امی سے جیب خرچ لے کر وہ انیکسی سے باہر نکلی تو فیصل جو ابھی دروازے میں کھڑا اسے آواز دے رہا تھا، اچانک غائب ہوا۔
جانے اس لڑکے کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ حالانکہ وہ اس کے مسئلہ بخوبی سمجھتی تھی۔ بیگ پٹختے ہوئے وہیں سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی۔ کل اس نے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر تم وقت پہ تیار نہ ہوئے تو میں عمر کے ساتھ چلی جاؤں گی، پھر اس بدتمیز نے کیسا جی جان سے وعدہ کیا تھا کہ کل سے وہ ضرور وقت کی پابندی کرے گا۔ ’’اور اب آ کر پھر غائب۔‘‘ اس نے لب بھینچ لیے ایسا وہ تب کرتی تھی جب بہت غصہ آ رہا ہوتا تھا۔
عمر نے پہلے اپنی بائیک نکالی تھی، اب وہ اس پر سوار ہو رہا تھا۔ نہیں وہ ایک پل کے لیے رکا تھا۔ اس کی نگاہیں انیکسی سے باہر سیڑھیوں پہ بیٹھی زیب کی جانب اٹھی ہوئی تھی، ان میں سوال تھا۔
’’میرے ساتھ چلو گی؟‘‘ زیبو نے منہ پھیر لیا۔ وہ فیصل کو صرف دھمکی دے سکتی تھی اس پر عمل درآمد مشکل تھا، بے حد مشکل۔ وہ اپنے اکلوتے دوست کو کیسے ناراض کر دیتی۔
اندر وہ لاؤنج میں کھڑا ابا اور اماں کا مکالمہ سن رہا تھا۔
’’دوسو روپے دے جائیں۔‘‘ اماں کا مطالبہ۔
’’کیوں، کس لیے ؟‘‘ ابا حسب معمول اپنے ناپ سے لمبا شلوارسوٹ زیب تن کیے بٹوے میں رکھے نوٹ گن رہے تھے۔ عینک کے اوپر سے ابرو اٹھا کر استفسار کیا۔ پیشانی پر ایک ساتھ ان گنت بل پڑے تھے۔
’’ضرورت ہے تو مانگ رہی ہوں۔‘‘ اماں نے خفگی بھرا جواب دیا مگر ابا مطمئن نہیں ہوئے تھے۔
’’کیسی ضرورت؟ ہر چیز تو گھر میں موجود ہے سبزی، گوشت، انڈے، کپڑے لانڈری سے دھل کر آ جاتے ہیں۔ کام والی کا ابھی مہینہ ختم نہیں ہوا، دودھ والے کو میں فارغ کر چکا ہوں پھر تم دو سو کا کیا کرو گی۔‘‘
’’عظمت صاحب کے گھر سے میلاد کا پیغام آیا تھا۔ سوچا کچھ فروٹ وغیرہ لے جاؤں گی۔ اب خالی ہاتھ جانا بھی تو اچھا نہیں لگتا۔‘‘ شوہر کے مزاج سے خوب واقف تھیں، پائی پائی کا حساب رکھتے تھے۔ جب تک پوری وضاحت طلب نہیں کر لیتے ان کی جیب ڈھیلی ہونے والی نہیں تھی۔
’’یہ اچھا دستور ہے ! تم میلاد پہ جا رہی ہو یا بیٹے کا شگن کرنے۔ اب محلے میں بھی سوغاتیں بانٹتے پھریں گے، حد ہوتی ہے فضول خرچیوں کی بھی۔‘‘ چار باتیں سنا کر سو، سو کے دو نوٹ انہوں نے میز پر اماں کے سامنے رکھ ہی دیے تھے۔ بٹوہ واپس رکھتے ہوئے اب وہ واسکٹ پہن رہے تھے جو ان کے درمیانے قد پر لانگ کوٹ جیسی لگ رہی تھی۔ ظاہر ہے وہ کسی دراز قامت آدمی کی ہو گی۔
اماں منہ پھلائے ہوئے برتن سمیٹنے لگیں۔
’’ابا! میری پاکٹ منی۔‘‘ خشک لبوں پہ زبان پھیرتے ہوئے اس نے ابا کے سامنے ہاتھ پھیلایا تھا۔ ابا نے پہلے تو حسب معمول اسے گھورا پھر سر ہلاتے ہوئے اس کی ہتھیلی پر پانچ کا سکہ رکھا اور چلے گئے۔
وہ منہ بسورتے ہوئے باہر نکلا، ابا کی ’’حسب معمول‘‘ والی گھوری کے سامنے وہ کچھ بول ہی نہیں پاتا تھا۔ ابا بھی ایسا حفظ ماتقدم کے طور پر کرتے تھے۔
اماں نے باہر نکلتے ہوئے فیصل کے بیگ میں زبردستی دو سیب ٹھونسے ’’لنچ ٹائم میں یاد سے کھا لینا۔‘‘
’’اگر مراقبہ ختم ہو چکا ہو تو اسکول چلیں۔‘‘ زیبو دور کھڑی دو منٹ سے اسے دیکھ رہی تھی، وہ جس رفتار سے چل رہا تھا ایسے تو وہ چھٹی کے بعد ہی اسکول جا سکتے تھے۔ اب پاس جا کر اس کے سر پہ چلانا ضروری ہو چکا تھا۔
’’دیر کروا دی نا تم نے ؟‘‘اب وہ اسے گھور رہی تھی۔
’’جانتی ہو! میں نے رات ہی اپنا یونیفارم، موزے، بیگ، کتابیں سب ریڈی کر لیا تھا۔ ٹائم سے بیس منٹ قبل انیکسی کے باہر کھڑا تھا۔ تمہیں آواز بھی دی تھی مگر جب تمہیں پھوپھو سے پاکٹ منی لیتے دیکھا تو مجھے یاد آیا کہ میں نے تو ابا سے پاکٹ منی لی ہی نہیں اور پھر دیر ہو گئی۔‘‘ وہ مزے سے بتا رہا تھا زیبو اسے گھورتی رہی۔ راستہ بھر گھورتی رہی اور وہ سوچتا رہا۔
’’ایسے بھی ہوتے ہیں کسی کے ابا! دل چاہتا ہے یہاں سے کہیں دور چلا جاؤں۔ عمر کو تایا ابا سے پچاس روپے ملتے تھے۔ زیبو بھی بیس روپے لیتی تھی اور اس کے پاس تھا پانچ کا سکہ۔
’’کیا کرے گا وہ اس کا؟‘‘
یہ نہیں تھا کہ اس کے والدین بے حد غریب تھے بلکہ ان کا شمار کھاتے پیتے گھرانے میں ہوتا تھا اس کے ابا کی چوک میں مشہور لانڈری کی دو منزلہ دُکان تھی اور ان کے پاس کپڑوں کے علاوہ پردے، قالین اور بڑے بڑے میرج ہالز کی صفائی کے آرڈر آتے تھے۔
بس ان کے سر پہ کروڑ پتی کہلانے کا خبط سوار تھا۔ کچھ وہ فطرتاً کنجوس تھے۔ اتنے کنجوس کہ کبھی عید، شادی بیاہ اور کسی تہوار وغیرہ پر بھی انہوں نے اپنے لیے کوئی سوٹ نہیں سلوایا تھا۔ گاہکوں کے آئے ہوئے دھلائی کے سوٹ جو اسٹاک میں رکھے رہ جاتے اور جنہیں سال، چھ، مہینے تک کوئی لینے نہیں آتا تھا، نکال کر پہن لیتے تھے اسی لیے کبھی کوٹ لمبا تو قمیص چھوٹی تو کبھی سوٹ ان کے قد سے بڑے ہوتے تھے۔
اماں لاکھ سمجھاتیں کہ درزی سے اپنے ناپ کے کروا لو۔
مگر ان کی ایک ہی بات ’’میں اپنے متعلق کسی کمپلیکس کا شکار نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے خود نمائی کا کوئی شوق ہے، میں خود کو لوگوں کی نظر سے نہیں دیکھتا۔‘‘
چلو جی، بات ہی ختم۔ حالانکہ یہ الگ بات کہ انہیں منفرد لگنے کا بھی خبط تھا۔ اب اماں لاکھ سرپیٹتی رہی، ابا اپنی کرتے تھے۔
وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا دو بہنوں کا اکلوتا بھائی مگر نہ تو وہ اماں کی آنکھ کا تارا تھا نہ ہی ابا کا راج دلارا، اور نہ بہنوں کا پیارا۔
ہر کسی کو اس کی فکر تھی کہ کہیں اکلوتے پن کی وجہ سے بگڑ نہ جائے سو بے جا لاڈ پیار تو دور کی بات، وہاں تو پیار کا تصور ہی محال تھا۔ ہر کوئی ہر وقت اس پر اپنا رعب جمانے کو تیار نظر آتا تھا اور ابا تو غلطی سے بھی کبھی اس کی جانب پیار بھری نگاہ نہیں ڈالتے تھے۔
ایک عمر تھا اپنے ابا کا لاڈلا، فرمانبردار، سلجھا ہوا تمیز دار بچہ، جو کبھی کوئی فرمائش نہیں کرتا تھا کیونکہ اس کو ہر چیز بغیر مانگے ہی مل جاتی تھی مگر ابا کو یہ بات کون سمجھائے جنہیں نظر آتی تھی تو صرف اس کی فرماں برداری، وہ کتنا گھنا، میسنا تھا۔ اب وہ انہیں کیسے سمجھاتا، اماں بھی اس معاملے میں ابا کی ہم خیال تھیں۔
وہ ہر معاملے میں عمر کے ساتھ اس کا موازنہ کرتی تھیں۔
وہ گورا تھا تو ان کا بیٹا سانولا کیوں تھا؟ دونوں ہم عمر تھے، پھر عمر نے پہلے چلنا کیوں شروع کیا تھا؟ عمر نے اس سے پہلے ابا کہا تھا۔ تائی اماں اسے جو بھی کھلاتیں وہ بڑا سا منہ کھولے بس کھائے چلا جاتا اور اس کی اماں کو اسے ایک فیڈر پلانے میں ہزارہا جتن کرنے پڑتے تھے۔
وہ رات کو آٹھ بجے اچھے بچوں کی طرح سو جاتا تھا اور یہ ساری رات بھاں بھاں کر کے سب کو جگائے رکھتا۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں فیصل کو جسمانی اعضا کے نام آتے تھے مگر جب عمر نے اسی عمر میں کہا ’’مائی فادر نیم از کامران سکندر‘‘ تو اس کا چرچا ہفتے بھر تک ہوتا رہا تھا۔ ہر آئے گئے کے سامنے پوچھا جاتا۔
’’عمر! واٹ از یور فادر نیم؟‘‘ اسکول میں بھی وہ پہلی پوزیشن لاتا تھا اور فیصل کبھی پانچویں تو کبھی ساتویں۔ عمر کو سب ہی پسند کرتے تھے، اس سے ہر کسی کو شکایتیں ہی رہتیں۔ عمر کو ہمیشہ ہی اس کے سامنے ایک مثال کی طرح پیش کیا جاتا، اسے عمر سے چڑ تھی بے حد اور شدید۔
٭٭٭
حسب معمول وہ دیر سے آنے والوں کی قطار میں کھڑے تھے۔ زیبو کا اکتاہٹ کے مارے برا حال تھا۔ وہ فیصل کو جتنی مہذب گالیوں سے نواز سکتی تھی، نواز چکی تھی۔
وہ سر جھکائے کان کھجاتا، بس ہنسے جا رہا تھا۔
کیونکہ ابھی کچھ دیر قبل اس نے اسے دیکھا تھا، جس کی آواز سننے کی خاطر وہ روز دیر سے اسکول آتا تھا۔ وہ ان کے اسکول کی پریفیکٹ تھی۔
’’انعم!‘‘ کتنا پیارا نام تھا اس کا۔
وہ زیبو کی دوست تھی اور فیصل نے آج کل اس کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔
’’زیبو! تم رجسٹر میں اس کے نام کے آگے میرا نام لکھو گی۔‘‘
ریاضی کے ٹیسٹ میں زیبو کے نمبر سب سے زیادہ آتے تھے اور انعم کی ہمیشہ سیکنڈ پوزیشن، اس کا اترا ہوا چہرہ جانے کیوں اسے رنجیدہ کرنے لگا تھا۔
’’زیبو! تم انعم سے ایک نمبر کم نہیں لے سکتیں۔‘‘
’’اب کیا میں جان بوجھ کر مس ٹیک کروں۔‘‘ وہ ابرو چڑھاتی۔
’’ایک غلطی سے کیا ہوتا ہے زیبو۔‘‘ وہ بڑی منت سے کہتا اور زیبو بھلا کب اس کا کہا ٹالتی تھی۔
اس نے محسوس کیا تھا کہ اکثر زیبو کی اوٹ میں چھپ کر وہ بھی اسے دیکھتی تھی اور جب کبھی وہ اس کی چوری پکڑ لیتا تو نگاہوں کے تصادم پر کیسے جگنو چمکتے تھے اس کی آنکھوں میں، وہ دیر سے آتا تو وہ اس سے جرمانہ وصول نہیں کرتی تھی اس کے اگر ٹیسٹ میں نمبر کم آتے تو وہ استاد سے شکایت نہیں کرتی تھی۔ زیبو سارا وقت اسے اپنی اور فیصل کی باتیں سناتی رہتی، جسے زیر لب مسکراتے ہوئے وہ بڑے غور سے سنا کرتی تھی۔ اسے معلوم تھا فیصل کو کون سا رنگ پسند ہے، کھانے میں کیا اچھا لگتا ہے۔ وہ جب پہلی بار زیبو کی برتھ ڈے پر ان کے گھر آئی تو اس نے ہلکا فیروزی رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ کلاس میں ہونے والی ون ڈش پارٹی پر وہ گھر سے بطور خاص کڑھی چاول بنا کر لائی تھی۔
زیبو سے اس نے وہ سنہری قلم جو انعم نے اسے برتھ ڈے پہ تحفہ دیا تھا مانگ کر لے لیا تھا۔
’’فیصل یہ گفٹ ہے۔‘‘ وہ تلملائی ضرور تھی۔
’’تو کیا ہوا۔‘‘ وہ بڑی مسرت سے اسے قمیص کے گریبان میں سجا کر گھومتا تھا، جیسے وہ کوئی اعزازی تمغہ ہو۔
٭٭٭
آج کا دن اس کی زندگی کا منحوس ترین دن تھا، اس نے ابا کے سامنے سر اٹھانے کی جرات کر لی تھی۔
اسکول میں چودہ اگست کا فنکشن تھا اسے سفید شلوار قمیص چاہیے تھی اور ابا دوکان سے کوئی سوٹ اٹھا کر لے آئے تھے۔
’’اپنا ماپ دے دو، درزی سے کہہ کر چھوٹا کروا دوں گا۔‘‘
’’نہیں پہننے مجھے کسی کے اترے ہوئے کپڑے۔ آپ کی طرح نمونہ بننے کا کوئی شوق نہیں ہے، مجھے نئے کپڑے چاہئیں۔‘‘کے ٹی نما کھدر کے سوٹ کو دیکھ کر وہ جیسے چیخ پڑا تھا۔ عمر نے نیا کاٹن کا کڑھائی والا شلوار سوٹ بنوایا تھا اور اس کے ابا اسے کسی کا پرانا سوٹ پہننے کو کہہ رہے تھے۔
’’اپنے ابا کو نمونہ کہہ رہے ہو؟‘‘ اماں اس کی اس درجہ بدتمیزی پر صدمے کے باعث حیران، ساکت سی کھڑی تھیں۔ ابا نے آگے بڑھ کر اسے ایک تھپڑ رسید کر دیا تھا۔
’’یہ تربیت کر رہے ہیں اس کی اسکول والے ! کل ہی اسے مولانا صاحب کے مدرسے میں داخل کرواتا ہوں۔‘‘ اور وہ کتنی ہی دیر سیڑھیوں پہ مُنہ پھلائے بیٹھا رہا تھا۔ رات میں سارہ باجی اور انجم آپا کو فون کر کے بلوایا گیا تھا۔ اماں نے رو رو کر آنکھیں سجالیں۔
’’فیصل نے ابا کو ایسا کہا۔‘‘ سارا باجی بے یقینی سے بولیں۔
’’اماں ! فیصل خود سے ایسا نہیں کہہ سکتا، ضرور کسی نے ہمارے بچے پر کچھ کر دیا ہے، اسے باہر نہ نکلنے دیا کریں، سو طرح کی نظریں ہوتی ہیں لوگوں کی۔‘‘ انجم آپا نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے اپنے مفید مشورے سے بھی نوازا تھا اور پھر متفقہ فیصلے کے طور پر اسے اسکول سے خارج کروانے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اسے کسی دینی مدرسے میں داخل کروانے کی باتیں ہو رہی تھیں۔
آپا نے ایک مدرسے کا پتا بھی بتا دیا تھا۔ جہاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔
’’اچھا ہے صبح سے نکلا شام کو گھر آیا کرے گا۔ اس کے آوارہ دوست چھوٹیں گے تو خود ہی تمیز آ جائے گی۔‘‘
حالانکہ اس کا کوئی دوست تھا ہی نہیں، اسے کہاں اجازت تھی دوستیاں گانٹھنے کی۔
اس کا دل چاہ رہا تھا اپنا گلا دبا دے یا خود کو سولی پر لٹکا دے۔ بھلا کوئی تک بنتی تھی۔ ایک سوٹ کی فرمائش ہی تو کی تھی اس نے اور ان سب کو اس کی تربیت کی فکر پڑ گئی تھی۔ اب بھلائی اس میں تھی کہ ابا سے معافی مانگ لی جائے ورنہ اسکول سے دستبرداری کا مطلب تھا انعم سے دستبرداری جو اسے کسی صورت منظور نہیں تھی۔
سواس نے ابا سے معافی مانگ لی تھی اور وہی سوٹ پہننے کا اور کوئی فضول فرمائش نہ کرنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔
وہ اگلے روز صبح چھ بجے اٹھا تھا آج پہلی بار دیر سے جانے کے بجائے وقت سے پہلے اسکول جا رہا تھا کیونکہ آج اسے پہلی صف میں بیٹھنا تھا۔ انعم ڈرامے میں پرفارم کرنے والی تھی اور وہ اسے سب سے زیادہ قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ سات بجے آ کر وہ پہلی صف کی پہلی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔ ساتھ والی سیٹ اس نے زیبو کے لیے مختص کر لی تھی۔
اب وہ زیبو اور انعم کا انتظار کر رہا تھا۔ اس ایونٹ میں اس کی دلچسپی محض انعم کو ڈرامے میں پرفارم کرتا ہوا دیکھنے تک ہی محدود تھی لیکن ایک گھنٹہ وہاں بیٹھ کر انتظار کرنے کے بعد وہ اسے بنا دیکھے ہی اٹھ کر چلا آیا تھا۔ ڈھیلی ڈھالی کیٹی کے کھدر نما شلوار سوٹ میں اسے اپنی شخصیت ایسے لگ رہی تھی، جیسے دو سال کے بچے کو دس سال کے بچے کا سوٹ پہنا دیا ہو، بازو لمبے تھے تو اماں نے کف موڑ دیے تھے، گریبان میں دو گردنیں سما سکتی تھیں۔ قمیص کی لمبائی ٹخنوں سے دو انچ اوپر تھی اور شلوار تھی یا تہہ بند۔ وہ رو دینے کے قریب تھا۔
بے مقصد گلیوں میں گھومتا رہا اور جب واپس گھر آیا تو شام ہو چکی تھی اور ابا، تایا ابو، عمر سب اسے ڈھونڈنے نکلے ہوئے تھے۔ عمر نے ہی شکایت لگائی تھی کہ وہ آج اسکول نہیں آیا تھا۔
’’اکلوتا بیٹا ہے تمہارا اور تمہیں اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہے، کتنی بار کہا ہے، نظر رکھا کرو اس کی سرگرمیوں پر، یہی عمر ہے بننے کی اور بگڑنے کی۔‘‘تایا، ابا پر برس رہے تھے اور ابا نے اسے دیکھتے ہی پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ اس روز اسے عمر سے بے پناہ نفرت محسوس ہوئی تھی۔ ابا نے اس کا گھر سے نکلنا بند کر دیا تھا اور عمر مزے سے عقبی کھیل کے میدان میں اس کے ہی دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا۔ وہ کھڑکی میں کھڑا دیکھتا اور کڑھتا رہتا۔
زیبو اس کے لیے چائے لے کر آئی تھی، تب ہی عمر نے چھکا لگایا تھا۔
’’گڈ شاٹ۔‘‘ اس نے تالی بجا دی اور فیصل نے اتنی زور سے کھڑکی بند کی کہ میز پر رکھا چائے کا کپ دھمک سے نیچے جا گرا اور اب وہ بغیر کسی معذرت کے کمرے سے جا چکا تھا۔ زیبو نے بند کھڑکی کو حسرت سے دیکھا ضرور مگر وہ بند کھڑکی اس نے دوبارہ نہیں کھولی تھی۔ فیصل کو منانا بھی باقی تھا۔
’’میرے بیگ میں جو چاکلیٹ رکھی ہے کہہ دوں گی انعم نے دی تھی پھر تو مان ہی جائے گا۔‘‘ وہ انعم کا ایسا ہی دیوانہ تھا۔
٭٭٭
ان کے میٹرک کے امتحانات ہوئے تو اس نے کسی معروف موبائل کمپنی کے دفتر میں مارکیٹنگ کی جاب شروع کر دی تھی، عمر کو تایا نے نئی موٹر بائیک لے کر دی تھی حالانکہ بائیک اس کی جاب کی ضرورت تھی۔ اس نے ابا سے کہا تھا۔
مگر الٹا انہوں نے ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی تھی۔
’’دیکھا! اس جیسی نا خلف اولاد ہوتی ہے، باپ کے ساتھ ہاتھ بٹانے کے بجائے دوسروں کو فائدہ دے رہا ہے اور عمر کو دیکھو باقاعدگی سے باپ کی دُکان پر جاتا ہے بھائی صاحب کے بچے کتنے سلجھے ہوئے، فرمانبردار ہیں اور یہ! ایک انڈا وہ بھی گندا۔‘‘
’’تایا ابو عمر کو سیلری بھی دیتے ہیں۔‘‘ اس نے بھی جتا دیا تھا۔
’’ہاں تو اسے اپنے بیٹے پہ بھروسہ ہے، وہ ساری رقم جا کر اپنی اماں کو ہی دیتا ہے، تمہاری طرح فضول خرچ نہیں ہے۔‘‘
’’تو آپ بائیک لے کر نہیں دیں گے۔‘‘ وہ فیصلہ کن انداز میں بولا۔
’’نہیں۔‘‘ دو ٹوک انکار حاضر تھا، پھر اس نے مزید بحث نہیں کی تھی۔ وہ کسی اور نوکری کی تلاش میں مصروف ہو چکا تھا زیبو اخبارات سے اشتہار کاٹ کاٹ کر ہر جگہ اس کی سی وی بھجوا دیتی تھی۔ مگر باوجود کوشش کے اسے کہیں نوکری نہیں ملی تھی۔
انہی دنوں میں زیبو نے بتایا کہ انعم پریشان ہے۔
اس کے ابو فوت ہو چکے تھے اور اس کی امی کپڑے سلائی کرتی تھیں۔ چھوٹا بھائی بے حد ضدی اور شرارتی تھا اور اس نے آج کل ضد پکڑی ہوئی تھی کہ کمپیوٹر لے کر دیں گے تو اسکول جاؤں گا، وہ آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔
انعم گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی۔ اس نے کمیٹی ڈال رکھی تھی اور اس کمیٹی کے پیسوں سے علی کو کمپیوٹر لے کر دیا تھا لیکن وہ کوچنگ سینٹر کی فیس نہیں دے سکتی تھی، علی کو کمپیوٹر سکھانا بھی ایک مسئلہ تھا اور اس کے لیے فیصل نے جھٹ اپنی خدمات پیش کر دی تھیں۔ اب وہ روز ان کے گھر آنے جانے لگا تھا۔ اس کی امی اور بھائی کے علاوہ ان کے گھر میں ان کی دادی اماں تھیں، جو فیصل سے بڑی محبت سے ملتیں۔ ان کے گھریلو حالات ہی ایسے تھے کہ اس نے ٹیوشن فیس لینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
’’انعم! وہ میرا بھی بھائی ہے۔‘‘ اور انعم خاموش ہو گئی تھی۔ دن میں وہ ایک موبائل شاپ پہ سیلز میں کی جاب کرتا تھا۔
ابا اس پر بھی اسے سنانے سے باز نہیں آئے تھے۔
مگر آج کل اسے ابا کی کڑوی کسیلی باتیں بھی بُری نہیں لگتی تھیں۔ وہ ہر وقت یا تو گنگناتا رہتا یا پھر بلاوجہ مسکرائے جاتا تھا۔ دن نکلتے ہی اسے بس شام کا انتظار رہتا تھا، جب وہ علی کو ٹیوشن پڑھانے جائے گا تو ایک نظر اسے بھی دیکھ سکے گا وہ روز اس کے لیے چائے بنا کر لاتی تھی اور فیصل کا دل چاہتا تھا وہ اس مگ کو کسی قیمتی متاع کی طرح ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لے، جس کے وجود پر اس کے محبوب کا لمس مہکتا تھا۔ اس کی دادی جب کبھی گھر میں کچھ اچھا پکا ہوتا تو اسے کھانے پر بھی روک لیتی تھیں دھیرے دھیرے وہ جیسے ان کے گھر کا اک فرد بنتا جا رہا تھا، پھر اس نے امی اور پھوپھو سے بھی کہا تھا کہ وہ اپنے سوٹ انعم کی امی سے سلوا لیا کریں۔
اس طرح دونوں گھرانوں میں کچھ اور تعلق بڑھا تھا۔
اس کی امی کو وہ وضع دار سے لوگ پسند آئے تھے اور انعم بھی۔ امی اب اکثر گھر میں بھی انعم کے سلیقے اور مودب پن کی تعریف کرنے لگی تھی۔
٭٭٭
وہ موبائل شاپ پہ تھا جب اس کا موبائل بجا، زیبو کا نمبر تھا۔
’’فیصل! کہاں ہو تم؟ رزلٹ آ گیا ہے جلدی سے پتا کر کے بتاؤ۔‘‘ وہ کچھ زیادہ ہی جلدی میں تھی اس نے ’’اچھا دیکھتا ہوں‘‘ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ اس کی جیب میں انعم کی رول نمبر سلپ بھی تھی جو اس نے کل دی تھی۔ حسب توقع زیبو کی بورڈ میں پہلی پوزیشن تھی اور انعم کی دوسری، وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوا تھا۔
زیبو کو فون پہ رزلٹ بتانے کے بعد وہ بازار گیا تھا وہاں سے انعم کے لیے ایک رسٹ واچ اور مٹھائی کا ڈبہ لیا۔ اس سے قبل اس نے رول نمبر سلپ کی نقل کروا لی تھی۔ وہ ہمیشہ اس سلپ کو اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوا تو پہلا سامنا دادی سے ہوا تھا۔
’’مبارک ہو دادی جان!‘‘ وہ بائیک سے اتر کر ان سے گلے ملا، موبائل شاپ سے ملنے والی تنخواہ سے اس نے قسطوں پر بائیک لے لی تھی۔
’’انعم۔‘‘ انہوں نے وہیں سے آواز دی تھی۔ وہ کچن کے دروازے سے باہر نکلی۔ اس نے پیلے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا جس میں اس کی چمپئی رنگت خوب دمک رہی تھی دادی نے دونوں کو ساتھ لگا کر دعائیں دیں۔
’’مبارک ہو۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا تھا۔
وہ پہلے مسکرائی تھی اور پھر شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اس کا منہ بھی میٹھا کروایا تھا۔
’’آہا باجی! آج شام تو پارٹی ہو گی۔‘‘ علی دور سے ہی اچھلتا کودتا آیا تھا۔ اس کی امی نے فیصل کو اندر آنے کی دعوت دی تھی۔
’’انعم نے پکوڑے بنائے ہیں۔ کھا کر جانا۔‘‘ اور وہ پکوڑے کھانے کی خاطر نہیں، انعم کو تحفہ دینے کے لیے رک گیا تھا۔ بعد میں جب وہ اسے دروازے تک چھوڑنے آئی تو فیصل نے اسے وہ تحفہ دیا تھا۔
’’اس کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ وہ ذرا سا ہچکچائی۔
’’میں اپنی خوشی سے لایا ہوں۔ تو میری خوشی کی خاطر لے لو۔‘‘ اور وہ اس کی خوشی کی خاطر تو کچھ بھی کر سکتی تھی۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا تھا۔ فیصل نے گھڑی اس کی کلائی میں سجا دی۔
’’تمہیں پتا ہے ! تم میرے لیے بہت خاص ہو۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ انعم کے لب ہلے تھے۔ ’’تم بھی۔‘‘ مفہوم اس نے خود سے اخذ کر لیا تھا۔ اتنا واضح اقرار، یہ خود سپردگی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ ہوا میں لوٹنیاں لگائے، بھنگڑا ڈالے، آج بے حد خوشی کا دن تھا۔
یہ بات اس نے سب سے پہلے زیبو کو بتانی تھی اسی لیے وہ گھر جانے سے پہلے ان کی پورشن کی سمت چلا آیا تھا مگر لاؤنج میں بیٹھے عمر اور اس کے مقابل بیٹھی زیبو کو دیکھ کر اس کا موڈ بُری طرح سے بگڑا تھا، پھوپھو اس وقت نماز ادا کر رہی تھیں اور ظاہر ہے زیبو کو ہی اس کی خاطر مدارت کرنی تھی۔ لیکن وہ یہ بات کسی صورت نہیں سمجھ سکتا تھا۔
’’زیبو! میرے ساتھ آؤ۔ کچھ بات کرنی ہے تم سے۔‘‘ اکھڑے موڈ کے ساتھ وہ اس کے سر پر آن کھڑا ہوا تھا۔
زیبو نے پہلے نماز ادا کرتی امی اور پھر عمر کو دیکھا تھا۔ عجیب مخمصے میں پھنس چکی تھی۔
’’سنا نہیں تم نے !‘‘ وہ مزید برہم ہوا تو وہ عمر سے معذرت کرتی اٹھ گئی تھی۔
’’کیوں بیٹھی تھیں تم اس اُلو، پھٹیچر کے ساتھ۔‘‘ اس کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔
’’وہ میری فرسٹ پوزیشن کے لیے وش کرنے آیا تھا اور یہ دیکھو اس نے مجھے بریسلیٹ بھی دیا ہے۔‘‘
زیبو نے اسے چڑانے کی خاطر وہ مخملیں کیس دکھایا تو فیصل نے بریسلیٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔
’’میرا بس چلے تو اس کے بھی اتنے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دوں۔‘‘ وہ غصے سے بالکل بے قابو ہو رہا تھا۔
جبکہ زیبو ہکا بکا، بریسلیٹ کو ٹکڑوں میں بٹا دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭
انتہائی خراب موڈ کے ساتھ وہ اپنے پورشن کی سمت آیا تھا مگر امی کو دوچار شاپرز کے ساتھ لدا پھندا دیکھ کر چونک گیا۔ وہ شاید کہیں جانے کو تیار کھڑی تھیں۔ شاپرز کے ساتھ ایک عدد مٹھائی کا ڈبہ بھی تھا۔
’’اچھا ہوا تم آ گئے ! ابھی میں تمہیں فون کرنے ہی والی تھی۔‘‘ اسے آتا دیکھ کر انہوں نے جیسے اطمینان کی سانس لی تھی۔
’’کہاں کی تیاری ہے ؟‘‘ وہ بد مزا سا ہوا۔
’’انعم کے گھر جانا تھا۔‘‘ انہوں نے بتایا اور اس کی باچھیں کھل گئیں۔
’’کچھ کپڑے سلوانے تھے اور انعم کو گفٹ بھی دینا تھا، اتنی شاندار کامیابی کے بعد مبارکباد کی مستحق تو ہے نا۔‘‘
’’گفٹ۔ انعم کو۔ یا خدا مقامِ حیرت۔‘‘ وہ کچھ سوچ کر آگے بڑھا۔
’’دکھائیں تو کیا لیا ہے انعم کے لیے۔‘‘ اس نے اشتیاق اور دلچسپی سے تمام شاپرز کو دیکھا تھا۔ عالیہ بیگم نے ایک شاپر سے خوب صورت سا جوڑا نکالا۔
’’بہت پیارا ہے اور پھر فیروزی رنگ تو اس کا فیورٹ بھی ہے۔‘‘ اس کی زبان سے بے ساختہ ہی نکلا تھا۔
’’تمہیں کیسے پتا کہ فیروزی رنگ اس کا فیورٹ ہے۔‘‘ انجم باجی نے کمرے سے نکلتے ہوئے اس کے الفاظ پکڑے لیے اور اچنبھے سے بولیں۔
’’آپ کب آئیں ؟۔‘‘ اس نے سنبھل کر موضوع بدلا تھا۔
’’کبھی ہمارے جوڑوں کی تو ایسے تعریف نہیں کی۔‘‘ وہ بال کی کھال اتارنے والوں میں سے تھیں۔ اتنی جلدی کیسے ٹل جاتیں۔ فیصل کا استفسار تو گویا سر سے ہو کر گزرا تھا ابھی تک ان کے چتون سیدھے نہیں ہوئے تھے۔
وہ شانے اچکا کر مسکرا دیا۔ ایک اور ریڈ سگنل۔
اب کی بار ان کا ما تھا ٹھنکا تھا۔
’’لگتا ہے دال میں کچھ کالا ہے۔‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ اس نے جانے کو پر تولے۔
’’اچھا! پھر بھی بتا دو۔‘‘ تمہیں کیسی لگتی ہے ؟۔‘‘ وہ پیچھے دروازے تک آئیں۔
’’اچھی ہے اور پیاری بھی۔‘‘ اس نے کہہ ہی دیا۔
عالیہ بیگم اور انجم آپا دونوں مسکرا دیں۔ اس کے لیے یہ بھی باعث حیرت تھا۔
’’چلو! پھر جاتی ہوں امی کے ساتھ، تمہاری انعم کو بھی دیکھ آئیں گے۔‘‘ انجم نے جانے کس موڈ میں کہا تھا مگر وہ تو اب ’’تمہاری‘‘ کہنے پر ہی خوشی سے نہال ہو چکا تھا اور پھر امی نے اپنے محدود خرچے میں سے انعم کے لیے خریداری کی تھی۔ یہ کیا ہو رہا تھا؟ وہ سوچتا رہا اور ہنستا رہا۔
٭٭٭
’’دیکھا آپ نے ! کتنی چالاک تھیں ماں، بیٹی اور دادی تو سب سے آگے ہیں۔ گھر میں کوئی فرد بھی نہیں۔ اکیلی شتر بے مہار عورتیں۔ اور فیصل کی کیسے تعریف کر رہی تھیں۔ آپ کا بیٹا آپ سے پہلے مٹھائی لے کر ان کے گھر آ گیا تھا۔ دادی اسے اپنا بیٹا تو بن اچکی ہیں۔ بس دو بول پڑھنے باقی ہیں وہ بھی کسی روز خود ہی پڑھا لیں گی اور انعم، اس کی معصوم شکل پر نہ جائیں آپ، مجھے پوری گھنی، میسنی لگ رہی تھی۔ ابھی عمر ہی کیا ہے اس کی اور لے کر ہمارے اکلوتے معصوم بھائی کو پھانس لیا، کیسے تعریف کر رہا تھا اس کی اچھی ہے اور پیاری بھی۔‘‘ یہ تھا انجم کا بے لاگ تبصرہ۔ جو آتے ہوئے راستے میں وہ کر رہی تھی۔
عالیہ بیگم نے بے ساختہ دل تھام لیا۔ ’’ارے ! کیا اول فول بک رہی ہو۔‘‘
’’آپ تو بہت بھولی ہیں دنیا کا آپ کو کیا پتا۔‘‘ اپنی بات کا اثر زائل ہوتا دیکھ کر اس نے خاصا برا منایا تھا۔
’’غریب سے لوگ ہیں۔ لڑکی بھی چھوٹی عمر کی۔ ذرا دب کر رہیں گی۔ ’’عالیہ بیگم کا اپنا موقف تھا۔
’’اوہو اماں ! تم کب سمجھو گی۔ لڑکی جتنی بھی چھوٹی عمر کی ہو، ہے تو فیصل کی ہم عمر اور تمہارا بیٹا مکمل طور پر ان کی گرفت میں ہے، انگلیوں پر نچائیں گی اسے۔ آنکھ بند کر کے ان کی ہر آواز پر لبیک کہے گا پھر دیواروں سے سر پھوڑتی رہنا۔‘‘
’’تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ مجھے تو اچھے خاصے شریف، بے ضرر سے لوگ لگتے ہیں۔‘‘ عالیہ بیگم کسی طور پر اس کی باتوں سے متفق نہیں ہو رہی تھیں۔
٭٭٭
انعم کی دادی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی۔ انعم نے فون پہ روتے ہوئے بتایا تو اگلے پانچ منٹ میں وہ ان کے گھر پہ موجود تھا۔ انہیں فوڈ پوائزن ہو گیا تھا۔ دو دن وہ اسپتال میں رہ کر گھر آئی تھیں لیکن یہ دو روز ان کی فیملی کے لیے بڑے کٹھن اور صبر آزما تھے اور فیصل نے ان دنوں ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اسپتال کے بل میں تین ہزار کم تھے۔ اس نے وہ رقم انجم باجی سے ادھار لے کر دی تھی۔ انعم کی امی اس کی بے حد ممنون و مشکور تھیں۔
فیصل کے لاکھ انکار کے باوجود بھی انہوں نے یہ رقم جلد لوٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن انجم کے ہاتھ تو اس بار باقاعدہ ثبوت لگ چکا تھا وہ رات ہی عالیہ بیگم کے پاس پہنچ چکی تھی۔
’’دیکھا! آپ کا بیٹا کس طرح سے اپنی کمائی دونوں ہاتھوں سے ان پر لٹا رہا ہے اور وہ ماں بیٹی اینٹھ رہی ہیں۔ اب تو آپ کو میری بات پر یقین آ گیا ہو گا کہ کس قدر مکار، چالاک ہیں وہ عورتیں۔‘‘
اور عالیہ بیگم حیران پریشان رہ گئی تھیں۔
’’اب کیا کروں ! فیصل کا تو تمہیں پتا ہے کتنا ضدی اور خود سر ہو چکا ہے وہ کبھی میری بات نہیں مانے گا۔‘‘
’’تو فیصل سے منوانے کی کیا ضرورت ہے، ان سے منوائیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے ناسمجھی سے انجم کو دیکھا۔
’’دادی اماں کی عیادت کو چلتے ہیں۔ باقی باتیں وہیں چل کر ہوں گی۔‘‘ انعم نے دروازہ کھولا تھا اور انہیں دیکھ کر بے حد خوش ہوئی تھی۔ اس کی معیت میں چلتی وہ ڈرائنگ روم میں آن بیٹھیں۔ دادی کی مزاج پرسی کے بعد انجم نے ہی بات کا آغاز کیا تھا۔
’’دیکھیں آنٹی! بات یہ ہے کہ آپ کا اور ہمارا کوئی جوڑ نہیں اور نہ ہی کبھی ہمارا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ہم آپ سے کوئی رشتے داری بنائیں، اس لیے مناسب یہی ہو گا کہ آپ اپنی بیٹی کو سمجھائیں کہ وہ فیصل کے خواب دیکھنا چھوڑ دے اور آپ بھی فیصل کی اپنے گھر آمد پر ذرا پابندی لگائیں۔ آپ تو جانتی ہیں کہ ہم کس معاشرے میں رہتے ہیں۔ آپ کے گھر میں جوان لڑکی ہے اور یوں کسی لڑکے کو گھر میں گھسانے سے قبل آپ کو ان نزاکتوں کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ محلے میں آپ کی بیٹی کا کردار مشکوک ہو رہا ہے۔ ہمیں بھی آپ کی عزت کا خیال ہے۔ اس لیے آپ کو یہ سب بتا رہی ہوں۔‘‘
ان کے کاندھے پر ہاتھ کا دباؤ بڑھاتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ عالیہ بیگم نے بھی لب بھینچتے ہوئے اس کی معیت میں بیرونی دروازے کی سمت قدم بڑھا دیے۔
جبکہ عفیفہ خاتون کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا ایک جا رہا تھا، باہر کھڑی انعم کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ وہ بمشکل تمام وہاں سے چل کر اپنے کمرے تک آئی تھی۔
’’اتنی تذلیل! اتنی بے عزتی!‘‘ وہ تو اپنی ماں سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی۔
٭٭٭
شام میں وہ حسب معمول ان کے گھر آیا تھا۔ آتے ہوئے راستے سے اس نے دادی کے لیے تھوڑے سے پھل بھی لے لیے تھے مگر دادی تو اس سے ملی بھی نہیں تھیں۔ انعم جو اس وقت بطور خاص کچن کی کھڑکی میں ہوتی تھی، آج غائب تھی اور یہ عفیفہ آنٹی اس سے کیا کہہ رہی تھیں۔
’’فیصل! تم آج کے بعد ہمارے گھر مت آنا۔‘‘
’’مگر کیوں آنٹی؟‘‘ وہ بھونچکا رہ گیا تھا۔
قریب کھڑے علی نے خاموشی سے دونوں کو دیکھا تھا۔
’’یہ سوال جا کر کر اپنی امی اور باجی سے پوچھو اور بس آج کے بعد ہمارے گھر کبھی مت آنا۔‘‘
ان کا لہجہ قطعی، انداز حتمی تھا جیسے کچھ سننا نہ چاہتی ہوں۔ وہ خاموشی سے واپس چلا آیا اور آتے ہوئے وہ ایک نظر بھی اسے دیکھ نہیں پایا تھا۔ اسے امی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی، وہ جان چکا تھا۔ یہ ساری آگ انجم باجی کی لگائی ہوئی ہے۔
اس نے ایسے ہی اعتبار کیا۔ چار دن سے وہ کمرہ بند کیے پڑا تھا اور عالیہ بیگم کو اب ہول اٹھ رہے تھے۔ وہ ان سے بات بھی نہیں کر رہا تھا۔ کھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ بس قوت بخش مشروبات پہ گزارا کر رہا تھا۔
آخر وہ جا کر زیبو کو بلا لائی تھیں۔
’’اب تم ہی ہو جو اس کا موڈ ٹھیک کر سکتی ہو۔ اسے سمجھاؤ کہ اس کی ماں غلط نہیں ہے۔ میں کبھی اس کا برا نہیں سوچ سکتی۔ جو کیا ہے، اس کی بہتری اور بھلائی کی خاطر کیا ہے۔‘‘
زیبو بس سنتی رہی کہہ نہ سکی کہ اس سے زیادہ بُرا اور کیا ہو گا۔ اپنے بیٹے کا دل توڑ دیا۔ اس بھلی عورت کی عزت نفس مجروح کی۔ اک کو مل سی لڑکی کے جذبات کو روند ڈالا۔ اس کے کردار پر انگلیاں اٹھائیں۔ اور زیادہ کیا بُرا ہو گا۔
یہ اکلوتے بیٹوں کی مائیں، ان کا عدم تحفظ کا ڈر نہ جانے کب جائے گا۔ زیبو کی تمام تر ہمدردیاں فیصل کے ساتھ تھیں اور اسے انعم کا خیال بھی تھا اس کی عزت نفس، انا، نسوانی وقار کیسے نہ مجروح ہوا ہو گا۔
وہ لڑکی تو اب ہنسنا بھول جائے گی۔
اس کا دل چاہا رہا تھا خوب سارا روئے۔ محبتوں کا متلاشی وہ لڑکا، جو بچپن سے ہی اس قدر نا آسودہ تھا، اب تو بالکل ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔
اور وہ بھلا کیسے سمیٹے گی اسے۔
وہ انعم کا قلم، اس کے دیے کارڈ اور تحائف تک چھین لیتا تھا اور اب پوری انعم سے دستبرداری، بھلا کیونکر ممکن تھی۔ اس نے ایک کوشش کرنی چاہی۔
’’مامی جان! آپ نے اچھا نہیں کیا، انعم اتنی پیاری لائق اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی اگر فیصل اس سے شادی کر لیتا تو کیا ہو جاتا۔ آپ تو ویسے بھی کسی غریب گھرانے کی لڑکی جو کم عمر بھی ہو، کو بہو بنانا چاہتی تھیں پھر انعم تو بالکل آپ کے مجوزہ معیار پر پوری اترتی تھی۔‘‘
’’زیبو! تم بچی ہو ابھی۔ ان باتوں کو نہیں سمجھو گی۔‘‘
٭٭٭
ایک ایک زینہ طے کرتے ہوئے اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ کیسے سامنا کرے گی وہ اس ٹوٹے بکھرے انسان کا، کن لفظوں میں اس کے غم کا مداوا ممکن ہو سکے گا۔ کمرے کی حالت ابتر تھی۔ ہر چیز کو اس نے تہس نہس کر ڈالا تھا اور خود ٹیرس پہ کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے برابر آن کھڑی ہوئی۔
’’تم نے بات کی انعم سے۔‘‘ وہ اسے دیکھتے ہی بے چیتی سے بولا تھا۔ کل ہی اس نے زیبو سے کہا تھا کہ وہ انعم سے کہے کہ وہ بس ایک بار اس سے مل لے۔
’’وہ نہیں مانی اور اس نے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے بھول جاؤ۔‘‘
زیبو کے لہجے میں شکست خوردگی تھی کہ لاکھ قائل کرنے کے باوجود بھی وہ اس سے منوا نہیں سکی تھی۔
وہ ایسے ساکت ہوا تھا جیسے اس کی سانس بند ہو چکی ہو۔ زیبو نے محبت سے اسے دیکھا۔
’’فیصل! جو ہوا بھول جاؤ اور تم نے ابھی تک اپنے فارم سب مٹ نہیں کروائے دو روز بعد داخلے بند ہو جائیں گے۔‘‘ نارمل سے انداز میں وہ اسے اس کی کوتاہی کا احساس دلا رہی تھی۔ وہ بغیر کچھ کہے سنے اپنے کمرے میں بند ہو چکا تھا۔ زیبو نے اس وقت اسے اس کے حال پہ چھوڑنا ہی مناسب سمجھا تھا۔
دو روز بعد ان کے گھر میں خوب لمبی چوڑی جھڑپ ہوئی تھی۔ فیصل نے ایف ایس سی میں داخلہ لینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ابا اس پر خوب برسے تھے امی الگ پریشان، سب نے سمجھا کر دیکھا لیا تھا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔
وہ دن رات ایک ہی بات سوچتا تھا کہ کس طرح تمام گھر والوں کو اتنا ہی جذباتی دھچکا لگائے جیسا انہوں نے اس کو پہنچایا تھا۔
چند روز گزرے تھے اس کا سیل فون بار بار بجنے لگا تھا۔ ایک لڑکی تھی اسما نام کی، نارووال سے چھ گاؤں چھوڑ کر کسی بارڈر کی رہنے والی تھی۔ وہ خاموش، تنہا اداس رہ کر جب تنگ آ جاتا تو اس سے باتیں کرنے لگتا تھا۔
٭٭٭
زیبو کا کالج کھل چکا تھا۔ شام سے پہلے وہ لان میں اپنی کتابیں لے کر بیٹھی تھی۔ فیصل نے اسے کھڑکی سے دیکھا تھا وہ اس کے داخلہ نہ لینے پر ناراض تھی۔ کچھ سوچ کر وہ نیچے لان میں اس کے پاس چلا آیا تھا۔
وہ ہنوز اپنی کتابوں میں مگن تھی۔
’’زیبو یار! کچھ کھانے کو دے دو۔ کل سے بھوکا ہوں۔‘‘
جاؤ بارڈر کے پاس والے گاؤں میں، کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔‘‘ اس کا لہجہ پرسکون تھا لیکن جملے میں چھپی طنز کی کاٹ وہ سمجھ چکا تھا۔ وہ اس کے اسماء سے بات کرنے پر بھی خفا تھی۔
’’اچھی لڑکی ہے یار!‘‘
’’اور کل کو جب یہ اچھی لڑکی بھی چھوڑ جائے گی تو خودکشی کر لینا۔‘‘ غصے میں اس نے کتاب بند کر دی تھی۔
’’تم نہیں جانتیں وہ کتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہے، اس کے گھر والے اس کی شادی کسی بڈھے چوہدری سے کروا رہے ہیں۔ وہی گھسی پٹی کہانی، پنچایت کا فیصلہ، وہ مجھ سے مدد مانگ رہی ہے۔‘‘ وہ اس کے لیے افسردہ ہو رہا تھا۔
’’میں پاگل ہوں جو تمہاری ہمدردیوں میں گھلتی رہی ہوں اور تم ایک نمبر کے اُلو، گھامڑ، اس نے کہانی سنائی اور تم نے اعتبار کر لیا۔‘‘ زیبو کا بس نہیں چل رہا تھا اس کے بال نوچ ڈالے۔ مدر ٹریسا کا بھائی۔
’’میں کل اس سے ملنے جا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے وہ جھوٹ نہیں بول رہی۔‘‘ وہ پر یقین تھا زیبو نے اسے گھور کر دیکھا۔
’’بالفرض اگر یہ سچ بھی ہوا تو کیا کرو گے تم، اس سے شادی کر لو گے۔
’’نہیں یار! جہاں دل تھا کبھی اب وہاں صرف درد ہے اور یہ درد میں کبھی کسی سے نہیں بانٹوں گا۔‘‘ وہ مسکرا دیا۔
’’تو آخر تم کرو گے کیا؟‘‘ وہ اس سے سچ اگلوانا چاہتی تھی کہ اب ماموں کو تنگ کرنے کے لیے وہ کون سا نیا کارنامہ سرانجام دینے والا تھا۔
’’ابھی سوچا نہیں ہے۔‘‘
٭٭٭
آج اس نے دکان سے چھٹی لی تھی۔ اسے اسماء سے ملنے جانا تھا عام سی جینز پہ اس نے کالی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔ بڑھی ہوئی شیو، بالوں کو بھی محض ہاتھوں سے ہی سنوارا تھا۔
زیبو نے اس کے بکھرے سے حلیے کو قدرے ناگواری سے دیکھا۔
’’اس حلیے میں اس سے ملنے جاؤ گے۔‘‘ ناشتے کی ٹرے اس کے سامنے رکھنے کے بعد وہ دوبارہ کچن سے کچھ لینے گئی تھی، اس کا حقہ پانی زیبو کے دم سے ہی چل رہا تھا، ورنہ امی اور ڈیڈی دونوں نے اس کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔
’’مجھے کون سا اپنی گرل فرینڈ سے ملنے جانا ہے۔ بس ٹھیک ہوں میں ایسے ہی۔‘‘ کسل مندی سے کہتے ہوئے وہ آلو بھرے پراٹھوں کے ساتھ انصاف کرنے لگا تھا۔ اتنے دنوں کی بھوک ہڑتال کے بعد آج کل وہ ندیدوں کی طرح کھا رہا تھا۔
’’بیٹا! کیوں میرے بھائی کو پریشان کر رکھا ہے۔‘‘ پھوپھو بھی اسے سمجھانے کو وہیں لاؤنج میں آ بیٹھی تھیں۔
’’آپ کے بھائی صاحب کنجوسی کی اعلا مثال ہیں۔ اچھا ہے میرے نہ پڑھنے سے ان کی کچھ بچت ہی ہو جایا کرے گی۔‘‘
لاپروائی سے کہتے ہوئے اس نے نیپکن سے ہاتھ صاف کیے اور جلدی جلدی کا شور مچا کر وہاں سے نکل گیا۔ ورنہ پھوپھو کا والدین کی خدمت اور ان کی اطاعت پر دیا جانے والا لیکچر ڈیڑھ گھنٹے سے بھی تجاوز کرنے والا تھا۔
٭٭٭
اپنے دوست اسد سے اس نے بات کر لی تھی وہ گاڑی لے کر آیا تھا۔ دونوں ابھی شہر کی حدود سے نکلے ہی تھے جب اس کی سیل پر اسماء کی کال آئی تھی۔
’’میں اس وقت لاہور میں ہوں۔‘‘ وہ شاید بہت جلدی میں تھی ساتھ رو بھی رہی تھی۔ ’’تم مجھ سے قائد اعظم لائبریری کے باہر ملو۔‘‘
وہ اس کی بات سن کر خود پریشان ہو چکا تھا اس نے اسد کو گاڑی واپس موڑنے کو کہا تھا۔ آدھے گھنٹے کے بعد وہ قائد اعظمؒ لائبریری کے باہر اس کے پاس کھڑا تھا، بقول اس کے گھر والوں نے آج کی شام اس کا نکاح مخالف قبیلے کے چوہدری رفاقت کے ساتھ طے کر دیا تھا، جس کی عمر ساٹھ سال تھی اور وہ پہلے سے شادی شدہ اور پانچ بچوں کا باپ بھی تھا اور اپنے بچاؤ کی کوئی صورت نہ پا کر وہ گھر سے بھاگ آئی تھی۔
معمولی سی شکل و صورت کی وہ لڑکی اسے پہلی نظر میں تو بالکل اچھی نہیں لگی تھی۔
’’صرف تم ہو جو میری مدد کر سکتے ہو۔ تمہارے ہی بھروسے پر میں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے۔‘‘ وہ بڑی آس بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’فیصل چھوڑو اسے ! تمہارے کام کی نہیں ہے۔ میں تو کہتا ہوں سینما جا کر کوئی اچھی سی مووی دیکھتے ہیں۔ ذرا طبیعت شاد ہو جائے گی۔‘‘
اسد اس کے کان کے پاس آ کر بولا تھا۔ دل تو اس کا بھی یہی چاہ رہا تھا مگر وہ اس کی مدد کا وعدہ کر چکا تھا۔ اسےا پنے حقوق کی خاطر لڑنے پر اکساتا رہا تھا۔ اب وہ گھر سے بھاگ آئی تھی تو وہ اسے چھوڑ کر کیسے چل دیتا۔
’’چلو میرے ساتھ۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔
’’کہاں لے کر جاؤ گے اسے۔‘‘ اسد نے پھر سرگوشی کی۔
’’میں اس کے ساتھ آج ہی کورٹ میرج کروں گا۔‘‘ وہ فیصلہ کر چکا تھا۔
’’دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟‘‘ اس کے سر پر جیسے کوئی بم پلاسٹ ہوا تھا۔ وہ اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹا اور گھور کر اسے دیکھا۔
’’ہاں اور اس کی وجہ سے ٹھیک ہے۔‘‘ اسے یاد تھا انعم کے بعد وہ کیسے ٹوٹ کر بکھر چکا تھا پھر یہی لڑکی تھی جس نے اپنی توجہ اور اپنی دوستی سے اسے سمیٹا، اس کا دھیان بٹایا تھا، اس کا وہ برا وقت گزارا تھا۔
’’تم اس کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کے اور بھی راستے ہیں۔‘‘ اسد نے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
’’تم میرے ساتھ چل رہے ہو کہ نہیں ؟‘‘ اس نے جیسے آخری بار پوچھا تھا۔ اسد نے منہ کے ہزار زاویے بناتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول دیا تھا۔
٭٭٭
کورٹ میرج کرنے کے بعد وہ اسے سیدھا گھر نہیں لے کر گیا تھا، پہلے اسے امی کو تیار کرنا تھا۔ ڈیڈ کی اسے کوئی فکر نہیں تھی ان کے رد عمل سے وہ واقف تھا اور دل ہی دل میں مسرور بھی۔ ایک گھر سے بھاگی ہوئی معمولی شکل و صورت کی لڑکی سے نکاح کر کے اس نے گویا ان سے اپنی تمام تر ناسودہ خواہشات اور ناکام و نامراد محبت کا بدلہ لیا تھا اور اس بے عزتی کا بھی جو انجم باجی نے عفیفہ آنٹی کی، کی تھی۔
زیبو کو اس نے بتایا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
’’یہ دیکھو! اس کی تصویر، سب سے پہلے تمہیں دکھا رہا ہوں۔‘‘ اور تصویر دیکھ کر اس کی آنکھیں اور کھل گئیں۔
’’یہ لڑکی ہے !‘‘ اس کا رد عمل فطری تھا۔ اس کا اتنا خوبرو، ہینڈسم سا کزن، جسے اسکول کی سب سے خوب صورت لڑکی سے محبت ہوئی تھی، جو کہتا تھا زیبو! تم دیکھنا میری لائف پارٹنر اس دنیا کی سب سے خوب صورت لڑکی ہو گی۔‘‘ اور اس نے اس عام سے نقوش والی لڑکی سے شادی کر لی تھی۔
’’اب اتنی بھی بری نہیں ہے۔‘‘ وہ برا ہی مان گیا۔
’’اتنی نہیں لیکن۔‘‘ اس نے جان کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔
’’ماموں اس بار تو تمہیں سیدھا شوٹ ہی کریں گے، خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی۔ کتنا ارمان تھا مجھے تمہاری شادی کا اور تم یہ چاند چڑھا کر آ گئے۔ شرم آنی چاہیے تمہیں۔‘‘
’’اب بس کرو نا، باقی کے ڈائیلاگز امی کے لیے رہنے دو۔‘‘ اس کی معصوم سی التجا پر اسے ہنسی آ گئی۔
’’میں بتا رہی ہوں تمہارا حشر بہت برا ہونے والا ہے۔‘‘
’’ڈیڈی کی تو شکل دیکھنے لائق ہو گی۔‘‘ اسے سوچ کر ہی مزا آ رہا تھا۔
’’بڑے کمینے ہو تم۔‘‘ زیبو کو اور ہنسی آئی۔
’’اچھا پلیز! میری اچھی دوست ہو نا جا کر امی سے بات کرو نا۔‘‘ رشوت کے طور پر وہ چاکلیٹ بھی لایا تھا مگر زیبو نے صاف ہری جھنڈی دکھا دی۔
’’مجھے مامی سے جوتے نہیں کھالے۔‘‘
موقع غنیمت جان کر آخر اس نے خود ہی بات کر لی تھی، امی تو صدمے کے مارے بے ہوش ہونے کے قریب ہو گئیں۔
’’امی وہ لڑکی بہت مشکل میں تھی۔ میں نے صرف اس کی مدد کی ہے۔‘‘ وہ ہر طرح سے منانے کو تیار کھڑا تھا مگر ان کا واویلا شروع ہو گیا۔ شام تک پوری کانفرنس سج چکی تھی۔
دونوں بہنیں اور ڈیڈی بھی موجود تھے۔
’’اپنی عمر دیکھو اور اپنی حرکتیں دیکھو، بس اس بات کی کسر رہ گئی تھی۔‘‘ جب بہنیں اور امی بول بول کر خاموش ہو جاتیں، تب وقفے وقفے سے وہ یہی جملہ دہراتے۔
’’دیکھو فیصل! تم ہمارے پیارے بھائی ہونا۔ تمہیں اگر شادی ہی کرنی ہے تو ہم، جہاں تم کہوں گے خوب دھوم دھام سے تمہاری شادی کریں گے۔‘‘
’’ہاں ! ایک دو لڑکیاں تو میں نے تمہارے لیے دیکھ بھی رکھی تھیں۔‘‘ انجم اور سائرہ باجی اسے گھیرے بیٹھی تھیں مگر وہ ہنوز ’’صم بکم‘‘ بنا بیٹھا سوچ رہا تھا کیا تھا جو وہ یہ ڈرامہ چند ماہ پہلے کر لیتا شاید انعم اس کی زندگی میں شامل ہوہی جاتی۔
’’میں آج ہی وکیل سے بات کرتا ہوں۔‘‘ ڈیڈی نے جیب سے سیل فون نکالا۔
اب بھی نہ بولتا تو …
’’میں کسی بھی صورت اسے طلاق نہیں دوں گا۔ آپ کی ہر کوشش فضول ہی ہے۔‘‘ کہہ کر وہ اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا تھا۔
’’دیکھا تم نے ! کیسے بات کر رہا تھا۔‘‘ وہ بیوی سے مخاطب ہوئے۔
’’مجھے تو لگتا ہے انعم کے گھر والوں نے کچھ گھول کر پلا دیا ہے ورنہ ایسا تو نہیں تھا۔‘‘ انجم باجی دل برداشتہ سی کہہ رہی تھیں۔
’’اچھا بس ختم کرو یہ کھٹ راگ، کرتا ہوں میں اس کا بھی علاج۔‘‘
’’جانے کس خاندان کی لڑکی ہے آپ تو جانتے ہیں قبائلی نظام کو، آئے روز کیسی دل دہلا دینے والی خبریں آتی ہیں کہیں ہم کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ وہ ہنکارا بھر کر کسی سوچ میں ڈوب گئے۔
٭٭٭
اگلے روز شام میں وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا تھا۔ اس کی امی اور دونوں بہنیں سر جوڑے بیٹھی تھیں۔ گھر میں سخت کشیدگی کا ماحول تھا۔
’’سنو اسمائ! یہاں میرے سوا کوئی بھی تمہاری آمد سے خوش نہیں ہے، ہاں میری ایک دوست ہے زیبو۔ بہت اچھی اور پیاری، وہ تمہارا خیال رکھے گی۔ باقی کوئی کچھ بھی کہتا رہے۔ بالکل پروا مت کرنا۔ ’’اپنے انداز میں اسے بھرپور تسلی دے رہا تھا اور ساتھ پیش آنے والے ہر قسم کے حالات کے لیے تیار کر رہا تھا۔
امی سمیت ان دونوں نے بھی اسے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
’’امی! یہ اسماء ہے۔‘‘ محض اتنا تعارف کافی تھا۔ تینوں کے منہ حیرت سے کھل گئے۔
وہ نکاح کا صدمہ بالکل بھول چکی تھیں۔ لڑکی کی شکل و صورت، اس کا حلیہ سب سے بڑا جھٹکا تھا ان کے لیے۔ اس سے اچھی شکل کی تو ان کی گھریلو ملازمائیں تھیں۔
اسماء نے جب اتنی خوب صورت خواتین کو دیکھا تو اس کا سرمزید جھک گیا۔
’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس لڑکی کو گھر لے کر آنے کی۔‘‘ عالیہ بیگم تنفر سے بولیں۔
’’یہ لڑکی میری بیوی ہے امی!۔ اور اب یہ اسی گھر میں رہے گی۔‘‘ وہ بھی اکڑ کر بولا تھا۔
’’سارے زمانے میں تمہیں یہی ایک ملی تھی۔‘‘ انجم کا غصے کے مارے برا حال تھا۔
’’ہاں۔‘‘ بے شرمی سے کہتا اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ دھپ دھپ کرتا سیڑھیاں چڑھ گیا تھا۔
’’توبہ! حد ہو گئی۔ ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کی۔‘‘ سائرہ نے دانت پیسے۔
’’لڑکی تو دیکھو ذرا!‘‘ اماں نے سر تھام لیا۔
’’فیصل! میری وجہ سے تمہیں یہ ساری جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ میں بہت شرمندہ ہوں تم سے۔ اپنے ساتھ ساتھ میں نے تمہیں بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔‘‘ وہ بے حد شرمندہ اور ملول تھی۔
’’اچھا چھوڑو یہ سب باتیں، جو ہونا تھا ہو چکا۔ تم بس ریلیکس رہو۔ کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
٭٭٭
دوسری صبح ناشتے کے بعد وہ اسے شاپنگ کروانے لے گیا تھا، امی اور بہنوں کو وہ دانستہ نظر انداز کر رہا تھا۔ دکان سے اس نے ایک ہفتے کی چھٹیاں لے لی تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ اس ایک ہفتے میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ امی اس لڑکی کو اپنی بہو تسلیم کر لیں مگر جب تک اس کی بہنیں اس گھر میں تھیں، ایسا ممکن نہیں تھا۔ جب وہ چلی جائیں گی تو وہ امی کو منا لے گا۔
اسماء نے بس تین ہی سوٹ خریدے تھے۔
’’فیصل اب گھر چلو، باقی شاپنگ پھر کبھی کر لیں گے۔‘‘
’’گھر جا کر کیا کریں گے ؟ پھر وہی ٹینشن بھرا ماحول، چلو کسی اچھی سی جگہ بیٹھ کر آرام سے باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’اگر کسی نے دیکھ لیا تو۔ ؟‘‘ وہ ڈر رہی تھی۔
’’ہاہاہا! وہ بے ساختہ ہنسا۔‘‘ یہاں کون دیکھے گا ہمیں ؟‘‘ تمہارے گھر والے اب تک صبر کر چکے ہوں گے اب کوئی ڈر، کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تم اتنی ٹینشن نہ لیا کرو۔‘‘
’’جب تک حالات نارمل نہیں ہو جاتے میں آرام سے نہیں رہ سکتی۔‘‘
’’بہت ہی بزدل ہو تم۔‘‘ اس نے گاڑی واپس گھر کی سمت موڑ لی تھی۔
واپسی پر وہ اسے پھوپھو کے پورشن میں لے آیا تھا زیبو ان کے لیے اچھا سا لنچ تیار کر کے منتظر بیٹھی تھی۔ پھوپھو اس سے خفا تھیں لیکن اسماء کے سامنے وہ نارمل ہی رہی تھیں۔
شام کو وہ اسے گھر لایا تو سائرہ اور انجم تب تک اپنے سسرال جا چکی تھیں۔ اس نے رات امی سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کچھ بھی سننے سے انکار کر دیا تھا۔
دو روز اس خاموشی میں سکون سے کٹ گئے۔
ڈیڈی نے بھی اس کے بعد سے کوئی ہنگامہ نہیں کیا تھا لیکن بالا ہی بالا وہ کیا کچھ کر چکے تھے، یہ دو روز بعد شام میں اسے معلوم ہوا تھا۔
وہ سردار، اسماء جس کے ساتھ منسوب تھی ڈرائنگ روم میں موجود تھا۔ اس کے ابو اس دنیا میں نہیں تھے۔ وہ تایا کی فیملی کے ساتھ رہتی تھی۔ جرم اس کے تایا زاد نے کیا تھا اور سزا اسے بھگتنی پڑی تھی لیکن عین وقت پر اس کی امی نے اسے فرار کروا دیا تھا۔ فیصل کے ابو نے یہ ساری معلومات فیصل کے دوست اسد سے لی تھیں اور اس سردار سے خود رابطہ کر کے اسے یہاں بلایا تھا۔ فرار کی تمام راہیں مسدود ہو چکی تھیں۔
اسمائ! تم اب میری بیوی ہو اور کسی بھی صورت ان کے ساتھ نہیں جاؤ گی۔‘‘
وہ اسے دونوں شانوں سے جھنجھوڑتے ہوئے کہہ رہا تھا مگر اس کی رنگت ہلدی کی مانند زرد ہوتی جا رہی تھی۔
’’وہ مجھے ماڑ ڈالیں گے۔‘‘
’’کچھ نہیں ہو گا تمہیں، میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے ڈرائنگ روم میں لے تو آیا تھا مگر اسماء بھلا اپنے تایا کے سامنے کیسے ٹھہر سکتی تھی۔
کمرے میں سردار، اس کے محافظ اور تایا ابو کے علاوہ فیصل کے ڈیڈی اور وکیل صاحب بھی موجود تھے۔
’’بچے ہیں ابھی اور بچوں سے غلطی ہو ہی جاتی ہے، فیصل تم ان کاغذات پر سائن کر دو بیٹا۔‘‘ وکیل صاحب نے چند کاغذات اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔
’’ڈیڈی! کیا ہے یہ سب کچھ۔‘‘
’’مزید تماشا بنانے کی ضرورت نہیں ہے، وکیل صاحب جو کہہ رہے ہیں وہ کرو، سمجھے !‘‘ ان کا لہجہ انتہائی درشت اور دھمکی آمیز تھا۔
’’ایسا کبھی نہیں ہو گا۔‘‘ وہ ان سے بھی زیادہ زور سے چلایا تھا۔
’’تم!‘‘ سردار اٹھ کر انتہائی غصے میں اس کی سمت بڑھا، جسے وکیل صاحب نے اٹھ کر روکا تھا۔
مستعد کھڑے محافظوں نے بندوقیں تان لیں۔
’’اسمائ! اس لڑکے سے کہو، کاغذات پہ سائن کرے۔‘‘ اس کا تایا اب اسماء سے کہہ رہا تھا۔
’’تایا ابو۔‘‘ وہ روپڑی تھی۔
’’سنا نہیں تم نے ؟‘‘ وہ اچانک دھاڑے تھے۔ سردار کی مکروہ نگاہیں اس پر جم گئیں۔ اس نے فیصل کی سمت دیکھا وہ نفی میں سر ہلا رہا تھا۔
آنسو ضبط کرتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ اسے مزید کسی مصیبت میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
٭٭٭
اس کی زندگی میں جیسے اب کچھ نہیں بچا تھا۔ انتہائی غصے میں دوڑاتے ہوئے اس نے اپنی بائیک دیوار پہ دے ماری تھی۔ بمشکل ہی اس کی جان بچ پائی تھی۔ ہوش میں آتے ہی اس نے چلانا شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنے گھر والوں میں سے کسی کی بھی شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ زیبو اس کے پاس رکی ہوئی تھی اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھ رہی تھی۔
’’ابھی بھی ماموں اگر آپ نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اپنے بیٹے کو ہمیشہ کے لیے کھودیں گے۔ آپ ہمیشہ عمر کو اس پر، پریفر کرتے آئے ہیں۔ اتنا اعتماد اگر آپ نے اپنے بیٹے کو دیا ہوتا، تو وہ آج کبھی ایسا نہ ہوتا وہ ہر الٹا کام صرف آپ کو زچ کرنے کے لیے کرتا ہے، آپ اس کے مزاج کو نہیں سمجھ پائے، اسے سختی کی نہیں صرف محبت کی ضرورت ہے، اگر گھر سے اسے پیار ملا ہوتا تو وہ کبھی اسے باہر تلاش نہ کرتا۔‘‘
جانے ماموں کے سامنے وہ کیسے اتنا بول گئی تھی مگر اب اسے ہر صورت اس سرد جنگ کو ختم کرنا تھا، جو بچپن سے باپ اور بیٹے کے درمیان چل رہی تھی۔ جب وہ اسپتال سے رخصت ہوا تو بیچ سڑک میں گاڑی رکوا کر بیٹھ گیا۔
’’میں اب اس گھر میں کبھی نہیں جاؤں گا۔‘‘ اس کی ایک ہی ضد تھی۔ ’’میرا اب ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رہا وہ کبھی مجھے خوش نہیں دیکھ سکتے۔ ان کا سکون ان کی خوشی مجھے مینٹلی ٹارچر کرنے میں پوشیدہ ہے۔ وہ ایسا کوئی موقع کبھی جانے نہیں دیں گے جس سے مجھے اذیت پہنچ سکے۔‘‘
’’یہ صرف تمہارے دماغ کا فتور ہے فیصل ورنہ تمہارے ڈیڈی بہت محبت کرتے ہیں تم سے۔‘‘
’’محبت۔‘‘ وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا تھا۔
’’جانتی ہو! اگر یہ ایکسیڈنٹ ان کی گاڑی سے ہوتا تو وہ فون کر کے سب سے پہلے یہ پوچھتے کہ میری گاڑی ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے گاڑی پہ خاصا زور دیا۔
’’اُنہوں نے بس تمہاری اچھی تربیت کرنے کی کوشش کی تھی فرق صرف تمہاری سوچ کا ہے۔‘‘
’’غلط فہمی ہے تمہاری۔‘‘
’’اگر بقول تمہارے وہ اچھے نہیں ہیں تو تم اچھے بن جاؤ۔ وہ تمہارا خیال نہیں رکھتے تو تم رکھ لو ان کا خیال۔ وہ تم سے محبت نہیں کرتے تو تم محبت کر لو ان سے۔ اگر انہیں تمہاری خواہشات کا احترام نہیں تو تم مان رکھ لو ان کا۔‘‘
’’وہ میرے باپ ہیں۔‘‘ اس نے جیسے یاد دلایا تھا۔
’’ہاں ! اور تم ان کے بیٹے، جھکنا تمہیں ہی پڑے گا۔‘‘
٭٭٭
اور اس دن کے بعد سے اس نے خود کو سر تایا بدل لیا تھا۔ نہ کوئی ضد نہ خواہش اور نہ ہی فرمائش۔ گھر میں وہ سب سے بہت ہی آرام سے بات کرتا تھا ہر کام میں تابع داری سے سر ہلا دیا۔ دُکان چھوڑ کر وہ ابا کی لانڈری جا رہا تھا۔ تنخواہ کا بھی کوئی مطالبہ نہیں ڈیڈی جتنی رقم دیتے خاموشی سے تھام لیتا، نہ دیتے تو کوئی احتجاج بھی نہیں۔
وہ بالکل ویسا بن گیا تھا جیسے اس کے گھر والے چاہتے تھے۔ ڈیڈی بھی اب اس سے خوش رہنے لگے تھے۔ انہوں نے اسے گاڑی بھی لے کر دی تھی لانڈری کا منیجر اب وہی تھا۔
تنخواہ بھی اچھی تھی۔ سب کچھ کتنی آسانی سے مل گیا تھا۔ اور تو اور اب ڈیڈی عمر کے مقابلے میں اس کی بات کو اہمیت دینے لگے تھے مگر وہ پھر بھی خوش نہیں تھا۔ اس کے نزدیک اب ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی تھی۔
ان ہی دنوں اس کی پھوپھو کا اچانک انتقال ہو گیا زیبو کے غم میں وہ برابر کا شریک تھا۔ وہ بہت تنہا اور اداس ہو گئی تھی۔ ڈیڈی اسے اپنے پورشن میں لے آئے تھے۔ اس کے ابو ملک سے باہر تھے سسرال میں کوئی تھا نہیں، تو پھوپھو کے لیے جو دادا نے الگ پورشن بنوایا تھا وہ ادھر ہی رہتی تھیں۔
اس کے ابو نے زیبو کے تمام اختیارات ڈیڈی کو سونپ دیے تھے۔ اب اسے ادھر ہی رہنا تھا اس لیے وہ گھر کے کاموں میں دلچسپی لینے لگی تھی بلکہ اس نے تو آتے ہی سارا گھر سنبھال لیا تھا۔ امی کے مزاج سے وہ بچپن سے واقف تھی سو اسے اس ماحول کا حصہ بننے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی تھی۔
امی بھی اس سے خوش تھیں کہ زیبو ہر کام میں ان کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔
البتہ عمر کی آمدورفت ان کے گھر اب کچھ زیادہ ہی ہونے لگی تھی۔ اس نے اکثر دونوں کو ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے دیکھا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ زیبو بچپن کی طرح آج بھی اسے بالکل پسند نہیں کرتی۔
اور پھر ایک روز امی نے اسے بتایا تھا کہ تایا ابو نے عمر کے لیے زیبو کا ہاتھ مانگا ہے اور اس میں عمر کی پسند بھی شامل ہے۔
ڈیڈی نے رضا مندی دے دی تھی۔
اور آج شام وہ لوگ باقاعدہ رشتہ لے کر آنے والے تھے۔ ساتھ ہی منگنی کی چھوٹی سی رسم بھی ہو جاتی۔ اس نے یہ سنتے ہی گھر میں ہنگامہ اٹھا دیا تھا۔
زیبو کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تو وہ مزید بھڑک اٹھا تھا۔ اس کی اتنی اچھی، اتنی پیاری دوست اور ایک انتہائی ناپسندیدہ شخص کے ساتھ ساری زندگی گزار دے۔ نا ممکن۔
’’زیبو کی شادی کسی بھی صورت عمر سے نہیں ہو گی اگر ایسا ہوا تو میں خود کو شوٹ کر لوں گا۔‘‘ وہ ڈیڈی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
’’کیا تکلیف ہے تمہیں ! خود کو شوٹ کرنے والی؟‘‘
انہوں نے انتہائی تحمل سے دریافت کیا تھا اور اب وہ جواز کیا دیتا۔
’’میں نے جو کہا ہے وہی کروں گا۔‘‘ ڈھٹائی کی حد تھی۔
’’دیکھو! وہ گھر کی لڑکی ہے۔ مجھے سارہ اور انجم سے زیادہ پیاری ہے۔ آپا نے اس کی ذمہ داری مجھے سونپی تھی۔ بھائی صاحب نے بھی کلی اختیار مجھے سونپ رکھا ہے اور میں اس کے لیے عمر سے زیادہ کس کو اہمیت دوں۔ وہ گھر کا لڑکا ہے دیکھا بھالا، میں اس سے زیادہ کسی پہ بھروسہ نہیں کر سکتا۔‘‘
’’اگر بات گھر کے لڑکے کی ہے تو فیملی میں اور بھی لڑکے ہیں، عمر ہی کیوں ؟‘‘ وہ زچ ہو گیا۔
’’جو ہیں، وہ سب شادی شدہ ہیں۔ باقی زیبو سے چھوٹے ہیں اور کوئی اس کے میچ کا بھی نہیں۔‘‘
’’آپ عمر پہ بھروسا کر سکتے ہیں اپنے بیٹے پر نہیں۔‘‘ آخر اسے یہی حل مناسب لگا۔ وہ کسی قیمت پر زیبو کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ڈیڈی نے کڑے تیوروں سے اسے گھورا۔
’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں میں زیبو کو بہت خوش رکھوں گا اور پھر وہ عمر کو پسند بھی نہیں کرتی، یہ ایک بے جوڑ رشتہ ہے۔‘‘ بالآخر ایک طویل مباحثے کے بعد وہ ڈیڈی کو قائل کر چکا تھا۔ دونوں کی نسبت طے ہو گئی۔
تایا ابو کو ڈیڈی نے سہولت سے انکار کر دیا تھا۔
دونوں گھرانوں میں ایک ان دیکھی خلیج حائل ہوتی چلی گئی۔ عمر ملک چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا۔
اور زیبو وہ اداس گم صم سی جیسے خود میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔
٭٭٭
اس دوران اسے علی ملا تھا اس نے باتوں، باتوں میں ایک بات کہی تھی۔
’’فیصل بھائی! زندگی میں کبھی پیچھے مڑ کر بھی دیکھ لینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کوئی آج بھی تمہارا منتظر ہو۔‘‘
اور وہ، جواب کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہتا تھا، نہ جانے کیسے اس کے قدم اسی راستے کی سمت اٹھ گئے تھے۔ علی نے یہ بھی بتایا تھا کہ دادی اسے بہت یاد کرتی ہیں۔ اس کی امی فوت ہو چکی تھیں۔ علی خود شادی کر چکا تھا۔ دادی بے حد ضعیف ہو گئیں تھیں آج بھی اس سے بہت محبت اور پیار سے ملیں۔
’’میں نے ہمیشہ تمہیں بہت یاد کیا۔‘‘ دادی اس سے کہہ رہی تھیں۔ فیصل نے ان کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
’’میں بھی آپ کو بہت یاد کرتا رہا ہوں۔‘‘ اب وہ ان کے بوڑھے جھریوں زدہ ہاتھوں کو چوم رہا تھا۔ انعم اندر آئی تو دروازے میں ٹھٹک کر رک گئی۔
فیصل کا دل یکبارگی دھڑکا۔ وہ جو سمجھ رہا تھا اسے مکمل طور پر بھول چکا ہے، آج جو سامنے آئی تھی تو دھڑکنوں نے پھر وہی راگ چھیڑ دیا تھا۔ دل کی اندھیر نگری میں جیسے کوئی چراغ جل اٹھا تھا۔ وہ عاشقی کا زمانہ!
سارے منظر روشن ہوتے چلے گئے۔
وہ کھڑی رہی، وہ دیکھتا رہا۔ کتنے ہی پل یونہی بیت گئے۔
’’فیصل! اب تم ہی سمجھاؤ اسے، اتنے رشتے آ چکے ہیں مگر مانتی ہی نہیں۔ علی تو اپنے گھر بار کا ہو گیا اس کا بھی کوئی ٹھکانہ ہو تو میں سکون سے مر سکوں۔‘‘ وہ بے حد آزردہ لگ رہی تھیں۔
’’دادی! آپ نے پھر وہی باتیں شروع کر دیں۔‘‘
’’دادی ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں۔‘‘ وہ جیسے دل پہ پتھر رکھ کر بولا تھا۔ انعم نے ایک شکوہ بھری نظر اس پر ڈالی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔
وہ بوجھل دل لیے واپس چلا آیا۔
دادی اس سے کیا کہنا چاہتی تھیں، وہ سمجھ چکا تھا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ دوبارہ اب کبھی اس گلی کی سمت مڑ کر نہیں دیکھے گا۔
چاہے کوئی عمر بھر اسی دہلیز پہ بیٹھا اس کی راہ تکتا رہے۔
٭٭٭
دو سال بیت گئے۔ عمر واپس آ گیا تھا۔ اس نے زیبو کو پردے کی اوٹ سے باہر تکتے پایا تو دو قدم آگے بڑھتے ہی اس کے قدم ٹھٹک گئے۔
وہ سڑک پہ کھڑے عمر کو اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے چپکے سے دیکھ رہی تھی۔ بچپن کی طرح آج بھی وہ اس کھڑکی کو بند کرنا چاہتا تھا لیکن … خاموشی سے پلٹ آیا زیبو خود میں اتنی مگن تھی کہ اس کی آمد کو محسوس ہی نہیں کر پائی تھی۔
مگر وہ الجھ گیا تھا اور الجھن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ ڈیڈی کی طبیعت آج کل خراب رہنے لگی تھی۔ سارا کاروبار اس کے حوالے کر کے اب وہ گھر میں آرام کیا کرتے تھے۔ امی کو اچانک ہی گھر کی ویرانی اور سونے پن سے وحشت ہونے لگی تھی۔
انہوں نے دونوں کی شادی کی تاریخ طے کر دی۔
یہ خبر سنتے ہی اس کی دونوں بہنیں بھی چلی آئی تھیں۔ گھر میں اب مخصوص شادی والا ہنگامہ جاگ اٹھا تھا ڈیڈی، زیبو کا جہیز بنا رہے تھے۔ اس کی امی اور بہنیں مل کر شاپنگ کر رہی تھیں رات گئے تک ڈھولک بجتی رہتی۔
اور وہ ان سارے ہنگاموں سے الگ تھلگ جانے کن کاموں میں خود کو الجھائے رکھتی تھی۔
جیسے جیسے شادی کے دن قریب آ رہے تھے اس کا دل جیسے کوئی مٹھی میں لے کر دھیرے دھیرے بھینچ رہا تھا۔ درد کی شدت سے وہ دہری ہو جاتی۔ اذیت حد سے سوا ہوئی تو ایک روز اچانک بڑے کمرے میں سب کو چائے پیش کرتے ہوئے گر گئی۔
٭٭٭
اصل بھید اب کھلا تھا، تو کیا وہ ہمیشہ سے ہی عمر کو پسند کرتی تھی؟‘‘ اس نے مٹھیوں میں جکڑے بال آزاد کیے اور سر گھٹنوں میں دے کر بیٹھ گیا۔
وہ سات روز سے اسپتال میں تھی۔ ڈاکٹرز نے کہا تھا شدید ذہنی کشمکش کے باعث اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا۔
’’ذہنی کشمکش!‘‘ وہ الجھن میں پڑ گیا۔
’’زیبو کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے ؟‘‘ اس نے گھر آ کر اس کے کمرے کی ہر چیز کھنگال ڈالی اور ذہنی کشمکش کا سراغ مل گیا۔
ایک مخملی کیس اور ٹوٹا ہوا بریسلیٹ ساری کہانی سنا گیا تھا۔
’’جس کی دوستی کی خاطر میں نے اپنا پیار چھوڑ دیا تھا وہ بھی دو سالوں سے اپنا پیار بھلائے محض دوستی نبھائے جا رہی تھی۔ میری زندگی تو عذاب تھی ہی، ساتھ میں نے اسے بھی کانٹوں پہ گھسیٹ ڈالا، کیوں ایسا سوچا میں نے کہ جو شخص مجھے اچھا نہیں لگتا وہ زیبو کو بھی پسند نہیں ہو گا۔‘‘ پچھتاوا، بے بسی، دکھ، دلدوز سوچیں۔ کیا نہیں تھا جو اس کے دل کے ساتھ وجود کو بھی چھلنی کر رہا تھا۔
پچھلے سات روز سے اس کی یہی کیفیت تھی۔ وہ رات کو ایک پل کے لیے بھی سو نہیں پاتا تھا۔
اس نے مجھ سے ایک بار تو کہا ہوتا کیوں چپ چاپ خاموشی سے میری خواہش پہ سر جھکا دیا۔ آخری سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے اس نے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑ لیے تھے۔
حالانکہ وہ میری خواہش نہیں مجبوری تھی۔ کاش اس بار تمہاری آنکھوں میں چمکنے والے آنسوؤں سے میں نے اپنی مرضی کا مطلب اخذ نہ کیا ہوتا۔ اپنے دل کی ساری کہہ دینے کے بعد میں نے کبھی تمہارے دل میں بھی جھانک کر دیکھا ہوتا۔ کبھی تمہاری بھی سنی ہوتی۔ میں نے ہمیشہ تمہیں اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا اور جب تمہارے دل میں کسی نرم گداز جذبے نے سر اٹھایا تو میری اس ہمدردی اس رحم، اس عنایت نے تمہاری جان ہی لے لی اور اس قربانی سے مجھے کیا ملا؟ پچھتاوا، بے بسی، درد اور کبھی نہ ختم ہونے والی اذیت، میں قاتل ہوں تمہاری معصوم امنگوں کا، تمہاری محبت کا۔
میری ناکام محبت نے دل پہ اتنے گھاؤ نہیں لگائے تھے جیسا زخم تمہارے لگائے ہوئے مرہم نے دیا ہے۔ اس سے تو اچھا تھا تم بھی دھتکار دیتیں مجھے۔
اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔ مگر بے سود۔ وہ اٹھ کر اسپتال چلا آیا۔
اسے زیبو سے شادی نہیں کرنی تھی، کسی صورت نہیں۔ وہ اسے یہ سزا نہیں دے سکتا تھا۔
٭٭٭
وہ ہنوز آنکھیں موندے لیٹی تھی۔
کمزوری، نقاہت، بے کلی اس کے چہرے سے واضح جھلک رہی تھی۔
’’بند کرو یہ بیماری کا ڈھونگ اور اٹھ کر میری بات سنو۔‘‘ وہ اس کے سر پہ کھڑا درشتی سے کہہ رہا تھا۔
اس نے بمشکل ہی آنکھیں کھولی تھیں۔
’’ہر بات پر مجھ سے لڑنے والی، میرا دماغ کھانے والی، ذرا سی بات پر ہنگامہ اٹھا دینے والی زیبو میری دوست تھی۔ تم کون ہو بتاؤ؟‘‘
’’میں تمہارا بھرم نہیں توڑنا چاہتی تھی۔‘‘ وہ رو پڑی۔
’’اور اب جو میرے ساتھ کیا ہے وہ … ! انعم دو سال سے بیٹھی میرا انتظار کر رہی ہے۔ اس کی دادی تو اسی روز میرا نکاح پڑھا دیتیں مگر تم …‘‘
’’بدتمیز! بے ہودہ، مطلبی انسان، میں تمہاری وجہ سے بستر مرگ پر پہنچ گئی اور تمہیں آج بھی اپنی فکر ہے۔‘‘ بغیر کسی لحاظ کے اس نے سائیڈ میز پر رکھی ٹوکری اس پر الٹ دی تھی۔
’’چلو، تمہاری طرف سے کچھ تو تسلی ہوئی کہ تمہارا ذہنی توازن نہیں بگڑا۔‘‘ بے ساختہ قہقہہ لگاتے ہوئے وہ پھل، ٹوکری میں واپس ڈالنے لگا تھا۔
دروازے میں کھڑا عمر اندر چلا آیا۔
زندگی میں پہلی بار فیصل اس سے ذرا اچھے انداز میں ملا تھا۔
’’آج سورج کیا مغرب سے نکلا ہے فیصل! تم مجھ سے گلے مل رہے ہو۔‘‘ وہ مصنوعی شوخی سے کہہ رہا تھا۔
’’اب اتنی عزت تو تمہاری کرنی پڑے گی۔‘‘ وہ منہ بسور کر بولا تو زیب اور عمر ہنس پڑے۔
’’لیکن فیصل! ماموں سے اب اگر تم نے انکار کیا تو وہ سیدھا تمہیں شوٹ ہی کریں گے۔‘‘ اچانک خیال آنے پر وہ فکر مندی سے بولی تھی۔
’’ابو کو اپنا بھائی اور عمر مجھ سے زیادہ عزیز ہیں ویسے بھی انہوں نے تمہارے لیے عمر کو ہی ترجیح دی تھی۔‘‘اس نے طنز نہیں کیا تھا لیکن عمر کو ٹوکنا پڑا۔
’’میں نے تو تمہیں ہمیشہ اپنا بھائی سمجھا تھا۔ تم نے دل میں اتنی رقابت پال لی۔‘‘
’’یہ سب ڈیڈی کی وجہ سے ہوا تھا، میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا مگر وہ مجھ سے زیادہ تمہیں چاہتے تھے۔ پھر میں تم سے حسد کرنے لگا تھا، حسد یا تو انسان کو سنوار دیتا ہے یا بگاڑ دیتا ہے۔ میرے ساتھ دوسرا معاملہ ہوا۔ میں اپنی ہی سوچوں اور خیالوں کی آگ میں جل کر تنہا ہو گیا۔ مجھے صرف محبت چاہیے تھی اور ڈیڈی کو صرف محبت کرنی نہیں آتی تھی۔ ہم دونوں کا ایک ہی مسئلہ تھا اور وہ مسئلہ تم تھے۔ وہ مجھے تمہارے جیسا بنانا چاہتے تھے اور میں اپنے جیسا رہنا چاہتا تھا۔ بچوں کا ہر وقت کا موازنہ کس قدر ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے کاش تم جان سکتے، پھر جب مجھے پتا چلا کہ تم زیب کو چاہتے ہو مجھے تم سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا اور میں نے زیبو سے منگنی کر لی مگر میں کبھی جان ہی نہیں پایا کہ میری سب سے قریبی دوست میرے سب سے نزدیک کے دشمن کو اس قدر چاہتی ہے۔‘‘
آخر میں اس نے زیبو کو آنکھیں دکھائیں تو وہ بے ساختہ سر جھکا گئی۔ دونوں کے بیچ جو ایک ان کہی تھی وہ آج اس نے یوں سر عام عیاں کر دی تھی۔
زیبو کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
عمر نے دلچسپی سے اسے شرماتے ہوئے دیکھا تو فیصل نے زیبو کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے زیبو کی انگوٹھی اتار کر عمر کی جانب بڑھا دی۔
’’میرا یہ احسان یاد رکھنا۔ اپنی منگیتر تمہیں دے رہا ہوں۔‘‘
’’نہیں، تم مجھے میری محبت دے رہے ہو۔‘‘ وہ بھی برجستہ بولا تھا۔
’’چلو! یوں ہی سہی، اب بدلے میں تمہیں بھی مجھے میری محبت دینی پڑے گی کیونکہ ڈیڈی مجھ سے زیادہ تمہاری مانتے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی شرط بھی عائد کر دی۔
’’تم پروپوزل تیار رکھو۔ وہ بھی ہنس پڑا تھا۔
زیبو اور اسے کچھ لمحوں کے لیے اکیلا چھوڑ کر وہ باہر نکل آیا۔ باہر ڈیڈی اور تایا ایک ساتھ کھڑے تھے۔ ساری رنجشیں، گلے شکوے آج ختم ہو چکے تھے۔ عمر کے ساتھ وہ مذاق کر رہا تھا۔ انعم اور اس کے رشتے میں بھی اب کوئی رکاوٹ حائل نہیں تھی۔
کیونکہ ایک بازی اس نے بھی ڈیڈی کے ساتھ کھیلی تھی۔
وہ اپنے بھائی سے ملنے کے لیے بہت تڑپتے تھے کیونکہ تایا ابو کا رویہ اس روز کے بعد سے بہت روکھا اور لیے دیے والا ہو گیا تھا۔
اور فیصل نے ان سے کہا تھا۔
’’وہ زیبو کی شادی عمر سے کروا دیں لیکن اس کے لیے انہیں اس کی شادی انعم سے کروانی پڑے گی۔‘‘
اور وہ اس کی یہ شرط مان گئے تھے۔
اور اب وہ تازہ مہکے گلابوں کا گلدستہ لیے روٹھے صنم کو منانے آیا تھا۔ دادی اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوئی تھیں۔
اس نے اپنا مدعا پہلے دادی سے بیان کیا تھا۔ ساری کہانی ان کو بتا دی، سمجھا دی بلکہ رٹوا دی۔
وہ دادی کے لیے سوپ بنا کر لائی تھی۔ گہرے سبز رنگ کے سوٹ میں ملبوس وائٹ دوپٹہ لیے ہمیشہ کی طرح وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اس کے بال کمر سے نیچے تک جھول رہے تھے۔ گلابی رنگت کملا کر زردسی ہو رہی تھی۔ سنہری آنکھوں تلے سیاہ حلقے بے حد نمایاں تھے۔
حزن و ملال کے رنگوں میں لپٹی وہ خوش رنگ تتلی نہیں جانتی تھی کہ آج کوئی اس کے لیے گلابوں کا موسم لے کر آیا تھا۔
اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے وہ دادی کی طرف متوجہ تھی۔
’’دادی اب لیٹ جائیں ! آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ اتنی دیر تک بیٹھنا آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘‘ وہ صاف اسے سنا رہی تھی کہ اب وہ جا سکتا ہے۔
اس نے مدد طلب نظروں سے دادی کی سمت دیکھا تھا۔
’’اب تم خود ہی سمجھا لو۔‘‘ دادی نے عین وقت پر صاف ہری جھنڈی دکھا دی تھی۔
جبکہ انعم ان کے اشارے کنائیوں سے بے خبر اس جملے سے سابقہ معنی اخذ کرتے ہوئے فوراً بولی تھی۔
’’انہیں سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے میرے لیے جو بھی پہلا پروپوزل آئے آپ قبول کر لیں۔ میں شادی کے لیے تیار ہوں۔‘‘
وہ کہہ کر رکی نہیں تھی اٹھ کر اوپر اپنے کمرے میں چلی آئی تھی اور آتے ہی دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر اس نے زار و قطار رونا شروع کر دیا تھا۔
کیوں آ جاتا ہے یہ شخص ہر بار اس کی بے بسی کا تماشا دیکھنے۔ دادی کو وکٹری کا نشان دکھاتا وہ ایک ساتھ دو دو سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اوپر آیا تھا۔ اسے روتا دیکھ کر پہلے مسکرایا پھر اس کے قریب چلا آیا اور اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔
’’کیا اتنا برا ہوں میں، جو مجھ سے شادی کرنے پر اس قدر قیمتی و نایاب آنسو بہائے جا رہے ہیں۔‘‘ اور وہ رونا بھول کر اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔
ناسمجھی، بے یقینی، حیرت، کیا کچھ نہیں تھا ان آنسو بھری آنکھوں میں۔
’’تمہارے لیے پہلا پروپوزل میں لے کر آیا ہوں جو دادی نے قبول کر لیا ہے۔‘‘
ناسمجھی، بے یقینی، حیرت کے تمام تاثرات اچانک کہیں غائب ہوئے تھے اور اب اس کے چہرے پر ایک ہی رنگ تھا۔
خوشی و انبساط کا رنگ، محبت کا رنگ اور ایسے ہی ڈھیر سارے رنگوں سے سجی ایک خوب صورت محبت بھری زندگی دونوں کی منتظر تھی۔
٭٭٭
تشکر: کتاب ایپ ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید