انتساب
زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جان اسد
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
مرزا غالب
فہرست
انتساب..
ابتدا کی طرف واپسی.
بھورے سید کا بھوت..
دو سال بعد
ویٹنگ روم
بجوٹ..
مداری.
بن باس کے بعد
وہ اور پرندہ
کھوکھلی کگر.
حصار.
پیشین گوئی.
صدیوں پر پھیلی کہانی.
بائیں پہلو کی پسلی.
٭٭٭
ابتدا کی طرف واپسی
میت کی تجہیز و تکفین کے بعد، دعائے مغفرت ہوئی۔ آہستہ آہستہ لوگ واپس ہو گئے کہ واپسی ان کا مقدر ہے۔ قبرستان میں سناٹا پھیل گیا۔ درختوں کے درمیان سے نکل کر سرپر تیز دھوپ کا بوجھ لیے اپنے بوجھل قدموں کو دھیرے دھیرے سمیٹتے ہوئے قبرستان کے دروازے پر آ گیا۔ سر کو ہاتھوں کی رحل میں رکھے تین سیڑھیوں والے زینہ کے آخری پائیدان پر پریشان حال بیٹھ گیا۔ چہرے کے ورق ورق پر چنتا درج ہے دونوں آنکھوں میں آنسو رکھے ہیں۔ کائنات کی بے ثباتی اور زندگی کے عارضی ہونے کے احساس سے حیران و پریشان ہو کر وہ سوچنے لگا سب بیکار ہے۔ کائنات بے حقیقت اور حیات بے معنی۔ سب فانی، باقی ہے صرف ذات اللہ کی۔ اچانک آہٹ ہوئی، سر اُٹھایا، آنکھیں وا کیں، سامنے کھڑی پُر نور شخصیت کو اپنی نگاہوں کے دائرے میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ ایک سفید ریش انسان، رنگ برف کی مانند، چمک دار آنکھیں، کشادہ پیشانی کی سرخی کے درمیان سیاہ گول نشان، جنت نشاں، سفیدبرّاق لباس، کرتا گھٹنوں سے نیچا، پائجامہ ٹخنوں سے اونچا، کُرتے کی جیب سے مسواک کا سر جھانک رہا ہے:
’’تمہارے غم زدہ ہونے کا مجھے کوئی غم نہیں، کیوں کہ راستہ گھر کو گیا ہے اسی ویرانے سے، انسان کو گود میں بھی گور کی یاد رہنی چاہیے۔ گورستان کی وحشت یاد رکھنے سے موت کی دہشت ختم ہوتی ہے۔‘‘
اس کے گوش میں نور کی بوندیں ٹپکاتے ہوئے بزرگ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، ایک نور کی لکیر برق رفتاری سے اس کی آنکھوں میں داخل ہوئی جسم کی تمام شریانوں میں دودھیا لہر کی طرح پھیل گئی۔ اس روشنی میں اس نے اپنی زندگی کے اندھیروں کا احتساب کیا۔ دل بے چین، قلب بے سکون ہوا۔ وہ سبک سبک رونے لگا۔۔ ۔ آنسوؤں کے راستے سیاہی رفتہ رفتہ زائل ہوئی۔ وہ اُٹھا، بزرگ نے کمر پر دائیں ہاتھ رکھا ان کے ساتھ ساتھ دھیرے دھیرے نظر جھکائے چلنے لگا۔ اچانک دھیان آیا وہ جھٹکے کے ساتھ بزرگ کے بائیں جانب آ گیا۔ راہ گیروں سے بے خبر وہ نہایت خاموشی سے با ادب چل رہا ہے۔
بزرگ گویا ہوئے ’’میزان حقوق العباد پر بنے گی اور تمہاری آزمائش حقوق اللہ میں ہے۔ خدمت خلق کائنات کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ کتاب و سنت کی اتباع میں اللہ کی رضا ہے۔ ہر باطن، جس کا ظاہر مخالف ہے باطل ہے۔ ذکر و فکر اور شکر فصل کو وصل میں بدلنے کا راستہ ہے۔‘‘
شراب طہورہ میں اس کا روم روم ڈوب گیا۔ اس کی آنکھیں نشہ کی کیفیت سے بند ہو گئیں جب کھلیں تو گھر کے دروازے پر تنہا کھڑا تھا … کیا تھا؟ … کیا ہوا؟ … خواب تھا؟ … حقیقت تھی! … غم تھا نہ خوشی۔ بس ایک ناقابلِ بیان سرور کا احساس باقی تھا۔
گھر میں داخل ہوا۔ بوسیدہ دیواریں چڑیلوں کی طرح کالے کالے دانت نکالے، خوف ناک قہقہے لگا رہی ہیں، برسوں سے ان میں ٹیپ بھری گئی اور نہ مرمت ہوئی۔ قلعی ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ڈیڑھ یا دو فٹا پتلے زینے کی نو سیڑھیاں چڑھ کر چھ بائی نو کا چھوٹا سا کمرہ جو مہمان خانہ بھی ہے، میں چار بائی چھ کے ایک تخت پر پرانا سا بستر بچھا ہے جس پر بوڑھے والد عمر تقریباً اسّی سال لیٹے بیٹھے، سوتے جاگتے، نمازو تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔ کھانا پینا، چیخ و پکار، سخت کلامی اسی تخت پر بیٹھ کر کرتے ہیں۔ اب بھی تخت پر بیٹھے تسبیح کے دانے اُلٹ رہے ہیں۔
’’السلام علیکم‘‘ اس نے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیری والدین کو مسرور نگاہوں سے دیکھنے سے ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اور جتنی بار دیکھا جائے گا۔ اتنے ہی مقبول حجوں کا ثواب ملے گا۔
’’وعلیکم السلام‘‘ اپنی گدیلی سی بڑی بڑی آنکھیں کھولیں جو کبرسنی کی وجہ سے خرگوش کی طرح چھوٹی چھوٹی دکھائی دے رہی ہیں۔
’’بڑی دیر لگا دی، کہاں گئے تھے؟‘‘ ابّا نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
’’میرے ایک دوست کا انتقال ہو گیا۔ رات کے آخری حصہ میں بے چینی ہوئی، دل گھبرایا، ہارٹ اٹیک ہوا، موت واقعہ ہو گئی، فرسٹ ایڈ کی بھی مہلت نہیں ملی۔‘‘ اس نے آہستہ آہستہ روداد سنائی جس کے ایک ایک لفظ سے درد ٹپک رہا ہے۔
بوڑھا شخص خاموش بیٹھا اسے ٹُکر ٹُکر دیکھ رہا ہے اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے ہیں۔۔ ۔۔
’’کیوں روتا ہے؟ اللہ کی امانت تھی اس نے واپس لے لی۔‘‘ اچانک باریش بزرگ کی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔
اس نے جلدی جلدی آنسو پونچھے، امّی کی تلاش میں ادھر اُدھر آنکھیں چلائیں۔ دوسرے کمرے کے دائیں جانب دروازے پر نظر ڈالی۔ اسٹوو کی سَن سَن میں روٹی پکنے کی پھٹ پھٹ کی آواز دب رہی ہے۔ کمزوری اور بیماری کی وجہ غریبی ہے، حالاں کہ بوڑھا ہونے کے لیے ساٹھ سال کوئی زیادہ عمر نہیں ہوتی۔ مگر وہ کیا کرے؟ جو نصیب میں لکھا ہے وہی تو ہو رہا ہے۔ اگر دولت صرف محنت سے ملتی تو ہر مزدور دولت مند ہوتا۔ دولت کا تعلق قسمت سے جڑا ہے … وہ سوچتا ہے اماں کو کھانسی کا ٹھسکا، ابّا کو استھما۔ جب انھیں پھندا لگتا، سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے … چہرہ انگارے جیسا سرخ، آنکھوں سے سرخی مائل پانی، سینہ پر دونوں ہاتھ رکھے جیسے دل کو دبانے یا روکنے کی ناکام کوشش کے اس منظر کو دیکھ کر آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں … اس کے علاوہ چارہ کیا ہے، سوائے صبر و شکر کے؟ وہ والدین کی خدمت میں حاضر باش رہتا۔ باپ باب الفردوس، ماں کے پیروں تلے جنت، مسلمان کے لیے یہی تحفۂ آخرت بھی ہے۔
پڑوسیوں کا خیال رکھنا، مخلوق کے ساتھ حسنِ اخلاق کے ساتھ پیش آنا، پنج گانہ نماز با جماعت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا اس کی زندگی کا معمول تھا لیکن باریش بزرگ کے دیدار کے بعد معمولات نے عادت کی صورت اختیار کر لی جس میں خلوصِ نیت اور خشیت بھی شامل ہو گئی ہے۔ ادھر کچھ عرصہ سے بے چینی کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ شب بیداری نیند سے راضی بارضا کا معاملہ ہوتا ہے، یہاں تو نیند پر شب خوں راضی بے رضا کا سلسلہ سا بن گیا ہے۔ ان دنوں چین کے ساتھ نیند بھی کھو گئی ہے۔
’’بیٹا اُٹھ جا، اذان ہونے والی ہے۔‘‘ اماں نے آواز لگائی۔
’’میں جاگ رہا ہوں۔‘‘ وہ اُٹھا … جاڑوں کی آدھی رات گزر چکی ہے، وضو کیا، تہجد پڑھی۔ ابھی فجر ہونے میں چار گھنٹے باقی ہیں۔ اماں کو بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے نیند نہیں آتی، اُٹھا کر خود سو گئی، چڑیا جیسی نیند اور جگار … ابا جاگتے زیادہ ہیں، زیادہ کھانسی یا دماغی خشکی کی وجہ سے۔ لیکن یہاں نہ بڑھاپا ہے، نہ کھانسی نہ دماغی کمزوری۔ بستر پر لیٹے ہوئے بھی ذہن جاگتا ہے۔ وہ جائے نماز پر بیٹھا رہا … تلاوتِ قرآن کرتا رہا۔۔ ۔ یادِ الٰہی میں مصروف رہا۔ فجر کی اذان ہوئی … با جماعت نماز پڑھنے کے لیے مسجد دوڑ لگائی … اشراق کی نماز ادا کر کے گھر واپس ہوا۔ اماں دسترخوان لگائے انتظار کر رہی ہے۔ خشک بیسنی روٹی ایک چھوٹی سی تھالی میں رکھی ہے … دو پیالیوں میں چائے سے بھاپ نکل رہی ہے۔
’’بیٹا تجھے پسند ہے! بیسنی روٹی خستہ ہوتی ہے آسانی سے چبنے میں آ جاتی ہے … تیرے ابا کا بھی اسی سے پیٹ بھر جاتا ہے۔‘‘ اماں نے دھیرے دھیرے بات کہی۔
وہ اماں کی باتوں کو خوش اخلاقی سے سن رہا ہے۔ سوچ رہا ہے بیسنی روٹی مجھے اصلی گھی میں تر پسند ہے۔۔ ۔ لیکن اصلی گھی مہنگائی کی وجہ سے نصیب کہاں! بچپن سے مزدوری کی، ابا بھی مزدوری کرتے تھے دونوں کی کمائی ملا کر گھی جیسی جنس میسر آتی۔ پھر اماں اور ابا کے دانت کہاں جو گیہوں کی روٹی چبا سکیں۔ ہر دن بیسنی روٹی پسند اور ناپسند کے دائرے میں نہیں آتی … بلکہ یہ تو مجبوری ہے … اور … مجبوری بندہ کا مقدر اور مختاری تو اللہ ہی کو حاصل ہے۔ اماں ابا کے ساتھ کھانا نہیں کھاتی چوں کہ ابا کھانے میں کھانستے زیادہ ہیں۔ اماں کو کراہیت ہوتی ہے۔ ہاں مجھ اور خود سے پہلے کھانا اور ناشتہ ابا کو پہلے سجاتی۔ یہ اس کی شوہرپرستی کی دلیل ہے بھلے ہی شوہر پسندی نہ ہو چوں کہ جوان بیٹے کے سامنے باپ دوئم درجہ کی چیز ہو جاتی ہے۔
’’کھا بیٹا … روٹی ٹھنڈی ہو جائے گی۔‘‘
’’ہاں … ‘‘ اس نے آدھی روٹی کھا کر چائے پی لی۔
اماں خاموشی سے گردن جھکائے سوچ رہی ہے۔ عدبد الحنان کو یہ کیا ہو گیا ہے کہ کم بولتا ہے، اگر اس کے ابا بولیں تو بھی مختصر جواب پھر خاموشی۔ میں بولوں ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ اور ’’ہاں ہوں‘‘ مختصر جواب کے بعد خاموشی۔ اس قدر خاموشی سے گھر میں قبرستان جیسی خاموشی چھائی رہتی ہے۔ رات رات بھر جاگتا رہتا ہے، جانے کیا کیا سوچتا ہے؟ وہ سمجھتا ہے اماں سوتی ہے لیکن اماں کروٹیں بدلتی ہے۔ اس کے ابا کو بھی یہ معلوم ہے کہتے ہیں ’’اب ہمارا بیٹا بہت کم بولتا ہے پہلے ٹکر ٹکر بولتا تھا۔ جب ٹوکا جاتا تھا تب ہی خاموش ہوتا تھا۔۔ ۔۔‘‘ میں نے بوڑھی ہو کر ڈیڑھ روٹی کھائی اور وہ آدھی روٹی کھا کر دسترخوان سے اُٹھ گیا۔ مجھے اپنے بڑھاپے پر غیرت آئی کہ وہ جوانی میں کم کھاتا ہے … میں نے اپنی اس تشویش کا اظہار اس کے ابا سے کیا۔ انھوں نے کہا تمہیں بات کرنا مجھے ٹھسکا آتا ہے، بات کرنے میں دقّت ہوتی ہے۔
اترتی سردی کی کھلتی ہوئی رات ہے۔ آسمان پر مسکراتے ہوئے ستارے رقص و سرود میں مست ہیں۔۔ ۔ خنک ہوا، سبک خرامی سے موسم کی خوش گواری میں اضافہ کر رہی ہے۔ آنگن میں بچھی چارپائی پر چت لیٹا عدبد الحنان جھلملاتے آسمان کو آنکھوں میں سمیٹنے کی کوشش میں مگن ہے۔
’’بیٹا۔‘‘
’’جی اماں۔‘‘
’’میرا بڈھاپا ہے … اب کھانا مجھ سے بنتا نہیں ہے، ایک بہو لے آ۔‘‘
اس کا چہرہ فق پڑ گیا … کچھ بات نہیں بنی … منمنا کر رہ گیا اور ہونقّوں کی طرح ماں کو دیکھنے لگا۔
’’میرے کام میں ہاتھ بٹائے گی … گھر میں رونق آ جائے گی۔‘‘
’’اس عمر میں تم اتنا کام کرتی ہو۔ مجھے احساس ہے … مگر ماں میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا … (چند لمحے توقف کے بعد) عدبد المنان کی کر دو۔‘‘
’’وہ ابھی چھوٹا ہے … پھر یوں تھوڑی ہوتا ہے کہ چھوٹا بھائی کی شادی ہو جائے اور بڑا بیٹھا رہے۔‘‘
اس طرح کی ٹوکا ٹاکی کرنا اماں کا معمول بن گیا تھا۔ وہ سوچتا ہے ادھر تو اماں کا بڈھاپا اوپر سے بے حد کمزوری … ابا کی حالت بھی قابلِ رحم ہے … اپنی بیماری کی وجہ سے اماں کی مدد بھی نہیں کر پاتے … سانس ان کو چین نہیں لینے دیتی۔ سانس کا ہونا، سانس کا لینا، زندگی کی علامت ہے … لیکن ابا کے لیے موت کی علامت بن گیا ہے … لے۔ کن … لیکن موت تو حقیقت ہے، مالک حقیقی سے ملاقات کرنے کا ایک سفر … اور سفر انسان کی تقدیر ہے … کائنات میں آنا، کائنات سے جانا … ایک مقام سے دوسرے مقام تک کا سفر … تلاش، جستجو، آرزو سب ہی سفر ہی کے دوسرے نام ہیں … اور ایک رات کے آخری حصہ میں وہ ایک سفر میں نامعلوم منزل کی تلاش میں نکل پڑا … چلتے چلتے چاروں طرف اندھیرے میں گونجتی ہوئی … چُر، چُر … پھٹ پھٹ … بگ ٹٹ … کی آوازوں کے درمیان سے چپکے چپکے صبح بتدریج نمودار ہوئی … جنگل کے بیچ سے گزرتی ہوئی پگڈنڈی کے دونوں اطراف اُگے گھنے درختوں کے، چھن چھن کر آتی ہوئی سورج کی کرنوں سے کبھی کبھی آنکھیں چکا چوند ہو جاتیں … پرندوں کے چہچہانے کی سریلی سُرتال اس کے کانوں میں رس سا گھول رہی ہیں۔ ان کے رسیلے گیتوں میں تقدیس و تہلیل کی خوشبو سے اس کا ذہن معطر ہو رہا ہے۔ وہ دل ہی دل میں انسان کی ناشکری پر اظہارِ تاسّف کرتا ہے کہ رب العالمین کی توصیف بیان کرنے اور ثنا خوانی کرنے میں لاپرواہی برتتا ہے۔
چلتے چلتے شہر سے بہت دور نکل آیا ہے۔ دھوپ چاروں اطراف پھیل چکی ہے۔ پگڈنڈی سے جڑی ہوئی کالی سڑک کے دونوں اطراف لق دق میدان میں دور دور اکا دُکا شیشم کے درخت نظر آتے ہیں۔ ایک پُلیا جس کے نیچے سے چوڑی نالی نکل رہی ہے، جوٗن کی گرمی سے سوکھ چکی ہے۔ سرخ مٹی کی چٹختی ہوئی پپڑیاں پانی کی جگہ جم گئی ہیں۔ برسات میں نالا بھر کر چلتا ہے تو راہ گیروں کے لیے یہ پُلیا بڑی کارآمد ثابت ہوتی ہے … لیکن زیادہ بارش ہونے سے پانی اس کے اوپر بہنے لگتا ہے اور دور دور تک سڑک بھی پانی کے نیچے غائب ہو جاتی ہے۔ وہ تھکا ماندہ اس پُلیا پر سر جھکائے بیٹھ گیا۔ اچانک کوئی سایہ اس کے اوپر آ کر گرا، کانوں میں آہٹ سی ہوئی اس نے چونک کر دیکھا کہ وہی باریش بزرگ سامنے کھڑے ہیں۔
’’یا ارحم الراحمین کی ذات اقدس سے مایوس ہونا کفر ہے۔‘‘
’’جی … بزرگ‘‘ اس نے چونک کر کہا۔
’’خداوند تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے، جس میں دریا جیسی سخاوت، آفتاب کی سی شفقت اور زمین کے مانند ضیافت ہو۔‘‘
’’جی … ‘‘ وہ نیچی نگاہ کیے با ادب کھڑا رہا۔
’’فکر و عمل کے درمیان فاصلہ توڑنا ہے۔ عیب اپنے، نیکی دوسری کی دیکھنا ہے۔ نفس موٹا ہوتا ہے تو روح کمزور ہوتی ہے۔ سامنے کی حقیقت بھی خلاف شریعت ہو قبول نہ ہو گی۔ خارقِ عادت شے شریعت کی استقامت پر گواہ نہ ہو تو وہ مکر و فریب ہو گا۔ ظاہری طہارت بغیر باطنی طہارت کے منافقت ہے۔‘‘
’’بزرگ میرے سینہ میں آگ سی جلتی ہے لیکن میرے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے … آنکھوں کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔‘‘ اس نے اپنی افسردگی کا اظہار کیا۔
’’اس آگ کو بجھنے نہیں دیتا … اسی کی روشنی میں صراطِ مستقیم تلاش کرو۔‘‘ بزرگ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔
ایک روشنی کی لکیر اس کے جسم میں سرایت کر گئی … اس کے سحر اور سرور میں وہ ڈوب گیا جب آنکھ کھلی سامنے سے بزرگ غائب ہو گئے۔
گرمی سخت ہے، تپش کی شدت سے پسینہ میں شرابو وہ جانب منزل گامزن ہے۔ نئی توانائی کے ساتھ نہ تکان، نہ تھکن بس لگن اور جب لگاؤ ہوتا ہے تو کانٹے دار کمبل کی طرح دھوپ بھی مخملی چادر میں بدل جاتی ہے۔ وہ تیز قدموں سے سڑک پر چل رہا ہے، سامنے سے لال مٹی کی آندھی تیز رفتاری سے اس کے اوپر سخت دباؤ بنا رہی ہے۔ اس میں دھکا سا لگتا، کپڑوں کو سمیٹتا ہوا سنسان راستے سے گزر رہا ہے … دائیں ہاتھ پر قبرستان میں ہوٗ کا سا عالم ہے۔ اس کے آخری سرے پر پیاؤ کے برابر سے پہاڑ کی اونچائی کے لیے ایک چوڑا راستہ لال پتھروں سے پختہ کر دیا گیا ہے۔ چوٹی پر شاہ ابدال بابا جو پہاڑ بابا کے نام سے مشہور ہیں، کے مزار شریف پر زائرین کی بھیڑ جمعرات کی فاتحہ خوانی کے لیے جمع ہے۔ باہر دروازے سے پانچ گز دور پیاؤ کے قریب وضو خانہ پر لوگ ٹھنڈا پانی پی رہے ہیں، وضو کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مزار کے اندر داخل ہونے کے لیے تین فٹ چوڑا اور پانچ فٹ اونچا دروازہ ہے۔ لوگ دروازے سے جھُک کر نکلتے ہیں کہ کہیں ما تھا دہلیز سے نہ ٹکرا جائے۔ آنکھوں کے سامنے پہاڑ والے بابا کا مزار شریف ہے۔ بھیڑ جب کم ہوئی وہ بھی پوری احتیاط سے اندر داخل ہوا ’’السلام علیکم یا اہلِ القبور‘‘ منھ ہی منھ میں کہا۔ اور شیشم کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر خاموشی سے نظارہ دیکھنے لگا۔ عصر و مغرب کے درمیان چڑھتا سورج مغرب میں اُتر رہا ہے، اس کے چاروں طرف خون کی سرخی پھیل رہی ہے … عورتیں اور مرد ایک پلیٹ میں گلاب اور گیندے کی پنکھڑیاں ایک ہاتھ میں بتاشوں کی پڑیا لیے سر جھکائے مزار شریف جا رہے ہیں۔ سیڑھیوں پر ما تھا ٹیکتے، مزار کے گرد چکر لگاتے۔ مجاور جو مزار کے قریب ستون سے کمر لگائے بیٹھا پھولوں کی پلیٹ اور بتاشوں کی تھیلی ہاتھ میں لیتا اور ایک کنسٹر میں ڈال لیتا۔ ہر شخص فاتحہ خوانی کر کے بڑے احترام سے مزار کی جانب چہرا کیے، کمر کی طرف سے سیڑھیوں سے اُتر جاتا۔ اگر بتی اور لوبان کا دھواں مزار کے چاروں طرف پھیل رہا ہے، مجاور مور پنکھ جھاڑو زائرین کے چہروں پر مارتا۔ کبھی کبھی مزار شریف کے اوپر بڑے احترام سے لہراتا، ’’آگے بڑھو … جلدی کرو کی آواز‘‘ لگاتا … تھوڑی دیر بعد مجمع ہلکا ہو گیا۔ مجاور بتاشے اور پھولوں کی ڈلیا لے کر چلا گیا۔ مزار کی سلطنت میں سناٹے کی حکومت قائم ہو گئی … اللہ ہوٗ، اللہ ہوٗ کی آوازوں سے سناٹا سحرانگیز ہو رہا ہے۔ پُراسرار ماحول چاروں طرف طاری ہے۔ وہ ابھی تک گھنے درخت کی شاخ پکڑے خاموش کھڑا ہے۔ سامنے سبزلباس میں ملبوس شیخ ’’خانقاہ تمہاری کائنات ہے اس کے باہر جھانکا تو بھٹک جاؤ گے‘‘ کو دیکھ کر چونک گیا … شیخ نے بنا بولے اس کا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ میں لیا اور بایاں ہاتھ پشت پر رکھے۔ دھیرے دھیرے قدم دائیں جانب شانِ بے نیازی سے آگے بڑھائے اور ایک حجرے میں داخل ہوتے ہوئے ’’دنیا سے دشمنی گوشہ نشینی، مردم بے زاری، قربت الٰہی کے لیے ضروری ہے‘‘ سرگوشی کی۔
حجرے کا منظر پُراسرار سناٹے میں ڈوبا ہوا ہے۔ پکی چھت کے نیچے چار ستونوں کے نیچے مریدین درجہ بندی کے لحاظ سے دنیا مافیہا سے بے خبر اپنے اپنے ’’مرحلہ‘‘ میں غرق آنکھیں بند کیے ہیں۔ اوّل ستون سے کمر لگائے ’’ذکر بالجہر‘‘ قلب کی جانب ضرب کے ساتھ جاری ہے۔
’’قلب پر ضرب لگاتے ہوئے پوری قوت لگانی چاہیے تاکہ قلب اس کا اثر محسوس کرے اور ذہن کو یکسوئی حاصل ہو۔ یہاں ایسا عالم محسوس ہو کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز نہ مطلوب ہے، نہ محبوب، شیخ نے آہستہ سے کہا۔
اس کی نگاہ دوسرے ستون کی جانب گئی۔
شیخ نے کہا ’’ذکرِ خفی۔ پہلے مرحلہ میں عشق الٰہی کی آگ دل میں بھڑک اُٹھے گی … یہاں زبان خاموش ہو جائے گی۔ دنیا سے کلیتاً بے رغبت ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں مستغرق ہو جائے گا۔‘‘
اس نے دیکھا سالک پر محویت کا عالم طاری ہے۔
’’یہ مقام فنا کی ابتدا ہے جیسے جیسے سالک مراقبے میں پیش رفت کرے گا کیفیت کا اعلیٰ مقام حاصل کرے گا۔‘‘ شیخ گویا ہوئے۔
اس کی حیران اور ششدر نگاہ تیسرے ستون پر گئی ایک مرید کائنات اور کائنات کی ہر شے سے بے خبر ہوش و ادراک سے دور، آنکھیں بند کیے مراقبہ کی حالت میں ہے۔
’’یہ سُکر کی کیفیت … سوائے خدا کے کچھ نظر نہیں آتا‘‘ اشارتاً شیخ نے کہا۔
وہ نہایت سنجیدگی سے جذب و کیف کے عالم کو دیکھ رہا ہے … اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں، تھوڑی ہی دیر میں زار و قطار آنسو بہنے لگے۔
بزرگ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا … ’’خاموش رہنا، غم و اندوہ میں ہونا، ایک راستہ ہے سلوک کا۔ سالک کی آخری منزل حالت صحو ہے یہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ ہر عمل اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ حق تعالیٰ ہی اپنی قوت و جبروت سے اس کو بھی بخشتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر شیخ مراقبہ میں چلے گئے۔ حجرہ میں خاموشی چھا گئی فقط اللہ ہوٗ کا منظر طاری ہو گیا۔ چاروں طرف روشنی کی لکیریں تانے بانے کی مانند بُن گئیں۔
وہ سلوک کے پہلے مرحلہ کے لیے ذکر بالجہر میں شب و روز پوری ترتیب اور ضابطہ کے ساتھ مشغول ہو گیا۔ دو مہینہ کے عرصہ میں روزانہ چار ہزار ورود کے بعد ذہن اللہ تعالیٰ پر مرکوز ہوا اور عشقِ الٰہی کی آگ دل میں بھڑک اُٹھی۔ اس کمال کے حاصل ہو جانے پر ذکرِ خفی ’’اللہسمیع‘‘ ، ’’اللہ بصیر‘‘ اور ’’اللہ علیم‘‘ الفاظ کو عرشِ الٰہی سے کھینچ کر دماغ میں، پھر قلب اور پھر ناف میں، ذکر نفی و اثبات کے ساتھ کیا۔ زبان خاموش ہو گئی لوگوں سے میل جول ترک، دنیا سے بے رغبت ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں مستغرق ہونے پر اس نے اپنے کو فانی محسوس کیا، اسے لگا راکھ کے ڈھیر کو ہوائیں اڑائے دے رہی ہیں، کائنات کی ہر چیز پارہ پارہ ہو گئی ہیں، صرف حق تعالیٰ شانہٗ کی ذات موجود ہے … کائنات کی ہر شے فانی باقی ذات صرف اللہ کی۔ سلوک کی دوسری منزل میں کثرت کے تمام جلوے یک لخت مٹ گئے، عقل کھو گئی، حیران و پریشان، کائنات کی کسی چیز کا ہوش نہیں رہا اور نہ اپنی ذات کا۔ اس کوسوائے خدا کے کچھ نظر نہیں آتا … اس پر سُکر کی کیفیت طاری ہو گئی۔ جب سُکر سے اصل حالت کی طرف واپس ہوا تو اس نے خدا اور بندے کے درمیان فرق کی طرف مراجعت کی، اسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی پہاڑ کے اوپر چڑھ کر نیچے گر پڑے۔
اب وہ حالت صحو میں آ گیا ہے، اس نے محسوس کیا کہ اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ حق تعالیٰ ہی قوت عطا کرتا ہے اور وہی اس کے تمام افعال و احوال کو اپنے علم اور ارادے کے مطابق وجود عطا کرتا ہے۔
جب وہ اسرارِ الٰہی کا راز دار اور انوار الٰہی سے منور ہوا، شیخ نے خصوصی نظر کرم کی۔ اس کا دائیں ہاتھ پکڑ کر اوپر کی طرف اُٹھایا اور آسمان کی طرف اشارہ کیا ’’کیا دیکھتا ہے؟‘‘
’’اب تو یہ عالم ہے کہ عرش اور حجاب عظمت تک کی چیزیں پوشیدہ نہیں ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آنکھوں کے سامنے کوئی پردہ ہی نہیں۔‘‘ اس نے محویت کے عالم میں کہا۔
شیخ نے سبزرنگ کا لباس پہنوایا، خرقہ خلافت سے سرفراز کیا۔ ’اس شخص کو جوانی میں مقتدیان کامل کا مقام بلند حاصل ہو گیا۔‘‘
حلقہ میں بیٹھے تمام مریدین کے چہروں پر خفگی کے آثار نمایاں ہو گئے۔
’’خلافت کا عمر سے کوئی تعلق نہیں، یہ سعادت، ریاضت اور عبادت سے ملتی ہے۔‘‘ شیخ نے کہا۔
فوراً سمع کی محفل کا اہتمام ہوا۔ حمد اور نعت کی گونج میں ماحول ڈوب گیا۔ خوش گلو شخص کی پُر درد اور پُرسوز آواز سے ’’حال‘‘ کی کیفیت طاری ہو گئی۔
چند لمحے بعد، چنگ و رباب اور مردنگ کی تھاپ پر جب قوالیوں کا دور شروع ہوا تو وہ چونک کر بیدار ہو گیا۔ اچانک اس کے منھ سے نکلا ’’سماع میں ذوق، دردِ دل اور سوزِ قلب سے ہوتا ہے، نہ کہ مزامیرسے۔‘‘ نظر اُٹھائی دیکھا شیخ غیر حاضر تھے۔
اس نے مریدوں سے کہا ’’خلافِ شرع ہے‘‘ کہہ کر اُٹھ گیا … اور مزار شریف سے باہر نکل کر قصد سفر کیا اور جنگل کی جانب چل دیا۔
سڑک درمیان میں پل صراط کی طرح پڑی ہے، بائیں جانب چٹیل میدان پر آگ برس رہی ہے، سورج سوا نیزے پر اُتر آیا ہے اور سرخ مٹی شعلے اُگل رہی ہے۔ چاروں طرف مٹی کے غبار مٹی کی طرح اڑتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ دائیں جانب طویل القامت درخت صف باندھے کھڑے ہیں۔ پستہ قد رکوع میں جھکے ہیں، خنک ہوا شانِ بے نیازی سے پیر و مرشد کی طرح چل رہی ہے۔ اسے کاروبار زندگی سے کوئی مطلب نہیں، نہ دنیا سے کچھ لینا دینا۔ فقط نیک چلنی سے چلنا ہے کبھی شدہ شدہ روی سے کبھی تیز قدموں سے۔ چھوٹے چھوٹے پودے ہوا کے دباؤ سے سربہ سجود ہیں۔ برگ و بار جھوم جھوم کر درود و سلام پڑھ رہے ہیں۔ ایک عجیب و غریب کیف و سرور کا منظر ہے۔ اس نے نظر اُٹھائی، دور پہاڑ کی اودی چوٹی پر نیلی چادر کی اونچائی کوہساروں کی تنی ہوئی گردن کا غرور چکنا چور کر رہی ہے۔ عرش بریں کے سامنے آسمان گردن جھکائے دست بستہ کھڑا ہے۔ درختوں کے درمیان ایک خانقاہ کے پیچھے وسیع و عریض نہر دیکھی جس میں اشیا کی صورتیں سایوں کی طرح نظر آ رہی ہیں اور اس میں نئی نئی موجیں اُٹھ اُٹھ کر انوارِ الٰہی کے نغمے گنگنا رہی ہیں۔ اس نے خوش نما منظر کا خوب لطف اُٹھایا۔ جب اس پر سحر اور سرور کی کیفیت طاری ہوئی، سامنے باریش بزرگ اپنی خانقاہ میں مراقبہ کی حالت میں ہیں وہ دو زانو، ذرا فاصلے پر بیٹھ گیا۔ جب باریش بزرگ بیدار ہوئے ان کی نظر کیمیا اثر اس پر پڑی اور یوں مخاطب ہوئے۔
’’عقل مند کون ہے؟‘‘ بزرگ نے پوچھا۔
’’دنیا کو ترک کرنے والا۔‘‘
’’بزرگ کون ہے؟‘‘
’’جو کسی چیز سے متغیر نہ ہو۔‘‘
’’دولت مند کون ہے؟‘‘
’’قناعت کرنے والا۔‘‘
’’محتاج کون ہے؟‘‘
’’قناعت نہ کرنے والا۔‘‘
’’اس کائنات کو بے ثبات جان، جان کو بے جان، حیات عارضی، ذاتِ الٰہی باقی ہے۔‘‘ اس نے خاموشی سے گردن ہلائی۔
’’تارک الدنیا ہونا، رہبانیت اختیار کرنا، دوسرے ادیان کی پیروی ہے ورنہ اسی دنیا میں تقویٰ کے ساتھ رہ کر دنیا سے بے رغبت رہنا اصل صوفی کا مسلک ہے۔
’’جی۔‘‘
’’حیات و کائنات، تہذیب و تمدن، آفتاب و مہتاب، ستارے و سیارے سب ابتدا کی طرف واپس ہو رہے ہیں۔‘‘
’’ابھی دو دن ہی گزرے ہیں کہ روحانی لذت و حلاوت دل و دماغ پر چھا گئی ہے۔‘‘ اس نے بزرگ سے کہا۔
’’جنگل میں رہنے کے بجائے مخلوق خدا کے درمیان میں رہ۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے نیک بخت بنائے۔ انشاء اللہ تم ایسا درخت ہو گے جس کے سایہ میں مخلوق خدا آرام پائے گی اور فیض پائے گی۔ تم مجاہدہ برابر کرتے رہنا، اس سے غافل نہ ہونا۔‘‘ باریش بزرگ نے اس کے سرپر ہاتھ رکھا اور اس نے گھر کی واپسی کے لیے قصد سفر باندھا۔ نئی صبح کا سورج اندھیرے کی چادر پھاڑ کر طلوع ہو رہا ہے اور سارا منظر انوارِ الٰہی میں ڈوب رہا ہے۔
٭٭٭
بھورے سید کا بھوت
یہی کوئی دس سال کی عمر ہو گی، جمعرات کی شام تھی، امی نے چراغ جلایا۔ اگر بتیاں سلگائیں اس طاق دیوار کے سوراخ میں اڑس دیں، جس کے چھوٹے سے دروازے پر گوٹا ٹکا سبز ریشمین کپڑے کا پردہ ٹنگا تھا جہاں دکھائی کچھ نہیں دیتا لیکن گھر کے سب ہی بزرگ کہتے تھے کہ اس میں سید بابا رہتے ہیں۔ یہ معمول برسوں سے چلا آ رہا تھا کہ اگر گھر میں کوئی آفتِ نا گہانی آ جاتی تو ہفتہ واری عمل روزانہ میں تبدیل ہو جاتا اور اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ آفت سے نجات نہیں مل جاتی، پھر ایک نئے سبز رنگ کا پردہ سیا جاتا اور پرانا بدل دیا جاتا۔ ایک جمعرات کو امی اگر بتی جلانا بھول گئیں اور مجھے بہرا بھوت بخار چڑھا۔ رات کو عجیب عجیب طرح کے خواب دکھائی دئیے۔ ایک مکروہ صورت بڈھیا جس کے چہرے پر سلوٹیں، گال پچکے ہوئے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی۔ میرے سرہانے بیٹھ جاتی اور میری گردن کو پوری طاقت سے دباتی، میں چھڑا کر زینے کی جانب بھاگتا۔
بڈھیا مجھے اپنی تیز رفتاری سے دبوچ لیتی، پورے مکان میں چوہے بلی کا یہ کھیل چلتا۔ خوف کے سبب پسینہ میں شرابور ہو جاتا۔ اس کی گرفت سے نکلنا میرے لئے محال ہو جاتا، یہاں تک کہ میرے منہ سے چیخ نکل جاتی، قریب سوئی ہوئی امی چونک کر جاگ جاتی اور مجھے ہلا جھلا کر اٹھا کر بٹھاتی … جلد از جلد پانی کا گلاس لاتی اور کہتی ’’کیا ہوا؟‘‘ … میں خواب کی تفصیل سناتا … وہ مجھے سمجھاتی ’’ڈرو نہیں بیٹا … سید بابا کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں‘‘ ۔ آخر کار کافی انتظار کے بعد جمعرات آئی، اگر بتیاں جلائی گئیں۔ بتاشوں پر فاتحہ لگی اور بخار اتر گیا۔ کم عمری کمزوری کا نام ہے اس لئے حفاظتی امور کا بڑھ جانا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کیونکہ چار دہائیوں قبل انسانوں کی آبادی کم تھی اور بھوٗتوں کی تعداد زیادہ۔ جوں جوں آبادی بڑھی، بھوتوں نے شہر چھوڑ کر سنسان علاقوں کو اپنی قیام گاہ بنا لیا ہے۔ یہ باریک بات میرے اب سمجھ میں آئی ہے کہ جب سے انسان بھوٗت ہو گئے ہیں، بھوتوں نے سنسان علاقے چھوڑ دئیے ہیں۔ اس لئے وارداتیں بڑھ گئیں ہیں انسان کے خوفناک ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ وہ واردات کرتے وقت، آبادی میں بھی نہیں چوکتا۔
اس وقت میرے بزرگوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ انسانوں سے خطرات بڑھنے کے امکانات قوی ہیں۔ جب بھی خوف کا ذکر ہوا تو انہوں نے سورج طلوع و غروب ہونے، سورج کے نصف النہار ہونے اور نصف رات کے بعد بھورے سید والی گلی سے گزرنے پر پابندی لگا دی چونکہ وہاں بد روحیں رہتی ہیں۔ بھورے سید مسلمانوں کا قبرستان ہے جو پاک روحوں کی آباد گاہ ہے۔ بد روح وہی بنتی ہے جو انسان حالتِ ناپاکی میں مرے۔ مسلمان استنجا کرتا ہے۔ سنت طریقے سے غسل کرتا ہے، ہر وقت پاک رہتا ہے پھر بھی نجس حالت میں مر جائے تو گندی روح آسمان کی جانب دوڑ لگاتی ہے اور فرشتوں کے کوڑے کھاتی ہے۔ میں سوچتا بھورے سید کا قبرستان بد روحوں کا مسکن کیوں کر بن گیا۔؟
’’بار بار موت کو یاد کرنے کا ذکر، قبرستان میں دعا درود پڑھنے کا حکم کیوں ہے؟‘‘ عہد طفلی میں سوال کیا
’’سوالات کم کیا کرو؟‘‘ ایسا امی نے بولا
میں خاموش ہو گیا۔ اس بات کی مکمل احتیاط رکھی کہ ضروری کام کی وجہ سے بھی اس راستے سے کبھی نہیں گزرا کیونکہ بھوت قبرستان میں ہو یا نہ ہو لیکن میرے دل پر ضرور بیٹھ گیا تھا جو اکثر و بیشتر کسی نہ کسی موقع پر دل سے باہر نکل کر میرے چاروں طرف منڈلانے لگتا اور اس وقت تک غائب نہ ہوتا جب تک کہ طاق کے گدی نشین سید بابا کی فاتحہ خوانی ہو کر بچوں میں شیرینی تقسیم نہیں ہوتی۔
چار دہائی قبل، چاروں اطراف لق و دق میدان تھے، کھیت تھے مکان کی چھت سے اوپر کوٹ میں واقع جامع مسجد آسانی سے نظر آتی تھی، گھر کا نوکر بارہ دری بازار سے سودا سلف لینے جاتا دادی دور تک نظر رکھتی، مجال نہیں کہ نوکر اپنے فرائض سے لاپرواہی کرے۔ بھورے سید کے قریب وسیع و عریض میدان تھا۔ میدان میں ہڈی کا گودام، ہڈی کا گودام نیم کے درختوں سے ڈھکا تھا۔ حمید صاحب کے نزدیک لحیم شحیم نیم کے درخت پر اکثر مغرب کے آس پاس اور شب و روز کے بارہ بجے کے درمیان چھم چھم چھم چھن چھن چھن کی آواز آتی تھی۔ مذکورہ اوقات میں بچوں کی مجال کیا بڑے بھی گزرنے سے ڈرتے تھے … حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آواز سب ہی کو سنائی دیتی تھی لیکن دکھائی صرف ان کو دیتی جن پر وہ عورت سوار ہو جاتی تھی۔ بزرگوں نے بتایا نیم کے درخت کے نیچے ایک چھوٹی سے کٹھریا میں ایک مہتر اور مہترانی کافی عرصہ سے رہ رہے تھے محلے کی خدمت گزاری کے عیوض رہنے کے لئے جگہ دیدی گئی تھی … ویسے بھی نیچ ذات کو کون منہ لگاتا ہے؟ یہ بد نصیب لوگ، گوشت خوری کی نسبت سے یا مسلمان گندی قوم کہلانے کی وجہ سے کثیر مسلم علاقوں میں ہی ملیں گے خیر وجہ جو بھی ہو بہر حال وہ جوڑا بہت خوش و خرم تھا۔ عورت خوبصورت ہو تو مہترانی بھی رانی ہو جاتی ہے۔ مجھے خوب یاد ہے رادھے شیام گپتا جی جو چھوٗت چھات کے بے حد قائل تھے۔ پیاز کے چھلکوں پر دھرم بھرشت ہو جاتا تھا مگر مہترانی ان کے دل کی مہارانی تھی۔ ایک رات کے اندھیرے میں لوگوں نے ان کو اس حالت میں پکڑا تھا۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان جنس اور جسم کا فرق مٹ جاتا ہے۔ دن میں گپتا جی کے چھونے کی، بات دور کی سایہ پڑنے سے بھی اَپوتر ہو جانے پر اشنان کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن اچانک سوبر(ڈلیوری) کی حالت میں زچہ بچہ دونوں ہی مر گئے … گویا ناپاکی کی حالت میں وہ آنجہانی ہو گئی اور آخر کار وہ گندی روح، چڑیل بن گئی جو دیکھنے میں مہترانی کی طرح خوبصورت تھی، میٹھی میٹھی باتوں میں پھسلا کر انسانوں سے خصوصی طور سے مردوں سے اپنے پرانے حساب چکاتی۔ لوگ کہتے ہیں چونکہ اس کے خوبصورت جسم پر مردوں نے بدصورت نگاہیں ڈالی ہیں، اپنے بستر گرم کئے ہیں اس لئے ایک ایک لمحہ کا بدلہ لینے کے لئے وہ درخت سے اترتی ہے۔ آج تک میری یہ سمجھ میں نہیں آیا معاملہ جب راضی با رضا کا ہوتا تو بدلہ لینے کی کیا تک ہے؟ اسمیں مردوں کا کیا قصور؟ مگر قصور تو اس عورت کا بھی نہیں چونکہ جوانی اور خوبصورتی کا امتزاج ایک ایسا طوفان برپا کرتا ہے کہ انسانی قدریں اور مذہبی دیواریں سب ٹوٹ جاتی ہیں۔ مردوں کو جب کوئی خوبصورت عورت رجھاتی ہے تو وہ عورت کے پیروں کو نہیں دیکھتا کہ وہ پیچھے مڑے ہیں، یا پیٹ کی جانب مڑے ہیں بہکے قدم سے کیا لینا دینا عورت تو پھر عورت ہے۔
نیم کے درخت کی شاخیں حمید صاحب کے مکان کی طرف جھکی تھیں، چڑیل کا سایہ ہونے کے سبب مرد نکمے ہو گئے، گھر میں لڑکیاں کیا جوان ہوئیں، چڑیل کا شکنجہ کس گیا۔ آئے دن دورے پڑنا اس گھر کا معمول بن گیا تھا۔ شب و روز کے درمیان کسی بھی وقت ’’ہائے ہائے‘‘ کی آوازیں دیواریں پھوڑ کر کانوں میں داخل ہونے کے لوگ عادی ہو گئے تھے۔ چڑیل کیا چاہتی تھی، کسی کو پتہ نہیں تھا۔
ایک روز حمید صاحب کی بڑی بیٹی کو بیہوشی کا شدید دورہ پڑا … ’’ہائے ہائے آئیں آئیں … ہائے ہائے‘‘ کی درد انگیز صدائیں آ رہی تھیں۔ ان کے گھر میں خاندان اور محلے والوں کا ہجوم تھا۔ کمرے میں پٹ لیٹی سدھ بدھ کھوئے ہوئے تھی، بال بکھرے ہوئے تھے۔ قریب ہی قاری صاحب کے بیٹے عدبد الرحمن گدی نشین کسی سریع الاثر عمل کا ورد کر رہے تھے۔ استاد کی اجازت سے وظائف اور عملیات پر مکمل عبور حاصل کرنے کے بعد۔ اس پیشہ میں مہارت اور مقبولیت حاصل کر لی تھی، جس طرح استاد کے حجرہ میں بیماروں کی بھیڑ رہتی تھی اسی طرح عبد الرحمن کے کمرے میں جماؤ رہتا۔ قاری صاحب نے عبد الرحمن کو بیٹے کی طرح پالا تھا زندگی بھر استقرارِ حمل کے تعویذ دیتے رہے لیکن برائے امساک خود کو کوئی تعویذ کارگر ثابت نہیں ہوا یہ مشہور ہے کہ کوئی ڈاکٹر اپنا علاج نہیں کر سکتا کچھ ایسا ہی حال بزرگ قاری صاحب کا تھا۔ مولوی عبد الرحمن کی بزرگی کا کارنامہ دیگر لوگوں کی طرح میں بھی کمرے کے باہر حواس باختہ سن رہا تھا۔
’’کون ہو تم؟‘‘
’’میں … م … یں … دلاری ہوں‘‘ منمنانے کی آواز
’’کہاں سے آئی ہے‘‘
’’ہڈی کے گودام سے‘‘
قریب بیٹھے ایک شخص نے دوسرے کے کان میں آہستہ سے کہا ’’بڑے پہونچے ہوئے ہیں … ‘‘
’’میں نے سنا ہے کہ رات کے بارہ بجے کے بعد شاہ جمال کے قبرستان جا کر ہفت پیکر کا برسوں وِرد کر کے موکل قبضہ میں کیا ہے‘‘ دوسرے شخص نے جواب دیا
’’جاتی کیوں نہیں‘‘ چیخنے کی آواز
’’نہیں جاؤں گی … یہ لڑکی مجھے اچھی لگتی ہے‘‘ منمنانے کی آواز
’’تو عورت ہو کر، عورت سے عشق کرتی ہے، بے حیا … بے شرم‘‘
مرد بھی تو مرد سے عشق کرتے ہیں‘‘ منمنانے کی آواز
’’تجھے کوئی حق نہیں؟‘‘
’’انسانوں کو حق ہے‘‘؟ استفہامیہ انداز
یہاں مولوی صاحب چاروں خانے چت دکھائی دئیے، آواز میں لکنت تھی، گھگھیاتے ہوئے بڑے مشکل سے بولے، ’’تو کیوں ستا رہی ہے‘‘ ۔
’’جب انسان انسان کو ستاتے ہیں، تو دنیا تماشہ دیکھتی ہے‘‘ منمنانے کی آواز
انسانی تہذیب پر یہ کاری ضرب مجھے برداشت نہیں ہوئی۔ میں نے کمرے میں جھانک کر دیکھا منظر وہی تھا مولوی صاحب زبان زد وظیفہ پڑھ پڑھ کر ہاتھوں پر پھونکتے اور سر سے کمر، کمر سے پیروں تک ہاتھ پھیرتے۔ لڑکی کبھی کبھی گردن اٹھا کر بولتی اور ٹھوڑی زمین پر رکھ دیتی … تھک جاتی تو چت لیٹ جاتی … ہائے ہائے کی آواز سے کمرا بد ستور گونج رہا تھا … ہائے ہائے بند ہونے پر خاموشی طاری ہو جاتی۔ کم عمر میں اس قدر خوفناک منظر کو دیکھنا مرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ پتہ نہیں میرے جسم کے کون سے حصّہ میں گدگدی کا احساس ہو رہا تھا؟ یہ گدگدی بھی بڑے ہی عجیب شے کا نام ہے، زندگی ایک معمہ ہے تو گدگدی بھی ناقابل بیان دیوانہ کا خواب ہوتی ہے۔ لیکن چڑیل بھوت اور آسیب کی بھی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔ ان کے اتحاد کا اس سے بڑا نمونہ اور کیا ہو گا کہ یہ مخلوق آپس میں کبھی نہیں لڑتی، ان میں اتفاق ہوتا ہے نہ کینہ و حسد۔ ان کی کائنات میں اصلاح کے لئے نہ کوئی مسیحا آیا، نہ مدر ٹریسا اور نہ ہی کوئی امن کا دیوتا سوائے سلیمان علیہ السلام کے۔ اور انسانوں کی اصلاح کے لئے آدم علیہ السلام سے پیارے نبی تک لاکھوں نبیوں کا ایک سلسلہ ہے۔
تین دہائی قبل، میں جوان ہو گیا تھا۔ دوستوں کے ساتھ ادھر ادھر گھومنا، موج و مستی کرنا، ہواؤں میں اُڑنا، لڑکیوں کو تاکنا، خواب و خیال کی دنیا سجانا۔ اب رات میں کوئی مکروہ صورت عورت نہیں ڈراتی تھی، لیکن خواب میں خوبصورت لڑکیاں آتی تھیں، یہ خواب جاگتی آنکھوں کے تھے، یہ خواب سوتی آنکھوں کے تھے۔ فکر اور عشق جیسے امراض راتوں کی نیند چھین لیتے ہیں۔ ایک رات اپنی محبوبہ سے ملاقات کر کے امیر نشان سے آ رہا تھا … عشق کی عظمت اور قوت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ امی کی سخت ہدایت کے باوجود بھی رات میں لال ڈگی روڈ سے گزرنا عشق کی مجبوری تھی، جہاں نٹ رہتا تھا جو صرف مردوں کو پریشان کرتا تھا۔ چونکہ عشق بھی ایک بھوت ہوتا ہے جب وہ سر چڑھ کر بولتا ہے تو اس کی تپش سے آ ہنی دیواریں بھی سیال ہو جاتی ہیں۔ رات سنسان اور بھیانک تھی۔ لال ڈگی سڑک کالے اژدھے کے مانند پڑی تھی، سخت سردی سے سڑک کے دونوں کنارے پر کھڑے درخت آسمان پر لگے ستاروں کی طرح ٹھٹر رہے تھے جب ستارے ٹھٹرتے ہیں تو تقدیر بھی سکڑ جاتی ہے۔ سڑک کے دائیں طرف گڈھے میں بھرا پانی سنگھاڑوں کی بیلوں سے سیاہ مائل ہو رہا تھا۔ اسی جانب تانگہ کے قریب ایک شخص کالا کمبل اوڑھے سردی سے سکڑ رہا تھا
’’تانگہ خالی ہے‘‘
’’ہاں بابوجی … بیٹھو‘‘
تانگہ سڑک پر دوڑنے لگا … کھٹ کھٹ بگ ٹٹ پگ ٹٹ کی آوازیں خاموشی کو توڑ رہی تھیں منظر کی خوفناکی وصل محبوب کے سرور میں دھندلی ہو گئی اچانک عشق کا طلسم اس وقت ٹوٹ گیا جب کوچوان کے بائیں ہاتھ پر نظر گئی جسمیں لگام تھی۔ عجیب بھیانک ہاتھ جس پر بڑے بڑے بال اگے ہوئے تھے سیاہ ہاتھ پر لمبے لمبے ناخون
’’یہ کیا‘‘؟ اچانک میرے زبان سے نکلا
کوچوان نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کا کمبل اتر چکا تھا … لمبوترا چہرہ، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، دانت بڑے بڑے، اس مکروہ چہرے کو دیکھ میں خوف زدہ ہو کر بیہوش ہو گیا۔ پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔ میں کہاں چل رہا ہوں؟ کس طرح گھر آیا؟ … سخت ترین بخار میں مبتلا ہو گیا، دہشت زدہ چہرہ زرد پڑ گیا … جسم لاغر ہو گیا۔، ڈاکٹر اور حکیم کو دکھایا، جوں جوں علاج ہوا، مرض بڑھتا گیا … سب جتن کر لئے گئے مگر افاقہ نہ ہوا۔ آخر کار شہر کے مشہور اور قیمتی ڈاکٹر سمیع حمید کو دکھایا گیا۔ بڑے دلچسپ اور پُر مذاق انسان تھے، اندازِ گفتگو ایسا کہ مرض آدھا رہ جائے۔ نہایت زندہ دل اور بے تکلف تھے۔ شراب کے بے حد شوقین تھے، مشہور تھا کہ بغیر پیئے مریض کو دیکھتے نہ ہی آپریشن کرتے ان کے پیشے کے ساتھ شراب ایسے گھل مل گئی تھی کہ مریضوں کو ان کے پیشہ پر اسی وقت اعتبار ہوتا جب وہ نشہ میں ہوتے۔
’’بہت دن کے بعد آئے‘‘ انہوں نے اس انداز سے کہا جیسے کوئی پرانی آشنائی ہو۔
’’ڈاکٹر صاحب، کتنے ہی ڈاکٹروں اور حکیموں کو دکھا دیا‘‘ والد صاحب نے کہا
’’تو مرض بڑھا کر آئے ہو‘‘ ڈاکٹر صاحب نے نبض ہاتھ میں لی اور میرے چہرے کو بغور دیکھنے لگے۔
’’ڈاکٹر صاحب میں نے ’مولوی‘ سیانا، پنڈت کو بھی دکھایا، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا‘‘ والد صاحب نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا
’’گھبرائیے نہیں، مرض کا علاج ڈاکٹروں کے پاس ہوتا ہے‘‘
’’ڈاکٹر صاحب جب ہر طرف سے مایوسی ہوتی ہے تب ہی انسان فلیتے اور تعویذوں پر یقین کرتا ہے‘‘
’’اس کے بعد خدا یاد آتا ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب مسکرائے
’’لال ڈگی کا میں ہی تو نٹ ہوں‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب اتنا زور سے ہنسے کہ مطب گونج گیا
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے، کیوں مذاق کر رہے ہیں آپ؟‘‘ والد صاحب نے انکساری سے کہا۔
’’تمہیں معلوم ہے، جب انسان پر دولت کمانے کا بھوت سوار ہوتا ہے تو وہ خود بھوت بن جاتا ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے یقین دہانی کرائی
ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ان کے مزاج کے عین مطابق تھی اس لئے ہمارے لئے قابل یقین نہیں تھی چونکہ بہت سے امراض کے علاج انسان کی نفسیات سے جُڑے ہوتے ہیں۔ شاید اسی لئے انہوں نے اپنے نٹ ہونے کا اقرار کیا۔ بہر حال میرا علاج ہوا اور مجھے شفا ہوئی اور یہ شفا میرے نصیب میں تھی یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں تھی۔ امی نے سید بابا کے سامنے منت بولی تھی تین جمعراتوں کو حلوے پر فاتحہ لگی اور اگر بتی متواتر ہر روز جلی۔ سید بابا کے سامنے ڈاکٹر صاحب کی حیثیت ہی کیا ہے۔ سید بابا خدا کے نیک بندے اور ڈاکٹر صاحب ایک دنیا دار انسان، اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ سید بابا کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ عام خیال یہ تھا کہ سید بابا نے ایک ہفتہ کے اندر رو بہ صحت کر دیا … ان کی عظمت پر اعتماد پختہ تر ہو گیا۔
اب سے دو دوہائی قبل میری عمر تقریباً تیس سال کی ہو گی۔ شادی، تعلیم، مشاہدہ اور تجربوں نے سوچ و فکر میں سنجیدگی پیدا کر دی تھی۔ میں نائٹ شو دیکھ کر بھورے سید والی سڑک سے لوٹ رہا تھا۔ جیسے ہی سبزی فروش والی مسجد عبور کی قبرستان کی سر حد میں داخل ہوا۔ عجیب ہو کا عالم تھا۔ چاروں طرف سناٹے کو میرے قدموں کی چاپ توڑ رہی تھی۔ لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی تعاقب کر رہا ہو۔ مڑ کر دیکھا دور تک سڑک کالے بھوت کی طرح پڑی ہوئی تھی۔ آدم نہ آدم زاد۔ دو فرلانگ لمبی سڑک کی مسافت اسقدر طویل ہو گئی تھی کہ پیروں میں سمٹنا مشکل ہو گئی تھی۔ قدم بہت بھاری ہو گئے تھے۔ اچانک کھڑ کھڑ کھڑ کی آواز آئی … چونک کر چاروں طرف دیکھا۔ بائیں جانب گو تم تیاگی اسکول کے آ ہنی گیٹ پر نظر گئی وہ ہل رہا تھا … کھٹک کی آواز سے سنّاٹاٹوٹ گیا۔ ایک اینٹ اتنی زور سے گری کہ میں خوف زدہ ہو گیا۔ شاید بلی کودی ہو … قدموں کی آواز پر کتے بھونکنے لگے … سنسان سڑک کے خاموش منظر کو کھڑ کھڑڑ ڑ اور بھوں بھوں اوں اوں کی آوازوں نے بہت خوفناک بنا دیا تھا … دائیں جانب قبرستان میں اگے پیپل کے درخت سے چھُن چھُن چھُن کی آواز نے چونکا دیا … سوچنے لگا چڑیل ہڈی والے گودام میں نیم کے درخت پر رہتی ہے … یہاں کیسے آ گئی؟ چند لمحے میں چھن چھن کی آواز کو پھڑپھڑاہٹ نے چاٹ لیا۔ پرندے ادھر سے ادھر اڑ رہے تھے۔ خوف میرے جسم میں سرایت کر گیا تھا۔ بدن میں کپکپاہٹ پیدا ہو گئی۔ سخت سردی پڑنے کے باوجود پسینہ کی بوندیں پیشانی اور مونچھوں پر ابھر آئیں … میں گھبرایا ہوا سڑک پر چل رہا تھا۔
اچانک میری نظر دُور سامنے گئی ایک کالا سایہ جس کی لمبائی تقریباً چالیس گز ہو گی یہ حساب میں نے اس طرح لگایا کہ مرحوم عبد الاحد کے مکان سے شروع ہو کر رشید ٹھیکیدار کے کارخانہ تک ختم ہو رہا تھا … وہ سایہ آگے کی جانب جھُکا … اس کی لمبائی سکڑ گئی … اس کا دایاں ہاتھ مڑا … اچانک ہاتھ کا سایہ کی لمبائی پھر بڑھ گئی … ہاتھ میں کوئی بھاری پتھر سا محسوس ہوا … خوف اور سردی سے جسم پر لرزہ طاری تھا … چُرمُر … چُرمُر … کی آواز سن کر پیچھے مڑ کر دیکھا … لال ڈگی کا نٹ سر پٹ سر پٹ پیچھا کر رہا تھا۔ پیپل کے درخت سے چھُن چھُن کی آواز میرا تعاقب کر رہی تھی۔ ہڈی والے گودام کی چڑیل میری پشت پر منمنا رہی تھی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی، کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ بھاگنے کی کوشش کی لیکن قدم بھاری ہو گئے تھے۔ سامنے نظر گئی وہ کالا سایہ نالی کے قریب کھڑا تھا اس کے دونوں ہاتھ ستر پر رکھے تھے … اچانک سایہ اسقدر سکڑ گیا جیسے غایب ہو رہا ہو۔ ایسے بھیانک منظر کو دیکھ کر حافظہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے … بہت کوشش کے بعد یاد آیا پیارے حبیب پر جب سخت جادو کر دیا گیا تھا تو معوذ تین نازل ہوئی تھیں۔ میں نے زور زور سے وِرد شروع کر دیا … اس کی برکت سے سایہ وہیں جامدوساکت کھڑا ہو گیا … قدم تیزی سے پوری کوشش کے ساتھ آگے بڑھائے … قبرستان پیچھے رہ گیا اور مرحوم عدبد الاحد کے مکان سے دس قدم پیچھے ہی تھا۔
’’بشیر صاحب اتنی رات گئے کہاں سے آ رہے ہیں‘‘ فضا میں ایک آواز گونجی خوف کی وجہ سے میری گھِی گھِی بن گئی۔ چاروں طرف نظر دوڑائی جواب دینے کے بجائے میرے اوپر سکتہ سا طاری ہو گیا۔
وہ سایہ دو قدم آگے بڑھا … میرے شانہ کو زور سے حرکت دی ’’کہاں کھو گئے میں آپ ہی سے پوچھ رہا ہوں‘‘
’’ہوں‘‘ میں نے چونک کر دیکھا ’’ارے سعید صاحب آپ ہیں‘‘
’’ہاں، پیشاب کرنے آیا تھا … آپ کو دیکھ کر رُک گیا‘‘
ایک ہی لمحہ میں وہ خوفناک منظر میری نگاہوں سے غائب ہو گیا اور سوچنے لگا ڈاکٹر سمیع حمید کے مرنے کے بعد لال ڈگی کا نٹ بھی مر گیا تھا۔
٭٭٭
دو سال بعد
سورج جو نیزوں کی نوکوں پر کھڑا ہو کر اعلان کرتا ہے کہ پوری کائنات کو جلا کر ہی دم لوں گا۔ ہوا بھی یوں ہی آسمان اور زمین بھی سرخ ہو کر جب کالی ہو گئی تو وہ خود بھی جل کر سیاہ مائل ہو گیا۔ آسمان میں ستارے خاک میں دبی ہوئی چنگاریوں کی طرح چمک رہے تھے لیکن رنگ۔ او۔ بیل (Ring-O-Bell) ہوٹل روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ ٹیوب لائٹ کی ٹھنڈی روشنی ہوٹل میں بیٹھے لوگوں کو گرما رہی تھی ٹیبل اور چیرس کے درمیانی گیلریوں مکیں نیتا ادھر ادھر اسٹرپ کر رہی تھی۔ اس کے جسم کی تھِرک کے ساتھ دیکھنے والوں کی گردنیں بھی تھِرک رہی تھیں اور میزوں کے نیچے رکھے ہوئے تقریباً تمام پاؤں حرکت کر رہے تھے۔ ہر آنکھ اس کے کولھو اور پستانوں پر رکھی تھیں اور وہ ان سب کا بوجھ اٹھائے بڑی مستی میں رقص کر رہی تھی۔ جیسے ہی ٹیوب لائٹ اور بلبوں نے اپنے اپنے چہروں پر نقاب ڈالے ہوٹل میں سب نے سنا ’’کم آن ایور بڈی‘‘ (Come on every body)۔ سب لوگ کرسی اور میزوں کے درمیان سے نکل چکے تھے۔ ہال کے اندھیرے کو سانسوں کی گرمی پگھلا رہی تھی۔ اور جب اندھیرا پگھل چکا تو لوگوں نے جسموں کی بو محسوس کی۔۔ ۔ لڑکیوں کے ہونٹوں کی ہلکی ہوتی ہوئی لپ اِسٹک دیکھی۔ کچھ مرد اپنی گردن، کچھ اپنے ہونٹ، کچھ اپنے رخساروں کو رو مال سے رگڑ رہے تھے۔ اور وہ تنہا ریسٹورینٹ کے ایک کونے میں کھڑی تھی۔ اس کے سرد ہونٹوں پر لپ اسٹک ابھی گہری تھی۔
’’ہیو آئی ڈرنک (Have I drink)‘‘ ۔
بائیں میز پر بیٹھے نوجوان نے پیک بنایا ’’اوہو یس ( Oh...Yes)‘‘
لڑکی نے پیگ غٹ غٹ پی لیا۔۔ ۔ اور میز کے دوسری طرف بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے سگریٹ لی ایک کش لے کر اس کے چہرے پر دھواں پھینک دیا۔ نوجوان نے اپنی آنکھوں کو بار بار بند کیا اور کھول دیا دونوں آنکھیں جن میں نشہ قید تھا۔۔ ۔ پانی بھر گیا۔
’’اوہ ساری (Oh, Sorry) شاید آنکھوں میں دھواں لگ گیا‘‘ لڑکی نے اس کے چہرے کے چاروں طرف ہاتھ ہلانا شروع کر دیا اور اس کے بائیں ہاتھ کو اپنی مٹھی میں دبا کر ’’چلو، باہر بیٹھیں گے۔۔ ۔ یہاں درمیان میں میز۔۔ ۔ اور شور ہے اور مجھے دیوار سے نفرت ہے‘‘
نوجوان اٹھا۔۔ ۔ دونوں باہر لان میں آ گئے
’’آؤ۔۔ ۔ اشوک کے درخت کے نیچے سمنٹ کی کرسی پر بیٹھیں گے‘‘
لڑکے نے اشارہ کیا
’’نہیں‘‘
’’کیوں‘‘
’’اشوک، سکندر، اکبر یہ سب دکتیٹر تھے‘‘
’’تمہیں ہسٹری سے دلچسپی ہے‘‘ نوجوان کا استفہامیہ انداز
’’ہاں ہسٹری میرا سبجیکٹ رہا ہے مگر بڑا بورنگ۔۔ ۔ مجھے بزرگوں سے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے کہ زندگی بھر طوائفوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔۔ ۔ اور بڑھاپے میں رامائن کا پاٹھ کرتے ہیں ض‘‘ لڑکی نے کہا
’’ہاں اپنے آپ کو دہراتے ہیں‘‘ نوجوان نے گردن ہلائی۔
’’میں نہیں چاہتی کہ میں بھی اتہاس کا کوئی سیاہ پنّا بن کر دیمک کی خوراک بنوں۔۔ ۔ اس نے سوئٹر کے اوپر کے دو بٹن کھولتے ہوئے نوجوان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
نوجوان نے دونوں بٹنوں کو لگایا اس کی چھنگلی انگلیاں لڑکی کی گردن کو چھو گئیں اور انگوٹھے گردن کے نیچے مس کر گئے۔۔ ۔ ’’سردی پڑ رہی ہے۔۔ ۔ دیکھو ستارے بھی ٹھٹر رے ہیں‘‘ نوجوان نے آسمان کی طرف اشارہ کیا
لڑکی نے نوجوان کی آنکھوں کا تعاقب کیا ’’نہیں۔۔ ۔ سو رہے ہیں۔ اور اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ’’میری ہتھیلیاں جل رہی ہیں۔۔ ۔ اس نے جلدی سے اس کا ہاتھ اپنے دائیں رخسار پر رکھ لیا۔ اس کے سرخرخسار دہک رہے تھے۔ لان میں سردی پڑ رہی تھی۔۔ ۔ اشوک کے پتّے سُکڑ رہے تھے اور ٹیوب لائٹ ٹھٹھر رہی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں اس کے چہرے کو بھر لیا اور اس کے ہونٹوں کا، اس کی ٹھوڑی کے درمیانی دائرے کا اور اس کی گردن کا کس ( Kiss) کیا۔ لڑکی اس کی باہوں میں سمٹ گئی۔ بالوں میں بندھا رِبِن جو نیلے رنگ کا تھا نیچے گر گیا۔ لڑکی انتظار کرنے لگی
نوجوان نے اس کو اٹھایا اور اس کی گردن میں ڈال کر اپنی جانب جھٹکا دیا ’’میں تمہیں ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا ہے۔۔ ۔ وہ کیا کہے گا؟‘‘
’’ہاں۔۔ ۔ کبھی کبھی گناہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔۔ ۔ میں نے پہلی بار، پہلا گھونٹ، پہلا کش لیا۔۔ ۔ ا۔۔ ۔ و۔۔ ۔ ر۔۔ ۔۔ ۔ پہلا۔۔ ۔۔
’’۔۔ ۔۔ کِس(Kiss) کیا‘‘ نوجوان نے مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
’’تمہاری آنکھیں بڑی گہری ہیں‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔ وہ بھی یہی کہتا تھا۔ یہ ادیب اور شاعر بھی مجھے بہت بُرے لگتے ہیں۔ یہ جب بھی بات کرتے ہیں۔۔ ۔ صرف مردوں کی کرتے ہیں۔۔ ۔ کبھی وہ ہمارے اندر بھی اترتے ہیں؟‘‘
’’وہ لڑکا بہت شریف ہے‘‘ نوجوان نے کہا
’’اس لیے تو مجھے اچھا نہیں لگتا‘‘
’’اچھا نہیں لگتا‘‘ نوجوان نے تعجب کا اظہار کیا
’’ہاں۔۔ ۔ ہاں اچھا ہے۔۔ ۔ اسی لیے میری چغلی کھائے گا میرے بیوروکریٹ باپ سے‘‘
’’بٹ آئی ایم ناٹ اے گڈ مین ’’( but, I am not a good man)‘‘
’’سو آئی لائک یو میں (so, I like you man)۔۔ ۔ وہ لوگ جو سمندر کے کنارے بیٹھ کر لہروں کا کھیل صرف آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ مجھے اچھے نہیں لگتے‘‘
’’مطلب‘‘ نوجوان نے چونکتے ہوئے پوچھا
’’جبکہ میری آنکھیں جھیل جیسی گہری ہیں۔۔ ۔ اس نے کہا تھا۔ تو پھر نہ ڈوبنے کی وجہ‘‘ ۔
نوجوان مسکرایا۔۔ ۔ لڑکی بھی مسکرائی ’’ذرا سوچو وہ میری آنکھوں میں خواب سجانے کی بھی بات کرتا ہے۔۔ ۔۔ اور یہ بھی کہتا ہے تمہاری آنکھیں جھیل کی طرح گہری ہیں۔۔ ۔ تو پھر خواب ڈوب نہیں جائیں گے؟‘‘
نوجوان نے قہقہہ لگایا ’’ہاں خواب تو۔ پھر خواب ہوتے ہیں‘‘
’’کیا کہتا ہے تمہارا بیوروکریٹ باپ؟‘‘ نوجوان نے قدرے سنجیدگی سے پوچھا
’’وہ کہتے ہیں زندگی تمہاری ہے۔ مگر سانسیں ہماری ہیں۔۔ ۔ اگر بٹوارہ ہوا تو میرا جسم تو میرا ہی ہوا نا۔۔ ۔ تم سمجھ رہے ہو نا‘‘
’’وہ لڑکا میرے بارے میں سوچے گا؟‘‘
’’وہ تم سے نفرت کر رہا ہو گا‘‘ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا
’’وہ لڑکا سے نفرت کر رہا ہو گا‘‘ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا
’’یہ اسی کا حق ہے۔ کیوں کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے‘‘
لڑکی کو ہنسی آ گئی۔۔ ۔ نوجوان نے بھی اس کی ہنسی کا ساتھ دیا
لڑکی کے بال اس کی گردن پر رقص کرنے لگے۔۔ ۔ بالوں سے پرفیوم کی خوشبو پھوٹنے لگی۔ نوجوان نے اپنی ناک اس کے بالوں پر رکھ دی۔۔ ۔ لڑکی نے اپنی پیشانی نوجوان کی پیشانی پر رکھ دی
’’لڑکا اور کیا کہتا ہے؟‘‘
’’لڑکا نہ اپنے بارے میں کچھ کہتا ہے۔۔ ۔ نہ ہی میرے بارے میں۔۔ ۔ کچھ کہتا ہے تو صرف کیٹس کے بارے میں۔۔ ۔ شیلے کو پسند کرتا ہے۔۔ ۔ اور کہتا ہے ٹیگور کی گیتانجلی‘‘ ۔۔ ۔ ملٹن کی پیراڈائز لاسٹ‘‘ دونوں عظیم کتابیں ہیں‘‘
’’یہ کیٹس نے کہا تھا نہ بیوٹی اِز ٹو سی، ناٹ ٹوٹچ(Beauty is to see not to touch) نوجوان نے کہا
’’ہاں اچاریہ رجنیش نے کچھ اسی انداز میں دوسری بات کہی ہے ’’انسان جسموں سے گزر کر ہی ابدی حُسن تک پہنچتا ہے۔۔ ۔ تب ہی انسان اور بھگوان کے درمیان کوئی انتر نہیں رہ پاتا۔۔ ۔۔
’’اچاریہ رجنیش تمہیں متاثر کرتا ہے‘‘ نوجوان کا استفہامیہ انداز
’’لڑکا جینس ہے‘‘
’’جینس تو فرائڈ بھی تھا اور اس سے پہلے واتسائن بھی۔۔ ۔ میراجی بھی کم جینس نہیں تھے‘‘
نوجوان مسکرایا ’’تم فہرست غلط بنا رہی ہو۔ کارل مارکس نے پیٹ تک کی بات کہی ہے۔ اور پیٹ کے بعد کی بات فرائڈ نے کہی ہے۔۔ ۔ ایم آئی رانگ( Am I wrong)‘‘ نوجوان نے کہا
’’اوہ نو ڈارلنگ یو آر آبسیولیٹلی رائٹ (Oh no, darling, you are absolutely Right) اس طرح انسان کی تھیوری مکمل ہو گئی۔ اب کائنات کو تیسرے جینیس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور میرا بیورو کریٹ باپ تیسرا جینیس منوانے پر تُلا ہوا ہے‘‘ لڑکی نے غصّہ میں کہا۔ اور کہہ کر خاموش ہو گئی۔۔ ۔ چاروں طرف نظر ڈالی۔۔ ۔ خاموشی پَر پھیلائے تھی۔۔ ۔ اس نے نوجوان کی خاموش آنکھوں میں جھانکا۔ ’’تم ہر درجہ میں فرسٹ پاس ہونے کی محنت کرو‘‘ لڑکی بولی
’’اگر فرسٹ پاس ہوتا تو میں ایک اچھا انسان ہوتا۔۔ ۔ تھوڑی دیر وقفہ کے بعد۔ میرا گناہ کرنے کو جی چاہتا ہے‘‘
’’میرا بیوروکریٹ باپ کہتا ہے ’’وہ لڑکا ہمیشہ فرسٹ آتا ہے۔ یقیناً کسی دن افسر بنے گا۔ یعنی بیوروکریٹ۔۔ ۔ اینڈ آئی ہیٹ نیپولین، ہٹلر، مسولینی۔۔ ۔۔‘‘ لڑکی نے نوجوان کے قہقہہ کا ساتھ دیا۔۔ ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔ ۔ اور دیکھتے رہے یہاں تک کہ دور تک ابدی حسن کی تلاش میں نکل گئے۔۔ ۔ جہاں بھگوان حسن ہوتا ہے۔۔ ۔ کائنات حسن ہوتی ہے۔۔ ۔ اور بھگوان اور انسان میں کوئی انتر نہیں ہوتا۔۔ ۔ انسان بھگوان ہوتا ہے۔۔ ۔ انسان حسن ہوتا۔۔ ۔ صرف انسان۔۔ ۔ حسن۔۔ ۔ حسن۔۔ ۔ انسان۔۔ ۔ حسن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
-------------
نوجوان دو سال بعد ہندوستان واپس ہو رہا تھا۔ اپنے دیش کی سوندھی سوندھی مٹی کی سُگندھ کے احساس سے ذہن ایک عجیب طرح کی فرحت و تازگی محسوس کر رہا تھا۔ وہ زیرِ لب مسکرایا اور سامان پیک کرنے میں مصروف ہو گیا۔ میز پر رکھی ہوئی البم پر نظر گئی جس میں جرمنی کے خوبصورت لمحات قید تھے۔ باتھنگ کاسٹیوم میں ملبوس دو شیزہ کے ہاتھ پاؤں پر انگلی پھیری۔۔ ۔ جو چکنے اور دبیز تھے اسے لگا جیسے تصویر مسکرانے لگی۔۔ ۔ ’’تم انڈیا جا رہا ہے‘‘
’’یس‘‘ دو روز قبل اس نے کہا تھا
’’ام بی چلے گا‘‘ دو شیزہ ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی بولنے لگی تھی
’’تمہاری آنکھیں سمندر کی طرح نیلی اور گہری ہیں‘‘ اس نے گفتگو کا پہلو بدلا
’’تم نے سائنٹ سے مرتا آدمی دیکھا۔۔ ۔ ام نے دیکھا۔۔ ۔ اس کا پور باڈی نیلا پڑ جاتا ہے‘‘
’’میں مایوسی پسند نہیں کرتا۔ زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو خوشی۔۔ ۔ چاہے وہ ایک لمحہ کی ہو‘‘
’’ام نے تمہارے ساتھ بوت ٹائم ویسٹ کیا‘‘
’’نو ڈارلنگ قیمتی بنایا‘‘
دوشیزہ مسکرائی۔ اور پھر اتنے زور سے ہنسی کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں
’’ڈونٹ بی سیڈ۔۔ ۔ انٹرٹین دی لائف (Don`t be sad Darling, entertain the life)‘‘ اس نے دو شیزہ کو گلے سے لگایا اور اس کی کمر تھپتھپائی۔
نوجوان نے البم بند کی اور اسے بیگ میں رکھا۔۔ ۔ آنسوؤں کے دو قطرے اس کی آنکھوں میں آ گئے۔ اچانک بھیگی ہوئی نگاہیں کر یم کلر کے سوئٹر پر مرکوز ہو گئیں اسے یاد ہے ہندوستان چھوڑتے وقت وہی لڑکی اسے ایر پورٹ سی آف کرنے آئی تھی۔ اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔۔ ۔ اور میری ماں تو بے حال تھی۔۔ ۔ ’’بیٹے یہ سوئٹر اسی لڑکی نے اپنے ہاتھ سے بُنا ہے، تمہارے لیے‘‘ ماں نے زور دے کر کہا
میں نے اسی وقت سوئٹر پہن لیا۔ اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔ ۔ خالی خالی آنکھوں میں سینکڑوں خواب نظر آئے۔۔ ۔ چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔۔ ۔ بھیگی ہوئی آنکھوں میں سرخ ڈورے بن گئے تھے۔ میں سوچنے لگا شاید سوئی نہیں۔ شاید روئی ہو۔ ممکن ہے شراب کا گھونٹ بھر لیا ہو۔ یا کوئی ایسی بے خودی ہو جس کا اظہار عورت زبان سے کم، آنکھوں سے زیادہ کرتی ہے‘‘
’’میں جلد لوٹ آؤں گا‘‘ ماحول کی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا
’’میں انتظار کروں گی‘‘ لڑکی نے چونکتے ہوئے کہا۔ اور پیٹ پر سوئٹر کی چٹکی بھرتے ہوئے کہا ’’اسی کو پہن کر ہندوستان واپس لوٹو گے‘‘
نوجوان نے دوبارہ بیگ کھولا۔ کپڑے الٹ پلٹ کئے۔ سوئٹر اس سے آنکھ مچولی کرنے لگا۔ اس نے اپنے بدن پر نظر ڈالی۔۔ ۔ سوچنے لگا سوئٹر چھوٹا ہو گیا۔ سوئٹر اٹھایا گلے میں باندھ لیا ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی ’’وہاں کا وہیں چھوڑ کر آنا‘‘ ۔۔ ۔ یہ خیال آتے ہی اسے ہنسی آ گئی۔۔ ۔ ’’جسم میرا فربہ ہو گیا ہے لایا کمزور تھا‘‘ ۔۔ ۔۔ اپنے آپ سے کہا
وفا اور جفا کی بحث سے ذہن کو جھٹکا۔۔ ۔۔ اسے یاد آیا ایر پورٹ سے جہاز نے جب اڑان بھری تھی۔ لڑکی ہاتھ ہلا رہی تھی آسمان کی جانب اڑان بھرتے جہاز پر نگاہیں جمی ہوئی تھیں۔۔ ۔۔ ۔ نظر کی حد ختم ہونے تک ہاتھ سائے کی طرح ہو کر غائب ہو گیا۔ اس منظر کو دیکھ کر میری آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں۔
میں اس وقت ان آنسوؤں کا مطلب نہیں سمجھ پایا تھا۔۔ ۔۔ ۔ اور نہ ہی اس دو سال کے عرصہ میں مجھے اس بارے میں کوئی خیال آیا۔ اور اب دو سال کے بعد میں نے اس کریم کلر کے سوئٹر کو گلے میں کیوں باندھ لیا ہے۔۔ ۔۔ کیوں؟
--------------
اچانک اس کی آمد پر دالان میں بیٹھی ہوئی اس کی ماں چونک گئی۔۔ ۔ اور دیکھتی رہ گئی۔۔ ۔۔ زبان گنگ ہو گئی۔۔ ۔۔ جہاں بیٹھی رہ گئی۔۔ ۔ رفتہ رفتہ ہونٹوں پر مسکراہٹ ایسے پھیلنے لگی جیسے خاموش سمندر پہ کوئی معمولی سی لہر کروٹ لیتی ہے۔۔ ۔ ماں بڑی نقاہت سے اٹھی بیٹے کی پیشانی کو چوما۔۔ ۔ نوجوان نے ماں کو سینے سے لگا لیا۔۔ ۔ ماں کے چہرے پر پڑی ہوئی جھریاں عمر کے ماہ وسال کا شمار کر رہی تھیں۔ مگر ماں کی عمر ہی کیا ہے؟ صرف دو سال پہلے ماں اتنی بوڑھی نہیں تھی۔ اس کی انگلیاں بالوں کو کریدنے لگیں سینکڑوں چاندی کے تار اسے نظر آئے۔ اس نے ماں کا چہرہ اوپر اٹھایا۔۔ ۔ آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ ۔ انگوٹھوں کے پوروں سے آنسو صاف کئے اور چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کی۔۔ ۔ چند لمحے خاموشی رہی۔ ماں نے نظر بھر کر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا جب سوئٹر کی آستینوں پر نظر گئی جو گلے کے سامنے لٹک رہی تھی۔
’’بیٹے اکیلے ہی آئے ہو‘‘ ماں نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا
’’ہاں۔۔ ۔ ماں۔۔ ۔‘‘ چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے ’’ماں تم نے کہا تھا اپنے دیش کی مٹی بڑی سوندھی ہے اس کی سُگندھ یاد رکھنا۔۔ ۔ لیکن چند روز پہلے، خط میں لکھا تھا۔۔ ۔ ’’اکیلے مت آنا۔۔ ۔ ایسا کیوں لکھا۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘
ماں نے نظریں چُراتے ہوئے کہا ’’ہاں بیٹے عورت مرد کے بغیر بڑی کمزور ہوتی ہے۔۔ ۔ تم بہت چھوٹے تھے جب تمہارے باپ مجھے چھوڑ گئے۔۔ ۔ ان کے بعد ٹوٹ گئی تھی میں۔۔ ۔۔ اب جبکہ تم پورے مرد ہو گئے ہو۔۔ ۔ تو میں تم کو اپنی طاقت سمجھتی ہوں۔۔ ۔ جب تم چلے گئے تھے۔۔ ۔۔ تو میں اکیلی پڑ گئی تھی۔۔ ۔ کمزور ہو گئی تھی۔۔ ۔ جب انسان کی طاقت چلی جاتی ہے۔۔ ۔ تو بات کا وزن بھی گھٹ جاتا ہے‘‘ ماں نے سرد آہ بھری
چند لمحہ ماں اٹھی اور کچن سے چائے بنا کر لائی اور میز پر رکھ دی۔۔ ۔ اس میں سے بھاپ نکل کر ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنا رہی تھی۔۔ ۔ بیٹے ٹھنڈی ہو جائے گی‘‘ ۔۔ ۔ میری طرف بڑے غور سے دیکھا۔۔ ۔ گلو گیر آواز میں بولی ’’اس ایک جینیس لڑکے سے شادی کر لی‘‘ آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑ لگ گئی۔
نوجوان ماں کے آنسوؤں کی طرف توجہ کئے بغیر ہنسا۔۔ ۔ زور زور سے ہنسنے لگا اس کے قہقہوں کی گونج میں ماں کی رندھی ہوئی آواز، ماں کی روتی ہوئی آنکھیں اور ماحول کی ناخوسگواری ڈوب گئی۔۔ ۔ اور جب وہ اُبھرا تو سوچنے لگا۔۔ ۔ ’’میں نے دو سال کے عرصہ میں، ہندوستان کی تیس سالہ زندگی سے کہیں زیادہ عشق کئے ہیں۔۔ ۔۔ لیکن یہ بات میں ماں کو کیسے سمجھاؤں عورت کمزور نہیں ہوتی بلکہ مرد کی شکتی ہوتی ہے۔۔ ۔ برہما کی شکتی سچی، وشنو کی طاقت لکشمی، شنکر کی قوت پاروتی۔۔ ۔۔‘‘
’’ماں‘‘ اس نے حواس درست کرتے ہوئے کہا
’’ہاں‘‘ ماں نے چونکتے ہوئے کہا
’’اس میں رونے کی کیا بات ہے؟۔۔ ۔۔ تو نے ابھی کہا عورت کی طاقت مرد ہوتا ہے۔ مرد جس قدر بیوروکریٹ ہو گا عورت اتنی ہی طاقت ور ہو گی۔۔ ۔ وہ لڑکی ایک بیورو کریٹ باپ کی بیٹی اور بیورو کریٹ کی بیوی ہے۔۔ ۔۔ پھر کیوں کر کمزور ہوئی؟۔۔ ۔ اور۔۔ ۔ ماں۔۔ ۔ اب میں آ گیا ہوں نا۔۔ ۔ تیرا بیٹا۔۔ ۔ تیری طاقت۔۔ ۔ تو یہ کیوں سوچتی ہے کہ تو کمزور ہے؟۔۔ ۔‘‘ یہ کہہ کر نوجوان آنسوؤں کے سمندر میں ڈوب گیا۔
٭٭٭
ویٹنگ روم
اپنا وطن کو چھوڑے ہوئے صدیاں بیت گئیں۔ اب تو ماہ و سال بھی یاد نہیں کہ آباء و اجداد کب جلا وطن ہوئے … غریب الوطن ہونا، جلا وطن ہونا، ہجرت ہونا ایک دیرینہ روایت ہے یا انسانی تہذیب کے مقدّرات کی کتاب میں مرقوم فیصلے۔ یہ بات سینہ بہ سینہ چلی آر ہی ہے کہ اپنا وطن بہت خوبصورت تھا۔ جب اپنا تھا تو خوبصورت تو ہونا ہی تھا۔ وہاں شور تھا نہ کوئی شر۔ ہر سوٗ سکون و قرار تھا۔ فرحت و مسرت و شادمانی تھی۔ چاروں طرف لہلہاتا سبزہ پھولوں کی خو شبوؤں سے معطر فضا شب و روز کی رنگینی اور موسموں کی مستی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ میری نسل کے زیادہ تر لوگ اپنا وطن بھول گئی ہیں۔ کبھی کسی کو یاد آتا ہے کبھی کبھی کسی کو بہت یاد آتا ہے۔
جد امجد نے اپنا وطن خیرباد کیا۔ محل نما رہائش گاہ کو چھوڑ نے میں بڑا ہی دکھ ہوا کافی عرصہ تک زبان در زبان اس کا چرچہ ہوا … پھر ذکر کم سے کم تر ہوتا گیا۔ اب تو کبھی یاد آئی تو آپس میں ذکر ہو گیا۔ نسل کے بوڑھے اپنا وطن یاد کر تے، یاد کر کے آہیں بھرتے ان کی آواز میں بڑا درد اور لہجہ رقت آمیز ہوتا۔ نوجوان اور بچیّ کبھی اس ذکر میں شا مل ہوتے تو بے دلی ان کے رویّے سے ظاہر ہوتی نہ تو کبھی توجہ دیتے اور سنجید گی کا ہمیشہ فقدان ہوتا۔ جب وہی بچیّ سنِ پیرانہ سالی کو پہنچتے تو ذکر ان کی دلچسپی کا سبب بن جاتا اور وہ بھی اپنی غریب الوطنی کا شدت سے احساس کرنے لگتے اس کا ذکر کر تے وقت ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں یہ سلسہ دیرینہ وقتوں سے اسی طرح جاری ہے۔ اپنا وطن واپسی کے لئے دلی یا بے دلی سے تیاریوں میں مصروف دکھائی دینے لگتے۔
یہاں اس امر کی جانب یہ اشارہ کرنا ناگزیر ہے جب جب اپنا وطن واپسی کی فکر ہوتی تو اپنے احباب و اقربا کے چھوٹنے سے رنجیدہ بھی ہوتے۔ اکثر بزرگ بھی سامانِ سفر باندھتے وقت دُکھی ہوتے اس وقت اپنے وطن واپسی کی خوشی کم اپنوں کو چھوڑنے کا غم بڑا ہوتا۔ حالانکہ واپسی ایک حقیقت تھی۔
اب مسئلہ یہ تھا سفر سے پہلے سامانِ سفر کا باندھنا ضروری اور غیر ضروری چیزوں کا انتخاب کرنا تاکہ بوجھ ہلکا رہے اور سفر میں دقتوں کا سامنا نہ ہو۔ قصدِسفر بھلے ہی اپنے بس میں نہ ہو لیکن متا عِ سفر اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور اگر ضروری سامانِ سفر کی قِلّت کا احساس شدت اختیار کر لے تو وطن واپسی کا خوف ایک ڈراؤ نا خواب بن جاتا ہے۔ وہ بھی اس پل مکھّی کی طرح مکڑی کے جال میں پھنسا تھا۔ کوئی غیبی طاقت یا اندرونی جذبہ سفر کے لئے مجبور کرتا ہے۔ اس نے سامانِ سفر باندھا اور جیسے ہی چلنے کا ارادہ کیا اسے خیال آیا سفر میں کام آنے والا سامان ایک نظر دیکھ لیا جائے لیکن میں تو اپنے وطن جا رہا ہوں سامانِ سفر باندھنے کی کیا ضرورت؟ سفر کرتے وقت ذہن سامان کی حفاظت اور دیکھ بھال میں لگا رہے گا اور لطفِ سفر فوت ہو جائے گا۔ سفر طویل ہو یا مختصر لطف سے خالی ہو تو بوجھ بن جاتا ہے بوجھ تلے انسان دبا سہما رہتا ہے۔ اپنے آرام کے لئے متا عِ سفر کا بوجھ کتنا ہی بڑھا لے مگر سفر تو پھر سفر ہے۔ تھکا دینے والا۔ اسی لئے سامان کم سے کم باند ہے تاکہ سفر آسان ہو جائے حساب کتاب گننے اور شمار کرنے کی الجھن سے نجات مل جائے۔ یہی نجات کامیاب زندگی اور آ سان سفر کی علامت ہے اس نے سا مان کو ٹٹولا اس میں فا لتو چیزیں زیادہ ہیں اور ضروریاتِ سفر کا سامان کم ہے۔ وہ سو چتا ہے اس میں میرا اپنا کیا ہے؟ میں سفر کا تنہا مسافر اور اتنا بوجھ کوئی بوجھ بانٹنے والا بھی نہیں۔ میں اکیلا مسافر بوجھ تلے دبا ہوا۔ ایک کنگال مسافر جا نب سفر رواں … جیسے تیسے اسٹیشن پہنچا … اسٹیشن پر مسافروں کا ہجوم۔ سب ہی مسافر انجان منزل کی طرف بھاگے جا رہے ہیں حواس باختہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ ٹرین کی آمدورفت کی گہما گہمی کانوں کو بہرہ کرنے والا ایک شور۔ اس بھیڑ میں آنکھوں کی بینائی آشنائی سے محروم، کسی کو کسی کی خبر نہیں نفسیٰ نفسی کا عالم۔ ٹرین لیٹ ہو گئی۔ مقررہ وقت سے کا فی لیٹ نہیں … نہیں … ٹرین ہمیشہ متعین وقت پر آتی ہے۔ شاید مجھے ہی سفر کی جلدی ہے۔ شاید یاد وطن اور احساس جدائی نے وقت کی گنتی کرنا بھلا دیا ہے۔ آخر! میں بوڑھا بھی تو ہو گیا ہوں۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا کوئی اپنا مل جائے بوجھ اٹھانے میں مدد ہو جائے گی سب ہی مسافر اپنے اپنے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں کوئی کسی کا مدد گار نہیں اس نے اپنا بوجھ اٹھا یا جیسے تیسے ویٹنگ روم میں داخل ہوا اسے ویٹنگ روم، عارضی وطن محسوس ہوا اور عارضی وطن ویٹنگ روم جیسا وہ عارضی وطن اور ویٹنگ کے فرق کو جاننے کے لئے دماغ کھپانے لگا؟ نتیجہ صفر نکلا۔ وٹینگ روم سفید پتھروں سے بنا ہوا محل جیسا حسین و جمیل مگر گرد و غبار سے اٹا ہوا … دیواریں رنگ و روغن سے آ راستہ خاک آلود چھت پر نقش و نگار بنے ہوئے مگر صفائی نہ ہونے سے دھند لے پڑ گئے تھے … اس نے ویٹنگ روم میں راحت کی سا نس لی … با ہر کے نا خوش گوار مو سم کے مقابلے میں اندر کا موسم خوش گوار اور مناسب تھا اپنا سا مان احتیاط سے کمرے کے ایک کونے میں رکھا ویٹنگ روم کی بے ترتیب چیزوں کو قرینہ سے رکھنے لگا۔ آئینہ کو کھونٹی پر سیدھا کیافر نیچر کی سمت بدلی … اور وٹینگ روم کی صفائی ستھرائی میں لگ گیا تھوڑی دیر کے لئے وہ یہ بھول گیا کہ وہ ایک مسافر ہے۔ نہ تکان کا دھیان، نہ بوجھ کی الجھن۔ ویٹنگ روم کی چہار دیواری رنگین اور خو بصورت تصاویر سے سجی ہوئی تھیں ان مختلف تصویروں کے درمیان دیوار کا مختصر حصّہ خالی پڑا تھا جو سپاٹ اور بدنما دکھائی دے رہا تھا اس نے سو چا اگر اس پر کوئی تصویر آویزاں کر دی جائے تو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ ویٹنگ روم کی زیب و زینت اور آ رائش میں اس قدر مصروف ہو گیا کہ مسافر ہونے کا گمان اس کے ذہن سے محو ہو گیا وہ بھول گیا کہ ویٹنگ روم میں اس کا قیام صرف اتنا ہے کہ جب ریل گاڑی آ جائے تو اس پر اس کو سوار ہو جا نا ہے اور اسے اپنے وطن جا نا ہے۔ اس کے آباء و اجداد کو اپنی مرضی سے، کسی سازش کے تحت یا کوئی اور وجہ سے خدا جانے اپنا وطن خیر باد کہنا پڑا۔ وہ بوڑھا ہو گیا ہے یاد داشت کمزور ہو گئی ہے۔ نا توانی اور کمزوری ہونے کے سبب مختلف بیماریوں کا غلبہ رہتا ہے جسم سے قوتِ مدافعت زائل ہو گئی ہے معمولی بیماری بھی بڑی ہو جاتی ہے۔ خیر یہاں تو معاملہ پیرانِ سالی کا ہے اگر عہد طفلی سے جوانی تک کسی بھی عمر میں کمزوری ہو تو معمولی سے معمولی بیماری بھی حاوی ہو جاتی ہے اور اس وقت اپنے وطن کی یاد شدت سے جاگنے لگتی ہے اور اس وقت کمزوری یا کوئی اور وجہ سے دل کا نپنے لگتا ہے، گھبراہٹ اور خوف طاری ہو جاتا ہے چونکہ اپنوں کو چھوڑنے کا غم بڑا وطن کی یاد کا الم چھوٹا ہوتا ہے۔؟
ویٹنگ روم کے بائیں جانب دبیز خوش رنگ قالین بچھی تھی۔ دائیں طرف صوفہ پر اس کے قدم خود بخود بڑھنے لگے وہ تھکا ماندہ اس میں دھنس گیا سا منے دیوار پر تصویروں کے درمیان خالی جگہ پر نظر جم گئی … وہ اسی لمحہ اٹھا اسٹیشن کے گیٹ سے با ہر نکلا … گرمی کی وجہ سے دھوپ کی تمازت شدید تھی۔ آسمان صاف تھا ہلکے نیلے رنگ پر سفید بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ سورج سر کے اوپر آگ بر سار ہا تھا۔ اچانک لو کے گرم تھپیڑوں نے اس کے منہ پر طمانچے لگانے شروع کر دیے وہ گھبرا گیا اسے پیاس محسوس ہوئی ویٹنگ روم کی طرف اس کے قدم واپس ہونے لگے دروازے میں داخل ہوتے ہی پیاس نے شدّت اختیار کر لی۔ اس کی آنکھیں نا معلوم شے کے لئے بے چین ہو گئیں اسے یاد آیا اسے پانی کی تلاش ہے۔ فریج کے قریب گیا۔ پانی کا گلاس بھرا۔ غٹ غٹ ایک سا نس میں پی گیا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پھر گلاس میں بھرا۔ غٹ غٹ۔ پیاس ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ جوں جوں وہ پانی پیتا تو نس بڑھتی جا رہی تھی۔ اسے پانی گرم کھولتا ہو الگ رہا تھا۔ وہ گھبرایا ہوا۔ بار بار پانی پیتا رہا پیا سی نظریں ادھر ادھر گھوم رہی ہیں۔ ویٹنگ روم چند لمحہ پہلے جنتِ نشاں دکھائی دے رہا تھا اچانک دوزخ میں تبدیل ہو گیا۔ بے چینی کے عالم میں وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے اس کی نگاہیں جائے پناہ تلاش کر رہی ہوں دیوار پر آویزاں تصویروں پر جا کر نگاہ ٹھہر گئی اس نے حواس درست کئے آنکھوں کو تصاویر کی جانب سمینٹا۔ اور صوفہ پر نڈھال ہو کر بیٹھ گیا۔
تصویر نمبر ایک۔ دو جمع تین ضرب دو بولنے لگی۔ خوبصورت سبز قالین کے درمیان پہاڑ کی ہلکی سی سیاہی برف کی چا در سے ڈھکی ہے۔ روئی دھننے پر اُڑنے والا دھواں جیسا برف چاروں طرف گر رہا ہے۔ پہاڑ کی پشت پر ڈوبتے سورج کی شفق آسمان کے چھو ٹے سے کو نے پر پھیل رہی ہے۔ سبز زمین پر قد آوردرخت صف بنائے صلوٰۃ میں مصروف ہیں۔ خو شگوار سبک خرام ہوا کی تال پر مختلف رنگوں کے پھول قطار لگائے نا زک شا خوں پر نازنینوں کی طرح مٹک رہے میں۔ ہلکا ہلکا سرمئی اندھیرا مشرق میں پھیلا ہے اور اس کے درمیان سے ما ہتاب جھانکتا کبھی بادلوں کی اوٹ میں چھُپتا جیسے کوئی پردہ نشین چلمن کے پیچھے بیٹھی مسکراہٹ کے پھول بکھیر رہی ہو رنگین اور خو شبو سے معطر فضا میں ایک جوان جوڑا اٹھکیلیاں کر رہا ہے فرشتوں جیسے معصوم ہو نٹوں پر کھیلتی ہوئی دلنواز مسکرا ہٹیں اس جوڑے کا استقبال کر رہی ہیں اور برف کے گولے بنا بنا کر ان کی طرف اچھال رہے ہیں ذرا فاصلے پر کچھ جا نور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھاس چر رہے ہیں ایک عجیب اور دلفریب منظر کو دیکھ کر اس کا دل خوش ہو رہا تھا
