صفحات

تلاش کریں

شخصیت: حضور نبیﷺ کا پیکر جمال




فہرست


0. اِبتدائیہ
1. وَصْفُ حُسْنِ النَّبِيِّ ﷺ ﴿حضور نبی اکرم ﷺ کے حسین سراپا کا تذکرہ﴾
2. وَصْفُ حُسْنِ قَامَتِهِ ﷺ ﴿آپ ﷺ کا حسین قد و قامت﴾
3. وَصْفُ وَجْهِهِ ﷺ الْمُنَوَّرِ ﴿حضور ﷺ کا رُوئے اَنور﴾
4. وَصْفُ لَوْنِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺکی رنگت مبارک﴾
5. لَطَافَةُ جَسَدِهِ وَطِيْبُ رِيْحِهِ ﴿جسمِ اطہر کی نظافت و لطافت اور خوشبوئے عنبریں﴾
6. وَصْفُ رَأْسِهِ ﷺ وَشَعَرِهِ ﴿آپ ﷺکا سرِ اَقدس اور موئے مبارک﴾
7. وَصْفُ جَبِیْنِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی جبیں مبارک﴾
8. وَصْفُ حَاجِبَيْهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کے مبارک اَبرو﴾
9. وَصْفُ عَيْنَيْهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی چشمانِ مقدسہ﴾
10. وَصْفُ بَصَرِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺکی بصارت مبارک﴾
11. وَصْفُ أَنْفِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی بینی (ناک) مبارک﴾
12. وَصْفُ خَدَّیْهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کے رُخسار مبارک﴾
13. وَصْفُ أَسْنَانِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کے دندانِ مقدسہ﴾
14. وَصْفُ صَوْتِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی آواز مبارک﴾
15. وَصْفُ أُذُنَيْهِ وَسَمَاعَتِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کے گوش اور سماعت مبارک﴾
16. وَصْفُ لِحْيَتِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی ڈاڑھی مبارک﴾
17. وَصْفُ عُنُقِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی گردن مبارک﴾
18. وَصْفُ كَتِفَيْهِ ﷺ وَإِبْطَيْهِ ﴿حضور ﷺ کے مبارک شانے اور بغليں﴾
19. وَصْفُ ذِرَاعَيْهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی کلائیاں مبارک﴾
20. وَصْفُ يَدَيْهِ ﷺ وَكَفَّيْهِ وَأَصَابِعِهِ ﴿حضور ﷺ کے مبارک ہاتھ، ہتھیلیاں اور اُنگلیاں﴾
21. وَصْفُ صَدْرِهِ ﷺ وَبَطْنِهِ ﴿آپ ﷺ کا سینۂ مبارک اور بطنِ اَقدس﴾
22. وَصْفُ رُكْبَتَيْهِ ﷺ وَسَاقَيْهِ ﴿آپ ﷺ کے مبارک گھٹنے اور پنڈلیاں﴾
23. وَصْفُ قَدَمَيْهِ ﷺ ﴿آپ ﷺ کے قدمین مبارک﴾
24. المصادر والمراجع

ابتدائیہ

ماہرین لغت و لسانیات اِس پر متفق ہیں کہ ’’شمائل‘‘ شمال یا شمیلہ کی جمع ہے، جس کے معنی سیرت، عادت اور عمدہ طبیعت کے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آقاے کائنات ﷺ کے شمائل و خصائل ہی دراصل آپ ﷺ کا اُسوۂ حسنہ ہیں۔ شمائلِ مبارکہ میں آپ ﷺ کا حلیہ مبارک، آپ ﷺ کا حسین سراپا، آپ ﷺ کی پوشاک مبارک، آپ ﷺ کی غذا مبارک، آپ ﷺ کے لیل و نہار کے معمولات کا ذِکرِ جمیل و مشک بو ملتا ہے۔ ’’شمائل الترمذی‘‘ میں حضرت ابو عیسیٰ امام محمد الترمذی نے نہایت محنت و کاوش اورعرق ریزی سے سیّد کائنات، فخرِ موجودات ﷺ کی زندگی کے ہر گوشے سے متعلق معلومات کو احادیث کی روشنی میں جمع کر دیا ہے۔ آپ کی دو تصانیف جریدۂ عالم پر مہرِ دوام ثبت کرچکی ہیں۔ ایک حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت جس کا نام ’’شمائل الترمذی‘‘ ہے اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو ’’جامع الترمذی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ جب قاری عشق و محبت کے جذبات سے سرشار ہو کر ’’شمائل الترمذی‘‘ کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے پڑھتے ہوئے اپنے باطن میں انشراح و ابتہاج محسوس کرتا ہے۔ اس دوران کبھی تو اس کےچہرے پر مسکراہٹ کے غنچے چٹکنے لگتے ہیں اور کبھی اس کی پلکیں نم ہوجاتی ہیں۔ آپ ﷺ کے رُخِ زیبا کا بیان پڑھتا ہے تو دل کی کلی کھل جاتی ہے اور جب آپ ﷺ کے گزر اوقات پر نظر جاتی ہے تو بے اختیار آنسوؤں کی لڑیاں گرنا شروع ہوجاتی ہیں۔
شمائل کے موضوع پر ہر دور میں کتب اور ان کی شروحات لکھی گئی ہیں۔ یہ کتب ان علماء و محدثین کے حضور نبیِ محتشم ﷺ کے ساتھ بے پایاں عشق اور بے کراں محبت کی عکاسی کرتی ہیں۔ محدثین کرام اور مصنفینِ سیرت نے روایات صحیحہ کے ساتھ آپ ﷺ کے سراپا مبارک کے تناسب وتوازن اور حسن و جمال کو بیان کیا ہے۔ اسی تناظر میں کیا خوب کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر ﷺ کے حالات اور واقعات کا ایک ایک حرف اس استقصا کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلم بند نہیں ہوسکے اور نہ آئندہ توقع کی جاسکتی ہے۔ اس گلشنِ ہستی میں خَلقی اور خُلقی ہرلحاظ سے آپ ﷺ یگانہ و یکتا ہیں۔ جو شمائل خالقِ کائنات نے محبوب کائنات ﷺ کو ودیعت فرمائے یومِ الست سے تا قیامِ قیامت انسانیت کے لیے سرچشمہِ ہدایت ہیں اور ظلمت کدۂ عالم میں آفتابِِ غروبِ ناشناس کی حیثیت سے فجر ریز رہیں گے۔ قرآنِ عالی شان میں آپ ﷺ کے جو بھی مکارمِ اِخلاق رب عظیم نے بیان کیے ہیں، صاحبِ خلقِ عظیم ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات اس کا مظہرِ اَتم ہے۔

رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی بزمِ خیال میں، نہ دکانِ آئینہ ساز میں

حضور نبی اکرم ﷺ صوری و معنوی ہر لحاظ سے اجمل و اکمل، احسن و افضل، احسب و انسب اور اعلیٰ و ارفع ہیں۔ آپ ﷺ کے زندہ معجزوں کی تعداد بے شمار ہے لیکن آپ ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشہ کا بہ تمام و کمال محفوظ رہنا خود ایک عظیم معجزہ ہے۔ آپ ﷺ کے اقوال وافعال، وضع و قطع، شکل و شباہت، رفتار و گفتار، مذاقِ طبیعت، اندازِ گفتگو، طرزِ زندگی، طریقِ معاشرت، اکل و شرب، نشست و برخاست اور سونے جاگنے کی ایک ایک ادا محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور چنیدہ انسان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ ہم اور آپ حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ بے مثال اور جمال بے بدل کا بھلا کیوں کر ادراک کر سکتے ہیں! ہم اس سعادت سے محروم رہتے اگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے ایک ایک عضو مبارک کا حال اور ایک ایک ادائے حسیں کا بیان شرح و بسط کے ساتھ نہ کرتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو رزم و بزم، خلوت و جلوت، روز و شب، یُسر و عُسر اور سفر و حضر میں آپ ﷺ کے روئے رخشاں و تاباں کے رخشندہ انوار سے اپنے قلب و نظر کو منور کرتے رہے، اولین مرحلے پر وہی مجاز ہیں کہ آپ ﷺ کے وجود اقدس کی تجلیات کو نثر و نعت میں پیش کر کے اپنی ارادت و عقیدت کو عنبر افشاں الفاظ کے لطیف و نظیف پیرہن میں سمو سکیں۔ وہ جمالِ نبوت کے آفتاب سے بہ راہِ راست اِکتسابِ ضیا کرتے رہے۔


یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں، وہ ترا ظہورِ جلال ہے
یہ جو کہکشاں میں ہے روشنی، وہ ترا غبارِ جمال ہے


امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے حسن و جمال پر ایمان لانا بھی ضروری ہے یعنی تکمیل ایمان کے لیے یہ بات بھی شرط ہے کہ ہم اس بات کا اقرار کریں کہ رب کائنات نے حضور ﷺ کا وجودِ اقدس حسن و جمال میں بے نظیر و بے مثال بنایا ہے۔ امام زرقانی امام قرطبی کا بیان نقل فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر آقائے کائنات ﷺ کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور ﷺ کے جلووں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی حسن و جمال مصطفی ﷺ کے بیان میں لکھتے ہیں: اگر آپ ﷺ کا حسن و جمال بشر کے لباس میں چھپاہوا نہ ہوتا تو روئے منور کی طرف دیکھنا ناممکن ہو جاتا۔ امام شرف الدین بوصیری اپنے معروف ’’قصیدہ بردہ‘‘ میں فرماتے ہیں:

فَجَوْهَرُ الْحُسْنِ فِیْهِ غَیْرُ مَنْقَسِمِ
مُنَزَّهٌ عَنْ شَرِیْكٍ فِي مَحَاسِنِهِ

یعنی محبوب خدا ﷺ اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ اس معاملہ میں ان کا کوئی شریک ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں جو حسن کا جوہر ہے وہ قابلِ تقسیم ہی نہیں۔ بہر حال اس پر تمام امت کا ایمان ہے کہ تناسبِ اَعضاء اور حسن و جمال میں حضور نبی آخر الزماں ﷺ بے مثل و بے مثال ہیں۔

تھکی ہے فکرِ رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

اس باب میں حضور نبی اکرم ﷺ کے لاثانی حسن و جمال، آپ ﷺ کی رنگت، آپ ﷺ کے ماہتاب سے بھی روشن تر چہرۂ مبارک کا بیان جب آپ پڑھیں گے تو آپ کو یہ باور کرنے میں کوئی مشکل نہ ہوگی کہ صبحِ اَلست سے شام ابد تک کسی بھی ہستی کو وہ خوب رُوئی، رَعنائی، زیبائی، دل کشی، دلبری، دلربائی اور کشش عطا نہیں کی گئی جو خالقِ کائنات نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو بہ تمام و کمال اور بہ افراط عطا فرمائی۔ نگاہِ عشق سے دیکھنے والے جب آپ ﷺ کے روئے مبارک کی زیارت سے مشرف ہوتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے کہ آپ ﷺ چاند سے کئی گنا بڑھ کر صاحبِ جمال اور جاذبِ نظر ہیں۔ آپ ﷺ کا حسن قامت بھی اپنی مثال آپ تھا۔ اس لحاظ سے بھی آپ ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ حسین و جمیل اور شکیل و رعنا تھے۔
اس باب میں آپ احادیث کی روشنی میں حضور نبی اکرم ﷺ کے روئے انور کو بھی اپنی چشم تصور سے دیکھنے کی خوش بختی سے ہم کنار ہوں گے۔ آپ ﷺ کی رنگت، آپ ﷺ کے جسم اطہر کی لطافت و نظافت اور اس حسین پیکر کے بدنِ اَطہر سے پھوٹنے والی عنبریں خوشبو سے بھی اپنے مشامِ جاں کو معطر ہوتا ہوا محسوس کریں گے۔ آپ ﷺ کے موئے مبارک گہرے سیاہ، حسین و جمیل، خم دار اور گیسو مبارک کانوں کی لَو سے بڑھے ہوتے۔ اس باب کے مطالعہ سے آپ یہ بھی جان سکیں گے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سر انور اور ریش مبارک میں کتنے بال سفید تھے۔ جب آپ اپنے بالوں کو جھٹکتے تو آپ ﷺ کا روئے مبارک روشن تر اورتابناک تر ہو جاتا۔ جب آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محفل میں صبح صادق یا شام کے وقت تشریف لاتے تو آپ ﷺ کی جبینِ مبارک یوں ضو فشاں ہوتی جیسے روشن چراغ چمک رہا ہو۔ آپ ﷺ کے چشمانِ مقدسہ سیاہ، پلکیں دراز اور پتلیاں گہری سیاہ تھیں جن میں کبھی کبھی سرخ رنگ کے ڈورے بھی دکھائی دیتے۔ آنکھیں اس حد تک سرمگیں تھیں کہ جب بھی کوئی عاشق آپ ﷺ کے چہرے کی طرف دیکھتا تو اسے محسوس ہوتا کہ چشمان مقدسہ میں سرمہ لگا ہوا ہے۔ آپ ﷺ کی بصارت اس حد تک تیز تھی کہ رات کے گھنے اندھیرے میں بھی آپ ﷺ اسی طرح دیکھتے جس طرح دن کے اجالے میں دیکھتے ہیں۔ آنے والی سطور میں آپ حضور ﷺ کی دلنشیں آواز، آپ ﷺ کی دیدہ زیب ریش مبارک، آپ ﷺ کے موتیوں سے بھی روشن تر مقدس دانت، آپ ﷺ کے مشک بار رخسار، سینہ مبارک، بطن اقدس، نازک گردن، خوبصورت شانے اور بغلیں، آپ ﷺ کی کلائیاں، ہاتھ، ہتھیلیاں، انگلیاں اور قدمین مبارک کی زیارت سے بھی آپ کی چشمِ تصور بہرہ یاب ہوگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے جسمِ اَطہر کے کس کس عضوِ مبارک اور وصفِ منور کا بیان کیا جائے! گویا آپ ﷺ حسن و جمال کا ایک جہانِ بے پایاں تھے۔

لا یمکن الثناء كما كان حقہ
بعد اَز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

1. وَصْفُ حُسْنِ النَّبِيِّ ﷺ ﴿ حضور نبی اکرم ﷺ کے حسین سراپا کا تذکرہ﴾

حضور نبی اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک سب سے حسین و جمیل، پُر کشش، نورانی، جاذبِ نظر، نہایت روشن، شگفتہ اور شاداب تھا۔ قدامت میانہ، رنگت سفید، جسامت متناسب و موزوں اور رنگت و نگہت منور اور تاباں تھی۔ چہرۂ مبارک نہ تو بہت زیادہ گول تھا اور نہ بہت زیادہ لمبا، بلکہ آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک دونوں صورتوں کے درمیان تھا، یعنی گولائی اورلمبائی کے اعتبار سے اعتدال پر تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب بھی آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک کو دیکھتے تو پکار اْٹھتے: ’’وہ برگزیدہ امین جو بھلائی کی دعوت دیتا ہے (اس کے چہرۂ مبارک کی تابانی ایسی ہے) جیسے اندھیرے میں بدرِ کامل ضوفشاں ہو۔‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک کو دیکھتے توان کی زبان پر زہیر بن ابی سلمیٰ کا شعر آجاتا: ’’اگر آپ ﷺ کچھ اور ہوتے تو آپ ﷺ چودھویں رات کا چاند ہوتے جو بہت روشن ہوتا ہے۔‘‘ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے چاندنی رات میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی، اس وقت آپ ﷺ سرخ پوشاک زیبِ تن کیے ہوئے تھے۔ میں بیک وقت آپ ﷺ کو اور چاند کو دیکھتا رہا۔ آپ ﷺ مجھے چاند سے کئی گنا بڑھ کر حسین لگ رہے تھے۔ ایک عارف باللہ نے کیا خوب کہا ہے کہ یہ تشبیہات سب تقریبی ہیں، ورنہ ایک چاند کیا ہزار چاند بھی حضور نبی اکرم ﷺ جیسا نور نہیں ہوسکتے۔ میں اِجمالاً یہ کہنے پر ہی اکتفا کروں گا کہ تمام انبیاء و رُسل علیہم السلام کے جمیع اَوصاف و خصائص، محامد و محاسن اور رعنائیوں اور زیبائیوں کو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے وجودِ اطہرمیں جمع فرما دیا تھا۔

حُسنِ یوسف، دَمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچه خوباں ہمه دارند، تو تنہا داری

اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

لَرَأَی زُلَيْخَا لَوْ رَأَیْنَ جَبِیْنَهُ
لَأَثَرْنَ بِقَطْعِ الْقُلُوْبِ عَلَی الْیَدِ

’’(حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لینے والی) زلیخا کی سہیلیاں اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرۂ اَنور کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے اپنے دلوں کو کاٹ لیتیں۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے وصالِ اَقدس سے چند روز قبل ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ ﷺ نے پردہ ہٹا کر ہماری طرف دیکھا تو یوں محسوس ہوا گویا آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک قرآن کے ورق کی طرح تھا (کَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ)۔

1. قَالَ الْبَرَاءُ رضی اللہ عنہ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا، وَأَحْسَنَهُمْ خَلْقًا([1]).

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بلحاظِ صورت و خِلقت انسانوں میں سب سے حسین تھے۔
2. وَقَالَ رضی اللہ عنہ : رَأَیْتُهُ ﷺ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ، لَمْ أَرَ شَیْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ([2]).
آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو سرخ پوشاک میں ملبوس دیکھا اور (سچ تو یہ ہے کہ میں نے اولادِ آدم میں) آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی حسین کبھی نہیں دیکھا۔
3. وَقَالَ رضی اللہ عنہ : مَا رَأَیْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ([3]).
حضرت براء رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: میں نے سرخ پوشاک میں ملبوس کسی دراز گیسو حسین کو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔
4. وَقَالَ رضی اللہ عنہ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِ اللهِ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ([4]).
حضرت براء رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: میں نے الله تعالیٰ کی مخلوق میں سرخ پوشاک میں ملبوس کسی فرد کو رسول الله ﷺ سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا۔
5. وَقَالَ رضی اللہ عنہ : رَأَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَعَلَیْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، مُتَرَجِّلًا، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحَدًا هُوَ أَجْمَلُ مِنْهُ([5]).
حضرت براء رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ اُس وقت آپ ﷺ سرخ پوشاک زیبِ تن کیے ہوئے تھے اور زلفوں میں مانگ نکالے ہوئے تھے۔ میں نے آپ ﷺ سے زیادہ حسین و جمیل نہ تو آپ ﷺ سے پہلے کسی کو دیکھا تھا اورنہ آپ ﷺ کے بعد کوئی دیکھا۔
6. وَقَالَ جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ ﷺ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي لَیْلَةِ إِضْحِیَانٍ، وَعَلَیْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَیْهِ وَإِلَى الْقَمَرِ. قَالَ: فَلَهُوَ کَانَ أَحْسَنَ فِي عَیْنِي مِنَ الْقَمَرِ([6]). وَقَالَ رضی اللہ عنہ : فَلَهُوَ أَجْمَلُ عِنْدِي مِنَ الْقَمَرِ.
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے چاندنی رات میں رسول الله ﷺ کی زیارت کی، اُس وقت آپ ﷺ سرخ پوشاک زیبِ تن کیے ہوئے تھے۔ میں بیک وقت آپ ﷺ کو اور چاند کو دیکھتا رہا۔ مجھے آپ ﷺ چاند سے کئی گنا زیادہ حسین لگ رہے تھے۔
ایک اور روایت میں فرماتے ہیں: میرے نزدیک آپ ﷺ چاند سے کئی درجہ بڑھ کر صاحبِ حسن و جمال تھے۔
7. قَالَ أَبُو الطُّفَیْلِ رضی اللہ عنہ : کَانَ ﷺ أَبْیَضَ مَلِیْحًا مُقَصَّدًا([7]).
حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ غایت درجہ جاذبِ نظر تھے، آپ کی رنگت سفید اور قامت میانہ تھی۔
8. وَقَالَتْ أُمُّ مَعْبَدٍ رضی اللہ عنہا : رَأَیْتُ رَجُلًا ظَاهِرَ الْوَضَاءَةِ، أَبْلَجَ الْوَجْهِ، حَسَنَ الْخَلْقِ، لَمْ تَعِبْهُ ثُجْلَةٌ، وَلَمْ تُزْرِ بِهِ صَعْلَةٌ، وَسِیْمٌ قَسِیْمٌ([8]).
حضرت اُم معبد رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جن کا حسن بہت نمایاں تھا، چہرہ نہایت روشن اور ہشاش بشاش تھا، جسمانی ساخت نہایت موزوں تھی، رنگت کی زیادہ سفیدی آپ ﷺ (کے حُسن) کو معیوب نہیں بناتی تھی، آپ ﷺ کی جسامت خوب متناسب تھی، آپ ﷺ نہایت ہی خوب رُو اورحسین تھے۔
9. قَالَتْ عَائِشَةُ رضی اللہ عنہا : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا، وَأَنْوَرَهُمْ لَوْنًا، لَمْ یَصِفْهُ وَاصِفٌ قَطُّ، بَلَغَتْنَا صِفَتُهُ إِلَّا شَبَّهَ وَجْهَهُ کَالْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ، وَلَقَدْ کَانَ یَقُوْلُ مَنْ کَانَ مِنْهُمْ، یَقُوْلُ: لَرُبَّمَا نَظَرْنَا إِلَی الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ، فَیَقُوْلُ: هُوَ أَحْسَنُ فِي أَعْیُنِنَا مِنَ الْقَمَرِ، أَزْهَرُ اللَّوْنِ، نَیِّرُ الْوَجْهِ، یَتَلَأْلَأُ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ([9]).
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ کا چہرۂ انور سب سے حسین و جمیل تھا اور رنگت و نگہت سب سے زیادہ (براق اور) روشن تھی۔ جس نے بھی آپ ﷺ کا وصف بیان کیا ہے اورجو ہم تک پہنچا ہے ہر ایک نے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی ہے۔ اُن میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے: شاید ہم نے چودھویں رات کا چاند دیکھا۔ کوئی کہتا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ ہماری نظروں میں چودھویں رات کے چاند سے بھی بڑھ کر حسین تھے۔ آپ ﷺ کی رنگت و نزہت بہت روشن، اور چہرہ نہایت دل کش اور نورانی تھا۔ یہ روئے انور (زمین پر) یوں جگمگاتا تھا جیسے چودھویں رات کا چاند (آسمان پر) چمکتا ہے۔

حوالہ جات

([1]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1303، الرقم/3356، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنّه أحسن الناس وجهًا، 4/1819، الرقم/2337، وابن حبان في الصحیح، 14/196، الرقم/6285.
([2]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1303، الرقم/3358، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنّه کان أحسن الناس وجهًا، 4/1818، الرقم/2337، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/281، الرقم/18496، وأبو داود في السنن، کتاب اللباس، باب في الرخصة في ذلك، 4/54، الرقم/4072، والترمذي في الشمائل المحمدیة/30، الرقم/3.
([3]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب اللباس، باب الجعد، 5/2211، الرقم/5561، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنّه کان أحسن الناس وجهًا، 4/1818، الرقم/2337، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/290، 300، الرقم/18581، 18688، وأبوداود في السنن، کتاب الترجل، باب ما جاء في الشعر، 4/81، الرقم/4183، والنسائي في السنن، کتاب الزینة، باب اتخاذ الشعر، 8/133، الرقم/5060.
([4]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/295، الرقم/18636.
([5]) أخرجه النسائي في السنن، کتاب الزینة، باب لبس الحلل، 8/203، الرقم/5314، وأیضًا في السنن الکبری، 5/476، الرقم/9639، وأبو یعلی في المسند، 3/253، الرقم/1699، وابن الجعد في المسند، 1/312، الرقم/2111، والجرجاني في تاریخ الجرجان، 1/514، الرقم/1059، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/289، 43/112.
([6]) أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب في حسن النبي ﷺ، 1/44، الرقم/57، والترمذي في الشمائل المحمدیة/39، الرقم/10، والنسائي في السنن الکبری، 5/476، الرقم/9640، والحاکم في المستدرك، 4/207، الرقم/7383، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/206، الرقم/1842، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/150، الرقم/1417، وابن عبد البر في الاستیعاب، 1/224.
([7]) أخرجه البیهقي في دلائل النبوة، 1/300، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/358، وذکره القسطلاني في المواهب اللدنیة، 2/89.
([8]) أخرجه ابن حبان في الثقات، 1/125-127، والطبراني في المعجم الکبیر، 4/49-50، الرقم/3605، والحاكم في المستدرك، 3/10-11، الرقم/4274، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 6/252-254، الرقم/3485، وابن عبد البر في الاستیعاب، 4/1958-1960، الرقم/4215، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/139-140، وذکره الهیثمي في مجمع الزوائد، 8/279، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/310.
([9]) أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب في حسن النبي ﷺ، 1/44، الرقم/57، والترمذي في الشمائل المحمدیة/39، الرقم/10، والنسائي في السنن الکبری، 5/476، الرقم/9640، والحاکم في المستدرك، 4/207، الرقم/7383، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/206، الرقم/1842، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/150، الرقم/1417، وابن عبد البر في الاستیعاب، 1/224.

2. وَصْفُ حُسْنِ قَامَتِهِ ﷺ ﴿آپ ﷺ کا حسین قد و قامت﴾

حکایت از قدِ یار آں دل نواز می کنیم
مگر ایں بہانہ عمرِ خود دراز می کنیم

حضور نبی اکرم ﷺ قد کے لحاظ سے نہ زیادہ دراز اور طویل تھے اور نہ ہی پست قد اور قصیر بلکہ معتدل اور میانہ قامت تھے۔ جب آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جھرمٹ میں چلتے تو اُن میں سب سے نمایاں نظر آتے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قد و قامت کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کی قامت مبارک کا تذکرہ کرتے تو ایمانی و روحانی، ظاہری و باطنی، ذہنی اور قلبی سطح پر ایک سرشاری کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتے۔ آج بھی آپ ﷺ کی قامتِ رعنا کا جب ذکر پڑھا، سنا یا کیا جاتا ہے تو محسوسات کے گلشن میں ایک خوشبوئے نایاب مہکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔اس کیفیت کا اظہار حافظ شیرازیؒ نے اس شعر میں کیا تھا:


تو و طوبیٰ و ما و قامت یار
فکر ہر کس بہ قدر ہمت اوست



10. عَنِ الْبَرَاءِ رضی اللہ عنہ، يَقُوْلُ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لَيْسَ بِالطَّوِيْلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيْرِ([10]).

حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ تو زیادہ دراز قد تھے اور نہ ہی پست قامت تھے (یعنی میانہ قد تھے)۔

11. عَنْ عَلِيٍّ علیہ السلام، قَالَ: لَمْ يَكُنْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالطَّوِيْلِ، وَلَا بِالْقَصِيْرِ([11])، وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ([12]).

حضرت علی علیہ السلام کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ قد کے لحاظ سے نہ زیادہ دراز اور طویل تھے، اور نہ ہی پست قداور قصیر تھے۔ بلکہ آپ ﷺ سب سے زیادہ معتدل قامت تھے۔

12. قَالَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ : كَانَ لَيْسَ بِالذَّاهِبِ طُوْلًا، وَفَوْقَ الرَّبْعَةِ، إِذَا جَاءَ مَعَ الْقَوْمِ غَمَرَهُمْ([13]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ آپ ﷺ زیادہ دراز قد بھی نہ تھے نہ ہی کوتاہ قد، بلکہ آپ ﷺ میانہ قامت تھے اور جب بھی آپ ﷺ کچھ لوگوں کے ہمراہ (یا اُن کے درمیان) چلتے تو اُن سب میں نمایاں نظرآتے تھے۔

13. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ، إِنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ كَانَ مَا مَشَى مَعَ أَحَدٍ إِلَّا طَالَهُ([14]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنے ہمراہ چلنے والے (کسی بھی شخص) سے ہمیشہ بلند قامت نظر آتے تھے۔

14. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ قَوَامًا([15]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ (حضور ﷺ کے قدِ زیبا اور قامتِ رعنا کے بارے میں) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قد و قامت کے لحاظ سے تمام انسانوں سے زیادہ (شکیل و جمیل اور) حسین تھے۔


حوالہ جات



([10]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1303، الرقم/3356، ومسلم في الصحيح، كتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنه أحسن الناس وجهًا، 4/1819، الرقم/2337، وابن حبان في الصحيح، 14/196، الرقم/6285.

([11]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/96، 127، الرقم/746، 1053، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/598، الرقم/3637، وأبو يعلى في المسند، 1/304، الرقم/370، والطىالسي في المسند، 1/24، الرقم/171، والحاكم في المستدرك، 2/662، الرقم/4194، والبخاري في التاريخ الكبير، 1/8، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/149، الرقم/1414.

([12]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/599، الرقم/3638، وأيضًا في الشمائل المحمدية /32، الرقم/7، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/328، الرقم/31805، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/149، الرقم/1415، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/411.

([13]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/151، الرقم/1299، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/411-412، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/260، والنمىري في أخبار المدينة، 1/319، الرقم/967، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/272.

([14]) أخرجه الطبراني في مسند الشامىىن، 4/59، الرقم/2727، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/272، وذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 1/116، والحلبي في السيرة الحلبىة، 3/434.

([15]) أخرجه ابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/278.
حضور ﷺ کا رُوئے اَنور
3. وَصْفُ وَجْهِهِ ﷺ الْمُنَوَّرِ ﴿حضور ﷺ کا رُوئے اَنور﴾



بادِ رحمت سنک سنک جائے
وادیِ جاں مہک مہک جائے
جب چھڑے بات حُسنِ اَحمدؐ کی
غنچۂ دل چٹک چٹک جائے



حضور نبی اکرم ﷺ کا چہرۂ اَنور گولائی میں چاند کی مانند تھا، لیکن بہت زیادہ گول نہ تھا۔ بلکہ گولائی اور لمبائی کے درمیان نہایت متوازن تھا۔یہ چہرۂ مبارک چودھویں کے چاند کی طرح تاب دار تھا۔ آئینہ کی طرح چمکتے اس چہرہ پر جب زیارت کے لیے آنے والوں کی نظر پڑتی تو بے ساختہ پکار اٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔حضرت سید پیر مہر علی شاہؒ نے اپنی مشہور نعت میں آپ ﷺ کے روئے انور کا ذکرجن الفاظ میں کیا ہے، وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں:


اِس صورت نوں جان آکھاں
جان آکھاں کہ جانِ جہاں آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تو شاناں سب بنیاں
سبحان اللہ مَا أَجْمَلكَ، مَا أَحْسَنَكَ، مَا أَکْمَلَكَ
کتھے مہر علی! کتھے تیری ثنا! گستاخ اکھیں کتھے جا اَڑیاں



15. عَنْ أَبِي بَكْرٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ وَجْهُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ کَدَارَةِ الْقَمَرِ([16]).

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: حضور ﷺ کا روئے منور (چودھویں کے) چاند کے دائرہ کی مانند دکھائی دیتا تھا۔

16. قَالَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ : وَکَانَ فِي الْوَجْهِ تَدْوِیْرٌ([17]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (آپ ﷺ کے) چہرۂ مبارک میں قدرے گولائی تھی۔

17. قَالَ أَبُوْ هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ : أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ حَمْشَ الْوَجْهِ، لَمْ أَرَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ([18]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نہایت حسین و وجیہہ اور نکھرے ہوئے شگفتہ و شاداب چہرے والے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ جیسا حسین کوئی نہیں دیکھا۔

18. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: مَا رَأَیْتُ شَیْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، کَأَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِي فِي وَجْهِهِ([19]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے دنیا میں کوئی شے رسول اللہ ﷺ سے حسین نہیں دیکھی۔ (آپ ﷺ کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا)گویا چہرۂ اَنور میں سورج (جیسی تابانی و رخشندگی موج زن اور) رواں ہے۔

19. سُئِلَ الْبَرَاءُ رضی اللہ عنہ : أَکَانَ وَجْهُ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ السَّیْفِ؟ قَالَ: لَا، بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ([20]).

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرۂ انور کی چمک تلوار کی طرح تھی؟ اُنہوں نے فرمایا: نہیں، بلکہ (آپ ﷺ کے چہرے کی نورانیت) چاند کی طرح تھی۔

20. سُئِلَ جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ :رضی اللہ عنہ وَجْهُهُ ﷺ مِثْلُ السَّیْفِ؟ قَالَ: لَا، بَلْ کَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، وَکَانَ مُسْتَدِیْرًا([21]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا آپ ﷺ کے چہرۂ انور کا چمکنا تلوار کی مانند تھا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، بلکہ آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک سورج اور چاند کی طرح چمکتا تھا اور اس میں قدرے گولائی بھی تھی۔

وَقَدْ قِيْلَ: مِثْلَ الْقَمَرِ الْمُسْتَدِيْرِ، لَكِنْ لَمْ يَكُنْ مُسْتَدِيْرًا جِدًّا، بَلْ كَانَ بَيْنَ الْاِسْتِدَارَةِ وَالْاِسْتِطَالَةِ([22]).

کہا گیا ہے کہ حضور ﷺ کا چہرۂ انور گولائی میں چاند کی مانند تھا، لیکن بہت زیادہ گول نہ تھا۔ بلکہ گولائی اور لمبائی کے درمیان نہایت متوازن و متناسب تھا۔

21. قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ رضی اللہ عنہ : كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّی کَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ، وَکُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ([23]).

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : رسول اللہ ﷺ جب (کسی بات پر) خوش ہوتے تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک یوں روشن ہو جاتا کہ لگتا گویا وہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔ ہم آپ ﷺ کی اس کیفیت سے آپ ﷺ کی طبیعت کی خوش گواری و شگفتگی کو جان جاتے تھے۔

22. عَنْ أَبِي الطُّفَیْلِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ ﷺ أَبْیَضَ، مَلِیْحَ الْوَجْهِ([24]).

حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: آپ ﷺ کا چہرۂ اَقدس جاذبِِ نظر سفید رنگت والا تھا۔

23. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: یَتَلَأْلَأُ وَجْهُهُ ﷺ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ([25]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کا چہرۂ اَنور چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔

24. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ دَخَلَ عَلَیْهَا مَسْرُوْرًا تَبْرُقُ أَسَارِیْرُ وَجْهِهِ([26]).

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ اُن کے پاس (یوں) خوشی کے عالم میں تشریف لائے کہ آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک کے نقوش (اور خدوخال) سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔

25. وَقَدْ قِيْلَ: إِذَا سُرَّ، فَكَأَنَّ وَجْهَهُ الْمِرْآةُ، وَكَأَنَّ الْجُدُرَ تُلَاحِكُ وَجْهَهُ، أَيْ: يُرَى شَخْصُ الْجُدُرِ فِي وَجْهِهِ([27]).

یہ بھی کہا گیا ہے: جب آپ ﷺ کسی بات پر خوش ہوتے تو روئے انور آئینے کی طرح یوں چمک اُٹھتا کہ دیواروں کا عکس تک آپ ﷺ کے چہرۂ اقدس میں نمایاں ہونے لگتا۔

26. وَعَنْهَا رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: سَقَطَتْ عَنِّيَ الْإِبْرَةُ، فَطَلَبْتُهَا فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَیْهَا، فَدَخَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَتَبَیَّنَتِ الْإِبْرَةُ لِشُعَاعِ نُوْرِ وَجْهِهِ ﷺ ([28]).

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: (ایک مرتبہ سلائی کرنے کے دوران) سوئی میرے ہاتھ سے گر گئی۔ میں نے اُسے بہت تلاش کیا مگر (ناکافی روشنی کے باعث) مجھے نہ ملی، اتنے میں حضور نبی اکرم ﷺ حجرۂ مبارک میں داخل ہوئے، آپ ﷺ کے چہرۂ اَنور کی نورانی شعاعوں سے مجھے وہ سوئی (پل بھر میں) نظر آگئی۔

27. عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو السَّهْمِيِّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَهُوَ بِمِنًی أَوْ بِعَرَفَاتٍ، وَقَدْ أَطَافَ بِهِ النَّاسُ، قَالَ: فَتَجِيءُ الْأَعْرَابُ، فَإِذَا رَأَوْا وَجْهَهُ، قَالُوْا: هَذَا وَجْهٌ مُبَارَكٌ([29]).

حضرت حارث بن عمرو السہمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں منٰی یا عرفات کے مقام پر رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور (دیکھا کہ) آپ ﷺ کی زیارت کے لیے لوگ جوق در جوق (بےتابانہ اور پروانہ وار) آ رہے ہیں۔ (میں نے مشاہدہ کیا کہ دور اُفتادہ علاقوں سے) دیہاتی لوگ آتے اور جب ان کی نظر آپ ﷺ کے رُوئے اَنور پر پڑتی تو بے ساختہ پُکار اُٹھتے: یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔

28. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: فَلَمَّا اسْتَثْبَتُّ وَجْهَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَیْسَ بِوَجْهِ کَذَّابٍ([30]).

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب میں نے رسول اللہ ﷺ کا چہرۂ مبارک (پہلی مرتبہ) دیکھا تو (بلا توقف) پہچان گیا کہ یہ نورانی چہرہ (کسی سچے نبی کا ہی ہو سکتا ہے) جھوٹے دعوے دارکا نہیں۔


حوالہ جات



([16]) ذكره ابن الجوزي في الوفا/412، والهندي في کنز العمال، 7/162، الرقم/18526.

([17]) أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبيﷺ، 5/599، الرقم/3638، وأیضًا في الشمائل المحمدیة/32، الرقم/7، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/328، الرقم/31805، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/411-412، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/149-150، الرقم/1415، والنمیري في أخبار المدینة، 1/319، الرقم/968، وابن عبد البر في الاستذكار، 8/331، وأیضًا في التمهید، 3/29، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/261.

([18]) أخرجه الطبراني في مسند الشامیین، 4/59، الرقم/2727، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/272، وذکره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/116، والحلبي في السیرة الحلبیة، 3/434.

([19]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/350، 380، الرقم/8588، 8930، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في صفة النبي ﷺ، 5/604، الرقم/3648، وابن حبان في الصحیح، 14/215، الرقم/6309، وابن المبارك في المسند، 1/17، الرقم/31، وأیضًا في كتاب الزهد/288، الرقم/838، وذکره العسقلاني في فتح الباري، 6/573.

([20]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1304، الرقم/3359، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/281، الرقم/18501، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/598، الرقم/3636، والدارمي في السنن، 1/45، الرقم/64، وابن حبان في الصحیح، 14/198، الرقم/6287، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/224، الرقم/1926.

([21]) أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب شیبه ﷺ، 4/1823، الرقم/2344، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/104، الرقم/21036، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/328، الرقم/31808، وابن حبان في الصحیح، 14/206، الرقم/6297، وأبو یعلی في المسند، 13/451، الرقم/7456، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/151، الرقم/1419.

([22]) البيجوري في المداهب اللدنية على الشمائل المحمدية/25.

([23]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1305، الرقم/3363، ومسلم في الصحیح، کتاب التوبة، باب حدیث توبة كعب بن مالك وصاحبیه، 4/2127، الرقم/2769، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/458، الرقم/15827، والنسائي في السنن الکبری، 6/359- 360، الرقم/11232.

([24]) أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب کان النبي ﷺ أبیض ملیح الوجه، 4/1820، الرقم/2340 (1)، والبخاري في الأدب المفرد/276، الرقم/790، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/205، وذکره السیوطي في الشمائل الشریفة/22.

([25]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/36-38، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/155-156، الرقم/414، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/277، 338، 344، 348، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/422، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([26]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1304، الرقم/3362، ومسلم في الصحیح، کتاب الرضاع، باب العمل بإلحاق القائف الولد، 2/1081، الرقم/1459، وأبو داود في السنن، کتاب الطلاق، باب في القافة، 2/280، الرقم/2268، والترمذي في السنن، کتاب الولاء والهبة، باب ما جاء في القافة، 4/440، الرقم/2129، والنسائي في السنن، کتاب الطلاق، باب القافة، 6/184، الرقم/3493.

([27]) ابن الأثير في النهاية في غريب الأثر والحديث، 4/238-239.

([28]) أخرجه إسماعیل الأصبهاني في دلائل النبوة/113، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/310، وذکره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/107.

([29]) أخرجه أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب في المواقیت، 2/144، الرقم/1742، والبخاري في الأدب المفرد/392، الرقم/1148، والطبراني في المعجم الکبیر، 3/261، الرقم/3351، والبیهقي في السنن الکبری، 5/28، الرقم/8701، وذکره الهیثمي في مجمع الزوائد، 3/269.

([30]) أخرجه الترمذي في السنن، کتاب صفة القیامة والرقائق والورع، باب منه، 4/652، الرقم/2485، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء في قیام اللیل، 1/423، الرقم/1334، والدارمي في السنن، کتاب الصلاة، باب فضل صلاة اللیل، 1/405، الرقم/1460، وابن أبي شیبة في المصنف، 5/248، الرقم/25740، والحاکم في المستدرک، 3/14، الرقم/4283.
حضور ﷺ کی رنگت مبارک
4. وَصْفُ لَوْنِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی رنگت مبارک﴾


حضرب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کیا ہی دِل کش اور خوب صورت الفاظ میں آپ ﷺ کی رنگت بیان کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی رنگت ایسے سفید تھی کہ لگتا تھا کہ آپ ﷺ کا سراپا چاندی سے ڈھالا گیا ہے۔آپ ﷺ کی رنگت سفید مگر سرخی مائل تھی نہایت روشن، نکھری نکھری اور چمکتی دمکتی۔ اس چمک اور دمک کے سامنے صیقل شدہ تلواروں کی تابش و تابانی بھی مانددکھائی دیتی۔جب آپ ﷺ کسی بات پر خوش ہوتے تو روئے انور آئینہ کی طرح یوں چمک اٹھتا کہ دیواروں کا عکس تک آپ ﷺ کے چہرۂ اقدس میں جھلکتا اور ڈلکتا دکھائی دیتا۔ دربارِ رسالت مآب ﷺ کے ثنا خوان حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ کے حسنِ لم یزل کی تعریف و توصیف ایسے الفاظ میں کرتے ہیں کہ ہر لفظ اپنی جگہ ایک جہانِ معانی لیے ہوئے ہے:


وَأَحْسَنُ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عَينٌ
وَأَجمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ



(یا رسول اللہ!) آپ سے زیادہ حسن و جمال والا کسی آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور آپ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔


خُلِقْتَ مُبَرَّءً مِنْ كُلِّ عَيْبٍ
كَأَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءُ



(یا رسول اللہ!) آپ ہر عیب و نقص سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔ گویا آپ ایسے ہی پیدا کیے گئے جیسے حسین و جمیل پیدا ہونا چاہتے تھے۔

29. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْوَرَهُمْ لَوْنًا، أَزْهَرَ اللَّوْنِ([31]).

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا رنگ نہایت روشن، نکھرا، کِھلا اور چمکتا ہوا تھا۔

30. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَزْهَرَ اللَّوْنِ([32]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا رنگ مبارک انتہائی روشن اور چمک دار تھا۔

31. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ لَوْنًا([33]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رنگت و نگہت کے اعتبار سے (کرۂ ارض پر موجود) سب انسانوں سے زیادہ حسین و جمیل تھے۔

32. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، وَلَيْسَ بِالْآدَمِ([34]).

آپ رضی اللہ عنہ مزید بیان کرتے ہیں: آپ ﷺ کا رنگ نہ تو بالکل سفید تھا اور نہ ہی گندمی تھا۔

33. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ، کَانَ ﷺ أَبْیَضَ مُشْرَبًا بِحُمْرَةٍ([35]).

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آپ ﷺ کا رنگ مبارک سفید مگر سرخی مائل تھا۔

34. عَنْ أَبِي جُحَیْفَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَبْیَضَ([36]).

حضرت ابو جُحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا رنگ مبارک خوب گورا تھا۔

35. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی اللہ عنہ، کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَبْیَضَ، تَعْلُوْهُ حُمْرَةٌ([37]).

حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کا رنگ مبارک سرخی مائل سفید تھا۔

36. قَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَبْیَضَ کَأَنَّمَا صِیْغَ مِنْ فِضَّةٍ([38]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی رنگت ایسی سفید تھی کہ لگتا تھاآپﷺ کا سراپا چاندی سے ڈھالا گیا ہے۔


حوالہ جات



([31]) أخرجه البیهقي في دلائل النبوة، 1/300، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/358، وذکره القسطلاني في المواهب اللدنیة، 2/89.

([32]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1306، الرقم/3368، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب رائحة النبي ﷺ ولین مسه والتبرك بمسحه، 4/1815، الرقم/2330، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/228، 270، الرقم/13405، 13887، والدارمي في السنن، 1/45، الرقم/61.

([33]) أخرجه ابن عساكر في السيرة النبوية، 1/321.

([34]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1303، الرقم/3355، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ ومبعثه وسنه، 4/1824، الرقم/2347، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في مبعث النبي ﷺ وبن كم كان حين بعث، 5/592، الرقم/3623، وابن حبان في الصحیح، 14/298، الرقم/6387، والنسائي في السنن الکبری، 5/409، الرقم/9310.

([35]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/116، الرقم/944، وابن حبان في الصحیح، 14/216-217، الرقم/6311، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/328، الرقم/31807، وأبو یعلى في المسند، 1/303، الرقم/369.

([36]) أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب شیبه ﷺ، 4/1822، الرقم/2343، والترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في العدة، 5/128، الرقم/2826.

([37]) أخرجه الرویاني في المسند، 2/318، الرقم/1280، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/416، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/300، 302.

([38]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/40، الرقم/12، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/241، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 10/297، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/271.
جسم اطہر کی نظافت و لطافت اور خوشبوئے عنبریں
5. لَطَافَةُ جَسَدِهِ وَطِيْبُ رِيْحِهِ ﴿جسمِ اطہر کی نظافت و لطافت اور خوشبوئے عنبریں﴾



ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبی است



آپ ﷺ کے جسدِ اقدس کو دستِ قدرت نے خصوصی اہتمام اور محبت کے ساتھ خوشبو میں گوندھا تھا۔ جب آپ ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی تو آپ ﷺ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’جوں ہی میں نے پہلی مرتبہ آپ ﷺ کی زیارت کی تو میں نے آپ ﷺ کے جسمِ اقدس کو چودھویں رات کے چاند کی طرح سراپا نور پایا اور اس سے تر و تازہ کستوری کی مہک آرہی تھی۔ آپ ﷺ کے جسم پر میل کا کوئی ذرہ یا نشان تک نہ تھا‘۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’جب میں حضور ﷺ کو اپنے گھر لے آئی تو قبیلہ بنوسعد کا کوئی گھر ایسا نہ رہا جس سے ہم نے کستوری کی خوشبو نہ سونگھی ہو‘۔آپ ﷺ خوشبو استعمال نہ بھی فرماتے تب بھی آپ ﷺ کے جسمِ اقدس سے کستوری یا مخلوط عطر کی خوشبو مشامِ جاں کو معطر کرتی۔ آپ ﷺ کا پسینہ مبارک بھی مشک بار ہوتا اور اس سے پھوٹنے والی خوشبو کائنات کی عمدہ ترین خوشبو سے بھی افضل ہوتی۔


عطر و مشک و عنبر کی کیا بساط ہے لوگو
دو جہاں معطر ہیں آپ کے پسینے سے



اُمِ مبارک رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’میں نے ایک نوجوان دیکھا بڑا صاف ستھرا، حسین، سفید چمکتا چہرہ، جیسے کلیوں میں ایک تازگی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا رنگ نوخیز کلیوں کی طرح چمکتا تھا‘۔ اورفرماتی ہیں: ’نہ آپ ﷺ ایسے موٹے تھے کہ نظروں میں کھٹکیں اور نہ ایسے دبلے اور کمزور تھے کہ بے ر عب ہوجائیں۔آپ ﷺ وسیم و قسیم تھے۔‘ عربی زبان میں وسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں اور قسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں وسیم وہ خوبصورت ہوتا ہے جسے جتنا دیکھیں اس کا حسن اتنا بڑھتا ہے یعنی جسے دیکھتے ہوئے آنکھ نہ بھرے۔ قسیم اسے کہتے ہیں جس کا ہر عضو الگ الگ حسن کی ترجمانی کرتا ہو یعنی جس کا ہر عضو حسن میں کامل اور اکمل ہو۔

37. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ رَقِیْقَ الْبَشَرَةِ([39]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: حضور ﷺ کےجسمِ اقدس کی جِلد مبارک نہایت نرم و نازک تھی۔

38. قَالَ أَبُوْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ : وَاللهِ، مَا أَدْخَلْتُهُ فِرَاشِي، فَإِذَا هُوَ فِي غَایَةِ اللِّیْنِ، وَطِيْبِ الرَّائِحَةِ، كَأَنَّهُ غُمِسَ فِي الْمِسْكِ([40]).

آپ ﷺ کے عمِ محترم حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم! جب بھی میں نے حضور ﷺ کو اپنے ساتھ بستر میں لٹایا تو آپ ﷺ کے جسم اطہر کو نہایت ہی نرم و نازک پایا۔ آپ ﷺ کے جسم اطہر سے اس قدر خوشبو آتی تھی جیسے آپ ﷺ کو کستوری (کے عطر) میں نہلایا گیا ہو۔

39. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَلَا مَسِسْتُ خَزَّةً وَلَا حَرِیْرَةً أَلْیَنَ مِنْ كَفِّ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ([41]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: میں نے (زندگی میں آج تک) کسی ایسے ریشم یا دیباج کو مَس نہیں کیا جو رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہتھیلی سے زیادہ نرم اور ملائم ہو۔

40. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَلَا شَمَمْتُ مِسْكَةً وَلَا عَبِیْرَةً أَطْیَبَ رَائِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ([42]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: میں نے کسی کستوری یا مخلوط عطر کی خوشبو کو رسول اللہ ﷺ (کے بدنِ اطہر) کی خوشبو سے بڑھ کر نہیں پایا۔

41. عَنْ أُمِّهِ ﷺ السَّيِّدَةِ آمِنَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: وَلَدْتُهُ نَظِیْفًا مَا بِهِ قَذَرٌ([43]).

حضور ﷺ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے آپ ﷺ کو اس طرح پاک و صاف (اور لطیف و نظیف) جنم دیا کہ آپ کے وجودِ مزکّی پرمیل كاکوئی ذرّہ یا نشان تک نہ تھا۔

42. وَفِي رِوَايَةٍ: وَلَدَتْهُ ﷺ أُمُّهُ رضی اللہ عنہا بِغَیْرِ دَمٍ وَلَا وَجَعٍ([44]).

ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ جب آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کوجنم دیا تو آپ کی ولادت کے ساتھ نہ کوئی خون کا دھبہ تھا اور نہ کسی درد کا احساس تھا۔

43. ذَكَرَ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ عَنْ أُمِّهِ ﷺ السَّيِّدَةِ آمِنَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: نَظَرْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ کَالْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ، رِیْحُهُ یَسْطَعُ كَالْمِسْكِ الْأَذْفَرِ([45]).

امام ابو نعیم اور خطیب بغدادی نے آپﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کا ایک قول یوں نقل کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جوں ہی میں نے (پہلی مرتبہ) آپ ﷺ کی زیارت کی تو میں نے آپ ﷺ کے جسمِ اقدس کو چودھویں رات کے چاند کی طرح سراپا نور پایا اور اس سے تر و تازہ کستوری کی مہک آ رہی تھی۔

44. قَالَتْ حَلِيْمَةُ رضی اللہ عنہا : وَلَمَّا دَخَلْتُ بِهِ ﷺ إِلَی مَنْزِلِي، لَمْ یَبْقَ مَنْزِلٌ مِنْ مَنَازِلِ بَنِي سَعْدٍ إِلَّا شَمَمْنَا مِنْهُ رِیْحَ الْمِسْكِ([46]).

حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب میں حضور ﷺ کو اپنے گھر لے آئی تو قبیلہ بنو سعد کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو کستوری کی خوشبو سے ہر کسی کے مشامِ جاں کو فرحت و اِنبساط کا پیغام نہ دے رہا ہو۔

45. وَعَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ لَوْنًا، وَأَطْيَبَ النَّاسِ رِيْحًا([47]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رنگت کے اعتبار سے سب لوگوں سے زیادہ حسین و جمیل تھے اور مہک کے لحاظ سے سب سے زیادہ خوشبودار تھے۔

46. قَالَ النَّوَوِيُّ: كَانَتْ هَذِهِ الرِّيْحُ الطَّيِّبَةُ صِفَتَهُ ﷺ وَإِنْ لَمْ يَمَسَّ طِيْبًا([48]).

امام نووی فرماتے ہیں: یہ خوشبو حضور ﷺ کے جسمِ اطہر کی اپنی صفت تھی، اگرچہ آپ ﷺ نے خوشبو استعمال نہ بھی فرمائی ہوتی (تب بھی آپ ﷺ کے جسمِ اقدس سے اسی طرح خوشبو آتی تھی)۔

47. قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ: إِنَّ هَذِهِ الرَّائِحَةَ الطَّیِّبَةَ کَانَتْ رَائِحَةَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِنْ غَیْرِ طِیْبٍ([49]).

امام اسحاق بن راہویہ اس بات کی تصریح کرتے ہیں: یہ خوشبو اور مہک آپ ﷺ کے جسمِ اقدس کی اپنی تھی، نہ کہ اُس خوشبو کی جسے آپ ﷺ (کبھی کبھی) استعمال فرماتے تھے۔

48. قَالَ الْخَفَاجِيُّ: رِیْحُهُ الطَّیِّبَةُ طَبْعِیًّا خَلْقِیًّا، خَصَّهُ اللهُ بِهِ مَکْرُمَةً وَمُعْجِزَةً لَهُ([50]).

امام خفاجی بیان کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نےیہ خوش گوار مہک آپ ﷺ کی عظمت اور معجزہ کے اظہار کے لیے آپ ﷺ کے جسمِ اَطہر میں طبعی و پیدائشی طور پر رکھ دی تھی۔

49. عَنْ عُمَرَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رِیْحُ عَرَقِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ رِیْحَ الْمِسْكِ. بِأَبِي وَأُمِّي، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحَدًا مِثْلَهُ([51]).

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ﷺ کے مبارک پسینے کی خوشبو کستوری سے بڑھ کر تھی۔ میں نے حضور ﷺ جیسا خوبصورت نہ کوئی آپ ﷺ سے پہلے دیکھا اور نہ بعد میں۔

50. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: مَا شَمَمْتُ عَنْبَرًا قَطُّ، وَلَا مِسْكًا، وَلَا شَيْئًا أَطْيَبَ مِنْ رِيْحِ رَسُولِ اللهِ ﷺ ([52]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نےکوئی عنبر، کستوری یاعطر بیز شے،آپ ﷺ (کے جسمِ اَطہر) کی مہک سے زیادہ پیاری مہک (اور خوشبو) والی نہیں سونگھی۔

51. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَلَا شَمَمْتُ مِسْكَةً وَلَا عَبِیْرَةً أَطْیَبَ رَائِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ([53]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے کستوری یا کسی ایسے مخلوط عطر کو نہیں سونگھا جو رسول اللہ ﷺ (کے جسمِ اَطہر) کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار ہو۔

52. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ عَرَقُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي وَجْهِهِ اللُّؤْلُؤَ، وَرِیْحُ عَرَقِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَطْیَبَ مِنْ رِیْحِ الْمِسْكِ الْأَذْفَرِ([54]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور ﷺ کے چہرۂ اَنور پر پسینے کے قطرے خوبصورت چمک دار (آب دار اور تاب دار) موتیوں کی طرح دکھائی دیتےتھے اور آپ ﷺ کے پسینے کی خوشبو (دنیا کی) عمدہ ترین کستوری سے کہیں بڑھ کر تھی۔

53. عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ یَسْلُكْ طَرِیْقًا أَوْ لَا یَسْلُكُ طَرِیْقًا فَیَتْبَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا عَرَفَ أَنَّهُ قَدْ سَلَكَهُ مِنْ طِیْبِ عَرَقِهِ ﷺ ([55]).

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ جس راستے سے (بھی) گزر جاتے، پھر کوئی بھی شخص بعد میں اُس راستے سے گزرتا تو وہ آپ ﷺ کے پسینہ مبارک کی (منفرد) خوشبو سے جان لیتا کہ آپ ﷺ کا گزر اِس راستے سے ہوا ہے۔

54. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا مَرَّ فِي طَرِیْقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِیْنَةِ، وَجَدُوْا مِنْهُ رَائِحَةَ الطِّیْبِ، وَقَالُوْا: مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنْ هَذَا الطَّرِیْقِ([56]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینۂ منورہ کے جس بھی راستے سے گزر جاتے، لوگ اُس راہ میں نہایت دیباری (اور پاکیزہ) مہک پاتے اور پُکار اُٹھتے کہ اسی راستے سے رسول الله ﷺ کا گزر ہوا ہے۔

55. وَفِي رِوَایَةٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: دَخَلَ عَلَیْنَا النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ عِنْدَنَا، فَعَرِقَ، وَجَاءَتْ أُمِّي بِقَارُوْرَةٍ، فَجَعَلَتْ تَسْلِتُ الْعَرَقَ فِیْهَا، فَاسْتَیْقَظَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، مَا هَذَا الَّذِي تَصْنَعِیْنَ؟ قَالَتْ: هَذَا عَرَقُكَ نَجْعَلُهُ فِي طِیْبِنَا وَهُوَ مِنْ أَطْیَبِ الطِّیْبِ([57]).

ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے، پھر ہمارے ہاں ہی قیلولہ فرمایا۔ آپ ﷺ کو پسینہ آیا تو میری والدہ ایک شیشی لے آئیں اور آپ ﷺ کا پسینہ مبارک صاف کر کے اُس شیشی میں ڈالنے لگیں۔ (دریں اِثناء) حضور نبی اکرم ﷺ بیدار ہو گئے اور دریافت فرمایا: اے اُمِّ سُلیم! یہ کیا کر رہی ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آپ کا پسینہ مبارک ہے جسے (میں جمع کر رہی ہوں، تاکہ بعد ازاں) ہم اسے اپنی خوشبو میں ڈالیں گے۔ یہ (معنبر و معطر پسینہ مبارک) سب سے عمدہ خوشبو ہے۔

56. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي زَوَّجْتُ ابْنَتِي وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تُعِیْنَنِي بِشَيءٍ. قَالَ: مَا عِنْدِي شَيءٌ، وَلَكِنْ إِذَا کَانَ غَدًا فَائْتِنِي بِقَارُوْرَةٍ وَاسِعَةِ الرَّأْسِ وَعُوْدِ شَجَرَةٍ، وَآیَةٌ بَیْنِي وَبَیْنَكَ أَنْ أُجِیْفَ نَاحِیَةَ الْبَابِ. قَالَ: فَلَمَّا کَانَ فِي الْغَدِ أَتَاهُ بِقَارُوْرَةٍ وَاسِعَةِ الرَّأْسِ، وَعُوْدِ شَجَرَةٍ. فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ یَسْلِتُ الْعَرَقَ عَنْ ذِرَاعَیْهِ حَتَّى امْتَلَأَتِ الْقَارُوْرَةُ، فَقَالَ: خُذْهَا وَأْمُرِ ابْنَتَكَ أَنْ تَغْمِسَ هَذَا الْعُوْدَ فِي الْقَارُوْرَةِ، فَتَطَیَّبُ بِهِ. قَالَ: فَکَانَتْ إِذَا تَطَیَّبَتْ شَمَّ أَهْلُ الْمَدِیْنَةِ رَائِحَةَ ذَلِكَ الطِّیْبِ، فَسَمُّوْا بَیْتَ الْمُطَیِّبِیْنَ([58]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بیٹی کی شادی ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ آپ میری مدد فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اِس وقت تو میرے پاس کچھ نہیں لیکن تم کل ایک کھلے منہ والی شیشی اور ایک لکڑی لے کر آنا، میرے اور تمہارے درمیان ملاقات کی یہ نشانی ہوگی کہ دروازے کا کواڑ بند ہوگا (تو تم دروازے پر دستک دینا)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے دن وہ کھلے منہ والی شیشی اور لکڑی لے کر آیا۔ آپ ﷺ نے (لکڑی سے) اپنے بازوؤں پر سے پسینہ اکٹھا کر کے اُس شیشی میں ڈالنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ شیشی بھر گئی۔ پھر آپ ﷺ نے اُس شخص سے فرمایا: یہ لے جاؤ اور اپنی بیٹی سے جا کر کہو کہ اِس لکڑی کو اِس شیشی میں ڈبو کر نکالے اور اپنے آپ کو اِس سے خوشبو لگائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ خوشبو لگاتی تو پورا شہرِ مدینہ اُس کی خوشبو سے مہک اُٹھتا اور اِسی بناء پر لوگوں نے اُس گھر کا نام ’خوشبو والوں کا گھر‘ رکھ دیا۔

57. ذَكَرَ الْقَاضِي عِيَاضٌ فِي ‹‹الشِّفَا››: کَانَ لَا ظِلَّ لِشَخْصِهِ ﷺ فِي شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ، لِأَنَّهُ کَانَ نُوْرًا([59]).

قاضی عیاض فرماتے ہیں: سورج اور چاند کی روشنی میں بھی آپ ﷺ کے جسمِ اطہر کا سایہ نہ ہوتا تھا،کیونکہ آپ ﷺ سراپا نور تھے۔

58. ذَكَرَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي ‹‹الْوَفَا››: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: لَمْ يَكُنْ لِرَسُوْل اللهِ ﷺ ظِلٌّ، وَلَمْ يَقُمْ مَعَ شَمْسِ قَطُّ إِلَّا غَلَبَ ضَوْؤُهُ ضَوْءَ الشَّمْسِ، وَلَمْ يَقُمْ مَعَ سِرَاجٍ قَطُّ إِلَّا غَلَبَ ضَوْؤُهُ عَلَى ضَوْءِ السِّرَاجِ([60]).

علامہ ابن الجوزی نے اپنی کتاب ’الوفا باَحوال المصطفی ﷺ ‘ میں بیان کیا ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ نہ تھا۔ آپ ﷺ سورج کی روشنی میں کھڑے ہوتے تو آپ ﷺ کا نور مبارک سورج کی روشنی پر غالب آ جاتا۔ جب آپ ﷺ چراغ کےسامنے کھڑے ہوتے تو آپ ﷺ کے جسمِ اَطہر کا نور چراغ کی روشنی پر غالب آ جاتا۔

59. ذَكَرَ السُّيُوْطِيُّ فِي ‹‹الْخَصَائِصِ الْكُبْرَى››: إِنَّ ظِلَّهُ ﷺ کَانَ لَا یَقَعُ عَلَی الْأَرْضِ، وَأَنَّهُ کَانَ نُوْرًا، فَکَانَ إِذَا مَشَی فِي الشَّمْسِ أَوِ الْقَمَرِ لَا یُنْظَرُ لَهُ ظِلٌّ([61]).

امام سیوطی ’الخصائص الکبریٰ‘ میں روایت نقل فرماتے ہیں: حضور ﷺ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا، کیونکہ آپ ﷺ سراپا نور تھے۔ جب آپ ﷺ سورج یا چاند کی روشنی میں خرامِ ناز فرماتے تو آپ ﷺ کا سایہ نظر نہ آتا۔

60. قَالَ الزُّرْقَانِيُّ: لَمْ یَکُنْ لَهَا ظِلٌّ فِي شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ([62]).

امام زرقانی فرماتے ہیں: سورج اور چاند کی روشنی میں بھی آپ ﷺ کا سایہ نہ ہوتاتھا۔


حوالہ جات



([39]) ذكره ابن الجوزي في الوفا/409.

([40]) ذكره الرازي في التفسیر الکبیر، 31/214.

([41]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي وإفطاره ﷺ، 2/696، الرقم/1872، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/278.

([42]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي وإفطاره ﷺ، 2/696، الرقم/1872، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/278.

([43]) ذكره الخفاجي في نسیم الریاض، 1/363.

([44]) ذكره ملا علي القاري في شرح الشفاء، 1/165.

([45]) ذكره الزرقاني في شرح المواهب اللدنیة،5/531.

([46]) ذكره الصالحي في سبل الهدى والرشاد، 1/387.

([47]) أخرجه ابن عساكر في السيرة النبوية، 1/321.

([48]) النووي في شرح صحيح المسلم، 2/256.

([49]) ذكره الصالحي في سبل الهدى والرّشاد، 2/88.

([50]) ذكره الخفاجي في نسيم الرّياض، 1/348.

([51]) أخرجه ابن عساكر في السيرة النبوية، 1/319.

([52]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1306، الرقم/3368، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب رائحة النبي ﷺ ولین مسه والتبرك بمسحه، 4/1814-1815، الرقم/2330، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/228، 270، الرقم/13405، 13887، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في خلق النبي ﷺ، 4/368، الرقم/2015.

([53]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي وإفطاره ﷺ، 2/696، الرقم/1872.

([54]) ذكره الصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/86.

([55]) أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب في حسن النبي ﷺ، 1/45، الرقم/66، والبخاري في التاریخ الکبیر، 1/399، الرقم/1273.

([56]) أخرجه المقدسي في الأحادیث المختارة، 7/129، الرقم/2560، وذکره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/67.

([57]) أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب عرق النبي ﷺ والتبرك به، 4/1815، الرقم/2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/136، الرقم/12419، والطبراني في المعجم الکبیر، 25/119، 122، الرقم/289، 297، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154، الرقم/1429، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 2/61، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8/428.

([58]) أخرجه أبو یعلى في المعجم، 1/117-118، الرقم/118، وأیضًا في المسند، 11/185-186، الرقم/6295، والطبراني في المعجم الأوسط، 3/190-191، الرقم/2895، والأصبهاني في دلائل النبوة/59، الرقم/41، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 6/23، الرقم/3055، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 4/48، وذکره ابن کثیر في البدایة والنهایة، 6/25، والهیثمي في مجمع الزوائد، 4/256، وأیضًا، 8/283، والمناوي في فیض القدیر، 5/80، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1/44، وأیضًا في الخصائص الکبری، 1/115-116.

([59]) ذكره القاضي عیاض في الشفا، 1/522، والخازن في لباب التأویل في معاني التنزیل، 3/321، والنسفي في المدارك، 3/135، والمقری التلمساني في فتح المتعال في مدح النعال/510.

([60]) ذكره ابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفى ﷺ، 2/65.

([61]) ذكره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/122، وابن شاهین في غایة السؤل في سیرة الرسول، 1/297.

([62]) الزرقاني في شرح المواهب اللدنیة، 5/524.
آپ ﷺ کا سرِ اَقدس اور موئے مبارک
6. وَصْفُ رَأْسِهِ ﷺ وَشَعَرِهِ ﴿آپ ﷺ کا سرِ اَقدس اور موئے مبارک﴾

جس طرح قرآنِ مکتوب و مسطور کی ہر منزل،ہرسورت، ہر رکوع، ہرآیت، ہر لفظ، ہر حرف، ہر زیر، ہر زبر، ہر پیش، ہرجزم،ہر مد اور شد محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے لیا ہے، اسی طرح یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ قرآنِ ناطق نبی مکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک پہلو، ایک ایک عمل، ایک ایک ادا، ایک ایک انداز، ایک ایک قول،ایک ایک فعل، ایک ایک جملہ، ایک ایک طرزِ معاشرت و زندگی کے علاوہ آپ ﷺ کی وضع قطع، جسمِ مطہر کے ہرہر عضو اور خد و خال کو بھی محفوظ رکھنے کے لیے اللہ نے اپنے پسندیدہ و چنیدہ اوربرگزیدہ انسانوں کا انتخاب کیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے گیسوئے مبارک خم دار تھے، وہ نہ تو مکمل طور پر گھنگریالے تھے نہ ہی بالکل سیدھے۔ اگر انہیں کنگھی مبارک سے سیدھا کیا جاتا تو کانوں کی لَو تک پہنچتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ کنگھی کرنے کے بعد آپ ﷺ کے بال مبارک کندھوں کو چوم رہے ہوتے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کی سیاہ زلفوں کے درمیان دو سفید کان یوں لگتے جیسے تاریکی میں دو روشن ستارے چمک رہے ہوں۔ آپ ﷺ کے موئے مبارک نہایت حسین و جمیل تھے۔ آپ ﷺ کے سر انور اور ڈاڑھی مبارک میں چودہ سے زیادہ سفید بال نہیں تھے۔ ایک دوسری روایت میں ان کی تعداد 20 بتائی گئی ہے۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سرخ حلے میں ملبوس نبی ﷺ سے زیادہ خوبصورت کوئی بھی نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ کے سر مبارک کے بال آپ ﷺ کے مبارک کندھوں پر پڑتے تھے۔

61. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ضَخْمَ الرَّأْسِ([63]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک موزوں حد تک بڑا تھا۔

62. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ : كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَظِیْمَ الْهَامَةِ([64]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کا سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔

63. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَکَانَ شَعَرُ النَّبِيِّ ﷺ رَجِلًا، لَا جَعْدَ وَلَا سَبِطَ([65]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے گیسوئے مبارک خم دار تھے، وہ نہ تو مکمل طور پر گھنگریالے تھے، نہ ہی بالکل سیدھے تھے (بلکہ ان کے خم معتدل، مناسب اور موزوں تھے)۔

64. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ لَهُ شَعَرٌ یَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنَیْهِ([66]).

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے گیسو مبارک (اگر کنگھی سے سیدھے کیےجاتے تو) کانوں کی لَو تک پہنچتے تھے۔

65. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَکَانَتْ جُمَّتُهُ ﷺ تَضْرِبُ شَحْمَةَ أُذُنَیْهِ([67]).

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی زلفیں (کنگھی سے سیدھا کرنے کی صورت میں) آپ ﷺ کے کانوں کی لَو کو چھوتی تھیں۔

66. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: مَا رَأَیْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، شَعْرُهُ یَضْرِبُ مَنْکِبَیْهِ([68]).

حضرت براء رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: میں نے کسی دراز گیسو حسین کو سرخ پوشاک میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ حسین اور وجیہ نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ کے بال مبارک (کنگھی سے سیدھا کیےجانے کی صورت میں) کندھوں کو چوم رہے ہوتے تھے۔

67. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: کَانَ لَهُ ﷺ شَعْرٌ فَوْقَ الْجُمَّةِ وَدُوْنَ الْوَفْرَةِ([69]).

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ کی زلفیں (کنگھی کے بعد) کانوں اور شانوں کے درمیان پہنچ جایا کرتی تھیں۔

68. عَنْ عُمَرَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ ذَا وَفْرَةٍ([70]).

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ موزوں زلفوں والے تھے۔

69. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَسَنَ الشَّعَرِ([71]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک نہایت حسین و جمیل تھے۔

70. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ : كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ رَجِلَ الشَّعَرِ، إِنِ انْفَرَقَتْ عَقِیْقَتُهُ، فَرَّقَهَا وَإِلَّا فَلَا، یُجَاوِزُ شَعَرُهُ شَحْمَةَ أُذُنَیْهِ إِذَا هُوَ وَفَّرَهُ أَزْهَرَ اللَّوْنِ([72]).

حضرت ہند بن اَبی ہالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک خم دار تھے۔ اگر سَر کی مانگ نکل آتی تو مانگ نکال لیتے ورنہ انہیں بغیر مانگ نکالے ہی چھوڑ دیتے۔ آپ ﷺ کے بال کانوں کی لَو سے بڑھے ہوئے ہوتے۔ جب آپ ﷺ زلفیں بکھیرتے تو آپ کا رُخِ اَنور خوب روشن دکھائی دیتا تھا (جیسے رس بھری گھنگھور گھٹاؤں کے اوٹ سے نیرِ تاباں جلوہ پاش ہو)۔

71. سُئِلَ أَبُوْ هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ عَنْ صِفَةِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعَرِ([73]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک سے متعلق پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: آپ ﷺ کے بال مبارک گھنے سیاہ تھے۔

72. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَدِیْدَ سَوَادِ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ([74]).

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سر انور اور ریش مبارک کے بال گہرے سیاہ رنگ کے تھے۔

73. قَدْ سُئِلَ جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ رضی اللہ عنہ عَنْ شَيْبِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: كَانَ إِذَا دَهَنَ رَأْسَهُ، لَمْ يُرَ مِنْهُ شَيْءٌ، وَإِذَا لَمْ يَدْهُنْ رُئِيَ مِنْهُ([75]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کے بڑھاپے کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: آپ ﷺ جب سر انور میں تیل لگاتے تو بالوں میں ذرا برابر سفیدی معلوم نہ ہوتی۔ البتہ تیل نہ لگاتے تو پھر کچھ بالوں میں سفیدی معلوم ہوتی تھی۔

74. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: مَا كَانَ فِي رَأْسِ رَسُوْلِ اللَّهِ ﷺ مِنَ الشَّيْبِ إِلَّا شَعَرَاتٌ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ، إِذَا ادَّهَنَ، وَارَاهُنَّ الدُّهْنُ([76]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سرِ اَنور میں بڑھاپے کے آثار نہ تھے، سوائے اِس کے کہ آپ ﷺ کی مانگ میں چند سفید بال تھے۔ جب آپ ﷺ بالوں میں تیل لگاتے تو تیل اُن بالوں کو چھپا لیتا تھا۔

75. عَنْ حَرِيْزِ بْنِ عُثْمَانَ، أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ صَاحِبَ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: أَرَأَيْتَ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ شَيْخًا؟ قَالَ: كَانَ فِي عَنْفَقَتِهِ شَعَرَاتٌ بِيْضٌ([77]).

حضرت حریز بن عثمان نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ بوڑھے (لگتے ) تھے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، آپ ﷺ کی ٹھوڑی کے صرف چند بال سفید ہو گئے تھے۔

76. وَقَالَ أَنَسٌ رضی اللہ عنہ : مَا عَدَدْتُ فِي رَأْسِ رَسُوْلِ اللَّهِ ﷺ وَلِحْيَتِهِ، إِلَّا أَرْبَعَ عَشْرَةَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ([78]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کے سرِ اَنور اور ڈاڑھی مبارک میں چودہ سے زیادہ سفید بال نہیں دیکھے۔

77. وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رضی اللہ عنہما : كَانَ شَيْبُ رَسُوْلِ اللَّهِ ﷺ نَحْوًا مِنْ عِشْرِيْنَ شَعْرَةً([79]).

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے صرف بیس بال سفید تھے۔

78. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُسْدِلُ نَاصِيَتَهُ سَدْلَ أَهْلِ الْكِتَابِ، ثُمَّ فَرَّقَ بَعْدُ فَرْقَ الْعَرَبِ([80]).

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: (شروع میں) حضور نبی اکرم ﷺ پیشانیِ اَقدس کے اوپر سامنے والے بال بغیر مانگ نکالے لٹکتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے، جیسا کہ اہلِ کتاب بھی کیا کرتے تھے؛ لیکن بعد میں آپ ﷺ اس طرح مانگ نکالتے جیسے اہلِ عرب نکالا کرتےتھے۔



حوالہ جات




([63]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/96، 127، الرقم/746، 1053، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/598، الرقم/3637، والبزار في المسند، 2/118، الرقم/474، والحاکم في المستدرك، 2/662، الرقم/4194، والبخاري في التاریخ الکبیر، 1/8، وأبو یعلی في المسند، 1/304، الرقم/370، والطیالسي في المسند، 1/24، الرقم/171، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/149، الرقم/1414.

([64]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/36-38، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/155-156، الرقم/414، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/277، 338، 344، 348، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/422، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([65]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب اللباس، باب الجعد، 5/2212، الرقم/5566، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب صفة شعر النبي ﷺ، 4/1819، الرقم/2338، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/135، الرقم/12405، والنسائي في السنن، کتاب الزینة، باب أخذ الشارب، 8/131، الرقم/5053، وأبو یعلی في المسند، 5/233، الرقم/2847، وابن حبان في الصحیح، 14/201، الرقم/6291.

([66]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1303، الرقم/3358، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنّه کان أحسن الناس وجهًا، 4/1818، الرقم/2337، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/281، الرقم/18496، وأبو داود في السنن، کتاب اللباس، باب في الرخصة في ذلك، 4/54، الرقم/4072، والترمذي في الشمائل المحمدیة/30، الرقم/3.

([67]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/48، الرقم/26.

([68]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب اللباس، باب الجعد، 5/2211، الرقم/5561، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنّه کان أحسن الناس وجهًا، 4/1818، الرقم/2337، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/290، 300، الرقم/18581، 18688، وأبوداود في السنن، کتاب الترجل، باب ما جاء في الشعر، 4/81، الرقم/4183، والنسائي في السنن، کتاب الزینة، باب اتخاذ الشعر، 8/133، الرقم/5060.

([69]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6/108، الرقم/24812، وأبو داود في السنن، کتاب الترجل، باب ما جاء في الشعر، 4/82، الرقم/4187، والترمذي في السنن، کتاب اللباس، باب ما جاء في الجمة واتخاذ الشعر، 4/233، الرقم/1755، وابن ماجه في السنن، کتاب اللباس، باب اتخاذ الجمة والذوائب، 2/1200، الرقم/3635، والطبراني في المعجم الأوسط، 2/5، الرقم/1039، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/429، وابن عبد البر في التمهید، 6/81.

([70]) أخرجه ابن عساكر في السيرة النبوية، 3/149.

([71]) أخرجه ابن عساكر في تهذيب تاريخ دمشق الكبير، 1/317، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/217.

([72]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/36-38، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/155-156، الرقم/414، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/277، 338، 344، 348، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/422، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([73]) أخرجه معمر بن راشد في الجامع، 11/259، الرقم/20490، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/275، وذکره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/127، وأیضًا في الشمائل الشریفة/27.

([74]) أخرجه معمر بن راشد في الجامع، 11/259، الرقم/20490، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/275، وذکره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/127، وأیضًا في الشمائل الشریفة/27.

([75]) أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب شيبه ﷺ، 4/1822، الرقم/2344.

([76]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/90، الرقم/20872، وأيضا في، 5/92، الرقم/20896، والترمذي في الشمائل المحمدية، 1/59، الرقم/44، والطبراني في المعجم الكبير، 2/232، الرقم/1963، والحاكم في المستدرك، 2/664، الرقم/4202.

([77]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1302، الرقم/3353، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/187، الرقم/17708، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/187، الرقم/25063.

([78]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/165، الرقم/12713، وعبد الرزاق في المصنف، 11/155، الرقم/20185، وابن حبان في الصحيح، 14/203، الرقم/6293، وعبد بن حميد في المسند، 1/372، الرقم/1243.

([79]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/90، الرقم/5633، وابن ماجه في السنن، كتاب اللباس، باب من ترك الخضاب، 2/1199، الرقم/3630، وابن حبان في الصحيح، 14/203، الرقم/6294.

([80]) أخرجه ابن حبان في الثقات، 7/34، الرقم/8879، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 8/437، الرقم/4545.
حضور ﷺ کی جبیں مبارک
7. وَصْفُ جَبِیْنِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی جبیں مبارک﴾

اگر جسم ایک متنفس غزل ہے تو جبیں اس کا مطلعِ اَوّل ہے۔ امامِ قبلتین، وسیلۂ دارین اور مالک حسنِ کونین ﷺ کی پیشانی مبارک روشن اور کشادہ تھی۔ شارحین اور علم القیافہ کے ماہرین اس پر متفق الرائے ہیں کہ ’کشادہ پیشانی حُسنِ خَلق پر دلالت کرتی ہے‘۔ روایات میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی طرف وحی بھیجی کہ نبیِ آخرالزماں ﷺ کشادہ پیشانی والے ہوں گے۔ صبحِ صادق یا شام کے اوقات میں آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا ان کی مجلس کی جانب تشریف لاتے اور ان کی پہلی نگاہِ مشتاق آپ ﷺ کے وجیہ وصبیح اور جمیل چہرۂ مبارک پر پڑتی تو ان کی چشمِ جمال جُو کو آپ ﷺ کی پیشانی مبارک کی طاق میں جگمگاتے چراغ کی طلائی لوئیں جھلملاتی دکھائی دیتیں۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ صرف آپ ﷺ کی جبینِ مبارک ہی مطلعِ اَنوار نہ تھی بلکہ آپ ﷺ کی پیشانی سے ٹپکنے والے پسینہ مبارک سے بھی بارشِ اَنوار ہوتی۔

79. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَاسِعَ الْجَبِیْنِ([81]). وَرُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ نَحْوُهُ([82]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی پیشانی مبارک کشادہ تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

80. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ ﷺ أَجْلَی الْجَبِیْنِ إِذَا طَلَعَ جَبِیْنُهُ مِنْ بَیْنِ الشَّعَرِ، إِذَا طَلَعَ فِي فَلْقِ الصُّبْحِ أَوْ عِنْدَ طِفْلِ اللَّیْلِ أَوْ طَلَعَ بِوَجْهِهِ عَلَی النَّاسِ تَرَاءُوْا جَبِیْنَهُ کَأَنَّهُ ضَوْءُ السِّرَاجِ الْمُتَوَقِّدِ، قَدْ یَتَلَأْلَأُ([83]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی پیشانی مبارک جب بالوں کے درمیان میں سے نمودار ہوتی تو سب سے زیادہ روشن ہوتی، آپ ﷺ جب بھی صبح صادق یا شام کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس کی طرف تشریف لاتے تو انہیں آپ ﷺ کی پیشانی مبارک یوں دکھائی دیتی جیسے روشن چراغ چمک رہا ہے (یا جیسے نقرئی طاق میں کافوری شمعیں جھلملا رہی ہوں)۔

81. أَوْحَى اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، إِلَى عِيْسَى بْنِ مَرْيَمَ علیہما السلام : أَنَّهُ ﷺ الصَّلْتُ الْجَبِيْنِ([84]).

اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کی طرف وحی فرمائی کہ وہ (آخری نبی ﷺ ) کشادہ پیشانی والے ہوں گے۔

82. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: كُنْتُ قَاعِدَةً أَغْزِلُ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَخْصِفُ نَعْلَهُ، فَجَعَلَ جَبِيْنُهُ يَعْرَقُ وَجَعَلَ عَرَقُهُ يَتَوَلَّدُ نُوْرًا، فَبُهِتُّ، فَنَظَرَ إِلَيَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ، بُهِتِّ؟ قُلْتُ: جَعَلَ جَبِيْنُكَ يَعْرَقُ، وَجَعَلَ عَرَقُكَ يَتَوَلَّدُ نُوْرًا. وَلَوْ رَآكَ أَبُوْ كَبِيْرٍ الْهُذَلِيُّ لَعَلِمَ أَنَّكَ أَحَقُّ بِشِعْرِهِ. قَالَ: وَمَا يَقُوْلُ أَبُوْ كَبِيْرٍ الْهُذَلِيُّ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: يَقُوْلُ:


فَإِذَا نَظَرْتَ إِلَى أَسِرَّةِ وَجْهِهِ
بَرَقَتْ كَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَهَلَّلِ([85])



حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں سوت کات رہی تھی اور حضور نبی اکرم ﷺ اپنے نعلین مبارک مرمت فرما رہے تھے۔ اچانک آپ ﷺ کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہنے لگا اور اس سے نور پھوٹنے لگا۔ میں اس (حسین) منظر سے نہال و بے خود ہوگئی، رسول اللہ ﷺ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اے عائشہ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم مبہوت سی ہوگئی ہو؟ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ ٹپک رہا ہے اور پسینے سے نور پھوٹ رہا ہے۔ اگر (عرب کا مشہور شاعر) ابو کبیر ہذَلی اِس وقت آپ کو دیکھ لیتا تو وہ جان جاتا (اور اقرار کر لیتا) کہ اس کے شعر کی اصل مصداق آپ ہی کی ذاتِ اکمل و احسن ہے۔ آپ ﷺ نے استفسار فرمایا: اے عائشہ! ابوکبیر ہذَلی کیا کہتا ہے؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: وہ کہتا ہے:

’جب تو اس کے چہرے کے (منوّر) نقوش دیکھے تو (تجھے محسوس ہوگا) گویا عارضِ تاباں ہے جو چمک رہا ہے‘۔



حوالہ جات




([81]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/37، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/155-156، الرقم/414، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/422، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/338، 343، 348، وذکره الهیثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([82])أخرجه البیهقي في دلائل النبوة، 1/214، وابن کثیر في البدایة والنهایة (السیرة)، 6/17، والسیوطي في الخصائص الكبری، 1/125.

([83]) أخرجه البیهقي في دلائل النبوة، 1/302، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/359.

([84]) ذكره ابن عساکر في تهذیب تاریخ دمشق الکبیر، 1/345، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/378، وابن کثیر في البدایة والنهایة (السیرة)، 2/78، أيضا في، 6/62.

([85]) أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، 7/422، الرقم/15204، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2/46، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 13/252- 253، الرقم/7210، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/307-309، 59/424، والمزي في تهذيب الكمال، 28/319، وذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 1/76.
حضور ﷺ کے مبارک ابرو
8. وَصْفُ حَاجِبَيْهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کے مبارک اَبرو﴾

حضور نبی اکرم ﷺ کے اَبرو مقدس اس حد تک باہم جڑے ہوئے اور ان کے درمیان فاصلہ اتنا کم تھاکہ بہ غور دیکھنے ہی سے محسوس ہوتا۔آپ ﷺ کے ابرو مبارک باریک، خم دار،گھنے اور جدا جدا تھے۔حضرت ہند ابی ہالہ فرماتے ہیں: ’آپ ﷺ کے ابرو مبارک خم دار، باریک اور گنجان تھے۔دونوں ابرو جدا جدا تھے جو آپس میں ملتے نہیں تھے۔ان کے درمیان ایک رگ تھی جو جلال کی حالت میں اُبھر جاتی تھی‘۔

83. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَزَجَّ الْحَوَاجِبِ، سَوَابِغَ مِنْ غَیْرِ قَرَنٍ، بَیْنَهُمَا عِرْقٌ یُدِرُّهُ الْغَضَبُ([86]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اَبرو مبارک خم دار، باریک، گھنے اور جدا جدا تھے۔ دونوں ابروؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو حالتِ جلال میں نمایاں ہو جاتی تھی۔

84. وَفِي رِوَايَةٍ: كَانَ ﷺ دَقِيْقَ الْحَاجِبَيْنِ([87]).

ایک روایت میں ہے کہ رسولِ مکرم ﷺ کے اَبرو مبارک نہایت باریک تھے۔

85. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَقْرُوَنَ الْحَاجِبَيْنِ([88]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ مکرم ﷺ کے اَبرو مقدس باہم جڑے ہوئے تھے۔

قَالَ الْحَلَبِيُّ: اَلْفُرْجَةُ الَّتِي کَانَتْ بَیْنَ حَاجِبَیْهِ یَسِیْرَةً، لَا تَبِیْنُ إِلَّا لِمَنْ دَقَّقَ النَّظَرَ([89]).

امام حلبی (دونوں روایات میں تطبیق بیان کرتے ہیں کہ) آپ ﷺ کے دونوں ابروؤں کے درمیان فاصلہ اتنا کم تھا کہ بغور دیکھنے سے ہی محسوس ہوتا تھا۔



حوالہ جات




([86]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/37، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/155-156، الرقم/414، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/422، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/338، 343، 348، وذکره الهیثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([87]) أخرجه أبو يعلى في المسند، 12/213، الرقم/6830، وذكره الهیثمي في مجمع الزوائد، 4/74، والصالحي في سبل الهدی والرشاد، 2/21.

([88]) أخرجه ابن عساکر في السیرة النبویة، 1/245، وابن سعد في الطبقات الکبری،1/412، والصالحي في سبل الهدی والرشاد،2/22.

([89]) الحلبي في السيرة الحلبية، 3/323.
حضور ﷺ کی چشمان مقدسہ
9. وَصْفُ عَيْنَيْهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی چشمانِ مقدسہ﴾

کس میں اتنا یارا ہے کہ آپ ﷺ کی چشمانِ مقدسہ کا حسن احاطۂ تحریر میں لا سکے۔آپ ﷺ خود فرماتے ہیں:' میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے'۔آپ ﷺ کی آنکھیں سیاہ،بڑی اور طبعی طور پر سرمگیں تھیں اور ان میں سرخ رنگ کے ڈورے بھی تھے۔نبی اکرم ﷺ کی آنکھیں سیاہ تھیں، جو خوب صورتی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔آپ ﷺ کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخ رنگ کے ڈورے پڑے ہوئے تھے جو آنکھوں کی انتہائی خوبصورتی کی علامت ہوتے ہیں۔آپ ﷺ کی پلکیں دراز اور بھنویں باریک اور گتھی ہوئی تھیں۔ شارحین کے نزدیک دراز پلکیں مردوں کے لیے قابلِ تعریف صفت ہے۔پتلی مبارک گھنی سیاہ تھی۔آپ ﷺ کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ ﷺ بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے،دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے([90]

86. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ ﷺ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ، أَهْدَبَ الْأَشْفَارِ([91]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ (رسول الله ﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں: آپ ﷺ کی چشمانِ مقدسہ سیاہ، اور پلکیں دراز تھیں۔

87. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ أَهْدَبَ الْأَشْفَارِ، أَسْوَدَ الْحَدَقَةِ([92]).وَرُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ مِثْلُهُ([93]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: آپ ﷺ کی پلکیں دراز تھیں اور آپ ﷺ کی چشمانِ مقدسہ کی پُتلیاں گہری سیاہ تھیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے

88. عَنْ أُمِّ مَعْبَدٍ رضی اللہ عنہما، قَالَتْ: فِي عَيْنَيْهِ ﷺ دَعَجٌ، وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ([94]).

حضرت اُم معبد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺ کی آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں، جب کہ آپ ﷺ کی پلکیں دراز تھیں۔

89. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَشْكَلَ الْعَيْنَيْنِ([95]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی آنکھوں میں سرخ رنگ کے ڈورے تھے۔

90. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: كُنْتُ إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْهِ قُلْتُ: أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ، وَلَيْسَ بِأَكْحَلَ([96]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں جب بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف دیکھتا توسمجھتا شاید آپ ﷺ کی آنکھوں میں سرمہ لگا ہوا ہے، حالانکہ سرمہ لگا ہوا نہ ہوتا تھا (یعنی چشمانِ مقدسہ طبعی طور پر ہی اِس قدر سرمگیں تھیں)۔

91. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: فَيَقُوْلُ أَبُوْ طَالِبٍ: وَيُصْبِحُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، دَهِيْنًا كَحِيْلًا([97]).

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں کہا کرتے تھے: جب بھی رسول اللہ ﷺ بیدار ہوتے ہیں، آپ ﷺ کے سرِ انور میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا ہے۔



حوالہ جات




([90]) 1۔ زرقانی، شرح المواهب، 5 /642

2۔ سیوطی، الخصائص الکبری، 1/16

([91]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/599، الرقم/3638، وأيضًا في الشمائل المحمدية/33، الرقم/7، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/328، الرقم/31805، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/149، الرقم/1415، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/411، والنمىري في أخبار المدينة، 1/319، الرقم/968، وابن عبد البر في الاستذكار، 8/331، وأيضًا في التمهيد، 3/29-30، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/261، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/153، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3/303.

([92]) أخرجه المقدسي في الأحاديث المختارة، 2/316، الرقم/695، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/412، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/250، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3/299.

([93]) أخرجه الطبراني في مسند الشامیین، 3/19، الرقم/1717، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/214، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/269، وذکره ابن کثیر في البدایة والنهایة، 6/17، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/125.

([94]) أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/10، الرقم/4274، والطبراني في المعجم الكبير، 4/49-50، الرقم/3605، وابن حبان في الثقات، 1/125-126، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/230-231، وابن عبد البر في الاستىعاب، 4/1958-1959، الرقم/4215، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/139، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/279.

([95]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الفضائل، باب في صفة فم النبي ﷺ وعينيه وعقبيه، 4/1820، الرقم/2339، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/86، 88، 97، 103، الرقم/20831، 20848، 20950، 21024، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في صفة النبي ﷺ، 5/603، الرقم/3647، وأيضًا في الشمائل المحمدية/38-39، الرقم/9، وابن حبان في الصحيح، 14/199، الرقم/6288، والحاكم في المستدرك، 2/662، الرقم/4195.

([96]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/97، الرقم/20955، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في صفة النبي ﷺ، 5/603، الرقم/3645، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/328، الرقم/31806، وأبو يعلى في المسند، 13/453، الرقم/7458، والطبراني في المعجم الكبير، 2/244، الرقم/2024، والحاكم في المستدرك، 2/662، الرقم/4196.

([97]) أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/120، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/86، وذكره ابن الجوزي في المنتظم، 2/283، وابن كثير في البداية والنهاية، 2/283، والسيوطي في الخصائص الكبرى، 1/141، والحلبي في السيرة الحلبىة، 1/189، والملا علي القاري في جمع الوسائل، 1/31.
حضور ﷺ کی بصارت مبارک
10. وَصْفُ بَصَرِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی بصارت مبارک﴾

صاحبِ قابَ قوسین ﷺ اور صاحبِ ما زاغَ کی اس بصارت کا بیان انسان کے بس کی بات نہیں جس نے براہِ رست صاحبِ عرشِ عظیم رب ذو الجلال کا مشاہدہ کیا اور اس سے مکالمہ کیا۔ ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’بے شک اللہ تعالیٰ نے زمیں کو سمیٹ کر میرے قریب کردیا ہے اور میں اس کے مشارق و مغارب کو دیکھتا ہوں‘۔روایات اور احادیثِ صحیحہ میں آتا ہے کہ آپ ﷺ رات کے اندھیرے میں بھی اسی طرح دیکھتے جس طرح دن کے اجالے میں۔

92. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي هَاهُنَا؟ فَوَاللهِ، مَا يَخْفَی عَلَيَّ خُشُوْعُكُمْ وَلَا رُكُوْعُكُمْ، إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي([98]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم یہی دیکھتے ہو کہ میرا چہرہ اس سمت (یعنی قبلہ رُخ) ہے؟ بخدا! مجھ سے نہ تمہارے دلوں کی حالت اور ان کا خشوع و خضوع پوشیدہ ہے اور نہ ہی تمہارے ظاہری رکوع، میں تمہیں عقب سے بھی اُسی طرح دیکھتا ہوں (جیسے اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں)۔

93. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَىُّهَا النَّاسُ، إِنِّي إِمَامُكُمْ، فَلَا تَسْبِقُوْنِي بِالرُّكُوْعِ وَلَا بِالسُّجُوْدِ، وَلَا بِالْقِيَامِ وَلَا بِالْاِنْصِرَافِ. فَإِنِّي أَرَاكُمْ أَمَامِي وَمِنْ خَلْفِي([99]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں۔ تم رکوع، سجود، قیام اور نماز کے اختتام پر سلام پھیرنے میں مجھ پر پہل نہ کیا کرو۔ بے شک میں تمہیں سامنے اور پسِ پشت یکساں طور پر دیکھتا ہوں۔

94. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَرَى بِاللَّيْلِ فِي الظُّلْمَةِ كَمَا يَرَى بِالنَّهَارِ مِنَ الضَّوْءِ([100]).

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ رات کی تاریکی میں بھی اُسی طرح دیکھتے تھے جس طرح دن کے اُجالے میں۔

95. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُوْنَ([101]).

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔

96. عَنْ ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ زَوَی لِيَ الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا([102]).

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بےشک الله تعالیٰ نے زمین کو سمیٹ کر میرے قریب کر دیا ہے اور میں اس کے مشارق اور مغارب کو یکساں دیکھتا ہوں۔



حوالہ جات




([98]) أخرجه البخاري في الصحیح، كتاب الصلاة، باب عظة الإمام الناس في إتمام الصلاة وذكر القبلة، 1/161، الرقم/408، وفي كتاب الأذان، باب الخشوع في الصلاة، 1/259، الرقم/708، ومسلم في الصحیح، كتاب الصلاة، باب الأمر بتحسین الصلاة وإتمامها والخشوع فیها، 1/259، الرقم/424، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/303، 365، 375، الرقم/8011، 8756، 8864.

([99]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الصلاة، باب تحريم سبق الإمام بركوع أو سجود ونحوهما، 1/320، الرقم/426، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/102، الرقم/12016، وابن خزيمة في الصحيح، 3/47، الرقم/1602، وابن أبي شيبة في المصنف، 2/117، الرقم/7156، وأبو يعلى في المسند، 7/41، الرقم/3952، والبيهقي في السنن الكبرى، 2/91، الرقم/2423.

([100]) أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6/75، وذكره الهندي في كنز العمال، 7/60، الرقم/18519، والمناوي في فىض القدىر، 5/214، والسيوطي في الخصائص الكبرى1/104، وأيضًا في الشمائل الشرىفة/304، الرقم/558، والحلبي في السيرة الحلبىة، 3/386، والصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/24، وابن الملقن في غاىة السول في خصائص الرسول ﷺ /299.

([101]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الزهد، باب في قول النبي ﷺ : لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قلىلا، 4/556، الرقم/2312، وابن ماجه في السنن، كتاب الزهد، باب الحزن والبكاء، 2/1402، الرقم/4190، والحاكم في المستدرك، 4/587، الرقم/8633، والبيهقي في السنن الكبرى، 7/52، الرقم/13115، وأيضًا في شعب الإيمان، 1/484، الرقم/783، والدىلمي في مسند الفردوس، 1/77-78، الرقم/233.

([102]) أخرجه مسلم فی الصحیح، كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض، 4/2215، الرقم/2889، وأحمد بن حنبل فی المسند، 5/278، الرقم/22448، 22505، وأبو داود فی السنن، كتاب الفتن والملاحم، باب ذكر الفتن ودلائلها، 4/97، الرقم/4252، والترمذی فی السنن، كتاب الفتن، باب ما جاء فی سوال النبيﷺ ثلاثا فی أمته، 4/472، الرقم/2176.
حضور ﷺ کی بینی (ناک) مبارک
11. وَصْفُ أَنْفِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی بینی (ناک) مبارک﴾

حضور نبی اکرم ﷺ کی ناک کا بانسہ بلند اور باریک تھا، دیکھنے والے کو یوں لگتا گویا نور کا منبع ہے۔ اس پر ہر وقت نور کی ڈلکیں ضَو فشاں رہتیں۔ بہ ظاہر تو ناک کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ یہ جسم انسانی کا وہ آلہ ہے جس کو قدرت نے سانس لینے اور سونگھنے کی حس اور قوت عطا کی ہے۔اس کا بنیادی کام پھیپھڑوں کو گرم، مرطوب اور صاف ستھری ہوا فراہم کرنا ہے لیکن آقاے کائنات ﷺ کی بینی مبارک آپ ﷺ کے روئے انور کے جلال و جمال کو اِعجاز آفریں کشش عطا کرتی تھی۔

97. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَقْنَى الْعِرْنِيْنِ، لَهُ نُوْرٌ يَعْلُوْهُ، يَحْسِبُهُ مَنْ لَمْ يَتَأَمَّلْهُ ([103]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ تمیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بینی مبارک بلند تھی اور اُس پر نور جھلکتا رہتا تھا۔ جوغور سے نہ دیکھتا وہ سمجھتا کہ آپ ﷺ کی ناک مبارک ہی اس قدر بلند ہے۔

98. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ دَقِيْقَ الْعِرْنِيْنِ([104]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بینی مبارک قدرے باریک تھی۔



حوالہ جات




([103]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية/36، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/146، والطبراني في المعجم الكبير، 22/155، الرقم/414، وأيضًا في أحاديث الطوال، 1/245، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/155، الرقم/1430، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/422، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/338، 343، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([104]) ذكره السيوطي في الخصائص الكبرى/128، والصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/29
حضور ﷺ کے رخسار مبارک
12. وَصْفُ خَدَّیْهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کے رُخسار مبارک﴾

آپ ﷺ کے رخسار مبارک کی جلد غایت درجہ نرم و نازک، آب دار و تاب دار تھی۔ آپ ﷺ نرم و گداز رُخساروں والے تھے۔ان پر ہمہ وقت تازگی اور بشاشت کی کلیاں چٹکتی محسوس ہوتیں۔آپ ﷺ کے رُخسار مباک نہ بہت ابھرے ہوئے تھے اور نہ بہت دھنسے ہوئے۔کمالِ اعتدال اور جمالِ توازن کا شہ کار تھے۔ ایک عاشق رسول کے بقول ’ان میں ایسی سرخی تھی کہ گلاب کو پسینہ آجائے، ایسی چمک تھی کہ چاند بھی شرما جائے، ایسا گداز تھا کہ شبنم بھی پانی بھرتی دکھائی دے اور ایسی نرماہٹ تھی کہ کلیوں کو بھی حجاب آئے‘۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نگاہیں جب آپ ﷺ کے پُرکشش سرخ و سفید رُخساروں کی زیارت کرتیں تو ان کی شیفتگی و فریفتگی لائقِ رشک حد تک بڑھ جاتی۔ ان میں سے ہر ایک بے ساختہ عشق و محبت کے جذبات سے کیف و نشاط حاصل کرکے پکار اٹھتا: فِدَاكَ أُمِّي وَأَبِي، یَا رَسُوْلَ اللهِ (یا رسول اللہ!آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں)۔

99. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَهْلَ الْخَدَّيْنِ([105]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے رُخسار مبارک ہموار تھے۔

وَقِیْلَ: لَیْسَ فِي خَدَّیْهِ نُتُوْءٌ وَارْتِفَاعٌ، أَرَادَ أَنَّ خَدَّیْهِ ﷺ أَسِیْلَانِ، قَلِیْلُ الَّلحْمِ رَقِیْقُ الْجِلْدِ([106]).

اور کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے رُخسار مبارک میں غیر موزوں بلندی نہ تھی، اور یہ کہ آپ ﷺ کے رُخسار مبارک پر گوشت کم تھا اور اُن کی جلد نرم تھی۔

100. عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيْقِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَبْيَضَ الْخَدِّ([107]). وَرُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ مِثْلُهُ ([108]).

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے رُخسار مبارک نہایت ہی چمک دار تھے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔



حوالہ جات




([105]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية/36، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الكبير، 22/155، الرقم/414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/155، الرقم/1430.

([106]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية/36، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الكبير، 22/155، الرقم/414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/155، الرقم/1430.

([107]) ذكره الصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/29.

([108]) ذكره الصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/29.
حضور ﷺ کے دندان مقدسہ
13. وَصْفُ أَسْنَانِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کے دندانِ مقدس﴾

آقاے کائنات ﷺ کے دندان مقدس گویا سفید رنگ کے موتیوں کی لڑی کی طرح تاب دارتھے۔چشمِ جن و انس ہو یا چشمِ ملک و فلک، کسی نے بھی آپ ﷺ کے دندان مبارک سے زیادہ چمک دار اور خوب صورت دانت نہ دیکھے۔آپ ﷺ کے سامنے والے دانتوں کے درمیان موزوں و مناسب فاصلہ تھا، جس سے ہر وقت نور کی سلسبیل رواں رہتی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے کہ آپ ﷺ جب تبسم فرماتے تو دندان مبارک بجلی اور اولوں کی طرح چمکتے۔

101. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ قَالَ: ضَحِكَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَكَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا ([109]).

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور آپﷺ کے دندان مبارک سب لوگوں سے بڑھ کر خوب صو رت اور چمک دار تھے۔

102. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَفْلَجَ الثَّنِيَّتَيْنِ، إِذَا تَكَلَّمَ رُئِيَ كَالنُّوْرِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ ثَنَايَاهُ([110]).

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے والے دانتوں کے درمیان موزوں فاصلہ تھا۔ جب آپ ﷺ کلام فرماتے تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ کے سامنے والے دندان مبارک سے نور پھوٹ رہا ہے۔

103. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ ﷺ حَسَنَ الثَّغْرِ([111]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آپ ﷺ کےدندان مبارک نہایت خوبصورت اور موزوں تھے۔

104. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ ﷺ مُفْلَجَ الأَسْنَانِ، دَقِیْقَ الْمَسْرُبَةِ([112]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے دندان مقدسہ میں باریک باریک ریخیں تھیں (یعنی ان کے درمیان نہ زیادہ فاصلہ تھا اور نہ ہی وہ بالکل جڑے ہوئے تھے) اور وہ باریک آب دار موتیوں کی طرح چمک دار تھے۔

105. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ ضَحِكُهُ ﷺ التَّبَسُّمَ، يَفْتَرُّ عَنْ مِثْلِ حَبِّ الْغَمَامِ([113]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا مسکرانا دل کش تبسم ہوتا تھا (یعنی صرف تبسم فرماتے، قہقہہ نہ لگاتے تھے)۔ آپ ﷺ کے دندان مبارک اَولوں کی طرح چمک دار تھے۔

106. عَنْ حَكِيْمِ بْنِ حِزَامٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا افْتَرَّ ضَاحِكًا افْتَرَّ عَنْ مِثْلِ سَنَا الْبَرْقِ، وَعَنْ مِثْلِ حَبِّ الْغَمَامِ، إِذَا تَكَلَّمَ رُئِيَ كَالنُّوْرِ يَخْرُجُ مِنْ ثَنَايَاهُ([114]).

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ تبسم فرماتے تو دندانِ مبارک بجلی اور بارش کے اَولوں کی طرح چمکتےتھے۔ جب گفتگو فرماتے تو ایسے دکھائی دیتا جیسے سامنے کے دندان مبارک سے نور نکل رہا ہے۔

107. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ ﷺ بَرَّاقَ الثَّنَایَا([115]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے دندان مبارک بجلی کی طرح نہایت چمک دار تھے۔

108. قَالَ الْبُوْصِيْرِيُّ:


کَأَنَّمَا اللُّؤْلُؤُ الْمَکْنُوْنُ فِي صَدَفٍ
مِنْ مَعْدِنَيْ مَنْطِقٍ مِنْهُ وَمُبْتَسَمِ





امام بوصیری کہتے ہیں: آپ ﷺ کے دندان مبارک سیپ (کی آغوش) میں پنہاں چمک دار موتیوں کی طرح تھے جو آپ ﷺ کی معدنِ نطق اور معدنِ تبسم میں سے تھے۔



حوالہ جات




([109]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الطلاق، باب في الإىلاء واعتزال النساء وتخىىرهن، 2/1107، الرقم/1479، وابن حبان في الصحيح، 14/200، الرقم/6290، الرقم/4188، وأبو يعلى في المسند، 1/152، الرقم/164، والبزار في المسند، 1/304، الرقم/195، وأبو عوانة في المسند، 3/165، الرقم/4572، وابن عبد البر في الاستىعاب، 4/1516.

([110]) أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب في حسن النبي ﷺ، 1/44، الرقم/58، والترمذي في الشمائل المحمدية/41، الرقم/15، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/235، الرقم/767، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/215، وذكره الذهبي في سىر أعلام النبلاء، 10/691، والنبهاني في الأنوار المحمدية/199.

([111]) أخرجه البخاري في الأدب المفرد، باب إذا التفت التفت جمىعًا/395، الرقم/1155، وذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 1/125، والصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/30.

([112]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/36-38، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/155-156، الرقم/414، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/277، 338، 344، 348، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/422، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([113]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية/185، الرقم/226، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/423، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/345، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/277.

([114]) أخرجه القاضي عىاض في الشفا/39، وذكره السيوطي في الخصائص الكبرى/131.

([115]) ذكره النبهاني في الأنوار المحمدية/199، وابن كثير في البداية والنهاية، 6/18، والسيوطي في الخصائص الكبرى/129.
حضور ﷺ کی آواز مبارک
14. وَصْفُ صَوْتِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی آواز مبارک﴾

آپ ﷺ کی آوازمبارک میں لاثانی وقار اور عدیم المثال خطیبانہ دبدبہ اور فصیحانہ طنطنہ تھا۔ ہوتا بھی کیوں ناں کہ آپ ﷺ اَفصح العرب اور اَفصح الناس تھے۔ آپ ﷺ کے لہجے میں دلوں میں اُترجانے اور روحوں میں سما جانے والی دل کشی تھی۔ آپ ﷺ نے جب خطبہ حجۃ الوداع دیا تو دور و نزدیک موجود ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے ایسے سنا کہ آپ ﷺ ان میں سے ہر ایک سے مخاطب ہوں۔ ایک ایک لفظ ان کی سماعتوں سے ہوتا ہوا ان کے قلوب و اَذہان کی اَلواح پر مرتسم ہوتا چلا گیا۔ یہ آپ ﷺ کی آواز کی دل نشینی اوردل پذیری تھی کہ آپ ﷺ کا ہر قول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کی انگشتریوں میں نگینوں کی طرح جڑجاتا۔ پھر ایک لفظ کی تقدیم و تاخیر کے بغیروہ آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے۔

109. عَنِ الْبَرَاءِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ: ﴿وَٱلتِّينِ وَٱلزَّيۡتُونِ﴾ فِي الْعِشَاءِ، وَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَوْتًا مِنْهُ أَوْ قِرَاءَةً([116]).

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو نمازِ عشاء میں سورۃ التین کی تلاوت فرماتے ہوئے سنا، اور میں نے کسی کو آپ ﷺ سے زیادہ خوش اِلحان اور اچھی قراءت کرنے والا نہیں پایا۔

110. عَنْ أُمِّ مَعْبَدٍ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: وَفِي صَوْتَهِ صَحَلٌ([117]).

حضرت اُم معبد رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کی آواز میں وقار اور دبدبہ تھا۔

111. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَسَنَ النَّغْمَةِ([118]).

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی آواز اور لہجے میں خوبصورت نغمگی تھی۔

112. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِمِنًى، فَفَتَحَ اللهُ أَسْمَاعَنَا حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَسْمَعُ مَا يَقُوْلُ وَنَحْنُ فِي مَنَازِلِنَا([119]).

حضرت عبد الرحمن بن معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منٰی میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ سو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کان ایسے کھول دیے کہ جو کچھ حضور نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے تھے ہم(دور و نزدیک) اپنے اپنے ٹھکانوں پر موجود ہو کر بھی اس خطبۂ مبارک کے ایک ایک لفظ کو بتمام و کمال حرف بہ حرف سن رہے تھے۔



حوالہ جات




([116]) أخرجه البخاري في الصحیح، كتاب الأذان، باب القراءة في العشاء، 1/266، الرقم/735، ومسلم في الصحیح، كتاب الصلاة، 1/339، الرقم/464، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/302، وابن ماجه في السنن، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، 1/273، الرقم/835.

([117]) أخرجه الطبراني في المعجم الكبير، 4/50، الرقم/3605، والحاكم في المستدرك، 3/10، الرقم/4274، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/231.

([118]) أخرجه الطبراني في المعجم الكبير، 4/50، الرقم/3605، والحاكم في المستدرك، 3/10، الرقم/4274، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/231.

([119]) أخرجه أبو داود في السنن، كتاب المناسك، باب ما ىذكر الإمام في خطبته بمنى، 2/198، الرقم/1957، والنسائي في السنن، كتاب مناسك الحج، باب ما ذكر في منى، 5/249، الرقم/2996، والبيهقي في السنن الكبرى، 5/138، الرقم/9390، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 2/185.
حضور ﷺ کے گوش اور سماعت مبارک
15. وَصْفُ أُذُنَيْهِ وَسَمَاعَتِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کے گوش اور سماعت مبارک﴾

دیگر اَعضاے مبارکہ کی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کے گوش مبارک بھی مثالی تھے، اور سماعت مبارک بھی یگانہ تھی۔ اَعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان نے کیا خوب فرمایا ہے:


دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام



113. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ تَامُّ الْأُذُنَيْنِ([120]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے گوش مبارک نہایت خوب صورت اور متناسب تھے۔

114. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: وَکَانَ ﷺ رُبَّمَا جَعَلَهُ غَدَائِرَ أَرْبَعٍ تَخْرُجُ الْأُذُنُ الْيُمْنَى مِنْ بَيْنِ غَدِيْرَتَيْنِ يَکْتَنِفَانِهَا، وَتَخْرُجُ الْأُذُنُ الْيُسْرَى مِنْ بَيْنَ غَدِيْرَتَيْنِ يَکْتَنِفَانِهَا، وَتَخْرُجُ الْأُذُنُانِ بِبَيَاضِهَا مِنْ بَيْنِ تِلْكَ الْغَدَائِرِ کَأَنَّهُمَا تُوْقَدُ الْكَوَاكِبُ الدُّرِّيَّةَ بَيْنَ سَوَادِ شَعَرِه([121]).

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کبھی اپنے مبارک بالوں کو چار حصوں میں تقسیم فرما دیتے، ایک طرف کے دو حصوں میں دایاں گوش مبارک نمایاں ہوتا جسے بالوں نے گھیرا ہوتا اور دوسرے دو حصوں میں سے بایاں گوش مبارک نمایاں ہوتا جسے بالوں نے گھیرا ہوا ہوتا، اور ان بالوں میں گوش مبارک اپنی سفیدی کے ساتھ ایسے نمایاں ہوتے جیسے سیاہ بالوں میں روشن ستارے چمک رہے ہوں۔

115. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُوْنَ ([122]).

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں جو کچھ دیکھتا ہوں وہ تم نہیں دیکھتے (یعنی وہ تمہاری بصارت کے حیطۂ اِدراک و اِحساس میں نہیں آسکتا)، اور میں جو کچھ سنتا ہوں وہ تم نہیں سنتے (کیونکہ تمہاری قوتِ سماعت میں اُتنی طاقت و سکت نہیں کہ اُسے سن سکے)۔



حوالہ جات




([120]) أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 1 /413، وذكره ابن كثير في البداية والنهاية، 6/16، والسيوطي في الخصائص الكبرى، 1/128.

([121]) أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /357.

([122]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الزهد، باب في قول النبي ﷺ : لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قلىلا، 4/556، الرقم/2312، وابن ماجه في السنن، كتاب الزهد، باب الحزن والبكاء، 2/1402، الرقم/4190، والحاكم في المستدرك، 4/587، الرقم/8633، والبيهقي في السنن الكبرى، 7/52، الرقم/13115، وأيضًا في شعب الإيمان، 1/484، الرقم/783، والدىلمي في مسند الفردوس، 1/77-78، الرقم/233.
حضور ﷺ کی ڈاڑھی مبارک
16. وَصْفُ لِحْيَتِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی ڈاڑھی مبارک﴾

آپ ﷺ کی ڈاڑھی مبارک انتہائی خوبصورت،گھنی،کنپٹی سے کنپٹی تک بھرپور،سینے کو بھرے ہوئی اور سیاہ رنگ کی تھی۔صرف دونوں کنپٹیوں اور ٹھوڑی میں کچھ بال سفید تھے باقی پوری ڈاڑھی اور بال کالے رنگ کے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے سر اور ڈاڑھی میں سفید بالوں کی تعداد بارے میں مختلف روایات ہیں جن کا تعلق مختلف اَزمان و اَوقات سے ہے۔ بہر طور سفید بالوں کی کل تعداد تقریباً بیس (20) تھی۔ حضرت حریز بن عثمان نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ بوڑھے (لگتے ) تھے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، آپ ﷺ کی ٹھوڑی کے صرف چند بال سفید ہو گئے تھے([123])۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ﷺ کی روح قبض کی گئی اس حال میں کہ آپ ﷺ کے سر اور ڈاڑھی میں چودہ بال بھی سفید نہ تھے([124])۔آپ ﷺ اپنی ریش مبارک کو طول و عرض سے تراشا کرتے تھے۔

116. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ كَثِيْرَ شَعَرِ اللِّحْيَةِ([125]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی ڈاڑھی مبارک کے بال گھنے تھے۔

117. عَنِ الْبَرَاءِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ كَثَّ اللِّحْيَةِ ([126]).

حضرت براء رضی اللہ عنہ بھی یہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ڈاڑھی مبارک گھنی تھی۔

118. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ : كَانَ ﷺ أَسْوَدَ شَعَرِ اللِّحْيَةِ([127]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ڈاڑھی مبارک کے بال سیاہ تھے۔

119. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہما، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُوْلِهَا([128]).

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی رِیش مبارک کو طول و عرض سے تراشا کرتے تھے۔ (آپ ﷺ اس کی آرائش کا باقاعدگی سے اہتمام کرتے تھے تاکہ ریش مبارک کی تزئین اسے دیکھنے والوں کے لیے دیدہ زیب بنا دے۔)



حوالہ جات




([123]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1302، الرقم/3353، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/187، الرقم/17708، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/187، الرقم/25063.

([124]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/165، الرقم/12713، وعبد الرزاق في المصنف، 11/155، الرقم/20185، وابن حبان في الصحيح، 14/203، الرقم/6293، وعبد بن حميد في المسند، 1/372، الرقم/1243.

([125]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الفضائل، باب شىبه ﷺ، 4/1823، الرقم/2344، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/104، الرقم/21036، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/328، الرقم/31807، وابن حبان في الصحيح، 14/206، الرقم/6297، وأبو يعلى في المسند، 13/451، الرقم/7456، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/151، الرقم/1419.

([126]) أخرجه النسائي في السنن، كتاب الزىنة، باب اتخاذ الجمة، 8/183، الرقم/5232، وأيضًا في السنن الكبرى، 5/412، الرقم/9328، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/282.

([127]) أخرجه البخاري في الأدب المفرد، باب إذا التفت التفت جمىعًا/395، الرقم/1155، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/217، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/280، والسيوطي في الخصائص الكبرى، 1/125، والصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/30.

([128]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الأدب، باب ما جاء في الأخذ من اللحىة، 5/94، الرقم/2762، وذكره العسقلاني في فتح الباري، 10/350، والزرقاني في شرح الموطأ، 4/426، والسيوطي في الجامع الصغير، 1/263، وأيضًا في الشمائل الشرىفة، 1/263.
حضور ﷺ کی گردن مبارک
17. وَصْفُ عُنُقِهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی گردن مبارک﴾

رسول اللہ ﷺ کی گردن مبارک بہت ہی خوب صورت، حسین اور معتدل تھی۔نہ زیادہ لمبی اور نہ چھوٹی تھی۔ اس کا وہ حصہ جو دھوپ اور ہوا میں کھلا رہتا وہ اس قدر چمک دار تھا گویا چاندی کی صراحی جس میں سونے کی آمیزش ہو۔ نیز حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی گردن کا جو حصہ کپڑے نے ڈھانپا ہوتا تھا وہ ایسے لگتا تھا گویا پسِ پردہ ماہِ نیم ماہ چمک رہا ہے۔

120. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَأَنَّ عُنُقَهُ ﷺ جِيْدُ دُمْيَةٍ، فِي صَفَاءِ الْفِضَّةِ([129]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی گردن مبارک خوبصورت مورتی کی طرح تراشی ہوئی اور چاندی کی طرح صاف و شفاف تھی۔

121. عَنْ عَاتِكَةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہما، قَالَتْ: وَكَانَ ﷺ أَحْسَنَ عِبَادِ اللهِ عُنُقًا، لَا يُنْسَبُ إِلَى الطُّوْلِ وَلَا إِلَى الْقَصْرِ، مَا ظَهَرَ مِنْ عُنُقِهِ لِلشَّمْسِ وَالرِّيَاحِ، فَكَأَنَّهُ إِبْرِيْقُ فِضَّةٍ، يَشُوْبُ ذَهَبًا، يَتَلَأْلَأُ فِي بَيَاضِ الْفِضَّةِ وَحُمْرَةِ الذَّهَبِ، وَمَا غَيَّبَتِ الثِّيَابُ مِنْ عُنُقِهِ مَا تَحْتَهَا فَكَأَنَّهُ الْبَدْرُ([130]).

حضرت عاتکہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں: اللہ تعالیٰ کے بندوں میں حضور نبی اکرم ﷺ سب سے خوبصورت گردن والے تھے، جو نہ زیادہ طویل تھی اور نہ زیادہ چھوٹی۔ دھوپ یا ہوا میں گردن کا ظاہر ہونے والا حصہ چاندی کی اس صراحی کی مانند لگتا تھا جس میں سونا ملایا گیا ہو اور اس میں چاندی کی سفیدی اور سونے کی سُرخی چمک رہی ہو۔ گردن کے جس حصے کو کپڑے نے ڈھانپا ہوتا تھا وہ ایسے لگتا گویا (پس پردہ) چودھویں کا چاند چمک رہا ہے۔



حوالہ جات




([129]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية/36، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/146، والطبراني في المعجم الكبير، 22/155، الرقم/414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/155، الرقم/1430، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/422، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/338، 344، 348، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([130]) أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1/304، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/361، وذكره الصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/43.
حضور ﷺ کے مبارک شانے اور بغليں
18. وَصْفُ كَتِفَيْهِ ﷺ وَإِبْطَيْهِ ﴿حضور ﷺ کے مبارک شانے اور بغليں﴾

فخرِ موجودات حضور سرورِ کائنات ﷺ کے جسمِ اَطہر کا ایک ایک عضو اتنا حسین و جمیل اور رعنائی و زیبائی کا مرقع ہے کہ اس کی تحسین و تعریف اور توصیف و ثناء کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ آپ ﷺ کے شانوں اور کلائیوں پر قدرے بال تھے۔حضورِ اقدس ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت تھی۔ یہ بظاہر سرخی مائل اُبھرا ہوا گوشت تھا۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہرِ نبوت کو دیکھا جو کبوتر کے انڈے کی مقدار میں سرخ اُبھرا ہوا ایک غدود تھا؛ یعنی مہر نبوت ایک چمکتا ہوا نور تھا۔ راویوں نے اس کی ظاہری شکل و صورت اور مقدار کو کبوتر کے انڈے سے تشبیہ دی ہے۔آپ ﷺ نے دستِ دعاء بلند کیے اورکس حد تک بلند کیے؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے آپ ﷺ کی بغل مبارک کے نیچے سے سفیدی کی طرح نور دیکھا۔

122. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ مَرْبُوْعًا، بَعِيْدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ([131]).

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ میانہ قد تھے۔ آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔

123. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَظِيْمَ مُشَاشِ الْمَنْكِبَيْنِ([132]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کندھے مبارک (موزونیت کے ساتھ) اُبھرے ہوئے تھے۔

124. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ : رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ([133]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (دعا کے لیے) ہاتھ اُٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کی بغل مبارک کے نیچے سے سفیدی کی طرح نور دیکھا۔



حوالہ جات




([131]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1303، الرقم/3358، ومسلم في الصحيح، كتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنّه كان أحسن الناس وجهًا، 4/1818، الرقم/2337، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/281، الرقم/18496، والترمذي في الشمائل المحمدية/30، الرقم/3.

([132]) أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1/241، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/271، وذكره ابن كثير في البداية والنهاية، 6/19، والسيوطي في الخصائص الكبرى، 1/126.

([133]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الدعوات، باب رفعِ الأىدي في الدّعاء، 5/2335، وأيضًا في كتاب الاستسقاء، باب رفع الإمام ىده في الاستسقاء، 1/349، الرقم/984، وأيضًا في كتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1307، الرقم/3372، وذكره الزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 5/460.
حضور ﷺ کی کلائیاں مبارک
19. وَصْفُ ذِرَاعَيْهِ ﷺ ﴿حضور ﷺ کی کلائیاں مبارک﴾

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طائفہ مقدسہ یقیناً خوش بخت و خوش طالع تھا کہ انہیں ربِ کریم نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کی زیارت، رفاقت، معیت،اطاعت، متابعت اور صحبت کے لیے منتخب کیا۔اس خوش بختی اور خوش طالعی کا حق ادا کرنے میں انہوں نے بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ انہوں نے آپ ﷺ کے وجودِ اَطہر کو نگاہِ محبت سے بہ غور دیکھا، آپ ﷺ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک عطاء کو قلب و نظر کے سفینے میں محفوط کیا اور بعد میں آنے والوں تک کمال محبت و دیانت کے ساتھ پہنچایا۔

125. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَبْطَ الْقَصَبِ([134]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک کلائیوں اور پنڈلیوں کی ہڈیاں مناسب طوالت والی تھیں۔

126. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَظِيْمَ السَّاعِدَيْنِ([135]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک کلائیاں کشادہ تھیں۔



حوالہ جات




([134]) أخرجه الطبراني في المعجم الكبير، 22/156، الرقم/414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/155، الرقم/1430، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/422، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/273.

([135]) أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/415، وذكره ابن كثير في البداية والنهاية، 6/19.
حضور ﷺ کے مبارک ہاتھ، ہتھیلیاں اور انگلیاں
20. وَصْفُ يَدَيْهِ ﷺ وَكَفَّيْهِ وَأَصَابِعِهِ ﴿حضور ﷺ کے مبارک ہاتھ، ہتھیلیاں اور اُنگلیاں﴾

آپ ﷺ اقلیمِ خوبی و محبوبی۔ ۔۔ کشورِ حسن و جمال۔ ۔۔ اور۔ ۔۔ ریاستِ رعنائی و زیبائی کے بلاشرکت غیرے و احد فرماں روائے ابدی و سرمدی تھے۔ آپ ﷺ کی دل کش اور حسین و جمیل اُنگلیوں کی طوالت توازن و اعتدال کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔انگلیوں کی ہر پور نو تراشیدہ چاندی کی ڈلی کی مانند دمکتی تھی۔ آپ ﷺ کی ہتھیلیاں گل ہاے نو شگفتہ کی پنکھڑیوں کی طرح نرم و نازک تھیں۔ ان کی لطافت و نفاست اطلسی و حریری تھی۔ آپ ﷺ کے ہاتھوں کے ایک ایک مسام سے مشک و عنبر کے سوتے پھوٹتے۔ جس وجود کو بھی آپ ﷺ کے دستِ مبارک کا لمس چھو جاتا وہ معنبر و معطر اور مشک افشاں ہوجاتا۔ یہ دستِ مبارک دستِ کرم بھی تھا اور دستِ جود و سخا بھی۔ آپ ﷺ جب کسی بھی صحابی سے مصافحہ فرماتے تو اس کے ہاتھ دن بھرخوشبوؤں کی لپٹوں کے ہالے میں رہتے۔ جس بھی بچے کے سر پر آپ ﷺ اپنا دستِ اقدس و شفقت پھیر دیتے، وہ خوشبو میں تمام بچوں میں ممتاز ہوجاتا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ نماز ظہر ادا کی، پھر آپ ﷺ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور وہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہی نکلے۔ آپ ﷺ کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے وفورِ محبت میں بے تابانہ آپ ﷺ کی طرف لپکے تو آپ ﷺ نے ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دستِ رحمت پھیرنا شروع کیا۔ جب حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سامنے آئے تو ان کے رخسار کوبھی آپ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے چھوا اور تھپتھپایا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گالوں پر آپ ﷺ کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی خوشبو آئی کہ گویا آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ کسی عطر فروش کی صندوقچی میں سے نکالا ہے۔آپ ﷺ کی انگشتانِ مبارک مناسب و موزوں لمبی اور چاندی کی ڈلیوں کی طرح خوبصورت تھیں اور ہتھیلیاں فراخ اور ریشم سے بھی زیادہ نرم تھیں۔

127. عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَقَامَ النَّاسُ فَجَعَلُوْا يَأْخُذُوْنَ يَدَيْهِ، فَيَمْسَحُوْنَ بِهِمَا وُجُوْهَهُمْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَوَضَعْتُهَا عَلَى وَجْهِي، فَإِذَا هِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ([136]).

حضرت ابو جُحیفہ رضی اللہ عنہ (ایک واقعہ کے ضمن میں) بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوگئے اور آپ ﷺ کا دستِ اقدس (اپنے ہاتھوں ميں) پکڑ کر اپنے اپنے چہروں پر (تبرّکاً) ملنے اور پھیرنے لگے۔ میں نے بھی آپ ﷺ کا دستِ اقدس (اپنے ہاتھوں میں) پکڑ کر اپنے چہرے پر پھیرا۔ آپ ﷺ کا دستِ اَطہر برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے کہیں زیادہ خوشبودارتھا۔

128. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِي، ثُمَّ مَسَحَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِي وَبَطْنِي. ثُمَّ قَالَ: اَللَّهُمَّ، اشْفِ سَعْدًا، وَأَتْمِمْ لَهُ هِجْرَتَهُ. فَمَا زِلْتُ أَجِدُ بَرْدَهُ عَلَى كَبِدِي فِيْمَا يُخَالُ إِلَيَّ حَتَّى السَّاعَةِ([137]).

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے میری پیشانی پر اپنا دستِ مبارک رکھا، پھر اپنا دستِ اقدس میرے چہرے اور سینے پر پھیرا۔ اُس کے بعد یوں دعا کی: اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما اور اِس کی ہجرت کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُس وقت سے اب تک جب بھی مجھے اس لمحہ کا خیال آتا ہے تو حضور نبی اکرم ﷺ کے دستِ اقدس کی ٹھنڈک میں اپنے قلب و جگر کے اندر محسوس کرتا ہوں۔

129. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ صَلَاةَ الْأُوْلَى، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَهْلِهِ وَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَاسْتَقْبَلَهُ وِلْدَانٌ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ خَدَّيْ أَحَدِهِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا، قَالَ: وَأَمَّا أَنَا فَمَسَحَ خَدِّي، قَالَ: فَوَجَدْتُ لِيَدِهِ بَرْدًا أَوْ رِيْحًا كَأَنَّمَا أَخْرَجَهَا مِنْ جُؤْنَةِ عَطَّارٍ([138]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نمازِ ظہر ادا کی، پھر آپ ﷺ اپنے دولت کدے کی طرف تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ چلتا گیا، سامنے سے کچھ بچے آئے، آپ ﷺ نے اُن میں سے ہر ایک کے رخسار پر ہاتھ پھیرا اور میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا۔ میں نے آپ ﷺ کے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو ایسے محسوس کی جیسے آپ ﷺ نے اُسے ابھی عطار کے ڈبے سے نکالا ہو۔

130. عَنْ عَاتِكَةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہما، قَالَتْ: ... كَأَنَّ أَصَابِعَهُ قُضْبَانُ الْفِضَّةِ. كَفُّهُ أَلْيَنُ مِنَ الْحَرِيْرِ. وَكَانَ كَفُّهُ كَفَّ عَطَّارٍ طِيْبًا، مَسَّتْهَا بِطِيْبٍ أَوْ لَمْ تَمَسَّهَا. فَصَافَحَهُ الْمُصَافِحُ، فَيَظَلُّ يَوْمَهُ يَجِدُ رِيْحَهَا، وَيَضَعُهَا عَلَى رَأْسِ الصَّبِيِّ، فَيُعْرَفُ مِنْ بَيْنِ الصِّبْيَانِ مِنْ رِيْحِهَا عَلَى رَأْسِهِ([139]).

حضرت عاتکہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی انگشتان مبارک ایسے تھیں جیسے چاندی کی (تراشی ہوئی تابندہ) ڈلیاں ہوں، جب کہ آپ ﷺ کی ہتھیلی مبارک ریشم سے بھی زیادہ نرم اور ملائمیت کی حامل تھی۔ آپ ﷺ کے مبارک ہاتھ عطار کے ہاتھوں کی طرح عطر افشان اور عطر ریز رہتے، خواہ خوشبو لگائی ہو یا نہ لگائی ہو۔ آپ ﷺ سے مصافحہ کرنے والا ہر شخص سارا دن اپنے ہاتھوں میں خوشبو پاتا تھا۔ آپ ﷺ (جب کسی) بچے کے سر پر دستِ شفقت پھیر دیتے تو وہ اپنے سر میں آپ ﷺ کے ہاتھوں کی خوشبو کے باعث دوسرے بچوں میں نمایاں پہچانا جاتا تھا۔

131. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَلَا مَسِسْتُ خَزَّةً وَلَا حَرِيْرَةً أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُوْلِ اللهِﷺ ([140]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے کسی دیباج یا ریشم کو بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی مبارک ہتھیلیوں سے زیادہ نرم و گداز اور ملائم نہیں پایا۔

132. عَنْ شَدَّادٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَإِذَا هِيَ أَلْيَنُ مِنَ الْحَرِيْرِ، وَأَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ([141]).

حضرت شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور (وفورِ عقیدت اور فرطِ ارادت سے) آپ ﷺ کا دستِ اقدس اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ آپ ﷺ کا دستِ اقدس ریشم سے زیادہ نرم اور برف سے زیادہ ٹھنڈا تھا۔

133. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ ضَخْمَ الْيَدَيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، ... وَكَانَ ﷺ بَسِطَ الْكَفَّيْنِ([142]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے دونوں ہاتھ اور دونوں قدم مبارک گوشت سے پُر تھے اور آپ ﷺ کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔

134. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَائِلَ الْأَطْرَافِ، كَأَنَّ أَصَابِعَهُ قُضْبَانُ فِضَّةٍ([143]).

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی انگشتانِ مبارک لمبی اور خوبصورت تھیں، یوں محسوس ہوتا جیسے وہ (انگلیاں نہیں بلکہ) چاندی کی (نرم و نازک) شاخیں ہیں۔

135. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ رَحْبَ الرَّاحَةِ([144]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ تمیمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہتھیلیاں فراخ تھیں۔

136. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَائِلَ الْأَطْرَافِ([145]).

آپ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی انگشتانِ مبارک موزوں تناسب کے ساتھ لمبی تھیں۔



حوالہ جات




([136]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1304، الرقم/3360، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/309، الرقم/18789، والدارمي في السنن، كتاب الصلاة، باب إعادة الصلوات في الجماعة بعد ما صلى في بىته، 1/366، الرقم/1367، وابن خزىمة في الصحيح، 3/67، الرقم/1638، والطبراني في المعجم الكبير، 22/115، الرقم/294.

([137]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب المرضى، باب وضع الىد على المرىض، 5/2142، الرقم/5335، وأيضًا في الأدب المفرد/176، الرقم/499، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/171، الرقم/1474، والنسائي في السنن الكبرى، 4/67، الرقم/6318، والبزار في المسند، 4/42، الرقم/1204، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3/212، الرقم/1013.

([138]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الفضائل، باب طىب رائحة النبي ﷺ ولىن مسه والتبرك بمسحه، 4/1814، الرقم/2329، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/323، الرقم/31765، والطبراني في المعجم الكبير، 2/228، الرقم/1944، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 9/253، وذكره العسقلاني في فتح الباري، 6/573.

([139]) أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1/305، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/362.

([140]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصوم، باب ما ىذكر من صوم النبي وإفطاره ﷺ، 2/696، الرقم/1872، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/278.

([141]) أخرجه الطبراني في المعجم الكبير، 7/272، الرقم/7110، وأيضًا في المعجم الأوسط، 9/97، الرقم/9237، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/282، والعسقلاني في الإصابة، 3/323، الرقم/3859، والصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/74.

([142]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب اللباس، باب الجعد، 5/2212، الرقم/5567، والقاضي عىاض في مشارق الأنوار/101.

([143]) أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1/305، وذكره السيوطي في الجامع الصغير، 1/40، والمناوي في فىض القدىر، 5/78.

([144]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية/37، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/146، والطبراني في المعجم الكبير، 22/155-156، الرقم/414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/422.

([145]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية/37، الرقم/8، والطبراني في المعجم الكبير، 22/156، الرقم/414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/155، الرقم/1430، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/422، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/339، 344، 348، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/273.
آپ ﷺ کا سینۂ مبارک اور بطن اقدس
21. وَصْفُ صَدْرِهِ ﷺ وَبَطْنِهِ ﴿آپ ﷺ کا سینۂ مبارک اور بطنِ اَقدس﴾

آپ ﷺ کا شکم مبار ک صبروقناعت کا خزینہ اور آپ ﷺ کا سینۂ طیبہ اسرار و رُموزِ ربانی، علومِ جلی و خفی اور وحیِ الٰہی کا گنجینہ تھا۔آپ ﷺ کا شکم و سینۂ اقدس دونوں ہموار اور برابر تھے۔ آپ ﷺ کا سینۂ اقدس فراخ اور آئینے کی طرح سخت اور ہموار تھا۔ شکم مبارک اور سینۂ اقدس دونوں کا کوئی ایک حصہ بھی دوسرے سے بڑھا ہوا نہ تھا۔ سینہ کے اوپر کے حصہ سے ناف تک مقدس بالوں کی ایک پتلی سی لکیر تھی۔ مقدس چھاتیاں اور پورا شکم بالوں سے خالی تھا۔ البتہ شانوں اور کلائیوں پر قدرے بال تھے۔

137. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَوَاءَ الْبَطْنِ وَالصَّدْرِ، عَرِيْضَ الصَّدْرِ([146]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا بطن مبارک اور سینہ اقدس دونوں برابر تھے (یعنی پیٹ سینے سے نکلا ہوا نہیں تھا) اور سینہ مبارک قدرے چوڑا تھا۔

138. عَنْ عَاتِكَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: ... كَانَ عَرِيْضَ الصَّدْرِ، مَمْسُوْحَهُ، كَأَنَّهُ الْمَرَايَا فِي شِدَّتِهَا وَاسْتِوَائِهَا، لَا يَعْدُوْ بَعْضُ لَحْمِهِ بَعْضًا، عَلَى بَيَاضِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ([147]).

حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ کا سینۂ اقدس فراخ اور آئینہ کی طرح سخت اور ہموار تھا، کوئی ایک حصہ بھی دوسرے سے بڑھا ہوا نہ تھا، جب کہ سفیدی اور چمک میں چودھویں کے چاند کی طرح تھا۔

139. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ لَهُ ﷺ شَعَرٌ مِنْ لُبَّتِهِ إِلَى سُرَّتِهِ، يَجْرِي كَالْقَضِيْبِ، لَيْسَ فِي بَطْنِهِ وَلَا صَدْرِهِ شَعَرٌ غَيْرُهُ([148]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بطنِ اقدس پر بالوں کی ایک لکیر تھی جو سینۂ انور سے شروع ہو کر ناف مبارک پر ختم ہو جاتی تھی۔ اُس لکیرکے علاوہ سینۂ انور اور بطنِ اقدس پر بال نہ تھے۔

140. عَنْ أُمِّ هَانِيْءٍ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ بَطْنَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَطُّ إِلَّا ذَكَرْتُ الْقَرَاطِيْسَ الْمَثْنِيَّةَ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ([149]).

حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے بطنِ اقدس کو ہمیشہ اس حالت میں دیکھا کہ محسوس ہوتا تھا جیسے کاغذ تہہ در تہہ رکھے ہیں (یعنی بطنِ اقدس بالکل ہموار تھا)۔

141. عَنْ أُمِّ مَعْبَدٍ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: لَمْ تَعِبْهُ ﷺ ثُجْلَةٌ([150]).

حضرت اُم معبد سے مروی ہے کہ آپ ﷺ (تمام جسمانی عیوب سے کلیتاً پاک ہونے کے ساتھ) پیٹ کے بڑے ہونے کے عیب سے بھی پاک تھے۔



حوالہ جات




([146]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية/36، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الكبير، 22/155، الرقم/414، وأيضًا في الأحاديث الطوال، 1/245، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/422.

([147]) أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1/304.

([148]) أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/410، والطبري في تاريخ الأمم والملوك، 2/221، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/260.

([149]) أخرجه الطىالسي في المسند، 1/225، الرقم/1619، والطبراني في المعجم الكبير، 24/413، الرقم/1006، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/419، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 12/64، الرقم/6457، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/280.

([150]) أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/10-11، الرقم/4274، والطبراني في المعجم الكبير، 4/48-49، الرقم/3605، وابن حبان في الثقات، 1/125، وابن عبد البر في الاستىعاب، 4/1958-1960، الرقم/4215، وذكره ابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/139، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/279.
پ ﷺ کے مبارک گھٹنے اور پنڈلیاں
22. وَصْفُ رُكْبَتَيْهِ ﷺ وَسَاقَيْهِ ﴿آپ ﷺ کے مبارک گھٹنے اور پنڈلیاں﴾

رسول اللہ ﷺ کے کندھوں، کہنیوں،گھٹنوں اور کلائیوں کے جوڑ انتہائی مضبوط اور آپ ﷺ کے جسمِ پاک کی مناسبت سے بڑے اور موزوں حد تک طویل تھے۔آپ ﷺ کی ہڈیوں کے جوڑ موٹے اور گوشت سے پُر تھے، جسم کا وہ حصہ جو کپڑے سے یا بالوں سے ننگا ہوتا وہ روشن اور چمک دار تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی حسین و جمیل نورانی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں۔ہر جوڑ جاذبِ نظرتھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا پُرنور وجود سر تا پا موزونیت کا آئینہ دار تھا۔ جو بھی آپ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوتا بہ زبانِ حال پکا ر اٹھتا:


زفرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا این جا ست



آپ ﷺ کے فدائی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے اَعضاء مبارک میں سے ہر وہ عضو جس کی زیارت کی سعادت سے وہ بہرہ یاب ہوئے، اس کی جزئیات تک کا بیان بڑی محبت،لذت اور حلاوت سے کرتے۔ اس موقع پر ان کی سرشارانہ عقیدت دیدنی اور شنیدنی ہوتی۔گویا آپ ﷺ کا سراپا ہر وقت ان کی نگاہوں اور چشمِ تصور میں موجود رہتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے حال، اَفعال اور شمائل و خصائل کا ذکر ہی ان کے نزدیک سب سے بڑی عبادت تھی۔ اس بابرکت باعثِ فیوض و خیر ذکر پاک کو وہ دنیا و ما فیہا میں موجود ہر شے پر ترجیح دیتے۔ ان کا عالم بقولِ شاعر یہ تھا:


ما ہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الا حدیثِ یار کہ تکرار می کنیم



142. عَنْ عَلِيٍّ علیہ السلام، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ضَخْمَ الْكَرَادِيْسِ([151]).

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نہایت (توانا، قوی اور) مضبوط جوڑوں کےحامل تھے۔

143. وَ عَنْهُ علیہ السلام، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ جَلِيْلَ الْمُشَاشِ([152]).

اورحضرت علی علیہ السلام یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے جوڑوں کی ہڈیاں خوب نمایاں تھیں۔

144. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ فِي سَاقَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حُمُوْشَةٌ([153]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کی مبارک پنڈلیاں قدرے پتلی (اور حسین ترین) تھیں۔



حوالہ جات




([151]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/96، 127، الرقم/746، 1053، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/598، الرقم/3637، وأبو يعلى في المسند، 1/304، الرقم/370، والبخاري في التاريخ الكبير، 1/8، والبزار في المسند، 2/244، الرقم/645، والحاكم في المستدرك، 2/662، الرقم/4194.

([152]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/599، الرقم/3638، وأيضًا في الشمائل المحمدية/32-33، الرقم/7، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/328، الرقم/31805، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/149، الرقم/1415، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/411.

([153]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/97، الرقم/20955، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في صفة النبي ﷺ، 5/603، الرقم/3645، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/328، الرقم/31806، وأبويعلى في المسند، 13/453، الرقم/7458، والطبراني في المعجم الكبير، 2/244، الرقم/2024، والحاكم في المستدرك، 2/662، الرقم/4196.
آپ ﷺ کے قدمین مبارک
23. وَصْفُ قَدَمَيْهِ ﷺ ﴿آپ ﷺ کے قدمین مبارک﴾

آپ ﷺ کے مقدس و معظم پاؤں چوڑے، پُر گوشت اور ایڑیاں کم گوشت والی اور تلوا اونچا جوفرشِ زمین پر نہ لگتا تھا۔ پاؤں کی نرمی اور نزاکت کا یہ عالم تھا کہ ان پر پانی ذرا بھی نہیں ٹھہرتا تھا۔آپ ﷺ کے ہتھیلیاں اور قدم کشادہ تھے لیکن تلوا گہرا نہ تھا۔ آپ ﷺ کی کہنیوں سے اوپر اور نیچے دونوں بازو بھاری تھے۔یہ شجاعت کی علامت ہے۔ ایڑیاں اور پنڈلیاں ہلکی تھیں۔ آپ ﷺ کے قدم مبارک ہی ہیں جنہیں قدومِ میمنت لزوم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔یہاں اس امر کا ذکر از بس ضروری ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی تھے جنہوں نے اپنے محبوب آقا ﷺ کے حسن معنوی کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے جمالِ ظاہری، چال ڈھال، خدّ و خال، قد و قامت، عارض و گیسو، اندازِ گفتار، طرزِ رفتار، روز و شب کے معمولات،خوبیِِ تکلم، جمالِ تبسم، اَطوار، پوشاک،اِستراحت و آرام،قیام و طعام حتی کہ آپ ﷺ کے ساتھ گزرے ایک ایک پل اور ایک ایک ادا کو یاد رکھا اور بیان فرما کر آنے والی ملتِ اسلامیہ پر احسان عظیم کیا۔ یہ اسی کا فیضان ہے کہ ہم بھی ان کے فرمودات و ملفوظات کی روشنی میں محبوبِ رب العالمین ﷺ کے حلیۂ مبارک اور حسن و جمال کو نگاہِ شوق اور چشمِ تصور میں لا سکتے ہیں۔امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں کہ ’ایمان کی تکمیل کے لیے اس بات پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ ربِ کائنات نے حضور ﷺ کا وجودِ اقدس حسن و جمال میں بے نظیر و بے مثال تخلیق فرمایا‘۔ امام قسطلانی لکھتے ہیں کہ ’اسلاف نے حضور ﷺ کے اوصاف کا جو تذکرہ کیا ہے یہ بطور تمثیل ہے ورنہ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس اور مقام بہت بلند ہے‘۔

145. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ ضَخْمَ الْقَدَمَيْنِ([154]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قدمین شریفین گوشت سے پُر تھے۔

146. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ … مَنْهُوْسَ الْعَقِبَيْنِ([155]).

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک ایڑیوں پر گوشت کم تھا (یعنی ان میں نفاست اور لطافت تھی)۔

147. عَنْ عَلِيٍّ علیہ السلام، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ([156]).

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ کی ہتھیلیاں اور قدمین مبارک گوشت سے پُر تھے۔

148. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ كَانَ أَحْسَنَ الْبَشَرِ قَدَمًا([157]).

حضرت عبد اللہ بن بُریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قدمین شریفین تمام لوگوں کے قدموں سے زیادہ خوبصورت اور نفیس تھے۔

149. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خُمْصَانَ الْأَخْمَصَيْنِ، مَسِيْحَ الْقَدَمَيْنِ، يَنْبُوْ عَنْهُمَا الْمَاءُ ([158]).

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دونوں قدموں کے تلوے قدرے گہرے تھے، قدمین شریفین ہموار اور نرم تھے اور (اس قدر ہموار تھے کہ) اُن پر پانی نہیں ٹھہرتا تھا۔

150. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: لَيْسَ لَهَا أَخْمَصُ([159]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کے تلوے زیادہ گہرے نہیں تھے (یعنی ان میں معمولی اور مناسب گہرائی تھی)۔



حوالہ جات




([154]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب اللباس، باب الجعد، 5/2212، الرقم/5568، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/125، الرقم/12288، وأبو يعلى في المسند، 5/255-256، الرقم/2875، والطىالسي في المسند، 1/338، الرقم/2589.

([155]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الفضائل، باب في صفة فم النبي ﷺ وعينيه وعقبىه، 4/1820، الرقم/2339، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/86، 88، 103، الرقم/20831، 20848، 20950، 21024، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في صفة النبي ﷺ، 5/603، الرقم/3646-3647، وابن حبان في الصحيح، 14/199، الرقم/6288.

([156]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/96، 127، الرقم/746، 1053، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/598، الرقم/3637، وأبو يعلى في المسند، 1/304، الرقم/370، والبزار في المسند، 2/118، الرقم/474، والحاكم في المستدرك، 2/662، الرقم/4194، والبخاري في التاريخ الكبير، 1/8.

([157]) أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/419، وابن إسحاق في السيرة النبوية، 2/122، وذكره السيوطي في الجامع الصغير، 1/25، الرقم/7، وأيضًا في الخصائص الكبرى، 1/128، والصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/79.

([158]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية/37-38، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/146، والطبراني في المعجم الكبير، 22/155-156، الرقم/414، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/154-155، الرقم/1430.

([159]) أخرجه البخاري في الأدب المفرد، باب إذا التفت التفت جمىعًا/395، الرقم/1155، وذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 1/125، والصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/30.
المصادر والمراجع

1. القرآن الحكیم.

2. ابن الأثير، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الکريم الشيباني الجزري (555-630ﻫ/1160-1233م). النهاية في غريب الحديث والأثر. بيروت، لبنان: المكتبة العلمية، 1399ﻫ/1979م.

3. أحمد بن حنبل، أبو عبد الله الشيباني (164-241ﻫ/780-855م). الـمسند. بيروت، لبنان: المکتب الإسلامي للطباعة والنشر، 1408ﻫ.

4. ابن إسحاق، محمد بن إسحاق بن یسار، (85-151ﻫ). السیرة النبویة. معهد الدراسات والابحاث للتعریب.

5. الأَزدي، معمر بن راشد (ت: 151ﻫ). الجامع. بیروت، لبنان: المکتب الاسلامی، 1403ﻫ.

6. الأصبهاني، إسماعیل بن محمد بن فضل التمیمی (457-535ﻫ). دلائل النبوة. ریاض، سعودی عرب: دار طیبة، 1409ﻫ.

7. البخاري، أبو عبد الله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن مغيرة (194-256ﻫ/810-870م). الأدب المفرد. بیروت، لبنان: دار البشائر الاسلامیه، 1409ﻫ/1989م.

—. الصحيح. بيروت، لبنان + دمشق، شام: دار القلم، 1401ﻫ/1981م.

—. التاريخ الكبير. بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية.

8. البزار، أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البصري (215-292ﻫ/830- 905م). المسند (البحر الزخار). بیروت، لبنان: مؤسسة علوم القرآن، 1409ﻫ.

9. البیجوري، إبراهیم بن محمد (ت: 1276ﻫ). المواهب اللدنیة حاشیة على الشمائل المحمدیة. مصر: مطبعة المصطفی البابي الحلبي، 1375ﻫ/1956م.

10. البیهقي، أبو بكر أحمد بن حسین بن علی بن عبد الله بن موسی (384-458ﻫ/994-1066م). دلائل النبوة. بیروت، لبنان: دار الكتب العلمیة، 1405ﻫ/1985م.

—. السنن الكبری. المكة المكرمة، المملكة العربية السعودية: مكتبة دار الباز، 1414ﻫ/1994م.

—. شعب الإیمان. بیروت، لبنان: دار الكتب العلمیة، 1410ﻫ/1990م.

11. الترمذي، أبو عیسی محمد بن عیسی بن سورة بن موسی بن الضحاك (209-279ﻫ/825-892م). السنن. بیروت، لبنان: دار إحیاء التراث العربي.

—. الشمائل المحمدیة والخصائص المصطفویة. بیروت، لبنان: مؤسسة الكتب الثقافیة، 1412ﻫ.

12. التلمساني، أحمد بن محمد بن أحمد بن یحیی المقرئي (ت: 1441ﻫ). فتح المتعال في مدح النعال. القاهرة، مصر: دارالقاضی عیاض للتراث.

13. الجرجاني، أبو القاسم حمزة بن یوسف (ت: 428ﻫ). تاریخ الجرجان. بیروت، لبنان: عالم الکتب، 1401ﻫ/1981م.

14. ابن الجعد، أبو الحسن علي بن عبید الهاشمي (133-230ﻫ/750-845م). المسند. بیروت، لبنان: مؤسسة نادر، 1410ﻫ/1990م.

15. ابن الجوزی، أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد بن علی بن عبید الله (510-579ﻫ/1116-1201م). صفة الصفوة. بیروت، لبنان، دار الكتب العلمیة، 1409ﻫ/1989م.

—. الوفا بأحوال المصطفى ﷺ . بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية، 1408ﻫ/1988م.

—. المنتظم في تاريخ الملوك والأمم. بيروت، لبنان: دار صادر، 1358ﻫ.

16. الحاكم، أبو عبد الله محمد بن عبد الله بن محمد (321-405ﻫ/933-1014م). المستدرك علی الصحیحین. بیروت، لبنان: دار الكتب العلمیة، 1411ﻫ/1990م.

17. ابن حبان، أبو حاتم محمد بن حبان بن أحمد بن حبان التمیمي البستي (270-354ﻫ/884-965م). الثقات. بیروت، لبنان: دار الفكر، 1395ﻫ.

—. الصحیح. بیروت، لبنان: مؤسسة الرسالة، 1414ﻫ/1993م.

18. الحلبي، نور الدين أبو الفرج علي بن إبراهيم بن أحمد، ابن برهان الدين المصري (975-1044ﻫ). إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون ﷺ أو السيرة الحلبية. بيروت، لبنان: دار المعرفة، 1400ﻫ.

19. الخازن، علي بن محمد بن إبراهیم بن عمر بن خلیل (678-741ﻫ/1279-1340م). لباب التأویل فی معانی التنزیل. بیروت، لبنان: دار المعرفة.

20. ابن خزيمة، أبو بكر محمد بن إسحاق (223–311ﻫ/838–924م). الصحيح. بيروت، لبنان: المكتب الإسلامي، 1390ﻫ/1970م.

21. الخطيب البغدادي، أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي بن ثابت (393-463ﻫ/1003-1071م). تاريخ بغداد، بيروت، لبنان، دار الكتب العلمية، بدون تاريخ.

22. الخفاجي، أبو عباس أحمد بن محمد بن عمر (979-1069ﻫ/1571-1659م). نسیم الریاض في شرح شفاء القاضی عیاض. بیروت، لبنان: دار الكتب العلمیة، 1421ﻫ/2001م.

23. الدارمي، أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن (181-255ﻫ/797-869م). السنن. بیروت، لبنان: دار الكتاب العربي، 1407ﻫ.

24. أبو داود، سلیمان بن أشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد الأزدي السبحستاني (202-275ﻫ/817-889م). السنن. بیروت، لبنان: دار الفكر، 1414ﻫ/1994م

25. الدیلمي، أبو شجاع شیرویه بن شهردار بن شیرویه الهمذاني (445-509ﻫ/1053-1115م). مسند الفردوس. بیروت، لبنان: دار الكتب العلمیة، 1406ﻫ/1986م.

26. الذهبي، أبو عبد الله شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان (673-748ﻫ/1274-1348م). سير أعلام النبلاء. بيروت، لبنان: مؤسسة الرسالة، 1413ﻫ.

27. الرازي، فخر الدين محمد بن عمر بن حسن بن حسين بن علي التميمي الشافعي (544–604ﻫ). مفاتيح الغيب (التفسير الكبير). بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية، 1421ﻫ.

28. الروياني، أبو بكر محمد بن هارون الرازي الطبري (ت: 307ﻫ). مسند الصحابة المعروف بـ: مسند الروياني. القاهرة، مصر: مؤسسة قرطبة، 1416ﻫ.

29. الزرقاني، أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي بن يوسف بن أحمد بن علوان المصري الأزهري المالکي (1055-1122ﻫ/1645-1710م). شرح المواهب اللدنیة. بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة، 1417ﻫ/1996م.

—. شرح على المؤطأ. القاهرة، مصر: مكتبة الثقافة الدينية، 1424ﻫ/2003م.

30. ابن سعد، أبو عبد الله محمد (168-230ﻫ/784-845م). الطبقات الكبری. بیروت، لبنان: دار بیروت للطباعة والنشر، 1398ﻫ/1978م.

31. السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر بن محمد بن أبي بكر بن عثمان السيوطي (849-911ﻫ/1445-1505م). الجامع الصغیر فی أحادیث البشیر النذیر. بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة.

—. الخصائص الكبرى. بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية، 1405ﻫ/1985م.

—. الشمائل الشریفة. دار طائر العلم للنشر والتوزیع.

32. ابن شاهین، عبد الباسط بن خلیل، غایة السول في سیرة الرسول ﷺ . بیروت، لبنان: عالم الكتب، 1988م.

33. ابن أبي شيبة، أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة الكوفي (159-235ﻫ/776-849م). المصنف. رياض، المملكة العربية السعودية: مكتبة الرشد، 1409ﻫ.

34. الصالحي، أبو عبد الله محمد بن یوسف بن علي بن یوسف الشامی (ت: 942ﻫ/1536م). سبل الهدی والرشاد. بیروت، لبنان: دار الكتب العلمیة، 1414ﻫ/1993م.

35. الطبراني، أبو القاسم سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمي (260-360ﻫ/873-970م). الأحادیث الطوال. موصل، العراق: مكتبة الزهراء، 1404ﻫ/1983م.

—. مسند الشاميين. بيروت، لبنان: مؤسسة الرسالة، 1405ﻫ/1985م.

—. المعجم الأوسط. القاهرة، مصر: دار الحرمین، 1415ﻫ.

—. المعجم الكبیر. موصل، العراق: مكتبة العلوم والحكم، 1403ﻫ/1983م.

36. الطیالسي، أبو داود سلیمان بن داود الجارود (133-204ﻫ/751-819م). المسند. بیروت، لبنان: دار المعرفة.

37. ابن أبي عاصم، أبو بكر عمرو الضحاك الشیباني (206-287ﻫ/822- 900م). الآحاد والمثاني. الریاض، المملكة العربية السعودية: دار الرایة، 1411ﻫ/1991م.

38. ابن عبد البر، أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد (368–463ﻫ/979–1071م). التمهيد. مغرب (مراكش): وزاة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية، 1387ﻫ.

—. الاستذكار. بيروت، لبنان، دار الكتب العلمية، 2000م.

—. الاستيعاب في معرفة الأصحاب. بيروت، لبنان، دار الكتب العلمية، 1422ﻫ/2002م.

39. عبد بن حميد، أبو محمد عبد بن حميد بن نصر الكسي (ت: 249ﻫ/863م). المسند. القاهرة، مصر: مكتبة السنة، 1408ﻫ/1988م.

40. ابن عساكر، أبو قاسم علي بن الحسن بن هبة الله بن عبد الله بن حسين الدمشقي الشافعي (499-571ﻫ/1105-1176م). تاریخ مدينة دمشق المعروف بـ: تاریخ ابن عساكر. بیروت، لبنان: دار الفكر، 1995م.

—. السیرة النبویة. بیروت، لبنان: دار إحیاء التراث العربي، 1421ﻫ/2001م.

41. العسقلاني، أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن علي بن حجر العسقلاني الشافعي (773-852ﻫ/1372-1449م). فتح الباري شرح صحيح البخاري. بيروت، لبنان: دار المعرفة، 1379ﻫ.

42. أبو عوانة، يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم بن زيد النيشابوري (230-316ﻫ/845-928م). المسند. بيروت، لبنان: دار المعرفة، 1998م.

43. الفسوي، أبو یوسف یعقوب بن سفیان (ت: 277ﻫ). المعرفة والتاریخ. بیروت، لبنان: دار الكتب العلمیة، 1419ﻫ/1999م.

44. القاضي عياض، أبو الفضل عياض بن موسى بن عياض بن عمرو بن موسى بن عياض بن محمد بن موسى بن عياض اليحصبي (476-544ﻫ/1083-1149م). الشفا بتعريف حقوق المصطفى ﷺ . بيروت، لبنان: دار الكتاب العربي.

—. الشفا بتعريف حقوق المصطفى ﷺ . بيروت، لبنان: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، 1409ﻫ/1988م.

—. الشفا بتعريف حقوق المصطفى ﷺ . عمان: دار الفيحاء، 1407ﻫ.

—. مشارق الأنوار. المکتبة العتیقة،ودار التراث.

45. القسطلاني، أبو العباس أحمد بن محمد بن أبي بكر بن عبد الملك بن أحمد بن محمد بن محمد بن حسين بن علي (851-923ﻫ/1448-1517م). المواهب اللدنية بالمنح المحمدية. بيروت، لبنان: المكتب الإسلامي، 1412ﻫ/1991م.

46. ابن كثیر، أبو الفداء إسماعیل بن عمر (701-774ﻫ/1301-1373م). البدایة والنهایة. بیروت، لبنان: دار الفکر، 1419ﻫ/1998م۔

47. ابن ماجه، أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزویني (207-275ﻫ/824-887م). السنن. بیروت، لبنان: دار الفكر.

48. ابن المبارك، أبو عبد الرحمن عبد الله بن واضح المروزي (118-181ﻫ/736-798م). كتاب الزهد ويليه كتاب الرقائق، بيروت، لبنان، دار الكتب العلمية، بدون تاريخ.

—. المسند، الرياض، مكتبة المعارف، 1407ﻫ.

49. المزي، أبو الحجاج يوسف بن زكي عبد الرحمن بن يوسف بن عبد الملك بن يوسف بن علي (654-742ﻫ/1256-1341م). تهذيب الكمال. بيروت، لبنان: مؤسسة الرسالة، 1400ﻫ/1980م.

50. مسلم، أبو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم بن ورد القشیري النیشابوري (206-261ﻫ/821-875م). الصحیح. بیروت، لبنان: دار إحیاء التراث العربي.

51. المقدسي، أبو عبد اللہ محمد بن عبد الواحد بن أحمد الحنبلي (569-643ﻫ/1173-1245م). الأحادیث المختارة. المكة المكرمة، المملكة العربية السعودية: مكتبة النهضة الحدیثة، 1410ﻫ/1990م.

52. الملا علي القاري، نور الدین بن سلطان محمد الهروي الحنفي (ت: 1014ﻫ/1606م). شرح الشفا. مصر، 1309ﻫ.

53. ابن الملقن، أبو حفص عمر بن علی الأنصاري، (723-804ﻫ). غایة السول في خصائص الرسول ﷺ . بیروت، لبنان: دارالبشائر الإسلامیة، 1414ﻫ/1993م.

54. المناوي، عبد الرؤف بن تاج العارفين بن علي (952–1031ﻫ/1545–1621م). فيض القدير شرح الجامع الصغير. مصر: مكتبة تجارية كبرى، 1356ﻫ.

55. النبهاني، يوسف بن إسماعيل بن يوسف (1265-1350ﻫ). الأنوار المحمدیة من المواهب اللدنیة۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة، 1417ﻫ/1997م.

56. أبو نعيم، أحمد بن عبد ﷲ بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (336-430ﻫ/948-1038م). حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء. بیروت، لبنان: دار الكتاب العربي، 1405ﻫ/1985م.

57. النسائي، أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب بن علي (215-303ﻫ/830-915م). السنن. بیروت، لبنان: دار الكتب العلمیة، 1416ﻫ/1995م+حلب، شام: مكتب المطبوعات الاسلامیة، 1406ﻫ/1986م.

—. السنن الكبرى. بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية، 1411ﻫ/1991م.

58. النسفي، عبد الله بن محمود بن أحمد النسفي (ت: 710ﻫ). مدارك التنزيل وحقائق التأويل. بيروت، لبنان، دار إحياء التراث العربي، بدون تاريخ.

59. النمیری، أبو زید عمر بن شبه البصری (ت: 262ﻫ). أخبار المدینة. بیروت، لبنان: دار الكتب العلمیة، 1417ﻫ/1996م.

60. النووي، أبو زكريا يحيى بن شرف بن مري بن حسن بن حسين بن محمد بن جمعة بن حزام (631–677ﻫ/1233–1278م). شرح صحيح مسلم. بيروت، لبنان: دار إحياء التراث، 1392ﻫ.

61. الهندي، علاء الدين علي بن حسام الدين المتقي (ت: 975ﻫ). كنز العمال. بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية، 1419ﻫ.

62. الهیثمي، نور الدین أبو الحسن علي بن أبي بكر بن سلیمان (735-807ﻫ/1335-1405م). مجمع الزوائد ومنبع الفوائد. القاهرة، مصر: دار الریان للتراث + بیروت، لبنان: دار الكتاب العربي، 1407ﻫ/1987م.

—. موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان. بیروت، لبنان + دمشق، شام: دار الثقافة العربیة، 1411ﻫ/1990م.

63. أبو یعلی، أحمد بن علي بن مثنی بن یحیی بن عیسی بن هلال الموصلي التمیمي (210-307ﻫ/825-919م). المسند. دمشق، شام: دار المأمون للتراث، 1404ﻫ/1984م.

—. المعجم. فیصل آباد، باکستان: إدارة العلوم والأثریة، 1407ﻫ.