صفحات

تلاش کریں

شخصیت: علی ابن ابی طالبؓ

نام، نسب، خاندان

علی نام، ابوالحسن اورابوتراب کنیت، حیدر (شیر)لقب، والد کا نام ابوطالب اوروالدہ کا نام فاطمہ تھا،آپ پیغمبر اسلام ﷺ کے چچا زاد اور داماد تھے۔ عثمان بن عفان کے بعد چوتھے خلیفہ راشد کے طور پر سنہ 656ء سے 661ء تک حکمرانی کی۔
 آپ کے والد ابو طالب مکہ کے ذی اثر بزرگ تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کی آغوش شفقت میں پرورش پائی تھی اوربعثت کے بعد ان ہی کے زیر حمایت مکہ کے کفرستان میں دعوتِ حق کا اعلان کیا تھا، ابو طالب ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے رہے اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے پنجہ ظلم ستم سے محفوظ رکھا، مشرکین قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پناہی اورحمایت کے باعث ابوطالب اوران کے خاندان کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائیں، ایک گھاٹی میں ان کو محصور کر دیا، کاروبار اورلین دین بند کر دیا، شادی بیاہ کے تعلقات منقطع کرلئے، کھانا پینا تک بند کر دیا، غرض ہر طرح پریشان کیا، مگر اس نیک طینت بزرگ نے آخری لمحہ حیات تک اپنے عزیز بھتیجے کے سر سے دستِ شفقت نہ اُٹھایا۔ حضرت علی ؓ کی والدہ حضرت فاطمہ ؓ بنت اسد نے بھی حضرت آمنہ ؓ کے اس یتیم معصوم کی ماں کی طرح شفقت ومحبت سے پرورش کی، مستند روایات کے مطابق وہ مسلمان ہوئیں اورہجرت کرکے مدینہ گئیں، ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفن میں اپنی قمیص مبارک پہنائی۔ حضرت علی ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس برس پہلے پیدا ہوئے تھے، ابو طالب نہایت کثر العیال اورمعاش کی تنگی سے نہایت پریشان تھے، قحط وخشک سالی نے اس مصیبت میں اور بھی اضافہ کر دیا، اس لیے رحمۃاللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے محبوب چچا کی عسرت سے متاثر ہوکر حضرت عباس ؓ سے فرمایا کہ ہم کو اس مصیبت وپریشان حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے؛چنانچہ حضرت عباس ؓ نے حسب ارشاد جعفر کی کفالت اپنے ذمہ لی اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ انتخاب نے علی ؓ کو پسند کیا؛چنانچہ وہ اس وقت سے برابر حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔

قبولیتِ اسلام

حضرت علی ؓ کاسن ابھی صرف دس سال کا تھا کہ ان کے شفیق مربی کو دربارِ خداوندی سے نبوت کا خلعت عطاہوا، چونکہ حضرت علی ؓ آپ کے ساتھ رہتے تھے اس لیے ان کواسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے نظر آئے؛چنانچہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کو مصروفِ عبادت دیکھا، اس مؤثر نظارہ نے اثر کیا، طفلانہ استعجاب کے ساتھ پوچھا، آپ دونوں کیا کر رہے تھے؟ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے منصبِ گرامی کی خبردی اورکفر وشرک کی مذمت کرکے توحید کی دعوت دی، حضرت علی ؓ کے کان ایسی باتوں سے آشنا نہ تھے، متحیر ہوکر عرض کیا، اپنے والد ابوطالب سے دریافت کروں اس کے متعلق؟چونکہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی اعلان عام منظور نہ تھا، اس لیے فرمایا کہ اگر تمہیں تامل ہے توخود غورکرو؛لیکن کسی سے اس کا تذکرہ نہ کرنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش سے فطرت سنورچکی تھی، توفیق الہیٰ شامل ہوئی، اس لیے زیادہ غور و فکر کی ضرورت پیش نہ آئی اوردوسرے ہی دن بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہو گئے۔ اس بارے میں اختلاف ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بعد سب سے پہلے کون ایمان لایا، بعض روایات سے حضرت ابوبکر ؓ کی، بعض سے حضرت علی ؓ کی اولیت ظاہر ہوتی ہے اوربعضوں کے خیال میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کا ایمان سب پر مقدم ہے؛لیکن محققین نے ان مختلف احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ عورتوں میں، حضرت ابوبکر صدیق ؓ مردوں میں، حضرت زید بن حارثہ ؓ غلاموں اور حضرت علی ؓ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔

مکہ کی زندگی

اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علی ؓ کی زندگی کے تیرہ سال مکہ معظمہ میں بسر ہوئے، چونکہ وہ رات دن سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، اس لیے مشورہ کی مجلسوں میں تعلیم وارشاد کے مجمعوں میں، کفارو مشرکین کے مباحثوں میں اورمعبودِحقیقی کی پرستش وعبادت کے موقعوں پر، غرض ہر قسم کی صحبتوں میں شریک رہے۔ حضرت عمر ؓ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے سرزمین مکہ میں مسلمانوں کے لیے علانیہ خدا کا نام لینا اور اس کی عبادت وپرستش کرنا تقریباً ناممکن تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چھپ چھپ کر اپنے معبود حقیقی کی پرستش فرماتے، حضرت علی ؓ بھی ان عبادتوں میں شریک ہوتے۔
منصب نبوت عطا ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین برس تک علانیہ دعوتِ اسلام کی صدا بلند نہیں فرمائی؛بلکہ پوشیدہ طریقہ پر خاص خاص لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے رہے، چوتھے سال کے اعلان عام اور سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں میں اس کی تبلیغ کا حکم ہوا؛چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی: وَاَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبیْنَ "اپنے قریبی اعزہ کو (عذب ِالہی سے) ڈراؤ" سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کے موافق کوہِ صفاپر چڑھ کر اپنے خاندان کے سامنے دعوتِ اسلام کی صدا بلند کی ؛لیکن مدت کا زنگ ایک دن کے صیقل سے نہیں دور ہوسکتا تھا، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پھر اپنے خاندان میں تبلیغ اسلام کی کوشش فرمائی اورحضرت علی ؓ کو انتظام دعوت کی خدمت پر مامور کیا۔ حضرت علی ؓ کی عمر اس وقت مشکل سے چودہ پندرہ برس کی تھی ؛لیکن انہوں نے اس کمسنی کے باوجود نہایت اچھا انتظام کیا، دسترخوان پر بکرے کے پائے اوردودھ تھا، دعوت میں کل خاندان شریک تھا جن کی تعداد چالیس تھی، حضرت حمزہ ؓ، عباس ؓ، ابولہب اور ابوطالب بھی شرکاء میں تھے، لوگ کھانے سے فارغ ہوچکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُٹھ کر فرمایا:‘‘ یا بنی عبدالمطلب:خداکی قسم میں تمہارے سامنے دنیا وآخرت کی بہترین نعمت پیش کرتا ہوں، بولو تم میں سے کون اس شرط پر میرا ساتھ دیتا ہے کہ وہ میرا معاون و مددگار ہوگا؟ اس کے جواب میں سب چپ رہے، صرف شیر خدا علی مرتضی کی آواز بلند ہوئی کہ گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے اور میری ٹانگیں پتلی ہیں، تاہم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یاور اوردست وبازو بنوں گا۔’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا تم بیٹھ جاؤاورپھر لوگوں سے خطاب فرمایا؛لیکن کسی نے جواب نہ دیا، حضرت علی ؓ پھر آٹھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دفعہ بھی ان کو بٹھا دیا، یہاں تک کہ جب تیسری دفعہ بھی اس بارِگراں کا اٹھانا کسی نے قبول نہیں کیا تو اس مرتبہ بھی حضرت علی ؓ نے جاں بازی کے لہجہ میں انہی الفاظ کا اعادہ کیا تو ارشاد ہوا کہ بیٹھ جاؤ تو میرا بھائی اورمیرا وارث ہے۔"

ہجرت

بعثت کے بعد تقریباً تیرہ برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گھاٹیوں میں اسلام کی صدا بلند کرتے رہے؛لیکن مشرکین قریش نے اس کا جواب محض بغض وعناد سے دیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کو اسیر پنجۂ ستم دیکھ کر آہستہ آہستہ ان سب کو مدینہ چلے جانے کا حکم دیا؛چنانچہ چند نفوسِ قدسیہ کے علاوہ مکہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا، اس ہجرت سے مشرکین کو اندیشہ ہوا کہ اب مسلمان ہمارے قبضہ اقتدار سے باہر ہو گئے ہیں اس لیے بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی قوت مضبوط کرکے ہم سے انتقام لیں، اس خطرہ نےان کو خود رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کا دشمن بنادیا؛چنانچہ ایک روز مشورہ کرکے وہ رات کے وقت کاشانۂ نبوت کی طرف چلے کہ مکہ چھوڑنے سے پہلے ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے رخصت کر دیں؛لیکن مشیت الہی تو یہ تھی کہ ایک دفعہ تمام عالم حقانیت کے نور سے پرنور اورتوحید کی روشنی سے شرک کی ظلمت کا فورہوجائے، اس مقصد کی تکمیل سے پہلے آفتاب رسالت کس طرح غروب ہوسکتا ہے، اس لیے وحی الہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کے ارادوں کی اطلاع دیدی اورہجرتِ مدینہ کا حکم ہوا، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ مشرکین کو شبہ نہ ہو، حضرت علی ؓ مرتضیٰ کو اپنے فرشِ اطہر پر استراحت کا حکم دیا اورخود حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔
حضرت علی ؓ کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ بائیس تئیس برس کی تھی، اس عنفوانِ شباب میں اپنی زندگی کو قربانی کے لیے پیش کرنا فدویت وجاں نثاری کا عدیم المثال کارنامہ ہے، رات بھر مشرکین کا محاصرہ قائم رہا اوراس خطرہ کی حالت میں یہ نوجوان نہایت سکون واطمینان کے ساتھ محو خواب رہا، غرض تمام رات مشرکین قریش اس دھوکا میں رہے کہ خود سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہی استراحت فرما ہیں، صبح ہوتے ہی اپنے ناپاک ارادہ کی تکمیل کے لیے اندر آئے؛لیکن یہاں یہ دیکھ کر وہ متحیرہوگئے کہ شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جاں نثار اپنے آقا پر قربان ہونے کے لیے سربکف سو رہا ہے، مشرکین اپنی اس غفلت پر سخت برہم ہوئے اورحضرت علی ؓ کو چھوڑ کر اصل مقصود کی تلاش وجستجو میں روانہ ہو گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد دو یا تین دن تک مکہ میں مقیم رہے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق جن لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاروبار اور لین دین تھا، ان کے معاملات سے فراغت حاصل کی اور تیسرے یا چوتھے دن وطن کو خیر باد کہہ کر عازم مدینہ ہوئے

مواخات:

ہجرت کے بعد درپیش سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری کا تھا کیونکہ وہ دین کی خاطر اپنا گھر بار اور ساز و سامان سب کچھ چھوڑ آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سلسلے میں ایک نہایت اہم قدم اٹھاتے ہوئے انصار و مہاجرین کو اسلام کے رشتۂ اخوت میں منسلک کر دیا۔ ایک مہاجر کو دوسرے انصاری کا بھائی بنا دیا گیا۔باہم بھائی چارے کے اس عمل کو مواخات کہتے ہیں۔ مواخات کے وقت مھاجرین کی تعداد 45 تھی۔
انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں سے فیاضی اور ایثار کا ثبوت دیا وہ اسلامی و عالمی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے۔ وہ مہاجرین جو مدینہ آنے کے بعد خود کو تنہا محسوس کر رہے تھے اپنے انصار بھائیوں کے اس ایثار سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنا وطن اور عزیز و اقارب چھوڑنے کا غم بھول گئے۔ انصار اور مہاجرین میں ایسا اتحاد و یگانگت پیدا ہوئی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
اس مواخات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو اپنا بھائی بنایا۔

تعمیر مسجد

 ہجرت کے چھٹے یا ساتویں مہینہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مسجد تعمیر کرنے کا خیال پیدا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بنیاد رکھی اور اپنے رفقا کے ساتھ خود اس کی تعمیر میں حصہ لیا، تمام صحابہ جوش کے ساتھ شریک کار تھے، حضرت علی ؓ اینٹ اورگارہ لالا کر دیتے رہے

غزوہ ٔبدر

سلسلۂ غزوات میں سب سے پہلا معرکہ غزوہ ٔبدر ہے، اس غزوہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین سو تیرہ جان نثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، آگے آگے دوسیاہ رنگ کے عَلم تھے، ان میں سے ایک حیدرکرار کے ہاتھ میں تھا، جب رزمگاہِ بدر کے قریب پہنچے تو سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو چند منتخب جان بازوں کے ساتھ غنیم کی نقل وحرکت کا پتہ چلانے کے لیے بھیجا، انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی اورمجاہدین نے مشرکین سے پہلے پہنچ کر اہم مقاموں پر قبضہ کر لیا، سترہویں رمضان جمعہ کے دن جنگ کی ابتداہوئی، قاعدہ کے موافق پہلے تنہا مقابلہ ہوا، سب سے پہلے قریش کی صف سے تین نامی بہادر نکل کر مسلمانوں سے مبازرطلب ہوئے، تین انصاریوں نے ان کی دعوت کو لبیک کہا اورآگے بڑھے، قریش کے بہادروں نے ان کا نام نسب پوچھا، جب یہ معلوم ہوا کہ دویثرب کے نوجوان ہیں تو ان کے ساتھ لڑنے سے انکار کردیااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکار کر کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مقابلہ میں ہمارے ہمسر کے آدمی بھیجو، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے تین عزیزوں کے نام لیے، حمزہ ؓ، علی ؓ اور عبیدہ ؓ تینوں اپنے حریفوں کے لیے میدان میں آئے، حضرت علی ؓ نے اپنے حریف ولید کو ایک ہی وار میں تہ تیغ کر دیا، اس کے بعد جھپٹ کر عبیدہ ؓ کی مدد کی اوران کے حریف شیبہ کو بھی قتل کیا، مشرکین نے طیش میں آکر عام حملہ کر دیا، یہ دیکھ کر مجاہدین بھی نعرۂ تکبیر کے ساتھ کفار کے نرغہ میں گھس گئے اور عام جنگ شروع ہو گئی، شیر خدانے صفیں کی صفیں الٹ دیں اور ذوالفقارحیدری نے بجلی کی طرح چمک چمک کر اعدائے اسلام کے خرمن ہستی کو جلادیا، مشرکین کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمان مظفر ومنصوربے شمار مال غنیمت اورتقریباً ستر قیدیوں کے ساتھ مدینہ واپس آئے، مال غنیمت میں سے آ پ کو ایک زرہ ایک اونٹ اورایک تلوار ملی،

حضرت فاطمہؓ سے نکاح

2ھ میں حضرت سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دامادی کا شرف بخشا یعنی اپنی محبوب ترین صاحبزادی سیدۃ النساء حضرت فاطمہ زہرا ؓ سے نکاح کر دیا۔ حضرت فاطمہ ؓ سے عقد کی درخواست سب سے پہلے حضرت ابوبکر ؓ اوران کے بعد حضرت عمر ؓ نے کی تھی؛لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہیں دیا، اس کے بعد حضرت علی ؓ نے خواہش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تمہارے پاس مہراداکرنے کے لیے کچھ ہے؟ بولے ایک گھوڑے اورایک ذرہ کے سوا کچھ نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑا تو لڑائی کے لیے ہے البتہ ذرہ کو فروخت کردو، حضرت علی ؓ نے اس کو حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ چارسو اسی درہم میں بیچا اور قیمت لاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ بازار سے عطر اورخوشبو خرید لائیں اور خود نکاح پڑھایا اوردونوں میاں بیوی پر وضو کا پانی چھڑک کر خیر وبرکت کی دعادی۔

رخصتی

نکاح کے تقریباً دس گیارہ ماہ بعد باقاعدہ رخصتی ہوئی، اس وقت تک حضرت علی ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، اس لیے جب رخصتی کا وقت آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ایک مکان کرایہ پر لے لو؛چنانچہ حارث بن النعمان کا مکان ملا اورحضرت علی ؓ ملکہ جنت کو رخصت کراکے اس میں لے آئے۔

دعوت ولیمہ

حضرت علی ؓ کے پاس ذرہ کی قیمت میں سے مہر ادا کرنے کے بعدجو رقم  بچ رہی تھی کے پاس کچھ نہ تھا؛چنانچہ اسی سے دعوت ولیمہ کا سامان کیا جس میں کھجور، جو کی روٹی، پنیز اور ایک خاص قسم کا شوربہ تھا؛لیکن یہ اس زمانہ کے لحاظ سے پرتکلف ولیمہ تھا، حضرت اسماء ؓ کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں اس سے بہتر ولیمہ نہیں ہوا۔

غزوۂ احد

؁ 3 ھ میں اُحد کا معرکہ پیش آیا، شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی اورپہلے مسلمانوں نے قلت تعداد کے باجود غنیم کو بھگادیا؛لیکن عقب کے محافظ تیر اندازوں کا اپنی جگہ سے ہٹنا تھا کہ مشرکین پیچھے سے یکایک ٹوٹ پڑے، اس ناگہانی حملے سے مسلمانوں کے اوسان جاتے رہے، اسی حالت میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو چشم زخم پہنچا، دندانِ مبارک شہید ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خندق میں گرپڑے، مشرکین ادھر بڑھے ؛لیکن حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے سے روکا اور اسی میں لڑتے لڑتے شہید ہوئے، اس کے بعد حیدر کرار ؓ نے بڑھ کر علم سنبھالا اور بے جگری کے ساتھ دادِ شجاعت دی، مشرکین کے علمبردار، ابوسعدبن ابی طلحہ نے مقابلہ کے لیے للکارا، شیر خدانے بڑھ کر ایسا ہاتھ مارا کہ فرشِ خاک پرتڑپنے لگا اوربدحواسی کے عالم میں برہنہ ہو گیا، حضرت علی ؓ کو اس کی بدحواسی اور بے بسی پر رحم آگیا اورزندہ چھوڑکر واپس آئے۔ مشرکین کا زور کم ہوا توحضرت علی چند صحابہ ؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑ پر لے گئے، حضرت فاطمہ ؓ نے زخم دھویا اورحضرت علی ؓ نے ڈھال میں پانی بھر بھر کر گرایا، اس سے خون بند نہ ہوا تو حضرت فاطمہ ؓ نے چٹائی جلا کر اس کی راکھ سے زخم کا منہ بند کیا۔

بنونضیر کی جلا وطنی

غزوہ احد کے بعد ؁ 4ھ میں بنو نضیر کو ان کی بدعہدی کے باعث جلاوطن کیا گیا، حضرت علی ؓ اس میں بھی پیش پیش تھے اور علم ان ہی کے ہاتھ میں تھا۔

غزوۂ خندق

؁ 5ھ میں غزوۂ خندق پیش آیا اس میں کفار کبھی کبھی خندق میں گھس گھس کر حملہ کرتے تھے، ایک دفعہ سواروں نے حملہ کیا، حضرت علی ؓ نے چند جان بازوں کے ساتھ بڑھ کر روکا، سواروں کے سردار عمروبن عبدود نے کسی کو تنہا مقابلہ کی دعوت دی، حضرت علی ؓ نے اپنے کو پیش کیا، اس نے کہامیں تم کو قتل کرنا نہیں چاہتا، شیر خدانے کہا؛لیکن میں تم کو قتل کرنا چاہتا ہوں، وہ برہم ہوکر گھوڑے سے کود پڑا، اورمقابلہ میں آیا، تھوڑی دیر تک شجاعانہ مقابلہ کے بعد ذوالفقارحیدری نے اس کو واصل جہنم کیا، اس کا مقتول ہونا تھا کہ باقی سوار بھاگ کھڑے ہوئے، کفار بہت دن تک خندق کا محاصرہ کیے رہے ؛لیکن بالآخر مسلمانوں کی اس پامردی اوراستقلال کے آگے ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور یہ معرکہ بھی مجاہدین کرام کے ہاتھ رہا۔

بنو قریظہ کی سرکوبی 

بنو قریظہ نے مسلمانوں سے معاہدہ کے باوجود ان کے مقابلہ میں قریش کا ساتھ دیا اور تمام قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکادیاتھا، اس لیے غزوۂ خندق سے فراغت کے بعدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف توجہ کی، اس مہم میں بھی علم حضرت علی ؓ کے ہاتھ میں تھا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے مطابق قلعہ پر قبضہ کرکے اس کے صحن میں عصر کی نماز اداکی۔

بنو سعد کی سرکوبی

؁ 6ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بنو سعد یہود خیبر کی اعانت کے لیے مجتمع ہو رہے ہیں، اس لیے حضرت علی ؓ کو ایک سو کی جمعیت کے ساتھ ان کی سرکوبی پر مامور کیا، انہوں نے ماہِ شعبان میں حملہ کرکے بنو سعد کو منتشر کر دیا اور پانچ سواونٹ اوردوہزار بکریاں مال غنیمت میں لائے۔

صلح حدیبیہ

 ؁ 6ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً چودہ ہزار صحابہ کرام ؓ کے ساتھ زیارت کعبہ کا ارادہ فرمایا، مقام حدیبیہ میں معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ مزاحمت کریں گے، حضرت عثمان ؓ گفتگوکے لیے سفیر بنا کر بھیجے گئے، مشرکین نے ان کو روک لیا، یہاں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ وہ شہید کر دیے گئے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان ؓ کے انتقام کے لیے مسلمانوں سے بیعت لی، حضرت علی ؓ بھی اس بیعت میں شریک تھے، بعد کو جب یہ معلوم ہوا کہ شہادت کی خبر غلط تھی تو مسلمانوں کا جوش کسی قدر کم ہوا، اورطرفین نے مصالحت پر رضا مندی ظاہر کی، حضرت علی ؓ کو صلح نامہ لکھنے کا حکم ہوا، انہوں نے حسب دستور :ھذا اماقاضٰی علیہ محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی عبارت سے عہد نامہ کی ابتدا کی، مشرکین نے ‘رسول اللہ ’’کے لفظ پر اعتراض کیا اگر ہم کو رسول اللہ ہونا تسلیم ہوتا تو پھر جھگڑاہی کیا تھا؟ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کو مٹادینے کا حکم دیا؛لیکن حضرت علی ؓ کی غیرت نے گوارا نہ کیا اورعرض کیا، خداکی قسم! میں اس کو نہیں مٹا سکتا، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ست مبارک سے اس کو مٹادیا اس کے بعد معاہدہ صلح لکھا گیا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زیارت کا ارادہ ملتوی کرکے مدینہ واپس تشریف لائے۔

فتح خیبر

؁ 7ھ میں خیبر پر فوج کشی ہوئی، یہاں یہودیوں کے بڑے بڑے مضبوط قلعے تھے جن کا مفتوح ہونا آسان نہ تھا، پہلے حضرت ابوبکر ؓ اور ان کے بعد حضرت عمر ؓ اس کی تسخیر پر مامور ہوئے ؛لیکن کامیابی نہ ہوئی، حضورسرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل ایک ایسے بہادر کو علم دوں گا جو خدا اور رسول کا محبوب ہے اور خیبر کی فتح اسی کے ہاتھ سے مقدر ہے، صبح ہوئی تو ہر شخص متمنی تھا کہ کاش اس فخر وشرف کا تاج اس کے سرپر ہوتا؛لیکن یہ دولت گرانمایہ حیدرکرار ؓ کے لیے مقدر ہوچکی تھی، صبح کو بڑے بڑے جاں نثار اپنے نام سننے کے منتظر تھے کہ دفعتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ؓ کا نام لیا، یہ آواز غیر متوقع تھی، کیونکہ حضرت علی ؓ آشوب چشم میں مبتلا تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلاکر ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب لگایا جس سے یہ شکایت فوراً جاتی رہی۔
اس کے بعد علم مرحمت فرمایا، حضرت علی ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں لڑکر ان کو مسلمان بنالوں؟ فرمایا نہیں؛بلکہ پہلے اسلام پیش کرواوران کو اسلام کے فرائض سے آگاہ کرو کیونکہ تمہاری کوششوں سے ایک شخص بھی مسلمان ہو گیا تو وہ تمہارے لیے بڑی سے بڑی نعمت سے بہتر ہےلیکن یہودیوں کی قسمت میں اسلام کی عزت کی بجائے شکست، ذلت اوررسوائی لکھی تھی، اس لیے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اوران کا معزز سردار مرحب بڑے جوش وخروش سے یہ رجز پڑھتا ہوانکلا۔
 قد علمت خیبر انی مرحب شاکی السلاح بطل مجرب
 خیبر مجھ کو جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں سطح پوش ہوں، بہادر ہوں، تجربہ کار ہوں اذالحروب اقبلت تلھب جب کہ لڑائی کی آگ بھڑکتی ہے 
فاتح خیبر اس متکبرانہ رجز کا جواب دیتے ہوئے بڑھا: اناالذی سمتنی امی حیدرہ کلیث غابات کریہ النظرہ میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے جھاڑی کے شیر کی طرح مہیب اورڈراؤنا اوفیہم بالصاع کیل السدرہ میں دشمنوں کو نہایت سرعت سے قتل کردیتا ہوں اور جھپٹ کر ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا، اس کے بعد حیدر کرار ؓ نے بڑھ کر حملہ کیا اورحیرت انگیز شجاعت کے ساتھ اس کو مسخر کر لیا۔

فتح مکہ

رمضان ؁ 8ھ میں مکہ پر فوج کشی کی تیاریاں شروع ہوئیں، ابھی مجاہدین روانہ نہ ہوئے تھے، معلوم ہوا کہ ایک عورت غنیم کو یہاں کے تمام حالات سے مطلع کرنے کے لیے روانہ ہو گئی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ، زبیر ؓ، اورمقداد ؓ کو اس کی گرفتاری پر مامور کیا، یہ تینوں تیز گھوڑوں پر سوار ہوکر اس کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔اورخاخ کے باغ میں گرفتار کرکے خط مانگا، پہلے اس عورت نےلا علمی ظاہر کی ؛لیکن جب ان لوگوں نے جامہ تلاشی کا ارادہ کیا تو اس نےخط حوالہ کر دیا اوریہ لوگ خط لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب یہ خط پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ مشہور صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین مکہ کے نام بھیجا تھا اور اس میں بعض مخفی حالات کی اطلاع تھی،
 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاتم بن ابی بلتعہ سے پوچھا یہ کیامعاملہ ہے؟ انہوں نےعزر پیش کیا کہ مکہ میں دوسرے مہاجرین کی قرابتیں ہیں جو فتح مکہ کے وقت ان کے اہل و عیال کی حفاظت کرتے، میں نے اس خیال سے کہ اگر کوئی نازک وقت آئے تو میرے بچے بے یارومددگار نہ رہ جائیں یہ خط لکھا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عذر کو قبول کر لیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 10/رمضان ؁ 8ھ کو مدینہ روانہ ہوئے۔ ایک علم حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے ہاتھ میں تھا اور وہ جوش کی حالت میں یہ رجز پڑھتے جاتے تھے۔ الیوم یوم الملحۃ الیوم تستحل الکعبۃ ‘‘آج شدید جنگ کا دن ہے آج حرم میں خونریزی جائز ہے۔’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا توفرمایا، نہیں ایسا نہ کہوآج تو کعبہ کی عظمت کا دن ہے اورحضرت علی ؓ کو حکم ہوا کہ سعد بن عبادہ ؓ سے علم لے کر فوج کے ساتھ شہر میں داخل ہوں؛چنانچہ وہ کداء کی جانب سے مکہ میں داخل ہوئے اورمکہ بلاکسی خونریزی کے تسخیر ہو گیا
خانہ کعبہ  تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ خلیل بت شکن کی یادگارِ کو بتوں کی آلائشوں سے پاک  کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سب کو لکڑی سے ٹھکراتے جاتے تھے اور یہ آیت تلاوت فرماتے جاتے تھے
‘‘وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا’
پھر خانۂ کعبہ کے اندر سے حضرت ابراہیم علیہ السلام واسماعیل علیہ السلام کی مورتیوں کو الگ کروایا اور تطہیر کعبہ کے بعد اندر داخل ہوئے، لیکن چونکہ اس وحدت کدہ کا گوشہ گوشہ بتوں کی مورتیوں سے اٹا ہوا تھا اس لیے اس اہتمام کے باوجود تانبے کا سب سے بڑا بت باقی رہ گیا، یہ لوہے کی سلاخ میں پیوست کیا ہوا زمین پر نصب تھا اس لیے بہت بلندی پر تھا، پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کے کندھوں پر چڑھ کر اس کے گرانے کی کوشش کی؛لیکن وہ جسم اطہر کا بارنہ سنبھال سکے، اس لیے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو شانہ اقدس پر چڑھاکراس کے گرانے کا حکم دیا جسےانہوں نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق سلاخ سے اکھاڑکر پاش پاش کرڈالا اورخانہ کعبہ کی کامل تطہیر ہو گئی۔

غزوہ حنین

فتح مکہ کے بعد اسی سال غزوہ حنین کا عظیم الشان معرکہ پیش آیا اور اس میں پہلے مسلمانوں کی فتح ہوئی؛لیکن جب وہ مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہوئے تو شکست خوردہ غنیم نے غافل پاکر پھر اچانک حملہ کر دیا، مجاہدین اس ناگہانی مصیبت سے ایسے پریشان ہوئے کہ بارہ ہزار نفوس میں سے صرف چند ثابت قدم رہ سکے، ان میں ایک حضرت علی ؓ بھی تھے، آپ نہ صرف پامردی اوراستقلال کے ساتھ قائم رہے ؛بلکہ اپنی غیر معمولی شجاعت سے لڑائی کو سنبھال لیا اورغنیم کے امیر عسکر پر حملہ کرکے اس کا کام تمام کر دیا اوردوسری طرف جو مجاہدین ثابت قدم رہ گئے تھے وہ اس بے جگری کے ساتھ لڑے کہ مسلمانوں کی ابتری اورپریشانی کے باوجود دشمن کو شکست ہوئی۔

غزوہ تبوک کے وقت اہل بیت کی حفاظت

؁ 9ھ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کا قصد فرمایا توحضرت علی ؓ کواہل بیت کی حفاظت کے لیے مدینہ میں رہنے کا حکم دیا، شیرخدا کو شرکتِ جہاد سے محرومی کا غم تو تھا، منافقین کی طعنہ زنی نے اوربھی رنجیدہ کر دیا، سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال کا علم ہوا تو ان کا غم دورکرنے کے لیے فرمایا، علیؓ !کیا تم اسے پسند کروگے کہ میرے نزدیک تمہارا وہ رتبہ ہو جو ہارون کا موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھا۔"

 سورۂ برأت سے منسلک تبلیغ 

غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر حج بناکر روانہ فرمایا، اسی اثناء میں سورۂ برأت نازل ہوئی، لوگوں نے کہا کہ اگر یہ سورۃ ابوبکر ؓ کے ساتھ حج کے موقع پر لوگوں کو سنانے کے لیے بھیجی جاتی تو اچھا ہوتا، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری طرف سے صرف میرے خاندان کا آدمی اس کی تبلیغ کرسکتا ہے؛چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلاکر حکم دیا کہ وہ مکہ جاکر اس سورۃ کو سنائیں اورعام اعلان کر دیں کہ کوئی کافرجنت میں داخل نہ ہوگا اوراس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ خانہ کعبہ کا طواف کرے اورجس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عہدہے وہ مدتِ مہینہ تک باقی رہے گا۔

مہم یمن اوراشاعتِ اسلام

تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مہمیں روانہ فرمائیں ان میں یمن کی مہم پر حضرت خالد بن ولید ؓ مامور ہوئے، لیکن چھ مہینہ کی مسلسل جدوجہد کے باوجود اشاعت اسلام میں کامیاب نہ ہو سکے، اس لیے رمضان 10ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو بلا کر یمن جانے کا حکم دیا، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ایک ایسی قوم میں بھیجا جاتا ہوں جس میں مجھ سے زیادہ معمر اورتجربہ کارلوگ موجود ہیں، ان لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنا میرے لیے نہایت دشوار ہوگا، ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی‘‘ اے خدا اس کی زبان کوراست گو بنا اور ا س کے دل کو ہدایت کے نورسے منور کر دے’’ اس کے بعد خود اپنے دستِ اقدس سے ان کے فرقِ مبارک پر عمامہ باندھا اورسیاہ علم دے کر یمن کی طرف روانہ فرمایا۔ حضرت علی ؓ کے یمن پہنچتے ہی یہاں کا رنگ بالکل بدل گیا، جولوگ خالد ؓ کی چھہ مہینہ کی سعی و کوشش سے بھی اسلام کی حقیقت کو نہیں سمجھے تھے وہ حضرت علی مرتضی ؓ کی صرف چند روزہ تعلیم وتلقین سے اسلام کے شیدائی ہو گئے اور قبیلہ ہمدان مسلمان ہو گیا۔

حجۃ الوداع میں شرکت اورصدمۂ جانکاہ 

 ؁ 10ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا، حضرت علی ؓ بھی یمن سے آکر اس یادگار حج میں شریک ہوئے۔
حج سے واپسی کے بعد ابتدائے ماہ ربیع الاول ؁ 11ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے، حضرت علی ؓ نےنہایت تندہی اورجانفشانی کے ساتھ تیمار داری اورخدمت گزاری کا فرض انجام دیا، ایک روز باہر آئے، لوگوں نےپوچھا، اب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج کیسا ہے؟ حضرت علی ؓ نے اطمینان ظاہرکیا، حضرت عباس ؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، خدا کی قسم! میں موت کے وقت خاندان عبدالمطلب کے چہرے پہچانتا ہوں، آؤ چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں کہ ہمارے لیے خلافت کی وصیت کرجائیں، حضرت علی ؓ نے کہا، میں عرض نہیں کروں گا، اگر خدا کی قسم!آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو پھر آئندہ کوئی امید باقی نہیں رہے گی، دس روز کی مختصر علالت کے بعد 12/ربیع الاول دوشنبہ کے دن دوپہر کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان نثاروں کو اپنی مفارقت کا داغ دیا، حضرت علی ؓ چونکہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین عزیز اورخاندان کے رکن رکین تھے، اس لیے غسل اورتجہیز وتکفین کے تمام مراسم انہی کے ہاتھ سے انجام پائے۔ 

خلیفۂ اول کی بیعت توقف کی وجہ

سقیفۂ بنو ساعدہ کی مجلس نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر اتفاق کیا اورتقریباً تمام اہل مدینہ نے بیعت کرلی، البتہ صحیح روایات کے مطابق صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے چھہ مہینے تک دیر کی، لوگوں نے اس توقف کے عجیب وغریب وجوہ اختراع کرلئے ہیں ؛لیکن صحیح یہ ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کی سوگوار زندگی نے ان کو بالکل خانہ نشین بنادیا تھا اورتمام معاملات سے قطع تعلق کرکے وہ صرف ان کی تسلی ودلدہی اورقرآن شریف کے جمع کرنے میں مصروف تھے؛چنانچہ جب حضرت فاطمہ ؓ کا انتقال ہو گیا اس وقت انہوں نے خود حضرت ابوبکر ؓ سے ان کے فضل کا اعتراف کیا اوربیعت کرلی۔ 

حضرت عمرؓ کی معتمدی

 سوا دو برس کی خلافت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے وفات پائی اورحضرت عمرؓ مسند آرائے خلافت ہوئے، حضرت عمرؓ بڑی بڑی مہمات میں حضرت علی ؓ کے مشورے کے بغیر کام نہیں کرتے تھے اورحضرت علی ؓ بھی نہایت دوستانہ اورمخلصانہ مشورے دیتے تھے، نہاوند کے معرکہ میں ان کو سپہ سالار بھی بنانا چاہا تھا ؛لیکن انہوں نے منظور نہیں کیا، بیت المقدس گئے تو کاروبارِخلافت انہی کے ہاتھ دے کر گئے،اتحاد ویگانگت کاعالم اخیر مرتبہ یہ تھا کہ باہم رشتہ مصاہرت قائم ہو گیا، یعنی حضرت علی ؓ کی صاحبزادی ام کلثوم ؓ حضرت عمر ؓ کے نکاح میں آئیں۔ 

حضرت عثمان ؓ  کی معتمدی

فاروق اعظم ؓ کے بعد حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں فتنہ و فساد شروع ہوا تو حضرت علی ؓ نے ان کو رفع کرنے کے لیے ان کو نہایت مخلصانہ مشورے دیے، ایک دفعہ حضرت عثمان ؓ نے ان سے پوچھا کہ ملک میں موجودہ شورش وہنگامہ کی حقیقی وجہ اوراس کے رفع کرنے کی صورت کیاہے؟ انہوں نے نہایت خلوص اورآزادی سے ظاہر کر دیا کہ موجودہ بے چینی تمام تر آپ کے عمال کے بے اعتدالیوں کا نتیجہ ہے، حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ میں نے عمال کے انتخاب میں انہی صفات کو ملحوظ رکھا ہے جو فاروق اعظم ؓ کے پیش نظر تھے، پھر ان سے عام بیزاری کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی؟ جناب علی مرتضی ؓ نے فرمایا ہاں! یہ صحیح ہے کہ حضرت عمرؓ نے سب کی نکیل اپنےہاتھ میں لے رکھی تھی اور گرفت ایسی سخت تھی کہ عرب کا سرکش سے سرکش اونٹ بھی بلبلااٹھا برخلاف اس کے آپ ضرورت سے زیادہ نرم دل ہیں، آپ کے عمال اس نرمی سے فائدہ اٹھا کر من مانی کارووائیاں کرتے ہیں اورآپ کو خبر بھی نہیں ہونے پاتی، رعایا سمجھتی ہے کہ عمال جو کچھ کرتے ہیں وہ سب دربارِ خلافت کے احکام کی تعمیل ہے، اس طرح تمام بے اعتدالیوں کا ہدف آپ کو بننا پڑا۔ 
 مصری وفد کا معاملہ پیش آیاتو حضرت عثمان ؓ نے ان سے اصرار کیا کہ اپنی وساطت سےا س جھگڑے کا تصفیہ کرادیں اور انقلاب پسند جماعت کو راضی کرکے واپس کر دیں، پہلے تو انہوں نے انکار کیا ؛لیکن پھر معاملہ کی اہمیت اورحضرت عثمان ؓ کے اصرار سے مجبور ہوکر درمیان میں پڑے اورحضرت عثمان ؓ سے اصلاحات کا وعدہ لیکر انقلاب پسندوں کو اپنی ذمہ داری پر واپس کر دیا، مصری وفد کے ارکان ابھی راہ ہی میں تھے کہ ان کو سرکاری قاصد کی تلاشی سے ایک فرمان ہاتھ آیا جس میں حاکم مصر کو ہدایت کی گئی تھی کہ اس وفد کے تمام شرکاء کو تہ تیغ کر دیا جائے، مصری اس غداری سے غضبناک ہوکر واپس آئے اورحضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ ایک طرف تو آپ نے ہم کو اصلاحات کا اطمینان دلا کر واپس کیا اور دوسری طرف سے دربارِ خلافت کا یہ غدار انہ فرمان جاری ہوا، حضر علی ؓ نے فرمان دیکھا تو تعجب ہوئے اورحضرت عثمان ؓ کے پاس جاکر اس کی حقیقت دریافت کی، انہوں نے اس سے حیرت کے ساتھ لا علمی ظاہر کی۔ حضرت علی ؓ نے کہا مجھے بھی آپ سے ایسی توقع نہیں ہوسکتی تھی لیکن اب میں آئندہ کسی معاملہ میں نہ پڑوں گا؛چنانچہ اس کے بعد وہ بالکل عزلت نشین ہو گئے۔ 
مصریوں نے جوش انتقام میں نہایت سختی کے ساتھ کاشانۂ خلافت کا محاصرہ کر لیا اورآخر میں یہاں تک شدت اختیار کی کہ آب ودانہ سے بھی محروم کر دیا، حضرت علی ؓ کو معلوم ہوا تو عزلت گزینی اورخلوت نشینی کے باوجود محاصرہ کرنے والوں کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایا کہ تم لوگوں نے جس قسم کا محاصرہ قائم کیا ہے وہ نہ صرف اسلام ؛بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے، کفار بھی مسلمانوں کو قید کرلیتے ہیں توآب ودانہ سے محروم نہیں کرتے، اس شخص نے تمہارا کیا نقصان کیا ہے جو ایسی سختی روارکھتے ہو؟ محاصرین نے حضرت علی ؓ کی سفارش کی کچھ پروا نہ کی اور محاصرہ میں سہولت پیدا کرنے سے قطعی انکار کر دیا حضرت علی ؓ غصہ میں اپنا عمامہ پھینک کر واپس چلے آئے۔ محاصرہ اگرچہ نہایت سخت تھا تاہم حضرت علی ؓ کو اس کا وہم بھی نہ تھا کہ یہ معاملہ اس قدر طول کھینچے گا کہ شہادت تک نوبت پہنچے گی، وہ سمجھے جس طرح حقوق طلبی کے متواتر مظاہرے ہوتے رہے ہیں، یہ بھی اسی قسم کا ایک سخت مظاہرہ ہے، تاہم اپنے دونوں صاحبزادوں کواحتیاطاً حفاظت کے لیے بھیج دیا، جنھوں نے نہایت تندہی اور جانفشانی کے ساتھ مدافعت کی، یہاں تک کہ اسی کشمکش میں زخمی ہوئے ؛لیکن کثیر التعداد مفسدین کا روکنا آسان نہ تھا، وہ دوسری طرف سے دیوار پھاند کر اندر گھس آئے اور خلیفہ وقت کو شہید کرڈالا، حضرت علی ؓ کو معلوم ہوا تو اس سانحہ جانکاہ پرحددرجہ متاسف ہوئے اورجولوگ حفاظت پر مامور تھے، ان پر سخت ناراضی ظاہرکی، حضرت امام حسن ؓ اورامام حسین ؓ ، محمد بن طلحہ ؓ اورعبداللہ بن زبیر ؓ کو برابھلا کہا کہ تم لوگوں کی موجود گی میں یہ واقعہ کس طرح پیش آیا۔

خلافت

حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد تین دن تک مسند خلافت خالی رہی، اس عرصہ میں لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اس منصب کے قبول کرنے کے لیے سخت اصرار کیا، انہوں نے پہلے اس بارِ گراں کے اٹھانے سے انکار کر دیا ؛لیکن آخر میں مہاجرین وانصار کے اصرار سے مجبور ہوکر اٹھانا پڑا،اور اس واقعہ کے تیسرے دن 21/ذی الحجہ دوشنبہ کے دن مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جناب علی مرتضی ٰ کے دست اقدس پر بیعت ہوئی۔ مسند نشین خلافت ہونے کے بعد سب سے پہلے کام حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کا پتہ چلانا اور ان کو سزا دیناتھا؛لیکن دقت یہ تھی کہ شہادت کے وقت صرف ان کی بیوی نائلہ بنت الفرافصہ موجود تھیں جو اس کے سوا کچھ نہ بتاسکیں کہ محمد بن ابی بکر ؓ دو آدمیوں کے ساتھ جن کو وہ پہلے سے پہنچانتی نہیں تھیں، اندر آئے، حضرت علی ؓ نے محمد بن ابی بکر ؓ کو پکڑا تو انہوں نے قسم کھا کر اپنی برات ظاہر کی کہ وہ قتل کے ارادے سے ضرور داخل ہوئے تھے ؛لیکن حضرت عثمان ؓ کے جملہ سے محجوب ہوکر پیچھے ہٹ آئے، البتہ ان دونوں نابکاروں نے بڑھ کر حملہ کیا جن کووہ بھی نہیں جانتے کہ کون تھے؟ حضرت نائلہ ؓ نے بھی اس بیان کی تصدیق کی کہ محمدبن ابی بکر ؓ شریک نہ تھے،
حضرت علی ؓ کے نزدیک اس انقلاب کا اصلی سبب عمال کی بے اعتدالیاں تھیں اور بڑی حد تک یہ صحیح بھی ہے اس لیے آپ نے تمام عثمانی عمال کو معزول کرکے عثمان بن حنیف کو بصرہ کا عامل مقرر کیا، عمارہ بن حسان کو کوفہ کی حکومت سپرد کی، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو یمن کی ولایت پر مامور کیا اورسہل کو حکومت شام کافرمان دے کر روانہ کیا، سہل تبوک کے قریب پہنچے تو امیر معاویہ ؓ کے سوار مزاحم ہوئے اوران کو مدینہ جانے پر مجبور کیا، اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا کہ ان کی خلافت جھگڑوں سے پاک نہیں ہے۔ حضرت علی ؓ نے امیر معاویہ ؓ کو لکھا کہ مہاجرین وانصار نے اتفاق عام کے ساتھ میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اس لیے یا تو میر ی اطاعت کرویا جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ

جنگِ جمل:

جمل نر (male) اونٹ کو کہا جاتا ہے،جنگ جمل اسلئے کہ اس جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سُرخ اونٹ پر سوار تھیں۔یہ جنگ36ھ، بصرہ میں، غلط فہمی کی وجہ سے ماں بیٹے کے درمیان ہوئی کیونکہ حضورﷺ کے دامادحضرت علی رضی اللہ عنہ اور بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہیں۔
ازواج مطہّرات حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اور دیگر حج کے لئے مکّہ آئیں ہوئیں تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ مکہ سے مدینہ واپس ہورہی تھیں، راستہ میں ان کے ایک عزیز ملے تو معلوم ہوا کہ عثمان ؓ شہید کر دیے گئے اور علی ؓ خلیفہ منتخب ہوئے ؛لیکن ہنوز فتنہ کی گرم بازاری ہے، یہ خبر سن کر پھر مکہ واپس ہوگئیں، لوگوں نےواپسی کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ عثمان ؓ مظلوم شہید کر دیے گئے اورفتنہ دبتا ہوا نظر نہیں آتا۔
بصرہ کے سبائیوں (عبداللہ بن سبا کی جماعت کے لوگ اور قاتلین حضرت عثمانؓ تھے) کی طرف سے ان کو خط بھجوائے گئے کہ علیؓ قاتلینِ عثمانؓ کو سزا دینے سے انکاری ہیں اور امّہات المومنین ہونے کی حیثیت سے آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ اپنے ’بچے‘ عثمانؓ کے قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کریں۔ نیز اگر امّہات المومنینؓ بصرہ آئیں گی تو اُن کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔
حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد مدینہ میں فتنہ و فساد کے آثار دیکھ کر حضرت طلحہ ؓ اور زبیر بھی حضرت علی ؓ سے اجازت لے کر مکہ چلے گئے تھے، حضرت عائشہ ؓ نے ان سے بھی وہاں کے حالات دریافت کیے، انہوں نے بھی شوروغوغہ کی داستان سنائی۔ واقعات کی ترتیب اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعض سیاسی تسامح نے عام طورپر ملک میں بدنظمی پیداکردی تھی، حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کا پتہ نہ چلنا ان کے اعداء کو اپنا معاون وانصار بنانا اورمسند خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ تمام عمال کو برطرف کردینا لوگوں کو بدظن کردینے کے لیے کافی تھا، انہی بدگمانیوں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو بھی حضرت عثمان ؓ کے قصاص پر آمادہ کر دیا اورانہوں نے خلیفہ مظلوم کے قصاص کی دعوت شروع کردی۔ بعد ازاں حضرت عائشہؓ اپنے کچھ قریبی عزیزوں کے ہمراہ عراق روانہ ہوگئیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو  معلوم ہوا تو آپ نے بھی اس خیال سے عراق کا قصد کیا وہاں مخالفین سے پہلے پہنچ کر بیت المال کی حفاظت کا انتظام کریں اوراہل عراق کو وفاداری کا سبق دیں، انصارکرام کو اس ارادہ کی خبر ہوئی تو وہ بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے اورحضرت عقبہ بن عامر ؓ نے جو بڑے پایہ کے صحابی اورغزوہ بدر میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہ چکے تھے، انصار کی جانب سے گزارش کی کہ دار الخلافہ چھوڑ کر جانا کسی طرح مناسب نہیں ہے، عمر فاروق ؓ کے عہد میں بڑی بڑی جنگیں پیش آئیں ؛لیکن انہوں نے کبھی مدینہ سے باہر قدم نہیں نکالا، اگر اُس وقت خالد ؓ، ابوعبیدہ ؓ، سعدوقاص ؓ، ابو موسیٰ اشعری ؓ نے شام وایران کو تہ وبالا کر دیا تھا تو اِس وقت بھی ایسے جانبازوں کی کمی نہیں، حضرت علی ؓ نے فرمایا، یہ صحیح ہے ؛لیکن عراق پر مخالفین کے تسلط سے نہایت دشواری پیش آئے گی وہ اس وقت مسلمانوں کی بہت بڑی نوآبادی ہے وہاں کے بیت المال بھی مال وزر سے پر ہیں، اس لیے میرا وہاں موجود رہنا نہایت ضروری ہے اور مدینہ میں عام منادی کرادی کہ لوگ سفر عراق کے لیےتیار ہوجائیں، چند محتاط صحابہ کے سوا تقریباً ًاہل مدینہ ہمرکاب ہوئے۔
 ذی قار پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت طلحہ ؓ اورزبیر ؓ سبقت کرکے بصرہ پہنچ گئے ہیں اور بنو سعد کے علاوہ تقریباً تمام بصرہ والوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ حضرت علی ؓ نے ذی قار میں قیام کیا اور حضرت امام حسن ؓ کو حضرت عماربن یاسر ؓ کے ساتھ کوفہ روانہ کیا کہ لوگوں کو مرکز خلافت کی اعانت پر آمادہ کریں، حضرت امام حسن ؓ کوفہ پہنچے اور لوگوں کو حضرت علی ؓ کی اعانت پر آمادہ کیا۔ دوسرے دن صبح کے وقت تقریباً ساڑھے نوہزار جانبازوں کی ایک جماعت مسلح ہوکر حضرت امام حسن ؓ کے ساتھ روانہ ہوئی اور مقام ذی قار میں امیر المومنین کی فوج سے مل گئی جس نے بصرہ کا رخ کیا،
اس وقت بصرہ کا یہ حال تھا کہ وہ تین گروہوں میں منقسم تھا، ایک خاموش اورغیر جانبدار تھا، دوسراحضرت علی ؓ کا طرف دار تھا اور تیسرا حضرت عائشہ ؓ اورحضرت طلحہ ؓ وغیرہ کا حامی، خانہ جنگی کی یہ تیاریاں دیکھ کر پہلی جماعت نے مصالحت کی بڑی کوشش کی ؛بلکہ ہرفریق کے نیک نیک لوگ اس کی تائید میں تھے، حضرت علی ؓ اورحضرت عائشہ ؓ دونوں چاہتے تھے کہ جنگ کی نوبت نہ آنے پائے اورکسی طرح باہمی اختلافات دور ہوجائیں، صلح کی گفتگو ترقی پر تھی اور فریقین جنگ کے تمام احتمالات دلوں سے دور کرچکے تھے اور رات کے سناٹے میں ہر فریق آرام کی نیند سو رہا تھا،
دونوں فریقوں میں کچھ ایسے عناصر شامل تھے جن کے نزدیک یہ مصالحت ان کے حق میں سم قاتل تھی، اُنہوں نے اندازہ لگا لیا تھا اگر یہ مصالحت کامیاب ہو گئی تو ان کی خیر نہیں، اس لیے انہوں نے رات کی تاریکی میں حضرت عائشہ ؓ کی فوج پر شبخون مارا، گھبراہٹ میں فریقین نے یہ سمجھ کر کہ دوسرے فریق نے دھوکا دیا، ایک دوسرے پر حملہ شروع کر دیا، حضرت عائشہ ؓ اونٹ پر آہنی ہودہ رکھواکر سوار ہوئیں کہ وہ اپنی فوج کو اس حملہ سے روک سکیں، حضرت علی ؓ نے بھی اپنے سپاہیوں کو روکا مگر جو فتنہ پھیل چکا تھا وہ نہ رک سکا۔
حضرت علی ؓ نے دیکھا کہ جب تک اونٹ کو بٹھایا نہ جائے گا مسلمانوں کی خونریزی رک نہیں سکتی، اس لیے آپ کے اشارے سے ایک شخص نے پیچھے سے جاکر اونٹ کے پاؤں پر تلوار ماری،تو اونٹ بلبلا کر بیٹھ گیا۔اونٹ کے بیٹھتے ہی حضرت عائشہ ؓ کی فوج کی ہمت چھوٹ گئی اورحضرت علی ؓ کے حق میں جنگ کا فیصلہ ہو گیا، آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے بھائی محمد بن ابی بکر ؓ کو جو حضرت علی ؓ کے ساتھ تھے، حکم دیا کہ اپنی ہمشیرہ محترمہ کی خبر گیری کریں اورعام منادی کرادی کہ بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے، زخمیوں پر گھوڑے نہ دوڑائے جائیں مالِ غنیمت نہ لوٹا جائے، جو ہتھیار ڈال دیں وہ مامون ہیں، پھر خودام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس حاضر ہوکر مزاج پرسی کی اوربصرہ میں چند دن تک آرام وآسائش سے ٹھہرانے کے بعد محمد بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ عزت واحترام کے ساتھ مدینہ بھیج دیا، بصرہ کی چالیس شریف ومعزز خواتین کو پہنچانے کے لیے ساتھ کیا اوررخصت کرنے کے لیے خود چند میل تک ساتھ گئے اورایک منزل تک اپنے صاحبزادوں کو مشائعت کے لیے بھیجا۔ حضرت عائشہ ؓ نے رخصت ہوتے وقت لوگوں سے فرمایا کہ میرے بچو!ہماری باہمی کشمکش محض غلط فہمی کا نتیجہ تھی، ورنہ مجھ میں علی ؓ میں پہلے کوئی جھگڑانہ تھا، حضرت علی ؓ نے بھی مناسب الفاظ میں تصدیق کی اورفرمایا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم اورہماری ماں ہیں، ان کی تعظیم وتوقیر ضروری ہے۔ انہی دنوں حضرت عائشہؓ کا ایک خط مشتہر ہوگیا جس میں لوگوں کو حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت پر بھڑکایا گیا تھا۔ جب یہ خط حضرت عائشہؓ کے علم میں آیا تو آپؓ نے کہا: قسم اس ذات کی جس پر ایمان لانے والے یقین رکھتے ہیں اور فتنہ گر انکار کرتے ہیں، میں نے اس جگہ بیٹھنے تک کبھی ان لوگوں کو کچھ نہیں لکھا۔
جنگ جمل میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد کے بارہ میں اختلاف ہے۔ ابو خَیثَمَہ نے وَہب بن جَریر سے نقل کیا ہے کہ اہلِ بصرہ کے اڑھائی ہزار افراد مارے گئے۔ اسی طرح اصحاب جمل کے مارے گئے سپاہیوں کی تعداد چھ ہزار سے پچیس ہزار کے درمیان لکھی گئی ہے۔ جبکہ حضرت علیؓ کے لشکر میں سے چار صد سے پانچ ہزار افراد کی شہادت کا ذکر مختلف کتب میں کیا گیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں طرف کے صحابہ کرام کو مسلمان اور جنتی ڈکلئیرکر کے نماز جنازہ ادا کی، کسی بھی صحابی عورت یا مرد کو غلام اور لونڈی نہیں بنایا گیا اور مال غنیمت تقسیم نہیں ہوا

دار الحکومت کی مدینہ سے عراق منتقلی

جنگ جمل کے واقعات سے سمجھ آئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل طاقتور، جہاندیدہ، حکومتیں گرانے کے ماہر اور پراپیگنڈہ ان کا بہترین ہتھیار تھا۔ شہادت عثمان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی کا مشورہ نہیں مانا اور باب العلم ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے مکہ و مدینہ کو محفوظ بنانے کے لئے دارالحکومت کوفہ کو مقرر کیا اور خود وہاں تشریف لے گئے کیونکہ فوج اور فوجی چھاؤنی بھی وہاں تھی، باغی تحریک کا مرکز بھی وہاں تھا، اسلئے اب باغی بھی سارے وہیں تھے اور یہ کمال دانشمندی تھی
حضرت علی ؓ نے کوفہ میں قیام فرما کر ملک کا ازسرنونظم ونسق قائم کیا، حضرت عبد اللہ بن عباس کو بصرہ کی ولایت سپردکی، مدائن پر یزید بن قیس، اصفہان پر محمد بن سلیم، کسکر پرقدامہ بن عجلان ازدی، ہجستان پر ربعی بن کاس اور تمام خراسان پر خلیدبن کا س کو مامور کرکے بھیجا، خلید خراسان پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ خاندان کسریٰ کی ایک لڑکی نے نیشا پور پہنچ کر بغاوت کرادی ہے؛چنانچہ انہوں نے نیشاپور پر فوج کشی کرکے بغاوت فرو کی۔

جنگ ِ صفین

جنگ جمل کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو بالعموم تسلیم کر لیا گیا اور لوگوں نے آپ کی بیعت کرنا شروع کر دی۔ صرف ایک شام کا صوبہ ایسا تھا جس نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی یا پھر صحابہ کرام کا ایک گروہ، جس میں حضرت سعد بن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ، عبداللہ بن عمر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم جیسے لوگ تھے، غیر جانبدار ہو کر مدینہ میں مقیم تھا۔ حضرت علی نے حضرت معاویہ کے ساتھ خط و کتابت شروع کی ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینے کے مسئلے پر امت دو حصوں میں بٹ گئی تھی ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ صحابہ کی جماعت کا یہ موقف تھا کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اس وقت کر یں گے جب تک عثمان رضی اللہ عنہ کے خون ناحق کا قصاص لیا جائے گا ، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ تھا کہ یہ لوگ بیعت کرلیں پھر بعد میں جب حالات سازگار ہوجائیں گے تو قصاص لے لیا جائے گا۔معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھیوں کا موقف یہ تھا کہ چونکہ قاتلین عثمان ہی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت قبول کرنے پر مجبور کرکے سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ملک کے انتظام و تدبیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تمام فیصلوں میں وہ پوری طرح دخیل ہیں اسی لئے حضرت علی رضی اللہ نہ خون عثمان کا قصاص لے پارہے ہیں اور نہ ہی اس صورتحال کے برقرار رہتے ہوئے وہ قصاص لے سکیں گے ، لہذا فتنہ کے سدباب کی بس یہی صورت ہے کہ یا تو وہ خود قصاص لیکر ان قاتل سبائیوں سے اپنی گلو خلاصی کریں یا پھر ان قاتلوں کو ہمارے حوالہ کردیں تاکہ ہم انکو کیفرکردار تک پہنچا کر پوری ملت اسلامیہ کے زخمی دلوں کو سکون پہنچا سکیں،
اسی اثناء میں مدینہ سے ایک جعلی خط پورے عالمِ اسلام میں بھیجا گیا جس میں کہا گیا کہ علیؓ نے خلیفہ بننے کے لیے عثمانؓ کو قتل کرایا ہے اور اسی لئے قاتلینِ عثمانؓ سے کوئی تعرض نہیں کیا جارہا۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو اس الزام پر یقین آنے لگا۔ دوسری طرف سبائیوں نے شام سے حضرت علیؓ کو خطوط لکھے کہ معاویہؓ اپنی خلافت کی منصوبہ بندی کررہے ہیں اور راہِ اسلام سے بھی ہٹ گئے ہیں۔ اس پر حضرت علیؓ نے حضرت معاویہؓ سمیت تمام صوبائی گورنروں کو لکھا کہ وہ نہ صرف خود نئے خلیفہ کی بیعت کریں بلکہ اپنے اپنے صوبوں میں بھی خلیفہ کے لیے بیعت لیں۔ پھر آپؓ نے ایک دوسرے خط میں معاویہؓ کو گورنر کے منصب سے معزول کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ چارج نئے گورنر کے حوالے کر دیں۔ سبائیوں نے اس موقع پر حضرت معاویہؓ کو حضرت علیؓ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے حضرت علیؓ کے خط کا جواب نہایت نرمی سے یہ دیا کہ جب قاتلینِ عثمانؓ کو گرفتار کرکے سزا دیدی جائے گی تو وہ بھی بیعت کر لیں گے۔
بلوائیوں/ سبائیوں/قاتلان عثمان کی ریشہ دوانیوں اور کوششوں سے ان دونوں گروہوں میں اختلاف بڑھتے گئے- مصالحت اورخانہ جنگی کے سدباب کی تمام تر کوششیں ناکام رہیں اورحضرت علی ؓ  نے تمام عمال وحکام کو دوردراز حصص کو بلایا اورتقریباًاسی ہزار کی جمعیت کے ساتھ حدودشام کا رخ کیا ۔ 37ھ جولائی 657ء میں خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب اور شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان ایک جنگ دریائے فرات کے کنارے صفین کے مقام پر علاقے میں ہوئی جو اب ملک شام میں شامل ہے اور الرقہ (اردو میں رقہ) کہلاتا ہے۔  علاقہ کے نام  کی بنا پر اس جنگ کو جنگ صفین کہا جاتا ہے۔ میں شامی افوج کے 45000 اور خلیفہ کی افواج کے 25000 افراد مارے گئے۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔
 جنگ صفین جب زوروں پر تھی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نےدونوں طرف ہونے والے مسلمانوں کے اس جانی نقصان سے بچنے کے لیے حضرت علی کو قرآن پر مصالحت کی دعوت دی جس کو انہوں نے فورا منظور کرلیا اور دونوں طرف جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔
معاہدہ لکھا گیا اوردونوں طرف کے سربرآوردہ آدمیوں نے دستخط کرکے اس کو موثق کیا، معاہدہ کا خلاصہ یہ ہے۔ ‘‘علی ؓ، معاویہ ؓ اوران دونوں کے طرفدار باہمی رضا مندی کے ساتھ عہد کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعری ؓ ) اورعمروبن العاص قرآن پاک اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جو فیصلہ کریں گے اس کے تسلیم کرنے میں ان کو پس و پیش نہ ہوگا، اس لیے دونوں حکم کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ قرآن اورسنت نبوی کو نصب العین بنائیں اورکسی حالت میں اس سے انحراف نہ کریں، حکم کی جان اوران کا مال محفوظ رہے گا اوران کے حق فیصلہ کی تمام امت تائید کرے گی، ہاں اگر فیصلہ کتاب اللہ اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوگا تو تسلیم نہیں کیا جائے گا اورفریقین کو اختیار ہوگا کہ پھر ازسرنوجنگ کو اپنا حکم بنائیں۔

جنگ نہروان

جنگ نہروان خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب اور خوارج کے درمیان سنہ 38 ہجری کو ماہ صفر میں لڑی گئی۔ خوارج کوفہ کے زاہدوں کی ایک جماعت تھی، جو علی بن ابی طالب کی اطاعت سے اس وقت نکل گئے جب علی بن ابی طالب اور امیر معاویہ کے درمیان میں دو فیصلہ کرنے والوں کو مقرر کیا گیا۔ خوارج کا کہنا  تھا:
 "حکم صرف اللہ کا ہے" 
علی بن ابی طالب نے فرمایا : یہ کلمہ برحق ہے لیکن انس سے جس معنی کا ارادہ کیا گیا ہے وہ باطل ہے۔
خارجیوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت امام علی المرتضی خلیفہ برحق تھے۔ ان کی بیعت ہر مسلمان پر لازم تھی۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا وہ اللہ اور رسول اللہ کے دشمن تھے۔ اس لیے امیر معاویہ اور ان کے حامی کشتنی اور گردن زدنی ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی صلح کرنا ازروئے قرآن کفر ہے۔حضرت امام علی نے چونکہ ان کے ساتھ مصالحت کرنے اور حکم قرآنی میں ثالث بنانے کا جرم کیا ہے۔ اس لیے ان کی خلافت بھی ناجائز ہوگئ ہے
 خوارج کی تعداد بارہ ہزار تھی، انہوں نےعلی بن ابی طالب کی خلافت کا انکار کیا اور اپنی مخالفت کا جھنڈا نصب کر دیا اور خون ریزی اور ڈاکے مارنا شروع کر دیے علی المرتضی نے فرمایا کہ یہ لوگ اپنے فیصلہ سے رجوع کر لیں۔ مگر یہ لوگ جنگ کرنے کے سوا کسی بات سے راضی نہیں ہوئے۔ پھر علی المرتضی نے نہروان کے علاقہ میں ان سے جنگ کی، نہروان بغداد کے قریب ایک شہر ہے، علی المرتضی نے ان میں سے اکثر کو قتل کر دیا۔ دس بارہ خارجی بچ گئے۔  جن میں ایک عبدالرحمن بن ملجم بھی تھا جس نے بعد ازاں علی المرتضی ؓ  کو شہید کیا

شہادت

نہروان کے بعد چند خارجیوں نے حج کے موقع پر مجمتع ہوکر مسائل حاضرہ پر گفتگو شروع کی اوربحث ومباحثہ کے بعد بالاتفاق یہ رائے قرار پائی خارجی نظریات کی ترویج کے لیے کہ تین آدمیوںعلی ؓ، معاویہ ؓ، اورعمروبن العاص ؓ کوصفحہ ہستی سے مٹانا نا گزیر ہے
چنانچہ تین آدمی ان تینوں کے قتل کرنے کے لیے تیار ہو گئے، عبدالرحمن بن ملجم نے کہا کہ میں علی ؓ کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں، اسی طرح نزال نے معاویہ ؓ اور عبد اللہ نے عمروبن العاص کے قتل کا بیڑا اٹھایا، اورتینوں اپنی اپنی مہم پر روانہ ہو گئے، کوفہ پہنچ کر ابن ملجم کے ارادہ کو قطام نامی ایک خوب صورت خارجی عورت نے اورزیادہ مستحکم کر دیا، اس مہم میں کامیاب ہونے کے بعد اس سے شادی کا وعدہ کیا ۔ 19 رمضان 40ھ ( 660ء ) میں تینوں نے ایک ہی روز صبح کے وقت تینوں بزرگوں پر حملہ کیا، امیر معاویہ ؓ اور عمروبن العاص ؓ اتفاقی طورپر بچ گئے، امیر معاویہ ؓ پر وار اوچھاپڑا، عمروبن العاص اس دن امامت کے لیے نہیں آئے تھےایک اورشخص جو ان کا قائم مقام ہوا تھا وہ عمروبن العاص کے دھوکا میں مارا گیا۔
مسجد کوفہ میں حضرت علی مرتضیٰؓ کا سرسجدہ میں اور دل رازونیاز الہی میں مصروف تھا کہ عبد الرحمن بن ملجم  آپ کی پشت طرف سے سے سر مبرک پر زہر بجھی تلوار سے وار کرکےآپ ؓ کو زخمی کردیا۔ دو روز تک حضرت علیؓ بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخرکار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہرنجف میں مرجع الخلائق ہے۔

اہم خدمات:

فوجی انتظامات
حضرت علی ؓ خود ایک بڑے تجربہ کار جنگ آزما تھے اورجنگی امور میں آپ کو پوری بصیرت حاصل تھی، اس لیے اس سلسلہ میں آپ نے بہت سے انتظامات کیے؛چنانچہ شام کی سرحد پر نہایت کثرت کے ساتھ فوجی چوکیاں قائم کیں،ایران میں مسلسل شورش اوربغاوت کے باعث بیت المال، عورتوں اوربچوں کی حفاظت کے لیے نہایت مستحکم قلعے بنوائے، اصطخر کا قلعہ حصن زیاد اسی سلسلہ میں بنا تھا، جنگی تعمیر کے سلسلہ میں دریائے فرات کا پل بھی جو معرکہ صفین میں فوجی ضروریات کے خیال سے تعمیرکیاتھا لائق ذکر ہے۔

مذہبی خدمات
امام وقت کا سب سے اہم فرض مذہب کی اشاعت، تبلیغ اورخود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم وتلقین ہے، حضرت علی ؓ عہد نبوت ہی سے ان خدمات میں ممتاز تھے؛چنانچہ یمن میں اسلام کی روشنی ان ہی کی کوشش سے پھیلی تھی، سورہ ٔبرأۃ نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ واشاعت کی خدمت بھی ان ہی کے سپرد ہوئ

تعزیزی سزائیں
حضرت علی ؓ نے جو بعض غیر معمولی سزائیں تجویز کیں وہ دراصل تعزیزی سزائیں تھیں، حضرت عمرؓ نے بھی اس قسم کی سزائیں جاری کی تھیں؛چنانچہ ان کے عہد میں ایک شخص نے رمضان میں شراب پی تو اسی کوڑوں کی بجائے سوکوڑے لگوائے، کیونکہ اس نے بادہ نوشی کے ساتھ رمضان کی بھی بےحرمتی کی تھی۔

تفسیر اور علوم القرآن
اسلام کے علوم ومعارف کا اصل سرچشمہ قرآن پاک ہے، حضرت علی مرتضیٰ ؓ اس سرچشمہ سے پوری طرح سیراب اوران صحابہ میں تھے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں نہ صرف پورا قرآن زبانی یاد کر لیا تھا ؛بلکہ اس کی ایک ایک آیت کے معنی اورشان نزول سے واقف تھے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو ظاہری علوم کے علاوہ کچھ خاص باتیں اوربھی بتائی ہیں، ان کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ کیا قرآن کے سوا کچھ اوربھی آپ کے پاس ہے؟فرمایا قسم ہے اس کی جو دانہ کو پھاڑ کر درخت اُگاتا ہے اورجو جان کو (جسم کے اندر)پیداکرتا ہے،قران کے سوا میرے پاس کچھ اورنہیں ؛لیکن قرآن کے سمجھنے کی قوت(فہم) یہ دولت خدا جس کو چاہے دے،

علم حدیث
جناب مرتضیٰ ؓ بچپن سے لے کر وفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک تیس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ورفاقت میں بسر کیے، اس لیے حضرت ابوبکر ؓ کو چھوڑ کر اسلام کے احکام وفرائض اورارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عالم آپ ہی تھے
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی تمام حدیثوں پر ایک اجمالی نظر ڈالی ہے اس میں وہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حلیہ اقدس، آپ کی نماز ومناجات ودعاونوافل کے متعلق سب سے زیادہ روایتیں حضرت علی ؓ ہی سے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر وقت رفاقت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رہتے تھے اور ان کو عبادتوں سے خاص شغف تھا۔ احادیث کو قلمبند کرنے کا شرف جن چند صحابہ کو حاصل ہے ان میں حضرت علی مرتضیٰ ؓ بھی داخل ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر آپ نے ایک لمبے کاغذ پر لکھ لیا تھا، یہ تحریر لپٹی ہوئی آپ کی تلوار کی نیام میں لٹکی رہتی تھی، اس کا نام آپ نے صحیفہ رکھا تھا، اس صحیفہ کا ذکر حدیث کی کتابوں میں آتا ہے، یہ حدیثیں چند فقہی احکام سے متعلق تھیں۔

فقہہ واجتہاد

حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو فقہ واجتہاد میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی، ؛بلکہ علم واطلاع کی وسعت سے دیکھا جائے تو آپ کی مستحضرانہ قوت سب سے اعلیٰ ماننی پڑے گی، بڑے بڑے صحابہ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ اورحضرت عائشہ ؓ کو بھی کبھی کبھی حضرت علی ؓ کے فضل وکمال کا ممنون ہونا پڑتا تھا ۔ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بار پاؤں دھونے کے بعد، کتنے دن تک موزوں پر مسح کرسکتے ہیں؟ فرمایا علی ؓ سے جاکردریافت کرو، ان کو معلوم ہوگا کیونکہ وہ سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے؛چنانچہ وہ سائل حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے پاس گیا، انہوں نے بتایا کہ مسافر تین دن تین رات تک اور مقیم ایک دن ایک رات تک ۔
ایک دفعہ امیر معاویہ ؓ نے لکھ کر دریافت کیا کہ خنثی مشکل کی وراثت کی کیا صورت ہے؟ یعنی وہ مرد قرار دیا جائے یا عورت؟ حضرت علی ؓ نے  جواب دیا کہ پیشاب گاہ سے اندازہ کرنا چاہیے کہ وہ مرد ہے یا عورت؟ فقہی مسائل میں حضرت علی ؓ کی وسعتِ نظر کی ایک وجہ یہ تھی ہے کہ آپ جو بات نہیں جانتے تھے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے تھے بعض ایسے مسائل جو شرم وحیا اوراپنے رشتہ کی نزاکت کے باعث خود براہ راست نہیں پوچھ سکتے تھے اس کو کسی دوسرے کے ذریعہ سے پوچھوالیتے تھے؛چنانچہ مذی کا ناقص وضو ہونا آپ نے اسی طرح بالواسطہ دریافت کرایا تھا

قضااورفیصلے
حضرت مرتضیٰ ان ہی خصوصیات کی بنا پر مقدمات کے فیصلوں اورقضا کے لیے نہایت موزوں تھے اور اس کو صحابہ عام طورسے تسلیم کرتے تھے، حضرت عمرؓ فرمایاکرتے تھے کہ"اقضانا علی واقرأنا ابی"یعنی ہم میں مقدمات کے فیصلے کے لیے سب سے موزوں علی ہیں اور سب سے بڑے قاری ابی ہیں"
   آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہرشناس نگاہ نے حضرت علی ؓ کی اس استعداد وقابلیت کا پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا اورآپ کی زبان فیض ترجمان سے حضرت علی ؓ کو”اقضاہم علی”کی سند مل چکی تھی اورضرورت کے اوقات میں قضا کی خدمت آپ کے سپرد فرماتے تھے؛چنانچہ جب اہل یمن نے اسلام قبول کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے عہدہ قضاء کے لیے آپ کو منتخب فرمایا، حضرت علی ؓ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نئے نئے مقدمات پیش ہوں گے اورمجھے قضا کا تجربہ اورعلم نہیں، فرمایا کہ اللہ تعالی تمہاری زبان کو راہِ راست اور تمہارے دل کو ثبات واستقلال بخشے گا، حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مقدمات کے فیصلہ میں تذبذب نہ ہوا۔  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قضاء اورفصل مقدمات کے بعض اصول بھی تعلیم فرمائے؛چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا”علی !جب تم دو آدمیوں کا جھگڑا چکا نے لگو تو صرف ایک آدمی کا بیان سن کا فیصلہ نہ کرو، اس وقت تک اپنے فیصلے کو روکو جب تک دوسرے کا بیان بھی نہ سن لو۔ 
 مقدمات میں علم یقین کے لیے اہل مقدمہ اورگواہوں سے جرح اوران سے سوالات کرنا بھی آپ کے اصول قضا میں داخل تھا، ایک مرتبہ ایک عورت نے آپ کی عدالت میں اپنی نسبت جرم زنا کا اعتراف کیا، آپ نے اس سےپے درپے متعدد سوالات کیے، جب وہ آخر تک اپنے بیان پر قائم رہی تو اس وقت سزا کا حکم دیا، اسی طرح لوگوں نے ایک شخص کو چوری کے الزام میں پکڑ کر پیش کیا اور دو گواہ بھی پیش کر دیے آپ نے گواہوں کو دہمکی دی کہ اگر تمہاری گواہی جھوٹی نکلی تو میں یہ سزادوں گا اوریہ کروں گا اوروہ کروں گا، اس کے بعد کسی دوسرے کام میں مصروف ہو گئے، اس سے فراغت کے بعد دیکھا کہ دونوں گواہ موقع پاکر چل دیے، آپ نے ملزم کو بے قصور پاکر چھوڑدیا۔ 
 یمن میں آپ نے دو عجیب وغریب مقدمات کا فیصلہ کیا، یمن نیا نیا مسلمان ہوا تھا پرانی باتیں بھی تازہ تھیں، ایک عورت کا مقدمہ پیش ہوا، جس سے ایک ماہ کے اندر تین مرد خلوت کرچکے، نوماہ بعد اس کے لڑکا ہوا، اب یہ نزاع ہوئی کہ وہ لڑکا کس کا قراردیاجائے، ہر ایک نے اس کے باپ ہونے کا دعویٰ کیا، حضرت علی ؓ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس لڑکے کی دیت کے تین حصے کیے، پھر قرعہ ڈالا جس کے نام قرعہ نکلا، اس کے حوالہ کیا اوربقیہ دونوں کو دیت کے تین حصوں میں سے دوحصے اس سے لیکر دلوادیئے، گویا غلام کے مسئلہ پر اس کو قیاس کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت علی ؓ کا یہ فیصلہ سنا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا۔
دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ چند لوگوں نے شیر پھنسانے کے لیے کنواں کھودا تھا شیر اس میں گرگیا، چند اشخاس ہنسی مذاق میں ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے کہ اتفاق سے ایک کا پیر پھسلا اور وہ اس کنوئیں میں گرا، اس نے اپنی جان بچانے کے لیے بدحواسی میں دوسرے کی کمر پکڑلی وہ بھی سنبھل نہ سکا اورگرتے گرتے اس نے تیسرے کی کمر تھام لی، تیسرے نے چوتھے کو پکڑلیا، غرض چاروں اس میں گرپڑے اورشیرنے چاروں کو مارڈالا، ان مقتولین کے ورثاء باہم آمادہ جنگ ہوئے، حضرت علی ؓ نے ان کو اس ہنگامہ و فساد سے روکا اورفرمایا کہ ایک رسول کی موجودگی میں یہ فتنہ وفساد مناسب نہیں، میں فیصلہ کرتا ہوں، اگر وہ پسند نہ ہو تو دربارِ رسالت میں جا کر تم اپنا مقدمہ پیش کرسکتے ہو، لوگوں نے رضا مندی ظاہرکی، آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ جن لوگوں نے یہ کنواں کھودا، ان کے قبیلوں سے ان مقتولین کے خون بہا کی رقم اس طرح وصول کی جائے کہ ایک پوری، ایک ایک تہائی، ،ایک ایک چوتھائی اورایک آدھی، پہلے مقتول کے ورثاء کو ایک چوتھائی خوں بہا، دوسرے کو ثلث تیسرے کو نصف اورچوتھے کو پوراخوں بہادلایا۔ لوگ اس بظاہر عجیب وغریب فیصلہ سے راضی نہ ہوئے اورحجۃ الوداع کے موقع پر حاضر ہوکر اس فیصلہ کا مرافعہ(اپیل) عدالت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلہ کو برقراررکھا۔ روایت میں مذکور نہیں کہ یہ فیصلہ کس اصول پر کیا گیا تھا، صرف پہلے شخص کے متعلق اتنا ہے کہ اس کو چوتھائی اس لیے ملا کہ فورا ًاوپر سے گراتھا، ہمارا خیال ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ ؓ اس فیصلہ میں اس اصول کو پیش نظر رکھا ہے کہ یہ حادثے بالقصد قتل اوراتفاقی قتل کے درمیان میں ہیں، غرض قصد اورعدم قصد کے بیچ کی شکل ہے، اس لیے عدم قصد واتفاق اورقصد وارادہ ان دونوں میں اس کا حصہ جس مقتول میں زیادہ ہے اتنا ہی اس کو کم وبیش دلایا گیا، اس کے بعد وراثت کا اصول پیش نظر رہا، چونکہ یہ معاملہ چار آدمیوں کا تھا اس لیے کم سے کم رقم ایک چوتھائی مقرر کی، اس کے نکل جانے کے بعد تین آدمی رہ گئے تو اس کو تہائیوں پر تقسیم کرکے تیسرا حصہ یعنی ایک تہائی اس کو دلادیا، باقی دو بچے تو دوحصے کرکے نصف تیسرے کا مقرر کیا۔ اب غور کیجئے کہ اصل جرم ان لوگوں کا تھا جنھوں نے آبادی کے قریب کنواں کھود کر شیر پھنسانے کی غلطی کی تھی، اس لئےکسی متعین قاتل نہ ہونے کے سبب سے قسامت کے اصول سے خوں بہا کو ان کے کھودنے والوں اوران کے ہم قبیلوں پر عائد کیا، پہلا شخص گو اتفاقاً گرا مگر ایک دوسرے کو دکھیلنے کے نتیجہ کو بھی اس میں دخل تھا اس لیے پہلے شخص کے گرنے میں اتفاق کا زیادہ اورقصد کا بہت کم دخل تھا اس لئےوہ خوں بہا کاکم سے کم مستحق ٹھہرا، یعنی ایک چوتھائی پہلے نے دوسرے کو گویا بالقصد کھینچا، مگر غایت بدحواسی میں اس کو اپنے فعل کے نتیجہ کے سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں ملا، اس لیے پہلے کے مقابلہ میں اس میں اتفاق کا عنصر کم اورقصد کا کچھ زیادہ ہے، اس لیے وہ تہائی کا مستحق ہوا، دوسرے کو پہلے نتائج کو دیکھ کر اپنے فعل کے نتیجہ کے سوچنے سمجھنے کا موقع زیادہ ملا اس لیے اس میں اتفاق کے مقابلہ میں قصد کا عنصر زیادہ تھا اس لیے اس کو نصف دلایا گیا، تیسرے نے چوتھے کو کھینچا حالانکہ وہ سب سے دور تھا اورگذشتہ نتائج کو تیسرے نے خوب غور سے دیکھ لیا تھا، اس لیے وہ تمام تر قصد وارادہ سے گرایا گیا، نیز یہ کہ اس نے اپنے اپنے رفقا کی طرح کسی اورکے گرانے کا جرم بھی نہیں کیا اس لیے وہ پوری دیت کا مستحق تھا۔ 
ایک اور مقدمہ کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ فیصلہ آپ نے فرمایا، دو شخص (غالباًمسافر) تھے، ایک کے پاس تین روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس پانچ روٹیاں تھیں، دونوں مل کر ایک ساتھ کھانے کو بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک تیسرا مسافر بھی آگیا، وہ بھی کھانے میں شریک ہوا، کھانے سے جب فراغت ہوئی تو اس نے آٹھ درہم اپنے حصہ کی روٹیوں کی قیمت دے دی اور آگے بڑھ گیا، جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں اس نے سیدھا حساب یہ کیا کہ اپنی پانچ روٹیوں کی قیمت پانچ درہم لی اور دوسرے کو ان کی تین روٹیوں کی قیمت تین درہم دینے چاہے، مگر وہ اس پر راضی نہ ہوا اورنصف کا مطالبہ کیا، یہ معاملہ عدالت مرتضوی میں پیش ہوا، آپ نے دوسرے کو نصیحت فرمائی کہ تمہارا رفیق جو فیصلہ کررہا ہے اس کو قبول کرلو اس میں زیادہ تمہارا نفع ہے؛لیکن اس نے کہا کہ حق تو یہ ہے کہ تم کو صرف ایک درہم اورتمہارے رفیق کو سات درہم ملنے چاہیے، اس عجیب فیصلہ سے وہ متحیر ہو گیا، آپ نے فرمایا کہ تم تین آدمی تھے، تمہاری تین روٹیاں تھیں اور تمہارے رفیق کی پانچ، تم دونوں نے برابر کھائیں اور ایک تیسرے کو بھی برابر کا حصہ دیا، تمہاری تین روٹیوں کے حصے تین جگہ کیے جائیں تو 9 ٹکڑے ہوتے ہیں، تم اپنے 9 ٹکڑوں اوراس کے پندرہ ٹکڑوں کو جمع کرو تو 24 ٹکڑے ہوتےہیں، تینوں میں سے ہر ایک نے برابرٹکڑے کھائے اورایک تیسرے مسافر کو دیا اورتمہارے رفیق نے اپنےپندرہ ٹکڑوں میں سے آٹھ خود کھائے اور سات تیسرے کو دیے، اس لیے آٹھ درہم میں سے ایک کے تم اورسات کا تمہارا رفیق مستحق ہے۔ 
 کبھی کبھی کوئی لغو مقدمہ پیش ہوتا تو آپ زندہ دلی کا ثبوت بھی دیتے تھے، ایک شخص نے ایک شخص کو یہ کہہ کر پیش کیا کہ اس نے خواب میں دیکھا ہے کہ اس نے میری ماں کی آبروریزی کی ہے، فرمایا ملزم کو دھوپ میں لے جاکر کھڑا کرو، اس کے سایہ کو سوکوڑے مارو

علم اسرار وحکم
صحیح بخاری کی تعلیقات میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی مرتضی ؓ نے فرمایا
لوگوں سے وہی کہو جو سمجھ سکتے ہوں، کیا تم یہ پسند کرتے ہوکہ خدایاخداکا رسول جھٹلایاجائے۔ 
مقصود یہ ہے کہ اگران سے ایسی باتیں کی جائیں جو ان کے فہم سے بالاترہوں تو لامحالہ اپنی کوتاہ عقل سے وہ ان باتوں کو غلط سمجھیں گے اوراس طرح سے وہ نادانستگی میں خدااوررسول کی تکذیب کے جرم کے مرتکب ہوں گے، اس لیے لوگوں سے ان کی عقل کے موافق گفتگو کرنی چاہیے کہ ہر مصالح الہی ہر شخص کی سمجھ میں یکساں نہیں آسکتے ہیں۔ احکام اورروایات کے الفاظ اگر متعدد معنوں کے متحمل ہوں تو آپ کا یہ فیصلہ ہے کہ ان میں سے وہی معنی صحیح ہوں گے جو رسالت اورنبوت کی شان کے شایان ہوں، مسندابن حنبل کے مطابق اس روایت کے اصل الفاظ یہ ہیں:
 جب تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے معنی وہ سمجھو جو زیادہ قرین ھدایت، زیادہ پرہیز گارانہ اورزیادہ بہتر ہوں" 
موزوں پر مسح کرنا سنت ہے؛لیکن یہ مسح نیچے تلوؤں پر نہیں ؛بلکہ اوپر پاؤں پر کیا جاتا ہے،حضرت علیؓ کے مطابق: 
"ا گر دینی مسائل کا انحصار محض رائے پرہوتا تو تلوے اوپر کے پاؤں سے زیادہ مسح کے مستحق ہوتے"
حضرت علی مرتضی کا مقصود یہ ہے کہ چلنے کی وجہ سے اگر گردوغبار کے دورکرنے اورصفائی کی غرض سے یہ مسح ہوتا تو نیچے کے تلوؤں پر مسح ہوتا ؛لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے نہیں اوپر مسح فرمایا، اس لیے احکام الہی کے مصالح کی تعیین میں محض ظاہری عقل و رائے کو دخل نہیں ہے

تقریر وخطابت
تقریر وخطابت میں حضرت علی مرتضی ؓ کو خداداد ملکہ حاصل تھا اور مشکل سے مشکل مسائل پر بڑے بڑے مجمعوں میں فی البدیہہ تقریر فرماتے تھے، تقریریں نہایت خطیبانہ مدلل اورمؤثر ہوتی تھیں

علم نحو کی ایجاد
علم نحو کی بنیاد خاص حضرت علی ؓ کے دست مبارک سے رکھی گئی ہے، ایک دفعہ ایک شخص کو قرآن شریف غلط پڑھتے سنا، اس سے خیال پیدا ہوا کہ کوئی ایسا قاعدہ بنادیا جائے جس سے اعراب میں غلطی واقع نہ ہو سکے؛چنانچہ ابوالاسودوئلی کو چند قواعد کلیہ بتاکر اس فن کی تدوین پر مامور کیا، (فہرست ابن ندیم) اس طرح علم نحو کے ابتدائی اصول بھی آپ ہی کی طرف منسوب ہیں۔

امانت ودیانت
آپ ایک امین کے تربیت یافتہ تھے، اس لیے ابتدا ہی سے امین تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی امانتیں جمع رہتی تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو ان امانتوں کی واپسی کی خدمت حضرت علی ؓ کے سپرد فرمائی، اپنے عہد خلافت میں آپ نے مسلمانوں کی امانت بیت المال کی جیسی امانت داری فرمائی، اس کا اندازہ حضرت ام کلثوم ؓ کے اس بیان سے ہوسکتا ہے کہ ایک دفعہ نارنگیاں آئیں، امام حسن ؓ، امام حسین ؓ نے ایک نارنگی اٹھالی، جناب امیر ؓ نے دیکھا تو چھین کر لوگوں میں تقسیم کردی۔مال غنیمت تقسیم فرماتے تھے تو برابر حصے لگاکر غایت احتیاط میں قرعہ ڈالتے تھے کہ اگر کچھ کمی بیشی رہ گئی ہو تو آپ اس سے بری ہوجائیں، ایک دفعہ اصفہان سے مال آیا، اس میں ایک روٹی بھی تھی، حضرت علی ؓ نے تمام مال کے ساتھ اس روٹی کے بھی سات ٹکڑے کیے اورقرعہ ڈال کر تقسیم فرمایا، ایک دفعہ بیت المال کا تمام اندوختہ تقسیم کرکے اس میں جھاڑودی اوردورکعت نماز ادا فرمائی کہ وہ قیامت میں ان کی امانت ودیانت کی شاہد رہے

اصابت رائے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ صائب الرائے بھی تھے اورآپ کی ا صابت رائے پر عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے اعتماد کیا جاتا تھا؛چنانچہ آپ تمام مہماتِ امور میں شریک مشورہ کیے جاتے تھے، واقعہ افک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے راز داروں میں جن لوگوں سے مشورہ کیا، ان میں سے ایک حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی تھے، غزوہ طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اتنی دیر تک سرگوشی فرمائی کہ لوگوں کو اس پر رشک ہونے لگا۔ خلافت راشدہ کے زمانہ میں وہ حضرت ابوبکر وعمرؓ دونوں کے مشیر تھے؛چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مہاجرین وانصار کی جو مجلس شوریٰ قائم کی تھی، اس کے رکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی تھے، حضرت عمر فاروق ؓ نے اس مجلس کے ساتھ مہاجرین کی جو مخصوص مجلس شوریٰ قائم کی تھی اس کے اراکین کے نام اگرچہ ہم کو معلوم نہیں ہیں؛لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ لازمی طورپر اس کے ایک رکن رہے ہوں گے، کیونکہ حضرت عمرؓ کو ان کی رائے پر اتنا اعتماد تھا کہ جب کوئی مشکل معاملہ پیش آجاتا توحضرت علی ؓ سے مشورہ کرتے تھے، ایک موقع پر انہوں نےفرمایا تھا۔ لولا علی لھلک عمر اگر علی نہ ہوتے عمر ہلاک ہوجاتا۔ اس اعتماد کی بنا پر بعض امور میں حضرت عمر ؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دی ہے

نجی زندگی:

حلیہ

قدمیانہ، رنگ گندم گوں، آنکھیں بڑی بڑی، چہرہ پررونق وخوبصورت، سینہ چوڑا اس پر بال، بازو اورتمام بدن گٹھا ہوا، پیٹ بڑا اورنکلاہوا، سر میں بال نہ تھے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ سر کے بال کے نیچے نجاست ہوتی ہے اسی لیے میں بالوں کا دشمن ہوں، ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ کے دوگیسو پڑے دیکھے، مگرزیادہ مشہور یہی ہے کہ آپ کے سر میں بال نہ تھے، ریش مبارک بڑی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک مونڈے سے دوسرے مونڈھے تک پھیلی تھی، آخر میں بال بالکل سپید ہو گئے تھے اورشاید تمام عمر میں ایک مرتبہ بالوں میں مہندی کا خضاب کیا تھا۔

غذا ولباس
حضرت علی ؓ کے غیر معمولی زہد وورع نے ان کی معاشرت کو نہایت سادہ بنادیا تھا، کھانا عموماًروکھا پھیکا کھاتے تھے، عمدہ لباس اور قیمتی لباس سے بھی شو ق نہ تھا، عمامہ بہت پسند کرتے تھے؛چنانچہ فرمایا کرتے تھے‘‘ العمامۃ یتجان العرب’’ یعنی عمامے عربوں کے تاج ہیں کبھی کبھی سپیدٹوپی بھی پہنتے تھے، کرتے کی آستین اس قدر چھوٹی ہوتی کہ اکثر ہاتھ آدھے کھلے رہتے تھے، تہبند بھی نصف ساق تک ہوتی تھی کبھی صرف ایک تہبند اورایک چادر ہی پر قناعت کرتے اوراسی حالت میں فرائض خلافت ادا کرنے کے لیے کوڑا لے کر بازار میں گشت کرتے نظر آتے تھے، غرض آپ کو ظاہری طمطراق کا مطلق شوق نہ تھا، پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، لوگوں نے اس کے متعلق عرض کیا تو فرمایا یہ دل میں خشوع پیدا کرتا ہےاور مسلمانوں کے لیے ایک اچھا نمونہ ہے کہ وہ اس کی پیروی کریں، بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اوراس پر‘‘اللہ الملک’’ نقش تھا۔ حضرت علی ؓ پر سردی گرمی کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا کیونکہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ٔخیبر میں ان کے لیے دعافرمائی تھی، اللہم اذھب عنہ الحر والبرد یعنی اس سے گرمی وسردی دورکر، اس کا یہ اثر تھا کہ وہ جاڑے کا کپڑا گرمی میں اور گرمی کا کپڑا جاڑے میں زیب تن فرماتے اوراس سےکوئی تکلیف نہ ہوتی۔

ازواج واولاد
سیدہ جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے بعد جناب مرتضیٰ ؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں اور ان سے سترہ لڑکیاں اورچودہ لڑکے تھے، جن سے سلسلہ نسل جاری رہا، تفصیل حسب ذیل ہے:
حضرت فاطمہ ؓ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں، ان سے ذکور میں حسن، حسین، محسن اور لڑکیوں میں زینب کبریٰ اورام کلثوم کبری ٰپیدا ہوئیں، محسن ؓ نےبچپن ہی میں وفات پائی۔
ام النبین بن حزام
ان سے عباس، جعفر، عبد اللہ اورعثمان پیدا ہوئے، ان میں سے عباس کے علاوہ سب حضرت امام حسین کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔ لیلیٰ بن مسعود: انہوں نے عبید اللہ اورابوبکر کو یادگارچھوڑا؛لیکن ایک روایت کے مطابق یہ دونوں بھی حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ شہید ہوئے۔
اسماء بنت عمیس
ان سے یحییٰ اورمحمد اصغر پیدا ہوئے
صہبا یاام حبیب بنت ربیعہ
یہ ام ولد تھیں، ان سے عمر اوررقیہ پیداہوئیں، عمر نے نہایت طویل عمر پائی اور تقریباً پچاس برس کے سن میں ینبوع میں وفات پائی۔ امامہ بنت ابی العاص:یہ حضرت زینب ؓ کی صاحبزادی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھیں، ان سے محمد اوسط تولد ہوئے۔
خولہ بنت جعفر
محمد بن علی، جو محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں، ان ہی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔
ام سعید بنت عروہ
ان سے ام الحسن اوررملۂ کبریٰ پیدا ہوئیں۔
محیاۃ بنت امرء القیس
ان سے ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی، مگر بچپن ہی میں قضا کر گئی۔
لونڈیوں سے دیگر اولاد
متذکرہ بالابیویوں کے علاوہ متعدد لونڈیاں بھی تھیں اوران سے حسب ذیل لڑکیاں تولد ہوئیں: ام ہانی، میمونہ، زینب صغریٰ، رملہ صغریٰ، ام کلثوم صغریٰ، فاطمہ، امامہ، خدیجہ ام الکرام، ام سلمہ، ام جعفر، جمانہ، نفیسہ۔  عنہم)۔