’’لو از لائف‘‘ بیساختہ اس کے منہ سے نکلا
شبنم کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو وہ میرے دل کی کلی پرا یسے گری کہ پھول کی طرح کھل گیا۔ وہ اپنے آپ میں سمٹی سرخ جوڑے میں ملبوس، میرے گھر میں گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح بر سی۔ میرا گھر ہرا بھرا ہو گیا۔ زندگی کا ہر درد انگیز لمحہ اس کی ایک مسکراہٹ سے نشاط انگیز ہو جا تا۔ پھر وہ اپنے پھول سے بچوں میں ایسی مست ہوئی کہ میں فاضل اور فضول شے بن گیا۔ محبت کا سفر جب ممتا پر رکتا ہے تو وہی شریک حیات کی منزل ہوتا ہے۔
’’شبنم بھی ہے بچے بھی ہیں اور میں سفر کا اکیلا مسا فر۔ بالکل تنہا‘‘ اس کے منہ سے نکلا
اچانک تصویر نمبر دو۔ تین جمع چار ضرب دو بولنے لگی۔ ایک بار عب شخص سونے کا تاج اور چا ندی کے نعلین پہنے بڑے کر وفر کے ساتھ تخت نشین تھا سا منے ایک باریش انسان زنجیروں میں جکڑا ہوا کھڑا تھا۔ ایک بد نما شکل کا آدمی ہاتھ میں تلوار لئے اس کے سا منے کھڑا تھا۔ چھلے دار مونچھوں کے نیچے سیاہ ہونٹ ہل رہے تھے اور آنکھیں حکم کی منتظر تھیں۔ درباری نگاہیں بسجود ہاتھ باندھے اپنے ناخدا کے سامنے ادب و احترام کے ساتھ قطار میں کھڑے تھے۔
’’سچ بولنے کا انجام سزائے موت‘‘ بیساختہ اس کے منہ سے نکلا
تصویر نمبر تین۔ چار جمع پا نچ ضرب دو پر اس کی نگاہ گئی ایک مثلث کے اندر روشنی کو بکھیرتی ہوئی آنکھ، یہ آنکھ علم کی علامت، مثلث کے اضلاع کے چاروں طرف پھوٹتی ہوئی کرنیں جو جہالت کے سیاہ بادلوں کو ہٹا دیں گی۔
کئی چھڑیوں کا ایک بنڈل: - اتحاد میں قوت ہے۔
ٹوٹی ہوئی زنجیر: -غلامی سے نجات آزادی کی علامت۔
زمین پر گرا ہوا عصائے شا ہی! پیروں کے نیچے دبا ہوا سونے کا تاج۔
سانپ اپنی دم کو کاٹتے ہوئے ایک حلقے کی صورت میں: - ہمیشگی کی علا مت کیونکہ کسی حلقے کی نہ تو ابتدا اور نہ انتہا۔
پنکھ دار عورت: - قانون کی تمثیل۔
قا نون کی تختی: - قا نون سب کے لئے ایک ہی جیسا، اس کے سامنے سب برابر ہیں۔
ایک کھدرد ھاری نیتا کی مٹھی میں انصاف کی دیوی۔
تصویر نمبر چار۔ پانچ جمع چھ ضرب دو بولنے لگی۔ بڑی بڑی عمارتوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مو تیوں جیسے دانتوں کے بیچ پائیریا کے کالے کالے کیڑے ان کے اوپر اڑتے ہوئے ہوائی جہاز اور ہیلی کوپٹر۔ سڑک پر دوڑتی ہوئی مو ٹر گاڑیاں فٹ پاتھ پر دوڑتی ہوئی سائیکلیں اور پیدل دوڑ تے ہوئے لوگ۔ شراب اور رقص و سرود میں ڈوبی ہوئی محفلیں۔ دیواروں کے سا یہ میں زمین پر سوئے ہوئے انسان، جھوٹن پر کتّے کی طرح دوڑتے میلے کچیلے مدقوق بچے۔
وہ سوچنے لگا وٹینگ روم کی دیواروں پر لگی ہوئی یہ تصویر یں زندگی کی تمام بدصورتیوں کے ساتھ کتنی حسین و جمیل اور خوبصورت ہیں۔ پو ری کائنات ویٹنگ روم میں سمٹ گئی ہے۔ کائنات ویٹنگ روم ہے اور ویٹنگ روم کائنات بن گیا ہے۔ لیکن تصاویر کے درمیان دیوار پر چھوٹی سی خالی جگہ اس سجے ہوئے ویٹنگ روم میں کتنی بد زیب نظر آ رہی ہے اور ویٹنگ روم اس کی وجہ سے بد نما دکھائی دے رہا ہے۔ وہ اس کی آرائش اور سجاوٹ کے لئے پریشان ہو گیا … ارے … مجھے کیا … کرنا ہے؟
میں تو ایک مسافر ہوں۔ مجھے ویٹنگ روم کی زیب و زینت سے کیا لینا دینا؟۔ میں ایک تنہا مسافر۔ جس کی اہل ہے مگر نہیں ہے۔ جس کے عیال ہیں لیکن نہیں ہیں۔ جس کے عزیز و اقارب، دوست و احباب ہیں مگر نہیں ہیں۔ کوئی نہیں ہے میرا وہ سوچنے لگا اس خالی جگہ کو مختلف ممالک میں چلنے والے سکوّں کی تصویر لگا کر بھر دی جائے۔ خالی جگہ بھر جائے گی اور ویٹنگ روم کی زیبائش میں اضافہ ہو جائے گا۔ پھر وہ سو چتا ہے میں تو ایک مسافر ہوں مجھے مال و دولت سیم و زر سے کیا لینا دینا۔ اچانک ویٹنگ روم کے دروازے پر اس کی نظر گئی ایک ہا کر تصویریں فروخت کر رہا ہے۔ وہ جلدی سے با ہر نکلا مختلف تصاویر کو ہر زاویہ سے بغور دیکھنے لگا۔ اس کی نظر ایک تصویر پر جم گئی سمندر خشک ہو گیا ہے۔ ریت پر سیم و زر بکھرا ہے، مو تیوں، ہیروں اور قیمتی پتھروں کے درمیان مری ہوئی مچھلیاں بکھری پڑی ہیں۔ حواس باختہ انسانوں کا گروہ، جن کے مدقوق چہرے گال پچکے ہوئے، پیٹ جن کے کمروں سے لگے ہوئے ان مری ہوئی مچھلیوں پر جھپٹ پڑے ہیں اور ان کو بٹورنے کے لئے ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں یہ ٹھیک رہے گی اس تصویر کو خرید لوں اور اس خالی جگہ کو بھر دوں ویٹنگ روم کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ پھر اسے خیال آیا کہ میرے متاعِ سفر میں میرا کچھ ہو یا نہ ہو لیکن برسہا برس سے ایک تصویر رکھی ہوئی ہے جسے بڑی حفاظت سے لپیٹ کر میں نے رکھ رکھی ہے شاید آج کام آ جائے اس کے استعمال کا یہی منا سب وقت ہے اسے نکالا جائے اور اس خالی جگہ میں لگا دیا جائے۔
اسے یاد آیا وسیع و عریض میدانِ عرفات میں فریضۂ حج ادا کرتا ہوا انسانوں کا جمِ غفیر ہے۔ ایک جسمانی اور روحانی منظر ہے … لبیک … الٰلھُّم لبیک کی دلسوز صداؤں سے میدان گو نج رہا ہے سینوں میں سوز و گداز کی کیفیت طاری ہے۔ آنکھوں سے زار و قطار آنسوبہہ رہے ہیں اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔ چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں سامان ندارد۔ وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ ہذیانی سی کیفیت اس کے اوپر طاری ہو گئی ہانپتا کانپتا وہ صوفہ پر گر گیا۔ سوچنے لگا میرے سا مان سفر میں کارآمد چیزوں کی قلت تھی جو وطن پہنچ کر کام آتیں۔ اب تو ویٹنگ روم کی مصروفیت میں بچی کچی متاع بھی ضائع ہو گئی۔ نقاہت اور مایوسی کے سبب اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اچانک ٹرین آ گئی اس کے پاس اتنی سکت اور طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ صحیح طور سے ٹرین میں سوار ہو سکے۔ اٹھنے کی کوشش میں وہ و ہیں گر گیا چار آدمیوں نے شاید وہ بھی مسافر تھے جیسے تیسے اسے اٹھایا اور ٹرین میں اسی حالت میں احتیاط سے لٹا دیا ٹرین اسٹیشن چھوڑ چکی تھی۔
٭٭٭
بجوٹ
اس ایک پل نہ روئی، نہ مسکرائی، میں حیران تھی مرد کی اس بے وفائی پر کہ پندرہ سال خدمت کے عیوض تحفہ میں طلاق ملی۔ عورت آدمی سے چھوٗٹے دیر یا سویر، چھوٗٹتی ضرور ہے کہ دونوں کا ساتھ عارضی ہے۔ زندگی خود عارضی ہے ایسا تو ہے نہیں کہ جوڑا ایک ساتھ مرے اور پھر قبریں برابر برابر بنیں، بعد میں دو درخت اس مٹی سے اُگیں ہوا چلے شاخیں پتّے رقص کریں، جھومیں گائیں، گلے لگائیں اور مسکرائیں --- اولاد تو کہیں سے بھی اور کیسے بھی لائی جا سکتی ہے، گود لینا ہی ضروری تھوڑی ہے میری سہیلی منجو جو میری کلاس فیلو تھی، ہم راز بھی تھی لیکن ہم نوا نہیں اور ہم خیال بھی نہ تھی۔ اس نے نہ جانے کتنے قصّے سنائے یہ کہہ کر کہ کوئی مشکل نہیں، پریشان مت ہو! فلانی گنگا اسنان کرنے گئی اور گود بھر کر لائی … گنگا کے پانی کی تاثیر ہے بنجر دھرتی اُپجاؤ ہو جائے … گود ہری ہو جائے --- لیکن میرے لیے گنگا اسنان، گنگا جل کا وردان جائز تھوڑی تھا۔ میں کیوں الزام دوں اپنے شریک حیات کو … نہیں … نہیں۔ شریک جزوقتی کو … جب قصور سب اپنا دکھائی دیتا ہے۔ عورت ہوں تو اولاد کیوں نہیں؟ بنجر زمین پر ہل کتنا ہی لگے سرسبز نہیں ہوتی۔ گائے دودھ نہ دے، قصائی کے کھونٹے سے باندھ دی جاتی ہے، گھر کے کھونٹے سے بندھے مفت میں دانہ پانی کھائے، دھرتی کا بوجھ کہلائے --- لیکن … لیکن عورت ہونا خدا ہونا، نہیں ہونا ہے … کیسے نادان ہوتے ہیں یہ مرد … صرف مرد ہی نہیں … عورتیں بھی … سب کے سب دشمنِ جاں …
’’بجوٹ کے سایہ سے بھی نویلی دلہن کو بچنا چاہیے‘‘ جیٹھانی نے کہا تھا۔
’’باجی … میں کوئی بھوت ہوں‘‘ سہمی ہوئی مسکراہٹ ہونٹوں پر۔
’’میں نے کب کہا کہ تم بھوت ہو … لیکن عورت بھی نہیں‘‘ فیصلہ کن لب و لہجہ۔
’’یہ سوچ سراسر بدعت ہے۔‘‘
’’حقیقت ہے … (وقفہ) … بجوٹ ہونا بدعت ہے۔‘‘
وہ کسمسائی اور سہمے ہوئے انداز میں بولی ’’امّی دھوپ لینے کے لیے چھت پر آ گئی تھی، چچی جان پہلے ہی سے یہاں موجود تھیں۔‘‘
’’دلہن دھوپ زیادہ نہ لو، ہم نہیں چاہتے غیر ضروری چیزوں سے پیٹ پھولے۔‘‘
دلہن بے دلی سے سرپٹ اُٹھی، زینہ اُتر گئی … پیچھے پیچھے ساس بڑبڑاتی ہوئی چل دی۔ میں گُم صُم دھوپ میں بیٹھی تنہا رہ گئی۔ دھوپ چند لمحے پہلے رحمت تھی … سورج سمیت بدن میں داخل ہوئی اور سخت سردی میں دل و دماغ کو نار کی مانند جلانے لگی … سوچنے لگی بجوٹ ہونے میں میرا کیا قصور؟ دن رات جلنے کے لیے بجوٹ ہونا از خود نارِ جہنم ہے … زندہ رہنا بھی ہے اور جلنا بھی ہے --- کیا میں اپنی مرضی سے بجوٹ ہوں؟ میرا بس چلے، صبح لڑکا، شام لڑکی پیدا کروں! ایسی برکت نازل ہو کہ آدمی کہے بس کر اللہ، رزق کہاں سے آئے؟ اور اللہ کہے رازق ہوں میں … رزق کے خوف سے اپنی نسل کو مت قتل کرو … اے خالق! مجھے تو افسوس ہوتا ہے اپنے ہونے پر کہ مجھے تخلیق کار بنایا اور تخلیق سے ترسایا … ایسا سوچتے ہوئے میرے دو آنسو آنکھوں سے ڈھلکے … رُخساروں پر پھسلے … موتی کی طرح دامن میں چنے اور سٹ پٹ زینے سے اُتر گئی … سورج بھی مغرب کی جانب آہستہ آہستہ اُتر رہا تھا، دھوپ سمٹ رہی تھی، سردی بڑھ رہی تھی۔ مگر دل و دماغ کی آگ ابھی تک سرد نہیں ہوئی ہے … جب بھی کریدو تو خاکستر میں دبی ہوئی چنگاری اندھیرے میں جگنو کی طرح راستہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔
منجو کی ماں نے کہا تھا ’’بھائی صاحب صابرہ بڑی بھاگوان ہے۔‘‘
ابّاجی نے چونک کر دیکھا ’’صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے۔‘‘
میں نے پنڈت جی کو ہاتھ دکھایا تو بولے ’’بٹیا لکشمی پر سوئے گی، دودھوں نہائے گی پوتوں پھلے گی۔‘‘
ابّا جی نے ایک اچٹتی سی نگاہ منجو کی امّی پر ڈالی اور گہری آنکھوں سے سر سے پاؤں تک مجھے دیکھنے لگے۔ منجو کی امّی اس سمے چپ چاپ چلتی بنیں ویسے بھی وہ ابّا جی کی عزت کرتی تھیں اور ڈرتی بھی تھیں۔ وہ دروازے کو عبور کرنے تک انھیں گھورتے رہے۔
’’ہتھیلی دکھانا گناہ ہے‘‘ وہ بڑبڑائے۔ مخاطب ہو کر بولے ’’تم نے تو ہاتھ دکھانا شروع کر دیے … تھوڑی دیر خاموشی رہی … جو ہاتھ دکھاتے ہیں، منھ دکھانے کے لائق نہیں رہتے … اب تم دسویں درجہ میں ہو … عمر کے چودھویں سال میں ہو … چودھویں چاند کی طرح خوب صورت ہو … غیر مرد کے ہاتھ میں یوں ہاتھ نہیں پکڑا دیتے۔‘‘
’’جی ابّا جی۔‘‘
’’مرد کا سب کچھ اچھا ہوتا ہے، نظر خراب ہوتی ہے۔‘‘
’’مطلب، بینائی۔‘‘
’’بینائی نہیں … آنکھ … حفاظت کرو اپنی اور اپنی آنکھوں کی۔‘‘
میں نے سنا گرہ باندھا، آج تک گرہ نہ کھولی … میں سوچنے لگی منھ دکھانے کے لائق نہیں رہتے سے کیا مطلب ہے؟ شکل بھی ایسی بُری نہیں … روز آئینہ دیکھتی تھی … ہر زاویہ سے دیکھتی ہوں … نیچی نگاہ ڈال کر سامنے سے دیکھتی ہوں … آئینہ کے جانب کمر کر کے ترچھی نگاہ سے پشت کی طرف دیکھتی تھی … سہیلیاں کہتی تھیں تم بہت خوب صورت ہو … حسن کے معاملہ میں خود بینی و خود آرائی نہ ہو، تو خوب صورتی بے معنی ہو جاتی ہے … ابّا کہتے تھے خوب صورتی ڈھک کر رکھو … جو بھی نظر ڈالتا ہے، بُری ہی نظر ڈالتا ہے … بوڑھی نظر بھی خوب صورت موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی … خوب صورتی نظر میں رہے محفوظ رہتی ہے اور نظر ہی محظوظ بھی ہوتی ہے۔
شادی خوب صورتی اور جوانی کا محفوظ ٹھکانہ ہے۔ شادی ہوئی، شادی کا سنِ بلوغت پر ہونا والدین کے فرائض کی ادائیگی، جوانی کی کوئی بھول والدین کے سر نہ جائے، باز پُرس سے بچنے کا یہی ایک راستہ ہے …
’’بس ایک بچہ دے دو … میری نسل کا چراغ گل نہ ہونے پائے۔‘‘ شادی کی پہلی رات بے چاری ساسو امّی کا بس یہی ایک مطالبہ۔
’’کہاں سے لاتی …؟ کیا یہ میرے ہاتھ میں تھا۔‘‘
اب سوچتی ہوں کاش بچہ، میں جہیز میں لے جاتی … خیر سے دولت و جائداد نصیب میں نہیں ہے ورنہ وارث مانگتے، اور بھیج دیتے گنگا اسنان کو --- رات ہو چکی تھی، ستارے کالی چادر پر ٹنکے تھے، سوچ رہی تھی کوئی ایک ستارہ آسمان سے اُترے، میری کوکھ میں داخل ہو اور میرے اندھیرے آنگن میں روشنی کر دے۔ اچانک بادلوں کی اوٹ سے چاند نمودار ہوا، میں اس کی آہٹ سے چونکی۔ ’’عارف تمہاری بھابی بجوٹ کو بھوت کہتی ہیں۔‘‘
’’صابرہ … بھوت اسے کہتے ہیں جو دوسروں کو ستائے۔‘‘
میں مسکرائی اور عارف کے گلے کا ہار بن گئی۔ ’’میری عافیت تنگ کر رکھی ہے، اُٹھتے بیٹھتے طعنے … میرا جینا مشکل کر دیا ہے۔‘‘ آنکھیں بھیگ گئیں۔
عارف نے میرے آنسو سمیٹے۔ ’’یہ عالمِ کون و فساد ہے، چند روزہ ہے رات کا سینہ چاک کر کے سحربیدار ہوتی ہے۔‘‘
’’میں کون عاقبت کے بورے سمیٹ رہی ہوں۔‘‘
’’دیکھو مالک کون و مکاں عاصم ہے، وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔‘‘ عارف نے سمجھایا۔
’’بے شک … انسان کو ربّ نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا۔ اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو وہ فرعون بن بیٹھا۔‘‘
’’انسان غرورِ نفس میں مبتلا ہے‘‘ عارف نے کہا۔
’’طلوعِ آفتاب کی حد نہیں دیکھتا۔‘‘
ایک روز، غروبِ آفتاب کے وقت سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا تھا، میری آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب رہی تھیں۔ رات سوچنے، سونے اور رونے کے لیے بنی ہے۔ رونے کے اس طوفان میں آنکھیں صاف ہوئیں۔ دل کا کچھ بوجھ ہلکا ہوا۔
’’صبح عاقر بجو گی بنگالی بابا کے پاس چلیں گے۔‘‘
’’یہ ایک بابا ہے یا تین‘‘ میں نے ہنستے ہوئے سوال کیا۔
’’ارے بھئی ایک ہی بابا ہے۔‘‘
’’بنگالی بابا کیا کریں گے؟‘‘
’’چنتا ہرڑن کریں گے۔‘‘
’’مطلب خود عاقر، دوسروں کی گود بھریں گے، خود بجو گی پھر بھی چنتا ہڑن کہلائیں گے۔‘‘ میری ہنسی کمرے میں گونج گئی تھی۔
’’ارے بھئی ہوتا ہے، کائنات کو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، سورج کو نہیں، پھر بھی سورج چمکتا ہے۔‘‘
عارف نے کچھ اس طرح سے کہا تھا کہ میں خاموش ہو گئی۔ موسم کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ دل اُداسی کے سیاہ بادلوں سے گھرا تھا، ذہن میں جگنو جل بجھ رہے تھے اور آنکھوں سے رم جھم بھی ہو رہی تھی۔ خیال آیا تہجد کے معنی نیند توڑنے کر اُٹھنے کے ہیں لیکن میری پوری رات آنکھوں میں کٹ گئی تھی اور نیند اپنی مخملی چادر میں مجھے نہ لپیٹ سکی تھی۔ بڑی حجت کے بعد اُٹھی، وضو کیا چار رکعت نوافل ادا کیے … دست دعا دراز کیے … اے کون و مکاں کی باخبر ہستی، تو نے بِنا ماں باپ کے آدم، بِنا ماں کے حوّا، بِنا باپ کے عیسیٰؑ کو بنایا۔ اپنی نظر خلق کی قوت سے کُن کا کرشمہ میری کوکھ میں ڈال دے کہ میری شب، روز کی روشنی میں ڈوب جائے۔‘‘ بہتے ہوئے زار و قطار آنسوؤں کی دھار سے صبحِ کاذب کی گہری لکیر کٹی، صبح صادق نمودار ہوئی، فجر کی نماز پڑھنے کے بعد تیار ہوئی، عارف بھی اُٹھ چکا تھا۔
دونوں بنگالی بابا کی طرف چل دیے چوں کہ ٹوکن اشراق سے پہلے بٹتے ہیں، دیر ہونے پر بنگالی بابا بیماروں اور بدحالوں کو نہیں دیکھتے، چاہے کتنی ہی ہنگامی ضرورت ہو۔ ایک عجیب سیکولر منظر وہاں طاری تھا۔ گیرو رنگ کے لباس میں ملبوس ایک لحیم شحیم، مٹکے کی طرح پیٹ کرسی پر رکھے شخص کی بڑی بڑی آنکھیں حلقہ سے باہر نکلی پڑ رہی تھیں، بیٹھا تھا۔ ایک چوڑی چکلی میز پر مختلف رنگوں کی پرچیوں کی گڈیاں رکھی تھیں، ایک چھوٹی سی لکڑی کی پیٹی جس پر ’’دان دیں‘‘ اردو اور ہندی میں لکھا تھا۔ بائیں جانب انسانوں کی لمبی قطار کی طرف ماتھے پر لگے کالے تلک سے اشارہ کرتا۔ ہر شخص اپنی پریشانی بتا کر ایک رنگ کی پرچی لیتا، پیٹی میں سو کا نوٹ موڑ کر ڈالتا، موہ جال سے بچنے کا درس لیتا، آگے اندر کی طرف بڑھ جاتا۔ عارف نے بھی اپنی ضرورت کے مطابق ہرے رنگ کی پرچی لی، میرے ہاتھ سے سو کا نوٹ پیٹی میں ڈلوایا … اس مختصر وقت میں سادھو نے سر سے پاؤں تک اپنی آنکھوں کے فیتہ سے پیمائش کر لی باوجود اس کے کہ میں برقع میں تھی جس کو ابّا نے یہ کہہ کر پہنوایا تھا کہ نظر بد سے حسن کی حفاظت اور شریعت کی پابندی کے لیے یہ ضروری ہے، لیکن ان آنکھوں سے کیسے بچا جائے جن میں ایکسرے لینس لگے ہوں۔
کوریڈور سے نکل کر جیسے ہی صدر دروازے سے عارف کے ساتھ اندر داخل ہونے کی کوشش میں آگے بڑھی، بائیں جانب سفید کرتے پائجامہ میں ملبوس کالے رنگ کی گول ٹوپی جس پر تقریباً چوبیس لکیریں بنی تھیں سرپر رکھے، ایک شخص بیٹھا تھا۔ سامنے چھوٹی سی چوکی پر رکھے رجسٹر پر نام اور رسید نمبر اندراج کر رہا تھا۔
دوسرے مرحلے سے گزرنے کے بعد ایک وسیع و عریض کمرے میں داخل ہوئے۔ دروازے کے دائیں طرف ایک تخت جو دیوار سے سٹا ہوا تھا، جس پر ایرانی قالین بچھی تھی، دیوار پر پنج تن پاک کا کلینڈر اور اسی کے برابر مکان اور دوکان کی برکت کا تعویذ دیوار پر ٹنگا تھا۔ تخت پر زعفران کی دوات اور تین قلم اور دو انچ چوڑی کاغذ کی پیٹیوں کا بنڈل رکھا تھا۔ دیوار سے چپکی مسند سے کمر لگائے ایک سیاہ فام، سیاہ باریش، ہرے کُرتے پائجامے میں ملبوس سرپر سبزرنگ ٹوپی لگائے شخص بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں تسبیح، شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے اشارے سے صندل کے دانے پلٹ رہا تھا۔ اس کی بند آنکھیں وا ہوئیں، ساکت ہونٹ ہلے، ’’سرپٹک کر مایوسی کی پوٹلی کھولنے آج آئی ہو‘‘ بابا نے لعن کیا۔
’’بابا جب مصیبت سر پر آن پڑتی ہے تو خیرات بٹنے لگتی ہے‘‘ عارف نے اظہارِ شرمندگی کیا۔
بابا نے میری طرف دیکھا۔ ہاتھ میں ہری پرچی پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نیچے تک اُترنے کی کوشش کرتے ہوئے ’’کوکھ سوٗنی ہے‘‘ بابا نے انغاض کیا۔
میں سمجھ نہیں پائی کہ اظہارِ تعجب یا مذاق اڑانے کے لیے سر کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کو ہلا رہے ہیں۔ اس وقت تو میں بھی حیرت زدہ ہو گئی تھی کیوں کہ ضرورت اور مصیبت پتھر کو بھگوان بنا دیتی ہے۔ اب جب کہ ہر مصیبت اور ضرورت سے نجات مل چکی ہے۔ ہری پرچی گود ہری کی، سفید پرچی روزگار کی، سرخ پرچی بیماری کی نشانی ہے۔
رات گئی، بات گئی۔ ایک تعویذ برہنہ جسم پر مَل کر جلانے کا، ایک پیٹ پر باندھنے کا، ایک کانچ کی بوتل میں ڈال کر صبح و شام پانی پینے کا۔ تعویذ ملے، تعویذ بندھے، تعویذ پئے۔ چھ مہینے علاج چلا، پھر وہی ڈھاک کے تین پات عاقر جو خود لا ولد ہے تو کسی کو کیوں کر ولد بنا سکتا ہے، وہ بجو گی ہے دوسروں کو کیسے مصیبت سے نجات دلا سکتا ہے، جو خود کنگال ہے دوسروں کو تعویذوں کے ذریعہ دھن وان کیوں کر بنا سکتا ہے؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آج بھی ذہن کی پٹاری میں پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔ ان کے پاس تو آدمی ہر گھر در سے مایوس ہونے کے بعد ایسے پہنچتا ہے کہ دشت بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا۔ اس کے باوجود درِ خالق پر دعا اپنی جگہ ہوتی رہی۔ کارگزاری اپنی جگہ چلتی رہی۔ اگر رب چاہے سایہ پھیلا دے، دائمی سایہ بنا دے، سورج تو صرف ایک دلیل ہے جیسے جیسے سورج اٹھتا جاتا ہے وہ سائے کو اپنی طرف سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ ایک دن سورج سمٹ گیا تھا، نیلے آسمان کا رنگ سرخ سے سیاہ مائل ہو گیا تھا، جھٹ پٹے کے بعد۔ مشہور ڈاکٹر جاوید جو بے اولادوں کے علاج میں ماہر تھے، بڑے ہی خوش اخلاق، خوش پوش انسان تھے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ ڈاکٹر کا پُر مذاق طبیعت کا ہونا مریض کا آدھا درد دور ہونا ہے۔ نہ جانے کتنی ہی سونی گودوں کو آباد کر دیا۔ دولت اور شہرت کما کر دور دراز شہروں میں ناموری کمائی۔ دنیا میں عزت پانے کے لیے یوں تو دولت ہی کافی ہوتی ہے اگر شہرت مفت میں مل جائے تو کیا ہرج ہے۔ پھر دولت راستہ نکالتی ہے شہرت کا۔ اولاد کی تمنا لیے ہم نے کلینک کے لیے راہ نکالی۔ ڈاکٹر نے بڑی احتیاط اور تجیّر نگاہی سے ایک ایک ٹسٹ کیا۔ دوسرے دن رپورٹ ہاتھ میں تھماتے ہوئے ٹکا سا جواب ’’آپ باپ نہیں بن سکتے۔‘‘ میں آج بھی یہ سوچ کر حیران ہوں کہ مرد جب باپ نہیں بن سکتا تو عورت کیسے ماں بن جائے گی؟ یوں تو کُن سے دنیا فیکون ہو گئی، لیکن آنکھیں کھول کر جب ذرا اس زمین کی روئیدگی دیکھتی ہوں تو ٹکڑے ٹکڑے بادل آسمان پر آہستہ آہستہ باہم جڑتے ہیں پھر ایک کثیف ابر بنتا ہے اور بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں، لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے۔ اکثر کثیف بادل ایک دوسرے میں سمٹنے کے بعد بھی زمین بارش سے محروم رہ جاتی ہے۔
… … … …
موسلادھار بارش ہونے کے بعد، تھوڑی دیر رم جھم ہوئی۔ بادل پھٹ گیا، مطلع صاف ہو گیا رونے سے جیسے آنکھیں صاف ہوتی ہیں۔ ہوا کی خوش خرامی سے موسم خوش گوار ہو گیا ہے۔ عارف کا دل ایک بے معنی خوشی کے احساس سے بلّیوں اچھل رہا ہے۔ سلمہ نے بڑے چاؤ سے بیٹے کو تیار کیا جو آؤٹنگ کے لیے بضد تھا۔ عارف نے موٹرسائیکل نکالی، حمزہ کود کر بیک گدی پر بیٹھ گیا۔ دس کلومیٹر چلنے کے بعد چوکوبار آئس کریم کھانے کی غرض سے جیسے ہی دائیں جانب گاڑی کو ٹرن کیا سامنے جاوید کلینک بورڈ پر نظر گئی، بریک لگائے اور غیر ارادی طور پر اس کے قدم اس میں داخل ہو گئے۔
’’آئیے مسٹر عارف‘‘ ڈاکٹر جاوید نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔
’’آپ سے تقریباً چھ سال کے بعد ملاقات ہو رہی ہے۔‘‘
’’اور عارف صاحب کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
’’مزے کی … ‘‘ جاوید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’بچہ آپ ہی کا ہے۔‘‘
’’کوئی شک‘‘ عارف نے مسکراتے ہوئے بچہ سے سلام کرنے کو کہا۔
’’نہیں … نہیں، آپ کی بیوی کہاں ہے، پھر تو وہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’میں نے دوسری شادی اپنی سکریٹری سے کر لی تھی۔‘‘ تھوڑے وقفہ کے بعد … ’’وہ ایک شوخ مزاج، بہت خوب صورت عورت ہے۔ آپ ملیں گے … خوش ہوں گے۔‘‘
’’یہ کہنے کی ضرورت نہیں بچہ کو دیکھ کر ماں کی خوب صورتی کا اندازہ ہو جاتا ہے‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب، میری سونی زندگی میں بہار لوٹ آئی ہے۔‘‘
’’یوں کہیے آپ کی پھیکی زندگی میں رنگینی لوٹ آئی ہے۔‘‘
آپ نے کہا تھا ’’آپ باپ نہیں بن سکتے؟‘‘
’’لیکن میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ کی بیوی ماں نہیں بن سکتی‘‘ ڈاکٹر مسکرایا۔ تھوڑی دیر کے لیے ماحول میں خاموشی طاری ہو گئی۔
’’امّی سے پیار کرتے ہو یا پاپا سے۔‘‘ ڈاکٹر نے بچے کو مخاطب کیا۔
’’امّی تے‘‘ بچے نے اپنی توتلی زبان میں کہا۔
’’پاپا سے نہیں کرتے؟‘‘
’’ہاں … دونوں تے۔‘‘
’’آپ کی پہلی بیوی کا کیا ہوا؟‘‘ ڈاکٹر نے کریدتے ہوئے پوچھا۔
’’ضروری نہیں ہے بنجر زمین کی آبیاری کی جائے … میں نے اسے طلاق دے دی۔‘‘ عارف نے کہا۔
’’آپ نے بُرا کیا‘‘ ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ عارف نے بے زاری کا اظہار کیا۔
’’کیوں کہ تمہاری پہلی بیوی ایک صابر، محتاط اور خود محفوظ عورت تھی۔‘‘
میز پر رکھی ہوئی الحیاتین سیرپ کی بوتل پر بچے کا ہاتھ لگنے سے نیچے گر گئی۔ اچانک چھناک کی آواز ہوئی، ڈسپنسری کی خاموشی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئی … بچہ سہم گیا، ’’پاپا چلئے‘‘ بے ساختہ اس کے منھ سے نکلا۔
٭٭٭
مداری
تماش بینوں کا ہجوم گھیرے میں کھڑا تھا۔ مداری ڈگڈگی بجا بجا کر چاروں طرف گھوم رہا تھا۔
’’ہاں تو مہربان، قدردان یا تو اپنی مرضی سے جموڑے بنو … … ورنہ ہمیں جموڑے بنانا آتا ہے‘‘ اس نے نظر گھمائی ڈگڈگی کو تیزی سے بجانے لگا۔
’’بھائیو جموڑہ ہماری مرضی سے چلے گا، اٹھے گا، بیٹھے گا … ہم جو دیں گے وہی لے گا … آگے مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہو گا‘‘ وہ مسکرایا چاروں طرف نظر گھمائی، دھوتی پہنے کثیر الجسامت شخص کی طرف اشارہ کیا … آگے بڑھ کر اس کے کان میں کچھ کہا وہ نہیں کرتے ہوئے، ہجوم سے نکل گیا۔
مداری نے قہقہہ لگایا، زور زور سے ڈگڈگی بجائی ’’دھوتی والا بابو ڈر گیا … جو ڈر گیا وہ مر گیا … ‘‘ مداری نے کہا۔
تماش بینوں نے ایک ساتھ ہنسنا شروع کر دیا اور آواز گوٗنج گئی
’’ہاں تو بھائی جان، قدردان، ذرا سی دھمک سے ڈر جاتے ہیں، خون دیکھ کر ڈرنے کی تہذیب کو ہم اسی وقت ختم کر سکتے ہیں کہ اڑتی چڑیا کو پکڑ کر ذبح کرنا سیکھیں‘‘ مداری نے اعلان کرتے ہوئے ڈگڈگی بجائی۔
مداری نے گھیرے کے اندار چاروں طرف گھومتے ہوئے تماش بینوں پر نگاہیں گھمائی زور سے تالی بجائی ’’ہاں تو بھائی جان‘‘ ایک پینٹ شرٹ والے نو جوان کی جانب اشارہ کیا ’’ہمیں بہادر جموڑا چاہئے … ‘‘ میں … میں کی آواز ہجوم میں گونجنے لگی ایک کالی ڈاڑھی والا آگے بڑھا … مداری نے ڈانٹتے ہوئے کہا ’’ہمیں بکرا نہیں چاہئے … ہمیں جموڑا چاہئے … بکرا تو ہم خود بنا لیں گے … ڈاڑھی والا ڈر کر پیچھے ہٹ گیا … ہجوم کے درمیان ناراضگی کی بھنبھناہٹ پھیل گئی … مداری کی جانب سخت نگاہوں سے دیکھا اور مجمع چھوڑ کر چل دیا … ۔
تماش بینوں نے قہقہہ لگایا … مداری نے آواز لگائی بچہ لوگ تالیاں بجاؤ ’’قہقہہ اور تالیوں کی گونج میں مداری کا جملہ ’’اگر کسی نے اپنی زمین چھوڑی تو زمین چھوٹ ہی جائے گی‘‘ … مداری نے ڈگڈگی زمین پر رکھی اور میلے کچیلے جھولے سے پیتل کی بانسری نکالی … منہ سے لگائی اور سریلی آواز فضا میں پھیل گئی … کچھ لوگ کرشن کی مرلی پر جھومنے لگے اس کے سرور میں آنکھیں بند ہو گئیں … باقی لوگ وہم و گماں لئے واپس ہو گئے … مداری گھیرے میں گھوم گھوم کر مرلی بجا رہا تھا … اب اس کے دائیں ہاتھ میں ڈگڈگی بھی تھی۔ مرلی اور ڈگڈگی کی آوازوں میں کوئی مناسب سنگم نہ ہونے کے باوجود ہجوم میں کھڑے تماش بین اس بے لطف منظر میں شریک ہونے کی شعوری کوشش کر رہے تھے چونکہ مداری کے خوفناک سحر میں مبتلا ہو گئے تھے۔
مداری نے اپنی فطرت کے مطابق آواز لگائی ’’ہاں تو بھائی جان، قدردان، زمین پر بیٹھ جاؤ … سب کو مٹی میں ملنا ہے راضی راضی غیر راضی‘‘ اس نے ڈگڈگی بجانا بند کر دیا اور مرلی کو اپنے جھولے میں رکھ لی۔
’’یہ مرلی نہیں صور ہے … جو سور ہے، ہمیشہ کے لئے سو جائیں، ورنہ جبراً سُلا دیا جائے گا‘‘ مداری نے بلند آواز میں کہا
فضا میں قہقہوں کا شور گونج گیا … تماش بین مداری کی جانب دیکھ رہے تھے ’’بڑھتی ہوئی آبادی کو کچل دیا جائے گا … بھائی جان، قدردان آبادی کا طوفان خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ کھانے کو ہے نہیں دانے، اماں چلی بھنانے‘‘ ڈگڈگی گھوم گھوم کر بجانے لگا، کچھ لوگ جیسے ہی چلنے کو ہوئے اس نے زور سے آواز لگائی، کہاں جاتے ہو بھائی جان … کوئی نہیں ہے تمہارا نگہبان … میں ہوں تمہارا قدردان … جو ڈالے گا دان وہی بنے گا بھگوان‘‘ بچہ لوگ زور سے تالیاں بجائیں۔
مداری نے ڈگڈگی اٹھائی اور چہار جوانب بجانی شروع کر دی
آگے قطار میں کھڑے تماش بینوں نے ایک ساتھ آواز لگائی ’’مرلی بجاؤ‘‘
مداری نے جھولی سے مرلی نکالی اور ڈگڈگی رکھ دی … مرلی کی سریلی آواز فضا میں گونجنے لگی۔ اگلی قطار کے لوگ اس کے جادو میں کھو گئے، پچھلی قطار میں کھڑے لوگ مرلی کی زہریلی سُر کو اپنے جسم کی رگوں میں سرایت ہوتی ہوئی محسوس کرنے لگے جب بے رُخی سے چلنے کے لئے مڑے۔ مداری نے غصّہ سے بھرے لہجہ میں آواز لگائی ’’زمین مت چھوڑو ورنہ ایسی آگ میں جھونک دیا جائے گا نہ جلو گے، نہ مرو گے … بلکہ مرنے سے بدتر ہو جاؤ گے‘‘ آواز جانے والوں کا پیچھا کرتے کرتے فضا میں گم ہو گئی۔
مداری نے ڈگڈگی بجائی اور آواز لگائی ’’بھائی جان یہ پاپی پیٹ نہ ہوتا تو کوئی پاپ نہ ہوتا، نہ کوئی باپ ہوتا نہ بیٹا‘‘ فضا میں قہقہے گونجنے لگے۔
’’بچہ لوگ تالیاں بجائیں ’’بچوں نے تالیاں بجائیں اور کھلکھلا کر ہنس پڑے ’’ہنسنا بند کرو، سوچو، سوچنا ضروری ہے۔ ہمیں نوٹ چاہئے۔ ہاں تو بھائی جان، قدردان، نوٹ ہوں گے تو ووٹ بھی ہوں گے۔ پاپ ہوں گے تو باپ بھی ہوں گے … ‘‘ مداری گھوم گھوم کر ڈگڈگی بجا رہا تھا اور قافیہ پیمائی کر رہا تھا۔
’’جو چلے گئے۔ ان کو بتا دینا یا تو اپنی مرضی سے جموڑے بن جائیں، نہیں تو تماش بین بنا دیا جائے گا‘‘ ۔ مداری نے زمین پر چادر بچھا دی، پیٹ پر ہاتھ مارا ’جتنا بڑا پیٹ ہو گا اتنا ہی ویٹ ہو گا اور ویٹ ووٹ سے بڑھتا ہے، پیٹ نوٹ سے بڑھتا ہے … ہاں تو قدر دان تالیاں بجائیں۔ دل کھول کر دان دیں اور مان کمائیں‘‘ ۔
کچھ بیٹھے ہوئے تماش بین چل دئیے۔ مٹھی بھر لوگ رہ گئے۔ مداری نے اپنی چادر سمینٹی، جھولی کندھے پر رکھی، ڈگڈگی ہاتھ میں لے کر چل دیا اس کے پیچھے معصوم بچے اور چند لوگ چلنے لگے۔
مداری کو اس بات کا مکمل احساس تھا کہ ڈگڈگی کی آواز پر بھیڑ جمع کرنے میں ناکام رہتا ہے لیکن مرلی کی سر تال پر قدرے بھیڑ میں اضافہ ہوتا ہے۔ تمام سعی و محنت کے باوجود وہ آمدنی اور بھیڑ کی قلت کی طرف سے فکر مند رہتا۔ اس نے پیشہ کی نزاکت اور نکات پر غور و خوض کیا اپنے بزرگ مداریوں سے مشورے کئے اور اس نتیجے پر پہونچا جب تک تعداد میں اضافہ نہ ہو گا پیشہ کی لگام ہاتھ میں نہیں آ سکتی۔ ڈگڈگی کا کھیل فرسودہ ہو گیا اس کی آواز پر لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان نہیں۔ اس نے نئے تماشے کی جانب توجہ دی اور مرلی کی آواز پر بندر نچانے پر ریاض شروع کر دیا اور جب اس کھیل کو لے کر اس نے گلی کوچوں میں چکر لگائے تو تماش بینوں کی بھیڑ میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ تماشہ کا یہ منظر کہ کرشن کی مرلی پر ہنومان ناچے‘‘ ایک نیا اور انوکھا منظر ہے۔
تماش بینوں نے اس نئے منظر کو بڑے شوق سے دیکھا اور بہت سوں نے تعریف کی۔ سائنسی دور نے جو مذہبی جذبہ کی وقعت کو کم کر دیا تھا وہ ترو تازہ ہو گیا تھا۔ یہ منظر ایسا تھا کہ تماش بین اس ادھیائے کو رامائن اور مہا بھارت میں تلاش کرنے لگے۔ لیکن مداری نے نئے پرانے مداریوں کی ایک ایسی جماعت بنا لی تھی کہ تماش بینوں کے درمیان اس نئے منظر کو دُہرا دُہرا کر رامائن اور مہابھارت کا ایک جُز بنا دیا تھا اس نئے منظر کو دیکھ کر تماش بینوں کی مختصر جماعت مداریوں میں شامل ہو گئی اور کچھ لوگوں نے جموڑے بننے کے لئے سر تسلیم خم کر دیا۔ مداری اور جموڑے مل کر تماش بینوں کو اپنی فطرت کے مطابق بیوقوف بناتے رہے۔ اب کوشش اس بات کی تھی کہ ایک ہیجڑوں کی سینا بنے جو تانڈو ناچے اور تماش بین خوف زدہ ہو کو نوٹوں کی بارش کر دیں۔ تاریخ کا وہ باب ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ انہوں نے ازبر کر لیا تھا۔
مداری نے بانسری اور ڈگڈگی کے بے سرے امتزاج کی تال چھیڑی، بھیڑ جمع نہ ہوئی، پھر بانسری کی سر تال چھیڑی، تماش بین جمع ہو گئے۔ بانسری کی آواز پر بندر نچانا شروع کیا۔ مگر امید کے مطابق لوگ جمع نہ ہوئے اور جو لوگ جمع ہوئے گھیرے میں کھڑے ہو گئے۔
’’ہاں تو بھائی جان … آگے والے بیٹھ جائیں … پیچھے والوں کا دھیان رکھیں … ہاتھ جوڑ کر ہندوؤں کو رادھے شیام، مسلمان بولیں جے سیا رام … بچہ لوگ تالی بجائیں‘‘ بانسری اور ڈگڈگی کی ملی جلی آوازیں گونجنے لگیں … بیٹھنے والے کسی مذہبی آہنگ میں کھو گئے۔ مداری نے بندر کو بانسری پر نچایا۔ آواز لگائی‘‘ کھڑے ہوئے بھائیوں میں سے کوئی آئے، گھیرے کے درمیان اکڑوں بیٹھ جائے‘‘ ۔
کھڑے ہوئے تماش بینوں نے اپنے چہروں سے خفگی کا اظہار کیا اور چل دئیے، مداری کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں۔ ’’جو دھرتی چھوڑے، وہ سودائی کہلائے … ہمارے بزرگوں نے لڑائی لڑی، ہمیں آزادی ملی، دودھ کی نہریں بہائیں گے۔ آزادی بچائیں گے خون کی نہریں بہائیں گے۔ بولو جے دھرتی کی … بولو جے دھرتی ماتا کی‘‘ ایک خوفناک آواز گونجی، اور فضا میں دہشت سی پھیل گئی، تماش بین سہم گئے۔ گولائی میں بیٹھے لوگوں میں کچھ لوگ خوف اور نفرت کے ملے جلے احساس کے ساتھ چل دئیے۔
مداری ڈگڈگی اور بانسری پر بندر نچاتا رہا … جانے والے تماشائی بڑبڑائے ’’دھرم میں یہ نیا ادھیائے … ایک اختراع ہے‘‘ ۔
مداری نے اپنے غصّہ کا اظہار اپنی جبراً مسکراہٹ سے کیا۔
مداریوں کی ایک نشست میں غور و فکر ہوا، چہار جوانب سے مایوسی اور ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہیجڑوں کی سینا تشکیل دینے اور مضبوط بنانے کا جنگی منصوبہ تیار کیا جائے۔ اس نئے کھیل کے لئے ایک رتھ بنایا اس میں دھارمک تصویریں لگائی گئیں، مداریوں کی منڈلی کے درمیان مداری ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا رتھ کے پیچھے ہیجڑے تالیاں پھٹکار رہے تھے، ٹھمکے لگا کر تماش بینوں کو رجھا رہے تھے، نگہبان دونوں اطراف قطاریں بنائے، ہیجڑوں کی عصمت کی حفاظت کی خاطر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔
ہیجڑوں کا قافلہ ناچتے گاتے ٹھمکے لگاتے فحش بیانی کرتے آگے بڑھ رہا تھا، مداری نے آواز لگائی ’’ہاں تو بھائی جان، یہ ہیں ہمارے نگہبان … شمال سے جنوب تک مشرق سے مغرب تک ہماری دھرتی، ہماری کھیتی … بچہ لوگ تالیاں بجائیں‘‘ ۔
ہیجڑوں نے تالیوں کی تال پر ٹھمکے لگائے۔ تماش بینوں کی بھیڑ بڑھتی گئی، ہیجڑے تانڈو ناچتے رہے … مداری ڈگڈگی بجاتا رہا … دھرتی آنسوؤں اور خون سے گیلی ہوتی رہی تماش بینوں کی جیبیں خالی ہوتی رہیں، گلے کٹتے رہے … جان بچانے کے لئے جانوں کی بازیاں لگاتے رہے …
’’ہاں تو بھائی جان … تماش بینوں کو سبق سکھانا ہے، جب تک جموڑے نہیں بنیں گے … ہیجڑے آتنک پھیلاتے رہیں گے‘‘ مداری نے ڈگڈگی زور زور سے بجانا شروع کر دیا۔
چاروں طرف خوف و ہراس کے بادل چھا گئے … تماش بین مداریوں کی جانب مایوس نظروں سے دیکھتے، کبھی جموڑوں پر مترحم نگاہیں ڈالتے، ہیجڑوں سے جان و مال کی بھیک مانگتے مگر نراش ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مطمئن ہو جاتے۔
’’جموڑے نہ بننا خود آتنک کو بڑھاوا دینا ہے، جو جموڑا نہیں وہی آتنک وادی ہے‘‘ مداری کی آواز گونجی۔
تماش بین چونک کر مداری کو دیکھنے لگے۔ ایک تماش بین نے ہمت سمینٹ کر کہا ’’اس طرح آتنک سے آتنک ختم کرنے کے لئے یہ دھرتی آتنک سے بھر جائے گی‘‘ ۔
مداری غصّہ سے تلملا گیا اور آنکھوں سے اشارہ کیا ’’تماش بین وہیں ڈھیر کر دیا گیا‘‘ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا، منڈلی چاروں دشائیں گھومتی رہی … ہیجڑوں کی اکثریت بڑھتی رہی اور مداریوں کی ٹولی اقلیت میں آ گئی … ۔
مداری شش و پنج میں آ گئے۔ ایک نامعلوم خوف کے بادل سر پر گھر آئے، مداری تماش بینوں کو رجھانے کی کوشش میں مسلسل ڈگڈگی بجاتے رہے …
ایک دن ہیجڑوں کو اپنی طاقت کا احساس ہو گیا اور انہوں نے مداریوں پر دھاوا بول دیا … شیر کے منہ جب آدم کا خون لگ جاتا ہے تو وہ شہر کی جانب رخ اختیار کر لیتا ہے … مداریوں کے ہاتھوں سے لگام چھوٹ گئی اور اقتدار ہیجڑوں کے قبضہ میں آ گیا رتھ پر سینا براجمان ہو گئی … ہیجڑے ہاتھ میں ڈگڈگی لئے بجانے لگے … ’’ہائے ہائے۔۔ سج رہی، تیری اماں سنہری گوٹے میں … مداریوں کی منڈلی ہائے ہائے … کھل گئی کنڈلی ہائے ہائے … ‘‘ ۔
ہیجڑوں کے تانڈو ناچ نے وقت کی رقاصّہ کے قدم موڑ دئیے تھے، مداریوں کی منڈلی، جموڑوں میں بدل گئی تھی … ل … کن … لیکن تماش بین کل بھی مظلوم تھے اور آج بھی مظلوم ہیں …… … ۔
٭٭٭
بن باس کے بعد
صوتی گونج۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جو اپنے وجود کے لئے پریشان تھی، یکا یک ماحول صداؤں سے مرتعش ہو گیا۔۔ ۔۔ کہ ضرور بناؤں گا۔ زمین پر اپنا ایک نائب، جمیل پری زاد اپنی برتری کے لئے بے چین ہوئے۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا آپ پیدا کریں گے زمین پر ایسے لوگوں کو جو فساد کریں گے اور خون ریزیاں کریں گے جب کہ ہمارے وجود کے سب موسم حمد و ثنا کے سر تال ہیں۔ اسم اعظم کی صدا گونجی کہ میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے اور علم دے دیا اسم اعظم نے اپنے حکم سے اپنی تخلیق کو کل اسماء کا۔ اس طرح خاک وجود کے افق پر چھا گئی، لیکن خاک! خاک جو اس کی ماں تھی، خون آلود ہو رہی تھی۔ وسیع و عریض نیلے آسمان کو گدھوں نے اپنے مکروہ سیاہی مائل پروں سے ڈھک لیا تھا گو کہ زمین پر اندھیرا پھیل گیا تھا۔ اس کے باوجود اگی ہوئی سرخ فصلیں پھر بھی نظر آ رہی تھیں۔ خشک، زرد، ٹنڈ، منڈ شاخوں پر الو دیکھے گئے۔ جو اپنی خوفناک آوازوں سے ٹرٹرا رہے تھے۔ سرخ برہنہ شاخوں میں ہوا کے خنجر پیوست ہو گئے تھے۔ سائے سایوں سے ڈر کر پناہ گاہیں تلاش کر رہے تھے۔ جب اندھیرا مختصر ہوا اور گدھوں کی تعداد میں تقلیل ہوئی تو سورج کی کرنیں زمین پر کانپتی ہوئی دیکھی گئیں اور آسمانوں پر روشنی کے آثار نمایاں ہوئے اس و قت لوگ پناہ گاہوں سے نکل کر اپنی اپنی رہائش گاہوں کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ان کے چہروں پر ہراس کی سطریں پڑھی جا سکتی تھی، جن کی روشنائی گہری تھی اور آنکھوں میں بیچارگی کی لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔ قینچی کی مانند تیز قدم سانپ کی طرح پھنکارتی ہوئی کالی سڑک پر چل رہے تھے۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں دوڑ رہے تھے۔ ان قدموں کے درمیان دو قدم اس کے بھی تھے جس کی آنکھیں پتھر کی ہو گئی تھیں پھر بھی بیچارگی کی نمائندہ تھیں۔ چہرہ جو سیاہ ہو چکا تھا، مریم کی سی پاکیزگی پسینہ کی صورت ٹپک رہی تھی۔ وہ تیزی سے اس مختصر سفر کو طے کر رہی تھی۔ جس کا اختتام ہو نہیں پا رہا تھا بلکہ لا متناہی سلسلہ جاری تھا۔ بڑی کوشش کے بعد ہانپتی کانپتی وہ اپنوں میں پہنچی۔
پنچ جو پرمیشور ہیں۔ ایک دو فٹ اونچے مٹی کے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ اسی لئے انہیں نیچے کی ہر شے چیونٹی نظر آ رہی تھی۔ چبوترے پر ایک پرانا برگد کا پیڑ لگا تھا۔ جس کے اوپر سورج ٹنگ رہا تھا۔ اس میں سے چھن چھن کر روشنی چبوترے پر گر رہی تھی۔ چبوترے کے چاروں طرف بیٹھے اور کھڑے آدمیوں کے سر پر کڑی دھوپ لدی تھی۔ جسے ناتواں لوگ اپنے سرکنڈوں جیسی ٹانگوں پر سنبھالے ہواؤں کی زد پر کھڑے تھے کہ ذرا بھی ہواؤں میں تیزی آئی تو وہ گر جائیں گے۔۔ ۔۔ ۔ یا ٹوٹ جائیں گے ان کو گرنے کا اتنا غم نہیں تھا چونکہ گرنا تو ان کا مقدر تھا خطرہ تو ٹوٹنے کا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پھر پنچ تو بھگوان کے سمان ہوتے ہیں اور بھگوان تو ایک ہوتا ہے اور یہ پانچ یعنی بھگوان سے زیادہ شکتی شالی۔۔ ۔۔ ۔ درگائیں ایک بیل گاڑی کی آڑ میں مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہی تھیں۔۔ ۔۔ ۔۔ اپنے چہروں پر گھونگھٹ کاڑھے مگر اپنے سینے پر رکھے ہوئے کالے کالے نقطوں سے بے خبر، اور نوجوانوں کی آنکھوں کے خنجروں کی نوک پر غیر محفوظ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں محفوظ غیروں کی ناپاک نظروں کے سائے سے بھی۔ جانکی اپنے گھونگھٹ کی آڑ سے پرمیشوروں کو جھانک رہی تھی یا جھانکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جو حقہ گڑ گڑا رہے تھے۔
’’چودہ دن کسی غیر مرد کے یہاں گزارنے سے بہتر تھا کہ وش پی لیا ہوتا‘‘ درمیان میں بیٹھا پنچ اپنی بلی جیسی مونچھوں پر لیموٗں رکھ رہا تھا۔
جانکی کے ہونٹ پھیل گئے۔ وہ بڑ بڑائی ’’ہوں غیر‘‘ ۔۔ ۔۔ وہ غیر اور اپنوں کا فرق سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ ۔۔ ۔ میں۔۔ ۔۔ میں پاروتی ہوں۔۔ ۔۔ شکتی ہوں شنکر کی۔۔ ۔۔ ۔ خود شنکر نہیں ہوں۔۔ ۔۔ اور شنکر تو یہ لوگ بھی نہیں ہیں پھر کیوں یہ میرے سروناش پر تلے ہیں؟ وہ اپنی جگہ کسمسا کر رہ گئی۔
’’بھئی مرنا تو سب کو ہے۔‘‘ دائیں ہاتھ پر بیٹھے ہوئے پنچ نے تیر پھینکا۔
جانکی نے تیر کی کاٹ کو برداشت کیا۔ ’’ہاں‘‘ میرا قصور یہ ہے کہ میں موت سے ڈر گئی۔۔ ۔۔ ۔ کیوں ڈر گئی۔۔ ۔۔؟ کیوں نا نیل کنٹھ کی طرح زہر اپنے گلے میں انڈیل لیا۔۔ ۔۔ لیکن اگر موت شکتی پر قابض ہو جاتی تو۔۔ ۔۔ ۔۔؟ کیا کوئی موت سے نہیں ڈرتا؟ جب جھیر سا گر منتھن ہوا تو دیوتاؤں نے وش پینے سے کیوں انکار کر دیا؟‘‘
ْ ’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ جانکی پوتر ہے؟‘‘ تیسرے نمبر کے پنچ نے کہا۔
’’پراس کا کیا ثبوت ہے کہ میں آپوتر ہوں‘‘ جانکی نے اپنے آپ سے کہا اور اس کے منہ میں کونین کی گولی آ گئی ہو، اس نے زمین پر حقارت سے تھوک دیا۔
پنچ پرمینشور کے فیصلے کے مطابق ’’جانکی کو پاکیزگی ثابت کرنے کیلے اگنی پریکشا دینی ہو گی۔‘‘
جانکی کو محسوس ہوا کہ دریودھن نے بھری سبھا میں دروپدی کو ننگا کر دیا ہو۔ وہ سوچتی ہے مردوں نے عورت کو جنم ہی سے دھو رو کیڑا میں ہارا ہوا دھن کی طرح استعمال کیا ہے۔ لیکن میرا مرد، میرا دیوتا، میرا راگھویندر گوتم رشی کیوں نہ ہوا جس کے شاپ سے اہلّیا کی طرح میں یہاں آنے سے پہلے پتھر کی طرح ہو جاتی، پھر میں بھگوان کی طرح، نہ بولتی، نہ سنتی، نہ محسوس کرتی اور نہ روتی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
مردوں کے درمیان راگھویندر کھڑا سوچ رہا تھا اگر جانکی اگنی پریکشا میں اسپھل ہو گئی تو کیا ہو گا؟ وہ تو آگ میں جل کر جیون مکت ہو جائے گی۔۔ ۔۔ ۔ لیکن میں زندگی بھر اپنی ہی آگ میں جلوں گا۔ کیا میں جانکی کے بغیر زندہ رہ سکوں گا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ آگ جو جانکی کو جلا کر پاپن ثابت کرے گی، پاپن تو مر جائے گی کیوں کہ بھگوان کی طرح وہ پتھر نہیں ہے۔ لیکن کیا پاپ اس کائنات سے مٹ جائے گا؟۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ قتل کی روایت کا وہ سلسلہ راون پر ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ آج تک جاری ہے۔۔ ۔۔ راون ابھی مرا نہیں ہے؟ پھر اس فیصلہ اور سزا کا مطلب؟۔۔ ۔۔ ۔ پنچ پرمیشور اور یہ سنسار تسلیم کر لے کہ جانکی کی جان سلامت تو سب کچھ سلامت ہے، عزت و ذلت، احساس شرم و ندامت سب بے معنی ہو جائیں گے۔ وہ سوچتا ہے میں یدھشٹر کیوں نہ ہوا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ مگر ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے کہ انسان سوچے کہ انار کے پیڑ میں آم نکلیں، آدمی کے سر پر ایک پتھر کی سل رکھی ہے بس وہ اسی کے نیچے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے۔ نکل جانے کی ناکام کوشش ہی کہانی کو جنم دیتی ہے۔
فیصلے کے بعد لوگ اٹھنے لگے اور اپنے اپنے گھر آہستہ آہستہ واپس جانے لگے۔ دن سمٹ رہا تھا۔ سورج کی روشنی ہلکی ہو رہی تھی، دور مغرب میں شفق پھیل رہی تھی۔ آسمان پر پرندے قطار میں اڑ رہے تھے اور ایک پرندہ ڈار سے بچھڑ گیا تھا۔ جو پرندوں کے جھنڈ کو پکڑنے کی کوشش میں تیز رفتاری سے اڑنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ روگھویندر تنہا اس برگد کے درخت کے تنے سے لگا کھڑا تھا۔ سوچتا ہے اس اگنی پریکشا اور جانکی کی پاکیزگی کا کیا تعلق ہے؟ اور پھر کیا پاکیزگی اور ناپاکی میں صرف چودہ دن کا فرق ہے۔ چودہ دن گھر سے غائب رہی تو جانکی ناپاک ہو گئی۔۔ ۔۔ ۔ بہتر تھا مر گئی ہوتی۔۔ ۔۔ ۔ رہا میرے غم کرنے کا تو فرق ہی کیا پڑتا ہے؟ دنیا کے کاروبار میں کمی تھوڑی آتی۔ معمول کے مطابق سورج طلوع ہوتا۔ کاروبار زندگی بدستور چلتا۔ سورج غروب ہوتا لوگ سوتے، لوگ جاگتے۔۔ ۔۔ ۔۔ پنچ پرمیشور کے فیصلے سب میری طرح قبول کر تے؟ انسان کی شرافت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ارجن کی طرح کرشن کے کہے ہوئے پر عمل کر لے اور اپنوں ہی کے خلاف بر سر پیکار ہو جائے اور میں نے بھی فیصلہ قبول کر لیا اپنی شرافت کی دلیل کے طور پر۔۔ ۔۔ کل جانکی وہی عروسی جوڑا پہنے گی جو میرے گھر پہن کر آئی تھی اور اگنی کو شاکچھی مان کر قسم کھائی تھی کہ اس دہلیز سے سفید جوڑا پہن کر ہی نکلوں گی۔ لیکن یہ کیسی بغاوت ہے۔ کیا ریت، روایت، پریت سب ہی کچھ بھول گئی؟ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسے سب ہی کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دینے لگا۔ اس نے آستین سے آنکھیں صاف کیں، اندھیرا پھیل چکا تھا۔ وہ برگد کی شاخ پکڑے کھڑا تھا اس نے اپنے آپ سے کہا ’’رفاقت اور فرقت میں صرف ایک رات کی تفاوت ہے۔ اس رات کے بعد، میں بالکل تنہا رہ جاؤں گا۔۔ ۔۔ ۔۔ جانکی ان کالے کالے بادلوں میں ڈوب جائے گی پھر اندھیرا اور سیاہ راتیں میرے حواس پر سوار رہیں گی۔ راتیں سانپ بن کرڈسیں گی۔ میری رگوں میں زہر گھولیں گی۔ وہی لوگ رہیں گے، پنچ پرمیشور رہیں گے، قریب بہنے والی ندی اسی طرح بہے گی۔ آموں کے پیڑوں پر بور آئے گا، فصلیں اگیں گی، سب کچھ یوں ہی باقی رہے گا۔‘‘ اس نے ایک نگاہ آسمان پر دوڑائی۔ رات بالکل ویسے ہی ہے جیسی چودہ دن پہلے تھی۔ جانکی بالکل ویسی ہے جیسی چودہ دن پہلے تھی۔ پھر تبدیلی کس بات میں آئی؟ ہاں جانکی کا قصور یہ ہے کہ اس نے جان بچائی۔ لیکن کیا جان بچانے کا مطلب اگنی پریکشا ہے؟ اس نے جھٹکے سے اس شاخ کو توڑ لیا جسے پکڑے کھڑا تھا اور پنچ پرمیشور کی جاہِ نشست پر پڑے پتھر پر اس زور سے ٹھوکر لگائی کہ وہ دو گز دور جا پڑا۔ پنجہ میں چوٹ لگنے سے وہ کرا اہ اٹھا اسے لگا جیسے پتھر نے پنچ پر میشوروں کی کمروں کو توڑ دیا ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے دروپدی کے اپمان پر بھیم نے دریودھن کی جانگھ توڑ دیا تھا۔ اس کو سکون ہوا۔۔ ۔۔ ۔ رات کے اندھیرے میں ہر چیز صفر نظر آ رہی تھی اس نے سوچا زندگی میں بھی تو ہر چیر تقسیم ہو گئی ہے اور باقی صرف صفر ہی رہ گیا ہے حالانکہ گوتم بدھا کو گرہست سنسار تیاگ کرنے پر روشنی پراپت ہوئی تھی، مگر مجھے جیون تیاگ کرنے پر اندھیرا؟ چاروں طرف اندھیرا پھیل چکا تھا، ایک خوفناک پر اسرار اندھیرا۔
وہ آہستہ آہستہ قدموں سے گھر پہنچا۔ گھر میں چودہ دنوں سے چراغ نہیں جلا تھا۔ آج پندرہواں دن تھا۔ جبکہ چودہ دن بن باس کے بعد گھر میں چراغاں ہونا چاہئے تھا، مہا لکشمی کی پوجا ہونی چاہئے۔ اسے اچھی طرح یاد ہے۔ جانکی کے غائب ہونے سے پہلے اس رات آسمان پر پورا چاند تھا اور چکور اس کے گرد گھوم رہا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا؟ کل سے چاند گھٹنے لگے گا اور رفتہ رفتہ گھٹتے گھٹتے بالکل غائب ہو جائے گا۔ نہیں۔۔ ۔۔ نہیں چاند پھر ابھرے گا۔ ہر شے ابھرنے کے لیے ڈوبتی ہے اور پنر جنم کا یہ سلسلہ دائروں کی طرح کائنات کے اس سمندرمیں پھیلتا رہتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ میرا چاند بھی ابھرے گا۔ مگر اس کی پہچان کیا ہو گی؟ چاند جب ڈوب کر ابھرتا ہے تو کتنا باریک ہوتا ہے! کتنا فرق ہوتا ہے ڈوبنے کے بعد ابھرنے میں! اس نے دائیں ہاتھ بچھی چارپائی پر نظر اٹھائی جو خالی تھی۔ جس رات جانکی غائب ہوئی تھی، اس رات گھر شمشان ہو گیا تھا۔ چاروں طرف خاموشی کے درمیان صرف میں تھا اکیلا، تنہا، ایک بھوت کی طرح۔ ہر شے مجھ ہی سے شروع ہو کر مجھ ہی پر ختم ہو رہی تھی اور اب چودہ دن بعد خط مستقیم کا وہ دوسرا نقطہ ملا بھی تو اس کی سمت خط منحنی کی طرح مڑ گئی۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ موڑ دی گئی۔ میں نے کب انصاف مانگا تھا؟ پھر کیوں انصاف دیا جا رہا ہے؟ جانکی بری ہے بھلی ہے میرے لیے ہے پھر دنیا میں کون اچھا ہے؟ اور کون برا ہے؟ گناہوں کی صلیب آدم سے لے کر جانکی تک ہر ایک اپنے کاندھے پر لئے گھوم رہا ہے۔ پھر ہابیل اور قابیل جو ایک ہی پیٹ کے تھے عورت کی خاطر ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اس کا علم انہوں نے دو کوؤں کی جنگ سے لیا۔ ایک کوا لہو لہان ہو کر مر گیا تو دوسرے نے پنجوں سے زمین کھود کر اسے دبا دیا۔ کوے نے بھی اتنا ہی کیا جتناس کو علم دیا گیا تھا۔ پھر قصور کس کا ہے سامنے بائیں جانب ایک کونے میں ایک کنکر کے نیچے کوکروچ پھڑ پھڑا رہا ہے۔ پھر جس گناہ کی پاداش میں وہ آگ میں جلے گی تو کیا جلنے سے اس کی عزت واپس آ جائے گی؟۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کتنے پاگل ہیں یہ لوگ، جان ہے تو عزت و ذلت ہے، ایمان ہے جہان ہے۔ اور گر جان نہیں تو ایمان کا کیا مطلب؟ پھر اس میں جان کا کیا قصور؟ قصور ان کا ہے جنہوں نے جانکی کا ایمان غصب کیا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں اندر آج بھی اِندر ہے، دیوتاؤں کا راجہ۔ قصور تو اہلیّا ہی کا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔؟
’’بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ بے شک‘‘ پنجرے میں قید طوطے نے کہا۔
راگھویندر کی نظر پنجرے پر گئی جو جھونپڑی میں لگے ڈنڈے پر لٹک رہا تھا اور طوطا ادھر سے ادھر ٹیں ٹیں مٹھو بیٹا۔۔ ۔۔ مٹھو بیٹا کر رہا تھا۔
’’ہاں تو ہی میرا ہمدرد ہے‘‘ اس نے کہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ یہ بھول گیا تھا، طوطا مٹھو بیٹا کے علاوہ کہہ کیا سکتا ہے؟ طوطا اتنا ہی جانتا ہے جتنا اس کو علم ہے، اتنے ہی اسماء جانتا ہے جتنے اس کو بتائے گئے ہیں، وہ مفاہیم اور معنی سے بے خبر ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ راگھویندر کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔۔ ۔ سوچتا ہے کتنی عجیب سی بات ہے انسان جان بچا کر بھاگنا بھی چاہتا ہے، پھر بھی عزت و ایمان کو جان سے بڑا گردانتا ہے۔‘‘
’’بے شک۔۔ ۔۔ بے شک‘‘ طوطے نے سر ہلایا۔
’’ہاں۔۔ ۔۔ ۔ ہاں‘‘ راگھویندر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ مٹھو بیٹا‘‘ طوطے نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
کل سورج نکلے گا اس کی پہلی کرن جانکی کی موت کا پیغام ہو گی۔ اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے ہیں اور رات کی سیاہی آہستہ گھل گھل کر ہلکی ہو رہی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں نیلے آسمان کا مشرقی ٹکڑا سرخ آلود ہو گیا۔ لوہے کے ایک تار پر جانکی نٹ کا تماشہ کرے گی۔ جائے مقتل پر تماش بین جمع ہو رہے تھے پنچ پرمیشور برگد کے نیچے حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ ہونٹوں پر بے رحم ہنسی کے نقوش صاف دکھائی دے رہے تھے۔ دور کھڑی جانکی اس آگ کے منظر کو دیکھ رہی تھی جس کا وہ خود ایندھن بنے گی۔ چند لوگ اگنی کے چاروں طرف روایت کے مطابق لہک لہک کر ناچ رہے تھے اور اپنی مخصوص آوازوں میں مذہبی گیت گا رہے تھے جن کے الفاظ جاہ و جلال اور عبرت ناک معنی دے رہے تھے۔ آگ کے بلند شعلے آسمان کو چھو رہے تھے۔ آگ جلتی رہی۔۔ ۔۔ رقص ہوتا رہا۔۔ ۔۔ ڈھولک پر پڑنے والی ضرب تیز ہوتی رہی۔۔ ۔۔ اگنی پریکشا ہوتی رہی۔۔ ۔۔ ۔۔ ناچ۔۔ ۔۔ تھاپ۔۔ ۔۔ اگنی پریکشا۔۔ ۔۔ ۔۔ سپھلتا۔۔ ۔۔ کامیابی۔۔ ۔۔ ۔۔ کامرانی دیکھنے والوں نے تالیاں بجا دیں تماش بین خوش ہو گئے۔۔ ۔۔ ۔ پنچ پرمیشوروں کے چہرے اتر گئے جیسے مہابھارت میں کورووں کے جب بڑے بڑے ویر مارے گئے۔۔ ۔۔ اور یدھیشٹر کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی ٹھیک اسی وقت بھیشم پتاما نے کہا یدھشٹر تمہاری وجے اس لئے ہوئی کہ ’’تیو دھرم تنو جے‘‘ (جہاں دھرم ہوتا ہے وہیں وجے ہوتی ہے) راگھویندر چونک گیا اس کی آنکھوں میں سپھلتا کے آنسو آ گئے۔۔ ۔۔ اس نے تیزی سے بڑھ کر جانکی کو باہوں میں بھر لیا، جانکی اس کی باہوں میں اس طرح گر گئی جیسے بھیشم پتاما شرشیا پر پڑے ہوں۔ راگھویندر جانکی کو لے کر گھر چلا گیا۔ برگد کا پیڑ سنسان ہو گیا، چبوترے کے سامنے نمرود کی لگائی ہوئی آگ ٹھنڈی ہو گئی، آسمان پر بادل شیر کی طرح دہاڑنے لگے، بجلی کڑکی، خوب بارش ہوئی، لوگ مست ہو گئے اہلیّا دوبارہ پتھر سے انسانی گوشت و پوست میں تبدیل ہو گئی۔ چاروں طرف خوشیوں کے سنکھ بجنے لگے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
جانکی کا دو بارہ جنم ہوا جیسے انسان پرانے کپڑے تیاگ کر نئے کپڑے پہن لیتا ہے۔ ہر روز نیا دن آتا ہے، آنے لگا۔ زندگی پھر لوٹ آئی تھی جیسے یم راج نے ساوتری کی تپسیا سے خوش ہو کر ستیہ وان کو لوٹا دیا تھا۔ حالانکہ تماشہ ختم ہو گیا مگر زندگی کا تماشہ جاری تھا۔ کائنات کی اسٹیج پر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہر دن اس ڈرامہ کا نیا سین ہوتا ہے، ڈراپ ہوتا ہے اور اس طرح قبائے حیات شب و روز کی چھڑی پر لہٹ رہی تھی اچانک اس لباس پر سکڑن آ گئی جب بھری چوپال میں کلوا نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تھا ’’بتا سالی ایک رات تو کہاں غائب رہی؟ یہ نہ سمجھنا کہ سب لوگ راگھویندر کی طرح عورت کے بھگت ہو گئے ہیں۔‘‘
راگھویندر کے پیروں تلے زمین نکل گئی، اس کے کانوں کی لوئیں جلنے لگیں، پیشانی پر بل پڑ گئے۔ چہرہ سرخ ہو گیا۔ مگر وہ کر کیا سکتا تھا۔ بے بسی کے عالم میں جب اس رات وہ گھر لوٹا۔۔ ۔۔ ۔۔ جانکی بے خبر سو رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ جانکی کو اس قدر مارے کہ چودہ دن کا بدلہ لے لے جو آسیب کی طرح اس کی زندگی سے چپک گئے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ چودہ دن زندگی سے خارج کر دئیے جائیں؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کا جی چاہا کہ جانکی کو اپنی زندگی سے نفی کر دے تو سب جھگڑا ہی ختم ہو جائے۔ پھر نہ کوئی زندگی کا حساب لے گا اور نہ ہی چودہ دن کی ضرب و تقسیم کرے گا۔ وہ آہستہ آہستہ جانکی کی طرف بڑھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
’’ٹیں۔۔ ۔۔ ٹیں۔۔ ۔۔ ۔ مٹھو بیٹے‘‘
وہ چونک گیا۔ جانکی کی آنکھیں کھل گئیں اس نے راگھویندر کو اپنے قریب کھڑا دیکھا۔
’’کیوں، کیا بات ہے؟‘‘ جانکی بستر پر لیٹی تھی۔
راگھویندر اپنی چارپائی پر آ کر بیٹھ گیا اور کچھ نہیں کہا۔ اس کا جی چاہا کہ کلوا کا سر توڑ دے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ مگر وہی ایسا بھی نہ کر سکا۔
’’دل چاہتا ہے کہ آگ لگا دوں اس انصاف کو، اخلاق کی دھجیاں اڑا دوں، سماجی قدروں کو توڑ دوں‘‘ اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اس کی آواز جھونپڑی میں پھیل گئی۔
جانکی فوراً ہی بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’کیا ہوا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ میں نے کیا کیا؟‘‘ اس نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’کچھ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ تو ہے‘‘ جانکی نے کہا
’’بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بے شک‘‘ طوطے نے کہا۔
’’پچ پچ مٹھو بیٹے تم ابھی تک سوئے نہیں‘‘ جانکی نے کہا۔
’’بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بے شک۔۔ ۔۔ ۔ مٹھو بیٹے ٹیں ٹیں۔۔ ۔۔ ۔۔ مٹھو بیٹے‘‘ طوطے نے کہا۔
راگھویندر کی نظر پنجرے کی سخ چوں پر گئی جو سنہری رنگ میں رنگے تھے۔ جس میں طوطا ادھر ادھر پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اچانک بجلی کی سرعت کے ساتھ وہ چارپائی سے اٹھا اور پنجرے کا دروازہ کھولنے لگا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جانکی پنجرے کی طرف دوڑی ’’ارے۔۔ ۔۔ رے۔۔ ۔۔ ۔ رے۔۔ ۔۔ ۔‘‘ طوطا آزاد ہو چکا تھا اور دور آسمان کی وسعت میں ڈوب گیا۔ جانکی کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ ’’یہ کیا کیا آپ نے؟‘‘
میں نے طوطے کو آزاد کر دیا۔ اب یہ رٹے ہوئے الفاظ نہیں بولے گا۔۔ ۔۔ ۔ اب یہ اپنے فطری انداز میں زندہ رہے گا، جہاں چاہے گا بیٹھے گا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جہاں چاہے گا اڑے گا۔‘‘ جانکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
راگھویندر نے جانکی کے آنسو پونچھے، اسے قریب کیا۔ ’’اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا تم کو مجھ سے چھین لے، میں تم کو تم سے چھین لینا چاہتا ہوں۔‘‘
رنگ بدلتے آسمان تلے اندھیرے کا کالا رنگ پھیکا ہو رہا تھا اور نئی روشنی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔
٭٭٭
وہ اور پرندہ
یہ کہانی وہ کی ہے۔ وہ کی تخلیق ایک قطرے میں پوشیدہ تھی۔ جس نے قطرے سے سمندر تک کے سفر میں نہ جانے کتنے سورجوں کو چڑھتے دیکھا اور پھر ان کو اترتے دیکھا۔ یہ سفر جو یگوں پر مشتمل ہے آج بھی جاری ہے اسی سورج دکو پانے کی جستجو میں جو اس تنگ و تاریک مقام سے شروع ہوا تھا جہاں اس کی خوراک گندہ خون تھی اور برہنگی اس کا لباس تھی اب جب کہ وہ با لباس ہو گیا ہے، با شعور ہو گیا ہے۔ (ابھی بے لباسی بے شعوری سے اس کا رشتہ نہیں ٹوتا ہے، بلکہ دائروں کی طرح، یہ سفر، مسلسل سفر، قطرے سے سمندر کا سفر، بے کراں لہروں کا سفر بے پایاں طوفانوں کا سفر، یگوں کا سفر، قرنوں کا سفر، ابھی مسلسل جاری ہے رنگ بدلتے اس آسمان کے نیچے)مگر پھر بھی اس کا اندھاسفر جاری ہے۔ وہ چل رہا۔۔ ۔۔ ۔۔
تھکا ماندہ سورج نے پرندے کی طرح اپنے پرسمینٹ لئے اور وہ کائنات جو کچھ دیر پہلے ست رنگی تھی، یک رنگی ہو گئی ہے۔
پرندہ نے اپنے پر پھڑپھڑانے شروع کر دئیے۔
اب وہ قدم جو سڑک پر چل رہے تھے اچانک بلیک نائٹ بار کی طرف مڑ گئے جو روشنی سے معمور ہے۔ کڑک کا رک کھولی گئی۔
’’وہ‘‘ نے اپنی ناک سکیڑ لی ’’اف کتنی!‘‘
پرندے نے ایک آنکھ بند کی اور گردن کو ہلایا
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں یہ بری ہے، اس کی ممانعت ہے‘‘
’’یار ممانعت تو اس بات کی بھی ہے کہ سڑک پر تیز نہ چلو چونکہ اس سے دھمک ہوتی ہے اور مرنے کے بعد زمین کو زبان مل جائے گی جو رو رو کر فریاد کرے گی۔ اول تو قبر ہی تمہارا کچومر نکال دے گی۔‘‘
’’جب کہ بھاگا نہ جائے تو زندگی کو پکڑنا بھی دشوار ہو جائے گا‘‘ اس نے متحیر ہو کر کہا۔
’’زندگی!!!۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ سٹی بس پکڑنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ بلکہ ذرا بھی سست روی اختیار کی گئی۔۔ ۔۔ ۔ تو پھر، پھر تو آدمی قبر میں سفر طے کرتا ہے۔‘‘
اچانک بارکی روشنی چلی گئی۔ رنگ برنگ کے لباس، سفید اور نیلے رنگ کی چھتیں منقش دیواریں، رنگین کھڑکیاں، سب کی سب ایک ہی رنگ میں تبدیل ہو گئیں، مختلف چہرے، اکائی میں متغیر ہو گئے اور خاموشی کی شائیں شائیں نے پنجہ گاڑ دئیے وہ گھبرا گیا محسوس ہوا جیسے بار تنگ و تاریک ہو گیا ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں پسلیوں میں اور بائیں پسلیاں دائیں پسلیوں میں پیوست ہو گئی ہیں اور ۷۰ستر گز کے کالے بد نما ناگ نے گردن پکڑ لی ہے اور کسی راکھشس کے ہاتھ میں ۷۰ستر گز کا گرز مارنا ہی چاہتا ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ بتا جلدی من ربّک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ما دینک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ من۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ما۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ربک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ دینک؟
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ن۔۔ ہ۔۔ ۔۔ ی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ں‘‘
’’اگر بھاگتی ہوئی زندگی سے چند لمحات مسرتوں کے چرا لئے جائیں وہ پوری زندگی پر بھاری ہوتے ہیں۔ اور پھر تم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ تم تھکے ہوئے بھی تو ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ آخر اس کا علاج؟‘‘ پرندے نے اصرار کیا۔
’’قل۔۔ ۔۔ ۔۔ قل۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ قل۔۔ ۔۔ ل۔۔ ۔۔ ۔ ل۔۔ ۔۔ ۔ قل‘‘
غٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ غٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ غ۔۔ ۔۔ غ۔۔ ۔۔ غٹ‘‘
خاموشی پگھل رہی ہے اور اندھیرا آہستہ آہستہ رنگین ہو رہا ہے۔ اس کا پسینہ پیشانی سے رخسار کی طرف بہہ رہا ہے، اس نے رو مال سے ہونٹ صاف کئے۔ وہ کھڑا ہو گیا کھڑکھڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ کھڑ کمرے میں گونج گئی۔
اب وہ اس طرح چل رہا ہے جیسے سڑک بال سے زیادہ باریک ہو اور تلوار سے زیادہ تیز دھار رکھتی ہو۔ دائیں طرف پان شاپ پر رک گیا جہاں ایک آدمی سگریٹ خرید رہا ہے۔
’’بھائی صاحب۔۔ ۔۔ ۔ ایک۔۔ ۔۔ ۔۔ ک ۹۵ پچانوے نمبر کا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پان‘‘ اس نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔
دوکان پر کھڑے آدمی نے اوپر کی سانس لی اور ناک سکیڑ لی۔
’’لو‘‘
اس نے منہ میں پان رکھ لیا۔۔ ۔۔ ۔ اور سڑک پر اس طرح چلنے لگا جیسے نٹ تار پر چل رہا ہو۔ ہر قدم کو ناپ تول کر رکھ رہا ہو کہ غلط قدم رکھا اور نیچے گرا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ سوچتا ہے کیا میں گر گیا؟ اور اگر گر گیا ہوں تو سنبھل سنبھل کر چلنے کی ضرورت؟۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں مجھے اسی طرح چلنا چاہئے۔ کیوں کہ پان کی دوکان پر ابھی تو ایک آدمی ملا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور۔۔ ۔۔ ۔ راستہ ابھی بہت طویل ہے۔ ناک سکیڑنے والوں کی کمی نہیں۔ پھر اس خوشبو کے پان کا کیا مطلب؟
’’لیکن تم گھبراتے کیوں ہو؟ فضا اس لئے رنگین ہوئی کیونکہ تمہاری پھولی ہولی ہوئی جیب سکڑی اور اگر لوگوں کی ناک سکڑی ہے تو یہ ان کی جیب خالی ہونے کا ردّ عمل ہے‘‘ پرند کا دلاسہ۔
اچانک اس کی بائیں آنکھ میں کیڑا آ کر گرا، وہ تلملا گیا اور جلدی جلدی آنکھ میڑنے لگا اس کی آنکھوں میں پانی آ گیا۔ اس نے آنکھ صاف کی اور بالوں کو اوپر جھٹکا دیا۔ راستہ میں نظر دوڑائی، اندھیرا جاڑے سے کانپ رہا ہے۔ اس نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال لئے۔ پل صراط جیسی سڑک کو عبور کر لیا تھا اور اس کمرے میں اپنے بوجھل قدم کو رکھا جس میں گورستان جیسی خامشی طاری تھی جو اسرافیل علیہ السلام کی دوسری صور کا انتظار کر رہی تھی۔ کمرے میں اس کی مسہری بائیں ہاتھ پہ بچھی تھی اور دروازے کے صحیح سامنے ایک چار پائی تھی جس کا سرہانہ دائیں طرف تھا۔ اس کے ذہن میں آگ سی لگ گئی۔
’’اس میں سرخ ہونے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر مسہری کے قریب چارپائی نہیں بچھی کیا ہوا؟‘‘ پرندے نے سمجھایا۔
اس نے ضبط کر لیا۔ کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ قریب ہی دائیں جانب سنگار ٹیبل پر ٹائم پیس کی کٹ۔۔ ۔ کٹ۔۔ ۔۔ ۔ کٹ کی آواز۔۔ ۔۔ ۔ اس کی ایک آنکھ گھڑی پر دوسری رسٹ واچ پر، دائیں ہاتھ سے فیتہ کھولا اور رسٹ واچ سنگار دان کی ڈرار میں رکھی۔ کپڑے تبدیل کئے اور کرتا پائجامہ پہن کر لحاف میں داخل ہو گیا۔
اس نے چارپائی پر لیٹی ہوئی بیوی کو آنکھ کا اشارہ کیا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی ’’آج موڈ ہو رہا ہے‘‘
’’موڈ۔ ووڈ کچھ نہیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھو اور سو جاؤ۔‘‘
اس کے ذہن کی تمام آگ ہونٹوں پر سمٹ آئی ’’مجھے بڑا تعجب ہوتا ہے کہ تم ذرا بھی میرا خیال نہیں رکھتی ہو۔‘‘
’’کیسا خیال؟ آپ کے لئے روٹیاں پکاتی ہوں، گھر سجاتی ہوں، کپڑے دھوتی ہوں۔ آپ کے بچوں کی پرورش کرتی ہوں۔‘‘
’’کیوں تمہارے بچے نہیں ہیں؟ اگر روٹیاں پکاتی ہو تو کیا میں کمائی نہیں کرتا؟‘‘
’’میں نے کب انکار کیا؟‘‘
’’تم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ تم۔۔ ۔۔ ۔۔ میرا انتظار نہیں کرتی ہو۔ کیا زندگی روٹیاں پکانے، گھر سجانے، کپڑے دھونے بچوں کی پرورش کرنے تک محدود ہے؟‘‘
’’اس سے آگے ہے بھی نہیں‘‘
’’تم جاہل ہو‘‘
’’کھسیانی بلّی کھمبا نوچے‘‘
اس کی پیشانی پر رگیں تن گئیں اور آنکھیں سرخی میں ڈوب گئیں وہ مسہری کے سرہانے کمر لگا کے بیٹھ گیا اور چیخوف کی کہانی ’’دشمن‘‘ کے مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ وہ رات کے مختصر مطالعہ سے ہمیشہ Sleeping Tablet کا کام لیتا ہے۔ لیکن آج کی رات روز محشر بن گئی ہے۔ نہیں نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اپنی صحت۔۔ ۔۔ ۔۔ روٹی کپڑا بچے۔۔ ۔۔ ۔ کھسیانی بلی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اپنی صحت۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کل ملا کر سامان شب حشر بن گئے۔
کمرے میں سکوت طاری ہے، دیوار یں تابوت کی طرح کھڑی ہیں، باہر رات کی جسامت پر کتوں کی بھوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بھوں۔۔ ۔۔ ۔۔ بھوں رینگ رہی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ سوچتا ہے زندگی ایک رات ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ رات ایک اندھیرا ہے۔ اور اندھیرا ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت میں وہ ایک کرن پانے میں سرگرداں ہے جیسے برسات کی ڈراؤنی رات میں بھٹکے ہوئے مسافر کو بجلی کی معمولی سی چمک بھی راستہ دکھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
وہ اچانک گھٹ کر اپنی عمر سے پچیس سال چھوٹا ہو گیا ہے۔
صحن میں چارپائی بچھی تھی، آسمان پر چاند لگا تھا۔ دادی اسے گود میں لئے اچھال رہی تھی۔ وہ اپنا ہاتھ اٹھا اٹھا کر چاند پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ ۔۔ لیکن افسردگی کا احساس بار بار اس کے چہرے پر آ جاتا۔ ’’دادی وہ چاند میں تون بیٹھا ہے؟‘‘
’’بیٹے ایک بڑھیا چاند کی گود میں ہے‘‘
’’پر دادی تم تو مجھے دود میں لئے بیٹھی ہو‘‘
’’ہاں بیٹے میں اپنے چاند کو گود میں لئے ہوں‘‘
’’دادی میں تمہیں تب دود میں لوں گا‘‘
’’بیٹے جلدی بڑے ہو جاؤ‘‘ دادی نے اس کا ما تھا چوم لیا۔
وہ سوچتا ہے چاند آج تک میرے ہاتھ نہیں لگا۔ ابھی تک اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا پہلے تھا حالانکہ میں بڑا بھی ہو گیا اور دادی۔۔ ۔۔ ۔ دادی تو کب کی بادلوں میں چھپ گئی۔
’’دادی میں تب برا ہوں دا‘‘
’’بیٹے خدا سے دعا کرو‘‘
’’اے کھدا مجھے جلدی۔۔ ۔۔ ۔ جلدی برا کر دے‘‘
اور میں بڑا ہو گیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔ لیکن اتنا بڑا ہو گیا کہ میری ماں چھوٹی ہو گئی وہ تو صرف پچیس سال کی عمر میں دادی کے پاس چلی گئی اور اس وقت میں اسے پانچ سال بڑا ہوں اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔
پرندہ مسکرانے لگا تم شاید بھول گئے میں نے کہا تھا ’’بھلا رونے سے کوئی لوٹ آتا ہے۔ تمہیں یاد ہو تمہاری ماں کفن اوڑھے دالان میں لیٹی تھی کافور کی بو چاروں طرف پھیل رہی تھی اور دیوار کے سوراخ میں لگی اگر بتیوں کی خوشبواس میں گڈمڈ ہو رہی تھی۔ پڑوس کی عورتیں چارپائی کے ارد گرد بیٹھی تھیں رشتہ کی عورتیں رو رہیں تھیں، لیکن تمہاری ماں کا مرد دور دور خاموش نظر آ رہا تھا۔ اسے دور رہنے کی سزا اس لئے دی گئی تھی چوں کہ اس مرد نے مرحومہ کے ساتھ زندگی کے گیارہ سال گزارے تھے (اور اگر گیارہ گھنٹے بھی گزارتے ہوتے)تو بھی یہی سزا ہوتی کیوں کہ اس نے نکاح کیا تھا؟ اور وہ عورت جو بے نکاح تھیں اس نے تمہارے باپ کی گود میں دم توڑا تھا۔ اس عورت کی گود میں ایک لڑکا ہے جس کی تخلیق میں تمہارا باپ بھی شامل ہے۔ مرتے وقت اس نے وعدہ لیا تھا ’’اس محبت کے پھول کی پرورش تم اپنے یہاں کرو گے تاکہ اسے باپ بھی مل سکے‘‘ (مگر تمہارے باپ شریف آدمی تھے۔ در اصل ہر باپ شریف ہوتا ہے)پرند نے طنز کیا۔
’’تم الزام لگا رہے ہو؟‘‘ اس نے غصہ میں کہا۔
’’ہاں وہ تمہارے باپ ہیں اس لئے ان سے کوئی غلطی ہونے کے امکان نہیں‘‘ پرند کا طنز۔
اس نے کہا ’’بکو مت‘‘ وہ سوچتا ہے اگر ایسا ہوا بھی ہے تو کیا وہ میرے ساتھ رہ سکتا ہے۔ چلو میں رکھ بھی لوں تو لوگ انگشت نمائی کریں گے۔ یہ مجھے برداشت نہیں ہو سکتا۔ اف کتنی بے عزتی کا مقام ہے۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔‘‘
’’تم اسے رکھنے میں ذلت محسوس کر رہے ہو۔ ذرا اس کے دل سے پوچھو، جب کہ اس حادثہ میں اس کے فعل کو ذرا بھی دخل نہیں۔ اس کی تخلیق اتفاقیہ ہوئی ہے۔ جس طرح تمہاری ہوئی ہے اور سب کی ہوئی ہے۔۔ ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ چند بولوں (اشلوکوں)سے پہلے پیدا ہو گیا اور تم بعد میں‘‘ پرند نے گردن ہلائی۔
’’اف۔۔ ۔۔ ۔۔ میں کیا کروں؟‘‘ اس نے اپنا ما تھا پکڑ لیا۔
’’میرا یہ مدعا نہیں کہ تم شرمندہ ہو نہ ہی تمہارے باپ کی غلطیوں کا شمار کرنا مقصد ہے اور نہ ہی مجھے یہ شکوہ ہے کہ انہوں نے کیوں غلطی کی؟ صحیح بات تو یہ ہے کہ مجھے عزت ذلت، شرمندگی، من گھڑت اصطلاحیں محسوس ہوتی ہیں۔ یہ اصطلاحیں ’’جامد‘‘ نہیں ہیں، یہ بات میں تاریخی اور سماجی پس منظر میں کہہ رہا ہوں۔ اصل میں ہر شخص کی زندگی کے مختلف حادثات کے تحت ان کے معنی بدل جاتے ہیں اور نہ صرف یہ تمام دنیا میں مختلف مقامات پر رہنے والے تمام انسانوں کے سامنے ان کی مختلف تہذیب و تمدن کے سبب اس کے الگ معنی خیال کئے جائیں گے اور لغت میں ان کے ایک ہی معنی نکلتے ہیں‘‘ پرند نے دلیل پیش کی۔
’’میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا‘‘
’’میں سمجھاتا ہوں یہ جو تمہارے دائیں ہاتھ کو میز رکھی ہے اس کو ہم اس لئے میز کہتے ہیں چوں کہ اس کو ہمارے بزرگوں نے میز کہہ دیا اور اگر ہم اس کو کوئی دوسرانام دینا چاہیں (جب کہ حق حاصل ہے)مگر ہم نہیں دے سکتے بلکہ قاصر ہیں‘‘ پرند نے مزید دلیل پیش کی۔
اس نے مسہری کے قریب بچھی میز پر نظریں جما دیں جس پر کتابوں کا ڈھیر ہے جو اسے دھندلی دھندلی دکھائی دے رہی تھیں۔
’’آپ رو کیوں رہے ہیں؟‘‘ بیوی نے کہا
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں راستہ میں کیڑا گر گیا تھا‘‘ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’نکل گیا؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔
’’ہاں، لیکن کسک ابھی تک باقی ہے‘‘ اس نے کہا۔
اس نے اپنا دایاں ہاتھ پیشانی پر رکھ لیا۔ قدرے گردن جھکا لی اور آنکھیں بند کر لیں وہ سوچتا ہے ہر دن لمحوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر لمحہ ایک حادثہ ہے۔ سب کچھ بھولنے کے باوجود وہ لمحہ جواس لمحہ خود ایک حادثہ بن گیا ہے اس رات کے لئے۔
اس وقت سہ پہر تھی سورج رفتہ رفتہ ڈوب رہا تھا لوگ اپنی گھڑیوں میں بار بار وقت دیکھ رہے تھے، ڈاکٹر کے ہاتھ میں نبض تھی، ماں کی آنکھیں کھلی تھیں جو آسمان کو تک رہی تھیں پتہ نہیں خدا کے پاس جانے کی خوشی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں نہیں دنیا چھوڑنے کا غم۔ چھوٹی بہن پلنگ کے قریب تھی میں سورہ یٰسین کی تلاوت کر رہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ہچکیوں کا ایک طویل سلسلہ ’’غیں۔۔ ۔۔ ۔ غیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ اچانک سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی ’’لا الہ الا اللہ‘‘ ایک بلند آواز گونجی۔ اور پھر رو نے کا ایک شور۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ہاں ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ایں ایں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ آں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ آں۔
’’آپ آنکھوں میں سرمہ لگا لیجئے‘‘ بیوی نے مشورہ دیا۔
’’ہیں۔ ہاں اس قدر ٹی بی کا بوجھ اٹھانے کے باوجود اس کو زندہ رہنے کی اس قدر خواہش کیوں تھی؟‘‘ اس نے چونک کر کہا۔
’’کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا کہہ رہے ہیں آپ‘‘ بیوی نے متحیر ہو کر پوچھا۔
’’ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ سب جانتے ہیں۔ کلّ نفس ذائقۃ الموت پھر زندگی سے اتنا پیار کیوں؟‘‘
زندگی بڑی حسین شے ہے۔ انسان کو اس کی قدر کرنی چاہئے۔‘‘ پرند نے گفتگو جاری کی۔
’’اچھا خاموش ہو جاؤ۔ جتنا زندگی سے انسان کو پیار ہو گا۔ آدمی موت سے اتنا ہی ڈرے گا۔ اور پھر زندگی کیوں کر حسین ہو سکتی ہے جب کہ اس کے دامن پر موت جیسا بھیانک دھبّہ لگا ہے‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’وہ تو آنی ہے مگر پھر بھی اپنی تمام تر بد صورتی کے درمیان بھی حسین ہے کنول کی طرح‘‘
’’بات یہ نہیں۔ انسان زندگی کی تضحیک بھی کرتا ہے، اور زندہ رہنا بھی چاہتا ہے۔ لیکن کیوں؟‘‘
’’زندگی کی تضحیک نہیں، بلکہ حالات کی تضحیک کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ حالات کے مطابق ہی وہ زندگی کے بارے میں مثبت یا منفی نظر یہ قائم کرتا ہے‘‘ پرندہ نے عالمانہ گفتگو کی
وہ کچھ قائل سا ہو گیا اور خاموش ہو کر کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑانے لگا۔ رات کا اندھیرا گہرا ہو گیا ہے۔ اس نے ٹائم پیس کو دیکھا چھوٹی سوئی دس کے ہند سے پر بڑی سوئی بارہ کے ہند سے پر زاویہ حادہ بنا رہی تھی۔
’’آپ سو کیوں نہیں جاتے؟‘‘ بیوی نے کہا۔
’’تمہیں کیا تکلیف ہے؟ تم سو جاؤ‘‘
مجھے روشنی میں نیند نہیں آتی‘‘
’’لیکن مجھے اندھیرے سے گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘ اس نے کہا
’’جب کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پھر بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’ہاں‘‘ وہ سوچتا ہے ’’ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم میرے ساتھ ہو‘‘
’’کٹ‘‘
کمرے میں خاموشی اور اندھیرے سے چونک کر ’’مجھے پڑھنا ہے‘‘
’’آپ کو تو ہر وقت پڑھنا ہی ہوتا ہے‘‘ بیوی نے جھنجھلا ہٹ ظاہر کی۔
’’تو کیا تم سے نمک، مرچ اور لکڑی کی بات کروں؟‘‘
’’تو کیا زندگی میں چیزوں کی ضرورت نہیں‘‘
’’ہاں ضرورت ہے۔‘‘ (چند لمحہ خاموشی رہی)
’’ضرورت تو ہر اس چیز کی ہے جس کی ضرورت محسوس کی جائے اور میں نے محسوس کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب تو ضرورت مجھے تمہاری بھی محسوس ہوتی ہے‘‘ اس نے اپنی گردن ہلائی۔
’’یہ ضرورت تو مجبوری کے تحت تم محسوس کر رہے ہو، خلاف، مرضی‘‘ پرند نے کہا۔
’’خلاف مرضی؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں خلاف مرضی‘‘ پرند نے گردن ہلائی
’’بکواس مت کرو!میں ایک مرد ہوں اور یہ عورت میری ضرورت ہے، میری فطرت ہے۔ میری اس سے تکمیل ہوئی ہے‘‘ اس نے سخت لہجہ میں کہا
پرند نے چیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ چیں کرنا شروع کر دیا۔ پھر زور زور سے چیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔ چیں
اس نے دائیں ہاتھ سے پیشانی پکڑ لی ’’للّہ میرا مذاق نہ اڑاؤ‘‘
’’نہیں نہیں میں مذاق نہیں بنا رہا۔ پہلی چیز تو یہ کہ اپنی گفتگو میں لفظ عورت کے بجائے بیوی استعمال کرو اور جہاں تک ’’ضرورت‘‘ ’’فطرت‘‘ اور ’’تکمیل‘‘ کا سوال ہے تو یہ الفاظ تمہارے رسمی اور زبانی ایجاب و قبول کے رشتہ کے تحت ادا ہو رہے ہیں۔ ورنہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’یہ رسمی اور زبانی ایجاب و قبول سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
جسے آپ لوگ شادی بیاہ کہتے ہیں۔ جو الگ الگ قوموں میں الگ الگ طریقے سے رائج ہے وہی عورت جو آپ نکاح کر کے جائز کر لیتے ہیں، لگن منڈپ کے پھیرے لگانے کے بعد ناجائز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگنی کو شاکھشی مان کر عورت کو قبول کرنے والے کی نظر میں نکاح کے بعد عورت کو سویکار کرنا نا ممکن ہے۔ جب کہ نکاح کرنے والا بھی انسان ہے اور منڈپ پر بیٹھنے والا بھی انسان ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ (ایک طویل وقفہ)۔۔ ۔۔ ۔۔ دیکھو مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ عورت کو مرد کی ضرورت ہے اور مرد کو عورت کی۔ یہ ضرورت تو وہیں سے شروع ہو جاتی ہے جب دنیا میں انسان اتارا گیا۔ مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ کیوں اتارا گیا کیسے اتارا گیا؟ انسان کی ہئیت میں اتارا گیا؟ یا اس کی ہئیت شروع شروع میں جانوروں سے مشابہت رکھتی تھی؟
’’نہیں۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نئیں۔۔ ۔۔ ۔ نئیں‘‘
رکو ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ہاں تو میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں وہ اصطلاح جسے ’’سورگ‘‘ کہتے ہیں جو خوبصورتی کی علامت ہے اس میں بھی آدم کو حوا کی ضرورت پیش آئی تھی اور جب یہ پوری کائنات ایک ہی آدم کی اولاد ہے تو اس کے لئے ایک ہی نظام کیوں نہیں۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘ پرند نے دلیل پیش کی
’’تم غلط سوچ رہے ہو۔ در اصل الگ الگ آب و ہوا میں رہنے والے انسانوں کی ضرورتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اس لئے ان کے لئے الگ نظام اور الگ قانون کی ضرورت ہے‘‘ اس نے بھی دلیل دی
’’مانا۔۔ ۔۔ ۔ لیکن میرا اشارہ ان آفاقی ضرورتوں کی طرف ہے جو تمام انسانوں میں یکساں ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ عجیب سا تضاد کلچر و تہذیب کا جب کہ اس لفظ کے معنی ہر قوم میں یکساں ہیں اور یہ معنی بھی انسان ہی نے دئیے ہیں۔ آج انسان لفظ و معنی کے جال میں اس طرح الجھ کر رہ گیا ہے جس طرح مکڑی کے جال میں مکھی پھنس جاتی ہے۔ جتنا وہ نکلنے کی کوشش کرتی ہے اتنا ہی الجھتی جاتی ہے۔۔ ۔۔ ۔ (ایک طویل وقفہ)۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ انسان دنیا میں پہلے آیا مذہب بعد میں۔ اس لئے وہی اصول جو اس نے زندگی کے لئے مرتب کئے ہیں۔ وہ انہیں کے پس منظر میں بولتا ہے۔ چلتا ہے اور یہ سب کے سب زندگی میں اس طرح مدغم ہو گئے ہیں کہ ان کے خلاف وہ سوچ بھی نہیں سکتا جبکہ اس کو حق ہے سوچنے کا بلکہ ان کو اکھاڑ پھینکے کا بھی حق حاصل ہے۔ اور اسی کے تحت وہ زندگی گزارتا ہے۔ اسی چیز نے انسان کو خلاف فطرت زندگی گزارنے کے لئے مجبور کر رکھا ہے۔‘‘ پرند نے طویل گفتگو کی اور خاموش ہو گیا۔
کمرے میں اندھیرا تھا، خاموشی تھی، لیکن اس کے ذہن میں ایک بے ہنگم شور سا تھا۔ وہ تکیہ کے نیچے سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتا ہے اور جلا کر کش لیتا ہے۔
’’میں نے آپ سے کہا ہے زیادہ سگریٹ نقصان کرتی ہے‘‘
’’اور کم سگریٹ کوئی فائدہ کرتی ہے؟‘‘
’’سگریٹ سے کوئی فائدہ نہیں ہے، لوگ کہتے ہیں اس سے کینسر ہو جاتا ہے‘‘ بیوی نے مشورہ دیا۔
’’اور کینسر کا آدمی بچتا نہیں ہے‘‘
’’ہاں‘‘ بیوی نے کہا
’’اور جنہیں کینسر نہیں ہوتا ہے وہ بچ جاتے ہیں کیا؟‘‘
’’کیا لڑنا چاہتے ہو؟‘‘
’’بغیر لڑے بھی تو زندگی میں کوئی لطف نہیں‘‘ اس نے ٹائم پیس کی طرف نظر اٹھاتے ہوئے کہا رول گولڈ کے ہند سے اندھیرے میں چمک رہے تھے۔ گھڑی سوا بارہ پر زاویہ قائمہ بنا رہی تھی۔
’’پاپا لڑنا بری بات ہے، کل جب ہماری ببلو سے لڑائی ہوئی تھی تو آپ نے ہم سے کہا تھا‘‘ لحاف سے منہ نکالتے ہوئے پانچ سال کے بچے نے کہا۔
’’ہاں بیٹے‘‘ اسے محسوس ہوا جیسے وہ اپنی ہی تلوار سے قتل ہو گیا ہو اور چاروں طرف تازہ تازہ لہو بکھر گیا ہو اور اس کے اندر اتنی بھی سکت نہ رہی تھی کہ وہ اپنے ہی بیٹے کو ڈانٹ کر یہ کہہ سکے بیٹے تم ابھی تک نہیں سوئے چونکہ جاگ تو وہ بھی رہا ہے۔ جب وہ اپنے بیٹے کے ہم عمر تھا۔
’’جھوٹ بولنا پاپ ہے، جھوٹ بولنا پاپ ہے، جھوٹ بولنا پاپ ہے‘‘ استاد نے سبق دیا۔ جب یہ سبق رٹ گیا تھا۔ عین اسی وقت کھٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کھٹ ایک آواز
’’جاؤ دیکھ کر آؤ کون ہے؟ اگر مجھے کوئی بلا رہا ہو تو کہہ دینا ہے نہیں‘‘ استاد کا حکم
’’ہے نہیں‘‘
’’کون کہہ رہا ہے‘‘ ماسٹر صاحب کے دوست نے پوچھا۔
’’ہمارے ماسٹر صاحب‘‘
اور پھر ماسٹر صاحب کا زناٹے دار تھپڑ ’’تم بہت بے وقوف ہو‘‘
ہاں انہوں نے بالکل سچ ہی کہا تھا۔ واقعی میں بیوقوف ہوں۔ پرلے درجہ کا بیوقوف اور اگر اس وقت میں اپنے بیٹے کو ڈانٹ دوں تو یقیناً وہ اس وقت مجھے بیوقوف سمجھے گا لیکن جب میری برابر ہو جائے گا تو میری طرح اپنے آپ کو بیوقوف کہے گا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ یہ بچپن بھی بڑا عجیب و غریب زمانہ ہے شاید اس لئے کہ اس وقت کوئی پرندہ درمیان میں نہیں بولتا۔۔ ۔۔ ۔ ل۔۔ ۔ ے۔۔ ۔۔ ک۔۔ ۔۔ ن۔۔ ۔۔ ے۔۔ ۔۔ ۔۔ کن۔۔ ۔ لیکن یہ پرندہ ہے کون؟
یہ وہی پرندہ ہے جس نے شاید میرے ساتھ ہی جنم لیا تھا۔ مجھے اس کی تخلیق کا احساس اس روز ہوا جب میں عذرا کے ساتھ ’’آپا بونی‘‘ کھیل رہا تھا۔ جھوٹ موٹ کے چولھے پر ایک مٹی کی ہنڈیا رکھ دی گئی۔ میں آفس سے واپس آیا۔ منہ دھو یا۔ عذرا نے سامنے کھانا رکھا، پنکھے سے ہوا جھلنے لگی میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ ہم دونوں نے کھانا کھا لیا۔ پھر عذرا نے چارپائی پر لیٹ کر سونے کا بہانہ کیا۔ ذرا فاصلے پر عذرا کے بابا پلنگ پر لیٹے تھے اور اس کی امی ان کے قریب چہرے پر جھکی ہوئی شاید کان میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ مجھے عذرا کی بند آنکھیں بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ اس کے گورے رخسار پر ایک بھلا سا تل تھا۔ میں نے سوچا اس تل کو اپنے ہونتوں میں دبا لوں۔۔ ۔۔ ۔ جیسے ہی میں جھکا عذرا کے باپ کا میرے سر پر ایک زور دار ہاتھ لگا۔ میری آنکھوں میں اندھیرا کے ساتھ ساتھ آنسو بھی آ گئے تھے۔ میں نے صرف یہ سنا تھا ’’اب ایسی حرکت کرے گا؟‘‘
’’نہیں‘‘ بغیر سوچے سمجھے جواب دیا۔ اس وقت میرا خیال تھا شاید میری غلطی یہ تھی کہ میں عذرا کے چہرے پر جھکا تھا۔ اگر عذرا اپنی امی کی طرح میرے اوپر جھکی ہوتی تو شاید آنکھوں میں آنسو نہ آتے۔
اور اس پرند کی اڑان کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب میں نے عذرا کو فطری حالت میں اچانک نہاتے دیکھا تو میرے جسم میں چیونٹیوں نے اپنے ڈنک گاڑ دئیے۔ پھر تو میں نے اس کے مکان اور اپنے مکان کا فاصلہ اس قدر تیز رفتاری سے طے کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ کہ گھر آتے آتے ہانپ گیا۔ لیکن اس پرند کی پیدائش سے پہلے کتنا اچھا لگتا تھا! جب کہ میں نماز پڑھ کر جاہ نماز اٹھاتا اور اس کے نیچے مجھے ریوڑی ملتی تھیں اور ماں کہتی تھیں ’’بیٹے جو بچہ نماز پڑھتا ہے خدا اس کو ریوڑی دیتا ہے‘‘ کس قدر اٹوٹ وشواس تھا مجھے اس بات پر۔ اور جب میں بڑا ہوا تو پتہ لگا ریوڑی ماں رکھتی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ مجھے برا لگا۔ مگر ماں۔۔ ۔۔ ۔۔ خدا۔۔ ۔۔ ۔ خدا۔۔ ۔۔ ۔۔ خدا ہے۔ ماں خالق ہے وہ میری۔۔ ۔۔ نماز پڑھنے کے بعد ریوڑی دیا کرتی تھی مجھے۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں قہار ہے ماں۔۔ ۔۔ ۔۔
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ امی اب۔۔ ۔۔ ۔۔ کاؤن آں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں کھاؤں۔ آں امی تائی مجھے بچا لو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
’’بول حرام زادے تیری کھال کھینچ لوں گی‘‘
’’ارے چھوڑ دے حاجرہ۔۔ ۔۔ ۔ بس بھی کر۔۔ ۔۔‘‘ تائی نے رحم کھایا۔
پھر ماں اس کمرے میں لے گئی جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔ مٹی کا لپا ہوا فرش۔ اینٹوں کی دیواریں، جس پر سفیدی، سیاہی مائل ہو رہی تھی، چھت پر کہیں کہیں مکڑی کے جالے تھے کچھ اشیاء سلیقہ سے، کچھ بے سلیقہ پڑی تھیں۔ گرمیوں کی دوپہر تھی پسینہ کی تیزابیت اور سورج کی تیزی سے بدن میں چلچلاہٹ ہو رہی تھی۔ کمرے میں مسلسل سسکیوں کی آوازیں۔۔ ۔ آں۔۔ ۔۔ ۔ ایں۔۔ ۔۔ ۔۔ آں ایں۔
’’بیٹے بری بات ہے کسی کی بغیر اجازت تم کو گزک نہیں کھانا چاہئے۔ اگر تائی نے رنگ منگایا تھا تو تم نے گزک کیوں کھائی؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اب تو ایسی حرکت نہیں کرو گے‘‘ ماں سمجھا رہی تھی۔
’’ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ایں۔۔ ۔ ایں۔۔ ۔۔ لیکن ہم نے کل ایک آنہ گزک کے لئے مانگا تھا مگر آپ نے منع کر دیا تھا‘‘ اس نے سسکتے ہوئے کہا۔
’’کل بیٹے ہمارے پاس پیسے نہیں تھے‘‘ ماں نے اسے گلے لگا کر چوم لیا، اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور جس طرح وہ دنیا میں آئی تھی اسی طرح روتی ہوئی دنیا سے رخصت ہو گئی۔ میں نہیں جانتا کہ اس درمیان میں وہ کبھی ہنسی تھی یا نہیں۔ لیکن ایک بات پر مجھے ابھی تک ہنسی آتی ہے جب کہ میں اپنے باپ کی بارات میں جا رہا تھا۔
’’ہیں بھائی صاحب ابا کہاں جا رہے ہیں‘‘ چھوٹی بہن نے بڑی معصومیت سے کہا۔
’’نئی امیّ کو لینے‘‘ اس نے کہا۔
’’کہاں سے؟‘‘
’’سبزی منڈی سے‘‘
’’اچھا میرے لئے ٹماٹر اور کھیر ابھی لانا‘‘ بہن نے بڑی معصومیت سے کہا۔
خاندان کے تمام افراد قہقہہ مار کر ہنسنے لگے، اور وہ بے چاری حیرت سے ہمارا منہ دیکھ رہی تھی اور آج بھی اس بات کا ذکر چھیڑ جانے سے ہم لوگ ہنستے ہیں اور وہ ہمارا منہ تکتی ہے اور جب ہم نے نئی اماں کا منہ دیکھا۔ وہ لال کپڑوں میں ملبوس کتنی اچھی لگی تھی کتنا برا لگتا جب کہ تائی چچی کہا کرتی تھیں ’’دوسری ماں ڈائن ہوتی ہے‘‘
’’اچھا‘‘ جی چاہتا تھا ان کا منہ بکوٹ لوں۔
’’تو ہر چیز دھونس سے کھایا کر، آخر تیرے باپ کا مال ہے‘‘ دادا کا مشورہ تھا اور مشورہ تو نئی اماں کو لانے میں بھی شامل تھا۔ آخر پھر کیوں انہوں نے ڈائن کا انتخاب کیا؟ جب کہ ڈائن تو یہ پوری دنیا ہے۔ نئی امی کے آنے سے پہلے تائی کے، پھر چچی کے گھر رہے۔ سب نے رکھنے کی پوری پوری قیمت وصول کی۔ اور وہ عورت جو میرے باپ کی منکوحہ تھی پورے گھر پرسانپ کی طرح کنڈلی جما کر بیٹھ گئی ہے تو یہ تو اس کا حق ہے۔ پھر تمام خاندان کو اتنی تکلیف کیوں؟ اور پھر دوسری ماں۔ آخر وہ بھی کیا کرے؟ جب اس کے بچے ہوئے تو مجھ سے زیادہ پیارے و لاڈلے ہوئے اس لئے کہ وہ اس کی اپنی کوکھ کے تھے اور اگر میں بھی اس کی کوکھ سے جنم لیتا تو مجھے اس عورت کی یاد نہ آتی جس نے سب سے پہلے میرے باپ سے نکاح کیا تھا۔ پھر تو میں بہت پیارا ہوتا۔ اتنا ہی پیارا ہوتا جتنے۔۔ ۔۔ ۔۔ اور آج اپنے تیرے کے چکر میں، میں پرایا ہو گیا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بہت دور ہو گیا ہوں۔
’’تم ایک استاد ہو، تمہیں کلاس میں اس شاگرد سے زیادہ پیار ہو گا جس نوعیت کا اس سے تعلق ہو گا‘‘ پرند نے کہا۔
’’لیکن یہ تو نا انصافی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہا۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ۔ انصاف، رشتے تعلقات، مذہب، سماج، قومیت، خون یہ سب انصاف کے قاتل ہیں اور اتفاق سے انہیں تمام لفظوں سے انسان کی شخصیت بھی مکمل ہوتی ہے۔ اب بھلا انصاف۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔ ہا۔۔‘‘ پرند نے طنز یہ قہقہہ بلند کیا۔
’’کٹ‘‘ کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ اس کے قریب لیٹا ہوا بچہ سو گیا تھا۔ ٹائم پیس جو کہ سامنے سنگاردان پر رکھی تھی رات ۱۲ بج کر ۲۵ منٹ پر رک کر زاویہ منفرجہ بنا رہی تھی اور اس کی کٹ کٹ کٹ کمرے کی خاموشی کو چاٹ رہی تھی۔
’’فڑ۔۔ ۔۔ ۔ فڑ۔۔ ۔۔ ف۔۔ ڑ۔۔ ۔۔‘‘
’’دیکھئے مجھے کتابوں سے نفرت ہے‘‘ بیوی نے جھلا کر کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’تمہارے اور میرے درمیان میں سرحد قائم کر دی ہے‘‘
’’لیکن کتابیں مجھے بہت عزیز ہیں‘‘ اس نے دائیں طرف دیوار پر بنی الماری پر رکھی کتابوں پر نظر دوڑائی اور ہاتھ میں رکھے رسالے کے ٹائٹل پر بنی عورت کی تصویر پر نظر ٹھہر گئی۔
’’دیکھو جی جان ہے تو جہان ہے اور کتابیں بھی ہیں ورنہ ان کو دیمک پڑھتی ہے‘‘ عورت نے مشورہ دیا۔
’’ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہا۔۔ ۔۔ قہقہہ تم بھی لگا سکتے ہو مگر نہیں لگا سکتے۔ کیوں کہ زیادہ زور سے ہنسنا گناہ ہے کیوں؟ پرند نے کہا۔
روشنی پر پھیلائے تھی، مگر اس کے ذہن میں سمندر کے طوفانوں جیسا شور تھا، اور کمرے میں سمندر تہہ جیسی خاموشی تھی۔۔ ۔۔ ۔ وہ سوچتا ہے ’’اس بھری پری دنیا میں اتنا تنہا سا کیوں ہوں ،۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا ہر انسان تنہا ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ہر انسان اپنی، ایک الگ دنیا لئے گھومتا ہے۔ وہ اس دنیا میں اس قدر مگن اور مصروف ہے کہ باہر سے رشتہ منقطع ہو گیا ہے۔ اور انسان دنیا کی بے حسی کا شکوہ کرتا ہے جب کہ وہ خود بے حس ہو گیا ہے‘‘ پرند نے کہا۔
’’لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن یہ بے حسی کیوں کر پیدا ہوئی؟‘‘ اس نے سوال کیا
’’یہ ہماری سوسائٹی کا المیہ ہے۔ کہ عدیم الفرصتی کے اس دور میں، اپنے عزیر کی میت کو بھی کاندھا دینے کے لئے انسان بار بار گھڑی پر نظر جمائے رہتا ہے۔ اب تم اپنے آپ کو دیکھو، صبح اٹھنا، اسکول جانا، ٹیوشن کرنا، رات کو واپس ہونا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر سو جانا۔‘‘
اس نے محسوس کیا جیسے کمرے میں بے حسی سی طاری ہو گئی ہے گو کہ چہار دیواری کے درمیان ڈھائی افراد رہتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کی نگاہیں چھت پر لگے کنڈے پر ٹنگ گئیں اس نے رسالہ مسہری پر بائیں طرف رکھ دیا۔ دائیں طرف بچھی چارپائی پر اس کی بیوی خاموشی سے پڑی اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
’’کیا دیکھ رہی ہو‘‘
’’آپ کو‘‘
’’میں تو بھلا چنگا ہوں‘‘
’’دیکھئے آپ کو ذرا بھی فکر نہیں میرے سر میں اکثر درد رہتا ہے‘‘
’’ڈاکٹر کے چلی جاتیں‘‘
’’کیا سب کام میں ہی کروں، آپ کچھ نہیں کریں گے؟‘‘
’’صبح چلیں گے‘‘
’’صبح آپ اسکول جائیں گے۔‘‘
’’ہاں۔ یہ تو میں بھول ہی گیا۔ اچھا تم خود ہی چلی جانا‘‘
’’ہاں میرے لئے آپ کے پاس فرصت ہے کہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ فرصت تو آپ کو اس پہلی رات بھی نہ تھی جس رات تقریباً ہر انسان کو فرصت ہوتی ہے‘‘
’’اس وقت میں ٹیچرس یونین کا پروپگنڈہ سکریٹری تھا۔ اس رات مٹنگ ہونے کے سبب ڈیڑھ بجے ختم ہوئی۔‘‘
’’میٹنگ کرنے، کمیشن بٹھانے سے مسائل حل ہو گئے ہوتے تو ہندوستان مکرر سورگ ہو جاتا‘‘ پر ند نے کہا۔
’’آپ نے کیا دوسروں کا ٹھیکہ لے لیا ہے جو شخص اپنے مسائل حل نہیں کر سکتا وہ دوسروں کے کیا حل کرے گا؟‘‘ بیوی نے طنز کیا۔
پرند نے زور زور سے قہقہہ بلند کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ اسے لگا پورا کمرا اس کی گونج میں ڈوب گیا ہے۔ ہاہا۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ہا اساتذہ کے مسائل جوں کے توں۔ لیکن رپورٹوں اور قرار داروں میں حل پر اسرار طریقہ سے پوشیدہ ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ علاء الدین کے چراغ کی طرح جب ظاہر ہو گا تو گاندھی جی کے سپنوں کا بھارت سب کو دکھائی دے گا‘‘ پرند نے کہا۔
’’جد و جہد ترقی کا راز ہے جو ہم کر رہے ہیں‘‘ اس نے کہا۔
’’جیسے گوتم سنسار کی مصیبتوں کا انت کرنے کیلئے جنگل کو نکل گئے۔ تپسیا کی، گیان دھیان میں لگ گئے، بھوک پیاس، کٹھن پر شرم بھوگتے رہے۔۔ ۔۔ ۔ لیکن نہ تو وہ موت کا انت کر پائے اور نہ مصیبتوں کا علاج۔۔ ۔۔ ۔ بلکہ خود موت اور مصیبتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اصل میں موت خود ایک انت ہے‘‘ پرند نے وکالت کی۔
’’جد و جہد، صرف مٹنگ یا اجلاس بٹھانے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے عمل بھی ضروری ہے‘‘ بیوی نے گفتگو کا کنارہ پکڑا۔
’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘
’’میں وہی چاہتی ہوں جو ہر عورت اپنے مرد سے چاہتی ہے‘‘
’’تم کونسی عورت کی بات کر رہی ہو، کیا اپنی جیسی۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘ اس نے کہا۔
’’کیا چیز میرے اندر نہیں جو ہر عورت میں ہوتی ہے؟‘‘ بیوی نے کہا۔
وہ سوچتا ہے بے شک تم جسمانی اعتبار سے مکمل ہو۔ اور کہتا ہے ’’میں نے تمہارے حقوق پورے کئے ہیں۔ کیا کمی رہی ہے میرے حقوق میں‘‘
کمرے میں روشنی ہے، خاموشی ہے، سردی ہے اور تمام چیزیں معمول کے مطابق ہیں گھڑی کی ٹک ٹک اور جھینگروں کی جھیں جھیں خاموشی کو چاٹ رہی ہے۔ بڑی سوئی چھ پر چھوٹی سوئی بارہ پر زاویہ مستقیم بنا رہی ہے۔
’’حقوق؟ ہاں (ایک گہرا سانس) روٹی دیتے ہو، تنخواہ دیتے ہو، بچے دیتے ہو‘‘ بیوی نے گفتگو جاری کی۔
’’تمہیں مانگنا چاہتی ہے‘‘ پرند نے آہستہ سے کان میں کہا۔
’’تم بیچ میں کہاں سے بول پڑتے ہو‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا۔ اس کی آواز ٹک ٹک، جھیں جھیں پر حاوی ہو کر قبائے خاموشی تار تار کر گئی۔
’’ہاں میں صحیح کہہ رہی ہوں‘‘ بیوی کی آواز نے کمرے کی خاموشی پر لپٹنے کی کوشش کی۔
’’یہ احسان بھی کیا کم ہے، کہ تم میرے گھر بارات لائے اور میں تمہارے ساتھ چلی آئی؟‘‘ بیوی نے گفتگو کا سلسلہ پکڑا۔
’’بارات لانا، تمہارا میرے ساتھ چلے آنا۔ یہ سب احسان کے دائرے میں نہیں آتا۔۔ ۔۔ ۔ در اصل میری اور تمہاری تکمیل مشیت ایزدی تھی‘‘ اس نے اپنی بیوی کو قائل کرنا چاہا۔
’’کیا تم اس سے آگاہ تھے؟‘‘ بیوی نے بات کا کنارہ پکڑا۔
’’اگر آگاہ ہوتا۔ تو جو، اب ہے، وہ نہیں ہوتا‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
وہ سوچتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ لیکن یہی سچ ہے۔۔ ۔ یہی مشیت ایزدی ہے۔ یہی تقدیر ہے۔۔ ۔ لیکن تقدیر؟ کاتبِ تقدیر نے، وہ کاغذ تو لکیروں سے پہلے ہی بھر دیا تھا۔
’’اس کا مطلب یہ ہوا اب حالات جو آ رہے ہیں وہ انہیں لکیروں کے مطابق آ رہے ہیں تو پھر منّتوں یا تدابیر پر یقین کیوں رکھتے ہو؟‘‘ پرند نے بات منقطع کی۔
’’ہاں۔۔ ۔۔ منتوں سے کیا ہو گا؟‘‘ اچانک اس کے منہ سے نکلا۔
’’کل ہی تو آپ نے چار فقیروں کو کھانا کھلایا ہے منت بولی تھی‘‘ بیوی نے بات پکڑی۔
’’چار فقیروں کو کھانا کھلانے کا ٹرانسفر سے کیا تعلق ہے؟‘‘ پرند نے طنز کیا۔
’’یہ اپنے اپنے یقین اور اعتقاد کا معاملہ ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’یقین؟ افسوس ہے ایسے اعتقاد پر۔ جیسے کہ تقدیر کا کاغذ تمہارے سامنے تحریر کیا گیا ہو اوراس میں لکھا ہو چار فقیروں کو کھانا کھلانے سے ٹرانسفر ہو گا۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہارا ٹرانسفر ہونا ہی تھا چاہے تم منت رکھتے یا نہیں رکھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم اس قدر بزدلے ہو کہ جب بھی مخالف حالات سے غیر محفوظ سمجھتے ہو تو جاہ اماں کے طور پر تقدیر، مشیت، منت کی رٹ لگانے لگتے ہو جیسے طوطا ٹیں۔۔ ۔ ٹیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ٹیں کرتا ہے‘‘ پرند نے بات ختم کرتے ہوئے گردن ہلائی۔
’’تقدیر کا لکھا کون مٹا سکتا ہے؟‘‘
’’سچ کہا‘‘ بیوی نے تائید کی۔
اچانک کمرے کے باہر کھڑ۔۔ ۔۔ ڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ڑ کھڑکی آواز ہوئی اور ہو چونک کر دروازہ کو دیکھنے لگا۔
’’بلّی ہو گی‘‘
’’ہا۔۔ ۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔ ہوں‘‘
’’آپ ڈر کیوں رہے ہیں؟ اب تو کمرے میں روشنی ہے‘‘ بیوی نے کہا۔
’’ہاں‘‘ اس نے کہا۔ وہ سوچنے لگا ’’ہاں اگر زندگی میں روشنی نہ ہو یا روشنی کی تمنا نہ ہو تو پھر باقی کیا رہ گیا؟ سوائے اندھیرے کے۔ کتنی عجیب سی بات ہے کل تک عورت کے بارے میں جو آئیڈیل میرے ذہن میں تھا وہ آج بھی برقرار ہے گو کہ میری شادی ہو گئی ہے اور اب دوسری عورت کا تصور بھی پاپ ہے! ایک گناہ۔ آخر ایسا کیوں؟ اس نے سگریٹ کا آخری کش لیا اور کمرے کی روشنی نے دھوئیں کی چادر اوڑھ لی۔ وہ پھر سوچتا ہے ’’زندگی کے اندھیرے اور اجالے کے درمیان کچھ فرق ہے تو صرف ’’اگر‘‘ کا۔ اگر میں پرائم منسٹر کے یہاں جنم لیتا تو میں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور پھر زندگی کے بارے میں یہ خیال نہیں رکھتا جو اب ہے لگتا ہے لفظ ’’اگر‘‘ کی زندگی میں کتنی اہمیت ہے؟ جب بھی کوئی کام انسان کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو بھی اگر کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کام اس کے موافق ہوتا ہے تو بھی لفظ ’’اگر‘‘ سے اپنی بات واضح کر کے اطمینان حاصل کرتا ہے خود میری زندگی کے رخ کو لفظ ’’اگر‘‘ نے موڑ دیا اگر وہ رات نہ آئی ہوتی۔۔ ۔ لیکن کیوں نہ آتی؟
’’تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے۔ تمہیں رشتہ پسند ہے‘‘ باپ نے پوچھا۔
کمرے میں مدھم روشنی تھی، کم روشنی۔۔ ۔۔ زیادہ اندھیرا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ رشتہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ خاموشی مشورہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ خاموشی اور ایک طویل خاموشی کمرے میں طاری تھی۔
’’اس کا مطلب ہے تمہیں کوئی اعتراض نہیں‘‘ باپ نے خوشی کا اظہار کیا۔
’’نہیں‘‘
’’اب تم سو جاؤ۔ رات ہو رہی ہے‘‘ باپ کا مشفقانہ حکم۔
اور واقعی رات ہو گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اندھیرا پھیل گیا چاروں طرف اور وہ کرن جو اکثر دکھائی دیتی تھی اب جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ماند پڑتی جا رہی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ رات کی سیاہی بہت گہری ہو گئی ہے۔
’’اس لئے کہ اب وہ کرن حاصل ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے‘‘ پرند نے سلسلہ منقطع کیا۔
وہ سوچتا ہے رشتہ میرا ہوا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ میری بیوی کو محرم سے نامحرم تک سب نے دیکھا۔ پھر کوئی باپ اپنے بیٹے کا برا تھوڑئی سوچتا ہے۔ پھر آخر ان کو اپنے فرض سے سبکدوش ہونا تھا۔ آخرمذہبی فرائض بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے‘‘ سوچنے کا ایک طویل سلسلہ۔
’’اگر تمہارا باپ شادی نہ کرتے تو تم کنوارے رہ جاتے۔ تمہارے باپ کا دامن گندہ ہو جاتا۔ اور مرنے کے بعد وہی دامن تم حشر کے میدان میں پکڑ لیتے۔ لیکن یہ سب کچھ ہونے سے پہلے تمہاری بیوی نے تمہارا دامن پکڑ لیا۔ چوں کہ جوڑا آسمان سے اترتا ہے اوراس طرح تینوں کی عاقبت سدھر گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘ پرند نے کہا۔
’’ہاں یہی سچ ہے، آسمانی فیصلہ؟ باپ کی مرضی، تمہاری مرضی حکم ربّی سب سچ ہے‘‘ وہ زور سے چلایا۔۔ ۔۔ کمرے میں آواز گونج گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اس نے گھڑی پر نظر اٹھائی دونوں سوئیاں ۱۲ اور ۶ کے اعداد پر ہاتھ پھیلا کر زاویہ مستقیم بنا رہی تھیں۔
’’کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ آپ ڈر گئے، باہر شاید بلّی ہے‘‘ بیوی نے کہا۔
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہاں بلّی ہے‘‘
کمرے کی دیوار یں کفن پوش مردوں کی طرح صف باندھے خاموش کھڑی تھیں، الماری پر کتابیں خاموشی سے رکھی تھیں، اندھیرا خاموش تھا۔ مسہری خاموش۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ سب خاموش۔۔ ۔۔ ۔ موش۔۔ ۔۔ ش۔۔ ۔۔ ۔۔ ش۔
’’آپ کی خاموشی سمندر سے مشابہ ہے‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ سوچتا ہے کبھی سطح سے تہہ تک کا فاصلہ طے کرو۔
اس نے تکیہ کے نیچے سے پیکٹ نکالا اور سگریٹ ہونٹوں کے دائرہ میں لگا لیا۔ ماچس ادھر ادھر ٹٹولنے لگا۔
’’یہ رہی‘‘
اس نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کی مدد سے تیلی پکڑی اتفاقیہ طورسے اسی انداز میں جس طرح سمن پکڑتی تھی۔
’’مجھے آپ کا سگریٹ جلانا اچھا لگتا ہے، لیکن آپ کا سگریٹ پینا پسند نہیں‘‘
ماچس پر تیلی گھستی تھی۔ اچانک تیلی پر شعلہ نمودار ہو گیا۔ وہ چونک گیا اور تیلی کی سرخ لو کے درمیان پیلے رنگ کو بغور دیکھنے لگا۔
چار پائی پر بیٹھی بیوی اسے گھور رہی تھی یکا یک جب اس کی نظر ٹکرا گئی وہ جھینپ سا گیا اور سگریٹ کو جلانے میں مصروف ہو گیا۔ چہار اطراف سگریٹ کا دھواں کمرے کی خاموشی پر پھیل گیا، سگریٹ کا شعلہ ایش کی پرت کے نیچے، خاکستر میں دبی چنگاری کی طرح چمک رہا ہے اسے محسوس ہوا جیسے وہ چمک انسانی جسم میں تبدیل ہو گئی ہو۔ کتنی اچھی تھی وہ جیسے صبح کی پہلی کرن، چھوٹاسا قد، باریک ناک و نقشہ، نازک سا بدن، انداز گفتگو الفاظ کو چن چن کر ادا کرنا جیسے پھولوں کو چن رہی ہو۔ ہم نے ہونٹوں تک کے فاصلے طے کر لئے تھے۔ چونکہ ہم کلچرڈ تھے اس لئے جسموں کے حصار میں قید رہے گو کہ جی چاہتا تھا اس قید کو توڑ دیں لیکن نہیں توڑ سکے اور ہم انتظار کرنے لگے حالات کے فیصلے کا۔ پھراس کہانی کا بھی وہی روایتی انجام ہوا۔ جس کا سلسلہ آدم کی کہانی سے جا کر ملتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور اب ہم اس قدر غیور ہو گئے ہیں کہ ایک دوسرے کو چاہتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ میں نے ان راستوں کو ترک کر دیا ہے جو اس کے گھر تک جاتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ یہ کیا فیصلہ ہے؟ کس کا فیصلہ ہے؟ ہر بار یہی کہانی دہرائی جاتی ہے، ہر کہانی کا یہی انجام ہوتا ہے ہر انسان کے ساتھ یہی المیہ ہے اور اتفاق سے ہر انسان کا فیصلہ بھی وہی روایتی فیصلہ ہے۔ آخر کیوں؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کیوں؟
’’آپ رو کیوں رہے ہیں؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔
’’سب جانتے ہیں کہانی وہیں ختم ہوتی ہے جہاں سے اس کا نقطۂ عروج ہوتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ لیکن چونکہ تم شتر مرغ ہو اس لئے حالات کے ہاتھوں سونپ کر دیکھے ہوئے راستہ پر اندھی منزل کے مسافر کی طرح چلنا شروع کر دیا‘‘ پرند نے سلسلہ گفتگو کاٹتے ہوئے کہا۔
رات اور روشنی دھندلی دکھائی دے رہی ہے کمرے کی ہر چیز بھیگی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بیوی نے ٹوکا۔
’’دھواں لگ گیا‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’سگریٹ پھینک دیجئے‘‘
’’کیوں‘‘
’’ورنہ جل جاؤ گے‘‘ پرند نے کہا
’’جلنا زندگی کی علامت ہے سگریٹ کی طرح‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ان آبلوں سے ڈرو جو پھوٹ کر زخم بنتے ہیں اور پھر نا سور‘‘ پرند نے کہا۔
’’وقت دنیا کا سب سے بڑا مرہم ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’وقت مرہم ہی نہیں ایک زخم بھی ہے‘‘ پرند نے کہا۔
’’ہاں یہ سچ ہے‘‘ اس نے سگریٹ کا کش لیا۔
’’در اصل جب تم۔ مرہم کا نام لیتے ہو تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے تمہارے سینہ پر ایک بھاری سی سل رکھی ہو‘‘
’’آپ خاموش کیوں ہیں‘‘ بیوی نے کہا۔
’’ابھی تو اس میں شعلہ باقی ہے جب اپنے آپ بجھے گی تب پھینکوں گا‘‘
’’سگریٹ سے بچوں کی طرح ضد کر رہے ہو‘‘ بیوی نے کہا۔
اس کو ہنسی آ گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کمرے میں آوازوں کے سائے رینگ گئے۔ وہ سوچتا ہے The child is the father of manانسان کی عمر کا یہ سفر جو بچپن سے شروع ہو کر بچپن ہی پر ختم ہوتا ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’تمہاری تو یہ باتیں میری تو سمجھ میں نہیں آتی‘‘ بیوی نے کہا۔
’’سمجھانے بیٹھا تو بوڑھا ہو جاؤں گا‘‘ اس نے کہا۔
’’اگر بوڑھے ہو گئے تو اپنے باپ کی طرح باتیں کرنے لگو گے‘‘ پرند نے کہا۔
کمرے میں ٹائم پیس کی آواز ٹک ٹک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ٹک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ٹک جھینگروں کی جھیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جھیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جھیں، اور روشنی اور اندھیروں کے سائے تھے۔
’’تم کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ اس نے گفتگو جاری کی۔
’’سوچ رہی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ غلطی ہمارے بزرگ کرتے ہیں اور خمیازہ ان کی پوری نسل اٹھاتی ہے‘‘
’’ہاں تم صحیح کہہ رہی ہوں۔ ہر انسان گناہوں کی صلیب اپنے کاندھے پر لئے گھوم رہا ہے‘‘ اس نے کہا۔
وہ سوچتا ہے ’’گناہ ارتقائے انسانی کا فطری عنصر ہے۔ پھر انسان، انسان کو کوئی حکم صادر کرتے ہوئے اس کی فطرت کو کیوں نظر انداز کرتا ہے؟
’’ذرا غور کرواس کائنات کی تخلیق بھی ارتکاب جرم کاسبب ہے جس میں مشیت ایزدی بھی شامل تھی اور پھر یہ گناہو سزا کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے‘‘ پرند نے تائید کی۔
’’لیجئے میں کہنا چاہتی ہوں آپ آدم کو لے بیٹھے؟‘‘ بیوی نے کہا۔
’’اچھا بولو‘‘ اس نے کہا۔
’’جب تم بوڑھے ہو جاؤ گے تو ہمارا بیٹا بڑا ہو جائے گا تم اس سے کہو گے کما کر لاؤ، اس کارشتہ کرو گے پھر اس سے پوچھو گے تمہیں پسند ہے یا نہیں۔ اور اگر اس نے کہہ دیا ’’نہیں‘‘ تم کہو گے ناخلف ہے اور اگر ’’ہاں‘‘ کر دی تو تم اپنی بوڑھی گردن ہلاتے ہوئے کہو گے ’’آخر میرا بیٹا ہے مجھ سے خلاف تھوڑئی جا سکتا ہے‘‘ بیوی نے روایت دہرائی۔
’’نہیں۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ میں اپنے بیٹے کو پوری آزادی دوں گا‘‘ اس نے کہا
’’جیسے تمہارے باپ نے تمہیں دی تھی‘‘ بیوی نے کہا۔
’’اگر میں اپنی آزادی کا پورا پورا فائدہ اٹھاتا تو تم میرے گھر نہیں آتیں‘‘
’’لیکن میں تو تمہارا دامن پکڑے بیٹھی تھی‘‘
’’اگر کوئی ضدی عورت میرے بیٹے کا دامن پکڑے بیٹھی ہو تو غلطی میرے سر جائے گی یا میرے بیٹے کے؟‘‘
پرند نے قہقہہ بلند کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہا۔۔ ۔۔ ۔ ہاہاہا۔
’’نہیں، وہ غلطی نہ تمہارے سر جائے گی اور نہ تمہارے بیٹے کے، غلطی ہمیشہ عورت کے سر جاتی ہے‘‘ بیوی نے کہا۔
وہ خاموش ہو گیا، کمرے میں خاموشی طاری ہو گئی۔
’’جس طرح ہر غلطی کی ذمہ دار میں ٹھہرائی گئی ہوں۔ در اصل عورت، مردوں کے ہاتھوں کا ایک کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ اور نہ صرف مرد بلکہ عورت کے ساتھ عورت بھی ظلم کرنے میں نہیں چوکتی۔
’’اس میں شوہر کا کیا قصور؟‘‘ اس نے کہا۔
شوہر کی خدمت کرے تو کہا جاتا ہے۔ بیٹے کو والدین سے جد ا کرنا چاہتی ہے، یا یہ کہ ہر وقت میاں کے پاس گھسی رہتی ہے۔ سارا دن کام کاج کرنے کے باوجود کسی کو آنکھ تلے نہیں آتا۔ صبح جلدی اٹھو، رات کو دیر سے سوؤ۔ پھر بھی مرد کے لئے جاگو۔ ہر فرد کی جائز ناجائز بات برداشت کرو۔۔ ۔۔ اگر میکے والوں کی بھی برائی ہو رہی ہو تو بھی برداشت کرو۔ عجیب مصیبت ہے اب دیکھو نا تمہارے باپ کو یہ شکایت ہے کہ ہم لوگ ان کی مدد نہیں کرتے۔ کل تین سو روپیہ میں گزارا کرنا ہوتا ہے۔ چالیس روپیہ مکان کا کرایہ، دودھ، گیہوں، ایندھن اور روزانہ کے اخراجات۔۔ ۔۔ ۔ ننگی کیا اوڑھے کیا سکھائے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’آدمی ٹنگیں کاٹے یا چادر تان کر لمبائی بڑھائے۔ جو نا ممکن ہے‘‘ پرند نے بات کاٹی۔
’’بہن بیٹیوں کا آنا جانا، لین دین بھی تو ضروری ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ نہ کیا جائے تو دنیا والے کیا کہیں گے، باوجود اس کے، تمہارے باپ کی یہ شکایت کہ میں نے ان کے بیٹے کو چھین لیا ہے‘‘ بیوی کی طویل گفتگو۔
’’ہاں، یہ سب صحیح ہے، لیکن ان کا یہ سوچنا بھی غلط نہیں کہ آخر میں ان کا بیٹا ہوں۔ انہوں نے میری پرورش بھی اسی انداز اور اسی چاہت سے کی ہو گی، جس طرح پم اپنے بیٹے کی کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے حقوق پورے نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ آخر ان کے سامنے بھی تو پورا پورا خرچ ہے جس کو وہ اپنے بوڑھے کاندھے پر اٹھائے گھوم رہے ہیں اور میں جو ان ہو کر بھی ان کا بوجھ ہلکا نہیں کر پایا۔ کبھی کبھی تو مجھے شرم آنے لگتی ہے۔ مگر چونکہ زندگی گزانی ہے۔ اس لئے بے شرم ہو کر زندگی گزار رہا ہوں‘‘ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔
’’یہ سب ٹھیک ہے، میں نے کیا آپ کو روکا ہے کہ آپ ان کی مدد نہ کریں۔ پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ میں نے بیٹے کو باپ سے جدا کر دیا۔۔ ۔۔ ۔۔
’’اچھا اب خاموش ہو جاؤ‘‘ اس نے بات کاٹی
’’کیوں‘‘ بیوی نے پوچھا۔
’’میں نے تم سے کتنی بار کہا ہے، بڑے بوڑھوں کی بات کا برا نہیں ماننا چاہئے، برداشت میں جو مزہ ہے وہ کسی میں نہیں‘‘ اس نے کہا
’’کب تک برداشت کیا جائے، ایک حد ہوتی ہے‘‘ بیوی نے کہا
’’اگر برداشت نہیں کرو گی تو گھر میں فساد ہو گا۔ جو مجھے پسند نہیں اور یہ تمہارا فرض ہے کہ تم میری پسند، نا پسند کا خیال رکھو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’اس لئے کہ تم ایک مرد ہو اور پھر تمہارا مرتبہ اس لئے بھی بلند ہے کہ تم ایک شوہر ہو‘‘ پرند نے قطع کلامی کرتے ہوئے طنز کیا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جس طرح میں تمہاری پسند نا پسند کا خیال رکھتا ہوں‘‘ اس نے اپنی بات پوری کی
’’کیا خیال رکھتے ہیں؟ مجھے یہ نا پسند ہے کہ تمہارے ماں باپ، بہن بھائیوں کی ناجائز بات سنوں‘‘ بیوی نے کہا۔
’’تم نے ان باتوں کو گنا دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ذرا سوچو میں علیحدہ صرف اس لئے ہوا کہ تمہارے اوپر کوئی ظلم نہ ہو۔۔ ۔۔
’’غلط، اس لئے ہوئے کہ تمہارا ذہنی سکون برقرار رہے‘‘ پرند درمیان میں بولا۔
’’۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ رہی ماں باپ کی بات، سوچ لو جیسے تمہارے ماں باپ ویسے یہ ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
’’اسی انداز میں تمہارے ماں باپ کو بھی سوچنا چاہیے کہ یہ ان کی بیٹی ہے‘‘ پرند پھر بولا۔
’’اور تمہارے چھوٹے بہن بھائی جو چاہے کہہ جاتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر ان کی حمایت یہ کہہ کر کیوں کی جاتی ہے کہ دیور نندوں کا رشتہ بڑا ہوتا ہے؟ وہ جو چاہیں کہیں، سننا پڑے گا‘‘ بیوی نے کہا۔
’’اچھا چپ ہو جاؤ۔ فضول کی باتوں میں رات نہ گنواؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
کمرے میں پھر خاموشی، دیواروں پر روشنی اور اندھیرے کے سائے میں لپٹی ہوئی خاموشی۔
’’میں یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہوں کہ تم عورت ہو اور تمہاری تخلیق ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’تمہیں پھر بھی یہ شکایت ہے کہ میں اپنا عورت پن کیوں نہیں بھولتی؟‘‘
’’تم کو اس کے عورت ہونے پر شکایت ہے۔ جب کہ تم اپنا مرد پن جتا رہے ہو۔۔ ۔ پھر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پھر یہ کیوں بھول رہے ہو وہ ٹیڑھی پسلی تمہاری ہے۔ اسی لئے وہ تمہارے جسم کا ناقابل تقسیم جز ہے۔‘‘ پرند نے کہا۔
’’پھر تم نے ہی مجھ سے کہا تھا کہ کوئی کسی کا باپ نہیں، کوئی کسی کا بیٹا نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پیسہ باپ ہوتا ہے اور پیسہ ہی بیٹا‘‘ بیوی نے جیسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
’’اور وہی میری دی ہوئی تلوار تم میری گردن پر رکھ رہی ہو۔‘‘
وہ سوچتا ہے۔ ہاں میری بیوی سچ کہتی ہے۔ میں سروس کے لئے بہت پریشان تھا، گھر میں کوئی عزت نہیں تھی، فیملی کا زائد فرد تھا۔ بہن بھائی، سوتیلی ماں اور باپ کے درمیان بالکل اکیلا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جی چاہتا تھا خود کشی کر لوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
’’جرأت مندانہ عمل ہوتے ہوئے بھی حرام ہے‘‘ پرند نے کہا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ اور جب معمولی سروس ملی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔۔ ۔ خوشیوں کے آنسو، قیمتی آنسو، اس وقت میرے ان آنسوؤں کو رضیہ نے اپنی مٹھی سمیٹ لیا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اور جب اس کی شادی ہوئی تو اس نے آخری خط میں لکھا کہ تہاری یاد میری قبر میں شمع کی طرح روشن رہے گی اور میدان حشر میں نفسی نفسی کا عالم ہو گا تو میری نگاہیں تمہیں تلاش کریں گی اور اگر تم نے اس وقت بھی میرے ساتھ بے رخی برتی پھر بھی میں شکایت نہیں کروں گی۔ بلکہ اس وقت بھی اپنی قسمت کو مورد الزام ٹھہراؤں گی کیا سمجھے ہاں؟‘‘ وہ سوچتا ہے اس وقت رضیہ کیسی ہو گی؟ کیا اس کو میری یاد آتی ہو گی۔ ضرور آتی ہو گی میں بھی تو اس کو یاد کر رہا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں سب جھوٹ ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
پرند نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا ’’کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا لوگ مرنے والوں کو بھی بھول جاتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ایک جان ہزاروں غم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کس کس کو یاد رکھے۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا وہ پاگل نہیں ہو جائے گا۔۔ ۔۔ ۔۔ اور پھر یاد رکھنے یا بھولنے سے اس کائنات میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کوئی پیدا ہو جائے یا مر جائے کائنات کا نظام جس طرح چل رہا ہے، چلے گا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ انسان اس قدر سنگ دل نہیں ہو سکتا‘‘ اس نے کہا۔
’’کسی اپنے عزیز کی موت کے بعد بھی، وہ کھانا کھاتا ہے، پانی پیتا ہے، زندگی کے تمام حقوق پورے کرتا ہے۔ یہ سنگ دلی نہیں ہے بلکہ تقاضۂ فطرت ہے، مجبوری ہے۔۔ ۔۔ ۔ (مختصر وقفہ)رضیہ جو قبر میں بھی تمہارے ساتھ چلنے کو راضی تھی۔۔ ۔۔ ۔ اب وہ اپنے شوہر اور بچوں میں اس قدر مشغول ہے کہ اسے ذرہ برابر بھی خیال نہیں آتا۔ اور یہ اس کا قصور نہیں۔‘‘ پرند نے کہا۔
’’یہ فطرت انسانی، جانور کی خصلت سے ملتی ہے‘‘
’’جسے تم جانور کی خصلت کہتے ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ ہی زندگی کی حقیقت ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ اور انسانی تہذیب کی نشانی بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘ پرند نے فلسفیانہ دلیل دی۔
’’پھر مجھے ام شب رضیہ کیوں یاد آ رہی ہے؟‘‘ اس نے کہا۔
’’اس وقت تمہیں رضیہ کی معصومیت پر ہنسی آئی تھی۔۔ ۔۔ اور اس رات تمہیں رضیہ کی یاد ستا رہی ہے۔ شاید اس لئے جب تم اس کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نکہت سامنے کرسی پر دو زانو بیٹھی تھی۔ کمرے میں اتھاہ خاموشی تھی، دیواروں پر ٹیوب لائٹ کی دودھیا روشنی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ درمیان میں ایک میز تھی اور اس پر کتابیں رکھی تھیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ تم نے نکہت کو مشت میں قید کرنا چاہا لیکن باد صبا کا جھونکا اسے اڑا کر لے گیا۔۔ ۔۔ یکا یک دروازہ کی کنڈی کی آواز ہوئی وہ چونک گئی۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔ کہہ کر نکہت پیچھے ہٹ گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور پھر وہ اپنے ہی خول میں قید ہو گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ میز درمیان میں رکھی تھی اس پر کتابوں کا بوجھ تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ رضیہ کی معصومیت تم نے نکہت کے اندار تلاش کرنی چاہی۔۔ ۔۔ ۔۔ اور نکہت تمہیں کتابوں میں تلاش کرتی رہی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ حقیقت ’’زندگی‘‘ میں ملتی ہے۔ کتابوں میں نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ پرند نے یاد دلایا۔
میں نے کمرے میں نظر دوڑائی تھی، درمیان میں میز تھی، چھت پر پنکھا گھوم رہا تھا۔ اس کی سائیں سائیں کمرے کی خاموشی کو چاٹ رہی تھی۔ دائیں جانب رکھی ایک میز پر گل دان میں پھول مرجھا رہے تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ میں چاہتا تھا سمن کو پھر سے خوشبو اور تازگی مل جائے۔۔ ۔۔ میں یہ بھی چاہتا تھا کہ جو رنگ پھیکا ہو گیا ہے۔۔ ۔۔ ۔ وہ مکرر گہرا ہو جائے۔
’’نکہت تم اس انداز میں سوچو، جس انداز میں، میں سوچ رہا ہوں‘‘ میں نے کہا تھا۔ کمرے میں خاموشی جوں کی توں تھی، پنکھے کی سائیں سائیں چاروں طرف رینگ رہی تھی۔ پھر ہوا کا جھونکا آیا کھڑکی کے پٹ کھل گئے۔ میں سوچنے لگا ا س خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ مجھے ایک پرانا تجربہ ہے کہ میری خاموشی کو دوسروں نے اقرار تسلیم کیا ہے جب کہ مجھے انکار تھا۔
’’کبھی کبھی بے تکلفی کس قدر معقول لگتی ہے تم سے یاسمین نے کہا تھا ’’میرے خون کا ایک ایک قطرہ، جسم کا ایک ایک رونگٹا آپ کا ہے اور تم اس لئے مسکرا گئے کیونکہ شریف ہونے کا فخر تھا تم کو۔‘‘ پرند نے اس وقت مجھے قائل کیا تھا اور اس ڈرائنگ روم میں پرند کے ساتھ میں بالکل اکیلا رہ گیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار مجھے پرند پر پیار آیا مگر مجبوری یہی تھی کہ دام گرفتاری کے باوجود اس کی آزادی کو مصلوب کرنا نا ممکن تھا پرند تو پھر پرند ہے۔ اس وقت ڈرائنگ روم میں نکہت تھی۔ درمیان کی میز پر کتابوں کا بوجھ، ہمارے انٹلیکچول ہونے کی پہچان، ہمارے موضوع بحث ٹیگور، غالب، منٹو، کا مو، وغیرہ تھے، ان شخصیتوں کے بارے میں عالمانہ گفتگو کر کے یا تو ہم دونوں ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے تھے یا اپنے آپ کو، ممکن ہے اپنے اپنے وجود کو بھولنے کے لئے انسان دوسروں کی شخصیتوں پر غور کرتا ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کو بھولنے کے لئے انسان دوسروں کی شخصیتوں پر غور کرتا ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود اس ڈرائنگ روم میں بالکل تنہا تھا۔ بے چین سا۔ اور اسی کرسی پر پہلو بدل رہا تھا۔ اچانک اسی لمحہ مجھے یاد آیا تھا۔ جس دن میں سمن سے آخری بار ملا، پھرا س کے بعد اس سے ملاقات نہ کر سکا۔ وہ کرسی کتنی اچھی تھی، جس پر بیٹھ کر میں ہمیشہ اس کے ہونٹوں کو چومتا تھا اور اس کی خوبصورت، ملائم اور سیاہ زلفیں اپنے ہاتھ میں لپیٹ کر آنکھوں سے لگا لیا کرتا تھا لیکن راز داری کا یہ جذبہ ظاہر ہوا، ذلت اور ناکامی کا سبب بن گیا۔ کیا کوئی انسان اس جذبہ سے مبرا ہے۔ اور اگر نہیں تو پھر انسان اس یاس کو اپنے ساتھ کیوں لئے پھرتا ہے؟ اور یہی نکہت جو بیٹھی ہے ایک دن اسی ڈرائنگ میں اسی طرح بیٹھی تھی۔ میں نے سگریٹ جلائی تھی۔
’’مجھے سگریٹ کی خوشبو اچھی لگتی ہے‘‘ نکہت نے کہا تھا۔
میں اس وقت یہ سوچ رہا تھا سمن کو سگریٹ جلانا پسند تھا اور نکہت کوسگریت کی خوشبو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کیسا عجیب اتفاق ہے۔ کاش نکہت میں تمہارے ہونٹوں کی حدت اپنی انگلیوں کے لمس سے محسوس کر سکتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن کبھی کبھی سوچتا کہ کہیں یہ سمن کیساتھ بے وفائی تو نہیں۔
’’محبت کے بارے میں وہ روایتی تصورات جب کہ ہواؤں میں محل تعمیر کئے جاتے تھے اب تقریباً چکنا چور ہو چکے ہیں اور تم اب تک ماضی سے بھوت بن کر چمٹے ہوئے ہو‘‘ پرند نے کہا۔
’’ہاں میں بھول نہیں پاتا‘‘ اس نے کہا۔
’’تمہاری یہ روایت پرستی تمہارے وجود کے لئے ایک خطرہ ہے‘‘ پرند نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
’’میں روایت پسند نہیں۔۔ ۔۔ ۔ لیکن بھول نہیں پاتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک چیز یاد ہوتی ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’Reasoning کی بنیاد پر انسان کو حیوان پر فوقیت حاصل ہے‘‘ پرند نے کہا۔
’’لیکن Sense of beauty بھی انسان کی ایک پہچان ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘‘
’’مجھے اس سے کوئی انکار نہیں لیکن جو انسان جذبات کا سراسر غلام ہو وہ Normal نہیں ہو سکتا‘‘ پرند نے کہا۔
’’لیکن کیا انسان کی تکمیل بغیر جذبات کے مکمل سمجھی جائے گی۔ کون سا انسان ہے جو اپنی ماں کی موت پر آنسو نہ بہاتا ہو، خوبصورت عورت کو دیکھ کر جذبات متحرک نہ ہوتے ہوں۔ قدرت کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کی خواہش نہ رکھتا ہو۔‘‘ اس نے کہا۔
’’در اصل ہم اپنے عزیز و اقارب کی موت پر روتے چلے آئے ہیں، اس لئے روتے ہیں۔ اگر ہمارے بزرگوں نے خوشیاں منائی ہوتیں، تو ہماری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں ہوتے۔ خوبصورت عورت کو دیکھ کر جذبات تب ہی متحرک ہوتے ہیں جب کہ انسان کے پیٹ میں روٹی ہوتی ہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ خوبصورت مناظر سے ہر آدمی لطف اندوز ہو سکتا ہے‘‘ پرند نے دلیل پیش کی۔
’’محبت کا روٹی سے کوئی رشتہ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جمالیاتی حس سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے‘‘ اس نے کہا۔
مجھے معلوم تھا تم یہی کہو گے۔ در اصل محبت کا عمل، غیر شعوری طور پر ایک جنسی رد عمل ہے۔ ورنہ محبت، یاد، وفا، انتظار یہ شاعری کی اصطلاحیں ہیں۔ زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘ پرند نے کہا۔
میں محبت سے انکار نہیں کر پاتا‘‘
’’یہ حقیقت تمہاری فطرت میں داخل ہو چکی ہے اور میں انسان کی فطرت سے انکار نہیں کرتا مگر میں ان فرسودہ روایتوں کا قائل نہیں ہوں جن کی وجہ سے انسان، انسان نہ بن کر کچھ درمیانی سی چیز ہو کر رہ گیا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے مطابق زندہ رہے تب ہی حقیقی مسرت پا سکتا ہے۔ در اصل تمہاری سوسائٹی نے جو روایتیں بنائی ہیں مجھے ان سے انکار نہیں۔ میں محبت کا مخالف بھی نہیں ہوں۔ جانتے ہو نکہت جسے تم اب دل کی گہرائیوں چاہنے لگے ہو، وہ بھی اس روایت کی شکار ہے کہ محبت کی کامیابی یہ ہے کہ شادی ہو جائے۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن محبت کی منزل شادی نہیں ہے۔۔ ۔ محبت ایک تمنا کا نام ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جس کی تکمیل کی کوئی گنجائش نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ تو ایک راستہ کا نام ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور یہ ’’پرائے آدمی‘‘ کا غلط تصور وہ لوگ رکھتے ہیں جو محبت کے مفہوم سے ناواقف ہیں۔ آج جو تم نے نکہت کی قربت چاہی تمہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ چوں کہ تم ایک پرائے آدمی ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اس سلسلے کا شدید احساس ایک نا مکمل انسان کی پہچان ہے‘‘ پرند نے مدلل گفتگو کی۔
’’لیکن بے حسی بھی، انسان کی پہچان نہیں‘‘ اس نے کہا۔
میری بات ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، در اصل اپنی تہذیبی عظمت میں چار چاند لگانے کے لیے انسان نے جو قدر یں مرتب کر لی ہیں انہیں کو مان کر اپنی زندگی گزار تے ہو کیا تم بتا سکتے ہو جو بیوی تمہارے قریب سو رہی ہے اس کے پرانے عاشق کو سلام کرتے اور لیتے وقت تمہیں پسینہ کیوں آ جاتا ہے؟‘‘ پرند نے بات مکمل کی۔
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ اس سلسلے میں، میں نے اپنی بیوی سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا‘‘ اس نے کہا۔
’’یہ تمہاری عظمت ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن اس کے عاشق سے رقابت کا جذبہ یہ تمہاری روایت ہے‘‘ پرند نے کہا۔
’’یہی روایت، میری فطرت ہے‘‘ اس نے کہا۔
کوئی فطرت نہیں، جو گزر گیا، سو گزر گیا۔ دیکھو سچ وہ ہے جو سامنے ہے۔ باقی سب جھوٹ ہے سمن مرجھا گئی، نکہت ایک احساس کا نام ہے۔ موت ایک تسلیم شدہ حقیقت اور یاد بس کبھی کبھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ٹن۔۔ ۔۔ ۔۔ ن ایک
ٹن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نن دو
ٹن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ننن تین
ٹن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نن نن چار
کلاک ٹاور نے بجائے۔ اس نے منہ میں سگریٹ لگائی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ زندگی بھی ایک سگریٹ ہے انسان بھی مٹی کا بنا ہے اور سگریٹ بھی۔ دونوں جل کر مٹی بن جاتے ہیں۔ اور بس جیون ختم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور ایک دن میں بھی مر جاؤں گا، مجھے بھی کون یاد کرے گا؟ شاید کوئی نہیں۔ مرے مرنے کا کائنات میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اس کی ناک پر ایک مکھی آ کر کہیں سے بیٹھ گئی اور اس نے ہاتھ سے جھٹکا دیا۔ اچانک اس کے بستر کے سرہانے بنے روشندان کے گھونسلے سے چڑیا کا ایک جوڑا۔۔ ۔۔ ۔ باہر نکلا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔ پھڑاس کے بستر کے چاروں طرف پھڑ پھڑ پھڑ اس کو پسینہ آ گیا، انگلیوں کے درمیان دبی سگریت سیل گئی۔ اس نے گھبرا کر سگریٹ کا آخری کش لیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اور سگریٹ زمین پر پھینک دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ چڑیا کے پروں کی سرسراہٹ سے دھوئیں کے مرغولے ادھر ادھر مبہم آڑی ترچھی لکیریں بنانے لگے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ بستر سے اتر کر زمین پر کھڑا ہو گیا۔۔ ۔۔ ۔۔
’’شی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ شی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ شی‘‘ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ’چڑیا کتابوں پر بیٹھ گئی۔
’’شی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ شی۔۔ ۔۔ شی‘‘ ۔۔ ۔ اس نے مسہری کے نیچے سے لاٹھی نکالی اور اس کے چاروں طرف بھاگنے لگا۔۔ ۔۔ ۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔ پھڑ چڑیا کبھی کتابوں پر کبھی گھونسلے میں۔۔ ۔۔ ۔۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھڑ، اس کا چہرا سرخ ہو گیا۔۔ ۔ سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ ’’آج میں تجھے نہیں چھوڑوں گا‘‘
چڑیا روشندان پر بیٹھ گئی۔۔ ۔۔ اس نے ڈوری کھینچنی چاہی تا کہ وہ کھڑکی میں دب کر مر جائے لیکن وہ پھر سے روشندان سے باہر نکل گئی۔
وہ مسہری پر آ کر بیٹھ گیا اور سانس تیزی سے چلنے لگا۔ اس نے اپنے حواس درست کئے۔۔ ۔۔ ۔ چوں۔ چوں۔۔ چیں۔۔ چیں۔۔ ۔۔ کائیں۔۔ ۔۔ ۔ کائیں۔۔ ۔۔ ۔ ٹیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ٹیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔۔ ۔ چیں ککڑوں کوں۔۔ ۔۔ ۔ ککڑروں
اس نے کمرے کی کواڑ کھول دی اور باہر صحن میں کھڑا ہو گیا۔ آسمان رنگ بدل رہا ہے وہ زندگی بھر دیکھتا آیا ہے کہ آسمان رنگ بدلتا ہے۔ آسمان کی سیاہی ہلکی ہوتی جا رہی ہے اور ستاروں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ لیکن پرندوں کی چہچہاہٹ بڑھ رہی ہے۔ چو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ چوں۔۔ ۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔۔ ۔ کائیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کائیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ٹئیں۔۔ ۔۔ ٹئیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ککڑوکوں۔۔ ۔۔ ۔ ککڑوکوں اس نے اپنے کانوں پر انگلیاں رکھ لیں پرند کی آوازیں دور مشرق سے آتی ہوئی محسوس ہوئیں اس کا جی چاہا کہ وہ پرندوں کے پر کاٹ کر ان کو اڑان سے محروم کر دے۔۔ ۔۔ ۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن وہ اپنا سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا۔
’’کیا بات ہے۔۔ ۔ سر میں درد ہو رہا ہے‘‘
’’نہیں‘‘ اس نے اپنی بیوی کے شانے پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا۔۔ ۔ بیوی نے اسے کاندھے کا سہارا دیا۔۔ ۔۔ اور مسہری پر لٹا دیا۔ اور آہستہ آہستہ اس کے بالوں کو انگلیوں سے کرید نے لگی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اسے سکون کا احساس ہوا۔ پتہ نہیں کون سے لمحہ اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں پر رکھ لیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ دور کہیں سے اللہ اکبر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اللہ اکبر۔ الصلوۃ خیر من النوم کی صدائیں آ رہی تھی۔ اس نے بھی اپنی آواز اللہ اکبر اللہ کہہ کر موذّن کی صدا کے ساتھ ملا دی۔۔ ٭٭٭
کھوکھلی کگر
’’زندگی میں کبھی کبھی ایسے پل بھی آتے ہیں کہ انسان بے حقیقت پریشان ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ خود کلام ہوتا ہے اور سوچتا ہے یہ کیسی رات ہے جو اضطراب میں ڈوبی ہوئی ہے۔ آلامِ روزگار، نہ غمِ عشق ہے۔ آلامِ روزگار ہے نہیں کہ جینے کا مقصد دنیا نہیں اس لیے کبھی احوالِ پریشان ہوئے نہ منتشر۔ غمِ عشق بھی نہیں کہ محبت ایسی سخت چیز ہے کہ جس کے ساتھ لگ جائے رفتہ رفتہ آدمی کو اسی کا بنا دیتی ہے۔ فقر کا خوف بھی نہیں کیوں کہ مجرد ہوں اس لیے ماکولات کی تنگی بھی نہیں --- وہ نرم بستر سے حیران و پریشان اُٹھا اور بسترپر ایسے دونوں ہاتھ پھیرنے لگا جیسے شعلے سمیٹ رہا ہو۔ نیند تو کانٹوں کے بسترپر بھی آ جاتی ہے اگر جسم تھکا ہو۔ سارا دن سخت محنت کرتا ہوں۔۔ ۔ پھر نیند کیوں روٹھی؟ ہاں نیند تب ہی ناراض ہوتی ہے جب سکون روٹھ جائے۔ اس نے چاروں طرف نظر پھیلائی کوئی اس کا مساعد و مددگار نہیں تھا۔ وہ بستر پر چت لیٹ گیا، آنکھیں بند کیں کہ قدرے سکون مل جائے لیکن ندارد۔ اس نے بائیں جانب کروٹ لی تنگیِ دل اور خوف کے شدید غلبہ کے سبب اس نے اچانک آنکھیں وا کیں شاید جہنم کا ڈر اور میدانِ حشر کے سوال نے نیند اڑا دی ہو۔ ایک جھٹکے کے ساتھ اُٹھا دائیں جانب اسٹول پر رکھی ٹائم پیس پر نگاہ گئی۔ چار بجے تھے، کمرے سے باہر نکلا اوپر آنکھ گئی صاف و شفاف آسمان پر ستارے مسکرا رہے تھے۔ صبح کاذب کی ایک لکیر چمک رہی تھی۔ اجالا ہونے سے پہلے وہ سکینہ کی تلاش میں نکل پڑا۔۔ ۔ اس نے سوچا تابستان سے نکل کر سکونِ قلب کے لیے گلستان کو نکلوں تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوب صورت باغ ہے اس کی سیرکی جائے ممکن ہے مناظرِفطرت وجہ مسرت بنے۔
کالی سڑک تا حدِّ نظر پُرسکون لیٹی ہوئی ہے اسے انسان کی بے چینی پر ترس آیا۔ سڑک کے دونوں جوانب شٹر لگی دوکانیں خاموش ہیں۔ فٹ پاتھ کے اس طرف درختوں پر غنودگی طاری ہے۔ اکّا دُکّا ٹو وھیلر یا فور وھیلر اس کے برابر سے شٹ سے گزر جاتی خاموشی اس دوران بکھر جاتی وہ سڑک کے کنارے احتیاط سے چلتے ہوئے سہم جاتا اور چونکتے ہوئے ان کی آوازوں کی طرف دیکھتا اور پھر سیدھا دیکھنے لگتا۔ دائیں جانب مڑ کر ایک فرلانگ چلنے کے بعد باغ کے دروازے پر پھڑ بچھائے ایک سادھو چوکرات جمائے دھیان میں مگن ہے وہ بھی اس کے سامنے اکڑوں بیٹھ گیا۔
’’مہاراج میں پرماتما کو پانا چاہتا ہوں، مجھے راستہ دکھائیں۔‘‘ اس نے درخواست کی۔
سادھو نے آہستہ آہستہ گڑبہ آنکھیں کھولیں۔ ’’یہ بتاؤ کہ تم نے کبھی کسی سے پریم کیا ہے۔‘‘
’’مہاراج میں نے آج تک کسی کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھا تک نہیں۔ میری تہذیب بچپن سے مذہبی ہے۔‘‘
’’سوچ کر بتاؤ کبھی کسی سے پریم کیا ہو، کسی کو چاہا ہو۔‘‘ سادھو نے پوچھا۔
’’میں نے پرماتما کے سوا کسی کو نہیں چاہا۔‘‘
سادھو نے تیسری بار بھی وہی سوال کیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
وہ سمجھ رہا تھا کہ سادھو کو اس کی بات پر یقین نہیں ہو رہا ہے، شاید سمجھ رہے ہیں کہ میں دنیا میں کسی نہ کسی موہ جال میں ضرور پڑا ہوں۔ اس نے بھی اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے ہر تعلق کو یاد کیا لیکن اسے ایسا کوئی پل یاد نہیں آیا جب وہ کسی کی طرف متوجہ ہوا ہو، اس نے پھر سختی سے انکار کرتے ہوئے اپنی آنکھیں کھول دیں۔
سادھو مایوس ہو کر بولا ’’تب میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا جس نے کبھی سنسار میں کسی سے پریم نہیں کیا۔ وہ بھلا پرماتما سے کیسے پریم کر سکے گا؟ تمہارے بھیتر اگر پریم کی چنگاری موجود ہوتی تو میں اسے آگ میں بدل سکتا تھا۔ زندگی تو پریم کے بنا چل نہیں سکتی اور تمہیں اگر اس کا احساس نہیں ہے تو پرماتما جیسی غیرمجسم ہستی کے لیے تو اس کے بغیر راستہ اور بھی مشکل ہے۔‘‘
وہ اور زیادہ بے چین ہو گیا۔ وہاں سے اُٹھا، اضطرابی کیفیت لیے باغ کا دروازہ عبور کیا۔ سورج آسمان کی کھڑکی سے باکرہ کی طرح جھانک رہا تھا۔ کرنیں سونے اور چاندی کا برادہ درختوں پر بکھیر رہی تھیں، پرندوں کی چہچہاہٹ سے باغ گونج رہا تھا۔ درختوں کے درمیانی راستے سے گزر کر وہ فو ّارہ پر آ گیا۔ چہار راستے فوارہ پر ختم ہو رہے تھے۔ ان راستوں کے دونوں طرف گلاب، گیندا، چمیلی اور موگرا کی روشیں لگی تھیں۔ پھولوں کی خوشبو سے خوب صورت منظر مہک رہا تھا۔ پودوں کی پتیوں پر شبنم کے موتیوں سے ہیرے جیسے مختلف رنگ پھوٹ رہے تھے۔ سورج ثیبہ کی طرح جیسے ہی پردہ سے باہر نکلا وہ سوچنے لگا اگر پرماتما مل گیا تو سکونِ قلب کی کوئی ضرورت نہیں۔
اس نے واپسی کے لیے لمبے لمبے ڈگ بھرے دوبارہ باغ کے دروازے پر سادھو کے قریب پہنچ گیا جس کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔
’’مہاراج پرماتما کی تلاش میں لوگ راج پاٹ چھوڑ دیتے ہیں، لیکن میرے پاس چھوڑنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’غم تو چھوڑنے اور چھوٹنے پر ہوتا ہے۔‘‘ سادھو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھولوں کی مسکراہٹ اور مہک اس کی روح میں اُتر گئی اور وہ تلاش میں خالی ہاتھ نکل پڑا۔ سڑک ابھی تک سونی پڑی تھی، سادھو کے بول وچن لیے خاموشی سے فٹ پاتھ پر دھیرے دھیرے چلنے لگا۔ دماغ میں طرح طرح کے خیالات پرندوں کی طرح پھڑپھڑانے لگے۔ ’’تمہارے بھیتر اگر چنگاری موجود ہوتی تو میں اسے آگ میں بدل سکتا تھا۔‘‘ وہ سوچنے لگا عشق وہ دریا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا، عقل مند انسان بھی اس میں ڈوب جاتا ہے اور میں ایک بے عقل نا تجربہ کار۔۔ ۔ اس نے متذبذب خیالات کو ایک جانب جھٹکا۔ ہر جانب سے چشم پوشی کی، بائیں طرف گھر میں قدم رکھا۔۔ ۔ اپنے اندر ٹھہراؤ پیدا کیا۔ ذہن میں ارتکاز کی سعی میں سرکھپایا۔ خوب سے خوب ترکی تلاش میں نظر کائنات پر ٹھہری کیوں نہ ٹھہرتی؟ کائنات خوب صورت ہے! شاخِ گل کی طرح نازک، سرو قد، چاندنی بدن، بولے پھول جھڑیں، خوشبو اڑے، چلے صبا جیسی، روشنی کی طرح چنچل ایک محیرالعقول مخلوق جو بیان کی گرفت سے دور۔
’’کائنات تم بہت حسین ہو‘‘ اس نے کہا۔
وہ اپنی تعریف پر اترائی، ذرا مسکرائی پھر سوچنے لگی تخلیق کی تحسین سب ہی کرتے ہیں لیکن تخلیق کار کو بھول جاتے ہیں۔
’’میں اگر خوب صورت ہوں تو کیا؟ اور اس میں میرا کیا ہے؟ اگر میرا ذرّہ برابر بھی کچھ ہوتا تو میں دائم خوب صورت ہوتی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔ میں سچ کہتا ہوں۔۔ ۔ مرد و زن سب ہی تمہاری خوب صورتی پر فدا ہیں۔‘‘
’’تو۔۔ ۔ پھر یہ دل کس کو دوں؟۔۔ ۔ (تھوڑے وقفہ کے بعد) مجبوری یہ ہے کہ ایک انار سوبیمار۔‘‘ وہ بڑی بے شرمی سے ہنسی۔
’’میر۔۔ ۔ ے۔۔ ۔ بارے میں۔۔ ۔ کیا خیال ہے؟‘‘ خوشامدانہ لب و لہجہ۔
’’خیال۔۔ ۔ صرف اس لیے کہ تم میرے اوپر فدا ہو۔ یہ فدائیت تو دوسروں میں بھی موجود ہے۔‘‘ اس نے طنز کیا۔
’’میں تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔۔ ۔ حکم کرو تو انسان سے شیطان بن سکتا ہوں۔‘‘
’’یہ تو۔۔ ۔ دوسرے بھی کر سکتے ہیں میرے حکم دیے بغیر بھی۔‘‘ وہ بے حیائی سے مسکرائی۔
چند لمحوں کے لیے سکوت طاری ہو گیا۔ کائنات چپ تھی، فطرت بول رہی تھی۔ دھوپ چٹک رہی تھی، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ آسمان صاف و شفاف تھا۔ دھنک خوش نما رنگوں کے ساتھ کمان کی طرح ایک کنارے پھیلی ہوئی تھی۔
اس نے نظر اُٹھا کر منظر کو دیکھا۔ وہ سوچتی ہے تخلیق کے حوالے سے کیا خالق کو نہیں پہچانا جا سکتا۔ فن کے حوالے سے فن کار کو سمجھنا مشکل ہے لیکن فن کار کے حوالے سے فن کو سمجھنا آسان ہے۔۔
’’تمہاری نرگسی آنکھیں مہ نوش کے سرور کو بھلا دیں، گلاب پنکھڑی ہونٹ فضا کو مہکا دیں، سیاہ زلفیں جہاں بکھر جائیں، پریم ورشا سے منظر خوش رنگ ہو جائے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے شراب کا نشہ عارضی، پھولوں کی خوشبو قلیل وقتی، سیاہ زلفوں کی ورشا کبھی کبھی۔‘‘ کائنات نے بے رخی سے جواب دیا۔
کائنات کی صاف گوئی سے اس کا چہرہ اُتر گیا۔ وہ سوچنے لگا صنف نازک کو اپنی توصیف بہت پسند ہوتی ہے۔ ایسے عاشق کے اوپر وہ دل و جان سے نچھاور ہو جاتی ہے اور وہ بھول جاتی ہے کہ سامنے والا اسے خلوصِ دل سے پیار کرتا ہے کہ خوب صورت فریب کرتا ہے۔ اسے تو بس یہ اچھا لگتا ہے میں بدصورت ہوں پھر بھی اسے خوب صورت لگتی ہوں۔ میرا حسن و جمال فانی ہے، پھر بھی اسے لافانی لگتا ہے۔
’’تم میرے ہوش و حواس پر چھا گئی ہو۔‘‘ اس نے گفتگو جاری کی۔
’’یہ میرے حسن و جمال کا کمال ہے، میرا اس میں کوئی دخل نہیں۔‘‘ کائنات نے کہا۔
’’تمہاری ادائیں آبِ رواں کی لہروں کی طرح ہیں۔‘‘
’’جب ہوا سبک خرام ہوتی ہے تب ہی لہر بنتی ہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’پانی کی لہروں کا کوئی بھروسا نہیں۔۔ ۔ بظاہر سطح آب پر خاموش ہوتی ہیں لیکن لہروں کا بننا اور بگڑنا ہواؤں کا چلنا ہوتا ہے۔‘‘
’’وضاحت کرو۔‘‘
’’تمہاری نظروں کا کمال ہے۔۔ ۔ ورنہ جمال اور بے جمال میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔‘‘
’’بے شک جسد آب و گلِ ماں کی طرح طاہر، ممتا کی طرح پاکیزہ ہے لیکن سطح آب سے تہِ آب کا سفر کرو تو کائنات کے اس اندھیرے سے واقف ہو جاؤ گے جو طوفان کی مانند سیاہ اور تباہ کن ہے۔‘‘
وہ مایوس ہو کر حیران و پریشان منہ لٹکائے بیٹھ گیا اُسے سادھو پر بہت غصہ آیا۔ وہ سوچنے لگا کائنات اپنے حسن و جمال میں گرفتار کرتی ہے اور اپنی بے رخی سے اپنے وصال کے خواہش مندوں کو ہلاک کرتی ہے۔ یہ اپنے چاہنے والوں سے بھاگتی ہے۔۔ ۔ ’’لیکن کب تک بھاگے گی‘‘ وہ بُدبُدایا۔
اس نے بُدبُدانے کی آواز سن لی اور اسے گھور کر دیکھا۔
’’اگر تیری محبت میں نے اوڑھ لی تو میرے پاؤں ننگے ہو جائیں گے اور سرپر اوڑھنی نہ رہے گی۔ میں نے ننگ و نام ہو جاؤں گی۔‘‘ کرخت لہجے میں کہا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
وہ کائنات کے قریب سے اُٹھا۔۔ ۔ کھلے آسمان پر نظر ڈالی، نیلے آسمان کا لامتناہی سلسلہ صاف و شفاف پوری کائنات پر سائبان کی طرح لٹکا تھا۔ اس نے دن میں ستارے تلاش نے کی کوشش کی۔ ستارے توڑنے کے لیے کمر پر پیر رکھنا ضروری ہے۔ صرف محبت کی سیڑھی سے آسمان نہیں چھوا جا سکتا۔ وہ دوڑنے لگا۔۔ ۔ دوڑنے لگا۔۔ ۔ ایسی دوڑ جس میں پیچھے مڑنے کا موقع نہیں ملتا۔۔ ۔ اسے معلوم تھا۔۔ ۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے میں پتھر ہونے کے امکانات قوی ہوتے ہیں۔۔ ۔ وہ سوچنے لگا اگر میرے پاس دولت و زر ہوئی تو شمس و قمر کو تسخیر کر لوں گا۔ آسمان کی بلندی پر چڑھ جاؤں گا۔۔ ۔ صبا میرے آگے پیچھے رقص کرے گی۔ چاندنی میرا تعاقب کرے گی اور روشنی میرے پیروں تلے ہو گی۔۔ ۔ پھر بھی یہ کائنات کے مثل نہیں۔۔ ۔ کائنات تو کائنات ہے۔۔ ۔ بلا کی خوب صورت ہے وہ ستارے اس کے بدن سے لپٹے ہیں۔ چاند و سورج ہالے کی صورت کانوں میں لٹکے ہیں۔ خوشبوئیں اس کے ہر عضو سے پھوٹتی ہے۔
اس نے فیصلہ لیا کہ اپنی محنت سے سنگلاخ زمین کو نرم و ہموار کر کے دم لوں گا۔ یہ انفرا اسٹرکچر کا زمانہ ہے کیوں نا تعمیرات کر کے کائنات کو خوب صورت بنایا جائے۔ اس نے دیہی علاقوں کی طرف نظر اُٹھائی، اس کی نظر کا تعاقب ایک دیہاتی شہری نما انسان نے کیا اور پہچان لیا کہ ایک معاشی حیوان شب و روز کے پھیر میں پڑ گیا ہے۔ اس دیہاتی نے کہا شہر مگرمچھ کی شکل میں دیہات کو نگلنے کے لیے بے چین ہے۔ آپ لوگ متحد ہو کر کھیتی بچاؤ آندولن شروع کریں۔ اگر فطرت میں مداخلت ہو گئی تو کائنات کا توازن بگڑ جائے گا۔ عمارتیں، صنعتیں کائنات کے خوش مناظر کو نگل جائیں گی، انسان تازہ ہواؤں سے، سورج کی روشنی سے، چاند کی چاندنی سے، بچوں کی معصوم کلکاریوں سے محروم ہو جائیں گے۔ سوچو پھر کیا ہو گا؟ کائنات بدصورت ہو جائے گی!
آبادی کے ساتھ عمارتوں کے بڑھتے ہوئے طوفان کو نہ حکومت روک سکی، نہ فطرت، دولت مافیا تو حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر اور تجارت کے نفع و نقصان سے آگے تر کسی چیز کی جانب توجہ نہیں کرتے۔ اب چاروں طرف فلک بوس عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ کھیت کھلیان، پھل پھول، درخت پودے، چرند و پرند، شہد و شیر، باغات و نباتات غرض ہر شے ناپید کیا ہوئی کہ رشتے ناطے، انسانیت، تعلقات، اجتماعیت، دولت کے مول فروخت ہونے لگیں۔ وہ دوڑ رہا ہے۔۔ ۔ دوڑ رہا تھا، پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کی اس نے قسم کھائی تھی۔۔ ۔ وہ دوڑ رہا ہے گر کبھی رُکتا تو صرف آسمان کو دیکھتا، تا حدِّ نظر سورج چڑھتے دیکھتا، زمین کو پیروں تلے روندتا۔ اس درمیان اسے کائنات کا خیال آتا۔۔ ۔ وہ بھول گیا کہ کائنات خوب صورت ہے پھر بھی اسے پانے کی جستجو تھی۔۔ ۔ آرزوئے کائنات ابھی زندہ۔۔ ۔ جب بھی زندگی سے فرصت ملتی اپنے عالی شان ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اس کے بارے میں سوچتا اور حیرت افسوس کرتا۔ ایک رات وہ بہت بے چین تھا۔ کائنات اس کے دل و دماغ پر سوار تھی۔ آسمان تلے ستارے جھلملا رہے تھے۔ اس نے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ اونچی اونچی عمارتوں کے روشن دانوں سے ہلکی ہلکی روشنی ٹمٹما رہی تھی جیسے زمین پر بھی ستاروں کا جال بچھ گیا ہو۔ یہ ستاروں کی کائنات عجیب و غریب ہے ان کی تاثیرات بھی حیرت افزا ہوتی ہیں۔ عالم علوی کے تابع کوئی ستارہ میرے لیے ایسا سعد ہوا کہ کام بنتے چلے گئے، لیکن عالم سفلی کا یہ کون سا نحس ستارہ ہے کہ میرا سکھ چین روٹھ گیا ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کائنات کو پانے کے لیے دیگر اشیاء جات کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی لیکن فکر سیم و زر کے علاوہ اب یہ کون سی فکر ہے کہ روز نے شب کو چاٹ لیا۔ رات بھی دن جیسی ہو گئی۔۔ ۔ دن ہے تو نیند نہیں، خواب نہیں۔ خواب نہیں تو زندگی نہیں۔۔ ۔ رات کی سیاہ چادر پھاڑ کر دن نمودار ہو تو شاید سکون ہو۔ وہ نرم بستر سے اُٹھا کھڑکی پر آیا۔ زمین کے ٹمٹماتے ستارے دیکھے جن کی روشنی غائب ہو چکی تھی۔ آسمان دیکھا، جھلملاتے ستاروں کے درمیان صبح کا تارا چمک رہا ہے۔ اسے قدرے سکون ہوا جیسے محشر کی رات سے نجات ملی ہو۔
صبح ہو چکی ہے، سورج رفتہ رفتہ بے پردہ ہو رہا ہے۔ اس نے زمین کو دیکھا۔ اسے لگا پیروں کے نیچے سے کسی نے زمین کھینچ لی ہے۔ خوب صورت مناظر غائب ہیں۔ خوش نما پھول، راحت افزا کھیت، دل فریب سبزہ ناپید ہے اسے محسوس ہوا آنکھوں کی بصارت چلی گئی۔ اسی لمحہ اس نے آنکھیں بند کر لیں، کان آسمان کی جانب لگا دیے، خوش گلو پرندوں کی چہچہاہٹ سے سماعت محروم ہے۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور ہوا خوری کے لیے عمارت کی چھت پر چڑھ گیا۔ ہوا بند ہے لیکن اس کی ہوا بندھ گئی تھی کیوں کہ دیہات شہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ چاروں طرف عمارتوں کے درمیان اس کی عمارت سب سے اونچی ہے، اس کی عمارت سے چار فرلانگ دور دائیں جانب مکانات اور جھونپڑے اسے بہت چھوٹے چھوٹے اور بدنما نظر آ رہے ہیں۔ کھیتوں پر عمارتوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ سوچ کر وہ زیر لب مسکرایا۔۔ ۔ اور چھت سے اُتر کر اپنے ڈرائنگ روم میں آ گیا۔
کھیت نہ رہے، کھلیان بھی ختم ہو گئے۔ کسان بے دست و پا ہو گئے۔ ایک بڑا طبقہ غریبی کی بھٹّی میں سلگنے لگا۔
فادر اگسٹس موٹا نے جب ان لوگوں کی بدحالی دیکھی تو وہ تڑپ گئے۔ ’’تم لوگ بھوکے مرتے ہو، پیٹ کا ایندھن تلاش کرنے کے لیے ادھر اُدھر مارے مارے گھومتے ہو، تم سبھی کو خوش حال بنا دینے کے لیے تو یہ سیٹھ ہی کافی ہے۔‘‘ اس بیان پر اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔
لوگوں نے ایک زبان ہو کر کہا۔ ’’فادر یہ سیٹھ بہت بخیل ہے، اسے کسی کی فکر ہے ہی نہیں۔ چاہیں تو آپ بھی کوشش کر کے دیکھ لیں۔‘‘
فادر نے کہا ’’کوشش کرتا ہوں۔‘‘
فادر نے سیٹھ کے دروازے پر دستک دی، اس نے باہر نکل کر فادر کے لیے احترام سے آنکھیں بچھا دیں۔ اپنے خوش حال اور خوش مستقبل ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی اور ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’کبھی کبھی تشریف لا کر میرے گھر کو عزت بخشیں۔‘‘
فادر نے کہا ’’میں ایک راہب ہوں، تاریک الدنیا ہوں، کچھ پاس میں رکھتا نہیں، پر ایک چیز میرے پاس ہے اس کے ہونے میں بہت پریشان ہوں۔ ایک سوئی ہے جو میں اپنے پھٹے کپڑے کو سلنے میں استعمال کرتا ہوں آپ اسے رکھ لیں۔ آپ بھی میری ہم عمر ہی ہیں۔ لگتا ہے دونوں کی رفتار ایک سی ہو گی، پھر آپ سے بہشت میں ملاقات ہو گی۔ تب آپ یہ سوئی مجھے واپس کر دینا۔
اس نے کہا ’’فادر آپ بھی مذاق کرتے ہیں۔ مرنے میں سب کچھ ساتھ نہیں جاتا۔ گیانی ہو کر بھی آپ اتنے بھولے پن کی بات کیوں کرتے ہیں؟‘‘
فادر بولے ’’گیان کی بات تم نے مجھے سمجھا دی، پر تم کیوں جمع کر رہے ہو۔ اس فانی کائنات کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہو؟‘‘
وہ فادر کی بات کو سمجھ گیا اور کہنے لگا۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کائنات میں سچ اور جھوٹ دونوں کو ٹھیک طورسے سمجھ لیں اسی میں حیات کی کامرانی ہے۔‘‘
فادر کی باتوں کا اس کے دل و دماغ پر گہرا اثر ہوا۔ وہ سوچنے لگا جو کچھ کیا سب بیکار ہے، زندگی چاہے کتنی زیادہ ہو جائے بہرحال کم ہے۔ ایسی زندگی کے پیچھے پڑنا، پیچھے لگنا جو کسی طرح بھی اپنے پاس ہمیشہ نہیں رہ سکتی، بے وقوفی کی انتہا ہے۔ کائنات اپنے چاہنے والوں سے بھاگتی ہے، اپنے وصال کے خواہش مندوں کو ہلاک کرتی ہے۔ اس کی توجہ میں بھی آفت اور مصیبت سے امن نہیں ہے۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا، کائنات جمیل ہے لیکن رذیل ہے، کائنات خوب صورت ہے لیکن جبت (بے حقیقت) ہے۔
حیض و نفاس، بول و براز سے آلودہ یہ کائنات جس کی تخلیق گندے قطرے سے ہوئی تولد سے پہلے غلیظ کھانا، پھر بھی اس کا کیوں دیوانہ ہوا؟ لعنت اس کائنات پر! اس نے کائنات سے اپنے پروں کو سمیٹ لیا اور آمادۂ سفر ہوا۔۔ ۔ ایسے مقام کی تلاش میں جہاں قلب کو سکینہ، دل کو راحت اور روح کو طہارت نصیب ہو۔۔ ۔ اس نے کائنات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ گیان حاصل کر کے دھیان کے راستے نکل آیا۔۔ ۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا رہا۔۔ ۔ سوچتا رہا کہ بدن کا چراغ آنکھ ہے، آنکھ درست ہو تو سارا بدن روشن ہو جائے۔ اگر آنکھ خراب ہو تو سارا بدن تاریک ہو جائے، پس وہ روشنی مجھ میں ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا کائنات پیچھے چھوٹ گئی ہے آگے کی جانب نگاہ اُٹھائی ---- دور سرمئی کہسار پر رُکا ہوا نیلا آسمان سفید بادلوں کی پوشاک زیب تن کیے تن کر کھڑا ہے، چاروں طرف دھوئیں کے مرغولے سائبان کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ڈھلان پر زیتون کی روشیں آبِ رواں کی لہروں جیسے پھیلی ہیں۔ پہاڑ کے قدموں کے نیچے سبز مخمل بچھی ہے۔ ایک فرلانگ کی دوری پر آئینہ کی طرح صاف و شفاف چشمہ میں آفتاب کی روشنی کا عکس ٹھنڈے پانی کے سنگ محو رقص ہے۔ ایک کنارے سے تھوڑے فاصلے پر ساگوان سے بنی کٹیا کشتی کی طرح زمین پر رکھی ہے، اس کے دروازے پر انگور کی بیل لٹکی ہے۔ چاروں طرف خوش گلو پرندوں کی نغمہ سرائی خوب صورت وادی میں شعلہ سا لپک جائے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ خوش منظر دیکھ کر اس کی بصارت لوٹ آئی اور خوش آواز سن کر جیسے سماعت لوٹ آئی۔۔ ۔ جلوۂ حق دیکھ کر اس نے خوش کلامی کی ’’سبحان اللہ! بادشاہت، قدرت اور جلالت ہمیشہ تیری تھی، تیری ہے، تیری رہے گی!‘‘
گوشہ نشینی کے لیے نگاہِ انتخاب کٹیا پر گئی اور کنجِ تنہائی میں مصلّیٰ بچھا دیا۔۔ ۔ چشمہ پر وضو کیا رب العزت کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔۔ ۔ اے معبود! کائنات کو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ کائنات کا حسن و جمال فانی ہے تو لافانی ہے تیرا کمال و جمال لافانی ہے۔ زندگی کی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی میرے اندر بلند حالت پر پہنچنے کی فطری پیاس نے تو نس کی صورت اختیار کر لی۔ یہ غلطی ہے میری، رحم کر، درگزر کر دے۔ اے مالک جس بار کو اُٹھانے کی طاقت نہیں ہے وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر۔ اے پروردگار اپنے خزانۂ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاضِ حقیقی ہے۔ رہبرِ معتبر جب تو ہمیں سیدھے راستہ پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو!۔۔ ۔‘‘
اس نے آنسوؤں کو پونچھا اور دست دعا کو چہرے پر پھیرا۔۔ ۔ یوں عبادت اور ریاضت میں لگ گیا۔ ایک عبادت گزار بندے کی طرح لوگوں سے الگ رہ کر ذکرِ خداوندی میں مشغول رہا کرتا۔ ایک طویل مدت تک اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتا رہا۔۔ ۔ پیاس لگتی چشمہ کا پانی پیتا، بھوک لگتی انگوروں سے مٹا لیتا۔۔ ۔ ایک عابد کی حیثیت سے اس کا شہرہ سارے عالم میں ہو گیا۔
ایک رات اُجلے نیلے آسمان پر ستارے اپنی جھلملاہٹ سے مسکراہٹ بکھیر رہے ہیں۔ چاندنی چاندی کی پرت کی طرح سبزے پر بچھی ہے۔ چاند کی روشنی درختوں سے چھن چھن کر بکھر رہی ہے۔ چشمہ کے اندر عکسِ ماہِ کامل رقص و سرور میں محو ہے۔ چاروں طرف سکون اور سکوت طاری ہے۔ موسم خوش گوار ہے۔ درخت سجدہ ریز محویت کے عالم میں ہیں۔
چاندنی کی قاشیں کواڑوں کی درازوں سے کٹیا میں داخل ہو رہی ہیں۔ وہ اپنی عبادت میں مصروف ہے، اچانک دستک ہوئی۔۔ ۔
اس نے دروازہ کھولا۔ چاندنی کا سایہ اندر پھیل گیا۔ دروازہ پر ایک حسین و جمیل عورت آستانہ کے قریب کھڑی ہے۔
’’میرا گھر کافی دور ہے لہٰذا مجھے اپنے گھر میں آج کی رات پناہ دے دو۔‘‘
اس نے نگاہ اوپر اُٹھائی، عورت سجی سنوری مسکرا رہی ہے۔ اس کے ملبوسات سے خوشبو پھوٹ رہی ہے۔
’’کائنات۔۔ ۔‘‘ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔
’’یہ زیب و زینت میں نے آپ کے لیے اختیار کی ہے اور نگاہِ التفات اس پر ڈالی۔‘‘
وہ خاموش رہا۔۔ ۔
’’تیرا عشق میری خاموشی اور اعراض کا سبب بنا۔ کوشش کی یہ راز رہے لیکن بے سود رہا۔‘‘ کائنات نے اظہار کیا۔
وہ پھر بھی خاموش رہا۔۔ ۔
اس نے اپنے لباس کو بدن سے جدا کیا اور عابد کو اپنے خوب صورت بدن کی جانب دعوتِ نظارہ پیش کرنے لگی۔
اس نے اپنی نگاہیں جھکا لیں۔۔ ۔ فضا میں تکدّر آمیز سکون پھیل گیا۔۔ ۔ خاموشی کی سائیں سائیں سانپوں کی طرح پھنکارنے لگی۔۔ ۔ نگاہِ طلب آسمان کی جانب اُٹھائی۔۔ ۔ آسمان پر بجلی سی تڑکی۔۔ ۔ ربّ ذوالجلال کی نگاہِ کرم ہوئی۔۔ ۔ اس نے نگاہِ جلال کائنات پر ڈالی۔۔ ۔ اچانک شعلے لپکے۔۔ ۔ چاروں طرف آگ ہی آگ۔۔ ۔ وہ جل کر خاک ہوئی اور خاک میں مل گئی۔ وہ اپنے مقامِ عبادت سے اُٹھا۔۔ ۔ باہر نکلا روشن چمک دار رات ہے، چاندنی کھل رہی ہے، ستارے مسکرارہے ہیں۔۔ ۔ موسم خوش گوار ہے اس نے مغرب کی جانب دیکھا ایک نور سا چمکا اور وہ اس نور میں سر تا پا ڈوب گیا۔
٭٭٭
حصار
اب فردوس میرے سامنے ہے لیکن اس سے پہلے ایک طویل عرصہ تک آتشِ فرقت سے میری آنکھیں پگھلتے ہوئے غم میں نم ہوتی رہی تھیں۔ وہ جو کبھی مرکز نگاہ تھی، میری منزل تھی اب خوابِ منزل ہے، خواب جو حقیقت کے پسِ پشت ہوتا ہے۔ حوٗر کا وجود اور اس کا خوبصورت ہونا اس لیے حقیقت ہے کہ وہ میری مسہری پر سوئی ہے اور مجھے بیدار کر رہی ہے لیکن میری بیداری کے عالم میں بھی وہ ہمیشہ دسترسِ نگاہ سے دور رہی ہے شاید اس لیے کہ ہمارے راستے الگ منزلیں لاپتہ، تہذیبی حدود ایک، سیاسی سرحدیں جدا۔ میرے ساجن اس پار، میں اس پار۔ او میرے مانجھی لے کر چل ندیا پار۔۔ وہ ندی کی طرح سیدھی سادی، بہتے پانی کی طرح نرمل اور شیتل، لہروں کی مانند نازک اندام، زیر آب ڈوبی ہوئی آفتاب کی پہلی کرن، میرے اندر چبھن سی ہے کہ کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے عجلت میں لکیر بنائی پہلے دلوں کے بیچ ریکھا کھینچی ہوتی۔ اِس وقت یہاں وہاں سائیں سائیں کا شور ہے اور چاروں طرف سنّاٹا ہے۔ بیڈروم کی خاموش دیواریں بول رہی ہیں باہر سے ہواؤں کی چاپ اور سردی اندر داخل ہو رہی ہے۔ میں نے سگریٹ سلگایا فضا میں دھوئیں کی لکیریں دنیا کے نقشہ کا جال بننے لگیں زندگی کے دھندلے رنگ گہرے ہونے لگے۔ کل اور آج کا فرق مٹ گیا ہے جیسے گزرے وقت اور موجودہ لمحات کے درمیان کی دیوار ٹوٹ گئی ہو۔ تقریباً تیس سال پہلے کا پھونس بنگلہ جو اب سمنٹ کا بن گیا ہے لیکن اب بھی پھونس بنگلہ ہے جیسے تہذیب کی جڑیں روایت میں اور جدت کا رشتہ قدامت میں پیوست پھر نیا کیا اور پرانا کیا؟ شناخت تو وہی ہے جو اس کی بنیاد ہے۔
پھونس بنگلے میں پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس مس تھومس ایک خوش مزاج، بے تکلف اپنی تہذیب کی پروردہ خاتون تھیں۔ میں انٹرول میں ان کے ساتھ چائے کی پیالیوں میں تھکن اور بچوں کی چیخ پکار انڈیلتا لیکن فردوس کا چائے میں شریک نہ ہونے کا رویہ باعث تشویش تھا شاید اس رویہ کا میرے اوپر گہرا نقش اس لیے ہوا کہ مغربی اثرات کی ہوا اسے نہیں لگی تھی حالانکہ پچھادیہ ہواؤں کی زد میں پورا ایشیا ا ایسا کراہ رہا ہے کہ مغربی اور مشرقی فاصلہ قرب و بعد میں تبدیل ہو کر یہ پہچان بھی ختم ہو گئی ہے کہ مغرب کیا اور مشرق کیا ہے؟
فردوس آسمانی رنگ کی بیڈ شیٹ پر آسمانی مخلوق کی طرح مجھے جگا رہی ہے عمر کے اس ڈھلان پر بھی کھنڈرات، عمارت عظیم ہونے کی دعوے داری آج بھی کر رہی ہے اور کل بھی کرتی تھی۔
’’تم ندی جیسی معصوم ہو‘‘
’’ندی کی معصومیت - طہارت میں چھپی ہے‘‘
’’کبھی کبھی اس میں کٹاؤ بھی آتا ہے‘‘
’’جب ساحل کمزور ہوتا ہے‘‘
کھڑکی پر ٹنگے پردوں کی سرسراہٹ سے چونک گیا ادھر ادھر نگاہیں گھمائیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہاں سچ کہا تھا ساحل جب کمزور ہوتا ہے تب ہی ہلکے سے طوفان کی آہٹ سے پانی ادھر ادھر نکاسی کا راستہ اختیار کر لیتا ہے اور ندی بے قابو بھی ہو جاتی ہے۔ میں اس وقت یہی سوچتا تھا کہ اگر وہ ندی ہے تو ساحل کے مضبوط ہونے کا اشارہ میری طرف ہے اگر وہ خود ہی ساحل ہے تو میں یہ کیوں بھول جاؤں کہ عورت ہوتی ایسی ہی ہے؟ پھر وہ تو فردوس ہے جو رات اور دن فردوس کا خواب دیکھتی ہے۔ وہ اِس وقت بھی گہری نیند میں محو خواب ہے دائیں ہاتھ رخسار کے نیچے دائیں کروٹ دونوں پاؤں میں ہلکا سا خم، کمر کا جھکاؤ دوج کا چاند جیسے ہالے میں بدن کے نشیب و فراز سمیٹے ہوئے میرے سامنے روحانی خوشی کاسبب ہے۔
میرے دیکھنے کا اشتیاق روز افزوں بہانے تلاش کرتا تھا لیکن فردوس کا پردہ سے باہر ہونا مذہبی روایت کے ٹوٹنے کا اندیشہ ستاتا تھا۔ مگر دل ہے کہ ہر دیوار کو توڑنے کے لیے کوشاں تھا۔ ایک روز اچانک کھڑکی کے پٹ کھلے تھے سرد ہواؤں کے جھونکے کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ کھڑکی کے قریب کرسی پر بیٹھی طلباء میں مصروف، اپنے حسن سے بے پرواہ تھی۔ شاید اس کو یہ گمان ہو کہ تنہائی کی آنکھ نہیں ہوتی اور تیرِ نگاہ کے نشانہ سے بھی دور، اس کا یقین تھا۔ چاند چہرے پر گیسو چلمن کی طرح بکھر گئے تھے ان کو ہٹانے کا خیال جیسے ہی ذہن میں آیا دبی سگریٹ کے شعلے سے میری انگلی جل گئی تھی اور اس وقت ایک ٹیس سی میرے سینے میں اتر گئی تھی۔ آج اس سے مل کر دل کی بیتابیاں اور بڑھ گئی ہیں۔ اچانک بِن اطلاع ملاقات ہونے سے میری زبان گنگ اور منھ کھلا رہ گیا۔
’’اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔
’’جب تم گئی تھیں تب بھی تم نے حیران کر دیا تھا‘‘
’’زندگی ’’حیرانی‘‘ کا نام ہی ہے۔ اس میں جو کچھ ہوتا ہے اچانک ہوتا ہے‘‘
گئی کیوں تھیں‘‘
’’والدین کی مرضی سے‘‘
’’آئی کیوں ہو؟‘‘
اپنی مرضی سے‘‘
’’ڈر نہیں لگتا‘‘
’’اب یہ عمر ڈرنے کی نہیں ہے، دوسرے شادی کے بعد عاشق سے ملنے میں عورت کو کوئی خوف بھی نہیں ہوتا‘‘
’’مطلب شادی عورت کے لیے آمد و رفت کا پاسپورٹ ہوتا ہے‘‘
وہ مسکرائی۔۔ ۔۔ میں اس کی مسکراہٹ میں کھو گیا سوچنے لگا۔ فردوس اعلیٰ حسب و نسب کی آسمانی مخلوق نیچ ذات زمینی مخلوق کے بستر پر دراز دنیا سے بے خبر سوئی ہوئی ہے لیکن اس آخری رات کو جب وہ ملاقات کرنے آئی تو دنیا سوئی ہوئی تھی۔
’’نیچ ذات سے مجھے عشق کرنے کا حق نہیں‘‘ اس نے کہا تھا
’’تو کیا اپنی مرضی سے انسان اعلیٰ ذات میں پیدا ہوتے ہیں‘‘
’’تمہیں تو ہماری طرف دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرنی چاہئے‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ نائی چھوٹی ذات کے ہوتے ہیں، ایسا ابّا کہتے ہیں‘‘
’’تم کیا کہتی ہو‘‘
’’دھرتی اور گگن کا ملن آنے والے بھونچال کی سوچنا ہے‘‘ اس نے کہا
’’ایک دھوکا ہے۔۔ ۔۔ ہر طرف‘‘ اچانک میرے منھ سے نکلا
چاروں طرف خاموشی طاری ہو گئی آسمان چپ تھا اور زمین گوں گی ہو گئی تھی۔ اس وقت تلملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا جی چاہتا تھا کہ ان صحیفوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں جن میں انسانوں کی اس قدر بے حرمتی اور تذلیل کی گئی ہو۔ سوچتا تھا جب تک راز رہے سلسلہ عشق جاری رہتا ہے۔ افشاں ہونے پر بدنامی اور ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ میری محبت بھی آزار جاں بن گئی۔ فردوس نے اطلاع دی تھی تم سے دور کرنے کے لیے میری شادی پاکستان میں پھوپھیرے بھائی سید ثروت سے کر دی گئی ابّا کا خیال ہے عشق وہ آگ ہے جس میں قریبی پہلے جھلس جاتے ہیں خاکستر میں دبی چنگاری بھی بنا پھونکے شعلہ بن جاتی ہے۔
اس نے کہا ’’ایک تو غم جلا وطنی کا۔۔ ۔۔ ۔۔
’’دوسرا‘‘
’’بڑا غم اپنا وطن مان کر بھی بے وطنی کا احساس رہتا ہے‘‘ اس کی آنکھیں بھیک رہی تھیں
’’وہ تو اپنوں کا وطن ہے‘‘
’’لیکن مہاجروں کا نہیں۔۔ ۔ اپنوں ہی کے ہاتھوں مرتے ہیں‘‘ اس نے کہا
’’یہاں اپنا وطن ہوتے ہوئے جلا وطنی کی زندگی گزارتے ہیں‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’فرق اتنا ہے کہ غیروں کے ہاتھوں مرتے ہیں‘‘
’’خیر سے شہید تو کہلاتے ہیں‘‘ طنزیہ مسکرائی
’’عجیب تذبذب کا عالم ہے کہ آدمی فردوس چاہتا ہے اور مرنا بھی نہیں چاہتا‘‘
اس نے میری جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ میرے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی جس کے کوئی معنی نہیں تھے
’’تمہارا شوہر کیا کرتا ہے‘‘
’’مکانات بناتے ہیں کنسٹرکشن کا کاروبار ہے‘‘
’’ڈی کنسٹرکشن بھی کرتے ہوں گے‘‘ میں نے اس کی کھوئی ہوئی آنکھوں میں جھانکا ’’ڈی کنسٹرکشن کی کوکھ میں کنسٹرکشن ہوتا ہے، جسے وہ تلاش کرتے ہیں‘‘ اس نے پہلو بدلا۔
مجھے اس کی یہ حمایت بری لگی۔ فردوس کا کسی سے اس قسم کا تعلق نہیں تھا لیکن تعلق تو میرا بھی نہیں تھا کسی اور سے۔ پھر بھی عاشقی میں رقابت اور محبت کا جذبہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ انتہائے شوق کا کمال یہ بھی ہے کہ اس کے بطن میں ’’حسد‘‘ کا پودا بِنا تخم ریزی کے اگ آتا ہے۔ لیکن اس وقت دل کی زمین اتنی زرخیز نہیں تھی کہ کوئی کڑوا بیج بغیر دیکھ ریکھ کے اگ آئے۔ پہلی نظر کا کمال یہ تھا کہ کھڑکی کے قریب بیٹھی فردوس میرے دل و دماغ پر ایسی چھا گئی تھی کہ جب میں نے اس دھندلے عکس کو رنگوں کی زبان دی تو کینوس پر ایسی تصویر ابھر آئی جو حقیقت سے زیادہ خوبصورت تھی آرٹ کے معنی یہی ہیں کہ فنٹاسی حقیقت کا روپ لے لے اور حقیقت فنٹاسی کی صورت اختیار کر لے اس وقت کچھ ایسا ہی ہوا کہ جیسے سخت گرمی کے بعد ریگستان میں جب پہلی بارش ہوتی ہے تو مٹی کی سگندھ فضا میں اس طرح پھیل جاتی ہے کہ پتھر دل بھی ہرن کی طرح مست ہو جاتا ہے۔ وہ اس لمحہ خلا میں اس طرح قدم رکھ رہی تھی جیسے ہواؤں پر پرندے رقص کر رہے ہوں۔ اس موجود لمحے کائنات اس قدر پر اسرار ہو گئی ہے کہ جو دکھائی دیتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ فردوس میرے سامنے سو رہی ہے اور میں جاگ رہا ہوں۔ سونے سے پہلے اس نے کہا تھا باب سید سے تھوڑی دور آگے کم آباد علاقے تھے لیکن پھر بھی چاروں طرف زندگی پیر پسارے تھی ہر جگہ بیداری تھی، پیڑ پودے تھے، ہوا تھی، صاف و شفاف آسمان پر جھومتے بادل تھے اب تو ہر طرف انسانوں کا جم غفیر ہے لیکن قبرستان جیسی خاموشی ہر جانب ہے، پر تکلف اور تصنع آمیز زندگی ہے ٹیں ٹیں، پوں پوں کے شور کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔ اونچی اونچی عمارتیں گوں گی اور بہری ہو گئی ہیں۔ گولی چلے کان پڑی آواز سنائی نہ دے اور قتل ہو جائے۔ یہ بیچارے تہذیب یافتہ لوگ نہ گالی دیتے ہیں۔ نہ لڑتے ہیں۔ خاموشی کا سانپ ان کے سرپر سوار ہے۔ یہ بے حس بازارِاساس کی پوش کالونی جہاں جذبات کا لین دین تول سے ہوتا ہے۔ علم سے بھرا تنگ ذہن دوسروں کی نجی زندگی اور تنہائی اور آزادی میں مخل نہیں ہوتا، مانو سب دماغ سے ہوتا ہے۔
کل میں تمہارے پرانے شہر اپنی پھوپھی سے ملنے گئی تھی۔ کچھ نہیں بدلا۔ وہی تکلف اور بناوٹ سے عاری زندگی، بد تمیز لوگوں کی زندہ بستی، چلتے پھرتے، چیختے چلاتے بھوکے لوگ جو ایک دوسرے کا غم مفت میں بانٹتے ہیں۔ بے علم، بے دماغ، منھ پھٹ نہ رونے میں تکلف نہ ہنسنے پر پابندی۔ ہر آنے جانے پر نظر، ایسی نظر جو جدید طرز کا لباس پھاڑ کر چھپے اعضاء کی بھی پیمائش کر لے۔ گفتار گالی گلوج جیسی، نگاہ گدھوں جیسی قوت شامہ کتوں جیسی چاروں طرف کتے بھونکنے کی آوازیں، کبوتروں کی غٹرغوں، بلی کی میاؤں میاؤں سے سونے والے جاگ جائیں، یہ سب دل سے ہوتا ہے۔ میرا دل بے چین ہو گیا ہے۔ فردوس سو رہی ہے میری آنکھیں جاگ رہی ہیں۔ سونے سے پہلے اس نے کہا تھا کافی عرصہ کے بعد اپنے ملک میں گہری نیند سوئی ہوں ورنہ خوف اور خدشات نے آنکھوں کی نیند چھین لی تھی۔ کراچی حادثاتی شہر ہے صبح کا نکلا شام کو حفاظت سے لوٹ آئے تو غنیمت جانیے۔
’’پاکستان بھی عجیب و غریب ملک ہے جس کی بنیاد مذہب پر ٹکی ہے‘‘ میں نے کہا
’’ہندوستان بھی عجیب و غریب ہو گیا ہے جبکہ اس کی اساس سیکولیرزم ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’در اصل فساد اور دہشت گردی مذہب سے جڑی ہے‘‘
’’یہ سب قصور دانشوری کے زعم میں کئے گئے غلط فیصلے کا ہے‘‘
’’اسی لیے مقتدر اعلیٰ کی زمین پر زمین کے لیے فساد ہوا‘‘
’’ہاں وہ سلسلہ دہشت گردی کی شکل میں آج بھی دراز۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’دہشت گردی ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے‘‘
’’وہ چاہے زبانی ہو یا عملی، دہشت پسندی ہے‘‘
’’فسادات خود دہشت گردی کے ہم معنی ہیں کیونکہ اس میں معاشی اور معاشرتی دونوں ہی نقصان ہوتے ہیں‘‘
’’سلطان بننے کی کوشش میں یہ انسان نہیں رہتے‘‘ اس نے کہا
’’سلطان ہونے کے لیے پہلے انسان بننا ضروری ہے‘‘ میں نے کہا
خاموشی کی کالی چادر میں رات آہستہ آہستہ ڈوب رہی ہے دیوالی ہو چکی ہے گلابی سردی نے اپنے پر پھیلا دیئے ہیں۔ فردوس کی مسہری کھڑکی کے قریب ہے خنک ہوا کے سبک جھونکوں پر اس کے گیسو محو رقص ہیں۔ میں نے چہرے سے بکھرے بالوں کو ہٹایا اور اپنے ہونٹوں کو جیسے ہی پیشانی پر رکھنے کی کوشش کی اس کی آنکھ کھل گئی وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ میں نے گداز ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں سمیٹنا چاہا وہ مسہری سے فرش پر ٹانگیں رکھ کر بیٹھ گئی۔ خوف اور خفگی کے ملے جلے احساس کے باوجود بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھل اٹھی اور پھر دوسرے ہی لمحے اس نے کہا ’’سرحدیں صرف ملکوں کی نہیں ہوتیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ ہی اچھی لگتی ہے۔ میں ثروت کی عزت کی امانت دار ہوں‘‘
میں بت بنا، ہونٹوں پر جبر یہ مسکراہٹ کے ساتھ گونگے بہرے کی طرح اسے تکے جا رہا تھا۔
٭٭٭
پیشین گوئی
مجھے یاد ہے آسمان پر ستارے چمک رہے تھے اور ستارے میرے جسم میں چیونٹیاں بن کر داخل ہو گئے تھے اور وہ چیونٹیاں میری رگوں میں رینگ رہی تھیں۔ میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ یہ رونگٹے کسی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک نا معلوم جذبہ کے اثر سے کھڑے ہو گئے تھے اور قابوس بستر پر سو رہا تھا۔۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں جاگ رہا تھا۔ کہ میں اس کی حفاظت کروں لطف کی بات یہ ہے کہ اس ککا مقام ’’خدا‘‘ کا تھا۔ پھر بھی اسے یہ ڈر تھا ’’غلام گروہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جو اس کی سلطنت پر طوفان بن کر چھا جائے گا‘‘ ۔ یہ پیشین گوئی ایک نجومی نے کی تھی اور اس نے یہ کہا تھا ’’اس ماہ فلاں تاریخ میں جمعہ کی شب فلاں ساعت میں اس کا جنم ہو گا‘‘ ۔ قابوس اپنے نرم بستر پر سو رہا تھا۔۔ شاید جاگ رہا تھا۔۔ نہیں۔۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں بے چین تھا اور میں اس وقت یہ سوچ رہا تھا یہ کیسا خدا ہے جس کی جان کی حفاظت میں کرتا ہوں؟ سونے اور جاگنے میں اس کی زندگی میری مٹھی میں ہوتی ہے۔ پھر تو خدا میں ہوا۔ اچانک جسم میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں اس کو اپنے آپ پر غصّہ آنے لگا۔ وہ سوچنے لگا یہ بے معنی سا جذبہ کس قدر قوی ہے جو میرے اوپر سوار ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے پھر میں خدا کیوں کر ہو گیا! سنا ہے خدا کے اوپر کوئی دوسری قوت نہ تو حاوی ہوتی ہے اور نہ ہی قابض۔۔ ۔ ا۔۔ و۔۔ ر۔۔ اور میں ایک نامعلوم خواہش کا غلام۔۔ اچانک قابوس کے کروٹ لینے سے وہ چونک گیا اسے اپنے فرض کا احساس ہوا اور بلّم لے کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔۔ قابوس سو رہا تھا۔۔ نہیں۔۔ نہیں بے چین تھا۔ بے چین تو وہ اسی روز ہو گیا تھا جب کہ منجم نے پیشین گوئی کی تھی۔ قابوس نے حکم دیا ’’قطرے کے وجود میں آنے سے پہلے اس کی تقدیر میں فنا لکھ دو۔۔ اور عورت اور مرد کے جسمانی تعلق کے درمیان حکم تھا کہ کسی قطرے کے تخلیقی وجود میں آنے سے پہلے اس کو مٹا دو تاکہ وہ زندگی کا منہ نہ دیکھ سکے‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔۔ سارے ملک میں خیمے گاڑ دیے گئے۔ لوگوں کو اس کے حکم پر عمل کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ باپ کو حقِ پدری سے محروم کیا گیا۔۔ ۔ ماؤں کو لذّت مادری سے ترسایا گیا۔ اسقاطِ حمل کی خبریں تیزی سے گشت کرنے لگیں۔ محافظانِ قوم نے اس کا ریہ کو سپھل بنانے کے لئے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اپنے اپنے حصہ کا کوٹا پورا کر کے انعامات لئے۔ نہ جانے کتنے معصوم زندگی سے محروم ہو گئے۔ عورت اور مرد صحبت کے لطف سے محروم ہو گئے۔ اس نے آسمان کو دیکھا، ستارے معمول کے مطابق چمک رہے تھے۔ جسم میں چیونٹیاں رینگ رہی ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارے گروہ میں ہی وہ شخص پیدا ہو گا۔ ایک تو ہم بمقابلہ قومِ قبطی جس کی نسل میں سے خود قابوس ہے تعداد میں کم ہیں اور دوسرے قابوس نے ہماری پوری ایک نسل کو قتل کر دیا۔ ممکن ہے اس شخص کے پیدا ہونے کے خوف سے یا اس لیے کہ غلام گروہ کہیں تعداد میں قبطی قوم کے برابر نہ ہو جائے۔ وہ سوچتا ہے اگر وہ شخص پیدا ہو گیا تو وہ تنِ تنہا قابوس اور اس کی سلطنت کے لیے بھاری ہو گا۔ وہ مسکرا اٹھا۔ اس کی نظر قابوس پر گئی جو خرّاٹے لے رہا تھا۔ وہ سوچتا ہے یہ سالا تو سو رہا ہے۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا اور ہاتھ اوپر اٹھائے ’’اے بادشاہوں کے بادشاہ بھیج تو اس روح کو اس زمین پر جو میرے قوم کو قابوس کے ظلم سے نجات دلائے، میری مختصر سی قوم کو جو اس کے ظلم و ستم کے سبب اور بھی مختصر ہو گئی ہے۔ کب تک میری قوم تباہ و برباد رہے گی اور قابوس کا شکار رہے گی؟ اے خدا ہم لوگ شکار ہیں جو قابوس کے جال میں اپنی مرضی سے پھنستے ہیں۔ ہماری فریاد قابوس کے کانوں تک نہیں پہونچتی اے خدا ہم قابوس کی طرح خدا نہیں بننا چاہتے ہیں۔ ہمیں انسانوں جیسا بنا دے۔ ہمیں تو اس ذلّت سے نجات دلا۔ تو بھیج اس روشنی کو جو ہمارے درمیان کے اندھیرے کو کاٹ دے اور ہم قابوس کو سمجھ سکیں اس کے فریبوں کو پہچان سکیں‘‘
’’کون ہے؟‘‘ قابوس چونک کر بولا۔
’’کوئی نہیں سرکار‘‘ اس نے بھی چونکتے ہوئے جواب دیا۔
’’اوہ تم۔۔‘‘
’’ہاں سرکار‘‘
’’اچھا اچھا۔ ہم رفع حاجت کریں گے۔‘‘
چند لمحے بعد بستر خالی ہو گیا اور اس کی بیوی اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، رگوں میں چیونٹیاں رینگنے نے ایک دوسرے کو باہوں میں سمینٹ لیا۔ دونوں کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہو گئیں اور جب کھلیں تو وہ قابوس کے بستر پر بے حس و حرکت برہنہ پڑے ہوئے تھے۔ دونوں نے خوف زدہ آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا۔ اس کی بیوی نے کپڑے درست کیے اور خاموشی سے خواب گاہ سے نکل گئی۔ اور وہ بلّم لے کر دروازہ پر تعینات ہو گیا۔
قابوس آیا۔۔ اور بستر پر دراز ہو گیا
اس حادثہ کے بعد مجھے میری بیوی نے بتایا ’’قطرہ نے وجود میں تبدیل ہونے تک فاصلے طے کر لیا ہے‘‘ میں یہ خبر سن کر سہم گیا۔ سوچنے لگا قابوس کی بہیمانہ ظلم سے میں کیسے بچوں گا؟ اور وہ وجود جو میرے وجود کا ایک حصہ ہے اور میری بیوی کے رحم میں روشن ہے تو میں اس روشنی کو کیسے چھپاؤں گا؟ کیسے اپنی حفاظت کروں گا؟ کیا کروں گا؟ اے خدا مجھے راستہ دکھا کہ مجھے دکھائی نہیں دیتا حالانکہ میری آنکھیں ہیں اور تو خدا تجھے سب کچھ دکھائی دیتا ہے جبکہ تیرے آنکھیں نہیں ہیں‘‘ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اس کو چاروں طرف اندھیرا سا دکھائی دیا اور جب اس نے اپنی آنکھوں سے ہاتھوں کا پردہ اٹھایا تو ایک بجلی سلی اس کے ذہن کے آسمان پر کوندی اور کالے کالے بادلوں میں روشنی دکھائی دی، ہوا کے دوش پر رم جھم رم جھم بارش کی بوندیں ناچتی ہوئی محسوس ہوئیں اور وہ لیلا جو اس کی بیوی کے شکم میں پل رہی تھی، مرلی بجاتی ہوئی سنائی دی اس کی گونج میں وہ مست ہو گیا۔ اور جھوم گیا اس نے اپنی بیوی کو ملک کے قانون سے دور ایک پوشیدہ مقام پر بھیج دیا اور آخر کار وہ مہ، ماہِ کامل بن کر نمودار ہوا۔ منجم نے قابوس کو اطلاع دی ’’حضور سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہے۔ اب ہمارے سروں کی خیر نہیں‘‘
قابوس آگ بگولہ ہو گیا۔ قریب رکھے شمع دان پر اس نے اس زور سے ہاتھ مارا کہ وہ چکنا چور ہو گیا۔ دربار میں سناٹا چھا گیا ’’آج کی شب تولد ہونے والی اولادِ نرینہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے‘‘ قابوس نے سخت آواز میں حکم دیا۔ سارے ملک میں نفسی نفسی کا عالم طاری ہو گیا، لوگ سر پر ہاتھ رکھے اس طرح بھاگ رہے تھے جیسے سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہو اور زمین آگ کا گولا ہو گئی ہو۔
وقت گزر گیا۔ قابوس کا دماغ ٹھنڈا ہو گیا۔ سورج اپنی جگہ پر پہنچ گیا۔ زمین ٹھنڈی ہو گئی۔ ایک روز قابوس اپنی اہلیہ کے ساتھ دریا کے کنارے بیٹھا تھا۔ موسم خوشگوار تھا۔ خشک ہواؤں کے جھونکوں پر اس کی بیوی کے بال رقص کر رہے تھے۔ اور کبھی کبھی اس کے خوبصورت رخسار کو مس کر جاتے۔
’’یہ گیسو مجھ سے رقابت نبھا رہے ہیں‘‘ اس نے انگلی سے ان کو ہٹاتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے رخسار پر رکھ دیے۔ اس کی بیوی اس کی باہوں میں جھول گئی۔ اس کے قریب ایک حسین و جمیل بچہ آتا ہوا دکھائی دیا۔ جس کے چہرے پر فرشتوں جیسی پاکیزگی تھی۔ آنکھوں سے زار و قطار آنسوں بہہ رہے تھے۔ اس کی بیوی اس لڑکے کی آنکھوں اور حسن و جمال پر فریفتہ ہو گئی۔ اس نے مترحم نگاہوں سے اس بچہ کو دیکھا ’’کون ہے یہ بچہ، کس کا ہے یہ؟‘‘
قابوس کی آنکھ پھڑکی، لیکن بیوی کی ضد کے سامنے اس کی ایک نہیں چلی ’’دیکھو جی ہمارے پاس کوئی اولاد نہیں، آپ کے بعد کون اس ملک و مال کا مالک ہو گا۔ اس عظیم الشان سلطنت کے لیے ایک ولی عہد کی بھی ضرورت ہے‘‘
قابوس خوشی سے جھوم اٹھا اور اس نے اس بچے کا نام قینان رکھا اس کی پرورش بڑی شان و شوکت کے ساتھ ہوئی ناز و نعم سے اس کو پالا گیا۔ جنگ و جدل کے تمام فنون شہہ سواری، شاہانہ طور طریقے اس کو سکھائے گئے۔ آخر کار وہ پودا پروان چڑھا اور تناور درخت بن گیا۔ اس درخت کے سائے میں بھٹکے ہوئے مسافر پناہ تلاش کرنے لگے۔ ان پناہ گزینوں کو قینان نے اپنا پہلا درس دیا ’’لوگوں! تمہارا اتحاد قابوس کے لیے طوفان ہو گا اور تمہاری نیکی تمہاری طاقت ہو گی‘‘
یہ پیغام قابوس کے کانوں میں زہر بن کر داخل ہوا تواس کو ایک نا معلوم خوف کا احساس ہوا اس نے اس احساس کو دباتے ہوئے کہا ’’غلام گروہ کے درمیان پھوٹ ڈال دو، یہی ہماری فلاح کا راستہ ہے‘‘
’’حضور گستاخی معاف ہو۔۔ ۔ یہ حکومت کرنے کا کون سا طریقہ ہے‘‘؟ ایک درباری نے پوچھا!
’’ہاں یہ طریقہ ہمارے بزرگ حاکموں سے ہمیں ورثہ میں ملا ہی۔۔ ۔ وہ تو چلے گئے لیکن ہمیں۔۔ ۔۔
’’لیکن حضور اب غلام گروہ میں یہ چال کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ قینان کا اثر لوگوں کے دلوں پر چھا گیا ہے‘‘
’’تو قبطی قوم کو کھلا چھوڑ دو کہ وہ غلام گروہ پر موت بن کر چھا جائے۔۔ ۔۔ اور ملک کے محافظوں سے کہو کہ وہ انہیں اس قدر ماریں کہ غلام گروہ کے آنسو نکل پڑیں۔ اور راعیانِ حکومت سے کہو کہ وہ بعد میں ان آنسوؤں کو اس طرح پونچھیں کہ ان کی خود کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی ہوں‘‘
اور پھر ایسا ہی ہوا جیسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ لوگوں نے قینان سے مدد چاہی مگر وہ مجبور تھا اس کے پاس سوائے آنسوؤں کے کچھ نہیں تھا۔
’’ہمیں ان آنسوؤں کا کیا کرنا ہے‘‘ ایک بوڑھے نے جھنجھلا کر کہا
’’میرے نسلی بھائیوں! قینان اور قابوس کے آنسوؤں میں فرق محسوس کرو‘‘ قینان نے روتے ہوئے کہا۔
لوگوں میں سکوت سا طاری ہو گیا اور وہ ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
قینان نے لوگوں کو خطاب کیا ’’ہم مجبور ہیں اور مجبور اس لیے ہیں کہ راعیانِ قوم اور محافظانِ ملک میں غلام گروہ کا کوئی شخص بھی داخل نہیں۔ آؤ ہم اس امر پر غور کریں۔
قابوس، قینان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے ڈرنے لگا تھا اس نے حکم جاری کیا۔ ’’راعیانِ قوم اور محافظانِ ملک میں غلام گروہ کے لوگوں کو شامل کر لیا جائے۔ راعیانِ قوم کے لیے فوراً عمل در آمد ہونا چاہیے لیکن محافظانِ ملک میں شامل کرنے کے لیے اسے محض حکم سمجھا جائے‘‘
غلام گروہ کے جو لوگ راعیانِ قوم میں شامل ہو گئے تھے۔ ان کو قابوس نے بلایا ’’ہم نے تمہیں منصب دیا۔ اس کے عیوض تمہارے آنسوؤں کو خرید لیا ہے اب تم غلام گروہ کے افراد نہیں بلکہ راعیانِ حکومت کے اعضاء ہو تمہیں صرف اپنے منصب ہماری منشاء اور ہماری زندگی کی حفاظت کرنی ہے‘‘
تمام لوگوں نے حلف اٹھایا اور وہی کرنے لگے جو قابوس چاہتا تھا۔ قابوس نے غلام گروہ کے نام ایک اعلان جاری کیا ’’اے غلام گروہ کے لوگو! ہم نے وہی کیا جو تم نے چاہا حالانکہ تمہاری نسل کے بزرگوں سے ہم نے تم کو خریدا تھا۔ مگر پھر بھی ہم نے تم کو راعیانِ قوم میں شامل کر کے برابری کا حق دیا اس کے صلے میں ہم یہ چاہیں گے کہ تم کسی کے بہکاوے میں نہ آؤ بلکہ ہمیں تسلیم کرو‘‘
یہ اعلان آگ کی طرح ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گیا۔ ہر شخص قابوس کے گن گانے لگا اور قینان سے قطع تعلق کرنے لگے۔ قینان یہ دیکھ کر افسردہ ہو گیا۔ مگر مایوس نہیں ہوا۔۔ ۔ اس نے اپنی تمام قوتوں کا مجتمع کیا۔ اور سوچنے لگا میری قوم کے لوگ بڑے معصوم ہیں۔ جاہل ہیں۔ اس لیے انہیں روشنی کی ضرورت ہے۔ اس نے جگہ جگہ شمع روشن کی ’’اے لوگوں میں تمہاری فلاح چاہتا ہوں، میں تمہاری عزت کے لیے مرتا ہوں۔ تم لوگ علم حاصل کرو کہ انسان اور حیوان کا فرق کر سکو‘‘
قابوس گھبرا گیا۔ اس نے راعیانِ قوم کی مجلس بلائی اور کہا ’’اے غلام گروہ کے لوگو تمہاری قوم بڑی احسان فراموش ہے۔ تم لوگ اگر اپنے منصب کی خیر چاہتے ہو تو اپنی قوم کی تہزیب اور معاشرت کو کچل دو۔ یہ تمہاری وفاداری کا امتحان ہے‘‘
’’اے قابوس تو مجھ کو خرید نہیں سکتا۔ میری زبان تیرے پاس گروی نہیں ہے‘‘ قینان نے کہا
قابوس غصّے سے سرخ ہو گیا۔ مگر اس نے غصہ کو قابو میں کرتے ہوئے کہا ’’تم چاہتے کیا ہو، میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟‘‘
’’مجھے تجھ سے کوئی بیر نہیں۔ میں تجھے روشنی دکھانے آیا ہوں، میرا وجود تیرے ظلم و ستم پر چھا جائے گا‘‘
یہ سن کر قابو گھبرا گیا ’’لیکن میں تمہارا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دوں گا‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا۔ ج
’’اس کا فیصلہ وقت کرے گا کہ وقت بہت بڑا منصف ہے‘‘
’’چلے جاؤ‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا۔
’’آیا کون تھا؟ یہ کہتے ہوئے قینان واپس لوٹ گیا‘‘
اس رات قابوس سو نہ سکا۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ اپنے نرم اور گداز بستر پر بہت بے چین تھا۔ ایک پل اس کی آنکھ نہ جھپکی۔ جب بھی وہ اپنی آنکھیں بند کرتا اس کو ڈراؤنے خواب و خیال نظر آتے اس کو محسوس ہوتا کہ قینان اس کے سرپر تلوار لئے کھڑا ہے اور وہ بے بس پرندہ کی طرح اس کے سامنے پڑا ہوا ہے۔ اور غلام گروہ تالیاں بجا رہا ہے۔ اس نے سوچا صبح ہوتے ہی راعیانِ قوم کا اجلاس بلائے گا۔ مگر رات تھی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی۔ وہ کمرے سے باہر نکل آیا آسمان پر چمکتے ستارے اس کو سینکڑوں افعی کی آنکھیں معلوم ہوئیں جو اس کا تعاقب کر رہی ہیں۔ وہ ڈر کر واپس اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔ اس کے کاندھے بھاری ہو گئے تھے اس کو لگا کوئی ہے مگر وہ شکل اس کا گلا گھونٹ رہی ہے۔
صبح ہوئی، قابوس نے راعیانِ قوم کا اجلاس بلایا اور قانون پاس ہوا ’’قاتل کو بھی سزائے موت اور قتل کے لئے اکسانے والے کو بھی موت کی سزا دی جائے گی‘‘
’’لیکن حضور ایسا قانون بنانے سے فائدہ‘‘ ایک راعی نے دریافت کیا
’’تم نہیں جانتے قینان کی طاقت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے مجھے خوف ہے کہ وہ اگر مجھے مارنے میں کامیاب نہ ہوا تو کہیں دوسرے سے قتل نہ کروا دے‘‘
تمام راعیانِ قوم نے قابوس کی عقل کی داد دی۔ قابوس مسکرا دیا۔ وہ سوچنے لگا اب مجھے کوئی نہیں مٹا سکتا۔ ’’میں منجم کی پیشین گوئی کو جھوٹا ثابت کر دوں گا۔ میں تقدیر کی لکیروں کو مٹا دوں گا‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا ’’قینان کے حامیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے‘‘ اس نے محافظانِ قوم کو حکم دیا۔
’’حضور محافظانِ ملک قاتل بن جائیں، یہ کہاں کا انصاف ہے‘‘؟ غلام گروہ کے راعیان نے زیرِ لب اعتراض کیا۔
’’ہمارا انصاف یہ ہے کہ تم سب میری حفاظت کرو‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا۔
مجلس میں سناٹا چھا گیا۔ اور ملک میں افرا تفری پھیل گئی۔ محافظانِ ملک کے مظالم کا لوگ نشانہ بنے۔ مگر اس بار غلام گروہ سامنے آ گیا۔ اور مقابلے پر اتر آیا اس نے ظلم کے منھ پر اس زور سے طمانچہ مارا کہ قابوس کی آنکھیں کھل گئیں۔ ایوانِ حکومت کے پائے لرزتے ہوئے محسوس ہوئے۔ وہ قینان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ڈرنے لگا۔ منجم نے پیشین گوئی کی تھی ’’غلام گروہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جو اس سلطنت پر طوفان بن کر چھا جائے گا‘‘ اس نے چونک کر چاروں طرف دیکھا۔ اس نے محسوس کیا کہ قینان کی آواز اس کا تعاقب کر رہی ہے ’’میرا وجود تیرے ظلم و ستم پر چھا جائے گا۔۔ ۔ نہیں نہیں‘‘
’’لوگو! اب عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انقلاب کے لیے تیار ہو جاؤ۔ قابوس کا پایۂ تخت لرزنے لگا ہے۔ قینان نے اعلان کیا۔ تمام مجمع نے ’’انقلاب زندہ باد کا نعرہ بلند کیا۔ محل کے درو دیوار ہلنے لگے۔ قابوس ڈر گیا خوف کے بادل منڈلا رہے تھے۔
’’اب ایوان حکومت کو گرانے کے لیے کمر کس لو‘‘ قینان نے بلند آواز میں کہا۔ انقلاب زندہ باد کا فلک شگاف نعرہ فضا میں گونجنے لگا۔ قینان کی رہنمائی میں پورا مجمع آگے بڑھنے لگا۔ اب اس جم غفیر نے طوفان کی سی شکل اختیار کر لی تھی۔ آناً فاناً وہ طوفان قابوس کے محل میں داخل ہو گیا۔
قابوس گرفتار کر لیا گیا۔ قینان تخت نشین ہوا۔ قینان کی عدالت میں قابوس کے خلاف مقدمہ چلا۔
منصف نے فیصلہ دیا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ قابوس نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا۔ لیکن اس نے ہمیشہ لوگوں کو قتل کرنے کے لیے اکسایا ہے۔ اس لیے اس کو سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے۔‘‘
’’قابوس! جس قانون کو تو اپنا محافظ سمجھتا تھا۔ وہی تیرا قاتل ہے‘‘ قینان نے کہا۔
وقت کا دیوتا کہہ رہا تھا کہ جب جب کنش پیدا ہوں گے ان کے ادّھار کے لیے کرشن آتے رہیں گے۔
٭٭٭
صدیوں پر پھیلی کہانی
سورج نے اپنا جال بچھا دیا تھا، کائنات نے گرم سنہری لباس پہن لیا تھا۔ آسمان اور زمین کے درمیان پانی بہہ رہا تھا۔ اس کی روانی بڑی تیز تھی۔
’’تمہاری کہانی کا ہر لفظ اور ایک ایک حرف میری کہانی سے ملتا جلتا ہے۔ یہ مماثلت شاید اس لیے ہے کہ کرّہ کے درمیانی نقطہ میں سمتوں کے فرق سے قطع نظر، فاصلہ دائرے کے نقطۂ مرکز اور نصف قطر کے درمیان جیسا بالکل برابر ہوتا ہے۔ اور وہ نقطۂ مرکز ’’کلائمکس‘‘ ہے۔ ’’نقطۂ آخر‘‘ ہے۔۔ ۔ اور یہی حسنِ اتفاق سے ’’نقطۂ آغاز‘‘ بھی ہے۔
تم نے ابھی کہا نا ’’اسے میرے پسینہ سے پیار تھا۔۔ ۔ اسے میرے دماغ سے پیار تھا۔۔ ۔ اور میری روح سے پیار تھا۔۔ ۔ یعنی ابدی پیار۔۔ ۔ اسی لیے اس پیار کو بقا تھی۔۔ ۔ اور تم نے اس کے عیوض اس کو سر سے پیر تک چاٹا، کتنی مٹھاس تھی جسم کے ان کانٹوں میں جبکہ وہ اُگ آتے تھے میری قربت کے احساس۔۔ ۔۔‘‘
لیکن اب تم کہتے ہو کہ ’’میری زبان لہولہان ہو گئی ہے اور اس کا ذائقہ اس قدر نمکین ہو گیا ہے کہ شروع میں زہر لگا اور اب بڑا ہی سوندھا سوندھا لگتا ہے۔
جب تم نے انہیں پہلی بار نا قابلِ برداشت حالت میں دیکھا تھا تو وہ دونوں ایک دوسرے میں سمٹے ہوئے تھے۔ ایک دوسرے میں اس قدر پیوست تھے کہ درمیان میں بال برابر نکاس نہیں تھا کہ ہوا بھی گزر سکے۔ انہوں نے اس حدِ امتیاز کو پار کر لیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے عبوری دور میں بے حد اور بڑی بے چینی سے بے قرار تھے۔ شاید صرف اس مقام پر عورت کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ اس کے بال ٹھوڑی پر اگ آئے ہیں اور کچھ ناک کے نیچے۔ اور کبھی کبھی بعض کہانیوں کا یہی نقطۂ آغاز بھی ہوتا ہے۔۔ ۔۔ لیکن میری کہانی کلائمکس کے بعد ختم ہوتی ہے۔ یا یوں سمجھ لو ہر کہانی لا متناہی سلسلہ ہے نہ ختم ہونے کا۔ بس کہے جاؤ۔ ہاں جبکہ تم نے یہ پوچھا کہ ’’کون تھا وہ؟‘‘ تو اس نے کیا کہا؟ اس نے کہا ’’میرا دوست تھا وہ۔ بالکل تمہاری طرح۔ تمہارا جیسا ہی پسینہ ہے۔۔ ۔ تمہاری جیسی روح ہے۔۔ ۔ اور جسم بھی تمہارا ہی جیسا ہے۔۔ ۔ دیکھو تمہیں آگ اگلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم بھی ڈھونڈ لو۔۔ ۔ آخر کب تک۔۔ ۔ ایک ہی راستہ پر مسلسل چلا جائے ہم زندہ ہیں۔۔ ۔ متحرک ہیں‘‘
شروع شروع میں یہ الفاظ گرم لوہے کی سوئیاں بن کر کانوں کے پردے پھاڑ رہے تھے۔۔ ۔ پھر لگا جیسے ان سوئیوں نے پردوں کو رفو کر دیا ہو۔
کہانی کی پہلی کڑی:
دیکھو تمہاری کہانی وہ ہے جو کلائمکس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اور میری کہانی۔۔ ۔۔ میری کہانی جواب کہانی ہے۔ پہلے حقیقت تھی اور سچ کو سچ کہنے کے لیے دلیل کے طور پر اس کی کہانی سناؤں گا۔۔ ۔۔
ہاں تو قصہ یوں اس نے بیان کیا تھا کہ ’’جب خدا کو اپنا جلوہ دیکھنا مقصود ہوا تو اس نے آسمان بنایا، زمین بنائی، سورج، چاند اور ستارے چمکائے زمین کو گلزار کیا۔ آسمان کے اس طرف ایک خوبصورت سی جنت بنائی جس میں دودھ اور شہد کی نہریں جاری کیں۔۔ ۔۔ جنت میں میوے اور پھلوں کے درختوں کو اگایا۔۔ ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوزخ بنائی جس میں آگ ہی آگ ہے، کھانے کے لیے آگ کے چنے، پہننے کے لیے آگ کے کپڑے اور آگ ہی کی چپلیں۔۔ ۔ اس جنت میں حور و غلمان ہیں۔ مرنے کے بعد نیک مردوں کو حوریں اور نیک عورتوں کو غلمان ملیں گے۔۔ ۔ باوجود اس کے، افزائش نسل کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔۔ ۔ ہاں تو اس میں اس کی تخلیق ہوئی۔ فرشتوں نے اس کی عظمت کو سجدے کئے۔ فضائیں بڑی ہی پُر لطف اور خوبصورت تھیں۔ لیکن اس حسین و جمیل منظر میں اس کی طبیعت نہ لگی وہ فکرمند رہنے لگا۔۔ ۔۔ ۔ وہ سوچ میں محو ایک خوبصورت درخت کے نیچے بیٹھ گیا کہ شاید سکون ملے اس کو دیکھ کر خالق کائنات بھی پریشان ہو گیا۔ آخر اس کی بائیں پسلی سے ایک عورت پیدا کی۔۔ ۔ وہ پسلی ٹیڑھی تھی۔۔ ۔ اس طرح تنہائی کا علاج تو ہو گیا لیکن اس نے عورت کو چھونے کی غلطی کی۔ پھر کیا تھا؟ زمیں ہل گئی، آسمان کانپ گیا۔ خالق کا جلال جوش میں آ گیا۔۔ ۔ اور ان کو زمیں پر پھینک دیا گیا۔۔ ۔ اور وہ بیچارے ان حسین فضاؤں سے تا قیامت محروم کر دئے گئے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سزا ہے یا ’’حکمت ربّانی‘‘ ہے۔ ’’چاہتے ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا‘‘ عورت کو سزا ملی کہ وہ زندگی بھر اولاد کا بوجھ ڈھوئے گی۔۔ ۔ اور مرد ان کو اپنا پسینہ پلائے گا اور خون کھلائے گا۔ پہلے جس جُرم کی پاداش میں انہیں زمین پر پھینکا گیا اب وہی جرم ان کے اوپر حلال کر دیا گیا اور اس طرح عورت اور مرد ایک دوسرے میں ضرب ہوئے۔۔ ۔ پھر یوں ہوا ہابیل اور قابیل کے ساتھ ایک عورت بھی پیدا ہوئی۔۔ ۔ بس پھر وہی روایت دہرائی گئی پہلے اس نے اس کو بہکایا۔ بعد میں ان کو لڑا دیا۔ ایک بھائی نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اور زمین میں دبا دیا۔ تاکہ وہی مٹی جو اس کے تخلیق کے وقت استعمال ہوئی تھی اسی مٹی میں مل کر ایک اکائی بن جائے۔۔ ۔ بہر حال پانی بہتا رہا اور اس کی ہر لہر میں سینکڑوں کہانیاں پوشیدہ ہوتی رہی۔ جو وہ روانی کے ساتھ گنگناتا ہے۔ کبھی دھاڑیں مار مار کر ڈکراتا ہے‘‘ ۔ اب تم کو میرے کہانی سن کر ذرا بھی شک نہ ہو گا۔ چونکہ میں تم کو وہ باتیں بتاؤں گا جو بتانے کی نہیں ہوں گی اور وہ باتیں میں کہوں گا جو کہنے کی ہیں۔
کہانی کی درمیانی کڑی:
ہاں ہو یوں۔۔
’’تم بھی ایک مجرم ہو، اس لیے کہ تم نے اس اشتہار کو رک کر دیکھا تھا‘‘ یہ بات قاضی نے کہی
’’لیکن رُک کر دیکھنے سے، میں کیا مجرم ثابت ہو گیا‘‘؟
’’تم اس شہر کے پہلے آدمی ہو، جس نے تصویر کو رُک کر دیکھا۔ لگتا ہے تمہارا اس تصویر سے کوئی سلسلہ ضرور ہے‘‘
’’حضور، میں آپ کے تجربہ اور ذہانت کی داد دیتا ہوں۔ اور چونکہ میں جھوٹ نہیں بولتا، اس لیے میں کہے دیتا ہوں کہ میں اس عورت کو جانتا ہوں کیونکہ میرا اس سے تعلق تھا۔ اسی لیے اس کو میں نے قتل کیا ہے۔ لیکن قتل کرتے وقت میرے ذہن میں ایک نیک ارادہ تھا۔ نیکی کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ جس حالت میں مقتولہ میرے ساتھ فرار ہوئی تھی، اسی حالت میں مری بھی ہے۔ میں اس عورت کا قاتل ضرور ہوں لیکن اس کی عصمت کا قاتل نہیں ہوں۔ اب میں یہ نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ اس میں بڑا قصور کون سا ہے؟ دوسرے یہ جو مال و اسباب لے کر میرے ساتھ فرار ہوئی تھی اس کی بھی میں نے حفاظت کی ہے‘‘
’’یہ بات سچ ہے۔ یہ تصویر بھی بول رہی ہے‘‘ قاضی نے کہا
تھوڑی دیر فضا میں سکوت طاری رہا۔ کائنات کی نبض سی رک گئی تھی
’’ایک بات بتاؤ کہ آخر تم۔۔ ۔‘‘ خاموشی کی کرچیاں ہو گئیں
گفتگو کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے ’’ہاں، سرکار وہی بات بتاؤں گا۔ اصل واقعہ یوں ہے۔ ایک دن میں اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ سلطان کو پیغام رسانی کر کے محل سے واپس ہو رہا تھا۔ بلند دروازہ عبور کر کے دائیں جانب مڑا، ابھی محل کی سڑک کو پار بھی نہیں کیا تھا کہ ایک کاغذ کا پرزہ چھت سے گرا۔
’’دیکھئے وہ یہ ہے‘‘ قاضی نے ہاتھ بڑھایا۔
خوبرو نوجوان سلام حسرت قبول ہو!
پہلی ہی نظر میں دل جیسی قیمتی شے ہار گئی۔ تمہارا یہ چوڑا چکلہ سینہ، مضبوط باہیں، لمبی لمبی ٹانگیں، گھونگریالے بال۔ اس شدت سے پسند آئیں کہ میں نے تمہیں اپنا شریک حیات منتخب کر لیا۔ تم بعد از نصف شب محل کی پشت پر ملنا۔ میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔۔ ۔ والسلام۔
قاضی اس تحریر کو پڑھ رہا تھا۔۔ ۔ میں سوچ رہا تھا کیا کرسی کے لیے کوئی قانون نہیں ہوتا؟ دوسروں کے نجی خطوط پڑھنا اگر قانونی جرم نہیں تو اخلاقی جرم ضرور ہے! لیکن جرم۔۔ ۔ پھر۔۔ ۔ جرم ہے۔۔ ۔ میں نے بھی ایک سنگین جرم کیا ہے۔۔ ۔ ایک نامحرم کو لے کر شہر سے دور چل دیا۔ رات کے آخری حصہ میں ہم لوگ ایک جنگل سے گزر رہے تھے۔ عورت کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ گھوڑا قریب ہی باندھ دیا۔ زین زمین پر بچھائی اور عورت کو سلادیا۔۔ ۔ نیند کی حالت میں چہرے سے نقاب اُلٹ گیا۔۔ ۔ مجھے لگا جیسے بجلی سی کوند گئی۔ ایک لمحہ کے لیے میری آنکھیں چندھیا گئیں اور محسوس ہوا جیسے بجلی سی میرے جسم میں سرایت کر گئی ہو۔ میں نے جلتی مشعل اپنی ایک انگلی رکھ دی، بجلی کوندی، دوسری انگلی رکھ دی۔۔ ۔۔ یہ عمل چند لمحے جاری رہا۔۔ ۔ جب تھوڑا سا سکون ہوا۔۔ ۔ ایک درخت کے قریب، عورت کی جانب سے پشت کر کے بیٹھ گیا، سینکڑوں پرندے میرے ذہن کے آسمان پر پھڑپھڑانے لگے اچانک ایک پرندہ میرے ذہن کے آسمان سے نکل کر میرے کانوں کے قریب اڑنے لگا ’’۔۔ ۔ اس عورت سے میں شادی کروں گا۔۔ ۔ بچے ہوں گے۔۔ ۔۔ ممکن ہے لڑکی ہو۔۔ ۔ وہ بھی کسی خوبرو نوجوان کیساتھ اسی طرح رات کی سیاہی میں۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں یہ سلسلہ آگے جاری نہیں رہے گا‘‘
اچانک دوسرا پرندہ کانوں پر پھڑپھڑانے لگا ’’جو عورت اپنے باپ کے دامن پر داغ لگا سکتی ہے۔۔ ۔ کس سے خون کا رشتہ ہے۔۔ ۔ اور میں جس سے ریشمین دھاگے سے بندھا ہوا رشتہ ہو گا‘‘
اچانک تمام پرندے میرے ذہن سے نکل کر میرے چاروں طرف اڑنے لگے۔۔ ۔ ان کی خوفناک آوازوں نے ماحول کو بھیانک بنا دیا تھا۔۔ ۔ رات کی سیاہی گہری ہو رہی تھی آسمان پر لگے ستارے اسے دامن پر لگے داغ محسوس ہوئے۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں۔
میں نے تلوار کھینچ لی اور اس عورت کو کتنے ہی حصّوں میں قتل کر دیا۔۔ ۔ حضور میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں نے نسل در نسل چلنے والا سلسلہ۔۔ ۔
’’ہاں نوجوان تم نے بالکل صحیح کیا، در اصل اس کی ماں بھی میرے ساتھ فرار ہوئی تھی۔۔ ۔ میں نے ایک جنگ میں اس کے باپ کو شکست دی تھی۔ وہ میری فتح پر فریفتہ ہو گئی تھی۔۔ ۔ (کچھ دیر خاموشی کے بعد)۔۔ ۔ تم نے اچھا کیا۔۔ ۔‘‘
مقتولہ کے باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ جو کہ سلطان کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ قاضی نے فیصلہ دیا ’’خون کے بدلے خون کی سزا معاف کی جاتی ہے۔‘‘
پانی معمول کے مطابق بہتا رہا۔ اس میں بڑی روانی تھی۔ تیز رفتاری تھی۔ سرخی تھی۔ جو نہ رکنے کا نام لیتا ہے۔۔ ۔ نہ ہی ٹھہرنے کا۔۔ اور نہ ہی پیچھے لوٹنے کا۔۔ ۔۔ ۔۔
٭٭٭
بائیں پہلو کی پسلی
اس رنگ منچ پر ایک اور سانحہ رونما ہوا یہ پہلا ہے نہ آخری۔ میری تخلیق اس بے ما نند بے مثل ربّا کی منشا ہے اگر میری مرضی شا مل ہوتی تو جسِد خاکی جو اشرف المخلوقات ہے کے بجائے میں زمین پر اُگا ہوا درخت خلق ہوتی جو میرے لئے باعثِ افتخار اس لئے ہوتا کہ انسان کی ضروریات زندگی میں مجھ ادنیٰ کی بھی حصّہ داری ہو جاتی پھر نہ تو دنیا وی آزمائش ہوتی نہ حساب و کتاب کی گنجائش اور عقوبت میں میزان سے نجات حاصل ہوتی۔ میں آ فس سے آنے کے بعد آ سودہ حال تھکن اوڑھ کر بستر پر دراز ہو گئی آنکھیں آہستہ آہستہ اپنے آپ بند ہونے لگیں لیکن نیند کی دیوی قید نہ ہو سکی۔۔ روشنی کی کشتی پر سوار خلا کے اس پار چاروں طرف پانی ہی پانی صرف پانی۔ ایک عجیب محیر العقول کائنات کا شاید آخری سرا عمودی سمت کی جانب۔
ایک غیبی ندا فضا میں گونجی ’’اگر نہ پیدا کرتا اے حبیب بر گزیدہ ہر آ ئینہ نہ پیدا کرتا میں آسمان و زمین اور ساری مخلوق‘‘
درمیان میں بے پناہ سکوت،ا تھاہ خا مو شی۔ چاروں طرف ہوٗ کا سا عالم، فقط ہو۔ سلسلۂ وقت ٹو ٹا ہوا۔ نہ صبح و شام، نہ شب و روز۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔
آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے قصّہ یوں ہے کہ پانی مخلوق ہوا۔ پانی سے ہر ایک جاندار چیز۔ زمین بنائی، زمیں کے اوپر پہاڑ قائم ہوئے۔ زمین میں برکت رکھی اور رہنے والوں کے لئے غذائیں بھی اس پر مقرر کر دیں۔
آسمان کے وجود میں آ نے سے پہلے سا را خلا دھوئیں کی طرح تھا۔ پھر آ سمان اور زمین کے ملاپ سے دنیا بسائی گئی آسمان سے سورج کی شعاعیں آئیں، گرمی پڑی، ہوائیں اٹھیں، اُن سے گرد اور بھاپ اوپر چڑھی، پھر پانی بن کر مینھ برسا، جس کی بدولت زمین سے طرح طرح کی چیزیں پیدا ہوئیں۔
اسی درمیان … ابو البشر کو منتخب کھنکتی ہوئی مٹی سے بنا یا گیا
میری تخلیق باعثِ سکون و قرار اس لئے ہوئی کہ عالمِ تنہائی میں کوئی ہم جنس ابو البشر کا نہیں تھا۔ اور بے جفت بے حا جت ہی کی مرضی تھی کہ اُن کا جفت و ہمسر پیدا کرے جب وہ بے قرار اور بے سکون ہوئے، عالمِ تنہائی سے خوف زدہ ہوئے تو ان کو خواب میں ڈالا گیا وہ ایسے سوئے کہ نہ نیند آئی نہ بیدار ہوئے اس صورت میں ایک ہڈی بائیں پہلو سے اس طرح نکلوائی کہ اس سے اس کو درد و الم نہ پہنچا اگر پہنچتا محبت عورتوں کی دلِ مردوں کے نہ ہوتی خیر ہوئی یہ دردِ تخلیق میرے سر جاتا … اس ہڈی سے مجھے بنایا۔ مجھ کو بنایا نیک روئی و ملاحت اور حسن و جمال۔ اس کو بخشیں زیرکی و شرم اور شفقت و کمال۔
میری خوبصورتی پھر عالم تنہائی اوپر سے پا بندۂ حق ابو البشر بے چین ہو گئے۔ ابھی غمِ طاق ختم نہیں ہوا تھا اب غمِ جفت کا روگ لگ گیا۔
روشنی کی کشتی لنگر انداز تھی میں بستر پر دراز، آنکھیں بند تھیں، نہ نیند نہ بیداری، نیند آنکھوں سے بہت دور … میں خلاؤں سے بہت دور نکل چکی تھی … پانی بھی دور دور تک نہیں تھا۔ چاروں طرف نا قابلِ بیان خوبصورتی کا منظر تھا۔ اس درخت پر نظر گئی کہ جڑ اس درخت کی چاندی کی اور ڈالیاں سونے کی پتّیاں زبرجد سبز کی تھی۔ نہایت خوش وضع اور خوبصورت …
’’سبحان اللہ کیا خوبصورت درخت ہے؟ حس جمال پھڑکی
میں نے تجھے بخشا اُس درخت کو مگر اس سے میوہ مت کھانا کیونکہ تو مہمان ہے میرے گھر کا‘‘ غیب سے ندا آئی
’’اس درخت کے پاس جا‘‘ ایک آواز آئی
’’صبر کر‘‘ غیبی ندا
مجھ کج عقل کی مت ماری گئی لا لچ اور خواہش میں آ گئی … ایک عجیب تذبذب کا عالم تھا … ہاں اور نا کی کشمکش تھی … صبر اور خواہش کی اس جنگ میں صبر ہار گیا۔ شجرِ ممنوعہ کے کھانے کا انجام یہ ہوا کہ ستر کھُل گئے۔ الزام میرے سر گیا۔
آخر کار مجھے اور ابو البشر کو اس اعلیٰ و ارفع مقام جہان بھو ک، پیاس، بے ستری، دھوپ نہ تھی سے دار المعیصت و دار العداوت میں امتحان کے لئے پھینک دیا گیا … دوٗر … بہت دوٗر
’’آج بھی اُسی امتحان اور آزمائش سے گزر رہی ہوں‘‘ وہ بڑبڑائی … آنکھیں بند ہیں … نیند کوسوں دور ہے … نہ نیند ہے نہ عالمِ بیداری … نہ چین ہے نا بے چینی … آنکھیں پانی میں ڈوبی ہیں۔
دونوں بحالتِ ندامت و انفعال، گر یہ و زاری میں مصروف ہو گئے۔ ایک تو بے گھری کا غم دوسرے جدائی کا الم۔ ایک دوسرے کو پانے کی جستجو میں بر سوں بیت گئے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کہ فاصلہ ختم ہی نہیں ہو تا۔ اگر فاصلہ مٹتا ہے تو طوفان کھڑا ہوتا ہے۔
چلتے چلتے فا صلہ ختم ہوا … دونوں ملے ایک دوسرے کی رودادِ غم سنی … سلسلۂ زندگی آگے بڑھا۔ جب میں بحسن و جمال بصورت اقلیما خلق ہوئی تو قابیل کے ہاتھوں ہا بیل کا پہلا قتل روئے ارض پر رو نما ہوا … وجہ قتل میرا جمال ہوا، الزام میرے سر ہوا … میں سو چتی ہوں اس میں میرا کیا قصور؟ … میرا ’’غازہ‘‘ کی طرح بے جمال ہونا بھی میرے لئے وبال۔ میرا حسن و جمال شر کا استعارہ۔ میرا بے جمال ہونا باعثِ اذیت اور حقارت جبکہ نہ جمال میرا نہ بے جمال ہونے میں دخل میرا … میری تخلیق، گناہ اور بہکاوے کی دلیل جبکہ یہ سب کرشمۂ کاتبِ تقدیر، کمالِ عزّ و جل۔
مجھ ابلا ناری کی کہانی بھی عجیب و غریب ہے۔ مخالف جنس کا ذکر ہی کیا۔ زیادتی کے عمل میں ہم جنسوں نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ نند بھا بی، ساس بہو، دورانی جٹھانی، ماں بیٹی سب ایک دوسرے کے ساتھ پیکار میں مبتلا ہیں۔ چونکہ مرد، عورت کا عاشق ہوتا ہے اور جب عورت ناز و انداز کے ساتھ اپنے ہم جنسوں کے خلاف کان بھرتی ہے تو پھر ایک بڑا فساد رونما ہوتا ہے۔ آج صبح ہی میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی تھی۔
’’رحم مادر میں قتل کرنے کی خواہش ماؤں میں زیادہ دیکھی جا رہی ہے۔ آج جدید دور میں رحم مادر میں اولاد کی جنس معلوم کر لی جاتی ہے۔ کلینک میں جنس معلوم کرنے کی اصل وجہ اسے ضا ئع کرنا ہے۔ لڑکیوں کی نا دانی یا کسی زیادتی سے حاملہ ہو جانے پر بدنامی کے ڈراور خاندانی وقار کی وجہ سے اسقاطِ حمل ضائع کروا دیا جاتا تھا۔ اب جہیز اور کنیا دان کی وجہ سے رحم مادر میں قتل کا سبب ہے۔ لڑکیوں کو خرچ اور لڑکوں کو آمدنی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے تعلق سے عدمِ تحفظ کا احساس والدین میں بڑھ رہا ہے کیوں کہ روز افزوں جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اس وحشت ناک عمل کی محض اس لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ اس سے انہیں زیادہ کمائی ہوتی ہے‘‘
آنکھیں بند ہیں، نیند کو سوں دور ہے … نہ نیند ہے نہ عالمِ بیداری … وہ خبر کا تجزیہ کرنے لگتی ہے …
: جدید دور میں تہذیبی انحطاط کا نام ’’ماں‘‘ ہے!
: ڈاکٹری زندگی کو موت کے منہ سے چھین نے کا پیشہ ہے لیکن ڈاکٹر موت کا دوسرا نام ہے۔
: لیڈی کے اندر جب ماں، بیٹی، بہن جیسے پاکیزہ رشتہ مر تے ہیں تب ڈاکٹر پیدا ہوتی ہے۔
: خاندانی وقار کی خاطر بیٹی کا اسقاطِ حمل ضروری ہے لیکن بیٹے کا ناجائز جنسی عمل باعث افتخار ہوتا ہے۔
: جہیز اور کنیا دان مرد کو ویشیہ کی طرح خرید نے کا ذریعہ ہے پھر بھی عورت غلام اور مرد مالک و مختار ہوتا ہے!
: روز افزوں جنسی جرائم میں اضافہ … یہاں مرد بھول جاتا ہے کہ وہ عورت جو ماں ہے اسی کے گندے خون سے پیدا ہوا ہے!
خبر کے تجزیہ کے دوران اسے یاد آیا چند سال پہلے اسی زمین پر مجھے بصورت چترا چتا میں زندہ جلا کر دھرم ادھیکاریوں نے اپنی تہذیبی عظمت میں چار چاند لگائے تھے۔ میرا قصور یہ تھا کہ میرا پتی مر گیا جیسے میں اپنی مرضی سے بیوہ ہو گئی۔ میرے پتی کو جینے کی تمنّا بہت زیادہ تھی … میں سوچتی ہوں وہ بھگوان تھا تو پھر مرا کیوں؟ … میرا پتی مرا اور سزا بھی مجھے ہی ملی … چلو اچھا ہوا پل پل جلنے سے ایک بار جل گئی قصّہ ختم ہوا۔ لیکن معاملہ جیون پر یم کا ہے۔ میں تو پتی کے پریم میں جل گئی … کیا میرا پتی، میرا سوامی، میری چتا میں جلتا؟ نہیں نہیں پتی دیو … نہیں … نہیں میرا سوامی … میں تو داسی ہوں … داسی بننا گوارہ … لیکن دیوداسی!؟ … بچپن میں باپ کی ملکیت، جوانی میں شوہر کی، بیوگی میں اولاد کی مملوکہ … جبکہ آدھی زمین کی میں ما لک اور آدھا آسمان میرا ہے پھر بھی میں کنگال!
آنکھیں بند ہیں۔ نیند کو سوں دور ہے۔ نہ عا لم بیداری نہ عالم نیند۔ ذہن کے پٹ کھلے … اڑن طشتری پر سوار تمام عالم کی سیر
مجھے بصورت پانڈورہ (Pandora) تمام انسانی مصائب کا مو جب قرار دیا گیا۔ اور جب ایفروڈایٹ (Aphrodite) یعنی کام دیوی کا روپ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تو میری پر ستش کا آغاز ہو گیا۔ ایک دیوتا کی بیوی ہوتے ہوئے تین مزید دیوتاؤں سے آشنائی کا چرچہ عام ہوا۔ میرے بطن سے کیوپڈ پیدا ہوا کہا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی دوست کی لگاوٹ کا نتیجہ ہے … میں دیوی تھی … میں دیوی ہوں۔
میں نے مذہبی پیشواؤں اور وقت کے حکمرانوں کے پیروں تلے اپنی زلفیں بچھا کر ان کو عزت دی پھر بھی انہوں نے فلورا نامی کھیل میں … اپنی دیوی کو بر سرِ عام برہنہ دوڑا کر رسوا کیا اور خود لطف اٹھا کر مجھے بد نام کیا۔ پتھر پڑ جائیں ان عقلوں پر میری (Mary) کو ایشور کا روپ دے کر عبا دت کر تے ہیں اور اس کے بیٹے کو صلیب پر لٹکا کر آ ٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں۔ یہ کیسی عزت ہے؟ کہ مجھے گناہ کی ماں۔ ایک نا گز یر جدائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مر غوب آ فت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر دلر بائی … ایک آراستہ مصیبت کہا گیا۔ میری پیدائش شر مند گی کا باعث۔ اپنی جہالت کو غیرت اور خود داری کے دبیر پر دے سے ڈھا نکتے ہوئے مجھے زندہ در گور کر کے فخر محسوس کیا گیا۔
’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی‘‘
وہ خوف کے ما رے پسینہ پسینہ ہو گئی اُسی لمحہ آنکھیں کھل گئیں اور اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ با ہر بجلی تڑکی اسے لگا دور کہیں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا ہو، آ سمان نے گہرا سیاہ رنگ کا کمبل اوڑھ لیا تھا چا روں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا کمرا سیا ہی میں ڈوب گیا تھا۔ اس کی آنکھیں کو ئلے کی چھت اور تاروں بھرے آسمان کا فرق محسوس کرنے لگیں کیونکہ آسمان اور چھت کا فرق مٹ گیا تھا۔
’’شاید لائٹ چلی گئی‘‘
اس نے موم بتّی جلائی … اندھیرے میں ہلکی سی روشنی بھی راہ نمائی کرتی ہے۔ وہ باتھ روم میں داخل ہوئی اور نل کھول کر بیٹھ گئی … اس کی تھکن مٹی کی طرح زائل ہونے لگی۔ اس نے نیلی جھیل چاندی کے بدن پہ لپیٹی اور آئینہ کے سا منے بیٹھ گئی جس میں اس کا عکسِ بدن دھندلا دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔ کنول جیسے چہرے پر پا ؤ ڈر کی تہہ جمائی اور دونوں شعلوں پر غازہ لپیٹ کر اس کی دھک میں اضافہ کیا۔ اپنی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں جھانک کر خود شر ما گئی اور اپنے آپ میں سمٹنا شروع کر دیا۔
اچانک لائٹ آ گئی چاروں طرف خوشبو میں ڈوبی ہوئی روشنی پھیل گئی۔ اس کے اوپر سحر سا طاری ہو گیا۔ بستر پر دراز ہو گئی … ہلکا ہلکا نیند کا خمار طاری ہونے لگا … وہ خواب کی باہوں میں چلی گئی … چہار جوانب دھواں دھواں … اندھیرا ہی اندھیرا … خواب، دھواں اندھیرا … خوابوں کی کشتی پر سوار، چاند کے اس پار، اس کا سفر جا ری ہو گیا گھپ اندھیرا جیسے بحرِ ظلمات نے اپنے پر پھیلا دئے ہوں … پوری کائنات اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔
اچا نک صبح صادق کی ما نند ایک نوٗر چمکا آسمان پر گیا اور زمین پر روشنی کی طرح پھیل گیا۔ سارا عالم بوئے مشک و عنبر و عوٗد میں ڈوب گیا۔ عالم تجر دّی میں ہزاروں برس تسبیح وتہلیل میں مصروف رہا بعدہ اس نور نے عا لمِ خلوت سے عا لمِ صورت اختیار کی اور فرما یا ’’میں پیدا ہوا ہوں نور کل سے اور میرے نور سے سا ری مخلوق‘‘
پو ری کائنات بقعہ نور بن گئی، چہار سمت انوار کی بارش ہونے لگی مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب بس نور ہی نور ازبس سا را عالم بحرِ نور میں ڈوب گیا ایک ابر کا ٹکڑا نورِ مجسّم پر سا یہ بن گیا اور وہ نورِ مجسّم سا رے عالم پر سا یہ بن گیا۔ جب نورانی آنکھوں نے سارے عالم پر طائرانہ نظر ڈالی تو آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔ ہر جانب افراتفری کا عالم تھا۔ ظلم و ستم کی آندھی زوروں پر تھی … زمین خاک و خون سے آلوٗد ہو رہی تھی … آسمان سسک رہا تھا۔
میری بدحالی کی داستاں یہ تھی کہ میری پیدائش کی خبر سنتے ہی چہرے پر کلونس چھا جاتی شرم کا داغ لگنے سے میرا ہی خون منہ چھپاتا پھرتا اور سوچتا ذلّت کے ساتھ رہے یا ذلّت کو مٹی میں دبا دے۔
اس نے فرمایا ’’وہ گھر جنت جیسا خوبصورت ہے جسمیں لڑکیاں ہوتی ہیں اور لڑکیاں اس کے لئے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی‘‘
اس طرح ظلم و بربریت سے نجات دلا کر ہمیں عزت و وقعت دلائی۔ قانونِ فطرت کی روشنی میں مکمل ضابطۂ حیات ترتیب دیا اور کائنات میں غایت درجہ کا اعتدال و توازن کا اجالا بکھیر دیا۔ جس میں فطرتِ انسانی کے مخفی پہلو اس کی جسمانی ساخت، حیوانی جبلت اور انسانی سرشت کا پورا پورا دھیان رکھا۔
اچانک وہ خواب سے بیدار ہوئی چاروں طرف نظر دوڑائی کمرا روشنی اور خوشبو میں ڈوبا ہوا ہے، آنکھیں ایسی چکا چوند ہوئیں کہ ’’بس ایک جھماکا روشنی کالے گیا آنکھیں میری‘‘ … یہ کیسی نئی روشنی ہے کہ دکھائی نہیں دیتا؟ … یہ کیسی بیداری ہے کہ نیند نہیں ٹوٹتی؟ … گھڑی پر نظر گئی۔ ’’ابھی آٹھ بجے ہیں‘‘ ۔ وقت کبھی نہیں رُکتا … لیکن شاید رفتار سست ہو گئی ہے … بار بار تانگہ کی طرح پیچھے کو لوٹتا ہے۔ ٹیبل پر رکھے اخبار کی ایک سرخی پر اس کی نظر گئی ’’عورت قید و بند، پابندی اور رکاوٹ سے آزاد‘‘ کسی امریکن مصنفہ کا بیان
وہ سوچتی ہے لیکن حقیقی عورت کو کیا ملا؟ اگر ملا ہے تو مرد بن کر ملا، عورت کی حیثیت سے آج بھی ویسی ہی ذلیل ہے۔ عزت اگر ہے تو اس مردِ مؤنث یا زنِ مذّکر کے لئے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت، مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو۔
’’عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے، حالانکہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرِ عام آنے کا خیال بھی نہیں کر سکتا‘‘ اچانک اس کے منہ سے نکلا وہ زیرِ لب مسکرائی دیوار کے کلینڈر پر بنی ہوئی تصویر پر اس کی نظر گئی مرد و عورت نیم برہنہ بوس و کنار میں مصروف نظر آئے۔
اسے خیال آیا فاِطر السمٰوٰتِ و الارض نے جوڑے بنائے تاکہ ان کے پاس سکون حاصل کرو … وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو‘‘
وہ سوال کرتی ہے کیا یہ جسمانی ربط ہے، دل کا لگاؤ یا روحوں کے اتصال کا تعلق ہے‘‘
مختلف سوالوں سے الجھتے ہوئے … وہ پلنگ سے اٹھی … کھڑکی کے پٹ کھولے، ہلکی سی ہوا کا سرد جھونکا اندر داخل ہوا … باہر چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا، سڑک موٹر گاڑیوں اور اسکوٹروں کے بے ہنگم شور میں ڈوبی ہوئی گاڑیاں کہاں جا رہی ہیں؟ … پتہ نہیں … ایک سفر ہے بے منزل سفر … کبھی اندھیرا، کبھی روشنی … اندھیرے کا سفر … اندھیرے سے اندھیرے تک کا سفر … ماں کے پیٹ سے زمین کے پیٹ تک اندھیرے کا سفر … وہ ماں اور زمین کے فرق کو جاننے میں مصروف ہو گئی۔ جس طرح کھیت میں کسان کا کام محض بیج بونا ہی نہیں اس کو پانی دینا، کھاد مہیا کرنا، اس کی صیانت کرنا بھی ضروری ہے … پھر کسان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ انتظار کرے اس کی پیداوار کا … یہ ذمہ داری ہے اس کی پرورش اور اس کی رکھوالی کا پورا بار سنبھالے … وہ کھڑکی سے آہستہ آہستہ پلنگ پر آ گئی … اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی
معمول کے مطابق صبح کا اٹھنا … سر پر شور اٹھائے سڑک پر دوڑنا … کیو لگانا … انتظار کرنا … بس کا چلنا … دھوئیں کا لباس پہننا … آفس کی کٹ کٹ بوس کی ڈانٹ ایک کڑوے گھونٹ کی طرح پینا … یہ غلامی ہے یا آزادی؟ … وہ سوچ نہیں پا رہی کیا اخبار کی خبر غلط ہے؟۔ میں کونسی صبح کی منتظر ہوں، پھر وہی اُکتا دینے والی زندگی کا مرکز … دائرہ کا ایک نقطہ … کیا میں قیدی ہوں؟ … حالانکہ فعل اور انفعال دونوں ہی اس کارخانۂ حیات و کائنات کو چلانے کے لئے یکساں ضروری ہیں … ایک شے تاثیر دوسری شے تاثر ہوتا ہے لیکن میری زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے … روز تھکی ماندی آفس سے لوٹنا … سر سے پاؤں تک تھکن دھونا … انتظار کرنا وہ آئے گا … اس کے ساتھ گھومنا … کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھنا … چائے پینا گھر لوٹنا ہر روز یہی معمول … مجھے کس کا انتظار ہے؟ … یہ سلسلہ روزِ ازل سے آج بھی جاری ہے کہ فاصلہ ختم ہی نہیں ہوتا … اگر فاصلہ مٹتا ہے تو پھر کوئی نیا طوفان کھڑا ہوتا ہے … یہ انتظار ہے یا نارِ جہنم … چاروں طرف آگ ہی آگ۔ اس میں نہ جلتا ہے نہ محفوظ رہتا ہے … نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے … آگ نہ ہوئی میرا مقدر ہو گئی … پھر وہی قید … حبسِ دوام کی سزا جو پانچ سال پہلے میں نے مختار کے ساتھ قبول کی تھی … وہ مختار تھا … میں مجبور … وہ حاکم تھا اور میں محکوم … وہ بھگوان تھا اور میں داسی … وہ میری مرضی تھا۔ تعلیمی دور میں، آرزوئیں اور تمنائیں تھیں … منزل پانے کی جستجو … میرے جاگتے خوابوں میں وہ داخل ہوا اور میری زندگی پر چھا گیا۔
جب اجلی دھوپ نے اپنے پر سیمنٹ لئے تو سورج کا قتل ہوا اور سرخ سرخ خون دوٗر مغرب تک پھیل گیا … مقتول سورج کا عکس بوند بوند جھیل میں ٹپک رہا تھا۔ میں اس کے ایک کنارے پر مختار کے گرم آغوش کے سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ اس وقت میرا اپنا وجود کچھ بھی نہ تھا ایک ایسا رقیق مادّہ جو جس برتن میں گرتا ہے ویسی ہی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ موسم بڑا خوشگوار تھا، چاروں طرف سبزہ اگا ہوا تھا، سرمئی اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا … فضا پر مسرت تھی، خُنک ہوا سبک خرام تھی … دوش پر میرے گیسو محو رقص تھے۔
’’ایسا لگتا ہے شفق پر سرمئی چادر چھا رہی ہے‘‘ مختار نے میرے چہرے پر پڑی ہوئی زلفیں ہٹاتے ہوئے کہا
’’ہاں اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے‘‘
’’محسوس میں بھی کر رہا ہوں … چلو اس اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کر لیں‘‘ مختار نے اپنی باہوں کے دائرہ کو تنگ کیا۔
’’کیسے؟‘‘
’’تمہیں قیدی بنا کر‘‘
’’مجھے بھی تنہائی سے رہائی مل جائے گی‘‘
اور میں قید ہو گئی … ہر روز کی طرح سورج کا نکلنا … صبح کے معمولات سے فراغت حاصل کرنا … آفس چلے جانا … گھر واپس ہونا … پھر اپنی اپنی تھکن کو چائے کے ساتھ نگلنا … شام کا مختصر کھانا لینا … تھوڑی دیر بازار میں چہل قدمی کرنا … کبھی کبھی کوئی اچھی فلم کا دونوں کا ایک ساتھ دیکھنا … میں نے نوکری کے ساتھ ساتھ ایک ہاؤس وائف کی تقریباً سب ہی ذمہ داریاں اوڑھ لی تھیں … حالات اور مصروفیات میں، میری پوری حصّہ داری تھی … لیکن میں مختار کی حصّہ داری ڈھونڈنے لگی۔ یہیں سے عورت کی زندگی میں انتشار شروع ہوتا ہے اور بگاڑ تک نوبت آ جاتی ہے۔ کچھ دن کے بعد زندگی کے معمولات میں فرق پڑنے لگا جو میری امیدوں کے خلاف تھا … زندگی سکڑ کر بہت مختصر ہو گئی تھی۔ نوکری کے بعد مجھے صرف گھر دیکھنا تھا اور مختار آزاد تھا، گھریلو زندگی سے اسے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اکثر اکیلے ٹہلنے نکل جانا، تھک ہار کر سو جانا چونکہ میں عورت ہوں اسی لئے میری پابندیاں زیادہ ہیں ایسا وہ سوچتا تھا۔ صدیوں کی مظلومی و محکومی نے عورت کے ذہن سے عزّت نفس کا احساس مٹا دیا تھا اور میں بھی اس امر کو بھول گئی تھی کہ میرا بھی کوئی حق ہے، عورت کا کوئی مقام بھی ہے۔ مجھے سب کچھ برداشت تھا لیکن دیر رات گئے گھر لوٹنا پسند نہیں تھا۔
’’میں تمہارا انتظار کرتی رہتی ہوں، اور تم آوارہ گردی کرتے ہو‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘
’’مطلب صاف ہے، تم اوٗب گئے ہو مجھ سے‘‘
میں خاموش ہو گئی، کمرے میں سکوت طاری تھا … وہ بھی بستر پر لیٹ گیا۔ بیڈ شیٹ پر پڑی ہوئی لکیر جو ہم دونوں کے درمیان ابھر آئی تھی وہ اس وقت اور گہری ہو گئی جب میں نے بائیں جانب کروٹ لی اور اپنی آنکھیں بند کئے خاموشی سے لیٹ گئی … کمرے کی کفن پوش دیواروں پر رات کی سیاہی گہری ہو رہی تھی اور سناٹے میں ڈوبی ہوئی تمام آوازیں لاش کی طرح تابوت میں قید ہو گئی تھیں … میں مسہری سے کمر لگا کر بیٹھ گئی … دیوار پر ٹنگے کلینڈر پر نظر گئی … جسم نے آشناسی لذت محسوس کی، کبھی برف کی پرتیں اس کی انگلیوں کے گرم گرم لمسں سے پگھلی تھی … وہ رات بڑی حسین تھی، حسین رات رنگین بھی ہوتی ہے … نرم بستر پر گلاب کی پنکھڑیاں بکھری تھیں، ماحول معطر تھا میں مختار کے آغوش میں سمٹ گئی تھی آنکھیں بے نام بے خودی کے عالم میں دور کہیں سفر میں نکل گئیں … چھوٹا سا کمرہ یا قوت اور زمرد کے بنے محل میں تبدیل ہو گیا … بیلا۔ چمیلی اور گلاب کی مہک سے فضا معطر تھی … پشت پر نہر گنگنا رہی تھی … جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا، شہد سے زیادہ میٹھا تھا … پرندے آسماں پر چہچہا رہے تھے۔ ہوا نہ سرد تھی، نہ گرم ایک عجیب مستی بھرا ماحول تھا … نہ مرنے کا غم تھا اور نہ جینے کی چنتا … تمنّا آرزو اور امیدوں سے لبریز کائنات تھی۔ خواب آور زندگی تھی۔ خوبصورت اجلی راتیں دن کی طرح روشن … دن رنگین رات کی طرح حسین۔ خوشبو، رنگ اور پریم میں ڈوبا ہوا سارا عالم تھا۔ چند لمحوں کے لئے میں صدیوں کی غلامی بھول گئی تھی … میں بھول گئی تھی کہ میں عورت ہوں صرف اتنا یاد رہ گیا تھا … کہ میں معشوقہ ہوں … ایک محبوبہ ہوں … دل کی رانی ہوں جس پر میری حکمرانی ہے اور مرد میری سلطنت ہے اگر حکم کروں تو ستاروں سے میرا دامن بھر دے جب عورت ایسے بے مہار طوفان میں بہتی ہے تو یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ مرد ایک ٹھوس مادہ ہوتا ہے جس کی اپنی صورت اور اپنا ایک حجم ہوتا ہے جو ٹوٹ کر ناقابل تقسیم جُز بن کر ایٹم کی طرح خطرناک ہو جاتا ہے۔ میں نے پہلو بدلا برابر میں مختار دنیا و ما فیھا سے بے خبر سو رہا تھا … جو میرے ایک ایک لمس کو چاٹتا تھا
’’تم شاعری سے زیادہ حسین اور لذّت آفریں ہو‘‘
’’غزل پڑھنے لگے‘‘
’’غزل محبوب کی پیکر تراش ہوتی ہے۔ لیکن تم تصّور اتی حقیقت ہو‘‘
اس وقت ہم جھیل میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے … کائنات اپنے محور پر گھوم رہی تھی۔ آسمان کے گرد زمین چکر لگاتی ہے مگر لگتا ہے کہ آسمان گھوم رہا ہے۔ اچانک ہوا کے چلنے سے کھڑکی کے پٹ کھلے اور کلینڈر کھڑکھڑانے لگا جیسے ساعتوں کی گنتی کر رہا ہے۔
’’زندگی کے لئے ذہنی ملاپ کے ساتھ ساتھ جسمانی ہم آہنگی بھی ضروری ہے‘‘
’’تم مرد لوگ جسم کے آگے کچھ نہیں سوچ سکتے‘‘
میں نے ذہنی ملاپ کو بنیادی شرط کہا ہے‘‘
شاید یہی اختلاف رائے ہماری محبت کی بنیاد بنا تھا اور دوستی کا رشتہ رفتہ رفتہ محبت کے رشتہ سے ہم کنار ہونے لگا جہاں مرد اور عورت ایک دوسرے سے ضرب ہو کر ایک عدد بن جاتے ہیں …
اچانک کلینڈر کھڑکھڑانے لگا … میں نے چونک کر دیکھا … مختار گہری نیند میں سویا ہوا ہے۔ چین کی نیند وہی سوتے ہیں جو بے غم ہوتے ہیں …
معمول کے مطابق صبح ہوتی … مختار بیڈ ٹی کے درمیان اخبار پڑھتا … ’’عراق تباہ ہوا‘‘ ، ’’افغانستان برباد ہوا‘‘ جب جب دنیا میں طاقت کا توازن بگڑے گا تباہی بربادی آئے گی … ایک طاقت دوسری طاقت سے ڈرتی ہے اس کی عزت کرتی ہے توازن برقرار رہتا ہے۔
’’میں محسوس کر رہی ہوں، ہم دونوں کے درمیان سے محبت زائل ہو رہی ہے‘‘
’’تم کیسے کہہ سکتی ہو‘‘ آنکھوں کے نیچے سے اخبار ہٹاتے ہوئے
’’مجھے ایسا لگتا ہے‘‘
’’یہ تمہارا وہم ہے‘‘
’’اور آپ کیا سوچتے ہیں‘‘؟
’’در اصل جب ہم دونوں ایک دوسرے کو پانے کی جستجو میں تھے … تو ملنے کے لئے ہر لمحہ بے چین رہتے تھے اور ان لمحوں کی ملاقات کو قیمتی بنانے کے لئے ہمیں انتظار کرنا پڑتا تھا … میں اکثر آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر ہرازاویہ سے اپنے بال سنوارتا، شیو بناتا، خوشبو لگاتا تھا۔ لیکن اب وہ نہ انتظار کی کیفیت ہے اور نا ہی وصل کی لذت!
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اکثر نو محبت کی شروعات کریں … ملاقات کے سلسلے قائم کریں … محبت کی باتیں کریں … سیرو تفریح کریں … ریسٹورنٹ جائیں …
’’کیا تم پاگل ہو گئی ہو … میں گھبرا گئی ہوں ان معمولات سے … زندگی کتنی تنگ ہو گئی ہے۔ آفس اور گھر کے درمیان میں! … ایسا لگتا ہے ازدواجی زندگی درمیان سے غائب ہو گئی ہے … مرد پورے طور سے مکمل اور عورت ادھوری ہو گئی ہے … یا بیچ میں کہیں مر گئی ہے‘‘
ہم دونوں کے درمیان دراڑ پڑ گئی نہ ٹوٹنے والی۔ وہ اس وقت اور گہری ہو گئی کہ مختار راتوں کو غائب رہنے لگا … دیر سے گھر لوٹنا ا س کا معمول بن گیا … میرے اعتراضات بے معنی ہو کر رہ گئے۔
ہر جوڑ کا آخری نتیجہ توڑ ہوتا ہے۔ ایک دن میں نے علیحدگی اختیار کر کے رہائی حاصل کر لی … وہ لمحہ اس قدر قیمتی تھا کہ صدیوں کے قیدی پکھیرو کو فضا میں چھوڑ کر آزاد کر دیا گیا ہو۔
رات کا اندھیرا کافی گہرا ہو گیا تھا … اس اندھیرے پر خاموشی کا سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا … وہ پلنگ پر سر پکڑے بیٹھی تھی … باہر سڑک پر موٹر گاڑیاں دوڑ رہی تھیں … کبھی روشنی کبھی اندھیرا … مجھے کس کا انتظار ہے؟ … کیوں انتظار ہے؟ پھر وہی … رہائی اور قید کا سلسلہ … ٹیبل پر رکھے اخبار کو اٹھا لیا …
’’عرب بہاریہ‘‘ جلی خبر … لبنان میں انقلاب … شام میں انقلاب کی دھمک … اخبار کو اس نے ٹیبل پر رکھ دیا … گھڑی پر نظر گئی دس بج رہے تھے، اس کے چہرے سے اکتاہٹ اور کراہیت کے آثار نمایاں ہو رہے تھے … اچانک کواڑ کی چُر … چُر … ر … ر سے وہ چونک گئی … سامنے شاہین کھڑا مسکرا رہا تھا۔
’’معاف کرنا … میں لیٹ ہو گیا‘‘ شاہین نے شرمندگی کا احساس کیا
’’اچھا ہوا، آپ لیٹ ہو گئے …
’’تمہیں انتظار گراں خاطر گزرا ہو گا … لیکن اب نہیں گزرے گا‘‘ اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
’’میں بھی یہی چاہتی ہوں، اب نہ گزرے‘‘ کڑوا گھونٹ نگلا
’’حبسِ دوام کی سزا دینے کے لئے ابّا راضی ہو گئے ہیں‘‘ شاہین نے مسکراتے ہوئے باہوں میں سمیٹنے کی کوشش کی
’’یہ سزا کا سلسلہ کب تک چلے گا؟‘‘ پیچھے ہٹتے ہوئے … نہیں … نہیں شاہین مجھے معاف کر دو … معاف … اب مجھے کوئی سزا نہیں چاہئے … مجھے … مجھے رہائی چاہئے مجھے انتظار ہے ایک ایسی قوت کا جو رات کی ظلمت کو پھاڑ کر صبح کی روشنی نمودار کر دے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید