صفحات

تلاش کریں

شاعری-جھولنے

دیباچہ

ایسی ہلکی پھلکی کتاب پر جو چھوٹے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، دیباچے کا بوجھ نہ پڑنا چاہیئے تھا۔ لیکن بچوں کے ساتھ قدرت نے والدین کی اور انسان کے ساتھ استاد کی پخ بھی لگا رکھی ہے۔ صوفی تبسم کو جو مصنف ِ کتاب ہونے کے علاوہ "والدین" بھی ہیں اور استاد بھی، یہ گوارا نہ ہوا کہ بچوں کو تو بہلایا جائے اور والدین اور استادوں کی پروا نہ کی جائے۔ اس لئے قرار پایا کہ وہ بچوں کو نظمیں سنائیں اور میں والدین کو باتوں میں لگائے رکھوں۔
بچوں کا بہلانا سہل ہے، بڑوں کا بہلانا سہل نہیں۔ بچوں نے تو یہ پڑھا کہ ٍ"چیچوں چیچوں چاچا۔گھڑی پہ چوہا ناچا" اور خوش ہو لئے۔ بڑے کہیں گے چیچوں ہم نے تو کسی لغت میں دیکھا نہیں اور اگر چاچا سے مراد چچا ہے تو یہ شائستہ لوگوں کی زبان نہیں۔ اور یہ گھڑی پہ چوہا ناچا تو آخر کیوں؟ اور بہر حال اس تک بندی کا نتیجہ کیا؟ اس سے بچوں کو کون سا سبق حاصل ہوا؟
یہ سب سوال نہایت ہی ذمہ دارانہ ہیں۔ بالفاظ دیگر ان لوگوں کے سوال ہیں جو اپنا بچپن بھلا بیٹھے ہیں۔ یا جو یہ تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ جن باتوں سے ان کا بچپن رنگین ہوا تھا وہ اس دنیا میں اب نہ دہرائی جائیں گی۔تک ملانا بے فائدہ بات ہے۔ بوجھوں مارنا چاہیے۔
خدا کا شکر ہے، صوفی تبسم کو ایک ایسی دانائی عطا ہوئی ہے کہ وہ نادانی کی لذت سے ابھی محروم نہیں ہوئے۔ وہ جانتے ہیں کہ بچوں کا ذہن وہ عجیب و غریب دنیا ہے جس میں پیڑوں پر ناگ ناچتے ہیں اور بلیاں بیر کھاتی ہیں اور ٹر ٹر موٹر۔ چھم چھم ٹم ٹم میں آہنگ اور لے کی وہ تمام لذتیں سما جاتی ہیں جو بڑے ہو کر تان سین کی کرامات سے بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں گڑیاں اور جانور اور پرندے اور انسان سے ایک دوسرے کے دوست ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ گویا سب مخلوق ایک ہی خدا کی مخلوق ہوتی ہے۔ بڑے ہو کر ذہن انسانی ہزار فلسفیانہ کشمکش اور خیال آفرینی کے بعد بھی مشکل سے اس سطح پر پہنچا ہے۔
اس لئے قابل رشک ہیں صوفی تبسم کہ بلا تکلف اس رنگین دنیا میں چہچہا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ صوفی تبسم ایک خوش ذوق سخن سنج اور سخن گو ہیں۔ اردو فارسی غزل استادانہ کہتے ہیں اور جذبے اور ادا کی باریکیوں کو‌ خوب سمجھتے ہیں۔ یہ مجموعہ ان کی شاعری میں اتوار کا دن ہے اور یوں اتوار منانے میں انہوں نے بڑے بڑے اساتذہ کا تتبع کیا ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھیے کہ اس دن بالکل ہی خالی الذہن ہو کر بیٹھتے ہیں اور جو منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔ غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ کام قافیے اور وزن اور آہنگ اور الفاظ کی نزاکتوں پر قادر ہوئے بغیر ممکن نہ تھا۔ اس لئے صوفی تبسم کی پختہ کاری اور طباعی کے شواہد اس میں جا بجا اس کو نظر آئیں گے۔ ایسے کلام کا درجہ مہمل ممتنع کا درجہ ہے۔ جیسے سہل ممتنع سہل نہیں ہوتا اسی طرح مہمل ممتنع بھی مہمل نہیں ہوتا۔
دعا ہے کہ صوفی تبسم کا یہ بچپن ہمیشہ قائم رہے ! اور ان کے قدر دان ہمیشہ انہیں یہ کہنے کے قابل ہوں کہ

چہل سال عمر عزیزت گزشت
مزاج تو از حال طفلی نہ گشت
دہلی 5 جون 1946 عیسوی
پطرس

گنتی

ایک دو تین چار
آؤ مل کر بیٹھیں یار
پانچ چھ سات
سنو ہماری بات
آٹھ نو دس
بات ہماری بس

بلّی

دنیا کے رنگ نرالے
بلی نے چوہے پالے
چوہوں نے دھوم مچائی
بلّی کی شامت آئی

ٹر ٹر

کرئے ٹر ٹر، کرے ٹر ٹر
تری لاری، تری موٹر
چلے چھم چھم، چلے چھم چھم
مرا گھوڑا، مری ٹم ٹم

ایسے کو تیسا

ایسے کو تیسا
تم میرا لڈو لو گے
میں تمہارا پیسا
ایسے کو تیسا

منے رو لے

ہولے ہولے ہولے
رو لے منے رو لے
جیسے چڑیا گانا گائے
جیسے مینا راگ سنائے
جیسے بلبل بولے
رولے منے رو لے
ابا کو آواز نہ آئے
امی بھی سننے نہ پائے
گڑیا آنکھ نہ کھولے
ہولے ہولے ہولے
جتنا چاہے رو لے

کھاؤ

انڈا روٹی دہی پنیر
شکر مکھن کھچڑی کھیر
تم بھی لاؤ میں بھی لاؤں
تم بھی کھاؤ میں بھی کھاؤں

پانچ چوہے

پانچ چوہے گھر سے نکلے
کرنے چلے شکار
ایک چوہا رہ گیا پیچھے
باقی رہ گئے چار
چار چوہے جوش میں آ کر
لگے بجانے بین
ایک چوہے کو آ گئی کھانسی
باقی رہ گئے تین
تین چوہے ڈر کر بولے
گھر کو بھاگ چلو
ایک چوہے نے بات نہ مانی
باقی رہ گئے دو
دو چوہے پھر مل کر بیٹھے
دونوں ہی تھے نیک
ایک چوہے کو کھا گئی بلی
باقی رہ گیا ایک
اک چوہا جو رہ گیا باقی
کر لی اس نے شادی
بیوی اس کو ملی لڑاکا
یوں ہوئی بربادی

پتے کی بات

آؤ آؤ تمہیں سناؤں
یارو ایک پتے کی بات
رات نہ ہو تو ہوگا دن
دن نہ ہو تو ہوگی رات

راجا رانی

آؤ بچو سنو کہانی
ایک تھا راجا
ایک تھی رانی
راجا بیٹھا بین بجائے
رانی بیٹھی گانا گائے
طوطا بیٹھا چونچ ہلائے
نوکر لے کر حلوہ آیا
طوطے کا بھی جی للچایا
راجا گانا گاتا جائے
نوکر شور مچاتا جائے
طوطا حلوہ کھاتا جائے

ٹمک ٹم

ٹمک ٹمک ٹمک ٹم
تیری چڑیا کی ایک دُم
میری مینا کے دو پر
ایک ادھر اور ایک اُدھر
تیری چڑیا شور مچائے
میری مینا گانا گائے

گڑیا

عذرا کی گڑیا
سوئی ہوئی ہے
گھنٹی بجاؤ
اس کو جگاؤ
توبہ ہے میری
میں نہ جگاؤں
وہ رو پڑے گی
مجھ سے لڑے گی

چیچوں

چیچوں چیچوں چاچا
گھڑی پہ چوہا ناچا
گھڑی نے ایک بجایا
چوہا نیچے آیا

انڈا

مرغے میں نے انڈا دیا
مرغی تو نے خوب کیا
انڈے اتنے چنگے ہیں
پاؤں میرے ننگے ہیں
کیسی باتیں کرتی ہو؟
انڈے بیچو جوتا لو

سانپ کی دم

سانپ کی دم مڑوڑ دو
چلائے تو چھوڑ دو
ایک دو ایک دو
چیونٹی کا سر پھوڑ دو
چلائے تو چھوڑ دو
ایک دو ایک دو

ثریا کی گڑیا

ثریا کی گڑیا نہانے لگی
نہانے لگی ڈوب جانے لگی
بڑی مشکلوں سے بچایا اسے
کنارے پہ میں کھینچ لایا اسے

نرالا شہر

ایک نرالا شہر
شہر کے اندر نہر
نہر کے بیچ میں آگ
آگ میں کالا ناگ
ناگ کے اوپر پیڑ
پیڑ کے نیچے بھیڑ
بھیڑ کے سر پر مور
مور مچائے شور

دونوں شیر

ایک تھا تیتر، ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دم

کالا ریچھ

ریچھ نچانے والا آیا
ریچھ نچانے والا
پاؤں بھی کالے، ہاتھ بھی کالے
منہ بھی اس کا کالا
ریچھ نچانے والا آیا
ریچھ نچانے والا
جنگل سے اک ریچھ کا بچہ
لے کر شہر کو آیا
گھر میں اس کو ناچ سکھایا
گھر میں اس کو پالا
ریچھ نچانے والا آیا
ریچھ نچانے والا
منہ پر اس کے پٹی باندھی
ناک میں ڈالی ڈوری
پاؤں میں اس کے گھنگرو ڈالے
گلے میں اس کے مالا
ریچھ نچانے والا آیا
ریچھ نچانے والا

ٹمک ٹالا

ٹمک ٹالا ٹمک ٹالا
بلی کا منہ ہو گیا کالا
مرغی بولی
غوں غوں غوں
چوزہ بولا
چوں چوں چوں
مرغا بولا
ککڑوں کوں

کھیرا

منے نے کھیرا، چاقو سے چیرا
منے کی بہنیں
منے کے بھائی
منے کی خالہ، منے کی تائی
منے کا نوکر
منے کا نائی
ہر ایک آیا
یوں غُل مچایا
منے نے کھیرا
چاقو سے چیرا

نہر میں آگ

نہر میں اک دن
لگ گئی آگ
پھوں پھوں کرتا
نکلا ناگ
طوطا بولا
ٹَیں ٹَیں ٹَیں
کوا بولا
کَیں کَیں کَیں
بکری بولی
مَیں مَیں مَیں

منا اور لڈو





آہا آہا



ہو ہو ہو



منا ایک



اور لڈو دو



اک لڈو منے نے کھایا



دوسرا منا دوڑا آیا



آہا آہا



ہو ہو ہو



لڈو ایک



اور منے دو





ایک دو




ایک دو



میری بات سنو




تین چار



چنے مسالے دار




پانچ چھ



تم نے کھاۓ تھے




سات آٹھ



قطب صاحب کی لاٹھ




نو دس



آم کا میٹھا رس





منّے کی ماں




منے کی ماں نے



انڈا ابالا



ہنڈیا میں ڈالا



دو منٹ گزرے



ڈھکنا اٹھایا



انڈا نہ پایا



چمچہ تھا ٹیڑھا



اوندھی تھی تھالی



ہنڈیا تھی خالی



قسمت تھی کھوٹی



روکھی تھی روٹی



گھر میں کسی نے



روٹی نہ کھائی



منے کے انڈے



تیری دہائی



منے کی خالہ



منے کی اماں



منے کے بھائی



جی بھر کے روئے



بھوکے ہی سوئے





بندر اور بندریا




بندریا نے گھگرا پہنا



بندر نے شلوار



بن ٹھن کر جب گھر سے نکلے



ہو گئی تکرار



بندریا نے چھری اٹھائی



بندر نے تلوار



لڑتے لڑتے ہو گئے گھائل



کوئی نہ مانا ہار





شریر لڑکا




ایک تھا لڑکا بڑا شریر



نام تھا اس کا نور نذیر



اک دن اس کا جی للچایا



گاؤں سے چل کر شہر کو آیا



شہر میں آ کر اس نے دیکھا



وہاں کا پیسا۔ گاؤں جیسا



وہاں کا کھمبا۔ ویسا ہی لمبا



وہاں کی روٹی ویسی ہی چھوٹی



وہاں کا ڈھول ویسا ہی گول



وہاں کی بلی ویسی ہی کالی



موٹی موٹی آنکھوں والی



ویسے پودے، ویسے پیڑ



ویسی بکری، ویسی بھیڑ



دل میں سوچا اور پچھتایا



دوڑا دوڑا گھر کو آیا





خوانچے والا




خوانچے والے خوانچہ لا



خوانچہ لا



منے مجھ کو دام دکھا



دام دکھا



پہلے میں دیکھوں تو ذرا



لڈو تیرے کیسے ہیں



کیسے ہیں



اچھے ہیں تو لے لوں گا



جیب میں میرے پیسے ہیں



پیسے ہیں



لے لے پھر جھگڑا ہے کیا



سامنے تیرے رکھے ہیں



رکھے ہیں



پہلے بھی تو لیتا ہے



پہلے بھی تو نے چکھے ہیں



چکھے ہیں



میں نہ لوں گا ہوں ہوں ہوں



یہ لڈو تو چھوٹے ہیں



چھوٹے ہیں



میں بھی پھر اک بات کہوں



پیسے تیرے کھوٹے ہیں



کھوٹے ہیں





منا




چمچہ لمبا،تھالی گول



بندر لے کر آیا ڈھول



پیڑ پہ ناچا کالا ناگ



چوہا گاتا آیا راگ



چاند پہ جا کر کودا شیر



بلی کھا گئی سارے بیر



چمچہ تھالی لے گیا ساتھ



منا رہ گیا خالی ہاتھ





ٹوٹ بٹوٹ




ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ



باپ تھا اس کا میر سلوٹ



پیتا تھا وہ سوڈا واٹر



کھاتا تھا بادام اخروٹ



ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ




ہر اک اس کی چیز ادھوری



کبھی نہ کرتا بات وہ پوری



ہنڈیا کو کہتا تھا ہنڈی



لوٹے کو کہتا تھا لوٹ



ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ




امی بولی بیٹا آؤ



شہر سے جا کر لڈو لاؤ



سنتے ہی وہ لے کر نکلا



جیب میں ایک روپے کا نوٹ



ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ




اتنا اس کا جی للچایا



رستے میں ہی کھاتا آیا



کھاتے کھاتے آئی ہچکی



دانت میں اس کے لگ گئی چوٹ



ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ




بھائی اسے اٹھانے آیا



ابا گلے لگانے آیا



امی اس کی روتی آئی



ہائے میرا ٹوٹ بٹوٹ



ہائے میرا ٹوٹ بٹوٹ



ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ





گپ شپ




بلی کو سمجھانے آئے



چوہے کئی ہزار



بلی نے اک بات نہ مانی



روۓ زار و زار




سنو گپ شپ، سنو گپ شپ



ناؤ میں ندی ڈوب چلی




ہاتھی کو چیونٹی نے پیٹا



مینڈک شور مچائے



اونٹ نے آ کر ڈھول بجایا



مچھلی گانا گائے




سنو گپ شپ، سنو گپ شپ



ناؤ میں ندی ڈوب چلی




آدھی رات کو چاند اور سورج



بادل کے گھر آئے



بجلی نے دروازہ کھولا



دونوں ہی گھبرائے




سنو گپ شپ، سنو گپ شپ



ناؤ میں ندی ڈوب چلی




شیر اور بکری مل کر بیٹھے



گھوڑا گھاس نہ کھائے



تینوں اپنی ضد کے پکے



کون کسے سمجھائے




سنو گپ شپ، سنو گپ شپ



ناؤ میں ندی ڈوب چلی





پہیلی۔1




دیکھا ہم نے ایک پرندہ



کچھ پیلا کچھ سبز اور لال



پیٹ میں اس کے ایک ہی ہڈی



کھال کے نیچے اس کے بال



خون ہے اس کا میٹھا میٹھا



کڑوی کڑوی اس کی کھال




(آم)





پہیلی۔2




دیکھا ایک نیا حیوان



دبلا پتلا اور بے جان



پیٹھ کے اندر اس کے دم



دو پاوں ہیں اور چھ سم



یونہی اس کا نام نہ بول



پہلے میری بات کو تول




(ترازو)





پہیلی۔3




کال کلوٹا، کال کلوٹا



چھوٹا چھوٹا موٹا موٹا



چکنا چکنا گیلا گیلا



اندر سے کچھ پیلا پیلا



ہری ہری سی اس کی چوٹی



ہلکی ہلکی، چھوٹی چھوٹی



چیریں اور پکائیں اس کو



لوگ مزے سے کھائیں اس کو




(بینگن)





پہیلی۔4




اک پری ہے رنگ رنگیلی سی



کچھ سبز سی ہے کچھ نیلی سی



کچھ لال سی ہے کچھ پیلی سی



بارش میں نہا کر آتی ہے



آتی ہے رنگ جماتی ہے



پھر پل بھر میں چھپ جاتی ہے



بوجھو تو اس کا نام ہے کیا



دنیا میں اس کا کام ہے کیا









(قوس قزح)