صفحات

تلاش کریں

ناولٹ: کیا تم سچ مچ پاکستانی ہو؟ ازآصف احمد بھٹی

انتساب

ہر سچے پاکستانی کے نام!

ہزاروں پھول سے چہرے جھلس کے راکھ ہوئے

بھری بہار میں کچھ اِس طرح اپنا باغ جلا

ملا نہیں یہ وطنِ پاک ہم کو تحفے میں

جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا

’کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو‘ کو میں ہر سچے پاکستانی کے نام کرتا ہوں۔

(آصفؔ احمد بھٹی)

لائٹ بجھا کر وہ لیٹا ہی تھا کہ اُسے اپنے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا وہ چونک گیا اور ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا کمرے کا اِک کونا دھیرے سے روشن ہونے لگا وہاں کوئی کرسی پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔

کک کون؟اُس نے گھبرا کر پوچھا۔ وہ ایک عورت تھی جواب اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اُس کی طرف بڑھنے لگی تھی۔

کک کون ہیں آپ۔وہ قدرے بوکھلا سا گیا۔

میں ! وہ حیرت سے بولی۔مجھے نہیں پہچانا!میں تمہاری ماں ہوں بیٹا۔

ماں ۔ وہ بھی حیران رہ گیا جلدی سے سائڈ ٹیبل کی دراز سے چشمہ نکالا وہ عورت واقعی اُس کی مما جیسی تھی پر اُس کی مما نہیں تھی چاندنی سی چمکتی سفید اُجلی رنگت جس میں ہلکا گلابی رنگ بھی جھلکتا تھا نفیس سی سفید شلوار قمیص جس پر بڑی سی گہری سبز چادر اوڑھے مسکراتی ہوئی وہ بہت دلکش اور با وقار لگ رہی تھی اور اُس کی مما اتنی خوبصورت تو کبھی نہیں تھی وہ غور سے اُس عورت کو دیکھنے لگا، اُس عورت کے چہرے پر درد اور دکھ کے کچھ آثار نمایا ں تھے اُس کی آنکھیں بھی سوجی ہوئی تھی جیسے روتی رہی ہویا کئی راتوں سے جاگتی رہی ہو اور پھر اُس کی سادگی میں ایسا حسن ایسا تقدس تھا کہ نگاہیں خود بخود جھک رہی تھیں ۔

آپ !لفظوں نے اُس کا ساتھ چھوڑ دیا۔

آپ ! اُس نے پھر ہمت کی۔ دیکھنے میں میری مما جیسی ضرور ہیں مم مگر!

مگر کیا بیٹا۔عورت نے مسکرا کر پوچھا۔

آپ میری مما نہیں ہو سکتیں۔وہ سر جھکا کر افسردگی سے بولا۔

کیوں !عورت پھر مسکرا دی۔میں تمہاری ماں کیوں نہیں ہو سکتی۔

کیونکہ !اُس نے ایک سسکی سی لی اور پھر سارے بندھ ٹوٹ گئے۔کیونکہ میری مما ماں نہیں ہیں وہ صرف مما ہیں اور آپ!آپ مجھے ماں لگتی ہیں ، آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے کے زمانے کی ماں۔ لفظوں نے پھر اُس کا ساتھ چھوڑ دیا وہ کچھ دیر خاموش اُسے دیکھتا رہا اور پھر بولا۔ آپ بالکل بھی میری مما جیسی نہیں ہیں میری مما کے کپڑے بہت تنگ اور جسم سے چپکے ہوتے ہیں گلا کھلا اور بازو ننگے رہتے ہیں اب تو وہ جینز ٹی شرٹ بھی پہننے لگی ہے اور! اور آپ نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے عورتیں پہنتی تھی گلہ اور بازو تو کیا مجھے آپ کے ہاتھ اور اُن کی انگلیاں بھی نظر نہیں آرہے اور پھر آپ نے تو سر پر بڑی سی چادر اوڑھ رکھی ہے جبکہ پہلے کبھی میری مما کے گلے میں گز بھر کا دوپٹہ لٹکا رہتا تھا مگر اب وہ بھی!اُس کی بات ادھوری رہ گئی۔ آپ میری مما نہیں ہو سکتی۔

ہاں بیٹا!وہ پھر مسکرائی۔میں تمہاری ماں ہی ہوں۔وہ مزید قریب آ گئی۔

مم مگر میں کیسے مان لوں۔اُس نے احتجاج کیا۔

میرے بچے !میں تمہاری دھرتی ماں ہوں میں تمہارا پاکستان ہوں ۔اُسے ایک جھٹکا سا لگا وہ ایک دم اُٹھ کھڑا ہوا اور حیرت سے اُسے دیکھنے لگا۔کتنی ہی دیر یونہی گزر گئی پھر وہ آگے بڑھا اور اُس کے قدموں سے لپٹ کر رونے لگا۔

ماں۔اُس کے منہ سے بس یہی ایک لفظ نکل سکا۔ آواز اُس کے حلق میں ہی اٹک گئی ماں اُس کا سر سہلانے لگی وہ روتا رہا ماں اُسے سہلاتی رہی آج اُسے مما اور ماں میں فرق محسوس ہو گیا تھا وہ جان گیا کہ ماں اور مما میں کیا فرق ہے کتنی ہی دیر گزر گئی اچانک اُسے کچھ عجیب سا شور سنائی دیا جیسے وہ کسی میدان میں ہے اور چاروں طرف لوگوں کا ہجوم ہے وہ سر اُٹھا کر حیرت سے ماں کو دیکھنے لگا۔

یہ سب میرے بچے ہیں۔ماں مسکرا کر بولی۔

یہ!میرا بیٹا سید احمد ہے۔ماں نے ایک طرف اشارہ کیا گھنیری داڑھی و سرخ و سفید رنگت والے سر سید احمد خان کھڑے مسکراتے ہوئے اُسے دیکھ رہے تھے۔

یہ میری آزادی کے قافلے کے پہلے امیروں میں سے ہے اِسی نے برِصغیر کے مسلمانوں کوتعلیم کی طرف راغب کیا، انگریزوں نے اِسے سر کا خطاب دیا تھا اِس نے 1867؁ میں انگریز راج کی پرسکون جھیل میں دو قومی نظریے کا پہلا پتھر پھینکا تھا اور پھر دائرے کناروں تک پھیلتے چلے گئے تم اِسے میرا معمارِ اول کہہ سکتے ہو۔سر سید مسکرا کر بولے۔

مسلمان! ایک قوم ہیں اور اسلام کے دائرے میں شامل تمام افراد مسلم قوم ہیں یاد رکھو! یہ اِسلام سے وابستگی ہی ہے جو ہمیں ایک قوم کا درجہ دیتی ہے۔ وہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر بولے۔ ہندوستان ایک ملک نہیں ایک برِصغیر ہے جہاں ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں آباد ہیں اور یہ دونوں قومیں کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔

وہ خاموشی سے اُنہیں دیکھتا رہ گیا کچھ نہ کہہ سکا کہتا بھی کیا کہ حضرت آج پھر کچھ لوگ سرحدیں ختم کر کے ایک ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ملک کے ہر حصے میں لوگ ہندوانہ روایات رسم و رواج اور تہذیب اپناتے جا رہے ہیں۔

سر سید احمد پاس آئے اور اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔ سنو!تم میرے وارث ہو۔ وہ اب بھی کچھ نہ بولا ماں اُس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گئی۔

یہ نواب سلیم اللہ خان ہیں لوگ اِنہیں نواب بہادر بھی کہتے تھے یہ مسلم لیگ کے بانی ہیں میری آزادی کے لیے اِس بیٹے نے بھی بہت جدوجہد کی ہے، اور یہ مولانا فضل الحق ہیں سب اِنہیں شیرِ بنگال کہتے ہیں یہ بنگال کے پہلے گریجویٹ ہیں انہوں نے1919؁ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میں منعقد اِجلاس کی صدارت کی تھی بعد میں میرے بچوں نے اِنہیں ہلالِ پاکستان کا اعزاز بھی دیا تھا۔مولانا نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا وہ چونک کر اُنہیں دیکھنے لگا۔

حصولِ پاکستان کے لیے اگر سونٹے کی ضرورت ہو گی تو وہ بھی اِستعمال کیا جائے گا اور سنو!تم میرے وارث ہو میں شیر ہوں تم بھی شیر ہو۔ماں اور وہ آگے بڑھ گئے۔

یہ مولانا حسرت موہانی ہیں یہ شاعر تھے اور میری آزادی کے لیے اِنہوں نے کئی بار جیل کی سزا بھی کاٹی ہے۔اب سامنے علی برادران کھڑے مسکرا رہے تھے۔

یہ میرے بیٹے علی برادران ہیں میرے اِن بچوں نے بھی میرے لیے بہت قربانیاں دی کئی بار میرے لیے قید کی سزا کاٹی مگر افسوس یہ دونوں مجھے آزاد ہوتے نہ دیکھ سکے۔

میں محمد علی جوہر ہوں ۔ مولانا محمد علی جوہر نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔

اور میں شوکت علی ہوں۔ شوکت علی نے بھی مصافحہ کیا۔سنو! آزادی ایک نعمت ہے ایک انعام ہے اور جو اِس کی قدر نہ کرے وہ نادان ہے۔وہ دونوں مزید آگے بڑھے سامنے چودھویں کا چاند کھڑا مسکرا رہا تھا وہ مبہوت ہو کر اُس پر نور چہرے کو دیکھنے لگا۔

یہ !میرا بیٹا مولانا عبید اللہ سندھی ہے۔ ماں کی آواز پر اُس کا استغراق ٹوٹا۔میرے اِس بیٹے نے1872؁ میں ایک سکھ ماں کی کوکھ سے جنم لیا اُس کی گود میں آنکھ کھولی ، سکھ باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا مگر جلد ہی اِس نے اپنے فطری ماں باپ کو پہچان لیا اور اِسلام کو پا لیا اِس راہ میں کئی مصیبتیں جھیلی ماں باپ چھوٹے وطن چھوٹا اور ساری عمر جلاوطنی میں گزار دی مگر افسوس کہ میرا یہ بیٹا بھی مجھے آزاد ہوتے نہیں دیکھ سکا۔

یہ ضروری نہیں کہ اِنسان تاریکی میں پیدا ہو اور پھر وہ کبھی روشنی کی خواہش ہی نہ کرے۔ مولانا عبید اللہ سندھی مسکرا کر بولے۔ اور پھر جس پر کالی کملی والے پیارے آقاﷺ کی نظر اور اللہ پاک کا کرم ہو جائے وہ پھر کیسے اندھیروں میں رہ سکتا ہے۔وہ رشک بھری نظروں سے اُنہیں دیکھنے لگا۔سنو!تم میرے وارث ہو،تم میرے جیسے ہو۔وہ دونوں مزید آگے بڑھے۔

میرے اِس عظیم بیٹے کو تو تم جانتے ہی ہو گے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اپنے پورے وقار کے ساتھ سامنے ہی کھڑے تھے اُس کی نظریں خود بخود جھک گئی۔

میرا یہ بیٹا عظیم فلسفی شاعر ہے میرے بیٹوں نے اِسے حکیم الامت و شاعرِ مشرق کے خطابات دئیے ہیں اِس نے ہی مسلمانوں کے سامنے نے میری بنیاد کا نظریہ رکھا تھا اِس نے ہی دسمبر 1930؁ میں آلہ آباد کے مسلم لیگی جلسے میں نظریہ پاکستان پیش کیا تھا۔

ڈاکٹر محمد اقبال اُس کی طرف دیکھ کر بولے۔

تم کون ہو!میرا شاہین کہاں ہے؟ شرم سے اُس کا سر جھک گیا لفظ اُس کے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔

پہلے میں اِس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ مذہب کا امتیاز اُٹھ جانا چاہیے پر اب خیال ہے کہ قومی تشخص کا محفوظ رکھنا ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے ضروری ہے ہندوستان میں مشترک قومیت کے پیدا کرنے کا خیال اگرچہ نہایت خوبصورت ہے تاہم موجودہ حالات کے لحاظ سے ناقابلِ عمل ہے۔وہ خاموشی سے اُن کے ارشادات سنتا رہا۔

میں تو چاہتا ہوں پنجاب ، صوبہ شمال مغربی سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی صورت دیدی جائے پھر چاہے یہ ریاست برطانوی ہند ہی کے اندر اپنی خودمختار حکومت کا قیام عمل میں لائے یا اس سے باہر۔ پر میرا اِحساس ہے کہ آخر کار شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ اسلامی ریاست لازمی قائم کرنی پڑے گی۔

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو

سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر

اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں

سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر

میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر

مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر

مِرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

آؤ!میں تمہیں اپنے سب سے عظیم بیٹے سے ملاؤں ۔ماں اُس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھتے ہوئے بولی۔

میرے اِس بیٹے نے بڑی محنت اور کوششوں کے بعد میرے پیروں میں پڑی غلامی کی ساری زنجیریں کاٹ ڈالیں اور میرے بچوں کے گلے سے غلامی کے طوق نکال پھینکے اور اِس کے لیے اِس نے اپنی صحت کی بھی پروا نہ کی تھی۔

بابائے قوم ، بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنی پیاری بہن مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ اُن کا ہاتھ پڑے کھڑے اُسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے اُن کے پیچھے ہی شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان بھی کھڑے نظر آرہے تھے۔

آپ۔آواز ایک بار پھر اُس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔بابائے قوم مسکرائے اور بولے۔

ہم جس اہم جد و جہد میں مبتلا ہیں وہ صرف مادی فائدوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ جدوجہد فی الحقیقت مسلم قوم کی روح کی بقا کے لیے ہے۔وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے۔پاکستان کی منشاء صرف آزادی اور خود مختاری نہیں بلکہ اسلامی نظریہ ہے جو کہ ایک بیش بہا عطیے اور خزانے کی حیثیت سے ہم تک پہنچا ہے اور جسے ہمیں برقرار رکھنا ہے اور جس کے بابت ہمیں توقع ہے کہ دوسرے بھی اُس سے فائدہ اُٹھائیں گے۔وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا بس حسرت سے اُنہیں دیکھتا ہی رہ گیا۔

قرآن پاک مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے ، مذہب معاشرت قانون عدالت اور معاشیات غرض یکہ ہماری مذہبی رسومات سے لے کر روز مرہ کے معاملات تک ہر چیز پر اُس کی عملداری ہے ، اسلام صرف روحانی احکام و تعلیمات اور مراسم تک ہی محدود نہیں بلکہ ایک کامل ضابطہ ہے جو مسلم معاشرے کو مرتب کرتا ہے۔وہ پھر خاموش ہو گئے اور قدرے قریب آ کر بولے۔

سنو!میں تمہیں تین زریں اصولوں پر چلنے کا کہتا ہوں یعنی ایمان ، تنظیم اور یقینِ محکم ، یہ تین اصول ہیں صرف تین! زیادہ نہیں صرف تین۔اُس نے سر جھکا دیا اور دھیرے سے بولا۔

حضرت! اب ہمارے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں نہ ایمان نہ تنظیم نہ ہی یقین مُحکم کچھ بھی تو نہیں ۔ وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔

سنو! شہیدِ ملتؒ نے اُس کا ہاتھ تھام لیا وہ رک کر اُنہیں دیکھنے لگا۔

شہیدِ ملت ؒمکا ہوا میں لہرا کر بولے۔ قوت کے بل بوتے پر کوئی بھی طاقت ہم سے کشمیر نہیں چھین سکتی۔اُس نے نظریں جھکا دی اور دھیرے سے بولا۔

میرے محترم! کشمیر تو کجا ہم آپ کا آدھا پاکستان بھی کھو بیٹھے ہیں اور جو بچ گیا ہے اب اُس کے پیچھے بھی پڑے ہوئے ہیں۔ ماں اُسے لے کر آگے بڑھ گئی۔

خدا!پاکستان کی حفاظت کرے۔ اُسے اپنے پیچھے شہیدِ ملت ؒ کی آواز سنائی دی سامنے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا ہجوم تھا ایک نوجوان اونچی جگہ کھڑا چلا رہا تھا۔

پاکستان کا مطلب کیا۔

لَا اِلَہ اِلا للہ۔سب ایک آواز ہو کر بولے۔

یہ میرے وہ بچے ہیں جنہوں نے میری آزادی کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دیں اپنی جانوں تک کے نذرانے پیش کیے۔ ماں دکھی لہجے میں بولی اُس کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔

مگر آزادی کے بعد جب یہ سب دیوانہ وار میری جانب لپکے اور میں نے بھی انہیں اپنی آغوش میں لینے کے لیے اپنے بازو پھیلائے تو مجھے اِن معصوموں کی لاشیں ملیں مجھ تک پہنچنے والے سب راستوں پر سکھوں اور ہندوؤں نے قبضہ کر لیا اُن ظالموں نے چن چن کر میرے بچوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا ساری ٹرینیں لاشوں سے بھری ہوئی پہنچی تھی میری معصوم بیٹیوں کی عصمتیں تار تار کی گئیں اُن کا قصور صرف یہ تھا وہ اپنی ماں کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ ماں کی پلکیں بھیگ چکی تھیں۔

اِنسانی تاریخ میں اِتنا بڑا ظلم کبھی کسی قوم پر نہیں ہوا ہو گا مگر عالمی برادری کی کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

ارے! وہ دیکھوں ! ایک پاکستانی۔ہجوم میں سے کوئی چلایا اور پھر لمحہ بھر میں ہی سب اُس کے گرد جمع ہو گئے اور عقیدت بھری نظروں سے اُسے دیکھنے لگے۔

کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو۔ ایک معصوم سے بچے نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر حیرت سے پوچھا۔ کیا تم نے پاکستان دیکھا ہے۔وہ کچھ نہ بولا۔

بتاؤں نا!ہمارا پیارا پاکستان کیسا ہے۔بچہ اُس کا دامن پکڑ کر بولا۔ اُس کی مٹی کا رنگ کیسا ہے ، وہاں آسمان کیسا ہے اور پھر وہاں کے لوگ کیسے ہیں۔بچے نے حسرت سے پوچھا مگر وہ پھر بھی خاموش رہا۔

تم بولتے کیوں نہیں ۔ اُس کے ہونٹ سختی سے جڑے تھے ، بچہ کچھ سوچ کر خود ہی بولا۔

میں جانتا ہوں پاکستان بہت خوبصورت ہو گا! بہت خوبصورت! بالکل جنت جیسا مجھے بابا نے اور بھائی جان نے بتایا تھا وہ دونوں تو پاکستان کی بہت باتیں کرتے تھے اور میری باجی !اور اُس کی سہیلیاں تو سارا دن جلسوں کے بینرز بناتی رہتی تھیں۔

بچہ کچھ دیر اُسے دیکھتا رہا پھر بولا۔ہم بھی پاکستان جانے والے تھے مگر انہوں نے گاؤں پر حملہ کر دیا تھا انہوں نے بابا اور بھائی کو بڑے بڑے چُھرے مارے تھے اور باجی!اُن سے بچنے کے لیے کنویں میں کود گئی تھی مگر! بچہ رو دیا۔ وہ امی کو لے گئے تھے اور مجھے اور دادی کو کمرے میں بند کر کے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اُس کے بھی آنسو بہنے لگے۔

سنو! بچے نے اُسے جھنجھوڑ ڈالا۔میری ماں کو اُن سے آزاد کرا دو۔اُس کی آنکھوں میں التجا تھی۔ خدا کے لیے!میری ماں کو اُن سے آزاد کرا دو وہ تمہاری بھی ماں ہے میری ماں کو اُن سے آزاد کرا دو۔اُس کی ٹانگو ں میں دم نہ رہا اُسے لگا کہ وہ اب کسی بھی لمحے گر پڑے گا ماں اُسے لے کر آگے چل دی۔

مجھے جانتے ہو۔خاکی وردی پہنے اِک سپاہی نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا، اُس نے انکار میں سر ہلا دیا۔ سنو ! میں کیپٹن محمد سرور ہوں۔

کیپٹن محمد سرور شہید نشانِ حیدر۔وہ حیرت سے بولا سپاہی نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔

سنو! جب میرے کشمیر نے اور میرے کشمیری بھائیوں مجھے پکارا تھا تو مجھے کوئی بھی نہ روک سکا تھا ، نہ میرا گاؤں سنگوری،نہ میرے عزیز ، نہ میرے اُستاد ، نہ میرا ادھورا مکان ، نہ میری بیٹی گلزار ، نہ میرا بیٹا صفدر اور نہ ہی میری نیک سیرت بیوی ! مجھے کوئی نہ روک سکا تھا۔

وہ اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تھپتھپاتے ہوئے بولے۔اگر کبھی تم میرے بارے جاننا چاہو تو میرے کشمیر سے پوچھنا! کشمیریوں سے پوچھنا! اوڑی کے محاذ سے پوچھنا! اور پھر تل پترا سے میرا پوچھنا وہ سب تمہیں میرا بتائیں گے وہ تمہیں بتائیں گے اپنا حق کیسے لیا جاتا ہے وہ تمہیں بتائیں گے حق پر گواہی دینا کسے کہتے ہیں ۔ وہ کچھ نہ کہہ سکا خاموشی سے اُنہیں دیکھنے لگا وہ پھر بولے۔

سنو! تم میرے وارث ہو تمہارے قدم بھی نہیں رکنے چاہیے ، تمہیں اپنا حق لینا ہے تم نے بھی حق پر گواہی دینی ہے۔ ماں اُس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی۔

میں ! چوہدری محمد طفیل ہوں ۔ پہلے ہی قدم پر میجر چوہدری محمد طفیل شہید نشانِ حیدر نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

مجھے جانتے ہو۔ اس بار وہ نہ انکار کر سکا نہ اقرار بس بے بسی سے اُنہیں دیکھتا رہا۔ اگر مجھے جاننا چاہتے ہو تو پاکستان کے ہر ذرے سے پوچھو میرے گلگت سے پوچھو ، کوہاٹ ، کوئٹہ اور ایسٹ پاکستان(بنگلہ دیش) کے ضلع کومیلہ، برہمن باڑیہ اور لکشمی پور سے پوچھو ، CMHکومیلہ کے اِسٹاف ڈاکٹر کرنل عبدالمجید اور ڈاکٹر میجر محمد یونس دیوان سے پوچھو اور پھر ہندوستانی فوج اور اُس کے کمانڈر میجر دیو برہمن سے پوچھو! وہ سب تمہیں میرا بتائیں گے وہ تمہیں بتائیں گے کہ اللہ کے بھروسے کشتیاں جلانے والے کون تھے اور سنو! تم میرے وارث ہو!تم بھی مجھ جیسے ہو تم بھی اُنہیں بتا دینا مومن اور کافر میں فرق کیا ہے تم بھی اُنہیں بتا دینا کہ!

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا

مومن ہے تو بے تیغ ہی لڑتا ہے سپاہی

پھر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔جیسے ہم نے دھرتی ماں کی حفاظت کی تم بھی کرنا تم نہیں جانتے یہ بنیا بہت مکار ہے۔

اُس نے سر جھکا کر جواب دیا۔میرے پیشرو! مکار بنیا تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے جن سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے آپ کا مقدس خون بہا تھا وہ سرحدیں اب ہمارے پاس نہیں ہیں۔ماں اُسے لے کر مزید آگے بڑھ گئی۔

مجھے جانتے ہونا! اس بار میجر عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے روک لیا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا شہید خود ہی بول اُٹھے۔ اگر نہیں جانتے تو جاؤ ! جاؤ ہڈیارہ سے پوچھو ! برکی کے اُس اُونچے بالاخانے سے پوچھو! BRB نہر کے کناروں سے پوچھو! اور میرے لاہور کے اُونچے میناروں سے پوچھو دسمبر کے اُن سترہ دنوں اور راتوں سے پوچھو! میجر شفقت بلوچ لیفٹنٹ عبدالرحمن حولدار محمد نذیر اور میرے سب ساتھیوں سے پوچھو۔ اور پھر قدرے مسکرا کر بولے۔ اور پھر ہندوستانی فوجی جرنیلوں سے پوچھو جو لاہور جم خانے میں جام لڑھکانے والے تھے اور اُس بیچارے اشونی کمار سے پوچھو جو لاہور کا ہندوستانی میئر بننے جا رہا تھا ، وہ سب تمہیں میرا بتائیں گے وہ تمہیں بتائیں گے کہ میں کون ہوں وہ تمہیں بتائیں گے مومن کے فولادی عزم سے ٹکرانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ وہ تھوڑی دیر اُس کی آنکھوں میں دیکھتے رہے پھر بولے۔

اور تم!تم بھی اُنہیں بتا دینا کہ تم میرے وارث ہو! میرے وارث اور سنو! تم اُن سے کہنا کہ چاہے زمین کے سارے دفینے سارے خزانے اور آسمانوں کی سب کہکشائیں مجھے دے دو ، تو میں تب بھی اپنے وطن کی ایک چٹکی مٹی تمہیں نہیں دوں گا تم انہیں میرا یہ پیغام دینا کہ۔

بھارتی جنگ بازوں سنو!

تم سے اپنے تعارف کراتے ہوئے میں کہتا تھا

میں بہادر ہوں

میرا تعلق شجاعت کے اُس قافلے سے ہے

جس کے لہو سے ہر ایک ذرۂ کربلا جاوداں ہو گیا ہے

میں خو د کشتیاں پھونک کر تیغ زن ہونے والوں کی صف میں سے ہوں

اور اُن میں سے ہوں

جن کے قدموں تلے د اہری کروّ فر خاک میں مل گیا تھا

بھارتی جنگ بازو سنو!

تم سے اپنا تعارف کراتے ہوئے میں یہ کہتا تھا

میں بہادر ہوں ، تاریخ کے ہر ورق پر حروفِ جلی میں رقم ہوں

تمہیں یاد ہے

سترہ دن سترہ راتوں کی روداد ہے

میں حق پر تھا اور مورچہ مورچہ

میرے حق میں ہوا ہو گئی تھی

جیسے سونگھتے ہی تمہاری وہ خونخوار دیوی

تمہیں مارتی روندتی

خود تمہارے کھیتوں کو شہروں کو

پامال کرتی ہوئی

سر چھپانے کو کنج اماں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

شرمساری کے شمشان میں جل بجھی تھی

میں حق پر تھا اور مورچہ مورچہ

میرے حق میں ہوا ہو گئی تھی

بھارتی جنگ بازو سنو!

سترہ دن سترہ راتوں کی روداد ہے

تم کو سب یاد ہے

بھولتے ہو تو خود فریبی کے مندر سے نکلو

سنو! دیکھو! نیلے کھلے آسماں کا منظر

یہ B.R.B کے کنارے

کناروں کے اندر یہ بہتا ٹھنڈا پانی

جو سیراب کرتا ہے ، شاداب رکھتا ہے

وہ مسجد ، وہ مکتب ، وہ میدان ، وہ گاؤں

وہ مٹی کے گھر ! ان گھروں کے مکیں

سترہ دن سترہ راتوں کے عینی گواہ ہے

یہ شاہد ہیں ، سامع ہیں اُس اک صدا کے

جو B.R.B کے کنارے پر

شیشم کے اونچے درختوں کے جھرمٹ سے اُٹھ کر

ہواؤں فضاؤں میں نعرہ کناں ہے

یہ میرا وطن ہے یہ میرا وطن ہے

(شاعر۔۔۔ نامعلوم)

وہ اُس عظیم مجاہد کو دیکھتا رہ گیا پھر بولا۔محترم! آپ لوگ عظیم تھے اور ہم چند سکوں کے لیے وطن فروش بن جاتے ہیں۔ ماں اُسے لے کر مزید آگے بڑھ گئی۔

میرے شاہین! میرے پائیلٹ بیٹے راشد منہاس کو تو تم جانتے ہی ہو گے۔ ایک خوبصورت نوجوان مسکراتا ہوا سامنے آ گیا۔

مجھے جانتے ہو۔شاہین نے پوچھا۔

ہاں !اُس نے دھیرے سے جواب دیا۔ آپ سے منسوب ایک مقولہ کہیں پڑھا تھا کہ! شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔

ہنہ! شاہین ہنس دیا پھر بولا۔ اور اگر میرا پوچھنا ہو تو وطن کی ہر ماں سے پوچھنا ہر بیٹے سے پوچھنا ، پاکستان ائیر فورس کے ہر جوان سے پوچھنا اور میرے ٹی 33 سے پوچھنا۔ پھر ماں کا شاہین اُس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔

سنو! تمہیں بہت سے مُطیع الرحمن (جو اصل میں مطیع الشیطان ہوں گے) ملیں گے اور تم ہر غدار سے کہنا ، میرے وطن کا ہر بچہ ہر جوان راشد منہاس ہے۔ وہ بس مبہوت اُسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ اور تم ہمارے وارث ہو تم شاہین ہی بننا۔

اُس نے ایک گہری سانس لی اور بولا۔ راشد بھائی! آپ یقیناً اِس قوم کے محسن اور ہیرو ہیں مگر میں اِس کا کیا کروں کہ اب آپ کو آپ کی قوم کا کوئی بچہ نہیں جانتا ، آج کا ہر بچہ ہندوستان کے فلمی ہیروز سلمان خان ، شاہ رُخ اور رتھیک روشن کو تو جانتا ہے مگر آپ جیسے کسی بھی سچے ہیرو کو نہیں جانتا کہ مائیں بھی اپنے بچوں کے نام اُن کے ناموں پر ہی رکھ رہی ہیں۔ ماں اور وہ آگے بڑھ گئے۔

خدا کی قسم! اگر میں پیچھے ہٹو تو تم مجھے گولی مار دینا اور اگر تم پیچھے ہٹے تو میں تمہیں گولی ماردوں گا۔ 65 کے غازی اور 71 کے شہید میجر شبیر شریف شہید نشانِ حیدر ستارۂ جرات اپنی شمشیرِ اعزازی لہراتے ہوئے سامنے آ کھڑا ہوا وہ سہم کر رہ گیا۔

مجھے جانتے ہو۔ غازی شہید نے پوچھا الفاظ اُس کے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔

میں جانتا ہوں تم مجھے نہیں جانتے۔ غازی شہید کے لہجے میں قدرے دکھ تھا۔پر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کون ہو۔

سنو! میں میجر شبیر شریف ہوں مجھ سے پہلے میرے بھائی ، باپ ، دادا بھی اس وطن کی زرخیز مٹی میں اپنا لہو ملاتے رہے ہیں اور میں بھی اُن کے نقش قدم پر چلا تھا میں نے بھی اپنی مٹی کو اپنا لہو پلایا ہے تمہیں اس وطن کے ہر ذرے میں میرے اور میرے اسلاف کی لہو کی خوشبو ملے گی ، اور تم آج بھی جا کر دشمن کے سرحدی گاؤں بیری والا کے لوگوں سے میرا پوچھ سکتے ہو اُس گاؤں کے سارے حفاظتی مورچے جنہیں میں نے اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا مجھے جانتے ہیں اور جانتے ہو ایسا کیوں ہے۔

شہید اُس کی آنکھوں میں جھانکنے لگے۔ کیونکہ ہمارے قدم ہندوستانی فوج، جھانگر کے سارے بنکرز اور اُن میں موجود اور اُن کے پیچھے بچھائی ساری بارودی سرنگیں نہیں روک سکی تھیں ، سربونا نہر کا انسانی لہو جما دینے والا ٹھنڈ ا یخ پانی بھی ہمارے ارادوں اور جذبوں کو سرد نہیں کر سکا ، نہر کے دونوں طرف کھڑی ہندوستانی فوج اپنے تمام اسلحے اور کوششوں کے باوجود ہمارے قدم نہیں روک سکی ، نہر کے پار فولادی بنکرز اور ٹینک ہمارا راستہ نہ روک سکے ، نہر پر بندھا بند اور وہ پل ہمیں نہ روک سکا تھا مگر۔ اچانک شہید کی آنکھوں میں دکھ کے گہرے بادل اُتر آئے اُس نے ایک گہری سانس لی اور بولا۔

مگر! ہمارے کمانڈر کی ایک کال نے ہمیں رکنے پر مجبور کر دیا، مگر خدائے واحدہ و قہار کی قسم ہم نے اپنی آخری سانس تک وہ جگہ چھوڑی نہیں تھی اور تم ہمارے وارث ہو تم بھی ہم جیسے ہو جہاں ہمارے قدم رکے تھے تم نے وہاں سے آگے بڑھنا ہے اور میری قوم کو میرا یہ پیغام دے دینا کہ۔

جو میں پیچھے ہٹوں تو کفر ہوتا ہے

اور آگے جنتوں کا سفر ہوتا ہے

جو مجھے کمزور دیکھو! تو مار ڈالو

تمہیں یہ حق ہے ! کرو ، اگر ہوتا ہے

تمہارے سامنے کفر ہے کمزور نہ ہونا

کسی بھی یار کے بچھڑنے سے نہ رونا

خوشبو کو کب اور کس نے قید رکھا ہے

مجاہد کو کب مرنے کا ڈر ہوتا ہے

جو سوچو تو کتنے بچھر گئے ہم سے

پھول چنتے رہے، پر بکھر گئے ہم سے

کس نے یہاں عمر جاوداں پائی ہے

یہ جسم تو بس روح کا گھر ہوتا ہے

ہمیں ہیں جو ظلمتیں مٹائیں گے

یہ تب ہی ممکن ہے جو حوصلے بڑھائیں گے

ہمیں نے ہر جگہ تکبیریں بلند کرنی ہیں

اللہ اکبر ! دل میں بسا لو، اگر ہوتا ہے

(شاعر۔۔۔ آصفؔ احمد بھٹی)

پھر شہید خاموش ہو کر اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگے اُس کی نظریں جھک گئی اور وہ بولا۔

میرے غازی شہید بھائی ! اب ہم میں تکبیریں بلند کرنے والے تم جیسے مومن نہیں رہے بلکہ اکثریت تمہارے دشمنوں جیسی ہو گئی ہے جنہیں تم نے سرحد کے اُس پار اُدھیڑ پھینکا تھا ، ہم خود اُنہیں اپنے کندھوں پر اُٹھا کر اپنے گھروں میں لے آئے ہیں آج گھر گھر میں اُن کا ننگا کلچر اپنایا جا رہا ہے اُن کی ننگی تہذیب اُن کے بیہودہ شیطانی تہوار اپنا لیے ہیں۔ وہ کہنا تو بہت کچھ چاہتا تھا مگر خاموش رہا اور آگے چل پڑا۔

یہ! میرا بیٹا سوار محمد شہید ہے۔ ماں نے سوار محمد شہید نشانِ حیدر کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا ، درمیانے قد گول چہرے والا ایک صحتمند جوان سامنے آ کھڑا ہوا اُس کے جسم پر خاکی فوجی یونیفارم بہت سج رہی تھی ، ماں پھر بولی۔ میرے اِس بیٹے نے میرے لیے وہ کیا ہے جو کم ہی بیٹے کرتے ہیں۔

دیکھو جوان ! سوار محمد شہید نشانِ حیدر ہنس دیا۔دھرتی ماں کی عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں یہ جان ! یہ تو آنی جانی چیز ہے۔ پھر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ اور تم یہ بات ظفروال، شکرگڑھ سے پوچھ سکتے ہو ، میرے اُس مورچے سے بھی پوچھنا جو دشمن سے لڑنے کے لیے میں نے خود اپنے ہاتھوں سے کھودا تھا ، وہ اب بھی وہیں کہیں ہو گا ، تم میرے کمانڈر آفیسر طفیل محمد سے پوچھ سکتے ہو ، موضع ہرڑخورد اور خوردگاؤں کے لوگوں سے اورگجگل کے ٹیلوں سے پوچھنا اور پھر! ہندوستانی فوج کے سیاہ ہاتھیوں (1965 کی جنگ میں ہندوستانی فوج کے ٹینکوں کا نشان سیاہ ہاتھی تھا)سے پوچھنا جو ہمارے خوف سے پورس کے ہاتھی بن گئے تھے۔

سوار محمد شہید نشانِ حیدر تھوڑی دیر خاموشی سے اُسے دیکھتے رہے پھر اُس کے سینے پر ہاتھ مارکر بولے۔ سنو جوان! تم میرے وارث ہو تعداد اور اسلحے کی بہتات سے کبھی نہ ڈرنا جب اللہ کی حمایت ساتھ ہے تو پھر کیسا ڈر اور کیسا خوف۔ وہ اپنی بھیگی پلکوں سے اُس عظیم مجاہد کو دیکھتا رہا اور بولا۔

بھائی!وہ دھیرے سے بولا۔ہمارے دلوں سے اللہ کا خوف اللہ پر توکل تو جانے کب کا ختم ہو چکا ہے اب تو ہم سپر پاورز سے ڈرتے ہیں۔

مجھے جانتے ہوں۔میجر محمد اکرم شہید نشانِ حیدر مسکرا کر بولے۔ میں محم داکرم ہوں اور میرا پوچھنا ہو تو مشرقی پاکستان کے(بنگلہ دیش) راج شاہی ڈویژن دیناجپور (ھلی)سے پوچھنا ، پاربتی پور(بنگلہ دیش)سے پوچھنا اور میری فرنٹیر فورس سے پوچھنا ، میری 4FF سے پوچھنا اور پھر ہندوستانی فوج کے افسروں اور جوانوں سے پوچھنا ، وہ سب تمہیں میرا بتائیں گے اور تم بھی اُنہیں کہہ دینا کہ تم میرے وارث ہو تم بھی مجھ جیسے ہو۔ وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا کتنی ہی دیر وہ بس حسرت سے اُسے دیکھتا رہا آخر ماں اُس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی۔

میرے بیٹے محفوظ سے ملو۔ مضبوط بدن اور چوڑے سینے والا ملک محفوظ شہید نشانِ حیدر سامنے آ کھڑا ہوا اور اُس کے شانوں پر تھپکی دیتے ہوئے بولا۔ گھبراؤں مت جوان! ہمارا دشمن بزدل ہے۔وہ کچھ نہ بولا۔

مجھے جانتے ہو۔شہید نے پوچھا اُس نے سر ہلا دیا۔

ہنہ! وہ ہنس دیا۔میں جانتا ہوں تم میرے بارے میں بس وہی جانتے ہو جو تم نے کتابوں میں پڑھا ہے پر آج میں خود تمہیں اپنے بارے میں ایک بات بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ میں کسی پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتا اور اگر تم میرے بارے میں مزید کچھ جاننا ہو تو جاؤ میرے پنڈ ملکاں سے میرا پوچھو اور وہاں اب بھی دریائے سواں بہتا ہے تم میرا دریائے سواں سے پوچھنا ، 43 پنجاب سے پوچھو، تھٹہ کلاراں ، تھٹی کوڈا اور میرے حوالدار اصغر علی سے پوچھو ، میرے یار ثناء اللہ سے پوچھو ، کیپٹن فضل معید صوبیدار محمد اکرم سے پوچھو، ،میرے یار نائک باز خان سے پوچھو ، وہ سب میرے بارے میں بتائیں گے اور پھر تم ہندوستانی فوج اور اُس کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سریش پوری سے پوچھنا وہ تمہیں میرا نام لے کر بتائیں گے وہ تمہیں بتائیں گے کہ میں کون ہوں اور خدائے لم یزل کے شیر کیسے ہوتے ہیں فتح مبین کے تاج کن کے سروں پر سجائے جاتے ہیں۔ ملک محفوظ کچھ دیر خاموش اُسے دیکھتا رہا پھر بولا۔ اور سنو!تم میرے وارث ہو تم بھی اُنہیں محفوظ بن کر دکھانا خدائے لم یزل کے شیر بن کر دکھانا۔

میرے بھائی!وہ دھیرے سے بولا۔میں کاغذ کا شیر تو بن جاؤں گا پر میں تم سا ایمان کہا ں سے لاؤں گا۔وہ آگے چل دیا۔

مجھے جانتے ہو!ایک سرخ و سفید مگر دبلے پتلے سے نوجوان نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اُسے لگا جیسے اُس کا لہو اُس کی شریانوں میں جم رہا ہے اُس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور حیرت سے اُس دبلے پتلے نوجوان کو دیکھنے لگا نوجوان ہنس دیا اور بولا۔

میں دوہٹ ہوں ، میں لالک جان ہو اور جانتے ہو دوہٹ کسے کہتے ہیں۔اُس نے انکار میں سر ہلا دیا۔

حیرت ہے! دوہٹ حیرت سے بولا۔ ابھی کچھ زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا اور تم مجھے بھول گئے ہو۔ وہ کچھ بھی نہ بولا۔

سنو! پہاڑی علاقوں کے لوگ برف کے طوفان کو دوہٹ کہتے ہیں اور میں دوہٹ ہو ، میں زاغوں کا شکاری ہوں اور اگر میرے بارے میں کچھ تجسس روح میں جاگے تو میرے گاؤں یاسین چلے آنا ا ور ہوا تک کو جما دینے والی برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں سے پوچھنا ، تم پوچھنا دوہٹ کون تھا پہاڑی طوفان کیسے ہوتے ہیں اور یہ بات تم کارگل کے سرد جہنم سے بھی پوچھ سکتے ہو اور تم دراس سے میرا پوچھنا اور آج تک میری یاد میں نوحہ کناں ٹائیگر ہلز کی ہر چوٹی سے پوچھ سکتے ہو اور پھر ہندوستانی فوج اور اُس کے جسموں میں اُترے بارود سے پوچھ لینا، اُن کی بوفرز توپوں سے پوچھنا ، وہ سب تمہیں بتائیں گے پہاڑی طوفان کیسا ہوتا ہے ، دوہٹ کون تھا ، زاغوں کا شکاری کون تھا۔شہید کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔

سنو!اگرچہ تم مجھے بھول چکے ہو مگر پھر بھی میں تمہیں اپنا وارث سمجھتا ہوں ، تم میرے وارث ہو ، تم بھی دوہٹ ہو ، تم بھی زاغوں کے شکاری ہو ، اور تم یہ بات اُنہیں بتا دینا تم اُنہیں کہہ دینا آج بھی جانے کتنے ہی دوہٹ میرے وطن کے ذروں میں پوشیدہ ہیں۔

میرے دوہٹ! وہ ایک گہری سانس کھینچ کر بولا۔ایک میں ہی کیا تمہاری پوری قوم تمہیں بھول چکی ہے بہت کم لوگ جانتے ہیں بس تمہارے یاسین والے یا تمہارے گھر والے اور تمہاری بچیاں ، بس یہی لوگ تمہیں جانتے ہیں تمہاری دھرتی کو کسی کی نظر لگ گئی ہے ، تمہاری قوم میں اب ایک بھی دوہٹ نہیں رہا ، ہر گاؤں ہر شہر میں جھومتے لڑکھڑاتے قدموں والے نوجوانوں کا ایک جنگل اُگا ہوا ہے اور وہ تمہارے قوم کی بیٹیاں !اُس کی زبان رک گئی۔

کیا ہوا! دوہٹ بے صبری سے بولا۔میری قوم کی بیٹیوں کو کیا ہوا۔

تم نہیں سن پاؤ گے۔اُس نے جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔

مجھے جانتے ہو۔ایک شیر گرجا وہ سہم کر رہ گیا۔میرے وارث ہو کر ڈرتے ہو۔شیر نے آنکھیں نکالی۔

میں کیپٹن کرنل شیر خان ہوں ۔وہ اب بھی قدرے سہما ہوا تھا۔

سنو! میں تم سے نہیں کہوں گا کہ اگر مجھے جاننا چاہتے ہو تو ارضِ پاک کے ہر بچے سے پوچھو ، ہر ماں سے پوچھو ، میری ہر سرحد سے پوچھو ، میں تمہیں نہیں کہتا کہ تم میرے بارے میں ، فوجوں آباد یا نواں کلی کے بچوں سے پوچھو ، میرے بزرگ باپ اور بھائیوں سے پوچھو ، کارگل و دراس کے ہر ذرے سے پوچھو ، برف کے اُس جہنم سے پوچھو ، یا پاکستانی فوج کے ہر افسر ہر جوان سے پوچھو۔

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد شہید بولا۔میں تو کہتا ہوں جاؤ ، جا کر ہندوستان کی سر زمین سے میرے بارے میں پوچھو ، جاؤ اُن کے جنگی جہازوں اور بوفرز توپوں سے پوچھو اور میرا نام سن کر لرزتے ہندوستانی سپاہیوں اور اُن کے جرنیلوں سے پوچھو ، جاؤ ہندوستانی نیتاؤں سے پوچھو ، اور!ہندوستان کی اُس خون آشام کالی دیوی سے بھی پوچھنا ، جو میرا نام سنتے ہی مجھے دیکھتے ہی چیختی چلاتی اپنے ہی بچوں کو اپنے ہی کھیتوں کو روندتی کچلتی گنگا کے پانیوں میں جا چھپی تھی ، تم اُن کے ہر دیوتا سے میرا پوچھنا وہ تمہیں میرے بارے میں سچ بتائیں گے کہ وہ خدائے قہار کی تلوار کے قہر کا سامنا کر چکے ہیں ، وہ مجھے دیکھ چکے ہیں ، وہ مجھے تم سے زیادہ جانتے ہیں کہ!

اُن ﷺ سے محبت کا صلہ پا لیا ہے

وصل کی عنایتوں کا مزا پا لیا ہے

حوریں بھی میری جنتیں بھی میری

آقا ﷺ کے وعدوں کو وفا پا لیا ہے

مجھ پہ آقا کی نظرِ کرم ہو گئی ہے

میری ہستی بھی دیکھو محترم ہو گئی ہے

مجھ پہ عنائتوں کی حد ہو گئی ہے

بہت مل گیا ہے ، بے انتہا پا لیا ہے

وقتِ آخر جو میرا لاشہ تڑپا تھا

تو سیدِ شہداءؓ نے آ کے تھاما تھا

تم سمجھ نہ سکو گے کیسے کہوں

کس کس سے ملا ہوں کیا کیا پا لیا ہے

میں نے گرتے گرتے جو سجدہ کیا

لبیک یا عبدی! پھر رب نے کہا

میرے سجدوں کا رب نے بھرم رکھ لیا

میں نے تو اپنا خدا پا لیا ہے

(شاعر۔۔۔ آصفؔ احمد بھٹی)

شہید چند لمحے خاموش رہا پھر اُس کے سینے پر شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے بولا۔تم اُن کی ہر دیوی دیوتا کے سامنے سینہ چوڑا کر کے کہہ دینا کہ تم میرے وارث ہو تم مجھ جیسے ہو تم بھی خدائے قہار کا قہر ہو ، کہہ دینا ، تم میرے وارث ہو ، تم شیر ہو،تم شیر کے وارث ہو۔

شیر بھائی۔وہ سر جھکا کر بولا۔سرحد کے اُس پار والے تو شاید تمہیں کبھی نہ بھول پائیں ، وہ شاید تمہیں موت کے دیوتا کا ہرکارہ کہیں اور اُن کی ساری دیویاں سارے دیوتا تمہارا نام سن کر لرز اُٹھتے ہوں ، مگر ہم! جو تمہارے اپنے ہیں تمہیں بھول گئے ہیں آج کوئی نہیں جانتا کہ تم اور تمہارے عظیم ساتھیوں نے برف کے اُس جہنم میں وہ دن وہ مہینے کیسے گزارے ہم دنیا سے تمہارے کارنامے چھپاتے پھر رہے ہیں کہ کہیں دنیا ہمیں بھی تم جیسا نہ سمجھ لے آج تم جیسے ایمان والے اور وطن پرست مجرم کہلاتے ہیں اور وطن فروش ہیرو ہیں ۔شیر حیرت سے اُسے دیکھتا رہ گیا اور وہ آگے چل پڑا۔

مجھے جانتے ہو۔ ایک باریش نوجوان نے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ میں تمہارا بھائی مقبول بٹ (شہید)ہوں اور میرے پاس تمہاری کشمیری بہن کا پیغام ہے۔

صدائیں فلک تک جائیں گی

دُعائیں میری رنگ لائیں گی

علی حیدر سا کوئی شیرِ خدا

ظلم و ستم کی ساری دیواریں

سب خیبر کی مانند ڈھائے گا

خواب میرا یوں پورا ہو گا

وہ بجلی بن کر ٹوٹ گرے گا

سیف اللہ سا اک ابنِ ولید

ستمگروں کی اِس بستی میں

جو اللہ کا پرچم لہرائے گا




چاہ میں اُس کی کرتی ہوں

راہ میں اُس کی تکتی ہوں

وہ بن قاسم تمہیں سے آئے گا

اپنے کفن سے سر ڈھانپ کر میرا

جو میری آبرو بچائے گا

دُعا یہ رب سے مانگتی ہوں

یارب میری ماؤں کو بھی

طارق سا اِک بیٹا دیدے

بس تیرے بھروسے پر جو

سب اپنی کشتیاں جلائے گا




آہ میں کب سے کرتی ہوں

فریاد یہ رب سے کرتی ہوں

اِک محمود کہیں سے بھیج دے

صنم گرو ں کے راج میں پھر

جو پھر سے بت شکن کہلائے گا

(شاعر۔۔۔ آصفؔ احمد بھٹی)

اچانک اُس کی آنکھ کھل گئی وہ اپنے کمرے میں ہی تھا اور اُس کے آنسو بہہ رہے تھے پھر بچے کے الفاظ اُس کے دماغ میں گونجنے لگے۔

کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! ہمارا پیارا پاکستان کیسا ہے! تم سچ مُچ پاکستانی ہو! باجی اور اُس کی سہیلیاں سارا دن جلسوں کے بینر بناتی رہتی تھیں ! پاکستان کیسا ہے! بابا اور بھائی جان کو بڑے بڑے چُھرے مارے تھے! باجی اُن سے بچنے کے لیے کنویں میں کود گئی تھی! وہ امی کو لے گئے تھے! مجھے اور دادی کو کمرے میں بند کر کے گھر کو آگ لگا دی تھی! کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! پاکستان کیسا ہے! کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! میری ماں کو اُن سے آزاد کرا دو! کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! سنو!میری ماں کو اُن سے آزاد کرا دو! وہ تمہاری بھی ماں ہے !کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو۔

سر سید کھڑکی سے چلائے۔ مسلمان اور ہندو دو علیحدہ قومیں ہیں یہ کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔

مولوی فضل الحق بولے۔حصولِ پاکستان کے لیے اگر سونٹے کی ضرورت ہو گی تو وہ بھی اِستعمال کیا جائے گا۔

تم کون ہو، میرا شاہین کہا ں ہے؟ علامہؒ نے پوچھا۔

قائد اعظم مسکراتے ہوئے بولے۔ایمان ، تنظیم ، اور یقینِ محکم۔تین اصول صرف تین اصول،زیادہ نہیں صرف تین۔

قوت کے بل بوتے پر کوئی بھی طاقت ہم سے کشمیر نہیں چھین سکتی۔شہیدِ ملت نے اپنا مکا لہرایا۔

پاکستان کا مطلب کیا۔کوئی چلایا۔لا الہ الا اللہ۔

جب میرے کشمیر نے اور میرے کشمیری بھائیوں نے مجھے پکارا تھا تو مجھے کوئی بھی نہ روک سکا تھا۔ کیپٹن محمد سرور شہید مسکرا کر بولے۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا

مومن ہے تو بے تیغ ہی لڑتا ہے سپاہی۔

چوہدری محمد طفیل شہید نشانِ حیدر بولے۔

یہ میرا وطن ہے یہ میرا وطن ہے۔میجر عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر گنگنانے لگے۔

سنو!تمہیں بہت سے مُطیع الرحمن (جو اصل میں مطیع الشیطان ہوں گے) ملیں گے۔فلائٹ آفیسر راشد منہاس شہید نشانِ حیدر نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔

خدا کی قسم! میں پیچھے ہٹو تو تم مجھے گولی مار دینا اور اگر تم پیچھے ہٹے تو میں تمہیں گولی مار دوں گا۔ میجر شبیر شریف شہید نشانِ حیدر ستارۂ جرات اپنی شمشیرِ اعزازی لہراتے ہوئے بولا۔تم میرے وارث ہو۔

سوار محمد شہید نشانِ حیدر ہنس دیا۔ دھرتی ماں کی عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں یہ جان تو آنی جانی ہے۔

تم میرے وارث ہو۔میجر محمد اکرم نشانِ حیدر آگے بڑھ کر بولے۔

گھبراؤں مت جوان !ہمارا دشمن بزدل ہے۔ملک محفوظ شہید نشانِ حیدر نے اپنے مضبوط اور چوڑے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

میں دوہٹ ہو ، میں زاغوں کا شکاری ہوں ۔لالک جان نے اُس کا بازو پکڑ کر کہا۔

مجھے جانتے ہو۔ایک شیر گرجا۔میرے وارث ہو کر ڈرتے ہو میں کیپٹن کرنل شیر خان ہوں میں خدائے قہار کا قہر ہوں۔

سنو!میں تمہارا بھائی مقبول بٹ (شہید)ہوں ۔مقبول بٹ کھڑکی سے جھانک کر بولا۔

کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! ہمارا پیارا پاکستان کیسا ہے!کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! باجی اور اُس کی سہیلیاں سارا دن جلسوں کے بینر بناتی رہتی تھیں ! پاکستان کیسا ہے! بابا اور بھائی جان کو بڑے بڑے چُھرے مارے تھے! باجی اُن سے بچنے کے لیے کنویں میں کود گئی تھی! وہ امی کو لے گئے تھے! مجھے اور دادی کو کمرے میں بند کر کے گھر کو آگ لگا دی تھی! کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! پاکستان کیسا ہے!کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! میری ماں کو اُن سے آزاد کرا دو! کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو!پاکستان کیسا ہے! کیا تم سچ مُچ پاکستانی ہو! سنو!میری ماں کو اُن سے آزاد کرا دو! وہ تمہاری بھی ماں ہے۔

بس کرو!خدا کے لیے بس کرو۔ وہ اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ کر چلایا۔میں مر جاؤں گا مجھ پر رحم کرو۔ اُس کی ہچکی بندھ گئی۔

سنی!کیا بات ہے۔ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی اور اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولی عورت کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔

کوئی خواب دیکھا ہو گا۔لڑکی مسکرا کر بولی۔

کک کون ہیں آپ؟وہ حیرت سے عورت اور لڑکی کو دیکھ کر بولا ، عورت نے بہت بھڑکیلا لباس پہن رکھا تھا اور لڑکی جینز ٹی شرٹ پہنے تھی اُنہیں اس حال میں دیکھ کر اُس کی نظریں جھک گئی۔

میں تمہاری مما ہوں بیٹا۔عورت اُسے پچکارتے ہوئے بولی۔اور یہ تمہاری بہن ہے۔

مم مما!وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔

ہاں بیٹا!وہ مسکرائی۔

کاش!آپ ماں ہوتیں۔اُس نے بیڈ کے پشتے سے سر ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں ، مما اور اُس کی بہن حیرت سے اُسے دیکھتی رہ گئی۔

٭٭٭




ماخذ:

http://www.aalmiakhbar.com/index.php?mod=article&cat=asif

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید