا۔

‘‘نہیں، تو خرم صاحب سے واقف نہیں، میں جانتا ہوں۔ فکر نہ کر۔ وہ ہم سب کو بچانے کی پوری کوشش کریں گے۔ اور پھر اوورسئیر، سرکاری کارندے، ہمارے گھر والے ‘‘ نور الدین کچھ اسے تسلی دے رہا تھا کچھ اپنے آپ کو۔

‘‘کیا وقت ہو گیا، کتنے گھنٹے ہو گئے ہمیں یہاں پھنسے ‘‘ ایک کان کن نے سوال کیا۔

‘‘کوئی چودہ کلاک ہو گئے ہیں ‘‘ ایک ساتھی کی روہانسی سی آواز آئی۔

‘‘میرے خیال میں ہمیں کچھ سونے کی کوشش کرنی چاہئیے ‘‘ نور الدین نے رائے دی۔

‘‘نیند کس کمبخت کو آئے گی؟‘‘

‘‘صحیح کہہ رہے ہو لیکن آنکھیں موند کر، بن کے ہی پڑ جاؤ۔ اٹھیں گے تو کچھ وقت بھی گزر جائے گا، پھر کچھ ایک ایک راشن بھی پیٹ میں ڈال لیں گی۔ ‘‘ نور الدین نے اپنی قمیض کا بچھونا راشن کے سامنے لگا دیا تھا۔ گویا یہ اس کی آرام گاہ تھی۔ وہ اس قلیل مقدار کو برابری سے تقسیم کرنے کی نیت رکھتا تھا۔ اسے پتہ تھا بھوک ایک ایسا جانور ہے جو ایک دفعہ بیدار ہو جائے تو خود اپنا گوشت کھانے سے بھی نہیں چوکتی۔ کچھ دیر کے لئے کان میں خاموشی چھا گئی، حیرت یہ ہے کہ چند کان کن واقعی سو بھی گئے۔

بھاری مشنری کے انتظار میں خرم بیٹھا نہیں رہا تھا۔ اس کی تربیت کام آئی تھی۔ ایک دو انچ چوڑا سوراخ بہت احتیاط سے آگے بڑھایا جا رہا تھا، جیسے کوئی سانپ اپنا راستہ بناتا جا رہا ہو۔ بند کان میں پھنسے مزدوروں کی جائے پناہ کا اندازہ تقریباً ڈھائی سو فٹ زیرِ زمین لگایا گیا تھا۔ یہ دو انچ چوڑا سوراخ اب تقریباً پچاس فٹ کی مسافت طے کر چکا تھا، لیکن اسی میں چھتیس گھنٹے لگ گئے تھے۔ کان کے باہر اولین بھاری مشنری کی آمد شروع ہو گئی تھی۔ رشتہ داروں کے ساتھ کچھ اخبار والوں نے بھی ڈیرہ لگا لیا تھا۔ ٹی وی والے بھی مستقل حال بتا رہے تھے، اب پوری قوم کی توجہ اس سانحے کی طرف مبذول ہو چکی تھی۔

‘‘ٹن‘‘ اس آواز کے ساتھ ہی سوراخ کرنے والی مشین کی گراری رک گئی۔

‘‘کیا ہوا‘‘ خرم نے فوراً سوال کیا، یہ آواز کیسی تھی۔ ان چھتیس گھنٹوں میں وہ ایک بار بھی نہیں سویا تھا۔ گھر سے کئی دفعہ پیغام آ چکا تھا کہ وہ آ جائے، اوورسیر کس کام کے لئے رکھا ہے، مگر اس کا دل نہیں مانتا تھا۔ اس ملک کے خون میں یقیناً کچھ خرابی تھی یا اس کا کوئی پرزہ ڈھیلا تھا، کوئی بات بھی ملکوں والی نہیں تھی، کوئی اور ہوتا تو بیوی کو نکال دیتا یا احمد کو مروا دیتا۔ چلو تب نہیں تو اب، کیسا اچھا موقع تھا، مگر اس میں تو کوئی بات ملکوں والی تھی ہی نہیں۔

‘‘جناب برما نکاسی کے پائپ سے ٹکرایا ہے ‘‘ انجینئیر جو نقشے پر جھکا ہوا تھا اس نے انگلی سے پائپ کا راستہ واضح کیا۔

‘‘یہی پائپ نیچے اس ہال سے بھی گزر رہا ہے جہاں وہ کان کن پھنسے ہیں ؟‘‘ خرم کی آواز میں دبا دبا جوش تھا۔

‘‘ہاں گزر تو رہا ہے، لیکن آپ فکر نہ کریں تھوڑی دیر ضرور لگے گی لیکن برما گھوم کر پائپ کے نیچے سے سوراخ گہرا کرتا رہے گا، یہ کان کنی کا خاص آلہ ہے جناب‘‘

‘‘اچھی بات ہے، لیکن میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس برمے سے پائپ پر آواز پیدا کی جائے تو نیچے ہال میں بھی شاید سنی جا سکے، انہیں معلوم ہو جائے کہ ہم ان کی تلاش میں ہیں۔ ‘‘

‘‘ٹن‘‘ کی آواز نیچے ہال میں بھی سن لی گئی تھی۔ آواز نے گویا مردہ جسموں میں جان ڈال دی۔

‘‘اوئے سنا تو نے، تم نے بھی سنا‘‘ کئی کان کن ایک ساتھ بول پڑے

‘‘وہ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں، انہوں نے ہمیں پا لیا ہے ‘‘

‘‘ اللہ تیرا شکر ہے ‘‘ نور الدین نے دعا کو ہاتھ بلند کر دئے۔

لیکن ٹن کی وہ خوش کن آواز ایک بار آ کر پھر دوبارہ نہیں آئی تو چہرے لٹکنے شروع ہو گئے۔ کوئی کچھ نہیں بولا، لیکن آنکھوں میں بہت سے سوالات تھے، شکایت تھی کہ یہ کیسا مذاق تھا۔ اس مختصر ہال کی ہوا اب دبیز ہو چکی تھی۔ تازہ ہوا کی آمد نہیں تھی، جو آکسیجن جمع تھی وہ اکتیس نفوس سانس لے کر خرچ کر رہے تھے۔ پھر سانس کے ساتھ جو گیس خارج ہو رہی تھی اس سے ہال کی فضا بوجھل تھی۔ نور الدین کا بس چلتا تو سانس لینے پر بھی راشن لگا دیتا۔ بقیہ تیس کان کن اسے اپنی ذمہ داری محسوس ہو رہے تھے۔ احمد کو نکال بھی دوں تو بھی ان تیس جنوں کا تو کچھ کرنا ہو گا، اس نے دل میں سوچا۔

اب تقریباً دو دنوں کے بعد اس کی تسلیوں میں وہ دم خم نہیں تھا۔ پھر یہ کہ وہ کچھ بھی کہے، فضا میں بڑھتی ہوئی مایوسی کچھ اور کہانی سنا رہی تھی۔

‘‘ٹن‘‘ آواز پھر سنائی دی، اور پھر ٹن ٹن ٹن، نور الدین کو لگا کوئی قید خانے کا تالہ کھول کر آزادی کی نوید دے رہا ہو۔ اس نے جھٹک کر اپنے سر کو صاف کیا۔ نقاہت سے خود اس کا دل بھی اٹھنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ اب تک سب مل کر دو دو راشن کھا چکے تھے کوئی پانچ پانچ راشن ہر ایک کے حصے کے باقی تھے۔ شکر ہے چند کان کن زخموں سے بیہوش تھے ورنہ راشن اور کم ہو جاتا۔ نور الدین کو خود ہی اپنی گھٹیا سوچ پر شرمندگی ہوئی۔ پانچ پانچ راشن، راشن کیا ایک مٹھی بھر چاول، یا دو بسکٹ یا کسی کے پاس بچی ہوئی ایک روٹی۔ دن میں اگر دو راشن سے گزارہ کریں تو ڈھائی دن چل سکتے ہیں۔ حالانکہ اس کی بھوک اس وقت ایسی تھی کہ پورے اکتیس بندوں کا پانچوں وقت کا راشن منٹوں میں چٹ کر سکتا تھا۔ اس نے دیوار کے سہارے خود کو کھڑا کیا اور ٹن کی آواز کی سمت بڑھا۔ یہ جاننا زیادہ دشوار نہ تھا کہ یہ آواز اس پائپ میں سے آ رہی تھی جو سامنے والی دیوار اور چھت کے جوڑ کے ساتھ ساتھ دوڑ رہا تھا۔ اس ہال میں کئی چیزیں ایسی تھیں جسے نور الدین پائپ پر مار کر آواز پیدا کر سکتا تھا۔ اس نے ایک ہتھوڑا اٹھا کر پائپ پر برسانا شروع کر دیا۔ ‘‘ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن‘‘ نور الدین نے بیرونی دنیا سے رابطہ بحال کر لیا۔

پائپ کے اطراف سے گزر کر دو انچ کے راستے کو مزید آگے بڑھانا خاصہ دشوار ثابت ہوا۔ اب حادثے کو تقریباً تین دن گزر چکے تھے۔ اندر اور باہر دونوں طرف سے ٹن ٹن امیدیں بحال رکھے تھی۔ وہ رشتہ دار جو مشتعل ہو کر بلوے پر آمادہ تھے وہ بھی ایک عجیب بے چینی سے انتظار میں گرفتار تھے۔ خرم نے بھی ایک خیمے میں ہی ڈیرہ جما لیا تھا۔ ان تین دنوں میں زیادہ وقت انتظار میں ہی گزرا تھا۔ اسے سوچنے کا بہت وقت ملا۔ عالیہ کے ساتھ اس کے تعلق کا کوئی سبب یا جواز نہیں بنتا تھا۔ خرم اس سے اچھی طرح واقف تھا۔ یہ بات اس کا لاشعور تو بہت پہلے قبول کر چکا تھا مگر ان تین دنوں میں وہ اس حقیقت کو شعوری طور پر قبول کر کے اپنے افعال میں امان تلاش کر چکا تھا۔ اسے یقین تھا کہ احمد کی طرف اس کی بیوی کا جھکاؤ محض انتقامی تھا اور بات ہرگز التفات سے آگے نہیں بڑھی تھی۔ اس نے بیوی کو بھی وہیں خیمے میں بلوا لیا۔ پچھلے دو دنوں میں دونوں ایک دوسرے سے خاصے گلے شکوے کر کے ایک دوسرے کے جذبہ شرمندگی میں پناہ گیر تھے۔ ایک لحاظ سے اس حادثے نے خرم کو موقع فراہم کیا تھا کہ اپنی زندگی کو واپس ایک سمت فراہم کر سکے۔

بیوی کو وہیں خیمے میں بلا لینے کا عمل خرم کے لئے تو جیسا بھی رہا مگر تعلقاتِ عامہ کے لئے بہت خوشگوار ثابت ہوا۔ لوگوں نے اسے ملک خاندان کی اپنے کان کنوں سے محبت اور وفا داری سے تعبیر کیا۔

جس جگہ سے سوراخ کو بڑھایا جا رہا تھا وہاں سے اچانک تالیوں کی آوازیں آنے لگیں تو خرم لپک کر خیمے سے باہر نکلا۔

‘‘کیا ہوا؟‘‘

اس کا سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی اوور سئیر نے جوش میں بولنا شروع کر دیا تھا:

‘‘سوراخ نیچے ہال تک پہنچ چکا ہے ‘‘

‘‘اس سے کیا فائدہ ہو گا‘‘

‘‘ اب ہم کم از کم ان کان کنوں تک تازہ ہوا اور شاید پانی اور کچھ مائع پہنچا سکیں گے۔ ‘‘

حفظ مراتب کو بالائے طاق رکھ کر خرم نے انجینئیر کو گلے لگا لیا۔

‘‘لیکن وہ بھاری مشینیں کب نکاسی کا راستہ بنا سکیں گی کہ وہ پھنسے ہوئے کان کن باہر آ سکیں ؟‘‘ خرم نے آہستہ سے دریافت کیا۔

‘‘جناب ابھی اس میں مزید تین سے چار دن لگنے کا امکان ہے۔ بہت احتیاط سے آگے بڑھنا پڑتا ہے کہ کہیں ملبہ، کوئی چھت یا شکستہ دیوار راستے کو بالکل مسدود نہ کر دے ‘‘ ۔ خرم کو اپنی خوشی نصف ہوتے محسوس ہوئی۔

تالیوں کی آواز سن کر کان کنوں کے خاندان بھی خیموں سے باہر نکل آئے تھے۔ یہ اچھی خبر سن کر ان کے چہرے دمک اٹھے اور وہ ایک دوسرے کو گلے لگانے لگے۔ مصیبت نے سب کو جیسے جذبوں کی ایک ہی لڑی میں پرو دیا تھا۔ کیمرے کی آنکھ ان جذبوں اور سوراخ کی کھدائی کے منظر کو پوری قوم تک پہچانے لگی۔

نیچے ہال میں تین دن تین قیامتوں کی طرح تھے۔ اب ہوا اتنی کثیف تھی کہ کئی لوگ سر میں درد اور قے کی شکایت کر رہے تھے۔ تین دن کا فضلہ بھی فضا میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ گو بو کا احساس اب اتنا معمول بن گیا تھا کہ جاتا رہا تھا۔ تبدیلی احساس کو بیدار کرتی ہے۔ اب ہال کی فضا مسلسل بوجھل تھی اور واحد تبدیلی تیزی سے کم ہوتی آکسیجن ہی تھی۔ تین اور کان کن جو پہلے ہوش میں تھے اب بیہوش تھے۔ کھانے کا راشن ختم ہونے کے قریب تھا۔ کمزوری اور نقاہت اتنی شدید تھی کہ پہلے دن جو بچ جانے کی آس انہیں زندہ رکھے تھی وہ معدوم ہوتی جا رہی تھی۔ گزشتہ رات کھٹ پٹ سے نور الدین کی آنکھ کھلی تو اس نے ایک کان کن کو بچے کچے راشن پر جھکے دیکھا۔ یہ لالچ اور نا انصافی دیکھ کر اس حالت میں بھی وہ رہ نہ سکا۔ پاس پڑے ایک پتھر کو اس کی جانب پھینکا تو وہ کان کن گھسٹ کر اپنی جگہ پر جا لیٹا۔ نور الدین ان سے آخری دم تک اچھی اقدار کا خواہشمند تھا۔ اس نے گھسٹ کر اپنے آپ کو ایسے بٹھا لیا کہ ایک دفعہ کا بچا ہوا راشن اب اس کے داہنے جانب پشت پر تھا اور اس تک پہنچنے کے لئے نور الدین کو پھلانگ کر جانا پڑتا۔ وہ خود چاہتا تو بہت آسانی سے ہاتھ بڑھا کر راشن میں خرد برد کر سکتا تھا، لیکن اب آخر وقت میں وہ کوئی ایسا کام کر کے اپنا ایمان خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ذہن پر ایسی غنودگی طاری تھی کہ کوئی اسے پھلانگ کر راشن تک جاتا تو اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ لیکن ہم سب کی طرح رکاوٹیں کھڑی کر کے نور الدین مطمئن ہو گیا تھا کہ بد عنوانی کو روک لے گا۔ اچانک اسے ایسا لگا کہ جیسے ہال میں تازہ ہوا کا جھونکا سا آیا ہو۔ شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں، یا اب ہذیانی کیفیت شروع ہو رہی ہے۔ لیکن اس ہوا کے جھونکے ساتھ اب ہال کی فضا واضح طور پر بہتر ہو رہی تھی۔ سانس لینا نسبتاً آسان ہو گیا تھا۔ تشویش کی بات صرف یہ تھی کہ ٹن ٹن کی آواز بند ہو گئی تھی۔ نورالدین نے بمشکل خود کو گھسیٹ کر نیم دراز کیا تو سامنے کی دراز میں ایک سوراخ نظر آیا، تازہ ہوا اسی میں سے آ رہی تھی۔ اس نے وہیں کھڑے ہو کر کئی منٹ تک گہری سانسیں لیں۔ کئی اور کان کن بھی واضح طور ہر اس تازہ ہوا کا اثر محسوس کر رہے تھے سوراخ میں سے اچانک سنسناہٹ کی آواز پیدا ہوئی اور ایک دو انچ قطر کا پائپ اس میں سے جھانکنے لگا۔ نور الدین وہیں زمین پر بیٹھ گیا کہ مزید کھڑے رہنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔ وہ شاید وہیں دوبارہ غنودگی میں چلا گیا۔ اسے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کتنی دیر اس بیہوشی میں رہا لیکن خواب میں اسے محسوس ہوا کہ جیسے منہ پر پانی کے قطرے گر رہے ہیں۔ اس نے آنکھ کھولی تو واقعی جس پائپ سے پہلے ہوا ا ٓ رہی تھی، اسی پائپ میں سے رِس رِس کے پانی قطرہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔ نور الدین کے دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک پتلی دھار میں تبدیل ہو گیا۔ نور الدین نے منہ کھول دیا اور مٹیالے پانی سے اسے اچھو لگ گیا۔ واہ ری قدرت، درست ہی تو کہا ہے پالنے والے نے کہ ہم پتھر میں بھی رزق پہنچاتے ہیں۔ نور الدین کی طرح پانچ چھ اور کان کن بھی اپنا جسم گھسیٹ کر وہاں پہنچ گئے اور اس مٹیالے پانی سے پیٹ بھر نے لگے۔ نور الدین نے ہمت کر کے ایک بیہوش کان کن کو بھی اس پائپ کے نیچے کھینچ لیا کہ اس کے منہ پر پانی کی ہلکی سی دھار پڑنے لگی۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے ہوش مند کان کنوں نے بمشکل گھسیٹ کر جنہیں بھی پائپ کے نیچے پہنچا سکے تھے پہنچا دیا۔ چند ہی لمحوں میں پانی جیسے آیا تھا اسی طرح بند بھی ہو گیا۔ کان کنوں نے وحشت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا لیکن نور الدین نے انہیں اطمینان دلایا کہ یہ غالباً اس لئے ہے کہ ہال میں کیچڑ نہ پیدا ہو، چند گھنٹوں بعد پانی یقیناً دوبارہ کھلے گا، اور ہوا بھی یہی۔

پانی اور ہوا کی نکاسی سے اب صورتِ حال بہتر تھی لیکن کان کو بند ہوئے کوئی چھ دن گزر چکے تھے۔ راشن کب کا ختم ہو چکا تھا۔ اب اندر ہال میں اوپر ہونے والی کھدائی کی ہلکی سی آواز بھی سنائی دینے لگی تھی۔ دو انچ کے پائپ کو چوڑا کر کے اب تقریباً ایک فٹ قطر کی جگہ بنائی جا رہی تھی۔ پائپ کے اطراف کی مٹی اندر کان میں گری تو اس کے پاس بیٹھے کان کن ڈر کے ہٹ گئے۔ یہ خوف روزِ اول سے سب کے دماغ میں تھا کہ ہلکی سی بے احتیاطی سے اس ہال کی چھت ان کان کنوں پر گر بھی سکتی ہے۔ مگر اس مٹی کے گرنے سے کوئی ایک فٹ چوڑائی قطر کی سرنگ باہر کی دنیا کو اندر دبے کان کنوں سے رابطہ بنانے کا ذریعہ بن گئی۔ ساتھ ہی سورج کی روشنی ایک کرن اس سوراخ سے ہال کو روشن کر گئی۔ جو کان کن اس قابل تھے وہ سب تالیاں بجانے لگے۔

‘‘ہیلو تم لوگ کیسے ہو‘‘ ڈھائی سو فٹ کا فاصلہ طے کر کے ایک فٹ قطر کی سرنگ سے یہ آواز ہال میں ایسے سنائی دی جیسے صور پھونکا جا رہا ہو۔ کئی کان کنوں نے جواب دینے کی کوشش کی مگر کسی سے آواز نہ نکلی۔ بھوک، کمزوری، بخار، نمونیہ مختلف کان کنوں کو مختلف مراحل در پیش تھے۔ نورا الدین جب کوشش کے باوجود آواز نہ نکال سکا تو اس نے ہلکے ہلکے تالیاں بجانی شروع کر دی۔ بے ربط، بہت مدھم سی آواز جیسے کوئی فالج زدہ شخص بے ہنگم طریقے سے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارے۔ اس کی دیکھا دیکھی چند دوسرے کان کنوں نے بھی یہی حرکت دہرائی تو ہال میں اتنی گونج ضرور پیدا ہو گئی کہ یہ تھپ تھپ باہر سنی جا سکے۔ باہر کھڑے سینکڑوں لوگ، جو ‘‘تم لوگ کیسے ہو‘‘ کا جواب نہ پا کر دم سادھے کھڑے تھے، سینکڑوں کے مجمعے کے باوجود ایسی خاموشی تھی کہ کوئی سوئی بھی گرتی تو آواز سن لی جاتی۔ ایسے میں جب کان کے پیٹ سے تھپ تھپ کی آواز باہر پہنچی تو ایک شور مچ گیا، لوگ ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگے، مبارک باد یاں، خوشی کی کلکاریاں، انسانی ہمت اور زندہ رہنے کی جبلت ایک بار پھر جیت گئی تھی۔

اسی ایک فٹ کے سوراخ سے ایک تھیلی میں چاکلیٹیں، بسکٹ، طاقت کی گولیاں اور ڈاکٹروں کی تجویز کی ہوئی غذا، جو اس مختصر سوراخ سے گزر بھی سکے۔ نیچے بھیجی گئی۔ ساتھ ایک پرچے پر یہ نوید بھی کہ دو دن بعد بھاری مشنری اتنا بڑا سوراخ کر لے گی کہ انہیں باہر نکالا جا سکے۔ کسی عقلمند نے ایک سادہ کاغذ اور قلم بھی بھیج دیا، کہ رابطے کا یہ ذریعہ باقی رہے۔ غذا نیچے کیا پہنچی گویا حیات واپس لوٹ آئی۔ ذرا ہمت ہوئی تو نور الدین نے جائزہ لیا۔ حیرت کی بات تھی سب کی سانس جاری تھی۔ بڑے تودے کے نیچے دبا احمد بھی سانس لے رہا تھا۔ جبار اس کے منہ میں پانی ٹپکاتا رہا تھا۔ اب اس غذا کے ساتھ آئے طاقت کے قطرے بھی سب مریضوں کے منہ میں ٹپکا دئیے گئے۔ ایک وقت کے کھانے کے ساتھ ہی واضح فرق پڑ گیا تھا۔ رات ہونے سے پہلے، غذا کی دوسری قسط نیچے اتری تو نور الدین نے کاغذ پر پیغام لکھ کر اوپر بھیج دیا:

رسی اوپر کھینچی گئی تو اس کے وزن سے صاف ظاہر تھا کہ نیچے سے کان کنوں نے کچھ رکھ کر بھیجا ہے۔ خرم بھی رسی کھینچنے والے کے پاس کھڑا ہو گیا۔ جو ٹوکری نیچے بھیجی گئی تھی اس میں سوپ کی بوتل اور ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر کان کنوں نے نیچے سے بھیجا تھا۔ خرم نے بڑھ کر پرچہ اٹھایا اور اسے بلند آواز سے پڑھنے لگا:

‘‘کچھ دوائیوں کی سخت ضرورت ہے

ساتھ کچھ تاش کے پتے بھیج دو

یہ سوپ ٹھنڈا ہے اسے گرم کرا کے دوبارہ بھیجو‘‘

آپ کا خادم نور الدین۔

خرم کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ بکھر گئی، پاس کھڑے انجینئر اور اوور سئیر سب ہی ہنسنے لگے۔ ہمیشہ کا سور ہے یہ نور الدین۔

٭٭٭







بے جرم ضعیفی



مجھے گلدان میں سجا اکلوتا پھول سخت ناپسند ہے۔ کل رات میری پڑوسن ملنے آئی تو پتلی گردن والے ایک گلدان میں لمبی ڈنڈی کی نوک پر جَڑا ایک پیلا گلاب رکھ کر لے آئی۔ پھول گلدستے کا حصہ ہو تو دائیں بائیں کے ہم جنسوں سے سہارا مل جاتا ہے، استقامت سے اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔ یہ اکلوتا پھول تو گلدان میں جس سمت جھکاؤ ہو، اسی سمت لڑھک جاتا ہے۔ کنارے کا سہارا لئے بنا اپنی استقامت سے خود سیدھا نہیں کھڑا رہ سکتا۔

‘‘موت پر یقین تو سب کو ہے لیکن یاد کسی کو نہیں رہتی‘‘ ، کیا بکواس ہے بھئی میں نے اکتا کر کتاب میں بک مارک رکھ کر اسے بند کر دیا۔ میری عمر میں تو موت کے علاوہ اور کوئی دوسری شے یاد ہی نہیں رہتی، یہ ادیب نجانے کیوں بے تکی باتیں لکھتے ہیں۔ چشمہ ناک سے سرکایا تو وہ ڈوری سے بندھا گلے میں جھول گیا۔ میں نے تھکن سے آنکھیں موند لیں۔ سفرِ حیات میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ آدمی بلاوجہ تھکا رہتا ہے۔ صبح اٹھے تو تھکاوٹ، دوپہر ہے تو تھکاوٹ۔ صرف رات میں، اگر چند گھنٹے کی نیند آ جائے، تو اس تھکن سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ میں نے تپائی پر سے پاؤں نیچے رکھے، اور اٹھنے کے ارادے سے آنکھیں کھولیں تو گلدان پر نظر پڑی۔ میں بھی تو اب ایک پیلا گلاب ہی ہوں۔ گلدان میں سجا، اکلوتا، باسی گلاب جو کنارے کے سہارے بنا سیدھا نہیں کھڑا رہ پاتا۔ ایسے ہی ایک دن گلاب کی گردن ڈھلک جائے گی اور پتیاں آہستہ آہستہ بکھر جائیں گی۔ صبح باغ سے جو پھول چن کر لائی تھی، اٹھ کر میں نے انہیں گلاب کے دائیں بائیں گلدان میں سجا دیئے۔ دیکھا، ذرا سا سہارا ملا تو یہ پیلا گلاب کیسے سیدھا کھڑا ہو گیا، اب اسے گلدان کے کنارے کا سہارا درکار نہیں۔

مجھے فلوریڈا منتقل ہوئے کوئی بیس برس ہو گئے ہیں۔ ساٹھ برس کی تھی جب جم کا انتقال ہوا۔ اس وقت جان کوئی تیس برس کا تھا۔ اسی عمر میں اس کے روشن مستقبل کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ اسی نے مشورہ دیا کہ میں اکیلی رہنے کے بجائے فلوریڈا منتقل ہو جاؤں۔ کتنا خیال رکھتا ہے میرا بیٹا۔ یہ مشورہ بہت اچھا ثابت ہوا۔ نیویارک تو واقعی ایک جنگل ہے، جوانی میں اس کی رفتار سے مسابقت نہیں کر پاتی تھی تو اس بڑھاپے میں تو وہ شہر مجھے سموچا ہی نگل جاتا۔ اچھا مشورہ تھا جان کا۔ فلوریڈا کی آب و ہوا بہت معتدل تھی، نیویارک کی برفانی سردی سے جان چھوٹی۔ یہاں آ کر میرا دمہ تو ٹھیک ہو گیا لیکن فضا کی رطوبت سے گٹھیا ذرا زیادہ تنگ کرنے لگا ہے۔

خیر اب آدھا دن تو گذر ہی گیا۔ صبح سے اٹھ کر دودھ کے ساتھ ڈبل روٹی کا ناشتہ کیا، کچھ باغبانی کی، تھوڑی دیر ایک کتاب پڑھ لی، اب کیا کروں۔ ‘‘ اب کیا کروں ‘‘ یہ بہت عجیب سوال ہے ؛ اب کیا کروں۔ ایک وقت وہ تھا کہ اس کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی، کاموں کی ایک لمبی فہرست میں سے جو سب سے زیادہ توجہ طلب ہوتا وہ شروع ہو جاتا، جب کہ دوسرے بیسیوں کام ذہن کے کسی نہاں خانے میں چھپے اپنی باری کا انتظار کرتے، سر اٹھاتے رہتے۔ لیکن میری موجودہ عمر میں ‘‘اب کیا کروں ‘‘ ایک سنگین سوال ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ سارا بڑھاپا ایک کرسی پر گذر جائے، منہ سے ایک نلکی لگی رہے جس کا دوسرا سرا کسی جنتی گلاس میں ہو کہ کبھی خالی ہی نہ ہو۔ جب خواہش ہوئی ذرا سا مشروب پی لیا۔ نگاہوں کے سامنے ٹی وی یا کوئی کتاب دھری رہے۔ ورق الٹتا جائے، دن بدلتے جائیں، اسی طرح دس بیس بس گذر جائیں اور پھر پردہ گر جائے۔ مگر نہیں یہاں تو جیسے ہونے کی سزا دینی مقصود ہے۔ دن ہوا ہے، تواب شام ہونی بھی ضروری ہے، پھر وہی مسئلہ درپیش ہے کہ اب کیا کروں۔

سوچتی ہوں شام کے کھانے کا کچھ انتظام کر لوں اس طرح کچھ وقت بھی بہل جائے گا۔ ابھی دوپہر تو ہلکی سی سبزی اور پھل سے گزارا ہو جائے گا۔ فریج کا دروازہ کھولا تو سامنے ٹن میں بلی کی غذا رکھی نظر آئی۔ جب تک سلومی زندہ تھی، میں نے ایک آدھ بار ایسے ہی اس کے ڈبے کی غذا سے ایک آدھ بوٹی چکھ لی۔ ایسی مزیدار لگی کہ اب بلی کے انتقال کے بعد بھی اکثر اس کی غذا اٹھا لاتی ہوں۔ سپر مارکیٹ والے ہاتھ میں اس کی غذا دیکھ کر اکثر سلومی کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ نہ معلوم کمبختوں کو کیا عادت ہے دوسروں کے معاملے میں ناک گھسیڑنے کی۔ بھئی خدا غارت کرے ان دوا فروشوں کو، علاج معالجے کے بعد جیب میں کچھ بچتا ہی نہیں۔ یہ بلی کی غذا اتنی سستی ہوتی ہے۔ ذرا سی پیاز لال کر کے اس میں بھون لیں، تھوڑا سا نمک، پھر چاہے ڈبل روٹی کے ساتھ کھا لو یا ویسے ہی اسٹیو کی طرح۔ سلومی کے بعد میں نے کوئی بلی نہیں پالی۔ جان دور رہتا ہے تو کم کم یاد آتا ہے، پاس رہ کر دور ہو جائے تو اس کا دکھ دگنا ہو جاتا ہے۔ پھر یہ کہ شاید جان ہی آ جائے، توایسے میں ایک بلی کی کیا ضرورت ہے۔ واقعی جان آ جائے تو کیسی رونق ہو جائے۔ بے چارہ کیسا مصروف ہو گا اپنی نوکری میں۔ پھر اس کی بیوی بھی کیسی خوفناک عورت ہے۔ کم از کم میں اور مار تھا ایک دوسرے کے سامنے تو خوش اخلاقی کا مظاہرہ ضرور کرتے ہیں۔ ورنہ اصل میں تو پوری چڑیل ہے کمینی۔ جان ابھی دو برس پہلے ہی تو ہو کر گیا ہے، مگر ہاں تین مہینے سے اس کا کوئی فون نہیں آیا۔ میں خود ہی کر لوں گی آج۔ مگر نہیں وہ خود ہی کر لے تو اچھا ہے۔ مصروف ہو گا جب ہی تو نہیں کیا فون۔ اب اگر مصروف ہے تو میں کیوں دخل دوں اس کی مصروفیت میں۔ پھر میں فون کروں اور مار تھا اٹھا لے تو اور طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔

فون کی گھنٹی بج رہی ہے شاید۔ کئی کئی دن اگر فون نہ بجے تو سماعت اس کی عادی نہیں رہتی۔ تنہائی کی سماعت اور ہوتی ہے۔ لیکن جہاں ہر آواز پر یہ امید ہو کہ شاید فون کی گھنٹی ہے۔ ایسے میں فون نہ بھی بج رہا ہو تو کان دھوکہ دیتے ہیں کہ شاید بج رہا ہے۔ ایسے میں اگر واقعی فون بج اٹھے تو یقین آتے آتے تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ میں نے فریج کا دروازہ ایسے ہی کھلا چھوڑ دیا کہ کہیں دروازہ بند کرنے میں وقت ضائع نہ ہو۔ اسی جلدی میں جو پاؤں رپٹا تو قالین پر اوندھے منہ گر پڑی۔ ہائے، کہیں کوئی ہڈی تو نہیں توڑ بیٹھی۔ اب میرے شعور میں دو خوف حکمرانی کرتے ہیں ؛ کولہے کی ہڈی نہ تڑوا بیٹھوں اور دوسرایہ کہ فالج کا شکار نہیں ہوں۔ دیگر تمام خوف اس سفر میں کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں یا ان پر قابو پانا سیکھ گئی ہوں۔ عمر کے ساتھ ساتھ خوف بھی لباس بدلتا رہا۔ بچپن میں دنیا کا خوف، جوانی میں پکڑے جانے کا خوف، ادھیڑ عمری میں اکیلے رہ جانے کا خوف۔ اب میں شاید خوف کی سیڑھی کے سب سے اونچے قدمچے پر کھڑی ہوں۔ نہیں پیر ٹوٹا تو نہیں تھا۔ صوفے کا سہارا لے کر جب تک کھڑی ہوتی فون بند ہو گیا۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ نہ معلوم کس کا فون تھا، شاید پھر کر لے ؟ اسی امید پر فرج بند کر کے فون کے برابر بیٹھ گئی اور فون گود میں رکھ لیا۔ میرا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ چند ہی لمحے گذرے تھے کہ فون کی گھنٹی پھر بجی۔ ٹرن ٹرن کی سریلی آواز کانوں کے راستے روح کی شاداب وادی میں کہیں جا کر بس گئی۔ جو سماعت سے محروم ہوں ان کا کیا حال ہوتا ہو گا؟

‘‘ہیلو‘‘ میں نے فون کا چومگا اٹھا کر کہا۔

‘‘ہیلو ممی‘‘ دوسری طرف سے جان کی مانوس آواز تنہائی کے سوکھے دانوں پر بارش کے قطروں کی مانند اتری۔

رنج و خوشی سے میری آواز گندھ سی گئی۔ ایک لمحے کو کچھ بول نہ سکی۔

‘‘ ممی، ممی تم فون پر ہونا؟‘‘

‘‘ہاں، کیسے ہو جان‘‘ میں نے آنکھوں سے نمی پوچھتے ہوئے اپنی آواز کو ممکنہ حد تک ہموار کیا۔ مجھے لگا جیسے کھڑکی سے سلومی اندر کمرے میں آ کودی ہو، کمرے میں مانوس انسیت کی خوشبو پھیل گئی۔

‘‘میں نے پانچ منٹ پہلے بھی فون کیا تھا، کسی نے اٹھایا نہیں ‘‘ سوال سے زیادہ یہ ایک تبصرہ تھا۔ کاش اس کا لہجہ سوالیہ ہوتا۔ پوچھتا ‘‘کیوں نہیں اٹھایا، سب ٹھیک تو تھا؟‘‘

‘‘ہاں میں ذرا باتھ روم میں تھی‘‘ ۔

‘‘تم کیسے ہو جان؟‘‘

‘‘ میں ٹھیک ہوں ممی‘‘ دو ہی جملوں کے بعد ہمارے درمیان ایک لمحے کو وقفہ آ گیا۔ دونوں طرف خاموشی تھی۔ دو ماں بیٹے جنہوں نے ایک دوسرے کو دو برس سے نہیں دیکھا تھا، تقریباً تین ماہ سے فون پر بات بھی نہیں کی تھی، اب ایک منٹ کی فون گفتگو کے بعد ان کے درمیان خاموشی تھی۔ ہم کیا بات کرتے ؟ میری مالی حالت، میری صحت، میرا بڑھاپا یہ سب ایسے موضوعات تھے جن پر گفتگو گرفت سے پھسل بھی سکتی تھی۔ کسی سمت بھی جا سکتی تھی، کوئی شرمندہ بھی ہو سکتا تھا۔ فون جلد بند ہونے کا بھی امکان تھا۔ لہذا گفتگو آزمودہ نکات تک محدود رکھی جائے تو بہتر ہے۔

‘‘فلوریڈا کا موسم کیسا ہے ممی‘‘

‘‘ٹھیک ہے بیٹا، نہ بہت سردی ہے نہ گرمی۔ بس ایک سا رہتا ہے (بالکل اپنے ساکنین کی طرح، میرا دل چاہا یہ فقرہ کہہ دوں مگر کہہ نہ سکی) اور نیویارک کا؟

‘‘نیویارک بھی اچھا ہے۔ اس دفعہ موسم عموماً خوش گوار ہی رہا ہے۔ کبھی کبھی ہلکی خنکی ہو جاتی ہے، لیکن اس شدت کا کہیں پتہ نہیں جس کے ہم نیویارک والے عادی ہیں ‘‘ وہ زور سے ہنسا۔

‘‘مار تھا کا کیا حال ہے ؟‘‘ میں نے کریدا

‘‘بس ممی کچھ نہ پوچھیں، ٹھیک تو ہے لیکن مجھ سے بالکل مختلف عادتوں کی ہے، میرا بالکل خیال نہیں رکھتی اور بہت زیادہ فضول خرچ ہے ‘‘

‘‘ارے نہیں اتنی اچھی تو ہے ‘‘ مجھے پتہ تھا جب تک میں تعریف کروں گی جان کھل کر اس کی برائی کرتا رہے گا۔ جہاں میں نے مار تھا کی برائی کے لئے منہ کھولا، وہ فوراً اپنے ازدواجی دفاع کے خول میں بند ہو جائے گا اور مار تھا کا دفاع شروع کر دے گا۔ عجیب سی حسیت ہے، اپنی چیز کی میں خود برائی کر لوں تو ٹھیک ہے جہاں آپ نے منہ کھولا وہاں مسئلہ پیچیدہ ہو گیا۔ ہم دونوں کچھ دیر اسی کھیل میں الجھے رہے۔

‘‘کہیں چھٹیوں پر چلے جاؤ دونوں، اتنا کام بھی تو کرتے ہو۔ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارو گے تو ایک دوسرے کی عادتیں بر داشت کرنے کی عادت بھی پڑے گی ‘‘

‘‘ممی پچھلے سال گئے تھے شمالی کینیڈا، چھٹیاں مختصر کر کے واپس آ گئے ‘‘

‘‘مختصر کر کے ؟‘‘

‘‘ہاں وہ کیلی فورنیا جانا چاہتی تھی میں شمالی کینیڈا، چھٹیوں میں ہر وقت ساتھ رہنے سے جو جھگڑے کبھی کبھار کے تھے وہ ہر وقت کا عذاب بن گئے ‘‘

‘‘تو کیلی فورنیا چلے جاؤ‘‘

‘‘سوچ رہا ہوں، شاید اگلے ماہ ایک ہفتے کے لئے چلے جائیں۔ میں تو پوری کوشش کر رہا ہوں ممی‘‘

‘‘بیٹا کوئی اولاد وغیرہ کا ارادہ نہیں، اس سے اس کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ جائے گا‘‘

‘‘اور پالے گا کون؟‘‘

‘‘تم دونوں اور کون‘‘

‘‘نہیں ممی نہ اسے فرصت ہے نہ مجھے، اور ابھی اتنے پیسے نہیں کہ بچوں کی نگہداشت پر کسی کو رکھ سکیں ‘‘

‘‘لیکن بیٹا‘‘

‘‘ لیکن کیا ممی، بس چھوڑیں اس موضوع کو‘‘

بات ایک مقر رہ ایجنڈے اور حدود کے درمیان ہو گی، یہ ایجنڈا ایک فریق ہی طے کرے گا۔

‘‘ممی آپ اکیلی تو نہیں ہو جاتیں ‘‘ اس نے جھجک کر پوچھ ہی لیا۔

‘‘ارے نہیں بیٹا، اس میں اکیلے پن کا کیا سوال ہے۔ اور پھر اس اکیلے پن میں ایک شخصی آزادی بھی تو ہے، کسی گلدان میں رکھی اکیلی ٹہنی کی مانند‘‘

‘‘گلدان میں رکھی اکیلی ٹہنی کی طرح‘‘ وہ نہیں سمجھا۔

‘‘ہاں، جیسے وہ تنہا اور با وقار لگتی ہے، ویسے ہی۔ میں نے اسے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی کچھ کہ دیا۔

وہ اگر سمجھا بھی تو اس نے اس کا اظہار نہیں کیا، فون پر پھر ایک خاموشی چھا گئی۔ مجھے لگا سلومی پھر کھڑکی سے کود کر باہر بھاگ گئی۔

‘‘کیوں پوچھ رہے ہو، تم آ رہے ہو کیا؟‘‘ یہ میں نے کیوں پوچھ لیا، میں نے اپنے آپ کو کوسا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس سے یہ سوال نہیں پوچھوں گی۔ پھر یہ بات کیوں زبان سے نکلی۔ کیا عمر کے ساتھ ہمیں اپنی خواہشات پر قابو پانے میں ناکامی ہوتی ہے۔ شاید میں اپنے بچپن کی طرف لوٹ رہی ہوں، ندیدہ پن تو یہی بتاتا ہے۔ بچپن میں بھی تو چاکلیٹ نہ ملے تو رال ٹپکنے لگتی تھی۔

‘‘ ممی آپ کو پتہ ہی ہے کتنی مصروفیت ہے، ذرا مہلت ملے تو اُڑ کر آ جاؤں ‘‘ نہ جانے کیوں مجھے لگا وہ اس سوال کے لئے تیار بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں ایک دفاعی خود لئے۔ کب یہ تیر چلے اور وہ یہ خود پہن کر خود کو بچا لے۔

اور وہ شمالی کینیڈا، کیلیفورنیا۔ مگر بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو دہرانے سے خوفناک ہو جاتی ہیں

‘‘تمھارا کمرہ ویسا ہی سجا ہے، جیسا دو سال پہلے چھوڑ کر گئے تھے ‘‘ میری آواز ’لفظ دو سال پہلے ‘ کہتے وقت تھم گئی تھی، اپنا مفہوم واضح ہو گیا تو یہ آگے بڑھے

‘‘واقعی اتنا وقت گذر گیا‘‘ اس کی آواز میں حیرت تھی۔ یہی بہت تھا، میرا تو خیال تھا اسے یاد ہی نہیں رہے گا کہ اس نے کیا سنا ہے

‘‘جب چاہے آ جاؤ، میں نے تو تمھارے ناپ کی کچھ قمیضیں بھی خرید کر الماری میں لٹکا دی ہیں، نا وقت آ جاؤ تو مشکل نہ ہو‘‘

‘‘ممی آپ کو تو پتہ ہی ہے ‘‘ اس ادھورے جملے سے اس نے اپنا جواب مکمل کر دیا۔ اس میں وہ سارے امکانات وہ سارے جواز ڈال دئیے جو اس کے نہ آنے سے مجھے مطمئن کر سکیں، جو میرے لئے زیادہ قابلِ قبول ہو وہ میں چن لوں۔

‘‘ہاں جان، میرے بیٹے میں سمجھتی ہوں ‘‘

‘‘ممی وہاں کا موسم کیسا ہے ‘‘

‘‘یہ تم پہلے ہی پوچھ چکے ہو جان‘‘

‘‘واقعی اتنی ساری باتوں میں بالکل دھیان سے اتر جاتا ہے ‘‘

اتنی ساری باتیں ؟ خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ ملاقات کا وقت ختم ہونے والا ہے، جلدی جلدی سب سمیٹ لو۔

‘‘جان تمھارے ہاں اولاد کیوں نہیں ہو رہی، کیا میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہو۔ کیا میں اپنے پوتی پوتے کو دیکھے بغیر ہی چلی جاؤں گی‘‘ میں نے اپنے احساسات کو برہنہ کر دیا۔ اس کی اپنی اولاد ہو تو شاید ممتا کے دکھ کا ادراک ہو۔

‘‘لیجئیے آپ نے بھی پہلے کیا ہوا سوال دوبارہ کر ڈالا۔ ‘‘ اس نے ہنس کر ماحول کو ہلکا رکھنا چاہا۔ ماحول سبک رہا تو وقت جلدی گذر جائے گا۔ گھمبیر ہو جائے تو بیچ میں کہیں لٹک جاتا ہے۔ ‘‘ ممی مار تھا کو اپنے جسم کی اتنی فکر ہے۔ وہ ابھی اس چکر میں نہیں پڑنا چاہتی۔ کہتی ہے فگر خراب ہو جائے گی۔ آپ سنائے غذا کیسی چل رہی ہے آپ کی۔ ‘‘ میرے ذہن میں بلی کے چھیچھڑوں کی غذا در آئی۔

‘‘بہت اچھی بیٹا، دیکھو اسی کے پیٹے میں ہوں لیکن کیسی مضبوط ہڈیاں لے کر آئی ہوں ‘‘ جو گرنے سے بھی نہیں ٹوٹتیں !

‘‘بیٹا اب تم کس عہدے پر پہنچ گئے ‘‘

جان کسی چوہے کی طرح چوکنا ہو گیا جسے بلی کی خوشبو آ جائے۔ میرا گلا سوال خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے سوچا اس کو جڑ سے ہی کاٹ دوں۔

‘‘ اب آپ کی آواز بہت خراب ہو گئی ہے۔ کیا آپ فون لے کر ٹہل رہی ہیں۔ یہ فون کمپنی اتنی اطمینان بخش نہیں ہے۔۔ ہیلو ہیلو، ممی، ہیلو‘‘

میں نے دھیرے سے فون کریڈل پر رکھ دیا۔ اپنی ہی اولاد کو شرمندہ نہیں کرتے۔ ‘‘ اب تم کس عہدے پر پہنچ گئے ہو‘‘ ، پھر یہ کہ، ‘‘تنخواہ بڑھی کیا‘‘ ۔ جان کو پیچیدگیوں کا احساس ہو گیا تھا۔ لہذا اسے آواز آنا بند ہو گئی۔ میں نے اپنی آواز گھونٹ دی تاکہ وہ جھوٹ کی شرمندگی سے بچ جائے۔

فون رکھ کر میں دوبارہ صوفے پر آ بیٹھی۔ عینک ناک پر رکھی اور کتاب اٹھا لی ‘‘ قدرت نے ہر چیز پہلے سے طے کر رکھی ہے، بس ہماری آنکھ سے اوجھل رکھا ہے۔ کہ ہم اس اشتیاق میں رہیں کہ آئندہ کیا ہے، اگلی ساعت ہمارے لئے اپنے پہلو میں کیا چھپائے بیٹھی ہے۔ قدرت خود خاموش تماش بین بنی بیٹھی ہے۔ ‘‘ میں دو سطریں پڑھ کر کتاب پھر بند کر دی۔ یہ ‘‘قدرت کون ہے ‘‘ ، ہمارے ادیب اس قدر فلسفہ لکھتے ہیں کہ طبیعت اکتا جائے لیکن یہ نہیں کہتے کہ لفظ ‘‘قدرت‘‘ میں انہوں نے انسان کی ساری بے چارگی اور لاعلمی سما دی ہے۔ اب کیا کروں ؟ اب کیا کروں ؟، پھر یہ مہیب سوال درپیش ہے۔

٭٭٭







رعنائی خیال



اس دن میں بس اچانک ہی مر گیا۔ دن اور تاریخ تو اب مجھے یاد نہیں اور یاد رکھنے کا فائدہ بھی کیا۔ احساسِ وقت تو زندگی میں بھی ایک فریب تھا اب مرنے کے بعد میں دوبارہ اس جھمیلے میں گرفتار نہیں ہونا چاہتا۔ وہ بھی کوئی طریقہ تھا جینے کا۔ وقت کو مہ و سال میں تقسیم کر کے ہر پل آنے والے پل کے خوف میں یا بیتے پل کے ذکر میں بتایا تھا۔ وقت کے جال میں ایسے پھنسا رہا جیسے کوئی مکھی ایک مکڑی کے جال کے عین وسط میں گرفتار ہو جائے۔ بس اتنا یاد ہے کہ عید کا دوسرا دن تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس دن بھی میرے گھر والے ابھی خوشیوں بھرا دن پوری طرح گذار بھی نہیں پائے تھے کہ میرے غم نے انہیں آ لیا ہو گا۔ ساری زندگی بس یہی داستان رہی۔ ایسے ہی خوشی اور غم سے آنکھ مچولی رہی، کبھی خوشی آگے تو غم پیچھے اور کبھی غم آگے تو خوشی اس کے تعاقب میں۔ عجیب گورکھ دھندا تھا نہ کبھی چین سے خوشی منائی نہ ہی غم کو پوری طرح اوڑھ سکے۔

تو بس اس دن میں اچانک مر گیا۔ صبح سو کر اٹھا تو طبیعت کچھ بھاری تھی۔ میں نے سوچا ذرا سی دیر کے لئے Treadmill پر دوڑ لوں تو رگوں کے جالے اتر جائیں۔ ساری زندگی یہی وطیرہ رہا کہ جس صبح ورزش کر لی اس دن خون رگوں میں ایسے دوڑتا کہ تھکنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ Treadmill پر چڑھے ابھی بمشکل دو منٹ ہوئے ہوں گے کہ آنکھوں کے سامنے ایک تیز روشنی کا جھماکہ ہوا۔ میں نے موت کی بابت بہت سی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا۔ کچھ لوگ جو موت کے منہ سے ہو کر واپس آ گئے تھے ان سب نے یہی بیان کیا کہ ایک سفید تیز روشنی کا احساس ہوتا ہے۔ غالباً مرتے وقت ان کی مت ماری جاتی ہے۔ روشنی سفید نہ ہو گی تو کیا کالی ہوتی۔ مجھے تو Treadmill سے اترنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ مشین کی بیلٹ چلتی رہی، میرا جسم سمٹ کر ایک بوری کی مانند بیلٹ پر جمع ہو گیا تھا۔ پل بھر میں زندگی کا شیرازہ یوں بکھر گیا جیسے اکثرPIA سے سفر کرنے والوں کا سامان لتر لتر کر کے بیلٹ پر آ رہا ہوتا ہے۔ دوسرے ہی پل اپنے جسم سے علیحدہ ہو کر میں اوپر کی سمت اٹھ رہا تھا اور حیرت سے اپنے بوری نماجسم کو دیکھ رہا تھا۔ کیا واقعی یہ میرا ہی جسم تھا، اتنا بے ڈول۔ شاید میرا ڈاکٹر سچ ہی کہتا تھا ؛ اتنا مت کھاؤ، وزن کم کر لو ورنہ وقت سے پہلے وقت آ جائے گا۔ خیر میں چاہتا بھی یہی تھا کہ اچانک مروں۔ اتنے عرصے ہسپتال میں کام کرتے کرتے میں نے کتنے ہی جسم دیکھے تھے جو مر چکے تھے لیکن زندہ تھے۔ مرنا چاہتے تھے لیکن مر نہیں پاتے تھے۔ انسانی رشتوں کی ناپائداری اور کمزوریاں وہیں کھلتی تھی جہاں کوئی اپنا عزیز کسی طویل بیماری میں مبتلا ہو کر معذور ہو جائے اور خود سے اپنا کوئی کام نہ کر سکے۔ میری خواہش یہی تھی کہ نہ کسی پر بوجھ بنوں اور نہ ہی کسی کو تکلیف دوں۔ اور ہوا بھی ایسا ہی تھا۔ کسی کو تکلیف دئیے بغیر میں اس طرح نکل لیا کہ جب بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو سمجھی شاید میں بیلٹ پر گر پڑا ہوں۔ یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جو اسے آواز دئیے بغیر ہل کر پانی بھی نہیں پیتا تھا اس نے اتنا بڑا قدم خاموشی سے اکیلے ہی اٹھا لیا۔ پل بھر میں آسمان میرے پاؤں کے نیچے تھا۔ میں بس اوپر ہی اوپر اٹھ رہا تھا۔ ہوائیں مجھے چھو کر نہیں بلکہ گویا میرے اندر سے گذر کر جا رہی تھیں۔ ابھی اس بے وزنی کی عادت نہیں ہوئی تھی اس لئے روح ادھر سے ادھر ڈولتی پھر رہی تھی۔ کٹی پتنگ ہواؤں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے، جس سمت ہوا چلے یہ پتنگ اسی جانب اڑ جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو میں بھی اسی ہوا خوری میں جنت کی بجائے جہنم کی سمت نکل لوں۔ یہ سوچ کر میں نے چاہا کہ اپنی روح کو سنبھالا دوں اور ابھی پھریری سی لی ہی تھی کہ ایسا لگا جیسے کسی نے روح پر گرفت مضبوط کر لی ہو۔ یا اللہ کیا نیک بخت کو یہاں بھی ساتھ کر دیا ہے۔ ا سے پہلے کہ کوئی سرگرانی ہوتی دائیں بائیں سے دو فرشتے بلند ہو کر ہم پرواز ہو گئے۔

"یہاں بھی فرار کے منصوبے بن رہے ہیں " ایک فرشتے نے ڈپٹ کر کہا۔ "ساری زندگی اپنی من مانی کی اب آسمانوں پر تو خدا کی مرضی چلنے دو"۔

"نہیں میں تو صرف اپنا پہلو بدل رہا تھا بھاگ نہیں رہا تھا، میری بات پر اعتبار کرو"

’ انسان اپنا اعتبار بہت پہلے کھو بیٹھا تھا۔ اب ہم نیت کو نہیں عمل کو دیکھتے ہیں۔ جو پکڑا جائے کہہ دیتا ہے نیت تو اچھی تھی، جو نہیں پکڑا جائے وہ سمجھتا ہے عمل پکڑا نہیں گیا تو آسمانوں سے بھی مخفی رہے گا، خاموشی سے اڑتے رہو، قبلہ درست کرنے کا وقت اب گذر چکا ہے ‘۔

ان کے دھمکانے سے میں ڈرا تو نہیں، مردہ آدمی بھلا کیا خوفزدہ ہوتا۔ مگر جبلت میں جو خود غرضی شامل تھی وہ صرف رگوں میں ہی نہیں دوڑ رہی تھی، وہ مرنے کے بعد بھی مجھ سے جدا نہیں ہوئی تھی۔ بہتری اس میں سمجھی کہ یہاں جد و جہد نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، لہذا جس سمت فرشتوں نے باگ موڑی وہیں بے وزنی سے بڑھتا چلا گیا۔ چند میل بھی نہ اڑے ہوں گے کہ سامنے ایک بھیانک منظر کھُل گیا۔ دور دور تک آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ درجۂ حرارت اتنا گرم کہ مجھے خوف ہوا کہیں میری روح ہی نہ پگھل جائے۔ دور سے ہی نظر آ رہا تھا کہ اس منظر میں بہت سے لوگ عذاب میں گرفتار ہیں۔ کچھ درختوں سے الٹے لٹک رہے تھے، کچھ کو اژدہوں نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ ایک سمت کچھ لوگ ٹکٹکی پر بندھے تھے اور ان کو کوڑے مارے جا رہے تھے۔

’ ارے کہاں لئے جا رہے ہو، میں نے تو ساری عمر نماز روزے میں گذاری ہے، شاید حساب میں کوئی غلطی ہو گئی یا فرشتے راستہ بھول گئے ہیں ‘ بلا ارادہ ایک لمحے کے لئے ذہن میں آیا کہ کچھ دے دلا کر معاملہ اپنی سمت میں کروا لوں، مگر وہاں نہ جیب کا پتہ نہ ہاتھ ہی موجود۔ خیر ہوئی فرشتے یہ سوچ نہ بھانپ سکے۔

’یہ تمھاری جگہ نہیں ہے۔ سب علاقے دیکھ لو تاکہ تمھیں اپنی جگہ کی قدر ہو۔ اپنے سے برے حال والا تصور میں رہے تو ہوس کو لگام دہنے میں آسانی رہتی ہے۔ باقی رہیں تمھاری نمازیں اور روزے تو ابھی اوپر سے آرڈر نہیں آیا ہے کہ یہ درخواستیں قبول ہوئی ہیں یا نہیں۔ پھر تم نے تو ساری عمر حکمِ امتناعی میں گزاری ہے، فیصلہ آنے تک ضمانت قبل از وقت کروا لو، کچھ وقت کے لئے ہی محفوظ ہو جاؤ گے ‘ ایک فرشتے نے میرا مذاق اڑایا۔

’ یہ فرشتے انسان کے ہاتھوں اپنی توہین بھولے نہیں ہیں۔ بدلہ لینے کے چکر میں مجھے جہنم میں ہی نہ جھونک دیں ‘ یہ سوچ کر میں نے اپنی روح کو پھر ڈھیلا چھوڑ دیا۔

’ ارے اس عورت کو کیوں کوڑے لگ رہے ہیں، یقیناً کوئی بہت ہی گناہ گار ہو گی؟‘

’ہاں اس کا نام مدر ٹریسا ہے۔ ساری عمر بے دینی میں رہی۔ صاف صاف واضح احکامات تھے، مگر اس نے ایسے آنکھیں بند کر رکھی تھیں جیسے یہ دن آئے گا ہی نہیں۔ بس اس کا خمیازہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھگتے گی‘۔ میں نے بہت سمجھداری سے سر ہلا دیا۔ مرنے سے پہلے زندگی کے آخری دو تین سالوں میں، میں نے یہ فن خوب سیکھ لیا تھا۔ دین کے معاملے میں بحث مت کرو۔ سیاہ سیاہ ہے اور سفید سفید۔ درمیانہ راستہ دین کا راستہ نہیں۔ پانچ فیصد انتہا پسندی نے پچانوے فیصد میانہ روی کی روح قبض کر رکھی تھی۔ تو یہاں تو سچ مچ کے قابضینِ روح سے واسطہ تھا۔ میں نے ایسے سر ہلایا کہ وہ مطمئن ہو گئے۔

’ ارے اور یہ زرد رنگ کے عجیب سے لباس میں کون ہے، جس کے گرد اتنا بڑا اژدہا لپٹا ہوا ہے، لگتا ہے یہ بھکشو بہت تکلیف میں ہے ‘۔

’ ہاں یہ دلائی لامہ ہے۔ ساری عمر اہنسا اور برہمچاری پر ہی تکیہ کئے بیٹھا رہا، اب بھگتے گا۔ گوتم بدھ تو لاعلمی کا بہانہ کر کے بچ نکلا، مگر یہ کمینہ کیا بہانہ کر سکتا تھا۔ اب اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہے یا یوں سمجھئے نہ کئے کی سزا بھگت رہا ہے ‘۔

لیجئے انہوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا۔ کیا امر زیادہ خطرناک ہے، وہ امر جو ہم کرتے ہیں یا وہ امر جو ہم نہیں کرتے۔ میرے معاملے میں تو اب بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ کاش یہ فرشتے مجھے ایک پل کے لئے واپس جانے دیں تو میں اپنے پیاروں کو خبردار کر سکوں، یہ قیامت خیز منظر ان کے سامنے کھینچ سکوں، ہر قدم سوچ کر اٹھائیں۔ جو کام وہ کر رہے ہیں اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں اور جو وہ نہیں کر رہے، کیا کرنا اس سے بہتر ہو گا۔ مگر فرشتے تو جیسے میری سوچ کی لہروں کو بھی پڑھ رہے تھے، فوراً میری روح پر ان کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ میں اپنی روح ان کی گرفت سے آزاد نہیں کروا سکتا تھا، زندگی بھر یہی کھیل کھیلتا رہا۔ نادیدہ فرشتوں سے کبھی روح مقید اور کبھی آزاد کراتا رہا۔ مگر اب فیصلے کی گھڑی تھی، اب کوئی رسک لینا بالکل مناسب نہیں تھا، میں نے اپنی روح کو پھر ڈھیلا چھوڑ دیا۔ کیا بتاؤں اس عقوبت خانے میں تو سب ہی سر پھروں سے مل لیا۔ کیا نیلسن منڈیلا تو کیا جون آف آرک۔ میں نے دل ہی دل میں ان ناعاقبت اندیشوں پر لعنت بھیجی اور شکر ادا کیا کہ میں بھلائی کے راستے پر رہا۔ یہ وہی کاٹ رہے تھے جو خود انہوں نے بویا تھا۔ ذرا اور اوپر اٹھے تو میں نے سکون کی پھریری لی۔ جہنم کے اطراف میں پھریریاں تو آئیں گی۔ اب درجہ حرارت رفتہ رفتہ کم ہونے لگا۔ آگ کے قد آور شعلے کم ہو کر راکھ اور چنگاری میں بدل گئے تھے۔ اژدہوں کی جگہ نچلے درجہ کے سانپوں اور بچھوؤں نے لے لی۔ ابھی سکون کا ایک لمحہ بھی نہ گذرا تھا کہ اچانک ایک بڑا میدان نظر میں ایسے نمودار ہو گیا جیسے کسی نے پردہ ہٹا دیا ہو۔ اس میدان میں کچھ مانوس قسم کی شکلیں نظر آئیں۔ یہاں کچھ پاجامے والے بھی تھے اور عبا چغا والے بھی۔ یہ گروہ بھی درد کی شدت سے چیخ رہا تھا مجھے ایسا لگا جیسے مجھ پر نگاہ پڑتے ہی ان سے کئی کے چہروں پر اس تکلیف میں بھی ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ہو۔ مجھے حیرت کیوں ہوتی۔ ان کے لباس خراش سے ہی سمجھ لینا چاہئیے تھا کہ ان کی مسرت کے پیچھے یہ امکان تھا کہ شاید میں بھی اس مشکل میں گرفتار ہونے والا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کرتا، ایک فرشتہ خود ہی بول پڑا۔

’ان میں سے کچھ قہاری ہیں، کچھ غفاری، کچھ قدوسی تو کچھ جبروت‘

’ تو پھر انہیں بھلا کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ کیا انہی عناصر کا حکم نہیں تھا، یہ شاید غلطی سے یہاں آ گئے ہیں ‘

’غلطی آسمانوں پر نہیں ہوتی‘ فرشتے نے گرج کر جواب دیا۔ ’غلطی زمین پر ہوتی ہے۔ آسمان سے تو مٹھی بند بھیجے جاتے ہو، یہاں واپس آتے آتے ہاتھ کھلے اور خالی ہو جاتے ہیں، اور بہانہ یہ ہے کہ شاید آسمانوں پر غلطی ہو گئی۔ اگر زمین پر ہی غلطیوں کو ڈھونڈ کر درست کر لو تو یہاں کوئی الجھن نہ رہے ‘۔

’ لیکن علامہ نے تو کہا تھا قہاری و غفاری۔۔ ‘

’ ہاں کہا ضرور تھا، لیکن چاروں عناصر ہونا لازم قرار دئیے تھے۔ تم لوگوں نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ جو چاہا رکھ لیا اور جو مزاج کو موافق نہ ہوا چھوڑ دیا۔ جو اچھائیاں سہل معلوم ہوئیں یا ان سے ذاتی منفعت کا امکان ہوا صرف انہیں اپنا کر باقی کو ترک کر دیا۔ اس کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا‘ اف، کس قدر سخت لہجہ تھا اس فرشتے کا، بھلا کوئی ایسا سلوک کرتا ہے سہمی ہوئی روحوں سے۔ یہاں پہلے ہی خوف سے مرے جا رہے ہیں کہ ہمارا دورہ کب ختم ہو جائے اور کہا جائے کہ لو تمھاری قیام گاہ آ گئی ہے۔ ذرا جو خوفِ خدا ہو ان فرشتوں کو۔ انہیں تو معلوم ہے کہ انہیں تو حساب دینا نہیں ہے اسی لئے اتنا اکڑ اکڑ کر مصلح بن رہے ہیں۔ ہمارا ذاتی تجربہ تھا کہ خود را فضیحت دیگر را نصیحت ایک دلچسپ اور بہت کارآمد رویہ ہے۔

’چلیں نکلیں یہاں سے ‘ ہم نے امید بھرے لہجے میں التجا کی۔ جیسے اسکول میں کوئی بچہ پہلے دن ماں کی انگلی پکڑے امیدوار ہوتا ہے کہ شاید دروازے سے واپس گھر لوٹ جائیں گے۔

’ہاں چل رہے ہیں، ابھی تو بہت کچھ دیکھنا ہے ‘ فرشتوں کو کوئی جلدی نہیں تھی۔ لیکن میرے کہنے سننے سے یہ ضرور ہوا کہ ہم پھر مائل بہ پرواز ہو گئے۔

’یہاں دائیں کو ہولیں ‘ میرے دائیں ہاتھ پر ایستادہ فرشتے نے ذرا شوخی سے کہا

’نہیں، نہیں اسے آخری نظارہ رکھو، بائیں ہاتھ والے فرشتے کا لہجہ معنی خیز تھا۔ میں کچھ الجھ سا گیا۔ یہ داہنی ہاتھ پر یقیناً کوئی خاص زندان تھا۔ اپنی روح کو بلند کر کے بہت چاہا کہ جھانک لوں، مگر کچھ پردے ایسے دبیز ہو تے ہیں کہ روح بلند کرنے کے باوجود مستور رہتے ہیں۔ دکھانے والا نہ دکھانا چاہے تو لاکھ کوشش کر لو بیکار ہے۔ کوئی صرف اتنا ہی دیکھ سکتا ہے کہ جتنا اسے دکھایا جائے میں یہ تجربہ دنیا میں بھی کر چکا تھا۔ ساری زندگی جن لوگوں کی بابت میں سمجھتا رہا کہ انہیں جان گیا ہوں، در حقیقت میں ان کے بارے میں صرف اتنی ہی معلومات رکھتا تھا، جتنی وہ فراہم کرتے تھے۔

’ اتنی جلدی بھی کیا ہے، آخر میں یہ داہنے ہاتھ والی جگہ بھی دکھا دیں گے۔ ہائے رے انسان تیری بے صبری‘ فرشتے نے مجھے چھیڑا

ایک لمحے کو مجھے شبہ ہوا کہ شاید یہاں مینا کماری، نرگس، ایشوریا رائے اور الزبتھ ٹیلر وغیرہ رکھی گئی ہیں۔

’ایک جھلک ہی دکھا دو‘ شکر ہے اب میں بے منہ کا تھا ورنہ رال ٹپکتی نظر آ جاتی

’وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو‘ فرشتے نے حقارت سے مجھے جھڑکا۔ آگے بڑھے تو سامنے جو منظر تھا اسے دیکھ کر میرے دیوتا کوچ کر گئے۔ بہت ہولناک منظر تھا، ایسا لگتا تھا جیسے پچھلے تینوں عقوبت خانوں کا سارا عذاب جمع کر کے یہاں لکھ دیا گیا ہے۔ سانپ بچھو بھی تھے اور اژدھے بھی۔ گرم گرم لاوہ زمین پر بہہ کر معتوبین کے جسموں پر آبلے ڈال رہا تھا مارے خوف کے میں ایک فرشتے سے چمٹ گیا۔

’ ڈرو مت تمھیں یہاں نہیں چھوڑیں گے ‘ اس نے مجھے تسلی دی

’ یہ کون لوگ ہیں، مجھ سے رہا نہیں گیا‘

’ یہ بد بخت خدا پرست بن کر اس کے لوگوں کو گمراہ کر تے رہے۔ بھیڑ کی کھال میں بھیڑئیے ہیں۔ ایسا نہیں کہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ بس اپنے مفاد کے لئے حقائق اور احکامات کو توڑ مروڑ کر گمراہی پھیلاتے رہے، جو سیدھے راستے پر چلنے کے متمنی تھے ان کے لئے سیدھے رستے کی تختی بدل دی‘۔

’ کیا مطلب میں سمجھا نہیں کہ یہ کون سا گروہ ہے ‘

’مسئلہ یہی ہے، شروع میں پہچانے نہیں جاتے، اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔ جب تک پہچان میں آئیں بہت دیر ہو چکی ہو تی ہے۔ ان کی سانس میں زہر ہے، جہاں سانس لیتے ہیں وہاں زہر پھیل جاتا ہے ‘ لگتا تھا فرشتہ بھی ان سے ڈر رہا تھا کہ گول مول سا ہی جواب دیتا رہا۔ میں نے بھی اسی میں بہتری جانی کہ ایسے سر ہلا دوں جیسے سمجھ گیا ہوں۔

’نکلو یہاں سے ‘ فرشتے نے میری روح کو ٹھہوکا دیا۔

’دائیں طرف چلیں ‘ میں نے تجویز پیش کی۔

’بتایا تھا ناں کہ وہاں وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، لے چلیں گے لیکن آخر میں ‘ دائیں ہاتھ والے فرشتے نے میری روح اوپر کی جانب بلند کر دی۔ اچانک چاروں سمت سے جیسے بہار کی آمد کی نوید ملنے لگی۔ پھول نظر آنے لگے، ندیاں بہتی نظر آئیں۔ درختوں پر پھل ایسے لدے ہوئے تھے کہ درخت ان کے بوجھ سے سجدہ بوس ہوئے جاتے تھے۔ دیکھا تو ایک بلند ٹیلے پر ایک فرشتہ ہاتھ میں کچھ پرچیاں لئے شاید کچھ اعلان کر رہا ہے۔ اس کے سامنے نورانی شکلوں والے، اونچی شلواروں میں ملبوس لوگوں کا ہجوم تھا۔

’یہ کیا ہو رہا ہے ‘ میں نے حیرت سے پوچھا

’یہ جنت کا ڈیفنس ہے اور یہ یہاں کا قبضہ گروپ‘

’ جنت کا ڈیفنس؟‘

ہاں کراچی ڈیفنس کی کامیابی دیکھ دیکھ کر فرشتوں نے یہاں بھی پلاٹ نکال دئیے ہیں۔ یہ قبضہ گروپ اپنی اپنی نیکیوں کی بولی لگا کر فیز ایک میں پلاٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کچھ سبق ہم نے بھی سیکھے ہیں انسانوں سے۔ اس طرح پلاٹوں کے بدلے زیادہ سے زیادہ نیکیاں خرچ کروائیں گے ‘

’مجھے بھی یہیں رہنا ہے ‘

’نام لکھواد دو وقت آنے پر دیکھیں گے ‘ چلو اب تمھیں وہ داہنا حصہ بھی دکھا دیں جسے دیکھنے کے تم بے چین تھے ‘ یہ کہہ کر فرشتے نے میری روح کو داہنی سمت میں دھکیلا۔ میں جو پچھلی رہائش گاہوں سے بھاگنے کو تیار تھا یہاں سے بالکل نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر کیا کرتا۔ پاؤں تو تھے نہیں کہ گاڑ کر کھڑا ہو جاتا۔

’اب تیار ہو جاؤ۔ پہلے سے بتائے دے رہے ہیں یہ سب سے خوفناک علاقہ ہے ‘ ایک فرشتے نے مجھے ایسے خبردار کیا جیسے کسی ڈراؤنی فلم سے پہلے کم عمر بچوں کو بتایا جاتا ہے۔

واقعی فرشتوں نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ یہ دوزخ کا وہ علاقہ تھا کہ جس سے خود فرشتے بھی گھبرا جائیں۔ یہاں کوئی فرشتہ نگرانی پر بھی معمور نہیں تھا کہ یہ امر نگران فرشتوں کے لئے باعثِ زحمت بنتا۔ آگ، دلدل، جنگلی جانور، بھوت، چڑیل کیا تھا جو یہاں نہیں تھا۔ معتوبین بے دم تھے یقیناً یہ بہت بڑے مجرم تھے، غالباً قاتل ہوں گے۔ میں نے چاہا کہ مڑ کر فرشتے سے ان کے جرم کی بابت دریافت کروں۔

’ نہیں یہ قاتل نہیں ہیں۔ انہوں نے سر قلم نہیں کئے، انہوں نے دل توڑے ہیں ‘

’دل توڑے ہیں ؟‘

’ہاں دل توڑنے والوں کے لئے سب سے کڑی سزا رکھی ہے، یہاں کی آبادی سب سے زیادہ ہے ‘ فرشتے کی آواز کانپ رہی تھی۔ چلو اب نکلو یہاں سے، ہو گیا تمھارا شوق پورا گیا۔ میں نے ڈر کے جو بائیں دیکھا تو ایک بالکل ہی نیا نظارہ تھا۔ ایک چھپر تنا تھا جس کے نیچے لوگ لباس شاہی میں تھے لیکن مختلف قسم کی سزاؤں کو جھیل رہے تھے۔

’یہ کیا قصہ ہے ‘ میں اپنی حیرت نہ چھپا سکا

’یہ حکمران طبقہ ہے اپنے انجام کو بھگت رہا ہے ‘

’تو کیا حکمرانوں کا بھی حساب ہو گا‘

’یہ تو یہی سمجھتے رہے کہ یہ ماورائے حساب ہیں ‘ فرشتے نے ہنس کر جواب دیا۔

’تو تم فرشتے نیچے جا کر انہیں زندگی میں ہی خبردار کیوں نہیں کرتے، خلقِ خدا کا بھی بھلا ہو اور یہ بھی عذاب سے بچیں ‘

’کئی بار کوشش کی مگر ان کے نائب ملاقات کے اتنے پیسے مانگتے ہیں جو ہماری دسترس سے باہر ہیں ‘ فرشتے نے مایوسی سے کہا۔ میں نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھنا چاہا تو وہاں تو صرف نور کا ایک ہالہ سا تھا کیا نظر آتا۔ مگر کیا دیکھتا ہوں اس کے عقب میں شاندار چغے میں ملبوس ایک بادشاہ مسلسل پٹ رہا ہے۔

’یہ کون ہے ‘

’ہارون رشید، بہلول اور ملکہ زبیدہ کے بارے میں تو معلوم ہو گا‘ فرشتے نے استفسار کیا

’یاد تو نہیں پڑتا کہ نام سنا ہو‘

’تم کیا کام کرتے تھے ‘ فرشتے کو یقیناً معلوم رہا ہو گا پھر بھی کرید رہا تھا۔

’لکھتا تھا‘

’لکھتے تھے تو کیا پڑھتے نہیں تھے ؟‘ فرشتے نے حیرت سے پوچھا

’لکھنے کے لئے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے بھلا؟‘ مجھے اس کی منطق سمجھ نہیں آئی۔

’یہ بات سمجھ آ جاتی تو لکھنے اور پڑھنے والے دونوں اب تک حقیقت زمان و مکان کو نہ پالیتے۔ خیر رہنے دو۔ بہلول نے ہارون رشید کے قہر سے بچنے کے لئے پاگل پن کا ناٹک رچایا تھا۔ ایک دن وہ ہارون کے تخت پر جا بیٹھا۔ جب درباریوں نے اس کی درگت بنائی تو اس نے ہنس کر پوچھا، میں چند لمحے اس تخت پر بیٹھ کر اتنا پٹا ہوں تو ہارون تیرا کیا ہو گا؟‘

’ اور یہ زبیدہ کا کیا قصہ ہے ‘

’ایک دن بہلول دریا کے کنارے بیٹھا کاغذ کے ٹکڑے پھاڑ پھاڑ کر دریا میں بہا رہا تھا۔ ملکہ زبیدہ کا جلوس وہاں سے گذرا تو ملکہ نے پوچھا بہلول یہ کیا کر رہے ہو۔ جس پر جواب ملا کہ جنت کے ٹکڑے بانٹ رہا ہوں۔ ملکہ کے پاس اس وقت اور تو کچھ نہیں تھا صرف ہارون کا دیا قیمتی نولکھا ہار گلے کی زینت تھا وہی اتار کر اس نے بہلول کو دیا اور جنت کا ایک ٹکڑا مانگ لیا۔ ہارون کو پتہ چلا تو اس نے ملکہ کا بہت مذاق اڑایا۔ لیکن اسی رات اس نے خواب میں ملکہ کو جنت میں دیکھا۔ جب اس نے بھی جنت میں ملکہ کی قیام گاہ میں گھسنا چاہا تو فرشتوں نے اسے مار بھگایا، کہ شوہر تو زمین پر تھا، یہاں سب اپنا کمایا کھاتے ہیں۔ صبح ہونے پر اس نے بہلول کو طلب کیا اور جواہرات کا ایک ڈھیر لگا دیا کہ جو چاہے لے لو مگر ایک ٹکڑا مجھے بھی لکھ دو۔ بہلول بہت ہنسا کہ ملکہ نے بغیر دیکھے اپنا نولکھا لٹا دیا تھا تو دیکھ آیا تب بھی صرف یہی قیمت لگا سکا ہے ‘۔

فرشتے کے منہ سے یہ داستان سن کر میں ابھی حیران بھی نہیں ہو پایا تھا کہ اس کے اگلے جملے نے تو واقعی ایک میری روح کو ہلا کر رکھ دیا۔

’چلو اب تمھیں واپس چھوڑ آئیں ‘۔

’واپس چھوڑ آئیں ‘ میں نے حیرت سے پوچھا

’ہاں تم نے پچھلے ہفتے جو افسانہ لکھا تھا وہ اتنا پسند کیا گیا کہ ہمیں حکم ملا کہ تمھیں ایک جھلک دکھا دیں شاید فلاح کے راستے پر آ جاؤ‘۔ مجھے لگا فرشتوں نے یہ کہہ کر مجھے نیچے کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔ جتنی دیر میں آپ پلک جھپکائیں میں زمین پر آ چکا تھا۔ دونوں فرشتے یہاں تک مجھے چھوڑنے آئے تھے۔

’ ایک منٹ ٹھہرو میں اندر سے کچھ رقم لے آؤں ‘ مجھے ڈیفنس کا پلاٹ یاد آ گیا

’کتے کی دم‘ فرشتے نے مایوسی سے کہا اور اڑنچھو ہو گیا۔ اب میرے ہاتھوں میں تسبیح رہتی ہے۔ جب کبھی بادل گرجیں اور بجلی کڑکے تو میرے ہاتھ دانوں پر اور زیادہ تیزی سے چلنے لگتے ہیں، کیا خبر اوپر والا فوٹو کھینچ رہا ہو تو میری تصویر تسبیح کے دانوں کو گھماتے ہوئے آ جائے، جنت میں فیز ایک کا پلاٹ میری نگاہ کے سامنے گھومتا رہتا ہے۔

٭٭٭









بجوکا



رابعہ بہت دل لگا کر تیار ہو رہی تھی۔ پچھلے سال میلے پر زمیندارنی نے اپنا ایک پرانا ریشمی جوڑا دیا تھا جو رابعہ نے بہت سنبھال کر صندوق میں رکھ دیا تھا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ اس جوڑے کو صندوق سے باہر کی ہوا لگا ئی جائے۔ صبح بہت سویرے باپ کے اٹھنے سے پہلے نہا چکی تھی۔ ماں کے مرنے سے اچانک جھگی کی آبادی ایک تہائی کم ہو گئی تھی۔ نہانے یا کپڑے بدلنے کے لئے رابعہ چارپائی کھڑی کر کے اس پر چادر تان دیتی۔ عموماً اس وقت نہاتی جب باپ کھیتوں پر ہوتا۔ لیکن آج کوئی کھیتوں پر جانے والا نہیں تھا۔

آج بجوکا کا سالانہ میلہ تھا۔

میلے میں سب ہاری اور ان کے خاندان اپنے بہترین لباس میں جشن مناتے۔ یہ الگ بات تھی کہ یہ بہترین لباس وہ ہوتا جو اکثر کسی نے بد ترین جان کر اپنے جسم سے علیحدہ کیا ہوتا۔ رابعہ کی تیاری کے پیچھے یہ راز بھی تھا کہ میلے میں سب ایسے مصروف ہوتے کہ کوئی اس بات پر نظر نہ رکھتا کہ رابعہ ریشمی جوڑا پہنے کھیتوں میں کیوں پھر رہی ہے۔ نہ ہی کسی کو اس بات کا پتہ چلتا کہ یارو بھی اسی وقت اسی کھیت میں جا گھسا ہے۔ پچاس جھونپڑیوں کے اس گاؤں میں صرف ہاری رہتے تھے یا غربت۔ ایسے میں کسی سے چھپ کر ملنے یا دل کی بات کرنے میں بڑی دشواریاں تھیں۔ یا تو کسی میلے تہوار کی بھیڑ کا سہارا لیا جائے، یا ایسے وقت ملاقات کی جائے کہ جب باقی دنیا کی آنکھیں بند ہوں۔ یارو کی چھیڑ خانیاں اب بڑھتی جا رہی تھیں۔ ہر ملاقات میں رابعہ کسی نئی انوکھی دھڑکن سے روشناس ہوتی۔ جو سبق ماں سمجھا گئی تھی وہ یارو کا ہاتھ روک دیتا، جسم و جاں میں دوڑتی سنسنی کچھ اور متقاضی ہوتی۔ یارو کا ہاتھ روکتے روکتے بھی رابعہ کو لگتا دل ایسی زور سے دھڑک رہا ہے کہ کوئی سن لے گا۔ اسی امید و خوف کے بین بین رابعہ کی تیاری جاری تھی۔ آنکھوں میں زمیندارنی کا دیا کاجل پھیر کے وہ جھگی سے نکل آئی۔

گاؤں میں عید کا سا سماں تھا۔ گلیوں کو رنگ برنگی تکونوں سے سجایا گیا تھا۔ گلی کے ایک نکڑ سے دوسرے نکڑ تک ستلی کا ایسا بے ہنگم جال بنا گیا تھا جیسے کوئی لنگڑی مکڑی اپنا راستہ بھول گئی ہو۔ لئی کی مدد سے رنگ برنگی کاغذ کی تکونیں پھر اس ستلیوں کے جال پر منڈھ دی گئی تھیں۔ گلی کی چھت پر جہاں صرف نیلے آسمان کی راجدھانی ہو تی تھی وہاں اب یہ تکونیں بہار دکھا رہی تھیں۔ کچھ جھگیوں کی باہر سے پتائی بھی ہوئی تھی۔ جھاڑو دے کر گلیوں کو صاف کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی مگر نتیجہ ایسا ہی تھا جیسے زنگ لگی پرانی سینی کو رگڑ رگڑ کے چمکانے کی کوشش کی جائے۔

غربت خوش ہونے کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ بجوکا کے میلے سے بہتر کیا بہانہ ہو سکتا ہے۔ ابھی گیارہ کم دو برس ادھر کی بات ہے، جس برس نبوُ کے ہاں کا لا بچھڑا پیدا ہوا تھا، پے در پے تین فصلیں خشک سالی کی نظر ہو گئیں۔ بارش تو خیر کیا ہوتی، آسمان جیسے رونا بھی بھول گیا۔ جو ذرا سی فصل اتری بھی تو وہ فاقہ زدہ پرندے چگ گئے۔ گاؤں میں ہا ہا کار مچ گئی، وہ زمیں جسے ماں سمان سمجھتے تھے لعن طعن کا شکار ہونے لگی۔ ماں نے غذا کی فراہمی سے کیا منہ پھیرا، اولادیں نافرمانی پر آمادہ تھیں۔ رابعہ کو اچھی طرح یاد ہے تین سال مسلسل زمیندارنی نے قمیض تو کیا شمیز تک نہ دی تھی۔ وہ تو بھلا ہو بڑے زمیندار کا کہ انہوں نے بڑے کھیت کے عین وسط میں بجوکا کا مجسمہ گاڑ دیا۔ لکڑی کے پھٹے سے بندھا تقریباً دو فٹ زمین کے اندر۔ جبکہ چھ فٹ اونچا ئی زمین کے سینے پر ایک سپاہی کی مانند ایستادہ۔ بجوکا بڑے زمیندار کی حویلی میں ہی تیار ہوا تھا۔ اس کی یہی اہمیت کیا کم تھی کہ زمیندار نے اعلان کر دیا کہ بجوکا کے ڈر سے پرندے بھاگ جائیں گے اور اگر بمجوکا خوش ہوا تو بارش بھی برسا دے گا۔ رب کرے بڑے زمیندار کی عمر میں اور اضافہ ہو، ہوا بھی ایسا ہی۔ اس سال بارش بھی ہو گئی اور پرندے بھی دو تین سال بے یقینی کا شکار رہے۔ پے در پے جو اچھی فصلیں اتریں تو بجوکا کی دھاک بیٹھ گئی۔ رابعہ کیسے بھول سکتی تھی کہ اسی سال یارو نے پہلی بار اس کی کمر میں چٹکی بھری تھی۔ بجوکا کے ساتھ بڑے چوہدری کے وقار میں بھی اضافہ ہوا۔ اب بڑے چوہدری صاحب ہی بتاتے تھے کہ بجوکا کن چیزوں سے خوش ہو گا۔ ادھر دو برس پہلے جب پھر قحط پڑا، نہ بارش ہوئی نہ فصل اچھی اتری تو چوہدری صاحب نے صاف اعلان کر دیا کہ یہ بجوکا کی ناراضگی کی وجہ سے ہوا ہے۔

اب ہر سال بجوکا کے جنم دن پر گاؤں میں ایک میلہ ہوتا تھا۔ یہ گویا بجوکا کی طاقت اور ہیبت کی سالا نہ یاددہانی تھی۔ ہر سال کٹائی کے بعد والی چاند رات کو بجوکا کا میلہ لگتا۔ ساری کٹی فصل میلے سے پیشتر ہی زمیندار کی حویلی میں پہنچ چکی ہوتی۔ جیسے جیسے فصل کٹتی جاتی زمیندار کی توند، تجوری اور حرص میں اضافہ ہوتا جاتا۔ امارت اور قناعت ساتھ ساتھ نہیں چلتے۔ قناعت بھرے گھر میں امارت کیسے پنپ سکتی ہے اور بڑا زمیندار تو پشتینی امیر تھا اور قناعت سے دشمنی بھی اتنی ہی دیرینہ تھی۔ بجوکا میلے والے دن ہاریوں میں اناج تقسیم ہوتا۔ سارے سال کی محنت، پسینے، گالیوں اور دھکوں کے بعد اناج کی چند بوریاں کما پاتے۔ اناج کی تقسیم کے کئی فارمولے تھے ؛ زمین کے کتنے رقبے پر اس ہاری نے کاشت کی ہے، ہاری کے گھر میں کتنے افراد ہیں اور فارمولے کا سب سے اہم عنصر یہ کہ بڑا زمیندار اس ہاری سے کتنا خوش ہے۔ تقسیم کے بعد یہ ہاری کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ چاہے تو اپنے حصے کے اناج کا کچھ حصہ بجوکا کو نذر کرے۔ اس باجگذاری سے اگلی فصل اچھی ہونے کے امکانات روشن ہو سکتے تھے۔ شاید ہی کوئی ہاری ایسا ہو جو بظاہر اس چھوٹی سی نذر اور قربانی کے عوض اپنے روشن مستقبل کا جوا نہ کھیلتا ہو۔ ہر چڑھاوے سے زمیندار کی حویلی میں ایک اور دیا روشن ہو جاتا۔ زمیندار کے کارندے بیان کرتے ہیں کہ خود زمیندار عقیدت سے بہت بھاری چڑھاوے بجوکا کی نظر کرتا ہے، لیکن بڑا زمیندار واقعی اتنا نیک تھا کہ اس کا دایاں ہاتھ دیتا تو بائیں ہاتھ کو کبھی خبر نہ ہوئی کہ کب کہاں اور کتنا دیا۔

رابعہ نے دائیں بائیں دیکھا تو کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ زیادہ تر مرد زمیندار کی چوپال کے نزدیک جمع تھے جہاں بھنگ گھوٹی جا رہی تھی۔ ایک ہاری کے گلے میں نواڑ کی پٹی سے بندھا ڈھول لٹک رہا تھا جسے وہ مستانہ وار بجائے جا رہا تھا۔ درخت کے نیچے لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی گئی تھی جس پر ایک بڑی دیگ میں نجانے کب سے چائے پک رہی تھی۔ ایسے میں کسے فرصت تھی کہ رابعہ کی فکر کرتا۔ رابعہ کھیتوں کے درمیان پگڈنڈی پر چل پڑی، تھوڑی ہی دوری پر درمیان میں ذرا سی جگہ صاف تھی جہاں یارو اس کا منتظر تھا۔ رابعہ کو دیکھتے ہی اس کا چہرا کھل اٹھا۔ بے صبری سے ہاتھ بڑھا کر اسے کھینچ کر اپنے پاس ہی گرا لیا۔

’کیسا بے صبرا ہے تو‘ رابعہ شوخی سے مسکرائی

’اور تو آنے کے لئے بے چین نہیں تھی ‘ یارو نے اسے گدگدایا۔

’آں، آں ‘، رابعہ نے حدود مقرر کر رکھی تھیں اور ان پر سختی سے کاربند تھی۔

’کون ہے یہاں سب میلے میں مست ہیں ‘

’سامنے دیکھ، بجوکا بابا ہی دیکھ رہا ہے ‘

’بجوکا بابا‘ یارو کی ہنسی میں تضحیک تھی۔ چھ جماعتیں کیا پڑھ گیا تھا یارو اپنے آپ کو بہت ہشیار سمجھتا۔ رابعہ کو علم تھا یارو کو بجوکا کی طاقت پر بالکل بھروسہ نہیں تھا، جبکہ رابعہ بجوکا کی ان دیکھی قوت کی دل و جان سے معتقد تھی۔ اسے پتہ تھا یارو صرف اس کی محبت میں بجوکا کو کھل کر برا بھلا نہیں کہتا تھا لیکن اکثر یارو اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا تھا۔

’دیکھ بجوکا اپنے کاندھے پر بیٹھا کوا تو اڑا نہیں سکتا، فصلوں کا کیسے خیال کرتا۔ یہ افیون ہے، جس سے تو اپنے آپ کو دھوکا دے رہی ہے۔ ‘

’یارو، ایسی بات کرے گا تو میں تجھ سے بات کرنا چھوڑ دوں گی‘ رابعہ سچ مچ ناراض ہو جاتی۔

’بجوکا، بجوکا، بجوکا، بجوکا دیکھ رہا ہے ‘ اس وقت بھی بجوکا ان کے درمیان آ گیا تو الجھ کر یارو نے رابعہ کی نقل اتاری۔

’یارو وقت جا رہا ہے ‘۔ رابعہ اس تنہائی کو ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ’یارو ایک بات بتا، کیا تجھے وقت نظر آ رہا ہے ‘

’نہیں، وقت بھلا کس کو نظر آتا ہے ‘ یارو نے اس کا مذاق اڑایا

’تجھے وقت نظر نہیں آتا، لیکن اس پر یقین ہے، موت نظر نہیں آتی مگر اس پر بھی یقین ہے، میری محبت نظر نہیں آتی مگر اس پر بھی اعتبار، بجوکا بابا کی طاقت نظر نہیں آتی تو اس کو کیوں نہیں مانتا؟‘

’یہ کیا بات ہوئی‘ یارو کو رابعہ کی بات کا جواب نہ بن پڑا تو الجھ کر چل دیا۔

’یارو‘ رابعہ کی پکار بھی اسے واپس نہ لا سکی۔

’بجوکا بابا کا اپمان کرے گا تو بہت نقصان ہو گا یارو‘ رابعہ اپنے ہاتھوں میں منہ چھپا کے رو پڑی۔

اب چوپال پر زمیندار کے آنے کا وقت تھا۔ گاؤں کے سب ہاری جمع تھے۔ اناج کی تقسیم کے وقت غیر حاضری ہوتی تو اناج تو دوسرے دن مل جاتا مگر غیر حاضری ٹیکس منہا کر کے۔ اپنی کھال میں مست ہاری رقصاں تھے۔ ڈھول، تاشے، باجے خوش ہونے کے سب ہی بہانے تو جمع تھے۔ زیادہ تر ہاری ننگے پاؤں، ننگی زمین پر براجمان تھے۔ زمین سے رشتہ ایسا مضبوط تھا، ننگا پاؤں ننگی زمین پر جما رہتا، تپتی رتیلی زمین ہو یا برف جیسا سرد پانی، ان کے پاؤں کا زمین سے رشتہ جما رہتا۔ کچھ نوجوان ہاری ایک ڈھول والے کے گرد حلقہ بنائے رقص کر رہے تھے، نواڑ کی پٹی سے بندھا ڈھول بھنگ کی تال پر ان تھک بجے جا رہا تھا۔ حویلی کے دروازے سے داخل ہوں تو ایک بڑا دالان، یوں سمجھئے چھوٹا سا میدان تھا جہاں سب ہاری ایک سا لباس، چہروں پر امید کی یک رنگی کرن لئے حویلی کی جانب رخ کئے بیٹھے تھے۔ عجب اتفاق ہے کہ غربت کا ایک ہی لباس ہے، ایک نظر میں دور ہی سے پہچان میں آ جائے۔ دالان میں جس رخ پر حویلی کا دروازہ کھلتا تھا ایک پکا چبوترا تھاجس پر زمیندار کے لئے کرسی منتظر تھی۔ ذرا ہٹ کر پیچھے کی جانب ایک جھلنگا پلنگ پڑا تھا جس پر زمیندار کے جانثار بیٹھتے۔ ابھی یہ جلوس حویلی سے برآمد نہیں ہوا تھا۔ پیاسے کو ذرا ترسا کے پانی دو تو پانی کی زیادہ قدر کرے گا۔

زمیندار بہت با وقار اور رعب دار شخصیت کا مالک تھا۔ صاف ستھرا تہہ بند، اس پر لمبا ریشمی کرتا۔ سر پر پگڑ، ستاروں سے بھری ٹوپی یا کچھ اور۔ ننگے سر باہر چوپال میں نہیں آتا۔ پاؤں میں بغیر موزوں اور بغیر فیتوں کے جوتے یا کھسّے۔ بڑے زمیندار صاحب برآمد ہوئے تو دالان میں شور مچ گیا، بھاری بھرکم جسّے پر لباس ویسا ہی تھا جیسا کہ متوقع تھا۔ مونچھوں پر ہلکا سا تاؤ دے کر زمیندار کرسی پر بیٹھ گیا۔ پیر سامنے پھیلا دئیے۔ پٹواری کی آنکھ کا اشارہ دیکھ کر زمیندار کے دونوں پیر ایک ایک ہاری کے ہاتھوں کی گرفت میں آ گئے۔ تھکے ہارے ہاتھ تنومند کاہل پیروں سے تھکن نکالنے میں لگ گئے۔

زمیندار نے اناج کے بٹوارے کا اشارہ کیا۔ ایک ایک ہاری آگے آتا، زمیندار کے پیر چھو کر اطاعت کی بیعت دہراتا۔ زمیندار اس کے سر پر ہاتھ رکھتا جبکہ پٹواری اس کے سر پر اناج کی بوری لاد دیتا۔ یہ سلسلہ گھنٹوں چلتا رہا اب تقریباً سب ہاری فارغ ہو چکے تھے۔ ایسے میں ایک کارندہ کھیتوں کی سمت سے بھاگا ہوا آیا اور زمیندار کے کانوں میں کوئی خبر داغ دی۔ بڑے آدمیوں کے کانوں میں کی جانے والی یہ سرگوشیاں بڑے دور رس نتائج کی حامل ہوتی ہیں۔ کوئی اور بات ہوتی تو زمیندار اپنی رعایا اور اپنے درمیان عبودیت کا یہ سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیتا۔ مگر خبر کچھ ایسی ہی تھی کہ وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوا۔ پیر دبانے والے دونوں ہاری اپنے پیروں کی خیر منانے سہم کر پیچھے ہٹ گئے۔ پٹواری ہاتھ باندھ کر سامنے آ گیا۔

ؒؒ ’ حکم ہو بادشاہو‘

’پٹواری یہ کھیت میں ایک چھوٹا بجوکا کس نے گاڑا ہی ‘ زمیندار کی گرج میں آنے والی قیامت کی خبر تھی۔

’ابھی معلوم کراتا ہوں سرکار‘

چند ہی لمحوں میں چارپائی پر بیٹھے جان نثار یارو کو دھکے دیتے ہوئے سامنے لے آئے۔

پٹواری کی آنکھ کے اشارے کے باوجود یارو زمیندار کے پیروں پر نہیں گرا، سر جھکائے کھڑا رہا۔ یہ جرم کسی اور ناکردہ گناہ سے زیادہ سنگین تھا۔ زمیندار کے روئیے سے بالکل ظاہر نہیں ہوا کہ اسے یہ سرکشی گراں گذری ہے۔ صدیوں کی نسل در نسل تربیت نے اسے اس کھیل میں مشاق کر دیا تھا لیکن پٹواری کی جہاندیدہ آنکھوں نے ماتھے پر پڑی سلوٹوں میں ایک شکن کا اضافہ دیکھ لیا تھا۔

’کوئی غلطی ہو گئی زمیندار صاحب‘ یارو نے ہاتھ جوڑ کر زمیندار سے آنکھیں ملائیں۔ پٹواری نے ٹھنڈی سانس لے کر اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔

’غلطی؟‘ بڑے زمیندار کی آواز پر کسی سانپ کی پھنکار کا گمان ہوتا تھا۔

’غلطی، بجوکا کا اتنا بڑا اپمان۔ اس کے مقابلے میں ایک اور بجوکا لا کھڑا کیا تو نے۔ کیا سمجھتا ہے یہ کوئی بت ہے، کوئی بھی اس جیسا لا کر کھڑا کر دو؟‘۔ ’ جانتا ہے اب بجوکا کی ناراضگی ہمیں کتنی مہنگی پڑے گی۔ کتنی فصلیں برباد ہوں گی‘

یارو کو اپنے سنگی ساتھیوں کی نگاہیں اپنی پشت پر نیزوں کی طرح گڑتی محسوس ہوئیں۔ بغیر اناج کے سب کیسے گذارا کریں گے۔ ہاریوں کے ذہن میں چند برسوں پہلے کا قحط گھوم رہا تھا۔

’سائیں غلطی ہو گئی‘ یارو نے حالات کی سنگینی کا اندازہ کر کے زمیندار کے پیر پکڑ لئے۔

’چھوڑ میرے پیر، حرامی، کتے کی اولاد، نجس کر رہا ہے میرے پیر‘۔ زمیندار نے لات مار کر اپنے آپ کو چھڑانا چاہا۔ یارو کو پتہ تھا جب تک پیروں میں پڑا ہے امان میں ہے۔ دو جاں نثاروں نے آگے بڑھ کر یارو کو زمین سے نوچا اور اٹھا کر زمیندار کے سامنے سیدھا ایستادا کر دیا۔

’باندھ دو اس بد بخت کو سامنے درخت سے اور جب تک ہمارا حکم نہ ہواسے نہ کھولا جائے ‘۔ زمیندار کے حکم کے بعد تو یارو کی ماں کی بھی ہمت نہ ہوتی کہ یارو کو آزاد کر سکتی، رابعہ کی تو اوقات ہی کیا تھی۔ دل مسوس کر رہ گئی۔ جس طرح یارو بجوکا کی توہین کرتا تھا ایک دن تو کچھ ایسا ہونا ہی تھا۔ یارو اپنی سزا سن کر نیم جان سا ہو گیا۔ اسے پتہ تھا کہ اب تین چار دن درخت سے بھوکا پیاسا بندھے رہنے کے بعد جب وہ نیم جاں ہو جائے گا تو زمیندار اسے اپنی نجی قید میں چند سالوں کے لئے بیڑیاں کسوا دے گا۔ امکان غالب تھا کہ اب دوبارہ کھلی فضا میں سانس لینا نصیب نہ ہو گا۔

’دیکھو اس کمبخت کی وجہ سے کیا عذاب آتا ہے۔ بجوکا بہت ناراض ہے، اس کے حصے کا اناج بھی بجوکا کو باجگذار کرو‘ زمیندار نے کارندوں کو حکم دیا۔ میلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ دالان میں ایک طرف جو بھنگ گھوٹی جا رہی تھی وہ بھی زمیندار کے جان نثار اپنے ساتھ لے گئے۔ درخت سے بندھے یارو سے نظریں چرائے سب ہاری اپنے اپنے دائروں میں قید ہو گئے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایک کوا بجوکا کے کندھے پر بیٹھا اسے ٹھونگے مانگ رہا ہے۔ جب بجوکا ناراض ہو کر قحط لا سکتا ہے، بارش روک سکتا ہے اور فصلیں خراب کر سکتا ہے تو اس کوے کو کیوں نہیں اڑا سکتا، رابعہ کے کانوں میں یارو کی آواز گونجی۔ یہ باتیں ہاریوں کی منطقی سطح سے اوپر تھیں۔ سوچ کے پر مستقل کترتے رہیں تو سوچ کی پرواز کوتاہ ہو جاتی ہے۔ ہاری کی سوچ کے پر کتر کے اسے اناج، بارش، فصل، بھوک، زمیندار اور خوف تک محدود کر دیا گیا تھا۔ ہاتھی کے پیر میں رسی کی بیڑیاں ڈال کر اسے لکڑی کے پنجرے میں قید کر دیں تو ہاتھی بیڑیوں کے خوف سے رسی تڑانے کی فکر ہی نہیں کرتا۔ اس کی سوچ گنے، مہاوت اور چیونٹیوں تک محدود ہو جاتی ہے۔

زمیندار کے ڈرانے پر اس سال بجوکا کو بہت چڑھاوے دئیے گئے۔ اس سال برسات میں بجوکا پر چڑھا لباس جگہ جگہ سے مسک گیا۔ اس کی کھوکھلی ساخت کیا عریاں ہوئی کہ پرندوں کے غول کے غول در آنے لگے۔ بجوکا کا ملمع کیا اترا کہ پرندوں سے اس کا خوف اتر گیا۔ ٹولیاں اڑ اڑ کر آتیں اور بچی کچی فصلوں سے ایسے سیراب ہوتیں گویا یہ دسترخواں ان ہی کے لئے بچھا ہے۔

’یہ سب اسی حرامی کی وجہ سے ہوا ہے ‘ زمیندار نے نجی قید میں بند یارو کے مزید پچاس جوتے مارنے کا حکم دیا کہ اس سے شاید بجوکا رضا مند ہو جائے۔ بجوکا کے بت پر نیا غلاف چڑھا، کچھ ہاری دن رات بڑے کھیت میں گذارنے لگے کہ شاید اس خدمت سے بجوکا راضی ہو جائے۔ بجوکا راضی ہوا یا نہیں لیکن پرندوں کی یلغار تھم گئی۔ اس کا سہرا یقیناً زمیندار کے سر پر بندھا۔ اس کی مونچھ میں پھر تاؤ آ گیا۔ پگڑ کی کلغی کا کلف کچھ اور اکڑ گیا۔ ہاریوں نے سکھ کا سانس لیا۔ فصل نسبتاً اچھی اتری تو گاؤں پر سے گویا بجوکا کا عذاب ختم ہوا۔ اس سال بڑے زوروں کا میلہ ہوا۔ اس خوشی میں یارو کو بھی آزادی مل گئی۔ اچھی فصلوں کے موسم میں زمیندار اپنے سب سے محنتی ہاری کو قید کر کے کیا کرتا۔

پرندوں کو لیکن بجوکا کی حقیقت پر شک ہو چلا تھا۔ اگلی بوائی پر پھر غول کے غول اترنے لگے۔ اس بار چڑھاوے بھی کام نہ آئے۔ ہاریوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب بجوکا کس بات پر ناراض ہے۔ زمیندار کا کہنا تھا کہ بجوکا کے سب معاملات خود زمیندار کی سمجھ میں نہیں آتے۔ اک دن چشمِ حیرت نے کیا دیکھا کہ بجوکا کے سر پر ایک پرندے کی گند پڑی ہے جو اس کے سر سے ٹپک کر عین ناک پر جم گئی ہے۔

‘یہ بجوکا کا کس نے اپمان کیا ہے ؟‘ ایک ہاری نے دہائی دی۔ ہاریوں میں خاصی بددلی پھیل گئی۔ حیرت کی بات تھی کہ بجوکا جو پرندوں کو مار بھگا سکتا تھا اس کے سر پر بیٹھ کر کوئی پرندہ گند کر جائے۔ اس کے کاندھے پر بیٹھ کر کوئی کوا ٹھونگیں مار سکے۔ بجوکا بیچ کھیت میں کھڑا ہو اور پرندے اس کی موجودگی سے بے پرواہ غول در غول بیج ہضم کر جائیں۔

صبح ہونے سے پہلے بجوکا کے سر اور ناک پر سے پرندے کی غلاظت صاف ہو چکی تھی۔ لیکن اس بے احتیاطی سے صاف کی گئی تھی کہ صاف معلوم ہوتا تھا کسی نے جلدی میں کپڑے سے رگڑا ہے۔ راتوں رات بجوکا کی عزت بحال کرنے کی کوشش اسے اور ننگا کر گئی تھی۔ رابعہ کے ذہن میں اب کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ یارو ٹھیک کہتا تھا۔ بجوکا کی عظمت اور طاقت چوہدری کے ذہن کی پیداوار ہے۔ لیکن اپنے خیالات رابعہ نے اپنے ذہن میں مقید رکھے۔ بات کرتی بھی تو کس سے۔ خود یارو رہائی کے بعد سے اس سے کھنچ گیا تھا۔ رابعہ کی کوششوں کے باوجود اس سے کتراتا تھا۔ زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ یارو اب زمیندار کے جاں نثاروں میں شامل ہو چکا تھا۔ طاقت نے ایک اور روح مسخر کر لی تھی۔

اسی سال چوہدری کو بیماری نے ایسا گھیرا کہ پلنگ سے لگ گیا۔ اب ہر ہفتے چوہدری اپنی بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر شہر علاج کرانے جاتا۔ کبھی کبھی تو علاج کرانے کی خاطر ہفتہ دس دن شہر ہی میں ٹھہرنا پڑتا۔ ایسے میں بڑے چوہدری کا ولی عہد، چھوٹا چوہدری نادر اپنی پوری کوشش کر رہا تھا کہ بات بگڑنے نہ پائے۔ بڑے چوہدری کے جاں نثاروں کی کھسر پھسر سے یہ بات پھیل گئی تھی کہ چوہدری کو جانے ’کینسر‘ یا اس سے ملتے جلتے نام کا کوئی مرض لگ گیا تھا۔ بہت موذی مرض ہے کہ جو شاید کسی ہاری کی قربانی سے بھی ٹھیک نہ ہو۔

یہ سال بہت خراب گزرا۔ بڑے چوہدری کی بیماری کی وجہ سے بجوکا کا میلہ بھی نہیں ہوا۔ کہتے ہیں پٹواری اور چوہدری نادر تو بہت چاہتے تھے کہ سالانہ میلہ ہے اس میں کسی سال ناغہ مناسب نہیں مگر بڑی چوہدرائن کسی طرح راضی نہ ہوئی۔ بڑے سائیں بستر سے لگے ہیں اور تم لوگوں کو میلے کی سوجھی ہے۔ بڑا سائیں ٹھیک ہو جائے تو تم لوگوں کا کیا حشر کرے گا۔ پٹواری اس ڈر سے کہ کہیں واقعی بڑا چوہدری ٹھیک ہی نہ ہو جائے اچانک میلے کیا مخالف اور چودھرائن کا حامی ہو گیا۔ فصل خراب ہو گئی۔ کسانوں کے ہاں غربت میں فاقے پڑ گئے۔ کہتے ہیں ہر کام میں کوئی مصلحت ہوتی ہے تو یقیناً بڑے چوہدری کی بیماری کا ایک اچھا پہلو یہ نکلا کہ بڑی چوہدرائن نے بیماری کے صدقے ہاریوں میں اناج تقسیم کیا۔ ورنہ بڑے چوہدری کے ساتھ کتنے ہی ہاری مارے جاتے۔ کیا معلوم دیہاتوں میں ستی کی یہ رسم پڑ جاتی کہ زمیندار کے ساتھ کچھ ہاری بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

بڑے چوہدری کا انتقال بڑا المناک تھا۔ چوہدرائن دیواروں سے ٹکریں مار مار کر رو رہی تھی۔ بیماری نے اتنا آناً فاناً گرفت کیا تھا کہ اپنے دل کو سمجھانے کا وقت بھی نہیں ملا۔ ہاریوں میں بھی مایوسی اور دل گرفتگی تھی۔ کیسا بھی تھا اپنا چوہدری تھا۔ ادھر بجوکا بھی مجہول سا اعتقاد کے بانس پر چڑھا ہوا تھا۔ لیکن بجوکا کا خوف اور دبدبہ مٹی ہو چکا تھا۔ جس پرندے کا دل چاہتا ٹھونگا مار دیتا۔ سر، کان، شانے جگہ جگہ پرندوں کی غلاظت پڑی تھی۔ رابعہ یارو سے ملنے بات کرنے کے لئے بے چین رہتی، مگر یارو کا زیادہ وقت چوہدری نادر کے ساتھ گذرتا۔ چوہدری کو دفنا کے سب واپس آئے تو سب ہاری حویلی کے دالان میں جمع ہو گئے۔

چھوٹا چوہدری صاف ستھرا تہہ بند، لمبا ریشمی کرتا اور پیروں میں کھسّے اٹکائے اپنے جاں نثاروں کے ساتھ باہر آیا۔ ایک شاہ مر گیا دوسرے کی تاج پوشی ہو گئی، سلطنت چلتی رہی۔ چوہدری نادر کو دیکھ کر ہاریوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چھوٹے چوہدری نے کرسی پر بیٹھ کر دونوں پیر آگے کر دئیے اور پٹواری کے اشارے پر دو ہاریوں نے آگے بڑھ کر دائیں بائیں اس کے پیر دبانے شروع کر دئیے۔

’بڑے چوہدری صاحب مرحوم، اللہ انہیں بخشے ‘ چوہدری نادر نے کہنا شروع کیا۔ ’بجوکا دو سال پہلے ان سے ایسا ناراض ہوا کہ پھر نہ راضی ہوا۔ اپنا پتلا کھڑا چھوڑ کر بجوکا خود دو سال پہلے ہمیں چھوڑ گیا تھا۔ اسی لئے فصل بھی برباد ہوئی اور بڑے چوہدری بھی اپنی جان سے گئی‘۔ چوہدری نادر کے اشارے پر یارو ایک نیا بجوکا، پہلے سے تقریباً دوگنا بڑا شاندار بجوکا لے کر حویلی سے برآمد ہوا۔ اب یہ بجوکا ہم سب کی حفاظت کرے گا۔ اسے بڑے کھیت کے وسط میں نصب کر لو۔ خبر دار اس کے چڑھاووں میں کمی نہ ہونے پائے ‘۔

چوہدری نادر کی بات مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ سب ہاری خوشی سے نعرے مارتے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چند ایک نے بجوکا کو یارو کے ہاتھ سے لے کر بلند کر رکھا تھا اور بڑے کھیت کے وسط کی جانب بڑھ رہے تھے۔ باقی کچھ ڈھول، تاشے پیٹ رہے تھے۔ کچھ مست رقصاں تھے، بجوکا واپس آ گیا تھا، اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔

ہاریوں کو مصروف دیکھ کر یارو رابعہ کی جھگی میں جا گھسا۔ چوہدری نادر کا حواری ہونے کے ناطے یارو کا دائرۂ اختیار بڑھ گیا تھا۔ رابعہ جھگی سے نئے بجوکا کا جلوس دیکھ چکی تھی۔

’رابعہ اب ہم ساتھ ہیں، میں نے کتنا تیرا انتظار کیا ہے۔ منحوس بڑے چوہدری کا انتقال، مرتا ہی نہیں تھا بڈھا‘

رابعہ نے یارو کے بڑھے ہوئے ہاتھ کی پذیرائی نہیں کی۔

’کیوں ڈر رہی ہے، اب تو چوہدری بھی اپنا ہے اور بجوکا بھی‘ یارو نے تسلی دی۔

’ڈر نہیں رہی، جب تو نے میری آنکھیں کھولیں تو خود اپنی بند کر لیں۔ اب تو بجوکا کا ہاتھ تھام، تو بڑے چوہدری کی طرح مہان ہو گیا ہے، میں تیرے قابل نہیں رہی‘۔ یارو کو لگا مرنے کے باوجود بڑا چوہدری اس کو سزا دے رہا ہے۔

٭٭٭







دھوپ کی تپش



آج بھی وہ اپنے مقر رہ وقت پر ہی آئے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی۔ بچپن سے ہی میں نے سیکھ لیا تھا کہ وہ جس وقت کا وعدہ کرتے ہیں اسی وقت پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی آمد کی امید رکھنا عبث ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھی ایک خوشگوار حیرانگی کے لئے بغیر اطلاع کے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ آج بھی اپنے مقر رہ وقت پر ہی پہنچ گئے۔ دسمبر کی یخ بستہ شام ان کی گاڑی ڈرائیو وے میں داخل ہوئی تو میں صدر دروازے پر ان کا منتظر تھا۔ بڑھ کر ان سے بغل گیر ہوا تو لگا کہ اپنے آپ سے مل رہا ہوں۔ ان کا سامان ان کے ہاتھ سے لے لیا۔

جب سے وہ تنہا رہ گئے تھا ان کا یہی وطیرہ تھا۔ سال میں دو تین بار چند ہفتوں کے لئے میرے پاس آ جاتے۔ خاص طور پر دسمبر میں کرسمس کے دوران تو ضرور آتے کہ نیویارک میں کرسمس کا موسم بہت زندہ اور جیتا جاگتا ہوتا ہے۔ ویسے تو جب ہمارا گھر بہت بھرا پُرا تھا مجھے وہ اس وقت بھی بہت تنہا لگتے، اپنے وقار اور سربراہی میں تنہا۔ پھر اولادیں جوان ہو کر گھونسلہ چھوڑ گئیں، لیکن جس مکان میں وہ گزشتہ تیس سال سے رہ رہے تھے اسے چھوڑ کر کسی کے ساتھ منتقل ہونے کو تیار نہیں تھے۔

‘‘آئیے، یہاں آتشدان کے سامنے آ جائیے۔ میں نے اسے آپ کے انتظار میں پہلے ہی دہکا دیا تھا‘‘

‘‘ہاں بھئی سردیوں میں آتشدان کے سامنے پیر پسارے، کافی پینے، اور کچھ نہ کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ ‘‘ وہ ہنس کر بولے۔ میں پہلے ہی کافی مشین میں پانی بھر کر اس کا پلگ لگا رہا تھا۔ بیٹھک میں نشست کی ترتیب کچھ یوں تھی، کہ آتشدان ان کے صوفے کے داہنے ہاتھ پر تھا، سامنے ٹی وی چل رہا تھا۔ جب کہ بائیں ہاتھ پر کھینچ کر کھولنے والا بڑا فرنچ دروازہ مکان کے عقب میں میرے چھوٹے سے باغ میں کھلتا تھا۔

‘‘ بھئی یہ پردہ ہٹاؤ، تمھارے باغ کے درختوں پر بھی برف دیکھیں ‘‘ ۔

‘‘بس ابھی کافی بنا کر ہٹاتا ہوں۔ آتش دان کی گرمی زیادہ تو نہیں، آپ موزے اتار دیجئیے ‘‘ میں نے ان کے موزے میں تلوے کی سمت سوراخ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ سوراخ دیکھ میں نے ایک سکون کا سانس لیا تھا کہ سب ٹھیک ہے۔

‘‘ابھی تک تو حرارت اچھی لگ رہی ہے۔ کچھ دیر میں موزے پگھلنے لگیں گے تو اتار دوں گا۔ پچھلے سال تمھارے ہاں کی گرمی سے ہی موزے میں سوراخ ہوا تھا۔ یاد گار کے لئے رکھ چھوڑا ہے ‘‘ لیجئے مجھے یقین ہو گیا کہ سب ٹھیک ہے، ، کچھ بھی نہیں بدلا۔ ‘‘اور بھئی سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں کبھی پتا ہی نہیں چلا کہ کتنی آنچ ٹھیک ہوتی ہے۔ ابھی اچھا لگ رہا ہے، کچھ ہی دیر میں یہی حرارت بری لگنے لگے گی۔ حالانکہ کمرے کا درجہ حرارت تو اتنا ہی ہو گا۔ یہ تو اطراف سے باہمی اختلاط کا مسئلہ ہے میاں ‘‘ مجھے ان کا لہجہ معانی خیز لگا۔

میں نے جواب نہیں دیا۔ ان کی کافی بہت آسان ہوتی ہے۔ نہ شکر کی جھنجھٹ، نہ دودھ کا مسئلہ۔

‘‘میاں اچھائی میں ملاوٹ نہیں کیا کرتے ‘‘ وہ مجھے چھیڑتے۔ ان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کافی میں شکر ڈالنا تو چھوڑ دی تھی، لیکن دودھ کی ملاوٹ ابھی باقی تھی۔ مگ میں کافی انڈیل کر مگ انہیں پکڑا دیا، اور فرنچ دروازوں کے سامنے پڑا پردہ ہٹا دیا۔ وہ کرسی سے اٹھ کر میرے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔

‘‘بھئی ماننا پڑتا ہے کہ کم از کم باغ تو تم سلیقے سے رکھتے ہو‘‘ یہ ان کی گفتگو کا ایک خاص انداز تھا جیسے چھیڑ رہے ہوں۔ اب دیکھئے یہاں ’[کم از کم‘‘ بالکل بلا ضرورت ہے یا نہیں۔ غیر آلودہ تعریف نہیں کرتے۔ اس ’کم از کم‘ میں جو بلاغت ہے اس سے ان کی اولاد خوب واقف ہے۔

‘‘ارے یہ سیب کے درخت کے گرد تم نے ربن باندھ رکھی ہے۔ یہ وہی ہے ناں جو میں نے پچھلی بار بھی دیکھی تھی‘‘ انہوں نے استعجابیہ استفسار کیا۔

بچپن میں کبھی مجھے عادت پڑ گئی تھی کہ جب کسی نئی الجھن کا سامنا ہوتا تو اپنے پچھواڑے کے درخت پر ایک ربن باندھ دیتا۔ پہلے وہاں باندھتا رہا جہاں اب وہ رہتے تھے، میں نے اپنا علیحدہ گھر تو بنا لیا لیکن یہ عادت نہ گئی۔ وہ الجھن خواہ امتحان کی ہوتی یا نوکری کی، یا کسی نئے منصوبے کی۔ کبھی تو ایک ہی ہفتے میں کئی ربنیں بندھ جاتیں اور کبھی مہینوں کوئی نئی ربن نہیں بندھ پاتی۔ جلد یا بدیر، اپنے تئیں، جب وہ معاملہ سلجھ جاتا تو وہ ربن بھی کھل جاتی۔ وہ میری اس کمزوری کے عادی تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی۔

‘‘جی، یہ وہی ربن ہے، آپ پچھلی بار ستمبر میں آئے تھے جب سے ہی بندھی ہے ‘‘ میں نے کچھ جھینپ کر اقرار کیا۔ گویا یہ اپنی شکست کا اقرار تھا۔

‘‘اب تک کھلی کیوں نہیں۔ بات کریں ؟‘‘ ان کی اس دعوت میں یہ خواہش مخفی تھی کہ میں اس الجھن پر ان سے بات کروں، گویا خود سے بات کروں، اس گفتگو میں شاید کوئی راستہ نکل آئے۔

‘‘ابھی میں تیار نہیں ہوں ‘‘ میں نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔

‘‘ٹھیک ہے مجھے بھی کوئی جلدی نہیں۔ بہت کم ہی کوئی ربن میں نے اتنا طویل عرصہ بندھی رہتی ہے۔ لیکن اس میں تمھاری مستقل مزاجی کا قصور نہیں بلکہ کامیابی کے تناسب کی سند ہے ‘‘ انہوں نے چٹکی لی۔

‘‘آپ کو اس پر حیرت نہیں کہ کبھی کبھی تو کوئی ربن مہینوں نہیں بندھتی، کبھی ایک ہی دن میں دو بندھ جاتی ہیں۔ کوئی ربن تو چند روز میں ہی اتر جاتی ہے تو کبھی سال بھر بھی لگی رہی ہے ‘‘ مجھے اپنے لہجے میں شکوے پر حیرت اور ندامت محسوس ہوئی۔

‘‘بھئی وقت خود اپنے قابو نہیں آتا تو ہمارے قابو کیسے آئے گا۔ ہمیں تو وقت کا دراک بس اتنا ہی ہے کہ جیسے یہ ناپنے کا کوئی آلہ ہو۔ یہاں سے وہاں تک چھ فٹ، کل سے آج تک چوبیس گھنٹے، اور بس۔ ‘‘

‘‘سچ پوچھیں تو مجھے تو اس وقت پر بہت غصہ آتا ہے ‘‘

‘‘کیوں ؟‘‘ وہ مسکرائے

‘‘جس چیز پر کوئی اختیار نہیں ہو، لیکن جس کے تعاقب میں زندگی گزر رہی ہو اس پر غصہ نہیں آئے گا؟‘‘

‘‘تعاقب میں کہاں۔ ابھی کتنے پچاس کے ہی تو ہوئے ہو۔ مجھے یاد ہے جب تم میڈیکل اسکول سے فارغ ہوئے تھے تو تمھارا خیال تھا کہ تم وقت کے آگے آگے بھاگ رہے ہو!‘‘

‘‘صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔ یہی تو رونا رو رہا ہوں۔ اس وقت کا خیال کتنا دلفریب لیکن خام تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ پچاس کے قریب پہنچ کر معاملات زیادہ سمجھ میں آنے لگیں گے۔ وقت، مذہب، وجود سب الجھنیں واضح ہونے لگیں گی۔ مگر اب تو لگتا ہے معاملہ کچھ اور بگڑ گیا ہے۔ ‘‘

‘‘ہاں میاں ‘‘ انہوں نے ٹھنڈی سانس بھری ‘‘یہی کہہ سکتا ہوں کہ سمجھ لو تم اکیلے نہیں ہو۔ تو کیا معاملہ محض اختیار کا ہے ؟‘‘

‘‘ نہیں اختیار تو دور کی بات، یہاں تو نیم اختیار بھی نہیں۔ میں نے تو ہار مان کر برسوں پہلے صرف حال میں ہی جینا شروع کر دیا تھا؟‘‘

‘‘ بھئی یہ تو بہت زیادتی ہے، کچھ مستقبل کا بھی تو حق ہے تم پر!‘‘ آپ نے اگر ان کے ساتھ عمر گزاری ہوتی تو آپ سمجھ جاتے کہ اس سوال کا جواب تھا ان کے پاس۔ یہاں محض مقصد یہ تھا کہ وہ اس گفتگو پر مزید گفتگو کے خواہاں ہیں۔

‘‘بھئی مستقبل میں تو بہت دور دور تک امکانات ہیں، یہاں تو کل صبح بلکہ اگلے پل کا بھی نہیں پتہ، تو اس کا مجھ پر کوئی حق ہونا زیادتی ہے۔ ‘‘

‘‘میں اس پر تم سے متفق نہیں۔ بظاہر سطحی طور پر بات صحیح کہہ رہے ہو، لیکن میں چاہتا ہوں خود ہی سوچو‘‘ ۔

مجھے خیال ہی نہیں رہا کہہ ہم کتنی دیر سے دروازے کے پاس کھڑے باہر دیکھ رہے ہیں، وہ یقیناً تھک گئے ہوں گے۔

‘‘آئیے آتشدان کے پاس بیٹھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس دفعہ حرارت سے آپ کا موزہ رفو ہو جائے ‘‘ اب موقع تھا کہ میں بدلہ چکا دیتا۔

‘‘ہوں ‘‘ انہوں نے ہنس کر میرے شانے پر ہاتھ مارا اور وہیں رہنے دیا۔ ہم اسی طرح صوفے کی طرف بڑھ گئے اس سے جہاں محبت، قربت اور یگانگت مقصود تھی وہیں میری خود اعتمادی کو بڑھاوا دینا بھی شامل تھا۔ پہلے ایسی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ وہ اکثر غیر ضروری طور پر مجھ پر یوں انحصار کرنے لگتے کہ مجھے حیرت ہوتی کہ سب تو یہ خود کر سکتے ہیں۔ مگر جب عمر پچاس کے قریب ہونے لگتی ہے تو فہم و ادراک کی نئی کھڑکیاں روشن ہونے لگتی ہیں۔ میرے خیال میں ذہن میں کچھ خلئیے ایسے پروگرام کئے گئے ہیں کہ وہ عمل پذیر ہونے کے لئے کم از کم چالیس سال کا وقفہ مانگتے ہیں۔

‘‘آپ کا پسندیدہ پروگرام آ رہا ہے ‘‘Everybody loves Raymond‘‘ ، لگا دوں ٹی وی۔ ‘‘

‘‘بالکل لگا دو، نیکی اور پوچھ پوچھ۔ تمھارے ساتھ دیکھوں گا تو اور مزا آئے گا‘‘ ۔ غریب الوطنی میں انہیں ٹی وی پر مزاحیہ پروگرام ہی زیادہ پسند آتے۔ ‘‘بھئی رونے دھونے کے لئے پچھلی کدورتیں کم ہیں کہ نئی پٹاریاں کھول لوں۔ ‘‘ وہ بیزاری سے کہتے۔

کھانا کھا کر ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میرا تو سارا ماضی ان کے ساتھ مشترک تھا۔ ہم نے خوب پچھلے قصے دہرائے۔ ان کا بستر میں نے اپنے برابر والے کمرے میں ہی کر دیا تھا۔ ان کے سرہانے پانی کا گلاس رکھ کر میں نے انہیں شب بخیر کہا۔

‘‘کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے آواز دے دینا۔ ‘‘

‘‘نہیں کل ہفتہ ہے، تمھاری بھی چھٹی ہے، آرام سے اٹھنا۔ بہت دنوں سے تمھارا کوئی افسانہ بھی نہیں پڑھا۔ بلکہ صبح خود مجھے سنانا۔ ‘‘

سارا زمانہ افسانہ پڑھ لے۔ بڑے جید نقاد بھی داد دے دیں تو وہ مزا نہیں ملتا جو ان کے چند الفاظ سے ملتا تھا۔ نہ معلوم کیوں۔ شاید ان کی آواز میں مجھے خود اپنی رائے کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ لکھتا تو آدمی اپنے لئے ہی ہے۔ اوروں کو دھوکہ دینا تو آسان ہے، خود کو دھوکہ دینا ایک اور ہی فریب ہے۔ میں ذہن میں اپنے نئے لکھے افسانوں میں سے بہترین کا انتخاب کرنے لگا۔ وہ، نہیں اس میں تو کچھ جھول تھا، اچھا تو پھر وہ، نہیں اس کا اختتام تو پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ کسی چھوٹے بچے کی مانند ذہن کے کسی گوشے میں وہی خواہش تھی جو برسوں پہلے کوئی نیا ہنر سیکھ کر ہوتی تھی کہ کس طرح یہ بات ان تک پہنچ جائے۔

صبح چہل قدمی کا شوق برف باری کی نذر ہو گیا۔ لہذ ا ناشتے کے بعد، کافی کے مگ بھرے اور دوبارہ اپنی پسندیدہ نشستیں سنبھال لیں۔

‘‘کس وقت زیادہ لکھتے ہو، جب دکھی ہو یا خوش؟‘‘

یہ سوال غیر متوقع تھا، میں گڑبڑا سا گیا ‘‘کوئی خاص فرق نہیں پڑتا‘‘ میں نے ٹالا

‘‘اچھا چلو سناؤ، کوئی نئی چیز؟‘‘

‘‘اب نیا لکھنے کا وہ جوش نہیں رہا۔ میرے خیال میں، میں نے اپنی حدوں کو چھو لیا ہے۔ ‘‘

‘‘واقعی‘‘ وہ مسکرائے، پھر وہی سر پرستانہ مسکراہٹ۔ ‘‘میں تو خود اب تک اپنی حدیں نہیں پہچان سکا، تم کیسے پہچان گئے۔ یاد رکھو جب بھی اپنی حد کو پہنچتے ہو، تو گویا ایک نئی حد مقرر ہونے لگتی ہے۔ میرے خیال میں تو کسی کے لئے کوئی حد مقرر کی ہی نہیں گئی۔ تم تو خود ڈاکٹر ہو۔ سوچ کا saturation point تو آ ہی نہیں سکتا۔ اب کیا مکان کے دروازے بھی گنے چنے ہونے لگے۔ ‘‘ لگتا تھا انہیں میری بات بری لگی، یا شاید مایوسی ہوئی۔ میں نے تو محض یہ بات مدافعانہ حکمت عملی میں کہی تھی کہ اگر میرا نیا افسانہ پسند نہ آئے تو اس دیوار کے پیچھے چھپ سکوں۔ اب اپنے بچھائے جال میں خود ہی پھنس چکا تھا۔

‘‘ان خیالات کے حامل مصنف سے کوئی کیا سنے ؟‘‘ ان کی ناراضگی برقرار تھی۔

‘‘جیسے آپ کی مرضی ‘‘ میں نے شانے اچکائے

‘‘اچھا چلو سناؤ‘‘ یہ سوچی سمجھی پسپائی تھی۔ ایک فاتح سپاہ سالار کی حکمت عملی۔ بہت سنجیدگی اور خاموشی سے افسانہ سنتے رہے۔

‘‘واہ میاں، پھر کہتے ہو اپنی حدوں کو چھو لیا ہے۔ تم صرف یہ چاہ رہے تھے کہ میں تمھاری تعریف کروں۔ ‘‘ ان کے جملے سے میرا خون سیروں بڑھ گیا۔

دوپہر کا کھانا کھا کر ہم دونوں گھر سے باہر نکل گئے

‘‘مال چلتے ہیں، میں چاہتا ہوں آپ کو ایک اوور کوٹ دلا دوں۔ ‘‘

‘‘مجھے ضرورت نہیں، دیکھ تو رہے ہو، یہ جو پہنے ہوں اس میں کیا کمی ہے ؟‘‘

‘‘لیکن پھر بھی۔ ایک سے دو اوور کوٹ بہتر ہیں۔ کبھی بدل کے یہ پہن لیا کبھی وہ۔ ‘‘

‘‘دیکھو میں اپنی مرضی سے علیحدہ اور تنہا رہتا ہوں۔ سب ہی بچوں نے کئی کئی مرتبہ پورے خلوص سے کہا ہے کہ ساتھ آ کر رہیں۔ لیکن فی الحال میں اپنی آزادی تم لوگوں کے تابع کرنے کے حق میں نہیں۔ لہذا تمھارے ذہن میں کوئی Guilty Conscious نہیں ہونا چاہئیے۔ ‘‘

‘‘اس بات کا اوور کوٹ سے کیا تعلق ہے ؟‘‘

‘‘سوچو، سمجھ جاؤ گے ‘‘

میں مصر رہا اور اوور کوٹ دلا کر ہی رہا۔ مال سے واپسی پر میرا موڈ بہت خوشگوار تھا۔ وہ بھی خوش تھے۔ سڑک کے کنارے کسی گاڑی کا شکار ایک گلہری کا جسم دیکھا تو افسردہ ہو گئے ‘‘ان جانوروں کی دنیا، ہماری دنیا سے ایسی پیوست ہے کہ علیحدگی اب مشکل ہے۔ لیکن انہیں اس کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے !‘‘

‘‘تمھارا مذہب پر اعتقاد بحال ہوا یا نہیں ؟‘‘ وہ ایسے ہی اچانک حملہ آور ہوتے

‘‘وہی بے یقینی کی کیفیت ہے، بہت سے سوال اٹھتے ہیں ذہن میں۔ ‘‘

‘‘تو اس میں کیا حرج ہے ؟ بے یقینی ہی سے تو یقین کا کھوج ملے گا۔ میں خود ابھی تک بے یقینی کا شکار ہوں۔ بس یہی کہنا ہے کہ دروازہ کھلا رکھنا‘‘

‘‘دروازہ تو کھلا ہے، لیکن یقین کیجئیے کچھ پتہ نہیں۔ سوچو تو پچاس سال میں کتنی تعلیم حاصل کر لی ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہونے اور نہ ہونے کی بابت جتنا علم پیدائش کے وقت تھا، بالکل اتنا ہی آج بھی ہے، ایک حرف زیادہ نہیں ‘‘

‘‘خوب‘‘ وہ مسکرائے۔ ‘‘یہ ادراک ’کہ نہیں معلوم‘، تمھاری جستجو جاری رکھے گا، یہ ایک خوش آئند بات ہے ‘‘

میں نے بہت کوشش کی کہ رات کا کھانا ہم کہیں باہر کھائیں، لیکن وہ نہ مانے، میں نے جو گھر پر بنایا، وہی خوش ہو کر کھایا اور تعریف بھی کرتے گئے۔

‘‘میاں میں اس دفعہ تمھارے پاس صرف دو دن کے لئے آیا ہوں صبح ہی نکل جاؤں گا‘‘ انہوں نے انکشاف کیا۔

‘‘کیوں ؟ کم از کم ایک ہفتہ تو ٹھہرتے۔ ‘‘

‘‘نہیں، اور اب تو تم نے اوور کوٹ بھی دلا دیا ہے ‘‘ میری آنکھوں میں جانے کیا دیکھا کہ کاندھے پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگایا۔ ‘‘نہیں میر خیال میں تمھیں صرف دو ہی دن کی ضرورت تھی۔ اس دفعہ یہاں سے نکل کر چھوٹے کے پاس جاؤں گا، وہاں ایک دو ہفتے ٹھہروں گا، اگر تم کو کوئی اعتراض نہیں ہو‘‘ انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔

‘‘اور اگر مجھے اعتراض ہو؟‘‘ میں ذرا شوخی سے پوچھا

‘‘ہم نے یہ استحقاق کسی جذباتی دباؤ میں نہیں دیا ہے، کچھ دیکھ کر ہی دیا ہے ‘‘ وہ سنجیدہ تھے۔ مجھ سے صرف یہی جواب بن پڑا:

‘‘نہیں جہاں آپ خوش رہیں ‘‘ گویا ہتھیار ڈال دئیے

صبح انہیں گاڑی میں بٹھا کر بھاری قدموں سے واپس گھر آیا۔ پچھلے دروازے سے باغ میں جا کر سیب کے درخت سے بندھی ربن کھول دی۔

٭٭٭









پتلی تماشا



مداری نے لکڑی کے فریم پر سے ملگجی سفید چادر اُتار کر تہ کرنا شروع کر دیا۔ شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا۔ تھکا ہوا سورج بھی اپنی سفیداوڑھنی اُتار کر سیاہی کا لبادہ اوڑھ رہا تھا۔ زیادہ تر تماش بین جا چکے تھے۔ کچھ بچے اب بھی دل چسپی سے اسے سامان بٹورتا دیکھ رہے تھے، گویا یہ بھی تماشے کا ایک حصہ ہو۔ ساحل پر کچھ ٹوٹی ہوئی سیپیاں، خالی تھیلیوں اور جوس کے خالی ڈبوں کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ سڑک سے ساحل کو علاحدہ کرنے کے لیے تقریباً تین فٹ اونچی دیوار حدِ نظر تک چلتی گئی تھی۔ اسی منڈیر پر پچھلے بیس سال سے مداری اپنی کٹھ پتلیوں کا تماشا دکھا رہا تھا۔ ہر روز تین بجے سے سورج ڈھلنے تک اور چھٹی کے دن صبح نو بجے سے شام کے جھٹ پٹے تک۔ اس کا کھوکھا بھی ریت، پانی، سڑک اور دیوار کے ساتھ اسی منظر کا ایک حصہ بن چکا تھا۔

تماشا کرنے والے نے چادر اُتار کر تہ کی اور سائیکل کے پیچھے لگی صندوقچی میں رکھی۔ ڈوریاں ایک رِیل پر لپیٹیں۔ یہ رِیل پہلے کبھی مانجھا لپیٹنے کے کام آتی تھی۔ کوئی منچلا ساحلِ سمندر پر چھوڑ گیا تھا۔ مداری کے ہاتھ لگی تو اس کا روز روز کا ڈوری اُلجھنے کا مسئلہ حل ہوا۔ ڈوریاں لپیٹ کر اس نے کٹھ پتلیوں کو سنوارا۔ پیلی ملکہ اس کی خاص دُلاری تھی۔ اس پر کالے دھاگے سے بال بنائے گئے تھے، انھیں سنوار کے ٹھیک کیا۔

‘‘چلو اب لیٹ جاؤ، تھک گئی ہوں گی، سارا دن ناچ ناچ کے۔ ‘‘ مداری ساتھ ساتھ اپنی کٹھ پتلیوں سے باتیں کرتا رہتا۔ پیلی ملکہ کے بعد اس نے دلآرام، چاندنی، دلربا اور بوا کو بھی لٹایا لیکن کسی کے حصے میں پیلی ملکہ جیسا پیار اور محبت نہیں آئی۔ پیلی ملکہ کے سبھاؤ اور رچاؤ کی بات بھی کچھ اور تھی۔ ستاروں سے ٹکا پیلا لہنگا، اس پر شوخ سرخ بلاؤز۔

لکڑی کے فریم کے پیچھے کھڑا مداری، کٹھ پتلیاں ایسی نچاتا کہ مانو خود سے ناچ رہی ہیں۔ اس کے دائیں ہاتھ کی انگلی کا اشارہ کٹھ پتلی کے جسم میں گویا حرارت بھر دیتا۔ انگوٹھے کی جنبش سے کٹھ پتلی کا سر مٹکنے لگتا۔ درمیانی انگلیوں سے کٹھ پتلیوں کے نچلے دھڑ ہلتے تھے۔ ساتھ ساتھ مداری کا نیم نثری نیم نظم بیانیہ بھی چلتا رہتا۔

‘‘آج دربار ہمارا خالی ہے، بادشاہ سب کا والی ہے۔ ‘‘

ساتھ ساتھ مجمع کنٹرول بھی ہوتا رہتا۔

‘‘شاباش بچو پیچھے ہو جاؤ۔ دو دو قدم پیچھے کی جانب، صاحبان دو قدم‘‘

‘‘پیلی ملکہ رانی ہے، دلآرام اس کی باندی ہے۔

بادشاہ جب بھی آتا ہے، دلآرام کو نچاتا ہے۔ ‘‘

ہر ایک گھنٹے بعد مداری نیا تماشا شروع کرتا جو تقریباً چالیس منٹ جاری رہتا۔ دن ڈھلنے تک اس کی انگلیاں دکھنے لگتیں۔ پوریں اس کے اشارے پر چلنے سے انکار کر دیتیں اور وہ زور لگاتا تو کبھی کوئی پتلی ہاتھ سے چھوٹ جاتی اور وہ اپنے بیان میں اس حادثے کو بھی شامل کر دیتا۔ جس دن سارے تماشے بغیر کسی غلطی کے ختم ہوتے، اس دن مداری پھولے نہ سماتا۔ کٹھ پتلیوں کو پیار سے سنوارتا، اُٹھانے میں احتیاط، رکھنے میں پیار، جیسے کپڑے کی نہیں کانچ کی بنی ہوں۔ آج بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ اس نے بہت فخر سے تماشائیوں کو کٹھ پتلیاں پیش کی تھیں۔ بنی سجی کٹھ پتلیوں کو لوگ داد دیتے تو اسے اپنی ملکیت پر غرور ہونے لگتا۔

سامان بٹور کے وہ سائیکل پر بیٹھا اور تیزی سے پیر مارتا جھگی کی طرف چل پڑا۔ ساحل سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر مچھیروں کی بستی تھی۔ اس میں منت سماجت کر کے اس نے بھی ایک کمرے کی جھگی حاصل کر لی تھی۔ سائیکل کو کونے میں کھڑا کر کے رو مال میں بندھے پکوڑے آلتی پالتی مار کے باسی روٹی سے کھانے بیٹھ گیا۔ لقمہ منہ میں ڈال کر کچھ خیال آیا تو پہلی ملکہ کو صندوق سے نکال لایا اور ساتھ بٹھا لیا۔

‘‘آج تو خوب ناچی ہے، واہ بھئی واہ۔ اسی خوشی میں اب تیرے گلے میں ایک سیپیوں کا ہار بھی ڈالوں گا۔ بہت سندر لگے گی۔ ‘‘ مداری نوالوں کے درمیان اپنی کٹھ پتلی سے والہانہ گفت گوکسی کے حصے میں پیلی ملکہ جیسا پیار اور محبت نہیں آئی۔ پیلی ملکہ کے سبھاؤ اور رچاؤ کی بات بھی کچھ اور تھی۔ ستاروں سے ٹکا پیلا لہنگا، اس پر شوخ سرخ بلاؤز۔

لکڑی کے فریم کے پیچھے کھڑا مداری، کٹھ پتلیاں ایسی نچاتا کہ مانو خود سے ناچ رہی ہیں۔ اس کے دائیں ہاتھ کی انگلی کا اشارہ کٹھ پتلی کے جسم میں گویا حرارت بھر دیتا۔ انگوٹھے کی جنبش سے کٹھ پتلی کا سر مٹکنے لگتا۔ درمیانی انگلیوں سے کٹھ پتلیوں کے نچلے دھڑ ہلتے تھے۔ ساتھ ساتھ مداری کی نیم نثری نیم نظم بیانیہ بھی چلتا رہتا۔

‘‘آج دربار ہمارا خالی ہے، بادشاہ سب کا والی ہے۔ ‘‘

ساتھ ساتھ مجمع کنٹرول بھی ہوتا رہتا۔

‘‘شاباش بچو پیچھے ہو جاؤ۔ دو دو قدم پیچھے کی جانب، صاحبان دو قدم‘‘

‘‘پیلی ملکہ رانی ہے، دلآرام اس کی باندی ہے۔

بادشاہ جب بھی آتا ہے، دلآرام کو نچاتا ہے۔ ‘‘

ہر ایک گھنٹے بعد مداری نیا تماشا شروع کرتا جو تقریباً چالیس منٹ جاری رہتا۔ دن ڈھلنے تک اس کی انگلیاں دکھنے لگتیں۔ پوریں اس کے اشارے پر چلنے سے انکار کر دیتیں اور وہ زور لگاتا تو کبھی کوئی پتلی ہاتھ سے چھوٹ جاتی اور وہ اپنے بیان میں اس حادثے کو بھی شامل کر دیتا۔ جس دن سارے تماشے بغیر کسی غلطی کے ختم ہوتے، اس دن مداری پھولے نہ سماتا۔ کٹھ پتلیوں کو پیار سے سنوارتا، اُٹھانے میں احتیاط، رکھنے میں پیار، جیسے کپڑے کی نہیں کانچ کی بنی ہوں۔ آج بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ اس نے بہت فخر سے تماشائیوں کو کٹھ پتلیاں پیش کی تھیں۔ بنی سجی کٹھ پتلیوں کو لوگ داد دیتے تو اسے اپنی ملکیت پر غرور ہونے لگتا۔

سامان بٹور کے وہ سائیکل پر بیٹھا اور تیزی سے پیر مارتا جھگی کی طرف چل پڑا۔ ساحل سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر مچھیروں کی بستی تھی۔ اس میں منت سماجت کر کے اس نے بھی ایک کمرے کی جھگی حاصل کر لی تھی۔ سائیکل کو کونے میں کھڑا کر کے رو مال میں بندھے پکوڑے آلتی پالتی مار کے باسی روٹی سے کھانے بیٹھ گیا۔ لقمہ منہ میں ڈال کر کچھ خیال آیا تو پہلی ملکہ کو صندوق سے نکال لایا اور ساتھ بٹھا لیا۔

‘‘آج تو خوب ناچی ہے، واہ بھئی واہ۔ اسی خوشی میں اب تیرے گلے میں ایک سیپیوں کا ہار بھی ڈالوں گا۔ بہت سندر لگے گی۔ ‘‘ مداری نوالوں کے درمیان اپنی کٹھ پتلی سے والہانہ گفت گو میں مشغول تھا۔

‘‘نہ بھئی یہ دلآرام، چاندنی وغیرہ کو میں یہاں نہیں بٹھاتا۔ ان کی سفارش نہ کر۔ ان کا بھی وقت تھا۔ اب ان میں تجھ جیسی بات نہیں رہی۔ ‘‘ مداری نے گویا پیلی ملکہ کا منہ بند کر دیا۔

کھانا کھا کے جھگی سے باہر نکل گیا۔ اکثر سونے سے پہلے ایک دو گھنٹے مچھیروں کے ساتھ مل کر بیڑی یا حقے کا دور چلتا۔ کبھی کوئی دیسی ٹھرّا بھی لے آتا تو سمجھو وہ رات اور لمبی ہو جاتی۔ اسی حقے اور ٹھرّے کے درمیان بستی کے معاملات طے ہوتے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا احوال پوچھا جاتا۔ پولیس اور بدمعاشوں کے بھتوں کا ذکر ہوتا۔ ان دو گروہوں کے تذکرے اکثر اتنے ملتے جلتے ہوتے تھے کہ دونوں میں تمیز مشکل ہو جاتی۔ ساحل پر سیر کے لیے آنے والوں کے لطیفے اور چٹکلے بیان ہوتے۔ غرض خوب محفل جمتی۔ آج بھی مداری اس ہوہا میں شامل رہا۔ کوئی رات نو بجے کے بعد جھگی واپس آیا۔ پلنگ پر کھیس بچھا کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے باوجود نیند نہیں آئی تو اُٹھ کر پیلی ملکہ کو بستر پر ساتھ لٹا لیا۔

دوسرا دن بھی ویسا ہی تھا۔۔ ۔ روزانہ جیسا۔ لیکن آج ہوا کل کے مقابلے میں زیادہ تیز چل رہی تھی۔ فریم پر کپڑا چڑھانے میں خاصی دشواری ہوئی۔ آج اس کی کہانی بھی اتنی روانی سے نہیں چل رہی تھی۔ کٹھ پتلیاں اس کے اشاروں پر غلط سلط ناچ رہی تھیں۔ ایک دفعہ جب دلآرام کو پیلی ملکہ کو سلام کرنا تھا تو غلطی سے دلآرام کے ہاتھ کی جگہ پیر اُٹھ گیا۔ اس پر کچھ تماش بین ہنس پڑے۔ مداری کا منہ سرخ ہو گیا۔ وہ تو شکر ہے کہ پردے کے پیچھے کھڑے ہونے کی وجہ سے تماش بین اسے دیکھ نہیں سکتے تھے۔ آج کا دن ہی کچھ ایسا تھا۔ ہر کھیل میں کچھ نہ کچھ غلطی ہوتی گئی۔ سہ پہر کو تو حد ہو گئی۔ ہوا کے زور سے پیلی ملکہ کا بلاؤز اُتر گیا۔ بس پھر کیا تھا۔ کچھ منچلوں نے سیٹیاں مارنی شروع کر دیں۔ کچھ نے خوب تالیاں بجا بجا کر آوازے کسے۔ مداری کو پردے کے سامنے آ کر اس کا بلاؤز ٹھیک کرنا پڑا۔ جیسے تیسے کر کے دن تمام ہوا۔ مداری نے چادر تہ کر کے صندوق میں رکھی۔ کٹھ پتلیوں کو غصے سے پھینک پھانک کے صندوق میں بھرا، اور سائیکل پر سوار یہ جا وہ جا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگ ابھی تک اس کی ہنسی اُڑا رہے ہوں۔ سائیکل پر پیر اتنی تیزی سے چل رہے تھے کہ عام حالت میں کوشش بھی کرتا تو اتنی تیزی نہ آتی۔ جھگی میں گھستے گھستے سائیکل زمین پر گڑ پڑی۔ اسے اُٹھانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ کٹھ پتلیوں کو صندوق سے نکال کر اِدھر اُدھر پھینکا اور پیلی ملکہ کو دھنکنا شروع کر دیا۔

‘‘تو جان بوجھ کر میرا کھیل خراب کرتی ہے تاکہ میری ہنسی اُڑے۔ کم بخت کے گویا جسم میں جان نہیں ہے۔ جہاں ہاتھ اُٹھاتا ہوں، وہاں پاؤں اُٹھ رہے ہیں۔ کسی اور کا بلاؤز اُترتا تو وہ چلّو بھر پانی میں ڈوب مرتی۔ پر تیرے چہرے پر شرم یا ملال کا کوئی نام نہیں۔ ‘‘

مداری نے پیلی ملکہ کا ہاتھ اس زور سے کھینچا کہ دھاگے ادھڑ گئے اور ہاتھ بقیہ جسم سے علاحدہ ہو گیا۔ وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گیا۔ گویا سکتے میں آ گیا ہو۔ مگر پھر ایسی لات ماری کہ کٹھ پتلی حجرے کے دوسرے کونے میں جا گری۔ غصے سے بستر پر لیٹ گیا۔ آج کھانا بھی نہیں کھایا۔ باہر چوپال پر جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ حالاں کہ باہر سے رامو نے آواز بھی دی مگر یہ سوتا بن گیا۔

صبح ہونے تک مداری کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو چلا تھا۔ آج اس نے چاندنی پر زیادہ توجہ دی اور بنا سنوار کے اسے تیار کیا۔ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اسے قریب اور دور سے دو چار دفعہ دیکھا۔ اہتمام سے مطمئن ہوا تو چوم کر صندوق میں رکھ لیا۔ پیلی ملکہ رات سے اسی کونے میں پڑی تھی۔ مداری نے اس کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ صندوق سائیکل پر رکھ کر چل پڑا۔ آج کا دن خوب تھا۔ ایک تو یہ کہ روز نئے تماش بین ہوتے ہیں۔۔ ۔ جنھیں کل کے حادثوں کی خبر نہیں تھی۔ سب کھیل ایک ایک کر کے اطمینان سے تکمیل کو پہنچے۔ مداری پھر موج میں تھا۔ شام ہونے پر پیسے سمیٹے۔ سفید چادر تہ کر کے رکھی اور چاندنی کو بہت پیار سے صندوق میں اُتارا۔

‘‘پیلی ملکہ کا دماغ خراب ہو گیا تھا۔ سمجھتی تھی اب اس کے بغیر کھیل چل نہیں سکے گا۔ پر تجھے بھول گئی تھی وہ۔ تو نے تو آج کمال ہی کر دیا۔ واہ بھئی واہ۔ ‘‘

مداری اب چاندنی سے خوش تھا اور خوب باتیں کرتا جاتا۔ حجرے میں پہنچ کے سائیکل قرینے سے کھڑی کی۔ راستے سے دال، پیاز اور روٹی لے لی تھی، انھیں ایک رکابی میں رکھا اور

چاندنی کو ساتھ بٹھا کے کھانے میں مشغول ہو گیا۔ کھانا کھا کے اس کی نظر پیلی ملکہ پر پڑی۔ اسے اُٹھا کر جھاڑا۔ پیلی ملکہ کا بازو بھی تلاش کیا اور پٹاری سے سوئی دھاگا لے کر بازو شانے سے جوڑنے کے ارادے سے پیلی ملکہ کو اُٹھایا تو اس کی ٹانگ بھی زمین پر گر پڑی۔ اب مداری کو کچھ افسوس ہوا۔ اُلٹ پلٹ کے دیکھا، بہت کوشش کی کہ بازو اور ٹانگ دوبارہ لگ جائیں مگر وہ کچھ اس انداز سے ادھڑے تھے کہ اب دوبارہ لگنا ممکن نہیں تھا۔ اسی تگ و دو میں تقریباً دو گھنٹے لگ گئے۔ اب مداری بے چین تھا کہ کسی طرح اپنی دلاری کو واپس صحیح حالت میں لا سکے مگر کل کے غصے میں وہ کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا تھا۔ تھک ہار کے اُٹھا اور پیلی ملکہ کو اس کے بازو اور ٹانگ کے ساتھ لے کر جھگی سے باہر نکل آیا۔ بستی کیا تھی، ایک خالی پلاٹ پر تقریباً بیس جھگیاں بکھری پڑی تھیں۔ کونے میں ایک نیم کا درخت سر اٹھائے کھڑا رہتا تھا۔ مداری نے اس کے نیچے تھوڑی سی زمین کھودی اور پیلی ملکہ کا دھڑ، بازو اور ٹانگ اس میں دبا کے مٹی برابر کر دی۔ مرے مرے قدموں سے جھگی میں واپس آیا۔ بستر ٹھیک کرنے کا بھی حوصلہ نہ تھا۔ چاندنی کو اُٹھا کے ایسے سینے سے لگایا گویا کٹھ پتلی کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔ اسی حالت میں بستر پر لیٹ گیا اور آپ ہی آپ رونے لگا۔

٭٭٭







جنگل کا قانون



‘‘پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں … پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں ‘‘ اسی گنگناہٹ میں مگن وہ جنگل کے اندر دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ کانٹوں سے دامن بچاتی، اِدھر ہریالی پہ منہ مارا۔۔ ۔ اُدھر پھولوں پہ چکھ ماری۔ جوانی کا عالم ایسا ہی اندھا ہوتا ہے۔ آج صبح تالاب میں اپنا روپ دیکھ کے وہ خود شرما سی گئی تھی۔ مورنیاں تو جنگل میں اور بھی کئی تھیں۔ لیکن اس پر جوبن ایسے ٹوٹ کر آیا تھا جیسے دلہن کو سنگھار کرنا آ گیا ہو۔ صراحی دار گردن، بھری بھری ٹانگیں، پر ایسے بڑے کہ ایک ایک پر پنکھا جھلنے کے کام آئے۔ ہر پر کے عین وسط میں ایسا خوب صورت رنگین دائرہ جیسے کسی ماہر نقّاش نے کاشی کاری کا مقابلہ جیتنا ہو۔ اس بھرپور جوانی پر نزاکت اور انداز، شوخی اور دل ربائی، قیامت کے آثار تھے۔ بہار کی آمد آمد تھی۔ جنگل کا کوئی حصہ خودرو جھاڑیوں اور درختوں سے آزاد نہیں تھا۔ درختوں سے آکاس بیلیں یوں لپٹیں تھیں گویا خون چوس کر ہی چھوڑیں گی۔ ایسے میں مشکل سے چار فٹ کا صاف ٹکڑا کیا نظر آیا۔ اس نے اپنے پر پھیلائے اور دیوانہ وار رقص کرنے لگی۔ جیسے پیا کی آمد اسی رقص سے متصل ہے۔ اپنے گرد و نواح میں منڈلاتے خطرات سے بے خبر، نوجوان رقص۔

تینوں لکڑ بھگوں نے جو اس کو محوِ رقص دیکھا تو درختوں کے پیچھے چھپنا ضروری جانا۔ وہ بہت دیر سے اس کا پیچھا کر رہے تھے اور مناسب موقع کی تلاش میں تھے۔ آنکھیں ہوس سے لال تھیں۔ ذہن کے دریچوں پر ممکنہ لذت نے تالے ڈال دیے تھے۔ اب وقت مناسب تھا۔ دور دور کہیں اور پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ قریب ترین جوہڑ بھی کم از کم سو چھلانگ دور تھا۔ شکار بند آنکھوں سے محوِ رقص تھا۔ ایسے میں شیطان سے زیادہ انتظار نہ ہو سکا اور تینوں لکڑبھگوں نے رقاصہ کے گرد رقص شروع کر دیا۔ دھیرے دھیرے دائرہ تنگ کرتے گئے۔ لکڑ بھگے شیر کو دیکھ چکے تھے کہ کیسے اپنے شکار کو ہوا میں اُچھالتا ہے، اس سے کھیلتا ہے، فوراً مار نہیں دیتا۔ آخر یہ شیروں کے کھیل ہیں۔ لکڑبھگے بھی اسی ہر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے۔ ان کے قریب آنے سے مورنی کے اطراف کی خوشبو ہی بدل گئی۔ فضا میں اچانک خطرے کی بو رچ گئی۔ سہم کر مورنی نے ناچ روکا اور اطراف میں نگاہ ڈالی تو دنیا اندھیری ہو گئی۔ حالاں کہ اطراف کے درختوں سے چھن چھن کر سورج کی روشنی نے خاصا اجالا کیا ہوا تھا۔ لیکن آنے والے خطرے کے خوف نے اس کے ذہن کو تاریک کر دیا تھا۔ مورنی نے ہزار منتیں کیں، واسطے دیے، جنگل کے قانون کا حوالہ دیا، نتائج کا حوالہ دیا مگر لکڑبھگوں کے کانوں میں اس کی چیخیں سریلے نغموں کی مانند اُتریں۔ تین لکڑبھگوں کے سامنے اس کی مزاحمت کتنی دیر چلتی۔ ذرا سی دیر میں اس کے پر نچ چکے تھے، سر کا تاج اُتر گیا تھا۔ جسم میں جیسے درندگی اور زیادتی کا زہر دوڑنے لگا۔ لکڑبھگے اپنا گوہرِ مقصود پا کے باچھوں سے رس پونچھتے کب کے غائب ہو گئے۔ مورنی نے اپنے حواس جمع کیے۔ اطراف میں بکھرے پروں اور ننگے سر کو دیکھا تو اور مردنی سی ہو گئی۔ چال سے وہ اَلھڑپن جو کنواریوں کا خاصا ہے، گم ہو گیا۔ آہستہ آہستہ اس کا احساسِ زیاں غصے اور انتقام کے جذبے میں ڈھلنے لگا۔ جنگل کا آخر ایک قانون تھا۔ یوں دن دہاڑے اس سے آگے اس سے سوچا نہ گیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

اسی ادھیڑ بُن میں اُٹھی اور ایک نئے عزم کے ساتھ شیر کی مچان کی طرف چل پڑی۔ جوہڑ کے اس پار مست ہتھنی اپنے سونڈ میں پانی بھر بھر کر اپنے بچوں پر ڈالتی اور خود ایسے نہال ہوتی جیسے یہ ٹھنڈک اسے خود پہنچ رہی ہو۔ مورنی کی مردنی چال سے ہتھنی نے حالات کی سنگینی کا اندازہ کیا۔ پانی کا کھیل رک گیا۔ حالاں کہ مورنی کو دیکھ کے ہی ہتھنی نے سب معاملہ بھانپ لیا تھا۔ لیکن پھر بھی تفصیل سے مورنی کی بپتا سنی۔ ہتھنی کا جنگل میں مقام وہ تھا کہ لکڑ بھگے خود اس سے دور بھاگتے تھے۔ لیکن اکیلی ہتھنی ان تین نامرادوں کا مقابلہ نہ کر پاتی اور پھر مورنی کی عزتِ نفس کی بحالی اسی میں مضمر تھی کہ وہ خود قانون کا سہارا لے اور لکڑبھگوں کو قرار واقعی سزا دلوائے۔ ہتھنی کے ہمت بڑھانے سے مورنی نے جنگل کے شمالی خطے کا رخ کیا۔ شیر کی کچھار میں براہِ راست باریابی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔ جنگل کا قانون اپنے ڈھب کے مطابق چلتا اور عموماً بندر ایسے مقدمے شیر کے حضور میں پیش کرتے۔ بندر عموماً جنگل کے شمالی خطوں میں بسیرا کرتے تھے۔ جہاں لومڑی، لکڑبھگے، بجو وغیرہ زیادہ تعداد میں پائے جاتے۔ زیادہ تر مقدمے ان ہی جانوروں کے اردگرد گھومتے۔ بندر جو اپنی عقل مندی کی بناء پر جنگل میں اعلیٰ طبقاتی مراعات کے حامل تھے، وہیں پائے جاتے۔ جہاں کاروبار میں گرمی کا رجحان ہو، مغربی خطے جہاں چیتے، ہاتھی اور شیر وغیرہ کا عمل دخل زیادہ تھا، عموماً بندروں کے کاروبار میں مندی رہتی۔ اس طبقاتی و معاشرتی فرقہ واریت نے ایک درمیانی حصہ بھی پیدا کیا تھا۔ وسط جنگل، جہاں مورنی، ہرن، نیولا اور نیل گائے وغیرہ کا بسیرا تھا۔ یوں تو وسط جنگل سب سے پُرسکون علاقہ تھا لیکن دونوں مغرب اور مشرق کے جانور اپنا اپنا شکار وسط جنگل سے ہی حاصل کرتے۔ صرف طریقۂ واردات اور سنگینیِ جرم مختلف ہوتی۔

مورنی کی قسمت کہ ایک قد آور بندر اسے شمالی جنگل کی بیرونی سرحد پر ہی مل گیا۔ بندر نے ایک نگاہ ڈالی اور معاملے کی بنیاد تک پہنچ گیا۔ بندر کا دل اس زیادتی سے خون ہو گیا۔ وہی مورنی جو کل تک اَلھڑپن اور معصومیت کا نمونہ تھی، آج معصیت کا تازیانہ۔ بندر اسی وقت مورنی کو ساتھ لے کر شیر کی مچان کی طرف چل پڑا۔ تمام راستے مورنی کو مقدمے کی اونچ نیچ سے آگاہ کیا۔ مورنی کے چلن اور بناؤ سنگھار کے بارے میں ممکنہ سوالات سے معاملے کی نئی راہیں سجھائیں۔ سوچ کی سمت اور حالات کے ممکنہ مدّو جزر نے مورنی کے انتقامی جذبے کی آگ پر کچھ پانی کا سا کام کیا لیکن اپنا عزم نہ چھوڑا۔

شیر کی مچان تک پہنچتے پہنچتے ایک چھوٹا سا قافلہ تیار ہو گیا تھا۔ ہتھنی، مورنی اور بندر کے علاوہ نیل گائے اور ایک ہرنی بھی ساتھ ہوئی۔ جو آج مورنی کے ساتھ ہوا ہے کل ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ سب کے ذہن میں ہی خدشہ سر اُٹھا رہا تھا۔ شیر نے آج دو زیبرے شکار کیے تھے۔ بھرے پیٹ کے ساتھ قیلولے کا مزہ کوئی ان سے پوچھے جو یہ عیاشی کر سکتے ہوں۔ قیامت سے کم کوئی شے شیر کو قیلولے سے نہیں نکال سکتی تھی اور مورنی کے ساتھ جو ہوا وہ شیر کے نزدیک دور دور تک قیامت نہ تھا۔ بندر کی تقریر، مورنی کی التجائیں سب کے جواب میں ایک غضب ناک دھاڑ، سب واویلے بند ہو گئے۔

چوں کہ معاملہ عجلت طلب ہے اس لیے ما بہ دولت اس مقدمے کی سماعت کے فرائض بوڑھے لومڑ پر چھوڑتے ہیں۔ وہ عاقل ہے اور تجربہ کار بھی ہے۔ یاد رہے اس کا فیصلہ ہمارا فیصلہ ہو گا اور ہمارا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ شیر کی دھاڑ نے باقی جانوروں کے اوسان خطا کر دیے۔ لکڑ بھگوں کو پیغام دو کہ حاضر ہوں۔ مقدمہ یہیں ہماری مچان کے باہر طے ہو گا۔ لومڑ ہمارا نمائندہ ہے لیکن ہمیں ہرگز تنگ نہ کیا جائے۔ جنگل کے بادشاہ نے اپنے تئیں سستا اور فوری انصاف مہیا کر دیا۔

تینوں لکڑ بھگے حاضر ہوئے۔ لومڑ نہایت متانت اور سنجیدگی سے اسی برگد کے نیچے ایک چبوترے پر بیٹھ گیا۔ چوڑے چکلے تنے کے دوسری طرف شیر قیلولہ کر رہا تھا۔ مورنی کا مقدمہ بندر نے نہایت موثر پیرائے میں پیش کیا۔ ہرنی اور نیل گائے اپنے آنسو روک نہ سکے جس پر لکڑبھگوں نے اعتراض کیا کہ اس سے غیر منصفانہ ماحول پیدا ہو رہا ہے اور جانوروں میں مورنی کے لیے ہم دردی کے جذبات اُبھر رہے ہیں۔ بندر کے سخت احتجاج کے باوجود لومڑ نے باقی جانوروں کو واپس جانے کی ہدایت کی اور باقی کار روائی گھنے درختوں کے پیچھے علاحدگی میں ہوئی۔

لکڑبھگوں نے اقبالِ جرم سے انکار کیا۔ سینکڑوں جانور ہیں، اسے کیا معلوم کہ وہ لکڑبھگے تھے۔ اگر اس نے دیکھا کہ لکڑبھگے تھے تو اس کا مطلب ہے اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ خطرے کو دیکھ سکتی تھی۔ پھر بھاگی کیوں نہیں اور اگر مان لیں کہ لکڑبھگے تھے بھی تو کیسے پتا چلے کہ یہی تین تھے ؟ اور جنگل کے بیچ رقص کا کیا مقصد؟ یقیناً اس نے لکڑبھگوں کو آتے دیکھ کر آنکھیں موند لیں اور رقص شروع کر دیا تاکہ اپنی اندھی جوانی کا بندھن بھرسکے۔ توبہ۔۔ ۔ توبہ، ایسا کلیوگ۔ لکڑبھگوں نے پھر اپنے ثبوت میں شمالی جنگل کے مزید جانوروں کو پیش کیا۔ یہ جانور یہ تو نہ بتا سکے کہ واردات کے وقت لکڑبھگے کہاں تھے مگر انھوں نے مورنی کی چال ڈھال، اس کی آراستگی اور شوخی، کچھ ایسے بیان کی جیسے مورنی نہ ہو کسی کسبی کا ذکر ہو۔ پھر یہ کہ کوئی بھی شریف مورنی دن دھاڑے اکیلے وسط جنگل میں بھلا رقص کرے گی؟ یہ یقیناً دوسرے جانوروں کے خون میں اُبال لانے کے بہانے ہیں۔ ایسے میں ان جانوروں کا کیا دوش جن سے یہ حرکت سرزد ہوئی۔ لکڑبھگوں کے دلائل ایسے نپے تلے اور تنک تھے کہ فوراً ہرنی اور نیل گائے شبہے میں پڑ گئے کہ کون سچ کہہ رہا ہے ؟ ہتھنی کے تاثرات سے بالکل اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس کے دماغ میں کیا گھوم رہا ہے۔ مورنی بالکل سفید پڑ چکی تھی اور اگر بندر بڑھ کر سہارا نہ دیتا تو شاید وہ بے ہوش ہو جاتی۔

‘‘جنابِ عالی! ہم آپ کے پڑوسی ہیں۔ ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ ‘‘ لکڑبھگے، لومڑ کونہ جانے کیا پیغام دے رہے تھے۔ لومڑ کے چہرے پر اب تک گومگو کے تاثرات تھے۔ لیکن اس جملے نے مقدمے کا رخ لکڑبھگوں کے حق میں موڑ دیا۔ اس نے باری باری دونوں، بندر اور مورنی سے سوال کیا کہ اگر ان کے پاس کوئی چشم دید گواہ ہے تو پیش کریں۔ جنگل کے قانون کے حساب سے اس قسم کے مقدمات کی سزا ملزم کو شیر کی مچان میں ملتی تھی۔ چند چیخوں کے بعد معتوب جانور جنگل کے بادشاہ کی خوراک کا حصہ بن جاتا۔ لیکن سزا مشروط تھی۔۔ ۔ چار چشم دید گواہوں کے بیان پر!

‘‘جناب لومڑ صاحب! اس اندوہ ناک واقعے کے گواہ خود یہ تین لکڑبھگے ہیں اور چوتھی مورنی۔ ‘‘ بندر نے اپنی سی آخری کوشش کر ڈالی۔ ‘‘ تینوں لکڑبھگے اس واردات سے انکاری ہیں۔ اس صورتِ حال میں کوئی گواہ موجود نہیں۔ مزید یہ کہ شمالی جنگل کے جانوروں کے بیان کے مطابق مورنی کا چلن اشتباہ کا باعث ہے۔ ایسے میں یہ عدالت لکڑبھگوں کو با عزت بری کرتی ہے۔ ‘‘

پتا نہیں مورنی نے فیصلہ سنا بھی یا نہیں۔ وہ موجود تو ضرور تھی لیکن سماعت پر سے اس کا اعتبار اُٹھ گیا۔ وہ مڑی اور وسط جنگل میں اپنے قبیلے کی طرف چل پڑی۔ جانور یوں دونوں طرف چھٹ گئے جیسے اس سے چھو گئے تو مٹی ہو جائیں گے۔ مورنی ان کے درمیان سے یوں گزر گئی جیسے ایک صدائے خامشی سے اس نے سمندر کے بیچ اپنے لیے راستہ بنا لیا ہے۔ موروں کی رہائش وسط جنگل کے ایک پسماندہ علاقے میں تھی۔ موروں ہی کے پروں سے اکثر چھپّر تانے گئے تھے تاکہ بارش اور دھوپ کی شدت سے بچ سکیں۔ مورنی کو اس جگہ سے بہت محبت تھی۔ بچپن سے جوانی تک کا سفر یہیں طے ہوا تھا۔ موروں کے اس گروہ نے ہمیشہ اسے خطروں سے بچایا۔ وہ بھی ان کے دکھ درد کی ساتھی تھی۔ اسی میں اس کے خاندان کے دوسرے مور بھی شامل تھے۔ لیکن جنگل کے اس علاقے کی معاشرتی ترکیب کچھ یوں ہے کہ پیدائش کے بعد پورا گروہ ایک خاندان بن جاتا ہے۔

آج بھی یہی جگہ مورنی کی آس اور ٹھکانہ تھی۔ جیسے جیسے وہ جھنڈ کی طرف بڑھتی گئی، ایک خوف ناک سناٹے نے اس کا استقبال کیا۔ عموماً جھنڈ مورنیوں کی صداؤں سے گونج رہا ہوتا۔ جوان مورنیوں کا رقص، موروں کے کھیل، بچوں کی کل کاریاں، کوئی وقت ایسا نہ ہوتا کہ یہاں خاموشی کا قیام ہو۔ لیکن اسی جگہ پر آج قیامت کا سکوت تھا۔ جیسے جھنڈ بالکل خالی ہو اور پوری آبادی نقل مکانی کر گئی ہو۔ جھنڈ میں داخل ہونے سے کچھ پہلے، سب سے عمر رسیدہ مورنی اُچھل کر سامنے آ گئی۔ اسے دیکھ کر مورنی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ لیکن عمر رسیدہ مورنی نے کوئی دھیان نہ دیا بلکہ رُکھائی سے اسے اطلاع دی کہ اب جھنڈ میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ مورنی کو یوں لگا جیسے سناٹا اور گہرا ہو گیا ہو اور اس کی ذات میں اُتر آیا ہو۔ ‘‘ لیکن کیوں ؟‘‘ بہت کوشش سے اس نے مہین سی آواز نکالی۔

‘‘اب بلا تاج اور بغیر پر، تم ایک پر نچی پرندہ ہو، مورنی نہیں۔ یہاں رہو گی تو دیگر مورنیوں کے پر بھی جھڑ جائیں گے۔ ‘‘ رُکھائی سے جواب ملا۔

یہ زخم اس زخم سے زیادہ گہرا تھا جو وہ صبح کھا چکی تھی۔ اسے ایسا لگا جیسے ایک ہی دن میں اس کے ساتھ دوسری بار زیادتی ہوئی ہے اور اس دفعہ اپنوں کے ہاتھوں !

مورنی نے اپنا جسم چراتے ہوئے کہ کسی پوتر سے مس نہ ہو جائے مڑی اور تھکے قدموں اسی کنویں کا رخ کیا جس میں صبح اس نے اپنا عکس دیکھ کر’ ’پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں ؟‘‘ کا گیت الاپا تھا۔

٭٭٭







ذوقِ اسیری



جب پہلی بار اس پر میری نظر پڑی تو وہ صوفے پر بیٹھا بہت تحمل سے کسی کی بات سن رہا تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ وہ متوجہ تو ہے لیکن سن نہیں رہا۔ یقیناً آپ کو کبھی نہ کبھی اس بات کا تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔ وہ کچھ ایسا ترچھا بیٹھا تھا کہ اس کی شکل بھی پوری طرح نظر نہیں آئی لیکن اس ادھورے رخ میں بھی وہ اتنا پر کشش لگا اور کچھ ایسی اپنائیت محسوس ہوئی کہ میں آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا اس کی جانب بڑھنے لگا۔ اس افطار میں کوئی پچیس کے قریب لوگ موجود تھے۔ میں کھانے کے کمرے میں ایک ہاتھ میں شربت کا گلاس اور دوسرے ہاتھ میں کھانے کی پلیٹ تھامے کھڑا تھا۔ روزہ افطار کرنے سے سوکھے حلق تر کیا ہوئے گرمیِ بازار بڑھ گئی، باہمی بیزاری یگانگت میں بدل گئی۔ بھوک انسان کے جذبات اور تعلقات کی نوعیت متعین کرتی ہے۔ ا ب ہر شخص محوِ گفتگو نظر آ رہا تھا۔

میں بڑھتے بڑھتے صوفے کے نزدیک پہنچا تو وہ سننا ختم کر کے اب بہت سنجیدگی لیکن شائستگی سے تین چار لوگوں کی توجہ حاصل کئے بول رہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ موضوعِ گفتگو سچائی ہے ؛

’ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے آپ سے سچے ہوں ‘ اتنی بڑی سچائی وہ کتنی آسانی اور روانی سے بیان کر رہا تھا شاید اسی لئے لوگوں کی توجہ قائم تھی۔ ’ آپ کے افعال کو مختلف لوگ مختلف معنی ٰ دے سکتے ہیں لیکن یہ فعل کس نیت سے کیا گیا ہے یہ تو صرف فاعل ہی بتا سکتا ہے۔ اگر انسان اپنے آپ سے سچا ہے تو اسے اپنی نیت، فعل اور اس کے نتیجے کا شعوری یا لا شعوری ادراک ضرور ہو گا‘۔ گفتگو بہت خشک مگر دلچسپ تھی، میں وہیں جگہ بنا کر بیٹھ گیا۔ وہ میرا ہم عمر تھا۔ جسم فربہی کی طرف مائل، گندمی رنگت ناک پر عینک دھری تھی۔ شاید یہ اپنی ذات سے مشابہت تھی کہ وہ مجھے اتنا پرُ کشش لگا۔ یہ شاید خود پرستی کی سب سے نچلی سطح ہے۔

’ آدمی اپنے آپ سے سچا ہو بھی، لیکن بیرونی عوامل تو اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتے، لہذا نتیجے کا ادراک اسے کیسے ہو سکتا ہے ؟‘ میں نے اعتراض کیا

اس نے مجھے بغور دیکھا، آنکھوں میں دلچسپی ابھر آئی۔

’ آپ درست کہ رہے ہیں لیکن یہ ردِ عمل متوقع ردِ عمل سے مختلف ہو گا، لیکن متوقع اور اصل دونوں ردِ عمل کا ادراک تو ضرور ہو گا، مجھے اپنی بات کی پہلے ہی وضاحت کر دینی چاہئیے تھی، میرا مطلب متوقع ردِ عمل سے تھا‘۔

ہم لوگ مزید تقریباً ایک گھنٹا گفتگو کرتے رہے، ادھر ادھر کی بے ضرر سی گفتگوجس کا بظاہر کوئی معنیٰ و متن نہیں ہوتا لیکن حقیقتاً اس بے معنی گفتگو کے دوران کہیں مستقبل کے تعلقات کا زاویہ قائم ہو جاتا ہے۔ میرے ذہن کے کسی گوشے نے یہ بات قبول کر لی تھی کہ یہ ملاقات یہیں ختم نہیں ہو گی بلکہ ہم دوبارہ ملیں گے اور بار بار ملیں گے۔

ہماری دوسری ملاقات میرے گھر پر ہوئی۔ وہ ایسی آسانی سے میرے ماحول میں گھل مل گیا جیسے یہ اس کے لئے بالکل اجنبی نہ ہو۔

’کیا کام کرتے ہیں آپ؟‘۔ کتنا بے ضرر عام سا سوال تھا اسکا۔ میری تمام گفتگو اس سوال سے کوسوں دور رہتی تھی۔ پھر بھی یہ خدشہ کہ کسی وقت یہ سوال ہو گا ضرور۔

’فی الحال تو کچھ نہیں کرتا۔ در اصل پاکستان سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرنے کے آٹھ مہینے بعد ہی یہاں امریکہ آ گیا تھا۔ شادی کے ذریعے گرین کارڈ مل رہا تھا تو یہ ہجرت بھی کر ڈالی۔ اپنی ایک سال کی انٹرن شپ بھی مکمل نہیں کی۔ اب یہاں بغیر ایک سال کی انٹرن شپ کے میں یہاں قانوناً ڈاکٹری بھی نہیں کر سکتا۔ یہاں کے سارے امتحان تو پاس کر لئے ہیں۔ لیکن کیوں کہ پاکستان میں صرف نو ماہ کی ہی انٹرن شپ کی تھی، جس کا سرٹیفیکٹ بھی موجود ہے، لیکن صرف تین ماہ کی کمی کی وجہ سے معاملہ الجھ گیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں ؟‘

’ہوں ‘ نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگا کہ جیسے اس کا لہجہ معنی خیز ہو گیا ہے، لیکن مجھے برا نہیں لگا۔ میں اس سے کتنی آسانی سے دل کی بات کہہ گیا۔ حالانکہ یہ ایسی دکھتی رگ تھی کہ جسے میں بہت کم لوگوں کے سامنے عریاں کرتا تھا۔

’تو پھر آپ نے کیا سوچا ہے ‘ اس نے صوفے پر ذرا آگے ہو کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔

’کیا سوچوں، ایک سال کی انٹرن شپ تو یہاں کی بنیادی شرط ہے، جس سے مفر ممکن نہیں۔ یہی ممکن ہے کہ طب سے متعلق کسی اور شعبے میں کام کروں، ڈاکٹری تو یہاں یہ نہیں کرنے دیں گے۔ ‘

’کوئی طریقہ تو ہو گا؟‘ وہ نجانے کیا پوچھنا چاہ رہا تھا۔

’نہیں، اور کوئی طریقہ نہیں ‘ میں نے قطعیت سے جواب دیا۔

’اور آپ بتائیے، آپ کے کیا مشاغل ہیں ‘ میں نے گفتگو کا رخ اپنی طرف سے پھیرنے کی کوشش کی۔

’ارے صاحب، میں بھی اتفاق سے شعبۂ طب سے ہی متعلق ہوں، بس ڈاکٹر نہیں ہوں ‘۔ اس نے زیادہ تفصیل نہیں بتائی تو میں نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ بس ایک عجیب سا احساس ہوا جسے میں کوئی نام نہ دے سکا۔

اس کے جانے کے بعد بیوی نے آڑے ہاتھ لیا۔

’جب وہ پوچھ رہے تھے کہ کوئی اور طریقہ ہے کیا تو بتایا کیوں نہیں ؟‘ اس نے غصے سے میرا راستہ روکا

’تم ہماری باتیں سن رہی تھیں ‘ امریکہ آنے کے بعد سے مجھے غصہ بہت جلد آنے لگا تھا۔

’باتیں نہیں سن رہی تھی۔ ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں باتیں سننے کی ضرورت نہیں ہوتی، باتیں نہ سننے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ منہ سے ادا ہونے والا ہر لفظ بند کمرے کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر نقارۂ خدا بن جاتا ہے۔

یہ ایک کمرے کا اپارٹمنٹ مجھے دن میں کئی مرتبہ یاد دلایا جاتا۔ میرے دوسرے کئی دوست جوڈاکٹر تھے بہت آسائش کی زندگی گزار رہے تھے۔ بس میں ہی اس جنجال میں گرفتار تھا۔

’انہیں بتایا کیوں نہیں کہ دوسرا طریقہ ہے مگر خود ساختہ اصولوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے ‘ بیوی کی آواز میں طنز بھی تھا، شکایت بھی۔ میرا کڑا رویہ اسے کسی وقت بھی رلا سکتا تھا۔ میں جہاں اپنی مدافعت میں غصہ ور ہو گیا تھا، وہ روہانسی رہنے لگی تھی۔

’کیا بتاتا، کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک جھوٹا سرٹیفیکٹ بنوا لاؤں پاکستان سے ؟‘یہ بحث اتنی بار ہو چکی تھی کہ مجھے دونوں جانب کے دلائل زبانی یاد تھے۔

’نہیں آپ کیوں دوسرا سرٹیفیکٹ بنوا کر لائیں۔ ہم لوگ جو ہیں قربانی دینے کے لئے۔ ایک کمرے کا اپارٹمنٹ، باوا آدم کے زمانے کی گاڑی۔ کوئی نئے کپڑے بنوائے سالوں ہو جاتے ہیں۔ اسکول کے جونئیر اسسٹنٹ کی تنخواہ ہوتی ہی کتنی ہے کہ اس سے میں یہ گھر چلاؤں۔ آپ کبھی پٹرول پمپ یا ڈالر شاپ پر کام کر کے کچھ پیسے بنا لیتے ہیں، مگر اس سے کہاں کام چل سکتا ہے۔ شرم نہیں آئی ڈاکٹر ہو کر یہ کام کرتے ہوئے ؟‘

’زیادہ شرم کی کیا بات ہے، کسی کے پٹرول پمپ پر گاڑیوں میں پٹرول بھرکے ایمانداری کی روزی کمانا، یا جھوٹے سرٹیفیکٹ کے سہارے دوبارہ اپنے کیرئیر کا آغاز‘۔ یہ بحث شادی کے چند ماہ ہی شروع ہو گئی تھی اور اب اس کی عمر پورے دو برس کی ہو چکی تھی۔ ’میرا ضمیر نہیں مانتا۔ ایک دفعہ یہ بے ایمانی شروع ہو گئی تو کہاں جا کر رکے گی؟‘ میں کوٹ اٹھا کر گھر سے باہر نکل گیا۔ عموماً تو گھر میں عافیت ملتی ہے لیکن زندگی میں اکثر ایسے دورا ہے بھی آتے ہیں جب عافیت گھر کے باہر نصیب ہو تی ہے۔

میری اس سے اگلی ملاقات بس اتفاقیہ ہی ہو گئی۔ میں نیچے اسٹال پر کھڑا اخبار کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ وہ آ گیا۔ اخبار خریدنا ایک غیر ضروری خرچہ تھا جس سے بچنے کا طریقہ یہی اپنا یا تھا کہ اسٹال پر کھڑے کھڑے ہی چند منٹوں میں سرخیاں پڑھ لیں۔

’میں یہاں سے گزر رہا تھا آپ کو دیکھا تو رک گیا‘ وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوا۔

’بہت اچھا کیا‘ اس سے دوبارہ مل کر مجھے واقعی خوشی ہوئی تھی۔

’چلئیے کہیں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں ‘

’یہ چائے میری طرف سے ہو گی‘ شاید میری ہچکچاہٹ سے وہ کچھ اور سمجھ بیٹھا تھا۔

’یہ ہجرت بعض دفعہ بہت قربانیاں مانگتی ہے۔ سہولتیں ایسے ہی بے قیمت نہیں ملتیں، بڑا خراج دینا پڑتا ہے ‘ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

’مجھے کیا بتا رہے ہو، میں تو روز اسے جی رہا ہوں ‘ میرے لہجے میں تلخی گھل آئی۔

‘مجھے یقین آپ ایک بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں۔ آپ کے ساتھی دوسرے ڈاکٹر سب پریکٹس کر رہے ہیں، اس سے یقیناً بہت ذہنی کوفت ہوتی ہو گی۔ ‘ کچھ دن پہلے تک میں اس موضوع پر بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن شاید مجھے خوشی ہوئی کہ اس نے یہ موضوع نکال لیا۔

’ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہیں، پھر شریک حیات کا دباؤ الگ۔ ‘

’ہاں آدمی اکیلا تو نہیں جیتا۔ مرتا ضرور اکیلا ہے۔ لیکن آپ نے بہت ثابت قدمی سے اس صورتِ حال کا مقابلہ کیا ہے ‘۔

’کیا ثابت قدمی مفلسی سے بہتر ہے ؟‘

’لیکن آپ اور کر بھی کیا سکتے ہیں ؟‘

’خیر کرنے کو شاید کچھ ہو تو سکتا ہے ‘ میرے لہجے میں ہچکچاہٹ تھی۔

’ارے واقعی، کچھ ہو سکتا ہے اس سلسلے میں ‘ وہ دلچسپی سے کرسی پر آگے سرک آیا۔ دونوں کہنیاں میز پر تھیں، چائے کی پیالی اس نے میز پر رکھ دی۔ اپنا چہرا ہاتھوں پر رکھے وہ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔

’بات در اصل یہ ہے کہ میری بیوی کے ماموں کا لاہور میں ایک پرائیوٹ ہسپتال ہے، اور وہ پچھلی تاریخوں میں مجھے پور ایک سال کا سرٹیفیکٹ دینے کو تیار ہیں، جس سے میرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ‘ میں نے ذرا ہچکچاہٹ کے بعد اسے مسئلے کا حل کیسی روانی سے بتا دیا، حالانکہ یہ تذکرہ از خود کسی بد عنوانی سے کم نہیں۔

’ارے واقعی۔ تو پھر آپ نے کیا سوچا؟‘اس کے جسم کے کسی حصے میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی، آنکھیں آنکھوں میں ڈالے، نجانے لب بھی ہلے تھا یا نہیں۔ میرا خیال تھا کہ میری بات سن کر وہ کچھ سوچے گا، پیچھے ہٹے گا، ناراض ہو گا، کوئی مشورہ دے گا۔ وہ تو بدستور چہرے پر نظریں گاڑے بت بنا مجھے دیکھ رہا تھا۔

’میں نے کیا سوچا ہے ؟ میرے حالات آپ نے دیکھ ہی لئے ہیں۔ اگر میں جعلی سرٹیفیکٹ بنوا لیتا تو دو سال پہلے ہی اس پل کو عبور کر لیتا۔ مگر میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میں فریب سے کام لوں ‘ دیکھیں میرا لہجہ پھر تلخ ہو گیا۔

’مجھے آپ سے یہی امید تھی، میں یہی سننا چاہتا تھا‘ اس کی آواز میں جوش تھا، تعریف تھی۔ ’ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اس کے لئے بہت صبر چاہئیے، اپنی ذات پر یقین، سچائی پر یقین۔ آپ جھوٹے سرٹیفیکٹ سے دوسروں کو دھوکہ دے بھی دیں، لیکن خود سے کیسے جھوٹ بولیں گے ‘۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر میز پر رکھے میرے ہاتھوں کو تھپتھپایا۔ میرے چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اندر کہیں دل کے نہاں خانے میں مجھے امید تھی کہ اس کا مشورہ اس کے بر عکس ہو گا۔ وہ کہے گا ’رہنے دیجئیے یہ دقیانوسی باتیں۔ ایک ذرا سے سرٹیفیکٹ سے اتنا فرق پڑ رہا ہے تو بنوا کیوں نہیں لیتے وہ سرٹیفیکٹ۔ اگر مقصد نیک ہو تو اس تک پہنچنے کے راستے غیر اہم ہو جاتے ہیں ‘۔ مگر اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ وہ میری مشکل آسان کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔

’کوئی نہ کوئی طریقہ نکل آئے گا، میں بھی ذہن میں رکھوں گا ‘ اس نے مجھے تسلی دی۔ میں اٹھ آیا۔ یہ کیا ذہن میں رکھے گا۔ ایک آدمی کے لئے قانون بدلوا دے گا۔ لیکن میری تسلی کا اسے پاس ہے، اچھا دوست ہے یہ میرا۔

گھر پہنچنے تک میرا موڈ پھر بحال ہو چکا تھا۔ ایک اجنبی شخص کتنی تیزی سے میرے قریب آ گیا تھا۔ مگر اہم بات یہ تھی کہ اس نے روایتی آسانی کے بجائے مشکل راستہ چنا تھا۔ مجھے میری ذمہ داریوں کا واسطہ نہیں دیا تھا۔ اور میری طرزِ عمل سے متاثر ہوا تھا میں ایک جھوٹے سرٹیفیکٹ کے سہارے زندگی نہیں گزار رہا۔ ہم میں سے کتنے لوگ کسی نہ کسی معنی میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں ؟ایک دفعہ سلسلہ شروع ہو جائے تو قدم قدم پر جھوٹے سرٹیفیکٹ آپ کے لئے دروازے کھول سکتے ہیں، آسانیاں فراہم کر سکتے ہیں، کچھ سالوں میں آپ بھول جائیں گے کہ آپ کا سرٹیفیکٹ جھوٹا ہے۔

گھر پہنچا تو بیوی بستر میں لیٹی تھی۔ میرا ما تھا ٹھنکا۔ جب معاملات زیادہ خراب ہو جائیں تو وہ نیک بخت بستر پر لیٹ کر چادر سر پر اوڑھ لیتی۔ آج بھی یہی منظر تھا۔ آثار اچھے نہیں تھے۔ میں بلا وجہ چیزیں ادھر ادھر اٹھاتا پٹختا رہا۔ مجھے معلوم تھا وہ جاگ رہی ہے، اسے علم تھا میں آ گیا ہوں۔ آخر ہار مان کر میں بہت پیار سے اس کے برابر میں بیٹھ گیا، اور چادر اس کے منہ پر سے ہٹا کر پوچھا:

’کیا ہوا؟‘

اس کے آنسو رواں تھے۔ وہ مجھ سے لڑی بھی نہیں، دیکھتی رہی، بس دیکھتی رہی اور روتی رہی۔

’بھئی بتاؤ تو کیا ہوا، پاکستان میں تو سب خیریت ہے ؟‘‘ میں نے پریشان ہو کر اسے جھنجھوڑا۔ منہ سے کچھ نہ بولی صرف اشارے سے ڈاک کی طرف متوجہ کیا جو اس کے سرہانے رکھی تھی۔ سب سے اوپر شاید کوئی بینک کا خط تھا جو کھلا ہوا تھا، اس سے نیچے کے لفافے ابھی کھولے نہیں گئے تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ بینک کے خط میں کیا ہو گا، دو مہینے سے گھر کے قرض کی قسط نہیں گئی تھی، اس قسم کا خط تو جلد یا بدیر آنا ہی تھا۔ اس خط میں دو ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ اب تک کی قسطیں ادا کی جائیں ورنہ مکان قرق ہو جائے گا۔ اس تحریر نے میری ساری دفاعی فصیلیں منہدم کر دیں۔

’اب کیا کریں ‘ میں نے نیک بخت سے آنکھیں ملائے بغیر پوچھا۔

’کرنا کیا ہے، میں اسکول میں اسسٹنٹ رہوں گی، آپ پٹرول پمپ پر کسی موٹے یہودی کی ملازمت کریں گے، جب شام ہو جائے گی تو وہیں کسی دیوار کے سہارے بیٹھ جائیں گے کہ اپنی چھت تو چھن چکی ہو گی‘، اس کے لہجے میں شکست خوردگی تھی، غضب کی کاٹ تھی یا مجھے اسی کی امید تھی۔

’خدا کے لئے، یہ وقت ان جلی کٹی باتوں کا نہیں، اب کیا کریں ؟‘۔ میں چاہ رہا تھا کہ وہ خود ایک بار پھر وہی رستہ دکھائے جس پر چلنے سے میں ابھی تک انکاری تھا، وہ زور دے اور میں ہار جاؤں۔ میری انا میری شکست ماننے میں آڑے تھی۔ اس نے مجھے مایوس نہیں کیا:

’کیا کہوں، کیا حل بتاؤں۔ ہم ہزار مرتبہ یہ بات کر چکے ہیں۔ اب بھی وقت ہے، میرے ماموں نے کتنی بار کہا ہے چوبیس گھنٹے میں سرٹیفیکٹ آپ کے ہاتھ میں ہو گا۔ آپ کو جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تو ڈاکٹروں کی اتنی کمی ہے، ایک دفعہ آپ قانونی ضروریات پوری کر لیں پھر اس قسم کے خطوط آنا بند ہو جائیں گے ‘۔ خلافِ امید مجھے خاموش دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھا۔

’آپ نے اپنی سی پوری کوشش کر لی۔ آپ کی نیت تو اچھی تھی۔ اور میں نے ہی کیا آپ نے خود مجھ سے زیادہ تکالیف اٹھائی ہیں۔ آپ کو پٹرول پمپ پر سردی کی راتوں میں کام کرتے دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ شروع ہی سے یہ کام کر رہے ہوتے تو مجھے کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ لیکن معاشی سیڑھی چڑنا اتنا دشوار نہیں ہوتا جتنا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ میں ماموں سے خود بات کر لوں گی، آپ کو بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کسی کو تفصیل بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ کسی کو کیا معلوم کہ آپ اب تک یہاں ڈاکٹری کیوں نہیں کر رہے ؟‘میرا دفاع کمزور دیکھا تو وہ پے در پے حملے کرنے لگی۔ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکہ اور دو۔ اس نے میری جرح کو زباں بند دیکھا تو فون کا چونگا اٹھا کر کان سے لگا لیا۔ ’کر ہی ہوں میں فون‘ اس کی آنکھوں میں مستقبل کی چمک تھی۔ یہ منظر ہمارے گھر کئی بار دہرایا جا چکا تھا۔ ہر بار میں فون اس کے ہاتھ سے لے کر کریڈل پر پٹخ دیا کرتا تھا ’پاگل ہوئی ہو کیا‘۔ مگر اس بار زبان نے دل کا ساتھ چھوڑ یا ’جو جی میں آئے کرو‘ مجھے اپنی آواز آئی اور میں کمرے سے نکل گیا۔ نیک بخت نے فوراً وہی کیا جو ایک عرصے سے اس کے جی میں آ رہا تھا۔ باورچی خانے میں اس کی پر جوش گفتگو کی آواز آ رہی تھی۔ میرے کندھے جھک گئے تھے مگر اس کی امیدیں جوان ہو گئی تھیں۔ مجھے کیا حق تھا کہ میں اپنے خود ساختہ فلسفے کے لئے ان سب کی زندگیاں ضیق کروں۔ رات ہونے سے پہلے سرٹیفیکٹ فیکس ہو کر آ چکا تھا۔ اب نیک بخت کا رویہ بالکل بدل چکا تھا۔ اب ہم ایک اکائی ہو کر اس جنگ میں اتر رہے تھے۔ اسی رات اس نے میرے لائسنس کے کاغذات بھر دئیے۔ ایک مہینے میں لائسنس بن کر آ جائے گا، پھر ڈاکٹری شروع ہونے میں چند ماہ۔ اس استفسار میں امید جھانک رہی تھی۔

‘‘ایک دفعہ لائسنس آ بھی جائے تو بھی ڈاکٹری شروع ہونے میں دو تین ماہ تو لگ ہی جائیں گے‘‘۔

‘‘ یہ کوئی ایسی فکر کی بات نہیں۔ ایک مرتبہ نوکری کا پرچہ آ جائے تو بینک سے مہلت مل جائے گی۔ بینک کو اپنے قرضے کی واپسی سے دلچسپی ہے، خالی مکان قرق کر کے بینک کیا کرے گا، وہ یقیناً مہلت دیں گے۔ ‘‘ اس کے یقین نے میری شام بھی روشن کر دی۔

اس سے میری آخری ملاقات اس کے گھر پر ہوئی۔ سرٹیفیکٹ ملنے کے کوئی دس دن بعد اس کا فون آیا۔ اس نے مجھے گھر پر آنے کی دعوت دی۔ میں خود بھی اس کا گھر دیکھنے کے لئے بے چین تھا، فوراً حامی بھر لی۔ نوکری کی امید نے میرے اعتماد میں اضافہ کر دیا تھا۔ میں نے سرٹیفیکٹ منگوانے کے مسئلے پر اپنے آپ کو قائل کر لیا تھا، یقین دلا لیا تھا کہ میرا فیصلہ صائب ہے۔ بلکہ حیرت تھی کہ اب تک میں ایسا ا بیوقوف کیوں تھا۔

’آئیے، آئیے جناب‘ اس نے تپاک سے دروازہ کھلو کر کہا۔ میرے چہرے کا اطمینان اس سے زیادہ دیر چھپا نہیں رہ سکا۔

’خیریت تو ہے، آپ بہت پر سکون اور مطمئن ہیں۔ بہت اچھی بات ہے بھئی، آپ نے ان حالات میں بھی خوش رہنا سیکھ لیا ہے۔ ‘

میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیسے بتاؤں۔ اتنے کم عرصے میں اس کے بہت قریب آ گیا تھا۔ جس شخص نے میری اصول پرستی کی اتنی تعریف کی تھی اسے کیسے بتاؤں کہ وہ اصول میں نے توڑ ڈالے ہیں۔

’وہ در اصل‘ میں ہچکچایا۔ گفتگو میں ایک وقفہ سا آ گیا تھا۔ وہ خود منہ سے کچھ نہ بولا۔ بول دیتا تو اچھا تھا۔

’در اصل نوکری نہ ہونے سے حالات اتنے دگرگوں ہو گئے تھے کہ قرقی کا نوٹس آ گیا تھا‘ میں نے وجوہات کے پیچھے پناہ ڈھونڈی۔ یقیناً اس اطلاع کے بعد وہ میری مجبوری سمجھ سکے گا۔ وہ پھر بھی کچھ نہ بولا، بس ہمہ تن گوش رہا، یہ سننے والے اتنے ظالم کیوں ہوتے ہیں، خود سے کیوں نہیں سمجھ جاتے۔ اس کے چہرے پر خوف اور کرب کے آثار نمودار ہو رہے تھے، گویا اسے معلوم تھا کہ اگلا جملہ کیا ہے۔

’میری بیوی نے اپنے ماموں کو فون کر کے ان سے سرٹیفیکٹ منگوا لیا، میں نے تو بہت منع کیا۔ مگر اب کیا ہو سکتا ہے، دو تین ماہ میں انشاء اللہ ملازمت شروع ہو سکتی ہے ‘۔

’انشاء اللہ مت کہو‘ اس کا چہرا سفید پڑ گیا’ میں ہار گیا، تم نے مجھے ہرا دیا۔ تم ہار گئے ہو، تم نے مجھے کھو دیا‘ وہ نفرت سے مجھے گھور رہا تھا۔ پہلی بار مجھے اس سے گھبراہٹ ہونے لگی، پھر میں چڑ گیا۔ دوسروں کے مقبرے میں نیکی کی تلاش کتنا آسان ہے۔ اسے کیا، میرے حالات سے گزرتا تو پتہ چلتا۔

’نکل جاؤ میرے گھر سے، ‘ وہ غضبناک ہو کر کھڑا ہو گیا۔ ’یہاں سے اب تمھارا تعلق ختم ہو گیا، نکل جاؤ اور یہ لفافہ لیتے جاؤ، آئندہ میری شکل بھی دیکھنے کی کوشش نہ کرنا‘ اس نے ایک لفافہ میری مٹھی میں ٹھونس کر اس زور سے مٹھی بند کی کہ میرے ہاتھ میں درد ہونے لگا۔ اس نے تقریباً دھکہ دے کر مجھے باہر نکالا اور زور سے میرے پیچھے دروازہ بند کر لیا، دروازہ بند کرنے سے ہوا کا ایسا دباؤ آیا کہ میں اس کے گھر کے باہر لڑکھڑا کے گر پڑا۔ خود کو سنبھال کر میں نے اس کے دئیے ہوئے لفافے کو کھولا تو اندر ایک خط ملا۔ نیویارک کے ایک ہسپتال نے اس شرط پر مجھے نوکری دی تھی کہ میں پہلے تین ماہ ان کے پاس انٹرنشپ کر لوں۔ اس طرح پاکستان میں ٹریننگ کی کمی یہاں پوری ہو جائے گی۔ ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر کی طرف سے نوکری کا پروانہ تھا، اس پر ایک چٹ بھی لگی تھی۔ عموماً ہم ایسا نہیں کرتے، لیکن ان صاحب کی سفارش بھی نہیں ٹال سکتے۔ ہسپتال کے فنڈ میں خطیر رقمیں جمع کرانے کے باوجود انہوں نے ہم سے کبھی کچھ نہیں مانگا تھا، انہوں نے آپ کی بہت تعریف کی ہے اور ان کی سفارش ٹالنا ہسپتال کے بس میں نہیں۔

میں نے وہ خط جیب میں رکھا، لگا میری پتلون اچانک لمبی ہو گئی ہے، اور جوتے میرے پیروں میں بڑے ہو گئے ہیں۔ خط جیب میں ڈالے میں تھکے تھکے قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔ پھر جانے کیا خیال آیا، خط نکال کر پرزے پرزے کر دیا، ہنہ کیسا بھولا آدمی ہے، میں نے پرزے ہوا میں اڑا دئیے اور ہنس پڑا۔

٭٭٭







وقت کی بساط



‘‘چال چلئے بھگوان داس جی، کس سوچ میں پڑ گئے آپ‘‘ ؟

‘‘ہاں میاں آپ کہہ سکتے ہیں یہ بات، داؤں جو چل گیا ہے۔ ذرا بھاری پڑ گیا ہے اس دفعہ آپ کا ہاتھ۔ گھوڑا بچاتا ہوں تو رخ جاتا ہے، اور دونوں بچا لوں تو چند چالوں کے بعد مات کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں آپ ہی بتائیں کروں تو کیا کروں ‘‘ ؟ بھگوان داس نے مسکرا کے پوچھا۔

‘‘بھئی اپنا اپنا نکتۂ نظر، اپنا اپنا کھیل‘‘ قاضی صاحب نے محتاط انداز سے جواب دیا۔

‘‘کھیل تو در اصل ایک ہی ہے قاضی صاحب، میری جگہ آپ بھی پیادہ ہی مروا دیتے ‘‘ بھگوان داس نے پیادہ آگے سرکا دیا۔

‘‘بھگوان داس، پیادہ ملے یا وزیر، چن چن کر مارے جاؤ‘‘ قاضی صاحب نے اب نسبتاً خوشگوار موڈ میں جواب دیا اور بساط پر سے سیاہ پیادہ ہٹا کر چارپائی پر رکھ دیا اور اس خانے میں اپنا سفید پیادہ آگے بڑھا دیا۔

‘‘ بھولوں گا نہیں ‘‘ بھگوان داس کے لہجے میں غراہٹ تھی ‘‘بس سمے کا انتظار کرو‘‘ ۔

رام دیال کی بائیں آنکھ آج صبح سے ہی پھڑک رہی تھی۔ کاروبار میں نفع نقصان تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ رام دیال نے بڑے سے بڑا نقصان مسکرا کر برداشت کیا تھا۔ کاروباری اونچ نیچ تو جیسے اس کی فطرت کا ایک جز تھا۔ پھر یہ آج صبح سے یہ بائیں آنکھ کیوں پھڑک رہی تھی؟دو برس پہلے اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی تو رام دیال ایک گھنٹے میں چار کروڑ ہار گئے، بائیں آنکھ تب بھی نہ پھڑکی تھی۔ پھر جب بیگم رام دیال بنا بتائے تھائی لینڈ میں ہوٹل کے اس کمرے میں آ دھمکی تھیں، تو محض اپنی حاضر دماغی سے ہی رام دیال نے اپنی ازدواجی زندگی بچا لی تھی، جس پر وہ اب بھی فخر کرتا تھا۔ مجال ہے کہ بائیں آنکھ کی رفتار میں ذرا سا فرق پڑا ہو۔ مگر یہ کمبخت آج صبح سے ایسے چل رہی تھی جیسے پچھلی کئی بار کا حساب بھی چکانا ہو۔ لیکن محض ایک آنکھ کے پھڑکنے سے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ بستر پر لیٹے رہنے سے تو رہے۔ انہوں نے ایک آہ بھر کے قمیض کا سب سے اوپر والا بٹن لگایا اور ٹائی کا پھندا گردن کے گرد تنگ کر لیا۔ صوفے کی پشت سے سوٹ کی جیکٹ اٹھائی اور مرسڈیز کی چابی انگلی کے گرد گھماتے باہر دالان میں آ گئے۔ گاڑی میں بیٹھے تو سدھے ہوئے دربان نے میکانکی انداز میں لپک کر پھاٹک کھول دیا۔ رام دیال نے سر کے جھٹکے سے گویا بائیں آنکھ کی خود سری فراموش کرنے کی کوشش کی، عقبی شیشے میں راستہ صاف دیکھ کر گاڑی ریورس میں باہر نکالی۔ گیٹ کا دروازہ باہر سڑک کی سمت یوں کھلتا تھا کہ اس سے آنے والی موت نظر سے اوجھل رہی۔ گاڑی گیٹ سے کیا نکلی، تیز رفتار ٹرک جو سر پر آپہنچا تھا اپنی رفتار کم نہ کر سکا۔ کہتے ہیں کہ رام دیال کی موت تو ٹرک کی ٹکر سے پہلے ہی واقع ہو گئی تھی۔ ان کی چتا کو آگ لگا کر لوگ یہی بات کر رہے تھے کہ رام دیال کیسے آرام سے نکل گئے، بنا کوئی کشٹ اٹھائے۔ ابھی تھے، اب ایک سیکنڈ بعد نہیں ہیں۔ کروڑوں کا نفع نقصان اسی بائیں آنکھ کی ایک پھڑکن میں قصہ پارینہ ہو چکا تھا۔

‘‘کہئے قاضی صاحب کس سوچ میں ہیں، وہ کہتے ہیں ناں کہ ہاتھوں کے ہد ہد اڑ گئے، چال چلتے نہیں بن رہی۔ ‘‘ بھگوان داس کے لہجے میں طنز نمایاں تھا۔

‘‘ہاتھوں کے ہد ہد نہیں، ہاتھوں کے طوطے اڑنا محاورہ ہے ‘‘

‘‘آپ کے یہاں ہو گا۔ اب کیا ہمارے محاورے اور پرندے بھی ایک جیسے ہوں گے۔ نہیں صاحب ہمیں معاف ہی رکھیں۔ برتن بھانڈے، لباس، زبان چھوت چھات، ناپاکی جب اتنی علیحدگیاں ہیں تو ہم پرندے بھی الگ رکھیں گے۔ طوطا آپ کے ہاتھوں سے اڑا ہو تو ویسے بھی ناپاک ہو گیا، ہمارے کس کام کا۔ ہم ہد ہد سے گزارا کر لیں گے۔ چال چلئے قاضی جی‘‘

‘‘کیا چلیں، اس وقت تو گھر گئے ہیں۔ کیا فیل دے کر وزیر لے لیں۔ کچھ بھی ہو ہم آپ سے ڈر کر تو نہیں کھیل سکتے۔ شجاعت ہمارا ورثہ ہے میاں ‘‘ قاضی صاحب کے لہجے میں وہی فخر تھا جو کتنی ہی بار ڈبو چکا تھا

‘‘ہاں ہاں ضرور ہو گا۔ دکھاؤ شجاعت، ہم تو کب سے منتظر ہیں۔ فیل دے کر وزیر لے لو۔ ہمارا معاملہ تو بادشاہ سے ہے ‘‘ بھگوان داس نے چارپائی پر پہلو بدلا۔ بان ان کے تہہ بند میں ایسا گڑا ہوا تھا کہ کولہوں پر سرخ دھاریاں بند گئی تھیں، مگر شہ مات کی امید میں پہلو بھی نہیں بدل رہے تھے کہ قاضی صاحب کوئی غیر پارلیمانی ہاتھ نہ دکھا جائیں۔ نظریں شطرنج پر جمائے ہاتھ بڑھا کر حقے کی نے اپنی سمت کر لی۔ اور گڑ گڑا کر دھواں قاضی صاحب کی سمت چھوڑ دیا۔

‘‘لاحول ولا قوۃ‘‘ ہارنے والا تو ہتھے سے اکھڑنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے۔ ‘‘ہٹاؤ جی ہم نہیں کھیل رہے۔ تم جان بوجھ کر یہ دھواں چھوڑتے ہو کہ ہمیں بساط صاف نظر نہ آئے ‘‘ قاضی صاحب کو موقع غنیمت معلوم ہوا کہ کھیل قبل از وقت ہی ختم کر دیں، بھگوان داس کا پلہ بھاری معلوم ہو رہا تھا۔

‘‘ارے نہیں قاضی صاحب، قربان جاؤں آپ کے بھولپن کے ‘‘ بھگوان داس نے دونوں ہاتھوں کا پنکھا بنا کر دھواں ہٹا دیا ‘‘ہمیں شما کیجئیے، اور ایسی مکاری نہ دکھائیے صاحب، ہار رہے ہیں تو کھیل ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شجاعت کا معاملہ کیا ہوا‘‘ بھگوان داس کو معلوم تھا کون سے بٹن دبانے ہیں۔

‘‘ارے ہاریں ہمارے دشمن، ہم میدان سے بھاگنے والوں میں سے نہیں ‘‘ قاضی صاحب تکئے سے ٹیک لگا کر چال سوچنے لگے۔

بھگوان داس اپنی چال پر مطمئن و مسرور تھا، وہ قاضی کو پورا وقت دینا چاہتا تھا کہ کوئی بہانہ نہ بنے۔ اس نے حقے کا اگلا کش لے کر دھواں مخالف سمت میں اڑا دیا۔

‘‘میاں آخر وہی کرنا پڑے گا جو ایسے وقتوں میں کرنا چاہئیے ‘‘ قاضی صاحب کی سمجھ میں چال آ گئی تو اٹھ کر بیٹھ گئے

‘‘یعنی‘‘ ؟

‘‘یعنی کیا، تمھارا ہی بتایا ہوا نسخہ ہے، پیادہ قربان کر دو‘‘ قاضی صاحب نے سفید پیادہ آگے کر دیا۔

بھگوان داس نے ذرا منہ بنا کر اپنا پیادہ اٹھایا اور ایک جھٹکے سے سفید پیادہ بساط سے ہٹا دیا، ساتھ ہی منہ سے چچ چچ کی بناوٹی آواز نکالی جیسے بہت افسردہ ہو۔ ‘‘سب پیادے ہٹا کر ہی تو بادشاہ تک پہنچوں گا، لو ایک اور کم ہو گیا، خود ہی اپنا درد طویل کر رہے ہو۔ پیادوں کی قربانی سے بادشاہ کچھ دیر مزید بساط پر رہ سکتا ہے ‘‘ بھگوان داس نے کاندھے اچکائے۔

فصیح الدین نے سینہ دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا، جیسے درد کو اس میں سے نوچ پھینکے گا۔ ماتھے پر پسینے کی بوندیں امڈی آ رہی تھیں، اب سانس بھی بھاری چل رہی تھی۔ انہوں نے چاہا کہ چیخ کر بیوی کو آواز دیں مگر آواز جیسے جسم کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو گئی تھی۔ صبح سو کر اٹھے تو ٹھیک تھے۔ ناشتہ کرتے وقت ہلکا سا سینے پر وزن محسوس ہوا، وہم جان کر نظر انداز کر گئے۔ اب تیار ہونے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کے اوپر کمرے میں آئے تو درد پوری شدت سے حملہ آور ہوا۔ اب سانسیں تیز چل رہی تھیں، دل کی دھڑکن بے ترتیب تھی، درد اتنا شدید تھا کہ دل چاہتا تھا موت آ جائے۔ جانے کیسی قبولیت کا وقت تھا کہ یہی خواہش بہانہ بن گئی۔ سینے کو تھامے پشت کے بل گرے اور قلب و نفس نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ان کے عقیدے کے مطابق اگلی نماز کی ساتھ ان کی بھی نماز پڑھ دی گئی۔ نہ کسی کو دکھ دیا نہ کسی پر بوجھ بنے کیسے آرام سے جان جانِ آفرین کے سپرد کر گئے۔ جنازے میں شریک لوگ فصیح الدین کی اچانک موت کی یوں تعریف کر رہے تھے جیسے اچانک موت زندگی سے بہتر ہو!

دونوں کھلاڑی بساط پر نظریں جمائے اگلی چال کی سوچ میں غرق تھے۔ ایک آنکھ بساط پر اور دوسری مخالف پر۔ بھروسے کا فقدان تھا۔ دونوں واقف تھے کہ ذرا آنکھ جھپکی اور مخالف یہ کھیل جیتنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرے گا۔ بان کی چارپائی پر آسمانی بڑے خانوں کی چادر بچھی تھی۔ دونوں کی پشت سے گاؤ تکئے لگے تھے۔ جب دیکھو دونوں بساط بچھائے ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہیں۔ حقہ تازہ حاضر رہتا، دونوں ایک ہی نے سے کش لیتے، ویسے بہت چھوت چھات کا خیال رہتا مگر اس عیاشی میں کوئی عار نہیں تھا۔ بھگوان داس نے کتنی بار درخواست کی کہ قاضی صاحب بان کی چارپائی لے لیجئے یہ بہت گڑتی ہے۔ مگر انہیں کیا معلوم تھا اسی وجہ سے قاضی صاحب چارپائی نہیں بدل رہے تھے۔ اگر ذرا شبہ ہو جاتا کہ بھگوان کو بان کی چارپائی پر آرام آ رہا ہے تو کب کی بدل گئی ہوتی۔

‘‘بھگوان کس سوچ میں پڑ گئے، کوئی منتر الاپ رہے ہو، اپنے بھگوانوں کو آواز دو، رکھشا کے لئے آئیں۔ اتنے سارے ہیں کوئی تو سن ہی لے گا۔ لگتا ہے اب تمھیں کوئی چال نہیں سوجھ رہی‘‘ قاضی صاحب نے فقرہ کسا۔

‘‘میرے بہت سارے ہوں، مگر لگتا ہے تمھارا اکلوتا بھی کہیں اور مصروف ہے کہ تمھاری نہیں سن رہا‘‘ ۔

‘‘بھئی اب بات پیادوں سے بڑھ گئی ہے، زیادہ تر تو مارے جا چکے ہیں، اب تو کابینہ کی باری ہے تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ پیادے کا خون اور ہے کابینہ کا اور۔ اب ہر چال سوچ سمجھ کے چلنی پڑے گی کہ کوئی بھی چال شہ مات کی طرف لے جا سکتی ہے۔ سوچنے کا وقت دو۔ کھیل کا اختتام سامنے ہو تو فرشتہ بھی جانور بن جاتا ہے، میں تو محض بھگوان ہوں۔ یہ فیل اگر آگے بڑھاؤں تو یہاں رخ کے ساتھ قلعہ بندی ہو سکتی ہے۔ تمھارا وزیر تو ویسے بھی گھرا ہوا ہے، بچ نہیں سکے گا‘‘ ۔ بھگوان داس کو اپنی فتح کا اتنا یقین تھا کہ بلند آواز سے اپنی چالوں کو بیان کر رہے تھے، گویا قاضی کو اس کی بے بسی کا احساس دلا کر چڑا رہے ہوں۔ بھگوان داس نے حقے کی نے کا رخ اپنی سمت کیا اور فتح کے نشے میں اتنا گہرا کش لیا کہ کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ قاضی صاحب نے بھگوان داس کو غیر متوجہ پایا تو ہاتھ کی صفائی دکھائی اور سیاہ رخ بساط سے ہٹا دیا، پھر حقے کی نے اپنی سمت کر کے خود بھی ایک گہرا کش لیا۔ یہ قاضی کا سکون ہی تھا جس نے بھگوان کو بے آرام کیا، وہ مشکوک ہو کر سیدھا بیٹھ گیا اور بساط کو غور سے دیکھنے لگا۔ قاضی بظاہر حقے کی چلم سے الجھا ہوا تھا۔

‘‘قاضی صاحب یہ کیا بے ایمانی ہے، میرا رخ غائب کر دیا‘‘ ؟

‘‘ہم پر بے ایمانی کا الزام لگا رہے ہو۔ خود ایک مکار اور بد ذات ہو‘‘ ۔ قاضی صاحب نے چمک کر جواب دیا۔ ان کے جھوٹ میں ایسا غصہ اور یقین تھا کہ ایک لمحے کو بھگوان داس بھی گڑبڑا گیا۔ پھر بساط کو غور سے دیکھا تو معاملہ صاف سمجھ میں آ گیا۔ اپنا رخ چارپائی سے اٹھا کر بساط پر اس کے خانے میں رکھا، ‘‘یہ، یہاں تھا میرا رخ، بے ایمان شرم نہیں آتی‘‘ ۔

قاضی صاحب بھی آپے سے باہر ہو گئے۔ لگتا تھا دونوں گتھم گتھا ہو جائیں گے کہ فادر جوزف نے کرسی سے اٹھ کر ان کے کندھوں پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔

‘‘بھئی بیٹھ کر کھیلو، یہ کیا بد تمیزی ہے ‘‘ فادر جوزف اس گاؤں کے پادری تھے۔ اکثر اس شطرنج کے کھیل میں بارھویں کھلاڑی، ریفری یا ناظر۔ ان کی کرسی چارپائی کے قریب ہی لگی رہتی۔ کبھی کھیل سکون سے ختم ہو جاتا تو تینوں ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے، مذہب اور سیاست پر بحث کرتے، خوب محفل جمتی۔ لیکن اکثر یہ کھیل کسی ایک فریق کی بے ایمانی کے سبب جھگڑے پر ہی ختم ہوتا۔ اس میں فادر جوزف کی ثالثی شامل نہ ہوتی تو شاید ایک دوسرے کو ختم ہی کر دیتا۔ لیکن فادر ایسا ہو جانے دیتے تو کھیل ہی ختم ہو جاتا، ان کی تفریح خاک میں مل جاتی۔ دونوں کھلاڑیوں کو شبہ تھا کہ فادر جوزف خود شطرنج کے ایک ماہر کھلاڑی ہیں، لیکن وہ خود کبھی شامل نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اکثر وہ آنکھ بچا کر قاضی کو اشارے سے چال بتاتے تھے تو قاضی کو یقین تھا کہ وہ بھگوان داس کو بھی چال بتاتے ہوں گے۔

‘‘آپ سن نہیں رہے، یہ ہم پر بے ایمانی کی تہمت رکھ رہا ہے ‘‘ قاضی صاحب نے ڈھٹائی سے کہا۔

‘‘فادر آپ ہی بتائیں یہ قاضی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ مجھے اس حقے سے کھانسی کا دورہ پڑا تو اس نے آنکھ بچا کر میرا رخ ہی غائب کر دیا‘‘ بھگوان نے دہائی دی۔

‘‘بھئی میں دیکھ رہا تھا۔ در اصل قاضی صاحب کی آستین سے یہ رخ ہٹ گیا تھا، خود قاضی صاحب کو شاید پتہ نہیں چلا ہو کہ ان سے یہ بے ایمانی سرزد ہو گئی ہے، انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ رخ واپس اس کی جگہ پر رکھ کر کھیل وہیں سے شروع کر دیتے ہیں ‘‘ فادر جوزف نے ہاتھ بڑھا کر رخ واپس بساط پر رکھ دیا اور قاضی صاحب کو آنکھیں دکھائیں گویا بھانڈا پھوڑنے کی دھمکی دے رہے ہوں۔

‘‘آپ نے اس کا پٹا ہوا رخ واپس بساط پر رکھ دیا۔ میری آستین سے ایسا ہو جائے اور مجھے پتہ بھی نہ چلے ایسا کیسے ممکن ہے۔ اب رخ کو دوبارہ زندہ کرنے سے تو یہ جیت جائے گا‘‘ قاضی صاحب تنکے کا سہارا چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔

‘‘اچھا ایسا کریں یہ رخ تو رکھ دیں جگہ پر، اگر آپ یہ فیل یہاں سے اٹھا کر یہاں رکھ دیں تو بھگوان کی چال کا توڑ ممکن ہے ‘‘ فادر جوزف نے راہ سجھائی۔

‘‘بھگوان کی چال کا توڑ صرف آپ ہی نکال سکتے تھے ‘‘ قاضی صاحب نے اطمینان سے فادر جوزف کی بتائی چال چل کر فاتحانہ انداز سے بھگوان داس کی سمت دیکھا۔

‘‘یہ کیا بے ایمانی ہے فادر؟ یہ تو گویا میرا اکیلا ذہن آپ دونوں کے ذہنوں کا مل کر مقابلہ کر رہا ہے۔ آپ بیچ میں کیوں کود پڑے۔ خاموشی سے کھیل دیکھتے، مگر آپ تو کھلم کھلا ان کا ساتھ دے رہے ہیں ‘‘ ۔ بھگوان داس نے یقینی شہ مات کو ہاتھ سے نکل دیکھا تو ناگواری سے کہا۔

‘‘ارے صاحب ناراض کیوں ہوتے ہیں۔ دیکھئیے یہ اپنا وزیر یہاں رکھئیے، لیجئیے قاضی صاحب پھر پھنس گئے ‘‘ ۔

‘‘بھئی آپ کس کے ساتھ ہیں ‘‘ قاضی صاحب چلبلا گئے۔ ‘‘انہیں بھی چالیں بتا رہے ہیں، مجھے بھی بتا رہے ہیں، یہ کس قسم کے تماشائی ہیں آپ‘‘ ۔

‘‘ جب آپ کو چال بتائی تھی، اس وقت تو آپ نے انکار نہیں کیا تھا ‘‘ فادر نے مسکرا کے جواب دیا۔

‘‘ میں نے نہیں لیکن بھگوان داس نے تو انکار کیا تھا۔ آپ کی تو وہی مثال ہے کہ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘

‘‘کتا کہہ رہے ہیں آپ مجھے ؟‘‘ فادر جوزف غصے سے کھڑا ہو گیا ‘‘کتا کسے کہا ہے ‘‘

‘‘میں اپنے آپ کو تو کتا کہنے سے رہا اور بھگوان داس کے متعلق بھی مجھے علم ہے کہ ان کا عالم حیوانات سے تعلق نہیں۔ آپ کا بھی نام تو نہیں لیا تھا میں نے، بس یہ یاد دلا یا تھا دھوبی کا کتا کہیں کا نہیں ہوتا‘‘ ۔

‘‘بھگوان داس آپ کچھ نہیں کہہ رہے انہیں ‘‘ فادر نے بھگوان داس کی طرف بھی غصے سے دیکھا

‘‘بھئی بات تو صحیح کہہ رہے ہیں یہ۔ آپ کبھی ان کی مدد کرتے ہیں کبھی میری۔ اس طرح یہ کھیل طول کھینچتا جا رہا ہے، ایسا ہی شوق ہے تو خود کیوں نہیں کھیلتے، آ جائیے ‘‘ بھگوان داس نے ذرا سرک کر جگہ بنائی گویا دعوتِ مبارزت دے رہے ہوں۔

‘‘بھئی لعنت ہے آپ دونوں پر، چلئیے قاضی صاحب آپ کی چال ہے ‘‘ فادر جوزف پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اپنے مفادات کے لئے وہ ایسی چھوٹی موٹی گستاخیاں پی جایا کرتے تھے

‘‘پھر بیٹھ گئے آپ تو۔ اتنا کچھ سننے کے بعد تو امید تھی کہ بوریا سمیٹ لیں گے ‘‘ ؟

‘‘ارے چال چلئیے صاحب، اتنا پر لطف کھیل ہو رہا ہے، کیوں مزا کر کرا کر رہے ہیں ‘‘ فادر اپنی لطف اندوزی میں کسی دخل اندازی کو گوارا کرنے پر تیار نہیں تھے۔

بھگوان داس نے بھنوئیں اچکا کر استہفامی نظروں سے قاضی صاحب کی سمت دیکھا۔ دونوں میں جانے کیا اشارے ہوئے کہ بھگوان داس نے ہاتھ سے بساط الٹ دی۔

‘‘بھئی اب ہم مزید نہیں کھیلنا چاہتے !‘‘

‘‘ارے یہ کیا کیا، اتنا لطف آ رہا تھا کھیل ہی بگاڑ دیا‘‘ فادر جوزف روہانسے ہو گئے۔

پردے سے لگی بیگم قاضی اور بیگم بھگوان نے ایک دوسرے کو بے ساختہ گلے لگا لیا، انہیں امید ہو چلی کہ اب دونوں کھلاڑی انہیں کچھ وقت دے سکیں گے۔

بھگوان داس اور قاضی صاحب نے مل کر قہقہہ لگایا۔ فادر جوزف کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس کا منہ نوچ لیں۔

‘‘چلو شرط لگاتے ہیں کہ اس دفعہ قاضی صاحب جیتیں گے ‘‘ فادر نے ترغیب دی

‘‘لیکن یہ شرط کس سے لگ رہی ہے۔ شرط لگانے کے لئے دو فریقین کا ہونا ضروری ہے ‘‘ بھگوان داس نے یاد دلایا۔

‘‘بھئی میرا داہنا ہاتھ میرے بائیں ہاتھ سے شرط لگا لے گا۔ اگر قاضی صاحب جیت گئے تو میرا داہنا ہاتھ جیت جائے گا، اگر بھگوان داس جیتے تو میرا بایاں ہاتھ‘‘ ۔

‘‘چلو فرض کیا ہم دوبارہ بساط بچھا لیں ‘‘ دونوں بیگمات کی تو جیسے سانس رک گئی، انہوں نے ایک دوسرے کا اس زور سے ہاتھ دبایا کہ خون شریانوں کا ساتھ چھوڑ گیا ‘‘تو اگر بھگوان داس جیتا تو آپ کا بایاں ہاتھ جیتے گا، اگر میں جیتا تو داہنا ہاتھ۔ گویا کھیل کسی بھی رخ پر ہو، جیت آپ کی ہی ہو گی، خواہ وہ داہنے ہاتھ کی ہو یا بائیں کی‘‘ ؟

‘‘بھئی یہ تو ناک کو ہاتھ گھما کے پکڑنے کی بات ہے۔ آپ اس کو یوں نہیں دیکھتے کہ ہر صورت ہار میری ہی ہو گی، دائیں ہاتھ کی یا بائیں ہاتھ کی‘‘ فادر نے مسکرا کے جواب دیا۔ ‘‘چلئیے اب بحث چھوڑئیے اور بساط بچھائیے ‘‘ ۔

بھگوان داس اور قاضی صاحب نے ایسے سر ہلایا جیسے فادر کی بات سمجھ میں آ گئی ہو۔ بھگوان داس نے اپنی دھوتی اڑسی اور آلتی پالتی مار کے پلنگ پر بیٹھ گئے۔ قاضی صاحب نے بھی تنگ پاجامے میں پھنسے پاؤں سمیٹے، اور پیر اوپر کر کے بیٹھ گئے۔

‘‘لاؤ میاں بچھاؤ بساط، دیکھیں تم میں کتنا دم ہے۔ اس دفعہ ایسا پچھاڑوں گا کہ ماتا جی بھی نہیں بچا سکیں گی‘‘ ۔

‘‘ارے قاضی صاحب رہنے دیجئیے، یہ خواب لے کر کتنے ہی ہمارے گھر آئے اور چلے گئے۔ آپ نے ہمارے ہاتھ پہلے بھی دیکھے ہیں، آئیے ہو جائیں دو دو ہاتھ‘‘

پردے سے لگی خواتین ایسے ڈھے گئیں جیسے کسی نے جان سلب کر لی ہو۔

فادر نے مسکرا کے بہت شفقت سے قاضی صاحب کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا ‘‘چلئے قاضی صاحب آپ کی باری ہے ‘‘ ۔

٭٭٭







ترک رسوم



دیہی امریکہ میں وہ سب سہولتیں موجود ہیں جنہیں ہم صرف شہروں کا حق سمجھتے ہیں۔ صاف پانی، بجلی، پکی سڑک، اسکول، کالج سینیما، پارک اور معالجے کی سہولیات، سب کچھ ہی ہوتا ہے۔ بس نہیں ہوتا تو آدمیوں کا وہ جنگل جو بڑے شہروں کا خاصہ ہے۔ یہ دیہات اور قصبے یا تو کسی جامعہ کے اطراف میں بس جاتے ہیں، یا کسی فیکٹری کے وسیلے سے۔ بہت سے قصبے گو زراعت کی بنا پر بھی زندہ رہتے ہیں۔ کیوں کہ بنیادی ضرورتوں کا فقدان نہیں لہذا نووارد تارکینِ وطن بھی یہاں قدم جمانے سے نہیں شرماتے۔ پانچ چھ ہزار کی بستیوں میں بھی آپ کو آٹھ دس گھرانے برِ صغیر سے درآمد ہوئے مل جائیں گے۔ ان میں سے اکثر کا تعلق طب، فارمیسی، ہوٹل یا کمپیوٹر سے ہوتا ہے۔ پورے قصبے میں صرف چھ یا آٹھ ہم زبان گھرانے ہوں تو انہیں مجبوراً ایک دوسرے سے مل جل کر ہی رہنا پڑتا ہے۔ وہ سماجی عیاشی جو ایک بڑے شہر میں میسر ہوتی ہے کہ آپ اپنے ہم مزاج دوست چن لیں، یہاں مفقود ہے۔ آپس میں بنا کر رکھنے کی ضرورت ان گھرانوں کو بظاہر نزدیک لے آتی ہے۔ یہ ہم آہنگی اس مجبوری سے پیدا ہوتی ہے کہ لڑ لئے تو ملیں گے کیسے۔ ضرورتِ باہمی ان خاندانوں کو برداشت اور رواداری سکھا ہی دیتی ہے۔

احمد صاحب فلوریڈا کے قصبے پالم لینڈ میں کوئی آٹھ سال سے مقیم تھے۔ مقامی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس پڑھاتے تھے۔ ایک بیوی اور تین بچوں کے ساتھ زندگی سکون سے بسر ہو رہی تھی۔ پالم لینڈ میں تین پاکستانی، پانچ ہندوستانی اور ایک بنگلہ دیشی خاندان آباد تھا۔ ہر ماہ یہ سب گھرانے کسی ایک کے یہاں مدعو ہوتے۔ کپڑوں کی نمائش بھی ہو جاتی اور کھیلوں پر سیر حاصل تبصرہ بھی۔ مرد اسٹاک مارکیٹ کے شکوے کرتے تو عورتیں اپنی الگ محفل سجائے رکھتیں۔ بچے جو مخلوط تعلیمی ماحول کے عادی تھے لہذا وہ اپنا الگ گروہ بائے کوئی دلچسپی کا سامان ڈھونڈ ہی لیتے۔ ان نیم بدیسی بچوں کے لئے اپنے دیسی والدین کی محفلوں میں شرکت ایک آزمائش ہوتی۔ والدین کی دلچسپیاں اپنے تجربات، روایات اور سماجی تاریخ سے کشید ہوئی تھیں۔ بچوں کے تجربے اور ماحولیات امریکی تھی، ان کی دلچسپیاں بھی امریکی النسل تھیں۔

آج شنکر کے گھر پر اجتماع تھا۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کا ون ڈے میچ تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ سب مل کر دیکھیں گے۔ اپنے گھروں سے کھانے کی ایک ڈش پکا کر سب شنکر کے یہاں لے آئے تھے۔ شنکر اسی کمروں کے ایک مقامی ہوٹل کا مالک تھا۔ خاندانی کاروباری تھا اس کی پشتوں میں کسی نے نوکری نہیں تھی۔ اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ پھر قصبوں، دیہاتوں میں زندگی ویسے بھی سستی ہوتی ہے۔ کشادہ بیٹھک میں نوے انچ کا ٹی وی اس کے اطراف لگے دو بڑے اسپیکر کسی سینیما کا منظر تھا۔ جدید اطالوی فر نیچر گھر والے کی مالی استطاعت کی گواہی دے رہا تھا۔ عارف، خالد، احمد سب ہی اپنے خاندانوں کے ساتھ موجود تھے۔ ساتھ ہی دنیش، امیت اور جیتندر کے خاندان بھی۔

‘‘یار آج اسلام صاحب نظر نہیں آ رہے ؟‘‘ امیت نے بنگلہ دیشی خاندان کی غیر موجودگی محسوس کی

‘‘بھئی ہو سکتا ہے انہیں نہیں بلایا ہو، ایسے سوالات غیر پارلیمانی ہوتے ہیں ‘‘ احمد نے شنکر کو چھیڑا

‘‘بھئی میں کیوں نہ بلاتا۔ یاد ہے پچھلی دفعہ جیتندر کے یہاں وہ بنگلہ دیش بننے میں بھارت کے کردار کی کتنی تعریف کر رہا تھا۔ مجھے تو شبہ تھا شاید تم اسے اپنے گھر نہ مدعو کرو؟‘‘ شنکر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

‘‘ارے نہیں بھئی وہ تو ایسے ہی جذباتی ہو جاتا ہے ‘‘ احمد کچھ کھسیا گیا۔

کھیل شروع ہو گیا تھا، پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے بیس اوور میں سو رن بنا لئے تھے اور ابھی ان کا صرف ایک ہی کھلاڑی آؤٹ ہوا تھا۔

‘‘یار پاکستان کا یہ اوپنر تو خوب نکلا ہے۔ کیا زبردست چوکے لگا رہا ہے۔ ایک ہمارے اوپنر ہیں ‘‘ شنکر نے منہ بنایا۔ اپنی ٹیم برا کھیل رہی ہو تو خود اپنی کم مائے گی کا اعتراف دشمن کا منہ بند کر دیتا ہے۔

‘‘سب سفارشی ہیں بھئی۔ اسے دیکھو سیدھی گیند تک نہیں پھینک پا رہا ہے، ہر گیند لیگ اسٹمپ سے باہر‘‘ اجیت بھی اپنی ٹیم سے شاکی تھا۔

‘‘بھئی ابھی تو یہ پہلی اننگز ہے، ابھی تو تم لوگوں کی ٹیم کو بھی کھیلنا ہے، اور بھارت کی بیٹنگ تو بہت مضبوط ہے، کتنا بھی اسکور کر لو، کم ہی لگتا ہے ‘‘ احمد نے گویا انہیں تسلی دی۔

پاکستانی اوپنر نے اپنی کریز سے باہر نکل کر ایک شاندار اونچا شاٹ کھیلا جو چھ رن قرار پایا۔

‘‘بیٹنگ تو بیٹنگ کے وقت آئے گی، اس وقت تو لگ رہا ہے یہ مل کر کھیل رہے ہیں ہمارے باؤلر۔ کیسی آسان گیندیں پھینک رہے ہیں‘‘ ۔ شنکر اپنے صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔ اس کی دلچسپی اب کھیل میں کم ہو رہی تھی۔ دوسری جانب احمد، خالد اور عارف اپنی کرسیوں پر آگے جھک آئے تھے۔ وضع داری میں چوکوں، چھکوں پر دل کھول کر داد نہیں دے پا رہے تھے۔ بس دزدیدہ نظروں سے آپس میں ستائشی پیغامات کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ دو دیرینہ دشمن اپنی ٹیموں کو بر سرِ پیکار دیکھ رہے تھے لیکن مغربی برداشت اور وضع داری کے آئنے میں۔

‘‘یار یہ بالر آسان گیندیں جان بوجھ کر کیوں کرائے گا، اس وقت یہ اوپنر ذرا اچھی فارم میں ہے ‘‘ خالد نے لقمہ دیا

‘‘خیر اچھی فارم میں تو نہیں، ابھی پچھلے کھیل میں صرف تین رن بنا کر آوٹ ہو گیا تھا‘‘ اجیت نے یاد دلایا۔

اوپنر نے پھر باہر نکل کر اونچا شاٹ کھیلنے کی کوشش کی، مگر گیند گھوم کر اس کی پہنچ سے دور ہو گئی اور وکٹ کیپر نے فوراً اسے کھیل سے باہر کر دیا۔

‘‘وہ مارا‘‘ شنکر، امیت جیتندر اور دنیش سب ہی خوشی سے اچھل پڑے، مگر خالد، عارف اور احمد کے منہ لٹک گئے، جوش میں معقولیت کا فرضی جامہ اتر گیا۔

‘‘بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی‘‘ جیتندر نے فاتحانہ نظروں سے اپنے پاکستانی دوستوں پر نگہ ڈالی۔

‘‘بکرے کی کیوں، گائے کی کہو‘‘ عارف نے اوچھا وار کیا۔

‘‘گائے کی کیوں، مثال تو یہ ہے ناں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘ جیتندر نے خونی نظروں سے دیکھا

‘‘بھئی گائے کی ماں تمھیں زیادہ عزیز ہے میں تو اس لئے کہہ رہا تھا‘‘ عارف کے غیر متوقع جواب پر ایک لمحے کے لئے تکلیف دہ سناٹا چھا گیا۔ اب نیا کھلاڑی میدان میں آ چکا تھا۔ سب خاموشی سے کھیل دیکھنے لگے۔ سب محتاط تھے، کوئی چٹکلا ماحول کو مزید خراب کر سکتا تھا۔

‘‘بھئی اتنی خاموشی سے کھیل دیکھا جا رہا ہے، لگتا ہے پاکستان ہار رہا ہے ‘‘ جیتندر کی بیوی نے کمرے میں داخل ہو کر ذرا شوخی سے کہا۔

‘‘بھئی ابھی تک تو ہندوستان کو ہی رگڑا لگ رہا ہے ‘‘ عارف نے ذرا فخریہ لہجے میں کہا

‘‘ہاں لیکن ابھی ہماری باری آنی باقی ہے، یہ کھلاڑی بغیر بلے کے میدان میں نہیں اتریں گے ‘‘ جیتندر سے خاموش نہیں رہا گیا۔

‘‘یار میچ دیکھو لڑو نہیں، ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے ‘‘ شنکر نے ہنس کر ماحول کی کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی۔

‘‘میں تو صرف یہ کہنے آئی تھی کہ کھانا تیار ہے، آپ لوگ اپنی پلیٹوں میں یہیں نکال لائیں پھر آرام سے بیٹھ کر دیکھیں ‘‘ جیتندر کی بیوی جلدی سے بولی۔

پاکستان کی ٹیم نے اپنے پچاس مقر رہ اوورز میں دو سو ستر رن بنا لئے۔ لیکن اب دوستوں کے تبصرے محتاط ہو گئے تھے۔ ایسے جملوں سے اجتناب کیا جا رہا تھا جس سے جارحیت کا شبہ ہو۔ بات ٹیکس اور امریکی سیاست کی ہونے لگی۔ لیکن کوئی اٹھنے کو تیار نہیں ہوا، سب کی آنکھیں اسکرین پر مرکوز تھیں۔ کھیل میں کھانے کا وقفہ ہوا تو یہ لوگ بھی اٹھ کر کھانے کے کمرے میں آ گئے۔

‘‘بھئی بچے کہاں ہیں، اتنی خاموشی کیوں ہے ؟‘‘ خالد کو اچانک بچے یاد آ گئے۔

‘‘بھئی میں نے Pizza منگوا لیا تھا۔ سب پیچھے بڑے کمرے میں بیٹھے کھا رہے ہیں ‘‘ شنکر کی بیوی نے تسلی دی۔ مختلف عمروں کے بچے تھے، سب جمع ہو جاتے تو کوئی تیس کی نفری ہوتی۔ پانچ سال سے لے کر بیس سال کی عمر تک کے۔ عارف کا بیٹا بیس برس کا اور بیٹی چودہ برس کی تھی۔ جیتندر کے تین بچے تھے، بارہ برس کے دو جڑواں بچے تھے اور اٹھارہ برس کی ایک لڑکی۔

‘‘میچ شروع ہو گیا ہے ‘‘ امیت نے کمرے سے آواز لگائی۔ یہ تو جیسے کوئی آسمانی ندا تھی کہ سب اپنی پلیٹیں اور گلاس اٹھا کے ٹی وی کی طرف چل دئے۔ اب بھارت کی ٹیم بیٹنگ کے لئے میدان میں اتری تھی۔ میچ شروع ہوتے ہیں پاکستانی باؤلر نے ہندوستانی اوپنر کو آؤٹ کر دیا۔

‘‘وہ مارا، ‘‘ عارف خوشی سے اچھل پڑا۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ اپنے جذبات چھپائے رکھے گا مگر بے ساختہ ردِ عمل چھپا نہ سکا۔ ‘‘باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم‘‘ ۔

‘‘یار یہ تو کھیل ہے، اسے کھیل ہی رہنے دو، تم تو اور خطرناک ہو گئے، شعر وغیرہ پڑھنے لگے ‘‘ شنکر مسلسل میزبانی کا فرض ادا کر کے ماحول کو ہلکا پھلکا رکھنا چاہ رہا تھا۔

‘‘ بھئی اور کہیں تو جیت سکتے نہیں کرکٹ میں جیتنے پر ہی خوش ہو لینے دو‘‘ جیتندر کی بات پر تینوں پاکستانی جیسے بلبلا گئے۔ اب بات دوستانہ جملے بازی سے آگے نکل گئی تھی۔ باقی میچ یا تو خاموشی رہی یا موسم، سیاست اور معیشت پر بات ہوتی رہی۔ ظاہر تھا کہ سب کرکٹ دیکھ رہے ہیں مگر اس پر بات کرنے کا کسی میں حوصلہ نہیں۔ اس دن یہ میچ بھارت ہار گیا، ساتھ ہی ان دوستوں میں بھی ایک بظاہر دوستانہ میچ ختم ہوا۔

‘‘چلیں جیتندر میچ ختم ہو گیا، کون جیتا؟‘‘اس کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی

کوئی پاکستانی منہ سے نہ بولا، گویا کہہ رہے ہوں کہ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔ جب بھارتی دوست بھی خاموش رہے تو شنکر کو پھر میزبانی کا فرض انجام دینا پڑا۔

‘‘آج تو پاکستان جیتا ہے بھئی‘‘

‘‘چلو چھٹی ہوئی، اب گھر جا کر بھی جیتندر کا منہ پھولا رہے گا‘‘ اس کی بیوی کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ جیتندر کی آنکھوں میں غصہ دیکھا تو اچانک پلٹ گئی ‘‘چلیں میں بچوں کو اٹھاتی ہوں ‘‘ ۔

‘‘بھئی آپ لوگ تو کھیل بھی ڈھنگ سے نہیں دیکھتے۔ کھیل میں اور مسئلہ کشمیر میں بہت فرق ہے لیکن آپ لوگوں کا ردِ عمل دونوں کے لئے ایک ہی ہے ‘‘ ۔

‘‘بھئی مجھے تو مت لے جایا کرو ان ہندوستانیوں کے گھر، ان سے اپنی شکست بر داشت نہیں ہوتی۔ کیسی متعصب قوم ہے، دیکھا کیسے منہ لٹک گئے تھے ‘‘ عارف نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا۔ بیٹا شان اب کوئی ایک سال سے گاڑی چلا رہا تھا مگر شوق کا یہ عالم کہ مجال ہے جو اس کی موجودگی میں کوئی اور گاڑی چلا لے۔

‘‘کیوں کیا ہوا ابو ؟‘‘

‘‘ارے بیٹا ہونا کیا ہے ؟ ظاہر ہے جیتنا تو پاکستان کو ہی تھا، جیتندر صاحب کو پتنگے لگ گئے۔ ارے بس وہ ہی کیا سب ہی ہندوستانیوں کے منہ لٹک گئے تھے، ہار برداشت ہی نہیں ہوتی ان سے ‘‘ عارف کے لہجے میں تضحیک تھی۔

‘‘ابو اگر آپ انڈیا جیت جاتا تو آپ لوگوں کا بھی یہی حال ہوتا۔ یاد ہے جب ورلڈ کپ میں انڈیا نے ہرا دیا تھا تو آپ کتنے دن ناراض رہے تھے ‘‘ ۔

‘‘یار میں تو سمجھ رہا تھا کہ کم از کم تم تو ہماری طرف ہو‘‘ جیت کی خوشی میں عارف کا موڈ اتنا اچھا تھا کہ اسے شان کی بات بھی بری نہیں لگی۔

گھر پہنچے تو بچے اپنے اپنے کمروں میں بند ہو گئے۔ بچے جب تک گھر میں رہتے ان کے کمروں کے دروازے بند رہتے۔ عارف کو یہ بات بہت کھلتی تھی، مگر بچے عمر کے اس حصے میں تھے کہ زیادہ کچھ کہہ نہیں پاتا۔ پھر جب دوستوں سے ذکر نکلا تو معلوم ہوا کہ گھر گھر یہی کہانی ہے۔

‘‘بھئی بیگم چائے تو بناؤ‘‘ عارف کا موڈ جیت کے نشے میں سر شار تھا۔

‘‘چائے تو بناتی ہوں مگر آپ سے کچھ بات کرنی تھی‘‘

‘‘ایسی کیا بات ہو گئی۔ کیا احمد کی بیوی کسی نئی بوتیک کا پتہ دے گئی‘‘

‘‘نہیں بھئی‘‘ عارف کی بیوی کی آواز دھیمی ہو گئی۔ ‘‘وہ جیتندر کی بیٹی ہے ناں، شوبھا‘‘

‘‘ہاں بھئی بہت اچھی لڑکی ہے۔ پڑھائی میں اچھی اور تمیز دار۔ شکر ہے ماں باپ پر نہیں گئی‘‘ عارف ہنس کر بولے

‘‘یہ ہمارے شان صاحب شوبھا میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہے ہیں ‘‘

‘‘کیا‘‘ عارف اس اطلاع کے لئے بالکل تیار نہیں تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کس قسم کے ردِ عمل کا مظاہرہ کرے۔

‘‘کیا مطلب ہے، تمھیں ضرور غلط فہمی ہوئی ہو گی، ابھی تو بچہ ہے۔ کتنا، کوئی بیس سال کا ہے ناں ؟ اس عمر میں مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ لڑکی کہتے کسے ہیں ‘‘ وہ ہنس کر بولا

‘‘عارف یہ سنجیدہ بات ہے، کچی عمر ہے کوئی حماقت ہی نہ کر بیٹھے ‘‘

‘‘ارے کیا مطلب ہے اس بات کا‘‘ عارف ہتھے سے اکھڑ گیا۔ ‘‘وہ ہندو کی اولاد، دماغ ٹھیک ہے شان کا، جان سے مار دوں گا۔ میں نے دوستوں کی طرح رکھا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ‘‘ ۔

‘‘شان، شان‘‘ عارف نے غصے سے آواز دی

‘‘عارف آرام سے۔ اس عمر میں خود بخود بغاوت کو جی چاہ رہا ہوتا ہے، بہت آرام سے سمجھائیے گا‘‘

خدا معلوم، عارف نے بیوی کی بات سنی بھی یا نہیں۔ اس نے شان کے کمرے کا بند دروازہ کھولا، تو شان اوندھے منھ بستر پر لیٹا تھا، کانوں پںر ہیڈ فون چڑھے تھے، اور کمپیوٹر پر کوئی فلم چل رہی تھی۔ عارف نے ہاتھ بڑھا کر ہیڈ فون عارف کی کانوں سے نیچے اتار دئیے ،ت شان کو عارف کی موجودگی کا پتہ چلا۔

‘‘شان یہ میں کیا سن رہا ہوں ‘‘

‘‘ابو آپ کو کھٹکھٹا کر اندر آنا چاہئیے ‘‘

‘‘بکو مت، یہ بتاؤ کہ امی کیا کہہ رہی تھیں ‘‘

‘‘ابو آپ ہی نے کہا تھا ناں ایک بار کہ کمرے میں کھٹکھٹا کر داخل ہونا چاہئیے، چاہے وہ ماں باپ کا کمرہ ہی کیوں نہ ہو‘‘ عارف کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس کے ذہن میں برسوں پرانا وہ منظر گھوم گیا جب شان عین اس وقت بغیر کھٹکھٹائے کمرے میں داخل ہوا تھا جب عارف بیوی سے بے تکلف ہو رہا تھا۔

‘‘باہر آؤ ذرا باورچی خانے میں ‘‘ عارف یہ کہہ کر پلٹ گیا۔ باورچی خانہ اس گھر کا مرکز تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں گھر کے سب معاملات طے ہوتے تھے۔

‘‘شان یہ کیا معاملہ ہے ‘‘ عارف نے بیوی کی معیت میں پہنچ کر اپنا سوال دہرایا۔ ‘‘یہ شوبھا کا کیا سلسلہ ہے ‘‘ ؟

‘‘کوئی سلسلہ نہیں ابو، میں سمجھا نہیں آپ کی بات‘‘ شان نے شکوہ بھری نگاہوں سے ماں کو دیکھا۔

‘‘سنا ہے تم شوبھا میں بہت دلچسپی لے رہے ہو‘‘

‘‘آپ کو نہیں پسند، آپ ہی تو کہتے ہیں بہت اچھی لڑکی ہے ‘‘

‘‘ہاں اچھی لڑکی ہو گی مگر ہندو ہے، اور تم ابھی زمین سے بھی نہیں نکلے ہو، بیس برس بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ یہ کالج میں تمھارا تیسرا سال ہے، تم لڑکیوں کے چکر میں پڑ گئے۔ کوئی پاکستانی لڑکی دیکھو یار‘‘ عارف نے مزاحیہ انداز میں شان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

‘‘ابو میں کون سا ابھی شادی کرنے جا رہا ہوں۔ امی نے اس دن پوچھا تھا کہ کوئی لڑکی پسند ہے تو میں نے بتا دیا تھا؟‘‘

‘‘کیا بتا دیا۔ دماغ خراب ہو گیا ہے۔ آج کے بعد اس سے ملنے کی کوشش نھی نہیں کرنا‘‘

‘‘ابو آپ کے دوست کی بیٹی ہے پھر آپ خود کہتے ہیں کہ اچھی لڑکی ہے ہندو ہے تو کیا ہوا، ہم سب کون سے بہت مسلمان ہیں مجھے تو نہیں یاد یہاں کس نے آخری بار نماز پڑھی تھی‘‘ شان یہ کہہ کر کمرے کی طرف لوٹ گیا۔

‘‘شان، شان‘‘ عارف غصے میں چیخنے لگا، بیٹے کے پیچھے جانا چاہتا تھا کہ بیوی نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ملتجی نظروں سے روک لیا۔

‘‘عارف بہت احتیاط سے اور سوچ کر اس معاملے کو سلجھانا ہو گا، ورنہ بات بگڑ جائے گی۔ ابھی وہ عمر کے اس حصے میں ہے جہاں والدین دشمن لگتے ہیں، جس بات سے منع کرو وہ اور زیادہ پر کشش لگتی ہے ‘‘ ۔

‘‘کب سے چل رہا ہے یہ سلسلہ‘‘ ؟

‘‘میرے خیال میں کوئی ایک سال سے ‘‘

‘‘ایک سال سے اور تم مجھے اب بتا رہی ہو‘‘

‘‘بھئی میرا خیال تھا یہ تجربوں کا دور ہے خود ہی ختم ہو جائے گا۔ مگر آج احمد صاحب کی بیوی بھی مجھ سے کہنے لگیں کہ شان پر نظر رکھو۔ غالباً کالج میں اور اس کے بعد بھی یہ دونوں سارا وقت ساتھ ہی گزارتے ہیں۔ پچھلے اتوار بھی جب یہ لائبریری گیا تھا تو اصل میں یہ دونوں ڈیٹ پر گئے ہوئے تھے ‘‘ ۔

‘‘تو اب تم ہی کوئی حل نکالو‘‘

‘‘نہیں بھئی میں بات کر کے دیکھ چکی ہوں، اب آپ ہی کسی مناسب وقت دوبارہ یہ ذکر نکالئے گا‘‘ ۔

‘‘سنئے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ‘‘ جیتندر کی بیوی نے بستر پر شوہر کی جانب کروٹ لی

‘‘یہی ناں کہ آج میں بہت سندر لگ رہا تھا اور تم سے برداشت نہیں ہو رہا‘‘

‘‘وہ تو خیر ہے ہی، مگر بات یہ ہے کہ میں خود شوبھا سے بات کر چکی ہوں مگر میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ عارف بھائی کا بیٹا ہے ناں شان‘‘ ؟

‘‘بھئی آج تو وہ عارف بہت کمینگی دکھا رہا تھا۔ کمبخت ایک کرکٹ میچ کیا جیت گئے، کیسے چھچورے ہوتے ہیں یہ پاکستانی، کشمیر لے کر دکھائیں ‘‘

‘‘جیتندر‘‘ بیوی کے لہجے میں برہمی تھی ‘‘بہت سنجیدہ بات ہے، آپ کی کرکٹ گئی بھاڑ میں، میرے خیال میں شوبھا شان میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہے ‘‘

‘‘کیا‘‘ جیتندر بستر میں اٹھ کر بیٹھ گیا ‘‘تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے ‘‘

‘‘جیتندر، میں نے کئی دفعہ شوبھا سے بات کی ہے۔ آج امیت کی بیوی بھی کہہ رہی تھی کہ اپنی بیٹی کو سنبھالو‘‘

‘‘بھگوان، بات یہاں تک پہنچ گئی اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں ‘‘

‘‘شوبھا، شوبھا‘‘ جیتندر آوازیں دیتا بستر سے نکل کر شوبھا کے کمرے کی سمت بڑھ گیا جو حسبِ معمول بند تھا۔ ‘‘جیتندر، جیتندر‘‘ اس کی بیوی آوازیں دیتی اس کے پیچھے دوڑی، شوہر کے غصے سے واقف تھی۔

‘‘شوبھا‘‘ جیتندر کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا

‘‘پتا جی، آپ کو کھٹکھٹا کر اندر داخل ہونا چاہئیے ‘‘ شوبھا نے مسکرا کے باپ کی سمت دیکھا

‘‘بکواس مت کرو، یہ شان کا کیا سلسلہ ہے ‘‘ ؟ عارف اس کے سر پر جا کھڑا ہوا

‘‘مسئلہ کوئی نہیں، مجھے شان سے محبت ہے ‘‘ شوبھا نے بے خوفی سے کہا

‘‘دماغ ٹھیک ہے تیرا، اور دکھاؤ اسے سلمان خان کی فلمیں ‘‘ جیتندر نے شوبھا کی کمر پر ایک دھموکہ جڑ دیا

‘‘ممی، ممی یہ آدمی مجھے مار رہا ہے ‘‘ شوبھا کمرے سے بھاگی

‘‘یہ آدمی، یہ آدمی، یہ آدمی تیرا پتا ہے ‘‘ جیتندر کی آنکھوں میں خون اتر آیا

‘‘میں پولیس کو فون کر رہی ہوں، یہ انڈیا نہیں ہے، یہاں آپ مجھے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے ‘‘ شوبھا نے فون اٹھا کر ۱۱۹ ڈائل کرنا شروع کر دیا۔

‘‘بھگوان کے لئے ‘‘ شوبھا کی ماں نے فون اس کے ہاتھ سے لے کر کریڈل پر رکھ دیا اور پچکار کے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا

‘‘جوان بیٹی پر ہاتھ اٹھاتے شرم نہیں آتی، خبر دار جو میری بیٹی کے نزدیک بھی آئے۔ اس طرح معاملات حل ہوتے ہیں، جاؤ شوبھا اپنے کمرے میں جاؤ، صبح بات کریں گے ‘‘ بیوی جیتندر کو کھینچ کر کمرے میں لے آئی۔

‘‘شکر ہے بھگوان کا کہ میں وقت پر پہنچ گئی۔ ورنہ آپ شوبھا کو جانتے ہیں، وہ پولیس کو فون کر چکی ہوتی‘‘

کرنے دو فون، آ جائیں کمینے۔ اس ذلت سے تو حوالات ہی بہتر ہے ‘‘ جیتندر کے لہجے میں بے بسی تھی۔ ‘‘وہ مسلا کمبخت، سنپولیا، کیسا آگے پیچھے پھرتا تھا، انکل یہ کر دوں، انکل وہ کر دوں۔ اب نظر آئے مجھے، بھرتہ نہ بنا دوں اس کا‘‘

‘‘آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے ‘‘ بیوی نے جیتندر کو ڈانٹا ‘‘آپ رہنے ہی دیں، میں خود ہی سنبھال لوں گی‘‘ اس کی آواز میں طنز تھا ‘‘جوان بیٹی پر ہاتھ اٹھا لیا، وہ تو میری تربیت ہے کہ اس نے جان بوجھ کر صرف فون اٹھایا، ملایا نہیں، ورنہ ابھی یہاں وردی والے بیٹھے ہوتے ‘‘

‘‘تو کیا کروں ‘‘ جیتندر تقریباً رو دیا

‘‘ایسے طے کرتے ہیں معاملے کو‘‘ بیوی نے جیتندر کو روہانسا دیکھا تو بڑھ کر گلے لگا لیا ‘‘مل کر کوئی طریقہ سوچنا پڑے گا‘‘

‘‘شان کل ہمارے گھر بہت ہنگامہ ہوا‘‘ شوبھا نے شان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ شان نے اسے خود سے تقریباً چپکا لیا اور اس کے ہونٹ چوم لئے۔ دونوں لنچ کے وقفے میں کالج کے برآمدے میں نیم دراز تھے۔ لڑکے، لڑکیوں کے غول ادھر ادھر جمع تھے۔ کچھ کھا رہے تھے، کچھ ایسے ہی بیٹھے تھے، بائیں جانب ایک لڑکی ایک لڑکے کی گود میں سر دئیے لیٹی تھی۔ شان اور شوبھا کی بے تکلفی کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، یہ ایک عام سا منظر تھا۔

‘‘ارے واقعی، ہمارے گھر میں بھی عارف صاحب بہت چیخ رہے تھے ‘‘ شان جب باپ سے ناراض ہوتا تو ان کے نام سے پکارنے لگتا ‘‘یہ شوبھا کا کیا چکر ہے ‘‘ شان نے باپ کی نقل اتاری

‘‘پھر کیا چکر بتایا تم نے ‘‘ شوبھا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں

‘‘ میں نے کہا اسے نماز سکھا رہا ہوں ‘‘ دونوں ہنس پڑے۔ شوبھا نے شان کے کان کی لوؤں کو چبانا شروع کر دیا۔

‘‘میرے پتا جی بھی آپے سے باہر ہو رہے تھے، تمھارے متعلق ہی پوچھ رہے تھے ‘‘ شوبھا نے اپنے گھر کا ہنگامہ اس اطمینان سے بیان کیا جیسے کوئی مسئلہ ہی نہ رہا ہو۔ ‘‘یہ دونوں کو ایک ساتھ کیسے خبر ہو گئی‘‘ شوبھا نے تعجب سے سوال کیا۔

‘‘ بھئی یہ جو کرکٹ کے لئے جمع ہوتے ہیں تو بس یہی gossip ہو رہی ہوتی ہے، ان FOBs کا یہی مسئلہ ہے ‘‘کرکٹ کی جان نہیں چھوڑتے، جہاں ملتے اپنے بچوں کی شادی کا رونا روتے رہتے ہیں، سمجھتے ہی نہیں کہ ہمارے لئے یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جیسا ان کے لئے تھا‘‘ شان نے پھر سختی سے اسے خود سے لپٹا لیا ‘‘اب کریں کیا‘‘ ۔

‘‘ میں ابھی دو چار سال شادی نہیں کرنا چاہتی، لیکن اگر زیادہ ہنگامہ کریں گے تو شادی کر لیں گے، آہستہ آہستہ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ تم بھی اٹھارہ سے زیادہ کے ہو اور میں بھی‘‘ شوبھا کا اعتماد اور سکون دیدنی تھا

‘‘گھر سے نکال دئے گئے تو‘‘

‘‘بھئی تمھاری ایسوسی ایٹ کی ڈگری تو ہو ہی چکی ہے، ایک سال بعد گریجویشن ہو جائے گی۔ میری اگلے سال ایسوسی ایٹ کی ڈگری ہو جائے گی، نوکری کریں گے اور پڑھیں گے بھی۔ مسئلہ کیا ہے۔ دعا کرو دونوں اسے اپنی عزت کا مسئلہ نہ بنا لیں ‘‘

‘‘میری سمجھ میں نہیں آیا کہ مسئلہ کیا ہے۔ میرے ابو اور تمھارے پتا دوست ہیں، ویسے دونوں ہم دونوں کو پسند بھی کرتے ہیں پھر مسئلہ کیا ہے ‘‘ شان نے سوال کیا

‘‘وہی مذہب۔ میرا تو مذہب بھرشٹ ہو جائے گاویسے گائے کا گوشت بھی کھائیں گے، پوجا پاٹ کا سوال ہی نہیں۔ بھگوان کے کبھی درشن کئے نہیں ہیں، بس میری شادی سے ان کی حمیت جاگ اٹھی ہے ‘‘

‘‘تم صحیح کہہ رہی ہو، میں نے بھی صبح ناشتے کی میز پر سنا تھا، عارف صاحب امی سے کہہ رہے تھے کہ اب کافر کی بیٹی کو کیسے گھر لاؤں۔ تمھیں پتہ ہے شراب یہ پیتے ہیں، نماز کبھی پڑھتے نہیں۔ لیکن اپنی اولاد کی شادی کے وقت اچانک یہ اچانک وطن اور مذہب کیوں یاد آ گیا، کچھ بھی ہو اب تمھیں کوئی مجھ سے جدا نہیں کر سکتا‘‘ شان نے پھر شوبھا کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دئیے۔ شوبھا کو اچانک کوئی خیال آیا تو اس نے گھڑی دیکھی اور ہائے بھگوان کہہ کر شان کو دھکا دیا اور کلاس کی طرف بھاگی۔

جیتندر کمرے میں ٹی وی کے سامنے سر پکڑے بیٹھا تھا۔ بیوی کافی کا مگ لئے کمرے میں داخل ہوئی ‘‘کس سوچ میں ہو‘‘ ؟

‘‘ارے کیا کروں۔ پچھلے جنم میں یقیناً یہ کوئی چڑیل رہی ہو گی۔ کیسا میرے برہمن خاندان کو بٹہ لگا رہی ہے ہماری تو پشتوں میں بھی ایسا نہیں ہوا۔ کسی گورے سے کر لیتی مگر یہ ملچھ مسئلے سے تو نہ کرتی۔ سارے جاننے والے تھو تھو کریں گے۔ اور گھساؤ ان مسئلوں کو گھر، کتنا منع کرتا تھا میں ‘‘ ۔

‘‘ارے واہ جیتندر، یہ بھی خوب کہی، ان کے دوست تو خود بنے پھرتے ہو اور اب الزام مجھے، بھگوان سے پرارتھنا کرو کہ سب ٹھیک ہو جائے ‘‘

‘‘ارے پرارتھنا گئی بھاڑ میں۔ بھگوان ہوتا تو یہ سب ہوتا ہی کیوں۔ نہ جانے کس پاپ کا نتیجہ ہے یہ، کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا، سارے برہمن مجھ پر تھو تھو کریں گے ‘‘

‘‘اب ایسا بھی نہیں ہے جیتندر۔ وہ کشن صاحب کے بیٹے نے نہیں کی مسلمان سے شادی، اور وہ دوشی کی لڑکی۔ کتنی مثالیں دوں۔ شروع میں سب کتنا ناراض تھے، اب سب ملتے ہیں ان سے ‘‘ ۔

‘‘ہاں وجے کے بھائی کی تو فوراً علیحدگی بھی ہو گئی تھی‘‘

‘‘اب علیحدگی کا کیا ہے، یہاں تو یہ مرض عام ہے۔ جیتندر اگر دونوں بچے خوش ہیں تو کیا یہ ممکن ہے ‘‘ بیوی کی آواز میں ایک موہوم سی امید تھی

‘‘پاگل ہو گئی ہو کیا۔ آئندہ ایسا سوچنا بھی نہیں ‘‘ جیتندر نے یہ باب بند کر دیا۔

عارف کو رات بھر نیند نہیں آئی تھی۔ صبح وہ ناشتے کی میز پر شان کا منتظر رہا، شان نے بھی باپ کا سامنا نہ کرنے کا پورا انتظام کیا ہوا تھا۔ عارف آفس سے جلد ہی گھر آ گیا

‘‘آج جلدی گھر آ گئے، خیریت‘‘ بیوی نے استہفامیہ نظروں سے پوچھا

‘‘ارے خیریت ہی تو نہیں۔ شان نے تو ناک کٹا دی ہے، میرا تو کام میں ذرا دل نہیں لگ رہا تھا۔ عزت دو کوڑی کی ہو جائے گی۔ اب اس سیدوں کے خاندان میں ہندومت کی قلم لگے گی۔ شجرہ نکال کر دیکھ لو، پچھلے چودہ سو سال سے خالص ہے ہمارا خاندان، اب اس سفیدے پر یہ خبیث کالک لگائے گا، سمجھاؤ اسے ‘‘

‘‘سمجھا تو رہی ہوں، کیا کروں، ایک سال سے سمجھا رہی ہوں، اس نے تو جیسے ضد پکڑ لی ہے ‘‘

‘‘بس یہی تمھارا قصور ہے، تم شروع میں ہی مجھے بتا دیتیں تو بات یہاں تک نہ پہنچتی‘‘ ۔ ‘‘میں تو سوچتا ہوں اس جیتندر خبیث کو فون کر کے کھری کھری سناتا ہوں کہ اپنی لڑکی کو قابو کرے، ہمارے خاندان کے نام پر بٹہ لگ جائے گا۔ اس ہندو کی تو قسمت کھل جائے گی، سیدوں میں جائے گی اس کی بیٹی‘‘

‘‘کوئی تدبیر سوچیں۔ شان کو اچھی مسلمان لڑکیوں سے ملاتی ہوں۔ میں نے تو منت مان لی ہے، آپ بھی نماز پڑھ کر دعا مانگیں، جس نے کبھی نماز نہ پڑھی ہواس کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ کتنا منع کرتی تھی میں شراب کو، مگر آپ نے ایک نہ سنی۔ ایسے ماحول میں بچے باپ کی سنتے ہی نہیں۔ بالکل امریکی ہو گئے ہیں ‘‘ عارف کی بیوی بھی جیسے بھری بیٹھی تھی، ایکدم پھٹ پڑی

‘‘لو اس میں بھی میرا ہی قصور نکل آیا‘‘ عارف نے کھسیا کے کہا

‘‘فون کی گھنٹی بجی تو بیگم عارف نے کیتلی کا پلگ نکال کر چائے ادھوری چھوڑ دی اور فون اٹھا لیا

‘‘ہیلو نیلم میں عارفہ بول رہی ہوں، کہاں ہو اتنے دنوں سے، تم نے تو ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا‘‘ دوسری طرف سے مسز احمد کی آواز ابھری

‘‘ارے نہیں عارفہ، بس ایسے ہی مصروفیت میں وقت ہی نہیں ملا‘‘

‘‘نیلم پہلے تو ہر دوسرے ہفتے ملاقات ہو جاتی تھی، اب تو کوئی تین ہفتے ہو گئے ہیں، ایسی کیا بات ہو گئی ؟‘‘

‘‘ارے بات کیا ہوتی؟‘‘ نیلم نے انجان بن کر پوچھا

‘‘کچھ نہیں میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی، تم نظر آئیں نہ عارف بھائی، بچے کیسے ہیں ‘‘ ؟

‘‘بچے ٹھیک ہیں، اسکول گئے ہوئے ہیں ‘‘

‘‘نیلم‘‘

‘‘ہاں ‘‘

‘‘نیلم پتہ نہیں یہ بات مجھے کہنی چاہئیے یا نہیں ؟‘‘

‘‘دیکھو عارفہ، یہاں تم ہی میرے سب سے زیادہ قریب ہو، اور کس سے مشورہ کروں، کس کے پاس جاؤں، اب تم بھی ہچکچاؤ گی‘‘

‘‘بھئی شان میرے بیٹے ہی کی طرح ہے، اسی لئے زبان کھولنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے ‘‘

‘‘ہوں ‘‘

‘‘برا نہ ماننا‘‘

‘‘کہو تو، میرے خیال میں مجھے پتہ ہے کہ تم کیا کہنے والی ہو‘‘

‘‘نیلم، شان اور شوبھا کا سلسلہ اب بہت بڑھ گیا ہے، ہر جگہ ساتھ نظر آتے ہیں، ہر وقت ایک دوسرے سے چپکے، جوان عمر ہے خیال رکھنا اور کوئی سلسلہ نہ شروع ہو جائے ‘‘

‘‘کیا کروں عارفہ، وہ کمینے اپنی بیٹی کو ذرا نہیں سمجھاتے، کیسے ڈورے ڈال رہی ہے ‘‘

‘‘تم صحیح کہہ رہی ہو مگر یہ بہت چھوٹی جگہ ہے بات کو پر لگ جائیں گے۔ پہلے سے ہی کچھ سدباب کرو، پھر ہم لوگوں کے بچوں پر بھی بہت منفی اثر پڑے گا‘‘

‘‘عارفہ تم ہی بتاؤ کیا کروں ‘‘ نیلم رو پڑی ’‘ گھر میں ہنگامہ برپا ہے، باپ بیٹے میں بات چیت بند ہے۔ شان بالکل الف ہو گیا ہے، ایک نہیں سن رہا‘‘

‘‘نیلم یہ عمر ہی ایسی ہے، زیادہ جھکاؤ تو ٹوٹ ہی نہ جائے۔ میرے خیال میں تو دونوں خاندان آپس میں مل کر بیٹھو، دیکھو کوئی حل نکل آئے۔ تم چاہو تو میں ایک دن جیتندر اور اس کی بیوی کو بلا لوں، تم لوگ بھی آ جاؤ‘‘

‘‘تم نے احمد بھائی سے پوچھ لیا ہے ‘‘

‘‘یہ ان ہی کا خیال ہے ‘‘

‘‘اور کسی کو مت بلانا، میں عارف سے بات کروں گی‘‘ ۔

‘‘شوبھا آج میرے امی ابو باہر گئے ہوئے ہیں، لنکن ابھی نئی لگی ہے، کپری تھیٹر میں ‘‘

‘‘ واؤ، میرے ماتا، پتا بھی گئے ہوئے ہیں، مگر اس وقت دوپہر میں فلم چل رہی ہے ‘‘

‘‘ہاں کپری میں دوپہر بارہ بجے میٹنی شو ہوتا ہے، میں تمھارا انتظار کرہا ہوں، بس دس منٹ میں پہنچو‘‘ ۔

شان نے شوبھا کو دیکھا تو خوشی سے لپٹا لیا۔ ‘‘یہ رہے ٹکٹ‘‘ اس نے شوبھا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے دھکیلا ‘‘چلو شروع ہونے والی ہے، عارف صاحب احمد انکل کے گئے ہیں دو چار گھنٹے تو وہیں رہیں گے ‘‘

شوبھا چلتے چلتے رک گئی ‘‘عجیب بات ہے، ماتا پتا بھی وہیں گئے ہیں ‘‘

‘‘اللہ خیر کرے۔ لگتا ہے احمد صاحب دونوں کو ملوا رہے ہیں۔ انہیں عارف صاحب کے غصے کا اندازہ نہیں ‘‘

‘‘پتا جی تو کہتے ہیں اس مسلے کو دیکھا تو جان سے مار دوں گا‘‘ پھر ہنس کر بولی ‘‘تمھیں تو وہ سنپولیا کہتے ہیں ‘‘

شان کے فون کی گھنٹی بجی تو اس کی ماں کی ہسٹیریا بھری آواز آئی ‘‘شان۔ پولیس تمھارے ابو اور جیتندر صاحب کو لے گئی ہے، دونوں لڑ پڑے تھے، ڈر تھا خون ہی نہ ہو جائے، بیٹا جلدی گھر آؤ، ان کی ضمانت کر کے چھڑانا ہے ‘‘

شان نے شوبھا کا ہاتھ پکڑا اور کار کی طرف بڑھ گیا۔

‘‘شان دو گھنٹے لگا دئے بیٹا‘‘ نیلم نے شان اور شوبھا کے ہاتھ میں ڈالے ہاتھ کو نظر انداز کر دیا۔

‘‘امی سول کورٹ میں دیر ہو گئی، جج نے شادی کرنے میں اتنی دیر لگا دی‘‘

‘‘آنٹی اب وہ دونوں نہیں لڑیں گے، اب لڑنے سے کوئی فائدہ جو نہ ہو گا، چلئے ضمانت کرا کے گھر لے چلتے ہیں ‘‘ ۔ شوبھا نے شان کی کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔

٭٭٭







گرمیِ بازار



معزز ناظرین، میں گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک کا نمائندہ لی من آپ سے مخاطب ہوں۔ گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک اس عظیم مقابلے کا آنکھوں دیکھا حال آپ تک پہنچائے گا۔ ہم گاہے بگاہے مقابلے کی تاریخ، دونوں کھلاڑیوں کی تیاری اور کھیل کے ماہرین کا تبصرہ آپ تک پہنچاتے رہیں گے۔ آپ اس مقابلے کے بارے میں پروگرام چینل سات آٹھ چھ پر اور اس کے علاوہ ڈش رکھنے والے ناظرین چینل چار دو صفر پر بھی دیکھ سکیں گے۔ آئیے آج اس کھیل کے پس منظر کا ذرا سا جائزہ لے لیں۔

دونوں کیمپوں میں تیاری زور و شور سے جاری ہے۔

یہ دوڑ ہے بھی بہت بین الاقوامی اہمیت کی حامل۔ یہ تو کسی کو نہیں یاد کہ سب سے پہلے یہ دوڑ کب منعقد ہوئی، اور زیادہ اہم بات یہ کہ پہلی دوڑ کون جیتا؟ ہزاروں سال قبل کی وہ تحریریں جو ماہرینِ آثارِ قدیمہ پڑھ سکے ہیں، چاہے وہ الورا کے غاروں سے ملی ہوں یا مصر کے اہرام سے، موئن جو دڑو کی کھدائی سے ملی ہوں یا مایا قوم کی وراثت سے، سب ہی میں اس دوڑ کا ذکر ملا ہے۔ یہ بات متنازعہ ہے کہ یونان کے پہلے اولمپک مقابلوں میں اس دوڑ کو شامل کیا گیا تھا یا نہیں، اسی لئے اسے جدید اولمپک کھیلوں میں شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن شائقین اور ان سے بڑھ کر اس دوڑ میں شرطیں بدنے والوں نے نام بدل کر کبھی اصول بدل کر اسے کسی نہ کسی نام سے شامل کر رکھا ہے۔ گویا لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا صرف خاص خاص شائقین ہی اس کی بدلی شکل میں کھلاڑیوں پر نظر رکھتے ہیں اور ہار جیت میں اپنی اپنی ٹیم کی ہمت بدلاتے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی الزام رکھتے ہیں کہ بعضے خود کھلاڑیوں کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ اس دوڑ میں شریک ہیں۔ یہاں منتظمین کے حسنِ انتظام کی داد نہ دینا کھیل کی روح کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

خرگوش اور کچھوے کی یہ دوڑ دنیا کی تاریخ میں مسلمہ اہمیت کی حامل ہے۔ بعض مورخ تو اس کے اثرات جغرافیائی حدود کی ترتیب اور اقوام کے عروج و زوال پر بھی دیکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان کے چوگان یا انڈیا پاکستان کی کرکٹ ڈپلومیسی کے اتنے دور رس اثرات نہیں دیکھے گئے جتنے اس دوڑ کے۔ یہ ضرور ہے کہ مختلف زمانوں میں اسے مختلف برِ اعظموں میں منعقد کیا گیا یوں اس کے انعقاد کا اعزاز صرف ایک خطے یا قوم تک محدود نہیں رہا۔ دوسری اہم تبدیلی یہ بھی آئی کہ گو پرانی دوڑوں میں ہار جیت کے نتائج اتنے واضح نہیں تھے لیکن جدید مورخ اس دوڑ میں ہار جیت کا باقاعدہ حساب رکھنے لگے ہیں۔ اب ہار جیت کے اسباب پر ریسرچ ہوتی ہے، پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جاتی ہیں اور اگلی دوڑ کے شرکاء کو راہ کے خطرات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ کہیں دوڑ کی کثرت اسے عمومیت کا شکار نہ کر دے اس لئے اب ہر صدی میں یہ دوڑ ایک یا دو بار سے زیادہ منعقد کرنے کی بھی ممانعت کر دی گئی ہے۔ یہ دوڑ کن تاریخوں میں منعقد ہو، اس امر کا فیصلہ ترقی پسندی اور ذہنی بالیدگی کا ایک بین ثبوت ہے۔ یعنی اب دورِ جدید میں دوڑ کی کوئی تاریخ ہی مقرر نہیں، بلکہ یہ طے ہوا کہ جب پہلے کا کوئی ہارا ہوا کھلاڑی یہ سمجھے کہ وہ مقابل کو زیر کرنے کے قابل ہو گیا ہے تو وہ کھلے عام دعوتِ مبارزت دے۔ یہ بھی کسی طرح طے پا گیا کہ مبارزت تو بس نام کی ہو، کھیل کو کھیل ہی سمجھا جائے، مقابلہ ہمیشہ دوڑنے اور متعینہ منزل پر پہلے پہنچنے کی صورت ہو۔ لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ جو ایک مرتبہ جیت گیا وہ کوشش کرنے لگا کہ حریف کو اتنا بے دم کر دے کہ کوئی ایک عرصۂ دراز تک دعوتِ مبارزت کے قابل نہ رہے۔

اس حالیہ دوڑ کے لئے کس حریف نے دوسرے کو للکارا، یہ بات کچھ واضح نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ پچھلی کئی دوڑوں سے خرگوش بہت مستقل مزاجی سے جیت رہا تھا۔ ایک عام خیال یہ تھا کہ پے در پے فتوحات کے نشے میں خرگوش اپنا توازن اور جیت کی لگن کھو بیٹھے گا۔ لیکن آپ اسے خرگوش کی چالاکی کہیں، مکاری کہیں یا مستقل مزاجی۔ فتح کے نشے میں چور اور بہکے قدم دیکھے تو اکثر مخالفین کی امید بڑھی کہ اب نہ جیت سکے گا لیکن غیر جانبدار مصنفین نے پچھلی کئی دوڑوں میں اسے فاتح قرار دیا تھا۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ جیت ایک نشہ ہے اور ہم جانتے ہی ہیں کہ نشے کی عادت بن جاتی ہے۔ اور نشے کا عادی فرد ہر قیمت پر نشہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خواہ وہ جیت کا نشہ ہی کیوں نہ ہو، ٹوٹنے لگے تو انسان شیطان بن جاتا ہے اور شیطان انسان کا روپ دھار سکتا ہے۔

اب آپ کا نمائندہ لی من آپ سے اجازت چاہتا ہے۔ آئندہ پروگرام میں شامل ہونا مت بھولئیے گا۔

خواتین و حضرات لی من گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک کی جانب سے آپ کی خدمت میں۔ آج کا پورا پروگرام بغیر کسی اشتہار کے آپ تک پہنچے گا۔ یہ بذاتِ خود اک نعمت ہے۔ اور نہیں تو اسے صرف اسی لئے دیکھئیے کہ یہ بغیر کسی اشتہار کے ہے۔ اشتہار ہمارے سماجی ڈھانچے کا ایک لازمی جز بن چکا ہے۔ بنا اشتہار کوئی چیز یوں نہیں ہوتی کہ بنا مول کے قدرت نے کوئی شے مفت رکھی ہی نہیں۔ آج کے پروگرام میں ہم آپ کو دونوں کھلاڑیوں کے کیمپوں کی سیر کرائیں گے۔ آپ کو کھیل کے قوانین تو یاد ہی ہیں۔ ان کیمپوں میں اکثر بہت اہم اور خفیہ فیصلے بھی کئے جاتے ہیں، لہذا جو آپ یہاں دیکھیں گے یا سنیں گے اسے کسی کیمپ تو پہچانا خلافِ قانون ہے۔ آئیے پہلے چلتے ہیں کچھووں کے کیمپ کی جانب۔

اب کیوں کہ دوڑ کی تاریخ مقرر ہو چکی ہے تو دونوں کیمپوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ادھر کچھوے کے حامیوں میں یہ عزم اجتماعی کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کر لیں گے۔ ادھر خرگوش کے حامی گو تعداد میں کم ہیں لیکن ان کے پاس دوڑ کے لئے بہترین لباس، سبک رفتار جوتے، نقشہ، کمپاس، موسم جانچنے کے آلات، ہر طرح کے لوازمات موجود ہیں۔ حواریوں کا ایک جمِ غفیر ہے جو کھلاڑیوں کو اپنی پختہ پشت پر اٹھائے پر جوش اور ولولہ انگیز نعرے لگا رہا ہے:

‘‘کل بھی کچھوا جیتا تھا آج بھی کچھوا جیتے گا‘‘ فلک شگاف نعروں سے زمین تھرا رہی ہے۔ ان کے جذبات سے صاف ظاہر ہے کہ اس دفعہ اور کچھ نہیں تو جذبہ شمشیر معاف کیجئیے گا میں غلط کہہ گیا، جذبہ کچھوا ضرور خرگوش کے سب آلات اور تیاری پر ضرور غالب آ جائے گا۔

‘‘ساتھیو، ہم پہلے بھی یہ دوڑ جیت چکے ہیں، اس بار بھی ہمیں جیت سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک نوجوان کچھوا بہت جذبے سے تقریر کر رہا ہے۔ سامنے میدان میں کچھووں کی صفوں کی صفیں لگی ہیں۔ دائیں ہاتھ پر نر کچھوے بیٹھے ہیں جبکہ بائیں ہاتھ پر مادہ کچھویات جمع ہیں۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ کچھویات نے اس دوڑ میں کبھی زیادہ فعال کردار ادا نہیں کیا۔ یہاں یہ کہنا بے محل نہیں ہو گا کہ کچھووں کے تاریخ داں زیادہ تر نر کچھوے ہی ہیں، مادہ کچھوی مورخ تو بس آٹے میں نمک کے برابر سمجھ لیں۔ کچھویات کی اس میدان میں موجودگی از خود ایک بڑا قدم ہے۔ پے در پے شکست کھانے کے بعد جو کچھوا شکست کمیشن بنایا گیا تھا اس کی سفارشات کی روشنی میں یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس کمیشن کی سفارشات بہت واضح اور آسان تھیں۔ ان میں صاف بتایا گیا تھا کہ اس شکست کی ذمہ داری روایات سے انحراف اور خرگوش کی چال اپنانے کی روش پر عائد ہوتی ہے۔ خرگوشوں نے اپنی روایتی چالاکی سے دوڑ جیتنے کے لئے جو آلات اور سائنسی حقائق سے مدد لینی شروع کر دی تھی، ضروری تو نہیں کہ کچھوے اپنی روایات کو چھوڑ کر ان کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ اس سلسلے میں کچھووں میں یقیناً اختلاف رائے بھی دیکھا گیا ہے۔

‘‘پچھلی دوڑ میں کچھوا بہت تھک گیا تھا۔ راستے میں پانی کی فراہمی بھی ناکافی تھی۔ اس دفعہ اگر دوڑ کے دوران وقفے، وقفے سے بارش ہو جائے تو ہمارے امیدوار کے امکانات بہت روشن ہیں ‘‘ ۔ ایک کچھوے نے اپنی پشتِ سخت میں سے گردن نکال کر رائے دی۔

‘‘بہت صائب رائے ہے۔ دوستو یاد ہی ہو گا کسی دانشور کا کہا کہ ‘‘ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ یہ یقیناً اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ یہ مٹی نم تو کیا کیچڑ ہو گئی لیکن محترم دانشور یہ بھول گئے کہ زرخیزی کے لئے کئی ہاتھوں کا مل کر کام کرنا بھی تو ضروری ہے۔ آئیے سب مل کے دعا کر تے ہیں کہ راستے میں وقفے وقفے سے بارش ہو کہ ہمارے امیدوار کو تھکن اور پیاس سے نجات ملے۔ اجتماعی دعا کے لئے سب کچھووں سے استدعا ہے کہ اپنے اگلے پنجے بلند کریں۔ بہت آزمودہ طریقہ ہے۔ اب ہمیں فتح سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘ ۔

‘‘کل بھی کچھوا جیتا تھا آج بھی کچھوا جیتا ہے ‘‘

‘‘ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘‘ ۔

پورا میدان پر جوش نعروں سے گونج اٹھا ہے۔ لیکن یہاں بھی اختلاف نظر آ رہا ہے۔ کچھووں کے ایک مختصر سے گروہ کو دھکے مار کر باہر نکالا جا رہا ہے۔ وہ غالباً یہ مشورہ دے رہے تھے ہمیں بھی خرگوش کی طرح تمام مہیا سائنس سے استفادہ کرنا چاہئیے کہ جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ آئیے ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ خر گوش اس دوڑ کے لئے کیسے تیاری کر رہے ہیں۔

میرے ساتھ رہئیے۔ یہ داہنے جانب جو کھلا میدان ہے اس میں خرگوشوں کا کیمپ لگا ہے۔ کامریڈ، یہاں تو مجمع چوتھائی بھی نہیں۔ اگر یہ اعداد کی جنگ ہوتی تو کچھوے تو کب کے جیت چکے ہوتے۔ ایک زمانہ تھا کہ شاید چھ درجن ہی کوئی ایک ہزار پر بھاری پڑ جاتے، بھئی تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے۔ تاریخ کے کم از کم یہ باب تو جھوٹ بولنے سے رہے کہ ہم نے خود لکھے تھے۔ یہ کوئی پاک و ہند کی جنگوں کی تاریخ تو نہیں، ہاری ہوئی جنگوں کی تاریخ لکھی ہی نہیں جاتی۔ زیادہ تر خرگوشوں نے دھوپ سے بچنے کے لئے آنکھوں کے سامنے سیاہعد سے لگا رکھے ہیں۔ خاصی بد نظمی اور بد انتظامی ہے۔ کچھووں کے کیمپ میں جو نظم و ضبط تھا وہ یہاں نہیں دکھائی دے رہا۔ نر اور مادہ خرگوشوں کے ٹولے ادھر ادھر الٹے سیدھے بکھرے پڑے ہیں۔ لگتا ہے اپنی عصمت اور شرافت کا انہیں اب کوئی خیال نہیں۔ جہاں کچھووں نے ایک ہی جیسا لباس پہن کر نظم و ضبط کا بہترین مظاہرہ کیا تھا، یہاں اتنا ہی بے ہنگم پن ہے۔ کچھ خرگوشوں نے تو لباس کا تکلف ہی گوارا نہیں کیا۔ جو ذرا مکلف ہیں تو وہ بھی ہر رنگ، ساخت اور ناپ کے لباس میں ملفوف ہے۔ لگتا ہے تنوع اور اختلاف انہیں تنگ نہیں کر رہا۔ بس رواداری سے جس نے جو پہن رکھا ہے اسے اس کی اجازت دے رہے ہیں، عجیب نسل ہے بھئی خرگوش بھی، رواداری میں یہ ضرور کچھوے کو مات دے گئے۔ نعرے یہاں بھی ہیں لیکن اکثر خرگوش ڈھول، تاشے، گٹار اور شہنائی جیسے آلات سے لیس آئے ہیں۔ کچھ محوِ رقص ہیں، کچھ محوِ غنا، ایک خرگوش بغیر تار کا مائیکروفون اپنی قمیض میں اٹکائے مجمع کے جذبات میں بھنور ڈال رہا ہے ،ا بال کی آواز یہاں سے سنی جا سکتی ہے۔

‘‘جیت ہماری وراثت ہے۔ ہمارے خون میں شامل ہے۔ ہمارے جسم کی ساخت ہی ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ دوڑ میں سب سے آگے رہے۔ یہ کچھوا‘‘ حقارت سے مقرر نے زمین پر توک دیا۔ ‘‘ان کی اب یہ ہمت کہ ہمیں دوبارہ مقابلے کی دعوت دیں۔ پچھلے مقابلے میں ہم فاتح تو رہے تھے لیکن ہمارا امیدوار بہت تیز دوڑنے کی وجہ سے تھک کر بہت پیاسا ہو جاتا تھا، اور پانی کی فراہمی کا نظام بہت ناقص تھا۔ ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ کوئی رکاوٹ بھی قدرت پر نہیں چھوڑو، اس کے سدباب کا طریقہ سوچو۔ ایسا نہ ہو یہ ہمارے کھلاڑی کی فتح میں آڑے آئے، ہمیں سر جوڑ کر اس کا کوئی توڑ نکالنا ہی ہو گا۔ ہماری نسل حکمرانی کے لئے پیدا ہوئی تھی اور حکمران ہم رہیں گے ‘‘

‘‘ایسا کیوں نہیں کرتے کہ بادلوں کو بانس سے ہلا کر جب چاہیں پانی بر سالیں۔ ‘‘ ایک خرگوش نے رائے دی۔ یہ دیکھنے میں خرگوش کم اور کتابی کیڑا زیادہ معلوم ہوتا تھا۔

‘‘یہ کیسے ممکن ہے۔ اب بھلا آسمان پر کون تھگلی لگائے گا؟‘‘

‘‘یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ اگر اسے یہ مقبول نہ ہوتا کہ ہم بادلوں کو بانس سے ہلا سکیں تو وہ بادل بنا کر ہمارے اوپر اتنے نیچے چلاتا ہی کیوں ؟

‘‘ٹھیک ہے یہ تمھاری ذمہ داری ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ فیصلہ خفیہ ہے تاکہ دشمن کا کیمپ بھی اسی حکمت عملی کو نہ اپنا لے ‘‘

‘‘نقل کے لئے بھی تو عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر نقل اپنی سماجی حدود میں رہ کر کی جائے تو وہ بس نقل کی بھی نقل ہو گی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم کچھووں کی حکمت عملی سے باخبر رہیں۔ ان میں سے کئی اس سخت کھال کے اندر دماغ بھی رکھتے ہیں۔ ‘‘ ایک ذرا عمر رسیدہ خرگوش نے متفکر لہجے میں کہا

‘‘آپ فکر مت کیجئے، اس کا انتظام کر لیا ہے ‘‘ ایک دبلے پتلے خرگوش نے مجمع کو یقین دلایا۔

‘‘وہ کیسے ‘‘

‘‘اس سے زیادہ بتانا غالباً یہاں غیر ضروری ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئیے کہ لالچ کمزور لمحے پیدا کرتی ہے، ہمارا کام صرف موقع کی تلاش ہے، کئی کچھوے اپنی مقر رہ خوراک سے زیادہ کے طلبگار ہیں، جو ہم فراغ دلی سے انہیں فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘ ناظرین، دونوں کیمپوں کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں کو اپنی فتح کا یقین ہے۔ یاد رکھئیے گا آج جو کچھ بھی آپ نے دیکھا اور سنا ہے اسے کسی بھی کیمپ تک پہچانا جرم ہے۔ اب ہم واپس اپنے اسٹوڈیو بیجنگ چلتے ہیں، آئندہ پروگرام میں شامل ہونا نہ بھولئے گا، آپ کا اللہ حافظ ہو۔

معزز ناظرین گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک کی جانب سے آپ کا نمائندہ لی من حاضر ہے۔ آپ کو یاد ہو گا پچھلے پروگراموں میں ہم آپ کو اس مقابلے کی تاریخ بتا چکے ہیں اور پھر ایک مقابلے میں آپ دونوں کیمپوں کی سیر بھی کر چکے ہیں، آئیے آج ہم دونوں کھلاڑیوں سے آپ کی ملاقات کرائیں گے۔ آئیے پہلے کچھوے سے ملاقات کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ دونوں کھلاڑیوں کو اندرونی مقابلوں کے بعد کروڑوں

کھلاڑیوں میں سے منتخب کیا گیا ہے۔ کچھوے کو ہم نے تین بجے اسٹوڈیو میں دعوت دی تھی، اب چار بج رہا ہے، لیکن وہ ابھی تک نہیں آئے ہیں، جب تک آپ موسیقی سے لطف اندوز ہوئیے۔ خود کچھوا بھی اکثر عین اس وقت رقص و سرود میں رہا ہے کہ جب پیروں تلے سے زمین کھینچی جا رہی تھی۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کچھوا دوڑ کے آغاز پر بھی دیر سے نہ پہنچے۔

‘‘آہا ناظرین، کچھوا اسٹوڈیو پہنچ گیا ہے، آئیے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ کہئیے جناب کیسی تیاری چل رہی ہے ‘‘ ؟

‘‘بڑی بھرپور تیاری ہے۔ استخارہ کر کے مناسب تاریخ بھی دیکھ لی ہے، میں نے تو خواب میں یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک سفید گھوڑے پر سوار سبز عمامے میں ملبوس نورانی صورت والے بزرگ مجھے فتح کی خوش خبری دے گئے ہیں۔ ‘‘

‘‘بہت اچھی بات ہے کچھوے صاحب، یہ بتائیے کچھ ورزش، کچھ پریکٹس‘‘

‘‘بالکل جناب۔ میں روز وزن اٹھاتا ہوں، اکھاڑے بھی جاتا ہوں ‘‘

‘‘لیکن کچھوے صاحب یہ تو دوڑ کا مقابلہ ہے ‘‘ ؟

‘‘بھئی ہمارا اپنا طریقہ ہے تیاری کا۔ اس دفعہ آپ کو حیران کر دیں گے ‘‘

‘‘بہت شکریہ کچھوے صاحب۔ تو ناظرین آپ نے دیکھا کچھوا کتنا پر اعتماد ہے۔ اب تو استخارے میں تاریخ بھی نیک آ گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ قمر در عقرب نہ ہو۔ اس دفعہ بڑے کانٹے کا مقابلہ رہے گا‘‘ ۔ لی من آپ کا نمائندہ اب آپ سے اجازت چاہتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ خرگوش سے بھی آپ کی ملاقات کرا دیں ‘‘ ۔

‘‘ناظرین، وعدے کے مطابق لی من آپ کی خدمت میں، اور خوشخبری یہ کہ ہمارے ساتھ خرگوش بھی موجود ہے ‘‘ لی من خر گوش کی طرف مڑتا ہے۔ ‘‘کہئیے دل کی دھڑکنوں کا کیا شمار ہے، کیسی تیاری ہے آپ کی‘‘ ۔

‘‘تیاری مکمل ہے، اس دفعہ بھی کچھوے کو شکست فاش دیں گے۔ میری حکمتِ عملی اپنے مخالفین کے لئے یہ ہے کہ مکھی کو بھی ہتھوڑے سے مارو۔ ‘‘ ۔

‘‘آپ پچھلی کئی دوڑوں میں فاتح قرار پائے ہیں، اگر کچھوا اس دفعہ بھی ہار گیا تو اس کے لئے بہت منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ کچھوے اس دور میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ آپ سے دور میں کچھوے نے اپنے بہت سے وسائل داؤں پر لگا رکھے ہیں۔ کیا حرج ہے کہ اگر اس دفعہ کچھوا جیت جائے ‘‘

‘‘بہت حرج ہے۔ اس سے میرے مفادات پر ضرب پڑے گی اور میرے مفادات ظاہر ہے کہ دوسروں کی ضروریات سے مقدم ہیں۔ میرا تو مشورہ یہی ہے کہ خاموشی سے میری برتری تسلیم کر لے تو میں کچھوے کو اپنی خوراک اور دوسری سہولیات سے کچھ استفادے کا بھی موقع دے سکتا ہوں۔ تم یہ کس قسم کے احمقانہ سوالات کر رہے ہو۔ تم میرے ساتھ ہو یا اس کے ساتھ ہو، جو کچھوے کے حمایتی ہیں میری جیت ان کے لئے نقصان دہ ہو گی‘‘ ۔

‘‘آپ مجھے دھمکا رہے ہیں، میں تو ایک صحافی ہوں، میں کسی کی طرف نہیں ‘‘ ۔

‘‘غیر جانبداری ایک ڈھلوسکا ہے، مجھے کم از کم یہ قابل قبول نہیں۔ یا میرے ساتھ ہو یا نہیں ہو، میرا مشورہ ہے کہ اپنا قبلہ چن لو، اور وہ بھی جلد، اب مجھے مزید گفتگو نہیں کرنی یہ انٹرویو ختم‘‘ ۔

خواتین و حضرات، لی من آپ کی خدمت میں۔ وہ دن آ ہی گیا جس کا ہم سب کو انتظار تھا۔ دونوں کھلاڑی میدان میں اتر چکے ہیں۔ دونوں کیمپوں کے حواری بھی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔ بظاہر دونوں کی تیاری بھرپور ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں۔ خرگوش کی فتح یقینی ہے، خوف یہ ہے کہ اس دوڑ میں کچھوا اپنی ذات کو نقصان نہیں پہنچا بیٹھے۔ لیجئیے دوڑ شروع ہو گئی ہے، خرگوش بہت تیزی سے آگے نکل گیا ہے، بلکہ پہلی منزل پر پہنچ کے سستا رہا ہے۔ کچھوا بھی بہت ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ چلئے اب ہم اختتامی منزل پر پہنچ کر ان کا انتظار کرتے ہیں، دیکھیں کون جیتتا ہے، آئیے اس وقت تک موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں ؟

خوں گشتہ

بس آنے میں ابھی پورا ایک گھنٹہ باقی تھا، میں نے ریسٹورانٹ کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔ یہ ریسٹورانٹ ایسا ہی تھا جیسا صدر کراچی میں آج سے کوئی بیس برس پہلے ریسٹورانٹ ہوا کرتے تھے۔ بیس برس پہلے یوں کہ اب کراچی میں ریسٹورانٹ کے نام پر خالی کمرے ہوتے ہیں، جن میں صرف کرسیاں اور میزیں بیٹھی رہتی ہیں، گاہک اس ڈر سے دور رہتے ہیں کہ مرنا ہو تو کم از کم گھر میں تو مریں۔ کسی بم دھماکے میں مرنے کے بعد تو لاش کی شناخت بھی ایک مسئلہ بن جاتی ہے اور پھر اگر میت کے ٹکڑے جمع کرنے میں ذرا سی بھی لغزش ہو جائے تو کسی کا ہاتھ اور کسی کا پاؤں جمع کر کے ایک چادر میں باندھا اور سفر آخرت پر روانہ کر دیا۔ اتنے لمبے سفر پر بھی اپنا پورا جسم تک ساتھ نہیں لے جانے دیتے۔

ریسٹورانٹ تین چوتھائی بھرا ہوا تھا۔ زیادہ تر میزوں پر لوگ تین اور چار کے گروہوں میں بیٹھے تھے۔ کراچی سے ایک مختلف بات یہ بھی تھی کہ عورت اور مرد گاہکوں کی تعداد تقریباً برابر ہی تھی۔ جینز میں ملبوس ایک لڑکی کاؤنٹر پر آرڈر دے رہی تھی، اس کے بازو میں ایک ادھیڑ عمر کے صاحب اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، حیرت یہ تھی کہ نہ اسے گھور رہے تھے اور نہ ہی اپنا جسم اس کے جسم سے رگڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بھئی فرق تو بہت سے تھے اس ریسٹورانٹ اور کراچی کے ریسٹورانٹوں میں، صرف ذرا دھیان دینے کی ضرورت تھی۔ مجھے اتفاق سے دو لوگوں کی ایک خالی میز مل گئی تو میں اس پر بیٹھ گیا۔ میرے بیٹھتے ہی ایک لڑکی تیزی سے میری جانب آئی، ہاتھ میں تھاما جگ اور گلاس میری میز پر رکھا اور پوچھنے لگی ‘‘یس‘‘

یہ یس ایک استفہامی ابتدائیہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اردو میں جواب دیں تو اس کی جان میں جان آ جاتی ہے، ورنہ اس کی ٹوٹی پھوٹی انگریزی کا گاہک کی ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے مقابلہ چلتا ہے۔

‘‘کیا ہے کھانے میں، لیکن مجھے جلدی ہے، صرف پچاس منٹ میں بس آ جائے گی‘‘

‘‘آپ فکر نہیں کریں سر، دال، نہاری، پایہ، آلو قیمہ، چکن مکھانی سب تیار ہے ‘‘

‘‘ٹھیک ہے دال اور آلو قیمہ لے آؤ‘‘

‘‘نان کتنی لاؤں ‘‘ ؟

اس کو آرڈر دے کر میں نے نزدیک میز پر رکھا اخبار اٹھا لیا۔ پہلا صفحہ پاکستان اور امریکہ کی خبروں پر مبنی تھا۔ پہلے صفحے کے دامن میں پاکستان کے سستے ٹکٹوں، عمرہ کے قافلوں اور ایک مذہبی عالم کی نیویارک آنے کے اشتہار لگے تھے۔ میں نے چند ہی منٹوں میں اکتا کر اسے ایک طرف رکھ دیا، اور ریسٹورانٹ میں بیٹھے لوگوں کو خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگا۔ آج مجھے اپنی طرح کوئی اکیلا بیٹھا نظر نہیں آیا۔ کاؤنٹر کے پیچھے چند لڑکیاں کھانا نکال رہی تھیں، کچھ ہی فاصلے پر ایک ادھیڑ عمر کے صاحب شلوار قمیض میں ملبوس برتن دھونے میں مصروف۔ ایک نوجوان پیسوں کی مشین پر بیٹھا تھا۔ مصروف ریسٹورانٹ تھا، وہ شاید اس کا مالک تھا، جانفشانی سے کام کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ذرا ہاتھ رکا تو اٹھ کر میری میز پر آ گیا۔

‘‘بہت دنوں بعد نظر آئے طاہر صاحب‘‘ کسی اچھے دکاندار کی طرح وہ ہر گاہک کو اس کے نام سے پکارتا

‘‘ ہاں بس ایسے ہی کچھ مصروف رہا، بیٹھو‘‘

‘‘ارے بیٹھ گیا تو پھر اٹھنے کا کہاں دل چاہے گا، کسی بھی منٹ پر بھاگنا پڑے گا پیسوں کی مشین پر۔ طبیعت تو ٹھیک تھی‘‘ اس نے پھر کریدا

‘‘ہاں ٹھیک ہی تھا‘‘ میں نے گول مول سا جواب دیا، اب اسے بھلا کیا بتاتا۔ ابھی چند ماہ قبل ہی تو اس سے سلام دعا شروع ہوئی تھی اور وہ بھی صرف اس ریسٹورانٹ کی چہار دیواری تک محدود تھی۔

‘‘کوئی مسئلہ ہو بے تکلف کہئیے گا‘‘ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ‘‘او بابا جی ذرا دھیان سے، لو جی میرا بلاوا آ گیا‘‘ بیسن پر برتن دھوتے صاحب کے ہاتھ سے پلیٹ ٹوٹی تو وہ ادھر چلا گیا۔

بس میں بیٹھا تو برابر میں بیٹھی گوری ذرا سرک کر اور پرے ہو گئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جگہ خالی ہونے کے باوجود میں خود اس کے برابر میں بیٹھنے کی ہمت نہیں پا رہا تھا، لیکن اس نے خود ہی اپنی برابر کی سیٹ تھپتھپا کے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ یہی کوئی پچاس کے پیٹھے میں رہی ہو گی، تنہا سفر کر رہی تھی۔ میرے چہرے پر نجانے ایسا کیا نظر آیا کہ رہ نہ سکی اور بیٹھنے کو کہہ بیٹھی۔ باقی سفر خاموشی سے ہی گزرا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی، میں اپنے جوتوں کی سمت۔ گھر بس اسٹاپ سے کوئی پندرہ منٹ کی پیدل دوری پر تھا۔ اتر کر سیدھا چلنے لگا، پھر ایسے ہی مڑ کر اپنی تسلی کر لی وہ اس اسٹاپ پر نہیں اتری تھی۔ گھر پہنچ کر بھی میں کچھ دیر باہر ہی کھڑا رہا۔ جس ماحول میں، میں نے تربیت پائی تھی اس میں بیٹی کے گھر رہنا اتنا آسان نہ تھا۔

مجھے نیو یارک آئے ابھی کوئی ایک سال ہی ہوا تھا۔ بیٹی کی شادی کے بعد میں تنہا رہ گیا تھا۔ بیوی کے انتقال کے بعد، صرف ایک ہی بیٹی تھی وہ بھی شادی ہو کر امریکہ چلی گئی۔ صرف ایک بھائی تھا میرا وہ خود شادی ہونے کے بعد پچھلے گیارہ سالوں سے دوبئی میں رہ رہا تھا۔ شادی کے تین سال بعد پہلی بار بیٹی نیویارک سے گھر آئی تو مجھے دیکھ کر دکھی سی ہو گئی۔

‘‘بابا آپ نے کتنا وزن گرا لیا ہے۔ آپ ڈھنگ سے کھاتے بھی نہیں ‘‘ میں نے اسے کسی نہ کسی طرح یقین دلا لیا کہ میں اب بھی پہلے جیسا ہوں، کچھ عمر کا بھی تقاضہ ہے، اب کوئی پینسٹھ سال کی عمر ہونے کو آ رہی ہے، خوراک اور نیند ویسے ہی عمر کے ساتھ کم ہو گئی ہیں۔ دو سال بعد پھر آئی تو اب تک دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ داماد اتنے عرصے میں ایک بار بھی نہ آ سکا، بہت مصروف ڈاکٹر تھا۔

‘‘مطب چھوڑنا اتنا آسان نہیں ہے وہاں بابا۔ کسی کو اپنی جگہ بٹھانا پڑتا ہے، یہاں کی طرح آپ منہ اٹھا کر نہیں چل دیتے کہ مریضوں کا خدا حافظ ہے ‘‘ پچھلی بار جب آئی تھی تو یہاں کی طرح اور وہاں کی طرح کی اتنی تکرار نہیں تھی۔ اس دفعہ اسے تضادات کا کچھ زیادہ ہی خیال آ رہا تھا۔

‘‘اب عادت بگڑ گئی ہے بابا۔ بس اب آپ بھی چلیں میرے ساتھ‘‘ ۔ یہ آپ بھی چلیں تو جیسے تکیہ کلام بن گیا اس کا۔ میرا بھی اپنے نواسے نواسی کے ساتھ بہت دل لگتا۔ کیسی رونق رہتی تھی۔ چند ہفتے رہ کر وہ پھر چلی گئی، یہ وعدہ لے کر کہ اگر وہ اسپانسر کر دے تو میں بھی امریکہ چلا آؤں گا۔ اس نے نہ جانے کون سا وکیل کیا کہ ایک ہی سال میں ویزا آ گیا۔

‘‘ بابا اصل میں انہوں نے اس وجہ سے جلد ویزا دے دیا کہ اب آپ تنہا ہیں یہاں۔ یہ لوگ بھی اپنے تنہا بزرگوں کا خیال رکھتے ہیں ‘‘ ۔ اس بھی کے اضافے نے مجھے کچھ سہارا دیا ورنہ میں ارشد کے نہ آنے سے ذرا گریزاں تھا۔

‘‘میں نے ارشد سے بات کر لی ہے بابا، وہ خود بھی بہت خوش ہیں ‘‘ اور پھر ایک دن ارشد کا فون بھی آ گیا

‘‘جی انکل آپ بھی یہاں آ جائیں۔ وہاں اکیلے ’پڑے ‘ کیا کر رہے ہیں، یہاں آ جائیں تو اچھا رہے گا، آپ کا اپنا گھر ہے ‘۔ ارشد کے فون سے میرے انکار کی دیوار تو مسمار ہو گئی، لیکن نہ جانے کیوں دل میں ایک چبھن سی رہ گئی جسے میں کوئی نام نہ دے سکا۔

گھر تو آرام دہ ہے۔ گھر کے سامنے اور پیچھے، دونوں طرف باغ بھی لگا ہے۔ چار کمروں کا گھر، تین اوپر کی منزل پر اور ایک نیچے مہمان کمرہ، جسے ارشد اور نگہت نے میرے لئے صاف کر دیا۔ دونوں بچے اب تین اور چار سال کے ہو گئے تھے۔ دونوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک آیا روز آتی۔ آیا کے آنے سے اتنا ہوا کہ اب نگہت نے بھی نوکری شروع کر دی تھی۔ گو میرے خیال میں تو ارشد کی آمدنی اتنی کافی تھی، لیکن نہ جانے نگہت کو نوکری کی ایسی کیا ضرورت تھی۔

‘‘بس بابا گھر میں پڑے پڑے بور ہو جاتی ہوں ‘‘

‘‘بیٹا دونوں چھوٹے بچے ہیں، تمھیں بور کہاں ہونے دیں گے۔ مجھے بہت مزا آتا ہے ان کے ساتھ‘‘

‘‘آپ ان کے پیچھے سارا دن بھاگیں تو پتہ چلے، یہ تو آیا ہی کے بس کے ہیں ‘‘ ۔ جو نسل اپنی ہی پیدا کی ہوئی اولاد کی تربیت میں تھک جائے وہ جانے کیسی نسل پروان چڑھائے گی، میں نے دل میں سوچا۔ خیر میں ہوں اب بچوں کی تربیت میں ذرا اپنی روایات کا رنگ بھی رہے گا۔

‘‘بابا آپ بچوں سے اردو میں بات نہ کیا کریں۔ آپ تو انگریزی بول سکتے ہیں ‘‘

‘‘لیکن بیٹا اگر ابھی سے ان کے کان مانوس نہ ہوئے تو پھر عادت نہ رہے گی۔ یہی عمر ہے کہ بچہ ہر بات آسانی سے سیکھ لیتا ہے ‘‘ ۔

‘‘لیکن اس سے یہ صرف کنفیوز ہوں گے بابا۔ اب اس سال انشاء اللہ چھوٹا کنڈر گارڈن میں اور بڑا پری سکول میں جائے گا۔ وہاں سب سے انگریزی ہی میں بات کرنی ہو گی‘‘

‘‘اسی لئے تو میں کہہ رہا ہوں، وہاں تو یہ مسلسل انگریزی بولیں گے بھی اور پڑہیں گے بھی، اردو سیکھنے کا موقع صرف گھر پر ہی مل سکتا ہے ‘‘ ۔

‘‘نہیں بھی سیکھ سکیں گے تو کیا فرق پڑے گا، لیکن اگر انگریزی اچھی نہیں ہوئی تو اس معاشرے میں کیسے رہ سکیں گے ‘‘ نگہت نے پیار سے مجھے سمجھایا۔

میری عادت ایسی پختہ تھی کہ پھر بھی خود بخود اردو ہی زبان سے پھسل جاتی۔ یہ سلسلہ اس وقت بالکل مفقود ہو گیا جب ایک دن کھانے کی میز پر ارشد نے مجھے ٹوک دیا۔ اب میں ‘‘اس ‘‘ کے گھر میں رہ رہا تھا۔ یہ بات اس نے مجھ سے کہی تو نہیں لیکن مجھے اس کا ادراک دن رات رہتا۔ اب یہ ہو گیا تھا کہ اگر عادت سے مجبور کوئی بات اردو میں شروع بھی ہو جاتی تو میں درمیان میں ہی خاموش ہو کر سوچنے لگتا کہ اسے انگریزی میں کس طرح کہوں۔

‘‘نگہت، اب انکل آ گئے ہیں اور سارے دن گھر پر ہی رہتے ہیں تو ہمیں آیا کی کیا ضرورت ہے۔ بچے اپنے بزرگوں کے سائے میں ہی اچھے اٹھتے ہیں۔ آیا انہیں ہماری روایات کیا سکھائے گی بھلا‘‘ ارشد نے spaghetti کا ڈونگا رکھتے ہوئے کہا۔ آیا دن بھر ساتھ رہنے کے بعد شام میں اپنے گھر چلی جاتی۔ ہفتہ میں دو تین بار رات کے کھانے پر ہم تینوں اور بچے اکھٹے ہو جاتے۔ ورنہ پیر سے جمعہ تک یا ارشد دیر سے آتا یا نگہت۔ سب اپنی اپنی سہولت سے کھانا کھا لیتے۔ ہفتے یا ا توار کو عموماً دونوں کہیں مدعو ہوتے۔ اگر اس گھر میں بھی کوئی میرا ہم عمر قید ہوتا تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ اور اس پر یہ spaghetti، جوانی میں ٹنڈوں اور گوبھی سے تو بچ گیا تھا لیکن اب اس عمر میں برا پھنسا تھا۔ کسی طرحspaghetti سے بچ بھی جاؤں توPizza منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔

‘‘نہیں ارشد، بابا کیسے ان دونوں کو سنبھالیں گے ‘‘ نگہت کی آواز میں کچھ ایسا تھا کہ مجھے لگا یہ ایک ریہرسل شدہ سین ہے۔ جس میں مکالموں کی ترتیب پہلے ہی طے ہو چکی ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ دونوں دزدیدہ نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرا اگلا جملہ بہت اہم تھا۔ لہذا میں کچھ نہ بولا، سر جھکائے spaghetti ایسے کھاتا رہا رہا جیسے نہاری کی پلیٹ سامنے دھری ہو۔

‘‘بھئی مشکل کیا ہے، دونوں بچے اب تین چار گھنٹے تو اسکول میں گزاریں گے، بس تین چار گھنٹوں میں تم آ جاؤ گی۔ انکل کا بھی کتنا دل لگا رہے گا۔ کتنا پیار کرتے ہیں بچوں سے۔ واقعی ہمارے بچے کتنے خوش قسمت ہیں ‘‘ ارشد نے چند لمحے میرے جواب کا انتظار کر کے پھر پانسہ پھینکا۔ اس دفعہ نگہت نے جواب نہ دیا، غالباً اب اس کے سکوت کی باری تھی۔

‘‘ہاں بھئی کیوں نہیں ‘‘ آپ نے کسی کو اپنی ہی سزا پر خوددستخط کرتے دیکھا ہے۔ مجھے پنجرے میں اپنے پروں کے پھڑپھڑانے کی آوازیں سنائی دیں۔

‘‘بابا یہ کھانے کے بعد ڈکار تو نہ لیا کریں ‘‘ کتنی بری آواز ہے

‘‘اچھا بیٹا کوشش کروں گا‘‘ میرے لہجے کا دکھ نگہت نے محسوس کر لیا

‘‘بابا آپ تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتے ہیں ‘‘

‘‘بس بیٹا اب یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی تو رہ گئی ہیں میرے پاس۔ ساری عمر کی عادتیں ہیں۔ کوشش کروں گا‘‘

اب میں پیر سے ہفتے تک گھر میں قید تھا۔ کہ آیا کے یہی ایام تھے۔ ا توار کو باہر نکلنے کا موقع ملتا۔ تو میں صبح کا نکلا شام میں ہی گھر آتا، چاہے بلا وجہ سڑکوں پر ہی نہ پھر رہا ہوں۔ ایسے میں اس دیسی ریسٹورانٹ کا دم غنیمت تھا۔ اردو اخبار دیکھنے کو مل جاتا۔ ا توار کے اتوار اپنی مرضی کا دیسی کھانا کھا لیتا۔ لاہور کی مصروف زندگی سے نکل کر نیویارک کی قید بہت کھلتی۔ کوئی ترسٹھ سال تک انتہائی مصروف اور خود مختار زندگی گزارنے کے بعد، اب ہاتھ پیر سلامت ہوئے بھی اپنے کھانے پینے، آمد و رفت سب کے لئے میں کسی کا منتظر رہتا۔ ایسا لگتا جیسے گھر ہی زندان بن گیا ہو۔ شروع میں تو بس میں بھی بہت وحشت ہوئی، لیکن اب کچھ عادت سی پڑتی جا رہی تھی۔ لاہور والا گھر بیچ کر جو پیسے بچے تھے وہی رفتہ رفتہ خرچ ہو رہے تھے۔ پیسے نہ نگہت، ارشد نے دئیے نہ میں نے مانگے۔

جیکسن ہائیٹس میں سینیما دیکھا جس میں ایک واہیات انڈین فلم چل رہی تھی، لیکن مجھ سے رہا نہیں گیا، اکیلا ہی جا بیٹھا۔ یہا توار کا دوپہر دو بجے والا شو تھا۔ میں شام چھ بجے کی بس لیتا تھا۔ فلم دیکھ کر ریسٹورانٹ میں کھانا کھاؤں گا، پھر واپسی کی فکر کروں گا۔ اتنی واہیات فلم میں مجھے اتنا مزا آ سکتا ہے، یہ بات تو میرے گمان میں بھی نہیں تھی۔ میں شاید بوڑھا ہوتا جا رہا ہوں۔ یا حماقتوں میں سکون تلاش کر ہا ہوں۔ اتفاق سے سینیما اور ریسٹورانٹ ایک دوسرے کے برابر ہی میں تھے۔ میں نے دروازے سے ہی اخبار اٹھا لیا اور ایک خالی میز کی جانب بڑھ گیا۔ ریسٹورانٹ ویسا ہی تھا جیسا میں پچھلے ہفتے چھوڑ کر گیا تھا۔ لگتا تھا وہ صاحب اب بھی وہیں کھڑے برتن دھو رہے تھے۔ ان کی کمر کا خم شاید کچھ بڑھ گیا تھا یا میری آنکھوں کو دھوکہ ہوا ہو گا۔ ریسٹورانٹ کا مالک اتنا ہی مصروف تھا، اس نے مجھے دیکھا تو مسکرا کر ہاتھ ہلایا۔ میں نے حسبِ عادت ایک نان اور اس دفعہ نہاری کا آرڈر دے دیا۔ کچھ دیر میں مہلت ملی تو وہ رجسٹر چھوڑ کر میرے پاس آ گیا۔

‘‘کیسے ہیں طاہر صاحب‘‘

‘‘وہ صاحب کون ہیں جو برتن دھو رہے ہیں ‘‘ ؟

‘‘ارے وہ بزرگوار۔ ہیں بچارے بہاولپور سے یہاں آئے تھے، وہاں اچھی خاصی وکالت تھی‘‘

‘‘تو یہاں ان کا کوئی عزیز نہیں ‘‘

‘‘ہے کیوں نہیں بیٹے کے پاس رہنے آئے تھا‘‘

‘‘تو‘‘

‘‘تو کیا، رہتے تو اب بھی بیٹے کے پاس ہی ہیں ‘‘ اس نے معنی خیز انداز میں کہا ‘‘آپ کہئیے سب ٹھیک تو ہے ‘‘

کیا واقعی میری بے بسی اتنی عیاں ہے کہ یہ سب کی مشکلات میرے آئینے میں دیکھ رہا ہے۔ کیا یہ میری عمر کے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل کا المیہ ہے۔

‘‘ہاں ٹھیک ہی ہے ‘‘ اس دفعہ میرے لہجے میں ہچکچاہٹ تھی ‘‘اور چارہ بھی کیا ہے۔ کشتیاں تو ساری جل چکی ہیں۔ یہاں کوئی واقف کار نہیں۔ قوانین سے آگاہی نہیں۔ پھر اپنے ہی اولاد کی آدمی کیا شکایت کرے ‘‘

‘‘یہ کیا بات ہوئی طاہر صاحب۔ اگر یہاں کے ماحول میں ہی رنگنا ہے تو پھر دونوں نسلیں رنگی جائیں۔ میں آپ سے اس لئے پوچھ رہا تھا کہ میں یہاں روز یہی کہانی دیکھتا ہوں۔ یہاں آنے والے تارکین کو جیت کی اتنی لگن ہوتی ہے کہ وہ اس پر سب قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں، جی ہر چیز۔ رشتوں اور رتبوں کا اعتبار بھی نہیں رہتا‘‘

‘‘ تمھارے اپنے ماں باپ کہاں ہیں ‘‘

‘‘وہیں وطن میں ہیں۔ میں نے کئی بار کوشش کی بھی کی، مگر وہ مجھ سے زیادہ عقلمند نکلے۔ ایک بار آئے بھی تھے مگر صرف چھ ماہ رہ کے واپس چلے گئے۔ کہنے لگے اس عمر میں اتنی بڑی تبدیلی ہمارے بس کی نہیں۔ وہ بھی اس وقت کہ جب میں خود بھی یہاں نیا ہوں ‘‘ ۔

‘‘بیٹا اب واپس جانا میرے لئے غیر ممکن ہے۔ گھر بیچ کر آیا تھا، پنشن میں اکیلے گزارا مشکل ہو گا‘‘

‘‘یہاں رہئیے لیکن اپنی قیمت کا احساس دلا کر‘‘

‘‘کیا مطلب‘‘

‘‘آپ خود عقلمند ہیں۔۔ ‘‘ اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ پیسوں کی مشین پر ایک گاہک بل ادا کرنے آ گیا۔ برتن دھوتے ہوئے صاحب نے مڑ کر میری جانب دیکھا تو مجھے ان کے چہرے پر خود اعتمادی اور سکون جھلملاتا نظر آیا۔ چھ بجنے میں پانچ منٹ رہ گئے تھے، میں بھی میز پر ہی بل کے پیسے چھوڑ کر جلدی باہر نکل آیا۔ بس اسٹاپ پر موجود تھی، میں لپک کر سوار ہو گیا۔ وہ آج بھی وہیں اسی سیٹ پر تھی، لیکن اس کے برابر کھڑکی والی سیٹ پر کوئی اور عورت براجمان تھی۔ سب ہی سیٹیں بھری ہوئی تھیں۔ میں اس کے پاس ہی کھڑا ہو گیا۔ اس نے سر اٹھا کر میری جانب دیکھا اور مسکرا دی۔

‘‘آج دیر ہو گئی‘‘ اس نے ایسے پوچھا جیسے عرصے سے مجھے جانتی ہو۔

اگلے ہی اسٹاپ پر کھڑکی کی سیٹ والی مسافر اتر گئی تو اس نے کھسک کر مجھے جگہ دے دی۔

‘‘نئے آئے ہو اس ملک میں ‘‘ اس کی انگریزی سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ گوری ضرور ہے لیکن انگریزی اس کی مادری زبان نہیں۔ میں نے فقط سر ہلا کر اس کی بات سے اتفاق کیا۔ کوئی اجنبی عورت خود سے مجھ سے مخاطب ہو، مسکرائے اور بھی گوری، میری ساری زندگی کی تربیت میں ایسے مراحل سے نبٹنے کا سبق شامل نہیں تھا۔

‘‘کیا تم بھی نئی آئی ہو؟‘‘ میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا

‘‘ہاں، لیکن کوئی دو سال ہو گئے۔ رومانیہ سے یہاں آئی تھی، بیٹے کے ساتھ رہنے آئی تھی، اب اکیلی رہتی ہوں ‘‘

‘‘کیوں کیا ہوا‘‘

‘‘رومانیہ میں تو ہم بڑھاپے میں اپنی اولاد کے ساتھ رہتے ہیں، لیکن یہاں کی سوسائٹی کا فیبرک ایسا نہیں۔ بیٹا میری وجہ سے دشواریوں میں پڑ رہا تھا۔ میں نے ایک آفس میں صفا ئی کرنے کی نوکری کر لی، اور ایک تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں ایک اور کرائے دار کے ساتھ رہ رہی ہوں۔ ایک اور کرائے دار مل جائے تو ہمارا کرایہ بہت کم ہو جائے گا‘‘ اس نے پر امید نظروں سے میری سمت دیکھا۔

‘‘لیکن میں تو اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ رہ رہا ہوں ‘‘ میں نے بوکھلا کر کہا۔ میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن نگہت کی صورت نگاہوں میں گھوم گئی۔

‘‘چلو کوئی بات نہیں، ضرورت ہو تو یاد رکھنا، میں تم سے ایک اسٹاپ ہی آگے رہتی ہوں ‘‘ اس نے خوش دلی سے کہا لیکن صاف ظاہر تھا کہ اسے مایوسی ہوئی ہے۔

‘‘بابا اتنی دیر لگا دی‘‘ گھر میں داخل ہوا تو نگہت اور ارشد کو تیار باہر گیراج میں منتظر پایا

‘‘خیریت تو ہے ؟‘‘ میں نے گھبرا کر پوچھا

‘‘ہاں ہاں خیریت تو ہے ‘‘ نگہت نے پیار سے میرے بازو پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ‘‘در اصل ہم دونوں کو باہر جانا تھا، بچوں کو لے جانا نہیں چاہتے تھے، آپ کا انتظار کر رہے تھے ‘‘

‘‘لیکن آج تو میری چھٹی ہے ‘‘ بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا

‘‘بابا، آپ کی مذاق کی عادت!‘‘ نگہت نے معذرت خواہانہ انداز میں شوہر کی جانب دیکھا۔

‘‘چلیں ‘‘ ارشد گویا اس اشارے کا منتظر تھا

‘‘کھانا تو کھا لیا ناں آپ نے ‘‘ کاش مجھ سے پوچھ لیتی کہ کھانا نکال دوں آپ کے لئے۔ ‘‘ہاں بابا پلیز، پلیز اگر ہو سکے تو کوڑا باہر رکھ دیجئیے گا۔ ہم لوگوں کو رات آنے میں بہت دیر ہو جائے گی اور کوڑا سویرے ہی اٹھ جاتا ہے ‘‘

اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دے سکتا ان کی گاڑی گیراج سے نکل گئی۔

جب میں آئندہ اتوار اس سے بس میں ملا تو اس سے پہلے ہی ریسٹورانٹ میں اپنے لئے نوکری پکی کر چکا تھا۔ ‘‘آپ یہاں رجسٹر پر بیٹھ جائیں، تو مجھے بھی کچھ فرصت مل جایا کرے گی۔ آپ چاہیں تو تینوں وقت کھانا بھی یہاں کھا سکتے ہیں۔ تنخواہ زیادہ تو نہیں لیکن اتنی ضرور ہو گی کہ آپ اکیلے کا گزارہ چلتا رہے ‘‘ ۔

بس میں سوار ہوا تو آج وہ بھی کھڑی تھی۔

‘‘اتنا رش کیوں ؟‘‘

‘‘آج فٹ بال کا کھیل تھا ناں نیویارک اور بوسٹن کے درمیان، اسی کا مجمع ہے ‘‘ وہ میرے اتنے قریب کھڑی تھی کہ مجھے لگا میں اس سے بات بھی نہیں کر سکوں گا۔ وہ اس اثر سے بے خبر تھی۔ بس کو دھچکا لگا تو غیر ارادی طور پر میرا ہاتھ اس کے کولہے کو چھو گیا۔ میں نے گھبرا کر اس کی جانب دیکھا کہ معذرت کروں، مگر اس کے چہرے پر وہی سکون تھا، اس نے کوئی غیر معمولی بات محسوس نہیں کی تھی۔

‘‘کیا وہ کمرہ کرائے کے لئے اب بھی مہیا ہے ‘‘ میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا

‘‘ہاں، ہاں ‘‘ وہ تو خوشی اچھل پڑی اور میرے گال کا بوسہ لے لیا۔

مجھے لگا بس میں ہر آدمی مجھے گھور رہا ہے۔ میں نے گھبرا کے چاروں سمت دیکھا مگر کوئی اس طرف متوجہ نہیں تھا۔

‘‘ ہاں میں اپنے لئے جگہ دیکھ رہا ہوں، نوکری بھی ڈھونڈ لی ہے ‘‘

‘‘ بس کل ہی آ جاؤ۔ نوکری کے ساتھ سوشل سیکیورٹی کے پیسے بھی ملا کریں گے تو گزارا ہو جائے گا‘‘

میں بس سے اترا تو اس نے اپنا نمبر اور گھر کا پتہ لکھ کر کاغذ کا ٹکڑا مجھے دے دیا۔ میں نے اپنا فیصلہ بتایا تو نگہت رونے لگی

‘‘ مگر بابا یہاں آپ کو کیا تکلیف تھی‘‘

‘‘نہیں بیٹا، میں تو تم لوگوں کی تکلیف کے خیال سے جا رہا ہوں، بیٹی کے گھر میں زیادہ دن نہیں رہا جا سکتا‘‘ ۔

‘‘اس عمر میں آپ گھر سے جائیں گے، لوگ تو ہمیں ہی الزام دیں گے ‘‘ ارشد کو صرف یہی فکر تھی ‘‘بھلا کہاں نوکری کریں گے اس عمر میں ‘‘

‘‘ایک بڑی عمر کی بچی کو آیا کی ضرورت ہے ‘‘ میرے منہ سے نکل گیا اور میں اپنی اٹیچی اٹھا کر نکل آیا۔

٭٭٭







ذاتی بات



وقت کی زبان رفتہ رفتہ ایسے چاٹ رہی ہے کہ نہ ہمیں احساسِ زیاں ہے اور نہ اسُ کے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے۔ اگر امریکہ میں مقیم دیسی مردوں کی اوسط عمر پچھتر فرض کی جائے تو اس اعتبار سے عمرِ عزیز کی تیسری، اور آخری تہائی شروع ہو چکی ہے۔ اس تہائی میں ایسے فضول سوالات سر اٹھاتے ہیں جنہیں اس سے پہلے کہیں تھپک کر سلا رکھا ہوتا ہے۔ ہماری تخلیق کا مقصد کیا تھا؟ ہم سرسری اس جہان سے گزر رہے ہیں یا اس مقصد کی کسی حد تک بجا آوری کی ہے۔ تخلیق کا مقصد اکثر عبادت بتایا جاتا ہے۔ تو جب وہ لاکھوں نوری جو ہر وقت تسبیح میں مشغول ہیں اس قادر مطلق کو مطمئن نہ کر سکے تو یہ ناری جو عید کے عید ہی زحمت کرتا ہے کیسے مقصود ہو سکتا ہے۔ نہیں سبب کوئی اور ہے۔ پھر یہ کہ اسے اپنی پہچان منظور تھی۔ یہ بات بھی حلق سے نہیں اترتی، کہ اس کے لئے فقط سامنے آ کر مسکرا دیتا کہ دیکھ لو یہ ہوں میں، اتنا گورکھ دھندا پھیلانے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر یہ کہ پہلا پروٹو ٹائپ بنا کر ہی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کچھ manufacturing defect رہ گیا ہے۔ میرے خیال میں اس ناچیز کی تخلیق کا سبب یہ تھا کہ اپنے قاری کو افسانوں سے بور کرے تو جناب یہ مقصد پورا کرنے میں، میں نے کسی تساہل سے کام نہیں لیا۔ شکر کیجئے ابھی نوکری کی عمر باقی ہے، ورنہ اکثر مصنف ریٹائرمنٹ کے بعد یا تو قضائے عمری پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں یا افسانے، کہانیاں تحریر کرنے میں۔ اس میں بے چارے قاری پر کیا گزرتی ہے، یہ جانتا اگر تو لکھا نہ کرتا میں۔

ہماری تخلیق کا کیا مقصد ہے، علم کے اس خلا کو پر کرنے میں مذاہب نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب بحث وہیں رک گئی ہے، کہیں پندرہ سو برس پہلے۔ سفر کی دھول کو غور سے دیکھا تو وہی مانوس چہرے نظر آئے۔ وہی شرافت کی ارزانی، طبقوں کی جد و جہد، عدم برداشت اور تحقیرِ نسواں۔ اکیسویں صدی شاید کئی ہزار برسوں کے بعد ترقی کے اس سفر میں بہت اہم صدی ہو گی۔ کمپیوٹر اور اس سے پیدا ہونے والے امکانات نے رہن سہن، سماج، تعلیم، تجارت، کھیل، سیاست ہر چیز کو بدل دیا ہے۔ طب میں ہونے والی تحقیقات انسان کے لئے ایسے معاشرتی سوالات کو جنم دے رہی ہے جس کے لئے پھر ارسطو، افلاطون اور گلیلو کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم وہیں اٹکے ہوئے ہیں کہ موسیقی جائز ہے یا ناجائز، تصویر اتاری جا سکتی ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی وہی سورج نکل رہا ہے، پھیکا، دھندلا۔ زمین اب بھی سورج کے گرد چکراتی پھر رہی ہے اور چندا ماموں ہمیں ویسے ہی بے وقوف بنا رہے ہیں۔ پندرہ سو سال سے کیوں، کب اور کیسے کے بارے میں ہماری معلومات میں ذرہ بھر اضافہ نہ ہوا۔ اور ہوتا بھی کیسے ہم تو اب ہر ارسطو، افلاطون اور گلیلو کو مار دیتے ہیں۔ اگر سب سوالات کے جوابات پندرہ سو سال پہلے طے ہو گئے ہوتے، تو کائنات کا مقصد پورا ہو جاتا اور وہ یہ بساط لپیٹ لیٹا۔ کیوں کہ ایسا نہیں ہوا، لہذا ثابت ہوا کہ جستجو اور تحقیق کا سفر جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ خواتین و حضرات، امکانات کو بغیر سوچے اور سمجھے رد نہ کیجئے۔ لیکن سوچئے اور سمجھئے تو، سوال تو کیجئے۔ ورنہ ہم اپنے توہمات اور اعتقادات کے جس غار میں مقید ہیں وہی رہ جائیں گے، اور پہلی دنیا ایسے ہی ہم پر حکمران رہے گی۔ اس میں دوش ان کا نہیں، وہ تو وہی کر رہے ہیں جو ہر طاقتور کرتا ہے، قصور شکار کا ہے اسے اپنے بچاؤ کا خود انتظام کرنا ہوتا ہے۔

پچھلے چند سالوں سے حلقہ اربابِ ذوق نیویارک سے اتنی قریبی وابستگی رہی کہ میری نصف بہتر گرفتار حسد رہی۔ اپنی زمین چھوڑ کر ویسے ہی اپنی شناخت تک گم ہو جاتی ہے۔ امریکی ہمیں بدیسی کہتے ہیں، بدیسی حلقوں میں ہمیں دیسی کہتے ہیں، اور ہم خود وہاں ہیں جہاں سے ہم کو اپنی خبر نہیں آتی۔ ایسے میں حلقہ اربابِ ذوق نے روح کی سیرابی اور حرف کی شادابی کے اسباب مہیا کئے تو اس دیار غیر میں دل کچھ اٹک گیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے بہت سے سنجیدہ ادب کے قاری خاموشی سے یہاں زبان کے فروغ کی اتنی ہی یکسوئی سے خدمت کر رہے ہیں جتنی کراچی، لاہور، دہلی یالکھنو میں۔ نصرت انور، حمیرا رحمن، شہلا نقوی، محمد عمر میمن، عبداللہ جاوید، رضیہ فصیح احمد، طاہرہ نقوی، احمد مشتاق، شوکت فہمی، صبیحہ صبا، عشرت آفرین، مامون ایمن، احمد مبارک، مقسط ندیم، نسیم سید، رئیس وارثی، شکیلہ رفیق، تقی عابدی، رفیع الدین راز، اکرام بریلوی، نم دانش وغیرہ وغیرہ ایسے ستارے آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں۔ باہمی رقابتوں، پیشہ ورانہ چپقلشوں اور آسمان کو پہلے چھو لینے کی مقابلہ بازی میں ناراضگیاں بھی ہوتی ہیں، ادبی مخاصمتیں بھی، مگر سب حتی المقدور اردو کی اور خدمت میں مصروف ہیں۔ اب اس میں کہیں کہیں اپنی بھی اشک شوئی ہو جائے تو یہ ناشکرے تو بہر حال نہیں۔

سید سعید نقوی

جون ۲۰۱۳، نیویارک

٭٭٭

ماخذ: کتاب ایپ

www.idealideaz.com


تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید