صفحات

تلاش کریں

فیض احمد فیض ۔۔شخصیت اور فن از اشفاق حسین




















فیض احمد فیض۔۔ شخصیت اور فن ۔۔۔

جامعہ کراچی1974 پروفیسر سید شاہ علی کی زیر نگرانی فیض احمد فیض کی شاعری پر ایک مقالہ

فہرست مضامین

  • پیش لفظ
  • سیالکوٹ سے گورنمنٹ کالج لاہور تک
  • (1934-1911) فیض صاحب
  • تاریخ پیدائش
  • آبائی گھر
  • والدین
  • ابتدائی تعلیم
  • لاہور میں تعلیم و تربیت
  • دوران طالب علمی نوکری
  • ابتدائی شاعری
  • کالج کی ادبی فضا
  • سرود شبانہ
  • سرود شبانہ
  • علامہ اقبال سے نیاز مندی
  • امرتسر سے دہلی تک
  • (1946-1935)
  • امرتسر میں قیام
  • امرتسر کا ادبی ماحول
  • ترقی پسند تحریک سے وابستگی
  • لاہور میں ترقی پسند مصنفین کی بنیادی نشست
  • لکھنو کانفرنس میں شرکت
  • ترقی پسند مصنفین پنجاب شاخ کی پہلی کانفرنس
  • امرتسر کی یادیں
  • ادب لطیف کی ادارت
  • ریڈیائی ڈرامے
  • اعلیٰ تعلیم کا خواب
  • ہیلی کالج آف کامرس لاہور
  • ایلس جارج سے شادی
  • برطانوی فوج کی ملازمت
  • دہلی میں ادبی مصروفیات
  • نقش فریادی
  • دہلی سے لاہور واپسی
  • پاکستان ٹائمز کی ادارت سے جیل تک
  • (1951-1947)
  • پاکستان ٹائمز
  • امروز اور لیل و نہار
  • فیض بہ حیثیت مدیر
  • آل انڈیا مسلم نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس
  • پہلی بار زیر حراست
  • ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں دلچسپی
  • انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن
  • عالمی امن تحریک
  • آزادی کا تصور
  • کل پاکستان ترقی پسند مصنفین کانفرنس
  • پس دیوار زنداں
  • (1955-1951)
  • راولپنڈی سازش کا انکشاف
  • سازش کیس میں گرفتاری
  • جیل کے شب و روز
  • بھائی کی موت
  • دست صبا
  • دست صبا کا انتساب
  • جیل سے رہائی
  • رہائی سے تاشقند کانفرنس تک
  • (1985-1955)
  • زنداں نامہ
  • رہائی کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ
  • عوامی جمہوریہ چین کا دورہ
  • پروگریسو پیپرز سے علیحدگی
  • فلم سازی
  • تاشقند کانفرنس1958ء
  • ہزار سالہ جشن رود کی
  • وطن واپسی
  • ایوب کے مارشل لاء سے سقوط ڈھاکہ تک
  • (1971-1958)
  • دوسری بار گرفتاری
  • میاں افتخار الدین کا انتقال
  • پاکستان ٹائمز میں ملازمت کی پیش کش
  • ثقافتی شعبوں سے وابستگی
  • لاہور آرٹس کونسل
  • دل کا دورہ
  • میزان
  • لینن امن انعام
  • لندن میں قیام
  • فیض کی نظموں کا انگریزی ترجمہ
  • عبداللہ ہارون کالج کراچی
  • پاکستان آرٹس کونسل، کراچی
  • دست تہ سنگ
  • ماہنامہ ’’ افکار‘‘ کراچی کا فیض نمبر
  • ء کی پاک بھارت جنگ
  • پاکستان میں دوسرا مارشل لاء
  • صحافت میں دوبارہ قدم
  • صلیبیں مرے دریچے میں
  • سر وادی سینا
  • المیہ مشرقی پاکستان
  • جمہوری سے غیر جمہوری سرکار تک
  • (1978-1972)
  • ثقافت کے میدان میں
  • مشیر امور ثقافت
  • پاکستانی ثقافت کے خدوخال
  • ہماری قومی ثقافت
  • سفر نامہ کیوبا
  • متاع لوح و قلم
  • بنگلہ دیش کا پہلا دورہ
  • سرکار سے وابستگی کے طعنے
  • مہ و سال آشنائی
  • فیض پر اردو میں پہلی کتاب
  • پاکستان کے سیاسی افق پر نو ستاروں کی ضیا باریاں
  • انتخاب پیام مشرق
  • جلاوطنی اور پاکستان میں آخری دو سال
  • (1984-1978)
  • کیا یہ جلا وطنی تھی؟
  • جلاوطنی کا پہلا پڑاؤ
  • لوٹس کی ادارت
  • شام شہر یاراں
  • ایسٹ ویسٹ سینٹر ہوائی
  • فیض کینیڈا میں
  • سارے سخن ہمارے
  • پاکستان واپسی
  • فیض سیمینار لندن
  • انتقال
  • تصانیف

پیش لفظ

پاکستان کے قیام کے بعد اردو کے جس شاعر کو پاکستان اور بیرون پاکستان سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ فیض احمد فیض ہیں۔ شہرت و مقبولیت کی اسی دولت کے سبب ان کے چاہنے والوں کے ساتھ ساتھ ان سے اختلاف رکھنے والوں کا بھی ہمیشہ سے ایک حلقہ موجود رہا ہے یعنی نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا ؟

انہوں نے جب شاعری کی ابتداء کی تو بیسویں صدی کے سب سے زیادہ قد آور شاعر علامہ اقبال اردو کے شعری افق پر آفتاب بن کر جگمگا رہے تھے۔ علامہ اقبال کی فکری شاعری سے الگ ایک طرف جوش ملیح آبادی کی انقلابی شاعری اور دوسری طرف اختر شیرانی کی تخلیق کردہ رومانی فضا بھی اردو شاعری پر سایا کیے ہوئے تھی۔ انجمن پنجاب کے ہاتھوں جدید نظم نگاری کا پودا لگے ہوئے تقریباً آدھی صدی گزر چکی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر میں قومی آزادی کی جد و جہد اپنے عروج پر تھی اور سیاسی بیداری کی لہروں کا ریلہ سروں سے گزر رہا تھا۔ ایسے میں فیض صاحب نے اپنی شاعری کی ابتداء رومانی فضا میں کی اور پھر ترقی پسند تحریک کے زیر اثر دلے بفروختم جانے خریدم کہہ کر اپنی انقلابی سوچ کا باقاعدہ اعلان کیا لیکن نہ انہوں نے کبھی دل کے بیچنے کو اپنی آخری منزل قرار دیا اور نا ہی جان کی خریداری کو حرف آخر سمجھا۔ یوں ہوا کہ رومان اور انقلاب کی منڈیروں پر ان کی شاعری کا چراغ کبھی مدھم تو کبھی تیز روشنی کے ساتھ جلتا رہا۔ لوگوں نے اس چراغ کی لو سے دلوں کو گرمانے والے محبت کے نغمے بھی سنے اور انقلاب کی رجز خوانی بھی سنی۔

قیام پاکستان کے بعد ان کی شاعری نے اس نئے ملک کے عوام، ان کے مسائل اور ان کے دکھ درد کو اپنی شاعری کا موضوع کچھ اس طرح بنایا کہ ان کی شاعری کا سیاسی رنگ اور نکھرتا گیا۔ صبح آزادی کے بعد انہوں نے صرف یہی نہیں کہا تھا کہ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں، بلکہ اپنے لوگوں کو یہ تلقین بھی کی تھی کہ ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی /نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی / چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔ وہ ساری زندگی اسی منزل کی تلاش میں سرگرداں رہے اور تہمت عشق شوریدہ کے باوجود انہوں نے لیلائے وطن سے عشق کے جذبوں میں کمی نہیں آنے دی۔ ایک اعتبار سے محسوسات کی سطح پر ان کی شاعری نے پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز کی ایک مکمل تاریخ بھی رقم کی ہے۔

فیض صاحب کی شخصیت آہستہ آہستہ پاکستانی ادب اور تہذیب و ثقافت کا امتیازی نشان بنتی چلی گئی۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، اسی لیے ایک شاعر کی حیثیت سے، ایک نثر نگار کی حیثیت سے، ایک صحافی کی حیثیت سے، ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے، ایک ڈاکو منٹری اور فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے، ایک استاد کی حیثیت سے، ایک دانشور کی حیثیت سے، ایک ثقافتی کارکن اور مفکر کی حیثیت سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک انسان کی حیثیت سے انہوں نے اپنے عہد پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ایسی ہمہ جہت شخصیت کی سوانح لکھنا یقیناً بہت مشکل کام ہے۔ اسی لیے جب اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ان کے پاکستانی ادب کے معمار کے منصوبے کے لیے فیض صاحب کی شخصیت اور شاعری پر لکھنے کے لیے کہا گیا تو موضوع کی ہمہ گیریت کے سبب ابتدا میں مجھے کچھ تامل ہوا لیکن پھر میں نے دو باتوں کے پیش نظر اس کام کو اپنے ذمے لے لیا۔

پہلی بات تو یہ تھی کہ 1973ء میں جب میں جامعہ کراچی میں طالب علم تھا تو میں نے فیض صاحب پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔ اس وقت تک ان کی شاعری کے صرف پانچ مجموعے شائع ہوئے تھے مگر اس حوالے سے بحیثیت ایک طالب علم کے مجھے ایک خاص موضوع پر تفصیل سے کام کرنے کا موقعہ مل گیا تھا اور بالکل اسی طرح اکادمی کے موجودہ منصوبے پر کام کرتے ہوئے بھی فیض صاحب کی شاعری اور شخصیت کو سمجھنے کا ایک اور موقعہ مل رہا تھا۔ دوسری بات یہ کہ اچھا یا برا، اب تک فیض صاحب کے بارے میں بہت کچھ ضبط تحریر میں آ چکا ہے۔ اس لیے میرا کام زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ ان تمام مواد کو اختصار کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دوں اور ساتھ ساتھ اپنے خیالات کا بھی اظہار کرتا جاؤں۔ سو اس منصوبے پر میں نے اسی انداز سے کام کیا ہے۔ اگر فیض فہمی کے سلسلے میں اس کتاب سے کسی طالب علم کو کچھ فائدہ پہنچ سکا تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی۔

اس کتاب کی ترتیب کے سلسلے میں مجھے اکادمی ادبیات کے چیئرمین افتخار عارف، محترمہ سعیدہ درانی، محترمہ شبانہ محمود اور میرے ٹورنٹو کے دوستوں احمد سلمان فاروقی اور بیدار بخت کا تعاون حاصل رہا جس کے لیے میں ان تمام شخصیتوں کا احسان مند ہوں۔

اشفاق حسین

کینیڈا2006ء

٭٭٭
سیالکوٹ سے گورنمنٹ کالج لاہور تک
(1934-1911) فیض صاحب

علامہ اقبال کے حوالے سے، پنجاب کے شہر سیالکوٹ کو بیسویں صدی کے شروع ہی سے بڑا منفرد مقام حاصل ہو چکا تھا اور اب اگر اسے شہر اقبال کے نام سے پکارا جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے اس کا حق بھی بنتا ہے۔ مگر اس شہر کی شہرت اور نیک نامی میں اضافے کا ایک اور سبب بھی ہے جو اس کے ایک قصبے کالا قادر میں فیض احمد خان کی پیدائش سے وابستہ ہے۔ یہی فیض احمد خان، پہلے شعر و ادب کی دنیا میں فیض احمد فیض کے نام سے متعارف ہوئے اور پھر عزت و تکریم کی اس منزل پر پہنچے کہ اب جب بھی کسی کی زبان پر ان کا نام آتا ہے تو منہ سے بے ساختہ ’’ فیض صاحب‘‘ ہی نکلتا ہے۔
تاریخ پیدائش

فیض صاحب کی مصدقہ تاریخ پیدائش13 فروری1911ء ہے۔ مصدقہ ان معنوں میں کہ ان کی تعلیمی اسناد میں کہیں کہیں 7جنوری بھی تحریری ہے۔ اس موضوع پر 1963ء میں لندن میں پروفیسر رالف رسل اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:

’’ ولادت تو میری سیالکوٹ کی ہے، تاریخ ولادت مجھے خود نہیں معلوم۔ ایک ہم نے فرضی بنا رکھی ہے۔ ‘‘

پھر جب ان سے سوال کیا گیا کہ اچھا وہی بتا دیجئے تو جواب دیا:

’’ 7جنوری1911ء ہے لیکن یہ محض اسکول کے سرٹیفکیٹ سے نقل کی گئی ہے اور میں نے سنا ہے کہ اس زمانے میں اسکول میں جو تاریخیں لکھی جاتی تھیں وہ سب جعلی ہوتی تھیں اس لیے کہ وہ اس حساب سے لکھی جاتی تھیں کہ فلاں عمر میں آدمی میٹرک پاس کرے گا، اس کے بعد انگریزی یا سرکاری نوکری کے لیے اس کی عمر کم ہونی چاہیے۔ ‘‘ 1؎

لیکن افکار کے فیض نمبر کی اشاعت کے موقعے پر16اپریل1965ء کو انہوں نے اس کے مدیر صہبا لکھنوی کے نام اپنے ایک خط میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا:

’’ تاریخ پیدائش اسکول کے کاغذات میں 7جنوری1911ء اور کہیں 7جنوری1912ء بھی درج ہے۔ میں نے حال ہی میں ایک دوست سے فرمائش کی تھی کہ وہ سیالکوٹ کے دفتر بلدیہ سے پیدائش کے اندراجات کا ریکارڈ دیکھ کر صحیح تاریخ پیدائش معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ ان کی تحقیق کے مطابق بلدیہ کے کاغذات میں 13 فروری1911ء تاریخ پیدائش درج ہے۔ ‘‘ 2؎

چنانچہ اب اسی حساب سے ان کی سالگرہ کا دن منایا جاتا ہے اور اسی کو ان کی صحیح تاریخ پیدائش تصور کیا جانا چاہیے۔
آبائی گھر

فیض صاحب کی زندگی کے ابتدائی حالات بہت سی جگہوں پر ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں اطلاعات کا پہلا ذریعہ ماہنامہ افکار کا فیض نمبر(1965)ڈاکٹر ایوب مرزا کی کتاب ہم کہ ٹھہرے اجنبی (1977)اور مختلف موقعوں پر دیے گئے فیض صاحب کے انٹرویو ہیں جن کی بنیاد پر ان کے سوانحی حالات کو بعد میں بہت سے لوگوں نے قلم بند کیا ہے چنانچہ خود میں نے بھی انہی ماخذات سے استفادہ کیا ہے۔

ان سب معلومات کی روشنی میں فیض صاحب کا جو خاندانی پس منظر ابھر کر سامنے آتا ہے اس کے مطابق ضلع سیالکوٹ کے قصبہ کالا قادر میں فیض صاحب کا آبائی مکان تھا۔ اس قصبے کی معیشت آس پاس کے دیگر اضلاع کی طرح زراعت کے گرد گھومتی تھی۔ چنانچہ فیض صاحب کے آباء و اجداد بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے مگر ان کے والد، جن کا نام سلطان محمد خان تھا انہوں نے اس راستے کو اپنانے کے بجائے حصول علم کی منزل کو اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا۔ سلطان محمد خان کی شخصیت بڑی پہلو دار، طلسماتی اور مہم جویانہ قسم کی تھی۔ فیض صاحب کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان کے والد کی شخصیت کے پس منظر اور ان کے مختلف گوشوں کو ذرا تفصیل سے دیکھنا چاہیے کیوں کہ اس پس منظر سے واقفیت کے بغیر بات ادھوری رہے گی۔
والدین

فیض صاحب کے والد کا نام سلطان محمد خان تھا جنہیں ان کے والد، صاحب زادہ خان نے روزگار کی خاطر بچپن ہی سے دیہات والوں کے لیے مویشی چرانے کے کام پر مامور کر دیا تھا جس کے عوض ان کے پیٹ بھرنے کا سامان مہیا ہو جاتا تھا۔ لیکن ساری عمر مویشی چرانا سلطان محمد خان کی تقدیر نہیں تھی۔ گاؤں سے باہر جب وہ مویشیوں کو لے کر جاتے تو ان کے راستے میں ایک پرائمری اسکول پڑتا تھا۔ علم کی خواہش بلکہ شدید خواہش اور جستجو نے ایک دن تمام آداب روزگار کو ٹھوک لگاتے ہوئے سلطان محمد خان کو اس پرائمری اسکول کی دہلیز پر لا کر کھڑا کر دیا۔ ایک شفیق استاد نے ان کی آنکھوں میں چھپے ہوئے خوابوں کو پڑھ لیا اور ان خوابوں کی تعبیر کی کنجی ان کے ہاتھوں میں تھما دی۔ اگلی صبح جب کالا قادر کے افق پر ہلکی ہلکی روشنی نمودار ہوئی تو سلطان محمد خان کا پہلا قدم چراگاہ تک گیا جہاں انہوں نے جانوروں کو اپنے پیٹ کے لیے خود چارہ حاصل کرنے کے کام پر لگا دیا اور دوسرا قدم اس منزل پر پہنچا جہاں علم کا دریا بہتا تھا۔ الف سے اللہ اور ب سے بکری پڑھتے پڑھتے انہوں نے اپنی پہلی جست پرائمری کے امتحان میں لگائی اور اول آئے۔ معمولی سا وظیفہ ملا مگر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی کافی ہوتا ہے۔ یہ سہارا اتنا تھا کہ انہوں نے مڈل کا امتحان بھی امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا۔ دوران تعلیم عربی، فارسی اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کرتے رہے جس نے آگے چل کر ان کی زندگی کو کامیاب و کامران بنانے میں بڑی مدد کی۔ شاید یہی ورثہ ان کی اولاد کو بھی بہ کمال و خوبی قدرت کی جانب سے عطا ہوا۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے لاہور کے موچی دروازے نے اپنا دامن پھیلا دیا۔ اس کے قریب ہی چینیوں والی مسجد کے ایک حجرے میں سر چھپانے کی جگہ مل گئی۔ صبح شام کی محنت رنگ لائی اور یہ مقولہ ایک دن پھر سچ ثابت ہوا کہ قسمت بھی انہی لوگوں کا ساتھ دیتی ہے جو اپنی قسمت کی لکیریں خود بناتے ہیں۔ موچی دروازے والی چینیوں کی اس مسجد میں ان کی ملاقات ایک افغان کونسلر سے ہوئی جس نے ان سے انگریزی زبان سیکھنی شروع کر دی۔ اسی افغان کونسلر کے وساطت سے والی افغانستان امیر عبدالرحمان کے دربار تک رسائی حاصل ہوئی اور انہوں نے فارسی اور انگریزی کے مترجم کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ امیر عبدالرحمان کی بھتیجی سے وہیں ان کی پہلی شادی ہوئی جہاں ان کی قسمت کا ستارہ ایک بار اور چمکا جب ان کی ملاقات ملکہ وکٹوریہ کی رشتہ کی ایک بھانجی ڈاکٹر لیلیز ہیملٹن سے ہوئی جس نے انہیں افغان دربار کی سازشوں سے چوکنا کیا اور وہ اپنی جان بچا کر کابل سے لاہور لوٹ آئے۔ لاہور لوٹ تو آئے مگر یہاں انگریز حکومت نے انہیں افغان جاسوس سمجھ کر جیل میں ڈال دیا۔ وہ تو یہ کہیے کہ ڈاکٹر ہیملٹن کی دوستی کام آئی اور اسی مہربان خاتون کی وجہ سے سلطان محمد خان کو جلد ہی رہائی مل گئی۔ کچھ اپنی مہم جو طبیعت اور کچھ ڈاکٹر ہیملٹن کے تعاون کی بدولت وہ لاہور سے لندن پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور اسی دوران امیر عبدالرحمان کی جانب سے سفارت کی پیش کش ہوئی جو انہوں نے قبول کر لی۔ لندن میں قیام کے دوران انہوں نے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کر لیا اور کچھ عرصے کے بعد واپس ہندوستان آ گئے۔

اب جو ہندوستان واپس آئے تو لاہور کے بجائے جہلم کو اپنا مستقر بنایا اور باقاعدہ وکالت شروع کر دی۔ اس بار قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور بالآخر انہیں سیالکوٹ واپس آنا پڑا۔ یہاں آ کر ایک وکیل کی حیثیت سے انہوں نے بہت ترقی کی اور بے انتہا روپیہ پیسہ کمایا۔ اپنے والد کی شادیوں سے متعلق فیض صاحب نے ڈاکٹر ایوب مرزا سے باتیں کرتے ہوئے کہا:

’’ انہوں نے سیالکوٹ میں پریکٹس شروع کر دی۔ یہاں خوب ٹھاٹھ سے رہنے لگے اور پھر اپنے آبائی گاؤں کے قریب ایک گاؤں کی رئیس زادی سے شادی کی۔ ان کی یہ پانچویں شادی تھی۔ باقی بیویاں تو مرکھپ گئیں۔ ہم اس آخری ماں کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ‘‘ 3؎

اس کے برخلاف ایک اور موقعے پر انہوں نے پاکستان کے ممتاز صحافی آئی اے رحمان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا

’’ ہماری پرورش ایک متوسط گھرانے کے بچوں کے طور پر ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ چھوٹی سی عمر میں اپنی دیہاتی روایتوں سے واقف ہو گیا۔ اپنی والدہ سے میں نے صبر، تحمل اور درگزر کا سبق لیا۔ میری والدہ میرے والد کی تیسری بیوی تھیں۔ ‘‘ 4؎

چنانچہ مختلف لوگوں نے سلطان محمد خان کی بیویوں کی تعداد کہیں پر تین تو کہیں پر پانچ لکھی ہیں۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے ان پر تحقیق کرنے والوں کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی ایک مثال:

Faiz Ahmed faiz, urdu poet of social realismکی مصنفہ Wstelle Drylanہیں جنہوں نے فیض صاحب کے والد کے بارے میں لکھا:

He married several times, Producing in total four sons and three daughters, Khaliq Anjum asserts that (5) sultan married five times.

ایسٹل ڈرائی لینڈ نے خلقی انجم کی مرتب کی ہوئی کتاب سے ان کے مضمون فیض بیتی کا حوالہ دیا ہے اور غالباً خلیق انجم کی معلومات بھی ڈاکٹر ایوب مرزا ہی کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایسٹل ڈرائی لینڈ نے اپنی کتاب میں امداد حسین کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی اولادوں کی تعداد سات بتائی ہے 6؎ جب کہ افکار کے فیض نمبر میں خود فیض صاحب نے اپنے بہن بھائیوں کی تعداد9لکھوائی ہے۔ جس کے مطابق سلطان محمد خان کی اولادوں میں چار لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں۔ لڑکوں میں طفیل احمد خان، فیض احمد خان، عنایت احمد خان، بشیر احمد خان اور لڑکیوں میں بیگم شجاع الدین، بیگم حمید، بیگم نجیب اللہ خان، بیگم اعظم علی اور رشیدہ سلطانہ شامل ہیں 7؎ سلطان محمد خان کی بیوی سلطانہ فاطمہ جو کہ تحصیل نارووال کے چودھری عدالت خاں کی بیٹی تھیں، ان ہی کی کوکھ سے ان کے خوش مقدر بیٹے فیض احمد خان نے جنم لیا۔

سیالکوٹ کے اس ماحول میں سلطان محمد خان کی زندگی ایک کامیاب انسان کی سی زندگی تھی۔ پورے علاقے میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کا ملنا جلنا اعلیٰ سرکاری حکام کے علاوہ بڑی بڑی علمی اور ادبی شخصیات سے بھی رہا کرتا تھا۔ انہوں نے والی افغانستان امیر عبدالرحمان کی سوانح عمری، انگریزی زبان میں کتابی صورت میں شائع کروائی تھی۔ ان کی تصانیف میں افغانستان کے دستوری قوانین سے متعلق ایک کتاب بھی شامل ہے۔

سلطان محمد خان کی پوری زندگی ایک عجیب و غریب نشیب و فراز میں گزری اور ان کا انتقال بھی کچھ ایسے ہی عجیب و غریب ماحول میں ہوا۔ ان دنوں فیض صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے اور والد کی ہدایت کے مطابق سب سے چھوٹی بہن کی شادی کے موقعے پر سب بھائی بہنوں کے ہمراہ سیال کوٹ میں موجود تھے۔ جس صبح بارات آنے والی تھی اس سے ایک رات قبل تک سلطان محمد خاں تمام مہمانوں کی آؤ بھگت میں لگے رہے۔ آدھی رات کے لگ بھگ تھک کر بستر پر لیٹے تو اچانک دل کا دورہ پڑا اور آناً فاناً اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ایک طرف بیٹی کی بارات دروازے پر تھی تو دوسری طرف ان کا جنازہ لوگوں کے کاندھوں پر تھا۔ فیض صاحب پر ان کی رحلت کا اثر بہت دنوں تک رہا۔ انہوں نے بہت گہرے دکھ کے ساتھ اپنے ہم جماعت شیر محمد کو ایک خط میں لکھا:

’’ تمہارا فیض یتیم ہو گیا‘‘
ابتدائی تعلیم

؂جیسا کہ اس زمانے میں عام طور پر ہوا کرتا تھا فیض صاحب کی ابتدائی تعلیم کا آغاز بھی گھر ہی سے ہوا جہاں انہوں نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ 1915ء میں انہیں انجمن اسلامیہ کے مدرسے میں داخل کروا دیا گیا جہاں ان کے والد خود اس انجمن کے صدر تھے۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہا کیوں کہ 1916ء میں انہیں اس کاچ مشن اسکول میں بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے مولوی ابراہیم سیالکوٹی سے علوم مشرقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ فیض صاحب نے جب بھی اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کیا تو اپنے اس شفیق استاد کو ضرور یاد کیا۔ میر صاحب اپنے وقت کے بڑے باکمال اور صاحب علم شخصیت مانے جاتے تھے اور ایک استاد کی حیثیت سے پورے علاقے میں ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ اسی اسکول میں ان کے دوسرے استاد شمس العلماء مولوی میر حسن بھی تھے جن کے شاگردوں میں سر فہرست علامہ اقبال کا نام آتا ہے۔ فیض صاحب نے ان سے عربی صرف و نحو کے باقاعدہ درس لیے اور اپنے اس تعلق پر انہوں نے زندگی بھر ناز کیا۔

1927ء میں فیض صاحب نے اس کاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ سے اول درجے میں میٹرک پاس کیا اور اس کے دو سال بعد انہوں نے 1929ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ اس طرح سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم کا زمانہ اختتام پذیر ہوا اور پھر اس سلسلے کا دوسرا دور لاہور سے شروع ہوا۔
لاہور میں تعلیم و تربیت

مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرنے کے بعد فیض صاحب کی تعلیمی زندگی کا دوسرا دور لاہور میں شروع ہوا۔ یہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں جب داخلہ لیا تو ان کی ایک جیب میں اس کاچ مشن اسکول کے نام ور اساتذہ کی سرپرستی میں حاصل ہونے والی تعلیمی اسناد تھیں تو دوسری جیب میں علامہ اقبال کا ایک سفارشی خط بھی تھا۔ یہ تاریخی خط ان کے والد نے علامہ اقبال سے فارسی کے پروفیسر قاضی فضل الحق کے نام لکھوایا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی شان دار علمی فضا نے ان پر اپنے دروازے کھول دیے جہاں سے وہ اعلیٰ تعلیم کی سند لے کر عملی زندگی میں داخل ہوئے اور نہ صرف شعر و ادب بلکہ درس و تدریس، صحافت، سیاست اور ثقافت کے شعبوں میں بھی بہت کچھ کام کیا۔ اور نام بھی کمایا۔

گورنمنٹ کالج لاہور سے 1931ء میں انہوں نے ’’ بی اے کے ساتھ عربی میں بی اے آنرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1933ء میں انگریزی ادب میں ایم اے اور پھر1934ء میں عربی زبان و ادب میں بھی امتیاز کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ‘‘

شعبہ عربی میں داخلے کے بارے میں فیض صاحب کے بڑے قریبی دوست حمید اختر نے ایک دلچسپ واقعہ افکار کے فیض نمبر میں تحریر کیا جس کی فیض صاحب نے اپنی زندگی میں کبھی تردید بھی نہیں کی۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ عوام دوستی، شاعرانہ صلاحیت اور تنظیمی استعداد کے باوجود فیض نے بڑا شاہانہ مزاج پایا ہے۔ یہ چیز انہیں ورثے میں ملی ہے۔ ان کے والدین کے پاس بہت اراضی تھیں لیکن وہ بھی کنبے کو، دوستوں کو اور ملنے والوں کو عمر بھر پالتے رہے۔ کسی کو ولایت بھیج رہے ہیں، کسی کو تعلیم دلوا رہے ہیں، کسی کی شادی کرانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ لہٰذا والد کی وفات کے بعد خاندانی ملکیت کا خاصہ بڑا حصہ بیچ کر قرضہ اتارا گیا۔ فیض کو اپنی وراثتی جاگیر سے عملاً شاہانہ مزاج کے سوا کچھ نہ ملا۔ بی اے کرنے کے بعد جب انہیں ایم اے میں داخلے کے لیے گھر سے پیسے ملے تو لاہور پہنچ کر انہوں نے کل رقم جشن مئے نوشی اور ہاؤ ہو کی نذر کر دی۔ جو کچھ بچا وہ کالج پہنچ کر پتہ چلا کہ بہت کم ہے اور داخلے کے لیے مزید دو سو روپے درکار ہیں۔ معلوم ہوا کہ عربی ایم اے کلاس میں داخلے کی فیس صرف نو روپے ہے۔ چنانچہ انہوں نے وہ پیسے جمع کرا کے انگریزی کے بجائے عربی میں داخلہ لے لیا۔ ‘‘ 9؎

یہ واقعہ ممکن ہے اپنی جگہ درست ہو لیکن فیض صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت جس میں مولوی ابراہیم سیالکوٹی اور شمس العلماء میر حسن جیسے اساتذہ کی محنت شامل ہو اس پس منظر میں عربی زبان و ادب کے شعبے میں داخلہ لینا محض اتفاقی واقعہ نہیں ہو سکتا۔ لندن میں اپنے ابتدائی دو سالہ قیام کے دوران انہوں نے یاد رفتگاں کے عنوان سے کچھ سلسلہ وار مضامین لکھے۔ انہی مضامین میں سے ایک مضمون مولوی محمد شفیع کی یاد میں بھی ہے جس میں شعبہ عربی میں داخلے سے متعلق فیض صاحب نے لکھا ہے :

’’ میں اور میرے ایک دوست ڈاکٹر حمید الدین جو، اب گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد ہیں، اورینٹل کالج لاہور میں عربی میں ایم اے کا داخلہ لینے کے لیے پہنچے۔ ہم دونوں دوسرے مضامین میں گورنمنٹ کالج سے ایم اے کی سند حاصل کر چکے تھے۔ حمید الدین فلسفے اور نفسیات میں اور میں انگریزی میں اس لیے ہمیں دو سال کے بجائے ایک سال میں نصاب مکمل کرنے کی رعایت حاصل تھی۔ بشرطیکہ متعلقہ شعبے کے استاد کی منظوری حاصل ہو۔ مولوی محمد شفیع مرحوم ان دنوں اورینٹل کالج کے پرنسپل اور شعبہ عربی کے صدر بھی تھے۔ چنانچہ ہم دونوں کی پیلو ہوئی۔ حمید صاحب کے والد ڈاکٹر صدر الدین مرحوم گورنمنٹ کالج میں عربی کے استاد اور مولوی صاحب کے رفیق کار تھے اس لیے ان سے تو کچھ تعرض نہ ہوا البتہ مجھ سے کافی دیر جرح کرتے رہے۔ مولوی صاحب کو شکایت تھی کہ نوجوان زبان عربی کو بحر ذخار کے بجائے گھر کی مولی سمجھتے ہیں۔ میں نے شمس العلماء میر حسن مرحوم اور مولوی محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سے شرف تلمذ اور بی اے آنرز کا حوالہ دیا تو مولوی صاحب بمشکل راضی ہوئے۔ ‘‘ 10؎

فیض صاحب کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عربی زبان و ادب کی اہمیت کے پیش نظر اسے ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھنا چاہتے تھے۔ ویسے بھی یہ مضمون ان کی طبیعت سے بہت میل کھاتا تھا چنانچہ اسے کوئی اتفاقی واقعہ نہیں سمجھنا چاہیے۔
دوران طالب علمی نوکری

ابھی فیض صاحب گورنمنٹ کالج میں ہی زیر تعلیم تھے کہ ان کے والد کی وفات کی وجہ سے تمام گھر کو مالی پریشانیوں نے گھیر لیا۔ گھر میں جو کچھ بچا تھا وہ قرض داروں کی نذر ہو گیا۔ مگر انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو کسی بھی طرح منقطع نہیں ہونے دیا۔ ان کے لیے وہ دن مالی اعتبار سے بڑے مشکل دن تھے۔ انہوں نے اس دور کے بارے میں اپنی پینسٹھویں سالگرہ کے موقعے پر 9 مارچ1967ء کو لائل پور (فیصل آباد) میں تقریر کرتے ہوئے کہا:

’’ ہمارے والد کا انتقال ہو گیا اور فاقہ مستی کے دن آ گئے۔ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اپنی تعلیم کس طرح جاری رکھیں۔ بالکل قلاش تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی تعلیم مہنگی تھی۔ وہاں پڑھنے کے لیے کافی سرمایہ درکار ہوتا تھا۔ ان دنوں لائل پور میں ایک خاص امدادی فنڈ ہوتا تھا جسے قلعہ فنڈ کہتے تھے۔ جب ہم پہ افتاد پڑی تو ہم نے تعلیم جاری رکھنے کے لیے مالی امداد کی درخواست دی جو منظور ہو گئی اور ہمیں اتنا وظیفہ ملنے لگا کہ اپنی بقیہ تعلیم کے لیے گھر سے کچھ لینا ہی نہ پڑا۔ ‘‘ 11؎

فیض صاحب کے ہم جماعت اور ایک مہربان دوست شیر محمد حمید ان مشکل دنوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ کالج کے اوقات کے بعد ہمارا زیادہ وقت اکٹھا گزرتا۔ صرف شب خوابی کے لیے فیض اپنے مکان پر چلے جاتے۔ یہ علم مجھے بہت بعد میں ہوا کہ ان دنوں رات کے چند گھنٹے وہ کسی پرائیویٹ تجارتی ادارے میں لکھنے پڑھنے کا کام بھی کرتے رہے ہیں جس سے جیب خرچ اور روز مرہ ضروریات کے لیے کچھ رقم کما لیتے تھے۔ ‘‘ 12؎


ابتدائی شاعری



سیالکوٹ میں سلطان محمد خان کے گھر کا ماحول نہایت علمی اور ادبی تھا اور اسی فضا میں فیض صاحب کی پرورش ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس ادبی فضا سے وہ ابتدائے عمر ہی میں متاثر ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا:

’’ یہ تو مجھے یاد ہے کہ میں نے تک بندی کیسے شروع کی؟ لیکن شاعری کب شروع کی یہ کہنا ذرا مشکل ہے۔ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو ہمارے ہیڈماسٹر صاحب کو خیال آیا کہ لڑکوں کا ایک مقابلہ کرنا چاہیے۔ شاعری کا نہیں بلکہ شعر سازی کا کہنا چاہیے۔ ہمیں کہا گیا کہ مصرعہ طرح پر آپ سب لوگ طبع آزمائی کریں تو انعام دیا جائے گا۔ اس قسم کا جو پہلا مقابلہ ہوا اس کے مصنف تھے شمس العلماء مولوی میر حسن صاحب۔ اتفاق سے ہمیں انعام مل گیا اور انعام مجھے یاد ہے ایک روپیہ ملا تھا۔ ‘‘ 13؎

یہ تو خیر اسکول کے زمانے کی بات تھی لیکن در اصل فیض صاحب کی بالکل ابتدائی ادبی نشو و نما کے سلسلے ان کے پڑوس کی ایک حویلی سے بھی جا ملتے ہیں۔انہوں نے اپنی ابتدائی شاعری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:

’’ ہمارے گھر کے ساتھ ایک بہت بڑا مکان تھا، حویلی تھی اس پرانے زمانے کی۔ ہمارے شہر میں منشی راج نرائن ارمان دہلوی صاحب رہتے تھے۔ انہوں نے ایک محفل مشاعرہ قائم کر رکھی تھی۔ ہمارے گھر کے بالکل ساتھ اس کے باقاعدگی سے مشاعرے ہوتے تھے۔ اور ایک اور بزرگ ہوا کرتے تھے منشی سراج دین مرحوم جو کہ علامہ اقبال کے دوستوں میں سے تھے۔ ان کا ذکر بھی ہے علامہ کی تحریروں میں ہے۔ منشی صاحب ہمیشہ صدارت کیا کرتے تھے۔ وہ کشمیر میں میر منشی ہوا کرتے تھے۔ جب ان کی ریذیڈنسی سیالکوٹ میں آ جاتی تھی تو وہ بھی سیالکوٹ آ جاتے تھے اور ان کے ساتھ مشاعرہ بھی وہیں آ جاتا تھا۔ پانچ چھ مہینے شاعری کا بازار گرم رہتا تھا۔ وہاں پر ہم بھی جایا کرتے تھے۔ مصرعہ طرح پر غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ بہت دنوں تک تو ہمیں ہمت نہ ہوئی کیوں کہ منشی سراج دین صاحب بڑے فقرے باز آدمی تھے۔ جب کوئی شعر سنانے کے لیے آیا اور ایک شعر اس نے پڑھا تو منشی صاحب نے اساتذہ کے دس شعر سنا دیے۔ تو بتہ دنوں کے بعد ہمیں ہمت ہوئی اور ہم نے بھی ایک غزل پڑھ دی۔ خلاف توقع منشی صاحب نے داد دی اور کہا برخوردار یہ تو اچھا ہے۔ ‘‘ 14؎

یہ تو سیالکوٹ کا ابتدائی زمانہ تھا لیکن ان کی اصل شاعری کا آغاز گورنمنٹ کالج لاہور جا کر ہوا جس کے بہت سے خوبصورت نمونے ان کے پہلے مجموعہ کلام نقش فریادی میں ملتے ہیں۔ ان کی پہلی شائع ہونے والی نظم میرے معصوم قاتل کالج ہی کے مجلے میں 1929ء میں شائع ہوئی تھی۔ 15؎


کالج کی ادبی فضا



گورنمنٹ کالج لاہور میں علمی مذاکرے اور ادبی محافل آئے دن ہوا کرتی تھیں ایسی ہی ایک محفل کے بارے میں ڈاکٹر ایوب مرزا نے فیض صاحب کے کسی دوست کے حوالے سے لکھا:

’’ گورنمنٹ کالج لاہور میں مشاعرے کی پرانی روایت چلی آتی تھی۔ اس میں لاہور کے نام ور شعراء تشریف لاتے تھے۔ ان دنوں فرشی مشاعرے کا رواج نہیں تھا۔ کالج کے مشاعرے میں شعراء کرام اسٹیج پر تشریف رکھتے تھے اور شاعر بننے کی کسک رکھنے والے نو آموز، سامعین میں بیٹھتے تھے۔ مقامی دستور کے مطابق انہیں باری باری کلام سنانے کے لیے پکارا جاتا تھا۔ کالج میں ایک ایسا ہی مشاعرہ پطرس بخاری کی صدارت میں منعقد ہوا۔ باری آنے پر فیض کو پکارا گیا۔ فیض سامعین میں سے اٹھ کر اسٹیج کی جانب سست روی سے بڑھا۔ اس نے پہلی مرتبہ چبوترے (پلیٹ فارم) سے غزل پڑھی اس پر اسے بہت داد ملی۔ پہلے دور میں اتنی زیادہ داد پانے پر اسے دوسرے دور کے لیے دوبارہ پکارا گیا، فیض الجھن میں پھنس گیا، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا قصہ تھا۔ مخمصہ یہ تھا کہ اس کے پاس تو صرف وہی ایک اکلوتی غزل تھی مگر اس نے میدان نہیں چھوڑا۔ معذرت کرنے کے بجائے وہ پلیٹ فارم پر پہنچا اور جیب ٹٹول کر ایک منظوم خط نکالا۔ یہ خط در اصل فیض کے ایک دوست برج موہن نے اپنے ایک دوست کے لیے فیض سے منظوم لکھوایا تھا۔ فیض نے پورے اعتماد کے ساتھ یہ خط سنا دیا۔ مشاعرہ برخواست ہوا تو چراغ حسن حسرت، صوفی غلام مصطفی تبسم اور عبدالمجید سالک جیسے بلند پایہ سخنور اور اہل قلم فیض کے پاس آئے۔ کہا معلوم ہوتا ہے دل کو چوٹ لگی ہے فیض نے دھیمے لہجے میں کہا جی ہاں وہ تو لگی ہے۔ سب نے کہا بھئی رنگ بہت اچھا ہے شعر کہا کریں اور فیض کا کہنا ہے کہ ہم نے سمجھا ہم واقعی شاعر ہو گئے ہیں جو اس قسم کے چوٹی کے لوگ ہمیں داد دے رہے ہیں۔ ‘‘ 16؎

فیض صاحب کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں گورنمنٹ کالج لاہور کا زمانہ بہت یادگار ہے۔ یہیں ان کی شاعری نے اہل علم و ادب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور یہیں انہیں ایسے استاد میسر آئے جنہوں نے ان کی ادبی تربیت اور ناز برداری کے سامان مہیا کیے۔ ان شخصیتوں میں سر فہرست پطرس بخاری اور صوفی غلام مصطفی تبسم کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

فیض صاحب کے طالب علمی کے زمانے کے ایک دوست شیر محمد حمید کے مطابق جن دنوں پطرس بخاری صاحب گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے تو ہر ہفتہ کی شب کچھ ادب دوست اور ہونہار طالب علموں کو وہ اپنے گھر مدعو کرتے تھے اور شعر و ادب کی مجلس سجاتے تھے اس ادبی مجلس کا نام بزم اردو تھا۔

’’ اس مجلس کے ابتدائی اراکین میں فیض بھی شامل تھے۔ مجلس میں بخاری صاحب کے چند نام ور دوست اس کے ہر اجلاس میں مدعو ہوتے تھے۔ ان میں عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، ڈاکٹر تاثیر، صوفی تبسم، مولانا چراغ حسن حسرت اور حفیظ جالندھری کے اسمائے گرامی شامل تھے۔ یہ اجلاس خالص غیر رسمی ہوتے تھے۔ جو پہلے آیا صوفے پر بیٹھ گیا جو بعد میں پہنچا فرش پر جم گیا۔ اس میں استاد شاگرد یا چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ ایک طالب علم کو صدارت سونپی گئی دوسرے نے اپنے پسندیدہ موضوع پر مقالہ پڑھا، سامعین نے بعض امور کی وضاحت طالب کی، سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا نفس موضوع پر ہر کوئی اپنے اپنے خیال اور نقطہ نظر سے روشنی ڈال رہا ہے۔ نکتے اٹھائے جا رہے ہیں، گرہیں کھل رہی ہیں، مشرق و مغرب، قدم و جدید کے ہر نظریے کو پرکھا جا رہا ہے، ہر تبصرہ نگار، ہر مفکر زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ شاگرد پوچھ رہے ہیں استاد گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ صدر مجلس فاضل بزرگوں میں سے ہر ایک کو داد سخن دے رہا ہے۔ لیکن بخاری کی روح ہے کہ ہر سمت جاری و ساری ہے۔ جب چاہا، بحث کا رخ موڑ دیا، کوئی پہلو اوجھل اور کوئی گوشہ نہیں چھوڑتے ڈیڑھ دو گھنٹے کی اس گفتگو میں موضوع کا ہر رخ سے احاطہ کر لیا جاتا۔ اس کے بعد شعر گو طالب علموں سے تازہ کلام سنانے کا مطالبہ ہوتا۔ نظم ہو یا غزل ایک ایک بند ایک ایک شعر پر داد بھی دی جاتی اور اصلاح بھی کی جاتی۔ آخر میں معزز مہمان تبرکاً غزل یا نظم سناتے اور دو ڈھائی گھنٹے کی نشست کے بعد مجلس ختم ہو جاتی۔ بخاری صاحب کے دولت کدے سے نکلتے تو ہم لوگ انشراح قلب کی کیفیت محسوس کرتے۔ وہ دولت جو برسوں کی مشقت سے بھی حاصل نہ ہو سکتی ہم دو ڈھائی گھنٹوں میں جھولیوں میں بھر لاتے۔ بخاری صاحب کی نظریں جہاں کہیں بھی کوئی قابل جوہر ہوتا ڈھونڈ لاتیں۔ پھر اس جوہر کو جلا دینے اور آب و تاب بخشنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے۔ منتخب شاگردوں میں سے بخاری صاحب کی محبت و شفقت نے فیض کو ایک خاص مقام بخش رکھا تھا۔ استاد و شاگرد میں جو خاص تعلق خاطر مجلس کے زمانے میں قائم ہوا وہ عمر بھر قائم رہا۔ ‘‘ 17؎

فیض صاحب نے کئی موقعوں پر اپنے استاد پطرس بخاری کو یاد کیا۔ ایک دفعہ ان کے چھوٹے بھائی زیڈ اے بخاری پر مضمون لکھتے ہوئے انہوں نے دونوں بھائیوں کا ذکر بڑی محبت سے کیا۔

’’ عام محفلوں کی گفتگو میں صرف بخاری یا بخاری صاحب کہیے تو اشارہ سید ذوالفقار علی بخاری کی طرف ہوتا۔ بڑے بھائی کو عموماً بڑے بخاری یا پطرس کہتے جو ان کا ادبی نام تھا۔ کسی نشست میں بہ یک وقت دونوں کا تذکرہ ہوتا تو بڑے بخاری اور چھوٹے بخاری کہتے یا پھر ان کے ناموں کے انگریزی حرف اے ایس بی اور زیڈ اے بی کہتے۔ بڑے بخاری صاحب سے میرا ناطہ استاد شاگرد کا تھا اور بہت پرانا۔ چھوٹے بخاری صاحب سے میرے مراسم اس وقت شروع ہوئے جب وہ دلی ریڈیو کے اسٹیشن ڈائرکٹر تھے اور میرے ہم جماعت رشید احمد پروگرام ایگزیکٹو تھے۔ بڑے بھائی بے حد فہیم اور دانشمند تھے ان کی فراست اتنی ثقہ تھی کہ مجھے کسی اور شخصیت میں آج تک نظر نہ آئی۔ ‘‘ 18؎

فیض صاحب نے جیل سے ایلس کے نام لکھے ہوئے اپنے کئی خطوط میں ان کا ذکر بڑے احترام سے کیا ہے۔ بلکہ ایک دفعہ تو جب ایلس نے ان خطوط کی اشاعت کے بارے میں لکھا تو انہوں نے جواباً لکھا کہ کاش اس وقت بخاری صاحب موجود ہوتے۔

فیض صاحب کے دوسرے استاد صوفی غلام مصطفی تبسم تھے، جن سے فیض صاحب کو بے حد عقیدت اور محبت تھی۔ صوفی صاحب بھی انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ پطرس بخاری کے دولت کدے کے بعد ان دنوں اگر کہیں کوئی ادبی چوپال جمتی تھی تو وہ صوفی غلام مصطفی تبسم ہی کا گھر ہوا کرتا تھا۔ فیض صاحب، صوفی غلام مصطفی تبسم کے بارے میں اور خاص طور سے اپنے طالب علمی کے زمانے کے حوالے سے ان کا ذکر ہمیشہ محبت اور احترام سے کرتے تھے۔ محبت اور عقیدت کے اسی قرض کے نتیجے ہی میں شاید انہوں نے اپنی کتاب متاع لوح و قلم کا انتساب اپنے محترم استاد صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام کیا تھا۔ صوفی صاحب کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے فیض صاحب نے ایک جگہ کہا:

’’ در اصل صوفی صاحب کا گھر تمام دوستوں کے لیے صلائے عام تھا۔ سبھی سر شام وہاں اکٹھا ہوا کرتے تھے۔ بھئی وہاں مولانا چراغ حسن حسرت صاحب بھی، حفیظ جالندھری بھی، لق لق بھی، تاثیر بھی اور ہم بھی چلے جایا کرتے تھے۔ صوفی صاحب کا گھر تو لنگر تھا۔ باہر سے جو آیا وہ ہوٹل کہاں جاتا تھا۔ اسٹیشن پر اترا، تانگہ پکڑا اور صوفی صاحب کے گھر۔ ‘‘19؎

گورنمنٹ کالج لاہور میں فیض صاحب کی طالب علمی کے زمانے میں ایک انعامی مشاعرہ ہوا جس کا عنوان اقبال تھا۔ فیض نے نظم لکھی اور اول انعام پایا۔ صوفی صاحب نے خوب خوب داد دی۔ پھر انہی دنوں علامہ اقبال گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد وطن واپس لوٹے تو طلباء اور اساتذہ کی جانب سے ان کے اعزاز میں گورنمنٹ کالج میں تقریب ہوئی۔ یہاں بھی صوفی صاحب نے فیض صاحب سے وہی نظم فرمائش کر کے سنوائی۔ علامہ نے بھی نظم کی تعریف کی اور صوفی صاحب اپنے ہونہار شاگرد کا ستارہ عروج پر دیکھ کر نہال ہوئے جا رہے تھے۔ کچھ انہی یادوں کا تاثر تھا جو علامہ اقبال کے انتقال کے وقت فیض صاحب نے بڑے درد بھرے لہجے میں کہا تھا:



آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر

آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا



سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں

ویران میکدوں کا نصیبہ سنور گیا



تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں

پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا



اب دور جا چکا ہے وہ شاہ گدا نما

اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں



چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص

دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں



پر اس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے

اور اس کی لے سے سینکڑوں لذت شناس ہیں



اس گیت کے تمام محاسن ہیں لازوال

اس کا وفور اس کا خروش اس کا سوز و ساز



یہ گیت مثل شعلہ جوالہ تند و تیز

اس کی لپک سے باد فنا کا جگر گداز



جیسے چراغ وحشت صر صر سے بے خطر

یا شمع بزم صبح کی آمد سے بے خبر

طالب علمی کے انہی زمانوں میں فیض صاحب کی ابتدائی رومانی شاعری پروان چڑھی۔ یہ اسی ماحول کی دین تھی کہ اردو ادب میں فیض صاحب کی تخلیق کی ہوئی شاہکار نظموں اور غزلوں کا اضافہ ہوا۔

صوفی صاحب کے اس ڈیرے پر جس قسم کا ماحول رہا کرتا تھا اس کے ایک عینی شاہد نسیم لکھتے ہیں۔

’’ ایک دفعہ صوفی صاحب کے گھر پر لوگ جمع تھے اور حسب دستور شعر و ادب کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ایک موقعے پر صوفی صاحب نے اپنے نہایت ہی معصومانہ انداز سے شکایت کی کہ ادب گروہ بندی کا شکار ہو رہا ہے۔ مولانا تاجور نجیب آبادی شاہکار کی وساطت سے ایک خاص گروہ کو ادب پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ باقی لوگ بھی اسی روش پر چل رہے ہیں۔ صوفی صاحب کی آواز میں ایسی رقت تھی کہ محفل پر اداسی چھانے لگی۔ فیض جو اب تک خاموش تھے یکایک بول اٹھے صوفی جی زمانہ نازک ہے آپ بھی ایک آدھ آرگن ہاتھ میں لے لیجئے، ان کے اس جملے سے محفل زعفران زار بن گئی اور صوفی صاحب بھی بے ساختہ ہنس پڑے۔ ‘‘ 20؎

خود صوفی صاحب نے بھی فیض صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے۔

’’ سن1921ء تھا اور اکتوبر کا مہینہ۔ مجھے سنٹرل ٹریننگ کالج سے گورنمنٹ کالج آئے ہوئے کوئی تین ہفتے گزرے تھے۔ سابقہ درس گاہ کی خشک تدریسی فضا اور ضبط و نظم سے طبیعت گھٹی گھٹی سی تھی۔ نئے کالج میں آتے ہی طبیعت میں انبساط کی لہر دوڑ گئی۔ ادب و شعر کا ذوق پھر سے ابھرا۔ چنانچہ بزم سخن کی وساطت سے ایک بڑے مشاعرے کی صدارت پروفیسر پطرس بخاری کے سپرد ہوئی۔ شام ہوتے ہی کالج کا ہال طلبا سے بھر گیا۔ اسٹیج کے ایک طرف نیاز مندان لاہور اپنی پوری شان سے براجمان تھے۔ مقابل میں لاہور کی تمام ادبی انجمنوں کے نمائندے صف آرا تھے۔ دونوں جانب سے خوش ذوقی اور حریفانہ شگفتگی ایک دوسرے کا خیر مقدم کر رہی تھی۔ روایتی دستور کے مطابق صدر نے اپنے کالج کے طلباء سے شعر پڑھانے کا آغاز کیا۔ دو ایک برخوردار آئے اور ادب و انکسار سے کلام پڑھ کر چلے گئے۔ پھر ایک نوجوان آئے گورے چٹے، کشادہ جبیں، حرکات میں شیریں روانی، آنکھیں اور لب بہ یک وقت ایک نیم تبسم میں ڈوبے ہوئے۔ شعر بڑے ڈھنگ اور تمکنت سے پڑھے۔ اشارے ہوئے، پطرس نے کچھ معنی خیز نظروں میں نیاز مندان لاہور سے باتیں کیں اور ان کی نیم خاموشی کو رضا سمجھ کر نوجوان کو اسٹیج پر دوبارہ بلایا گیا۔ نیا کلام سنا۔ فیض نے غزل کے علاوہ ایک نظم بھی سنائی۔ ‘‘ 21؎

یہ تھا صوفی صاحب کا فیض سے پہلا تعارف۔ اور پھر تو تمام زندگی استاد اور شاگرد کا یہ رشتہ دوستی کی اعلیٰ مثالوں کی جھلک پیش کرتا رہا۔

اسی طرح صوفی غلام مصطفی تبسم کے انتقال کی خبر جب فیض صاحب کو لندن میں ملی تو وہ بیحد اداس ہو گئے۔ خالد حسن نے لکھا ہے :

’’ جلا وطنی کے ان دنوں میں وہ صوفی صاحب کی رحلت کی خبر سن کر ’’ایک عجیب قسم کی خاموشی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ایسی صابر خاموشی جسے بے پایاں الم جنم دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بالآخر فیض صاحب نے بات کی کہنے لگے ہم لوگ محض عطائی تھے صوفی صاحب استاد فن تھے، ماسٹر۔ جب بھی کوئی شک و شبہ ہوتا ان کے پاس پہنچتے۔ زبان، محاورہ ڈکشن روز مرہ بتانے والے تھے چلے گئے۔ اب کس کے پاس جایا جائے گا؟‘‘ 22؎

ہر چند کہ صوفی صاحب اور فیض صاحب کا رشتہ اس قسم کا روایتی رشتہ نہیں تھا جسے ادبی معنوں میں استادی اور شاگردی والا رشتہ کہا جاتا ہے مگر پھر بھی صوفی صاحب ان کے کلام کی اصلاح میں حصہ ضرور لیتے تھے۔ ایلس نے 2 جنوری1953ء کو فیض صاحب کی کسی نظم کے بارے میں لکھا:

We have just come back from tea at sufi’s a new year tea, with specially-made cakes and so on. I showed him your new poem and he has cut the second line and made one or two changes. he said that the second line was not good enough to stand below the first which is very beautiful indeed. 23

فیض صاحب کو صوفی صاحب کی یہی پر خلوص ادا پسند تھی اور انہوں نے ہمیشہ اسے اہمیت دی۔


سرود شبانہ



بیش تر نوجوانوں کی طرح فیض صاحب بھی اپنے زمانہ طالب علمی میں کسی کے حسن پر مر مٹے۔ یہ ایک راز تھا جس کے بارے میں صرف ان کے چند قریبی دوست ہی جانتے تھے۔ ان کے ہم جماعت شیر محمد حمید اس راز کے بارے میں کہتے ہیں ـ:

’’ یہ راز ایک ہم عمر خاتون سے فیض کے جذباتی لگاؤ سے وابستہ تھا اور اس معاشقے کی عمر نو دس برس رہی۔ فیض امرتسر سے لاہور دوبارہ اس حسن دل آویز کی طرف پلٹے مگر ناکام واپس لوٹے۔ ان دنوں وہ ہر پانچویں چھٹے مجھے خط بھیجتے اور اپنے عشق کی ناکامی کا ذکر کرتے۔ آخر میں انہوں نے مرگ سوز محبت لکھ کر مجھے اپنی داستان عشق کے ختم ہو جانے کی خبر دی ہے۔ ‘‘ 24؎

حمید نسیم نے بھی1933ء میں اپنے بھائی کے یہاں فیض صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھائی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا:

’’ ان سے ملو یہ ہیں فیض بہت بڑے شاعر ہیں، فیض صاحب کچھ شرما گئے۔ ان کی محبوب مسکراہٹ مجھے اب تک یاد ہے۔ میں چارپائی پر فیض صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا۔ رشید بھائی نے فیض صاحب سے شعر سنانے کی درخواست کی۔ انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اپنی نظم سرود شبانہ سنانی شروع کی۔ فیض صاحب جب رخصت ہو گئے تو میں نے رشید بھائی سے ان کے بارے میں دریافت کیا۔ معلوم ہوا گورنمنٹ کالج میں ایم اے میں پڑھتے ہیں اور ملتان میں مقیم ایک لڑکی سے عشق کرتے ہیں۔ ‘‘ 25؎

فیض صاحب کے اس پہلے عشق کے بارے میں ایک ورژن ڈاکٹر ایوب مرزا نے بھی خود فیض صاحب کے حوالے سے لکھا ہے :

’’ فیض نے بھی عشق کیے مگر ان کا ذکر کم کم کیا۔راقم سے انہوں نے اپنے پہلے اور بقول شخصے سچے عشق کا ذکر کیا۔ وہ ایک غریب خادمہ کی بیٹی تھی۔ اس کی شادی ہو گئی اور ان کا عشق شاعری میں ڈھل گیا بھئی محبت تو ایک ہی بار ہوتی ہے اس کے بعد سب ہیرا پھیری ہے۔ نقش فریادی کی تمام نظمیں اسی کی یاد میں ہیں۔ ‘‘ 26؎

امرتا پریتم کے ایک سوال کے جواب میں بھی فیض صاحب نے کہا تھا:

’’ لے ہن تینوں دساں۔ میں پہلا عشق اٹھارہ ورہیاں دی عمر وچ کیتا سی ۔ ‘‘ 27؎

ان تمام واقعات میں ایک بات تو ضرور قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے کہ ان کی ابتدائی شاعری کی بنیاد کسی خیالی نہیں بلکہ گوشت پوست کی ایک جیتی جاگتی محبوبہ ہی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ البتہ مرزا ظفر الحسن نے ایسے تمام واقعات سے ان کار کرتے ہوئے بظاہر فیض صاحب کے دفاع میں اس کی تردید کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ فیض کا پہلا اور آخری عشق صرف اور صرف ایلس سے تھا۔ مرزا صاحب کی عقیدت اپنی جگہ لیکن ان کے اس دعوے میں کچھ زیادہ وزن نظر نہیں آتا۔ غالب ہی کی طرح فیض صاحب نے بھی اسی پر عمل کیا:

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا

درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا

اسی درد کی دولت نے فیض صاحب کو زندگی بھر مالا مال رکھا۔ اسی درد کو انہوں نے بیچا بھی اور اسی درد کی لے پر گیت بھی گائے۔ بہرحال اصل حقیقت خواہ کچھ بھی ہو یہ ضرور ہے کہ انہوں نے عشق کیا اور خوب کیا۔ ان کے اس پہلے عشق کی داستانیں نقش فریادی کے پہلے حصے میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ یہاں نمونے کے طور پر صرف ایک نظم ’’ سرود شبانہ‘‘ نقل کی جاتی ہے جس سے اس دور میں ان کے دل پر گزرنے والے واقعات و حادثات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔


سرود شبانہ



گم ہے اک کیف میں فضائے حیات

خامشی سجدہ نیاز میں ہے

حسن معصوم خواب ناز میں ہے

اے کہ تو رنگ و بو کا طوفاں ہے

اے کہ تو جلوہ گر بہار میں ہے

زندگی تیرے اختیار میں ہے

پھول لاکھوں برس نہیں رہتے

دو گھڑی اور ہے بہار شباب

آ کہ کچھ دل کی سن سنا لیں ہم

آ محبت کے گیت گا لیں ہم

میری تنہائیوں پہ شام رہے

حسرت دید ناتمام رہے

دل میں بیتاب ہے صدائے حیات

آنکھ گوہر نثار کرتی ہے

آسماں پر اداس ہیں تارے

چاندنی انتظار کرتی ہے



آ کہ تھوڑا سا پیار کر لیں ہم

زندگی زر نگار کر لیں ہم


علامہ اقبال سے نیاز مندی



فیض صاحب جن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے تو وہ زمانہ علامہ اقبال کی شہرت و مقبولیت کے عروج کا زمانہ تھا۔ کوئی بھی باہر سے لاہور آتا تو علامہ سے ملاقات کا ضرور خواہش مند ہوتا۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن تھا کہ فیض صاحب گورنمنٹ کالج کے طالب علم ہوں اور ان کو علامہ سے ملاقات کا موقعہ نہ ملے۔ ان کے دل میں علامہ اقبال کے لیے عقیدت کا ایک خاص گوشہ تھا جس کا اظہار انہوں نے کئی مرتبہ کیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے علامہ اقبال سے اپنی ملاقاتوں کے بارے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:

’’ علامہ اقبال سے کئی مرتبہ شرف نیاز حاصل ہوا۔ ایک تو وہ میرے ہم وطن تھے دوسرے وہ میرے والد کے دوست بھی تھے، دونوں ہم عصر بھی تھے۔ یہاں اور انگلستان میں بھی وہ ایک ساتھ رہے تھے۔ چنانچہ ان سے پہلی ملاقات تو مجھے یاد ہے جو بہت بچپن میں ہوئی تھی جب کہ میری عمر کوئی چھ سات برس کی ہو گی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سیالکوٹ میں ایک انجمن اسلامیہ تھی اس کا ہر سال جلسہ ہوا کرتا تھا انجمن اسلامیہ کا اسکول بھی تھا۔ دو تین اور اسکول تھے اور وہاں پر بھی کبھی کبھی علامہ اقبال ان کے جلسوں میں شرکت کے لیے آیا کرتے تھے۔ پہلی دفعہ تو میں نے انہیں انجمن اسلامیہ کے جلسے میں دیکھا۔ مجھ کو اس جلسے میں شرکت کا موقع اس لیے دیا گیا تھا کہ میں اسکول میں پڑھتا تھا۔ا سلامیہ اسکول میں مجھے قرأت سنانی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کسی نے اٹھا کر مجھے میز پر کھڑا کر دیا تھا۔ پھر ایک بار جب گورنمنٹ کالج میں داخلے کے لیے گیا تھا تو علامہ ہی سے خط لے کر گیا تھا۔ در اصل وہ اتنے بڑے بزرگ شاعر تھے اور پھر ہمارے والد کے دوست تھے اس لیے ہمیں تو ان کے پاس جانے میں کچھ جھجک ہوتی تھی۔ لیکن کالج سے نکلنے کے بعد کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے جب علامہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کر کے لندن سے واپس لوٹے تھے تو گورنمنٹ کالج کی طرف سے اور بہت سی انجمنوں کی طرف سے ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا تھا۔ یہیں ہم نے صوفی صاحب کے کہنے پر علامہ اقبال کے سامنے اپنی نظم سنائی جسے علامہ نے پسند بھی کیا تھا۔ ‘‘ 28؎

اس طرح علامہ اقبال سے فیض صاحب کا صحیح معنوں میں پہلی بار بہ حیثیت شاعر تعارف ہوا اور اس مختصر تعارف پر انہیں ہمیشہ ناز رہا۔ جب بھی کسی نے ان کا انٹرویو لیتے ہوئے اس زمانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس واقعے کا ذکر بڑے فخر و مباحات سے کیا۔

اقبال کی موجودگی میں فیض صاحب نے جو نظم پڑھی تھی وہ 1931ء کے رسالہ راوی میں شائع ہوئی تھی اور یہ نظم ان کے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں ہے۔ افکار کے فیض نمبر میں اسے شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ 29؎

زمانہ تھا کہ ہر فرد انتظار موت کرتا تھا

بساط دہر پر گویا سکوت مرگ طاری تھا

مگر مشرق میں خون زندگی تھم تھم کے چلتا تھا

فضا کی گود میں چپ تھے ستیز انگیز ہنگامے

سنی واماندہ منزل نے آواز درا آخر

مئے غفلت کے ماتے خواب دیرینہ سے جاگ اٹھے

عرق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا

زمیں سے نور یاں تا آسماں پروا کرتے تھے

نبود و بود کے سب راز تو نے پھر سے بتلائے

ہر اک قطرے کو وسعت دے کے دریا کر دیا تو نے

فروغ آرزو کی بستیاں آباد کر ڈالیں

طلسم کن سے تیرا نغمہ جاں سوز کیا کم ہے

عمل کی آرزو باقی نہ تھی بازوئے انساں میں

صدائے نوحہ خواں تک بھی نہ تھی اس بزم ویراں میں

خزاں کا رنگ تھا گلزار ملت کی بہاروں میں

شہیدوں کی صدائیں سو رہی تھیں کار زاروں میں

ترے نغموں نے آخر توڑ ڈالا سحر خاموشی

خود آگاہی سے بدلی قلب و جاں کی خود فراموشی

فسردہ مشت خاکستر سے پھر لاکھوں شرر نکلے

یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر تابندہ تر نکلے

ہر اک فطرت کو تو نے اس کے امکانات بتلائے

ہر اک ذرے کو ہم دوش ثریا کر دیا تو نے

زجاج زندگی کو آتش دوشیں سے بھر ڈالا

کہ تو نے صد ہزار افیونیوں کو مرد کر ڈالا

قابل غور بات ہے کہ فیض صاحب نے صرف بیس سال کی عمر میں اقبال کے بارے میں جو رائے قائم کی تھی اسی رائے پر زندگی کے آخری لمحوں تک ثابت قدم بھی رہے اور ہمیشہ ان کے احترام میں پیش پیش رہے۔ البتہ ان کا تصور اقبال عام پاکستانیوں کے تصور سے ذرا مختلف ہے۔ خالد حسن نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ فیض صاحب اقبال کے بہت زبردست معتقد ہیں۔ لیکن زندہ و پائندہ اقبال کے۔ اس اقبال کے نہیں جسے قلم فروشوں، بوگس ناقدوں، اور خود ساختہ نظریہ پرستوں نے ایک قدیم ڈھانچے میں تبدیل کر دیا ہے۔ فیض صاحب اکثر کہتے ہیں کہ وہ ایک طویل دیباچے کے ساتھ انتخاب اقبال شائع کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام اور دوسرے بنیادی سوالات پر علامہ مرحوم کے اصل نظریات ان کی انگریزی تحریروں میں موجود ہیں۔ غالباً اس وجہ سے انہوں نے ان خیالات کو انگریزی میں قلم بند کیا تاکہ وہ رجعت پسندوں کی دسترس سے باہر رہیں۔ گو اب رجعت پسندوں کی اکثریت ہمارے ہاں انگریزی بولتی ہے۔ ‘‘ 30؎

فیض صاحب علامہ اقبال کی فارسی نظموں کا ترجمہ بھی کرنا چاہتے تھے لیکن یہ کام ادھورا ہی رہ گیا۔ گو انہوں نے علامہ اقبال کی نظم پیام مشرق کے کچھ حصوں کا ترجمہ کیا ہے جس کا ذکر بعد میں آئے گا۔

٭٭٭








امرتسر سے دہلی تک


(1946-1935)


امرتسر میں قیام



فیض صاحب انگریزی اور عربی میں ایم اے کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے معاشی حالات بہت زیادہ اچھے نہیں تھے۔ بیش تر پڑھے لکھے لوگ روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ خواہش تو ان کی بھی یہی رہی ہو گی کہ کوئی مناسب نوکری لاہو رہی میں مل جائے مگر ایسا ہوا نہیں۔ انہی دنوں 1934-35ء کے آس پاس امرتسر میں وہاں کی انجمن اسلامیہ کے ایم اے او ہائی سکول کو کالج کا درجہ مل گیا۔ کالج کو نئے سٹاف کی ضرورت تھی۔ امرتسر سے قریب ترین شہر لاہو رہی تھا چنانچہ گورنمنٹ کالج کے فارغ التحصیل طلباء کی ایک پوری کھیپ وہاں پہنچ گئی اور اسی کھیپ میں فیض صاحب بھی شامل تھے۔

فیض صاحب نے امرتسر کے ایم اے او کالج میں انگریزی کے ایک لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ کم و بیش پانچ سال تک جاری رہا۔ ان کی عملی زندگی میں امرتسر کے یہ پانچ سال بے حد اہم ثابت ہوئے۔ یہیں ان کے دل کی دنیا میں ایلس کتھرین جارج نے قدم رکھا اور دماغ کی دنیا میں مارکسزم نے گھر کر لیا۔ محبتوں کے یہ دونوں سلسلے ان کی زندگی کی آخری سانس تک باقی رہے۔

فیض صاحب نے خود امرتسر کے اس ماحول کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:

’’ ہماری زندگی کا شاید سب سے خوش گوار زمانہ امرتسر ہی کا تھا اور کئی اعتبار سے ایک تو اس وجہ سے کہ جب ہمیں پہلی دفعہ پڑھانے کا موقعہ ملا تو بہت لطف آیا۔ اپنے طلباء سے دوستی کا لطف، ان سے ملنے اور روز مرہ کی رسم و راہ کا لطف، ان سے کچھ سیکھنے اور انہیں پڑھانے کا لطف، ان لوگوں سے دوستی اب تک قائم ہے۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں کچھ سنجیدگی سے شعر لکھنا شروع کیا۔ تیسرے یہ کہ امرتسر ہی میں پہلی بار سیاست میں تھوڑی بہت بصیرت اپنے کچھ رفقاء کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ ‘‘ 31؎


امرتسر کا ادبی ماحول



امرتسر اور لاہور کا فاصلہ بہت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے ان دونوں شہروں کے ادبی حلقوں کا آپس میں رابطہ تو تھا ہی لیکن ایم اے او کالج میں فیض صاحب کے علاوہ ڈاکٹر تاثیر، ڈاکٹر رشید جہاں، صاحبزادہ محمود الظفر اور انہی دنوں حمید نسیم اور دوسرے طلباء بھی وہاں موجود تھے جن کی وجہ سے امرتسر کی ادبی فضا خاصی فعال اور متحرک ہو گئی تھی۔ اس دور کی ادبی فضا کے بارے میں حمید نسیم لکھتے ہیں :

’’ 1937ء میں تاثیر صاحب نے بزم سخنوران پنجاب کے نام سے ایک مخصوص ادبی محفل کی طرح رکھی اور ہر مہینے ایک شاعر کے گھر طرحی مشاعرہ ہونے لگا۔ اس تنظیم کا پہلا مشاعرہ لاہور میں ہوا تھا اور اس پہلے مشاعرے کے لیے فیض صاحب نے بھی غزل کہی تھی۔ دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے باقی شاعروں کی غزلیں تو فوراً مر کھپ گئیں لیکن فیض صاحب کی غزل بجلی کی طرح سارے ملک میں پھیل گئی۔ دوسرا مشاعرہ امرتسر میں فیض صاحب کے مکان پر ہی ہوا۔ طرح کی زمین تھی نظر میں، خبر میں ہے، اثر میں ہے وغیرہ۔ اس زمین میں فیض صاحب کا مطلع حاصل مشاعرہ رہا۔ ‘‘

کچھ دن سے انتظار سوال دگر میں ہے

وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے

ان دونوں مشاعرہ میں فیض صاحب کی غزلیں دوسرے شاعروں کی غزلوں سے میلوں آگے تھیں۔ چنانچہ بزم سخنوران پنجاب جلد ہی ختم ہو گئی۔ پھر جنگ چھڑ گئی۔ تاثیر صاحب سری نگر کالج کے پرنسپل ہو کر چلے گئے۔ فیض لاہور کے ہیلی کالج آف کامرس میں انگریزی پڑھانے لگے۔ ہمارا خاندان عسرت میں گرفتار ہو کر گوردا سپور منتقل ہو گیا اور وہ محفل یاراں بکھر گئی۔ 32؎

امرتسر کے اس ادبی ماحول نے فیض صاحب کو تخلیقی کاموں میں مصروف رکھا۔ نقش فریادی کا دوسرا حصہ جو دلے بفرو ختم جانے خریدم کے ذیل میں آتا ہے اس کی بیشتر تخلیقات امرتسر ہی میں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔


ترقی پسند تحریک سے وابستگی



امرتسر ہی میں فیض صاحب کی ملاقات ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر سے ہوئی۔ سجاد ظہیر، انجمن ترقی پسند مصنفین کے ابتدائی کاموں میں مصروف تھے۔ اس سلسلے میں ہم خیال ادیبوں اور شاعروں سے رابطے کے لیے انہوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کیا اور امرتسر کا سفر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔

امرتسر میں ان کا رابطہ صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی بیگم ڈاکٹر رشید جہاں سے تھا۔ ان دونوں کی وساطت سے فیض صاحب کی ملاقات سجاد ظہیر سے ہوئی۔ سجاد ظہیر نے ان سے اپنی اس ملاقات کا حال یوں لکھا ہے ’’ امرتسر میں میرے ایک دو دن کے قیام کے بعد رشیدہ نے یکبارگی کہا:

’’ محمود، وہ جو تمہارے کالج میں ایک نیا لڑکا ہے نا، انگلش ڈیپارٹمنٹ میں، کیا نام ہے اس کا؟ اور پھر میری طرف مڑ کر کہا ’’ میرے خیال میں تم اس سے مل لو، محمود بہت سنجیدگی سے بولے، کیا مطلب ہے تمہارا، ہمارے انگریزی کے نئے لیکچرار فیض احمد؟ رشیدہ نے جواب دیا، اوہنہ ہو گا بھئی کوئی بھی نام، مجھے یاد نہیں رہتا، وہ بولتا تو ہے نہیں، تمہارے کالج میں وہی ایک لڑکا سمجھ دار معلوم ہوتا ہے۔ بنے کو اس سے ملنا چاہیے۔ محمود نے اس بات کو اپنے کالج اور اس کا وائس پرنسپل ہونے کی حیثیت سے اپنے اوپر حملہ تصور کیا اور ذرا تیزی سے بولے، تمہیں کیا معلوم میرے کالج میں کون سمجھ دار ہے اور کون سمجھ دار نہیں ہے ؟ تم کتنوں سے ملی ہو؟ اور جن سے تم ملی ہو ان کے نام تک تو تمہیں یاد نہیں ہیں۔ اب کیا تھا رشیدہ بالکل اپنے اصلی رنگ میں آ گئیں اور چمک کر بولیں۔ سب الو بھرے ہیں تمہارے کالج میں جنہیں الف کے نام بے نہیں آتا، پتہ نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں۔ میں اسٹاف کی بات کرتی ہوں لڑکوں کی نہیں۔ نام جاننے کی ضرورت نہیں ہے، صورت ہی سے پتہ چل جاتا ہے۔ اس پر ہم سب کو ہنسی آ گئی اور میں نے موقعہ غنیمت جان کر کہا اچھا بھئی یہ طے کرو کہ ان سمجھ دار فیض صاحب سے کب ملاقات ہو گی؟ محمود نے جواب دیا تمہارے آنے سے پہلے ہی میں نے فیض سے ترقی پسند مصنفین کے بارے میں باتیں کر لی ہیں اور تمہارا بھی ان سے ذکر کر دیا ہے۔ آج شام ساڑھے چار بجے فیض چائے پر آ رہے ہیں۔

شام کو جب فیض چائے پر آئے تو رشیدہ کی بات بالکل سچ ثابت ہوئی۔ جس کا خطرہ تھا وہی بات ہوئی، یعنی فیض نہیں بولے۔ کسی نئے آدمی سے گفتگو شروع کرنے اور اسے جاری رکھنے کا مشکل فن مجھے بھی نہیں آتا لیکن اس دن معلوم ہوا کہ اس میدان میں مجھ سے بھی بڑے اناڑی پائے جاتے ہیں۔ ‘‘ 33؎

اس وقت تک صاحبزادہ محمود الظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ فیض صاحب شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں تو بس وہ ادب اور خاص طور سے انگریزی ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایک ذہین نوجوان تھے جن میں کچھ ترقی پسندانہ رجحانات بھی پائے جاتے تھے۔

اس ملاقات کی تفصیلات سے ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس وقت تک فیض صاحب نے اپنے تخلص کا بھی استعمال نہیں کیا تھا۔ یعنی فیض احمد فیض نہیں بلکہ صرف فیض احمد ہی کہلواتے تھے۔ اس بارے میں فقیر سید وحید الدین نے ایک جگہ لکھا ہے :

’’ جہاں تک میرے علم میں ہے انہوں نے شاعرانہ تخلص کی رسم بھی نہیں اپنائی بلکہ ان کا موجودہ نام فیض احمد فیض، فوجی ملازمت کے آغاز پر محض اتفاقی طور پر کسی نے کاغذات میں درج کرا دیا جسے بعد میں انہوں نے تبدیل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ‘‘ 34؎

ہو سکتا ہے یہ بات درست ہو لیکن اس کا امکان اس لیے کم ہے کہ انہوں نے اپنے ادبی نام میں لفظ بھی تو شامل نہیں کیا تھا اور دو بار تو ایسے اتفاقات ممکن نہیں ہیں۔ چنانچہ فیض احمد فیض کا نام محض اتفاقی نہیں بلکہ میرے خیال میں ایک سوچا سمجھا قدم تھا۔

امرتسر کے قیام کے دوران ہی فیض صاحب نے مارکسزم کا تفصیلی مطالعہ کیا اور ترقی پسند رجحانات سے اپنی فکر اور شاعری کی آبیاری کی۔ یہیں ان کی ملاقات مارکسسٹ دانشوروں اور ادیبوں سے ہوئی جن کے قریبی تعلق اور خود ان کے اپنے مطالعے کی بناء پر ان کی فکر و نظر میں گہری تبدیلی آئی اور ان کی شخصیت پر اس کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مرکزوں دہلی، لکھنو، کلکتہ اور لاہور کی ہنگامہ پرور زندگی سے دور امرتسر میں فیض صاحب، رشید جہاں اور محمود الظفر کی یہ مثلث اردو کے ترقی پسند ادب کے لیے نیک فال ثابت ہوئی۔

مارکسزم سے وابستگی کا جو بیج ان کے ذہن میں یہاں پڑا تھا اس نے آگے چل کر ایک گھنے درخت کی شکل اختیار کر لی اور فیض صاحب اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اسی نظریے سے وابستہ رہے۔ اپنی کتاب مہ و سال آشنائی میں اس زمانے کے بارے میں فیض صاحب نے صاف صاف لکھا:

’’ 1935ء میں جب میں نے امرتسر کالج میں پڑھانا شروع کیا تو وہاں ایک دن میرے ایک رفیق کار صاحبزادہ محمود الظفر نے ایک پتلی سی کتاب میرے حوالے کی اور کہا، لو یہ پڑھو اور اگلے ہفتے اس پر ہم سے بحث کرو لیکن غیر قانونی کتاب ہے ذرا احتیاط سے رکھنا۔ یہ کتاب تھی کمیونسٹ مینی فسٹو جو میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی بلکہ دو تین بار پڑھی۔ انسان اور فطرت، فرد اور معاشرہ، معاشرہ اور طبقات، طبقے ار ذرائع پیداوار کی تقسیم، ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتے، پیداواری رشتے اور معاشرے کا ارتقائ، انسانوں کی دنیا کے پیچ در پیچ اور تہ بہ تہ رشتے ناتے، قدریں، عقیدے، فکر و عمل وغیرہ کے بارے میں یوں محسوس ہوا کہ کسی نے اس پورے خزینہ اسرار کی کنجی ہاتھ میں تھما دی ہے۔ یوں سوشلزم اور مارکسزم سے دلچسپی کی ابتدا ہوئی۔ ‘‘ 35؎

لیکن ’’ ترقی پسند ادب کی تحریک سے ان کا جو نیا شاعرانہ نقطہ نظر سامنے آیا وہ وقتی اور جذباتی نہیں بلکہ ایک نئے موقف کی تائید اور اس کا اظہار تھا۔ یہ موقف اس دور کی ان فرسودہ جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ روایات اور طرز عمل میں جکڑے ہوئے معاشرے سے گلو خلاصی اور ایک نئے معاشرے کے قیام کی جد و جہد کا موقف تھا۔ ‘‘ 36؎

اور انہوں نے زندگی بھر اس موقف کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا۔


لاہور میں ترقی پسند مصنفین کی بنیادی نشست



امرتسر میں فیض صاحب نے سجاد ظہیر سے ملاقات کے بعد لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ قائم کروانے کا بیڑہ اپنے سر لیا۔ امرتسر سے جنوری1936ء کی ایک صبح چار افراد یعنی سجاد ظہیر، رشید جہاں، محمود الظفر اور فیض صاحب پر مشتمل ایک قافلہ لاہور کی طرف بذریعہ کار روانہ ہوا اور شام ڈھلنے سے پہلے وہاں پہنچ گیا۔ اس قافلے کی رہنمائی فیض صاحب کر رہے تھے۔ عبداللہ ملک نے اپنی آپ بیتی میں سجاد ظہیر کے حوالے سے لکھا ہے :

’’ انہوں نے اس سے پہلے پنجاب کا اس طرح دورہ نہیں کیا تھا۔ سوائے اس کے کہ لڑکپن میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر جاتے ہوئے لاہور اسٹیشن پر رکے تھے۔ پنجاب کے ساتھ خوش حالی، توانائی اور فطری سختی کا تصور ان کے ذہن میں ابھرا۔ البتہ انگلستان میں انہیں بہت سے نوجوان پنجابیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ جن میں سے کئی سے گہری دوستیاں بھی ہوئیں جیسا کہ میاں افتخار الدین، محمود علی قصوری، کرم سنگھ مان، پیارے لال بیدی وغیرہ۔ اب کے سجاد ظہیر پنجاب آئے تو ان کے ذہن میں پنجاب اور اس کے لوگوں کے لیے بڑی امیدیں تھیں۔ جہاں حالی اور محمد حسین آزاد جیسے شاعروں نے جدید اردو نظم اور نثر کی بنیاد رکھی، جہاں اقبال جیسا عظیم شاعر تھا، جہاں جلیانوالہ باغ ایسی یادگار تھی جہاں بھگت سنگھ کی دیس بھگتی تھی، جہاں وطن کی آزادی کے لیے تحریک خلافت تھی، جہاں کی دھرتی سے خاکسار کے علاوہ فرقہ پرست ساگست کے خلاف مجلس احرار کی بے مثال قربانیاں تھیں۔ ‘‘ 37؎

لاہور میں سجاد ظہیر کا چونکہ یہ پہلا باقاعدہ دورہ تھا تو انہوں نے خود ہی یہاں پہنچنے سے قبل میاں افتخار الدین کو اپنے آنے کے بارے میں اطلاع دے دی تھی۔ لہٰذا فیض صاحب نے اپنے ساتھ آنے والے مہمانوں کو میاں افتخار الدین کی کوٹھی میں ٹھہرایا اور لاہور کے اس وقت کے تمام قابل ذکر افراد سے ان کا تعارف اور انجمن کے قیام اور مقاصد کے بارے میں بات چیت کا موقعہ فراہم کروایا۔ کچھ روز انہی مصروفیات کی نذر ہوئے اور پھر ایک دن انجمن کے قیام کے سلسلے میں میاں افتخار الدین کے گھر لاہور کے روشن خیال ادیبوں اور شاعروں کا مختصراً اجتماع ہوا۔ اس جلسے کی کارروائی کا بیان سجاد ظہیر کی زبانی یوں ہے :

’’ میاں افتخار الدین کے مکان کے سامنے خوب صورت لان پر چار بجے کے قریب ایک ایک دو دو کر کے لوگ جمع ہونا شروع ہوئے۔ ہمارے مقامی میزبانوں میں فیض اور میاں افتخار الدین سرگرم تھے۔ چونکہ یہ اجلاس انجمن ترقی پسند مصنفین کی تشکیل سے متعلق تھا لہٰذا فیض نے ہی بڑی سنجیدگی سے یہ تجویز پیش کی کہ صوفی غلام مصطفی تبسم کو اس وقت عارضی طور پر انجمن کا سیکرٹری چن لیا جائے۔ جب انجمن کی رکنیت سازی مکمل ہو جائے تو بعد میں اس کے باقاعدہ عہدیداروں کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔ فیض صاحب کی اس تجویز کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا مگر اب اصل مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح صوفی صاحب کو اس پر آمادہ کیا جائے ؟ ایسے موقعے پر صوفی غلام مصطفی تبسم اور ان کے استاد اور شاگرد والے مراسم کام آئے اور صوفی صاحب اپنے عزیز شاگرد کی بات ٹال نہ سکے۔ ‘‘ 38؎

یوں دیکھا جائے تو لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پنجاب شاخ کا پہلا پودا فیض صاحب ہی کے ہاتھ پروان چڑھا۔


لکھنو کانفرنس میں شرکت



ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام ملکی اور بین الاقوامی حالات کی کروٹوں اور کشمکشوں کا نتیجہ تھا۔ بین الاقوامی حالات میں بڑی تبدیلیاں اور الجھنیں پیدا ہو چکی تھیں۔ ایک طرف فسطائیت کا بڑھتا ہوا سیلاب تھا تو دوسری جانب سامراجی ملکوں کی خوں آشام استعماریت تھی۔ ان دونوں کے درمیان ایک گروہ اور بھی تھا جس کی فکری بنیادیں مارکس کے فلسفہ پر استوار تھیں۔ ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کو اس صورت حال سے متاثر ہونا ایک فطری امر تھا۔ چنانچہ:

’’ دنیا بھر کے ادیبوں اور دانش وروں نے اس تباہ کن اور خوفناک صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے بارے میں کسی نہ کسی طور پر سوچا، انہوں نے نہ صرف فسطائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے مقابل بند باندھنے کی کوشش کی بلکہ محکوم اور غلام اقوام کی جد و جہد آزادی میں، ان کی حمایت کا عزم بھی کیا۔ وہ ادب کو دنیا بھر کے محنت کشوں اور مظلوم انسانوں کی آواز بنانا چاہتے تھے۔ 1935ء میں پیرس میں دنیا کے بیشتر ممالک کے ادیبوں اور شاعروں نے جن میں میکسم گورکی، رومین رولاں، ای ایم فارسٹر اور دوسرے بڑے ادیب شریک تھے، ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں International Association of Writers for Defence of Culture against Fascismکے نام سے ایک انجمن قائم ہوئی تھی۔ پیرس میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں ہندوستانی ادیبوں کی نمائندگی ملک راج آنند اور سید سجاد ظہیر نے کی تھی۔ انہی دونوں حضرات نے جو ان دنوں لندن میں مقیم تھے اپنے کچھ اور ہم خیال ہندوستانی ادیبوں کے ساتھ مل کر ترقی پسند فکر رکھنے والوں کا ایک حلقہ قائم کیا تھا۔ اس طرح ہندوستانی انجمن ترقی پسند مصنفین کا بنیادی خاکہ گویا1935ء میں لندن ہی میں تیار ہو گیا۔

در اصل بیسویں صدی اپنے دامن میں سیاسی شعور اور عوامی بیداری کی دولت بھی لے کر آئی تھی جس کا نتیجہ ہندوستان کی جد و جہد آزادی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ آزادی کی ان تحریکات کے ساتھ ہی ہندوستان میں اشتراکی خیالات و نظریات بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگے اور نہ صرف شعر و ادب بلکہ ہر شعبہ زندگی میں اس کے اثرات نمایاں طور سے محسوس کئے جا سکتے تھے۔ 1917ء کے انقلاب روس نے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ دوسری طرف اردو ادب میں انگارے کی اشاعت نئے حالات میں ایک ایسی کوشش تھی جس کا محرک در اصل وہ معاشرہ تھا جو تضادات اور کھوکھلے پن کا شکار تھا۔ انگارے کی اشاعت کے وقت وہ حالات پیدا ہو چکے تھے۔ جنہوں نے ہندوستان میں ’’ انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کے قیام میں بڑی مدد دی۔ چنانچہ اپریل1936ء میں لکھنو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کل ہند کانفرنس منعقد ہوئی۔ ‘‘ 39؎

انجمن کے اس پہلے اجلاس میں ہندوستان کے تقریباً چوٹی کے تمام ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اس میں امرتسر سے آنے والے وفد میں صاحبزادہ محمود الظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔ سجاد ظہیر نے اس وفد کے بارے میں لکھا:

’’ پنجاب کے نمائندے فیض احمد فیض نے رشیدہ کو چپکے سے بتایا کہ ان کے پاس امرتسر سے لکھنو آنے جانے کا کرایا تو تھا لیکن بقیہ اخراجات کے لیے ان کی جیب متحمل نہیں ہو سکتی تھی حتیٰ کہ سگریٹ کے پیسے بھی نہیں تھے۔ ‘‘ 40؎

لیکن فیض صاحب اور ان کے ساتھیوں کے اپنے مقاصد سے مکمل کمٹ منٹ نے کسی بھی مشکل کو راہ کی دیوار نہیں بننے دیا اور یوں ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی، اس کا منشور منظور ہوا اور اسے منشی پریم چند، جوش ملیح آبادی، حسرت موہانی اور مولوی عبدالحق جیسے بڑے لکھنے والوں کی سرپرستی بھی حاصل ہوئی۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کی اس کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں واضح طور سے کہا گیا:

’’ اس وقت ہندوستانی سماج میں بنیادی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، کھوکھلی روحانیت اور بے بنیاد تصور پرستی، ادب کا لازمی حصہ بن گئی ہیں۔ ہیئت پرستی کا منفی رجحان عام ہے اور ان حالات میں انجمن، ہندوستانی ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سائنسی عقلیت کو فروغ دیں، رجعت پرستی اور ماضی پرستی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستی، نسلی تعصب اور انعامی استحصال کی مذمت کریں۔ انجمن کا ایک مقصد یہ بھی بتایا گیا کہ ادب کو رجعت پرستوں کے سائے سے نکال کر عوام کے قریب کیا جائے اور بہترین ہندوستانی روایات کو اپناتے ہوئے رجعت پسندی کے خلاف ایک طاقت ور محاذ بنایا جائے اور نئے ہندوستانی ادب میں زندگی کے بنیادی مسائل کو موضوع بنایا جائے۔ 41؎‘‘

’’ اعلان نامہ‘‘ کے ان چند بنیادی نکات پر ہی ایک نظر ڈالنے سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ اس تحریک کے علمبرداروں کے دلوں میں ادب کو زندگی سے قریب تر لانے کا جذبہ کروٹیں لے رہا تھا۔ وہ زندگی، ادب اور اس کے ارتقاء کا واضح شعور رکھتے تھے اور انسانی زندگی اور معاشرے کو حسین سے حسین تر بنانا چاہتے تھے۔ وہ واضح طور پر ادب کو سماجی زندگی کی پیداوار قرار دیتے تھے اور چونکہ زندگی تغیر پذیر ہے لہٰذا زندگی کی سماجی قدروں کے ساتھ ساتھ ادب کے بدل جانے کو بھی ایک ضروری امر سمجھتے تھے۔ وہ پوری دیانتداری کے ساتھ ادب کے آہنگ کو زندگی سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ اس دور میں ادب اور زندگی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ پھیلی جس میں اس بات پر خاص زور دیا گیا کہ ادب کا زندگی کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ وہ ادب جو اپنے پڑھنے والوں کو روز مرہ کے مسائل سے دور لے جاتا ہے بیکار اور بیمار ادب ہے اور اس سے قوم کو کچھ فائدہ نہیں۔ ترقی پسند تحریک بنیادی طور پر افادیت، مقصدیت اور حقیقت پسندی کی تحریک تھی اور یہی وجہ ہے کہ فیض صاحب نے اس تحریک سے اپنی نظریاتی وابستگی کو اپنا مقصد حیات بنا لیا اور ان کی پوری زندگی اور ان کا پورا تخلیقی سرمایہ اسی کے زیر اثر پروان چڑھا۔


ترقی پسند مصنفین پنجاب شاخ کی پہلی کانفرنس



امرتسر ہی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پنجاب شاخ کے قیام کے بعد اس کی پہلی صوبائی کانفرنس منعقد ہوئی تو اس کو کامیاب بنانے میں فیض صاحب نے دن رات کام کیا۔در اصل:

’’ 1937ء میں گرمیوں کے شروع میں پنجاب کسان کمیٹی کا سالانہ اجلاس امرتسر میں ہونا قرار پایا۔ صوبہ متحدہ کی کسان سبھا کے کارکنوں کی حیثیت سے ڈاکٹر اشرف اور سجاد ظہیر کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔ انہی دنوں پنجاب کے ترقی پسند مصنفین نے بھی امرتسر میں اپنی کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انجمن کے کل ہند سیکرٹری سجاد ظہیر کو اس پہلی صوبائی کانفرنس سے مطلع کیا گیا۔ فیض احمد فیض اس کے مہتمم تھے۔ ‘‘ 42؎

اس وقت تک لوگوں میں انگارے کی اشاعت کے بعد بہت منفی پروپیگنڈہ ہو چکا تھا۔ چنانچہ فیض صاحب اور صاحبزادہ محمود الظفر کی ایم اے او کالج سے وابستگی کے باوجود ڈاکٹر تاثیر نے کالج کا ہال اس کانفرنس کے لیے انجمن کو دلوانے میں کوئی مدد نہیں کی جس پر سجاد ظہیر کو سخت حیرت بھی ہوئی۔ فیض صاحب نے ان کے استفسار پر صرف اتنا کہا:

’’ بس سمجھ لیجئے یہاں کے بعض حلقے ہماری انجمن کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ‘‘ 43؎

فیض صاحب کا یہ مختصر جواب ان کی شخصیت کی سادگی اور کھرے پن کی واضح مثال ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر سجاد ظہیر نے کسان کانفرنس والوں سے ان کا پنڈال اپنی کانفرنس کے لیے مانگا جسے انہوں نے خوشی خوشی قبول کر لیا اور پھر وہیں انجمن ترقی پسند مصنفین پنجاب شاخ کی پہلی صوبائی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فیض صاحب نے پنجاب کے کسانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اپنا پہلا انقلابی سبق سیکھا۔


امرتسر کی یادیں



فیض صاحب نے امرتسر کے اس دور کو ہمیشہ بڑی محبت سے یاد کیا بلکہ کئی جگہوں پر اس سے اپنی دل بستگی کے حوالے بھی دیے ہیں۔ اس تعلق خاطر کی بنا پر انہوں نے کہا:

’’ ہماری زندگی کا شاید سب سے خوش گوار زمانہ امرتسر ہی کا تھا اور کئی اعتبار سے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ جب ہمیں پہلی دفعہ پڑھانے کا موقعہ ملا تو بہت لطف آیا۔ اپنے طلباء سے دوستی کا لطف، ان سے ملنے اور روزمرہ کی رسم و راہ کا لطف، ان سے کچھ سیکھنے اور انہیں پڑھانے کا لطف، ان لوگوں سے دوستی اب بھی قائم ہے۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں کچھ سنجیدگی سے شعر لکھنا شروع کیا۔ تیسرے یہ کہ امرتسر ہی میں پہلی بار سیاست میں تھوڑی بہت بصیرت اپنے کچھ رفقاء کی وجہ سے پیدا ہوئی، جن میں محمود الظفر تھے، ڈاکٹر رشید جہاں تھیں، بعد میں ڈاکٹر تاثیر آ گئے تھے۔ یہ ایک نئی دنیا ثابت ہوئی۔ مزدوروں میں کام شروع کیا۔ سول لبرٹیز کی ایک انجمن بنی تو اس میں کام کیا۔ ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو اس کی تنظیم میں کام کیا۔ ان سب سے ذہنی تسکین کا ایک بالکل نیا میدان ہاتھ آیا۔ ‘‘ 44؎


ادب لطیف کی ادارت



امرتسر کے قیام کے دوران فیض صاحب نے لاہور سے نکلنے والے ادبی پرچے، ادب لطیف کی ادارت بھی سنبھالی اور اس طرح ادبی صحافت کے میدان میں باقاعدہ قدم رکھا۔ ادب لطیف نے ان کی ادارت کے زمانے میں جدید اور ترقی پسند ادب کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا اور اس پرچے میں نئے لکھنے والوں کو اپنا جوہر دکھانے کا پورا پورا موقعہ ملا۔ اس زمانے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ ادب لطیف کی ادارت کی پیش کش ہوئی تو دو تین برس اس میں کام کیا۔ اس زمانے میں لکھنے والوں کے دو بڑے گروہ تھے۔ ایک ادب برائے ادب کا اور دوسرا ترقی پسند ادب کا۔ کئی برس تک ان دونوں کے درمیان بحثیں چلتی رہیں جس کی وجہ سے کافی مصروفیت رہی جو بجائے خود ایک بہت ہی دلچسپ اور تسکین دہ تجربہ تھا۔ ‘‘ 45؎

اس زمانے میں جو ادبی گروہ بندیاں تھیں ان کی بنیاد ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے حوالے سے تھیں۔ در اصل جب ترقی پسند خیالات رکھنے والوں کو اپنی تخلیقات شائع کرنے کے لیے کسی پلیٹ فارم کی ضرورت تھی تو ادب لطیف نے اس ضرورت کو پورا کیا اور ایک طرح سے فیض صاحب کی ادارت میں پنجاب میں اسے ترقی پسند ادب کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔ اس بارے میں انہوں نے خود کہا:

’’ ان دنوں یہ اصل مسئلہ تھا کہ جو ادب تخلیق ہو رہا ہے وہ چھاپا کہاں جائے ؟ ادب لطیف چودھری نذیر احمد کی زیر نگرانی لاہور سے چھپ رہا تھا۔ ترقی پسند مصنفین وہاں چھپنا شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ یہ رسالہ ہماری تحریک کا آرگن بن گیا۔ ‘‘ 46؎

اس طرح فیض صاحب نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے پیغام کو ادبی حلقوں تک پہنچانے میں عملی حصہ بھی لیا اور نئے لکھنے والوں کی نشو و نما اور حوصلہ افزائی بھی کی۔


ریڈیائی ڈرامے



اپنے ادبی کیرئیر میں آل انڈیا ریڈیو کے لیے بھی فیض صاحب نے کچھ ڈرامے لکھے۔ ان میں سے کچھ تو 1938-39ء کے درمیانی عرصے میں جب کہ وہ امرتسر ہی میں تھے آل انڈیا ریڈیو لاہور سے نشر ہوئے۔ ان ڈراموں میں دی احباب شکست توہین عدالت، پرائیویٹ سیکرٹری، سانپ کی چھتری اور ہوتا ہے شب و روز قابل ذکر ہیں۔ نمونے کے طور پر ان کے ایک ڈرامے ہوتا ہے شب و روز سے چند مکالمے نقل کیے جاتے ہیں۔

رابعہ: میں دیکھتی ہوں اماں

بڑی بیگم: (چیخ کر) اری ٹھہر رابعہ۔ کوئی چڑیل پیچھے لگی ہے جو یوں بھاگی جا رہی ہے۔ کیا جانے کوئی مردوا ہو۔ اتنا سر پیٹا ہے پر حرام جو صاحب زادی کا پیر کہیں ٹکے۔ اللہ کی سنوار (دستک ہوتی ہے )

بڑی بیگم: (اسی چیخنے کے لہجے میں ) ارے دم لو بھئی آ تو رہے ہیں۔

(دروازہ کھلتا ہے اور سلامت داخل ہوتی ہے )

بڑی بیگم: (یکلخت بہت میٹھی آواز میں ) اری تم ہو سلامت، سلام علیکم، سلام علیکم، اے تم تو بالکل عید کا چاند ہو گئیں۔ راہ تکتے تکتے آنکھیں پتھرا گئیں۔ اچھی تو ہو؟ میاں اور بیٹا تو ٹھیک ہیں ؟ ارے تم تو ایسی گئیں کہ بس۔ ۔ ۔ ۔

سلامت: (قطع کلام کرتے ہوئے ) آپ کی دعا سے سب ٹھیک ہے۔ بڑی بیگم، بس جب سے گئی ہوں جانے کتنے گھر چھانے ہیں۔ آنے کو تو سو بار آتی پر کوئی ڈھنگ کی بات پلے ہی نہ پڑی۔ اب مشکل سے ایک گھر ملا ہے۔

بڑی بیگم: ارے رابعہ تو کھڑی کھڑی کیا تک رہی ہے۔ ہزار کام پڑے ہیں۔ توبہ ہے۔ جب دیکھو بت بنی سر پر سوار ہیں صاحب زادی۔ حرام ہے جو کبھی ہاتھ پاؤں ہلائیں۔ جا، ذرا بوا کے لیے پان تو بنا لا۔

زبان کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس مختصر مکالمے میں ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے دلی کی ٹکسالی زبان کا سارا رس گھول دیا ہے۔ روز مرہ اور محاورے کے حسن سے آراستہ عورتوں کی یہ زبان وہی لکھ سکتا ہے جسے زبان پر پورا پورا عبور ہو۔ اور فیض صاحب کی زبان شناسی سے کون کافر ان کار کرے گا۔

ریڈیو سے اپنے تعلق کے حوالے سے فیض صاحب نے بتایا:

’’ برصغیر میں ریڈیو شروع ہوا تو اس میں ہمارے کئی دوست تھے ایک سید رشید احمد تھے جو بعد میں ریڈیو پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ہوئے۔ دوسرے سومناتھ چپ صاحب تھے جو بعد میں ہندوستان کے شعبہ سیاحت کے سربراہ بنے۔ دونوں باری باری سے آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے۔ ہم اور ہمارے ساتھ شہر کے دو چار اور ادیب ڈاکٹر تاثیر، مولانا چراغ حسن حسرت، صوفی صاحب اور ہری چند اختر وغیرہ ریڈیو آنے جانے لگے۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام وہاں کا ڈائرکٹر آف پروگرامز نہیں بناتا تھا بلکہ ہم سب لوگ مل کر بنایا کرتے تھے۔ نئی نئی باتیں سوچتے تھے اور ان سے پروگرام مرتب کرتے تھے۔ ان دنوں ہم نے ڈرامے لکھے، فیچر لکھے، دو چار کہانیاں لکھیں۔ بعد میں جب ہم دلی ریڈیو اسٹیشن جانے لگے تو وہاں نئے نئے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ دہلی اور لھنو کے لکھنے والے گروہوں سے شناسائی ہوئی۔ مجاز، سردار جعفری، جاں نثار اختر، جذبی اور مخدوم سے ریڈیو کے توسط سے ہی رابطہ پیدا ہوا۔ ‘‘ 47؎

ریڈیو سے اس رابطے کے ذریعے جہاں انہیں عام لوگوں کو اپنی آواز پہچانے کا موقعہ ملا وہیں ابلاغ عامہ کی فضا سے بھی مانوس ہوئے اور اس تجربے نے ان کو زندگی کے دوسرے موقعوں پر بہت مدد فراہم کی۔


اعلیٰ تعلیم کا خواب



ایم اے کرنے کے بعد فیض صاحب انگلستان جا کر مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اس کی کوئی فوری صورت نظر نہیں آئی۔ البتہ جن دنوں وہ امرتسر میں تھے تو انہوں نے اس سلسلے میں کچھ پیش رفت کی تھی اس موضوع پر انہوں نے خود ایک جگہ لکھا ہے :

’’ میں نے 1939ء کے وسط میں مزید تعلیم کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ ایک اطالوی بحری جہاز میں جگہ بھی مخصوص کروا لی تھی۔ ٹکٹ تک خرید لیا تھا، کپڑے بنوا لیے تھے بس جہاز کی روانگی کا انتظار تھا، جہاز کے جانے میں ابھی کوئی دس دن باقی تھے جب خبر آئی کہ دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی ہے اور ملک سے باہر آنے جانے کے سب راستے بند ہو چکے ہیں۔ ‘‘ 48؎

اس طرح فیض صاحب اس زمانے کے تمام دوسرے صاحب حیثیت لوگوں کی طرح ولایت پلٹ نہ بن سکے۔


ہیلی کالج آف کامرس لاہور



امرتسر میں اپنی زندگی کے پانچ برس گزارنے کے بعد1940ء میں فیض صاحب کو لاہور واپس آنے کا ایک موقعہ ملا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امرتسر کے قیام نے ان کے دل و دماغ دونوں پر انمٹ نقوش چھوڑے مگر لاہور، لاہو رہے تو کیوں نا فیض صاحب ہیلی کالج آف کامرس میں انگریزی کی لیکچرر شپ قبول کرتے۔ ہیلی کالج آف کامرس میں ملازمت کے بہانے اس بار لاہور میں فیض صاحب کا قیام و بیش دو برس رہا۔ کالج کی اسی ملازمت کے دوران انہوں نے اور ایلس جارج نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جانا چاہیے۔






ایلس جارج سے شادی



ایلس کیتھرین جارج ایک روشن خیال خاتون تھیں ان کی بڑی بہن کی شادی ڈاکٹر تاثیر سے ہوئی تھی جو ان دنوں امرتسر کے ایم اے او کالج میں پرنسپل تھے۔ وہیں امرتسر میں ڈاکٹر تاثیر کے یہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی تو مسز تاثیر کی چھوٹی بہن ایلس اپنی بہن اور بہنوئی سے ملنے ہندوستان آئی ہوئی تھیں۔ یہیں ایلس جارج کی ملاقات فیض صاحب سے ہوئی۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فیض صاحب نے کہا:

’’ بھئی یہ کوئی ایسے ہی لو آن فرسٹ سائٹ کا معاملہ نہیں تھا مگر ایک طرح سے یہ لو میرج ہی تھی۔ یعنی ہم کسی خاتون سے شادی کرنا چاہیں اور ہمارے خاندان والے نہ چاہیں تو یہ بالکل لو میرج تھی۔ گھر والے قائل ہو گئے تھے کہ شادی آپ کو کرنا ہے نہ کہ خاندان والوں کو۔ پھر جب ایلس کو دلہن بنانے کا وقت آیا تو وہ اڑ گئیں۔ ایلس نے خم ٹھونک کر کہا کہ میں سب کچھ کر گزروں گی مگر برقعہ نہیں پہنوں گی بالآخر ایک خوشگوار سمجھوتہ ہو گیا۔ ‘‘49؎

ایلس کا اسلامی نام کلثوم رکھا گیا اور فیض صاحب اور ایلس کا نکاح شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے 28اکتوبر1941ء کو سری نگر میں پڑھایا زندگی کا یہ بہت اہم فیصلہ تھا جو انہوں نے اس زمانے میں کیا اور جس کے اثرات ان کی زندگی پر بڑے دور رس پڑے۔ بعد کے زمانوں میں خصوصاً قید و بند کے زمانے میں جس طرح ایلس نے بچیوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی وہ شاید کسی اور کے بس کا کام نہ تھا۔ فیض صاحب کے یہاں ایلس کے بطن سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ سب سے بڑی بیٹی سلیمہ 1943ء میں دلی میں پیدا ہوئیں جبکہ دوسری بیٹی منیزہ اس کے دو سال بعد1945ء میں شملہ میں پیدا ہوئیں۔ فیض صاحب کو اپنی دونوں بچیوں سے بہت پیار تھا خصوصاً جیل کے زمانوں میں لکھے گئے خطوط میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی انہوں نے یاد کیا۔ انہیں ہمیشہ یہ دکھ رہا کہ بہت عرصہ تک جیل میں یا کسی اور وجہ سے ان سے دور ہونے کی بنا پر ان کے بچپنے کو وہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے۔


برطانوی فوج کی ملازمت



جن دنوں فیض صاحب ہیلی کالج میں لیکچرار تھے ان دنوں دوسری جنگ عظیم پورے عروج پر تھی اور برطانوی نو آبادیات ہونے کے ناطے ہندوستان بھی اس مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ اس وقت ہندوستان میں اس جنگ کے حوالے سے دو نقطہ نظر پائے جاتے تھے۔ بہت سے ہندوستانی سیاسی رہنما اس جنگ کے مخالف تھے اور جیلوں میں بھی بند تھے۔ لیکن1941ء میں جب جرمنی نے سویت روس پر حملہ کر دیا تو جنگ کی ساری صورت حال بدل گئی۔ دوسرے مکتب فکر کا یہ کہنا تھا کہ اب یہ جنگ فاشزم کے خلاف لڑی جا رہی ہے لہٰذا اس جنگ میں حصہ لینا ہر صاحب نظر کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔ فیض صاحب نے بھی کالج کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور برطانوی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں بہ حیثیت کپتان بھرتی ہو گئے۔ کچھ عرصے کے بعد میجر اور پھر کرنل کے عہدے تک پہنچے۔ فوجی ملازمت کے دوران انہیں انگریز فوج کی طرف سے MBE کا خطاب بھی ملا۔ اس خطاب کے حوالے سے ایک بار ڈاکٹر ایوب مرزا نے ان سے بڑی بے تکلفی سے پوچھا:

’’ فیض صاحب یہ کیا فراڈ ہے ؟ کہنے لگے بھئی کون سا فراڈ؟ میں نے کہا یہ ایم بی ای کا فراڈ اور پھر آپ لینن انعام یافتہ بھی ہیں۔ یہ بات کہ دونوں خطاب ایک ہی بشر پر نچھاور کیے جائیں ہماری سمجھ سے باہر ہے انگریز جو سامراجی کیمپ کا اس وقت سرغنہ تھا وہ آپ کو ایم بی ای دے رہا ہے۔ آپ کو یہ قبول کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی اور پھر اس کے بعد آپ لینن انعام بھی لے اڑے۔ فیض بولے بھئی اس میں الجھن کی کوئی بات نہیں ہے ہم نے فوج اس لیے جوائن کی تھی کہ فاشزم کے خلاف سرگرم عمل ہوں لہٰذا وہاں ہم جو مشورے دیتے تھے وہ انگریز سرکار کو پسند آتے تھے اور وہ ان پر عمل کرتے تھے۔ اس کے صلے میں انہوں نے کہا بھئی ہم تمہیں ایم بی ای دیتے ہیں ہم نے کہا دے دو۔ ہم بہت خوش ہوئے۔ ہم نے تو اسے فاشزم کے خلاف اپنی جد و جہد کی کامیابی تصور کیا۔ بھئی علامہ اقبال کو بھی تو سر کا خطاب ملا تھا۔ وہ اس لیے تو نہیں ملا تھا کہ وہ خام بہ دہن وہ انگریزوں کے پٹھو تھے۔ ‘‘ 50؎

اسی زمانے میں شاعروں اور ادیبوں کی ایک پوری کھیپ فوج میں شامل ہو کر دہلی وارد ہو چکی تھی۔ یہ وہی زمانہ ہے جب آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہونے کے باوجود مجاز نے کہا تھا: کرنل نہیں ہوں خان بہادر نہیں ہوں میں۔ یقیناً اس مصرعے کا اشارہ ان تمام اہل قلم کی طرف ہی تھا جو فوجی وردی میں ملبوس تھے اور فیض صاحب کی شخصیت بھی اسی دائرہ تنقید میں آتی تھی۔ اردو شاعروں اور ادیبوں کا ایک بہت بڑا حلقہ فیض صاحب کے برطانوی فوج میں شمولیت سے حیران اور کسی حد تک ناراض بھی تھا۔ اس فضا کا ایک ہلکا سا اندازہ ڈاکٹر عبادت بریلوی کی اس تحریر سے کیا جا سکتا ہے۔

’’ یہ خبر سن کر افسوس بھی ہوا اور کسی حد تک غصہ بھی آیا، اس خیال سے کہ فیض کے ایسے حساس اور لطیف مزاج رکھنے والے شاعر کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مہینوں اس پر لکھنو کے ادبی حلقوں میں بحثیں ہوتی رہیں۔ ترقی پسندوں نے اس کو سراہا اس لیے کہ اس جنگ میں روس بھی شامل تھا اور ان کے لیے یہ جنگ انسانیت کی جنگ ہو گئی تھی لیکن میں اس خیال سے مطابقت پیدا نہ کر سکا اور فیض کی فوجی ملازمت مجھے کچھ اچھی نہیں معلوم ہوئی۔ لیکن پھر ان خیالات سے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انسان مجبور ہوتا ہے، جنگ نے حالات خراب کر دیے ہیں۔ معاشی اور اقتصادی نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ گرانی بڑھ گئی ہے، جینا دو بھر ہو گیا ہے، زیست دشوار ہے، یونیورسٹی اور کالج کی ملازمت میں کیا ملتا ہے۔ ‘‘51؎

یہ تو خیر اس زمانے کی بات ہے لیکن برسوں بعد بلکہ فیض صاحب کے انتقال کے بھی بعد، احمد ندیم قاسمی صاحب نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنا ایک جائز احتجاج یوں رقم کیا ہے۔

’’ انہوں نے برصغیر کی تاریخ کے سفاک ولین، برطانیہ کی فوج میں کرنل کا عہدہ قبول کر کے اپنے چاہنے والوں پر ستم ڈھایا تھا۔ مجھے یہ تو معلوم ہی تھا کہ فیض صاحب ملک کے حاکم انگریز کی فوج میں بھرتی ہو چکے ہیں مگر مجھے اس وقت شدید صدمہ پہنچا جب میں انہیں فوج کے پتہ پر خط لکھنے بیٹھا فیض صاحب کا پتہ یہ تھا:ـ

کرنل فیض احمد فیض۔ ایم بی ای

ڈپٹی ڈائرکٹر، مورال ڈائرکٹوریٹ

جنرل ایڈجونٹ برانچ

جنرل ہیڈ کوارٹرز دہلی

فیض صاحب کے اس عجیب و غریب پتے نے مجھے دنوں تک اداس رکھا میری وہی کیفیت ہو گئی جو دہلی میں جارج پنجم کے جشن تاج پوشی پر علامہ اقبال کے تہنیتی اشعار پڑھ کر مجھ پر طاری ہوئی تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر علامہ اقبال اس زمانے کے سب سے بڑے فرنگی کے حق میں وہ اشعار نہ لکھتے اور فیض صاحب ملک کو محکوم رکھنے والے غیر ملکی حکمرانوں کے ساتھ تعاون نہ فرماتے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا؟‘‘ 52؎

بہرحال اس معاملے میں دو واضح نقطہ نظر پہلے بھی موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں۔ لیکن برطانوی فوج میں شمولیت کے بارے میں فیض صاحب نے جہاں کہیں بھی بات کی ہے یا کوئی انٹرویو دیا ہے تو ان کا نقطہ نظر بالکل واضح تھا۔ اور یہ نقطہ نظر وہی تھا جو دنیا بھر کی ترقی پسند قوتوں نے اپنایا تھا یعنی فاشزم کے خلاف جد و جہد۔ فیض صاحب نے اس جد و جہد میں شامل ہو کر اپنے اس ترقی پسندانہ نقطہ نظر سے مکمل انصاف کیا تھا۔ اپنے ایک خط میں انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

’’ دوسری جنگ عظیم سے پہلے جب یورپ میں ہٹلر اور مسولینی کی قیادت میں نازی اور فاشسٹ تحریکوں نے زور پکڑا تو دنیا بھر کے با شعور دانشور جن میں ہندوستان کے ترقی پسند ادیب بھی شامل تھے۔ وہ سب کے سب اس عالم گیر خطرے کی مخالفت میں کمر بستہ ہوئے۔ لیکن سامراجی طاقتیں برطانیہ اور امریکہ وغیرہ اس طوفان کو روکنے کے بجائے ہٹلر اور مسولینی کو شہ دیتی رہیں۔ فاشزم کا دیو ایک ایک کر کے کمزور ملکوں کو ہڑپ کرنے لگا۔ ایتھوپیا، اسپین، آسٹریا، چیکو سلواکیہ ختم ہو چکے تو ان سامراجی ملکوں کا خیال تھا کہ اب یہ ریلا سویت روس کی جانب رخ کرے گا۔ یہ چال الٹی پڑی اور ان کے گھر کو اپنے ہی چراغ سے آگ لگ گئی۔ شروع شروع میں تو یہ جنگ دو سامراجی طاقتوں کے درمیان تھی اور ہمارا اس سے براہ راست واسطہ نہیں تھا۔ لیکن فاشسٹ فوجیں ادھر مغرب میں یورپ کو تباہ و برباد کرنے کے بعد افریقہ میں یلغار کرتی ہوئی مصر کی سرحد تک آ پہنچیں اور دوسری طرف سویت روس کے بہت سے علاقے کو روند کر قفقاز تک آ پہنچیں۔ ادھر جاپانی فاشسٹ جنگ میں آ دھمکے اور برما کو فتح کر کے ہندوستان کے دروازے پر آ پہنچے تو یہ جنگ ہمارے لیے دور دراز حریفوں کی جنگ نہ رہی بلکہ اس کے شعلوں کی انچ اپنے گھر تک آ گئی تو ہم نے محسوس کیا کہ اب غیر جانب داری ناممکن ہے اور اپنے وطن کے دفاع اور انسانی تہذیب کی بقا کے لیے فاشزم کے خلاف مقدور بھر لڑنا چاہیے۔ چنانچہ اور بہت سے ہم خیال لوگوں کی طرح ہم بھی فوج میں چلے گئے۔ ان دنوں بہت سے کوتاہ اندیش ایشیائی قوم پرست جن میں کانگریس لیڈر بھی شامل تھے اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ جاپانی فوجیں انہیں برطانوی تسلط سے چھٹکارا دلا دیں گی۔ اس لیے جنگ میں اتحادی فوجوں کی حمایت کے بجائے مخالفت کرنی چاہیے۔ ‘‘53؎


دہلی میں ادبی مصروفیات



جس زمانے میں فیض صاحب فوج کی ملازمت کی وجہ سے دہلی میں مقیم تھے اس زمانے میں دہلی میں اردو کی ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں اور بخاری صاحب آل انڈیا ریڈیو کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے یہیں مقیم تھے۔ یہیں فوجی وردیوں میں مولانا چراغ حسن حسرت، راشد، عبدالمجید سالک، ڈاکٹر تاثیر اور حفیظ جالندھری وغیرہ بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف خطوں سے اور بھی بہت سے ادیب اور شاعر یہاں جمع تھے۔ اسی زمانے میں ترقی پسند تحریک بھی اپنے عروج پر تھی اور اس کی حمایت اور مخالفت میں آئے دن کوئی نہ کوئی مناظرہ ہوتا رہتا تھا۔ ایسے ہی ایک مناظرے میں جس میں فیض صاحب نے ترقی پسند ادب کی حمایت میں دلائل دیے تھے۔ سجاد ظہیر نے اس مناظرے کی روداد ایک جگہ بڑی خوبصورتی سے بیان کی ہے۔

یہ غالباً سن46ء کی بات ہے۔ دہلی میونسپل کارپوریشن کا ہال کھچا کھچ بھرا ہے۔ آج یہاں ایک مناظرے کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں ترقی پسندی کے پرخچے اڑنے والے ہیں۔ کرسی صدارت پر سر رضا علی براجمان ہیں۔ ترقی پسند تحریک پر حملے کے لیے دو جوشیلے مقررین اور اس وقت کی بھاری بھر کم ادبی شخصیتیں اپنی آستین چڑھائے ہوئے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر خواجہ محمد شفیع ہیں تو دوسرے ندوۃ المصنفین کے مولوی سعید احمد ہیں۔ ترقی پسندوں کی جانب سے سجاد ظہیر اور فیض صاحب کو بولنا ہے۔ جلسے کے کارروائی شروع ہونے والی ہے اور اب جو سجاد ظہیر کی نظر پڑی تو دیکھا کہ فیض صاحب سیدھے اپنے فوجی ہیڈکوارٹر سے اس جلسے میں چلے آئے ہیں اور وہ بھی لیفٹیننٹ کرنل کی وردی میں ملبوس۔ سجاد ظہیر ایک طرف دلی والوں کے ادبی جوش و خروش کو دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف اپنے یار و مددگار فیض کو فوجی وردی میں ملبوس دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے فیض صاحب سے کہا بھئی یہاں آنے سے پہلے کپڑے تو بدل لیے ہوتے۔ فیض صاحب نے نہایت دھیمے لہجے میں کہا ارے بھئی سب ٹھیک ہے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں ہے۔ دوسری طرف مخالفین کی تقریریں ہیں، تقریریں کیا ہیں ترقی پسندوں پر چوٹوں کا سلسلہ ہے۔ آزاد شاعری کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، زبان کی غلطیاں نکالی جا رہی ہیں، فحاشی کا الزام لگایا جا رہا ہے، دلی والوں کی ٹھیٹھ زبان میں دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ مجمع پر مخالفین کے وار کام کر رہے ہیں اور شور شرابے اور ہنسی مذاق کی اس فضا میں فیض صاحب جوابی تقریر کے لیے آئے۔ سجاد ظہیر کہتے ہیں :

’’ فیض تقریر شروع کرتے ہی مسئلے کی تہہ پر چلے گئے اور مخالفین کے اعتراضات کا براہ راست جواب دینے کی انہوں نے زحمت نہیں کی۔ بلکہ نہایت عالمانہ انداز میں اور بڑی متانت سے یہ ثابت کیا کہ ترقی پسندی ادب میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ سماج میں تبدیلی اور ارتقاء کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی تبدیلی اور ترقی ہوتی ہے۔ اسے روکنے کی کوشش کرنا فضول ہے۔ ترقی پسند ادب کی تحریک ناگزیر ہے۔ البتہ اس کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ فیض کی تقریر میں جوش، طنز یا کسی پر حملے کا انداز بالکل نہیں تھا۔ اس میں روانی، متانت اور درس دینے کی سی کیفیت تھی۔ مجمع نے توجہ اور خاموشی سے ان کی باتیں سنیں۔ نہ قہقہے لگے نہ تالیاں بجیں۔ ‘‘ 54؎

یہ مخصوص شخصیت فیض صاحب کے اصلی شخصیت تھی۔ پہلے تو لوگوں کو یہی حیرت ہوئی ہو گی کہ فیض صاحب کہاں اس مناظرے میں آن پھنسے۔ لیکن بہت جلد لوگوں پر یہ کھل گیا کہ وہ ایک سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ ہر چند کہ وہ مجمع کے نہیں بلکہ تخلیے کے آدمی ہیں لیکن وہ صاحب الرائے بھی تھے۔ وہ گرجنے اور برسنے والے بادلوں کی طرح نہیں بلکہ زمین پر آہستہ آہستہ جذب ہوتے ہوئے پانی کے قطروں کی طرح تھے۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو زندگی میں ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔

دہلی ہی میں فیض صاحب کا ایک اور واقعہ شاہد احمد دہلوی نے رقم کیا ہے۔ اس واقعے سے فیض صاحب کی شخصیت کا ایک اور مضبوط پہلو سامنے آتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ شروع ہی سے ان کی روش عام شاعروں اور ادیبوں سے مختلف تھی۔ روپے پیسے کے معاملات میں ہمیشہ سے ان کا ہاتھ صاف رہا ہے۔ شاہد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کرشن چندر نے مجھ سے ایک ناول لکھنے کے لیے ایک ہزار روپیہ پیشگی مانگا اور کہا کہ وہ کشمیر جا کر ایک مہینے میں ناول لکھ لائیں گے۔ کرشن چندر نے واقعی ایک مہینے کے بعد ناول کا مسودہ ان کے ہاتھ میں لا کر دے دیا جو بعد میں شکست کے نام سے شائع ہوا۔ پیشگی رقم والی بات دہلی میں مقامی اور غیر مقامی سب ہی ادیبوں تک پہنچ گئی۔ اب جسے دیکھو وہ ناول لکھنے کے لیے پیشگی رقم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ شاہد دہلوی صاحب کو پتہ چلا کہ ڈاکٹر تاثیر بھی ناول لکھنا چاہتے ہیں مگر جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فیض صاحب کی طرف بھیج دیا۔ شاہد دہلوی لکھتے ہیں :

’’ میں فوجی دفتر میں فیض صاحب سے ملا بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ بولے چھ سو پیشگی دے دیجئے۔ میں نے وہیں کے وہیں چیک ان کے حوالے کر دیا۔ دو تین مہینے بعد فیض صاحب نے روپیہ واپس کر دیا کہ ناول نہیں لکھا گیا۔ ‘‘ 55؎

شاہد صاحب نے بہت سے ادیبوں کے نام بھی لیے جنہوں نے ان سے پیشگی رقم بھی لے لی اور ناول بھی نہیں لکھا جب کہ فیض صاحب واحد ادیب تھے جنہوں نے ان کی پوری رقم معذرت کے ساتھ واپس کر دی۔ اس طرح یہ پتہ چلتا ہے کہ فیض صاحب روپے پیسے کے لین دین میں کس قدر کھرے تھے۔


نقش فریادی



1941ء میں فیض صاحب کا پہلا شعری مجموعہ ’’ نقش فریادی‘‘ شائع ہوا جس نے اس زمانے کی ادبی فضا میں ایک ہلچل سی مچا دی۔ ارد وکی جدید شاعری میں ایک منفرد آواز تھی۔ اس مجموعے کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس کے دیباچے میں انہوں نے بڑی وضاحت سے لکھا:

’’ اس مجموعے کی اشاعت ایک طرح کا اعتراف شکست ہے۔ شاید اس میں دو چار نظموں کو کتابی صورت میں طبع کروانا ممکن نہیں۔ اصولاً مجھے جب تک انتظار کرنا چاہیے تھا کہ ایسی نظمیں کافی تعداد میں جمع ہو جائیں لیکن یہ انتظار کچھ عبث معلوم ہونے لگا ہے۔ شعر کہنا جرم نہ سہی لیکن بے وجہ شعر لکھتے رہنا ایسی دانش مندی بھی نہیں۔ آج سے کچھ برس پہلے ایک معین جذبہ کے زیر اثر اشعار خود بخود وارد ہوتے تھے لیکن اب مضامین کے لیے تجسس کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں ان نوجوانی کے تجربات کی جڑیں بہت گہری نہیں ہوتیں۔ ہر تجربہ زندگی کے بقیہ نظام سے الگ کیا جا سکتا ہے اور ایک کیمیاوی مرکب کی طرح اس کی ہر ہیئت مطالعہ کی جا سکتی ہے۔ اس منفرد اور معین تجربہ کے لیے کوئی موزوں پیرایہ بیان وضع یا اختیار کر لینا بھی آسان ہے لیکن اب یہ تمام عمل مشکل بھی دکھائی دیتا ہے اور بیکار بھی۔ اول تو تجربات ایسے خلط ملط ہو گئے ہیں کہ انہیں علیحدہ علیحدہ ٹکڑوں میں تقسیم کرنا مشکل ہے۔ پھر ان کی پیچیدگی کو دیانت داری سے ادا کرنے کے لیے کوئی تسلی بخش پیرایہ بیان نہیں ملتا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ تجربات کا قصور نہیں بلکہ شاعر کے ذہن کا عجز ہے۔ ایک کامل اور قادر الکلام شاعر کی طبیعت ان مشکلات کو آسانی سے سر کر لیتی ہے۔ اسے یا تو اظہار کے نئے اسلوب ہاتھ آ جاتے ہیں یا وہ پرانے اسالیب کو کھینچ تان کر اپنے مطالب پر موزوں کر لیتی ہے۔ لیکن ایسے شعراء کی تعداد بہت محدود ہے۔ ہم میں سے بیشتر کی شاعری کسی داخلی یا خارجی محرک کی دست نگر رہتی ہے اور اگر ان محرکات کی شدت میں کمی واقع ہو جائے یا ان کے اظہار کے لیے کوئی سہل راستہ پیش نظر نہ ہو تو یا تجربات کو مسخ کرنا پڑتا ہے یا طریق اظہار کو ذوق اور مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ ایسی صورت حالات پیدا ہونے سے پہلے شاعر کو جو کچھ کہنا ہو کہہ چکے۔ اہل محفل کا شکریہ ادا کرے اور اجازت چاہے۔

اس مجموعے میں نظموں کی ترتیب کم و بیش وہی ہے جس میں لکھی گئی ہیں۔ پہلے حصے میں طالب علمی کے زمانے کی نظمیں ہیں۔ انہیں حذف نہ کرنے کی تجارتی وجہ شروع میں عرض کر چکا ہوں۔ نفسیاتی وجہ یہ ہے کہ ان نظموں میں جس کیفیت کی ترجمانی کی گئی ہے وہ اپنی سطحیت کے باوجود عالمگیر ہے۔ ایک خاص عمر میں ہر کوئی یہی کچھ محسوس کرتا ہے اور اسی انداز سے سوچتا ہے۔ لیکن عام طور سے ان تجربات کا خلوص تمام عمر قائم نہیں رہتا۔ کچھ عرصے کے بعد انسان اپنی ذات کو مرکز دو عالم سمجھنا چھوڑ دیتا ہے اور اسے عالم گیر ظلم اور بے انصافی کے پیش نظر اپنی ذرا ذرا سی ناکامیاں بے حقیقت دکھائی دینے لگتی ہیں۔ اب اسے تجربات کی نئی تراکیب اور اظہار کے نئے فارمولے تلاش کرنے پڑتے ہیں اور یہی وہ دقت ہے جس کی طرف پہلے اشارہ کر چکا ہوں۔ بہرحال ارتکاب گناہ کے بعد معذرت بیکار سی چیز ہے اور ہر مصنف کا حق ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسے مطلق نظر انداز کر دے۔ ان نظموں میں میں نے روایتی اسالیب سے غیر ضروری انحراف مناسب نہیں سمجھا۔ بحور میں کہیں کہیں بہت ہلکا سا تصرف ہے اور قوافی میں دو ایک جگہ صوتی مناسبت کو لفظی صحت پر ترجیح دی گئی ہے اور بس۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ 56؎

فیض صاحب نے اپنے پہلے مجموعے کے دیباچے میں اپنی اس دور کی شاعری کے بارے میں قدرے تفصیل سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ یہ ایک طرح کی رومانی بغاوت تھی جس میں محبت کے جذبے نے ایک انقلابی رخ اختیار کر لیا تھا اور بقول پروفیسر ممتاز حسین:

’’ اس دور میں محبت کا جذبہ، تمام تر جنسی جذبہ نہ رہا بلکہ حسن پرستی یا آدرش پرستی کا بھی ایک جذبہ بن گیا۔ اسی رومانی شاعری کے پس منظر میں فیض نے اپنے ابتدائی دور کی عشقیہ نظمیں لکھیں اور وہ افسون محبت ان میں اس قدر زیادہ رچ بس گیا تھا کہ اگر بائیں بازو کی تحریک نے انہیں متاثر نہ کیا ہوتا تو شاید وہ اسی کے ہو کر رہ جاتے۔ ‘‘ 57؎

بائیں بازو کی اسی تحریک کے زیر اثر نقش فریادی کا دوسرا حصہ دلے بفروختم جانے خریدم کے عنوان سے ان کی اس مشہور نظم سے شروع ہوتا ہے :

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات

تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے

تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے

یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا



راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم

ریشم و اطلس و کمبخواب میں بنوائے ہوئے

جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم

خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے

پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے

اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے

1943ء میں نقش فریادی کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو پبلشر کے کہنے پر فیض صاحب نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ بقول ان کے :

’’ میں چاہتا تھا کہ دوسرا ایڈیشن اس مدت تک روکے رکھوں جب تک پہلے ایڈیشن میں کافی قطع و برید کی گنجائش نکل سکے لیکن پبلشر کہتے ہیں کہ یہ ان کا تجارتی مفاد ہے۔ مجبوراً میں نے چار پانچ نسبتاً زیادہ قابل اعتراض نظمیں حذف کرنے پر اکتفا کی ہے اور قریباً اتنی ہی نئی نظمیں میں نے بڑھا دی ہیں۔ ‘‘ 58؎

فریادی کی اشاعت کے تقریباً تیس سال بعد کراچی میں اس کے پس منظر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فیض صاحب نے کہا:

’’ میں سمجھتا ہوں کہ سن20ء سے سن30ء تک اور سن 30ء سے سن40ء تک کے یہ جو دو ادوار ہیں یا دس دس برس کا عرصہ ہے وہ ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔ ہر لحاظ سے مختلف، ادبی اعتبار سے، جذباتی اعتبار سے، سیاسی اعتبار سے اور لوگوں کے ذہنی مزاج کے اعتبار سے۔ چنانچہ نقش فریادی کے پہلے حصے کی جو نظمیں ہیں وہ سن28ء سے سن34ء یا35ء تک یعنی ہمارے طالب علمی کے زمانے میں لکھی گئی تھیں۔ ان میں سے بیشتر پر پہلے دور کا اثر ہے اور سن35ء کے بعد کی نظمیں جب کہ ہم نے مدرسی شروع کر دی تھی اور جو بیشتر امرتسر میں لکھی گئی تھیں دوسرے دور سے متعلق تھیں۔ ‘‘ 59؎

اس طرح بڑے واضح الفاظ میں فیض صاحب نے اپنی ابتدائی شاعری کے ادوار کو تقسیم کر کے اپنے پڑھنے والوں کے لیے کافی آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔

نقش فریادی میں پہلے دور کی جو غزلیں اور نظمیں ہیں ان میں ایک مسحورکن رومانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس میں عشق کی ہلکی ہلکی آگ پر جلنے کا عمل ہے اور اس عمل کے نتیجے میں جو فضا بنتی ہے وہ ہر اس دل کو متاثر کرتی ہے جو جذبہ محبت سے معمور ہے۔ نوجوانی کے ان دنوں میں محبت کی دنیا ہی زندگی کا محور ہوتی ہے۔ اور جب اس دنیا کے در و بام پر اداسیوں کے چاند کی زرد زرد کرنیں پڑی ہیں تو دل کے تاروں سے پھوٹنے والے نغمے رومانیت کے افسوں کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ نمونے کے طور پر اس دور کی ایک نظم ’’ خدا وہ وقت نہ لائے ‘‘ نقل کی جاتی ہے جس میں پوری نظم کا مخاطب محبوب ہے مگر جن کیفیتوں کا اظہار کیا گیا ہے وہ ذاتی نوعیت کی ہیں۔

خدا وہ وقت نہ لائے

خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو

سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے

تری مسرت پیہم تمام ہو جائے

تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے

غموں سے آئینہ دل گداز ہو تیرا

ہجوم یاس سے بیتاب ہو کے رہ جائے

وفور درد سے سیماب ہو کے رہ جائے

ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے

غرور حسن سراپا نیاز ہو تیرا

طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے

تری نگاہ کسی غم گسار کو ترسے

خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے

کوئی جبیں نہ ترے سنگ آستاں پہ جھکے

کہ جنس عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے

فریب وعدہ فردا پہ اعتماد کرے

خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے

وہ دل کہ تیرے لیے بے قرار اب بھی ہے

وہ آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے

اس نظم کی ہیئت میں کوئی انوکھی یا طے شدہ تبدیلی نہیں نظر آتی لیکن اس میں جذبوں کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ جس طرح قافیوں کی قید سے آزادی حاصل کرتے ہوئے مصرعے تبدیل ہوتے ہیں اس سے ایک تسلسل فکر کا احساس ضرور ملتا ہے۔ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے یہ تبدیلی بھی بڑی تبدیلی تھی اور اس طرح کی بہت سی آزادیوں کو اپنا استحقاق سمجھتے ہوئے ہی فیض نے کہا تھا کہ ان نظموں میں روایتی اسالیب سے کہیں کہیں انحراف کیا گیا ہے۔ اسی طرح فانی، اصغر، حسرت اور جگر کی غزلوں کی معینہ حدود میں فیض کا یہ کہنا: سو رہی ہے گھنے درختوں پر، چاندنی کی تھکی ہوئی آواز: تو یہ اس دور کی اردو غزل کی جمی جمائی بساط کو نئے سرے سے ترتیب دینے کا ایک واضح اعلان تو یقیناً تھا۔ انہی معنوں میں نقش فریادی کو نہ صرف فیض صاحب بلکہ جدید اور ترقی پسند شاعری کے دبستان میں تازہ ہوا کے جھونکے سے تعبیر کیا گیا۔


دہلی سے لاہور واپسی



دوسری جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی اور ہندوستان میں آزادی کی جنگ ایک نئے موڑ پر داخل ہو چکی تھی کہ اب سوائے آزادی کے کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ مسلم لیگ اور کانگریس نے اپنے اپنے راستے تقریباً الگ کر لیے تھے۔ عالمی فاشزم کا خطرہ بھی ٹل چکا تھا ایسے میں فیض صاحب کے نزدیک فوج سے وابستہ رہنا کچھ مناسب نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ فوج کی ملازمت چھوڑ کر واپس لاہور آ جائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے سابق پروفیسر چٹر جی سے دوبارہ کالج میں پڑھانے کی درخواست کی مگر کوئی بات نہیں بنی اور وہ دہلی واپس آ گئے۔

مگر اسی دوران میاں افتخار الدین نے دہلی آ کر فیض صاحب کو پاکستان ٹائمز کی ادارت کی پیش کش کر دی۔ چنانچہ انہوں نے 31دسمبر1946ء کو فوج سے علیحدگی اختیار کر لی اور واپس لاہور آ کر صحافت کی دنیا سے رشتہ جوڑ لیا۔ جہاں سے ان کی زندگی کے ایک نئے اور اہم ترین دور کا آغاز ہوا۔

٭٭٭








پاکستان ٹائمز کی ادارت سے جیل تک


(1951-1947)
پاکستان ٹائمز



اس میں تو کوئی شک نہیں کہ فیض صاحب دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور پھر ہندوستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے فوج کی ملازمت سے سبک دوش ہونا چاہتے تھے لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ فیض صاحب کے لیے پاکستان ٹائمز کی ادارت ایک اچانک خبر کے طور پر ظاہر ہوئی جس کے لیے وہ خود ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ فیض صاحب نے ایک جگہ اس واقعہ کا ذکر یوں کیا ہے :

’’ ایک دن میاں افتخار الدین صاحب ہمارے پاس آئے اور کہا دیکھو ہم لاہور سے پاکستان ٹائمز کے نام سے انگریزی اخبار نکال رہے ہیں اور تمہارا نام چیف ایڈیٹری کے لیے طے پا گیا ہے۔ میں نے کہا میاں صاحب آپ کمال کر رہے ہیں۔ میں نے صحافت میں کبھی قدم نہیں رکھا بھلا اتنا بڑا پرچہ میں کیسے چلا سکتا ہوں ؟ میرا سیدھا سادھا سا جواب سن کر میاں صاحب ناراض ہوئے اور کہا میں کوئی بیوقوف ہوں، تم نے مجھے جاہل سمجھا ہے جو تمہارا نام تجویز کر آیا ہوں ؟ اور اگر نا تجربہ کاری دلیل ہے تو فوج کا تمہیں کہاں تجربہ تھا؟ بس اب فوج سے ریلیز کی درخواست بھیجوا دو اور دو ماہ میں پرچہ سڑکوں پر ہونا چاہیے۔ ‘‘ 60؎

عبداللہ ملک نے اپنی سوانح میں پاکستان ٹائمز کے حوالے سے لکھا:

’’ مئی 1946ء تک پنجاب میں مسلم لیگ کا صحیح ترجمان اخبار ایک بھی نہیں تھا۔ جو ایک دو اردو اخبار مسلم لیگ کی ہمدردی کے دعویدار تھے وہ بھی مسلم لیگ کی نظری اور فکری اساس کو اجاگر کرنے اور پنجاب کی مسلم لیگ کے موقف کو حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے کوئی موثر کردار نہیں ادا کر رہے تھے۔ خصوصاً حکومتی زبان کا کوئی اخبار نہیں تھا۔ چنانچہ پنجاب کے بڑے مسلم لیگی سیاسی رہنماؤں جن کا تعلق جاگیرداری سے تھا اور مسلم لیگ کے ہمدرد صنعت کار اور زمینداروں نے مل کر ایک ایسی پرائیویٹ کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا جس کے تحت انگریزی زبان میں مسلم لیگ کی نظری اور فکری اساس کو پرنٹ میڈیا کے ذریعے اجاگر کیا جائے۔ چنانچہ مئی 1946ء میں پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کے نام سے ایک پرائیویٹ کمپنی قائم کی گئی جس کے سات ڈائریکٹر تھے جن کے نام درج ذیل ہیں 1۔ نواب افتخار حسین ممڈوٹ(صدر پنجاب مسلم لیگ، لیڈر آف پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی)2۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ (جنرل سیکرٹری، پنجاب مسلم لیگ، ممبر پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی)3۔ سردار شوکت حیات (ممبر پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی)4۔ محمد رفیع بٹ (صنعت کار اور بینکر)5۔ ایس اے لطیف (صنعت کار، بٹالہ انجینئرنگ کمپنی)6۔ سید امیر حسین شاہ (زمیندار گجرات)7۔ میاں افتخار الدین (ممبر پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی) اکتوبر1946ء میں میاں افتخار الدین کو اتفاق رائے سے کمپنی کا مینجنگ ڈائریکٹر منتخب کر لیا گیا کیوں کہ ان کے پاس کمپنی کے سب سے زیادہ حصص تھے۔ ‘‘ 61؎

اس طرح پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے زیر اہتمام سب سے پہلے پاکستان ٹائمز لاہور سے نکلنا شروع ہوا پاکستان ٹائمز نکلنا شروع ہوا۔

فیض صاحب میاں افتخار الدین کے پرانے شناسا اور ہم خیال ساتھیوں میں سے تھے لیکن اصل بات یہ بھی تھی کہ میاں صاحب ایک کامیاب بزنس مین اور سمجھ دار انسان تھے۔ وہ فیض صاحب کی قابلیت، انگریزی زبان پر عبور اور ان کے سیاسی ذہن سے پوری طرح آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ان کار کے باوجود انہوں نے بہ اصرار یہ ذمہ داری ان کے سپرد کر دی۔ فیض صاحب نے بھی یہ حق اس قدر خوبی سے نبھایا کہ اس اخبار کے ساتھ ان کا نام لازم و ملزوم بن گیا۔ ان کو جو ذمہ داری سونپی گئی تھی اس کے مطابق4 فروری1947ء کو لاہور کی سڑکوں پر پاکستان ٹائمز کا شمارہ موجود تھا۔

ابتداء میں یہ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ پریس میں چھپتا تھا لیکن جب پاکستان معرض وجود میں آ گیا اور اسی دوران وہاں سے نکلنے والا انگریزی اخبار ٹریبون بند ہو گیا تو میاں افتخار الدین نے اس پریس کو بلڈنگ سمیت خرید لیا۔


امروز اور لیل و نہار



پاکستان ٹائمز کی اشاعت کے تقریباً ایک سال بعد پی پی ایل کا دوسرا پرچہ روزنامہ امروز4 مارچ1948ء کو شائع ہوا۔ امروز لاہور اور کراچی سے نکلتے تھے۔ ان روزناموں کے علاوہ پی پی ایل کی طرف سے 20جنوری1957ء کو لیل و نہار کے نام سے بھی ایک ممتاز ہفت روزہ لاہور سے جاری ہوا۔ اس پرچے کے ابتدائی شماروں پر فیض احمد فیض کا نام مدیر کی حیثیت سے شائع ہوا تاہم چند ماہ بعد ان کا نام چیف ایڈیٹر اور سبط حسن کا نام مدیر کی حیثیت سے منظر عام پر آیا۔ 62؎

فیض صاحب راولپنڈی سازش کیس میں اپنی گرفتاری تک پروگریسو پیپرز لمیٹڈ سے وابستہ رہے اور جیل سے رہا ہونے کے بعد پھر اسی ادارے سے وابستہ ہو گئے تھے لیکن جب ان کی دوسری گرفتاری کے موقعے پر پاکستان میں ایوب خاں کی فوجی حکومت نے یہ ادارہ اپنی تحویل میں لے لیا تو پھر اس اخبار سے وابستہ رہنا ان کے لیے تقریباً ناممکن تھا۔ ہر چند کہ انہیں اس کی ادارت کی پیش کش ہوئی تھی لیکن وہ ان حالات میں اس کے لیے رضا مند نہیں ہوئے۔


فیض بہ حیثیت مدیر



فیض صاحب کی بہ حیثیت صحافی، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بارے میں ان کے ایک رفیق کار اور پاکستان میں انگریزی صحافت کی ایک اہم شخصیت احمد علی خان نے لکھا:

’’ فیض صاحب نے صحافت کے میدان میں اس وقت قدم رکھا جب ملکی صحافت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ تقسیم سے سال بھر پہلے تک برصغیر پاک و ہند میں جہاں کئی کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے کانگریس کے ہم نوا تھے، وہاں صرف تین قابل ذکر انگریزی روزنامے تحریک پاکستان کے حامی تھے۔ ڈان، دہلی سے نکلتا تھا جبکہ اسٹار آف انڈیا اور مارننگ نیوز کلکتے سے نکلتے تھے۔ ان دنوں اس علاقے میں جو اب مغربی پاکستان (اور اب صرف پاکستان) کہلاتا ہے انگریزی کے چار قابل ذکر روزنامے تھے۔ ٹریبیون اور سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور سے شائع ہوتے تھے جب کہ سندھ آبزرور اور ڈیلی گزٹ کراچی سے نکلتے تھے۔ یہ چاروں اخبار غیر مسلموں کے ہاتھوں میں تھے اور ان میں سے کوئی بھی تحریک پاکستان کا حامی نہ تھا۔ 1947ء میں جب میاں افتخار الدین مرحوم نے پاکستان ٹائمز کی بنیاد ڈالی تو گویا دو کام بیک وقت انجام دیے۔ ایک تو تحریک پاکستان کو جو نہایت نازک موڑ پر پہنچ چکی تھی تقویت پہنچائی اور دوسرے نوزائیدہ مملکت کی آئندہ صحافت کی سمت اور معیار کا نشان بھی دیا۔ لفظ پاکستان کے شیدائی پہلے تو اس کے نام ہی پر جھوم اٹھے اور پھر بہت جلد اس اخبار کے صحافتی معیار اور اس کے پر وقار اور متین انداز سے متاثر ہونے لگے۔ فیض صاحب نے جب اس کی ادارت کا بوجھ سنبھالا تو وہ اس ذمہ داری کے لیے نئے تھے لیکن ان میں اس کام کی بنیادی صلاحیتیں موجود تھیں۔ علمی لیاقت، سیاسی ادراک، تاریخ کا شعور، معاشرے کے مسائل کا علم، ادب پر گہری نظر، اور اچھی نظر لکھنے (انگریزی اور اردو) کا سلیقہ اور اپنی ان تمام صلاحیتوں سے انہوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ان کے اداریے اپنی سلاست، شگفتگی اور ادبیت کے باعث ابتداء ہی سے مقبول ہوئے۔ ملک کے سیاسی مسائل پر فیض صاحب کے اداریے وسیع حلقے میں پڑھے اور پسند کیے جاتے تھے۔ ‘‘ 63؎

فیض صاحب کاتا اور لے دوڑے کے راستے پر چلنے کے قائل نہیں تھے۔ شاعری ہو نوکری ہو خطابت ہو یا صحافت ہو غرض یہ کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر وہ جلد باز نہیں رہے۔ ایک طرح سے تکمیلیت پسند شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان کے بیش تر کام ادھورے رہ گئے۔ لیکن اخبار کا معاملہ مختلف ہے اس میں سر پر روزانہ ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ آج کا کام آج ہی ہونا چاہیے ورنہ تو اخبار کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ ان سب ترجیحات کے باوجود یہاں بھی انہوں نے اپنے ہی انداز میں کام نمٹایا۔ ان کے دوست حمید اختر کہتے ہیں :

’’ وہ اپنے اداریے بالعموم شام کی محفلوں کے اختتام پر، پریس میں کمپوزیٹروں کے برابر بیٹھ کر لکھتے تھے۔ موضوع کا انتخاب تو ہمیشہ صبح کو ہی ہو جاتا تھا لیکن پریس والوں کو اداریہ رات کے دس گیارہ بجے سے قبل کبھی نہیں ملتا تھا۔ پاکستان ٹائمز کے عملے کا خیال تھا کہ وہ کام کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے ہیں اور جب فرار کے تمام راستے مسود ہو جاتے ہیں اس وقت اس بوجھ کو اتارتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں اصل میں وہ دن بھر اپنے موضوع کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس دوران غائب دماغی کے مظاہرے بھی کرتے رہتے تھے۔ دن بھر یا شام کو ملنے والے یا محفل میں ساتھ بیٹھنے والے انہیں غیر حاضر پاتے تو شاعر سمجھ کر معاف کر دیتے۔ جبکہ حقیقتاً وہ آخری وقت تک اپنے اداریے کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس کے بعد لکھتے تھے۔ ‘‘ 64؎

سبط حسن نے بھی جو کہ صحافت کی دنیا میں ان کے ساتھ تھے فیض صاحب کی صحافتی خدمات کے حوالے سے لکھا ہے :

’’ فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اخبار نویسی بڑے آن بان سے کی۔ انہوں نے اپنے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف نہیں لکھا بلکہ امن، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی، اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے، گروہ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی انہوں نے اس کی وکالت کی۔ فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہ تھے بلکہ وہ نہایت دلچسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے لے کر پڑھتے تھے۔ ‘‘ 65؎

اس کا ایک سبب ان کی واضح سیاسی سوچ اور مسئلے کو اس کی اصل گہرائی تک جا کر دیکھنے کی صلاحیت تھی۔






آل انڈیا مسلم نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس



ابھی پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا کہ دہلی میں آلا انڈیا مسلم نیوز پیپرز کے مدیروں کی ایک کانفرنس میں فیض صاحب نے پاکستان ٹائمز کے مدیر کی حیثیت سے شرکت کی اور کس طرح کی اس کا احوال روزنامہ جنگ کے مدیر مرحوم سید محمد تقی کے الفاظ میں سنیے :

’’ ململ کا کرتہ اور چپل پہنے ہوئے وہ سارے مجمع میں ممتاز نظر آ رہے تھے۔ انگریز کے عہد میں کسی مسلمان کا انگریزی اخبار کا ایڈیٹر ہونا ایک ناقابل تصور اعزاز کی حیثیت رکھتا تھا۔ پھر یہ بات بطور حقیقت کے مان لی گئی تھی کہ انگریزی اخبار والوں پر انگریزی لباس ہی پھبتا ہے، کالے ہندوستانیوں کا لباس نہیں جچتا۔ کانگریس والے البتہ اس کلیے سے مستثنیٰ تھے جو دھوتیاں باندھے تڑاق پڑاق انگریزی بولا کرتے تھے۔ اس لیے آل انڈیا مسلم نوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس کے احساس کمتری زدہ ماحول میں فیض صاحب کی یہ بدعت میرے ہی نہی بلکہ اور وں کے لیے بھی چوکنا کر دینے کا سبب بنی۔ ‘‘ 66؎

سچی بات تو یہ کہ ان کی یہ مقناطیسی شخصیت زندگی کے ہر شعبے میں لوگوں کو کسی نہ کسی سطح پر ہمیشہ متاثر کرتی رہی۔


پہلی بار زیر حراست



امروز اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جس کی بناء پر فیض صاحب کو پہلی بار تکنیکی بنیادوں پر زیر حراست رکھا گیا۔ اس واقعے کے بارے میں فقیر سید وحید الدین نے لکھا:

’’ ایک خبر کی اشاعت پر لاہور کے ایک پولیس آفیسر کو بہت غصہ آیا۔ بات وارنٹ اور مقدمہ تک پہنچی۔ فیض کو اس وقت کے لاہور کے ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں بلایا گیا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ضابطے کے مطابق ان سے کہا کہ آپ شخصی ضمانت داخل کروا دیں اور چلے جائیں۔ فیض صاحب اس کے لیے بالکل تیار نہ ہوئے۔ اس بات کی اطلاع میاں محمود علی قصوری کو ہوئی تو وہ فوراً فیض صاحب کی پیروی کے لیے ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پہنچے لیکن فیض صاحب نے انہیں بھی شخصی ضمانت دینے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ جب مجھے کسی قسم کی صفائی دینا مطلوب ہی نہیں تو پھر وکالت اور پیروی کیسی؟ معاملے کو رفع دفع کرنے کی غرض سے اس بے چارے ڈپٹی کمشنر نے سرکاری وکیل ہی کے دلائل سننے کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی۔ فیض صاحب نے واپس آ کر امروز میں ایک ایسا اداریہ لکھا جس پر ان کے دستخط بھی تھے۔ ‘‘ 67؎

غالباً اردو صحافت کی تاریخ میں پہلی بار کسی نے اپنے دستخط کے ساتھ اداریہ رقم کیا تھا در اصل اس دستخط کے ذریعے وہ اس اداریے کی تمام کی تمام ذمہ داری اپنے سر لینا چاہتے تھے۔


ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں دلچسپی



فیض صاحب جب صحافت کی دنیا میں آئے تو انہوں نے باقاعدگی سے ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس سے پہلے وہ امرتسر کے قیام کے دوران اس کوچے کی سیر کر چکے تھے۔ اس کوچہ گردی کا احوال انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یوں کیا ہے :

’’ میں نے امرتسر کے صنعتی علاقے میں کام شروع کیا اور مزدوروں کے مسائل میں عملی دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ ان دنوں امرتسر لیبر فیڈریشن کارکن بھی تھا۔ اس فیڈریشن کا آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس سے الحاق ہو چکا تھا۔ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن اسی ٹریڈ یونین کانگریس کی وارث ہے۔ ‘‘ 68؎

لاہور میں اس کی ابتداء صحافیوں کی انجمن سے ہوئی لیکن بعد میں وہ صنعتی مزدوروں کی یونینوں میں بھی شامل ہو گئے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد وہ لاہور ریلوے یونین کے نائب صدر ہونے کے ساتھ ساتھ پوسٹل یونین کے بھی صدر منتخب ہوئے لیکن چونکہ ان کی صحافتی ذمہ داریاں انہیں ہر وقت مصروف رکھتی تھیں اس لیے وہ ان سرگرمیوں کے لیے بہت زیادہ وقت نہیں دے سکے۔ اس کے باوجود پاکستان میں مزدوروں کو متحد اور منظم کرنے کے لیے انہوں نے اپنی کوششوں سے پہلی مرتبہ پاکستان فیڈریشن آف لیبر کے قیام کو ممکن بنانے میں ہر طرح کی مدد کی۔

فیض صاحب جب پوسٹل یونین کے صدر تھے تو ان دنوں انہوں نے یونین کے کاموں میں بڑی دلچسپی لی اس زمانے کے ایک دوست نے جو کہ خود پوسٹ آفس میں ایک سرکاری افسر تھے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہا کہ ’’ فیض صاحب پوسٹل یونین کے مسائل نہایت سلجھے ہوئے انداز میں بیان کرتے تھے۔ نہ طول طویل بحث کرتے، نا ہی غصے میں آتے اور نا ہی کوئی ضمنی بات چھیڑ کر کسی نکتے کو الجھاتے۔ جہاں وہ یونین کے مفاد کے محافظ بن کر گفتگو کرتے وہیں وہ محکمے کی جائز اور واضح مجبوریوں کو یک لخت نظر انداز بھی نہ کرتے جیسا کہ ایسی انجمنوں کے بیشتر لیڈروں کا عام رویہ ہوتا ہے۔ ‘‘ 69؎ فیض صاحب نے ڈاکیوں کی انجمن کی صدارت اس نقطہ نگاہ سے سنبھالی کہ وہ ڈاکیوں کو سب سے زیادہ قابل رحم مخلوق سمجھتے تھے اور انہوں نے بساط سے زیادہ ان کے لیے کام کیا۔ ان کی وکالت کرتے تو کبھی یہ محسوس نہ ہوتا کہ یہ صرف طرف دار ہیں معاملہ فہم نہیں۔ ان سے ڈاک کے افسر بھی خوش رہتے اور ڈاکیے بھی ڈاکیے تو صدارت چھوڑنے کے بہت بعد تک بھی خوش رہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ مرزا ظفر الحسن نے تحریر کیا ہے :

’’ ایک مرتبہ ایلس مری گئیں۔ خط ڈالنے کے لیے ڈاک خانے پہنچیں تو ایک ڈاکیہ کہنے لگا میم صاحب آپ تو انگریز ہیں مگر پاکستانیوں کی طرح ساڑھی کیوں پہنتی ہیں ؟ ایلس نے جواب دیا کیوں کہ میں ایک پاکستانی کی بیوی ہوں میرا نام مسز فیض ہے۔ ڈاکیے نے کچھ سوچ کر کہا مسز فیض یعنی آپ مشہور شاعر فیض صاحب کی بیوی ہیں ؟ ایلس کا جواب سن کر ڈاکیہ کہنے لگا بیگم صاحبہ آپ بہت بڑے آدمی کی بیوی ہی نہیں ہیں بلکہ ایک بہت اچھے آدمی کی بھی بیوی ہیں۔ فیض صاحب تو ہم ڈاکیوں کی انجمن کے صدر رہ چکے ہیں۔ ‘‘ 70؎


انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن



دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے آئی ایل او کی جانب سے سان فرانسسکو میں 1948ء میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فیض صاحب نے پاکستانی مزدوروں کی نمائندگی کی تھی۔ اس کے بعد1949ء میں بھی انہوں نے عالمی ادارہ محنت کے تحت جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ اس طرح انہیں مزدوروں کے مسائل اور ان کے ممکنہ حل سے براہ راست واقفیت حاصل ہوئی اور اس ادارے کی سفارشات کو پاکستان میں رو بہ عمل لانے کے لیے جد و جہد کا بھی موقعہ ملا۔


عالمی امن تحریک



دوسری جنگ عظیم میں ایٹم بم کے استعمال کے بعد سے بائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں نے خصوصیت کے ساتھ دنیا میں مستقل امن کے قیام کی ضرورت پر زور دینا شروع کیا۔ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں انسانوں نے امن عالم کے قیام کے لیے ایک بھرپور تحریک چلائی اور اپنے دستخطوں سے اقوام متحدہ کے با اثر ایوانوں میں اپنی آواز پہنچائی۔ فیض صاحب نے بھی ایک ترقی پسند شاعر، ایک صحافی اور ایک ٹریڈ یونین ورکر کی حیثیت سے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور پاکستان میں اس کی حمایت میں دستخطی مہم چلائی۔ اس کے علاوہ بھی امن عالم کے قیام کے سلسلے میں جو بھی کوششیں پاکستان میں ہوئیں ان میں فیض صاحب کسی نہ کسی طرح شامل رہے ہیں۔ وہ امن عالم کے قیام کو تمام انسانیت کے لیے ضروری سمجھتے تھے اور اس پر ان کا مکمل اعتماد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور پر عالمی امن تحریک سے ہمیشہ وابستہ رہے۔

فیض صاحب کے لیے لننس انعام برائے امن، ان کی اسی خصوصی خدمت اور ان کی مجموعی کارکردگی کی بنا پر دیا گیا تھا اس ضمن میں سبط حسن نے لکھا:

’’ ہماری نئی نسل کو شاید معلوم نہ ہو کہ 1948ء میں جب سویت یونین کی اپیل پر ہر ملک میں امن کمیٹیاں بننے لگیں تاکہ سامراجی طاقتوں کی جنگی تیاریوں کا سد باب کیا جائے تو فیض صاحب پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ آج کل تو وہ حکومتیں بھی امن امن کہتے نہیں تھکتیں جو دن رات ایٹم بم، ایٹمی میزائل اور دوسرے ہلاکت خیز ہتھیار بنانے میں مصروف ہیں مگر اس وقت سامراج نواز ملکوں میں امن کا نام لینا بھی جرم تھا۔ لیکن فیض صاحب نے افسر شاہی کے عتاب کی پرواہ نہ کی۔ وہ امن کمیٹی کی سرگرمیوں میں بڑی پابندی سے شریک ہوتے اور لاہور، اوکاڑہ، گوجرانوالہ، لائل پور، غرض کہ جہاں کہیں امن کمیٹی کا جلسہ ہوتا، اس میں تقریر کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ سامراجی طاقتوں کی جنگی تیاریوں سے نہ صرف دنیا کا امن اور نو آزاد ملکوں کی آزادی ہی خطرے میں ہے بلکہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی عالمی امن کتنا ضروری ہے۔ اپنی تمام تر ادبی اور دیگر مصروفیات کے باوجود وہ ہمیشہ قیام امن کی ہر مہم میں پیش پیش رہے۔ ‘‘ 71؎


آزادی کا تصور



پاکستان کے قیام میں آنے کے بعد سے تقریباً چار سال تک فیض صاحب کی زیادہ تر مصروفیات صحافت، سیاست اور ادب کے ارد گرد گھومتی رہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک نیا نیا وجود میں آیا تھا اور لوگوں کی آنکھوں میں جو خواب تھے ان کی تعبیر کی صورتیں دھندلانے لگیں تھیں۔ اسی زمانے میں فیض صاحب کی وہ معرکۃ الآرا اور کسی حد تک متنازعہ نظم تخلیق ہوئی جس کا عنوان، صبح آزادی تھا۔



صبح آزادی

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہو گا شب ست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل

جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے

چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے

دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے

پکارتی رہیں بانہیں بدن بلاتے رہے

بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن

بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن

سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور

سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام

بدل چکا ہے بہت اہل درد کا ستور

نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام

جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن

کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں

کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی

ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

اس نظم کے بارے میں دائیں بازو اور بائیں بازو والوں دونوں کی طرف سے تنقید ہوئی کیونکہ یہ زمانہ جذباتی ہیجان کا زمانہ تھا خصوصاً پنجاب میں تقسیم کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جس طرح مصائب کا سامنا کرنا پڑا، جس طرح عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں، جس طرح گھر اجڑے، اس المیے کے بارے میں سبھی ادیبوں اور شاعروں نے لکھا مگر ان سب کی نگاہیں صرف تڑپتی اور بلکتی ہوئی انسانیت کے زخموں تک گئیں۔ ان کے یہاں اس کا رونا تو تھا لیکن کوئی علاج نہیں تھا جبکہ فیض صاحب کی نگاہیں مستقبل پر تھیں اور اسی لیے وہ کہہ رہے تھے کہ نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی/چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔ ان کو صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر اسی طرح لوگوں کے جذبات سے کھیلا گیا اور ان کے اصل مسائل کی طرف توجہ نہ دی گئی تو کہیں لاکھوں لوگوں کی قربانیاں رائے گاں نہ ہو جائیں۔ یہ ان کی مستقبل بینی تھی کہ جس نے اہل وطن کو آنے والے خطرات کے بارے میں سوچنے کا کچھ مواد دیا۔ انہوں نے اس نظم میں آزادی کو صرف ایک پہلے مرحلے کے طور پر قبول کیا لیکن اس کی اگلی منزلوں کی طرف بڑھنے کی تلقین بھی کی ہے۔ اس میں بھی زخموں پر مرہم رکھا گیا ہے مگر آزادی کے حصول کے بعد اس کی حفاظت اور اس کی مقصدیت کے پہلو کو بھی سامنے رکھا ہے۔ اس نظم پر تنقید کرنے کے بجائے اسے تو آزادی حاصل ہو جانے کے بعد کا نعرہ بنا لینا چاہیے تھا تاکہ آزادی کی اصل نعمتوں سے سب لوگ فیضیاب ہو سکتے۔ مگر ایسا نہ ہوا اور نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوئی وہ کچھ اتنی خوش کن بھی نہیں نکلی۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ اس کی ایک بین مثال ہے۔

اس نظم پر اعتراض کرنے والوں میں جہاں اور لوگ تھے وہاں علی سردار جعفری نے بھی اس کی اصل روح کو نہیں پہچانا۔ ورنہ وہ یہ نہ کہتے :

’’ یہی بات تو مسلم لیگی لیڈر بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں، کیونکہ انہوں نے پاکستان کے لیے چھ صوبوں کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہیں مغربی پاکستان میں ساڑھے تین صوبے اور مشرقی پاکستان میں پون صوبہ‘‘ اسی طرح جن سنگھی بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’ کیوں کہ اکھنڈ بھارت نہیں ملا جسے وہ بھارت ورش اور آریہ ورت بنانے والے تھے۔ ‘‘72؎

لہٰذا یہ وہ سحر تو نہیں ہے جسے آزادی کی سحر کہا جائے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر ایک بات ضرور ہے کہ اس نظم میں کچھ ایسی سچائی تھی کہ ہندوستان اور پاکستان خصوصاً پاکستان کے سیاسی پس منظر میں یہ نظم کبھی بے تعلق نہیں ہوئی۔ کسی نہ کسی حوالے سے کسی نہ کسی دور میں کہیں نہ کہیں اس کا ذکر ضرور آیا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے بالکل ٹھیک کہا تھا:

’’ صبح آزادی‘‘ اس دور کی نظموں ہی میں نہیں شاید فیض کے پورے کلام میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور سب سے زیادہ زیر بحث بھی رہی ہے۔ اس نظم میں پہلی دفعہ فیض کے ہاں ایک مایوس پکار سنی جا سکتی ہے۔ بات یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر برصغیر کی آزادی تو بہرحال متوقع تھی مگر ہمارے ہاں کے ترقی پسند حلقوں نے اس کے ساتھ جمہوری انقلاب کی بھی امید لگا رکھی تھی۔ فیض کی اب تک کی شاعری میں جو صبح ہونے ہی کو ہے اے دل بیتاب ٹھہر کی لے بار بار ابھرتی تھی تو اس کی بنیاد بھی یہی تھی۔ ہوا یہ کہ آزادی تو آئی مگر انقلاب نہیں آیا بلکہ آزادی اپنے ساتھ ایک ہنگامہ نشور لائی، کشت و خون اور شکست و ریخت کا وہ بازار گرم ہوا کہ انسان اپنی انسانیت بھول گیا۔ 73؎

یہ جو انسان اپنی انسانیت بھول گیا تو اس کے دکھ کی تہیں بھی تو اس نظم میں نظر آتی ہیں لیکن اس کے لیے کھلے دل، ذہن اور روشن ضمیر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر شارب روولوی کے اس تجزیے کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے :

’’ فیض کی مشہور نظم یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر کے سیاسی پس منظر سے سب ہی واقف ہیں۔ یہ نظم فیض کی حسن کاری اور اظہار ذات پر قدرت کی بہت اچھی مثال ہے۔ جس میں ایک وقتی اور ہنگامی موضوع، تاثر یا جذبے کو اس طرح کے الفاظ اور استعارات میں پیش کیا گیا ہے کہ وہ وقت اور زمانے کی قید سے آزاد ہو کر لازوال ہو گیا ہے۔ 40 سال بعد بھی یہ نظم اتنی ہی متعلقہ، اتنی ہی پر تاثیر اور اتنی ہی خوب صورت ہے جتنی ان حالات میں تھی۔ اس لیے کہ فیض نے ایک وقتی موضوع کو زندگی کا موضوع بنا کر پیش کیا ہے۔ ‘‘ 74؎

فیض صاحب کے رفیق زنداں میجر محمد اسحاق لکھتے ہیں :

’’ 1947ء کے فسادات کا زمانہ فیض صاحب نے لاہور میں گزارا تھا۔ انہی دنوں وہ مشرقی پنجاب بھی ہو آئے تھے۔ طرفین کے بہادروں اور سوربیروں نے جس طور پر انسانیت کو ذلیل کیا تھا اس کا آنکھوں دیکھا حال اکثر سنایا کرتے تھے۔ بیان کرتے کرتے رقت طاری ہو جاتی اور رک جاتے۔ میرے خیال میں وہ اتنے بڑے پیمانے پر اس تفصیل سے اس ہولناک خانہ جنگی کو دیکھنے پر مجبور رہے ہیں کہ شعروں میں اس کو لانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے کہ وقت پر وہ ناول یا ڈرامے کے ذریعے پنجاب کی اس ٹریجڈی کو بیان کریں۔ پنجاب کی سر زمین یوں تو ہزاروں سالوں سے حملہ آوروں کی تاخت و تاراج کا شکار رہی ہے شاید ہی یہاں کی کوئی نسل ایسی گزری ہو گی جس نے غیر ملکی گھوڑوں کے سموں کی ٹاپ نہ سنی ہو لیکن ان حملہ آوروں میں سے اکثر بگولے کی طرح آتے تھے اور آندھی کی طرح گزر جاتے تھے۔ تلوار کے سائے تلے جینے کی ذلت کچھ نہیں ہوتی۔ 1947ء میں جس طرح پنجابیوں نے پنجابیوں کو ذلیل و خوار کیا، تمام حملہ آوروں نے مل کر بھی نہیں کیا ہو گا۔ ‘‘ 75؎

یہی وہ انسانیت سوز منظر تھا جس نے لوگوں کی آنکھوں سے حقیقی آزادی کے تصور کو کچھ دھندلا دیا تھا اور فیض صاحب نے صبح آزادی میں اسی لیے اپنے لوگوں کو پیغام دیا تھا کہ ابھی غموں اور دکھوں سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے اور نا ابھی اس کی کوئی منزل آئی ہے لہٰذا ابھی حصول منزل کی جد و جہد کو اپنی نگاہوں میں رکھنا ہے۔


کل پاکستان ترقی پسند مصنفین کانفرنس



نومبر1949ء میں جن دنوں فیض صاحب لاہور میں پاکستان ٹائمز کے مدیر تھے انہی دنوں انجمن ترقی پسند مصنفین کی کل پاکستان کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ لاہور کانفرنس کے بارے میں اپنی کتاب ’’ مہ و سال آشنائی‘‘ میں فیض صاحب نے لکھا:

’’ 1949ء ستمبر یا اکتوبر کا مہینہ تھا ہم لوگ لاہور میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس کی تیاری کر رہے تھے۔ کسی نے کہا کیوں نہ سویٹ ادیبوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے۔ سویٹ یونین سے پاکستان کے سفارتی تعلقات تو کافی دن پہلے قائم ہو چکے تھے لیکن ابھی تک آپس میں میل جول کا کوئی سلسلہ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے یہ توقع تو نہیں تھی کہ وہاں سے کوئی آئے گا۔ محض اظہار دوستی کے لیے دعوت نامہ بھجوا دیا گیا۔ اور جب ہمیں ایک دن تار ملا کہ روسیوں کا وفد لاہور کے لیے روانہ ہو چکا ہے تو کچھ خوشی ہوئی کچھ تعجب بھی۔ یہ لوگ کانفرنس کے دوران نہ پہنچ سکے۔ دو چار روز کے بعد آئے جو شاید ایک طریقے سے اچھا ہی ہوا کیوں کہ کانفرنس کے آنری اجلاس میں کچھ ناسمجھ لوگوں نے ہنگامہ کرنے کی کوشش کی تھی اور کچھ مار پیٹ بھی ہوئی۔ جلسے کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن اگر باہر کے مہمان موجود ہوتے تو ضرور برا لگتا۔ مقررہ وقت پر ہم لوگ لاہور کے پرانے ائیر پورٹ پر مہمانوں کو لینے پہنچے۔ میاں افتخار الدین، سی آر اسلم، احمد ندیم قاسمی، مظہر علی خان اور ان کی بیگم طاہرہ صفدر میر، عبداللہ ملک، حمید اختر اور دوسرے دوست موجود تھے۔ ‘‘ 76؎

فیض صاحب کے اس بیان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کانفرنس میں پوری طرح فعال و متحرک تھے لیکن احمد ندیم قاسمی صاحب نے اپنی کتاب میرے ہم سفر میں کچھ اس سے مختلف تصویر پینٹ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے :

’’ فیض صاحب کی ترقی پسندی تو کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی مگر ترقی پسندوں کی سرگرمیوں میں وہ بھرپور دلچسپی کم ہی لیتے تھے جس کی ان سے توقع کی جاتی تھی۔ جب نومبر1949ء کی کانفرنس کے سلسلے میں انجمن کے نئے منشور اور کانفرنس میں پیش کی جانے والی قرار دادوں پر بحث مباحثے کے لیے ترقی پسند مصنفین بیٹھتے تھے تو فیض صاحب ان محفلوں میں شاذ ہی شرکت کرتے تھے۔ اسی کانفرنس میں اس قرار داد کو بھی پیش ہونا تھا جس کا مضمون غیر ترقی پسند ادیبوں کے بائیکاٹ پر مشتمل تھا اور وہ مفصل منشور بھی منظور ہونا تھا جو انتہا پسندی کا شاہکار تھا۔ مگر فیض صاحب نے ان میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ البتہ جب کانفرنس کے اجلاسوں کے لیے کسی ایک صدر کے بجائے ایک پریذیڈیم کا فیصلہ ہوا تو فیض صاحب مان گئے اور وہ کانفرنس کی سب نشستوں میں مطلبی فرید آبادی، ممتاز حسین، فارغ بخاری، ریاض روفی اور میرے پہلو بہ پہلو بیٹھتے رہے۔ ‘‘ 77؎

فیض صاحب کے بارے میں احمد ندیم قاسمی صاحب کے یہ ذاتی مشاہدات ہیں اور یہ بھی ایک نقطہ، نظر ہے لیکن میرے خیال میں ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں پریذیڈیم پر اگر مطلبی فرید آبادی، ممتاز حسین، فارغ بخاری اور ریاض روفی کو بیٹھنے کا حق تھا تو فیض صاحب تو بہرحال ان تمام لوگوں سے زیادہ مستحق تھے۔ رہا یہ سوال کہ انہوں نے کوئی سرگرم کردار نہیں ادا کیا تو بے شک یہ پہلو فیض صاحب کی شخصیت سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی شخصیت کی ساخت ہی کچھ ایسی تھی کہ اس میں تیز تیز بولنا، آگے بڑھ بڑھ کر اور وں سے مناظرہ کرنا، اپنی بات منوانے کے لیے زور زور سے دلائل وغیرہ دینا یہ سب چیزیں ان کی شخصیت سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک سست روی اور کاہل پن بھی ان کے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس رویے پر لوگوں نے جن میں دوست اور دشمن سب ہی شامل ہیں۔ تنقید ضرور کی ہے اور اس میں قاسمی صاحب اکیلے نہیں ہیں۔ یہ جو مجاز نے فیض صاحب کو کاہل کے بجائے بحر الکاہل کا لقب دیا تھا تو یہ بھی ان کی شخصیت کے اس پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔

بہرحال ترقی پسند مصنفین کی یہ کانفرنس لاہور کے اوپن تھیٹر میں ہوئی اور بہت کامیاب ہوئی۔ مخالفین نے اس میں ہنگامہ بھی کیا مگر کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کانفرنس میں فیض صاحب نے اپنی قوالی نما نظم سر مقتل سنائی۔

سر مقتل (قوالی)



کہاں ہے منزل راہ تمنا ہم بھی دیکھیں گے

یہ شب ہم پر بھی گزرے گی یہ فردا ہم بھی دیکھیں گے

ٹھہر اے دل جمال روئے زیبا ہم بھی دیکھیں گے

ذرا صیقل تو ہولے تشنگی بادہ گساروں کی

دبا رکھیں گے کب تک جوش صہبا ہم بھی دیکھیں گے

اٹھا رکھیں گے کب تک جام و مینا ہم بھی دیکھیں گے

صلا آ تو چکے محفل میں اس کوئے ملامت سے

کسے روکے گا شور پند بے جا ہم بھی دیکھیں گے

کسے ہے جا کے لوٹ آنے کا یارا ہم بھی دیکھیں گے

چلے ہیں جان و ایماں آزمانے آج دل والے

وہ لائیں لشکر اغیار و اعدا ہم بھی دیکھیں گے

وہ آئیں تو سر مقتل تماشا ہم بھی دیکھیں گے

یہ شب کی آخری ساعت گراں کیسی بھی ہو ہمدم

جو اس ساعت میں پنہاں ہے اجالا ہم بھی دیکھیں گے

جو فرق صبح پر چمکے گا تارا ہم بھی دیکھیں گے

لاہور میں ہونے والی اس کانفرنس کے کچھ ہی دنوں بعد حکومت کی طرف سے انجمن ترقی پسند مصنفین کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں جو اہل قلم سرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں ملازم تھے ان پر ایک طرح سے پابندی لگ گئی کہ وہ اس میں شریک نہ ہوں۔ ترقی پسند مصنفین نے اس پر سخت احتجاج کیا اور اس سلسلے میں ایک دستخطی مہم بھی شروع کی گئی جس کے ایک محرک فیض صاحب بھی تھے۔

ترقی پسند مصنفین کی انجمن کو ایک سیاسی جماعت قرار دیے جانے پر رفیق چودھری نے اپنی یاد داشتوں، میری دنیا، میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے :

’’ حکومت کے اس اعلان کے ساتھ ہی ڈائریکٹر محکمہ زراعت حکومت پنجاب نے یہ کہہ کر انجمن کا ایک سو روپیہ ضبط کر لیا کہ لاہور کے اوپن ائیر تھیٹر میں ایک ادبی کانفرنس کے انعقاد کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن یہ کانفرنس ادبی نہیں بلکہ سیاسی تھی اور یہ باغ جناح کے آئین و ضوابط کی خلاف ورزی تھی۔ ‘‘ 78؎

یعنی حکومت کی نظر میں یہ پہلے ہی طے پا چکا تھا کہ یہ تنظیم ادبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ اسی دوران فیض صاحب انجمن ترقی پسند مصنفین کی تنظیمی سرگرمیوں سے کسی قدر لاتعلق سے ہو گئے تھے۔ تحریک کے مخالفین نے یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ وہ ان دنوں اس سے علیحدہ ہو گئے ہیں۔ لیکن خود فیض صاحب نے ہمیشہ اس سے ان کار کیا۔ کینیڈا میں دیے جانے والے ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ تو 1949ء میں اس سے علیحدہ ہو گئے تھے ؟ تو فیض صاحب نے سوال کرنے والے کو وہیں پر روک کر کہا:

’’ نہیں ہم علیحدہ اس طریقے سے نہیں ہوئے تھے۔ صرف یہ ہے کہ جن چیزوں سے ہمیں اتفاق نہیں تھا ان کے بارے میں ہم نے خاموشی اختیار کر لی کہ ہم اس کے قائل نہیں ہیں۔ اس زمانے میں یہ ہوا تھا کہ پہلے علامہ اقبال کے متعلق کچھ غلط تفسیریں کی گئیں، یا منٹو، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی اور ن م ر اشد کے متعلق ہماری رائے میں غلط رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ اس وجہ سے ہم نے علیحدگی تو اختیار نہیں کی تھی کہ بنیادی طور پر تو تحریک صحیح ہے۔ یہ فرو عادت ہیں، جس حد تک اختلاف تھا اس حد تک ہم نے اس میں شریک ہونے سے ان کار کیا لیکن تحریک سے تو ہم نے کبھی علیحدگی اختیار نہیں کی تھی۔ ‘‘ 79؎

در اصل فیض صاحب کے یہاں تحریک اور تنظیم کا فرق ہمیشہ سے بہت واضح رہا ہے۔ مختلف موقعوں پر ان کے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں نے گفتگو اس طرح شروع کی ہے جیسے یہ بات تو طے ہو چکی ہے کہ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے الگ ہو چکے ہیں اور پھر اس کے بعد کوئی اور سوال کیا ہے۔ فیض صاحب نے جو خود بھی صحافت کی دنیا سے وابستہ رہ چکے تھے کبھی بھی کم از کم اس منزل پر خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ اس کی تردید بڑے واضح انداز میں کی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا نہ کرنے کے بارے میں فیض صاحب نے جو یہ کہا کہ اس کی نشستوں میں انتہا پسندی نمایاں ہونے لگی تھی خصوصاً علامہ اقبال پر تنقید کا انہوں نے بہت نوٹس لیا تھا۔ تو اس سلسلے میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا بھی نقطہ نظر پیش نظر رہنا چاہیے۔ قاسمی صاحب کے بقول ان دنوں لاہور میں :

’’ انجمن کے ہفتہ واری تنقیدی اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوتے تھے۔ میں نے ایک اجلاس میں علامہ اقبال پر ایک مفصل مضمون پڑھا جس میں علامہ کی سامراج دشمنی، ملائیت دشمنی اور جاگیردارانہ معیشت کی واضح مخالفت کے اعتراف و تحسین کے ساتھ ہی علامہ کے بعض پہلوؤں پر گرفت بھی کی تھی۔ اتفاق سے فیض اس اجلاس میں موجود تھے۔ میرے مضمون کے ختم ہوتے ہی وہ ناگواری بلکہ غصے کے واضح تیوروں کے ساتھ بولے اور میرے مضمون کے اس حصے کی شدید مخالفت کی جس میں میں نے علامہ کی بعض سرگرمیوں پر گرفت کی تھی۔ ان کی مخالفت تو مبارک تھی مگر مجھے عمر بھر یہ افسوس رہا کہ فیض صاحب نے میرے دو تین اعتراضات کا کوئی جواب دینے کی زحمت نہ کی بلکہ زیادہ زور اس نکتے پر دیتے رہے کہ شعر و ادب کی بڑی شخصیتوں کی مثبت کارکردگی کے اعتراف کے بعد ان کی بعض منفی سرگرمیوں کو نظر انداز کر دینا ہی مناسب ہوتا ہے۔ ‘‘ 80؎

فیض صاحب کا درگزر کا رویہ اپنی جگہ لیکن میرے خیال میں اس منزل پر احمد ندیم قاسمی صاحب کی بات میں زیادہ وزن نظر آتا ہے۔ یقیناً فیض صاحب کو ان اعتراضات کا جواب دینا چاہیے تھا کیوں کہ اس طرح تو ایک علمی بحث کا راستہ کھل جاتا۔

٭٭٭








پس دیوار زنداں
(1955-1951)


راولپنڈی سازش کا انکشاف



9مارچ1951ء کو پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے ہنگامی حالات میں ریڈیو پاکستان سے تقریر کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا:

’’ ابھی ذرا دیر پہلے پاکستان کے دشمنوں کی تیار کردہ ایک سازش پکڑی گئی ہے۔ اس سازش کا مقصد یہ تھا کہ تشدد کے ذریعے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلائی جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کی دفاعی فوجوں کی وفاداری ختم کر دی جائے۔ حکومت کو اس سازش کا بروقت علم ہو گیا چنانچہ آج سازش کے سرغنہ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا جن میں میجر جنرل اکبر خاں، چیف آف دی جنرل اسٹاف، بریگیڈیر ایم اے لطیف بریگیڈ کمانڈ کوئٹہ، مسٹر فیض احمد فیض ایڈیٹر پاکستان ٹائمز اور بیگم اکبر خاں شامل ہیں۔ سازش میں شریک دونوں فوجی افسروں کو فوراً خدمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ سازش جڑیں پکڑنے سے پیشتر منکشف ہو گئی۔ یقیناً میری طرح پاکستان کے عوام کو بھی سازش کی اس اطلاع سے بیحد صدمہ پہنچے گا لیکن مجھے یقین ہے کہ عوام اچھی طرح محسوس کریں گے کہ قومی تحفظ کے وجوہ کی بنا پر میرے لیے یہ بتانا نا ممکن ہے کہ جو لوگ سازش میں شریک تھے ان کی اسکیم کی تفصیل کیا ہے۔ میرے لیے محض اس قدر بتا دینا کافی ہو گا کہ یہ لوگ اگر کامیاب ہو جاتے تو ان کی کارستانی کی ضرب براہ راست ہمارے قومی وجود کی بنیادوں پر پڑتی اور پاکستان کا استحکام معرض خطر میں پڑ جاتا۔ ‘‘81؎

وزیر اعظم کی اس تقریر کے بعد پورے ملک میں ہنگامی صورت حال پیدا ہو گئی ہر جگہ اسی کا چرچا تھا۔ اخبارات، مختلف سیاسی جماعتیں اور دیگر سیاسی اور سماجی ادارے اس واقعہ کی مکمل تفتیش اور الزام ثابت ہو جانے کی صورت میں سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کر رہے تھے۔ چنانچہ پاکستان کی اس وقت کی مجلس قانون ساز اسمبلی نے 21مارچ1951ء کو راولپنڈی سازش کیس ایکٹ پاس کیا جس کے تحت عدالت عالیہ کے تین ججوں پر مشتمل ایک ٹریبیونل قائم کیا گیا جس نے بالآخر گرفتار شدگان کو سزا سنا دی۔

یہ عجیب فوجی بغاوت تھی کہ اس کا علم خود فوج کے کمانڈر انچیف کو بھی نہیں تھا۔ بقول جنرل ایوب خاں مجھے تو اس سازش کا علم وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ہوا82؎ یعنی اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا والی بات صادق آتی ہے۔

اس مقدمے کے سلسلے میں خود فیض صاحب کا بیان یوں ہے :

’’ چونکہ ہم فوج میں رہ چکے تھے اس لیے بہت سے فوجی افسر ہمارے دوست تھے۔ ان سے ہمارے ذاتی مراسم تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن سے ہمارے سیاسی نظریات ہم آہنگ تھے۔ قصہ صرف اتنا تھا کہ ہم لوگوں نے ایک دن بیٹھ کر بات کی کہ اس ملک میں کیا ہونا چاہیے ؟ کس طریقے سے یہاں کے حالات بہتر بنائے جائیں ؟ ملک کو بنے ہوئے چار پانچ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اور نہ یہاں آئین بنا تھا نہ سیاست کا ڈھانچہ ٹھیک طرح سے منظم ہوا تھا۔ ملک کی بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہ لیاقت علی خاں تھے۔ کشمیر کا قصہ بھی تھا۔ غرض یہ کہ اس طرح کے مسائل تھے جن پر عموماً گفتگو رہتی تھی۔ چونکہ ان دوستوں سے ذاتی مراسم تھے اس لیے ہم بھی ان کی گفتگو میں شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے خود ہی ساری منصوبہ بندی کی اور ہم سے کہا، ہماری بات سنیے، ہم نے ان کی بات سن لی، پھر انہوں نے خود ہی فیصلہ کیا کہ حکومت کا تختہ نہیں الٹنا چاہیے۔ لیکن ہم پر مقدمہ اس کے برعکس بنایا گیا۔ ‘‘ 83؎

اس طرح ایک بات تو بہرحال ثابت ہے کہ راولپنڈی سازش کیس کی جو بھی نوعیت رہی ہو اس میں میجر جنرل اکبر خان اور ان کی بیگم کے ساتھ فیض صاحب کا رابطہ بہرحال تھا ار اسی خصوصی تعلق کی بناء پر اس سازش کیس میں ان کا بھی نام آیا۔ 84؎ خود فیض صاحب نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ملکی حالات پر بہت سے مسلح افواج کے افسروں سے ان کا رابطہ تھا اور کسی ایک خاص موقعے پر میجر جنرل اکبر خان نے ایکشن پلان بنایا بھی تھا مگر اس پر عمل درآمد کا فیصلہ نہیں ہوا۔ اسی بناء پر راولپنڈی سازش کیس کے تمام ملزمان نے کسی بھی قسم کے جرم کا اعتراف نہیں کیا۔ لیکن اس کے پس منظر میں عالمی طاقتوں کے کھیل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخی محقق عائشہ جلال کے بقول:

’’ امریکہ نواز پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان میں کمیونزم کا اندیشہ تھا چنانچہ اس کو روکنے کے لیے اور پاکستانی فوج میں ابھرتے ہوئے قومی جذبے کو ختم کرنے کے لیے جس قسم کا بہانہ چاہیے تھا وہ اس سازش کے ذریعے ان کے ہاتھ آ گیا‘‘ 85؎

پاکستان میں رونما ہونے والے بعد کے سیاسی حالات و واقعات اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بعد ہی حکومتی اداروں میں مسلح افواج کے سربراہ کا کردار آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جنرل ایوب خان کی سیاسی کابینہ میں شمولیت اس کا پہلا قدم تھا اور آخری قدم ملک میں مارشل کے نفاذ کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کے حالات نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ کس طرح آہستہ آہستہ جمہوریت کے پودے نے ہمارے ملک میں مرجھانا شروع کر دیا۔


سازش کیس میں گرفتاری



فیض صاحب کی گرفتاری کی پہلی شاہد، ایلس فیض نے 8اور 9مارچ1951ء کی درمیانی شب کا واقعہ یوں بیان کیا ہے :

’’ رات کے دو بجے کا وقت ہو گا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے کمرے کی کھڑکی کے شیشوں پر ٹارچ کی روشنی پڑ رہی ہے جو کبھی بجھ جاتی ہے اور کبھی دائیں بائیں حرکت کرتی معلوم ہوتی ہے۔ میں بستر سے اٹھی اور کھڑکی کھول کر نیچے دیکھا۔ نیم تاریکی مںے مجھے متعدد آدمی کھڑے اور سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہوئے معلوم ہوئے۔ ان میں سے اکثر رائفلوں، بندوقوں اور پستولوں سے مسلح تھے۔ ٹارچ کی روشنی چمکی تو پولیس کی وردیاں نمایاں طور پر نظر آ گئیں۔ میں نے کھڑکی بند کی اور فیض کو جگایا اور صورت حال واضح کی۔ ان سے پولیس کی اس بے وقت آمد کا سبب پوچھا۔ مسکرا کر کہنے لگے ہم اخبار نویسوں کے گھروں کی آئے دن تلاشیاں ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی قصہ ہو گا۔ تلاش کے ذکر سے مجھے یاد آ گیا کہ ہماری الماری میں ایک دو بیئر کی بوتلیں رکھی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تلاش کے دوران پکڑی جائیں اور خواہ مخواہ کسی ضابطہ آبکاری کے تحت دھر لیے جائیں میں نے دونوں بوتلیں نکالیں اور مکان کی پشت کی جانب نیچے پھینک دیں۔ بوتلوں کے ٹوٹنے سے جو دھماکہ ہوا تو پولیس کے جوان گھبراہٹ میں پیچھے بھاگے۔ نہ جانے انہیں اس دھماکے سے کیا شبہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی، فیض نے جا کر دروازہ کھولا۔ پولیس کے چند اعلیٰ افسر موجود تھے انہوں نے فیض کی گرفتاری اور تلاش کے وارنٹ دکھلائے۔ تلاشی شروع ہو گئی۔ گھر کا کونہ کونہ دیکھا گیا، کپڑوں کے بکس، کتابوں کی الماریاں، اخبارات اور رسائل کی فائل، غرض ہر چیز زیرو زبر کر کے رکھ دی۔ بڑی دیر کے بعد اس کام سے فارغ ہوئے تو فیض کو تیار ہونے کے لیے کہا۔ انہوں نے منہ دھو کر کپڑے بدلے اور مسکراتے ہوئے ان کے ہمراہ چل دیے۔ میری پریشانی دیکھ کر کہنے لگے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے کسی سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے کوتوالی میں طلب کیا ہے ڈیڑھ دو گھنٹے میں لوٹ آؤں گا۔ ‘‘ 86؎

مگر ہوا یوں کہ یہ ڈیڑھ دو گھنٹے فیض صاحب کی زندگی میں خاصے طویل آزما ہوتے چلے گئے اور انہیں زنداں کی دیواروں کے پیچھے اپنی آزادی کا برسوں انتظار کرنا پڑا۔






جیل کے شب و روز



فیض صاحب کے جیل میں گزرے ہوئے شب و روز کی سب سے زیادہ تفصیلی اور معتبر روداد ان خطوں سے معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے ایلس کے نام جیل سے لکھے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے وہ انٹرویو جو انہوں نے جیل سے رہائی کے بعد مختلف موقعوں پر دیے ہیں یا پھر ایک اور بڑا ذریعہ وہ یاد داشتیں اور روزنامچے ہیں جو ان کے ساتھی قیدیوں کی جانب سے تحریر کیے گئے ہیں جن میں سرفہرست سجاد ظہیر اور میجر اسحاق کے نام آتے ہیں۔

اس زمانے کی یادداشتوں کا ایک مختصر مگر بہت خوبصورت اظہار میجر محمد اسحاق کے مضمون روداد قفس میں بھی ملتا ہے جو فیض صاحب کے تیسرے مجموعہ کلام ’’ زنداں نامہ‘‘ کے دیباچے کے طور پر تحریر کیا گیا تھا۔ میجر اسحاق لکھتے ہیں :

’’ میں کچھ مہینے کم چار سال دن رات فیض کے ساتھ رہا ہوں۔ یہ طویل عرصہ ہم نے جیل کے ایک ہی احاطے میں ملحقہ کوٹھریوں میں گزارا ہے۔ سینکڑوں مرتبہ صبح سویرے سب سے پہلے ایک دوسرے کے منہ لگے ہیں، اپنی خوشیاں اور غم باہم بانٹنے پر مجبور رہے۔ جیل کے باہر آدمی سینکڑوں لوگوں کو روزانہ ملتا ہے۔ ملتا نہ بھی ہو دیکھ ضرور لیتا ہے۔ کئی قسم کی آوازیں سنتا ہے، بیسیوں مناظر سے واسطہ پڑتا ہے۔ کسی سے نفرت ہے تو کترا کے نکل سکتا ہے۔ کسی سے محبت ہے تو ملاقات کی راہیں ڈھونڈ لیتا ہے یا ان کی تلاش میں جی بہلا لیتا ہے۔ جیل میں آدمی کی مرضی اس سے چھین لی جاتی ہے اور اس کی نقل و حرکت محدود کر دی جاتی ہے۔ وہاں کی کائنات دو چار قیدی، دو چار پہریدار، کچھ کوٹھری کچھ دیواریں، ایک آدھ درخت، ایک دو گلہریاں، نصف درجن کے قریب چھپکلیاں اور کچھ کوے اور دوسرے پرندے ہوتے ہیں، جن میں مہینوں بلکہ سالوں تک تبدیلی نہیں آتی۔ مجھے اس چھوٹی سید نیا میں فیض صاحب کے ساتھ مسلسل چار سال تک رہنے کا موقعہ ملا ہے۔

اس عرصے میں وہ پہلے تین مہینے سرگودھا اور لائل پور کی جیلوں میں قید تنہائی میں رہے۔ اس کے بعد جولائی 53ء تک حیدر آباد جیل میں راولپنڈی سازش کیس کے باقی اسیروں کے ساتھ رہے۔ جولائی 53ء میں ہم سب کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بانٹ کر لاہور، منٹگمری، مچھ اور حیدر آباد کی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ فیض صاحب کے لیے میرے اور کیپٹن خضر حیات کے ہمراہ منٹگمری سنٹرل جیل کا انتخاب کیا گیا۔ لیکن چونکہ وہ بغرض علاج کراچی چلے گئے تھے اس لیے کہیں 1953ء میں جا کر ہمارے پاس منٹگمری پہنچے۔ یہاں سے ہم اکٹھے رہا ہوئے۔ ‘‘ 87؎

جیل میں فیض صاحب کی زندگی میں دو بڑے اہم واقعات رونما ہوئے۔ ایک نے ان کے دل کو زخموں سے چور چور کر دیا تو دوسرے نے انہیں بے انتہا ذہنی سکون اور خوشی کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ پہلا واقعہ ان کے بھائی طفیل احمد کی اچانک وفات کا ہے اور دوسرا واقعہ ان کے دوسرے مجموعہ کلام دست صبا کی اشاعت سے متعلق ہے۔ زندگی بھر فیض صاحب کو اپنے بھائی کی جدائی کا غم رہا اور ایک طرح سے وہ خود کو اس موت کا ذمہ دار محسوس کرتے تھے۔


بھائی کی موت



فیض صاحب کو اپنے بڑے بھائی طفیل احمد سے بے انتہا پیار تھا اور انہوں نے بھی ایک سایہ دار درخت کی طرح اپنے چھوٹے بھائی کو ہمیشہ اپنے دل سے قریب رکھا۔ رشتوں کی یہ اہمیت اس وقت اور ظاہر ہوئی جب فیض صاحب زندگی کے انتہائی کٹھن دور سے گزر رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان کے قریبی دوستوں اور ساتھیوں میں سے اکثر نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ فیض صاحب پر الزامات ہی ایسے تھے کہ جن کی سنگین نوعیت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حکومت وقت کا پروپیگنڈہ زوروں پر تھا، اخبارات کے خصوصی ضمیمے نکالے جا رہے تھے جس میں ان کی موت کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں ان کے صرف چند دوست احباب اور کچھ قریبی رشتہ دار ہی ان کی پشت پناہی کے لیے آگے آئے۔ ان پشت پناہوں میں سب سے بڑی شخصیت ان کے بھائی کی تھی۔ ایسے میں جب راہ کے شجر میں اپنے سایا کرنے سے کترا رہے تھے ان کے بھائی طفیل ان کے لیے سینہ سپر تھے۔ وہ تمام خطرات کے باوجود ان سے ملنے جیل آیا کرتے تھے اور خاندان کے ایک بڑے فرد ہونے کے ناطے انہوں نے اپنے اس فرض کو اچھی طرح نبھایا۔ وہ فیض صاحب کے لیے ایک بہت بڑا سہارا تھے۔ اور پھر ان کا انتقال بھی جن حالات میں ہوا اس نے بھی فیض صاحب کے دل پر گہرا اثر ڈالا۔ طفیل بھائی کے انتقال کی خبر جب جیل میں ان تک پہنچی تو ان لمحوں کو جیل میں ان کے ساتھی میجر محمد اسحاق نے یوں تحریر کیا ہے :

’’ وہ حیدر آباد جیل میں ان سے ملنے آئے تھے اور اپنے ایک روحانی پیشوا کی طرف سے ان رہائی کی خوش خبری بھی لائے تھے۔ ابھی حیدر آباد ہی میں تھے کہ 18 جولائی 1952ء کی صبح کو نماز پڑھتے ہوئےا س دنیا سے رحلت کر گئے۔ فیض صاحب کو اتنا صدمہ ہوا کہ مہینوں تک نیم مردہ حالت میں رہے۔ ایک دن تو چارپائی سے اترتے ہوئے بے ہوش ہو کر فرش پر گر پڑے۔ آواز سن کر میں اور عطا بھاگے بھاگے گئے اور زمین سے اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔ ‘‘ 88؎

فیض صاحب نے اپنے بھائی کی گھر سے دور اس اندوہناک موت پر دل ہی دل میں تو آنسو بہائے مگر اشعار کے پردے میں بھی اس دکھ کا اظہار یوں کیا:

نوحہ

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے

لے گئے ساتھ مری عمر گزشتہ کی کتاب

اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں

اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہد شباب

اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے

اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

کیا کروں بھائی یہ اعزاز میں کیوں کر پہنوں

مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیضوں کا حساب

آخری بار ہے لو مان لو اک یہ بھی سوال

آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوس جواب

آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول

مجھ کو لوٹا دو مری عمر گزشتہ کی کتاب

ایک خط میں ایلس کو انہوں نے بڑے دکھ بھرے انداز میں لکھا:

’’ آج صبح میرے بھائی کی جگہ موت میری ملاقات کو آئی۔ سب لوگ بہت مہربانی سے پیش آئے۔ یہ لوگ میری زندگی کی عزیز ترین متاع مجھے دکھانے لے گئے۔ وہ متاع جو، اب خاک ہو چکی ہے اور پھر وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ میں نے اپنے غم کے غرور میں سر اونچا رکھا اور کسی کے سامنے نظر نہیں جھکائی۔ یہ کتنا مشکل، کتنا اذیت ناک مرحلہ تھا صرف میرا دل ہی جانتا ہے۔ اب میں اپنی کوٹھری میں اپنے غم کے ساتھ تنہا ہوں۔ اب مجھے سر اونچا رکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں اس غم کے بے پناہ ظلم سے ہار مان لینے میں کوئی تذلیل نہیں ہے۔ میں اس کے بیوی بچوں اور اپنی اماں کے خیال کو دل سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ابھی انہیں کچھ لکھنے کی سکت بھی نہیں ہے۔ لکھ ہی کیا سکتا ہوں ؟ میں نے اپنی ماں کی پہلی اولاد ان سے چھین لی ہے۔ ہاں میں نے ہی سب کو اس کی زندگی سے محروم کر دیا۔ ‘‘ 89؎

کچھ دنوں کے بعد ایلس کو ایک دوسرے خط میں لکھا:

’’ اب بھی کبھی کبھی جب خیال آتا ہے کہ طفیل کو پھر کبھی نہیں دیکھ سکیں گے تو دماغ سن سا ہو جاتا ہے اور دل یہ بات ماننے پر کسی طور تیار نہیں ہوتا لیکن اب اس درد میں ہر وقت پہلے کی طرح ٹیسیں نہیں اٹھتیں اور دل کے مجموعہ درد میں یہ درد بھی کہیں جذب ہو گیا ہے۔ یہ تو میں جانتا ہوں عمر بھر وقتاً فوقتاً یہ درد پہلو میں بیدار ہوتا رہے گا لیکن انسانی تعلقات کا نظام یوں ہی چلتا ہے اور آدمی اس کے ساتھ دن بسر کرنا جلد ہی سیکھ لیتا ہے۔ ‘‘ 90؎

فیض صاحب نے صبر کا یہ گھونٹ ضرور پی لیا مگر ان کی آنکھوں میں اس بے رحم صورت حال کا نقشہ ہمیشہ ہی موجود رہا۔ ایک ایسی صورت حال جس میں انسان خود کو بہت مجبور اور لاچا رمحسوس کرتا ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنی جلا وطنی کے زمانے میں 1981ء میں جب فیض صاحب ٹورنٹو آئے ہوئے تھے تو ان ہی دنوں طفیل مرحوم کی صاحبزادی جو ان دنوں امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں تھیں اور اپنے چچا سے ملنے ٹورنٹو آنے والی تھیں۔ اگرچہ فیض صاحب نے اپنی زبان سے اس کا اظہار تو نہیں کیا لیکن وہ ان دنوں اپنے سب ہی عزیزوں اور رشتہ داروں کو بہت یاد کرتے تھے۔ اس کا اندازہ مجھے اس بات سے ہوا کہ ان کے میزبان اور میرے بہت گہرے دوست ڈاکٹر قیوم لودھی اور میں جب ان کی بھتیجی کو لینے ائیر پورٹ جانے والے تھے تو فیض صاحب کی آنکھوں میں میں نے شوق دید اور انتظار کی عجیب و غریب چمک دیکھی تھی۔ ٹورنٹو میں اس لمحے مجھے جیل میں فیض صاحب کا لکھا ہوا وہ نوحہ ایک بار پھر یاد آ گیا جو انہوں نے اپنے بھائی کی موت کے موقعے پر لکھا تھا۔


دست صبا



جیل میں فیض صاحب کو خوشی اور مسرت پہنچانے والا ایک وہ یادگاری لمحہ تھا جب ان کے دوسرے مجموعہ کلام دست صبا، کی اشاعت کی خبر ان تک پہنچی۔ فیض صاحب ان دنوں بہت مسرور تھے اور وہ ہی کیا ان کے تمام قیام ساتھی اس خوشی میں برابر کے شریک تھے۔ سجاد ظہیر نے ’’ زنداں نامہ‘‘ میں سر آغاز کے عنوان سے اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ مقدمہ سازش راولپنڈی کے دنوں میں فیض کے ساتھ میں بھی سنٹرل جیل حیدر آباد میں تھا۔ دسمبر1952ء تک ہمارے مقدمے کی سماعت ختم ہو چکی تھی۔ ہمیں روز روز اسپیشل ٹریبیونل کے اجلاس میں جا کر ملزموں کے کٹہرے میں گھنٹوں بیٹھے رہنے اور اس دوران گواہوں کی شہادتوں، وکیلوں کی جرح اور بحث اور معزز ججوں کی فاضلانہ قانونی موشگافیوں سے نجات مل گئی تھی۔ ابھی فیصلہ نہیں سنایا گیا تھا اور اہم امید و بیم کے عالم میں تھے۔ چھٹی وافر تھی۔ انہی دنوں ایک دن یہ اطلاع ملی کہ دست صبا شائع ہو گئی ہے۔ گو ہم اس کی تمام چیزیں فیض کے منہ سے سن چکے تھے اور انہیں بار بار پڑھ چکے تھے، لیکن اس خبر سے ہم میں سے تمام قیدیوں کو جو ادب سے مس رکھتے تھے ایک غیر معمولی مسرت ہوئی۔ جیل کے حکام سے اجازت لے کر ہم نے ایک پارٹی بھی کر ڈالی جس میں ہم تمام قیدیوں نے مل کر فیض کو دست صبا کی اشاعت پر مبارکباد دی۔ اس موقعے پر منجملہ اور باتوں کے میں نے یہ کہا تھا کہ بہت عرصہ گزر جانے کے بعد جب لوگ راولپنڈی سازش کے مقدمے کو بھول جائیں گے اور پاکستان کا مورخ1952ء کے اہم واقعات پر نظر ڈالے گا تو غالباً اس سال کا سب سے اہم تاریخی واقعہ نظموں کی اس چھوٹی سی کتاب کی اشاعت کو ہی قرار دیا جائے گا۔ ‘‘ 91؎

سجاد ظہیر کی یہ پشین گوئی بڑی حد تک صحیح ثابت ہوئی۔ اس لیے کہ آج کسی کو بھی اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ راولپنڈی سازش کیس کی عدالت کے جج کون تھے اور کن کن لوگوں کو اس کیس میں قیدی بنایا گیا تھا لیکن فیض صاحب کی ہنستی مسکراتی شخصیت آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں خصوصاً ان کے دلوں میں ضرور محفوظ ہے جن کا شعر و ادب سے ذرا سا بھی تعلق ہے۔

فیض صاحب نے 16ستمبر1952ء کو ’’ دست صبا‘‘ کا دیباچہ تحریر کرتے ہوئے لکھا تھا:

’’ ایک زمانہ ہوا جب غالب نے لکھا تھا کہ جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی وہ دیدہ بینا نہیں بچوں کا کھیل ہے۔ اگر غالب ہمارے ہم عصر ہوتے تو غالباً کوئی نہ کوئی ناقد ضرور پکار اٹھتا کہ غالب نے بچوں کے کھیل کی توہین کی ہے یا یہ کہ غالب ادب میں پروپیگنڈہ کے حامی معلوم ہوتے ہیں۔ شاعر کی آنکھ کو قطرے میں دجلہ دیکھنے کی تلقین کرنا صریح پروپیگنڈہ ہے۔ اس کی آنکھ کو تو محض حسن سے غرض ہے اور حسن اگر قطرے میں دکھائی دے جائے تو وہ قطرہ دجلہ کا ہو یا گلی کی بدرو کا شاعر کو اس سے کیا سروکار، یہ دجلہ دیکھنا دکھانا حکیم، فلسفی یا سیاست دان کا کام ہو گا شاعر کا کام نہیں۔ اگر ان حضرات کا کہنا صحیح ہوتا تو آبروئے شیوہ اہل ہنر رہتی یا جاتی، اہل ہنر کا کام یقیناً سہل ہو جاتا لیکن خوش قسمتی یا بد قسمتی سے فن سخن یا کوئی اور فن بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے تو غالب کا دیدہ بینا بھی کافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ شاعر یا ادیب کو قطرے میں دجلہ دیکھنا ہی نہیں ہوتا دکھانا بھی ہوتا ہے۔ مزید برآں اگر غالب کے دجلہ سے زندگی اور موجودات کا نظام مراد لیا جائے تو ادیب خود بھی اسی دجلہ کا ایک قطرہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے ان گنت قطروں سے مل کر اس دریا کے رخ، اس کے بہاؤ اس کی ہیئت اور اس کی منزل کے تعین کی ذمہ داری بھی ادیب کے سر آن پڑتی ہے۔

یوں کہیے کہ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے۔ گرد و پیش کے مضطرب قطروں میں زندگی کے دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے۔ اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر ہے اس کے بہاؤ میں دخل انداز ہونا اس کے شوق کی صلابت اور لہو کی حرارت پر ہے۔ اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش اور جد و جہد چاہتے ہیں۔

نظام زندگی کسی حوض کا ٹھہرا ہوا، سنگ بستہ، مقید پانی نہیں ہے جسے تماشائی کی ایک غلط انداز نگاہ احاطہ کر سکے۔ دور دراز اوجھل دشوار گزار پہاڑیوں میں برفیں پگھلتی ہیں، چشمے ابلتے ہیں، ندی نالے پتھروں کو چیر پھاڑ کر، چٹانوں کو کاٹ کر آپس میں ہمکنار ہوتے ہیں اور پھر یہ پانی کٹتا بڑھتا، وادیوں، جنگلوں اور میدانوں میں سمٹتا اور پھیلتا جاتا ہے۔ جس دیدہ بینا نے انسانی تاریخ میں یم زندگی کے یہ نقوش و مراحل نہیں دیکھے اس نے دجلہ کیا دیکھا ہے۔ پھر شاعر کی نگاہ ان گزشتہ اور حالیہ مقامات تک پہنچ بھی گئی لیکن ان کی منظر کشی میں نطق و لب نے یاوری نہ کی یا اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے جسم و جاں جہد و طلب پر راضی نہ ہوئے تو بھی شاعر اپنے فن سے پوری طرح سرخ رو نہیں ہے۔ ‘‘ 92؎

زندگی اور فن کے بارے میں فیض صاحب کی یہ مختصر سی تحریر سوچنے اور سمجھنے کے لیے بہت سا مواد اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس میں فن اور زندگی کے باہمی رشتے کی وضاحت تو انہوں نے کی ہی ہے لیکن اس کی بھی وضاحت کی ہے کہ اگر زندگی کے تجربوں سے کوئی شخص گزر بھی جائے تو ضروری نہیں کہ وہ اس تجرباتی کیفیت کو دوسروں تک پہنچا بھی سکے۔ اس ترسیل میں مشقت اور ریاضت کے ساتھ نطق و لب کی یاوری بھی بہت ضروری ہے۔

اب اس روشنی میں اگر دیکھا جائے کہ فیض صاحب نے ہر لمحہ رواں دواں زندگی کے کون سے تجربات کو اپنا موضوع بنایا ہے اور وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں تو اس کے لیے دست صبا میں کافی مواد موجود ہے۔ فیض صاحب اس نظریہ فن کے حامی جو ادب کو زندگی کا ترجمان سمجھتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے اپنی آنکھ سے دیکھا وہی لوگوں کو دکھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ انہوں نے رومان سے حقیقت تک کا جو سفر اپنے پہلے مجموعہ کلام نقش فریادی میں کیا تھا وہی سلسلہ اس میں بھی نظر آتا ہے۔ یعنی رومان اور حقیقت کے سنگم پر کھڑے ہو کر انسانی جذبوں کے بیان کو ہی اپنا موضوع شاعری قرار دیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس موڑ پر ان کے نطق و لب نے خوب خوب ان کی یاوری بھی کی ہے۔

مطالعے کی آسانی کی خاطر ’’ دست صبا‘‘ کی شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ تو وہ ہے جو سن بیالیس سے سن سینتالیس تک ہے اس حصے کی نمائندہ نظمیں وہ ہیں جو فاشزم کے خلاف جد و جہد کے زمانے کی یادگار ہیں۔ ان نظموں میں، سیاسی لیڈر کے نام اور ’’اے دل بیتاب ٹھہر‘‘ والی نظمیں شامل ہیں۔ دوسرا وہ دور ہے جو قدرے مختصر ہے اور آزادی کے بعد تقریباً ساڑھے تین سال تک کا دور ہے۔ اس دور کی نمائندہ نظم ’’ صبح آزادی‘‘ ہے۔ جب کہ تیسرا دور پس دیوار زنداں لکھا گیا ہے۔

دست صبا کے یہ تین ادوار تو صرف آسانی کے لیے کیے گئے ہیں لیکن دست صبا کے اس تیسرے حصے کے کلام کو جو کہ پس دیوار زنداں لکھا گیا اس کی مزید تقسیم کرتے ہوئے ان کے ایک رفیق زنداں میجر محمد اسحاق نے لکھا ہے :

’’ حیدر آباد میں قریباً ہر پندرھواڑے ایک مجلس مشاعرہ منعقد کرنے کا رواج ہو گیا تھا۔ یہ مشاعرہ کبھی طرحی ہوتا کبھی غیر طرحی اور سب ہی کو اس میں حصہ لینا پڑتا تھا۔ دست صبا میں مندرجہ ذیل مصرعوں پر کہی ہوئی غزلیں موجود ہیں :

1۔ ذکر مرغان گرفتار کروں یا نہ کروں

2۔ آج کیوں مشہور ہے ہر ایک دیوانے کا نام

3۔ دیکھنا وہ نگہ ناز کہاں ٹھہری ہے۔

4۔ وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں

فیض کی غزل، وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں، حسرت موہانی کی ایک غزل پر کہی گئی ہے۔ میرے ذہن میں فیض صاحب کی جیل کی شاعری کے چار رنگ ہیں (یا موڈ کہہ لیجئے ) پہلا رنگ سرگودھا اور لائل پور کی جیلوں میں ان کی تین مہینوں کی قید تنہائی کا ہے۔ وہ بہت مشکل دن تھے۔ کاغذ، قلم دوات، کتابیں اخبار خطوط سب چیزیں ممنوع تھیں۔ فیض صاحب کہا کرتے تھے کہ ان دنوں ان کی طبیعت میں بہت زوروں کی آمد تھی اور طرح طرح کے مضامین سوجھ رہے تھے۔ اس دوران کا کلام کچھ تو ان کے ذہن سے اتر گیا لیکن جو بچ گیا وہ دست صبا میں مندرجہ ذیل مندرجات پر مشتمل ہے :

متاع لوح و قلم

دامن یوسف

طوق و دار کا موسم (پہلا حصہ)

تر اجمال نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام

ان کی شاعری کا دوسرا رنگ حیدر آباد کا ہے۔ یہاں ہمیں ہر طرح کا جسمانی آرام جو جیل میں ممکن ہو سکتا تھا میسر تھا۔

پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوان ہوس میں

طوق و دار کا موسم

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

ہمارے دم سے ہے کوئے جنوں میں اب بھی خجل

اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

عجز اہل ستم کی بات کرو

تیسرا رنگ کراچی کا ہے جہاں فیض صاحب دو ماہ کے لیے مقیم رہے۔ در اصل یہ رنگ دوسرے اور چوتھے کی درمیانی کڑی ہے۔ کراچی کے ہسپتال میں فیض صاحب جیل کی نسبت قدرے آزاد فضا میں رہے۔ فیض صاحب کی جیل کی شاعری کا چوتھا رنگ منٹگمری کا ہے۔ یہاں کم و بیش حیدر آباد کی سی سہولتیں میسر تھیں۔ ‘‘ 93؎

اس تیسرے اور چوتھے دور کی شاعری ان کے اگلے مجموعے زنداں نامہ میں شامل ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو نقش فریادی کی شاعری کے ذریعے فیض صاحب نے ادبی حلقوں اور ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی ایک بڑی اکثریت کو متاثر کیا لیکن دست صبا کی اشاعت نے انہیں عام لوگوں میں بھی متعارف اور مقبول بنایا۔ دست صبا کی دوسری اشاعت کے موقعے پر ایلس کو اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا تھا:

’’ بہت خوشی ہوئی کہ تمہارا دوسرا ایڈیشن بہت مقبول ہوا لیکن میں حیران ہوں کہ تم لوگ یہ کتابیں کس کے ہاتھ بیچ رہے ہو۔ اب سے دس برس پہلے تو دوسری بات تھی جب ہمیں معلوم تھا کہ کالج کی لڑکیوں میں ہمارے مستقل خریدار موجود ہیں۔ لیکن ان کی جگہ اب کون سے نئے گاہک پیدا ہو گئے ہیں اور وہ ہماری خرافات کو کیا معنی پہناتے ہیں۔ یہ سب ہمیں نہیں معلوم۔ میں جانتا ہوں کہ عام لوگوں کی گرہ میں اتنا مال نہیں ہے کہ کتابوں پر ضائع کرتے پھریں۔ اگر اس کے باوجود ہماری کتابیں خریدتے ہیں تو خوشی کی بات ہے۔ ‘‘ 94؎

صاف صاف نہ سہی لیکن بین السطور میں فیض صاحب نے اپنی خوشی کا اظہار بڑے سلیقے سے کیا ہے۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ دست صبا کی اشاعت نے شاعر فیض کو عام لوگوں میں مشہور و مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ محترم بھی بنا دیا۔ جس طرح نقش فریادی کی نظم مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، ان کے اس پہلے مجموعے کا ایک اہم موڑ تھی بالکل اسی طرح ان کا یہ قطعہ دست صبا کا ایک اہم موڑ بھی ہے اور ان کی احتجاجی شاعری کا ایک اعلان نامہ بھی ہے۔

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے

کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے

زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے

ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے


دست صبا کا انتساب



فیض صاحب نے اپنی اس دوسری کتاب کا انتساب کلثوم کے نام کیا ہے۔ ایلس کے نکاح کے وقت ان کی والدہ کا دیا ہوا اسلامی نام کلثوم رکھا گیا تھا اور وہ انہیں اسی نام سے پکارتی تھیں۔ قید و بند کی زندگی میں جس طرح ایلس نے فیض صاحب کے زخموں پر مرہم رکھا اور جس طرح ہر ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا اس کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایلس سے زیادہ اس کتاب کے انتساب کا حق کسی اور کو نہیں پہنچتا۔

2اکتوبر1952ء کے ایک خط میں انہوں نے ایلس کو اس کتاب کے انتساب کے بارے میں لکھا:

’’ رہی انتساب کی بات، تو اگر تم اپنے آپ کو ایلس کہنا چاہتی ہو تو تمہیں اختیار ہے اس لیے کہ کتاب بھی تمہاری ہے۔ میں نے کلثوم اس لیے لکھا کہ اول تو یہ مشرقی نام ہے دوسرے یہ کہ لوگ اس کے بارے میں تم سے ضرور سوال کریں گے جو شاید تمہارے لیے تفریح کا سامان ہو۔ بہرحال جو تمہارا جی چاہے کرو۔ صرف میری بیوی کے نام پر مجھے اعتراض ہو گا۔ یہ انگریزی میں تو ٹھیک ہے لیکن اردو میں کچھ چھچھورا معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘ 94؎

فیض صاحب نے جس تفریح کے سامان کی بات کی تھی وہ واقعی ایلس کو مہیا ہو گیا۔ انہوں نے اپنے ایک خط میں فیض صاحب سے اس کا ذکر کیا تو جواباً فیض نے انہیں یہ خط بڑے مزے لے لے کر لکھا :

’’ کلثوم کے بارے میں جو حال تم نے لکھا ہے بہت پر لطف تھا۔ کچھ اخفا کچھ شک اور کچھ گمان، تشہیر کے لیے اچھی چیز ہے۔ اور یہ بھی اچھا ہے کہ ہماری آشنائی کسی کلثوم سے نہیں ہے۔ دور دور سے بھی نہیں ورنہ کوئی خاتون دل ہی دل میں ضرور اس کتاب کو اپنا لیتیں اور سمجھتںر کہ ہم پہلی دفعہ کوئی پوشیدہ راز عشق ظاہر کر رہے ہیں اور کچھ تعجب نہیں کہ اس انکشاف سے بے چاری کے دل کی کوئی شریان پھٹ جاتی۔ ‘‘ 95؎


جیل سے رہائی



راولپنڈی سازش کیس میں :

’’ 5جنوری1953ء کو فیض کے مقدمے کا فیصلہ ہوا۔ یہ فیصلہ ان کے خلاف تھا اور انہیں ڈھائی سال کی سزا ہوئی۔ ‘‘ 96؎

اس سزا میں وہ دورانیہ شامل نہیں تھا جو وہ پہلے ہی تقریباً دو سال تک جھیل چکے تھے۔ مگر ابھی ان کی سزا کے ڈھائی سال پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ اس دوران پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ایک بار پھر بدلا۔ یہ بات24اکتوبر1954ء کی ہے۔ پاکستان کے اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور محمد علی بوگرہ پاکستان کے وزیر اعظم ہوئے۔ محمد علی بوگرہ، حسین شہید سہروردی کے ساتھ فیض صاحب کے کیس کی پیروی میں بھی شریک تھے۔

ملک غلام محمد نے جو دستور ساز اسمبلی توڑی تھی اسی اسمبلی نے لیاقت علی خان کے زمانے میں اسپیشل ٹریبیونل کے قیام کو ممکن بنایا تھا۔ لہٰذا ماہرین قانون نے اس نکتے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راولپنڈی سازش کیس کے اسیروں کی رہائی کے لیے نئے سرے سے کوششیں شروع کر دیں۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں 20 اپریل1955ء کو فیض صاحب اور ان کے ساتھیوں کی رہائی عمل میں آئی۔ اس طرح مجموعی طور پر اس بار انہوں نے اپنی زندگی کے چار سال ایک ماہ اور گیارہ دن جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ البتہ ظفر اللہ پوشنی نے اپنی کتاب زندگی زنداں دلی کا نام ہے میں رہائی کی کچھ اور تاریخ بتائی ہے۔ ان کی ڈائری کی اہم تاریخوں کے مطابق:

24مارچ آج رات کو آٹھ بجے ریڈیو پاکستان سے یہ خبر سن کر انتہائی مسرت ہوئی کہ پنجاب ہائی کورٹ نے راولپنڈی کیس کے ان اسیروں کو ضمانت پر رہا کر دیا ہے :1۔ اکبر خان2۔ فیض احمد فیض3۔ محمد خان جنجوعہ4۔ لطیف خان5۔ حسن خان6۔ نیاز محمد ارباب7۔ محمد اسحاق 8۔ ضیاء الدین ہائی کورٹ میں ان کی درخواستوں کی سماعت28مارچ کو ہو گی۔

25مارچ: اے بسا آرزو کہ خاک شدہ صبح اٹھتے ہی ریڈیو پر یہ خبر سنی کہ مقدمہ سازش کے جن اسیروں کو کل عدالت کے حکم سے رہا کیا گیا تھا انہیں مرکزی حکومت کے حکم سے اسی رات دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاری اعتنائی نظر بندی کے قانون مجریہ1944ء کے تحت عمل میں آئی ہے۔

12اپریل: ایک بجے ریڈیو پر خبر سنی کہ لاہو رہائی کورٹ نے اکبر خان کے اور ان کے رفقاء کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ رات آٹھ بجے کی خبروں سے معلوم ہوا کہ اکبر خان، جنجوعہ، لطیف خان، نیاز محمد ارباب اور فیض احمد فیض کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ 97؎

اس اعتبار سے ان کی رہائی کی اصل تاریخ12اپریل بنیا ہے۔

٭٭٭








رہائی سے تاشقند کانفرنس تک


(1985-1955)



جیل سے رہائی کے بعد فیض صاحب نے جب کھلی فضا میں سانس لی تو ان دنوں ان کا ہر روز، روز عید اور ہر شب شب برات والا معاملہ تھا آئے دن ان کے اعزاز میں ادبی تقریبات اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ رہتا تھا اور رہنا بھی چاہیے تھا۔ روزگار کے حوالے سے وہ دوبارہ پاکستان ٹائمز سے بہ حیثیت مدیر اعلیٰ منسلک ہو گئے اور روز مرہ کی زندگی کا پہیہ ایک بار پھر حرکت میں آ گیا۔


زنداں نامہ



رہائی کے کچھ عرصے بعد فیض صاحب کا نیا شعری مجموعہ، زنداں نامہ شائع ہوا جسے ان کا ایک اور بڑا ادبی کارنامہ کہنا چاہیے۔ ہر چند کہ جن دنوں وہ جیل میں تھے ان ہی دنوں 1952ء میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ دست صبا شائع ہوا تھا مگر دست صبا کا آدھے سے زیادہ حصہ جیل جانے سے پہلے کا ہے۔ اس کے برخلاف، زنداں نامہ جو کہ جیل سے رہائی کے بعد شائع ہوا اس کا تقریباً اس سارے کا سارا کلام پس دیوار زنداں ہی لکھا گیا ہے۔ یعنی اس میں وہ کلام ہے جو انہوں نے دست صبا کی اشاعت کے بعد سے اپنی رہائی کے وقت تک یعنی اپریل 1955ء تک لکھا ہے۔ اس مختصر سے مجموعہ کلام میں انہوں نے اپنے جیل کے تجربات کو سمویا بھی ہے اور انہیں نطق و لب کی سر بلندی سے بھی ہم کنار کیا ہے۔ فیض صاحب نے یوں ہی نہیں کہا تھا:

ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد

فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے

زنداں نامہ کا سر آغاز، سجاد ظہیر کا لکھا ہوا ہے جس میں انہوں نے فیض صاحب کی شاعری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:

’’ میرا دل خون کے آنسو روتا تھا کہ قید و بند کے مصائب اور صعوبتیں اس کا حصہ کیوں ہیں جو اپنی حسن کاری سے سب کی زندگی کو اتنی فیاضی سے مرصع کر دیتا ہے اور اپنی نغمگی سے ہم سب کی رگوں میں سرور کی نہریں بہا دیتا ہے تو کبھی میرا ذہن اس کی تخیل کی ان شاداں اور فرحاں گل کاریوں سے کسب شعور کرتا جہاں جدید جدلیاتی علم کی ضیا پاشیاں، انسانیت کے شریف ترین جذبات سے اس طرح مل گئی ہیں جیسے شعاع مہر سے تمازت‘‘ 98؎

کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار میجر محمد اسحاق نے بھی روداد قفس کے عنوان سے کیا ہے مگر انہوں نے خاصی تفصیل سے فیض صاحب کی اس دور کی شاعری کی وجہ تخلیق کی طرف اشارا کیا ہے۔ در اصل جب فیض صاحب کو چار سال کی سزا ہو گئی تو تمام قیدیوں کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بانٹ کر ملک کی مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا تھا اور فیض صاحب کے ساتھ ان دنوں میجر اسحاق کو زیادہ وقت گزارنے کا موقعہ ملا تھا۔ لیکن جس طرح انہوں نے فیض صاحب کی اس دور کی شاعری کا تجزیہ کیا وہ بذات خود اپنے اندر ایک تنقیدی بصیرت کا بڑا گہرا سرمایہ رکھتا ہے۔

حبسیات ہمارے ادب کا بڑا قابل قدر موضوع رہا ہے۔ ’’ ہمارے ادب میں حبسیات کا سرمایہ بہت قلیل ہے۔ حبسیات کا ذکر آتے ہی ذہن فی الفور مسعود سعد سلمان، خاقانی، غالب اور بہادر شاہ ظفر کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ مسعود سعد سلمان کم و بیش دس برس قید و بند کی صعوبتوں کا شکار رہا۔ اس نے قید کے مصائب اور شدائد کی کہانی مختلف قصائد میں بیان کی ہے۔ خاقانی کی زندگی کا ایک حصہ گوشہ زنداں کی نذر بھی ہوا تھا۔ اس نے اپنے مخصوص انداز میں ان ایام کی آشفتگی اور دل برگشتگی کا نقشہ کھینچا ہے۔ مرزا غالب کو قمار بازی کے الزام میں چھ ماہ کی سزا دی گئی تھی۔ مرزا پر یہ بے آبروئی اور سبکی بہت شاق گزری۔ ایک ترکیب بند اس واقعے سے یادگار ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے ایام اسیری کی غزلیات زبان زد خاص و عام ہیں۔ ان شعراء کے حبسیات میں ایک ہی مضمون ملتا ہے۔ آہ و زاری نالہ و بکا، شیون و شین، جس کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے۔ عام قیدیوں اور ان شعراء کے اظہار رنج و محن میں اس سے زیادہ فرق کا احساس نہیں ہوتا کہ شعراء کے دل دوز نالے دوسرے قیدیوں کی چیخوں کی محسبس کی سنگین چہار دیواری میں گھٹ کر فنا نہ ہو سکے اس اعتبار سے دیکھیں تو فیض صاحب کی حبسیہ شاعری ہماری اردو شاعری کا ایک درخشندہ باب ہے جس میں ایک خاص طرح کار جز اور للکار نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حبسیہ شاعری کو پڑھتے ہوئے کسی قسم کی اضمحلالی کیفیت نہیں ملتی‘‘ 99؎ در اصل زنداں نامہ صرف ایک شاعری کی روداد اسیری ہی نہیں بلکہ اس عہد کی زخمی انسانیت کا نوحہ بھی ہے۔ اس پکار، احتجاج اور نوحے کی وجہ سے انسانیت اور تہذیب پر یقین کچھ اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ کراچی میں صلیبیں مرے دریچے میں اور سر وادی سینا کی مشترکہ تعارفی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے سبط حسن نے کہا تھا:

’’ ہمارے ادب میں حبسیات کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس صنف کا موجد بھی غالب ہی ہے۔ البتہ غالب کی اسیری کی نوعیت ذاتی تھی قومی نہ تھی۔ قومی تحریک میں جن ادیبوں نے قید خانوں کو زینت بخشی ان میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خاں کے نام نامی سر فہرست ہیں۔ پھر ان چراغوں سے اتنے چراغ جلے کہ زنداں کے گوشے گوشے روشنیوں کا شہر بن گئے اور نئی نسل کے میر کارواں فیض ہیں۔ ‘‘ 100؎

غالب کے مقابلے میں نئی نسل کے اس نمائندے فیض احمد فیض کا مجموعہ کلام زنداں نامہ ہر چند کہ بہت مختصر ہے مگر اس مختصر سے مجموعے میں زندگی کی ان صداقتوں کا پوری سچائی کے ساتھ کیا گیا ہے جو دکھی انسانیت کا مقدر ہیں۔ ان نظموں کے شبستانوں میں صرف اپنی ہی غم کی ہوائیں نہیں چل رہی ہیں بلکہ اس میں کرہ ارض پر بسنے والے تمام مجبور اور محکوم لوگوں کے جذبات کی ترجمانی بھی کی گئی ہے۔ ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے، آ جاؤ افریقا اور ملاقات جیسی نظمیں صرف اپنے ذاتی دکھ اور درد کا بیان نہیں ہیں۔ ان نظموں میں مایوسی اور نا امیدی کے بجائے حالات سے مقابلہ کرنے اور ایک نئی صبح کے ایمان پر مضبوطی کی فضا ملتی ہے۔ اس میں ایک پیغام اور حوصلہ مندی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی اپیل سب کے لیے ہے۔ روسی ادیب الیگزنڈر سرکوف نے اسی لیے تو فیض صاحب کی ایام اسیری کی شاعری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا۔

’’ زنداں کی سنگین دیواروں میں سے بھی ان کے حوصلہ مند دل سے وہ نغمے بے تاب ہو کر نکلتے رہے جو عوام زندگی اور مادر وطن کی محبت سے لبریز تھے ان کے نغمات کے پیروں کی سرسراہٹ پاکستان اور متعدد دوسرے ممالک کی سرزمین پر سنائی دیتی رہی اور لاکھوں انسانوں کے دلوں کو گرما تی رہی۔ ‘‘ 101؎

اردو کی وہ تمام شاعری جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے تخلیق کی گئی ہے اس میں فیض صاحب کی شاعری کو ہر اعتبار سے ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس میں ایک ایسی توانا اور بھرپور آواز ہے جو تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود زندگی کی نعمتوں اور شوخیوں کا استقبال کرنے کا ہنر جانتی ہے اور انہی معنوں میں یہ شاعری عوام کے دلوں تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈ چکی ہے۔

زنداں نامہ میں یوں تو بہت سی یادگار نظمیں اور غزلیں ہیں لیکن ان کی نمائندہ نظموں میں ملاقات،ا ے حبیب عنبر دست، اے روشنیوں کے شہر، آ جاؤ افریقا اور ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے شامل کی جا سکتی ہیں۔ اس مجموعہ کلام میں ان کی بے انتہا مقبول اور فنی اعتبار سے نقطہ، عروج کو پہنچتی ہوئی غزلیں بھی ہیں لیکن یہاں نمونے کے طور پر صرف ایک نظم پیش کی جاتی ہے :

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم

دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم

نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے

تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی

تیری زلفوں کی مستی برستی رہی

تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم

ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم

لب پہ حرف غزل، دل میں قندیل غم

اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی

دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی

تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی

کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے

درد کی قتل گاہوں سے سب جا ملے

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم

مختصر کر چلے درد کے فاصلے

کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم

جاں گنوا کر تری دلبری کر بھرم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے


رہائی کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ



قید و بند کی طویل مدت گزارنے کے بعد فیض صاحب لاہور میں قیام پذیر تھے کہ بقول ان کے ایک دن ہندوستان میں پاکستان کے ہائی کمشنر راجا غضنفر علی خاں ان کے گھر آئے اور :

’’ آتے ہی انہوں نے اپنا مخصوص قہقہہ بلند کیا اور کہنے لگے، بہت ہی خوب وقت پر آئے ہو۔ کیا ٹائمنگ کی ہے۔ اگلے مہینے دہلی میں ہم یوم اقبال پر مشاعرہ کر رہے ہیں۔ تم بھی چلو میں نے کہا، راجا صاحب ابھی تو پوری طرح گلو خلاصی بھی نہیں ہوئی ہے، ضمانت کی رسی گلے میں پڑی ہوئی ہے بھلا مجھے دہلی کون جانے دے گا؟ بھاگ جاؤں تو؟ ہٹاؤ جی، وہ ہمارا ذمہ ہے، راجا صاحب نے فرمایا میں نے ہاں تو کر دی مگر مجھے یقین تھا کہ راجا صاحب اپنی مسلمہ خدمت کار کے باوجود ایسی تگڑم میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ چند دنوں کے بعد واقعی دہلی جانے کا پروانہ مل گیا۔ ‘‘ 102؎

فیض صاحب کو اس پر خود بہت حیرانی ہوئی تھی اس لیے کہ ہندوستان سے تعلقات کی کوئی بھی سطح رہی ہو اس میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خرابی کی صورت پیدا ہو ہی جاتی تھی۔ مگر واقعی راجا صاحب کی ڈپلومیسی نے تو کمال کر دکھایا تھا۔

فیض صاحب خوشی خوشی دہلی گئے اور دہلی کے اس یادگار مشاعرے میں انہوں نے ہندوستان کے صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کی صدارت میں اپنا کلام سنایا۔ مشاعرہ ظاہر ہے کہ بڑا کامیاب تھا اور اس کامیابی کا تمام تر سہرا فیض صاحب ہی کے سر جاتا تھا۔ مشاعرے کے دوسرے روز کا واقعہ فیض صاحب نے یوں بیان کیا:

’’ اگلی دوپہر جب راجا صاحب میرے کمرے میں آئے تو کہنے لگے میں نے رات پروٹوکول کے خیال سے پنڈت نہرو کو مدعو نہیں کیا۔ ابھی انہوں نے ٹیلی فون پر شکایت کی ہے اور آج شام صرف پاکستانی شعراء کو سننے یہاں آ رہے ہیں۔ ‘‘ 103؎

در اصل فیض صاحب کی مقبولیت اور قدر دانی کا یہ زمانہ اپنے ملک ہی میں نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی پورے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ، آج کل کی کرکٹ ڈپلومیسی کی طرح ان دنوں شعری ڈپلومیسی پر زیادہ توجہ مرکوز رہا کرتی تھی اور جب تک یہ ڈپلومیسی کام کرتی رہی دونوں ملکوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔


عوامی جمہوریہ چین کا دورہ



1956ء میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے چین کے دورے کا پروگرام بنایا۔ وزیر اعظم کے دورے سے پہلے صحافیوں کا سولہ رکنی وفد چین کے لیے روانہ ہوا۔ اس وفد کے سربراہ فیض صاحب تھے۔ اس سے پہلے ایک بار وزیر اعظم کا دورہ چین منسوخ ہو چکا تھا اور اس بار بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیش آئی تھی۔ جب یہ وفد کراچی سے براستہ بنکاک اور ہانگ کانگ، چین کی سر زمین پر اترا تو وہاں کے چینی میزبانوں نے انہیں یہ اطلاع دی کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے چند ناگزیر وجوہ کی بنا پر اپنا چین کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ چنانچہ اس وفد کا چین کی حکومت کے بجائے چین کی جرنلسٹس یونین کے مہمان کے طور پر استقبال کیا گیا۔ فیض صاحب کی دو نظمیں ’’ پیکنگ‘‘ اور ’’ سنکیانگ‘‘ اسی سفر کا یادگار اور خوب صورت تحفہ ہیں۔ یہ دونوں ان کے چوتھے مجموعہ کلام دست تہ سنگ میں شامل ہیں۔

پیکنگ

یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ کروڑ

اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے

دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے

میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال

میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنان گلگوں

میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری

میرے مقدور میں ہے معجزہ کن فیکوں

سنکیانگ

اب کوئی طبل بجے گا نہ کوئی شاہسوار

صبح دم موت کی وادی کو روانہ ہو گا

اب کوئی جنگ نہ ہو گی نہ کبھی رات گئے

خون کی آگ کو اشکوں سے بجھانا ہو گا

کوئی دل دھڑکے گا شب بھر نہ کسی آنگن میں

وہم منحوس پرندے کی طرح آئے گا

سہم، خوں خوار درندے کی طرح آئے گا

اب کوئی جنگ نہ ہو گی مئے و ساغر لاؤ

خوں لٹانا نہ کبھی اشک بہانا ہو گا

ساقیا رقص کوئی رقص صبا کی صورت

مطربا کوئی غزل رنگ حنا کی صورت

دہلی میں ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس

1956ء میں دہلی میں ایشیائی ادیبوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک راج آنند نے فیض صاحب کو شرکت کی دعوت دی تھی۔ اس کانفرنس میں انہوں نے دو موضوعات پر تقریریں کیں۔ ایک تو پاکستان میں ادیب کی حیثیت کے بارے میں اور دوسری پاکستان کے جدید ادب سے متعلق تھی۔ فیض صاحب کی ان دونوں تقاریر کو بے حد سراہا گیا اور پاکستانی ادب کے نشیب و فراز پر ان کی ناقدانہ اور نپی تلی رائے کو نہایت توجہ اور احترام کے ساتھ سنا گیا۔

اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جو پاکستانی وفد گیا تھا اس میں ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب بھی تھے انہوں نے اس سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا

’’ دلی میں ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس تھی۔ اس شرکت کے لیے پاکستانی ادیبوں کا ایک وفد بھی گیا تھا۔ وفد میں عبدالمجید سالک، شوکت تھانوی، اعجاز بٹالوی اور قتیل شفائی بھی شامل تھے۔ ہم سب لوگ صبح کو فیض کی جائے قیام پر جمع ہوئے اور واہگہ کے راستے امرتسر پہنچے۔ دن امرتسر میں گزرا۔ میں نے اس سے قبل امرتسر نہیں دیکھا تھا۔ فیض مجھے امرتسر کے تنگ و تاریک بازاروں میں لے گئے۔ جلیان والا باغ دکھایا، دربار صاحب اور ہال بازار کی سیر کرائی۔ مرحوم ایم اے او کالج کی عمارت میں لے گئے اور یہ بتایا کہ وہ اس کمرے میں بیٹھتے تھے۔ یہاں تاثیر صاحب لیکچر دیتے تھے۔ پھر سول لائنز کے مختلف مکانوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بتاتے رہے کہ میں یہاں رہتا تھا۔ اس مکان میں ہماری شادی ہوئی تھی۔ اس جگہ ہم نے اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے۔ ‘‘ 104؎

امرتسر کے بعد یہ پاکستانی وفد جب دہلی پہنچا تو وہاں اس کا شاندار استقبال ہوا۔ اس کانفرنس میں فیض صاحب نے بھرپور شرکت کی بلکہ کچھ جلسوں کی صدارت بھی انہی کے حصے میں آئی۔ ایک موقعے پر کانفرنس میں کچھ بدمزگی کی فضا بھی پیدا ہوتی نظر آ رہی تھی مگر ان کی اور چند دوسرے ترقی پسند ادیبوں کی کوششوں سے یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ فیض صاحب نے اس کانفرنس کے بارے میں اپنی کتاب مہ و سال آشنائی میں لکھا:

’’ چند اختلافات کی وجہ سے جو ہندی کے ادیبوں کی طرف سے اٹھائے گئے تھے، دہلی کی اس پہلی افرو ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس میں کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ صرف یہ طے پایا کہ اس کانفرنس میں کسی مستقل تنظیم کی تجویز نہ پیش کی جائے۔ مگر ایک اور کانفرنس کے لیے سویٹ یونین کی دعوت قبول کر لی جائے اور یہ مسئلہ دوسری کانفرنس پر چھوڑ دیا جائے۔ ‘‘ 105؎

اس کانفرنس میں فیض صاحب کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں قرۃ العین حیدر نے لکھا

’’ مجھے یاد ہے 1956ء میں جب دہلی میں ایشین رائٹرز کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس میں لاہور سے فیض صاحب اور اعجاز حسین بٹالوی شرکت کے لیے گئے تھے۔ واپس آ کر اعجاز نے کہا ’’ فیض صاحب تو کانفرنس میں اشوک کمار بنے ہوئے تھے ‘‘ فیض صاحب کو جو مقبولیت ہندوستان میں حاصل ہے اس سے سب واقف ہیں۔ ‘‘ 106؎

کچھ ایسے ہی تاثرات زہرا نگاہ نے بھی بیان کیے ہیں۔

’’ کبھی کبھی مجھے ان کی اس چاہت کے نظارے یاد آ جاتے ہیں جو فیض صاحب کو لوگوں سے ملی۔ کیا غرور تھا ان کو اس بات پر کہ لوگوں نے انہیں کتنا چاہا۔ تقسیم کے بعد بلکہ بہت سالوں بعد جب فیض صاحب ہندوستان گئے تو اتفاق سے میں بھی وہاں تھی۔ میں نے وہاں لوگوں کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر فیض صاحب کا استقبال کرتے دیکھا۔ ان کے ہاتھ پیروں کو چومتے ہوئے دیکھا۔ ان پر واری نثار ہوتے دیکھا۔ ایسا استقبال تو بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا۔ ‘‘ 107؎

صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی اردو زبان و ادب سے دلچسپی لینے والے لوگ موجود ہیں وہاں وہاں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔


پروگریسو پیپرز سے علیحدگی



جیل سے رہائی کے بعد جب وہ معاملات دنیا میں داخل ہوئے تو پاکستان ٹائمز کے شب و روز کافی بدل چکے تھے۔ چنانچہ اس بار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے انہیں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ ڈاکٹر آفتاب احمد جنہیں فیض صاحب سے ایک خاص قریبی رابط تھا انہوں نے اس بارے میں لکھا

’’ بظاہر وہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بنا دیے گئے تھے مگر اب اخبار کی ترتیب و تدوین میں ان کا کوئی خاص عمل دخل نہیں تھا۔ ‘‘ 108؎

اسی طرح ان کے قریبی رفیق کار سبط حسن نے بھی اس زمانے میں پاکستان ٹائمز سے ان کی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ رہائی کے بعد فیض صاحب نے کچھ عرصہ آرام کیا پھر پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے دوبارہ پروگریسو پیپرز سے وابستہ ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ دست تہ سنگ آمدہ والی نظم فیض صاحب نے ان چہ مگوئیوں سے تنگ آ کر لکھی تھی جو پروگریسو پیپرز کے بعض با اثر حلقوں نے ان کے خلاف شروع کر رکھی تھیں۔ یہ وہ افراد تھے جن کو فیض صاحب کا چیف ایڈیٹر ہونا بہت ناگوار گزرتا تھا اور جو فیض صاحب کے کسی مشورے، کسی فیصلے کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ کبھی کہا جاتا کہ میاں افتخار الدین نے یہ سفید ہاتھی خواہ مخواہ ہم پر مسلط کر دیا ہے حالانکہ اخبار تو فیض کے بغیر بھی ٹھیک چل رہے تھے۔ کبھی ان کے شاعرانہ مزاج پر فقرے چست کیے جاتے اور کبھی اہل سیاست سے ان کے ذاتی روابط پر ناک بھوں چڑھائی جاتی۔ ‘‘ 109؎

یہ وہ حالات تھے جن کے نتیجے میں مئی 1958ء میں فیض صاحب نے پروگریسو پیپرز کی چیف ایڈیٹری چھوڑ دی اور فلم کی دنیا میں داخل ہو گئے۔


فلم سازی



جیل سے رہائی کے بعد فیض صاحب کی سوشل لائف میں بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا۔ ان کا ہر جگہ ایک ہیرو کے طور پر استقبال کیا جا رہا تھا ایسے گلیمرس ماحول میں کسی نے فیض صاحب کو فلم بنانے سے متعلق مشورہ دیا۔ مشورہ دینے والے بالی وڈ کے مشہور ہدایتکار اور فلمساز اے آر کار دار کے صاحبزادے اے جے کار دار تھے۔ بات آگے بڑھی اور فیض صاحب نے اپنے ایک پسندیدہ نالBoatman of the Padma جو کہ مانک بنرجی کا ناول تھا، کی بنیاد پر اپنی نئی فلم جاگو ہوا سویرا کے مکالمے لکھے اور اس کی ہدایت کاری میں بھی حصہ لیا۔ ناول چونکہ بنگال کے پس منظر میں لکھا گیا تھا اس لیے اس کی تقریباً پوری شوٹنگ مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ یہ فلم1958ء میں تکمیل کے مراحل سے گزر کر اگلے برس نمائش کے لیے پیش کی گئی لیکن باکس آفس پر فلمی اصطلاح کے مطابق اپنے جھنڈے نہ گاڑ سکی۔ البتہ اسے ایک اچھی پاکستانی آرٹ فلم کے طور پر عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اس حوصلہ افزائی کے بعد انہوں نے کچھ اور فلمیں بھی بنائیں جن کی تعداد بقول اے جے کار دار9کے قریب ہیں لیکن یہ زیادہ تر ڈاکومنٹری نوعیت کی ہیں اور ان میں فیض صاحب کا حصہ بہت کم ہے۔ البتہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیف ڈیک کے اشتراک سے انہوں نے ایک اور فیچر فلم بنانے میں بہ حیثیت پروڈیوسر حصہ لیا تھا جو ایک نزاعی مسئلہ بن گیا اور زندگی کے آخری دنوں میں انہیں اس کی بہت کوفت اور ملال تھا۔ ایک تو ان دنوں وہ خود اختیاری اور جلا وطنی کے دور سے گزر رہے تھے دوسرے اس فلم کے معاملات نے بھی ان کو ذہنی طور پر کافی پریشان کیے رکھا۔

اس فلم ’’ سکھ کا گاؤں ‘‘ کے متعلق روزنامہ نوائے وقت میں 3مارچ1984ء کو انٹرویو دیتے ہوئے عطاء الحق قاسمی کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:

’’ مسئلہ یہ تھا کہ اس کا تو ابھی نام بھی طے نہیں ہوا تھا۔ جب یہ فلم ختم ہو گئی تو اسی زمانے میں حکومت بدل گئی اور چونکہ انہوں نے غلطی سے یہ طے کیا تھا کہ اس فلم کو بین الاقوامی میلے میں بھیجنا ہے اس لیے اس کی پرنٹنگ وغیرہ لندن میں کروائی جائے۔ لہٰذا اس کو لندن بھیج دیا گیا۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ یہاں کراچی میں جو اس کا ساؤنڈ ٹریک بنا ہوا ہے اس میں نقص ہے اور نئے سرے سے بنانا پڑے گا۔ اب اسی دوران حکومت بدل گئی اور حکومت جو بدلی تو ساتھ ہی سارا عملہ بھی تبدیل ہو گیا۔ وہ جو ادارہ تھا نیف ڈیک تو اس پر مارشل لاء والوں نے قبضہ کر لیا۔ یہ فلم اس وقت لندن میں تھی۔ ہدایتکار، کار دار اور نیف ڈیک والوں کا کچھ آپس میں تنازعہ چل رہا تھا انہوں نے پانچ چھ ماہ سے ان کی تنخواہ نہیں دی۔ وہ جو تنخواہ دار کارکن تھے ان کو تنخواہ نیف ڈیک سے ملتی تھی اور نیف ڈیک والوں نے بجائے تنخواہ دینے کے ان کو ہمارے کھاتے میں ڈال دیا تھا کہ فلم والوں سے تنخواہ ملے گی۔ اب یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ مارشل لاء والے آ کر بیٹھ گئے اور وہ فلم وہیں اسٹوڈیو میں پڑی رہی۔ وہ پیسے مانگتے تھے اس میں کافی مشکلات پیش آئیں جو کافی طویل قصہ ہے۔ مختصر یہ کہ فلم ساؤنڈ ٹریک کی درستگی کے لیے ہدایت کار کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے ہدایت کار کو قانونی نوٹس بھیج دیا کہ ہماری تنخواہیں ادا کرو۔ انہوں نے جواب میں ان کو نوٹس دے دیا کہ ہم نے تمہاری کوئی تنخواہ نہیں دینی بلکہ تم نے ہمارے پیسے دینے ہیں۔ انہوں نے کہا اچھا پھر ایسے تو ایسے سہی اور وہ نگیٹو واپس کر دو۔ ہم نے کہا تھا کہ تمہارا جھگڑا اس کے ساتھ ہے اور قانون کے تحت جب تک فلم مکمل نہیں ہو جاتی وہ ہر کام کرنے کا مجاز ہے۔ اس میں بہت لڑائی جھگڑے ہوئے۔ پھر میں نے اس کو سمجھایا کہ تصفیہ کر لو، بس کچھ اس قسم کی باتیں ہیں اس سے متعلق۔ ‘‘ 110؎

خیر فیض صاحب نے تو بہت مختصر اس سوال کا جواب دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے نے کافی طول کھینچا اور زندگی کے آخری دنوں میں اس غیر ضروری الجھاوے نے انہیں بہت رنجیدہ اور دل برداشتہ کیا جس کا تھوڑا بہت اندازہ فیض صاحب کے مختلف خطوط سے بھی ہوتا ہے۔

فلم سازی کی بات نکلی ہے تو ممتاز انشا پرداز شاہد احمد دہلوی کے دلچسپ تجزیے پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ فیض صاحب کی شخصیت اور ان کی فلمی دنیا سے وابستگی کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

’’ کمیونسٹ تو فیض صاحب مشہور ہو گئے تھے مگر ان کی تخریبی سرگرمیاں کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ وہ تو ایک خاموش مرنجان مرنج قسم کے آدمی تھے اور ہیں۔ بے روزگاری کے زمانے میں فیض صاحب نے ایک فلم کے مکالمے وغیرہ لکھے تھے اور اس پر بین الاقوامی انعام بھی ملا تھا۔ مگر فلم سازی اور فلم بازی سے کسی بھلے آدمی کو کیا سروکار؟ فیض صاحب در اصل تعلیمی سلسلے کے آدمی تھے مگر کسی یونیورسٹی نے کوئی پیش کش ہی نہیں کی۔ ‘‘ 111؎

یہ مضمون1964ء کے آس پاس لکھا گیا تھا۔ شاہد صاحب کی اس رائے کی روشنی میں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کی تہذیبی قدریں کیا تھیں اور وہ نسل، فلم سازی کو فلم بازی کے روپ ہی میں دیکھتی تھی۔ پھر یہ بھی کہ اس زمانے میں کمیونسٹ ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ یہ اس پورے نظام جبر کے خلاف آواز اٹھانے کا اعلان تھا۔ یعنی یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے، والی بات تھی۔ اور فیض صاحب نے اپنے لیے یہ راستہ خود چنا تھا۔


تاشقند کانفرنس1958ء



1956ء میں دہلی میں افرو ایشیائی ادیبوں کی جو کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس میں سویت وفد کی جانب سے اگلی کانفرنس تاشقند میں منعقد کرنے کی دعوت دی گئی تھی جسے سب نے بخوشی منظور کر لیا تھا۔ چنانچہ اسی کانفرنس کے سلسلے میں فیض صاحب نے پہلی بار اکتوبر1958ء میں سویت سر زمین پر اپنا پہلا قدم رکھا۔ پھر تو یوں ہوا کہ روس ان کا دوسرا گھر بن گیا اور غیر سرکاری طور پر وہ سوویت یونین میں پاکستان کے سفیر کی سی حیثیت کے مالک سمجھے جاتے تھے۔

روس میں ان کے سماجی حیثیت اور مرتبے کا اندازہ ایک دلچسپ واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جو خود فیض صاحب کا بیان کردہ ہے۔ کہتے ہیں۔

’’ ایک دفعہ ہماری بیٹی سلیمہ لندن سے ماسکو کے راستے پاکستان جا رہی تھی اور مجھے ماسکو سے اس کے ساتھ روانا ہونا تھا۔ اسی جہاز میں پاکستان کے کچھ ناخواندہ دیہاتی لوگ بھی سوار تھے جو انگلستان میں اپنے مزدور عزیزوں سے ان کے خرچ پر مل کر آ رہے تھے۔ ماسکو ائیر پورٹ پر ہمارے کچھ درست ہمیں وداع کرنے آئے تھے۔ ان سے رخصت ہو کر ہم جہاز میں سوار ہوئے تو ساتھ کی نشست پر کوئی ایسے ہی دیہاتی بزرگ پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے۔

آپ کوئی وزیر ہیں ؟

میں نے کہا نہیں

کوئی بڑے افسر ہیں ؟

نہیں

بزنس مین ہیں ؟

نہیں

تو پھر اتنے سارے لوگ آپ کو چھوڑنے کیوں آئے تھے ؟

میں نے بتایا کہ یہ سب لوگ پرانے دوست ہیں اس لیے آئے تھے۔

اچھا تو یہ کون سا ملک ہے ؟

روس ہے، اسے سویٹ یونین بھی کہتے ہیں، میں نے جواب دیا

یہاں کا بادشاہ کون ہے ؟

یہاں بادشاہ تو کوئی نہیں ہے، میں نے کہا، اپنے بادشاہ کو تو ان لوگوں نے بہت پہلے ہٹا دیا تھا۔ اب تو یہاں مزدوروں اور کسانوں کی حکومت ہے۔

اوہو۔ بڑے میاں کچھ متاسف ہو کر بولے ہم نے تو سنا تھا روس بہت بڑا اور امیر ملک ہے لیکن اگر یہاں کے حاکم بھی ہم جیسے ہی مزدور کسان لوگ ہیں تو یہ تو بہت غریب ملک ہو گا۔ ‘‘ 112؎

فیض صاحب نے جس پاکستانی دیہاتی کا واقعہ بیان کیا ہے کچھ اسی قسم کا تاثر ان کے بچپن کے دنوں میں ہندوستان کے عام لوگوں کے ذہنوں میں بھی تھا۔ فیض صاحب نے بھی ایک بار اپنے بچپن کے دنوں اور انقلاب روس کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے۔

’’ پہلی عالمگیر لڑائی ختم ہو چکی ہے۔ ایک جانب انگریز حکمراں اور ان کے دیسی حاشیہ بردار جشن فتح منا رہے ہیں، سڑکوں پر رنگین جھنڈیاں لگائی جا رہی ہیں، توپیں داغ رہی ہیں، بینڈ باجے اور فوجی سوار گشت کر رہے ہیں۔د وسری طرف قومی آزادی کی تحریک شروع ہو چکی ہے۔ آئے دن جلسے جلوس، نعرے، جو بولے سونہال ست سری آکال، نعرہ تکبیر اللہ اکبر، بندے ماترم، ٹوڈی بچہ ہائے ہائے، آزادی ہمارا پیدائشی حق ہے، بڑے بڑے لیڈر پھولوں سے لدی ہوئی گاڑیوں میں شہر سے گزر رہے ہیں۔ یہ موتی لال نہرو ہیں، یہ محمد علی اور شوکت علی ہیں، یہ ابو الکلام آزاد ہیں، یہ بابا کھڑک سنگھ ہیں، یہ ڈاکٹر کچلو ہیں، جگہ جگہ خوش آمدید کے لیے دروازے سجائے گئے ہیں اور کوچہ و بازار میں تماشائیوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہیں۔

انہی یادوں میں کہیں گڈ مڈ اخباروں کی شہ سرخیاں ہیں اور اخبار بیچنے والوں کا غوغا ہے، روس میں زار شاہی کا تختہ الٹ گیا، لینن نے مزدور طبقے کی حکومت قائم کر لی، سرخ انقلاب آ گیا، جگہ جگہ لوگوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ ہمارے گھر کے دیوان خانے میں، اسکول کے اسٹاف روم میں، محلے کی مسجد میں، ہر جگہ ایک ہی تذکرہ ہے۔

جب ابا کچہری چلے جاتے تو گلی محلے کے لوگ باگ جو ہمارے گھر کے آس پاس دکان یا کاروبار کرتے تھے اس گھر کے بیرونی چبوترے پر آ جمع ہوتے جہاں ابا کے موکلوں کے لیے بینچ اور منڈھے پڑے رہتے تھے۔ کوئی گاہک آ گیا تو جلدی سے اسے نبٹا کر پھر آ بیٹھے۔ اللہ دیا پہلوان، چراغ دین تیلی، اللہ رکھا قصاب، خوشیا حجام اور ان کے یار دوست گھنٹوں ملکی اور غیر ملکی سیاست پر گپ لڑاتے رہتے۔ روس کے بادشاہ زار کا تختہ تو الٹ گیا ہے نا وہاں کوئی لیڈر پیدا ہوا ہے لینن، اس نے مزدوروں کی فوج بنائی ہے اور بادشاہ کو بھگا کر سب روپیہ پیسہ لوگوں میں بانٹ دیا ہے۔ شاباش شیر دے پتر، یہ سامنے والا ساہوکار لالہ ہرجس رائے کا مال بٹے تو ہم سب کے وارے نیارے ہو جائیں۔ ‘‘ 113؎

بچپن کے اسی ماحول نے آگے چل کر ان کے مطالعے، مارکسزم سے آگاہی، ترقی پسند تحریک سے وابستگی اور عالمی سیاسی منظر نامے پر غور و فکر کی بناء پر فیض صاحب ذہنی طور پر سویت یونین کے بہت قریب ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ تاشقند کی سر زمین پر جب انہوں نے قدم رکھا تو انہیں ایسا لگا جیسے وہ اپنے خوابوں کی سر زمین پر آ گئے ہوں۔

تاشقند کانفرنس کے بعد کچھ لوگوں کی خواہش پر سمرقند و بخارا کی سیر بھی کروائی گئی جن میں فیض صاحب اور حفیظ جالندھری بھی شامل تھے۔ فیض صاحب کا سمرقند و بخارا کے بارے میں پہلا تاثر کچھ یوں تھا۔

’’ صبح منہ اندھیرے میرا چھوٹا سا طیارہ سمرقند کے ہوائی اڈے پر اترا۔ گردش افراسیاب کی گرد آلود سڑک کے دونوں جانب ویران چٹیل میدان تھے۔ دھیرے دھیرے اجالا پھیل رہا تھا اور پھر دور افق پر سمرقند کے گنبد و مینار دھک سے ایسے ابھرے جیسے یکایک دل میں کوئی خوبصورت شعر یا حسین خیال وارد ہوتا ہے۔ گور امیر یعنی امیر تیمور کا مقبرہ، جامع مسجد کا سرنگوں گنبد، مدرسہ الغ بیگ کی محرابیں، روشنی پھیلتی گئی ہم قریب آتے گئے اور فلم کے سلوموشن کی طرح ان عمارتوں کے دیوار و بام و در کے نقش و نگار اجاگر ہوتے گئے۔ ‘‘ 114؎

سمرقند کے بعد جب بخارا پہنچے تو فیض صاحب کا پہلا تاثر کچھ یوں تھا:ـ

’’ بخارا کی قدیم عمارتیں مٹیالے رنگ کے پتھر یا اینٹ کی ہیں جن پر سمرقند جیسا کاشی کاری کا رنگین کام بہت کم ہے۔ لیکن اس سطحی آرائش و زیبائش کی غیر موجودگی میں ان عمارات کے خم و خط کی شائستگی، ان کے در و بام کا تناسب اور ان کے بنیادی ڈیزائن کی خوبیاں اور بھی نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان میں آیات اور کتبے کندہ کرنے کے لیے رنگین ٹائلوں اور پچی کاری کے بجائے سنگ تراشی اور بنت کاری سے کام لیا گیا ہے جو کچھ کچھ اپنے ٹھٹھہ کے مکلی کے مزاروں سے مشابہ ہے۔ اس پہلی اور سرسری نظر میں مجھے یوں لگا کہ بخارا اور ثمرقند کے فن تعمیرات میں کچھ ویسا ہی فرق ہے جو ہمارے ہاں تغلق اور لودھی عہد کی عمارتوں اور جہانگیر اور شاہ جہاں کے زمانے کی عمارات میں ہے۔ ‘‘ 115؎


ہزار سالہ جشن رود کی



سمرقند اور بخارا کے بعد فیض صاحب اور دوسرے مندوبین تاجکستان کے شہر دو شنبہ گئے جہاں انہوں نے رود کی کے ہزار سالہ جشن میں بھی شرکت کی۔ دو شنبہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ یوں تو ہمیں تاشقند، سمرقند، بخارا، الماتا، اشک آباد یا مہاچ قلعہ کہیں بھی اجنبیت کا زیادہ احساس نہیں ہوتا اس لیے کہ اخلاق و آداب، رہنے سہنے، کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے میں یہاں کے سب لوگ اپنے ہی بھائی بند معلوم ہوتے ہیں لیکن تاجکستان میں ان سب باتوں پر مستزادیہ ہے کہ مترجم کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاجکستان کی زبان فارسی ہے اور وہ بھی ایرانیوں والی فارسی نہیں ہماری والی فارسی ہے لیکن یہاں کے لوگ اسے فارسی نہیں کہتے بلکہ تاجکی کہتے ہیں۔ یہ جائز اور صحیح بھی ہے بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ آج کل کی ایرانی زبان کو بھی فارسی نہیں ایرانی کہنا چاہیے کیوں کہ اس کی موجودہ لغت اور لب و لہجہ اس زبان سے مختلف ہے جو کسی زمانے میں وسط ایشیا کی مشترکہ علمی اور ادبی زبان تھی۔ تاجکستان میں یہی پرانی زبان رائج ہے۔ جشن رود کی بہت دھوم دھام سے منایا گیا۔ شاہراہوں پر جگہ جگہ رود کی کی تصویریں اور اشعار کے کتبے آویزاں تھے۔ شہر کی صدر لائبریری میں رود کی سے متعلق کتابوں اور مخطوطات کی نمائش لگی تھی اور ہمیں یہ دیکھ کر خاص خوشی ہوئی کہ ان کتب میں مولانا شبلی نعمانی کی شعر العجم کو سب سے ممتاز مقام حاصل ہے۔ ‘‘ 116؎

اس کے بعد فیض صاحب باکو اور پھر تبلسی ہوتے ہوئے ماسکو پہنچے اور پھر تو اس شہر میں کسی نہ کسی بہانے آئے دن آنا جانا لگا رہتا تھا۔

نہ ماسکو فیض صاحب کے لیے کوئی نیا شہر تھا اور نا ہی فیض صاحب وہاں کے جنوبی ایشیا شناسوں کے لیے نئے تھے۔ ڈاکٹر لڈمیلا وسی لیوا نے ایک بار ان کو ماسکو میں خوش آمدید کہتے ہوئے بڑے خوبصورت انداز میں کہا تھاـ:

’’ فیض صاحب سویت لوگوں کے عزیز ترین مہمان ہیں۔ فیض نا صرف ہمارے محبوب شاعر ہیں بلکہ ہمارے بڑے دوست بھی ہیں وہ پاکستانی عوام کے نمائندے ہیں۔ ہر بار ماسکو پہنچ کر فیض صاحب سویت دار الحکومت کی خبریں پوچھتے ہیں، اپنے وطن کی اور اپنی باتیں بتاتے ہیں۔ ہمیں اپنے نئے تاثرات میں شریک کرتے ہیں، اپنے تخلیقی منصوبوں پر روشنی ڈالتے ہیں اور بے شک اپنا کلام سنانے کی فرمائش پوری کرتے ہوئے ہم پر عنایت کرتے ہیں۔ کبھی ایس ابھی ہوتا ہے کہ ماسکو کا موسم ہمارے پاکستانی دوست کا خیر مقدم مسکرا کر نہیں کرتا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ برفیلی ہوائیں، جنوبی مہمان کو یاد دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ شمالی علاقوں میں تشریف لائے ہیں۔ لیکن اگر موسم بگڑا بھی ہو تو فیض صاحب کو کیا غم، ماسکو ان کے متعدد پر خلوص دوستوں کی مسکراہٹوں کی روشنی سے ہر وقت منور رہتا ہے اور ان کے دلوں کی گرمی موسم کی ٹھنڈ کا احساس بھی نہیں کرنے دیتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ماسکو میں شاعر کا موڈ شاعرانہ رہتا ہے کہ بہت سی خوب صورت نظمیں اور غزلیں، ماسکو کی سر زمین پر ہی کہی گئی ہیں۔ ‘‘ 117؎

اس لیے اس زمانے کی سویت یونین میں لکھی جانے والی ان کی نظموں اور غزلوں کی تعداد31 کے قریب ہے۔ یہ تمام کی تمام شاعری ان کے مطبوعہ کلام میں شامل ہے۔ 118؎ ماسکو شہر ہمیشہ سے ہی ان کے لیے چشم و دل وا کیے ہوئے ملا۔ ماسکو کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی انہوں نے مزے لے لے کر بیان کیا ہے۔

’’ ماسکو آئے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ پہلے میری پنڈلیوں، پھر چھاتی اور بازوؤں پر کچھ دانے نکل آئے۔ پہلے تو میں نے خیال نہیں کیا پھر خارش سے ذرا تکلیف شروع ہوئی تو میں نے مریم سلگا نیک سے کہا کہ ذرا ہوٹل کے ڈاکٹر سے کہو مجھے کوئی مرہم وغیرہ دے دے۔ ڈاکٹر نے ایک نظر دیکھا اور کہا کہ آپ کلینک میں جا کر معائنہ کروائیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ڈاکٹروں کا پورا بورڈ جمع تھا۔ ہمیں پوری طرح ٹھوک بجا کر دیکھ چکے تو سب ایسے خوش نظر آ رہے تھے جیسے کوئی نعمت ان کے ہاتھ آ گئی ہو۔ پھر پتہ چلا کہ ایمبولینس آ رہی ہے اور ہمیں کلینک سے ہوٹل کے بجائے سیدھا اہسپتال جانا پڑے گا۔ میں نے مترجم سے پوچھا اسپتال کی کیا مصیبت ہے۔ بھئی کل میں نے بہت سی ملاقاتیں طے کر رکھی ہیں۔ یہیں سے کوئی دوا دے دیں، ہم ہوٹل میں خود جو کرنا ہے کر لیں گے۔ مترجم نے کہا ڈاکٹر تو اس بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ اتنے سال بعد جلد کا یہ جرثومہ ان کے ہاتھ آیا ہے، تمہیں آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔ پھر کسی دور دراز جگہ ہم ہسپتال پہنچے اور وہاں داخلے کے بعد ہمیں اپنا جیل خانہ یاد آ گیا۔ باہر گارد لگی ہے اور ڈاکٹر بھی پاس دکھائے بغیر اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ تو سات آٹھ دن ہسپتال میں رہنے کے بعد تنہائی اور پرہیز سے دل اچٹنے لگا۔ خوش قسمتی سے اکتوبر انقلاب کا دن آ گیا اور ہمیں بہت منت سماجت کے بعد رخصت کی اجازت مل گئی۔ ‘‘ 119؎


وطن واپسی



الیگزنڈر سرکوف نے روسی زبان میں فیض صاحب کی شاعری کا ترجمہ کرتے ہوئے اس کے دیباچے میں لکھا ہے :

’’ جن دنوں فیض افروا یشیائی ادیبوں کی کانفرنس میں شرکت کے لیے سویت یونین تشریف لائے تو واپسی میں ماسکو سے روانگی تھی اور وہاں پر ’’ ماسکو میں ادیبوں کی انجمن کے ایک کمرے میں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں نظمیں پڑھ رہے تھے اور روسی زبان میں ان کی نظموں کا ایک مجموعہ شائع کرنے کی بابت بات چیت کر رہے تھے۔ پھر اتفاق سے ہماری گفتگو کا رخ نظموں سے ہٹ کر اس وقت کی سیاست کی طرف ہو گیا۔ میں نے پوچھا تو پھر مستقبل قریب میں آپ کا کیا ارادہ ہے ؟فیض نے اپنی سیاہ آنکھوں سے جن کی گہرائی میں قدرے اداسی تھی، میری طرف دیکھا۔ لیکن ان کے ہونٹوں پر ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ موجود تھی۔ بس پہلے تو میں لندن جاؤں گا، وہاں اپنے بعض دوستوں سے ملوں گا جو ابھی ابھی پاکستان سے آئے ہیں۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ میں کراچی، لاہور، اپنے وطن واپس چلا جاؤں گا۔

لیکن آپ جانتے ہیں کہ اب وہاں۔ ۔ ۔ ۔

ان کے ہونٹوں کے کناروں پر وہی ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں تو مجھے وطن ہی واپس جانا چاہیے۔

تو پھر جیل یقینی ہے۔ ۔ ۔ ۔

شاید۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کسی بڑے مقصد کی خاطر انسان کو جیل بھی جانا پڑے تو ضرور جانا چاہیے۔

لیکن اگر۔ ۔ ۔ ۔ جیل سے بھی بدتر کچھ ہو تو؟‘‘

شاعر نے کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا جہاں باغ کے وسط میں ٹالسٹائی کا مجسمہ نصب تھا، سرد اور خزاں زدہ آسمان پر نظر ڈالی۔ مسکراہٹ بدستور موجود تھی۔ چند لمحے توقف کے بعد انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں آہستہ سے کہا

’’ اگر جیل سے بھی بدتر کوئی چیز ہوئی تو پھر یقیناً برا ہو گا۔ لیکن تم جانتے ہو جد و جہد بہرحال جد و جہد ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ 120؎

یہ تھا ان کا نہایت پرسکون لیکن پر اعتماد جواب۔ ‘‘

فیض صاحب ابھی تاشقند پہنچے ہی تھے کہ پاکستان میں جنرل ایوب خاں کے لگائے ہوئے مارشل لاء کی خبر ان تک پہنچی۔ ظاہر ہے یہ ایک دکھی کر دینے والی خبر تھی لیکن ان کے حوصلہ مند دل نے اداسی کے ہاتھوں شکست نہیں کھائی۔ نہ صرف سویت یونین بلکہ لندن میں بھی کچھ دوستوں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ ان حالات میں پاکستان ہرگز واپس نہ جائیں مگر فیض صاحب نے اپنے دل میں ایک فیصلہ کر لیا تھا اور وہ فیصلہ واپس وطن جانے کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ وہ بالآخر کچھ دن لندن رکتے ہوئے واپس پاکستان آ گئے۔

٭٭٭






ایوب کے مارشل لاء سے سقوط ڈھاکہ تک
(1971-1958)


دوسری بار گرفتاری



فیض صاحب ان دنوں سویت یونین ہی میں تھے جب پاکستان میں اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خان نے پورے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ ان کے دوستوں اور ساتھیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایسی صورت میں پاکستان نہ جائیں بلکہ کچھ دنوں کے لیے لندن ہی میں قیام کر لیں اور جب بعد میں حالات سازگار ہو جائیں تو واپس چلے جائیں لیکن انہوں نے اپنے وطن واپسی کا پکا ارادہ کر لیا تھا اور وہ اس پر پوری طرح قائم رہے۔

البتہ فیض صاحب نے ماسکو سے سیدھا پاکستان جانے کے بجائے لندن میں کچھ دن قیام کیا۔ لندن میں قیام کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہی دنوں وہاں ان کی فلم جاگو ہوا سویرا کی تدوین ہو رہی تھی جس کے لیے اختر کار دار نے انہیں پاکستان جانے سے پہلے لندن میں کچھ دن قیام کرنے کو کہا تاکہ اس سے متعلقہ امور پر ان سے مشورے لے لیے جائیں۔ چنانچہ حفیظ جالندھری جو ان کے ساتھ کانفرنس میں آئے تھے، وہ تو سیدھے ماسکو سے پاکستان روانہ ہو گئے جب کہ فیض صاحب نے لندن کی راہ لی۔ وہاں تقریباً دو ہفتے قیام کے بعد وہ دسمبر1958ء میں پاکستان واپس آ گئے۔ کراچی میں ان کی ملاقات ایوب خان کی کابینہ کے ایک مرکزی وزیر اور ان کے قریبی دوست منظور قادر سے ہوئی۔ اس ملاقات سے فیض صاحب کو یہ تاثر ملا گویا ان کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ مگر سرکار دربار کے مفادات کی دنیا بالکل الگ ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہاں جو کچھ نظر آ رہا ہے وہی اصل بھی ہو۔

فیض صاحب کراچی سے لاہور پہنچے جہاں چھیمی کی سال گرہ بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔ سب لوگ بہت خوش تھے مگر خوشی کے یہ لمحے زیادہ دیر پا ثابت نہ ہو سکے۔ سالگرہ کے دوسرے ہی دن ان کے گھر ایک بار پھر پولیس والے آن دھمکے اور انہیں ان کی گرفتاری کا پروانہ دکھایا۔ فضا صاحب نے اس بار گرفتار کیے جانے کے بارے میں کہا:

’’ ہماری گرفتاری کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ جب ملک میں کوئی ہنگامہ ہوتا یا کوئی حکومت تبدیل ہوتی تو اپنے مخالفین کو احتیاطاً نظر بند یا قید کر دیتے تھے یا کوئی سزا دے دیتے تھے مگر ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کرتے ہی یہ کمال کیا کہ 1921ء کے زمانے سے لے کر مارشل لاء کے نفاذ تک سی آئی ڈی کی فائلوں میں جن جن لوگوں کے نام موجود تھے انہیں بلا لحاظ اس بات کے پکڑ لیا کہ ان لوگوں نے کچھ کیا بھی تھا یا نہیں۔ پولیس کی نظر میں اور خفیہ پولیس کی فائل میں انگریز کے زمانے سے جو لوگ مشتبہ قرار دیے گئے تھے ان سب کو نظر بند کر دیا۔ خان صاحب نے حکم دیا کہ ایسے سارے لوگوں کو گرفتار کر لو، اچھی طرح تفتیش کرو کہ آج کل ان کی سیاسی سرگرمیاں کیا ہیں اور یہ کس حد تک ہمارے مخالف ہیں یا کس حد تک آئندہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ جن لوگوں کے خلاف کوئی چیز نہ ہو ان کو چھوڑ دو۔ جب ہم گرفتار ہوئے تو ہم نے پوچھا کہ بھئی ہمیں کس شوق میں گرفتار کیا گیا ہے ؟ ہم نے تو کچھ نہیں کیا اور ہم یہاں تھے بھی نہیں۔ ہمیں تو حکومت کی طرف سے ماسکو بھیجا گیا تھا۔ اس پر جواب ملا ہاں آپ نے کچھ کیا نہیں ہے اور ہم نے بھی آپ پر کوئی الزام نہیں لگایا ہے۔ آپ کو تو محض احتیاطاً قید میں رکھا ہے۔ جب ہم یہ سمجھیں گے کہ حکومت کو آپ سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے تو آپ کو چھوڑ دیں گے یا پھر ایک صورت یہ ہے کہ آپ لکھ کر دے دیں کہ آپ حکومت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ ہم نے کہا اس میں لکھ کر دینے کی کوئی بات نہیں کیونکہ ہم ایک زمانے سے سیاست میں کوئی حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا پھر آپ لکھ کر دیں کہ آپ حکومت کا ساتھ دیں گے۔ ہم نے جواب دیا ہم آپ کو کوئی تحریر نہیں دیں گے۔ ہر دسویں پندرھویں دن پولس کے کوئی بڑے افسر صاحب تشریف لاتے اور کہتے آپ لکھ کر دے دیں اور ہم ان کار کر دیتے تھے۔ چار مہینے کے بعد ہم سے کہا گیا کہ اب آپ گھر جائیے۔ ‘‘ 121؎

جیل خانہ جو اب بظاہر ان کا دوسرا گھر بنتا جا رہا تھا وہاں ان سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کو جو جوابات وغیرہ دینے تھے وہ تو اپنی جگہ دیے ہی ہوں گے لیکن اس کا تخلیقی اظہار انہوں نے کچھ اس طرح کیا تھا۔

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عمر سے ہم نے بھر پایا وہ سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشت خاک جگر ساغر میں ہے خون حسرت مے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں

اس بار پہلے تو انہیں لاہور جیل میں رکھا گیا مگر بعد میں انہیں شاہی قلعے میں پہنچا دیا گیا جہاں اور دوسرے سیاسی قیدیوں کے ساتھ وہ بھی قید میں رہے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ اسی قلعے میں ان کے والد سلطان محمد خاں بھی کسی زمانے میں اسی قلعے میں قید رہے تھے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر ایوب مرزا نے ان سے مذاق میں کہا کہ اب تو شاہی قلعہ کو بھی قومی ورثہ قرار دے دینا چاہیے تو فیض صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

’’ بھئی یہ بھی ہمارا تاریخی اثاثہ ہے اسے جیل خانہ واقعی نہیں بنانا چاہیے۔ جیلوں کی ملک میں کیا کمی ہے۔ قلعہ تو ہمارا ورثہ ہے۔ ‘‘ 122؎

جن دنوں فیض صاحب لاہور میں قید تھے تو ان سے ملاقات کے لیے ایلس نے درخواست دی مگر بقول ایلس:

’’ سی آئی ڈی کے ذمہ داروں نے دانستہ جھوٹ سے کام لیا۔ انہوں نے اس بات سے لا علمی کا اظہار کیا کہ فیض لاہور جیل سے قلعہ میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔ چنانچہ اس دانستہ جھوٹ کی وجہ سے میں لاہور جیل گئی۔ وہاں پتہ چلا کہ فیض تو وہاں سے جا چکے ہیں اور جب میں نے ملاقات کے لیے دوبارہ درخواست دی تو میں غصہ کے مارے سچ مچ ابل پڑی تھی۔ آخر کار میں اپنی بوڑھی ساس کے ساتھ قلعہ لاہور پہنچی فیض کو ان کی کوٹھری سے بلایا گیا۔ انہیں دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ یا تو انہیں شیو کرنے کی اجازت نہیں دی گئی یا انہیں نے خود ہی داڑھی بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ان کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے پچھلے چوبیس گھنٹے خوشگوار ہرگز نہ تھے۔

میں نے پوچھا ’’ تم نے ناشتہ کیا ہے ؟‘‘

فیض نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’ ہاں ‘‘

کیا؟ یہ تھا میرا دوسرا سوال

’’ ایک بن اور ایک پیالی چائے ‘‘ فیض نے جواب دیا

بن کا لفظ سنتے ہی میں جیسے بارود بن گئی۔ جیسے کسی نے بندوق کی لبلبی پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ میرے مزاج کی یہ کیفیت کیوں کر ہوئی اس کا جواب خود مجھے بھی کبھی نہ مل سکا۔ لیکن شاید اس وقت بن ایک علامت بن گیا تھا۔ ایک اشارہ ان تمام نا انصافیوں، دکھ درد، ذلت، فریب اور دروغ گوئی کا جن کا میں گزشتہ کئی ماہ سے شکار تھی۔ ‘‘ 123؎

انہی دنوں جیل میں فیض صاحب کے دانتوں کی تکلیف بڑھ گئی۔ پولیس کی حراست میں انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں پولیس کی گاڑی خراب ہو گئی۔ فیض صاحب کا اصرار کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس جانا ضروری ہے۔ چنانچہ تانگے میں بیٹھ کر لاہور کی سڑکوں سے ان کا گزر ہوا۔ تانگے پر بیچ میں فیض صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں جانب مسلح پولیس والے۔ جب تانگہ لاہور کے گنجان بازار سے گزر رہا تھا تو کچھ لوگوں نے انہیں پہچان لیا اور وہ ٹانگے کے پیچھے پیچھے ایک جلوس کی شکل میں چلنے لگے۔ ایک عجیب منظر رہا ہو گا۔ اسی پس منظر میں فیض صاحب نے اپنی یہ یادگار نظم لکھی۔

آج بازار میں پابجولاں چلو

چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں

تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو

دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو خوں بد اماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

حاکم شہر بھی مجمع عام بھی

تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی

ان کا دمساز اپنے سوا کون ہے

شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے

دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

خود انہوں نے ایک جگہ اس واقعے کو یوں بیان کیا ہے :

’’ آج بازار میں پابجولاں چلو کا واقعہ یوں ہے کہ ہم منٹگمری (ساہیوال) جیل سے دانتوں کے علاج کے لیے کچھ دن کے لیے لاہور جیل لائے گئے۔ یہاں سے ہر صبح دانتوں کے ہسپتال جو شہر کے دوسرے کنارے پر ہے پولیس کی گاڑی میں جانا ہوتا تھا۔ ایک دن موٹر نہ مل سکی تو ہمیں تانگے میں مسلح گارڈ کے ساتھ ہسپتال جانا پڑا۔ لارنس روڈ، مال روڈ، کچہری روڈ، بیرون بھاٹی دروازہ اور راوی روڈ سے گزرے تو بہت سے لوگوں نے پہچان لیا، کیا جگہ مجمع جمع ہو گیا اور نعرے وغیرہ بھی لگے یہ نظم اسی واقعے سے متعلق ہے۔ ‘‘ 124؎

مگر اس واقعے کا ایک دلچسپ پہلو اور ہے جسے ان کی بیٹی سلیمہ نے ٹورنٹو کے فیض سیمینار میں اپنا مضمون پڑھتے ہوئے بیان کیا ہے وہ کہتی ہیں :

’’ گرفتاری کے چند روز بعد لارنس روڈ پر چلتے ہوئے مجھے ایک دم ابا نظر آئے۔ چار پولیس والوں کے ساتھ تانگے میں گزر رہے تھے۔ حسب معمول اطمینان سے سگریٹ کے کش لگا رہے تھے اور سامنے ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔ انہیں سڑک کے کنارے کھڑی اپنی ہی بیٹی نظر نہ آئی۔ بیٹی بھی حیرت اور بے چارگی میں یوں گم سم کھڑی رہی کہ حلق سے آواز ہی نہ نکلی اور تانگہ گزر گیا اور میں سارا راستہ آنسو پیتی رہی۔ ‘‘ 125؎


میاں افتخار الدین کا انتقال



فیض صاحب کے بہت قریبی دوست اور سیاسی رفیق میاں افتخار الدین جن کے ساتھ ایک لمبا عرصہ انہوں نے گزارا تھا وہ اچانک انتقال فرما گئے جس کا فیض صاحب کو بے حد صدمہ تھا۔ میاں افتخار الدین سے یہ تعلق پاکستان ٹائمز کے زمانے میں اور بڑھتا گیا۔ ان کی موت پر انہوں نے جو غزل لکھی وہ کسی مرثیے سے کم نہیں تھی۔ ان کے مشترکہ دوست اندر کمار گجرال نے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ جب فیض صاحب جیل میں تھے تو ’’ تھوڑے ہی دنوں بعد میاں افتخار الدین انتقال فرما گئے۔ اپنے وقت میں بڑے ٹھاٹھ کے انسان تھے۔ آکسفورڈ میں پڑھتے پڑھتے انقلابی بن گئے۔ واپس آ کر پنجاب کانگریس کے صدر بنے۔ جواہر لال کے ساتھ ان کا نہایت قریبی رشتہ تھا۔ میرے والد اور وہ جیل میں دو بار اکٹھے تھے۔ فیض، ظہیر، مظہر اور ہم جیسے لیفٹسٹ لوگوں کے ساتھ ان کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ فیض کو ان کی موت کا بہت رنج ہوا اور جیل سے انہوں نے ایک درد ناک مرثیہ لکھا۔ ‘‘

کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا

جب ہم لوگوں نے یہاں اس شعر کو سنا تو ہندوستان کی سیاست ایک نیا موڑ لے رہی تھی۔ کانگریس دو حصوں میں بٹ رہی تھی جس دن اندرا جی کو کانگریس سے نکالا گیا تو میں نے ان کو یہی شعر لکھ کر بھیج دیا۔ ان کوبہت بھایا گو ان کو شعر یاد کرنے کی مہارت تو نہ تھی لیکن پھر بھی کئی دفعہ کہہ دیتی تھیں :

’’ کیا تھا وہ فیض کا شعر‘‘ 126؎


پاکستان ٹائمز میں ملازمت کی پیش کش



جیل سے رہا ہونے کے بعد فیض صاحب کے سامنے جب روزگار کا مسئلہ آیا تو یہ ان کے لیے بڑا کٹھن سوال تھا۔ پہلی بار جب جیل گئے تھے تو پاکستان ٹائمز کا ادارہ سلامت تھا۔ مگر اب جو جیل سے باہر آئے تو پاکستان ٹائمز تو تھا مگر اس کا چہرہ مسخ ہو چکا تھا۔ مارشل لاء کی حکومت نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ ایسی صورت میں فیض صاحب اس اخبار کی ادارت کیسے سنبھال لیتے ؟ نئی حکومت نے ان کو اس چکر میں پھنسانا چاہا تھا لیکن وہ اس کے جھانسے میں آئے نہیں۔ اس واقعے کو انہوں نے ایک جگہ یوں بیان کیا:

’’ جیل سے رہائی کے تیسرے دن میرے ملازم نے بتایا کہ جناب پولیس کی گاڑی آئی ہے میں نے کہا پھر آ گئے۔ دیکھا کہ نذیر رضوی ہیں۔ پوچھا کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگے کہ میں آئی جی، سی آئی ڈی، کی حیثیت سے یہاں نہیں آیا ہوں بلکہ تمہارے دوست کی حیثیت سے آیا ہوں۔ میں نے کہا بہت اچھی بات ہے۔ بتاؤ کیا بات ہے ؟ نذیر رضوی کہنے لگا وہ جو اخبار سرکار نے لے لیا ہے آپ اس کے چیف ایڈیٹر بن جائیں میں نے کہا بھاگ جاؤ۔ ‘‘ 127؎

اس طرح فیض صاحب نے اصولوں کی خاطر کوئی سودے بازی نہیں کی اور صحافت کے مقدس اصولوں کی مکمل پاسداری کی۔ انہوں نے بظاہر چمک دمک والی اس نوکری کی طرف انتہائی ضرورت کے وقت بھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ یہ حوصلہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے اور فیض صاحب نے اس حوصلے کا بڑی بہادری سے اظہار کیا۔






ثقافتی شعبوں سے وابستگی



فیض صاحب نے صحافت سے ثقافت کی طرف آنے کی ایک وجہ یہ بتائی:

’’ جب عملی سیاست میں اظہار کے ذرائع بند ہو گئے تو میں نے ادب اور ثقافت کے حوالے سے بات کی۔ کیوں کہ میرے خیال میں عوام کی اپنی شناخت اپنی ثقافت اور اپنی قدروں کے حوالے سے بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر آزاد قوم کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس شناخت کا ادراک قومی آزادی کی جد و جہد کا بنیادی جذبہ محرک ہے۔ اس میدان میں اظہار کے معنی دو طبقات سے زور آزمائی تھا۔ ایک تو وہ ریاست کا استبدادی طبقہ جو اپنے نو آبادیاتی تصورات میں کسی قسم کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتا اور دوسرے وہ جو محدود مذہبی شاونزم کا شکار ہیں۔ اس میدان میں بھی اتنا ہی کر سکا جتنی استعداد تھی کچھ قدم آگے بڑھائے اور پھر وہی نا امیدی اور مایوسی۔ ‘‘ 128؎

مایوسی اور نا امیدی کی تو خیر کوئی بات نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اپنی استعداد بھر اس میدان میں حصہ لیا اور یہ حصہ کچھ ایسا کم بھی نہیں کہا جا سکتا۔


لاہور آرٹس کونسل



جیل سے رہائی کے بعد روزگار کا مسئلہ یوں حل ہوا کہ فیض صاحب کو لاہور آرٹس کونسل کا سیکرٹری مقرر کر دیا گیا۔ اس ادارے سے وہ 1959ء سے جون1962ء تک وابستہ رہے۔ ان کے ایک دیرینہ دوست حمید اختر لکھتے ہیں :

’’ ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا اندازہ آرٹس کونسل لاہور کی حالت سے کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے اس ادارے کی زبوں حالی کا مشاہدہ، فیض کے چارج لینے سے پہلے کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس عمارت پر اصطبل کا گمان ہوتا تھا۔ نیشنل آرٹس گیلری کی تصویروں پر مٹی کی موٹی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ عمارت کے احاطے میں کتے لوٹتے تھے۔ تہذیبی سرگرمیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ لیکن فیض کے آتے ہی یہ عمارت لاہور میں تہذیبی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز بن گئی۔ دو سال کی مدت میں فیض نے اس کی بنیادوں کو اتنا مضبوط بنا دیا ہے کہ اب اس کے زوال کا کوئی اندیشہ نہیں۔ ‘‘ 129؎

تقریباً چالیس سال پہلے کی گئی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور یقیناً آج الحمراء کے در و دیوار اس کی مضبوط بنیادوں کی گواہی بڑے فخر سے دے رہے ہیں۔ لاہور کی خوب صورت مال روڈ سے گزرتے ہوئے آج بھی جب کسی مسافر کی نظر الحمراء پر پڑتی ہے تو ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں فیض صاحب کا نام کہیں نہ کہیں ضرور چمکنے لگتا ہے۔

لاہور آرٹس کونسل اور فیض صاحب کے تعلق سے سبط حسن نے لکھا:

’’ یہ تہذیبی ادارہ پاکستان بننے کے تھوڑے ہی عرصے بعد مال روڈ پر ایک متروکہ عمارت میں قائم ہوا تھا۔ اس کو صوبائی حکومت سے کچھ امداد بھی ملتی تھی مگر شہر میں اس کا عدم و و جود برابر تھا۔ سال میں کبھی کسی فنکار نے اپنی تصویروں کی نمائش کر دی یا کوئی ڈرامہ ہو گیا۔ وہ بھی اس طرح کہ کسی کو خبر ہوئی کسی کو نہ ہوئی۔ فیض صاحب اس دم توڑتے ادارے کے سیکرٹری ہوئے تو اس کے تن بے جاں میں نئی روح دوڑ گئی۔ اور جس ویرانے میں الو بولتے تھے اس کے در و دیوار ساز و نغمے کی آوازوں سے گونجنے لگے۔ فیض صاحب نہ موسیقار تھے نہ اداکار، نہ مصور تھے نہ مجسمہ ساز مگر ان کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ وہ نوجوان فنکاروں سے اتنی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے کہ جس فنکار کو دیکھو، کام ہو یا نہ ہو، الحمراء کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہے۔ کسی کمرے میں ڈرامے کی ریہرسل ہو رہی ہے، کسی گوشے میں طبلے کی تھاپ اور پائل کی جھنکار کی آوازیں آ رہی ہیں، کسی کمرے میں تصویروں کی نمائش لگی ہوئی ہے، کہیں کٹھ پتلی کے ناچ کا پروگرام بن رہا ہے اور کھلے میدان میں نو آموز مصور کھڑے کاغذ پر رنگ بھر رہے ہیں۔ فیض صاحب نے آرٹسٹوں کی سہولت کی خاطر ایک چائے خانہ بھی بنوایا تھا۔ چائے خانے کے سامنے لان پر آدھی رات تک چہل پہل رہتی اور بے فکرے مونڈھوں پر بیٹھے دنیا بھر کے مسائل پر بحث کرتے رہتے تھے۔ کبھی کبھار فیض صاحب بھی اپنے کمرے سے نکل کر وہیں آن بیٹھتے تو محفل کی رونق اور بڑھ جاتی۔ فیض صاحب کی کوششوں سے الحمراء جلد ہی شہر کا سب سے فعال تہذیبی مرکز بن گیا۔ وہ ان دنوں بے حد خوش تھے۔ ان کو اپنی مرضی کے مطابق فنون لطیفہ کو فروغ دینے کا موقعہ ملا تھا اور شہر کے سبھی فنکار رضا کارانہ طور پر ان سے بھرپور تعاون کر رہے تھے۔ فیض صاحب نے چھوٹی سی ایک عارضی عمارت بھی بنوا دی تھی۔ جہاں نوجوانوں کو مصوری کا درس دیا جاتا تھا۔ انہوں نے ایک مشہور اطالوی انجینئر سے الحمراء کی نئی عمارت کا نقشہ بھی مفت بنوا لیا تھا۔ اور عمارت فنڈ کی کوشش بھی شروع کر دی تھی۔ فیض صاحب کی دلی خواہش تھی کہ الحمرا کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو جائے تا آنکہ ہر شہر میں آرٹ کونسل کی شاخیں کھل جائیں اور فنون لطیفہ کے فروغ کی تحریک ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لے۔

ابتدا میں تو سرکاری حلقوں نے الحمراء کی سرگرمیوں کو درخور اعتنا نہ سمجھا بلکہ فیض صاحب کے کاموں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے رہے لیکن رفتہ رفتہ جب الحمراء کا چرچا عام ہوا تو ارباب اختیار کو اس میں اپنے فائدے کے پہلو نظر آنے لگے۔ اب تک یہ ہوتا تھا کہ بیرون ملک سے ممتاز سرکاری مہمان لاہور آتے اور رقص و موسیقی یا مصوری کے نمونے دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتے تو میزبانوں کو بڑی مشکل پیش آتی کیوں کہ شہر میں ایسا کوئی مرکز نہ تھا جس کی ان کو سیر کروائی جاتی۔ چنانچہ شاہ ایران جب لاہور آئے تھے تو ان کو پنجاب اسمبلی کے جھروکے میں بٹھا کر قوالی سنوائی گئی تھی۔ البتہ قوال حضرات نیچے سڑک پر بیٹھے تھے۔

فیض صاحب کی انتھک محنت سے الحمرا اب اس قابل ہو گیا تھا کہ معزز سے معزز مہمان کو بھی وہاں مدعو کیا جا سکتا تھا لیکن ایک حلقے کو آرٹس کونسل کی یہ شہرت اور مقبولیت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ ان کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں لاہور کے نوجوان فنکاروں پر فیض صاحب کا جادو نہ چل جائے اور وہ بھی سوشلسٹ اور کمیونسٹ نہ بن جائیں۔ فیض صاحب اس گروہ کے اخباری شور و غوغا کو خاطر میں نہ لاتے تھے مگر جنرل ایوب خان کے دربار اکبری میں کئی عبدالرحیم خان خاناں بھی تھے جو خود کو ادب و فن کا سب سے بڑا سرپرست خیال کرتے تھے۔ ‘‘ 130؎

اب جب کہ دربار ایوبی کے خان خاناں کا ذکر آ ہی گیا ہے تو اس ادارے کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ پر بھی نظر ڈالتے چلیں۔ قدرت اللہ شہاب جو ایوب خان کے دور میں مرکزی حکومت میں سیکرٹری تھے انہوں نے لاہور آرٹس کونسل کے ضمن میں ایک واقعہ بتایا:

’’ جس زمانے میں فیض صاحب لاہور آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر تھے، جسٹس ایس اے رحمان نے ایک روز مجھ سے فرمایا کہ اگر صدر مملکت اس ادارے کو کسی وقت وزٹ کر لیں تو ممکن ہے کہ اس کے کام میں چند مقامی رکاوٹیں دور ہو جائیں۔ صدر تو بخوشی مان گئے لیکن گورنر کالا باغ نے خود آنے سے صاف ان کار کر دیا۔ انہیں منانے کی کوشش کرنے میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو ان کے پاس پنجاب پولیس کا ایک نامی گرامی افسر بیٹھا تھا۔ نواب صاحب نے دو ٹوک جواب دے دیا کہ وہ ایسے کنجر خانوں میں جانا پسند نہیں فرماتے۔ صدر صاحب کو بھی وہاں مت لے جاؤ۔ فیض احمد فیض کے متعلق اپنی شدید ناپسندیدگی کا اظہار فرمانے کے بعد انہوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے پولیس افسر کی طرف اشارہ کر کے کہا فیض کے لیے میں نے یہ السیشن پال رکھا ہے۔ صدر کے دورے کے بعد اسے چھوڑ دوں گا۔ ‘‘ 131؎

ثقافت کے باب میں لاہور آرٹس کونسل سے شروع کیا جانے والا سفر، آرٹس کونسل کراچی سے ہوتا ہوا اسلام آباد کی نیشنل کونسل آف آرٹس پر جا کر اختتام پذیر ہوا۔ مگر اس سفر میں ان کے چھوڑے ہوئے نقش قدم آج بھی پاکستانی ثقافت کا قبلہ درست رکھنے میں معاون و مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔


دل کا دورہ



آرٹس کونسل لاہور کی شب و روز کی مصروفیات اور پھر حکومتی اداروں کی طرف سے مسلسل دباؤ جیسے مستقل ماحول نے آخر کار اپنا ہرجانہ وصول کر ہی لیا۔ مشرقی پاکستان سے واپسی کے سفر کے بعد ان پر دل کا دورہ پڑا۔ امرتا پریتم کو ایک انٹرویو میں ایلس نے بتایا:

’’ 1962ء میں فیض کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ‘‘ 132؎

جبکہ ڈاکٹر ایوب مرزا نے ہارٹ اٹیک کا سال 1958ء بتایا ہے۔ (133) البتہ اس واقعے کے کافی عرصے بعد فیض صاحب نے ہارٹ اٹیک کے عنوان سے ایک بہت خوب صورت نظم لکھی جو ان کے مجموعہ کلام سر وادی سینا میں شامل ہے۔

ہارٹ اٹیک

درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے

ہر رگ جاں سے الجھنا چاہا

ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا

اور کہیں دور ترے صحن میں گویا

پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر

حسن مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا

میرے ویرانہ تن میں گویا

سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر

سلسلہ وار پتہ دینے لگیں

رخصت قافلہ شوق کی تیاری کا

اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں

نظر آیا کہیں

ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا

درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا

ہم نے چاہا بھی مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا


میزان



1960ء میں ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ میزان‘‘ کے نام سے اردو اکیڈمی سندھ، کراچی نے شائع کیا اس ادارے کی طرف سے اس کا دوسرا ایڈیشن1965ء میں اور جدید ایڈیشن (جس سے راقم الحروف نے استفادہ کیا ہے )1987ء میں شائع ہوا ہے۔ اس کے فلیپ پر ڈاکٹر آفتاب احمد نے لکھا ہے :

’’ میزان فیض احمد فیض کے تنقیدی مضامین کا وہ مجموعہ ہے جو پہلی بار1960ء میں شائع ہوا ہے۔ ‘‘ 134؎

البتہ فیض صاحب کے سلسلے میں زیادہ تر جگہوں پر یہ تحریر ہے کہ یہ کتاب1962ء میں شائع ہوئی ہے۔ غالباً پہلی بار افکار کے فیض نمبر میں اس کا سن اشاعت1962ء بتایا گیا تھا اور پھر تقریباً سبھی لوگوں نے اسی طرح نقل کیا ہے۔ ان کے بہت قریبی دوست مرزا ظفر الحسن نے بھی اپنی کتاب عمر گزشتہ کی کتاب میں لکھا ہے :

’’ نثری مضامین کا یہ پہلا مجموعہ ہے (فروری1962ئ) ’’ناشرین‘‘ نام کے ادارے نے شائع کیا ہے۔ ‘‘ 135؎

بہرحال میزان ان کی پہلی باقاعدہ نثری کتاب ہے جس کا انتساب انہوں نے پطرس، تاثیر، حسرت محمود اور رشید جہاں کے نام کیا ہے۔

میزان کے مضامین کو انہوں نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے پہلے حصے میں ادب اور نظریے کے حوالے سے مضامین شامل کیے ہیں۔ اس ضمن میں جن موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں ادب کا ترقی پسند نظریہ شاعر کی قدریں، ادب اور جمہوری، ہماری تنقید یا اصطلاحات، فنی تخلیق اور تخیل، خیالات کی شاعری اور موضوع اور طرز ادا شامل ہیں۔ مسائل کے عنوان سے جو مضامین انہوں نے شامل کیے ہیں ان میں پاکستانی تہذیب کا مسئلہ، جہان نو ہو رہا ہے پیدا، خطبہ صدارت، اردو شاعری کی پرانی روایتیں اور نئے تجربات، جدید فکر و خیال کے تقاضے اور غزل، جدید اردو شاعری میں اشاریت، ادب اور ثقافت، فلم اور ثقافت کے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ میزان میں تیسرا موضوع متقدمین سے متعلق ہے۔ ان میں نظیر اور حالی، غالب اور زندگی کا فلسفہ، اردو ناول، رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری، شرر اور پریم چند شامل ہیں۔ جبکہ چوتھا حصہ معاصرین کے زیر عنوان ترتیب دیا ہے جس میں اقبال اپنی نظر میں، جذبات اقبال کی بنیادی کیفیت، جوش شاعر انقلاب کی حیثیت سے، گوہر مقصود گفتگو است (بخاری صاحب کے بارے میں ) آہنگ، مصر کی رقاصہ (بخاری صاحب کے ترجمہ شدہ ڈرامے کا دیباچہ) خم کا کل، میرا جی کا فن، وہ لوگ اور چند روز اور (خدیجہ مستور کے افسانوں کے مجموعے کا دیباچہ) شامل ہیں۔

میزان میں شامل موضوعات پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ فیض صاحب کی نظر جدید اور قدیم ادب پر کتنی گہری اور ان کا مطالعہ کتنا وسیع اور جامع تھا۔ ان میں سے بیشتر مضامین بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں لکھے گئے تھے اور وہ خود ان کو شائع کرنے کے حق میں بہت زیادہ نہیں تھے۔ انہوں نے اس کے دیباچے میں لکھا ہے :

’’ ادبی مسائل پر سیر حاصل بحث کے لیے نہ کبھی فرصت میسر تھی نہ دماغ۔ ریڈیو پر اور مختلف محفلوں میں ان مسائل پر باتیں کرنے کے مواقع البتہ ملتے رہے۔ یہ مضامین ان ہی باتوں کا مجموعہ ہیں اس لیے ان میں سخن علما سے نہیں، عام پڑھنے لکھنے والوں سے ہے جو ادب کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اب سے پچیس برس پہلے جوانی کے دنوں میں لکھے گئے تھے۔ بہت سی باتیں جو اس وقت بالکل نئی تھیں اب پامال نظر آتی ہیں اور بہت سے مسائل جو ان دنوں بالکل سادہ معلوم ہوتے تھے، اب کافی پیچیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ اب جو دیکھتا ہوں تو ان تحریروں میں جگہ جگہ ترمیم و وضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن میں نے یہ رد و بدل مناسب نہیں سمجھا۔ اول اس لیے کہ بنیادی طور سے ان تنقیدی عقائد سے اب بھی اتفاق ہے اور دوئم اس لیے کہ ایک مکتب فکر کی عکاسی کے لیے ان مضامین کی موجودہ صورت شاید زیادہ موزوں ہو۔ ‘‘ 136؎

اس طرح انہوں نے نہایت دیانت داری سے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے اور ان کے تمام مضامین پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان میں سے بیشتر مضامین کو واقعی سرسری طور پر لکھا گیا ہے۔ ثبوت کے طور پر میزان میں شامل جوش صاحب کی شاعری پر لکھے ہوئے مضمون کی شان نزول آغا آفتاب قزلباش سے سنیے یہ مضمون ان کے قیام دہلی کے دوران لکھا گیا تھا:

’’ آغا دواشی (مدیر آج کل دہلی) نے ایک دن کہا کہ ہم جوش پر مضمون چھاپنا چاہتے ہیں لیکن مضمون فیض سے لکھوایا جائے۔ ایک زمانہ تھا جب مجاز فیض کو بحر الکاہل کہا کرتے تھے، چنانچہ فیض صاحب نے اسی عادت کے تحت کہا کہ بات تو ٹھیک ہے، مضمون تو ہونا چاہیے۔ مگر جیسی فرصت درکار ہے آج کل نہیں ملتی۔ دوسرے پڑھنا بھی پڑے گا۔ میرے پاس جوش کا کلام ہے بھی نہیں۔ بالآخر اس بات پر راضی ہوئے کہ مجھے جوش کا سیٹ لا دیا جائے اور گاہے گاہے یاد دہانی بھی ہونی چاہیے۔ ماہنامہ آج کل پریس میں چھپنے کے لیے چلا گیا صرف فیض کا مضمون باقی تھا۔ میں نے ہفتے کی شام انہیں فون کیا کہ بھائی جان بیچارے آغا دوشی مصیبت میں پھنس جائیں گے اگر آپ نے مضمون نہ لکھا۔ اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں رہی۔ اس لیے براہ کرم آپ کل اتوار کے سارے پروگرام ملتوی کر دیجئے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا آپ بولتے رہیے گا میں لکھتا جاؤں گا۔ دوسری صبح میں علی الصبح مسلط ہو گیا۔ انہوں نے پہلے ایک مجموعہ الٹ پلٹ کر دیکھا، پھر دوسری کتاب دیکھی، وہ بھی رکھ دی۔ پھر کوئی اور مجموعہ اٹھایا۔ آخر کہنے لگے کاغذ پنسل لے لیجئے۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے ذہن میں مضمون ترتیب پا چکا ہے۔ کوئی تین گھنٹے میں مضمون تیار ہو گیا۔ ‘‘ 137؎

یہی وہ مضمون ہے جو میزان میں شامل ہے۔ اس واقعے کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ چیزوں کو آخری وقت تک ٹالنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اس واقعے سے ان کی رفتار قلم کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

کچھ ایسا ہی واقعہ مجھے بھی پیش آیا:

’’ جن دنوں میں ٹورنٹو سے اردو انٹرنیشنل نکالا کرتا تھا۔ فیض صاحب نے از راہ مہربانی اس کی سرپرستی قبول فرما لی تھی۔ ان ہی دنوں جوش صاحب اور فراق صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میں نے انہیں بیروت کے پتے پر خط لکھا اور جوش اور فراق پر مضمون لکھنے کی فرمائش کی اور یہ بھی تاکید کی کہ پرچہ آئندہ ماہ پریس میں جانے والا ہے لہٰذا آپ جلد سے جلد مضمون بھجوا دیں۔ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ایک مختصر سا مضمون فوراً بھجوا دیا۔ ‘‘ 138؎

دوسری اہم بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ سارے کا سارا مضمون قلم برداشتہ لکھا گیا تھا۔ ایک آدھ جگہ پر کانٹ چھانٹ کی گئی تھی۔ وہ بہت تیز اور بہت سلجھے ہوئے انداز میں لکھتے تھے۔ اس کی وجہ سے ان کی نثر میں کہیں گنجلک پن نہیں ہوتا تھا۔

بہت سے مضامین جو ریڈیو کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت لکھے ہیں ان کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو فیض صاحب نے اپنی رائے بڑے سوچے سمجھے انداز میں دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں ان مضامین کی اشاعت پر انہیں کسی قسم کی شرمندگی نہیں اٹھانی پڑی اور نا ہی کسی قسم کا کبھی کوئی پچھتاوا رہا۔ اس کا اظہار انہوں نے خود میزان کے دیباچے میں کیا ہے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا کہ ذرے کو آسمان بنا دیا ہو یا قطرے کو دریا ثابت کر دیا ہو لیکن جو بات اہم ہے وہ یہ کہ انہوں نے اپنے نظریہ ادب کا اعلان بڑی ایمان داری اور وضاحت سے کیا ہے ادب کا ترقی پسند نظریہ، فنی تخلیق اور تخیل اور خیالات کی شاعری میں ایک فلسفیانہ فضا ملتی ہے۔ اسی لیے پروفیسر سحر انصاری نے ان کی نثر کے حوالے سے لکھا تھا:

’’ ادب کی فطری اور عملی تنقید پر بھی فیض نے غور و خوض کیا ہے۔ ان موضوعات پر انہوں نے ایک خاص انداز سے قلم اٹھایا ہے اور ایسی باتیں پیش کی ہیں جو پیشہ ور ناقدین کی تحریروں کے مطالعے یا اردو تنقید کے مزاج پر غور و فکر کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ہماری زبان میں تنقید کے اصول کس طرح مرتب کیے جاتے ہیں۔ الفاظ، اصطلاحات اور محاکمے کا انداز کیسا ہے۔ کیا ہماری موجودہ تنقید سے تنقید کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ اور اس طرح کے بہت سے سوالات فیض نے اپنے مضامین میں اٹھائے ہیں اور اپنے ایک جداگانہ نقطہ نظر سے ان کے جوابات بھی دیے ہیں۔ اس طرح ان کے تنقیدی مضامین میں خود ان کے ادبی نظریات بھی سامنے آ گئے ہیں۔ ‘‘ 139؎

اس طرح دیکھا جائے تو خود فیض صاحب کی شاعری کو اور خاص طور سے ان کے ادبی نظریات کو سمجھنے کے لیے ان مضامین کا مطالعہ بے حد ضروری ہے اور اسی لیے میزان کو اردو تنقید میں کوئی بہت بلند و بالا مقام نہ ملنے کے باوجود فیض شناسی میں ایک اہم سنگ میل کی سی حیثیت حاصل ہے۔ میزان کو ہم عصر اور اردو تنقید میں بہت زیادہ اہمیت نہ ملنے کی، شاید ایک وجہ یہ بھی ہے :

’’ ان مضامین کے مباحث، کتاب کی اشاعت کے زمانے کے عام ادبی مباحث سے ایک حد تک مختلف نظر آتے ہیں۔ یہ زمانہ وجودیت اور ماورائیت کے مسائل سے لبریز تھا۔ لیکن فیض کو اپنے موقف پر اعتماد تھا چنانچہ انہوں نے دیباچے میں فرمایا کہ ان تحریروں میں جگہ جگہ ترمیم و وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن میں نے رد و بدل مناسب نہ سمجھا اس لیے کہ بنیادی طور پر مجھے ان تنقیدی عقائد سے اب بھی اتفاق ہے۔ ‘‘140؎

ایسا دعویٰ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے اپنی فکر کی استقامت پر پورا پورا بھروسہ ہو۔


لینن امن انعام



1962ء میں فیض صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا سنہری لمحہ وہ تھا جب انہیں سویٹ یونین کی حکومت کی جانب سے لینن امن انعام ملا۔ پہلے اس انعام کا نام اسٹالن امن انعام تھا لیکن بعد میں خروشیف کے زمانے میں اس کا نام بدل کر لینن کے نام سے وابستہ کر دیا گیا۔ لینن امن انعام جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے صرف ادب کا انعام نہیں تھا بلکہ یہ انعام فیض صاحب کی مجموعہ خدمات کے پیش نظر دیا گیا تھا جس میں ان کی ادبی خدمات، زنداں میں برداشت کی گئی صعوبتیں، مزدور یونین میں عملی طور سے شمولیت، بے باک صحافتی کردار، فاشزم کے خلاف جنگ میں عملی حصہ اور عالمی امن تحریک کے فروغ میں ان کی جد و جہد اور دیگر سماجی اور سیاسی خدمات شامل تھیں۔ یہ انعام نہ صرف فیض صاحب بلکہ پورے پاکستان کے لیے اعزاز و افتخار کی بات تھی اسی لیے اس کا خیر مقدم بڑے پیمانے پر پورے ملک میں کیا گیا۔ ملک میں مارشل کی حکومت تھی لہٰذا اندیشہ یہ تھا کہ شاید فیض صاحب کو سویت یونین جانے کی اجازت نہ ملے مگر اس وقت کی حکومت نے اپنے آپ کو ایسے اقدام سے باز رکھا اور فیض صاحب یہ انعام لینے بذات خود ماسکو تشریف لے گئے۔ چونکہ کچھ دنوں قبل ان پر دل کا دورہ پڑا تھا لہٰذا انہوں نے ہوائی جہاز سے سفر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس سفر میں ان کی بیٹی سلیمہ ان کے ساتھ تھیں انہوں نے اس واقعے کا ذکر بہت خوب صورت انداز میں کیا ہے:

’’ جانے سے پہلے ہمیشہ کی طرح حکومت پاکستان سے وطن چھوڑنے کا اجازت نامہ طلب کیا گیا۔ ماضی میں کئی مرتبہ یہ بھی ہو چکا ہے کہ انہیں بہت اہتمام سے ائیر پورٹ چھوڑ کر آئے اور آدھ گھنٹے بعد ان کے قدموں کی چاپ سیڑھیوں پر سنائی دیتی اور وہ مسکراتے ہوئے داخل ہو جاتے اور کہتے بھئی نہیں جانے دیا سرکار نے تو اس مرتبہ حفظ ماتقدم کے طور پر اجازت نامہ پہلے ہی منگوا لیا گیا اور صدر پاکستان کے ہاتھ اک دستخط شدہ اجازت نامہ ہاتھ لگ چکا تھا۔ لہٰذا ہم دونوں کراچی پہنچے، بحری جہاز سے جانا تھا۔ چلنے سے ایک روز پہلے آئی جی پولیس کراچی سے رسماً پھر اجازت لی گئی اور ہم بندرگاہ پر پہنچے۔ وہاں میرے پاسپورٹ کو تو مہر لگا دی گئی لیکن ان کے پاسپورٹ کی اچھی طرح چھان بین کی گئی جیسے اس کے ورق ورق سے چرس کی مہک آ رہی ہو۔ صدر مملکت کا خط ہر طرف سے پرکھا گیا اور بار بار پرکھا گیا کہ جیسے شاید چوتھی مرتبہ پڑھنے پر وہی تحریری کچھ اور کہہ دے۔ آخر اس پر مہر لگی اور یوں جہاز میں داخل ہوئے۔ ابھی کیبن میں سامان رکھا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھلا اور سی آئی ڈی کے دو نامہ بر کھڑے تھے۔ ذرا پاسپورٹ پھر سے دکھائیے۔ انہوں نے اصرار کیا۔ ابو نے خاموشی سے تھما دیا اور اجازت نامہ، وہ بھی دوبارہ پیش کر دیا، کچھ دیر آپس میں چہ مگوئیاں ہوئیں پھر وہ کیبن میں داخل ہوئے۔ سرسری سی تلاشی لی غسل خانہ چیک کیا۔ میرا سامان ٹٹولا اور پھر چلتے بنے۔ جہاز رات کو گیارہ بجے چلنا تھا۔ ابھی آٹھ ہی بجے تھے ابو نے کہا چلو کھانا کھاتے ہیں۔ ہم نے ڈائننگ روم کا رخ کیا اور کھانا منگوایا۔ ابھی پہلا نوالہ بھی نہ لینے پائے تھے کہ اسپیکر پر اناؤنسمنٹ ہوئی:

Mr. Faiz Ahmed Faiz is required to come to the office.

میرا رنگ فق ہو گیا کہ جدائی کے لمحات پھر آن پہنچے۔ ابو نے نیپکن رکھا اور اٹھ کر چلے گئے جب کچھ دیر بعد واپس آئے تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کے چہرے پر کچھ غیر مانوس سا تاثر ہے کہنے لگے۔ پھر باتھ روم دیکھنا چاہ رہے تھے۔ میں نے کہہ دیا اب وارنٹ لاؤ گے تو دکھاؤں گا۔ ہم نے کھانا ختم کیا اور لاؤنج میں آ گئے۔ ابو نے میری پریشانی محسوس کی اور کہا فکر نہ کرو تم اکیلی ماسکو چلی جانا اور میری جگہ انعام ریسو کر لینا۔ دیکھو اتنی سی عمر میں تم کو کتنا بڑا انعام مل جائے گا۔ وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ مجھے ان کی پیٹھ کے پیچھے لاؤنج کی شیشے کی دیوار کے باہر پولیس اور سی آئی ڈی والے گزرتے نظر آئے وہ شاید ہمیں ڈھونڈ رہے تھے اور ہمارے سامنے دو بڑے بڑے پودے گملے میں سجے رکھے تھے اور ہم انہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہ گزر گئے اور میں نے ابا کو نہیں بتایا کہ مجھے ان کی پیٹھ کے پیچھے کیا نظر آیا۔ پھر ہم کیبن میں آ گئے۔ ابا نے کپڑے تبدیل کیے اور نہایت اطمینان سے بستر میں لیٹ گئے۔ میں بے چینی میں بیٹھی رہی آخر جہاز کا سائرن ہوا اور جہاز آہستہ آہستہ بندرگاہ سے روانہ ہوا۔ مجھے کراچی اک ساحل جب چھوٹتا ہوا نظر آیا تو میں نے ابا کو آواز دی لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ آرام سے سو چکے تھے۔ مجھ سے پھر بھی نہ رہا گیا تو میں نے انہیں جھنجھوڑ کر کہا ابو ہم جا رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے سو جاؤ۔ ‘‘ 141؎

بالآخر فیض صاحب اپنی بیٹی سلیمہ کے ساتھ ماسکو پہنچے اور اس طرح انہوں نے اس عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان کی بھرپور نمائندگی کی۔ اس موقعے پر اردو زبان میں اپنی یادگار تقریر میں انہوں نے بڑے خوب صورت انداز میں کہا تھا:

’’ یوں تو ذہنی طور سے مجنون اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیزیں ہیں اور یہ سبھی تصور کرتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت، اور سفیدے کے درخت، دلہن کا آنچل ہے اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ، شاعر کا قلم ہے اور مصور کا موئے قلم اور آزادی ان سب صفات کی ضامن اور غلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اور حیوان میں تمیز کرتی ہے۔ یعنی شعور اور ذہانت، انصاف اور صداقت، وقار اور شجاعت، نیکی اور رواداری، اس لیے بظاہر امن اور آزادی کے حصول اور تکمیل کے متعلق ہوش مند انسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہ ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یوں نہیں ہے۔ ‘‘ 142؎

اور پھر اس کے بعد فیض صاحب نے دنیا میں خیر اور شر کی قوتوں کے مسلسل متحارب ہونے کی وجوہ اور افریقہ اور ایشیا میں نو آزاد ممالک کے آپس کے اختلافات کا بھی ذکر کیا۔ خاص طور سے اپنے ملک پاکستان اور پڑوسی ملک بھارت کے اختلافات کا ذکر بھی کیا۔ اور تقریر کا اختتام حافظ کے اس شعر پر کیا کہ:

خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی

بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است


لندن میں قیام



ماسکو میں لینن انعام لینے کے بعد فیض صاحب نے لندن میں عارضی قیام کا منصوبہ بنایا۔ یہ زمانہ جون1962 ء سے جنوری1964ء تک ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ لندن میں زیادہ عرصہ گزارنے کا پروگرام بنا رہے تھے کیوں کہ انہوں نے وہیں ایک مکان لے لیا اور ایلس اور بچیوں کے ساتھ بظاہر ایک پر سکون زندگی گزارنے لگے۔ اس کے باوجود سال ڈیڑھ سال کے بعد وہ اس فضا سے مزید سمجھوتہ نہ کر سکے۔ اس دوران انہوں نے دنیا کے کئی ممالک کا سیاحتی اور مطالعاتی دورہ بھی کیا جن میں مشرقی اور مغربی یورپ کے بیشتر ممالک اور الجزائر، کیوبا اور دوسرے کئی ممالک شامل ہیں۔

لندن میں انہوں نے بی بی سی کی اردو نشریات میں صلائے عام کے کئی پروگراموں میں حصہ لیا۔ ان پروگراموں میں زیادہ تر، یک موضوعی تقریر، انٹرویو یا مذاکرے کی شکل ہوا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ اس دوران اگر ریڈیائی مشاعرہ بھی ہوا تو اس میں بھی انہوں نے اکثر و بیشتر حصہ لیا۔ لندن سے واپسی کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ مکالمہ پروفیسر رالف رسل اور عبادت بریلوی سے بھی ان کا ہوا جس کی تفصیل عبادت صاحب نے یوں بیان کی ہے :

میں نے پوچھا ’’ اچانک آپ نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا؟‘‘

کہنے لگے ’’ بس یہاں جی نہیں لگتا طبیعت اکتا گئی ہے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’ عجیب بات ہے کہ لندن میں آپ کا جی نہیں لگتا۔ ‘‘

کہنے لگے ’’ اپنا وطن یاد آتا ہے۔ ایک ایک چیز کی یاد ستاتی ہے۔ یہاں کس سے ملوں ؟ کس سے باتیں کروں ؟ کس کے لیے شعر کہوں ؟ کس کو شعر سناؤں ؟

پروفیسر رالف رسل کہنے لگے ’’ لیکن یہاں آپ کو آزادی زیادہ ہے اور کام کرنے کے مواقع بہت ہیں۔ ‘‘

فیض نے کہا پابندی تو مجھ پر اپنے وطن میں بھی کوئی نہیں ہے۔ میں وہاں بھی آزاد ہوں۔ کام البتہ یہاں مختلف قسم کے ہو سکتے ہیں لیکن یہاں اجنبیت اتنی زیادہ ہے کہ کچھ کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ پھر سب سے خراب بات یہ ہے کہ یہاں کی زندگی تمام تر مصنوعی ہے۔ کسی سے ملنے جائیں تو پہلے اپائنٹمنٹ کرنا پڑتا ہے۔ دوست سے ملنے کے لیے بھی فون پر وقت لینا پڑتا ہے یہ کیا زندگی ہے ؟ اپنے یہاں تو جس وقت جی چاہا اٹھے اور دوستوں کے یہاں چلے گئے۔ مل گئے تو گپ شپ ہوئی تھوڑا سا وقت اچھا گزر گیا۔ نہیں ملے تو واپس چلے آئے۔ یہاں اس کا کوئی تصور ہی نہیں اسی لیے تو اس فضا میں میرا دم گھٹتا ہے۔ رسل صاحب آپ لوگوں نے بہت ترقی کی ہے لیکن آپ لوگ ابھی تک ہیں باوا آدم کے زمانے میں۔ یہاں ہر شخص کو اپنا کام ہاتھ سے کرنا پڑتا ہے۔ مہذب تو ہم لوگ ہیں کہ ہم تقسیم کار کے اصولوں پر کام کرتے ہیں۔ ہر شخص کے لیے وہاں کام مقرر ہے۔ اس طرح ہر شخص کو آسانی ہوتی ہے اور یہی زندگی کی زیادہ ترقی یافتہ صورت ہے۔ ‘‘ 143؎

لگتا تھا فیض صاحب آج بڑے ہی اچھے موڈ میں ہیں ان کی گفتگو سن کر آخر میں رالف رسل، عبادت بریلوی اور خود فیض صاحب بھی ہنسنے لگے۔ ایسے مکالمے دوستوں کے درمیان ہوا ہی کرتے ہیں۔ اس سے شخصیت میں بذلہ سنجی کی جھلک ابھر کر سامنے آتی ہے لیکن جب لندن میں تنہائی کی اسی کیفیت نے اپنا تخلیقی اظہار کرنا چاہا تو پھر ایسے اشعار سامنے آئے :

شرح فراق، مدح لب مشکبو کریں

غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں

یار آشنا نہیں کوئی، ٹکرائیں کس سے جام

کس دل ربا کے نام پہ خالی سبو کریں

سینے پہ ہاتھ ہے نہ نظر کو تلاش بام

دل ساتھ دے تو آج غم آرزو کریں

کب تک سنے گی رات کہاں تک سنائیں ہم

شکوے گلے سب آج ترے روبرو کریں

ہمدم حدیث کوئے ملامت سنائیو

دل کولہو کریں کہ گریباں رفو کریں

آشفتہ سر ہیں، محتسبو منہ نہ آئیو

سر بیچ دیں تو فکر دل و جاں عدو کریں

مجبوری کی بات اور ہے ورنہ فیض اپنے وطن سے زیادہ عرصہ باہر نہیں رہ سکے۔ اس لیے کہ جن دنوں وہ لندن میں تھے تو:ـ

’’ اس دوران لوگوں نے انہیں ملک سے باہر رہنے کی بہت کوششیں کیں، بڑی بڑی پیش کشیں ہوئیں۔ کام، دولت اور اطمینان و آسودگی، غرض کہ پاکستان سے باہر رہ کر انہیں زندگی کی ہر آسائش میسر ہو سکتی تھی۔ ان کے دوستوں نے ہمدردی میں، ان کے دشمنوں نے اپنی مخصوص اغراض کے تحت ان کو وطن آنے سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن جس شخص کی روح میں وطن کی مٹی کی باس رچی ہو ور جسے اس کے پھولوں، بہاروں اور پتوں پتوں سے والہانہ عشق ہو وہ وطن کی محفلوں، ہواؤں، دریاؤں، چشموں اور سب سے بڑھ کر اپنے لوگوں سے کیسے دور رہ سکتا ہے ؟‘‘ 144؎

حمید اختر نے واقعی سچ کہا تھا کیوں کہ فیض صاحب24 جنوری1964ء کو لندن سے واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔ نیپلز تک ریل پر سفر کیا، راستے میں دو دن پیرس میں گزارے اور پھر13 فروری1964ء کو پاکستان پہنچ گئے۔


فیض کی نظموں کا انگریزی ترجمہ



اب تک نہ صرف انگریزی بلکہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں فیض صاحب کے کئی تراجم ہو چکے ہیں لیکن ان کی شاعری کا پہلا باقاعدہ انگریزی ترجمہ پروفیسر وکٹر کیرنن نے ’’ پوئمس بائی فیض‘‘ کے نام سے کیا تھا پروفیسر کیرنن نے ان نظموں کے تراجم کے سلسلے میں کتاب کے دیباچے مں لکھا:

This volumes an expansion of a set of verse translations from Faiz which were begun in a forest rest-house on the Woolar Lake in Kashmir in the summer of 1945, banks of continued at intervals over the next dozen years, and published in 1958 at Delhi, India.

پاکستان میں پہلی بار1962ء میں یہ کتاب لاہور سے شائع ہوئی جس میں فیض صاحب کی انتالیس نظموں کے تراجم شامل تھے۔ پروفیسر کیرنن اپنے اس کام کو مستقل آگے بڑھاتے رہے اور پھر1971ء میں یونیسکو کے تعاون سے یہ کتاب اسی نام سے مکمل ہونے کے بعد اپنی موجودہ شکل میں شائع ہوئی 145؎ پوئمس بائی فیض کے اس نئے ورژن میں فیض صاحب کی 54نظموں کے تراجم شامل ہیں۔ 70؎1971ء تک فیض صاحب کے صرف چار شعری مجموعے شائع ہوئے تھے۔ چنانچہ اس میں نقش فریادی کی 16، دست صبا کی 18، زنداں نامہ کی 4، دست تہ سنگ کی 12 جبکہ 4 نظمیں وہ ہیں جو اس وقت تک ان کے کسی مجموعے میں شامل نہیں تھیں لیکن بعد میں سر وادی سینا میں شامل ہوئیں۔ ویسے تو فیض صاحب کی نظموں کے کچھ تراجم روسی اور چیک زبان میں کہیں یونی ورسٹی کے جرنل وغیرہ میں شائع ہو چکے تھے لیکن در اصل پروفیسر کیرنن کی اس کتاب کے ذریعے فیض صاحب کی شاعری پہلی بار عالمی قارئین تک پہنچی تھی چنانچہ اسی لیے اسے فیض کی شاعری کے مطالعے کے باب میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔

یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ جب 1952ء میں دست صبا شائع ہوئی تو غالباً فیض صاحب نے خواہش ظاہر کی تھی کہ دست صبا کا ترجمہ ان کے دوست وکٹر کیرنن کریں مگر انہوں نے معذرت کر لی۔ اس کا پتا ایلس کے اس خط سے ملتا ہے جو انہوں نے 14جنوری1953ء کو فیض صاحب کے نام لکھا۔ ایلس نے فیض صاحب کو اطلاع دی:

Victor has expressed his inability to translate Dast e Saba, he Said, Iqbal yes, but Faiz, no 146.

اس بات کی مزید معلومات کہیں اور نہیں ملتیں کہ اقبال اور فیض کے تقابل کی آخر کیا ضرورت پیش آ گئی تھی؟ ممکن ہے اس وقت اپنی مصروفیات کی وجہ سے انہوں نے معذرت کی ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ان دنوں اقبال کے تراجم میں مشغول ہوں اور فیض کی نظموں کے تراجم اپنے ذمے نہ لینا چاہتے ہوں۔ بہرحال بعد میں پروفیسر کیرنن نے اپنی رائے بدلی اور اقبال کے ساتھ ساتھ فیض صاحب کی شاعری کا بھی ترجمہ کیا۔

وکٹر کیرنن نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور 1939ء سے پاک و ہند کی آزادی تک وہ ہندوستان ہی میں مقیم رہے 147؎ ہندوستان کے اسی قیام کے دوران علامہ اقبال کی نظموں کے تراجم کے سلسلے میں فیض صاحب سے ان کی پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی۔ چونکہ میں ایلس سے لندن کے زمانے میں جب وہ ایلس جارج کہلاتی تھیں، برابر ملا کرتے تھے اور ان کے سیاسی نظریات بھی ملتے تھے 148؎ لہٰذا فیض صاحب سے یہ ملاقات بعد میں دوستی میں تبدیل ہو گئی اور زندگی کے آخری دنوں تک ان کے درمیان دوستی اور احترام کا یہ رشتہ برقرار رہا۔


عبداللہ ہارون کالج کراچی



فیض صاحب جب لندن میں ڈیڑھ سال کے قیام کے بعد واپس پاکستان آئے تو انہوں نے کراچی کے ایک بہت ہی پسماندہ علاقے لیاری میں ہارون فیملی کے قائم کیے ہوئے ایک کالج میں پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دینی شروع کر دیں۔ اس قسم کے پرائیویٹ اداروں کا اپنا ایک خاص کردار ہوا کرتا ہے جو ان کے مالکان یا اساتذہ کی وجہ سے اپنی شناخت کرواتا ہے۔ فیض صاحب نے جب اس کالج کی سرپرستی کا بیڑہ اٹھایا تو اس کالج نے پورے کراچی کے تعلیمی اداروں میں ایک منفرد مقام حاصل کر لیا۔ انہوں نے اسے ایک کیرکٹر دینے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ خلقت شہر نے اس کالج کو فیض صاحب کی شخصیت کے حوالے سے پہچانا۔ انہوں نے بڑی بڑی علمی شخصیات کو یہاں مدعو کیا اور اس طرح ایک ایسے علاقے میں جہاں عام طور پر لوگ جانا بھی پسند نہیں کرتے تھے اور اگر جاتے بھی تھے تو بدبو ور سرانڈ سے بچنے کے لیے منہ پر رو مال رکھ کر جاتے تھے وہاں تک ان لوگوں کی رسائی کو ممکن بنایا۔ اس ادارے کے قیام پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:

’’ جس علاقے میں عبداللہ ہارون کالج قائم کیا گیا اس میں ہائی اسکول کے علاوہ تعلیم کی اور سہولتیں میسر نہ تھیں۔ اس علاقے میں اکثریت غریب عوام کی ہے، ماہی گیر، گاڑی چلانے والے اور مزدور پیشہ لوگ جو بچوں کو کالج میں بھجوا نہیں سکتے تھے۔ یہ علاقہ برے لوگوں کا مرکز تھا۔ یہاں ہر قسم کا غیر مستحسن کاروبار کیا جاتا تھا۔ اکثر بچے غلط راہ پر بچپن ہی سے پڑ جاتے تھے۔ یہاں عبداللہ ہارون نے یتیم خانہ بنوایا تھا جو ہائی اسکول کے درجے تک پہنچ گیا تھا۔ باقی کچھ نہیں تھا۔ ان کے جانشینوں کی مصروفیات کچھ اور تھیں۔ صرف لیڈی نصرت ہارون کو اس ادارے سے دلچسپی تھی۔ لندن سے واپسی پر انہوں نے ہم سے فرمائش کی کہ ہم یہ کام سنبھالیں۔ ہم نے جا کر علاقہ دیکھا، بہت ہی پسماندہ تھا۔ یہاں پہلے انٹرمیڈیٹ کالج بنایا، پھر ڈگری کالج، پھر ٹیکنیکل اسکول اور پھر آڈیٹوریم۔ کچھ رقم ہارون انڈسٹری سے خرچ کی گئی۔ کچھ ہم نے فراہم کی۔ ماہی گیروں کی سب سے بڑی کوآپریٹر سوسائٹی بنی، انہوں نے ہمیں ڈائرکٹر بنا لیا، ہم نے طے کیا کہ سوسائٹی کے اخراجات کے سوا بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور ان سب کے اخراجات یہی ادارہ برداشت کرے۔ اس کالج میں طلباء کی اکثریت کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ ‘‘ 149؎

فیض صاحب نے اس کالج کے ایک مجلے میں اس حوالے سے لکھا:

’’ کراچی کے سب سے قدیم اور سب سے پسماندہ علاقے میں عبداللہ ہارون کالج حال ہی میں قائم ہوا ہے اور ابھی اس کے طلبا اور اساتذہ ایک ایسی فضا سے مانوس ہونے کی کوشش میں ہیں جسے علم و ادب سے زیادہ واسطہ نہیں رہا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اور آسائشوں کی طرح علم و ادب کی ترویج بھی دنیوی جاہ و جلال کی دست نگر ہے اور اس متاع سے محرومی اور علم و ادب سے نا آشنائی ایک طرح سے لازم و ملزوم گردانے جاتے ہیں۔ ہارون کالج کا وجود اسی محرومی کے مداوے کی خاطر قائم ہوا تھا اور مجھے مسرت ہے کہ اس سعی کے مشکور ہونے کے کچھ کچھ آثار ابھی سے نظر آنے لگے ہیں۔ ‘‘ 150؎

اسی کالج کا ایک واقعہ ڈاکٹر ایوب مرزا نے بیان کرتے ہوئے لکھا:

’’ ایک مرتبہ ان کے کالج کے طلباء نے ایوب خان کے خلاف جلوس نکالنے کی ٹھانی۔ پولیس کو خبر ہوئی تو بھاری مقدار میں مسلح پولیس نفری نے کالج کو گھیر لیا۔ فیض کو پتہ چلا تو انہوں نے پولیس افسران سے رابطہ قائم کیا اور کیا اور کہا کہ پولیس کا اس طرح درس گاہ کے باہر جمع ہونا طلباء کو اشتعال دلانے کے مترادف ہے لہٰذا پولیس ہٹا لی جائے امن و امان میں کوئی نقص نہیں پڑے گا۔ پھر انہوں نے اپنے کالج کے طلباء سے خطاب کیا اور کہا کہ آپ لوگ اپنے جذبات کا اظہار جلوس کی صورت میں کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں مگر سرکاری املاک اور پبلک ٹرانسپورٹ پر پتھر زنی صحیح احتجاج نہیں ہے۔ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ یہ قومی چیزیں ہیں اور عوام ان سے مستفیض ہوتے ہیں۔ چنانچہ عبداللہ ہارون کالج کے طلباء نے جلوس نکالا، احتجاج کیا اور بعد میں بغیر کسی چیز کو نقصان پہنچائے کالج واپس آ گئے۔ ‘‘151؎

عبداللہ ہارون کالج میں درس و تدریس کا یہ سلسلہ اس وقت تک رہا جب تک کہ وہ کراچی میں مقیم رہے۔ اس کے بعد جب وہ نئی ذمہ داریاں نبھانے اسلام آباد چلے گئے تو پھر یہ کہانی اپنے اختتام کو پہنچی اور پھر بعد میں تو پاکستان کے تمام ہی پرائیویٹ کالج قومیا لیے گئے تھے۔


پاکستان آرٹس کونسل، کراچی



لندن جانے سے قبل وہ لاہور آرٹس کونسل کے سیکرٹری تھے مگر وہ کل وقتی ملازمت تھی جبکہ کراچی کے قیام کے دوران وہ پاکستان آرٹس کونسل کراچی کے نائب صدر کی حیثیت سے 1964ء سے 1972ء تک وابستہ رہے مگر اس کی نوعیت مشاور تی تھی نہ کہ باقاعدہ ملازمت۔ مگر پاکستان کے ثقافتی اداروں سے ان کی وابستگی ایک صورت کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ قائم رہی۔ یہ سلسلہ ان کے اسلام آباد منتقلی تک قائم رہا۔


دست تہ سنگ



دست تہہ سنگ فیض صاحب کا چوتھا مجموعہ کلام ہے جو زندان نامہ کی طرح مختصر ہے۔ اس کتاب کے شائع ہونے سے بہت پہلے انہوں نے ایک بار فقیر سید وحید الدین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے تینوں مجموعوں کو ایک ساتھ شائع کرنا چاہتے ہیں اور اس کا نام دست تہ سنگ رکھیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور ان کا چوتھا مجموعہ کلام دست تہ سنگ کے نام سے شائع ہوا۔

اس مجموعہ کلام کے مختصر ہونے کی ایک وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ جب طویل رہائی کے بعد وہ جیل سے نکلے تو معاشرے میں ان کا استقبال ایک ہیرو کی طرح کیا گیا۔ اس زمانے میں ان کی سماجی مصروفیتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور لکھنے لکھانے کے لیے جو تنہائی اور خلوت کا ماحول میسر ہونا چاہیے وہ ذرا کم کم تھا اور پھر کچھ یہ بھی کہ ان کے مزاج میں بسیار نویسی تھی بھی تھی۔ مگر اصل بات جو دیکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے لیے جو نرم اور گداز لہجہ اولین دور سے منتخب کیا تھا اسی لہجے کو بہتر سے بہتر بناتے رہے۔ ان کے دوسرے اور تیسرے مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو شاعری پر ان کے مخصوص لہجے کی چھاپ نظر آنے لگی تھی اور دست تہ سنگ تک آتے آتے یہ رنگ اور بھی نمایاں ہوتا گیا۔

دست تہ سنگ میں ان کا لکھا ہوا باقاعدہ کوئی دیباچہ نہیں ہے لیکن اس کی ابتدا میں ان کی وہ تقریر شامل ہے جو انہوں نے ماسکو میں لینن انعام لیتے وقت کی تھی اور اس تقریر کے علاوہ ایک اور خود نوشت نما مختصر سا مضمون، فیض از فیض شامل ہے۔ اس مضمون کی ابتدا میں انہوں نے لکھا ہے۔

’’ اپنے بارے میں باتیں کرنے سے مجھے سخت وحشت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سب بور لوگوں کا مرغوب شغل یہی ہے۔ اس انگریزی لفظ کے لیے معذرت چاہتا ہوں لیکن اب تو ہمارے ہاں اس کے مشقات بوریت وغیرہ بھی استعمال میں آنے لگے ہیں اس لیے اب اسے اردو روز مرہ میں شامل سمجھنا چاہیے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے اپنے بارے میں قیل و قال بری لگتی ہے بلکہ میں تو شعر میں بھی حتیٰ الامکان واحد متکلم کا صیغہ استعمال نہیں کرتا اور میں کہ بجائے ہمیشہ سے ہم لکھتا آیا ہوں۔ چنانچہ جب ادبی سراغرساں حضرات مجھ سے یہ پوچھنے بیٹھتے ہیں کہ تم شعر کیوں کہتے ہو تو بات کو ٹالنے کے لیے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہوں۔ ‘‘ 152؎

پھر اس تمہید کے بعد فیض صاحب نے اپنے اس ماحول کا ذکر کیا جس میں انہیں سخن شناسی کے ساتھ ساتھ شعر لکھنے کی بھی ترغیب ملی۔ انہوں نے مختصراً اپنے اسکول اور کالج کے زمانوں کا ذکر کیا، ملازمت اور ادبی صورت حال کا بیان کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے شعری سفر کا ایک خاکہ بھی فراہم کر دیا۔ اور اگر دیکھا جائے تو فیض صاحب پر لکھے گئے بہت سے مضامین میں انہی باتوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان سے جن لوگوں نے انٹرویو کیے ہیں ان میں بھی زیادہ تر اسی کی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے۔ (خود اس کتاب میں بھی یہی مواد شامل ہے ) لیکن اس مضمون کے اختتام پر انہوں نے آخر میں اس بات کا ضرور اعتراف کیا ہے کہ زنداں نامہ اور دست تہ سنگ کے درمیانی عرصہ میں وہ زیادہ پروڈیکٹو نہیں رہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شاعری کی دیوی لکھنے والے پر زیادہ مہربان نہیں ہوتی۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن فیض صاحب کو خود اس کا احساس تھا اسی لیے انہوں نے کہا:

’’ زنداں نامہ کے بعد کا زمانہ کچھ ذہنی افراتفری کا زمانہ ہے۔ جس میں اپنا اخباری پیشہ چھٹا، ایک بار پھر جیل خانے گئے، مارشل لاء کا دور آیا اور ذہنی اور گرد و پیش کی فضا میں پھر سے کچھ انسداد راہ اور کچھ نئی راہوں کی طلب کا احساس پیدا ہوا ‘‘ 153؎


ماہنامہ ’’ افکار‘‘ کراچی کا فیض نمبر



جس طرح فیض صاحب کی نظموں کے تراجم کی سب سے پہلی باقاعدہ کتاب وکٹر کیرنن نے مرتب کی بالکل اسی طرح اگر دیکھا جائے تو صہبا لکھنوی نے ماہنامہ افکار کا فیض نمبر نکال کر ان کی زندگی ہی میں ایک قابل ذکر کام کر دیا۔ فیض صاحب کی اس وقت تک کی شاعری اور ان کی شخصیت کے حوالے سے جو کچھ مواد میسر آ سکتا تھا وہ صہبا لکھنوی نے اس خصوصی نمبر میں شامل کر دیا۔ اس خصوصی نمبر کی اشاعت 1965ء میں ہوئی ان دنوں آج کی طرح ہر ایرے غیرے ادیب اور شاعر پر ادبی رسالوں کے خصوصی گوشے نہیں نکلتے تھے۔ افکار کا فیض نمبر ایک معیاری تحقیقی کام تھا جو بلا شبہ بعد میں آنے والوں کے لیے مطالعہ فیض میں رہنمائی کا ایک معتبر وسیلہ بن گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس نمبر میں جو کچھ مواد شامل ہے اسی کے سہارے فیض پر جن لوگوں نے تنقیدی یا شخصی مضامین لکھے ہیں ان میں اس کے مندرجات کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔

1965
ء کی پاک بھارت جنگ



فیض صاحب بنیادی طور پر امن پسند آدمی تھے اور اسی نظریے کے تحت انہوں نے اپنی پوری زندگی گزاری مگر بعض اوقات قومی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جہاں انسانوں کو اپنے نظریے اور وقت موجود کی صورت حال میں ایک راستہ اپنانا پڑتا ہے۔ چنانچہ جب دوسری عالمی جنگ میں فاشزم کے خلاف جد و جہد کا وقت آیا تو انہوں نے فوجی وردی پہن کر اس کے خلاف باقاعدہ رزم آرائی میں حصہ لیا۔ پاکستان کی قومی تاریخ میں بھی جب سن پینسٹھ کی جنگ کا واقعہ ہوا تو لوگوں کی نگاہیں ان کی طرف اٹھیں۔ ایسے میں جب شاعروں اور ادیبوں کی ایک پوری کھیپ کی کھیپ جنگلی ترانوں اور قومی نغموں اور ملی موضوعات پر قلم اٹھا رہی تھی تو یہ حقیقت ہے کہ فیض صاحب اس گروہ کے ساتھ کہیں نظر نہیں آئے مگر دوسری طرف وہ سرکار کی دعوت پر کراچی سے راولپنڈی پہنچ گئے۔ ابھی جنگ اپنے پورے عروج پر تھی کہ بلیک آؤٹ کے اسی زمانے میں ان کی ملاقات ڈاکٹر ایوب مرزا سے ہوئی اور انہوں نے فیض صاحب کی پنڈی میں موجودگی کا سبب پوچھا تو فیض صاحب نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:

’’ بھئی معاملہ کچھ یوں ہے کہ حکومت نے ہمارے ساتھ رابطہ قائم کیا اور کہا کہ انہیں جنگ میں پبلسٹی محاذ پر ہماری ضرورت ہے۔ وہ ہمارے تجربے اور مشورے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے اگر ہمارے مشورے سننے کی خواہش ہے تو ہم حاضر ہیں۔ ان پر عمل کرنا یا نہ کرنا سرکار کی اپنی مرضی ہے۔ مگر مشورے ہم اپنی مرضی سے دیں گے۔ انہوں نے تنخواہ کا پوچھا۔ ہم نے کہا اس قومی فریضہ کی زکوٰۃ ہمیں نہیں چاہیے۔ بہت اصرار کیا گیا ہزاروں روپے ماہانہ تجویز ہوئے، مگر ہم نے کوئی رقم قبول نہیں کی۔ صرف رہائش اور خوراک کے سرکاری بندوبست پر احتجاج نہیں کیا۔ ‘‘

ایوب مرزا کے دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:

’’ بھئی ہماری رائے پہلے دن سے یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے حالات کے پیش نظر جنگ زیادہ دیر نہیں چل سکتی سترہ اٹھارہ دن کے بعد جنگ بند ہو جائے گی۔ مگر سر دست حکومت ہماری اس بات کو تسلیم نہیں کرتی اور عوام کے جذبہ جنگ کو مسلسل بلند کرتی جا رہی ہے۔ ہم نے مشورہ دیا کہ اسے اتنا اونچا نہ لے جاؤ کہ پھر نیچے اتارا نہ جا سکے۔ ‘‘ 154؎

پینسٹھ کی جنگ میں جنگی ترانے لکھنے یا نہ لکھنے کے مسئلے کو خالد حسن نے دوسرے انداز میں دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک:

’’ آزادی، مساوات، انصاف اور انسانیت کے لیے فیض کی شدید وابستگی کا شعلہ ہمیشہ بے حد تابناک رہا ہے۔ وہ ہمیشہ کے مرد مجاہد ہیں لیکن ہر شخص کی جد و جہد کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ چندHACK شاعروں کی طرح ہر موقع کے لحاظ سے ملی موسیقی کی دھنوں پر کھٹ سے ترانے لکھ ڈالنا اگر شاعری اور حب الوطنی ہے تو فیض صاحب نہ محب وطن ہیں نہ شاعر۔ لیکن فیض احمد فیض سے زیادہ گہرے سوز و گداز اور دیش بھگتی اور رجائیت سے شرابور شاعری کس نے کی ہے ؟ سن پینسٹھ کی لڑائی کے بارے میں ان کا گیت اٹھو اب ماٹی سے اٹھو میرے لال تو ایک شاہکار ہے۔ ‘‘ 155؎

سپاہی کا مرثیہ

اٹھو اب ماٹی سے اٹھو

جاگو میرے لال

اب جاگو میرے لا

تمری سیج سجاون کارن

دیکھو آئی رین اندھیارن

نیلے شال دوشا لے لے کر

جن میں ان دیکھن اکھین نے

ڈھیر کیے ہیں اتنے موتی

اتنے موتی جن کی جیوتی

دان سے تمرا

جگ جگ لاگا

نام چمکنے

اٹھو اب ماٹی سے اٹھو

جاگو میرے لال

اب جاگو میرے لال

گھر گھر بکھرا بھور کا کندن

جانے کب سے راہ تکے ہے

بالی دلہنیا بان کے ویران

سونا تمرا راج پڑا ہے دیکھو کتنا کاج پڑا ہے

بیری بیرا جے راج سنگھاسن

تم ماٹی میں لال

اٹھو اب ماٹی سے اٹھو، جاگو میرے لال

ہٹ نہ کرو ماٹی سے اٹھو، جاگو میرے لال

اب جاگو میرے لال

یہ گیت نما نظم تو انہوں نے جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد کہی تھی لیکن 14اگست1972ء کو پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام میں پاکستان کی سلور جوبلی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں کہا تھا:

’’ جب ہمارے ہاں پہلی بار قوم اس بات پر بیدار ہوئی کہ اس کی سلامتی کو خطرہ ہے تو ہر چند کہ مجھے ترانے لکھنے نہیں آتے ہیں لیکن اس سے متاثر ہو کر میں نے بھی اشعار لکھے تھے ‘‘ 156؎

کس حرف پہ تو نے گوشہ لب اے جان جہاں غماز کیا

اعلان جنوں دل والوں نے اب کہ بہ ہزار انداز کیا

سو پیکاں تھے پیوست گلو جب ہم نے چھیڑی شوق کے لے

سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا

بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر اس ہاتھ پہ سر اس کف پہ جگر

یوں کوئے صنم میں وقت سفر نظارہ بام ناز کیا

جس خاک میں مل کر خاک ہوئے وہ سرمہ چشم خلق بنی

جس خاک پہ ہم نے خوں چھڑکا ہم رنگ گل طناز ہوئی

لو وصل کی ساعت آ پہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے

آنکھوں کے دریچے بند کیے اور سینے کا در باز کیا


پاکستان میں دوسرا مارشل لاء



ایوب خان کے اقتدار کی شمع سن پینسٹھ کی جنگ کے بعد ہی دھیرے دھیرے پگھلنا شروع ہو گئی تھی۔ پورے ملک میں عوامی احتجاج کی لے روز بروز اونچی ہوتی جا رہی تھی لیکن اس عوامی احتجاج کا پھل کسی اور کو ملا جس کا اظہار یحییٰ خان کے لگائے ہوئے مارشل لاء کی صورت میں ہوا۔ فیض صاحب نے ایوب خان کی گرتی ہوئی ساکھ کے بارے میں اپنی ایک غزل میں اس کا اظہار بڑی خوب صورتی سے اور غزل کے قدیم اور روایتی انداز میں کیا تھا۔

اب بزم سخن صحبت لب سوختگاں ہے

اب حلقہ مے طائفہ بے طلباں ہے

گھر رہیے تو ویرانی دل کھانے کو آوے

رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے

پیوند رہ کوچہ زر چشم غزالاں

پابوس ہوس افسر شمشاد قداں ہے

اب صاحب انصاف ہے خود طالب انصاف

مہر اس کی ہے میزان بہ دست دگراں ہے

مہر ایوب خان کی اور میزان یحییٰ خان کا نتیجہ ایک اور مارشل لاء کی صورت میں نکلا اور ملک پر ایک اور سیاہی کے بادل چھا گئے۔ فیض صاحب نے اس موضوع پر کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہا تھا۔



خورشید محشر کی لو

آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو

دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن

کھل کے ہنسنے کے دن گیت گانے کے دن

پیار کرنے کے دن دل لگانے کے دن



آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو

زخم کتنے ابھی بخت بسمل میں ہیں

دشت کتنے ابھی راہ منزل میں ہیں

تیر کتنے ابھی دست قاتل میں ہیں



آج کا دن زبوں ہے مرے دوستو

آج کے دن تو یوں ہے مرے دوستو



جیسے درد و الم کے پرانے نشاں

سب چلے سوئے دل کارواں کارواں

ہاتھ سینے پہ رکھو تو ہر استخواں

سے اٹھے نالہ الاماں الاماں

آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو



کب تمہارے لہو کے دریدہ علم

فرق خورشید محشر پہ ہوں گے رقم

از کراں تا کراں کب تمہارے قدم

لے کے اٹھے گا وہ بحر خوں یم بہ یم

جس میں دھل جائے گا آج کے دن کا غم

سارے درد و الم سارے جور و ستم

دور کتنی ہے خورشید محشر کے لو

آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو


صحافت میں دوبارہ قدم



ایوب خان کے دور میں جب پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا تو پھر فیض صاحب نے بھی اس ادارے سے کنارہ کشی اختیار کر لی بلکہ یہی نہیں انہوں نے صحافت کے شعبے سے بھی مکمل علیحدگی کی راہ اپنا لی۔ پھر جب یحییٰ خان کا دور حکومت آیا تو

’’ 1970ء میں کراچی سے ہفتہ روزہ لیل و نہار کے دوبارہ اجراء کا فیصلہ کیا گیا اور فیض صاحب اس کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ یہ پرچہ تقریباً ڈیڑھ سال تک نکلتا رہا۔ اس دور میں فیض صاحب نے بہت کام کیا۔ وہ کئی سال کے تعطل کے بعد دوبارہ صحافت میں آئے تھے۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ کئی سیاسی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ جس کے ساتھ ہی صحافت بھی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی تھی۔ ان تمام تبدیلیوں کے ساتھ فیض صاحب نے صحافت میں ری ایڈجسٹ کیا۔ لیل و نہار کا مزاج بنانے میں فیض صاحب کا بڑا ہاتھ تھا خصوصاً اس دور میں انہوں نے کثرت سے اداریے لکھے۔ لیل و نہار میں تقریباً39اداریے فیض صاحب کے تحریر کردہ ہیں جن میں ملکی اور غیر ملکی اہمیت کے بہت سے مسائل سے بحث کی گئی ہے۔ 70ء میں انتخابی مہم کے دوران انہوں نے زیادہ تر اداریوں میں الیکشن کی اہمیت، انتخابی مہم، سیاسی پارٹیوں کا منشور و کردار اور مغربی و مشرقی پاکستان کے درمیان سیاسی رنجش جیسے مسائل سے بحث کی ہے۔ ‘‘157؎

نمونے کے طور پر لیل و نہار میں لکھے ہوئے ان کے ایک اداریے پر نظر ڈالیے تو نہ صرف فیض صاحب کے طرز استدلال بلکہ ان کے واضح سیاسی موقف کی جھلکیاں بھی صاف پہچان لی جائیں گی۔ یہ اداریہ متحدہ پاکستان میں انتخابی عمل کے بعد لکھا گیا جس کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کی جماعتوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اکثریت حاصل کی تھی۔ فیض صاحب نے لکھا:

’’ قومی اسمبلی کا پہلا اور بنیادی فریضہ ایک جمہوری آئین وضع کرنا ہے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے میاں محمود علی قصوری کی صدارت میں ایک آئینی کمیشن مقرر کر دیا ہے تاکہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب ہو تو مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت وہاں خالی ہاتھ نہ جائے بلکہ اس کے نمائندوں کے ذہن میں آئین کا ایک واضح نقشہ موجود ہو۔ اسی طرح عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے ڈاکٹر کمال حسین کو آئین کا مسودہ تیار کرنے پر متعین کیا ہے۔

ان دونوں جماعتوں کا بنیادی مقصد ملک میں ایک جمہوری اور اشتراکی معاشرہ قائم کرنا ہے لہٰذا عوام کے سماجی اور معاشی مسائل کی حد تک، جزئیات سے قطع نظر ان پر کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارے ملک کے مخصوص حالات کے پیش نظر جمہوریت پسند اشتراکی نقطہ نظر سے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ دونوں حصوں کے عوام کی اکثریت کی تائید کے بغیر کوئی آئین مرتب نہ ہو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شیخ مجیب الرحمان اور ان کے رفقاء کے حالیہ بیانات چنداں امید افزاء نہیں ہیں۔ وقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ عوامی لیگ جس کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے پیپلز پارٹی کی تعاون کی پیش کش کو فراخدلی سے قبول کر لیتی تاکہ دونوں جماعتوں کے مشورے سے ایک ایسا آئین وضع ہو سکتا جو مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کے لیے قابل قبول ہوتا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوامی لیگ صوبائیت کے حصار سے نکلنے پر آمادہ نہیں اور نہ اسے اس بات کی پرواہ ہے کہ مغربی پاکستان کے لوگ اس کے ہم خیال ہیں یا نہیں۔ چنانچہ شیخ صاحب اپنے چھ نکات پر بار بار اصرار کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ آئین بنے گا تو انہی چھ نکات کی بنیاد پر۔ ان کے جنرل سیکرٹری کا لہجہ ان سے بھی زیادہ تلخ ہے چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ اب ہم پنجاب اور سندھ کی غلامی برداشت نہیں کریں گے۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ پنجاب اور سندھ کے عوام نے مشرقی پاکستان پر کبھی راج نہیں کیا اور نہ وہ اس کے آرزو مند ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب کے عوام نے ان سرمایہ داروں کو انتخابات میں شکست فاش دی ہے جو مشرقی پاکستان پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کے خلاف اظہار برہمی حیرت انگیز بھی ہے اور تشویش ناک بھی۔ مسٹر بھٹو کی حالیہ تقریریں عوامی لیگ کے اسی نامعقول طرز عمل کا رد عمل ہیں۔ مسٹر بھٹو نے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد ہی عوامی لیگ کی طرف ایک بار نہیں کئی بار دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ لیکن شیخ مجیب الرحمان نے ہر بار بے رخی برتی۔ وہ تو مسٹر بھٹو کے خلوص اور نیک نیتی پر شبہ کرنے سے بھی باز نہ آئے حالانکہ مسٹر بھٹو نے الیکشن کے دوران یا اس کے بعد ایک بار بھی شیخ صاحب پر اعتراض نہیں کیا۔ اب اگر بھٹو صاحب عوامی لیگ کے جواب میں کہتے ہیں کہ ملک میں کوئی آئین پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر نہیں بن سکتا اور نہ کوئی جمہوری حکومت قائم ہو سکتی ہے تو کیا غلط کہتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ عوامی لیگ کو قومی اسمبلی میں قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ چاہے تو پیپلز پارٹی کی شدید مخالفت کے باوجود آئین کا مسودہ منظور کروا سکتی ہے لیکن یہ طرز عمل دانشمندانہ نہ ہو گا۔ اولاً یہی بات محل نظر ہے کہ صدر یحییٰ خان کسی ایسے دستور پر ایسے دستخط ثبت کریں گے جو پنجاب اور سندھ جیسے کلیدی صوبوں کی غالب اکثریت کی تائید سے نہ بنا ہو۔ دوئم بہ فرض محال صدر یحییٰ خان نے دستخط کر بھی دیے تو پنجاب اور سندھ میں بہر صورت پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومتیں ہوں گی۔ اور اگر ان حکومتوں نے شیخ مجیب الرحمان کی مرکزی حکومت کی مخالفت پر کمر باندھ لی تو پاکستان کی عوامی جد و جہد کا رخ منفی رجحانات یعنی منافرت کی شکل اختیار کر لے گا۔ ظاہر ہے کہ اس سے ملک کے عوام دشمن طبقات کو فائدہ ہو گا۔

عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ انتخابات کے باوجود ملک میں ہنوز مارشل لاء کی حکومت ہے اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اس عنصر کا بھی ایک واضح نقطہ نظر ہے۔ اس کا اظہار صدر یحییٰ خان قانونی ڈھانچے کے ضابطے میں کر چکے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کی سیاسی قوت ایک مثلث کے تین زاویوں میں بٹی ہوئی ہے اوراقلیدس کا اصول یہ ہے کہ مثلث کے دو زاویے مل کر ہر صورت میں بڑے ہوتے ہیں۔ صدر یحییٰ خان اور ان کے رفقائے کار شاید دو زاویوں کی رسہ کشی پر تیسرا زاویہ بننا نہیں چاہتے کیونکہ وہ متعدد بار اعلان کر چکے ہیں کہ میں اپنے لشکر میں واپس جانا چاہتا ہوں۔ لہٰذا فراست اور تدبر کا تقاضہ یہی ہے کہ عوامی لیگ مغربی پاکستان کے عوام کے جذبات اور خیالات کا احترام کرے اور پیپلز پارٹی مشرقی پاکستان کے عوام کے مسائل پر ہمدردی سے غور کر کے کوئی درمیانی راہ نکالے۔ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی کوئی طاقت اب مشرقی پاکستان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل نہیں کر سکتی۔ لہٰذا مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو عوامی لیگ کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ اب وہ دن گزر گئے جب مغربی پاکستان کے لیگی لیڈر مشرقی پاکستان کے چند نام نہاد لیڈروں کو سیاسی رشوت دے کر اپنا ہم نوا بنا لیتے تھے اور پھر دعویٰ کرتے تھے کہ ہماری حکومت قومی حکومت ہے۔ اگرچہ مسٹر بھٹو کے اس دعوے میں بڑی صداقت ہے کہ ملک میں کوئی آئین اور کوئی حکومت پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر نہیں بن سکتی لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ عوامی لیگ کی مرضی کے خلاف نہ آئین بن سکتا ہے نہ حکومتیں قائم ہو سکتی ہیں۔

مشرقی پاکستان کے لیڈروں کے بیانات اور اخباروں کے تبصروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ22 اور 23 سالوں میں جو بے انصافیاں اور بد عنوانیاں مرکزی حکومتوں نے کی ہیں عوامی لیگ ان کا بدلہ مغربی پاکستان سے لینا چاہتی ہے۔ ان کی منطق یہ ہے کہ اگر تم نے اتنی مدت تک ہمیں اپنی نو آبادی سمجھ کر لوٹا تو اب ہم تم سے وہی سلوک کریں گے جو تم نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ یہ بڑا خطرناک رجحان ہے۔ اس کا رد عمل مغربی پاکستان میں وہی ہو گا جو مرکز کی سابقہ پالیسیوں کا مشرقی پاکستان میں ہوا۔ اس سے ملک کے دونوں بازوؤں میں علیحدگی کی ذہنیت کو تقویت ملے گی اور نتیجہ یہ ہو گا کہ ملک دو حصوں میں بٹ جائے گا ہمیں یقین ہے کہ نہ شیخ مجیب الرحمان اور نہ بھٹو صاحب پاکستان کا بٹوارہ چاہتے ہیں لیکن موجودہ سیاسی بحران پر اگر جلد قابو نہ پایا گیا تو اس کا منطقی نتیجہ یہی ہو گا۔

عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے اختلافات پر دائیں بازو کے عناصر بہت خوش ہیں اور وہ ان تعلقات کو ہوا دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ کیوں کہ بائیں بازو کی متحدہ قوت اگر پراگندہ اور منتشر ہو تو اس سے دائیں بازو کی قوت بڑھتی ہے اور جمہوری جد و جہد کی کامیابی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے کیا عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما یہ گوارا کریں گے کہ چھوٹے چھوٹے آئینی مسائل کو عزت و وقار کا سوال بنا لیا جائے اور ان معاشی اور سماجی مسائل کو پس پشت ڈال دیا جائے جن کو حل کرنے کا وعدہ پاکستانی عوام سے کر چکے ہیں۔ پھر یہ کہاں کی حب الوطنی اور دانش مندی ہے کہ فروعات کی موشگافیوں میں وقت اور محنت ضائع کی جائے اور اس بنیاد کی طرف سے غفلت برتی جائے جس کی تعمیر اور استحکام پر پورے ملک کے مستقبل کا انحصار ہے۔ ‘‘ 158؎

جو لوگ پاکستان کی اس وقت کی سیاست سے ذرا بھی واقف ہیں انہیں فیض صاحب کی اس تحریر میں مستقبل میں ہونے والی صورت حال کی پیش گوئی کا احساس ضرور ہو گا۔


صلیبیں مرے دریچے میں



فیض صاحب جب جیل میں تھے تو ایل سے ان کا رابطہ کبھی کبھی ملاقات اور زیادہ تر خط و کتابت کی صورت میں رہا کرتا تھا۔ ایلس اور فیض صاحب کی یہ خط و کتابت انگریزی زبان میں ہوتی تھی۔ ایلس نے جو خطوط فیض صاحب کو لکھے وہ بعد میں ’’ ڈیر ہارٹ، ٹو فیض ان پریزن‘‘ کے نام سے انگریزی زبان ہی میں شائع ہوئے ہیں۔ 159؎ لیکن جو خطوط فیض صاحب نے ایلس کو لکھے وہ صرف ذاتی نوعیت کے نہیں تھے بلکہ ان میں دنیا جہان کی باتیں ہوتی تھیں چنانچہ ایک سمجھ دار اور با شعور خاتون ہونے کے ناطے انہیں ابتداء ہی میں ان خطوط کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا تھا جو ان کے شوہر نے انہیں جیل سے بھیجے تھے۔ انہوں نے نہ صرف ان خطوط کو محفوظ کیا بلکہ ایک بار جب کہ ابھی فیض صاحب جیل ہی میں تھے، ان سے ان خطوط کی اشاعت کے بارے میں رائے بھی معلوم کی۔ چنانچہ11 مارچ1953ء کے ایک خط میں فیض صاحب نے اس تجویز کا جواب دیتے ہوئے لکھا:

’’ خطوط کی اشاعت کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھو تو اچھا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کتابی صورت میں یہ بالکل احمقانہ معلوم ہوں گے۔ بہتر یہ ہے کہ اس بارے میں کسی غیر جانب دار آدمی سے پوچھو۔ کاش ایسے قصوں کا فیصلہ کرنے کے لیے اے۔ ایس۔ بی یہاں موجود ہوتے۔ بہر صورت اگر انہیں چھپوانے کا فیصلہ کرو تو یہ اردو میں چھپنے چاہئیں۔ اگر میں بہت احتیاط اور سوچ بچار سے نہ لکھوں تو ہماری انگریزی تحریر بہت آرائشی اور گڑ بڑ معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘ 160؎

یہ تو خیر فیض صاحب کا خیال تھا لیکن ایلس اپنے ارادے میں خاصی ثابت قدم رہیں۔ جن دنوں فیض صاحب جیل میں تھے ان دنوں تو ان خطوط کی اشاعت ممکن نہ ہو سکی لیکن اس کے بہت عرصے بعد فیض صاحب کے یہ خطوط ’’ صلیبیں مرے دریچے میں ‘‘ کے نام سے فیض کے ایک بہت سچے عاشق اور بقول خود فیض کے پونے تین دوستوں میں سے ایک چوتھائی کے حصہ دار مرزا ظفر الحسن نے 1971ء میں مکتبہ دانیال سے شائع کروائے۔ مرزا صاحب کا ذکر آیا تو ایک اور واقعہ کا بھی ذکر کر دوں جو ان کے انتقال کی خبر سے وابستہ ہے۔ مرزا ظفر الحسن کے انتقال کی خبر جب لندن سے افتخار عارف نے فیض صاحب کو پیرس میں دی تو انہوں نے اسے ایوب مرزا کے انتقال کی خبر سمجھی اور اس حوالے سے ایک تعزیتی تحریر بھی روانہ کر دی۔ اس سے شاید کچھ غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئیں کیونکہ ڈاکٹر ایوب مرزا نے اپنی زندگی میں ہی اپنی مرتب کی ہوئی کتاب فیض نامہ کی ابتداء اپنے نام فیض صاحب کے تعزیت نامے سے کی ہے۔ کتاب کے شروع ہی میں ایک زندہ شخص کا خود اپنے نام تعزیتی خط چھپوانا تعجب کی بات لگتی ہے۔ 161؎ ممکن ہے ایوب مرزا نے اسے مثبت انداز میں لیا ہو اور اس تعزیتی تحریر کو اپنے لیے باعث فخر سمجھا ہو۔ بہر حال یہ بات محض برسبیل تذکرہ آ گئی ہے۔ گفتگو تو در اصل مرزا ظفرالحسن کی کوششوں کے نتیجے میں شائع ہونے والے فیض صاحب کے خطوط کے مجموعے سے متعلق ہے۔ فیض صاحب نے صلیبیں مرے دریچے میں گزارش احوال واقعی کے عنوان سے لکھا ہے :

’’ اس کتاب میں جو خطوط شامل ہیں وہ تو میں نے ہی لکھے ہیں لیکن یہ کتاب نہ میں نے لکھی ہے نہ چھپوائی ہے۔ اسے لکھوانے اور چھپوانے کے واحد ذمہ دار، ادارہ، یادگار غالب والے مرزا ظفر الحسن ہیں۔ اب سے چند ماہ پہلے مرزا صاحب نے تقاضا شروع کیا کہ میں اپنی سرگزشت یا تجربات زندگی وغیرہ کے بارے میں کچھ لکھوں، وہ اصرار کرتے رہے اور میں ٹالتا رہا۔ آخر پیچھا چھڑانے کی خاطر میں نے یہ خطوط بیوی سے لے کر ان کے حوالے کر دیے کہ ان میں کانٹ چھانٹ خود ہی کر لیجئے۔ اس کے بجائے وہ نہ صرف ان خطوط کی اشاعت کے درپے ہو گئے بلکہ ان کے ترجمے پر بھی مجھ ہی کو مامور کر دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی ادبی تصنیف نہیں ہے، نجی خطوط ہیں جو قلم برداشتہ لکھے گئے ہیں۔ کسی مربوط اور سنجیدہ بحث کی تلاش بے کار ہے، صرف اتنا ہے کہ جیل خانے میں دفع الوقتی کے بہت ہی محدود ذرائع میں سے ایک ذریعہ خط و کتابت بھی ہے۔ اس لیے کوئی حکایت لذیذ ہو یا نہ ہو اسے خواہ مخواہ دراز کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ‘‘162؎

فیض صاحب نے تو مزاجاً کسر نفسی سے کام لیا ہے لیکن در اصل ان خطوط سے دو چیزیں بڑی واضح ہو کر سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس زمانے کے مجموعی حالات کے بارے میں ان کا نقطہ نظر (ہر چند کہ سنسر کی پابندیوں کی وجہ سے ان کا مکمل اظہار نہ ہو سکا) سامنے آیا ہے اور دوسرے یہ کہ ان کے ذہنی ارتقاء کی تصویریں کچھ اور زیادہ رنگین ہو جاتی ہیں۔ کچھ دوستوں کے بارے میں، کچھ کتابوں کے بارے میں، کچھ ان کے ادبی منصوبوں کے بارے میں، کچھ جیل میں عام قیدیوں پر گزرنے والے واقعات کے بارے میں، کچھ اس درد کے بارے میں جو ایک باپ کے دل میں اپیک بچیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پلتا اور بڑھتا ہوا نہ دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے، کچھ ان دوستوں کے بارے میں جو زمانے کی ہوا کے ساتھ بدل گئے، کچھ ان محبت کرنے والوں کے بارے میں جو زنداں کی سلاخوں کے دوسری طرف بھی اپنے ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لیے ہوئے کھڑے ہیں، کچھ اس شریک سفر کے بارے میں جو ان نامساعد حالات کے باوجود ہمت نہیں ہارتی۔ غرض یہ کہ ایک شخصیت کے ذاتی حوالوں سے ایک پورا دور آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ شاید اسی لیے ان خطوط کے اشاعت کا جواز پیش کرتے ہوئے انہوں نے یہ کہا تھا:

’’ چونکہ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کے لیے قید و بند کوئی غیر متوقع سانحہ یا حادثہ نہیں بلکہ معمولات زندگی میں داخل ہے اس لیے بہت ممکن ہے کہ ہمارے شعبہ عمرانیات میں حبسیات بجائے خود ایک موضوع تخلیق ٹھہرے۔ اس صورت میں شاید یہ خطوط طویل اسیری کے نفسیاتی تجربے کا ایک آدھ پہلو اجاگر کر سکیں۔ ‘‘ 163؎

صلیبیں مرے دریچے میں کا انتساب چھیمی اور میزو کے نام ہے اور اس میں فیض صاحب کے ایام اسیری کے 135خطوط شامل ہیں۔ اس میں شائع ہونے والا پہلا خط ہی ان کے عزم اور حوصلے کا منہ بولتا ثبوت ہے انہوں نے اپنا یہ پہلا خط7جون1951ء کو لکھا جب پہلی بار انہیں کاغذ ملا۔

’’ تمہیں خط پہلے نہیں لکھ سکا جس کا افسوس ہے لیکن یہاں ہر کام بہت دھیرے دھیرے ہوتا ہے اور خط لکھنے کے لیے کاغذ آج ہی ہاتھ آیا ہے۔ میں اور دوسرے ساتھی چار تاریخ کی صبح کو اسپیشل ٹرین سے یہاں پہنچے۔ ہم نے جس ٹھاٹھ سے سفر کیا وہ دیکھنے کی چیز تھی۔ صرف بینڈ باجے کی کسر رہ گئی ورنہ جلو میں اور تو سب کچھ تھا۔ گاڑی پہ سوار ہوتے ہی یوں محسوس ہوا کہ سب پریشانیاں دور ہو گئی ہیں۔ سفر کا لطف، دنیا کو دوبارہ دیکھنے کی لذت، پر تکلف کھانا، بہت سی نعمتیں یکبار ہاتھ آ گئیں۔ اس دور دراز دن کے بعد جب مجھے اچانک گھر سے لے گئے تھے پہلی بار مزے کا کھانا اور سفر کی دوپہر نصیب ہوا۔ بھنا ہوا مرغ، پلاؤ، فروٹ کاک ٹیل اور آئس کریم اور اس پر اضافہ دنیا کی سب سے عزیز چیز یعنی انسانوں کی صحبت، جس سے اتنے دن محروم رہے۔ ان سب باتوں کی وجہ سے دل دو باہ پر سکون ہے۔ اب تمہیں بتانے میں کچھ ہرج نہیں کہ یہ تین چار دن جو لاہور میں لاہور میں گزرے ایام اسیری کے سب سے اذیت ناک دن تھے۔ جب مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اپنے چاہنے والوں کو کسی ایسی چیز کی خاطر دکھ اور اذیت پہنچانا جو خود کو بہت عزیز ہو لیکن ان کے لیے کچھ معنی نہ رکھتی ہو غلط اور ناجائز بات ہے۔ اس نظریے سے دیکھو تو آئیڈیل ازم یا اصول پرستی بھی خود غرضی کی ایک صورت بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ اپنے کسی اصول کی دھن میں آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کو کیا چیز عزیز ہے اور اس طرح اپنی خوشنودی کی خاطر دوسروں کا دل دکھاتے ہیں۔ اس زمانے میں دل و دماغ پر اور بھی کئی باتوں کا انکشاف ہوا۔ اپنے بارے میں بھی، دوسروں کے بارے میں بھی۔ اپنے میں ایسی بہت سی کمزوریاں نظر آئیں جن کا وجود پہلے گمان میں نہ تھا۔ دوسروں میں کمینگی اور عالی حوصلگی کے ایسے پہلو دکھائی دیئے جو پہلے معلوم نہ تھے۔ اس سارے تجربے کے لیے دل احسان مند ہے۔ خیال ہے کہ جب یہاں سے نکلیں گے تو غالباً اپنی شخصیت پہلے سے زیادہ مکمل اور منظم ہو گی۔ میں نے یہ بھی اچھی طرح محسوس کر لیا ہے کہ آدمی کے لیے مناسب یہی ہے کہ جو کچھ وہ ہے اس پر قناعت کرے اور جو کچھ وہ نہیں ہے وہ کچھ بننے کے کوشش میں وقت اور محنت ضائع نہ کرے۔ اس طرح کی کوشش سے حماقت اور خود فریبی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا، جب سے میں یہاں پہنچا ہوں خوف و خطر کا قطعی کوئی احساس دل میں باقی نہیں رہا۔ (اگرچہ یہ احساس پہلے بھی کچھ ایسا زیادہ نہیں تھا۔ وہ اس وجہ سے کہ نہ صرف مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی جسے اخلاقی گناہ کہہ سکیں بلکہ کوئی ایسا ارتکاب بھی نہیں کیا جسے رسمی یا قانونی طور سے جرم ٹھہرایا جا سکے ) اب تو یوں ہے کہ اگر کوئی یاد نہ دلائے تو خیال بھی نہیں آتا کہ ہم جیل خانے میں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے یہاں ہیں اور اگر یہاں سے باہر جانے کو جی چاہے تو کوئی ہمیں روک بھی نہیں سکتا۔ جیل میں ہمارا گھر اچھا خاصا ہے۔ کھانے پینے کو کافی ملتا ہے، گرمی کچھ ایسی زیادہ نہیں۔ اسیری کے سب سے برے دن کٹ چکے ہیں۔ اس لیے اب اور کچھ بھی ہو، نہ قید تنہائی کا سامنا باقی ہے، نہ پولیس کی تکلیف دہ پوچھ گچھ کا ڈر ہے اور اپنی جان اور ناموس دونوں سلامت ہیں۔ اب تمہاری اور بچوں کی تصویریں سامنے رکھ کے میں خوشی سے مسکرا سکتا ہوں، تمہاری یاد سے پہلے کی طرح دل نہیں دکھتا اور یقین پہلے سے بھی زیادہ محکم ہو چلا ہے کہ زندگی خواہ کچھ بھی دکھائے بالآخر بہت خوب شے بھی ہے اور بہت حسین بھی ہے۔ ‘‘ 164؎

فیض صاحب کی شاعری کا ایک بڑا حصہ جیل خانے کی دیواروں کے پیچھے لکھا گیا ہے چنانچہ اس شاعری کے صحیح پس منظر کو سمجھنے کے لیے ان خطوط کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ کسی بھی شاعری کی اصل تفہیم اس کے الفاظ کی نشست و برخاست، اس کا استعاراتی اور تشبیہاتی نظام اور لفظوں کے درمیان ان کہی کہانیوں اور جذباتی واردات کے بیان سے ہوتی ہے لیکن جو چیز اس کے مفہوم میں سب سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کر سکتی ہے وہ اس کے پس منظر کی تلاش کا عمل ہے۔ فیض صاحب کی حبسیہ شاعری کو سمجھنے کے لیے ان خطوط کو ایک طرح سے لازم و ملزوم سمجھنا چاہیے۔

ان خطوط میں جا بجا فلسفیانہ خیالات عمرانی حوالے کلاسیکی کتابوں کے تذکرے، نزول شعر کی کیفیات اور شعر و ادب کے بارے میں ان کے خیالات بکھرے ہوئے ہیں اور یہی ان خطوط کو دلچسپ اور قابل مطالعہ بناتے ہیں۔


سر وادی سینا



فلسطین اردو ادب میں ایک بہت اہم موضوع رہا ہے اور فیض صاحب کے پانچویں مجموعہ کلام کا نام بھی ’’ سر وادی سینا‘‘ ہے جو1971ء میں کراچی سے شائع ہوا ہے۔ فیض صاحب بنیادی طور پر رومان اور حقیقت کے سنگم پر کھڑے ہو کر اپنا تخلیقی اظہار کرتے ہیں چنانچہ ان کی شاعری میں جہاں وہ حدیث دل بھی بیان کرتے ہیں وہاں ایک واضح شعور کا نشان اور فکری سوتے پھوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں کا اظہار ان کے اس مجموعہ کلام میں نمایاں طور سے ہوا۔ دست تہ سنگ (1965)کے بعد سر وادی سینا کی اشاعت(1971)تک کا جو عرصہ ہے وہ پاکستان اور عالمی سیاسی حالات کے تناظر میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ عالمی منظر نامے میں سن سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ نے فیض صاحب کو فکری طور پر بہت متاثر کیا۔ عرب اسرائیل جنگ کے پس منظر میں لکھی ہوئی ان کی نظم سر وادی سینا اس کی واضح مثال ہے۔

سر وادی سینا

پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا

پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت

پیغام اجل، دعوت دیدار حقیقت

اے دیدۂ بینا

اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے

اب قاتل جاں چارہ گر کلفت غم ہے

گلزار ارم پر تو صحرائے عدم ہے

پندار جنوں

حوصلہ راہ عدم ہے کہ نہیں ہے

پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا

اے دیدہ بینا

پھر دل کو مصفا کرو اس لوح پہ شاید

مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے

اب رسم ستم حکمت خاصان زمیں ہے

تائید ستم مصلحت مفتی دیں ہے

اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے

لازم ہے کہ ان کار کا فرماں کوئی اترے

سنو کہ شاید یہ نور صیقل

ہے اس صحیفے کا حرف اول

جو ہرکس و ناکس زمیں پر

دل گدایان اجمعیں پر

اتر رہا ہے فلک سے اب کے

سنو کہ اس حرف لم یزل کے

ہمیں تمہیں بندگان بے بس

بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں

ہر اک اولی الامر کو صدا دو

کہ اپنی فرد عمل سنبھالے

اٹھے گا جب جم سر فروشاں

پڑیں گے دارو رسن کے لالے

کوئی نہ ہو گا کہ جو بچا لے

جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی

یہیں عذاب و ثواب ہو گا

یہیں سے اٹھے گا شور محشر

یہیں پہ روز حساب ہو گا

ایک ایسی فضا میں جب احتجاج کرنے والوں کی آنکھوں میں اداسیوں کے ڈیرے تھے فیض صاحب کا یہ رجز اور للکار کا یہ لہجہ اس قدر طاقت ور تھا کہ اسے اردو شاعری میں فلسطین کے موضوع پر کی جانے والی شاعری کا سرنامہ خیال قرار دیا جا سکتا ہے۔ کسی حد تک پروفیسر فتح محمد ملک نے بالکل درست کہا ہے :

’’ کشت افسوس بونے والے زیاں پرستوں کے نوحہ و ماتم سے الگ اسلامی تاریخ و تہذیب سے پھوٹنے والے حریت کے اس لحن میں تخلیق کی جانے والی شاعری کا نکتہ کمال سر وادی سینا ہے۔ ‘‘ 165؎

جون1967ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو جو شکست فاش ہوئی تھی اس نے عرب ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے شاعروں اور ادیبوں نے اس غمناک شکست سے پیدا ہونے والی صورت حال پر نوحے بھی لکھے اور نا امیدی کے چراغوں کو بجھاتے ہوئے رجائیت سے بھرپور نغمے بھی گائے اس دوران عربی زبان میں جو ادب تخلیق ہوا اسے حزیران کہتے ہیں :

’’ عربی میں چونکہ ماہ جون کو حزیران کہتے ہیں اس لیے اس ذیل میں لکھا جانے والا سارا ادب، الادب الحزیرانی، یعنی (جون کا ادب) کہلاتا ہے۔ فیض کی نظم سر وادی سینا بھی 1967ء میں لکھی گئی تھی اور اسے بھی حزیرانی ادب میں شامل کرنا چاہیے۔ ‘‘ 166؎

سر وادی سینا کا دوسرا اہم موضوع اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ہونے والے اندوہناک واقعات کے پس منظر میں فیض صاحب کا احتجاجی کلام ہے۔ انہوں نے اپنی آواز کا رشتہ مظلوموں سے جوڑ کر اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ روشنی جہاں بھی ہو، روشنی کا ساتھ دو۔ عام لوگوں پر ظلم کی کوئی بھی نوعیت ہو وہ انسانی مصائب میں اضافے کا سبب بنتی ہے اور یہ بات کسی بھی انسانی معاشرے کی نشو و نما کے لیے زہر قاتل ہے۔ انہوں نے ایک سچے محب وطن کی طرح ان درد ناک لمحوں میں دہائی دیتے ہوئے کہا:

حذر کرو مرے تن سے

سجے تو کیسے سجے قتل عام کا میلہ

کسے لبھائے گا میرے جنوں کا واویلا

مرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے

چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے

نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے

مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے

مگر وہ زہر ہلا ہل بھرا ہے نس نس میں

جسے بھی چھیدو ہر اک بوند قہر افعی ہے

ہر اک کشید ہے صدیوں کے درد و حسرت کی

ہر اک میں مہر بہ لب غیظ و غم کی گرمی ہے

حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ہے

حذر کرو کہ مرا تن وہ چوب صحرا ہے

جسے جلاؤ تو صحن چمن میں دہکیں گے

بجائے سرو سمن میری ہڈیوں کے ببول

اسے بکھیرا تو دشت و دمن میں بکھرے گی

بجائے مشک صبا، میری جان زار کی دھول

حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیاسا ہے

اس نظم کے بارے میں خود فیض صاحب نے ایک موقعے پر کہا:

’’ یہ نظم میں نے 1971ء میں کہی تھی۔ مشرقی پاکستان میں نفرت کا سیلاب امڈ پڑا تھا۔ جو کل تک دوست اور آشنا تھے وہ اغیار ہو چکے تھے۔ جو کل تک آپس میں بھائی تھے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے اور یحییٰ خان نے اپنی مخصوص فراست سے کام لیتے ہوئے وہاں ملٹری ایکشن شروع کر دیا تھا۔ ان حالات اور واقعات کو روکنے کے لیے جس حقیقی قوت کی ضرورت تھی وہ ایک منظم متحد اور بالغ نظر سوشلسٹ تحریک تھی۔ وہ یہاں ہمیشہ سے مفقود رہی ہے۔ مشرقی پاکستان کے کسانوں، مزدوروں ور ہاریوں کا جو رشتہ تھا اسے حاکموں نے نفرت اور حقارت میں بدل دیا تھا۔ حاکموں کے پاس ہر موقع اور ہر حالت کے لیے مخصوص نسخے ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے وہ دل دوز حالات اور واقعات ایسے ہیں جنہوں نے میرے دل کو فگار کر دیا تھا۔ مجھے زندگی میں اس سے بڑھ کر کسی واقعے سے صدمہ یا دکھ نہیں ہوا۔ میرے یار غار وہاں بے شمار تھے۔ میں نے تو کئی راتیں بے خوابی میں گزاری ہیں۔ میرا تو انسان کی اعلیٰ قدروں پر ایمان ڈانوا ڈول ہونے لگا تھا۔ ‘‘ 167؎

فیض صاحب کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور مشرقی پاکستان میں قتل و خون کی وہ ہولی کھیلی گئی کہ الامان الحفیظ۔ سر وادی سینا کی بیشتر شاعری اس صورت حال کے گرد گھومتی ہے۔

ویسے تو فیض صاحب کا بنیادی لہجہ کلاسیکی ہی ہے لیکن سر وادی سینا میں ان کا یہ کلاسیکی لہجہ کچھ اور زیادہ غالب نظر آتا ہے۔ اس میں بہت سی غزلوں میں جو زبان، جو محاورے اور جو تشبیہات استعمال کی گئی ہیں وہ اردو کے قدیم کلاسیکی ادب کا بہت جانا پہچانا سرمایا ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں گہرائی اور گیرائی کا آمیزہ کچھ اور شامل ہو گیا ہے۔ تجربات کے اظہار میں بے ساختہ پن کے بجائے ڈوب کر آہستہ آہستہ دل میں اتر جانے والا لہجہ اپنایا گیا ہے۔

1971ء میں شائع ہونے والے اس مجموعہ کلام کا انتساب روس میں رائٹرز یونین کی سربراہ اور فیض صاحب کی بہت قریبی دوست مریم سلگانیک کے نام کیا گیا ہے جب کہ اس کے پیش لفظ میں برطانیہ کے پروفیسر وکٹر کیرنن اور روس کے الگزنڈر سر کوف کے مضامین شامل ہیں جن کا ترجمہ سحر انصاری نے کیا ہے۔ اس مجموعے کی پہلی نظم انتساب ہے جو کئی قسطوں میں مکمل ہوئی ہے اور جسے فیض صاحب ایک طویل نظم کی صورت میں لکھنا چاہتے تھے شاید اسی لیے اس کے آخر میں انہوں نے ناتمام کا لفظ لکھا ہے۔

ان کے ہر مجموعہ کلام کی طرح سر وادی سینا میں بھی دو اہم منزلیں ہیں۔ ایک وہ جو 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ سے متعلق ہے اور دوسری مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کے بارے میں لکھی گئی ان کی احتجاجی نظمیں ہیں۔ ان دونوں موقعوں پر انہوں نے اپنی آواز میں وہ طاقت اور صداقت پالی جس نے انہیں اپنے مظلوم ہم وطنوں کے دلوں پر گزرنے والے صدمات کا ترجمان بنا دیا۔


المیہ مشرقی پاکستان



1971ء میں فیض صاحب کی کتاب سر وادی سینا شائع ہو چکی تھی اور اس میں پاکستانی قوم کے ضمیر کو انہوں نے اپنی دل گداز شاعری سے جھنجھوڑا بھی لیکن اس دیس کے فگار بدن سے لہو کی نہر جاری ہو کر ہی رہی۔ فیض صاحب کے دل سے بھی خون کا ایک سیلاب امڈا اور پھر اپنے چکنا چور ہونے والے خوابوں کو ایک بار پھر سے جمع کرنے کی سعی میں مصروف ہو گئے۔ سقوط ڈھاکہ کی خبر پاکستان کے گلی کوچوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لیکن یہ آگ ایسی تھی جس میں الاؤ یا روشنی کا نام و نشان نہ تھا۔ صرف دھواں تھا اور دھوئیں کے انہی مرغولوں میں راولپنڈی کے فلیش مین ہوٹل کے ایک کمرے میں ہمیشہ اپنی انگلیوں میں جلتا ہوا سگریٹ رکھنے والا شخص آج اس کے دھوئیں سے بھی بیزار تھا۔ اس نے اپنا دکھ بانٹنے کے لیے اپنے ایک چاہنے والے کو وہاں بلا بھیجا۔ دروازے پر دستک ہوئی آنے والے مہمان ڈاکٹر ایوب مرزا نے کمرے کا دروازہ کھولا:

’’ کمرے میں سناٹا تھا۔ بتیاں گل تھیں اور پردے یوں لٹک رہے تھے جیسے کسی ہارے ہوئے جواری کا منہ۔ صوفے خالی پڑے تھے اور میز پر نہ جام، نہ سبو۔ باہر آ کر دوبارہ کمرے کا نمبر دیکھا۔ کمرہ وہی تھا۔ آہستہ سے آواز آئی، کون؟ میں نے جواب میں کہا ’’ فیض صاحب آپ کہاں ہیں ؟ اور یہ بتیاں کیوں گل ہیں ؟ ان کا سوئچ کدھر ہے ؟ کہنے لگے ’’ بھائی ادھر ہی آ جاؤ اور سوئچ کسے معلوم کہ کہاں ہے ؟ فیض سبتر پر اوندھے لیٹے ہوئے تھے اور سر کی چادر سے غرور جبیں کو چھپائے ہوئے تھے۔ سقوط مشرقی پاکستان مکمل ہو چکا تھا۔ کچھ دیر بعد سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے میں نے عرض کیا فیض صاحب، اونچی رکھیں لو۔ کہنے لگے بھئی ہر تخریب میں تعمیر کا پہلو تو ضرور نکل آتا ہے لیکن اپنے گھر کو آپ خود مسمار کریں تو اس کی اذیت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان کو یوں پامال ہوتا دیکھیں گے یہ ہم نے سوچا تک بھی نہ تھا۔ ‘‘ 168؎

انہی دنوں المیہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے فیض صاحب کا ایک اخباری بیان شائع ہوا تھا جس میں وہ کچھ نہیں تھا جو سمجھا جا رہا تھا۔ پوچھا گیا کہ آپ نے بھارت اور روس کے اقدامات کے خلاف جو بیان اخبارات کو دیا گیا ہے وہ کس جذبے یا دباؤ کے تحت دیا گیا ہے۔ کہنے لگے :

’’ بھئی دباؤ وباؤ ہم نہیں مانتے اور نہ ہم پر کوئی دباؤ تھا۔ البتہ میرے ذہن پر اس المیہ کا بہت بوجھ تھا۔ جذبہ جو اس بیان میں کار فرما ہے وہ تو میرے وطن کی سلامتی کا جذبہ ہے۔ بھئی اس معاملے میں بھارت اور روس دونوں کی روش وہ نہیں تھی جس کا علم لے کر لینن نکلا تھا۔ اور پھر ہم کوئی روش کے ملازم تو ہیں نہیں۔ وہ اگر غلط کام کریں گے تو ہم اسے ٹھیک کیسے کہیں ؟ ہمارے لیے سب سے اول اپنی قوم اور اپنا ملک ہے۔ بہرحال اتنا ضرور ہے کہ دوسروں کو الزام دینے سے پہلے اپنے گریباں میں بھی جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔ ‘‘ 169؎

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

٭٭٭








جمہوری سے غیر جمہوری سرکار تک
(1978-1972)


ثقافت کے میدان میں



المیہ مشرقی پاکستان کے بعد نئے پاکستان کی کار آشیاں بندی میں تہذیب و ثقافت کے حوالوں سے فیض صاحب نے نئے سرے سے اپنی بھرپور توانائیوں کا استعمال کیا۔ شعر و ادب اور سیاست و صحافت کی طرح تہذیب و ثقافت کا میدان بھی شروع سے ہی ان کی توجہ کا مرکز تھا۔ اس میدان میں وہ ایک فلم ڈائرکٹر، پروڈیوسر، مکالمہ نگار اور گیت نگار کی حیثیت سے پہلے ہی سامنے آ چکے تھے۔ لاہور آرٹس کونسل اور کراچی آرٹس کونسل سے وابستگی بھی اسی سمت میں ایک قدم تھا۔ ایوب خان کے زمانے میں کلچرل کمیٹی میں بھی وہ شامل تھے اور پاکستانی ثقافت کے موضوع پر ایک سرکاری رپورٹ کی تیاری میں بھی حصہ لے چکے تھے۔ اس رپورٹ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے قدرت اللہ شہاب نے لکھا:

’’ میں نے وزارت اطلاعات و نشریات میں ایک کلب قائم کیا، جس کا نام I do not agree club رکھا۔ اس کی پہلی تقریب میں جو حضرات شریک ہوئے ان میں سید ابو الاعلیٰ مودودی، شورش کاشمیری، مجید نظامی، میر خلیل الرحمان اور غلام احمد پرویز کے علاوہ پندرہ بیس دیگر مشاہیر بھی شامل تھے۔ مودودی صاحب کو یہ تقریب اس قدر بھائی کہ انہوں نے اردو میں اس ادارے کا نام ’’ میں نہ مانوں کلب‘‘ ہی تجویز کر دیا۔ اگلی میٹنگ کے لیے میں فیض صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے شرکت کی حامی بھر لی اور گفتگو کا موضوعDissent in art and culture مقرر کیا۔ ہم لوگ ’’ میں نہ مانوں کلب‘‘ کی اس تقریب کے لیے مدعوئین کی فہرستیں تیار کر رہے تھے کہ اوپر سے حکم نامہ آ گیا کہ یہ خرافات بند کرو۔ اس تقریب کے لیے فیض صاحب نے جو نوٹس تیار کیے تھے وہ انہوں نے میرے حوالے کر دیے ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے یہ دو ڈھائی صفحات چھ برس سے اوپر میرے پاس پڑے رہے۔ پھر 1968ء میں میں نے یہ کاغذات ان کو واپس کر دیے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس برس مئی کے مہینے میں ہم لوگوں نے وزارت تعلیم میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں اس وقت کے پاکستان کے دونوں حصوں سے میدان ثقافت کے نمائندوں، تنظیموں، اداروں اور آرٹ کونسلوں نے بھرپور شرکت کی تھی۔ کانفرنس نے ایک اسٹینڈنگ کمیٹی آن آرٹ اینڈ کلچر قائم کی جس کے چیئرمین فیض احمد فیض مقرر ہوئے۔ اسی روز شام کو فیض صاحب مجھ سے ملے اور پوچھا کہ تم نے کمیٹی اور اس کے چیئرمین کے متعلق اوپر سے کلیرنس لے لی ہے یا نہںف ؟ میں نے جواب دیا کہ اگر میں پیشگی کلیئرنس حاصل کرنے کی کوشش کرتا تو غالباً نہ ملتی اب کمیٹی قائم ہو گئی ہے تو شاید چل نکلے۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ میری تھوڑی بہت جواب طلبی تو ضرور ہوئی لیکن کمیٹی کو کسی نے نہ چھیڑا۔ فیض صاحب اس کمیٹی کو ساتھ لے کر پشاور سے چٹا گانگ تک بیسیوں جگہ گئے اور تین سو سے زیادہ فنکاروں، ادیبوں، دانشوروں اور ماہرین ثقافت سے تبادلہ خیال کیا۔ چھ سات ماہ بعد جب ان کی رپورٹ مرتب ہو کر وزارت تعلیم میں پہنچی تو صدر ایوب کی حکومت کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ کسی کو اتنا ہوش نہ تھا کہ وہ اس رپورٹ پر غور کر کے اسے منظور یا نامنظور کراتا۔ ‘‘170؎

در اصل پاکستانی ثقافت کے باب میں فیض صاحب کی خدمات کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک تو پاکستانی ثقافت کے خد و خال کے بارے میں ان کی مخصوص سوچ اور غور و فکر سے متعلق ہے جبکہ دوسرا پہلو ان کی عملی خدمات کے حوالے سے ہے جس میں پاکستان کے مختلف ثقافتی اداروں سے ان کی وابستگی اور ان داروں کے تحت ان کی خدمات شامل ہیں۔ ثقافتی میدان میں عملی خدمات کے حوالے سے فلم اور لاہور آرٹس کونسل اور کراچی آرٹس کونسل کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے لیکن پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد کا ذکر کیے بغیر یہ کہانی ادھوری رہے گی۔


مشیر امور ثقافت



کہتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد فیض صاحب ملک سے باہر جانا چاہتے تھے مگر بھٹو صاحب کی کابینہ کے ایک سینئر وزیر جے اے رحیم نے ان کی ملاقات ذوالفقار علی بھٹو سے کروائی جو اس وقت پاکستان کے صدر تھے انہوں نے فیض صاحب سے کہا:

’’ ملک کے حالات بہت خراب ہیں، آدھا ملک ہاتھ سے نکل گیا ہے مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ ‘‘ 171؎

بقیہ معاملات جے اے رحیم سے طے ہونے تھے۔ فیض صاحب نے ان سے اسی رپورٹ کا ذکر کیا جو دور ایوبی میں مرتب ہوئی تھی۔ حکومت وقت کی طرف سے اس فائل کو دوبارہ کھولا گیا اور اسی کی روشنی میں انہیں وزارت تعلیمات میں کلچرل ڈویژن کے مشیر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے کے لیے کہا گیا جسے انہوں نے بہ خوشی قبول کر لیا۔ اس طرح انہیں کافی یک سوئی کے ساتھ پاکستانی ثقافت کے خد و خال کو نمایاں کرنے کا موقعہ ملا اور انہوں نے اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

وزارت تعلیمات کے ثقافتی امور کے مشیر کی حیثیت سے انہوں نے سب سے پہلے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے چیئرمین بنے۔ بعد مںس جب اس ادارے کو پارلیمنٹ کی منظوری حاصل ہوئی تو انہیں صرف اس ادارے کا ایک مشیر مقرر کیا گیا۔

فیض صاحب اس ادارے کے تحت یا اس سے منسلک کچھ اور اداروں کا قیام بھی ممکن بنانا چاہتے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو ایک نیشنل تھیٹر کا خاکہ مرتب کیا۔ پھر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک ڈرامہ تھیٹر بنوایا اور اس طرح ڈرامے کی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کا کام شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی لوک ورثے کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لیے ایک اور ادارہ بنوانے میں بھی حصہ لیا جسے لوک ورثے کا میوزیم کہنا چاہیے۔ لوک ورثے کی حفاظت کے لیے پرانی اشیاء جمع کی جانے لگیں اور ایسے قوانین کا مسودہ بنوانے میں انہوں نے حصہ لیا جس کے نتیجے میں ان نوادرات کی بیرون ملک منتقلی یا اسمگلنگ کا خاتمہ ہو سکے۔ پرانی اشیاء جمع کرنے کے عمل میں ایلس بھی ان کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی تھیں۔ بہت ممکن ہے فیض صاحب کو پرانی اشیاء محفوظ کرنے کا خیال ایک زمانے میں پابلو نرودا سے اپنی ملاقات کی وجہ سے بھی آیا ہو۔ ایسا میں اس لیے سوچتا ہوں کہ انہوں نے سویت یونین سے متعلق اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے پابلو نرودا سے اپنی ملاقات کا حال یوں بیان کیا ہے :

’’ سوچی کی اور یادوں میں ہمارے دور کے عظیم شاعر، مفکر اور مجاہد پابلو نرودا سے پہلی ملاقات بھی شامل ہے۔ پابلو نرودا ان کی بیگم اور ہم ایک ہی سینی ٹوریم میں ٹھہرے تھے۔ اور دس پندرہ روز ان سے قریب قریب ہر روز صحبت رہی۔ دراز قد، دہرا بدن، گندمی رنگ، ذرا موٹے نقش، بڑی بڑی سنجیدہ اور کچھ مفکر سی آنکھیں۔ پہلی ملاقات ہی میں نرودا مجھے بہت ہی با رعب، باوقار اور قدرے خاموش شخصیت دکھائی دیے۔ ان کی شگفتہ مزاجی، بذلہ سنجی اور خوش طبعی کا اندازہ بعد میں ہوا یہ 1962ء کی بات ہے جب افریقہ کے بیش تر ملک آزاد ہو چکے تھے، کیوبا میں انقلاب کی جیت ہو چکی تھی۔ اور ویت نام میں امریکنوں کی چیرہ دستیوں کے باوجود انقلابی فوجوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ چنانچہ نرودا لا طینی امریکہ اور خاص طور سے چلی کے مستقبل کے بارے میں بہت پر امید تھے۔ انہیں اپنے وطن کے علاوہ سب سے زیادہ شغف لاطینی امریکہ کی قدیم تہذیبوں سے تھا جو مختلف حملہ آوروں کی دستبرد نے ملیا میٹ کر دی تھیں۔ انہی کے نوادرات کا ذخیرہ جو نرودا اپنے گھر میں جمع کر رہے تھے ان کا سرمایہ حیات تھا۔ ‘‘ 172؎

پابلو نرودا کی طرح یقیناً فیض صاحب کو بھی اپنے ملک کی کوڑیوں کے دام بکتی ہوئی ثقافتی نوادرات کے تحفظ کا بہت خیال تھا لوک ورثہ کے ادارے کے قیام کا خیال اسی سمت میں ایک قدم تھا۔

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے زیر اہتمام ایک نیشنل آرٹ گیلری کے قیام کا منصوبہ بھی ان کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔ اسے ایک علیحدہ شعبے کے طور پر انہوں نے قائم کروایا اور پورے ملک کے مصوروں کے فن پارے جمع کرنے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اسی طرح پرفارمنگ آرٹ کا شعبہ بھی قائم کروایا اور اس کے تحت نہ صرف پاکستانی لوک فنکاروں کو ایک چھت کے تلے جمع کیا بلکہ اسی زمانے میں بیرون ممالک سے بھی ثقافتی طائفوں کی آمد کی فریکونسی کافی بڑھ گئی۔ پی این سی اے نے اپنے براہ راست دائرہ کار کو اسلام آباد ہی تک محدود رکھا لیکن ملک کے دوسرے صوبوں میں جو مقامی آرٹس کونسلیں تھیں ان سے رابطے کا کام بھی اپنے ذمے لیا۔ اس طرح ان اداروں کو مکمل خود مختاری کے ساتھ کام کرنے کا پورا موقعہ ملا۔ محکمہ تعلیمات کے ثقافتی امور کے مشیر کی حیثیت سے فیض صاحب نے ادیبوں اور شاعروں کے لیے ایک اکیڈمی آف لٹررز کے قیام کی تجویز کو بھی آگے بڑھایا۔ اب یہ سب ادارے اپنی اپنی جگہ مکمل خود مختاری کے ساتھ پاکستان کی تہذیب و ثقافت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں مگر ان اداروں کے بنیاد گزاروں میں فیض صاحب کا بھی نام شامل ہے۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں فیض صاحب نے چیئرمین کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا تھا لیکن چند سالوں کے بعد جب اس ادارے کی پارلیمنٹ سے باقاعدہ منظوری ہوئی تو وزیر تعلیم اس کے سربراہ اور انتظامی امور ڈائرکٹر جنرل کو دے دیے گئے۔ یہ سب کچھ دن دنوں ہوا جب فیض صاحب غیر ملکی دورے پر پاکستان سے باہر گئے ہوئے تھے اس صورت حال سے وہ خاصا بد دل ہوئے اور پھر اس ادارے سے ان کی وابستگی تنظیمی سے زیادہ صرف مشاورتی نوعیت کی رہ گئی۔ چنانچہ وہ اسلام آباد سے لاہور منتقل ہو گئے۔

یہاں تک تو ثقافت کے باب میں ان کی عملی خدمات کا تعلق تھا لیکن وہ پاکستانی ثقافت کی نظریاتی گتھیوں کو سلجھانے اور اس کے خدوخال کی وضاحتوں اور اس کی آرائش میں ہمیشہ مصروف رہے۔



پاکستانی ثقافت کے خدوخال



فیض صاحب جن دنوں لندن میں قیام پذیر تھے تو وہاں سے وہ کئی ملکوں کے سیاحتی اور مطالعاتی دوروں پر بھی گئے ایسا ہی ایک دورہ کیوبا کا بھی تھا۔ یہ 1963ء کا سال تھا جب انہوں نے اپنے سفر نامے میں یہ سوال اٹھایا:

’’ پاکستان کہاں ہے ؟‘‘ اور اس حوالے سے پاکستان کی ثقافتی پہچان کی ضرورت کی طرف بھی توجہ دلانے کی کوشش کی۔

سفر نامہ یوں شروع ہوتا ہے :

’’ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟‘‘

’’ پاکستان سے ‘‘

’’ پاکستان۔ وہ کہاں ہے ؟ وہ ہندوستان میں ہے کہ افغانستان میں ؟‘‘

’’ نہیں بھئی ہندوستان، افغانستان میں نہیں ہے۔ یہ بالکل الگ ملک ہے۔ ‘‘

’’ اچھا تو آپ کی آبادی کتنی ہے ؟‘‘

’’ نو کروڑ‘‘

’’ کیا؟ نو لاکھ یا نو کروڑ؟‘‘

’’ نو کروڑ‘‘

’’ افوہ پھر تو بہت بڑا ملک ہے تعجب ہے ہم اس کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں۔ ‘‘

’’ یہ تو خیر کیوبا کی بات ہے اور اس دور افتادہ خطے میں پاکستان کے خد و خال سے نا آشنائی محل تعجب نہیں (یا شاید اس لیے کہ بھارت، افغانستان، مصر، انڈونیشیا، گھانا وغیرہ وغیرہ کے سفارتی دفاتر ہوانا میں موجود ہیں ) لیکن دو چار قریبی ملک کے علاوہ جہاں بھی جائیے آپ کو اسی قسم کی عدم واقفیت سے سابقہ پڑے گا۔ ہمارا نام تو خیر سب لوگ جانتے ہیں اور بیشتر کو ہمارا محل وقوع بھی معلوم ہے لیکن پاکستان کیا ہے اور کیوں ہے اور ہم میں ایسا کونسا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ؟ یہ معدودے چند صاحب علم یا صاحب غرض افراد کے علاوہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ‘‘ 173؎

خیر یہ باتیں تو 1963ء میں لکھی گئی تھیں لیکن دیکھا جائے تو فیض صاحب کے دماغ میں پاکستان کی پہچان، اس کی ثقافت کے حوالے سے اس کے قیام کے بعد سے ہی سوالیہ نشان بن کر ابھر رہی تھی۔ پاکستان ایک کثیر الثقافتی ملک ہے جس میں رہنے والے مختلف زبانوں اور مختلف تہذیبوں کے وارث ہیں۔ لہٰذا ثقافت کی تعریف و تشریح پاکستان کے حوالے سے کبھی بھی اتنی سیدھی سادھی نہیں رہی ہے جیسا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں معین ہے اس کی ایک وجہ تو خود فیض صاحب نے اپنے اسی سفر نامہ کیوبا میں تحریر کرتے ہوئے بیان کی ہے :

’’ ہمارے بیچ ایک مشکل یہ بھی آن پڑی ہے کہ قومی تہذیب، ثقافت، یا کلچر کا نام لیجئے تو ایک طبقہ کا ذہن فوراً ہیرا منڈی، مس شرارہ، مس ستارہ اور زندہ ناچ گانے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اچھے خاصے معقول اور ثقہ لوگ چلانے لگتے ہیں۔ اگر کلچر، ثقافت یا تہذیب سے محض وہی شے مراد لی جائے جسے ہمارے ہاں کلچرل شو کہتے ہیں تو شاید یہ واویلا ایسا بے جا بھی نہ ہو لیکن قومی تہذیب یا ثقافت کی یہ قطعی، غلط اور نا معقول تاویل آخر کیوں ضروری ہے ؟ مجھ پر تو خیر ذاتی طور سے اس سلسلے میں اتنی خشت باری ہو چکی ہے کہ شاید میری رائے آپ کی نظر میں زیادہ وقیع نہ ہو لیکن آپ خود سنجیدگی سے غور فرمائیے مثلاً سرود نغمہ جس پر اتنا قصہ رہتا ہے محض لچر فلمی گانوں اور گھٹیا مغربی موسیقی سے عبارت نہیں اس میں ہیر، بلھے شاہ، ماہیا، ٹپہ، بھٹیالی، قوالی حتیٰ کہ حمد و نعت اور قومی ترانہ بھی شامل ہے، کیا آپ کی رائے میں یہ سب کچھ فحش ہے ؟‘‘ 174؎

یہ تھا وہ سوال جو انہوں پاکستان بننے کے بعد مختلف فکری سطحوں پر اٹھایا تھا۔


ہماری قومی ثقافت



فیض صاحب کے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں نے انہیں پاکستانی ثقافت کی بنیادی روح کی تلاش پر آمادہ کیا۔ اس سلسلے میں 1976ء میں ’’ ہماری قومی ثقافت‘‘ کے نام سے فیض صاحب کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے جسے مرزا ظفر الحسن نے مرتب کیا ہے۔

اس کتاب میں انہوں نے فیض صاحب کے مضامین کے علاوہ بھی کچھ اور مضامین شامل کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں اسے کلیتاً فیض صاحب کی تصنیف قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن ثقافت کے موضوع پر اس کتاب کے ذریعے ان کے نقطہ نظر کی تفہیم میں بہت آسانی ہو گئی ہے۔ اس کتاب میں مرزا ظفر الحسن نے جو مواد شامل کیا ہے ان میں فیض صاحب کی تین تقاریر ہیں جن کے عنوانات ’’ تہذیب کیا ہے ‘‘ ’’ پاکستانی ثقافت کے اجزائے ترکیبی‘‘ اور ’’ پاکستانی ثقافت کی ممکن صورتیں ‘‘ ہیں۔ اس کے علاوہ ’’ پاکستانی ثقافت اور اس کے مسائل‘‘ کے عنوان سے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ان کی ایک یادگاری گفتگو ہے جس نے ان دنوں ملک بھر کے سوچنے والوں کو خاصا متاثر کیا اور ان کے خیالات کی تائید و تردید میں بہت سی باتیں سامنے آئیں۔ آ کر میں ’’اوراق فیض‘‘ کے ذیل میں سہ ماہی جریدہ غالب میں شائع ہونے والی ان کی ایک تقریر بھی ہے۔ ان تمام تحریروں کی مجموعی صورت میں پاکستانی ثقافت اور اس کے پس منظر میں عالمی اور اسلامی تہذیب کے بارے میں فیض صاحب کی رائے بہت کھل کر سامنے آئی ہے۔

فیض صاحب کے نزدیک سب سے پہلے تو یہ کہ کلچر یا ثقافت، گانے بجانے یا لہو و لعب کا نام نہیں ہے بلکہ یہ قومی اور معاشرتی زندگی کا بہت اہم شعبہ ہے کلچر معاشرتی زندگی کے جملہ کاروبار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کسی بھی انسانی معاشرے کے پورے نظام یا طریقہ زندگی کو کلچر کہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ کسی معاشرے کو جو ڈھانچہ ہو گا اسی ڈھانچے کے زیر اثر اس کا کلچر بھی پرورش پائے گا۔

برصغیر کی تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے سیاسی اور معاشرتی کیفیت ایک نوع کی تھی لیکن پاکستان بننے کے بعد اس میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی جس کے مطابق پاکستانی کلچر کا تصور نہیں قائم کیا گیا۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت اس طرح کی:

’’ پاکستان میں مختلف علاقے ہیں اور ہر علاقے کی اپنی ایک مخصوص زبان اور مخصوص رسوم و رواج ہیں جو نہ تو کسی فیکٹری کے تیار کردہ مال کی طرح ہیں اور نہ کسی حکومت کے بنائے ہوئے قاعدے قانون کا نتیجہ ہیں۔ بلکہ تمام تر تاریخی، جغرافیائی، سیاسی اور معاشرتی حالات کی پیداوار ہیں۔ مختلف علاقوں کی جب بات ہو تو ہمیں اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں بہت سے بنیادی مشترک اجزا ہیں جو ہمارے قومی کلچر کی اساس ہیں۔ ان میں سب سے اہم عنصر اشتراک دین ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے مشترک اجزاء کا ایک سبب جغرافیائی قربت ہے اور دوسرا سبب تاریخی تجربات ہیں۔ ملک کے دو یا دو سے زیادہ علاقوں کی تہذیبوں میں جو فرق ہے اسے فرق سمجھنا چاہیے، تضاد نہیں اور ان میں اشتراک و یگانگت کی جتنی صورتیں ہیں ان پر توجہ کرنی چاہیے۔ ‘‘ 175؎

ان کے ذہن میں پاکستانی ثقافت کی بڑی واضح تصویر تھی ایک انٹرویو میں اس کو مختصراً بیان کرتے ہوئے کہا انہوں نے کہا:

’’ ہماری ثقافتی روایتوں کے دو وسیع دھارے ہیں۔ پہلا دھارا تو پنجاب، سندھ، بلوچ اور پشتون کے لوک ورثے ہیں اور دوسرا دھارا ہماری کلاسیکل روایتیں ہیں جو اردو، فارسی اور عربی کے حوالے سے ہیں اور جب تک ہم دو دھاروں سے یکساں طور پر استفادہ نہ کریں۔ ہم انہیں شناخت نہیں کروا پائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو صرف لوک ورثہ سے مستفیض ہوئے اور کلاوسیکل ورثے سے ناواقف ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو کلاسیکی ادب پر گہرا عبور رکھتے ہیں لیکن لوک ورثے سے بالکل لاتعلق ہیں۔ پہلی صورت میں تو وہ شاونزم کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جو محرومیوں کا نتیجہ ہے اور دوسری صورت میں وہ رویہ ہے جو اپنے علاقے کی مقامی روایتوں کو بالکل نظر انداز کرتا ہے۔ پھر مصیبت یہ ہوئی کہ آزادی کے بعد انگریزی میڈیم اسکولوں کی بھرمار ہو گئی اور ہماری دانست میں اپنی نا آشنائی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ ایک ایسی نسل پروان چڑھی ہے جو نہ تو اپنی لوک روایتوں کا ادراک رکھتی ہے اور نہ کلاسیکی ثقافتی ورثہ سے واقف ہے۔ اور اس میں سب سے زیادہ بگاڑ، ابلاغ عامہ کے ذرائع نے پیدا کیا ہے۔ ریڈیو نے علاقائی زبانوں کے ادب اور موسیقی کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ‘‘ 176؎

یہ باتیں جو فیض صاحب نے ساٹھ کی دہائی میں کی تھیں اس کی گونج آج بھی پاکستانی ثقافت کے حوالے سے سنی جا سکتی ہے۔






سفر نامہ کیوبا



فیض صاحب لندن میں تقریباً دو سال تک مقیم رہے (1964-62) اسی زمانے میں انہوں نے پاکستان کے روزنامہ جنگ کے لیے کچھ نثر پارے اشاعت کے لیے بھیجے۔ ان میں زیادہ تر ان جگہوں کے بارے میں اپنے تاثرات رقم کیے ہیں جن جگہوں پر انہوں نے قیام لندن کے دوران سفر کیا۔ سفر نامہ کیوبا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب82 صفحات پر مشتمل ہے لیکن اس میں فیض صاحب کے لکھے ہوئے صرف28 صفحات ہیں بقیہ صفحات فیدل کاسترو اور کیوبا کے عمومی حالات سے متعلق ہیں۔ جولائی 1973ء میں نیشنل پبلشنگ ہاؤس لاہور نے اسے فیض صاحب کی تصنیف کہہ کر شائع کیا تھا۔ مرزا ظفر الحسن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’ پہلی دفعہ اس کا نام صرف کیوبا رکھا گیا تھا۔ انگریزی کے خفی لفظوں میں بائی فیض لکھا اور سر ورق پر فیض کی تصویر دی جو ہر لحاظ سے بری ہے۔ دوسری اشاعت میں اس کا نام سفر نامہ کیوبا اور پورا نام فیض احمد فیض لکھا۔ سر ورق پر کسی کیوبن دوشیزہ کی تصویر ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ کتابچہ ایک ہی بار شائع ہوا ہے صرف سر ورق تبدیل کیا گیا ہے۔ ‘‘177؎

کیوبا کے بارے میں فیض صاحب لکھتے ہیں ـ:

’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی گاتا ہے۔ ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے گاتا ہے، بیرا کھانا لاتے ہوئے گاتا ہے، لفٹ بوائے نیچے لاتے ہوئے گاتا ہے۔ لڑائی میں تو دیکھا نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ مشین گن چلاتے ہوئے بھی ضرور تانیں اڑاتے ہوں گے۔ اگر ابھی ابھی کوئی شوخ و شنگ حسینہ کو تہ قبائی اور تنگ پیرہنی میں امریکن فلموں کو مات کرتی ہوئی آپ کے سامنے سے گزری ہے تو شام کو وہی لڑکی فوجی وردی پہنے برین گن سنبھالے ہوٹل کے دروازے پر پہرہ دے رہی ہو گی۔ جدید کیوبا میں افلاس اور بے کاری، ناخواندگی اور جہالت اگر ہے بھی تو بہت کم۔ جو انہیں ہوتا، جسم نہیں بکتے، ڈاکے نہیں پڑتے، قتل نہیں ہوتے، کسانوں کے لیے زمین ہے، مزدوروں کے لیے روزگار ہے۔ ہر طرف نئی آبادیاں، نئے مکانات، نئے اسکول، ہسپتال اور کارخانے تعمیر ہو رہے ہیں، نئی فصلیں کاشت کی جا رہی ہیں، نئے ہنر سیکھے جا رہے ہیں، نسلی یا پیدائشی طور سے کوئی ادنیٰ اور کوئی اعلیٰ نہیں ہے۔ آسائشیں بھی بہت ہیں اور سختیاں بھی بہت لیکن ان کی تقسیم میں رعایت اور جانب داری کو بہت کم دخل ہے۔ گوشت کے لیے اگر قطار میں تیسرے نمبر پر میرے ڈرائیور نیرایا ہمارے بیرے کی بیوی کھڑی ہے تو پانچویں نمبر پر وزیر خارجہ کی بیوی ہے۔ یہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ‘‘ 178؎


متاع لوح و قلم



دسمبر1973ء میں فیض صاحب کے نام سے ایک اور کتاب مرزا ظفر الحسن نے مرتب کی جس کا نام ’’ متاع لوح و قلم‘‘ رکھا۔ اس کتاب میں فیض صاحب کے وہ نثر پارے شامل ہیں جو ان کی نثری کتاب میزان میں شامل نہیں ہیں۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے محترم استاد صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام کیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں فیض صاحب نے احوال واقعی کے عنوان سے لکھا:

’’ مرزا ظفر الحسن اس سے پہلے ایک کتاب صلیبیں مرے دریچے میں مجھ سے قریب قریب قریب جبراً لکھوا چکے ہیں۔ اس کتاب میں ایام اسیری کے خطوط ہیں جن کی اشاعت کا تصور خط لکھتے وقت میرے ذہن میں نہ تھا۔ اب آپ نے رطب دیابس کا یہ مجموعہ ترتیب دیا ہے اور اس کی اشاعت پر مصر ہیں۔ عام طور سے لوگ پبلک کا پر زور اصرار، عذر گناہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ عذر تو میرے پاس موجود نہیں۔ ‘‘ آگے چل کر ان تحریروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ ان تحریروں کے بارے میں مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ ان میں سے بیش تر قلم برداشتہ لکھی گئیں یا روا روی میں کہی گئی ہیں اور مرزا صاحب نے نظر ثانی کی مہلت مجھے نہیں دی۔ (اور میں نے مانگی بھی نہیں ) ممکن ہے ان میں کوئی ایک آدھ بات یا ایک آدھ نکتہ آپ کو درخور اعتنا نظر آ جائے۔ اگر ایسا ہو تو سمجھیے کہ مرزا صاحب کی محنت وصول ہوئی اور ان کی کاوش کا حق ادا ہوا۔ اس لیے کہ اگر تصنیف نہیں تو اس کتاب کی ترتیب و تالیف اور اشاعت تمام تر انہیں کی محنت کا نتیجہ ہے جس کے لیے میں ان کا احسان مند ہوں۔ ‘‘ 179؎

متاع لوح و قلم کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں فیض صاحب کی تقریریں، مضامین اور انٹرویو کو جمع کیا گیا۔ دوسرے باب میں ان کے لکھے ہوئے دیباچے ان کے خطوط اور رائیں شامل کی گئی ہیں۔ تیسرے باب میں ریڈیو سے نشر ہونے والے ان کے کچھ ڈراموں کے اسکرپٹ شامل ہیں جن میں ہوتا ہے شب و روز، سانپ کی چھتری، پرائیویٹ سیکرٹری، دی احباب اور شکست شامل ہیں۔ اسی طرح اس باب میں ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہونے والی ان کی کچھ تقاریر ہیں۔ چوتھے اور آخری باب میں انہوں نے کچھ مضامین شامل کر دیے ہیں جو فیض صاحب کے بارے میں لکھے گئے ہیں۔ اس طرح اگر آخری باب کو الگ کر دیا جائے تو اس میں سب کی سب تحریریں فیض صاحب ہی کی ہیں۔


بنگلہ دیش کا پہلا دورہ



بھٹو صاحب کے اس دورہ میں جب کہ وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے چیئرمین تھے، تو بہت سے ملکوں میں سرکاری وفد کے ایک رکن کی حیثیت سے ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ لیکن ایک دورہ بہت ہی یادگار اور تاریخی نوعیت کا تھا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد1974ء میں کسی بھی پاکستانی وفد کا اس ملک میں پہلا دورہ تھا۔ وہ بھی وزیر اعظم کے اس سرکاری دورے میں شامل تھے۔ تخلیقی سطح پر اس دورے نے ان کے ذہن و دل کو بہت متاثر کیا تھا۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ڈھاکہ سے واپسی پر اپنی یہ مشہور غزل لکھی۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے

تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی

کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقے کیے

ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

آنکھوں کے سامنے لکھی ہوئی سرخ تحریروں کے باوجود انسان سبز خواب ہی دیکھنا چاہتا ہے۔ ہر درد مند دل کا رشتہ آنکھوں میں چمکتے ہوئے خوابوں سے ہوا کرتا ہے۔ فیض صاحب ہی کیا ہر درد مند پاکستانی اور بنگلہ دیشی کی آنکھوں میں اس دورے سے بڑے خواب وابستہ تھے۔ لیکن یہ خواب چکنا چور ہوئے تو وہ زبانیں جو قوت گویائی سے محروم تھیں ان کو فیض صاحب کی شاعری نے زبان دی۔

ڈھاکہ سے واپسی پر لکھی جانے والی یہ غزل صرف فیض صاحب ہی کے دل کی آواز نہ تھی بلکہ یہ آواز بہت سارے ان دکھی دلوں اور زخمی آنکھوں کی بھی آواز تھی جن کے خواب چکنا چور ہو گئے تھے۔

سیاست کے حوالے سے جب اس دورے کے بارے میں فیض صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے ڈاکٹر ایوب مرزا کو اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا:

’’ کچھ بھی نہیں ہوا۔ بس جیسے گئے تھے ویسے ہی لوٹ آئے۔ پہلے دن رسومات ہوئیں، دوسرے دن ہمیں شہیدوں کے مزار پر پھول چڑھانے جانا تھا۔ اطلاع ملی کہ وہاں جانا خطرناک ہے۔ ڈھاکہ میں مخالف مظاہرہ ہو گا۔ مجیب مصر تھا کہ یہ رسم ضروری ہے۔ سردار شوکت حیات، مصطفی کھر اور آغا شاہی سوچتے تھے کہ نہ جایا جائے مگر بھٹو صاحب نے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم لوگ تو گاڑیوں میں مزارات پہنچے اور بھٹو صاحب ہیلی کاپڑ میں آئے۔ دور ایک مختصر سا مخالف مظاہرہ نظر آیا۔ پھول چڑھانے کے بعد مجیب اور بھٹو سیکرٹریٹ میں بات چیت کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمیں کہا گیا کہ بھٹو صاحب ہمیں سیکرٹریٹ آنے کے لیے کہہ رہے ہیں تاکہ گفتگو میں کسی مرحلے پر بوقت ضرورت ہمارا مشورہ دستیاب ہو سکے۔ خیر ہمیں بھی وہیں لے گئے، وہاں محمود ہارون بھی تھے۔ بس ہم دونوں ایک کمرے میں بیٹھے سگریٹ پیتے رہے۔ مجیب اور بھٹو صاحب دوسرے کمرے میں بات چیت میں مصروف تھے۔ آدھ گھنٹے کے بعد پیام آیا کہ اب شاید ہماری ضرورت پیش نہ آئے۔ لہٰذا ہم لوگ واپس ہوٹل چلے آئے۔ میں سمجھ گیا کہ بات چیت میں ڈیڈ لاک ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ مجیب الرحمان نہیں مانا۔ اس نے اپنا موقف نہیں چھوڑا نہ ہی کوئی لچک دکھائی۔ یعنی پہلے حساب کتاب، بعد میں تعلقات۔ اس پر بھٹو متفق نہیں تھے۔ بھئی ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں بھٹو صاحب کا موقف ٹھیک تھا۔ دنیا میں کہیں بھی اس قسم کے تنازع کو حل کرنے کا اندازہ نہیں ہوتا جو مجیب الرحمان نے اختیار کیا تھا۔ یہ معاملات عجلت میں نہیں ہوا کرتے۔ ۔ ۔ ایک خاص بات یہ ہوئی کہ جب ہم ڈھاکہ پہنچے تو ہمارے استقبال کو سارا شہر آیا ہوا تھا۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ جب واپس آئے تو جیسے کرفیو لگا ہوا تھا۔ سڑکیں سنسان، آدم نہ آدم زاد۔ ۔ ۔ مجیب ہمیں بڑے تپاک سے ملا۔ بغل گیر ہوا۔ کہنے لگا فیض بھائی کچھ لکھیں ہم نے اسے بتایا کہ ہم نے بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ کہنے لگا فیض بھائی ہمارے بارے میں بھی تو کچھ لکھیں ہم نے کہا ضرور لکھیں گے۔ پھر آتے وقت جہاز میں نظم ہو گئی۔ ‘‘ 180؎

ایک بار لندن میں فیض صاحب اپنی یہی غزل کسی محفل میں سنا رہے تھے وہاں سبط حسن بھی موجود تھے انہوں نے لکھا۔

’’ کئی برس بعد فیض صاحب ایک شام لندن میں کہیں مہمان تھے۔ جسٹس عبدالستار بھی جو بعد میں بنگلہ دیش کے صدر ہوئے وہ وہاں پر موجود تھے۔ فیض صاحب اپنی نظم ڈھاکہ سے واپسی پر سنا رہے تھے جب وہ اس شعر پر پہنچے کہ : کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار/خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔ تو جسٹس عبدالستار بولے کہ فیض صاحب خون کے دھبے برساتوں سے نہیں دھلا کرتے۔ فیض صاحب خاموش ہو گئے۔ ‘‘ 181؎


سرکار سے وابستگی کے طعنے



ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں سوشلزم کا نعرہ لگا کر بر سر اقتدار آئے تھے اور ملک کے بیشتر ترقی پسندانہ خیالات رکھنے والے ان کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں شامل ہو گئے تھے۔ فیض صاحب بھی اسی قبیلے کے ایک فرد تھے مگر حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں چنانچہ بلوچستان کے مسئلے پر ترقی پسند حلقوں میں حکومت کے خلاف احتجاج ہونے لگاجو بعد میں ایک موقعے پر شدت بھی اختیار کر گیا۔ ولی خان، سردار عطاء اللہ خاں مینگل، غوث بخش بزنجو، حبیب جالب اور ان کے دوسرے ترقی پسند ساتھیوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ایسے میں فیض صاحب دوسری صف میں شامل تھے۔ چنانچہ ان کے دوستوں اور ساتھیوں کی طرف سے ان پر کچھ سنگ ملامت بھی برسے۔ حبیب جالب جیس فیض پرست نے اسی پس منظر میں تو کہا تھا:

جگا نہ شہ کے مصاحب کو ورنہ اے جالب

اگر یہ جاگ گیا نوکری سے جائے گا

حالانکہ فیض صاحب اپنی نظموں میں ان سارے اعتراضات کا جواب اپنے مزاج کے مطابق بہت پہلے ہی دے چکے تھے لیکن اسے اظہار معذرت کا ایک انداز ہی کہا جا سکتا تھا۔

پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو

ہم کیا کرتے کس رہ چلتے

ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے

ان رشتوں کے جو چھوٹ گئے

ان صدیوں کے یارانوں کے

جو اک اک کر کے ٹوٹ گئے

جس راہ چلے جس سمت گئے

یوں پاؤں لہولہان ہوئے

سب دیکھنے والے کہتے تھے

یہ کیسی ریت رچائی ہے

یہ مہندی کیوں لگائی ہے

وہ کہتے تھے کیوں قحط وفا

کا نا حق چرچا کرتے ہوئے

پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو

یہ راہیں جب اٹ جائیں گی

سو رستے ان سے پھوٹیں گے

تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی

سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے

فیض صاحب دل کو سنبھالے رہے لیکن اس کی قیمت بھی انہیں ادا کرنی پڑی۔ انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ اس دل میں ابھی ہزار طرح کے نشتر ٹوٹتے رہیں گے اور ان کا علاج مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ جب یہ نشتر زنی بہت زیادہ اداس کر دیتی تو پھر وہ اندرون ذات دیکھتے ہوئے اس قسم کے خود احتسابانہ اشعار لکھتے جس میں دست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا است والی بات ہوتی تھی۔

ہمی سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی

یہ تیغ اپنے ہی دل میں نیام ہوتی رہی

مقابل صف اعدا جسے کیا آغاز

وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی

کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا

بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی

یہ برہمن کا کرم، وہ عطائے شیخ حرم

کبھی حیات، کبھی مے حرام ہوتی رہی

جو کچھ بھی بن نہ پڑا فیض لٹ کے یاروں سے

تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی

رات دی رات

فیض صاحب نے پنجابی زبان میں بھی شعر کہے ہیں لیکن وہ خود اپنی پنجابی شاعری کے معیار سے مطمئن نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:

’’ میں نے پنجابی زبان میں زیادہ اس لیے نہیں لکھا کہ اس کی ایک وجہ تو وہ ناقابل حصول معیار ہے جو پنجابی کے کلاسیکی شعراء جیسے بلھے شاہ، وارث شاہ، بابا فرید اور سلطان باہو نے بنا دیا ہے۔ اور پھر محض زبان سے واقفیت ہی کافی نہیں کہ آپ اس میں اپنے جذبات کا اظہار کریں۔ زبان کی مزاج شناسی بھی ضروری ہے۔ ہم نے حصول تعلیم کے دوران بھی پنجابی پر توجہ نہیں دی۔ ‘‘ 182؎

اور بھی کئی موقعوں پر اسی طرح کے خیالات کا اظہار انہوں نے کیا ہے۔

’’ پنجابی محاوروں پر ہمیں اتنا عبور نہیں ہے جتنا اردو محاورے پر ہے۔ اردو کی روایت پر جتنا عبور ہے اتنا اس روایت پر نہیں جو پنجابی شاعری کی کلاسیکی روایت ہے۔ ہمارے دماغ اور ذہن کی ساخت اب کچھ ایسی ہو چکی ہے جو صرف اردو شاعری کے لیے موزوں ہے۔ ‘‘ 183؎

فیض صاحب کی کچھ پنجابی نظمیں ہندوستان کے ادبی پرچوں میں بھی چھپی تھیں اس حوالے سے پنجابی ادیب موہن سنگھ نے ان سے پوچھا:

’’ پنجابی رسالیاں وچ میں تہاڈیاں پنجابی وچ لکھیاں نظماں وی پڑھیاں نیں۔ پر اوہ مینوں جچیاں نیں۔ تک بندی پدھر دیاں سن پنجابی وچ کنا کو لکھیا تے چھاپیا جائے ؟ تو فیض صاحب نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ’’ بئی گل ایہ وے کہ میں پنجابی دا شاعر نیں۔ اردو دا شاعر آں۔ پنجابی وچ تاں کدی کدائیں لکھداہاں۔ اصل وچ پاکستان وچ پنجابی دی بڑی زور دار لہر اے۔ ‘‘184؎

فیض صاحب نے جس زمانے کی طرف اشارا کیا ہے وہ در اصل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کا زمانہ ہے۔ اس کے بعد سے جس لہر کا ذکر فیض صاحب نے کیا ہے وہ روز بروز اونچی ہوتی گئی۔ اسی لہر کے زیر اثر فیض صاحب نے بھی کچھ کلام پنجابی میں بھی کہا اور وہ ’’ رات دی رات‘‘ کے نام سے پہلی بار 1975ء میں شائع ہوا۔

جب ان سے پوچھا گیا:

’’ تہاڈیاں پنجابی نظماں دی بھی کوئی کتاب چھپی اے ؟ تو فیض صاحب نے اثبات میں جواب دیا۔ ہاں، رات دی رات، ایہ ترجمہ نیں۔ سدھیاں پنجابی وچ تاں میں دو چار ہی نظماں لکھیاں نیں۔ ‘‘185؎

رات دی رات میں ہر چند کہ فیض صاحب کی صرف چند نظمیں ہیں لیکن زیادہ تر ان کی اردو شاعری کا پنجابی زبان میں ترجمہ ہے جسے ماجد صدیقی اور احمد سلیم نے کیا ہے۔ البتہ اس کتاب کے سر ورق پر شاعر کی حیثیت سے فیض صاحب ہی کا نام درج ہے۔ میں سوچتا ہوں جب مرزا ظفر الحسن کی مرتب کی ہوئی کتابیں ’’ متاع لوح و قلم‘‘ اور ’’ ہماری قومی ثقافت‘‘ کو مارکیٹ میں فیض صاحب کی کتاب کہہ کر متعارف کرایا گیا ہے تو رات دی رات کے سر ورق پر فیض صاحب کا نام کچھ ایسا غیر مناسب بھی نہیں ہے۔ پھر اب تو ان کے نام سے ان کے انتقال کے بعد کئی کتابیں بازار میں آ چکی ہیں۔ بہرحال فیض صاحب نے اس کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے :

’’ احمد سلیم تے ماجد صدیقی دا ناں پنجاب دے دانیاں بینیاں حلقیاں وچ کسے جان پچھان دا محتاج نئیں۔ ایہناں بھلیاں لوکاں نے محبت تے خلوص پاروں میریاں چونویاں نظماں، غزلاں تے قطعیاں دے پنجابی ترجمیاں دا ایہہ مجموعہ بڑے کثالے نال ترتیب دتا اے۔ جیدے وچ برائے بیت کجھ میری پنجابی تک بندی وی شامل اے۔ تے میں ایس گل لئی اپنہاں دونواں دا بڑا شکر گزار آں۔ ‘‘ 186؎

اس مجموعے میں فیض صاحب کی اپنی لکھی ہوئی چار نظمیں ایک گیت اور ایک قطعہ شامل ہے۔ نمونے کے طور پر گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے /چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے / کا پنجابی ترجمہ ملاحظہ کیجئے :

پھل کلیاں دے روپ سنوارے گھلے پون بہاراں دی

آوی جا جے قسمت جاگے سڑے ہوئے گلزاراں دی


مہ و سال آشنائی



مہ و سال آشنائی فیض صاحب کی وہ کتاب ہے جو انہوں نے اپنے روسی دوستوں کی فرمائش پر 1975ء میں لکھی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بارے میں مرزا ظفر الحسن نے خبر دی کہ اس سال یعنی 1977ء میں یہ کتاب ضرور شائع ہو جائے گی لیکن اس کتاب کی پہلی مرتبہ اشاعت1980ء میں ہوئی۔ فیض صاحب نے ماسکو میں اگست1975ء میں اس کا پیش لفظ لکھتے ہوئے کہا تھا:

’’ گزشتہ برس جب ماسکو میں مجھ سے فرمائش ہوئی کہ سویٹ یونین کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کروں تو میں نے حسب معمول حامی بھر لی اور پروگریسو پبلشنگ ہاؤس کو کتاب کا خاکہ بھی بنا کر دے دیا لیکن یہ صرف خاکہ ہی تھا ورنہ میرے ذہن میں بالکل صاف نہیں تھا کہ اس کتاب میں کیا لکھا جائے اور کیوں کر لکھا جائے۔ آج سے کوئی سترہ برس پہلے 1958ء میں جب سویٹ یونین کو پہلی بار دیکھا تھا اور دل میں تاثرات کا ایسا ہجوم اور ذہن پر تحیر اور انبساط کی وہ کیفیت طاری تھی جو ہر نئی دریافت کے جلو میں آتی ہے تو شاید اس نوع کی کتاب ایک ہی نشست میں لکھی جا سکتی تھی۔ لیکن اتنے برس کے وقفے اور اتنی بار وہاں جانے کے بعد اس کیفیت سے دوبارہ لطف آشنا ہونا مشکل ہے۔ ‘‘ 187؎

اس کتاب میں دو تحریری رویے ملتے ہیں۔ ایک تو وہ جب فیض صاحب سویٹ یونین کی تاریخ اور اس کے کارنامے گنواتے ہیں تو وہاں پر صحافیانہ انداز غالب آ جاتا ہے۔ البتہ اس انداز میں بھی ذاتی مسرت اور شمولیت کا احساس اس وقت شدید ہوتا ہے جب وہ اس زمانے کی سویٹ یونین کی جنوبی ریاستوں کا ذکر کرتے ہیں اور جہاں وسط ایشیا کی تہذیبی میراث پر ان کی نظر جاتی ہے۔ وہ میراث جو برصغیر میں ہند اسلامی تمدن کی آبیاری کرتی رہی ہے اور خود فیض صاحب جس کے پروردہ رہے ہیں۔ اس کے برخلاف دوسرا تحریری رویہ وہاں ملتا ہے جب وہ اپنی آنکھوں میں چھپے ہوئے سوشلسٹ معاشرے کے خوابوں کا بیان کرتے ہیں۔

سویت یونین اور اس کے انقلاب کی جو باتیں فیض صاحب کے کان میں بچپن میں پڑی تھیں وہ یونیورسٹی کے زمانے میں ادب کے حوالے سے جب ظاہر ہوئیں تو بقول ان کے :

’’ ایم اے کی ڈگری کے لیے انگریزی ادب اور خاص طور سے اٹھارویں صدی اور انیسویں صدی کا ادب میرا مضمون تھا۔ انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ اس عہد کے باقی یورپی ادب کا مطالعہ بھی لازمی تھا۔ کچھ ہم شوقیہ بھی ادھر ادھر کی کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔ اور یوں روس کے کلاسیکی ادب سے تعارف ہوا۔ چنانچہ گوگل، پشکن، دوستووسکی، تر گنیف، ٹالسٹائے، چیخوف وغیرہ سب کو باری باری پڑھا اور پرانے روس کی پوری دنیا آنکھوں میں گھوم گئی۔ بے زبان اور بے کس کسان، عیاش اور خود پسند امراء، دل پھینک نوجوان اور عاشق مزاج محبوبائیں، قلاش انقلابی نوجوان، افیمچی دانشور، بے نور لکڑی کے گھروندے، جگمگاتے ہوئے محلات گھنے جنگل، لق و دق میدان، صحرا اور دریا، جنگیں، معاشقے، سازشیں، رقابتیں، نتاشا، پرنسبولکسونسکی، اینا کرینا، اوبلو موف، حچاوانیا، کراموزوف خاندان، ظلم اور اس کا توڑ، جبر اور جذبہ بغاوت، اداسی اور رنگینی، نیکی اور بدی، ذلت اور شرافت، فلم کے پردے کی مانند، طرح طرح کے مناظر نظر سے گزرنے لگے، قسم قسم کے کردار، رنگ رنگ کے جذبات، معاشرے کی مختلف قوتوں میں مسلسل کش مکش اور پیکار کا عالم اور اس کے پس منظر میں ایک کلبلاتی ہوئی پر اسرار سر زمین، نیم تاریک، نمر ویراں اور یخ بستہ جس کی بسیط خاموشیوں میں وقفے وقفے سے کبھی خوں خوار بھیڑیے ہو نکتے تھے، کبھی کسی رئیسانہ گاڑی کی سریلی گھنٹیاں سنائی دیتی تھیں، کبھی سائبریا روانہ ہونے والے مجرم قافلے کے ماتمی گیت فضا میں ابھرتے تھے، اور اس دھرتی کے باسی، آشفتہ سر، جذباتی، دل گرفتہ لوگ، کسی ایسی انجانی منزل کی طرف رواں تھے جو صرف چند بالغ نظر لوگوں پر عیاں تھی، پھر جس طرح پرنس آندرے بالکونسکی اس بم کو بے بسی سے دیکھ رہا تھا جس سے اس کے تنومند جسم کے پرخچے اڑنے والے تھے اور کاؤنٹ کروپوٹین ایسی ہی بے بسی میں اپناگ گھر لٹتا ہوا دیکھ رہا تھا اسی طرح ان لوگوں کا حکمراں طبقہ دنیا و مافیا سے غافل اپنی معین تباہی کی جانب کھنچتا چلا جا رہا تھا۔ کالج میں میرے دو چار اور ہم جماعت بھی اس سر زمین اور اس کے رہنے والوں سے اسی طرح مسحور تھے اور ہم لوگ گھنٹوں بیٹھ کر ان کلاسیکی کتابوں اور ان کے کرداروں کا تجزیہ کرتے رہتے لیکن ہم اس پرانی دنیا میں اتنے کھوئے رہے کہ انقلاب کے بعد کی نئی سویٹ دنیا پر ہم نے زیادہ توجہ نہیں کی۔ ‘‘ 187؎

مہ و سال آشنائی میں فیض صاحب نے پوری دیانت داری سے اپنے اس ذہن کی نقاب کشائی کی ہے جو ان کی طالب علمی کے دنوں میں تھا لیکن جیسے جیسے انہوں نے دنیا کو اس کے تمام حقائق کے ساتھ دیکھنا شروع کیا ویسے ویسے ان کے ذہن میں انقلاب کا تصور واضح سے واضح تر ہوتا چلا گیا اور وہ اس انقلابی فکر کے نغمے اپنی مخصوص اور منفرد لے میں زندگی بھر گاتے رہے۔

اس کتاب میں فیض صاحب کی کچھ نظمیں بھی ہیں جو انہوں نے ماسکو کے قیام کے دوران لکھی تھیں۔ ان میں سے ایک نظم ’’ اکتوبر انقلاب روس کی سالگرہ‘‘ کے عنوان سے ہے جو ماسکو میں پانچ نومبر1967ء کو لکھی گئی تھی یعنی انقلاب کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر 188؎ یہ نظم ان کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہے لیکن ان کی کتاب مہ و سال آشنائی میں شامل ہے۔

اکتوبر انقلاب روس کی سالگرہ

مرغ بسمل کے مانند شب تلملائی

افق تا افق

صبح محشر کی پہلی کرن جگمگائی

تو تاریک آنکھوں سے بوسیدہ پردے اٹھائے گئے

دل جلائے گئے

طبق در طبق

آسمانوں کے در

یوں کھلے ہفت افلاک آئینہ سا ہو گئے

شرق تا غرب سب قید خانوں کے در

آج وا ہو گئے

قصر جمہور کی طرح نو کے لیے آج نقش کہن

سب مٹائے گئے

سینہ وقت سے سارے خونیں کفن

آج کے دن سلامت اٹھائے گئے

آج پائے غلاماں میں زنجیر

ایسے چھنکی کہ بانگ درا بن گئی

دست مظلوم میں ہتھکڑی کی کڑی

ایسی چمکی کہ تیغ قضا بن گئی

مہ و سال آشنائی میں انہوں نے جن روسی شاعروں کے ترجمے شائع کیے ہیں ان میں رسول حمزہ توف، عمر علی سلیما نوف اور ناظم حکمت کے نام شامل ہیں۔


فیض پر اردو میں پہلی کتاب



اردو زبان میں پہلی بار مارچ1977ء میں فیض صاحب کے فن اور نظریے پر ’’ فیض ایک جائزہ‘‘ کے نام سے ادارہ یادگار غالب کراچی نے راقم الحروف کی لکھی ہوئی کتاب ’’ فیض ایک جائزہ‘‘ شائع کی تھی۔ اس کتاب میں پبلشر نوٹ کے طور پر مرزا ظفر الحسن نے لکھا:

’’ ہرچند کہ زیر نظر کتاب اشفاق حسین کا تین سال پہلے لکھا ہوا مقالہ ہے جو انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر سید شاہ علی کی نگرانی میں تحریر کیا اور اس وقت کے طالب علم کی بالکل پہلی کوشش ہے مگر وہ قابل مبارکباد ہیں کہ ایک مستقل کتاب شائع کر کے وہ فیض کے ہم عصروں پر سبقت لے گئے۔ فیض سے انہیں جو ادبی عقیدت ہے اس سے میں واقف ہوں اس لیے امید کرتا ہوں کہ ان کا مطالعہ فیض جاری رہے گا اور وہ فیض پر آئندہ بھی لکھتے رہیں گے۔ ‘‘ 189؎

جبکہ اس کتاب کے فلیپ پر، پروفیسر انجم اعظمی نے اپنی رائے دی:

’’ فیض اردو کی جدید شاعری میں جس اہم مقام پر پہنچ چکے ہیں اس کا احساس نئی نسل میں روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے فکر و فن پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور تفصیلی جائزے بھی لیے جائیں گے۔ اشفاق حسین نے اس سلسلے میں پہل کی ہے۔ فیض کے فن پر یہ پہلا مستقل اور مفصل مقالہ ہے جو تحقیق و تنقید کے جدید معیار کے مطابق ہے۔ ‘‘ 190؎

پروفیسر ممتاز حسین نے اس کتاب کے دیباچے میں فیض شناسی کے عنوان سے لکھا:

’’ اشفاق حسین اردو ادب کے بڑے ذہین طالب علم ہیں۔ فیض کی شاعری پر یہ مقالہ جو شائع ہو رہا ہے، اشفاق حسین کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے ایم اے کی ڈگری کے لیے ایک پرچے کی جگہ کراچی یونیورسٹی میں (1974)پیش کیا تھا۔ میں نے اسی زمانے میں ان سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر وہ اپنے اس مقالے کو قدرے ترمیم اور اضافے کے ساتھ شائع کرا دیں تو فیض شناسی کے سلسلے میں اس کا اپنا ایک مقام ہو گا۔ مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ انہوں نے میرے اس مشورے پر عمل کیا۔ چونکہ اس قسم کے تحقیقی مقالوں میں صاحب مقالہ کی رائے سے زیادہ مستند شخصیتوں کی آرا کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اس لیے یہاں بھی آپ کو وہی انداز ملے گا۔ لیکن چونکہ مصنف نے فیض کے کلام کا مطالعہ بڑی محنت سے کیا ہے اور خود بھی شعر و ادب کا ذوق رکھتے ہیں اس لیے یہ پیش کش ایک ایسی تخلیقی جوہر کی حامل ہو گئی ہے جو مصنف کے اپنے خیالات اور جذبات کی آئینہ دار ہے۔ یہ ایک لائق ستائش مقالہ ہے۔ فیض کی شاعری پر تنقیدی اور تاثراتی مضامین اب تک بہت سے لکھے جا چکے ہیں اور ان میں سے بعض اپنا بڑا بلند مقام رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہاں کوئی مقابلہ ان مضامین سے مقصود نہیں ہے۔ تنقیدی مقالے کی نوعیت ہی مختلف ہوتی ہے لیکن کوئی ایک ایسا اسیر حاصل مقالہ جس میں ان کی شاعری کا پس منظر اور ان کی نظموں اور غزلوں کا کوئی تفصیلی جائزہ تجزیاتی انداز میں کیا گیا ہو، بجز اس مقالے کے کوئی دوسرا میری نظر سے نہیں گزرا۔ ‘‘ 191؎

اس کتاب کے بارے میں مندرجہ بالا اقتباسات صرف ریکارڈ کی درستگی کی خاطر نقل کیے گئے ہیں۔ میرے نزدیک فیض صاحب کی شاعری کے بارے میں شائع ہونے والی اس کتاب کی صرف اتنی سی تاریخی اہمیت ہے کہ اس کے سر اولیت کا سہرا ہے۔ اور اسی حوالے سے میں نے اس کا ذکر کرنا یہاں مناسب سمجھا۔






پاکستان کے سیاسی افق پر نو ستاروں کی ضیا باریاں



پاکستان میں 1977ء میں انتخابات کا اعلان ہوا بلکہ انتخابات ہوئے بھی مگر اس کے نتیجے میں سائڈ لائن پر کھڑے ہوئے کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقعہ مل گیا۔ فیض صاحب در امید کے دریوزہ گروں کے ساتھ اپنی آنکھوں سے یہ تماشا دیکھتے رہے اور اپنے درد کو شاعری میں ڈھالتے رہے۔

در امید کے دریوزہ گر

پھر پھریرے بن کے میرے تن بدن کی دھجیاں

شہر کے دیوار و در کو رنگ پہنانے لگیں

پھر کف آلودہ زبانیں مدح و ذم کی قمچیاں

میرے ذہن و گوش کے زخموں پہ برسانے لگیں

پھر نکل آئے ہو سناکوں کے رقصاں طائفے

درد مند عشق پر ٹھٹھے لگانے کے لیے

پھر دہل کرنے لگے تشہیر اخلاص و وفا

کشتہ صدق و صفا کا دل جلانے کے لیے

ہم کہ ہیں کب سے در امید کے دریوزہ گر

یہ گھڑی گزری تو پھر دست طلب پھیلائیں گے

کوچہ و بازار سے پھر چن کے ریزہ ریزہ خواب

ہم یونہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں گے

مگر ہوا یوں کہ جب سروں سے راگوں کا رابطہ ٹوٹ گیا۔ جب ہر ایک پردہ ساز چاک چاک ہو گیا۔ جب ساری خلقت ہر موج ہوا سے سوال کرنے لگی ایسے سوال جن کا جواب خود فیض صاحب کے پاس بھی نہیں تھا تو ایسے میں انہوں نے اپنے دامن کے تاروں کو سمیٹا اور لاہور کے راستے ہندوستان روانہ ہو گئے۔ جہاں سے ان کی جذباتی اور سیاسی جلاوطنی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

فیض صاحب لاہور میں ان دنوں خود کو کیسامحسوس کرتے ہوں گے اس کا اندازہ صرف اس ایک واقعے سے کیا جا سکتا ہے۔ 1977ء کے سال کو پاکستان میں علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کے طور پر منایا گیا تھا۔ اس حوالے سے پاکستان بھر میں بڑے پیمانے پر علامہ اقبال کی یاد میں کانفرنسیں، سیمینار، مشاعرے اور مذاکرے وغیرہ ترتیب دیے گئے تھے۔ ایسی ہی ایک عالمی کانفرنس دسمبر1977ء میں لاہور میں منعقد ہوئی تھی جس میں ہندوستان وفد کے ایک رکن کی حیثیت سے جگن ناتھ آزاد نے بھی شرکت کی تھی۔ انہوں نے اس ضمن میں لکھا:

’’ دسمبر1977ء میں پہلی اقبال عالمی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ میں اور سردار جعفری جب ائیر پورٹ سے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل پہنچے تو فیض دروازے پر موجود تھے۔ میں نے کہا آج تو آپ میزبان ہیں اور تمام مندوبین کی پیشوائی کر رہے ہیں۔ کہنے لگے نہیں میں صرف تمہارے اور سردار جعفری کے انتظار میں کھڑا ہوں۔ اب تم دونوں آ گئے ہو تو میرا کام ختم ہو گیا۔ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ دوسرے دن صدی تقاریب شروع ہونا تھیں۔ اس دن ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اجلاس کے شروع ہونے میں پانچ سات منٹ رہ گئے تھے اور فیض صاحب ابھی تک نہیں آئے تھے۔ میں دروازے پر کھڑا تھا کہ فیض آ پہنچے۔ بولے تم اجلاس میں گئے نہیں۔ اجلاس تو شروع ہو گیا ہو گا۔ میں نے کہا نہیں ابھی دو منٹ باقی ہیں۔ میں آپ کے انتظار میں کھڑا ہوں لیکن آپ پہلے کاؤنٹر سے اپنا بریف کیس، پروگرام اور بیج وغیرہ لے لیجئے۔ میرے بریف کیس کو دیکھ کر کہنے لگے۔ یہ یہیں سے ملا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں۔ بہت خوبصورت ہے۔ ہر مندوب کو مل رہا ہے آپ بھی لے لیں۔ تو ہم کاؤنٹر پر پہنچے اور فیض صاحب نے کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہا۔ لائیے صاحب ہمارا بریف کیس اور پروگرام وغیرہ۔ انہوں نے پوچھا۔ آپ کا نام؟ انہوں نے کہا فیض۔ تو کاؤنٹر والے صاحب نے دوبارہ کہا کہ پورا نام بتائیے۔ اب معلوم نہیں فیض پر کیا گزری ہو گی میں تو سناٹے میں آ گیا۔ 192؎

یہ واقعہ لاہور کا ہے۔ حکومت کی سرپرستی میں اقبال صدی کا پروگرام ہے۔ فیض اس شہر میں موجود ہیں مگر ان کو اس پورے پس منظر سے الگ رکھا گیا ہے۔ ایسے نہ جانے اور کتنے واقعات ہوئے ہوں گے کہ جن کے نتیجے میں انہیں اپنی مرضی ہی سے سہی مگر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا ہو گا۔


انتخاب پیام مشرق



بھٹو صاحب کے آخری دنوں میں اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر محمد معز الدین نے فیض صاحب سے اقبال صدی کے حوالے سے کچھ لکھنے کو کہا تو انہوں نے اس کی حامی بھر لی اور علامہ اقبال کی فارسی نظم پیام مشرق کا منظوم ترجمہ کرنے کا وعدہ کیا۔ صرف وعدہ ہی نہیں کیا بلکہ یہ کام مکمل بھی کر دیا۔ فیض صاحب نے اس کے پیش لفظ میں لکھا:

’’ آج سے چند ماہ پیشتر جب مجھ سے پیام مشرق کا منظوم ترجمہ کرنے کی فرمائش کی گئی تو کافی پس و پیش کے بعد میں نے اس کی تعمیل اس لیے قبول کر لی کہ اول تو اس بہانے سے کافی زمانے کے بعد پیام مشرق جیسے مجموعہ حسن و خوبی کے بالا ستیعاب مطالعہ کی سعادت حاصل ہو سکے گی اور دوم ترجمہ اچھا برا جیسا بھی ہو ان پرستاران اقبال کی جو فارسی زبان سے نا آشنا ہیں، اس کتاب کے افکار و معانی تک کچھ نہ کچھ رسائی ضرور ہو سکے گی۔ اردو اور فارسی میں قربت کے باوجود اظہار و آہنگ کے پیرائے کافی مختلف ہیں۔ فارسی زبان کو تراکیب اور مشتقات کی وجہ سے اجمال و اختصار کی جو سہولیں حاصل ہیں وہ اردو میں موجود نہیں اس لیے اگر ترجمہ میں مفہوم و معانی کے علاوہ اوزان و قوافی اور اصوات و آہنگ میں بھی اصل سے تطابق کی سعی کی جائے تو کافی دقتیں پیش آتی ہیں۔ اس لیے میں نے اس انتخاب میں انہی منظومات پر اکتفا کی ہے جن میں یہ التزام کسی حد تک ممکن تھا بلکہ ان میں بھی جو اشعار میری گرفت میں نہیں آ سکے میں نے حذف کر دیے ہیں۔ اس کے باوجود مجھے بہت سے تراجم سے تشفی نہیں ہے۔ اس لیے ان صفحات میں اگر کوئی خوبی ہے تو وہ علامہ کی دین ہے اور جو نقائص ہیں وہ میرا عجز کلام۔ اس تالیف کو میں نے اشاعت کے لیے پیش کرنے کی جسارت اس امید میں کی ہے کہ شاید آنے والے دنوں میں مجھ سے بہتر سخنور اس میں اصلاح و اضافہ کر سکیں۔ ‘‘ 193؎

گماں مبر کہ بیاباں رسید کار مغاں

ہزار بادۂ ناخوردہ در رگ تاک است

ان تراجم کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ ’’ لالہ طور‘‘ دوسرا ’’ افکار‘‘ اور تسربا حصہ ’’ مئے باقی‘‘ کے نام سے ہے جس میں غزلیات کا ترجمہ ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار فارسی اور اردو میں پیش کیے جاتے ہیں :

بشاخ زندگی مانمیز تشنہ لبی است

تلاش چشمہ حیواں دلیل کم طلبی است

ہے شاخ زیست میں میری نمی زتشنہ لبی

تلاش چشمہ حیواں، دلیل کم طلبی

حدیث دل بکہ گویم، چہ راہ برگیرم

کہ آہ بے اثر است و نگاہ بے ادبی است

حدیث دل کا بیاں کس طرح ہو کس سے ہو

کہ بے اثر ہے دعا اور نگاہ بے ادبی

غزل بزمزمہ خواں پردہ پست تر گرداں

ہنوز نالہ مرغاں نوائے زیر لبی است

غزل کا زمزمہ ہلکے سروں میں رہنے دو

ہنوز نالہ مرغاں ہے صوت زیر لبی

متاع قافلہ ما حجازیاں بردند

ولے زباں نکشائی کہ یار ما عربی است

متاع قافلہ گرچہ حجازیوں میں لٹی

مگر زبان نہ کھولو کہ یار ہے عربی

نہال ترکز برق فرنگ بار آورد

ظہور مصطفویٰ را بہانہ بو لہبی است

نہال ترک کو راس آ گئی ہے برق فرنگ

ہے نور مصطفویٰ کو بہانہ بولہبی

بیا کہ من زخم پیر روم آوردم

مئے سخن کہ جواں ترز بادۂ عنبی است

کشید کی ہے خم پیر روم سے میں نے

مئے سخن کہ ہے بہتر ز بادہ عنبی

٭٭٭








جلاوطنی اور پاکستان میں آخری دو سال


(1984-1978)


کیا یہ جلا وطنی تھی؟



فیض صاحب کسی حکومت کی طرف سے جلاوطن تو نہیں کیے گئے تھے لیکن سن اٹھتر سے سن تراسی تک پاکستان سے باہر ان کی موجودگی اور پھر اس دوران ان کی شعری تخلیقات میں بے وطنی اور اور لیلائے وطن سے دوری کا احساس اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ خود کو ان دنوں ذہنی طور پر ضرور جلا وطن محسوس کرتے تھے۔ مگر پاکستان واپسی کے موقعے پر جب وہ کچھ روز کے لیے کراچی میں رکے تو اس وقت کے نوجوان افسانہ نگار آصف فرخی نے کراچی کے انگریزی ماہنامے ہیرلڈ کے لیے ان سے انٹرویو لیتے ہوئے اس موضوع پر کچھ سوالات کیے جن کی روشنی میں ایک اور نقطہ نظر سامنے آتا ہے۔

سوال۔ اب آپ کا منصوبہ کیا ہے ؟ کیا آپ مستقل یہیں قیام کریں گے ؟

جواب۔ ہاں بھئی یہی ارادہ ہے۔

سوال۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی جلاوطنی کا دور ختم ہو گیا؟

جواب۔ کوئی جلا وطنی نہیں تھی۔ نہ ہمیں کسی نے جلا وطن کیا تھا۔ کسی نے ہمیں مجبور نہیں کیا تھا۔ ہم اپنی مرضی سے گئے تھے۔

(فیض صاحب کا یہ جواب سن کر نوجوان آصف کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ وہ سوچنے لگا تو پھر ان تمام نظموں کا کیا مقصد تھا جو انہوں نے پاکستان سے باہر رہ کر تخلیق کی تھیں، جن میں مسافرت اور وطن سے دوری کا ذکر کئی حوالوں سے تھا اور جس میں شعر اپنے دل سے کہتا ہے کہ ہوا پھر سے حکم صادر/کہ وطن بدر ہوں ہم تم، وغیرہ وغیرہ)

سوال۔ تو پھر آپ کا دل مسافرت پر کیوں مائل ہو گیا تھا؟

جواب۔ بھئی ہمارا یہ خیال تھا، ہمارے پاس یہاں کوئی کام تو تھا نہیں اور نہ ہمارا اتنے لمبے عرصے کا ارادہ تھا۔ مگر ایک دفعہ ہم چلے گئے تو بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ لوگ ہمیں کسی نہ کسی چیز کے لیے بلاتے رہے اور ہمارا قیام لمبا ہوتا چلا گیا۔

سوال۔ یعنی آپ کا باہر چلے جانا ملک میں ہونے والے واقعات پر آپ کا رد عمل نہیں تھا؟

جواب۔ نہیں بالکل نہیں۔ ہم اپنی مرضی سے باہر گئے تھے۔ 194؎

زندگی کے بہت سے تو نہیں البتہ چند موقعوں پر انہوں نے اس طرح کا، ٹالنے والا انداز اختیار کیا ہے جس سے کبھی کبھی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان کے معترضین نے ان کے اس رویے پر گرفت بھی کی ہے اور شاید کسی حد تک جائز بھی ہے۔ مثلاً سن ستر کی دہائی میں پاکستانی کلچر کے حوالے سے ان پر کافی اعتراضات کیے گئے مگر انہوں نے اس کی وضاحت بالکل نہیں کی۔ جب بات بہت زیادہ بڑھی تو ان کے ایک مخلص دوست مرزا ظفر الحسن نے ان سے اس موضوع پر ایک مفصل گفتگو کی اور اسے اپنے رسالہ یادگار غالب میں شائع کیا، تب یہ کھلا کہ بقول فیض صاحب کے وہ تو ان کے خیالات تھے ہی نہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس نکتے کے پیش نظر، مرزا صاحب کو اپنے ایک خط میں لکھا:

’’ فیض صاحب سے اب وہ باتیں منسوب ہونی چاہئیں جن سے وہ خود ان کار کرتے ہیں۔ عرصہ ہوا انہوں نے ایک شعر کہا تھا: وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا/وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے۔ یہ شکایت وہ آج بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم اس معاملے میں کچھ قصور فیض صاحب کا اپنا بھی ہے۔ وہ یوں کہ فیض صاحب اپنے بارے میں کہی گئی باتوں کا ذرا کم ہی نوٹس لیتے ہیں۔ یہ بات اچھی تو ہے لیکن صرف اس صورت میں جب فریق مخالف، دلیل کے بجائے دشنام سے کام لے رہا ہو۔ مگر جہاں غلط فہمی پیدا ہو گئی ہو وہاں خاموش رہنا نیم رضا مندی کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے ؟‘‘ 195؎

اسی طرح جب وہ 1978ء میں ہندوستان ہوتے ہوئے برطانیہ اور روس اور پھر بیروت میں قیام پذیر ہوئے تو اس دوران ان کے سامنے لوگوں نے تقریریں کرتے ہوئے، مضامین پڑھتے ہوئے، شہر شہر ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے، جگہ جگہ ان کی تعریف کرتے ہوئے، ملکوں ملکوں ان کی دلجوئی کرنے کے ساتھ ساتھ ہر موقعے پر ان کی جلا وطنی کا بھی ذکر کرتے رہے۔ مگر انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کبھی اس کی تردید نہیں کی۔ فیض صاحب کی خاموشی اپنی جگہ مگر وہ جو ایک چیز باڈی لینگوج ہوتی ہے اس سے بھی کبھی اشارتاً یہ نہیں کہا کہ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ پھر ظاہر ہے کہ دل من مسافر من جیسی نظم لکھ کر اور جلا وطنی کے دنوں میں شائع ہونے والے مجموعے کا نام بھی مرے دل مرے مسافر رکھ کر در اصل اس پوری جلاوطنی کی فضا بندی میں تخلیقی سطح پر شامل بھی رہے۔ پاکستان سے جلا وطنی کے تقریباً سوا سال کے بعد بھی انہوں نے اس موضوع پر لندن سے شائع ہونے والے انگریزی ماہنامہ ساؤتھ کے دسمبر1979ء کے شمارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا۔

’’ جلاوطنی بھی قید تنہائی کے مانند ایک یکسر نیا اور انوکھا تجربہ ہے۔ از سر نو عشق میں مبتلا ہو جانے کے مانند یہ تجربہ بھی نئے آفاق اور نئے تخلیقی امکانات ساتھ لاتا ہے۔ دنیا پھر سے نئی ہو جاتی ہے یوں جیسے چاندنی درختوں سے چھن چھن کر آ رہی ہو، جیسے بہار چھا گئی ہو، صبا آ رہی ہو ابتدائے شباب کی حیات پھر سے بیدار ہو جاتی ہے اور یہ تجربہ شاعری میں بھی اپنا اظہار پاتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ بھی ایک پیش پا افتادہ بات بن کر رہ جاتی ہے اور تھکن اور اکتاہٹ دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ‘‘ 196؎

تو اس کے بعد اس پوری صورت حال سے ان کار سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ پھر سب سے بڑی گواہی تو ایلس کی ہے جنہوں نے لوٹس کی ملازمت کے بارے میں خود لکھا ہے کہ یہ ایک اپار چونٹی تھی جو فیض کو ملی اور جس نے ہماری ایگزائیل کی راہ ہموار کی انہوں نے اسے Pleasant Exile کے نام سے پکارا ہے۔

It was an opportunity for Faiz to write and to work away from the cramping conditions of Pakistan, Which under General Zia’s dictatorship had become impossible. so instead of separation we chose a pleasant exile. 197

ایلس کی یہ کتاب فیض صاحب کے انتقال کے تقریباً دس سال بعد شائع ہوئی ہے۔ پھر یہ کہ بیروت سے لندن، ماسکو، ٹورنٹو اور حتیٰ کہ ہندوستان تک تو آتے جاتے رہے لیکن اس دوران اگر نہیں گئے تو صرف پاکستان نہیں گئے۔ اور جب گئے تو جلا وطنی کی مکمل تردید کو اپنا مستقل جواب دبنا دیا۔ یہی نہیں بلکہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ جنرل ضیاء الحق سے بھی مل آئے۔ یہ تو مشتاق احمد گورمانی کی تقریر لکھنے سے بھی ایک قدم آگے والی بات تھی۔ ان سب موقعوں پر ان کے جوابات نہ صرف یہ کہ تسلی بخش نہیں قرار دیے جا سکتے بلکہ ان کے نظریہ حیات سے مطابقت بھی نہیں رکھتے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ایک انسان تھے اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے جن میں سے کچھ فیصلوں پر سوالیہ نشان بھی لگائے جا سکتے ہیں۔

البتہ جلا وطنی کے آخری دنوں میں جب ذہنی طور پر انہوں نے وطن واپس جانے کا فیصلہ کر لیا تو اپنی جلاوطنی کے بارے میں دبے دبے لفظوں میں اس کا اظہار ضرور کیا اور اس کی توجیہ یہ پیش کی:

’’ یہ بات نہیں کہ اپنی جنگ اب ختم ہو چکی ہے بات صرف یہ ہے کہ میں اب پہلے کی طرح جوان نہیں ہوں اور بڑھاپے میں جسمانی سزا برداشت کرنا مشکل کام ہے۔ میری روح تو جسمانی اذیت برداشت کرنے کو اب بھی تیار ہے مگر جسم گریزاں ہے۔ ‘‘ 198؎

اس زمانے میں انہوں نے اپنے دوستوں کو جو خطوط لکھے ان میں اکثر اس کیفیت کا اظہار ملتا ہے۔ ایسے ہی ایک خط میں سرفراز اقبال کو انہوں نے لکھا:

’’ دو تین دن پہلے ماسکو سے چلتے وقت تمہارا بہت اداس خط ملا تھا۔ اداسی یہاں کیا کم ہے ؟ تم تو پھر بھی گھر میں بچوں کے پاس ہو۔ یہاں تو ابھی تک سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ملا۔ مسافر نواز تو بہتیرے ہیں لیکن ان کی تواضع سے دل کی پیاس کب بجھتی ہے۔ ‘‘ 199؎


جلاوطنی کا پہلا پڑاؤ



بہرحال جلاوطنی کی پہلی منزل دہلی تھی جہاں وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی دعوت پر گئے تھے۔ ان دنوں اس یونیورسٹی کی جانب سے فیض صاحب کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری اور وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے تقرری کی بھی پیش کش ہوئی۔ یہ بیل اس لیے نہیں منڈھی، بقول پروفیسر محمد حسن:

’’ فیض صاحب نے کہا بھئی ہماری حکومت سے بھی پوچھ لو، کوئی اور ملک ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی۔ ہندوستان کا معاملہ ذرا پیچیدہ تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے تعلقات کا کوئی بھروسہ نہیں۔ چنانچہ میں نے حکومت ہند کی وزارت خارجہ اور وزارت تعلیم دونوں کو لکھا۔ شاید چند ماہ بعد ہی اس دور کے وزیر خارجہ اٹل بہار واجپائی پاکستان جانے والے تھے۔ ان سے بھی کہلوایا۔ فیض صاحب چند ہفتے رہ کر ادھر ادھر نکل گئے۔ ہند کی وزارت تعلیم کا فوراً جواب آ گیا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن وزارت خارجہ نے بہت دیر لگا دی۔ غالباً پاکستان حکومت کے سربراہ سے رجوع کیا گیا۔ کئی ماہ بعد ایک مختصر سا جواب موصول ہوا کہ 200؎ You are not advised to proceed in this matter further‘‘

فیض صاحب کو کلکتہ یونیورسٹی سے بھی اقبال چییر کی پیش کش ہوئی تھی مگر اس دوران انہیں لوٹس کی ادارتی ذمہ داریاں مل گئیں اور وہ بیروت چلے گئے۔


لوٹس کی ادارت



بیروت میں لوٹس کی ادارت سنبھالنے کے بارے میں فیض صاحب نے یہ کہا کہ:

’’ جن دنوں ہم لندن میں مقیم تھے (1962-64) تو میں نے اس انجمن کی منتظم کو یہ تجویز لکھ کر بھیجی کہ اس تنظیم کا کوئی رسالہ بھی ہونا چاہیے جس میں مختلف ایشیائی اور افریقی ممالک کی ادبی تخلیقات کے تراجم چھپ سکیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے بیروت اور اس کے بعد بغداد، قاہرہ، الجزائر وغیرہ جانا ہوا جس کی رپورٹ تو میں نے لکھ کر بھیج دی لیکن یہ تجویز برسوں کھٹائی میں پڑی رہی۔ آخر1968ء میں قاہرہ سے جو انجمن کا صدر دفتر قرار پایا تھا، ایک سہ ماہی رسالہ لوٹس کے نام سے چھپنا شروع ہوا۔ اس کے مدیر اعلیٰ ایک مصری ادیب اور صحافی یوسف السباعی چنے گئے جو انجمن کے جنرل سیکرٹری بھی تھے اور بعد میں صدر سادات کے وزیر ثقافت اور ان کے مشیر خاص بھی۔ جب سادات نے اسرائیل سے پینگیں بڑھانا شروع کیں تو یہ بھی یروشلم ان کے ساتھ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کسی نے قربص میں ان کا کام تمام کر دیا۔ اس دوران یہ رسالہ تو چھپتا رہا لیکن مدیر اعلیٰ کی جگہ خالی رہی کیونکہ انجمن کی جنرل کونسل کی منظوری لازمی تھی۔ چنانچہ گزشتہ جون میں یہ اجلاس انگولا میں منعقد ہوا تو قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند نکلا اور ساتھ ہی یہ طے پایا کہ اس کا عربی ایڈیشن قاہرہ کے بجائے بیروت سے چھپے گا۔ انگولا سے واپسی پر معین نے تجویز پیش کی کہ بقیہ تفصیلات طے کرنے کے لیے ہم ان کے ساتھ بیروت چلیں۔ ‘‘ 201؎

اس طرح فیض صاحب بیروت آ گئے اور ان کی ادارت میں سہ ماہی لوٹس دوبارہ شائع ہونے لگا۔ یہ رسالہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی اور عربی زبان میں، مشرقی جرمنی سے وہاں کی Committee of the German Democraic Republic Solidarity کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا۔ اس کا ایک ایڈیٹوریل بورڈ تھا جس کے ایڈیٹران چیف کے طور پر فیض صاحب کا نام آتا تھا۔ ان کے نائب مدیروں میں معین بصیصو، ممادو تغایرد یوپ، اناطولی سفارا نوف اور سبھاش مکھر جی شامل تھے اور بورڈ کے اراکین میں :

Tesfaye Gesesse (Ethiopia)

Aziz Chalyshalar (Turkey)

Ime Ikiddeh (Nigeria)

Hussein Mourouwe (Lebanon)

Makoto Oda (Japan)

Somomyn Udval (Mangolia)

کے نام شامل تھے۔ اس کے ہر شمارے کی تفصیلات پہلے صفحے پر ہوتی تھیں کہ اس میں کون کون لکھنے والے شامل ہیں اور ان کی کیا کیا خدمات ہیں۔ عالمی سطح پر جو لکھنے والے ہوتے تھے ان کا باقاعدہ تعارف کرایا جاتا تھا۔ اس کے اداریے فیض صاحب خود ہی انگریزی زبان میں لکھتے تھے۔ کتابوں پر تبصرے کے لیے اکثر و بیشتر ایلس فیض سے بھی مدد لی جاتی تھی۔

فیض صاحب کے بارے میں ایک مختصر تعارفی مضمون لوٹس میں ان کی سترویں سالگرہ کے موقعے پر شائع کیا گیا تھا۔ 1981ء کے اس شمارے میں ادارے کی طرف سے چار مستند عالمی سطح کے نظریاتی شاعروں اور ادیبوں کی سترویں سالگرہ منائی گئی۔ 202؎

اس شمارے میں ان تمام اہل قلم پر مختصر مضامین شامل تھے۔ لوٹس میں فیض صاحب کے رفیق کار معین بصیصو نے ان کے بارے میں تعارفی مضمون لکھا تھا، جس میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس موقعے پر ان کو تحریک آزادی فلسطین کی جانب سے ان کی سترویں سالگرہ پر ایک شیلڈ بھی دی گئی ہے۔ یہ ایک طرح کا اعزاز تھا جو تنظیم آزادی فلسطین کی طرف سے ان کو دیا گیا تھا۔ اس موقعے پر تحریک کے چیئرمین یاسر عرفات نے ان کو ایک خط کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا۔ یہ خط 19فروری1981ء کو لکھا گیا تھا۔ 203؎

شاعر بزرگ و مجاہد برادر فیض احمد فیض۔

سلام انقلابی کے بعد عرض گزار ہوں کہ ہمیں آپ کے ستر سال کی عمر حاصل کرنے کی خبر ملی ہے۔ میں اس موقعے کو غنیمت سمجھتا ہوں کہ اپنی طرف سے تنظیم آزادیِ فلسطین کے ایگزیکٹو ارکان کی طرف سے اور عرب فلسطینی عوام کی طرف سے آپ کے لیے اپنی دلی تمناؤں کا اظہار کروں کہ آپ کو صحت و خوش بختی نصیب ہو۔

ہمارے عرب فلسطینی عوام نے آپ کی ذات میں ایک ترقی پسند بین الاقوامی شاعر، دنیا میں امن کے لیے جد و جہد کرنے والا اور ان عوام کا حامی انسان پایا ہے جو اپنی آزادی، ترقی اور بہبود کے لیے کوشاں ہے۔ ہمارے عرب فلسطینی عوام آپ کی دوستی، آپ کے گہرے شعور اور فلسطین کے مسئلے کے لیے نیز فلسطینی عوام کے جائز حقوق کے حصول کے لیے آپ کی جد و جہد پر فخر کرتے ہیں۔

آپ کے مخلصانہ اور سچائی سے بھرپور اشعار جن میں فلسطینی عوام کا ذکر ہے اور خاص طور پر اس کے بچوں کا اور اس کے انقلابیوں کا تذکرہ ہے، ابد الآباد تک ایک ایسا نمونہ پیش کریں گے جن سے برادرانہ صداقت اور مخلصانہ محبت اجاگر ہوتی رہے گی۔

ہم آپ کے لیے خوش بختانہ زندگی اور طویل عمر کے متمنی ہیں۔ آپ کی خدمت میں بہترین تمناؤں اور احترامات کے ساتھ ’’ فتح تک انقلاب‘‘ کے نعرے کے ساتھ۔

آپ کا مخلص

یاسر عرفات

صدر ایگزیکٹو کمیٹی، تنظیم آزادی فلسطین، کمانڈر ان چیف

بیروت کے قیام کے دوران فیض صاحب جہاں ایک طرف تحریک آزادی فلسطین کے کردار اور ان کی جد و جہد سے زیادہ بہتر طور سے آگاہ ہوئے وہاں انہیں اپنے وطن کی یا دبھی بے انتہا ستاتی رہی۔ ان دنوں بیروت شہر بذات خود ایک جنگ کا میدان بنا ہوا تھا۔ ہر طرف گولیاں برس رہی تھیں، راکٹ لانچ ہو رہے تھے اور ہر موڑ پر دفاعی مورچے لگے ہوئے تھے۔ وہ ایک طرح سے اس محاذ کے عینی شاہد تھے۔ لاہور میں صفدر میر کے ایک سوال کے جواب میں بیروت کے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

’’ پہلے دن ہی بیروت پر جب ہوائی حملہ ہوا تھا تو اس میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ اس حملے کا نشانہ وہ علاقہ تھا جہاں پی ایل او کے دفاتر تھے۔ بعد میں اسرائیل نے لبنان میں اپنی فوج اتار دی اور اس کے بعد ہر روز مسلسل دو تین گھنٹے کے بعد کبھی صبح کبھی شام اسرائلی کی طرف سے ہوائی حملے ہوتے رہے۔ بم باری ہوتی رہی، شہر تباہ ہوتا رہا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پی ایل او ہتھیار ڈال دے تو ہم کارروائی بند کر دیں گے لیکن فلسطینی بڑی بے جگری سے لڑتے رہے۔ ان کا حوصلہ اور جرأت قابل داد تھی۔ ایمبولینس گاڑیاں، اسپتال، اسکول، مسلسل اسرائیلی بمباری کی زد میں رہے۔ فلسطینیوں کے ثقافتی اور فلاحی مراکز بھی اس وحشیانہ بمباری سے متاثر ہوئے جہاں فلسطینی قیادت کے لوگ تھے۔ خاص طور پر یاسر عرفات ایک گلی سے دوسری گلی، ایک مکان سے دوسرے مکان تک منتقل ہوتے رہے اور بمباری ان کا تعاقب کرتی رہی۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے دفتر کا تیسرے دن ہی قصہ تمام ہو گیا تھا اور ہم ایک دن پہلے ہی کہیں اور منتقل ہو گئے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے معین بصیصو بھی رہتے تھے۔ ہم دو تین ہفتے ان کے ساتھ رہے۔ ان کی چودہ پندرہ برس کی بچی اور ساتھ ہمسایوں کی تیرہ چودہ برس کی بچیاں سب نرسیں بن کر اسپتال میں چلی گئی تھیں۔ ہمارے دن بھی وہاں ان ہی حالات میں گزر رہے تھے۔ ‘‘ 204؎

بیروت کا ہوائی اڈہ اس جنگ کے نتیجے میں بالکل ناکارہ ہو چکا تھا۔ کوئی بین الاقوامی پرواز وہاں کے لیے نہیں تھی مسافروں کو بسوں اور کاروں میں بیٹھ کر ہمسایہ ملکوں میں جانا پڑتا تھا۔ چنانچہ اسی طرح بالآخر فیض صاحب اور ایلس بھی دمشق کے راستے بڑی مشکلوں سے لندن پہنچ سکے۔ فیض صاحب نے بیروت کی تباہی کا نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ہر چند کہ وہ مشکل حالات میں وہاں سے نکلے لیکن اپنی محبتوں کا پرچم انہوں نے ہر فلسطینی کے دل میں گاڑ دیا۔ یاسر عرفات نے یوں ہی ان کی محبت میں نہیں کہا تھا کہ وہ ہم میں سے تھے۔


شام شہر یاراں



1978ء میں فیض صاحب کا چھٹا مجموعہ کلام شام شہر یاراں شائع ہوا جس کا انتساب انہوں نے اپنے ’’ مجید بھائی اور آمنہ بہن کے نام‘‘ کیا تھا۔ ہر چند کہ اس مجموعے میں ان کا کم و بیش سات برس کا کلام شامل ہے لیکن اس میں ان کا تخلیقی سرمایہ اس عرصے کے حساب سے بہت کم ہے۔ ان کی زندگی کا یہ دور خاصا ہنگامہ پرور دور تھا۔ اسی زمانے میں مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بنا، بلوچستان میں فوج کشی ہوئی، احمد یوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے اقلیت قرار دیا گیا، تیسری عرب اسرائیل جنگ ہوئی اور کئی ایک عالمی اور ملکی پیمانے پر دور رس تبدیلیاں پیدا کرنے والے حالات و واقعات رونما ہوئے لیکن فیض صاحب کے یہاں اس کا اظہار بہت کم ہوا۔ بلکہ یہ کہ اس زمانے میں تو انہوں نے دل پر گزرنے والی ذاتی وارداتوں کا بھی بیان بہت کم کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ سرکاری مصروفیات ان کے تخلیقی کاموں میں آڑے آتی رہیں۔ ہر چند کہ ثقافت کا شعبہ بھی اپنی جگہ ایک تخلیقی مزاج رکھتا ہے لیکن خود فیض صاحب کے اندر کچھ زیادہ تخلیقی ابال نہیں آیا۔ فیض صاحب اپنے اندر ہی جنگ میں مصروف رہے اور جب سیلاب سر سے گزر گیا تو جلاوطنی کا راستہ اختیار کیا اور یہاں سے ان کی شاعری نے ایک نیا موڑ لیا۔ اس نئے دور کی شاعری، ان کے ساتویں مجموعہ کلام مرے دل مرے مسافر میں شامل ہے لیکن اس کی ابتداء شام شہر یاراں میں پڑ چکی تھی۔ ’’ ہم کہ ہیں کب سے در امید کے در یوزہ گر‘‘ ’’ آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال‘‘ یا پھر:

پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو

سونپا تھا جسے کام نگہبانی دل کا

وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوے کہ دلوں سے خوف خدا گیا

وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا

جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے

وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا

جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ قدر رسم وفا گئی

سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و صفا گیا

شام شہر یاراں میں اس غزل کے صرف یہ تین شعر شائع ہوئے ہیں لیکن مرے دل مرے مسافر میں یہ غزل مزید دو شعروں کے ساتھ دوبارہ شائع ہوئی ہے۔ یہ اشعار اس زمانے میں لکھے گئے تھے جب اسلام آباد میں اہل قلم کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں ضیاء الحق نے ادیبوں کی بڑی ڈانٹ پھٹکار کی تھی۔ا س کانفرنس کے بارے میں فیض صاحب نے اپنے ایک خط میں لکھا:

’’ اہل قلم کے دربار کا کچھ حال جنگ اخبار میں پڑھ لیا ہے۔ا چھا ہے کہ ہم وہاں نہیں تھے ورنہ وہاں جانے پر بھی انگلیاں اٹھتیں اور نہ جانے پر بھی۔ انہی تماشوں کی وجہ سے گھر جانے سے وحشت ہوتی ہے۔ ‘‘ 205؎

ایک اور خط میں انہوں نے لکھا:

’’ یہ مارچ کا مہینہ ہمیں کچھ راس نہیں آتا۔ اسی مہینے جیل گئے تھے پھر انہی دنوں میں وطن بدر ہوئے تھے۔ ‘‘ 206؎

(نوٹ: وطن بدری کا لفظ اپنے لیے سرفراز اقبال کو لکھے گئے اس خط میں انہوں نے خود استعمال کیا ہے )

شام شہر یاراں میں فیض صاحب کا کوئی دیباچہ نہیں ہے لیکن اس کی ابتداء میں ان سے متعلق کچھ تحریریں شامل ہیں جن میں فیض صاحب کا ایک انٹرویو، عہد طفلی سے عنفوان شباب تک، صوفی غلام مصطفی تبسم کا مضمون فیض سے میری پہلی ملاقات اور ان کے کالج کے زمانے کے دوست شیر محمد حمید کا مضمون فیض سے میری پہلی ملاقات کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد کا مضمون ملامتی صوفی بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ گویا ایک ہی گھاٹ سے سب کو پانی پلوایا گیا ہے۔

پیش گفتار کے عنوان سے شام شہر یاراں میں فیض صاحب نے چند سطریں لکھی ہیں جس کے بین السطور میں اس مجموعے کی ضخامت میں کمی کا بھی احساس نمایاں ہے۔ انہوں نے لکھا:

’’ جب میں نے اس مجموعے کا مسودہ اشاعت کے لیے بھیجا تو اپنے دوست اور ناشر چودھری عبدالحمید صاحب کی جانب سے فرمائش وصول ہوئی کہ اس میں کچھ نثر کا اضافہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ بقول ان کے بعض لوگوں کو مصنف کی ذات میں بھی دلچسپی ہے۔ ایک عزیز اور کرم فرما مرزا ظفر الحسن پہلے ہی سے اس کام کے پیچھے لگے ہوئے ہیں چنانچہ انہی کے جمع کردہ مصالحہ کا کچھ حصہ ان صفحات میں شامل کر دیا گیا ہے۔ ‘‘207؎

اس کے علاوہ بھی خود اس کتاب کے شعری حصے میں کچھ فرمائشی کلام شامل ہے۔ جس میں مرثیہ امام حسین، ایک قصیدہ حسین شہید سہروردی کے لیے، پنجابی کی تین نظمیں اور ایک قطعہ اور نظموں کے چار تراجم بھی شامل ہیں۔


ایسٹ ویسٹ سینٹر ہوائی



امریکہ کے شہر ہونو لولو میں 1979ء میں ایسٹ ویسٹ سنٹر کی طرف سے ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس بلکہ ورکشاپ کہنا چاہیے، منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فجی، ملائیشیا، جنوبی کوریا، جاپان، فلپائن، بنگلہ دیش اور ہندوستان سے لکھنے والوں نے حصہ لام۔ ہر چند کہ ان دنوں فیض صاحب ملک سے باہر تھے لیکن ان کو اس بین الاقوامی فورم میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ دعوت نامہ چونکہ یونیورسٹی کی طرف سے براہ راست تھا لہٰذا فیض صاحب اس میں شریک ہو گئے ورنہ اگر حکومت کے ذریعے ہوتا تو کسی سرکاری ادیب ہی کو نمائندگی کا شرف ملتا۔ بہرحال یہیں ان کی ملاقات ایک امریکی شاعرہ نیومی لیزرڈ سے ہوئی جنہوں نے فیض صاحب کا انگریزی میں ترجمہ The True Subjectکے نام سے کیا ہے۔ فیض ان کے نزدیک عالمی شاعروں کی اس برادری میں شمار کیے جانے کے لائق تھے جن میں بقول نیوی لززرڈ

This Century has given us a for great poets whose stance and influence have altered the consciousness of the world. Pablo Neruda, Cesar Vellejo and Ernesto Cardenal in the Western hemisphere Nazim Hikmet and Yannis Ritsos in the Middle East and Faiz ahmed Faiz in South Asia

یہیں فیض صاحب کی شخصیت اور شاعری نے نیومی لیزرڈ کو متاثر کیا اور انہوں نے اسی ورکشاپ کے دوران فیصلہ کیا کہ وہ ان کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کرتی تھی۔

This Project of translation Started at an international literary conference in Honolulu in 1979 and continued until Faiz’s death. We established a procedure immediately. Faiz gave me the literal translation of a poem. I wrote it down just as he dictated it. then the real work began. I asked him questions regarding the text. Why did he choose just that phrase, that word, that image, that metaphor? what did it mean to him? There were cultural differences. What was crystal clear to an Urdu speaking reader meant nothing at all to an American. I had to know the meaning of every nuance in order to recreate the poem

.فیض صاحب کے انتقال کے بعد نیومی لیزرڈ کی یہ کتاب پہلی بار1988ء میں لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ 208؎

جس زمانے میں فیض صاحب امریکہ میں تھے اسی زمانے میں ایران میں شہنشاہیت کا زوال ہو رہا تھا اور وہیں امریکہ میں انہوں نے اپنی نظم ’’ ویبقی وجہ ربک‘‘ کے عنوان سے لکھی جو ان کے مجموعہ کلام مرے دل مرے مسافر میں شامل ہے۔ نہ جانے کن مصلحتوں کی بناء پر ان کی یہ مشہور نظم ان کی کلیات نسخہ ہائے وفا میں شامل نہیں ہے۔

ویبقیٰ وجہ ربک

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوح ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب ارض خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہل صفا، مردود حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

اٹھے گا انا الحق کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلق خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

مرے دل مرے مسافر

1980ء میں فیض صاحب کا ساتواں مجموعہ کلام مرے دل مرے مسافر شائع ہوا جو ان کی جلاوطنی کے دور کی شاعری پر مشتمل ہے۔ اس دو سال کے عرصے میں انہوں نے تقریباً اتنا ہی کلام لکھا ہے جتنا کہ گزشتہ مجموعے میں سات برس کے دوران لکھا تھا۔

اس کتاب کا انتساب یاسر عرفات کے نام ہے اور اس کا نام مرے دل مرے مسافر ان کی مشہور نظم دل من مسافر من ہی کی ذرا سی تبدیل شدہ شکل ہے۔

اس مجموعے میں انہوں نے اس سلسلہ فکر کو آگے بڑھایا ہے جو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل کے بعد ہونے والے حالات کی وجہ سے پیدا ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب پورے ملک میں بنیاد پرسی کی ہوائیں چل رہی تھیں۔ سر عام مخالفین کو کوڑے مارے جا رہے تھے، اور انہی دنوں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ دن ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی صورت میں نمودار ہوا۔ فیض صاحب نے ان تمام حالات و واقعات کو اپنی شاعری کے پس منظر میں بیان کیا ہے۔

جلا پھر صبر کا خرمن پھر آہوں کا دھواں اٹھا

ہوا پھر نذر صر صر ہر نشیمن کا ہر اک تنکا

ہوئی پھر صبح ماتم، آنسوؤں سے بھر گیے دریا

چلا پھر سوئے گردوں کاروان نالہ شب ہا

ہر اک جانب فضا میں پھر مچا کہرام یا رب ہا

امڈ آئی کہیں سے پھر گھٹا وحشی زمانوں کی

فضا میں بجلیاں لہرائیں پھر سے تازیانوں کی

قلم ہونے لگی گردن قلم کے پاسبانوں کی

کھلا نیلام ذہنوں کا لگی بولی زبانوں کی

لہو دینے لگا ہر اک دہن میں بخیہ لب ہا

چلا پھر سوئے گردوں کاروان نالہ شب ہا

ستم کی آگ کا ایندھن بنے دل پھر سے وا دلہا

یہ تیرے سادہ دل بندھے کدھر جائیں خداوندا

بنا پھرتا ہے ہر اک مدعی پیغام بر تیرا

ہر اک بت کو صنم خانے میں دعویٰ ہے خدائی کا

خدا محفوظ رکھے از خداوندان مذہب ہا

چلا پھر سوئے گردوں کاروان نالہ شب ہا

اس نظم کے بارے میں ڈاکٹر آفتاب احمد نے اپنی کتاب فیض، شخص و شاعر میں یہ سوال اٹھایا:

’’ کیا ان اشعار کا اشارہ صاف جنرل ضیاء الحق کے طرف نہیں ہے ؟ یاد کیجئے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ایک ہفتے بعد اپریل 1979ء کو منعقد ہونے والی ادیبوں کی ایک کانفرنس میں جنرل موصوف نے اپنی صدارتی تقریر میں اپنے ہم وطنوں سے کنارہ کشی کرنے والے ادیبوں پر پاکستان کی سر زمین کا رزق، اس کا پانی، اس کی چھاؤں اور چاندنی حرام ہونے کی بشارت دی تھی۔ فیض بھی انہی ادیبوں میں شامل تھے۔ ‘‘ 209؎

یہی وہ فضا تھی جس میں فیض صاحب نے جلا وطنی کا راستہ اختیار کیا اور دل من مسافر من جیسی نظم لکھی اور جس سے اس کیفیت کا اظہار بڑی خوبصورتی سے ہوا ہے۔ وہ کیفیت جو کسی زمانے میں زنداں کی دیواروں کے پیچھے انہوں نے محسوس کی تھی، جس میں لیلائے وطن کی یاد کو انہوں نے اردو شاعری کا خوب صورت ترین موضوع بنا دیا تھا وہی کیفیت ایک بار پھر اپنے نئے سیاق و سباق کے ساتھ ان کی شاعری میں دوبارہ ظاہر ہوئی۔ وطن سے دوری کے انہی دنوں میں انہوں نے لندن میں یہ شعر کہے تھے :

تیرے کوچے میں بادشاہی کی

جب سے نکلے گداگری کی ہے

جو گزرتے تھے داغ پر صدمے

اب وہی کیفیت سبھی کی ہے

وطن کی یاد اور تنہائی کی آگ نے ان کو بیروت میں کس طرح اپنی لپیٹ میں لیا اس کا اظہار اس دور کی لکھی ہوئی ان کی بہت سی نظموں اور غزلوں میں ملتا ہے لیکن اس کی ایک کیفیت ان کی اس خوب صورت نظم ’’ میرے ملنے والے ‘‘ میں ظاہر ہوئی ہے۔

میرے ملنے والے

وہ در کھلا مرے غمکدے کا

وہ آ گئے میرے ملنے والے

وہ آ گئی شام اپنی راہوں میں

فرش افسردگی بچھانے

وہ آ گئی رات چاند تاروں کو

اپنی آزردگی سنانے

وہ صبح آئی دمکتے نشتر سے

یاد کے زخم کو منانے

وہ دوپہر آئی آستیں میں

چھپائے شعلوں کے تازیانے

یہ آئے سب میرے ملنے والے

کہ جن سے دن رات واسطہ ہے

یہ کون کب آیا کب گیا ہے

نگاہ و دل کو خبر کہاں ہے

خیال سوئے وطن رواں ہے

سمندروں کی ایال تھامے

ہزار وہم و گماں سنبھالے

کئی طرح کے سوال تھامے

قیام بیروت کے زمانے میں انہیں فلسطینیوں کی تحریک حریت کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیادت کو بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ بیروت پر اسرائیلی ہوائی جہازوں کی وحشیانہ بمباری کے وہ عینی شاہد تھے۔ اور وہ اس حوصلے اور عزم کے بہت مداح تھے جو انہوں نے فلسطینیوں کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ اور ان سب جذبوں کا اظہار ان کی اس دور کی شاعری میں بڑی خوبصورتی سے ہوا ہے۔ اظہار کی یہ صورتیں مرے دل مرے مسافر میں بہت ہی نمایاں ہیں۔

فلسطینی شہداء جو پردیس میں کام آئے

میں جہاں پر بھی گیا ارض وطن

تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے

تیری حرمت کے چراغوں کی جلن دل میں لیے

تیری الفت تری یادوں کی کسک ساتھ گئی

تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی

سارے ان دیکھے رفیقوں کا جلو ساتھ رہا

کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا

دور پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں

اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں

جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم

لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم

تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد

میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

مرے دل مرے مسافر میں آخر میں دو پنجابی نظمیں بھی شامل ہیں جن میں سے ایک کا عنوان ایک ترانہ پنجابی کسان کے لیے اور دوسری کا ایک نغمہ تارکین وطن کے لیے ہے۔


فیض کینیڈا میں

فیض صاحب جتنے دن پاکستان سے باہر رہے وہ وطن کی یاد سے اپنا دامن نہ چھڑا سکے۔ چنانچہ جب وہ بیروت کی اجنبی فضاؤں سے گھبرا جاتے تھے تو ماسکو، لندن اور ٹورنٹو میں کسی نہ کسی بہانے کچھ وقت گزارنے آ جاتے۔ 1978ء سے پاکستان واپس جانے تک ہر سال کسی نہ کسی ادارے کی دعوت پر وہ ٹورنٹو ضرور آئے۔ چنانچہ ان علاقوں میں اردو کے چھوٹے چھوٹے چراغوں کی لو جو ابھی تک باقی ہے، ان کو روشن رکھنے میں فیض صاحب کی شخصیت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہ 1978ء کی بات ہے ان دنوں ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامی میں پروفیسر عزیز احمد اپنے علم و فن کی تمام روشنیوں کے ساتھ، زندگی کی آخری ساعتیں گزار رہے تھے۔ مقامی شعراء کی تعداد آج کے مقابلے میں نسبتاً بہت کم تھی۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو بھی دعوت کلام دی جاتی تھی جو باقاعدہ شاعر نہیں تھے۔ یہ لوگ اساتذہ کا کلام، ان ہی کا کہہ کر سناتے تھے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح اس دیار غیر میں اردو کے چراغ کی لو کو تیز رکھا جائے۔ غرض یہ کہ تھوڑی بہت ادبی فضا اور زندگی کی رمق موجود تھی۔ مگر ابھی تک کوئی باقاعدہ پلیٹ فارم نہیں بن سکا تھا۔ ایسے میں فیض صاحب جلا وطنی کا لباس زیب تن کئے پہلی بار اس ملک میں داخل ہوئے۔ دوسری بار وہ 1980ء میں یہاں آئے۔ ان دنوں یہاں علی سردار جعفری، اختر الایمان اور کیفی اعظمی کے علاوہ کئی دوسرے نامور شعراء بھی مدعو تھے۔ فیض صاحب جو مشاعرے کے صدر تھے تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاعری تو بہرحال ہوتی رہے گی لیکن ان دنوں بیروت پر جو قیامت گزر رہی ہے اس کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ وہاں آج کل جو کچھ بھی ہو رہا ہے، مہذب دنیا کا کوئی فرد اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ آئے دن نہتے لوگوں پر وحشیانہ مباری ہے، طاقت کے آگے لوگ بے بس ہیں جنگل کا قانون بھی کچھ روایتوں کا پابند ہوتا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اس باب میں تمام انسانی قوانین بھلائے جا چکے ہیں۔ ماڈرن فاشزم اپنے عروج پر ہے۔ ایسے میں آپ لوگ جو کینیڈا میں رہتے ہیں ان سب پر یہ فرض بنتا ہے کہ اس ظلم کی داستان کو دنیا کے سامنے لائیں۔ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے سلسلے میں جس سے جو کچھ بھی ہو سکتا ہے اسے وہ ضرور کرنا چاہئے۔ آپ کے یہاں پریس آزاد ہے۔ تحریر و تقریر کی آزادی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کی ہمنوائی کریں۔ فیض صاحب کی شاعری میں جلا وطنی کا ا ستعارہ اب ایک نئے اور بھرپور انداز سے سامنے آیا تھا اور اب اس میں بے زمین فلسطینیوں کے دکھ اور درد کا بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ در اصل یہی وہ دو خاص موضوعات تھے جو زندگی کے آخری دنوں میں ان کی شاعری کا محور بنے رہے۔ شاعر کا وطن اور اس کا موضوع سخن چاہے کچھ بھی ہو لیکن اس دور میں کی جانے والی ان کی شاعری بار بار یہ اعلان کر رہی تھی کہ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے ؟

کینیڈین ایشین اسٹڈیز سوسائٹی کی سالانہ کانفرنس جو 1981ء میں کینیڈا کے شہر ہیلی فیکس میں ہوئی تھی اس میں شرکت کے لیے جب وہ تیسری بار کینیڈا آئے تو اس بار ایلس بھی ان کے ساتھ تھیں۔ اس دورے میں انہوں نے یہاں کی مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دیے۔ ایک تقریب ٹورنٹو میں فلسطین کے حوالے سے بھی ہوئی جس کی صدارت ایلس نے کی۔ اسی دوران ان کی شاعری کی چالیسویں سالگرہ بھی ٹورنٹو میں منائی گئی۔ دیار غیر میں دوستوں کے درمیان شادی کی یہ سالگرہ اور مختصر سا جشن، ان دونوں کو اچھا لگا۔

اسی طرح1982ء میں فیض صاحب ٹورنٹو کی ایک عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تو ان دنوں لندن سے احمد فراز اور افتخار عارف بھی پہلی بار یہاں مشاعرے میں شریک ہوئے۔ مشاعرہ بے حد کامیاب رہا کیونکہ اس میں ہندوستان اور پاکستان سے بھی بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ مشاعرے کی صدارت فیض صاحب نے فرمائی لیکن جب مشاعرے کی دوسری نشست کی باری آئی تو انہوں نے منتظمین سے کہا کہ بھئی ہم لوگ تو اب پرانے ہو گئے ہیں اب نئے لوگوں سے صدارت کرانی چاہیے اور یہ کہہ کر افتخار عارف کی طرف اشارہ کیا۔ افتخار نے تو خیر ان کی یہ بات نہیں مانی مگر اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ اپنے سے چھوٹوں کو عزت دینے کا ایک واقعہ راقم الحروف کے ساتھ بھی ہوا۔ ٹورنٹو سے ان دنوں اردو انٹرنیشنل رسالہ نکالنے کا خیال ہوا تو میں نے ان سے اس کے لیے تعاون چاہا اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے خوشی خوشی اس رسالے کی مجلس مشاورت کے لیے اپنے نام کی بھی منظوری دے دی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے لیے بہت سے ادیبوں اور شاعروں کو خطوط بھی لکھے۔ یہ شفقت اور محبت وہ صرف اپنے چھوٹوں ہی سے نہیں بلکہ ہر شخص سے کیا کرتے تھے۔ فیض صاحب اردو انٹرنیشنل کے لئے نہ صرف یہ کہ وقتاً فوقتاً اپنی تخلیقات بھیجتے رہے بلکہ اور لوگوں سے بھی اس کا ذکر مختلف محفلوں میں نہایت محبت اور خلوص سے کرتے رہے اس کا اندازہ مجھے ان خطوط سے ہوا جو دوسرے لوگوں نے اردو انٹرنیشنل کے لئے فیض صاحب کے حوالے سے مجھے بھیجے تھے۔ یہاں سے بیروت واپس پہنچتے ہی انہوں نے اپنی تازہ تخلیقات اردو انٹرنیشنل کے لئے بھجوائیں اور 4 فروری 1982ء کو اپنے ایک خط میں تحریر کیا:

’’ عزیزی اشفاق۔ آپ کا خط ملا، ایلس تین چار ماہ پیشتر پاکستان چلی گئی تھیں ہم ابھی تک یہیں ہیں لیکن ایک آدھ دن میں چار چھ مہینے کے لئے پاکستان روانگی ہے واپسی پھر یہیں اور غالباً بقیہ سال یہیں پر گزرے گا امید ہے بشرط زندگی سال کے آخر تک گھر جانے کی چھٹی مل جائے گی۔ آپ کے رسالے کے لئے کچھ تازہ اشعار ملفوف ہیں۔ نرجس اور منیشہ کو پیار پہنچا دیجئے۔

مخلص فیض‘‘

1982ء میں اردو انٹرنیشنل کا شمارہ منظر عام پر آیا اور اسی سال اردو کے کئی چوٹی کے لکھنے والے اس دنیا سے رخصت ہو گئے جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری کے نام یقیناً سر فہرست تھے اسی حوالے سے اردو انٹرنیشنل کے ایک شمارے کو ترتیب دینے کا خیال آیا اور میں نے فیض صاحب سے ذاتی طور پر درخواست کی کہ وہ 1982ء میں گزر جانے والے ادیبوں کے بارے میں ایک مختصر سا مضمون لکھ دیں۔ فیض صاحب نے جواب میں ایک مختصر سا مضمون بھی اس خط کے ساتھ روانہ کیا:

’’ عزیزی اشفاق۔ آپ کی فرمائش مکمل نہ ہو سکی، بات ذرا طویل ہو گئی تھی کوشش کروں گا کہ دوسری قسط بھی جلد بھجوا دوں۔

مخلص فیض‘‘

در اصل پہلی قسط کی جو بات انہوں نے کی تھی وہ جوش اور فراق پر مضمون کے بارے میں کی تھی ان کا یہ قلم برداشتہ مضمون میں نے اردو انٹرنیشنل کے تازہ شمارے میں شائع کیا تھا۔ اس مضمون کر برصغیر پاک و ہند کے کئی رسالوں، فیض نمبروں اور ان کے حوالے سے مرتب کی ہوئی کتابوں میں شامل کیا گیا ہے۔ دوسری قسط میں غلام عباس اور خدیجہ مستور کے بارے میں مضامین کا وعدہ تھا۔ اسی طرح 1983ء میں عالمی مشاعرے کے لیے جب میں نے ان کو دعوت دی تو انہوں نے کہا:

’’ بھئی ہمارا تو خود جی چاہتا ہے کہ آپ دوستوں سے ملاقات ہو مگر ایک تو آپ نے پروگرام سردی کے دنوں میں رکھا ہے اور آپ لوگوں کے یہاں سردی بھی خوب پڑتی ہے اور ہمیں ہے سانس کی شکایت، سردی گراں گزرتی ہے۔ اگلے سال موسم بہار تک ادھر آنے کا پروگرام بن سکتا ہے۔ اس بار تو ہمیں پاکستان جانے دیں۔ ‘‘ 210؎


سارے سخن ہمارے



فیض صاحب لندن میں جب تو اسی زمانے میں ان کا بہت ہی خوب صورت کلیات ’’سارے سخن ہمارے ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ نام کے سلسلے میں احمد فراز کا یہ کہنا ہے کہ فیض صاحب اپنی کلیات کا نام ’’ نسخہ ہائے وفا‘‘ رکھنا چاہتے تھے مگر ان کے کہنے سے انہوں نے اس کا نام سارے سخن ہمارے رکھ دیا۔ سارے سخن ہمارے، ایک بہت ہی خوب صورت اور انتہائی دیدہ ریزی سے شائع ہونے والی کتاب ہے۔ اس کے صرف750نسخے شائع ہوئے ہیں اور ہر نسخہ ایک منفرد نسخہ ہے کہ اس میں سب کے نمبر علیحدہ علیحدہ ہیں اور ہر نسخے پر شاعر کے انفرادی دستخط بھی چھپے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے جو کاغذ استعمال کیا گیا ہے وہ بہت ہی قیمتی ہے اور اس کی جلد نائیجیریا کی بھیڑوں کی کھال سے بنائی گئی ہے جبکہ اس کی جلد کے لیے خاص دستکاری کا ہنر استعمال کیا گیا ہے۔ کتاب کا نام، شاعر کا نام، تمام اوراق کی بیرونی سطحیں اور جلد کے مختلف حصوں کو اصلی سونے کے پانی سے مزین کیا گیا ہے۔ اردو کے شاید ہی کسی شاعر کا اس کی زندگی میں اس قدر خوب صورت کلیات شائع ہوا ہو۔ یہ کتاب یقیناً بہت قیمتی اور Collector’s item ہے مگر جس نے اس کو چھپوایا ہے اس نے اپنا نام تک نہیں ظاہر کیا ہے۔ بس یاسمین اور خواجہ شاہد حسن کو اس کام کی نگرانی پہ مامور کیا ہے چنانچہ یہ راز ان دونوں تک ہی محدود سمجھنا چاہیے۔ پاکستان سے باہر بھی فیض صاحب کے کیسے کیسے چاہنے والے موجود تھے ؟

کتاب میں ہندوستان کے مایہ ناز مصور فدا حسین کا بنایا ہوا ایک اسکیچ ہے اور شاعری کا انتخاب یوں کیا گیا ہے کہ ان کے تمام مجموعوں کی غزلیں، نظمیں، اور متفرقات کے ذیل میں قطعات، تراجم اور ان کا پنجابی کلام شامل ہے۔ 211؎ بعد میں فیض صاحب ہی کے تجویز کردہ نام سے ان کے سارے مجموعوں کو نسخہ ہائے وفا کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ان کے تمام مجموعہ ہائے کلام کو جوں کا توں شائع کر دیا گیا ہے البتہ چند نظموں سے کچھ حصے سنسر اور ایک آدھ نظم سرے سے غائب کر دی گئی ہے۔ بعد میں جتنے بھی ایڈیشن شائع ہوئے ان میں اس غلطی کو درست نہیں کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کے اس مجموعے میں ان کے آخری زمانے کی شاعری بھی شامل کر دی گئی ہے جسے ’’ غبار ایام‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔


پاکستان واپسی



1978ء سے 1982ء تک کا وہ زمانہ جو انہوں نے ملک سے باہر گزارا وہ ان کی جلا وطنی اک زمانہ تھا لیکن جب وہ واپس پاکستان گئے تو اس وقت بھی پاکستان کے حالات وہی تھے کہ جو ان کے ملک چھوڑتے وقت تھے۔ پھر ایسے کون سے حالات تھے جن کی بناء پر انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا؟ ایسے میں ان کی وطن واپسی کا جواز ایک تو وہی ہے جو انہوں نے خود ہی دے دیا ہے یعنی یہ کہ ’’ ہم نے کوئی جلا وطنی اختیار ہی نہیں کی‘‘ لیکن اصل وجہ یہ معلوم دیتی ہے کہ ایک شخص جو ستر سال سے زیادہ کی عمر گزار چکا ہو وہ آخر اور کب تک بے وطنی کے عذاب سہتا رہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ وہ جب پاکستان واپس گئے تو اس وقت تک وہ جلاوطنی کے عذاب سہتے سہتے تھک چکے تھے۔ جنرل ضیا سے ان کی ملاقات بھی غالباً اسی تھکے ہوئے ذہن کا نتیجہ تھی اور اس ملاقات پر ان کے بہت سے دوستوں کو افسوس بھی ہوا۔ مگر سب کو معلوم تھا کہ وہ زندگی کے اس موڑ پر ہیں جہاں ان کی ایک ایک سانس اور ایک ایک دم بہت غنیمت ہے سو پاکستان میں ان کی پذیرائی میں کوئی کسر نہیں اٹھائی گئی۔


فیض سیمینار لندن

فیض صاحب جب پاکستان میں مستقل مقیم تھے تو انہی دنوں انہیں لندن سے ایک سیمینار میں شرکت کی دعوت ملی جس کا موضوع خود ان کی شخصیت اور شاعری تھا۔ اور ان دنوں ان کی طبیعت بھی خراب تھی سو انہوں نے کچھ عرصے کے لیے بغرض علاج ماسکو جانے کا فیصلہ کیا۔ پھر وہاں سے لندن بھی گئے جہاں 9اور 10جولائی 1984ء کو لندن یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اور فیض اکیڈمی کی جانب سے ایک اہم بین الاقوامی مذاکرہ منعقد ہوا۔ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کے پروفیسر جگدیش گندھارا نے اس موقعے پر کہا تھا:

’’ فیض کی شاعری کا مام لورکا، ناظم حکمت، قاضی نذر الاسلام اور لوئی آراگاں جیسے شعراء کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سیمینار کے ذریعے فیض احمد فیض کے کام کو برطانیہ میں موثر طور پر متعارف کروانے کے علاوہ یہ پیغام بھی دیا جا رہا ہے کہ ہمارے ملکوں کے ادیبوں اور فنکاروں نے جو خدمات سر انجام دی ہیں انہیں آئندہ نسل تک پہنچایا جائے اور یونیورسٹی جیسے ادارے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس موقعے پر فیض صاحب نے لوٹس میں شائع ہونے والے اپنے ایک اداریے کو پڑھنے کے بعد اپنی گفتگو کو آگے بڑھایا اور پھر لوگوں کے سوالوں کے جوابات دیے۔ ‘‘ 212؎

یہ بین الاقوامی سیمینار اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ بیرون ملک یہ ان کی آخری کانفرنس اور مشاعرہ تھا۔


انتقال



1984ء کے موسم گرما میں یورپ سے واپسی کے کچھ دنوں بعد ان کی طبیعت پھر خراب ہو ہوئی مگر وہ وہیں لاہور میں علاج کرواتے رہے۔ فیض صاحب کو سانس کی تکلیف تھی۔ آخری دنوں میں انہوں نے سگریٹ وغیرہ سب چھوڑ دی تھی لیکن سانس کی اس بیماری نے انہیں اس بار اس طرح ہسپتال پہنچایا کہ وہ شفا یاب نہ ہو سکے۔ 20نومبر1984ء کو انہوں نے لاہور کے میو ہسپتال میں دم توڑ دیا اور اسی شہر کی خاک میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ وہ اس دنیا سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گئے :

اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ

نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے

٭٭٭




تصانیف


شاعری



نقش فریادی

دست صبا

زنداں نامہ

دست تہ سنگ

سر وادی سینا

شام شہر یاراں

مرے دل مرے مسافر

غبار ایام

کلیات: نسخہ ہائے وفا۔ سارے سخن ہمارے


نثر



میزان صلیبیں مرے دریچے میں

متاع لوح و قلم سفر نامہ کیوبا

ہماری قومی ثقافت مہ و سال آشنائی

ترجمہ

انتخاب پیام مشرق

٭٭٭

ماخذ:


تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید