رضیہ بٹ مشہور اردو ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ آپ 19مئی 1924ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کا زیادہ عرصہ پشاور میں گزارا۔ ان کا نام سب سے پہلے 1940ء کے ایک ادبی جریدے میں نمودار ہوا، اس وقت ان کی عمر 16سال تھی۔ بعد ازاں انہوں نے اپنی پہلی شائع شدہ کہانی کو ناول ’’نائلہ‘‘ کے روپ میں دھارا۔
اردو فکشن رائٹنگ میں بہت سے مشہور ناموں میں سے ایک معاصر ہونے کے ناطے آپ نے اپنی کہانیوں کو ایک مخصوص انداز میں پیش کر کے اپنا نام خود بنایا۔ رضیہ بٹ کی کہانیوں میں حقیقت کی تلخ سچائیوں کا عنصر ایک مثبت انداز میں موجود ہوتا ہے، جس میں معاشرتی ناہمواریوں اور اداس لمحوں کا تاثر نمایاں ہوا کرتا تھا۔ زندگی کے چلتے پھرتے کرداروں اور الفاظ کی اثر انگیزی کے سبب رضیہ بٹ کے ناول مقبول تھے۔
رضیہ بٹ کی شادی عبدالعلی بٹ کے ساتھ 17 فروری 1946ء کو ہوئی۔کچھ سالوں کے وقفے کے بعد آپ نے 1950 میں لکھنے کا کام دوبارہ شروع کیا۔ آپ نے 50 سے زائد ناول اور 350 افسانے لکھے۔ ان کا پہلا ناول ’’ناہید‘‘ 1959ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھے۔
رضیہ بٹ کے مقبول ترین ناولوں میں بانو، نائلہ، بینا، چاہت، فاصلے، میں کون ہوں، ناجیہ، نورین، ریطہ، روپ، سبین، صائقہ، زندگی، اماں، مہرو ، آئینہ، چاہتیں کیسی، ریشم، زندگی، سارا، وحشی، عاشی، مسرتوں کا شہر، وحشی، معاملے دل کے اور افسانوی مجموعوں میں آدھی کہانی، ذراسی کوتاہی، رانگ نمبر، آئیڈیل، دکھ سکھ اپنے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ان کا ایک سفر نامہ ’’امریکی یاترا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ’’بچھڑے لمحے‘‘ رضیہ بٹ کی آپ بیتی ہے، یہ بھی ان کے ناولوں کی طرح بے حد مقبول ہوئی۔
ان کے چار ناولوں پر فلمیں بھی بنیں جن میں ’’نائیلہ‘‘ اور ’’انیلا‘‘ بہت کامیاب ثابت ہوئیں۔ ان کی لکھی گئی چند کہانیوں کو ڈرامائی شکل میں بھی پیش کیا گیا، ان میں اماں، نورین، صائقہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قیام پاکستان کے پس منظر پر لکھے گئے ان کے مقبول ترین ناول ’’بانو‘‘ کو ہم ٹی وی پر ’’داستان‘‘ کے نام سے قسط وار پیش کیا گیا۔ اردو ادب اور ناول نگاری کو ایک خاص رنگ دینے والی ناول نگار رضیہ بٹ نے تحریک پاکستان میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
رضیہ بٹ 4 اکتوبر 2012 میں طویل بیماری کے بعد لاہور میں وفات پا گئیں۔ دل و دماغ پر تاثر چھوڑنے والی تحریروں کا جب بھی ذکر ہو گا رضیہ بٹ کا نام ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